Language: UR
مرتبہ: حبیب الرحمٰن زیروی ’تذکار مہدیؑ‘ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ان روایات کا مجموعہ ہے جو حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے مکرم حبیب الرحمٰن زیروی صاحب کو جنہوں نے نہایت عرق ریزی سے الحکم، بدر، الفضل، خطبات محمود، انوارالعلوم اور تفسیر کبیر سے ان روایات کو اکٹھا کیا ہے۔ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ریسرچ سیل نے اس مسودہ کی پروف ریڈنگ اور حوالہ جات کی چیکنگ کا کام کیا اور مفید اصلاحات تجویز کیں۔ اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والے احباب کو جزائے خیر سے نوازے۔
تذکار مهدی روایات سید نا محمود حضرت المصلح الموعود خليفة أمسیح الثانی رضی اللہ عنہ مرتبہ : حبیب الرحمن زیروی
تذکار مهدی روایات سیدنا محمود مرتبه حبیب الرحمن زیروی
تذکار مهدی روايات سيدنا محمود حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی رضی الله عنه مرتبه حبیب الرحمن زیروی
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD تذکار مهدی Tazkaar-e-Mahdi (Urdu) A collection of narrations by Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad, Khalifatul-Masih II (may Allah be pleased with him) from the blessed life of Hazrat Mirza Ghulam Ahmad of Qadian, The Promised Messiah and Mahdi, peace be Compiled by: Habib-ur-Rehman Zirvi First published in the UK, 2020 upon him.© Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey, GU9 9PS, UK Printed in the UK at: ISBN: 978-1-84880-214-8 10987654321
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود و مہدی معہود
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ المصلح الموعود، خليفة المسيح الثاني
صفحہ 1 3 7 14 17 18 20 21 24 23 له انه اته 22 25 26 29 41 41 41 vii فہرست مضامین 42 مضمون پیش لفظ عرض حال صحابہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کئے جائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ابتدائی حالات ہمارے آباء واجداد کے تاریخی حالات کپورتھلہ کی طرف ہجرت دادا نے باقاعدہ علم طب حاصل کیا تھا آباؤ اجداد کی خاندانی جائیداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا ذکر خیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا واقعہ ابتدائی خاندانی حالات خاندان بادشاہوں کی نسل سے خلوت نشینی خاندان کی نسلیں منقطع مطالعہ کی عادت خدمت دین کی لگن
42 43 43 45 46 48 48 50 50 51 53 53 55 55 59 56 56 57 57 58 59 59 62 62 64 viii محبت الہی بکریاں چروانا میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا مقدمات میں پیش ہونا والد صاحب کے مقدمات کی پیروی با قاعدہ نماز پڑھنے کی عادت سیالکوٹ ملازمت میں حکمت سید میر حسن صاحب کی سچی گواہی یاد الہی میں مشغول رہنا پسند کرتے تھے تو بہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے والد صاحب کی وفات جائیداد سے لاتعلقی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ والد صاحب کی غرباء کی خبر گیری قادیان کے دوملا چھ ماہ کے روزے رکھنا والدہ ماجدہ کی وفات دنیا کی عزت خود ملتی ہے اپنے خاندان کے خلاف سچی گواہی رشتہ داروں کی مخالفت اور بائیکاٹ چوہڑوں کا پیر مرزا علی شیر صاحب کی سخت مخالفت
67 72 74 74 15 75 75 75 77 78 78 78 79 80 80 81 84 85 85 86 86 87 88 ix مرزا امام دین صاحب کی مخالفت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیگم صاحبہ دادا کے دربار میں پانچ سو حفاظ خاندان کے اعزازات حکومت کی طرف سے اعزاز دینے کی پیشکش خاندان کی جنگی تاریخ جماعت احمد یہ لاہور کا اخلاص براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت دعاؤں کی عادت جبرائیل اب بھی آتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا ایک انداز حق الیقین 1900 ء کا قابل یادگارسال گیارہ سال کی عمر میں پختہ ایمان مجھے خدا تعالیٰ کا ثبوت مل گیا ٹیپوسلطان آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے سیدانی فقیرنی ریوڑیاں اور کونین مذاہب کے موازنہ کی عادت ڈالیں بچپن میں شکار کرنے کی عادت
89 91 93 94 96 96 97 99 99 99 100 101 102 103 104 106 107 108 111 111 112 113 114 X علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا فرشتہ کا تفسیر قرآن سکھنا مخالفت خدا تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کا ذریعہ قادیان میں کشتی رانی میری بیماری کا فکر شفقت پدری کا ایک واقعہ شملہ کا سفر دیوار بنا کر مسجد مبارک کا راستہ روکے جانا مقدمہ دیوار اور صبر کی تلقین دیوار گرائے جانے کی خبر اور دیوار گرادی گئی مخالفین کو مقدمہ کا خرچ معاف کر دیا اونٹ چالیس اور ٹو ڈ ابتالیس عادت کے خلاف کام کرنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے نماز با جماعت اور بچوں کی نگرانی بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کرانی چاہئے نماز جمعہ پر نہیں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت فرمایا قصہ مرغی ذبح کرنے کا بچوں کی دلداری حضرت اماں جان اور برکات کا نزول بچپن سے اسلامی آداب سیکھانے چاہئیں بُری عادت سے ٹوکنا چاہئے
115 116 117 118 119 121 122 123 124 127 128 129 130 133 137 138 140 140 141 141 142 143 xi حضرت مولوی نورالدین صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کے برابر عادت کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے حقہ پینے کی عادت دوسروں کو دیکھ کر رنگ پکڑتے ہیں خالص دودھ کی تلاش اظہار غم اور افسردگی حضرت مولوی عبد الکریم کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات محمود کا خط تو میرے سے ملتا جلتا ہے حضرت خلیفہ امسیح الاول سے بخاری پڑھنے کی ہدایت بڑوں میں سمجھ فہم اور فراست ہوتی ہے پہلی تقریر، معارف قرآن بیان کرنا، درس دینا میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے حق میں دعائیں تازہ الہامات میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے گورنمنٹ کی وفاداری برطانوی حکومت رحمت ہے احرار یورپ کا مزاج قلم کا جہاد کرکٹ ڈپٹی نذیر صاحب اور ترجمۃ القرآن
144 144 144 145 147 147 149 151 151 152 154 156 157 157 158 159 160 161 162 162 163 164 xii کمزوری کا زمانہ مخالفت اور جماعت کی ترقی ہرا بتلاء کے بعد غیر معمولی ترقی مخالفت مومنوں کے لئے ترقی کا ذریعہ مخالفت توجہ الہی سلسلہ کی طرف کامل اخلاق ہی سے فضل ملتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ ہونا چاہئے اشتعال میں نہیں آنا چائے انسان جس چیز کا عادی ہو جائے وہ تکلیف نہیں رہتی ہم نے ہمیشہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا ہے مخالفوں سے احسان کا سلوک تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے.مولوی محمد حسین بٹالوی کا دعویٰ جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر علوم کی راہیں کھلتی ہیں حضرت مسیح موعود کا ماضی حضرت مسیح موعود" کا حال ظاہری علم پر بزرگی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی مخالفین کا بائیکاٹ اور ایذاء رسانی کشفی حالت قادیان کی ترقی کی پیشگوئی کرامت دکھا ئیں تو سب مولوی مان لیں گے
165 165 166 167 168 168 170 171 174 181 183 183 184 185 187 188 189 191 192 193 194 194 xiii میر عباس علی لدھیانوی تکبر کی بجائے احسانات کا شکر گزار ہونا چاہئے سچائی پر ثبات قدم مقدمہ مارٹن کلارک الہی تائید اور نصرت خدا کے نیک بندوں کو کون جلا سکتا ہے مولوی محمد حسین بٹالوی کو کرسی نہ ملی اللہ تعالیٰ دلوں کا حاکم ہے مقدمه مارٹن کلارک اور محمد حسین بٹالوی کی ذلت کپتان ڈگلس اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی پیشگوئی عبداللہ آ تھم اور خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف آتھم کی پیشگوئی اور پیر صاحب چاچڑاں شریف ٹونے ٹو ٹکے کرنا جائز نہیں جنگ مقدس لنگڑے لولے اور اندھے آتھم کی پیشگوئی جنگ مقدس مباحثات کے نقصانات پابندی نماز کی عادت گھر میں باجماعت نماز ادا کرنا نماز وقار کے ساتھ پڑھنی چاہئیے باطن ظاہر کے بغیر کوئی حقیقت نہیں رکھتا
195 xiv 196 196 198 199 201 202 203 204 205 206 207 207 208 209 210 210 213 214 215 216 217 سورۃ فاتحہ بہترین دعاؤں میں سے ہے السلام علیکم کرنے میں پہل چھوٹی سی نیکی سے برکتیں مخالفت کا جوش حضرت مسیح موعود کا سفر ملتان کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے ہند و مجسٹریٹ کا انجام نشان صداقت خطرہ کی افواہیں بہت برا اثر ڈالتیں ہیں ہند و مجسٹریٹ کا انجام مقدمه کرم دین (ازالہ حیثیت عرفی ) جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا مخالفین کا انجام مولوی عبد الکریم افغان کو گستاخی کی سزا گستاخی کی سزا عیسائیوں کا خدا مر گیا اس پر مسلمانو! تم کیوں غصے ہوتے ہو.سوچ سمجھ کر کم وقت میں کام کرنا چاہئے حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی ثابت قدمی جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے
حضرت خلیفہ اول.آگ سے ہمیں مت ڈراؤ حضرت خلیفہ اول کا جذبہ اطاعت چاند اور سورج گرہن چاند اور سورج گرہن ہدایت کا موجب عفوا اور درگزر مخالفین کی ایذاء رسانی مخالفین کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی دعوت ملکہ کو تبلیغ اسلام ترک سفیر کو دیانت اور امانت پر قائم رہنے کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تبلیغ لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے تبلیغ پر زور دینے کی ضرورت ہے تبلیغ کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں میرے تمام دعاوی قرآن کے مطابق ہیں XV مخالفت بھی ہدایت کا موجب ہو جاتی ہے تبلیغ مولوی محمد حسین بٹالوی نے کی مخلوق کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان کر رکھے ہیں مہمانوں کو قادیان جانے سے روکنا ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت 10 ہزار تک بڑھانے کی تجویز میاں نور محمد صاحب لدھیانوی ہماری عمریں تو مخالفتوں اور گالیاں کھانے میں ہی گزریں مولوی محمد حسین بٹالوی کی ناکامی 218 223 224 224 225 226 227 227 227 229 230 231 232 233 236 237 238 239 240 241 242 244
245 246 246 247 248 249 250 251 252 254 255 256 257 258 258 259 260 261 263 265 266 268 xvi احمدیت کی برکات تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تمہارا شیوہ دعائیں کرنا ہو دہلی میں مخالفت کا زور چوہڑوں کی وجہ سے تکلیف اوہ تے بہن رل مل گئے نے عیسائیوں کے خلاف سخت زبان کا استعمال حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا طرز استدلال تائید الہی وفات مسیح کا مسئلہ وفات مسیح کا مسئلہ بنیادی ہے اشتہارات کے ذریعہ تبلیغ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی محنت سچا مؤمن خصی ہو جاتا ہے اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کریں تین قسم کے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہوئے تعلیم الاسلام کالج کا قیام أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ حفاظت الہی کا معجزہ معجزانہ تائید اور نصرت
268 270 270 272 273 274 275 276 278 280 283 284 284 285 285 286 287 288 290 291 295 295 xvii حفاظت الہی کا معجزہ الہام الہی کے ذریعہ تائید اور نصرت زندہ معجزہ اپنی ذات میں ظاہر ہوتا ہے حقیقی اطاعت کا جوش فکر پیچھے چھوڑ دیتا ہے دشمن سے بھی رحم کا سلوک کرو اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے لئے ظاہری سامان پیدا کرتا ہے حضرت منشی احمد جان صاحب الدھیانہ والے معجزہ کا مقصد ہدایت دینا ہونا چاہئے حضرت پیر افتخار احمد لدھیانوی قومی ترقی کے لئے قوت ارادی ضروری ہے ملنے والے کے حالات اور اندرونہ کا علم ہو جانا لا ہور کا مجذوب قرآن کریم میں جنوں کا ذکر نائی کی جراحی سے آرام جسم سے نور کی شعائیں معجزہ قبولیت دعا ڈاکٹری ایک ظنی علم ہے باؤلے کتے کے کاٹے کا علاج آوارہ کتوں کو مارنے کی ہدایت تمہارا قادیان آنا معجزہ ہے صداقت کے نشانات کے لئے حقیقت الوحی دیکھو اور کھانسی دور ہوگئی
296 xviii 297 299 300 301 302 302 303 304 305 306 307 310 310 310 312 313 316 317 318 319 319 اللہ تعالیٰ مومن کے کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے لیکھرام کا واقعہ اندرونی ایمان ظاہر ہو گیا نواب عبدالرحیم خان صاحب کو شفاء اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کول جائے گی نظاره بیداری مثل فلق الصبح منفر دو مشترک صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات انسان میں نقل کرنے کی خواہش ہوتی ہے مخلوق کی جسمانی خدمت بجالا و حضرت صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی بیماری اور وفات میاں مبارک احمد صاحب کی ذہانت اور ذکاوت اور مرغیاں ذبح ہوگئیں جلسہ شعائر اللہ میں سے ہے قادیان کی ترقی کی پیشگوئی قادیان کی ابتدائی حالت مسجد مبارک قادیان قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک ہونے کی پیشگوئی بزرگ کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے جانا قادیان کی ترقی عظیم الشان نشان ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں ہوتا قادیان کا مستقبل مرکز میں بار بار آنے کی ضرورت آج بھی قائم ہے
321 xix 322 322 323 325 326 328 329 333 334 336 337 338 339 340 342 342 343 344 346 346 347 قادیان کے بازار مرکز میں کثرت سے آنا چاہئے ہر نسل کو پہلی نسل سے بڑھ کر اخلاص دکھانا چاہئے انسان اپنے اخلاص سے ہر کام کو نیکی بناسکتا ہے قادیان کی ترقی کی پیشگوئی خدا تعالیٰ کی نصرت اچانک آتی ہے جلسہ سالانہ قادیان کی ابتدائی حالت ابتدائی جلسہ سالانہ مضمون بالا رہا آریوں کے جلسہ میں مضمون پڑھا جانا آریہ سے تبلیغ آریوں کے جلسہ کے لئے تقریری مقابلہ انجمن تشحید الاذہان رسالہ تشحید الاذہان کا اجراء جلسہ پر آنے والوں کو نصیحت جلسہ سالانہ پر تمام احمد یوں کو آنا چاہئے جلسہ میں حضرت مسیح موعود کی تقریر لازمی تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بدظنی کرنے والے ہمارا کام ختم ہو چکا اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے خدا تعالیٰ خود رزق دیتا ہے کثرت سے مال آنے کی پیشگوئی بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں
349 350 352 352 353 357 358 359 360 361 362 363 364 365 366 367 368 369 372 372 373 375 XX نظام پر اعتراض نہیں کرنے چاہئیں اللہ کے بندوں کو غیب سے رزق ملتا ہے جماعت احمدیہ کی ترقی دوران سر کا عارضہ جماعتی ترقیات کی پیشگوئی جلسہ سالانہ کی تیاری اور وسع مکا نک کا الہام اصل تقریر وہی جس کو دل میں رکھ لیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا آخری جلسہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے والوں میں اضافہ اے نبی بھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ جلسہ سالانہ قادیان کا مستقبل بيت الدعا میں دعا.مقام ابراہیم قادیان سے محبت راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو خواہ جان چلی جائے شرک نہیں کرنا چاہئے گھوڑ سواری پسند کرنا حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں ضور علیہ السلام کا وصال حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے صحابہ کا عشق و محبت غلبہ اسلام اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید و نصرت سے ہوگا ہر بچہ کے اندر یقین پیدا ہوگا حضرت مسیح موعود کی وفات پر عہد
376 377 379 381 383 384 385 386 387 389 392 393 396 397 400 402 403 407 407 409 410 411 XXI حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر عہد ایک ذاتی تجربہ تکالیف ،مصائب اور آلام سے گھبرانا نہیں چاہئے سلسلہ کے کام خدا تعالیٰ کرتا ہے خلافت اسلام کی سنت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ ایک شیعہ کا قصہ خلافت احمدیہ کا ذکر حق اولاد در اولاد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر خاندانی جائیداد خواجہ کمال الدین صاحب کی حق گوئی جہاں صداقت نظر آئے اسے قبول کرو مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے مامور کی بیعت میں شامل ہونا حضرت مولانا احسن امروہی صاحب اور پیغامی میاں چراغ دین صاحب سے پرانے تعلقات خدا تعالیٰ کا سلوک ہمیشہ تعلق کی بناء پر ہوتا ہے پسر موعود کی شناخت کا نشان حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بے مثال قربانی قبولیت دعا کا راز
412 413 414 415 416 417 419 419 420 421 424 424 426 426 428 430 431 431 432 434 434 437 xxii قبولیت دعا کی شرائط حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا آپ سے عشق حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور ٹھنڈا پانی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا اخلاص حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت منشی اروڑے خان صاحب کا آپ سے عشق حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید کی قادیان آمد حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا مخالف پر غصہ قرآن ق کی آواز کا فرق بیان کرنے کا اعتراض دہلی میں اولیاء کی قبروں پر دعا نظام الدین اولیاء اور شاگرد صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحب امیر عبدالرحمان خان صاحب شاندار چیزیں ہی قوموں کو زندہ کرتی ہیں آج کل اسلام کے ساتھ سلوک سید عبداللطیف صاحب شہید کا ایک واقعہ حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی اور مہا راجہ جموں تم مسیحا بنو خدا کے لئے تمام علوم مجھے خدا نے عطا فر مائے دار البیعت لدھیانہ پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب
439 440 441 442 443 445 445 446 447 447 449 450 452 453 454 455 456 457 459 459 460 461 Xxiii حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی بیعت حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی کا اخلاص حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کی مالی قربانیاں غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے نمازوں کی لذت نمازوں کا جمع کرنا پورے طور پر خدا تعالیٰ کے بن جاؤ تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے حافظ یار محمد صاحب پیشاوری خدا تعالی بخش دے تو بخش دے ہفتہ کے تمام دن بابرکت ہیں چوری کی شکایت پر نصائح حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق پروفیسر صاحب کا جواب فلاسفر صاحب روزہ اور تانی فلاسفر صاحب کی تیز قدمی خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس سوال وجواب مجلس میں نہ آنے کو نفس کا بہانہ قرار دیا حضرت حکیم محمدحسین قریشی صاحب کی خدمات
462 Xxiv 463 464 465 466 467 467 467 468 468 469 469 470 471 472 472 474 475 477 480 481 481 حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی بیعت پر خوشی کا اظہار بیعت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور علی گڑھ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ذریعہ تبلیغ مولوی محمد حسین بٹالوی سب سے بڑا معترف تھا صبح کی نماز کے بعد استراحت فرمانا گول کمرہ پہلا مہمان خانہ ہزاروں لوگ میرے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں ابتدائی عمر سے ہی کمزور صحت ورزش صحت کے لئے ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوراک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کم خوراک تھے عربی ام الالسنہ قرآن میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں دشمن کے اعتراضات کے جواب دینا خدا تعالیٰ مذاق نہیں کرتا عربی زبان میں موسیقی پائی جاتی ہے خدا تعالی کی برکات کا نزول تکالیف کے وقت جھوٹے مدعی نبوت پیدا نہیں ہوتے ایک عرب کی قادیان آمد گالیاں سن کے دعا دو ابوسعید عرب کا قادیان آنا:
483 484 484 485 485 486 487 487 488 490 490 492 492 493 494 494 494 495 498 498 500 501 XXV الیگزنڈ رویب کے ذریعہ امریکہ میں تبلیغ محبت الہی تعلق باللہ حضرت اقدس کی برد باری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بال لمبے تھے انگریزی اور عربی زبان کا مقابلہ ایمان تو بُڑھیا کا سا ہونا چاہئے بس اللہ اور رسول کی باتیں تھیں عورتوں میں درس نماز مغرب کے بعد مسجد میں قیام اور مہمانوں سے ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہائی کم خوراک تھے ایک پیچ سالن اور روٹی سیر کرنے کی عادت نماز باجماعت کے قیام کے لئے کوششیں بیماری کی حالت میں اہل خانہ کے ساتھ نماز باجماعت مسجد اقصیٰ کی ترقی کی پیشگوئی مسجد مبارک کی اہمیت ہندوڈپٹی محنت اور مشقت کی عادت رات دیر تک کام کرنے کی عادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مشکلات بلا دلیل اعتراض نہیں کرنا چاہئے
505 506 508 509 510 511 512 514 516 517 517 517 519 519 521 522 523 524 525 526 527 529 Xxvi کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے برکت حاصل کرو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین متبرک انگوٹھیاں بعض اوقات شکست زیادہ بہتر ہوتی ہے حقیقی مبلغ کی خصوصیات مامور کی بیعت میں شامل ہونا وقف زندگی قربانی کا تقاضا کرتی ہے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا وقف کرنا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے یہودہ اسکر یوطی ملا وامل کا علاج حضرت خلیفہ اول کی مالی قربانیاں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں حضرت مجد دسر ہندی کے ایک شعر کو نا پسند کرنا اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا حافظ محمد صاحب پشاوری طاعون کے ایام میں روی اشیاء جلوا دیں تاریخ دانی اور بزرگی عذاب نبی کی صداقت کا نشان طاعون سے قادیان کی حفاظت طاعون نے تباہی پھیلا دی تو پھر مجھ پر ایمان کون لائے گا بيت الدعا صداقت کا نشان دیکھنے کی خواہش
530 XXVII 530 531 532 533 534 534 535 535 536 537 537 538 540 541 541 542 542 543 544 546 547 یادیں بھلائی نہیں جاسکتی علم غیب کی حقیقت طاعونی احمدی جو کچھ ہو گا دعاؤں سے ہوگا دعاؤں کی عادت ڈالیں مصیبت باعث راحت ہوتی ہے ہستی باری تعالیٰ حفظ مراتب کا خیال صحبت کا اثر بچوں کو پگڑی پہنے کی تلقین ململ کی پگڑی مصروفیت کی وجہ سے لباس کی طرف توجہ نہیں رہتی لباس کی نہیں خوبیوں کی عزت کاپی الہامات دعاؤں کے لئے تعلق کی ضرورت ہے نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے راست بازی اختیار کریں خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزارے سکھ لڑ کا دھریت کے خیالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز اصلاح
548 548 550 550 551 552 552 553 553 553 554 555 556 556 556 557 558 558 559 560 561 562 XXviii خدا تعالیٰ کے لئے غیرت حضرت چوہدری رستم علی صاحب کا اخلاص حضرت چوہدری رستم علی صاحب کی مالی قربانیاں خدمت دین کو اک فضل الہی جانو چودھویں رات کا چاند خدا اور بندے کے کلام میں فرق اشتعال انگیزی سے بچنا چاہئے طاعون جماعت کی ترقی کا ذریعہ کمزور بھائی کے لئے دُعا اور علیحدگی میں نصیحت مخالفین کا مفت علاج تریاق القلوب کی اشاعت نبی کی عمر سے مراد اس کی امت کی عمر دعا کے لئے تضرع دماغی کام کرنے والوں کی اعصابی حس تیز ہوتی ہے لیکچر لاہور دعاموت قبول کرنے کا نام ہے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت تھی محنت سے ہر پیشہ سیکھا جاسکتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں علم کا سمندر ہیں مخالفین بھی ایمان لانے کا موجب ہو سکتے ہیں کبھی انگریزوں کے آگے سر نہیں جھکایا صبر وتحمل
562 563 563 564 565 565 568 568 570 571 572 573 575 576 577 578 579 580 584 587 589 595 XXIX دست به کار دل به یار کثرت سے مشک استعمال کرنا صحابہ حضرت امہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لئے کوششیں با قاعدہ اخبار پڑھا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کی تصویر کو سامنے لانے کا واحد ذریعہ ذکر الہی جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں اولا د کتنی ہے جمعہ کے روز غسل کرنا اور نئے کپڑے بدلنا مخالفانہ ہوائیں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں حضرت خلیفہ اول کا آپ سے عشق حضرت خلیفہ اول کا اخلاص قصابوں کو میدان جنگ میں بھجوانا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کا سیر میں ساتھ شامل ہونا اپنی آمد کا ایک حصہ پس انداز کرنا ضروری ہے حضرت خلیفہ اول کی قربانیاں حضرت خلیفہ اول کی بہن جماعت میں لاکھوں انسان صحابہ کا نمونہ ہیں افراد سے قو میں بنتی ہیں حضرت مولانا نورالدین صاحب جو تیوں میں بیٹھ بیٹھ کر خلافت مل گئی تو کل کا مقام اور ہماری جائیداد طبیہ کالج کی ضرورت
595 597 597 597 598 599 602 604 605 605 611 612 614 615 618 620 620 621 622 625 626 626 XXX قادیان کے شب وروز تازہ وحی معلوم کرنے کے لئے جستجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس صدر انجمن احمدیہ کا اجلاس حقیقی ایمان حضرت منشی اروڑے خان صاحب کی محبت کا عالم اذان دینا بڑے ثواب کا کام ہے امام موسیٰ رضا کی رہائی متقی ال محمد کی عصمت حضرت سید فضل شاہ صاحب آنحضرت ﷺ کی عزت کے قیام کی دھن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق عاشق کا اپنے معشوق کی طرف جانا حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے اخلاص و قربانی کی مثال حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات مطالعہ کتب اور خواجہ کمال الدین صاحب حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب مشہور عالم دین کی بیعت حضرت میر مہدی حسن صاحب حضرت میر عنایت علی صاحب کی طبیعت نرم تھی بندہ کا خدا تعالے پر کوئی حق نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا ابتدائی زمانہ
627 627 628 629 629 630 631 631 632 633 635 636 638 639 640 641 642 644 644 645 646 647 XXXi احساس کا فرق سنت کی پابندی کی کوشش نماز با جماعت کی پابندی نماز با جماعت کی عادت حضرت معاویہ کونماز کا اجر محبت سے ایمان بڑھتا ہے حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا خواب حضرت سید عبدالقادر جیلانی کالباس کوئی تو خانہ خدا کے لئے بھی چھوڑ دینا چاہئیے مومن کو ایمان کا نمونہ دکھانا چاہئے سلطان عبد الحمید کا تو کل روحانی جماعتیں تو کل خدا تعالیٰ پر رکھتی ہیں نیت کا ثواب ذکر الہی تسبیح دل سے نکلتی ہے مصائب کے وقت ایمان بڑھنا چاہئے عورتوں میں لیکچر دینا قصہ ریچھ سے دوستی کا پرانی حکایتیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں تلوار کے زخم سے زبان کا زخم بہت زیادہ شدید ہوتا ہے کہانیاں سنانا تعلیم کا بہترین ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو کہا نیاں بھی سنایا کرتے تھے
648 649 650 651 652 653 654 655 656 657 658 660 661 661 662 663 664 665 665 666 667 668 XXXII بچوں کو سبق آموز کہانیاں سنانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو لطائف بھی سنایا کرتے تھے حضرت اماں جان بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں اندھے کی کہاوت بچوں کو کہانیاں سنانا اندھا دھند قانون بنا دینا درست نہیں ہوتا بھیڑئیے اور بکری کی مثال چھوٹے بچوں کی دلداری حضرت خدیجہ کی مالی قربانیاں روزہ ملازمہ محنت سے کام آسان ہو جاتا ہے بخیل عورت کی مثال بھوکے کیلئے ایک لقمہ کافی نہیں ایک کبڑی کی مثال بچپن کی خواہش دنیا کے اکثر جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں احمدیت ضرور غالب ہوکر رہے گی دوسرے کو اس کا حق دلانا دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ تقوی وطہارت پیدا کر و رستم کا خوف حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی ایک دوسرے پر سبقت
669 670 671 671 672 674 674 675 677 678 678 679 680 681 682 684 685 687 693 693 694 695 Xxxiii صرف زبان سے اطاعت کا دعویٰ کرنا کوئی بات نہیں فرشتوں کے ساتھ تعلق پیدا کریں خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے وہم کا کوئی علاج نہیں ہر چیز کا سبب ایک نہیں ہوتا قصائیوں کو فوج میں بھرتی کرنا تجسس کی عادت نہیں ہونی چاہئے نمائش کی عبادت اللہ تعالے تو بہ قبول کرتا اور پہلے سے زیادہ رحم کرتا ہے سکھوں کا ظلم اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہئے راجہ کا غلام ہوں بینگن کا نہیں علم مجلس بھی نہایت ضروری ہے سلسلہ کی کتابوں میں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات تجارت کا پیشہ اختیار کرنا چاہئے سچے مومن کی مثال نیچے دوست کی پہچان گزشتہ قصور کی سزا بندہ کو اللہ تعالے سے دوستی اور محبت کرنی چاہئیے میزبان کا احسان دعا اور خر گدا کی مثال
696 697 698 699 700 701 701 702 702 703 704 705 705 706 706 707 707 708 709 710 711 712 XXXIV قانون قدرت کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا لائچی پیر کا قصہ گورنمنٹ کے شبہات کا ازالہ جالینوس سے مناسبت بہت سی بیماریاں نیم پختہ کھانا کھانے سے لاحق ہوتی ہیں بار بار قادیان آؤ قصہ ایک خطیب کا عمل کے وقت نیت رضاء الہی ہو ماں باپ سے حسن سلوک کرنا چاہیئے مالن کی مثال خواہشات بلند رکھنی چاہئیں طب کے تمام اصول قرآن مجید میں بیان ہیں قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں جزاء سے نا اُمید نہیں ہونا چاہیئے علم کے ساتھ تجربہ بھی ضروری ہے جیکب آباد میں گرمی دنیا میں کوئی چیز اپنی ذات میں نقصان دہ نہیں اخبارات کی اہمیت شفاء کا معجزہ بچوں کی صحت کی طرف توجہ اللہ تعالیٰ کو مداری نہیں وہ کوئی تماشا نہیں دکھاتا تحریک جدید دراصل تحریک قدیم ہے
713 713 714 715 718 719 719 720 720 721 722 723 724 724 724 727 727 728 729 729 730 730 XXXV دعا، تو کل اور تبلیغ اکٹھے چلتی ہیں ایک جو شیلے عرب کا ایمان لے آنا نائی کے پاس مرحم کا نسخہ فنون بالکل مٹ گئے ہیں زلزلہ کی وجہ سے باغ میں قیام ہر قسم کا علاج کروانا چاہیئے مسجد مبارک کی برکت سے شفاء بیماروں کو تبلیغ کیونکہ ان کا دل نرم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود کا تَفَقَّهُ فِي الدِّينِ امام کا آواز دینا امام کے سامنے اپنی آواز نیچی رکھو مومن کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اصل چیز محبت الہی ہے راج اور جن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار کا شوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے قادیان میں عید کی نماز کیلئے انتظار خطبہ الہامیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو عید الاضحیٰ سے مشابہت خطبہ الہامیہ آسانی سے یاد ہو جاتا ہے قادیان میں دو جمعے
731 732 733 734 735 735 736 737 738 739 740 741 742 743 743 745 745 747 747 749 749 750 XXXVI فقہی مسائل کا حل آمین بالجہر ورفع یدین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعویذ دینا لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کام نہیں کرنا چاہیئے پردہ کا مسئلہ بعض الہامات حدیث النفس ہوتے ہیں حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کی مالی قربانیاں حلال اور طیب کے باوجود بعض جانور نہ کھانے چاہئیں مہمان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے مؤمنوں کے لئے حلال وطیب کھانا حق مہر ادا کرنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کی بہت دلجوئی کرتے تھے روزہ کب فرض ہوتا ہے مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے روزہ اور نماز قصر کرنے کے احکام میں فرق سفر اور بیماری میں روزہ سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے سفر میں روزہ نہیں رکھنا چاہئے سٹر انگس میں شامل نہیں ہونا چاہئے شریعت کی پیروی لازمی ہے زکوۃ دینی واجب ہے
751 752 752 753 754 755 756 757 757 758 759 761 761 761 762 763 766 767 767 768 770 771 775 XXXVII الگ جماعت بنانے کی وجہ حضرت مرزا شریف احمد کی رؤیا ہم نے دشمنان اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے رشتہ ناطہ کے لئے رجسٹر کے تجویز قرآن اور حدیث کے خلاف کوئی خواب بچی نہیں ہوسکتی جماعت احمد یہ لاہور کی مرکزی حیثیت حضرت قاضی محبوب عالم صاحب آف لاہور جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک بہت بڑی حکمت دین کے لئے غیرت اور جوش دکھانا چاہئے ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں حلوہ پر جادو گورداسپور سفر میں قصر نماز داڑھی رکھنا روحانی ترقی کے لئے تقویٰ و طہارت کی ضرورت ہنسی مذاق کرنا جائز ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مشاعرہ ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی پر چراغاں مدرسہ کے لئے غیر از جماعت سے چندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مخالفت احمدی کو سچا اور اپنے کام سے مخلص ہونا چاہئے سفر میں جمعہ کی نماز جدھر قرآن ادھر ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت
775 777 778 779 780 781 781 782 783 784 785 786 787 787 788 789 789 790 791 792 792 793 794 XXXviii مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ایک گنجے اور اندھے کی کہانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر لینا اللہ تعالیٰ دشمنوں کے دل بدل دیتا ہے سزا اصلاح کی غرض سے ہونی چاہئے تجدید عہد بیعت اس زمانہ اور پرانے زمانہ میں فرق اشتہارات تبلیغ کا بہترین ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ریلوے اسٹیشن پر حضرت ام المومنین کے ساتھ ٹہلنا اپنے اوپر خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرو سیر حضرت اماں جان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مشکلات خدا کے نشانوں سے آنکھ بند نہ کرو نشانوں کی قدر کرو دعا.جو منگے سومر ر ہے دہلی میں اولیاء اللہ کے مزاروں پر دُعائیں سچاند ہب تازہ نشانات رکھتا ہے آنے والا مسیح موعود نبی ہی ہوگا ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے غلبہ احمدیت کے ذرائع انگریزی گورنمنٹ کے لئے دعا شرکاء کی مخالفت سب سے زیادہ ہوتی ہے احمدیت کی وجہ سے قطع تعلق
794 796 796 797 797 798 799 800 801 803 805 807 808 809 810 812 813 814 815 816 818 XXXIX حضرت مسیح موعود کے مخالف شرکاء کی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ تائی صاحبہ کی بیعت تین پیش گوئیاں تائی صاحبہ کی وصیت مبلغین کی بیرون پاکستان روانگی آئندہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں وفات سے قبل میری صحت کے بارے میں فکر علاج کی طرف توجہ پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق تین سوسال کے اندراندر غلبہ اسلام کی پیشگوئی جنگ مقدس میں عیسائیوں کی سازش اور اس کا جواب منارة اسبیح کی عظمت ایک عجیب نظارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال عظیم الشان ترقی کا نشان جماعت کے اموال کو ذاتی مصرف میں نہیں لانا چاہئے اسلام کی تبلیغ کے لئے جوش مکہ میں بڑے بڑے مالدار لوگ بھی تھے جماعت کے ابتدائی حالات جماعت احمدیہ کا مستقبل خلفاء کے چار کام
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مظہر و مبارک حیات اپنے آقا حضرت محمد مصلی امیلی کی پاک سیرت واسوہ حسنہ کا آئینہ اور کل تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بعض سوانح اپنی تحریرات و ملفوظات میں بیان فرمائے جو آپ کی سیرت وسوانح کے اول مآخذ ہیں اور ان کے بعد وہ کتب ہیں جو حضور علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ نے رقم فرما ئیں، جنہوں نے خود اپنے محبوب امام کو محبت و عقیدت سے دیکھا اور بعد میں آنے والوں کیلئے یہ امانت سپر د تحریر کر دی.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر کرنے والوں کے سرخیل حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہیں جنہوں نے سن 1900 ء میں سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اولین کتاب تصنیف فرمائی.اس کے علاوہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ، حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ کی نہایت ہی دلر با اور ایمان افروز تصنیفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک اسوہ اور سوال کا بنیادی مآخذ ہیں.ان کے علاوہ بھی آپ کی سیرت و سوانح پر متعدد کتب لکھی جا چکی ہیں اور آئندہ بھی لکھی جاتی رہیں گی.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کو اس حوالہ سے یہ غیر معمولی مقام حاصل ہے کہ آپ نے اپنے مقدس باپ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کو خلوت وجلوت میں دیکھا، سفر و حضر میں مشاہدہ کیا اور دینی و دنیوی مشاغل کی بجا آوری کے بھی چشم دید راوی ہوئے.آپ نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود کے کارنامے کے علاوہ اپنے خطابات، خطبات اور دروس و مجالس عرفان میں قومِ احمد کی یہ مقدس امانت جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی وسیرت پر مشتمل ہے، احباب جماعت کے سامنے مختلف مواقع پر پیش فرمائی.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے
تذکار مهدی ) 626 روایات سید نا محمودی خطبہ جمعہ فرمودہ 24 / اکتوبر 2014ء میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان کردہ واقعات کے تعلق سے فرمایا: صحابہ کے واقعات تو پہلے بھی میں بیان کرتا رہا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے انداز میں بھی اپنے بعض واقعات بیان کئے یا جو آپ کے سامنے ہوئے جو آپ نے دیکھے وہ آپ بیان فرماتے رہے اور آپ کے مختلف خطابات اور خطبات میں یہ چھپے ہوئے ہیں.ان میں سبق بھی ہیں.نصائح بھی ہیں.تاریخ بھی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت بھی ہے.اس کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں.یہ سب باتیں ہماری زندگیوں میں بڑا مؤ ثر کردار ادا کرتی ہیں.یہ باتیں ہماری زندگیاں سنوار نے والی ہیں.ہمارے ایک واقف زندگی حبیب الرحمن صاحب کوشش کر رہے ہیں کہ ان کو مختلف جگہوں سے نکال کے جمع کریں.اچھی کوشش ہے لیکن بعض باتیں بغیر سیاق و سباق کے واضح نہیں ہوسکتیں کیونکہ انہوں نے صرف واقعات اکٹھے کر دیئے ہیں.اس کے لئے کچھ اصول اور طریقے بنانے ہوں گے.بہر حال ایک خاص شکل دیئے جانے کے بعد جب یہ علیحدہ چھپ جائے گی تو امید ہے کہ ہمارے لٹریچر میں اچھا اضافہ ہو گا.(خطبات مسرور جلد 12 صفحہ 632) تر کار مہدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں ان روایات کا مجموعہ ہے جو حضرت خلیفۃ اسیح الثانی اصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے مختلف مواقع پر بیان فرما ئیں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے مکرم حبیب الرحمن زیروی صاحب کو جنہوں نے نہایت عرق ریزی سے الحکم، بدر، الفضل، خطبات محمود، انوار العلوم اور تفسیر کبیر سے ان روایات کو اکٹھا کیا ہے.سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر ریسرچ سیل نے اس مسودہ کی پروف ریڈنگ اور حوالہ جات کی چیکنگ کا کام کیا اور مفید اصلاحات تجویز کیں.اللہ تعالیٰ سب کام کرنے والے احباب کو جزائے خیر سے نوازے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر یہ کتاب انگلستان سے طبع کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی طباعت ہر لحاظ سے مفید و با برکت فرمائے.آمین منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف مارچ ۲۰۲۱ء
بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عرض حال سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح کی نسبت حضرت مصلح موعود فر ماتے ہیں :.ایک اور بات جس کی طرف ہماری جماعت کی توجہ کی ضرورت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے سوانح کی حفاظت ہے.ہمارے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سامان موجود ہے.قلم ، دوات، سیاہی ، کاغذ ، مطبع وغیرہ لیکن اگر ہم اس کام کو نہ کریں تو کیسے سخت افسوس کی بات ہے اور بعد میں آنے والے لوگ ہمیں کس نظر سے دیکھیں گے.نئے نئے آنے والے لوگ کیا جانتے ہیں کہ مسیح موعود کیا تھے جب تک ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہ ہو جس سے وہ ان کا حال بہ تمام معلوم کرسکیں...پس ہمارے بہت بڑے فرائض میں سے ایک یہ بھی فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حالات اور آپ کے سوانح کو بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے محفوظ کر دیں.ہمارے لئے آنحضرت کا اسوہ حسنہ اور پھر ( آپ کے عاشق صادق ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوہ حسنہ نہایت ضروری ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود کے سوانح لکھنے نہایت ضروری ہیں.پس جس کسی کو آپ کا کوئی واقعہ کسی قسم کا یاد ہو وہ لکھ کر میرے نام بھیج دے.یہ ނ ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے.جس کو ہم نے کرنا ہے میں نے ایک آدمی کو لوگوں حالات دریافت کر کے لکھنے کے لئے مقرر کیا ہے اور وہ لکھ رہا ہے تم میں سے بھی جس کو کوئی واقعہ یاد آئے وہ لکھ کر بھیج دے تا کہ کل واقعات ایک جگہ جمع کر کے چھاپ دیئے جائیں اور ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں.آج بہت سے لوگ حضرت مسیح موعود کے دیکھنے والے اور آپ کی صحبت میں بیٹھنے والے موجود ہیں اور ان سے بہت سے واقعات معلوم ہو سکتے ہیں مگر جوں جوں یہ لوگ کم ہوتے جائیں گے.آپ کی زندگی کے حالات کا معلوم کرنا
تذکار مهدی ) 4 روایات سید نا محمود مشکل ہو جائے گا.اس لئے جہاں تک ہو سکے بہت جلد اس کام کو پورا کرنا چاہئے.“ برکات خلافت.انوار العلوم جلد دوم صفحہ 226-225 ) محترم مہاشہ فضل حسین صاحب، جن کے سپرد یہ کام ابتداء میں ہوا، تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایات جمع کرنے کا کام کئی سال سے حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے ماتحت نظارت تالیف و تصنیف قادیان کے زیر اہتمام ہو رہا ہے.کچھ مدت گزری کہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف کے ارشاد پر جب میں نے اس کام کا چارج لیا.میں نے رجسٹر ہذا کو کھولا.تو سب سے پہلے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نام نامی نظر آیا کہ جن سے ابھی تک کوئی روایات دفتر حاصل نہیں کر سکا.ایک تجویز ذہن میں آئی اور بندہ اسی وقت اپنے مخدوم ومحسن حضرت صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب ناظر تالیف و تصنیف کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ خاکسار کو چارج میں یہ رجسٹر بھی ملا ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے کہا گیا ہے کہ اس میں جن ناموں کے آگے خانے خالی ہیں.ان سے روایات کے لئے درخواست کروں.مگر اس میں سب سے اوّل حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا ہی اسم گرامی لکھا ہے.چونکہ حضور کی روایات کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے.اس لئے میرے ذہن میں ایک تجویز آئی ہے.اگر آنمخدوم پسند کریں اور منظوری عطا فرمائیں.تو رجسٹر ہذا کا خانہ اول پر ہو سکتا ہے.اور وہ تجویز یہ ہے کہ چونکہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز ابتداء زمانہ خلافت سے اپنے خطبوں ، لیکچروں ، تقریروں اور زبانی گفتگوؤں میں اور بعض کتابوں میں مختلف امور اور مسائل پر اظہار خیالات فرماتے ہوئے ضمنا..زمانہ حضرت اقدس کے متعلق بہت سے واقعات بیان فرماتے رہے ہیں.اگر وہ جمع کر لئے جائیں.تو اس طرح ایک اچھا خاصہ ذخیرہ روایات جمع ہو سکتا ہے.ایک نادر اور وقیع ذخیرہ جمع ہو جائے گا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے خاکسار کی اس تجویز کو پسند فرماتے ہوئے منظوری دے دی.“ الحکم سیرت مسیح موعود نمبر مورخہ 28/21 مئی و 14/7 جون 1943ء صفحہ 3-2 جلد 47 نمبر 19 تا22)
تذکار مهدی ) 5 روایات سید نا محمودی مکرم و محترم مہاشہ فضل حسین صاحب نے یہ کام بہت محنت سے شروع تو کیا لیکن مکمل نہ کر سکے اور ادھورا ہی رہا دوسرے اس وقت خطبات محمود اور انوارالعلوم کی جلدوں کی جو سہولت اب میسر ہے اس وقت نہ تھی.خاکسار نے ان روایات کو الحکم قادیان ، البدر قادیان ، الفضل ، خطبات محمود، انوار العلوم اور تفسیر کبیر سے اکٹھا کیا ہے.درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کاوش کو قبول فرمائے.آمین.گر قبول افتند ہے عز و شرف اکتوبر 2020ء خاکسار حبیب الرحمان زیروی
تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود صحابہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات جمع کیئے جائیں ایک بات جس کی طرف میں نے اس سال جماعت کو خصوصیت سے توجہ دلائی ہے اور وہ اتنی اہم ہے کہ جتنی بار اس کی اہمیت کی طرف جماعت کو متوجہ کیا جائے کم ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات اور آپ کے کلمات صحابہ سے جمع کرائے جائیں.ہر شخص جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک چھوٹی سے چھوٹی بات بھی یاد ہو اس کا اس بات کو چھپا کر رکھنا اور دوسرے کو نہ بتانا یہ ایک قومی خیانت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض باتیں چھوٹی ہوتی ہیں مگر کئی چھوٹی باتیں نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہوتی ہیں.اب یہ کتنی چھوٹی بات ہے جو حدیثوں میں آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک دفعہ کد و پکا تو آپ نے شوق سے شور بہ میں سے کدو کے ٹکڑے نکال نکال کر کھانے شروع کر دیئے یہاں تک کہ شور بہ میں کدو کا کوئی ٹکڑا نہ رہا اور آپ نے فرمایا کہ و بڑی اعلیٰ چیز ہے.اب بظاہر یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے ممکن ہے کئی احمدی بھی سُن کر کہہ دیں کہ کہو کے ذکر کی کیا ضرورت تھی؟ مگر اس چھوٹی سی بات سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچا ہم آج اپنے زمانہ میں ان خرابیوں کا اندازہ نہیں کر سکتے جو مسلمانوں میں رائج ہوئیں مگر ایک زمانہ اسلام پر ایسا آیا ہے جب ہندو تمدن نے مسلمانوں پر اثر ڈالا اور اس اثر کی وجہ سے وہ اس خیال میں مبتلاء ہو گئے کہ نیک لوگ وہ ہوتے ہیں جو گندی چیزیں کھائیں اور جب بھی وہ کسی کو عمدہ کھانا کھاتے دیکھتے کہتے یہ بزرگ کس طرح کہلا سکتا ہے جب پیر ایسا عمدہ کھانا کھا رہا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل ایک دفعہ مسجد اقصیٰ میں درس دے کر واپس اپنے گھر تشریف لے جا رہے تھے کہ جب آپ وہاں پہنچے جہاں آج کل نظارتوں کے دفاتر ہیں تو یہاں ایک ڈپٹی صاحب ہوا کرتے تھے جو ریٹائرڈ تھے اور ہندو تھے انہوں نے کسی سے سُن لیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پلاؤ کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں وہ اُس وقت اپنے مکان کے باہر بیٹھا تھا.حضرت خلیفہ اول کو دیکھ کر کہنے لگا مولوی صاحب! ایک بات پوچھنی ہے.فرمانے لگے کیا؟ وہ کہنے لگا جی بادام روغن اور پلاؤ کھانا جائز ہے؟ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ہمارے مذہب میں یہ چیزیں کھانی جائز ہیں.وہ کہنے لگا جی فقراں نوں بھی جائز ہے؟ یعنی
تذکار مهدی ) کارمهدی 8 روایات سیّد نا محمود نا جو بزرگ ہوتے ہیں کیا ان کے لئے بھی ان چیزوں کا کھانا جائز ہے.آپ فرمانے لگے ہمارے مذہب میں فقروں کے لئے بھی یہ چیزیں جائز ہیں.وہ کہنے لگا اچھا جی! اور یہ کہہ کر خاموش ہو گیا.اب دیکھو اس شخص کو بڑا اعتراض یہی سوجھا کہ حضرت مرزا صاحب صحیح اور مہدی کس طرح ہو سکتے ہیں جب وہ پلاؤ کھاتے اور بادام روغن استعمال کرتے ہیں.اگر صحابہ کا بھی ویسا ہی علمی مذاق ہوتا جیسے آج کل احمدیوں کا ہے اور وہ کر و کا ذکر حدیثوں میں نہ کرتے تو کتنی اہم بات ہاتھ سے جاتی رہتی.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ جمعہ کے دن اچھا سا جبہ پہن کر مسجد میں آئے اب اگر کوئی شخص ایسا پیدا ہو جو یہ کہے کہ اچھے کپڑے نہ پہنا فقروں کی علامت ہے تو ہم اُسے اس حدیث کا حوالہ دے کر بتا سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نہایت تعہد سے صفائی کرتے اور اعلیٰ اور عمدہ لباس زیب تن فرماتے بلکہ آپ صفائی کا اتنا تعبد رکھتے کہ بعض صوفیا نے جیسے شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی گزرے ہیں یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا کہ وہ ہر روز نیا جوڑا کپڑوں کا پہنتے خواہ وہ دُھلا ہوا ہوتا اور خواہ بالکل نیا ہوتا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی طبیعت میں چونکہ بہت سادگی تھی اور کام کی کثرت بھی رہتی تھی اس لئے بعض دفعہ جمعہ کے دن آپ کپڑے بدلنا یا غسل کرنا بُھول جاتے تھے اور اُنہیں کپڑوں میں جو آپ نے پہنے ہوئے ہوتے تھے جمعہ پڑھنے چلے جاتے تھے.میں نے جب آپ سے بخاری پڑھنی شروع کی تو ایک دن جب کہ میں بخاری لئے آپ کی طرف جا رہا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھ لیا اور فرمایا کہاں جاتے ہو؟ میں نے عرض کیا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے جا رہا ہوں.آپ نے فرمایا ایک سوال میری طرف سے بھی مولوی صاحب سے کر دینا اور پوچھنا کہ کہیں بخاری میں یہ بھی آیا ہے کہ جمعہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے اور نئے کپڑے پہنتے تھے؟ لیکن اب ہمارے زمانہ میں صوفیت کے یہ معنی کر لئے گئے ہیں کہ انسان پراگندہ رہے گویا اگر اُس کا وزن بنایا جائے تو یوں بنے گا کہ جتنا پراگندہ اُتنا ہی خدا کا بندہ.حالانکہ انسان جتنا گندہ ہو اتنا ہی خدا تعالیٰ سے دُور ہوتا ہے اسی لئے ہماری شریعت نے بہت سے مواقع پر غسل واجب کیا ہے اور خوشبو لگانے کی ہدایت کی ہے اور بد بودار چیزیں کھا کر مجالس میں آنے کی ممانعت کی ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات زندگی سے دنیا فائدہ اُٹھاتی چلی آئی اور
تذکار مهدی ) روایات سید نا محمودی اٹھاتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سے بھی دنیا فائدہ اُٹھائے گی اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو جمع کر دیں.ایک نوجوان نے مجھے بتایا کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی ہوں مگر مجھے سوائے اس کے اور کوئی بات یاد نہیں کہ ایک دن جبکہ میں چھوٹا سا تھا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہاتھ پکڑ لیا اور آپ سے مصافحہ کیا اور تھوڑی دیر تک میں آپ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے برابر کھڑا رہا کچھ دیر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہاتھ چھڑا کر کسی اور کام میں مشغول ہو گئے.اب بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر بعد میں انہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے بڑے بڑے اہم نتائج اخذ کیئے جائیں گے.مثلاً یہی واقعہ لے لو اس سے ایک بات تو یہ ثابت ہوگی کہ چھوٹے بچوں کو بھی بزرگوں کی مجالس میں لانا چاہیے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لوگ اپنے بچوں کو بھی آپ کی مجلس میں لاتے.ممکن ہے آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہو جا ئیں جو کہیں کہ بچوں کو بزرگوں کی مجالس میں لانے کا کیا فائدہ ہے ان مجالس میں بڑوں کو شامل ہونا چاہئیے کیونکہ جب فلسفہ آتا ہے تو ایسی بہت سی باتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ کہنا شروع کر دیا جاتا ہے کہ بچوں نے کیا کرنا ہے؟ پس جب بھی ایسا خیال پیدا ہوگا یہ روایت ان کے خیال کو باطل کر دے گی اور پھر اس کی مزید تائید اس طرح ہو جائے گی کہ حدیثوں میں لکھا ہوا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بھی صحابہ اپنے بچوں کو لاتے تھے.اسی طرح اس روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جب کوئی کام ہو تو اپنا ہاتھ چھڑا کر کام میں مشغول ہو جانا چاہیئے کیونکہ اس میں یہ ذکر ہے کہ جب اس بچے نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور تھوڑی دیر تک پکڑے رکھا تو آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ کر الگ کر لیا.آج یہ بات معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن ممکن ہے کسی زمانہ میں لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ بزرگ وہ ہوتا ہے جس کا ہاتھ اگر کوئی پکڑے تو پھر وہ چھڑائے نہیں بلکہ جب تک دوسرا اپنے ہاتھ میں اس کا ہاتھ لئے رکھے وہ خاموش کھڑا رہے.ایسے زمانہ میں یہ روایت لوگوں کے خیالات کی تردید کر سکتی ہے اور بتا سکتی ہے کہ یہ لغو کام ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی کام کرنا ہو تو محبت سے دوسرے کا ہاتھ الگ کر دینا چاہئے تو اس قسم کے کئی مسائل ہیں جو ان روایات سے پیدا ہو سکتے ہیں.آج ہم
تذکار مهدی ) 10 روایات سید نا محمودی ان باتوں کی اہمیت نہیں سمجھتے مگر جب احمدی ،فقہ، احمدی تصوف اور احمدی فلسفہ بنے گا تو اُس وقت یہ معمولی نظر آنے والی باتیں اہم حوالے قرار پائیں گی اور بڑے بڑے فلسفی جب ان واقعات کو پڑھیں گے تو کود پڑیں گے اور کہیں گے خدا اس روایت کو بیان کرنے والے کو جزائے خیر دے کہ اس نے ہماری ایک پیچیدہ گتھی سلجھا دی.یہ ایسا ہی واقعہ ہے جیسے اب ہم حدیثوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ سجدہ میں گئے تو حضرت حسنؓ جو اُس وقت چھوٹے بچے تھے آپ کی گردن پر لاتیں لٹکا کر بیٹھ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک سر نہ اُٹھایا جب تک کہ وہ خود بخود الگ نہ ہو گئے.اب اگر کوئی اس قسم کی حرکت کرے تو ممکن ہے بعض لوگ اُسے بے دین قرار دے دیں اور کہیں کہ اسے خدا کی عبادت کا خیال نہیں اپنے بچے کے احساسات کا خیال ہے؟ مگر ایسا شخص جب بھی یہ واقعہ پڑھے گا اُسے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کا خیال غلط ہے اور وہ چُپ کر جائے گا.گوایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو پھر بھی خاموش نہ رہ سکیں.چنانچہ ایک پٹھان کے متعلق کہتے ہیں کہ اُس نے قدوری میں یہ پڑھا کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.اس کے بعد وہ حدیث پڑھنے لگا تو اس میں ایک حدیث یہ آ گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ جب نماز پڑھی تو اپنے ایک بچہ کو اٹھا لیا.جب رکوع اور سجدہ میں جاتے تو اُسے اُتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو پھر اُٹھا لیتے.وہ یہ حدیث پڑھتے ہی کہنے لگا خوہ! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.قدوری میں لکھا ہے کہ حرکت صغیرہ سے نماز ٹوٹ جاتا ہے.گویا شریعت بنانے والا کنز یا قدوری کا مصنف تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے تو ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو باوجود واضح مسئلہ کے اُسے ماننے سے انکار کر دیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں.پس اس بات کی ہرگز پروا نہیں کرنی چاہئے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جس بات کا علم ہے وہ چھوٹی سی ہے بلکہ خواہ کس قدر چھوٹی بات ہو بتا دینی چاہئے.خواہ اتنی ہی بات ہو کہ میں نے دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلتے چلتے گھاس پر بیٹھ گئے کیونکہ ان باتوں سے بھی بعد میں اہم نتائج اخذ کئے جائیں گے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بعض دوستوں سمیت باغ میں گئے اور آپ نے فرمایا آؤ بیدا نہ کھائیں.چنانچہ بعض دوستوں نے چادر بچھائی اور آپ نے درخت
تذکار مهدی ) 611 روایات سید نامحمودی جھڑوائے اور پھر سب ایک جگہ بیٹھ گئے اور انہوں نے بیدا نہ کھایا.اب کئی لوگ بعد میں ایسے آئیں گے جو کہیں گے کہ نیکی اور تصوف یہی ہے کہ طیب چیزیں نہ کھائی جائیں.ایسے آدمیوں کو ہم بتا سکتے ہیں کہ تمہاری یہ بات بالکل غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو بیدانہ جھڑوا کر کھایا تھا.یا بعد میں جب بڑے بڑے متکبر حاکم آئیں گے اور وہ دوسروں کے ساتھ اکٹھے بیٹھ کر کچھ کھانے میں ہتک محسوس کریں گے تو ان کے سامنے ہم یہ پیش کر سکیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو بے تکلفی کے ساتھ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھایا پیا کرتے تھے تم کون ہو جو اس میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہو.تو بعض باتیں گو چھوٹی ہوتی ہیں مگر ان سے آئندہ زمانوں میں بڑے اہم مذہبی سیاسی اور تمدنی مسائل حل ہوتے ہیں.پس جن دوستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شکل دیکھنے یا آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہوا نہیں چاہئے کہ وہ ہر بات خواہ چھوٹی ہو یا بڑی، لکھ کر محفوظ کر دیں.مثلاً اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لباس کی طر زیاد ہے تو وہ بھی لکھ کر بھیج دے اس سے یہ فائدہ ہوگا که اگر آئندہ کسی زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو کہیں کہ ننگے سر رہنا چاہئے تو ان کے ا خیالات کا ازالہ ہو سکے اس میں کوئی محبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں موجود ہیں اور آپ ہی شارع نبی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ قریب کے مامور کی باتیں شارع نبی کی باتوں کی مصدق سمجھی جاتی ہیں.آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ جن فقہ کی باتوں پر امام ابو حنیفہ نے عمل کیا ہے وہ زیادہ صحیح ہیں.اسی طرح آئندہ زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جن حد میثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے عمل سے سچا قرار دیا ہے انہی کو لوگ کچی حدیثیں سمجھیں گے اور جن حدیثوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وضعی قرار دیا ہے ان حدیثوں کو لوگ بھی جھوٹا سمجھیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ باتیں بھی ایسی ہی اہم ہیں جیسے حدیثیں کیونکہ یہ باتیں حدیثوں کا صدق یا کذب معلوم کرنے کا ایک معیار ہوں گی.پس چھوٹی سے چھوٹی روایت بھی اگر کسی دوست کو معلوم ہو تو وہ اُسے بتانی چاہئے.اسی طرح مرکزی محکمہ کو اس بات کا انتظام کرنا چاہئے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کہاں کہاں ہیں اور ان سے چھوٹی سے چھوٹی بات جمع کی جائے.ان روایات
تذکار مهدی ) 12 روایات سید نامحمود میں بے شک بعض ایسی باتیں بھی ہو سکتی ہیں جنہیں موجودہ وقت میں شائع کرنا مناسب نہ ہومگر انہیں بھی بہر حال محفوظ کر لیا جائے اور بعد میں جب مناسب موقع ہو انہیں شائع کر دیا جائے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا تھا کہ سلطنت برطانیہ تا بعد ازاں ایام ضعف ازاں سال و اختلال مگر یہ الہام اُس وقت شائع نہ کیا گیا بلکہ ایک عرصہ کے بعد شائع کیا گیا.ایسے واقعات کو ریکارڈ میں لے آیا جائے مگر شائع اُس وقت کیا جائے جب خطرے کا وقت گذر جائے.پس صحابہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کے تمام واقعات اور حالات لکھ کر بھیج دیں یا اس موضوع پر لیکچر کر کے دوسروں کو حالات بتا دیں میں سمجھتا ہوں اب بھی وقت ہے کہ اس کام کو مکمل کیا جائے.جو دوست اس کام میں حصہ لے سکیں انہیں اس ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہئے اور جیسا کہ بتایا ہے دوست اس میں اس طرح شامل ہو سکتے ہیں کہ :.(۱) مرکزی محکمہ اس بات کا انتظام کرے.(۲) صحابہ ناظر تعلیم کو حالات لکھ کر بھجوا دیں یا یہاں اپنے حالات پر لیکچر دیں.(۳) تیسرے وہ دوست جو صحابی نہیں اُن صحابہ سے پوچھ پوچھ کر اور گرید گرید کر حالات دریافت کریں اور خود وہ حالات لکھ کر مرکز میں بھجوا دیں.مثلاً یہ کہ آپ کا کھانا کیسا تھا؟ آپ کا پینا کیسا تھا؟ آپ کا لباس کیسا تھا؟ آپ کی گفتگو کیسی تھی؟ آپ کا چلنا کیسا تھا؟ غرض یہ تمام باتیں ان سے پوچھ پوچھ کر خود لکھتے جائیں اور یہاں بھجواتے جائیں اس طرح وہ بھی راوی بن جائیں گے اور انہیں بہت کچھ ثواب حاصل ہوگا.امام بخاری کی آج دنیا میں کتنی بڑی عزت ہے مگر یہ عزت اسی لئے ہے کہ انہوں نے دوسروں سے روایات جمع کیں.پس جو صحابہ ان پڑھ ہیں یا جنہیں فرصت نہیں اُن سے مل کر اور دریافت کر کے اگر تم حالات لکھتے چلے جاؤ تو کسی زمانہ میں تمہاری بھی ایسی ہی عزت و عظمت ہونے لگ جائے گی جس طرح آج ثعبان ثوری وغیرہ کی ہوتی ہے اور لوگ تم پر درود اور سلام بھیجیں گے اور کہیں گے اللہ تعالیٰ فلاں کو جزائے خیر دے کہ اس نے اتنی قیمتی بات ہم تک پہنچا دی.
تذکار مهدی ) 13 روایات سید نا محمودی میں نے دیکھا ہے کہ قدرتی طور پر ایسے مواقع پر از خود دعا کے لئے جوش پیدا ہوتا ہے.کل ہی کلید قرآن سے میں ایک حوالہ نکالنے لگا تو مجھے خیال پیدا ہوا کہ یہ آیت دیر سے ملے گی مگر اس کلید قرآن سے مجھے فورا آیت مل گئی.اس پر میں نے دیکھا کہ دو تین منٹ نہایت خلوص سے میں اس کے مرتب کیلئے دعا کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ اس کے مدارج بلند کرے کہ اُس کی محنت کی وجہ سے آج مجھے یہ آیت اتنی جلدی مل گئی.تو اب اگر لوگوں کے لئے صحابی بننے کا موقع نہیں تو کم از کم وہ تابعی ہی بن جائیں تا آئندہ جب لوگ ان کی روایات پڑھیں تو کہیں اللہ تعالیٰ فلاں پر رحم کرے کہ اس نے ہمارے لئے ان باتوں کو محفوظ کر دیا.(۴) اور جو اتنا کام بھی نہ کر سکتے ہوں وہ کم از کم یہ کریں کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کبھی بھی صحبت اُٹھائی ہو ان صحابہ کے پتوں سے دفتر کو اطلاع دے دیں.اگر انہیں علم ہو کہ فلاں شخص صحابی ہے اور وہ ابھی فلاں جگہ زندہ موجود ہے ہمیں اطلاع دے دیں اور لکھ دیں کہ ہم تو سُست ہیں اور اُس کے پاس پہنچ کر حالات جمع کرنے سے قاصر ، آپ اگر چاہیں تو اُن سے حالات پوچھ لیویں اس پر ہم خود اُن سے حالات دریافت کرنے کی کوشش کریں گے.اس کے ساتھ ہی مرکزی دفتر کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جو حالات اور واقعات اس کے پاس جمع ہوں وہ ضائع نہ ہوں ان کی حفاظت کا خاص انتظام ہو.پچھلے سالوں میں یہاں ذکر حبیب پر جلسے ہوتے رہے ہیں مگر ان جلسوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو حالات بیان کیئے گئے ہیں غالبا وہ بھی محفوظ نہیں.ہمارا ہر سال تین لاکھ کا بجٹ تیار ہوتا ہے مگر تالیف و تصنیف کا محکمہ اس میں پندرہ روپیہ کا کلرک نہیں رکھ سکتا جس کا کام محض یہ ہو کہ وہ ان واقعات کو محفوظ رکھے اور جیسے پُرانے زمانہ میں کتابوں کی نقلیں کی جایا کرتی تھیں اسی طرح تمام واقعات کی پانچ سات نقلیں کر کے ہر نسخہ ایک ایک دفتر میں محفوظ کر دیا جائے اور پھر ایسے واقعات کو ساتھ ساتھ اخبارات میں بھی شائع کرانے کی کوشش کی جائے تا کہ جلد سے جلد یہ ریکارڈ میں آ جائیں اور ایک ایک واقعہ کی ہزاروں کا پیاں ہو جائیں کوئی ایک اخبار یا رسالہ اس کے لئے مخصوص نہ کیا جائے.مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 552 تا 558)
تذکار مهدی ) 14 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ابتدائی حالات آپ کے شیر ہونے کی علامت روزانہ الفضل میں شائع ہوتی ہے کہ آج اتنے احمدی ہوئے آج اتنے ہوئے.دنیا میں کوئی ایسا شیر نہیں جو تین چارسو سے زیادہ شکار سال میں کرسکتا ہو مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہر سال چار پانچ سو آدمیوں کو ان لوگوں سے چھین لیتے ہیں اور ایسے وقت میں لاتے ہیں جب آپ فوت ہو چکے ہیں.ہم تو ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور ہمیں یقین ہے کہ خودان میں سے شریف طبقہ بھی اس کی تردید کرے گا.انہیں خود سوچنا چاہئیے کہ اگر ان گالیوں کا دسواں حصہ بھی ان کے گروؤں کے متعلق استعمال کیا جائے تو ان کی کیا حالت ہوگی.ان کو غصہ آئے گا یا نہیں؟ اگر وہ اپنے بزرگوں کی عزت کرانا چاہتے ہیں تو ان کو چاہئے کہ دوسروں کے بزرگوں کی بھی عزت کریں.بعض تقریروں میں کہا گیا ہے کہ ہمارا خاندان اس علاقہ کا قاضی تھا اور مہا راجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے دادا کو جائیداد دی تھی.ممکن ہے یہ کہنے والا باہر سے آیا ہو.مگر اس علاقہ کے بڑے بوڑھوں سے دریافت کرو کہ ہمارا خاندان قاضی تھا یا حاکم.اگر ہمارے بزرگ ملوانے تھے تو کیا سکھوں کی چار مسلیں اکٹھی ہو کر ملانوں سے مقابلہ کے لئے آئی تھیں.سکھوں کی کل مسلیں پندرہ سولہ تھیں جن میں سے چار نے مل کر قادیان پر حملہ کیا تھا اور اب بھی بسراواں میں قلعوں وغیرہ کے نشانات ہیں جن پر تو ہیں وغیرہ نصب کی گئیں تھیں.کیا یہ چار پانچ مسلیں مل کر کسی مسجد کے امام یا ملا سے مقابلے کے لئے آئی تھیں.ہمارا خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے اس علاقہ کا حاکم تھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کا زمانہ تو بعد کا ہے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی ہتک کی ہے.مگر یہ بات بھی بالکل غلط ہے.میں نے سکھ تاریخ پوری طرح نہیں پڑھی.مگر میرے دل میں مہاراجہ صاحب کی عزت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ان کی تعریف سنی ہے.جن سکھوں کے خلاف آپ نے لکھا ہے وہ طوائف الملو کی کے زمانہ کے تھے اور ایسے زمانہ کو ہر قوم بُرا کہتی ہے اور خود سکھ بھی بُرا سمجھتے ہیں.مگر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ایک منظم حکومت قائم کر لی تو اس زمانہ کی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعریف ہی سنی ہے اور اسی وجہ سے میرے دل میں ان کی عزت
تذکار مهدی ) 15 روایات سیّد نا محمود ہے.انہوں نے ایک معمولی زمیندار کا فرزند ہو کر ایسی عظمندی دکھائی کہ پنجاب میں ایک منظم حکومت قائم کر دی.پس یہ بالکل غلط ہے کہ ہم ان کی ہتک کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا.پس جن کو برا کہا گیا ہے وہ طوائف الملو کی کے زمانہ کے سکھ ہیں.بے شک مہاراجہ صاحب نے یہ گاؤں واپس کیا ہے.لیکن ہمارے خاندان نے بھی ہمیشہ ان کے خاندان سے وفاداری کی.جب انگریزوں سے لڑائیاں ہوئیں تو بعض بڑے بڑے سکھ سرداروں نے روپے لے لے کر علاقے انگریزوں کے حوالے کر دیئے اور یہی وجہ ہے کہ آج ان کی جاگیریں موجود ہیں.یہاں سے پندرہ ہیں میل کے فاصلہ پر سکھوں کا ایک گاؤں بھا گووال ہے وہاں سکھ سردار ہیں.مگر وہ بھی انگریزوں سے مل گئے تھے.تو اس وقت بڑے بڑے سکھ خاندانوں نے بھی انگریزوں کا ساتھ دیا اور مہاراجہ کے خاندان سے غداری کی.مگر ہمارے دادا صاحب نے کہا کہ میں نے اس خاندان کا نمک کھایا ہے.اس سے غداری نہیں کر سکتا.کیا وجہ ہے کہ سکھ زمینداروں کی جاگیریں تو قائم ہیں.مگر ہماری چھین لی گئیں.اسی غصہ میں انگریزوں نے ہماری جائیداد چھین لی تھی کہ ہمارے دادا صاحب نے سکھوں کے خلاف ان کا ساتھ نہ دیا تھا.تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ مہا راجہ صاحب نے سات گاؤں واپس کیے تھے.پھر وہ کہاں گئے؟ وہ اسی وجہ سے انگریزوں نے ضبط کر لیئے کہ ہمارے دادا صاحب نے ان کا ساتھ نہ دیا تھا.اور کہا تھا کہ ہم نے مہاراجہ صاحب کی نوکری کی ہے.ان کے خاندان سے غداری نہیں کر سکتے.بھا گووال کے ایک اتنی پچاسی سالہ بوڑھے سکھ کپتان نے مجھے سنایا کہ میرے دادا سناتے تھے کہ ان کو خود سکھ حکومت کے وزیر نے بلا کر کہا کہ انگریز طاقتور ہیں ان کے ساتھ صلح کر لو.خواہ مخواہ اپنے آدمی مت مرواؤ.مگر ہمارے دادا صاحب نے مہاراجہ صاحب کے خاندان سے بے وفائی نہ کی اور اسی وجہ سے انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی.بعد میں جو کچھ ملا مقدمات سے ملا.مگر کیا ملا قادیان کی کچھ زمین دے دی گئی.باقی بھینی ہنگل اور کھارا، مالکان اعلیٰ کا قرار دے دیا گیا.مگر یہ ملکیت اعلیٰ سوائے کاغذ چاٹنے کے کیا ہے.یہ برائے نام ملکیت ہے جو اشک شوئی کے طور پر دی گئی اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے دادا صاحب نے غداری پسند نہ کی ہاں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تو پھر ان سے وفاداری کی ہے.پس یہ تعریف کے قابل بات تھی.
تذکار مهدی ) 16 روایات سیّد نا محمود سکھ لیکچراروں کو کہنا چاہئے تھا کہ ہمارے دادا صاحب نے مسلمان ہونے کے باوجود سکھوں سے غداری نہیں کی.مگر کہا یہ گیا کہ وہ گھاس منہ میں لے کر مہاراجہ صاحب کے پاس پہنچے کہ کچھ دیا جائے.یہ کہنے والے کو معلوم نہیں کہ ہمارے پاس آج تک وہ تحریر موجود ہے جو شاہ فرخ سیر نے ہمارے دادا صاحب کو لکھی ہے.اور اس میں ان کو عضدالدولہ کا خطاب اور سات ہزار فوج رکھنے کا حق دیا گیا ہے.اگر ہماری جا گیر مہاراجہ صاحب کی دی ہوئی ہے تو ان سے بہت پہلے یہ مناصب کیونکر حاصل ہو گئے.فرخ سیر تو اور نگزیب سے قریبی زمانہ میں گزرے ہیں.پس ایسی باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کرتا.سینکڑوں لوگ ابھی تک اس علاقہ میں ایسے موجود ہیں.جنہوں نے اپنے باپ داداؤں سے سنا ہو گا کہ ہمارا خاندان یہاں ملاں تھا یا حاکم.تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ جب ملتان کے صوبہ نے بغاوت کی تو ہمارے تایا صاحب نے ٹوانوں کے ساتھ مل کر اسے فرو کیا تھا اور اسی وقت سے ٹوانوں اور نون خاندان کے ساتھ ہمارے تعلقات چلے آتے ہیں.پس جہاں تک شرافت کا سوال ہے ہمارے خاندان نے سکھ حکومت کے ساتھ نہایت دیانتداری کا برتاؤ کیا اور اس کی سزا کے طور پر انگریزوں نے ہماری جائیداد ضبط کر لی ور نہ سری گوبندر پور کے پاس اب تک ایک گاؤں موجود ہے جس کا نام ہی مغلاں ہے اور وہاں تک ہماری حکومت کی سرحد تھی اور اس علاقہ کے لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہاں تک ہماری حکومت تھی اور یہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سے پہلے کی بات ہے.آج اگر گالیاں دی جائیں تو اس سے کچھ نہیں بنتا.تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اس علاقہ کے حاکم تھے اور سکھوں کا قادیان پر حملہ کرنا ہی بتاتا ہے کہ یہاں حکومت تھی.ہمارے دادا صاحب کپورتھلہ کی ریاست میں چلے گئے.تو مہاراجہ کپورتھلہ نے ان کو دو گاؤں پیش کیے.گو انہوں نے لیئے نہیں مگر کیا ایسے ملانوں کو پیش کیے جاتے ہیں؟ اسی احراری ملاں سے پوچھو کہ آج بھی وہاں کسی ملانے کو دو گاؤں پیش کئے جا سکتے ہیں.عنایت اللہ صاحب خود ملاں ہیں اور قاضی بھی کہلاتے ہیں.پھر ان کا دعوی ہے کہ ان کا سارے علاقے پر رعب ہے.وہ خود وہاں چلے جائیں اور دیکھ لیں کہ مہاراجہ کپورتھلہ ان کو دو گاؤں پیش کرتے ہیں.اگر وہ اس طرح ملانوں کو دو دو گاؤں دینے لگیں تو دو سال میں ان کی ریاست ختم ہو جائے گی.زیادہ سے زیادہ 3 ،4 سو گاؤں اس ریاست میں ہوں گے اور اگر وہ دو دو گاؤں تقسیم کرنے لگیں.تو دو سو روز میں ان ریاست ختم ہو جائے.پس ایسی باتوں سے جو تاریخ اور عقل کے خلاف ہوں.کچھ فائدہ نہیں.بات وہ کرنی چاہئے جو تھے
تذکار مهدی ) 17 روایات سید نا محمود ) تاریخ اور عقل دونوں کے مطابق ہو اور جس سے امن پیدا ہوتا ہو.ہم ایک ہی جگہ کے رہنے والے ہیں اس لئے ہمارے درمیان فساد والی باتیں نہیں ہونی چاہئیں.کسی کا یہ خیال کرنا کہ احمدی تھوڑے ہیں اور کوئی بھی قوم انہیں مار سکتی ہے اور ان کے مکان اور جائیداد میں تباہ کر سکتی ہے.بالکل غلط خیال ہے.ایک بچہ کو بھی اگر زبردست پہلوان کنوئیں میں پھینکنا چاہے تو وہ بھی مقابلہ کرتا اور اسے دق کر دیتا ہے.پھر ہمارا تو کسی طاقت پر بھروسہ نہیں.ہمارا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارا محافظ ہے.تلواروں، نمکوؤں اور لاٹھیوں کا رعب ہمیں دبا نہیں سکتا اور نہ ہم کسی کو دبانا چاہتے ہیں.گو یہ لوگ ہمارے شدید دشمن ہیں.مگر ہم پھر بھی ان سے اور ان کی اولا دوں سے محبت کرتے ہیں.ہم نے ان پر غلبہ ضرور حاصل کرنا ہے مگر تلوار یا بندوق سے نہیں بلکہ دلائل ( خطبات محمود جلد 21 صفحہ 431 تا435) اور پیار سے.ہمارے آباء واجداد کے تاریخی حالات قادیان میرے آباء و اجداد کا بنایا ہوا قصبہ ہے اور اس کا اصل نام اسلام پور تھا جس کے آخر میں قاضی کا لفظ اس وجہ سے زائد کیا جاتا تھا تا یہ ظاہر کیا جائے کہ مغلیہ حکومت کی طرف سے ایک قاضی اس علاقہ کی نگرانی کے لئے رہتا ہے لیکن مرورِ زمانہ سے یہ نام صرف قاضی اور پھر قاضی سے قادی اور قادی سے قادیان بن گیا.میرے آباء واجداد تین سو سال تک اس پر اور اس کے علاقہ پر پہلے تو مغلیہ حکومت کی طرف سے اور بعد میں طوائف الملو کی کے زمانہ میں آزادانہ طور پر حکومت کرتے رہے ہیں.چنانچہ پرانی روایات اور سرلیپل گریفن کی کتاب رو سائے پنجاب اس امر پر شاہد ہیں.مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی حکومت سے پہلے ہمارے خاندان کی حکومت کے خلاف سکھ قبائل نے حملہ کیا.اور آہستہ آہستہ ان کے مقبوضات سے جو اسی (80) دیہات پر مشتمل تھے ، ان کو بے دخل کرتے گئے یہاں تک کہ صرف قادیان ان کے قبضہ میں رہ گیا.اس سے بھی ان کو بے دخل کرنے کے لئے سکھ قبائل پاس کے قصبات میں ایک نیم دائرہ کی صورت میں آباد ہو گئے اور آخر میرے دادا کے والد کے زمانے میں میرے آباء کو قادیان چھوڑنا پڑا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں قبائل کا زور ٹوٹنے پر میرے دادا صاحب پھر قادیان میں واپس آگئے اور قادیان اور اس کے ملحقہ سات دیہات پر انہیں دخل مل گیا.اس کے بعد انگریزی حکومت اس ملک میں آئی تو بر خلاف فوج کے دوسرے افسروں کے
تذکار مهدی ) 18 روایات سید نامحمودی میرے دادا صاحب نے انگریزی حکومت سے خفیہ ساز باز نہ کیا اور غالباً اسی وجہ سے ان کے مقبوضہ علاقہ کو گورنمنٹ نے ضبط کر لیا اور لمبے مقدمات کے بعد صرف قادیان کی ملکیت اور اس کے پاس کے تین گاؤں کی ملکیت اعلیٰ ہمارے خاندان کو ملی.میری غرض اس تمہید سے یہ ہے کہ قادیان اور اس کے پاس کے اکثر گاؤں اسلامی زمانہ کے آباد شدہ ہیں اور مسلمانوں کے ہاتھ سے ان کی بناء پڑی ہے.پس ان کے ساتھ کوئی ہندو روایات وابستہ نہیں ہیں وہ شروع سے اسلامی روایات کے پابند رہے ہیں اور سوائے سکھوں کی حکومت کے چالیس پچاس سالہ عرصہ کے وہ کبھی بھی اسلامی حقوق کی بجا آوری سے محروم نہیں ہوئے.اس وقت بھی قادیان کی زرعی زمین کے مالک صرف میں اور میرے بھائی ہیں اور محض تھوڑی سی زمین بعض احمدی احباب کے قبضہ میں ہے جنہوں نے وہ زمین ہم ہی سے بغرض آبادی حاصل کی ہے.ہندو اور سکھ صرف بطور مزارعان یا غیر مالکان آباد ہیں اور وہ بھی نہایت قلیل تعداد میں یعنی بمشکل کل آبادی کا قریباً ساتواں حصہ.باوجود ان حالات کے اول میرے دادا صاحب نے اور بعد میں میرے والد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں نے قادیان میں گائے کے ذبیحہ کو محض اس وجہ سے روکے رکھا کہ اس وقت تک اس کی اقتصادی طور پر زیادہ ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی - اور ہم پسند نہیں کرتے تھے کہ خواہ مخواہ ہماری ہمسایہ اقوام کا دل دکھایا جائے.قادیان کے کئی ہندو اس امر کی شہادت دے سکتے ہیں کہ چند سال ہوئے کہ جب بعض لوگوں نے قادیان کے ملحقہ گاؤں سے مذبح کی درخواست دی تو میں نے حکام کو کہلا کر مدیح کو رکوا دیا اور ایک معزز ہندو صاحب کی تحریر بھی اس بارہ میں میرے پاس موجود ہے جو بوقت ضرورت پیش کی جاسکتی ہے.علاوہ ازیں اس امر کا ثبوت کہ اپنے ہمسایوں کے احساسات کا میں نے پورا خیال رکھا ہے یہ بھی ہے کہ جس حد تک قانون گائے ذبح کرنے کو جائز قرار دیتا ہے، میں اس سے بھی جماعت کو برابر روکتا رہا ہوں بلکہ بعض لوگوں کو تو یہ معلوم ہونے پر کہ انہوں نے اس معاملہ میں فتنہ کا طریق اختیار کیا ہے، میں نے چھ چھ ماہ یا سال سال کے لئے (مسئلہ ذبیحہ گائے.انوارالعلوم جلد 11 صفحہ 5-3 ) قادیان سے نکال دیا.کپورتھلہ کی طرف ہجرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے جب سکھوں نے قادیان فتح کر
تذکار مهدی ) 19 روایات سید نا محمود لیا تو ہمارے خاندان کے افراد کپورتھلہ میں چلے گئے اور وہاں کی ریاست نے ان کو گزارہ کے لیئے دو گاؤں دے دیئے.کپورتھلہ میں ہی ہمارے پردادا صاحب فوت ہو گئے تھے.ہمارے دادا کی عمر اُس وقت سولہ سال تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے پر دادا اپنے والد کے برخلاف جو بہت بڑے پارسا اور عزم کے مالک تھے کم ہمت تھے اور اسی وجہ سے ہمارے خاندان کو یہ ذلت پہنچی لیکن ہمارے دادا ہمت والے تھے.اُس وقت جب ہمارے پر دادا فوت ہوئے وہ صرف سولہ سال کے تھے لیکن انہوں نے کہا میں اپنے باپ کو قادیان میں ہی دفن کروں گا.چنانچہ وہ اُن کی لاش یہاں لائے سکھوں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا مگر کچھ تو اُن کی دلیری کی وجہ سے اور کچھ اس وجہ سے کہ ہمارے آباء اس علاقہ پر حکمران رہ چکے تھے سارے علاقہ میں شورش ہو گئی اور لوگوں نے کہا ہم اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کو اب یہاں دفن ہونے کے لئے بھی جگہ نہ دی جائے.چنانچہ سکھوں نے اجازت دے دی اور وہ انہیں قادیان میں دفن کر گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے دادا نے جب یہ سلوک دیکھا تو انہوں نے کہا چونکہ اس زمانہ میں ساری عزت علم سے ہے اس لئے میں اب علم حاصل کر کے رہوں گا تا کہ ہمارے خاندان کو عزت حاصل ہو.چنانچہ انہوں نے گھر کو چھوڑ دیا اور دتی چلے گئے.اُن کے ساتھ اُس زمانہ کے طریق کے مطابق ایک میراثی بھی چل پڑا.اُنہوں نے سنا ہوا تھا کہ مساجد میں تعلیم کا انتظام ہوتا ہے جہاں لڑکے پڑھتے ہیں.وہ بھی گئے اور ایک مسجد میں جا کر بیٹھ گئے مگر کسی نے اُن کو پوچھا تک نہیں یہاں تک کہ تین چار دن فاقہ سے گزر گئے تیسرے چوتھے دن کسی غریب کو خیال آیا اور وہ رات کے وقت انہیں ایک روٹی دے گیا مگر معلوم ہوتا ہے وہ کوئی بہت ہی غریب شخص تھا کیونکہ روٹی سات آٹھ دن کی تھی اور ایسی سوکھی ہوئی تھی جیسے لوہے کی تھالی ہوتی ہے.وہ اپنے ہاتھ میں روٹی لے کر انتہائی افسردگی کے عالم میں بیٹھ گئے اور حیرت سے منہ میں اُنگلی ڈال کر اپنی حالت پر غور کرنے لگے کہ کس حد تک ہماری حالت گر چکی ہے.میراثی اُن کے چہرے کے رنگ کو دیکھ کر سمجھ گیا کہ اس وقت یہ سخت غم کی حالت میں ہیں اور اُس نے خیال کیا کہ ایسا نہ ہو یہ صدمے سے بیمار ہو جائیں، میراثیوں کو چونکہ ہنسی کی عادت ہوتی ہے اس لئے اُس نے سمجھا کہ اب مجھے کوئی مذاق کر کے ان کی طبیعت کا رُخ کسی اور طرف بدلنا چاہئے.چنانچہ وہ مذاقاً کہنے لگا.مرزا جی! میرا حصہ.وہ
تذکار مهدی ) 20 روایات سید نا محمودی جانتا تھا کہ یہ کوئی حصے والی چیز نہیں مگر چونکہ وہ چاہتا تھا کہ ان کا صدمہ کسی طرح دُور ہو اس لئے اُس نے مذاق کر دیا.اُنہیں یہ سن کر سخت غصہ آیا اور اُنہوں نے زور سے روٹی اُس کی طرف پھینکی جو اس کی ناک پر لگی اور خون بہنے لگ گیا.یہ دیکھ کر وہ اُٹھے اور میراثی سے ہمدردی کرنے لگے.اس طرح اُن کی دماغی حالت جو صدمہ سے غیر متوازن ہو گئی تھی درست ہوگئی ورنہ خطرہ یہی تھا کہ وہ اس غم سے کہیں پاگل نہ ہو جائیں.پھر خدا نے اُن کیلئے ایسے سامان پیدا فرما دیے کہ وہ وہاں سے خوب علم پڑھ کر واپس آئے.تو جب انسان کسی بات کا پختہ ارادہ کر لیتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے سامان بھی پیدا کر دیتا ہے اصل میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ قربانی کی قدر کرتا ہے.اگر لوگ دیکھیں کہ واقعہ میں کوئی شخص تکلیف اُٹھا رہا ہے اور دوسروں کے فائدہ کے لئے اپنے نفس کو مشقت میں ڈال رہا ہے تو اُن کے دلوں میں ضرور جوش پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی اس سے کوئی نیک سلوک کر کے ثواب میں شامل ہو جائیں.( زندگی وقف کرنے کی تحریک، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 304 تا 305 ) دادا نے با قاعدہ علم طب حاصل کیا تھا ہمارے دادا کا قصہ مشہور ہے.ایک دفعہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب سری گوبند پور میں شکار کے لئے آئے.ان کے ساتھ ایک باز والا تھا جسے اتفاقاً نزلہ ہو گیا.ہمارے دادا طب بھی کرتے تھے.دلی میں انہوں نے باقاعدہ یہ علم حاصل کیا تھا اور گو انہوں نے علم طب کو پیشہ کے طور پر کبھی اختیار نہیں کیا لیکن مخلوق کی خدمت اور لوگوں کی خیر خواہی کے لئے اس فن سے بھی کام لیا کرتے تھے.جب باز والے کو نزلہ ہوا تو وہ گھبرایا کہ کل شکار کا دن ہے اگر میں زیادہ بیمار ہو گیا تو مہاراجہ صاحب ناراض ہوں گے کہ عین کام کے دن بیمار ہو گیا.چنانچہ وہ ہمارے دادا کے پاس آیا اور علاج کی درخواست کی.آپ نے اس کے لئے نسخہ لکھا جو ایک پائی میں تیار ہو گیا اور اس کے استعمال سے اسے فوری طور پر افاقہ ہو گیا.اُسی دن مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کے لڑکے کو بھی نزلہ ہو گیا.کسی نے ذکر کیا کہ باز والے کو یہی شکایت ہوگئی تھی جس پر مرزا صاحب نے اُسے ایک نسخہ لکھ کر دیا اور اسے فوراً آرام آ گیا.شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور اپنے نزلہ
تذکار مهدی ) 21 م.روایات سید نامحمود کا ذکر کیا.انہوں نے ایک نسخہ لکھ کر دے دیا.جب نسخہ بنوانے کے لئے پنساری کے پاس بھیجا گیا تو اس نے بتایا کہ اس پر پانچ سو روپیہ خرچ آئے گا.شہزادہ یہ سن کر بہت ناراض ہوا.آخر معمولی زمینداروں سے وہ یکدم بادشاہ بن گئے تھے.اُن کے لئے یہ بات حیرت کا موجب ہوئی کہ ایک ہی مرض کا نسخہ لکھوایا گیا تھا مگر ایک شخص کو تو انہوں نے ایسا نسخہ لکھ کر دے دیا جس پر ایک پائی خرچ آئی اور ہمیں ایک ایسا نسخہ لکھ کر دیا جس پر پانچ سو روپیہ خرچ آتا ہے.اس لئے شہزادہ نے ہمارے دادا کو بلوایا اور کہا کہ آپ کو مجھ سے کیا دشمنی تھی کہ آپ نے مجھ سے یہ سلوک کیا؟ آخر مجھ کو بھی وہی بیماری تھی جو باز والے کو تھی.مگر باز والے کو تو آپ نے ایک پائی کا نسخہ لکھ کر دیا اور مجھے پانچ سوروپیہ کا نسخہ لکھ دیا.ہمارے دادا نے نسخہ لیا اور اسے پھاڑ کر پھینک دیا اور کہا اگر نسخہ استعمال کرنا ہے تو یہی کرنا ہو گا.نہیں تو کسی اور سے علاج کروالیں.پھر کہا یہ جو پنساری ہیں آخر ان کا بھی گزارہ چلنا ہے یا نہیں.اگر میں پائی پائی کا ہی نسخہ لکھ کر دوں تو ان کی دکان کس طرح چل سکتی ہے ان کا تو ایک دن بلکہ ایک گھنٹہ کا خرچ بھی اس طرح نہیں نکل سکتا.میں نے باز والے کو اس کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے اور آپ کو آپ کی حیثیت کے مطابق نسخہ لکھ کر دیا ہے.اگر آپ ان لوگوں کی تجارت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ ہمارا فن ترقی کرے تو میں آپ کے لئے ایسا ہی نسخہ لکھوں گا جو پانچ سو روپیہ میں تیار ہو.اور نہ آپ کی مرضی جس سے چاہیں آپ علاج کروالیں.یہ بھی ایک طریق تو ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ بعض تجارتیں چلانے کے لئے امراء کو قیمتی دوائیں لکھ کر دی جا سکتی ہیں.مگر عام طور پر اس زمانہ میں سستے علاج کی طرف توجہ نہیں کی جاتی اور امیر وغریب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بیماری کے معاملہ میں امیر اور غریب میں فرق کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے.غریب یا تو بغیر علاج کے مرجاتا ہے یا اپنی ساری پونجی دواؤں پر تباہ کر دیتا ہے.خطبات محمود جلد 27 صفحہ 540 تا 541) آباؤ اجداد کی خاندانی جائیداد پرانے خاندانوں میں اپنی عزت کو قائم رکھنے کی ہمیشہ کوشش کی جاتی ہے ہمارے دادا کے متعلق ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ وہ مختلف کام جو مہاراجہ رنجیت سنگھ
تذکار مهدی ) 6220 روایات سید نا محمود کی ملازمت میں اور پھر کشمیر میں کرتے رہے ان ایام میں انہوں نے ایک لاکھ کے قریب روپیہ جمع کیا.اس زمانہ میں روپیہ کی بہت بڑی قیمت ہوا کرتی تھی چنانچہ قریب ہی ایک گاؤں راجپورہ ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک چچانے پانچ سو روپیہ میں خریدا تھا چھ سوا یکڑ اس کی زمین ہے اور گو وہ زمین اتنی اچھی نہیں مگر پھر بھی کجا چھ سوا یکٹر زمین ایک رو پیدا یکڑ سے بھی کم قیمت میں انہیں زمین مل گئی پس اگر وہ چاہتے تو اس روپیہ سے بہت بڑی جائیداد پیدا کر سکتے تھے مگر جب انگریزوں کی حکومت آئی اور انہوں نے ان کی جائیداد ضبط کر لی تو وہ اس کے حصول کے لئے مقدمات میں لگ گئے بعض دوستوں نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ اس کام میں نہ پڑیں اس میں چنداں فائدہ نہیں.اگر کچھ ملا بھی تو بالکل بے حقیقت ہو گا اس وقت جائیداد کی قیمت کچھ نہیں آپ کے پاس روپیہ ہے.آپ اگر چاہیں تو اس روپیہ سے پچاس اچھے اچھے قصبے خرید سکتے ہیں اس میں آپ کی اولاد کی بھی بہتری ہوگی کیونکہ اس جائیداد سے ان کے لئے گزارہ کی معقول صورت پیدا ہو جائے گی اس علاقہ میں ان دنوں چھوٹے چھوٹے زمیندار تھے مگر باہر گوجرانوالہ اور لاہور کے اضلاع میں اچھے اچھے زمیندار تھے جو پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ بلکہ سوسو گاؤں کے مالک تھے.اس لئے انہیں بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ بجائے اس جگہ روپیہ ضائع کرنے کے آپ باہر چالیس پچاس گاؤں خرید لیں مگر انہوں نے جواب دیا کہ اگر باہر ہم نے گاؤں خرید بھی لیے تو ہمارے بچے جب کبھی باہر نکلیں گے اور لوگ ایک دوسرے سے دریافت کریں گے کہ یہ کون ہیں تو وہ آگے سے کہیں گے کہ خبر نہیں کون ہیں کوئی باہر سے آئے ہوئے ہیں لیکن اگر قادیان اور اس کے ارد گرد ہمیں دو ایکٹر زمین بھی مل جائے اور ہماری اولا د فاقوں میں بھی مبتلا ہو جائے تو بھی جب ان کی نسبت کوئی سوال کرے گا کہ یہ کون ہیں؟ تو لوگ جواب دیں گے کبھی یہ ہمارے حاکم اور بادشاہ تھے مگر اب گردش ایام سے غریب ہو گئے ہیں.چنانچہ اسی خیال کے ماتحت انہوں نے ایک لاکھ روپیہ ضائع کر دیا اور قادیان میں انہیں جو تھوڑی سی جائیداد ملی اس پر اکتفا کر لیا.میں سمجھتا ہوں وہ جائیداد جو انہیں ملی وہ اس جائیداد کا پانچ سوواں حصہ بھی نہیں تھی.جو وہ اس روپیہ سے خرید سکتے تھے مگر بہر حال انہوں نے
تذکار مهدی ) 23 روایات سید نا محمود اس تھوڑی سی جائیداد کو خوشی سے قبول کیا لیکن اس مقام کو چھوڑ نا پسند نہ کیا جہاں انہیں اپنے بزرگوں کی وجہ سے ایک رنگ کی حکومت حاصل تھی غرض پرانے خاندانوں کے افراد اپنی خاندانی عزت کو جاتے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتے اور اس کے لئے ہرممکن قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.(الفضل قادیان مورخہ 18 دسمبر 1939 نمبر 281 جلد 27 صفحہ 6 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا ذکر خیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس ذکر میں کہ انسان کو کبھی ہمت نہیں ہارنی چاہئے ہمارے دادا صاحب کا ذکر سنایا کرتے تھے کہ جب ہمارے خاندان کی ریاست جاتی رہی تو ان کے والد صاحب کو یہاں سے نکلنا پڑا اور کپورتھلہ کی ریاست میں پناہ گزیں ہو گئے.اس وقت ریاست والوں نے چاہا کہ آپ کو دو گاؤں گزارہ کے لئے دے دیں لیکن آپ نے نہ لئے اور فرمایا.اگر ہم نے یہ گاؤں لے لئے تو پھر ہم یہیں رہ پڑیں گے اور اس طرح اولاد کی ہمت پست ہو جائے گی اور اپنی خاندانی روایات قائم رکھنے کا خیال اس کے دل سے جاتا رہے گا لیکن وہ رہے ایک لمبے عرصہ تک وہیں.پھر جس وقت ہمارے دادا ذرا بڑے ہوئے تو اس وقت سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ ان کے والد فوت ہوئے.انہوں نے انہیں لا کر قادیان میں دفن کیا اور خود دہلی پڑھنے چلے گئے حالانکہ کوئی سامان میسر نہ تھا ایک میراثی خدمتگار کے طور پر ساتھ گیا، شاید اس زمانہ کے لوگوں میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا تھا کہ اس غربت کی حالت میں اس شخص نے ساتھ نہ چھوڑا، جب دہلی پہنچے تو ایک مسجد میں جہاں مدرسہ تھا جا کر بیٹھ گئے.انہوں نے سناہو ا تھا کہ دہلی شاہی جگہ ہے اور وہاں لڑکوں کو مفت تعلیم ملتی ہے لیکن بیٹھے بیٹھے کئی دن گذر گئے مگر کسی نے ان کا حال تک دریافت نہ کیا اور نہ کھانے کو کچھ دیا.آخر جب تین دن کا فاقہ ہو گیا تو چوتھے دن کسی شخص کو جو خود بھی کنگال تھا خیال آیا کہ انہیں اتنے دن یہاں بیٹھے ہو گئے ہیں انہیں کچھ کھانے کو تو دینا چاہئے چنانچہ وہ ایک سوکھی روٹی لا کر انہیں دے گیا.اس نے جو روٹی ان کے ہاتھ میں دی تو ان کا چہرہ متغیر ہو گیا ہمراہی نے سمجھ لیا کہ معلوم ہوتا ہے روٹی خراب ہے اور انہیں دیکھ کر اپنی گذشتہ حالت یاد آ گئی ہے اور اس کا تصور کر کے تکلیف محسوس ہوئی ہے.اس موقعہ پر اس نے مذاق کے طور پر ان کا دل بہلانے کے لئے کہا.لائیں میرا حصہ مجھے دیں.ان کو پہلے ہی غصہ آیا ہو ا تھا اس کا یہ
تذکار مهدی ) 24 روایات سید نا محمود ) فقرہ سن کر انہوں نے زور سے روٹی اٹھا کر اس کی طرف پھینکی جو اتفاقا اس کی ناک پر لگی اور چونکہ روٹی سوکھی ہوئی تھی اس لئے اس کے لگنے سے اس کی ناک کی ہڈی پر زخم ہو گیا اور خون بہنے لگا.مگر ان تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے تعلیم حاصل کی محنت کی اور اس قدر ہمت سے کام لیا کہ آخر ایک بہت بڑے عالم اور طبیب ہو گئے.واپس آئے تو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ شروع ہو گیا تھا انہوں نے ان کی جائیداد سات گاؤں واگزار کر دیئے اور جنرل کے عہدہ پر فوج میں مقرر کیا.رپورٹ مجلس مشاورت 1937ء صفحہ 21-20) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا کا ہی واقعہ ہے کہ ایک سکھ رئیس ان سے ملنے کے لئے آیا اور اس نے آ کر کہا کہ مرزا صاحب کو اطلاع دی جائے کہ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں.میں نے خود یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ اس وقت کو ٹھے پر تھے.جب انہیں اطلاع ہوئی تو وہ ملاقات کے لئے نیچے اترے.پیچھے پیچھے وہ تھے اور آگے آگے ان کے بیٹے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دادا تھے گویا بیٹا پہلے اتر رہا تھا اور ان کے پیچھے ان کے والد چلے آ رہے تھے جو بہت بڑے بزرگ ہوئے ہیں حتی کہ میں نے خود سکھوں سے سنا ہے کہ لڑائی میں انہیں گولی ماری جاتی تھی تو گولی ان پر اثر نہیں کرتی تھی.جب وہ نصف سیڑھیوں پر پہنچے تو نیچے سے انہیں آواز آئی.سکھ رئیس ان کے بیٹے سے مخاطب ہو کر کہہ رہا تھا.واہ گرو جی کا خالصہ.اس پر ان کے بیٹے نے بھی اسی رنگ میں جواب دیا کہ واہ گرو جی کا خالصہ انہوں نے جب اپنے بیٹے کی زبان سے یہ الفاظ سنے تو إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتے ہوئے وہیں سیڑھیوں سے واپس لوٹ گئے اور فرمانے لگے.سردار صاحب سے کہہ دو کہ میری طبیعت خراب ہو گئی ہے میں ان سے مل نہیں سکتا.پھر اپنے بیٹے کا ذکر کر کے فرمانے لگے کہ اس کے زمانہ میں ہماری ریاست جاتی رہے گی.کیونکہ جس شخص کے اندر اتنی بے غیرتی پیدا ہو گئی ہے کہ اس نے اسلامی شعار کو اختیار نہیں کیا اور جب ایک سکھ نے واہ گورو جی کا خالصہ کہا تو اس نے بھی واہ گورو جی کا خالصہ کہہ دیا وہ ریاست کو کبھی سنبھال نہیں سکے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.خطبات محمود جلد 23 صفحہ 293-292 )
تذکار مهدی ) 25 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دادا کا واقعہ روایات سید نا محمود یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.اگر تم ایسا کرو تو وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا.کہتے ہیں شیر کے سامنے اگر کوئی شخص لیٹ جائے تو وہ اُس پر حملہ نہیں کرتا.بلکہ چپکے سے پاس سے گزر جاتا ہے.اسی طرح جو شخص خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جائے اور اُس کے آستانہ پر گر پڑے تو وہ بھی اس کو مرنے نہیں دیتا اور سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت میری ذلت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک قصہ سنایا کرتے تھے.میاں بدر محی الدین صاحب جو بٹالہ کے رہنے والے تھے.ان کے والد جن کا نام غالبًا پیر غلام محی الدین تھا.ہمارے دادا کے بڑے دوست تھے.اس زمانہ میں لاہور کی بجائے امرتسر میں کمشنری تھی اور کمشنر موجودہ زمانہ کے گورنر کی طرح سمجھا جاتا تھا اور امرتسر میں اپنا در بار لگایا کرتا تھا جس میں علاقہ کے تمام بڑے بڑے رؤسا شامل ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ امرتسر میں دربار لگا تو ہمارے دادا کو بھی دعوت آئی اور چونکہ انہیں معلوم تھا کہ پیر غلام محی الدین صاحب بھی اس دربار میں شامل ہوں گے اس لئے وہ گھوڑے پر سوار ہو کر بٹالہ میں ان کے مکان پر پہنچے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک غریب آدمی پیر غلام محی الدین صاحب کے پاس کھڑا ہے اور وہ اس سے کسی بات پر بحث کر رہے ہیں.جب انہوں نے دادا صاحب کو دیکھا تو کہنے لگے.مرزا صاحب دیکھئے یہ میراثی کیسا بیوقوف ہے کمشنر صاحب کا در بار منعقد ہو رہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ وہاں جا کر کمشنر صاحب سے کہا جائے کہ گورنمنٹ نے اس کی 125 ایکڑ زمین ضبط کر لی ہے.یہ زمین اسے واپس دے دی جائے.بھلا یہ کوئی بات ہے کہ دربار کا موقعہ ہو اور کمشنر صاحب تشریف لائے ہوئے ہوں اور ایک میراثی کو ان کے سامنے پیش کیا جائے اور سفارش کی جائے کہ اس کی 125 ایکٹر زمین جو اسے اس کے کسی عجمان نے دی تھی ضبط ہوگئی ہے اسے واپس دی جائے چونکہ وہ پیر تھے.گو درباری بھی تھے.اس لئے انہیں یہ بات بہت عجیب معلوم ہوئی دادا صاحب نے اس میراثی سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو.چنانچہ وہ اسے ساتھ لے کر امرتسر پہنچے جب کمشنر صاحب دربار میں آئے تو درباریوں کا ان سے تعارف کرایا جانے لگا.جب دادا صاحب کی باری آئی تو انہوں نے کمشنر صاحب سے کہا کہ ذرا اس میراثی کی بانہہ پکڑ لیں وہ کہنے لگا مرزا صاحب اس کا کیا مطلب انہوں نے کہا آپ اس کی بانہہ پکڑ لیں.میں اس کا مطلب بعد میں.
تذکار مهدی ) 26 روایات سید نامحمودی بتاؤں گا.چنانچہ ان کے کہنے پر اس نے اس میراثی کی بانہہ پکڑ لی.اس پر ہمارے دادا صاحب کہنے لگے ہماری پنجابی زبان میں ایک مثال ہے کہ بانہہ پھڑے دی لاج رکھنا کمشنر پھر حیران ہوا اور کہنے لگا مرزا صاحب اس کا کیا مطلب ہے اس پر دادا صاحب نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ جب آپ نے ایک شخص کا بازو پکڑا ہے تو پھر اس بازو پکڑنے کی لاج بھی رکھنا اور اسے چھوڑنا نہیں.وہ کہنے لگا مرزا صاحب آپ یہ بتائیں کہ اس سے آپ کا مقصد کیا ہے انہوں نے کہا اس کی 125 ایکٹر زمین تھی جو اسے اس کے کسی عجمان نے دی تھی.اور حکومت نے اسے ضبط کرنے کا حکم دے دیا ہے ہمارے مغل بادشاہ جب دربار لگایا کرتے تھے تو اس موقعہ پر ہزاروں ایکڑ زمین لوگوں کو بطور انعام دیا کرتے تھے لیکن یہ غریب حیران ہے کہ اس کے پاس جو 125ایکڑ زمین تھی وہ ضبط کر لی گئی ہے.کمشنر پر اس بات کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے اس وقت اپنے منشی کو بلایا اور کہا یہ بات نوٹ کر لو اور حکم دے دو کہ اس شخص کی زمین ضبط نہ کی جائے.اب دیکھو دنیا میں جب ایک انسان بھی بانہہ پھڑے دی لاج رکھتا ہے تو خدا تعالیٰ بانہہ پھڑے دی لاج“ کیوں نہیں رکھے گا.جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اسے کبھی نہیں چھوڑتا.پس دعا ئیں کرو اور اس گر پر قائم رہو.جو شخص اس گر پر عمل کرتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب رہتا ہے.( خطبه جمعه فرمودہ 14 دسمبر 1956ء.الفضل یکم مارچ 1957ء جلد 46/11 نمبر 53 صفحہ 6,5) ابتدائی خاندانی حالات ہماری تائی صاحبہ کے احمدی ہونے میں بڑا دخل مرزا احسن بیگ صاحب کا تھا وہ ان کی بہن کے بیٹے تھے.ان کی ایک بہن اعظم آباد میں بیاہی ہوئی تھی اور اس کے دو بیٹے تھے.ایک مرزا اسلم بیگ صاحب اور دوسرے مرزا احسن بیگ صاحب، مرزا احسن بیگ صاحب ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے.سب سے پہلے ان کی میرے ساتھ دوستی ہوئی اور پھر انہوں نے اسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کر لی.بعد میں ریاست بوندی میں ان کو ہیں ہزار ایکڑ زمین ملی.چونکہ ریاست آباد نہیں ہوئی تھی.اس لئے ریاست کے حکام نے بعض لوگوں کو بڑے بڑے علاقے دے دیئے تھے.کہ ان کو آباد کرو.آخر میں ریاست نے کچھ زمین واپس لے لی کیونکہ وہ اسے آباد نہ کر سکے.مگر پھر بھی چار پانچ گاؤں ان کے پاس رہ گئے.اب
تذکار مهدی ) 0 27 روایات سیّد نا محمود ان کے ایک بیٹے وہاں کام کرتے ہیں.گو ادھر آ جانا ان کے لئے مبارک ہے مگر انہیں لالچ ہے کہ پانچ گاؤں کیسے چھوڑوں.اگر میں پاکستان آ گیا تو پیچھے گورنمنٹ یہ جائیداد ضبط کر لے گی.اس لئے وہ وہیں بیٹھے ہوئے ہیں حالانکہ ان کی ماں ایک بڑی مخلص احمدی تھیں اور ان کا باپ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا تھا.غرض تائی صاحبہ کی یہ بہن اعظم آباد میں بیاہی گئی تھیں اور اعظم آباد والے اپنے آپ کو بڑا کیس سمجھتے تھے.سارا شاہدرہ ان کے پاس تھا.مرزا اعظم بیگ صاحب جو ان کے بڑے ہیڈ تھے وہ سب سے پہلے ہندوستانی تھے جو سیٹلمنٹ آفیسر بنے اس سے پہلے صرف انگریز ہی اس عہدہ پر پہنچتے تھے.پھر وہ کابل میں بھی رہے اور وہاں ایمبسی میں ان کو بڑے عہدہ پر رکھا گیا.بعد میں وہ ہزارہ میں سیٹلمنٹ آفیسر بن گئے.وہاں انہوں نے اپنی امارت کے گھمنڈ میں بڑے بڑے ظلم بھی کئے.چنانچہ ایک دفعہ میں کشمیر سے واپس آ رہا تھا تو مولوی سید سرور شاہ صاحب کے جو ہزارہ کے ہی رہنے والے تھے مجھے سنایا کہ جب مرزا صاحب یہاں سیٹلمنٹ آفیسر بن کر آئے تو انہوں نے اپنے غرور میں فلاں رئیس کو کہا کہ تمہارا گھوڑا مجھے بہت پسند آیا ہے.وہ مجھے بھیج دو اور پھر کہا کہ دیکھنا یہ گھوڑا آج شام تک میرے پاس پہنچ جائے.مولوی سرور شاہ صاحب نے بتایا کہ وہ رئیس اتنا مالدار تھا کہ سارا علاقہ اس کے پاس تھا مگر جب انہوں نے اس کو حکم دیا تو وہ بھی چونکہ نواب اور رئیس تھا اڑ گیا اور کہنے لگا مرزا صاحب اگر آپ مجھے کسی اور کی معرفت کہلا بھیجتے کہ مجھے گھوڑا دے دو تو ایک نہیں میں دس گھوڑے بھی دے دیتا مگر آپ نے حکم دیا ہے تو اب چاہے آپ میری ساری جائیداد تباہ کر دیں اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں میں گھوڑا نہیں دوں گا.چنانچہ انہوں نے سیٹلمنٹ میں اس کی تمام جائیداد اس کے رشتہ داروں کے نام لکھ دی اور اس کو تباہ کر دیا.مولوی صاحب کہنے لگے وہ اب تک غریب چلے آتے ہیں.حالانکہ پہلے وہ بہت ہی صاحب رسوخ تھے غرض ان کے خاندان میں ہماری وہ پھوپھی بیاہی گئی تھیں اور ہمارے دادا کی ناپسندیدگی کے باوجود بیاہی گئی تھیں مرزا اعظم بیگ صاحب جو اس خاندان کے مورث اعلیٰ تھے انہوں نے ہمارے دادا کے پاس پیغام بھیجا کہ ہم قادیان دیکھنا چاہتے ہیں وہ چغتائی خاندان کے مغل تھے اور ہم برلاس خاندان کے ہیں اور برلاس چغتائیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں پرانے زمانہ میں یہ طریق رائج تھا کہ اگر کوئی کہے کہ ہم آپ کا گاؤں دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم آپ کی لڑکی لینا چاہتے ہیں جب مرزا اعظم بیگ صاحب نے یہ پیغام بھیجا تو ہمارے
تذکار مهدی ) 28 روایات سید نامحمودی دادا جلال میں آگئے اور کہنے لگے تم چغتائیوں کو بھی یہ جرات ہو سکتی ہے کہ ہم سے لڑکیاں مانگو.جاؤ اور ان سے کہہ دو کہ ہمیں نہیں منظور.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ ہمارے باپ کے غرور کا ہی یہ نتیجہ نکلا کہ ان کی وفات کے بعد ہماری تین لڑکیاں ان کے خاندان میں بیاہی گئیں جن میں سے ایک تو یہی ہماری پھوپھی تھیں اور ایک اور چچا کی لڑکی تھی اس طرح ان کے گھر میں ہماری لڑکیوں کا اچھا خاصا اجتماع ہو گیا.پھر نہ صرف ہماری لڑکیاں ہی ان کے ہاں گئیں بلکہ ہماری جائیدادیں بھی ان کے قبضہ میں جانی شروع ہوئیں یہاں تک کہ قادیان کے سوا ہماری ساری جائیداد ان لوگوں کے پاس چلی گئی.چنانچہ راج پورہ جو میں نے بعد میں میں ہزار روپیہ میں خریدا وہ انہی لوگوں کے پاس چلا گیا تھا پھر محلہ دارالرحمت جہاں بنا ہے وہ حصہ بھی ان لوگوں کے پاس چلا گیا تھا یہ جائیداد ان کے پڑپوتے مرزا اکرم بیگ نے ایک سکھ کے پاس اٹھارہ ہزار روپے میں بیچ دی تھی جو بعد میں حق شفعہ کے ذریعے ہم نے واپس لی.مرزا اکرم بیگ کے والد مرزا افضل بیگ صاحب ایک ریاست میں سپرنٹنڈنٹ پولیس تھے اور ناچ گانے کا انہیں شوق تھا شراب کی بھی عادت پڑی ہوئی تھی مگر آخر میں انہوں نے ان تمام عادتوں سے توبہ کر لی اور قادیان آگئے بیعت کے بعد وہ ایک دفعہ بیمار ہوئے اور علاج کے لئے لاہور گئے تو ڈاکٹر نے کہا کہ اگر آپ تھوڑی سی شراب پی لیں تو آپ بچ سکتے ہیں.وہ کہنے لگے ایک دفعہ میں نے شراب سے توبہ کرلی ہے اب میں نہیں پیوں گا چنانچہ وہ مر گئے لیکن انہوں نے شراب کو نہیں چھوا غرض بیعت کے وقت جو انہوں نے عہد کیا تھا اُس پر وہ پورے اُترے لیکن ان کا بیٹا اچھا نہ نکلا اُس نے دار الرحمت والی زمین ایک سکھ کے پاس بیچ دی تھی.شیخ مختار احمد صاحب ایک غیر احمدی بیرسٹر تھے جو ہم سے بہت محبت رکھتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے انہوں نے مجھے لکھا کہ آپ کی اتنی قیمتی جائیداد ہے جو اکرم بیگ نے فلاں سکھ کو اٹھارہ ہزار روپیہ میں دے دی ہے.یہ بڑی قیمتی جائیداد ہے اگر آپ اٹھارہ ہزار روپیہ کا بندو بست کر لیں تو یہ جائیداد آپ واپس لے لیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت ہی قیمتی جائیداد تھی.چنانچہ بعد میں ہم نے اس سے پانچ لاکھ روپیہ کمایا.( خطبه جمعه بیان فرمودہ 28 مارچ 1958 ء.الفضل ربوہ 12 اپریل 1958ء جلد 47/12 نمبر 86 صفحہ 5-4)
تذکار مهدی ) خاندان بادشاہوں کی نسل سے روایات سید نا محمودی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا خاندان بادشاہوں کی نسل میں سے ہے.چنانچہ ہمارے خاندان کا مورث اعلیٰ مرزا ہادی بیگ صاحب حاجی برلاس کی اولاد میں سے تھے جو امیر تیمور کے چچا تھے اور جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ علاقہ کش کے اصل بادشاہ حاجی برلاس ہی تھے ، تیمور نے حملہ کر کے ان کے علاقہ پر قبضہ کر لیا تھا.اسی وجہ سے ہمارے خاندان کے افراد جاہلیت کے زمانہ میں جبکہ احمدیت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی اور جبکہ قرآنی تعلیم ان کے دلوں میں راسخ نہیں ہوئی تھی، تیموری نسل کی لڑکیاں تو لے لیتے تھے مگر تیموری نسل کے مغلوں کو اپنی لڑکیاں نہیں دیتے تھے کیونکہ وہ اُن کو اپنے مقابلہ میں ادنی سمجھتے تھے.لیکن بہر حال جہاں تک ظاہری وجاہت کا سوال ہے وہ قریباً قریباً تباہ اور برباد ہو چکی تھی.مغلیہ سلطنت کے مٹنے کے بعد جب سکھوں کا دور شروع ہوا تو اُس وقت ہماری تمام ریاست سکھوں کے قبضہ میں چلی گئی.اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے ہمارے پانچ گاؤں واگزار کر دیئے.مگر جب انگریزی حکومت کا دور شروع ہوا تو اُس وقت پھر ہماری خاندانی ریاست کو صدمہ پہنچا اور ہماری وہ جائیداد بھی ضبط کر لی گئی جو کسی قدر باقی رہ گئی تھی.یہ ہمارے خاندان کی حالت تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا.اگر ہماری یہ ریاست اپنی پہلی حالت میں قائم ہوتی تب بھی ایک چھوٹی سی ریاست ہوتی اور اتنی چھوٹی ریاست کو بھلا پوچھتا ہی کون ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اتنی ریاست بھی پسند نہ کی تاکہ اُس کی صفات پر کوئی دھبہ نہ آئے اور لوگ یہ نہ کہیں کہ سابقہ عزت کی وجہ سے انہیں ترقی حاصل ہوئی ہے.ہمارے دادا کو بڑا فکر رہتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو کسی ایسے کام پر لگا دیں جس سے وہ اپنا گزارہ آسانی کے ساتھ کر سکے.مہاراجہ کپورتھلہ کے شاہی خاندان سے بھی ہمارے خاندان کے چونکہ پرانے تعلقات ہیں اس لئے انہوں نے کوشش کر کے بانی سلسلہ احمدیہ کے لئے وہاں ایک معزز عہدہ تلاش کر لیا.چنانچہ ان کے لئے انسپکٹر جنرل آف ایجوکیشن کے عہدہ کی منظوری آ گئی.قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں ہے وہاں ایک سکھ صاحب رہا کرتے تھے جو اکثر ہمارے دادا کے پاس آیا جایا کرتے تھے.انہوں نے خود سنایا کہ میں اور میرا بھائی اکثر بڑے مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آ جایا کرتے تھے.ایک دفعہ ہم دونوں ان سے ملنے کے لئے گئے تو وہ کہنے لگے کہ مرزا غلام احمد کو دنیا کی طرف کوئی توجہ نہیں میں حیران ہوں کہ میرے مرنے
تذکار مهدی ) 30 روایات سید نا محمود کے بعد اس کا کیا حال ہوگا.میں نے اس کے متعلق کپورتھلہ میں کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں وہاں سے آرڈر آ گیا ہے کہ اسے ریاست کا افسر تعلیم مقرر کیا جاتا ہے.میں اگر اسے کہوں تو شاید مجھے جواب نہ دے تم دونوں اس کے ہم عمر ہو تم اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ وہ اس عہدہ کو قبول کر لے.وہ سناتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی ان کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ مبارک ہو ریاست کپورتھلہ کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ آپ وہاں کے افسر تعلیم مقرر کئے گئے ہیں.آپ کے والد صاحب کی خواہش ہے کہ آپ یہ نوکری اختیار کر لیں اور ریاست کپورتھلہ میں چلے جائیں.وہ کہتے ہیں جس وقت ہم نے یہ بات کہی اُنہوں نے ایک آہ ھیچی اور کہا والد صاحب تو خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے تو جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا اب میں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.وہ کہتے ہیں ہم دونوں واپس آگئے اور آپ کے دادا صاحب کو کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ والد صاحب یونہی بے فائدہ فکر کر رہے ہیں میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی آب میں کسی اور کی نوکری کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر وہ کہتے ہیں کہ آپ کے دادا صاحب نے کہا اگر اس نے یہ کہا ہے تو خیر رہنے دو وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا.پھر جب آپ بڑے ہوئے تو اُس وقت بھی ساری جائیداد آپ کے بھائی کے قبضہ میں رہی.آپ نے اُس میں سے اپنا حصہ نہ لیا.جائیدادخدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تھی بلکہ آب تک اس قدر جائیداد ہے کہ باوجود اس کے کہ ایک لمبے عرصے تک ہم اس کو بیچ کر کھاتے رہے ہیں، پھر بھی وہ لاکھوں روپیہ کی موجود ہے.غرض جائیداد تھی مگر وہ سب ہمارے تایا صاحب کے قبضہ میں تھی.بانی سلسلہ احمدیہ اس جائیداد میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے تھے.جب ہمارے تا یا صاحب فوت ہو گئے تو آپ نے پھر بھی جائیداد نہ لی اور وہ تائی صاحبہ کے پاس چلی گئی.آپ کو کھانا ہماری تائی صاحبہ ہی بھجواتی تھیں اور چونکہ وہ آپ کی شدید مخالف تھیں ادھر آپ بہت بڑے مہمان نواز تھے اس لئے بسا اوقات جب آپ ہماری تائی صاحبہ کو کہلا بھیجتے کہ آج ایک مہمان آیا ہوا ہے اُس کے لئے بھی کھانا بھجوا دیا جائے تو وہ صرف آپ کا کھانا بھجوا دیتیں اور مہمان کے لئے کوئی کھانا نہ بھجواتیں.اس پر ہمیشہ آپ اپنا کھانا مہمان کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کر لیتے.اُس زمانہ کے آدمی سنایا کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی مہمان آپ کے پاس آتا آپ
تذکار مهدی ) 31 روایات سید نا محمودی چُپ کر کے اپنا کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیتے اور خود بھو کے رہتے یا چنوں وغیرہ پر گزارہ کر لیتے.ایک شخص نے سنایا کہ میں ایک دفعہ قریباً چالیس دن تک آپ کا مہمان رہا.آپ با قاعدہ صبح و شام اندر سے جو کھانا آتا وہ مجھے کھلا دیتے اور آپ دانے چبا کر گزارہ کر لیتے.آپ خود فرماتے ہیں.لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ اكُلِي الاهَالِي کہ اے لوگو! تم کو یاد نہیں ایک دن میرا یہ حال تھا کہ دستر خوانوں کے بچے ہوئے ٹکڑے میرے کھانے میں آیا کرتے تھے یعنی دوسروں کے رحم و کرم پر میرا گزارہ تھا لیکن آج یہ حال ہے کہ میرے ذریعہ سے کئی خاندان پرورش پا رہے ہیں.ایسی حالت میں آپ کو خبر دی گئی کہ اسلام کی خدمت کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ کو کچن لیا ہے.جس وقت یہ آواز آپ کے کان میں پڑی آپ کی حالت یہ تھی کہ اور لوگ تو الگ رہے خود قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہیں جانتے تھے.میں نے خود قادیان کے کئی باشندوں سے سُنا ہے کہ ہم سمجھتے تھے بڑے مرزا صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے دوسرے کا ہمیں علم نہیں تھا.آپ اکثر مسجد کے حجرے میں بیٹھے رہتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہتے.اُس وقت خدا تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ آپ کو بہت بڑی برکت دے گا اور آپ کا نام عزت کے ساتھ دنیا کے کناروں تک پھیلائے گا.یہ الہام بھی ایک عجیب موقع پر ہوا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اہلحدیث کے ایک مشہور لیڈر تھے جب وہ نئے نئے مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی پڑھ کر آئے تو اُس وقت حنفیوں کا بہت زور تھا اور اہلحدیث کم تھے.مولوی محمد حسین صاحب جب تعلیم سے فارغ ہو کر بٹالہ میں آئے تو ایک شور مچ گیا کہ یہ مولوی لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرنا چاہتا ہے.اتفاقاً انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اپنے کسی کام کے لئے بٹالہ تشریف لے گئے.لوگوں نے زور دیا کہ آپ چلیں اور مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کریں کیونکہ وہ بزرگوں کی ہتک کرتا ہے اور اسلام پر تبر چلا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن کے ساتھ جامع مسجد میں چلے گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی وہیں
تذکار مهدی ) 32 روایات سید نا محمود موجود تھے.آپ نے اُن سے کہا کہ مولوی صاحب ! مجھے معلوم نہیں آپ کے کیا عقائد ہیں.پہلے آپ اپنے عقائد بیان کریں اگر وہ غلط ہوئے تو میں ان کی تردید کروں گا اور اگر صحیح ہوئے تو انہیں تسلیم کرلوں گا.مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر ایک مختصر تقریر کی جس میں بیان کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر، قرآن کریم پر اورمحمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتے ہیں.قرآن چونکہ خدا تعالیٰ کا ایک یقینی اور قطعی کلام ہے اس لئے ہم اسے سب سے مقدم قرار دیتے ہیں اور جو کچھ قرآن میں لکھا ہے اسے مانتے ہیں.دوسرے نمبر پر ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ہمارے لئے قابل عمل ہے اور اگر کوئی حدیث قرآن کے مخالف ہو تو اس صورت میں ہم قرآن کریم کے بیان کو ترجیح دیتے ہیں اور اگر کوئی بات ہمیں قرآن اور حدیث دونوں میں نظر نہ آئے تو پھر قرآن اور حدیث کی روشنی میں جو کچھ ہمیں سمجھ آئے اس پر ہم عمل کرتے ہیں.جب انہوں نے یہ تقریر کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سن کر فرمایا یہ تو بالکل ٹھیک باتیں ہیں ان میں سے کسی کی تردید کی ضرورت نہیں.وہ ہزاروں آدمی جو آپ کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے اُن سب نے کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور بُرا بھلا کہنے لگے کہ تم ڈرپوک ہو، بزدل ہو، ہار گئے ہو.غرض آپ پر خوب نعرے کیسے گئے.آپ گئے تھے ہزاروں کے ہجوم میں اور نکلے ایسی حالت میں جبکہ لوگ آپ کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے.گئے تھے ایسی حالت میں کہ لوگ سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کہتے جا رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ ہم اسلام کا ایک پہلوان اپنے ساتھ لئے جا رہے ہیں مگر نکلے ایسی حالت میں کہ لوگ آپ کو ایک بھگوڑا قرار دے رہے تھے اور آپ کے خلاف نعرے گس رہے تھے.مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے واپس چل پڑے.اُسی رات آپ پر الہام نازل ہوا کہ:.تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ غرض آپ پر یہ الہام ہوا اور آپ نے اُسی وقت اس الہام کو دنیا میں شائع کر دیا.تب دنیا میں چاروں طرف سے آپ کے خلاف آوازیں اُٹھنی شروع ہو گئیں.بعضوں نے کہا مگار
تذکار مهدی ) 33 روایات سید نا محمود ) ہے اور اس ذریعہ سے اپنی عزت بڑھانا چاہتا ہے، بعضوں نے کہا یہ شخص یونہی اسلام کی تائید کر رہا ہے ورنہ در حقیقت اسلام میں سچائی پائی ہی نہیں جاتی.غرض جو لوگ اسلام کے قائل تھے انہوں نے بھی اور جو لوگ اسلام کے قائل نہیں تھے انہوں نے بھی ہر رنگ میں آپ کی تضحیک شروع کر دی.اُس وقت خصوصیت سے پنڈت لیکھرام نے شور مچایا کہ یہ جو معجزات دکھانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں سب غلط اور بے بنیاد ہیں.اگر اسلام سچا ہے، اگر قرآن سچا ہے اور اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں تو ہمیں کوئی نشان دکھایا جائے.اسی طرح ایک منشی اندر من صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے انہوں نے بھی شور مچایا کہ یہ نشان نمائی کے دعوے سب غلط ہیں اگر اسلام کی صداقت میں نشان دکھایا جا سکتا ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے.اسی طرح قادیان کے ہندوؤں نے بھی یہ مطالبہ کیا اور مسلمانوں میں سے بہت سے لوگ ان کے ہمنوا ہو گئے.چنانچہ انہی میں سے لدھیانہ کا ایک خاندان ہے جو اپنی مخالفت پر ہمیشہ فخر کیا کرتا ہے اُس کے خیال میں اُس کا یہ فعل قابل فخر ہے مگر ہمارے نزدیک یہ اس خاندان کی بد قسمتی ہے کہ وہ ابتدا سے جماعت احمدیہ کی مخالفت کر رہا ہے.بہر حال جب ان لوگوں نے بہت شور مچایا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! میرے ہاتھ پر اسلام کی تائید میں کوئی ایسا نشان دکھا جسے دیکھنے کے بعد ہر شخص یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو کہ ایسا نشان انسانی تدبیر اور کوشش سے ظاہر نہیں ہوسکتا.مزید برآں یہ نشان ایسا ہو جو رسول کریم ﷺ اور قرآن کریم کی حقانیت کو روشن کرے اور خدا کا جلال دنیا میں ظاہر ہو.چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ ہوشیار پور جائیں اور وہاں اس مقصد کے لئے دعا کریں.اس پر آپ صرف تین آدمیوں کے ساتھ ہوشیار پور تشریف لے گئے.ان میں سے ایک کھانا پکاتا تھا، ایک سو دالا تا تھا اور ایک دروازے پر بیٹھا رہتا تھا تا کہ کوئی شخص آپ سے ملنے کے لئے اندر نہ جائے.وہاں ایک مکان میں جو اُن دنوں شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پورکا طویلہ کہلا تا تھا آپ فروکش ہوئے.آب یہ مکان ایک معزز ہندو دوست سیٹھ ہرکشن داس صاحب کی ملکیت میں ہے.سیٹھ صاحب بڑے بھاری تاجر ہیں.ان کی چین میں بھی تجارت ہے اور بعض دوسرے ممالک میں بھی، ان کے چائے کے باغات بھی ہیں.غرض اس کے بالا خانہ پر بیٹھ کر آپ چالیس دن مسلسل اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا کرتے رہے کہ اے خدا! اسلام کی شوکت اور محمد رسول اللہ
34 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے اظہار کے لئے مجھے کوئی ایسا نشان دے جولوگوں کے لئے نا قابل انکار ہو اور جس کو دیکھ کر وہی لوگ انکار کر سکیں جو ضد کی وجہ سے ہدایت سے محروم رہتے ہیں.چنانچہ اُس وقت آپ پر وہ الہامات نازل ہوئے جو 20 فروری 1886ء کے اشتہار میں درج ہیں.جس وقت آپ نے یہ اعلان کیا اُس وقت آپ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا نہ تھا، جبکہ جماعت احمدیہ کا وجود بھی ابھی تک قائم نہیں ہوا تھا.یہ اشتہار 1886ء کا ہے اور آپ نے لوگوں سے بیعت اس اشتہار کے تین سال بعد 1889ء میں لی ہے.گویا بیعت سے تین سال پہلے 1886ء میں خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ تمہارے ہاں ایک بیٹا ہوگا اور وہ یہ یہ صفات اور کمالات اپنے اندر رکھتا ہوگا جیسا کہ میں ابھی اُن کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کروں گا.بہر حال آپ نے یہ پیشگوئی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شائع فرما دی اور دنیا میں اعلان فرما دیا کہ میرے ہاں ایک ایسا لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کے عروج کا باعث ہوگا.جب آپ نے یہ پیشگوئی شائع فرمائی لوگوں نے شور مچا دیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے ہمیشہ لوگوں کے ہاں بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں.حالانکہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب آپ کو یہ الہام ہوا اُس وقت آپ کی عمر باون سال کی تھی اور اُس وقت آپ نے یہ بھی شائع فرما دیا تھا کہ میری اور بھی بہت سی اولاد ہوگی جن میں سے کچھ زندہ رہیں گے اور کچھ بچپن میں فوت ہو جائیں گے اور یہ بھی پیشگوئی کی تھی کہ چار لڑکوں کا میرے ہاں پیدا ہونا ضروری ہے.غرض آپ نے یہ پیشگوئی اُس وقت کی جب آپ کی عمر باون سال کی تھی اور 52 سال کی عمر میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جن کی آئندہ اولاد ہونی بند ہو جاتی ہے لیکن اگر اولا د ہو بھی تو کون کہہ سکتا ہے کہ میرے ہاں بیٹے پیدا ہوں گے.یا اگر بیٹے ہوں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ زندہ رہیں گے اور اگر بعض بیٹے زندہ بھی رہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ چار ضرور ہوں گے.غرض کوئی شخص اپنی طرف سے ایسی بات نہیں کہہ سکتا جب تک خدا اُسے خبر نہ دے.بہر حال لوگوں نے اعتراض کیا کہ بیٹا ہونا کونسی بڑی بات ہے لوگوں کے ہاں ہمیشہ بیٹے پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کسی نے اس کو نشان قرار نہیں دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا کہ اول تو میری عمر اس وقت بڑھاپے کی ہے.جوانی میں بھی انسان کی زندگی کا اعتبار نہیں ہوتا مگر بڑھاپے میں تو ایک دن کے لئے بھی انسان وثوق
تذکار مهدی ) 35 روایات سید نامحمود کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زندہ رہے گا کجا یہ کہ وہ اس قدر لمبا عرصہ رہے کہ اُس کے ہاں چار بیٹے پیدا ہو جا ئیں.پھر اصل سوال یہ نہیں کہ اس عمر میں بچے پیدا ہو سکتے ہیں یا نہیں.بعض دفعہ سو سال کی عمر میں بھی انسان کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن کیا اس شان کا بیٹا بھی اتفاقی طور پر پیدا ہو سکتا ہے جس شان کا بیٹا پیدا ہونے کی میں خبر دے رہا ہوں.کیا یہ میرے اختیار کی بات ہے کہ میں بیٹا پیدا کروں اور وہ بیٹا بھی ایسا جو دنیا کے کناروں تک شہرت پائے اور خدا تعالیٰ کا کلام اُس پر نازل ہو.اگر ایسی پیشگوئی کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ مرزا صاحب نے اپنی طرف سے بنالی تو ماننا پڑے گا کہ مرزا صاحب نَعُوذُ بِاللہ خدا ہیں کیونکہ باتیں آپ نے وہ کہیں جو خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں کہہ سکتا اور اگر وہ خدا نہیں اور اگر مرزا صاحب کو خدا قرار دینا یقیناً شرک ہے، وہ اُس کے بندوں میں سے ایک بندے تھے تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ باتیں جو انہوں نے کہیں ناممکن ہے کہ کوئی انسان اپنی طرف سے کہے اور پھر وہ پوری ہو سکیں.چنانچہ انہی پیشگوئیوں میں سے ایک پیشگوئی یہ بھی تھی کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہوگا.اس کے معنی اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سمجھ میں نہیں آئے مگر ان الفاظ میں جو بات بیان کی گئی تھی وہ 1889ء میں آکر پوری ہو گئی.پیشگوئی میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اُس لڑکے کا نام محمود ہوگا اور چونکہ اُس کا ایک نام بشیر ثانی بھی رکھا گیا تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا گیا اور خدا تعالی کی عجیب قدرت ہے کہ وہ جو پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا یہ امرکئی رنگوں میں میرے ذریعہ سے پورا ہو گیا.چنانچہ انہی میں سے ایک بات یہ ہے کہ یہ پیشگوئی 1886ء میں شائع کی گئی تھی.پس 1886 ء ایک، 1887ء دو، اور 1888ء تین اور 1889ء چار ہوئے اور 1889ء ہی وہ سال ہے جس میں میری پیدائش ہوئی.پس تین کو چار کرنے والے کا مطلب یہ تھا کہ آج سے چوتھے سال وہ لڑکا تولد ہوگا.چنانچہ اس پیشگوئی کے عین چوتھے سال 12 جنوری 1889ء کو میری پیدائش ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان شائع کیا کہ وہ جو مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی وہ پیدا ہو گیا ہے.مگر ابھی اس بارے میں انکشاف تام نہیں ہوا کہ یہی وہ لڑکا ہے جس کا
تذکار مهدی ) 36 روایات سید نا محمودی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ دیا گیا تھا یا وہ کسی اور وقت پیدا ہوگا اور آپ نے تفاؤل کے طور پر میرا نام بشیر اور محمود رکھ دیا.پھر تین کو چار کرنے والی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی میرے ذریعہ سے پوری ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی بیوی سے مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب دو بیٹے ہوئے تیسرا بیٹا ہماری والدہ سے بشیر احمد اوّل پیدا ہوا اور چوتھا میں پیدا ہوا.گویا پیشگوئی میں بتایا یہ گیا تھا کہ وہ چوتھا بیٹا ہو گا اور اپنی پیدائش کے ساتھ تین بیٹوں کو چار کر دے گا.اب یہ جو پیشگوئی ہے اس کے دو بہت بڑے اور اہم حصے ہیں.پہلا حصہ اس پیشگوئی کا یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اب خالی بیٹا ہونے سے آپ کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک ایسے کام آپ سے ظاہر نہ ہوتے جن سے ساری دنیا میں آپ مشہور ہو جاتے.بعض بڑے بڑے مصنف ہوتے ہیں اور وہ ساری عمر تصنیف و تالیف میں مصروف رہتے ہیں.اس وجہ سے اُن کا نام مشہور ہو جاتا ہے.بعض بُرے کام کرتے ہیں اور اِس وجہ سے مشہور ہو جاتے ہیں.بعض بڑے بڑے چوروں اور ڈاکوؤں کے نام سے بھی لوگ آشنا ہوتے ہیں لیکن بہر حال اُن کی اچھی یا بری شہرت ساری دنیا تک نہیں ہوتی کسی ایک علاقہ یا ایک حصہ ملک میں اُن کی شہرت ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خبر دی تھی کہ وہ آپ کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا.پس یہ پیش گوئی اسی صورت میں عظیم الشان پیش گوئی کہلا سکتی تھی جب آپ کی شہرت غیر معمولی حالات میں ہوتی ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا.جب میں پیدا ہوا تو اس کے دواڑھائی ماہ کے بعد آپ نے لوگوں سے بیعت لی اور اس طرح سلسلہ احمدیہ کی بنیاد دنیا میں قائم ہوگئی.23 / مارچ 1889ء کو ہمارے سلسلہ کی بنیاد پڑی ہے اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو حالت تھی وہ اس سے ظاہر ہے کہ تمام مسلمان آپ کے دشمن تھے.اپنے کیا اور بیگانے کیا، رشتہ دار کیا اور غیر رشتہ دار کیا، سب آپ کی مخالفت کرنے لگ گئے یہاں تک
تذکار مهدی ) 37 در روایات سید نا محمود کہ گورنمنٹ کی نظروں میں بھی آپ کا دعویٰ کھٹکنے لگا کیونکہ آپ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں مہدی ہوں اور مہدی کے متعلق مسلمانوں میں مشہور تھا کہ وہ کفار کا خون بہائے گا.پس گورنمنٹ کو شبہ پڑا کہ ایسا نہ ہو اس کے ذریعہ دنیا میں کوئی فساد پیدا ہو.چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے اُس وقت قادیان میں ہمیشہ ایک کانسٹیبل رہتا تھا اور جو شخص بھی آپ سے ملنے کے لئے آتا اُس کا نام نوٹ کر کے وہ گورنمنٹ کو اطلاع دے دیتا اور اگر کبھی کوئی سرکاری افسر احمدی ہو جاتا تو بالا افسر ا سے اشاروں ہی اشاروں میں سمجھاتے کہ گورنمنٹ کی نظر میں یہ فرقہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تمہیں اس میں شامل ہونے سے اجتناب اختیار کرنا چاہئے.یہ مخالفت آخر بڑھتے بڑھتے اتنی شدید ہوئی کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بچپن سے آپ کے دوست تھے اور ہمیشہ آپ سے تعلقات رکھتے تھے جنہوں نے براہین احمدیہ پر ایک زبردست ریویو بھی لکھا تھا وہ بھی آپ کے مخالف ہو گئے اور انہوں نے اپنے رسالہ اشاعۃ السنتہ میں یہ الفاظ لکھے کہ میں نے اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس کو گراؤں گا.اسی شہر لاہور کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مریض کی عیادت کیلئے سنہری مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور بند گاڑی میں سوار ہوئے.اُن دنوں بند گاڑی کو شکرم کہا جاتا تھا.جب آپ دہلی دروازہ سے روانہ ہوئے تو وہاں اُن دنوں ایک چبوترہ ہوا کرتا تھا.میں نے دیکھا کہ اس چبوترے پر کھڑے ہو کر ایک شخص شور مچار رہا تھا کہ دیکھو! یہ س مرتد ہے، کافر ہے، اس پر پتھر پھینکو گے تو ثواب حاصل ہوگا اور اُس کے اردگرد بہت بڑا ہجوم تھا.جب گاڑی قریب سے گزری تو لوگ آپ پر لعنتیں ڈالنے لگے اور آوازیں کسنے لگے.بعض نے آپ پر پتھر بھی پھینکے اور گالیاں دینی شروع کر دیں.میرے لئے بچپن کے لحاظ سے ایک عجیب بات تھی.میں نے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا اور میں نے دیکھا کہ اُس شخص کے پاس جو یہ شور مچا رہا تھا ایک اور شخص کھڑا تھا اور بڑا سائبہ پہنے ہوئے تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ بھی کوئی مولوی ہے مگر اُس کا ایک ہاتھ کٹا ہوا تھا اور اُس پر زرد زرد ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں میں نے دیکھا کہ وہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا مرزائٹھ گیا، مرزا ٹھ گیا.گویا وہ اپنے زخمی ہاتھ کو بھی دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ سمجھتا تھا کہ وہ ایک ثواب کا کام کر رہا ہے.پھر یہیں لاہور میں میلا رام کے منڈوہ میں 1904ء میں آپ کا ایک دفعہ لیکچر ہوا.
تذکار مهدی ) 38 روایات سید نا محمود محمود خان صاحب ڈپٹی انسپکٹر پولیس کے والد رحمت اللہ خان صاحب اُن دنوں شہر کے کوتوال تھے انہوں نے پولیس کا بڑا اچھا انتظام کیا مگر پھر بھی چاروں طرف سے انہیں اس قدر فساد کی رپورٹیں پہنچیں کہ انہوں نے چھاؤنی سے گورا سپاہی منگوائے اور آپ کے آگے پیچھے کھڑے کر دیئے.پھر مجھے وہ نظارہ بھی خوب یاد ہے جبکہ قادیان میں جس کا واحد مالک ہمارا خاندان ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا اور لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا گیا، چوڑ ہوں کو کہا گیا کہ وہ صفائی نہ کریں، کمہاروں کو کہا گیا کہ وہ برتن نہ بنائیں، سقوں کو کہا گیا کہ وہ پانی نہ بھریں، نائیوں کو کہا گیا کہ وہ حجامت نہ بنائیں، قلعی گروں کو کہا گیا کہ وہ آپ کے برتنوں پر قلعی نہ کریں.غرض نہ کوئی صفائی کرتا، نہ کوئی قلعی کرتا بڑی مصیبت سے ارد گرد کے گاؤں والوں سے اِن ضروریات کو پورا کیا جاتا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازے پر آپ کی مسجد کے سامنے دیوار کھینچ دی گئی تاکہ کوئی شخص اس میں نماز پڑھنے کے لئے نہ آ سکے.اسی طرح آپ پر مختلف قسم کے مقدمات دائر کئے گئے اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر چاہا کہ آپ کو مٹادیا جائے.یہاں تک کہ ایک پادری نے آپ پر اقدام قتل کا نہایت جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا اور ایک شخص کو پیش کیا جو کہتا تھا کہ مجھے مرزا صاحب نے اس پادری کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے.آخر اسی شخص نے عدالت کے سامنے اقرار کیا کہ مجھے جھوٹ سکھایا گیا تھا تا کہ کسی طرح مرزا صاحب سزا یاب ہوں ورنہ وہ اس الزام سے بالکل بری ہیں.کرنل ڈگلس جو ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے اُن کے سامنے ہی مقدمہ پیش ہوا اور باوجود اس کے کہ یہ مقدمہ عیسائیوں کی طرف سے تھا اور اس بناء پر تھا کہ مرزا صاحب اسلام کی تائید کرتے اور عیسائیوں کو دجال قرار دیتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی عیسائیوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت میں پیش ہوئے.یہ وہی شخص تھے جنہوں نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی انہیں گراؤں گا.مسٹر ڈگلس جن کے سامنے یہ کیس پیش ہوا ( اور جو 25 فروری 1957ء کو لنڈن میں وفات پاگئے ہیں ) پہلے ایسے متعصب عیسائی تھے کہ جب وہ گورداسپور آئے تو انہوں نے آتے
تذکار مهدی ) 39 روایات سیّد نا محمود ہی اس بات پر اظہار تعجب کیا کہ ابھی تک اس شخص کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا جو اپنے آپ کو مسیح موعود کہتا ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بٹالہ میں اُن کے سامنے پیش ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھتے ہی اُن کی طبیعت پر ایسا اثر پڑا کہ انہیں یقین ہو گیا که یه شخص مجرم نہیں ہو سکتا.چنانچہ مسٹر ڈگلس ڈپٹی کمشنر نے ڈائس پر اپنے پہلو میں کرسی بچھوائی اور اُس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تشریف رکھنے کے لئے کہا.یہ وہی دن تھا جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی شہادت تھی وہ اس امید پر آئے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی اور وہ ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے.مگر جب وہ اندر آئے تو انہوں نے دیکھا کہ مدعی اور اُس کے ساتھی تو باہر کھڑے ہیں اور ملزم کرسی پر بیٹھا ہوا ہے.یہ دیکھ کر اُن کو آگ لگ گئی اور اُنہوں نے ڈپٹی کمشنر سے کہا کہ میرے لئے بھی کرسی کا انتظام کیا جائے.ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کو کیوں کرسی دی جائے.آپ ایک گواہ کی حیثیت سے آئے ہیں اور گواہوں کو کرسی نہیں ملا کرتی.اس پر وہ زیادہ اصرار کرنے لگے کہ نہیں مجھے ضرور کرسی دی جائے.مسٹر ڈگلس کہنے لگے میں نے کہہ جو دیا ہے کہ آپ کو کرسی نہیں ملے گی.اس پر بھی وہ خاموش نہ ہوئے اور کہنے لگے میں لاٹ صاحب کے پاس ملنے جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دے دیتے ہیں آپ مجھے کیوں کرسی نہیں دیتے.یہ سن کر ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا اگر ایک چوڑ ہا بھی ہم سے مکان پر ملنے کے لئے آئے تو ہم اُسے بھی کرسی دے دیتے ہیں مگر یہ عدالت کا کمرہ ہے یہاں تمہیں کرسی نہیں مل سکتی.وہ اس پر بھی خاموش نہ ہوئے اور پھر کرسی کے لئے اصرار کرنے لگے.آخر ڈ پٹی کمشنر نہایت غصہ سے کہنے لگا بک بک مت کر، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.یہ اُس شخص کا حال ہوا جس نے کہا تھا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور آب میں ہی اس کو گراؤں گا.وہاں سے اپنی ذلت کروا کے باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی ہوئی تھی اُس پر آ کر بیٹھ گئے.مگر مشہور ہے کہ نوکر آقا کے پیچھے چلتے ہیں.چیڑ اسی جو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا کہ اندر ڈپٹی کمشنرز ان پر سخت ناراض ہوئے ہیں اُس نے جب دیکھا کہ برآمدہ میں یہ کرسی پر آ کر بیٹھ گئے ہیں تو وہ دوڑا دوڑا آیا اور آ کر کہنے لگا مولوی صاحب! کرسی سے اُٹھیے یہاں آپ کو بیٹھنے کی اجازت نہیں.وہاں سے اُٹھے تو باہر ہجوم میں آگئے.وہاں کسی
تذکار مهدی ) 40 روایات سید نامحمود س نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی.یہ جاتے ہی اُس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ جب لوگ مجھے یہاں چادر پر بیٹھا دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے کمرہ عدالت میں بھی اچھی جگہ ملی ہو گی.مگر وہ جس نے خدا کے مامور کے متعلق کہا تھا کہ میں نے ہی اسے بڑھایا ہے اور اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا خدا نے اُسے یہاں بھی ذلیل کیا.ابھی وہ چادر پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک با غیرت مسلمان دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا میری چادر پلید مت کرو تم ایک مسلمان کے خلاف ایک عیسائی کے حق میں گواہی دینے آئے ہو.آخر مولوی صاحب کو وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اُٹھنا پڑا.پھر میں نے خود انہی مولوی محمد حسین صاحب کو اس حالت میں دیکھا کہ عجز اور مسکنت ان کی صورت سے ظاہر ہوتی تھی.میں ایک دفعہ بٹالہ گیا تو وہ کسی کام کے لئے مجھ سے ملنے کے لئے آئے مگر انہیں شرم آتی تھی کہ جس شخص کی ساری عمر میں شدید مخالفت کرتا رہا اُس کے بیٹے سے کس طرح ملوں.چنانچہ میں نے دیکھا کہ وہ کمرے میں آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے پھر آتے اور پھر گھبرا کر نکل جاتے چار پانچ دفعہ انہوں نے اسی طرح کیا.ہمارے ہاں ایک ملازم ہوا کرتا تھا پیرا اُس کا نام تھا وہ بالکل ان پڑھ اور جاہل تھا.نماز تک اُسے یاد نہیں ہوتی تھی بیسیوں دفعہ اسے یاد کرائی گئی مگر وہ ہمیشہ بھول جاتا.اُسے کبھی تاریں دے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بٹالہ بھجوا دیا کرتے تھے یا کوئی پلٹی آتی تو اُسے چھڑوانے کے لئے اُسے بٹالہ بھجوا دیا جاتا.ایک دفعہ اسی طرح وہ کسی کام کے سلسلہ میں بٹالہ گیا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب اُسے مل گئے.مولوی صاحب کی عادت تھی کہ وہ اسٹیشن پر جاتے اور لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے ایک دن انہیں اور کوئی آدمی نہ ملا تو پیرے کو ہی انہوں نے پکڑ لیا اور کہنے لگے.پیرے تم مرزا صاحب کے پاس کیوں رہتے ہو وہ تو کافر اور بے دین ہیں.وہ کہنے لگا مولوی صاحب میں تو پڑھا لکھا آدمی نہیں نماز تک مجھے نہیں آتی کئی دفعہ لوگوں نے مجھے سکھائی ہے مگر مجھے یاد نہیں ہوتی پس مجھے مسائل تو آتے ہی نہیں لیکن ایک بات ضرور ہے جو میں نے دیکھی ہے.مولوی صاحب کہنے لگے وہ کیا؟ پیرے نے کہا میں ہمیشہ تاریں دینے یا بلٹیاں لینے کے لئے بٹالے آتا رہتا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو یہاں پھرتے اور لوگوں کو ورغلاتے دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص قادیان نہ جائے.مولوی صاحب!
تذکار مهدی ) 41 روایات سید نا محمود اب تک آپ کی اس کوشش میں شاید کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی مگر کوئی شخص آپ کی بات نہیں سنتا.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب اپنے حجرے میں بیٹھے رہتے ہیں اور پھر بھی ساری دنیا اُن کی طرف کھنچی چلی جاتی ہے.آخر اُن کے پاس کوئی سچائی ہے تبھی تو ایسا ہو رہا ہے ورنہ لوگ آپ کی بات کیوں نہ سنتے.خلوت نشینی میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں ، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 199 تا 212 ) کبھی وہ وقت تھا کہ وہ شخص جس کے متعلق بعض دفعہ اس کے والد کے گہرے دوست بھی اس کا نام سن کا کہا کرتے تھے کہ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ مرزا غلام مرتضی صاحب کا کوئی اور بیٹیا بھی ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے والد کے دوستوں میں سے کئی ایسے تھے جو سالہا سال کی ملاقات کے بعد یہ معلوم نہ کر سکے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے سوا ان کا کوئی اور بیٹا بھی ہے کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ گوشہ تنہائی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کر نے کے عادی تھے.افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1934ء، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 308) خاندان کی نسلیں منقطع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہو ا.اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جوسہ میں داخل ہو گئے اور باقی سب کی نسلیں منقطع ہو گئی ہیں.جس وقت حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا اس وقت خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعود کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں ان ستر میں سے ایک کی بھی اولاد نہیں ہے.الفضل 7 اکتوبر 1919 ء جلد 7 نمبر 28 صفحہ 8-7) مطالعہ کی عادت آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے
تذکار مهدی ) 642 روایات سید نا محمود تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گزارہ ہوگا اور اس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو ملاں بھی کہہ دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ملاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے لیکن باوجود اس کے خود ان کے دل میں بھی آپ کا رعب تھا.اور جب کبھی وہ اپنی دنیاوی ناکامیوں کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اس لئے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا مگر حضرت مرزا صاحب اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی کسی وقت قرآن و حدیث اپنے والد صاحب کو بھی سنانے کے لئے بیٹھ جاتے تھے.اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوتے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو شکار کرنا چاہتا تھا.باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا دے اور بیٹا چاہتا تھا کہ اپنے باپ کو دنیا کے خطرناک پھندہ سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی لولگا دے.غرض یہ عجیب دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں.“ (رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو جلد 15 نمبر 9 ستمبر 1916 ء صفحہ 333) خدمت دین کی لگن مجھے سب سے زیادہ ایک بوڑھے شخص کی شہادت پسند آیا کرتی ہے.یہ ایک سکھ ہے جو آپ کا بچپن کا واقف ہے.وہ آپ کا ذکر کر کے بے اختیار رو پڑتا ہے.اور سنایا کرتا ہے کہ پ کے پاس آکر بیٹھتے تھے تو آپ ہمیں کہتے تھے کہ جا کر میرے والد صاحب سے سفارش کرو کہ مجھے خدا اور دین کی خدمت کرنے دیں اور دنیوی کاموں سے معاف رکھیں.پھر وہ شخص یہ کہہ کر رو پڑتا کہ وہ تو پیدائش سے ہی ولی تھے.“ محبت الہی احمدیت یعنی حقیقی اسلام - انوار العلوم جلد 8 صفحہ 207 ) جب آپ ( حضرت مسیح موعود ) کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ ایک اپنی ہم
تذکار مهدی ) 43 روایات سید نا محمودی سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہوگئی کہا کرتے تھے کہ نامراد ے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے.“ اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا.(رساله ریویو آف ریلیجنز اردو بابت ماہ ستمبر 1916 ء جلد 15 نمبر 9 صفحہ 328) بکریاں چروانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بچپن کا واقعہ ہے.ایک غیر احمدی جواب فوت ہو چکا ہے اس نے سنایا کہ حضرت صاحب جب بچہ تھے گاؤں سے باہر شکار کے لئے گئے اور شکار کے لئے پھندا تیار کرنے لگے، پھر اس خیال سے کہ کھانا کھانے کے لئے گھر نہیں جا سکیں گے ایک دھیلہ ایک بکری چرانے والے کو دیا کہ جا کر چنے بھنوالا ؤ ( اس زمانہ میں روپیہ کی بہت قیمت تھی اور کوڑیوں سے بھی خرید و فروخت ہوا کرتی تھی ) اور اس سے وعدہ کیا کہ میں اتنی دیر تمہاری بکریوں کا خیال رکھوں گا.وہ شخص جا کر کسی کام میں لگ گیا اور وہ واپس نہ آیا.ایک دوسرے شخص نے دیکھ کر کہا کہ آپ اس قدر دیر سے انتظار کر رہے ہیں.میں جا کر اسے بھیجوں اور یہ شخص جا کر اس لڑکے کو تلاش کرتا رہا اور کہیں شام کے قریب اسے جا ڈھونڈا اور آپ شام تک بکریاں چرایا کئے اور اپنے وعدہ پر قائم رہے.جب وہ آیا تو آپ اس پر ناراض بھی نہ ہوئے.یہ اخلاق ہیں جو جیتنے والوں میں ہوتے ہیں نہ یہ کہ عمر آخر ہونے کو آئی ہے اور ہر کام میں سستی ، ہر کام میں غفلت، کوئی ہوشیار کرے تو ہوشیار ہوں ورنہ پھر غفلت کی حالت میں چلے جائیں.( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 368) میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ آپ کے ایام جوانی میں آپ کے والد صاحب اور ہمارے دادا صاحب اکثر اوقات افسوس کا اظہار کیا کرتے تھے کہ میرا ایک بچہ تو لائق ہے.( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی اور ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب ) مگر دوسرا لڑکا ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام )
تذکار مهدی ) 44 روایات سید نا محمود نالائق ہے کوئی کام نہ اسے آتا ہے اور نہ وہ کرتا ہے.مجھے فکر ہے کہ میرے مرنے کے بعد یہ کھائے گا کہاں سے؟ یہاں سے جنوب کی طرف ایک گاؤں ہے، کا ہلواں اس کا نام ہے وہاں کا ایک سکھ مجھ سے اکثر ملنے آیا کرتا تھا اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی محبت تھی کہ باوجود سکھ ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر پر جا کر سلام کیا کرتا تھا.دعا کا طریق ان میں نہیں.خلافت کے ابتدائی ایام میں جبکہ 9- 10 بجے کے قریب ڈاک آیا کرتی تھی اور میں مسجد مبارک میں بیٹھ کر ڈاک دیکھا کرتا تھا ایک دن وہ سکھ اس وقت جبکہ میں ڈاک دیکھ رہا تھا آیا اور مسجد مبارک کی سیڑھیوں پر سے ہی مجھے دیکھ کر چیخ مار کر کہنے لگا.آپ کی جماعت نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے.مجھے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کے تعلقات کا علم تھا.میں نے اسے محبت سے بٹھایا اور پوچھا کیا ہوا ہے.آپ بیان کریں اگر میری جماعت کے کسی شخص نے آپ کو کسی قسم کی تکلیف اور دکھ دیا ہے تو میں اسے سزا دوں گا.میرے یہ کہنے پر اس نے جو دکھ بتایا وہ یہ تھا کہ میں مرزا صاحب کی قبر پر متھا ٹیکنے کے لئے گیا تھا.مگر مجھے متھا ٹیکنے نہیں دیا گیا.میں نے کہا ہمارے ہاں یہ شرک ہے اور ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے.اس نے کہا.اگر آپ کے مذہب میں یہ بات ناجائز ہے تو آپ نہ کریں مگر میرے مذہب سے آپ کو کیا واسطہ مجھے کیوں نہ متھا ٹیکنے دیا جائے.جب اس کا جوش ٹھنڈا ہوا تو کہنے لگا.ہمارا آپ کے خاندان سے پرانا تعلق ہے، میرا باپ بھی آپ کے دادا صاحب کے پاس آیا کرتا تھا.ایک دفعہ جب وہ آیا تو میں اور میرا ایک بھائی بھی ساتھ تھے.اس وقت ہم چھوٹی عمر کے تھے، آپ کے دادا صاحب اس وقت افسوس سے میرے باپ کو کہنے لگے.مجھے بڑا صدمہ ہے، اب میری موت کا وقت قریب ہے، میں اپنے اس لڑکے کو بہت سمجھاتا ہوں کہ کوئی کام کرے، مگر یہ کچھ نہیں کرتا.کیا میرے مرنے کے بعد یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر پڑا رہے گا.پھر کہنے لگے لڑکے لڑکوں کی باتیں مان لیتے ہیں اور ہم دونوں بھائیوں سے کہا.تم جاکر اسے سمجھاؤ ، اور پوچھو کہ اس کی مرضی کیا ہے؟ ہم دونوں بھائی گئے.دوسرے بھائی کو تو میں نے نہیں دیکھا وہ پہلے فوت ہو چکا تھا مگر جس نے یہ بیان کیا وہ مجھ سے ملتا رہتا تھا.اس نے بتایا ہم آپ کے والد صاحب کے پاس گئے اور جا کر کہا آپ کے باپ کو شکوہ ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے.نہ کوئی -
تذکار مهدی ) 45 روایات سید نا محمود ملازمت کرنا چاہتے ہیں اس سے اُن کے دل پر بہت صدمہ ہے آپ ہمیں بتائیں ، آپ کا ارادہ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات سن کر فرمایا بڑے مرزا صاحب خواہ مخواہ فکر کرتے ہیں میں نے جس کا نوکر ہونا تھا اس کا نوکر ہو چکا ہوں.ہم نے آکر بڑے مرزا صاحب سے کہہ دیا کہ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ مجھے جس کا نوکر ہونا تھا ہو چکا اس پر آپ کے دادا صاحب نے کہا.اگر وہ یہ کہتا ہے تو ٹھیک کہتا ہے.مقدمات میں پیش ہونا ( الفضل 31 دسمبر 1933 ء جلد 21 نمبر 78 صفحہ 3 | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد مرحوم بہت مدبر اور لائق آدمی تھے مگر دنیا دارانہ رنگ رکھتے تھے جب آپ جوان تھے تو آپ کے والد صاحب مرحوم کو ہمیشہ آپ کے متعلق یہ فکر رہتی تھی کہ یہ لڑکا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے اور کتا بیں پڑھتارہتا ہے یہ بڑا ہو کر کیا کرے گا اور کس طرح اپنی روزی کما سکے گا ؟ آپ کے والد صاحب مرحوم آپ کو کئی کاموں کی انجام دہی کے لئے بھیجتے مگر آپ چھوڑ کر چلے آتے یہاں تک کہ زمین کے مقدمات کے بارہ میں ان کو آپ کے خلاف شکایت رہتی تھی کہ وقت پر نہیں پہنچتے.ایک دفعہ آپ کسی مقدمہ کی پیروی کے لئے گئے تو عین پیشی کے وقت آپ نے نماز شروع کر دی.جب آپ نماز ختم کر چکے تو کسی نے آ کر کہا آپ کا مقدمہ تو آپ کی غیر حاضری کی وجہ سے خارج ہو گیا ہے آپ نے فرمایا الْحَمْدُ لِلَّهِ اِس سے بھی جان چھوٹی.جب آپ گھر پہنچے تو والد صاحب مرحوم نے ڈانٹا اور کہا تم اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ مقدمہ کی پیشی کے وقت عدالت میں حاضر رہو.آپ نے فرمایا نماز مقدمہ سے زیادہ ضروری تھی ( گو مقدمہ کے متعلق میں نے سنا ہے کہ بعد میں معلوم ہوا کہ مقدمہ آپ کے حق میں ہی ہو گیا تھا.) کا ہندو ان کے دو بھائی جو سکھ تھے ان کو آپ کے ساتھ عشق تھا وہ ہمیشہ آپ کے پاس آیا کرتے تھے اور باوجو دسکھ ہونے کے وہ آپ کے بہت زیادہ معتقد تھے آپ کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں نماز پڑھا کر اندر جانے لگا تو انہی دونوں بھائیوں میں سے ایک نے مجھے روک لیا اور کہا خدا کے لئے آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو روکیں کہ وہ ہم پر ظلم نہ کریں.میں حیران ہوا کہ ہماری جماعت کے لوگوں نے آپ پر کیا ظلم کیا ہے؟ میں نے اُسے تسلی دی اور کہا کہ اگر
تذکار مهدی ) 46 روایات سید نا محمود کسی نے کوئی ایسی حرکت کی ہے تو میں اُسے سزا دوں گا تم بتاؤ کہ کس نے تمہارے ساتھ ظلم کیا ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قبر پر گیا تھا اور میں نے وہاں سجدہ کرنا چاہا لیکن آپ کے آدمیوں نے روک دیا.میں نے کہا یہ چیز تو ہمارے مذہب میں ناجائز ہے اسی لئے انہوں نے آپ کو روکا ہے.وہ کہنے لگا آپ کے مذہب میں بیشک ناجائز ہے مگر ہمارے مذہب میں تو نا جائز نہیں.اس سے ان کی محبت کا پتہ لگتا ہے ان بھائیوں نے خود مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ سنایا اور کہا کہ حضرت مرزا صاحب کے ساتھ ہماری دوستی تھی اور ہم اکثر ان کے پاس آیا جایا کرتے تھے ایک دفعہ آپ کے دادا نے جب ہم اپنے باپ کے ساتھ آئے ہمیں کہا کہ میں نے تو غلام احمد ( مسیح موعود ) کو بہت سمجھایا ہے مگر اس کی اصلاح نہیں ہوتی یہ سارا سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا ہے بڑا ہو کر کیا کرے گا؟ کیا یہ اپنے بھائی کے ٹکڑوں پر جئے گا؟ میرا خیال ہے کہ تم اس کے ہمجولی ہو اور ہم عمر ہو تم جا کر اس کو سمجھاؤ شاید تمہارے کہنے سے سمجھ جائے.چنانچہ ہم آپ کے پاس گئے اور ان کو سمجھانا شروع کیا جب ہم بات ختم کر چکے تو آپ نے کہا والد صاحب تو یونہی گھبراتے ہیں میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ہے.وہ سکھ سنایا کرتے تھے کہ ہم نے جب آپ کا یہ جواب آپ کے والد صاحب کو جا کر سنایا تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا غلام احمد بھی جھوٹ نہیں بولتا اگر وہ کہتا ہے کہ میں نے جس کی نوکری کرنی تھی کرلی ہے تو وہ ضرور سچ کہتا ہوگا.پس مؤمن صرف اللہ کی نوکری کرتا ہے عام طور پر لوگ سترہ اٹھارہ روپیہ پر فوجوں میں بھرتی ہوتے ہیں اور اسی حقیر رقم کے لئے اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں تو کیا ایک مومن اسلام کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار نہ ہوگا ؟ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ مومن جانتا ہے کہ وہ خدا کا مینار ہے جس کی روشنی میں دنیا کی تمام تاریکیاں اور ظلمتیں دُور ہو جاتی ہیں.(انصاف پر قائم ہو جاؤ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 604،603) والد صاحب کے مقدمات کی پیروی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے والد کے دوستوں میں سے کئی ایسے تھے جو سالہا سال کی ملاقات کے بعد یہ معلوم نہ کر سکتے تھے کہ مرزا غلام قادر صاحب کے سوا ان کا کوئی اور بیٹا بھی ہے کیونکہ بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ گوشتہ تنہائی میں رہتے اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے
تذکار مهدی ) 47 روایات سید نا محمودی کے عادی تھے.اس وقت ہمارے ایک دوست سٹیج پر میرے پاس ہی بیٹھے ہیں.وہ سنایا کرتے ہیں.ابتدائے ایام میں یعنی اپنی ابتدائی زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے والد صاحب مقدمات کی پیروی کے لئے بھیج دیا کرتے تھے.ایک اہم مقدمہ چل رہا تھا جس کی کامیابی پر خاندانی عزت اور خاندان کے وقار کا انحصار تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے والد صاحب نے لاہور بھیج دیا کہ وہاں جا کر پیروی کریں چنانچہ آپ لمبا عرصہ جو مہینہ ڈیڑھ مہینہ کے قریب تھا لا ہور رہے.قادیان کے سید محمد علی شاہ صاحب لاہور میں رہتے تھے ان کے پاس آپ ٹھہرے اور انہوں نے اپنے ایک دوست کی گاڑی کا انتظام کر دیا کہ جب چیف کورٹ کا وقت ہو آپ کو وہاں پہنچا آیا کرے اور جب وقت ختم ہو جائے آپ کو لے آئے.یہ بیان کرنے والے دوست کے والد صاحب کی گاڑی تھی.کئی دنوں کے انتظار کے بعد جب فیصلہ سنایا گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی سید محمد علی شاہ صاحب کے گھر آگئے.سید صاحب نے پوچھا.آج آپ گاڑی کے پہنچنے سے پہلے ہی آگئے؟ آپ بڑے خوش خوش تھے.فرمانے لگے مقدمہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اس لئے میں پہلے ہی آ گیا.سید صاحب نے آپ کی خوشی کو دیکھ کر سمجھا مقدمہ میں کامیابی ہوئی ہوگی مگر جب پوچھا کہ کیا مقدمہ جیت گئے؟ تو آپ نے فرمایا.مقدمہ تو ہار گئے مگر اچھا ہوا جھگڑا تو مٹا، اب ہم اطمینان سے خدا تعالیٰ کو یاد کر سکیں گے.یہ سن کر سید صاحب بہت ناراض ہوئے.اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی نہیں کیا تھا اور جب آپ نے دعوی کیا تو بھی کچھ عرصہ تک سید صاحب مخالف رہے.انہوں نے ناراض ہو کر کہا.اس مقدمہ کے ہار جانے سے تو آپ کے خاندان پر تباہی آجائے گی اور آپ خوش ہو رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا.تو دعوی سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ حالت تھی.آپ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہتے تھے.آپ فرماتے اسی خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب تک اس نے مجھے مجبور نہیں کر دیا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا ہوں اس وقت تک میں نے دنیا کی طرف توجہ نہ کی.گویا روحانی طور پر آپ غار حرا میں رہتے تھے جس میں رہتے ہوئے آپ کو دنیا کی کوئی خبر نہ تھی اور دنیا کو آپ کی کوئی خبر نہ تھی.الفضل یکم جنوری 1935 ء جلد 22 نمبر 79 صفحہ 3)
تذکار مهدی ) با قاعدہ نماز پڑھنے کی عادت 48 روایات سید نا محمودی سید منظور علی شاہ صاحب کے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ اوائل کے واقف تھے.ان کے تعلقات ملک غلام محمد صاحب کے والد صاحب کے ساتھ بہت گہرے تھے.یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک صاحب بھی آئے ہوئے ہیں.شاہ صاحب ایام جوانی میں لاہور نوکر تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لاہور جاتے تو ان کے پاس ٹھہرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقدمہ ہارنے کا جو واقعہ لکھا ہے اس میں انہی کا ذکر ہے.آپ مقدمہ کا فیصلہ سننے کے لئے لاہور گئے ہوئے تھے اور روزانہ چیف کورٹ میں جاتے تھے.ایک دن خوش خوش واپس آئے تو شاہ صاحب نے کہا کیا مقدمہ جیت آئے؟ آپ نے فرمایا.مقدمہ تو نہیں جیتا مگر اچھا ہوا حکم سنا دیا گیا کیونکہ وہاں جانے کی وجہ سے نمازیں پڑھنے میں تکلیف ہوتی تھی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابھی دعوی نہ کیا تھا.شاہ صاحب نے غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا.آپ کے باپ کا اتنا بڑا نقصان ہو گیا ہے اور آپ خوش ہو رہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ نہایت ابتدائی زمانہ سے شاہ صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے اور بہت محبت رکھتے تھے.آج ان کی پوتی کی شادی ہے.“ ( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 455 ) سیالکوٹ ملا زمت میں حکمت خدا تعالیٰ جو آپ کو سیالکوٹ لے گیا تو اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ آپ کو گھر میں کھانے کو نہ ماتا تھا اور معاش کے لئے آپ کو کسی نوکری کی تلاش تھی.خدا کے فضل سے گورنمنٹ ہمارے خاندان کو رؤسائے پنجاب میں شمار کرتی ہے.ہماری جائیداد کو دیکھ لو قادیان کے ہم مالک ہیں اور اُن لوگوں سے قبل جنہوں نے سکونت کی غرض سے ہم سے زمین خریدی کسی کی چپہ بھر زمین بھی وہاں نہ تھی.اس کے علاوہ تین اور گاؤں ہماری ملکیت ہیں اور دو میں تعلقہ داری ہے.پس سوچنا چاہئے کہ اگر مرزا صاحب نے نوکری کی تو ضرور اس میں کوئی اور غرض ہوگی آپ کے دل کی یا خدا تعالیٰ کی اور حقیقت یہ ہے کہ اس میں دونوں کی ایک ایک غرض تھی.حضرت مرزا صاحب کی ایک تحریر ملی ہے جو آپ نے والد صاحب کے نام لکھی تھی.آپ کے والد صاحب
تذکار مهدی ) +49☀ روایات سید نا محمود آپ کو دنیوی معاملات میں ہوشیار کرنے کیلئے مقدمات وغیرہ میں مصروف رکھنا چاہتے تھے اور آپ کی جو تحریر ملی ہے اس میں آپ نے اپنے والد صاحب کو لکھا ہے کہ دنیا اور اس کی دولت سب فانی چیزیں ہیں مجھے ان کاموں سے معذور رکھا جائے.مگر انہوں نے جب آپ کا پیچھا نہ چھوڑا تو آپ سیالکوٹ چلے گئے کہ دن کو تھوڑا سا کام کر کے رات کو بے فکری کے ساتھ ذکر الہی کر سکیں.دوسری حکمت اس میں یہ ہے کہ قادیان سارا ہماری ملکیت ہے اور اب بھی جن لوگوں نے وہاں زمینیں لی ہیں وہ سب احمدی ہیں اس لحاظ سے بھی گویا وہاں کے لوگ ہماری رعایا ہیں.اس لئے وہاں کے لوگوں کی حضرت مرزا صاحب کے متعلق شہادت پر کوئی کہ سکتا تھا کہ خواجہ کا گواہ مینڈک“ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ لا ڈالا.جہاں آپ کو غیروں میں رہنا پڑا اور اس طرح خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ ناواقف لوگوں میں سے وہ لوگ جن پر آپ یا آپ کے خاندان کا کوئی اثر نہ ہو.آپ کی پاکیزہ زندگی کے لئے شاہد کھڑے کئے جائیں.پھر سیالکوٹ پنجاب میں عیسائیوں کا مرکز ہے وہاں آپ کو ان سے مقابلہ کا بھی موقعہ مل گیا.آپ عیسائیوں سے مباحثات کرتے رہتے تھے اور مسلمانوں نے آپ کی زندگی کو دیکھا.قادیان کے لوگوں کو آپ کے مزارع کہا جاسکتا تھا مگر سیالکوٹ کے لوگوں کی یہ حیثیت نہیں تھی.وہاں کے تمام بڑے بڑے مسلمان آپ کی عگوشان کے معترف ہیں.مولوی میرحسن صاحب جو ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کے استاد تھے اور جن کے متعلق ڈاکٹر صاحب ہمیشہ اظہار عقیدت کرتے رہے ہیں.اگر چه آخر تک سلسلہ کے مخالف رہے مگر وہ ہمیشہ اس بات کے معترف تھے کہ مرزا صاحب کا پہلا کیریکٹر بے نظیر تھا اور آپ کے اخلاق بہت ہی اعلیٰ تھے.پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں معمولی نوکری اس غرض سے کرائی تھی اس زمانہ میں عیسائیوں کا بڑا رعب ہوتا تھا.اب تو کانگرس نے اسے بہت کچھ مٹا دیا ہے اس زمانہ میں پادریوں کا رعب بھی سرکاری افسروں سے کم نہ تھا اور اعلیٰ افسر تو الگ رہے ادنی ملازموں تک کی یہ حالت تھی کہ چٹھی رسان دیہات میں بڑی شان سے جاتے اور کہتے لاؤ مٹھائی کھلاؤ تمہارا خط لایا ہوں.تو اس وقت پادریوں کا بہت رعب تھا لیکن جب سیالکوٹ کا انچارج مشنری ولایت جانے لگا تو وہ حضرت مرزا صاحب کے ملنے کے لئے خود کچہری آیا.ڈپٹی کمشنر سے دیکھ کر اس کے استقبال کے لئے آیا اور دریافت کیا کہ آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ کوئی کام ہو تو ارشاد فرما ئیں مگر اس نے کہا.میں صرف آپ کے اس منشی سے ملنے آیا ہوں.یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ آپ کے مخالف بھی تسلیم کرتے
تذکار مهدی ) 50 روایات سید نا محمود تھے کہ یہ ایک ایسا جو ہر ہے جو قابل قدر ہے.تحقیق حق کا صحیح طریق، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 407 تا408) سید میرحسن صاحب کی سچی گواہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں قریباً دو سال رہے ہیں اور وہاں کے لوگ جورات دن آپ کی مجلس میں رہے ، ان سے آپ نے کبھی ایسی بات نہ کہی.کہی تو ایک گھنٹہ کی ملاقات میں سید چن شاہ صاحب سے کہی.سیالکوٹ کے لوگوں پر آپ کی زندگی کا جواثر تھا وہ اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سید میرحسن صاحب جو ایک بہت مشہور شخص گزرے ہیں ڈاکٹر سراقبال بھی ان کے شاگردوں میں سے ہیں، سیالکوٹ اور پنجاب کا علمی طبقہ ان کی عظمت ،صاف گوئی اور سچائی کا قائل ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قیام سیالکوٹ کے ہر وقت کے ساتھی تھے وہ نیچری تھے اور سرسید کے متبع تھے اور آخر تک احمدیت کے مخالف رہے ہیں.مگر جب بھی کسی نے آپ کی قبل از بعثت زندگی پر اعتراض کیئے ، انہوں نے ہمیشہ اس کی تردید کی اور عَلَى الْإِعْلَانُ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بزرگی اور نیکی اور اسلام سے محبت کا ذکر کرتے رہے.پس کیا یہ عجیب بات نہیں کہ سیالکوٹ جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمبے عرصہ تک رہے وہاں کے لوگ تو آپ کی زندگی میں کوئی عیب نہ نکال سکے بلکہ آپ کی بزرگی اور ولایت کے قائل رہے لیکن یہ سید محمد مظہر کہتا ہے کہ قادیان کی واپسی کے وقت سید چنن شاہ صاحب سے آپ راستہ میں یہ بات کہتے آئے کہ انسان ذرا ڈھیٹھ بن جائے تو نبی بن سکتا ہے.دراصل یہ الفاظ کہہ کر اس شخص نے اپنی گندی فطرت کا اظہار کیا ہے اور اُس ڈھیٹھ پن کا مظاہرہ کیا ہے جو اس کے اندر موجود ہے.غرض احرار کی طرف سے گالیوں میں کمی نہیں آئی بلکہ ان میں زیادتی ہو رہی ہے.گالیاں دی جاتی ہیں اور اتنی ناپاک اور گندی گالیاں دی جاتی ہیں کہ کوئی انسان انہیں سننے کی تاب نہیں رکھتا.اس کے مقابلہ میں حکومت خاموش ہے اور مسلسل خاموش ہے حالانکہ اگر یہی گالیاں حضرت مسیح ناصری کو دی جائیں ، اگر یہی گالیاں حضرت کرشن کو دی جائیں اور اگر یہ گالیاں سکھوں کے گروؤں کو دی جائیں تو گورنمنٹ کے حلقہ ہائے اعلیٰ تھرا جائیں اور ملک میں فساد اور خونریزی کی ایسی رو پیدا ہو جائے جس کا سنبھالنا حکومت کے بس میں نہ ہو مگر کیا چیز ہے جو حکومت کو خاموش رکھے ہوئے ہے، کس چیز نے اس کی قلموں کو روکا ہوا ہے ،اور کس چیز نے اس کے ہاتھوں کو حرکت کرنے سے روکا ہوا ہے.صرف اس بات نے کہ احمدی امن پسند ہیں
تذکار مهدی ) 51 روایات سید نا محمود اور وہ ملک کے امن کو برباد نہیں کریں گے.یا دالہی میں مشغول رہنا پسند کرتے تھے (خطبات محمود جلد 16 صفحہ 682 ) جب آپ اس قسم کے (دنیاوی مقدمات و ملازمت وغیرہ) معاملات سے تنگ آ گئے.تو آپ نے ایک خط اپنے والد صاحب کو لکھا.جس میں اس قسم کے کاموں سے فارغ کر دیئے جانے کی درخواست کی.اس خط کو میں یہاں نقل کر دیتا ہوں تا کہ معلوم ہو کہ آپ ابتدائی عمر سے کس قدر دنیا سے متنفر تھے اور یا دالہی میں مشغول رہنے کو پسند کرتے تھے.یہ خط آپ نے اس وقت کے دستور کے مطابق فارسی زبان میں لکھا تھا اور ذیل میں درج ہے: حضرت والد مخدوم من سلامت مراسم غلامانہ و قواعد فدویانه بجا آورده معروض حضرت والا میکند ، چونکه در میں ایام برای العین سے بینم و بچشم سر مشاہدہ میکنم که در همه ممالک و بلاد ہر سال چناں وبائے مے افتد که دوستان را از دوستان و خویشان را از خویشان جدا میکند و هیچ سالے نے بینم کہ ایس نائرہ عظیم و چنیں حادثہ ایم در آں سال شور قیامت نیفگند.نظر برآں دل از دنیا سردشده است و رواز خوف جاں زرد و اکثر این دو مصرعہ شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی بیاد می آیند واشک حسرت ریخته میشود.مکن تکیه عمر نا پائیدار مباش ایمن از بازی روزگار و نیز این دو مصرعہ ثانی از دیوان فرخ قادیانی ( یہ خود حضرت اقدس کا دعوی سے پہلے کا خلص تھا اور حضور کا دیوان در مکنون کے نام سے شائع ہو چکا ہے) نمک پاش جراحت دل میشود بدنیائے دوں دل مبند اے که وقت اجل رسد ناگہاں جواں لہذا میخواهم که بقیه عمر در گوشتہ تنہائی نشینم و دامن از صحبت مردم چینم و بیاد وسبحانه مشغول شوم ، مگر گذشتہ را عذرے دمافات را تدار کے شود.عمر بگذشت بگذشت و نماند ست جز آیا مے چند که دریاد کسے صبح کنم شامے چند
تذکار مهدی ) 52 روایات سید نا محمود که دنیا را اسا سے محکم نیست و زندگی را اعتبارے نے والکیسن من خاف علی نفسه من افة غيره ( دعوۃ الامیر.انوارالعلوم جلد 7 صفحہ 576) ترجمہ اردو.حضرت والد مخدوم من سلامت غلامانہ مراسم اور فدویانہ آداب کی بجا آوری کے بعد آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ان دنوں یہ امر مشاہدہ میں آ رہا ہے.اور ہر روز یہ بات دیکھی جا رہی ہے کہ تمام ممالک اور قطعات زمین میں ہر سال اس قسم کی وبا پھوٹ پڑتی ہے جو کہ دوستوں کو دوستوں سے اور رشتہ داروں کو رشتہ داروں سے جدا کر دیتی ہے اور ان میں دائمی مفارقت ڈال دیتی ہے اور کوئی سال بھی اس بات سے خالی نہیں گزرتا کہ یہ عظیم الشان آگ اور الم ناک حادثہ ظاہر نہ ہوتا ہو.یا اس کی تباہی کی وجہ سے شور قیامت برپا نہ ہوتا ہو.ان حالات کو دیکھ کر میرا دل دنیا سے سرد ہو گیا ہے اور چہرہ اس غم سے زرد ہے اور اکثر حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ دو مصرعہ زبان پر جاری رہتے ہیں.اور حسرت و افسوس کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو بہ پڑتے ہیں.مکن تکیه مباش ایمن از بازی نا پائیدار روزگار نا پائیدار عمر پر بھروسہ نہ کر اور زمانہ کی کھیل سے بے خوف نہ ہو.نیز فرخ قادیانی کے دیوان سے یہ دو مصرعہ بھی میرے زخموں پر نمک چھڑکتے رہتے ہیں.بدنیائے دوں دل مبند اے که وقت اجل جوال رسد ناگہاں اپنے دل کو دنیائے دوں میں نہ لگا.کیونکہ موت کا وقت نا گہاں پہنچ جاتا ہے.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ باقی عمر گوشتہ تنہائی اور کنج عزلت میں بسر کروں اور عوام کی صحبت اور مجالس سے علیحدگی اختیار کروں اور اللہ تعالیٰ سبحانہ کی یاد میں مصروف ہو جاؤں تا کہ تلافی مافات کی صورت پیدا ہو جائے.عمر بگذشت و نماند ست جز ایام چند که دریاد کسے صبح کنم شامے چند عمر کا اکثر حصہ گزر گیا ہے.اور اب چند دن باقی رہ گئے ہیں.بہتر ہے کہ یہ چند
تذکار مهدی ) 53 روایات سید نا محمود (روز) کسی کی یاد میں بسر ہوں کیونکہ دنیا کی کوئی پختہ بنیاد نہیں.اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اور حیات مستعار پر کوئی اعتماد نہیں.والكيسن من خاف على نفسه من افة غيرہ جس شخص کو اپنا فکر ہوا سے کسی آفت کا کیا غم.احکام سیرت مسیح موعود نمبر.جلد 47 نمبر 19 تا 22 مورخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 14 جون 1943 ، صفحہ 7-6) تو بہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے جب غرغرہ موت شروع ہو جاتا ہے تو انسان کے حواس پر اثر پڑنا شروع ہو جاتا ہے گو وہ بھی کبھی زیادہ لمبا اور کبھی بہت قلیل عرصہ کے لئے ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تو بہ جان کندنی تک قبول ہوتی ہے.جب جان کندنی شروع ہو جائے تو پھر تو بہ قبول نہیں ہوتی کیونکہ جب غرغرہ موت شروع ہو جاتا ہے تو حواس جاتے رہتے ہیں.یہ غرغرہ بھی دو قسم کا ہوتا ہے ایک ابتدائی اور ایک اُس کے بعد کا جو اصلی اور حقیقی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے والد صاحب بڑے طاقتور تھے.غرغرہ موت شروع ہوا تو فرمانے لگے.غلام احمد یہ غرغرہ ہے اور پھر چند منٹ کے بعد فوت ہو گئے.تو اِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ (البقره:134) سے مراد جیسا کہ بعض نے سمجھا ہے یہ نہیں کہ جب جان کندنی شروع ہو گئی تھی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اُن کی موت کا وقت ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 203) قریب آ گیا تھا.والد صاحب کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ اپنے والد صاحب کا ایک واقعہ لطف لے کر بیان کیا کرتے تھے کہ آپ جب فوت ہوئے اس وقت اسی سال کے قریب عمر تھی مگر وفات کے ایک گھنٹہ پہلے آپ پاخانہ کے لیئے اٹھے.آپ کو سخت پیچش تھی اور پاخانہ کے لئے جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک ملازم نے آپ کو سہارا دیا مگر آپ نے اس کا ہاتھ جھٹک کر پرے کر دیا اور کہا کہ مجھے سہارا کیوں دیتے ہو؟ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد آپ کی وفات ہوگئی.( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 303)
تذکار مهدی ) جائیداد سے لاتعلقی 54 روایات سید نا محمود جب آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے تو آپ نے تمام کاموں سے قطع تعلق کر لیا اور مطالعہ دین اور روزہ داری اور شب بیداری میں اوقات بسر کرنے لگے اور اخبارات ور سائل کے ذریعہ دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے رہے اس زمانہ میں لوگ ایک ایک پیسہ کے لئے لڑتے ہیں مگر آپ نے اپنی کل جائیداد اپنے بڑے بھائی صاحب کے سپرد کر دی.آپ کے لئے کھانا ان کے گھر سے آجاتا اور جب وہ ضرورت سمجھتے کپڑے بنوا دیتے اور آپ نہ جائیداد کی آمدن کا حصہ لیتے اور نہ اس کا کوئی کام کرتے لوگوں کو نماز روزے کی تلقین کرتے تبلیغ اسلام کرتے ، غریبوں مسکینوں کی بھی خبر رکھتے اور تو آپ کے پاس اس وقت کچھ تھا نہیں بھائی کے یہاں سے جو کھانا آتا اسی کو غرباء میں بانٹ دیتے اور بعض دفعہ دو تین تولہ غذاء پر گزارہ کرتے اور بعض دفعہ یہ بھی باقی نہ رہتی اور فاقہ سے ہی رہ جاتے ، یہ نہیں تھا کہ آپ کی جائیداد معمولی تھی اور آپ سمجھتے تھے کہ گزارہ ہو رہا ہے اس وقت ایک سالم گاؤں آپ اور آپ کے بھائی کا مشترکہ تھا اور علاوہ ازیں جا گیر وغیرہ کی بھی آمدن تھی.( دعوت الامیر.انوار العلوم جلد 7 صفحہ 577-576 ) | حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جب پیدا ہوئے تو آپ کے ماں باپ نے آپ کی پیدائش پر خوشی کی ہو گی.مگر جب آپ کی عمر بڑی ہو گئی اور آپ کے اندر دُنیا سے بے رغبتی پیدا ہوگئی تو آپ کے والد آپ کی اس حالت کو دیکھ کر آہیں بھرا کرتے تھے کہ ہمارا یہ بیٹا کسی کام کے قابل نہیں.مجھے ایک سکھ نے بتایا کہ ہم دو بھائی تھے ہمارے والد صاحب بڑے مرزا صاحب ( یعنی مرزا غلام مرتضی صاحب) کے پاس آیا کرتے تھے اور ہم بھی بسا اوقات اُن کے ساتھ آجایا کرتے تھے.ایک دفعہ مرزا صاحب نے ہمارے والد صاحب سے کہا کہ تمہارے لڑکے غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) کے پاس آتے جاتے ہیں.تم ان سے کہو کہ اُسے جا کر سمجھائیں.ہم دونوں جب آپ کے پاس جانے کے لئے تیار ہو گئے تو مرزا صاحب نے کہا کہ غلام احمد ( علیہ السلام) کو باہر جا کر کہنا کہ تمہارے والد کو اس خیال سے بہت دُکھ ہوتا ہے کہ
تذکار مهدی ) 55 روایات سید نا محمود اُس کا چھوٹا لڑکا اپنے بڑے بھائی کی روٹیوں پر پلے گا.اسے کہو کہ میری زندگی میں ہی کوئی کام کر لے.میں کوشش کر رہا ہوں کہ اسے کوئی اچھی نوکری مل جائے میں مر گیا تو پھر سارے ذرائع بند ہو جائیں گے.اُس سکھ نے بتایا کہ ہم مرزا غلام احمد صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) کے پاس گئے اور کہا کہ آپ کے والد صاحب آپ کا بہت خیال رکھتے ہیں انہیں یہ دیکھ کر کہ آپ کچھ کام نہیں کرتے بہت دُکھ ہوتا ہے.وہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مر گیا تو غلام احمد کا کیا بنے گا آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے.آپ کے والد صاحب اُس وقت کپورتھلہ میں کوشش کر رہے تھے اور کپورتھلہ کی ریاست نے آپ کو ریاست کا افسر تعلیم مقرر کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا.وہ سکھ کہنے لگا کہ جب ہم نے یہ بات کہی کہ آپ اپنے والد صاحب کی بات کیوں نہیں مان لیتے آپ کچھ کام کر لیں تو آپ نے فرمایا.والد صاحب تو یونہی غم کرتے رہتے ہیں.انہیں میرے مستقبل کا کیوں فکر ہے.میں نے تو جس کی نوکری کرنی تھی کر لی ہے.ہم واپس آگئے اور مرزا غلام مرتضی صاحب سے آ کر ساری بات کہہ دی.مرزا صاحب نے فرمایا کہ اگر اس نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک کہا ہے وہ جھوٹ نہیں بولا کرتا.یہ آپ کی ابتدا تھی اور پھر ابھی تو انتہاء نہیں ہوئی لیکن جو عارضی انتہاء نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی وفات کے وقت ہزاروں ہزار آدمی آپ پر قربان ہونے والا موجود تھا.آپ خود فرماتے ہیں: لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَ صِرتُ الْيَوْمَ مِطْعَامُ الْاهَالِي ایک وہ زمانہ تھا جب بچے ہوئے ٹکڑے مجھے دیئے جاتے تھے اور آج میرا یہ حال ہے کہ میں سینکڑوں خاندانوں کو پال رہا ہوں آپ کی ابتداء کتنی چھوٹی تھی مگر آپ کی انتہاء ایسی ہوئی کہ علاوہ ان لوگوں کے جو خدمت کرتے تھے لنگر میں روزانہ دو 2 اڑ ہائی سو آدمی کھانا کھاتے تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ اپنے والد کی جائیداد میں اپنے بھائی کے برابر شریک تھے لیکن زمینداروں میں یہ عام دستور ہے کہ جو کام کرے وہ تو جائیداد میں شریک سمجھا جاتا ہے اور جو کام نہیں کرتا وہ جائیداد میں شریک نہیں سمجھا جاتا اور یہ دستور ابھی تک چلا آتا ہے.لوگ عموماً کہہ دیتے ہیں کہ جو کام نہیں کرتا اُس کا جائیداد میں کیا حصہ ہوسکتا ہے.آپ کے پاس جب کوئی
تذکار مهدی ) 56 روایات سید نا محمود ملاقاتی آتا اور آپ اپنی بھا وجہ کو کھانے کے لئے کہلا بھیجتے تو وہ آگے سے کہہ دیتیں کہ وہ یونہی کھا پی رہا ہے کام کاج تو کوئی کرتا نہیں.اس پر آپ اپنا کھانا اُس مہمان کو کھلا دیتے اور خود فاقہ کر لیتے یاچنے چبا کر گزارہ کر لیتے.خدا کی قدرت ہے کہ وہی بھاوجہ جو اُس وقت آپ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں بعد میں میرے ہاتھ پر احمدیت میں داخل ہوئیں.غرض اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی کام شروع کیا جاتا ہے تو اُس کی ابتداء بڑی نظر نہیں آیا کرتی لیکن اُس کی انتہاء پر دنیا حیران ہو جاتی ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 102-101) والد صاحب کی غرباء کی خبر گیری حضرت مسیح موعود فرماتے تھے کہ آپ کے والد صاحب کا قاعدہ تھا کہ ایک موسم میں خاص مقدار میں غرباء میں غلہ اور نقدی تقسیم کرتے ایک شخص بٹالے کا بھی آیا کرتا تھا اس کو آپ نے ایک دفعہ چنے اور کچھ پیسے دیئے وہ چنوں کا بڑا حصہ راستہ ہی میں ختم کر گیا حالانکہ جو کچھ اس کو ملا تھا وہ گھر کے لئے تھا.(خطبات محمود جلد نمبر 7 صفحہ 97) قادیان کے دو ملا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان کے اندر دو ملا تھے جن میں بسا اوقات اس قسم کی باتوں پر جھگڑا ہو جایا کرتا تھا کہ کسی شخص کے مرنے پر اس کے کفن کی چادر کے متعلق ایک کہتا تھا کہ یہ میرا حق ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ میرا حق ہے آپ فرماتے تھے کہ ہمارے والد صاحب نے ان جھگڑوں کو دیکھ کر قادیان کے دو حصے کر کے ان میں بانٹ دیئے تا کہ ان میں لڑائی نہ ہو مگر ان میں سے ایک ملا دو تین دن کے بعد روتا ہو ا والد صاحب کے پاس آیا.والد صاحب نے پوچھا کیا بات ہے.وہ چیخ مار کر کہنے لگا.مرزا صاحب آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا.والد صاحب نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا بے انصافی ہوئی تو وہ اپنی پہچکی کو بند کرتے ہوئے کہنے لگا تساں جیہڑے آدمی میرے حصے وچ دتے نے اونہاں دا قد اتنا چھوٹا اے کہ اونہاں دے کفن دی چادر دی چنی بھی نہیں بن سکدی یعنی آپ نے میرے حصہ میں جن لوگوں کو رکھا ہے ان کا قد تو اتنا چھوٹا ہے کہ ان کے کفن کی چادر سے ایک چھوٹا سا دو پٹہ بھی نہیں بن سکتا.اب اندازہ لگاؤ.جہاں ملاؤں کے اخلاق اتنے پست ہوں وہاں ترقی کی کیا امید ہوسکتی ہے.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 626-625 )
تذکار مهدی ) 57 روایات سید نا محمود چھ ماہ کے روزے رکھنا جب دادا صاحب فوت ہو گئے تو باوجود اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توجہ دین کی طرف اس قدر تھی کہ بڑے بھائی سے جائیداد وغیرہ کے متعلق کوئی سوال نہ کیا.آپ دن رات مسجد میں پڑے رہتے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا.آپ فرمایا کرتے تھے ان دنوں میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیا کرتا تھا اور آخری عمر تک باوجود یکہ بڑھا پا آ گیا تھا آپ کو چنوں کا شوق رہا اور شاید یہ ورثہ کا شوق ہے جو مجھے بھی ہے اور مجھے دنیا کی بہت سی نعمتوں کے مقابلہ میں چنے اچھے لگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے کہ میں بھنے ہوئے چنے اپنے پاس رکھ لیتا اور جب کئی دفعہ گھر سے کھانا نہ آتا اور میں پوشیدہ طور پر روزے رکھتا تو چنوں پر گزارہ کر لیا کرتا تھا.آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے چھ ماہ تک متواتر روزے رکھے.اس عرصہ میں بسا اوقات دو پیسے کے چنے بھنوا کر آپ رکھ لیتے.تبلیغ اسلام کا شوق آپ کو شروع سے ہی تھا.ہندولڑکوں کو آپ اپنے پاس جمع کر لیتے اور ان سے مذہبی گفتگو کرتے رہتے.حافظ معین الدین صاحب جو آپ کے خادم تھے اور نابینا تھا فرمایا کرتے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب گھر سے کھانا لانے کے لئے بھیجتے تو بعض اوقات اندر سے عورتیں کہہ دیا کرتیں کہ انہیں تو ہر وقت مہمان نوازی کی فکر رہتی ہے ہمارے پاس کھانا نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا کھانا دوسروں کو کھلا دیتے اور خود چنوں پر گزارہ کرتے.افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1933 ء.انوار العلوم جلد 13 صفحہ 301-300) والدہ ماجدہ کی وفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی والدہ سے بہت محبت تھی.غالباً آپ جن دنوں میں سیالکوٹ میں تھے یا اور کسی مقام پر قادیان سے باہر تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ آپ کی والدہ سخت بیمار ہیں یہ سن کر آپ فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ بٹالہ سے یکہ میں بیٹھ کر قادیان کی طرف روانہ ہوئے تو جو شخص لینے آیا ہوا تھا.وہ بار بار ہیکہ والے سے کہنے لگا کہ ذرا جلدی کرو بی بی صاحبہ کی طبیعت بہت ہی خراب تھی خدا خیر کرے پھر تھوڑی دیر کے بعد اور زیادہ یکہ والے کو تاکید کرنے لگا یوں کہنا شروع کیا کہ کہیں خدانخواستہ فوت ہی نہ ہو گئی ہوں.
تذکار مهدی ) 58 روایات سید نامحمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے.میں نے اس فقرہ سے سمجھ لیا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور یہ مجھے اس صدمہ کے لئے تیار کر رہا ہے اور میں نے اس سے کہا کہ تم ڈرو نہیں اور جو سچ سچ بات ہے وہ بتا دو.اس پر اس نے کہا کہ بات تو یہی ہے کہ وہ فوت ہو چکی ہیں.“ رپورٹ مجلس مشاورت 1938ء صفحہ 141 ) دنیا کی عزت خود ملتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو دنیا طلبی سے اتنی نفرت تھی کہ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے تحصیلداری کا امتحان دیا تو حضرت صاحب کو بھی انہوں نے دعا کے لئے لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کا رقعہ پڑھ کر سخت غصہ آیا اور آپ نے اسے پھاڑ دیا.مگر ادھر آپ نے رقعہ پھاڑا اور ادھر آپ کو الہام ہوا.کہ پاس ہو جائے گا“ تذکرہ صفحہ 125).چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ وہ پاس ہو گئے اور پھر قائمقام ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے تو اللہ تعالیٰ جن کو روحانی مراتب عطا فرماتا ہے.ان کو ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ دنیا کے لوگوں کے پاس جائیں.بلکہ دنیا کے لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے کہ وہ ان کے پاس آئیں اور ان سے فیض اٹھائیں.ایک دفعہ کشمیر کے فسادات کے سلسلہ میں شملہ گیا اور لارڈ ولنگڈن سے ملا.ملاقات کے بعد لارڈ ولنگڈن کا سیکرٹری میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میرا اسٹنٹ جو مسٹر گریفن کا پوتا ہے.وہ آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے اس سے کہیں ذکر کیا تھا کہ مسٹر گریفن کا میرے دادا سے بڑا تعلق رہا ہے اور اس کی کئی چٹھیاں ہمارے دادا کے نام موجود ہیں.اس نے اس بات کا اپنے اسسٹنٹ سے ذکر کر دیا کیونکہ وہ مسٹر گریفن کا پوتا تھا اور اس نے مجھ سے ملنے کی خواہش کی.چنانچہ وہ مجھ سے ملا اور کہنے لگا کہ میں اپنے دادا کی وہ چٹھیاں دیکھنا چاہتا ہوں جو انہوں نے آپ کے دادا کو لکھی تھیں.میں نے کہا کہ وہ کتاب البریہ میں چھپی ہوئی ہیں.آپ جب چاہیں وہاں سے دیکھ سکتے ہیں.مسٹر گریفن امرتسر کا کمشنر تھا اور اس زمانے میں کمشنر کے اختیارات گورنر کے برابر ہوا کرتے تھے اور کمشنری بھی صرف امرتسر کی ہی ہوا کرتی تھی.جب ہم وہاں سے فارغ ہو کر باہر نکلے تو سامنے سے وائسرائے اپنی موٹر میں آرہا تھا.اس کا کوئی دانت خراب تھا.وہ ڈاکٹر کو دکھانے کے لئے جا رہا تھا.اس نے جب مجھے دیکھا تو دور سے ہی مجھے سلام کرنا شروع کر دیا.مگر میں نے نہ پہچانا کہ یہ کون شخص ہے.چنانچہ
تذکار مهدی ) 59 روایات سید نا محمود میں نے درد صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہے جس نے سلام کیا ہے.وہ کہنے لگے ابھی تو آپ ان سے مل کر آئے ہیں.یہ لارڈ ولنگڈن تھے اور انہوں نے تو آپ کو دیکھ کر دور سے ہی سلام کرنا شروع کر دیا تھا.میں نے کہا میں نے تو نہیں پہچانا.شاید وہ اپنے دل میں خیال کرتے ہوں گے کہ بڑے کھردرے آدمی ہیں.میں نے سلام بھی کیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا.حالانکہ میں نے یہ سمجھا تھا کہ کوئی اجنبی آدمی ہے جو کسی اور کو سلام کر رہا ہے.تو اللہ تعالیٰ خود ہی اپنے بندوں کا دوسروں کے دلوں پر رعب ڈال دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک مہینہ کی مسافت پر بھی میرا دشمن ہوتو اللہ تعالی اس پر میرا رعب ڈال دیتا ہے.یہ رعب اپنے اپنے درجہ اور مقام کے مطابق ہوتا ہے.کسی کا مہینہ بھر کی مسافت تک رعب جاتا ہے.کسی کا چند دنوں کے فاصلہ تک رعب جاتا ہے.کسی کا چند گھنٹوں کے فاصلہ تک رعب جاتا ہے.مگر ہوتا یہی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں.( الفضل 3 /اکتوبر 1958 ء جلد 47/12 نمبر 228 صفحہ 7 ) اللہ تعالیٰ ان کا ہو جاتا ہے.اپنے خاندان کے خلاف سچی گواہی کچھ عرصہ ہوا میں نے کچھ خطبات عملی اصلاح کے متعلق پڑھے تھے اور جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ وہ عظیم الشان مقصد جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت ہوئی اسے پورا کرنے کے لیئے ہمیں بڑی قربانیوں کی ضرورت ہے.اعتقادی رنگ میں ہم نے دنیا پر اپنا سکہ جمالیا ہے مگر عملی رنگ میں اسلام کا سکہ جمانے کی ابھی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر مخالفوں پر حقیقی اثر نہیں ہو سکتا.موٹی مثال عملی رنگ میں سچائی کی ہے یہ ایسی چیز ہے جسے دشمن بھی محسوس کرتا ہے.دل کا اخلاص اور ایمان دشمن کو نظر نہیں آتا مگر سچائی کو وہ دیکھ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے کہ خاندانی جائداد کے متعلق ایک مقدمہ تھا اسی مکان کے چبوترے کے متعلق جس میں اب صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اس چبوترے کی زمین دراصل ہمارے خاندان کی تھی مگر اس پر دیرینہ قبضہ اس گھر کے مالکوں کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے بھائی صاحب نے اس کے حاصل کرنے کیلئے مقدمہ چلایا اور جیسا کہ دنیا داروں کا قاعدہ ہے کہ جب زمین وغیرہ کے متعلق کوئی مقدمہ ہو اور وہ اپنا حق اس پر سمجھتے ہوں تو اس کے حاصل کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں مہیا کرتے
تذکار مهدی ) 60 روایات سید نا محمود ہیں.انہوں نے بھی اپنی ملکیت ثابت کرنے کیلئے جھوٹی سچی گواہیاں دلائیں.اس پر اس گھر کے مالکوں نے یہ امر پیش کر دیا کہ ہمیں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ان کے چھوٹے بھائی کو بُلا کر گواہی لی جائے اور جو وہ کہہ دیں ہمیں منظور ہوگا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بطور گواہ عدالت میں پیش ہوئے اور جب آپ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ ان لوگوں کو اس رستہ سے آتے جاتے اور اس پر بیٹھتے عرصہ سے دیکھ رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا.آپ کے بڑے بھائی صاحب نے اسے اپنی ذلت محسوس کیا اور بہت ناراض ہوئے مگر آپ نے فرمایا کہ جب واقعہ یہ ہے تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا.اسی طرح آپ کے خلاف ایک مقدمہ چلایا گیا کہ آپ نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس زمانہ میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص پیکٹ میں کوئی چٹھی ڈال کر بھیج دے تو سمجھا جاتا تھا کہ اس نے ڈاک خانہ کو دھوکا دیا ہے اور ایسا کرنا فوجداری جرم قرار دیا جاتا تھا جس کی سزا قید کی صورت میں بھی دی جاسکتی تھی.اب وہ قانون منسوخ ہو چکا ہے اب زیادہ سے زیادہ ایسے پیکٹ کو بیرنگ کر دیا جاتا ہے.اتفاقاً آپ نے ایک پیکٹ مضمون کا اشاعت کیلئے ایک اخبار کو بھیجا اور اس قانون کے منشاء کونہ سمجھتے ہوئے اس میں ایک خط بھی لکھ کر ڈال دیا جو اس اشتہار کے ہی متعلق تھا اور جس میں اسے چھاپنے وغیرہ کے متعلق ہدایات تھیں.پریس والے غالباً عیسائی تھے اُنہوں نے اس کی رپورٹ کر دی اور آپ پر مقدمہ چلا دیا گیا.آپ کے وکیل نے کہا کہ پیش کرنے والوں کی مخالفت تو واضح ہے اس لئے ان کی گواہیوں کی کوئی حقیقت نہیں اگر آپ انکار کر دیں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا.اُس زمانہ میں اکثر مقدمات میں آپ کی طرف سے شیخ علی احمد صاحب وکیل گورداسپوری پیروی کیا کرتے تھے اور آپ کی پاکیزہ زندگی کو دیکھ کر دعوئی کے بعد بھی گو وہ احمدی نہ تھے آپ پر بہت حُسنِ ظن رکھتے تھے.انہوں نے آپ سے کہا کہ اور کوئی گواہ تو ہے نہیں پھر وہ خط اسی مضمون کے متعلق ہے اور اسے اشتہار کا حصہ ہی کہا جا سکتا ہے اس لئے آپ بغیر جھوٹ کا ارتکاب کیئے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے تو اشتہار ہی بھیجا تھا خط کوئی نہیں بھیجا.مگر آپ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ نہیں ہوسکتا جو بات میں نے کی ہے اس کا انکار کس طرح کر سکتا ہوں.چنانچہ جب آپ پیش ہوئے اور عدالت نے دریافت کیا کہ آپ نے کوئی خط مضمون میں ڈالا تھا تو آپ نے فرمایا ہاں.اس
تذکار مهدی ) 61 روایات سیّد نا محمود نامحمودی راستبازی کا دوسروں پر تو اثر ہونا تھا ہی خود عدالت پر بھی اس قدر اثر ہوا کہ اس نے آپ کو بری کر دیا اور کہا کہ ایک اصطلاحی مجرم کیلئے ایسے راستباز آدمی کو سزا نہیں دی جاسکتی.اسی طرح کئی واقعات مقدمات میں آپ کو ایسے پیش آتے رہے جن کی وجہ سے ان وکلاء کے دلوں میں جن کو ان مقدمات سے تعلق رہا کرتا تھا آپ کی بہت عزت تھی.چنانچہ ایک مقدمہ میں آپ نے شیخ علی احمد صاحب کو وکیل نہ کیا تو انہوں نے لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ نے اس مقدمہ میں مجھے وکیل نہیں کیا اس لیئے نہیں کہ میں کچھ لینا چاہتا تھا بلکہ اس لئے کہ مجھے خدمت کا موقع نہیں مل سکا.تو سچائی اور راستبازی ایک ایسی چیز ہے کہ دشمن بھی اس سے اثر قبول کیئے بغیر نہیں رہ سکتا.شیخ علی احمد صاحب آخر تک غیر احمدی رہے اور انہوں نے بیعت نہیں کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے ظاہری رنگ میں آپ کا اخلاص احمدیوں سے کسی طرح کم نہ تھا اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے آپ کی سچائ کو ملاحظہ کیا تھا اورصف شیخ علی احمد صاحب پر ہی کیا موقوف ہے جن جن کو بھی آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا ان کی یہی حالت تھی.جب جہلم میں مولوی کرم دین صاحب نے آپ پر مقدمہ کیا تو ایک ہندو وکیل لالہ بھیم سین صاحب کی چٹھی آئی کہ میرا لڑکا بیرسٹری پاس کر کے آیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل ہو اس لیے آپ اس کو اجازت دیں کہ وہ آپ کی طرف سے پیش ہو.جس لڑکے کے متعلق انہوں نے یہ خط لکھا تھا وہ اب تک زندہ ہیں.پہلے لاء کالج کے پرنسپل تھے پھر جموں ہائیکورٹ کے چیف جج مقرر ہوئے اور اب وہاں سے ریٹائر ہو چکے ہیں.انہوں نے الحاح سے یہ درخواست اس واسطے کی کہ اُن کو سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق ہوا تھا اور وہ آپ کی سچائی کو دیکھ چکے تھے.پس معلوم ہوا کہ سچائی ایک اعلیٰ پایہ کی چیز ہے جسے دیکھ کر دشمن کو بھی متاثر ہونا پڑتا ہے.سچائی ایک ایسی چیز ہے جو اپنوں پر ہی نہیں بلکہ غیروں پر بھی اثر کیئے بغیر نہیں رہ سکتی.انبیاء دنیا میں آکر راستی اور سچائی کو قائم کرتے ہیں اور ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں کہ دیکھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور نقل کرنے پر مجبور ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ نے دنیا میں آکر کوئی تو ہیں اور مشین گنیں ایجاد نہیں کی تھیں، بینک جاری نہیں کیئے تھے یا صنعت و حرفت کی مشینیں ایجاد نہیں کی تھیں پھر وہ کیا چیز تھی جو آپ نے دنیا کو دی اور جس کی حفاظت آپ کے ماننے والوں کے ذمہ تھی.وہ سچائی کی روح اور اخلاق فاضلہ تھے.یہ چیز پہلے مفقود تھی آپ نے اسے کمایا اور پھر یہ خزانہ دنیا کو دیا اور صحابہ اور اُن کی اولادوں اور پھر ان کی اولادوں کے ذمہ یہی کام تھا کہ ان چیزوں کی حفاظت کریں.( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 542 تا 545)
تذکار مهدی ) 62 روایات سید نا محمودی رشتہ داروں کی مخالفت اور بائیکاٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بائیکاٹ کیا گیا لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جاتا، کمہاروں کو روکا گیا، چوہڑوں کو صفائی سے روکا گیا ہمارے عزیز ترین بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھاوج اور دیگر عزیز رشتہ دارختی کہ آپ کے ماموں زاد بھائی علی شیر یہ سب طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے.ایک دفعہ گجرات کے علاقہ کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا تھا.راستہ میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہاں سے آئے ہو؟ اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے لئے آئے ہیں.انہوں نے کہا دیکھو میں ان کے ماموں کا لڑکا ہوں میں خوب جانتا ہوں یہ ایسے ہیں ویسے ہیں ان میں سے ایک نے جو دوسروں سے آگے تھا بڑھ کر ان کو پکڑ لیا اور اپنے بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ اس پر وہ شخص گھبرایا تو اس احمدی نے کہا میں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار ہو میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانی چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا مگر آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ایسا ہوتا ہے.پس ہم میں سے کوئی نہیں جس نے اپنے رشتہ داروں، قریبیوں اور اپنے احساسات کی قربانی نہیں کی.“ (الفضل 4 دسمبر 1935 ء جلد 23 نمبر 132 صفحہ 4,3 ) چوہڑوں کا پیر اس گر کو یاد رکھو اور قیامت تک اسے یاد رکھتے چلے جاؤ کہ ہر مصیبت پر خدا تعالیٰ کو پکارو.اگر تم ایسا کرو گے تو دنیا میں تم پر کوئی مصیبت ایسی نہیں آسکتی.جس میں خدا تعالیٰ تمہاری مدد نہ کرے اور دشمن کا خطرناک سے خطرناک حملہ بھی خدا تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا.بشرطیکہ تم حرام خوری نہ کرو بے ایمانی نہ کرو.بددیانتی نہ کرو.خدا تعالیٰ کا خوف کرو.تقویٰ کرو.ظلم نہ کرو.کسی پر تعدی نہ کرو.کسی کی ذلت اور بدنامی نہ کرو.منافقت نہ دکھاؤ.فساد نہ کرو.اگر تم ایسے ہو جاؤ گے.تو ہر قدم پر اور ہر میدان میں خدا تعالی تمہارا ساتھی
تذکار مهدی 63 روایات سید نا محمود ہو گا.یہ قرآن کریم کا وعدہ ہے جو اصدق الصادقین ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام جھوٹا نہیں ہو سکتا.اگر تم اس پر عمل کرو گے.تو تم ہمیشہ کامیابی اور با مرادی دیکھو گے اور تمہارا دشمن ناکام و نامراد ہوگا کیونکہ تمہارا دشمن خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتا.اسے کوئی مصیبت پہنچے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو پکارتا ہے.لیکن تم مصیبت کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف جھکتے ہو اور اس سے مدد چاہتے ہو.ہمارے ایک تایا تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چا کے بیٹے تھے اور آپ کے سخت مخالف تھے اور دہر یہ تھے.انہیں آپ سے اتنی ضد تھی کہ ہر موقع پر وہ اپنا بغض نکالتے تھے.آپ نے جب مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو انہوں نے بھی دعوی کر دیا کہ میں چوہڑوں کا پیر ہوں اور ان کے بزرگوں کا اوتار ہوں.ایک دفعہ لدھیانہ کے بعض چوہڑے جو اپنے پیر سمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مرید ہو گئے تھے.اپنے پیر سے اجازت لے کر قادیان آئے.مرزا امام دین صاحب کو پتہ لگا.تو انہوں نے انہیں بلایا اور کہا میاں ادھر آؤ.جب وہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے کہا میاں تم کو کیا ہو گیا ہے کہ تم مرزا غلام احمد کے مرید بن گئے ہو.چوڑھوں کا لال بیگ تو میں ہوں.تم مرزا صاحب کے پاس کیوں چلے گئے ہو.تمہیں وہاں کیا ملا ہے.انہوں نے کہا مرزا صاحب! ہم تو ان پڑھ ہیں ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمیں کیا ملا ہے.صرف اتنا علم ہے کہ آپ مغل تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی وجہ سے چوڑھے کہلانے لگ گئے اور ہم لوگ چوڑھے تھے لیکن مرزا صاحب کو مان لینے کی وجہ سے مرزائی کہلانے لگ گئے ہیں.ہمیں دلائل نہیں آتے.صرف اتنا نظر آتا ہے کہ ہم آپ پر ایمان لانے کی وجہ سے مرزا بن گئے اور آپ مخالفت کرنے کی وجہ سے چوڑھے بن گئے ہیں.مرزا امام دین صاحب کو ایک دفعہ پیٹ درد ہوا.ان دنوں قادریان میں حضرت خلیفہ اول کے سوا اور کوئی طبیب نہیں ہوتا تھا.اس لیئے انہوں نے حضرت خلیفتہ اسیح اول کو بلایا.آپ ان کے گھر تشریف لے گئے.آپ نے دیکھا کہ وہ درد کے مارے دالان میں فرش پر لوٹتے پھرتے ہیں اور کہتے ہیں ہائے اماں.ہائے اماں.حضرت خلیفہ اُسی اول نے فرمایا.مرزا صاحب! اس تکلیف کے وقت بھی آپ خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتے اور اپنی والدہ کا نام لیئے جارہے ہیں وہ کہنے لگے مولوی صاحب ماں تو میں نے دیکھی ہے لیکن خدا تعالیٰ نظر نہیں آتا اس لئے میں خدا تعالیٰ کو کیا پکاروں اپنی ماں کو ہی پکارتا ہوں.یہی مومن اور کافر میں فرق ہے.مرزا امام دین صاحب کو
تذکار مهدی ) 64 روایات سید نامحمودی پیٹ میں درد ہوا.تو انہیں اپنی ماں یاد آئی.خدا یاد نہ آیا لیکن اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ کھانسی کی سخت تکلیف ہوئی.بہتیرا علاج کیا گیا لیکن آرام نہ آیا.ایک دن کسی نے کچھ کیلے اور سنگترے بھیج دیئے.میں چونکہ آپ کو دوا پلایا کرتا تھا.اس لیئے سمجھتا تھا کہ آپ کی صحت کا ذمہ دار میں ہی ہوں آپ نے کیلئے دیکھے تو ایک کیلا کھانے کی خواہش کی.میں نے کہا حضور آپ کو کھانسی کی تکلیف ہے اور دوا کا استعمال کر رہے ہیں اور ابھی تک بیماری میں افاقہ نہیں ہوا.اب آپ کیلا کھانے لگے ہیں.اس سے تکلیف بڑھ جائے گی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری اس بات کی پرواہ نہ کی اور آپ نے ایک کیلا اٹھایا اور کھا لیا.بعد میں فرمایا میاں مجھے اس کیلے کی وجہ سے مرض میں زیادتی کا کوئی ڈر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب مجھے شفا ہو جائے گی.اب دیکھو مرزا امام دین صاحب بیماری کے وقت اماں اماں پکارتے تھے.لیکن اس کے باوجود انہیں حضرت خلیفہ اسیح اول کی دوا کی ضرورت پیش آئی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھانسی کی تکلیف ہوئی اور دواؤں کے باوجود آرام نہ آیا تو آپ نے کیلا کھا لیا اور پھر فرمایا.مجھے خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مجھے شفا ہو جائے گی اور واقعہ میں آپ کو شفا ہوگئی.پس جو خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے وہ اس کی برکت پاتا ہے اور جو خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتا وہ خدا تعالیٰ کی برکت سے محروم رہتا ہے.مسلمانوں کو 1300 سال سے یہ مقام بھولا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ انہیں یہ مقام یاد کرایا ہے.مگر اب بھی اکثر لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن یہ ایسا ہتھیار ہے کہ توپ و تفنگ بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.کوئی مصیبت تم پر آئے.تم خدا تعالیٰ کے سامنے جھک جاؤ اور پھر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا.اگر تم ایسا کرو تو وہ تمہاری ضرور مدد کرے گا.مرزا علی شیر صاحب کی سخت مخالفت الفضل یکم مارچ 1957 ء جلد 46/11 نمبر 53 صفحہ 5) جب سے جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے خدا تعالیٰ ہی اس کی حفاظت کرتا رہا ہے.اس وقت تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ دونوں کا ماہوار چندہ پچاسی ہزار روپیہ کے لگ بھگ ہے.لیکن شروع میں اتنا چندہ سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا.مجھے یاد ہے جب حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 65 روایات سید نامحمود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بات کا علم ہوا کہ لنگر خانہ کا خرچ ڈیڑھ سوروپیہ ماہوار تک پہنچ گیا ہے تو آپ بہت گھبرائے کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی.پھر اللہ تعالیٰ جماعت کی آمد میں دن بدن ترقی عطا کرتا چلا گیا.صرف میری خلافت کے شروع زمانہ میں سلسلہ پر مالی لحاظ سے ایک نازک دور آیا.جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف آنے تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے چندوں میں ترقی ہوتی چلی گئی اور ہر سال پہلے سال سے زیادہ چندہ جمع ہوتا رہا اور اب بنکوں اور جماعت کے اپنے خزانہ میں جو روپیہ اس وقت جمع ہے.وہ دس لاکھ سے اوپر ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ تھا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاء یعنی تیری مدد ایسے لوگ کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے.سو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا ہے ورنہ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا.یہ چند دن کا کھیل ہے جو ختم ہو جائے گا.کل ہی ایک شخص مجھے ملنے کے لیے آیا.جب اس نے اپنا وطن بتایا تو مجھے ایک واقعہ یاد آ گیا.ضلع گجرات کے ایک گاؤں چک سکندر کے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان آیا کرتے تھے.ان کے بڑے بڑے قد تھے.اس زمانہ میں ابھی بہشتی مقبرہ نہیں بنا تھا اور لوگ تبرک کے طور پر باغ اور مساجد دیکھنے چلے جایا کرتے تھے.وہ بھی باغ دیکھنے کے لئے اس سڑک پر جا رہے تھے جو بہشتی مقبرہ کو جاتی ہے.اس زمانہ میں اس سڑک پر پختہ پل نہیں بنا تھا.حضرت نانا جان نے لوہے کی ریلیں ڈال کر اس جگہ پار گزرنے کے لئے راستہ بنایا ہوا تھا.اس پل کے قریب ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی مرزا شیر علی صاحب باغ لگایا کرتے تھے.وہ مذہبی قسم کے آدمی تھے اور حضرت مسیح موعود کے شدید مخالف تھے.ممکن ہے ان کی مخالفت کا یہ سبب ہو کہ آپ ان کی بہن پر سوکن لے آئے تھے لیکن بہر حال وہ آپ کے بڑے سخت مخالف تھے انہوں نے چک سکندر کے ان لوگوں کو باغ کی طرف جاتے دیکھا تو انہیں آواز دے کر اپنے پاس بلایا.ان کے آواز دینے پر ان میں سے ایک آدمی جو باقی ساتھیوں سے کچھ فاصلہ پر تھا یہ سمجھ کر کہ یہ بڑے بزرگ ہیں ان کی بات سُن لی جائے ان کے پاس گیا.مرزا علی شیر صاحب نے اس سے کہا میاں تم کہاں سے آئے ہو اور کس لئے آئے ہو.اس شخص نے جواب دیا ہم گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کرنے آئے ہیں اس پر مرزا علی شیر صاحب نے کہا میاں مرزا غلام احمد میرا بھائی ہے اور اس کا واقف جتنا میں ہوں تم نہیں ہو
تذکار مهدی ) 66 روایات سید نا محمود اور میں جانتا ہوں کہ اس نے محض دکان بنائی ہوئی ہے تم کیوں یہاں اپنا دین خراب کرنے آگئے ہو.اس پر اس شخص نے مرزا علی شیر صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور مرزا صاحب نے یہ سمجھ کر کہ یہ شخص ان کی باتوں سے متاثر ہو گیا ہے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا.اس شخص نے ان کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ.جب وہ آ گئے تو ، اس نے کہا میں نے آپ لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم میں پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شیطان ہے جو لوگوں کو گمراہ کرتا ہے لیکن ہم نے وہ دیکھا نہیں تھا.اب وہ شیطان مجھے مل گیا ہے اور اسے میں نے پکڑ رکھا ہے اسے اچھی طرح دیکھ لو.مرزا علی شیر صاحب بہت گھبرائے لیکن اس شخص نے ان کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے رکھا اور کہا ہمیں شیطان دیکھنے کی مدت سے آرزو تھی.سوالحمد للہ کہ آج ہم نے شیطان دیکھ لیا.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق غیر تو کیا اپنے قریبی رشتہ دار بھی یہی کہتے تھے کہ انہوں نے ایک دکان کھولی ہوئی ہے اور وہ آپ کی سخت مخالفت کرتے تھے.مجھے یاد ہے ہماری سوتیلی والدہ ہم سے بہت محبت کیا کرتی تھیں اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی سوکن کی اولاد تھے وہ ہمارے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی تھیں ان کی والدہ بھی جو ہماری دادی صاحبہ کے علاقہ کی تھیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں جب ہمارے رشتہ دار مرزا امام دین صاحب اور ان کے لڑکے اور لڑکیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتے تھے تو چونکہ وہ بہت اونچا سنتی تھیں اس لئے دریافت کرتی تھیں کہ یہ لوگ کس کو گالیاں دے رہے ہیں.اس پر جب انہیں بتایا جاتا کہ یہ مرزا غلام احمد کو گالیاں دے رہے ہیں تو وہ رو پڑتیں اور کہتیں، ہائے یہ لوگ میری چراغ بی بی کے بیٹے کو گالیاں دیتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ دار بھی سمجھتے تھے کہ یہ ایک کھیل ہے جو کھیلا جا رہا ہے اور لوگ انہیں چھوڑ کر چلے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لدھیانہ کے ایک نور محمد صاحب تھے جنہیں یہ خیال تھا کہ وہ مصلح موعود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہتے تھے کہ چونکہ وہ میرے روحانی باپ ہیں اس لیئے جب میں اپنے روحانی باپ کے پاس جاؤں گا.تو پونڈان کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کروں گا.اس غرض سے وہ روپیہ جمع کرتے رہتے تھے جب ان کے مرید ان سے سوال کرتے کہ وہ اپنے روحانی باپ کے پاس کب جائیں گے تو انہیں کہتے.جب میں جاؤں گا تو تمہیں بتا دوں گا جب انہوں نے اس میں زیادہ دیر لگا دی تو
تذکار مهدی ).67 روایات سید نا محمود ان کے مریدوں نے کہا کہ آپ اگر نہیں جاتے تو ہمیں جانے کی اجازت دے دیں اس پر انہوں نے بعض مریدوں کو اس شرط سے قادیان آنے کی اجازت دی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کریں گے چنانچہ وہ قادیان آئے مرزا امام دین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چازاد بھائی تھے وہ چو ہڑوں کے پیر بنے ہوئے تھے اور اپنے آپ کو ان کے بزرگوں کا اوتار قرار دیتے اور کہتے کہ چوہڑوں کا لال بیگ میں ہوں انہوں نے جب دیکھا کہ ادنی اقوام کے بعض لوگ آئے ہیں تو انہوں نے انہیں بلایا اور ان کے آگے حقہ رکھ دیا اور پوچھا کہ تم یہاں کیا لینے آئے ہو.انہوں نے جواب دیا کہ ہم حضرت مرزا صاحب کو ملنے کے لیئے آئے ہیں اس پر مرزا امام دین صاحب نے کہا چوہڑوں کا لال بیگ تو میں ہوں تم مرزا غلام احمد کے پاس کیوں چلے گئے وہ تو ٹھگ ہے اور اس نے یونہی دکان بنائی ہوئی ہے تمہیں وہاں سے کیا ملا ہے وہ لوگ ان پڑھ تھے لیکن تھے حاضر جواب.انہوں نے جواب دیا.مرزا صاحب ہم ادنی اقوام سے تعلق رکھتے تھے مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لائے تو لوگ ہمیں مرزائی مرزائی کہنے لگ گئے آپ مغل تھے اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کی وجہ سے آپ چوہڑے کہلانے لگ گئے.اس پر وہ گھبرا کر خاموش ہو گئے.غرض غیر تو غیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے قریبی رشتہ دار بھی یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں بلکہ یہ محض دکان داری ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو بڑھایا اور دنیا کے کونہ کونہ میں اس کے پودے لگا دیئے.میں نے بتایا ہے کہ مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سخت مخالف تھے لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے ہاں عکرمہ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا.اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں.بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور سلسلہ احمدیہ کی کچی عاشق تھیں انہوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے.( الفضل 30 مئی 1959 ء جلد 48/13 نمبر 127 صفحہ 3,2) مرزا امام دین صاحب کی مخالفت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن آپ پر وہی اعتراض کرتے ہیں جو
تذکار مهدی ) 68 روایات سید نا محمودی رسول کریم ﷺ پر آپ کے دشمنوں نے کیئے اور ان میں اتنی مطابقت اور مشابہت ہوتی ہے کہ حیرت آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن جب آپ پر اعتراض کرتے تو آپ فرماتے یہی اعتراض آج سے 1300 سال پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آپ کے مخالفین نے کیئے تھے.جب وہ باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے قابلِ اعتراض نہ تھیں بلکہ آپ کی صداقت کی دلیل تھیں تو وہ میرے لئے کیوں قابلِ اعتراض بن گئی ہیں.پس جو جواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا دیا وہی جواب میں تمہیں دیتا ہوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جواب میں یہ طریق اختیار فرماتے اور لوگوں پر اس طریق سے حجت قائم کرتے تو مخالفین شور مچاتے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برابری کرتا ہے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ جو اعتراض ابو جہل کرتا تھا جو شخص ان اعتراضوں کو دُہراتا ہے وہ مثیل ابو جہل ہے اور جس شخص پر وہ اعتراض کیئے جاتے ہیں وہ مثیل محمد (ﷺ) ہے.پس ہر زمانہ میں مؤمنوں اور کافروں کی پہلے مؤمنوں اور کافروں سے مشابہت ہوتی چلی آئی ہے لیکن دنیا ہمیشہ اس بات کو بھول جاتی ہے اور جب کبھی نیا دور آتا ہے تو نئے سرے سے لوگوں کو یہ سبق دینا پڑتا ہے اور اس اصول کو دنیا کے سامنے دُہرانا پڑتا ہے اور خدا کی طرف سے آنے والا لوگوں کے اس اصول کو بھول جانے کی وجہ سے لوگوں سے گالیاں سنتا ہے اور ذلتیں برداشت کرتا ہے.اس کے اپنے اور بیگانے ، دوست اور دشمن سب مخالف ہو جاتے ہیں اور قریبی رشتہ دارسب سے بڑے دشمن بن جاتے ہیں.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار پاس کے مکانوں میں نئے آنے والوں کو روکنے کے لئے بیٹھے رہتے تھے اور جب کوئی شخص مسلمانوں کے پاس آتا تو وہ رستہ میں اُسے روک لیتے اور سمجھاتے کہ یہ شخص ہمارے رشتہ داروں میں سے ہے، ہم اس کے قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود اس کو نہیں مانتے کیونکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ سوائے جھوٹ کے اور کوئی بات نہیں.ہم آپ لوگوں سے اس کو زیادہ جانتے ہیں ، ہم سے زیادہ آپ کو واقفیت نہیں ہوسکتی ، ہم اس کے ہر ایک راز سے واقف ہیں بہتر ہے کہ آپ یہیں سے واپس چلے جائیں اسی میں آپ کا فائدہ ہے.یہی حال ہم نے اُن کا دیکھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار تھے.اُن کی باتوں کو سن کر جو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
تذکار مهدی ) 69 روایات سید نا محمود خلاف کیا کرتے اور ان کی حرکات کو دیکھ کر جو وہ باہر سے آنے والوں کو روکنے کے لیئے کرتے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے کہ ان کی باتوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں کس قدر مشابہت ہے.مرزا امام الدین سارا دن اپنے مکان کے سامنے بیٹھے رہتے.دن رات بھنگ گھٹا کرتی اور کچھ وظائف بھی ہوتے رہتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر انہوں نے پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر لیا تھا.جب کوئی نیا احمدی باہر سے آتا یا کوئی ایسا آدمی جو احمدی تو نہ ہوتا لیکن تحقیق کے لئے قادیان آتا تو اُس کو بلا کر اپنے پاس بٹھا لیتے اور اُسے سمجھانا شروع کر دیتے.میاں! تم کہاں اس کے دھوکے میں آگئے یہ تو محض فریب اور دھوکا ہے اگر حق ہوتا تو ہم لوگ جو کہ بہت قریبی رشتہ دار ہیں کیوں پیچھے رہتے.ہمارا اور مرزا صاحب کا خون ایک ہے تم خود سوچو بھلا خون بھی کبھی دشمن ہو سکتا ہے؟ اگر ہم لوگ انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ شخص صحیح راستے سے لوگوں کو پھیر نے والا ہے اور اس نے لوگوں سے پیسے بٹورنے کے لئے یہ دکان کھول رکھی ہے.اب حیرت آتی ہے کہ کونسا ابو جہل آیا جس نے مرزا امام الدین کو یہ باتیں سکھائیں کہ تم باہر سے آنے والوں کو اس طریق سے روکا کرو یہ نسخہ میرا آزمایا ہوا ہے.یا پھر یہ ماننا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہی باتیں مسمریزم کے ذریعہ مرزا امام الدین سے کہلوالیں، دونوں میں سے ایک بات ضرور صحیح ہوگی.لدھیانہ کے ایک دوست نور محمد نامی نومسلم تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بہت محبت و اخلاص رکھتے.اُنہوں نے مصلح موعود ہونے کا دعوی بھی کیا تھا وہ کہا کرتے تھے کہ بیٹا جب باپ کے پاس جائے تو اسے کچھ نہ کچھ نذر ضرور پیش کرنی چاہیئے.اُن کا مطلب یہ تھا کہ میں مصلح موعود ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بیٹا ہوں اور چونکہ وہ اپنے آپ کو خاص بیٹا سمجھتے تھے انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کم سے کم ایک لاکھ روپیہ تو انہیں ضرور پیش کرنا چاہیئے.کہتے ہیں ابھی انہوں نے چالیس پچاس ہزار روپیہ ہی جمع کیا تھا کہ وہ فوت ہو گئے اور نہ معلوم روپیہ کون کھا گیا.انہوں نے بہت سے چوہڑے مسلمان کئے اور ان سے کہا کرتے تھے کہ کچھ روپیہ جمع کرو پھر تمہیں دادا پیر کے پاس ملاقات کے لئے لے چلوں گا..
تذکار مهدی ) 70 روایات سید نامحمود کچھ عرصہ کے بعد ان نو مسلموں نے کہا کہ پتہ نہیں آپ کب جائیں گے آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم قادیان ہو آئیں.اِس پر اُنہوں نے اِن نو مسلموں کو قادیان آنے کی اجازت دے دی.وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لیے نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے.غالباً وہ 9 آدمی تھے اُن میں سے ہر ایک نے ایک ایک اشرفی پیش کی کیونکہ اُن کے پیر نے کہا تھا کہ تم دادا پیر کے پاس جا رہے ہو میں تمہیں اس شرط پر جانے کی اجازت دیتا ہوں کہ تم دادا پیر کے سامنے سونا پیش کرو.چنانچہ انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے پیر نے ہمیں اس شرط پر آنے کی اجازت دی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی آپ کی خدمت میں سونا پیش کرے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وہ سیر کو چلے گئے.جب سیر سے واپس آئے تو چونکہ اُن کو حقہ پینے کی عادت تھی اس لئے وہ حقہ پینے کے لئے مرزا امام الدین کے پاس چلے گئے.وہ حقہ پینے کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ مرزا امام الدین نے کہنا شروع کیا.انسان کو کام وہ کرنا چاہیئے جس سے اُسے کوئی فائدہ ہو تم جو اتنی دُور سے پیدل سفر کر کے آئے ہو ( کیونکہ اُن کے پیر کا حکم تھا کہ تم چونکہ دادا پیر کے پاس جا رہے ہو اس لئے پیدل جانا ہوگا ) بتاؤ تمہیں یہاں آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ ایمان انسان کو عقل بھی دے دیتا ہے بلکہ عقل کو تیز کر دیتا ہے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُن میں سے ایک نو مسلم کہنے لگا کہ ہم پڑھے لکھے تو ہیں نہیں اور نہ ہی کوئی علمی جواب جانتے ہیں اصل بات یہ ہے کہ آپ کو بھلے مانس مرید ملے نہیں اس لئے آپ چوہڑوں کے پیر بن گئے ہیں.آپ کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ملا؟ آپ مرزا صاحب کی مخالفت کر کے مرزا سے چوہڑے بن گئے اور ہم مرزا صاحب کو مان کر چوہڑوں سے مرزا ہو گئے.لوگ ہمیں مرزائی ، مرزائی کہتے ہیں یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہمیں حاصل ہوا.اب دیکھو یہ کیسی مشابہت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ داروں کی باتوں میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ داروں کی باتوں میں.مرزا علی شیر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سالے اور مرز افضل احمد صاحب کے خسر تھے.اُنہیں لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جانے سے روکنے کا بڑا شوق تھا.رستہ میں ایک بڑی لمبی تسبیح لے کر بیٹھ جاتے تسبیح کے دانے پھیر تے رہتے اور منہ سے گالیاں دیتے چلے جاتے.بڑا لٹیرا ہے لوگوں کو لوٹنے کے لئے دُکان کھول رکھی ہے بہشتی مقبرہ کی سڑک پر دار الضعفاء کے پاس بیٹھے رہتے.اُس وقت یہ تمام زمین زیر کاشت
تذکار مهدی ) 671 روایات سید نامحمودی ہوتی تھی ، عمارت کوئی نہ تھی، بڑی لمبی سفید ڈاڑھی تھی سفید رنگ تھا، تسبیح ہاتھ میں لئے بڑے شاندار آدمی معلوم ہوتے تھے اور مغلیہ خاندان کی پوری یادگار تھے تسبیح لئے بیٹھے رہتے جو کوئی نیا آدمی آتا اُسے اپنے پاس بلا کر بٹھا لیتے اور سمجھانا شروع کر دیتے کہ مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر میں نے کیوں نہ اسے مان لیا؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں.میں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جولوگوں کو لوٹنے کے لئے کھولی گئی ہے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ باہر سے پانچ بھائی آئے غالبا وہ چک سکندر ضلع گجرات کے رہنے والے تھے.اب تو لوگ جلسہ کے دوران میں بھی باہر پھرتے رہتے ہیں لیکن اُن پہلے لوگوں میں اخلاص نہایت اعلیٰ درجہ کا تھا اور قادیان میں دیکھنے کی کوئی خاص چیز نہ تھی، نہ منارة امسیح تھا، نہ دفاتر تھے، نہ مسجد مبارک کی ترقیاں ایمان پرور تھیں، نہ مسجد اقصیٰ کی وسعت اس قدر جاذب تھی، نہ محلوں میں یہ رونق تھی ، نہ کالج تھا نہ سکول تھے.اُن دنوں لوگ اپنے اخلاص سے خود ہی قابلِ زیارت جگہ بنا لیا کرتے تھے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد صاحب کا باغ ہے اسے دیکھو اور یہ حضرت صاحب کے لنگر کا باورچی ہے اس سے ملو اور اس سے باتیں پوچھو ان کا ایمان اسی سے بڑھ جاتا تھا اُن دنوں ابھی بہشتی مقبرہ بھی نہ بنا تھا صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد کا لگایا ہوا باغ تھا.لوگ وہاں برکت حاصل کرنے کیلئے جاتے اور علی شیر صاحب رستہ میں بیٹھے ہوئے ہوتے.وہ پانچوں بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا باغ دیکھنے کے لیئے گئے تو اُن میں سے ایک جو زیادہ جوشیلا تھا وہ کوئی دو سو گز آگے تھا اور باقی آہستہ آہستہ پیچھے آ رہے تھے.علی شیر نے اُسے دیکھ کر کہ یہ باہر سے آیا ہے اپنے پاس بُلا لیا اور پوچھا کہ مرزا کو ملنے آئے ہو؟ اُس نے کہا ہاں مرزا صاحب کو ہی ملنے آیا ہوں.علی شیر نے اُس سے کہا ذرا بیٹھ جاؤ اور پھر اُسے سمجھانا شروع کیا کہ میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دکان کھول لی ہے.آپ لوگوں کے پاس کتابیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں.یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو
تذکار مهدی ) 72 روایات سیّد نا محمود بتائیں ہیں.چک سکندر سے آنے والے دوست نے بڑے جوش کے ساتھ مصافحہ کے لیئے ہاتھ بڑھایا.علی شیر صاحب سمجھے کہ شکار میرے ہاتھ آ گیا ہے.اُس دوست نے علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکڑ کر بیٹھ گیا.گویا اسے اُن سے بڑی عقیدت ہوگئی ہے.علی شیر صاحب دل میں سمجھے کہ ایک تو میرے قابو میں آ گیا ہے.اس دوست نے اپنے باقی بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ جلدی آؤ.اب تو مرزا علی شیر پھولے نہ سمائے کہ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہیں وہ بھی میرا شکار ہو جائیں گے اور میں ان کو بھی اپنا گرویدہ بنالوں گا.اس دوست کے باقی ساتھی دوڑ کر آگئے تو اس نے کہا.میں نے تمہیں اس لیئے جلدی بلایا ہے کہ ہم قرآن کریم اور حدیث میں شیطان کے متعلق پڑھا کرتے تھے مگر شکل نہیں دیکھی تھی آج اللہ تعالیٰ نے اُس کی شکل بھی دکھا دی ہے تم بھی غور سے دیکھ لو یہ شیطان بیٹھا ہے.مرزا علی شیر غصہ سے ہاتھ واپس کھینچتے لیکن وہ نہ چھوڑتا تھا اور اپنے بھائیوں سے کہتا جاتا تھا دیکھ لو اچھی طرح دیکھ لو شاید پھر دیکھنا نہ ملے یہ شیطان ہے.پھر اس نے اپنے بھائیوں کو سارا قصہ سنایا.نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 234 تا 239) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بیگم صاحبہ گجرات کے ضلع میں چک سکندر کے قریب بھاؤ گھسیٹ پور ایک گاؤں ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں چند نہایت ہی مخلص بھائی رہا کرتے تھے میں اس وقت چھوٹا تھا مگر مجھے خوب یاد ہے کہ وہ بڑے شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آکر بیٹھا کرتے تھے اور بڑے محظوظ ہوا کرتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ایک سالے تھے.جن کا نام علی شیر تھا چونکہ خدائی منشا اور اس کے احکام کے ماتحت آپ نے حضرت ام المومنین سے شادی کر لی تھی.اس لیئے آپ کی پہلی بیوی کے رشتہ دار آپ سے مخالفت رکھنے لگ گئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی بیوی ایک بہت ہی نیک عورت تھیں.میں نے دیکھا ہے وہ ہم سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ کہنے کو تو لوگ کہتے ہیں کہ ”ماں سے زیادہ چاہے پھاپھا کٹنی کہلائے مگر واقعہ یہ ہے کہ ہم بچپن میں یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہم سے ماں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہیں ہماری بڑی بہن عصمت جب فوت ہوئیں تو ان دنوں چونکہ
تذکار مهدی ) 73 روایات سید نا محمود محمدی بیگم کی پیشگوئی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے رشتہ داروں نے ایک مخالفانہ اشتہار شائع کیا تھا اس لئے ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان کا جو دروازہ تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بند کروا دیا تھا حضرت ام المومنین نے سنایا کہ جب عصمت بیمار ہوئی اور اس کی حالت نازک ہو گئی تو جس طرح ذبح ہوتے وقت مرغی تڑپتی ہے وہ تڑپتی اور بار بار کہتی کہ میری اماں کو بلا دو چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں بلوایا.جب وہ آئیں اور انہوں نے عصمت کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا تو اسے آرام اور سکون حاصل ہوا اور تب اس کی جان نکلی.غرض وہ بہت ہی نیک عورت تھیں اور ان کو اپنی سوکن کے بچوں سے بہت زیادہ محبت تھی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی وہ بڑی محبت رکھتیں اور آپ کی بڑی قدر کرتی تھیں اور آپ کے متعلق کسی سے وہ کوئی بُری بات نہیں سن سکتی تھیں.مگر اُن کے بھائی بڑے متعصب تھے اور وہ آنے والے احمدیوں کو ورغلاتے رہتے تھے اور کہتے تھے میں تو اس کا بھائی اور رشتہ دار ہوں میں جانتا ہوں کہ اس نے صرف ایک دُکان کھول رکھی ہے اور کچھ نہیں اور کئی کمزور لوگوں کو دھوکا لگ جاتا کہ جب بھائی یہ بات کہہ رہا ہے تو ٹھیک ہی ہوگی.میں اس کے حالات کو خوب جانتا ہوں.تم تو باہر کے رہنے والے ہو تمہیں اصل حالات کا کیا علم ہوسکتا ہے.تم اس کے دھوکے میں نہ آناور نہ نقصان اٹھاؤ گے.وہ احمدی دوست مرزا علی شیر کی یہ بات سن کر بڑے شوق سے آگے بڑھے اور کہنے لگے کہ ذرا دست پنجہ تو لے لیں.اُس نے سمجھا کہ میری باتوں کا اس پر اثر ہو گیا ہے اور میری بزرگی کا یہ قائل ہو گیا ہے کیونکہ ان کی عادت تھی کہ وہ باتیں بھی کرتے جاتے اور ساتھ ساتھ سُبْحَانَ الله اور اَسْتَغْفِرُ اللہ بھی کہتے جاتے.اُس نے بڑے شوق سے اپنا ہاتھ بڑھایا اور سمجھا کہ آج ایک اچھا شکار میرے قابو آ گیا ہے.انہوں نے زور سے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے باقی چاروں بھائیوں کو زور زور سے آواز میں دینی شروع کر دیں کہ جلدی آنا ایک ضروری کام ہے.ہمارے ماموں نے سمجھا کہ اس پر میری بات کا اثر ہو گیا ہے اور اب یہ اپنے بھائیوں کو اس لیے بلا رہا ہے کہ انہیں بتائے کہ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے اور وہ اپنے دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج میرا حربہ کارگر ثابت ہوا ہے.مگر جب ان کے بھائی وہاں پہنچ گئے تو وہ کہنے لگے ہم قرآن اور حدیث میں پڑھا کرتے تھے کہ دنیا میں ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر وہ ہمیں ملتا نہیں تھا.آج
تذکار مهدی ) 674 روایات سید نا محمود حُسنِ اتفاق سے ہمیں شیطان مل گیا ہے اور میں نے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ آؤ شیطان کو دیکھ لو.اب وہ زور سے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہے مگر وہ اس کا ہاتھ نہ چھوڑمیں اور کہیں اب آپ ہاتھ چھڑا کر کہاں جانا چاہتے ہیں.میں تو ساری عمر اس تلاش میں رہا کہ مجھے شیطان نظر آ جائے مگر ملتا نہیں تھا.ہم حیران تھے اور نبیوں کے وقت میں تو شیطان ہوا کرتا تھا اب مرزا صاحب کے وقت میں وہ شیطان کہاں گیا.سوشکر ہے کہ آج ہم نے بھی شیطان دیکھ لیا.اب تو میں نے نہیں چھوڑنا.غرض بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگا.“ (روز نامه الفضل 31 اگست 1956 ءجلد 30 نمبر 170 صفحہ 6-5) دادا کے دربار میں پانچ سو حفاظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دادا مرزا گل محمد صاحب کے متعلق بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان کے دربار میں پانچ سو حافظ تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سپاہی وغیرہ ہر قسم کے پیشہ کے لوگ جو ان کے دربار میں تھے ان میں سے ایک کثیر حصہ نے قرآن کریم کو حفظ کیا ہوا تھا.اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت سخت کمزور ہے اور وہ تنزل کے دور سے گذر رہے ہیں مگر اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں لاکھوں لاکھ حفاظ ہندوستان میں سے ہی نکل سکتے ہیں.غرض دوسرا ذریعہ قرآن کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ حفاظ وقراء کی کثرت پیدا کر دی اور یہ چیز بھی ایسی ہے جو کسی کے بس کی نہیں.غرض قرآن کریم کی حفاظت کا ایک سامان خدا تعالیٰ نے یہ کیا کہ دلوں میں اس کے حفظ کی رغبت پیدا کر دی اور اس طرح لاکھوں لوگوں کے سینوں میں اس کا ایک ایک لفظ بلکہ زیر اور زبر تک محفوظ کر دی.خاندان کے اعزازات ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 425-424) ہمارے پاس وہ کاغذات موجود ہیں جن میں گورنمنٹ نے ہمارے خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا اور یہ وعدہ کیا ہوا ہے کہ اس خاندان کو وہی اعزاز دیا جائے گا جو اسے پہلے حاصل تھا.ہمارے پڑدادا کو ہفت ہزاری کا درجہ ملا ہوا تھا جو مغلیہ سلطنت میں صرف شہزادوں کو
تذکار مهدی ) 75 روایات سید نا محمود ملا کرتا تھا پھر عضدالدولہ کا خطاب حاصل تھا.یعنی حکومت مغلیہ کا باز ومگر ہم نے کبھی گورنمنٹ کے سامنے ان کا غذات کو پیش نہیں کیا.( الفضل 23 اکتوبر 1934 ء جلد 22 نمبر 50 صفحہ 3 | حکومت کی طرف سے اعزاز دینے کی پیشکش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی کہا گیا اور دو دفعہ مجھے بھی کہلایا گیا کہ کیا حکومت اگر کوئی خطاب دے تو اسے قبول کر لیا جائے گا.میں نے کہا اگر حکومت ایسا کرے گی تو وہ میری ہتک کرے گی.ہمیں خدا تعالیٰ سے جو کچھ مل چکا ہے اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر حکومت کیا دے سکتی ہے.اپنے متعلق خطاب کا ذکر تو الگ رہا، اگر جماعت احمدیہ کا کوئی شخص بھی خطاب کے متعلق کچھ پوچھتا ہے تو میں اسے یہی کہتا ہوں کہ مجھے تو انسانی خطاب سے گھن آتی ہے.احمدی کہلانے سے بڑا خطاب اور کیا ہوسکتا ہے.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 512) خاندان کی جنگی تاریخ ہمارے خاندان کی تاریخ جنگی تاریخ ہے اور اب بھی ہمارا فوج کے ساتھ تعلق ہے میں نے خود مرزا شریف احمد صاحب کو فوج میں داخل کرایا ہے اور اب ان کا لڑکا فوج میں شامل ہورہا ہے.ہمارے تایا صاحب نے غدر کے موقعہ پر جنگ میں نمایاں حصہ لیا ہمارے دادا فوجی جرنیل تھے.دتی کے بادشاہوں کی چٹھیاں ہمارے پاس محفوظ ہیں جن میں اس امر کا اعتراف ہے کہ ہمارا خاندان ہی تھا جس نے سکھوں کے زمانہ میں اسلام کی حفاظت کے لئے قربانیاں کیں.الفضل 30 جولائی 1937 ء جلد 25 نمبر 175 صفحہ 8 ) جماعت احمد یہ لا ہور کا اخلاص ہماری جماعت کے دوستوں کو یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ احمدیت کو قائم ہوئے ایک لمبازمانہ گزر چکا ہے.اگر براہین احمدیہ سے اس زمانہ کو لیا جائے.تو 70-71 سال ہو گئے ہیں اور اگر بیعت کے آغاز سے اس زمانہ کو شمار کیا جائے تو پھر 65 سال ہو گئے ہیں اور یہ ایک بہت بڑا وقت ہے اور گوقوموں کی عمر کے لحاظ سے اتنے سال کوئی زیادہ لمبا زمانہ نہیں سمجھے جا سکتے.لیکن انسانوں
تذکار مهدی ) 76 روایات سید نا محمودی کی عمر میں یہ ایک بہت بڑا وقت ہے.اس تمام عرصہ میں ابتدائے زمانہ سے ہی لا ہور کا ایک حصہ احمدیت کے ساتھ شامل رہا ہے.ہم چھوٹے ہوتے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ساتھ سفروں میں ہم آتے جاتے تھے.اس وقت عموماً جب آپ کو رستہ میں ٹھہرنا پڑتا.تو لا ہور یا امرتسر میں ہی ٹھہرتے.یوں ابتدائی زمانہ میں آپ کا قیام زیادہ تر لدھیانہ میں رہا ہے.لیکن جماعت کے لحاظ سے لاہور کی جماعت ہمیشہ زیادہ رہی ہے اور دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ مستعد رہی ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے والد صاحب کے زمانہ میں مقدمات کے لیئے اکثر لاہور آتے تھے اور آپ کے والد صاحب کے تعلقات بھی زیادہ تر لاہور کے رؤسا تھے.اس لئے ابتدائی ایام میں ہی یہاں ایک ایسی جماعت پائی جاتی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اخلاص رکھتی تھی.الہی بخش اکا ؤنٹنٹ جو بعد میں شدید مخالف ہو گئے.وہ بھی یہیں کے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میں کفر کا فتویٰ لگانے والوں کے سردار بنے وہ بھی یہیں چینیاں والی مسجد کے امام تھے.اور ان کا زیادہ تر اثر اور رسوخ لاہور ہی میں تھا.گو وہ رہنے والے بٹالہ کے تھے.اسی طرح میاں چراغ دین میاں معراج دین صاحب اور میاں تاج دین صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت پرانے تعلقات تھے.میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کی وجہ سے جو بیعت سے بھی پہلے کے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نگاہ میں بہت قربت رکھتا تھا.پھر حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے.میاں چراغ دین صاحب مرحوم کے تعلقات تو الہی بخش اکاؤنٹنٹ سے بھی پہلے کے تھے.حتی کہ میرے عقیقہ میں جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی.ان میں چراغ دین صاحب بھی تھے.اتفاقاً اس دن سخت بارش ہو گئی.وہ سناتے تھے کہ ہم باغ تک پہنچ مگر آگے پانی ہونے کی وجہ سے نہ جا سکے.اور وہیں سے ہمیں واپس لوٹنا پڑا.پس اس جگہ کی جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب آپ نے ابھی دعوئی بھی نہیں کیا تھا اور براہین لکھی جارہی تھی.پھر خدا تعالیٰ نے ان کے خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے.تاریخ احمدیت لا ہور صفحہ 18-17 ) |
تذکار مهدی ) 77 براہین احمدیہ اور مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی روایات سید نا محمودی مصنف آج کل تو ”زمیندار“ اور ”احسان“ وغیرہ مخالف اخبارات یہ بھی لکھتے رہتے ہیں کہ کوئی مولوی چراغ علی صاحب حیدر آبادی تھے وہ آپ کو یہ مضامین لکھ کر بھیجا کرتے تھے.جب تک اُن کی طرف سے مضامین کا سلسلہ جاری رہا آپ بھی کتاب لکھتے رہے مگر جب انہوں نے مضمون بھیجنے بند کر دیئے تو آپ کی کتاب بھی ختم ہوگئی.گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ مولوی چراغ علی صاحب کو کیا ہو گیا کہ انہیں جو اچھا نکتہ سو جھتا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر بھیج دیتے اور ادھر اُدھر کی معمولی باتیں اپنے پاس رکھتے.آخر مولوی چراغ علی صاحب ہیں.براہین احمدیہ کے مقابلہ میں اُن کی کتابیں رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ آیا کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ پھر وجہ کیا ہے کہ دوسرے کو تو ایسا مضمون لکھ کر دے سکتے تھے جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی اور جب اپنے نام پر کوئی مضمون شائع کرنا چاہتے تو اُس میں وہ بات ہی پیدا نہ ہوتی.پس اول تو انہیں ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضمون لکھ لکھ کر بھیجتے؟ اور اگر بھیجتے تو عمدہ چیز اپنے پاس رکھتے اور معمولی چیز دوسرے کو دے دیتے.جیسے ذوق کے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ظفر کو نظمیں لکھ لکھ کر دیا کرتے تھے.مگر ”دیوان ذوق اور دیوانِ ظفر “ آجکل دونوں پائے جاتے ہیں.انہیں دیکھ کر صاف نظر آتا ہے کہ ذوق کے کلام میں جو فصاحت اور بلاغت ہے وہ ظفر کے کلام میں نہیں.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ ظفر کوکوئی چیز دیتے بھی تھے تو اپنی بچی ہوئی دیتے تھے اعلیٰ چیز نہیں دیتے تھے حالانکہ ظفر بادشاہ تھا غرض ہر معمولی عقل والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اگر مولوی چراغ علی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مضامین بھیجا کرتے تھے تو انہیں چاہیئے تھا کہ معرفت کے عمدہ عمدہ نکتے اپنے پاس رکھتے اور معمولی علم کی باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر بھیجتے.مگر مولوی چراغ علی صاحب کی کتابیں بھی موجود ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں بھی.انہیں ایک دوسرے کے مقابلہ میں رکھ کر دیکھ لو کوئی بھی ان میں نسبت ہے؟ انہوں نے تو اپنی کتابوں
تذکار مهدی ) 78 روایات سید نا محمود میں صرف بائیل کے حوالے جمع کیئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کے وہ معارف پیش کیئے ہیں جو تیرہ سو سال میں کسی مسلمان کو نہیں سو جھے اور ان معارف اور علوم کا سینکڑواں بلکہ ہزارواں حصہ بھی ان کی کتابوں میں نہیں.“ ( فضائل القرآن (2) انوار العلوم جلد 14 صفحہ 350) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت 1889ء میں پیدا ہوا 1898ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی.گو بوجہ احمدیت کی پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا ہونے کی علامت تھی.دعاؤں کی عادت یاد ایام، انوار العلوم جلد 8 صفحہ 365) خدا کا فرستاده مسیح موعود علیہ السلام جسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا.أُجِيبُ كُلَّ دُعَائِكَ إِلَّا فِي شُرَكَائِکَ.جس سے وعدہ تھا کہ میں تیری سب دعائیں قبول کروں گا، سوائے ان کے جو شر کاء کے متعلق ہوں.وہ ہنری مارٹن کلارک والے مقدمہ کے موقع پر مجھے جس کی عمر صرف 9 سال کی تھی دعا کے لئے کہتا ہے.گھر کے نوکروں اور نوکرانیوں کو کہتا ہے کہ دعائیں کرو.پس جب وہ شخص جس کی سب دعائیں قبول کرنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا تھا، دوسروں سے دعائیں کرانا ضروری سمجھتا ہے اور اس میں اپنی ہتک نہیں سمجھتا تو ایک ڈاکٹر کا دوسرے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا، کس طرح ہتک کا موجب ہوسکتا.پس دیانت، ایمان اور دین کے لحاظ سے ایک معالج کا فرض ہے کہ جب حالت خطر ناک دیکھے تو مشورہ دے کہ کسی اور کو بلا لیا جائے.(خطبات محمود جلد 14 صفحہ 132-131) جبرائیل اب بھی آتا ہے میری عمر جب نو یا دس برس کی تھی.میں اور ایک اور طالب علم گھر میں کھیل رہے تھے.وہیں الماری میں ایک کتاب پڑی ہوئی تھی جس پر نیلا نجز دان تھا اور وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی.نئے نئے علوم ہم پڑھنے لگے تھے اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب
تذکار مهدی ) 79 روایات سید نا محمود جبرائیل نازل نہیں ہوتا.میں نے کہا یہ غلط ہے میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے.اس لڑکے نے کہا جبرائیل نہیں آتا کتاب میں لکھا ہے.ہم میں بحث ہو گئی.آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا.آپ نے فرمایا.کتاب میں غلط لکھا ہے.جبرائیل (سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 149) اب بھی آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کا ایک انداز بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے.کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں.مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنی زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے.ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک رات ہم سب صحن میں سورہے تھے گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا اور زور سے گر جنے لگا.اسی دوران قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گرمی ہے.اس کڑک اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی اس وقت ہم بھی جو صحن میں سورہے تھے اٹھ کر اندر چلے گئے مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب اندر کی طرف جانے لگے تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے ان پر نہ گرے بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے تو مجھے اپنی اس حرکت پر ہنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے.میں سمجھتا ہوں میری وہ حرکت ایک مجنون کی حرکت سے کم نہیں تھی.مگر مجھے ہمیشہ خوشی ہوا کرتی ہے کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اس محبت کو ظاہر کر دیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تھی بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے.جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہوتو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی کا اندازہ ہو جاتا ہے تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے عقل اس وقت کام نہیں کرتی محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو اور وہ آپ سامنے آ جاتی ہے.(سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 150-149)
تذکار مهدی ) حق الیقین 80 روایات سید نا محمود میں علمی طور پر بتلاتا ہوں کہ میں نے حضرت صاحب کو والد ہونے کی وجہ سے نہیں مانا تھا بلکہ جب میں گیارہ سال کے قریب تھا تو میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ اگر میری تحقیقات میں وه نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹے نکلے تو میں گھر سے نکل جاؤں گا.مگر میں نے ان کی صداقت کو سمجھا اور میرا ایمان بڑھتا گیائی کہ جب آپ فوت ہوئے تو میرا یقین اور بھی بڑھ گیا.“ 1900 کا قابل یادگارسال (سوانح فضل عمر جلد اول صفحه 96) 1900 ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا تھا.میں نے آپ سے وہ جبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے میں اسے پہن نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے دامن میرے پاؤں کے نیچے لٹکتے رہتے تھے.جب میں گیارہ سال کا ہو ا اور 1900ء نے دنیا نے قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے؟ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے.وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی یہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا.سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا.میں اپنے جاموں میں پھولا نہیں سماتا تھا.میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدا یا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو.اس وقت میں گیارہ سال کا تھا آج میں پینتیس (35) سال کا ہوں مگر آج بھی میں اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا! تیری ذات کے متعلق مجھے کوئی شک پیدا نہ ہو.ہاں اس وقت میں بچہ تھا.اب مجھے زیادہ تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدا یا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو.
تذکار مهدی ) 81 روایات سید نا محمود بات کہاں سے کہاں نکل گئی.میں لکھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک جبہ میں نے مانگ لیا تھا جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے اور متبرک ہے یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا.پہن لیا تب میں نے اس کو ٹھڑی کا جس میں میں رہتا تھا دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا، خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا.اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کے ابھی باقی تھے.یا دایام.انوار العلوم جلد نمبر 8 صفحہ 366-365) گیارہ سال کی عمر میں پختہ ایمان میں گیارہ سال کا تھا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ توفیق عطا فرمائی کہ میں اپنے عقیدہ کو ایمان سے بدل لوں مغرب کے بعد کا وقت تھا.میں اپنے مکان میں کھڑا تھا کہ یک دم مجھے خیال آیا کیا میں اس لیئے احمدی ہوں کہ بانی سلسلہ احمد یہ میرے باپ ہیں یا اس لئے احمدی ہوں کہ احمدیت سچی ہے اور یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے یہ خیال آنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس بات پر غور کر کے یہاں سے نکلوں گا اور اگر مجھے پتہ لگ گیا کہ احمدیت کچی نہیں تو میں اپنے کمرہ میں داخل نہیں ہوں گا بلکہ یہیں صحن سے باہر نکل جاؤں گا.یہ فیصلہ کر کے میں نے غور کرنا شروع کیا اور قدرتی طور پر اس کے نتیجہ میں بعض دلائل میرے سامنے آئے جن پر میں نے جرح کی.کبھی ایک دلیل دوں اور اسے توڑوں پھر دوسری دلیل دوں اور اسے رد کروں پھر تیسری دلیل دوں اور اسے توڑوں یہاں تک کہ ہوتے ہوتے یہ سوال میرے سامنے آیا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے؟ اور کیا میں ان کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سچے ہیں یا میں ان کو اس لئے سچا مانتا ہوں کہ مجھ پر دلائل و براہین کی رو سے یہ روشن ہو چکا ہے کہ واقعہ میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم راستباز
تذکار مهدی ) 82 روایات سید نا محمود صلى الله رسول کے ہیں.جب یہ سوال میرے سامنے آیا تو میرے دل نے کہا اب میں اس امر کا بھی فیصلہ کر کے ہٹوں گا.اس کے بعد قدرتی طور پر خدا تعالیٰ کے متعلق میرے دل میں سوال پیدا ہوا اور میں نے کہا یہ سوال بھی حل طلب ہے کہ آیا میں خدا تعالیٰ کو یونہی عقیدہ کے طور پر مانتا ہوں یا سچ سچ یہ حقیقت مجھ پر منکشف ہو چکی ہے کہ دنیا کا ایک خدا ہے تب اللہ تعالیٰ کے سوال پر بھی میں نے غور کرنا شروع کیا اور میرے دل نے کہا اگر خدا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہے ہیں اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی سچے ہیں اور اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں تو پھر احمدیت بھی یقینا سچی ہے اور اگر دنیا کا کوئی خدا نہیں تو پھر ان میں سے کوئی بھی سچا نہیں اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج میں اس سوال کو حل کر کے رہوں گا اور اگر میرے دل نے یہی فیصلہ کیا کہ کوئی خدا نہیں تو پھر میں اپنے گھر میں نہیں رہوں گا.بلکہ فوراً باہر نکل جاؤں گا.یہ فیصلہ کر کے میں نے سوچنا شروع کر دیا اور سوچتا چلا گیا اپنی عمر کے لحاظ سے میں اس سوال کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا مگر پھر بھی میں غور کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میرا دماغ تھک گیا.اس وقت میں نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی اس دن بادل نہیں تھے.آسمان کا جو نہایت ہی مصفی تھا اور ستارے نہایت خوشنمائی کے ساتھ آسمان پر چمک رہے تھے ایک تھکے ہوئے دماغ کے لئے اس سے زیادہ فرحت افزاء اور کون سا نظارہ ہوسکتا تھا.میں نے بھی ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیا یہاں تک کہ میں ان ستاروں میں کھویا گیا تھوڑی دیر کے بعد جب پھر میرے دماغ کو ترو تازگی حاصل ہوئی تو میں نے اپنے دل میں کہا کیسے اچھے ستارے ہیں مگر ان ستاروں کے بعد کیا ہو گا.میرے دماغ نے اس کا یہ جواب دیا کہ ان کے بعد اور ستارے ہوں گے.پھر میں نے کہا ان کے بعد کیا ہو گا.اس کا جواب بھی میرے دل نے یہی دیا کہ ان کے بعد اورستارے ہوں گے پھر میرے دل نے کہا اچھا تو پھر ان کے بعد کیا ہو گا.میرے دماغ نے پھر یہی جواب دیا کہ اُن کے بعد اور ستارے ہوں گے میں نے کہا اچھا تو پھر اس کے بعد کیا ہو گا.اس کا بھی پھر وہی جواب میرے دل اور دماغ نے دیا کہ کچھ اور ستارے ہوں گے تب میرے دل نے کہا کہ یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد
تذکار مهدی ) 83 روایات سید نا محمود تیسرے اور تیسرے کے بعد چوتھا ستارے ہو کیا یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہو گا اگر ختم ہو گا تو اس کے بعد کیا ہو گا.یہی وہ سوال ہے جس کے متعلق اکثر لوگ حیران رہتے ہیں اور وہ کہتے ہیں ہم جو کہتے ہیں کہ خدا غیر محدود ہے اس کے کیا معنی ہیں اور ہم جو کہتے ہیں خدا ابدی ہے اس کے کیا معنی ہیں.آخر کوئی نہ کوئی حد ہونی چاہیئے یہی سوال میرے دل میں ستاروں کے متعلق پیدا ہوا اور میں نے کہا آخر یہ کہیں ختم بھی ہوتے ہیں یا نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر ختم نہیں ہوتے تو یہ کیا سلسلہ ہے جس کی کوئی انتہا نہیں جب میرا دماغ یہاں تک پہنچا تو میں نے کہا خدا کی ہستی کے متعلق محدود اور غیر محدود کا سوال بالکل لغو ہے.تم خدا تعالیٰ کو جانے دو تم ان ستاروں کے متعلق کیا کہو گے میری آنکھوں کے سامنے یہ پڑے ہیں.اگر ہم ان کو محدود کہتے ہیں تو محدود وہ ہوتا ہے جس کے بعد دوسری چیز شروع ہو جائے پس سوال یہ ہے کہ اگر یہ محدود ہیں تو ان کے بعد کیا ہے اور پھر اگر وہ بھی محدود ہے تو اس کے بعد کیا ہے اور اگر کہو کہ یہ غیر محدود ہیں تو اگر ستاروں کی غیر محدودیت کا انسان قائل ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ کی غیر محدودیت کا کیوں قائل نہیں ہو سکتا.تب میرے دل نے کہا ہاں واقعہ میں خدا موجود ہے کیونکہ اس نے قانون قدرت میں وہی اعتراض رکھ دیا ہے جو اس کی ذات پر پیدا ہوتا ہے اور اس نے بتا دیا ہے کہ تم مجھے غیر مرئی چیز سمجھ کر اگر یہ اعتراض کرتے ہو تو پھر وہ چیز یں جو تمہیں نظر آ رہی ہیں ان کے متعلق تمہارا کیا جواب ہے جبکہ وہی اعتراض جو تم مجھ پر کرتے ہو ان پر بھی عائد ہوتا ہے اور تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تم خدا تعالیٰ کے متعلق تو بے تکلفی سے یہ کہہ دو گے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ وہ غیر محدود ہے؟ (الفضل 27 ستمبر 1938 ء جلد 26 نمبر 223 صفحہ 8 مجھے خدا تعالیٰ کا ثبوت مل گیا اگر کسی غیر شخص کو مذہب کے معاملہ میں حج ماننا جائز ہو تو ماں باپ کی رائے کو ہی کیوں نہ مانا جائے.یہ ایک ایسی بات ہے جسے میں کسی صورت میں نہیں مان سکتا میری تو یہ حالت ہے کہ باوجود یکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر میں پیدا ہوا.ابھی میری عمر گیارہ برس کی تھی کہ میں نے ایک دن خیال کیا کہ کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس
تذکار مهدی ) 84 روایات سید نامحمود لئے مانتا ہوں کہ میں اُن کا بیٹا ہوں یا میرے پاس اُن کی صداقت کے ثبوت ہیں.میں اُس وقت گھر سے باہر تھا اور میں نے خیال کیا کہ اگر میرے پاس ان کی صداقت کے ثبوت نہیں ہیں تو میں گھر میں واپس نہ جاؤں گا بلکہ یہیں سے اسی وقت کہیں باہر چلا جاؤں گا.جب میں نے اپنے دل میں اس سوال کو حل کرنا شروع کیا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوئی میں بچے ہیں یا نہیں؟ تو میں نے اس سوال کو قرآن کریم اور احادیث کی روشنی میں حل کرنا چاہا.اس پر مجھے خیال آیا کہ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں ان کو بھی اسی لیئے سچا سمجھتا ہوں کہ میں نے ماں باپ سے سنا ہے کہ یہ بچے ہیں.تب میں نے اپنے دل میں اس سوال پر بحث شروع کی کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سچے ہیں؟ اس سوال پر غور کرتے ہوئے مجھے خیال آیا کہ کیا توحید الہی کے ثبوت میرے پاس ہیں؟ یا میں اسے صرف اس لئے مانتا ہوں کہ میرے ماں باپ اس کے قائل ہیں.تب میں نے خدا تعالیٰ کی پیدا کی گئی کائنات اور اُس کی قدرتوں سے اس سوال کو حل کرنا شروع کیا اور توحید الہی پر غور کرتا گیا حتی کہ میرا دماغ تھک گیا اور آرام کرنا چاہا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ یا تو میں اس سوال کو حل کر کے چھوڑوں گا اور یا میں گھر میں داخل نہ ہوں گا.اُس وقت آسمان صاف تھا اور یہ آخری سوال تھا جسے میں حل کرنا چاہتا تھا میں نے خیال کیا کہ جب ہر چیز کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہو جاتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ کو غیر محمد دو ماننا کیونکر درست ہوسکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کو غیر محدود ماننا درست ہے تو دوسری چیزوں کے متعلق بھی ایسا کیوں نہ سمجھا جائے اور میری طبیعت یہاں آکر رکی کہ خدا تعالیٰ کا غیر محدود ہونا سمجھ میں نہیں آ سکتا اور محدود خدا نہیں ہو سکتا.میری نظر ستاروں پر پڑی اور وہ بہت خوبصورت نظر آتے تھے.میں نے خیال کرنا شروع کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا؟ میرے نفس نے جواب دیا کہ اورستارے ہوں گے پھر میں نے خیال کیا کہ ان کے پیچھے اور کیا ہوگا؟ اور پھر میرے نفس نے جواب دیا کہ اور ستارے ہوں گے.اور ان کے پیچھے؟ تب میرے نفس نے جواب دیا کہ یہ تو ایک لامتناہی سلسلہ بن گیا یہ کہاں ختم ہوگا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ محدود دماغ میں نہیں آسکتا اور اس کی حد بندی نہیں کی جا سکتی.تب میرا دماغ واپس لوٹا اور میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو اپنی قدرتوں سے ظاہر کرتا ہے اور مجھے پتہ لگ گیا کہ اسی سوال کو حل کرنے کے لیئے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا ہے.ہم ستاروں کے بارہ میں جب یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ یہ سلسلہ کہاں ختم ہوتا ہے اور زمین کے بارہ
تذکار مهدی ) 85 روایات سید نا محمود ) میں یہ بھی فیصلہ نہیں کر سکتے کہ اس کی جگہ پہلے کیا تھا؟ کہا جاتا ہے پہلے پانی ہی پانی تھا تو پھر سوال ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کیا تھا اور پھر اس سے پہلے کیا تھا، یہ ایک لا متناہی سلسلہ بن جاتا ہے کہ جسے سمجھنا ممکن نہیں مگر ہم ان دونوں چیزوں کا انکار بھی نہیں کر سکتے.اگر کوئی ان کا انکار کرے تو لوگ اُسے پاگل کہیں گے اور ان کی موجودگی میں خدا تعالیٰ کے بارہ میں شبہ کرنا بھی ویسا ہی پاگلا نہ خیال ہے اور اس طرح یکدم مجھے خدا تعالیٰ کا ثبوت مل گیا.اور پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید سے آپ کے بچے ہونے کا ثبوت مل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ثبوت مل گیا.تو میں جس نے مذہب کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بغیر ثبوت کے حکم ماننا تسلیم نہ کیا وہ کسی اور کو مذہبی عقائد کے بارہ میں حج کیوں کر مان سکتا ہے؟ بعض اہم اور ضروری امور (1944 ء ).انوار العلوم جلد 17 صفحہ 471 تا 473) ٹیپوسلطان مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک کتا ہمارے دروازے پر آیا میں وہاں کھڑا تھا اندر کمرہ میں حضرت صاحب تھے میں نے اس کتے کو اشارہ کیا اور کہا ٹیپو، ٹیپو ٹیپو حضرت صاحب بڑے غصے سے باہر نکلے اور فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی کہ انگریزوں نے تو دشمنی کی وجہ سے اپنے کتوں کا نام ایک صادق مسلمان کے نام پر ٹیپو رکھ دیا ہے اور تم اُن کی نقل کر کے کتے کو ٹیپو کہتے ہو.خبردار آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا میری عمر اس وقت شائد آٹھ نو سال کی تھی وہ پہلا دن تھا جب سے میرے دل کے اندر سلطان ٹیپو کی محبت قائم ہوگئی اور میں نے سمجھا کہ سلطان ٹیپو کی قربانی رائیگاں نہیں گئی.خدا تعالیٰ نے اس کے نام کو اتنی برکت دی کہ آخری زمانہ کا مامور بھی اس کی قدر کرتا تھا اور اس کے لئے غیرت رکھتا تھا.الفضل یکم اپریل 1958 ء جلد 47/12 نمبر 85 صفحہ 3) آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اوروں کو دعا کیلئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے ارد گرد
تذکار مهدی ) 86 روایات سید نا محمودی پہرے لگے ہوئے ہیں.میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ ہوتا تھا.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کر کے آگے اُپلے چن دیئے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں.مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی.وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوتے.میں اس سے بہت گھبرایا لیکن جب میں نے اس دروازے کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ :- جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ جلا نہیں سکتی.“ و, سیدانی فقیرنی سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحہ 154-153 ) ایک دفعہ ایک سیدانی فقیر نی ہمارے گھر آئی میں اسوقت چھوٹا تھا.وہ آکر چار پائی پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی.میں آل رسول ﷺ ہوں مجھے کچھ دو.حضرت صاحب نے بھی کچھ دیا اور گھر کے لوگوں نے بھی دیا.پھر اس نے پانی مانگا مگر جب ایک عورت نے اسے پانی دیا تو سخت ناراض ہو کر کہنے لگی.امتیوں کے گلاس میں مجھے پانی دیتی ہے.ہم سادات آل رسول ہے ہیں.اول تو پانی پلانے کے لئے نیا گلاس چاہیئے تھا اور اگر پرانے ہی میں پانی دینا تھا تو پہلے اسے اچھی طرح مانجھنا تھا.اب وہ فقیر نی ہو کر آئی تھی مگر باوجود اس کے اس میں وہ عادت موجود تھی جو ناواجب ادب و احترام کرتے رہنے سے پیدا ہو جاتی ہے.ریوڑیاں اور کونین (خطبات محمود جلد 10 صفحہ 70 ) ایک دفعہ میں ایک جگہ گیا اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا.وہاں میں نے بورڈنگ میں دیکھا کہ ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور ایسی طرز پر کھا رہا تھا کہ اس کی حالت قابل بنی تھی.یعنی ریوڑیوں کو اس نے چھپایا ہوا تھا جیسے ڈرتا ہے کہ اور کوئی نہ دیکھ لے.مجھے ہنسی آگئی اور میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا سنا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ریوڑیاں پسند ہیں اس سنت کو پورا کرتا ہوں.میں نے کہا آپ تو کونین بھی کھاتے ہیں وہ بھی کھاؤ.تو جہاں انسان اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے وہاں ہمیشہ ایسی باتوں کو لے لیتا ہے جواس
تذکار مهدی ) 87 کے حق میں مفید ہوں اور دوسری باتوں کو چھوڑ دیتا ہے.مذاہب کے موازنہ کی عادت ڈالیں روایات سید نا محمود تقدیر الہی.انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 477 ) مجھے بھی اپنے بچپن کی ایک جہالت یاد ہے.جب میں چھوٹا بچہ تھا تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بعض دشمن آتے اور آپ پر اعتراض کرتے تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت سادگی سے بات کرتے تھے بعض دفعہ مجھے یہ وہم ہوتا تھا شاید آپ اُس شخص کی چالا کی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے مگر جب دشمن مخالفت میں بڑھتا جاتا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی آسمانی طاقت نے آپ پر قبضہ کر لیا ہے اور آپ اس شان سے جواب دیتے کہ مجلس پر سناٹا چھا جاتا تھا.ایسی ہی بے وقوفی ان لوگوں کی ہے جو اس وقت کہ جب کوئی شخص قرآن شریف پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں چپ ہو جاؤ ورنہ تمہارا ایمان ضائع ہو جائے گا حالانکہ یہ فضول بات ہے.چاہئے تو یہ کہ قرآن شریف پر جو اعتراض ہوں ان کے جوابات ایسے دیئے جاویں کہ دشمن بھی ان کی صداقت کو مان جائے نہ یہ کہ اعتراض کرنے والے کو اعتراض کرنے سے منع کر دیا جائے اور شکوک کو اُس کے دل میں ہی رہنے دیا جائے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک بات خوب یاد ہے میں نے کئی دفعہ اپنے کانوں سے وہ بات آپ کے منہ سے سنی ہے.آپ فرمایا کرتے کہ اگر دنیا میں سارے ابو بکڑ جیسے لوگ ہوتے تو اتنے بڑے قرآن شریف کی ضرورت نہیں تھی.صرف بسم اللہ کی ب کافی تھی.قرآن کریم کا اتنا پر معارف کلام جو نازل ہوا ہے یہ ابوجہل کی وجہ سے ہے.اگر ابو جہل جیسے انسان نہ ہوتے تو اتنے مفصل قرآن شریف کی ضرورت نہ تھی.غرض قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس پر جتنے اعتراضات ہوں گے اتنی ہی اس کلام کی خوبیاں ظاہر ہوں گی.پس یہ ڈر کہ اعتراض مضبوط ہوگا تو اس کا جواب کس طرح دیا جائے گا ایک شیطانی وسوسہ ہے.کیا خدا کے کلام نے ہمارے ایمان کی حفاظت کرنی ہے یا ہم نے خدا کے کلام کی حفاظت کرنی ہے؟ وہ کلام جس کو اپنے بچاؤ کے لئے انسان کی ضرورت ہے وہ جھوٹا کلام ہے اور چھوڑ دینے کے لائق، ہمارے کام کا نہیں.ہمارے کام کا وہی قرآن شریف ہے جس کی حفاظت
تذکار مهدی ) 88 روایات سید نا محمودی کیلئے کسی انسان کی ضرورت نہ ہو بلکہ اس کا محافظ خدا ہو اور اس پر جو اعتراض ہو وہ خود اُس کو دور کرے اور اپنی عظمت آپ ظاہر کرے ہمارا قرآن کریم ایسا ہی ہے.ہاں ہمیں یہ ضرور چاہیئے کہ نہ اعتراض کو اس کی حقیقت سے چھوٹا کریں اور نہ ہی حقیقت سے باہر لے جا کر بڑا بنا دیں بلکہ ہمیں چاہیئے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جو موازنہ کی طاقت دی ہے اس سے کام لیں.قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 161-160 ) | بچپن میں شکار کرنے کی عادت بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق لے دی اور میں چند اور بچوں کے ساتھ موضع ناتھ پور کی طرف شکار کرنے چلا گیا.کھیتوں میں ایک سکھ لڑکا ہمیں ملا اور کہنے لگا یہ کیا ہے؟ ہم نے بتایا کہ بندوق ہے.وہ پوچھنے لگا اس سے کیا کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ شکار مارتے ہیں.اس نے کہا کچھ مارا بھی ہے.ہم نے کہا ہاں ایک فاختہ ماری ہے.وہ کہنے لگا ہمارے گاؤں میں چلو وہاں بہت سی فاختائیں ملیں گی جو بیریوں وغیرہ پر بیٹھی رہتی ہیں.ہم نے اسے کہا کہ گاؤں کے لوگ ناراض تو نہ ہوں گے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں ناراض کیوں ہوں گے تم لوگوں نے فاختہ ہی مارنی ہے ان کو اس سے کیا.خیر وہ ہمیں ساتھ لے کر گاؤں میں پہنچا اور ایک درخت پر کچھ فاختائیں بیٹھی ہوئی دیکھ کر کہنے لگا کہ وہ ہیں مارو.میں نے بندوق چلائی اور غالباً ایک کو مار لیا.پھر وہ ہمیں آگے ایک اور درخت کے پاس لے گیا اس پر بھی فاختہ بیٹھی تھیں.وہ کہنے لگا کہ لواب ان کو مارو.اتنے میں ایک بڑھیا نکلی اور کہنے لگی کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی جیو ہتیا کرتے ہو اور اپنے گاؤں کے لڑکوں کو مخاطب کر کے کہنے لگی کہ تم بڑے بے شرم ہو جو د یکھتے ہو اور منع نہیں کرتے.اس کا یہ کہنا تھا کہ وہی لڑکا جو ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا فوراً بگڑ گیا اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور ہمیں کہنے لگا تم کیوں ہمارے گاؤں میں شکار کرتے ہو؟ ہمیں ساتھ لانا اس کا ایک عارضی اثر کے ماتحت تھا مگر جیو ہتیا کی مخالفت ایک پرانا اثر تھا اور اس کے رونما ہوتے ہی وہ عارضی اثر بالکل زائل ہو گیا اور قطعاً بُھول گیا کہ خود ہمیں اپنے ساتھ لایا تھا.ہم آنے میں متامل تھے کہ لوگ ناراض نہ ہوں مگر اس نے ہمیں یہ یقین دلایا
تذکار مهدی ) 89 روایات سید نا محمود تھا کہ نہیں کوئی ناراض نہیں ہوگا.تو بعض مسائل کا اثر دماغ پر بہت گہرا ہوتا ہے اور جب تک دماغ کی اصلاح اس کے مطابق نہ کی جائے یا پھر جب تک اس اصل کی غلطی اس پر پوری طرح واضح نہ کر دی جائے منفر داعمال میں انسان کی اصلاح ناممکن ہوتی ہے.علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا (خطبات محمود جلد 18 صفحہ 216) 1889ء میں جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ نشان مانگا تھا پھر جوں جوں میں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے.بچپن میں میری صحت نہایت کمزور تھی پہلے کالی کھانسی ہوئی اور پھر میری صحت ایسی گر گئی کہ گیارہ بارہ سال کی عمر تک میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور عام طور پر یہی سمجھا جاتا رہا کہ میری زیادہ لمبی عمر نہیں ہو سکتی.اسی دوران میں میری آنکھیں دُکھنے آ گئیں اور اس قدر دکھیں کہ میری ایک آنکھ قریباً ماری گئی.چنانچہ اس میں سے مجھے بہت کم نظر آتا ہے.پھر جب میں اور بڑا ہوا تو متواتر چھ سات ماہ تک مجھے بخار آتا رہا اور رسل اور دق کا مریض مجھے قرار دے دیا گیا.ان وجوہ سے میں با قاعدہ پڑھائی بھی نہیں کر سکتا تھا.لاہور کے ہی ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کی مسلم ٹاؤن میں کوٹھی ہے ہمارے سکول میں حساب پڑھایا کرتے تھے.انہوں نے ایک دفعہ میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ پڑھنے نہیں آتا اور اکثر غائب رہتا ہے.میں ڈرا کہ شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ناراض ہوں گے مگر آپ فرمانے لگے ماسٹر صاحب! اس کی صحت کمزور رہتی ہے ہم اتنا ہی شکر کرتے ہیں کہ یہ کبھی کبھی مدرسہ میں چلا جاتا ہے اور کوئی بات اس کے کانوں میں پڑ جاتی ہے زیادہ زور اس پر نہ دیں.بلکہ مجھے یاد ہے آپ نے یہ بھی فرمایا ہم نے حساب سکھا کر اسے کیا کرنا ہے.کیا ہم نے اس سے کوئی دُکان کرانی ہے.قرآن اور حدیث پڑھ لے گا تو کافی ہے.غرض میری صحت ایسی کمزور تھی کہ دنیا کے علم پڑھنے کے میں بالکل نا قابل تھا میری نظر بھی کمزور تھی میں پرائمری مڈل اور انٹرنس کے امتحان میں فیل ہوا ہوں کسی امتحان میں پاس نہیں ہوا.مگر خدا نے میرے متعلق خبر دی تھی کہ میں علوم ظاہری اور باطنی
تذکار مهدی ) 90 روایات سید نامحمودی سے پر کیا جاؤں گا.چنانچہ باوجود اس کے کہ دنیوی علوم میں سے کوئی علم میں نے نہیں پڑھا اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان علمی کتابیں میرے قلم سے لکھوائیں کہ دنیا ان کو پڑھ کر حیران ہے اور وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہے کہ اس سے بڑھ کر اسلامی مسائل کے متعلق اور کچھ نہیں لکھا جا سکتا.ابھی تفسیر کبیر کے نام سے میں نے قرآن کریم کی تفسیر کا ایک حصہ لکھا ہے اسے پڑھ کر بڑے بڑے مخالفوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس جیسی آج تک کوئی تفسیر نہیں لکھی گئی.پھر ہمیشہ میں لاہور میں آتا رہتا ہوں اور یہاں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ مجھ سے کالجوں کے پروفیسر ملنے آتے ہیں، سٹوڈنٹس ملنے آتے ہیں، ڈاکٹر ملنے آتے ہیں، مشہور پلیڈر اور وکیل ملنے آتے ہیں مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی بڑے سے بڑے مشہور عالم نے میرے سامنے اسلام اور قرآن پر کوئی اعتراض کیا ہواور میں نے اسلام اور قرآن کی تعلیم کی روشنی میں ہی اُسے ساکت اور لاجواب نہ کر دیا ہو اور اسے یہ تسلیم نہ کرنا پڑا ہو کہ واقعہ میں اسلام کی تعلیم پر کوئی حقیقی اعتراض نہیں ہوسکتا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہے ورنہ میں نے دُنیوی علوم کے لحاظ سے کوئی علم نہیں سیکھا لیکن میں اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا نے مجھے اپنے پاس سے علم دیا اور خود مجھے ہر قسم کے ظاہری اور باطنی علوم سے حصہ عطا فرمایا.میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ ایک گھنٹی بجی ہے اور اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک تصویر کے فریم کی صورت اختیار کر گئی.پھر میں نے دیکھا کہ اُس فریم میں ایک تصویر نمودار ہوئی.تھوڑی دیر کے بعد وہ تصویر لنی شروع ہوئی اور پھر یکدم اُس میں سے کود کر ایک وجود میرے سامنے آ گیا اور اُس نے کہا میں خدا کا فرشتہ ہوں اور تمہیں قرآن کریم کی تفسیر سکھانے کے لئے آیا ہوں.میں نے کہا سکھاؤ.تب اُس نے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کر دی وہ سکھاتا گیا، سکھاتا گیا اور سکھاتا گیا یہاں تک کہ جب وہ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تک پہنچا تو کہنے لگا آج تک جتنے مفسر گزرے ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے لیکن میں تمہیں اس کے آگے بھی تفسیر سکھاتا ہوں.چنانچہ اس نے ساری سورۃ فاتحہ کی تفسیر مجھے سکھا دی.اس رؤیا کے معنی در حقیقت یہی تھے کہ فہم قرآن کا ملکہ میرے اندر رکھ دیا گیا ہے.
تذکار مهدی ) 91 روایات سیّد نا محمود چنانچہ یہ ملک میرے اندر اس قدر ہے کہ میں یہ دعویٰ کرتا ہوں اور جس مجلس میں چا ہوئیں یہ دعویٰ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ سورۃ فاتحہ سے ہی میں تمام اسلامی علوم بیان کرسکتا ہوں.میں ابھی چھوٹا ہی تھا سکول میں پڑھا کرتا تھا کہ ہمارے سکول کی فٹ بال ٹیم امرتسر کے خالصہ کالج کی ٹیم سے کھیلنے کے لیئے گئی.مقابلہ ہوا اور ہماری ٹیم جیت گئی.اس پر باوجود اُس مخالفت کے جو مسلمان ہماری جماعت کے ساتھ رکھتے ہیں چونکہ ایک رنگ میں مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی تھی اس لیئے امرتسر کے ایک رئیس نے ہماری ٹیم کو چائے کی دعوت دی.جب ہم وہاں گئے تو مجھے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کر دیا گیا.میں نے اس تقریر کے لئے کوئی تیاری نہیں کی تھی.جب مجھے کھڑا کیا گیا تو معاً مجھے یہ رویا یاد آ گیا اور میں نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ اے خدا! تیرا فرشتہ مجھے خواب میں سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھا گیا تھا.آج میں اس بات کا امتحان لینا چاہتا ہوں کہ یہ خواب تیری طرف سے تھا یا میرے نفس کا دھوکا تھا.اگر یہ خواب تیری طرف سے تھا تو تو مجھے سورہ فاتحہ کا ہی آج کوئی ایسا نکتہ بتا جو اس سے پہلے دنیا کے کسی مفسر نے بیان نہ کیا ہو.چنانچہ اس دعا کے معاً بعد خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایک نکتہ ڈالا.میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 213 تا216) فرشتہ کا تفسیر قرآن سکھانا میں بچہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی زندہ تھے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھا جو میں نے بار ہا سنایا ہے مگر وہ رویا ایسا ہے کہ اگر میں اُسے لاکھوں دفعہ سناؤں تب بھی کم ہے اور اگر تم اسے لاکھوں دفعہ سنوتب بھی کم ہے، پھر اگر تم لاکھوں دفعہ سُن کر اس پر لاکھوں دفعہ غور کرو تب بھی اس کی اہمیت کے لحاظ سے یہ کم ہوگا.میں نے دیکھا کہ میں ایک جگہ کھڑا ہوں مشرق کی طرف میرا منہ ہے کہ یک دم مجھے آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے پیتل کا کوئی کٹورا ہو اور اُسے انگلی سے ٹھکور دیں تو اُس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوتی ہے.مجھے بھی ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے کٹورے کو انگلی ماری ہے اور اس میں سے ٹن کی آواز پیدا ہوئی ہے.پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ آواز پھیلنی اور بلند ہونی شروع ہوئی جیسا کہ آوازیں ہمیشہ جو میں پھیلا کرتی ہیں.پہلے تو وہ آواز مجھے سمٹی ہوئی معلوم ہوئی مگر پھر دُور دُور تک پھیلنی شروع ہوگئی جب وہ آواز تمام جو
تذکار مهدی ) 92 روایات سید نا محمود میں پھیلنے لگی تو میں نے ایک عجیب بات یہ دیکھی کہ وہ آواز ساتھ ہی ساتھ ایک نظارہ کی شکل میں بدلتی چلی گئی.گویا وہ خالی آواز ہی نہ رہی بلکہ ساتھ ہی ایک نظارہ بھی پیدا ہو گیا.رفتہ رفتہ آواز بھی غائب ہو گئی اور صرف نظارہ رہ گیا.پھر میں نے دیکھا کہ وہ نظارہ سمٹ سمٹا کر تصویر کا ایک فریم بن گیا.اُس فریم کو میں حیران ہو کر دیکھنے لگا کہ عجیب تماشا ہے کہ پہلے آسمان سے ایک آواز پیدا ہوئی ، پھر وہ آواز جو میں پھیلی ، پھیل کر نظارہ بنی اور پھر اس نظارے نے تصویر کے ایک چوکھٹے کی صورت اختیار کر لی.اس فریم کی درمیانی جگہ خالی ہے گتے تو لگے ہوئے ہیں مگر تصویر کوئی نہیں.میں اس فریم کو حیرت سے دیکھنے لگا کہ یہ بات کیا ہے کہ اس فریم میں کوئی تصویر نہیں.مگر ابھی کچھ لمبا وقفہ نہیں گزرا تھا کہ میں نے دیکھا کہ اس فریم کے اندر ایک تصویر نمودار ہوگئی ہے.اس پر میں زیادہ حیران ہوا اور میں نے غور کرنا شروع کیا کہ یہ کس کی تصویر ہے.ابھی میں اس پر غور ہی کر رہا تھا کہ تصویر بلنی شروع ہوئی اور پھر تھوڑی دیر کے بعد یک دم اس میں سے ایک وجود گود کر میرے سامنے آ گیا اور اُس نے مجھے کہا کہ میں خدا کا فرشتہ ہوں کیا میں تم کو سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھاؤں.میں نے کہا اگر تم مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھا دو تو اور کیا چاہیئے.اُس نے کہا تو پھر سنو.چنانچہ میں بھی کھڑا ہوں اور وہ بھی.اُس نے تفسیر بیان کرنا شروع کر دی اور میں اسے سنتا رہا.جب وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ پر پہنچا تو کہنے لگا آج تک جس قدر مفسرین نے تفسیریں لکھی ہیں اُن سب نے صرف اس آیت تک تفسیر لکھی ہے.آگے تفسیر نہیں لکھی.مجھے خواب میں فرشتہ کی اس بات پر حیرت محسوس ہوتی ہے مگر زیادہ حیرت نہیں.جاگتے ہوئے تو اگر کوئی شخص ایسی بات کہے تو دوسرا فورا شور مچانے لگ جائے کہ تم جھوٹ بولتے ہو.مفسرین نے تو سارے قرآن کی تفسیریں لکھی ہیں مگر خواب میں مجھے فرشتہ کی اس بات پر حیرت نہیں ہوتی اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا.اس کے بعد اس نے کہا کہ میں تمہیں آگے بھی تفسیر سکھاؤں؟ میں نے کہا ہاں سکھاؤ.چنانچہ اس نے اِهْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) (البقره 7-6) تک ساری تفسیر سکھا دی اور میری آنکھ کھل گئی.اُس وقت مجھے فرشتہ کی سکھائی ہوئی باتوں میں سے دو تین باتیں یاد تھیں لیکن چونکہ دو تین بجے کا وقت تھا میں بعد میں پھر سو گیا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں دوبارہ اُٹھا تو مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی.صبح اُٹھ کر میں حضرت خلیفہ اول کے پاس پڑھنے کے لیئے گیا، اُس وقت
تذکار مهدی ) 93 روایات سید نا محمود حضرت خلیفہ اول مجھے طب پڑھایا کرتے تھے ، بخاری غالباً ابھی شروع نہیں کی تھی یا شاید شروع کی ہوئی ہو ( مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں) میں نے آپ سے کہا کہ آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی گئی ہے.چنانچہ میں نے اس رویا کو بیان کرنا شروع کر دیا.میں نے دیکھا کہ یہ رویا سنتے وقت حضرت خلیفہ اول کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگ گیا.جب رؤیا ختم ہوا تو آپ نے فرمایا اُن باتوں میں سے کچھ ہمیں بھی سناؤ جو فرشتہ نے تمہیں سکھائی ہیں.میں نے کہا دو تین باتیں مجھے یاد تھیں مگر چونکہ بعد میں میں سو گیا اس لئے وہ باتیں مجھے یاد نہیں رہیں.اس پر حضرت خلیفہ اول ناراض ہو کر فرمانے لگے تم نے بڑی غفلت کی کہ فرشتہ کی سکھائی تغیر کو بھلا دیا.اگر تمہیں ساری رات بھی جاگنا پڑتا تو تمہیں چاہیئے تھا کہ تم جاگتے اور اُن باتوں کو لکھ لیتے ،سونے کے بعد تو خواب بدل جایا کرتا ہے.اُس وقت میرے دل میں بھی ندامت پیدا ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ اگر میں فرشتہ کی بتائی باتوں کو لکھ لیتا تو اچھا ہوتا کیونکہ پہلے کسی اور تاویل کی طرف میرا ذہن نہیں جاتا تھا مگر بعد میں میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا متواتر میرے ساتھ یہ سلوک ہے کہ جب میں سورہ فاتحہ پر غور کروں تو وہ ہمیشہ اس سورۃ کے نئے مطالب مجھ پر کھولتا ہے.تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد.انوار العلوم جلد 18 صفحہ 267 تا269) مخالفت خدا تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کا ذریعہ اس تازہ انکشاف کے بعد جو مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کیا ہے لازمی طور کچھ عرصہ کے لیئے مخالفت کا بڑھ جانا ضروری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس انکشاف کے بعد میں روزانہ دشمن کی طرف سے بیداری کا منتظر رہتا تھا اور اگر دشمن کی طرف سے مخالفت نہ ہوتی تو میرے دل میں پوری طرح تسلی نہ ہوتی.اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اس قسم کی باتوں کا پیدا ہونا انسان کے لئے بھی اور خدا تعالیٰ کی شان کے اظہار کے لیئے بھی ضروری ہے.اگر ہم آرام کے ساتھ اپنا کام کرتے جائیں اور دشمن کوئی مخالفت نہ کرے تو خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ کہاں نظر آئے.خدا تعالیٰ اس طرح اپنا ہاتھ دکھانا اور اپنے آپ کو روشناس کرانا چاہتا ہے اور خطرات پیدا کر کے اپنی طاقت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے.جب تک تکالیف پیش نہ آئیں خدا تعالیٰ کی قدرت ظاہر نہیں ہوتی.پس مخالفت کا جو نیا دور احراریوں کی طرف سے شروع ہوا ہے یا
تذکار مهدی ) 94 روایات سید نا محمودی قادیان کے مخالفین نے جو مخالفت از سر نو شروع کی ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا تعالیٰ پھر اپنی قدرت کا ہاتھ دکھانا چاہتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس سے اچھی بات ہمارے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت ظاہر کرے اور نشان دکھائے.اُس کی قدرت مخالفت کے زمانہ میں ہی ظاہر ہوتی ہے.میں نے حضرت مسیح موعود سے بارہا سنا ہے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ابو جہل کو بہت گندا تھا لیکن اگر وہ گندا نہ ہوتا تو قرآن کریم بھی نہ ہوتا.ابوبکر جیسوں کے لئے تو صرف بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ ہی کافی تھا.اتنا قرآن کریم تو مختلف مدارج رکھنے والے، طرح طرح کی تاریکیوں اور ظلمتوں میں پڑے ہوئے اور جہالتوں میں مبتلا لوگوں کے لئے ہی نازل ہو اور نہ مومن کے لئے تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ہی کافی تھا.تو اس قسم کی مخالفتیں بہت فائدہ کا موجب ہوئی ہیں اور ضروری ہیں ان سے گھبرانا مومن کی شان کے خلاف بات ہے.بلکہ ہمیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے اور دعا کرنی چاہیئے کہ وہ خود کوئی نشان دکھائے.ان گالیوں کو سنا اور ان تکالیف کو برداشت کرنا چاہئے ان پر بگڑنے کی کوئی وجہ نہیں.زیادہ سے زیادہ یہی خطرہ ہو سکتا ہے کہ کوئی کمزور اس سے گمراہ نہ ہو جائے لیکن جو شخص ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں سے گمراہ ہوسکتا ہے وہ ہمارے اندر رہ کر بھی کیا فائدہ دے سکتا ہے.ایمان تو ایسی چیز ہے کہ اس راہ میں قدم مارنے والوں کو جان ہتھیلی پر لے کر چلنا پڑتا ہے.بعض اہم اور ضروری امور (1944ء ).انوار العلوم جلد 17 صفحہ 469،468) قادیان میں کشتی رانی میں نے کئی دفعہ ایک واقعہ سنایا ہے.بچپن کی بات ہے کہ ایک دفعہ میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک کشتی خریدی.اُس وقت وہ کشتی ہمیں 27 روپے میں مل گئی جو کہ اُس وقت کے لحاظ سے کافی سستی تھی اب تو کشتی دوسو روپے میں ملتی ہے.ہم قادیان کی ڈھاب میں اُس کشتی پر سیر کیا کرتے تھے.جیسے بچوں کا قاعدہ ہے دس پندرہ دن تک تو ہم با قاعدہ سیر کرتے رہے، پھر ہفتہ میں تین دن سیر کرتے ، پھر ہفتہ میں دو دن اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ ہم پندرہویں دن سیر کیلئے جاتے.جب ہم وہاں نہ ہوتے تو باہر کے لڑکے آ کر اُس کشتی کو چلاتے.جب ہم کشتی کو آ کر دیکھتے تو پہلے سے کچھ نہ کچھ خستہ حالت میں ہوتی.میں اس حالت
تذکار مهدی ) 95 روایات سید نا محمود سے بہت تنگ آیا اور میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ کسی طرح تم انہیں پکڑوا دو.ایک دن عصر کے وقت ایک لڑکا دوڑا ہوا آیا اور کہا کہ میں ان لڑکوں کو پکڑوا دوں.اُس کشتی میں زیادہ سے زیادہ دس بارہ آدمی بیٹھ سکتے تھے لیکن جب میں وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ اٹھارہ انیس لڑکے بیٹھے ہوئے تھے.میں نے اتنے آدمی کشتی میں بیٹھے ہوئے دیکھ کر غصہ سے کہا جلدی ادھر کشتی لاؤ.وہ گاؤں کے لڑکے تھے اور گاؤں والوں میں اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بڑے زمینداروں کا مقابلہ کر سکیں.اس ڈر سے کہ کہیں پٹ نہ جائیں اُن میں سے کچھ نے چھلانگیں لگا دیں اور تیر کر دوسرے کنارے نکل گئے اور کچھ اتنے مغلوب ہوئے کہ وہیں بیٹھے رہے اور کشتی کو کنارے کی طرف لے آئے.میں غصہ سے سوئی پکڑے ہوئے کھڑا تھا اور اس خیال میں تھا کہ جب یہ باہر آئیں گے تو میں انہیں خوب ماروں گا.وہ جب قریب آئے اور میری یہ حالت دیکھی تو اُن میں سے سوائے ایک کے باقی سب نے پانی میں چھلانگیں لگا دیں اور مختلف جہات کو دوڑ گئے.صرف ایک لڑکا کشتی میں رہ گیا جسے میں نے پکڑ لیا.میں سمجھتا تھا کہ اصل شرارتی یہی ہے اُس نے مدرسہ احمدیہ کے باورچی خانے کے پاس جہاں خانصاحب فرزند علی صاحب کا مکان ہے اور آجکل وہاں دفتر بیت المال ہے کشتی لا کر کھڑی کی.جب وہ کشتی سے اُترا تو میں نے کہا ادھر آؤ.قریب آنے پر میرے دل میں معلوم نہیں کیا خیال آیا کہ میں نے سوٹی رکھ دی اور اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا.جس وقت میں نے ہاتھ اُٹھایا تو اُس نے بھی ہاتھ اُٹھایا.میں نے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا لیکن اُس نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے ہاتھ اُٹھایا تھا.اُس کی اس حرکت کی تاب نہ لاتے ہوئے اور زیادہ غصہ میں آکر میں نے اپنا ہاتھ اور پیچھے کی طرف کھینچا تا کہ اُسے زور سے چانٹا رسید کروں لیکن جو نہی میں نے ہاتھ پیچھے کیا اُس نے ہاتھ نیچے گرا دیا.اس وقت میری عمر 17 سال کے قریب تھی آج میں 57 سال کا ہو گیا ہوں گویا اس واقعہ کو چالیس سال گزر چکے ہیں لیکن جب بھی یہ واقعہ مجھے یاد آتا ہے تو میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور پسینہ چھٹ جاتا ہے.جب اُس نے ہاتھ گرایا تو میں اُس وقت اتنا شرمندہ ہوا کہ میں سمجھتا تھا کہ کسی طرح زمین پھٹ جائے تو میں اس میں سما جاؤں.یہ میرے سامنے کھڑا ہے اور اُس نے ہاتھ پیچھے گرا لیا ہے گویا دوسرے الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ مجھے مارلو.اُس کی یہ نرمی میرے لئے اتنی تکلیف دہ تھی کہ میں اُس وقت اپنے آپ کو دنیا کا
تذکار مهدی ) 96 روایات سید نا محمود ذلیل ترین انسان خیال کرتا تھا.میں کہتا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور مجھے یہ ذلت کی حالت نہ دیکھنی پڑے.اب دیکھو یہ کتنی چھوٹی سی چیز تھی.کشتی صرف 27 روپے کی تھی اور وہ بھی چند آدمیوں کے چندہ سے خریدی ہوئی اور وہ بھی پرانی.پھر وہ سیکنڈ ہینڈ کشتی تھرڈ ہینڈ بنی پھر فورتھ ہینڈ بنی اور پھر فتھ ہینڈ بنی لیکن اس پر بھی میں جوش میں آ کر اُسے مارنے لگا مگر اُس نے اپنا ہاتھ نیچے کر لیا.اس کا نیچے ہاتھ گرانا کسی جذبہ شرافت کے ماتحت نہیں تھا صرف اس لیئے تھا کہ وہ جانتا تھا کہ بڑے آدمی کے بیٹے ہیں اگر مارا تو ان کے ساتھی مجھے ماریں گے.پھر یہ بھی نہیں تھا کہ مظلوم ہونے کے باوجود اُس نے مجھ پر رحم کیا ہو بلکہ ظالم وہ تھا اور کمزور وہ تھا مگر باوجود اس کے کہ وہ ظالم تھا اور کمزور تھا اُس کا یہ فعل میرے لئے اتنا تکلیف دہ ہوا کہ آج تک اس واقعہ کو یاد کر کے میں شرمندہ ہو جاتا ہوں.نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہے انوار العلوم جلد 18 صفحہ 249 تا 251) میری بیماری کا فکر شفقت پدری کا ایک واقعہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب کے مکان پر اس سفر میں کہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے.ایک دفعہ ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب کسی ہندو پنشنر سیشن جج کی آمد کی خبر دینے آئے.جو بغرض ملاقات آئے تھے.آپ نے اس وقت ان سے کہا کہ میں بھی بیمار ہوں.مگر محمود بھی بیمار ہے مجھے اس کی بیماری کا زیادہ فکر ہے آپ اس کا توجہ سے علاج کریں.تو والدین کو اپنی اولاد کا بڑا فکر ہوتا ہے.مگر تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنی اولا دکو احمدی بنانے کا فکر نہیں کرتے.اپنی اولاد کو دین نہیں سکھاتے.نماز کا وقت ہوگا تو سردی یا کسی اور وجہ سے کہیں گے بچہ نے نماز نہیں پڑھی تو کیا ہوا ہے حالانکہ بچوں کی تربیت کا زمانہ ان کا بچپن کا ہی زمانہ ہوتا ہے اور بچپن کی تربیت ہی آئندہ زندگی میں کام آ سکتی ہے.شملہ کا سفر ملائکہ اللہ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 456 ، 457 ) | میں چھوٹا تھا کہ بخار سے بیمار ہوا اور ڈاکٹر نے کہا شملہ بھیج دیا جائے.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھیج دیا.میں وہاں پہنچا تو مولوی صاحب وہاں تھے.میرا ذکر
تذکار مهدی ) 97 روایات سید نا محمودی سن کر ملنے آئے اور بتایا کہ ایک غیر احمدی کلرک مجھ سے عربی پڑھا کرتا تھا.اس کا دفتر گرمیوں میں شملہ آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب تو سبق رہ جائے گا.اس نے کہا ہاں مگر کیا ہوسکتا ہے.مولوی صاحب کہنے لگے اگر میں شملہ آ جاؤں تو پڑھا کرو گے؟ اس نے کہا ہاں ضرور پڑھوں گا.چنانچہ آپ اپنے خرچ پر شملہ آ گئے محض اس خیال سے کہ انگریزی خوانوں میں عربی کا شوق پیدا ہو.اس وقت ان کی عمر ستر برس کے قریب تھی مگر ادب اور عشق کا یہ حال تھا کہ میں جہاں جاتا برابر ساتھ جاتے.سیر کے وقت بھی ساتھ رہتے.میری عمر اس وقت سترہ سال کی قریب تھی اور دوسرے دوست بھی جو سیر وغیرہ میں شریک ہوتے عام طور پر نوجوان تھے.سیر کے وقت دل چاہتا کہ آگے جائیں ، مگر اس خیال سے کہ مولوی صاحب بوڑھے ہیں واپس آ جاتے.میں نے دوستوں سے کہا کہ سیر کو چپکے سے چلا کریں جب مولوی صاحب باہر ہوں.چنانچہ اگلے روز جب مولوی صاحب باہر تھے، ہم چپکے سے دوسرے دروازے سے نکل گئے، مگر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ دیکھا سامنے پہاڑ پر سے مولوی صاحب ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے اور بڑے بڑے ڈگ بھرتے ہوئے آ رہے ہیں.آتے ہی کہنے لگے واہ جی آپ لوگ مجھے چھوڑ آئے.ہم نے کہا ہم تو آپ کی تکلیف کے خیال سے چھوڑ آئے تھے.کہنے لگے بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادے آئیں اور میں ہم رکاب نہ رہوں.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 178-177) دیوار بنا کر مسجد مبارک کا راستہ روکے جانا مجھے یاد ہے لالہ شرمپت رائے ایک آریہ تھے جو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے دوستوں میں سے تھے انہیں ایک زخم آ گیا.قادیان میں ایک نو مسلم ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب تھے.جو علاج معالجہ کرتے تھے.لالہ شرمیت بھی انہی سے علاج کراوتے رہے، جس کی وجہ سے انہیں افاقہ بھی ہوا.مگر بعد میں انہوں نے علاج کرانا ترک کر دیا.اس پر ڈاکٹر صاحب کو خدا تعالیٰ نے خواب دکھائی کہ لالہ شرمیت کے پاس فیس کے لئے روپیہ نہیں.اس لئے وہ آتے ہوئے شرماتا ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے لالہ شرمیت کو بلایا اور کہا، آپ مجھ سے با قاعدہ علاج کرا ئیں میں آپ سے کوئی فیس نہیں لوں گا چنانچہ انہوں نے پھر علاج کرانا شروع کر دیا اور اس کے نتیجہ میں وہ زخم بالکل درست ہو گیا تو دیکھو یہ خواب خدا تعالیٰ نے ہی دکھائی تھی.
تذکار مهدی ) 98 روایات سیّد نا محمود لالہ شرمپت آریہ تھا لیکن رب العالمین خدا کے نزدیک ایک آریہ بھی ویسا ہی اس کا بندہ ہے جیسے ایک مسلمان.اس نے خواب میں ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کو بتا دیا کہ لالہ شرمیت سے فیس نہ لینا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے ساتھیوں کو تنگ کرنے کے لئے مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین نے مسجد مبارک کے دروازہ کے سامنے دیوار کھینچوائی تو عدالت میں کئی سال تک مقدمہ چلتا رہا آخر اس مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور مقدمہ کے اخراجات جو چار پانچ سو روپیہ کے قریب تھے مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین وغیرہ پر ڈالے گئے جب ان کے خلاف حج نے ڈگری دی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام گورداسپور میں تھے آپ کو رویا میں دکھایا گیا کہ مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین مالی لحاظ سے بہت تنگ حالت میں ہیں آپ نے فوراً ایک آدمی گورداسپور سے قادیان بھجوایا اور ان سے کہا کہ میں تم سے روپیہ نہیں لوں گا.اب دیکھو یہ سب کچھ رب العالمین خدا نے ہی کیا تھا.ان لوگوں نے ساری عمر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ظلم کیئے اور ان میں سے ایک تو اتنا کٹر دہر یہ تھا کہ حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین کے پیٹ میں درد ہوئی.تو انہوں نے مجھے بلوایا.میں جب گیا تو وہ کمرے میں لوٹ پوٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے.ہائے اماں! ہائے اماں! میں نے کہا.مرزا صاحب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک آپ اماں اماں ہی کہتے ہیں.خدا کو نہیں پکارتے.کہنے لگا ماں کو تو میں نے دیکھا ہے اور اس کی مہر بانیوں کو بھی دیکھا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کو میں نے نہیں دیکھا.پھر اس نے کہا.مولوی صاحب میں بچپن سے ہی بڑا سلیم الفطرت تھا جب مسلمان لوگ مسجد میں جاتے اور چوتڑ اوپر کر کے اور سر نیچے کر کے سجدہ کرتے.تو میں ان پر ہنسا کرتا تھا کہ یہ کیسے بیوقوف لوگ ہیں کہ اتنی عمر کے ہو کر بھی ایسے خدا کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں جو انہیں نظر نہیں آرہا غرض ان لوگوں کی یہ حالت تھی.مگر رب العالمین خدا نے ان کا بھی خیال رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھایا کہ ان کی حالت خراب ہے انہیں معاف کر دو تو ہمارا خدا رب العالمین خدا ہے وہ ہر ایک کے لئے اپنی ربوبیت کا نمونہ دکھاتا ہے.پرانے زمانہ میں بھی وہ رب العالمین تھا اور اس زمانہ میں بھی وہ رب العالمین ہے اور آئندہ زمانہ میں بھی وہ رب العالمین رہے.الفضل جلد 48/13 نمبر 10 مورخہ 11 جنوری 1959 ءصفحہ 4-3)
تذکار مهدی ) مقدمہ دیوار اور صبر کی تلقین 99 روایات سید نا محمود مجھے حیرت ہوتی ہے ہماری جماعت کے مومن اور مخلص افراد بھی بعض دفعہ دشمنوں کی شرارتوں کی وجہ سے گھبرا جاتے ہیں حالانکہ دشمنوں کی حیثیت ہی کیا ہے.میں بچہ تھا لیکن مجھے خوب یاد ہے یہاں ہمارے ہی بعض عزیز راستہ میں کیلے گاڑ دیا کرتے تھے تا کہ جب مہمان نماز پڑھنے آئیں تو رات کی تاریکی میں ان کیلوں کی وجہ سے ٹھوکر کھائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوتا اور اگر کیلے اکھاڑے جاتے تو وہ لڑنے لگ جاتے.اسی طرح مجھے خوب یاد ہے مسجد مبارک کے سامنے دیوار مخالفوں نے کھینچ دی تھی.بعض احمدیوں کو جوش بھی آیا اور انہوں نے دیوار کو گرا دینا چاہا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہمارا کام صبر کرنا اور قانون کی پابندی اختیار کرنا ہے.پھر مجھے یاد ہے میں بچہ تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی مجھے رویائے صادقہ ہوا کرتے تھے.میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش بھی ہو چکی ہے.اسی حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفہ اول تشریف لا رہے ہیں.جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا.اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اول جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جا رہی تھی میں بھی کھڑا تھا.چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا، اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا میاں دیکھو خطبات محمود جلد 15 صفحہ 207-206 ) آج تمہارا خواب پورا ہو گیا.دیوار گرائے جانے کی خبر میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ہمارے شرکاء نے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شدید مخالف تھے، مسجد کے سامنے ایک دیوار کھڑی کر کے اُس کا دروازہ بند کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کے لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اُوپر سے چکر کاٹ کر اور سخت تکلیف اُٹھا کر آتے.اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب لوگوں کو دعا کرنے کے لئے کہا اور مجھے بھی دعا کا ارشاد فرمایا.میری عمر اُس وقت پندرہ سال کی تھی میں نے دعا کی تو مجھے ایک رؤیا ہوا جس میں میں نے دیکھا کہ میں بڑی مسجد سے آ رہا ہوں کہ دیوار گرائی جا رہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل بھی
تذکار مهدی ) 100 روایات سید نا محمودی تشریف لا رہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جا رہی ہے.خدا تعالی کی قدرت ہے پہلے ایک مقدمہ ہوا جس میں ناکامی ہوئی پھر دوسرا مقدمہ ہوا اور اُس میں ناکامی ہوئی آخر تیرے مقدمہ میں کامیابی ہوئی اور عدالت نے دیوار گرائے جانے کا حکم دے دیا.مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اول اُس روز درس دے رہے تھے.جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو حضرت خلیفہ اول آ رہے تھے.میں نے اُن سے کہا کہ دیکھیں دیوار گرائی جارہی ہے.گویا جس طرح میں نے خواب میں نظارہ دیکھا تھا ویسا ہی وقوع میں آ گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے یہ خواب حضرت خلیفہ اول کوسنا یا ہوا تھا.چنانچہ آپ نے اُس وقت میری بات سُن کر فرمایا لومیاں تمہاری خواب پوری ہو گئی.یہ دیوار اُس مقام پر تھی جہاں آج کل محاسب کا دفتر ہے.اور دیوار گرا دی گئی الموعود.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 596) ہر زمانہ کی حیثیت علیحدہ ہوا کرتی ہے.ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مخالفین نے مسجد کا دروازہ بند کر دیا اور آپ کئی دفعہ گھر میں پردہ کرا کر لوگوں کو مسجد میں لاتے اور کئی لوگ اوپر سے ہو کر آتے سال یا چھ ماہ تک یہ راستہ بند رہا.آخر مقدمہ ہوا اور خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کیئے کہ دیوار گرائی گئی.بعض خواہیں بھی عجیب ہوتی ہیں.میں نے اس زمانے میں خواب دیکھا کہ میں بڑی مسجد سے جارہا ہوں اور دیوار گرائی جارہی ہے.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اسیح الاول تشریف لا رہے ہیں میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جارہی ہے خدا کی قدرت ہے کہ پہلے ایک مقدمہ ہوا وہ فیل ہوا.دوسرا ہوا وہ نا کام ہوا.تیسرے میں کامیابی ہوئی اور دیوار گرانے کا حکم ہو ا مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفہ اول درس دے رہے تھے جب درس ختم ہوا اور میں گھر کو چلا تو دیکھا کہ دیوار گرائی جارہی ہے.میں نے پیچھے دیکھا تو حضرت خلیفہ اول آ رہے تھے اور میں نے ان سے کہا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے بعینہ اسی طرح ہوا جس طرح میں نے خواب میں دیکھا تھا.جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے یہ خواب حضرت خلیفہ اول کو سنائی ہوئی تھی اور انہوں نے میری
تذکار مهدی ) 101 روایات سید نامحمود بات سن کر فرمایا کہ تمہاری خواب پوری ہو گئی.پھر وہ بھی دن تھے کہ چوک میں یہاں آجکل موٹریں گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں.اس کے سامنے لوگ جانور باندھنے کے لئے کیلے گاڑ کر جانور باندھ دیتے تھے اور جب احمدی اندھیرے میں مہمان خانہ سے نماز کے لیئے آتے تو ٹھوکریں کھا کر گرتے.مگر آج یہ زمانہ ہے کہ کہتے ہیں قادیان میں احمدی ظلم کرتے ہیں میں کہتا ہوں کہ مان لو احمدی ظلم کرتے ہیں مگر کیا یہ اللہ تعالیٰ کا نشان نہیں میں مان لیتا ہوں کہ احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل نہ کیا مگر اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی تو بہر حال ظاہر ہے مانا کہ ہم ظالم ہو گئے مگر اس ظلم کی توفیق کا ہمیں ملنا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کا پورا ہونا ہے.تم ہمیں ظالم مان لو.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تو ایمان لے آؤ.( الفضل 14 / دسمبر 1939 ء جلد 27 نمبر 286 صفحہ 5) مخالفین کو مقدمہ کا خرچ معاف کر دیا میں چھوٹا تھا مگر مجھے مندرجہ ذیل واقعہ اچھی طرح یاد ہے اور اس لئے بھی وہ واقعہ اچھی طرح یاد ہے کہ اس کے متعلق مجھے بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت رؤیا کے ذریعہ خبر دی تھی.ایک دن ہم سکول سے واپس آئے تو احمدیوں کے چہروں پر ملال کے آثار تھے.گول کمرہ اور دفتر محاسب کے درمیان جہاں مسجد کا دروازہ ہے ہم نے دیکھا کہ ہمارے بعض چچاؤں نے وہاں دیوار کھینچ دی ہے اس لئے ہم اندر سے ہو کر گھر پہنچے اور معلوم ہوا کہ یہ دیوار اس لئے پھینچی گئی ہے که تا احمدی نماز کیلئے مسجد میں نہ آسکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکم دیا کہ ہاتھ مت اُٹھاؤ اور مقدمہ کرو.آخر مقدمہ کیا گیا جو خارج ہو گیا اور معلوم ہوا کہ جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود نالش نہ کریں گے کامیابی نہ ہوگی.آپ کی عادت تھی کہ مقدمہ وغیرہ میں نہ پڑتے مگر یہ چونکہ جماعت کا معاملہ تھا اور دوستوں کو اس دیوار سے بہت تکلیف تھی اس لئے آپ نے فرمایا کہ اچھا میری طرف سے مقدمہ کیا جائے.چنانچہ مقدمہ ہوا اور دیوار گرائی گئی.فیصلہ سے بہت پہلے میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں کھڑا ہوں اور وہ دیوار توڑی جارہی ہے اور حضرت خلیفہ اسی الا ؤل بھی پاس ہی کھڑے ہیں اور پھر ایسا ہی ہوا.جس دن سرکاری آدمی اسے گرانے آئے عصر کے بعد میں مسجد والی سیٹرھیوں سے اُترا عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاول درس دیا کرتے تھے، سخت بارش آئی اور
تذکار مهدی ) 102 روایات سید نامحمود حضرت خلیفہ اول بھی شاید بارش کی وجہ سے یا یونہی وہاں آکر کھڑے ہو گئے.اس دیوار کی وجہ سے جماعت کو مہینوں یا شاید سالوں تکالیف اٹھانی پڑیں کیونکہ انہیں مسجد تک پہنچنا مشکل تھا.پھر مقدمہ پر ہزاروں روپیہ خرچ ہوا اور عدالت نے فیصلہ کیا کہ خرچ کا کچھ حصہ ہمارے چچاؤں پر ڈالا جائے.کئی لوگ غصہ سے کہہ رہے تھے کہ یہ بہت کم ڈالا گیا ہے ان کو تباہ کر دینا چاہئے.جب اس ڈگری کے اجراء کا وقت آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور میں تھے.آپ کو عشاء کے قریب رؤیا یا الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ یہ بار اُن پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے وہ تکلیف میں ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ مجھے رات نیند نہیں آئے گی اسی وقت آدمی بھیجا جائے جو جا کر کہہ دے کہ ہم نے یہ خرچ تمہیں معاف کر دیا ہے.مجھے اس معافی کی صورت پوری طرح یاد نہیں کہ آیا سب رقم معاف کر دی تھی یا بعض حصہ.بچپن کا واقعہ ہے اس لئے اس کی ساری تفاصیل یاد نہیں رہیں مگر اتنا یاد ہے کہ فرمایا مجھے رات نیند نہیں آئے گی اسی وقت کسی کو بھیج دیا جائے جو جا کر کہہ دے کہ یہ رقم یا اس کا بعض حصہ جو بھی صورت تھی تم سے وصول نہ کیا جائے گا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت بھی ہمیں یہی بتاتی ہے کہ مومن کا رحم اتنا بڑھا ہوا ہوتا ہے کہ خطبات محمود جلد 17 صفحہ 485-484) دوسرا خیال بھی نہیں کرسکتا.اونٹ چالیس اور ٹو ڈا پتالیس عرصہ ہوا جب کہ پہلے پہل میں نے چند ایک دوستوں کے ساتھ مل کر رسالہ تشحید الا ذہان جاری کیا تھا.اس رسالہ کو روشناس کرانے کے لئے جو مضمون میں نے لکھا جس میں اس کے اغراض و مقاصد بیان کئے گئے تھے وہ جب شائع ہوا تو حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور اس کی خاص تعریف کی اور عرض کیا کہ یہ مضمون اس قابل ہے کہ حضور اسے ضرور پڑھیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد مبارک میں وہ رسالہ منگوایا اور غالباً مولوی محمد علی صاحب سے وہ مضمون پڑھوا کر سنا اور تعریف کی لیکن اس کے بعد جب میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے ملا تو آپ نے فرمایا! میاں تمہارا مضمون بہت اچھا تھا مگر میرا دل خوش نہیں ہوا اور فرمایا کہ ہمارے وطن میں ایک مثل مشہور ہے کہ اونٹ چالی اور ٹو ڈا بتائی اور تم نے یہ مثل پوری نہیں کی.میں تو اتنی پنجابی نہ جانتا تھا کہ اس کا مطلب سمجھ سکتا اس لئے میرے چہرہ پر حیرت کے آثار دیکھ کر آپ نے فرمایا.
تذکار مهدی ) 103 روایات سید نا محمودی شاید تم نے اس کا مطلب نہیں سمجھا.یہ ہمارے علاقہ کی ایک مثال ہے کوئی شخص اونٹ بیچ رہا تھا اور ساتھ اونٹ کا بچہ بھی تھا جسے اس علاقہ میں ٹوڈا کہتے ہیں.کسی نے اس سے قیمت پوچھی تو اس نے کہا کہ اونٹ کی قیمت تو چالیس روپیہ مگر ٹو ڈا کی بیالیس روپیہ.اس نے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے تو اس نے کہا کہ ٹوڈا اونٹ بھی ہے اور بچہ بھی ہے.اسی طرح تمہارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تصنیف براہین احمدیہ موجود تھی.آپ نے جب یہ تصنیف کی تو اس وقت آپ کے سامنے کوئی ایسا اسلامی لٹریچر موجود نہ تھا.مگر تمہارے سامنے یہ موجود تھا اور امید تھی کہ تم اس سے بڑھ کر کوئی چیز لاؤ گے.مامورین سے بڑھ کر علم تو کوئی کیا لا سکتا ہے سوائے اس کے کہ ان کے پوشیدہ خزانوں کو نکال نکال کر پیش کرتے رہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ بعد میں آنے والی نسلوں کا کام یہی ہوتا ہے کہ گزشتہ بنیاد کو اونچا کرتے رہیں اور یہ ایک ایسی بات ہے کہ جسے آئندہ نسلیں اگر ذہنوں میں رکھیں تو خود بھی برکات اور فضل حاصل کر سکتی ہیں اور قوم کے لئے بھی برکات اور فضلوں کا موجب ہو سکتی ہیں مگر اپنے آباء سے آگے بڑھنے کی کوشش نیک باتوں میں ہونی چاہئے.یہ نہیں کہ چور کا بچہ یہ کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر چور ہو بلکہ یہ مطلب ہے کہ نمازی آدمی کی اولا د کوشش کرے کہ باپ سے بڑھ کر نمازی ہو.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 485-484) عادت کے خلاف کام کرنا مجھے یاد ہے جب میں مدرسہ میں پڑھا کرتا تھا تو پرانے دستور کے مطابق میں پاجامہ پہنا کرتا تھا.جو شلوار کے رواج سے پہلے عام طور پر سکولوں میں رائج تھا جو شرعی پاجامہ کہلاتا ہے وہ تو اوپر سے کھلا اور نیچے سے تنگ ہوتا ہے، لیکن وہ اوپر نیچے برابر پتلون نما ہوتا تھا اور وہی میں عموماً پہنا کرتا تھا.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھ کر فرمایا کرتے تھے یہ پاجامہ کیا ہے جیسے بندوق کا بگہ ( تھیلا) ہوتا ہے.اب تو بندوقیں بھی پرانے طرز کی نہیں رہیں اور نہ ویسے تھیلے ہوتے ہیں.مگر پہلے اس قسم کے ہوا کرتے تھے.بعض لڑکوں نے مجھے کہا میں شلوار پہنا کروں چنانچہ میں نے شلوار بنوائی.مجھے خوب یاد ہے جب پہن کر میں گھر سے باہر آیا تو میں نہیں سمجھتا کوئی چور یا ڈا کو بھی کوئی واردات کر کے اتنی ندامت اور شرمندگی محسوس کرتا ہوگا جتنی کہ مجھے اس وقت شلوار پہننے سے محسوس ہوئی.میں آنکھیں نیچی کئے ہوئے بمشکل اس مکان
تذکار مهدی ) 104 روایات سید نا محمود تک جو پہلے شفا خانہ تھا اور جس میں اس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب بیٹھا کرتے تھے آیا.بھائی عبدالرحیم صاحب اور بعض دوسرے استادوں نے اس بات کی تائید کی بھی کہ شلوار اچھی لگتی ہے مگر مجھے اتنی شرم آئی کہ واپس جا کر میں نے اسے اتار دیا.اب میں شلوار ہی پہنتا ہوں مگر اس کی عادت آہستہ آہستہ ہوئی ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی میں دوسری قسم کا پاجامہ بدلوں تو گواتنی شرم تو مجھے نہ آئے جتنی اس وقت آئی تھی لیکن کچھ نہ کچھ طبیعت میں بے اطمینانی ضرور ہو.پس اگر عادت کے خلاف ایک شلوار پہن کر جس کا عبادات یا شریعت سے کوئی تعلق نہیں طبیعت میں قبض اور بے اطمینانی پیدا ہو سکتی ہے تو یہ کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں اگر میرے اس خطبہ پر بھی بعض لوگوں کو اچنبھا معلوم ہو.خطبات محمود جلد 9 صفحہ 92-93) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے پہلی چیز جو ہمارے سامنے ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے.ابھی تک وہ لوگ زندہ ہیں جو باقاعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر کا پہرہ دیا کرتے تھے ،سکول کے طالب علم ، مہمان اور قادیان کے باشندے ہمیشہ پہرہ دیتے رہے بلکہ کچھ عرصہ تک ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کے سپر د بھی یہ ڈیوٹی رہی اور وہ سکول کے طالبعلموں کا پہرہ مقرر کرتے اور باریاں مقرر کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو راتوں کو جاگ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کا پہرہ دیا کرتے.اس صورت میں اعتراض کرنے والے کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا یہ طریق عمل بھی اس کے اصول کے خلاف ہو گا اور اس کے نزدیک لوگوں کا پہرہ دینایا تو خدائی حفاظت کے باوجود جس کا آپ کو وعدہ دیا گیا ایک عبث فعل ہوگا اور یا ان کے وقار کے خلاف ہوگا.راتوں کو جاگنا اور پہرہ دینا جبکہ ایک شخص گھر میں بیٹھا ہوا ہو اور دروازے بند ہوں ، اتنا ضروری نہیں ہوتا جتنا کہ انسان جب باہر نکلے تو اس کی حفاظت ضروری ہوتی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسا ہوتا رہا.یہ شخص اگر اس وقت ہوتا تو یہی کہتا کہ پہرہ دینا تو میرے اصول کے خلاف ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سفروں پر جاتے تو آپ کے ساتھ حفاظت کے لئے زائد سواریاں اور یکے ہوتے.اگر آپ رتھ میں جاتے تو علاوہ ان لوگوں کے جو حفاظت کے لئے رتھ میں ہی آپ کے ساتھ بیٹھ جاتے ، دو تین رتھ یا یکے کے ساتھ ساتھ
تذکار مهدی ) 105 → روایات سید نامحمود بھاگتے چلے جاتے.یہ شخص تو اگر اس وقت ہوتا اور اسے یکے کے ساتھ چلنے کو کہا جاتا تو شائد خود کشی کو ترجیح دیتا کہ اس قدر تک کی گئی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی گھر میں ہدیۂ آئی ہوئی چیز بغیر دریافت کئے استعمال نہ کرتے بلکہ آپ پوچھ لیتے کہ یہ کہاں سے آئی ہے، کون دینے آیا تھا اور آیا وہ شخص جانا پہچانا ہے یا نہیں.جب مخالفت زیادہ بڑھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قتل کی دھمکیوں کے خطوط موصول ہو نے شروع ہوئے تو کچھ عرصہ تک آپ نے سنکھیا کے مرکبات استعمال کیئے تا کہ اگر خدانخواستہ آپکو زہر دیا جائے تو جسم میں اس کے مقابلہ کی طاقت ہو ، اس شخص کے نزدیک یہ بھی خدا تعالیٰ کے توکل کے خلاف ہو گا.پھر اپنے بچوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کے بعد کبھی باہر نہیں نکلنے دیتے تھے کیونکہ آ سمجھتے تھے لوگ دشمن ہیں ممکن ہے وہ بچوں پر حملہ کر دیں اور انہیں نقصان پہنچا ئیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام جب فوت ہوئے تو اس وقت میری 19 سال عمر تھی.16، 17 سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے کبھی بھی مغرب کے بعد گھر سے نکلنے نہیں دیا اور اس کے بعد بھی آپ کی وفات تک میں اجازت لے کر مغرب کے بعد گھر سے جاتا.اس کے متعلق بھی وہ کہنے والا کہ سکتا ہے کہ یہ بالکل تو کل صلى الله اور اصول کے خلاف امر ہے.پھر اس سے اوپر جا کر دیکھو تو کل کے سر چشمہ رسول کریم ہے کے زمانہ میں بھی یہی حال تھا.حدیثوں سے صاف ثابت ہے کہ روزانہ صحابہ میں سے چند لوگ آتے اور رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے لیئے پہرہ دیتے.پہلے تو وہ بغیر اسلحہ کے پہرہ دیا کرتے مگر ایک دن رسول کریم نے ہتھیاروں کی جھنکار کی آواز سنی تو آپ باہر تشریف لائے دیکھا تو صحابہ اسلحہ سے مسلح ہو کر پہرہ دینے آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا پتہ کوئی ایسا دشمن آ جائے جو باہتھیار ہو اس لئے ہم مسلح ہو کر آئے ہیں.رسول کریم ﷺ نے جب یہ سنا تو ان کی تعریف کی اور ان کے لئے دعا فرمائی.اس آدمی کے لئے یہ بات بھی بڑی مصیبت ہو گی.پھر صحابہ کی حالت یہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اگر ذرا بھی ادھر ادھر ہو جاتے تو وہ بے تحاشہ آپ کی تلاش میں دوڑ پڑتے.بخاری میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک باغ میں بیٹھے تھے، صلى الله صلى الله
تذکار مهدی ) 106 روایات سید نا محمود تھوڑی دیر کے لئے آپ بغیر اطلاع دیئے اس باغ کے دوسرے کو نے کی طرف چلے گئے ، صحابہ نے جب رسول کریم ﷺ کو نہ دیکھا تو وہ چاروں طرف دوڑ پڑے.وہ مشہور حدیث جس میں آپ نے حضرت ابو ہریرہ سے کہا تھا کہ جس نے لَا اِله إِلَّا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا اسی وقت کی حدیث ہے اس شخص کے نزدیک وہ سارے صحابہ جو اس وقت رسول کریمی کی تلاش میں دوڑے بے اصولے تھے اور ان کا دوڑنا ان کے وقار کے خلاف تھا بھلا مؤمن بھی کبھی ہل سکتا ہے.اسی طرح جنگ کے موقع پر رسول کریم ﷺ کے اردگرد ہمیشہ ایک گارد ہوتی.صحابہ کہتے ہیں کہ جو ہم میں سب سے زیادہ بہادر ہوتا وہ آپ کے گر دکھڑا کیا جاتا.گویا چن چن کر نہایت مضبوط اور توانا آدمی رسول کریم ﷺ کی حفاظت کے لئے مقرر کیئے جاتے.(خطبات محمود جلد 16 صفحہ 67،66) نماز با جماعت اور بچوں کی نگرانی میرے نزدیک ان ماں باپ سے بڑھ کر اولا دکا کوئی دشمن نہیں جو بچوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کی عادت نہیں ڈالتے.مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے اس لیئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے.میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں.تا ہم میں جمعہ پڑھنے کے لیئے مسجد کو آ رہا تھا کہ ایک شخص مجھے ملا اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے.محمد بخش ان کا نام ہے وہ اب قادیان میں ہی رہتے ہیں.میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آ رہے ہیں کیا نماز ہو گئی ہے.انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی میں واپس آ گیا.میں بھی یہ جواب سن کر واپس آ گیا اور گھر میں آ کر نماز پڑھ لی.حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے ، خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہو ا.جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آ گیا.آپ یہ سن کر خاموش
تذکار مهدی ) 107 روایات سید نا محمودی ہو گئے لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لیئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے دریافت کی وہ ی تھی.کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا.معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے.میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں.مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھوٹ بولا.مولوی عبد الکریم صاحب نے جواب دیا ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی.خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی.یافی الواقع اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے.بہر حال یہ ایک واقعہ ہوا ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز با جماعت کا کتنا خیال رہتا تھا.(خطبات محمود جلد 9 صفحہ 164-163 ) بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کرانی چاہئے مجھے اپنے بچپن کا زمانہ یاد ہے اور وہ حالات اور واقعات بالکل میری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ سخت سے سخت تپش اور شدید گرمی کے وقت میں باہر نکل جاتا اور تپش اور گرمی بالکل محسوس نہ کرتا.بلکہ مجھے خوب یاد ہے میں اپنے نفس میں اپنے اوپر یہ بڑا ظلم سمجھا کرتا تھا جب مجھے والدہ صاحبہ یا دوسرے نگران گرمی میں باہر نکلنے اور کھیلنے سے روکتے تھے.میں اس گرمی میں باہر نکل جاتا اور کچھ محسوس نہ کرتا.میں سمجھتا ہوں کہ جو خیالات بچپن میں میرے ذہن میں پیدا ہوتے تھے وہی دوسرے بچوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتے ہوں گے.جبکہ ان کو گرمی کے وقت باہر نکلنے سے روکا جاتا ہو گا.وجہ یہ ہے کہ بچپن میں ایسی باتوں کا احساس نہیں ہوتا.تو جس قدر محنت اور مشقت کی تکلیف کو ایک بڑا آدمی محسوس کرتا ہے بچہ اس کو محسوس نہیں کرتا.خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت کے ماتحت اس کے احساسات کو باطل کیا ہوا ہوتا ہے.اس لئے اس کو کسی امر کے لئے مشق کرنے میں اتنی دقت محسوس نہیں ہوتی اور جن باتوں کی اس وقت مشق کرتا ہے ان کا آئندہ زندگی میں بڑا اثر ہوتا ہے.لیکن جن کی مشق بچپن میں نہ ہو ان میں بڑی عمر میں سخت
تذکار مهدی ) کارمهدی 108 روایات سید نا محمود وقت پیش آتی ہے.تین آدمی مجھے ایسے معلوم ہیں جو نماز میں صحیح طور پر تشہد میں نہیں بیٹھ سکتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بچپن میں ان کو صحیح طور پر تشہد بیٹھنے کی مشق نہیں کرائی گئی یا کسی نے ان کو ٹوکا نہیں تا وہ صیح طور پر تشہد بیٹھنے کی عادت ڈالتے یا ٹوکنے والوں سے ان کا اس طرح بیٹھنا پوشیدہ رہا اور اب بڑی عمر میں وہ صحیح طور پر نہیں بیٹھ سکتے...اگر اب وہ چاہیں اور کوشش بھی کریں تو صحیح طور پر تشہد نہیں بیٹھ سکتے.تو بچپن کا زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ بچے کے اس وقت کے حالات کے ماتحت اس سے جس قسم کی مشق کرائیں وہ با آسانی کر سکتا ہے.لیکن اگر بچپن میں جھوٹ یا چوری وغیرہ کی بد عادات پڑ جائیں.تو بڑے ہو کر ان کو کتنے ہی وعظ و نصیحت کیئے جائیں.کتنا ہی سمجھایا جائے اور کتنی ہی ملامت کی جائے.لیکن وہ ان افعال کو برا سمجھتے ہوئے بھی ان میں مبتلا ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے ایسے لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی.چوری کرتے ہیں اور پھر افسوس کرتے ہیں کہ ہم سے ایسا ہوا ہے بلکہ میں نے دیکھا ہے انہوں نے خود ہی اپنی غلطی کو محسوس کر کے چوری کا اقرار کیا اور اس کا ازالہ بھی کر دیا.لیکن پھر بھی چوری کی عادت سے باز نہیں رہ سکتے.تو بچپن کی عادت انسان کے ساتھ جاتی اور باقی رہتی ہیں.اِلَّا مَا شَاءَ اللہ.اس لئے بچپن میں بچوں کو اخلاق فاضلہ کی مشق کرانی چاہیئے.اس سے آئندہ نسلوں کی حفاظت ہو جائے گی یہ بچپن میں تربیت نہ ہونے کا نتیجہ ہے کہ کئی ایسے آدمی ہیں جو بہت مخلص اور نیک ہیں لیکن بے ساختہ ان کے منہ سے گالیاں نکل جاتی ہیں.بعض مصنف ہیں جو مخلص ہیں لیکن باوجود احتیاط کے ان کے قلم سے درشت الفاظ نکل جاتے ہیں.اور جب سمجھایا جائے تو نہایت سنجیدگی اور متانت سے کہہ دیتے ہیں ہم نے تو کوئی سخت لفظ نہیں لکھا.بچپن کی عادت کا نتیجہ ہے کہ وہ اس فعل کی مضرتوں سے واقف ہوتے ہوئے بھی اس سے بچ نہیں سکتے.خطبات محمود جلد 9 صفحہ 150 تا 151) نماز جمعہ پر نہیں گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت فرمایا:.مجھے یاد ہے میرے بچپن کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیمار ہو گئے اور آپ جمعہ کی نماز کے لئے تشریف نہ لے گئے میری عمر اس وقت 13-14 سال کی تھی.میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے روانہ ہوا ابھی میں جاہی رہا تھا کہ راستہ میں مجھے
تذکار مهدی ) 109 روایات سید نا محمودی کوئی شخص آتا ہوا ملا میں نے اس سے پوچھا کہ کیا خطبہ شروع ہو گیا ہے؟ اس نے کہا وہاں تو جگہ ہی نہیں ساری مسجد بھری ہوئی ہے اس لیئے میں واپس آ گیا ہوں اس کی یہ بات سن کر میں بھی واپس آ گیا.بچپن کی عمر تھی میں نے سمجھا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہو گا حالانکہ میرا فرض تھا کہ میں پہلے تحقیق کرتا کہ آیا یہ بات درست ہے یا نہیں بہر حال اللہ تعالیٰ مجھے یہ سبق دینا چاہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تجسس کرنے کی نہیں تھی مگر اس روز جب میں واپس آیا تو آپ نے خلاف معمول مجھ سے فرمایا کہ محمود! تم جمعہ میں نہیں گئے ؟ میں نے کہا وہاں تو اتنے آدمی ہیں کہ مسجد میں کوئی جگہ ہی نہیں اس لیئے میں واپس آ گیا ہوں اس وقت تو آپ خاموش رہے.مگر جمعہ کے بعد جب آپ کی عیادت کے لئے کچھ دوست آئے جن میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی تھے جو خطبہ پڑھایا کرتے تھے تو آپ نے خلاف عادت ان کے آتے ہی یہ سوال کیا کہ کیا آج جمعہ میں کچھ زیادہ لوگ تھے؟ میں دوسرے دالان میں تھا کہ میرے کان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ آواز پڑی اور چونکہ میں خود مسجد میں نہیں گیا تھا اس لئے میرا دل بیٹھنے لگا کہ اس شخص نے جھوٹ نہ بولا ہو مگر اللہ تعالیٰ نے میری پردہ پوشی فرمائی اور مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا کہ حضور! آج تو بہت ہی آدمی تھے مسجد کناروں تک بھری ہوئی تھی اب یہ سیدھی بات ہے کہ جو کچھ میں نے کیا محض قیاس کی وجہ سے کیا اسی طرح کئی لوگ قیاس کر لیتے ہیں اور اس سے زیادہ قیاس کر لیتے ہیں جتنی لوگوں کے لیئے واقع میں گنجائش نہیں ہوتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت سی جگہ خالی رہتی ہے.مجھے کہا گیا ہے کہ اگر باہر جگہ لی گئی تو یہ مسجد ویران ہو جائے گی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر دوسری مسجد کے لیئے باہر زمین نہ لی گئی تو اس مسجد کی حقیقی آبادی کی طرف جماعت کو کبھی توجہ ہی پیدا نہیں ہوگی اب اس مسجد کو جس کے ارد گرد صرف چند احمدی دوست رہتے ہیں.اس لیے آباد سمجھا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن سارے شہر کے احمدی دوست یہاں آکر ایک دفعہ نماز پڑھ لیتے ہیں اور کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا.مگر یہ محلہ جس میں ابتدائی ایام سے احمدیت چلی آ رہی ہے اس محلہ میں اب احمدیت ترقی کرنے کی بجائے گر گئی ہے اور انہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ انہوں نے اس محلہ کو بالکل چھوڑ دیا ہے.ہم بچے تھے اور لاہور میں آیا کرتے تھے تو اسی محلہ میں میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے.
تذکار مهدی ) 110 روایات سید نا محمود 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں تشریف لائے تو آپ بھی اسی محلہ میں ٹھہرے.غرض اُس وقت احمدیوں کے ٹھہرنے کی یہی جگہ تھی، مسجد کوئی نہیں تھی.ہم نماز بھی میاں چراغ الدین صاحب مرحوم کے گھر میں پڑھا کرتے تھے.ایک بڑا دالان تھا جس میں نماز ہوتی تھی لیکن اس مسجد کے بن جانے کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں سے یہ بات نکل گئی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس محلہ میں افراد کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد پہلے سے زیادہ ہے اور وہ پرانے لوگ جو فوت ہو چکے ہیں اُن کی نسلیں بھی کثیر ہیں لیکن شہر کی ترقی کے مقابلہ میں افراد کی ترقی کوئی نسبت نہیں رکھتی.پہلے یہ محلہ بالکل غیر آباد تھا، درمیان میں بڑے بڑے فاصلے تھے اور اس کے پچھواڑے میں بھی بہت بڑا خلا تھا.جب ہم ان عمارتوں کے پیچھے چلے جاتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہم جنگل میں نکل گئے ہیں مگر اب تو ہر جگہ ہی آبادی آبادی ہے.اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت سے لے کر اب تک اس محلہ کی آبادی تھیں چالیس گنے بڑھ گئی ہے.یعنی اس محلہ میں ہماری جماعت نہیں بڑھی اور اگر بڑھی ہے تو اُس نسبت سے نہیں بڑھی جس نسبت سے محلہ کی آبادی بڑھی ہے.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو مامور آتے ہیں وہ صرف نسلی مومن بڑھانے کے لیئے نہیں آتے.نسلیں تو بڑھا ہی کرتی ہیں.جب مسلمانوں نے تبلیغ کو بالکل چھوڑ دیا تھا اُس زمانہ میں بھی ان کی اولادوں کا سلسلہ جاری تھا.در حقیقت اسلام پر تنزل اس لئے نہیں آیا کہ مسلمانوں کے ہاں اولاد پیدا ہوئی بند ہوگئی تھی بلکہ ان پر تنزل اس لئے آیا کہ انہوں نے تبلیغ چھوڑ دی تھی.اب بھی اگر دوسری جگہ مسجد بن جائے گی تو احمدیوں کو یہاں آکر یہ دیکھنے کا موقع مل سکے گا کہ اس محلہ میں احمدیت کی ترقی کی کیا حالت ہے اور انہوں نے اس کے متعلق کتنی بڑی غفلت اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا ہے.اب تو جمعہ کے دن آکر وہ غافل ہو جاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ مسجد خوب آباد ہے احمدی اس میں بڑی کثرت سے نمازیں پڑھتے ہیں.انہیں یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اس محلہ میں احمدیت کمزور ہو چکی ہے لیکن دوسری مسجد بننے کے نتیجہ میں جب جمعہ کے دن بھی یہ مسجد ویران نظر آئے گی تو خود بخود یہ چیز ان کے اندر احساس خود داری پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور وہ تبلیغ کی طرف توجہ شروع کر دیں گے.دوسری بات یہ ہے کہ اس ایک مسجد کی وجہ سے اس سارے شہر لاہور کے لیے صرف ایک ہی مبلغ ہے.میرا اپنا اندازہ یا یوں کہو کہ وہ سکیم جس کے ماتحت تبلیغ کرنا میں مفید سمجھتا ہوں
تذکار مهدی ) 111 روایات سید نا محمود وہ یہ ہے کہ پانچ سو افراد پر ایک مبلغ ہونا چاہیے.میں پانچ سو مرد نہیں کہتا، میں پانچ سو جوان نہیں کہتا، میں پانچ سو افراد کہتا ہوں جن میں عورتیں بھی شامل ہیں، بچے بھی شامل ہیں اور مرد بھی شامل ہیں.اس سے زیادہ افراد کی کوئی شخص صیح طور پر تعلیم وتربیت نہیں کرسکتا.خطبات محمود جلد 29 صفحہ 333 - 335 ) | قصہ مرغی ذبح کرنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے.ہم چھوٹے تھے ایک دن مرغی ذبح کرنی تھی اور ڈیوڑھی پر اس وقت کوئی آدمی نہ تھا کوئی مہمان آئے ہوئے تھے اور جلدی تھی.آپ نے فرمایا.لاؤ میں ذبح کرتا ہوں.مرغی کولٹا کر آپ نے آنکھیں بند کر لیں اور چھری پھیر دی مگر جب اس خیال سے کہ اب ذبح ہو چکی ہو گی اسے چھوڑا تو مرغی اٹھ کر بھاگ گئی اور آپ کی انگلی سے خون بہہ رہا تھا تو ایک حس یہ ہے کہ مرغی کو ذبح کرتے وقت بھی ایک رعب دل پر پڑ جاتا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ایک جان خواہ جائز ہی سہی لے رہے ہیں ایسے احساس والا اگر کوئی جسمانی قربانی کرتا ہے تو اس کی قیمت اس شخص کی قربانی سے جو خود پاؤں کے نیچے دبا کر اپنی ہڈی توڑ سکتا ہے بہت زیادہ قیمت ہوگی اور دونوں میں یقیناً بہت بڑا فرق ہوگا.(خطبات محمود جلد دوم صفحه 169) بچوں کی دلداری مجھے اپنے بچپن کی بات یاد ہے کہ ہماری والدہ صاحبہ کبھی ناراض ہو کر فرمایا کرتیں کہ اس کا سر بہت چھوٹا ہے تو مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے یہ کوئی بات نہیں رائیکین (Rattigan) جو بہت مشہور وکیل تھا اور جس کی قابلیت کی دھوم سارے ملک میں تھی اس کا سر بھی بہت چھوٹا سا تھا.تو جو والدین اپنی اولا د کو شاہ دولہ کا چوہا بناتے ہیں ان کے بڑے سر اس بات پر دلالت نہیں کرتے کہ وہ بہت عقلمند ہیں.جو شخص اپنی اولاد کو علم اور عرفان سے محروم کرتا ہے اور اس کا سر اگر چہ بڑا ہی ہو تب بھی وہ بے عقل ہی ہے جس شخص کا اتنا دماغ ہی نہیں کہ سمجھ سکے.خدا اور رسول ﷺ کیا ہے؟ قرآن کیا ہے؟ وہ عرفان کیا حاصل کر سکتا ہے.اور جو باپ اپنی اولا د کو اس عرفان سے محروم رکھتا ہے اس کا دماغ یقیناً شاہ دولہ کے چوہوں سے بھی
تذکار مهدی ) 112 چھوٹا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسے شخص کی قربانی کی کیا قیمت ہوسکتی ہے.حضرت اماں جان اور برکات کا نزول روایات سید نا محمود ( خطبات محمود جلد دوم صفحہ 174) مجھے خوب یاد ہے اس وقت تو بر امحسوس ہوتا تھا لیکن اب اپنے زائد علم کے ماتحت اس سے مزا آتا ہے.اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باوجود یکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی جب سے ہوش سنبھالی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا.اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی حرکت کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان کے شایان نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے بلکہ میرے سامنے پیر اور مرید کا تعلق ہوتا حالانکہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کچھ نہ مانگتا تھا.والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں.باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی.مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے.اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا.میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے کیونکہ وہ برکت اسی الہام کے ماتحت ہوئی کہ یآدَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةِ ایک آدم تو نکاح کے بعد جنت سے نکالا گیا تھا لیکن اس زمانہ کے آدم کے لئے نکاح جنت کا موجب بنایا گیا ہے.چنانچہ نکاح کے بعد ہی آپ کی ماموریت کا سلسلہ جاری ہو ا.خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی عظیم الشان پیشگوئیاں کرائیں اور آپ کے ذریعہ دنیا میں نو ر نازل کیا اور اس طرح آپ کی جنت وسیع ہوتی چلی گئی.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ پہلے آدم کے لئے جو جوڑا منتخب کیا گیا وہ صرف جسمانی لحاظ سے تھا مگر اس آدم کے لئے جو چنا گیا یہ روحانی لحاظ سے بھی تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے الاروَاحُ جُنُودٌ مُّجَنَّدَةٌ ارواح میں ایک دوسرے سے نسبت ہوتی ہے.جب ایسی ارواح مل جائیں تو ان کے جوڑے بابرکت ہوتے ہیں.پس مومن کو چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کرے اور اپنی رائے پر انحصار نہ رکھے.اسے کیا پتہ
تذکار مهدی ) 113 روایات سیّد نا محمود نا ہے کہ جس چیز کو وہ اچھا سمجھتا ہے وہ دراصل بُری ہے اور جو اسے بُری نظر آتی ہے وہ اس کے خطبات محمود جلد سوم صفحہ 271-270) لئے اچھی ہے.بچپن سے اسلامی آداب سکھانے چاہئیں میں نے دیکھا ہے کہ نوجوانوں کو اسلامی آداب سکھانے کی طرف توجہ ہی نہیں کی جاتی نو جوان بے تکلفانہ ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈالے پھر رہے ہوتے ہیں حتی کہ میرے سامنے بھی ایسا کرنے میں انہیں کوئی باک نہیں ہوتا.کیونکہ ان کو یہ احساس ہی نہیں کہ یہ کوئی بری بات ہے.ان کے ماں باپ اور اساتذہ نے ان کی اصلاح کی طرف کبھی کوئی توجہ ہی نہیں کی.حالانکہ یہ چیزیں انسانی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہیں.میں نے دیکھا ہے.بعض لوگوں کی بچپن میں تربیت کا اب تک مجھ پر اثر ہے اور جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.ایک دفعہ میں ایک لڑکے کے کندھے پر کہنی ٹیک کر کھڑا تھا کہ ماسٹر قادر بخش صاحب نے جو مولوی عبد الرحیم صاحب درد کے والد تھے.اس سے منع کیا اور کہا کہ یہ بہت بری بات ہے.اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی لیکن وہ نقشہ جب بھی میرے سامنے آتا ہے.ان کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے.اسی طرح ایک صو بیدار صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے ان کی ایک بات بھی مجھے یاد ہے ہماری والدہ چونکہ دلی کی ہیں اور دلی بلکہ لکھنو میں بھی تم “ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.بزرگوں کو بے شک آپ کہتے ہیں لیکن ہماری والدہ کے کوئی بزرگ چونکہ یہاں تھے نہیں کہ ہم ان سے ”آپ“ کہہ کر کسی کو مخاطب کرنا بھی سیکھ سکتے.اس لئے میں دس گیارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ” تم ہی کہا کرتا تھا.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے مدارج بلند کرے.صو بیدار محمد ایوب خان صاحب مراد آباد کے رہنے والے تھے گورداسپور میں مقدمہ تھا اور میں نے بات کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تم کہدیا.وہ صو بیدار صاحب مجھے الگ لے گئے اور کہا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہیں اور ہمارے لئے محل ادب ہیں.لیکن یہ بات یاد رکھیں.کہ ” تم“ کا لفظ برابر والوں کے لئے بولا جاتا ہے بزرگوں کے لئے نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اس کا استعمال میں بالکل برداشت نہیں کر
تذکار مهدی ) 114 روایات سید نا محمودی سکتا یہ پہلا سبق تھا جو انہوں نے اس بارہ میں مجھے دیا.پس بڑوں کا فرض ہے کہ چھوٹوں کو یہ آداب سکھائیں.بری عادت سے ٹوکنا چاہیئے ( الفضل 11 / مارچ 1939 ء جلد 27 نمبر 58 صفحہ 7 ) مجھے ایک دوست کا احسان اپنی ساری زندگی میں نہیں بھول سکتا اور میں جب کبھی اس دوست کی اولاد پر کوئی مشکل پڑی دیکھتا ہوں تو میرے دل میں ٹیس اٹھتی ہے اور ان کی بہبودی کے لئے دعائیں کیا کرتا ہوں.1903ء کی بات ہے جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی کرم دین والے مقدمہ کی پیروی کے لئے گورداسپور میں مقیم تھے وہ دوست جن کا میں ذکر کر رہا ہوں مراد آباد یو.پی کے رہنے والے تھے اور فوج میں رسالدار میجر تھے.محمد ایوب ان کا نام تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے کے لئے گورداسپور آئے تھے.انہوں نے دو باتیں ایسی کیس جو میرے لئے ہدایت کا موجب ہوئیں.دتی میں رواج تھا کہ بچے باپ کو تم کہہ کر خطاب کرتے ، اسی طرح بیوی خاوند کو تم کہتی.لکھنو وغیرہ میں آپ کے لفظ سے مخاطب کرتے ہیں.گھر میں ہمیشہ تم تم کا لفظ سنتے رہنے سے میری عادت بھی تم “ کہنے کی ہو گئی تھی.یوں تو میری عادت تھی کہ میں حتی الوسع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کرنے سے کترا تا تھا لیکن اگر ضرورت پڑ جاتی اور مجبوراً مخاطب کرنا پڑتا تو تم “ کہہ کر مخاطب کرتا تھا.چنانچہ مجھے اس دوست کی موجودگی میں آپ سے کوئی بات کرنی پڑی اور میں نے “ کا لفظ استعمال کیا.یہ لفظ سُن کر اس دوست نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور مجلس سے ایک طرف لے گئے اور کہا ” میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے لیکن یہ ادب ہی چاہتا ہے آپ کو آپ کی غلطی سے آگاہ کروں اور وہ یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کرتے وقت کبھی بھی "تم " کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہیئے بلکہ آپ کے لفظ سے مخاطب کریں ور نہ آپ نے پھر یہ لفظ بولا تو جان لے لوں گا مجھے تو تم “ کا لفظ استعمال کرتے رہنے کی وجہ سے تم اور آپ میں کوئی فرق محسوس نہ ہوتا تھا بلکہ میں آپ کی نسبت تم کے لفظ کو زیادہ پسند کرتا تھا اور حالت یہ تھی کہ آپ کا لفظ بولتے ہوئے مجھے بوجہ عادت نہ ہونے کے کہ شرم سے پسینہ آجاتا تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ ”آپ کہنا جرم ہے.مگر اس دوست کے 66
تذکار مهدی ) 115 روایات سید نامحمود سمجھانے کے بعد میں آپ کا لفظ استعمال کرنے لگا اور ان کی اس نصیحت کا اثر اب تک میرے دل میں موجود ہے.اسی طرح ایک دفعہ میں نے لاہور آنے پر یہاں بعض لڑکوں کو نکٹائی لگاتے دیکھا اور میں نے بھی شوق سے ایک نکٹائی خرید لی اور پہنی شروع کر دی.گورداسپور ہی کا واقعہ ہے کہ وہی مرحوم دوست مجھے پکڑ کر ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے ”آج آپ نے نکٹائی پہنی ہے تو ہم کل کنچنیوں کا تماشہ دیکھنے لگ جائیں گے کیونکہ ہم نے تو آپ سے سبق سیکھنا ہے جو قدم آپ اٹھائیں گے ہم بھی آپ کے پیچھے چلیں گے یہ کہ کر انہوں نے مجھ سے نکٹائی مانگی اور میں نے اتار کر ان کو دے دی.پس ان کی یہ دو نصیحتیں مجھے کبھی نہیں بھول سکتیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک مخلص متبع کو ایسا ہی ہونا چاہئے.اگر ہمارے خاندان کا کوئی نوجوان اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا تو صاحبزادہ صاحب! صاحبزادہ صاحب کہہ کر اس کا دماغ بگاڑ نا نہیں چاہئے بلکہ اس کو کہنا چاہیئے کہ آپ ہوتے تو صاحبزادہ ہی تھے مگر اب غلام زادہ سے بھی بدتر معلوم ہو رہے ہیں اس لئے آپ کو چاہیئے کہ اپنی (سوانح فضل عمر جلد اول صفحه 90 تا 92) اصلاح کریں.حضرت مولوی نورالدین صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کے برابر ایک دن حضرت صاحب اندر آئے تو والدہ صاحبہ سے کہا کہ انہیں (یعنی مجھے ) انجمن کا ممبر بنا دیا ہے نیز ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کو اور مولوی صاحب کو تا کہ اور لوگ کوئی نقصان نہ پہنچاویں.آپ کو کہا گیا چودہ نام لکھ لیئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا اور چاہئیں، باہر کے آدمی بھی ہوں....اس پر کہا گیا کہ زیادہ آدمیوں سے کورم نہیں پورا ہوگا.آپ نے فرمایا اچھا تھوڑے سہی.پھر کہا اچھا ایک اور تجویز کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مولوی صاحب کی رائے چالیس آدمیوں کی رائے کے برابر ہو.اس وقت میرے سامنے ان لوگوں نے حضرت صاحب کو دھوکا دیا کہ حضرت! ہم نے مولوی صاحب کو پریذیڈنٹ بنا دیا ہے اور پریذیڈنٹ کی رائیں پہلے ہی زیادہ ہوتی ہیں.حضرت صاحب نے کہا ہاں یہی میرا منشاء ہے کہ ان کی رائیں زیادہ ہوں.مجھے اس وقت انجمنوں کا علم نہ تھا کہ کیا ہوتی ہیں ورنہ بول پڑتا کہ پریذیڈنٹ کی ایک ہی زائد
تذکار مهدی ) 116 روایات سید نا محمودی رائے ہوتی ہے.تو انہوں نے یہ دھوکا دیا پھر تفصیلی قواعد مجھے ہی دیئے گئے تھے اور میں ہی حضرت صاحب کے پاس لے گیا تھا.اس وقت آپ کوئی ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ نے پوچھا کیا ہے؟ میں نے کہا انجمن کے قواعد ہیں.فرمایا لے جاؤ ابھی فرصت نہیں.گویا آپ نے ان کو کوئی وقعت نہ دی.(رپورٹ مجلس مشاورت 1922 ، صفحہ 37-38.سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 18-189) عادت کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے زمیندار ہیں جنہوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیا، ماں باپ کو چھوڑ دیا، بیویوں کو چھوڑ دیا اور بیویوں نے خاوندوں کو چھوڑ دیا، قیمتی سے قیمتی چیزوں کو ترک کر دیا مگر حقہ کی نال کو نہیں چھوڑ سکے.جب وقت آتا ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ کیا کریں پیٹ پھولنے لگتا ہے.اسی طرح چائے کی عادت گو اس سے کم ہے مگر جسے ہو وہ وقت آنے پر پاگلوں کی طرح پھرتا ہے.پٹھان کتنی غیرت والے ہوتے ہیں اور کشمیریوں کو ادنی سمجھتے ہیں مگر مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم ایک پہاڑ پر جارہے تھے میرے ساتھ ایک پٹھان دوست تھے جنہیں نسوار کھانے کی عادت تھی مگر وہ اپنی ڈبیا گھر بھول آئے تھے.راستہ میں ایک مزدور کشمیری آرہا تھا پٹھان دوست نے اُس کشمیری سے جس کی طرف دوسرے وقت میں وہ منہ کرنا بھی پسند نہ کرتے اور جو کندھے پر لکڑیاں اٹھائے ہوئے آرہا تھا نہایت لجاجت سے کہا کہ اے بھائی کشمیری ! اے بھائی کشمیری جی! اے بھائی جی! آپ کے پاس نسوار ہے؟ مجھے یہ سن کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ جو شخص تکبر سے گردن اونچی رکھتا تھا اب نسوار کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اتر آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں کچھ دوست یہاں آیا کرتے تھے جن کو حقہ پینے کی عادت تھی.یہاں اور تو کسی جگہ حقہ ہوتا نہیں تھا ہمارے ایک تایا تھے جو سخت دہر یہ تھے اور دین سے بالکل تعلق نہیں رکھتے تھے ان کے پاس کھہ کے لئے چلے جاتے اور مجبوراً ان کی باتیں سنتے.ہمارے وہ تایا ایسے شخص تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز بھی پڑھی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں بچپن سے ہی سلیم الطبع ہوں میں بچپن میں بھی جب کسی کو سر نیچے کرتے دیکھتا تو ہنسا کرتا تھا مراد نماز سے تھی.وہ بھنگ بھی پیا کرتے تھے تو ہمارے بعض دوست حلقہ کے لئے اُن کی مجلس میں چلے جاتے تھے اور ایسی ایسی باتیں جو وہ سلسلہ اور اسلام کے خلاف کرتے مجبوراً سنتے تھے.ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں
تذکار مهدی ) 6 117 روایات سید نا محمودی آ گیا اور پھر اپنے آپ کو گالیاں دیتا ہوا واپس آیا.کسی دوست نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو کہنے لگا اس لئے اپنے آپ کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوں کہ حصہ کی خاطر نفس نے مجھے ایسی باتیں سننے پر مجبور کیا.تو عادتوں کو چھوڑنا بڑا مشکل ہوتا ہے بعض لوگوں کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے انہیں لاکھ سمجھاؤ، کتنی نگرانی کرو مگر پھر بھی وہ ضرور جھوٹ بولیں گے ان کی اصلاح مشکل ہوتی ہے.یہ نہیں کہ ہوتی نہیں کیونکہ اگر نہ ہو سکتی تو میں یہ خطبات ہی کیوں بیان کرتا مگر یہ کام ان کیلئے بڑا مشکل ہوتا ہے.ایسے لوگ جب بات کرنے لگتے ہیں تو عادت کی وجہ سے ان کے دماغ میں ایک ایسی چمک پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بغیر جھوٹ کے بات کا مزا نہ ہم کو آئے گا اور نہ سننے والے کو.پھر بعض لوگوں کو چسکے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے بعض لوگ بڑی بڑی بے غیرتیاں کرتے ہیں.قادیان میں ایسے دس بارہ لڑکے ہیں جو دو دو چار چار پیسوں کے لئے احمدیوں کی جھوٹی سچی خبریں احراریوں کو جا کر دیتے ہیں.انہیں مٹھائی کھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے گھر سے پیسے مل نہیں سکتے اس لئے وہ خوامخواہ جھوٹی باتیں جا کر دشمنوں سے کہتے ہیں.تو عادت ایسی چیز ہے کہ اس کی اصلاح کے لئے بڑی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن عقیدہ میں عادت کا دخل نہیں ہوتا.پس عقیدہ کے مقابل پر عمل کی اصلاح کو جو اسباب مشکل بنا دیتے ہیں ان میں سے ایک عادت بھی ہے اور اس کا مقابلہ کرنا نہایت ضروری ہے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 368-369 ) | حقہ پینے کی عادت اس زمانہ میں حقہ اور سگریٹ کا اس قدر رواج ہے کہ اکثر نو جوان بلکہ بچے بھی اس میں مبتلاء دیکھے جاتے ہیں مگر چونکہ یہ ایک نشہ آور چیز ہے اس لیئے رفتہ رفتہ وہ اس کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ اگر ضرورت محسوس ہونے پر انہیں حقہ یا سگرٹ یا نسوار نہ ملے تو وہ پاگلوں کی طرح دوڑے پھرتے ہیں.مجھے یاد ہے ہم ایک دفعہ پہاڑ پر جا رہے تھے تو میرے ساتھیوں میں ایک احمدی پٹھان بھی تھے جنہیں نسوار کھانے کی عادت تھی مگر بدقسمتی سے وہ اپنی ڈبیا گھر میں بھول آئے تھے.راستہ میں ایک کشمیری مزدور آ رہا تھا جس نے اپنے کندھے پر لکڑیاں اٹھائی ہوئی تھیں وہ اُسے دیکھتے ہی نہایت لجاجت کے ساتھ کہنے لگے اے بھائی کشمیری! اے بھائی
تذکار مهدی ) 118 روایات سید نا محمود کشمیری جی ! اے بھائی جی! آپ کے پاس نسوار ہے.مجھے یہ بات سن کر بے اختیار ہنسی آگئی کہ جو شخص تکبر کی وجہ سے اپنی گردن بھی نیچی نہیں کرتا تھا آج نشتہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر لجاجت پر اتر آیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آپ کی ملاقات کے لئے آتے تھے اُن میں سے بعض لوگ حقہ کے بھی عادی ہوتے تھے.اُن دنوں قادیان میں اور تو کسی جگہ حقہ نہیں ہوتا تھا صرف ہمارے ایک تایا کے پاس ہوا کرتا تھا جو سخت دہر یہ اور دین سے بے تعلق تھے مگر حقہ کی عادت کی وجہ سے وہ اُن کے پاس بھی چلے جاتے اور انہیں مجبوراً اُن کی باتیں سننی پڑتیں.ہمارے یہ تایا دین سے ایسے بے تعلق تھے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے کبھی نماز بھی پڑھی ہے.وہ کہنے لگے میں تو بچپن سے ہی بڑا سلیم الطبع واقعہ ہوا ہوں.میں چھوٹی عمر میں ہی جب دیکھتا کہ لوگوں نے سر نیچے اور سرین اوپر کئے ہوئے ہیں.تو میں ہنستا کہ یہ کیسے بے وقوف لوگ ہیں اور اب تو میں بہت سمجھدار ہوں میں نے نماز کیا پڑھنی ہے.ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ایک احمدی وہاں حقہ پینے کے لئے چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ کو گالیاں دیتے ہوئے واپس آ گیا.کسی دوست نے پوچھا کہ کیا بات ہے.وہ کہنے لگا کہ میں اپنے آپ کو اس لئے بُرا بھلا کہہ رہا ہوں کہ محض حقہ کی عادت کی وجہ سے مجھے اس کے پاس جانا پڑا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف باتیں سننی پڑیں.اگر مجھے یہ بُری عادت نہ ہوتی تو میں اس کے پاس کیوں جاتا اور اپنے آقا کے خلاف اس کے منہ سے کیوں باتیں سنتا.غرض حقہ لغویات میں شامل ہے جس کو چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اگر کوئی شخص خود نہ چھوڑ سکے تو اسے کم از کم یہ کوشش ضرور کرنی چاہیئے کہ اس کی اگلی نسل اس بدی سے محفوظ رہے اور اس کی عمر کے خاتمہ کے ساتھ اس لغو فعل کا بھی اس کے خاندان میں خاتمہ ہو جائے.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 589-588) دوسروں کو دیکھ کر رنگ پکڑتے ہیں ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے.اگر محلہ میں ایک شخص نماز نہیں پڑھتا تو اُسے دیکھ کر دو چار اور بچے بھی ایسے نکل آتے ہیں جو نماز چھوڑ
تذکار مهدی ) 119 روایات سید نامحمود دیتے ہیں.اگر ان میں سے کسی بچہ کو ماں کہتی ہے کہ تم نماز پڑھا کرو تو وہ کہتا ہے تم مجھے نماز کے لئے کہتی ہو فلاں شخص بھی نماز نہیں پڑھتا.اس لئے اگر میں نے نماز نہ پڑھی تو کیا ہوا.پھر جب دو تین بچے مست ہو جاتے ہیں تو پانچ سات اور ایسے ہو جاتے ہیں جو اُن کی نقل میں نماز پڑھنا چھوڑ دیتے ہیں.مائیں ڈانٹتی ہیں تو وہ کہتے ہیں سارا محلہ نماز نہیں پڑھتا میرا کیا ہے.اگر چہ محلہ میں صرف پانچ سات اشخاص ہی ایسے ہوتے ہیں جو نماز نہیں پڑھتے لیکن وہ کہتے یہی ہیں کہ سارا محلہ نماز نہیں پڑھتا.اس طرح آہستہ آہستہ نماز کی عادت کم ہو جاتی ہے.یہی حال رسم و رواج کا ہے.آخر جب تک سگریٹ نہیں نکلا تھا لوگ اس کے بغیر گزارہ کرتے تھے.لیکن اب جس کو بھی کہا جاتا ہے کہ تم سگریٹ نہ ہو تو وہ بہانے بناتا ہے لیکن سگریٹ پینا ترک نہیں کرتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ دوسروں کو سگریٹ پیتے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی سگریٹ پینے کا شوق آتا ہے اور وہ شوق میں سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں نے اور میر محمد الحق صاحب نے حضرت اماں جان کو گھر میں حقہ پیتے دیکھا.آپ کو اُن دنوں نفخ کی تکلیف تھی جس کی وجہ سے چند دنوں کے لئے حکیم نے علاج کے طور پر حقہ پینا بتایا تھا.ہم نے حقہ گھر میں دیکھا تو حقہ پینے کا شوق ہوا.چنانچہ ہم دونوں حقہ لے کر بیٹھ گئے اور اتنا حقہ پیا کہ مجھے بخار چڑھ گیا اور مجھے وہاں سے اُٹھا کر بستر پر لٹایا گیا.حضرت اماں جان نے ہمیں حقہ پینے کی اجازت بچہ سمجھ کر دے دی اور خیال کیا کہ یونہی منہ میں لے کر چھوڑ دیں گے اور خود کسی گھر تشریف لے گئیں.مگر ہم کھیل کھیل میں ایک دوسرے کے مقابل پر شرطیں لگا کر حقہ پیتے گئے یہاں تک کہ بخار چڑھ گیا.خالص دودھ کی تلاش خطبات محمود جلد 33 صفحہ 365-362) انگریز بند ڈبوں میں دودھ بیچتے ہیں اور اس میں کوئی ملونی نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں جو دودھ بیچتے ہیں اس میں عام طور پر پانی ملا ہوا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا واقعہ ہے کہ میر محمد اسحاق صاحب کو ایک دفعہ یہ خیال پیدا ہوا کہ کسی طرح ان دھو کے بازوں کو پکڑا جائے.اُنہوں نے ایک آلہ منگوایا جس سے کہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں ملونی
تذکار مهدی ) 120 روایات سید نامحمود ہے یا نہیں.اس آلے میں ایک مقام پر ایک نشان لگا ہوتا ہے جو دودھ کے وزن کے مطابق ہوتا ہے ( ہر چیز کا ایک خاص وزن ہوتا ہے اور دودھ کا بھی ایک وزن ہوتا ہے.) اگر اس نشان تک آلہ دودھ میں رہے تو دودھ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ آلہ اس نشان سے اونچا رہے تو سمجھا جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملایا گیا ہے.چونکہ پانی کا وزن کم ہوتا ہے اور دودھ کا زیادہ اس لئے جب پانی دودھ میں ملتا ہے تو دونوں کا وزن مل کر ایک نیا وزن بن جاتا ہے جو کہ ودھ کے وزن سے ہلکا ہوتا ہے اور آلہ اس نشان تک دودھ میں نہیں ڈوبتا جتنا خالص دودھ ہونے کی وجہ سے ڈوبنا چاہئے اس طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ دودھ میں پانی ملا یا گیا ہے.وہ آلہ منگوا کر میر صاحب نے شہر میں پھرنا شروع کر دیا اور جس نے بھی دودھ بیچنے کے لئے آنا کہنا کہ دودھ دکھاؤ.اگر ٹھیک ہوتا تو اس کو کہہ دینا ٹھیک ہے جاؤ اور بیچو اور اگر آلہ نے دودھ کو ناقص بتانا تو ان کو دودھ بیچنے سے منع کر دینا.یہ ان کا مشغلہ ہو گیا تھا کہ سارا دن اِدھر اُدھر پھرنا اور جس کو دیکھنا بلانا اور آلہ لگانا.اُس وقت ہسپتال اس چوک میں جہاں پر کہ بک ڈپو ہے ہوتا تھا اور غالباً ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب وہاں کام کرتے تھے.بہر حال جو بھی تھے انہوں نے ایک شخص کے متعلق کہا کہ آلہ کے ذریعہ ہم نے کئی دفعہ اس کا دودھ دیکھا ہے اور یہ دودھ ٹھیک ہے.اس لئے دودھ اس سے لیا جائے.مگر اتفاق ایسا ہوا کہ ایک دفعہ وہی شخص برتن میں سے ایک گڑوی دودھ نکال کر کسی کو دینے لگا تو اس میں سے چھوٹی سی مچھلی کو دکر باہر آ پڑی.اصل میں وہ ہوشیار آدمی تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ آلہ لگاتے ہیں تو اس نے ڈھاب کا پانی ڈالنا شروع کر دیا.ڈھاب کے پانی میں مٹی ملی ہوئی ہوتی ہے اور مٹی بھاری ہوتی ہے اس لئے پانی کا وزن زیادہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلہ اس مقررہ نشان تک پہنچ جاتا اور دھوکا بازی کا پتہ نہ لگتا.لوگ سمجھتے کہ بڑا دیانتدار ہے کیونکہ آلہ دودھ کے مقررہ نشان تک پہنچ جاتا ہے لیکن ایک دن مچھلی کو دکر باہر آ پڑی تو پھر اُس کی چالا کی کا علم ہوا.جس قوم میں دھیلے دھیلے اور دمڑی دمڑی کے لئے اتنی دھوکا بازی کی جاتی ہو اور جو قوم دمڑی دمڑی پر اتنی حریص ہو اور جس قوم کے ایسے اخلاق ہوں وہ لوگوں پر کیا رُعب قائم رکھ سکتی ہے.(مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھایا، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 225-224)
تذکار مهدی ) اظہار غم اور افسردگی 121 روایات سید نا محمودی حضرت حمزہ کی شہادت پر برابر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور تھمتے نہیں تھے.ان کی وفات کے سالہا سال بعد جب ان کا قاتل وحشی آپ کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا تو بے شک مسلمان ہے اور میں تجھے معاف کرتا ہوں لیکن میرے سامنے نہ آیا کر.تجھے دیکھ نہیں سکتا.حالانکہ وحشی ہی وہ شخص تھا جو عین لشکر کفار کے قلب میں اس وقت گھس گیا جبکہ باقی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی اور لوگ اس کو بھی پیچھے ہٹنے کے لیئے کہہ رہے تھے لیکن اس نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا جب تک میں حضرت حمزہ کے قتل کے عوض میں کسی بڑے کا فر سردار کو نہ قتل کروں گا اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹوں گا.چنانچہ اس نے اس وقت مسیلمہ کو قتل کر دیا.یہ اس کے ایمان اور اخلاص کا حال تھا مگر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تو میرے سامنے نہ آیا کر میں تجھے نہیں دیکھ سکتا.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حال سن لو.مولوی عبدالکریم صاحب بیمار ہوئے تو مولوی صاحب نے بار بار حضرت صاحب کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ حضور مجھے اپنی زیارت کرا جائیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں مولوی صاحب کی تکلیف کو نہیں دیکھ سکتا.مجھے اس وقت خود دورہ شروع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.یہاں تک کہ آپ نے اس کمرہ کو بھی چھوڑ دیا جس میں مولوی صاحب کے کراہنے کی آواز آتی تھی پھر ان کی وفات کے بعد مغرب اور عشاء کی نماز میں آنا ہی چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہاں جب مولوی صاحب کو موجود نہیں پاتے تھے اور وہ یاد آ جاتے تو آپ کو سخت تکلیف ہوتی اور فرماتے کہ مجھے بیماری کا دورہ شروع ہو جاتا ہے.پس آنسوؤں سے رونا اور اظہار غم افسردگی اور اس کا اتنا لمبا اثر جو سالوں تک رہے یہ تو ثابت شدہ باتیں ہیں.انبیاء اور ان کے متبعین کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک غم ان کو ان وجودوں کے متعلق ہوتا ہے جن کے ساتھ ان کا صرف جسمانی تعلق ہو اور ایک غم ان کو ان وجودوں کے متعلق ہوتا ہے جو ان کے مد و مددگار ہوتے ہیں اور یہ غم بہت عرصہ تک جاری رہتا ہے اور ان کی یاد میں ہمیشہ ان کے آنسو بہتے اور ان پر رفت کی حالت طاری ہو جاتی ہے کیونکہ وہ احسان فراموش نہیں ہوتے.
تذکار مهدی ) 122 روایات سید نامحمود ہمارے سلسلہ میں سے ماسٹر عبدالحق فوت ہوئے ان کا ذکر کرتے وقت اب بھی مجھے رقت آ جاتی ہے حالانکہ ان کا ایک بیٹا بھی موجود ہے اور وہ ہنس ہنس کر ان کا ذکر کر لے گا لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ جیسا وہ کام کرتے تھے ایسا کام کرنے والا مجھے آج تک نہیں ملا.وہ زندگی وقف کر کے قادیان چلے آئے تھے اور انگریزی میں ترجمہ کرنے کا کام اس تیزی سے کر سکتے تھے کہ میں اردو میں مضمون اتنی جلدی نہیں لکھ سکتا تھا.اب چودھری ظفر اللہ خان صاحب ان کے قریب قریب کام کر لیتے ہیں مگر نہ تو انہوں نے ابھی زندگی وقف کی ہے اور وہ باہر رہتے ہیں اور نہ اس قدر تیزی سے کام کر سکتے ہیں.افراد سلسلہ کی اصلاح وفلاح کے لئے دلی کیفیت کا اظہار.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 8-7 ) حضرت مولوی عبد الکریم کی وفات 1906 ء آیا.مولوی عبدالکریم صاحب بیمار ہوئے میری عمر سترہ سال کی تھی اور ابھی کھیل کود کا زمانہ تھا.مولوی صاحب بیمار تھے اور ہم سارا دن کھیل کود میں مشغول رہتے تھے.ایک دن یخنی لے کر میں مولوی صاحب کے لئے گیا تھا اس کے سوا یاد نہیں کہ کبھی پوچھنے بھی گیا ہوں.اس زمانہ کے خیالات کے مطابق یقین کرتا تھا کہ مولوی صاحب فوت ہی نہیں ہو سکتے.وہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد فوت ہوں گے.مولوی عبدالکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی ایک دوسبق ان کے پاس الف لیلہ کے پڑھے پھر چھوڑ دیئے.اس سے زیادہ ان سے تعلق نہ تھا.ہاں ان دنوں میں یہ بخشیں خوب ہوا کرتی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دایاں فرشتہ کونسا ہے اور بایاں کونسا ہے.بعض کہتے مولوی عبد الکریم صاحب دائیں ہیں بعض حضرت استاذی المکرم خلیفہ اول کی نسبت کہتے کہ وہ دائیں فرشتے ہیں علموں اور کاموں کا موازنہ کرنے کی اس وقت طاقت ہی نہ تھی اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے جو حضرت خلیفہ اول مجھ سے کیا کرتے تھے میں نور الدینیوں میں سے تھا.ہم نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی دریافت کیا اور آپ نے ہمارے خیال کی تصدیق کی.غرض مولوی عبدالکریم صاحب سے کوئی زیادہ تعلق مجھے نہیں تھا سوائے اس کے کہ ان کے پر زور خطبوں کا مداح تھا اور ان کی محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معتقد تھا مگر جو نہی آپ کی وفات کی خبر میں نے سنی میری حالت میں ایک تغیر پیدا ہوا.وہ آواز ایک بجلی تھی جو میرے جسم کے اندر سے
تذکار مهدی ) 123 روایات سید نامحمودی گذر گئی.جس وقت میں نے آپ کی وفات کی خبر سنی مجھ میں برداشت کی طاقت نہ رہی دوڑ کر اپنے کمرے میں گھس گیا اور دروازے بند کر لیے.پھر ایک بے جان لاش کی طرح چار پائی پرگر گیا اور میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.وہ آنسو نہ تھے ایک دریا تھا.دنیا کی بے ثباتی ، مولوی صاحب کی محبت مسیح موعود اور خدمت مسیح کے نظارے آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے.دل میں بار بار خیال آتا تھا کہ حضرت مسیح موعود کے کاموں میں یہ بہت سا ہاتھ بٹاتے تھے اب آپ کو بہت تکلیف ہوگی اور پھر خیالات پر ایک پردہ پڑ جا تا تھا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک دریا بہنے لگتا تھا.اس دن میں نہ کھانا کھا سکا نہ میرے آنسو تھے حتی کہ میری لا ابالی طبیعت کو دیکھتے ہوئے میری اس حالت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تعجب ہوا اور آپ نے حیرت سے فرمایا محمود کو کیا ہو گیا ہے اس کو تو مولوی صاحب سے کوئی ایسا تعلق نہ تھا یہ تو بیمار ہو جائے گا.خیر مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات نے میری زندگی کے ایک نئے دور کو شروع کیا اس دن سے میری طبیعت میں دین کے کاموں میں اور سلسلہ کی ضروریات میں دلچسپی پیدا ہونی شروع ہوئی اور وہ بیج بڑھتا چلا گیا.سچ یہی ہے کہ کوئی دنیا وی سبب حضرت استاذی المکرم مولوی نور الدین صاحب کی زندگی اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات سے زیادہ میری زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا موجب نہیں ہوا مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر مجھے محسوس ہوا کہ گویا ان کی روح مجھ پر پڑی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات یا دایام انوار العلوم جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 368-367) 1908ء کا ذکر میرے لئے تکلیف دہ ہے وہ میری کیا سب احمدیوں کی زندگی میں ایک نیا دور شروع کرنے کا موجب ہو ا.اس سال وہ ہستی جو ہمارے بے جان جسموں کے لیئے بہ منزلہ روح کے تھی اور ہماری بے نور آنکھوں کے لئے یہ منزلہ بینائی کے تھی اور ہمارے تاریک دلوں میں یہ منزلہ روشنی کے تھی ہم سے جدا ہو گئی.یہ جدائی نہ تھی ایک قیامت تھی.پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور آسمان اپنی جگہ پر سے ہل گیا.اللہ تعالی گواہ ہے اس وقت نہ روٹی کا خیال تھا نہ کپڑے کا صرف ایک خیال تھا کہ اگر ساری دنیا بھی مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ دے تو میں نہیں چھوڑوں گا اور پھر اس سلسلہ کو دنیا میں قائم کروں گا.میں نہیں جانتا میں نے کس حد تک
تذکار مهدی ) 124 روایات سید نا محمود اس عہد کو نباہا ہے مگر میری نیت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس عہد کے مطابق میرے کام ہوں.محمود کا خط تو میرے سے ملتا جلتا ہے یاد ایام.انوار العلوم جلد نمبر 8 صفحہ نمبر 368 ) میری تعلیم کے سلسلہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ہے.آپ چونکہ طبیب بھی تھے اور اس بات کو جانتے تھے کہ میری صحت اس قابل نہیں کہ میں کتاب کی طرف زیادہ دیر تک دیکھ سکوں اس لئے آپ کا طریق تھا کہ آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور فرماتے میاں میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جاؤ.اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں میری آنکھوں میں سخت گرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں اور ایسی شدید تکلیف گروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میری صحت کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے شروع کر دیئے.مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے بہر حال تین یا سات روزے آپ نے رکھے جب آخری روزے کی افطاری کرنے لگے اور روزہ کھولنے کے لئے منہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے.میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا.دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہو ا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آ سکتی.صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے مگر اس میں بھی سگرے پڑ گئے اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جاگ کر کاٹا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ پڑھائی اس کی مرضی پر ہوگی.یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی
تذکار مهدی ) 125 روایات سید نا محمود فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لو.اس کے علاوہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے وہ ہمارے حساب کے استاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ نہیں پڑھتا کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود کس قدر ناراض ہوں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا.آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدر سے چلا جاتا ہے ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دکان تھوڑی کروانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے.حساب اسے آئے نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے.یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے.میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسے میں جانا ہی چھوڑ دیا.کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی.غرض اس رنگ ز مہ میں میری تعلیم ہوئی اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا.چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا.پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی.ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکزی (red iodide of mercury) کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی.اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی تھی کیونکہ مجھے
تذکار مهدی ) 126 روایات سید نا محمود خنازیر کی بھی شکایت تھی غرض آنکھوں میں لکرے جگر کی خرابی ،عظم طحال کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے.ان حالات سے ہر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہوگا.ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب رضی اللہ عنہ نے میرا اردو کا امتحان لیا.میں اب بھی بہت بدخط ہوں مگر اس زمانہ میں میرا اتنا بدخط تھا کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا.انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا.میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں میرے خط کا نمونہ صرف میری لڑکی امتہ الرشید کی تحریر میں پایا جاتا ہے اس کا لکھا ہوا ایسا ہوتا ہے کہ ہم نے امتہ الرشید کے لکھے ہوئے پر ایک روپیہ انعام مقرر کر دیا تھا کہ اگر خود امتہ الرشید بھی پڑھ کر بتا دے کہ اس نے کیا لکھا ہے تو ایک روپیہ انعام دیا جائے گا.یہی حالت اس وقت میری تھی کہ مجھ سے بعض دفعہ اپنا لکھا ہوا بھی پڑھا نہیں جاتا.جب میر صاحب نے پرچہ دیکھا تو وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے یہ تو ایسا ہے جیسے لنڈے لکھے ہوں.ان کی طبیعت بڑی تیز تھی.غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے.میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا.ہم تو پہلے ہی ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہو ا کہ اب نامعلوم کیا ہو.خیر میر صاحب آگئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں ہے میں نے اس کا اردو کا امتحان لیا تھا.آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا.پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہنے لگے آپ بالکل پرواہ نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا ”بلاؤ حضرت مولوی صاحب کو.جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بلا لیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول کو مجھ سے بڑی محبت تھی.آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچا ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
تذکار مهدی ) 127 روایات سیّد نا محمود نا فرمایا ”مولوی صاحب! میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا پڑھا نہیں جاتا.میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لے لیا جائے.یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو.بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیا میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا.اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی، دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا.الف اور باء وغیرہ احتیاط سے ڈالے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے.مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے.حضرت خلیفہ اول پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے.فرمانے لگے حضور ! میر صاحب کو تو یونہی جوش آ گیا اور نہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے.سوانح فضل عمر جلد اول صفحہ 104 تا 109) حضرت خلیفۃ اصبح الاول سے بخاری پڑھنے کی ہدایت حضرت خلیفہ اول مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں! تمہاری صحت ایسی نہیں کہ تم خود پڑھ سکو.میرے پاس آجایا کرو میں پڑھتا جاؤں گا اور تم سنتے رہا کرو.چنانچہ اُنہوں نے زور دے دے کر پہلے قرآن پڑھایا اور پھر بخاری پڑھا دی.یہ نہیں کہ آپ نے آہستہ آہستہ مجھے قرآن پڑھایا ہو بلکہ آپ کا طریق یہ تھا کہ آپ قرآن پڑھتے جاتے اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کرتے جاتے.کوئی بات ضروری سمجھتے تو بتا دیتے ورنہ جلدی جلدی پڑھاتے چلے جاتے.آپ نے تین مہینہ میں مجھے سارا قرآن پڑھا دیا تھا.اس کے بعد پھر کچھ نافے ہونے لگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد آپ نے پھر مجھے کہا کہ میاں! مجھ سے بخاری تو پوری پڑھ لو.دراصل میں نے آپ کو بتا دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے فرمایا کرتے تھے کہ مولوی صاحب سے قرآن اور بخاری پڑھ لو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی میں نے آپ سے قرآن اور بخاری پڑھنی شروع کر دی تھی گونا نھے ہوتے رہے.اسی طرح طب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایت کے ماتحت میں نے آپ سے شروع کر
تذکار مهدی ) 128 روایات سید نا محمود دی تھی.طب کا سبق میں نے اور میر محمد الحق صاحب نے ایک دن ہی شروع کیا تھا بلکہ میر صاحب کا ایک لطیفہ ہے جو ہمارے گھر میں خوب مشہور ہوا کہ دوسرے ہی دن میر محمد اسحاق صاحب اپنی والدہ سے کہنے لگے اماں جان! مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ مولوی صاحب دیر سے مطب میں آتے ہیں.میں پہلے مطب میں چلا جاؤں گا تاکہ مریضوں کو نسخے لکھ لکھ کر دوں حالانکہ ابھی ایک ہی دن اُن کو طب شروع کیئے ہوا تھا.غرض میں نے آپ سے طب بھی پڑھی اور قرآن کریم کی تفسیر بھی.قرآن کریم کی تغییر آپ نے دو مہینے میں ختم کر دی.آپ مجھے اپنے پاس بٹھا لیتے اور کبھی نصف اور کبھی پورا پارہ ترجمہ سے پڑھ کر سنا دیتے.کسی کسی آیت کی تفسیر بھی کر دیتے.اسی طرح بخاری آپ نے دو تین مہینہ میں مجھے ختم کرا دی.ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپ نے سارے قرآن کا درس دیا تو اس میں بھی میں شریک ہو گیا.چند عربی کے رسالے بھی مجھے آپ سے پڑھنے کا اتفاق ہوا.غرض یہ میری علمیت تھی.الموعود، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 569 تا 570) بڑوں میں سمجھ فہم اور فراست ہوتی ہے ہم جب بچے تھے تو حضرت خلیفہ مسیح الاول حضرت نانا جان سے فرمایا کرتے تھے کہ اپنے چھوٹے بیٹے محمد اسحاق کو دین کے لیے وقف کر دو.وہ جواب دیا کرتے تھے کہ پھر وہ کھائے گا کہاں سے؟ اس پر حضرت خلیفہ اسیح الاول فرماتے آپ نے اپنے ایک لڑکے کو ڈاکٹر بنایا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا رزق بھی اسے دے دے گا.میری صحت خراب تھی اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تم مولوی صاحب سے کچھ طب پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے.اسی طرح قرآن اور بخاری پڑھ لو.جب میں نے حضرت خلیفہ اول سے طب اور دینیات پڑھنی شروع کی تو نانا جان مرحوم نے میر محمد اسحاق صاحب کو بھی میرے ساتھ بٹھا دیا.میری عمر تیرہ چودہ سال کی تھی اور میر صاحب کی عمر مجھ سے دو سال کم تھی.پہلے دن جب وہ پڑھ کر آئے تو نانی اماں نے لطیفہ سنایا کہ جب اسحاق سونے لگا تو اُس نے کہا مجھے صبح جلدی جگا دیں کیونکہ حضرت خلیفہ اول کے پاس کثرت کے ساتھ مریض آتے ہیں اور انہیں انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے میں صبح صبح جا کر مریضوں کے لیے نسخے لکھوں گا تا کہ انہیں تکلیف نہ ہو.اس پر وہ بھی ہنسے اور ہم بھی.ہم میر صاحب سے
تذکار مهدی ) 129 روایات سید نا محمودی مذاق بھی کیا کرتے تھے لیکن وہ تو بچوں کی باتیں تھیں بڑوں کو یہ باتیں نہیں سجتیں.بڑوں میں سمجھ، فہم اور فراست ہوتی ہے.وہ اگر ایسا کریں کہ ادھر لڑکا سکول میں داخل کیا اور اُدھر اس کی تنخواہ کا مطالبہ شروع کر دیا تو وہ پاگل سمجھے جائیں گے.حالانکہ کام سکھانے والا تو اُس پر احسان کر رہا ہے.جب وہ اچھی طرح فن سیکھ لے گا تو اپنا کام الگ شروع کر لے گا.یورپ کی کتابیں پڑھ لو.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی پیشہ ایسا نہیں جس میں شاگرد کچھ لے.وہ کچھ لیتا نہیں بلکہ استاد کو کچھ رقم دیتا ہے.استاد کام بھی سکھائے گا اور اس کے بدلہ میں کچھ لے گا بھی.لیکن یہاں ایسا نہیں.یہاں اگر کوئی کام سیکھنے کے لیے جاتا ہے تو پندرہ دن کے بعد یہ شکایت کرنے لگ جاتا ہے کہ وہ مجھے تنخواہ نہیں دیتا.الفضل 14 ستمبر 1954 ء جلد 43/8 نمبر 150 صفحہ 6-5) پہلی تقریر، معارف قرآن بیان کرنا ، درس دینا ہمارے ایک استاد تھے میں نے ان کو دیکھا ہے کہ جب میں درس دیتا تو وہ با قاعدہ میرے درس میں شامل ہوتے.لیکن اس کے مقابلہ میں میرے ایک اور استاد تھے جب کبھی وہ درس دے رہے ہوتے تو پہلے صاحب مسجد میں آ کر انہیں درس دیتے ہوئے دیکھتے تو چلے جاتے اور کہتے تھے کہ اس کی باتیں کیا سننی ہیں.یہ تو سنی ہوئی ہیں.مگر میرے درس میں باوجود اسکے کہ میں ان کا شاگرد تھا بوجہ اس کے کہ مجھ پر حسن ظنی رکھتے تھے ضرور شامل ہوتے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کے درس میں اس لئے شامل ہوتا ہوں کہ اس کے ذریعہ قرآن کریم کے بعض نئے مطالب مجھے معلوم ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر چھوٹی عمر میں ہی ایسے علوم کھول دیئے جاتے ہیں جو دوسروں کے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہوتے.اسی مسجد میں 1907ء میں سب سے پہلی دفعہ میں نے پبلک تقریر کی جلسہ کا موقعہ تھا بہت سے لوگ جمع تھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے میں نے سورہ لقمان کا دوسرا رکوع پڑھا اور پھر اس کی تفسیر بیان کی.میری اپنی حالت اس وقت یہ تھی کہ جب میں کھڑا ہوا تو چونکہ اس سے پہلے میں نے پبلک میں کبھی لیکچر نہیں دیا تھا اور میری عمر بھی اس وقت صرف 18 سال کی تھی پھر اس وقت حضرت خلیفہ اول بھی موجود تھے انجمن کے ممبران بھی تھے اور بہت سے اور دوست بھی آئے ہوئے تھے اس لئے میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا.اس وقت
تذکار مهدی 130 روایات سیّد نا محمود مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے اور کون نہیں.تقریر آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ جاری رہی.جب میں تقریر ختم کر کے بیٹھا تو مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ اسی اول رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا.میاں میں تم کو مبارک باد دیتا ہوں کہ تم نے ایسی اعلیٰ تقریر کی میں تمہیں خوش کرنے کے لئے یہ نہیں کہ رہا میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میں بہت پڑھنے والا ہوں اور میں نے بڑی بڑی تفسیریں پڑھی ہیں مگر میں نے بھی آج تمہاری تقریر میں قرآن کریم کے وہ مطالب سنے ہیں جو پہلی تفسیروں میں ہی نہیں بلکہ مجھے بھی پہلے معلوم نہیں تھے اب یہ اللہ تعالیٰ کا محض فضل تھاور نہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نہ میرا مطالعہ وسیع تھا اور نہ قرآن کریم پر لمبے غور کا کوئی زمانہ گزرا تھا.(الفضل 26 ستمبر 1941ء جلد 29 نمبر 221 صفحہ 3-2 ) میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا حضرت باوانانک کے ماں باپ بھی ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور کہتے کہ اس نے ہماری دُکانداری خراب کر دی ہے اور ہمارے گھر میں یہ بچہ نکما پیدا ہوا ہے.اگر ان کے ماں باپ زندہ ہو کر آج دنیا میں آجائیں اور دیکھیں کہ وہی بچہ جسے ہم حقیر سمجھتے تھے اب لاکھوں آدمی اس پر فدا ہیں اور اُس کے نام پر جان دینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں اور ان میں کئی کروڑ پتی موجود ہیں تو وہ حیران رہ جائیں مگر لوگ بے وقوفی سے سمجھ لیا کرتے ہیں کہ یہ چھوٹا آدمی ہے اسے ہم نے مان کر کیا کرنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ ایسے ہی آدمیوں کو بھیجتا ہے جو بظاہر چھوٹے معلوم ہوتے ہیں اور ایک زمانہ آتا ہے کہ اس کے نام پر مر مٹنے والے لاکھوں لوگ پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا قادیان میں نہ تو پہلے ریل تھی نہ ڈاکخانہ تھا، نہ کوئی دینی یا دنیوی علوم کا مدرسہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کوئی دنیوی وجاہت نہ رکھتے تھے اور بظاہر آپ نے جو تعلیم حاصل کی تھی وہ بھی معمولی تھی اس لیئے جب آپ نے مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کیا تو لوگوں نے شور مچا دیا کہ نَعُوذُ باللہ یہ شخص جاہل ہے یہ شخص کیسے مہدی ہو سکتا ہے.پھر لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ اس چھوٹے سے گاؤں میں کیسے مامور آ سکتا ہے اگر ما مور آنا ہی تھا تو لا ہور، امرتسر یا اسی طرح کے کسی بڑے شہر میں آنا چاہیئے تھا.غرض لوگوں نے زبردست مخالفت شروع کی اور جولوگ آپ
تذکار مهدی ) 131 روایات سید نا محمود کے دعوی کو سن کر آپ کی زیارت کے لئے قادیان آنے کا ارادہ کرتے تھے اُن کو بھی روکا جاتا تھا اور اگر وہ نہ رکھتے تھے تو انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جاتی تھیں، ان کو قسم قسم کی مصیبتوں اور دُکھوں میں مبتلا کر دیا جاتا تھا مگر ان تمام حالات کی موجودگی میں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.یہ الہام آپ کو اس وقت ہوا جب آپ کو ایک آدمی بھی نہ مانتا تھا پھر یہ الہام ہوا کہ میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.اس زمانہ میں مخالفت کا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک نوکر پیرا نامی جو اتنا بے وقوف تھا کہ وہ سالن میں مٹی کا تیل ملا کر پی جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو کبھی کبھی کسی کام کے لیئے بٹالہ بھیج دیا کرتے تھے ایک دفعہ اس کو بٹالہ بھیجا گیا تو وہاں اس کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ملے جو اہل حدیث کے لیڈر مانے جاتے تھے اور بڑے بھاری مولوی سمجھے جاتے تھے.ان کا کام ہی یہی تھا کہ وہ ہر اُس شخص کو جو بٹالہ سے قادیان آنے والا ہوتا تھا ملتے اور کہتے تھے کہ اس شخص ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) نے دُکان بنائی ہوئی ہے اور جھوٹا ہے تم قادیان جا کر کیا کرو گے مگر اس کے باوجود لوگ قادیان آ جاتے تھے اور مولوی صاحب کے روکنے سے نہ رکتے تھے.اس دن مولوی صاحب کو اور تو کوئی آدمی نہ ملا پیرا ہی مل گیا اس کے پاس جا کر وہ کہنے لگے کہ پیرے ! تمہیں اس شخص کے پاس نہیں رہنا چاہیئے تو کیوں اپنا ایمان خراب کرتا ہے.وہ بے چارہ ان کی اس قسم کی باتیں تو نہ سمجھ سکا لیکن اس نے اتنا ضرور سمجھا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مرزا صاحب کے پاس رہنا ٹھیک نہیں ہے.جب مولوی صاحب ساری بات کر چکے تو وہ کہنے لگا مولوی صاحب! میں تو بالکل جاہل ہوں اور اس قسم کی باتوں کو سمجھ نہیں سکتا البتہ اتنا سمجھا ہوں کہ آپ نے کہا ہے کہ مرزا صاحب کرے ہیں مگر ایک بات تو مجھے بھی نظر آتی ہے کہ آپ ہر روز بٹالہ میں چکر لگا لگا کر لوگوں سے کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی شخص قادیان نہ جایا کرے اور دوسرے علاقوں سے آنے والے آدمیوں کو بھی روکتے ہیں اور ورغلاتے رہتے ہیں مگر مجھے تو صاف نظر آتا ہے کہ خدا اُن کے ساتھ ہے آپ کے ساتھ نہیں کیونکہ آپ کی ساری کوششوں کے باوجود لوگ سینکڑوں کی تعداد میں پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے ہیں مگر آپ کے
تذکار مهدی ) پاس کبھی کوئی نہیں آیا.132 روایات سید نا محمودی پس اللہ تعالیٰ کے اس قسم کے بندے شروع میں چھوٹے ہی نظر آیا کرتے ہیں اور دنیا کے ظاہر بین لوگ انہیں حقیر سمجھتے ہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سمجھا گیا.مگر آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل چکی ہے اور کجا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آخری جلسہ سالانہ پر سات سو آدمی آئے تھے اور کجا یہ کہ جمعہ کے دن مسجد اقصیٰ میں چار ہزار سے بھی زیادہ لوگ شامل ہوتے ہیں.آپ کے زمانہ میں ہندوستان کی ساری قوموں نے آپ کے خلاف شور مچایا اور شدید مخالفت کی مگران تمام مخالفتوں کے باوجود ہندوستان میں بھی ہمارے سلسلہ نے ترقی کی اور بیرونی ممالک میں بھی ہماری جماعتیں قائم ہوئیں چنانچہ آج ہمارے مشن دنیا کے تمام ممالک میں اپنا کام کر رہے ہیں.انگلینڈ، امریکہ، افریقہ، چین، جاپان، جاوا، سماٹرا اور یورپ کے تمام ممالک میں ہمارے مشن قائم ہیں اور تبلیغ کا کام جاری ہے.افریقہ کے حبشی تعلیم پارہے ہیں امریکہ اور یورپ کے شرک کرنے والے لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ہمارے دلوں میں خدا نے اپنے مامور کے ذریعہ ایک نیا ایمان پیدا کر دیا ہے جس سے دوسرے لوگ محروم ہیں....ہماری جماعت کے ایک معزز شخص صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید بھی اسی قسم کے لوگوں میں سے تھے وہ حج کیلئے گھر سے نکلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت سُن کر قادیان آگئے اور بیعت کر لی.بیعت کے بعد واپس گھر گئے تو افغانستان کے بادشاہ نے اُن کو سنگساری کی سزا دی صرف اس لیئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کر چکے تھے لوگوں نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ اپنے عقیدہ کو بدل لیں مگر وہ نہ مانے کیونکہ ان پر صداقت کھل چکی تھی.آخر بادشاہ نے اُن کو زمین میں گاڑ کر سنگسار کرا دیا اور نہایت بے رحمی سے شہید کیا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی اور خدا کی راہ میں اپنی جان دے دی.سنگساری سے پہلے ایک وزیر اُن کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تم اپنے دل میں بے شک وہی عقائد رکھو مگر صرف زبان سے ہی انکار کر دو مگر انہوں نے فرمایا میں جھوٹ نہیں بول سکتا پس اُن کو شہید کر دیا گیا مگران کے شہید ہونے کے تھوڑے عرصہ بعد ہی افغانستان میں ہیضہ پھوٹا اور ہزاروں لوگ مر گئے.اسی
تذکار مهدی ) کارمهدی 133 روایات سید نا محمودی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب لوگوں نے مقابلہ کیا تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ ملک میں سخت طاعون پھوٹے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور لوگ ہزاروں کی تعداد میں اس کا لقمہ بن گئے مگر اس طاعون کے وقت بھی باوجود یکہ طاعون کا پھوٹنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صداقت کی تائید میں تھا آپ نے مجسم رحم بن کر خدا کے حضور اس عذاب کو ٹلانے کے لئے نہایت گڑ گڑا کر دعائیں کیں اور اس قدر گریہ وزاری کی کہ مولوی عبدالکریم صاحب جو مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ میں رہتے تھے فرماتے تھے کہ ایک دن مجھے کسی کے رونے کی آواز آئی اور وہ آواز اتنی درد ناک تھی جیسے کوئی عورت دردزہ کی تکلیف میں مبتلا ہو.میں نے کان لگا کر سنا تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رو رو کر خدا کے حضور میں دعا فرما رہے ہیں کہ اے اللہ ! اگر تیرے سارے بندے مرگئے تو مجھ پر ایمان کون لائے گا.یہ چیز بھی آپ کی صداقت کے لئے نہایت زبر دست دلیل ہے یہ آپ ہی کی تائید کے لئے اللہ تعالیٰ نے طاعون بھیجی اور آپ کے دل میں ہی رحم آگیا اور دعائیں کرنا شروع کر دیں.( خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لئے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوارالعلوم جلد 18 صفحہ 510 تا 514) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے حق میں دعائیں دوسرا انشراح مجھے اس وقت پیدا ہوا جب ڈرمشین سے وہ نظم پڑھی گئی جو آمین کہلاتی ہے.اس کو سُن کر مجھے خیال آیا کہ یہ تقریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پیشگوئی کو بھی پورا کرنے کا ذریعہ ہے جو اس میں بیان کی گئی ہے اور اس کا منانا اس لحاظ سے نہیں کہ یہ میری بچھپیں سالہ خلافت کے شکریہ کا اظہار ہے بلکہ اس لئے کہ خدا تعالی کی بات کے پورا ہونے کا ذریعہ ہے نا مناسب نہیں اور اس خوشی میں میں بھی شریک ہوسکتا ہوں اور میں نے سمجھا کہ گواپنی ذات کے لئے اس کے منائے جانے کے متعلق مجھے انشراح نہ تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام صلى الله کی پیشگوئی کے پورا ہونے کے لحاظ سے انشراح ہو گیا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ رسول کریم علی نے ایک مرتبہ ایک صحابی کے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے اس کے ہاتھوں میں کسری کے کڑے ہیں.چنانچہ جب ایران فتح ہوا اور وہ کڑے جو کسری دربار کے موقع پر پہنا کرتا تھا غنیمت میں آئے تو حضرت عمرؓ نے اس صحابی کو بلایا اور باوجود یکہ اسلام میں مردوں کے لئے
تذکار مهدی ) 134 روایات سید نا محمود سونا پہنا ممنوع ہے آپ نے اسے فرمایا کہ یہ کڑے پہنو.حالانکہ خلفاء کا کام قیامِ شریعت ہوتا ہے نہ کہ اسے مٹانا مگر جب اس صحابی نے یہ کہا کہ سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں.تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہنو.ورنہ میں کوڑے لگاؤں گا.اسی طرح میں نے یہ خیال کیا کہ گو یہ کڑے مجھے ہی پہنائے گئے ہیں مگر چونکہ اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں اور اس لئے میرے دل میں جو انقباض تھا وہ دُور ہو گیا اور میری نظریں اس مجلس سے اُٹھ کر خدا تعالیٰ کی طرف چلی گئیں اور میں نے کہا ہمارا خدا بھی کیسا سچا خدا ہے.مجھے یاد آیا کہ جب یہ پیشگوئی کی گئی اُس وقت میری ہستی ہی کیا تھی پھر وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہمارے نانا جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کی کہ آپ کو پتہ ہی نہیں یہ لڑکا کیسا نالائق ہے پڑھتا لکھتا کچھ نہیں اس کا خط کیسا خراب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے بلایا.میں ڈرتا اور کانپتا ہوا گیا کہ پتہ نہیں یہ کیا فرمائیں گے.آپ نے مجھے ایک خط دیا کہ اسے نقل کرو.میں نے وہ نقل کر کے دیا تو آپ نے حضرت خلیفہ اول کو حج کے طور پر بلایا اور فرمایا.میر صاحب نے شکایت کی ہے کہ یہ پڑھتا لکھتا نہیں اور کہ اس کا خط بہت خراب ہے.میں نے اس کا امتحان لیا ہے آپ بتائیں کیا رائے ہے؟ لیکن جیسا امتحان لینے والا نرم دل تھا ویسا ہی پاس کرنے والا بھی تھا.حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا کہ حضور! میرے خیال میں تو اچھا لکھا ہے.حضور نے فرمایا کہ ہاں اس کا خط کچھ میرے خط سے ملتا جلتا ہی ہے اور بس ہم پاس ہو گئے.ماسٹر فقیر اللہ صاحب جو اب پیغامیوں میں شامل ہیں ہمارے اُستاد تھے اور حساب پڑھایا کرتے تھے جس سے مجھے نفرت تھی.میری دماغی کیفیت کچھ ایسی تھی جو غالباً میری صحت کی خرابی کا نتیجہ تھا کہ مجھے حساب نہیں آتا تھا ورنہ اب تو اچھا آتا ہے.ماسٹر صاحب ایک دن بہت ناراض ہوئے اور کہا کہ میں تمہاری شکایت کروں گا کہ تم حساب نہیں پڑھتے اور جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہ بھی دیا.میں بھی چُپ کر کے کمرہ میں کھڑا رہا.حضور نے ماسٹر صاحب کی شکایت سُن کر فرمایا کہ اس نے دین کا کام ہی کرنا ہے اس نے کونسی کسی دفتر میں نوکری کرنی ہے.مسلمانوں کے لئے جمع تفریق کا جانا ہی کافی ہے.وہ اسے آتا ہے یا نہیں؟ ماسٹر صاحب نے کہا وہ تو آتا ہے.اس
تذکار مهدی ) 135 روایات سید نا محمود ، پہلے تو میں حساب کی گھنٹیوں میں بیٹھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا تھا مگر اس کے بعد میں نے وہ بھی چھوڑ دیا اور خیال کر لیا کہ حساب جتنا آنا چاہیئے تھا مجھے آ گیا تو یہ میری حالت تھی جب یہ آمین لکھی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اسے دین کی خدمت کی توفیق عطا کر.دُنیا میں یہ قاعدہ ہے کہ سب بی.اے اور ایم.اے لائق نہیں ہوتے.لیکن جو لوگ لائق ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سارے وکیل لائق نہیں ہوتے مگر جو ہوتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.سب ڈاکٹر خدا تعالیٰ کی صفت شافی کے مظہر نہیں ہوتے مگر بہترین ڈاکٹر انہی میں سے ہوتے ہیں جنہوں نے ڈاکٹری کے امتحان پاس کیئے ہوں.ہر زمیندار مٹی سے سونا نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں وہ انہی میں سے ہی ہوتے ہیں تر کھانوں میں سے نہیں.ہر ترکھان اچھی عمارت نہیں بنا سکتا مگر جو بناتے ہیں وہ ترکھانوں میں سے ہی ہوتے ہیں لوہاروں میں سے نہیں.پھر ہر انجینئر ماہر فن نہیں مگر جو ہوتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے.ہر معمار دہلی اور لاہور کی شاہی مساجد اور تاج محل نہیں بنا سکتا مگر ان کے بنانے والے بھی معماروں میں سے ہی ہوتے ہیں کپڑا بننے والوں میں سے نہیں ہوتے.پس ہرفن کا جاننے والا ماہر نہیں ہوتا مگر جو ماہر نکلتے ہیں وہ انہی میں سے ہوتے ہیں.مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دعا کی اُس وقت میں ظاہری حالات کے لحاظ سے اپنے اندر کوئی بھی اہلیت نہ رکھتا تھا لیکن اس وقت اس آمین کو سُن کر میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعائیں سُن لیں.جب یہ دعائیں کی گئیں میں معمولی ریڈریں بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر اب خدا تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ میں کسی علم کی کیوں نہ ہو انگریزی کی مشکل سے مشکل کتاب پڑھ سکتا ہوں اور سمجھ سکتا ہوں اور گو میں انگریزی لکھ نہیں سکتا مگر بی.اے اور ایم.اے پاس شدہ لوگوں کی غلطیاں خوب نکال لیتا ہوں.دینی علوم میں میں نے قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ اول سے پڑھا ہے اور اس طرح پڑھا ہے کہ اور کوئی اس طرح پڑھے تو کچھ بھی نہ سیکھ سکے.پہلے تو ایک ماہ میں آپ نے مجھے دو تین سیپارے آہستہ آہستہ پڑھائے اور پھر فرمایا میاں ! آپ بیمار رہتے ہیں میری اپنی صحت کا بھی کوئی اعتبار نہیں.آؤ کیوں نہ ختم کر دیں اور مہینہ بھر میں سارا قرآن کریم مجھے ختم کرا دیا اور اللہ تعالیٰ کا فضل تھا پھر کچھ اُن کی نیت اور کچھ میری نیت ایسی مبارک
تذکار مهدی ) 136 روایات سیّد نا محمود گھڑی میں ملیں کہ وہ تعلیم ایک ایسا بیج ثابت ہوا جو برابر بڑھتا جا رہا ہے.اس طرح بخاری آپ نے مجھے تین ماہ میں پڑھائی اور ایسی جلدی جلدی پڑھاتے کہ باہر کے بعض دوست کہتے کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا.میں اگر کوئی سوال کرتا تو آپ فرماتے پڑھتے جاؤ اللہ تعالیٰ خود سب کچھ سمجھا دے گا.حافظ روشن علی مرحوم کو گریدنے کی بہت عادت تھی اور اُن کا دماغ بھی منطقی تھا.وہ درس میں شامل تو نہیں تھے مگر جب مجھے پڑھتے دیکھا تو آ کر بیٹھنے لگے اور سوالات دریافت کرتے.اُن کو دیکھ کر مجھے بھی جوش آیا اور میں نے اسی طرح سوالات پوچھنے شروع کر دیئے.ایک دو دن تو آپ نے جواب دیا اور پھر فرمایا تم بھی حافظ صاحب کی نقل کرنے لگے ہو مجھے جو کچھ آتا ہے وہ خود بتا دوں گا بخل نہیں کروں گا اور باقی اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا اور میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ فائدہ مجھے اسی نصیحت نے دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود سمجھا دے گا.یہ ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ میرے ہاتھ آ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایسا سمجھایا ہے کہ میں غرور تو نہیں کرتا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ میں کوئی کتاب یا کوئی تفسیر پڑھ کر مرعوب نہیں ہوتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو کچھ مجھے ملا ہے اُن کو نہیں ملا.میں میں جلدوں کی تفسیریں ہیں مگر میں نے کبھی ان کو بالاستیعاب دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ان کے مطالعہ میں مجھے کبھی لذت محسوس نہیں ہوئی.اللہ تعالیٰ مجھے قرآن کریم کے چھوٹے سے لفظ میں ایسے مطالب سکھا دیتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں میں اِن کتابوں کے مطالعہ میں کیوں وقت ضائع کروں اور کبھی کوئی مسئلہ وغیرہ دیکھنے کے لئے کبھی ان کو دیکھتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس مقام سے بہت دُور کھڑے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کیا ہے اور یہ سب اس کا فضل ہے ورنہ بظاہر میں نے دنیا میں کوئی علم حاصل نہیں کیا حتی کہ اپنی زبان تک بھی صحیح نہیں سیکھی.یہ سب اللہ تعالیٰ کا احسان اور فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کو قبول کر کے اس نے مجھے ایک ایسا گر بتا دیا کہ جس سے مجھے ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت حاصل ہو جاتی ہے.میں ہمیشہ یہی کہا کرتا ہوں کہ میں تو خدا تعالی کی طرف سے ایک ہتھیار کی مانند ہوں اور میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ کوئی چیز چاہیئے اور اُس نے مجھے نہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دُعا کی تھی کہ اس سے ہر اندھیرا دُور ہو.دشمنوں کی طرف سے
تذکار مهدی 137 روایات سید نا محمودی مجھ پر کئی حملے کیئے گئے ، اعتراضات کیئے گئے اور کہا کہ ہم خلافت کو مٹا دیں گے اور یہی وہ اندھیرا تھا جسے اللہ تعالیٰ نے دُور کر دیا اور خلافت جوبلی کی تقریب منانے کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ اِس وقت یہ نظم سُن کر دُور ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ آج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا اظہار ہو رہا ہے.دشمنوں نے کہا کہ ہم جماعت کو پھرا لیں گے مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اور بھی زیادہ لوگوں کو لائیں گے اور جب ہم روشن کرنا چاہیں تو کوئی اندھیرا نہیں کر سکتا.اور اس طرح اس تقریب کے متعلق میرے دل میں جو انقباض تھا وہ یہ نظارہ دیکھ کر دُور ہو گیا ورنہ مجھے تو شرم آتی ہے کہ میری طرف یہ تقریب منسوب ہو مگر ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے لیئے ہیں اور اس کے ذریعہ چونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوتی ہیں اس لئے اس کے منانے میں کوئی حرج نہیں.( تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 429 تا 433 ) تازہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ ایک کونہ میں نجاست پڑی ہے.اس پر آپ نے اسے کہا تم جھوٹ بولتی ہو فلاں کو نہ تو ابھی گندا ہے اور تم نے اس کی صفائی نہیں کی وہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ انہیں اندر بیٹھے کس طرح علم ہو گیا کہ میں نے پوری صفائی نہیں کی.( تذکرہ صفحہ 465) یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے یعنی کبھی صرف ایک شخص کو نظارہ دکھایا جاتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھا دیا جاتا ہے.کلام بلا واسطہ جو کانوں پر گرتا ہے منفر دومشترک بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ کی صورت میں انسانی کانوں پر نازل ہوتا ہے اور غیب سے آواز آتی ہے کہ یوں ہو گیا ہے یا یوں ہو جائے گا یا یوں کر.گویا ماضی کے صیغہ میں بھی یہ کلام نازل ہوتا ہے،مستقبل کے صیغہ میں بھی نازل ہوتا ہے اور امر کی صورت میں بھی نازل ہوتا ہے.یہ بلاواسطہ کلام جس کی کانوں میں آواز سنائی دیتی ہے اس کی بھی دونوں حیثیتیں ہیں یعنی یہ منفرد بھی ہوتا ہے اور مشترک بھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ صرف ملہم کو ایک آواز سنائی دیتی ہے اور کبھی ویسی ہی آواز دوسرے کو بھی آ جاتی ہے.
تذکار مهدی ) 138 نامحمودی روایات سیّد نا محمود اس قسم کا مجھے ذاتی طور پر تجربہ حاصل ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا ، مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً.میں اپنی افواج کے ساتھ اچانک تیری مدد کے لئے آؤں گا.جس رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا اسی رات ایک فرشتہ میرے پاس آیا اور اس نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آج یہ الہام ہوا ہے کہ اِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً جب صبح ہوئی تو مفتی محمد صادق صاحب نے مجھے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو تازہ الہامات ہوئے ہوں وہ اندر سے لکھوالا ؤ.مفتی صاحب نے اس ڈیوٹی پر مجھے مقرر کیا ہوا تھا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تازہ الہامات آپ سے لکھوا کر مفتی صاحب کو لا کر دے دیا کرتا تھا تا کہ وہ انہیں اخبار میں شائع کر دیں.اس روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب الہامات لکھ کر دیئے تو جلدی میں آپ یہ الہام لکھنا بھول گئے اِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيْكَ بَغْتَةً میں نے جب ان الہامات کو پڑھا تو میں شرم کی وجہ سے یہ جرات بھی نہ کر سکتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بارہ میں کچھ عرض کروں اور یہ بھی جی نہ مانتا تھا کہ جو مجھے بتایا گیا تھا اسے غلط سمجھ لوں.اسی حالت میں کئی دفعہ میں آپ سے عرض کرنے کے لئے دروازہ کے پاس جا تا مگر پھر لوٹ آتا.پھر جاتا اور پھر لوٹ آتا آخر میں نے جرات سے کام لے کر کہہ ہی دیا کہ رات مجھے ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو الہام ہوا ہے اِنِّي مَعَ الأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً.مگر ان الہامات میں اس کا ذکر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ الہام ہو اتھا مگر لکھتے ہوئے میں بھول گیا.چنانچہ کا پی کھولی تو اس میں وہ الہام بھی درج تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر اس الہام کو بھی اخبار میں اشاعت کے لئے درج فرمایا.اب یہ ایک بلا واسطہ کلام تھا جو آپ کے کانوں پر نازل ہوا مگر ساتھ ہی مجھے بھی بتا دیا گیا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے.( تفسیر کبیر جلد نهم صفحہ 448-447) میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے ہماری جماعت لاکھوں کی ہے یا ہزاروں کی ، مؤمنوں کی ہے یا منافقوں کی مخلصوں کی ہے یا کمزوروں اور مترددوں کی ، اسے اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن جماعت کی خواہ کوئی تعداد ہو، جماعت کی خواہ کوئی حالت ہو میں یہ جانتا ہوں اور اُس وقت سے مجھے اس کا علم دیا
تذکار مهدی ) 139 روایات سید نا محمود گیا تھا جب مجھے ابھی یہ بھی پتہ نہ تھا کہ خلافت کیا چیز ہوتی ہے.جب مجھے اس بات کا بھی علم نہ تھا کہ خلافت کے مقام پر ایک زمانہ میں مجھے کھڑا کیا جائے گا، جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ تھے اور میری عمر پندرہ سولہ سال کی تھی ، مجھے اُس وقت ہی بتا دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایک ایسے مقام پر کھڑا کرے گا جس کی لوگ سخت مخالفت کریں گے مگر قیامت تک میرے ماننے والے میرے منکروں پر غالب رہیں گے.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا اور نہایت ہی زور دار الفاظ میں فرمایا کہ إِنَّ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وہ لوگ جو تیری اتباع کریں گے وہ تیرے منکروں پر قیامت تک غالب رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مجھے یہ الہام ہوا تھا اور اُس وقت میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہے کیونکہ میں نہیں سمجھ سکتا تھا کہ لوگ میری مخالفت کریں گے اور میرے ساتھ تعلق رکھنے والے مخالفوں اور موافقوں کے گروہوں میں تقسیم ہو جائیں گے مگر آج میں سمجھتا ہوں دوسرے الہاموں اور کشوف اور رؤیا کی وجہ سے اور ان حالات کی وجہ سے جو میرے پیش آرہے ہیں کہ یہ الہام میرے متعلق ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے ایسے مقام پر کھڑا کیا کہ دنیا اس کی مخالفت کے لئے آ گئی.بیرونی مخالف بھی مخالفت کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور منافق بھی اپنے سروں کو اُٹھا کر یہ سمجھنے لگ گئے کہ اب ان کی کامیابی کا وقت آ گیا لیکن میں ان سب کو حضرت نوح کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ جاؤ اور تم سب کے سب مل جاؤ اور سب مل کر اور اکٹھے ہو کر مجھ پر حملہ کرو اور تم مجھے کوئی ڈھیل نہ دو اور مجھے تباہ کرنے اور مٹانے کے لئے متحد ہو جاؤ پھر بھی یادرکھو خدا تمہیں ذلیل اور رُسوا کرے گا، تمہیں شکست پر شکست دے گا اور وہ مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے گا.میں اپنی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں بلاؤں اور آفات کو سمجھتا ہوں، میں راستہ کے مصائب اور بھیا نک نظاروں کو سمجھتا ہوں مگر میں جانتا ہوں کہ جس کام کو میں نے اپنے سامنے رکھا ہے اس جیسا عظیم الشان کام اپنے سامنے رکھنے کے بعد انسان کے لئے دو ہی راستے ہوتے ہیں یا تو فتح کا جھنڈا اُڑاتا ہوا گھر کو کوٹے یا اسی کوشش میں اپنی جان اپنے خدا کے سپر د کر دے اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں جسے وہ قبول کر سکے اور میں نے بھی سوچ کر اور سمجھ کر اور تمام حالات کو جانتے ہوئے اپنا قدم ( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 293 ،294) اُٹھایا ہے.
تذکار مهدی ) گورنمنٹ کی وفاداری 140 روایات سید نا محمود ہمیں باغی قرار دیا گیا لوگ اگر اس کو نہ سمجھ سکیں تو وہ معذور ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں گورنمنٹ کی وفاداری کا وہ جذبہ نہیں جو ہمارے دلوں میں ہے.جب میں بچہ تھا اور ابھی میں نے ہوش ہی سنبھالا تھا، اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی زبان سے گورنمنٹ کی وفاداری کا میں نے حکم سنا اور اس حکم پر اس قدر پابندی سے قائم رہا کہ میں نے اپنے گہرے دوستوں سے بھی اس بارے میں اختلاف کیا حتیٰ کہ اپنے جماعت کے (خطبات محمود جلد 15 صفحہ 323) لیڈروں سے اختلاف کیا.برطانوی حکومت رحمت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ برطانوی حکومت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رحمت ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ انگریز قوم کے افراد بہت نیک اور اسلام کی تعلیم کے قریب ہیں ان میں بھی ظالم، غاصب، فاسق، فاجر اور ہر قسم کا خبث رکھنے والے لوگ موجود ہیں اور دوسری قوموں میں بھی ان میں بھی اچھے لوگ ہیں اور دوسری قوموں میں بھی.جو چیز رحمت ہے.وہ یہ ہے کہ یہ حکومت افراد کی آزادی میں بہت کم دخل دیتی ہے اور وہ جن جن معاملات میں دخل نہیں دیتی ان میں اسلام کی تعلیم کو قائم کرنے کا ہمارے لئے موقعہ ہے پس یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ایسی قوم کو ہم پر مقرر کیا کہ جو افراد کے معاملات میں بہت کم دخل دیتی ہے.ہو سکتا ہے کہ اگر نانسی یا فیسٹ لوگ ہم پر حکمران ہوتے تو وہ دوسرے معاملات میں انگریزوں سے بھی اچھے ہوتے ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان سے زیادہ رکھنے والے اور زیادہ عدل کرنے والے ہوتے مگر انفرادی آزادی وہ اتنی نہ دیتے جتنی انگریزوں نے دی ہے.وہ اشخاص کے لحاظ سے تو اچھے ہوتے مگر سلسلہ کے لحاظ سے ہمارے لئے مضر ہوتے اور اس کے یہ معنی ہوتے کہ جب تک اسلامی حکومت قائم نہ ہو جاتی اسلامی تعلیم کو قائم کرنے کا دائرہ ہمارے لئے بہت ہی محدود ہوتا اور اسلامی احکام میں سے بہت ہی تھوڑے ہوتے جن کو ہم قائم کر سکتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی معنوں کے لحاظ سے انگریزی حکومت کو رحمت قرار دیا ہے اور اس قوم کی تعریف کی ہے آپ کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز انصاف زیادہ کرتے ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ انصاف کے معاملہ میں کوئی دوسری حکومت اس
تذکار مهدی ) سے اچھی ہو.141 روایات سید نا محمودی قابل تعریف بات یہی ہے کہ اُس قوم کے تمدن کا طریق یہ ہے کہ اس نے اپنی حکومت کو انفرادی معاملات میں دخل اندازی کے اختیارات نہیں دیئے.پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جس ملک میں اس نے حضرت مسیح موعود کو پیدا کرنا تھا وہاں ایسی قوم حاکم ہو جو لوگوں کے معاملات میں کم سے کم دخل دینے والی ہو.احرار یورپ کا مزاج الفضل قادیان مورخہ 21 جنوری 1938 ء جلد 26 نمبر 17 صفحہ 4 آج میں سب سے پہلے اپنے ان تجارب سے جو مجھے یورپ کے سفر میں ہوئے ہیں.ایک بات کا خصوصیت سے ذکر کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے غالباً 1904 ء یا 1905ء میں کہا تھا کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج یہ یہ وہ زمانہ تھا جب دنیا کے کسی انسان کے واہمہ اور خیال میں بھی تبلیغ اسلام نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت کچھ اشتہار لکھ کر بھیجے اور بعض نے وہ اشتہار پڑھے بھی ،لیکن اس سے زیادہ اس وقت کوئی تبلیغ نہیں تھی.بعد میں ہمارے مشن بیرونی ممالک میں قائم ہوئے اور کچھ لوگوں نے اسلام قبول کیا.مگر یہ بات بھی ایسی ہی تھی جیسے پہاڑ کھود نے کے لئے ہتھوڑا مارا جاتا ہے.ہتھوڑا مارنے سے دو تین انچ پہاڑ تو کھد سکتا ہے.مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پہاڑ کھودا گیا ہے.بے شک ہم اس بات پر خوش ہو سکتے ہیں کہ پہاڑ کھودنے کا کام شروع ہو گیا ہے.مگر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کھودا بھی گیا ہے.لیکن اس سفر میں میں نے اللہ تعالیٰ کا یہ عجیب نشان دیکھا کہ یورپ کے بعض اچھے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں وہی باتیں جو پہلے اسلام کے خلاف سمجھی جاتی تھیں اب اس کی صداقت کا ثبوت سمجھی جانے لگی ہیں.( الفضل 8 /اکتوبر 1955 ء جلد 44/9 شمارہ 236 صفحہ 3) قلم کا جہاد انبیاء کا دل بڑا شکر گزار ہوتا ہے.ایک معمولی سے معمولی بات پر بھی بڑا احسان
تذکار مهدی ) 142 روایات سید نا محمودی محسوس کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں جب دن رات چھپتیں تو باوجود اس کے کہ آپ کئی کئی راتیں بالکل نہیں سوتے تھے لیکن جب کوئی شخص رات کو پروف لاتا تو اس کے آواز دینے پر خود اٹھ کر لینے کے لئے جاتے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے کہ جَزَاكَ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ اس کو کتنی تکلیف ہوئی ہے.یہ لوگ کتنی تکلیف برداشت کرتے ہیں خدا ان کو جزائے خیر دے حالانکہ آپ خود ساری رات جاگتے رہتے تھے.میں کئی بار آپ کو کام کرتے دیکھ کر سویا اور جب کہیں آنکھ کھلی تو کام ہی کرتے دیکھا حتی کہ صبح ہو گئی.دوسرے لوگ اگر چہ خدا کے لئے کام کرتے تھے لیکن آپ انکی تکلیف کو بہت محسوس کرتے تھے.کیوں؟ اس لئے کہ انبیاء کے دل میں احسان کا بہت احساس ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے تمام احسانات کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے سوا ان کے منہ سے کو کچھ نکلتا ہی نہیں پس تم لوگ بھی خدا تعالیٰ کے انعامات دیکھ کر الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ ہی کہا کرو.(الفضل 19 اگست 1916ء جلد 4 نمبر 13 صفحہ 7) کرکٹ میں کھیلوں کا مخالف نہیں ہوں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں کہ نو جوانوں کو کھیلوں میں حصہ لینا چاہئیے تا اُن کی صحت اچھی رہے لیکن محض کھیلوں میں ساری زندگی گزار دینا درست نہیں.ہم بھی بچپن میں مختلف کھیلیں کھیلا کرتے تھے.میں عموماً فٹ بال کھیلا کرتا تھا.جب قادیان میں بعض ایسے لوگ آگئے جو کرکٹ کے کھلاڑی تھے.تو انہوں نے ایک کرکٹ ٹیم تیار کی ایک دن وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جاؤ حضرت صاحب سے عرض کرو کہ وہ بھی کھیلنے کے لئے تشریف لائیں.چنانچہ میں اندر گیا آپ اس وقت ایک کتاب لکھ رہے تھے.جب میں نے اپنا مقصد بیان کیا.تو آپ نے قلم نیچے رکھ دی اور فرمایا.تمہارا گیند تو گراؤنڈ سے باہر نہیں جائے گا.لیکن میں وہ کرکٹ کھیل رہا ہوں جس کا گیند دنیا کے کناروں تک جائے گا.اب دیکھ لو کیا آپ کا گیند دنیا کے کناروں تک پہنچا ہے یا نہیں.اس وقت امریکہ، ہالینڈ، انگلینڈ، سوئٹزر لینڈ، مڈل ایسٹ، افریقہ انڈونیشیا اور دوسرے کئی ممالک میں آپ کے ماننے والے موجود ہیں.فلپائن کی حکومت ہمیں مبلغ بھیجنے کی اجازت نہیں دیتی تھی.لیکن پچھلے دنوں سے وہاں سے برابر
تذکار مهدی ) 143 روایات سید نا محمود بیعتیں آنی شروع ہوگئی ہیں.ابھی تین چار دن ہوئے ہیں.فلپائن سے ایک شخص کا خط آیا ہے.جس میں اس نے لکھا ہے کہ اسے میری بیعت کا خط ہی سمجھیں اور مجھے مزید لٹریچر بھجوائیں.مجھے جس مقام کے متعلق بھی علم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی اسلام کی خدمت کرنے والا ہے.میں وہاں خط لکھ دیتا ہوں.چنانچہ اس نے لکھا ہے کہ میں نے انجمن اشاعت اسلام لا ہور کو بھی ایک خط لکھا ہے.میں نے مسجد لنڈن کے پتہ پر بھی ایک خط لکھا ہے.میں نے واشنگٹن امریکہ کے پتہ پر بھی ایک خط لکھا ہے اب دیکھ لو فلپائن میں ہمارا کوئی مبلغ نہیں گیا.لیکن لوگوں میں آپ ہی آپ احمدیت کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے.یہ وہی گیند ہے.جسے قادیان میں بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہٹ ماری تھی.الفضل 8 فروری 1956ء جلد 45/10 نمبر 33 صفحہ 4) ڈپٹی نذیر صاحب اور ترجمۃ القرآن جابہ کے قیام کی بڑی وجہ یہ تھی کہ قرآن شریف کا ترجمہ کرنے کی مجھے توفیق مل جائے.سو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم اٹھائیسویں پارے کے آخر میں ہیں.(چنانچہ 25 راگست کی شام تک خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف کا سارا ترجمہ ختم ہو گیا ہے.) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض نوٹوں اور بعض حوالوں کے لئے ابھی اور بھی کچھ وقت لگے گا گر تین چار مہینے کے اندر اندر سارے قرآن شریف کا ترجمہ ہونا الہی مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا.مجھے یاد ہے جب 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دہلی گئے تو خواجہ کمال الدین صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب ڈپٹی نذیر احمد صاحب مترجم قرآن کو بھی ملنے گئے.انہوں نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ ڈپٹی صاحب نے اپنے ارد گرد کاغذوں کا ایک بڑا ڈھیر لگا رکھا تھا.ایک مولوی بھی انہوں نے ملازم رکھا ہوا تھا اور خود بھی انہیں عربی زبان سے کچھ واقفیت تھی.پھر وہ کہنے لگے میں نے بڑی کتابیں لکھی ہیں.مگر ساری کتابیں ملا کر بھی مجھے اتنی مشکل پیش نہیں آئی.جتنی مشکل مجھے قرآن کریم کے ترجمہ میں پیش آئی ہے.چنانچہ دیکھئے میں نے ردی کاغذوں کا ڈھیر لگا رکھا ہے.لکھتا ہوں اور پھاڑتا ہوں.لکھتا ہوں اور پھاڑتا ہوں.چنانچہ سات سال انہیں اس ترجمہ کے مکمل کرنے میں لگے.مگر میں نے یہ ترجمہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت تھوڑے عرصہ میں کر لیا.( الفضل 31 / اگست 1956ء جلد 45/10 نمبر 204 صفحہ 2)
تذکار مهدی ) 144 روایات سید نا محمود کمزوری کا زمانہ جب حضرت مسیح موعود نے دعویٰ کیا.اس وقت آپ کی حالت اور آپ کے ماننے والوں کی حالت بظاہر بہت کمزور تھی.میری پیدائش دعوی سے پہلے کی ہے اور گو میں نے ابتداء نہیں دیکھی مگر ابتداء کے قرب کا زمانہ دیکھا ہے.وہ زمانہ بھی کمزوری کا زمانہ تھا.طرح طرح سے مولوی لوگوں کو جوش دلاتے تھے اور ہر ممکن طریق سے دکھ اور تکالیف پہنچاتے تھے.الفضل 30 نومبر 1923 ء جلد 11 نمبر 43 صفحہ 6 مخالفت اور جماعت کی ترقی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے کئی دفعہ سنا ہے کہ لوگ گالیاں دیتے ہیں تب برا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیوں اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں اور اگر گالیاں نہ دیں تب بھی ہمیں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ مخالفت کے بغیر جماعت کی ترقی نہیں ہوتی.پس ہمیں تو گالیوں میں بھی مزا آتا ہے اس لئے اعتراضات یا لوگوں کی بدزبانی کی پرواہ نہیں کرنی چاہیئے.پنجابی میں ضرب المثل ہے کہ اونٹ آڑاندے ہی لدے جاندے ہیں، یعنی اونٹ گو چیختا رہتا ہے مگر مالک اس پر ہاتھ پھیر کر اسباب لا دہی دیتا ہے.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 265 ) ہر ابتلاء کے بعد غیر معمولی ترقی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی فرمایا تو آپ کو ماننے والے صرف چند آدمی تھے.مگر اس کے بعد آتھم کے ساتھ آپ کا مقابلہ ہوا تو لوگوں پر ایک ابتلاء آیا اور انہوں نے سمجھا کہ آپ کی پیشگوئی اپنے ظاہری الفاظ کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئی.پھر لیکھرام سے آپ کا مقابلہ ہوا تو گو آپ کی پیشگوئی نہایت شان سے پوری ہوئی.مگر ہندوؤں میں آپ کے خلاف جوش پیدا ہو گیا اور انہوں نے آپ کی سخت مخالفت شروع کر دی.اسی طرح مولوی محمد حسین بٹالوی کے فتوؤں کا وقت آیا.تو جماعت پر ایک ابتلاء آیا پھر ڈاکٹر عبدالحکیم کے ارتداد کا وقت آیا تو جماعت پر ابتلاء آیا.غرض مختلف اوقات میں ایسے زور سے شورشیں اٹھیں کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ اب یہ لوگ ختم ہو گئے لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب فتنوں کو مٹانے کے سامان
تذکار مهدی ) کارمهدی 145 روایات سید نا محمود پیدا کر دئے اور وہ فتنے بجائے جماعت کو تباہ کرنے کے اس کی ترقی اور عزت کا موجب بن گئے.اسی طرح اب ہو رہا ہے.تم دیکھ لو کہ کس کس رنگ میں جماعت کے خلاف شورشیں اٹھیں.فساد ہوئے اور کس طرح لوگوں نے سمجھ لیا کہ اب احمدیت مٹ جائے گی.مگر ہر بار بجائے مٹنے کے جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گئی.الفضل 14 / مارچ 1962 ء جلد 51/16 نمبر 59 صفحہ 2) مخالفت مومنوں کے لئے ترقی کا ذریعہ ہماری ذاتی مشکلات میں سے سب سے پہلے احرار کی مخالفت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک ان کی مخالفت کا سوال ہے اس کے دو پہلو ہیں.ایک پہلو تو اس کا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر مخالفت ہوتی ہے اور وہ مخالفت کی وجہ سے ہماری باتوں کے سننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.اُن کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے یہ چیز تو ہمارے لئے بُری ہوتی ہے.مگر ایک صورت یہ بھی ہو ا کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مخالفت کی باتیں سنتا ہے تو وہ پھر کریدتا ہے کہ اچھا! یہ ایسے گندے لوگ ہیں.ذرا میں بھی تو جا کے دیکھوں اور جب وہ دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ جو باتیں مجھے اُنہوں نے بتائی تھیں وہ تو بالکل اور تھیں اور یہ باتیں جو کہتے ہیں بالکل اور ہیں اور وہ ہدایت کو تسلیم کر لیتا ہے.مجھے خوب یاد ہے میں چھوٹا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے مجلس لگی ہوئی تھی کہ ایک صاحب رام پور سے تشریف لائے.وہ رہنے والے تو لکھنؤ یا اُس کے پاس کے کسی مقام کے تھے، چھوٹا سا قد تھا، دُبلے پتلے آدمی تھے.ادیب تھے،شاعر تھے اور اُن کو محاورات اُردو کی لغت لکھنے پر نواب صاحب رام پور نے مقرر کیا ہو اتھا، وہ آ کے مجلس میں بیٹھے اور اُنہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں رام پور سے آیا ہوں اور نواب صاحب کا درباری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو یہاں آنے کی تحریک کس طرح ہوئی ؟ اُنہوں نے کہا میں بیعت میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے.اس طرف تو ہماری جماعت کا آدمی بہت کم پایا جاتا ہے، تبلیغ بھی بہت کم ہے، آپ کو اس طرف آنے کی تحریک کس نے کی؟ تو یہ لفظ میرے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں اور میں آج تک اس کو بھول نہیں سکا حالانکہ میری عمر اُس وقت سولہ سال کی تھی کہ اس کے
تذکار مهدی ) 146 روایات سید نا محمودی جواب میں اُنہوں نے بے ساختہ طور پر کہا کہ یہاں آنے کی تحریک مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب نے کی.میں تو شاید اپنی عمر کے لحاظ سے نہ ہی سمجھا ہوں گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر ہنس پڑے اور فرمایا.کس طرح ؟ اُنہوں نے کہا مولوی ثناء اللہ صاحب کی کتابیں دربار میں آئیں.نواب صاحب بھی پڑھتے تھے اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہا گیا تو میں نے کہا جو جو حوالے یہ لکھتے ہیں میں ذرا مرزا صاحب کی کتابیں بھی نکال کر دیکھ لوں کہ وہ حوالے کیا ہیں.خیال تو میں نے یہ کیا کہ میں اس طرح احمدیت کے خلاف اچھا مواد جمع کرلوں گا لیکن جب میں نے حوالے نکال کر پڑھنے شروع کئے تو ان کا مضمون ہی اور تھا.اس سے مجھے اور دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے کہا کہ چند اور صفحے بھی اگلے پچھلے پڑھ لوں.جب میں نے وہ پڑھے تو مجھے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی شان اور آپ کی عظمت جو مرزا صاحب بیان کرتے ہیں وہ تو ان لوگوں کے دلوں میں ہے ہی نہیں.پھر کہنے لگے مجھے فارسی کا شوق تھا.اتفاقاً مجھے درشین فارسی مل گئی اور میں نے وہ پڑھنی شروع کی تو اس کے بعد میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں نے کہا کہ جا کر بیعت کرلوں.تو مخالفت ایک رنگ میں مفید بھی ہو ا کرتی ہے اور ایک رنگ میں مضر بھی ہوا کرتی ہے یعنی لوگ جوش میں آجاتے ہیں اور بعض دفعہ فساد کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کی باتیں سننے سے آئندہ محروم رہ جاتے ہیں.پس ان دونوں نقطہ نگاہ سے ہمیں اپنے نظریئے تبدیل کرنے پڑتے ہیں.جو مخالفت کا نقطہ نگاہ ہے اس سے ہم کو اپنا یہ نقطہ نگاہ تبدیل کرنا پڑتا ہے کہ ہم جس چستی کے ساتھ اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے ، جس طرز سے ہم اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے، جس طرح ہم اس کی اشاعت کر رہے تھے، جس طرح ہم تبلیغ کر رہے تھے ہم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم پرانے ڈگر پر چل سکیں اور اپنے پرانے طریق پر لوگوں تک پہنچ سکیں کیونکہ اب لوگوں کے دل ہماری نسبت انقباض محسوس کر رہے ہیں اور اب ہمیں ان تک پہنچنے کے لئے نئے طریقے اور نئی طرزیں ایجاد کرنی پڑیں گی.اور جہاں تک لوگوں کو توجہ ہوتی ہے اس کے لحاظ سے ہمارے لئے سہولت پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ خود ہمارے گھروں تک پہنچتے ہیں.میں نے دیکھا ہے اس زمانہ میں بھی مخالفت کے باوجود کئی لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے مخالفوں کی باتیں سنیں اور اس کی وجہ
تذکار مهدی ) 147 روایات سید نامحمود سے سلسلہ کی طرف متوجہ ہو گئے.چشمہ ہدایت، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 433 تا 435) مخالفت توجہ الہی سلسلہ کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئی دفعہ ہم نے ایک واقعہ سنا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ دشمن جب ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور مخالفت کرتے ہیں تو ہمیں امید ہوتی ہے کہ ان میں سے سعید روحیں ہماری طرف آجائیں گی لیکن جب نہ تو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں اور بالکل خاموش ہو جاتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے تکلیف دہ ہوتی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ نبی کی مثال اُس بڑھیا کی سی ہوتی ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کچھ پاگل سی تھی اور شہر کے بچے اُسے چھیڑا کرتے تھے اور وہ انہیں گالیاں اور بد دعائیں دیا کرتی تھی آخر بچوں کے ماں باپ نے تجویز کی کہ بچوں کو روکا جائے کہ وہ بڑھیا کو دق نہ کیا کریں چنانچہ انہوں نے بچوں کو سمجھایا مگر بچے تو بچے تھے وہ کب باز آنے والے تھے یہ تجویز بھی کارگر ثابت نہ ہوئی.آخر بچوں کے والدین نے فیصلہ کیا کہ بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے اور دروازوں کو بند رکھا جائے چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اور دو تین دن تک بچوں کو باہر نہ نکلنے دیا.اس بڑھیا نے جب دیکھا کہ اب بچے اسے دق نہیں کرتے تو وہ گھر گھر جاتی اور کہتی کہ تمہارا بچہ کہاں گیا ہے؟ کیا اسے سانپ نے ڈس لیا ہے؟ کیا وہ ہیضہ سے مر گیا ہے؟ کیا اس پر چھت گر پڑی ہے؟ کیا اس پر بجلی گر گئی ہے؟ غرض وہ ہر دروازہ پر جاتی اور اس قسم کی باتیں کرتی آخر لوگوں نے سمجھا کہ بڑھیا نے تو پہلے سے بھی زیادہ گالیاں اور بد دعائیں دینی شروع کر دی ہیں اس لئے بچوں کو بند رکھنے کا کیا فائدہ اُنہوں نے بچوں کو چھوڑ دیا.آپ فرمایا کرتے تھے یہی حالت نبی کی ہوتی ہے.جب مخالفت تیز ہوتی ہے تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے اور جب مخالف چپ کر جاتے ہیں تب بھی اسے تکلیف ہوتی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو لوگوں کی توجہ الہی سلسلہ کی طرف پھر نہیں سکتی.(رسول کریم ﷺ کی زندگی کے اہم واقعات، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 152 ) کامل اخلاق ہی سے فضل ملتا ہے مؤمن کو سب سے زیادہ توجہ روحانی تعلق کی طرف کرنی چاہئے ان لوگوں کی طرح
تذکار مهدی ) 148 روایات سید نا محمود نہیں جو آج کل سمجھتے ہیں کہ منہ سے اقرار کافی ہے.خدا تعالیٰ کی محبت زبان کی نہیں ہو سکتی بلکہ دل سے ہی ہو سکتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو پھر انسان ہر شے پر قبضہ کر لیتا ہے.کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منہ کی تھوک سے یا ایک قطرہ سے پہاڑ ڈھک جائے مگر بادلوں سے ڈھک جاتے ہیں.اسی طرح اگر دل سے محبت کا دھواں اُٹھے تو اس سے اہم نتائج پیدا ہوں گے مگر جو منہ سے دعوئی کرتا ہے وہ پاگل ہے اسے نہ دین ملے گا نہ دنیا.مؤمن کو کامل بنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ کسی نے کہا ہے.ع کسب کمال گن کہ عزیز جہاں شوی جب تک کوئی انسان کمال حاصل نہ کرے انعام نہیں مل سکتا.مذہب میں داخل ہونے سے بھی کمال ہی فائدہ دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ آج کل ہم سے فائدہ وہی اُٹھاتے ہیں جو گہرا تعلق رکھتے ہیں یا تو پوری مخالفت کرنے والے مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب وغیرہ دوسرے چھوٹے چھوٹے مولویوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں یا کامل اخلاص رکھنے والے.ادنی اتعلق فائدہ نہیں دیتا.اصل میں کمال ہی سے فضل ملتا ہے بغیر اس کے انسان فضل سے محروم رہتا ہے.اگر انسان ہر چہ بادا باد کشتی ما درآب انداختیم“ کہہ کر خدا تعالیٰ کی طرف چل پڑے تو اُس کے ساتھ بھی پہلوں کا سا معاملہ ہوگا.آخر خدا تعالیٰ کو کسی سے دشمنی نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کامل طور پر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے ڈال دے اور اس کے آستانہ پر گرا دے اس سے آپ ہی آپ اسے سب کچھ حاصل ہو جائے گا اور جو ترقی اس کیلئے ضروری ہوگی وہ آپ ہی آپ مل جائے گی.آگ کے پاس بیٹھنے والے کے اعضاء کو دیکھو سب گرم ہوں گے اس کا چہرہ ہاتھ پاؤں جہاں ہاتھ لگاؤ گے گرم محسوس ہوگا.تو پھر کس طرح ممکن ہے کوئی شخص سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خدا کے پاس آئے اور اُس کے پاس بیٹھ جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود اُس کے اندر سے ظاہر نہ ہو.آگ کے اندر لوہا پڑ کر آگ کی خصوصیات ظاہر کرنے لگ جاتا ہے گو وہ آگ نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے والے لوگوں سے خاص معاملات ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں كُنْ فَيَكُونُ والی چادر پہنا دیتا ہے.حتی کہ نادان اُن کو خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ تو صرف خدا تعالیٰ کی صفات کا عکس پیش کر رہے ہوتے ہیں.
تذکار مهدی ) 149 روایات سیّد نا محمود پس اگر کوئی مذہب سے فائدہ اُٹھانا چاہے تو اُس کا طریق یہی ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گاتی طور پر ڈال دے لیکن اگر قوم کی قوم اس طرح کرے تو اس پر خاص فضل ہوں گے اور وہ ہر میدان میں فتح حاصل کرے گی.ہماری جماعت کیلئے بھی یہی قدم اٹھانا ضروری ہے مگر بہت سے لوگ صرف کہ دینا کافی سمجھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کرنی چاہئے کہ ایک طبعی شے بن جائے صرف جھوٹا دعوی نہ ہو کیونکہ جھوٹ اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتی.جھوٹ ایک ظلمت ہے اور خدا تعالی کی محبت ایک نور پس نور اور ظلمت کیسے جمع ہو سکتے ہیں.ایسے شخص کے اندر نہ سستی ہو نہ فریب نہ دعا کیونکہ یہ سب ظلمات ہیں اور خدا تعالیٰ ایک نور ہے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 471،470) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت مصری حکومت اپنے زمانہ میں نہایت نامور حکومت تھی اور اس کا بادشاہ اپنی طاقت وقوت پر ناز رکھتا تھا.ایسے بادشاہ کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی مگر باوجود اس کے جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو گو بادشاہ نے ان کو ڈرایا دھمکایا اور انہیں اور ان کی قوم کو تباہ و برباد کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا اور کہا کہ اگر تم باز نہ آئے تو تمہیں بھی مٹا دیا جائے گا اور تمہاری قوم کو بھی مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام باز نہ آئے اور انہوں نے کہا کہ جو پیغام مجھے خدا نے دنیا کے لئے دیا ہے وہ میں ضرور پہنچاؤں گا.دنیا کی کوئی طاقت مجھے اس سے روک نہیں سکتی.یہی حال حضرت عیسی علیہ السلام کا تھا.یہی حال محمد ﷺ کا تھا اور ایسی ہی حالت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دیکھی.ساری قومیں آپ کی مخالف تھیں حکومت بھی ایک رنگ میں آپ کی مخالف ہی تھی.گو آخری زمانہ میں یہ رنگ نہیں رہا بہر حال قو میں آپ مخالف تھیں.تمام مذاہب کے پیرو آپ کے مخالف تھے.مولوی آپ کے مخالف تھے.گدی نشین آپ کے مخالف تھے.عوام آپ کے مخالف تھے اور امراء اور خواص بھی آپ کے دشمن تھے.غرض چاروں طرف مخالفت کا ایک طوفان برپا تھا.لوگوں نے آپ کو بہت کچھ سمجھایا بعض نے دوست بن بن کر کہا کہ آپ اپنے دعوؤں میں کسی قدر کمی کر دیں.بعض نے کہا کہ اگر آپ فلاں فلاں بات چھوڑ دیں.تو سب لوگ آپ کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے مگر آپ نے ان میں سے کسی بات کی بھی پروانہ کی اور ہمیشہ اپنے دعوے کو پیش فرماتے رہے اس پر شور ہوتا
تذکار مهدی ) 150 روایات سید نا محمود رہا، ماریں پڑتی رہیں قتل ہوتے رہے مگر باوجود ان تمام تکالیف کے اور باوجود اس کے کہ آپ کا مقابلہ ایک ایسی دنیا سے تھا.جس کا مقابلہ کرنے کی ظاہری سامانوں کے لحاظ سے آپ میں قطعاً طاقت نہ تھی.پھر بھی آپ نے اپنے مقابلہ کو جاری رکھا بلکہ مجھے خوب یاد ہے میں نے متعدد بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے سنا کہ نبی کی مثال تو ویسی ہی ہوتی ہے جیسے لوگ کہتے ہیں کہ ایک گاؤں میں ایک پاگل عورت رہتی تھی.جب بھی وہ باہر نکلتی چھوٹے چھوٹے لڑکے اکٹھے ہو کر اسے چھیڑ نے لگ جاتے اس کے ساتھ مذاق کرتے اسے دق کرتے اور اسے بار بار تنگ کرتے.وہ بھی مقابلہ میں ان لڑکوں کو گالیاں دیتی اور بد دعائیں دیتی آخر ایک دن گاؤں والوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ یہ عورت مظلوم ہے اور ہمارے لڑکے اسے ناحق تنگ کرتے رہتے ہیں.مظلومیت کی حالت میں یہ انہیں بددعائیں دیتی ہے کہیں ایسا نہ ہو اس کی بددعا ئیں کوئی رنگ لائیں ہمیں چاہیئے کہ اپنے لڑکوں کو روک لیں تا کہ نہ وہ اسے تنگ کریں.اور نہ یہ بددعا ئیں دے چنانچہ اس مشورہ کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ کل سے سب گاؤں والے اپنے لڑکوں کو گھروں میں بند رکھیں اور انہیں باہر نہ نکلنے دیں.چنانچہ دوسرے دن سب لوگوں نے اپنے اپنے لڑکوں سے کہہ دیا کہ آج سے باہر نہیں نکلنا اور مزید احتیاط کے طور پر انہوں نے باہر کے دروازوں کی زنجیریں لگا دیں.جب دن چڑھا اور وہ پاگل عورت حسب معمول اپنے گھر سے نکلی تو کچھ عرصہ تک اور ادھر اُدھر گلیوں میں پھرتی رہی.کبھی ایک گلی میں جاتی اور کبھی دوسری میں مگر اسے کوئی لڑکا نظر نہ آتا.پہلے تو یہ حالت ہوا کرتی تھی کہ کوئی لڑکا اس کے دامن کو گھسیٹ رہا ہے کوئی اسے چٹکی کاٹ رہا ہے کوئی اسے دھکا دے رہا ہے.کوئی اسکے ہاتھوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور کوئی اسے مذاق کر رہا ہے مگر آج اسے کوئی لڑکا دکھائی نہ دیا.دو پہر تک تو اس نے انتظار کیا.مگر جب دیکھا کہ اب تک بھی کوئی لڑکا اپنے گھر سے نہیں نکلا.تو وہ دوکانوں پر گئی.اور ہر دوکان پر جا کر کہتی آج تمہارا گھر گر گیا ہے بچے مر گئے ہیں آخر ہوا کیا ہے کہ وہ نظر نہیں آتے تھوڑی دیر کے بعد جب اس طرح اس نے ہر دوکان پر جا کر کہنا شروع کیا.تو لوگوں نے کہا گالیاں تو اس طرح بھی ملتی ہیں اور اُس طرح بھی چھوڑو بچوں کو ان کو قید کیوں کر رکھا ہے آپ یہ حکایت بیان کر کے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کا حال بھی اپنے رنگ میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے دنیا ان کو چھیڑتی ہے تنگ کرتی ہے ان پر ظلم و ستم ڈھاتی اور اس قدر ظلم کرتی ہے کہ ان کے لئے زندگی گزارنا مشکل ہو جاتا ہے اور ایک طبقہ کے دل میں یہ
تذکار مهدی ) 151 روایات سید نا محمود احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ لوگ ظلم سے کام لے رہے ہیں انہیں نہیں چاہیئے کہ ایسا کریں مگر فرمایا وہ بھی دنیا کو نہیں چھوڑ سکتے جب دنیا ان کو نہیں ستاتی تو وہ خود اس کو جھنجوڑ تے اور بیدار کرتے ہیں تا کہ دنیا ان کی طرف متوجہ ہو اور ان کی باتوں کو سنے.الفضل 20 / نومبر 1943 ء جلد 31 نمبر 273 صفحه 2) اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ ہونا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ لا ہور کی ایک گلی میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دیا آپ گر گئے جس سے آپ کے ساتھی جوش میں آگئے اور قریب تھا کہ اُسے مارتے.لیکن آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنے جوش میں سچائی کی حمایت میں ایسا کیا ہے اسے کچھ نہ کہو.پس انبیاء اپنے نفس کے سوال کی وجہ سے نہیں بولتے بلکہ خدا کی عزت کے قیام کیلئے بولتے ہیں.تو یہ نہیں خیال کرنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی بھی ایسا ہی کرتے ہیں.ان میں اور عام لوگوں میں بڑا فرق ہوتا ہے.وہ خدا کیلئے کرتے ہیں اور عام لوگ اپنے لئے کرتے ہیں.پس اگر کسی شخص کو یہ احساس پیدا ہو جائے کہ میں واقعہ میں کمزور ہوں تو ایسا انسان گمراہ ہو نہیں سکتا.انسان گمراہ اُس وقت ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتا ہے کہ میں حق پر ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت معاویہ کی نماز کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ان سے ایک مرتبہ فجر کی نماز قضا ہوگئی لیکن وہ اس غلطی کے نتیجے میں نیچے نہیں گرے بلکہ ترقی کی.پس جو گناہ کا احساس کرتا ہے وہ گناہ سے بچتا ہے.جب گناہ کا احساس نہیں رہتا تو انسان معصیت میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس مومن کو اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ پر غور کرنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ وہ خطرات سے محفوظ نہیں ہوا.صرف اُسی وقت محفوظ ہوسکتا ہے کہ جبکہ خدا کی آواز اُسے کہہ دے.پس انسان کو اپنے نفس کی کمزوری کا محاسبہ کرنا چاہئے.ایسے شخص کیلئے روحانیت کے راستے کھل جاتے ہیں.جو ایسا نہیں کرتا اُس کیلئے روحانیت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں اور ایسا انسان گمراہ ہو جاتا ہے.(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 142،141) اشتعال میں نہیں آنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں ایک دفعہ ایک گلی میں سے جارہے تھے
تذکار مهدی ) 152 روایات سیّد نا محمود رحمت اللہ صاحب، مرزا ایوب بیگ صاحب اور غالباً مفتی محمد صادق صاحب بھی ساتھ تھے کہ کسی نے زور سے پیچھے سے آپ پر دو ہتر مارا اور آپ گر گئے.جو دوست ساتھ تھے وہ اس شخص کو مارنے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا نہیں نہیں یہ معذور ہے اس نے اپنے خیال میں تو نیکی کا کام ہی کیا ہے اسے کچھ نہ کہو جانے دو.تو یقینا اگر وہ شخص مجھے مل جاتا تو میں ایسا ہی نمونہ دکھاتا.میں نے سنا ہے کہ بعض دوستوں نے کہا کہ اگر وہ مل جاتا تو کیا ہم اسے زندہ چھوڑتے ؟ مگر میں جانتا ہوں کہ میری موجودگی میں انہیں چھوڑنا ہی پڑتا.میری غرض صرف اتنی تھی کہ کسی کے پتہ لگ جانے سے ایک تو معاملہ کی اصل حقیقت واضح ہو جاتی دوسرے اس کیلئے شرمندگی اور ندامت بھی ہوتی کیونکہ جب ایک شخص اپنی کسی حرکت سے اشتعال دلائے مگر دوسرا اشتعال میں نہ آئے بلکہ نرمی کا معاملہ اُس سے کرے تو یہ اس کیلئے شرمندگی کا موجب ہوتا ہے.چونکہ اس چیز کا نشان نہیں پڑا اس لئے بعد میں میں نے اس پر غور کیا اور پولیس کے بعض افسروں سے بھی میری گفتگو ہوئی جس سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ غالبا چمڑے کی کوئی چیز تھی جیسے جوتی وغیرہ یا صاف ٹھدہ لکڑی تھی.اس قسم کی چیز سے آواز بھی زور سے پیدا ہوتی ہے، دھما کہ بھی ہوتا ہے لیکن نشان کا پڑنا ضروری نہیں ہوتا اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں اس حرکت کے مرتکب کی غرض یہ تھی کہ جماعت میں اشتعال پیدا ہو جائے.(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 597،596) انسان جس چیز کا عادی ہو جائے وہ تکلیف نہیں رہتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے خود اپنے کانوں سے یہ مضمون بارہا سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آیا کرتے ہیں.ایک تو وہ ابتلاء ہوتے ہیں جن میں بندے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ تم اس میں اپنے آرام کیلئے خود کوئی تجویز کر سکتے ہو.چنانچہ اس کی مثال میں آپ فرماتے دیکھو! وضو بھی ایک ابتلاء ہے سردیوں کے موسم میں جب سخت سردی لگ رہی ہوٹھنڈی ہوا چل رہی اور ذراسی ہوا لگنے سے بھی انسان کو تکلیف ہوتی ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حکم ہوتا ہے کہ نماز پڑھنے سے پہلے وضو کرو.بسا اوقات جب نماز کا وقت ہوتا ہے اُس وقت گرم پانی نہیں ہوتا یا بسا اوقات اسے گرم پانی میسر تو آسکتا ہے مگر اُس وقت تیار نہیں ہوتا.پھر بسا اوقات اسے گرم پانی میسر ہی نہیں آسکتا یخ بستہ پانی ہوتا ہے اور اسی پانی سے اُسے وضو کر کے نماز پڑھنی پڑتی ہے.آپ فرمایا کرتے یہ بھی ایک ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ
تذکار مهدی ) 153 روایات سید نا محمود نے مومنوں کے لئے رکھ دیا مگر فرمایا یہ ایسا ابتلاء ہے جس میں بندے کو اختیار دیا گیا ہے یعنی اُسے اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ اگر پانی ٹھنڈا ہے تو گرم کرلے گویا یہ ایک اختیاری ابتلاء ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا اور انسان کو اس بات کی اجازت دی کہ اگر ٹھنڈے پانی سے تم وضو نہیں کر سکتے تو ہمت کرو اور آگ پر پانی گرم کرلو.اور اپنے گھر میں آگ موجود نہیں تو ہمسایہ کے گھر سے آگ لے کر پانی گرم کر لو اور گرم پانی سے وضو کرنے کے بعد اچھی طرح گرم کپڑے پہن لو تا تمہیں سردی محسوس نہ ہو.یا بعض اوقات لوگ مسجدوں میں حمام بنا دیتے ہیں جن میں پانی گرم رہتا ہے.پس جولوگ غریب اپنے گھروں میں پانی گرم نہیں کر سکتے وہ مساجد میں جاکر حمام سے وضو کر سکتے ہیں یا اگر مسجد میں گرم حمام کا انتظام نہیں تو پھر اگر کوئی ہمت والا کنویں سے تازہ پانی کا ڈول نکال کر اس سے وضو کر لیتا ہے اس طرح بھی وہ سردی سے بچ جاتا ہے کیونکہ سردیوں میں کنویں کا تازہ پانی قدرے گرم ہوتا ہے.پس اگر کوئی ذریعہ اس کے پاس موجود نہیں تو وہ اس طرح اپنی تکلیف کو دور کر سکتا ہے.اسی طرح فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حکم دیا کہ علی الصبح اُٹھے اور نماز فجر پڑھے.اب سردیوں میں صبح کے وقت اُٹھنا کتنا دوبھر ہوتا ہے لیکن انسان کے پاس اگر کافی سامان ہو تو یہ تکلیف بھی اسے محسوس نہیں ہوسکتی.مثلاً اگر اسے تہجد کی نماز پڑھنے کی عادت ہے تو وہ یہ کر سکتا ہے کہ تہجد کی نماز پڑھتے وقت کمرے کے دروازے اچھی طرح بند کرے تا کمرہ گرم رہے اور باہر کی ٹھنڈی ہوا اندر نہ آسکے.اسی طرح جب فجر کی نماز پڑھنے کے لئے مسجد کو جائے تو کمبل یا ڈلائی اوڑھ سکتا یا گرم کوٹ پہن کر جا سکتا ہے اور اگر کوئی غریب بھی ہو تو وہ بھی پھٹی پرانی صدری یا کوٹ پہن کر جا سکتا اور سردی کے اثر سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے اور اگر کوئی شخص بالکل ہی غریب ہو اور اس کے پاس نہ کمبل ہو نہ ڈلائی نہ صدری نہ کوٹ تو اسے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہو سکتی کیونکہ ایسے شخص کو سردی کے برداشت کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جس چیز کا انسان عادی ہو جائے وہ اس کو تکلیف نہیں دیتی.میں نے دیکھا ہے کہ باورچی خانہ میں کام کرنے والی عورتیں اپنے ہاتھوں سے چولہے سے انگارے نکال لیتی ہیں اور انہیں کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی حالانکہ ہم ان انگاروں کے قریب بھی نہیں جا سکتے.اسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ دوزخیوں کو جب دوزخ میں عذاب دیا جائے گا تو کچھ عرصہ کے بعد جب ان کی جلدیں پک جائیں گے اور انہیں عذاب سہنے کی عادت ہو جائے گی تو بدَّ لَهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا ( النساء: 57) ہم ان
تذکار مهدی ) 154 کے چمڑے تبدیل کر دیں گے اور نیا چمڑہ انہیں دے دیں گے.روایات سید نا محمود (خطبات محمود جلد 17 صفحه 669 تا 671 ) | ہم نے ہمیشہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا ہے اپنی جماعت کو یہ نصیحت کرنی چاہتا ہوں کہ اس بات کا خاص خیال رکھیں ہم اس وقت کمزور ہیں لیکن کہیں ہمیں بھی قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے.کوئی احمدی بڑا زمیندار یا تاجر یا کوئی افسر ہوتا ہے جہاں بھی ایسا ہو، چاہئے کہ اپنی طاقت کا صحیح استعمال کیا جائے.میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے ہندوستان میں کوئی ایسا زمیندار نہیں ہو گا جو اپنے مزارعین اور کسانوں سے ایسا سلوک کرے جو ہم یہاں کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی مالکان میں سے سارے ملک میں شاید کوئی اتنا بد نام نہیں ہوگا جتنا ہم ہیں.ہم تو قادیان کے واحد مالک ہیں لیکن کسی اور گاؤں میں جا کر دیکھ لو کوئی زمیندار چوتھے حصے کا ہی مالک کیوں نہ ہو کیا مجال جو اُس کے خلاف کوئی بات کر سکے مگر ہمارے سامنے سب بولتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ بندوبست کا کوئی تحصیلدار یا کوئی افسر یہاں آیا میں اُس زمانہ میں ابھی پڑھ رہا تھا ، اس محکمہ کا شاید کوئی قاعدہ ہے کہ مالیہ وغیرہ کے متعلق کسی کو اعتراض ہو تو دریافت کر لیتے ہیں شاید ایسی ہی کوئی بات تھی یا کوئی اور بات تھی اور افسر یہاں آیا ہوا تھا مجھے بھی بلایا گیا تو ایک مزارع مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ جی ! ان کو کیا پوچھتے ہو ان کا تو روپیہ میں ایک آنہ ہی ہے.کیا کہیں کوئی اور جگہ ہے جہاں کسان اس طرح بول سکیں حالانکہ جیسا سلوک ان لوگوں سے ہم یہاں کرتے ہیں ویسا اور کوئی نہ کرتا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ یہاں ایک مجسٹریٹ آیا اور آپ سے یہاں کے ہندوؤں کے متعلق ذکر کیا کہ وہ کچھ شا کی ہیں آپ نے ہندوؤں کو بلایا اور اس کے سامنے ان پر اپنی نوازشیں گنوانی شروع کیں.آپ نے بتانا شروع کیا کہ ہم نے ان لوگوں کے لئے یہ کیا ، یہ کیا اور فرمایا کہ یہ لوگ سامنے بیٹھے ہیں ان سے کہیں انکار کر دیں.بڑھے شاہ وغیرہ سب بیٹھے تھے مگر کسی کو انکار کی جرات نہ ہوئی.اسی طرح یہاں کے ہندوؤں میں ایک دفعہ کچھ شورش ہوئی جو دراصل ان سب شورشوں کا پیش خیمہ ہے، ان دنوں بٹالہ کے ایک تحصیلدار جن کا نام شاید دیوان چند تھا یہاں آئے اور کہا کہ میں بطور سفارش آپ کے پاس آیا ہوں آپ ان کی شکایات کا خود ہی
تذکار مهدی ) کارمهدی 155 روایات سیّد نا محمود علاج کر دیں.میں نے ان کے سامنے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام والا طریق پیش کیا اور بتایا کہ ان کے ساتھ فلاں موقع پر ہم نے یہ کیا اور فلاں موقع پر یہ کیا اور ان سے کہیں کہ ان میں سے ایک بات کا بھی انکار کر دیں انہوں نے تسلیم کیا کہ میں سمجھ گیا ہوں اب میں ان کی سفارش نہیں کروں گا اور ان کو جا کر ڈانٹا اور اس جھگڑے کی صلح صفائی کرا دی.ہمارا سلوک ایسا ہے کہ گو کوئی ہمیں ظالم ہی کہے لیکن دلوں میں ہماری خوبی کو مانتے ہیں.اب بھی ان لوگوں کو کوئی مصیبت پیش آئے تو امداد کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ظاہر ہے کہ ظالم کے پاس مدد کے لئے کوئی نہیں جایا کرتا.ہماری عادت یہ نہیں کہ نام ظاہر کریں لیکن اگر ضرورت ہو تو میں ثابت کر سکتا ہوں کہ ہم نے ہندوؤں ،سکھوں اور غیر احمد یوں سب کی مدد کی ہے.انہیں وظائف دیئے ہیں، کپڑے دیئے ہیں ، روپے دیئے ہیں اور اگر ضرورت ہو تو ان لوگوں کو سامنے بٹھا کر میں اقرار کرا سکتا ہوں کہ تم لوگوں کی فلاں فلاں مدد کی گئی یا نہیں.1928ء میں جب میں ڈلہوزی گیا تو قادیان کے لالہ شرمیت صاحب کے لڑکے لالہ گوکل چند صاحب تحصیلدار جو فوت ہو چکے ہیں ، وہ بھی وہاں گئے ، ہمارے ساتھ کی کوٹھی میں گجرات کے ایک رئیس جو غالباً آنریری مجسٹریٹ بھی تھے مقیم تھے، لالہ گوگل چند صاحب دو چار روز کے لئے ہی وہاں گئے تھے اور ان کے ساتھ تعلقات تھے اس لئے ان کے ہاں ہی ٹھہرے.ایک دن مجھے ملنے آئے تو کہا کہ آپ کو ایک بات بتاتا ہوں میں نے اپنے میزبان سے کہا تھا کہ آپ مرزا صاحب سے ابھی تک کیوں نہیں ملے تو وہ کہنے لگے کہ وہ تو اس قدر ظالم اور متعصب ہیں ، ان سے میں کیسے مل سکتا تھا.وہ ہندوؤں سے بہت تعصب رکھتے ہیں.اس پر میں نے ان سے کہا کہ میں تو قادیان کا رہنے والا ہوں میں خوب جانتا ہوں کہ یہ سب باتیں جھوٹی ہیں.اس پر وہ حیران ہوئے اور کہنے لگے کہ اچھا یہ بات ہے.بہر حال جو انصاف کرنے والا ہے وہ خواہ کتنا بد نام ہو جائے مگر پھر بھی کامیاب وہی ہوتا ہے اب بھی ہمارے خلاف بہت شور ہے مگر اب بھی میں ایسی تحریریں دکھا سکتا ہوں کہ کوئی جھگڑا ہو تو کہتے ہیں آپ فیصلہ کر دیں.ہم بار بار کہتے ہیں کہ عدالت میں جاؤ مگر کہتے ہیں کہ نہیں آپ ہی فیصلہ کر دیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں اس زمانہ میں اس بات کی توفیق ملی ہے کہ انصاف قائم کریں گو اس وقت بدنام ہیں مگر یہ بدنامی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی دلوں میں ہماری قدر خدا کے فضل سے ہے.مجھے ایک دوست نے سنایا کہ TRIBUNE میں جب
تذکار مهدی ) 156 روایات سید نامحمود میری وفات کی غلط خبر شائع ہوئی تو ایک مخالف نے مجھے فون کیا کہ سناؤ کوئی خبر قادیان کے متعلق ہے مجھے چونکہ کئی لوگ پہلے بھی پوچھ چکے تھے اور مجھے غصہ چڑھا ہو ا تھا اس لئے میں نے اسے کہا کہ چُپ رہو مگر اس نے کہا کہ نہیں میں بدنیتی سے نہیں پوچھتا بتاؤ کیا بات ہے مگر مجھے چونکہ غصہ تھا اس لئے میں نے پھر کہا کہ چُپ رہو مگر اس نے کہا کہ خدا کے لئے بتاؤ کیا بات ہے مجھے فکر ہے اس لئے پوچھتا ہوں اور جب میں نے بتایا تو اُس نے ذرا پرے ہو کر کہا جس کی مجھے آواز آئی کہ الْحَمْدُ لِلهِ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مخالفوں کے دلوں میں بھی ہماری قدر ہے ہم کبھی یہ خیال بھی نہ کرو کہ ظلم کامیاب ہو سکتا ہے.اگر چہ اس وقت ہمیں بدنام کیا جا رہا ہے مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جب دیکھتے ہیں کہ یہ ہمیں دیتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ سب کچھ کیوں نہیں دیتے مگر جب انہیں معلوم ہوگا کہ رحم اور انصاف کی کیا حدود ہیں تو ضرور نادم ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو ہندو ،سکھ ، غیر احمدی سب رو رہے تھے حالانکہ زندگی میں یہی لوگ آپ کو گالیاں دیا کرتے تھے.میں نے اس وقت جماعت کو ایک گر بتا دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالم کو بھی ہدایت نہیں دیتا اس لئے اپنے اعمال میں ظلم مت پیدا ہونے دو.اپنے رویہ میں نرمی رکھو.اللہ تعالی دولت دے تو تمہارے اندر انکسار پیدا ہو، علم سے تواضع پیدا ہو اور وہ تمہیں جتنا اونچا کرے اُسی قدر جھکو اور کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے اس کے بندوں کو فائدہ پہنچاؤ.بادشاہ کی دولت رعایا کے لئے ہوتی ہے اور ملک کہہ کر اللہ تعالیٰ نے یہی بتایا ہے کہ ہم تمہیں جو کچھ دیں گے بادشاہ کر کے دیں گے تائم دوسروں کو فائدہ پہنچاؤ، قدوسیت اس واسطے دیں گے کہ دوسروں کو پاک کرو، عزیز بنائیں گے تا دوسروں کو بڑا کر و عزیز اسے بھی کہتے ہیں جو دوسروں کو ذلیل نہ کرے، ہم تمہیں حکمت دیں گے مگر اس لئے کہ دوسروں کو سکھاؤ.جس پانی کا نکلنے کا رستہ نہ ہو وہ سڑ جاتا ہے.پس ہم تمہیں علم دیں گے لیکن اگر اس سے دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاؤ گے تو یہ سٹڑ کر تمہارے دماغ میں تعفن پیدا کر دے گا.“ مخالفوں سے احسان کا سلوک خطبات محمود جلد 16 صفحہ 168 تا 170 ) | ایک دفعہ ایک افسر نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک معاملہ میں کہا کہ یہ لوگ آپ کے شہری ہیں آپ ان کے ساتھ نرمی کا سلوک کریں تو حضرت صاحب نے فرمایا.اس
157 تذکار مهدی ) روایات سیّد نا محمود بڑھے شاہ ہی کو پوچھو کہ آیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے جس سے اس نے اپنی طرف سے نیش زنی نہ کی ہو اور پھر اس سے ہی پوچھو کہ کیا کوئی ایک موقعہ بھی ایسا آیا ہے کہ جس میں میں اس پر احسان کر سکتا تھا اور پھر میں نے اس کے ساتھ احسان نہ کیا ہو.آگے وہ سر ڈال کر ہی بیٹھا رہا.یہ ایک عظیم الشان نمونہ تھا آپ کے اخلاق کا.پس ہماری جماعت کو بھی چاہئے کہ وہ اخلاق میں ایک نمونہ ہو.معاملات کی آپ میں ایسی صفائی ہو کہ اگر ایک پیسہ بھی گھر میں نہ ہو تو امانت میں ہاتھ نہ ڈالیں اور بات اتنی میٹھی اور ایسی محبت سے کریں کہ جو دوسرے کے دل پر اثر کرے.میں نے تو آج تک محبت سے زیادہ اثر کرنے والی کوئی بات نہیں دیکھی.اس لئے ہماری جماعت کا بھی محبت آمیز شعار ہو جانا چاہئے کہ جب کوئی بات کرے تو ہر آدمی محسوس کرے کہ اس کے اندر اخلاص ہے اور اس کا دل محبت سے بھرا ہوا ہے.( خطبات محمود جلد 10 صفحہ 278-277 ) تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے.بغیر محنت دینی یا محنت دنیوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے زمانہ میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے.اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے.یا ہمارے مخالف ہوں گے چنانچہ فرماتے تھے مولوی ثناء اللہ صاحب کو دیکھ لو وہ کوئی بڑے مولوی نہیں ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے.وہ لوگ خواہ اس امر کا اقرار کریں یا نہ مگر واقعہ یہی ہے کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری تائید میں گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ سے.(تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 614) مولوی محمد حسین بٹالوی کا دعویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جوانی کے دوست تھے اور آپ سے تعلق رکھنے والے تھے اور جو ہمیشہ آپ کے مضامین کی تعریف کیا کرتے تھے انہوں نے اس دعویٰ کے معاً بعد یہ اعلان کیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا
تذکار مهدی ) 158 روایات سید نا محمودی اور اب میں ہی اسے تباہ کر دوں گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ داروں نے اعلان کر دیا بلکہ بعض اخبارات میں یہ اعلان چھپوا بھی دیا کہ اس شخص نے دوکانداری چلائی ہے اس کی طرف کسی کو توجہ نہیں کرنی چاہئے اور اس طرح ساری دنیا کو انہوں نے بدگمان کرنے کی کوشش کی پھر یہ میرے ہوش کی بات ہے کہ بہت سے کام کرنے والے لوگوں نے جو زمیندارہ انتظام میں کمیں کہلاتے ہیں آپ کے گھر کے کاموں سے انکار کر دیا اس کے محرک دراصل ہمارے رشتہ دار ہی تھے.غرض اپنوں اور بیگانوں نے مل کر آپ کو مٹانا اور آپ کو تباہ اور برباد کر دینا چاہا.مگر خدا نے اپنے بندے سے کہا: دنیا میں ایک نبی آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا.“ ایک بے کس اور بے بس انسان قادیان جیسی بستی میں جہاں ہفتہ میں صرف ایک دفعہ ڈاک آیا کرتی تھی جہاں ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا.جہاں ایک روپیہ کا آٹا بھی لوگوں کو میسر نہیں آتا تھا گھڑا ہوتا ہے اور پھر وہ انسان بھی ایسا ہے جو نہ مولوی ہے اور نہ بہت بڑی جائیداد کا مالک ہے.(بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شریف خاندان میں سے تھے مگر راجوں اور نوابوں کی طرح بہت بڑی جائیداد کے مالک نہیں تھے ) وہ اٹھ کر دنیا کے سامنے یہ اعلان کرتا ہے اور پہلے دن ہی کہتا ہے کہ خدا میرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہو نچائے گا اور کون ہے جو آج کہہ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام دنیا کے کناروں تک نہیں پہونچا.( الفضل 13 نومبر 1940 ء جلد 28 نمبر 258 صفحہ 2 تا 3) جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر علوم کی راہیں کھلتی ہیں یہ اللہ تعالی کی قدرت ہے کہ ہماری جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر دینی اور دنیوی علوم کی راہیں کھل جاتی ہیں اور ایسی باتیں ذہن میں آنے لگتی ہیں جو بڑے بڑے عالموں کو نہیں سوجھتیں.ہمارے ہاں ایک ملازم ہوتا تھا پہاڑ کا رہنے والا تھا اسے گنٹھیا کی بیماری ہوگئی تھی اور اس کے رشتہ داروں نے اسے گھر سے نکال دیا تھا کہ تو کما تا کچھ نہیں اس لئے ہم تیرا بوجھ نہیں اٹھا سکتے.وہ اپنا علاج کرانے کے لئے چلا آیا.کسی نے اسے بتایا قادیان کے مرزا صاحب بھی علاج کرتے ہیں وہاں جاؤ یہ سن کر وہ قادیان میں آگیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا
تذکار مهدی ) 159 روایات سید نا محمودی علاج کیا اور وہ اچھا ہو گیا پھر وہ آپ کے پاس ہی رہ پڑا.اس کے رشتہ دار اسے لینے کے لئے بھی آئے مگر اس نے جانے سے انکار کر دیا.وہ اپنی دماغی کیفیت کی وجہ سے دین سے اس قدر ناواقف تھا کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول نے اس سے پوچھا تمہارا کیا مذہب ہے تو اس نے کہا مجھے تو پتا نہیں ہمارے پنچوں کو معلوم ہوگا ان کو آپ لکھیں وہ بتادیں گے.حضرت خلیفہ اول نے اسے نماز پڑھنے کے لئے کہا اور چونکہ بہت معمولی سمجھ کا آدمی تھا نماز کا شوق دلانے کے لئے اسے کہا اگر تم پانچ وقت کی نمازیں پڑھ لو تو دوروپے دوں گا.اس نے کہا میں نماز میں کیا پڑھوں آپ نے بتایا تم سبحان الله - سبحان اللہ کہتے رہنا وہ مغرب کی نماز کے لئے کھڑا ہوا تو اندر سے کسی خادمہ نے اسے آواز دی کہ کھانا لے جاؤ.ایک دو آوازوں پر تو چپ رہا پھر کہنے لگا ذرا ٹھہرو نماز پڑھ لوں تو آتا ہوں.یہ تو اس کی حالت تھی.اس زمانہ میں احمدیت کی مخالفت ہوتی تھی اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سٹیشن پر جا کر لوگوں کو قادیان جانے سے روکا کرتے تھے.کبھی کبھی حضرت صاحب کی تارلے کر یا کسی اور کام کے لئے وہ نوکر بھی جس کا نام پیرا تھا اسٹیشن پر جایا کرتا تھا.ایک دفعہ مولوی محمد حسین صاحب نے اسے کہا تو کیوں وہاں بیٹھا ہے یہاں چلا آ.جب مولوی صاحب نے اسے بہت تنگ کیا تو اس نے کہا میں اور تو کچھ جانتا نہیں مگر اتنا پتہ ہے کہ مرزا صاحب یہاں سے گیارہ میل دور بیٹھے ہیں ان کے پاس تو لوگ جاتے ہیں اور تمہارے روکنے کے باوجود جاتے ہیں مگر تم یہاں روزا کیلئے ہی آتے ہو اورا کیلے ہی چلے جاتے ہو کوئی تو بات ہے کہ مرزا صاحب کے پاس لوگ آتے ہیں.اب دیکھو وہ نصرت اور تائید کے الفاظ نہ جانتا تھا مگر یہ جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کے پاس جو لوگ آتے ہیں اور مولوی محمدحسین صاحب کے پاس نہیں جاتے تو اس میں کوئی خاص بات ہے بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی مائل ہو جاتا ہے یا صحیح پر چلنے والوں کے پاس ہی بیٹھتا ہے تو وہ بھی کچھ نہ کچھ حاصل کر لیتا ہے.( خطبات محمود جلد 11 صفحہ 305-304) حضرت مسیح موعود کا ماضی ہر ایک بدی بتدریج پیدا ہوتی ہے یہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص رات کے وقت صادق سوئے اور صبح کو بدترین جھوٹ کا مرتکب ہو کر پہلے تو انسانوں پھر بھی جھوٹ نہ بولتا تھا اور اب خدا پر جھوٹ بولنے لگا.اس کے مطابق ہم حضرت مرزا صاحب کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی کو دیکھتے
تذکار مهدی ) 160 روایات سیّد نا محمود ہیں تو آپ نے یہاں کے ہندوؤں ، سکھوں اور مسلمانوں کو بار بار اعلان فرمایا کہ کیا تم میری پہلی زندگی پر کوئی اعتراض کر سکتے ہو مگر کسی کو جرات نہ ہوئی بلکہ آپ کی پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا.مولوی محمد حسین بٹالوی جو بعد میں سخت ترین مخالف ہو گیا اس نے اپنے رسالہ میں آپ کی زندگی کی پاکیزگی اور بے عیب ہونے کی گواہی دی اور مسٹر ظفر علی خان کے والد نے اپنے اخبار میں آپ کی ابتدائی زندگی کے متعلق گواہی دی کہ بہت پاکباز تھے.پس جو شخص چالیس سال تک بے عیب رہا اور اس کی زندگی پاکباز رہی وہ کس طرح راتوں رات کچھ کا کچھ ہو گیا اور بگڑ گیا.علماء نفس نے مانا ہے کہ ہر عیب اور اخلاقی نقص آہستہ آہستہ پیدا ہوا کرتا ہے ایک دم کوئی تغیر اخلاقی نہیں ہوتا ہے.پس دیکھو کہ آپ کا ماضی کیسا بے عیب اور بے نقص اور روشن ہے.حضرت مسیح موعود کا حال معیار صداقت انوار العلوم جلد 6 صفحہ 60-61) جو خدا کا رسول ہو اس کے ساتھ خدا کی نصرت ہوتی ہے اگر نصرت نہیں تو وہ خدا کا مرسل اور رسول نہیں لوگ قریب ہوتا ہے کہ اس کو ہلاک کر دیں مگر خدا کی نصرت آتی ہے اور اُس کو کامیاب کرتی ہے اور اُس کے دشمنوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیتی ہے.یہی معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں ہوا.آپ کو طرح طرح سے مارنے کی کوشش کی گئی.لوگ مارنے پر متعین ہوئے جن کا علم ہو گیا اور وہ اپنے ارادے میں ناکام ہوئے ، مقد مے آپ پر جھوٹے اقدام قتل کے بنائے گئے.چنانچہ ڈاکٹر مارٹن کلارک نے جھوٹا مقدمہ اقدام قتل کا بنایا اور ایک شخص نے کہہ بھی دیا کہ مجھے حضرت مرزا صاحب نے متعین کیا تھا.مجسٹریٹ وہ جو اس دعویٰ کے ساتھ آیا تھا کہ اس مدعی مہدویت و مسیحیت کو اب تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں میں پکڑوں گا مگر جب مقدمہ ہوتا ہے وہی مجسٹریٹ کہتا ہے کہ میرے نزدیک یہ جھوٹا مقدمہ ہے.بار بار اس نے یہی کہا اور آخر اس شخص کو عیسائیوں سے علیحدہ کر کے پولیس افسر کے ماتحت رکھا گیا اور وہ شخص رو پڑا اور اس نے بتا دیا کہ مجھے عیسائیوں نے سکھایا تھا اور خدا نے اس جھوٹے الزام کا قلع قمع کر دیا.اسی طرح ہماری جماعت کے پُر جوش مبلغ مولوی عمرالدین صاحب شملوی اپنا واقعہ سنایا کرتے ہیں کہ وہ بھی اسی معیار پر پرکھ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ سناتے ہیں کہ شملہ میں مولوی محمد حسین اور مولوی عبد الرحمن سیاح اور چند اور آدمی مشورہ کر رہے تھے کہ اب
تذکار مهدی ) 161 روایات سیّد نا محمود مرزا صاحب کے مقابلہ میں کیا طریق اختیار کرنا چاہئے.مولوی عبد الرحمن صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب اعلان کر چکے ہیں کہ میں اب مباحثہ نہیں کروں گا ہم اشتہار مباحثہ دیتے ہیں اگر وہ مقابلہ پر کھڑے ہو جائیں گے تو ہم کہیں گے کہ انہوں نے جھوٹ بولا کہ پہلے تو اشتہار دیا تھا کہ ہم مباحثہ کسی سے نہ کریں گے اور اب مباحثہ کے لئے تیار ہو گئے اور اگر مباحثہ پر آمادہ نہ ہوئے تو ہم شور مچادیں گے کہ دیکھو مرزا صاحب ہار گئے ہیں.اس پر مولوی عمر الدین نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت ہے میں جاتا ہوں اور جا کر ان کو قتل کر دیتا ہوں.مولوی محمد حسین نے کہا کہ لڑکے تجھے کیا معلوم یہ سب کچھ کیا جا چکا ہے.مولوی عمرالدین صاحب کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی کہ جس کی خدا اتنی حفاظت کر رہا ہے وہ خدا ہی کی طرف سے ہو گا.انہوں نے جب بیعت کر لی تو واپس جاتے ہوئے مولوی محمد حسین بٹالہ کے سٹیشن پر ملے اور کہا تو کدھر؟ انہوں نے کہا کہ قادیان بیعت کر کے آیا ہوں.کہا تو بہت شریر ہے تیرے باپ کولکھوں گا.انہوں نے کہا کہ مولوی صاحب یہ تو آپ ہی کے ذریعہ ہوا ہے جو کچھ ہوا ہے.پس مخالف اس کو مارنا چاہتے ہیں وہ بچایا جاتا ہے.خدا اس کی اپنے تازہ علم سے نصرت کرتا اور ہر میدان میں اس کو عزت دیتا ہے.معیار صداقت.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 61-62) ظاہری علم پر بزرگی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی اگر ظاہری علم پر ہی فضیلت اور بزرگی کی بنیاد رکھی جائے.تو نَعُوذُ بِاللهِ دنیا کے سارے انبیاء کو جھوٹا کہنا پڑے گا کیونکہ ان کا مقابلہ کرنے والے علماء ہی ہوئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ان ہی لوگوں نے مقابلہ کیا جو اپنے آپ کو ظاہری علوم کے لحاظ سے بہت بڑا عالم سمجھا کرتے تھے.یہاں تک کہ مولوی محمد حسین بٹالوی نہایت حقارت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو منشی غلام احمد لکھا کرتے تھے.گویا آپ نَعُوذُ بِاللهِ صرف منشی ہیں کہ دو چار سطریں لکھ لیتے ہیں عالم نہیں اور وہ اس بات پر بہت خوش ہوتے کہ میں نے انہیں منشی لکھا ہے.مجھے یاد ہے میں اس وقت چھوٹا بچہ تھا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے کسی مجلس میں بیان کیا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میری نسبت تو یہ لکھا ہے کہ یہ مولوی ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اس نے یہ لکھا ہے کہ وہ منشی ہیں.مجھے اس وقت بھی ان کی یہ بات بری معلوم ہوئی تھی اور آج بھی بری محسوس ہوتی ہے.ان کے دل میں
162 تذکار مهدی ) روایات سیّد نا محمود شاید مولویت کی کوئی قدر ہو تو ہو ہمیں تو کوئی مولوی کہہ دے تو چڑ آ جاتی ہے.اس کی وجہ یہ نہیں کہ مولوی کا لفظ بُرا ہے.مولوی عربی کا ایک لفظ ہے اور یہ مولائی سے بنا ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارا مولا ، ہمارا سردار اور ہمارا اُستاد مگر اب مولوی کے لفظ کا استعمال جن لوگوں پر شروع ہو گیا ہے اُن کو دیکھتے ہوئے اس بات سے شرم آتی ہے کہ کوئی ہمیں مولوی کہہ دے.مخالفین کا بائیکاٹ اور ایذاء رسانی خطبات محمود جلد 18 صفحہ 390-389 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا بائیکاٹ بھی ہم نے دیکھا.وہ وقت بھی دیکھا جب چوڑھوں کو صفائی کرنے اور سقوں کو پانی بھرنے سے روکا جاتا.پھر وہ وقت بھی دیکھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے جاتے تو آپ پر مخالفین کی طرف سے پتھر پھینکے جاتے اور وہ ہر رنگ میں جنسی اور استہزاء سے پیش آتے.مگر ان تمام مخالفتوں کے باوجود کیا ہوا، آپ جتنے لوگ اس وقت یہاں بیٹھے ہیں، آپ میں سے پچانوے فیصدی وہ ہیں جو اس وقت مخالف تھے یا مخالفوں میں شامل تھے مگر اب وہی پچانوے فیصدی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ساتھ شامل ہیں.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد جماعت میں جوشور اٹھا اس کا کیا حشر ہوا.اس فتنہ کے سرگروہ وہ لوگ تھے جوصدرانجمن پر حاوی تھے اور تحقیر کے طور پر کہا کرتے تھے کہ کیا ہم ایک بچہ کی غلامی کر لیں.خدا تعالیٰ نے اسی بچے کا ان پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ قادیان چھوڑ کے بھاگ گئے اور اب تک یہاں آنے کا نام نہیں لیتے.انہیں لوگوں نے اس وقت بڑے غرور سے کہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے اور دو فیصدی ان کے ساتھ.مگر اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو فیصدی بھی ان کے ساتھ نہیں رہا اور اٹھانوے فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں شامل ہو چکا ہے.غرض ہر رنگ میں ہماری مخالفت کی گئی ، مقامی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی ، مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہمیشہ کامیاب رکھا ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں مخالفتوں کا کیا ڈر ہوسکتا ہے.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 207) کشفی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.مجھے ایک دفعہ پیچش کی شکایت
تذکار مهدی ) 163 روایات سید نا محمودی تھی اور چونکہ مجھے بار بار قضائے حاجت کے لئے جانا پڑتا تھا اس لئے میں چاہتا تھا کہ پاخانہ کی اچھی طرح صفائی ہو جائے تا کہ طبیعت میں انقباض پیدا نہ ہو.خاکرو بہ آئی تو میں نے اسے پوچھا کہ تم نے جگہ صاف کر دی ہے اس وقت شاید اس نے جھوٹ بولا یا کوئی کونہ صاف کرنا اسے بھول گیا تھا کہ اس نے جواب میں کہا میں نے جگہ صاف کر دی ہے.اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کشفی حالت طاری ہوئی اور آپ نے دیکھا کہ ایک کونہ میں نجاست پڑی ہے.اس پر آپ نے اسے کہا تم جھوٹ کیوں بولتی ہو فلاں کو نہ تو ابھی گندہ ہے اور تم نے اس کی صفائی نہیں کی.وہ یہ سن کر حیران رہ گئی کہ انہیں اندر بیٹھے کس طرح علم ہو گیا ہے کہ میں نے پوری صفائی نہیں کی.( تذکرہ صفحہ 465) یہ نظارہ بھی منفرد اور مشترک دونوں رنگ رکھتا ہے یعنی کبھی صرف ایک شخص کو نظارہ دیکھایا جاتا ہے اور کبھی ویسا ہی نظارہ دوسروں کو بھی دکھا دیا جاتا ہے.( تفسیر کبیر جلد 9 صفحه 447) قادیان کی ترقی کی پیشگوئی ایک زمانہ تھا کہ یہاں احمدیوں کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا.مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا.چوک میں کیلے گاڑ دیئے گئے تا نماز پڑھنے کے لئے جانے والے گریں اور کنوئیں سے پانی نہیں بھرنے دیا جاتا تھا بلکہ یہاں تک سختی کی جاتی تھی کہ گھماروں کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ احمدیوں کو برتن بھی نہ دیں.ایک زمانہ میں یہ ساری مشکلات تھیں مگر اب وہ لوگ کہاں ہیں.ان کی اولاد میں احمدی ہو گئی ہیں اور وہی لوگ جنہوں نے احمدیت کو مٹانے کی کوشش کی ان کی اولا دا سے پھیلانے میں مصروف ہے.یہی مدرسہ جس جگہ واقع ہے یہاں پرانی روایات کے مطابق جن رہا کرتے تھے اور کوئی شخص دو پہر کے وقت بھی اس راستہ سے اکیلا نہ گزرسکتا تھا.اب دیکھو.وہ جن کس طرح بھاگے.مجھے یاد ہے.اس ہائی سکول والے) میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور شمال کی طرف بھی بہت دور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے.اس وقت یہاں صرف آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی بہت تنگدست.باقی سب بطور مہمان آتے تھے لیکن اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کس قدر ترقی اسے دی ہے.الحکم سیرت مسیح موعود نمبر مورخہ 21 تا 28 مئی و 7 تا 14 جون 1943ء صفحہ 11 جلد 47 نمبر 19 تا22)
تذکار مهدی ) 164 روایات سید نا محمود کرامت دکھا ئیں تو سب مولوی مان لیں گے لدھیانہ میں ایک شخص میر عباس علی تھے.وہ حضرت صاحب سے بہت خلوص رکھتے تھے حتی کہ ان کی موجودہ حالت کے متعلق حضرت صاحب کو الہام بھی ہو ا تھا.لدھیانہ میں جب حضرت مسیح موعود اور محمد حسین کا مباحثہ ہوا تو میر عباس علی حضرت صاحب کا کوئی پیغام لے کر گئے.ان کے مولوی محمد حسین وغیرہ مولویوں نے بڑے احترام اور عزت سے ہاتھ چومے کہا.آپ آلِ رسول ہیں آپ کی تو ہم بھی بیعت کر لیں لیکن یہ مغل کہاں سے آ گیا ہے.اگر کوئی مامور آتا تو سادات میں سے آنا چاہئے تھا.پھر کچھ تصوف وصوفیاء کا ذکر شروع کر دیا.میر صاحب کو صوفیاء سے بہت اعتقاد تھا.مولویوں نے کچھ ادھر ادھر کے قصے بیان کر کے کہا کہ صوفیاء تو اس قسم کے عجوبے دکھایا کرتے تھے.اگر مرزا صاحب بھی کچھ ہیں تو کوئی عجوبہ دکھلائیں.ہم آج ہی ان کو مان لیں گے.مثلاً وہ کوئی سانپ پکڑ کر دکھائیں.یا اور کوئی اس قسم کی بات کریں.میر عباس علی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی اور جب حضرت صاحب کے پاس آئے تو کہا کہ حضور اگر کوئی کرامت دکھا ئیں تو سب مولوی مان لیں گے.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جب کرامت کا لفظ ان کی زبان سے نکلا تو اسی وقت مجھے یقین ہو گیا کہ بس میر صاحب کو مولویوں نے پھندے میں پھنسا لیا.اس پر حضرت صاحب نے ان کو بہت سمجھایا مگر ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا.تو وسوسہ انداز لوگ ایک سوراخ تلاش کرتے ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کے دل میں وسوسہ ڈال دیتے ہیں جس سے اُسے ٹھوکر لگ جاتی ہے.قادیان میں بھی ایسے لوگ ہیں جن کا یہ کام ہے کہ لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالیں.بیعت بھی کی ہوئی ہے، اپنے آپ کو مخلص بھی قرار دیتے ہیں، مگر وسوسہ اندازی سے باز نہیں آتے.ایسے لوگوں سے محفوظ رہنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ انسان نیچے دل سے اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھے گا.جو پڑھے گا یقینا اللہ تعالیٰ اسے وسوسہ سے محفوظ رکھے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا اور شیطان غالب نہیں آسکتا.شیطان کو اقتدار نہیں دیا گیا.الفضل 5 نومبر 1918 ء جلد 6 نمبر 34 صفحہ 9)
تذکار مهدی ) میر عباس علی لدھیانوی 165 روایات سید نا محمود انسانی علم بالکل محدود ہوتا ہے.بعض اوقات وہ ایک چیز کے متعلق یہ سمجھتا ہے کہ وہ اچھی ہے لیکن اس کا نتیجہ خراب ہوتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میر عباس علی لدھیانوی کے متعلق ایک وقت علم دیا گیا کہ وہ نیک ہے تو آپ اُس کی تعریف فرمانے لگے.مگر چونکہ اُس وقت آپ کو اُس کے انجام کا علم نہیں تھا اس لئے آپ کو پتہ نہ لگا کہ ایک دن وہ مرتد ہو جائے گا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا علم دے دیا.غرض انسانی علم بہت ہی محدود ہے صرف خدا تعالیٰ ہی کامل علم رکھتا ہے جو سب پر حاوی ہے اور کوئی شخص اس کے علوم کا احاطہ نہیں ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 583) کرسکتا.تکبر کی بجائے احسانات کا شکر گزار ہونا چاہئے دعا ہے جو ہم ہمیشہ مانگتے رہتے ہیں اور جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ عام مومن تو کجا منعم علیہ شخص بھی مغضوب اور ضال ہونے کے خطرہ میں ہر وقت گھرا ہوا ہے اور بعض دفعه انسان روحانی لحاظ سے بہت بلند مقام پر پہنچ کر بھی ایسا گرتا ہے کہ اس کے اندر ایمان کا شائبہ تک نہیں رہ جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لدھیانہ کے ایک شخص کے متعلق جو آپ سے نہایت گہری ارادت ظاہر کرتا تھا ایک دفعہ ایک الہام ہوا جس میں اس کی روحانی طاقتوں کی بہت بڑی تعریف کی گئی تھی.مگر بعد میں وہ مرتد ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ اس کے متعلق تو الہام الہی میں تعریف آچکی تھی پھر یہ کیوں مرتد ہو گیا.تو آپ نے فرمایا بے شک الہام میں اس کی تعریف موجود تھی اور اللہ تعالی کا کلام بتارہا تھا کہ وہ اعلیٰ روحانی طاقتیں رکھتا تھا.لیکن جب اس نے ان طاقتوں سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اس میں کبر اور غرور پیدا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو گیا اور وہ مرتد ہو گیا.تو سورہ فاتحہ کی دعا ہمیں بتاتی ہے کہ نفاق اور کفریہ دو چیزیں انسان کے ساتھ ہر وقت لگی ہوئی ہیں اور یہ دونوں مرضیں منعم علیہ گروہ میں شامل ہونے کے بعد انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں.اور ان کے پیدا ہونے کے دو سبب ہوتے ہیں.ایک مرض تو اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب
تذکار مهدی ) 166 روایات سید نا محمود انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں نازل ہوتی ہیں.اس کے فضل اسے نواز نا شروع کرتے ہیں اور وہ ایمان میں اعلیٰ درجہ حاصل کر لیتا ہے.لیکن بجائے اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر گزار ہونے کے وہ تکبر میں مبتلا ہو جاتا ہے اور کسی وقت خدا تعالیٰ کی یا اس کے پیاروں اور مقبول بندوں کی کوئی ایسی گستاخی کر بیٹھتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تمام انعامات سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آجاتا ہے.گویا یہ اللہ تعالیٰ یا اس کے پیاروں سے لڑائی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ تمام درجات سے محروم کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو جاتا ہے یا پھر یہ مرض اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ غلو کرنے لگ جاتا ہے اور ایسی جگہ انکسار کرنے لگ جاتا ہے جہاں اس کے لئے انکسار جائز نہیں ہوتا.ایسی حالت میں اس کے اندر تکبر نہیں ہوتا بلکہ انکسار ہوتا ہے اور انکسار بھی جب حد سے بڑھ جائے تو ایک مقام پر جرم بن جاتا ہے.( خطبات محمود جلد 18 صفحہ 385-386) سچائی پر ثبات قدم بے شک خالص جھوٹ بہت کم لوگ بولتے ہیں جہاں نقصان کا اندیشہ ہو صرف وہاں ایسا جھوٹ بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم نقصان سے بچ جائیں گے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ کامیابی جھوٹ کے نہ بولنے میں ہی ہوتی ہے.حضرت صاحب کا ہی واقعہ ہے آپ نے ایک پیکٹ میں خط ڈال دیا.اس کا ڈالنا ڈاکخانہ کے قواعد کی رو سے منع تھا مگر آپ کو اس کا علم نہ تھا.ڈاکخانہ والوں نے آپ پر نالش کر دی اور اس کی پیروی کے لئے ایک خاص افسر مقرر کیا کہ آپ کو سزا ہو جائے اور اس پر بڑا زور دیا اور کہا کہ ضرور سزاملنی چاہئے تاکہ دوسرے لوگ ہوشیار ہو جائیں.حضرت صاحب کے وکیل نے آپ کو کہا بات بالکل آسان ہے آپ کا پیکٹ گواہوں کے سامنے تو کھولا نہیں گیا آپ کہہ دیں کہ میں نے خط الگ بھیجا تھا شرارت اور دشمنی سے کہا جاتا ہے کہ پیکٹ میں ڈالا تھا.حضرت صاحب نے فرمایا یہ تو جھوٹ ہوگا وکیل نے کہا اس کے سوا تو آپ بچ نہیں سکتے.آپ نے فرمایا خواہ کچھ ہو میں جھوٹ تو نہیں بول سکتا.چنانچہ عدالت میں جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ نے پیکٹ میں خط ڈالا تھا؟ تو آپ نے فرمایا.ہاں میں نے ڈالا تھا مگر مجھے ڈاکخانہ کے اس قاعدہ کا علم نہ
تذکار مهدی ) 167 روایات سیّد نا محمود تھا اس پر استغاثہ کی طرف سے لمبی چوڑی تقریر کی گئی اور کہا گیا کہ سزا ضرور دینی چاہئے.تاکہ دوسرے لوگوں کو عبرت ہو.حضرت صاحب فرماتے ہیں تقریر چونکہ انگریزی میں تھی اس لئے میں اور تو کچھ نہ سمجھتا لیکن جب حاکم تقریر کے متعلق No-No (نونو) کہتا تو اس لفظ کو سمجھتا.آخر تقریر ختم ہوئی تو حاکم نے کہہ دیا.بری اور کہا جب اس نے اس طرح سچ سچ کہہ دیا تو میں بری ہی کرتا ہوں.پھر لوگ ہنسی مذاق میں جھوٹ بول لیتے ہیں مگر یہ بھی نا جائز ہے اور یہ بھی جھوٹ ہی ہے اس سے بھی بچنا چاہئے.(اصلاح نفس.انوار العلوم جلد نمبر 5 صفحہ 435-434) مقدمہ مارٹن کلارک الہی تائید اور نصرت دنیا کی کوئی قوم ہماری مددگار نہیں.پس آپ خدا سے دعائیں کریں کہ وہ ہمارا ہو جائے جب وہ ہمارا ہو جائے تو کسی قوم کی عداوت ہمیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.خدا تعالیٰ کے انبیائ کی بہت بڑی شان ہوتی ہے.خدا تعالیٰ کے حضور انکساری اور خشوع و خضوع میں ان کے برابر کوئی نہیں ہوتا اور خدا تعالیٰ کی ان پر نظر ہوتی ہے ایسے قرب کے مقام پر ہوتے ہوئے بھی جہاں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اور دوستوں کو ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے دوران میں دعا کے لئے فرمایا وہاں مجھے بھی دعا کے لئے ارشاد فرمایا اس وقت میری عمر دس سال کی تھی اور یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ مذہب کا بھی کوئی ایسا احساس نہیں ہوتا.میں نے اس وقت رویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں پولیس کے لوگ جمع ہیں اور دوسرے لوگ بھی ہیں.پاتھیوں کا ( اوپلوں کا ) ڈھیر ہے جس کو وہ آگ لگانا چاہتے ہیں لیکن جب بھی وہ آگ لگاتے ہیں آگ بجھ جاتی ہے.تب انہوں نے کہا کہ آؤ تیل ڈال کر پھر آگ لگا ئیں تب انہوں نے تیل ڈالا لیکن پھر بھی آگ نہ لگی.اس وقت میری نظر اوپر کی طرف گئی اور میں نے دیکھا کہ ایک لکڑی پر موٹے الفاظ میں لکھا ہو ا ہے کہ خدا کے بندوں کو کوئی نہیں جلا سکتا.پس اگر خدا ہمارا ہو جائے اور اس کی رضا ہمیں حاصل ہو جائے تو دنیا ہزار روکیں ہماری راہ میں پیدا کرے.ہمارا کچھ نقصان نہیں کر سکتی اور اگر خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو دنیا کی بادشاہتیں اور حکومتیں بھی ہمارا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں.(الفضل 3 جنوری 1925 ء جلد 12 نمبر 31 صفحہ 11)
تذکار مهدی ) 168 روایات سید نا محمود خدا کے نیک بندوں کو کون جلا سکتا ہے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو میں نے گھبرا کر دعا کی.رات کو رویا میں دیکھا کہ میں سکول سے آرہا ہوں اور اُس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں.وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے.جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہو ا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا.ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترتی تھیں.بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے.جب میں گھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کیا ہوا ہے اور آپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگایا ہوا ہے.صرف آپ کی گردن مجھے نظر آ رہی ہے اور میں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں.جب میں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو میں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی.اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑ لیا.کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور میں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں.اسی دوران میں اچانک میری نظر او پر اٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہوا ہے کہ :.” جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُن کو کون جلا سکتا ہے“ تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے.ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے (سیر روحانی (3)، انوارالعلوم جلد 16 صفحہ 383) سامان کر دیئے.مولوی محمد حسین بٹالوی کو کرسی نہ ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بھی لوگوں نے سازشیں کی اور قتل کے مقدمات
تذکار مهدی ) 169 روایات سید نا محمود دائر کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مخالفین کو اپنے مقاصد میں نامراد رکھا.ایسے ہی اقدام قتل کے ایک مقدمہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف عدالت میں گواہی دینے کے لئے آیا اور اس امید پر آیا کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑی اگر نہ لگی ہوگی تو عدالت میں (نعوذبالله ) ذلیل حالت میں کھڑے ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ انگریز ڈپٹی کمشنر جس کے سامنے مقدمہ پیش تھا، ہمارے سلسلہ کا سخت مخالف تھا اور اس نے ضلع میں تعینات ہوتے ہی کہا تھا کہ شخص جو ہمارے یسوع مسیح کی ہتک کرتا ہے اب تک بچاہوا ہے اسے سزا کیوں نہیں دی جاتی مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اس کے سامنے پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ آپ کی شکل دیکھتے ہی اس کا بغض دور ہو گیا اور اس نے اپنے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بیٹھنے کے لئے کرسی بچھا دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر بیٹھ گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو آیا ہی اسی لئے تھا کہ آپ کو ذلت کی حالت میں دیکھے، اس نے جب دیکھا کہ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں تو برداشت نہ کرتے ہوئے اس نے کپتان ڈگلس ڈپٹی کمشنر سے سوال کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے.اس نے یہ خیال کیا کہ جب مجرم کے لئے کرسی بچھائی جاتی ہے تو گواہ کو کیوں کرسی نہیں ملے گی.مگر کپتان ڈگلس نے جب یہ بات سنی تو اسے سخت غصہ آیا اور اس نے غضبناک ہو کر کہا تجھے کرسی نہیں ملے گی.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا میرے باپ کو لاٹ صاحب کے دربار میں کرسی ملا کرتی تھی، مجھے بھی کرسی دی جائے.میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میرا حق ہے کہ مجھے کرسی ملے.تب کپتان ڈگلس نے کہا.بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا.اب بجائے اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تذلیل دیکھتا خدا تعالیٰ نے اسے ذلیل کر دیا.پھر یہ تو کمرہ کے اندر کا واقعہ تھا.جب مولوی صاحب باہر نکلے تو لوگوں کو یہ دکھانے کے لئے کہ گویا اندر بھی انہیں کرسی ملی ہے، برآمدے میں ایک کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے لیکن چونکہ نوکر وہی کچھ کرتے ہیں جو وہ اپنے آقا کو کرتے دیکھتے ہیں.چپڑاسی نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب کو اندرتو کرسی نہیں ملی اور اب برآمدے میں کرسی پر آ بیٹھے ہیں.اسے خیال آیا کہ اگر صاحب بہادر نے دیکھ لیا تو وہ مجھ پر ناراض ہوگا.وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا آپ کو یہاں پر بیٹھنے کا حق نہیں اٹھ جائیے.اس طرح باہر کے لوگوں نے بھی دیکھ لیا کہ مولوی صاحب کی عدالت میں کتنی عزت ہوئی.
تذکار مهدی ) 170 روایات سید نا محمود مولوی صاحب اس پر غصہ میں جل بھن کر آگے بڑھے تو کسی شخص نے زمین پر چادر بچھائی ہوئی تھی، اس پر بیٹھ گئے مگر اتفاق کی بات ہے چادر والا بھی جھٹ آ پہنچا اور کہنے لگا میری چادر چھوڑ دو یہ تمہارے بیٹھنے سے پلید ہوتی ہے کیونکہ تم ایک مسلمان کے خلاف عیسائیوں کی طرف سے عدالت میں گواہی دینے آئے ہو.تو یاد رکھواللہ تعالیٰ کی طرف سے جب نصرت آتی ہے تو کوئی شخص اسے روک نہیں سکتا.پولیس کے افسر اور سپاہی کیا بڑے سے بڑے آدمی کی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اور ایک سیکنڈ میں اللہ تعالیٰ ودشمنوں کو ہلاک کر سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو اور اس سے دعا ئیں کرو.ہاں مومنوں کے لئے ابتلاؤں کا آنا بھی مقدر ہوتا ہے.سو اگر صبر سے کام لو گے اور دعائیں کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان ابتلاؤں کو دور کر دے گا.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 184 تا186) اللہ تعالی دلوں کا حاکم ہے جب مخالف دیکھتا ہے کہ یہ لوگ شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں تو آخر وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں.پس اگر حقیقی فتح چاہتے ہو تو یہ طریق اختیار کرواس کے بعد خواہ کوئی حاکم بھی ہو دراصل تمہارا محکوم ہو گا کیونکہ جب اللہ تعالیٰ دلوں کو بدل دیتا ہے تو حاکم بھی غلاموں کی طرح ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب قتل کا مقدمہ ہوا تو وہی انگریز ڈپٹی کمشنر جس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ اس مدعی مسیحیت کو ابھی تک سزا کیوں نہیں دی گئی، اپنے پاس کرسی بچھا کر آپ کو بٹھاتا، اور ان کے دفتر کے سپرنٹنڈنٹ کا بیان ہے کہ وہ بٹالہ کے اسٹیشن پر ایک دفعہ گھبرا کر ٹہل رہا تھا اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں تو وہ کہنے لگا اس مقدمہ کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہے کہ میں جدھر جاتا ہوں، سوائے مرزا صاحب کے مجھے کوئی اور نظر نہیں آتا اور مرزا صاحب مجھے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ میں مجرم نہیں.میری سمجھ میں نہیں آتا مقدمہ ان کے خلاف ہے، بیانات ان کے مخالف ہیں اور مجھ پر جو واقعہ گزر رہا ہے اس نے مجھے اس قدر پریشان کر رکھا اور اتنا اثر ڈالا ہوا ہے کہ میں ڈرتا ہوں، کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.آج تک وہ انگریز ڈپٹی کمشنر اس واقعہ کا ذکر کرتا ہے اور ہمارے دوستوں کو جو انگلستان میں مبلغ رہ چکے ہیں اس نے بتایا کہ جب مجھ سے کوئی شخص پوچھتا ہے کہ ہندوستان کی سروس میں کوئی سب سے عجیب واقعہ سناؤ تو میں مرزا صاحب کے مقدمے کا واقعہ ہی بیان کیا کرتا ہوں.غرض اللہ تعالیٰ
تذکار مهدی ) 171 روایات سید نا محمود جب قلوب کو پھیر دیتا ہے تو یہی فتح حقیقی فتح کہلاتی ہے پس دلوں کو فتح کرنے کی کوشش کرو اور چاہے لوگ سختی سے پیش آئیں ، ان سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرو کہ آخر وہ اس کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 90-89 ) مقدمه مارٹن کلارک اور محمد حسین بٹالوی کی ذلت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم کو اسلام دیا، اخلاق فاضلہ دیئے اور نمونہ سے بتا دیا کہ ان پر عمل ہو سکتا ہے.پہلے خیال تھا کہ ان چیزوں پر عمل محال ہے مگر آپ نے بتا دیا کہ عمل ہو سکتا ہے پھر بھی کئی ہیں جو فائدہ نہیں اٹھاتے.ہم میں سے کئی جو جوش میں آ کر مخالف کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں مگر آپ پر قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا.اس وقت اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈگلس تھے جو اس وقت بھی زندہ ہیں اور اب کرنل ڈگلس ہیں وہ اس قدر متعصب تھے کہ جب اس ضلع میں آئے تو کہا کہ اس ضلع کے رہنے والا ایک شخص مسیح ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اب تک کیوں اسے سزا نہیں دی گئی؟ ان کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش ہوا ایک انگریز کہلانے والے شخص نے جو انگریز مشہور تھا مگر در اصل انگریز نہیں بلکہ پٹھان تھا.یہ مقدمہ کیا تھا.اس کے انگریز کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ پٹھان ہونے کے سبب سے اس کا رنگ انگریزوں کی طرح گورا تھا اور پھر ایک انگریز نے اسے بیٹا بنایا ہوا تھا اس لئے لوگ اسے انگریز سمجھتے تھے.اس کا نام مارٹن کلارک تھا ان کا بیٹا یا بھائی ابی سینیا کی سابق حکومت میں وزیر اعظم تھا.آپ میں سے کئی ایک نے اخباروں میں پڑھا ہوگا کہ مسٹر مارٹن نے یہ کہا، یہ مارٹن اس مارٹن کلارک کا بیٹا ہے یا بھائی ہے، رشتہ کی تعین میں اس وقت نہیں کر سکتا.ان مسٹر مارٹن کلارک نے عدالت میں یہ دعویٰ کیا کہ میرے قتل کیلئے مرزا صاحب نے ایک آدمی بھیجا ہے.مسلمانوں میں علماء کہلانے والے بھی اس کے ساتھ اس شور میں شامل ہو گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب تو اس مقدمہ میں آپ کے خلاف شہادت دینے کیلئے بھی آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا تھا کہ ایک مولوی مقابل پر پیش ہوگا مگر اللہ تعالی اسے ذلیل کر یگا لیکن باوجود اس کے کہ الہام میں اس کی ذلت
تذکار مهدی ) 172 نامحمودی روایات سیّد نا محمود کے متعلق بتا دیا گیا تھا اور الہام کے پورا کرنے کیلئے ظاہری طور پر جائز کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے مگر مجھے خود مولوی فضل الدین صاحب نے جو لاہور کے ایک وکیل اور اس مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے پیروی کر رہے تھے سنایا کہ جب میں نے ایک سوال کرنا چاہا جس سے مولوی محمد حسین صاحب کی ذلت ہوتی تھی تو آپ نے مجھے اس سوال کے پیش کرنے سے منع کر دیا.اصل بات یہ ہے کہ مولوی محمد حسین کی والدہ کنچنی تھی اور مقدمات میں گواہوں پر ایسے سوالات کئے جاتے ہیں کہ جن سے ظاہر ہو کہ وہ بے حیثیت آدمی ہے.مولوی فضل دین صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ سوالات سنائے جو وہ مولوی محمد حسین پر کرنا چاہتے تھے تو ان میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تمہاری ماں کون تھی ؟ جسے سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم ایسے سوال کو برداشت نہیں کر سکتے.مولوی فضل دین صاحب نے کہا کہ اس سوال سے آپ کے خلاف مقدمہ کمزور ہو جائے گا اور اگر یہ نہ پوچھا جائے تو آپ کو مشکل پیش آئے گی اس لئے کہ گواہ اپنے آپ کو مسلمانوں کا لیڈر ہونے کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے اور ضروری ہے کہ ثابت کیا جائے کہ وہ ایسا معزز نہیں مگر آپ نے فرمایا کہ نہیں ہم اس سوال کی اجازت نہیں دے سکتے.مولوی فضل دین احمدی نہیں تھے بلکہ حنفی تھے اور حنفیوں کے لیڈر تھے، انجمن نعمانیہ وغیرہ کے سرگرم کارکن تھے اس لئے مذہبی لحاظ سے تعصب رکھتے تھے مگر جب کبھی غیر احمدیوں کی مجالس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر کوئی حملہ کیا جاتا تو وہ پر زور تردید کرتے اور کہتے کہ عقائد کا معاملہ الگ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے اخلاق ایسے ہیں کہ ہمارے علماء میں سے کوئی بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اخلاق کے لحاظ سے میں نے بھی ایسے ایسے مواقع پر ان کی آزمائش کی ہے کہ کوئی مولوی وہاں نہیں کھڑا ہو سکتا تھا جس مقام پر آپ کھڑے تھے.اب دیکھو! ادھر گواہ کے ذلیل ہونے کا الہام ہے ادھر اس کی گواہی آپ کو مجرم بناتی ہے مگر جو بات اس کی پوزیشن کو گرانے والی ہے وہ آپ پوچھنے ہی نہیں دیتے لیکن جس خدا نے قبل از وقت مولوی محمد حسین کی ذلت کی خبر آپ کو دی تھی اس نے ایک طرف تو آپ کے اخلاق کو دکھا کر آپ کی عزت قائم کی اور دوسری طرف غیر معمولی سامان پیدا کر کے مولوی صاحب کو بھی ذلیل کرا دیا.اور یہ اس طرح ہوا کہ وہی ڈپٹی کمشنر جو پہلے سخت مخالف تھا اس نے جونہی آپ کی
تذکار مهدی ) 173 روایات سید نا محمود شکل دیکھی اس کے دل کی کیفیت بدل گئی اور باوجود اس کے کہ آپ مقام ملزم کی حیثیت میں اس کے سامنے پیش ہوئے تھے اس نے کرسی منگوا کر اپنے ساتھ بچھوائی اور اس پر آپ کو بٹھایا.جب مولوی محمد حسین صاحب گواہی کیلئے آئے تو چونکہ وہ اس امید میں آئے تھے کہ شاید آپ کے ہتھکڑی لگی ہوئی ہوگی یا کم سے کم آپ کو ذلت کے ساتھ کھڑا کیا ہوگا.جب انہوں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ کرسی پر بٹھایا ہوا ہے تو وہ غصہ سے مغلوب ہو گئے اور جھٹ مطالبہ کیا کہ مجھے بھی کرسی دی جائے.اس پر عدالت نے کہا کہ نہیں آپ کا کوئی حق نہیں کہ آپ کو کرسی ملے.مولوی صاحب نے کہا کہ میں معزز خاندان سے ہوں اور گورنر صاحب سے ملاقات کے وقت بھی مجھے کرسی ملتی ہے.ڈپٹی کمشنر نے جواب دیا کہ ملاقات کے وقت تو چوہڑے کو بھی کرسی ملتی ہے مگر یہ عدالت ہے.مرزا صاحب کا خاندان رئیس خاندان ہے ان کا معاملہ اور ہے.مولوی صاحب اس پر بھی باز نہ آئے اور کہا نہیں مجھے ضرور کرسی ملنی چاہیئے میں اہل حدیث کا ایک ایڈووکیٹ ہوں.اس پر ڈپٹی کمشنر کو طیش آ گیا اور اس نے کہا کہ بک بک مت کر ، پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.مولوی صاحب جب گواہی دے کر باہر نکلے تو برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی اس پر بیٹھ گئے کہ لوگ سمجھیں کہ شاید اندر بھی ؟ کرسی پر ہی بیٹھے تھے مگر نوکر ہمیشہ آقا کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں.چپڑاسی نے جب دیکھا کہ صاحب ناراض ہیں تو اس خیال سے کہ برآمدہ میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کر مجھ سے ناراض نہ ہوں آ کر کہنے لگا کہ میاں ! اٹھو کر سی خالی کر دو.وہاں سے اٹھ کر وہ باہر آئے اور ایک چادر بچھی ہوئی تھی اس پر بیٹھ گئے اور خیال کیا کہ چلو اتنی عزت ہی سہی.مگر چادر والے نے نیچے سے چادر کھینچتے ہوئے کہا اٹھو! میری چادر چھوڑ دو جو عیسائیوں سے مل کر ایک مسلمان کے خلاف جھوٹی گواہی دینے آیا ہوا سے بٹھا کر میں اپنی چادر پلید نہیں کر سکتا اور اس طرح ذلت پر ذلت ہوتی چلی گئی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی عزت قائم ہوئی.اس کے بالمقابل ہماری جماعت کے کتنے دوست ہیں جو غصہ کے موقعہ پر قابو رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ کر ایسے شدید دشمن کے صحیح واقعات سے بھی اس کی تذلیل گوارہ نہیں کرتے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 553 تا 556)
تذکار مهدی ) 6174 کپتان ڈگلس اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی.روایات سید نا محمود ابھی حال ہی میں سر ڈگلس فوت ہوئے ہیں.جو جزائر انڈمان میں کمشنر تھے اور ایک زمانہ میں ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر تھے.انہوں نے ایک دفعہ کہا کہ ایک شخص قادیان میں بیٹا لکھتا ہے کہ میں مسیح ہوں اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے.آج تک اس شخص کو کسی نے پکڑا کیوں نہیں.اتفاقاً ایک منافق احمدی نے ایک پادری سے کچھ پیسے لئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگایا کہ آپ نے اسے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کو قتل کرنے کے لئے بھیجا ہے.ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک اور اس کے ساتھیوں نے ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر کے پاس نالش کر دی اور انہوں نے آپ کے نام وارنٹ جاری کر دیا لیکن اتفاقاً وہ وارنٹ کسی کا پی میں پڑا رہا.کچھ عرصہ کے بعد جب انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ اتنی دیر سے مقدمہ پیش ہے.آپ نے ایکشن کیوں نہیں لیا تو اس نے ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور کولکھا کہ میں نے اتنے عرصہ ہوا.فلاں شخص کے نام وارنٹ جاری کیا تھا.لیکن مجھے اس کا جواب نہیں آیا.اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع گورداسپور ( سر ڈگلس) نے جواب دیا کہ میرے پاس وارنٹ آیا ہی نہیں.دوسرے میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ملزم مذکور کے نام وارنٹ جاری کرنے کا اختیار آپ کو حاصل نہیں وہ میرے علاقہ میں رہتا ہے اس لئے اگر اس کے نام وارنٹ جاری کر سکتا تھا تو میں کر سکتا تھا اس پر ڈپٹی کمشنر ضلع امرتسر نے ساری مسل اس کے پاس بھیج دی.یہ شخص جیسا کہ میں نے بتایا ہے اتنا متعصب تھا کہ اس مقدمہ سے چند دن پہلے اس نے کہا تھا کہ قادیان میں ایک شخص نے مسیح کا دعویٰ کیا ہے اور اس طرح وہ ہمارے خدا کی ہتک کر رہا ہے اس کو آج تک کسی نے پکڑا کیوں نہیں جب مسل آئی تو مسل خواں نے کہا جناب والا یہ کیس وارنٹ کا نہیں بلکہ سمن کا کیس ہے اس لئے وارنٹ جاری نہیں کیا جا سکتا.سمن بھیجا جا سکتا ہے.ان دنوں جلال الدین ایک انسپکٹر پولیس تھے جو احمدی تو نہیں تھے لیکن بڑے ہمدرد انسان تھے انہوں نے بھی ڈپٹی کمشنر کو توجہ دلائی کہ بڑے ظلم کی بات ہے کہ وارنٹ جاری کیا جارہا ہے یہ وارنٹ کا کیس نہیں سمن کا کیس ہے لہذا وارنٹ کی بجائے سمن بھیجنا چاہیئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام سمن جاری کیا گیا اور انہی جلال الدین صاحب کو اس کی تعمیل کرنے کے لئے قادیان بھیجا گیا چنانچہ بعد میں مقررہ
تذکار مهدی ) 6 175 روایات سید نا محمود تاریخ پر آپ بٹالہ حاضر ہوئے جہاں ڈپٹی کمشنر صاحب دورہ پر آئے ہوئے تھے.جب آپ عدالت میں پہنچے تو وہی ڈپٹی کمشنر جس نے چند دن پہلے کہا تھا کہ یہ شخص خداوند یسوع کی ہتک کر رہا ہے اس کو کوئی پکڑتا کیوں نہیں اُس نے آپ کا بہت اعزاز کیا اور عدالت میں کرسی پیش کی اور کہا آپ بیٹھے بیٹھے میری بات کا جواب دیں.اس مقدمہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی بطور گواہ مدعی کی طرف سے پیش ہوئے عدالت کے باہر ایک بڑا ہجوم تھا اور لوگ بڑے شوق سے مقدمہ سننے کے لئے آئے ہوئے تھے جب مولوی محمد حسین صاحب عدالت میں پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کرسی پر بیٹھے دیکھا تو انہیں آگ لگ گئی وہ سمجھتے تھے کہ میں جاؤں گا تو عدالت میں مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگی ہوئی ہو گی اور بڑی ذلت کی حالت میں وہ پولیس قبضہ میں ہوں گے اب دیکھو یہ مقدمہ ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں پیش ہوا تھا اور مدعی بھی ایک انگریز پادری تھا ( ڈاکٹر مارٹن کلارک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ انگریز ہے لیکن در حقیقت وہ کسی پٹھان کی نسل میں سے تھا جس نے ایک انگریز سے شادی کی ہوئی تھی) اور مولوی محمد حسین صاحب جیسے مشہور عالم بطور گواہ پیش ہورہے تھے مگر پھر بھی دشمن ناکام و نامراد رہا اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اعزاز کیا گیا وہاں آپ کے مخالفین کو ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا.مولوی محمد حسین صاحب نے جب دیکھا کہ آپ کو کرسی پیش کی گئی ہے تو انہوں نے کہا بڑی عجیب بات ہے کہ میں گواہ ہوں مگر مجھے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور مرزا صاحب ملزم ہیں مگر انہیں کرسی دی گئی ہے اور اس طرح ان کا اعزاز کیا گیا ہے ڈپٹی کمشنر کو یہ بات بُری لگی.اس وقت انگریز مولویوں کو بہت ذلیل سمجھتے تھے وہ کہنے لگا ہماری مرضی ہے ہم جسے چاہیں کرسی پر بٹھا ئیں اور جسے چاہیں کرسی نہ دیں.ان کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ان کا خاندان کرسی نشین ہے اس لئے میں نے انہیں کرسی دی ہے تمہاری حیثیت کیا ہے مولوی محمد حسین صاحب کہنے لگے کہ میں اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور میں گورنر کے پاس جاتا ہوں تو وہ بھی مجھے کرسی دیتے ہیں ڈپٹی کمشنر کہنے لگا تو بڑا جاہل آدمی ہے ملنے جانے اور گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہونے میں بہت فرق ہے ملنے کو تو کوئی چوڑھا بھی آئے تو ہم اس کو کرسی دیتے ہیں اور تو تو اس وقت عدالت میں پیش ہے اس پر بھی مولوی محمد حسین صاحب کو تسلی نہ ہوئی.وہ کچھ آگے بڑھے اور کہنے لگے نہیں نہیں مجھے کرسی دینی چاہیئے ڈپٹی کمشنر کو غصہ آ گیا اور اس نے کہا بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور جوتیوں میں کھڑا ہو جا.چپڑاسی تو دیکھتے
تذکار مهدی ) 176 روایات سید نا محمودی ہی ہیں کہ ڈپٹی کمشنر صاحب کی نظر کس طرف ہے چپڑاسی نے جب ڈپٹی کمشنر صاحب کے الفاظ سنے تو اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو بازو سے پکڑ کر جوتیوں میں لاکھڑا کیا جب مولوی صاحب نے دیکھا کہ میری ذلت ہوئی ہے باہر ہزاروں آدمی کھڑے ہیں اگر انہیں میری اس ذلت کا علم ہوا تو وہ کیا کہیں گے تو کمرہ عدالت سے باہر نکلے.برآمدہ میں ایک کرسی پڑی تھی.مولوی صاحب نے سمجھا کہ ذلت کو چھپانے کا بہترین موقع ہے جھٹ کرسی کھینچی اور اس پر بیٹھ گئے اور خیال کر لیا کہ لوگ کرسی پر بیٹھے دیکھیں گے تو خیال کریں گے کہ مجھے اندر بھی کرسی ملی تھی چپڑاسی نے دیکھ لیا وہ ڈپٹی کمشنر صاحب کا انداز دیکھ چکا تھا اس نے مولوی محمد حسین صاحب کو کرسی پر بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ اگر ڈپٹی کمشنر صاحب نے انہیں یہاں بیٹھا دیکھ لیا تو وہ مجھے پر ناراض ہوں گے اس خیال کے آنے پر اس نے مولوی صاحب کو وہاں سے بھی اٹھا دیا اور کہا کہ کرسی خالی کر دیں.چنانچہ برآمدہ والی کرسی بھی چھوٹ گئی.باہر آ گئے تو لوگ چادریں بچھائے انتظار میں بیٹھے تھے کہ مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوتا ہے ایک چادر پر کچھ جگہ خالی دیکھی تو وہاں جا کر بیٹھ گئے یہ چادر میاں محمد بخش صاحب مرحوم بٹالوی کی تھی جو مولوی محمد حسین صاحب مربی سلسلہ کے والد تھے اور اس وقت غیر احمدی تھے بعد میں وہ احمدی ہو گئے انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی چادر پر بیٹھے دیکھا تو غصہ میں آگئے اور کہنے لگے میری چادر چھوڑ تو نے تو میری چادر پلید کر دی ہے تو مولوی ہو کر عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.چنانچہ اس چادر سے بھی انہیں اٹھنا پڑا اور اس طرح ہر جگہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذلیل کیا تو دیکھو یہ آیات بینات ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دشمن کے ہاتھوں سے بری فرمایا پھر اس پر ہی بس نہیں سر ڈگلس کو خدا تعالیٰ نے اور نشانات بھی دکھائے جو مرتے دم تک انہیں یاد رہے اور انہوں نے خود مجھ سے بھی بیان کئے 1924 ء میں جب میں انگلینڈ گیا تو انہوں نے یہ سارا قصہ مجھ سے بیان کیا سر ڈگلس کے ایک ہیڈ کلرک تھے جن کا نام غلام حید ر تھا وہ راولپنڈی کے رہنے والے تھے بعد میں وہ تحصیلدار ہو گئے تھے معلوم نہیں وہ اب زندہ ہیں یا نہیں اور زندہ ہیں تو کہاں ہیں پہلے وہ سرگودھا میں ہوتے تھے انہوں نے خود مجھے یہ قصہ سنایا اور کہا جب ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک والا مقدمہ ہوا تو میں ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کا ہیڈ کلرک تھا جب عدالت ختم ہوئی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے کہا ہم فوراً گورداسپور جانا چاہتے ہیں تم ابھی جا کر ہمارے لئے ریل کے کمرہ کا انتظام کرو چنانچہ میں مناسب انتظامات کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشن
تذکار مهدی ) 177 روایات سید نا محمود پر آ گیا میں اسٹیشن سے باہر نکل کر برآمدہ میں کھڑا تھا تو میں نے دیکھا کہ سر ڈگلس سڑک پر ٹہل رہے ہیں وہ کبھی ادھر جاتے ہیں اور کبھی ادھر.ان کا چہرہ پریشان ہے میں ان کے پاس گیا اور کہا صاحب آپ باہر پھر رہے ہیں میں نے ویٹنگ روم میں کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں آپ وہاں تشریف رکھیں.وہ کہنے لگے منشی صاحب آپ مجھے کچھ نہ کہیں میری طبیعت خراب ہے میں نے کہا کچھ بتا ئیں تو سہی آخر آپ کی طبیعت کیوں خراب ہو گئی ہے تاکہ اس کا مناسب علاج کیا جا سکے.اس پر وہ کہنے لگے جب سے میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے اس وقت سے مجھے یوں نظر آتا ہے کہ کوئی فرشتہ مرزا صاحب کی طرف ہاتھ کر کے مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مرزا صاحب گنہ گار نہیں ان کا کوئی قصور نہیں.پھر میں نے عدالت کو ختم کر دیا اور یہاں آیا تو اب ٹہلتا ٹہلتا جب اس کنارے کی طرف نکل جاتا ہوں تو وہاں مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتے ہیں میں نے یہ کام نہیں کیا یہ سب جھوٹ ہے پھر میں دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں بھی مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے میں نے یہ کام نہیں کیا.اگر میری یہی حالت رہی تو میں پاگل ہو جاؤں گا.میں نے کہا صاحب آپ چل کر ویٹنگ روم میں بیٹھئے.سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی آئے ہوئے ہیں وہ بھی انگریز ہیں ان کو بلا لیتے ہیں شاید ان کی باتیں سن کر آپ تسلی پا جائیں.سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کا نام لیمار چنڈ تھا.سر ڈگلس نے کہا انہیں بلوالو.چنانچہ میں انہیں بلالا یا.جب وہ آئے تو سر ڈگلس نے ان سے کہا دیکھو یہ حالات ہیں میری جنون کی سی حالت ہو رہی ہے میں اسٹیشن پر ٹہلتا ہوں اور گھبرا کر اس طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مرزا صاحب کھڑے نظر آتے ہیں اور ان کی شکل مجھے کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں مجھ پر جھوٹا مقدمہ کیا گیا ہے پھر دوسری طرف جاتا ہوں تو وہاں کنارے پر مجھے مرزا صاحب کی شکل نظر آتی ہے اور وہ کہتی ہے کہ میں بے گناہ ہوں یہ سب کچھ جھوٹ ہے جو کیا جا رہا ہے میری یہ حالت پاگلوں کی سی ہے اگر تم اس سلسلہ میں کچھ کر سکتے ہو تو کرو ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا.لیمار چنڈ نے کہا اس میں کسی اور کا قصور نہیں آپ کا اپنا قصور ہے آپ نے گواہ کو پادریوں کے حوالہ کیا ہوا ہے.وہ لوگ جو کچھ اسے سکھاتے ہیں وہ عدالت میں آکر بیان کر دیتا ہے آپ اسے پولیس کے حوالہ کریں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا بیان دیتا ہے چنانچہ اسی وقت سر ڈگلس نے کاغذ قلم منگوایا اور حکم دے دیا کہ عبدالحمید کو پولیس کے حوالہ کیا جائے اور حکم کے مطابق عبد الحمید کو پادریوں سے لے لیا گیا اور پولیس کے حوالہ کر دیا گیا دوسرے دن یا اسی دن اس نے
178 روایات سیّد نا محمود تذکار مهدی ) فوراً اقرار کر لیا کہ میں جھوٹ بولتا رہا ہوں لیمار چنڈ کا بیان ہے کہ میں نے اسے سچ سچ بیان دینے کے لئے کہا تو اس نے پہلے تو اصرار کیا کہ واقعہ بالکل سچا ہے.مرزا صاحب نے مجھے ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا لیکن میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص پادریوں سے ڈرتا ہے چنانچہ میں نے کہا.میں نے ڈپٹی کمشنر صاحب سے حکم لے لیا ہے کہ اب تمہیں پادریوں کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا اب تم پولیس کی حوالات میں ہی رہو گے تو وہ میرے پاؤں پر گر گیا اور کہنے لگا.صاحب مجھے بچالو میں اب تک جھوٹ بولتا رہا ہوں اس نے مجھے بتایا کہ صاحب آپ دیکھتے نہیں تھے کہ جب میں گواہی کے لئے عدالت میں پیش ہوتا تھا تو میں ہمیشہ ہاتھ کی طرف دیکھتا تھا اس کی وجہ یہ تھی.کہ جب پادریوں نے مجھے کہا کہ جاؤ اور عدالت میں بیان دو کہ مجھے مرزا صاحب نے ہنری مارٹن کلارک کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور امرتسر میں مجھے فلاں مستری کے گھر میں جانے کے لئے ہدایت دی تھی ( یہ دوست مستری قطب الدین صاحب تھے جن کا ایک پوتا اس وقت جامعہ احمدیہ میں پڑھتا ہے ) تو میں نے کہا میں تو وہاں کے احمدیوں کو جانتا بھی نہیں مجھے اس کا نام یاد نہیں رہے گا (اس پر مستری صاحب کا نام کوئلہ کے ساتھ میری ہتھیلی پر لکھ دیتے تھے جب میں گواہی دینے آتا تھا اور ڈپٹی کمشنر صاحب مجھ سے دریافت کرتے تھے کہ تمہیں امرتسر میں کسی کے گھر بھیجا گیا تھا تو میں ہاتھ اٹھاتا تھا.اور اس پر سے نام دیکھ کر کہہ دیتا تھا کہ مرزا صاحب نے مجھے فلاں احمدی کے پاس بھیجا تھا غرض اس نے ساری باتیں بتا دیں اور سر ڈگلس نے اگلی پیشی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بری کر دیا.تو دیکھو یہ سب واقعات ہمارے لئے آیات بینات ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے سرڈگلس کے لئے اور آیات بینات بھی پیدا کیں.ایک آیت بینہ یہ تھی کہ انہیں ٹہلتے ٹہلتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نظر آتی تھی اور وہ تصویر کہتی تھی کہ میں بے گناہ ہوں میرا کوئی قصور نہیں پھر انہوں نے خود مجھے سنایا کہ ایک دن میں گھر میں بیٹھا ہوا تھا اور ایک ہندوستانی آئی سی ایس آیا ہوا تھا اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ آپ اپنی زندگی کے عجیب حالات میں سے کوئی ایک واقعہ بتا ئیں تو میں نے اسے یہی مرزا صاحب والا واقعہ سنایا میں یہ واقعہ سنا رہا تھا کہ بہرے نے ایک کارڈ لا کر دیا اور کہا باہر ایک آدمی کھڑا ہے جو آپ سے ملنا چاہتا ہے.میں نے کہا اس کو اندر بلا لو جب وہ شخص اندر آیا.تو میں نے کہا نو جوان میں آپ کو جانتا نہیں آپ کون ہیں اس نوجوان نے کہا آپ میرے والد کو جانتے ہیں آپ ان کے واقف ہیں ان کا نام
تذکار مهدی ) 179 روایات سید نا محمود.پادری وارث دین تھا میں نے کہا ہاں میں ابھی ان کا ذکر کر رہا تھا وہ نو جوان کہنے لگا ابھی تار آئی ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں.وارث دین ایک پادری تھا جس نے ڈاکٹر مارٹن کلارک کو خوش کرنے کے لئے اس کی طرف سے یہ ساری کارروائی کی تھی مگر خدا تعالیٰ نے ڈپٹی کمشنر صاحب پر حق کھول دیا اور خود جو گواہ تھا اس نے بھی اقرار کر لیا.کہ جو کچھ کیا جا رہا ہے.یہ سب جھوٹ ہے مگر عین اس وقت جب سر ڈگلس وارث دین کا ذکر کر رہے تھے اس کے بیٹے کا وہاں آنا اور اپنے والد کی وفات کی خبر دینا عجیب اتفاق تھا سر ڈگلس اپنی موت تک جس احمدی کو بھی ملتے رہے، اسے یہ واقعہ بتاتے رہے انہوں نے مجھے بھی یہ واقعہ سنایا چوہدری فتح محمد صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی یہ واقعہ سنایا 1924ء میں جب میں وہاں گیا تھا تو ان کی صحت اچھی تھی یہ 32 سال قبل کی بات ہے اب وہ 93 سال کی عمر میں فوت ہوئے ہیں اس لحاظ میں 1924ء میں ان کی عمر 61 سال تھی اس دفعہ جب میں انگلینڈ گیا تو میں نے انہیں بلایا تو انہوں نے معذرت کر دی اور کہا میں اب بڑھا ہو گیا ہوں اور بہت کمزور ہوں اب میرے لئے چلنا پھرنا مشکل ہے اب سنا ہے کہ وہ فوت ہو گئے ہیں تو مجھے افسوس ہوا کہ موٹر ہمارے پاس تھی ہم موٹر میں ہی انہیں منگوا لیتے یا ان کے گھر چلے جاتے تو یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے مومن کو چاہیئے کہ وہ بچے معنوں میں مومن بننے کی کوشش کرے اگر وہ حقیقی مومن بنے تو اللہ تعالیٰ ضرور غیب سے ایسے حالات پیدا کرتا ہے جس سے اس کا ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے اور در حقیقت ایسے ایمان کے بغیر کوئی مزہ بھی نہیں جس ایمان نے آنکھیں نہ کھولیں اور انسان کو اندھیرے میں رکھا اس کا کیا فائدہ.جو اس جہاں میں اندھا رہے گا وہ دوسرے جہاں میں بھی اندھا رہے گا اور جسے اس جہان میں آیات بینات نظر نہیں آتیں اس کو اگلے جہان میں بھی آیات بینات نظر نہیں آئیں گی.اس دنیا میں آیات بینات نظر آئیں تو دوسری دنیا میں بھی آیات بینات نظر آتی ہیں.پس مومن کو ہمیشہ دعاؤں اور ذکر الہی میں لگے رہنا چاہیے کہ وہ دن اسے نصیب ہو جب اللہ تعالی اسلام اور اپنے ذات کی سچائی اس کے لئے کھول دے اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منور چہرہ اور خدا تعالیٰ کا نورانی چہرہ نظر آ جائے.جب یہ ہو جائے تو پھر رات اور دن اور سال تکلیف کے سال ہوں یا خوشی کے سال ہوں.اس کے لئے برابر ہو جاتے ہیں اور چاہے کچھ بھی ہو.ایسا آدمی ہمیشہ خوش رہتا ہے اور مطمئن رہتا ہے وہ کسی سے
تذکار مهدی ) 180 روایات سید نا محمود ڈرتا نہیں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھینی والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ضرور کچھ سزا دے اور اس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو وہ ڈر گئے وہ کہنے لگے حضور بڑے فکر کی بات ہے آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے آپ کسی طرح قادیان تشریف لے چلیں گورداسپور میں مزید عرصہ نہ ٹھہریں اگر آپ گورداسپور میں ٹھہرے تو مجسٹریٹ نے کل آپ کو کوئی نہ کوئی سزا ضرور دے دینی ہے حضرت صاحب نے فرمایا خواجہ صاحب اگر میں قادیان چلا جاؤں تو وہاں سے بھی مجھے پکڑا جاسکتا ہے پھر میں کہاں جاؤں مجسٹریٹ کو اختیارات حاصل ہیں اگر قادیان گیا تو وہاں بھی وارنٹ آ سکتے ہیں اور وہاں سے کسی دوسری جگہ گیا تو وہ بھی محفوظ جگہ نہ ہو گی وہاں بھی وارنٹ جاری کیے جا سکتے ہیں پھر میں کہاں کہاں بھاگتا پھروں گا خواجہ صاحب کہنے لگے حضور آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے آپ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیوں پریشان ہو گئے ہیں خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے چنانچہ یہی ہوا.دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا.ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا پاگل ہو گیا اور چھت پر سے چھلانگ مار کر مر گیا پھر اس پر یہ اثر تھا میں دلی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے اسٹیشن پر مجھے ملا اور کہنے لگا.دعا کریں میرا ایک اور بیٹا ہے خدا تعالیٰ اسے بچالے مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں ہیں غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو ان کے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی پس اگر انسان اللہ تعالیٰ کا ہو جائے تو پھر دنیا کی ہر شے اس کی ہو جاتی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہا نا فرمایا کہ جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.یعنی اگر تو خدا تعالیٰ کا ہو جائے تو سب جہاں تیرا ہو جائے گا دنیا کے کوئی چیز تمہیں ضر ر نہیں پہنچا سکے گی اور کوئی دشمن تمہارے خلاف کوئی شرارت نہیں کر سکے گا پس تم اللہ تعالیٰ کے بنو اور دعا کرتے رہو تا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ہو جاؤ اور اس طرح تم بھی امن میں آ جاؤ اور تمہاری اولاد اور دوسرے عزیز اور دوست بھی امن میں آ جائیں یاد رکھو جب تک جماعت امن میں نہیں رہے گی تم بھی امن میں نہیں رہ سکتے اور جماعت اسی و
تذکار مهدی ) 181 روایات سید نا محمود سکتی ہے جب تمہاری آئندہ نسل امن میں ہو.الفضل 30 / مارچ 1957 ء جلد 46/11 نمبر 77 صفحہ 5 تا 7 ) | میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے میں اس کے متعلق بعض واقعات سناتا ہوں، پنڈت لیکھر ام آریوں کے ایک مشہور مبلغ تھے.ان سے اسلام کے متعلق حضرت مرزا صاحب کی خط و کتابت ہوتی رہی.چونکہ ان کی طبیعت میں سختی تھی اس لئے انہوں نے رسول کریم ﷺ کے متعلق سخت اور ناشائستہ الفاظ استعمال کئے جیسا کہ ان کی کتاب ”کلیات آریہ مسافر سے ظاہر ہے.حضرت مرزا صاحب کو جو دلائل کا جواب دلائل سے دینے میں کبھی نہ تھکنے والے تھے.ایسے الفاظ سن کر بہت تکلیف ہوئی.ایک دفعہ جب لاہور گئے تو پنڈت لیکھرام ملنے کے لئے آئے اور سامنے آ کر سلام ہا.آپ نے ادھر سے منہ پھیر لیا.پھر وہ دوسری طرف آئے لیکن آپ نے توجہ نہ کی.اس پر سمجھا گیا کہ شاید آپ کو معلوم نہیں یہ کون ہے اور بتایا گیا کہ یہ پنڈت لیکھرام ہیں اور آپ کو سلام کہتے ہیں.آپ نے فرمایا اسے شرم نہیں آتی میرے آقا " کو تو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کرتا ہے.پنڈت لیکھرام کی جو عزت آریوں میں تھی اس کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ ان سے ملنا اپنی عزت سمجھتے تھے لیکن حضرت مرزا صاحب کی غیرت دیکھئے پنڈت صاحب خود ملنے کے لئے آتے ہیں مگر آپ فرماتے ہیں پہلے میرے آقا کو گالیاں دینا چھوڑ دے تب میں ملوں گا.اسی طرح ایک اور واقعہ ہے.حضرت مرزا صاحب کا سلوک اپنی اولاد سے ایسا اعلیٰ درجہ کا تھا کہ قطعا خیال نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ کبھی ناراض بھی ہو سکتے ہیں.ہم جب چھوٹے ہوتے تھے تو یہ سمجھا کرتے تھے کہ حضرت صاحب کبھی غصے ہوتے ہی نہیں.میرے بچپن کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے مولوی عبد الکریم صاحب جو اسی جگہ کے ایک عالم تھے اور جنہیں پرانے لوگ جانتے ہوں گے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا میری پہلی میں درد ہے جہاں ٹکور کی گئی لیکن آرام نہ ہوا.آخر دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی جیب میں اینٹ کا ایک روڑا پڑا تھا جس کی وجہ سے پہلی میں درد ہو گیا.پوچھا گیا کہ حضور یہ کس طرح آپ کی جیب میں پڑ گیا.فرمایا محمود نے مجھے یہ اینٹ کا ٹکڑا دیا تھا کہ سنبھال کر رکھنا میں نے جیب میں ڈال لیا کہ جب مانگے گا نکال دوں گا.مولوی صاحب نے کہا حضور مجھے دے دیجئے
تذکار مهدی ) 182 روایات سید نا محمود میں رکھ چھوڑوں.فرمایا نہیں میں اپنے پاس ہی رکھوں گا.تو آپ کی اولاد سے ایسی محبت تھی.آپ ہم سب سے ہی بہت پیار اور محبت کرتے تھے لیکن خاص کر ہمارے سب سے چھوٹے بھائی سے آپ کو ایسی محبت تھی کہ ہم سمجھتے تھے سب سے زیادہ اسی سے محبت کرتے ہیں.ایک دن میں جب باہر سے آیا تو دیکھا کہ چھوٹے بھائی کے جسم پر ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کے نشان پڑے ہوئے تھے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچپن کی نا تجھی سے اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل گئی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف تھی.اس پر حضرت صاحب نے اس زور سے اسے مارا کہ اس کے بدن پر نشان پڑ گئے.حضرت مرزا صاحب کی زندگی کا یہ نہایت ہی چھوٹا اور معمولی واقعہ ہے لیکن اس کو سامنے رکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آج کل مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی کس قدر عزت ہے.اکثر لوگ ایسے دیکھے جاتے ہیں جو مخالفین کے لیکچروں میں جاتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خوشی سے گالیاں سنتے ہیں.بعض جوش میں آ کر آگے سے گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں.مگر یہ بھی درست نہیں اور اکثر بیٹھے سنتے رہتے ہیں.لاہور میں آریوں کا ایک جلسہ ہوا جس میں شامل ہونے کی دعوت حضرت مرزا صاحب کو بھی دی گئی اور بانیان جلسہ نے اقرار کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی برا لفظ استعمال نہیں کیا جائے گا لیکن جلسہ میں سخت گالیاں دی گئیں ہماری جماعت کے کچھ لوگ بھی وہاں گئے تھے جن میں حضرت مولوی نورالدین صاحب بھی تھے جن کی حضرت مرزا صاحب خاص عزت کیا کرتے تھے جب آپ نے سنا کہ جلسہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی گئی ہیں تو مولوی صاحب کو کہا.وہاں بیٹھا رہنا آپ کی غیرت نے کس طرح گوارہ کیا کیوں نہ آپ اٹھ کر چلے آئے؟ اس وقت آپ ایسے جوش میں تھے کہ خیال ہوتا تھا کہ مولوی صاحب سے بالکل ناراض ہو جائیں گے.مولوی صاحب نے کہا حضور غلطی ہو گئی.آپ نے فرمایا یہ کیا غلطی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دی جائیں اور آپ وہاں بیٹھے رہیں.غرض ایسے بیسیوں واقعات ہیں جن سے ثابت ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی ساری زندگی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور توقیر کے لئے وقف تھی.( تقریر سیالکوٹ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 115 تا 113)
تذکار مهدی ) 183 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خانہ تلاشی روایات سید نا محمود ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی تلاشی کا واقعہ سنا رہے تھے یہ تلاشی پنڈت لیکھرام کے واقعہ قتل کے سلسلہ میں سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور نے لی تھی.آپ نے فرمایا سپرنٹنڈنٹ پولیس ایک چھوٹے دروازہ میں سے گزرنے لگا تو اس کے سر کو سخت چوٹ آئی اور سر چکرا گیا ہم نے اسے دودھ پینے کو کہا لیکن اس نے انکار کیا کہ اس وقت میں تلاشی کے لئے آیا ہوں اور یہ میرے فرض منصبی کے مخالف ہوگا.اس پر یہی صاحب جواب بولے ہیں جھٹ بولے.حضور اس کے سر میں خون بھی نکلا تھا یا نہیں حضرت صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا میں نے اس کی ٹوپی اتار کر نہیں دیکھی تھی.(خطبات محمدجلد نمبر 13 صفحہ 110) پیشگوئی عبداللہ آتھم اور خواجہ غلام فرید چاچڑاں شریف ڈپٹی عبد اللہ آتھم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو انذاری پیشگوئی فرمائی تھی.جب اُس کی میعاد گذر گئی اور آتھم نہ مرا تو ظاہر بین لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی.ایک دفعہ نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی بعض لوگوں نے ہنسی اڑانی شروع کر دی کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی اور آتھم ابھی تک زندہ ہے.اُس وقت دربار میں خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی بیٹھے ہوئے تھے جن کے نواب صاحب مرید تھے.باتوں باتوں میں نواب صاحب کہ مونہہ سے بھی یہ فقرہ نکل گیا کہ ہاں ! مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.اس پر خواجہ غلام فرید صاحب جوش میں آگئے اور انہوں نے بڑے جلال سے فرمایا کہ کون کہتا ہے آتھم زندہ ہے مجھے تو اس کی لاش نظر آ رہی ہے.اس پر نواب صاحب خاموش ہو گئے تو بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بظاہر زندہ معلوم ہوتے ہیں لیکن حقیقتا مردہ ہوتے ہیں اور بعض مردہ نظر آتے ہیں لیکن حقیقتا زندہ ہوتے ہیں.جو لوگ خدا کی راہ میں جان دیتے ہیں وہ در حقیقت زندہ ہوتے ہیں اور جو لوگ زندہ ہوتے ہیں اُن میں سے ہزاروں روحانی نگاہ رکھنے والوں کو مردہ دکھائی دیتے ہیں.کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قبرستان میں رہتے تھے ایک دفعہ کسی نے اُن سے کہا کہ آپ زندوں کو چھوڑ کر قبرستان میں کیوں آگئے ہیں.انہوں نے کہا مجھے تو شہر میں سب مردے ہی مردے نظر آتے ہیں اور
تذکار مهدی ) 184 روایات سیّد نا محمود یہاں مجھے زندہ لوگ دکھائی دیتے ہیں.پس رُوحانی مردوں اور روحانی زندوں کو پہچانا ہر ایک کا کام نہیں.مگر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک ظاہری علامت ایسی بتا دی ہے جس سے رُوحانی مردوں اور زندوں کو پہچاننے میں بڑی حد تک آسانی ہو جاتی ہے.(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 292) اتم کی پیشگوئی اور پیر صاحب چاچڑاں شریف اُمت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے.ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعوی کیا ہو.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اور نگزیب بھی اپنے زمانے کا مجد د نظر آتا ہے.مگر کیا اس نے کوئی دعویٰ کیا عمر بن عبد العزیز کو مجدد کہا جاتا ہے.کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے.پس غیر مامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں.دعوئی صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے.غیر مامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے.اگر کام پورا ہوتا نظر آجائے تو پھر اس کے دعوی کی کیا ضرورت ہے؟ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے.تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے.اگر عمر بن عبد العزیز مجدد ہونے سے انکار بھی کرتے.تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں کیونکہ مجدد کے لئے کسی دعویٰ کی ضرورت نہیں.دعویٰ صرف ان مجددین کے لئے ضروری ہے جو مامور ہوں.ہاں جو غیر مامور اپنے زمانہ میں گرتے ہوئے اسلام کو کھڑا کرے دشمن کے حملوں کو توڑ دے.اسے چاہے پتہ بھی نہ ہو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مجدد ہے.ہاں مامور مجدد وہی ہو سکتا ہے.جو دعویٰ کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا.پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعوی کی کوئی ضرورت نہیں اور مخالفوں کی ایسی باتوں سے گھبراہٹ کی بھی ضرورت نہیں.اس میں کوئی بہتک کی بات نہیں.اصل عزت وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.چاہے دنیا کی نظروں میں انسان ذلیل سمجھا جائے.اگر وہ خدا تعالیٰ کے رستہ پر چلے تو اس کی درگاہ میں وہ ضرور معزز ہو گا اور اگر کوئی شخص جھوٹ سے کام لے کر اپنے غلط دعوی کو بھی ثابت کر دے اور اپنی چستی یا چالاکی سے لوگوں میں غلبہ بھی حاصل کر لے.تو خدا تعالیٰ کی درگاہ میں وہ عزت حاصل نہیں کر سکتا اور جسے خدا تعالیٰ کے دربار میں عزت حاصل نہیں وہ خواہ ظاہری لحاظ سے کتنا معزز کیوں نہ سمجھا جائے.اس نے کچھ کھویا ہی ہے حاصل نہیں کیا اور آخر ایک دن وہ ذلیل ہوکر رہے گا.پس دینی و دنیوی
تذکار مهدی 185 روایات سید نامحمود کاموں میں ہمیشہ سچ کو اختیار کرو.جو شخص کے لئے نقصان اٹھاتا ہے وہ دراصل فائدہ میں رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب آٹھم کی پیشگوئی پر مخالفوں نے شور مچایا کہ وہ پوری نہیں ہوئی تو ایک دن نواب صاحب بہاولپور کے دربار میں بھی جو اغلباً موجودہ نواب صاحب کے دادا تھے اس موضوع پر باتیں ہونے لگیں اور تمسخر اڑایا جانے لگا کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.نواب صاحب کے پیر حضرت غلام فرید صاحب چاچڑاں والے بھی تشریف فرما تھے.وہ خاموش بیٹھے رہے مگر کچھ عرصہ بعد نواب صاحب بھی اس گفتگو میں دخل دینے لگے تو وہ جوش میں آگئے اور فرمانے لگے کہ تم لوگوں کو شرم نہیں آتی کہ ایک عیسائی کی تائید اور مسلمان کے خلاف باتیں کرتے ہو.تم لوگ کہتے ہو کہ آتھم زندہ ہے یہ بالکل غلط ہے.وہ مر چکا ہے اور مجھے تو وہ مردہ ہی نظر آتا ہے.پس جب کوئی شخص سچ کے لئے کھڑا ہو تو ہر شریف انسان اس کی عزت کرے گا.اگر کمینے اس کی عزت کو نہ پہچا نہیں تو یہ کوئی حرج کی بات نہیں.پس کبھی کسی دشمن کے اعتراض سے ڈر کر حق نہ چھپاؤ.ٹونے ٹوٹکے کرنا جائز نہیں (الفضل 23 مارچ 1940 ء جلد 28 نمبر 67 صفحہ 7 | میں جہاں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں وہاں ذمہ دار کارکنوں اور صدر انجمن کو بھی توجہ دلاتا ہوں کیونکہ ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ بھی اسی طرح ان طالب علموں کے خون میں شریک ہے جس طرح جامعہ کے پروفیسر اور اساتذہ اس میں شریک ہیں.صدر انجمن محض ریزولیوشنز پاس کر دینے کا نام نہیں ، نہ صدر انجمن اس امر کا نام ہے کہ کسی صیغہ کے لئے افسر مقرر کر کے اسے نگرانی کے بغیر چھوڑ دیا جائے.صدر انجمن کا فرض ہے کہ وہ طالب علموں کے ذہنوں ، ان کی اُمنگوں اور ان کے ارادوں میں وسعت پیدا کر دے، ان کے اندر ایک بیداری اور زندگی کی روح پیدا کرے، ان کے خیالات میں وسعت پیدا کرے اور اگر مدرس مفید مطلب کام کرنے والے نہ ہوں تو صدر انجمن کا فرض ہے کہ انہیں نکال کر باہر کرے.ہم نے طالب علموں کا خالی اخلاص کیا کرنا ہے اس کے ساتھ کچھ عقل اور سمجھ بھی تو چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق
تذکار مهدی ) 186 روایات سید نا محمودی فرمایا کرتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ میں تفقہ کا مادہ دوسرے صحابہ سے کم تھا.مولویوں نے اس پر شور مچایا مگر جو صحیح بات ہو وہ صحیح ہی ہوتی ہے.آج کل جس قدر عیسائیوں کو مفید مطلب احادیث ملتی ہیں ، وہ سب حضرت ابو ہریرہ سے ہی مروی ہیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ سیاق و سباق کو نہ دیکھتے اور گفتگو کے بعض ٹکڑے بغیر پوری طرح سمجھے آگے بیان کر دیتے مگر باقی صحابہ سیاق وسباق کو سمجھ کر روایت کرتے.اسی طرح اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق روایتیں چھپنی شروع ہوئی ہیں جن میں سے کئی ایسے لوگوں کی طرف سے بیان کی جاتی ہیں جنہیں تفقہ حاصل نہیں ہوتا اور اس وجہ سے ایسی روایتیں چھپ جاتی ہیں.جن پر لوگ ہمارے سامنے اعتراض کرنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ روایت چُھپ گئی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آتھم کی میعاد میں سے صرف ایک دن باقی رہ گیا تو بعض لوگوں سے کہا کہ وہ اتنے چنوں پر اتنی بار فلاں سورۃ کا وظیفہ پڑھ کر آپ کے پاس لائیں.جب وہ وظیفہ پڑھ کر چنے آپ کے پاس لائے تو آپ انہیں قادیان سے باہر لے گئے اور ایک غیر آباد کنوئیں میں پھینک کر جلدی سے منہ پھیر کر واپس لوٹ آئے.میرے سامنے جب اس کے متعلق اعتراض پیش ہوا تو میں نے روایت درج کرنے والوں سے پوچھا کہ یہ روایت آپ نے کیوں درج کر دی.یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صریح عمل کے خلاف ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نَعُوذُ بِاللهِ ٹونے وغیرہ کیا کرتے تھے.اس پر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے ایسا خواب دیکھا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے جب اس خواب کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا اسے ظاہری شکل میں ہی پورا کر دواب خواب کو پورا کرنے کے لئے ایک کام کرنا بالکل اور بات ہے اور ارادہ ایسا فعل کرنا اور بات.اور ظاہر میں خواب کو بعض دفعہ اس لئے پورا کر دیا جاتا ہے کہ تا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کا مضر پہلو اپنے حقیقی معنوں میں ظاہر نہ ہو.چنانچہ معتبرین نے لکھا ہے کہ اگر منذر خواب کو ظاہری طور پر پورا کر دیا جائے تو وہ وقوع میں نہیں آتی اور خدا تعالیٰ اس کے ظاہر میں پورے ہو جانے کو ہی کافی سمجھ لیتا ہے.اس کی مثال بھی ہمیں احادیث سے نظر آتی ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے دیکھا کہ سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں کسری کے سونے کے کنگن ہیں.اس رویا میں اگر ایک طرف اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ ایران فتح ہو گا تو دوسری طرف یہ بھی اشارہ تھا کہ ایران کی فتح کے بعد ایرانیوں کی طرف سے
تذکار مهدی ) 187 نامحمودی روایات سیّد نا محمود بعض مصائب و مشکلات کا آنا بھی مقدر ہے کیونکہ خواب میں اگر سونا دیکھا جائے تو اس کے معنی غم اور مصیبت کے ہوتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ﷺ کے رویا کے اس مفہوم کو سمجھا اور سراقہ کو بلا کر کہا کہ پہن کڑے ، ورنہ میں تجھے کوڑے ماروں گا.چنانچہ اسے سونے کے کڑے پہنائے گئے اور اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم ہے کی اس رؤیا کے غم اور فکر کے پہلو کو دور کرنا چاہا.مگر ظاہری صورت میں خواب کو پورا کر دینے کے باوجود پھر بھی خواب کا کچھ حصہ حقیقی معنوں میں پورا ہو گیا.(خطبات محمود جلد 16 صفحہ 40 تا42) جنگ مقدس لنگڑے لولے اور اندھے حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ آٹھم کے مباحثہ میں ہم نے جو نظارہ دیکھا.اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں اور پھر ہمارے ایمان آسمانوں پر پہنچ گئے.فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آ گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے کچھ بہرے کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بلا لیے.اور انہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا دیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے اندھوں بہروں اور لولوں لنگڑوں کو نکال کر آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے.آپ کہتے ہیں میں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے.بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اور لولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کیا کرتے تھے.ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چنداندھے بہرے اور لولے لنگڑے اکٹھے کر دیئے ہیں.اگر آپ فی الواقع مثیل مسیح ہیں.تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے.اور گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یونہی ہے مگر اس سے گھبرا گئے کہ آج ان لوگوں کو ہنسی ٹھٹھے کا موقعہ مل جائے گا.مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ کو دیکھا تو آپ کے چہرے پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.جب وہ بات ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا کہ دیکھئے پادری صاحب میں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعوی کرتا ہوں.اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا.مگر آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں جسمانی بہروں جسمانی لولوں اور جسمانی لنگڑوں کو اچھا کیا کرتا تھا اور آپ کی کتاب
تذکار مهدی ) 188 روایات سید نا محمودی میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی برابر بھی ایمان ہو اور تم کسی پہاڑ سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تو وہ چلا جائے گا.اور اگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے.پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہو سکتا میں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں.جو میری آقا حضرت محمد مصطفے ﷺ نے دکھائے.آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو میں دکھانے کے لئے تیار ہوں.باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتا دیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو.ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے.سو آپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچالیا.اور ان اندھوں بہروں لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا.اب یہ اندھے بہرے لولے اور لنگڑے موجود ہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.آپ فرماتے تھے اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولوں اور لنگڑوں کو کھینچ کھینچ کر الگ کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور ان کو ایسے ایسے جواب سمجھاتا ہے جن کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکا رہ جاتا ہے.اتم کی پیشگوئی ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 88-89) مومن کا کام اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا ہوتا ہے.کام تو خدا تعالیٰ کرتا ہے لیکن ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم وہی کچھ کریں، ہم وہی کچھ سوچیں ، اور ہم وہی کچھ کہیں جو خدا تعالیٰ نے کہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آتھم کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور پیشگوئی کی معیاد گزر گئی میں اس وقت چھ سات سال کی عمر کا تھا.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے.جس جگہ قادیان میں بک ڈپو ہوا کرتا تھا اور اس کے ساتھ والے کمرے میں موثر ہوا کرتے تھے اور اس کے مغرب والے کمرے میں خلیفہ اسی اول پہلے درس دیا کرتے تھے یا مطلب کیا کرتے تھے.آخری ایام میں مولوی قطب الدین صاحب مرحوم وہاں مطب کرتے رہے ہیں.اس کے ساتھ پھر ایک کو ٹھڑی تھی جس میں کتا بیں رکھی ہوئی تھیں اور جس کمرے میں اب موٹر ہوتے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پر لیس تھا اور اس کمرے میں جہاں حضرت خلیفہ اسیح اول مطب فرمایا کرتے تھے.فرمہ بندی ہو جاتی تھی اور پھر کوٹھڑی میں کتا بیں رکھ دی جاتی تھیں.
تذکار مهدی ) 189 روایات سید نا محمود حضرت خلیفتہ امسیح اول کے بعض شاگر د بھی وہاں رہا کرتے تھے اور چونکہ ان دنوں بہت کم لوگ ہوا کرتے تھے اس لئے عام طور پر جو لوگ وہاں آتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح اول کے شاگرد بن جاتے تھے یہی مدرسہ تھا اور حضرت خلیفہ اول ہی پڑھایا کرتے تھے.اس کے علاوہ اور کوئی مدرسہ نہیں تھا.وہ لوگ آپ کے شاگر د بھی ہوتے تھے اور سلسلہ کے خادم بھی ہوتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ میں چھوٹا سا تھا کہ جب آٹھم کی پیشگوئی کا وقت پورا ہوا.غالبا یہ 1894ء کے آخریا 1895ء کے شروع کی بات ہے.میں اس وقت ساڑھے پانچ یا چھ سال کا تھا.ابھی تک وہ نظارہ مجھے یاد ہے.اس وقت تو میں اسے نہیں سمجھتا تھا کیونکہ میری عمر بہت چھوٹی تھی.لیکن اب واقعات سے میں سمجھتا ہوں کہ جس دن آتھم کی پیشگوئی کے پوری ہونے کا آخری دن تھا.یعنی پندرہ مہینے ختم ہونے تھے.اس دن اتنا کہرام مچا ہوا تھا کہ لوگ رو رو کر چیخیں مار رہے تھے اور دعا کرتے تھے کہ خدایا! آتھم مر جائے.یہ عصر کے بعد اور مغرب سے پہلے کی بات ہے.پھر نماز کا وقت ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد آپ مجلس میں بیٹھ گئے گو اس عمر میں میں باقاعدہ مجلس میں حاضر نہیں ہوتا تھا.لیکن کبھی کبھی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا.اس دن میں بھی مجلس میں بیٹھ گیا.اس دن جو لوگ رو رو کر دعائیں کرتے رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے فعل پر ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کیا خدا تعالیٰ سے بھی بڑھ کر کسی انسان کو اس کے کلام کے لئے غیرت ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے جب یہ بات کہی ہے کہ ایسا ہوگا تو پھر ہمیں ایمان رکھنا چاہئے کہ ایسا ضرور ہوگا اور اگر ہم نے خدا تعالیٰ کی بات کو غلط سمجھا ہے تو خدا تعالیٰ اس بات کا پابند نہیں ہوسکتا کہ وہ ہماری غلطی کے مطابق فیصلہ کرے.ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جب ہم نے ایک شخص کو راستباز مان لیا ہے تو اس کی باتوں پر یقین رکھیں.غرض مومن کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر توکل کرے.خدا تعالی کی بات بہر حال پوری ہو کر رہتی ہے.جنگ مقدس خطبات محمود جلد 30 صفحه 110-109 ) ہماری کامیابی کی جڑ اور راز یہی مسلمانوں کی حالت ہے جو ہمارے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہی سب سے زیادہ ہماری ترقی میں محمد اور معاون ہے اور ان کو جانے
تذکار مهدی ) 190 روایات سید نامحمود دینے کا یہ مطلب ہے کہ جو لوگ آسانی اور سہولت سے ہمارے ہاتھ میں آ سکتے ہیں.ان میں سے چار پانچ لاکھ کو ہم جانے دے رہے ہیں اور یہ اتنی ہی تعداد نہیں ہے.اب تو آریہ بھی ان کی تعداد 33 - 33لاکھ مان رہے ہیں.شردھانند نے اپنی ایک تقریر میں اتنی تعداد تسلیم کی ہے اور یہ آہستہ آہستہ ان لوگوں کی تعداد ظاہر کر رہے ہیں تا کہ مسلمان زیادہ نہ گھبرا جائیں اور واقف کار ان لوگوں کی تعداد ایک کروڑ بتاتے ہیں.اتنی بڑی تعداد جو افغانستان کی ساری آبادی سے دوگنی ہے.اس کو ضائع ہونے دینا قطعاً ہوشیاری اور دانائی کے خلاف ہے.پھر حضرت مسیح موعود کا طریق ہم دیکھتے ہیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر آپ یہ نہ کہتے کہ یہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ہیں.انہیں تباہ ہونے دو.وہ لوگ بیشک ہم سے دشمنی اور عداوت کریں.ہمیں دکھ اور تکالیف دیں.مگر یہ بھی تو یا د رکھو کہ اوروں کی نسبت یہی لوگ آسانی سے ہمارے قابو میں آ سکتے ہیں.ہماری اصل غرض یہی ہے کہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں.وہ ہو جائے اور یہ لوگ چونکہ اس کام کے ہونے میں سب سے زیادہ مد ہیں.اس لئے ان کا بچانا ہمارا فرض ہے.کتاب جنگ مقدس جس میں آٹھم کے ساتھ مباحثہ چھپا ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مباحثہ اس وقت ہوا جبکہ آپ نے مسیح موعود ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور مولوی آپ کے کافر ہونے کا اعلان کر چکے تھے اور فتوے دے چکے تھے کہ آپ واجب القتل ہیں! ایسے موقعہ پر ایک غیر احمدی کا عیسائی سے مقابلہ ہوتا ہے اس نے حضرت صاحب سے درخواست کی تھی کہ آپ مقابلہ کریں.اس پر حضور ( علیہ السلام) جھٹ کھڑے ہو گئے.آپ نے اس وقت یہ نہ کہا عیسائی ہمارے ایسے دشمن نہیں ہیں جیسے غیر احمدی ہیں بلکہ آپ مباحثہ کیلئے چلے گئے اور قادیان سے باہر چلے گئے.یہ تو اس وقت کا ذکر ہے.جب مخالفت زوروں پر تھی اور دعوے کی ابتدا تھی.لیکن اب اس وقت کا ذکر سناتا ہوں.جب دعوے اپنے کمال کو پہنچ گیا تھا اور مخالفت کم ہوگئی تھی.عیسائیوں کو 1906ء میں خاص جوش پیدا ہوا.اور انہوں نے بڑے زور سے تبلیغ شروع کی.بریلی میں کوئی شخص تھا.عیسائیوں نے ینابیع الاسلام کتاب کے ذریعہ اسے خراب کرنا چاہا.اس کے دل میں اس کتاب کو پڑھ کر اسلام کے متعلق شکوک پیدا ہو گئے.اس نے
تذکار مهدی ) 191 روایات سید نا محمود حضرت صاحب کو اطلاع دی اور لکھا کہ یہ کیسی باتیں ہیں جو اس کتاب میں درج ہیں.حضرت صاحب نے اس کو جواب نہ لکھا بلکہ اس کے جواب میں ایک کتاب لکھی.جس کا نام چشمہ مسیحی ہے اور جس سے نبوت کے مسئلہ میں ہمیں بڑی مدد ملتی ہے.یہ کتاب اس غیر احمدی کو عیسائیت سے بچانے کے لئے لکھی گئی.پس حضرت مسیح موعود کا طریق عمل بتا رہا ہے کہ ہمارا ایسے موقع پر کیا طریق عمل ہونا چاہئے.اصل بات یہ ہے کہ ہمارے جنگ کا دائرہ حضرت مسیح کو ماننے اور نہ ماننے کی حد تک ہی محدود نہیں ہو جاتا.بلکہ اس سے وسیع ہے.ہمارے سلسلہ کی بنیاد مسیح موعود سے ہی نہیں رکھی گئی بلکہ آج سے تیرہ سو سال قبل رکھی گئی تھی کیونکہ مسیح موعود کے مبعوث ہونے کی بنیاد اس وقت رکھی گئی تھی.جب رسول کریم ﷺ نے دعوی کیا تھا.پس غیر احمدیوں کا اپنے ساتھ برا سلوک اور برا معاملہ دیکھ کر اور ان کی عداوت اور دشمنی کو دیکھ کر یہ مت سمجھو.کہ جب ان پر تباہی اور بر بادی آئے.تو ہمیں چپ ہو کے بیٹھ رہنا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کی یہ حالت ہی ہماری ترقی اور کامیابی کی بنیاد اور جڑھ ہے اور ایسی صورت میں ہی ہماری کامیابی کے سامان ہیں.مباحثات کے نقصانات ( الفضل 23 / مارچ 1923 ء جلد 10 نمبر 37 صفحہ 5) میں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتدا میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ اُنہوں نے کسی سوال پہلے پہل میرا جواب سُن کر یہ خیال کیا کہ شائد میں جواب نہیں دے سکتا اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑ جائے تو میں جواب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسا جواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کر لیتا ہے.یاد رکھو سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی.میں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے.ڈبیٹنگ کہیں بھی میرے نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور میں اس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں.لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسخ ہو چکی ہے.کہ برابر جاری ہے.حالانکہ اس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے.ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں.مگر اس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اس سے دل پر
تذکار مهدی ) 192 نامحمودی روایات سیّد نا محمود زنگ لگنا لازمی امر ہے.مجھے ایک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا که مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت مؤید اور میں مخالف تھا.مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسروں کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے.آخر میں نے ان سے کہا کہ آؤ مباحثہ کر لیتے ہیں.مگر آپ تو چونکہ مؤید ہیں.آپ مخالفانہ نقطہ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا.سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہو گئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا احمدی ہو گیا اور وہ جو قریب تھے بالکل دور چلے گئے.ان کی سمجھ میں بات آگئی اور ان کے دل سے ایمان جاتا رہا.تو علم النفس کی رو سے ڈبیٹس کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا.ابھی تھوڑا عرصہ ہوا یہاں ایک ڈیبیٹ ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی اِس میں اس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جدا گانہ؟ حالانکہ میں اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چکا ہوں اور یہ سو عواد بی ہے کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ میں ایک امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کر چُکا ہوں پھر اس کو زیر بحث لایا جائے.الفضل 11 / مارچ 1939 ء جلد 27 نمبر 58 صفحہ 8) یا بندی نماز کی عادت یہ دیکھ کر کہ آپ کے والد صاحب مصائب دنیوی میں بہت گھرے ہوئے ہیں ان کے کہنے پر یہ کام اپنے ذمہ لے لیا کہ ان کی طرف سے ان کے مقدمات کی پیروی کر دیا کریں.ان مقدمات کے دوران آپ کی انابت الی اللہ اور بھی ظاہر ہوئی.ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آپ مقدمے کی پیروی کے لئے گئے اور مقدمے کے پیش ہونے میں دیر ہو گئی نماز کا وقت آ گیا آپ باوجود لوگوں کے منع کرنے کے نماز کے لئے چلے گئے.اور جانے کے بعد ہی مقدمہ کے لئے بلائے گئے مگر آپ عبادت میں مشغول رہے اس سے فارغ ہوئے تو عدالت میں آئے حسب
تذکار مهدی ) 193 روایات سید نا محمودی قاعدہ سرکاری چاہئے تو یہ تھا کہ مجسٹریٹ یک طرفہ ڈگری دے کر آپ کے خلاف فیصلہ سنا دیتا مگر اللہ تعالیٰ کو آپ کی یہ بات ایسی پسند آئی کہ اس نے مجسٹریٹ کی توجہ کو اس طرف سے پھیر دیا اور اس نے آپ کی غیر حاضری کو نظر انداز کر کے فیصلہ آپ کے والد صاحب کے حق میں کر دیا.دعوۃ الا میر.انوار العلوم جلد 7 صفحہ 575) گھر میں باجماعت نماز ادا کرنا افسوس ہے کہ باوجود باجماعت نماز کے مواقع کے بہم پہنچنے کے ابھی ہماری جماعت میں اس کا رواج اتنا نہیں جتنا ہونا چاہئے.پہلے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دوست ایک دوسرے سے دُور دُور رہتے تھے اور دوسروں کے ساتھ وہ پڑھ نہ سکتے تھے اس لئے یہ عادت پڑ گئی کہ گھروں میں نماز پڑھ لی جائے اگر چہ اس صورت میں بھی نماز باجماعت کی یہ ترکیب ہے کہ بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جماعت کرالی جائے تو عادت نہ ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز کی قیمت لوگوں کے دلوں میں نہیں رہی اس عادت کو ترک کر کے نماز باجماعت کی عادت ڈالنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایسے مواقع پر جب نماز کے لئے مسجد میں نہ جاسکتے تھے گھر میں ہی جماعت کرالیا کرتے تھے اور شاذ ہی کسی مجبوری کے ماتحت الگ نماز پڑھتے تھے.اکثر ہماری والدہ کو ساتھ ملا کر جماعت کرا لیتے تھے والدہ کے ساتھ دوسری مستورات بھی شامل ہو جاتی تھیں پس اول تو ہر جگہ دوستوں کو جماعت کے ساتھ مل کر نماز ادا کرنی چاہئے اور جس کو یہ موقع نہ ہو اسے چاہئے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہی مل کر نماز با جماعت کرالیا کرے ہر جگہ دوستوں کو نماز باجماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں شہر بڑا ہو اور دوست دُور دُور رہتے ہوں وہاں محلہ وار جماعت کا انتظام کرنا چاہئے.جہاں مساجد نہیں ہیں وہاں مساجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے دیکھا ہے بعض جگہ کے دوستوں میں یہ نقص ہے کہ وہ یہ ارادہ کر لیتے ہیں کہ فلاں جگہ ملے گی تو مسجد بنائیں گے ایسے دوستوں کو سوچنا چاہئے کہ کیا خدا تعالیٰ سے ملاقات کو بیوی کی ملاقات جتنی بھی اہمیت نہیں کیا کوئی شخص یہ بھی کبھی کہتا ہے کہ جب مجھے فلاں محلہ میں زمین ملے گی تو وہاں مکان بنا کر شادی کروں گا ؟ پھر خدا تعالیٰ کی ملاقات کے لئے گھر کی تعمیر کو کسی خاص
تذکار مهدی ) 194 روایات سیّد نا محمود جگہ ملنے پر ملتوی رکھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے.جہاں بھی جگہ ملے مسجد بنا لینی چاہئے پھر اگر اپنی پسند کی جگہ حاصل ہو جائے تو اس کے سامان کو وہاں لے جا کر استعمال کیا جا سکتا ہے.مسجد کے سامان سے بہتر مسجد بنانے میں کیا حرج ہے.آخر ہر مسجد خانہ کعبہ کی حیثیت تو نہیں رکھتی کہ اسے اپنی جگہ سے ہلایا نہیں جاسکتا.( بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 494-493) نماز وقار کے ساتھ پڑھنی چاہئے نماز اپنی تمام قیود اور پابندیوں کے ساتھ ایک انتہا درجہ کی خوبصورت چیز ہے.مگر جب ہم اپنی غفلت اور نادانی کی وجہ سے اس کو چھانٹتے چلے جائیں تو وہ بے فائدہ اور لغو چیز بن جاتی ہے اور ایسی نماز کبھی با برکت نہیں ہو سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ لوگ نماز اس طرح پڑھتے ہیں.جس طرح مرغ ٹھونگے مار کر دانے چگتا ہے.ایسی نماز یقیناً کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی بلکہ بعض دفعہ ایسی نماز لعنت کا موجب بن جاتی ہے.الفضل 20 مئی 1939 ء جلد 27 نمبر 115 صفحہ 4 باطن ظاہر کے بغیر کوئی حقیقت نہیں رکھتا پس اپنے اندر عزم پیدا کرو اور ظواہر کو بھی قائم کرو.میں نے دیکھا ہے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باطن پر زیادہ زور دیا ہے.اس لیے ہماری جماعت میں ظاہر پر عمل کرنے کی عادت کم ہوتی جا رہی ہے.میں دیکھتا ہوں صحابہ جتنے روزے رکھتے تھے اتنے ہماری جماعت نہیں رکھتی.صحابہ جتنی نمازیں پڑھتے تھے وہ ہماری جماعت میں نہیں پائی جاتیں.ہمارے نو جوانوں میں تہجد اور نوافل پڑھنے کی عادت بہت ہی کم پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایسے نوجوان عام پائے جاتے تھے جو تہجد اور نوافل با قاعدہ پڑھتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ آجکل لوگ عموماً یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اصل چیز تو دل کی محبت ہے.باقی سب چیزیں ظاہری ہیں جن کی خاص ضرورت نہیں.روحانیت کی مثال دودھ کی سی ہے.کیا دودھ بغیر پیالے کے رہ سکتا ہے؟ پیالہ ہوگا تو دودھ باقی رہے گا.اسی طرح بے شک باطن ہی اصل چیز ہے لیکن وہ ظاہر کے بغیر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.
تذکار مهدی ) 195 روایات سیّد نا محمود ہمیں سوچنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کا باطن خدا تعالیٰ کی محبت سے معمور تھا کیا انہوں نے نمازوں میں کمی کر دی تھی؟ آپ کی نمازوں کے متعلق تو آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ نماز پڑھتے پڑھتے اُن کے پاؤں سوج جاتے ہیں تو آپ نے عرض کی يَا رَسُولَ اللہ ! آپ اتنی لمبی نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟ کیا خدا تعالیٰ نے آپ سے وعدہ نہیں کیا کہ اس نے آپ کے سب گناہ معاف کر دیئے ہیں؟ آپ نے فرمایا افلا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا.عائشہ ! اگر خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے تو کیا میرا فرض نہیں کہ میں اس کا اور زیادہ شکر یہ ادا کروں ؟ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم با وجود اپنے عظیم الشان مرتبہ کے پھر بھی نماز پڑھتے ہیں، فرض پڑھتے ہیں، سنتیں پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی نوافل اور ذکر الہی سب جاری رکھتے ہیں تو ہمارا یہ خیال کر لینا کہ ہم ان کے بغیر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لیں گے کس طرح صحیح ہو سکتا ہے.جو چیزیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کے لیے ضروری ہیں وہ چیزیں اُن سے کہیں زیادہ ہمارے لیے ضروری ہیں.رسول کریم ﷺ کا دل روحانیت سے معمور تھا.خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بلند مرتبہ حاصل تھا.اگر آپ کو باوجودان باتوں کے ظاہری عبادتوں کی ضرورت تھی تو ہمارے لیے تو ان کی بہت زیادہ ضرورت ہے.ہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم صرف چھلکے کو ہی کافی نہ سمجھ لیں کیونکہ کسی کام کو صرف ظاہری طور پر کر لینا اور باطن کا خیال نہ رکھنا بے فائدہ ہوتا ہے.مثلاً نماز ہے.نماز صرف ظاہری طور پر پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ دل بھی اس میں شامل ہو.صرف سراٹھانا اور گرا لینا کوئی فائدہ نہیں الفضل 20 جولائی 1949ء جلد 3 نمبر 166 صفحہ 4) دے سکتا.سورۃ فاتحہ بہترین دعاؤں میں سے ہے سورۃ فاتحہ اسلام کی بہترین دعاؤں میں سے ایک دعا ہے جس کی قرآن کریم میں خاص طور پر تعریف آئی ہے.چنانچہ اس کا ایک نام سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِي ( الحجر : 88) بھی رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں.جو بار بار دوہرائی جاتی ہیں.مثانی کے معنی اعلیٰ کے بھی ہوتے ہیں اور مثانی کے معنی وادی کے موڑ کے بھی ہوتے ہیں.گویا یہ سورۃ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف موڑ کر لے جانے والی ہے اور پھر بار بار دوہرائی بھی جاتی ہے.چنانچہ تہجد کو ملا کر روزانہ چھ نمازوں میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے.اگر نوافل کو شامل نہ کیا جائے تو صرف
تذکار مهدی ) 196 روایات سید نا محمود ظہر کی نماز میں 8 بار سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے کیونکہ دوسنتیں پہلے پڑھی جاتی ہیں.پھر چار فرض پڑھے جاتے ہیں اور پھر دوسنتیں پڑھی جاتی ہیں.گو فرض نماز سے پہلے چار سنتیں بھی پڑھ لی جاتی ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ دوسنتیں ہی پڑھا کرتے تھے.پس آٹھ رکعتیں ظہر کی ہوئیں.اس کے بعد عصر کی چار رکعتیں ہیں.مغرب کی پانچ رکعتیں ہیں.عشاء کی چھ رکعتیں اور تین وتر ہیں اور آٹھ رکعتیں نماز تہجد کی ہیں.یہ کل 34 رکعات بنتی ہیں جن میں سورۃ فاتحہ روزانہ پڑھی جاتی ہیں.گویا اس سورۃ کی عظمت اس بات سے ظاہر ہے کہ مسلمان اسے روزانہ 34 بار پڑھتا ہے.(الفضل 11 جنوری 1959 ءجلد 48/13 نمبر 10 صفحہ 2) السلام علیکم کرنے میں پہل ناظر کو اگر کسی نے سلام نہیں کہا تھا تو بجائے اس کے کہ اس پر اعتراض کرتا اسے چاہئے تھا کہ خود سلام کہنے میں پہل کرتا کیونکہ سلام کرنے کا حکم دونوں کے لئے یکساں ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شعر سنا ہوا ہے کہ وہ نہ آئے تو تو ہی چل اے میر تیری کیا اس میں شان گھٹتی ہے اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حکم ایک بھائی نہیں مانتا تو کیوں نہ ہم خود اس پر عمل کر لیں.پس اگر شکایت درست ہے تو یہ فعل عقل کے خلاف اور اخلاق سے گرا ہوا ہے یہ کہیں حکم نہیں کہ سلام صرف چھوٹا کرے بڑا نہ کرے.اگر ماتحت نے نہیں کیا تو افسر خود پہلے کر دے.میرا اپنا یہ طریق ہے کہ جب خیال ہوتا ہے تو میں خود پہلے سلام کہہ دیتا ہوں.بعض دفعہ خیال نہیں ہوتا تو دوسرا کر دیتا ہے.ایسی باتوں میں ناظروں کو اعتراض کرنے کی بجائے خود نمونہ بننا چاہئے.خطبات محمود جلد 22 صفحہ 173) چھوٹی سی نیکی سے برکتیں ہمارا یہ زمانہ بھی وہی ہے جبکہ روحانی ترقی کی طرف قدم اٹھانے والا بہاؤ کی طرف تیرنے والے کا حکم رکھتا ہے کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ خاص طور پر روحانی حکومت قائم کی جائے اسی روحانی حکومت کے قیام کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنا مامور بھیجا ہے.اتنے لمبے
تذکار مهدی ) 197 روایات سید نا محمود انتظار کے بعد کہ دنیا اس کا انتظار کرتے کرتے تھک گئی تھی.رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا کہ اب مسیح آتا ہے، اب مسیح آتا ہے.جب بھی ان پر کوئی بلا آئی انہوں نے سمجھا کہ اس کو دور کرنے کے لئے مہدی اور مسیح آئے گا.جب بھی وہ کسی مصیبت میں پھنسے ان کی نظریں اس امید کے ساتھ آسمان کی طرف اٹھیں کہ شاید ہمیں اس مصیبت سے نکالنے کے لئے مسیح آجائے لیکن خدا نے اس نعمت کو تمہارے زمانہ کے لئے مقدر کیا ہوا تھا.پس یہ کتنا عظیم الشان فضل ہے کہ بغیر اس کے کہ ہماری طرف سے کوئی کوشش ہو بغیر اس کے کہ ہمارا کوئی استحقاق ہو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کو ہم میں نازل کیا جس طرح تمام دنیا محمد ﷺ کی آمد کی منتظر تھی مگر اس شدید انتظار کے بعد عرب کے لوگوں کو یہ نعمت عطا کی گئی اور یہودی اس حسد کی وجہ سے جل اٹھے کہ یہ نعمت انہیں کیوں ملی ہمیں کیوں نہیں ملی.حالانکہ یہ خدا کی دین تھی اور وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے فضل نے ہم میں وہ شخص بھیجا جس کے زمانہ کا انبیاء تک شوق سے انتظار کرتے چلے آئے تھے.دوسروں کا کیا کہنا ہے خود رسول کریم علی کے شوق کو دیکھو.آپ فرماتے ہیں.اگر تمہیں مہدی کے مبعوث ہونے کی خبر ملے تو اس کے پاس اگر تمہیں گھٹنوں کے بل چل کر بھی جانا پڑے تو جاؤ اور اس کی بیعت کرو.پھر آپ نے فرمایا.اگر تمہیں مسیح مل جائے تو میرا بھی اس سے سلام کہنا.اس خادم کی کیا شان ہے جس کو سلام کہنے کا آقا اتنا مشتاق ہے کہ وہ لوگوں سے کہتا ہے میرا سلام یا درکھنا اور اسے بھول نہ جانا.پھر سوچو.جس شخص کو سلام کہنے کا محمد ﷺ کو اس قدر اشتیاق تھا اُس کی امت کے دلوں میں اس کے متعلق کتنا بڑا اشتیاق پیدا ہونا چاہئے تھا اور اس نعمت کے ملنے پر انہیں کتنا خوش ہونا چاہئے تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ کوئی شخص باہر سے آیا.غالبا وہ گجرات کے ضلع کا رہنے والا تھا یا کسی اور ضلع کا مجھے اچھی طرح یاد نہیں.بہر حال وہ آیا اور اس نے بڑے شوق سے آگے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کہا اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ اور آپ سے مصافحہ کیا.تھوڑی دیر کے بعد اس نے پھر اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا السَّلَامُ عَلَيْكُمُ.لوگوں کو حیرت ہوئی کہ یہ کیسا عجیب انسان ہے اس نے جب پہلی دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہ دیا تھا تو اب دوبارہ اسے سلام کہنے کی کیا ضرورت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اس پر حیران سے ہوئے اور آپ نے اس سے پوچھا کہ جب آپ ایک دفعہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہہ چکے تھے تو اب دوبارہ
تذکار مهدی ) 198 نامحمودی روایات سیّد نا محمود آپ نے کیوں سلام کیا ہے؟ وہ کہنے لگا.حضور پہلا سلام حضرت محمد ﷺ کی طرف سے تھا کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ جب تم مسیح سے ملو تو اسے میر اسلام کہہ دینا.پس میں نے پہلی دفعہ سول کریم وہ کا سلام آپ کو پہنچایا اور دوسری مرتبہ میں نے اپنی طرف سے آپ کو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا ہے.میں نہیں جانتا کہ اس شخص کا کیا نام تھا.میں اس وقت بچہ تھا جب یہ واقعہ ہوا.مگر میں جانتا ہوں کہ اس سادہ سے فعل سے اس نے اپنے لئے بہت بڑی برکتیں جمع کر لیں کیونکہ بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے ثواب کا موجب بن جاتی ہے اور بعض دفعہ چھوٹی سی بات بڑے بڑے عذاب کا موجب بن جاتی ہے.مخالفت کا جوش ( الفضل 7 دسمبر 1941 ء جلد 29 نمبر 278 صفحہ 5 اکتوبر 1897ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا.وہاں شہادت دے کر جب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر بُرے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے.میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گذرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں ، سیٹیاں بجاتے ہیں؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈا شخص جس کا ایک پہونچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا باندھا ہوا تھا نہیں معلوم کہ ہاتھ کٹنے کا ہی زخم باقی تھا.یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالبا مسجد وزیر خاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہو ا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ”ہائے! ہائے مر زانٹھ گیا." ( یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا ) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران تھا.خصوصاً اس شخص پر اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر اس شخص کو دیکھتا رہا.لاہور سے حضرت صاحب سید ھے قادیان تشریف لے آئے.سیرت مسیح موعود علیہ السلام.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 360)
تذکار مهدی ) حضرت مسیح موعود کا سفر ملتان 199 روایات سید نا محمود یہ بات انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ اپنے اندر بہادری کی روح رکھتا ہے.بیشک کچھ لوگ بزدل بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر لوگ اپنے اندر بہادری رکھتے ہیں.جب انہیں مار پیٹ شروع ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں اچھا جو تمہاری مرضی ہے کر لو ہم اپنے مذہب کو چھوڑنے کے لیے ہرگز تیار نہیں اور اس طرح وہ اپنے ایمانوں میں پہلے سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں.پس مخالفت کی شدت کی وجہ سے بھی ایمان مضبوط ہوتے ہیں.لیکن اب احمدیت کو قائم ہوئے اتنا لمبا عرصہ گزر چکا ہے کہ گو ہم یہ جانتے ہیں کہ اندرونی طور پر لوگوں کے دلوں میں احمدیت کی نسبت بغض پایا جاتا ہے مگر وہ نظارہ جو پہلے نظر آتا تھا کہ احمدیوں پر تالیاں پٹ رہی ہیں، گالیاں دی جا رہی ہیں، پتھر پھینکے جارہے ہیں وہ نظارہ اب نظر نہیں آتا.یہی لاہور جس میں ظاہری طور پر احمدیت کی کسی قسم کی مخالفت نظر نہیں آتی کو باطنی طور پر مخالفت موجود ہے بلکہ پہلے سے بھی بڑھی ہوئی ہے اسی لاہور میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پتھر پڑتے دیکھے ہیں.اسی لاہور میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگوں کو ہنسی مذاق کرتے اور گالیاں دیتے دیکھا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ملتان تشریف لے گئے تو میں بھی آپ کے ساتھ گیا.مجھے ملتان کی تو کوئی بات یاد نہیں.لیکن واپسی پر جب آپ لاہور ٹھہرے تو اُس وقت کا نظارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.میری عمر اُس وقت آٹھ نو سال یا اس سے بھی کچھ کم تھی.ملتان سے واپسی پر آپ ایک دن کے لیے یہاں ٹھہرے.اُن دنوں میاں فیملی کا گھر فصیل سے باہر نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ وہ غالباً واٹر ورکس کے مقابل پر شہر کے اندرون کے حصہ میں رہا کرتے تھے.اُس روز میاں فیملی میں سے کسی دوست نے میاں چراغ دین صاحب یا میاں معراج دین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعوت کی.سنہری مسجد کے پاس اُن کے مکان کو رستہ جاتا تھا.اُس وقت لاہور کی حالت موجودہ حالت سے بالکل مختلف تھی.اب تو لنڈا بازار اور بیرون دتی دروازہ سب آباد نظر آتا ہے لیکن اُن دنوں یہ سب غیر آباد علاقہ تھا.صرف لنڈے بازار میں چند دکانیں تھیں مگر وہ بھی بہت معمولی سی.باقی سارا علاقہ خالی اور غیر آباد پڑا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس جگہ سے
تذکار مهدی ) 200 روایات سید نا محمودی واپس تشریف لا رہے تھے تو سنہری مسجد یا وزیر خان کی مسجد ( یہ مجھے یاد نہیں رہا) ان دونوں میں سے کسی ایک مسجد کے قریب بہت سے لوگ جمع تھے.انہیں یہ پتا لگ چکا تھا کہ مرزا صاحب اس طرف گئے ہیں اور تھوڑی دیر میں ہی وہ واپس آنے والے ہیں.اُن دنوں سواری کے لیے شکر میں ہوا کرتی تھیں.یہ ایک چار پیسے کی گاڑی ہوا کرتی تھی جس پر لکڑی کا ایک کمرہ سا بنا ہوا ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی شکرم میں بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ شکر میں آپ کے آگے پیچھے تھیں.میں بھی اُس شکرم میں تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف رکھتے تھے.جس وقت گاڑی وہاں پہنچی لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا.میں سمجھتا ہوں غالباً مولویوں نے چیلنج دیا ہو گا کہ مرزا صاحب یہاں آئے ہیں تو ہم سے مباحثہ کر لیں.وہ جانتے تھے کہ اس بے موقع آواز کا جواب چونکہ یہی ہوگا کہ ہم مباحثہ نہیں کر سکتے اس لیے ہم لوگوں میں شور مچا دیں گے کہ مرزا صاحب ہار گئے.چنانچہ یہی ہوا.جب آپ کی شکرم وہاں پہنچی تو لوگوں نے آوازے کسے اور یہ کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب ہار گئے.غالباً انہوں نے یہی کہا ہوگا کہ ہم سے مباحثہ کر لیں اور چونکہ مباحثہ کا یہ کوئی طریق نہیں ہوتا کہ جہاں کوئی شخص مباحثہ کے لیے کہے وہیں اُس سے مباحثہ شروع کر دیا جائے اسی لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انکار کیا ہو گا اور انہوں نے یہ سوچا ہوگا کہ جب گاڑیاں یہاں سے گزریں گی ہم شور مچا دیں گے کہ مرزا صاحب بھاگ گئے ہیں.اس مسجد کے آگے اونچی سیٹرھیاں ہیں.سات آٹھ سیڑھیاں چڑھ کر مسجد کا دروازہ آتا ہے.ان سیڑھیوں پر بہت سا ہجوم تھا.جو لوگ لاہور کے واقف ہیں وہ شاید سیڑھیوں کے ذکر سے سمجھ جائیں کہ یہ کونسی مسجد ہے سنہری مسجد یا وزیر خاں کی مسجد.“ اسی موقع پر بعض دوستوں نے عرض کیا کہ ایسی سیٹرھیاں سنہری مسجد کے آگے ہیں.سینکڑوں لوگوں کا ہجوم وہاں جمع تھا اور یہ شور مچا رہا تھا کہ مرزا ہار گیا مرزا دوڑ گیا.اس طرح کوئی ہو ہو کر رہا تھا کوئی تالیاں پیٹ رہا تھا، کوئی گالیاں دے رہا تھا بلکہ بعض نے کنکر مارنے بھی شروع کر دیئے.اس ہجوم سے آگے ذرا فاصلے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دتی دروازہ کے باہر کیونکہ میرے ذہن پر یہی اثر ہے کہ جس جگہ کا یہ واقعہ ہے وہاں جگہ خالی تھی اور عمارتیں تھوڑی سی تھیں میں نے دیکھا کہ ایک شخص ممبر پر یا درخت کی ایک ٹہنی پر بیٹھا ہے.اُس کا ہاتھ
تذکار مهدی ) 201 روایات سید نامحمود کٹا ہوا ہے اور زرد زرد پٹیاں اُس نے باندھی ہوئی ہیں.ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے اسے کوئی زخم ہے اور اس نے ہلدی اور تیل وغیرہ ملا کر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں.مجھے خوب یاد ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے گزرے تو وہ اپنائنڈ دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا تھا کہ مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.بچپن کے لحاظ سے مجھے یہ ایک عجیب بات معلوم ہوئی کہ اس کا ایک ہاتھ ہے نہیں صرف ٹنڈ ہی ٹھنڈ ہے مگر یہ اپنائنڈ مار مار کر بھی یہی کہہ رہا ہے کہ مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.ایک اور مولوی ہوا کرتا تھا جو ٹاہلی والا مولوی“ کہلاتا تھا.اُس کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ درخت پر بیٹھ کر گالیاں دیا کرتا تھا.غرض لاہور میں یا تو مخالفت کی یہ حالت ہوا کرتی تھی اور یا آب اندرونی طور پر چاہے کیسی ہی مخالفت ہو ہم ان کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ ادب سے سلام بھی کرتے ہیں اور ہماری باتوں کی طرف متوجہ بھی ہوتے ہیں.کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے خطبات محمود جلد 30 صفحہ 303 تا 306 ) | ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مردم شماری کرائی تو ان کی تعداد سات سو تھی.صحابہ نے خیال کیا کہ شاید آپ نے اس واسطے مردم شماری کرائی ہے کہ آپ کو خیال ہے کہ دشمن ہمیں تباہ نہ کر دے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا اب بھی یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی ہمیں تباہ کر سکے گا.یہ کیا شاندار ایمان تھا کہ وہ سات سو ہوتے ہوئے یہ خیال تک بھی نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن انہیں تباہ کر سکے گا مگر آج صرف ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں مگر حالت یہ ہے کہ جس سے بھی بات کرو اندر سے کھوکھلا معلوم ہوتا ہے اور سب ڈر رہے ہیں کہ معلوم نہیں کیا ہو جائے گا.گجا تو سات سو میں اتنی جرات تھی اور گجا آج سات کروڑ بلکہ دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان ہیں مگر سب ڈر رہے ہیں اور یہ ایمان کی کمی کی وجہ سے ہے جس کے اندر ایمان ہوتا ہے وہ کسی سے ڈر نہیں سکتا.ایمان کی طاقت بہت بڑی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے ایک دفعہ آپ گورداسپور میں تھے میں وہاں تو تھا مگر اس مجلس میں نہ تھا جس میں یہ واقعہ ہوا.مجھے ایک دوست نے جو اس مجلس میں تھے سنایا کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور بعض دوسرے احمدی
تذکار مهدی ) 202 روایات سیّد نا محمود بہت گھبرائے ہوئے آئے اور کہا کہ فلاں مجسٹریٹ جس کے پاس مقدمہ ہے لاہور گیا تھا آریوں نے اُس پر بہت زور دیا کہ مرزا صاحب ہمارے مذہب کے سخت مخالف ہیں ان کو ضرور سزا دے دو خواہ ایک ہی دن کی کیوں نہ ہو، یہ تمہاری قومی خدمت ہوگی اور وہ ان سے وعدہ کر کے آیا ہے کہ میں ضرور سزا دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ بات سنی تو آپ لیٹے ہوئے تھے یہ سن کر آپ کہنی کے بل ایک پہلو پر ہو گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.کیا کوئی خدا تعالیٰ کے شیر پر بھی ہاتھ ڈال سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مجسٹریٹ کو یہ سزا دی کہ پہلے تو اُس کا گورداسپور سے تبادلہ ہو گیا اور پھر اُس کا ننز ل ہو گیا یعنی وہ ای اے سی سے منصف بنا دیا گیا اور فیصلہ دوسرے مجسٹریٹ نے آ کر کیا تو ایمان کی طاقت بڑی زبردست ہوتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.پس جماعت میں نئے لوگوں کے شامل ہونے کا اس صورت میں فائدہ ہو سکتا ہے کہ شامل ہونے والوں کے اندر ایمان اور اخلاص ہو.صرف تعداد میں اضافہ کوئی خوشی کی بات نہیں.اگر کسی کے گھر میں دس سیر دودھ ہو تو اس میں دس سیر پانی ملا کر وہ خوش نہیں ہو سکتا کہ اب اُس کا دودھ میں سیر ہو گیا ہے خوشی کی بات یہی ہے کہ دودھ ہی بڑھایا جائے اور دودھ بڑھانے میں ہی فائدہ ہوسکتا ہے.بعض اہم اور ضروری امور ، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 293 294) ہند و مجسٹریٹ کا انجام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر 1902ء میں مخالفین کی طرف سے ایک کیس چلایا گیا اور جس مجسٹریٹ کے سامنے یہ کیس پیش تھا وہ آریہ تھا.اسے لا ہور بلا کر آریہ لیڈروں نے قسم دلائی کہ اس مقدمہ میں مرزا صاحب سے پنڈت لیکھرام کا بدلہ ضرور لینا ہے اور اس نے اپنے لیڈروں کے سامنے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب کو رپورٹ پہنچی کہ اس اس طرح مجسٹریٹ کو لاہور بلا کر قسم کھلائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف رکھتے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب نے آپ سے کہا کہ کسی نہ کسی طرح اس مقدمہ میں صلح کر لی جائے کیونکہ یہ پکی بات ہے کہ مجسٹریٹ کو لاہور بلا کر اس سے یہ وعدہ لیا گیا ہے کہ وہ ضرور سزا دے اور اس نے سزا دینے کا وعدہ کر لیا ہے.
تذکار مهدی ) 6203 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب کی یہ عادت تھی کہ وہ بات لمبی کرتے تھے.انہوں نے کہا.حضور مجسٹریٹ ضرور قید کر دے گا اور سزا دے دے گا.بہتر ہے فریق ثانی سے صلح کر لی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہنیوں پر سہارا لے کر بیٹھ گئے اور فرمایا.خواجہ صاحب! خدا تعالیٰ کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان بات ہے میں خدا تعالیٰ کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.چنانچہ ایسا ہی ہو ا.دو مجسٹریٹوں میں سے جو اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے کے لئے مقرر تھے.ایک کا لڑکا پاگل ہو گیا.اس کی بیوی نے اسے لکھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ کا ماً مور تو نہیں مانتی تھی) کہ تم نے ایک مسلمان فقیر کی ہتک کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ایک لڑکا پاگل ہو گیا ہے.اب دوسرے کیلئے ہوشیار ہو جاؤ.وہ تعلیم یافتہ تھا اور ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتا تھا اس نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا دوسرا لڑکا دریا میں ڈوب کر مر گیا.وہ دریائے راوی پر گیا وہاں نہا رہا تھا کہ مگر مچھ نے اس کی ٹانگ پکڑ لی اس طرح وہ بھی ختم ہو گیا.وہ مجسٹریٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قدر تنگ کیا کرتا تھا کہ مقدمہ کے دوران میں سارا وقت آپ کو کھڑا رکھتا اگر پانی کی ضرورت محسوس ہوتی تو پینے کی اجازت نہ دیتا.ایک دفعہ خواجہ صاحب نے پانی پینے کی اجازت بھی مانگی مگر اس نے اجازت نہ دی.بعد میں اس کی یہ حالت ہوئی کہ اس نے خود مجھے سے دعا کے لئے درخواست کی.میری عمر چھوٹی تھی کوئی بیس بائیس سال کی ہوگی.میں کہیں جانے کے لئے اسٹیشن پر کھڑا تھا کہ وہ میرے پاس آیا اور ایک گھنٹہ میرے پاس کھڑا رہا اور اس نے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کریں کہ کسی طرح یہ عذاب مجھ سے دور ہو جائے.دوسرے مجسٹریٹ نے بظا ہر آپ کو مقدمہ میں کوئی تکلیف نہیں دی لیکن آخر میں آپ کو جرمانہ کی سزا دے دی.وہ بھی ذلیل وخوار ہوا اور ملازمت سے الگ کر دیا گیا.نشان صداقت خطبات محمود جلد اوّل صفحہ 429-428) یہ سب لوگ خدا تعالیٰ کا قرب پا کر آیاتِ مُبَيِّنَاتُ کا مقام حاصل کر گئے اور ان میں ہر شخص کو دیکھ کر لوگ اپنا ایمان تازہ کرتے تھے.پھر جب اُن کا نور دھندلا ہوا تو خدا تعالیٰ نے
تذکار مهدی ) 204 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے اندر پیدا کیا اور آپ کا وجود ہمارے لئے آیات مہینات بن گیا.جو شخص بھی آپ کے پاس بیٹھا اُس کو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی نظر آگئی اور کوئی چیز اس کو اسلام سے ہٹانے والی نہ رہی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جب کرم دین بھتیں والا مقدمہ ہوا تو مجسٹریٹ ہندو تھا آریوں نے اسے ورغلایا اور کہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور کچھ نہ کچھ سزا دے اور اُس نے ایسا کرنے کا وعدہ بھی کر لیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ بات سنی تو ڈر گئے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں گورداسپور حاضر ہوئے جہاں مقدمہ کے دوران میں آپ ٹھہرے ہوئے تھے اور کہنے لگے حضور بڑے فکر کی بات ہے.آریوں نے مجسٹریٹ سے کچھ نہ کچھ سزا دینے کا وعدہ لے لیا ہے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے آپ فوراً اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا.خواجہ صاحب خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے؟ میں خدا کا شیر ہوں وہ مجھ پر ہاتھ ڈال کر تو دیکھے.“ چنانچہ ایسا ہی ہوا.دو مجسٹریٹ تھے جن کی عدالت میں یکے بعد دیگرے یہ مقدمہ پیش ہوا اور ان دونوں کو بڑی سخت سزا ملی ان میں سے ایک تو معطل ہوا اور ایک کا بیٹا دریا میں ڈوب کر مر گیا اور وہ اس غم میں نیم پاگل ہو گیا.اس پر اس واقعہ کا اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ میں دہلی جا رہا تھا کہ وہ لدھیانہ کے سٹیشن پر مجھے ملا اور بڑے الحاح سے کہنے لگا کہ دُعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے صبر کی توفیق دے مجھ سے بڑی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں اور میری حالت ایسی ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ میں کہیں پاگل نہ ہو جاؤں.اب میرا ایک اور بیٹا ہے دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے اور مجھے دونوں کو تباہی سے بچائے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ بات پوری ہوئی کہ خدا تعالیٰ کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے اور آریوں کو اُن کے مقصد میں ناکامی ہوئی.یہ آیات بینات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اپنے انبیاء کی سچائی ظاہر کرتا رہتا ہے.خطرہ کی افواہیں بہت برا اثر ڈالتیں ہیں ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 360-359) ایک دفعہ میں پاخانہ کے لئے بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ میری دونوں رانوں کے بیچ میں سے سانپ نے پھن نکالی مگر میں بالکل نہ گھبرایا اور میں نے سوچا کہ اگر اب میں نے حرکت کی تو ممکن ہے یہ کاٹ لے اس لئے اسی طرح بیٹھا رہا اور سانپ آرام سے پاٹ میں سے نکلا اور چکر
تذکار مهدی ) 205 روایات سید نا محمود کاٹ کر پاخانہ میں سے باہر چلا گیا.تو میں نے سانپ کو اس قدر قریب سے دیکھا اور وہ میرے ننگے جسم سے قریباً چھوتا ہوا گزرا مگر میرے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی.لیکن ڈلہوزی میں سانپ کی آواز آئی اور ہم سب اس سے مرعوب ہو گئے.پس خطرہ کی افواہیں بہت بُرا اثر ڈالتی ہیں بلکہ افواہیں خود جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں.کسی جگہ بموں کا پڑنا اتنا خطرناک نہیں ہوتا جتنا یہ شور پڑ جانا کہ ہم پڑ رہے ہیں.غلط افواہیں قوموں میں بزدلی پیدا کر دیتی ہیں پس انگریزوں کے لئے نہیں بلکہ اپنی بہادری اور جرات کو قائم رکھنے کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ غلط افواہوں کو پھیلنے سے روکا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے.مجھے ایک دوست جو فوج میں لیفٹیننٹ ہیں ملنے آئے اور کہا کہ مجھے کوئی نصیحت کریں.میں نے ان سے کہا کہ آپ ہمیشہ اپنے ماتحتوں کے حوصلوں کو قائم رکھیں اور اگر کریٹ وغیرہ کو شکست کی وجہ سے سپاہیوں میں گھبراہٹ پیدا ہو تو بے شک ان کا دل بڑھانے کے لئے کہہ دیا کریں کہ یہ انگریز لڑنا کیا جانیں یہ تو ناز و نعم میں پلنے والے لوگ ہیں یہ دشمن کو کیا شکست دیں گے ہاں ہم اسے ضرور شکست دیں گے.ہم مضبوط اور جفا کش لوگ ہیں جب ہم سے مقابلہ کا وقت آیا تو ہم ضرور دشمن کو شکست دیں گے.تو جنگ میں غلط افواہیں بہت زیادہ خطر ناک ہوتی ہیں اور ان کا مقابلہ ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ رستم کے گھر میں چور آ گیا.رستم بے شک بہت بہادر تھا مگر اس کی شہرت فنونِ جنگ میں تھی ضروری نہ تھا کہ کشتی کے فن میں بھی ہر ایک سے بڑھ کر ہو.چور کشتی لڑنا جانتا تھا اور اس نے رستم کو نیچے گرا دیا.جب رستم نے دیکھا کہ اب تو میں مارا جاؤں گا تو اُس نے کہا آ گیا رستم.چور نے جب یہ آواز سنی تو وہ فوراً اُسے چھوڑ کر بھاگا.غرض چور رستم کے ساتھ تو لڑتا رہا بلکہ اُسے نیچے گرا لیا مگر رستم کے نام سے ڈر کر بھاگا.کسی آدمی کے گھر کو آگ لگی ہو تو اُس پر اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا یہ خبر سن کر کہ اُس کے گھر کو آگ لگی ہے.ہند و مجسٹریٹ کا انجام بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 276-277) توپ کی طرح دعا بھی بہت دور تک گولہ پھینکتی ہے اور ہمارے سامنے تو قبولیت دعا کے ایسے ایسے نمونے ہیں کہ ہم اس کی طاقت کا انکار نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) 206 روایات سید نا محمود کو گورداسپور کے ایک ہندو مجسٹریٹ آتما رام نے سزا دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کی موت کی خبر آپ کو دی.چنانچہ ہمیں دن میں دولڑ کے اس کے مر گئے.ایک لڑکا جو لاہور کے گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا ڈوب کر مر گیا.بیس بائیس سال ہوئے میں گاڑی میں جارہا تھا کہ لدھیانہ کے ٹیشن پر وہ مجھے ملا اور کہا کہ لوگوں نے یونہی مرزا صاحب کو مجھ سے ناراض کر دیا اور مجھ سے کہا کہ آپ دعا کریں.اس کے دونو جوان لڑکے مر گئے اور اس کی بیوی ہمیشہ اُسے یہی کہتی کہ یہ لڑکے تو نے ہی مارے ہیں.تو یہ تو ہیں ہیں جو اللہ تعالیٰ چلاتا ہے دوسری توپ تو ساٹھ ستر میل تک ہی مار کرتی ہے اور اس کے گولے خطا بھی جاتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی توپ کا گولہ بہت دور تک مار کرتا ہے اور کبھی خطا نہیں جاتا.دیکھو! اللہ تعالیٰ کی توپ کا گولہ گورداسپور سے لاہور پہنچا جو قریباً اسی میل کا فاصلہ ہے اور وہاں بھی اس نے گورنمنٹ کالج کی عمارت کو چنا اور اس میں جا کر عین اسی لڑکے پر گرا جس پر وہ پھینکا گیا تھا اور اسے ہلاک کر دیا.تو دعا کی توپ کا گولہ بھی خطا نہیں جاتا اور اگر اس کے باوجود ہم ستی کریں تو یہ بہت افسوس کی بات ہوگی.دعا کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جب انسان دعا کرتا ہے تو اُس کے دل میں یقین بڑھتا ہے یہ ایک طبعی فائدہ ہے جو دعا سے حاصل ہوتا ہے.جب ایک انسان کہتا ہے کہ خدایا! میری مدد کر تو اُس کے دل میں ایک یقین پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ میری مدد کر سکتا ہے اور اس طرح تو کل بڑھتا ہے اور وہ ایسے ایسے کام کر سکتا ہے جو دوسرا کوئی نہیں کر سکتا اور یہ طبعی فائدہ دعا کا ہوتا ہے.( بعض اہم اور ضروری امور، انوارالعلوم جلد 16 صفحہ 279-278) مقدمہ کرم دین (ازالہ حیثیت عرفی ) 1902ء کے آخر میں حضرت مسیح موعوڈ پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے.یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لئے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا.جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اترے ہیں
تذکار مهدی ) 207 روایات سید نا محمود اس وقت وہاں اس قدر نبوہ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ اسٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیڑ تھی کہ گاڑی کا گزرنا مشکل ہو گیا تھا.حتی کہ افسران ضلع کو انتظام کے لئے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس اسپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے.آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجوم خلائق کے سبب رستہ نہ ملتا تھا.اہل شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لئے آئے تھے.قریباً ایک ہزار آدمی نے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لئے گئے تو اس قدر مخلوق کا رروائی مقدمہ سننے کے لئے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.دُور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے.پہلی ہی پیشی میں آپ بڑی کئے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے.(سیرت حضرت مسیح موعود.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 366) جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا 1903ء سے آپ کی ترقی حیرت انگیز طریق سے شروع ہوگئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے.ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور پنجاب سے نکل کر دوسرے صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا (سیرت حضرت مسیح موعود انوار العلوم جلد 3 صفحہ 266 ) شروع ہو گیا.مخالفین کا انجام حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لائے تھے تو لکھنو کا ایک مولوی ایک دن آپ کے مکان پر آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت کھانا کھا رہے تھے.خادم نے کہا آپ ٹھہرئیے حضرت صاحب کھانا کھا رہے ہیں اس مولوی نے کہا نہیں انہیں کہو کہ ایک پولیس آفیسر باہر کھڑا ہے اور وہ ابھی بلاتا ہے.حضرت صاحب نے یہ سُن لیا اور خود ہی باہر تشریف لے آئے.اتفاق سے اس وقت آپ کا پاؤں ایک مقام پر پھسل گیا اس پر اُس نے تمسخر کیا کہ اچھے مسیح ہیں کہ پولیس آفیسر کے ڈر سے پاؤں پھسل گیا لیکن ابھی تین دن بھی نہیں گذرے تھے
تذکار مهدی ) Ⓒ 208 → نامحمودی روایات سیّد نا محمود کہ وہ خود چھت کے زینہ سے گر کر مر گیا اور خدا نے اسے بتادیا کہ خدا کے انبیاء کے ساتھ تمسخر کا کیا نتیجہ ہوتا ہے، بہت سے لوگ ایسے تھے جو کہتے تھے مرزا صاحب کو کوڑھ ہو جائے گا خدا نے انہیں ہی کوڑھ میں مبتلاء کر دیا بہت کہتے تھے مرزا صاحب کو طاعون ہو جائے گا خدا نے کہنے والوں کو طاعون سے ہلاک کیا، جب ہزاروں مثالیں اسی قسم کی موجود ہیں تو ہم کہاں تک انہیں اتفاق پر محمول کریں پس اپنے اندر ایسی پاک تبدیلی پیدا کرو کہ دنیا اسے محسوس کرے تمہاری حالت یہ ہو کہ تمہارے تقویٰ و طہارت، تمہاری دعاؤں کی قبولیت اور تمہارے تعلق باللہ کو دیکھ کر لوگ اس طرف کھنچے چلے آویں.یادرکھو کہ احمدیت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے ذریعہ سے ہوگی اور اگر آپ لوگ اس مقام پر یا اس کے قریب تک ہی پہنچ جائیں تو پھر اگر آپ باہر بھی قدم نہ نکالیں گے بلکہ کسی پوشیدہ گوشہ میں بھی جا بیٹھیں گے تو وہاں بھی لوگ آپ کے گرد جمع ہو جائیں گے.(جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 86) مولوی عبد الکریم افغان کو گستاخی کی سزا میں ایک دفعہ لکھنو گیا وہاں ندوہ میں ایک مولوی عبد الکریم صاحب افغان تھے انہوں نے ہمارے خلاف جلسے کئے اور ایک جلسہ میں کہا کہ مرزا صاحب نبی بنے پھرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ مجھے مرزا حیرت دہلوی نے سنایا کہ مرزا صاحب دلی میں آئے اور مجھے علم ہوا تو میں انسپکٹر پولیس بن کر اس مکان پر گیا.جہاں آپ ٹھہرے ہوئے تھے اور نوکر سے کہا کہ مرزا صاحب کو جلد اطلاع دو کہ پولیس افسر آیا ہے نوکر نے جا کر اطلاع دی اور مرزا صاحب گھبراہٹ میں جلدی جلدی نیچے اتر ہے اور آخری سیڑھی پر پہنچ کر ان کا پاؤں پھسل گیا اور گر پڑے یہ واقعہ سنا کر وہ مولوی خوب ہنسا کہ ایسا شخص بھی نبی ہو سکتا ہے اب یہ تمسخر تو ہے مگر کیا اتنا بڑا جو مولوی ثناء اللہ صاحب ہمیشہ کرتے ہیں؟ لیکن دیکھ لو مولوی ثناء اللہ صاحب کو تو اتنی لمبی ملی ہے اور مولوی عبد الکریم تیسرے ہی دن کو ٹھے سے گرا اور مرگیا بالکل اسی طرح جس طرح اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف غلط واقعہ منسوب کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اسے سزا دے دی.پس یہ تو ایسی بات ہے جو خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے اس کے نبی بھی کرتے رہے ہیں اور مجھے بھی کرنی پڑتی ہے بعض اوقات میں دیکھتا ہوں کہ ایک شخص ایسا بے حیا ہے کہ اس پر گرفت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کے برے نمونہ کا دوسروں پر بھی اثر نہیں ہوتا کیونکہ سب پر اس کی حالت عیاں ہوتی ہے
تذکار مهدی ) 209 سب جانتے ہیں کہ وہ بے حیا ہے اس لئے اسے چھوڑ بھی دیتا ہوں.گستاخی کی سزا روایات سید نا محمود ( خطبات محمود جلد 22 صفحہ 176-177 ) | ہم ایک دفعہ لکھنو گئے.وہاں ایک سرحدی مولوی عبدالکریم تھا جو ہماری جماعت کا شدید مخالف تھا.اُس نے ہمارے آنے کے بعد ایک تقریر کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک واقعہ کو اُس نے نہایت تحقیر کے طور پر بیان کیا.وہ واقعہ یہ تھا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دتی گئے وہاں ہمارے ایک رشتہ دار کے ماموں مرزا حیرت دہلوی تھے.انہیں ایک دن شرارت سوجھی اور وہ جعلی انسپکٹر پولیس بن کر آگئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ڈرانے کے لئے کہنے لگے کہ میں انسپکٹر پولیس ہوں اور مجھے حکومت کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں آپ کو نوٹس دوں کہ آپ یہاں سے فوراً چلے جائیں ورنہ آپ کو سخت نقصان ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس کی طرف توجہ نہ کی مگر جب بعض دوستوں نے تحقیق کرنی چاہی کہ یہ کون شخص ہے تو وہ وہاں سے بھاگ گئے.اس واقعہ کو مولوی عبدالکریم سرحدی نے اس رنگ میں بیان کیا کہ دیکھو وہ خدا کا نبی بنا پھرتا ہے مگر وہ دتی گیا تو مرزا حیرت انسپکٹر پولیس بن کر اُس کے پاس چلا گیا.وہ کوٹھے پر بیٹھا ہوا تھا.(حالانکہ یہ بات بالکل جھوٹ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نیچے دالان میں بیٹھے ہوئے تھے ) جب اُس نے سُنا کہ انسپکٹر پولیس آیا ہے تو وہ ایسا گھبرایا کہ سیڑھیوں سے اُترتے وقت اس کا پیر پھسلا اور وہ مونہہ کے بل زمین پر آ گرا.لوگوں نے یہ تقریر سن کر بڑے قہقہے لگائے اور ہنستے رہے.لیکن اُسی رات مولوی عبد الکریم کو خدا تعالیٰ نے پکڑ لیا.وہ اپنے مکان کی چھت پر سویا ہوا تھا کہ رات کو وہ کسی کام کے لئے اٹھا اور چونکہ اُس چھت کی کوئی منڈیر نہیں تھی اور نیند سے اُس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں اُس کا ایک پاؤں چھت سے باہر جا پڑا اور وہ دھڑم سے نیچے آ گرا اور گرتے ہی مر گیا.اب دیکھو اگر اُس کو غیب کا پردہ نہ ہونے کی صورت میں پتہ ہوتا کہ مجھے گستاخی کی یہ سزا ملے گی تو وہ بھی گستاخی نہ کرتا بلکہ آپ پر ایمان لے آتا گوالیا ایمان اُس کے کسی کام نہ آتا کیونکہ جب غیب ہی نہ رہا تو ایمان کا کیا فائدہ.ایمان تو وہی کارآمد ہو سکتا ہے جو غیب کی حالت میں ہو.ثواب یا عذاب سامنے نظر آنے پر تو ہر کوئی ایمان لاسکتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 23)
تذکار مهدی ) 210 روایات سید نا محمود عیسائیوں کا خدا مر گیا اس پر مسلمانو ! تم کیوں غصے ہوتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ میں گئے تو مولویوں نے فتویٰ دیا کہ جوان کے لیکچر میں جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا لیکن چونکہ حضرت مرزا صاحب کی کشش ایسی تھی کہ لوگوں نے اس فتویٰ کی بھی کوئی پرواہ نہ کی تو راستوں پر پہرے لگا دیئے گئے تا کہ لوگوں کو جانے سے روکیں اور سڑکوں پر پتھر جمع کر لئے گئے کہ جو نہ رکے گا اسے ماریں گے.پھر جلسہ گاہ سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جاتے کہ لیکچر نہ سُن سکیں.بی ٹی صاحب جو اس وقت سیالکوٹ میں سٹی انسپکٹر تھے اور پھر سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو گئے تھے اب معلوم نہیں ان کا کیا عہدہ ہے ان کا انتظام تھا.جب لوگوں نے شور مچایا اور فساد کرنا چاہا تو چونکہ حضرت صاحب کی تقریر اس نے بھی سنی تھی وہ حیران ہو گیا کہ اس تقریر میں حملہ تو آریوں اور عیسائیوں پر کیا گیا ہے اور جو کچھ مرزا صاحب نے کہا ہے اگر وہ مولویوں کے خیالات کے خلاف بھی ہو تو بھی اس سے اسلام پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور اگر وہ باتیں کچی ہیں تو اسلام کا سچا ہونا ثابت ہوتا ہے.پھر مسلمانوں کے فساد کرنے کی کیا وجہ ہے؟ اگر چہ وہ سرکاری افسر تھا مگر وہ جلسہ میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کا خدا مر گیا اس پر مسلمانو! تم کیوں غصے ہوتے ہو.غرض ان لوگوں کا ہم سے یہ سلوک ہے اور بادی النظر میں یہی نظر آتا ہے کہ اگر ان میں سے لوگ آریوں میں جاتے ہیں تو ہمیں کیا مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ خیال غلط ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے متعلق یہاں تک فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوائے حب پیمبرم سوچ سمجھ کر کم وقت میں کام کرنا چاہئے تحریک شدھی ملکا نا، انوار العلوم جلد 7 صفحہ 192) مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت ہی مخلص صحابی گزرے ہیں.احمدیت سے پہلے وہ وہابیوں کے مشہور عالم تھے اور ان میں انہیں
تذکار مهدی ) : 211 روایات سید نا محمودی بڑی عزت حاصل تھی.جب احمدی ہوئے تو باوجود اس کے کہ اُن کے گزارہ میں تنگی آگئی پھر بھی انہوں نے پرواہ نہ کی اور اسی غربت میں دن گزار دیئے.بہت ہی مستغنی المزاج انسان تھے انہیں دیکھ کر کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہیں بلکہ بظاہر انسان یہی سمجھتا تھا کہ یہ کوئی کمی ہیں بہت ہی منکسر طبیعت کے تھے.مجھے اُن کا ایک لطیفہ ہمیشہ یاد رہتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیا لکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں سخت مخالفت ہوئی تو اس کے بعد آپ جب واپس آئے تو مخالفوں کو جس جس شخص کے متعلق پتہ لگا کہ یہ احمدی ہے اُسے سخت تکلیفیں دینی شروع کر دیں.مولوی برہان الدین صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ٹرین پر سوار کرا کے سٹیشن سے واپس جا رہے تھے کہ لوگوں نے اُن پر گو بر اُٹھا اُٹھا کر پھینکنا شروع کر دیا اور ایک نے تو گوبر آپ کے منہ میں ڈال دیا مگر وہ بڑی خوشی سے اس تکلیف کو برداشت کرتے گئے اور جب بھی ان پر گوہر پھینکا جاتا تھا بڑے مزے سے کہتے تھے کہ ایہہ دن کتھوں.ایہہ خوشیاں کتھوں اور بتانے والے نے بتایا کہ ذرا بھی اُن کی پیشانی پر بل نہ آیا.غرض بہت ہی مخلص انسان تھے.وہ اپنے احمدی ہونے کا موجب ایک عجیب واقعہ سنایا کرتے تھے احمدی گو وہ کچھ عرصہ بعد میں ہوئے ہیں.مگر انہوں نے دعوئی سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا تھا.درمیان میں کچھ وقفہ پڑ گیا.انہوں نے ابتداء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو پیدل قادیان آئے.یہاں آ کر پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور تشریف لے گئے ہیں شاید کسی مقدمہ میں پیشی تھی یا کوئی اور وجہ تھی مجھے صحیح معلوم نہیں.آپ فوراً گورداسپور پہنچے.وہاں انہیں حضرت حافظ حامد علی مرحوم ملے.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک دیر سینہ خادم اور دعویٰ سے پہلے آپ کے ساتھ رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذیل گھر میں یا کہیں اور ٹھہرے ہوئے تھے اور جس کمرہ میں آپ مقیم تھے اُس کے دروازہ پر چک پڑی ہوئی تھی.مولوی برہان الدین صاحب کے دریافت کرنے پر حافظ حامد علی صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے کمرہ میں کام کر رہے ہیں.انہوں نے کہا میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.حافظ صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصروفیت کی وجہ سے منع کیا ہوا ہے اور حکم دے رکھا ہے کہ آپ کو نہ بلایا جائے.مولوی صاحب نے منتیں کیں کہ کسی طرح ملاقات کرا دو مگر حافظ صاحب نے کہا میں کس طرح عرض کر سکتا ہوں جبکہ آپ نے ملنے سے منع کیا ہوا ہے.لیکن آخر بہت سی منتوں کے بعد انہوں
تذکار مهدی ) 212 روایات سید نا محمود نے حافظ صاحب سے اتنی اجازت لے لی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چک سے جھانک کر زیارت کر لیں یا یہ کہ ان کی نظر بچا کر مجھے اس وقت یہ تفصیل یاد نہیں وہ اُس کمرہ کی طرف گئے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے اور چک اُٹھا کر جھانکا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہل رہے ہیں.اُس وقت آپ کی دروازہ کی طرف پشت تھی اور بڑی تیزی سے دیوار کی دوسری طرف جا رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ جب آپ کتاب، اشتہار یا کوئی مضمون لکھتے تو بسا اوقات ٹہلتے ہوئے لکھتے جاتے اور آہستہ آواز سے اُسے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے.اُس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوئی مضمون لکھ رہے تھے بڑی تیزی سے ٹہلتے جا رہے تھے اور ساتھ ساتھ پڑھتے جاتے تھے.دیوار کے قریب پہنچ کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس مڑنے لگے تو مولوی برہان الدین صاحب کہتے ہیں میں وہاں سے بھاگا تا آپ کہیں مجھے دیکھ نہ لیں.حافظ حامد علی صاحب نے یا کسی اور نے پوچھا کیا ہوا؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کر لی ؟ وہ کہنے لگے.بس پتہ لگ گیا اور پنجابی زبان میں کہنے لگے ”جہیڑا کمرے وچ اتنا تیز تیز چلدا ہے اُس نے کسی دُور جگہ ہی جانا ہے، یعنی جو کمرہ میں اس قدر تیز چل رہا ہے معلوم ہوتا ہے اُس کی منزلِ مقصود بہت دور ہے اور اُسی وقت آپ کے دل میں یہ بات جم گئی کہ آپ دنیا میں کوئی عظیم الشان کام کر کے رہیں گے.یہ ایک نکتہ ہے مگر اُس کو نظر آ سکتا ہے جسے روحانی آنکھیں حاصل ہوں.وہ اُس وقت بغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کوئی بات کئے چلے گئے مگر چونکہ یہ بات دل میں جم چکی تھی اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعوی کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی اور پھر اس قدر اخلاص بخشا کہ اُنہیں کسی کی مخالفت کی پرواہ ہی نہ رہی.تو تیزی کے ساتھ کام کرنے سے اوقات میں بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے.پس بچوں کو جلدی کام کرنے اور جلدی سوچنے کی عادت ڈالی جائے.مگر جلدی سے مراد جلد بازی نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر تیزی سے کام کرنا ہے.جلد باز شیطان ہے لیکن سوچ سمجھ کر جلدی کا کام کرنے والا خدا تعالیٰ کا سپاہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ دن بھر گھر کے اندر کام کرتے لیکن روزانہ ایک دفعہ سیر کے لئے ضرور جاتے اور 74 - 75 برس کی عمر کے باوجود سیر پر اس قدر با قاعدگی رکھتے کہ آج وہ ہم سے نہیں ہو سکتی.ہم بعض دفعہ سیر پر جانے سے رہ جاتے ہیں لیکن
تذکار مهدی ) 213 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام ضرور سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو کھلی ہوا کے اندر چلنا پھرنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا دماغ کے لئے بہت مفید ہوتا ہے اور جب تحریک جدید کے بور ڈ ر کھلی ہوا میں رہ کر مشقت کا کام کریں گے تو جہاں ان کی صحت اچھی رہے گی وہاں ان کا دماغ بھی ترقی کرے گا اور وہ دنیا کے لئے مفید وجود بن جائے گا.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 836 تا 839) حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی ثابت قدمی دشمن تو یہی چاہتا ہے کہ وہ مومنوں کو مٹا دے اور انہیں غمگین بنادے مگر جب وہ دیکھتا ہے کہ انہیں مارا جاتا ہے تو یہ اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں خدا نے ہماری ترقی کے کیسے سامان پیدا کئے ہیں تو اس کا حوصلہ پست ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولویوں نے یہ فتویٰ دیدیا کہ جو شخص مرزا صاحب کے پاس جائیگا یا اُن کی تقریروں میں شامل ہوگا اُس کا نکاح ٹوٹ جائیگا.یہ کافر اور دجال ہیں ان سے بولنا ان کی باتیں سننا اور انکی کتابیں پڑھنا بالکل حرام ہے بلکہ ان کو مارنا اور قتل کرنا ثواب کا موجب ہے مگر آپ کی موجودگی میں انہیں فساد کی جرات نہ ہوئی کیونکہ چاروں طرف سے احمدی جمع تھے.انہوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ ان کے جانے کے بعد فساد کیا جائے.میں بھی اُس وقت آپ کے ساتھ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے روانہ ہوئے اور گاڑی میں سوار ہوئے تو دُور تک آدمی کھڑے تھے جنہوں نے پتھر مارنے شروع کر دیئے.مگر چلتی گاڑی پر پتھر کس طرح لگ سکتے تھے.شاذونادر ہی ہماری گاڑی کو کوئی پتھر لگتا.وہ مارتے ہم کو تھے اور لگتا اُن کے کسی اپنے آدمی کو تھا.پس اُن کا یہ منصوبہ تو پورا نہ ہو سکا.باقی احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وجہ سے وہاں جمع تھے اُن میں سے کچھ تو ارد گرد کے دیہات کے رہنے والے تھے جو آپ کی واپسی کے بعد ادھر اُدھر پھیل گئے اور جو تھوڑے سے مقامی احمدی رہ گئے یا باہر کی جماعتوں کے مہمان تھے اُن پر مخالفین نے اسٹیشن پر ہی حملے شروع کر دیئے.اُن لوگوں میں سے جن پر حملہ ہوا ایک مولوی برہان الدین صاحب بھی تھے.مخالفوں نے ان کا تعاقب کیا.پتھر مارے اور بُرا بھلا کہا.اور آخر ایک دوکان میں انہیں گرا لیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ گوبر لاؤ ہم اس کے مونہہ میں ڈالیں.چنانچہ وہ گو بر لائے اور انہوں نے مولوی برہان الدین صاحب کا منہ کھول کر اُس میں ڈال دیا.جب رض
تذکار مهدی ) 214 روایات سیّد نا محمود وہ انہیں مارر ہے تھے اور گوبر اُن کے مونہہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے تو بجائے اس کے مولوی صاحب انہیں گالیاں دیتے یا شور مچاتے جنہوں نے وہ نظارہ دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ وہ بڑے اطمینان اور خوشی سے یہ کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ ! یہ دن کسے نصیب ہوتا ہے یہ دن تو اللہ تعالیٰ کے نبیوں کے آنے پر ہی نصیب ہوتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جس نے مجھے یہ دن دکھایا.نتیجہ یہ ہوا کہ تھوڑی دیر میں ہی جو لوگ حملہ کر رہے تھے اُن کے نفس نے انہیں ملامت کی اور وہ شرمندگی اور ذلت سے آپکو چھوڑ کر چلے گئے.تو بات یہ ہے کہ جب دشمن دیکھتا ہے کہ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں تو کہتا ہے آؤ ہم انہیں ڈرائیں! اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتا ہے.پس جب کوئی شخص ڈرتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شیطانی آدمی ہے لیکن اگر وہ ڈرتا نہیں بلکہ ان حملوں اور تکالیف کو خدا تعالیٰ کا انعام سمجھتا ہے اور کہتا ہے خدا تعالٰی نے اپنے فضل سے مجھے عزت کا مقام عطا فرمایا ہے اور اُس نے مجھ پر احسان کیا ہے کہ میں اُس کی خاطر مار کھا رہا ہوں تو دشمن مرعوب ہو جاتا ہے اور آخر اس کے دل میں ندامت پیدا ہو جاتی ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 582 تا 583) جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو اسلام کے نزدیک آرام منزلِ مقصود نہیں جس کے لئے انسان جد و جہد کرتا ہے بلکہ صحیح کوشش کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والی حسن کا نام ہے.چنانچہ یہاں اسی مفہوم کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم نے تمہیں حکم دیا.شیطان سے لڑو اور خوب لڑو تم نے لڑائی کی اور فتح حاصل کی.آؤ اب اور زیادہ زور سے ہماری طرف دوڑو کیونکہ تمہارے لئے یہی حکم ہے کہ جب تم فارغ ہو جاؤ تو زیادہ کوشش اور مستعدی سے خدا تعالیٰ کی طرف دوڑو.پس مؤمن کے لئے اس قسم کا آرام کہاں آیا جسے دنیا آرام کہتی ہے.مجھے اس جگہ پر ایک لطیفہ یاد آ گیا.مولوی برہان الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص صحابی تھے اور نہایت خوش مذاق آدمی تھے ان ہی کی وفات اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مدرسہ احمدیہ کے قیام کا خیال پیدا ہوا.وہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے اور ذکر کیا کہ
تذکار مهدی ) 215 روایات سید نامحمودی میں نے خواب میں اپنی فوت شدہ ہمشیرہ کو دیکھا ہے کہ وہ مجھ سے ملی ہیں میں نے اُن سے پوچھا کہ بہن بتاؤ وہاں تمہارا کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگی خدا نے بڑا فضل کیا ، مجھے اُس نے بخش دیا اور اب میں جنت میں آرام سے رہتی ہوں.میں نے پوچھا کہ بہن وہاں کرتی کیا ہو؟ وہ کہنے لگی بیر بیچتی ہوں.مولوی برہان الدین صاحب کہنے لگے.میں نے کہا ” بھین ساڈی قسمت بھی عجیب ہے سانوں جنت وچ بھی بیر ہی ویچنے پے ان کے خاندان میں چونکہ غربت تھی اس لئے خواب میں بھی ان کا خیال ادھر گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ رویا سن کر فرمایا مولوی صاحب! اس کی تعبیر تو اور ہے مگر خواب میں بھی آپ کو تمسخر ہی سُوجھا اور مذاق کرنا نہ بھولا.بیر در حقیقت جنتی پھل ہے اور اس سے مراد ایسی کامل محبت ہوتی ہے جو لا زوال ہو کیونکہ سدرہ لا زوال الہی محبت کا مقام ہے پس اس کی تعبیر یہ تھی کہ میں اللہ تعالیٰ کی لازوال محبت لوگوں میں تقسیم کرتی ہوں.غرض مؤمن تو کسی جگہ رہے اُسے کام کرنا پڑے گا اور اگر کسی وقت کسی کے ذہن میں یہ آیا کہ اب آرام کا وقت ہے تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اس نے اپنے ایمان کو کھو دیا کیونکہ جس بات کو اسلام نے ایمان اور آرام قرار دیا ہے وہ تو کام کرنا ہے.اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَ إِلى رَبَّكَ فَارْغَبُ (الم نشرح 8 تا 9).جب تم فارغ ہو جاؤ تو اور زیادہ محنت کرو اور اپنے رب کی طرف دوڑ پڑو.یہ نکتہ ہے جسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے تمہارے لئے ان معنوں میں کوئی آرام نہیں جسے دنیا کے لوگ آرام کہتے ہیں لیکن جن معنوں میں قرآن کریم آرام کا وعدہ کرتا ہے اسے تم آسانی سے حاصل کر سکتے ہو.دنیا جن معنوں میں آرام کا مطلب لیتی ہے وہ یقیناً غلط ہیں اور ان معنوں سے جس شخص نے آرام کی تلاش کی وہ اس جہان میں بھی اندھا رہے گا اور آخرت میں بھی اندھا اُٹھے گا.تم خدا تعالیٰ کی طرف دیکھو اُس نے آرام پیدا کیا مگر کیا وہ خود بھی آرام کیا کرتا ہے؟ اُس کے متعلق تو آتا ہے کہ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ (البقره:256) اُسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ.خطبات محمود جلد 16 صفحہ 613،612) حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب میر حامد شاہ صاحب کے جماعت میں خصوصیت رکھنے کے علاوہ ان کے والد
تذکار مهدی ) 216 روایات سیّد نا محمود حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اس وقت سے واقفیت تھی جب کہ آپ اپنے والد کے بار بار کے تقاضے سے تنگ آ کر ملازمت کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور وہاں کچہری کی چھوٹی سی ملازمت پر کئی سال تک رہے.انہی ایام میں حکیم حسام الدین صاحب سے تعلقات ہوئے اور آخر وقت تک تعلقات قائم رہے.یہ تعلقات صرف انہی کے ساتھ نہ رہے بلکہ ان کے خاندان کے ساتھ بھی رہے.ان کے بعد میر حامد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے سلسلہ میں خاص لوگوں میں شمار ہوتے رہے تاہم حکیم حسام الدین صاحب کے ساتھ جو ابتداء کے تعلقات تھے.اس مثال سے ان کی خصوصیت نظر آتی ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دعوئی کے بعد سیالکوٹ تشریف لے گئے.حکیم حسام الدین صاحب کو آپ کے تشریف لانے کی بہت خوشی ہوئی انہوں نے ایک مکان میں ٹھہرانے کا انتظام کیا لیکن جس مکان میں آپ کو ٹھہرایا گیا اس کے متعلق جب معلوم ہوا کہ اس کی چھت پر منڈیر کافی نہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سیالکوٹ سے واپسی کا ارادہ فرمالیا اور اس وقت میرے ذریعہ ہی باہر مردوں کو لکھ دیا کہ کل ہم واپس قادیان چلے جائیں گے.نیز یہ بھی بتلا دیا کہ یہ مکان ٹھیک نہیں کیونکہ اس کی چھت پر منڈیر نہیں.اس خبر کے سننے پر احباب جن میں مولوی عبدالکریم صاحب وغیرہ تھے راضی بقضاء معلوم دیتے تھے لیکن جونہی حکیم حسام الدین صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کس طرح واپس جاتے ہیں چلے تو جائیں اور فوراً زنانہ دروازہ پر حاضر ہوئے اور اطلاع کرائی کہ حکیم حسام الدین حضرت صاحب سے ملنے آئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوراً باہر تشریف لے آئے.حکیم صاحب نے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ حضور اس لئے واپس تشریف لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ یہ مکان مناسب نہیں مکان کے متعلق تو یہ ہے کہ تمام شہر میں سے جو مکان بھی پسند ہو اسی کا انتظام ہو سکتا ہے.رہا واپس جانا.تو کیا آپ اس لئے یہاں آئے تھے کہ فوراً واپس چلے جائیں اور لوگوں میں میری ناک کٹ جائے.اس بات کو ایسے لب ولہجہ میں انہوں نے ادا کیا اور اس زور کے ساتھ کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بالکل خاموش ہو گئے اور آخر میں کہا.اچھا ہم نہیں جاتے.( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 299 ،300) خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک شخص نے کہا کہ میں آپ کا بہت مداح
تذکار مهدی ) 217 روایات سید نا محمود ہوں لیکن ایک بہت بڑی غلطی آپ سے ہوئی.آپ جانتے ہیں علماء کسی کی بات نہیں مانا کرتے کیونکہ وہ جانتے ہیں اگر مان لی تو ہمارے لئے موجب ہتک ہوگی.لوگ کہیں گے یہ بات فلاں کو سوجھی انہیں نہ سوجھی اس لئے ان سے منوانے کا یہ طریقہ ہے کہ ان کے منہ سے ہی بات نکلوائی جائے.جب آپ کو وفات مسیح کا مسئلہ معلوم ہو اتھا تو آپ کو چاہئے تھا چیدہ چیدہ علماء کی دعوت کرتے اور ایک میٹنگ کر کے یہ بات ان کے سامنے پیش کرتے کہ عیسائیوں کو حیات مسیح کے عقیدہ سے بہت مدد ملتی ہے اور وہ اعتراض کر کے اسلام کو نقصان پہنچا رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ تمہارا نبی فوت ہو گیا اور ہمارے مذہب کا بانی آسمان پر ہے اس لئے وہ افضل بلکہ خود خدا ہے اس کا کیا جواب دیا جائے؟ اس وقت علماء یہی کہتے آپ ہی فرمائیے اس کا کیا جواب ہے آپ کہتے کہ رائے تو دراصل آپ لوگوں کی ہی صائب ہو سکتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ فلاں آیت سے حضرت مسیح کی وفات ثابت ہو سکتی ہے.علماء فوراً کہہ دیتے کہ یہ بات ٹھیک ہے.بِسمِ اللہ کر کے اعلان کیجئے ہم تائید کے لئے تیار ہیں.پھر اس طرح یہ مسئلہ پیش ہو جاتا کہ حدیثوں میں مسیح کی دوبارہ آمد کا ذکر ہے مگر جب مسیح علیہ السلام فوت ہو گئے تو اس کا کیا مطلب سمجھا جائے گا اس پر کوئی عالم آپ کے متعلق کہہ دیتا آپ ہی مسیح ہیں اور تمام علماء نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دینی تھی.یہ تجویز سن کر حضرت مسیح موعود نے فرمایا اگر میرا دعویٰ انسانی چال سے ہوتا تو میں بے شک ایسا ہی کرتا مگر یہ خدا کے حکم سے تھا.خدا نے جس طرح سمجھایا اسی طرح میں نے کیا.تو چالیں اور فریب انسانی چالوں کے مقابل میں ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی جماعتیں ان سے ہرگز نہیں ڈرسکتیں یہ ہمارا کام نہیں خود خدا تعالیٰ کا کام ہے.(خطبات محمود جلد 12 صفحہ 196,197) آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا کہ آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے اس کا بھی یہی مفہوم ہے کہ ہمارے دل میں عشق الہی کی آگ شعلہ زن ہے.اس آگ کے مقابلہ میں ظاہری آگ کی کیا حیثیت ہے.ایک گرم تو انسان کے ہاتھ کو جلا دیتا ہے مگر انگارے کو نہیں جلا سکتا اسی طرح آگ اس شخص کو نہیں جلا سکتی جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑک رہی ہو.چنانچہ اُسی وقت
تذکار مهدی ) 218 روایات سید نامحمود بادل آیا اور برسا اور وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور یہ معجزہ دیکھ کر اس کی قوم کے بعض لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا ہو گیا اور اس کے لئے سلامتی کے سامان پیدا ہو گئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ابتداء میں اس آیت کے یہ معنے کیا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کی مخالفت کی آگ کو ٹھنڈا کر دیا تھا.مجھے یاد ہے 1903ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جو اسلام سے مرتد ہو کر آریہ ہو گیا تھا اور اس نے اپنا نام دھرم پال رکھ لیا تھا ترک اسلام نامی کتاب لکھی.تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب لکھا.جو ”نورالدین کے نام سے شائع ہوا.یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی جاتی تھی.جب دھرم پال کا یہ اعتراض آیا کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تو دوسروں کے لئے کیوں نہیں ہوتی اور اس پر حضرت خلیفہ اول کا یہ جواب سنایا گیا کہ اس جگہ ”نار سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس تاویل کی کیا ضرورت ہے.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تو وہ مجھے آگ میں ڈال کر دیکھ لیں کہ آیا میں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتا ہوں یا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب ”نورالدین میں یہی جواب لکھا اور تحریر فرمایا کہ: تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کر دیکھ لو.یقیناً خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اسے اس آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گا جس طرح اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محفوظ ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 614) رکھا تھا.“ حضرت خلیفہ اول.آگ سے ہمیں مت ڈراؤ : معجزوں کو انبیاء ہی زیادہ جان سکتے.ہم میں سے بیسیوں اشخاص اس بات کے زندہ گواہ ہیں کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جب کتاب نورالدین لکھ رہے تھے.تو اس میں آپ نے لکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کا جو ذکر ہے.اس سے مراد لڑائی کی
تذکار مهدی ) 219 روایات سید نا محمودی آگ ہے.آپ نے خیال کیا کہ آگ میں پڑ کر زندہ بچنا تو بہت مشکل ہے.اس لئے آگ سے مراد لڑائی کی آگ لی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان دنوں بسراواں کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے میں بھی ساتھ تھا کسی نے چلتے ہوئے کہا کہ حضور بڑے مولوی صاحب نے بڑا لطیف نکتہ بیان کیا ہے.( جو لوگ عام طور پر عقلی باتوں کی طرف زیادہ راغب ہوں.وہ ایسی باتوں کو بہت پسند کرتے ہیں).لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تقریباً ساری سیر میں اس بات کا رد کرتے رہے اور فرمایا کہ میری طرف سے مولوی صاحب کو کہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں.ہمیں الہام ہوا ہے کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.تو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اگر اللہ تعالیٰ نے ایسا سلوک کیا.تو کیا بعید ہے.کیا طاعون آگ سے کم ہے اور دیکھ لو کیا یہ کم مزہ ہے کہ چاروں طرف طاعون آئی مگر ہمارے مکان کو اللہ تعالی نے اس سے محفوظ رکھا.پس اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے بچالیا ہو تو کیا بعید ہے.ہماری طرف سے مولوی صاحب کو کہہ دو کہ یہ مضمون کاٹ دیں.چنانچہ آپ نے کاٹ دیا.تو معجزات کے بارے میں انبیاء ہی کی رائے صحیح سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ وہ ان کی دیکھی ہوئی باتیں ہوتی ہیں.جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ آدھ آدھ گھنٹہ باتیں کرتا ہے.سوال کرتا اور جواب پاتا ہے.اس کی باتوں تک تو خواص بھی نہیں پہنچ سکتے.کجا یہ کہ عوام الناس جنہوں نے کبھی خواب ہی نہیں دیکھا اور اگر دیکھا ہو تو ایک دو سے زیادہ نہیں اور پھر اگر زیادہ بھی دیکھیں تو دل میں تردد رہتا ہے کہ شائد یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نفس کا ہی خیال ہے.جو کہتے ہیں کہ ادھر ہم نے سونے کے لئے تکیہ پر سر رکھا اور ادھر یہ آواز آنی شروع ہوئی کہ دن میں تمہیں بہت گالیاں لوگوں نے دی ہیں.مگر فکر نہ کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تکیے پر سر رکھنے سے لے کر اٹھنے تک اللہ تعالی اس طرح تسلی دیتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.کہ بعض دفعه ساری ساری رات یہی الہام ہوتا رہا ہے کہ انى مع الرسول اقوم“ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں.دوسرے لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے.ہاں اللہ تعالیٰ کے بزرگ اور نیک لوگ ایک حد تک سمجھ سکتے ہیں.مگر اس حد تک نہیں جس حد تک نبی سمجھ سکتا ہے.نبی نبی ہی ہے.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کلام ایسے رنگ میں ہوتا ہے کہ جس کی مثال دوسری جگہ نہیں مل
تذکار مهدی ) ❤220 نامحمودی روایات سیّد نا محمود سکتی.میرے اپنے الہام اور خواب اس وقت تک ہزار کی تعداد تک پہنچ چکے ہوں گے.مگر اس خص کی ایک رات کے الہامات کے برابر بھی یہ نہیں ہو سکتے.جسے شام سے لے کر صبح تک انى مع الرسول اقوم کا الہام ہوتا رہا ہے.پھر ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کی عزت کریں.لیکن جب ہم ان کو انبیاء کے مقابلہ پر کھڑا کرتے ہیں.تو گویا خواہ مخواہ ان کی ہتک کراتے ہیں.ہر شخص کا اپنا اپنا مذاق ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں عام طور پر یہ چرچا رہتا تھا کہ آپ کو زیادہ پیارا کون ہے.بعض لوگ کہتے تھے کہ بڑے مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اور بعض چھوٹے مولوی صاحب یعنی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا نام لیتے تھے.ہم اس پارٹی میں تھے جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو زیادہ محبوب سمجھتی تھی.مجھے یاد ہے ایک دفعہ دو پہر کے قریب کا وقت تھا.کیا موقعہ تھا یہ یاد نہیں.پہلے بھی کبھی شائد یہ واقعہ بیان کر چکا ہوں اور ممکن ہے اس میں موقعہ بھی بیان کیا ہو.مگر اس وقت یاد نہیں میں گھر میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے یا حضرت اماں جان بھی شائد وہیں تھیں ان سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو احسانات ہیں.ان میں سے ایک حکیم صاحب کا وجود ہے.آپ بالعموم حضرت خلیفہ اول کو حکیم صاحب کہا کرتے تھے.کبھی بڑے مولوی صاحب اور کبھی مولوی نورالدین صاحب بھی کہا کرتے تھے.آپ اس وقت کچھ لکھ رہے تھے اور فرمایا کہ ان کی ذات بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک احسان ہے اور یہ ہمارا نا شکر اپن ہو گا.اگر اس کو تسلیم نہ کریں.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ایک ایسا عالم دیا ہے.جو سارا دن درس دیتا ہے.پھر طب بھی کرتا ہے اور جس کے ذریعے ہزاروں جانیں بچ جاتی ہیں.اور آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ اسی طرح میرے ساتھ چلتے ہیں.جس طرح انسان کی نبض چلتی ہے.پس ایسے شخص کا کوئی حوالہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں پیش کیا جائے.یا مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ میں میرا نام دے دیا جائے.تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہم کو گالیاں دلوائی جائیں.خلفاء کی عزت اسی میں ہوتی ہے کہ متبوع کی پیروی کریں اور اگر عدم علم کی وجہ سے کوئی غلطی ہو جائے تو جسے اس کا علم ہوا سے چاہئے کہ بتائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے.شائد آپ کو اس کا
تذکار مهدی ) 221 روایات سید نا محمود علم نہ ہو.پھر نقد کا علم ہمیں اللہ تعالیٰ نے دوسروں سے بہت زیادہ دیا ہے اور مامورین کی باتوں کو سمجھنے کی دوسروں سے زیادہ اہلیت رکھتے ہیں.پھر اس بات پر غور کر کے ہم دیکھیں گے کہ کیا اس کے معنی وہی ہیں.جو لوگ لیتے ہیں اور یقیناً نقد کے بعد ہم اس کو حل کر لیں گے اور وہ حل ننانوے فیصدی صحیح ہوگا.لیکن اس کو حل کرنے کے یہ معنی نہیں ہوں گے.کہ ہم آپ کے مقابل پر ہوں گے اور آپ کے ارشادات کے مقابلہ میں نام لے کر ہماری بات پیش کی جائے.کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ پیش کرے تو آگے سے دوسرا میرا نام لے دے.تو اس کے معنی سوائے اس کے کیا ہیں کہ ہتک کرائی جائے.پس خواہ حضرت خلیفہ اول ہوں یا میں ہوں یا کوئی بعد میں آنے والا خلیفہ جب یہ بات پیش کر دی جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمایا ہے.تو آگے سے یہ کہنا کہ فلاں خلیفہ نے یوں کہا ہے.غلطی ہے جو اگر عدم علم کی وجہ سے ہے تو سند نہیں ہو سکتی اور اگر علم کی وجہ سے ہے تو گویا خلیفہ کو اس کے متبوع کے مقابل پر کھڑا کرنا ہے.ہاں یہ درست ہے کہ اگر متبوع کے کسی حوالہ کی تشریح خلیفہ نے کی ہے.تو یہ کہا جائے کہ آپ اس کے یہ معنی کرتے ہیں.لیکن فلاں خلیفہ نے اس کے یہ معنی کیسے ہیں.اس طرح خلیفہ نبی کے مقابلہ پر نہیں کھڑا ہوتا.بلکہ اس شخص کے مقابلہ پر کھڑا ہوتا ہے جو نبی کے کلام کی تشریح کر رہا ہے.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ضروری نہیں کہ خلفاء کو سب باتیں معلوم ہوں.کیا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو ساری احادیث یاد تھیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو ہم کو یاد نہیں اور دوسرے آکر بتاتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں.جن کے پاس یہ باتیں ہیں.وہ اگر سنائیں تو بڑا احسان ہے.یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ سب باتوں سے واقف ہوا کثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کتابیں بہت کم پڑھا کرتے تھے.میرے سامنے یہ واقعہ ہوا کہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ آپ مولوی صاحب کو پروف پڑھنے کے لئے کیوں بھیجتے ہیں.وہ تو اس کے ماہر نہیں ہیں اور ان کو پروف دیکھنے کی کوئی مشق نہیں.بعض لوگ اس کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں.میں خطبہ دیکھتا ہوں مگر اس میں پھر بھی بیسیوں غلطیاں چھپ جاتی ہیں.آج ہی جو خطبہ چھپا ہے اس میں ایک سخت
تذکار مهدی ) 222 روایات سید نامحمودی غلطی ہوگئی ہے.میں نے اصلاح تو کی تھی مگر اصلاح کرتے وقت پہلے فقرہ کا جو مفہوم میرے ذہن میں تھا.وہ دراصل نہ تھا.میں نے سمجھا کہ اس سے پہلے یہ فقرہ ہے کہ صرف انہی کا رستہ مسدود قرار دیا گیا ہے اور میں نے اس کے بعد کے فقرہ میں کچھ غلطی رہ گئی تھی.یوں درست کر دیا کہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے مگر چھپنے کے بعد جب میں نے پڑھا تو فقرہ بالکل اس کے الٹ تھا جو میں نے سمجھا تھا اور الفضل میں یہ فقرہ پڑھ کر میں حیران ہو گیا کہ کسی ایسے مدعی کے آنے کے رستہ کو مسدود قرار نہیں دیا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنا دے.اور اس طرح گویا اس کے یہ معنی ہو گئے کہ شرعی نبی تو آسکتا مگر غیر شرعی نہیں حالانکہ مراد یہ تھی کہ صرف ایسے مدعی کے آنے کا رستہ کو مسدود قرار دیا گیا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو بعد کی نبوت بنادے یعنی صرف شرعی نبی کی اور مستقل نبی کی روک کی گئی ہے.تو بعض لوگ پروف دیکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بعض نہیں.میر مہدی حسین صاحب اس کے ماہر ہیں اور وہ ایسی باریک غلطیاں بھی پکڑ لیتے ہیں جو دوسرے سے یقینا رہ جائیں.تو کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مولوی صاحب تو اس کے ماہر نہیں ہیں.آپ ان کو پروف کیوں دکھاتے ہیں تو آپ نے فرمایا که مولوی صاحب کو فرصت کم ہوتی ہے اور وہ بیمار وغیرہ دیکھتے رہتے ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ پروف ہی پڑھ لیا کریں.تا ہمارے خیالات سے واقفیت رہے اور پھر پڑھنے کے باوجود یہ ضروری نہیں کہ ہر بات یاد ہو.مثلاً حضرت یحیی علیہ السلام کے قتل کے متعلق ہی حوالے میں نہیں نکال سکا اور حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب کو کہلا بھیجا کہ نکال دیں میرا حافظہ اس قسم کا ہے کہ قرآن کریم کی وہ سورتیں بھی جو روز پڑھتا ہوں ان میں سے کسی کی آیت نہیں نکال سکتا.لیکن دلیل کے ساتھ جس کا تعلق ہو.وہ خواہ کتنا عرصہ کیوں نہ گذر جائے.مجھے یاد رہتی ہے.جن باتوں کا یاد رکھنا میرے کام سے تعلق نہ رکھتا ہو.وہ مجھے یاد نہیں رہتیں.حوالے میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں سے نکلوا لوں گا.اس لئے یاد نہیں رکھ سکتا اور جوسورتیں روز پڑھتا ہوں.ان کی آیت سن کر بھی فوراً نہیں کہہ سکتا کہ فلاں سورۃ مکی ہے.ہاں بسم اللہ سے شروع کر کے ساری سورۃ پڑھوں تو پڑھ لوں گا.لیکن ایک آیت کے متعلق پتہ نہیں لگا سکتا کہ کہاں ہے.
تذکار مهدی ) 223 روایات سید نا محمود سوائے پانچ سات چھوٹی سورتوں کے یا سورۃ فاتحہ کے بڑی بڑی سورتیں جو یاد ہیں ان میں سے درمیان کا ٹکڑ اسن کر حوالہ نہیں نکال سکتا.لیکن یوں بات یادرکھنے میں میرا حافظہ ایسا ہے کہ بعض خطوط جب پرائیویٹ سیکرٹری دو دو ماہ بعد پیش کرتا اور کہتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ لکھا ہے تو اگر ان کی غلطی ہو تو میں کہہ دیتا ہوں کہ اس نے یہ تو نہیں بلکہ یہ لکھا ہے.( الفضل 10 رستمبر 1938 ء جلد 26 نمبر 210 صفحہ 5 تا 7 ) حضرت خلیفہ اول کا جذبہ اطاعت حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حکم دیں تو چوہڑے سے بھی اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کو تیار ہوں.اس کا مطلب یہی تھا کہ حضور کی تعلیم کے مطابق اگر ایسا کرنا پڑے تو عذر نہ ہوگا فرض کرو ایک وقت ایسا آئے کہ سیدوں، مغلوں، پٹھانوں وغیرہ قوموں میں کوئی احمدی رشتہ نہ ملے تو اگر ایک چوہڑا احمدی ہی میسر ہو تو اس سے رشتہ کرنے میں کوئی عذر نہ ہوگا کیونکہ بہر حال اسے دین حاصل ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے معنے ہی یہی ہیں کہ اگر کسی کو کوئی بی.اے پاس رشتہ ملتا ہو تو دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا یہ تقاضا نہیں کہ وہ اس کے ساتھ رشتہ نہ کرے.لیکن اگر نہ ملے تو اس کا فرض ہے کہ اپنی آنکھیں نیچی کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنے کو اتنی اہمیت تو دے جتنی میراثی نے دو روپے کو دی تھی.اگر خدا تعالی سارے ہندو، مسلمانوں ،سکھوں اور عیسائیوں کو احمدی بنادے تو ہماری تو خواہش ہے کہ ایک غریب سے غریب اور کنگال سے کنگال احمدی کی لڑکی بھی کسی گورنر یا وائسرائے کے بیٹے سے بیاہی جائے.مگر سوال تو یہ ہے کہ اگر ایسا رشتہ نہ ملے تو کیا یہ بہتر ہے کہ کسی گورنر کے لڑکے کے ملنے کی امید میں لڑکی کو بٹھا رکھو یا یہ کہ جو رشتہ ملے کر دو.اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ لڑکی نہیں مانتی تو سوال یہ ہے کہ لڑکی کو اس نہ ماننے کے مقام پر کس نے کھڑا کیا ہے؟ اگر ہم نے کیا ہے تو بیشک اس کی سزا ہمیں ملنی چاہئے.لیکن اگر اس کی ذمہ واری تم پر ہے تو پھر اس سزا کے مستحق تم خود ہو.خطبات محمود جلد 18 صفحہ 96 تا97)
تذکار مهدی ) چاند اور سورج گرہن 224 روایات سید نا محمود ہماری جماعت کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک مخالف مولوی جو غالبا گجرات کا رہنے والا تھا ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ مرزا صاحب کے دعوئی سے بالکل دھوکا نہ کھانا حدیثوں میں صاف لکھا ہے کہ مہدی کی علامت یہ ہے کہ اس کے زمانہ میں سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں گرہن لگے گا.جب تک یہ پیشگوئی پوری نہ ہو اور سورج اور چاند کو رمضان کے مہینہ میں گرہن نہ لگے ان کے دعوی کو ہرگز سچا نہیں سمجھا جا سکتا.اتفاق کی بات ہے وہ ابھی زندہ ہی تھا کہ سورج اور چاند کے گرہن کی پیشگوئی پوری ہو گئی.اس کے ہمسائے میں ایک احمدی رہتا تھا اس نے سنایا کہ جب سورج کو گرہن لگا تو اس نے گھبراہٹ میں اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر ٹہلنا شروع کر دیا.وہ ٹہلتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا ”ہن لوگ گمراہ ہون گے“.”ہن لوگ گمراہ ہون گے یعنی اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اس نے یہ نہ سمجھا کہ جب پیشگوئی پوری ہوگئی ہے تو لوگ حضرت مرزا صاحب کو مان کر ہدایت پائیں گے گمراہ نہیں ہوں گے عیسائی بھی ایک طرف تو یہ مانتے تھے کہ یہ تمام علامتیں پوری ہوگئی ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں مگر دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی سن کر وہ یہ بھی کہتے تھے کہ اس وقت اتفاقی طور پر ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا ہے جیسے مسلمان کہتے ہیں علامتیں تو پوری ہوگئی ہیں مگر اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس وقت ایک جھوٹے نے دعویٰ کر دیا ہے.مگر عجیب بات یہ ہے کہ ایسا اتفاق ایک جھوٹے کو ہی نصیب ہوتا ہے بچے کو نصیب نہیں ہوتا.(تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 56) چاند اور سورج گرہن ہدایت کا موجب اب سیدھی بات ہے کہ خالی شادی کوئی اہم بات نہیں.لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں.مان لیا کہ حضرت مرزا صاحب جھوٹے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر آپ جھوٹے تھے تو خدا تعالیٰ یہ بات پوری نہ ہونے دیتا.اوّل تو آپ شادی ہی نہ کرتے یا اگر شادی کرتے تو آپ کی بیوی مر جاتی یاوہ اچھے خاندان میں سے نہ ہوتی یا اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی یا اولاد پیدا ہوتی تو وہ مرجاتی لیکن وجہ کیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر افتراء بھی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں اُس کی ذات میں پوری کر دیتا ہے.یا مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے
تذکار مهدی ) 225 روایات سید نا محمودی ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور فرمایا یہ ایک ایسی آیت ہے کہ یہ کسی اور مدعی نبوت پر پوری نہیں ہوئی.یہ بات شیعوں اور سنیوں سب کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور یہ 1894ء میں پوری ہوئی.گجرات کا واقعہ ہے کہ ایک مولوی کہتا رہتا تھا مرزا سچا کیسے ہو سکتا ہے.حدیث میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور ایسا گرہن اس سے قبل کسی مدعی نبوت کے زمانہ میں نہیں لگا ہو گا.جب یہ گرہن لگا تو اس مولوی کے ہمسایہ میں ایک احمدی رہتا تھا اُس نے بتایا کہ وہ مولوی کو ٹھے پر کھڑا ہو ا سورج گرہن دیکھتا جاتا اور کہتا جاتا اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے.یہ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ہدایت پا جائیں گے بلکہ وہ کہتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اب سوال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے اُس پر بچوں والی علامتیں کیسے پوری ہو سکتی ہیں.مثلاً حکومت ہے وہ افسر مقرر کرتی ہے اور اس کی علامتیں مقرر کرتی ہے.وہ گزٹ شائع کرتی ہے کہ فلاں افسر فلاں جگہ مقرر کیا گیا ہے.مثلاً ایک ڈپٹی کمشنر ہے.حکومت کہتی ہے فلاں شخص کو فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقرر کیا جاتا ہے سب محکمے اس کے ماتحت ہوں گے.تحصیلدار، ضلعدار، گرداور اور پٹواری سب اس کے تابع ہوں گے.اس کے بعد ایک شخص آتا ہے.گزٹ میں اُس کا نام چھپ جاتا ہے.سب محکمے اُس کی اطاعت کرتے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے.بھلا گورنمنٹ ایسا کرنے دیتی ہے؟ اگر کوئی شخص جعلی طور پر اپنے آپ کو افسر ظاہر کرے گا تو وہ فوراً اُسے گرفتار کر لے گی اور اگر کوئی حکومت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی.بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 98-97 ) عفو اور درگزر اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تازہ مثالیں موجود ہیں.جس جس رنگ میں دشمنوں نے آپ سے مقابلہ کیا.دوست جانتے ہیں.دشمنوں نے گھماروں کو آپ کے برتن بنانے سے، سقوں کو پانی دینے سے بند کر دیا لیکن پھر بھی جب کبھی وہ معافی کے لئے آئے تو حضرت صاحب معاف ہی فرما دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے کچھ مخالف پکڑے گئے تو مجسٹریٹ نے کہا کہ میں اس شرط پر مقدمہ چلاؤں گا کہ مرزا صاحب کی طرف سے سفارش نہ آئے کیونکہ اگر انہوں نے بعد میں معاف کر دیا تو پھر مجھے خواہ مخواہ ان کو گرفتار کرنے کی کیا
تذکار مهدی ) 226 روایات سید نا محمود ضرورت ہے.مگر دوسرے دوستوں نے کہا کہ نہیں اب انہیں سزا ضرور ہی ملنی چاہئے.جب مجرموں نے سمجھ لیا کہ اب سزا ضرور ملے گی تو انہوں نے حضرت صاحب کے پاس آ کر معافی چاہی تو حضرت صاحب نے کام کرنے والوں کو بلا کر فرمایا کہ ان کو معاف کر دو.انہوں نے کہا ہم تو اب وعدہ کر چکے ہیں کہ ہم کسی قسم کی سفارش نہیں کریں گے تو حضرت اقدس فرمانے لگے کہ وہ جو معافی کے لئے کہتے ہیں تو ہم کیا کریں.مجسٹریٹ نے کہا دیکھا وہی بات ہوئی جو میں پہلے کہتا تھا مرزا صاحب نے معاف ہی کر دیا.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوا تو ہم کہتے ہیں کہ بے شک آج دنیا اس کو محسوس نہیں کرتی.لیکن ایک وقت آئے گا کہ جب تاریخوں میں واقعات پڑھے جائیں گے تو یہی واقعات لاکھوں آدمیوں کی ہدایت کا موجب ہوں گے.آج پچاس آدمیوں پر اس واقعہ کا اثر ہے تو کل ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس میں ہزاروں آدمیوں پر یہ واقعات اثر کریں گے.مخالفین کی ایذاء رسانی (خطبات محمود جلد 10 صفحہ 277) | میں ان لوگوں میں سے ہوں جو نہایت ٹھنڈے دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا کرتے ہیں.میں نے اپنے کانوں سے مخالفین کی گالیاں سنیں اور اپنے سامنے بیٹھا کر سنیں مگر باوجوداس کے تہذیب اور متانت کے ساتھ ایسے لوگوں سے باتیں کرتا رہا.میں نے پتھر بھی کھائے اس وقت بھی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر امرتسر میں پتھر پھینکے گئے اس وقت میں بچہ تھا مگر اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے مجھے حصہ دے دیا.لوگ بڑی کثرت سے اس گاڑی پر پتھر مار رہے تھے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے تھے.میری اس وقت چودہ پندرہ سال کی عمر ہوگی گاڑی کی ایک کھڑ کی کھلی تھی میں نے وہ کھڑ کی بند کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ اس زور سے پتھر مار رہے تھے کہ کھڑ کی میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور پتھر میرے ہاتھ پر لگے.پھر جب سیالکوٹ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر پتھر پھینکے گئے ، اس وقت بھی مجھے لگے.پھر جب تھوڑا عرصہ ہوا میں سیالکوٹ گیا تو باوجود اس کے کہ جماعت کے لوگوں نے میرے ارد گرد حلقہ بنالیا تھا، مجھے چار پتھر لگے.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 508)
تذکار مهدی ) 227 مخالفین کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کی دعوت روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مخالفین کو تحریک کی کہ ایسے جلسے منعقد کئے جائیں جن میں ہر شخص اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے.آپ نے یہ نہیں کہا کہ چونکہ میں خدا تعالی کی طرف سے مامور ہوں اس لئے باقی سب لوگ اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ بند کر دیں لیکن اگر آپ کانگرس کی پالیسی اختیار کرتے تو کہتے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں تم سب گونگے ہو جاؤ مگر نہیں آپ نے ایسا نہیں کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ باقی لوگوں کو بھی تبلیغ کا ویسا ہی حق ہے جیسا مجھے اس لئے آپ نے فرمایا کہ تم اپنی بات پیش کرو میں اپنی بات پیش کرتا ہوں اور جب تک یہ طریق پیش نہ کیا جائے امن کبھی نہیں ہو سکتا اور حق نہیں پھیل سکتا.دنیا میں کون ہے جو اپنے آپ کو حق پر نہیں سمجھتا لیکن جب خیالات میں اختلاف ہو تو ضروری ہے کہ اسے ظاہر کرنے کا موقع دیا جائے.ملکہ کو تبلیغ اسلام ( خطبات محمود جلد 12 صفحہ 418) پہلے زمانوں میں کیا مجال تھی کہ کوئی بادشاہ کو تبلیغ تو کر سکے.یہ بہت بڑی گستاخی اور بے ادبی سمجھی جاتی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کو ایک خط لکھا جس میں اسے اسلام کی طرف بلایا اور کہا کہ اگر اسے قبول کر لو گی تو آپ کا بھلا ہوگا.یہ سن کر بجائے اس کے کہ ان کی طرف سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار کیا جاتا اس چٹھی کے متعلق اس طرح شکر یہ ادا کیا گیا کہ ہم کو آپ کی چٹھی مل گئی جسے پڑھ کر خوشی ہوئی.یہ سب اللہ تعالیٰ کے احسان اور فضل ہیں.الفضل 19 اگست 1916 ء جلد 4 نمبر 13 صفحہ 7) ترک سفیر کو دیانت اور امانت پر قائم رہنے کی تلقین اگر خدانخواستہ خانہ کعبہ پر کوئی دشمن حملہ کر دے تو گو ہر مسلمان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنی ہر چیز خانہ کعبہ کی حفاظت کیلئے قربان کر دے مگر اصل حفاظت وہی کرے گا جو خانہ کعبہ کا مالک اور ہمارا خدا ہے.میں اس قسم کا اعتراض کرنے والوں کو ایک واقعہ سناتا ہوں جس سے پتہ لگ
تذکار مهدی ) 228 روایات سید نا محمودی سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں خانہ کعبہ کی عزت زیادہ ہے یا ہمارے دلوں میں.آج سے کئی سال پہلے جب بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ تھے ، ایک ترکی سفیر یہاں آیا.ترکی حکومت کو مضبوط بنانے کے لئے اس نے مسلمانوں سے بہت سا چندہ لیا اور جب اُس نے جماعت احمدیہ کا ذکر سنا تو قادیان بھی آیا.حسین کامی اس کا نام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کی گفتگو ہوئی.اس کا خیال تھا کہ مجھے یہاں سے زیادہ مدد ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کا وہ احترام کیا جو ایک مہمان کا کرنا چاہئے.پھر کچھ مذہبی گفتگو بھی ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے کچھ نصائح کیں کہ دیانت وامانت پر قائم رہنا چاہئے لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے اور فرمایا کہ رومی سلطنت ایسے ہی لوگوں کی شامت اعمال سے خطرہ میں ہے کیونکہ وہ لوگ جو سلطنت کی اہم خدمات پر مامور ہیں اپنی خدمات کو دیانت سے ادا نہیں کرتے اور سلطنت کے سچے خیر خواہ نہیں بلکہ اپنی طرح طرح کی خیانتوں سے اسلامی سلطنت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ سلطان روم کی سلطنت کی اچھی حالت نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں اور ترکی گورنمنٹ کے شیرازہ میں ایسے دھاگے ہیں جو وقت پر ٹوٹنے والے اور غداری سرشت ظاہر کرنے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ نصیحتیں کیں تو اُس سفیر کو بہت بُری لگیں کیونکہ وہ اس خیال کے ماتحت آیا تھا کہ میں سفیر ہوں اور یہ لوگ میرے ہاتھ چھو میں گے اور میری کسی بات کا انکار نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اُس سے یہ کڑوی کڑوی باتیں کیں کہ تم حکومت سے بڑی بڑی تنخواہیں وصول کر کے اس کی غداری کرتے ہو، تمہیں تقویٰ و طہارت سے کام لیکر اسلامی حکومت کو مضبوط کرنا چاہئے تو وہ یہاں سے بڑے غصہ میں گیا اور اُس نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ اسلامی حکومت کی ہتک کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ ترکی حکومت میں بعض کچے دھاگے ہیں.مسلمان عام طور پر دین سے محبت رکھتے ہیں مگر افسوس کہ مولوی انہیں کسی بات پر صیح طور سے غور کرنے نہیں دیتے.یہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عوام الناس اپنے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے اور سچائی سے پیار کرتے ہیں مگر مشکل یہ ہے کہ مولوی انہیں کسی بات پر غور کرنے نہیں دیتے اور جھٹ اشتعال دلا دیتے ہیں.اس موقع پر بھی مولویوں نے عام شور مچا دیا
تذکار مهدی ) 229 روایات سید نا محمود کہ ترکی حکومت جو محافظ حرمین شریفین ہے اس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہتک کی ہے.جب یہ شور بلند ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں لکھا تم تو یہ کہتے ہو کہ ترکی حکومت مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرتی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ ترکی حکومت چیز ہی کیا ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کی حفاظت کرے ، مکہ اور مدینہ تو خود ترکی حکومت کی حفاظت کر رہے ہیں.جس شخص کے دل میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے متعلق اتنی غیرت ہو، اُس کے ماننے والوں کے متعلق کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی اینٹ سے اینٹ بچ جائے تو وہ خوش ہوں.ہم تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ تسلیم کیا جائے کہ حقیقی طور پر مکہ اور مدینہ کی کوئی حکومت حفاظت کر رہی ہے.ہم تو سمجھتے ہیں کہ عرش سے خدا مکہ اور مدینہ کی حفاظت کر رہا ہے کوئی انسان ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا.ہاں ظاہری طور پر ہو سکتا ہے کہ اگر کوئی دشمن ان مقدس مقامات پر حملہ کرے تو اُس وقت انسانی ہاتھ کو بھی حفاظت کے لئے بڑھایا جائے لیکن اگر خدانخواستہ کبھی ایسا موقع آئے تو اُس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت کے متعلق جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے انسانوں پر عائد کی ہے اس کے ماتحت ا جماعت احمدیہ کس طرح سب لوگوں سے زیادہ قربانی کرتی ہے.ہم ان مقامات کو مقدس ترین مقامات سمجھتے ہیں، ہم ان مقامات کو خدا تعالیٰ کے جلال کے ظہور کی جگہ سمجھتے ہیں اور ہم اپنی عزیز ترین چیزوں کو ان کی حفاظت کے لئے قربان کرنا سعادت دارین سمجھتے ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو شخص ترچھی نگاہ سے مکہ کی طرف ایک دفعہ بھی دیکھے گا ، خدا اُس شخص کو اندھا کر دے گا اور اگر خدا تعالیٰ نے کبھی یہ کام انسانوں سے لیا تو جو ہاتھ اس بد میں آنکھ کو پھوڑنے کے لئے آگے بڑھیں گے، ان میں ہمارا ہاتھ خدا تعالیٰ کے فضل سے سب سے آگے ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تبلیغ (الفضل 30 ستمبر 1935 ءجلد 23 نمبر 55 صفحہ 9) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی تبلیغ سلسلہ کے لئے عجیب عجیب خیال آتے تھے اور وہ دن رات اسی فکر میں رہتے تھے کہ یہ پیغام دنیا کے ہر کونہ میں پہنچ جائے.ایک مرتبہ آپ نے تجویز کی کہ ہماری جماعت کا لباس ہی الگ ہوتا کہ ہر شخص بجائے خود ایک تبلیغ ہو سکے اور
تذکار مهدی ) کارمهدی 230 روایات سید نا محمودی دوستوں کو ایک دوسرے کی ناواقعی میں شناخت آسان ہو.اس پر مختلف تجویز میں ہوتی رہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ شائد اسی بناء پرلکھنو کے ایک دوست نے اپنی ٹوپی پر احمدی لکھوا لیا غرض تبلیغ ہو اور کونہ کونہ میں ہو، کوئی جگہ باقی نہ رہے.یہ جوش یہ تجویز میں اور کوشش ہماری نہیں یہ حضرت صاحب ہی کی ہیں اور سب کچھ انہیں کا ہے ہمارا تو کچھ بھی نہیں.لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے منصب خلافت، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 39) میں نو جوانوں سے کہتا ہوں کہ وہ مؤمن دل اور مؤمن شکل بنا ئیں اور مغربیت کی تقلید کو چھوڑ دیں.میں نے پچھلے سال بھی بتایا تھا کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم مغربی تہذیب کو تباہ کر دو اور اس کی بجائے اسلام کی تعلیم ، اسلام کے اخلاق ، اسلام کی تہذیب اور اسلام کے تمدن کو قائم کرو.بے شک تم اسلامی تمدن تبلیغ کے ذریعہ قائم کرو گے تلوار کے ذریعہ نہیں مگر تبلیغ کے لئے بھی تو یہ بات ضروری ہے کہ مبلغ کی شکل مؤمنانہ ہو.پس میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اُن کی ظاہری شکل اسلامی شعار کے مطابق ہونی چاہئے اور انہیں اپنی داڑھیوں میں، بالوں میں اور لباس میں سادگی اختیار کرنی چاہئے اسلام تمہیں صاف اور نظیف لباس پہنے سے نہیں روکتا بلکہ وہ خود حکم دیتا ہے کہ تم ظاہر صفائی کو ملحوظ رکھو اور گندگی کے قریب بھی نہ جاؤ مگر لباس میں تکلف اختیار کرنا منع ہے.اسی طرح تھوڑی دیر کے بعد کوٹ کے کالر کو دیکھنا کہ اُس پر گرد تو نہیں پڑ گئی یہ ایک لغو بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بعض لوگ اچھے اچھے کپڑے لاتے تھے اور آپ ان کپڑوں کو استعمال بھی کرتے تھے مگر کبھی لباس کی طرف ایسی توجہ نہیں فرماتے تھے کہ ہر وقت برش کروا رہے ہوں اور دل میں یہ خیال ہو کہ لباس پر کہیں گرد نہ پڑ جائے برش کروانا منع نہیں مگر اس پر زیادہ زور دینا اور اپنے وقت کا بیشتر حصہ اس قسم کی باتوں پر صرف کر دینا پسندیدہ نہیں سمجھا جا سکتا.میں نے خود کبھی کوٹ پر برش نہیں کروایا نہ میرے پاس اتنا وقت ہوتا ہے اور نہ مجھے اس بات کی کبھی پروا ہوئی ہے ممکن ہے میں نے چار کوٹ پھاڑے ہوں تو ان میں سے ایک کو کبھی ایک یا دو دفعہ برش کیا ہو.بعض لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں مگر میں
تذکار مهدی ) 231 روایات سید نا محمودی یہی کہا کرتا ہوں کہ میرے پاس ان باتوں کی طرف توجہ کرنے کے لئے وقت نہیں آپ کو اگر بُرا لگتا ہے تو بے شک لگے.اسی طرح کوٹ کے گریبان پر گردن کے قریب بعض دفعہ میں جم جاتی ہے مگر میرے نزدیک وہ میل اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا میرا وقت قیمتی ہوتا ہے ہاں اگر کوئی شخص اُس میل کو دور کر دے یا کوٹ پر برش کر لیا کرے تو یہ منع نہیں ہم جس چیز سے منع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان ظاہری باتوں کی طرف اتنی توجہ کی جائے کہ یہ خیال کر لیا جائے اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ہتک ہو جائے گی.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ دعوت کے موقع پر رونے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں، فلاں قسم کی پگڑی نہیں اس کے بغیر ہم دعوت میں کس طرح شامل ہوں.حالانکہ انسان کے پاس جس قسم کا لباس ہو اسی قسم کے لباس میں اُسے دوسروں سے ملنے کے لئے چلے جانا چاہئے.اصل چیز تو ننگ ڈھانکنا ہے جب ننگ ڈھانکنے کے لئے لباس موجود ہے اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی شخص کی ملاقات سے اس لئے محروم ہو جاتا ہے کہ کہتا ہے میرے پاس فلاں قسم کا کوٹ نہیں یا فلاں قسم کا گر تہ نہیں تو یہ دین نہیں بلکہ دنیا ہے.اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی ہو تو اس کے لئے مناسب یہی ہے کہ وہ ٹوپی اپنے سر پر رکھ لے لیکن اگر ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ ننگے سر ہی دوسرے کے ملنے کے لئے جاسکتا ہے اگر اس وقت وہ محض اس لئے کسی کو ملنے سے ہچکچاتا ہے کہ ٹوپی اس کے پاس موجود نہیں تو وہ بھی تکلف سے کام لینے والا سمجھا جائے گا.( خدام الاحمدیہ سے خطاب.انوار العلوم جلد 16 صفحہ 441-442) تبلیغ پر زور دینے کی ضرورت ہے میں جماعت کو بعض اور اہم فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جن میں سے پہلا یہ ہے کہ تبلیغ پر خاص طور پر زور دیا جائے.اس دفعہ یہاں دہلی میں میرے لئے ایک حیرت انگیز بات یہ ہوئی ہے کہ اب دلی والوں نے کج بحثی کو چھوڑ دیا ہے ورنہ اس سے پہلے جب کبھی مجھے یہاں آنے کا اتفاق ہوا دہلی کے ہر قسم کے لوگ مجھ سے ملنے کے لئے آیا کرتے تھے اور عجیب عجیب قسم کی بحث شروع کر دیا کرتے تھے اور کسی نے بھی کبھی کوئی معقول بات نہ کی تھی.مجھے یاد
تذکار مهدی ) 232 نامحمودی روایات سیّد نا محمود ہے میں اُس وقت چھوٹا سا تھا میں یہاں آیا اور اپنے رشتہ داروں کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا حیدر آباد کے ایک رشتہ کے بھائی بھی ہماری رشتے کی اس نانی کے پاس ملنے آئے تھے جن کے پاس حضرت اماں جان ٹھہری ہوئی تھیں انہوں نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا یہ لڑکا کون ہے؟ نانی نے کہا کہ فلاں کا لڑکا ہے یعنی حضرت اماں جان کا نام لیا.حضرت اماں جان کا نام سین کر وہ مجھے کہنے لگے تمہارے ابا نے کیا شور مچا رکھا ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے خلاف کئی قسم کی باتیں کرتے ہیں.اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی مگر بجائے اس کے کہ میں گھبراؤں چونکہ مجھے وفات مسیح کی بحث اچھی طرح یاد تھی میں نے وفات مسیح کے متعلق بات شروع کر دی.میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو صرف یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور اس زمانہ میں جو مسیح موعود اور مہدی آنے والا ہے وہ اسی اُمت میں سے آئے گا.مجھے قرآن کریم کی ان آیات میں سے جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے يُعِيسَى اِنّى مُتَوَفِّيْكَ وَرَافِعُكَ إِلَى (آل عمران : 56) والی آیت یاد تھی گو میں نے اس کے متعلق سارے مضمون کو اچھی طرح کھول کر بیان کیا تو وہ حیران ہوکر کہنے لگے واقعی اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں مگر یہ مولوی لوگ کیوں شور مچاتے ہیں.میں نے کہا یہ بات تو پھر اُن مولویوں ہی سے پوچھئے.اس پر ہماری نانی نے شور مچا دیا کہ تو بہ کرو تو بہ کرو، اس بچہ کا دماغ پہلے ہی ان باتوں کو سن کر خراب ہوا ہوا تھا تم تصدیق کر کے اسے کفر پر پکا کرتے ہو.( ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 453 454 ) تبلیغ کے لئے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں جیسا کہ ہم نے دیہاتی مبلغین کی سکیم بتائی ہے اسی طرح ان لوگوں کو جو معمولی نوشت و خواند جانتے ہیں تیار کیا جا سکتا ہے پہلا قدم ایسا ہی ہوا کرتا ہے.شروع میں ہی عالموں کا مل جانا مشکل ہے.پس اگر معمولی لکھے پڑھے ہی مل جائیں تو بھی کام چل سکتا ہے.لیکن اگر لکھے پڑھے بھی نہ ملیں تو ان پڑھوں کو بھی زبانی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں.بنگہ کے ایک دوست میاں شیر محمد صاحب تھے وہ ان پڑھ آدمی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ
تذکار مهدی ) 233 روایات سید نا محمود میں سے تھے.وہ فنا فی الدین کی قسم کے آدمیوں میں سے تھے اکہ چلاتے تھے.غالباً پھلور سے سواریاں لے کر بنگہ جاتے تھے.ان کا طریق تھا کہ سواری کو ا کہ میں بٹھا لیتے اور اگہ چلاتے جاتے اور سواریوں سے گفتگو شروع کر لیتے.اخبار الحکم منگواتے تھے.جیب سے اخبار نکال لیتے اور سواریوں سے پوچھتے آپ میں سے کوئی پڑھا ہوا ہے.اگر کوئی پڑھا ہوا ہوتا اسے کہتے کہ یہ اخبار میرے نام آئی ہے ذرا اس کو سنا تو دیجئے اگہ میں بیٹھا ہوا آدمی جھٹکے کھاتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسے کوئی شغل مل جائے.وہ خوشی سے پڑھ کر سنانا شروع کر دیتا.جب وہ اخبار پڑھنا شروع کرتا تو وہ جرح شروع کر دیتے کہ یہ کیا لکھا ہے.اس کا کیا مطلب ہے؟ اور اس طرح جرح کرتے کہ اس کے ذہن کو سوچ کر جواب دینا پڑتا اور بات اچھی طرح اس کے ذہن نشین ہو جاتی.جب انہوں نے مجھے یہ واقعہ مجھے سنایا تھا تو اس وقت تک ان کے ذریعہ سے درجن سے زیادہ احمدی ہو چکے تھے.اس کے بعد بھی وہ کئی سال تک زندہ رہے ہیں.نامعلوم کتنے آدمی ان کے ذریعہ اور اسی طریق پر احمدیت میں داخل ہوئے.غرض ضروری نہیں کہ ہمیں کام شروع کرنے کے لئے بڑے بڑے عالم آدمیوں کی ضرورت ہو.بلکہ ایسے علاقوں میں جہاں کوئی پڑھا ہوا آدمی نہیں مل سکتا.اگر ان پڑھ احمدی مل جائے تو ان پڑھ ہی ہمارے پاس بھجوا دیا جائے.اس کو زبانی مسائل سمجھائے جا سکتے ہیں.تا کام شروع ہو جائے.اگر ہم اس انتظار میں رہے کہ عالم آدمی ملیں.تو نا معلوم ان کے آنے تک کتنا زمانہ گزر جائے گا.کیونکہ علماء کو مذہب کی باریکیوں میں جانا پڑتا ہے.اس لئے ان کو علم حاصل کرنے میں کافی عرصہ لگ جاتا ہے.لیکن باوجود اس کے کہ مذہب میں باریکیاں ہوتی ہیں.جن کے سیکھنے کے لئے ایک لمبے عرصہ کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے متعلق فرماتے ہیں کہ الدِّينُ يُسر یہ دین بڑا آسان بنایا گیا ہے.اگر چہ اس میں بڑی بڑی باریکیاں بھی ہیں لیکن یہ اتنا سیدھا سادہ اور آسان ہے کہ ہر آدمی اس کو آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے.میرے تمام دعاوی قرآن کے مطابق ہیں خطبات محمود جلد 26 صفحہ 456-457) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.آپ کے ایک
تذکار مهدی ) کارمهدی 234 روایات سید نا محمود دوست تھے جو مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھی دوست تھے.ان کا نام نظام الدین تھا انہوں نے سات حج کئے تھے.بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے.چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین بٹالوی دونوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے اس لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ ماموریت کیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا تو ان کے دل کو بڑی تکلیف ہوئی کیونکہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نیکی پر بہت یقین تھا.وہ لدھیانہ میں رہا کرتے تھے اور مخالف لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کچھ کہتے تو وہ ان سے جھگڑ پڑتے اور کہتے کہ تم پہلے حضرت مرزا صاحب کی حالت تو جا کر دیکھو وہ تو بہت ہی نیک آدمی ہیں اور میں نے ان کے پاس رہ کر دیکھا ہے کہ اگر انہیں قرآن مجید سے کوئی بات سمجھا دی جائے تو وہ فوراً ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، وہ فریب ہرگز نہیں کرتے.اگر انہیں قرآن سے سمجھا دیا جائے کہ ان کا دعویٰ غلط ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ فوراًمان جائیں گے.بہت دفعہ وہ لوگوں کے ساتھ اس امر پر جھگڑتے اور کہا کرتے کہ جب میں قادیان جاؤں گا تو دیکھوں گا کہ وہ کس طرح اپنے دعوئی سے تو یہ نہیں کرتے.میں قرآن کھول کر ان کے سامنے رکھ دوں گا اور جس وقت میں قرآن کی کوئی آیت حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کے متعلق بتاؤں گا، وہ فورا مان جائیں گے.میں خوب جانتا ہوں وہ قرآن کی بات سن کر پھر کچھ نہیں کہا کرتے.آخر ایک دن انہیں خیال آیا اور لدھیانہ سے قادیان پہنچے اور آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ کیا آپ نے اسلام چھوڑ دیا ہے اور قرآن سے انکار کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ کس طرح ہو سکتا ہے قرآن کو تو میں مانتا ہوں اور اسلام میرا مذہب ہے.کہنے لگے اَلحَمدُ لِلَّهِ میں لوگوں سے یہی کہتا رہتا ہوں کہ وہ قرآن کو چھوڑ ہی نہیں سکتے پھر کہنے لگے.اچھا اگر میں قرآن مجید سے سینکڑوں آیتیں اس امر کے ثبوت میں دکھا دوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ چلے گئے ہیں تو کیا آپ مان جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا سینکڑوں آیات کا تو کیا ذکر اگر آپ ایک ہی آیت مجھے ایسی دکھا دیں گے تو میں مان لوں گا.کہنے لگے اَلحَمدُ لِلَّهِ میں لوگوں سے یہی بحثیں کرتا آیا ہوں کہ حضرت مرزا صاحب سے منوانا تو کچھ مشکل بات نہیں
تذکار مهدی ) 235 روایات سید نا محمود یونہی لوگ شور مچارہے ہیں.پھر کہنے لگے اچھا سینکڑوں نہ سہی میں اگر سو آیتیں ہی حیات مسیح کے ثبوت میں پیش کر دوں تو کیا آپ مان لیں گے.آپ نے فرمایا میں نے تو کہہ دیا ہے کہ اگر آپ ایک ہی آیت ایسی پیش کر دیں گے تو میں مان لوں گا قرآن مجید کی جس طرح سو آیتوں پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح اس کے ایک ایک لفظ پر عمل کرنا ضروری ہے ایک یا سو آنتوں کا سوال ہی نہیں.کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس آیتیں اگر میں پیش کردوں تو کیا آپ کا وعدہ رہا کہ آپ اپنی بات چھوڑ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں آپ ایک ہی آیت پیش کریں میں ماننے کے لئے تیار ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جوں جوں اس امر پر پختگی کا اظہار کرتے جائیں انہیں شبہ ہوتا جائے کہ شاید اتنی آیتیں قرآن میں نہ ہوں.آخر کہنے لگے اچھا دس آیتیں اگر میں پیش کردوں تو پھر آپ ضرور مان جائیے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے اور فرمایا میں تو اپنی پہلی ہی بات پر قائم ہوں آپ ایک آیت ایسی پیش کریں.کہنے لگے اچھا میں اب جاتا ہوں چار پانچ دن تک آؤں گا اور آپ کو قرآن سے ایسی آیتیں دکھلا دوں گا.ان دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور میں تھے اور حضرت خلیفہ اول بھی وہیں تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے اس وقت مباحثہ کے لئے شرائط کا تصفیہ ہو رہا تھا جس کے لئے آپس میں خط و کتابت بھی ہو رہی تھی.مباحثہ کا موضوع وفات مسیح تھا.مولوی محمد حسین بٹالوی یہ کہتے تھے کہ چونکہ قرآن مجید کی مفسر حدیث ہے اس لئے جب حدیثوں سے کوئی بات ثابت ہو جائے تو وہ قرآن مجید کی ہی بات سمجھی جائے گی اس لئے حدیثوں کی رو سے وفات وحیات مسیح پر بحث ہونی چاہئے اور حضرت مولوی صاحب فرماتے کہ قرآن مجید حدیث پر مقدم ہے اس لئے بہر صورت قرآن سے اپنے مدعا کو ثابت کرنا ہوگا.اس پر بہت دنوں بحث رہی اور بحث کو مختصر کرنے کے لئے اور اس لئے کہ تا کسی نہ کسی طرح مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ ہو جائے حضرت خلیفہ اول اس کی بہت سی باتوں کو تسلیم کرتے چلے گئے اور مولوی محمد حسین صاحب بہت خوش تھے کہ جو شرائط میں منوانا چاہتا ہوں وہ مان رہے ہیں.اس دوران میں میاں نظام الدین صاحب وہاں جا پہنچے اور کہنے لگے اب تمام بخشیں بند کر دو.میں اب حضرت مرزا صاحب سے مل کر آیا ہوں اور وہ بالکل تو بہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.
تذکار مهدی ) 236 روایات سید نا محمود میں چونکہ آپ کا بھی دوست ہوں اور حضرت مرزا صاحب کا بھی اس لئے مجھے اس اختلاف سے بہت تکلیف ہوئی.میں یہ بھی جانتا تھا کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت میں نیکی ہے اس لئے میں ان کے پاس گیا اور ان سے یہ وعدہ لے کر آیا ہوں کہ قرآن سے دس آیتیں حضرت عیسی علیہ السلام کے آسمان پر جانے کے متعلق دکھادی جائیں تو وہ حیات مسیح علیہ السلام کے قائل ہو جائیں گے آپ مجھے ایسی دس آیتیں بتلا دیں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی طبیعت میں غصہ بہت تھا اور وہ بہت جلد باز تھے.کہنے لگے کم بخت تو نے میرا سارا کام خراب کر دیا.میں دو مہینے سے بحث کر کے ان کو حدیث کی طرف لایا تھا اب تو پھر قرآن کی طرف لے گیا.میاں نظام الدین کہنے لگے اچھا تو دس آیتیں بھی آپ کی تائید میں نہیں.وہ کہنے لگے تو جاہل آدمی ہے تجھے کیا پتہ کہ قرآن کا کیا مطلب ہے وہ کہنے لگے اچھا تو پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی میں بھی ہوں.یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر لی.دیکھو قرآن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس قدرا اعتماد تھا اور آپ کتنے وثوق سے فرماتے تھے کہ قرآن آپ کے خلاف نہیں ہو سکتا.اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ قرآن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کوئی خاص رشتہ ہے یا اس کا جماعت احمد یہ سے خاص تعلق ہے.قرآن تو سچائی کی راہ دکھائے گا اور جو فریق سچ پر ہو گا اس کی حمایت کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو چونکہ یقین تھا کہ آپ حق پر ہیں اس لئے قرآن بھی آپ کے ساتھ تھا یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر میرا کوئی دعوی قرآن کے مطابق نہ ہو تو میں اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دوں.اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دعوئی کے متعلق کوئی شک تھا بلکہ یہ کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو یقین تھا کہ قرآن میری تصدیق ہی کرے گا.یہ امید ہے جس نے ہمیں دنیا میں خطبات محمود جلد 13 صفحہ 418 تا 416) کامیاب کر دیا.مخالفت بھی ہدایت کا موجب ہو جاتی ہے جب مخالفت ترقی کرتی ہے تو جماعت کو بھی ترقی حاصل ہوتی ہے اور جب مخالفت
تذکار مهدی ) 237 روایات سید نا محمود بڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیدات اور نصرتیں بھی بڑھ جاتی ہیں اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں جب کوئی دوست یہ ذکر کرتے کہ ہمارے ہاں بڑی مخالفت ہے تو آپ فرماتے یہ تمہاری ترقی کی علامت ہے.جہاں مخالفت ہوتی ہے وہاں جماعت بھی بڑھتی ہے کیونکہ مخالفت کے نتیجہ میں کئی ناواقف لوگوں کو بھی سلسلہ سے واقفیت ہو جاتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ اُن کے دل میں سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے اور جب وہ کتابیں پڑھتے ہیں تو صداقت اُن کے دلوں کو موہ لیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک دفعہ ایک دوست حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی بیعت کی.بیعت لینے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس نے تبلیغ کی تھی وہ بے ساختہ کہنے لگے.مجھے تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے تبلیغ کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حیرت سے فرمایا وہ کس طرح؟ وہ کہنے لگے میں مولوی صاحب کا اخبار اور اُن کی کتابیں پڑھا کرتا تھا اور میں ہمیشہ دیکھتا کہ ان میں جماعت احمدیہ کی شدید مخالفت ہوتی تھی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ میں خود بھی تو اس سلسلہ کی کتابیں دیکھوں کہ ان میں کیا لکھا ہے اور جب میں نے ان کتابوں کو پڑھنا شروع کیا تو میرا سینہ کھل گیا اور میں بیعت کے لئے تیار ہو گیا.تو مخالفت کا پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے الہی سلسلہ کو ترقی حاصل ہوتی ہے اور کئی لوگوں کو ہدایت میسر آ جاتی ہے.پھر دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے نشانات ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں.جب مخالفت اپنے انتہاء کو پہنچ جاتی ہے تو مومنوں کی عاجزانہ دعائیں اللہ تعالیٰ کی نصرت کو آسمان سے بھینچ لاتی ہیں.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 487) تبلیغ مولوی محمد حسین بٹالوی نے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانہ میں ایک بڑے ادیب جو محاورات اردو کی کتاب بھی چالیس جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور جس کا کچھ حصہ نواب صاحب رامپور نے شائع بھی کرایا تھا، قادیان حضرت مسیح موعود علیہ اصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو سلسلہ کی تبلیغ کس
تذکار مهدی ) 238 روایات سید نا محمودی نے کی؟ انہوں نے کہا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے.بچپن کی وجہ سے مجھے اس جواب پر بڑی حیرت ہوئی اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ کس طرح ؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے جب مولوی محمد حسین صاحب کی تحریریں پڑھیں تو مجھے ان میں اس قدر غصہ اور دیوانگی نظر آئی کہ جب تک حقیقی خطرہ سامنے نہ ہو اس وقت تک وہ غصہ اور دیوانگی پیدا نہیں ہو سکتی.پس میں نے اس وقت سمجھا کہ ضرور حضرت مرزا صاحب میں صداقت ہے تب میں نے در مشین وغیرہ پڑھی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ دشمن جو کہتے ہیں غلط ہے.میں حضور کی بیعت کے لئے قادیان آیا تو اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے بھی شریف الطبع لوگوں کو ہدایت دیتا ہے.(خطبات محمود جلد 14 صفحہ 71-70 ) مخلوق کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان کر رکھے ہیں احمدیت نے صداقت کو ایسے آسان رنگ میں پیش کیا ہے کہ معمولی سمجھ کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے.چنانچہ ایک شخص پیرا نامی کسی سخت مرض میں مبتلا ہو کر قادیان آیا.وہ ایک غریب آدمی تھا اُس کے وارث اُسے یہاں چھوڑ کر چلے گئے.چھ ماہ تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محنت سے اس کا علاج کیا.جب وہ تندرست ہو گیا تو اُس کے وارث اُس کو لینے کیلئے آئے لیکن اُس نے جانے سے انکار کر دیا اور قادیان میں ہی رہا اور وہیں فوت ہوا.وہ بڑی موٹی سمجھ کا آدمی تھا چنانچہ مجھے بچپن کے زمانہ کا اس کا واقعہ یاد ہے کہ وہ چند پیسے لے کر مٹی کا تیل پی جاتا تھا.قادیان میں شروع زمانہ احمدیت میں جبکہ ریل اور تار وغیرہ نہ تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُسے تار دینے کیلئے وقتاً فوقتاً بٹالہ بھیجتے تھے.وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر دیکھا کرتا تھا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لوگوں کو قادیان جانے سے روکنے کیلئے ہمیشہ بٹالہ اسٹیشن پر آیا کرتے تھے اسی سلسلہ میں مولوی صاحب نے مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری پروفیسر کو بھی بٹالہ سے واپس کر دیا تھا.یہ پروفیسر صاحب اب میرے خسر ہیں اور اکثر افسوس کیا کرتے ہیں کہ اگر میں واپس نہ جاتا تو صحابہ کا درجہ حاصل کر لیتا لیکن افسوس کہ میں واپس چلا گیا.غرض اسی طریق پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایک دن میاں پیرا سے کہا کہ تُو قادیان مرزے کے پاس کیوں پڑا ہے، تو نے اس کا کیا دیکھا ہے؟ اس پر پیرے نے کہا.
تذکار مهدی ) 239 روایات سیّد نا محمود مولوی صاحب! میں پڑھا ہوا تو ہوں نہیں پر ایک بات آپ کو بتا دیتا ہوں کہ آپ کو تو میں ہمیشہ اسٹیشن پر دیکھتا ہوں، آپ لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں مگر باوجود اس کے لوگ قادیان جاتے ہیں.آپ کی جوتیاں بھی اسی کوشش میں گھس گئیں پر لوگ قادیان جانے سے نہیں رکتے لیکن مرزا صاحب تو ہمیشہ گھر میں ہی رہتے اور ملاقات کیلئے بھی بسا اوقات لوگوں کو کئی کئی دن انتظار کرنا پڑتا ہے.پھر لوگ قادیان کو تو بھاگے چلتے جاتے ہیں لیکن آپ کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.آخر کوئی بات تو ہوگی اس سے آپ سمجھ لیں کہ مرزا صاحب کے پاس کیا ہے.غرض مذہب کی صداقت کے عوام کی ہدایت کیلئے بھی خدا تعالیٰ نے سامان رکھے ہوئے ہیں جن سے ان پڑھ بھی فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.ورنہ وہ پیر ا اِس قدر موٹی عقل کا تھا کہ اُس کو نماز تک یاد نہ ہوتی تھی.اُسے دو دو روپے تک انعام دینے کے وعدے کئے جاتے تھے کہ پانچ نمازیں پڑھ لے اور یہ انعام لے.کئی کئی دن اس کو سُبْحَانَ اللهِ یاد کرانے پر لگ گئے مگر ایسے شخص کی ہدایت کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے دلیل رکھی ہوئی تھی.(ایک رئیس سے مکالمہ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 295-296) مہمانوں کو قادیان جانے سے روکنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ہی واقعہ ہے ایک نہایت جاہل شخص یہاں ہوا کرتا تھا پیرا اس کا نام تھا اسے دو چار آنے کے پیسے سے اگر کوئی شخص دے دیتا تو وہ دال میں مٹی کے تیل کی آدھی بوتل ڈال کر کھا جاتا.دین کی معمولی معمولی باتوں سے بھی اتنا نا واقف تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اس سے کہا کہ تیرا مذہب کیا ہے؟ وہ اس وقت تو خاموش رہا مگر دوسرے تیسرے دن آپ کے پاس ایک کارڈ لایا کہ ہمارے گاؤں کے نمبردار کو لکھ دیں.آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لکھنا ہے؟ تو وہ کہنے لگا آپ نے جو میرا مذہب دریافت کیا تھا.میں نمبر دار کو لکھ کر دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میرا مذہب کیا ہے؟ حضرت خلیفہ اول ہمیشہ اُس کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ نماز پڑھو مگر وہ کہتا کہ مجھے نماز نہیں آتی صرف سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللهِ کہنا آتا ہے.خیر ایک دن حضرت خلیفہ اول نے پیرے سے کہا کہ اگر تم ایک دن پورے پانچ وقت کی نمازیں جماعت سے ادا کرو تو میں تمہیں دوروپے انعام دونگا.اُس نے عشاء سے نماز شروع کی اور اگلی مغرب کو پوری پانچ
تذکار مهدی ) 240 روایات سید نامحمود ہوتی تھیں.اُن دنوں مہمان چونکہ تھوڑے ہوتے تھے اس لئے اُن کا کھانا ہمارے گھر میں ہی تیار ہوتا تھا.مغرب کے وقت جب کھانا تیار ہوا تو اندر سے خادمہ نے آواز دی کہ پیرے! کھانا لے جاؤ.وہ نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اُس کی پانچویں نماز تھی لیکن بلانے والی عورت کو اس کا علم نہ تھا اس لئے وہ برابر آواز میں دیتی گئی.اس پر پیرا نماز میں ہی زور سے کہنے لگا.ٹھیر جا.التحیات ختم کر کے آندا ہاں“.ایک دفعہ کسی کام کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے بٹالہ بھیجا.وہاں اسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مل گئے.وہ اکثر لوگوں کو قادیان آنے سے باز رکھنے کی کوشش کیا کرتے تھے.اُس دن اتفاقاً انہیں اور کوئی نہ ملا تو انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہا.پیرے! تو کیوں قادیان بیٹھا ہے؟ پیرے نے جواب دیا مولوی صاحب! میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں ، ہاں ایک بات ہے جو میں جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور لوگ دُور دُور سے یکوں میں دھکے کھا کھا کے ان کے پاس پہنچتے ہیں.مگر آپ بٹالہ میں رہتے ہیں جہاں لوگ آسانی کے ساتھ پہنچ سکتے ہیں مگر آپ کے پاس کوئی نہیں آتا.حتی کہ روزانہ لوگوں کو سمجھانے کیلئے آپ خود سٹیشن پر آتے ہیں اور شاید اس کوشش میں آپ کی جوتی بھی گھیس گئی ہوگی لیکن لوگ آپ کی بات نہیں مانتے.آخر کوئی بات تو ہے کہ لوگ مرزا صاحب کی طرف اس طرح کھچے چلے جاتے ہیں اور آپ کوکوئی نہیں پوچھتا.غرض اس قسم کے آدمی ہی دن ہوتے ہیں جو کسی کی بات نہیں مانتے اور دوسرے کی اطاعت کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.مگر جب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بدل جاتی ہے.( فضائل القرآن (6) انوار العلوم جلد 14 صفحہ 388-389 ) ریویو آف ریجنز کی اشاعت 10 ہزار تک بڑھانے کی تجویز پھر ریویو آف ریلیجنز وہ رسالہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ خواہش ظاہر فرمائی تھی کہ اس کے دس ہزار خریدار ہوں.یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ایک دفعہ بھی اب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکے.ہمارے جلسہ سالانہ پر ہی ہیں ہزار آدمی آ جاتے ہیں اور اگر سب دوست اس کی خریداری کی
تذکار مهدی ) 241 روایات سید نا محمود ) طرف توجہ کریں تو دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں مگر افسوس ہے کہ ہماری جماعت کو ابھی تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کی توفیق نہیں ملی.میں سمجھتا ہوں اگر غیر احمدیوں میں اس رسالہ کی کثرت سے اشاعت کی جائے تو دس ہزار خریدار یقیناً میسر آ سکتا ہے کیونکہ اس رسالہ میں ایسے علمی مضامین شائع ہوتے ہیں جو عام طور پر دوسرے رسالوں کو میسر نہیں آتے.انگریزی دان طبقہ کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ وہ اس رسالہ کو کثرت سے خریدیں لیکن وہ دوست جو انگریزی نہیں جانتے وہ بھی اگر شادی بیاہ کے موقع پر ریویو آف ریلیجنز کی امداد کے لئے کچھ دے دیا کریں تو ان پر کچھ زیادہ بار نہیں ہو سکتا.لوگ شادیوں کے موقع پر صدقہ و خیرات کیا کرتے ہیں اور جو لوگ صدقہ و خیرات نہیں کرتے وہ بھی میرا شیوں اور ڈوموں میں جب وہ مبارکباد دینے کیلئے آتے ہیں تو کئی روپے تقسیم کر دیتے ہیں.(بانی سلسلہ احمدیہ کوئی نیا دین نہیں لائے ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 228، 229) میاں نور محمد صاحب لدھیانوی اسی قسم کا ایک اور واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے.لدھیانہ کے علاقہ کے ایک شخص میاں نور محمد صاحب تھے.انہوں نے ادنیٰ اقوام میں تبلیغ اسلام کا بیڑا اُٹھایا ہوا تھا.وہ خاکروبوں میں تبلیغ کیا کرتے تھے اور سینکڑوں خاکروب ان کے مرید ہو گئے تھے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور ان کے بعض مرید بعض دفعہ یہاں بھی آجایا کرتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہمارے پیر کے پیر ہیں.یہاں ہمارے ایک رشتہ میں چچا نے محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت اور آپ کے دعوی کا تمسخر اڑانے کے لئے اپنے آپ کو چوہڑوں کا پیر مشہور کیا ہوا تھا.اور ان کا دعویٰ تھا کہ میں لال بیگ ہوں.ایک دفعہ بعض وہ لوگ جو خاکروب سے مسلمان ہو چکے تھے یہاں آئے ہوئے تھے.انہیں حقہ کی عادت تھی.ان صاحب کی مجلس میں جو انہوں نے حصہ دیکھا تو حقہ کی خاطر ان کے پاس جا بیٹھے.ہمارے چچا نے ان سے مذہبی گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ تم مرزا صاحب کے پاس کیوں آئے ہو؟ تم تو دراصل میرے مرید ہو.مرزا صاحب نے تمہیں کیا دیا ہے.وہ لوگ ان پڑھ تھے جیسے خاکروب عام طور پر ہوتے ہیں.آج کل تو پھر بھی خاکروب کچھ ہوشیار ہو گئے ہیں لیکن یہ آج سے چالیس سال پہلے کی بات ہے اُس وقت یہ قوم بالکل ہی جاہل تھی.لیکن جب ان سے ہمارے چا
تذکار مهدی ) 242 روایات سید نا محمودی نے سوال کیا کہ مرزا صاحب نے تم کو کیا دیا ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اور تو کچھ نہیں جانتے لیکن اتنی بات پھر بھی سمجھ سکتے ہیں کہ لوگ پہلے ہم کو چوہڑے کہتے تھے لیکن مرزا صاحب کے تعلق کی وجہ سے اب ہمیں مرزائی کہتے ہیں.گویا ہم چوہڑے تھے اب ان کے طفیل مرزا بن گئے لیکن آپ پہلے مرزا تھے مرزا صاحب کی مخالفت کی وجہ سے چوہڑے بن گئے.اب یہ باتیں ہیں تو بظاہر لطائف مگر ان کے اندر معرفت کا فلسفہ بھی موجود ہے.ان ان پڑھ لوگوں نے اپنی زبان سے اس مفہوم کو ادا کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء کے مخالفوں کو تباہ کر دیتا ہے اور ماننے والوں کو ترقی دیتا ہے.پس سچی بات یہ ہے کہ احمدی ہوتے ہی انسان کی عقل مذہبی امور میں تیز ہو جاتی ہے اور وہ علماء پر بھی بھاری ہوتا ہے.لیکن اس امر کو نظر انداز کر دو تو بھی کونسا ایسا احمدی ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ اس کے طبقہ کے لوگ دنیا میں موجود نہیں.بلکہ ہر احمدی اپنی عقل اور سمجھ میں کم سے کم اپنے طبقہ کے ہر عیسائی، ہندو، سکھ اور غیر احمدی سے زیادہ ہوشیار ہوگا.(خطبات محمود جلد 16 صفحہ 798،797) ہماری عمریں تو مخالفتوں اور گالیاں کھانے میں ہی گزریں پس نبوت بے شک انعام ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساری عمر قربانی ہی کرتے رہے.یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہم دیکھتے ہیں.آپ کی ساری عمر اسی طرح گزری کہ کہیں پتھر ہیں، کہیں گالیاں ہیں ، کہیں مقدمے دائر کئے جا رہے ہیں.کہیں شورشیں بپا کی جاتی ہیں.حتی کہ جس وقت آپ کی وفات ہوئی اس وقت بھی جبکہ ہمارے دل زخمی تھے اور دنیا ہماری آنکھوں میں تیرہ و تار تھی.ہزاروں لوگ مغلظ گالیاں بک رہے اور پتھر مار رہے تھے.حالانکہ کسی بڑے سے بڑے چور اور بدمعاش کی وفات پر بھی یہ سلوک کبھی نہیں ہوا ہوگا.ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم نے اپنی حکومت بنارکھی ہے لیکن کیا حکومت ایسی ہی ہوتی ہے؟ ان لوگوں میں سے کوئی ایسا شریف آدمی نہ تھا جو انہیں بتا سکتا کہ مرنے والے سے محبت کرنے والے لوگ اندر بیٹھے رور ہے ہیں.تم لوگ خدا تعالیٰ کا خوف کرو اور ان کے نہ دل دکھاؤ.پھر آپ کے بعد بھی یہی حال ہے.بے شک اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ہمارا غلام بنا دیا ہے مگر یہ بعد والے دیکھیں گے.وہ زمانہ آنے والا ہے جب وہ لوگ تختوں پر بیٹھے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام آتے ہی مؤدب کھڑے ہو جایا کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) 243 روایات سید نامحمودی کے غلاموں کے آگے آج کل کے بڑے بڑے لوگوں کی اولادیں جو تیاں رکھنا باعث فخر سمجھیں گی.مگر میں ہم نے کیا لیا سوائے گالیوں اور پتھروں کے.ہماری زندگیاں اسی میں گزریں گی اور بادشاہتیں انہیں ملیں گی جو ان گالیوں کی لذت سے آشنا نہ ہوں گے ہمارے لئے مقدر بھی یہی ہے اور ہم چاہتے بھی یہی ہیں.ہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں خود بخود کچھ مل جائے تو اور بات ہے.مگر ہم چاہتے یہی ہیں کہ ہماری عمریں مخالفتیں اٹھانے اور گالیاں کھانے میں ہی گزریں کیونکہ ان میں جو لذت اور سرور ہے وہ بادشاہتوں میں نہیں.یہی وہ انعام ہے جو انبیاء اور رسولوں کو ملا اور یہی ہم اپنے لئے چاہتے ہیں.یہی وہ عید ہے جو آج منائی جا رہی ہے.بقر عید نبیوں کے زمانہ کی عید ہوا کرتی ہے اور چھوٹی عید نبیوں کے بعد کے زمانہ کی.چھوٹی عید کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب بھوک کا زمانہ گزر گیا.لیکن اس عید کا مطلب یہ ہے کہ آؤ قربانی کریں.اس لئے یہ عید انبیاء اور ان کے خلفاء کے زمانہ کی عید ہے اور چھوٹی عید انبیاء کے بعد کے زمانہ کی ہوتی ہے.بڑی عید یہی ہے جو قربانیوں اور تکالیف کی ہے، وہ چھوٹی ہے جس میں بادشاہتیں اور حکومتیں ملتی ہیں.خدا کے انعام نام ہیں قربانی کا.ہمارے لئے تخت حکومت سولی کا تختہ ہے.وہی ہماری حکومت ہے اور وہ تمام تکالیف جو ہمیں دی جاتی ہیں انہیں میں ہمارے لئے فخر ہے.ہم اگر اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے کرتے ہیں.اگر ہم مخالفوں سے کہتے ہیں کہ گالیاں مت دو تو اس لئے ان کے اخلاق نہ بگڑ جائیں اور اگر حکومت کو متوجہ کرتے ہیں تو اس لئے کہ حکومت خدا کی نظروں میں مغضوب ہو کر تباہ نہ ہو جائے ورنہ ہم تو لذت اسی میں محسوس کرتے ہیں اور مومن کی عید اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ جن لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جانیں دیں انہوں نے عید نہیں دیکھی.آج وہ سامنے نہیں ہیں ورنہ تم دیکھتے کہ ان کے چہروں پر ایسے آثار ہوتے تھے جو ظاہری عید منانے والوں کے چہروں پر ہو ہی نہیں سکتے جو جان دے دیتا تھا وہ یہی سمجھتا تھا کہ میری عید آ گئی.اسی لئے انہیں شہید کہا گیا ہے کہ وہ عید کا چاند دیکھتے ہوئے مرے.ہر مومن جو دین کے لئے فدا ہوتا ہے.وہ عید دیکھتا ہے.یہی عید اضحیہ ہوتی ہے.یہی انبیاء کے زمانہ کا نشان ہے اور اسی کے لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.خطبات محمود جلد دوم صفحه 181 تا182 ) |
تذکار مهدی ) مولوی محمد حسین بٹالوی کی ناکامی 244 روایات سید نا محمودی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ لکھ لکھ کر بڑے خوش ہوتے تھے کہ مرزا غلام احمد تو مضمون نگار ہے اور حکیم نورالدین ایک طبیب ہے ہاں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی کچھ علمیت رکھتے ہیں اور پھر اس پر بڑے خوش ہوتے تھے کہ میں نے بڑا تیر مارا ہے لیکن اب مرنے کے بعد اُن کو کون یاد کرتا ہے؟ مگر یہاں خدا تعالیٰ ہر گھر ، ہر گاؤں اور ہر ملک سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لا رہا ہے اور ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں کے قدموں میں ڈال رہا ہے.حضرت مسیح موعود کے دعویٰ سے پہلے آپ کے پاس ایک شخص بیمار ہو کر آیا اور حضرت مسیح موعود کے سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا.وہ ایسا بے وقوف تھا کہ مٹی کا تیل کھانے میں ڈال کر کھا جاتا تھا اور کہتا تھا کہ چکنائی ہی کھانی ہے کوئی دوسرا تیل نہ کھایا یہ کھا لیا.اُس وقت یہاں تار گھر نہیں ہوتا تھا تار دینے کے لئے آدمی بٹالے جاتے تھے یہ بھی تار دینے کے لئے بٹالے جاتا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی روزانہ اسٹیشن پر جاتے تھے اور لوگوں کو قادیان آنے سے روکتے تھے ممکن ہے شاذ و نادر بعض لوگوں کو ورغلا کر واپس بھیج دینے میں کامیاب ہو جاتے ہوں گے.وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ میں یہاں کا رہنے والا ہوں مرزا صاحب کو خوب جانتا ہوں آپ وہاں نہ جائیں.ایک دن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو اسٹیشن پر کوئی بھی آدمی نہ ملا مذکورہ بالا شخص کو جس کا نام پیرا تھا اور جو تار دینے بٹالہ گیا تھا اُنہوں نے دیکھ لیا اور اُس کو تبلیغ کرنے کا ارادہ کیا.چنانچہ اُسے جا کر کہا تجھ پر کیا مار پڑی ہے کہ تو مرزا صاحب کے قابو آ گیا ہے تو نے آخر وہاں کیا دیکھا ہے؟ اُس نے یہ واقعہ خود آ کر قادیان سنایا اور بتایا کہ پہلے میں حیران ہوا کہ کیا کہوں مجھے آتا تو کچھ ہے نہیں اور حقیقتا وہ تھا بھی جاہل اور احمدیت سے بالکل ناواقف چونکہ اُس کے رشتہ داروں نے اُسے چھوڑ دیا تھا اور بیماری میں اُس کا علاج نہیں کرایا تھا اس لئے وہ اُن کو چھوڑ کر قادیان میں ہی رہ گیا تھا حضرت مسیح موعود نے اُس کا علاج کیا اس لئے وہ حضرت مسیح موعود کے حُسن سلوک کو دیکھ کر یہیں رہ پڑا مگر باوجود جاہل ہونے کے اُس کی فطرت نے اُسے جواب سمجھا دیا.چنانچہ اس کے اپنے بیان کے مطابق مولوی صاحب کو یہ جواب دیا کہ مولوی صاحب! میں تو ان پڑھ ہوں اور مجھے کچھ نہیں آتا مگر ایک بات میں دیکھتا ہوں وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر سے نہیں
تذکار مهدی ) 245 روایات سید نامحمود نکلتے ، لوگ اطلاع کرواتے ہیں، بعض اوقات کسی مجبوری کی وجہ سے مرزا صاحب دیر تک باہر نہیں آتے اور کہلا بھیجتے ہیں کہ طبیعت اچھی نہیں اس وقت نہیں آ سکتے اور گو ملنے والے بڑے بڑے آدمی ہوتے ہیں لیکن چپ کر کے دروازے کے آگے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر مصافحہ ہو جاتا ہے تو بڑے خوش ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں بڑا کام ہو گیا.مگر مولوی صاحب! میں اکثر بٹالہ آتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو ورغلاتے ہیں لیکن پھر بھی لوگ آپ کی نہیں مانتے اور مرزا صاحب کی طرف چلے جاتے ہیں اور پھر کہا کہ مولوی صاحب! آپ کی تو جوتیاں بھی اس کام میں گھس گئی ہوں گی مگر سنتا کوئی نہیں آخر کچھ تو مرزا صاحب میں بات ہوگی جو ایسا ہو رہا ہے.تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے جس پر نازل ہوتا ہے.بعض اوقات لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض ہوتا دیکھ کر اس کو الٹنے لگ جاتے ہیں یا بعض اوقات غصے میں آجاتے ہیں یہ طریقہ صحیح نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب بھی کوئی آدمی آ کر کوئی سوال کرتا تو آپ اُس کا صحیح جواب دیتے اور کوئی ایچ بیچ نہ کرتے خواہ دشمنوں کو اس سے ہنسی کا موقع مل جاتا.قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کے متعلق تاکید، انوارالعلوم جلد 18 صفحہ 156 تا 158 ) احمدیت کی برکات مجھے اپنے بچپن کے زمانہ میں ضلع گجرات کے لوگوں کا یہاں آنا یاد ہے.اس وقت سیالکوٹ اور گجرات سلسلہ کے مرکز سمجھے جاتے تھے.گورداسپور بہت پیچھے تھا کیونکہ قاعدہ ہے کہ نبی کی اپنے وطن میں زیادہ قدر نہیں ہوتی.اس زمانہ میں سیالکوٹ اول نمبر پر تھا اور گجرات دوسرے نمبر پر.مجھے گجرات کے بہت سے آدمیوں کی شکلیں اب تک یاد ہیں مجھے یاد ہے کہ بہت سے اخلاص کی وجہ سے کہ تا وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کو پورا کرنے والے نہیں کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ.نہ اس وجہ سے کہ انہیں مالی تنگی ہوتی پیدل چل کر قادیان آتے.ان میں بڑے بڑے مخلص تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب رکھتے.یہ بھی ضلع گجرات کے لوگوں کا ہی واقعہ ہے جو حافظ روشن علی صاحب مرحوم سنایا کرتے تھے اور میں بھی اس کا ذکر کر چکا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے ایام میں ایک جماعت ایک طرف سے آ رہی تھی اور دوسری دوسری طرف سے.حافظ صاحب کہتے.میں نے دیکھا وہ
تذکار مهدی ) 246 روایات سید نامحمودی دونوں گروہ ایک دوسرے سے ملے اور رونے لگ گئے.میں نے پوچھا.تم کیوں روتے ہو؟ وہ کہنے لگے ایک حصہ ہم میں سے وہ ہے جو پہلے ایمان لایا اور اس وجہ سے دوسرے حصہ کی طرف سے اسے اس قدر دکھ دیا گیا اور اتنی تکالیف پہنچائی گئیں کہ آخر وہ گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہو گیا پھر ہمیں ان کی کوئی خبر نہ تھی کہ کہاں چلے گئے.کچھ عرصہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے احمدیت کا نور ہم میں بھی پھیلایا اور ہم جو احمدیوں کو اپنے گھروں سے نکالنے والے تھے خود احمدی ہو گئے.ہم یہاں جو پہنچے تو اتفاقاً اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت ہمارے وہ بھائی جنہیں ہم نے اپنے گھروں سے نکالا تھا دوسری طرف سے آ نکلے.جب ہم نے ان کو آتے دیکھا تو ہمارے دل اس درد کے جذبہ سے پر ہو گئے کہ یہ لوگ ہمیں ہدایت کی طرف کھینچتے تھے مگر ہم ان سے دشمنی اور عداوت کرتے تھے یہاں تک کہ ہم نے ان کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا آج خدا نے اپنے فضل سے ہم سب کو اکٹھا کر دیا.اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 86-87) تم جہاں جاؤ آگ لگا دو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تا کہ لوگ جاگیں اور تمہاری باتیں سنیں.پس چاہئے کہ مبلغ کے اپنے جسم میں ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا ہو جائے کہ جو زلزلہ کی طرح اس کے جسم کو ہلا دے اور وہ دوسروں میں زلزلہ پیدا کر دے.مبلغ جس گاؤں یا شہر میں جائے وہ سونہ سکے بلکہ بیدار ہو جائے.مگر اب تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مبلغ ایک ایک مہینہ کسی جگہ رہ کر آجاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی آیا تھا.تمہارا شیوہ دعائیں کرتا ہو ہدایات زریں.انوار العلوم جلد نمبر 5 صفحہ 599) ہمارے واقفین کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح ہر چندہ دینے والے کے لیے صرف خود چندہ دینا کافی نہیں بلکہ مزید چندے دینے والے تیار کرنے بھی ضروری ہیں اسی طرح ہر ایک واقف زندگی کے لیے مزید واقف زندگی تیار کرنے ضروری ہیں.اگر ہم ایسا کر سکیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اشاعت اسلام کا یہ اہم کام قیامت تک جاری رہ سکتا ہے.پھر یہ ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک صلحاء اور اتقیاء کا طریق اختیار کرے اور دعاؤں میں لگ
تذکار مهدی ) 247 روایات سید نا محمود جائے اور نہ صرف خود دعاؤں کی عادت ڈالے بلکہ یہ احساس دوسروں کے اندر بھی پیدا کرنے کی کوشش کرے.آج وہ لوگ بہت کم ہیں جنہیں دعائیں کرنے کی عادت ہے.ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد ایسا ہو جو راتوں کو جاگے اور خدا تعالیٰ کے آگے سجدہ میں گر کر روئے اور سلسلہ کے لئے دعائیں کرے اور دن کے وقت استغفار اور ذکر الہی کرے اور یہ عادت اس حد تک اپنے اندر پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ کا الہام اور اس کا کلام اس پر نازل ہونے لگ جائے.دیکھو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جتنا تغیر دنیا میں پیدا کیا ہے وہ صرف کتابوں کے ذریعہ نہیں کیا.بلکہ وہ تغیر اس طرح پیدا ہوا ہے کہ آپ نے رات دن اس کے لیے دعائیں کیں جن کی وجہ سے آپ کے اندر خدا تعالیٰ کا نور پیدا ہو گیا.جو شخص اس نور کو دیکھتا تھا اس کے اندر اشاعتِ اسلام کی آگ لگ جاتی تھی اور پھر وہ آگ آگے پھیلتی جاتی تھی.پس تم اس بات پر ہی خوش نہ ہو جاؤ کہ تم نے مولوی فاضل پاس کر لیا ہے یا شاہد کا امتحان پاس کر لیا ہے.بلکہ دعاؤں کی عادت ڈالو اور اتنی دعائیں کرو کہ رات اور دن تمہارا شیوہ ہی دعائیں کرنا ہو.تم اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ، چلتے پھرتے دعاؤں میں لگ جاؤ.اگر تمہارے کسی ساتھی کی طرف سے کوئی خرابی بھی پیدا ہوگی تو تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی دعائیں اُس کا ازالہ کر دیں گی.دہلی میں مخالفت کا زور (الفضل مورخہ 20 /نومبر 1955 ء جلد 44/9 شماره 271 صفحہ 3 ) 1909 ء یا 1911ء میں ایک دفعہ دلی گئے تو ایک دفعہ حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہا بھی ساتھ تھیں چونکہ انہیں اپنی خالہ سے بڑی محبت تھی.وہ اپنی اماں کی بھاوج کے ہاں ٹھہریں.ان کو سارے بھائی جان بھائی جان کہتے تھے.اب ان کے بچے کراچی میں ہیں.ان کے گھر میں ہی ہم جا کر ٹھہر تے تھے.اس وقت بھی ان کے گھر میں ہی ٹھہرے بلکہ ان کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1891ء میں دلی گئے.تو آپ کے خلاف بڑا جلسہ ہوا اور شور پڑا لوگوں نے کہا کہ اس کو قتل کر دو.مولویوں نے وعظ کیا کہ جو اس کو قتل کر دے گا وہ جنتی ہو گا.ہماری وہ بھابی بڑی مخالف تھیں مگر آخر رشتہ دار تھیں.ایک دن ان کی نوکر آئی اور آکر کہنے لگی.
تذکار مهدی ) 248 روایات سید نامحمود ނ بی بی دعا کرو میرا بچہ بچ جائے.وہ صبح چھری تیز کر رہا تھا کوئی قادیان سے آیا ہے جو رسول اللہ کی ہتک کرتا ہے اسکو مارنے گیا ہے وہ کہنے لگی کمبخت چپ کر وہ تو میری بھانجی کا خاوند ہے.مگر بہر حال ان کے گھر میں خالہ بھی ٹھہری ہوئی تھیں.اماں جان نے پرانی محبت کی وجہ سے ان خواہش کی کہ مجھے ملا دو.بھابی جان نے انکار کر دیا کہ وہ تو کہتی ہیں کہ میں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی پھر ہماری ایک اور بہن تھی ان کی بیٹی بعد میں حکیم اجمل خاں صاحب مرحوم کے بھائی سے بیاہی گئیں تھیں.حضرت ام المومنین نے ان سے کہا.وہ چھوٹی بچی تھیں.ان کو تو ان باتوں کا پتہ نہیں تھا.انہوں نے پردہ اٹھا کے کہا کہ وہ مصلے پر بیٹھی دعا کر رہی ہیں دیکھ لو.اماں جان نے جا کر جھانکا تو اسی وقت انہوں نے کھڑکی کھولی اور ہمسایہ میں چلی گئیں اور وہاں سے ڈولی منگا کر کسی اور رشتہ دار کے پاس چلی گئیں.غرض اتنا ان کے اندر بغض تھا کہ انہوں نے ہم سے ملنا بالکل چھوڑ دیا.ان کے رشتہ دار اب بھی کراچی میں ہیں.لاہور میں بھی لوہارو خاندان کے افراد ہیں.نوابزادہ اعتزاز الدین جو پاکستان میں انسپکٹر جنرل پولیس تھے.وہ بھی نواب لوہارو کے بیٹے تھے اور بیٹے بھی ہیں.بعض ان کی اولاد میں سے فوج میں کرنیل ہیں.ان کے ایک بھائی صمصام مرزا لا ہور میں ہیں.ان لوگوں سے جب بھی بات کرو.وہ ہم پر ہنستے ہیں کہ تم بیوقوف ہو.مولوی صاحب نے اسے مروا دیا تھا.تم بیوقوفی میں یونہی اپنے مذہبی عقیدہ کے ماتحت سمجھتے ہو کہ نہیں مروایا تھا.آپ مر گیا تھا.اس نے خود کشی کوئی نہیں کی اس کو مروا دیا گیا تھا.غرض یہ واقعہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں بغض کو بڑھانے کا ایک دوسرا سبب بن گیا.چوہڑوں کی وجہ سے تکلیف نظام سلسلہ کی مخالفت اور اس کی تاریخ صفحہ 12 تا 13) ہم میں سے کون ہے جسے احمدیت سے روحانی، جسمانی اور مالی فوائد حاصل نہ ہوئے ہوں.ہمیں خود فائدہ پہنچا ہے.ہم زمیندار ہیں مگر ہماری زمینوں کی قیمت پہلے اتنی نہ تھی جتنی اب ہے ہم کہتے تو ہیں کہ ہم سلسلہ کے اموال میں سے کچھ نہیں لیتے مگر اس طرح دیکھا جائے تو بہر حال ہمیں سلسلہ کے طفیل فائدہ پہنچا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ نواب محمد علی خان صاحب سے فرمایا کہ یہاں کے چوہڑوں کی طرف سے بہت تکلیف پہنچ
تذکار مهدی ) 249 روایات سید نا محمود رہی ہے.والد صاحب کے زمانہ میں ان کو صرف آٹھ آنہ ماہوار اور روٹی ملتی تھی اور وہ سارا سارا دن کام کرتے تھے.مگر اب دو روپے اور روٹی ملتی ہے مگر وہ کام نہیں کرتے.لیکن احمدیت کی وجہ سے آج یہ حالت پہنچ گئی ہے کہ اب بارہ چودہ روپیہ اور روٹی دینی پڑتی ہے.یہ کتنا بڑا فرق ہے یہی حال دھوبیوں کا ہے.ان کو سوائے اس کے کہ فصل کے موقعہ پر مالکوں کی طرف سے غلہ وغیرہ دے دیا جاتا تھا.یا سوائے اس کے کہ کسی کی کوئی خدمت وغیرہ کر کے کچھ حاصل کر لیں کوئی آمد نہ تھی.مگر اب وہ یہاں 25-30 بلکہ چالیس چالیس روپے ماہوار کماتے ہیں.یہی حال تر کھانوں اور لوہاروں وغیرہ کا ہے.پہلے ان کی یہاں مزدوری چھ سات آنہ روزانہ تھی.مگر اب ڈیڑھ دو روپیہ ہے تو خواہ قادیان کے رہنے والے ہوں.یا باہر سے آنے والے تاجر ہوں یا مزدور یا کوئی اور کام کرنے والے سب پر احمدیت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوئے ہیں.پھر جو لوگ پنشن لے کر یہاں آ جاتے ہیں.ان کو بھی دنیوی لحاظ سے اور دینی لحاظ سے بھی کافی فائدے پہنچتے ہیں.یہاں تعلیم کا جیسا انتظام ہے باہر ویسا ان کے لئے نہیں ہوسکتا.پھر یہاں ان کے بیوی بچے بے فکری سے رہتے ہیں.کئی لوگ بیوی بچوں کو یہاں چھوڑ کر خود باہر چلے جاتے ہیں بلکہ ہندوستان سے باہر چلے جاتے ہیں اور ان کے بعد ان کے بیوی بچے بڑے آرام اور چین سے زندگی بسر کرتے ہیں.میں مانتا ہوں کہ سو میں سے کسی ایک کو کوئی تکلیف بھی پہنچتی ہوگی.مگر عام طور پر بہت آرام پہنچتا ہے.لاہور میں ایک سکھ پروفیسر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ جب ملک میں عام خطرہ ہو تو احمد یوں میں جائے پناہ مل سکتی ہے.( خطبات محمود جلد 21 صفحہ 181 تا182) اوہ تے بہن رل مل گئے نے اللہ تعالیٰ ایک نہایت زبردست دلیل شرک کے رد میں اور مشرکوں کی تباہی کی تائید میں پیش کرتا ہے فرماتا ہے کہ خدا کے سوا جو معبود ہیں انہوں نے تو کبھی ایک مکھی بھی پیدا نہیں کی بلکہ اگر سب کے سب معبود جمع ہو جائیں تب بھی وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے اور اگر مکھی ان کے کھانے میں سے کچھ اٹھا کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے.پس عبادت کرنے والا اور معبود دونوں ہی کتنے کمزور ہیں.اس آیت کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کا یہ کہنا نہایت تعجب انگیز ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ
تذکار مهدی ) 250 روایات سید نا محمود سارے معبود مل کر ایک مکھی بھی نہیں بنا سکتے اور ہمارے مفسر فرماتے ہیں کہ اکیلے مسیح نے بہت سے پرندے پیدا کئے تھے.بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک دفعہ ایک مولوی صاحب سے پوچھا کہ آپ جو کہتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام پرندے پیدا کیا کرتے تھے.تو جو پرندے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں اُن میں سے کچھ خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوں گے اور کچھ مسیح علیہ السلام کے.کیا آپ ان دونوں میں کوئی امتیازی بات بتا سکتے ہیں جس سے معلوم ہو سکے کہ کون سے خدا کے پیدا کردہ ہیں اور کون سے مسیح علیہ السلام کے.اس پر وہ مولوی صاحب پنجابی میں بولے.اے تے ہن مشکل ہے.اوہ دونوں رل مل گئے نے.یعنی یہ کام تو اب مشکل ہے.خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ پرندے اور مسیح علیہ السلام کے پیدا کردہ پرندے آپس میں مل جل گئے ہیں اور اب ان دونوں میں امتیاز مشکل ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 96) عیسائیوں کے خلاف سخت زبان کا استعمال بعض دفعہ جب بات حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر کسی حد تک ان باتوں کا جواب بھی دینا پڑتا ہے.عیسائی ہمیشہ رسول کریم ﷺ پر حملے کیا کرتے تھے اور مسلمان چونکہ ان کے حملوں کا جواب نہیں دیا کرتے تھے اس لئے وہ یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے بانی میں عیب ہی عیب ہیں اگر کسی میں عیب نہیں تو وہ یسوع کی ذات ہے.وہ مسلمانوں کی شرافت کے غلط معنے لیتے تھے.وہ مجھتے تھے چونکہ ہم گند اچھالتے ہیں اور یہ نہیں اُچھالتے اس لئے معلوم ہوا کہ واقعہ میں ان کے سردار میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں.دنوں کے بعد دن گزرے، ہفتوں کے بعد ہفتے ، سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں، سات آٹھ سو سال تک عیسائی متواتر گند اچھالتے رہے اور مسلمان انہیں معاف کرتے رہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ اب ذرا تم بھی ہاتھ دکھاؤ اور انہیں بتاؤ کہ ہمیں تم میں کوئی عیب نظر آتا ہے یانہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یسوع کو مخاطب کرتے ہوئے وہ باتیں لکھنی شروع کیں جو یہودی آپ کے متعلق کہا کرتے تھے یا خود مسیحیوں کی کتابوں میں لکھی تھیں.ابھی اس قسم کی دو چار کتابیں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھی تھیں کہ ساری عیسائی دنیا میں شور مچ گیا کہ یہ طریق اچھا نہیں.
تذکار مهدی ) کارمهدی 251 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہی ہم نے تم کو کہا تھا کہ تمہارا طریق اچھا نہیں مگر تم نے ہماری بات کو نہ سمجھا.آخر جب خود تم پر زد پڑنے لگی تو تمہیں ہوش آ گیا اور تم کہنے لگ گئے کہ یہ طریق درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دفعہ اس کے متعلق ایک لطیفہ بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض دفعہ حقیقت معلوم کرنے اور دوسرے کا جائزہ لینے کیلئے انسان کو ایسا طریق بھی اختیار کرنا پڑتا ہے جو عام طریق کے مخالف ہوتا ہے.چنانچہ آپ فرماتے کہ کوئی سکھ صاحب تھے ان کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں ڈاڑھی بھی ان کی بڑی لمبی تھی اور چہرے پر قدرتی طور پر بال بھی بہت زیادہ تھے.سکھوں میں چونکہ مذہباً بال کٹوانے منع ہیں اس لئے ان کے بال بے تحاشہ بڑھے ہوئے تھے وہ ایک دن اپنے چبوترہ پر بیٹھے تھے اور بالوں کی کثرت کی وجہ سے حال یہ تھا کہ ان کے ہونٹ بالکل چھپے ہوئے تھے.مسلمان چونکہ مونچھیں کتر واتے رہتے ہیں اس لئے ان کے ہونٹ صاف طور پر دکھائی دیتے ہیں مگر ان سکھ صاحب کے بال چونکہ قدرتاً بہت بڑے تھے اور پھر انہوں نے مذہبی لحاظ سے ان بالوں کو کبھی تر شوایا بھی نہیں تھا اس لئے مونچھوں اور چہرے اور داڑھی کے بالوں سے ان کے ہونٹ بالکل چھپ گئے تھے.اتفاقاً ان کے پاس سے کوئی مسلمان گذرا اور وہ کھڑا ہوکر حیرت سے ان کا منہ دیکھنے لگ گیا.مزید اتفاق یہ ہوا کہ اس وقت وہ سکھ صاحب کسی فکر میں خاموش بیٹھے تھے.اب یہ دیکھ دیکھ کر حیران تھا کہ یہ کیا تماشہ بنا ہوا ہے مگر اسے کچھ سمجھ نہ آئی.آخر قریب آ کر اس نے ان سکھ صاحب کے ہونٹوں کے قریب ہاتھ مارا.یہ دیکھنے کیلئے کہ ان کے ہونٹ بھی ہیں یا نہیں.اب ایک بھلا مانس بیٹھا ہوا ہو اور کوئی گزرنے والا اس کے منہ پر ہاتھ مارنا شروع کر دے تو اسے لازماً غصہ آئے گا سردار صاحب نے بھی آنکھیں کھول کرات سخت سست کہنا شروع کر دیا اور کہا نا معقول یہ کیا حرکت کرتا ہے.وہ کہنے لگا.سردار جی ! معاف کرواتنا ہی دیکھنا تھا کہ آپ بولتے کس طرح ہیں.(روز نامہ الفضل 8 دسمبر 1938 ء جلد 26 نمبر 282 صفحہ 7 حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا طرز استدلال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نمازیں پڑھایا کرتے تھے ان کا لہجہ بڑا عمدہ تھا آواز بڑی بلند تھی اور ان کی تقریر میں بڑا جوش پایا
تذکار مهدی ) 252 روایات سید نا محمودی صد الله جاتا تھا.میں اگر چہ بچہ تھا مگر مجھے خوب یاد ہے جب وہ اس مضمون پر پہنچے تو بڑے جوش سے کہا کرتے تھے کہ کیا چیز ہے جو عیسائی ہمارے مقابلہ میں پیش کر سکتے ہیں.حضرت محمد رسول اللہ ہی ہے کی تو بڑی بلندشان ہے.آپ کا ایک نائب اس زمانہ میں احیاء اسلام کے لئے آیا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے اچھے خاندان میں سے ہے، شاہی نسل میں سے ہے ہزاروں سال کی تاریخ اس کے خاندان کی عظمت کو ظاہر کر رہی ہے، اس کے مقابلہ میں میرے کانوں میں پہلے مسیح کی ابھی تک یہ آواز گونج رہی ہے کہ کسی نے چار پائیاں ٹھیک کروانی ہوں تو کر والے، کسی نے ٹوٹی ہوئی کرسیوں کی مرمت کروانی ہو تو کر والے.انجیل کے اس حوالہ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں نے کہا کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھتی نہیں ؟ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ کیا یہ یوسف نجار کا بیٹا نہیں بلکہ کہا کہ کیا یہ مریم کا بیٹا بڑھئی نہیں؟ جس کے معنے یہ ہیں کہ مسیح نے اپنے طور پر بھی بڑھئی کا کام کیا ہے.مسیح بے شک انجیل میں اکثر جگہ اپنے آپ کو ابن آدم کہتا ہے لیکن ابن آدم ہونے میں تو تمام بنی نوع انسان اس کے شریک ہیں اس میں مسیح کی کوئی خصوصیت نہیں.لیکن قرآن کریم ایک ایسا نام دیتا ہے جس سے مسیح کی آسانی کے ساتھ شناخت ہو سکتی ہے.اگر قرآن کریم عیسی ابن آدم کہتا تب بھی مشکل پیش آتی کیونکہ ہزاروں لوگوں کے نام عیسی ہیں اور وہ بھی ابن آدم ہی ہیں.اگر خالی ابن آدم کہا جاتا تو اس لحاظ سے اور بھی دقت پیش آتی کیونکہ سارے انسان ابن آدم ہیں پھر وہ پہنچانا کس طرح جاتا.( تفسیر کبیر جلد پنجم صفحه 240 ) تائید الهی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ آتھم کے مباحثہ میں ہم نے جو نظارہ دیکھا اس سے پہلے تو ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں اور پھر ہمارے ایمان آسمان پر پہنچ گئے فرماتے تھے کہ جب عیسائی مباحثہ سے تنگ آگئے اور انہوں نے دیکھا کہ ہمارا کوئی داؤ نہیں چلا تو چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر انہوں نے ہنسی اڑانے کے لئے یہ شرارت کی کہ کچھ اندھے، کچھ بہرے ، کچھ لولے اور کچھ لنگڑے بُلا لئے اور انہیں مباحثہ سے پہلے ایک طرف چھپا کر بٹھا لیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو جھٹ انہوں نے اُن اندھوں، بہروں
تذکار مهدی ) 253 روایات سید نا محمود اور ٹولوں لنگڑوں کو نکال کر آپ کے سامنے پیش کر دیا اور کہا.زبانی باتوں سے جھگڑے طے نہیں ہوتے.آپ کہتے ہیں.میں مسیح ناصری کا مثیل ہوں اور مسیح ناصری اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے، بہروں کو کان بخشا کرتے تھے اور کولوں لنگڑوں کے ہاتھ پاؤں درست کر دیا کرتے تھے.ہم نے آپ کو تکلیف سے بچانے کے لئے اس وقت چند اندھے ، بہرے اور لولے لنگڑے اکٹھے کر دیئے ہیں.اگر آپ فی الواقعہ مثیل مسیح ہیں تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ہم لوگوں کے دل ان کی اس بات کو سن کر بیٹھ گئے اور گوہم گو ہم سمجھتے تھے کہ یہ بات یونہی ہے.مگر اس خیال سے گھبرا گئے کہ آج لوگوں کو ہنسی اور ٹھٹھے کا موقعہ مل جائے گا.مگر جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے کو دیکھا تو آپ کے چہرہ پر ناپسندیدگی یا گھبراہٹ کے کوئی آثار نہ تھے.جب وہ بات ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا دیکھئے پادری صاحب! میں جس مسیح کے مثیل ہونے کا دعویٰ کرتا ہوں اسلامی تعلیم کے مطابق وہ اس قسم کے اندھوں ، بہروں اور لولوں لنگڑوں کو اچھا نہیں کیا کرتا تھا.مگر آپ کا یہ عقیدہ ہے کہ مسیح جسمانی اندھوں، جسمانی بہروں، جسمانی لولوں اور جسمانی لنگڑوں کو اچھا کیا کرتا تھا اور آپ کی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تم میں ایک رائی برابر بھی ایمان ہو اور تم کسی پہاڑ سے کہو کہ یہاں سے وہاں چلا جائے تو وہ چلا جائے گا.(متی باب 17 آیت 21، لوقا باب 17 آیت 6) اور اگر تم بیماروں پر ہاتھ رکھو گے تو وہ اچھے ہو جائیں گے.(مرقس باب 16 آیت 17-18) پس یہ سوال مجھ سے نہیں ہو سکتا.میں تو وہ معجزے دکھا سکتا ہوں جو میرے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھائے.آپ ان معجزوں کا مطالبہ کریں تو میں دکھانے کے لئے تیار ہوں.باقی رہے اس قسم کے معجزے سو آپ کی کتاب نے بتادیا ہے کہ ہر وہ عیسائی جس کے اندر ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو ویسے ہی معجزے دکھا سکتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری نے دکھائے سو آپ نے بڑی اچھی بات کی جو ہمیں تکلیف سے بچالیا.اور ان اندھوں، بہروں، لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر دیا.اب یہ اندھے، بہرے، لولے اور لنگڑے موجود ہیں اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان موجود ہے تو ان کو اچھا کر کے دکھا دیجئے.آپ فرماتے تھے اس جواب سے پادریوں کو ایسی حیرت ہوئی کہ بڑے بڑے پادری ان لولوں لنگڑوں کو کھینچ کھینچے کر الگ کرنے لگ گئے تو اللہ تعالیٰ اپنے مقربین کو ہر موقع پر عزت بخشتا ہے اور اُن کو ایسے ایسے
تذکار مهدی ) 254 روایات سید نامحمودی جواب سمجھاتا ہے جس کے نتیجہ میں دشمن بالکل ہکا بکا رہ جاتا ہے.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 89-88) وفات مسیح کا مسئلہ حضرت شعیب جب لوگوں سے کہتے کہ تم دوسروں کا مال نہ ٹوٹو.اپنے مال کو نا جائز کاموں میں صرف نہ کرو تو آپ کی باتوں سے آپ کی قوم حیران ہوتی تھی اور کہتی تھی کہ شعیب پاگل ہو گیا ہے اور دیوانوں کی سی باتیں کرتا ہے.اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کولوگوں نے پاگل کہا.جب آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ دنیا کے سامنے پیش کیا تو مسلمان سمجھ ہی نہ سکے کہ جب 1300 سال سے یہ مسئلہ اُمتِ محمدیہ کے اکا بر پیش کرتے چلے آرہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو وہ فوت کس طرح ہو گئے.لوگوں کو اس مسئلہ کے متعلق جس قدر یقین اور وثوق تھا وہ اس واقعہ سے اچھی طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ پنجاب کے ایک مشہور طبیب جن کی طبی عظمت کے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جیسے طبیب بھی قائل تھے اور جن کا نام حکیم اللہ دین تھا اور بھیرہ کے رہنے والے تھے ایک دفعہ اُن کے پاس مولوی فضل دین صاحب بھیروی جو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے گہرے دوست اور نہایت مخلص احمدی تھے گئے اور انہیں کچھ تبلیغ کی.وہ باتیں سُن کر کہنے لگے.میاں تم مجھے کیا تبلیغ کرتے ہو تم بھلا جانتے ہی کیا ہو اور مجھے تم نے کیا سمجھانا ہے مرزا صاحب کے متعلق تو جو مجھے عقیدت ہے اس کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی تمہیں اُن سے عقیدت نہیں ہوگی مولوی فضل دین صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ دل میں احمدی ہیں اس لئے انہوں نے کہا.اس بات کو سُن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو حضرت مرزا صاحب سے عقیدت ہے اور میں خوش ہوں گا اگر آپ کے خیالات سلسلہ کے متعلق کچھ اور بھی سنوں.وہ کہنے لگے.آج کل کے جاہل نو جوان بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے اور یونہی تبلیغ کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.اب تم آگئے ہو مجھے وفات مسیح کا مسئلہ سمجھا نے حالانکہ تمہیں معلوم ہی کیا ہے کہ مرزا صاحب کی اس مسئلہ کو پیش کرنے میں حکمت کیا ہے؟ وہ کہنے لگے.آپ ہی فرمائیے.انہوں نے کہا سنو! اصل بات یہ ہے کہ مرزا صاحب نے براہین احمدیہ کتاب لکھی.تیرہ سوسال میں بھلا کوئی مسلمان کا بچہ تھا جس نے ایسی کتاب لکھی ہو مرزا صاحب نے اس میں ایسے ایسے علوم بھر دئیے کہ کسی مسلمان کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی وہ اسلام کے لئے
تذکار مهدی ) 255 روایات سید نا محمودی ایک دیوار تھی جس نے اُسے دوسرے مذاہب کے حملوں سے بچالیا.لیکن مولوی ایسے احمق اور بے وقوف نکلے کہ بجائے اِس کے کہ وہ آپ کا شکر یہ ادا کرتے اور زانوئے ادب تہہ کر کے آپ سے کہتے کہ آئیندہ ہم آپ کے بتائے ہوئے دلائل ہی استعمال کیا کریں گے انہوں نے اُلٹا آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسلام کی اتنی عظیم الشان خدمت دیکھنے کے باوجود جو رسول کریم ہے کے بعد تیرہ سوسال میں اور کسی نے نہ کی آپ کے خلاف کفر کے فتوے دینے لگے اور اپنی علمیت جتانے لگ گئے اور سمجھنے لگے کہ ہم بڑے آدمی ہیں.اس پر مرزا صاحب کو غصہ آنا چاہئے تھا اور آیا.چنانچہ انہوں نے مولویوں سے کہا.اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہوا گر تمہیں اپنی علمیت پر ایسا ہی گھمنڈ ہے تو دیکھ لو کہ حیات مسیح کی عقیدہ قرآن سے اتنا ثابت ہے اتنا ثابت ہے کہ اس کے خلاف حضرت مسیح کی وفات ثابت کرنا ناممکن نظر آتا ہے لیکن میں قرآن سے ہی حضرت مسیح کی وفات ثابت کر کے دکھا تا ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو اسکا رڈ کرو.چنانچہ انہوں نے مولویوں کو ان کی بیوقوفی جتانے کے لئے وفات مسیح کا مسئلہ پیش کر دیا اور قرآن سے اُس کے متعلق ثبوت دینے لگ گئے.اب مولوی چاہے سارا زور لگالیں ، چاہے اُن کی زبانیں ٹھیس جائیں اور قلمیں ٹوٹ جائیں سارے ہندوستان کے مولوی مل کر بھی مرزا صاحب کے دلائل کا مقابلہ نہیں کر سکتے.مرزا صاحب نے انہیں ایسا پکڑا ہے کہ اُن میں سر اُٹھانے کی تاب نہیں رہی.اب اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ سارے مولوی مل کر ایک وفد کی صورت میں حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور اُن سے کہیں کہ ہم سے آپ پر کفر کا فتویٰ لگانے میں بے ادبی ہو گئی ہے.ہمیں معاف کیا جائے.پھر دیکھ لیں مرزا صاحب قرآن سے ہی حیات مسیح ثابت کر کے دکھاتے ہیں یا نہیں؟ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت حیات مسیح کا عقیدہ کتنا یقینی سمجھا جاتا تھا.(تفسیر کبیر جلد 7 صفحہ 108-107) وفات مسیح کا مسئلہ بنیادی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک صاحب یہاں پڑھا کرتے تھے.وہ روزانہ یہ بحث کیا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے.ان کے سر پر رومی ٹوپی تھی.ایک دن ایک شخص نے اسے بلایا اور کہا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ آنحضرت سے کو اس کا علم ہوا.اس شخص نے بغیر کوئی شرم محسوس کئے کہہ دیا کہ ہاں ضرور ہوا.اس کی وجہ یہی ہے
تذکار مهدی ) 256 روایات سید نا محمود کہ لوگ واحدنیت تک جاتے ہیں.احدیت تک نہیں پہنچتے کہ جس پر پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ بے شک انسان بھی ایک حد تک خالق ہے.رازق ہے مگر پھر بھی خدا تعالیٰ الگ ہے اور مخلوق الگ ہے.دونوں میں کوئی اتحاد ذاتی ہرگز نہیں.مسیح موعود کے زمانہ میں توحید کامل کو دنیا میں پیش کیا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت عیسی کی وفات کو ثابت کر کے توحید کامل کے رستہ میں جو روک تھی اسے دور کر دیا ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ اس مسئلہ پر بہت زور دیا کرتے تھے.رات دن یہی ذکر فرماتے رہتے تھے مجھے یاد ہے.ایک دفعہ کسی نے کہا کہ حضور اس مسئلہ کو اب چھوڑ بھی دیں.تو حضور کو جلال آگیا اور فرمایا کہ مجھے تو اس کے متعلق بعض اوقات اتنا جوش پیدا ہوتا ہے کہ میں سمجھتا ہوں.شاید جنون نہ ہو جائے.اس مسئلہ نے اسلام کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور ہم جب تک اسے پیس نہ ڈالیں گے.آرام کا سانس نہیں لے سکتے.اب بھی بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کیا مسئلہ ہے.مگر یہ احدیت کے رستہ میں روکیں ہیں.جنہیں دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس قدر جوش تھا اور یہی وہ جوش تھا جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچا اور صداقت کے لئے بنیاد قائم کر دی اور ہم میں سے ہر ایک جسے اسلام سے محبت ہے.سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے.اس آگ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں تھی.اگر کوئی محسوس کرتا ہے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اسلام کو پھیلانے کی تڑپ ہے.تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ محض ایک چنگاری ہے اس آگ کی جو حضور علیہ السلام کے دل میں تھی.پس ہماری تمام کوششیں اس نقطہ پر گھومنی چاہئیں اور اس میں محصور ہونی چاہئیں.لیکن اگر ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے.تو جو کام ہم کریں گے.وہ گو بظاہر تو حید ہوگا.مگر دراصل وہ کسی شرک کا پیش خیمہ ہو گا.اشتہارات کے ذریعہ تبلیغ الفضل 18 مئی 1943 ء جلد 31 نمبر 117 صفحہ 3) تبلیغ اور منظم تبلیغ میں فرق ہے ہمیں اپنے ملک کا پوری طرح جائزہ لینا چاہئے کہ ملک میں کس حد تک تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے، کس حد تک لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے.کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں پمفلٹ زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں اور کون سے
تذکار مهدی ) 257 روایات سید نامحمود گروہ ایسے جن میں کتابیں زیادہ مقبول ہو سکتی ہیں اس وقت جن میں اشتہارات زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں اس وقت نظارت دعوۃ و تبلیغ پمفلٹ کے ذریعہ تبلیغ کرتی ہے.لیکن پمفلٹ ایسی چیز ہے جس کا بوجھ زیادہ دیر تک نہیں اٹھایا جا سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تبلیغ اشتہارات کے ذریعہ سے ہوتی تھی.وہ اشتہارات دو چار صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور ان سے ملک میں تہلکہ مچا دیا جاتا تھا.ان کی کثرت سے اشاعت کی جاتی تھی.اس زمانہ کے لحاظ سے کثرت کے معنی ایک دو ہزار کی تعداد کے ہوتے تھے.بعض اوقات دس دس ہزار کی تعداد میں بھی اشتہارات شائع کئے جاتے تھے لیکن اب ہماری جماعت بیسیوں گنے زیادہ ہے.اب اشتہاری پراپیگنڈا یہ ہو گا کہ اشتہارات پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں.پھر دیکھو کہ یہ اشتہارات کس طرح لوگوں کو اپنی توجہ کی طرف کھینچ لیتے ہیں.اگر اشتہارات پہلے سال میں بارہ دفعہ شائع ہوتے تھے تو اب خواہ انہیں سال میں تین دفعہ ہی کر دیا جائے اور صفحات دو چار پر لے آئیں.لیکن وہ لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں.تو پتہ لگ جائے گا کہ انہوں نے کس طرح حرکت پیدا کی ہے.پھر کتابی حصہ ہے جو تعلیم یافتہ اور مغرور قسم کے لوگ ہیں انہیں کتابیں پیش کی جائیں.مرکزی اور صوبہ جاتی جماعت کے لوگ ان کے پاس جائیں اور انہیں کتابیں دیں.بہر حال تبلیغ کو منظم کرنے کے لئے بھی پلین بنانی چاہئے.اس کی بہت ضرورت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں جلد سے جلد تبلیغ کو منظم صورت میں شروع کر دینا چاہئے.(الفضل 11 / جنوری 1952 ء جلد 40/6 نمبر 10 صفحہ 5) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غیر معمولی محنت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مثال ہمارے سامنے ہے.باوجود بیماری کے آپ رات دن لگے رہتے تھے اور اشتہار پر اشتہار دیتے رہتے تھے.لوگ آپ کے کام کو دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے.ایک اشتہار دیتے تھے.اس کا اثر دور نہیں ہوتا تھا اور اس کی وجہ سے مخالفت میں جو جوش پیدا ہوتا تھا وہ بھی کم نہ ہوتا تھا کہ دوسرا اشتہار آپ شائع کر دیتے تھے تھی کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ ایسے موقع پر کوئی اشتہار دینا طبائع پر برا اثر ڈالے گا.مگر آپ اس کی پرواہ نہ کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ لوہا گرم ہی کوٹا جا سکتا ہے اور ذرا جوش ٹھنڈا ہونے لگتا تو فوراً دوسرا
تذکار مهدی ) 258 روایات سید نا محمود اشتہار شائع فرما دیتے تھے.اس کی وجہ سے پھر مخالفت کا شور بپا ہو جاتا.آپ نے رات دن اسی طرح کام کیا اور یہی ذریعہ کامیابی کا ہے.اگر یہ ذریعہ ہم اختیار کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں.اس بات کا خیال نہ کرنا چاہئے کہ مخالفت کم ہونے دی جائے.جماعت کا ایک حصہ جو پیغامی اعتراضات سے ڈر جاتا ہے.یہ سمجھتا ہے کہ بعض اوقات خواہ مخواہ جوش دلایا جاتا ہے اور نا واجب طور پر مخالفت کی آگ کو بھڑ کا لیا جاتا ہے مگر یہ خیال درست نہیں.الفضل 9 نومبر 1943ء جلد 31 نمبر 263 صفحہ 2 سچا مؤمن خصّی ہو جاتا ہے میں سمجھتا ہوں اس قسم کی اشتعال انگیزی بھی ہم پر اثر نہیں کر سکتی کیونکہ ہمیں ایسی تعلیم دی گئی ہے جس نے ہمیں کلیتہ جکڑ رکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے سچا مؤمن خصی ہو جاتا ہے.پس حکومت کے افسروں کو، پولیس اور سول کے حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں ہم بالکل پر امن ہیں.کیونکہ ہم سچے مومن ہیں اور مؤمن خصی ہو جاتا ہے.ہمیں جوش آتا ہے اور آئے گا مگر وہ دل میں ہی رہے گا، ہمیں غیرت آئے گی مگر وہ ظاہر نہ ہوگی، ہمارے قلوب ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے مگر زبانیں خاموش رہیں گی، ہاں ایک اور ہستی ہے جو خاموش نہ رہے گی ، وہ بدلہ لے گی اور ضرور لے گی ، حکومتوں سے بھی اور افراد سے بھی ، کوئی بڑے سے بڑا افسر ، کوئی بڑے سے بڑا لیڈر، کوئی بڑے سے بڑا جتھا اور کوئی بڑی سے بڑی حکومت اس کی گرفت سے بچ نہ سکے گی.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات.انوار العلوم جلد 13 صفحہ 510-509) اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں اشتہاروں کے متعلق یہ نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ بعض اوقات سخت الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں.یہ بات مجھے بہت ہی ناپسند ہے.پھر اشتہارات شائع کرنے کا بھی ایک مرض ہوتا ہے.ہر شخص سمجھتا ہے کہ میں بھی کچھ لکھوں اور اپنی طرف سے شائع کروں.اس قسم کے اشتہارات کا فائدہ تو کچھ نہیں ہوتا لیکن اس طرح بہت سا روپیہ ضائع ہو جاتا ہے.چاہئے یہ کہ جو اشتہارات مرکز سے شائع کئے جائیں انہیں تقسیم کیا جائے اور ان کی اشاعت بڑھائی جائے.
تذکار مهدی ) 259 روایات سید نا محمود خود اشتہارات شائع کرنے میں بعض اوقات خود پسندی بھی آجاتی ہے کہ میرا نام بھی نکلے اور یہ ایسا سخت مرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے متعلق ایک قصہ بیان فرمایا کرتے تھے جو یہ ہے کہ ایک عورت تھی اس نے انگوٹھی بنوائی مگر کسی عورت نے اس کی تعریف نہ کی.ایک دن اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی اور جب لوگ اکٹھے ہوئے تو کہنے لگی صرف یہ انگوٹھی بچی ہے اور کچھ نہیں بچا.کسی نے پوچھا یہ کب بنوائی ہے؟ کہنے لگی اگر یہ کوئی پہلے پوچھ لیتا تو میرا گھر ہی کیوں جلتا.غرض شہرت پسندی ایسا مرض ہے کہ جس کو لگ جائے ، اسے گھن کی طرح کھا جاتا ہے اور ایسے انسان کو پتہ ہی نہیں لگتا.اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ مرکز سے جو اشتہارات آئیں انہیں شائع کیا جائے.ہاں اگر کسی کے ذہن میں کوئی اچھی اور مفید بات آئے تو لکھ کر مرکز میں بھیج دے، یہاں سے وہ شائع ہو جائے گی.اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 340) یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو سکتا پس عشق کو بڑھاؤ ، دل میں سوز اور درد پیدا کرو.یہی میری پہلی نصیحت ہے یہی میری درمیانی نصیحت ہے اور یہی میری آخری نصیحت ہے.جب تک یہ محبت رہے گی اُس وقت تک سوز قائم رہے گا اور جب تک سوز رہے گا اُس وقت تک زندگی قائم رہے گی جب یہ چیز نکل جائے گی تو پھر لوگوں کے لئے دلیلیں رہ جائیں گی اور تمہارے لئے یہ بھی نہ ہوں گی تمہیں جو چیز کامیاب کر سکتی ہے وہ محبت ہے وہ عشق اور سوز ہے ابھی ایک شعر میں خاں صاحب نے بیان کیا ہے کہ جب شہدائے افغانستان پر پتھر پڑتے تھے تو وہ گھبراتے نہیں تھے بلکہ استقامت اور دلیری کے ساتھ ان کو قبول کرتے تھے اور جب بہت زیادہ ان پر پتھر پڑے تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید، نعمت اللہ خان صاحب اور دوسرے شہداء نے یہی کہا کہ یا الہی ! ان لوگوں پر رحم کر اور انہیں ہدایت دے.بات یہ ہے کہ جب عشق کا جذبہ انسان کے اندر ہو تو اس کا رنگ ہی بدل جاتا ہے، اس کی بات میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے چہرہ کی نورانی شعاعیں لوگوں کو کھینچ لیتی ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہاں ہزاروں لوگ آئے اور انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تو یہی کہا کہ یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہوسکتا.
تذکار مهدی ) 260 روایات سید نا محمودی انہوں نے ایک لفظ بھی آپ کے منہ سے نہ سنا اور ایمان لے آئے.یہی جذ بہ آپ لوگوں میں بھی ہونا چاہئے.(اللہ تعالیٰ کے راستہ میں تکالیف، انوار العلوم جلد نمبر 13 صفحہ 95-96) اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کریں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بارہا سنا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں.ایک تو وہ ہیں جو میرے دعوئی کو سمجھ کر اور سوچ کر احمدی ہوئے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ میری بعثت کی کیا غرض ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس رنگ میں پہلے انبیاء کی جماعتوں نے قربانیاں کی ہیں اسی رنگ میں ہمیں بھی قربانیاں کرنی چاہئیں مگر ایک اور جماعت ایسی ہے جو صرف حضرت مولوی نور الدین صاحب کی وجہ سے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئی ہے.وہ ان کے استاد تھے انہیں معزز اور عقلمند سمجھتے تھے.انہوں نے کہا جب مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں تو آؤ ہم بھی احمدی ہو جائیں.پس ان کا تعلق ہمارے سلسلہ سے مولوی صاحب کی وجہ سے ہے.سلسلہ کی غرض اور میری بعثت کی حکمت اور غائت کو انہوں نے نہیں سمجھا.اس کے علاوہ ایک تیسری جماعت بعض نو جوانوں کی ہے جن کے دل میں گو مسلمانوں کا درد تھا.مگر قومی طور پر نہ کہ مذہبی طور پر وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا کوئی جتھا ہو.ان میں کچھ تنظیم ہو ان میں انجمنیں قائم ہوں اور مدر سے جاری ہوں مگر چونکہ عام مسلمانوں کا کوئی جتھا بنانا ان کے لئے ناممکن تھا.اس لئے جب انہوں نے ہماری طرف ایک جتھا دیکھا تو وہ ہم میں آئے اور اب وہ چاہتے ہیں کہ مدر سے قائم کریں.اور لوگ ڈگریاں حاصل کریں اسی وجہ سے وہ ہمارے سلسلہ کو ایک انجمن سمجھتے ہیں.مذہب نہیں سمجھتے.تو دنیا میں ترقیات کے جو ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں اور دین میں جو ترقیات کے ذرائع سمجھے جاتے ہیں وہ بالکل اور ہیں.انجمنیں اور طرح ترقی کرتی ہیں اور دین اور طرح.دین کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اخلاق کی درستگی کی جائے قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کیا جائے نمازیں پڑھی جائیں.روزے رکھے جائیں.اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کیا جائے.اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کا عہد کیا جائے اگر ہم یہ تمام باتیں کریں تو گو دنیا کی نگاہوں میں ہم پاگل قرار پائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ہم سے زیادہ عقلمند اور کوئی نہیں ہو گا.قرآن کریم میں آتا ہے کہ مسلمان جب مالی قربانیاں کرتے تو منافق کہا کرتے کہ یہ مسلمان تو
تذکار مهدی ) 261 روایات سید نا محمودی احمق ہیں.بس روپیہ برباد کیے چلے جارہے ہیں.انہیں کوئی ہوش نہیں کہ اپنے روپیہ کو کسی اچھے کام پر لگا ئیں.اسی طرح جب وہ اوقات کی قربانی کرتے تو پھر وہ کہتے کہ یہ تو پاگل ہیں.اپنا وقت برباد کر رہے ہیں.انہوں نے ترقی خاک کرنی ہے.گویا مسلمانوں کو یا وہ احمق قرار دیتے یا ان کا نام مجنون رکھتے.یہی دو نام انہوں نے مسلمانوں کے رکھے ہوئے تھے.مگر دیکھو پھر وہی احمق اور مجنون دنیا کے عقلمندوں کے استاد قرار پائے.پس ہماری جماعت جب تک وہی احمقانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی جس کو کافر اور منافق احمقانہ قرار دیتے تھے اور ہماری جماعت جب تک وہی مجنونانہ رویہ اختیار نہیں کرے گی.جس کو کافر اور منافق مجنونانہ رویہ قرار دیتے تھے.اس وقت تک اسے کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر جھوٹ بول بھی لیا کروا گر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر دھوکہ فریب بھی کر لیا کرو.اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر چالبازی سے بھی کام لے لیا کرو اگر تم چاہو کہ تم ضرورت کے موقع پر غیبت اور چغلی سے بھی کبھی کبھی فائدہ اٹھا لیا کرو اور پھر یہ امید رکھو کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو جائے.تو یاد رکھو تمہیں ہرگز وہ کامیابی حاصل نہیں ہو گی.جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے فرمایا ہے.یہ چیزیں دنیا کی انجمنوں میں بے شک کام آیا کرتی ہیں.مگر دین میں ان کی وجہ سے برکت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی لعنت اترا کرتی ہے.(الفضل 27 ستمبر 1938 ء جلد 26 نمبر 223 صفحہ 7) ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہے.ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے ہی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اور شائد اسی لئے فرمایا کہ میں اس کی نگرانی کروں کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جو حضرت مولوی صاحب کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہو گئے ہیں.( حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) وہ مولوی صاحب کی قدر جانتے ہیں.ہماری نہیں.چونکہ مولوی صاحب نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے وہ بھی بیعت میں شامل ہو گئے ہیں.اس سے زیادہ ان کا ایمان نہیں بے شک ان کے دلوں میں ایمان ہے.مگر ان کا ایمان واسطے کا ایمان ہے.اس کے مقابلہ میں ایک گروہ
تذکار مهدی ) 262 روایات سید نا محمود ہماری جماعت میں ایسا ہے جس نے یہ دیکھا کہ ایک جماعت بن گئی ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا ہو گیا ہے.تو قوم کی خدمت کے لئے وہ اس جماعت میں شامل ہو گیا کیونکہ قومی خدمت کے لئے قربانی اور ایثار کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سوائے ہماری جماعت کے اور کہیں نہیں مل سکتے.ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ انجمنیں بنائیں، مدر سے بنائیں، دفاتر بنا ئیں اور دنیوی رنگ میں قوم کی بہبودی کے کام کریں.ایسے لوگ بے شک ہم کو مانتے ہیں مگر اپنے کاموں کا آلہ کار بنانے کے لئے ہمارے مقام کو سمجھ کر نہیں مانتے.مگر ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں.جنہوں نے ہم کو سچے دل سے مانا وہ ہمیں خدا کا مامور سمجھتے ہیں اور ان کی نگاہ پہلے ہم پر پڑتی ہے اور ہم سے اُتر کر پھر کسی اور پر پڑتی ہے.اصل مخلص وہی ہیں.باقی جس قدر ہیں وہ ابتلاء اور ٹھوکر کھانے کے خطرہ میں ہیں.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے میرے سامنے بیان کی تھی.حالانکہ میری عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی.آپ کا اس بات کا میرے سامنے بیان کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ماتحت آپ اس بات کو جانتے تھے.کہ لوگوں کی نگرانی کسی زمانہ میں میرے سپرد ہونے والی ہے اور آپ نے اسی وقت مجھے ہوشیار کر دیا.چنانچہ ایک ٹکراؤ تو میری خلافت کے شروع ہوتے ہی انجمن والوں سے ہو گیا اور وہ قادیان سے نکل گئے.باقی جو غلو کرنے والے ہیں.وہ بھی ہمیشہ رہتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کا سر کچلتے رہیں.اس کے مقابلہ میں ایک تیسرے گروہ کا پیدا ہو جانا بھی کوئی بعید از قیاس نہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درجہ میں غلو سے کام لے.اگر ہم ان لوگوں کو نہ دبائیں.تو یہ دین کو کہیں کا کہیں لے جائیں گے.ہم بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کا رسول کہتے ہیں.مگر نفسانیت کی وجہ سے نہیں اس وجہ سے نہیں کہ ہم احمد یہ جماعت میں شامل ہیں اگر ہمارے سلسلہ کا بانی رسول ہو گا تو ہماری شان بہت بڑھ جائے گی.ہم اگر آپ کو رسول کہتے ہیں.تو صرف اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول کہا اور خدا تعالیٰ کے رسول نے آپ کو رسول کہا.اگر یہ بات نہ ہوتی تو ہم میں سے جو راست باز ہوتے.وہ کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو رسول نہ کہتے.لیکن جب ہمیں یقین پیدا ہو گیا کہ آپ کو خدا نے رسول کہا اور ہمیں یقین پیدا ہو گیا کہ آپ کو خدا کے رسول نے رسول کہا ہے.تو پھر ہم نے فیصلہ کرلیا کہ اب اس کے بعد دشمن کے حملوں کی پرواہ نہیں کی جاسکتی.وہ بے شک مخالفت کرے.ہم آپ کو ضرور رسول کہیں گے.چنانچہ دیکھ لو کتنے سالوں سے دشمن قادیان پر حملہ کر رہا ہے.مگر
تذکار مهدی 263 روایات سیّد نا محمود ہم اس کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے.کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ انسانوں میں کسی کو تباہ کرنے کی طاقت نہیں.تعلیم الاسلام کالج کا قیام خطبات محمود جلد 23 صفحہ 551-552) در حقیقت ایک اچھے کالج کے لئے پچیس لاکھ روپے کی ضرورت ہوتی ہے ہم ڈیڑھ لاکھ روپیہ پہلے چندہ سے لے چکے ہیں اور ڈیڑھ لاکھ روپیہ اور بھی اس پر خرچ کیا جا چکا ہے اور دو لاکھ کی اب ضرورت ہے یہ پانچ لاکھ ہو گیا.3لاکھ کی پھر ضرورت ہوگی تو یہ آٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا.اس کے بعد ہمیں پندرہ سولہ لاکھ روپے کی ریز روفنڈ کی ضرورت ہوگی جس سے لاکھ سوالا کھ روپیہ سالانہ آمدن ہوتی رہے اور کالج مضبوطی کے ساتھ قائم رہ سکے ایک وہ زمانہ تھا کہ ہمارے لئے ہائی کلاسز کو جاری کرنا بھی مشکل تھا یہاں آریوں کا مڈل سکول ہوا کرتا تھا شروع شروع میں اس میں ہمارے لڑکے جانے شروع ہوئے تو آریہ ماسٹروں نے ان کے سامنے لیکچر دینے شروع کئے کہ تم کو گوشت نہیں کھانا چاہئے گوشت کھانا ظلم ہے.وہ اس قسم کے اعتراضات کرتے جو کہ اسلام پر حملہ تھے لڑکے سکول سے آتے اور یہ اعتراضات بتلاتے یہاں ایک پرحم پرائمری سکول تھا اس میں بھی اکثر آریہ مدرس آیا کرتے اور یہی باتیں سکھلایا کرتے تھے.پہلے دن جب میں اس سرکاری پرائمری سکول میں پڑھنے گیا اور دو پہر کو میرا کھانا آیا تو میں سکول سے باہر نکل کر ایک درخت کے نیچے جو پاس ہی تھا.کھانا کھانے کے لئے جا بیٹھا.مجھے خوب یاد ہے کہ اس روز کلیجی پکی تھی اور وہی میرے کھانے میں بھجوائی گئی اس وقت میاں عمر دین صاحب مرحوم جو میاں عبداللہ صاحب حجام کے والد تھے وہ بھی اسی سکول میں پڑھا کرتے تھے لیکن وہ بڑی جماعت میں تھے اور میں پہلی جماعت میں تھا میں کھانا کھانے بیٹھا تو وہ بھی آپہنچے اور دیکھ کر کہنے لگے.” ہیں ماس کھاندے او ماس“ حالانکہ وہ مسلمان تھے اس کی یہی وجہ تھی کہ آریہ ماسٹر سکھلاتے تھے کہ گوشت خوری ظلم ہے اور بہت بری چیز ہے ماس کا لفظ میں نے پہلی دفعہ ان سے سنا تھا اس لئے میں سمجھ نہ سکا کہ ماس سے مراد گوشت ہے چنانچہ میں نے کہا یہ ماس تو نہیں کلیجی ہے انہوں نے بتایا کہ ماس گوشت کو ہی کہتے ہیں.پس میں نے ماس کا لفظ پہلی دفعہ ان کی زبان سے سنا اور ایسی شکل میں سنا کہ گویا ماس خوری بری ہوتی ہے اور اس سے بچنا چاہئے.
تذکار مهدی ) 264 روایات سید نا محمود غرض آریہ مدرس اس قسم کے اعتراضات کرتے رہتے اور لڑ کے گھروں میں آ آ کر بتاتے کہ وہ یہ اعتراض کرتے ہیں آخر یہ معاملہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا جس طرح بھی ہو سکے جماعت کو قربانی کر کے ایک پرائمری سکول قائم کر دینا چاہئے.چنانچہ پرائمری سکول کھل گیا اور یہ سمجھا گیا کہ ہماری جماعت نے انتہائی مقصد حاصل کر لیا ہے.اس عرصہ میں ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم و مغفور ہجرت کر کے قادیان آگئے.انہیں سکولوں کا بڑا شوق تھا چنانچہ انہوں نے ملیر کوٹلہ میں بھی ایک مڈل سکول قائم کیا ہوا تھا انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں اس کو مڈل کر دیا جائے میں وہاں سکول کو بند کر دوں گا اور وہ امداد یہاں دے دیا کروں گا.چنانچہ قادیان میں مڈل سکول ہو گیا.پھر بعد میں کچھ نواب محمد علی خان صاحب اور کچھ حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کے شوق کی وجہ سے فیصلہ کیا گیا کہ یہاں ہائی سکول کھولا جائے.چنانچہ پھر یہاں ہائی سکول کھول دیا گیا.لیکن یہ ہائی سکول پہلے نام کا تھا کیونکہ اکثر پڑھانے والے انٹرنس پاس تھے اور بعض شائد انٹرنس فیل بھی.بہر حال ہائی سکول کا نام ہو گیا.زیادہ خرچ کرنے کی جماعت میں طاقت نہ تھی اور نہ ہی یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا.لیکن آخر وہ وقت بھی آگیا کہ گورنمنٹ نے اس بات پر خاص زوردینا شروع کیا کہ سکول اور بورڈنگ بنائے جائیں.نیز یہ کہ سکول اور بورڈنگ بنانے والوں کو امداد دی جائے گی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے عہد خلافت میں یہ سکول بھی بنا اور اور بورڈنگ بھی پھر آہستہ آہستہ عملہ میں اصلاح شروع ہوئی.اور طلباء بڑھنے لگے.پہلے ڈیڑھ سو تھے.پھر تین چارسو ہوئے پھر سات آٹھ سو ہو گئے اور مدتوں تک یہ تعداد رہی.اب تین چار سالوں میں آٹھ سو سے یک دم ترقی کر کے سکول کے لڑکوں کی تعداد سترہ سو ہو گئی ہے اور میں نے سنا ہے کہ ہزار سے اوپر لڑکیاں ہو گئی ہیں.گویا لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد ملا کر تقریباً تین ہزار بن جاتی ہے.پھر مدرسہ احمد یہ بھی قائم ہوا اور کالج بھی اب خدا تعالیٰ کے فضل سے مدرسہ احمدیہ میں بھی میری گزشتہ تحریک کے ماتحت طلباء بڑھنے شروع ہو گئے ہیں اور چھپیں تھیں طلباء ہر سال آنے شروع ہوگئے ہیں.اگر یہ سلسلہ بڑھتا رہا.تو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے طلباء کی تعداد بھی چھ سات سو تک یا اس سے بھی زیادہ تک پہنچ جائے گی اور اس طرح ہمیں سو مبلغ ہر سال مل جائے گا.جب تک ہم اتنے مبلغین ہر سال حاصل نہ کریں.ہم دنیا میں صحیح طور پر کام نہیں کر سکتے.1944ء میں
تذکار مهدی ) 265 روایات سید نا محمود میں نے کالج کی بنیاد رکھی تھی کیونکہ اب وقت آ گیا تھا کہ ہماری آئندہ نسل کی اعلیٰ تعلیم ہمارے ہاتھ میں ہو.ایک زمانہ وہ تھا کہ ہماری جماعت میں بہت چھوٹے عہدوں اور بہت چھوٹی آمد نیوں والے لوگ شامل تھے.بے شک کچھ لوگ کالجوں میں سے احمدی ہو کر جماعت میں شامل ہوئے.لیکن وہ حادثہ کے طور پر سمجھے جاتے تھے.ورنہ اعلیٰ مرتبوں والے اور اعلیٰ آمد نیوں والے لوگ ہماری جماعت میں نہیں تھے سوائے چند محدودلوگوں کے.ایک تاجر سیٹھ عبدالرحمان حاجی اللہ رکھا صاحب مدراسی تھے لیکن ان کی تجارت ٹوٹ گئی تھی.ان کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب ہوئے ان کے سوا کوئی بھی بڑا تاجر ہماری جماعت میں نہیں تھا اور نہ کوئی بڑا عہد یدار ہماری جماعت میں شامل تھا یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول ایک دفعہ مجھے فرمانے لگے دیکھو میاں! قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ انبیاء پر ابتدا میں بڑے لوگ ایمان نہیں لائے.چنانچہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی شامل نہیں.چنانچہ کوئی ای.اے سی ہماری جماعت میں داخل نہیں.گویا اس وقت کے لحاظ سے ای.اے سی بہت بڑا آدمی ہوتا تھا.مگر اب دیکھو کئی ای.اے.سی یہاں گلیوں میں پھرتے ہیں.اور انکی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا.لیکن ایک زمانہ میں اعلیٰ طبقہ کے لوگوں کا ہماری جماعت میں اس قدر فقدان تھا کہ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ ہماری جماعت میں کوئی بڑا آدمی داخل نہیں.چنانچہ کوئی ای.اے.سی ہماری جماعت میں داخل نہیں.گویا اس وقت کے لحاظ سے ہماری جماعت ای.اے سی کی بھی برداشت نہیں کر سکتی تھی.خطبات محمود جلد 27 صفحہ 150 تا 153 ) اليْسَ اللهُ بِكَافِ عَبْدَهُ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ احمدی جماعت پر چاروں طرف سے سختی کی جاتی تھی مولویوں نے فتویٰ دیا کہ احمدیوں کو قتل کر دینا ، ان کے گھروں کو لوٹ لینا، ان کی جائیدادوں کا چھین لینا، ان کی عورتوں کا بلا طلاق دوسری جگہ پر نکاح کر دینا جائز ہی نہیں موجب ثواب ہے اور شریر اور بدمعاش لوگوں نے جو اپنی طمع اور حرص کے اظہار کے لئے بہانے تلاش کرتے رہتے ہیں اس فتوے پر عمل کرنا شروع کر دیا.احمدی گھروں سے نکالے اور ملا زمتوں سے برطرف کئے
تذکار مهدی ) 266 نامحمودی روایات سیّد نا محمود جا رہے تھے ، ان کی جائیدادوں پر جبر قبضہ کیا جارہا تھا اور کئی لوگ ان مخمصوں سے خلاصی کی کوئی صورت نہ پا کر ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے اور چونکہ ہجرت کی جگہ ان کے لئے قادیان ہی تھی ، ان کے قادیان آنے پر مہمان داری کے اخراجات اور بھی ترقی کر گئے تھے.اس وقت جماعت ایک دو ہزار آدمیوں تک ترقی کر چکی تھی مگر ان میں سے ہر ایک دشمن کے حملوں کا شکار ہو رہا تھا ایک دو ہزار آدمی جو ہر وقت اپنی جان اور اپنی عزت اور اپنی جائیداد اور اپنے مال کی حفاظت کی فکر میں لگے ہوئے ہوں اور رات دن لوگوں کے ساتھ مباحثوں اور جھگڑوں میں مشغول ہوں ان کا تمام دنیا میں اشاعت اسلام کے لئے روپیہ بہم پہنچانا اور دین سیکھنے کی غرض سے قادیان آنے والوں کی مہمان داری کا بوجھ اٹھانا اور پھر اپنے مظلوم مہاجر بھائیوں کے اخراجات برداشت کرنا ایک حیرت انگیز بات ہے.سینکڑوں آدمی دونوں وقت جماعت کے دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے اور بعض غرباء کی دوسری ضروریات کا بھی انتظام کرنا پڑتا تھا.ہجرت کے لئے آنے والوں کی کثرت اور مہمانوں کی زیادتی سے مہمان خانے کے علاوہ ہر ایک گھر مہمان خانہ بنا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی ہر ایک کوٹھڑی ایک مستقل مکان تھا جس میں کوئی نہ کوئی مہمان یا مہاجر خاندان رہتا تھا، غرض بوجھ انسانی طاقت برداشت سے بہت بڑھا ہوا تھا.ہر صبح جو چڑھتی اپنے ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی اور ہر شام جو پڑتی اپنے ساتھ تازہ ابتلاء اور تازہ ذمہ داریاں لاتی مگر اليْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کی نسیم سب فکروں کو خس و خاشاک کی طرح اڑا کر پھینک دیتی اور وہ بادل جو ابتدا ء سلسلہ کی عمارت کی بنیادوں کو اکھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی دیتے تھے تھوڑی ہی دیر میں رحمت اور فضل کے بادل ہو جاتے اور ان کی ایک ایک بوند کے گرتے وقت الیسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ کی ہمت افزا آواز پیدا ہوتی.( دعوت الامیر.انوارالعلوم جلد 7 صفحہ 565-566) حفاظت الہی کا معجزہ ایک مثال حفاظت الہی کی میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں سے بھی پیش کرتا ہوں کنورسین صاحب جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل ہیں ان کے والد صاحب سے حضرت صاحب کا بڑا تعلق تھا حتی کہ حضرت مسیح موعود کو کبھی روپیہ کی ضرورت ہوتی تو بعض دفعہ ان سے قرض بھی
تذکار مهدی ) 267 روایات سید نا محمود لے لیا کرتے تھے ان کو بھی حضرت صاحب سے بڑا اخلاص تھا.جہلم کے مقدمہ میں انہوں نے اپنے بیٹے کو تار دی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے وکالت کریں.اس اخلاص کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایام جوانی میں جب وہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع چند اور دوستوں کے سیالکوٹ میں اکٹھے رہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی نشانات دیکھے تھے.چنانچہ ان نشانات میں سے ایک یہ ہے کہ ایک رات آپ دوستوں سمیت سورہے تھے کہ آپ کی آنکھ کھلی اور دل میں ڈالا گیا کہ مکان خطرہ میں ہے.آپ نے سب دوستوں کو جگایا اور کہا کہ مکان خطرہ میں ہے اس میں سے نکل چلنا چاہئے سب دوستوں نے نیند کی وجہ سے پرواہ نہ کی اور یہ کہہ کر سو گئے کہ آپ کو وہم ہو گیا ہے مگر آپ کا احساس برابر ترقی کرتا چلا گیا آخر آپ نے پھر ان کو جگایا اور توجہ دلائی کہ چھت میں سے چرچراہٹ کی آواز آتی ہے مکان کو خالی کر دینا چاہئے انہوں نے کہا معمولی بات ہے ایسی آواز بعض جگہ لکڑی میں کیڑا لگ جانے سے آیا ہی کرتی ہے.آپ ہماری نیند کیوں خراب کرتے ہیں مگر آپ نے اصرار کر کے کہا کہ اچھا آپ لوگ میری بات مان کر ہی نکل چلیں آخر مجبور ہو کر وہ لوگ نکلنے پر رضامند ہوئے.حضرت صاحب کو چونکہ یقین تھا کہ خدا میری حفاظت کے لئے مکان کے گرنے کو روکے ہوئے ہے اس لئے آپ نے انہیں کہا کہ پہلے آپ نکلو پیچھے میں نکلوں گا.جب وہ نکل گئے اور بعد میں حضرت صاحب نکلے تو آپ نے ابھی ایک ہی قدم سیڑھی پر رکھا تھا کہ چھت گر گئی.دیکھو آپ انجینئر نہ تھے کہ چھت کی حالت کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو کہ گرنے والی ہے نہ چھت کی حالت اس قسم کی تھی نہ آواز ایسی تھی کہ ہر اک شخص اندازہ لگا سکے کہ یہ گرنے کو تیار ہے.علاوہ ازیں جب تک آپ اصرار کر کے لوگوں کو اُٹھاتے رہے اس وقت تک چھت اپنی جگہ پر قائم رہی اور جب تک آپ نہ نکل گئے تب تک بھی نہ گری مگر جو نہی کہ آپ نے پاؤں اُٹھایا چھت زمین پر آگری یہ امر ثابت کرتا ہے کہ یہ بات کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اس مکان کو حفیظ ہستی اس وقت تک روکے رہی جب تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی حفاظت اس کے مد نظر تھی اس مکان سے نہ نکل آئے پس صفت حفیظ کا وجود ایک بالا رادہ ہستی پر شاہد ہے اور اس کا ایک زندہ گواہ ہے.ہستی باری تعالیٰ انوار العلوم جلد 6 صفحہ 324,325)
تذکار مهدی ) معجزانہ تائید اور نصرت 268 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں امرتسر سے یکے پر سوار ہوکر روانہ ہوا.ایک بہت موٹا تازہ ہندو بھی میرے ساتھ ہی یکے پر سوار ہو ا وہ مجھ سے پہلے یکے کے اندر بیٹھ گیا اور اپنے آرام کی خاطر اپنی ٹانگوں کو اچھی طرح پھیلا لیا حتی کہ اگلی سیٹ جہاں میں نے بیٹھنا تھا وہ بھی بند کر دی.چنانچہ میں تھوڑی سی جگہ میں ہی بیٹھ رہا.اُن دنوں دھوپ بہت سخت پڑتی تھی کہ انسان کے ہوش باختہ ہو جاتے تھے.مجھے دھوپ سے بچانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی بھیجی جو ہمارے یکے کے ساتھ ساتھ سایہ کرتی ہوئی بٹالہ تک آئی.یہ نظارہ دیکھ کر وہ ہندو کہنے لگا آپ تو خدا تعالیٰ کے بڑے بزرگ معلوم ہوتے ہیں.اسی طرح حضور نے ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرمایا کہ میں اپنے چند دوستوں کے ساتھ ایک مکان میں سورہا تھا کہ مجھے القاء ہوا کہ کوئی مصیبت آنے والی ہے اس مکان سے جلد نکل چلو اور دل میں ایسا ڈالا گیا کہ جب تک میں اس مکان کے اندر ہوں وہ مصیبت نازل ہونے سے رُکی رہے گی.چنانچہ میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے سب دوستوں کو پہلے مکان سے باہر نکال لوں.چنانچہ جب وہ باہر چلے گئے اور میں بھی باہر جانے لگا تو ابھی میرا ایک قدم باہر اور ایک دروازے کے اندر کی طرف تھا کہ اس مکان کی چھت گر پڑی لیکن اپنی قدرت سے خدا تعالیٰ نے ہم سب کو اس بلائے ناگہانی سے محفوظ رکھا.پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ایسے سلوک کرتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے مگر عبودیت شرط ہے اور ایسے انسان کا انجام ضرور بخیر ہوگا.بظاہر وہ دنیا کی ظاہر بین نظروں میں ذلیل ہوتا نظر آرہا ہوگا لیکن انجام کار اُس کو عزت حاصل ہوگی.بظاہر وہ بد نام بھی ہورہا ہوگا لیکن انجام کار نیک نامی اسی کو حاصل ہوگی.گویا اس شخص کی ابتداء عبودیت سے اور انجام استعانت پر ختم ہو گا.( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 534-535) حفاظت الہی کا معجزہ اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی ملتی ہے.جوانی کے ایام کا واقعہ ہے کہ آپ سیالکوٹ میں ایک مکان میں سو رہے تھے.اُس وقت اُس کمرہ میں ایک ہندو صاحب بھی تھے جن کا نام لالہ بھیم سین تھا اور وہ وکالت کا پیشہ کرتے تھے.انہی صاحب کے لڑکے لالہ کنور سین کچھ عرصہ ہوا لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے اور بعد میں ریاست جموں وکشمیر
تذکار مهدی ) 269 روایات سید نا محمود کے چیف جسٹس بھی رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ جب سب سو گئے اور رات کا ایک حصہ گزر گیا تو چھت میں ٹک ٹک کی معمولی سی آواز پیدا ہوئی ( اور ایسی آواز عام طور پر کوئی کیڑا وغیرہ لگا ہو سنائی دیا کرتی ہے ) اور میرے دل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے.اس پر میں نے اپنے ساتھیوں کو جگایا اور کہا کہ یہاں سے نکل جانا چاہئے.مگر انہوں نے کہا کہ کوئی بات نہیں صرف آپ کو وہم ہو گیا ہے، ایسی آواز تو ہمیشہ آیا ہی کرتی ہے اور ایسے کیڑے لگے ہوئے شہتیر دس دس اور بیس بیس سال کھڑے رہتے ہیں.اس پر آپ خاموش ہو گئے مگر تھوڑی دیر بعد پھر بڑے زور سے یہ خیال پیدا ہوا کہ چھت گرنے والی ہے.اس پر آپ نے پھر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو اس کمرے سے باہر نکلو.مگر انہوں نے پھر اسی قسم کا جواب دیا اور آپ پھر لیٹ گئے.مگر پھر آپ کے دل پر یہ خیال غالب ہوا اور یقین ہو گیا کہ شہتیر ٹوٹنے ہی والا ہے.اس پر آپ نے پھر ساتھیوں سے فرمایا کہ اٹھو اور میری خاطر ہی کمرہ سے نکل چلو.اس پر وہ بڑبڑاتے ہوئے اُٹھے اور کہنے لگے کہ خوامخواہ آپ ہماری نیند خراب کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے اُس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ چھت صرف میرے باہر نکلنے کا انتظار کر رہی ہے.اس لئے میں دروازہ میں کھڑا ہو گیا اور ان سب کو ایک ایک کر کے گزرنے کو کہا.جب سب نکل گئے تو میرا ایک پاؤں ابھی سیڑھی پر تھا اور دوسرا اندر کہ چھت گر پڑی.لالہ بھیم سین صاحب پر اس واقعہ کا اس قدر اثر تھا کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام پر جہلم والا مقدمہ چل رہا تھا ، اُس وقت اُن کے لڑکے ولائت سے نئے نئے بیرسٹری پاس کر کے آئے تھے اور شہرت حاصل کر رہے تھے.لالہ بھیم سین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا کہ میں نے اپنے لڑکے سے کہا ہے کہ یہ اس کیلئے بڑا چھا موقع ہے کہ وہ آپ کے مقدمہ کی پیروی کر کے برکت حاصل کرے.لالہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی عقیدت اور تعلق ظاہر کیا کرتے تھے کہ حضور کو اگر کبھی ضرورت پیش آتی تو ان سے قرض منگوالیا کرتے تھے اور احمدیوں سے قرض مانگتے ہوئے حجاب کرتے تھے.یہ مثال ایک نمونہ ہے اور بھی ہزاروں مثالیں ہیں مگر یہ چھوٹا سا واقعہ ہے جو بہت نمایاں ہے.(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 496،495)
تذکار مهدی ) 270 الہام الہی کے ذریعہ تائید اور نصرت روایات سید نا محمود موجودہ زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سُرخی کے چھینٹوں والا کشف دکھایا گیا تو سُرخی کے چھینٹے نہ صرف آپ کی قمیص پر پائے گئے بلکہ ایک قطرہ حضرت میاں عبداللہ صاحب سنوری کی ٹوپی پر بھی آگرا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس نشان میں اُن کو بھی شریک کر لیا.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کے زمانہ میں مجھے بتایا گیا کہ آج رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ الہام نازل ہوا ہے.کہ اِنِّی مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً - صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشاعت کے لئے اپنے الہامات لکھ کر دیئے تو اتفاقاً آپ کو یہ الہام لکھنا یاد نہ رہا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ مجھے تو آج رات ایک فرشتہ نے بتایا تھا کہ آپ کو یہ الہام ہوا ہے کہ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً.مگر آپ نے جو الہامات لکھے ہیں اُن میں اس کا کہیں ذکر نہیں.آپ نے فرمایا.ٹھیک ہے مجھے یہ الہام ہوا تھا مگر لکھنا یاد نہیں رہا.پھر آپ اندر سے اپنے الہامات کی کاپی اٹھا لائے اور مجھے فرمایا کہ دیکھو اس میں میں نے یہ الہام درج کیا ہوا ہے.اس کے بعد آپ نے اُس الہام کو بھی اخبار میں شائع کروادیا.اب دیکھو ادھر ایک الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتا ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ مجھے بھی بتا دیتا ہے کہ ان الفاظ میں آپ پر الہام نازل ہوا ہے اور صبح معلوم ہوتا ہے کہ بات بالکل درست تھی.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 116-115) زندہ معجزہ اپنی ذات میں ظاہر ہوتا ہے میں نے پچھلے دنوں جماعت کے نو جوانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی جس پر میں نے دیکھا کہ بیسیوں نوجوانوں کے مجھے خط آنے شروع ہو گئے کہ ہم نے فلاں خواب دیکھی یا فلاں کشف دیکھا ہے یا فلاں الہام ہم پر نازل ہوا ہے.پس اگر آپ لوگ تقوی وطہارت اپنے اندر پیدا کریں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالیں اور تہجد اور درود پر التزام رکھیں تو اللہ تعالیٰ یقیناً آپ لوگوں کو بھی رویائے صادقہ اور کشوف سے حصہ دے گا اور اپنے الہام اور کلام سے مشرف کرے گا اور زندہ معجزہ در حقیقت وہی ہوتا ہے جو انسان کی اپنی ذات میں ظاہر ہو.بیشک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں، حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزے بھی بڑے ہیں اور رسول کریم می
تذکار مهدی ) 271 روایات سید نامحمود کے معجزے بھی بڑے ہیں.مگر جہاں تک انسان کی اپنی ذات کا سوال ہوتا ہے اس کے لیے وہی معجزہ بڑا ہوتا ہے جس کا وہ اپنی ذات میں مشاہدہ کرتا ہے.دوسرے معجزات کے متعلق تو وہ خیال کر سکتا ہے کہ شاید ان کے بیان کرنے میں کوئی غلطی ہوگئی ہو مگر جو خواب اُس نے آپ دیکھی ہو یا جو کشف اس نے خود دیکھا ہو اس کے متعلق وہ کوئی بہانہ نہیں بنا سکتا.اسے بہر حال مانا پڑتا ہے کہ وہ خدا تعالی کی طرف سے تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ چونکہ پہلے تمام انبیاء ہمارے بزرگ ہیں اور ان کے معجزات کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم ان کے معجزات کو بڑے معجزات کہتے ہیں لیکن حقیقتا وہ نشان جو اللہ تعالیٰ ہمیں براہِ راست دکھاتا ہے اور جس کا ہم اپنی ذات میں مشاہدہ کرتے ہیں وہ ہمارے نقطہ نگاہ سے زیادہ شاندار ہوتا ہے کیونکہ ہمیں اپنی خوابوں یا کشوف یا الہامات کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوسکتا مگر دوسروں کے متعلق شبہ ہوسکتا ہے کہ شاید اس کا کوئی حصہ راوی بھول گیا ہو.یا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کسی اشتہار کا حوالہ دیا ہو اور اس میں اپنے کسی نشان کا ذکر کیا ہو تو کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ اشتہار میرے پاس نہیں.معلوم نہیں اس میں وہ بات درج بھی ہے یا نہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مشہور کشف ہے جس میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کے کپڑوں پر سرخی کے چھینٹے گرے تھے.اب خواہ یہ کتنا بڑا معجزہ ہو دوسرے کے دل میں شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ کہیں میاں عبداللہ صاحب ستوری نے جھوٹ نہ بولا ہو یا سرخی کے یہ چھینٹے کسی اور وجہ سے پڑ گئے ہوں اور انہوں نے اپنے پیر کی طرف منسوب کر دیا ہو.پس دوسروں کے معجزات خواہ کتنے بڑے ہوں انسان کو ان کے متعلق شبہ ہو سکتا لیکن جو نشان اپنی ذات میں ظاہر ہوتا ہے اس کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوسکتا.دوسرے کے متعلق تو کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے اس نے جھوٹ بولا ہومگر اپنے متعلق وہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ شاید میں نے جھوٹ بولا ہو.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے انسان اپنے متعلق شبہ کرنے لگے کہ میرا وجود کوئی نہیں یا یہ خیال کرنے لگے کہ میں کوئی اور آدمی ہوں.جس طرح اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا اسی طرح وہ خواب جو انسان نے خود دیکھا ہو یا وہ نشان جو خود اس کی ذات میں ظاہر ہوا ہو اس کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ شاید وہ جھوٹا ہو یا شاید اس کے متعلق مجھے کوئی غلط نہیں ہو گئی ہو..صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کو دیکھ لو.انہوں نے جب احمدیت قبول کی اور وہ قادیان میں کچھ عرصہ ٹھہرنے کے بعد کا بل واپس گئے.تو وہاں کے گورنر نے انہیں بلایا.اور کہا کہ
تذکار مهدی ) 2726 روایات سید نا محمودی تو بہ کر لو.انہوں نے کہا میں تو یہ کس طرح کروں.جب میں قادیان سے چلا تھا تو اسی وقت میں نے رویاء میں دیکھا تھا کہ مجھے بہتھ کڑیاں پڑی ہوئی ہیں.پس جب مجھے خدا نے کہا تھا کہ تمہیں اس راہ میں بہتھ کڑیاں پہنی پڑیں گی.تو اب میں ان ہتھ کڑیوں کو اتر وانے کی کس طرح کوشش کروں.یہ ہتھ کڑیاں میرے ہاتھوں میں پڑی رہنی چاہئیں تا کہ میرے رب کی بات پوری ہو.اب دیکھو انہیں یہ وثوق اور یقین اسی لئے حاصل ہوا کہ انہوں نے خود ایک خواب دیکھا تھا.اسی طرح خواہ کوئی کتنا ہی قلیل علم رکھتا ہو.اگر وہ کوئی خواب دیکھ لے تو بزدلی کی وجہ سے وہ اس کو چھپالے تو اور بات ہے.ورنہ اپنی جھوٹی خواب پر بھی اسے اس سے زیادہ یقین ہوتا ہے.(الفضل 22 جولا ئی 1956 ء جلد 45/10 نمبر 168 صفحہ 5) حقیقی اطاعت کا جوش فکر پیچھے چھوڑ دیتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی الہامات نازل ہوئے کہ اٹھو اور دنیا کو میری طرف بلاؤ اور دنیا میں پھر میرے دین کو قائم کرو.ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہی کیفیت آپ کی بھی ہوئی ہوگی.آپ بھی حیران ہوئے ہوں گے کہ کہاں میں اور کہاں یہ کام.قادیان جیسی جگہ میں میرے جیسے انسان کو آج خدا یہ کہہ رہا ہے کہ دنیا، مہذب دنیا ، طاقتور دنیا، سامانوں والی دنیا مجھے سے دور پڑی ہوئی ہے، اتنی دور کہ دنیا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی.جاؤ اور ان گناہ کے قلعوں کو پاش پاش کر دو جو اسلام کے مقابلہ میں بنائے گئے ہیں اور جاؤ اور ان شیطانی حکومتوں کو مٹا دو جو میری حکومت کے مقابلہ میں قائم کی گئی ہیں اور ان تمام بے دینی کے قلعوں اور شیطانی حکومتوں کی جگہ میری حکومت اور دین کی بادشاہت قائم کرو.اگر کوئی شخص دور بین نگاہ رکھتا ہے، اگر کوئی شخص حقیقت کو سمجھ سکتا ہے تو میں کہوں گا کہ یہ مطالبہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا جیسے کسی کو چاند دکھایا جائے اور کہا جائے کہ جاؤ اور اس چاند کو جا کر تو ڑ ڈالو.وہ تو وہاں جا بھی نہیں سکتا پھر اس سے یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس کو توڑ ڈالے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تو وہاں پہنچ بھی نہ تھی جہاں خدا آپ کو پہنچانا چاہتا تھا.بھلا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ امرتسر کے لوگوں تک ہی اپنی آواز پہنچا سکتے یالا ہور، بمبئی اور کلکتہ کے لوگوں تک یہ الہی پیغام پہنچا سکتے.یا کون سے ذرائع آپ کے پاس ایسے موجود تھے کہ آپ عرب کے لوگوں کو بیدار کر سکتے.یا آپ انگلستان اور امریکہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے ؟ ہزاروں آواز میں دنیا میں گونج رہی
تذکار مهدی ) 273 روایات سید نا محمود تھیں، ہزاروں قومیں دنیا میں موجود تھیں، بیسیوں حکومتیں دنیا میں پائی جاتی تھیں جن کی نگاہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام کی اتنی بھی تو عزت نہ تھی جتنی دنیاوی حکومت کے سیکرٹریٹ کے چپڑاسی کی ہوتی ہے مگر خدا نے کہا اُٹھ اور دنیا کو میرا پیغام پہنچا دے اور اس نے کہا اے میرے رب !میں حاضر ہوں.اس نے یہ بھی تو نہیں سوچا کہ یہ کام کیونکر ہوگا؟ اس کا جسم کانپا ہو گا، یقیناً اس کے دل پر رعشہ طاری ہوا ہوگا.یقیناً وہ حیران ہوا ہوگا یقینا.مگر اس نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ کام کیونکر اور کس طرح ہوگا.اس کے دل کے تقویٰ اور محبت الہی نے اسے سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا.اور اس کے جذبہ فدائیت نے یہ پوچھنے ہی نہیں دیا کہ اے میرے رب! یہ کس طرح ہو گا ؟ اس نے پہلے کہا ہاں اے میرے رب ! میں حاضر ہوں اور پھر اس نے سوچا کہ میرے پاس تو کچھ نہیں یہ کام کس طرح ہو گا؟ یہی وہ حقیقی اطاعت کا جوش ہے جو لبیک پہلے کہلوا دیتا ہے اور فکر پیدا ہوتا ہے.(خطبات محمود جلد 21 صفحہ 22-21) دشمن سے بھی رحم کا سلوک کرو کسی شخص نے ایک عرب کے نوجوان لڑکے کو قتل کر دیا شاہی فوج اس کے پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے آرہی تھی قاتل بھاگتا ہوا آیا اور اسی شخص کے گھر میں داخل ہو کر پناہ کا طالب ہوا جس کے لڑکے کو وہ قتل کر آیا تھا.وہ عرب اُسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا اور اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے، اس نے کہا مجھ سے ایک خون ہو گیا ہے.سرکاری آدمی مجھے پکڑنے کے لئے پیچھے آ رہے ہیں، مجھے پناہ دو.عرب نے پوچھا تم نے کسے قتل کیا ہے، قاتل نے مقتول کا نام ونشان اور حلیہ وغیرہ بتایا.تو اس عرب کو معلوم ہو گیا کہ یہ شخص میرے بیٹے کو قتل کر کے آیا ہے مگر پھر بھی اس کی مہمان نوازی نے جوش مارا اور اس نے کہا میرے پیچھے آؤ، وہ اسے ساتھ لے گیا اور پچھواڑے سے نکال دیا اور جب فوج آئی تو کہہ دیا کہ یہاں تو کوئی ایسا شخص نہیں.یہ مومنانہ شرافت ہے کہ جب دشمن قبضہ میں آئے تو اس پر رحم کیا جائے.وہ وقت بدلہ لینے اور بہادری دکھانے کا نہیں ہوتا.جب دشمن گھر میں محلہ میں یا شہر میں آ جائے اس وقت مومنانہ میز بانی کا نمونہ دکھانا چاہئے خواہ کتنی مخالفت ہو.اس وقت کسی ناگوار بات کو زبان پر نہیں لانا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک ہندو صاحب آپ سے ملنے آیا کرتے تھے اور جب آتے ، کہتے کہ دتی کے کباب کھلاؤ.شامی کبابوں کا اُس وقت پنجاب میں ایسا
تذکار مهدی ) 274 روایات سیّد نا محمود رواج نہ تھا، اب تو کچھ کچھ ہو رہا ہے، ہماری والدہ صاحبہ چونکہ دتی کی ہیں اس لئے وہ تیار کرواتی تھیں.اس ہندو نے جو ایک بار کباب کھائے تو اسے پسند آئے اس لئے جب آتا ان کی فرمائش کرتا اور مسجد کے پاس والی کوٹھڑی میں چھپ کر کھا لیتا لیکن مجالس میں آپ کے ساتھ گوشت خوری پر بحث کرتا مگر آپ نے اسے کبھی نہ جتایا کہ چھپ کر تو تم گوشت کھاتے ہو اور باہر آ کر بحث کرتے ہو.پس مومن کو ہمیشہ نرمی دکھانی چاہئے.ایسے لوگ جو اس قسم کی حرکات کرتے ہیں یا تو غیر مومن ہوتے ہیں اور یا شرارتی جو اندر رہ کر جماعت کو بدنام کرتے ہیں یہاں جماعت کی تعلیم و تربیت کا انتظام بخوبی ہے، اس کے لئے ایک خاص محکمہ ہے، پھر مساجد میں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ہے، خطبات میں میں سمجھاتا رہتا ہوں لیکن ان سب باتوں کے باوجود جس پر اثر نہ ہو، میں کس طرح مان لوں کہ وہ مومن ہے، یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ مومن نہیں اور یا پھر یہ کہنا پڑے گا کہ وہ منافق ہے اس لئے اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ دراصل غیروں سے ملا ہوتا ہے اور ایسی حرکات کر کے جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ میں نے پچھلے جمعہ میں مثال سنائی تھی کہ کس طرح ایک شخص نے ہندوؤں کے ساتھ احمدیوں کی لڑائی کرانے کی کوشش کی تھی.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 93 تا94) اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے لئے ظاہری سامان پیدا کرتا ہے کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کی دعائیں بہت قبول ہوتی تھیں کوئی سپاہی ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ دعا کیجئے میرے ہاں بچہ پیدا ہو جب وہ واپس جانے لگا تو آپ نے دیکھا کہ جس طرف سے آیا تھا اس سے مخالف سمت کو روانہ ہوا ہے.انہوں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو اس نے کہا میں فوج میں ملازم ہوں رخصت پر گھر آیا ہوا تھا اور اب اپنی نوکری پر واپس جا رہا ہوں.اس بزرگ نے کہا اگر تو نوکری پر جا رہا ہے تو میری دعائیں کیا کام دے سکتی ہیں.میری دعا تو اس صورت میں کارگر ہو سکتی ہے کہ تو گھر پر رہے اور ان طبعی ذرائع کا استعمال کرے جو اللہ تعالیٰ نے بچہ ہونے کے لئے مقرر کئے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ سامان کے بغیر بھی بعض اوقات کوئی کام ہو جاتا ہے، مگر اس میں بھی اخفاء کا پہلو ضرور ہوتا ہے یہ کبھی نہ ہوگا کہ دعا کی اور عناصر میں یکا یک ویسا ہی تغیر پیدا ہو گیا.مثلاً پانی ملنے کے لئے دعا کی جائے تو یہ نہ ہوگا کہ ہوا میں سے آکسیجن اور ہائیڈ روجن الگ ہو کر آپس میں مل جائیں اور پانی
تذکار مهدی 275 روایات سید نا محمود بن جائے.پانی کے لئے اللہ تعالیٰ کوئی ظاہری سامان ہی کرے گا مثلاً کسی قافلہ کو بھیج دے گا جس کے پاس پانی ہوگا، کسی سوکھے ہوئے کنویں سے پانی نکل آئے گا یا کوئی اور سامان پیدا ہو جائے گا یہ کبھی نہیں ہو گا کہ ہوا سے گیس نکل کر پانی بن جائے.پس جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بغیر سامان کے کام ہوتے ہیں ، وہاں بھی اختفاء کا پہلو ضرور ہوتا ہے.ہماری جماعت میں بھی اس قسم کے معجزہ کی مثالیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشف میں دیکھا کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے بعض پیشگوئیاں لکھیں جن کا مطلب یہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے چاہئیں اور وہ کاغذ دستخط کرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کیا.اللہ تعالیٰ نے قلم کو دوات میں ڈالا اور جس طرح زیادہ سیاہی لگ جانے سے اسے چھڑک دیا جاتا ہے چھڑ کا اور سرخ رنگ کے چھینٹے آپ پر بھی گرے آپ نے اٹھ کر بعینہ ویسے ہی قطرے دیکھے.حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری مرحوم و مغفور جو اس وقت آپ کے پاؤں دبا رہے تھے ان کی ٹوپی پر بھی قطرے گرے.اب یہ ایک نشان ہے اور ایسی چیز پیدا کی گئی جو عام قانون جاریہ میں نظر نہیں آتی مگر یہاں بھی اختفاء کا پہلو ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا دیکھا، اور رؤیا اپنی ذات میں اختفاء ہے.پھر جو جاگتا تھا اس نے نہ قلم دیکھا نہ دوات نہ خدا کا ہاتھ اور نہ چھینٹے گرتے ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب کچھ دیکھا مگر آپ اس وقت سوئے ہوئے تھے اور یہ نظارہ کشف کا تھا اس طرح یہاں بھی اختفاء موجود ہے.پس تمام کام جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئے جاتے ہیں، ان میں اخفاء ضرور رکھا جاتا ہے.آنحضرت علیہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے برتن میں ہاتھ ڈالا جس میں پانی کم تھا مگر پھر بھی سب لوگ سیراب ہو گئے.اس میں بھی اخفاء ہے جس کی وجہ سے کوئی اس کی ہر تاویل کر لیتا ہے کہ صحابہ نے جب پانی جمع کرنا شروع کیا تو اس کا اندازہ کرنے میں غلطی کی.دراصل پانی ان کے اندازہ سے زیادہ تھا کوئی کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے تھوڑے پانی میں ہی برکت ڈال دی اور وہ سب کے لئے کافی ہو گیا.بعض کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے ان کی پیاسوں میں کمی ہوگئی اور تھوڑے پانی سے بجھ گئیں.( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 212 تا 214) حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانہ والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی سے پہلے ہی وفات پاگئے تھے.مگران
تذکار مهدی ) 276 روایات سید نا محمود ) کی روحانی بینائی اتنی تیز تھی کہ انہوں نے دعوی سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھا کہ ہم مریضوں کی ہے تمہی نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے انہوں نے اپنے اولاد کو مرتے وقت وصیت کی تھی کہ میں اب تو مر رہا ہوں.مگر اس بات کو اچھی طرح یاد رکھنا کہ مرزا صاحب نے ضرور ایک دعوی کرنا ہے اور میری وصیت تمہیں یہی ہے کہ مرزا صاحب کو قبول کر لینا.غرض اس پایہ کے وہ روحانی آدمی تھے.انہوں نے اپنی جوانی میں بارہ سال تک وہ چکی جس میں بیل جوتا جاتا ہے.اپنے پیر کی خدمت کرنے کے لئے چلائی اور بارہ سال تک اس کے لئے آٹا پیتے رہے.تب انہوں نے روحانیت کے سبق ان کو سکھائے تو وہ لوگ جو روحانی کہلاتے تھے.وہ بھی لوگوں کو روحانی باتیں بتانے میں سخت بخل سے کام لیا کرتے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ صرف وہ ساری باتیں دنیا کو بتا دیں.بلکہ ان سے ہزاروں گنا زیادہ اور باتیں بھی ایسی بتائیں جو پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اس طرح علوم کو آپ نے ساری دنیا میں بکھیر دیا.مگر جیسا کہ حدیثوں میں خبر دی گئی تھی.دنیا نے اس کی قدر نہ کی.(خطبات محمود جلد 25 صفحہ 23-24) معجزہ کا مقصد ہدایت دینا ہونا چاہئے قوت ارادی جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو جائے تو وہ ایمان بن جاتی ہے لیکن جب آزاد ہو تو صرف ارادی قوت کہلاتی ہے جیسے خواہش جب انسان کے تابع ہو تو محض خواہش کہلاتی ہے لیکن جب خدا تعالیٰ کے تابع ہو تو دعا کہلاتی ہے.یہ دو چیزیں مل کر دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتی ہیں، یہ زمین و آسمان کو ہلا سکتی ہیں.دنیا دار لوگوں نے اس قوت سے کام لیا اور اس کا نام انہوں نے مسمریزم ، ہپنا ٹزم اور میجک (MAGIC) رکھا اور اس کیلئے انہوں نے بڑی بڑی مشقیں کیں مگر وہ سب دنیوی چیزیں ہیں اور حقارت کے قابل ہیں لیکن جس وقت یہ چیزیں خدا تعالیٰ کے دین کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں انہیں ایمان اور دعا کہتے ہیں اور ان سے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے جا سکتے ہیں.علم توجہ کیا ہے؟ وہ محض چند کھیلوں کا نام ہے لیکن دعا وہ ہتھیار ہے جو زمین و آسمان کو بدل دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ نہیں
تذکار مهدی ) 277 روایات سید نا محمودی کیا تھا صرف براہین احمدیہ کھی تھی کہ اس کی صوفیاء وعلماء میں بہت شہرت ہوئی.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب کے والد صوفی احمد جان صاحب اُس زمانہ کے نہایت ہی خدارسیدہ بزرگوں میں سے تھے.جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اشتہار پڑھا تو آپ سے خط و کتابت شروع کر دی اور خواہش ظاہر کی کہ اگر کبھی لدھیانہ تشریف لائیں تو مجھے پہلے سے اطلاع دیں.اتفاقاً انہیں دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ جانے کا موقع ملا حضرت صوفی احمد جان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت کی.دعوت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کے گھر سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ صوفی احمد جان صاحب بھی ساتھ چل پڑے.وہ رتر چھتر والوں کے مرید تھے اور ماضی قریب میں رتر چھتر والے ہندوستان کے صوفیاء میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اور تمام علاقہ میں مشہور تھے.علاوہ زُہد و اتقاء کے انہیں علم توجہ میں اس قدر ملکہ حاصل تھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو ان کے دائیں بائیں بہت سے مریض صف باندھ کر بیٹھ جاتے.نماز کے بعد جب وہ سلام پھیر تے تو سلام پھیرنے کے ساتھ ہی دائیں بائیں پھونک بھی مار دیتے جس سے بہت سے مرید اچھے ہو جاتے.صوفی احمد جان صاحب نے ان کی بارہ سال شاگردی کی اور وہ ان سے چکی پیسواتے رہے.راستہ میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ میں نے اتنے سال رتر چھتر والوں کی خدمت کی ہے اور اس کے بعد مجھے وہاں سے اس قدر طاقت حاصل ہوئی ہے کہ دیکھئے میرے پیچھے جو شخص آرہا ہے اگر میں اس پر توجہ کروں تو وہ ابھی گر جائے اور تڑپنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور اپنی سوئی کی نوک سے زمین پر نشان بناتے ہوئے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی جب آپ پر خاص جوش کی حالت ہوتی تو آہستگی.اپنی سوٹی کے سر کو اس طرح زمین پر آہستہ آہستہ رگڑتے جس طرح کوئی چیز گرید کر نکالنی ہو ) صوفی صاحب! اگر وہ گر جائے تو اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوگا اور اُس کو کیا فائدہ ہوگا؟ وہ چونکہ واقعہ میں اہل اللہ میں سے تھے اور خدا تعالیٰ نے اُن کو دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس لئے یہ بات سنتے ہی اُن پر محویت کا عالم طاری ہو گیا اور کہنے لگے میں آج سے اس علم سے تو بہ کرتا ہوں مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ یہ دنیوی بات ہے دینی بات نہیں.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے ایک اشتہار دیا جس میں لکھا کہ یہ علم اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں.چنانچہ کوئی ہندو اور عیسائی بھی اس علم میں ماہر ہونا چاہے تو ہوسکتا ہے اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ آج سے میرا کوئی مرید ا سے اسلام کا جزو سمجھ کر نہ کرے ا ނ
تذکار مهدی ) 62786 روایات سید نامحمود ہاں دنیوی علم سمجھ کر کرنا چاہے تو کر سکتا ہے.میں نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں دُور بین نگاہ دی ہوئی تھی اس کا ہمارے پاس ایک حیرت انگیز ثبوت ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی براہین احمدیہ ہی لکھی تھی کہ وہ سمجھ گئے یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے حالانکہ اُس وقت ابھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی یہ انکشاف نہیں ہوا تھا کہ آپ کوئی دعوی کرنے والے ہیں.چنانچہ انہی دنوں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط میں یہ شعر لکھا.ہم مریضوں کی تمہی پہ نگاہ ہے تم مسیحا بنو خدا کے لئے یہ امر بتاتا ہے کہ وہ صاحب کشف تھے اور خدا تعالیٰ نے انہیں بتادیا تھا کہ یہ شخص مسیح موعود بننے والا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے فوت ہو گئے مگر وہ اپنی اولا د کو وصیت کر گئے کہ حضرت مرزا صاحب دعوی کریں گے انہیں مانے میں دیر نہ کرنا.اس تعلق کی بناء پر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی شادی ان کے ہاں ہوئی.غرض علم توجہ ایک دُنیوی چیز ہے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ کر لیتے ہیں کہ توجہ سے کسی کے دل میں وہم پیدا کر لیتے ہیں، کسی کو بیہوش کر دیا، بعض ماضی کے اخبارات دریافت کر لئے ، بعض حال کے واقعات معلوم کر لئے معمول کو بے حس اور بے طاقت کر دیا.غرض اس قسم کے افعال علم توجہ سے ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں مگر دعا کے مقابل اس کی کیا حقیت ہے.علم توجہ کے اثرات انفرادی ہوتے ہیں مگر دعا کے اثرات انفرادی ہی نہیں بلکہ مجموعی بھی ہوتے ہیں.حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی خطبات محمود جلد 17 صفحہ 101 تا 103 ) | بچوں کی پرورش کے معاملہ میں جاہل سے جاہل عورت ، عقلمند سے عقلمند مرد سے زیادہ معاملہ فہم اور عقلمند ثابت ہوگی.یہ طاقت عورتوں میں اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ مردوں میں مقابلہ اس کا سینکڑواں حصہ بھی نہیں.مردوں میں بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو بچے پالنا جانتے ہیں.میں نے اپنے تجربہ میں کئی ایسے آدمی دیکھتے ہیں جنہوں نے بچوں کی پرورش اچھی طرح کی.مثلاً ایک مرد کی بیوی مر گئی اس کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی اس نے دوسری شادی نہیں کی اور خود اپنے بچوں کی پرورش کی اسی طرح ہمارے ایک دوست قادیان کے ہیں پیر افتخار احمد صاحب
تذکار مهدی ) 279 روایات سید نا محمود یہ حضرت خلیفہ اول کے سالے اور منشی احمد جان صاحب کے بیٹے ہیں، منشی احمد جان صاحب کو خدا تعالیٰ نے ایسی بصیرت عطا کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعویٰ مسیحیت بھی نہیں کیا تھا کہ انہوں نے حضور کو لکھا: ہم مریضوں کی ہے تمہی نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے تو وہ بہت بڑے بزرگ اور ولی اللہ تھے.ان کے بیٹے پیر افتخار احمد صاحب بچوں کے پالنے میں بڑے ماہر ہیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم سلسلہ کے بہت بڑے رکن تھے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور ایک قرب حاصل تھا اور سلسلہ کے معاملات میں بہت غیرت رکھتے تھے.اس زمانہ میں تکلف اور آسائش وغیرہ کا خیال تو ہوتا ہی نہیں تھا.پیر صاحب کے رہنے کیلئے ایک کوٹھڑی حضرت صاحب کے گھر میں تھی اور اس کے اوپر کی کوٹھڑی میں مولوی عبد الکریم صاحب رہا کرتے تھے.پیر صاحب کے بچوں کے رونے چلانے کی آواز آنے پر ان کو غصہ آیا کرتا تھا اور اکثر پیر صاحب سے فرمایا کرتے تھے ” پیر صاحب آپ بھی کیسے ہیں بچوں کو چپ کیوں نہیں کراتے مجھے تو ان کے رونے کی آواز سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے.جب 1905ء میں زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع اپنے دوستوں کے باغ میں رہنے لگے تو ان دونوں کے جھونپڑے بھی پاس پاس تھے.وہاں ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب سے کہا.” پیر صاحب! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے بچے روتے ہیں اور آپ نے ان میں سے ایک کو نہایت اطمینان سے کندھے سے لگایا ہوا ہوتا ہے اور دوسرے کو نرمی سے پچکارتے رہتے ہیں.اگر میرے پاس ہوں تو ایسا نہ ہو سکے بلکہ مجھے تو یہ دیکھ کر ہی گھبراہٹ ہوتی ہے“.پیر صاحب مسکرا دیئے اور کہنے لگے میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ بچوں کو تو میں نے اٹھایا ہوتا ہے اور آپ کو یونہی گھبراہٹ کیوں ہوتی ہے.تو بعض مرد ایسے ہوتے ہیں.مگر بالعموم مردوں کو اگر بچے سنبھالنے پڑیں تو تھوڑی ہی دیر میں گھبرا جائیں.مجھے تو پانچ منٹ بھی اگر بچہ رکھنا پڑے تو گھبرا جاتا ہوں لیکن عورتیں کھانا پکانا، پڑھنا لکھنا سب کام کرتی ہیں اور بچوں کی نگہداشت سے اور ان کے رونے چلانے سے ذرا نہیں گھبراتیں.اگر گھبرا بھی جائیں تو ذراسی چپت رسید کی اور ایک منٹ کے بعد پھر گلے لگا لیا.غرض فطرتیں اللہ تعالیٰ نے مختلف رکھی ہیں.اگر کوئی چاہے کہ دونوں کے فرائض بدل دیئے جائیں تو دونوں اپنے کاموں
تذکار مهدی ) 280 نامحمودی روایات سیّد نا محمود میں ناقص رہ جائیں گے.ہر ایک اپنا اپنا کام کر سکتا ہے جیسا کہ اگر کوئی ہاتھ کا کام پیر سے لینا چاہے یا پیر کا کام ہاتھ سے لینا چاہے تو یہ ناممکن ہے.بیسیوں کام ہاتھ کے ایسے ہیں جو پیر یا تو بالکل کر ہی نہیں سکے گا یا اگر کرنے کی کوشش کرے گا تو خراب کر دے گا.دونوں کے کام مختلف ہیں اور علیحدہ علیحدہ کاموں کیلئے خدا تعالیٰ نے ہاتھ اور پاؤں بنائے ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے جہاں بعض باتوں میں مرد اور عورت میں اتفاق رکھا ہے وہاں دونوں کے مختلف کاموں کے مد نظر اختلافات بھی رکھے ہیں مگر افسوس کہ ہمارے مرد اور عورتیں اس فرق کو نہیں سمجھتے.قومی ترقی کے لئے قوت ارادی ضروری ہے (انوار العلوم جلد 15 صفحہ 215،214) دوسری چیز جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ قوت ارادی ہے اور قوت ارادی وہ نہیں جو مسمریزم والوں کی ہوتی ہے بلکہ ایمان کی قوتِ ارادی.مسمریزم والوں کی قوت ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتی ہے.مسمریزم کی قوت ارادی ایمان کی قوتِ ارادی کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکتی.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوت ارادی اور انسان کی قوت ارادی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے.اسی مسجد مبارک میں نچلی چھت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں بیٹھا کرتے تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک ہندو جو لا ہور کے کسی دفتر میں اکاونٹنٹ تھا اور مسمریزم کا بڑا ماہر تھا وہ کسی برات کے ساتھ قادیان اس ارادہ سے آیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کروں گا اور وہ مجلس میں بیٹھے ناچنے لگ جائیں گے اور لوگوں کے سامنے اُن کی سبکی ہوگی یہ واقعہ اس ہندو نے خود ایک احمدی دوست کو سنایا تھا وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لاہور کے اس احمدی کے ہاتھ اپنی ایک کتاب روانہ فرمائی اور کہا یہ کتاب فلاں ہندو کو دے دینا.اس احمدی دوست نے اس کو کتاب پہنچائی اور اس سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے آپ کو اپنی یہ کتاب کیوں بھجوائی ہے اور آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اس پر اُس ہندو نے اپنا واقعہ بتایا کہ مجھے مسمریزم کے علم میں اتنی مہارت ہے کہ اگر میں تانگہ میں بیٹھے ہوئے کسی شخص پر توجہ ڈالوں تو وہ شخص جس پر میں نے توجہ ڈالی ہوگی وہ بھی ٹانگہ کے پیچھے بھاگا آئے گا حالانکہ نہ وہ میرا واقف ہوگا اور نہ میں اُس کو جانتا ہوں گا.میں نے آریوں اور ہندوؤں سے مرزا صاحب کی باتیں سنی تھیں کہ انہوں نے آریہ مت
تذکار مهدی ) 281 روایات سید نا محمودی کے خلاف بہت سی کتابیں لکھی ہیں میں نے ارادہ کیا کہ میں مرزا صاحب پر مسمریزم کے ذریعہ اثر ڈالوں گا اور جب وہ مجلس میں بیٹھے ہوں گے تو ان پر توجہ ڈال کر ان کے مریدوں کے سامنے ان کی سبکی کروں گا.چنانچہ میں ایک شادی کے موقع پر قادیان گیا مجلس منعقد تھی اور میں نے دروازے میں بیٹھ کر مرزا صاحب پر توجہ ڈالنی شروع کی.وہ کچھ وعظ ونصیحت کی باتیں کر رہے تھے میں نے توجہ ڈالی تو اُن پر کچھ بھی اثر نہ ہوا میں نے سمجھا ان کی قوتِ ارادی ذرا قوی ہے اس لئے میں نے پہلے سے زیادہ توجہ ڈالنی شروع کی مگر پھر بھی ان پر کچھ اثر نہ ہوا اور وہ اسی طرح باتوں میں مشغول رہے.میں نے سمجھا کہ ان کی قوتِ ارادی اور بھی مضبوط ہے اس لئے میں نے جو کچھ میرے علم میں تھا اُس سے کام لیا اور اپنی ساری قوت صرف کر دی لیکن جب میں ساری قوت لگا بیٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک شیر میرے سامنے بیٹھا ہے اور وہ مجھ پر حملہ کرنا چاہتا ہے میں ڈر کر اور اپنی جوتی اٹھا کر بھاگا.جب میں دروازے میں پہنچا تو مرزا صاحب نے اپنے مریدوں سے کہا دیکھنا یہ کون شخص ہے.چنانچہ ایک شخص میرے پیچھے سیڑھیوں سے نیچے اُترا اور اُس نے مسجد کے ساتھ والے چوک میں مجھے پکڑ لیا.میں چونکہ اُس وقت سخت حواس باختہ تھا اس لئے میں نے پکڑنے والے سے کہا اس وقت مجھے چھوڑ دو میرے حواس درست نہیں ہیں میں بعد میں یہ سارا واقعہ مرزا صاحب کو لکھ دوں گا چنانچہ اُسے چھوڑ دیا گیا اور بعد میں اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ تمام واقعہ لکھا اور کہا کہ مجھ سے گستاخی ہوگئی ہے میں آپ کے مرتبہ کو پہچان نہ سکا اس لئے آپ مجھے معاف فرما دیں میاں عبد العزیز صاحب مغل لاہور والے سنایا کرتے تھے کہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے یہ کیوں نہ سمجھا کہ مرزا صاحب مسمریزم جانتے ہیں اور اس علم میں تم سے بڑھ کر ہیں.اس نے کہا یہ بات نہیں ہوسکتی کیونکہ مسمریزم کے لئے توجہ کا ہونا ضروری ہے اور یہ عمل کامل سکون اور خاموشی چاہتا ہے مگر مرزا صاحب تو باتوں میں لگے ہوئے تھے اس لئے میں نے سمجھ لیا کہ ان کی قوت ارادی زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہے.پس جو قوت ارادی خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دی جاتی ہے اور جو کامل ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اس میں اور انسانی قوت ارادی میں بُعْدَ الْمَشْرِقَيْنِ (الزخرف: 39) ہوتا ہے جس شخص کو خدا تعالیٰ قوت ارادی عطا فرماتا ہے اس کے سامنے انسانی قوت ارادی تو بچوں کا ساکھیل ہے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے سامنے جادوگروں کے سانپ مات
تذکار مهدی ) 282 روایات سید نا محمود ہو گئے تھے اسی طرح جب خدا تعالیٰ کے پیاروں کی قوت ارادی ظاہر ہوتی ہے تو اس قسم کی قوت ارادی رکھنے والے لوگ بیچ ہو جاتے ہیں.پس دوسری چیز قومی ترقی کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام سچائیوں کو اپنے اندر جذب کر لیا جائے یہ نہیں کہ صرف وفات مسیح کو مان لیا جائے اور کہہ دیا کہ بس ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے بلکہ وفات مسیح کے مسئلہ کو سامنے رکھ کر اس کے چاروں پہلوؤں پر غور کیا جائے کہ وفات مسیح کا ماننا کیوں ضروری ہے ہمیں جو چیز حیات مسیح کے عقیدہ سے چھتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک تو حیات مسیح کے عقیدہ سے حضرت عیسی کی فضیلت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ثابت ہوتی ہے حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کا کوئی نبی ہوا ہے نہ ہو گا اور حیات مسیح ماننے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے ساری دنیا کی حقیقی اصلاح کی مسیح کی فوقیت ثابت ہوتی ہے اور یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے ہم تو ایک لمحہ کے لئے یہ خیال بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتے کہ مسیح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے اور یہ ماننے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زیر زمین مدفون ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام چوتھے آسمان پر بیٹھے ہیں اسلام کی سخت تو ہین ہوتی ہے دوسری بات جو اس حیات مسیح کے عقیدہ کے ماننے سے ہمیں چھتی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے توحید الہی میں فرق آتا ہے.یہ دو چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمیں وفات مسیح کے مسئلہ پر زور دینا پڑتا ہے اگر یہ باتیں نہ ہوتیں تو مسیح خواہ آسمان پر ہوتے یا زمین پر ہمیں اس سے کیا واسطہ تھا مگر جب ان کا آسمان پر چڑھنا محمد رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی توہین کا موجب بنتا ہے اور توحید کے منافی ہے تو ہم اس عقیدہ کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں.ہم تو یہ بات سننا بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ مسیح، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے افضل تھے گجا یہ کہ اس عقیدہ کو مان لیں.ہم دیکھتے ہیں کہ عام احمدی جب وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے دلائل پیش کر رہے ہوتے ہیں تو اُن کے اندر جوش پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس طرح اس مسئلہ کو بیان کرتے ہیں جس طرح عام گفتگو کی جاتی ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ جب آپ وفات مسیح کا مسئلہ چھیڑتے تھے تو اُس وقت آپ جوش کی وجہ سے کانپ رہے ہوتے تھے اور آپ کی آواز میں اتنا جلال ہوتا تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ حیات مسیح کے عقیدہ کا قیمہ کر رہے ہیں.آپ کی حالت اُس وقت بالکل متغیر ہو جایا کرتی تھی اور آپ نہایت جوش کے ساتھ یہ بات پیش کرتے تھے کہ دنیا کی ترقی صلى الله
تذکار مهدی ) 283 روایات سید نامحمود کے راستہ میں ایک بڑا بھاری پتھر پڑا تھا جس کو اٹھا کر میں دور پھینک رہا ہوں، دنیا تاریکی کے گڑھے میں گر رہی تھی مگر میں اس کو نور کے میدان کی طرف لئے جارہا ہوں.آپ جس وقت یہ تقریر کر رہے ہوتے تھے آپ کی آواز میں ایک خاص جوش نظر آ تا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر مسیح بیٹھ گئے ہیں جس نے ان کی عزت اور آبرو چھین لی ہے اور آپ اُس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت واپس لینا چاہتے ہیں.ملنے والے کے حالات اور اندرونہ کا علم ہو جانا انوار العلوم جلد 19 صفحہ 92 تا 95) جب انسان ایسے مقام پر کھڑا ہو جائے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی خود بخو دراہنمائی ہوتی چلی جاتی ہے اور اس کو ایسی مخفی ہدایت ملتی ہے.جسے الہام بھی نہیں کہہ سکتے اور جس کے متعلق ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ وہ الہام سے جُدا امر ہے.الہام تو ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ لفظی الہام نہیں ہوتا اور عدم الہام ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ وہ عملی الہام ہوتا ہے اور انسانی قلب پر اللہ تعالیٰ کا نور نازل ہو کر بتا دیتا ہے کہ معاملہ یوں ہے.حالانکہ لفظوں میں یہ بات نہیں بتائی جاتی.بعض دفعہ جب اس سے بھی واضح رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بات بتائی جاتی ہے.تو اسے کشف کہہ دیتے ہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے آدمی جب میرے سامنے آتے ہیں.تو ان کے اندر سے مجھے ایسی شعاعیں نکلتی معلوم دیتی ہیں جن سے مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ ان کے اندر یہ یہ عیب ہے.یا یہ یہ خوبی ہے مگر یہ اجازت نہیں ہوتی کہ انہیں اس عیب سے مطلع کیا جائے.میں نے اپنے طور پر بھی دیکھا.کہ بعض دفعہ جب کوئی شخص مجھ سے ملتا ہے.تو اس شخص کے قلب میں سے ایسی شعائیں نکلتی دکھائی دیتی ہیں.جن سے صاف طور پر اس کا اندرونہ کھل جاتا ہے اور معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر کوئی کپٹ ہے یا غصہ ہے یا محبت ہے.پس ایسا معاملہ میرے ساتھ بھی کئی دفعہ ہوا ہے.گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اکثر ایسا ہوتا تھا اور میرے ساتھ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ جب تک انسان اپنی فطرت کو آپ ظاہر نہیں کر دیتا.وہ اسے مجرم قرار نہیں دیتا.اس لئے اس سنت کے ماتحت انبیاء اور ان کے اظلال کا بھی یہی طریق ہے کہ وہ اس
تذکار مهدی ) 284 روایات سید نامحمود وقت تک کسی شخص کے اندرونی عیب کا کسی سے ذکر نہیں کرتے جب تک وہ اپنے عیب کو آپ ظاہر نہ کر دے.لاہور کا مجذوب الفضل مورخہ 9 مارچ 1938 ء جلد 26 نمبر 55 صفحہ 3) مجنون کو بعض اوقات وہ چیزیں نظر آجاتی ہیں جو دوسروں کو نہیں آتیں.جس طرح نبی کو بھی وہ چیزیں دکھائی دیتی ہیں جو دوسری دنیا نہیں دیکھ سکتی.یہی وجہ ہے کہ لوگ کئی مجنون لوگوں کو مجذوب قرار دے کر ولی اللہ بنا دیتے ہیں.لیکن بات صرف یہ ہوتی ہے کہ اس کی مخفی دماغی قوتیں بعض اوقات نمایاں ہو جاتی ہیں اور وہ شاذ و نادر طور پر غیر معمولی باتیں معلوم کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ لا ہور تشریف لے گئے.بعض دوستوں نے تحریک کی کہ شاہدرہ میں ایک مجذوب رہتا ہے اس کے پاس جانا چاہئے مگر بعض دوسرے دوستوں نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ نہایت گندی گالیاں بکتا ہے اس کے پاس نہیں جانا چاہئے.مگر جو جانے کے حق میں تھے انہوں نے کہا کہ آپ کو الہام ہوتا ہے دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کہتا ہے.آپ خود بھی انکار کرتے رہے مگر دوست اصرار کر کے لے گئے.آپ نے فرمایا.جب ہم وہاں پہنچے وہ گالیاں دیتے دیتے یکدم خاموش ہو گیا.اس کے پاس ایک خربوزہ رکھا تھا اسے اٹھا کر میرے پیش کیا اور کہنے لگا کہ یہ آپ کی نذر ہے.دیکھنے والے تو اس کے اور بھی معتقد ہو گئے.مگر آپ نے فرمایا کہ وہ پاگل تھا تو بعض اوقات پاگل کو بھی ایسی باتیں نظر آ جاتی ہیں جو نظمند نہیں دیکھ سکتے.وہ چونکہ دنیا سے منقطع ہو چکا ہوتا ہے اس لحاظ سے اسے بھی کسی وقت غیب کی باتیں نظر آ جاتی ہیں.قرآن کریم میں جنوں کا ذکر الفضل 28 جولا ئی 1938 ء جلد 26 نمبر 171 صفحہ 4 جن سے مراد جن الانس ہی ہیں.ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو اور نہ میں ایسے جنوں کا قائل ہوں جو انسانوں کو آ کر چمٹ جاتے ہیں مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جن آتے ہیں اور وہ
تذکار مهدی ) 285 روایات سید نا محمود آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ اُن جنوں کو یہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کو کیوں ستاتے ہوا گر ستانا ہی ہے تو مولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کو جا کر ستائیں ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائدہ؟ تو ایسے جن کوئی نہیں ہوتے جن کو عام لوگ مانتے ہیں.بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جو انگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں لیکن مؤمن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتا کہ اُس کی عقل کیا کہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم کیا کہتا ہے.اگر قرآن کہتا ہو کہ جن ہوتے ہیں تو ہم کہیں گے آمَنَا وَصَدَّقْنَا اور اگر قرآن سے ثابت ہو کہ انسانوں کے علاوہ جن کوئی مخلوق نہیں تو پھر ہمیں یہی بات ماننی پڑے گی.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 363) نائی کی جراحی سے آرام ایک شخص کی لات میں کچھ خرابی واقع ہو گئی اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کولکھا کہ میں نے ہر چند علاج کیا کہ آرام آجائے مگر نہ آیا.اب ڈاکٹر کہتے ہیں لات کٹوا ڈالو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اپنی طرف سے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ بیچ سکے اگر ڈاکٹروں سے فائدہ نہیں ہوا تو اب کچھ دیر کسی نائی سے جو جراحی کا کام کرتا ہو علاج کرا کر دیکھیں شاید اسی سے ہی فائدہ ہو جائے.چھ سات ماہ کے بعد اس شخص نے لکھا کہ آپ کے مشورہ سے یہ فائدہ ہوا کہ لات کٹنے سے بچ گئی اور اب درست ہوگئی ہے.اس میں شک نہیں کہ کبھی ایسی بھی ضرورت آپڑتی ہے کہ کوئی عضو کاٹ دیا جائے اور چونکہ زندگی کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.اس لئے اگر کاٹنا پڑ جائے تو حرج بھی نہیں کیونکہ ایک عضو کے بالمقابل ایک جان کی بہت قیمت ہے اس لئے اس جان کے بچانے کے لئے بعض دفعہ عضو کاٹ دیا جا سکتا ہے.( خطبات محمود جلد 10 صفحہ 54 ) جسم سے نور کی شعائیں یہ خیال کہ کسی انسان کے جسم سے ایسی شعاعیں کس طرح نکل سکتی ہیں جو دوسروں کو بھی نظر آجائیں صرف اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ لوگ اِس نشان کو ظاہر پر محمول کر لیتے ہیں.اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک کشفی واقعہ ہے تو اس قسم کے وساوس بھی اُن کے دل میں پیدا نہ ہوتے.موسیٰ کا
تذکار مهدی ) 286 روایات سیّد نا محمود زمانہ تو بہت دُور کی بات ہے ہم تو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض ایسے نشانات دکھائے ہیں جن میں کشفی نگاہ رکھنے والوں نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو ظاہر شکل میں بھی متمثل دیکھا اور اس کے روحانی کیف سے لطف اندوز ہوئے.چنانچہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو وہاں ایک جلسہ میں آپ نے تقریر فرمائی ایک غیر احمدی دوست شیخ رحمت اللہ صاحب وکیل بھی اُس تقریر میں موجود تھے.وہ کہتے ہیں دوران تقریر میں میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سر سے نور کا ایک ستون نکل کر آسمان کی طرف جا رہا تھا.اُس وقت میرے ساتھ ایک اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.میں نے انہیں کہا دیکھو وہ کیا چیز ہے انہوں نے دیکھا تو فوراً کہا کہ یہ تو نور کا ستون ہے جو حضرت مرزا کے سر سے نکل کر آسمان تک پہنچا ہوا ہے.اس نظارہ کا شیخ رحمت اللہ صاحب پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے اُسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 121-120 ) معجزہ قبولیت دعا دوسری مثال آپ کے معجزات میں سے میں ایسے بیماروں کے اچھا کرنے کے متعلق بیان کرتا ہوں جوطبی طور پر لاعلاج سمجھے جاتے ہیں اور وہ یہ ہے ایک لڑکا کئی ہزار میل سے یعنی حیدر آباد دکن کے علاقہ یاد گیر سے اس مدرسہ میں پڑھنے کے لئے آیا جسے آپ نے اپنی جماعت کے لڑکوں کے لئے جاری کیا تھا اور غرض یہ تھی کہ اس مدرسہ میں جولڑ کے تعلیم حاصل کرنے کے لئے آویں گے ان کی دینی تعلیم بھی ساتھ ساتھ ہوتی چلی جائے گی.اس لڑکے کا نام عبد الکریم تھا اسے اتفاقاً باؤلے کتے نے کاٹ لیا اور اسے علاج کے لئے کسولی بھیج دیا گیا مگر وہ وہاں سے واپس آیا تو اسے دیوانگی کا دورہ ہو گیا اور شیخ پڑنے لگا اور حالت خراب ہوگئی.کسولی تار دیا گیا کہ اب اس کے لئے کیا کیا جائے؟ مگر وہاں کے ڈاکٹر نے تار میں جواب دیا کہ افسوس عبدالکریم کے لئے اب کچھ نہیں ہوسکتا.Sorry Nothing can be Done for Abdul Karim حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کا بہت صدمہ ہوا کہ بچہ جس کی ماں بیوہ ہے اور اس نے نہایت شوق سے اس قدر فاصلہ سے دین کی خاطر اس کو یہاں بھیجا ہے اس طرح ضائع ہو
تذکار مهدی ) 287 روایات سید نا محمود جائے اور آپ نے اس کے لئے دعا کی اور وہ اچھا ہو گیا اور وہ اب تک زندہ ہے اور اپنا کاروبار کرتا ہے.یہ وہ نشان ہے کہ علمی دنیا کو اس کی بے نظیری ماننے کے سوا چارہ نہیں کیونکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے اس وقت تک اس قسم کی شفاء کی کوئی نظیر نہیں ملتی.بیشک دیوانگی کے دورہ سے پہلے علاج ہو جاتا ہے اور بعض بلا علاج کے بھی دیوانگی کے حملہ سے بچ جاتے ہیں مگر دیوانگی کا دورہ ہو کر پھر شفاء آج تک کسی مریض کو نہیں ہوئی اور یہ ایسا زبردست معجزہ ہے کہ اس زمانہ کی علمی ترقی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی زمانہ کے لئے مخصوص رکھا تھا تا سائنس کے دلدادوں پر اپنی قوت اور اپنے جلال کا اظہار کرے اور بتائے کہ میں خدا ہوں جوسب طاقتیں رکھتا ہوں چاہوں تو زندہ کر دوں اور چاہوں تو مار دوں.تحفہ شہزادہ ویلیز.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 515,514) ڈاکٹری ایک ظنی علم ہے ڈاکٹری ایک ظنی علم ہے اور اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کس حد تک صحیح ہوگا اور کس حد تک غلط.بعض اوقات علاج ایک رحمت کے فرشتے کی صورت میں نازل ہوتا ہے اور بعض اوقات کچھ بھی اثر نہیں رکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جرمنی کا ایک بادشاہ تھا، اسے خناق ہو گیا.اور برابر آٹھ گھنٹے یورپ کے چوٹی کے ڈاکٹروں اور ملک الموت میں کشتی ہوتی رہی ، آخر ملک الموت غالب آ گیا.ڈاکٹروں کا کام زندہ کرنا نہیں، صرف کوشش ہے اور اگر کوئی دیانت داری سے کوشش کرتا ہے تو اس پر کوئی شکوہ نہیں.اس لئے میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ شکوہ نہیں بلکہ اصلاح ہے اور آئندہ کی احتیاط کے لئے ہے.یسے موقع پر میں شکوہ کرنا فضول سمجھتا ہوں.اس لئے کہ جو نقصان ہو چکا، اس کے متعلق شکوہ فضول ہے میں یہ نہیں کہتا کہ غلطی ہوئی.کیونکہ ممکن ہے میں خود بھی ہوتا تو یہ غلطی ہو جاتی.مگر میں جانتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان یا خلیفہ وقت کے نقصان کو ساری جماعت اپنا نقصان سمجھتی ہے اور اس طرح چونکہ اس سے لاکھوں انسانوں کا تعلق ہے اور انہوں نے اسے محسوس کیا ہے.میرے پاس تو بعض ایسے خطوط آئے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کئی دوستوں نے ایسا محسوس کیا ہے کہ انہیں اپنے عزیزوں کے متعلق بھی ایسا صدمہ نہ ہوتا.آج ہی ایک خط آیا ہے.
تذکار مهدی ) 288 روایات سید نا محمودی ایک دوست لکھتے ہیں کہ میں اخبار پڑھا رہا تھا اور اس قدر رنج ہوا کہ ساری خبر بھی نہ پڑھ سکا اور الٹا لیٹ کر چیچنیں مارنے لگ گیا.شور سن کر میری بیوی آئی اور وجہ دریافت کرنے لگی.میں رقت کے سبب بات بھی نہ کر سکتا تھا.آخر اس نے اخبار اٹھا کر پڑھا تو اس پر بھی وہی کیفیت طاری ہو گئی.حتی کہ گاؤں کے غیر احمدی، ہندو، سکھ سب اکٹھے ہو گئے کہ کیا تمہارے ہاں کوئی ماتم ہو گیا ہے.تو ایک ایسی خبر جس کا اثر لاکھوں انسانوں پر پڑتا ہو اس کے متعلق بعض احتیاطوں کی ضرورت ہے اور میں سمجھتا ہوں چاہئے تھا کہ جس وقت رات کو ساہ بیگم بیمار ہوئی تھیں، اسی وقت مجھے تار دے دیا جاتا اور میرا تجربہ ہے جو کبھی فیل نہیں ہوا کہ جب بھی مجھے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی توفیق مل گئی ہے.وہ بات یا تو ٹل گئی ہے یا ملتوی ہو گئی ہے.میں نے جب سے ہوش سنبھالا، یہ میرا تجربہ ہے حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب لاہور میں بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا محمود کو جگاؤ.میں جاگا تو کوٹھے پر دعا کے لئے گیا.مگر دل میں دعا کے لئے جوش نہ پیدا ہوا.الفاظ تو منہ سے نکلتے تھے مگر دل میں جوش نہیں پیدا ہوتا تھا.آخر ایک گھنٹہ کی کوشش کے بعد اگر جوش پیدا ہوا تو اس امر پر کہ خدایا کیا میرے دل میں تجھ پر اور تیرے رسولوں پر ایمان نہیں رہا کہ تیرا رسول اور ہمارا امام اس حالت میں ہے اور میرے دل دعا کے لئے جوش پیدا نہیں ہوتا اور اس طرح میں ایک گھنٹہ روتا رہا مگر صحت کی دعا کی طرف توجہ اور وہ حالت جس میں انسان سمجھتا ہے کہ میں نے خدا سے بات منوالی ہے، نہ پیدا ہو سکی.دوسری ضروری چیز یہ تھی کہ مقامی امیر کوفوراً اطلاع دی جاتی.بیسیوں لوگوں نے مجھ سے شکوہ کیا ہے کہ اگر پتہ لگتا تو کم سے کم دعا ہی کرتے اور انہیں افسوس ہے کہ دعا بھی نہ کر سکے.اگر مقامی امیر کو اطلاع ہو جاتی تو سینکڑوں لوگ دعا کرتے اور ممکن ہے ان سے اتنا وقت مل جاتا کہ میں واپس آ جاتا.(خطبات محمود جلد 14 صفحہ 126 تا 127) باؤلے کتے کے کاٹے کا علاج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے سارے واقعات چونکہ محفوظ نہیں اس لئے اس قسم کی زیادہ مثالیں اب نہیں مل سکتیں ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ سینکڑوں ہزاروں مثالیں آپ کی زندگی میں مل سکتی ہوں گی.مگر حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جب کہ دہریت کا بہت زور ہے اور اس کے توڑنے کے لئے آسمانی نشانوں کی حد درجہ کی ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے بہت سے نشانات اس قسم کے دکھائے ہیں جن پر ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کا قیاس کر
تذکار مهدی ) 289 روایات سید نامحمود سکتے ہیں.مثال کے طور پر میں ایک صاحب عبد الکریم نامی کا واقعہ پیش کرتا ہوں وہ قادیان میں سکول میں پڑھا کرتے تھے انہیں اتفاقاً باؤلے کتے نے کاٹ کھایا اس پر انہیں علاج کے لئے کسولی بھیجا گیا اور علاج ان کا بظاہر کامیاب رہا لیکن واپس آنے کے کچھ دن بعد انہیں بیماری کا دورہ ہو گیا جس پر کسولی تار دی گئی کہ کوئی علاج بتایا جائے؟ مگر جواب آیا: "NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM" افسوس ہے کہ عبدالکریم کا کوئی علاج نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود کو ان کی بیماری کی اطلاع دی گئی چونکہ سلسلہ کی ابتدا تھی اور یہ صاحب بہت دور دراز سے علاقہ حیدر آباد دکن کے ایک گاؤں سے بغرض تعلیم آئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت ہمدردی پیدا ہوئی اور آپ نے ان کی شفاء کے لئے خاص طور پر دعا فرمائی اور فرمایا کہ اس قدر دور سے یہ آئے ہیں جی نہیں چاہتا کہ اس طرح ان کی موت ہو.اس دعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دورہ ہو جانے کے بعد شفاء دے دی حالانکہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے اس قسم کے مریض کو کبھی شفا نہیں ملی.میرے ایک عزیز ڈاکٹر ہیں انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی کا واقعہ سنایا کہ ایک دفعہ وہ ہستی باری پر ایک دوسرے طالب علم سے گفتگو کر رہے تھے دوران گفتگو میں انہوں نے یہی واقعہ بطور شہادت کے پیش کیا.اس طالب علم نے کہا کہ ایسے مریض بچ سکتے ہیں یہ کوئی عجیب بات نہیں.وہ کہتے ہیں کہ اتفاقاً اسی دن کالج میں پروفیسر کا لیکچر سگ گزیدہ کی حالت پر تھا.جب پروفیسر لیکچر کے لئے کھڑا ہوا اور اس نے اس امر پر زور دینا شروع کیا کہ اس مرض کا علاج دورہ ہونے سے پہلے کرنا چاہئے اور بہت جلد اس طرف توجہ کرنی چاہئے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بات کو واضح کرانے کے لئے کہا کہ جناب بعض لوگ کہتے ہیں کہ دورہ پڑ جانے کے بعد بھی مریض اچھا ہوسکتا ہے.اس پر پروفیسر نے جھڑک کر کہا کہ کبھی نہیں جو کہتا ہے وہ بیوقوف ہے.غرض یہ ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا ہے مگر حضرت مسیح موعود کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے میاں عبدالکریم کو شفاء دی اور وہ خدا کے فضل سے اب تک زندہ ہیں.پس ثابت ہوا کہ اس طبعی قانون کے اوپر ایک ہستی حاکم ہے جس کے ہاتھ میں شفاء دینے کی طاقت ہے.ہستی باری تعالے.انوار العلوم جلد ششم صفحہ 329-328).
تذکار مهدی ) آوارہ کتوں کو مارنے کی ہدایت 290 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بڑی کثرت سے گتے ہوتے تھے اور جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ گتے مار دیئے جائیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہر چھٹے ماہ یہ حکم دیا کرتے تھے کہ آوارہ گتے مار دیئے جائیں مگر اب ہمارے گھروں میں بہت کم گتا دکھائی دیتا ہے.میں نے بچپن میں کتوں کو کئی دفعہ آپس میں لڑتے دیکھا ہے، اسی طرح بلیوں کو دیکھا ہے، جب یہ آپس میں لڑتے ہیں تو اپنی دموں کو عجیب طرح حرکت دیتے اور انہیں اوپر اٹھا لیتے ہیں.آنکھیں ان کی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھوں بھوں یا غرغر کرتے رہتے ہیں اور کچھ وقت گزرنے کے بعد ایک گتا دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے یا یتی دوسری کے مقابلہ سے ہٹ کر ایک طرف کو چل دیتی ہے.جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس نے اپنی ہار تسلیم کر لی.اب نہ اُن میں لڑائی ہوتی ہے نہ فساد ہوتا ہے.نہ ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہیں محض آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تھوڑی دیر بھوں بھوں کرنے کے بعد ایک ان میں سے مقابلہ سے ہٹ جاتا ہے.اسی طرح بلیاں کرتی ہیں.بلیاں حقیقی طور پر بہت کم لڑتی ہیں.اکثر وہ پیار سے ایک دوسری سے لڑتی ہیں.دشمنی کی لڑائی بلیوں میں بہت کم ہوتی ہے اور گتوں میں بھی بہت کم ہوتی ہے.جب وہ پیار سے لڑتے ہیں تو بظاہر ایک دوسرے کو گراتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کو پیار بھی کرتے جاتے ہیں اور چاہتے جاتے ہیں مگر جب حقیقی طور پر کوئی لڑنے کا ارادہ کرے تو بہت کم لڑائی ہوتی ہے.ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک زبر دست گتا اچانک کمزور کتے پر پیچھے سے حملہ کر کے اُسے زخمی کر دے مگر مقابل میں ٹک کر ان میں لڑائی بہت شاذ ہوتی ہے اور وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تاڑ جاتے ہیں کہ کون کمزور ہے اور کون طاقتور.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزور دُم دبا کر ایک طرف کو چل دیتا ہے.یہی حالت انسان کی ہے مگر انسان کی عقلِ طبعی بہت کمزور ہو چکی ہے.اس کا علم ظاہری زیادہ ہے مگر جس طبعی بہت کمزور ہو گئی ہے.اس لئے جن چیزوں کو جانور پہچان لیتا ہے انسان ان کو نہیں پہچان سکتا.جانوروں میں چونکہ علم اندرونی ہے اس لئے ان کی اندرونی جس بہت تیز ہوتی ہے بیماریاں اور وبائیں آنے والی ہوتی ہیں تو گتے کئی کئی دن پہلے رونے لگ جاتے ہیں نہ معلوم
تذکار مهدی ) 291 روایات سید نامحمود انہیں وبا کے کیڑے نظر آجاتے ہیں یا سونگھنے سے انہیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اب وبا پھوٹنے والی ہے.اللہ ہی جانے مگر بہر حال اس مطالعہ میں ان کی عقل بڑی تیز ہوتی ہے اسی طرح وہ قومیں جن کا ظاہری علم کم ہے ، اُن کی بھی باطنی جس بہت تیز ہوتی ہے.تمہارا قادیان آنا معجزہ ہے ( خطبات محمود جلد 19 صفحہ 483-482) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ امریکہ سے دو مرد اور ایک عورت آئی.ایک مرد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعوئی کے متعلق گفتگو کی دوران گفتگو میں حضرت مسیح ناصری کا ذکر آ گیا اس شخص نے کہا وہ تو خدا تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ان کے خدا ہونے کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے.اس نے کہا کہ انہوں نے معجزے دکھائے ہیں.آپ نے فرمایا معجزے تو ہم بھی دکھلاتے ہیں.اس نے کہا مجھے کوئی معجزہ دکھلاؤ.آپ نے فرمایا تم خود میرا معجزہ ہو.یہ سن کر وہ حیران سا ہو گیا اور کہنے لگا میں کس طرح معجزہ ہوں.آپ نے فرمایا قادیان ایک بہت چھوٹا سا اور غیر معروف گاؤں تھا معمولی سے معمولی کھانے کی چیزیں بھی یہاں سے نہیں مل سکتی تھیں حتی کہ ایک روپیہ کا آٹا بھی نہیں مل سکتا تھا اور اگر کسی کو ضرورت ہوتی تو گیہوں لے کر پہوا تا تھا.اس وقت مجھے خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی کہ میں تیرے نام کو دنیا میں بلند کروں گا اور تمام دنیا میں تیری شہرت ہو جائے گی چاروں طرف سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور ان کی آسائش اور آرام کے سامان بھی یہیں آ جائیں گے.يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق اور ہر قسم اور ہر ملک کے لوگ تیرے پاس آئیں گے.يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيق ( تذکرہ صفحہ 52 ) اور اس قدر آئیں گے کہ جن راستوں سے آئیں گے وہ عمیق ہو جائیں گے.اب دیکھ لو کہ راستے کس قدر عمیق ہو گئے ہیں.بٹالہ سے قادیان تک جو سڑک آتی ہے اس پر پچھلے ہی سال گورنمنٹ نے دو ہزار روپیہ کی مٹی ڈلوائی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا کہ تم میرے پاس امریکہ سے آئے ہو تمہارا مجھے سے کیا تعلق تھا جب تک کہ میں نے دعوئی نہ کیا تھا مجھے کون جانتا تھا مگر آج تم اتنی دور سے میرے پاس چل کر آئے ہو یہی میری صداقت کا نشان ہے.مجھے خوب یاد ہے کہ جس وقت یہ گفتگو ہو رہی تھی اور اس شخص نے کہا تھا کہ آپ مجھے
تذکار مهدی ) 292 روایات سید نا محمودی اپنا کوئی معجزہ دکھائیں تو سب لوگ حیران تھے کہ حضرت مسیح موعود اس کا کیا جواب دیں گے سب نے یہی خیال کیا تھا کہ آپ کوئی ایسی تقریر کریں گے جس میں معجزات کے متعلق بتا ئیں گے کہ کس طرح ظاہر ہوتے ہیں لیکن جونہی اس نے اپنی بات کو ختم کیا اور آپ کو انگریزی.اردو ترجمہ کر کے سنائی گئی تو آپ نے فوراً یہی جواب دیا.یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن ہر ایک انسان کی عقل اس تک نہیں پہنچ سکتی تھی.اب بھی ہر ایک وہ انسان جو عقل سے کام نہیں لے گا کہے گا کہ یہ کیا معجزہ ہے.مگر جن کی آنکھیں کھلی ہوئی اور عقل وسمجھ رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑا معجزہ ہے اور حق کے قبول کرنے والے کے لئے یہی کافی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میری صداقت میں لاکھوں نشانات دکھلائے گئے ہیں لیکن میں تو کہتا ہوں کہ اتنے نشانات دکھلائے گئے ہیں جو گنے بھی نہیں جا سکتے مگر پھر بھی بہت سے نادان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اتنے تو مرزا صاحب کے الہام بھی نہیں پھر نشانات کس طرح اس قدر ہو گئے لیکن عقل اور سمجھ رکھنے والے انسان خوب جانتے ہیں کہ لاکھوں نشانات تو ایک الہام سے بھی ظاہر ہو سکتے ہیں ایک قصہ مشہور ہے کہتے ہیں کوئی شخص تھا اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ کل میں تم کو ایک ایسا لڈو کھلاؤں گا جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا.دوسرے دن جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے لڈو کے کھانے کی امید پر کچھ نہ کھایا اور چا کو کہا کہ وہ لڈو د یجئے.اس نے ایک معمولی لڈو نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا اور کہا کہ ہے وہ لڈو جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا تھا.اس کو دیکھ کر وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح کئی لاکھ آدمیوں کا بنایا ہوا ہے.چچا نے کہا کہ تم کاغذ اور قلم لے کر لکھنا شروع کرو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ واقعہ میں اس لڈو کو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا.اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان کو حلوائی نے کئی آدمیوں سے خریدا.پھر ان میں سے ہر ایک چیز کو ہزاروں آدمیوں نے بنایا.مثلاً شکر کو ہی لے لو اس کی تیاری پر کتنے آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی اس کو ملنے والے ہیں کوئی رس نکالنے والے کوئی نیشکر کھیت سے لانے والے کوئی ہل جو تنے والے، پانی دینے والے، پھر ہل میں جو لوہا اور لکڑی خرچ ہوئی اس کے بنانے والے اس طرح سب کا حساب لگاؤ تو کس قدر آدمی بنتے ہیں؟ پھر شکر کے سوا اس میں آٹا ہے اس کے تیار کرنے والوں کا اندازہ لگاؤ.کیا اس طرح کئی لاکھ آدمی نہیں بنتے بھتیجوں نے یہ
تذکار مهدی ) 293 روایات سید نا محمود ) سن کر کہا کہ ہاں ٹھیک ہے یہ بات ان بچوں کی سمجھ میں نہ آئی تھی لیکن وہ شخص چونکہ عقلمند تھا اس لئے وہ دیکھ رہا تھا کہ ایک لڈو کے تیار ہونے میں لاکھوں آدمیوں کی محنت خرچ ہوتی ہے.یہ تو اس نے دنیاوی رنگ میں نصیحت کی تھی مگر جو روحانی بزرگ گزرے ہیں انہوں نے بھی ایسا ہی کہا ہے.مرزا مظہر جانِ جاناں کی نسبت لکھا ہے کہ انہوں نے بٹالہ کے ایک شخص غلام نبی کو دولڈ و دیئے اس نے منہ میں ڈال لئے اور کھا گیا تھوڑی دیر کے بعد اس سے انہوں نے پوچھا کہ تم نے ان لڈوؤں کو کیا کیا.اس نے کہا کھا لئے ہیں.یہ سن کر انہوں نے نہایت تعجب انگیز لہجہ میں پوچھا کہ ہیں کھالئے ہیں.اس نے کہا ہاں کھالئے.اس طرح وہ بار بار اُس سے پوچھتے رہے اور تعجب کرتے رہے اتنی جلدی تم نے کھا لئے.اس کو خیال ہوا کہ انہیں دیکھنا چاہئے کہ یہ کس طرح کھاتے ہیں.ایک دن کوئی شخص ان کے پاس کچھ لڈ ولا یا ان میں سے آپ نے ایک لڈو اٹھا کر رومال پر رکھ لیا اور اس میں سے ایک ریزہ تو ڑ کر آپ نے تقریر شروع کر دی کہ میں ایک ناچیز ہستی ہوں میرے لئے خدا تعالیٰ نے یہ اتنی بڑی نعمت بھیجی ہے اس میں کیا کیا چیزیں پڑی ہیں پھر ان کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہوگا کیا مجھ ناچیز کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ نعمت بھیجی ہے.اس طرح تقریر کرتے رہے ادھر اپنی عاجزی اور فروتنی بیان کرتے اور ادھر خدا تعالیٰ کی حمد اور تعریف کرتے اسی طرح ظہر سے کرتے کرتے ابھی پہلا ہی دانہ جو منہ میں ڈالا تھا وہی کھایا تھا کہ عصر کی اذان ہوگئی اور اسے چھوڑ کر وضو کرنے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے.یہ کیا بات تھی ؟ یہی کہ اس لڈو میں انہیں خدا تعالیٰ کے ہزاروں نشان نظر آتے تھے یوں کھانے والا تو چار پانچ ، دس میں لڈو بھی جھٹ پٹ کھا جاتا ہے مگر مظہر جان جاناں کے لئے ایک ہی لڈو اتنا بوجھل ہو گیا کہ اس کے کھانے سے ان کی کمر ٹوٹی جاتی تھی.تو عقل ہی ایک چھوٹی سی چیز کو بڑا بنا دیتی ہے اور نادانی نظر آنے والی بڑی چیز کو چھوٹا ظاہر کر دیتی ہے اسی طرح عقل ایک بڑی نظر آنے والی چیز کو چھوٹا دکھا دیتی ہے اور نادانی ایک معمولی چیز کو بڑا دکھاتی ہے.تو دانا انسان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے نشان دیکھ لیتا ہے اور نادان بڑی بڑی اہم باتوں میں بھی کچھ نہیں دیکھتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میری صداقت کے خدا تعالیٰ نے لاکھوں نشانات دکھلائے ہیں یہ بالکل درست ہے اور میں تو کہتا ہوں کہ آپ کی صداقت کے
تذکار مهدی ) 294 روایات سید نا محمود خدا تعالیٰ نے اس قدر نشانات دکھلائے ہیں کہ جن کا شمار بھی نہیں ہو سکتا مگر کن کے لئے انہیں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں.اگر کوئی شخص آپ کی صداقت کے نشانات دیکھنے کے لئے یہاں آئے تو یہ جس قدر بھی عمارتیں سامنے نظر آ رہی ہیں ( مسجد اقصیٰ میں کھڑے ہو کر ) ان میں سے چند ایک کو چھوڑ کر باقی سب آپ کے نشان ہیں.پھر احمد یہ بازار سے آگے کے جس قدر مکانات بنے ہیں ان کے لئے جو زمین تیار کی گئی تھی اس میں ڈالا ہو امٹی کا ایک ایک بورانشان ہے.یہاں اتنا بڑا گڑھا تھا کہ ہاتھی غرق ہو سکتا تھا پھر قادیان سے باہر شمال کی طرف نکل جائیں وہاں جو اونچی اور بلند عمارتیں نظر آئیں گی ان کی ہر ایک اینٹ اور چونے کا ایک ایک ذره حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے.پھر قادیان میں چلتے پھرتے جس قدر انسان نظر آتے ہیں خواہ وہ ہندو ہیں یا سکھ یا غیر احمدی ہیں یا احمدی سب کے سب آپ ہی کی صداقت کے نشان ہیں.احمدی تو اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو دیکھ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر یہاں کے ہو رہے ہیں اور غیر احمدی اور دوسرے مذاہب والے اس لئے کہ ان کی طرز رہائش لباس وغیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے وہ نہ تھے جو اب ہیں.ان کی پگڑی ، ان کا کرتہ، ان کا پاجامہ ، ان کی عمارتیں، ان کا مال ، ان کی دولت وہ نہ تھی جواب ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ کرنے پر لوگ آپ کے پاس آئے اور ان لوگوں نے بھی فائدہ اٹھا لیا اور لَا يَشْقى جَلِیسُهُمُ کی وجہ سے ان کو بھی نعمت مل گئی تو یہ سب آپ کی صداقت کے نشانات ہیں.دور جانے کی ضرورت نہیں اسی مسجد کی یہ عمارت، یہ لکڑی، یہ کھمبا سب نشان ہیں کیونکہ یہ پہلے نہیں تھے جب حضرت مسیح موعود نے دعویٰ کیا تو پھر بنے.پس لاکھوں نشانات تو یہاں ہی مل سکتے ہیں.پھر سالانہ جلسہ پر جس قدر لوگ آتے ہیں ان میں سے ہر ایک آنے والا ایک نشان ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ ہر سال ظاہر کرتا ہے اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا کرتا رہے گا.تو حضرت مسیح موعود نے اپنے نشانات کا یہ بہت کم اندازہ لگایا ہے کہ وہ لاکھوں ہیں میں تو کہتا ہوں کہ وہ اس قدر ہیں کہ کوئی انسانی طاقت ان کو گن ہی نہیں سکتی صرف خدا تعالیٰ ہی کے اندازہ میں آ سکتے ہیں لیکن جہاں یہ نشانات ہمارے لئے تقویت ایمان کا موجب ہوتے ہیں وہاں اس آیت کے ماتحت یہ بھی بتاتے ہیں کہ اوّل ہر ایک آنے والا انسان
تذکار مهدی ) 295 روایات سید نا محمود آنکھیں کھول کر دیکھے کہ یہاں کس قدر نشانات ہیں اور پھر وہ خود بھی ایک نشان ہے.صداقت کے نشانات کے لئے حقیقۃ الوحی دیکھو خطبات محمود جلد 5 صفحہ 357 تا 354 ) | مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مولوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پاس آیا اور کہنے لگا.میں آپ کا کوئی نشان دیکھنے آیا ہوں.آپ ہنس پڑے اور فرمایا.میاں تم میری کتاب حقیقۃ الوحی دیکھ لو.تمہیں معلوم ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے میری تائید میں کس قدر نشانات دکھائے ہیں.تم نے ان سے کیا فائدہ اٹھایا ہے کہ اور نشان دیکھنے آئے ہو.پس اگر اس شخص نے دو منٹ یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی دو چار پیشگوئیاں پیش کی ہوتیں.تو ہم دوسال کیا اس کی دوسو سال والی پیشگوئی بھی مان لیتے اور کہتے کہ جب ہم نے دو تین یا پانچ منٹ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں دیکھی ہیں.تو یہ لمبے عرصے والی پیشگوئیاں بھی ضرور پوری ہوں گی.لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی پیشگوئیاں دکھائے بغیر لمبے عرصے والی پیشگوئی کرے تو ہم کہیں گے کہ یہ بات عقل کے خلاف ہے.(الفضل 14 اگست 1956ء جلد 45/10 نمبر 189 صفحہ 4) اور کھانسی دور ہوگئی خدا تعالیٰ بغیر اسباب کے بھی کام کر سکتا ہے.اس کی مثال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ آپ کو کھانسی کی شکایت تھی.مبارک احمد کے علاج میں آپ ساری ساری رات جاگتے تھے.میں ان دنوں بارہ بجے کے قریب سوتا تھا اور جلد ہی اٹھ بیٹھتا تھا لیکن جب میں سوتا اس وقت حضرت صاحب کو جاگتے دیکھتا اور جب اٹھتا تو بھی جاگتے دیکھتا اس محنت کی وجہ سے آپ کو کھانسی ہو گئی.ان دنوں میں ہی آپ کو دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اور چونکہ دوائی کا پلانا میرے سپرد تھا اس لئے ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق ایسی باتوں پر جو کھانسی کے لئے مضر ہوں ٹوک بھی دیا کرتا.ایک دن ایک شخص آپ کے لئے تحفہ کے طور پر کیلے لایا.حضرت صاحب نے کیلا کھانا چاہا مگر میرے منع کرنے پر کہ آپ کو کھانسی ہے آپ کیوں کیلا کھاتے ہیں آپ نے کیلا مسکرا کر رکھ دیا.غرض چونکہ میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کراتا تھا اور تیماردار تھا آپ میری بات بھی مان لیتے تھے.انہی دنوں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبہ
تذکار مهدی ) 6296 روایات سید نا محمودی حضرت صاحب کے لئے فرانسیسی سیب لائے جو اتنے کھٹے تھے کہ کھانسی نہ بھی ہو تو ان کے کھانے سے ہو جائے لیکن حضرت صاحب نے تراش کر ایک سیب کھانا شروع کر دیا میں نے منع کیا لیکن آپ نے نہ مانا اور کھاتے چلے گئے میں بہت کڑھتا رہا کہ اس قدر کھانسی کی آپ کو تکلیف ہے مگر پھر بھی آپ ایسا ترش میوہ کھا رہے ہیں لیکن آپ نے پرواہ نہ کی اور سیب کی پھانکیں کر کے کھاتے گئے اور ساتھ ساتھ مسکراتے بھی گئے.جب سیب کھا چکے تو فرمایا تمہیں نہیں معلوم مجھے الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی ہے اور اب کسی احتیاط کی ضرورت نہیں اس لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ادب کے طور پر یہ سیب باوجود ترش ہونے کے کھا لیا ہے.چنانچہ اس کے بعد آپ کی کھانسی اچھی ہو گئی اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی.تقدیر الہی ، انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 579-578 ) | اللہ تعالیٰ مومن کے کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے بعض دفعہ خواب کی یہ بھی غرض ہوتی ہے کہ عقلی طور پر علاج سوچے جائیں اور خدا تعالیٰ نے حصولِ مقصد کے لیے جو ذرائع پیدا کیے ہیں اُن سے فائدہ اُٹھایا جائے.اسی طرح دعاؤں کے نتیجہ میں بعض دفعہ اتنا وقت مل جاتا ہے کہ انسان کئی قسم کے کام کر سکتا ہے، اچانک موت آ جائے تو سب کام ادھورے رہ جاتے ہیں لیکن اگر وقت مل جائے تو انسان دعائیں بھی کر سکتا ہے اور علاج بھی کر سکتا ہے اور اپنے کئی کاموں کو بھی مکمل کر لیتا ہے.بہر حال جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خواب دکھایا جائے تو انسان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے لیے دعاؤں سے کام لے اور یہ نہ سمجھ لے کہ اب یہ کام اللہ تعالیٰ ہی کرے گا مجھے اس میں دخل دینے کی ضرورت نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ ہی بندے کا سارا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے.مگر ایسا شاذ و نادر کے طور پر ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بیمار ہوئے اور آپ کو خطرناک کھانسی شروع ہو گئی.رات اور دن آپ کھانستے رہتے تھے اور یہ کھانسی اتنی بڑھ گئی کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو شبہ ہوا کہ کہیں آپ کو سل نہ ہو گئی ہو چونکہ آپ کو دوائیں پلانے کا کام میرے سپر د تھا اس لیے بچپن کے لحاظ سے میں بھی اپنے آپ کو مشورہ دینے کا اہل سمجھنے لگ گیا.ایک دفعہ باہر سے کوئی دوست آئے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
تذکار مهدی ) 297 روایات سید نا محمود لیے کوئی پھل لائے.غالباً کیلے تھے جو انہوں نے پیش کیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھتے ہی فرمایا کہ لاؤ اور مجھے کیلا دو.چونکہ کیلے میں بھی تھوڑی سی ترشی ہوتی ہے اور میں سارا دن دوائیں پلا پلا کر اپنے آپ کو بھی مشورہ دینے کا اہل سمجھتا تھا میں نے کہا کہ کیلا آپ کے لیے مناسب نہیں.آپ نے فرمایا جانے دو، لاؤ کیلا.خدا نے مجھے کہا ہے کہ اچھے ہو جاؤ گے.اس لیے اب کسی علاج کی ضرورت نہیں.چنانچہ واقعہ میں اس کے بعد آپ کو صحت ہو گئی.اب دیکھو! وہی چیز جو کھانسی پیدا کرنے والی تھی اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت کھانسی نہ پیدا کر سکی اور آپ اچھے ہو گئے.بلکہ میں نے جب زیادہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا جاؤ جاؤ پرے جا کر بیٹھو.ابھی الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی.اس لیے اب کسی علاج اور احتیاط کی ضرورت نہیں.پس کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کا کام اپنے ذمہ لے لیتا ہے.مگر زیادہ تر ایسا ہی ہوتا ہے کہ مومن کو خود بھی دعاؤں اور جدوجہد سے کام لینا پڑتا ہے پس دعا ئیں کرو اور پہلے سے زیادہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جسم میں بیماری کا تلاش کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے تاریک مکان میں سوئی تلاش کرنا.اگر بیماری نظر آ جائے تو یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کی علامت ہوتی ہے.پس جن دوستوں کو خوا میں آتی ہیں انہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کو سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بشارت دی ہے کہ اگر تم دعائیں کرو گے تو یہ اچھے ہو جائیں گے گویا اللہ تعالیٰ نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا ہے اور حوصلہ بڑھ جائے تو یہ بھی بڑی اچھی بات ہوتی ہے.حوصلہ گر جائے تو اچھے بھلے آدمی کی جان نکل جاتی ہے.( الفضل 25 اپریل 1956ء جلد 45/10 شماره 97 صفحہ 5) لیکھرام کا واقعہ لیکھرام کا واقعہ بھی اس امر کی مثال میں پیش کیا جا سکتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ چاہے تو صحت کے تمام سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی بیماری پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے یہ فرما دیا تھا کہ عید کے دوسرے دن اس کی موت ہوگی اور چھ سال کے اندر اندر.اب چھ سال تک سال میں دو تین روز کے لئے حفاظت کے خاص طور پر سامان کر لینا.کون سا مشکل امر ہے اور یہ اس
تذکار مهدی ) 298 روایات سید نا محمودی کے اختیار میں تھا کہ ان دنوں حفاظت کے خاص سامان مہیا کر لیتا.مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کو پورا کر دیا.حالانکہ ظاہری سامان اس کے خلاف تھے.6 مارچ اس کی موت مقدر تھی.اور یکم مارچ کو لیکھر ام کو سبھا کی طرف سے ملتان پہنچنے کا حکم ہوا.وہاں چار مارچ تک اس نے چار لیکچر دیئے.پھر سبھانے اسے سکھر جانے کے لئے تار دیا.مگر وہاں پلیگ ہونے کی وجہ سے ملتان کے آریہ سماجیوں نے وہاں جانے سے روک دیا.پھر پنڈت لیکھرام مظفر گڑھ جانے کے لئے تیار ہوئے.مگر یہ نہیں معلوم کہ وہ پھر سیدھے کیوں لا ہور کولوٹ پڑے اور چھ مارچ دو پہر کو یہاں پہنچ گئے.سوانح عمری پنڈت لیکھرام از سوامی شردھانند ہندی صفحہ 198) اگر وہ اس روز واپس نہ آتا تو یہ پیشگوئی پوری نہ ہوتی.مگر باوجود اس کے کہ بظاہر اس کے باہر رہنے کا موقع پیدا ہو گیا.پھر بھی وہ لاہور پہنچ گیا.اور وقت مقررہ پر قتل ہو گیا.یہ مثال اس امر کی ہے کہ صحت اور حفاظت کے سارے سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی انسان ہلاک ہو سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں میں دخل دیتا ہے.لیکن اس نے اسے آزاد بھی چھوڑا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات سے دو تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شدید کھانسی ہوئی.میری عمر اس وقت 17 سال کے قریب تھی اور میرے سپرد آپ کی دوائی وغیرہ پلانے کی خدمت تھی اور قدرتی طور پر جس کے سپر د کوئی کام کیا جائے.وہ اس میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھنے لگتا ہے.میں بھی اپنی کمپونڈری کا یہ حق سمجھتا تھا کہ کچھ نہ کچھ دخل آپ کے کھانے پینے میں دوں.چنانچہ مشورہ کے طور پر عرض کر بھی دیا کرتا تھا کہ یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نسخے بھی تیار ہو کر استعمال ہوتے تھے اور انگریزی دوائیاں بھی مگر کھانسی بڑھتی ہی جاتی تھی.یہ 1907ء کا واقعہ ہے اور عبد الحکیم مرتد نے آپ کی کھانسی کی تکلیف کا پڑھ کر لکھا تھا کہ مرزا صاحب سل کی بیماری میں مبتلا ہوکر فوت ہوں گے.اس لئے ہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ غلط طور پر بھی اسے خوشی کا کوئی بہانہ نہ مل سکے.مگر آپ کو کھانسی کی تکلیف بہت زیادہ تھی اور بعض اوقات ایسا لمبا او چھو آتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رک جائے گا.ایسی حالت میں باہر سے کوئی دوست آئے اور تحفہ کے طور پر پھل
تذکار مهدی ) 299 روایات سید نا محمودی لائے.میں نے وہ حضور کے سامنے پیش کر دیئے.آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا کہہ دو جزاک اللہ.اور پھر ان میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا.اٹھایا اور میں چونکہ دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا.اس لئے یا شائد مجھے سبق دینے کے لئے فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے.میں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے.میں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانسی میں اچھی نہیں.آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے.میں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہو گئی.چنانچہ کھانسی اسی وقت سے جاتی رہی.حالانکہ اس وقت نہ کوئی دوا استعمال کی اور نہ پر ہیز کیا بلکہ بد پرہیزی کی اور کھانسی بھی دور ہوگئی.اگر چہ اس سے پہلے ایک مہینہ علاج ہوتا رہا تھا اور کھانسی دور نہ ہوئی تھی.تو یہ الہی تصرف ہے.یوں تو بد پر ہیزی سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور علاج سے صحت بھی ہوتی ہے.مگر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے دخل بھی دے دیتا ہے.اور دعا کا ہتھیار اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جا کر کہے کہ میں آزادی نہیں چاہتا.میں اپنے حالات سے تنگ آ گیا ہوں آپ مہربانی کر کے میرے معاملات میں دخل دیں اور اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے کہ بندہ متوکل ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اس کے معاملات میں دخل دوں تو وہ دیتا ہے.پس گو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے.مگر وہ دخل بھی دیتا ہے انسان کو اللہ تعالیٰ نے انگلیاں دی ہیں.منہ دیا ہے اس کے سامنے کھانا آتا ہے.وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے.لقمہ اٹھاتا ہے اور منہ میں ڈالتا ہے.فرشتے کہیں بھی اس کا ہاتھ نہیں روکتے.اندرونی ایمان ظاہر ہو گیا الفضل جلد 30 نمبر 164 مورخہ 17 جولائی 1942 ء صفحہ 3) میری زندگی میں بھی مجھ سے ایک ایسی ہی کمزوری سرزد ہوئی ہے مگر مجھے اپنے تمام اعمال سے زیادہ اس کمزوری پر خوشی ہوا کرتی ہے.وہ بیوقوفی کی بات تھی خالص پاگل پن تھا مگر مجھے جتنا اپنے اُس پاگل پن پر ناز ہے اتنا ناز مجھے اور کسی کام پر نہیں.
تذکار مهدی ) 300 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ تھا کہ ایک دفعہ قادیان میں بجلی گری اور اس زور سے گری کہ بڑی دُور تک اُس کی دہشت ناک آواز پھیل گئی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحن میں تھے.جب بارش شروع ہوئی تو آپ صحن سے اُٹھ کر کمرہ کے اندر تشریف لے جانے لگے.ابھی آپ صحن میں ہی تھے کہ یکدم بجلی گرنے کی خوفناک آواز پیدا ہوئی.میں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ تھا میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور آپ کے سر پر رکھ دیا یہ خیال کر کے کہ اگر بجلی گرے تو میرے ہاتھوں پر گرے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہ گرے.یہ ساری ہی پاگل پن کی باتیں تھیں.اول یہ خیال کرنا کہ خدا کے مسیح پر بجلی گرے گی.دوم یہ خیال کرنا کہ اگر بجلی گری تو میرے ہاتھ اُسے روک لیں گے یہ دونوں ہی پاگل پن کی باتیں ہیں اور بعد میں میں اپنی اس حرکت پر ہنس بھی پڑا.مگر میں نے آج تک جتنے کام کئے ہیں اس سے زیادہ مجھے اور کسی کام پر فخر نہیں.یہ ہے تو ایک بیوقوفی لیکن اس بیوقوفی سے مجھے اُس وقت یہ یقین ہو گیا کہ میرے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پورا ایمان ہے.اگر یہ بیوقوفی مجھ سے سرزد نہ ہوتی تو مجھے اپنے اس اندرونی ایمان کا پتہ نہ لگتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خطرہ خیالی تھا مگر جس انسان کی خاطر میں نے یہ فعل کیا چونکہ وہ میرا محبوب تھا اس لئے میں نے اس خطرہ کو حقیقی خطرہ سمجھا اور یہ خیال میرے دل سے جاتا رہا کہ یہ وہم ہے ایسا کب ہوسکتا ہے.اسوۂ حسنہ، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 96) نواب عبدالرحیم خان صاحب کو شفاء خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے حکم کے بغیر تو کوئی شفاعت نہیں کر سکتا.اس زمانہ میں مسیح موعودؓ سے بڑھ کر کس نے بڑا انسان ہونا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ جب نواب صاحب کے لڑکے عبدالرحیم خان کے لئے جبکہ وہ بیمار تھا دعا کی تو الہام ہوا کہ یہ بچتا نہیں.آپ کو خیال آیا کہ نواب صاحب اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قادیان آرہے ہیں ان کا لڑکا فوت ہو گیا تو انہیں ابتلاء نہ آجائے اس لئے آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ الہی ! میں اس لڑکے کی صحت کے لئے شفاعت کرتا ہوں.الہام ہوا مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِم تم کون ہو کہ میری اجازت کے بغیر شفاعت کرتے ہو.دیکھو مسیح موعود کتنا بڑا انسان تھا تیرہ سو سال سے اس کی دنیا کو انتظار تھی مگر وہ بھی جب سفارش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ہوتے
تذکار مهدی ) 301 روایات سیّد نا محمود کون ہو کہ بلا اجازت سفارش کرو.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ جس وقت مجھے یہ الہام ہو ا تو میں گر پڑا اور بدن پر رعشہ شروع ہو گیا قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی لیکن جب یہ حالت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اچھا ہم شفاعت کی اجازت دیتے ہیں شفاعت کرو چنانچہ آپ نے شفاعت کی اور عبدالرحیم خان اچھے ہو گئے.اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی ( برکات خلافت، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 239 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ کپورتھلہ کے احمدیوں اور غیر احمدیوں کا وہاں کی ایک مسجد کے متعلق مقدمہ ہو گیا.جس حج کے پاس یہ مقدمہ تھا اس نے مخالفانہ رویہ اختیار کرنا شروع کر دیا.اس پر کپورتھلہ کی جماعت نے گھبرا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعا کے لئے خط لکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں انہیں تحریر فرمایا کہ اگر میں سچا ہوں تو مسجد تم کو مل جائے گی.مگر دوسری طرف حج نے اپنی مخالفت بدستور جاری رکھی اور آخر اس نے احمدیوں کے خلاف فیصلہ لکھ دیا مگر دوسرے دن جب وہ فیصلہ سنانے کے لئے عدالت میں جانے کی تیاری کرنے لگا تو اُس نے نوکر سے کہا مجھے بوٹ پہنا دو.نوکر نے ایک بوٹ پہنایا اور دوسرا ابھی پہنا ہی رہا تھا کہ گھٹ کی آواز آئی.اُس نے اوپر دیکھا تو جج کا ہارٹ فیل ہو چکا تھا.اُس کے مرنے کے بعد دوسرے حج کو مقرر کیا گیا اور اُس نے پہلے فیصلہ کو بدل کر ہماری جماعت کے حق میں فیصلہ کر دیا.جو دوستوں کے لئے ایک بہت بڑا نشان ثابت ہوا اور ان کے ایمان آسمان تک جا پہنچے.غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے ذریعہ متواتر غیب کی خبریں دیتا ہے.جن کے پورا ہونے پر مؤمنوں کے ایمان اور بھی ترقی کر جاتے ہیں.یہ غیب کی خبروں کا ہی نتیجہ تھا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اُن کے دل اس قدر مضبوط ہو گئے کہ اور لوگ تو موت کو دیکھ کر روتے ہیں مگر صحابہ میں سے کسی کو جب خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے کا موقعہ ملتا تو وہ خوشی سے اُچھل پڑتا اور کہتا فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ - رب کعبہ کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.آخر یہ روح اُن کے اندر کہاں سے آگئی تھی.یہ وہی روح تھی جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ﷺ کو غیب کی ย
تذکار مهدی ) 302 روایات سید نا محمود خبریں بتا بتا کر مومنوں کے اندر بھر دی تھی اگر ان پر انکشاف غیب نہ ہوتا تو وہ اس اعلیٰ مقام پر کبھی کھڑے نہ ہو سکتے جس پر مسلمان پہنچے.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 27-26) نظارہ بیداری مثل فلق الصبح منفر د ومشترک کبھی بیداری میں ایک نظارہ دکھایا جاتا ہے مگر وہ تعبیر طلب نہیں ہوتا بلکہ فلق الصبح کی طرح اسی رنگ میں ظاہر ہو جاتا ہے جس رنگ میں اللہ تعالیٰ انسان کو نظارہ دکھاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کشوف میں ہمیں اس کی مثالیں ملتی ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفی حالت میں دیکھا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس گر پڑا ہے اور اسے سخت چوٹ آئی ہے.ابھی اس کشف پر تین منٹ سے زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہوگا کہ مبارک احمد چٹائی کے پاس کھڑا تھا اس کا پیر پھسل گیا اسے سخت چوٹ آئی اور اس کے کپڑے خون سے بھر گئے.(تفسیر کبیر جلد 9 صفحہ 447) صاحبزادہ مرزا مبارک احمد کی وفات ہمارا فرض ہے کہ ہم مصیبت زدہ لوگوں کی امداد کریں تا انہیں معلوم ہو کہ ہمارے دل ان کی تکلیف پر خوش نہیں بلکہ زیادہ دُکھی ہیں ہاں اس کے ساتھ ہم مجبور ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس نشانِ صداقت کو وضاحت سے بیان کریں مگر اس میں کوئٹہ یا بہار والوں کی خصوصیت نہیں اگر ہمارا کوئی بچہ بھی پیشگوئی کے مطابق مر جائے تو ہمیں اس کی موت پر جہاں غم ہو گا وہاں خوشی بھی ہوگی کہ خدا تعالی کی بات پوری ہوئی.ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد جب فوت ہوا تو چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس سے بہت محبت تھی اس لئے لوگوں کو خیال تھا کہ آپ کو اس کی وفات کا بہت صدمہ ہو گا لیکن جب آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو بیٹھتے ہی آپ نے جو تقریر کی اُس میں فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ابتلاء ہے اور ہماری جماعت کو اس قسم کے ابتلاؤں پر غم نہیں کرنا چاہئے پھر فرمایا مبارک احمد کے متعلق فلاں وقت مجھے الہام ہوا تھا کہ یہ چھوٹی عمر میں اُٹھا لیا جائے گا اس لئے یہ تو خوشی کا موجب ہے کہ خدا تعالیٰ کا نشان پورا ہوا.پس ہمارا اپنا بھائی، بیٹا، یا کوئی اور عزیز رشتہ دار اگر مر جائے اور اُس کی وفات کے متعلق خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہو تو رنج کے ساتھ اس پیشگوئی
6303 تذکار مهدی ) روایات سید نامحمود کے پورا ہونے پر ہمیں خوشی بھی ہوگی.خوشی کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں غیر سمجھتے ہیں ہم تو انہیں اپنا ہی سمجھتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو ان سے بھی زیادہ اپنا سمجھتے ہیں اور یہ ہمارے لئے ناممکن ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے کسی نشان کو چھپائیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا پر اپنی دونوں خوبیوں کو ظاہر کر دیں ایک طرف خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان قہری نشان کے ذکر کو ہم دنیا میں پھیلائیں اور لوگوں کو بتائیں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ظہور پذیر ہوا اور دوسری طرف مصیبت زدگان اور مجروحین کی امداد کریں تا دنیا سمجھے کہ ہم جہاں خدا تعالیٰ کا نشان ظاہر ہونے کے بعد اس کی اشاعت میں کسی مصیبت اور ملامت کی پرواہ نہیں کرتے وہاں ہم سے زیادہ ان کا خیر خواہ بھی کوئی نہیں.اگر ہم اپنی ان دونوں خوبیوں کو ظاہر کریں گے تو اس وقت خدا کی بھی دونوں قدرتیں ہمارے لئے ظاہر ہوں گی وہ قدرت بھی جو آسمان سے اترتی ہے اور وہ قدرت بھی جو زمین سے ظاہر ہوتی ہے.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 339-338) انسان میں نقل کرنے کی خواہش ہوتی ہے مجھے یاد ہے بچپن میں ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد سخت بیمار تھا اُس نے ایک کپڑے کی خواہش کی ( یہ اس کی مرض موت تھی ).کلکتہ کی کوئی فرم تھی اُس سے وہ کپڑا مل سکتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کپڑا اُس کیلئے منگوا دیا مگر اس کے بعد مبارک احمد شاید فوت ہو گیا یا اور زیادہ بیمار ہو گیا کہ اسے اس کپڑے کی خواہش نہ رہی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ کپڑا ہم تینوں بھائیوں میں بانٹ دیا.میں نے اُس کی صدری بنوالی جب میں صدری پہن کر باہر نکلا تو ایک دوست مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے آپ یہیں ٹھہریں مجھے ایک کام ہے میں ابھی آتا ہوں.یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آ گئے.میں نے پوچھا کہاں گئے تھے؟ کہنے لگے ایک ضروری کام تھا.دو تین دن کے بعد وہ آئے تو انہوں نے بھی ایک صدری پہنی ہوئی تھی.کہنے لگے جب میں نے آپ کو صدری پہنے دیکھا تو میں نے کہا میں بھی اب اس قسم کی دھاری دار صدری بنوا کر رہوں گا.چنانچہ اُسی وقت میں گیا اور بازار سے کپڑا خرید کر صدری سلوالی.خیر اس میں بھی ایک لطیفہ تھا اور وہ یہ کہ ہمارا کپڑاٹسری تھا اور اس دوست کا کپڑا گبرون یا لدھیانہ کی قسم کا تھا لیکن اس سے اس خواہش کا پتہ چلتا ہے جو دوسروں کی اچھی چیز دیکھ کر انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اب کیا یہ لطیفہ نہیں کہ کسی کی دھاری دار صدری دیکھ کر تو دل
تذکار مهدی ) 304 روایات سید نا محمود بے تاب ہو جائے اور یہ خواہش پیدا ہو کہ کاش! میرے پاس بھی ایسی ہی صدری ہولیکن الہام الہی کا ذکر سُن کر اللہ تعالیٰ کے قرب اور محبت کی باتیں سن کر ہمارے دلوں میں یہ خواہش پیدا نہ ہو کہ ہمیں بھی الہام ہوں، ہمارے لئے بھی خدا تعالیٰ اپنے نشانات دکھایا کرے اور ہمیں بھی اپنی محبت سے نوازے.اس کی بڑی وجہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ ہے کہ ہمارے سلسلہ کے علماء اور ہمارا سمجھدار طبقہ نو جوانوں کے سامنے اس رنگ میں ان باتوں کو پیش نہیں کرتا کہ یہ امور سهل الحصول اور ممکن الحصول ہیں.اوّل تو انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کا کیا تعلق تھا اور اگر پتہ بھی ہو تو وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخصوص تھیں حالانکہ یہ صحیح نہیں.پس اگر یہ تڑپ ہماری جماعت میں عام ہو جائے تو ایک بہت بڑا طبقہ ہماری جماعت میں ایسا پیدا ہو سکتا ہے.جو گناہ کو بہت حد تک مٹا دے گا.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گناہ بالکل مٹ جائے گا کیونکہ یہ بہت مشکل بات ہے مگر بہت حد تک گناہ پر غالب آیا جا سکتا ہے.یا اکثر حصہ جماعت میں ایسے لوگوں کا پیدا ہوسکتا ہے جو گناہوں پر غالب آ جائے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 453-452) مخلوق کی جسمانی خدمت بجا لاؤ مجھے ایک نظارہ بھی نہیں بھولتا میں اُس وقت چھوٹا سا تھا، سولہ سترہ سال کی عمر تھی کہ اُس وقت ہماری ایک چھوٹی ہمشیرہ جو چند ماہ کی تھی فوت ہوگئی اور اُس کو دفن کرنے کیلئے اسی مقبرہ میں لے گئے جس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ احمدی اس میں دفن نہیں ہو سکتے.جنازہ کے بعد نعش حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں پر اُٹھالی.اُس وقت مرزا اسماعیل بیگ صاحب مرحوم جو یہاں دودھ کی دکان کیا کرتے تھے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور الغش مجھے دے دیجئے میں اُٹھا لیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مڑ کر اُن کی طرف دیکھا اور فرمایا یہ میری بیٹی ہے.یعنی بیٹی ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک جسمانی خدمت جو اس کی آخری خدمت ہے یہی ہوسکتی ہے کہ میں خود اس کو اُٹھا کر لے جاؤں.تو صفت رَبِّ الْعَلَمِینَ کے مظہر بنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ مخلوق کی جسمانی خدمات بجالاؤ.اگر تم خدمت دین میں اپنی ساری جائداد دے دیتے ہو، اپنی کل آمد اسلام کی اشاعت پر خرچ کر دیتے ہو تو تم ملکیت کے مظہر تو بن جاؤ گے مگر رَبّ العلمین کے مظہر نہیں بنو گے کیونکہ رَبِّ الْعَلَمِینَ وو 66
تذکار مهدی ) 305 روایات سید نامحمود کا مظہر بننے کیلئے ضروری ہے کہ تم اپنے ہاتھ سے کام کرو اور غرباء کی خدمت پر کمر بستہ رہو.ہاں جب تم اپنے ہاتھوں سے بھی بنی نوع انسان کی خدمات بجا لاؤ گے تو تم رَبِّ الْعَلَمِینَ کی صفت کے بعد مظہر بن جاؤ گے.خطبات محمود جلد 18 صفحہ 580-579) حضرت صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی بیماری اور وفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمارے چھوٹے بھائی مبارک احمد مرحوم سے بہت محبت تھی.جب وہ بیمار ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی محنت اور اتنی توجہ سے اس کا علاج کیا کہ بعض لوگ سمجھتے تھے.اگر مبارک احمد فوت ہو گیا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت صدمہ پہنچے گا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بڑے حوصلہ والے اور بہادر انسان تھے.جس روز مبارک احمد مرحوم فوت ہوا.اس روز صبح کی نماز پڑھ کر آپ مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے.میرے سپر د اس وقت مبارک احمد کو دوائیاں دینے اور اس کی نگہداشت وغیرہ کا کام تھا.میں ہی نماز کے بعد حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا.میں تھا حضرت خلیفہ اول تھے.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور شائد ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی تھے.جب حضرت خلیفہ اول مبارک احمد کو دیکھنے کے لئے پہنچے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا حالت اچھی معلوم ہوتی ہے بچہ سو گیا ہے.مگر در حقیقت وہ آخری وقت تھا.جب میں حضرت خلیفہ اول کو لے کر آیا اس وقت مبارک احمد کا شمال کی طرف سر اور جنوب کی طرف پاؤں تھے.حضرت خلیفہ اول بائیں طرف کھڑے ہوئے اور انہوں نے نبض پر ہاتھ رکھا.مگر نبض آپ کو محسوس نہ ہوئی اس پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ حضور مشک لائیں اور خود ہاتھ کہنی کے قریب رکھ کر نبض محسوس کرنی شروع کی کہ شائد وہاں نبض محسوس ہوتی ہو.مگر وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا کہ حضور جلدی مشک لائیں اور خود بغل کے قریب اپنا ہا تھ لے گئے اور نبض محسوس کرنی شروع کی اور جب وہاں بھی نبض محسوس نہ ہوئی تو گھبرا کر کہا حضور! جلد مُشک لائیں.اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چابیوں کے گچھے سے کنجی تلاش کر کے ٹرنک کا تالا کھول رہے تھے.جب آخری دفعہ حضرت مولوی صاحب نے گھبراہٹ سے کہا کہ حضور مشک جلدی
تذکار مهدی ) 306 ☀ روایات سید نا محمود لائیں اور اس خیال سے کہ مبارک احمد کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت صدمہ ہوگا.باوجود بہت دلیر ہونے کے آپ کے پاؤں کانپ گئے اور آپ کھڑے نہ رہ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے ان کا خیال تھا کہ شائد نبض دل کے قریب چل رہی ہو اور مشک سے قوت کو بحال کیا جا سکتا ہو.مگر ان کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ امید موہوم تھی.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی آواز کے ترعش کو محسوس کیا.تو آپ سمجھ گئے کہ مبارک احمد کا آخری وقت ہے اور آپ نے ٹرنک کھولنا بند کر دیا اور فرمایا مولوی صاحب شاید لڑ کا فوت ہو گیا ہے.آپ اتنے گھبرا کیوں گئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی جو اس نے ہمیں دی تھی.اب وہ اپنی امانت لے گیا ہے.تو ہمیں اس پر کیا شکوہ ہو سکتا ہے پھر فرمایا آپ کو شائد یہ خیال ہو کہ میں نے چونکہ اس کی بہت خدمت کی ہے.اس لئے مجھے زیادہ صدمہ ہو گا.خدمت کرنا تو میرا فرض تھا جو میں نے ادا کر دیا اور اب جبکہ وہ فوت ہو گیا ہے.ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر پوری طرح راضی ہیں.چنانچہ اسی وقت آپ نے بیٹھ کر دوستوں کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ مبارک احمد فوت ہو گیا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی ایک امانت تھی.جو اس نے ہم سے لے لی تو مومن کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو وہ جہاں تک ہو سکتا ہے.دوسرے کی خدمت کرتا ہے اور اس خدمت کو اپنے لئے ثواب کا موجب سمجھتا ہے.مگر دوسری طرف جب اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوتی ہے تو وہ کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کرتا.وہ سمجھتا ہے خدمت کا ثواب مجھے مل گیا.لیکن جو جزع فزع کرنے والے ہوتے ہیں.وہ دنیا کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور آخرت کی مصیبت الگ اٹھاتے ہیں اور اس سے زیادہ بد بخت اور کون ہو سکتا ہے.جو دوہری مصیبت اٹھائے.اس جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے اور اگلے جہان کی مصیبت کو بھی برداشت کرے.الفضل 14 مارچ 1944ء جلد 32 نمبر 61 صفحہ 4) میاں مبارک احمد صاحب کی ذہانت اور ذکاوت میں احساس اور بے حسی کو مثال کے ذریعہ سمجھاتا ہوں.جنہوں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کو مبارک احمد سے کس قدر محبت تھی.اس محبت کی کئی وجہیں تھیں.اول یہ کہ وہ کمزور تھا اور کچھ نہ کچھ بیمار رہتا تھا اس لئے اس کی طرف خاص توجہ
تذکار مهدی ) 307 روایات سید نامحمود رکھتے تھے اور یہ لازمی بات ہے کہ جس کی طرف خاص توجہ ہو اس سے محبت ہو جاتی ہے.دوسرے وہ اگر چہ ہم سب سے چھوٹا تھا اور اس کی عمر بھی بہت تھوڑی تھی مگر بہت ذہین اور ذ کی تھا.اس کی عمر سات سال کی تھی مگر وہ اسی عمر میں شعر کہہ لیتا تھا اور عام طور پر اس کے شعر کا وزن درست ہوتا تھا.اس کی ذہانت اور حافظہ کی مثال یہ ہے کہ جب حضرت صاحب نے وہ بڑی نظم جس کی ردیف ” یہی ہے لکھی.تو ہم سب کو فرمایا کہ تم قافیہ تلاش کرو.اس نے ہم سب سے زیادہ قافیہ بتلائے جن میں بہت سے عمدہ قافیہ تھے.جب وہ مرض الموت میں گرفتار ہوا تو حضرت صاحب با وجود تالیف و تصنیف میں مصروف رہنے کے شب و روز اس کے معالجہ میں لگے رہتے حتی کہ میں رات کے گیارہ گیارہ بجے سوتا تو آپ جاگ رہے ہوتے اور جب کبھی آنکھ کھلتی تو آپ جاگے ہوتے حیرت ہوتی تھی کہ آپ سوتے کس وقت ہیں.اور مرغیاں ذبح ہوگئیں خطبات محمود جلد اول صفحہ 78-77) | آج سے 38 سال قبل ایک واقعہ یہاں ہو ا تھا ہمارا ایک چھوٹا بھائی تھا جس کا نام مبارک احمد تھا اس کی قبر بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار کے مشرق کی طرف موجود ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ بہت ہی پیارا تھا مجھے یاد ہے جب ہم چھوٹے ہوتے تھے ہمیں مرغیاں پالنے کا شوق پیدا ہوا.کچھ مرغیاں میں نے رکھیں ، کچھ میر محمد الحق صاحب مرحوم نے رکھیں اور کچھ میاں بشیر احمد صاحب نے رکھیں اور بچپن کے شوق کے مطابق صبح ہی صبح ہم جاتے مرغیوں کے ڈربے کھولتے.انڈے گنتے اور پھر فخر کے طور پر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے کہ میری مرغی نے اتنے انڈے دیئے ہیں اور میری نے اتنے ہمارے اس شوق میں مبارک احمد مرحوم بھی جا کر شامل ہو جاتا.اتفاقاً ایک دفعہ وہ بیمار ہو گیا اس کی خبر گیری سیالکوٹ کی ایک خاتون کرتی تھیں جن کا عرف دادی پڑا ہوا تھا ہم بھی اسے دادی ہی کہتے اور دوسرے سب لوگ بھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اسے دادی کہنے پر بہت چڑا کرتے تھے.مگر اس لفظ کے سوا شناخت کا کوئی اور ذریعہ بھی نہ تھا اس لئے آپ بجائے دادی کے انہیں جگ دادی کہا کرتے تھے.جب مبارک احمد مرحوم بیمار ہو ا تو دادی نے کہہ دیا کہ یہ بیمار اس لئے ہوا ہے کہ مرغیوں کے پیچھے جاتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) + 308 → نا روایات سید نا محمود نے یہ بات سنی تو فوراً حضرت اماں جان سے فرمایا کہ مرغیاں گنوا کر ان بچوں کو قیمت دے دی جائے اور مرغیاں ذبح کر کے کھالی جائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مبارک احمد بہت پیارا تھا.1907ء میں وہ بیمار ہو گیا اور اس کو شدید قسم کے ٹائیفائیڈ کا حملہ ہوا اس وقت دو ڈاکٹر قادیان میں موجود تھے.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم و مغفور تھے ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ ہمیں باہر نوکری کرنے کے بجائے قادیان میں رہ کر خدمت کرنی چاہئے اور اس رنگ میں شائد وہ پہلے احمدی تھے جو ملا زمت چھوڑ کر یہاں آ گئے تھے.ایک تو وہ تھے اور دوسرے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب تھے جو رخصت پر یہاں آئے ہوئے تھے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ مل کر مبارک احمد مرحوم کا علاج کیا کرتے تھے.اس کی بیماری کے ایام میں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے اور معبرین نے لکھا ہے کہ اگر شادی غیر معلوم عورت سے ہو تو تعبیر موت ہوتی ہے مگر بعض معتبرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر ٹل جاتی ہے.پس جب خواب دیکھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا یہ خواب سنایا تو آپ نے فرمایا کہ معتبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہوتی ہے مگر ظاہری رنگ میں پورا کر دینے کی صورت میں بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے.اس لئے آؤ.مبارک احمد کی شادی کریں.گویا وہ بچہ جسے شادی بیاہ کا کچھ بھی علم نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی شادی کا فکر ہوا.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے تو ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کے سے جو یہاں بطور مہمان آئے ہوئے تھے صحن میں نظر آئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بلایا اور فرمایا.ہمارا منشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے.آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.انہوں نے کہا کہ حضور مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم اور ان کے اہل و عیال گول کمرہ میں رہتے تھے.وہ نیچے کئیں اور جیسا کہ بعد کے واقعات معلوم ہوئے.وہ یہ ہیں کہ ڈاکٹر صاحب شائد وہاں نہ تھے.کہیں باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے کچھ دیر انتظار کیا تو وہ آگئے.جب وہ آئے تو انہوں نے اس رنگ میں ان سے بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.
تذکار مهدی ) 309 روایات سید نا محمود ان کو اس وقت دو خیال تھے کہ شاید ان کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کو یہ رشتہ کرنے میں تامل ہو.ایک تو یہ کہ اس سے قبل ان کے خاندان کی کوئی لڑکی کسی غیر سید کے ساتھ نہ بیاہی گئی تھی اور دوسرے یہ کہ مبارک احمد ایک مہلک بیماری میں مبتلا تھا اور ڈاکٹر صاحب مرحوم خود اس کا علاج کرتے تھے اور گھر میں جا کر ذکر کیا کرتے تھے کہ اس کی حالت نازک ہے اور اس وجہ سے وہ خیال کریں گے کہ یہ شادی ننانوے فیصد خطرہ سے پُر ہے اور اس سے لڑکی کے ماتھے پر جلد ہی بیوگی کا ٹیکہ لگنے کا خوف ہے اور ان باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب کے گھر والوں کو یہ خیال تھا کہ ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر صاحب کمزوری دکھا ئیں اور ان کا ایمان ضائع ہو جائے.اس لئے انہوں نے پوچھا کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ پکے رہیں گے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر والدہ مریم بیگم مرحومہ نے ان کو بات سنائی اور بتایا کہ اس طرح میں اوپر گئی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.یہ سن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ پسند ہے.تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.ان کا یہ جواب سن کر مریم بیگم مرحومہ کی والدہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے رو پڑیں اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.اس پر ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا.کیا تم کو یہ پسند نہیں.انہوں نے کہا.مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فرمایا تھا.میرا دل دھڑک رہا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے اور اب آپ کا یہ جواب سن کر میں خوشی سے اپنے آنسو روک نہیں سکی.چنانچہ یہ شادی ہوگئی اور کچھ دنوں کے بعد وہ لڑکی بیوہ بھی ہو گئی.اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا.آخر وہی لڑکی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں آئی اور خلیفہ وقت سے بیاہی گئی اور باوجود شدید بیمار رہنے کے اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت تک مرنے نہیں دیا جب تک کہ اس نے اپنی مشیت کے ماتحت اس پیشگوئی کے میرے وجود پر پورا ہونے کا انکشاف نہ فرما دیا جو اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی اور اسے ان خواتین مبارکہ میں شامل نہ کر لیا جو ازل سے مصلح موعود سے منسوب ہو کر حضرت مسیح موعود کا جزو کہلانے والی تھیں.میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ
تذکار مهدی ) 310 روایات سید نا محمود کی طرف سے اس ایمان کی جزا تھی جو مریم بیگم مرحومہ کی والدہ نے اس وقت ظاہر کیا تھا.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 581 تا 584 ) جلسہ شعائر اللہ میں سے ہے جلسہ شعائر اللہ میں سے ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اس میں صحیح طور پر شمولیت برکات اور انوار البہی کا موجب ہے اور اس میں نقص اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور روحانی زنگ کا موجب ہے اس لئے میں تمام دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جلسہ کے ایام میں جہاں تک ہو سکے اپنے اوقات کو صحیح طور پر استعمال کریں اور جو دوست ان کے ساتھ آئے ہیں انہیں بھی تحریک کریں اور توجہ دلاتے رہیں کہ وہ صحیح طور پر اپنے اوقات صرف کریں.(افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1931 ء، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 390-389) قادیان کی ترقی کی پیشگوئی یہی علاقہ ہے جہاں جلسہ ہو رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رویا میں دیکھا کہ شمالی اور مشرقی طرف قادیان بڑھتی بڑھتی دریائے بیاس تک چلی گئی ہے.ادھر ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کرتے ہوئے تشریف لائے جہاں مدرسہ ہائی کی عمارت ہے اس جگہ کے قریب فرمایا لوگ کہتے ہیں یہاں جن رہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے مجھے جو خبر دی ہے اس کے ماتحت بتا تا ہوں کہ یہاں آبادی ہی آبادی ہوگی.( بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 578) قادیان کی ابتدائی حالت انسان جب اپنی فطرت سے مایوس ہو جاتا ہے تو گناہ میں بڑھ جاتا ہے اور جب دوسروں سے مایوس ہو جاتا ہے تو تبلیغ میں سُست ہو جاتا ہے.کئی لوگ ہیں جو میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں حق تو یہی ہے مگر لوگ مانتے نہیں.میں ہمیشہ ان سے کہتا ہوں کہ اگر لوگ واقعہ میں نہیں مانتے تو ہماری جماعت میں جو لوگ نئے داخل ہوتے ہیں یہ کہاں سے آتے ہیں.اگر لوگ اتنے ہی سنگدل اور حقیقت سے بے بہرہ ہو گئے ہیں کہ وہ سچائی کی باتیں سنتے ہیں مگر مانتے نہیں.تو سوال یہ ہے کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) کارمهدی 311 روایات سید نامحمودی کے ساتھ کوئی آدمی نہ تھا.پھر وہ وقت آیا جب آپ کے ساتھ ہزاروں آدمی تھے اور اب تو لاکھوں تک پہنچ گئے ہیں.پھر کسی زمانہ میں پنجاب میں بھی کوئی شخص آپ کا معتقد نہ تھا اور اب نہ صرف ہندوستان میں بلکہ دنیا کے تمام بر اعظموں میں احمدی پھیل گئے ہیں.اگر یہ سچ بات ہے کہ دنیا نہیں مانتی تو پھر اتنے لوگ کہاں سے آگئے.یہیں دیکھ لو اچھے لوگ اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں، ان میں سے کتنے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لائے.میں سمجھتا ہوں اس مجمع میں بہت کم ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شکل دیکھی.زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے آپ کی تصویر دیکھی.پھر کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے شکل تو دیکھی مگر آپ کی صحبت میں بیٹھنے کا انہیں موقع نہ ملا اور بہت قلیل ایسے لوگ ہیں جو غالباً درجنوں سے بڑھ نہیں سکتے جنہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور آپ کی صحبت سے فائدہ اُٹھانے کا انہیں موقع ملا.مگر آخر یہ لوگ کہاں سے آئے.میری پیدائش اور بیعت قریباً ایک ہی وقت سے چلتی ہے اور جب میں نے کچھ ہوش سنبھالا اُس وقت کئی سال تبلیغ پر گزر چکے تھے لیکن مجھے اپنے ہوش کے زمانہ میں یہ بات یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب سیر کے لئے نکلتے تو صرف حافظ حامد علی صاحب ساتھ ہوتے.ایک دفعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسی طرف سیر کیلئے آنا یاد ہے.میں اُس وقت چونکہ چھوٹا بچہ تھا اس لئے میں نے اصرار کیا کہ میں بھی سیر کیلئے چلوں گا.اُس زمانہ میں یہاں جھاؤ کے پودے ہوا کرتے تھے اور یہ تمام علاقہ جہاں اب تعلیم الاسلام ہائی سکول بورڈ نگ اور مسجد وغیرہ ایک جنگل تھا اور اس میں جھاؤ کے سوا اور کوئی چیز نہ ہوا کرتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی طرف سیر کیلئے تشریف لائے اور میرے اصرار پر مجھے بھی ساتھ لے لیا.مگر تھوڑی دور چلنے کے بعد میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میں تھک گیا ہوں اس پر کبھی مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُٹھاتے اور کبھی حافظ حامد علی صاحب اور یہ نظارہ مجھے آج تک یاد ہے.تو وہ ایسا زمانہ تھا کہ گو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی تھا.مگر آپ کو ماننے والے بہت قلیل لوگ تھے اور قادیان میں آنے والا تو کوئی کوئی تھا لیکن آج یہ زمانہ ہے کہ ہمیں بار بار یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ قادیان میں ہجرت کر کے آنے سے پیشتر لوگوں کو چاہئے کہ وہ اجازت لے لیں اور اگر کوئی بغیر اجازت کے یہاں ہجرت کر کے آئے تو اسے
تذکار مهدی ) 312 روایات سید نا محمود واپس جانے پر مجبور کیا جاسکتا ہے کیونکہ اب آبادی خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ گئی ہے کہ منافق بھی یہاں کھپ جاتے ہیں.پھر جن کو ذرا بھی باہر دشمنوں کی طرف سے تکالیف پہنچتی ہوں اور وہ ان کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے تو کہتے ہیں چلو قادیان میں ہجرت کر کے چلیں.اس طرح کمزور ایمان والے بھی قادیان میں اکٹھے ہو سکتے ہیں.خطبات محمود جلد 18 صفحہ 659 تا 661 ) مسجد مبارک قادیان اگر تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ تو پھر تمہیں ذاتی نصرت بھی حاصل ہوگی اور طفیلی بھی.اس وقت تمہاری نصرت اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے کہ اس کی ذلت سے سلسلہ کی ذلت ہوگی مگر حزب اللہ میں داخل ہونے کے بعد اس لئے بھی نصرت ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کہے گا اس کی ذلت سے میری ذلت ہوگی.اگر یہ بدنام ہوا تو چونکہ یہ میرا دوست ہے اس لئے مجھ پر الزام آئے گا کہ میں نے دوست سے وفاداری نہیں کی.دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے گوتم نے اس زمانہ کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے پس اس قدر قریب زمانہ کہ نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں اور نشانات جانے دو مسجد مبارک کو ہی دیکھو مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دو سطر میں ہوتی تھیں اس ٹکڑا میں تین دیوار میں ہوتی تھیں ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میں جہاں آجکل پہرے دار کھڑا ہوتا ہے اس حصہ میں امام کھڑا ہوا کرتا تھا پھر جہاں اب ستون ہے.وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا اس حصہ میں صرف دو قطار میں نمازیوں کی کھڑی ہو سکتی تھیں اور فی قطار پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اس حصے میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی اور کبھی دو ہوتی تھیں.مجھے یاد ہے جب اس حصہ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصے میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں تم نے غالبا غور کر کے وہ جگہ نہیں دیکھی ہو گی مگر وہ ابھی تک موجود ہے جاؤ اور دیکھو صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی
تذکار مهدی ) 313 روایات سیّد نا محمود عملی رنگ میں قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جا کر دیکھو اس حصہ کو الگ کر دو جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیوار میں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطریں ہوں گی ان کا تصور کرو اور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خدا تعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں.تو کیا سے کیا کر دیتے ہیں مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کے لئے کبھی ہم اس پر چڑھ جایا کرتے تھے اس پر چڑھنے کے لئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں اس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہو گئیں مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں جیو جیا کاں اوہو جی کو کو میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا.اس پنجابی فقرہ کے معنی نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ جیسا کو اہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں کوے سے مراد (نعوذ باللہ) تمہارے ابا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا کہ وہی تائی صاحبہ اگر کبھی میں ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں میرے لئے گدا بچھاتیں اور احترام سے بیٹھا تیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں.ضعیف ہیں.ہمیں نہیں یا کوئی تکلف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تو میرے پیر ہیں گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں کو کو تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا اور ان ساری چیزوں کو دیکھ کر تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح بدل دیتا ہے پس ان انسانوں کو دیکھو اور ان سے فائدہ اُٹھاؤ اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دے اور تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.الفضل جلد 26 نمبر 85 مورخہ 13 اپریل 1938 ءصفحہ 9) قادیان کی آبادی دریائے بیاس تک ہونے کی پیشگوئی اس مسجد اقصیٰ کو دیکھو کہ اب یہ بھی تنگ ہو رہی ہے کس طرح ایک ایک قدم اٹھا کر ہم نے اس مسجد کو بڑھایا مگر حالت یہ ہے کہ اب پھر یہ مسجد خدا کے فضل سے تنگ ہو رہی ہے.اس مسجد کے ایک طرف پہلے عورتیں بیٹھا کرتی تھیں ان بیچاریوں نے اس جگہ کے لئے چندہ بھی دیا
تذکار مهدی ) 314 روایات سید نا محمود تھا مگر ہم نے ان کو نکال دیا.اب مرد اس جگہ نماز پڑھتے ہیں اور عورتیں ہمارے گھر میں نماز پڑھتی ہیں تو باہر کی جماعتوں کو فکر نہیں کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ ان کے لئے نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کے اور نئی سامان پیدا کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ رویاء میں دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس تک پھیل گئی ہے.میں اس رویاء سے یہ سمجھا کرتا ہوں کہ قادیان کی آبادی دس بارہ لاکھ کی ضرور ہوگی اور اگر دس بارہ لاکھ کی آبادی ہو تو اس کے یہ معنی یہ ہیں کہ چار لاکھ لوگ جمعہ پڑھنے کے لئے آیا کریں گے.پس میرے نزدیک یہ مسجد بہت بڑھے گی.بلکہ ہمیں اس قدر بڑھانی پڑے گی کہ چار لاکھ نمازی اس مسجد میں آسکیں.اس غرض کے لئے اسے چاروں طرف بڑھایا جا سکتا ہے.اس وقت بھی جس جگہ کھڑے ہوکر میں یہ خطبہ پڑھ رہا ہوں.یہ اس حصہ سے باہر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تھا وہ مسجد اس موجود مسجد کا غالبا دسواں حصہ ہوگی.تو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ لوگوں کی مسجد میں خالی پڑی رہتی ہیں اور ہم اپنی مساجد کو بڑھاتے ہیں تو وہ اور تنگ ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جگہ نہیں ملتی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں صرف ایک ہی فعل مجھ سے ایسا ہوا جس میں میں سخت ڈرا.اس میں میری ہی غلطی تھی اور میں فوری طور پر پکڑا گیا.لیکن میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میری جلدی ہی بریت ہو گئی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گردہ میں درد تھا اور آپ جمعہ پڑھنے کے لئے تشریف نہ لا سکے.میری اس وقت پندرہ سولہ سال کی عمر تھی.میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لئے گھر سے نکلا اور مسجد کو آنے لگا.جب میں موڑ تک پہنچا تو ایک احمدی دوست مجھے ملے جو واپس جا رہے تھے.میں نے ان سے کہا کہ آپ واپس کیوں جا رہے ہیں.انہوں نے کہا مسجد میں بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں.میری جو شامت آئی تو بغیر اس کے کہ میں آگے بڑھ کر تحقیق کر لیتا کہ آیا واقعہ میں مسجد لوگوں سے بھری ہوئی ہے یا نہیں اور وہاں کھڑے ہونے یا بیٹھنے کی جگہ ہے یا یہ شخص یونہی کہہ رہا ہے.وہاں سے واپس چلا گیا اور ظہر کی نماز گھر میں پڑھنی شروع کر دی.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں چھوٹی عمر سے ہی نمازوں کا پابند ہوں اور میں نے آج تک ایک نماز بھی کبھی ضائع نہیں کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھ سے کبھی یہ دریافت نہیں فرمایا کرتے تھے کہ تم نے نماز پڑھی ہے یا نہیں پڑھی.مجھے یاد ہے جب میں گیارھویں سال میں تھا تو ایک دن میں نے ضحی یا اشراق کے وقت وضو کر کے حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 315 روایات سید نا محمودی علیہ الصلوۃ والسلام کا کوٹ پہنا اور خدا تعالیٰ کے حضور میں خوب رویا اور میں نے عہد کیا کہ میں آئندہ نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا.خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس عہد اور اقرار کے بعد میں نے کبھی کوئی نماز نہیں چھوڑی.لیکن پھر بھی چونکہ میں بچہ تھا اور بچپن میں کھیل کود کی وجہ سے بعض دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سنتی ہو جاتی ہے.اس لئے ایک دفعہ کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس میری شکایت کی کہ آپ اسے سمجھا ئیں.یہ نماز با جماعت پوری پابندی سے ادا کیا کرے.میر محمد اسحاق صاحب مجھ سے دوسال چھوٹے ہیں اور بچپن میں چونکہ ہم اکٹھے کھیلا کرتے تھے اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کی طبیعت بہت تیز تھی اس لئے وہ میر محمد اسحاق صاحب کو ناراض ہوا کرتے تھے اور سختی سے انہیں نماز پڑھنے کے لئے کہا کرتے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کسی نے میرے متعلق یہ شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ایک تو میر صاحب کی نماز پڑھتا ہے.اب میں نہیں چاہتا کہ دوسرا میری نماز پڑھے.میں یہی چاہتا ہوں کہ وہ خدا کی نماز پڑھا کرے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے نماز پڑھنے کے متعلق کبھی نہیں کہا تھا میں خود ہی تمام نمازیں پڑھ لیا کرتا تھا.لیکن اس دن شائد میری غفلت کو اللہ تعالیٰ دور کرنا چاہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے دیکھ کر کہا کہ محمود ادھر آؤ! میں گیا تو آپ نے فرمایا.تم جمعہ پڑھنے نہیں گئے ؟ میں نے کہا میں گیا تو تھا مگر معلوم ہوا کہ مسجد بھری ہوئی ہے وہاں نماز پڑھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں.میں نے کہنے کو تو یہ کہہ دیا مگر اپنے دل میں سخت ڈرا کہ میں نے دوسرے کی بات پر کیوں اعتبار کر لیا.معلوم نہیں اس نے جھوٹ کہا ہے یا سچ کہا ہے اگر اس نے سچ بولا ہے تب تو خیر لیکن اگر اس نے جھوٹ بولا ہے تو چونکہ اسی کی بات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیان کر دی ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھ سے ناراض ہوں گے کہ تم نے جھوٹ کیوں بولا.غرض میں اپنے دل میں سخت خائف ہوا کہ آج نا معلوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرماتے ہیں.اتنے میں نماز پڑھ کر مولوی عبد الکریم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عیادت کے لئے آئے میں قریب ہی ادھر ادھر منڈلا رہا تھا کہ دیکھو آج کیا بنتا ہے.ان کے آتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے سوال کیا کہ آج جمعہ میں لوگ زیادہ آئے تھے اور مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گنجائش نہیں رہی تھی.میرا دل تو یہ سنتے ہی بیٹھ گیا کہ خبر نہیں اس شخص نے مجھ
تذکار مهدی ) 316 روایات سید نا محمود سے سچ کہا تھا یا جھوٹ کہا تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے میری عزت رکھ لی.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم میں خدا تعالیٰ کے احسانات پر شکر ادا کرنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جا تا تھا.انہوں نے یہ سنا تو کہا کہ حضور اللہ کا بڑا احسان تھا.مسجد خوب لوگوں سے بھری ہوئی تھی.اس میں بیٹھنے کے لئے ذرا بھی گنجائش نہیں رہی تھی.تب میں نے سمجھا کہ اس احمدی نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا.تو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کا یہی ذریعہ رکھا ہے.کہ ہماری مسجد میں بڑھتی جائیں اور لوگوں سے ہر وقت آبادر ہیں.جب تک تم مسجدوں کو آباد رکھو گے.اس وقت تک تم بھی آباد رہو گے اور جب تم مسجدوں کو چھوڑ دو گے اس وقت اللہ تعالیٰ تم کو بھی چھوڑ دے گا.( الفضل جلد 33 نمبر 61 مورخہ 14 مارچ 1944 ء صفحہ 10 ) بزرگ کی قبر پر دعا کے لئے تشریف لے جانا مجھے بتایا گیا ہے کہ بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار سے تبرک کے طور پر مٹی لے جاتے ہیں.بعض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر پھول چڑھا جاتے ہیں.یہ سب لغو باتیں ہیں ان سے فائدہ کچھ نہیں ہوتا اور ایمان ضائع چلا جاتا ہے.بھلا قبر پر پھول چڑھانے سے مُردے کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ اُن کی روحیں تو اس قبر میں نہیں ہوتیں وہ تو اور مقام پر ہوتی ہیں.ہاں اس میں شبہ نہیں کہ روح کو اس ظاہری قبر کے ساتھ ایک لگاؤ اور تعلق ضرور ہوتا ہے اور گومرنے والوں کی روحیں کسی جہان میں ہوں اللہ تعالیٰ ان ظاہری قبروں سے بھی ان کی ایک رنگ میں وابستگی پیدا کر دیتا ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ایک بزرگ کی قبر پر دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا جب میں دعا کر رہا تھا تو صاحب قبر اپنی قبر سے نکل کر میرے سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گیا.مگر اس سے مراد بھی یہ نہیں کہ اُن کی روح اس مٹی کی قبر سے باہر نکلی بلکہ ظاہری تعلق کی وجہ سے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مٹی کی قبر پر کھڑے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُس بزرگ کو اپنی اصلی قبر سے آپ تک آنے کی اجازت دے دی.وہی قبر جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ثُمَّ آمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ (عبس : 22) اُسی قبر میں مرنے کے بعد انسان کی روح رکھی جاتی ہے.ورنہ یہ قبریں دنیا میں ہمیشہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد کھودی جاتی ہیں اور ان کے اندر سے کچھ بھی نہیں نکلتا.بلکہ ایک قبر کا اوپر کا نشان جب مٹ جاتا ہے تو اُسی جگہ دوسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے.پھر کچھ تو کر
تذکار مهدی ) 317 روایات سید نا محمودی عرصہ گزرنے کے بعد اُسی جگہ تیسرا شخص دفن کر دیا جاتا ہے.یہاں تک کہ ایک ایک قبر میں بعض دفعہ یکے بعد دیگرے سو سو آدمی دفن ہو جاتے ہیں.( مزار حضرت مسیح موعود پر دعا اور اس کی حکمت، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 188،189 ) قادیان کی ترقی عظیم الشان نشان ایسے نشان ہزاروں ہیں اور ایسی شہادتیں بے اندازہ کہ جن سے یہ قسم ایمان کی پیدا ہوتی ہے.ان میں سے اس وقت میں ایک کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور وہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ اور يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ یعنی دور دور سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور دور دور سے تیرے پاس تحائف لائے جائیں گے اور ایسے ایسے سامان کئے جائیں گے جن سے مہمان نوازی کی جائے اور اس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ وہ راستے گھس جائیں گے جن راستوں سے وہ آئیں گے.یہ نشان ایک عظیم الشان نشان ہے اس عظیم الشان نشان کی کس وقت خدا تعالیٰ نے خبر دی اس حالت کے دیکھنے والے اب بھی زندہ موجود ہیں.میری عمر تو چھوٹی تھی لیکن وہ نظارہ اب بھی یاد ہے جہاں اب مدرسہ ہے وہاں ڈھاب ہوتی تھی اور میلے کے ڈھیر لگے ہوتے تھے اور مدرسہ کی جگہ لوگ دن کو نہیں جایا کرتے تھے کہ یہ آسیب زدہ جگہ ہے.اول تو کوئی وہاں جاتا نہیں تھا اور جو جاتا بھی تو اکیلا کوئی نہ جاتا بلکہ دو تین مل کر جاتے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.جن چڑھتا تھایا نہیں.بہر حال یہ ویران جگہ تھی اور یہ ظاہر ہے کہ ویران جگہوں کے متعلق ہی لوگوں کا خیال ایسا ہوتا ہے کہ وہاں جانے سے جن چڑھ جاتا ہے.پھر یہ میرے تجربے سے تو باہر تھا لیکن بہت سے آدمی بیان کرتے ہیں کہ قادیان کی یہ حالت تھی کہ دو تین روپے کا آٹا بھی یہاں سے نہیں ملتا تھا.آخر یہ گاؤں تھا زمیندارہ طرز کی یہاں رہائش تھی اپنی اپنی ضرورت کے لئے لوگ خود ہی پیس لیا کرتے تھے.یہ تو ہمیں بھی یاد ہے کہ ہمیں جب کبھی کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی آدمی کو لاہور یا امرتسر بھیجا کرتے تھے.پھر آدمیوں کا یہ حال تھا کہ کوئی ادھر آتا نہ تھا.برات وغیرہ پر کوئی مہمان اس گاؤں میں آ جائے تو آ جائے لیکن عام طور پر کوئی آتا جاتا نہ تھا.مجھے وہ دن بھی یاد ہیں کہ میں چھوٹا تھا حضرت صاحب مجھے بھی ساتھ لے جاتے مجھے
تذکار مهدی ) 318 روایات سید نامحمود یاد ہے برسات کا موسم تھا ایک چھوٹے سے گڑھے میں پانی کھڑا تھا میں پھلانگ نہ سکا تو مجھے خود اٹھا کے آگے کیا گیا.پھر کبھی شیخ حامد علی صاحب اور کبھی حضرت صاحب خود مجھے اٹھا لیتے.اس وقت نہ تو مہمان تھا اور نہ یہ مکان تھے کوئی ترقی نہ تھی مگر ایک رنگ میں یہ بھی ترقی کا زمانہ تھا کیونکہ اس وقت حافظ حامد علی صاحب آ چکے تھے.اس سے بھی پہلے جبکہ قادیان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی شخص نہ جانتا تھا خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف لائے جائیں گے.اس وقت کی حالت کا اندازہ لگاتے ہوئے خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا جا سکتا ہے.اے وہ شخص جس کو کہ اس کے محلے کے لوگ بھی نہیں جانتے ، جس کو اس کے شہر سے باہر دوسرے شہروں کے انسان نہیں جانتے ، جس کی گمنامی کی حالت سے لوگوں کو یہی خیال تھا کہ مرزا غلام قادر صاحب ہی اپنے باپ کے بیٹے ہیں میں تجھ جیسے شخص کو عزت دوں گا، دنیا میں مشہور کروں گا، عزت چل کر پاس آئے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو عزت ملی وہ اسی قسم کی ہے لوگ چل کر آئے اور عزت دی اور یہ سب باتیں اس نشان کے ماتحت ہوئیں اور ہو رہی ہیں جو خداتعالی نے حضرت صاحب کو اس وقت دیا جبکہ آپ کو قادیان میں بھی کوئی نہ جانتا تھا.ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں ہوتا (خطبات محمود جلد 10 صفحہ 246-247 ) | میں نے حضرت مسیح موعود سے خود سنا آپ فرماتے تھے کہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو کافر بھی رحمت ہوتے ہیں.اگر ابو جہل نہ ہوتا تو اتنا قرآن کہاں اترتا.اگر سارے حضرت ابو بکر ہی ہوتے تو صرف لَا اِلهَ اِلَّا الله ہی نازل ہوتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو ہر چیز میں بھلائی نظر آتی ہے.ایک دفعہ لاہور میں ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو زور سے دھکا دیکر گرا دیا دوسرے دوست ناراض ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اس نے مجھے جھوٹا سمجھ کر دھکا دیا ہے.اگر وہ سچا سمجھتا تو کیوں ایسا کرتا.اس نے تو اپنے خیال میں نیک کام کیا اور حق کی حمایت کی ہے.(خطبات محمود جلد نمبر 10 صفحہ 299)
تذکار مهدی ) قادیان کا مستقبل 319 روایات سید نا محمودی سب سے پہلے میں اس پیشگوئی کا ذکر کرتا ہوں جو قادیان کی ترقی کے متعلق ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت اقدس کو بتایا گیا کہ قادیان کا گاؤں ترقی کرتے کرتے ایک بہت بڑا شہر ہو جائے گا جیسے کہ بمبئی اور کلکتہ کے شہر ہیں.گویا نو دس لاکھ کی آبادی تک پہنچ جائے گا اور اس کی آبادی شمالاً اور شرقاً پھیلتے ہوئے بیاس تک پہنچ جائے گی جو قادیان سے نومیل کے فاصلے پر بہنے والے ایک دریا کا ہے.یہ پیشگوئی جب شائع ہوئی ہے اس وقت قادیان کی حالت یہ تھی کہ اس کی آبادی دو ہزار کے قریب تھی، سوائے چند ایک پختہ مکانات کے باقی سب مکانات کچے تھے، مکانوں کا کرایہ اتنا گرا ہوا تھا کہ چار پانچ آنے ماہوار پر مکان کرایہ پرمل جاتا تھا، مکانوں کی زمین اس قدر ارزاں تھی کہ دس بارہ روپے کو قابل سکونت مکان بنانے کے لئے زمین مل جاتی تھی، بازار کا یہ حال تھا کہ دو تین روپے کا آٹا ایک وقت میں نہیں مل سکتا تھا کیونکہ لوگ زمیندار طبقہ کے تھے اور خود دانے پیس کر روٹی پکاتے تھے تعلیم کے لئے ایک مدرسہ سرکاری تھا جو پرائمری تک تھا اور اسی کا مدرس کچھ الاؤنس لے کر ڈاک خانے کا کام بھی کر دیا کرتا تھا، ڈاک ہفتے میں دو دفعہ آتی تھی ، تمام عمارتیں فصیل قصبہ کے اندر تھیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے ظاہری کوئی سامان نہ تھے کیونکہ قادیان ریل سے گیارہ میل کے فاصلے پر واقع ہے اور اس کی سڑک بالکل کچی ہے اور جن ملکوں میں ریل ہو ان میں اس کے کناروں پر جو شہر واقع ہوں انہیں کی آبادی بڑھتی ہے.کوئی کارخانہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے مزدوروں کی آبادی کے ساتھ شہر کی ترقی ہو جائے ، کوئی سرکاری محکمہ قادیان میں نہ تھا کہ اس کی وجہ سے قادیان کی ترقی ہو، نہ ضلع کا مقام تھا نہ تحصیل کا حتی کہ پولیس کی چوکی بھی نہ تھی، قادیان میں کوئی منڈی بھی نہ تھی جس کی وجہ سے یہاں کی آبادی ترقی کرتی.جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی ہے اس وقت حضرت اقدس علیہ السلام کے مرید بھی چند سو سے زیادہ نہ تھے کہ ان کو حکماً لا کر یہاں بسا دیا جاتا تو شہر بڑھ جاتا.(دعوت الا میر.انوار العلوم جلد 7 صفحہ 561-560) مرکز میں بار بار آنے کی ضرورت آج بھی قائم ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابھی قریب میں ہی جلسہ سالانہ گزرا ہے لیکن نوجوانوں کی ہمت اور ان کا ولولہ اور جوش ان باتوں کو نہیں دیکھا کرتا.یہ جلسہ تو ایک مہینہ کے بعد ہوا ہے.
تذکار مهدی ) 320 روایات سید نا محمودی میں جانتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی نوجوان ایسے تھے جو لاہور سے ہر اتوار کو با قاعدہ قادیان پہنچ جایا کرتے تھے.مثلاً چوہدری فتح محمد صاحب اُن دنوں کالج میں پڑھتے تھے مگر ان کا آنا جانا اتنا با قاعدہ تھا کہ ایک اتوار کو وہ کسی وجہ سے نہ آ سکے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھ سے پوچھا.محمود! فتح محمد اس دفعہ نہیں آیا؟ گویا ان کا آنا جانا اتنا با قاعدہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے ایک اتوار کے دن نہ آنے پر تعجب ہوا اور مجھ سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں نہیں آئے؟ وہ بھی کالج کے طالب علم تھے، کالج میں پڑھتے تھے اور ان کے لئے بھی کئی قسم کے کام تھے پھر وہ فیل بھی نہیں ہوتے تھے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ وہ پڑھتے نہیں ہوں گے.پھر وہ کوئی ایسے مالدار بھی نہیں تھے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جا سکے کہ انہیں اُڑانے کے لئے کافی روپیہ ملتا ہوگا.میں سمجھتا ہوں لاہور کے کالجوں کے جو سٹوڈنٹس یہاں آئے ہوئے ہیں یا نہیں آئے ان میں سے نوے فیصدی وہ ہوتے ہیں جن کو اس سے زیادہ گزارہ ملتا ہے جتنا چوہدری فتح محمد صاحب کو ملا کرتا تھا مگر وہ با قاعدہ ہر اتوار کو قادیان آیا کرتے تھے.اسی طرح اور بھی کئی طالب علم تھے جو قادیان آیا کرتے تھے گو اتنی باقاعدگی سے نہیں آتے تھے مگر بہر حال کثرت سے آتے تھے.اُس وقت لاہور میں احمدی طالب علم دس بارہ تھے اور میں سمجھتا ہوں کہ ایک دو کو مستثنی کرتے ہوئے باقی دس میں سے دو تین تو ایسے تھے کہ وہ ہفتہ وار یا قریباً ہفتہ وار قادیان آیا کرتے تھے اور نصف تعداد ایسے طالب علموں کی تھی جو مہینے میں ایک دفعہ یا دو دفعہ قادیان آتے تھے اور باقی سال میں چار پانچ دفعہ قادیان آ جاتے تھے اور بعض دفعہ کوئی ایسا بھی نکل آتا جو صرف جلسہ سالانہ پر آ جاتا تھا.مگر اب صرف ہیں چھپیں فیصدی طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو قادیان میں سال بھر میں ایک دفعہ آتے ہیں یا ایک دفعہ بھی نہیں آتے.آخر یہ فرق اور امتیاز کیوں ہے؟ میں نے کہا ہے اگر ہماری مالی حالت ان لڑکوں سے کمزور ہوتی جو اُس وقت کالج میں پڑھتے تھے تو میں سمجھتا کہ یہ مالی حالت کا نتیجہ ہے اور اگر یہ بات ہوتی کہ اب تمہیں دین کے سیکھنے کی ضرورت نہیں رہی تمہارے لئے اس قدر اعلیٰ درجہ کے روحانی سامان لا ہور اور امرتسر اور دوسرے شہروں میں موجود ہیں کہ تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں تو پھر بھی میں سمجھتا کہ یہ بات کسی حد تک معقول ہے لیکن اگر نہ تو یہ بات ہے کہ تمہاری مالی حالت ان سے خراب ہے اور نہ یہ بات درست ہے کہ باہر ایسے سامان موجود ہیں جن کی موجودگی میں تمہیں قادیان آنے کی ضرورت نہیں اور پھر اس بات.
تذکار مهدی ) 321 روایات سید نا محمود کو دیکھتے ہوئے کہ اب قادیان کا سفر بالکل آسان ہے یہ بات میری سمجھ سے بالکل بالا ہے کہ کیوں ہماری جماعت کے نوجوانوں میں اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے.پہلے شام کی گاڑی سے ہمارے طالب علم بٹالہ میں اُترتے اور گاڑی سے اُتر کر راتوں رات پیدل چل کر قادیان پہنچ جاتے یا آٹھ نو بجے صبح اُترتے تو بارہ ایک بجے دوپہر کو قادیان پہنچ جاتے تھے.طالب علم ہونے کی وجہ سے بالعموم ان کے پاس اتنے کرائے نہیں ہوتے تھے کہ یکہ یا تانگہ لے سکیں.ایسے بھی ہوتے تھے جو یوں میں آ جایا کرتے تھے.مگر ایسے طالب علم بھی تھے جو پیدل آتے اور پیدل جاتے تھے مگر اب ریل کی وجہ سے بہت کچھ سہولت ہو گئی ہے.ریل وقت بچا لیتی ہے، ریل کوفت سے بچا لیتی ہے، اور ریل کا جو کرایہ آجکل بٹالہ سے قادیان کا ہے وہ اس کے کرایہ کے نصف کے قریب ہے جو اُن دنوں یکہ والے وصول کیا کرتے تھے.اُس زمانہ میں ڈیڑھ دو روپیہ میں یکہ آیا کرتا تھا اور ایک یکہ میں تین سواریاں ہوا کرتی تھیں گویا کم سے کم آٹھ آنے ایک آدمی کا صرف ایک طرف کا کرایہ ہوتا تھا مگر آجکل چھ سات آنے میں بٹالہ کا آنا جانا ہو جاتا ہے تو جو دقتیں مالی لحاظ سے پیش آسکتی تھیں یا وقت کے لحاظ سے پیش آ سکتی تھیں وہ کم ہو گئی ہیں اور جوضرور تیں قادیان آنے کے متعلق تھیں وہ ویسی ہی قائم ہیں.(انوار العلوم جلد 16 صفحہ 113،112) قادیان کے بازار جماعت کو خدا تعالیٰ دنیوی ترقیات بھی دے گا.قادیان بہت پھیلے گی اور ترقی کرے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا ہے کہ قادیان کے بازاروں میں بڑی بڑی تو ندوں والے جوہری بیٹھے ہیں.ایسا وقت بھی آئے گا مگر کسی احمدی سے جو اس وقت قادیان میں چپڑاسی کا ہی کام کرتا ہوا سے کوئی پوچھے کہ تمہیں آنے والی حالت پسند ہے یا موجودہ؟ تو وہ یہی کہے گا کہ اس وقت میرا چپڑاسی ہونا اُس زمانہ کے امیر و کبیر ہونے سے اچھا ہے.تو خدا تعالیٰ کی جماعتوں میں اس قسم کی چیزیں بھی آتی ہیں اور جماعت احمدیہ میں بھی آجائیں گی مگر جو مزا آج گالیاں کھانے اور ماریں سہنے میں ہے وہ اُس وقت نہیں آئے گا.کس قدر ہمیں اس وقت حسرت ہوتی ہے جب ہم حدیثیں پڑھتے ہیں کہ کاش! ہم بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہوتے اور آپ کی زیارت کا شرف حاصل کرتے خواہ کتنی دور سے زیارت نصیب ہوتی.بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد 17 صفحہ 50-51)
تذکار مهدی ) مرکز میں کثرت سے آنا چاہئے 322 روایات سید نا محمود پھر ہمیں یہ خبریں نہیں آئیں گی کہ آج دس آدمیوں نے بیعت کی ہے، آج ہیں نے بیعت کی ہے، آج تمہیں اور چالیس نے بیعت کی ہے بلکہ ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف اطراف سے ہمیں تاروں پر تاریں بھجوائیں گے کہ آج دس ہزار نے بیعت کی ہے، آج پچاس ہزار نے بیعت کی ہے، آج ایک لاکھ نے بیعت کی ہے صرف اپنے ایثار اور قربانی کے معیار کو اونچا کرنے کی ضرورت ہے.جب ہم اپنے معیار کو اونچا کر لیں گے تو ہماری ترقی ایک یقینی چیز ہے جس میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں ہوسکتی.میں آخر میں آپ لوگوں کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کو قادیان میں بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں ہماری جماعت کے افراد کو کثرت کے ساتھ آنا چاہئے یہاں تک کہ آپ یہ بھی فرماتے کہ جو شخص قادیان میں بار بار نہیں آتا مجھے اُس کے ایمان کے متعلق ہمیشہ شبہ رہتا ہے.یہ آپ لوگوں کا ہی قصور ہے کہ صرف جلسہ پر آتے ہیں دوسرے اوقات میں آنے کی بہت کم کوشش کرتے ہیں.اب تو میں سوائے بیماری یا سفر کے ہمیشہ مجلس میں بیٹھتا ہوں اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ دین کی باتیں دوستوں کو سکھاتا رہتا ہوں یہ بھی ایک نیا موقع ہے جس سے ہماری جماعت کے افراد کو فائدہ اُٹھانا چاہئے تاکہ آہستہ آہستہ وہ لوگ تیار ہو جائیں جو دین کی اشاعت کا کام پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کرنے کے اہل ہوں اور ان کے متعلق یہ امید کی جاسکتی ہو کہ وہ ہر قسم کی قربانی پیش کر کے دین کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھنے کی کوشش کریں گے.( تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 296 ) ہر نسل کو پہلی نسل سے بڑھ کر اخلاص دکھانا چاہئے ، اگر ہم نے دنیا میں کوئی نیک تبدیلی پیدا کرنی ہے تو یقیناً ہمارا فرض ہے کہ ہم اس امر کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کہ وہ چیز جو ہمارے بڑوں کے لئے سستی کا موجب ہوئی تھی وہ آئندہ نئی نسل میں پیدا نہ ہو.اگر نئی نسل میں پہلوں سے زیادہ سُستی پیدا ہوتی ہے تو یقینا یہ چیز ہمارے لئے فخر کا موجب نہیں ہو سکتی نہ اس سستی کے نتیجہ میں ہمارا کام صحیح طور پر ہو سکتا ہے اور نہ ہم اپنی
تذکار مهدی ) 323 روایات سید نا محمود تنظیم کے اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں کیونکہ تنظیم وہی کامیاب ہوتی ہے جس کی اگلی کڑی پہلی کڑی سے زیادہ مضبوط ہو اور جس کے نتیجہ میں آئندہ نسل پہلوں سے زیادہ فرض شناس اور کام کرنے والی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ملیریا زدہ ہندوستان کے اندر فاقہ میں اپنے اوقات بسر کرنے والے اور بہت کم خوراک استعمال کرنے والے لوگ ہماری جماعت میں پائے جاتے تھے مگر ان کے اخلاص اور ان کی قربانی اور ان کی مستعدی اور ان کی جانفشانی کی یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے کوئی حکم سنتے تو وہ راتوں رات بٹالہ یا گورداسپور یا امرتسر پہنچ جاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم کی تعمیل کر کے واپس آتے.اب بجائے اس کے کہ ہمیں ترقی حاصل ہوتی ہمیں اس میں تنزل کے آثار نظر آرہے ہیں حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ پہلے اگر سلسلہ کا کام پیش آنے پر ہماری جماعت کے لوگ پیدل بٹالہ، امرتسر اور گورداسپور پہنچ جاتے تھے آج کل کے خدام لا ہور، گجرات اور پشاور جانے کے لئے تیار ہو جاتے تب ہم سمجھتے کہ یہ چیز ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے اور ہماری بیماری کو آئندہ نسل نے اپنے جسم میں سے دور کر دیا ہے.آئندہ نسل پہلے سے بہتر پیدا ہورہی ہے اگلی اس سے بہتر پیدا ہوگی اور پھر اگلی اس سے بہتر پیدا ہوگی یہاں تک کہ رفتہ رفتہ ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ہم کام کی صلاحیت کے لحاظ سے یورپین اقوام کا مقابلہ کر سکیں گے.لیکن اگر یہ بات ہمیں نصیب نہیں اور اگر ہم کم سے کم کام کر سکتے ہیں تو یہ ہمارے لئے موت کی علامت ہے، ہمارے لئے رونے کا مقام ہے خوشی اور مسرت کا نہیں.یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ سے تعلق رکھتی ہے اور یہ چیز ہے جو خدام الاحمدیہ کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے باقی جلسے کرنا تقریریں کر دینا اور شعر و غیرہ پڑھ دینا کوئی چیز نہیں.(انوار العلوم جلد 18 صفحہ 474) ا انسان اپنے اخلاص سے ہر کام کو نیکی بنا سکتا ہے نیکی صرف نماز روزہ حج اور زکوۃ ہی نہیں بلکہ خود اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی فکر کرنی یہ بھی ثواب ہے.اگر ثواب اور تعمیل ارشاد کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں بھی لقمہ ڈالتا ہے یا اپنے بچہ کو اس طرح کھانا کھلاتا ہے یا نوکروں غلاموں سے نیک سلوک کرتا ہے تو وہ بھی نیکی کرتا ہے.حالانکہ یہ کام کا فر بھی کرتے ہیں مگر یہ اپنی نیت اور اخلاص کی وجہ سے ان پر اجر پاتا ہے کیونکہ
تذکار مهدی ) 324 روایات سید نا محمود اسلام نے تمام بنی نوع انسان اور دنیا کی تمام مخلوقات سے بلکہ حیوانوں تک سے نیک سلوک کرنا نیکی قرار دیا ہے.اس لئے اگر وہ احتساباً اعمال بجالاتا ہے تو اس کا ہر فعل دنیا کا بھی نیکی میں شمار ہوتا ہے.اگر تاجر ہے تو اس کے تجارتی کاروبار نیکی ہیں.اگر مزدور ہے تو اس کا ٹوکری ڈھونا اگر ملازم ہے تو اس کا اپنی ملازمت پر جانا اور وہاں کام کرنا.ہر حرفہ والا جو کوئی حرفہ کرتا ہے ایک دوکاندار جو دکان کرتا ہے اس کا ہر سودا جو وہ دیتا ہے.ایک راج جو راجگیر می کرتا ہے بلکہ ایک ایک اینٹ جو وہ لگاتا ہے.ایک لکڑ ہارا جو کلہاڑا مارتا ہے وہ سب نیکی ہے جس کا اجر اس کو ملے گا.بشرطیکہ وہ اپنے دنیاوی کام میں بھی خدا تعالی کی رضا کو مد نظر ر کھے.اس طرح انسان اپنے اخلاص سے اپنے ہر ایک فعل کو نیکی بنا لیتا ہے بلکہ جو کام کہ دوسروں کے لئے عیاشی سمجھے جاتے ہیں وہ بھی اس کے لئے نیکی ہو جاتے ہیں.صوفیاء نے ایک واقعہ لکھا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی بیان فرمایا کرتے تھے اور میں نے پہلے حضرت صاحب ہی سے سنا ہے کہ ایک بزرگ روزانہ ایک تھال کھانے کا تیار کرا کر کہیں لے جایا کرتے تھے اپنی بیوی کو انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا کہ وہ کس کے لئے لے جاتے ہیں جس سے ان کی بیوی کو شبہ ہوا کہ شائد ان کا کسی سے ناجائز تعلق ہے.اتفاق سے وہ بزرگ ایک دن بیمار ہو گئے انہوں نے بیوی سے کہا کہ چاول پکا کر فلاں جگہ دریا کے پار ایک بزرگ رہتے ہیں اس کے پاس لے جاؤ بیوی نے کہا کہ راستہ میں دریا ہے میں کیسے پارا تروں گی.انہوں نے کہا کہ میرا نام لے کر دعا کرنا کہ الہی اس شخص کا تجھے واسطہ دیتی ہوں جو کبھی عورت کے پاس نہیں گیا چنانچہ وہ کھانا لے کر گئی اور دریا کے کنارے کھڑے ہوکر اسی طرح دعا کی جس کے بعد ایک کشتی آگئی وہ سوار ہو کر پار اس بزرگ کے پاس چلی گئی جب وہ چاولوں کا طباق کھا چکے تو اس بزرگ سے اس نے کہا کہ اب میں واپس کیسے جاؤں اس بزرگ نے کہا کہ تم میرا نام لے کر خدا سے دعا کرنا کہ الہی اس شخص کا میں تجھے واسطہ دیتی ہوں جس نے کبھی ایک دانہ بھی چاول کا نہیں کھایا.چنانچہ اس نے اسی طرح دعا کی جھٹ کشتی آگئی اور سوار ہو کر گھر آ گئی اور اپنے میاں سے کہنے لگی کہ میں تو سمجھتی تھی کہ خدا سچائی سے دعائیں قبول کرتا ہے مگر آج معلوم ہوا کہ وہ جھوٹ سے زیادہ قبول کرتا ہے کیونکہ میں تمہاری بیوی ہوں اور یہ تمہارے بچے ہیں اگر عورت کے پاس تم نہیں گئے تو یہ بچے کس کے ہیں اور اس بزرگ نے بھی میرے سامنے
تذکار مهدی ) 325 روایات سید نا محمود ) چاولوں کا بھرا ہوا طباق کھایا ہے تو یہ درست کیسے ہو سکتا ہے کہ انہوں نے کبھی ایک دانہ بھی چاولوں کا نہیں کھایا.انہوں نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ نہیں سچ ہے کیونکہ نہ میں کبھی اپنے نفس کی خواہش سے عورت کے پاس گیا اور نہ کبھی اس بزرگ نے اپنے نفس کی خواہش سے کھانا کھایا ہمارے تعلقات اور کھانا پینا اسی کے حکم کے ماتحت اور احتسابا ہی ہیں.قادیان کی ترقی کی پیشگوئی ( خطبات محمود جلد 9 صفحہ 24 تا 25 ) میں نے متواتر جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ قادیان میں رہائش کی وقتیں لوگوں کے ئے بڑھتی چلی جاتی ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ قادیان کی ترقی ہوگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ قادیان بڑھتے بڑھتے دریائے بیاس تک پہنچ جائے گا یہ نظارہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کے متعلق دیکھا.اس کے متعلق یہ ضروری نہیں کہ قادیان کی ترقی کا سارا نظارہ آپ کو دکھا دیا گیا ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ اس سے کم قادیان کی ترقی نہ ہو.اگر زیادہ ہو جائے.تو وہ اس پیشگوئی میں کوئی حارج نہیں ہوگی.بلکہ اس کی شان اور عظمت کو بڑھانے والی ہو گی.پس یہ خواب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا.اس کے یہ معنے نہیں کہ اس سے آگے قادیان نہیں بڑھے گا ممکن ہے کسی وقت قادیان اتنا ترقی کر جائے کہ دریائے بیاس قادیان کے اندر بہنے والا ایک نالا بن جائے اور قادیان کی آبادی دریائے بیاس سے آگے ہوشیار پور کے ضلع کی طرف نکل جائے.بہر حال اس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جماعت کے مخلصین اپنے وطنوں کو خیر آباد کہہ کر اور اپنی جائیدادوں کو ترک کر کے قادیان میں بس رہے ہیں اور بسنا چاہتے ہیں دنیا میں امیر بھی ہوتے ہیں اور غریب بھی ہوتے ہیں وہ لوگ بھی ہوتے ہیں.جو ہزاروں ہزار روپیہ خرچ کر کے زمینیں خرید سکتے اور اپنی رہائش کے لئے مکانات بنا سکتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، وہ چاہتے ہیں کہ سینکڑوں میں ہی وہ زمین بھی خرید لیں اور مکان بھی بنا سکیں.خطبات محمود جلد 28 صفحہ 36-35)
تذکار مهدی ) 326 روایات سید نا محمودی خدا تعالی کی نصرت اچانک آتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ پہنچے.مکہ والے یہ نہیں جانتے تھے کہ آپ اُن پر حملہ آور ہوں گے.ابوسفیان ابھی خود آپ سے مدینہ میں مل کر آرہا تھا.جب لوگوں نے آپ کالشکر دیکھا تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوگا.ابوسفیان نے کہا تم پاگل تو نہیں ہو گئے ؟ میں ابھی خود دیکھ کر آیا ہوں وہاں کوئی لشکر تیار نہیں ہوا تھا.اگلے ہی چار پانچ منٹ میں مسلمان اُس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ابوسفیان کو گرفتار کر لیا اور دوسرے دن مکہ فتح ہو گیا.غرض خدا تعالیٰ کی نصرت اچانک آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تو خدا تعالیٰ بار بار فرماتا ہے.انى مع الافواج اتِيكَ بَغْتَةً خدا تعالیٰ کی مددا چانک آئے گی تم آج قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی.تم کل قیاس نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی.تم شام کو بھی خیال نہیں کر سکتے کہ وہ مدد کب آئے گی.تم تہجد کے لئے اٹھو گے تو تم خیال کر رہے ہو گے کہ ابھی منزل باقی ہے.صبح کی نماز پڑھ رہے ہو گے تو مصائب پر مصائب تمہیں نظر آ رہے ہوں گے.مگر جونہی سورج نظر آیا خدا تعالیٰ کی نصرت تمہارے پاس پہنچ جائے گی اور تمہارے دشمن کے لئے ہر طرف مصائب ہی مصائب ہوں گے.ایک ربوہ کیا ایک قادیان کیا.قادیان کا ہمیں بے شک احترام ہے.مگر خدا تعالیٰ کی محبت اور اطاعت کی خاطر ہمیں دس ہزار قادیان بھی قربان کرنا پڑیں تو ہم کر دیں گے اس کے سامنے اس کی کوئی حیثیت نہیں..پس قادیان ہمیں پیارا ہے.حقیقت میں ہماری محبتیں اس کے ساتھ وابستہ ہیں.مگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عزت اس سے بہت زیادہ قیمتی ہیں.ہمیں چاہیے کہ ہم جمع ہو کر اپنا کام کرنا شروع کر دیں اور اگر سو دفعہ بھی ہمیں مرکز چھوڑنا پڑے تو کوئی پروا نہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالٰی نے لا مرکزیت کے توڑنے کے لئے بھیجا ہے.آپ کا کام مرکز کو قائم کرنا ہے.اس لئے یہ ایک اہم چیز ہے.ہمارا دائمی مرکز اگر چہ قادیان ہے.مگر جب وہ فتح ہو گا.تو کون ہو گا جو ہمیں وہاں جانے سے روک سکے اور ہم نہ جاسکیں.پھر سوال یہ رہ جاتا ہے کہ اس شہر کا کیا بنے گا.اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو ہمیں خود مختلف مراکز کی ضرورت ہے.ہمیں ہر علاقہ میں مرکز کی ضرورت ہے اور پھر دوسرے لوگ دوگنی
327 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود تگنی قیمت دے کر بھی یہ جگہ لینے کو تیار ہو جائیں گے.لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی یہ قیمتیں نہ بھی دے.تو کیا ہم خدا تعالیٰ کی خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اپنے مکان بھی اس کی خاطر پیش کر دیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں جب میں قادیان سے باہر جاتا تھا.اس وقت ریل وغیرہ نہیں ہوتی تھی.میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا واقعہ ہوا بچپن کی وجہ سے میں پہلا واقعہ بھول جاتا تھا.اس وقت بٹالہ، قادیان میں اگے چلتے تھے.جب بھی بھی میں بٹالہ سے قادیان جاتا اور قادیان قریب آجاتا تھا تو مجھے محبت کی وجہ سے جوش آجاتا تھا.میں خیال کرتا تھا کہ اگے والا گھوڑے کو تیز نہیں چلاتا.یہ شرارت کرتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ میں اگہ چھوڑ کر پیدل دوڑ پڑا.مگر جب گھوڑا آگے بڑھا تو میں پھر اگہ پر بیٹھ گیا اور اپنی غلطی محسوس کی اور ایسا متواتر ہوا.ایسا ہی اور دوسرے دوست محبت میں کرتے تھے.جب قادیان ملے گا تو ہم مکانوں کی پرواہ نہیں کریں گے اور مکانوں کو خدا پر چھوڑ دیں گے اور وہاں دوڑ کر پہنچیں گے جو شخص اپنی چیز کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیتا ہے.وہ کبھی گھانا نہیں کھاتا.اس تذبذب اور تردد کا باعث بے ایمانی ہے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جانے والوں کو کوئی نقصان نہیں ہوتا.ظاہر میں اگر چه نقصان نظر آتا ہے مگر اصل میں نقصان نہیں ہوتا.تم لوگ تو بیعت میں داخل ہو.جو لوگ بیعت میں شامل نہیں تھے.وہ بھی ایسے خیال دل میں نہ لاتے تھے.چاچڑاں شریف والے بزرگ جو بہاول پور کے نوابوں کے پیر تھے.وہ ایک دفعہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.نواب صاحب بھی وہاں تھے.اس وقت آتھم کی پیشگوئی کا وقت گزر گیا تھا.اس مجلس میں یہ باتیں ہونے لگیں کہ پیشگوئی کا وقت گزر گیا ہے.آتھم نہیں مرا اور مرزا ذلیل ہوا ہے.پیر صاحب جیسا کہ ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے ہوئے تھے.مگر بیعت نہیں کی تھی.تھوڑی دیر تو آپ خاموش رہے.پھر آپ نے سر اٹھایا آپ کی آنکھوں میں ایک اضطراب کی حالت تھی.آپ نے فرمایا کون کہتا ہے کہ آتھم نہیں مرا.مجھے تو اس کی لاش نظر آ رہی ہے.پھر انہوں نے نواب صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا.یہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا سوال ہے.مرزا صاحب کی عزت کا سوال نہیں.مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام ) نے مقابلہ کیا ہے تو اسلام کی
تذکار مهدی ) 328 روایات سید نا محمودی خاطر کیا ہے.مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) کی دشمنی میں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھول گئے ہو.نواب صاحب چونکہ آپ کے مرید تھے.اس لئے وہ مرعوب ہو گئے.اگر چہ آپ کو بیعت کی توفیق نہیں ملی تھی.مگر انہیں نظر آ رہا تھا کہ آتھم روحانی طور پر مر چکا ہے.تم تو مومن ہو قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں.ہاں روایتی شکل بدل سکتی ہے.لوہا جب مارا جاتا ہے تو وہ کشتہ بن جاتا ہے.اب کوئی شخص یہ نہیں کہ سکتا کہ لوہا ضائع ہو گیا.بلکہ اس نے اپنی شکل بدل لی ہے اور پہلے سے زیادہ قیمتی ہو گیا ہے.اسی طرح اگر تمہاری قربانیاں ضائع بھی ہو جائیں تو وہ کشتہ کی شکل اختیار کر لیں گی اور اگر وہ کشتہ کی شکل اختیار کر لیں گی تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ ضائع ہو گئی ہیں.سونے کی قیمت پہلے کیا تھی.یہی ہیں پچیس روپے فی تولہ تھا لیکن ان دنوں میں سونے کا کشتہ سوروپے فی تولہ بکتا تھا.کون کہتا ہے کہ سونا ضائع ہو گیا ہے.بلکہ اس کی قیمت پہلے سے دوگنی تگنی ہو جاتی تھی.اسی طرح بظاہر میں تو انسان کو نقصان نظر آتا ہے.لیکن اگر روحانی آنکھ سے دیکھا جائے تو وہ فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے.درحقیقت زندہ وہی ہے جو روحانی طور پر زندہ ہے اور بینا وہی ہے جو روحانی طور پر بینا ہے.الفضل 30 جنوری 1949 ء جلد 3 نمبر 23 صفحہ 6 جلسہ سالانہ قادیان کی ابتدائی حالت آج ( دسمبر 1936 ء ) سے قریباً چالیس سال پہلے اس جگہ پر یہاں اب مدرسہ احمدیہ کے لڑکے پڑھتے ہیں ایک ٹوٹی ہوئی فصیل ہوا کرتی تھی.ہمارے آباء و اجداد کے زمانہ میں قادیان کی حفاظت کے لئے وہ کچی فصیل بنی ہوئی تھی جو خاصی چوڑی تھی اور ایک گڈا اس پر چل سکتا تھا.پھر انگریزی حکومت نے جب اسے تڑوا کر نیلام کر دیا تو اس کا کچھ ٹکڑا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہمان خانہ بنانے کی نیت سے لے لیا تھا.وہ ایک زمین لمبی سی چلی جاتی تھی.میں نہیں کہہ سکتا، اس وقت 1893ء تھا 1894 ء یا 1895ء قریباً قریباً اسی قسم کا زمانہ تھا، یہی دن تھے، یہی موسم تھا، یہی مہینہ تھا.کچھ لوگ جو ابھی احمدی نہیں کہلاتے تھے کیونکہ ابھی احمدی نام سے جماعت یاد نہیں کی جاتی تھی مگر یہی مقاصد اور یہی مدعا لے کر وہ قادیان میں جمع ہوئے میں نہیں کہہ سکتا.آیا وہ ساری کارروائی اسی جگہ ہوئی.یا کارروائی کا بعض حصہ اس جگہ ہوا اور بعض مسجد میں کیونکہ میری عمر اس وقت سات آٹھ سال کی ہوگی اس لئے میں زیادہ تفصیلی طور پر
تذکار مهدی ) 329 روایات سید نا محمود اس بات کو یاد نہیں رکھ سکا.میں اس وقت اس اجتماع کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تھا.مجھے اتنا یاد ہے کہ میں وہاں جمع ہونے والے لوگوں کے ارد گرد دوڑتا اور کھیلتا پھرتا تھا.میرے لئے اس زمانہ کے لحاظ سے یہ اچنبھے کی بات تھی کہ کچھ لوگ جمع ہیں.اس فصیل پر ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے تھے اور ارد گرد وہ دوست تھے جو جلسہ سالانہ کے اجتماع کے نام سے جمع تھے.ممکن ہے میرا حافظہ غلطی کرتا ہو اور دری ایک نہ ہو دو ہوں لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ایک ہی دری تھی.اس ایک دری پر کچھ لوگ بیٹھے تھے.ڈیڑھ سو ہوں گے یا دو سو اور بچے ملا کر ان کی فہرست اڑھائی سو کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شائع بھی کی تھی میں خیال کرتا ہوں.وہ ایک دری تھی یا دو دریاں.بہر حال ان کے تھی.لئے اتنی ہی جگہ تھی جتنی اس (جلسہ سالانہ 1936ء کی ) سٹیج کی جگہ ہے.میں نہیں کہہ سکتا.کیوں؟ مگر میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ دری تین جگہ بدلی گئی.پہلے ایک جگہ بچھائی گئی اور تھوڑی دیر کے بعد سے اٹھا کر اسے کچھ دور بچھا دیا گیا.تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے تبدیل کر کے ایک اور جگہ بچھائی گئی اور پھر تیسری دفعہ اس جگہ سے بھی اٹھا کر کچھ اور دور وہ بچھائی گئی.اپنی بچپن کی عمر کے لحاظ سے میں نہیں کہہ سکتا آیا ان جمع ہونے والوں کو لوگ روکتے تھے اور کہتے تھے کہ تمہارا حق نہیں کہ اس جگہ دری بچھاؤ یا کوئی اور وجہ تھی.بہر حال مجھے یاد ہے کہ دو تین دفعہ اس دری کی جگہ بدلی گئی.ابتدائی جلسہ سالانہ ( الفضل 29 دسمبر 1936 ء جلد 24 نمبر 154 صفحہ 4-3) اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے اور وہی لوگ اس قدرت کا مشاہدہ کر سکیں گے اور کرتے ہوں گے اور اس سے لطف اٹھا سکتے ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی ایام کے حالات کو دیکھا ہو.بعد میں آنے والے اس کا اندازہ اور قیاس نہیں کر سکتے جبکہ قادیان ایک چھوٹی سی بستی تھی جب قادیان میں احمدیوں کی تعداد اس چھوٹی سی بستی میں بھی آٹے میں نمک کے برابر نہیں تھی جب ساری احمدی آبادی صرف تین گھروں میں محصور تھی ، ہمارا گھر تھا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے مکان کا کچھ حصہ تھا یا وہ مکان تھا جہاں مولوی قطب الدین صاحب اب مطب کیا کرتے ہیں.اسی طرح تیسری عمارت موجودہ
تذکار مهدی ) 330 روایات سید نا محمود مہمان خانہ کی تھی.یہ صرف چار عمارتیں اس زمانہ میں تھیں.درمیان کی عمارتیں، ساتھ کی عمارتیں، بورڈنگ اور مدرسہ کی عمارتیں سب بعد کی ہیں.خود یہ گھر جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہتے تھے.بہت چھوٹا سا تھا اور اس کے کئی حصے اس وقت نہیں بنے تھے تو یہ تھوڑی سی آبادی تھی جو اس وقت احمدی جماعت کہلاتی تھی.مجھے یاد ہے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ پہلا جلسہ تھا یا دوسرا، پہلا تو غالبا نہیں ہوگا کیونکہ مجھے اس کا نظارہ اچھی طرح یاد ہے 1891ء میں پہلا جلسہ ہوا ہے اور اس وقت میری عمر بہت چھوٹی تھی.اس لئے غالباً یہ دوسرا جلسہ گاہ ہوگا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جہاں آج کل مدرسہ احمدیہ ہے.یہاں ایک پلیٹ فارم بنا ہوا تھا.پہلے یہاں فصیل ہوا کرتی تھی.گورنمنٹ نے اسے نیلام کر دیا اور اس ٹکڑے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خرید لیا.جہاں تک مجھے یاد ہے یہ ٹکڑا زمین ستر روپوں میں خریدا گیا تھا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ان دنوں جموں میں تھے.جب آپ کو یہ اطلاع ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ زمین خریدنا چاہتے ہیں تو غالباً آپ نے ہی روپے بھجوائے تھے اور آپ کے روپوں سے ہی یہ زمین خریدی گئی تھی.اس وقت یہاں ایک چبوترہ سا تھا.وہ جگہ اس سے کم ہی چوڑی تھی.جتنی اس مسجد مبارک کی چوڑائی ہے لیکن لمبی چلی جاتی تھی.مہمان خانے کے ایک سرے سے شروع ہو کر نواب صاحب کے مکانوں کی حد تک چلی گئی تھی اور وہاں فصیل کے گر جانے کی وجہ سے چبوترہ بنادیا گیا تھا.دوسرا جلسہ یا دوسرے جلسے کا کچھ حصہ اس فصیل پر ہوا تھا.مجھے یاد ہے ہم اس وقت اس جلسہ اور اس کی غرض و غایت کو سمجھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.البتہ ایک بات مجھے اچھی طرح یاد ہے اور میں اس کے متعلق بعض پرانے لوگوں سے دریافت بھی کیا ہے مگر کسی نے مجھے صحیح جواب نہیں دیا اور وہ یہ کہ اس چبوترے پر دو چھوٹی چھوٹی دریاں بچھا دی گئی تھیں جن پر لوگ بیٹھے تھے یہ بات میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی کہ اس وقت کیا ہوا کہ ان دریوں کو بار بار اٹھا کر جگہ بدلی گئی تھی اور کئی بار ایسا ہوا کہ پہلے ایک جگہ دریاں بچھائی جاتیں اور جب لوگ بیٹھ جاتے تو تھوڑی دیر کے بعد وہاں سے اٹھا کر دریاں اور جگہ بچھا دی جاتیں نہ معلوم دھوپ پڑتی تھی یا کوئی اور بات تھی.میں اس کے متعلق یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا اور اس وقت سے لے کر اب تک مجھے کوئی ایسا آدمی ملا نہیں جو اس کی وجہ بتا تا.مجھے بچپن کے لحاظ سے یہ نظارہ خوب یاد ہے اور ایک تماشا سا لگتا تھا کہ پہلے لوگ ایک جگہ بیٹھے ہیں اور پھر یک دم کھڑے ہو کر
تذکار مهدی ) 331 → نامحمودی روایات سیّد نا محمود دوسری جگہ بیٹھ جاتے ہیں.غرض اس وقت احمدیت کی ساری کمائی دو دریوں پر آ گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت کی تعداد اپنی ایک کتاب آئینہ کمالات اسلام میں شائع کی ہے.اس کو دیکھا جائے تو معلوم ہو سکتا ہے کہ اس وقت کتنے لوگ جلسہ میں شامل ہوئے پھر جس قدر نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شائع کئے ہیں وہ سارے ایسے نہیں ہیں جو ایک وقت جلسہ میں شامل ہوئے ہوں اور نہ سارے بڑی عمر کے آدمی ہیں بلکہ ان میں سے کچھ حصہ تو بچوں کا ہے اور کچھ ایسا ہے جو ایک وقت جلسہ میں شامل ہوا اور پھر چلا گیا.جلسہ سالانہ چونکہ تین چار دن رہا تھا اس لئے ان شامل ہونے والوں میں سے کوئی ایک دن رہا اور چلا گیا.کوئی تین دن رہا اور چلا گیا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام میں جلسہ میں شامل ہونے والوں کی 327 تعداد لکھی ہے.ان میں نہ تو سارے بالغ تھے اور نہ سارے ایک وقت میں جمع ہوئے تھے بلکہ میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ سو ڈیڑھ سو آدمی جلسہ میں شامل ہوئے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو تھوڑی دیر کے لئے آتے اور چلے جاتے.یہ جماعت احمدیہ کا دوسرا سالانہ جلسہ تھا اور اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو اس مسجد میں جتنے لوگ نظر آ رہے ہیں ان سے کم ہی اس جلسہ میں نظر آتے تھے.پھر خدا نے یہ برکت دی کہ اس نے چاروں طرف سے لوگوں کو جمع کرنا شروع کر دیا اور اللہ تعالیٰ کا یہ الہام پورا ہونا شروع ہوا کہ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ تیری طرف دور دور سے لوگ تحائف لے کر آئیں گے کہ سڑکوں میں گڑھے پڑ جائیں گے.اس الہام کے پورا ہونے کا جو لطف ہم لوگ اٹھا سکتے ہیں جنہوں نے پہلا نظارہ دیکھا ہوا ہے.وہ لطف وہ لوگ نہیں اٹھا سکتے جنہوں نے قادیان کو بھر پور ہونے کی صورت میں دیکھا.وہ لوگ جنہوں نے قادیان کو 1900 ء میں دیکھا تھا.انہیں بھی اب بہت بڑا فرق محسوس ہوتا ہے مگر ہمیں تو 1900 ء کا قادیان بھی بہت آباد دکھائی دیتا ہے.پھر جنہوں نے 1907ء میں قادیان کو دیکھا وہ بھی اپنے دل میں اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر بہت بڑا فرق محسوس کرتے ہیں مگر 1907 ء میں ہماری یہ کیفیت تھی کہ ہم سمجھتے تھے.
تذکار مهدی ) 332 روایات سید نا محمودی ہم ساری دنیا پر چھا گئے ہیں اور اب قادیان بہت آباد شہر ہو گیا ہے.اس طرح 1913ء میں قادیان کی اور حالت تھی.1914ء قادیان کی اور حالت ہو گئی.1917ء میں اس نے اور زیادہ ترقی کی اور 1940ء میں اس کی آبادی میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا حتی کہ بعض وہ لوگ جنہوں نے میری خلافت کے ایام میں ہی قادیان کو دیکھا تھا جب وہ پانچ سات سال تک قادیان میں نہ آئے اور اس کے بعد انہیں قادیان کو دیکھنے کا موقع ملا تو انہوں نے ذکر کیا کہ پانچ سات سال کے بعد آ کر ہم نے قادیان کو پہچانا نہیں.یہ کیسا عظیم الشان نشان ہے جو احمدیت کی صداقت کے متعلق خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا.بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں بعض اور شہر بھی بڑھ جاتے ہیں حالانکہ ان شہروں کے بڑھنے کی وہ وجوہات نہیں تھیں بے شک اب ہوتی جائیں گی کیونکہ خدا نے آخر قادیان کو ہمیشہ ان باتوں سے محروم نہیں رکھنا یہاں بھی تجارتیں ہوں گی اور نئے سے نئے کارخانے کھلتے چلے جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائے دعوی سے لے کر آج سے دو تین سال پہلے تک قادیان کی ترقی کا کوئی مادی ذریعہ نہیں تھا مگر پھر بھی خدا نے اسے بڑھا کر دکھا دیا اور اسی طرح ثابت کر دیا کہ احمدیت اس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اسی طرح قادیان میں جو مختلف قوموں کے افراد کے آپس میں پیوند لگتے ہیں وہ بھی اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہیں.شائد قادیان میں جتنے نکاح مختلف قوموں اور مختلف علاقوں کے لوگوں کے آپس میں ہوتے ہیں حالانکہ قادیان کی آبادی صرف دس ہزار ہے.اتنے نکاح مختلف علاقوں اور مختلف قوموں کے لوگوں کے درمیان شائد لا ہور جیسے شہر میں بھی نہیں ہوتے ہوں گے.جس کی آبادی پانچ لاکھ کے قریب ہے.یہ ایک بہت بڑا نشان ہے جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں.جب تک اس زمانہ کے لوگ زندہ رہیں گے.ان نشانات کو تازہ رکھیں گے مگر بعد میں آنے والے ان نشانات کو صرف کتابوں میں پڑھیں گے اور کتابوں میں پڑھ کر وہ لطف نہیں اٹھا سکیں گے جو ہم اٹھاتے ہیں.ہم کتابوں میں ہمیشہ پڑھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار نے یہ دکھ دیا.وہ دکھ دیا اور پھر ان دکھوں کے بعد خدا تعالیٰ نے کفار کو اس رنگ میں اپنے عذاب کا نشانہ بنایا مگر اس کا ہمیں وہ لطف نہیں آ سکتا جو حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابہ کو آیا کرتا تھا.اور نہ اگلی نسل کو وہ لطف آ سکتا ہے جو آج ہمیں اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر آتا ہے آئندہ آنے والے
تذکار مهدی ) 333 نامحمودی روایات سیّد نا محمود دل کو تسلی دینے کے لئے ضرور خیال کر لیا کرتے ہیں کہ اتنی گری ہوئی حالت تو نہیں ہوسکتی تھی.مضمون بالا رہا ( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 560 تا 563) 1897ء میں جب لاہور میں جلسہ اعظم کی بنیاد پڑی اور حضرت مسیح موعود کو بھی اس میں مضمون لکھنے کے لئے کہا گیا تو خواجہ صاحب ہی پیغام لے کر آئے تھے.حضرت مسیح موعود کو ان دنوں میں اسہال کی تکلیف تھی باوجود اس تکلیف کے آپ نے مضمون لکھنا شروع کیا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ختم کیا.مضمون جب خواجہ صاحب کو حضرت مسیح موعود نے دیا تو انہوں نے اس پر بہت کچھ نا امیدی کا اظہار کیا اور خیال ظاہر کیا کہ یہ مضمون قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاوے گا اور خواہ مخواہ بنسی کا موجب ہو گا مگر حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ مضمون بالا رہا.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے قبل از وقت اس الہام کے متعلق اشتہار لکھ کر لاہور میں شائع کرنا مناسب سمجھا اور اشتہار لکھ کر خواجہ صاحب کو دیا کہ اسے تمام لاہور میں شائع اور چسپاں کیا جائے اور خواجہ صاحب کو بہت کچھ تسلی اور تشفی بھی دلائی مگر خواجہ صاحب چونکہ فیصلہ کئے بیٹھے تھے کہ مضمون نعوذ بالله لغو اور بیہودہ ہے انہوں نے نہ خود اشتہار شائع کیا نہ لوگوں کو شائع کرنے دیا.آخر حضرت مسیح موعود کا حکم بتا کر جب بعض لوگوں نے خاص زور دیا تو رات کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو کر چند اشتہار دیواروں پر اونچے کر کے لگا دیئے گئے تا کہ لوگ ان کو پڑھ نہ سکیں اور حضرت مسیح موعود کو بھی کہا جا سکے کہ ان کے حکم کی تعمیل کر دی گئی ہے کیونکہ خواجہ صاحب کے خیال میں وہ مضمون جس کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ بالا رہا“ اس قابل نہ تھا کہ اسے ایسے بڑے بڑے محققین کی مجلس میں پیش کیا جاوے.آخر وہ دن آیا جس دن اس مضمون کو سنایا جانا تھا.مضمون جب سنایا جانا شروع ہوا تو ابھی چند منٹ نہ گزرے تھے کہ لوگ بت بن گئے اور ایسا ہوا گویا ان پر سحر کیا ہوا ہے وقت مقررہ گزر گیا مگر لوگوں کی دلچسپی میں کچھ کمی نہ آئی اور وقت بڑھایا گیا مگر وہ بھی کافی نہ ہوا.آخر لوگوں کے اصرار سے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا گیا اور اس دن بقیہ لیکچر حضرت مسیح موعود کا ختم کیا گیا.مخالف اور موافق سب نے بالا تفاق کہا کہ حضرت مسیح موعود کا لیکچر سب سے بالا رہا اور خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بات پوری ہوئی مگر اس زبردست پیشگوئی کو خواجہ صاحب کی کمزوری ایمان نے پوشیدہ کر دیا
تذکار مهدی ) 334 روایات سید نا محمود اب ہم ان واقعات کو سناتے ہیں مگر کجا ہمارے سنانے کا اثر اور کجا وہ اثر جو اس اشتہار کے قبل از وقت شائع کر دینے سے ہوتا.اس صورت میں اس پیشگوئی کو جو اہمیت حاصل ہوتی ہر ایک شخص بخوبی ذہن میں لا سکتا ہے.آئینہ صداقت.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 181-182) آریوں کے جلسہ میں مضمون پڑھا جانا اوّل تو سوال یہ ہے کہ جہاں گالیاں دی جاتی ہیں وہاں انسان جائے ہی کیوں.یہاں مخالف لوگ تقریریں کرتے ہیں اور بعض احمدی سننے چلے جاتے ہیں ان کا وہاں جانا ہی بتا تا ہے کہ وہ حقیقی غیرت کے مقام پر نہیں ہیں.کیا کبھی کسی شخص کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ فلاں مقام پر میرے باپ کو گالیاں دی جا رہی ہیں میں جا کر سن آؤں یا کوئی کسی کو اطلاع دے کہ فلاں جگہ تمہاری ماں کو گالیاں دی جارہی ہیں اور وہ جھٹ جوتا ہاتھ میں پکڑ کر بھاگ اٹھے کہ سنوں کیسی چٹخارے دار گالیاں دی جاتی ہیں اگر تمہارے اندر حقیقی غیرت ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا اپنے امام اور دوسرے بزرگوں کے متعلق گالیاں سننے کے لئے جاتے ہی کیوں ہو.تمہارا وہاں جانا بتاتا ہے کہ تمہارے اندر غیرت نہیں یا ادنی درجہ کی غیرت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آریوں نے لاہور میں ایک جلسہ کیا اور آپ سے خواہش کی کہ آپ بھی مضمون لکھیں جو وہاں پڑھا جائے آپ نے فرمایا ہم ان لوگوں کی عادت کو جانتے ہیں یہ ضرور گالیاں دیں گے اس لئے ہم ان کے کسی جلسہ میں حصہ نہیں لیتے.مگر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور لاہور کے بعض دوسرے لوگ جن کی خوشامد وغیرہ کر کے آریوں نے انہیں آمادہ کر لیا ہوا تھا کہنے لگے چونکہ اب ملک میں سیاسی تحریک شروع ہوئی ہے اس لئے آریوں کا رنگ بدل گیا ہے آپ ضرور مضمون لکھیں اس سے اسلام کو بہت فائدہ ہوگا..حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اکراہ کے باوجود اُن کی بات مان لی اور مضمون رقم فرمایا اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کو پڑھنے کے لئے لاہور بھیجا، میں بھی گیا اور بھی بعض دوست گئے تھے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون پڑھا گیا جس میں سب باتیں محبت اور پیار کی تھیں اس کے بعد ایک آریہ نے مضمون پڑھا جس میں شدید گالیاں رسول کریم ﷺ کو دی گئی تھیں اور وہ تمام گندے اعتراضات کئے گئے تھے جو عیسائی اور آریہ
تذکار مهدی ) 335 روایات سید نامحمود کرتے ہیں مجھے آج تک اپنی اس غفلت پر افسوس ہے میرے ساتھ ایک اور صاحب بیٹھے تھے ٹھیک یاد نہیں کون تھے غالبا اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی یا کوئی اور تھے جب آریہ لیکچرار نے سخت کلامی شروع کی تو میں اُٹھا اور میں نے کہا میں یہ نہیں سن سکتا اور جاتا ہوں مگر اُس شخص نے جو میرے پاس بیٹھا تھا کہا کہ حضرت مولوی صاحب اور دیگر علماء سلسلہ بیٹھے ہیں اگر اُٹھنا مناسب ہوتا تو وہ نہ اُٹھتے.میں نے کہا اُن کے دل میں جو ہو گا وہ جانتے ہوں گے مگر میں نہیں بیٹھ سکتا مگر اُس نے کہا راستے سب بند ہیں دروازوں میں لوگ کھڑے ہیں آپ درمیان سے اُٹھ کر گئے تو شور ہوگا اور فساد پیدا ہو گا چپکے بیٹھے رہو.میں اس کی باتوں میں آ گیا اور بیٹھا رہا مگر مجھے آج تک افسوس ہے کہ جب ایک نیک تحریک میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے پیدا کی تھی تو میں کیوں نہ اُٹھ آیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ سنا کہ جلسہ میں رسول کریم ﷺ کو گالیاں دی گئی ہیں تو آپ سخت ناراض ہوئے اور سب سے زیادہ ناراض آپ حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل پر ہوئے بار بار فرماتے کہ آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی کہ رسول کریم ﷺ کو اس طرح گالیاں دی جاتیں اور آپ چکے بیٹھے سنتے رہتے آپ کو چاہئے تھا کہ پروٹسٹ کرتے اور اسی وقت اُٹھ کر آ جاتے ، آپ کی غیرت نے یہ کس طرح گوارا کیا کہ آپ ایک منٹ بھی وہاں بیٹھیں.غرض آپ اس قدر ناراض ہوئے کہ معلوم ہوتا تھا شاید جماعت سے خارج کر دیں مولوی محمد احسن صاحب جلسہ میں نہیں گئے تھے مجھے یاد ہے چلتے چلتے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتوں کی تصدیق بھی کرتے جاتے تھے اور پھر ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جاتے تھے کہ ذہول ہو گیا ذہول کا لفظ میں نے اُن سے ہی اُس وقت پہلی دفعہ سنا اور وہ یہ بات بار بار اس طرح کہتے تھے کہ جس سے ہنسی آ جائے.افسوس کا اظہار بھی کرتے جاتے تھے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہتے جاتے کہ ذہول ہو گیا.خیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تھوڑی دیر بعد معاف کر دیا تو ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فیصلہ موجود ہے.میں جانتا ہوں کہ ڈائرسٹ (DIARIST) کے لئے ضروری ہے کہ جائے اور نوٹ لے کر اپنی جماعت کو اطلاع دے.پھر اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ ان گالیوں کو ہم بعد میں کتاب کی صورت میں شائع کر دیں کیونکہ یہ بھی سلسلہ کی تائید کا ایک حصہ ہے لیکن اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھنا، اس مجلس کے اعزاز کو بڑھانا ہے ہم انہیں کتابوں میں لکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو ان باتوں سے آگاہ کرنا ضروری ہے مگر مجلس میں جا کر بیٹھنے سے نہ آئندہ نسلوں کو کوئی فائدہ ہے اور نہ موجودہ زمانہ
تذکار مهدی ) 336 روایات سید نامحمودی کے لوگوں کو ، اور جو ایسی مجالس میں جاتے ہیں وہ غیرت کو پامال کرتے ہیں.پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ڈائرسٹوں کے سوا ایسی مجالس میں کوئی نہ جائے.آریہ سے تبلیغ خطبات محمود جلد 16 صفحہ 298 تا 300 ) | ہمارے سلسلہ میں بیسیوں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کو سچی خوا نہیں آتی اور الہامات ہوتے ہیں اسی طرح ان سے بھی فیض اور برکت کا سلسلہ جاری ہو جائے گا اور وہ جماعت کی روحانی زندگی کا موجب بنیں گے.حقیقت یہی ہے کہ جب تک ایسے لوگ قائم رہتے ہیں جماعتیں زندہ رہتی ہیں اور خدا تعالیٰ سے ملنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کی تڑپ دلوں میں تازہ رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ لو.آپ اس امر پر کتنا زور دیا.کرتے تھے کہ پرانے نبیوں کی باتیں اب قصوں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتیں.اگر تم تازہ نشانات دیکھنا چاہتے ہو تو میرے پاس آؤ اور میرے نشانات کو دیکھو.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لوگ نئے نشانات کے محتاج تھے.تو اب بھی محتاج ہیں اور اگر ایسے نوجوان ہماری جماعت میں ترقی کرتے چلے جائیں اور وہ بیسیوں سے سینکڑوں اور سینکڑوں سے ہزاروں ہو جائیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری کی یہ عادت ہوا کرتی تھی کہ ذرا کسی آریہ یا اور کسی مخالف سے بات ہوتی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نقل میں بڑی دلیری سے کہہ دیتے کہ اگر تمہیں اسلام کی صداقت میں شبہ ہے تو آؤ اور مجھ سے شرط کر لو.اگر پندرہ دن کے اندر اندر مجھے کوئی الہام ہوا اور وہ پورا ہو گیا تو تمہیں مسلمان ہونا پڑے گا اور پھر اشتہار لکھ کر اس کی دوکان پر لگا دیتے.چنانچہ کئی دفعہ ان کا الہام پورا ہو جاتا اور پھر وہ آریہ ان سے چھپتا پھرتا کہ اب یہ میرے پیچھے پڑ جائیں گے اور کہیں گے کہ مسلمان ہو جاؤ اور اگر یہ نمونے قائم رہیں تو غیر مذاہب پر ہمیشہ کے لئے اسلام اور احمدیت کی فوقیت ثابت ہو سکتی ہے اور اگر یہ نمونے نہ رہیں.یا ہماری جماعت کے دوست اس عارضی دھکہ کو جو میری بیماری کی وجہ سے انہیں پہنچا ہے.اپنی مستقل نیکی اور توجہ الی اللہ کا ذریعہ نہ بنا لیں.تو ہو سکتا ہے کہ اس میں وقفہ پڑ جائے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وقفہ پڑا اور اسلام لوگوں کو صرف
تذکار مهدی ) 337 روایات سید نا محمود ایک قصہ نظر آنے لگا.لیکن اگر انہوں نے اس انعام کو مستقل بنا لیا تو اللہ تعالی کے فضل سے قیامت تک یہ سلسلہ برکات جاری رہے گا اور ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک یہ سلسلہ اُسی طرح پہنچے گا..قبولیت دعا کا اصل معیار وہ ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیش فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ سو دو سو ایسے مریض لے لئے جائیں.جو شدید امراض میں مبتلا ہوں یا جنہیں ڈاکٹروں نے لا علاج قرار دے دیا ہو اور پھر قرعہ کے ذریعہ ان کو آپس میں تقسیم کر لیا جائے اور ان کی شفا کے لئے دعا کی جائے پھر جس کی دعا سے زیادہ مریض اچھے ہو جائیں وہ سچا سمجھا جائے.لیکن یہ کوئی طریق نہیں کہ ایک شخص کو بلایا اور اسے کہہ دیا کہ تم اچھے ہو گئے ہو کیونکہ کئی وہمی طبائع ہوتی ہیں.وہ صرف اتنی بات سے ہی کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہمیں بڑا فائدہ ہوا.پس کسی مذہب کی صداقت اور راستبازی معلوم کرنے کا صحیح طریق یہی ہے کہ ڈاکٹروں کے لا علاج قرار دیئے ہوئے مریضوں کو قرعہ اندازی کے ذریعہ آپس میں تقسیم کیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی دعا سے زیادہ مریض شفایاب ہوتے ہیں.بہر حال اس طریق کو جاری رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.تا کہ ہمیشہ اسلام کی زندگی کا ثبوت مہیا ہوتا رہے اور ہمارے نو جوان اس بات پر فخر کر سکیں کہ ہمارے ذریعہ سے پہلے انبیاء کی روحانیت دنیا میں زندہ ہو رہی ہے اور ہم وہ بلب ہیں جس سے بجلی روشن ہوتی ہے.( الفضل 22 جون 1956ء جلد 45/10 نمبر 145 صفحہ 4 ) آریوں کے جلسہ کے لئے تقریری مقابلہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ لیکچر لکھا.جو آریوں کی مجلس میں پڑھا گیا اور جس کے نتیجہ میں چشمہ معرفت کتاب لکھی گئی.اس وقت مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو چکے تھے.ان جیسی آواز والا جماعت میں کوئی اور شخص موجود نہیں تھا اور یہ سوال در پیش تھا کہ یہ تقریر کون پڑھے.تجویز یہ ہوئی کہ مقابلہ کر کے دیکھا جائے کہ کون شخص زیادہ موزوں ہے کہ اسے تقریر پڑھنے کے لئے کہا جائے.مختلف لوگوں نے وہ تقریر پڑھی بڑے بڑے لوگوں میں سے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل، مرزا یعقوب بیگ صاحب، اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.ان کے علاوہ اور لوگ بھی تھے.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی.لیکن میں خیال کرتا ہوں (شاید یہ اندازہ اب موجودہ عمر کے لحاظ سے ہو ) کہ اگر میں
تذکار مهدی 338 روایات سید نا محمودی وہ تقریر پڑھتا تو غالباً اچھی پڑھتا.لیکن حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی آواز زیادہ بلند نہ تھی اگر چہ آہستہ زور پکڑ کر وہ موثر ہو جایا کرتی تھی.لیکن وہ اس مقام تک نہیں پہنچتی تھی.جہاں تقریر کرنے والا جوش کے ساتھ سامعین کو اپنے ساتھ بہا لے جایا کرتا ہے.یوں تقریر کے لحاظ سے آپ کی آواز میں بڑا اثر تھا اور مضمون سامعین کے ذہن نشین ہو جا تا تھا اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا تھا.لیکن پڑھنے میں یہ طریق کامیاب نہیں ہوتا حضرت خلیفہ اسح الاول نے وہ مضمون تو پڑھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے پڑھنے کے طریق پر مطمئن نہ ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح اول کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مضمون پڑھنا شروع کیا.ان کی آواز باریک تھی.دوسرے وہ عربی سے ناواقف تھے اور مضمون میں چونکہ کثرت سے قرآنی آیات تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے غلط پڑھنا شروع کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.یہ بھی موزوں نہیں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھنا شروع کیا.انہوں نے یہ خیال کیا کہ پہلے دونوں کی آواز میں چونکہ بلندی اور گرج نہیں تھی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا طریق بیان پسند نہیں فرمایا.چنانچہ انہوں نے بڑے زور کے ساتھ گرج کی سی آواز میں پڑھنا شروع کیا.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آواز جلدی ہی بیٹھ گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تشریف رکھیں.غرض مضمون کو آہستگی سے اور ایسے رنگ میں پڑھنا چاہئے کہ سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے جائیں.جب تک سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے نہیں جاتے اور جب تک ان کا پڑھنے والے کی آواز کے ساتھ اشتراک پیدا نہیں ہوتا.اس وقت تک وقت تک تقریر میں زور پیدا کرنا ان کو قریب کرنے کی بجائے دور کرنا ہے.( مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات ، انوار العلوم جلد 22 صفحہ 44-45 ) انجمن تشحمید الا ذبان میں چاہتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اپنے کام میں اس امر کو بھی مدنظر رکھیں اور نو جوانوں کے ذہنوں کو تیز کریں.ہم نے بچپن میں جو سب سے پہلی انجمن بنائی تھی.اس کا نام تفخیذ الا ذہان تھا یعنی ذہنوں کو تیز کرنے کی انجمن.اس کے نام کا تصور کر کے بھی میرا ایمان تازہ
تذکار مهدی ) 339 روایات سید نا محمودی ہو جاتا ہے اور میرا دل خوشی سے بھر جاتا ہے کہ انبیاء کے ذہن کیسے تیز ہوتے ہیں اور کس طرح وہ معمولی باتوں میں بڑے بڑے اہم نقائص کی اصلاح کی طرف توجہ دلا دیتے ہیں کہ آج ایک وسیع تجربہ کے بعد جو بات مجھ پر ظاہر ہوئی ہے اس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت سادگی کے ساتھ صرف دو لفظوں میں توجہ دلا دی تھی.کیونکہ جب ہم نے ایک انجمن بنانے کا ارادہ کیا.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کا کوئی نام تجویز فرما ئیں تو آپ نے اس انجمن کا نام تفخیذ الا بان تجویز فرمایا یعنی ذہنوں کو تیز کرنا.رسالہ تفخیذ الاذہان بعد میں اسی وجہ سے اس نام پر جاری ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انجمن کا نام تفخیذ الاذہان رکھا تھا اور چونکہ اسی انجمن نے یہ رسالہ جاری کیا اس لئے اس کا نام بھی تشخحید الاذہان رکھ دیا گیا.پس ہماری انجمن کا نام ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفخیذ الاذہان رکھا تھا.یعنی وہ انجمن جس کے ممبران کا یہ فرض ہے کہ وہ ذہنوں کو تیز کریں اور در حقیقت بچپن میں ہی ذہن تیز ہو سکتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس لحاظ سے بہت بڑی ذمہ واری استادوں پر عائد ہوتی ہے مگر افسوس ہے کہ ہم اپنے بچوں کے بہت سے اوقات کتابوں میں ضائع کر دیتے ہیں اور وہ حقیقی فائدہ جس سے قوم ترقی کرتی ہے اس کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں.حالانکہ ہمارا فرض ہے کہ ہماری کھیلیں اس رنگ کی ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں ہماری تعلیم اس رنگ کی ہو جس سے ہماری تعلیم اس رنگ کی ہو.جس سے ہمارے ذہن تیز ہوں.ہماری انجمنوں کے کام اس رنگ کے ہوں جن سے ہمارے ذہن تیز ہوں اور یہ چیز علم سے بھی مقدم ہونی چاہیئے کیونکہ تھوڑے علم سے انسان نجات پاسکتا ہے لیکن ذہن کے گند ہونے کی وجہ سے خواہ انسان کے پاس کتنا بڑا علم ہو.نجات سے محروم رہ جاتا ہے.ہم یورپین قوموں کو دیکھتے ہیں ایک لمبے تجربہ کی وجہ سے اُن میں ذہانت کا نہایت بلند معیار قائم ہے حالانکہ وہ شراب نوش قو میں ہیں وہ سور کھاتی ہیں مگر باوجود شراب نوشی اور مردار خوار ہونے کے ان کے ذہن نہایت تیز ہوتے ہیں کیونکہ ایک وسیع تجربہ نے ان کے دماغوں میں نہایت صفائی پیدا کر دی ہے.(الفضل 21 مارچ 1939 ء جلد 27 نمبر 65 صفحہ 5 ) رسالہ تشحمید الاذہان کا اجراء جس وقت میں نے یہ انجمن قائم کی تھی اس وقت ہم صرف سات لڑکوں نے اسے
تذکار مهدی ) 6340 ☀ روایات سید نا محمود اپنے خرچ پر جاری کیا تھا.اس وقت تحریک جدید کے ایک سو چالیس لڑکے ہیں مگر وہ اُن سات جیسا کام کر کے بھی نہیں دکھا سکتے.ہم کل سات لڑکے تھے مگر ہم نے دس روپیہ ماہوار کا ایک نوکر بھی رکھا ہوا تھا ہماری مالی حالت اس وقت جو کچھ تھی اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تین روپیہ ماہوار وظیفہ ملا کرتا تھا جو قلم دوات کاغذ اور دوسری ضروریات پر میں خرچ کیا کرتا.مگر ان تین روپوں میں سے بھی میں ایک روپیہ ماہوار اس انجمن پر خرچ کرتا تھا اسی طرح باقی لڑکوں کا حال تھا.اسی سرمایہ سے آہستہ آہستہ ہم نے رسالہ جاری کیا اور چونکہ رسالہ پر ہم خود محنت کیا کرتے تھے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اچھا سرمایہ جمع ہو گیا اور ہمارا کام عمدگی سے چلنے لگا اور ہم نے کام کی سہولت کے لئے دس روپیہ ماہوار پر ایک آدمی رکھنے کا فیصلہ کیا.(الفضل 21 مارچ 1939ء جلد 27 نمبر 65 صفحہ 7) جلسہ پر آنے والوں کو نصیحت ہم اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنے کرم اپنے فضل سے، اپنے رحم اور عنایت سے ہم میں یہی محبت پیدا کر دی اور ہمیں ہدایت کے اس چشمہ پر پہنچا دیا ہے جو پیاسی اور مضطر دنیا کو سیراب کرنے کے لئے اس زمانہ میں اس نے خود پھاڑا ہے ورنہ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے دنیا اور اس کے تمام ساز و سامان ہم میں کبھی یہ محبت اور اخلاص پیدا نہیں کر سکتے خدا تعالیٰ کے اس شکر کے بعد میں ان تمام دوستوں کو جو یہاں جمع ہوئے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہراس چیز کے ساتھ جو خوشی کا موجب ہوتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے اور جہاں پھول پائے جاتے ہیں وہاں خار بھی ہوتے ہیں.اس طرح ترقی کے ساتھ حسد بغض اور اقبال کے ساتھ زوال لگا ہوتا ہے.غرض ہر چیز جو اچھی اور اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کے راستہ میں کچھ مخالف طاقتیں بھی ہوا کرتی ہیں اور اصل بات یہ ہے کہ کوئی شخص اس وقت تک اس بات کا مستحق ہی نہیں کہ اسے کامیابی حاصل ہو جب تک وہ مصائب اور تکالیف کو برداشت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں.کبھی تو ان پر ایسے ایسے ابتلاء آتے ہیں کہ کمزور اور کچے ایمان والے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی تکالیف پیش آتی ہیں مگر بعض کمزور ایمان والے ان سے بھی ٹھو کر کھا جاتے ہیں.مجھے یاد ہے قادیان
تذکار مهدی ) 341 روایات سید نا محمود میں ایک دفعہ پشاور سے ایک مہمان آیا.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے نبیوں سے ان کے متبعین کو خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اور انہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اور بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے.جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر نکلے تو آپ کے اردگرد بہت بڑا ہجوم ہو گیا.اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کر اپنے ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا اتنی بھیٹر میں کہاں جگہ مل سکتی ہے؟ اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کر.خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جدا ہو جاوے یہ مواقع روز روز نہیں ملا کرتے.چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا.غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمت گاروں کو دیکھ کر بھی اہل پڑتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تو لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے.گو اس وقت تھوڑے ہی لوگ ہوتے تھے تاہم ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں سب سے قریب بیٹھوں.اس شخص کے مقدر میں چونکہ ابتلاء تھا اس لئے اسے خیال نہ آیا کہ میں کس شخص کی مجلس میں آیا ہوں.اس نے سنتیں پڑھنی شروع کیں اور اتنی لمبی کر دیں کہ پہلے تو کچھ عرصہ لوگ اس کا انتظار کرتے رہے مگر جب انتظار کرنے والوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ ہم سے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور قریب کی جگہ حاصل کر رہے ہیں تو وہ بھی جلدی سے آگے بڑھ کے حضرت صاحب کے پاس جا بیٹھے.مگر ان کے جلدی کے ساتھ گزرنے سے کسی کی کہنی اسے لگ گئی.اس پر وہ سخت ناراض ہو کر کہنے لگا اچھا نبی اور مسیح موعود (علیہ السلام ) ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکریں مارتے ہیں.اتنی سی بات پر وہ مرتد ہو کر چلا گیا.گویا جو چیز ایمان کی ترقی کا باعث ہے اب بھی ہو سکتی ہے وہ اس کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگئی اور اس کی مثال اس جماعت کی سی ہو گئی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” جب روشنی ہوئی تو ان کا نور جاتا رہا.“ آپ لوگ جو ان دنوں قادیان آئے ہیں ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت ہجوم اور
تذکار مهدی ) 342 روایات سید نا محمودی کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے آپ لوگوں کو بہت سی تکلیفیں پہنچ جاتی ہیں.جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے جلسہ کے قریب میرے خطبے جو اخبار میں چھپتے ہیں ان میں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ پوری کوشش اور سعی سے مہمان نوازی کریں اور حتی الامکان وہ بہت کوشش کرتے ہیں مگر پھر بھی اتنے بڑے ہجوم کے انتظام میں وہ کہاں پورے اتر سکتے ہیں.جلسہ سالانہ پر تمام احمد یوں کو آنا چاہئے خطبات محمود جلد 11 صفحہ 544 تا 546 ) جلسہ سالانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقرر کردہ ہے اور آپ نے نہایت ہی زور سے اس میں شامل ہونے کی تاکید فرمائی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام متواتر اور بار بار توجہ دلایا کرتے تھے کہ اس میں تمام احمد یوں کو آنا چاہئے کیونکہ اس میں آنے سے بہت سے روحانی فائدے حاصل ہوتے ہیں.یہ حضرت صاحب کی توجہ دلانے کا ہی نتیجہ ہے کہ ہمارے جلسہ میں کثرت سے لوگ آتے ہیں.پس جو کثرت لوگوں کی ہمارے جلسہ میں ہوتی ہے وہ دوسرے لوگوں کے با قاعدہ جلسوں میں نہیں ہوتی البتہ میلوں وغیرہ میں ہو جاتی ہے یا پیروں کے عرس پر ہوتی ہے.جلسہ میں حضرت مسیح موعود کی تقریر لازمی تھی خطبات محمود جلد نمبر 9 صفحہ 314-313 ) | اس دفعہ ایک شکایت یہ بھی آئی ہے کہ جلسہ سالانہ کا تقریری پروگرام بہت لمبا ہوتا ہے اور لوگ اتنا لمبا پروگرام نہیں سن سکتے.کچھ وقت آرام کے لیے بھی ہونا چاہیے.اس کا طریق یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تقریریں چھوٹی کر دی جائیں اور اس طرح کچھ وقت آرام کے لیے نکال لیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک تقریر آپ کی ہوتی تھی اور ایک آدھ تقریر کسی اور عالم کی ہو جاتی تھی.باقی جہاں مہمان ٹھہرے ہوئے ہوتے تھے وہاں عادی لیکچرار پہنچ جاتے تھے اور تقریریں کر آتے تھے ورنہ دن کا اکثر حصہ خالی رہتا تھا.لیکن ہمارے ہاں ایسا طریق جاری ہو گیا ہے کہ ہم لوگوں کو سارا دن مشغول رکھتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چالیس فیصدی لوگ جلسہ گاہ سے باہر پھرتے رہتے ہیں.لکھنے والوں نے تو بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا ہے کہ ساٹھ فیصدی لوگ باہر پھرتے رہتے ہیں.لیکن یہ
تذکار مهدی ) 343 روایات سید نا محمود حقیقت ہے کہ بیس فیصدی یا چالیس فیصدی لوگ جلسہ گاہ سے باہر آ جاتے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ اتنے لمبے پروگرام کو برداشت نہیں کر سکتے.اب جس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ذمہ داری عائد ہے اس نے تو لازمی طور پر تقریر کرنی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت آپ کی تقریر لازمی تھی.حضرت خلیفتہ امسیح اوّل کے زمانہ میں آپ کی تقریر لازمی تھی اور اب میری تقریر لازمی ہے.باقی پروگرام محض ضمنی ہوتا ہے.پس پروگرام اس شکل میں بنانا چاہیے کہ لوگوں پر بوجھ نہ ہو.اس دفعہ چھوٹی تقریریں رکھی گئی تھیں لیکن مقررین نے شور مچا دیا کہ ہمیں وقت تھوڑا دیا گیا ہے.اگر لمبی تقریریں ضروری ہوں تو پھر صرف چند تقاریر ہو جائیں ( اور ضروری نہیں کہ ہر جلسہ پر اُس شخص کی تقریر ہو جس کی تقریر ایک دفعہ رکھی جا چکی ہے.باری باری مختلف جلسوں میں مختلف لوگوں کی تقریر رکھی جا سکتی ہے).اس طرح آرام کے لیے وقفہ زیادہ ہو جائے گا اور سننے والوں کے لیے سہولت پیدا ہو جائے گی.پھر بیشک لوگوں پر سختی کی جائے کہ وہ تقاریر کے دوران میں جلسہ گاہ سے باہر نہ جائیں.اس کے بعد جس طرح پہلے بعض لوگ اقامت گاہوں میں جا کر تقاریر کیا کرتے تھے اُسی طرح اب بھی ہو سکتا ہے.ہماری جماعت میں بابا حسن محمد صاحب والد مولوی رحمت علی صاحب کو اس قسم کی تقاریر کا بہت شوق تھا.اللہ بخش صاحب ہے ہالی کے ایک شاعر تھے.اُن کو بھی تقریر کرنے کا بہت شوق تھا.اسی طرح بعض اور دوست تھے انہیں بھی تقریر کرنے کا شوق ہوتا تھا.میں نے دیکھا ہے کہ یہ لوگ اقامت گاہوں میں چلے جاتے اور تقریر شروع کر دیتے.اسی طرح اب بھی شائقین یا کسی پروگرام کے ماتحت بعض لیکچرارا قامت گاہوں میں چلے جائیں اور وہاں تقاریر کریں تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس قسم کی تقاریر کو سننا لوگوں کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتا ہے.بہر حال زمانہ کے بدلنے کا لحاظ رکھنا چاہئے اب زائرین پہلے جلسوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور اُن کو آرام سے دیر تک نہیں بٹھایا جا سکتا اور لوگوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولت مہیا کرنی چاہئے تا کہ وہ جلسہ کے پروگرام سے صحیح طور پر فائدہ اُٹھا سکیں.(الفضل 16 دسمبر 1954 ء جلد 43/8 نمبر 65 صفحہ 5) حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بدظنی کرنے والے وہ لوگ جو ہم سے علیحدہ ہو گئے ہیں ان میں اپنے بھائیوں پر بدظنی کرنے کی عادت
تذکار مهدی ) 344 روایات سید نا محمودی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ حضرت صاحب کی نسبت کہہ گزرے کہ آپ جماعت کا روپیہ اپنے ذاتی مصارف پر خرچ کر لیتے ہیں.حضرت صاحب کو آخری وقت میں یہ بات معلوم ہو گئی تھی اور آپ نے مجھے فرمایا کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ لنگر کے لئے جو روپیہ آتا ہے اسے میں اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کر لیتا ہوں مگر ان کو معلوم نہیں لوگ جو میرے لئے نذروں کا روپیہ لاتے ہیں میں تو اس میں سے بھی لنگر کے لئے خرچ کرتا ہوں“ چنانچہ میں آپ کے منی آرڈر لایا کرتا تھا اور مجھے خوب معلوم ہے کہ لنگر کا روپیہ بہت تھوڑا آیا کرتا تھا اور اتنا تھوڑا آیا کرتا تھا کہ اس سے خرچ نہ چل سکتا تھا.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا تھا کہ اگر میں لنگر کا انتظام ان لوگوں کے سپر د کر دوں تو یہ کبھی اس کے اخراجات کو پورا نہ کر سکیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اب تک اس بدظنی کا خمیازہ بھگتا جا رہا ہے کہ لنگر کا فنڈ ہمیشہ مقروض رہتا ہے.(اکم جوبلی نمبر نمبر 1931ء جلد 42 نمبر 21,22 صفحہ 11) ہمارا کام ختم ہو چکا اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے نبی کی وفات کے معا بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے بھی نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معا بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ایسا ہی رسول کریم جو کے زمانہ میں ہوا اور ایسا ہی مسیح ناصری اور موسیٰ علیہم السلام کے زمانہ میں ہوا.ایسا ہی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوا.آپ کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ہوا اس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے.مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلہ میں جہاں بڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اثر دہام کو دیکھ کر آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے ہمارا کام ختم ہو چکا ہے کیونکہ اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں.پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے اب تو ہمارے جلسہ میں سات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آگئے ہیں.یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا.مجھے یاد ہے جب لنگر خانہ کا خرچ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات
تذکار مهدی ) 345 کو روایات سید نا محمود کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگر خانہ کا سارا خرچ دے سکتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرمائی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا اب تو روپیہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی میرا خیال ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا.تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کیلئے تشریف لے گئے.جب واپس آئے تو اس وقت مسکرا رہے تھے.واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرہ میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بدظنی سے کام لے لیتا ہے.میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لیئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی.میں نے اس کی حالت دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے.مگر جب گھر آ کر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا.اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا تھا.آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گا ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سے سارے سال کا خرچ لے لولیکن خدا کے لئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک دن دیکھنے دو.مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہو سکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قربانی کرنے والوں کو نصیب ہوئی.افسوس کہ لوگوں کے سامنے قربانی کے مواقع ہیں تو وہ ان سے منہ پھیر لیتے ہیں اور جب وقت گزر جاتا ہے تو حسرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کاش ہم نے فائدہ اٹھایا ہوتا.کاش ہم نے وقت کو ضائع نہ کیا ہوتا.اب بھی خدا تعالیٰ نے ان کے لئے ایک بڑا
تذکار مهدی ) 346 روایات سید نا محمودی موقعہ پیدا کیا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کا موعود ان میں موجود ہے اگر وہ چاہیں تو صحابہ کی سی خدمات کر کے صحابہ کے سے انعامات حاصل کر سکتے ہیں.مگر کتنے ہیں جو اس نعمت کی قدر کرتے ہیں.ہاں بہت لوگ اس وقت روئیں گے اور آہیں بھریں گے جب وہ زمانہ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا.( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه 341-340) خدا تعالیٰ خود رزق دیتا ہے میں نے کئی دفعہ سنایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب زلزلہ کے الہامات کی وجہ سے باغ میں تشریف لے گئے.تو ایک دن آپ نے گھر میں حضرت ام المومنین سے باتیں کرتے ہوئے فرمایا کہ روپیہ بالکل نہیں رہا.ہمارا خیال ہے کہ بعض دوستوں سے قرض لے لیا جائے.مگر پھر آپ نے فرمایا کہ یہ بھی تو کل کے خلاف ہے.اس کے بعد آپ مسجد میں گئے اور نماز ہوئی.جب واپس آئے تو آپ نے ایک پوٹلی نکالی اور اس کو کھولا اور پھر اسے دیکھ کر فرمانے لگے (میں بھی اس وقت پاس ہی کھڑا تھا) کہ جب میں نماز کے لئے باہر گیا تو ایک غریب آدمی جس کے کپڑے پھٹے پرانے تھے.اس نے یہ پوٹلی ہماری جیب میں ڈال دی اور چونکہ یہ بوجھل تھی.میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے وغیرہ ہوں گے مگر جب گھر آکر میں نے اس پوٹلی کو کھولا تو اس میں سے روپے اور نوٹ نکلے.پھر آپ نے ان روپوں اور نوٹوں کو گنا تو وہ چار پانچ صد کے قریب نکلے.آپ نے فرمایا اگر ہم قرض لیتے تو یہ تو کل کے خلاف ہوتا ادھر ہمیں ضرورت پیش آئی اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے ذریعہ سے روپیہ بہم پہنچا دیا جس کا ہمیں وہم اور خیال بھی نہیں تھا.میں نے خود اپنی ذات میں خصوصاً قادیان سے نکلنے کے بعد خدا تعالیٰ کے ایسے ہی نشانات دیکھے ہیں.ایسے انسان جن کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ وہ اس بات کے محتاج ہیں کہ میں ان کی مدد کروں وہ اصرار کر کے مجھے ایسی رقوم دے گئے کہ میرے وہم میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ وہ اتنا روپیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں.کثرت سے مال آنے کی پیشگوئی (الفضل 6 اکتوبر 1949 ء جلد 37/3 نمبر 228 صفحہ 4 | پس اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا
تذکار مهدی ) 347 روایات سید نا محمود زمانہ نصیب ہوا.اس کے مقابلہ میں دنیا کے مال اور دوسری چیز میں کیا حقیقت رکھتی ہیں.آج سے سو سال بعد دنیا کا جو بہت بڑا بادشاہ ہو اُس میں اگر احمدیت کا ایمان ہوگا تو وہ کہے گا آج بادشاہ ہونے کی بجائے اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈیوڑھی کا دربان ہوتا یا آپ کی بستی میں تنور کی دُکان کرتا تو بہت اچھا ہوتا.پس یہ دنیا کی چیزیں ہیں کیا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام الوصیت میں تحریر فرماتے ہیں.احمدیت کے لئے مال آئیں گے اور ضرور آئیں گے اس بات کا مجھے ڈر نہیں البتہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ ان اموال کو سنبھالنے والے دیانت دار ملیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت ایک لاکھ روپیہ آنا بھی ناممکن سمجھا جاتا تھا مگر اب آٹھ دس لاکھ روپیہ سالانہ آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو بعض اوقات ایسی حالت ہوتی تھی کہ اُس کا خیال کر کے رقت آجاتی ہے.زلزلہ کے دنوں میں جب اعلان کیا گیا کہ عذاب آنے والا ہے تو باہر سے مہمان زیادہ آنے لگے اور کثرت سے لوگ باغ میں ٹھہرے ہوئے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے والدہ کو بلایا اور کہا آج میرے پاس کچھ ہے نہیں کہیں سے کچھ قرض لے لیں.یہ کہہ کر آپ نماز کیلئے گئے جب واپس آئے تو اندر جا کر دروازہ بند کر لیا اور پھر مسکراتے ہوئے باہر آئے اور والدہ سے فرمایا.میں نے ابھی کہیں سے قرض لینے کیلئے کہا تھا مگر ایک غریب نے جس کے تن کے کپڑے بھی ثابت نہ تھے یہ پوٹلی مجھے دی ہے.میں سمجھا اس میں دھیلے پیسے ہوں گے مگر جب اندر جا کر میں نے اسے کھولا تو اس میں سے دوسو سے زیادہ روپیہ نکلا ہے معلوم نہیں کس حالت میں وہ شخص لایا ہے.( بعض اہم اور ضروری امور 1943ء، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 51-52) بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں زلزلہ کے ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ دنوں کیلئے باغ میں رہائش اختیار کر لی تھی چونکہ الہاموں سے اور زلزلوں کا پتہ چلتا تھا اس لئے آپ کا خیال تھا کہ ایسا نہ ہو وہ قریب میں آنے والے ہوں.ان ایام کی بات ہے کہ ایک جگہ پر مختلف جھونپڑیاں بنائی گئی تھیں جن میں مختلف دوست رہتے تھے.ایک جھونپڑی میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم
تذکار مهدی ) کارمهدی 348 روایات سید نا محمودی رہتے تھے اور ان کے ساتھ والی جھونپڑی میں ایک اور دوست رہتے تھے.مولوی صاحب کی طبیعت میں سخت تیزی تھی اور اس دوست کی طبیعت میں بہت نرمی تھی وہ شہر میں بھی مولوی صاحب کے پڑوس میں ہی رہا کرتے تھے مگر وہاں جھونپڑیاں بہت ہی پاس پاس ہو گئیں.اس دوست کے بچوں کو رونے کی بہت عادت تھی ادھر مولوی صاحب کی طبیعت بہت نازک تھی وہاں بہت زیادہ قریب رہنے کی وجہ سے بچوں کا شور سنتے سنتے مولوی صاحب سخت تنگ آگئے.ایک دن آپ نے اس دوست کو بلایا اور کہا کہ مجھے آپ پر سخت تعجب آتا ہے اور میں حیران ہوں کہ آپ کس طرح کے آدمی ہیں میں نے گھر پر بھی دیکھا ہے کہ آپ کے ہاں سے شور اور اودھم مچانے کی آوازیں برابر آتی رہتی ہیں مگر وہاں تو کچھ فاصلہ تھا اور اب تو جھونپڑیاں زیادہ قریب ہونے کی وجہ سے میں بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں باہر آکر ان بچوں کو خوب ماروں اور آپ پر مجھے سخت تعجب ہے کہ آپ پاس رہتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں کہتے.یہ سن کر اس دوست نے کہا کہ مولوی صاحب مجھے بھی آپ پر سخت تعجب ہے کہ وہ میرے پاس شور کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں یہ نادان ہیں بچوں کا کام ہی شور کرنا ہوتا ہے باوجود اس قدر قریب ہونے کے مجھے کوئی غصہ اور جوش نہیں آتا اور میں حیران ہوں کہ آپ کو اس قدر دور بیٹھے ہوئے کیوں اس قدر جوش آتا ہے.گویا مختلف طبائع نے ایک ہی واقعہ سے الگ الگ اثر قبول کیا.ایک نے یہ اثر قبول کیا کہ ان بچوں کو سزا دینی چاہئے اور ایک نے یہ کہ بچوں کا یہی کام ہے یہ نادان ہیں اور ان کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنی چاہئے یہ اثر اتنا نمایاں تھا کہ ہر ایک کو دوسرے پر تعجب آتا تھا.مولوی صاحب اس بات پر حیران تھے کہ وہ دوست اس قدر شور کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں اور وہ ان پر حیران تھے کہ ان کو یہ خیال کیسے پیدا ہوا کہ بچوں کو سزا دینی چاہئے.پس لوگ عام طور پر خاص خاص جذبات سے خاص خاص اثر قبول کرتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو ایک ہی واقعہ سے مختلف اثر قبول کرتے ہیں اور یہ تفاوت مختلف حالات میں گھٹتا اور بڑھتا جاتا ہے.مگر باوجود اس کے اس میں شبہ نہیں کہ بعض اخلاق دنیا پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور لوگوں کو خاص طور پر اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور ایسے اخلاق میں سے بہادری اور وفاداری خاص طور پر قابل ذکر ہیں.دنیا کا اکثر حصہ ان دو اخلاق سے نہایت ہی متاثر ہوتا ہے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 258 ، 259)
تذکار مهدی ) نظام پر اعتراض نہیں کرنے چاہئیں 349 روایات سید نا محمود میں ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ ان کا مجھ پر اس قسم کے حملے کرنا کوئی معمولی بات نہیں وہ مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر حملے کر رہے ہیں.مجھے اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اور اُسی نے اپنی تائید اور نصرت کو ہمیشہ میرے شاملِ حال رکھا ہے اور سوائے ایک نابینا اور مادر زاد اندھے کے اور کوئی نہیں جو اِس بات سے انکار کر سکے کہ خدا نے ہمیشہ آسمان سے میری مدد کیلئے اپنے فرشتے نازل کئے.پس تم اب بھی اعتراض کر کے دیکھ لو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ان اعتراضات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے.اس قسم کے اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کئے گئے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب کسی نے ایسا ہی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا تم پر حرام ہے کہ آئندہ سلسلے کیلئے ایک حبہ بھی بھیجو.پھر دیکھو کہ خدا کے سلسلے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.میں بھی ان لوگوں کو اسی طریق پر کہتا ہوں کہ تم پر حرام ہے کہ آئندہ ایک پیسہ بھی سلسلہ کی مدد کے لئے دو اور گومیری عادت نہیں کہ میں سخت لفظ استعمال کروں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر تم میں ذرہ بھی شرافت باقی ہو تو اس کے بعد ایک دمری تک سلسلہ کے لئے نہ دو اور پھر دیکھو سلسلہ کا کام چلتا ہے یا نہیں چلتا.اللہ تعالیٰ غیب سے میری نصرت کا سامان پیدا فرمائے گا اور غیب سے ایسے لوگوں کو الہام کرے گا جو مخلص ہوں گے اور جو سلسلہ کے لئے اپنے اموال قربان کرنا اپنے لئے باعث فخر سمجھیں گے.کیا تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے اسی مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مقبرہ میں دفن ہونے کے بارہ میں میرے اہل و عیال کی نسبت خدا تعالیٰ نے استثناء رکھا ہے اور وہ وصیت کے بغیر بہشتی مقبرہ میں داخل ہوں گے اور جو شخص اس پر اعتراض کرے گا وہ منافق ہوگا.اگر ہم لوگوں کا روپیہ کھانے والے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ایک امتیازی نشان کیوں قائم فرما تا اور بغیر وصیت کے ہمیں مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کی کیوں اجازت دیتا.پس جو ہم پر حملہ کرتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے.مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ باغ میں گئے اور فرمایا مجھے یہاں چاندی کی بنی ہوئی قبر میں دکھلائی گئی ہیں اور ایک فرشتہ مجھے کہتا ہے کہ یہ تیری اور تیرے اہل وعیال کی قبریں ہیں اور اسی وجہ سے وہ قطعہ
تذکار مهدی ) 350 روایات سید نا محمود آپ کے خاندان کے لئے مخصوص کیا گیا ہے.گو یہ خواب اس طرح چھپی ہوئی نہیں لیکن مجھے یاد ہے کہ آپ نے اسی طرح ذکر فرمایا.پس خدا نے ہماری قبریں بھی چاندی کی کر کے دکھا دیں اور لوگوں کو بتادیا کہ تم تو کہتے ہو یہ اپنی زندگی میں لوگوں کا روپیہ کھاتے ہیں اور ہم تو ان کے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو ان کے ذریعہ سے فیض پہنچائیں گے.پس اللہ تعالیٰ ہماری مٹی کو بھی چاندی بنا رہا ہے اور تم اعتراضات سے اپنی چاندی کو بھی مٹی بنارہے ہو.چونکہ منافق عام طور پر پوشیدہ باتیں کرنے کا عادی ہوتا ہے اس لئے میں نے کھلے طور پر ان باتوں پر روشنی ڈال دی ہے ورنہ مجھے اس بات سے سخت شرم آتی ہے کہ میں خدا تعالیٰ کیلئے کچھ چندہ دوں اور پھر کہتا پھروں کہ میں نے اتنا چندہ دیا ہے.مگر چونکہ یہ ایک سوال اُٹھایا گیا تھا اس لئے مجھے مجبوراً بتانا پڑا کہ اگر اپنے تمام خاندان کا چندہ ملالیا جائے تو اس رقم سے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے کھالی، پانچ گنا زیادہ رقم ہم چندہ میں دے چکے ہیں اور جو ر تم صرف میرے اہل و عیال کی طرف سے خزانہ میں داخل ہوئی ہے، وہ بھی اس سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی عظمند یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ ہم نے پانچ گنے زیادہ رقم اس لئے خرچ کی تا اس کا پانچواں حصہ کسی طرح کھا جائیں.پس ان لوگوں کو جو یہ اعتراض کرتے ہیں خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اُس وقت سے پیشتر اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے جبکہ ان کا ایمان اُڑ جائے اور وہ دہریہ اور مرتد ہو کر مریں.اللہ کے بندوں کو غیب سے رزق ملتا ہے ( خطبات محمود جلد 18 صفحہ 188 ، 189 ) پس تم مومن بنو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے پاس سے رزق دے گا ورنہ لالچی کا پیٹ دنیا میں کوئی نہیں بھر سکتا.ہاں! لالچ کو دل سے نکال دو تو اللہ تعالیٰ تمہاری ضروریات پوری کرنے کا سامان غیب سے کر دے گا.صدرانجمن احمد یہ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتی.پیٹ خدا تعالیٰ ہی بھرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ وہ دل سے لالچ کو دور کر دیتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میرے آٹھ دس سال کی عمر کے پوتے کا پیٹ ایک روٹی سے نہیں بھرتا تھا لیکن میرا پیٹ آدھی روٹی سے بھر جاتا تھا.اس کی وجہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ میری اشتہا آدھی روٹی میں ہی پوری کر دیتا تھا.غرض صلى الله خدا تعالیٰ کے طریق نرالے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم می
تذکار مهدی ) 351 روایات سیّد نا محمود نے جب وفات پائی تو میرے گھر میں سوائے نصف وسق جو کے اور کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی مگر اُسی نصف وسق جو میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت پیدا کی کہ میں ایک عرصہ دراز تک اُس میں سے کھاتی چلی گئی.آخر ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ تول کر دیکھوں کہ کتنے جو ہیں جب میں نے انہیں تو لا تو اُس کے بعد وہ جو ختم ہو گئے.( بخاری کتاب الجہاد باب النفقة نساء النبي بعد وفاته ) وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں.آپ اکثر مشک استعمال فرمایا کرتے تھے.میں نے بھی اخبار میں اعلان شائع کرایا ہے کہ مجھے خالص مشک کی ضرورت ہے.وہ لوگ جو ایسے علاقوں میں رہتے ہیں.جہاں مشک دستیاب ہو سکتا ہے.اگر وہ خالص مشک کے تین چار نافے خرید کر بھجوا دیں اور مجھے قیمت کی اطلاع دے دیں.تو میں ان کو قیمت بھیجوا دوں گا کیونکہ آج کل مجھے شدید سردی محسوس ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے مشک کھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی سردی محسوس ہوتی تھی.اس لئے آپ بھی مشک کھایا کرتے تھے.آپ مشک کی ایک شیشی بھر کر جیب میں رکھ لیتے اور ضرورت کے وقت استعمال کر لیا کرتے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شیشی دو دو سال تک چلی جاتی ہے.لیکن جب خیال آتا ہے کہ مشک تھوڑی رہ گئی ہوگی اور شیشی دیکھتا ہوں تو وہ ختم ہو جاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب سے رزق بھیجتا ہے اور اس کے رزق بھیجنے کے طریق نرالے ہیں.پس تم اس ذات سے مانگو جس کا خزانہ خالی نہیں ہوتا.انجمن سے کیوں مانگتے ہو.جس کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ وہ تمہارے گزارے بڑھا سکے.پس تم خدا پرست بن جاؤ.خدا تعالیٰ غیب سے تمہیں رزق بھیج دے گا.صدر انجمن احمد یہ کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ تمہیں زیادہ گزارے دے سکے.آخر اس کے پاس جو روپیہ آتا ہے وہ جماعت کے چندوں سے ہی آتا ہے اور وہ اس قدر زیادہ نہیں ہوتا.کہ شاہدین کو زیادہ گزارے دیئے جاسکیں.پھر صدرانجمن احمد یہ کیمیا گر نہیں اور نہ ہی وہ ملمع ساز ہے کہ خود سکہ کو سونا بنالے یا ملمع کر کے روپیہ دے دے.خدا تعالیٰ روپیہ بھیجے گا تو اس نے اسے خزانہ میں محفوظ نہیں رکھنا.اس نے بہر حال اسے خرچ کرنا ہے.اس لیے جب اس کے پاس کافی روپیہ آئے گا تو وہ تمہارے گزارے بھی بڑھا دے گی لیکن پھر بھی اصل طریق یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے مانگو جس کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے.خدا تعالیٰ جماعت کے خزانہ میں روپیہ لائے گا تو وہ تمہیں بھی گزارے دے گی.آخر وہ کون بیوقوف ہے جو خزانہ میں روپیہ ہوتے ہوئے بھی کارکنوں کو اچھے گزارے دینے میں کوتاہی کرے گا.(الفضل 18 فروری 1956ءجلد 45/1 نمبر 42 صفحہ 5 )
تذکار مهدی ) جماعت احمدیہ کی ترقی 352 روایات سید نا محمودی تم اس بات سے مت ڈرو کہ اگر یہ لوگ علیحدہ ہو گئے تو چندے کم ہو جائیں گے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تھا تو اس وقت کتنے لوگ چندہ دینے والے تھے.مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی جماعت پیدا کر دی کہ اب صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ سترہ لاکھ روپیہ کا ہوتا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دو چار سال میں ہمارا بجٹ پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ تک پہنچ جائے گا.پس اگر ایک شخص سے چل کر ہماری جماعت کو اتنی ترقی حاصل ہوئی ہے کہ لاکھوں تک ہمارا بجٹ جا پہنچا ہے.تو اگر یہ دس پندرہ آدمی نکل جائیں گے تو کیا ہو جائے گا.ہمیں تو یقین ہے کہ اگر ایک آدمی نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ ہمیں ہزار دیدے گا پس ہمیں ان کے علیحدہ ہونے کا کوئی فکر نہیں.ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ صرف نام کے احمدی نہ ہوں بلکہ عملی طور پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے ہوں.دوران سر کا عارضہ ( روزنامه الفضل 27 جون 1958 ء جلد 47/12 نمبر 149 صفحہ 5) مجھے عید کے قبل سے دوران سر کی تکلیف ہے.بعض دفعہ تو نہ بیٹھا ہوا اُٹھ کر کھڑا ہوسکتا ہوں اور نہ کھڑا ہوا بیٹھ سکتا ہوں.فورا سر چکرا جاتا ہے اور مجھے کسی چیز کا سہارا لے کر اُس حالت کو جس میں میں ہوتا ہوں بدلنا پڑتا ہے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس بیماری میں زیادہ بولنا اور حرکت کرنا منع ہے.جہاں تک ہو سکے لیٹے رہنا چاہیے لیکن مجھے لیٹے رہنے یا خاموش رہنے کا بھی موقع نصیب نہیں ہوسکتا اور یوں بھی اس بیماری کا مجھ پر ایک اثر رہتا ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی دوران سر کی تکلیف تھی اور خاندانی مرض ہونے کی وجہ سے اس کے مزمن اور کرانک (CHRONIC) ہونے کا ڈر رہتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی آخری عمر میں چار پانچ سال باہر نماز کے لیے بھی نہیں آسکتے تھے.1905 ء کے بعد آپ گھر سے باہر بہت کم نکلتے تھے اور بہت کم بول سکتے تھے.گو بعض دفعہ اگر موقع ہوتا تو باتیں کرنی بھی پڑتی تھیں مثلاً اگر کوئی اجتماع ہو جاتا یا باہر سے کچھ لوگ آ جاتے تو آپ باتیں کر بھی لیتے لیکن عام طور پر آپ بہت کم بولتے تھے.شام کے وقت آپ کو یہ دورہ عام ہوتا تھا.اس مرض کے لیے
تذکار مهدی ) 353 روایات سید نامحمود ہلکا چلنا پھرنا مفید ہے لیکن یہ چیز بھی بعض لوگوں کے لیے ابتلاء کا موجب بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی عصر سے شام تک باہر سیر کے لیے تشریف لے جاتے تھے.میں نے بھی دیکھا ہے کہ اگر آہستہ آہستہ چہل قدمی کی جائے تو صحت پر اس مرض کا زیادہ اثر معلوم نہیں ہوتا.لیکن اگر بیٹھے ہو تو کھڑے ہو جاؤ یا کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ یا لیٹے ہوئے کروٹ بدل لو تو اس مرض کا اثر زور سے ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو جماعت بہت تھوڑی تھی اور اکثر لوگ ٹھوکریں کھا کھا کر احمدیت میں داخل ہوئے تھے.اس لیے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عصر سے شام تک سیر کے لیے چلے جانے اور پھر شام کی نماز میں حاضر نہ ہو سکنے پر معترض نہیں ہوتے تھے.لیکن یہ بات آج کل کے لوگوں کے لئے زیادہ ٹھوکر کا موجب ہے کہ عصر سے شام تک میں باہر سیر کر کے آؤں اور پھر کہوں کہ میں نماز کے لیے مسجد میں نہیں آسکتا کمزور لوگ اس بات کی برداشت نہیں کر سکیں گے.جماعتی ترقیات کی پیشگوئی ( خطبات محمود جلد 30 صفحہ 345 تا 346) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ کیفیت تھی کہ کئی مقامات پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ لکھا ہے کہ اب تو ہم پر اتنا بوجھ ہے کہ پندرہ سو روپیہ ایک مہینہ کا خرچ ہے.گویا اُس زمانہ میں اٹھارہ ہزار روپیہ کا سالانہ خرچ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسے بڑا بوجھ قرار دیتے تھے.لیکن اس زمانہ میں بعض ایسے احمدی ہیں کہ اُن میں سے ایک ایک اس بوجھ کو آسانی کے ساتھ اُٹھا سکتا ہے.اُس وقت بعض دفعہ ایسی حالت ہوتی تھی کہ لنگر میں آٹا نہیں ہوتا تھا اور منتظمین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں روپیہ کے لیے درخواست کرنی پڑتی تھی.1905ء میں جب زلزلہ آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کچھ عرصہ کے لئے باغ میں تشریف لے گئے.تو مجھے خوب یاد ہے.ایک دن آپ باہر سے آئے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی حمد و ثناء کر رہے تھے.اس وقت آپ نے حضرت اماں جان کو بلایا اور فرمایا یہ گھری لے لو اور دیکھو اس میں کتنی رقم ہے؟ حضرت اماں جان نے کمرہ سے باہر نکل کر بتایا کہ اس کپڑے میں چار سو یا پانچ سو کی رقم ہے.آپ نے فرمایا آج ہی لنگر والے
تذکار مهدی ) 354 روایات سید نا محمود آٹے کے لئے روپیہ مانگ رہے تھے اور میرے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا اور میں حیران تھا کہ اس کا کیا انتظام ہو گا.اتنے میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک غریب آدمی جس نے میلے سے کپڑے پہنے ہوئے تھے.آیا اور اس نے یہ گٹھڑی مجھے دے دی.میں نے سمجھا کہ اس میں پیسے ہی ہوں گے لیکن اب معلوم ہوا کہ روپے تھے.اس پر آپ دیر تک اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے رہے.کہ اس نے کیا فضل نازل فرمایا ہے.بیشک اس وقت ہماری نگاہ چار سو روپیہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن اس وقت ہم ان چیزوں کو دیکھتے تو ہمارا ایمان تازہ ہوتا تھا.اور اب ہمیں اس سے سینکڑوں گنا زیادہ روپیہ ملتا ہے.اور وہ روپیہ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا ہے.میں نے دیکھا ہے مجھے اپنی عمر میں بعض غیر احمدیوں نے دو دو تین تین چار چار ہزار روپیہ نذرانہ کے طور پر دیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپ کو چار سو روپیہ ملا تو آپ نے سمجھا کہ شائد اس میں پیسے ہی ہوں گے.ورنہ اتنا روپیہ کون دے سکتا ہے آج اگر وہی زمانہ ہوتا تو وہ لوگ جو اس وقت افسوس کر رہے ہیں.ان کو بھی قربانی کا موقع مل جاتا اور ہر شخص قربانی کر کے سمجھتا کہ مجھے خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا موقعہ عطا فرما کر مجھے پر احسان فرمایا ہے.لیکن وہ زمانہ تو گزر گیا.اب پھر ایک دوسرا زمانہ آ گیا ہے.جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے دین کی خدمت کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر رہا ہے.بہر حال ہر زمانہ کے لحاظ سے خدا اپنی زندگی کا ثبوت دیتا چلا آیا ہے.اُس زمانہ میں چار سو روپیہ کا مل جانا خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ایک ثبوت تھا اور اس زمانہ میں کبھی کبھی چالیس پچاس ہزار روپے دے کر اُس نے اپنی زندگی کا ثبوت دیا ہے.اور آج خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت دواڑھائی سو پونڈ ہیں جو ایک دوست نے اطلاع ملتے ہی لندن بنک میں جمع کروا دیئے.اسی طرح اس ترکی پروفیسر کا وہ روپیہ بھی زندہ خدا کا ایک نشان ہے جو اُس نے اپنے اوپر خرچ کرنے کی بجائے مجھے دین پر خرچ کرنے کے لیے بھجوا دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت اُس حبشی چیف کا واقعہ ہے جس نے احمدیہ پریس کے لیے ایک ہزار پونڈ دو قسطوں میں دے دیا.اور یا پھر خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت افریقہ کے اُس دوست کا خط ہے جنہوں نے یہ لکھا کہ آپ پریشان کیوں ہوتے ہیں
تذکار مهدی ) 355 روایات سید نا محمودی آپ روپیہ کے متعلق کسی قسم کی فکر نہ کریں.بیرونی مشنوں کے لیے جتنے پونڈوں کی ضرورت ہو ہمیں لکھیں ہم کسی نہ کسی طرح جمع کر دیں گے.غرض خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے زندہ ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے مومن بندوں کے ایمانوں کو بڑھاتا رہتا ہے.مجھے وہ زمانہ خوب یاد ہے جب اشتہار چھپوانے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں ہوتا تھا.میں جب خلیفہ ہوا اور غیر مبائعین کے مقابلہ میں میں نے پہلا اشتہار لکھا تو اُس وقت ہماری مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ اس اشتہار کے چھپوانے کے لیے بھی ہمارے پاس کوئی روپیہ نہیں تھا.ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو اس کا علم ہوا جو اُس وقت ہسپتال اور مسجد کے لیے چندہ جمع کر رہے تھے.انہوں نے اڑھائی سو روپیہ کی پوٹلی لا کر میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ آپ اس روپیہ کو استعمال کر لیں.جب آپ کے پاس روپیہ آئے گا تو وہ مجھے دے دیں.چنانچہ پہلا اشتہار ہم نے انہی کے روپیہ سے شائع کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے وہ دن دکھایا کہ یا تو دوسو اور اڑھائی سو کے لیے ہمارے کام رکے ہوئے تھے اور یا اب ایک ایک شخص ہی نہیں ہیں ہزار روپیہ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے.مثلاً پچھلے سال میں بیمار ہوا تو ڈاکٹروں نے مجھے ولایت جانے کا مشورہ دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اس غرض کے لیے جمع کر دیا.غرض زمانے ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں اور بدلتے چلے جائیں گے.ایک زمانہ میں لوگ اربوں ارب روپیہ دیں گے اور انہیں پتا بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے مال میں سے کچھ کم ہوا ہے کیونکہ دینے والے کھرب پتی ہوں گے اور جب وہ ہیں یا تھیں یا پچاس ارب روپیہ دیں گے تو انہیں پتا بھی نہیں لگے گا کہ اُن کے خزانہ میں کوئی کمی آئی ہے.اُس وقت اُنہیں یاد بھی نہیں رہے گا کہ کسی زمانہ میں پچاس روپیہ کی بھی ضرورت ہوتی تھی تو اس کے لیے بھی دعائیں کرنی پڑتی تھیں.تم تذکرہ پڑھو تو تمہیں اس میں یہ لکھا ہوا دکھائی دے گا کہ ایک دفعہ ہمیں پچاس روپیہ کی ضرورت پیش آئی اور جیسا کہ اہل اللہ پر کبھی کبھی ایسی حالت گزرتی ہے.اُس وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا.تب ہم نے وضو کیا اور جنگل میں جا کر دعا کی.اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام نازل ہوا کہ :.دیکھ میں تیری دعاؤں کو کیسے جلد قبول کرتا ہوں“
تذکار مهدی ) 356 روایات سید نا محمودی اس کے بعد ہم واپس آئے تو بازار سے گزرے اور ڈاکخانہ والوں سے پوچھا کہ کیا ہمارے نام کوئی منی آرڈر آیا ہے یا نہیں ؟ انہوں نے ایک خط دیا جس میں لکھا تھا کہ پچاس روپے آپ کے نام بھجوا دیئے گئے ہیں.چنانچہ اُسی دن یا دوسرے دن وہ روپیہ ہمیں مل گیا.غرض ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پچاس روپوں کے لیے بھی فکر ہوتا تھا کہ وہ کہاں سے آئیں گے.اور یا اب یہ حالت ہے کہ سندھ میں جو میری اور سلسلہ کی زمینیں ہیں اُن پر تین ہزار روپیہ ماہوار تک تنخواہوں کا ہی دینا پڑتا ہے.گویا گجا تو یہ حالت تھی کہ پندرہ سو روپیہ ماہوار کا خرچ ساری جماعت کے لیے بوجھ سمجھا جاتا تھا اور پچاس روپیہ کی ضرورت کو اتنا شدید سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے لیے خاص طور پر علیحدگی میں دُعا کرنا ضروری سمجھا اور گجا یہ حالت ہے کہ اسی شخص کا بیٹا سینکڑوں روپیہ ماہوار اپنے کارکنوں کو تنخواہیں دیتا ہے اور انجمن کے افسروں کو ملا کر وہ رقم ہزاروں روپیہ کی بن جاتی ہے اور ربوہ کے دفتروں کو ملا کر کوئی نوے ہزار ماہوار کی رقم بن جاتی ہے.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو ہر شخص کو دکھائی دے سکتا ہے.مگر ابھی کیا ہے ابھی تو صرف ہزاروں روپیہ خرچ ہو رہا ہے.پھر کوئی وقت ایسا آئے گا کہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا تین تین ارب کا بجٹ ہوگا.پھر ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا تین تین کھرب کا بجٹ ہوگا.یعنی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا سالانہ بجٹ بہتر کھرب کا ہوگا.پھر یہ بجٹ پدم پر پہنچ جائے گا کیونکہ دنیا کی ساری دولت احمدیت کے قدموں میں جمع ہو جائے گی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر لکھا ہے.کہ مجھے فکر نہیں کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.مجھے یہ فکر ہے کہ اس روپیہ کو دیانت داری کے ساتھ خرچ کرنے والے کہاں سے آئیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وصیت کا نظام جاری فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت رکھ دی کہ باوجود اس کے کہ انجمن کے کام ایسے ہیں جو دلوں میں جوش پیدا کرنے والے نہیں.پھر بھی صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ تحریک جدید سے ہمیشہ بڑھا رہتا ہے کیونکہ وصیت ان کے پاس ہے.اس سال کا بجٹ بھی تحریک جدید کے بجٹ سے دو تین لاکھ روپیہ زیادہ ہے.حالانکہ تحریک کے پاس اتنی بڑی جائیداد ہے کہ اگر وہ جرمنی میں ہوتی یا یورپ
تذکار مهدی ) 357 روایات سید نا محمودی کے کسی اور ملک میں ہوتی تو ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو کروڑ روپیہ سالانہ ان کی آمدن ہوتی.( خطبات محمود جلد 37 صفحہ 271 تا 275 ) | جلسہ سالانہ کی تیاری اور وسع مکانک کا الہام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ایک الہام ہے.جو ذومعانی ہے نہ تو ہم اس کے کوئی خاص معنی کر سکتے ہیں اور نہ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کب اور کس طرح پورا ہو گا اور وہ الہام لنگر اٹھا دو‘ اس لنگر کے لفظ سے اگر کشتیوں والا لنگر مراد لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ باہر نکل جاؤ اور خدا تعالیٰ کے پیغام کو ہر جگہ پھیلا ؤ اور اگر لنگر سے ظاہری لنگر خانہ مراد لیا جائے.تو پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ آنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب لنگر خانہ کا انتظام نہیں کیا جا سکتا.اس لئے لنگر اٹھا دو اور لوگوں سے کہو کہ وہ اپنی رہائش اور خوراک کا خود انتظام کر لیں.ان دونوں مفہوموں میں سے ہم کسی مفہوم کو ابھی متعین نہیں کر سکتے اور نہ وقت متعین کر سکتے ہیں کہ کب ایسا ہو گا.بہر حال جب تک مہمانوں کو ٹھہرانا انسانی طاقت میں ہے.اس وقت تک ہمیں یہی ہدایت ہے کہ وسع مکانک تم اپنے مکان بڑھاتے جاؤ اور مہمانوں کے لئے گنجائش نکالو.مہمان خانہ اُٹھانے کا سوال اُس وقت پیش آئے گا جب مہمانوں کی تعداد اس قدر بڑھ جائے گی کہ اُن کی خوراک کا سلسلہ کے لیے انتظام کرنا مشکل ہو جائے گا.لیکن اگر لنگر اُٹھا دو کا یہ مطلب نہیں کہ مہمان خانہ اُٹھا دو تو پھر اس کے یہ معنی ہیں کہ ساکن ہونا مومن کا کام نہیں تم کشتیاں لو اور غیر ممالک میں پھیل جاؤ.بہرحال اس وقت کے لحاظ سے ہم میں اتنی طاقت ہے کہ اگر ہم صحیح قربانی کریں تو ہم ہر سال مہمانوں کو ٹھہرا سکتے ہیں اور ان کے کھانے کا انتظام کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے ہم پر کوئی نا قابلِ برداشت بوجھ نہیں پڑتا.جب وہ زمانہ آئے گا جب مہمان خانہ کا جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ کی دوسری ہدایت پہنچ جائے گی اور لنگر اُٹھا دو کے یقینی معنے ہماری سمجھ میں آجائیں گے.بہر حال ہمیں مہمانوں کے ٹھہرانے کے لیے اپنی قربانی پیش کرنی چاہیے.اگر ہمیں اس سلسلہ میں تکلیف بھی اُٹھانی پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے.آخر جلسہ سالانہ پر آنے والے بھی اپنے مکانات اور رشتہ دار چھوڑ کر آتے ہیں.ہر سال درجنوں واقعات ایسے پیش آتے ہیں کہ لوگ یہاں آئے اور اُن کے مکانات کے تالے ٹوٹ گئے اور اُن کا سامان لوٹ لیا
تذکار مهدی ) 358 روایات سید نامحمود گیا.اور پھر ایسے واقعات بھی میں نے دیکھے ہیں کہ جلسہ سالانہ پر لوگ آئے اور اپنے بیمار بیوی بچے پیچھے چھوڑ آئے.بعد میں تار آئی کہ اُن کا بیمار عزیز فوت ہو گیا ہے.پچھلے سال ایک لڑکی یہاں آئی اور اُس کا بچہ فوت ہو گیا.میں نے اُس کے رشتہ داروں سے کہا تھا کہ اگر بچہ بیمار تھا تو تم جلسہ سالانہ پر کیوں آئے ؟ اُس کے رشتہ داروں نے کہا کہ اس لڑکی نے کہا تھا کہ بچہ مرے یا جیے میں نے جلسہ سالانہ پر ضرور جانا ہے.گویا اس لڑکی نے جلسہ سالانہ کی وجہ سے اپنے بچہ کی زندگی کی بھی پروانہ کی.یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو آنے والے کرتے ہیں.اس کے مقابلہ میں تم پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ تم قربانی کرو اور جہاں تک ہو سکے جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کو آرام پہنچاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو تم ان کی ادنیٰ سے ادنی ضرورت کو پورا کرو گے.کیونکہ اگر ایک چھوٹے سے کمرہ میں پندرہ سولہ مہمان ٹھہریں تو انہیں آرام میسر نہیں آ سکتا.لیکن اگر اس قدر بھی گنجائش پیدا نہ کی جائے تو ہم مہمانوں کو کہاں ٹھہرائیں؟ یہ چیز اب اتنے عرصہ سے جماعت کے سامنے آرہی ہے کہ مجھے اس کے لئے کسی خاص تحریک کی ضرورت نہیں.جلسہ سالانہ پر 64-65 سال گذر چکے ہیں.1891ء میں پہلا جلسہ ہوا تھا.اس لحاظ سے اب تک اس پر 64 سال گذر چکے ہیں.مگر اس سے پہلے بھی تو جماعتی اجتماع ہوتے ہوں گے.بہر حال جو چیز کم سے کم 64 سال سے چلی آتی ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے لئے جماعت کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانے کی ضرورت کیا ہے.تمہیں تو خود اپنی ذمہ داریوں کو احساس ہونا چاہئے.تمہارے سامنے مہمانوں کی کثرت ہوتی ہے.تمہارے سامنے ان کی پراگندگی ہوتی ہے اور تمہارے سامنے ان کی مصیبت اور ایثار و قربانی ہوتی ہے تمہیں خودان باتوں کا احساس ہونا چاہئے.(الفضل 16 دسمبر 1954 ء جلد 43/8 نمبر 227 صفحہ 4) اصل تقریر وہی جس کو دل میں رکھ لیں وو...اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی.دعا سے فارغ ہونے پر حضور نے پہلے تو یہ اعلان فرمایا کہ میں نماز مسجد مبارک میں پڑھوں گا اور اس کے بعد فرمایا:.اس دفعہ ملاقاتیں مختصر کی گئی ہیں امید ہے کہ دوست اس کی پروا نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں تو ملاقاتیں ہو ا ہی نہیں کرتی تھیں.آپ سیر کو
تذکار مهدی ) 359 روایات سید نا محمودی جاتے تھے دوست دیکھ لیتے تھے اور اگر بعض کو موقع ملتا تو مصافحہ بھی کر لیتے تھے.تقریریں بھی مختصر ہوتی تھیں.حضرت خلیفہ اول کی تقریر تو پندرہ میں پچیس منٹ ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری جلسہ کی تقریر مجھے یاد ہے کہ پچاس یا پچپن منٹ کی ہوئی تھی اور ہم بڑی باتیں کرتے تھے کہ آج بڑی لمبی تقریر ہوئی ہے اور جماعت میں بڑا شور پڑا کہ آج حضور نے بڑی لمبی تقریر کی ہے.آپ لوگوں کو چھ چھ گھنٹے سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے اب ہمیں چھپیں یا تمیں منٹ کی تقریر ہو تو بڑے مایوس ہو جاتے ہیں کہ بہت چھوٹی تقریر ہوئی ہے.لیکن اصل تقریر تو وہی ہے جس کو آپ اپنے دل میں رکھ لیں.جو میرے منہ سے نکل کر ہوا میں اڑ جائے وہ کوئی تقریر نہیں چاہے وہ آٹھ گھنٹے کی ہو یا بیس گھنٹے کی ہو.اور جو آپ اپنے دل میں رکھ لیں وہ پانچ منٹ کی بھی بڑی ہے.سو دعائیں کرتے رہو، جلسہ کے ایام میں ذکر الہی کرو اور یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جو مجھے بولنے کی توفیق دے وہ صحت کے ساتھ دے.افتتاحی تقریب جلسہ سالانہ 1955ء، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 191 تا 192 ، 198 تا 199 ) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا آخری جلسہ سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں.جس نے محض اپنے فضل و کرم سے ہماری جماعت کو تعداد کے لحاظ سے بہت بڑی زیادتی بخشی.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں اگر جلسہ سالانہ پر اتنے آدمی جمع ہوتے جتنے اس مسجد میں اس وقت جمع ہیں.تو اسے بہت بڑی کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت کتنے آدمی مسجد میں جمع ہوں گے.لیکن میرا خیال ہے کہ پانچ چھ سو کے قریب ضرور ہوں گے اور اتنے ہی یعنی سات سو کے قریب آدمی تھے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے آخری سال قادیان میں جلسہ سالانہ پر جمع ہوئے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت بار بار فرماتے تھے کہ خدا نے ہمیں جس کام کے لئے دنیا میں بھیجا تھا وہ ہو گیا اور اب اتنی بڑی جماعت پیدا ہو گئی اور اتنی کثرت سے لوگ ایمان لے آئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں.ہمارا مقصد جو اس دنیا میں آنے کا تھا وہ پورا ہو گیا.اب کجا وہ دن تھا کہ جلسہ سالانہ پر اس قدرا ثر دہام کو عظیم الشان اثر دہام سمجھا جاتا تھا اور کجا یہ وقت ہے کہ اب لاہور شہر میں ہی ہماری ایک جمعہ کی نماز میں اس کے قریب قریب آدمی جمع ہو جاتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ
تذکار مهدی ) 360 روایات سید نا محمود کی نصرت اور اس کی تائید کا ایک عظیم الشان نشان ہے اور جن جماعتوں کے ساتھ اس کی نصرت ہوتی ہے وہ اسی طرح بڑھتی چلی جاتی اور دشمن کی نگاہوں میں کانٹوں کی طرح کھٹکنے لگ جاتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر پورا ہوئے بغیر نہیں رہتی اور باوجود دشمنوں کے حاسدانہ نگاہوں کے وہ اپنی جماعت کو بڑھاتا اور اسے دنیا میں ترقی دیتا چلا جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ چیز اپنی ذات میں ہمارے لئے بہت بڑی خوشی کا موجب ہے.الفضل 12 را پریل 1944 ء جلد 32 نمبر 84 صفحہ (1) جلسہ سالانہ میں شمولیت کرنے والوں میں اضافہ سورج اور چاند کو گرہن لگا اور اُسی طرح لگا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.طاعون پھیلی اور شہروں کے شہر اور قبیلوں کے قبیلے صاف ہو گئے اور سینکڑوں نے نہیں بلکہ ہزاروں نے محسوس کیا کہ اب آسمان زمین پر تغیر چاہتا ہے اب خدا کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہے تب کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے، کچھ اس جگہ سے کچھ اُس جگہ سے، کچھ اس بستی سے اور کچھ اُس بستی سے، کچھ اس شہر سے اور کچھ اُس شہر سے احمدیت میں داخل ہونے شروع ہوئے اور سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئے.جب جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس وقت پہلے جلسہ میں تین سو سے کچھ اوپر لوگ شامل ہوئے اور ان تین سو میں سے بعض آٹھ آٹھ نو نو سال کے بچے بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اُس پر ساڑھے سات سو آدمی جمع تھا اور اس ساڑھے سات سو آدمی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود کی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھ سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب میری وفات کا وقت قریب ہے چنانچہ چند ماہ کے بعد ہی آپ فوت ہو گئے.اب ایک ایک شہر میں اس سے بہت زیادہ جماعت پائی جاتی ہے بلکہ بعض شہروں میں تو پانچ پانچ ، سات سات بلکہ آٹھ آٹھ ہزار افراد پائے جاتے ہیں.اب گجا وہ زمانہ کہ ساڑھے سات سو آدمی کے آنے کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا اور گجا یہ زمانہ کہ ایک ایک شہر میں اس سے بہت زیادہ افراد پائے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں جو آخری جلسہ ہوا اُس میں اٹھارہ سو آدمی تھا اور یہ
تذکار مهدی ) 361 روایات سید نا محمود سمجھا جاتا تھا کہ اب جماعت بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور پہلے سے کئی گنا طاقتور ہوگئی ہے.اس کے مقابلہ میں قادیان کے آخری جلسہ میں چالیس ہزار سے اوپر احمدی شامل تھا اور اب بھی کل شام کے کھانے کی جو رپورٹ ملی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوبیس ہزار مرد وعورت نے کل شام کا کھانا کھایا ہے.26 کی شام سے 27 کی شام کی حاضری عام طور پر زیادہ ہوا کرتی ہے پس کوئی بعید بات نہیں کہ چھپیں ستائیس ہزار کی حاضری ہو جائے.اب گجا سات سو گجا اٹھارہ سو اور گجا ستائیس ہزار آدمی کا جلسہ پر جمع ہو جانا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سوائے افغانستان کے باہر کے کسی ملک میں احمدی جماعت نہیں تھی مگر اب احمدیت انڈونیشیا میں ، ایران میں ، شام میں ، لبنان میں، مصر میں، سوڈان میں ، ایسے سینیا میں، کینیا میں، یوگنڈا میں، ٹانگا نیکا میں، سیرالیون میں گولڈ کوسٹ میں، نائیجیریا میں ، انگلینڈ میں، سپین میں، ہالینڈ میں ، جرمنی میں ، سوئٹزر لینڈ میں ، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، نارتھ امریکہ میں، ماریشس میں، ملایا میں، بورنیو میں، سیلون میں، برما میں اور اسی طرح اور کئی علاقوں میں قائم ہے جو شاید اس وقت مجھے یاد بھی نہ ہوں اور بعض جگہ تو اتنی بڑی تعداد میں جماعت پائی جاتی ہے کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ہزار آدمی وہاں احمدی ہو چُکا ہے.( اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے.انوار العلوم جلد 22 صفحہ 129 تا 130) اے نبی بھو کے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کل سات سو آدمی آئے تھے.اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے.اس وقت آپ کی زندگی کا آخری سال تھا اور کل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپ کو الہام ہوا کہ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَر“ اے نبی بھوکے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ.چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگر خانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا.پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیگیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ.تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی.مگر ان سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ جب آپ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا ہجوم بہت تھا.آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا.باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا.میلوں میں بے شک
تذکار مهدی ) 362 روایات سید نامحمود جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے.اس لئے ان کے لئے عجیب چیز تھی.لوگ دھکے کھا رہے تھے حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھوکر کھا کر آپ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی.پھر کوئی احمدی ٹھہرالیتا کہ حضور جوتی پہن لیجئے اور آپ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا.پھر آپ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا اور جوتی پرے جا پڑتی پھر وہ کہتا کہ حضور ٹھہر جائیے جوتی پہنا دوں.اسی طرح ہو رہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا اوٹوں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے.یعنی کیا تو نے حضرت مسیح موعود سے مصافحہ کر لیا ہے.وہ کہنے لگا ”ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑ اویلا ہے.نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا“.یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کون سا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا.اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا.وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا.تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہو گا.بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گزر جا اور مصافحہ کر آتو کجاوہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.اور کجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.جلسہ سالانہ قادیان کا مستقبل الفضل 17 / مارچ 1957 ء جلد 46/11 نمبر 66 صفحہ 4) حقیقت تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہماری جماعت میں ابھی مال دار لوگ داخل نہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ جلدی سے جانے کے لئے جو وسائلِ سفر ہیں وہ اتنا خرچ چاہتے ہیں کہ بیرونی ممالک کے احمدیوں کے لئے ان ایام میں قادیان پہنچنا مشکل ہے.لیکن اگر کسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے مال دار ہماری جماعت میں شامل ہو جائیں یا سفر کے جو اخراجات ہیں ان میں بہت کچھ کمی ہو جائے اور ہر قسم کی سہولت لوگوں کو میسر آجائے تو دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ اس موقع پر آئیں گے.اگر کسی وقت امریکہ میں ہماری جماعت کے مال دار لوگ ہوں اور وہ آمد و رفت کے لئے روپیہ خرچ کر سکیں تو حج کے علاوہ ان کے لئے یہ امر بھی ضروری ہوگا کہ وہ اپنی عمر میں ایک دو دفعہ قادیان بھی جلسہ سالانہ کے موقع پر آئیں کیونکہ یہاں علمی برکات میسر آتی ہیں اور مرکز کے فیوض سے لوگ بہرہ ور ہوتے ہیں اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ دور دراز ممالک کے لوگ یہاں آئیں گے.چنانچہ
تذکار مهدی ) کارمهدی 363 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک رؤیا ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ ہوا میں تیر رہے ہیں اور فرماتے ہیں عیسی تو پانی پر چلتے تھے اور میں ہوا پر تیر رہا ہوں اور میرے خدا کا فضل ان سے بڑھ کر مجھ پر ہے.اس رویا کے ماتحت میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ آنے والا ہے کہ جس طرح قادیان کے جلسہ پر کبھی یکے سڑکوں کو گھسا دیتے تھے اور پھر موٹریں چل چل کر سڑکوں میں گڑھے ڈال دیتی تھیں اور اب ریل سواریوں کو کھینچ کھینچ کر قادیان لاتی ہے، اسی طرح کسی زمانہ میں جلسہ کے ایام میں تھوڑے تھوڑے وقفہ پر یہ خبریں بھی ملا کریں گی کہ ابھی ابھی فلاں ملک سے اتنے ہوائی جہاز آئے ہیں.یہ باتیں دنیا کی نظروں میں عجیب ہیں مگر خدا تعالیٰ کی نظر میں عجیب نہیں.خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ وہ اپنے دین کے لئے مکہ اور مدینہ کے بعد قادیان کو صلى الله مرکز بنانا چاہتا ہے.مکہ اور مدینہ وہ دو مقامات ہیں جن سے رسول کریم ﷺ کی ذات کا تعلق ہے.آپ اسلام کے بانی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آقا اور استاد ہیں.اس لحاظ سے ان دونوں مقامات کو قادیان پر فضیلت حاصل ہے.لیکن مکہ اور مدینہ کے بعد جس مقام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہدایت کا مرکز قرار دیا ہے وہ وہی ہے جو رسول کریم ﷺ کے ظل یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے اور جو اس وقت تبلیغ دین کا واحد مرکز ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کل مکہ اور مدینہ جو کسی وقت با برکت مقام ہونے کے علاوہ تبلیغی مرکز بھی تھے آج وہاں کے باشندے اس فرض کو بھلائے ہوئے ہیں.لیکن یہ حالت ہمیشہ نہیں رہے گی.مجھے یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ان علاقوں میں احمدیت کو قائم کرے گا تو پھر یہ مقدس مقامات اپنی اصل شان و شوکت کی طرف لوٹائے جائیں گے اور پھر یہ تعلیم اسلام اور تبلیغ کا مرکز بنائے جائیں گے اور جب بھی احمدیوں کی طاقت کا وقت آئے گا اُن کا پہلا فرض ہے کہ ان پاک شہروں کو ان کا کھویا ہوا حق واپس دینے کی تدبیر کریں اور ان کی اصلی شان کو واپس لائیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو دی گئی ہے.لیکن جب تک وہ دن نہیں آتا اُس وقت تک محض قادیان ہی تبلیغ واشاعت دین کا مرکز ہے.( خطبات محمود جلد 18 صفحہ 616 تا 618) بیت الدعا میں دعا.مقام ابراہیم یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات یا سے پہلے کا ذکر.
تذکار مهدی ) 364 روایات سید نا محمودی حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے.بہر حال میں بیت الدعا میں دعا کر رہا تھا کہ مجھے رویا میں بتایا گیا کہ پانچ ابراہیم گذرے ہیں ایک ابراہیم تو وہ تھے جن کا تورات میں ذکر آتا ہے دوسرے ابراہیم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے.تیسرے ابراہیم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.چوتھے ابراہیم حضرت خلیفہ اول تھے اور پانچویں ابراہیم تم ہو.اب دیکھو یہ بچپن کی بات ہے جب مجھے رویا میں بتایا گیا کہ تم ابراہیم ہو.اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑے گا لیکن ابرا ہیمی مشابہت کے لئے ضروری تھا کہ ہمیں بھی ہجرت کرنی پڑے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ابراہیم قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسمعیل بنا دیا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو ابراہیم قرار دے کر مجھے اسمعیل بنا دیا اور پھر مجھے ابراہیم قرار دیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ ربوہ بسایا اور تم اسمعیل بن گئے اور تم نے اسے آباد کر لیا.غرض ایک کے طفیل دوسرا ابراہیم بنا اور دوسرے کی وجہ سے تیسرا بنا.یہ تسلسل خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ہمیشہ جاری رکھا جاتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ الله يَبْدُوا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ (يونس:35) یعنی اللہ تعالی پیدائش عالم کو شروع بھی کرتا ہے اور پھر اس سلسلہ کو دہراتا بھی جاتا ہے.اسی طرح ابراہیمی مقام بھی چکر کھاتا رہتا ہے.پہلا ابراہیم جاتا ہے تو ایک اور ابراہیم آ جاتا ہے.دوسرا جاتا ہے تو تیسرا آجاتا ہے اور یہ سب کچھ بعیدہ کے ماتحت ہوتا ہے.قادیان سے محبت خطبات محمود جلد دوم صفحہ 395-394) جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے.وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنادیئے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری اور اس جگہ سے وہ بہت محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقعہ پر جبکہ حضرت مسیح موعود لاہور گئے ہیں اور آپ کا وصال ہو گیا ہے ایک دن مجھے آپ نے ایک
تذکار مهدی ) 365 روایات سید نامحمودی مکان میں بلا کر فرمایا محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زردی معلوم ہوتی ہے.چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا.میں نے کہا نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح کی ہر روز ہوا کرتی ہے آپ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہو نا تھا اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتہ لگتا تھا.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو (انوار خلافت.انوار العلوم جلد نمبر 3 صفحہ 175) بہترین صبر یہی ہے کہ انسان میں طاقت ہو اور پھر برداشت کرے اگر طاقت ہی نہ ہو تو پھر برداشت کرنا ایسا اعلیٰ درجہ صبر کا نہیں ہے اور اسی طرح رضا یہی ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے اپنے دل میں بعض ابتلاؤں پر ہر شرح صدر پارے اور اگر یہ ایمان نہ ہو تو اس کو بے غیرتی کہیں گے اور دونوں میں امتیاز اس طرح ہوتا ہے کہ مقام رضا پر پہنچا ہوا انسان اپنے دوسرے اعمال میں نہایت چست اور باہمت اور محنتی ہوتا ہے اور اس کا حوصلہ دوسرے لوگوں کی نسبت غیر معمولی طور پر بڑھا ہوا ہوتا ہے.رضا کے لفظ پر مجھے ایک بات یاد آ گئی.حضرت صاحب کی وفات سے پہلے ایام کا ذکر ہے کہ ملک مبارک علی صاحب تاجر لاہور ہر روز شام کو اس مقام پر آجاتے جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے اور جب حضرت صاحب باہر سیر کو جاتے تو وہ اپنی کبھی میں بیٹھ کر ساتھ ہو جاتے مجھے سیر کے لئے حضرت صاحب نے ایک گھوڑی منگوا دی ہوئی تھی.میں بھی اس پر سوار ہو کر جایا کرتا تھا اور سواری کی سڑک پر گاڑی کے ساتھ ساتھ گھوڑی دوڑا تا چلا جاتا تھا اور باتیں بھی کرتا جاتا تھا.لیکن جس رات حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہوتا تھا اس لئے میں گھوڑی پر سوار نہ ہوا.ملک صاحب نے کہا میری گاڑی میں ہی آجائیں.چنانچہ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا اور یہ مصرع میری زبان پر جاری ہو گیا کہ.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو“
تذکار مهدی ) 366 روایات سید نامحمود ملک صاحب نے مجھے اپنی باتیں سنائیں.میں کسی ایک آدھ بات کا جواب دے دیتا تو پھر اسی خیال میں مشغول ہو جا تا.رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یک دم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے یہ بھی ایک تقدیر خاص تھی.جس نے مجھے وقت سے پہلے اس ناقابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے کے لئے تیار کر دیا.اسی طرح صوفیاء کے متعلق لکھا ہے کہ جب ان کو بعض ابتلاء آئے اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ ابتلاء خالص آزمائش کے لئے ہیں تو گو لوگوں نے ازالہ کے لئے کوشش کرنی چاہی انہوں نے انکار کر دیا اور اسی تکلیف کی حالت میں تقدیر الہی.انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 618-617) ہی لطف محسوس کیا.خواه جان چلی جائے شرک نہیں کرنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو یہ سمجھا گیا کہ آپ اچانک فوت ہو گئے ہیں.لیکن مجھے پہلے سے اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں معلوم ہوگئی تھیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے.مثلاً میں نے رویا میں دیکھا کہ میں بہشتی مقبرہ سے ایک کشتی پر آرہا ہوں.رستہ میں پانی اس زور شو کا تھا کہ سخت بھنور پڑنے لگا اور کشتی خطرہ میں پڑ گئی.جس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے.جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی نکل جائے گئی.میں نے کہا یہ تو شرک ہے خواہ ہماری جان چلی جائے ہم اس طرح نہیں کریں گے.اتنے میں خطرہ اور بھی بڑھ گیا اور ساتھ والوں میں سے بعض نے کہا کیا حرج ہے ایسا ہی کر دیا جائے.اور انہوں نے پیر صاحب کو چٹھی لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دی.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس چٹھی کو کود کر نکال لیا اور جونہی میں نے ایسا کیا وہ کشتی چلنے لگ گئی اور خطرہ جا تا رہا.جب حضرت صاحب فوت ہوئے اس وقت خدا تعالیٰ نے میرا دل نہایت مضبوط کر دیا اور فوراً میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اب ہم پر بہت بڑی ذمہ واری آپڑی ہے.اور میں نے اسی وقت عہد کیا کہ الہی میں تیرے مسیح موعود علیہ السلام کی لاش پر کھڑا ہو کر اقرار کرتا ہوں کہ خواہ اس کام کے کرنے کے لئے دنیا میں ایک بھی انسان نہ رہے تو بھی میں کرتا رہوں گا.اس وقت
تذکار مهدی ) 367 مجھ میں ایک ایسی قوت آگئی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.گھوڑ سواری پسند کرنا روایات سید نا محمود انوار العلوم جلد چہارم صفحه 461 462 ) مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک گھوڑی خرید کر دی تھی.در حقیقت وہ خرید تو نہ کی گئی تھی بلکہ تحفہ بھیجی گئی تھی اس کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے لڑکوں کو سائیکل پر سواری کرتے دیکھا تو میرے دل میں بھی سائیکل کی سواری کا شوق پیدا ہوا.میں نے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں کیا آپ نے فرمایا مجھے سائیکل کی سواری تو پسند نہیں، میں تو گھوڑے کی سواری کو مردانہ سواری سمجھتا ہوں.میں نے کہا اچھا آپ مجھے گھوڑا ہی لے دیں.آپ نے فرمایا پھر مجھے گھوڑا وہ پسند ہے جو مضبوط اور طاقتور ہو.اس سے غالباً آپ کا منشاء یہ تھا کہ میں اچھا سوار بن جاؤں گا.آپ نے کپورتھلہ والے عبدالمجید خان صاحب کو لکھا کہ ایک اچھا گھوڑا خرید کر بھجوا دیں.خان صاحب کو اس لئے لکھا کہ ان کے والد صاحب ریاست کے اصطبل کے انچارج تھے اور ان کا خاندان گھوڑوں سے اچھا واقف تھا.انہوں نے ایک گھوڑی خرید کر تحفہ بھجوا دی اور قیمت نہ لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات کا اثر لازمی طور پر ہمارے اخراجات پر بھی پڑنا تھا اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ اس گھوڑی کو فروخت کر دیا جائے تا کہ اس کے اخراجات کا بوجھ والدہ صاحبہ پر نہ پڑے.مجھے ایک دوست نے جن کو میرا یہ ارادہ معلوم ہو گیا تھا اور جواب بھی زندہ ہیں.کہلا بھیجا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اسے آپ بالکل فروخت نہ کریں.اس وقت میری عمر انیس (19) سال کی تھی.وہ جگہ جہاں مجھے یہ بات کہی گئی تھی اب تک یاد ہے.میں اس وقت ڈھاب کے کنارے تفخیذ الاذہان کے دفتر سے جنوب مشرق کی طرف کھڑا تھا.جب مجھے یہ کہا گیا کہ یہ گھوڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تحفہ ہے اس لئے اسے فروخت نہ کرنا چاہئے تو بغیر سوچے سمجھے معاً میرے منہ سے جو الفاظ نکلے وہ یہ تھے کہ بے شک یہ تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہے مگر میں گھوڑی کی خاطر حضرت ام المومنین کو تکلیف دینا نہیں چاہتا.چنانچہ میں نے اس گھوڑی کو فروخت کر دیا.(سوانح فضل عمر جلد اوّل صفحه 131-130)
تذکار مهدی ) حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں 368 روایات سید نا محمودی سینکڑوں پیشگوئیاں ہیں جو بعد میں پوری ہوئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا بین ثبوت بنیں.مثلاً میرے متعلق ہی آپ کی یہ پیشگوئی تھی کہ وہ صاحب شکوہ اور عظمت و دولت ہوگا.اب آپ لوگ دیکھ لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی زندگی میں آپ کی کس قدر جائیداد تھی.آپ نے مخالفین کو انعامی چیلنج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں اپنی ساری جائیداد جو دس ہزار روپیہ مالیت کی ہے پیش کرتا ہوں گویا اس وقت آپ کی جائداد صرف دس ہزار روپیہ کی تھی لیکن اب لاکھوں روپے کی ہو چکی ہے.یہ دولت کہاں سے آئی ہے.یہ سب خدا تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جب نانا جان نے ہماری زمینوں سے تعلق رکھنے والے کاغذات واپس کئے تو میں اپنے آپ کو اتنا بے بس محسوس کرتا تھا کہ میں حیران تھا کہ کیا کروں.اتفاق سے شیخ نور احمد صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو ایک ملازم کی ضرورت ہے آپ مجھے رکھ لیں میں نے کہا میں تنخواہ کہاں سے دوں گا.میرے پاس تو نہ کوئی رقم ہے جس سے تنخواہ دے سکوں اور نہ جائیداد سے اتنی آمد کی توقع ہے.انہوں نے کہا آپ جو چھوٹی سے چھوٹی تنخواہ دینا چاہیں وہ دے دیں اور پھر انہوں نے خود ہی کہہ دیا کہ آپ مجھے دس روپے ماہوار دے دیں.چنانچہ میں نے انہیں ملازم رکھ لیا اور خیال کیا کہ چلو اس قدر تو آمد ہو ہی جائے گی لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ جوں جوں شہر ترقی کرتا گیا.اس جائیداد کی قیمت بھی بڑھتی چلی گئی.جب قرآن کریم کے پہلے ترجمہ کے چھپوانے کا سوال پیدا ہوا تو میں نے چاہا کہ اس ترجمہ کی اشاعت کا سارا خرچ ہمارا خاندان ہی برداشت کرے.میں نے اس وقت شیخ نوراحمد صاحب کو بلوایا اور ان سے کہا کہ اس وقت مجھے دو ہزار روپے کی ضرورت ہے کیا اس قدر روپیہ مہیا ہو سکے گا.انہوں نے کہا آپ زمین کا کچھ حصہ مکانات کے لئے فروخت کرنے کی اجازت دے دیں تو پھر جتنا چاہیں روپیہ آ جائے گا.چنانچہ میں نے کچھ زمین فروخت کرنے کی اجازت دے دی یہ زمین 50 کنال کے قریب تھی اور اس جگہ واقع تھی جہاں بعد میں محلہ دارالفضل آباد ہوا.تھوڑی دیر کے بعد شیخ صاحب واپس آئے اور ان کے ہاتھ میں روپوں کی ایک تھیلی تھی.انہوں نے کہا یہ دو ہزار روپیہ ہے اور اگر آپ کو دس ہزار کی بھی ضرورت ہو تو وہ بھی مل سکتا ہے.میں نے کہا اس وقت
تذکار مهدی ) 369 روایات سید نا محمودی مجھے اتنے ہی روپیہ کی ضرورت تھی زیادہ کی ضرورت نہیں چنانچہ اس طرح محلہ دارالفضل کی بنیاد پڑی اور وہ روپیہ اشاعت قرآن میں دے دیا گیا.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 682-681 ) حضور علیہ السلام کا وصال آپ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی.لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہو گئی اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لئے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا.آپ اُسی حالت میں تھے کہ الہام ہوا الرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ یعنی کوچ کرنے کا وقت آ گیا پھر کوچ کرنے کا وقت آ گیا.اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی لیکن فوراً قادیان سے ایک مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہوگئی لیکن آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں.یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے وہ شخص اس سے مراد نہیں.اس الہام سے والدہ صاحبہ نے گھبرا کر ایک دن فرمایا کہ چلو واپس قادیان چلیں.آپ نے جواب دیا کہ اب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں.اب اگر خدا ہی لے جائے گا تو جاسکیں گے.مگر باوجود ان الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس بیماری ہی میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے لئے آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام پیغام صلح رکھا.اس سے آپ کی طبیعت اور بھی کمزور ہو گئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی.جس دن یہ لیکچر ختم ہونا تھا اس رات الہام ہوا.مکن تکیه بر عمر ناپائیدار یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا.آپ نے اسی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے.دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لئے دیدیا گیا.رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا.والدہ صاحبہ کو جگایا وہ اٹھیں تو آپ کی حالت کمزور تھی انہوں نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا وہی جو میں کہا کرتا تھا (یعنی بیماری موت) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا.اس سے بہت ہی ضعف ہو گیا فرمایا مولوی نورالدین صاحب کو بلواؤ ( مولوی صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے ) پھر فرمایا کہ
تذکار مهدی ) +370 روایات سید نا محمود محمود ( مصنف ہذا رسالہ) اور میر صاحب کو جگاؤ میری چار پائی آپ کی چارپائی سے تھوڑی ہی دور تھی مجھے جگایا گیا.اٹھ کر دیکھا تو آپ کو کرب بہت تھا.ڈاکٹر بھی آگئے تھے.انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا.آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں.اس کے بعد آپ سو گئے.جب صبح کا وقت ہوا اٹھے اور اُٹھ کر نماز پڑھی.گلا بالکل بیٹھ گیا تھا.کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے.اس پر قلم دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے.قلم ہاتھ سے چھٹ گئی.اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہو گئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی روح پاک اس شہنشاہ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کر دی تھی.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.بیماری کے وقت ایک ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا.آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی.مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دی دے گئیں اور اسی روز شام یا دوسرے دن صبح اخبارات کے ذریعہ کل ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مل گئی جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یادر ہے گی وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھلائی جاسکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا.لاہور کی پبلک کا ایک گروہ نصف گھنٹہ کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کور باطنی کا ثبوت دینے لگا.بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا.آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی اس کا حال اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے مگر وہ اس بات کے قبول کرنے کو تیار تھے کہ اپنے حواس کو تو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار و نا گوار تھا کہ ان کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے.پہلے مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب سے زندہ اتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر تھے.اُن کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہوا آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبین ہو کر آیا تھا اس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت سے بھرا ہو ا شعر کہا تھا کہ :
تذکار مهدی ) 371 روایات سید نامحمودی كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنتُ أُحَاذِرُ ترجمه : " کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہوگئی.اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے.“ آج سے تیرہ سو سال کے بعد اس نبی کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اسے پہچان لیا تھا ان کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہوگئی اور ان کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گذر گئے ہیں ان کا یہی حال ہے اور خواہ صدی بھی گذر جائے مگر وہ دن ان کو کبھی نہیں بھول سکتے جبکہ خدا تعالیٰ کا پیارا رسول ان کے درمیان چلتا پھرتا تھا.اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش لے کر روانہ ہوئی اور آپ کا الہام پورا ہوا جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا کہ ” ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں.“ بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا جاتا قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا) بالا تفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نورالدین صاحب بھیروی کو تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اس طرح الوصیت کی وہ شائع شدہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر کھڑے کئے گئے تھے.میری جماعت کے لئے بھی خدا تعالیٰ اسی رنگ میں انتظام فرمائے گا.اس کے بعد خلیفہ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوپہر کے بعد آپ دفن کئے گئے اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ ستائیس کو ایک واقعہ ( ہمارے متعلق ) ”جو دسمبر 1902ء میں ہوا اور مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا پورا ہوا کیونکہ 26 مئی کو آپ فوت ہوئے اور 27 تاریخ کو آپ دفن کئے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنے واضح کر دیئے گئے تھے اور وہ الہام یہ تھا
تذکار مهدی ) وو 372 وقت رسید یعنی تیری وفات کا وقت آگیا ہے.روایات سید نا محمود آپ کی وفات پر انگریزی و دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے باوجود مخالفت کے اس بات کا اقرار کیا کہ اس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے.) سیرت حضرت مسیح موعود.انوار العلوم جلد 3 صفحہ 377 تا 380 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے صحابہ کا عشق و محبت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا.آپ کے دیکھنے والوں کو آپ سے جو محبت تھی اس کا اندازہ وہ لوگ نہیں کر سکتے جو بعد میں آئے یا جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں عمر چھوٹی تھی.مگر مجھے خدا تعالیٰ نے ایسا دل دیا تھا کہ میں بچپن سے ہی ان باتوں کی طرف متوجہ تھا.میں نے ان لوگوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا اندازہ لگایا ہے جو آپ کی صحبت میں رہے.میں نے سالہا سال ان کے متعلق دیکھا کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جدائی کی وجہ سے اپنی زندگی میں کوئی لطف محسوس نہ ہوتا تھا اور دنیا میں کوئی رونق نظر نہیں آتی تھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جن کے حوصلہ کے متعلق جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ کتنا مضبوط اور قوی تھا.وہ اپنے غموں اور فکروں کو ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے مگر انہوں نے کئی دفعہ جب کہ آپ اکیلے ہوتے اور کوئی پاس نہ ہوتا.مجھے کہا.میاں! جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے اور دنیا خالی خالی نظر آتی ہے.میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز باقی نہیں رہی.آپ کے علاوہ کئی اور لوگوں کو بھی میں نے دیکھا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے.ان کی محبت اور عشق ایسا بڑھا ہوا تھا کہ کوئی چیز انہیں لطف نہ دیتی اور وہ چاہتے کہ کاش ہماری جان نکل جائے تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جاملیں.مگر باوجود اس خواہش کے وہ زندہ تھے مر نہیں گئے تھے.خطبات محمود جلد 1 صفحہ 145-144) غلبہ اسلام اللہ تعالی کی معجزانہ تائید و نصرت سے ہوگا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب 1908ء میں انتقال ہوا تو اُس وقت میری
تذکار مهدی ) 373 روایات سید نا محمود عمر صرف ہیں سال کے قریب تھی.اس وقت میں نے دیکھا کہ جماعت کے بعض دوستوں کے قدم لڑکھڑا گئے اور ان کی زبانوں سے اس قسم کے الفاظ نکلے کہ ابھی تو بعض پیشگوئیاں پوری ہونے والی تھیں.مگر آپ کی تو وفات ہوگئی ہے اب ہمارے سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک جوش پیدا کیا میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے اسی کی قسم کھا کر یہ عہد کیا.کہ اے میرے رب ! اگر ساری جماعت بھی اس ابتلا کی وجہ سے کسی فتنہ میں پڑ جائے تب بھی میں اکیلا اس پیغام کو جو تُو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بھیجا ہے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا اور اس وقت تک چین نہیں لوں گا جب تک کہ میں ساری دنیا تک احمدیت کی آواز نہ پہنچا دوں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور میں نے آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی جس کا نتیجہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور ہزار ہا لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے لگ گئے ہیں.لیکن ان تمام نتائج کے باوجود یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ دنیا کی اس وقت اڑھائی ارب کے قریب آبادی ہے اور ان سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے اتنے اہم کام میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید و نصرت کے سوا ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی کام اس کے فضل الفضل 2 جنوری 1963 ء جلد 52/17 نمبر 2 صفحہ 1) کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا.ہر بچہ کے اندر یقین پیدا ہو گا میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت طبعی سبقوں کی طرف کم توجہ کرتی ہے اور دنیوی
تذکار مهدی ) 374 روایات سید نا محمود فلسفیوں کی طرف زیادہ توجہ رکھتی ہے.ہماری جماعت کے کتنے واعظ ہیں جن کے وعظوں میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت موسی علیہ السلام کی طرح تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا.کتنے واعظ ہیں جو ان واقعات کو بیان کر کے یہ بتاتے ہوں کہ وہ خدا جس نے فلاں موقع پر نشان دکھائے اب بھی تمہارے حق میں اپنے محبت بھرے تعلقات کا اظہار کرے گا.دُور نہ جاؤ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات اور نشانات کے دہرانے سے بھی ایمان بڑھتا ہے.جس طرح بار بار کے یاد کرنے سے ایک چہرہ سامنے آ جاتا ہے اسی طرح ان نشانات اور معجزات کے پڑھنے سے ایک ایماندار کا دل دھڑ کنے لگ جاتا ہے.بھول جاؤ مخالفت کو.کیونکہ تمہارا بھی وہی خدا ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کا خدا تھا، جو حضرت موسی علیہ السّلام کا خدا تھا، جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تھا یا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خدا تھا اور درمیان میں جو دوسرے بزرگ گزرے ہیں اُن کا خدا تھا.اگر تم چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے حق میں بھی وہی نشانات دکھائے جو اس نے ان نبیوں اور بزرگوں کے حق میں دکھائے تھے تو ان واقعات کو بار بار دہراؤ.گا ہے گاہے بازخواں ایں قصہ پارینہ را قرآن کریم نے ہمیں یہ سبق دیا ہے.اگر ایک دفعہ بات کرنا کافی ہوتی تو وہ ان واقعات کو بار بار نہ دہراتا.وہ تو ان واقعات کو اتناد ہراتا ہے کہ یورپین مصنفین کا قرآن کریم پر سب سے بڑا یہ اعتراض ہے کہ اس میں تکرار پایا جاتا ہے.بے شک انہیں قرآن کریم پر یہ اعتراض ہونا چاہیے کیونکہ وہ غیر ہیں.غیر جب ماں کو بچہ کے ساتھ پیار کرتے دیکھتا ہے، اُس کے پیار کی باتوں کو سنتا ہے تو کہتا ہے ایک دفعہ ہو گیا یہ کیا بار بار ایک ہی بات کو دہرایا جاتا ہے آخر کوئی حساب بھی ہو.لیکن ماں اُسے اس نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتی جس نقطہ نگاہ سے اُسے غیر دیکھتا ہے.تمہیں بھی قرآن کریم کو غیر کے نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اُسی طرح دیکھنا چاہیئے جس طرح بچہ ماں کی پیار بھری باتوں کو سنتا ہے اور اس کی محبت کو محسوس کرتا ہے.جس طرح ماں جب بچہ سے پیار کرتی ہے تو فطرت اُسے سبق دیتی ہے کہ بڑے ہو کر تمہیں بھی اپنے بچوں کی محبت حاصل کرنے اور ان کے حوصلوں کو بلند کرنے کے لیے ایسا کرنا ہو گا.اسی طرح
تذکار مهدی ) 1 ❤375 روایات سید نا محمود تمہیں بھی یاد رکھنا چاہیے کہ تمہارے اندر بھی ایمان اُسی وقت پیدا ہو گا جب تم ان واقعات کو دہرانے لگ جاؤ گے تم اپنی مجلسوں اور اپنے گھروں میں بار بار بیان کرو کہ جو خدا حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء کا تھا وہی خدا تمہارا ہے.جس طرح خدا نے اپنے ان پیارے بندوں کو نہیں چھوڑا تھا تم بھی اگر اُس کے ساتھ ویسے، تعلقات پیدا کر لو گے تو وہ تمہیں بھی نہیں چھوڑے گا.جب تمہاری مجلسوں اور تمہارے گھروں میں اس بات کا چرچا شروع ہو جائے گا تو ہر بچہ کے اندر یہ یقین پیدا ہوگا کہ ہمارے خدا نے یوں کہا ہے.خطبات محمود جلد 32 صفحہ 103-102) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر عہد مجھے ہمیشہ خوشی ہوتی ہے اپنے ایک فعل پر جو گو ایک بچگا نہ فعل تھا.مگر جس طرح بدر کے موقعہ پر ایک انصاری نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا.جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے اور اس صحابی کو اپنے اس فقرہ پر ناز تھا.اسی طرح مجھے بھی اپنے اس فعل پر ناز ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو چونکہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی جب کہ ابھی بعض پیشگوئیاں پوری نہیں ہوئی تھیں اور چونکہ میں نے عین آپ کی وفات کے وقت ایک دو آدمیوں کے منہ سے یہ فقرہ سنا کہ اب کیا ہوگا.عبدالحکیم کی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے محمدی بیگم والی پیشگوئی کے متعلق لوگ اعتراض کریں گے.وغیرہ وغیرہ.تو ان باتوں کو سنتے ہی پہلا کام جو میں نے کیا وہ یہ تھا کہ میں خاموشی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش مبارک کے پاس گیا اور سرہانے کی طرف کھڑے ہو کر میں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہا اے خدا میں تیرے مسیح کے سرہانے کھڑے ہو کر تیرے حضور یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی پھر گئی.تو میں اُس دین اور اس سلسلہ کی اشاعت کے لئے کھڑا رہوں گا جس کو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا ہے.میری عمر اس وقت انیس (19) سال کی تھی اور انیس سال کی عمر میں بعض اور لوگوں نے بھی بڑے بڑے کام کئے ہیں.مگر وہ جنہوں نے اس عمر میں شاندار کام کیئے ہیں.وہ نہایت ہی شاذ ہوئے ہیں.کروڑوں میں سے
تذکار مهدی ).376 روایات سید نامحمود کوئی ایک ایسا ہوا ہے جس نے اپنی اس عمر میں کوئی شاندار کام کیا ہو بلکہ اربوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوا ہے اور مجھے فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر مجھے یہ فقرہ کہنے کا موقع دیا.تو مومن کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ سمجھے اصل ذمہ دار میں ہوں.جب کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ میں اور فلاں ذمہ دار ہیں وہ سمجھ لے کہ اس کا ایمان ضائع ہو گیا اور اس کے اندر منافقت آگئی.الفضل 10 / اپریل 1938 ء جلد 36 نمبر 83 صفحہ 9) مسلمان خدا تعالیٰ پر توکل کا اظہار کریں میں نے یہ رویا بارہ تاریخ کی صبح کو ان کو سنا دی تھی اور رڈیا میں جو میں نے ابوالہول کا دوسرا سر دیکھا ہے.اس پر میں نے حیرت کا بھی اظہار کیا تھا کہ میں نے ایک سرکی بجائے دوسر دیکھے ہیں.میں اس رویاء کی بنا پر سمجھتا ہوں کہ گو یہ دونوں واقعات مسلمانوں کے لئے نہایت تکلیف دہ ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ ان صدمات کو چھوٹا کر دے گا اور مسلمانوں کو ان کے بداثر سے محفوظ رکھے گا.اگر مسلمان خدا تعالیٰ پر توکل کا اظہار کریں اور کسی لیڈر کی وفات کا جو سچا رد عمل ہوتا ہے.وہ اپنے اندر پیدا کریں.یعنی اس کی نیک خواہشات کو پورا کرنے کوشش کریں تو یقیناً مسٹر جناح کی وفات مسلمانوں کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب ہوگی.بانی سلسلہ احمدیہ جب فوت ہوئے ہیں اس وقت میری عمر انیس سال کی تھی.ان کی وفات اسی لاہور میں ہوئی تھی اور ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شہر کے بہت سے اوباشوں نے اس گھر کے سامنے شور و غوغا شروع کر دیا تھا.جس میں ان کی لاش پڑی تھی اور نا قابل برداشت گالیاں دیتے تھے اور نا پسندیدہ نعرے لگاتے تھے.مجھے اس وقت کچھ احمدی بھی اکھڑے اکھڑے سے نظر آتے تھے.تب میں بانی سلسلہ احمدیہ کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ عرض کی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو جائے تو میں اس مشن کو پھیلانے کے لئے جس کے لئے تو نے ان کو مبعوث فرمایا تھا کوشش کروں گا اور اس کام کے پورا کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے میرے عہد میں ایسی برکت دی کہ احمدیت کے مخالف ہمارے عقیدوں کے متعلق خواہ کچھ کہیں.یہ تو ان میں سے کوئی ایک مرد بھی نہیں کہ سکتا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر جماعت کو جو طاقت حاصل تھی اتنی طاقت آج
تذکار مهدی ) +377 روایات سید نا محمود جماعت کو حاصل نہیں.ہر شخص اقرار کرے گا کہ اس سے درجنوں گنے زیادہ طاقت اس وقت جماعت کو حاصل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگر وہ مسلمان جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اور ان کے کام کی قدر کو پہچانتے تھے.بچے دل سے یہ عہد کر لیں کہ جو منزل پاکستان کی انہوں نے تجویز کی تھی.وہ اس سے بھی آگے اُسے لے جانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تن دہی سے اس کو نباہنے کی کوشش بھی کریں.تو یقیناً پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا.چونکہ میرے پردادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب اور عہدہ ملا تھا.اس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے.1707ء میں ہی ان کو خطاب ملا.ہے اور 1707ء میں ہی میرے پردادا مرزا فیض محمد صاحب کو خطاب ملا تھا.ان کو نظام الملک اور میرے پردادا کو عضدالدولہ.اس وقت میرے پاس کا غذات نہیں ہیں.جہاں تک عہدے کا سوال ہے.غالباً نظام الملک کو پہلے پانچ ہزاری کا عہدہ ملا تھا.لیکن مرزا فیض محمد صاحب کو مفت ہزاری کا عہدہ ملا تھا.اس وقت نظام الملک با وجود دکن میں شورش کے دلی میں بیٹھے رہے اور تب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے.سلطان حید ر الدین کی جنگوں میں بھی حیدر آباد نے کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھایا تھا.مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اس کا رویہ اچھا نہیں تھا.انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمنے میں بھی حیدر آباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا.مگر جہاں بہادری کے مقابلہ میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے وہاں عام دور اندیشی اور انصاف اور علم پروری میں یقیناًیہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونے دکھاتا رہا ہے اور اسی وجہ سے کسی اور ریاست کے باشندوں میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایا میں نظام کی پائی جاتی ہے.انصاف کے معاملہ میں میرا اثر یہی رہا ہے کہ حیدر آباد کا انصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ اچھا تھا.ہندو مسلمان کا سوال کبھی نظاموں نے اٹھنے نہیں دیا اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول رہے.(الفضل 21 ستمبر 1948 ء جلد 2 نمبر 24 صفحہ 4) ایک ذاتی تجربہ ہم میں سے کوئی احمدی سوائے اس کے کہ جس کے دل میں خرابی پیدا ہو چکی ہو یا جس
تذکار مهدی ) 378 روایات سید نا محمودی کے ایمان میں کوئی نقص واقع ہو چکا ہو ایسا نہیں تھا جس کے دل میں کبھی بھی یہ خیال آیا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو فوت ہو جائیں گے اور ہم آپ کے پیچھے زندہ رہ جائیں گے چھوٹے کیا اور بڑے کیا، بچے کیا اور بوڑھے کیا ، مرد کیا اور عورتیں کیا سب یہی سمجھتے تھے کہ ہم پہلے فوت ہوں گے اور حضرت صاحب زندہ رہیں گے.غرض کچھ شدت محبت کی وجہ سے اور کچھ اس تعلق کی عظمت کی وجہ سے جو نبی کو خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو کتنی لمبی عمر دے گا.چاہے کوئی شخص یہ خیال نہ کرتا ہو کہ یہ نبی ہمیشہ زندہ رہے گا مگر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ہم پہلے فوت ہوں گے اور خدا تعالیٰ کا نبی دنیا میں زندہ رہے گا.چنانچہ بسا اوقات اٹھارہ اٹھارہ بیس بیس سال کے نوجوان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتے اور نہایت لجاجت سے عرض کرتے کہ حضور ہمارا جنازہ خود پڑھائیں اور ہمیں تعجب آتا کہ یہ تو ابھی نوجوان ہیں اور حضرت صاحب ستر برس سے اوپر کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس کے علاوہ آپ بیمار بھی رہتے ہیں مگر یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جنازہ آپ پڑھا ئیں.گویا انہیں یقین ہے کہ حضرت صاحب زندہ رہیں گے اور وہ آپ کے سامنے فوت ہوں گے.اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پاگئے تو دس پندرہ دن تک سینکڑوں آدمیوں کے دلوں میں کئی دفعہ یہ خیال آتا کہ آپ ابھی فوت نہیں ہوئے.میرا اپنا یہ حال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے تیسرے دن میں ایک دوست کے ساتھ باہر سیر کے لئے گیا اور دارالانوار کی طرف نکل گیا.ان دنوں ایک اعتراض کے متعلق بڑا چرچا تھا اور سمجھا جاتا تھا کہ وہ بہت ہی اہم ہے.راستہ میں میں نے اس اعتراض پر غور کرنا شروع کر دیا اور خاموشی سے سوچتا چلا گیا.مجھے یک دم اس اعتراض کا ایک نہایت ہی لطیف جواب سو جھ گیا اور میں نے زور سے کہا کہ مجھے اس اعتراض کا جواب مل گیا ہے.اب میں گھر چل کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کروں گا اور آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کی وفات پر جو فلاں اعتراض دشمنوں نے کیا ہے اس کا یہ جواب ہے حالانکہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وفات پائے تین دن گزر چکے تھے.تو وہ لوگ جنہوں نے اس عشق کا مزا چکھا ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں وہ کیا خیال کرتے تھے اور آپ کی وفات پر اُن کی کیا قلبی کیفیات تھیں.یہی حال صحابہ کا تھا.انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اُس کی مثال تاریخ کے صفحات
تذکار مهدی ) 6 379 ☀ روایات سید نا محمود میں اور کہیں نظر نہیں آتی.اس عشق کی وجہ سے صحابہ کے لئے یہ تسلیم کرنا سخت مشکل تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے.یہ نہیں کہ وہ آپ کو خدا سمجھتے تھے، وہ سمجھتے تو آپ کو انسان ہی تھے مگر شدتِ محبت کی وجہ سے خیال کرتے تھے کہ ہماری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا.چنانچہ آپ کی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ اس حقیقت کی ایک نہایت واضح دلیل ہے.(انوار العلوم جلد 15 صفحہ 473،472) تکالیف ،مصائب اور آلام سے گھبرانا نہیں چاہئے اللہ تعالیٰ کے مرسل جب آتے ہیں اُس وقت ہر شخص جو ان کی جماعت میں داخل ہوتا ہے یہ سمجھتا ہے کہ دین کا کام میرے سوا اور کسی نے نہیں کرنا جب وہ یہ سمجھ لے تو وہ اس کی انجام دہی کے لئے اپنی ساری قو تیں صرف کر دیتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ مجنوں بن جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو میں نے اس قسم کی آوازیں سنیں کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے ایسا کہنے والے یہ تو نہیں کہتے تھے کہ نَعُوذُ بِاللهِ آپ جھوٹے ہیں مگر یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح نہیں پہنچایا اور پھر آپ کی بعض پیشگوئیاں بھی پوری نہیں ہوئیں.میری عمر اُس وقت اُنیس سال کی تھی.میں نے جب اس قسم کے فقرات سنے تو میں آپ کی لاش کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے دعا کی کہ اے خدا! یہ تیرا محبوب تھا جب تک یہ زندہ رہا اس نے تیرے دین کے قیام کے لئے بے انتہاء قربانیاں کیں اب جبکہ اس کوٹو نے اپنے پاس بلا لیا ہے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی وفات بے وقت ہوئی ہے ممکن ہے ایسا کہنے والوں یا ان کے باقی ساتھیوں کے لئے اس قسم کی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوں اور جماعت کا شیرازہ بکھر جائے اس لئے اے خدا! میں تجھ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت بھی تیرے دین سے پھر جائے تو میں اس کے لئے اپنی جان لڑا دوں گا.اُس وقت میں نے سمجھ لیا تھا کہ یہ کام میں نے ہی کرنا ہے اور یہی ایک چیز بھی جس نے 19 سال کی عمر میں ہی میرے دل کے اندر ایک ایسی آگ بھر دی کہ میں نے اپنی ساری زندگی دین کی خدمت پر لگا دی اور باقی تمام مقاصد کو چھوڑ کر صرف یہی ایک مقصد اپنے سامنے رکھ لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) 380 روایات سید نا محمودی جس کام کے لئے تشریف لائے تھے وہ اب میں نے ہی کرنا ہے.وہ عزم جو اُس وقت میرے دل کے اندر پیدا ہوا تھا آج تک میں اُس کو نت نئی چاشنی کے ساتھ اپنے اندر پاتا ہوں اور وہ عہد جو اُس وقت میں نے آپ کی لاش کے سرہانے کھڑے ہو کر کیا تھا وہ خضر راہ بن کر مجھے ساتھ لئے جاتا ہے.میرا وہی عہد تھا جس نے آج تک مجھے اس مضبوطی کے ساتھ اپنے ارادہ پر قائم رکھا کہ مخالفت کے سینکڑوں طوفان میرے خلاف اُٹھے مگر وہ اس چٹان کے ساتھ ٹکرا کر اپنا ہی سر پھوڑ گئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا تھا اور مخالفین کی ہر کوشش، ہر منصوبہ اور ہر شرارت جو انہوں نے میرے خلاف کی وہ خود انہیں کے آگے آتی گئی اور خدا تعالیٰ نے اپنے خاص فضل کے ساتھ مجھے ہر موقع پر کامیابیوں کا منہ دکھایا یہاں تک کہ وہی لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت یہ کہتے تھے کہ آپ کی وفات بے وقت ہوئی ہے آپ کے مشن کی کامیابیوں کو دیکھ کر انگشت بدنداں نظر آتے ہیں.پس جو شخص یہ عہد کر لیتا ہے اور سمجھ لیتا ہے کہ یہ کام میں نے ہی سر انجام دینا ہے اُس کے رستہ میں ہزاروں مشکلات پیدا ہوں ہزاروں روکیں واقع ہوں اور ہزاروں بند اُس کے رستہ میں حائل ہوں وہ ان سب کو عبور کرتا ہوا اس میدان میں جا پہنچتا ہے جہاں کامیابی اس کے استقبال کے لئے کھڑی ہوتی ہے.پس ہماری جماعت کے ہر شخص کو یہ عہد کر لینا چاہئے کہ دین کا کام میں نے ہی کرنا ہے اس عہد کے بعد ان کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور ہر مشکل ان پر آسان ہوتی جائے گی اور ہر عسر ان کے لئے یسر بن جائے گی ان کو بے شک بعض تکالیف اور مصائب اور آلام سے بھی دو چار ہونا پڑے گا مگر وہ اس میں عین راحت محسوس کریں گے.قرآن میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ دین کی تکمیل کے لئے صرف تم ہی میرے مخاطب ہو تمہارے صحابہ اس کام میں حصہ لیں یا نہ لیں لیکن تم سے بہر حال میں نے کام لینا ہے.یہی وجہ تھی کہ آپ رات دن اسی کام میں لگے رہتے تھے اور آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون اور آپ کا ہر قول اور ہر فعل اس بات کے لئے وقف تھا کہ خدا تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کیا جائے اور آپ اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ اصل میں میرا ہی کام ہے کسی اور کا نہیں.( قومی ترقی کے دو اہم اصول، انوار العلوم جلد 19 صفحہ 74 ، 75 )
تذکار مهدی ) کارمهدی 381 روایات سید نا محمود سلسلہ کے کام خدا تعالی کرتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اب سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور دشمن خوش تھا کہ چندہ آنا اب بند ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی رک جائے گی.مگر جب لوگوں نے ایک دو سال کے بعد دیکھا کہ جماعت افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے، قربانی کے لحاظ سے بڑھ گئی ہے اور اشاعت دین کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے.تو انہوں نے یہ نئی بات بنا لی کہ اصل میں مولوی نورالدین صاحب جماعت میں ایک بہت بڑے عالم ہیں اور سلسلہ کی تمام ترقی کا انحصار انہی پر ہے.مرزا صاحب کی زندگی میں تمام کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے.گو ظاہر میں مرزا صاحب کا نام رہتا تھا.چنانچہ کئی مولوی طرز کے لوگ جو ظاہری امور کی قدر زیادہ کیا کرتے ہیں.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ہی کہا کرتے تھے کہ اس سلسلہ کو مولوی نورالدین صاحب چلا رہے ہیں انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد دیکھا کہ مولوی صاحب کے زمانہ میں سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر رہا ہے تو انہوں نے خوش ہو کر کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہ کہتے تھے کہ تمام کام مولوی نورالدین صاحب کا ہے.غرض حضرت خلیفہ اسیح اول کے وقت سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ ترقی کر گیا اور مخالفوں نے یہ کہہ کر اپنے دل کوتسلی دینی شروع کر دی کہ یہ تمام کارروائی نورالدین کی ہے اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا.حضرت خلیفتہ اُسی اول جب وفات پا گئے تو ان کے بعد اگر جماعت کے وہ مشہور لوگ جو اثر اور رسوخ رکھتے تھے جیسے خواجہ کمال الدین صاحب یار یویو آف ریلیجنز کی ایڈیٹری کے لحاظ سے مولوی محمد علی صاحب خلیفہ منتخب ہو جاتے تو انگریزی دان طبقہ یہ خیال کرتا کہ اب جماعت کی ترقی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی انگریزی میں دسترس رکھنے والا خلیفہ ہو گیا ہے کیونکہ یہ مغربی علوم کے غلبہ کا ہی زمانہ ہے مولویوں اور ملانوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا.جیسے حضرت خلیفہ اول بعض دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ ہمیں غصہ سے قُلُ آعُوذِ نے ملا کہہ دیا کرتے ہیں تو اگر ان میں سے کوئی خلیفہ ہو جاتا تو انگریزی دان طبقہ پھر بھی یہ خیال کر سکتا تھا کہ ممکن ہے جماعت کی ترقی انہی کی وجہ سے ہو مگر اللہ تعالیٰ نے اس الزام کو دور کرنے کے لئے کہ یہ سلسلہ انسانوں پر چل رہا ہے اس انسان کو خلافت کے لئے چنا
تذکار مهدی ) 382 روایات سید نا محمودی جس کے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ نالائق ہے، نا تجربہ کار ہے، کم علم ہے اور وہ جماعت کو تباہ کر دے گا تا دنیا پر یہ ظاہر کرے کہ یہ خدا کا سلسلہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ سلسلہ نہیں.بے شک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے مقرب تھے مگر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ سلسلہ ان کا بھی نہیں بلکہ میرا تھا اور بے شک حضرت مولوی نورالدین صاحب ایک بہت بڑے عالم تھے مگر ان کا علم بھی میرے فضل کا نتیجہ تھا اور سلسلہ ان کا نہیں بلکہ میرا تھا اور اس کے بعد خدا نے اس انسان کو خلافت کے لئے چنا جس کے متعلق دنیا یہ حقارت سے کہتی تھی کہ وہ نہ ظاہری علوم سے آگاہ ہے نہ باطنی علوم جانتا ہے، نہ اس کی صحت اچھی ہے نہ اسے کوئی رعب اور دبدبہ حاصل ہے اور نہ ہی کسی اور رنگ میں وہ لوگوں میں مشہور ہے اور اس طرح خدا نے ظاہر کر دیا کہ اس سلسلہ کو ترقی دینا میرا کام ہے اور میں اگر چاہوں تو مٹی سے بھی بڑے بڑے کام لے سکتا ہوں.تو اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلے خدائی مدد پر چلتے ہیں کسی انسان کی وجہ سے نہیں چلتے اور اگر ہماری جماعت کسی وقت یہ سمجھ لے کہ فلاں شخص کے بیمار ہونے یا چلے جانے یا وفات پا جانے سے سلسلہ کے کام میں خرابی پیدا ہو جائے گی تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس نے تو کل کو چھوڑ دیا.جب تک ہماری جماعت میں یہ تو کل رہے گا ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نئے سے نئے آدمی کام کرنے والے پیدا نہ کرے.آخر ہماری جماعت میں لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اور مر بھی جاتے ہیں مگر کیا کبھی بھی ہمارے کاموں میں رخنہ پڑا؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ جب بھی ایسا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فوراً ایسے آدمی کھڑے کر دیتا ہے جو ان کے کام کو سنبھال لیتے ہیں.حضرت خلیفتہ امیج اول کو علمی لحاظ سے دنیا میں خاص شہرت حاصل تھی.اسی طرح مولوی سید محمد احسن صاحب بھی بہت مشہور تھے.مولوی سید سرور شاہ صاحب اور قاضی سیدامیرحسین صاحب بھی بڑے پایہ کے عالم تھے گو باہر ان کی علمی شہرت نہیں تھی مگر حضرت خلیفہ امسیح اول کی وفات کی وجہ سے ایک عالم تو اس طرح ختم ہو گیا اور دوسرا عالم سلسلہ خلافت سے مرتد ہو گیا.تب وہی لوگ جو دس دن پہلے گمنام زندگی بسر کر رہے تھے یک دم آگے آگئے.چنانچہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم، میر محمد اسحاق صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب مرحوم نمایاں ہونے شروع ہو گئے.ان میں سے ایک کتابوں کے حوالے یادرکھنے کی وجہ سے اور باقی دو اپنے مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اُس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.حالانکہ چند مہینے پہلے حضرت خلیفہ اول کی زندگی
383 روایات سید نا محمود تذکار مهدی ) میں انہیں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی.میر محمد اسحاق صاحب کو تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور حافظ روشن علی صاحب گو جماعتوں کے جلسوں پر آنے جانے لگ گئے تھے مگر لوگ زیادہ تر یہی سمجھتے تھے کہ ایک نوجوان ہے جسے دین کا شوق ہے اور وہ تقریروں میں مشق پیدا کرنے کے لئے آجاتا ہے مگر حضرت خلیفہ اسیح اول کی وفات کے بعد چند دنوں میں ہی انہیں خدا تعالیٰ نے وہ عزت اور رعب بخشا کہ جماعت نے یہ سمجھا کہ ان کے بغیر اب کوئی جلسہ کامیاب ہی نہیں ہوسکتا.پھر کچھ عرصہ کے بعد جب ادھر میر محمد اسحاق صاحب کو انتظامی امور میں زیادہ مصروف رہنا پڑا اور ان کی صحت بھی خراب ہو گئی اور ادھر حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو کیا اس وقت بھی کوئی رخنہ پڑا؟ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابو العطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں.غرض کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری جماعت کے کسی آدمی کے ہٹنے یا اس کے مرجانے کی وجہ سے سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ پڑا ہو بلکہ جب بھی بعض لوگ ہے ، بغیر ہماری کوشش اور سعی کے اللہ تعالیٰ گمناموں میں سے بعض آدمیوں کو پکڑ پکڑ کر آگے لاتا رہا اسی طرح میں سمجھتا ہوں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا اللہ تعالیٰ نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچا دیا جاتا ہے اسی طرح خدا نے ان کو مقبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر دی کہ صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ ، دلوں پر اثر کرنے والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی.تو اللہ تعالیٰ نے کب ہمارا ساتھ چھوڑا ہے جو اب ہم اس کے متعلق بدگمانی کریں اور یہ خیال کریں کہ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے یا وفات پا جائے تو سلسلہ کا کام رک جائے گا.خطبات محمود جلد 21 صفحہ 413 تا 416) خلافت اسلام کی سنت ہے یہ ایک بالکل واضح بات ہے کہ نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے لیکن لوگ پھر بھی اس
تذکار مهدی ) 384 روایات سید نامحمود طریق کو بھول جاتے ہیں.وقت سے پہلے وہ ان باتوں کو اپنی مجالس میں دُہراتے اور ان کا اقرار کرتے ہیں لیکن عین موقع پر ان کا صاف انکار کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے تو حضرت خلیفہ اول کو اس قدر صدمہ ہوا کہ شدت غم کی وجہ سے آپ کے منہ سے بات تک نہیں نکلتی تھی اور ضعف اس قدر تھا کہ کبھی کمر پر ہاتھ رکھتے اور کبھی ماتھے پر ہاتھ رکھتے اسی حالت میں مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اول کا ہاتھ پکڑ کر کہا أَنتَ الصِّدِّيقُ اور بعض اور فقرات بھی کہے جن کا مفہوم یہ تھا کہ خلافت اسلام کی سنت ہے لیکن بعد میں مولوی سید محمد احسن صاحب اس بات پر قائم نہ رہے اور اُنہوں نے خلافت سے منہ پھیر لیا.مولوی محمد علی صاحب یا ان کے رفقاء نے ان کے بچوں کو آٹے کی مشین لگوا دینے کا وعدہ کیا تھا.پس اس بات پر لڑ کے اور بیوی پیغامیوں کا ساتھ دیتے رہے اور مولوی صاحب کو بھی مجبور کرتے رہے کہ وہ لاہوریوں کا ساتھ دیں.جب وہ ابتلاء کے کچھ عرصہ بعد قادیان میں مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو صاف کہا کہ میں مجبور ہوں فالج نے قومی مار دیئے ہیں میں طہارت تک خود نہیں کر سکتا ان لوگوں کو وعدہ دے کر لاہوریوں نے بگاڑ رکھا ہے اور میں ان کے ساتھ رہنے پر مجبور ہوں.انہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر یعقوب اور اس کی والدہ کو سنبھال لیا جائے تو میں بھی رہ سکوں گا.میں چونکہ اس قسم کی رشوت دینے کا عادی نہیں میں نے اس طرف توجہ نہیں کی.مجھے اکثر ایسے لوگوں کی حالت پر حیرت آتی ہے کہ ذرا ان کو سلسلہ سے کوئی شکایت پیدا ہو تو انہیں خلافت کے مسئلہ میں بھی شک پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہوتی ہے ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 242-241) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پھر شیطان نے ایک اور رنگ میں اس کی بنیاد رکھی.آپ کی خلافت میں پہلا جھگڑا جو زیادہ شدت سے ظاہر نہیں ہوا.حضرت خلیفہ اول کے خلیفہ بننے کے وقت ہوا.یہ جھگڑا بھی درحقیقت وہی ابلیس والے جھگڑے کی طرز پر تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک انجمن مقبرہ بہشتی کی بنائی تھی اور اس میں حضرت خلیفہ اول کو صدر بنایا تھا اور مولوی محمد علی صاحب اس کے سیکرٹری تھے.دوسرے ممبروں میں سے
تذکار مهدی ) 385 روایات سید نا محمود خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ تھے.چھوٹے چھوٹے معاملات میں اختلاف ہوتا تو حضرت خلیفہ اول کی رائے ایک طرف ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی رائے دوسری طرف ہوتی.اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی میں حضرت خلیفہ اول کے خلاف بغض پیدا ہو جاتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو اس وقت کے حالات کی وجہ سے خواجہ کمال الدین صاحب بہت ڈر گئے اور لاہور میں جہاں وفات ہوئی تھی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا اعلان کر دیا اور خواجہ صاحب نے ڈر کر مان لیا.جب قادیان پہنچے تو خواجہ صاحب نے سوچا کہ حضرت خلیفہ اول ضرور خلیفہ بنیں گے اور اپنی ہوشیاری کی وجہ سے خیال کیا کہ اگر ان کی خلافت کا مسئلہ ہماری طرف سے پیش ہو تو ان پر ہمارا اثر رہے گا اور وہ ہماری بات مانتے رہیں گے.چنانچہ انہوں نے آپ کی خلافت کے متعلق ایک اعلان شائع کیا اور اس میں لکھا کہ الوصیت کے مطابق ایک خلیفہ ہونا چاہئے اور ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستحق اس کے حضرت مولوی نور الدین صاحب ہیں اس اعلان کے الفاظ یہ ہیں:.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصا یا مندرجہ رسالہ الوصیت کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود با جازت حضرت ام المومنین کل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اس وقت بارہ سو تھی.والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.“ ( بدر 2 جون 1908ء) میں نے بھی اسی قانون کے مطابق نیا نظام بنایا ہے صرف تحریک جدید کے وکلاء کو زائد کر دیا ہے کیونکہ اب جماعت احمدیہ کے باہر پھیل جانے کی وجہ سے اس کا مرکزی نظام دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے.(خلافت حقہ اسلامیہ نظام آسمانی کی مخالفت...انوارالعلوم جلد 26 صفحہ 65-64) خلافت کے بارہ میں مسلمانوں میں تین گروہ 66 ان مختلف قسم کے خیالات کے نتیجہ میں مسلمانوں میں خلافت کے بارہ میں تین گروہ ہو گئے.(1) خلافت بمعنی نیابت ہے اور رسول کریم ﷺ کے بعد آپ کا کوئی نائب ہونا چاہئے.مگر اس کا طریق یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے فیصلہ کے مطابق یا خلیفہ کے تقرر کے
تذکار مهدی ) 386 روایات سید نامحمود مطابق جسے اُمت تسلیم کرے وہ شخص خلیفہ مقرر ہوتا ہے اور وہ واجب الاطاعت ہوتا ہے.یہ سنی کہلاتے ہیں.(۲) حکم خدا کا ہے.کسی شخص کو واجب الاطاعت ماننا شرک ہے.کثرت رائے کے مطابق فیصلہ ہونا چاہئے اور مسلمان آزاد ہیں وہ جو کچھ چاہیں اپنے لئے مقرر کریں.یہ خوارج کہلاتے ہیں.(۳) انسان امیر مقرر نہیں کرتے بلکہ امیر مقرر کرنا خدا کا کام ہے اسی نے حضرت علی کو امام مقرر کیا اور آپ کے بعد گیارہ اور امام مقرر کئے.آخری امام اب تک زندہ موجود ہے مگر مخفی.یہ شیعہ کہلاتے ہیں.ان میں سے ایک فریق ایسا نکلا کہ اس نے کہا.دنیا میں ہر وقت زندہ امام کا ہونا ضروری ہے جو ظاہر بھی ہو اور یہ اسماعیلیہ شیعہ کہلاتے ہیں.خلافت راشده، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 489) ایک شیعہ کا قصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شیعہ کا قصہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک عمر رسیدہ شیعه سخت بیمار ہو گیا.جب اس کے بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو بیٹوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں کوئی ایسا نکتہ بتا جائیں جس سے ہمارا ایمان کامل ہو جائے.کہنے لگا صبر کرو، ابھی میں اچھا ہوں.جب حالت زیادہ نازک ہو گئی تو بیٹوں نے پھر یاددہانی کرائی تب اس نے کہا نہایت ہی راز کی بات آج میں تم پر ظاہر کرتا ہوں اور وہ یہ کہ کچھ کچھ بغض تم امام حسن سے بھی رکھنا کہ وہ خلافت سے کیوں دست بردار ہو گئے تھوڑی دیر کے بعد پھر بیٹوں نے درخواست کی کوئی اور بات.کہنے لگا کچھ کچھ بغض امام حسین سے بھی رکھنا کہ انہوں نے مدینہ کیوں چھوڑا کچھ دیر کے بعد پھر بیٹوں نے درخواست کی کہ کوئی اور نکتہ آپ بتائیں.کہنے لگا اتنا ہی کافی ہے جو میں نے بتا دیا لیکن جب بیٹوں نے اصرار کیا تو کہنے لگا اچھا تھوڑا بغض حضرت علیؓ سے بھی رکھنا کہ وہ شروع میں ہی بزدلی نہ دکھاتے تو خلافت دوسروں کے ہاتھ میں کیوں جاتی.اس کے بعد بیٹوں نے پھر اصرار کیا کہ کوئی اور بات بھی بتا ئیں.تو اس نے کہا اچھا تھوڑا بغض رسول کریم ﷺے سے بھی رکھنا کہ انہوں نے جرات کر کے اپنے سامنے ہی کیوں نہ حضرت علی کے ہاتھ پر بیعت کروا دی.اس کے بعد بیٹوں نے پھر اصرار کیا تو کہا.اچھا کچھ بغض جبرائیل سے بھی رکھنا کہ
تذکار مهدی ) 387 روایات سیّد نا محمود اس کو تو وحی حضرت علی کے لئے دی گئی تھی وہ بھول کر رسول کریم کی طرف کیوں چلا گیا.اس کے بعد وہ فوت ہو گیا.اس پر کسی جلے ہوئے سنی نے کہ دیا اگر وہ تھوڑی دیر زندہ رہتا تو یہ بھی کہہ دیتا تھوڑ اسا بغض خدا سے رکھنا کہ جبرائیل کو بھیجنے میں اس نے دھوکا کھایا.معلوم ہوتا ہے کسی سنی نے یہ قصہ بنایا ہے جس میں اس نے یہ دکھایا ہے کہ اگر شیعوں کے عقیدوں کو تسلیم کیا جائے تو پھر سب سے بغض رکھنا پڑتا ہے.مخالفین احمدیت کے بارہ میں جماعت احمدیہ کونصیحت.انوار العلوم جلد 9 صفحہ 94 تا 95) خلافت احمدیہ کا ذکر یہ تو اس خلافت کی تاریخ ہے جو رسول کریم ﷺ کے معا بعد ہوئی.اب میں اس خلافت کا ذکر کرتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت معے کے وقت میں صحابہ کی تھی چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پاسکتے اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کے لئے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا.میں اس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمرکو پہنچا ہوا تھا، میں مضامین لکھا کرتا تھا، میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا، مگر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ بلکہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپ کی وفات کی خبر ہوتی تھی اور آخری ایام میں تو ان کی کثرت اور بھی بڑھ گئی مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے الہامات ہوتے رہے اور باوجود اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعین تھی اور باوجود اس کے کہ ہم الوصیت“ پڑھتے تھے ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دوصدیاں بعد پوری ہوں گی اس لئے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہوگا اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے
تذکار مهدی ) 388 روایات سید نا محمود اس لئے جب واقعہ میں آپ کی وفات ہو گئی تو ہمارے لئے یہ باور کرنا مشکل تھا کہ آپ فوت ہو چکے ہیں.چنانچہ مجھے خوب یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب آپ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقع پر بعض دفعہ ہوا کے جھونکے سے کپڑا ہل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہل جاتی ہیں اس لئے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں.ہم نے آپ کا کپڑا ملتے دیکھا ہے یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ہلتے دیکھا ہے.اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو اسے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا.کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہوگا کہ خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں! کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحب کی وفات کے بعد کیا ہوگا.میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہئے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا.وہ کہنے لگے میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب کی بیعت کر لینی چاہئے.اس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ کم تھا میں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ ہم آپ کے بعد کسی اور کی بیعت کر لیں اس لئے حضرت مولوی صاحب کی ہم کیوں بیعت کریں.( گو’ الوصیۃ میں اس کا ذکر تھا مگر اُس وقت میرا ذہن اس طرف گیا نہیں) انہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث شروع کر دی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ قوم نے حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی تھی اس لئے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہئے اور اس منصب کیلئے حضرت مولوی صاحب سے بڑھ کر ہماری جماعت میں اور کوئی شخص نہیں.مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہئے.آخر جماعت نے متفقہ طور پر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں.اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوا اور اس میں حضرت خلیفہ اول نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت
تذکار مهدی ) 389 روایات سید نا محمودی کی کوئی خواہش نہیں میں چاہتا ہوں کہ کسی اور کی بیعت کر لی جائے.چنانچہ آپ نے اس سلسلہ میں پہلے میرا نام لیا پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کا نام لیا.پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کا نام لیا اسی طرح بعض اور دوستوں کے نام لئے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہی عرض کیا کہ اس منصب خلافت کے اہل آپ ہی ہیں چنانچہ سب لوگوں نے آپ کی بیعت کر لی.(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 489 تا 491) حق اولاد در اولاد میں چھوٹا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے.آپ کی وفات کے بعد والدہ مجھے بیت الدعاء میں لے گئیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں والی کاپی میرے سامنے رکھ دی اور کہا کہ میں سمجھتی ہوں.یہی تمہارا سب سے بڑا ورثہ ہے میں نے ان الہامات کو دیکھا تو ان میں ایک الہام آپ کی اولاد کے متعلق یہ درج تھا کہ وو حق اولاد در اولاد اسی طرح ایک اور الہام درج تھا.جو منذ رتھا اور اس کے نیچے لکھا تھا کہ جب میں نے یہ الہام محمود کی والدہ کو سنایا تو وہ رونے لگ گئیں.میں نے کہا کہ تم یہ الہام مولوی نورالدین صاحب کے پاس جا کر بیان کرو.انہوں نے محمود کی والدہ کو تسلی دی اور کہا کہ یہ الہام منذر نہیں بلکہ مبشر ہے.حق اولاد در اولاد کے معنے در حقیقت یہی تھے کہ وہ حق جو باہر سے تعلق رکھتا ہے.یعنی زمینوں اور جائیدادوں وغیرہ میں حصہ یہ کوئی زیادہ قیمتی نہیں.زیادہ قیمتی یہ چیز ہے کہ میں نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں وہ قابلیت رکھ دی ہے کہ جب بھی یہ اس قابلیت سے کام لیں گے.دنیا کے لیڈر ہی بنیں گے باقی ورثہ ضائع ہو جاتا ہے.مگر یہ وہ ورثہ ہے جو کبھی ضائع نہیں ہوسکتا اور یہ وہ ورثہ ہے جو ہم نے تمہاری اولاد کے دماغوں میں مستقل طور پر رکھ دیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بعد میں جو کچھ بھی ملا.حق اولاد در اولاد کی وجہ سے ہی ملا اور میں نے جتنے کام کیسے اپنی دماغی اور ذہنی قابلیت کی وجہ سے ہی کئے.ورنہ مجھ سے زیادہ کتابیں پڑھنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.اگر ان کے دماغوں میں بھی وہی قابلیت ہوتی جو مجھ میں ہے.تو دنیا میں دس ہزار محمود اور بھی ہوتا.لیکن اگر ساری دنیا میں صرف ایک ہی محمود ہے.تو اس کی وجہ وہی حق اولاد در اولاد ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمار اور ثہ ہمارے دماغوں کے اندر رکھ دیا ہے اور یہ
تذکار مهدی ) کارمهدی 390 روایات سید نا محمود وہ دولت ہے جسے کوئی شخص چرا نہیں سکتا.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام نے کہا کہ جو کچھ تم زمین پر جمع کرو گے.اسے کیڑا کھا جائے گا.لیکن اگر تم آسمان پر جمع کرو تو وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ رہے گا اور کوئی کیڑا اسے نہیں کھا سکے گا.اسی طرح جائیداد میں تباہ کی جاسکتی ہیں.زمینیں چھینی جاسکتی ہیں.لیکن ترقی کی وہ قابلیت جو دماغوں کے اندر ودیعت کر دی گئی ہوا سے کوئی شخص چھین نہیں سکتا.چنانچہ دیکھ لو وہی جائیداد جس کا حساب میں نے کروڑوں میں لگایا ہے اور جو شاید چند سالوں کے بعدار بوں کی جائیداد بن جاتی.وہی ہمارے شریک بھائیوں کے سپر دتھی.مگر اس کی کوئی قیمت نہ تھی اور ہم اس سے اس قدر نا واقف تھے کہ مجھے یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک دن ہمارے نانا جان والدہ صاحبہ کے پاس آئے اور انہوں نے غصہ میں رجسٹر زمین پر پھینک دیئے اور کہا کہ میں کب تک بڑھا ہو کر بھی تمہاری خدمت کرتا رہوں.اب تمہاری اولاد جوان ہے اس سے کام لو اور زمینوں کی نگرانی ان کے سپرد کرو.والدہ نے مجھے بلایا اور رجسٹر مجھے دے دیئے اور کہا کہ تم کام کرو.تمہارے نانا یہ رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں.میں ان دنوں قرآن اور حدیث کے مطالعہ میں ایسا مشغول تھا کہ جب زمینوں کا کام مجھے کرنے کے لئے کہا گیا.تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے قتل کر دیا ہے.مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ جائیداد ہے کیا بلا اور وہ کس سمت میں ہے.مغرب میں ہے یا مشرق میں.شمال میں ہے یا جنوب میں میں نے زمینوں کی لسٹیں اپنے ہاتھ میں لے لیں اور دہ شکل بنائے گھر سے باہر نکلا.مجھے اس وقت یہ علم نہیں تھا کہ حق اولاد در اولاد کا الہام کیا کام کر رہا ہے.میں جو نہی باہر نکلا ایک صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے میاں صاحب میں نے سنا ہے کہ آپ کو زمینوں کے لئے کسی نوکر کی ضرورت ہے.میں نے کہا آج نانا جان غصہ میں آکر والدہ کے سامنے رجسٹر پھینک کر چلے گئے ہیں اور میں حیران ہوں کہ یہ کام کس طرح کروں.کہنے لگے کہ میں اس خدمت کے لئے حاضر ہوں.میں نے کہا آپ شوق سے یہ کام سنبھالیں.در حقیقت یہ آپ کا ہی حق ہے.مگر آپ لیں گے کیا ؟ کہنے لگے آپ مجھے صرف دس روپے دے دیجئے.میں نے کہا دس روپے میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.کہنے لگے آپ فکر نہ کریں بڑی بھاری جائیداد ہے اور میری تنخواہ اس میں سے بڑی آسانی کے ساتھ نکل آئے گی.میں نے اسی وقت بغیر پڑھے رجسٹر اس کے حوالے کر دیئے اور کہا کہ اگر آپ دس روپے پیدا کر سکیں تو لے لیجئے.ورنہ میرے پاس تو ایک پیسہ بھی نہیں.انہی دنوں قرآن کریم کے پہلے
تذکار مهدی ) 391 روایات سید نا محمود ).انگریزی پارہ کی اشاعت کا سوال پیدا ہوا اس پارہ کے لئے میں اردو میں مضمون لکھتا تھا اور ماسٹر عبدالحق صاحب مرحوم اس کا انگریزی میں ترجمہ کرتے جاتے تھے وہ اتنا اعلیٰ ترجمہ کرنے والے تھے کہ آج تک یورپ سے خطوط آتے رہتے ہیں کہ آپ کے پہلے پارہ کی زبان نہایت شاندار ہے اور پھر وہ اتنی جلدی ترجمہ کرتے تھے کہ میں پیچھے رہ جاتا اور وہ مضمون کا ترجمہ کر کے لے آتے حالانکہ میں خود اتنا زود نویس تھا کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں پوری کتاب لکھ دیتا تھا ان دنوں مسجد مبارک کے نچلے کمرہ میں بیٹھ کر میں کام کیا کرتا تھا.ایک دن میں بیٹھا مضمون لکھ رہا تھا کہ کسی نے دروازے پر دستک دی.میں نے پوچھا تو پتہ لگا کہ ماسٹر عبدالحق صاحب آئے ہیں.میں نے کہا آپ کس طرح آئے ہیں کہنے لگے مضمون دیجئے.میں نے کہا ابھی تھوڑی دیر ہوئی میں آپ کو مضمون بھجوا چکا ہوں کہنے لگے اس کا ترجمہ تو میں ختم بھی کر چکا ہوں اب مجھے آگے مضمون دیجئے.میں نے کہا میرے پاس تو ابھی مضمون تیار نہیں کہنے لگے خیر میں اپنا کام ختم کر چکا ہوں آپ مضمون لکھ لیں تو مجھے بھجوا دیں.بہر حال جب مضمون تیار ہو گیا تو ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ پارہ ہم اپنے خاندان کی طرف سے چھپوا دیں.مگر اس کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی ہمارا اندازہ یہ تھا کہ اس کے لئے چار ہزار روپیہ کی ضرورت ہوگی.آخر سوچ کر میں نے یہ تجویز نکالی کہ ہم اپنی جائیداد کا کچھ حصہ بیچ دیتے ہیں.اس ذریعہ سے جو آمد ہو گی وہ قرآن کریم کے چھپوانے پر خرچ کر دی جائے گی.میں نے اپنے بھائیوں سے مشورہ لیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری طرف سے زمین بیچنے کی اجازت ہے.مگر اب میں ڈروں کہ چار ہزار روپیہ آ بھی سکتا ہے یا نہیں.میں نے اسی دوست کو بلوایا اور کہا کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ قرآن کریم ہمارے خاندان کے خرچ پر شائع ہو کیا اس کے لئے چار ہزار روپیہ اکٹھا ہوسکتا ہے.کہنے لگے کہ آپ کہیں تو ہیں ہزار روپیہ بھی اکٹھا ہو سکتا ہے.میں نے کہا میں ہزار نہیں صرف چار ہزار روپیہ چاہیئے.جب میں نے یہ بات کہی اس وقت کوئی گیارہ بجے ہوں گے.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ روپیہ کب تک اکٹھا ہوسکتا ہے.کہنے لگے ظہر تک لا دوں گا.یہ کہہ کر وہ چلے گئے.ظہر کی نماز پڑھ کر میں الفضل کے دفتر میں گیا تو انہوں نے چار ہزار روپیہ کی تھیلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا کہ ابھی اور بہت سے گاہک موجود ہیں.اگر آپ کہیں تو میں چھپیس ہزار روپیہ بھی آسکتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ دینے پر آتا ہے تو اس طرح دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.پس مت سوچو کہ تمہاری اولادیں کیا کھائیں گی اور کہاں سے ان کے لئے رزق آئے گا.ہمیں تو یہ فکر رہتی ہے
تذکار مهدی ) 392 روایات سید نا محمود کہ ہمیں جو کچھ خدا نے دیا ہے.یہ ہماری اولادوں کی تباہی کا موجب نہ ہو جائے.ہمیں یہ فکر نہیں کہ وہ کھائیں گے کہاں سے ہمیں تو یہ فکر ہے کہ وہ کہیں اپنے کھانے پینے میں ہی نہ لگ جائیں اور خدا اور اس کے دین کو بھلا نہ بیٹھیں میں نے بتایا ہے کہ شروع میں میری یہ حالت تھی کہ میں دس روپیہ کا نوکر بھی نہیں رکھ سکتا تھا.مگر اب سندھ کی زمینوں پر جو میرے ملازم کام کر رہے ہیں ان کی چار ہزار روپیہ ماہوار تنخواہ ہے.کجا یہ کہ دس روپے کے نوکر پر میری جان نکلتی تھی اور کجا یہ کہ اب چار ہزار روپیہ ماہوار میں انہیں دیتا ہوں.یہ روپیہ آخر کہاں سے آیا.خدا نے ہی دیا.ورنہ میرے پاس تو کچھ نہیں تھا.جب ہم قادیان سے آئے ہیں اس وقت ہیں ہیں ہزار روپیہ پر ایک ایک کنال فروخت ہو رہی تھی اور اگر ساری جائیداد فروخت کرنے کا ہمیں موقع ملتا تو وہ کروڑوں روپیہ کی مالیت کی تھی.پس اللہ تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی میں اپنے سب بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ تم اس روپیہ کو دیکھ کر کبھی یہ دھوکا نہ کھاؤ کہ یہ تمہاری کوشش اور جدوجہد کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہو رہا ہے.تمہیں جو کچھ مل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل مل رہا ہے.اگر آپ کا یہ دعوی نہ ہوتا کہ میں مامور ہوں اور آپ کی وجہ سے قادیان کو تقدس حاصل نہ ہوتا.تو کیا تم سمجھتے ہو کہ پھر بھی وہاں ہیں ہیں اور چھپیں چھپیں ہزار کو ایک ایک کنال فروخت ہوا کرتی.یہ قیمت اسی لئے بڑھی کہ لاہور اور سیالکوٹ اور گجرات اور بمبئی اور کلکتہ سے لوگ آئے اور وہاں انہوں نے اپنی رہائش کے لئے زمینیں خریدنی شروع کر دیں اور وہ اگر وہاں آکر آباد ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی وجہ سے.پس کبھی یہ خیال نہ کرو کہ تم اپنے روپیہ سے بڑھ رہے ہو.تمہیں خدا اپنے پاس سے رزق دے رہا ہے پس تم خدا کا شکر ادا کرو اور اس بات کو یاد رکھو کہ دنیا نے تم کو نہیں پالنا.خدا نے تم کو پالنا ہے تم اپنے اندر دین کی خدمت کا احساس پیدا کرو اور سمجھ لو کہ ہر دنیوی پیشہ کے ساتھ تم دین کی بھی خدمت کر سکتے ہو بشرطیکہ تم مشورہ کے لئے صحیح آدمی کا انتخاب کرو.الفضل 22 اکتوبر 1955 ء جلد 4419 نمبر 247 صفحہ 12-11) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال یاد رکھو جب تک جماعت میں نسلاً بعد نسل ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو دین کی
تذکار مهدی ) 393 نامحمودی روایات سیّد نا محمود اشاعت کے لئے سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں اور اسلام کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار ہوں تو اس وقت تک اسلام کو غلبہ حاصل نہیں ہوسکتا.میں چھوٹا تھا کہ میں نے بچپن کے چند دوستوں کے ساتھ مل کر ایک انجمن بنائی اور رسالہ " تشخحید الا ذہان“ ہم نے جاری کیا.میرے اس وقت کے دوستوں میں سے ایک چودھری فتح محمد صاحب ہیں جن کی لڑکی چوہدری عبداللہ خان صاحب کے گھر ہے.ایک دفعہ چوہدری عبداللہ خان صاحب کی بیوی مجھے کہنے لگیں کہ ابا جی کو جب آپ نے ناظر اعلیٰ بنا دیا تو وہ گھر میں بڑا افسوس کیا کرتے تھے کہ ہم نے تو اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کیا تھا اور انہوں نے ہمیں کرسیوں پر لا کر بٹھا دیا ہے دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں وہ لوگ بھی ہیں جو مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ واقف زندگی کی قدر ہونی چاہئے.باہر سے آنے والوں میں سے کوئی وکیل اعلیٰ ہو جاتا ہے اور کوئی ناظر اعلیٰ ہو جاتا ہے اور ہم مبلغ کے مبلغ ہی رہتے ہیں.(الفضل 22 /اکتوبر 1955ءجلد 44/9 نمبر 247 صفحہ 6) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر خاندانی جائیداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے اس وقت ہمارے پاس اپنے گزارے کا کوئی سامان نہ تھا.والدہ سے اس کے ہر بچہ کو محبت ہوتی ہے لیکن میرے دل میں نہ صرف اپنی والدہ ہونے کے لحاظ سے حضرت ام المومنین کی عظمت تھی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کی دوہری عزت میرے قلب میں موجود ہے.اس کے علاوہ جس چیز نے میرے دل پر خاص طور پر اثر کیا وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں.اس وقت آپ پر کچھ قرض تھا آپ نے یہ نہیں کیا کہ جماعت کے لوگوں سے کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اس قدر قرض ہے یہ ادا کر دو.بلکہ آپ کے پاس جو زیور تھا اسے آپ نے بیچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرض کو فوراً ادا کر دیا.میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لئے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقعہ نہ تھا.مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کتنا محبت کرنے والا اور آپ سے تعاون کرنے والا ساتھی دیا پھر ہمارے لئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے
تذکار مهدی ) 394 روایات سیّد نا محمود کچھ گزارہ مقرر کرنا چاہا میں نے اس بات کا پہلے بڑا مقابلہ کیا اور کہا کہ ہم ہر گز گزارہ نہیں لیں گے لوگ مجھے کہتے کہ آخر آپ کیا کریں گے تو میں یہی کہتا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمیں بھوکا رکھنا منظور ہے تو ہم بھوکے رہیں گے.مگر جماعت سے گزارہ کے لئے کوئی رقم نہیں لیں گے یہاں تک کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی.اس پر آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ میاں خدا کا ایک الہام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوا اور میں نے اس الہام کے یہ معنے نکالے ہیں.اس لئے تم اس گزارہ کو قبول کر لو.چنانچہ میں نے وہ گزارہ قبول کر لیا.مگر وہ گزارہ اس سے بہت کم تھا جو آج کل ہماری اولادوں کو ملتا ہے.اس وقت مجھے ساٹھ روپے ماہوار ملا کرتے تھے اور ہم نہ صرف میاں بیوی تھے بلکہ اس وقت دو بچے بھی ہو چکے تھے اور ایک خادمہ بھی تھی.اس کے علاوہ میں انہی روپوں میں سے دس روپے کے قریب دینی کاموں میں خرچ کرتا تھا.گویا پچاس روپیہ میں ہم گزارہ کیا کرتے تھے لیکن میرے دل میں اس وقت یہ کبھی خیال پیدا نہیں ہوا کہ ہمیں گزارہ کم ملتا ہے.ہماری جائیداد بے شک تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ جائیداد کی طرف توجہ نہیں کیا کرتے تھے اس لیے ہمیں بھی پتہ نہیں تھا کہ وہ جائیداد کیا ہے اور کتنی قیمت کی ہے.بعد میں وہ جائیداد خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں روپیہ کی ثابت ہوئی اور باوجود اس کے کہ بہت سی جائیداد ہم بیچ کر کھا چکے ہیں اب بھی اگر سب بھائیوں میں وہ جائیداد تقسیم کی جائے تو ہر ایک کا لاکھ لاکھ ، ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا حصہ نکل سکتا ہے.حالانکہ چار پانچ لاکھ روپیہ کی جائیداد ہم بیچ چکے ہیں.تو یہ چیز موجود تھی مگر ہمیں اس کا پتہ نہیں تھا اور نہ اس جائیداد کی قیمت کا ہمیں کوئی علم تھا.نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جائیداد سے کوئی واسطہ رکھا اور نہ ہمیں اس کی طرف کوئی توجہ پیدا ہوئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے ذرائع سے روپیہ دینا شروع کر دیا جو میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے.لوگ جہاں مجھ پر مختلف اعتراضات کیا کرتے ہیں مگر میں ان اعتراضات کی پروا نہیں کیا کرتا وہاں مالی معاملات میں جب بھی مجھ پر کوئی اعتراض کیا گیا ہے میں نے دلیری سے کہا ہے کہ تم مجھ سے پائی پائی کا حساب لے لو.میں تمہیں بتانے کے لیے تیار ہوں کہ میری جائیداد کس طرح بنی ہے
تذکار مهدی ) 395 روایات سید نامحمود اور یہ تمام باتیں زبانی نہیں بلکہ رجسٹروں اور تحریروں سے میں ثابت کرسکتا ہوں کہ میں نے جماعت کے روپیہ سے جائیداد نہیں بنائی.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خود ہی مجھ کو جائیداد دی ہے.چنانچہ آج بڑے سے بڑے دشمن کو بھی میں حساب دینے کے لیے تیار ہوں اور ثابت کرسکتا ہوں کہ میں نے جماعت کے روپیہ سے ہرگز کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا.اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے توقع سے بہت زیادہ جائیداد دی ہے.جس کا قیاس اور وہم و گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا.اس لئے پیشگوئی کے ذریعہ سے پہلے مجھے اس جائیداد کی خبر دی.پھر ایسے سامان کئے کہ معجزانہ رنگ میں وہ جائیداد مجھے مل گئی اور ہر قدم پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جبراً وہ جائیداد مجھے لینی پڑی.کہیں کوئی مجبوری پیدا ہوئی اور اُس کی وجہ سے جائیداد لینی پڑی اور کہیں کوئی مصلحت نظر آئی تو جائیداد لینی پڑی.بہر حال یاد رکھو خدا اپنے بندوں کو دیتا ہے اور ایسے طور پر دیتا ہے کہ بندہ لیتے لیتے تھک جاتا ہے.پھر کیوں وہ خدا پر یقین اور توکل نہیں کرتے اور دنیوی کاموں میں مشغول رہتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ پر توکل کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں ہونے کی وجہ سے جس طرح ہم تینوں بھائیوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں دین کے لیے وقف کر دی ہیں اسی طرح وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں، اپنی اولادوں کو خدا تعالیٰ کے لیے وقف کر دیں اور دنیوی کاموں کی بجائے دین کے کاموں اور اسلام کے احیاء میں حصہ لیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو اول تو میں انہیں بتاتا ہوں خدا انہیں فاقہ نہیں دے گا.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدائی مشیت کے ماتحت کسی وقت انہیں فاقہ بھی کرنا پڑے تو یہ فاقہ ہزاروں کھانوں سے زیادہ بہتر ہوگا.اس وقت دین پر ایک آفت آئی ہوئی ہے، اسلام ایک مصیبت میں مبتلا ہے اور اس کا وہی نقشہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں کھینچا کہ شد دین احمد پیچ خویش و یار نیست ہر کسے درکار خود با دین احمد کار نیست پس اے ابنائے فارس! تم کو یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیٹا قرار دیا ہے اور بیٹا اسی وجہ سے قرار دیا
تذکار مهدی ) کارمهدی 396 روایات سید نا محمودی ہے تا آپ کے خاندان کو معلوم ہو کہ وہ خویشوں میں سے ہیں اور اُن سے زیادہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ دین کی خدمت کریں گے.پس تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خویشوں میں سے ہو.تمہیں اوروں سے زیادہ دین کی خدمت کرنی چاہیے.مجھے تو اس بات کی کبھی سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ اگر خدا نے دین کی خدمت کا کام کرتے ہوئے دنیوی لحاظ سے مجھے اپنے فضلوں سے حصہ دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میری اولاد یا اولاد در اولا د دین کی خدمت کا کام کرے اور وہ فاقہ سے مرتی رہے.اگر وہ مومنانہ رنگ اختیار کریں تو تھوڑے روپیہ میں بھی آسانی سے گزارہ کر سکتے ہیں.(الفضل 14 مارچ 1944 ء جلد 32 نمبر 61 صفحہ 11-12) خواجہ کمال الدین صاحب کی حق گوئی مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد صدر انجمن احمد یہ میں ایک دو دفعہ یہ سوال پیش ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے لئے گزارہ کی کیا صورت کی جائے.میرے لئے تکلیف دہ امر یہ تھا کہ میں خود صدرانجمن احمد یہ کا نمبر تھا اور مجھے بھی وہاں جانا پڑتا تھا.اس وقت اور ممبر بعض دفعہ اس رنگ میں بات کرتے تھے کہ جس کو بعد میں سن کر بھی تکلیف ہوتی ہے.کجا یہ کہ انسان کے بیٹھے ہوئے کی جائے.مگر سوائے اس کے کہ میں سن کر خاموش رہتا.میرے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایسی ہی باتیں ہو رہی تھیں جو تکلیف دہ تھیں.خواجہ کمال الدین مرحوم صاحب بیٹھے ہوئے تھے.مخالفت کے لحاظ سے وہ دوسروں سے پیچھے نہیں تھے.گو جہاں تک میرا تجربہ ہے کینہ رکھنے کے لحاظ سے وہ مولوی محمد علی صاحب سے کم تھے اور یوں ان کی ناراضگی غالباً مولوی محمد علی صاحب سے بھی زیادہ پہلے کی تھی.مگر میں نے دیکھا ہے ان پر کبھی کبھی ایک دورہ آتا تھا جو روحانیت کے رنگ کا ہوتا تھا.مولوی محمد علی صاحب کی طرح ان کا فلسفیانہ مذاق نہیں تھا وہاں مولوی محمد علی صاحب تھے.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب تھے.مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے اور یہ سب آپس میں اس موضوع پر باتیں کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا کتنا گزارہ ہونا چاہئے.کوئی کہتا کہ اتنا گزارہ ہونا چاہئے اور کوئی کہتا کہ اتنا نہیں ہونا چاہیئے.کوئی اخبار یا کوئی کتاب تھی جو خواجہ کمال الدین صاحب اس وقت لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی توجہ اسی اخبار یا کتاب کی طرف تھی.میں حیران تھا کہ خواجہ صاحب کو تو اس بحث میں زیادہ حصہ لینا چاہیئے تھا مگر کیا بات ہے کہ وہ خاموش ہیں.
تذکار مهدی ) 397 روایات سید نا محمود کوئی بیس منٹ یا نصف گھنٹہ باتیں ہوتی رہیں اور میں اپنے دل میں کڑھتا رہا.اتنے میں یکدم خواجہ صاحب نے اپنے منہ کے آگے سے وہ کتاب یا اخبار جو چیز بھی تھی ہٹادی اور میں نے دیکھا کہ ان کا رنگ اس وقت متغیر تھا.پھر وہ سر اٹھا کے ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے یارو کوئی بات بھی ہو.اس بات کو تم یاد رکھو کہ جو کچھ سلوک آج ہم حضرت مرزا صاحب کے بیوی بچوں سے کریں گے ہماری اولاد سے بھی خدا تعالیٰ وہی سلوک کرے گا.میں نے جب ان کا یہ فقرہ سنا تو میرے ذہن میں یہ بات اسی وقت میخ کی طرح گڑ گئی کہ یہ بات خواجہ صاحب کی اولا دکو دنیوی لحاظ سے بچالے گی.چنانچہ ان کی اولاد کے لئے خدا تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر ایسے سامان پیدا فرمائے.جنہیں سارا پنجاب غیر معمولی قرار دیتا ہے وہ اگر اس کی قدر کریں تو اور بھی ترقی کر سکتے ہیں.ورنہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا ایسا بدلہ دے دیا ہے کہ اگر ان کا خاندان حس رکھتا ہو تو اس سے بہت بڑی عبرت حاصل کر سکتا ہے.اسی طرح باقی لوگ بھی جو ان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ اس سے عبرت حاصل کر سکتے ہیں.اچھی بھی اور بُری بھی.(الفضل 28 اگست 1941 ء جلد 29 نمبر 196 صفحہ 2) جہاں صداقت نظر آئے اسے قبول کرو ہر شخص آزاد ہے جو کوئی ان کا لٹریچر پڑھنا چاہئے بے شک پڑھے بلکہ اگر اسے صداقت نظر آئے تو اسے قبول کرے اور اس صورت میں اس کا فرض ہے کہ قبول کرے.سچائی ہی ہے جو انسان کی نجات کا موجب ہو سکتی ہے قیامت کے دن میں کسی کے کام نہ آ سکوں گا.اگر دین کے معاملہ میں کوئی شخص میری خاطر صداقت کو چھوڑتا ہے تو سخت غلطی کرتا ہے پس میں یہ کہہ کر بری ہوتا ہوں کہ جسے جہاں صداقت نظر آئے اسے قبول کرے اور اگر سب لوگ بھی مجھ سے الگ ہو جائیں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں.اگر جو میں کہتا ہوں وہ سچ نہیں تو چاہے مجھ سے اختلاف کرنا پڑے سب کا فرض ہے کہ سچ کو قبول کریں اور یہ کہہ کر میں خدا تعالیٰ کے حضور بری ہوتا ہوں.مجھے انسانوں کی کوئی پرواہ نہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات پائی تو کسی نے کہا کہ پیشگوئی غلط نکلی.میرے کان میں یہ بات پڑی میری عمر اُس وقت صرف انیس برس تھی.میں سیدھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاش کے سرہانے پہنچا اور وہاں کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ سے اقرار کیا کہ اگر ساری جماعت بھی احمدیت کو چھوڑ جائے تو بھی میں
تذکار مهدی ) 398 روایات سید نا محمود اکیلا دنیا میں اس کی اشاعت کروں گا اور اس کام کو کبھی نہ چھوڑوں گا.پس مجھے انسانوں کی کوئی پر واہ نہیں جب میں خلیفہ ہوا اور یہ لوگ قادیان کو چھوڑ کر چلے گئے اُس وقت خزانہ میں صرف اٹھارہ روپے تھے اور یہ حالت تھی کہ اشتہار تک چھاپنے کے لئے پیسے نہ تھے اللہ تعالیٰ مغفرت کرے حضرت میر ناصر نواب صاحب کی انہوں نے دار الضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا ہوا تھا، جب انہیں معلوم ہوا کہ خزانہ خالی ہے اور اشتہارات چھاپنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہیں تو وہ پانسو روپیہ لے کر میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ بطور قرض لے لیں اور کام شروع کریں.جب خدا تعالیٰ بھیجے گا تو واپس کر دیں تو یہ حالت تھی جب یہ لوگ چھوڑ کر گئے ہیں مگر آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وہی حالت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شعر میں اپنی بیان کی ہے فرمایا:.لَفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ وَصِرْتُ كَانَ الْيُوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي یعنی ایک زمانہ تھا کہ میں دستر خوان کے بچے ہوئے ٹکڑوں پر گزارہ کرتا تھا مگر آج خدا تعالیٰ خاندانوں کے خاندان میرے ذریعہ پال رہا ہے.یہی حالت آج خدا کے فضل سے ہماری ہے.ایک زمانہ تھا کہ ہمارے پاس اشتہار کے لئے بھی پیسے نہ تھے خزانہ میں صرف اٹھارہ 18 روپے تھے اور ہزاروں روپیہ کا قرض تھا.مگر آج سینکڑوں خاندانوں کی پرورش اللہ تعالیٰ کر رہا ہے.ہر موقع پر اللہ تعالیٰ نے میری مدد فرمائی ہے اور وہ لوگ مجھے دیئے اور ایسے ایسے لوگ میری بیعت میں داخل کئے کہ اس زمانہ میں اس کی مثال اور کہیں پائی نہیں جاتی.پھر میں کس طرح سمجھ سکتا ہوں کہ میری جماعت کے لوگوں کا مولوی محمد علی صاحب کی تقریر سننا میرے لئے خطرہ کا موجب ہوگا.مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی کے آباء اس کی بیعت میں شامل ہوئے ہوں مگر میری والدہ ، نانا، بڑے بھائی ، ماموں سب نے میری بیعت کی ہے.پھر اُستادوں نے کی، میرے وہ اُستاد جن سے میں قرآن کریم ، حدیث ، انگریزی، عربی پڑھتا رہا ہوں وہ میری بیعت میں شامل ہوئے اور یہ کسی انسان کا کام نہیں مجھ میں یہ ہمت کہاں تھی کہ میں ان سب کو اپنا مرید کر سکتا اور میں یہ کب جرأت کر سکتا تھا کہ دنیا کے سامنے کھڑا ہوں جب کہ نہ میری کوئی تعلیم تھی اور نہ لیاقت.جب میں پڑھتا تھا تو
تذکار مهدی ) 399 روایات سید نامحمود استاد اور طالب علم سب ہنسی اڑاتے تھے کہ یہ پڑھائی میں نہایت کمزور ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو میری بیعت میں شامل کر دیا پھر جب میں خلیفہ ہوا تو سوائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے میرے سارے ہی آباء زندہ تھے.یعنی والدہ ، نانا، نانی، ماموں ،خسر، تائی ، بڑے بھائی اور ان سب کو اللہ تعالیٰ نے میری بیعت میں شامل کر دیا.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو بعض لوگ تبلیغ کرتے رہتے تھے.جب ان کی سمجھ میں بات آگئی تو انہوں نے کہا کہ اب اور تو کوئی روک نہیں صرف شرم آتی ہے کہ چھوٹے بھائی کی بیعت کروں اور چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں ہاتھ دوں.انہوں نے کہا کہ نہیں تو لاہور والوں کی جماعت میں ہی شامل ہو جائیں.تو انہوں نے کہا کہ نہیں وہاں تو میں شامل نہیں ہوتا یہ کڑوا گھونٹ پی لوں گا.آخر وہ بیعت پر آمادہ ہوئے اب بتاؤ جس شخص پر اللہ تعالیٰ کے اتنے فضل ہوں.وہ کسی انسان سے کب ڈرسکتا ہے پیغامی کہتے ہیں کہ رعب میں آگئے مگر یہ نہیں سوچتے کہ کون رُعب میں آ گیا اور کس کے رعب میں آ گیا.ماں، نانا، نانی، ماموں ، خسر استاد سب رعب میں آگئے.کیا والدہ ڈرتی تھیں کہ میرا بیٹا ہے اگر میں نے بیعت نہ کی تو پتہ نہیں کیا کرے گا ؟ کیا نانا نانی اپنے نواسے سے ڈرتے تھے؟ کیا استاد رعب میں آگئے کہ ہمارا شاگرد ہے معلوم نہیں کس کس رنگ میں ہمارے علم کی پردہ دری کرے؟ آخر سوچنا چاہئے کہ یہ سب کس طرح میرے رعب میں آ سکتے تھے اور مجھ سے ڈرنے کی وجہ کیا ہو سکتی تھی.اگر ان حالات میں بھی میرا کوئی رُعب تھا تو پھر وہی بات تھی جیسے موسیٰ علیہ السلام نے آگ کی چنگاری دیکھی.وہ بظاہر تو آگ نظر آتی تھی مگر جس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھائی اس میں خدا کا جلوہ اُسے نظر آیا اور وہ وہیں گھائل ہو گیا.دیکھو میں نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتنی کوشش کی.انہوں نے لکھا کہ میں ان کا مضمون ”الفضل میں شائع کرا دوں اور وہ میرا مضمون ”پیغام صلح میں شائع کرا دیں گے اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ وہ میرا جواب کبھی اپنے اخبار میں شائع نہ کریں گے لیکن میں نے ان کا مضمون ”الفضل“ میں شائع کرا دیا.پھر میں نے ان کو یہ دعوت بھی دے دی کہ جلسہ سالانہ کے سوا عام دنوں میں وہ یہاں آ کر تقریریں کرلیں.میں مقامی دوستوں کو جمع کر دوں گا اور باہر بھی یہ اعلان کرا دوں گا کہ جو دوست آسکیں آجائیں.مگر انہوں نے اصرار شروع کر دیا کہ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریریں کرنے دی جائیں.مضامین کے شائع ہونے کے متعلق اس خیال سے کہ لمبے مضامین
تذکار مهدی ) 400 روایات سید نا محمودی کا اخبارات میں شائع کرنا شاید نامناسب ہو میں نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ میرے اور ان کے مضامین اکٹھے شائع ہو جائیں.بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 261 تا 263) مامور کی باتوں پر عمل کرنا مومنوں کا فرض ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ایک جماعت جس کے دولیڈ ر ہوں گے بہتان باندھے گی وہ لوگ جہاں بھی ہوں گے اللہ تعالی کی گرفت میں آئیں گے اور ان سے قطع تعلق کرنے کا حکم دیا جائے گا.پس اے لوگو! اس گروہ سے زینب کا تعلق پیدا کر کے اُسے بھی اس ہلاکت میں نہ ڈالو.یاد رکھو کہ یہ فتنہ معمولی نہ ہوگا بلکہ آسمان پر بھی اس سے تہلکہ پڑ جائے گا پس اس کام کی جرات نہ کرو.او پر جو تشریح بیان کی جاچکی ہے اس سے باقی سب باتیں تو ظاہر ہیں البتہ لَا تَقْتُلُوا زَيْنَبَ کاحل رہ جاتا ہے کیا واقعہ میں اس الہام سے اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ زینب کی شمولیت اس فتنہ میں شیخ مصری صاحب سے شادی کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اب ہم ابتداء کی تاریخ کو دیکھتے ہیں کہ اس میں اس کا کیا حل ہے.سو ہمیں اس الہام کا ایک واضح شانِ نزول مل جاتا ہے جو یہ ہے کہ 1908ء کے شروع میں حافظ احمد اللہ خان صاحب مرحوم کی دولڑکیوں کی شادی کی تجویز ہوئی جن میں سے بڑی کا نام زینب اور چھوٹی کا نام کلثوم تھا.زینب کے متعلق اور بھی بعض لوگوں کی خواہش تھی چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی شادی شیخ مصری صاحب سے ناپسند کی لیکن حسب عادت زیادہ زور نہیں دیا.انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام ہوا کہ لَا تَقْتُلُوا زینب زینب کو ہلاک مت کرو.حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم نے دوسرے شخص کو کسی نہ کسی وجہ سے ناپسند کیا اور یہ خیال کیا کہ اس الہام کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام کا مشورہ غلط ہے وہاں شادی نہ کی جائے بلکہ مصری صاحب سے شادی کی جائے اور خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رائے کو الہام نے رڈ کر دیا ہے.چنانچہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات نہ مانی اور شیخ مصری صاحب سے شادی کر دی.چنانچہ یہ الہام 9 فروری 1908ء کو ہوا اور 17 فروری 1908ء کو شیخ مصری صاحب کا نکاح زینب
تذکار مهدی ) 401 روایات سید نامحمود سے کر دیا گیا اور یہ تاریخ اس طرح محفوظ رہی کہ مصری صاحب کا نکاح دو اور نکاحوں سمیت اُسی دن ہو ا تھا جس دن کہ ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم کا نکاح ہوا تھا اور وہ 17 فروری تھی.گویا اللہ تعالیٰ نے صاف کہ دیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو اور مصری صاحب سے نکاح نہ کردو ورنہ یہ نکاح اسے منافق بنانے کا نتیجہ پیدا کر دے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو شاید اس زینب کے متعلق اسے سمجھا ہی نہیں اور لڑکی کے باپ نے اُلٹ نتیجہ نکالا حالانکہ خدا تعالیٰ کا منشاء اس الہام سے یہ تھا کہ اس شخص سے ایک بھاری فتنہ پیدا ہونے والا ہے اس سے زینب کی شادی نہ کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات مان لو.پھر اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو یہی مشورہ دیا تھا.چنانچہ جب مصری صاحب جماعت سے علیحدہ ہوئے ہیں تو پیر منظور محمد صاحب نے مجھے کہلا بھیجا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کو کہا تھا کہ شیخ عبدالرحمن صاحب سے شادی نہ کی جائے مگر جب حافظ صاحب نے اس بات کو نہ مانا اور اسی جگہ لڑکی کی شادی کر دی تو مجھے سخت غصہ آیا اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے کہا کہ حضور خدا تعالیٰ کے مامور ہیں اور خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ جب ماً مور ایک بات کہہ دے تو تمام مؤمنوں کو چاہئے کہ اس پر عمل کریں مگر حافظ احمد اللہ صاحب نے حضور کی نافرمانی کی ہے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا بات تو آپ نے جو کہی ہے یہ ٹھیک ہے مگر ایسے معاملات میں میں دخل نہیں دیا کرتا.جب یہ روایت مجھے پہنچی تو گواس روایت میں مجھے کوئی محبہ نہیں ہو سکتا تھا مگر چونکہ یہ اکیلی روایت تھی اس لئے مجھے اس بات کا فکر ہوا کہ کوئی اور گواہ بھی ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ دوسرے دن کی ہی ڈاک میں مجھے ایک خط ملا جو منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی طرف سے تھا.اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ 1915ء میں جب میں قادیان آیا تو اُس وقت مجھے کسی دوست سے قرآن پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ میں نے حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم سے قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا.ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنی لڑکی زینب کا رشتہ کسی اور شخص سے کرنے کا کہا تھا مگر انہی دنوں آپ پر یہ الہام نازل ہوا کہ لَا تَقْتُلُوا زَيْنَبَ جس سے میں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ
تذکار مهدی ) 402 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رائے صحیح نہیں اور میں نے شیخ مصری صاحب سے رشتہ کر دیا مگر اب شیخ مصری مجھے سخت تنگ کرتا ہے اور اس نے مجھے بڑی بڑی تکلیفیں پہنچانی شروع کر دی ہیں جس سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم نہ ماننے کا نتیجہ ہے چنانچہ مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں شیخ مصری صاحب نے بازار میں اپنے خسر کو مارا.جس پر حضرت خلیفہ اول مصری صاحب سے سخت ناراض ہو گئے اور میں نے کئی دن آپ کی منتیں کر کے انہیں معاف کروایا.پس اس الہام کے یہ معنی تھے کہ تم زینب کی شیخ مصری صاحب سے شادی مت کرو ورنہ اس کا ایمان بھی برباد ہو جائے گا.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ اس شادی سے اس کا ایمان بھی ضائع ہو گیا.اب دیکھو یہ کیسی زبر دست پیشگوئی ہے جس کی طرف خود مصری صاحب نے توجہ دلائی ہے.معلوم ہوتا ہے ان کی بیوی کو یہ یاد تھا کہ ایسا الہام ہو ا تھا اور میرے والد نے اسے میرے ے متعلق سمجھا تھا.اس طرح ان کا ذہن اس طرف گیا اور شاید جو کام ہم سے دیر میں ہوسکتا ، وہ خود انہوں نے کر دیا.بالکل اسی طرح جس طرح بکری نے چھری نکالی تھی کہتے ہیں کہ کوئی شخص تھا جس نے بکری ذبح کرنے کیلئے چُھری نکالی مگر پھر کہیں رکھ کر بھول گیا اور اس پر بچوں نے کھیلتے ہوئے مٹی ڈال دی اور وہ مٹی کے نیچے چُھپ گئی.اُس نے چھری کو بہتیرا تلاش کیا مگر نہ ملی.وہ حیران سا کھڑا تھا کہ بکری نے پیر مارنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مٹی ہٹ گئی اور اُسے چھری نظر آگئی جس سے اُس نے فوراً اُسے ذبح کر دیا.اُس وقت سے عرب میں یہ مثل مشہور ہو گئی ہے اور جب کوئی شخص اپنے ہاتھوں اپنی ہلاکت کا سامان مہیا کرتا ہے تو کہتے ہیں اس نے بالکل ایسا ہی کیا جس طرح بکری نے چُھری نکال لی تھی.(مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 577 تا 580 ) مامور کی بیعت میں شامل ہونا پس جو چیز تحریک کا سواں حصہ ہے اس پر خواہ کس قدر جوش کے ساتھ عمل کیا جائے کامیابی نہیں ہوسکتی.اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے
تذکار مهدی ) 6 403 روایات سید نا محمود جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کرسکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے.قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو.کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلغ اور مدرس نوکر رکھے ہوئے ہوں.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ ایک بھی مبلغ نوکر نہ تھا اب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لیے بعض مبلغ رکھ لئے گئے ہیں.جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لیے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے.پس ہمارا مبلغین کو ملازم رکھنا بھی لچک پیدا کرنے کے لیے ہے وگرنہ جب تک افراد جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لیے وقف ہیں، جب تک جماعت کا ہر فر دسر کو ہتھیلی پر رکھ کر دین کے لیے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہوسکتی.حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علیحدہ کیا ہے تو اس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے خلاف اُٹھے گی اور اس کی تلوار ان کے خلاف.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی ہوگا کیونکہ نبی کے خلاف ہی ساری دنیا کی تلوار میں اٹھتی ہیں.پس جب تک کوئی شخص ساری دنیا کی تلواروں کے سامنے اپنا سر نہیں رکھ دیتا اس وقت تک اس کا یہ خیال کرنا کہ وہ اس مامور کی بیعت میں شامل ہے فریب اور دھوکا ہے جو وہ اپنی جان کو بھی اور دنیا کو بھی دے رہا ہے.ہماری جماعت کے زمیندار اور ملازم اور تاجر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اور چند مبلغ ملازم رکھ کر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی جماعت ہیں حالانکہ یہ حالت خدا کی جماعتوں والی نہیں اس صورت میں ہم زیادہ سے زیادہ ایک انجمن کہلا سکتے ہیں.خدائی جماعت وہی ہے جس کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنا دیاور جس کا ہر ممبر موت قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہے.یاد رکھو جو جماعت مرنے کے لئے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مارسکتا اور نہ اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر سکتا ہے.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 6) حضرت مولانا احسن امروہی صاحب اور پیغامی میرے زمانہ خلافت میں جب پیغامی مولوی محمد احسن صاحب کو ورغلا کر لاہور لے گئے اور انہوں نے کہا میں نے ہی انہیں خلیفہ بنایا تھا اور اب میں ہی انہیں معزول کرتا ہوں تو اس کی وجہ سے جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا.
تذکار مهدی ) 404 روایات سید نا محمود جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ان کے متعلق ایک ریزولیوشن پاس ہوا تو میں نے انہیں جماعت سے خارج کر دیا.اس موقعہ پر ایک دوست جو مخلص تھے مگر بات جلدی نہیں سمجھتے تھے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے یہ بڑے بزرگ صحابی ہیں.انہیں جماعت سے نہ نکالیں.اس پر میں کھڑا ہو گیا اور میں نے کہا کہ مولوی صاحب پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ مجھے جو خلیفہ ہوں معزول کر دیں اور مولوی محمد احسن صاحب کو جماعت میں رکھ لیں.اس پر وہ دوست کہنے لگے.اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر نکال دیں.مولوی محمد احسن صاحب کی طبیعت بھی ایسی ہی تھی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بسراواں کی طرف سیر کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کے کلام میں اور بندہ کے کلام میں بڑا فرق ہوتا ہے.آپ نے اپنا ایک الہام سنایا اور فرمایا دیکھ لو یہ بھی ایک کلام ہے اور اس کے مقابل پر حریری کا بھی کلام موجود ہے.مولوی محمد احسن صاحب نے بات کا آخری حصہ غور سے نہ سنا اور الہام کے متعلق خیال کر لیا کہ یہ حریری کا کلام ہے اور کہنے لگے بالکل لغو ہے.بالکل لغو ہے لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ تو خدا تعالیٰ کا الہام ہے.تو مولوی محمد احسن صاحب کہنے لگے سبحان اللہ کیا ہی عمدہ کلام ہے.اسی قسم کی طبیعت اس دوست کی بھی تھی.جب ریزولیوشن پاس ہوا تو وہ دوست کہنے لگے.یہ پرانے صحابی ہیں انہیں جماعت سے نہ نکالا جائے.مگر جب میں نے کہا کہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ مجھے جو خلیفہ ہوں معزول کر دیا جائے اور انہیں جماعت میں رکھ لیا جائے تو وہ کہنے لگے.اچھا پھر انہیں جماعت سے نکال دیں.تو یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنہیں قادیان کے رہنے والے بھی نہیں جانتے تھے.آپ کا نام دنیا کے ہر ملک میں پھیلا اور آج آپ کو ماننے والے دنیا کے کونہ کونہ میں پائے جاتے ہیں قادیان میں ایک سکھ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے تایا مرزا غلام قادر صاحب تو بہت مشہور تھے اور ایک بڑے عہدہ پر فائز تھے.لیکن مرزا غلام احمد صاحب غیر معروف تھے.انہیں کوئی جانتا نہیں تھا.میرے والد ایک دفعہ مرزا غلام مرتضی صاحب کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ سنا ہے آپ کا ایک اور بیٹا بھی ہے وہ کہاں ہے.انہوں نے کہا وہ تو سارا دن مسجد میں پڑا رہتا ہے اور قرآن پڑھتا رہتا ہے.مجھے اس کا بڑا فکر ہے کہ وہ کھائے گا کہاں سے.تم اس کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ کہ دنیا کا بھی کچھ فکر کرو.میں چاہتا ہوں کہ وہ کوئی نوکری کر لے.لیکن جب
تذکار مهدی ) کارمهدی 405 روایات سید نا محمود بھی میں اس کے لئے کسی نوکری کا انتظام کرتا ہوں.وہ انکار کر دیتا ہے.چنانچہ میرے والد گئے اور بڑے مرزا صاحب کی بات ان کو پہنچائی وہ کہنے لگے والد صاحب کو تو یونہی فکر لگی ہوئی ہے میں نے دنیا کی نوکریوں کو کیا کرنا ہے.آپ ان کے پاس جائیں اور انہیں کہہ دیں کہ میں نے جس کا نوکر ہونا تھا ہو گیا ہوں.مجھے آدمیوں کی نوکریوں کی ضرورت نہیں.اس سکھ پر اس بات کا اس قدر اثر تھا کہ جب بھی وہ آپ کا ذکر کیا کرتا.تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگ جاتے ایک دفعہ وہ چھوٹی مسجد میں آیا اور میرے پاس آکر چھینیں مار کر رونے لگ گیا.میں نے کہا کیا بات ہوئی وہ کہنے لگا آج مجھ پر بڑا ظلم ہوا ہے.میں آج بہشتی مقبرہ گیا تھا.جب میں مرزا صاحب کے مزار پر جا کر سجدہ کرنے لگا.تو ایک احمدی نے مجھے اس سے منع کر دیا.حالانکہ اس کا مذہب اور ہے اور میرا مذہب اور ہے.اگر احمدی قبروں کو سجدہ نہیں کرتے تو نہ کریں لیکن میں تو سکھ ہوں اور ہم سجدہ کر لیتے ہیں پھر اس نے مجھے منع کیوں کیا.غرض آپ بالکل خلوت نشین تھے اور جو لوگ آپ کے واقف تھے ان پر آپ کی عبادت اور زہد کا اتنا اثر تھا کہ وہ باوجود غیر مسلم ہونے کے وفات کے بعد بھی آپ کے مزار پر آتے رہے.جس طرح مولوی محمد احسن صاحب نے لاہور جا کر میرے متعلق کہا تھا کہ میں نے ہی انہیں خلیفہ بنایا ہے اور اب میں ہی انہیں معزول کرتا ہوں.اسی قسم کی بات مولوی محمد حسین بٹالوی نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہی تھی.دعوئی سے پہلے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے مداح تھے.لیکن جب آپ نے دعوی کیا تو مخالف ہو گئے اور کہنے لگے.میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی انہیں نیچے گراؤں گا.چنانچہ وہ تمام عمر آپ کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے اور لوگوں کو آپ کے پاس آنے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے.مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں نا کام رکھا پیرا نامی ایک پہاڑ یہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بطور خدمتگار رہتا تھا.اسے گنٹھیا کی بیماری تھی.اس کے رشتہ داروں کو علم ہوا کہ قادیان میں مفت علاج ہوتا ہے تو وہ اسے اٹھا کر قادیان لے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا علاج کیا.اور جب وہ تندرست ہوا تو آپ کی خدمت میں ہی رہنے لگ گیا اور اپنے وطن واپس نہ گیا.وہ شخص اتنا اجد تھا کہ دو چار آنے لے کر دال میں مٹی کا تیل ملا کر پی لیا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے کبھی کبھی بٹالہ بیٹی چھڑانے کے لئے بھیج دیا کرتے تھے اور بٹالہ ٹیشن پر روزانہ مولوی محمد حسین صاحب اس کے لئے جایا کرتے تھے کہ جو لوگ قادیان جا رہے ہوں انہیں ورغلانے کی کوشش کریں.
تذکار مهدی ) 6406 ☀ روایات سید نا محمود ) ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا انہوں نے پیرے کو ہی پکڑ لیا اور کہنے لگے.پیرے کیا تیری عقل ماری گئی ہے.تو مرزا صاحب کے پاس کیوں بیٹھا ہے.وہ تو جھوٹا آدمی ہے.پیرا کہنے لگا مولوی صاحب میں تو جاہل ہوں اور پڑھا لکھا نہیں.لیکن ایک بات جانتا ہوں اور وہ یہ کہ مرزا صاحب اپنے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور لوگ آپ سے ملنے کے لئے دور دور سے آتے ہیں.بعض دفعہ وہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں یا مجھے ابھی فرصت نہیں اور لوگ پھر بھی آپ کے دروازہ کو نہیں چھوڑتے.دوسری طرف میں دیکھتا ہوں کہ آپ روزانہ یہاں آکر لوگوں کو قادیان جانے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور شاید اس کوشش میں آپ کی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی.مگر لوگ پھر بھی قادیان جاتے ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ مرزا صاحب ضرور بچے اور راست باز ہیں تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوست تھے اور ان کے والد بھی آپ کے دوست تھے.انہوں نے بھی کہا تھا کہ میں نے اس شخص کو بڑھایا ہے اور اب میں ہی اس کو نیچے گراؤں گا.لیکن خدا تعالیٰ نے اس کے نام کو تو مٹا دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کو دنیا میں پھیلا دیا.بعد میں اس کا ایک بیٹا آریہ ہو گیا تھا.میں نے اسے قادیان بلایا اور اسے دوبارہ مسلمان کیا.مولوی محمد حسین صاحب نے شکریہ کا خط بھی مجھے لکھا تو جماعت کانٹوں پر سے گذرتی ہوئی اپنی اس حیثیت کو پہنچی ہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہے.لیکن اس فضل کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لئے جماعت کو ہمیشہ دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے.بے شک دنیا کی نظروں میں ہم نے عظیم الشان کام کیا ہے.لیکن ہمارا کام ابھی بہت باقی ہے.ہم نے ساری دنیا کومسلمان بنانا ہے اور یہ کام بہت کٹھن ہے اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہماری زندگی میں ہمیں وہ دن دکھائے.جب یہ کام پورا ہو جائے اور ساری دنیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے اور اسلام امریکہ میں بھی پھیل جائے.یورپ میں بھی پھیل جائے.روس میں بھی پھیل جائے.چین میں بھی پھیل جائے.ہندوستان میں بھی پھیل جائے.دلوں کا پھیر نا اسی کا کام ہے.کسی انسان کا کام نہیں.اس لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور ہی جھکنا چاہئے اور اس سے مدد طلب کرنی چاہئے کیونکہ مشکلات کو آسان کرنا اسی کا کام ہے.(الفضل 30 مئی 1959 ءجلد 48/13 نمبر 127 صفحہ 4)
تذکار مهدی ) 407 میاں چراغ دین صاحب سے پرانے تعلقات روایات سید نا محمود مجھے میاں چراغ دین صاحب مرحوم کی بات یاد ہے.وہ سنایا کرتے تھے کہ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اتنے پرانے تعلقات تھے کہ وہ میری پیدائش کے موقعہ پر جو آپ کے دعوی مسیحیت سے دو سال قبل ہوئی.میرے عقیقے پر قادیان گئے تھے.آپ سنایا کرتے تھے کہ اس دن اتنی سخت بارش ہو رہی تھی.کہ اس کی وجہ سے ہم راستہ میں رک گئے پانی بہت زیادہ چڑھ گیا تھا.جس کی وجہ سے راستہ بند ہو گیا تھا.ہم میں سے بعض کوشش کر کے قادیان پہنچ گئے اور بعض کو واپس لوٹنا پڑا.گویا اس خاندان کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلق ساٹھ سال سے بھی زیادہ عرصہ کا ہے.ایسے خاندان کو تو روز بروز اپنے روحانی تعلقات میں بڑھنا چاہئے تھا نہ یہ کہ بجائے ترقی کرنے کے وہ آگے سے بھی گر جاتے.خدا تعالیٰ کا سلوک ہمیشہ تعلق کی بناء پر ہوتا ہے ( خطبات محمود جلد 29 صفحہ 362) ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی لاہور ایک پرانے مخلص احمدی خاندان میں سے ہیں.یعنی وہ میاں فیملی میں سے ہیں جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ابتدائے دعوئی سے مخلصانہ تعلقات رہے ہیں.میاں چراغ الدین صاحب مرحوم جن کے ڈاکٹر عبدالحمید صاحب پوتے ہیں اور لڑکی ان کی پڑپوتی ہے، وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اتنا پرانا تعلق رکھنے والے تھے کہ میری پیدائش پر جب میرا عقیقہ ہوا تو اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بھی لاہور سے بلوایا تھا.اس سے سمجھ لو کہ ان کے کتنے پرانے تعلقات تھے.میری پیدائش کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت کا اعلان فرمایا تھا اور مسیحیت کا دعویٰ آپ نے اس کے قریباً سال ڈیڑھ سال بعد کیا.پس میری پیدائش پر انہیں عقیقہ کی تقریب میں لاہور سے بلانا اسی صورت میں ہوسکتا تھا جب وہ سالہا سال پہلے سے مخلصانہ تعلقات رکھتے ہوں.گویا میری عمر سے بھی زیادہ اس خاندان کے تعلقات کی عمر ہے.کم سے کم ہی سمجھ لیا جائے تو سات آٹھ سال پہلے کے تعلقات ضرور ثابت ہوتے ہیں.میری پیدائش 1889ء میں ہوئی ہے.اس لحاظ سے سمجھنا چاہئے کہ ان کے تعلقات
تذکار مهدی ) کارمهدی.408 روایات سید نامحمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے 1880ء سے چلے آ رہے تھے گویا براہین کے زمانہ سے یا اس سے بھی پہلے کے تعلقات ہیں.پس اس نکاح میں ایک فریق تو وہ ہے جو میاں چراغ الدین صاحب کے خاندان میں سے ہے.دوسرا فریق بھی ایسے ہی پرانے تعلقات والوں میں سے ہے.یعنی پیر مظہر الحق صاحب جولڑکے کے والد ہیں.یہ پیر افتخار احمد صاحب کے لڑکے ہیں اور پیر افتخار احمد صاحب حضرت خلیفہ اول کے سالے اور صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے لڑکے تھے.جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی سے پہلے ہی بشارت دی تھی.کہ آپ ایک دن مسیحیت کے منصب پر فائز ہونے والے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعویٰ سے پہلے ہی لکھا کہ.ہم مریضوں کی ہے تم ہی نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے اس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ابھی دعوی نہیں فرمایا تھا لیکن روحانیت اور تقویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ انکشاف فرما دیا.اور جبکہ اور لوگ دعوئی کے بعد بھی مخالفت کرنے لگے، اللہ تعالیٰ نے انہیں دعویٰ سے پہلے ہی بتا دیا کہ ہم اسے مسیح بنانے لگے ہیں.دیکھو کتنا بڑا فرق ہوتا ہے روحانی نگاہ کا اور جسمانی نگاہ کا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آخر ایک ہی چیز تھے دو نہیں تھے.مگر ایک وجود دعوئی کے بعد ہر قسم کے دلائل نہ دینے کے باوجود ہر قسم کے نشانات دکھانے کے باوجود مولویوں کی نظر میں کافر ٹھہرتا ہے.انہوں نے دعوئی سنا، دلیلیں سنیں ، نشانات دیکھے، منجزات دیکھے مگر پھر فتویٰ لگا دیا کہ یہ شخص کافر ہے.لیکن دوسرا آدمی جو روحانی تھا اس نے نہ دعوئی سنا، نہ دلیلیں سنیں ، نہ نشانات دیکھے، نہ معجزات دیکھے مگر اس کی آنکھوں نے بھانپ لیا کہ اس پر خدا تعالیٰ کے انوار نازل ہونے والے ہیں اور پیشتر اس کے کہ وہ دعوی کرتا اس نے کہا میں آپ کی تصدیق کرتا ہوں.یہ کتنا نمایاں فرق ہے جو دکھائی دیتا ہے.ایک آنکھ دعوئی سے پہلے ہی دیکھ لیتی ہے اور دوسری آنکھ دعوئی سننے اور دلائل سننے کے بعد بھی نہیں دیکھ سکتی.غرض ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ نہایت اخلاص پر مبنی تھا.اور اسی وجہ سے جب حضرت خلیفہ اول کو دوسری شادی کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے لئے اس جگہ رشتہ کرنا پسند فرمایا.غرض یہ
تذکار مهدی ) 409 روایات سید نا محمود دونوں خاندان احمدیت سے پرانا تعلق رکھتے ہیں.لیکن اصل حقیقت تو یہ ہے کہ پرانا اور نیا سب نسبتی چیزیں ہیں.جب تک پیوند قائم رہے پرانا زیادہ برکت کا مستحق ہوتا ہے اور دنیا اس سے کم لیکن جب آئندہ نسل اپنے تعلقات کو منقطع کر لے.تو خدا نہ پرانے کا لحاظ کرتا ہے نہ نئے کا خدا تعالیٰ کا سلوک ہمیشہ تعلق کی بناء پر ہوتا ہے.( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 652 تا654) پسر موعود کی شناخت کا نشان کل ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی ملی ہے.جو پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی کتاب ”تذکرۃ المہدی میں درج ہے.یہ کتاب 1921 ء میں لکھی گئی تھی.اس میں پیر سراج الحق صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ پڑے گا کہ فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہو جائیں گے.پھر خدا تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹا دے گا.باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے.اور فتنہ پرواز ہیں.وہ کٹ جائیں گے اور دنیا میں ایک حشر برپا ہو گا.وہ اول الحشر ہوگا اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت وخون ہو گا کہ زمین خون سے بھر جائے گی.اور ہر ایک بادشاہ کی رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی.ایک عالم گیر تباہی آوے گی اور ان تمام واقعات کا مرکز ملک شام ہو گا.صاحبزادہ صاحب اس وقت میرا لڑکا موعود ہو گا.خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے.ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.تم اس موعود کو اور پہچان لینا.یہ ایک بہت بڑا نشان پسر موعود کی شناخت کا ہے.“ (تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ 3) اب دیکھو منافقین کا موجودہ فتنہ 1956ء میں پیدا ہوا ہے اور یہ کتاب 1921ء کی چھپی ہوئی موجود ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہا گیا.وہ جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات نہیں کہی.لیکن یہ جھوٹ کتنا سچا ہے کہ خدا تعالیٰ کی باتوں کی طرح پورا ہو گیا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت جھوٹی نہیں بلکہ ایک سچی پیشگوئی تھی.جو لفظاً لفظاً پوری ہو گئی ہے.اگر اس کے پورا ہو جانے کے بعد بھی کوئی شخص کہتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو اُس کی مثال ویسی ہی ہو گی جیسے مشہور ہے کہ کوئی بُزدل آدمی ایک جنگ میں زخمی ہو گیا.اُس کے زخم سے خون بہہ رہا تھا.لیکن بُزدلی کی وجہ سے وہ مانا نہیں چاہتا تھا کہ وہ واقع میں زخمی ہے.وہ بھاگتا
تذکار مهدی ) کارمهدی 6410 روایات سید نامحمود چلا جا رہا تھا اور زخم پر ہاتھ لگا کر کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.اسی طرح گو یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے لیکن آجکل کے منافق کہہ سکتے ہیں کہ خدا کرے یہ بات (الفضل 16 نومبر 1956 ءجلد 45/10 شماره 269 صفحہ 3) جھوٹ ہی ہو.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بے مثال قربانی سب انبیاء کی جماعتوں کو درجہ بدرجہ قربانی کرنی پڑتی ہے اس وقت جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے اکثر ہیں جن کو اپنے وطن قربان کرنے پڑے.پھر اب قادیان میں حالات کچھ درست ہو گئے ہیں اور کچھ تجارتیں چل نکلی ہیں مگر جو لوگ ابتدائی زمانوں میں یہاں آئے ان کے گزارہ کی یہاں کوئی صورت نہ تھی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ کو اللہ تعالیٰ نے ایک اعلیٰ درجہ کی ملازمت عطا فرمائی تھی وہ چھوٹی تو آپ نے اپنے وطن میں پریکٹس شروع کی وہاں آپ کی بہت شہرت تھی.آپ کا وطن بھیرہ سرگودھا کے ضلع میں ہے.جہاں بڑے بڑے زمیندار ہیں اور ان میں سے اکثر آپ کے بڑے معتقد تھے.پس وہاں کام چلنے کا خوب امکان تھا لیکن آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملنے قادیان آئے چند روز بعد جب واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ دنیا کا آپ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں اب یہیں آ بیٹھئے آپ نے اس ارشاد پر ایسا عمل کیا کہ خود سامان لینے بھی واپس نہ گئے بلکہ دوسرے آدمی کو بھیج کر سامان منگوایا.اس زمانہ میں یہاں پریکٹس چلنے کی کوئی امید نہ تھی بلکہ یہاں تو ایک پیسہ دینے کی حیثیت والا بھی کوئی نہ تھا مگر آپ نے کسی بات کی پرواہ نہیں کی.پھر بھی آپ کی شہرت ایسی تھی کہ باہر سے مریض آپ کے پاس پہنچ جاتے تھے اور اس طرح کوئی نہ کوئی صورت آمد کی پیدا ہو جاتی تھی.مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی قربانی ایسے رنگ کی تھی کہ کوئی آمد کا احتمال بھی نہ تھا نہ کہیں سے کسی فیس کی امید تھی نہ کوئی تنخواہ تھی اور نہ وظیفہ کسی طرف سے کسی آمد کا کوئی ذریعہ نہ تھا.مگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سیکرٹری کے طور پر کام کرتے تھے.اس وقت جتنے کام تمام محکمے کر رہے ہیں یہ سب وہ اکیلے کرتے تھے حالانکہ گذارہ کی کوئی صورت نہ تھی اور یہ بھی وادٍ غَيْرِ ذِي زَرْع میں جان قربان کرنے والی بات ہے.خطبات محمود جلد دوم صفحہ 261-260 )
تذکار مهدی ) قبولیت دعا کا راز 411 روایات سید نا محمود بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے منہ سے کوئی چھوٹا سا جملہ بھی نکل جاتا ہے تو وہ تباہ ہو جاتے ہیں یہ مضمون بڑا وسیع ہے جس کا یہ خطبہ متحمل بیان نہیں ہو سکتا.قرآن کریم نے سے کھول کر بیان کیا ہے.پس میں اس نادان معترض سے کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ نہ کرو.آپ اسی قسم کے نشان دکھانے آئے تھے اور ایسے بندے پیدا کرنا آپ کا ایک مقصد تھا.جن کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کر دے آپ نے فرمایا ہے کہ: چو پیش او بروی کار یک دعا باشد اس کا مطلب یہی ہے کہ جو کام ساری دنیا نہیں کر سکتی وہ ایک دعا سے ہو جاتا ہے.مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر دعا کو ضرور قبول کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صاحبزادہ مبارک احمد فوت ہوا مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہوئے آپ نے دعائیں بھی کیں مگر وہ فوت ہو گئے اور یہ بھی آپ کا ایک نشان ہے کیونکہ مرزا مبارک احمد صاحب کے متعلق آپ نے قبل از وقت بتا دیا تھا اور جب کوئی بات قبل از وقت کہہ دی جاتی ہے.تو وہ نشان بن جاتی ہے.پس نہ تو یہ ہوتا ہے کہ ہر دعا قبول ہو جاتی ہے اور نہ ہر رد ہوتی ہے.ہاں جو دعا وہ قبول کرنے کا فیصلہ کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے.اسے کوئی رد نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے بہر حال اللہ تعالیٰ کے جو فضل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوئے ان کا جاری رہنا ضروری ہے.پیغامیوں کا یہ حق تو ہے کہ کہہ دیں.یہ تمہارے ذریعہ جاری نہیں ہو سکتے.مگر یہ ضروری ہے کہ وہ میرے مقابلہ پر اپنے امام یا لیڈر کو پیش کریں اور کہیں کہ اس کے ذریعہ ان فضلوں کا اظہار ہوتا ہے اور اگر واقعی خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ آئندہ کے امور کے متعلق خبریں ظاہر کرے اور اس کی دعاؤں کو غیر معمولی طور پر سنے.تو ہم مان لیں گے کہ ہم گو غلطی پر تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہے.مگر یہ لوگ تو دروازہ ہی
تذکار مهدی ) 412 روایات سید نا محمود بند کرتے ہیں.کیا عجیب بات ہے کہ ان کے عقیدہ کے مطابق آنحضرت ﷺ آئے تو نبوت بند ہو گئی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے تو دعا کی قبولیت کا دروازہ بند ہو گیا اور اب کوئی تیسرا مامور آیا تو شاید ایمان کا دروازہ بھی بند ہو جائے گا اور دنیا میں صرف کفر ہی کفر رہ جائے گا.خدا تعالیٰ کی مہر تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام سے ثابت ہے رحمت کے دروازے کھول دیتی ہے مگر مولوی محمد علی صاحب نے ایک ایسی مہر ایجاد کی ہے کہ ہر بھلائی اور خیر کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے.( خطبات محمود جلد 21 صفحہ 229-230) قبولیت دعا کی شرائط اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تمہیں چاہیے کہ تم میری باتیں مانو اور مجھ پر یقین رکھو اگر تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے تو میں تمہاری دُعا کیسے سُن سکتا ہوں؟ پس قبولیت دعا کے لئے دو شرطیں ہیں.اول فَلْيَسْتَجِيوالي تم میری باتیں مانو (۲) وَلْيُؤْمِنُوا بِی اور مجھ پر یقین رکھو.جو لوگ ان شرائط کو پورا نہیں کرتے وہ دیندار نہیں.وہ میرے احکام پر نہیں چلتے اس لئے میں بھی یہ وعدہ نہیں کرتا کہ میں ان کی ہر دُعاسنوں گا.بیشک میں ان کی دُعاؤں کو بھی سنتا ہوں مگر اس قانون کے ماتحت ان کی ہر دعا کو نہیں سنتا.لیکن جو شخص اس قانون پر چلتا ہے اور پھر دعائیں بھی کرتا ہے میں اس کی ہر دعا کو سنتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بازار میں چند بنئے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ کیا کوئی ایک پاؤ تل کھا سکتا ہو.وہ ایک پاؤ تکل کھانا بہت بڑا کام سمجھتے تھے ان میں سے ایک نے کہا جو ایک پاؤ تل کھالے اس کو میں پانچ روپے انعام دوں گا.پاس سے ایک زمیندار گزر رہا تھا اس نے جب سُنا کہ پاؤتل کھانے پر شرط لگی ہوئی ہے تو اس کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اس نے خیال کیا کہ بھلا ایک پاؤ تل کھانا کونسی بڑی بات ہے جس پر انعام دیا جائے.ضرور اس کے ساتھ کوئی اور شرط ہو گی.وہ آگے بڑھا اور پوچھا شاہ جی ! قتل سلیاں سمیت کھانے نے کہ بغیر سلیاں دے.“ یعنی پھلیوں سمیت تل کھانے ہیں یا الگ کئے ہوئے بیج کھانے ہیں.اس زمیندار کے نزدیک تو پاؤ تیل کھانا کوئی چیز نہ تھی لیکن وہ سب بنئے تھے جو آدھا پھلکا کھانے کے عادی تھے.جب اس نے یہ کہا کہ شاہ جی کیا تل پھلیوں سمیت کھانے ہیں تو اس بنئے نے کہا چوہدری صاحب آپ جائیے ہم تو آدمیوں کی باتیں کرتے ہیں.
تذکار مهدی ) 413 روایات سید نامحمود اسی طرح اللہ تعالیٰ جہاں یہ کہتا ہے کہ میں پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں.وہاں بھی وہ آدمیوں کا ہی ذکر کرتا ہے.جانوروں کا ذکر نہیں کرتا.وہ ہر پکارنے والے کی پکار کو نہیں سنتا وہ صرف اس شخص کی پکار کوسنتا ہے جسے یہ احساس ہو کہ اللہ تعالیٰ پر ہی سب ذمہ داری نہیں بلکہ مجھ پر بھی کچھ ذمہ داری ہے.مثلاً اگر کوئی کہے کہ اے خدا! فلاں کی لڑکی مجھے اُدھال کر لا دے یا فلاں کا مال مجھے دے دے یا میرے فلاں دشمن کی جان نکال دے تو خدا تعالیٰ اپنے آپ کو ان دُعاؤں کا مخاطب نہیں سمجھتا پس فرمایا فَلْيَسْتَجِيبُوانی میں ہر اس دعا کو سنتا ہوں جس کا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے اور پھر اُسے مجھ پر پورا یقین بھی ہو.اور جو ایسا کرتے ہیں وہ غلط دُعائیں مانگتے ہی نہیں کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ ایسی دُعائیں مانگتے تھے کہ اے خدا فلاں کا مال ظالمانہ طور پر ہمیں دیدے.پس خدا تعالیٰ بھی یہاں انسانوں کا ذکر کرتا ہے حیوانوں کا نہیں اور فرماتا ہے کہ میں دُعائیں سنتا ہوں لیکن اس کے لئے دو شرطیں ہیں اول دُعا کرنے والا پورے طور پر میرے احکام پر عمل کرے.دوم اسے مجھ پر یقین بھی ہو.جب اسے مجھ پر یقین ہوگا تو اس کا اعتماد بھی دعا کی قبولیت کے لئے اکسائے گا.( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 406-405) حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا آپ سے عشق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے مولوی عبد الکریم صاحب کو خاص عشق تھا اور ایسا عشق تھا کہ اسے وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اس زمانہ کو دیکھا دوسرے لوگ اس کا قیاس بھی نہیں کر سکتے.وہ ایسے وقت میں فوت ہوئے جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور جس زمانہ سے میں نے ان کی محبت کو شناخت کیا ہے اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کی ہوگی.یعنی بچپن کی عمر تھی.لیکن باوجود اس کے مجھ پر ایک ایسا گہرا نقش ہے کہ مولوی صاحب کی دو چیزیں مجھے کبھی نہیں بھولتیں.ایک تو ان کا پانی پینا اور ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی محبت.آپ ٹھنڈا پانی بہت پسند کرتے تھے اور اسے بڑے شوق سے پیتے تھے اور پیتے وقت غٹ غٹ کی ایسی آواز آیا کرتی تھی کہ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کی نعمتوں کو جمع کر کے بھیج دیا ہے.اس زمانہ میں اس مسجد اقصیٰ کے کنویں کا پانی بہت مشہور تھا.اب تو معلوم نہیں لوگ کیوں اس کا نام نہیں لیتے.آپ کا طریق یہ تھا کہ کہتے بھئی کوئی ثواب کماؤ اور پانی لا وجب
تذکار مهدی ) 6414 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود موجود ہوتے تو اور بات تھی.وگرنہ آپ سیڑھیوں پر آ کر انتظار میں کھڑے ہو جاتے اور پھر لوٹا لے کر منہ سے لگا لیتے.دوسرے آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت میں بیٹھے ہوتے تو یوں معلوم ہوتا کہ آپ کی آنکھیں حضور کے جسم میں سے کوئی چیز لے کر کھا رہی ہیں.اس وقت گویا آپ کے چہرے پر بشاشت اور شگفتگی کا ایک باغ ہرا رہا ہوتا تھا.اور آپ کے چہرہ کا ذرہ ذرہ مسرت کی لہر پھینک رہا ہوتا تھا جس طرح مسکرا مسکرا کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنتے اور جس طرح پہلو بدل بدل کر داد دیتے ، وہ قابل دید نظارہ ہوتا.اگر اس کا تھوڑا سارنگ میں نے کسی اور میں دیکھا تو وہ حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.غرض مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خاص عشق تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی آپ سے ویسی ہی محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق تھا کہ مغرب کی نماز کے بعد ہمیشہ بیٹھ کر باتیں کرتے.لیکن مولوی صاحب کی وفات کے بعد آپ نے ایسا کرنا چھوڑ دیا.کسی نے عرض کیا کہ حضور اب بیٹھتے نہیں.تو فرمایا کہ مولوی عبدالکریم صاحب کی جگہ کو خالی دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے.حالانکہ کون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو حتی اور دوبارہ زندگی دینے والا یقین کرتا ہو.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور ٹھنڈا پانی خطبات محمود جلد 14 صفحہ 122-121 ) | ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ ہمیں پانی پی کر کتنا آرام اور کس قدر راحت حاصل ہوتی ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو ٹھنڈے پانی کی بڑی خواہش ہوا کرتی تھی اور ان کا پانی پینے کا نظارہ بھی ایسا ہوتا تھا.جو ہمیشہ میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے.مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہوئے ہوتے تھے.آپ کے صحابہ آپ کے ارد گرد ہوتے اور آپ مختلف باتیں بیان فرما ر ہے ہوتے.جب بات زیادہ لمبی ہو جاتی تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم فرماتے کہ بھئی کوئی بڑی مسجد کے کنوئیں سے جا کر پانی لے آئے.ان دنوں اس مسجد کے کنوئیں کا پانی بہت ٹھنڈا سمجھا جاتا تھا.اس پر کوئی نوجوان اٹھتا اور
6415 تذکار مهدی ) روایات سیّد نا محمود وہ اس بڑی مسجد سے پانی لے کر پہنچ جاتا.مولوی عبد الکریم صاحب لوٹے کو ہی منہ لگا لیتے اور پانی پینا شروع کر دیتے.ان کا پانی پینا خود اپنی ذات میں ایک بڑا خوشکن نظارہ ہوتا تھا اور جس لطف سے وہ پانی پیتے تھے.وہ مجھے آج تک نہیں بھولتا.وہ پانی کے بڑے بڑے گھونٹ بھرتے اور غرپ غڑپ کی آواز سنائی دیتی اور بار بار اَلْحَمْدُ لِلهِ ، اَلْحَمْدُ لِلهِ کہتے دو چار گھونٹ پی لیتے تو کہتے اَلْحَمْدُ لِلهِ ، پھر دو چار گھونٹ پیتے اور کہتے اَلْحَمْدُ لِلهِ.غرض وہ پانی پینے میں ایسی راحت محسوس کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کی ساری نعمتیں اس کنوئیں کے پانی میں شامل کر دی گئی ہیں.یہ نتیجہ تھا اس قناعت کا جس کو جسم کی صحت کے متعلق قرآنی تعلیم کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے اپنا معیار مقرر کر لیا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا اخلاص خطبات محمود جلد 24 صفحہ 158 ) میں اس موقع پر ہائی سکول کے طلباء سے بھی کہتا ہوں کہ انہیں ایسے خیالات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے.اسکول کے طلباء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اخلاص پایا جاتا ہے اور ان کی اخلاص بھری چٹھیاں میرے پاس آتی رہتی ہیں.لیکن پھر بھی میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان باتوں کی نقل نہ کریں جن کا نمونہ بعض شاہدین نے دکھایا ہے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ جامعۃ المبشرین کے بعض اساتذہ نے بھی مجھے لکھا تھا کہ شاہدین کی تنخواہیں بڑھا دی جائیں پھر دیکھیں کہ جماعت میں وقف کی کتنی رغبت پیدا ہو جاتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.دین کی خدمت کرنے والوں نے اپنے اپنے زمانہ میں بڑا کام کیا ہے.لیکن سلسلہ کی طرف سے انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملا کرتی تھی.تم حضرت خلیفہ اسی اول کی زندگی کو دیکھ لو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کو دیکھ لو ان لوگوں کو کوئی گزارہ نہیں ملتا تھا.مگر پھر بھی انہوں نے دین کی عظیم الشان خدمت کی مولوی عبد الکریم صاحب اتنے پایہ کے عالم تھے کہ سارے ضلع سیالکوٹ میں آپ کے شاگرد پائے جاتے تھے.مگر ان کا یہ حال تھا کہ وہ جب ہجرت کر کے قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک کمرہ میں پڑے رہتے تھے.لنگر سے دو وقت کا کھانا آجا تا تھا اور اس پر گزارہ کرتے تھے.کوئی تنخواہ نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ان کی حالت دیکھ کر کوئی دوست انہیں کوٹ اور دوسرے کپڑے بنا دیتے اور وہ پہن لیتے.گویا بغیر کسی تنخواہ کے ساری عمر گزارہ کرتے
تذکار مهدی ) 6 416 روایات سیّد نا محمود رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرائیوٹ سیکرٹری بنے رہے.اسلام کی ابتدائی تاریخ کو دیکھا جائے.تو وہاں بھی ایسے لوگ نظر آتے ہیں.جو دنیا کو چھوڑ کر دین کے ہو گئے تھے اور عیسائیوں میں تو اب تک یہ نمونہ موجود ہے اور میں نے جماعت کے نوجوانوں سے یہی دریافت کیا تھا کہ اب وہ نمونہ کیوں قائم نہیں رہا.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں کو صرف ان لوگوں سے نمونہ حاصل کرنا چاہئے.جو سادہ ہیں اور دعائیں کرنا جانتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن سے مسلمانوں کا احیاء وابستہ ہے.( الفضل 18 فروری 1956 ء جلد 45/10 نمبر 42 صفحہ 4 ) حضرت میر ناصر نواب صاحب مجھے یاد ہے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص نے کچھ بے جا الفاظ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے.لوگوں نے اسے مارنا شروع کر دیا.وہ شخص ضدی تھا لوگ اسے مارتے جاتے مگر وہ یہی کہتا جاتا کہ میں تو یہی کہوں گا.لوگ اسے پھر مارنا شروع کر دیتے اور یہ جھگڑا بڑھ گیا.ہم اس وقت چھوٹی عمر کے تھے.ہمارے لئے یہ ایک تماشہ بن گیا.وہ مار کھاتا جاتا اور کہتا جاتا کہ میں تو یہی کہوں گا.لوگ اسے ہارتے یہاں تک کہ وہ اسے مار مار کر تھک گئے.ان دنوں ایک غیر احمد کی پہلوان حضرت خلیفتہ اسی الاول کے پاس علاج کے لئے آیا ہوا تھا.( آپ اس وقت خلیفہ اسیح نہیں تھے.اُس نے جب یہ شور سنا تو خیال کیا.میں کیوں اس ثواب سے محروم رہوں.مجھے بھی اس میں حصہ لینا چاہئے.چنانچہ وہ گیا اور اسے سمجھیری کی طرح اٹھا کر زمین پر دے مارا.لیکن وہ گر کر یہی کہتا.میں تو یہی کہوں گا.ہمارے لئے یہ ایک تماشا بن گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب معلوم ہوا تو آپ بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ کیا ہماری یہی تعلیم ہے.دیکھو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں لیکن ہمارا اس سے کیا بگڑ جاتا ہے.اگر اس نے کچھ بے جا الفاظ مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق بھی استعمال کر دیئے تو کیا ہو گیا اور تو اور ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے جب یہ دیکھا.تو آپ وہاں گئے اور لوگوں سے کہا.یہ کیا لغو بات ہے کہ تم اس شخص کو مارنے لگ گئے ہو.مگر ابھی آپ یہ نصیحت کر ہی رہے تھے کہ اس شخص نے پھر وہی الفاظ دہرائے.جو اس نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے متعلق کہے تھے.اس پر میر صاحب نے خود بھی اسے دو چار تھپڑ لگا دیئے.تو بسا اوقات
تذکار مهدی ) 6 417 روایات سید نا محمودی انسان اس قسم کے بھی کام کر لیتا ہے جو لغو ہوتے ہیں.دراصل رو چلنے کی دیر ہوتی ہے.جب رو چل جائے.تو لوگ خود بخود اس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.الفضل 5 / جون 1948 ء جلد 3 نمبر 127 صفحہ 6 حضرت منشی اروڑے خان صاحب کا آپ سے عشق منشی اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے عشق تھا.وہ کپورتھلہ میں رہتے تھے اور کپورتھلہ کی جماعت کے اخلاص کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس قدر تعریف فرمایا کرتے تھے کہ آپ نے انہیں ایک تحریر بھی لکھ دی تھی جو انہوں نے رکھی ہوئی ہے کہ اس جماعت نے ایسا اخلاص دکھایا ہے کہ یہ جنت میں میرے ساتھ ہوں گے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بار بار درخواست کرتے کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں.آپ نے بھی وعدہ کیا ہوا تھا کہ جب موقع ہوا آئیں گے.ایک بار جو فرصت ملی تو اطلاع دینے کا وقت نہ تھا.اس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے اور کپورتھلہ کے سٹیشن پر جب اترے تو ایک شدید مخالف نے آپ کو دیکھا جو آپ کو پہچانتا تھا.اگر چہ وہ مخالف تھا مگر بڑے آدمیوں کا ایک اثر ہوتا ہے.منشی اروڑا صاحب سناتے ہیں کہ ہم ایک دکان پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ وہ دوڑا دوڑا آیا اور کہنے لگا تمہارے مرزا صاحب آئے ہیں.یہ سن کر جوتی اور پگڑی وہیں پڑی رہی اور میں ننگے پاؤں اور ننگے سرٹیشن کی طرف بھاگا.مگر تھوڑی دور جا کر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.اطلاع دینے والا مخالف ہے، اس نے مخول نہ کیا ہو.اس پر میں نے کھڑے ہو کر اس کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے، مذاق اڑاتا ہے.مگر پھر خیال آیا کہ شاید آ ہی گئے ہوں اس لئے پھر بھاگا.پھر خیال آیا کہ ہماری ایسی قسمت نہیں ہو سکتی اور پھر اسے کو سنے لگا.وہ کہے مجھے برا بھلا نہ کہو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں اس پر پھر چل پڑا.غرضیکہ میں کبھی دوڑتا اور کبھی کھڑا ہو جاتا اسی حالت میں جا رہا تھا کہ سامنے کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لا رہے ہیں.تو یہ جنون والا عشق ہے ایک طرف تو اتنی محبت ہے کہ ننگے پاؤں اور ننگے سر بھاگ اٹھے مگر پھر جب اپنے عاشق اور ان کے معشوق ہونے کا خیال آتا ، تو دل کہتا کہ وہ ہمارے پاس کہاں آ سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فوت ہوئے ہیں تو
تذکار مهدی ) 418 روایات سید نا محمود کچھ عرصہ بعد منشی اروڑے خان صاحب قادیان آگئے تھے.ایک دفعہ آپ نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں جو ان سے ملنے کے لئے باہر آیا تو دیکھا ان کے ہاتھ میں دو تین اشرفیاں تھیں جو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے دیں کہ اماں جان کو دے دیں مجھے اس وقت یاد نہیں کہ وہ کیا کہا کرتے تھے.مگر اماں جان یا اماں جی بہر حال ماں کے مفہوم کا لفظ ضرور تھا اس کے بعد انہوں نے رونا شروع کیا اور چیخیں مار مار کر اس شدت کے ساتھ رونے لگے کہ ان کا تمام جسم کانپ رہا تھا.اگر چہ مجھے خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد نہیں رلا رہی ہے مگر وہ کچھ اس بے اختیاری سے رور ہے تھے کہ میں نے سمجھا کہ اس میں کسی اور بات کا بھی دخل ہے.غرضیکہ وہ دیر تک کوئی پندرہ بیس منٹ بلکہ آدھ گھنٹہ تک روتے رہے.میں چھتا رہا کہ کیا بات ہے.وہ جواب دینا چاہتے مگر رفت کی وجہ سے جواب نہ دے سکتے.آخر جب ان کی طبیعت سنبھلی تو انہوں نے کہا کہ میں نے جب بیعت کی ، اس وقت میری تنخواہ سات رو پی تھی اور اپنے اخراجات میں ہر طرح سے تنگی کر کے اس کے لئے کچھ نہ کچھ بچا تا کہ خود قادیان جا کر حضور کی خدمت میں پیش کروں اور بہت سا رستہ میں پیدل طے کرتا تا کہ کم سے کم خرچ کر کے قادیان پہنچ سکوں.پھر ترقی ہوگئی اور ساتھ اس کے یہ حرص بھی بڑھتی گئی.آخر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں حضور کی خدمت میں سونا نذر کروں.جو تھوڑی سی تنخواہ میں سے علاوہ چندہ کے پیش کرنا چاہتا تھا لیکن جب تھوڑا تھوڑا کر کے کچھ جمع کر لیتا تو پھر گھبراہٹ سی پیدا ہوتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھے اتنی مدت ہو گئی ہے، اس لئے قبل اس کے کہ سونا حاصل کرنے کے لئے رقم جمع ہو، قادیان چلا آتا اور جو کچھ پاس ہوتا، حضور کی خدمت میں پیش کر دیتا.آخر یہ تین پونڈ جمع کئے تھے اور ارادہ تھا کہ خود حاضر ہو کر پیش کروں گا کہ آپ کی وفات ہوگئی.گویا ان کے تیس سال اس حسرت میں گزر گئے.انہوں نے اس کے لئے محنت بھی کی لیکن جس وقت اس کی توفیق ملی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے تھے.بظاہر یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے اُس وقت بھی سلسلہ کے کاموں پر ڈیڑھ دو ہزار روپیہ ماہوار خرچ ہوتا تھا اور اب تو لاکھوں روپیہ سالانہ کا خرچ ہے اور ظاہر ہے کہ اس قدر اخراجات میں ان کےسونے کی کیا حیثیت ہو سکتی تھی.لیکن اس سے ان کے عشق کا اندازہ ہو سکتا ہے.ایک شخص اسی آرزو میں عمر گزار دیتا ہے کہ روپیہ جمع کر کے سونا نذر کرے.سوچنا چاہئے کہ آج کتنے ہیں جو اس سے ہزار واہ حصہ بھی عشق رکھتے ہیں.ایک شخص نے تمہیں سال تک کوشش کی.اب کتنے
تذکار مهدی ) 419 روایات سید نا محمود ہیں جو سلسلہ کے لئے قربانی کرنے کے لئے ایک ماہ بھی اس خواہش میں گزارتے ہیں.( خطبات محمود جلد 14 صفحہ 178 تا 180 ) حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی قادیان آمد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں آنے کو حج قرار دیا ہے.ایک واقعہ مجھے بھی یاد ہے صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب مرحوم شہید حج کے ارادہ سے کابل سے روانہ ہوئے تھے.وہ جب یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے حج کے متعلق اپنے ارادہ کا اظہار کیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اس وقت اسلام کی خدمت کی بے حدضرورت ہے اور یہی حج ہے.چنانچہ پھر صاحبزادہ صاحب حج کے لئے نہ گئے اور یہیں رہے کیونکہ اگر وہ حج کے لئے چلے جاتے تو احمدیت نہ سیکھ سکتے.پس غیر مبائعین کا اعتراض فضول ہے.خدا تعالیٰ نے قادیان میں جو برکات رکھی ہیں اور خاص کر سالانہ جلسہ کی برکات ان کے لحاظ سے جلسہ میں شمولیت کو ایک قسم کا ظلی حج کہنا بالکل درست ہے.بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد نمبر 12 صفحہ 576) حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کا مخالف پر غصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے پاس ایک دفعہ ایک عالم آیا آپ نے بات کرتے وقت معمولی طور پر ق کا حرف ادا کرتے ہوئے قرآن کہا تو وہ کہنے لگا مسیح موعود بنے پھرتے ہیں اور قرآن کہنا بھی نہیں آتا.ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید آئے ہوئے تھے ان کا ہاتھ اس شخص کے منہ کی طرف اٹھنے ہی لگا تھا کہ آپ نے انہیں روک دیا اور پھر جب تک اس شخص سے گفتگو کرتے رہے صاحبزادہ صاحب کا ایک ہاتھ آپ نے پکڑے رکھا اور دوسرا حضرت مولوی عبدالکریم کو پکڑے رکھنے کا اشارہ فرمایا اور وہ اس دوران غصہ سے لرزتے رہے لیکن وہ نادان کیا جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو آپ کا سیدھا سادھا قرآن کہنا ہی پسند تھا.“ خطبات محمود جلد 15 صفحہ 470 )
تذکار مهدی ) 420 قرآن ق کی آواز کا فرق بیان کرنے کا اعتراض روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا.آپ نے اسے تبلیغ کرنی شروع کی.تو باتوں باتوں میں آپ نے فرمایا.قرآن میں یوں آتا ہے.پنجابی لہجہ میں چونکہ ق، اچھی طرح ادا نہیں ہو سکتا اور عام طور پر لوگ قرآن کہتے ہوئے قاریوں کی طرح ق کی آواز گلے سے نہیں نکالتے.بلکہ ایسی آواز ہوتی ہے جو ق اورک کے درمیان درمیان ہوتی ہے.آپ نے بھی قرآن کا لفظ اس وقت معمولی طور پر ادا کر دیا.اس پر وہ شخص کہنے لگا بڑے نبی بنے پھرتے ہیں.قرآن کا لفظ کہنا تو آتا نہیں.اس کی تفسیر آپ نے کیا کرنی ہے.جونہی اس نے یہ فقرہ کہا حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو اس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے اسے تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معاً ان کا ہاتھ پکڑ لیا.دوسری طرف مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیٹھے تھے.دوسرا ہاتھ انہوں نے پکڑ لیا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر اسے تبلیغ کرنی شروع کر دی.پھر آپ نے صاحبزادہ صاحب سے فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس یہی ہتھیار ہیں.اگر ان ہتھیاروں سے بھی یہ کام نہ لیں تو.بتلائیں اور کیا کریں.اگر آپ یہی امید رکھتے ہیں کہ یہ بھی دلائل سے بات کریں اور صداقت کی باتیں ان کے منہ سے نکلیں تو پھر اللہ تعالیٰ کو مجھے بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.اس کا مجھے بھیجنا ہی بتا رہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس صداقت نہیں رہی.یہی اوچھے ہتھیار ان کے پاس ہیں اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ ان ہتھیاروں کو بھی استعمال نہ کریں.پھر دشمنان احمدیت کے ایسے ایسے گندے خطوط میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پڑھے ہیں کہ انہیں پڑھ کر جسم کا خون کھولنے لگتا تھا اور پھر یہ خطوط اتنی کثرت سے آپ کو پہنچتے کہ میں سمجھتا ہوں.اتنی کثرت سے میرے نام بھی نہیں آتے.میری طرف سال میں صرف چار پانچ خطوط ایسے آتے ہیں علاوہ ان کے جو بے رنگ آتے ہیں اور واپس کر دیئے جاتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ہر ہفتہ میں دو تین خط ایسے ضرور پہنچ جاتے تھے اور وہ اتنے گندے اور گالیوں سے پر ہوا کرتے تھے کہ انسان دیکھ کر حیران ہو جاتا.میں نے اتفاقاً ان خطوط کو ایک دفعہ پڑھنا شروع کیا.تو ابھی ایک دو خط ہی پڑھے تھے کہ میرے
تذکار مهدی ) 421 روایات سید نا محمود جسم کا خون کھولنے لگ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا تو آپ فوراً تشریف لائے اور آپ نے خطوط کا وہ تھیلا میرے ہاتھ سے لے لیا اور فرمایا انہیں مت پڑھو.اس قسم کے خطوط کے کئی تھیلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جمع تھے.لکڑی کا ایک بکس تھا جس میں یہ تمام خطوط رکھتے چلے جاتے.کئی دفعہ آپ نے یہ خطوط جلائے بھی.مگر پھر بہت سے جمع ہو جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی تھیلوں کے متعلق اپنی کتب میں لکھا ہے کہ میرے پاس دشمن کی گالیوں کے کئی تھیلے جمع ہیں.پھر صرف ان میں گالیاں نہیں ہوتی تھیں بلکہ واقعات کے طور پر جھوٹے اتہامات اور ناجائز تعلقات کا ذکر ہوتا تھا.پس ایسی باتوں سے گھبرانا بہت نادانی کی بات ہے.یہ باتیں تو ہمارے تقویٰ کو مکمل کرنے کے لئے ظاہر ہوتی ہیں.ان میں ناراضگی اور جوش کی کون سی بات ہے.آخر برتن کے اندر جو کچھ ہوتا ہے وہی اس میں سے ٹپکتا ہے.دشمن کے دل میں چونکہ گند ہے اسی لئے گند ہی اس سے ظاہر ہوتا ہے.لیکن ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی و تقویٰ پر زیادہ سے زیادہ قائم ہوتے چلے جائیں اور اپنے اخلاق کو درست رکھیں.اگر دشمن کسی مجلس میں ہنسی اور تمسخر سے پیش آتا ہے.تو تم اس مجلس سے اٹھ کر چلے آؤ.یہی خدا کا حکم ہے.جو اُس نے ہمیں دیا مگر بیہودہ غصہ اور ناواجب غضب کا اظہار بیوقوفی ہے.اگر اس وقت جبکہ تم کمزور ہو اور تمہاری مثال دنیا کے مقابلہ میں بتیں دانتوں میں زبان کی سی ہے مخالفین کی حرکات پر تمہیں غصہ آتا ہے اور تم اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو یا درکھو جب ہمیں بادشاہت حاصل ہو گی اُس وقت ہمارے آدمی دشمنوں پر سخت ظلم کرنے والے ہوں گے.پس آج ہی اپنے نفوس کو ایسا مارو ایسا مارو کہ جب اللہ تعالیٰ تمہیں یا تمہاری اولادوں کو بادشاہت دے تو تم ظلم کرنے والے نہ بنو اور تمہارے اخلاق اسلامی منہاج پر سُدھر چکے ہوں.اگر آج تم صبر سے بھی کام لیتے ہو تو دنیا کی نگاہ میں یہ کوئی خوبی نہیں کیونکہ کمزوری کے وقت ظلم کو برداشت کر لینا کوئی کمال نہیں ہوتا.دہلی میں اولیاء کی قبروں پر دعا (الفضل مورخہ 9 مارچ 1938 ء جلد 26 نمبر 55 صفحہ 8-7 ) | اللہ تعالیٰ نشان نمائی کے لئے نبیوں سے تعلق رکھنے والی ہر چیز میں برکت رکھ دیتا ہے
تذکار مهدی ) 422 روایات سید نا محمودی اور لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ان برکات کو حاصل کریں.پس ان برکات سے انکار نہیں کیا جا سکتا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے.اخبار ” بدر میں بھی چھپا ہوا موجود ہے اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ دہلی تشریف لے گئے.تو آپ مختلف اولیاء کی قبروں پر دُعا کرنے کے لئے گئے.چنانچہ خواجہ باقی باللہ صاحب، حضرت قطب صاحب، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء.شاہ ولی اللہ صاحب ، حضرت خواجہ میر درد صاحب اور نصیر الدین صاحب چراغ کے مزارات پر آپ نے دعا فرمائی.اس وقت آپ نے جو کچھ فرمایا.وہ جہاں تک مجھے یاد ہے گوڈائری اس طرح چھپی ہوئی نہیں.یہ ہے کہ دلی والوں کے دل مردہ ہو چکے ہیں.ہم نے چاہا کہ ان وفات یافتہ اولیاء کی قبروں پر جا کر ان کے لئے ان کی اولادوں کے لئے اور خود دہلی والوں کے لئے دعائیں کریں.تا کہ ان کی روحوں میں جوش پیدا ہو اور وہ بھی ان لوگوں کی ہدایت کے لئے دعائیں کریں.ڈائری میں صرف اس قدر چھپا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم نے قبروں پر ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی ہے اور بعض امور کے لئے بھی دعا کی ہے.(بدر 8 نومبر 1905ء) اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خالی ان لوگوں کے لئے دعا نہیں کی.جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قبر پر جا کر صرف مرنے والے کے لئے دُعا کرنی چاہئے.ان کا اس ڈائری سے رد ہوتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ہم نے ان کے لئے بھی دعا کی اور اپنے لئے بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقاصد میں کامیاب فرمائے اور اور کئی امور کے لئے بھی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈائری ہے جو بدر میں چھپی ہوئی موجود ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذکرۃ الشہادتین میں تحریر فرماتے ہیں کہ میرا ارادہ تھا.گورداسپور ایک مقدمہ پر جانے سے پیشتر اس کتاب کو مکمل کر لوں اور اسے اپنے ساتھ لے جاؤں.مگر مجھے شدید درد گردہ ہو گیا اور میں نے سمجھا کہ یہ کام نہیں ہو سکے گا.اس وقت میں نے اپنے گھر والوں یعنی حضرت ام المومنین سے کہا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ آمین کہتی جائیں.چنانچہ اس وقت میں نے صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب شہید کی روح کو سامنے رکھ کر دعا کی کہ الہی اس شخص نے تیرے لئے قربانی کی ہے اور میں اس کی عزت کے لئے یہ
تذکار مهدی ) 423 روایات سید نا محمود کتاب لکھنا چاہتا ہوں.تو اپنے فضل سے مجھے صحت عطا فرما.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھو نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا.( تذکرۃ الشہادتین صفحہ 73-72) اب دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مقدمہ پر جا رہے تھے.آپ چاہتے تھے کہ اس سے پیشتر کتاب مکمل ہو جائے.مگر آپ سخت بیمار ہو گئے.اس پر آپ نے حضرت شہید مرحوم کی روح کو جو آپ کے خادموں میں سے ایک خادم تھے.اپنے سامنے رکھ کر دعا کی کہ البہی اس کی خدمت اور قربانی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ کتاب لکھنی چاہی تھی تو مجھے اپنے فضل سے صحت عطا فرما اور پھر خدا نے آپ کی اس دعا کو قبول فرمالیا.چنانچہ آپ نے اس واقعہ کا ہیڈنگ ہی یہ رکھا ہے کہ ایک جدید کرامت مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی.پس یہ چیزیں صلحاء واتقیاء کے طریق سے ثابت ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود اس رنگ میں کئی بار دعائیں فرمائی ہیں.جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ مردہ کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ وہ ہمیں کوئی چیز دے گا.یہ امر صریح ناجائز ہے اور اسلام اسے حرام قرار دیتا ہے.باقی رہا اس کا یہ حصہ کہ ایسے مقامات پر جانے سے رقت پیدا ہوتی ہے.یا یہ حصہ کہ انسان ان وعدوں کو یاد دلا کر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے کئے ہوں دعا کرے کہ الہی اب ہمارے وجود میں تو ان کو پورا فرما.یہ نہ صرف ناجائز نہیں بلکہ ایک روحانی حقیقت ہے اور مومن کا فرض ہے کہ برکت کے ایسے مقامات سے فائدہ اٹھائے.مثلاً جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پر دعا کے لئے جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ سکتے ہیں کہ الہی یہ وہ شخص ہے جس کے ساتھ تیرا یہ وعدہ تھا کہ میں اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ کروں گا.تیرا وعدہ تھا کہ میں اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا.تیرا وعدہ تھا کہ اسلام کی فتح میں اس کے ہاتھ پر مقدر کروں گا.تیرا وعدہ تھا کہ شیطان اس کے ہاتھ سے آخری شکست کھائے گا.اے ہمارے رب! یہ تیرے وعدے اس شخص سے تھے جو اب مٹی کے ڈھیر تلے مدفون ہے اور اب ان وعدوں کا پورا کرنا ہمارے ہی ذمہ ہے.پس اے خدا! ہم تجھ سے ان وعدوں کا واسطہ دے کر عرض کرتے ہیں کہ ہم ان کاموں کے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، ہم کمزور ہیں ، ناطاقت ہیں ، گنہگار ہیں اور خطا کار ہیں، جماعت میں ابھی اتنی قربانی کا مادہ اور اس قدر فدائیت نہیں پائی
تذکار مهدی ) 424 روایات سید نامحمود جاتی جس قدر قربانی اور فدائیت ان عظیم الشان کامیابیوں کے لیے ضروری ہے.تو اپنے فضل سے آسمان سے فرشتے نازل فرما، تو ہمارے قلوب کو صیقل فرما ، تو آسمانی انوار سے ہمارے دل اور دماغ کو روشن فرما، تو ہم کو ایمان بخش اور ان لوگوں کو بھی ایمان بخش جو کروڑوں کی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں، تو ہم کو سلسلہ پر استقامت عطا فرما اور ان لوگوں کو بھی سلسلہ میں داخل فرما جو کروڑوں کی تعداد میں ابھی اس سلسلہ کے نام سے بھی نا آشنا ہیں.تو اسلام کی فتح کا دن قریب سے قریب تر لا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کو دنیا میں قائم فرما دے.یہ دعا اگر کی جائے تو بتاؤ اس میں کونسا شرک ہے.یہ تو وہ خدا کا فیصلہ ہے جو وہ آسمان پر کر چکا.اب ہم چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ زمین پر بھی نافذ ہو.پس ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دعا کے لیے جانا صرف اس لیے ہے کہ وہ نزولِ برکات کا مقام ہے اور اس لیے ہے کہ وہاں رفت زیادہ پیدا ہوتی ہے اور اس طرح ہم آسانی سے خدا تعالی کی غیرت کو بھڑکا سکتے ہیں.نظام الدین اولیاء اور شاگرد الفضل 14 مارچ 1944 ء جلد 32 نمبر 61 صفحہ 8،7 ) حضرت خلیفہ اول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.میں نے یہ واقعہ حضرت مسیح موعود الصلوة والسلام سے بھی سنا ہے کہ حضرت نظام الدین اولیاء کے ایک شاگرد جو بعد میں ان کے خلیفہ بھی ہوئے.اپنی زندگی میں وہ ایک جگہ شراب پی رہے تھے.اتفاق سے حضرت نظام الدین بھی ادھر سے گزرے.دیکھا تو فرمایا حسن! یہ کیا؟ وہ مسکرائے اور ایک شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہمارے فسق نے آپ کے زہد سے کمی نہ کی.یعنی یہ حالت فسق ابھی بڑھی ہوئی ہے.آپ کے زہد کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا.( خطبات محمود جلد 7 صفحہ 15) حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگا رہے کہ قاری کی طرح وہ قرآت کر سکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیا جا سکتا ہے اسے کیوں چھوڑا جائے.یہ کوشش کرنا کہ ہم اسے قاری کی طرح ہی ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدا نے نہیں بخشی میری مرحومہ بیوی ام طاہر بیان کیا کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن پڑھنے پڑھانے کا
تذکار مهدی ) 425 روایات سید نا محمود بڑا شوق تھا انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد ر کھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے اس کے سپرد کیا ہوا تھا.ام طاہر بتایا کرتی تھیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے.اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے مارتے تھے پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طور پر تلفظ کیوں ادا نہیں کرتے.ہم پنجابی لوگوں کا لہجہ ہی ایسا ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادا نہیں کر سکتے.لاہور میں ایک میاں چٹو رہا کرتے تھے.وہ بعد میں چکڑالوی ہو گئے.ان کے پاس ایک عرب آیا اور وہ اس کو لے کر قادیان پہنچے.ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جوان دنوں علاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے.یہاں تک کہ امیر امان اللہ خان کے دادا حبیب اللہ خان کی رسم تاج پوشی بھی انہی سے ادا کروائی گئی تھی.وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے.وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دو تین دفعہ ض“ کا استعمال کیا آپ کا لہجہ اگر چہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے ادا کرتے ہیں آپ ویسے ادا نہیں کر سکتے تھے دو چار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تو وہ عرب جو کئی سال سے لکھنو میں رہتا تھا اور اردو بولتا تھا اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایا ہے.آپ کو تو رض، بھی صحیح طور پر ادا کرنا نہیں آتا صاحبزادہ صاحب بڑے عالم تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیا حقیقت ہے.وہ غصے میں آگئے اور اسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا.مولوی عبد الکریم صاحب نے دیکھ لیا.آپ نے اسے چھڑانے کی کوشش کی.آپ چونکہ پٹھان تھے اور طاقت ور تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے.اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغو حرکت کی ہے.ہر ملک کا الگ الگ لہجہ ہوتا ہے.عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں.ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے ہندوستان میں ضاد کو قریب ترین ادا کرنے والوں میں سے ایک میں ہوں لیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح ادا کرتا ہوں.قریب ترین ہی ادا کرتا ہوں.ہندوستانی لوگ اسے دواد یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں.پس جب خود عرب کہتا ہے کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں اور کوئی خود صحیح طور پر ادا نہیں سکتا تو پھر اعتراض کی بات ہی کیا ہوئی.(الفضل 11 اکتوبر 1961 ء جلد 50/15 نمبر 235 صفحہ 2 تا 3 )
تذکار مهدی ) 426 روایات سید نا محمود امیر عبدالرحمان خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سُنایا کرتے تھے کہ امیر عبدالرحمان خان کا باپ افغانستان سے بھاگ گیا تھا اور امیر عبدالرحمان نے خود یہ بات واپس آکر سُنائی کہ روس کو جاتے ہوئے جب وہ بُخارا میں سے گزرے تو ایک گاؤں میں کسی بات پر گاؤں والوں نے بتایا کہ یہ بات تو بادشاہ کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی.اُنہوں نے پوچھا کہ بادشاہ کہاں ہیں ؟ تو گاؤں والوں نے بتایا کہ گھاس لینے گئے ہیں.وہ اُسی گاؤں کا بادشاہ تھا.تھوڑی دیر میں گاؤں والوں نے بتایا کہ وہ بادشاہ سلامت آرہے ہیں.وہ ایک دُبلے پتلے گھوڑے پر سوار تھا اُدھر سے امیر عبدالرحمان خان کے والد اپنے گھوڑے پر سوار اُس کی طرف گئے تو باوجود موٹا تازہ ہونے کے امیر کا گھوڑا ڈر گیا.اُس نے آواز دی کہ عبد الرحمان ذرا ادھر آنا.مگر امیر عبدالرحمان نے کہا کہ میں دو بادشاہوں کی لڑائی میں دخل نہیں دینا چاہتا.تو ایک صوبہ، ایک ضلع اور ایک تحصیل کا چھوڑ کر ایک گاؤں کے بادشاہ بھی ہوتے ہیں مگر پھر بھی وہ اس پر فخر کرتے ہیں کہ ہم بادشاہ ہیں.بادشاہ سے اُو پر شہنشاہ ہوتا ہے وہ بھی دُنیا میں کئی کئی ہوتے ہیں.پچھلے زمانہ میں انگلستان، روس، جرمن اور ایسے سینیا کے بادشاہ شہنشاہ کہلاتے تھے اور اس طرح چار شہنشاہ بہ یک وقت دُنیا میں موجود تھے.جنگ کے بعد دومٹ گئے اور طاقتور شہنشاہ ایک رہا.دوسرا ایسے سینیا کا شہنشاہ تھا جو بیچارہ کسی حساب میں نہ تھا.خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہ آیا کہ حقیقی شہنشاہ ایک ہی رہے اس لئے اٹلی نے حبشہ کو فتح کر کے اپنے بادشاہ کا نام شہنشاہ رکھ دیا اور اس طرح اب پھر دو شہنشاہ ہو گئے ہیں.شاندار چیزیں ہی قوموں کو زندہ کرتی ہیں (خطبات محمود جلد 19 صفحہ نمبر 452 ) انسان کو اپنے اندر صرف ایمان پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.تم اپنے ایمانوں کا جائزہ لو، سچائیوں پر قائم ہو جاؤ ، راستی اور صداقت کو اپنا شعار بناؤ، خدا کے ذکر میں مشغول رہو، اس کی معرفت اپنے اندر پیدا کرو تاکہ خدا تم کو نظر آ جائے اور اسی دنیا میں وہ تم کو اپنا جلوہ دکھا دے.جب تک خدا نظر نہیں آتا دنیا کی مصیبتیں پہاڑ اور اس کے ابتلاء بے کنارہ سمندر نظر آتے ہیں.مگر جب خدا نظر آ جاتا ہے تو اسکی نگاہ میں یہ ساری چیزیں بیچ ہو جاتی ہیں.تب ایک ہی چیز
تذکار مهدی ) 427 روایات سید نا محمود اس کے سامنے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا قول پورا ہو.اور خدا تعالیٰ کے قول کے مقابلہ میں نہ حکومتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں نہ بادشاہتیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں اور نہ جائیدادیں کوئی حقیقت رکھتی ہیں.وہ ہنستا ہوا جاتا اور اپنی قربانی پیش کر کے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتا ہے.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ہمارے جیسے ہی ایک انسان تھے.کیا ان کے جسم میں جس نہیں تھی اور ہمارے اندر ہے؟ کیا ان کے بیوی بچے نہیں تھے اور ہمارے بیوی بچے ہیں؟ یہاں تو صرف عوام الناس کی شرارت ہے.اوپر کی گورنمنٹ کم سے کم منہ سے اب تک یہی کہتی چلی آ رہی ہے کہ ہم اقلیتوں کا تحفظ چاہتے ہیں.مگر وہاں یہ حالت تھی کہ حکومت تک ان کی مخالف تھی.آخر بادشاہ نے ان کو بلا کر کہا دیکھیں مولوی صاحب! میرے دل میں آپ کا بڑا ادب ہے اور میں آپ کو چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن اگر یونہی چھوڑ دوں تو مولوی میرے مخالف ہو جائیں گے.آپ صرف اتنا کریں کہ جب آپ سے پوچھا جائے کہ کیا آپ قادیانی ہیں؟ تو آپ خواہ دل میں کچھ عقائد رکھیں زبان سے کہہ دیں کہ میں قادیانی نہیں ہوں اس طرح میں آپ کو آسانی سے چھوڑ سکوں گا.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف نے کہا بادشاہ! تمہیں جان کی قیمت معلوم ہوتی ہوگی مجھے تو اس کی کوئی قیمت معلوم نہیں ہوتی اور میں تو یہ قربانی پیش کرنے کے لئے ہی تمہارے پاس آیا ہوں.مجھے تو پہلے بھی کہا گیا تھا کہ میں احمدیت کا اظہار نہ کروں مگر میں نے انکار کر دیا.دراصل گورنر جس کے سامنے وہ پہلی دفعہ پیش ہوئے وہ بھی ان کے شاگردوں میں سے تھا.جب آپ اُس سے ملے تو اس نے بھی کہا کہ آپ یہاں سے بھاگ جائے ورنہ آپ کی جان خطرہ میں پڑ جائے گی.صاحبزادہ صاحب نے کہا تمہاری ہتھکڑیاں کہاں ہیں لا ؤ اور میرے ہاتھوں میں پہناؤ.مجھے تو آج رات خدا نے بتایا ہے کہ مجھے سونے کے کنگن ڈالے جائیں گے.پس میں اپنی موت سے نہیں ڈرتا.میں تو قوم کی نجات کے لئے اپنی جان پیش کرنا چاہتا ہوں.پھر جب اُنہیں پتھراؤ کیا گیا تو اُس وقت بھی ان کے دل میں اپنی قوم کا کوئی کینہ اور بغض نہیں تھا بلکہ سنگسار کرنے سے پہلے جب انہیں گاڑنے لگے اور گاڑتے اس لئے ہیں کہ پتھروں کے ڈر سے انسان بھاگ نہ جائے تو صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ میں بھاگتا تو نہیں مجھے گاڑنے کی کیا ضرورت ہے.پھر جب ان پر پتھر پڑنے لگے تو دیکھنے والوں کی گواہی ہے کہ صاحبزادہ صاحب بلند آواز سے یہ دعا کرتے جاتے تھے کہ
تذکار مهدی ) 428 روایات سید نا محمود اے میرے رب ! میری قوم پر رحم کر کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کر رہی ہے.یہ وہ شاندار چیزیں ہیں جو قوموں کو زندہ کیا کرتی ہیں.بے شک صاحبزادہ صاحب مر گئے مگر کیا انہوں نے مرنا نہیں تھا.اگر وہ عام لوگوں کی طرح بستر پر مر جاتے تو کیا ہم ان کا ذکر کر کے جماعت میں جوش پیدا کر سکتے تھے؟ کیا ہم یہ کہتے کہ دیکھو فلاں مولوی نے بستر پر جان دی؟ اگر ہم ایسا کہتے تو کیا لوگوں پر اس کا کوئی بھی اثر ہوتا.وہ کہتے ایک مولوی تھا جو مر گیا.دنیا میں بہتیرے مولوی مرتے رہتے ہیں اگر وہ بھی مر گیا تو کیا ہوا.در حقیقت اس قسم کی قربانی ہی ہوتی ہے جو قوم کے نوجوانوں کو زندہ کیا کرتی ہے.بے شک ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں مگر نو جوان جب اس قسم کے نمونہ کو دیکھتے ہیں تو ان کے دلوں میں جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کیسا اچھا انجام تھا آؤ ہم بھی ایسی ہی قربانی کریں.آج کل اسلام کے ساتھ سلوک خطبات محمود جلد 28 صفحہ 318 تا 319) ہر آدمی ایسی چیزوں اور عقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں الگ کر لیتا ہے اور کہتا ہے ان کو الگ کر لو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں وہ اس کو الگ کر لیتی اور کہتی ہیں اللہ کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے پردہ کو الگ کر دو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے ہمارے نوجوان جن کے لئے ڈاڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.سود لینے والا کہہ دیتا ہے کہ بنگنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سود کو چھوڑ و باقی جو کچھ ہے اسلام ہے.غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں باقی امور اسلام میں داخل ہیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے.سود بھی اسلام میں داخل نہیں ، نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں.ڈاڑھیاں رکھنا بھی اسلام میں داخل نہیں تو پھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں.مثل مشہور ہے کہ کوئی بزدل آدمی تھا.اسے وہم ہو گیا تھا کہ وہ بہت بہادر ہے.وہ گودنے والے کے پاس گیا.پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر لوگ اپنے بازو پر اپنے کریکٹر اور اخلاق کے مطابق نشان کھدوا لیتے تھے.یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا
تذکار مهدی ) 429 روایات سید نا محمود گودنے والے نے پوچھا تم کیا گدوانا چاہتے ہو.اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں جب وہ شیر گودنے لگا تو اس نے سوئی چھوٹی.سوئی چھونے سے درد تو ہونا ہی تھا.وہ دلیر تو تھا نہیں اس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو.گودنے والے نے کہا شیر گودنے لگا ہوں.اس نے پوچھا شیر کا کون سا حصہ گودنے لگے ہو اس نے کہا دم گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا شیر کی دم اگر کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا.گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا اچھا دم چھوڑ دو اور دوسرا کام کرو.اس نے پھر سوئی ماری تو وہ بول اٹھا اب کیا کرنے لگے ہو.اس نے کہا اب دایاں بازو گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا اگر شیر کا لڑائی یا مقابلہ کرتے وقت دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا.اس نے کہا شیر تو رہتا ہے کہنے لگا.پھر اس کو چھوڑو اور آگے چلو.اسی طرح وہ بایاں بازو گود نے لگا تو کہا اسے بھی رہنے دو.کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا.پھر ٹانگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا.آخر وہ بیٹھ گیا اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے گود نے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا.یہی آج کل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے ہمارے نانا جان فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی.آپ میر درد کے نواسے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے.وہاں آم بھی ہوتے ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے جب والدہ، والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تو میں جو آم میٹھا ہوتا اس کو کھٹا کھٹا کہہ کر الگ رکھ لیتا اور باقی آم ان کے ساتھ مل کر کھا لیتا.جب آم ختم ہو جاتے تو میں کہتا میرا تو پیٹ نہیں بھرا.اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھا لیتا ہوں اور سارے آم کھا جاتا.ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے.انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرا.میں بھی آج کھٹے آم چوس لیتا ہوں.فرماتے تھے میں نے بہتیر از ور لگایا.مگر وہ باز نہ آئے.آخر انہوں نے آم چو سے اور کہا یہ آم تو بڑے میٹھے ہیں.تم یونہی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں.جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کر لیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چوس لیتے تھے اور بعد میں کھٹے کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے.یہی حال آج کل کے مسلمانوں کا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیا جائے.ان کا اگر یہ حال ہو تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو
تذکار مهدی ) 430 روایات سید نا محمودی اسلام کو جانتے ہی نہیں.وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے.یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتا بیں سیاہ کر ڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا.وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت ہے انسان پورا ایک مہینہ روزے رکھتا جائے اگر معدہ خراب ہو جائے تب تو ہو کہ ایک آدھ دن کا روزہ رکھ لیا.مگر متواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا کونسی عقل کی بات ہے.(الفضل 11 اکتوبر 1961ء جلد 50/15 نمبر 235 صفحہ 4-3) سید عبداللطیف صاحب شہید کا ایک واقعہ یہ ایک عام قانون ہے جس میں کافر و مومن کی بھی کوئی تمیز نہیں کہ کسی انسان کا ہاتھ کھانے سے نہیں روکا جاتا مگر جب خدا تعالیٰ کی تقدیر چلتی ہے تو ہاتھ رک بھی جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک دفعہ کھانا لایا گیا آپ نے اس میں ہاتھ ڈالا ، لقمہ بنایا، اسے منہ کے پاس لے گئے مگر پھر اسے پھینک دیا اور فرمایا کہ یہ کھانا خدا تعالیٰ کے حکم سے بولا ہے اور اس نے کہا ہے کہ مجھ میں زہر ہے اور آخر میزبان نے مان لیا کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلاک کرنے کی غرض سے اس میں زہر ڈالا تھا.تو دیکھو جب خدا تعالیٰ کی مشیت ہوئی وہی سامان جو روزانہ چلتے تھے یکدم بدل گئے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے خاص تقدیر جاری کر دی اور آپ کو اطلاع دے دی کہ اس کھانے میں زہر ہے اسے نہ کھایا جائے.اسی طرح سید عبداللطیف صاحب شہید کا ایک واقعہ ہے.جب آپ افغانستان کو واپس جا رہے تھے.تو لاہور میں کچھ تحائف وغیرہ خریدنے کے لئے ٹھہرے.انہی دنوں وہاں کسی احمدی کے لڑکا کے ولیمہ کی دعوت تھی.جس میں اس نے آپ کو بھی مدعو کیا.آپ تشریف لے گئے بہت سے اور دوست بھی موجود تھے.آپ کو احترام کے ساتھ بٹھایا گیا.جب کھانا شروع ہوا تو آپ نے بھی لقمہ اٹھایا.مگر پھر اسے پھینک دیا اور استغفار کرتے ہوئے وہاں سے چل دیئے.بعض دوست آپ کے پیچھے گئے اور کہا کہ میزبان کی بہت دل شکنی ہو گی آپ اٹھ کر نہ جائیں اور کھانے میں شریک ہوں.مگر آپ نے کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ یہ کھانا سور ہے“.انہوں نے عرض کیا صاحب خانہ مسلمان اور احمدی ہے حلال کھانا پکایا گیا ہے.سؤر کا کیا مطلب.مگر آپ نے کہا کہ مجھے یہی الہام ہوا ہے اور میں یہ کھانا نہیں کھا سکتا.آخر جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا کہ در حقیقت ولیمہ کا سوال ہی پیدا نہ ہوا تھا.ہماری شریعت کا حکم یہ
تذکار مهدی ) 431 روایات سید نا محمود ہے کہ جب میاں بیوی آپس میں ملیں اور حقیقی صورت میں میاں بیوی کے تعلقات قائم ہو جائیں تو ولیمہ ہو.تا معلوم ہو جائے کہ بیوی پورے مہر کی حقدار ہو گئی ہے.چونکہ ایسی بات کا اعلان اور الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا اس لئے شریعت نے اس کے لئے ولیمہ کا طریق مقرر کر دیا ہے تا آئندہ جھگڑا وغیرہ اگر کوئی پیدا ہو تو فیصلہ میں آسانی رہے.غرض اس وقت تحقیقات سے معلوم ہوا کہ گو ولیمہ کی دعوت کی گئی مگر در حقیقت ایسا فعل ہوا ہی نہ تھا اور لڑکے والوں نے شرم کے مارے ولیمہ کر دیا اور چونکہ ایسی دعوت ولیمہ شریعت کے منشاء کے خلاف تھی اللہ تعالیٰ نے البا ما آپ کو اس سے روک دیا کیونکہ ایک اعلیٰ درجہ کے متقی انسان کے لئے تھوڑی سی بری بات بھی بڑی ہوتی ہے.اس لئے الہام میں آپ کے لئے اس کھانے کو سؤ رکہا گیا.تو اللہ تعالیٰ نے جہاں دخل دینا ہوتا ہے وہاں دے دیتا ہے.(الفضل 17 جولائی 1942 ء جلد 30 نمبر 164 صفحہ 4-3 ) | حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی اور مہاراجہ جموں آپ ( حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی) بہت بڑے بزرگ تھے اور اپنے زمانہ کے نیک لوگوں میں سے تھے.ایک دفعہ مہا راجہ جموں نے ان کو دعوت دی کہ آپ جموں آکر میرے لئے دعا کریں مگر آپ نے انکار کر دیا اور کہہ دیا.اگر آپ دعا کرانا چاہتے ہیں تو یہاں آ کر کرائیں.اللہ تعالیٰ نے ان کی برکت اور فیض سے ان کے سارے خاندان کو اور ان کے بہت سے مریدوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی توفیق دی.شہزادہ عبدالمجید صاحب ( مبلغ ایران) بھی ان کے مریدوں میں سے تھے.جو افغانستان کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے.تم مسیحا بنو خدا کے لئے الفضل مورخہ 30-27 مارچ 1928 ء جلد 15 نمبر 76-77 صفحہ 9 انسان کی طبیعت پر بیسیوں واقعات اکثر چھوڑ جاتے ہیں اور بعض اثرات نہایت گہرے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں جو واقعہ کی شدت سے کم تکلیف دہ نہیں ہوتے.خصوصاً ان واقعات کے متعلق جو اہم نظر آتے ہیں یا جن میں تباہی بالکل قریب دکھائی دیتی ہو لیکن اللہ تعالیٰ
تذکار مهدی ) 432 روایات سید نا محمودی جو مصائب لاتا ہے ان میں کئی حکمتیں ہوتی ہیں.بعض اوقات ان کا مقصد دلوں کو پاک کرنا ہوتا ہے.جماعت کی اصلاح ہوتی ہے.اس قسم کے ابتلاؤں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی بھی ایک تھا.اس وقت آپ سے اخلاص رکھنے والے بھی گھبرا گئے.یہ لوگ ہزاروں تھے بلکہ براہین احمدیہ کی شہرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ لاکھوں آدمی آپ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے.ایک کی تو شہادت بھی موجود ہے جو دعوئی سے پہلے ہی وفات پاگئے.یعنی صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی نے دعویٰ سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.ہم مریضوں کی ہے تمہیں نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے یہ تو ایک دور بین ولی اللہ کی نظر تھی.مگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جن کی نگاہ اتنی دور بین نہ تھی وہ بھی سمجھتے تھے کہ اسلام کی نجات آپ سے وابستہ ہے.مگر جب وہ ہتھیار آپ کو دیا گیا جس سے دشمن پامال ہو سکتا تھا ، وہ آب حیات دیا گیا جس سے مسلمانوں کی زندگی مقدر تھی تو بڑے بڑے مخلص آپ سے متنفر ہو گئے اور کہنے لگے.جسے ہم سونا سمجھتے تھے افسوس وہ تو پیتل نکلا.ایسے لاکھوں انسان یکدم بدظن ہو گئے حتی کہ جب آپ نے بیعت کا اعلان کیا تو پہلے روز صرف چالیس اشخاص نے بیعت کی.یا تو لاکھوں اخلاص رکھتے تھے اور پرانے لوگ سناتے ہیں کہ کس طرح بڑے بڑے علماء کہتے تھے کہ اسلام کی خدمت اس شخص سے ہوسکتی ہے اور خود لوگوں کو آپ کے پاس بھیجتے تھے.حتی کہ مولوی ثناء اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ براہین کے شائع ہونے پر میں مرزا صاحب کی زیارت کے لئے پیدل چل کر قادیان گیا اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جنہوں نے آخر میں اپنا سارا زور مخالفت میں صرف کر دیا.انہوں نے بھی لکھا کہ تیرہ سوسال کے عرصہ میں کسی نے اسلام کی اس قدر خدمت نہیں کی جتنی اس شخص نے کی ہے.( الفضل مورخہ 15 مارچ 1934 ءجلد 21 نمبر 110 صفحہ 6 ) تمام علوم مجھے خدا نے عطا فرمائے حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا میں آپ سے یہ بات دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ آپ
تذکار مهدی ) 433 روایات سید نا محمود جو باتیں کہہ رہے ہیں اُن کے کہنے کا آپ کو خدا نے حکم دیا ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے کہہ رہا ہوں اس پر وہ اُسی وقت آپ پر ایمان لے آیا.( صحیح مسلم جلد اول کتاب الایمان) گویا اور دلیلوں سے تو اُس کی تسلی نہ ہوئی لیکن جب رسول کریم ﷺ نے قسم کھا لی تو اس کی تسلی ہو گئی.تو جب ایک گروہ دنیا میں ایسا ہے جس کی قسم سے ہی تسلی ہو سکتی ہے تو اگر اللہ تعالیٰ کے کلام میں قسم موجود نہ ہوتی تو ایسا گروہ صداقت کے قبول کرنے سے محروم رہ جاتا اور کلام الہی پر یہ اعتراض عائد ہوتا کہ وہ دعوئی تو یہ کر رہا ہے کہ تمام لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے نازل ہوا مگر ایک طبقہ کے جائز مطالبہ کو اس میں نظر انداز کر دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی بعض ایسے واقعات ہوئے ہیں.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور آ کر کہنے لگا کیا آپ قسم کھا کر مجھے لکھ کر دے سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح موعود بنایا ہے؟ آپ نے فرمایا ایک ہفتہ کے بعد آنا.جب وہ ہفتہ کے بعد آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُسے ایک تحریر لکھ کر دی جس کا مضمون یہ تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے جو کچھ اپنی کتابوں میں لکھا ہے یا اپنی تقریروں وغیرہ میں بیان کرتا ہوں یہ تمام علوم مجھے خدا نے عطا فرمائے ہیں اور خدا نے ہی مجھے حکم دیا ہے کہ میں ان باتوں کو لوگوں کے سامنے پیش کروں اور اُسی کے حکم سے میں نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا وعدہ کیا ہے.(ایک ہفتہ بعد آنے کی شرط غالباً آپ نے اس لئے لگائی تا اُس شخص کی سنجیدگی کا ثبوت مل جائے.ورنہ بعض لوگ تماشہ کے طور پر سوال کر دیتے ہیں آپ نے ایک ہفتہ کے بعد آنے کی شرط لگا کر امتحان کر لیا کہ وہ شخص سنجیدہ ہے اور وقت مقررہ پر پھر تکلیف اٹھا کر آیا ہے جب یہ امتحان ہو گیا تو آپ نے قسم تحریر فرما دی) تو ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو اور کسی دلیل کا متلاشی نہیں ہوتا.وہ کہتا ہے اگر یہ بات سچ ہے تو پھر اس پر قسم کھا جاؤ.اس قسم کی فطرت والوں کی اصلاح اور ہدایت کے لئے ضروری تھا کہ قرآن کریم میں قسمیں ہوتیں تا کہ یہ گروہ قبول ہدایت سے محروم نہ رہ جاتا.( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحه 83-82)
تذکار مهدی ) دارالبیعت لدھیانہ 434 روایات سید نا محمود ”میرے نزدیک یہ نہایت اہم معاملہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ہے بلکہ لدھیانہ کو باب لذ قرار دیا ہے جہاں دجال کے قتل کی پیشگوئی ہے.ایسے مقام کے لئے جہاں قادیان سے بیعت لینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے گئے جماعت میں خاص احساس ہونا چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے جب آپ سے بیعت لینے کی درخواست کی تو آپ نے فرمایا یہاں نہیں بیعت لی جائے گی پھر لدھیانہ میں بیعت لی.وہاں پیر احمد جان صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پہلے ہی فوت ہو گئے وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو خدا نے دعوت سے پہلے ہی آپ پر ایمان لانے کی توفیق دی.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا.ے سب مریضوں کی ہے تمہیں نگاه تم مسیحا بنو خدا کے لئے انہوں نے اپنی وفات کے وقت اپنے سب خاندان کو جمع کیا اور کہا حضرت مرزا صاحب مسیحیت کا دعوی کریں گے تم سب ایمان لے آنا.چنانچہ یہ سب خاندان ایمان لے آیا.پیر منظور محمد صاحب اور پیر افتخار احمد صاحب آپ کے لڑکے ہیں اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ان کی لڑکی ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس مقام کا خاص طور پر نقشہ بنایا جائے اور بیعت کے مقام پر ایک علیحدہ جگہ تجویز کی جائے اور نشان لگا دیا جائے اور اس موقعہ پر وہاں جلسہ کیا جائے.چالیس آدمیوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جگہ بیعت لی تھی.ان سب کے نام اس جگہ لکھ دیئے جائیں.رپورٹ مجلس مشاورت 1931 ء صفحہ 106-107) پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ کے سامنے جنت کے انگوروں کا ایک خوشہ لایا گیا ہے اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ یہ ابو جہل کے لئے ہے یہ خواب دیکھ کر آپ گھبرا کر اٹھ بیٹھے مگر در حقیقت اس کی تعبیر یہ تھی کہ اس کے لڑکے عکرمہ کو جنت ملے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.
تذکار مهدی ) 435 روایات سید نا محمود اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے لڑکے کو ایسا نیک کیا کہ اس نے دین کے لئے شاندار قربانیاں کیں.ایک جنگ کے موقع پر مسلمانوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہوا.عیسائی تیرانداز تاک تاک کر مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر مارتے تھے اور صحابہ شہید ہوتے جاتے تھے عکرمہ نے کہا مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا اور اپنی فوج کے افسر سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ان پر حملہ کروں اور ساٹھ بہادروں کو ساتھ لے کر دشمن کے لشکر کے قلب پر حملہ کر دیا.اور ایسا شدید حملہ کیا کہ اُس کے کمانڈرکو جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا جس سے دشمن کے لشکر میں بھی بھگدڑ بچ گئی.یہ جانباز ایسی بہادری سے لڑے کہ جب اسلامی لشکر وہاں پہنچا تو تمام کے تمام یا تو شہید ہو چکے تھے یا سخت زخمی پڑے تھے.حضرت عکرمہ بھی سخت زخمی تھے.ایک افسر پانی لے کر زخمیوں کے پاس آیا اور اُس نے پہلے عکرمہ کو پانی دینا چاہا مگر آپ نے دیکھا کہ حضرت سہیل بن عمر پانی کی طرف دیکھ رہے ہیں.آپ نے اُس افسر سے کہا کہ پہلے سہیل کو پانی پلاؤ پھر میں پیوں گا.میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا بھائی پیاس کی حالت میں پاس پڑا ر ہے اور میں پانی پی لوں.وہ سہیل کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اُن کے پاس حارث بن ہشام زخمی پڑے تھے.سہیل نے کہا پہلے حارث کو پلاؤ.وہ حارث کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے.پھر وہ واپس سمیل کے پاس آیا تو وہ بھی وفات پاچکے تھے اور جب وہ مکرمہ کے پاس پہنچا تو ان کی روح بھی پرواز کر چکی تھی.تو یہ مکرمہ ابو جہل کے لڑکے تھے.پس اگر کوئی شخص شریر ہو، بے دین اور جھوٹا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ اُس کا بیٹا بھی ضرور اُس جیسا ہو گا.مگر خدا تعالیٰ کے کلام میں ایسی شہادتیں ہوتی ہیں جو اس کی صداقت کو واضح کر دیتی ہیں اور جس میں شہادت نہ ہو وہ ماننے کے قابل ہی نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی میں بھی دوسری پیشگوئیوں کی طرح بہت سی شہادتیں موجود ہیں.آپ نے ایسے وقت میں جب قادیان کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے یہ پیشگوئی فرمائی.قادیان کے کئی بوڑھے لوگوں نے سُنایا ہے کہ ہم آپ کو جانتے ہی نہ تھے.ہم سمجھا کرتے تھے کہ غلام مرتضی صاحب کا ایک ہی لڑکا مرزا غلام قادر ہے.تو ایسا شخص جو خود گمنام ہو جسے اُس کے گاؤں کے لوگ بھی نہ جانتے ہوں یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اولاد دے گا جو زندہ بھی رہے گی اور اُس کے لڑکوں میں سے ایک لڑکا ایسا ہو گا جو دنیا کے
تذکار مهدی ) 6436 روایات سید نا محمود کناروں تک شہرت پائے گا اور اُس کے ذریعہ اس کی تبلیغ بھی دنیا کے کناروں تک پہنچے گی کون ہے جو اپنے پاس سے ایسی بات کہہ سکے.پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لڑکا تین کو چار کرنے والا ہو گا.اس کے یہ معنی بھی تھے کہ وہ اِس پیشگوئی سے چوتھے سال میں پیدا ہو گا چنانچہ آپ نے یہ پیشگوئی 1886ء میں کی اور میری پیدائش 12 جنوری 1889ء کو ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 23 / مارچ 1889ء کو لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ہماری جماعت میں بھی اور باہر بھی بہت چرچا ہے اور عموماً یہ سوال کیا جاتا تھا کہ وہ لڑکا کون ہے؟ پیشگوئی میں اُس لڑکے کا نام محمود بھی بتایا گیا تھا اس لئے بطور تفاؤل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرا نام محمود بھی رکھا اور چونکہ اُس کا نام بشیر ثانی بھی تھا اس لئے میرا پورا نام بشیر الدین محمود احمد رکھا جہاں تک اولاد ہونے اور اُس کے زندہ رہنے کا تعلق تھا یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اور ایک بیٹے کا نام محمود رکھنے کی بھی توفیق آپ کو ملی.مگر دنیا انتظار کر رہی تھی کہ یہ پیشگوئی کس لڑکے کے متعلق ہے چنانچہ آج میں یہی بتانے کے لئے لدھیانہ میں آیا ہوں.لدھیانہ کے ساتھ جماعت احمدیہ کا کئی رنگ میں تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی بیعت اسی شہر میں لی.آپ کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے پہلے خلیفہ ہوئے اور اُن کی شادی لدھیانہ میں ہی حضرت منشی احمد جان صاحب مرحوم کے ہاں ہوئی تھی اور اس پیشگوئی میں جس لڑکے کا تعلق ہے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس بیوی کے بطن سے پیدا ہوا جولدھیانہ میں بھی رہی ہیں.مجھے یاد ہے.بچپن میں کچھ عرصہ میں بھی یہاں رہا ہوں.میں اُس وقت اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے کوئی خاص باتیں تو اُس زمانہ کی یاد نہیں ہیں کیونکہ اُس وقت میری عمر دو اڑھائی سال کی تھی صرف ایک واقعہ یاد ہے اور وہ یہ کہ ہم جس مکان میں رہتے تھے وہ سڑک کے سر پر تھا اور سیدھی سڑک تھی میں اپنے مکان سے باہر آیا تو ایک چھوٹا سا لڑکا دوسری طرف سے آ رہا تھا.اُس نے میرے پاس آ کر ایک مری ہوئی چھپکلی مجھ پر پھینکی.میں اس قدر دہشت زدہ ہوا کہ روتا ہوا گھر کی طرف بھاگا.اُس بازار کا نقشہ مجھے یاد ہے وہ سیدھا بازار تھا گو اب میں نہیں جانتا کہ وہ کونسا تھا.ہمارا مکان ایک سرے رض
تذکار مهدی ) 437 روایات سید نا محمود پر تھا تو میں نے کئی ماہ اپنے بچپن کی عمر کے یہاں گزارے ہیں.پس اس شہر کا کئی رنگ میں احمدیت کے ساتھ تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کے دعوئی کا اعلان یہاں سے کیا پہلی بیعت یہاں سے شروع فرمائی، حضرت خلیفہ اول کی شادی یہاں ہوئی اور پھر اُن کی اُس بیوی سے جو اس شہر کی ہیں ایک لڑکی تھیں جن کے ساتھ میری شادی ہوئی، پھر میں نے بچپن کا کچھ زمانہ یہاں گزارا، ان باتوں کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا اعلان بھی اس شہر میں کروں.اہالیان لدھیانہ سے خطاب، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 258 تا 260 ) حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب میاں عبداللہ صاحب سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے.ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے.اس لئے جب میاں عبداللہ صاحب سنوری کی چھٹی ختم ہو گئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جانے کے لئے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھیجوا دی.مگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی.انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہر و.چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آ سکتا.اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈسمس (DISMISS) کر دیا.چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے.پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں ڈسمس کیا ہے اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈسمس کرتا.چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو وہ قادیان میں گزار گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی.اسی طرح منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا جو کل ہی ڈلہوزی کے راستہ میں میاں عطاء اللہ صاحب وکیل سلمہ اللہ تعالیٰ نے سنایا.یہ واقعہ الحکم 14 اپریل 1934ء میں بھی چھپ چکا ہے.اس لئے منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کر دیتا ہوں.”میں جب
تذکار مهدی ) 438 روایات سید نامحمود سر رشتہ دار ہو گیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دفعہ مسلیں وغیرہ بند کر کے قادیان چلا آیا.تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو فرمایا ابھی ٹھہریں.پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آب ہی فرمائیں گے.اس پر ایک مہینہ گزر گیا.ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں کام بند ہو گیا اور سخت خطوط آنے لگے.مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا.حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری کے جانے کا خیال تھا اور نہ کسی باز پرسی کا اندیشہ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا.میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے رکھ دیا.پڑھا اور فرمایا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا میں نے وہی فقرہ لکھ دیا.اس پر ایک مہینہ اور گزر گیا.تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہو گئے.پھر آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں.میں چلا گیا اور کپورتھلہ پہنچ کر لالہ ہر چرن داس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا تا کہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے.انہوں نے کہا منشی جی آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہوگا میں نے کہاہاں تو فرمایا ان کا حکم مقدم ہے.“ میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحوم نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ لکھ دو کہ ہم نہیں آ سکتے تو میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دیئے.یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اب پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہوسکتیں.ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں کتنی ہی غفلتیں ہوں.لیکن اگر موسیٰ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں.تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں.اسی طرح عیسی کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنے اپنے ان صحابہ کو پیش کر سکتے ہیں اور یہ جو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا.میری امت اور مہدی کی امت میں کیا فرق ہے.میری امت زیادہ بہتر ہے یا مہدی کی امت زیادہ بہتر.تو در حقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے.یہ وہ لوگ تھے جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان اور حضرت علی اور دوسرے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو.اُن کو خدا نے چونکہ خود جماعت میں ایک ممتاز مقام بخش دیا ہے.اس لئے میں نے ان کا نام نہیں لیا.ورنہ ان کی قربانیوں کے واقعات بھی حیرت انگیز ہیں.آپ جب قادیان میں آئے.تو اس وقت بھیرہ میں آپ کی پریکٹس جاری تھی
تذکار مهدی ) 439 روایات سید نا محمود مطب کھلا تھا اور کام بڑے وسیع پیمانے پر جاری تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب آپ نے واپس جانے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا.کیا جانا ہے آپ اسی جگہ رہیں.پھر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ خود اسباب لینے کے لئے بھی نہیں گئے.بلکہ کسی دوسرے آدمی کو بھیج کر بھیرہ سے اسباب منگوایا.یہی وہ قربانیاں ہیں جو جماعتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور ممتاز کیا کرتی ہیں اور یہی وہ مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر شخص کو جدو جہد کرنی چاہئے.خالی فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آ سکتا.انسان کے کام آنے والا وہی ایمان ہے جس میں عشق اور محبت کی چاشنی ہو.فلسفی اپنی محبت کے کتنے ہی دعوی کرے ایک دلیل بازی سے زیادہ ان کی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ اس نے صداقت کو دل کی آنکھ سے نہیں بلکہ محض عقل کی آنکھ سے دیکھا ہوتا ہے.مگر وہ جو عقل کی آنکھ سے نہیں بلکہ دل کی نگاہ سے خدا تعالی کی طرف سے آئی ہوئی صداقت اور شعائر اللہ کو پہچان لیتا ہے.اسے کوئی شخص دھوکا نہیں دے سکتا.اس لئے کہ دماغ کی طرف سے فلسفہ کا ہاتھ اٹھتا ہے اور دل کی طرف سے عشق کا ہاتھ اٹھتا ہے.الفضل 28 /اگست 1941 ء جلد 29 نمبر 196 صفحہ 7-6 حضرت مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی بیعت مولوی برہان الدین صاحب نے حضرت صاحب سے جو پہلی دفعہ ملاقات کی ہے وہ بھی ایک لطیفہ ہی ہے.کہتے تھے کہ میں قادیان میں آیا لیکن حضرت صاحب گورداسپور میں تھے اس لئے وہاں گیا.جس مکان میں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے اس کے ایک طرف باغ تھا.حامد علی (مرحوم) دروازہ پر بیٹھا تھا اس نے مجھے (مولوی صاحب کو ) اندر جانے کی اجازت نہ دی مگر میں باغ میں چھپ چھپ کر دروازہ تک پہنچ گیا.آہستگی سے دروازہ کھول کر جو دیکھا تو حضرت صاحب ٹہل رہے تھے اور جلدی جلدی لمبے لمبے قدم اٹھاتے تھے.میں جھٹ پیچھے کو مڑا اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ شخص صادق ہے جو جلدی جلدی ٹہل رہا ہے ضرور اس نے کسی دور کی منزل پر ہی پہنچنا ہے.تب ہی تو یہ جلدی جلدی چل رہا ہے.وہابی ہو کر مولوی صاحب کا اس قسم کا خیال کرنا عجیب ہی بات ہے ورنہ عموماً یہ لوگ خشک ہوتے ہیں.الفضل 17 اپریل 1922 ء جلد 9 نمبر 81 صفحہ 6)
تذکار مهدی ) 6440 حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدرائی کا اخلاص روایات سید نا محمود سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراس کے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں احمدی ہوئے ان میں بڑا اخلاص تھا اور خوب تبلیغ کرنے والے تھے ان کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑے درد سے سنایا کرتے تھے اور مجھے بھی جب وہ واقعہ یاد آتا ہے تو ان کے لئے دعا کی تحریک ہوتی ہے.ابتداء میں ان کی مالی حالت بڑی اچھی تھی اور اس وقت وہ دین کے لئے بڑی قربانی کرتے تھے.تین سو، چارسو، پانچ سوروپیہ تک ماہوار چندہ بھیجتے تھے.خدا کی قدرت وہ بعض کام غلط کر بیٹھے اور اس وجہ سے ان کی تجارت بالکل تباہ ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام انہیں کے متعلق ہوا.وو قادر ہے وہ بارگہ جو ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اسکا بھید نہ پاوے جب یہ الہام ہوا تو پہلے مصرعہ کی طرف ہی خیال گیا اور قادر ہے وہ بار کہ جو ٹوٹا کام بناوے سے یہ سمجھا گیا کہ سیٹھ صاحب کا کاروبار پھر درست ہو جائے گا.اور دوسرے مصرعہ بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پائے کی طرف ذہن نہ گیا کہ پہلے کام بن کر پھر بگڑ جائے گا بلکہ اسے ایک عام اصول سمجھا گیا سیٹھ صاحب کے کاروبار کو دھکا لگنے کے بعد دو تین سال حالت اچھی ہو گئی مگر پھر خراب ہو گئی اور یہاں تک حالت پہنچ گئی کہ بعض اوقات کھانے پینے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہ ہوتا.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عجیب محبت کے رنگ میں ان کا ذکر کیا.فرمایا سیٹھ عبد الرحمن حاجی اللہ رکھا صاحب کا اخلاص کتنا بڑھا ہوا تھا.پانچ سو روپے کی رقم تھی جو انہوں نے اس موقع پر بھیجی تھی.کسی دوست نے ان کی مشکلات کو دیکھ کر دو تین ہزار روپیہ انہیں دیا کہ کوئی تجارتی کام شروع کر دیں یا برتنوں کی دکان کھول لیں.اس میں سے پانچ سو روپیہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھجوادیا اور لکھا مدت سے میں چندہ نہیں بھیج سکا.اب میری غیرت نے برداشت نہ کیا کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے ایک رقم بھجوائی ہے تو میں اس میں سے دین کے لئے کچھ نہ دوں.غرض خدمت دین کے لئے ان کا اخلاص بہت بڑھا ہو ا تھا.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 542)
تذکار مهدی ) 441 روایات سید نا محمودی حضرت سیٹھ عبدالرحمن مدراسی کی مالی قربانیاں دوسرا جنازہ میں ایک ایسے شخص کا پڑھوں گا.جو ایک ایسی جگہ فوت ہوا ہے کہ وہاں بھی بہت قلیل جماعت ہے اور فوت ہونے والا شخص ایسے خاندان سے تعلق رکھتا ہے جو اللہ کے فضل سے سارے کا سارا احمدی ہے.سیٹھ عبدالرحمن اللہ رکھا صاحب کو ہماری جماعت کے اکثر دوست جانتے ہیں.ان کے بھائی سیٹھ علی محمد صاحب ہیں ان کے بھتیجے سیٹھ غلام حسین فوت ہو گئے ہیں.سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا کی اپنی تو کوئی اولاد نہیں ایک لڑکا تھا چار پانچ سال ہوئے وہ بھی فوت ہو چکا ہے.اب یہ ان کے بھائی کا لڑکا ہے.جو جوانی کے عالم میں فوت ہو گیا ہے.سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا وہ شخص ہیں کہ جن کو حضرت صاحب کی کتابیں پڑھنے والے خوب جانتے ہیں.حضرت صاحب کی کتابوں میں ان کا اکثر ذکر آتا ہے.مالدار لوگ عام طور پر بزدل ہوتے ہیں.لیکن انہوں نے حضرت صاحب کو قبول کیا ان پر مشکلات بھی آئیں.تکلیفیں بھی ان کو ہوئیں.ان پر ابتلاء بھی آئے لیکن باوجود اس کے ان کے اخلاص کی یہ حالت تھی کہ اگر ان کے اپنے پاس کچھ نہ ہوتا تو بھی وہ حضرت صاحب کو قرض لے کر روپیہ بھیجتے رہتے.ایک دفعہ ان کو کاروبار میں سخت نقصان پہنچا اور سب کچھ نیلام ہو گیا.انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا.تھوڑے عرصے کے بعد تین سو روپیہ انہوں نے حضرت صاحب کو بھیجا.حضرت صاحب نے فرمایا آپ کی تو یہ حالت تھی آپ نے روپیہ کیسا بھیجا.جس کے جواب میں انہوں نے عرض کی کہ میں نے کچھ رو پیدا اپنی ضروریات کے لئے قرض لیا تھا.اس میں خدا کا بھی حق تھا سو میں نے وہ ادا کیا.ان کی محبت اور اخلاص کا اس سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت صاحب کا یہ جو الہام مشہور ہے.قادر ہے وہ بارگا جو ٹوٹے کام بنا دے بنے بنائے توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے یہ ان کے لئے ہی ہے ان کی اپنی اولاد کوئی نہیں.ان کے بھتیجے سیٹھ غلام حسین جن کا میں جمعہ کی نماز کے بعد جنازہ پڑھاؤں گا سب احباب اس میں شامل ہوں.خطبات محمود جلد 9 صفحہ 227-226)
تذکار مهدی ) غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا 442 روایات سید نا محمود اب ہم غیر احمدی کے جنازہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اس کے متعلق قرآن شریف اور حضرت صاحب کا تعامل کیا بتاتا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہے ان کو ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ جائز بات ہے اور جائز بھی ایسی جو شفقت علی الناس سے تعلق رکھتی ہے تو ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود کا تعامل بھی اس کی تصدیق کرے کیونکہ ایک بات ایسی ہوتی ہے جو جائز ہوتی ہے لیکن لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے کا اس میں کوئی پہلو نہیں ہوتا.مثلا ایک شخص کے لیے لٹھے کی قمیض پہننا جائز ہے اور اگر وہ ململ کی قمیض پہنے تو یہ بھی اس کے لیے جائز ہے لیکن اس میں کسی پر کوئی شفقت نہیں پائی جاتی.لیکن جنازہ پڑھنا اس قسم کا جائز ہے کہ اس میں سے دوسرے پر شفقت بھی پائی جاتی ہے کیونکہ یہ دوسرے پر رحم کرنا اور اس کے لئے رحم کی دعا مانگنا ہے.انبیاء تو بڑے رحیم وکریم ہوتے ہیں اللہ تعالی آنحضرت ﷺ کی نسبت فرماتا ہے اِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5 ).تو ہر ایک وہ جائز بات جو شفقت علی الناس سے تعلق رکھتی ہے وہ انبیاء کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ وہ آتے ہی اس لیے ہیں کہ دنیا سے محبت و پیار اور اُلفت اُٹھ جاتی ہے وہ آکر اسے لوگوں میں پیدا کرتے ہیں.دشمنوں کو دوست بیگانوں کو لگانے اور پرایوں کو اپنے بناتے ہیں اور یہ انبیاء کے لیے ضروری بات ہوتی ہے.پس اگر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہوتا اور ڈائری لکھنے والے نے آپ کی بات کو ٹھیک اور درست سمجھا ہوتا تو ضرور ہے کہ حضرت مسیح موعود کے تعامل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی.یعنی کبھی غیر احمدی مرے ہوں اور حضرت صاحب ان کا جنازہ پڑھنے کے لیے گئے ہوں.اچھا یہ تو نہ سہی کہ حضرت صاحب کسی کا جنازہ پڑھنے کے لیے گئے ہوں لیکن بعض جگہیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ وہاں تو ضرور شفقت اور رحمت کو کام میں لانا پڑتا ہے.آؤ ہم ایسی جگہوں کو بھی دیکھیں کہ حضرت صاحب نے کسی کا جنازہ پڑھا ہے یا نہیں.ایسے قریبی رشتہ دار باپ بھائی اور بیٹا وغیرہ ہوتے ہیں.آپ کے بھائی باپ تو آپ کے دعوئی سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے ہاں بیٹا آپ کی زندگی میں فوت ہوا ہے فضل احمد اس کا نام تھا.اس کی وفات پر مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر سمن میں ٹہلتے ہوئے فرماتے تھے کہ اس کو ہم سے بہت محبت تھی ، اس نے کبھی ہماری مخالفت نہیں کی تھی، بیماری میں ہماری خدمت کیا کرتا تھا مگر چونکہ وہ غیر احمدی
تذکار مهدی ) کارمهدی 443 روایات سید نا محمود تھا اس لئے حضرت مسیح موعود نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تھا.میں نے پہلے ہی بتایا ہے کہ شفقت علی الناس تو نبی پر فرض ہو جاتی ہے.رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایک خادم مسجد فوت ہو گیا تو لوگوں نے یوں ہی اسے دفن کر دیا کہ رسول اللہ کو اس کے جنازہ کی کیا خبر کرنی ہے.جب آپ کو یہ خبر پہنچی تو بڑے ناراض ہوئے کہ کیوں مجھے خبر نہیں دی گئی.تو جنازہ پڑھنا چونکہ شفقت علی الناس سے تعلق رکھتا ہے.اگر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز ہوتا تو حضرت صاحب اپنے اس بیٹے کا ضرور جنازہ پڑھتے جس کی نسبت آپ نے فرمایا تھا کہ اس نے کبھی ہماری مخالفت نہیں کی تھی.بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ ابتداء میں جب حضرت صاحب نے دعویٰ کیا ہے اور آپ پر پے در پے بیماری کے دورے ہوئے ہیں تو فضل احمد آپ کی بڑی خدمت کرتا رہتا تھا.پھر یہاں تک آپ کا فرمانبردار تھا کہ احمد بیگ والی پیشگوئی کے وقت جب حضرت مسیح موعود نے اسے کہا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو کیونکہ وہ ان سے تعلق رکھتی ہے تو اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کے پاس بھیج دی کہ اگر وہ آپ کے حکم پر عمل نہ کرے تو آپ اسے یہ طلاق نامہ بھیج دیں.تو حضرت صاحب سے اس کا تعلق بھی ایسا تعلق تھا کہ بڑے بڑے معاملات میں بھی اطاعت کرتا تھا یہ تو اس کا تعلق تھا.مگر باوجود اس کے جب وہ فوت ہوتا ہے تو آپ اس کے جنازہ پر نہیں جاتے اور نہ ہی کسی احمدی کو جانے کے لیے فرماتے ہیں.میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے ( خطبات محمود جلد چہارم صفحہ 336 تا 337 ) | کل ہی میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے فوت ہوئے ہیں انہوں نے 1895ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جس پر اب اکسٹھ سال گزر چکے ہیں.گویا 1895ء کے بعد انہوں نے اکسٹھ جلسے دیکھے.ان کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے جس وقت بیعت کی اُس کے قریب زمانہ میں ہی میں نے ایک خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر پینتالیس سال بتائی گئی.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو پڑا اور میں نے کہا حضور ! بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور پیشگوئیوں کے مطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف پینتالیس سال ہے.اس پر حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 444 روایات سید نا محمود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں.شاید وہ پینتالیس کو 90 کر دے.چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو اُن کی عمر پورے 90 سال کی تھی.اس طرح احمدیت کو جو ترقیات ملیں وہ بھی انہوں نے دیکھیں اور اکسٹھ جلسے بھی دیکھے ان کے چار بچے ہیں جو دین کی خدمت کر رہے ہیں.ایک قادیان میں درویش ہو کر بیٹھا ہے، ایک افریقہ میں مبلغ ہے، ایک یہاں مبلغ کا کام کرتا ہے اور چوتھا لڑکا مبلغ تو نہیں مگر وہ اب ربوہ آ گیا ہے اور یہیں کام کرتا ہے.پہلے قادیان میں کام کرتا تھا.لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمت دین ہی کرتا ہے.پھر ان کی ایک بیٹی بھی ایک واقف زندگی کو بیاہی ہوئی ہے باقی بیٹیوں کا مجھے علم نہیں.بہر حال انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا.جب پینتالیس سال کے بعد چھیالیسواں سال گزرا ہوگا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب ایک سال جو بڑھا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھا ہے.جب چھیالیسویں کے بعد سینتالیسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب دو سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب سینتالیسویں سال کے بعد اڑتالیسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالی کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب تین سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب اڑتالیسویں سال کے بعد اُنچاسواں سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا.ہے.میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا مگر اب چار سال جو بڑھے ہیں تو ضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق بڑھے ہیں اور جب اُنچاسویں سال کے بعد پچاسواں سال گزرا ہوگا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے تو پینتالیس سال کی عمر میں مر جانا تھا اب یہ بیچاسواں سال گزر گیا ہے تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق گزرا ہے.گویا وہ پینتالیس سال تک برابر ہر سال یہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیا اور ہر سال جلسہ سالانہ پر ہزاروں ہزار احمدیوں کو آتا دیکھ کر اُن کا ایمان بڑھتا ہو گا.پس جلسہ سالانہ کو بڑی عظمت حاصل ہے.(الفضل 18 نومبر 1956 ءجلد 45/10 نمبر 271 صفحہ 5-4)
تذکار مهدی ) نمازوں کی لذت 445 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک مجلس میں یہ ذکر ہو رہا تھا کہ کیا کسی نے گندم کی روٹی کھائی ہے.ان دنوں لوگ زیادہ تر باجرہ جوار اور جو کھاتے تھے گندم شاذ ہی ملتی تھی اور اگر یہ پتہ لگ جاتا کہ کسی کے پاس گندم ہے تو سکھ اس سے چھین لیتے.تمام لوگوں نے کہا ہم نے تو گندم کی روٹی نہیں کھائی.صرف ایک شخص نے کہا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے.دوسروں نے پوچھا کیا تم نے گندم کی روٹی کھائی ہے اس نے کہا میں نے کھائی تو نہیں لیکن گندم کی روٹی ایک شخص کو کھاتے دیکھا ہے.کھانے والا چٹخارے لے لے کر کھاتا تھا.جس سے میں نے سمجھا کہ گندم کی روٹی بڑی مزیدار ہوتی ہے.اب گندم کی روٹی ایک مادی چیز ہے.کھانے والا چٹخارے مارتا ہے تو دیکھنے والے کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسے اس کا مزہ آ رہا ہے.پھر اس کے چہرہ کے آثار اور اتار چڑھاؤ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ روٹی بڑی مزیدار ہے.پھر بعض لوگ پلاؤ کھانے کے شوقین ہوتے ہیں.پلاؤ مل جائے تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں.لیکن روٹی سالن دیا جائے تو اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے.لیکن نمازوں کے مزے کا کسی دوسرے کو پتا نہیں لگتا.کیونکہ ان کا مزہ اور لذت مخفی ہوتی ہے.جن مادی چیزوں کا مزہ مخفی نہیں ہوتا وہ ہر کوئی محسوس کر لیتا ہے.نمازوں کا جمع کرنا الفضل 17 فروری 1955 ء جلد 44 نمبر 41 صفحہ 3 | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی طریق تھا کہ اگر امام اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے دیکھے کہ اب نمازوں کا جمع کرا دینا مناسب ہے تو وہ نماز جمع کرا سکتا ہے.حضرت رسول کریم ﷺ کے متعلق ثابت ہے کہ آپ نے بغیر کسی ایسی ظاہری وجہ کے جولوگوں کو معلوم ہو.نمازیں جمع کرائیں اور آپ کے ساتھ صحابہ بھی نمازیں جمع کر لیتے تھے.اسی طرح سفر پر جاتے وقت جب رسول کریم ﷺ نمازیں جمع کرتے تو دوسرے لوگ بھی نمازیں اکٹھی پڑھتے.حالانکہ ان میں ایسے بھی ہوتے جو سفر پر جانے والے نہ ہوتے.اسی طرح حضرت مسیح موعود یہ السلام بیماری کی وجہ سے گھر میں نمازیں جمع کر لیتے.جن میں گھر کے اور لوگ بھی شامل ہو
تذکار مهدی ) 6446 روایات سیّد نا محمود جاتے.اعجاز مسیح کی تحریر کے وقت ستر دن تک ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی رہیں.حالانکہ نہ بارش ہوتی اور نہ کوئی اور وجہ تھی.مگر جب آپ جمع کرتے تو دوسرے بھی جمع کر لیتے تھے.پس یہ تو جائز ہے اور اگر میری طرف سے اعلان ہوتا کہ میں نمازیں جمع کراؤں گا تو لوگ انتظار کر سکتے تھے.پھر جمع دونوں وقت ہو سکتی ہیں.پہلے وقت میں بھی اور آخر وقت میں بھی.پورے طور پر خدا تعالیٰ کے بن جاؤ خطبات محمود جلد 14 صفحہ 199) بعض لوگ مرغا کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں.انہیں مرغے کی ٹانگ بڑی پسند ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی.ایک دوست جو فوت ہو گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مرنے کی ٹانگ ملتی رہے تو اسے اور کیا چاہئے لیکن مجھے پسند نہیں کیونکہ اس کی بوٹی میرے دانت میں پھنس جاتی ہے.بہر حال بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ چیز میں انہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں.لیکن وہ چیزیں بہت ادنیٰ اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر ان چیزوں کے حصول کے بعد بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو اور اگر خدا ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اور کی کیا ضرورت ہے.انبیاء علیہ السلام بڑے قیمتی وجود ہیں اور اُن کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو خدامل جائے اور اُسے انبیاء علیہ السلام نہ ملیں.انبیاء علیہ السلام تو اُسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں.مذاہب عالم پر نظر ڈالنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مل سکتا ہے گو اُس کے ملنے کی شکلیں ان کے نزد یک الگ الگ ہیں.تعلق باللہ ، انوار العلوم جلد 23 صفحہ 127 )
تذکار مهدی ) 447 تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا یہ قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جایا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے.یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے اور یہی طین سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے.یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اس کے دل میں گدگدیاں پیدا کرنے لگتا ہے.بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے.لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں کہ یہ میرا گڑا ہے اور وہ تیری گڑیا ہے.آؤ ہم گڑے گڑیا کا بیاہ رچائیں.میرے گڑے کے ساتھ تیری گڑیا کی شادی ہو گی اور فلاں کے گڑے کی شادی کرتی ہیں اور بڑی خوشی مناتی ہیں کہ ہمارے گڑے کی شادی ہو گئی یا ہماری گڑیا کا فلاں کے گڈے سے بیاہ ہو گیا.پھر وہ ماؤں کی نقلیں کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اٹھائے پھرتی ہیں.انہیں پیار کرتی ہیں اور جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں.اسی طرح وہ ان کو اپنے سینے سے لگائے رکھتی ہیں کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں.یا کوئی ہمارا ہو جائے.اسی طرح لڑکوں کو دیکھ لو جب تک بیاہ نہیں ہو جاتا ہر وقت ماں کے ساتھ چھٹے رہتے ہیں.لیکن جب بیاہ ہو جائے تو کہتے ہیں ماں تو جائے چولہے میں ہماری بیوی جو ہے وہ ایسی ہے اور ایسی ہے اور دن رات اس کی تعریفوں میں گذر جاتے ہیں.تو اللہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (العلق : 3) انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہوکر رہنا چاہتا ہے.اس کے بغیر اُس کے دل کو تسلی نہیں ہوتی.حافظ یار محمد صاحب پشاوری تعلق باللہ، انوار العلوم جلد 23 صفحہ 136 137 ) مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے.قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جو شیلے احمدی تھے میرا خیال ہے
تذکار مهدی ) 6448 روایات سید نا محمود کہ وہ اہلحدیث رہ چکے تھے کیونکہ ان کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی.وہ ایک دفعہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں خدا تعالیٰ کی خشیت کی باتیں شروع ہو گئیں.کسی شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت بڑی ہے.ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں پتہ نہیں کہ خدا ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہمارے روز بے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں ، ہماری زکوۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں.اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے.میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں.حافظ محمد صاحب ایک کو نہ میں بیٹھے ہوئے تھے.وہ یہ باتیں سنتے ہی اس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں ؟ اس نے کہا میں تو ! یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں.حافظ محمد صاحب کہنے لگے اچھا اگر یہ بات ہے تو آج سے میں نے تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی.باقیوں نے کہا حافظ صاحب ! اس کی بات ٹھیک ہے.ایمان کا مقام تو بہت ہی بلند ہے.کہنے لگے اچھا پھر تم سب کے پیچھے نماز بند.جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہوسکتی ہے.غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی.جب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے.میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں.آخر جب فساد بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں.مگر یہ ان کی غلطی تھی کہ انہوں نے ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ انہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے.ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے.جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کو فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے مگر یہ کہ مومن ہونے سے ہی انکار کر دے یہ غلط طریق ہے.پس مسئلہ اُن کا ٹھیک ہے لیکن فعل ان کا غلط ہے.انہیں اپنے دوستوں کے پیچھے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے تھی.صوفیاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو ٹولتا ہوں تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُس میں ایمان پایا جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے.تعلق باللہ، انوار العلوم جلد 23 صفحہ 145-144)
تذکار مهدی ) خدا تعالی بخش دے تو بخش دے 449 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک نابینا حافظ تھے جن کا نام میاں محمد تھا وہ پشاور کے رہنے والے تھے.ان میں دین کا بڑا جوش تھا اور اتنے نڈر تھے کہ اس قسم کا نڈر شخص دنیا میں بہت کم ہوتا ہے.اگر انہیں رات کے بارہ بجے بھی خیال آجا تا کہ لوگوں کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے تو وہ دروازے کھٹکھٹا دیتے.اور اگر گھر والا باہر آ تا تو اُسے کہتے میاں! کیا تم نماز پڑھا کرتے ہو یا نہیں؟ اُن کی دلیری اور جرات کی وجہ سے بڑے بڑے لوگ بھی اُن سے ڈرتے تھے.چنانچہ ایک افسر جو پشاور کے پولیٹیکل ایجنٹ ہونے والے تھے ایک دن انہوں نے ان کا دروازہ بھی کھٹکھٹا دیا.ملازم آیا اور پوچھا کون ہو؟ انہوں نے کہا حافظ محمد ہوں اور کلمہ حق پہنچانے آیا ہوں.پولیٹیکل ایجنٹ صاحب نے کہا کہ میں آج بہت تھکا ہوا ہوں.انہوں نے کہا اگر مر گئے تو پھر کیا ہوگا؟ ویٹیکل ایجنٹ نے بہانہ بنا کر کہ وہ کل سارا دن انہیں دیں گے اپنا چھٹکارا کرایا اور نوکروں کو تلقین کر دی کہ دوسرے دن انہیں کوٹھی کے قریب نہ آنے دیں.حافظ صاحب جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لے آئے تو ان کے اندر بھی وہی جوش موجزن رہا.ایک دفعہ وہ جلسہ سالانہ سے واپس گھر جا رہے تھے اور بھی کئی دوست ساتھ تھے کہ رستہ میں بحث شروع ہو گئی کہ ہم مومن ہیں یا نہیں.پرانے طریق کے مطابق ایک شخص نے کہا کیا ہم اتنا بڑا دعویٰ کر سکتے ہیں ہم تو گنہ گار آدمی ہیں.خدا تعالی بخش دے تو بخش دے اسی طرح دوسرے اور پھر تیسرے نے کہا.مولوی عبدالکریم صاحب نے بھی پرانے خیالات کی رو میں بہہ کر کہہ دیا کہ ہم کمزور اور گنہگار ہیں اگر خدا تعالیٰ بخش دے تو اُس کی ذرہ نوازی ہے حافظ صاحب نے کہا اچھا آج سے میں آپ میں سے کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ قرآن کریم نے کہا ہے کہ نماز صرف مومن کے پیچھے پڑھنی چاہیے.مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آکر شکایت کی.آپ نے فرمایا حافظ صاحب کو دوسروں کے پیچھے نماز تو نہیں چھوڑنی چاہیے تھی لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کی بات درست ہے.یہ انکسار کا موقع نہیں تھا بلکہ حقیقت کے اظہار کا موقع تھا.اگر کوئی شخص آپ لوگوں سے دریافت کرے کہ کیا آپ انسان ہیں؟ تو کیا آپ یہ کہہ دیں گے کہ تو بہ تو بہ میں کہاں انسان ہوں؟ اسی طرح جو امور ایک مومن کی شان کے شایاں ہیں اُن کا واضح طور پر اقرار کرنا چاہیے.خطبات محمود جلد 31 صفحه 110 تا 111 ) |
تذکار مهدی ) ہفتہ کے تمام دن با برکت ہیں 450 روایات سید نا محمود فلاں دن منحوس ہے اور فلاں دن غیر منحوس ہے.یہ تو بڑی خرابی پیدا کرنے والا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ ہی نے تو کسی تقریب میں کہا تھا کہ منگل کے دن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو شائد کوئی الہام ہوا تھا.یا کوئی اور وجہ تھی کہ آپ اسے ناپسند فرمایا کرتے تھے.میں نے کہا میں نے تو صرف ایک روایت کی تشریح کی تھی.یہ تو نہیں کہا تھا کہ منگل کا دن منحوس ہے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف ایک ایسی روایت منسوب کی جاتی ہے.اس لئے میں نے بتایا تھا کہ اگر اس روایت کو درست تسلیم کیا جائے تو شائد منگل کے دن سے آپ کو اس لئے تخویف کرائی گئی ہو کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی.مگر بعض لوگوں نے اس مخصوص بات کو جو محض آپ کی ذات کے ساتھ وابستہ تھی وسیع کر کے اسے ایک قانون بنا لیا اور منگل کی نحوست کے قائل ہو گئے حالانکہ جو چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اس کو منحوس قرار دینا یہ بڑی بھاری نادانی ہوتی ہے.اگر منگل کا دن منحوس ہوتا تو خدا تعالیٰ کو بتانا چاہیے تھا کہ اور تو سب دنوں میں میری صفات کام کرتی ہیں لیکن منگل کا دن چونکہ منحوس ہے اس لیے اس میں میری صفات کام نہیں کرتیں اور اگر خدا تعالیٰ نے کسی دن کی نحوست محسوس نہیں کی تو ہم یہ کریں، یہ ایسی باتیں ہیں جن سے و ہم بڑھتا ہے اور زندہ قوموں کے افراد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے وہموں میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچائیں.ان وہموں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس کسی کو کوئی خاص نقصان کسی دن میں پہنچ جاتا ہے وہ اُس دن کو منحوس قرار دینے لگ جاتا ہے.فرض کرو کسی کو پیر کے دن کوئی شدید نقصان پہنچا ہے تو وہ کہنا شروع کر دے گا کہ میرا تجربہ یہ ہے کہ پیر کا دن منحوس ہوتا ہے کسی کو ہفتہ کے دن کوئی حادثہ پیش آیا تو وہ کہنا شروع کر دے گا کہ ہفتہ کا دن منحوس ہوتا ہے مثلاً کوئی حکومت ہفتہ کے دن شکست کھا جاتی ہے تو اُس کے افراد کے ذہنوں پر یہ بات غالب آجائے گی کہ ہفتہ کا دن منحوس ہوتا ہے اور وہ ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھتے نہیں ! ہم پر ہفتہ کے دن کیسی تباہی آئی تھی !! اِسی طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو جمعرات کے دن کوئی حادثہ پیش آجائے تو وہ جمعرات کو اور کسی کو جمعہ کے دن کوئی حادثہ پیش آجائے تو وہ جمعہ کو منحوس کہنے لگ جائے.نتیجہ یہ ہو گا کہ سارے لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں گے اور کہیں گے کہ ہم کیا کریں گے ہمارا تو
تذکار مهدی ) 451 روایات سید نا محمودی نحوست پیچھا نہیں چھوڑتی اور دوسری قومیں ترقی کر جائیں گی.اگر کوئی کہے کہ دنوں میں اگر کوئی خاص برکت نہیں ہوتی تو رسول کریم ﷺ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری قوم کے لیے جمعرات کے سفر میں برکت رکھی ہے.تو اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں ایک وجہ موجود ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا یہ تھا کہ جمعہ کے دن تمام لوگ شہر میں رہیں اور ا کٹھے ہو کر نماز ادا کریں تا کہ جب لوگ اکٹھے ہوں تو وہ ایک دوسرے کی مشکلات کا علم حاصل کریں، اہم امور میں ایک دوسرے سے مشورہ لیں، اپنی ترقی کی تدابیر سوچیں اور یہ چیز میں اتنی اہم ہیں کہ ان کو ترک کر کے کسی کا سفر پر چلے جانا کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کہیں سفر پر جانا چاہو تو جمعرات کو جاؤ تا کہ جمعہ کسی شہر میں ادا کر سکو اور یہ چیز ایسی ہے جس سے کوئی وہم پیدا نہیں ہوتا.محض جمعہ کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ اگر چھوٹا سفر ہے تو جمعرات کو کر لیا کرو اور اگر لمبا سفر ہے تو جمعہ کی نماز پڑھ کر کسی اور دن چلے جاؤ.پس اس حدیث میں کسی دن کی برکت پر زور نہیں دیا گیا بلکہ جمعہ کی نماز پر زور دیا گیا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جمعہ کی نماز میں سارے شہر کا اکٹھا ہونا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ دس لاکھ کا شہر ہو یا بیس لاکھ کا شہر ہو یا تمیں لاکھ کا شہر ہو.اگر کوئی ایسا شہر ہے جس کے افراد ایک مقام پر اکٹھے نہیں ہو سکتے تو اسے مختلف حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ یہی ہوگا کہ ہر حلقہ کے تمام لوگ اپنے اپنے حلقہ میں نماز جمعہ کے لیے اکٹھے ہوں اور اس میں بہت سے دینی اور دنیوی فوائد ہیں.جب لوگ اکٹھے ہوں گے تو لازماً وہ ایک دوسرے کی مشکلات کا علم حاصل کریں گے، ایک دوسرے سے مشورے کریں گے، ایک دوسرے کی ترقی کی تدابیر کریں گے، اپنی تنظیم کو زیادہ مؤثر بنائیں گے، اپنی اخلاقی اصلاح کے لیے سکیمیں سوچیں گے، غرباء کی ترقی کے پروگرام تجویز کریں گے.غرض وہ قومی ترقی کے لیے اس اجتماع سے بہت کچھ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں.گو افسوس ہے کہ آجکل مسلمانوں میں جمعہ کے اجتماع سے اس رنگ میں فائدہ نہیں اُٹھایا جاتا.اپنے اندر ہی دیکھ لورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب خطبہ ہو رہا ہو تو امام کی طرف منہ کر کے بیٹھو اور اُس کی باتوں کو توجہ سے سنو.مگر بعض لوگ اس وقت امام کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھے ہیں اور پھر ذرا کوئی آہٹ آ جائے یا چوہے کے ملنے سے
تذکار مهدی ) 452 روایات سید نا محمودی ہی کھٹکا ہو جائے تو سب اُس کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں تا کہ چوہے کے ہلنے سے جو کھٹکا ہوا ہے اُس کی برکت سے وہ محروم نہ رہیں.گویا جمعہ کی جو غرض ہے کہ خطیب کی بات کو توجہ سے سنا جائے اور اُس سے فائدہ اُٹھایا جائے اُس سے بہت کم لوگ حصہ لیتے ہیں.یہاں تک کہ ہماری جماعت میں بھی یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور کئی دفعہ انہیں ٹوکنا پڑتا ہے.باقی رہی وہ روایت جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کی جاتی ہے.اگر وہ درست ہے تو اس نخوست سے مراد صرف نحوست تھی کہ آپ کی وفات منگل کے دن ہونے والی تھی.ورنہ جب خدا تعالیٰ نے خود تمام دنوں کو با برکت کیا ہے اور تمام دنوں میں اپنی صفات کا اظہار کیا ہے.تو اس کی موجودگی میں اگر کوئی روایت اس کے خلاف ہمارے سامنے آئے گی تو ہم کہیں گے کہ یہ روایت بیان کرنے والے کو غلطی لگی ہے.ہم ایسی روایت کو تسلیم نہیں کر سکتے اور یا پھر ہم یہ کہیں گے کہ ہر انسان کو بشریت کی وجہ سے بعض دفعہ کسی بات میں وہم ہو جاتا ہے.ممکن ہے کہ ایسا ہی کوئی وہم منگل کی کسی دہشت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہو گیا ہو.مگر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ یہ دن منحوس ہے.ہم اس روایت میں یا تو راوی کو جھوٹا کہیں گے اور یا پھر یہ کہیں گے کہ شائد بشریت کے تقاضا کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس بارہ میں کوئی وہم ہو گیا ہو.ورنہ مسئلہ کے طور پر یہی حقیقت ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے کہ سارے کے سارے دن بابرکت ہوتے ہیں.مگر مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے ایک ایک کر کے دنوں کو منحوس کہنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کامل طور پر نحوست اور ادبار کے نیچے آ گئے.( الفضل 21 ستمبر 1960 ء جلد 49/19 نمبر 217 صفحہ 3-2 ) | چوری کی شکایت پر نصائح مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ کسی شخص نے شکایت کی کہ باورچی چوری کرتا ہے.وہ آپ کھانا کھا لیتا ہے تو اس کے بعد آٹھ دس روٹیاں گھر لے جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس شکایت کرنے والے دوست سے کہا کہ آپ کی شکایت تو میں نے سن لی ہے.لیکن آپ نے یہ بھی سوچا ہے کہ ایک روٹی کے لئے وہ دو دفعہ تنور میں جھکتا ہے.سخت گرمی میں ہم نے اپنے دروازے بند کیے ہوتے ہیں.پردے
تذکار مهدی ) 453 روایات سید نا محمودی رہے ہوتے ہیں دستی پنکھے ہمارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور یہ تنور میں جھکا جا رہا ہوتا ہے.آخر یہ بھی ہماری طرح ہی اللہ تعالیٰ کا ایک بندہ ہے.ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ سلوک کیوں نہ کیا؟ آخر اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رنگ میں سزا تو مل رہی ہے.اسے اور کیا سزا دلانا چاہتے ہیں.تو اچھا آدمی ہمیشہ اچھے پہلو کو دیکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شکایت کرنے والے کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ سزا تو اسے روٹیاں چرانے سے بھی پہلے مل جاتی ہے کیونکہ ایک ایک روٹی کے لئے یہ دو دفعہ تنور میں اپنا سر جھکاتا ہے.پھر اس کی تعلیم اعلیٰ نہیں اگر تعلیم اچھی ہوتی تو لازماً اس کے اخلاق بھی اچھے ہوتے اور اچھا کاروبار اختیار کر تا جب ان میں سے کوئی بات بھی اسے حاصل نہیں تو اس پر اور کیا ناراض ہوتے ہو.ایسے شخص کو مارنا یا سزا دینا تو ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں ”مرے کو مارے شاہ مدار“ غرض اس واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر اسی طرف گئی کہ ہماری موجودہ حالت خدا تعالیٰ کے انعاموں میں سے ایک بہت بڑا انعام ہے اور اس کے لئے وہی سزا کافی ہے جو اسے مل رہی ہے.کسی اور سزا کی اس کے لئے کیا ضرورت ہے.تو مومن کو ہمیشہ ہر چیز کا اچھا پہلو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور تو ہمات میں مبتلا ہو کر اپنی طاقتوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.( خطبات محمود جلد 35 صفحہ 164-163) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق گومثال تو ایک پاگل کی ہے پھر ایسے پاگل کی جواب فوت ہو چکا اور گو وہ ایک ایسے پاگل کی مثال ہے جو میرا استاد بھی تھا مگر بہر حال اس سے عشق کی حالت نہایت واضح ہو جاتی ہے.ایک میرے استاد تھے جو سکول میں پڑھایا کرتے تھے بعد میں وہ نبوت کے مدعی بن گئے ان کا نام مولوی یار محمد صاحب تھا.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایسی محبت تھی کہ اس کے نتیجہ میں ہی ان پر جنون کا رنگ غالب آ گیا.ممکن ہے پہلے بھی ان کے دماغ میں کوئی نقص ہو مگر ہم نے تو یہی دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی محبت بڑھتے بڑھتے انہیں جنون ہو گیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہر پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرنے لگے.پھر ان کا یہ جنون یہاں تک بڑھ گیا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے قریب ہونے کی خواہش میں بعض دفعہ ایسی حرکات بھی کر بیٹھتے جو ناجائز اور نادرست
تذکار مهدی ) 454 روایات سید نا محمود ہوتیں.مثلاً وہ نماز میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے جسم پر اپنا ہاتھ پھیر نے کی کوشش کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی اس حالت کو دیکھ کر بعض آدمی مقرر کئے ہوئے تھے تا کہ جن ایام میں انہیں دورہ ہو وہ خیال رکھیں کہ کہیں وہ آپ کے پیچھے آ کر نہ بیٹھ جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عادت تھی کہ جب آپ گفتگو فرماتے یا لیکچر دیتے تو اپنے ہاتھ کو رانوں کی طرف اس طرح لاتے جس طرح کوئی آہستہ سے ہاتھ مارتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اس طرح ہاتھ ہلاتے تو مولوی یارمحمد صاحب محبت کے جوش میں فوراً کود کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچ جاتے اور جب کسی نے پوچھنا کہ مولوی صاحب یہ کیا تو وہ کہتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اشارہ سے بلایا تھا.تو جہاں محبت ہوتی ہے وہاں یونہی اشارے بنا لئے جاتے ہیں.کجا یہ کہ اللہ تعالیٰ روزانہ بلائے اور بندہ کہے کہ ہم جمعتہ الوداع کے دن قضاء عمری پڑھ لیں گے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی زیارت حاصل ہو جائے گی.پس یہ گو جمعۃ الوداع تو نہیں مگر مسلمان کا ہر جمعہ اپنے ساتھ برکات رکھتا ہے.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 532-531) پروفیسر صاحب کا جواب مجھے وہ نظارہ یاد ہے جس دن فیصلہ سنایا جانا تھا.ہماری جماعت میں ایک دوست تھے جن کو پروفیسر کہا جاتا تھا.پہلے وہ تاش وغیرہ کے کھیل اعلیٰ پیمانہ پر کیا کرتے تھے.اچھے ہوشیار آدمی تھے اور چار پانچ سوروپیہ ماہوار کما لیتے تھے مگر احمدی ہونے پر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا اور معمولی دکان کر لی تھی.انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا اور غربت کو اخلاص سے برداشت کرتے تھے ان کے اخلاص کی ایک مثال میں سناتا ہوں.انہوں نے لاہور میں جا کر کوئی دکان کی.جو گاہک آتے انہیں تبلیغ کرتے ہوئے لڑ پڑتے.خواجہ صاحب نے آکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کی.آپ نے محبت سے انہیں کہا کہ پروفیسر صاحب! ہمارے لئے یہی حکم ہے کہ نرمی اختیار کرو، خدا تعالیٰ کی یہی تعلیم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھاتے جاتے تھے اور پروفیسر صاحب کا چہرہ سرخ ہوتا جاتا تھا.ادب کی وجہ سے وہ بیچ میں تو نہ بولے مگر سب کچھ سن کر یہ کہنے لگے کہ میں اس نصیحت کو نہیں مان سکتا آپ کے پیر ( یعنی آنحضرت ﷺ ) کو
تذکار مهدی ) 455 روایات سید نا محمود اگر کوئی ایک لفظ بھی کہے تو آپ مباہلہ کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور کتابیں لکھ دیتے ہیں مگر ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پیر کو اگر کوئی گالیاں دے تو چپ رہیں.بظاہر یہ بے ادبی تھی مگر اس سے ان کے عشق کا پتہ ضرور لگ سکتا ہے.جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تو لوگوں کو یقین تھا کہ مجسٹریٹ سزا ضرور دے دے گا اور بعید نہیں کہ قید کی ہی سزا دے.ادھر مخلصین کے دل میں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آ سکتا تھا کہ آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا.اس دن عدالت کی طرف سے بھی زیادہ احتیاط کی گئی تھی.پہرہ بھی زیادہ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر تشریف لے گئے تو دوستوں نے پروفیسر صاحب کو باہر روک لیا کیونکہ ان کی طبیعت تیز تھی.مگر انہوں نے ایک بڑا سا پتھر ایک درخت کے پیچھے چھپا رکھا تھا اور جس طرح ایک دیوانہ چیخ مارتا ہے.زار زار روتے ہوئے دفعہ درخت کی طرف بھاگے اور وہاں سے پتھر اٹھا کر بے تحاشہ عدالت کی طرف دوڑے اور اگر جماعت کے لوگ راستہ میں نہ روکتے تو وہ مجسٹریٹ کا سر پھوڑ دیتے.انہوں نے خیال کر لیا کہ مجسٹریٹ ضرور سزا دے دے گا اور اسی خیال کے اثر کے ماتحت وہ اسے مارنے کے لئے آمادہ ہو گئے.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 67-66 ) فلاسفر صاحب ہماری جماعت میں ایک شخص ہوا کرتا تھا.جسے لوگ فلاسفر فلاسفر کہتے تھے.اب وہ فوت ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے.اسے بات بات میں لطیفے سوجھ جاتے تھے.جن میں سے بعض بڑے اچھے ہوا کرتے تھے.فلاسفر اسے اسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا.ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا کہنے لگا مولویوں نے یہ محض ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہوتا.بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہوا.مولوی جھٹ سے فتوی دیتے ہیں کہ اس کا روزہ ضائع ہو گیا.غرض اس نے اس پر خوب بحث کی.صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا.زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.مگر چونکہ حضرت خلیفہ اول ہی درس وغیرہ دیا کرتے تھے.اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آیا جایا کرتے تھے.آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی ہے.آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا رات کو میں یہ بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اس کا روزہ نہیں ہوتا.
تذکار مهدی ) 6456 روایات سید نا محمود میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے.اس بحث کے بعد میں سو گیا.تو میں نے رویاء میں دیکھا کہ ہم نے تانی لگائی ہوئی ہے ( فلاسفر جولاہا تھا اس لئے خواب بھی اسے اپنے پیشہ کے مطابق ہی آئی ) دونوں طرف میں نے کیلیے گاڑ دیئے ہیں اور تانی کو پہلے ایک کیلے سے باندھا اور پھر میں اسے دوسرے کیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا.جب کیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی ورے سے تانی ختم ہو گئی.میں بار بار کھینچتا تھا کہ کسی طرح اسے کیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہو سکا اور میں نے سمجھا کہ میرا سارا سوت مٹی پر گر کر تباہ ہو جائے گا.چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ.دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی.جب میں جا گا تو میں نے سمجھا کہ اس رویاء کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو انگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو سکتی ہے تو روزہ میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو.اس کے ہوتے ہوئے کسی کا روزہ کس طرح قائم تعلق باللہ، انوار العلوم جلد 23 صفحہ 177) رہ سکتا ہے.روزہ اور تانی مجھے اس کے متعلق ایک واقعہ یاد آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کچھ لوگوں میں روزوں کے متعلق بحث ہو رہی تھی کہ کس وقت روزہ رکھنا اور کس وقت افطار کرنا چاہئے.ایک شخص کا خیال تھا کہ جب ایک شخص خدا تعالیٰ کے لئے سارا دن بھوکا رہتا ہے تو اگر اس نے پو پھٹنے کے بعد کھانا کھا لیا بلکہ اگر رویت آفتاب کے بعد بھی چند گھونٹ پانی پی لیا یا کچھ کھانا کھا لیا تو اس میں کون سا حرج ہے.یہ کہنے والے کسی زمانہ میں جو لا ہوں کا کام کیا کرتے تھے.انہوں نے خواب دیکھا کہ تانی کو خشک کرنے کے لئے ایک کیلے کے ساتھ باندھا اور دوسری طرف دوسرے کیلے سے باندھنے گیا لیکن تانی کیلے سے دو انگل کے قریب کم رہ گئی لیکن کیلا کچھ دور تھا وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ہزار کوشش کی کہ کسی طرح تانی کیلے تک پہنچ جائے.مگر سب بے سود آخر گھبرا کر میں نے رشتہ داروں کو آواز دی کہ دوڑ کر آؤ، دوانگل کی وجہ سے میری تانی خراب ہو جائے گی اس پر آنکھ کھل گئی اور سمجھ آ گئی کہ چند منٹ آگے پیچھے روزہ رکھنے یا افطار کرنے کے متعلق میں جو کچھ بیان کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے متعلق آگاہ
تذکار مهدی ) 457 روایات سید نا محمود ) کیا ہے.تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی ہوتی ہیں لیکن بلحاظ نتائج نہایت اہم ہوتی ہیں.انہی باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اوقات کے لحاظ سے عید الفطر اور عید الاضحیٰ میں فرق کیا ہے؟ وہ دیر سے پڑھائی جاتی ہے اور یہ جلدی کیونکہ اس کے متعلق حکم ہے کہ نماز کے بعد قربانی کی جائے اور رسول کریم ﷺ کا اپنا دستور یہ تھا کہ آپ قربانی کے گوشت سے ہی کھانا شروع فرماتے.اس دن روزہ تو نہیں ہوتا لیکن نیم روزہ ضرور ہو جاتا تھا.آپ صبح کچھ نہیں کھاتے تھے اور پھر قربانی کے گوشت سے افطار کرتے تو عید الاضحیٰ کی نماز جلد ادا کی جاتی.خطبات جلد دوم صفحہ 142 تا 143) فلاسفر صاحب کی تیز قدمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست ہوا کرتے تھے.وہ میرے استاد بھی تھے.انہیں حساب میں بڑا ملکہ تھا.مگر ساتھ ہی اُن کے دماغ میں بھی کچھ نقص تھا.اُنہیں یہ وہم ہو گیا تھا کہ محمدی بیگم والی پیشگوئی اُن کے ذریعہ سے پوری ہوئی ہے اور اس وجہ سے وہ کئی ایسی حرکتیں کرتے رہتے تھے جو تکلیف دہ ہوا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ بات کرتے وقت بعض دفعہ اپنی ران پر ہاتھ مارتے تھے.حدیثوں میں بھی پیشگوئی آئی ہے کہ مسیح موعود فخذ پر ہاتھ مار کر بات کرے گا.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب کبھی مجلس میں بات کرتے ہوئے ران کی طرف ہاتھ لانا تو انہوں نے جھٹ گود کر آگے آ جانا.لوگوں نے پوچھنا آپ کو کیا ہوا؟ وہ کہتے تمہیں معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے در حقیقت مجھے اشارہ کیا تھا.اس طرح مجلس میں بہت بدمزگی پیدا ہو جاتی.ایک دفعہ تنگ آکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن سے کہہ دیا کہ آپ قادیان سے چلے جائیں.انہیں گو جنون تھا مگر بہر حال عشق والا جنون تھا دشمنی والا جنون نہیں تھا.انہوں نے پہلے تو اڑنا شروع کیا کہ میں نہیں جاتا.حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ جب کوئی تحریر لکھتے نیچے ” خاکسار غلام احمد“ لکھا کرتے تھے.رقعہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے ذریعہ سے ہی بھجوایا تھا.میں نے انہیں رقعہ دیا تو کہنے لگے میں نہیں جانتا مرزا غلام احمد ولد مرزا غلام مرتضی کون ہوتا ہے میں اس حکم کی اطاعت کے لئے تیار نہیں ہوں.میں نے یہی بات حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 458 روایات سیّد نا محمود علیہ الصلوۃ والسلام کو جا کر کہہ دی.آپ نے قلم اٹھایا اور اپنے نام کے آگے مسیح موعود لکھ دیا.میں پھر وہ رقعہ لایا تو دیکھ کر کہنے لگے.اب تو بڑی مصیبت ہے اب تو قادیان سے جانا ہی پڑے گا چنانچہ وہ چل پڑے اس وقت ظہر کا وقت تھا.ظہر کے وقت وہ نکلے اور پیدل چل کر جالندھر گئے.جالندھر سے ہوشیار پور گئے.ہوشیار پور جا کر پھر قادیان واپس آئے.مگر قادیان کے قریب پہنچ کر پھر گھبراہٹ میں امرتسر یا لاہور چلے گئے اور تیسرے دن صبح ان سب مقامات کا چکر لگا کر قادیان واپس آگئے اور کہنے لگے آئندہ میں آپ کو تنگ نہیں کروں گا.مجھے معاف کیا جائے میں قادیان سے باہر نہیں رہ سکتا.غرض دو تین دن میں وہ قادیان سے جالندھر گئے جالندھر سے ہوشیار پور گئے.ہوشیار پور سے واپس آکر پھر امرتسر یا لاہور گئے اور پھر واپس قادیان آگئے.گویا تقریباً دو تین سو میل کا سفر انہوں نے طے کر لیا.ان کی انہیں حرکتوں کی وجہ سے ایک دفعہ گورداسپور کے مقدمہ میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہیں تشریف رکھتے تھے.آپ نے فرمایا یہ روز مجھے دق کرتے ہیں ان کا کوئی انتظام کرنا چاہئے.چنانچہ وہ دوست جو ساتھ تھے انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے ان سے کہا کہ قادیان سے ایک ضروری کتاب لانی ہے.آپ جائیں اور کتاب لے آئیں.گورداسپور سے قادیان سولہ میل کے قریب ہے.عشاء کے وقت وہ گئے اور رات کے بارہ بجے کتاب لے کر واپس آگئے.لوگوں نے تو یہ تدبیر اس لئے کی تھی کہ کسی طرح ان کو وہاں سے نکالیں مگر وہ راتوں رات پھر واپس پہنچ گئے.اس پر دوست پھر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہئے.وہ ہنس کر کہنے لگے مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں نے مجھے کیوں بھجوایا تھا.میں وعدہ کرتا ہوں کہ اب میں کوئی شرارت نہیں کروں گا.غرض بتیس میل سفر انہوں نے دو چار گھنٹوں میں کر لیا اور پھر یہ بھی نہیں کہ اس قدر سفر کے بعد وہ بارہ گھنٹے آرام کرتے ہوں.بلکہ جب بھی انہیں کسی اور کام کے لئے بھجوایا جاتا فوراً تیار ہو جاتے تھے.تو دنیا میں بڑے بڑے تیز چلنے والے بھی پائے جاتے ہیں اور شدید ترین سست اور غافل بھی پائے جاتے ہیں.وہی بچہ جس کو دو قدم چلنے پر روٹی یا پھل یا فروٹ انعام کے طور پر دیا جاتا ہے.بعد میں ایک بڑا سیاح بن جاتا ہے اور دو تین سومیل دو چار دن میں پیدل سفر طے کر لیتا ہے اب غور کرو کہ اتنا تیز چلنے والا کون تھا ؟ وہی تھا جو کل ایک قدم بھی انعام کے لالچ کے بغیر اٹھا سکتا تھا.( خطبات محمود جلد 33 صفحہ 120 تا 122 ) |
تذکار مهدی ) 459 روایات سید نا محمود خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کے درمیان آپس میں اسی بات پر بحث چھڑ گئی.ضرت خلیفہ اول فرماتے کہ خوبصورتی کا پہچاننا آسان نہیں ہر شخص کی نگاہ حسن کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی یہ صرف طبیب ہی پہچان سکتا ہے کہ کون خوبصورت ہے اور کون بدصورت.مگر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرماتے تھے کہ یہ کون سی مشکل بات ہے ہر آنکھ انسانی خوبصورتی کو پہچان سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ بے شک ہر نگاہ حسن کو اپنے طور پر پہچان لیتی ہے مگر اس شناخت میں بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں اور طبیب ہی سمجھ سکتا ہے کہ کون واقعہ میں خوبصورت ہے اور کون محض اوپر سے خوبصورت نظر آ رہا ہے، اسی گفتگو میں حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.کیا آپ کے نزدیک یہاں کوئی مرد خوبصورت بھی ہے؟ انہوں نے ایک نوجوان کا نام لیا جو اتفاقاً اس وقت سامنے آ گیا تھا.کہنے لگے میرے خیال میں یہ خوبصورت ہے حضرت خلیفہ اول نے فرمایا آپ کی نگاہ میں تو یہ خوبصورت ہے مگر دراصل اس کی ہڈیوں میں نقص ہے.پھر آپ نے اسے قریب بلایا اور فرمایا.میاں ذرا قمیص تو اٹھانا اس نے قمیص جو اٹھائی تو ٹیڑھی ہڈیوں کی ایسی بھیانک شکل نظر آئی کہ مولوی عبدالکریم صاحب کہنے لگے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةً إِلَّا بِاللهِ مجھے تو معلوم نہیں تھا کہ اس کے جسم کی بناوٹ میں یہ نقص ہے میں اس کا چہرہ دیکھ کر ہی اسے خوبصورت سمجھتا تھا.تو در اصل جسم میں بہت سے نقائص ہوتے ہیں.کئی لوگوں کے بدن پر گھمبیر ہوتے ہیں کئی کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوتی ہیں.بعض کے سینوں میں اتنا اتنا گڑھا ہوتا ہے کہ اس میں پاؤ بھر گوشت سما جائے اور جب کبھی وہ لوگوں کے سامنے کپڑے اتار کر نہانے لگیں یا کسی اور موقع پر انہیں قمیص اتارنی پڑے تو لوگوں پر ان کا عیب ظاہر ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے لباس کو اتارا ہے اور اس کی یہ غرض مقرر کی ہے کہ یہ تمہارے عیبوں کو چھپاتا ہے.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 155-154 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس سوال وجواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جو دوست باہر سے آیا کرتے تھے، وہ
تذکار مهدی ) 460 ☀ روایات سید نا محمودی مشکل مسائل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کرتے اور اس طرح گفتگو کا موقع ملتا رہتا تھا اور بعض دوست تو عادتاً بھی سوال کر لیا کرتے اور جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھتے کوئی نہ کوئی سوال پیش کر دیا کرتے.مجھے ان میں سے دو شخص جو اس کام کو خصوصیت سے کیا کرتے تھے اچھی طرح یاد ہیں.ایک میاں معراج دین صاحب العمر جو آج کل قادیان میں ہی رہتے ہیں اور دوسرے میاں رجب الدین صاحب جو خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے.مجھے یاد ہے مجلس میں بیٹھتے ہی یہ سوال کر دیا کرتے کہ حضور فلاں مسئلہ کس طرح ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مسئلہ پر تقریر شروع فرما دیتے.تو جو دوست باہر سے آتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اپنے مطالب پیش کرنے کے علاوہ مشکل مسائل دریافت کیا کریں تا کہ مجلس زیادہ سے زیادہ مفید ہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچے.مجلس میں نہ آنے کو نفس کا بہانہ قرار دیا (خطبات محمود جلد 14 صفحہ 104 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں نہیں آتے تھے اور اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتے تھے کہ مجھ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رعب اتنا زیادہ غالب ہے اور آپ کا ادب میرے دل میں اس قدر پایا جاتا ہے کہ میں آپ کے سامنے بیٹھ نہیں سکتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے ایک دفعہ مجلس میں اس بات کے خلاف تقریر کی اور آپ نے فرمایا یہ نفس کا دھوکا ہے.چونکہ ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ میری مجلس میں نہ آنا ایک گناہ ہے اس لئے اس گناہ کے دکھ سے بچنے کے لئے انکے نفس نے یہ بہانا بنا لیا اور مجلس میں نہ آنے کا باعث انہوں نے ادب اور اعزاز اور رعب قرار دے دیا حالانکہ یہ نفس کی سستی اور غفلت کی علامت ہے.کیا دوسروں کے دلوں میں ادب اور اعزاز نہیں ؟ غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوری ایک مجلس اسی بات کے متعلق خرچ کی اور آپ نے مجلس میں نہ آنے کو نفس کا بہانہ قرار دیا.اسی طرح اس قسم کے وگ یہ کہہ کر اپنے نفسوں کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ ہم نے خدمت دین کے کاموں میں حصہ نہ لیا تو کیا ہوا ہم چندے سے سلسلہ کی زیادہ مدد کر رہے ہیں مگر یہ بھی ان کے نفسوں کا دھوکا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکے ہیں اور بیعت کر چکے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ ان
تذکار مهدی ) 6461 روایات سید نا محمود کے لئے دین کا کام کرنا ضروری ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے.ان کے اپنے نفس کو اس دکھ اور تکلیف سے بچانے کے لئے ( جو ضمیر کی لعنت و ملامت سے ہوتی ہے ) یہ بہانہ تراش کر پیش کر دیتے ہیں کہ ہم چندے زیادہ دے رہے ہیں اور یہی دین کی خدمت ہے.چونکہ اس قسم کے لوگ دوسرے آدمیوں میں اپنی عزت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم جماعت کا صحیح اور کارآمد عضو ہیں اس لئے وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم زیادہ روپیہ کما کر زیادہ چندہ دیتے ہیں.حالانکہ دین کی خدمت کے لئے صرف دفتر کا وقت ہی ضروری نہیں.حضرت حکیم محمد حسین قریشی صاحب کی خدمات خطبات محمود جلد 28 صفحہ 553-552 ) | قریشی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور ایسے مخلص تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ابتلاء سے انہیں بچا لیا جب پہلے پہل خلافت کا جھگڑا اٹھا تو خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے لاہور کی جماعت کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو سلسلہ کس طرح تباہ ہونے لگا ہے.یہ حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کی خلافت کا زمانہ تھا جب میر محمد الحق صاحب نے بعض سوالات لکھ کر دیئے تھے اور آپ نے جواب کے لئے وہ باہر کی جماعتوں کو بھجوا دیئے تھے اس وقت لاہور کی ساری کی ساری جماعت اس پر متفق ہوگئی تھی کہ دستخط کر کے حضرت خلیفہ اول کو بھجوائے جائیں کہ خلافت کا یہ طریق احمد یہ جماعت میں نہیں بلکہ اصل ذمہ دار جماعت کی انجمن ہے.جب سب لوگ اس امر کی تصدیق کر رہے تھے.قریشی صاحب خاموش بیٹھے رہے.اور کہا کہ میں سب سے آخر میں اپنی رائے بتاؤں گا.آخر پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑے زور سے اس خیال کی تردید کی اور کہا کہ یہ گستاخی ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات معین کریں.ہم نے ان کی بیعت کی ہے اس لئے ایسی باتیں جائز نہیں وہ آخری آدمی تھے.ان سے پہلے سب اپنی اپنی رائے ظاہر کر چکے تھے مگر ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ سب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور خواجہ صاحب کے مؤید صرف وہ لوگ رہ گئے جو ان کے ساتھ خاص تعلقات رکھتے تھے.اسی طرح میری خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی غیر مبائعین سے مقابلہ کرنے میں انہوں نے تندہی سے حصہ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انہی کی معرفت لاہور سے سامان وغیرہ منگوایا کرتے تھے.حضور خط لکھ کر کسی آدمی کو دے دیتے جو اسے حکیم صاحب کے
تذکار مهدی ) 462 روایات سید نامحمود پاس لے جاتا اور وہ سب اشیاء خرید کر دیتے گویا وہ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایجنٹ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے.لاہور کی احمدیہ مسجد بھی انہی کا کارنامہ ہے دوسروں کا تو کیا کہنا میں خود بھی اس کا مخالف تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ جو لاہور کی جماعت سے اٹھایا نہ جاسکے گا.مگر انہوں نے پیچھے پڑ کر مجھے سے اجازت لی اور ایک بھاری رقم کے خرچ سے لاہور میں ایک مرکزی مسجد بنادی.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 166-165) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی بیعت پر خوشی کا اظہار اس وقت میں مرزا عزیز احمد صاحب کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہو ا ہوں جو کہ نصیرہ بیگم بنت میر محمد الحق صاحب سے قرار پایا ہے.مرزا عزیز احمد صاحب کو پچھلے عرصہ میں قادیان کم آتے رہے ہیں اور جب آتے بھی ہیں تو بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں یہ نہیں کہ مجھ سے نہیں ملتے بلکہ باقی جماعت کے لوگوں سے سوائے چند اپنے احباب سے کم ملتے ہیں مگر ساری جماعت کے لوگ ان سے واقف ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے ہیں اور انہیں ایک فوقیت حاصل ہے اور وہ یہ کہ جب ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب کو سلسلہ کے متعلق اظہار خیال کا موقع نہ ملا تھا اس وقت انہوں نے بیعت کی تھی.اگر چہ ان کی اس وقت کی بیعت میں اساتذہ کا بہت کچھ دخل تھا اور خود میرا بھی دخل تھا.میرے ذریعہ ہی ان کی بیعت کا پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھیجا گیا تھا اور مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ان کی بیعت کے متعلق سن کر بہت خوش ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کی والدہ سے بہت محبت تھی.جب خاندان میں بہت مخالفت تھی اور آنا جانا بھی بند تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے.عزیز احمد کی والدہ کئی بار آتی جاتی ہیں اور روتی رہتی ہیں کہ لوگوں نے خاندان میں یہاں تک تفرقہ ڈال دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے مل بھی نہیں سکتے.دوسرا خاندان میر صاحب کا ہے جن سے ساری قادیان واقف ہے.واقف تو مرزا عزیز احمد صاحب سے بھی ہے مگر میں نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ وہ اس نقص کی اصلاح کر لیں.میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس نکاح کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں گے.
تذکار مهدی ) 463 روایات سید نا محمود میں پانچ ہزار روپیہ مہر پر اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 272-271) بیعت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب غرض خدا تعالیٰ نے یہ ایک عجیب حیرت انگیز سلسلہ جاری کیا ہوا ہے جس کو سمجھنا انسانی عقل سے بالکل بالا ہے.آج جس لڑکے کا نکاح پڑھانے کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ مجھ سے چھوٹے سے بھی چھوٹے بھائی کا لڑکا ہے اور جس لڑکی کا نکاح ہے وہ بھی بہر حال بڑی نہیں بلکہ اس سے بڑا ایک بھائی تھا جو فوت ہو چکا ہے.اس وقت میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا ہے جبکہ کبھی ہم خطبہ پڑھنے والے نہ تھے.خطبہ سننے والے نہ تھے بلکہ خطبہ اگر سنتے تو سمجھ بھی نہیں سکتے تھے.مجھے یاد ہے.میں سکول کی طرف سے ایک دن آ رہا تھا.اس گلی میں سے گزر کر جس گلی میں سے گزر کر ہم مسجد میں آتے ہیں میرے سامنے قریباً میرا ہی ہم عمر ایک چھوٹا سالڑ کا گزر رہا تھا.میرے ساتھ اس وقت شیخ یعقوب علی صاحب یا غالباً کوئی اور دوست تھے انہوں نے اس وقت اس لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا میاں تیرا بھتیجا آ گیا ہے اس وقت کی عمر کے لحاظ سے بھیجے کو نہ معلوم میں نے کیا سمجھا.مجھے یاد ہے.میں نے یہ الفاظ سنتے ہی ایک چھلانگ لگائی اور دوڑ کر گھر گیا.میرے لئے یہ فقرہ اس وقت ایسا ہی شرمناک تھا جیسے کسی کو کہہ دیا جائے کہ غلطی سے تم مجلس میں ننگے آگئے ہو.میں بھی یہ فقرہ سنتے ہی دوڑ پڑا.انہوں نے کوشش کی کہ مجھے پکڑ کر ہم دونوں کو آپس میں ملا دیں.لیکن میں ان سے پکڑا نہیں گیا.کچھ دنوں کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور غالباً قاضی امیر حسین صاحب نے کوشش کر کے ہم دونوں کو اکٹھا کر دیا.اس وقت تک بوجہ اس اختلاف کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مرز ا سلطان احمد صاحب میں تھا اور بوجہ اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مرزا سلطان احمد صاحب سے ناراض رہتے تھے.ہم کبھی اکٹھے نہیں ہوئے تھے.گھر اگر چہ ہمارے پاس پاس ہی تھے مگر مرزا سلطان احمد صاحب چونکہ باہر ملازم تھے اور ان کے بچے بھی باہر ان کے ساتھ ہی رہتے تھے.اس لئے اپنے بھتیجے کو دیکھنے کا میرے لئے یہ پہلا موقع تھا.ان دونوں نے ہم کو اکٹھا کر دیا.اور پھر اس کے بعد بھی یہ دونوں ہم کو آپس میں ملاتے رہے.اس کے بعد انہوں نے میرے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ اپنے ابا سے کہو کہ یہ بچہ بیعت کرنا چاہتا ہے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے
تذکار مهدی ) 464 روایات سید نا محمود فرمایا.بچے نے کیا بیعت کرنی ہے.اس کو کیا پتہ کہ احمدیت کیا ہے اور ہم کس غرض کے لئے مبعوث ہوئے ہیں مگر یہ پھر بھی میرے پیچھے پڑے رہے اور مجھے کہتے رہے کہ جا کر کہو اس نے بیعت کرنی ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے اجازت دی اور فرمایا اسے جا کر گھر میں لے آؤ.چنانچہ میں انہیں اپنے گھر لے گیا.جہاں تک مجھے یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس وقت کوئی تصنیف فرما رہے تھے.آپ نے اس بچے کو دیکھا.اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کوئی بات کی جو اس وقت مجھے یاد نہیں اور پھر ہم چلے آئے.اس کے یہ معنی تھے کہ گویا انہیں گھر میں آنے کا پاسپورٹ مل گیا.پھر میں بھی بڑا ہوا اور وہ بھی بڑے ہوئے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دستی بیعت کر لی.پھر خدا کی قدرت وہ علی گڑھ گئے.1907 ء میں ایک سٹرائیک میں شریک ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر سخت ناراض ہوئے اور آپ نے بدر اور الحکم میں ان کے اخراج کا اعلان کر دیا.بعد میں ان کے ابا نے انہیں کہا کہ جاؤ اور معافی مانگو.چنانچہ انہوں نے معافی مانگی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں معاف کر دیا.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 506 تا 508) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب اور علی گڑھ علی گڑھ کالج کے منتظمین کے خلاف ایک مرتبہ لڑکوں نے مظاہرے کیسے اور نعرے لگائے تو ہمارے بھتیجے مرزا عزیز احمد بھی ان سے مل گئے.وہ اس وقت نوجوان تھے اور طالب علمی کی زندگی تھی.لڑکوں کو شکایت تھی کہ روٹی اچھی نہیں ملتی.اس لئے مظاہرے اور ہڑتال کرنے لگے اور مرزا عزیز احمد صاحب بھی ان میں شامل ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس فعل کو اس قدر نا پسند کیا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو جماعت سے خارج کر دیا.اللہ تعالیٰ مرزا سلطان احمد صاحب کی مغفرت فرمائے.وہ گو اس وقت غیر احمدی تھے مگر جب سنا کہ مرزا عزیز احمد کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت سے خارج کر دیا ہے تو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا کہ میں تم سے خوش ہو کر تب بولوں گا جب تم پھر بیعت کر کے آؤ گے.خیر وہ ایک بچپن کا ابتلاء تھا جو جاتا رہا.پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی.فراست دی اخلاص اور انہوں نے اپنی بہت سی اصلاح کرلی.تو اس قسم کے افعال سلسلہ کی روایات اور تعلیم کے بالکل خلاف ہیں اور ایک ایسے ہی فعل کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے پوتے کو
تذکار مهدی ) 465 روایات سید نا محمود جماعت سے خارج کر دیا تھا حالانکہ اس کا وہ فعل نظام سلسلہ کے خلاف نہ تھا بلکہ علی گڑھ کالج کے چند افسروں کے خلاف تھا.خطبات محمود جلد 21 صفحہ 316-315) مولوی محمد حسین بٹالوی کے ذریعہ تبلیغ " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست جو بہت بڑے شاعر تھے.لغت کی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کی دو تین جلد میں شائع ہو چکی ہیں.ریاست رام پور ان کو اس کام کے لئے وظیفہ دیا کرتی تھی قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملے آپ نے ان سے پوچھا آپ کو ہمارے سلسلے کی طرف کیسے توجہ پیدا ہوئی ؟ انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کے ذریعہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یا کس طرح ؟ انہوں نے عرض کیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا رسالہ ” اشاعۃ السنتہ ہمارے ہاں آیا کرتا تھا میں یہ تو جانتا ہی تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بہت بڑی شہرت رکھنے والے اور سارے ہندوستان میں مشہور ہیں مگر ان کے رسالہ کو دیکھ کر بار بار میرے دل میں خیال آتا کہ اگر ان کے دل میں اسلام کا واقعی درد تھا تو انہیں چاہئے تھا کہ مدر سے جاری کرتے قرآن اور حدیث کے درس کا انتظام کرتے ، لوگوں کو اسلامی احکام پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتے مگر انہیں یہ کیا ہو گیا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر بس ایک بات کی طرف ہی متوجہ ہو گئے ہیں اور دن رات احمدیت کی مخالفت کرتے رہتے ہیں اس میں ضرور کوئی بات ہے.چنانچہ مجھے ان کی مخالفت سے تحقیق کا خیال پیدا ہوا اور میں نے کسی شخص سے اپنے اس شوق کا اظہار کیا اس نے مجھے درنمین پڑھنے کے لئے دی.میں نے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں جب آپ کا کلام دیکھا تو میں نے کہا لو پہلا جھوٹ تو یہیں نکل آیا کہ کہا جاتا تھا مرزا صاحب رسول کریم ہے کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ جو عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے دل میں پایا جاتا ہے اس کی موجودہ زمانہ میں نظیر ہی نہیں ملتی.اس کے بعد میں نے مزید تحقیق کی اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ احمدیت سچی ہے.اسی طرح ہر سال مجھے دس ہیں خطوط ضرور ایسے آ جاتے ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ جب ہم نے احمدیت کی مخالفت میں کتابیں پڑھیں تو ہمارے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہم جماعت احمدیہ کی کتابیں بھی پڑھ کر دیکھیں.چنانچہ ہم نے آپ وو
تذکار مهدی ) 466 روایات سید نا محمود کی کتب کا مطالعہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ بچے عقائد وہی ہیں جو آپ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.لوگوں کی طرف سے مخالفت میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے اس لئے ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحہ 145) ہم آپ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی سب سے بڑا معترف تھا ایک فرانسیسی مصنف لکھتا ہے.میں نے بیسیوں کتابیں پڑھی ہیں جن میں لکھا ہے کہ محمد (ﷺ) جھوٹا ہے مگر میں ان کتابوں کو کیا کروں جبکہ میں دیکھتا ہوں کہ محمد (ﷺ ) أن لوگوں میں جو غریب، وحشی اور غیر تعلیم یافتہ ہیں ایک کچے مکان میں بیٹھا ہوا جو چھوٹا سا کمرہ ہے اور مسجد کے نام سے مشہور ہے اور جس کی چھت پر کھجور کی ٹہنیاں بغیر صاف کئے پڑی ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو اتنا پانی ٹپکتا ہے کہ سجدہ پانی میں کرنا پڑتا ہے ، ایسے لوگوں میں جن میں سے کسی کے پاس بھی سارائن ڈھانکنے کے لئے کپڑا نہیں ، یہ مشورہ کر رہا ہے کہ ساری دُنیا کوکس طرح فتح کرنا چاہئے اور پھر ایسا کر کے بھی دکھا دیتا ہے.وہ مصنف کہتا ہے لاکھوں صفحوں کے مقابلہ میں جب میں اس واقعہ کو دیکھتا ہوں تو سب باتیں حقیر معلوم ہوتی ہیں.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ کیا تھا اُسی وقت اُمراء اور بادشاہ آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے تو کیونکر ثابت ہوتا کہ آپ کو جو کامیابی حاصل ہوئی وہ خدا کا فعل تھا ، وہ تو اُمراء اور بادشاہوں کا فعل سمجھا جاتا.مگر جب آپ نے دعوی کیا تو سب بھائی بند اور عزیز رشتہ دار آپ کے دشمن ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سب سے بڑا دوست اور آپ کے علم اور معرفت کا سب سے بڑا معترف مولوی محمد حسین بٹالوی تھا اُس نے اعلان کر دیا کہ آپ کا دماغ بگڑ گیا ہے.میں نے اسے بڑھایا تھا ہمیں ہی اسے گراؤں گا.ساری دُنیا کے علماء نے آپ کا مقابلہ کیا.عرب اور عجم سے آپ کے خلاف فتوے منگائے گئے مگر باوجود دُنیا کی اس قدر مخالفت کے آپ اکیلے اُٹھے اور کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ میرے ساتھ کوئی آدمی نہیں اور ساری دُنیا میری دشمن بن گئی ہے مگر میں اُس آواز کو کیا کروں جو مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے سنائی دے رہی ہے کہ!.دُنیا میں ایک نذیر آیا پر دُنیا نے اُسے قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.
تذکار مهدی ) 467 روایات سید نا محمود میں اُس آواز کا کس طرح انکار کر دوں.اُس وقت گورنمنٹ بھی آپ کی مخالف تھی اور تمام لوگ بھی دشمن تھے مگر نتیجہ کیا نکلا؟ وہ ایک طرف تھا اور ساری دُنیا دوسری طرف.مگر یہ اتنے لوگ اس کے شکار پکڑے ہوئے یہاں بیٹھے ہیں اور یہ تو اس جگہ کا نظارہ ہے باہر لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں.(انوار العلوم جلد 9 صفحہ نمبر 211) صبح کی نماز کے بعد استراحت فرمانا صوفیاء میں یہ عام رواج رہا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کیلئے سو جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر تک استراحت فرماتے.(تفسیر کبیر جلد نم صفحہ 54) گول کمرہ پہلا مہمان خانه گول کمره......جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی سے پہلے مہمانوں کے لئے اور اپنے آرام کے لئے بنوایا تھا.ہم چھوٹے چھوٹے تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور اگر مجالس مسجد میں نہ الفضل 27 جولائی 1933 ء جلد 21 نمبر 4 صفحہ 6) فرماتے تو وہاں بیٹھتے.ہزاروں لوگ میرے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں ایسا عظیم الشان خزانہ جو کبھی ختم نہ ہو اور جس کا ملنا یقینی ہو اس کے لئے چھوٹی چھوٹی باتوں میں پڑ کر کوشش نہ کرنا کتنی بڑی نادانی تھی.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے سب کچھ چھین لیا اور اسی طرح صحابہ سے بھی چھین لیا مگر خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں انہوں نے کسی بات کی پرواہ نہ کی آخر خدا تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دیا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی خدا تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑا اور باوجود اس کے کہ اپنے خاندان میں نصف حصہ کے مالک تھے آپ کی بھاوج جنہیں خدا تعالیٰ نے بعد میں احمدی ہونے کی توفیق دی سمجھتی تھی کہ آپ مفت خورے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو سب کچھ دیا اس حالت کا نقشہ آپ نے اس طرح کھینچا ہے.
تذکار مهدی ) 468 روایات سید نا محمود لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ اكلي وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الاهَالِي کہ ایک زمانہ تھا جب میں دوسروں کے ٹکڑوں پر بسر اوقات کرتا تھا مگر اب خدا نے مجھے یہ توفیق دی ہے کہ ہزاروں لوگ میرے دستر خوان پر کھانا کھاتے ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اس کے لئے سب کچھ چھوڑتا ہے اسے وہ ضائع نہیں کرتا.پس کسی نقصان یا خوف کی وجہ سے تقویٰ کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے.ابتدائی عمر سے ہی کمزور صحت ( خطبات محمود جلد 11 صفحہ 313,314) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحت شروع سے ہی اتنی کمزور تھی کہ بعض دفعہ بیماری کے حملوں کے وقت ارد گرد بیٹھنے والوں نے سمجھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں.مگر باوجود اس کے آپ کہتے ہیں وہ زمانہ آنے والا ہے جب ماموریت کا دعویٰ کیا جائے گا.دوسرے یہ کہ لوگ مخالفت کریں گے یہ بات بھی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی.ورزش صحت کیلئے ضروری ہے ( حضرت مسیح موعود کے کارنامے.انوار العلوم جلد 10 صفحہ 120) پس خدام الاحمدیہ کا فرض ہے کہ اس قسم کی آوارگیوں کو خواہ وہ دماغی ہوں یا جسمانی روکیں اور دُور کریں.کھیلنا آوارگی میں داخل نہیں.ایک دفعہ مجھے رویا میں بتایا گیا ایک شخص نے خواب میں ہی مجھے کہا کہ فلاں شخص ورزش کر کے وقت ضائع کرتا ہے اور میں رویا میں ہی اسے جواب دیتا ہوں کہ یہ وقت کا ضیاع نہیں.جب کوئی اپنے قومی کا خیال نہیں رکھتا تو دینی خدمات میں پوری طرح حصہ نہیں لے سکتا.اس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سبق دیا تھا کیونکہ مجھے ورزش کا خیال نہیں تھا تو ورزش بھی کام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مونگریاں اور مگدر پھیرا کرتے تھے.بلکہ وفات سے سال دو سال قبل مجھے فرمایا کہ کہیں سے مونگر یاں تلاش کرو جسم میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.چنانچہ میں نے کسی سے لا کر دیں اور آپ کچھ دن انہیں پھیراتے رہے بلکہ مجھے بھی بتاتے تھے کہ اس اس رنگ میں اگر پھیری جائیں تو زیادہ مفید ہیں.پس
تذکار مهدی ) 469 روایات سید نا محمود ورزش انسان کے کاموں کا حصہ ہے.ہاں گلیوں میں بے کار پھر نا، بے کار بیٹھے باتیں کرنا اور بخشیں کرنا آوارگی ہے اور ان کا انسداد خدام الاحمدیہ کا فرض ہے.اگر تم لوگ دُنیا کو وعظ کرتے پھر ولیکن احمدی بچے آوارہ پھرتے رہیں تو تمہاری سب کوششیں رائیگاں جائیں گی.پس تمہارا فرض ہے کہ ان باتوں کو روکو، دکانوں پر بیٹھ کر وقت ضائع کرنے والوں کو منع کرو اور کوئی نہ مانے تو اُس کے ماں باپ ، اُستادوں کو اور محلہ کے افسروں کو رپورٹ کرو کہ فلاں شخص آوارہ پھرتا یا ( خطبات محمود جلد 20 صفحہ 76 ) فارغ بیٹھ کر وقت ضائع کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خوراک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہم نے دیکھا ہے.آپ کا یہ طریق تھا کہ جب آپ روٹی کھاتے تو روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تو ڑ کر اپنے منہ میں ڈال لیتے اور اس وقت تک کہ دانت اس کو چبا سکیں اچھی طرح چباتے رہتے.آپ کی عادت بڑا لقمہ لینے کی نہیں تھی بلکہ آپ ہمیشہ چھوٹا لقمہ لیتے اور جہاں اس پہلے لقمہ کو دیر تک چباتے رہتے وہاں روٹی کا ایک اور ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ میں ملتے چلے جاتے اور ساتھ ہی سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللهِ کہتے جاتے کچھ دیر کے بعد اس میں سے کوئی ٹکڑا سالن لگا کر منہ میں ڈال لیتے اور روٹی کے باقی ٹکڑے دستر خوان پر پڑے رہتے دیکھنے والے بعض دفعہ کہا کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام روٹی کے ٹکڑوں میں سے حلال اور حرام ذرے الگ الگ کرتے ہیں اور چونکہ روٹی کے بہت سے ٹکڑے آپ کے دستر خوان پر جمع ہو جاتے تھے اس لئے جب آپ کھانے سے فارغ ہو جاتے تو لوگ تبرک کے طور پر ان ٹکڑوں کو آپس میں تقسیم کر لیا کرتے تھے.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 19) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کم خوراک تھے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مومن ایک انتڑی سے کھاتا ہے تو کافر دس انتڑیوں سے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی غذا بہت کم تھی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپ بمشکل ایک پھل کا کھاتے تھے.یہ نہیں کہ بھوکے رہ کر ایسا کرتے تھے بلکہ آہستہ آہستہ رغبت سے استغناء پیدا ہوتے ہوتے یہ عادت ہو گئی تھی اور توجہ اور خیالات کی رو کے اس طرف
تذکار مهدی ) 470 روایات سید نا محمود سے ہٹ جانے سے آہستہ آہستہ کھانا بہت قلیل رہ گیا تھا.(خطبات محمود جلد 12 صفحہ 275) عربی ام الالسنه قرآن کریم تو ایک بہت بڑی چیز ہے.وہ خدا تعالی کا آخری کلام ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن کریم نازل ہوا ہے خاتم النبین اور سَيِّدِ وُلدِ آدم ہیں لیکن عام باتوں میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالی بعض دفعہ ایسا تصرف کرتا ہے کہ اعتراض کرنے والے کو فوراً پکڑ لیتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عیسائی آیا اور اس نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی زبان ام الالسنہ ہے.حالانکہ میکس مولر وغیرہ نے لکھا ہے کہ جو زبان ام الالسنہ ہوتی ہے وہ مختصر ہوتی ہے.پھر آہستہ آہستہ لوگ اس کو پھیلا دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم تو میکس مولر کے اس فارمولا کو نہیں مانتے کہ ام الالسنہ مختصر ہوتی ہے.مگر چلو بحث کو کو تاہ کرنے کے لئے ہم اس فارمولا کو مان لیتے ہیں اور عربی زبان کو دیکھتے ہیں کہ آیا وہ اس معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں.اس شخص نے یہ بھی کہا تھا کہ انگریزی زبان عربی زبان کے مقابلہ میں نہایت اعلیٰ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انگریزی نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے فرمایا اچھا آپ بتائیں کہ انگریزی میں ” میرے پانی کو کیا کہتے ہیں.اس نے کہا ”مائی واٹر.آپ نے فرمایا عربی زبان میں تو صرف ”مائی" کہنے سے ہی یہ مفہوم ادا ہو جاتا ہے.اب آپ بتائیں کہ مائی واٹر زیادہ مختصر ہے یا مائی.اب اگر چہ آپ انگریزی نہیں جانتے تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان پر ایسے الفاظ جاری فرما دیئے کہ معترض آپ ہی پھنس گیا اور وہ سخت شرمندہ اور لا جوب ہو گیا اور کہنے لگا کہ پھر تو عربی زبان ہی مختصر ہوئی.یہی حال قرآن کریم کا ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ آپ کو دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا.یعنی ہمیشہ ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا.جو قرآن کریم کو پڑھنے والے ہوں گے.اس سے سچا عشق رکھتے ہوں گے اور اس کی تفسیر کرنے والے ہوں گے.وہ دشمنوں کو ان کے حملوں کا ایسا جواب دیں گے کہ ان کا منہ بند ہو جائے گا.دوسرے اس نے قرآن کریم کے اندر الیسا مادہ رکھ دیا ہے کہ معترض جو بھی اعتراض کریں.اس کا جواب اس کے اندر موجود ہوتا ہے.گویا آپ کی حفاظت کے دوطریق ہیں.ایک انٹرنل (Internal) یعنی اندرونی ذریعہ ہے اور خود قرآن کریم میں یہ خصوصیت رکھ دی گئی ہے کہ اگر اُس کی کسی آیت پر اعتراض ہو تو دوسری آیات اس
تذکار مهدی 471 روایات سید نا محمود اعتراض کو رڈ کر دیتی ہیں.اور دوسرا ذریعہ ایکسٹرنل (External) ہے.یعنی ایسے مومن پیدا ہوتے رہیں گے جو دشمنوں کے اعتراضات کو رڈ کرتے رہیں گے.گویا اللہ تعالی بیرونی اور اندرونی دونوں ذرائع سے آپ کی حفاظت فرمائے گا.پھر فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ وہ کفار کو کامیابی کے مقام پر نہیں پہنچنے دیتا.وہ کسی طرح بھی حملہ کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو خدا تعالیٰ ان پر عذاب نازل کر کے انہیں تباہ کر دے گا یا مومنوں کو کھڑا کر دے گا جو اُن کے حملوں کا جواب دیں گے اور یا پھر وہ قرآن کریم میں پہلے سے ہی ایسا جواب رکھ دے گا جو دشمن کو جھوٹا ثابت کر دے گا.بہر حال کوئی ذریعہ بھی ہو اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ آپ کی حفاظت فرمائے گا.(الفضل 22 نومبر 1956 ء جلد 45/10 نمبر 274 صفحہ 3-2 ) قرآن میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.قرآن نے دعویٰ کیا اور چینج دیا ہے کہ اس میں ساری اخلاقی اور روحانی ضروریات موجود ہیں.لیکن اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہوا ہوتا تو ضرور تھا کہ بعض ضروری اخلاقی یا روحانی امور کے متعلق اس میں کوئی ارشاد نہ ملتا لیکن ایسا نہیں ہے.اس میں ہر ضرورت روحانی کا علاج موجود ہے اور اگر یہ سمجھا جائے کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کے غائب ہو جانے کے باوجود اس کے مطالب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی.تو پھر تو جن لوگوں نے اس میں کمی کی ہے وہ حق بجانب تھے کہ اُنہوں نے ایسے لغو حصہ کو نکال دیا جس کی موجودگی نَعُوذُ بِالله مِن ذلک قرآن کریم کے حُسن میں کمی کر رہی تھی.اگر وہ موجود رہتا تو لوگ اعتراض کرتے کہ اس حصہ کا کیا فائدہ ہے اور اسے قرآن کریم میں کیوں رکھا گیا ہے.مجھے اس عقیدہ پر ایک واقعہ یاد آ گیا.میں چھوٹا سا تھا کہ ایک دن آدھی رات کے وقت کچھ شور ہوا اور لوگ جاگ پڑے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آدمی کو بھیجا کہ جا کر دیکھو کیا بات ہے.وہ ہنستا ہوا واپس آیا اور بتایا کہ ایک دائی بچہ جنا کر واپس آرہی تھی کہ نانک فقیر اُسے مل گیا اور اُس نے اُس کو مارنا شروع کر دیا.اُس نے چیخنا چلا نا شروع کیا اور لوگ جمع ہو گئے.جب اُنہوں نے نانک سے پوچھا کہ تو اسے کیوں مار رہا ہے؟ تو اُس نے کہا کہ یہ میرے سترین کاٹ کر لے آئی ہے اس لئے اسے مار رہا ہوں.لوگوں نے اُسے کہا کہ -
تذکار مهدی ) 6472 روایات سید نا محمود تیرے سترین تو سلامت ہیں انہیں تو کسی نے نہیں کاٹا.تو حیران ہوکر کہنے لگا.اچھا ! اور دائی کو چھوڑ کر چلا گیا.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو قرآن کریم میں تغیر کے قائل ہیں.وہ غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم آج بھی ایک مکمل کتاب ہے اگر اس کا کوئی حصہ غائب ہو گیا ہوتا تو اس کے کمال میں نقص آ جاتا.( حضرت مسیح موعود کے کارنامے، انوارالعلوم جلد 10 صفحہ 146) دشمن کے اعتراضات کے جواب دینا سرسید احمد خاں صاحب نے بھی اپنے زمانہ میں عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب دیئے.پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کر دیا.جنہوں نے اتنے لمبے عرصے تک دشمن کا مقابلہ کیا کہ آپ کی وفات پر دشمنوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ آپ نے اسلام کا دفاع ایسے شاندار رنگ میں کیا ہے کہ آپ سے پہلے اور کسی مسلمان عالم نے اس طرح اسلام کا دفاع نہیں کیا.یہ " وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ: 68) کا ہی کرشمہ تھا.اللہ تعالیٰ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ اس نے آپ کو بہر حال بچانا ہے.جب دشمن نے تلوار سے حملہ کیا ہے تو اس نے اس کی تلوار کو کند کر دیا اور جب اس نے تاریخ سے حملہ کیا تو خدا تعالیٰ نے ایسے مسلمان کھڑے کر دیئے.جنہوں نے تاریخی کتب کی چھان بین کر کے دشمن کے اعتراضات کو رد کر دیا اور خود مخالفین کے بزرگوں کی تاریخیں کھول کر بتایا کہ وہ جو اعتراضات اسلام پر کر رہے ہیں.وہ ان کے اپنے مذہب پر بھی پڑتے ہیں اور جو حصہ قرآن کریم اور احادیث سے تعلق رکھتا تھا.اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صاف کر دیا.ان دنوں بھی اسلام کے خلاف بمبئی سے ایک کتاب ”مذہبی رہنما“ شائع ہوئی تھی.جس کی وجہ سے مسلمانوں میں بڑا جوش پیدا ہوا.خدا تعالی مذاق نہیں کرتا (الفضل 22 /نومبر 1956 ء جلد 45/10 نمبر 274 صفحہ 4 | لوگ نئے مسائل مذہب میں داخل کر رہے ہیں اور انہیں یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ یہ کتنی شرم کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست مہر نبی بخش صاحب تھے.وہ بٹالہ کے رہنے والے تھے بعد میں احمدی ہوئے اور نہایت مخلص احمدی
تذکار مهدی 6473 ☀ روایات سید نامحمود ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ مسئلہ نکالا کہ عربی زبان اتم الالسنہ ہے یعنی سب زبانیں اسی سے نکلی ہیں.مہر نبی بخش صاحب نے اس مسئلہ کو لے لیا اور اسی کام میں مشغول ہو گئے کہ ہم لفظ کا عربی زبان سے نکلا ہوا ہونا ثابت کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام تو لغت کے واقف تھے صرف ونحو کے واقف تھے.زبان کے واقف تھے.آپ جو مسئلہ نکالتے تھے علم کی بنا پر نکالتے تھے.جب آپ نے یہ کہا تھا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے تو اس سے آپ کی یہ مراد تو نہیں تھی کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ بڑھئی کا کام کس طرح کیا جائے یا اس میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ کھیتی باڑی کے کیا اصول ہیں.سب کچھ سے مراد یہ تھا کہ تمام ضروریات دین یہ قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن مہر نبی بخش صاحب نے خیال کر لیا کہ سب کچھ قرآن کریم میں موجود ہے.چنانچہ کسی نے ان سے کہہ دیا کہ آلو اور مرچوں کا قرآن کریم میں کہاں ذکر ہے.وہ کہنے لگے.اللؤلؤ والمرجان (جس کے معنی موتی اور مونگا کے ہیں) آلو اور مرچیں ہی ہیں اور کیا ہے.پس ایک طرف تو اتنا اندھیر ہے کہ بعض کے نزدیک خدا تعالیٰ کے قول کی طرح فقہاء کا قول بھی نہیں بدلتا اور دوسری طرف لوگ تغییر و تبدل کرتے رہتے ہیں.تو اندھیر مچا دیتے ہیں کوئی اصول اور قاعدہ نہیں ہوتا.حالانکہ اصل طریق وسطی ہے.انسان کو تغیر قبول کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.لیکن تغیر پیدا کرنا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.وہ جب چاہتا ہے تغیر پیدا کرتا ہے اور جب وہ تغیر پیدا کرتا تو دنیا اسے تغیر پیدا کرنے سے روک نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص قادیان آیا وہ مخلص احمدی تھا.اس نے کہا اگر حضرت مرزا صاحب کو کہا جاتا ہے کہ آپ ابرا ہیم ہیں، نوح ہیں، موسی" ہیں ، عیسی ہیں ، محمد ہیں.تو مجھے بھی خدا تعالیٰ ہر وقت ہی کہتا ہے کہ تو محمد ہے.لوگ اسے سمجھانے لگے.تو اس نے کہا خدا تعالیٰ کی آواز مجھے آتی ہے وہ خود مجھے کہتا ہے کہ تو محمد ہے.تمہاری دلیلیں مجھ پر کیا اثر کر سکتی ہیں.جب لوگ سمجھاتے سمجھاتے تھک گئے تو انہوں نے خیال کیا کہ بہتر ہے کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا جائے.چنانچہ انہوں نے حضرت خلیفہ اول سے درخواست کی کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کر کے وقت لے دیں.حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا اور آپ نے فرمایا اچھا اس شخص کو بلا لو.چنانچہ وہ شخص حضور کی خدمت میں لایا گیا اور اس نے کہا کہ خدا تعالیٰ مجھے ہر وقت یہ کہتا ہے کہ
تذکار مهدی ) 474 روایات سید نا محمودی تم محمد ہو.آپ نے فرمایا مجھے تو خدا تعالیٰ ہر وقت یہ نہیں کہتا.میں ابراہیم ہوں.موسیٰ ہوں.عیسی ہوں.لیکن جب وہ کہتا ہے کہ تم عیسی ہو تو وہ عیسی والی صفات بھی مجھے دیتا ہے.جب وہ کہتا ہے کہ تم موسیٰ ہو تو موسیٰ والے نشانات بھی مجھے دیتا ہے.اگر وہ آپ کو ہر وقت محمد کہتا ہے تو کیا وہ آپ کو قرآن کریم کے معارف لطائف اور حقائق بھی دیتا ہے یا نہیں.اس نے کہا دیتا تو کچھ نہیں.آپ نے فرمایا دیکھو کچے اور جھوٹے میں یہی فرق ہوتا ہے.اگر کوئی شخص بچے طور پر کسی کومہمان بناتا ہے تو وہ اسے کھانے کو دیتا ہے.لیکن اگر کوئی کسی سے مذاق کرتا ہے تو وہ یونہی کسی کو بلا کر اس کے سامنے خالی برتن رکھ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ پلاؤ ہے یہ زردہ ہے.خدا تعالیٰ مذاق نہیں کرتا.شیطان مذاق کرتا ہے.اگر آپ کو محمد کہا جاتا ہے اور پھر قرآن کریم کے معارف لطائف اور حقائق نہیں دیئے جاتے.تو ایسا کہنے والا شیطان ہے.خدا نہیں.خدا تعالیٰ اگر کچھ کہتا ہے تو وہ اس کے مطابق چیز بھی انسان کے آگے رکھ دیتا ہے.اگر آپ کے سامنے کوئی چیز نہیں رکھی جاتی تو آپ یقین کر لیں کہ آپ کو محمد کہنے والا خدا نہیں شیطان ہے.حقیقت یہ ہے کہ تغیر خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے.اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا تو لوگوں کی توجہ آپ ہی آپ، آپ کی طرف ہو گئی.یہ نہیں ہوا کہ کسی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوی سنا ہو اور اس نے آپ کو کوئی اہمیت نہ دی ہو.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت بھی بتارہی ہے کہ لوگ آپ کو اہمیت دیتے ہیں.پس ہماری جماعت کو اپنے اندر استقلال پیدا کرنا چاہیے.خدا تعالیٰ نے انہیں ایک عظیم الشان روحانی تغییر کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور عظیم الشان تغیر دلوں کی اصلاح سے ہی ہوسکتا ہے بیرونی اصلاح سے نہیں.الفضل 2 فروری 1961 ء جلد 50/15 نمبر 27 صفحہ 4-3 ) عربی زبان میں موسیقی پائی جاتی ہے یہ عربی زبان کی ایک خوبی ہے کہ اس میں ایک موسیقی پائی جاتی ہے اور کسی زبان میں یہ بات نہیں اور عربی کی اس خوبی کا بہترین نمونہ قرآن کریم نے پیش کیا ہے.دنیا کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جا سکے جس طرح کہ قرآن کریم پڑھا جا سکتا ہے.اردو ، انگریزی یا کسی اور زبان کی کوئی اور ایسی کتاب نہیں جس کی عبارت اس طرح پڑھی جا سکے جس طرح ہم ترتیل کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پڑھتے ہیں.اس کی
تذکار مهدی ) 475 روایات سید نا محمودی بجائے اگر انگریزی کی یہ عبارت ہم ترتیل کے ساتھ پڑھیں I will go there تو وہ اس قدر مضحکہ خیز ہو جائے گی کہ ہر سننے والا ہنس پڑے گا مگر عربی کے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کا اُتار چڑھاؤ بالکل نظم کا سا ہوتا ہے.اس کی حرکات اپنے اندر خصوصیات رکھتی ہیں اور جب تک ان کی اتباع نہ کریں یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا منہ چڑا رہے ہیں.اکسنٹ (ACCENT) پر جتنا زور عربی نے دیا ہے اور کسی زبان نے نہیں دیا.ہر لفظ کی اس کے اتار چڑھاؤ سے اچھی یا بری شکل بن جاتی ہے اور ان کی کمی بیشی سے معنی بھی بدل جاتے ہیں.مثلال کے معنی ضرور کے ہیں.لیکن اگر ذرا سا لمبا کر دیں اور لا کہیں تو اس کے معنی نہیں ہوں گے.تو حرکت کے ذرا چھوٹا بڑا کر دینے سے معنی بالکل بدل جاتے ہیں.قرآن کریم میں يَتَّقُونَ اور يَتَّقُون کے الفاظ آتے ہیں.اور يَتَّقُونَ کے معنی ہیں وہ ڈرتے ہیں اور يَتَّقُون کے معنی ہو جائیں گے وہ مجھ سے ڈرتے ہیں.تو زبر اور زیر کے فرق سے معنوں میں بہت سا فرق پڑ جائے گا.خدا تعالیٰ کی برکات کا نزول خطبات محمود جلد 21 صفحہ 39-38 ) | دنیا کو جو چیز نظر آتی ہے وہ تمہارے اعمال ہیں.اگر تم میں دیانت نہیں پائی جاتی ، کسی کی چیز کو واپس دینے میں تم بہانے بناتے ہو، کسی کو سودا دینے لگتے ہو تو کم تول کر دیتے ہو.تو تمہیں ہر شخص دیکھتا ہے اور تمہارے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ تمہارے اندرونے کی کیا حالت ہے.دنیا کے لیے تم کس حد تک مفید ہو یا مضر ہو.آخر دو ہی صورتیں ہیں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ سارا جھگڑا پیٹ کا ہے.اگر روٹی مل جائے تو سب کچھ ہے.مثلاً کمیونسٹ ہیں انہوں نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ہماری اصل غرض پیٹ کا بھرنا ہے.ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ خدا ہے ، نبی ہے یا کوئی کتاب ہے.ان کے نزد یک عقا ئد ، خوبصورت نظریات کے سوا اور کچھ نہیں.ان کے نزدیک یہ سب فضول باتیں ہیں.وہ محنت کر کے دو پیسے کما لیتے ہیں اور پیٹ بھر لیتے ہیں.یہی ان کی سب سے بڑی غرض ہے.دوسرے لوگ جو مذہب کو حقیقت دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ ہے تو ہمیں اُس نے کیا دیا ہے.بے شک ہمیں خدا تعالیٰ کی ہستی کی ضرورت ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ
تذکار مهدی ) 476 روایات سید نا محمودی موجود ہے تو اس نے ہمیں کیا فائدہ پہنچایا ہے.ہم نے دوسروں سے لڑائیاں کیں، چند عقائد بنالئے اور دوسروں سے جھگڑے مول لئے لیکن اس کا فائدہ کچھ بھی نہ ہوا.وہی دھوکا بازی، لڑائیاں ، بغض، کینے ، مار دھاڑ، فریب اور فساد دُنیا میں موجود ہیں.پھر ہمیں خدا تعالیٰ کا کیا فائدہ.اگر خدا ہوتا تو ہماری ان باتوں کا کوئی نتیجہ نکلتا.ٹھنڈے پانی کے قطرے سے جسم ٹھٹھر جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ پر ایمان لانے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اگر کسی کو کھوٹا پیسہ بھی مل جائے تو وہ اُس سے بھی ایک چھٹانک چنے خرید لیتا ہے لیکن خدا پر ایمان لانے سے اتنا فائدہ بھی لوگوں کو حاصل نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص تھا.اُس کے دماغ میں کوئی نقص پیدا ہوگیا تھا.انسان جس قوم سے تعلق رکھتا ہو اگر وہ پاگل ہو جائے تو وہ اُسی قوم کی باتوں کی سی باتیں سوچتا ہے.مثلاً جس قوم میں الہام پر زور ہو اُس کا فرد پاگل ہونے پر الہامی باتیں ہی سوچتا ہے.احمد یہ جماعت میں میں نے دیکھا ہے کہ جس کسی کا دماغ خراب ہو جاتا ہے وہ نبی اور ولی بن جاتا ہے.ہمارے مدرسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں ایک چپڑاسی تھا جس کا نام محمد بخش تھا.اس کے دماغ میں نقص پیدا ہوا تو اس نے کہنا شروع کر دیا کہ مجھے الہام ہوتا ہے.اس نے سکول کے لڑکوں سے کہا کہ مجھے مان لو.لڑکوں نے جواب دیا کہ ہم تمہیں کیوں مان لیں؟ وہ کہنے لگا تم نے مرزا صاحب کو بھی مانا ہے مجھے بھی مان لو.بعض لڑکوں نے کہا ہم نے مرزا صاحب کو اس لیے مانا ہے کہ آپ کے بعض نشانات دیکھے ہیں.اُس نے کہا میرے پاس بھی نشانات ہیں لڑکے باریکیاں نہیں سمجھتے.ایک لڑکے نے کہا مرزا صاحب انگریزی نہیں جانتے لیکن آپ کو انگریزی میں الہامات ہوتے ہیں.اس نے کہا مجھے بھی انگریزی میں الہام ہوتے ہیں.حالانکہ میں انگریزی نہیں جانتا.لڑکوں نے کہا اچھا کوئی الہام سناؤ.اس پر اُس نے کہا مجھے الہام ہوا ہے " آئی وٹ وٹ" I what what) اُس نے " آئی" D) اور وٹ (What) کے الفاظ سنے تھے.لیکن اُسے یہ پتا نہیں تھا کہ ان الفاظ کے معنے کیا ہیں.لڑکوں نے اُس کا نام ہی آئی وٹ وٹ رکھ دیا.پس قدرتی طور پر ہر ایک شخص یہ سوچتا ہے کہ اگر ہمیں خدا ملا ہے تو ہمیں کیا فائدہ پہنچا ہے.وہ شخص پاگل تھا اُس نے کہا مجھے خدا مل گیا ہے.لیکن ایک بچے کو بھی اتنی عقل ہوتی ہے کہ اگر خدا ملے تو اُس سے کچھ فائدہ ہونا چاہیے.
تذکار مهدی ) 477 روایات سیّد نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک احمدی تھا وہ پاگل ہو گیا اُس نے صوفیاء کی باتیں سنی ہوئی تھیں.اس لیے جب اُس کا دماغ خراب ہوا تو اُس نے یہی باتیں کہنی شروع کر دیں کہ میں نبی ہوں ، ولی ہوں، میں عرش پر نمازیں پڑھتا ہوں.وہ قادیان آگیا تھا.اُس کے دماغ پر یہ اثر تھا کہ وہ بڑا آدمی بن گیا ہے.خدا تعالیٰ اُسے موسیٰ اور عیسیٰ کہتا ہے اس لیے وہ مسجد میں نہیں آتا تھا.مہمان خانہ میں ہی رہتا تھا.لوگوں نے اُسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ شخص بیمار ہو گیا ہے اور کہتا ہے خدا تعالیٰ مجھے کہتا ہے کہ تو محمد بن گیا ہے، تو موسیٰ بن گیا ہے، تو عیسی بن گیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میاں ! اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں الہام ہوتا ہے کہ تم محمد بن گئے ہو تو کیا وہ محمد یت والی برکات بھی تمہیں دیتا ہے؟ یا جب وہ کہتا ہے کہ تم موسیٰ بن گئے ہو یا عیسی بن گئے ہو تو جو باتیں حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام کو ملی تھیں خدا تعالیٰ وہ باتیں تمہیں بھی دیتا ہے؟ وہ کہنے لگا خدا تعالیٰ دیتا تو کچھ نہیں صرف یہ کہتا ہے کہ تم محمد بن گئے ہو ، تم موسیٰ بن گئے ہو، تم عیسی بن گئے ہو.آپ نے فرمایا یہ شیطان ہے جو تمہیں ایسی باتیں کہتا ہے.جب خدا تعالیٰ کسی کو محمد کہتا ہے تو وہ محمد ﷺ کی برکات بھی اُسے دیتا ہے.وہ اگر کسی کو موسیٰ اور عیسیٰ کہتا ہے تو موسیٰ اور عیسی والی برکات بھی اُسے دیتا ہے.اصلح 12 جولائی 1953 ، جلد 6 نمبر 88 صفحہ 4-3 لمصل تکالیف کے وقت جھوٹے مدعی نبوت پیدا نہیں ہوتے اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سے ہیں جو اس نے جاری فرمائے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کی بارش نازل ہوتی ہے تو جہاں دانے اگتے ہیں، پھل اور سبزیاں پیدا ہوتی ہیں، درخت بڑھتے اور کھیتیاں لہلہاتی ہیں جن سے انسان فائدہ اٹھاتے ہیں، وہاں قسم قسم کی گندی روئید گیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.چنانچہ ہمارے ملک میں ایک ایسی ہی روئیدگی بکثرت ہوتی ہے جسے پنجابی میں پر بہیڑا کہتے ہیں.یہ اتنی جلدی پیدا ہو جاتا ہے کہ رات کو جس جگہ کچھ بھی نظر نہیں آتا بارش کے بعد دن چڑھنے تک وہاں بیسیوں پر بہیڑے پیدا ہو جاتے ہیں.یہ بالعموم روڑیوں یعنی میلے کے ڈھیروں پر اگتے ہیں.تو جہاں بارش کے بعد اچھی چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہاں گندی بھی پیدا ہو جاتی ہیں."
تذکار مهدی ) 478 روایات سید نا محمود یہی قانون خدا تعالیٰ کا روحانی بارش کے متعلق ہے.جب انبیاء آتے ہیں تو ان کی بعثت کے ساتھ کئی کمزور طبیعت کے لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید محض دعویٰ کر دینے سے ہی انسان اپنی بات منوا سکتا اور کامیاب ہو جاتا ہے.بعض دفعہ دانستہ اور بعض دفعہ نادانستہ طور پر ان مخفی خیالات کے ماتحت اس غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے مامور اور مرسل ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم کی وفات کے بعد قریب کے زمانہ میں ہی چھ سات مدعیان نبوت پیدا ہو گئے.جب تک تو آفات و مصائب کا زمانہ تھا اور مشکلات درپیش تھیں اس وقت تک کوئی مدعی نبوت نہ تھا.جب تک آپ مکہ میں تھے اور یہ نظارہ دکھائی دیتا تھا کہ مسلمانوں کو ماریں پڑ رہی ہیں، بائیکاٹ ہو رہے ہیں، گھر سے بے گھر کئے جاتے ہیں کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوا کیونکہ ان حالات میں دماغ میں یہ حسرت ہی پیدا نہیں ہو سکتی تھی کہ ہم بھی ایسے دعوے سے عزت حاصل کریں.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے فتوحات حاصل ہوئیں ، اسلام کو غلبہ عطا ہوا تو لالچی طبائع نے جھوٹ بنا کر یا اپنے گندے خیالات سے متاثر ہو کر یہ خیال کیا کہ ترقیات کی یہ آسان راہ ہے اور یہ بات ہی دراصل ایک بہت بڑا ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ یہ مدعی یا تو بناوٹ سے کام لیتے اور جھوٹ بولتے ہیں اور یا اپنے لالچ اور حرص کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں اور انہی خیالات کے زیر اثر ان کو ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں.تکلیف کے زمانہ میں کسی ایسے مدعی کا نہ ہونا ان کے باطل پر ہونے کا زبردست ثبوت ہے.مکہ کے زمانہ میں کوئی ایسا مدعی نہ تھا اور کوئی اس زندگی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھا کہ ماریں کھائے ، گھر سے نکالا جائے وغیرہ وغیرہ.اس وقت تک تو کسی کو یہ پتہ نہ تھا کہ رسول کریم مدینہ میں جائیں گے، اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوگی اور آپ دشمنوں پر غلبہ پائیں گے.اس لئے کسی کے دل میں بھی یہ جوش نہ پیدا ہوتا تھا کہ آپ کی مثل بنا جائے.لیکن جب کامیابیاں شروع ہوئیں تو بعض پاجیوں نے تو خدا تعالیٰ پر جھوٹ بنا کر اور بعض لالچی طبائع نے اپنے دماغی خیالات کے زیر اثر الہام وغیرہ کی بناء پر ایسے دعوے کرنے شروع کر دیئے.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا.آپ کے زمانہ میں بھی جس وقت تک تکالیف اور دکھوں کا زمانہ تھا کوئی مدعی نبوت پیدا نہیں ہوا لیکن جب کامیابیوں کا دور شروع ہوا تو کئی ایسے مدعی پیدا ہو گئے.بعض ایسے لوگوں نے جن کے نزدیک دنیوی عزت ہی اصل چیز ہوتی ہے یہ
تذکار مهدی ) 479 روایات سید نا محمود سمجھ لیا کہ ہم بھی دعوی کرتے ہیں اور اس طرح عزت پا جائیں گے.یا بعض کو ان کے خیالات نے متمثل ہو کر ایسے خواب دکھائے کہ وہ سمجھنے لگے کہ واقعی وہ مامور ہیں.یہ خواب وہی حیثیت رکھتے ہیں جیسے کہتے ہیں کہ بلی کو چھیچھڑوں کے خواب.چونکہ ان کے خیالات اس قسم کے ہوتے ہیں اس لئے ان کو خواب بھی ویسے ہی آنے لگتے ہیں.چراغ الدین جمونی اور ڈاکٹر عبد الحکیم وغیرہ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے اور یہ سب اسی زمانہ کی پیداوار ہیں جب جماعت کامیابی کے رستہ پر چل پڑی تھی.1892ء ، 1893 ء اور 1894ء میں کوئی ایسا مدعی نظر نہیں آتا.چونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب ماریں پڑتی تھیں، بائیکاٹ ہوتے تھے، دنیا کی لعن طعن سہنی پڑتی تھی.اس لئے کسی کو یہ لالچ اور حرص نہ پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی ایسا دعوی کریں لیکن کامیابی شروع ہوئی تو بعض لالچی طبائع نے اپنے خیالات کے نتیجہ میں آنے والے خوابوں کی بناء پر اور بعض نے جھوٹ ہی ایسے دعوے کرنے شروع کر دیئے.ایسے ہی ایک شخص کے متعلق ایک دوست نے مجھے ایک واقعہ سنایا جو اس نے خود ان سے بیان کیا تھا.یہ شخص بھی ان میں سے تھا جو بناوٹ سے دعویٰ نہیں کرتے بلکہ جن کے خیالات متمثل ہو کر الہام کی صورت اختیار کر لیتے ہیں.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر اشتہار دے دیا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات بے موقع ہوئی ہے وہ صحیح نہیں سمجھتے.مجھے الہام ہوا ہے کہ جماعت کو اس اس طرح ترقی ہونے والی ہے.حضرت خلیفہ اول نے حُسنِ ظنی سے کام لیتے ہوئے اور یہ سمجھ کر کہ اس شخص نے جھوٹ تو بنایا نہیں وہ الہام بھی شائع کر دیئے.اس سے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اب تو میرے الہام خلیفہ وقت نے بھی شائع کر دیئے اس لئے ان کو بہت اہمیت حاصل ہو گئی اور اس نے اپنی علیحدہ پڑی جہانی شروع کر دی اور اس نے خود اس دوست سے جس نے مجھے یہ بات سنائی کہا کہ ایک دفعہ انہی خیالات کی وجہ سے مجھے نماز میں ہنسی آگئی.میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مجھے خیال آیا کہ اس طرح مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوتے ہیں.اب مجھے بھی تائید و نصرت الہی حاصل ہوگی اور ترقیات حاصل ہوں گی.میرا گاؤں بھی قادیان کی طرح ترقی کرے گا یہاں بھی لنگر خانہ ہوگا ، انجمن قائم ہوگی، روپیہ آئے گا اور ہر طرف مجھے شہرت حاصل ہو گی.انہی خیالات میں اسے یہ یاد ہی نہ رہا کہ میں نماز میں کھڑا ہوں اور ہنسی آ گئی.یہ اس بات کی علامت تھی کہ اسے جو الہام وغیرہ ہوتے تھے وہ دراصل اس کی حرص اور
تذکار مهدی ) 480 روایات سید نا محمودی لالچ کا نتیجہ تھے.تو بعض لوگوں کو اپنے دماغی خیالات کے زیر اثر ایسے الہام بھی ہو جاتے ہیں جن کی بناء پر وہ ایسے دعوے کر دیتے ہیں اور بعض جھوٹ بولتے ہیں مگر یہ ہوتا اُسی وقت ہے جب وہ سلسلہ کی کامیابی کو دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ ایک کامیابی کا آسان راستہ ہے.خطبات محمود جلد 22 صفحہ 296 تا 299 ) | ایک عرب کی قادیان آمد دلوں کا کھولنا کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے دلوں کو خدا ہی کھول سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک عرب آیا یہ لوگ چونکہ عام طور پر سوالی ہوتے ہیں وہ جب کچھ دنوں کے بعد یہاں سے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود نے کرایہ کے طور پر اسے کچھ دیا مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا میں نے سنا تھا آپ نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا ہے اس لئے آیا تھا کچھ لینے کے لئے نہ آیا تھا.چونکہ یہ ایک نئی بات تھی کیونکہ اس علاقہ کا شاید اب تک کوئی ایسا شخص نہیں آیا جو سوالی نہ ہو اس بات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آپ کچھ دن اور ٹھہر جائیں وہ ٹھہر گیا اور بعض دوستوں کو آپ نے مقرر کیا کہ اسے تبلیغ کریں.کئی دن تک اس سے گفتگو ہوتی رہی مگر اسے کوئی اثر نہ ہوا آخر تبلیغ کرنے والے دوستوں نے حضرت مسیح موعود سے عرض کیا یہ بڑا جوشیلا ہے سوالی لوگوں کی طرح نہیں اسے صداقت کی طلب معلوم ہوتی ہے اس کے لئے دعا کی جائے.آپ نے دعا کی اور آپ کو بتایا گیا اسے ہدایت نصیب ہو جائے گی.خدا کی قدرت اسی رات کسی بات سے ایسا اثر ہوا کہ صبح اس نے بیعت کر لی اور پھر چلا گیا.حج کے موقعہ پر مجھے بتایا گیا کہ کئی قافلوں کو اس نے تبلیغ کی ایک قافلہ والے اسے مار مار کر بے ہوش کر دیتے تو ہوش آنے پر اٹھ کر دوسرے قافلہ کے پاس چلا جاتا اور تبلیغ کرتا.تو بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جب سینے کھولے تو کھلتے ہیں.ہماری ترقی کام کے مقابلہ میں بہت محدود ہے اور اس وقت تک محدود ہی رہے گی.جب تک ہم میں سے ہر ایک کو تبلیغ کے لئے وہ جنون نہیں پیدا ہو جاتا جس سے دنیا کا فتح ہونا وابستہ ہے ایک آگ لگی ہونی چاہئے اور لوگوں کے ہدایات پا جانے کے متعلق تڑپ ہونی چاہئے.جس سے وہ محسوس کریں کہ ہمارے دلوں میں ان کے لئے درد ہے.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 457)
تذکار مهدی ) گالیاں سن کے دعا دو 481 روایات سید نا محمود مجھے یاد ہے یہ خیال نہیں کہ میں خود اس مجلس میں موجود تھا یا نہیں لیکن سنا ہے ایک دوست تھے جن کی طبیعت بہت تیز تھی انہوں نے لاہور میں دوکان کی.وہاں کسی شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں سخت کلمہ کہا وہ اس سے لڑ پڑے کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کی شکایت کی.آپ نے نصیحت کی اور فرمایا ایسے موقع پر صبر سے کام لینا چاہئے اگر کوئی گالی بھی دے تو خاموش رہنا چاہئے.اس پر بجائے اس کے کہ وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھاتے طیش میں آکر کہنے لگے.مجھے تو آپ خاموش رہنے کی نصیحت کرتے ہیں لیکن جب آپ کے پیر ( مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی) کے خلاف کوئی کچھ کہے تو آپ کتا ہیں لکھ لکھ کر شائع کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے.گو یہ جواب غلط تھا لیکن انسانی فطرت کی بڑھی ہوئی کیفیت کا ایک نظارہ تھا.انسانی فطرت ایسے وقت میں جوش میں آجاتی ہے اور خدا کی پیدا کی ہوئی طاقتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض حالتوں میں جوش کا اظہار جائز ہوتا ہے ورنہ جب جوش کو انتہاء سے زیادہ دبایا جائے تو یا فساد پیدا ہوتا ہے یا بے غیر تی.پس میں نے اعلان کیا ہے اور اس پر قائم ہوں کہ ایسے لوگوں کو جوابات دیئے جائیں اور نہ صرف ان کو جوابات دیئے جائیں بلکہ ہمارے سلسلہ کے علماء کو چاہئے کہ اور بھی مختلف اعتراضات کے جوابات دیا کریں جو آریوں اور عیسائیوں کی طرف سے اسلام پر کئے جاتے ہیں اور اسلام کی تائید میں مضامین لکھیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہمارے اخلاق دوسروں سے بہت بلند و بالا ہونے چاہئیں.خطبات محمود جلد 11 صفحہ 478,479) ابوسعید عرب کا قادیان آنا مجھے اس امر کی ایک مثال یاد آئی ہے کہ کس طرح بعض لوگ نرمی سے ہر قسم کا کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں.مگر ذراسی سختی کو برداشت نہیں کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں یہاں ایک شخص جو عرب کہلاتے تھے آئے.وہ رہنے والے تو بر ما کے تھے مگر عرب کہلاتے تھے.ابوسعید ان کا نام تھا.وہ یہاں رہے مگر بعد میں کچھ ابتلاء آیا.اور چلے گئے پھر سیاسی آدمی بن گئے اور ہندوستان سے شائد ترکی چلے گئے اور غالباً وہیں فوت ہو گئے.
تذکار مهدی 482 روایات سید نا محمود بہر حال پھر کبھی ان کا ذکر نہیں سنا.وہ بڑے اخلاص سے یہاں آئے تھے.مگر بعد میں بعض باتوں کی وجہ سے ابتلاء آ گیا.اور چلے گئے.جب آئے تو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر گورداسپور میں ایک مقدمہ شروع ہو گیا.جو مولوی کرم دین کے مقدمہ کے نام سے مشہور ہے.اس کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اکثر گورداسپور جانا پڑتا تھا اور آپ بعض اوقات دس دس پندرہ پندرہ دن بلکہ مہینہ مہینہ وہاں رہتے تھے.وہ بھی ساتھ رہتے اور خواجہ کمال الدین صاحب اور دوسرے لوگ جو مقدمات کا کام کرتے تھے ان سے خوب خدمت لیتے تھے اور وہ بڑی خدمت کرتے تھے.حتی کہ مجھے بعض لوگوں نے سنایا کہ وہ ان کے پاخانہ والے پاٹ بھی دھو دیتے تھے.حالانکہ وہ کسی زمانہ میں اچھے تاجر اور آسودہ حال آدمی رہ چکے تھے لیکن ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں تشریف فرما تھے میں بھی وہیں تھا.خواجہ صاحب آئے شاید اپنے لئے یا شاید ان کے ساتھ کوئی ایسا آدمی تھا جس سے وہ اچھا سلوک کرنا چاہتے تھے.انہوں نے آتے ہی کہا کہ عرب صاحب وہ چٹائی گھسیٹ کر ادھر لے آئے مگر خواجہ صاحب کا لہجہ قدرے تحکمانہ تھا اور طریق خطاب میں کچھ حقارت کا رنگ بھی تھا.اس لئے ان کے جواب میں عرب صاحب نے باوجود یکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی وہیں تشریف رکھتے تھے.بڑے جوش سے کہا کہ کیا میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں.گویا جو شخص محبت سے پاخانہ تک اٹھا دیتا تھا جب اسے خطاب کرتے وقت حکومت کا رنگ آیا تو اس کی فطرت نے بغاوت کی اور اس نے بڑے جوش سے کہا کہ کیا میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں.اس کے بالمقابل بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ محبت سے نہیں مانتے.مگر جب ان کو مارا جائے تو بڑے فرمانبردار ثابت ہوتے ہیں.مگر جونہی ان سے نرمی کا برتاؤ کیا جائے فوراً بگڑ جاتے ہیں.اس کی بھی ایک مثال مجھے یاد آ گئی ہے وہ شخص ابھی زندہ ہے جب وہ بچہ تھا اور غالباً یتیم تھا.ہمارے نانا جان مرحوم اس جوش میں کہ اسے پالیں گے اور اس طرح ثواب حاصل کریں گے اسے گھر میں لے آئے اور باوجود یکہ آپ کی طبیعت بڑی جوشیلی تھی ثواب حاصل کرنے کے شوق میں اس کی بہت خاطر و مدارت کرنے لگے.اسے کھلائیں، پلائیں، اس کے لئے بستر کریں اور پھر اسے سلائیں.ایک دو روز تو وہ ٹھیک طرح کھاتا پیتا رہا مگر تیسرے چوتھے روز اس نے بگڑنا شروع کیا.میر صاحب مرحوم اسے کہیں کھانا کھا لو تو وہ کہے میں نہیں کھاؤں گا.
تذکار مهدی ) 483 روایات سید نا محمود نماز کے لئے چلو تو کہے نہیں جاؤں گاشی کہ اس نے کھانا چھوڑ دیا.اب میر صاحب مرحوم کھانا لے کر بیٹھے ہیں کہ میاں کھا لو بڑی خوشامد کر رہے ہیں مگر وہ یہی کہتا جاتا ہے کہ نہیں میں نہیں کھاؤں گا.شام کے کھانے کا وقت اس طرح گزرا اور اس نے نہ کھایا.صبح ہوئی تو پھر آپ نے اسی طرح اس کی خوشامد شروع کی کہ میاں فضل الہی کھانا کھا لو تمہیں اچھے اچھے کپڑے بنوا دیں گے، یہ لے دیں گے، وہ لے دیں گے مگر اس نے ایک نہ مانی اور اپنی ضد پر اڑا رہا اور اس طرح دوسرا وقت بھی فاقہ سے ہی رہا.تیسرا وقت آیا تو پھر یہی حالت رہی.بہت منت خوشامد کی مگر اس نے ایک نہ مانی.نانا جان مرحوم کی طبیعت جو شیلی تو تھی ہی آخر ان کو جلال آ گیا اور انہوں نے سوئی لے کر کہا کہ کھاتا ہے یا نہیں؟ جب اس نے دیکھا کہ آپ مارنے لگے ہیں تو جھٹ کہنے لگا کہ میں کھانا کھا لیتا ہوں.تین وقت کی منت و سماجت سے تو نہ کھایا مگر جب دیکھا کہ مار پڑنے لگی ہے تو جھٹ کھا لیا اور اس دن سے خوش رہنے لگا.الیگزنڈرویب کے ذریعہ امریکہ میں تبلیغ ( خطبات محمود جلد 22 صفحہ 133 تا 135 ) حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں مہدی کی علامت یہ ہوگی.اس وقت سورج مغرب کی طرف سے چڑھے گا.اسی طرح قرآن کریم میں بھی اس بارہ میں بہت سے اشارے پائے جاتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام جو مسیح ناصرٹی کو ماننے والی ہیں.ایک دن عیسائیت سے بیزار ہو کر اسلام کی طرف مائل ہونا شروع کر دیں گی اور پھر واقعات نے بھی ان پیشگوئیوں کو ثابت کر دیا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں امریکہ میں سب سے پہلے ایک انگریز نے اسلام قبول کیا.الیگزنڈر رسل ویب اس کا نام تھا اور امریکن ایمبسی میں فلپائن میں کام کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انگریزی اشتہارات کی جب یورپ اور امریکہ میں اشاعت ہوئی تو اس کے دل میں اسلام قبول کرنے کی تحریک پیدا ہوئی اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خط و کتابت شروع کر دی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہو گیا اور اسلام کی اشاعت کے لئے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی.بعد میں وہ ہندوستان میں بھی آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس نے ملنے کی خواہش کی.مگر مولویوں نے اسے کہا کہ اگر تم مرزا صاحب سے ملے تو مسلمان تمہیں چندہ نہیں دیں گے.چنانچہ وہ ان کے بہکانے کے نتیجہ میں
تذکار مهدی ) 484 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے نہ ملا.مگر آخر بہت مایوسی سے وہ یہاں سے واپس گیا کیونکہ اسے کہا گیا تھا کہ دوسرے مسلمان تمہاری بہت مدد کریں گے اور تمہیں اشاعت اسلام کے لئے بڑا چندہ دیں گے.مگر دوسرے مسلمانوں نے اس کی کوئی مدد نہ کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے قریب اس نے آپ کو خط لکھا کہ میں نے آپ کی نصیحت کو نہ مان کر بہت دکھ اٹھایا ہے.آپ نے مجھے بر وقت بتایا تھا کہ مسلمانوں کے اندر خدمت دین کا کوئی جوش نہیں پایا جاتا.مگر میں نے اسے نہ مانا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں آپ کی ملاقات سے محروم ہو گیا.بہر حال وہ آخر وقت تک مسلمان رہا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس کے مخلصانہ تعلقات قائم رہے.تو سب سے پہلا مسلمان امریکہ میں ہی ہوا تھا.اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی یورپین ملکوں کی نسبت امریکہ میں سب سے زیادہ ہو رہی ہے.بعض یورپین ممالک میں بھی احمدیت پھیل رہی ہے اور وہ بھی مغربی علاقے ہی ہیں.مگر امریکہ میں ترقی کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں.محبت الہی تعلق باللہ الفضل 21 اگست 1957 ء جلد 46/11 نمبر 196 صفحہ 2 | انسان کی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے اور اس کی فطرت میں یہ بات مرکوز کر دی گئی ہے کہ وہ کسی کا ہو ر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پنجابی کا ایک مصرع سُنایا کرتے تھے.جس کا مفہوم یہ تھا کہ یا تو تو کسی کا ہو جایا کوئی تیرا ہو جائے.پس خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے.یعنی ہم نے اُسے ایسی حالت پر پیدا کیا ہے کہ وہ سوائے اس کے چین پا ہی نہیں سکتا کہ وہ کسی کا ہور ہے.بیشک جب تک اسے اصل چیز نہیں ملتی اُس وقت تک وہ کبھی بیوی کا ہو رہتا ہے کبھی بہن بھائی کا ہو رہتا ہے، کبھی ماں باپ کا ہو رہتا ہے، کبھی دوستوں کو ہو رہتا ہے اور اس طرح وہ درمیان میں بھولتا پھرتا ہے.مگر جب خدا تعالیٰ کے ملنے کا راستہ اُس پر کھل جاتا ہے.تو پھر وہ خدا تعالیٰ کا ہی ہو جاتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم 324) حضرت اقدس کی بردباری حضرت صاحب کی طبیعت میں کتنی بردباری تھی مگر آپ نے اس وجہ سے باہر لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا کہ ایک شخص نے کئی چیزیں ساگ ، فرنی، زردہ شور با وغیرہ ملا کر کھایا.
تذکار مهدی ) 485 روایات سید نامحمودی فرماتے تھے کہ اس سے مجھے اتنی نفرت ہوئی کہ قے آنے لگی.اس کے بعد آپ نے باہر کھانا کھانا چھوڑ دیا اور اس طرح لوگ اس فیض سے محروم ہو گئے جو آپ کے ساتھ کھانا کھانے کے وقت انہیں حاصل ہوتا تھا.پھر حضرت صاحب فرماتے اور میری طبیعت میں بھی یہ بات ہے اگر اُسترے سے سر کو منڈوا کر کوئی سامنے آئے تو بہت بُرا لگتا ہے اور مجھے تو اسے دیکھ کر سر درد شروع ہو جاتی ہے.تو ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہواور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں.( ہدایات زریں.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 585 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بال لمبے تھے ایک دفعہ مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے ) نائب ایڈیٹر الفضل نے عرض کیا سنا ہے کہ حضرت صاحب کے بھی لمبے بال تھے اور کہ شیخ غلام احمد صاحب (نومسلم ) کہا کرتے ہیں کہ 1881ء یا 1882ء میں میں نے جب لدھیانہ میں حضرت صاحب کو پہلے پہل دیکھا تھا اس وقت حضور کے بال لمبے تھے اور سر پر فقیرانہ وضع کی ٹوپی تھی.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے فرمایا ”ہاں حضرت صاحب کے بال لمبے تھے اور پہلے ہندوستانی ٹوپی استعمال فرماتے تھے اور گلاہ بھی پہنتے تھے.جو آج کل کا سا چھوٹا نہیں ہوتا تھا بلکہ لمبا ہوتا تھا اور غرارہ بھی استعمال فرماتے تھے.(الفضل 7 نومبر 1921ءجلد 9 نمبر 36 صفحہ 5) انگریزی اور عربی زبان کا مقابلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک مرتبہ ایک پادری آیا اس نے کہا کہ عربی زبان کوئی ایسی زبان نہیں کہ جس میں خدا کا کلام نازل ہو.یہ تو بدؤوں کی زبان ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں خدا تعالیٰ کا کلام بیان کرنے کی جو استعداد عربی زبان میں ہے وہ کسی اور زبان میں نہیں مگر اس پادری کا دعویٰ تھا کہ انگریزی کا مقابلہ عربی زبان ہرگز نہیں کر سکتی.آپ نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو بیان کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ زبان ایسی ہو جو بڑے سے بڑا مضمون چھوٹے سے چھوٹے الفاظ میں ادا کر سکے.اس نے کہا ہاں انگریزی میں ہی خصوصیت ہے.آپ نے فرمایا اچھا اگر میرا پانی " کہنا ہو تو انگریزی میں کیا کہیں گے؟ اس نے کہا مائی واٹر.آپ نے فرمایا عربی میں صرف مائی کہ دینا کافی ہوگا.گویا انگریزی میں واٹر 66
تذکار مهدی ) 486 روایات سید نا محمودی زائد ہے.آپ کا یہ فرمانا بالکل خدائی تصرف کے ماتحت تھا ورنہ آپ تو انگریزی جانتے ہی نہ تھے.اللہ تعالیٰ نے ہی آپ کے منہ سے ایسا فقرہ کہلوا دیا جس سے عربی کا اختصار انگریزی کے مقابلہ میں واضح ہو گیا.حالانکہ شاذ کے طور پر کوئی ایسا فقرہ بھی ہو سکتا ہے جس کا انگریزی ترجمہ عربی سے مختصر ہو مگر آپ کے منہ سے اسی فقرہ کا نکلنا تصرف الہی کے ماتحت تھا.پھر یہ بھی تصرف ہی کے ماتحت تھا کہ ایسا فقرہ آپ کے منہ سے نکلا کہ جس کا آدھا حصہ ہی عربی میں انگریزی کے پورے فقرے کے معنی دیتا ہے.تو عربی زبان میں کئی خصوصیات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی نثر ترتیل کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہے اور زبانوں میں یہ بات نہیں.ان کو اگر اس رنگ میں پڑھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ منہ چڑایا جا رہا ہے.ایمان تو بُڑھیا کا سا ہونا چاہئے (خطبات محمود جلد 21 صفحہ 39) یاد رکھنا چاہئے کہ جب تک عورتوں میں بیداری نہ پیدا ہو اس وقت تک مردوں کے لئے ترقی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے.عورتوں کا ایمان بہت مستقل ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے عورت کو اتنا فکر نہیں دیا جتنے جذبات دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان تو بڑھیا کا سا ہونا چاہئے.سارا دن دلائل دیتے رہو سب کچھ سن سنا کر کہہ دے گی وہی بات ٹھیک ہے جو میں مانتی ہوں.مؤمن کو بڑھیا کی طرح تو نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بات تسلیم ہی نہ کرے لیکن اس کا ایمان ایسا ہونا چاہئے کہ کوئی چیز اسے ہلا نہ سکے.غرض عورتوں کا ایمان قابل تعریف ہوتا ہے ان میں جہالت بھی زیادہ ہوتی ہے مگر ایمان میں بھی بہت پختہ ہوتی ہیں میں نے کئی بار سنایا ہے میراثی قوم کی ایک عورت تھی جو گانے بجانے کا کام کرتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں وہ یہاں اپنے لڑکے کو لائی جو عیسائی ہو گیا تھا اور گفتگو میں مولویوں کے منہ بند کر دیتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے نصیحت کی مگر وہ بھی کچھ ایسا پکا تھا کہ ایک دن موقع پا کر باوجود یکہ مسلول تھا رات کو بھاگ گیا جب اس کی ماں کو پتہ لگا تو اس کے پیچھے گئی اور بٹالہ سے پکڑ کر پھر لے آئی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رو رو کر کہتی کہ ایک بارا سے کلمہ پڑھا دیں پھر خواہ مر ہی جائے.آخر خدا تعالیٰ نے اس کی زاری کو قبول کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس کا لڑکا مسلمان ہو گیا پھر مر گیا تو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کا طبقہ یونہی نہیں
تذکار مهدی ) 487 روایات سید نا محمود بنایا.جہاں فکر ، جرأت اور بہادری کا تعلق مرد کے دماغ سے ہے وہاں صبر و استقلال کا تعلق عورت کے دماغ سے ہے.بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 566 ) بس اللہ اور رسول کی باتیں تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں کچھ مدت تک سلسلہ تقاریر جاری رکھا.ایک دن آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان لینا چاہئے تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ ہماری باتوں کو بجھتی ہیں یا نہیں.ایک عورت جو بڑی مخلصہ تھیں اور نا بھہ کی رہنے والی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم ہماری تقریریں سنتی رہی ہو.اس نے کہا جی ہاں روزانہ تقریر سنتی رہی ہوں میں یہاں آئی ہی اس غرض کے لئے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اچھا بتاؤ میں کیا بیان کرتا رہا ہوں.اس نے جواب دیا بس اللہ اور رسول کی باتیں تھیں اور کیا تھا.یہ جواب جو اس عورت نے دیا اس کی وجہ یہی تھی کہ اندرونی علم اس کے اندر نہیں تھا اس نے صرف خارجی علم پر انحصار رکھا اور سمجھا کہ میں بہت کچھ سمجھ رہی ہوں حالانکہ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں رہی تھی.تو اندرونی علم کے بغیر کبھی کوئی شخص کسی بات کو صحیح طور پر دوسروں تک نہیں پہنچا سکتا جب بھی کوئی بات بیان کی جاتی ہے ہمیشہ اس کے کچھ پہلو چھوڑنے پڑتے ہیں اگر سارے پہلو بیان کئے جائیں تو چند باتوں میں ہی عمر گزر جائے اور علوم کا بہت سا حصہ نامکمل رہے.یہی وجہ ہے کہ آج تک کبھی کسی شخص نے بیاں کامل نہیں کیا جو کچھ بیان کیا جاتا ہے.ایک بیج کے طور پر ہوتا ہے جس سے ہر شخص اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے.عورتوں میں درس ( تفسیر کبیر جلد نهم صفحه 128-127 ) احمدیت کے مسائل جب تک بار باران کے سامنے بیان نہ کیے جائیں وہ سمجھ ہی نہیں سکتے.احمدیت کیا چیز ہے.بلکہ بعض لوگ تو باوجود سمجھنے کے بھی نہیں سمجھ سکتے.حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں درس دینا شروع کیا.ایک خاتون جو کہ نابھہ سٹیٹ
تذکار مهدی ) 488 روایات سید نا محمود سے آئی تھیں بڑے شوق کے ساتھ درس میں شریک ہوتیں.اور سب سے آگے بیٹھتیں.پندرہ ہیں دن تک آپ ضرورت نبوت.مامورین کی صداقت کے دلائل.معیار صداقت اور وفات مسیح پر لیکچر دیتے رہے.پندرہ بیس دن کے بعد آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان لینا چاہئے.کہ وہ کچھ سمجھتی بھی ہیں یا نہیں.آپ نے اسی خاتون سے جو نابھہ سٹیٹ سے آئی ہوئی تھی.اور سب سے آگے بیٹھا کرتیں تھیں پوچھا کہ تم بتاؤ.میرے ان لیکچروں سے کیا سمجھی ہو.اس عورت نے نہایت سادگی سے جواب دیا.کہ کوئی نماز روزے دیاں گلاں ای کر دے ہوو گے.ہور کی کہنا سی.“ یعنی آپ کوئی نماز روزے کے متعلق ہی وعظ کرتے ہو نگے.اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عورت کا جواب سن کر آئندہ سے اس درس کو بند کر دیا.کہ جب یہ سمجھ ہی نہیں سکتیں تو ان میں درس دینا تو توضیع اوقات ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے اس عورت کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ذکر کیا کہ ایک مامور آیا تو انہوں نے کہا چلو ہم بھی مان لیتے ہیں.یا ہوسکتا ہے کہ ان کے خاوند احمدی ہوں اور اس وجہ سے وہ بھی ہو گئی ہوں.لیکن ان کو احمدیت کی تعلیم اور اس کے مسائل سے واقفیت ہی نہ تھی.اس لئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لیکچر کوسمجھ نہ سکی.پس جب تک ایسے لوگوں کی تربیت نہ کی جائے.اور ان کو مسائل سے آگاہ نہ کیا جائے.وہ علم و عرفان کی باتوں کو کیسے سمجھ سکتے ہیں.وہ تو یہی سمجھیں گے کہ الف لیلی سنائی جا رہی ہے جماعت میں علم پھیلانے کے لئے جماعت میں تنظیم پیدا کرنے کے لئے ہمیں دیہاتی مبلغوں کی اشد ضرورت ہے.خطبات محمود جلد 28 صفحہ 20-19) نماز مغرب کے بعد مسجد میں قیام اور مہمانوں سے ملاقات انبیاء کی جماعتوں کو بھی کچھ نہ کچھ تکالیف اٹھانی پڑتی ہیں.کبھی تو ان پر ایسے ایسے ابتلاء آتے ہیں کہ کمزور اور کچے ایمان والے لوگ مرتد ہو جاتے ہیں اور کبھی چھوٹی چھوٹی تکالیف پیش آتی ہیں مگر بعض کمزور ایمان والے ان سے بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ پشاور سے ایک مہمان آیا.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تھے اور مہمان آپ سے ملتے تھے اور جیسا کہ میں نے بتایا
تذکار مهدی ) کارمهدی 489 روایات سید نا محمود ہے نبیوں سے ان کے متبعین کو خاص محبت اور اخلاص ہوتا ہے اور انہیں نبی کو دیکھ کر اور کچھ نظر ہی نہیں آتا اور وہ کسی اور بات کی پرواہ نہیں کرتے ہیں جیسا کہ ہمارے مفتی محمد صادق صاحب کی روایت ہے.جلسہ کے ایام میں ایک دفعہ جب حضرت صاحب باہر نکلے تو آپ کے اردگرد بہت بڑا ہجوم ہو گیا.اس ہجوم میں ایک شخص نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا اور وہاں سے باہر نکل کر اپنے ساتھی سے پوچھا تم نے مصافحہ کیا ہے یا نہیں؟ اس نے کہا اتنی بھیڑ میں کہاں جگہ مل سکتی ہے؟ اس نے کہا جس طرح ہو سکے مصافحہ کر خواہ تمہارے بدن کی ہڈی ہڈی کیوں نہ جدا ہو جائے یہ مواقع روز روز نہیں ملا کرتے چنانچہ وہ گیا اور مصافحہ کر آیا.غرض نبی کو دیکھ کر انسان کے دل میں ایک خاص قسم کا جوش موجزن ہوتا ہے اور وہ جوش اتنا وسیع ہوتا ہے کہ نبی کے خدمت گاروں کو دیکھ کر بھی ابل پڑتا ہے.جب حضرت مسیح موعود نماز کے بعد مسجد میں بیٹھتے تو لوگ آپ کے قریب بیٹھنے کے لئے دوڑ پڑتے.گو اس وقت تھوڑے ہی لوگ ہوتے تھے تاہم ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ میں سب سے قریب بیٹھوں.اس شخص کے مقدر میں چونکہ ابتلاء تھا اس لئے اسے خیال نہ آیا کہ میں کس شخص کی مجلس میں آیا ہوں.اس نے سنتیں پڑھنی شروع کیں اور اتنی لمبی کر دیں کہ پہلے تو کچھ عرصہ لوگ اس کا انتظار کرتے رہے.مگر جب انتظار کرنے والوں نے دیکھا کہ دوسرے لوگ ہم سے آگے بڑھتے جاتے ہیں اور قریب کی جگہ حاصل کر رہے ہیں تو وہ بھی جلدی سے آگے بڑھ کے حضرت صاحب کے پاس جا بیٹھے مگر ان کے جلدی کے ساتھ گزرنے سے کسی کی کہنی اسے لگ گئی.اس پر وہ سخت ناراض ہو کر کہنے لگا اچھا نبی اور مسیح موعود ہے کہ اس کی مجلس کے لوگ نماز پڑھنے والوں کو ٹھوکر مارتے ہیں.اتنی سی بات پر وہ مرتد ہوکر چلا گیا.گویا جو چیز ایمان کی ترقی کا باعث ہے اور اب بھی ہو سکتی ہے.وہ اس کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگئی اور اس کی مثال اس جماعت کی سی ہو گئی جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب روشنی ہوئی تو ان کا نور جاتا رہا آپ لوگ جو ان دنوں قادیان آئے ہیں.ان کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت ہجوم اور کام کرنے والوں کی قلت کی وجہ سے آپ لوگوں کو بہت سی تکالیف پہنچ جاتی ہیں جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے جلسہ کے قریب میرے خطبے جو اخبار میں چھپتے ہیں ان میں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے.کہ وہ پوری کوشش اور سعی سے مہمان نوازی کریں اور حتی الامکان بہت کوشش کرتے ہیں مگر
تذکار مهدی ) 490☀ پھر بھی اتنے بڑے ہجوم کے انتظام میں وہ کہاں پورے اتر سکتے ہیں.روایات سید نا محمود ( خطبات محمود جلد 11 صفحه 544,545) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کھانے کا ڈھنگ بالکل نرالا تھا میں نے کسی اور کو اس طرح کھاتے نہیں دیکھا آپ پھلکے سے پہلے ایک ٹکڑا علیحدہ کر لیتے اور پھر لقمہ بنانے سے پہلے آپ اُنگلیوں سے اُس کے ریزے بناتے جاتے اور منہ سے سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ کہتے جاتے اور پھر ان میں سے ایک چھوٹا سا ریزہ لے کر سائن سے چھو کر منہ میں ڈالتے.یہ آپ کی عادت ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ دیکھنے والے تعجب کرتے اور بعض لوگ تو خیال کرتے تھے کہ شاید آپ روٹی میں سے حلال ذرے تلاش کر رہے ہیں لیکن دراصل اس کی وجہ یہی جذبہ ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھا رہے ہیں اور خدا کا دین مصائب سے تڑپ رہا ہے.ہر لقمہ آپ کے گلے میں پھنستا تھا اور سُبحَانَ الله سُبْحَانَ اللہ کہہ کر آپ گویا اللہ تعالیٰ کے حضور معذرت کرتے تھے کہ تو نے یہ چیز ہمارے ساتھ لگادی ہے ورنہ دین کی مصیبت کے وقت ہمارے لئے یہ ہرگز جائز نہ تھا.وہ غذا بھی ایک مجاہدہ معلوم ہوتا تھا، یہ ایک لڑائی ہوتی تھی ان لطیف اور نفیس جذبات کے درمیان.جو اسلام اور دین کی تائید کیلئے اُٹھ رہے ہوتے اور ان مطالبات کے درمیان جو خدا تعالیٰ کی طرف سے قانونِ قدرت کے پورا کرنے کیلئے قائم کئے گئے تھے مگر ہم جو رسول کریم ﷺ کی امت اور صحابہ کا نمونہ ہونے کے مدعی ہیں کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ وہی جرأت اور دلیری اپنے اندر پیدا کریں جو صحابہ کے اندر تھی.( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 269-270) حضرت مسیح موعود علیہ السلام انتہائی کم خوراک تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کھانا کھایا کرتے تو بمشکل ایک پھل کا آپ کھاتے اور جب آپ اُٹھتے تو روٹی کے ٹکڑوں کا بہت سا چورہ آپ کے سامنے سے نکلتا.آپ کی عادت تھی کہ روٹی توڑتے اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے جاتے پھر کوئی ٹکڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیتے اور باقی ٹکڑے دستر خوان پر رکھے رہتے.معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسا کیوں کیا کرتے تھے مگر کئی دوست کہا کرتے کہ حضرت صاحب یہ تلاش کرتے ہیں کہ ان روٹی
تذکار مهدی ) 491 روایات سید نا محمود کے ٹکڑوں میں سے کون سا تسبیح کرنے والا ہے اور کون سا نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس قسم کی بات سنی مجھے اس وقت یاد نہیں مگر یہ یاد ہے کہ لوگ یہی کہا کرتے تھے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان میں سے تسبیحوں کی آواز میں اُٹھ رہی ہیں اب کیوں اللہ تعالی یہ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے جبکہ ہم اس تسبیح کی آواز کو سن ہی نہیں سکتے اور جس چیز کو ہم سن نہیں سکتے اس کے بتانے کی ہمیں کوئی ضرورت نہ تھی.کیا قرآن میں کہیں یہ لکھا ہے کہ جنت میں فلاں مثلاً عبدالرشید نامی ایک شخص دس ہزار سال سے بیٹھا ہوا ہے ہمارے لئے چونکہ اس کے ذکر سے کوئی فائدہ نہ تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی باتیں نہیں بتا ئیں، پھر جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا یہی مطلب ہو سکتا ہے کہ اے لوگو ! تم اس تسبیح کو سنو.جب ہم کہتے ہیں کہ چاند نکل آیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے کہ لوگ آئیں اور دیکھیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں شخص گا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چلو اور اس کا راگ سنو ، اسی طرح جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ زمین و آسمان کی ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس تسبیح کوسنو پس معلوم ہوا کہ یہ تسبیح ایسی ہے جسے ہم سن بھی سکتے ہیں.ایک تو سننا ادنیٰ درجہ کا ہے اور ایک اعلیٰ درجہ کا مگر اعلیٰ درجہ کا سننا انہی لوگوں کو میسر آ سکتا ہے جن کے ویسے ہی کان اور آنکھیں ہوں اسی لئے مؤمن کو یہ کہا جاتا ہے کہ جب وہ کھانا شروع کرے تو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کہے کھانا ختم کرے تو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ کہے، کپڑا اپنے یا کوئی اور نظارہ دیکھے تو اسی کے مطابق تسبیح کرے.گویا مؤمن کا تسبیح کرنا کیا ہے؟ وہ ان چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرنا ہے.وہ کپڑے کی تسبیح اور کھانے کی تسبیح اور دوسری چیزوں کی تسبیح کی تصدیق کرتا ہے مگر کتنے ہیں جو اس پر عمل کرتے ہیں وہ رات دن کھاتے اور پیتے ہیں، پہاڑوں پر سے گزرتے ہیں ، دریاؤں کو دیکھتے ہیں سبزہ زاروں کا مشاہدہ کرتے ہیں، درختوں اور کھیتوں کو لہلہاتے ہوئے دیکھتے ہیں، پرندوں کو چہچہاتے ہوئے سنتے ہیں مگر ان کے دلوں پر کیا اثر ہوتا ہے.کیا ان کے دلوں میں بھی ان چیزوں کے مقابلہ میں تسبیح پیدا ہوتی ہے اگر نہیں پیدا ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کی تسبیح کو نہیں سنا مگر تم کہو گے کہ
تذکار مهدی ) کارمهدی 492 روایات سید نا محمودی ہمارے کانوں میں تسبیح کی آواز نہیں آتی.میں اس کے لئے تمہیں بتاتا ہوں کہ کئی آوازیں کان سے نہیں بلکہ اندر سے آتی ہیں.ایک پیچ سالن اور روٹی خطبات محمود جلد 16 صفحہ 149 ، 150 ) | اگر ضرورت کے مطابق کھانا پکایا جائے تو بہت کچھ کفایت ہوسکتی ہے.بخیل آدمی ہمیشہ اس طرح کرتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ تم تکلیف کے وقت بھی ایسا نہ کرو.لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ انہیں قحط میں بھی اتنا آرام ملے جو تعیش اور آرام کے وقت میں بھی نہ ملتا ہو.پس تحط میں بھی ایسا انسان اپنے لئے خود تکلیف پیدا کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے اس پر کوئی تکلیف نہیں آتی.پھر سالنوں کو بھی کم کیا جا سکتا ہے.روٹی تھوڑے سے سالن کے ساتھ بھی کھائی جاسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک چمچہ چائے کا سالن لے لیتے تھے اور روٹی کھا لیتے تھے.پس تم یہ چیزیں کم استعمال کرو تو تمہاری تکلیف کم ہو جائے گی.لیکن اگر تم قحط میں بھی ان چیزوں کو کم نہیں کرتے تو تم یہ امید کیسے کرتے ہو کہ جو چیز نہیں وہ تمہیں مل جائے جو چیز موجود نہیں وہ نہیں مل سکتی.ہم نے تحریک جدید کے اجراء کے ساتھ ساتھ کفایت کا سلسلہ اس لئے شروع کیا تھا کہ انسان پر قحط کا وقت بھی آتا ہے جب ایسا وقت آجائے تو وہ اشاعت اسلام میں ستی نہ کرے.وہ برابر چندے دے تا کام رکے نہیں.جب اسے سادگی کی عادت ہو گی تو لازماً خرچ بھی کم ہوگا اور جب خرچ کم ہوگا تو وہ قحط میں بھی چندے ادا کر سکے گا.لیکن جو شخص رفا ہیت اور کھانے پینے میں تکلفات کا عادی ہے وہ شخص چندوں میں بھی سست ہو جائے گا بے شک مومن تو ہر حالت میں مالی قربانی کرے گا لیکن جو کمزور ایمان والا ہے وہ سہولت کے دنوں میں تو چندہ دے گا لیکن جب قحط کی حالت ہو گی تو وہ چندوں میں سستی کرے گا اور اس طرح اپنے ثواب کو کم کر لے گا.الفضل 4 / دسمبر 1952 ء جلد 40/6 شماره 281 صفحہ 4) سیر کرنے کی عادت اگر کسی کام کو جی نہ چاہے تو بیسیوں حجتیں نکال لی جاتی ہیں.مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ عذر موجود ہو مگر دیکھنے والے کو نظر نہ آئے دیکھا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عصر کے وقت
تذکار مهدی ) کارمهدی 493 روایات سید نامحمودی سیر کو تو چلے جاتے تھے مگر مسجد میں نہ آ سکتے تھے.وجہ یہ کہ دل کی کمزوری کی وجہ سے دل کا دورہ ہو جاتا تھا.اس بیماری والا آدمی چل پھر تو سکتا ہے مگر مجمع میں بیٹھ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ دل کی کمزوری کثرت کار کی وجہ سے تھی.اب بظاہر دیکھنے والا کہے گا کہ بیماری کا محض بہانہ ہے لیکن اگر اس قسم کی بیماری اسے ہو تو خود بیٹھ کر بھی نہیں بلکہ لیٹ کر نماز پڑھے گا.پس ایسی حالتیں ہوتی ہیں لیکن اگر کوئی بہانہ بناتا ہے تو یہ چالیس سال کی عمر کا بھی بنا سکتا ہے نوجوانی کی شرط نہیں ہے.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 329) نماز با جماعت کے قیام کے لئے کوششیں کیا آپ لوگوں نے بھی یہ خیال کیا ہے کہ آپ میں سے اکثر بلکہ سوائے پانچ دس کے باقی سب کے سب نماز روزہ اور دیگر احکام شریعت سے بالکل غافل ہیں اور آپ کی مساجد بالکل ویران پڑی رہتی ہیں اور کبھی پانچ دس نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں بلکہ بہتوں سے لوگ دریافت کیا جاوے تو وہ مسائل طہارت اور صفائی سے بھی واقف نہ ہوں گے ابھی اس بات کے دیکھنے والے لوگ زندہ موجود ہیں.کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود نے سلسلہ احمدیہ کے قیام سے پہلے یہاں کے لوگوں کی حالت دیکھ کر کہ وہ نماز کی طرف توجہ نہیں کرتے خود آدمی بھیج بھیج کر ان کو مسجد میں بلوانا شروع کیا تو ان لوگوں نے یہ عذر کیا کہ نمازیں پڑھنا امراء کا کام ہے.ہم غریب لوگ کمائیں یا نمازیں پڑھیں تو آپ نے یہ انتظام کیا کہ ایک وقت کا کھانا ان لوگوں کو دیا جاوے.چنانچہ چند دن کھانے کی خاطر چھپیں ، ہمیں آدمی آتے رہے مگر آخر میں سُست ہو گئے اور صرف مغرب کے وقت کہ جس وقت کھانا تقسیم ہوتا تھا آجاتے جس پر آخر یہ سلسلہ بند کرنا پڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شوق دینی کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے تو ان کی مراد پوری کر دی.اس وقت ہماری جماعت کے پاس قادیان میں چار مساجد ہیں.جن میں سے دو نہایت عالی شان ہیں اور چاروں ہی پانچوں وقت نمازیوں سے پُر رہتی ہیں.مگر آپ لوگ بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں یہی حال روزوں کا ہے.زکوۃ دینے والا تو شائد آپ لوگوں میں سے ایک بھی نہ ہوگا.( قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام، انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 76-75)
تذکار مهدی ) 494 بیماری کی حالت میں اہل خانہ کے ساتھ نماز با جماعت روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب بوجہ بیماری مسجد میں تشریف نہ لے جاسکتے تھے تو اکثر مغرب اور عشاء کی نماز گھر میں باجماعت ادا فرماتے تھے اور عشاء کی نماز میں قریباً بلا ناغہ سورۃ یوسف کی یہ آیات تلاوت فرماتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُم سے لے کر اَرحَمُ الرّحِمِينَ (یوسف : 92-84) تک کی آیات آپ اس قدر دردناک لہجہ میں تلاوت فرماتے کہ دل بے تاب ہو جاتا تھا.وہ آواز آج تک میرے کانوں میں گونجتی ہے اور شاید میں اب تک اس لہجہ کو صحیح طور پر نقل کر سکتا ہوں.اس کا موجب بھی وہی پر پر تھا کہ آپ کے اور آپ کی قوم کے درمیان بھی یوسف اور اس کے بھائیوں والا معاملہ گزر رہا تھا اگلی آیت کے متعلق مجھے شبہ ہے کہ آیا یہ بھی پڑھتے تھے یا نہیں اور یہ بھی شبہ ہے کہ سب آیات ایک ہی رکعت میں پڑھتے تھے یا دونوں رکعتوں میں تقسیم کر کے پڑھتے تھے.مسجد اقصی کی ترقی کی پیشگوئی ( تفسیر کبیر جلد سوم صفحه 356) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ خدا کے گھر ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں.جب قادیان میں مسجد اقصیٰ کے پاس ایک اونچا مکان ہندوؤں کا بنے لگا تو بعض دوستوں کو بہت بُرا محسوس ہوا اور انہوں نے کہا ایسا مکان مسجد کے ساتھ نہیں بننا چاہئے جو اس کی ترقی میں روک ہو.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مسجد خدا کے فضل سے ترقی کرے گی اور بڑھ جائے گی اس لئے یہ مکان بھی مسجد کے ساتھ شامل ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ سننے والے موجود ہیں.اس مکان کا ایک حصہ خرید لیا گیا اور اب باقی حصہ بھی اسی ماہ میں خرید لیا گیا ہے.اب یہ مکان یا تو مسجد کے ساتھ شامل کر لیا جائے گا یا سلسلہ کے اور کاموں کے لئے استعمال ہوگا.(خطبات محمود جلد نمبر 13 صفحہ 147) مسجد مبارک کی اہمیت باجماعت نماز قریب ترین مسجد میں پڑھنی چاہئے.مجھے معلوم ہوا ہے کئی لوگ مسجد مبارک
تذکار مهدی ) 495 روایات سید نا محمودی کے پاس سے گزر کر بڑی مسجد میں چلے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کسی قدر جلدی نماز ہو جاتی ہے ہم دوسری یا تیسری رکعت میں ہوتے ہیں کہ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم نماز پڑھ کر واپس آ رہے ہوتے ہیں جن کے شور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ اب واپس آ رہے ہیں کیونکہ وہ آتے ہوئے اس طرح شور مچاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے بھیڑوں کا گلہ آ رہا ہے ان کے آنے کے وقت ہم دوسری یا تیسری رکعت پڑھ رہے ہوتے ہیں جس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ کوئی پندرہ بیس منٹ کا آگا پیچھا ہوتا ہے اس پندرہ بیس منٹ کے عرصہ کے لئے مسجد مبارک کے پاس سے گزر کر دوسری مسجد میں جانا کہاں تک ان کی روحانیت پر دلالت کرتا ہے.پس جو پندرہ بیس منٹ کے لئے مسجد مبارک کو چھوڑ کر جوان کے قریب بھی ہے.دوسری مسجد میں جاتے ہیں انہیں بھی اپنی روحانیت کی فکر کرنی چاہئے.ایسا شخص جو مسجد مبارک کو اس خیال سے چھوڑ کر کہ اس میں ذرا دیر سے نماز ہوتی ہے دوسری مسجد میں اس لئے جاتا ہے کہ اس میں نماز ذرا جلدی ہو جاتی ہے اسے اگر یہ معلوم ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مسجد کے متعلق کیا الہام ہیں اور کیسے کیسے وعدے خدا تعالیٰ کے اس کے متعلق ہیں تو وہ کبھی کسی دوسری مسجد میں جانے کا نام نہ لیتا خواہ نماز کی انتظار میں اسے آدھی رات ہی کیوں نہ ہو جاتی.پس اگر وہ حضرت مسیح موعود سے بھی ایمان رکھتا ہے کہ خدا کے وعدے بچے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے کہ خدا کے وعدے بچے ہیں اور حضرت مسیح موعود سے بھی اس نے مسجد مبارک کے متعلق بعض وعدے کئے ہیں تو خواہ لنگڑا بھی ہوتا تو بھی تھا اور لنجا بھی وہ ہوتا تو بھی پہنچتا اور ہرگز یہ بات گوارہ نہ کرتا کہ وہ اس مسجد کو چھوڑ کر کسی اور مسجد میں جا کر نماز پڑھے.(خطبات محمود جلد 9 صفحہ 346) ہندو ڈپٹی خدا تعالیٰ کے مامور لوگوں کو سبق سکھانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں.اس کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام سے یہ ملتی ہے کہ آپ فرماتے ہیں دنیا میں جو بھی مصلح آتا ہے.وہ کسی اچھی قوم سے آتا ہے تا کہ لوگ اس سے نفرت نہ کریں اور جب خدا تعالیٰ نے ہر مصلح کے لئے اچھی قوم میں سے ہونے کی شرط رکھی ہے.تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کے کئی کئی ناک ہوں.کئی کئی ہاتھ ہوں.یا کئی کئی سر اور کئی کئی آنکھیں ہوں.اس سے تو لوگ ڈر جائیں گے اور ایسے مصلح کو دیکھتے ہی بھاگ جائیں گے.اس سے فائدہ کیا اٹھا ئیں گے.اگر
تذکار مهدی ) 496 روایات سید نا محمود اس کے کئی بڑے بڑے ناک ہوں گے تو وہ خیال کریں گے کہ یہ انسان نہیں بلکہ ہاتھی کی طرح کا کوئی جانور ہے.اگر اس کے کئی سر ہوں گے تو وہ کہیں گے یہ انسان نہیں بلکہ کوئی عجیب الخلقت حیوان ہے اور اگر کئی کئی آنکھیں ہوں گی تو وہ کہیں گے یہ انسان نہیں بلکہ کوئی نئی قسم کا سانپ ہے اور وہ اس سے ڈر کر بھاگ جائیں گے.پھر میں بتاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی کئی ناک، کان اور آنکھیں ہونے کی فلاسفی بھی بیان فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں کہ ان مصلحین کی فی الواقع اس قسم کی شکلیں تھیں بلکہ اگر تصویر میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کسی مصلح کے کئی ناک تھے.تو اس کا یہ مطلب تھا کہ ان میں اس قدر قوت شامہ پائی جاتی تھی کہ وہ دور سے عیب روحانی کو سونگھ لیتے تھے اور جب ان کے بڑے بڑے کان دکھائے جاتے تھے تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ وہ دور سے فریاد یوں کی فریا دسن لیتے تھے اور ان کی ضرورت کو پہچان لیتے تھے اور جب ان کی کئی آنکھیں دکھائی جاتیں تو اس کا یہ مطلب ہوتا تھا کہ وہ حقیقت کو بہت جلد پہچان لیتے تھے.اس طرح تصویری زبان میں کئی کئی ہاتھ بنانے کا یہ مطلب تھا کہ اس مصلح کے پاس ایسے دلائل و براہین تھے کہ ان سے دشمن مبہوت ہو جاتا تھا.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ہی قرآن کریم میں آتا ہے که فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ (البقرہ: 259) کافران کے دلائل و براہین سے مبہوت ہو گیا.غرض خواب میں میں اس ہندو کو یہ مثالیں دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ چوہدری اسد اللہ خان صاحب تو صرف خلاصہ بیان کر رہے ہیں.اس لئے انہوں نے مثالیں بیان نہیں کیں.اس پر وہ ہندو خاموش ہو گیا.اس رویاء میں سمجھتا ہوں کہ کسی زمانہ میں خدا تعالیٰ ہندوؤں میں بھی تبلیغ اسلام کا رستہ کھول دے گا.وہ لوگ اس قسم کے دیوتاؤں کے قائل ہیں.جن کے کئی کئی ہاتھ کئی کئی ناک اور کئی کئی آنکھیں ہوتی تھیں.لیکن ایک وقت آئے گا کہ خدا تعالیٰ ان پر یہ حقیقت کھول دے گا کہ وہ دیوتا بھی ہمارے جیسے انسان ہی تھے.صرف ان کی روحانی طاقتوں کو تصویری زبان میں اس طرح دکھایا گیا ہے کہ گویا ان کے کئی کئی ہاتھ تھے، کئی کئی آنکھیں اور کئی کئی ناک تھے اور یہ روحانی طاقتیں سب بزرگوں کو دی گئی ہیں..مگر انہوں نے جس شکل میں اپنے بزرگوں کو پیش کیا ہے.اسے دیکھ کر تو انسان ڈر کر
تذکار مهدی ) کارمهدی 497 روایات سید نا محمود بھاگنے لگتا ہے اور جب وہ کئی کئی ہاتھ دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی تیندوا ہے جب کئی کئی سردیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی عجیب الخلقت حیوان ہے.جب کئی کئی آنکھیں دیکھتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ کوئی نئی قسم کا سانپ ہے.حالانکہ وہ ہمارے جیسے ہی انسان تھے.یہ غلط فہمی جس دن دور ہوگئی اور ہندؤں کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ان کے دیوتا اور بزرگ بھی انسان ہی تھے.تو وہ انسانوں سے سبق سیکھنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور صداقت کو قبول کرنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دن حضرت خلیفہ اول مسجد اقصیٰ سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں ایک ہندو ڈپٹی جس کا مسجد اقصیٰ کے ساتھ ہی ایک بڑا سا مکان تھا.بیٹھا ہوا تھا وہ آپ کو دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا پوچھیں.اس نے کہا حکیم صاحب میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب بادام روغن اور پلاؤ بھی کھا لیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا ڈ پٹی صاحب ہمارے مذہب میں یہ سب چیزیں جائز ہیں اور لوگ انہیں کھا سکتے ہیں.مرزا صاحب کے لئے بھی ان طیب چیزوں کا کھانا جائز ہے.اس پر وہ حیران ہو کر کہنے لگا کیا فقروں کو بھی یہ چیزیں کھانا جائز ہیں.یعنی کیا بزرگوں کے لئے بھی ان چیزوں کا کھانا جائز ہے.آپ نے فرمایا ہاں ہمارے مذہب میں فقروں کے لئے بھی پاک چیزیں جائز ہیں.بلکہ ان کے لئے دوسروں سے زیادہ پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس پر وہ خاموش ہو گیا.یہ جواب تو شریفانہ تھا.جو حضرت خلیفہ اول نے اس ڈپٹی کو دیا.لیکن ایک جواب خلیفہ رجب دین صاحب نے بھی ایک مجسٹریٹ کو دیا تھا.وہ خواجہ کمال الدین صاحب کے خسر تھے.اور ان کی طبیعت بڑی تیز تھی.ایک دفعہ وہ کسی شہادت کے سلسلہ میں عدالت میں گئے.تو مجسٹریٹ جو ہندو تھا.ان سے کہنے لگا لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب پلاؤ قورمہ اور کباب بھی کھا لیتے ہیں.کیا یہ ٹھیک بات ہے.خلیفہ رجب دین صاحب نے جواب دیا کہ اسلام میں تو یہ سب چیزیں حلال ہیں اور ان کا کھانا جائز ہے.لیکن اگر آپ کو یہ چیزیں پسند نہیں تو آپ بے شک پاخانہ کھالیا کریں.مجسٹریٹ کہنے لگا خلیفہ صاحب آپ تو ناراض ہو گئے انہوں نے کہا میں ناراض تو نہیں ہوا.میں نے تو صرف آپ کی بات کا جواب دیا ہے.اصل بات یہ ہے جو وساوس اور شبہات کسی قوم میں راسخ ہو چکے ہوتے ہیں.عام طور
تذکار مهدی ) 498 روایات سید نا محمود پر اس قوم کے لوگ دوسروں سے بھی انہی خیالات کی توقعات رکھتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ وہ ہندو ڈ پٹی تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے خاموش ہو گیا ہو گا.ورنہ وہ ضرور پوچھتا کہ ہمارے ہاں تو بزرگوں کے دو دو سراور چار چار ناک اور کئی کئی آنکھیں ہوتی ہیں.مگر مرزا صاحب کا تو ایک ہی سر ایک ہی ناک اور دو ہی آنکھیں ہیں.پھر وہ اور آگے بڑھتا اور کہتا کہ ہمارے ہنومان کی تو دم بھی تھی.لیکن مرزا صاحب کی تو کوئی دم نہیں.پھر یہ کیسے مصلح ہو گئے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے اسے شرم آ گئی اور اس نے یہ سوالات نہ کیے.ورنہ وہ یہ باتیں ضرور پوچھتا کیونکہ ہندوؤں میں اپنے بزرگوں کے متعلق اسی قسم کے خیالات پائے جاتے ہیں اور انہوں نے تصوری زبان میں ان کے کئی کئی سر، کئی کئی آنکھیں، کئی کئی ناک اور کئی کئی ہاتھ دکھائے ہیں.الفضل 16 نومبر 1956 ، جلد 45/10 نمبر 269 صفحہ 5 محنت اور مشقت کی عادت با وجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے.مگر آپ سست ہرگز نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کو جب کبھی کسی سفر پر جانا پڑتا تھا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم چڑھتے اور یہ عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی اور ستر سال سے متجاوز عمر میں جبکہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں اکثر روزانہ ہوا خوری کے لئے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اٹھ کر ( نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) سیر کے لئے چل پڑتے تھے اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو بٹالہ کی سڑک پر قادیان سے قریباً ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے ) صبح کی نماز کا وقت ہوتا تھا.(رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو بابت ماہ نومبر 1916 ءجلد 15 نمبر 11 صفحہ 403) رات دیر تک کام کرنے کی عادت میں نے عام طور پر لڑکوں سے سوال کر کے دیکھا اور مجھے معلوم ہوا کہ کثرت سے
تذکار مهدی ) کارمهدی 499 روایات سید نا محمود طالب علم ایسے ہیں جنہوں نے کبھی اخبار کو پڑھا ہی نہیں.کیا دنیا میں کبھی کوئی ڈاکٹر کام کر سکتا ہے.جسے معلوم ہی نہیں کہ مرضیں کون کون سی ہوتی ہیں میں نے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہے آپ راتوں کو بھی کام کرتے اور دن کو بھی کام کرتے اور اخبارات کا مطالعہ رکھتے.اسی تحریک کے دوران میں خود اکتوبر سے لے کر آج تک بارہ بجے سے پہلے کبھی نہیں سویا اور اخبار کا مطالعہ کرنا بھی نہیں چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ جب ہم سوتے اس وقت بھی آپ جاگ رہے ہوتے اور جب ہم جاگتے تو اس وقت بھی آپ کام کر رہے ہوتے.جب انہیں پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے تو وہ دنیا میں کام کیا کر سکتے ہیں.میں نے جس سے بھی سوال کیا.معلوم ہوا کہ اس نے اخبار کبھی نہیں پڑھا اور جب بھی میں نے ان کی امنگ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے تو یہ جواب دیا کہ جس طرح بھی ہوگا تبلیغ کریں گے.یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے.الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کہنے والے میں عقل نہیں اور نہ وسعتِ خیال ہے.جس طرح ہوگا تو سو ر کیا کرتا ہے.اگر سور کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جاتا کہ تو کس طرح حملہ کرے گا تو وہ یہی کہتا کہ جس طرح ہوگا کروں گا.بس سؤر کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو وہ نیزہ پر حملہ کر دے گا ، بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا.پس یہ تو سوروں والا حملہ ہے کہ سیدھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہ کیا حالانکہ دل میں ارادے یہ ہونے چاہئیں کہ ہم نے دنیا میں کوئی نیک اور مفید تغیر کرنا ہے.مگر اس قسم کی کوئی امنگ میں نے نوجوانوں میں نہیں دیکھی اور اسی وجہ سے جتنے اہم اور ضروری کام ہیں وہ اس تبلیغی شعبہ سے پوشیدہ ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جماعت ترقی نہیں کرتی.حالانکہ مبلغ کا کام یہ ہے کہ وہ دنیا میں ایک آگ لگا دے.جہاں جائے وہاں دیا سلائی لگائے اور آگے چلا جائے.اگر مبلغ ایک جنگل کو صاف کرنے بیٹھے تو وہ اور اس کی نسلیں بھی ہزار سال میں ایک جنگل کو صاف نہیں کر سکتیں لیکن اگر وہ سوکھی لکڑیوں اور پتوں وغیرہ کو اکٹھا کر کے دیا سلائی لگاتا چلا جائے تو چند دنوں میں ہی تمام جنگل راکھ کا ڈھیر ہو جائے گا.خطبات محمود جلد 16 صفحہ 37-36)
تذکار مهدی ) 500 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مشکلات ہمیں اپنے نئے پروگرام شروع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو وقت پر بیدار کر لینا چاہئے.مثلاً اب ہمارا نیا سال شروع ہوا ہے ہماری مشکلات پہلے سے زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مشکلات ایک رنگ میں زیادہ تھیں اور ایک رنگ میں کم تھیں.دس پندرہ آدمی ایسے تھے.جو بوجھ برداشت کر کے اپنے کام چھوڑ کر قادیان آگئے تھے اور وہ آپ کے کام میں ہاتھ بٹا رہے تھے اور باقی امداد کرتے تھے.اس وقت مالی امداد کام کی نسبت زیادہ اہمیت رکھتی تھی.آج مالی امداد کی نسبت کام زیادہ اہمیت رکھتا ہے.اس وقت جماعت اگر خدانخواستہ ناکام ہو جاتی تو خطرہ بہت کم تھا.اب خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ جماعت میں سے ایک دو کا ایسا نکل آنا جن کو دنیا سر پھرے کہتی ہے.تم انہیں مستقل مزاج سمجھ لو زیادہ مشکل نہیں ایسے لوگ مل جاتے ہیں.شاہ دولے کے چاہوں کو دیکھ لو کتنے احمق ہوتے ہیں.لیکن دنیا میں ایسے بیوقوف پائے جاتے ہیں.جو شاہ دولے کے چوہے بناتے رہتے ہیں.پس پہلے زمانہ میں صرف چند سر پھروں کی ضرورت ہوتی تھی اور وہ اکثر مل جاتے تھے.لیکن اب سینکڑوں اور ہزاروں سر پھروں کی ضرورت ہے اور اتنی تعداد میں سر پھرے ملنے مشکل ہیں.جماعت کی نسبت کے لحاظ سے اب کارکن زیادہ ہیں.پہلے کارکن کم تھے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مبلغ نہیں تھے.آپ کتابیں لکھتے تھے اور انہیں شائع کر دیتے تھے.شروع میں آپ کے پاس پر لیس تک نہیں تھا.آپ کی کتابیں عیسائیوں کی پریس میں چھپتی رہیں.بعد میں ایک مسلمان کے پریس میں چھپنے لگیں اور پھر اپنا پر لیس قائم ہوا جو صرف دستی پر لیس تھا.پس اس زمانہ میں اس لحاظ سے مشکلات زیادہ تھیں کہ ذرائع کم تھے.لیکن اس لحاظ سے مشکلات کم تھیں کہ کارکن تھوڑے تھے اور تھوڑے کارکنوں سے کام لینا آسان ہوتا ہے اس لحاظ سے جماعت اس زمانہ میں محفوظ تھی آج ذرائع بیشک زیادہ ہیں لیکن مشکلات بھی پہلے سے بڑھ گئی ہیں آج کام کرنے والوں کی نگرانی کی زیادہ ضرورت ہے.(الفضل 26 جنوری 1953ء جلد 41/7 نمبر 23 صفحہ 4)
تذکار مهدی ) بلا دلیل اعتراض نہیں کرنا چاہئے 501 روایات سید نا محمود مولوی عبداللہ صاحب غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے قریب زمانہ میں ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں ان کا ایک لطیفہ ہے جس سے اُن کی عزت دل میں پیدا ہوتی ہے.کہتے ہیں کہ امرتسر میں ایک دفعہ لوگوں نے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی سے مقابلہ کرنے کیلئے ایک بڑا بھاری عالم تیار کیا جو علوم مروجہ میں خوب ماہر تھا.اس کے بعد وہ لوگ مولوی عبداللہ صاحب کے پاس گئے اور انہیں کہا کہ آپ مجلس میں چلیے ، آپ کی فلاں عالم سے بحث کرانی ہے.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی بے شک عالم تھے مگر ایسے نہیں کہ انہوں نے صرف ونحو کی گردا نہیں رٹی ہوئی ہوں.وہ ایک صوفی منش بزرگ تھے مگر لوگ چاہتے تھے کہ عربی کی ترکیبوں میں لاکر انہیں گرائیں اور ذلیل کریں.خیر وہ مجلس میں آگئے.لوگوں نے کہا مولوی صاحب یہ فلاں عالم صاحب آئے ہیں کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی کی یہ عادت تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی عادت تھی کہ جب خاموش ہوتے تو سر نیچے ڈال کر یا سر کو ہاتھ کا سہارا دے کر بیٹھے رہتے اور ذکر الہی کرنے والے بالعموم ایسا ہی کیا کرتے ہیں.جب انہوں نے پوچھا کہ کیا یہ آپ سے کوئی سوال کریں؟ تو مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی نے فرمایا اگر نیت بخیر باشد یعنی اگر نیت نیک ہو تو بیشک وہ سوال کریں.وہ آدمی بھی گو بظاہر دُنیوی علماء میں شامل تھا مگر اُس کے دل میں تقویٰ کی آگ جلتی تھی.جب انہوں نے کہا کہ اگر نیت بخیر باشد تو اُس نے سوال کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس وقت تو میں بحث کی نیت سے ہی آیا تھا.اور در حقیقت یہ جو اُس شخص میں تقویٰ پیدا ہوا مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی بات کے نتیجہ میں پیدا ہوا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی ایک واقعہ ہے.شروع شروع میں مولوی محمد حسین صاحب جب مولوی ہو کر بٹالہ آئے تو ان کے خیالات بٹالہ کے رہنے والوں کو سخت گراں گزرے.آپ فرماتے کہ ایک دفعہ جب میں بٹالہ گیا تو چونکہ لوگوں کو میرے مذہبی جوش اور مذہبی تحقیق و تدقیق کا علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ عیسائیوں کے متعلق میں اکثر مضامین لکھتا رہتا ہوں اور صوفیاء کی میرے دل میں عزت ہے اس لئے بعض لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے آپ سے ایک ضروری کام ہے، آپ ہمارے ساتھ فلاں مسجد میں چلیں.جب میں
تذکار مهدی ) 502 روایات سید نامحمودی وہاں گیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بیٹھے تھے اور لوگوں کا بہت بڑا مجمع تھا.لوگوں نے مجھے کہا کہ آپ حنفیوں کی طرف سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے بحث کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم حنفیوں کی طرف ہیں کیونکہ حنفیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اول قرآن ہے اور پھر حدیث اور ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.جب لوگوں نے آپ کو مولوی محمد حسین صاحب سے بحث کرنے کیلئے آمادہ کرنا چاہا تو آپ نے فرمایا مجھے ان کے مذہب کا پتہ نہیں، پہلے یہ اپنا عقیدہ بیان کریں اس کے بعد میں ان پر کوئی اعتراض کر سکتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بیان کیا کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی طرف سے جو قول ثابت ہو جائے وہ ہمیں تسلیم کر لینا چاہئے.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی یہی عقیدہ تھا اور ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کیونکہ اگر رسول کریم ﷺ کی بات نہیں مانی تو اور کس کی ماننی ہے؟ بہر حال جب آپ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کی یہ بات سنی تو فرمایا یہ بالکل ٹھیک ہے، میں اعتراض کس بات پر کروں.یہ سنتے ہی لوگ سخت غضب میں آگئے اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ ہار گئے ، ہار گئے.بس یونہی عالم بنے پھرتے تھے، ہمیں اب پتہ لگا کہ یہ عالم نہیں جاہل ہیں.آپ نے لوگوں کی ان تمام باتوں کو سُنا مگر کوئی پرواہ نہ کی اور وہاں سے چلے آئے.واپسی کے وقت خدا تعالیٰ نے آپ پر الہام نازل کیا کہ چونکہ تو نے میری خاطر یہ ذلت برداشت کی ہے اس لئے تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ ( تذکرہ صفحہ 8 ایڈیشن چہارم) تو علماء حقیقی وہی ہیں جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو مگر ان علماء میں سے بھی وہ لوگ جو اس مقام پر نہیں پہنچے ہوئے ہوتے جس مقام پر پہنچ کر خدا تعالیٰ انہیں اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُم (لم سجده: 41) کے خطاب سے مخاطب کرتا ہے، بعض دفعہ ٹھوکر کھا جاتے اور پھر ایسے ذلیل ہو جاتے ہیں کہ ان کی ذلت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی جیسے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے.شروع شروع میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اتنی تعریف کی ، اتنی تعریف کی کہ اسے دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے ایک پُر جوش مرید آپ کی تعریف کر رہا ہے.چنانچہ براہین احمدیہ پر انہوں
تذکار مهدی ) 503 روایات سید نا محمود نے جو ریویو کیا اس میں لکھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد تیرہ سو سال کے عرصہ میں کسی ایک شخص نے بھی اپنے قول اور عمل سے اسلام کی اتنی خدمت نہیں کی جتنی حضرت مرزا صاحب نے کی ہے.مگر پھر وہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تھے جنہوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور تمام ہندوستان میں آپ کی مخالفت کی آگ بھڑکائی.محض اس لئے کہ میری ہتک ہوئی ہے، مجھ سے اپنے دعوی کے متعلق حضرت مرزا صاحب نے مشورہ کیوں نہیں کیا.اور دراصل پہلا غصہ انہیں آپ پر یہی تھا.چنانچہ جب کسی شخص نے انہیں بتایا کہ آپ ایک ایسی کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وفات مسیح کا ذکر آتا ہے.تو مولوی محمد حسین بٹالوی کہنے لگے کہ ہم سے تو انہوں نے کوئی ذکر نہیں کیا.پھر اسی غصہ میں وہ سارے ہندوستان میں پھرے اور آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ میں نے ہی اس شخص کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اسے نیچے گراؤں گا.مگر نتیجہ کیا نکلا؟ انہوں نے اپنی تمام طاقتوں اور قوتوں کے ساتھ آپ کا مقابلہ کیا.تھوڑے دنوں کے لئے ہاؤ ہوگا شور بھی مچالیا، آپ کو گالیاں بھی دی گئیں، آپ کو بُرا بھلا بھی کہا گیا.آپ کے خلاف لوگوں کو مشتعل بھی کیا گیا مگر آخر فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہی حاصل ہوئی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ ملتان کسی مقدمہ میں گواہی دینے کے لئے تشریف لے گئے.میں نے اُس وقت خواہش کی کہ میں بھی آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں.چنانچہ آپ مجھے اپنے ساتھ لے گئے.میری عمر اس وقت اتنی چھوٹی تھی کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے ملتان میں کیا کیا دیکھا.جب ہم واپس آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں بھی ایک دو دن ٹھہرے.انہی دنوں کسی دوست نے شہر کے اندر آپ کی دعوت کی.مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ کھانے کی دعوت تھی یا اُس دوست نے کسی اور تقریب پر آپ کو بلایا تھا.جس وقت آپ وہاں سے واپس آرہے تھے تو وزیر خان کی مسجد یا سنہری مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم اکٹھا ہو گیا.مفتی محمد صادق صاحب بھی اُن دنوں وہیں قریب رہتے تھے اور میاں تاج دین صاحب وہیں رہتے تھے.میں نہیں جانتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُن میں سے کس دوست کے مکان پر تشریف لے گئے تھے.بہر حال جب واپس آئے تو مسجد کے قریب بہت بڑا ہجوم تھا اور جو نہی لوگوں نے آپ کی گاڑی دیکھی انہوں نے تالیاں پیٹنی شروع کر دیں.بعض گالیاں دینے لگ گئے ، بعض نے آپ کے خلاف نعرے لگائے اور شور سے آسمان سر پر اٹھالیا.شاید یہ نظارہ
تذکار مهدی 504 روایات سید نا محمود میرے ذہن سے اُتر جاتا اور میں اس واقعہ کو بالکل بھول جاتا مگر بچپن کی عمر کے لحاظ سے ایک بات میں نے ایسی دیکھی کہ جس نے اس نظارہ کے نقوش کو بہت گہرے طور پر میرے دماغ پر ثبت کر دیا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑھا شخص جس کی داڑھی ناف تک پہنچ رہی تھی ، 75-80 سال اس کی عمر ہوگی ، اُس کا قد لمبا اور جسم دبلا پتلا تھا.اس نے اپنے ایک ہاتھ پر زرد زرد پٹیاں باندھی ہوئی تھیں جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا ہاتھ زخمی ہے اور ہاتھ پہنچے کے آگے سے کٹا ہوا تھا.اپنے اس ٹنڈ کو دوسرے صحیح ہاتھ پر مار رہا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ ہائے ہائے مرزا ، ہائے ہائے مرزا.اپنے بچپن کے لحاظ سے یہ نظارہ میرے لئے ایک عجیب نظارہ تھا کہ ایک شخص کا ہاتھ کٹا ہوا ہے اور اُس پر ہلدی وغیرہ اس نے باندھی ہوئی ہے مگر وہ اپنائنڈ دوسرے ہاتھ پر مارتا جاتا ہے اور کہتا جاتا ہے ہائے ہائے مرزا، ہائے ہائے مرزا.بے شک یہ چیزیں ہوئیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان باتوں کو دیکھ کر خوش ہوئے اور وہ اپنے دل میں کہتے ہوں گے کہ دیکھا! ہم نے احمدیوں کا کیسا ناطقہ بند کیا، ان کو کیسا ذلیل اور کیسا رسوا کیا.مگر دنیا کی نگاہوں میں جو ذلت ہو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت ہوتی ہے اور دنیا کی نگاہوں میں جو عزت ہو وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ذلت ہوتی ہے.جس وقت وہ تمام لوگ ہنسی کر رہے تھے ، جس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے ساری دنیا میں تبلیغ احمدیت کے راستے بند کر دیئے ہیں.اُس وقت ہر گالی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مل رہی تھی.وہ آپ کے انعامات اور خطابات اور القابات کی فہرست میں لکھی جا رہی تھی.آخر یہ ان گالیوں کا ہی نتیجہ ہے جو ہم یہاں بیٹھے ہیں اور کس بات کا نتیجہ ہے.پس وہ جتنا جتنا کہتے ہائے ہائے مرزا ، ہائے ہائے مرزا یعنی نَعُوذُ بِاللهِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مر گئے ہیں اور وہ آپ کا سیا پا کر رہے ہیں.اُتنا ہی فرشتے کہتے آپ کو اور زندگی ملے آپ کو اور درجہ ملے اور آخر وہی بات پوری ہوئی جو خدا اور اُس کے فرشتوں نے کہی.وہ بات تو پوری نہ ہوئی جو مولوی محمد حسین بٹالوی نے کہی تھی.تو دنیا کی طرف سے جو عزتیں آتی ہیں وہ کوئی ہستی نہیں رکھتیں.ہاں جو عزت خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے وہی حقیقی عزت ہوتی ہے اور وہ انہی کو ملتی ہے جو خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دل میں رکھتے ہوں.ظاہری نام کے رٹ لینے سے وہ عزت نہیں مل سکتی.تو انسان کیلئے دنیا میں ہر مقام پر گرنے کا خطرہ ہے سوائے اس کے کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ جائے جہاں
تذکار مهدی ) 505 روایات سید نا محمود خدا خودا سے محفوظ قرار دے دے اور کہہ دے کہ اب تیرے گرنے کا کوئی خطرہ نہیں.( خطبات محمود جلد 18 صفحہ 391 تا394) کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے برکت حاصل کرو لوگ مانیں یا نہ مانیں خدا تعالیٰ تمہیں ایک دن دنیا پر غلبہ عطا فرمائے گا.اس نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً فرمایا ہے کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے اور جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو وہ کون سے احمق ہوں گے جو تم سے برکت حاصل نہیں کریں گے.کپڑے تو بے جان چیز ہیں اور تم جاندار ہو.جب وہ وقت آئے گا کہ بادشاہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تو آپ کے صحابہ اور تابعین اور پھر تبع تابعین سے بھی ان کے درجات کے مطابق برکت حاصل کی جائے گی.کیا تم نے دیکھا نہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے فاصلہ پر تھے.لیکن بغداد کے بادشاہ ان سے برکت ڈھونڈتے تھے بلکہ صرف انہی سے برکت نہیں ڈھونڈتے تھے بلکہ ان کے شاگردوں سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے.پس تم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ طاقت مل جانے کے بعد تم کہیں ظلم نہ کرنے لگ جاؤ اور تمہاری امن پسندی عصمت بی بی از بے چادری والی نہ ہو.اگر تم طاقت ملنے پر ظالم بن جاؤ گے تو تمہاری آج کی نرمی بھی ضائع ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کہے گا کہ اپنے تو تمہارے ناخن ہی نہیں تھے اس لئے تم نے سر کھجلانا کیسے تھا.اب میں نے تمہیں ناخن دیئے ہیں تو تم نے سر کھجلانا بھی شروع کر دیا ہے.پس تم خوشی منانے کے ساتھ ساتھ استغفار بھی کرتے رہو اور اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ وہ اس آزادی کوسب کے لیے مبارک کرے.پھر جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت ملک کی باگ ڈور ہے اُن کے لیے بھی دعا ئیں کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں بچی نیکی اور تقوی اور انکسار عطا کرے جو ایک مومن کا خاصا ہے.صحابہ کرام کو دیکھ لو باوجود اس کے کہ انہیں ہر قسم کی بڑائی حاصل تھی اُن میں حد درجہ کا انکسار پایا جاتا تھا اور غرور سے وہ کوسوں دور رہتے تھے.الفضل 13 / اپریل 1956 ء جلد 45/10 نمبر 8 صفحہ 4)
تذکار مهدی ) 506 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تین متبرک انگوٹھیاں روایات سید نا محمود آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ خود ہی اسلام کی اشاعت کے سامان پیدا کر رہا ہے اور وہ دن دور نہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام پورا ہو گا کہ ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.بادشاہتیں تو آہستہ آہستہ ختم ہو رہی ہیں.لیکن ملک کا پریذیڈنٹ اور صدر بھی بادشاہ ہی ہوتا ہے.اگر روس کا صدر اور وزیر اعظم مسلمان ہو جائیں تو وہ بھی بادشاہ سے اپنی حیثیت میں کم نہیں اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے اسی وقت برکت ڈھونڈیں گے.جب تم آپ کی کتابوں سے برکت ڈھونڈنے لگ جاؤ.جب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے برکت ڈھونڈ نے لگ جاؤ گے تو خدا تعالیٰ ایسے بادشاہ پیدا کر دے گا جو کہ آپ کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.لیکن ابھی تک تو صدر انجمن احمدیہ نے بھی انتظام نہیں کیا کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کو محفوظ رکھا جائے.آخر بادشاہ برکت ڈھونڈ میں گے تو کہاں سے ڈھونڈ میں گے.صدرانجمن احمدیہ کو چاہئے تھا کہ وہ بعض ماہر ڈاکٹر بلاتی.جو اس بات پر غور کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے کس طرح محفوظ رکھے جاسکتے ہیں اور ان کپڑوں کو شیشوں میں بند کر کے اس طرح رکھا جاتا کہ وہ کئی سو سال تک محفوظ رہتے یا انہیں ایسے ممالک میں بھجوایا جاتا.جہاں کپڑوں کو کیٹر انہیں لگتا.مثلاً امریکہ ہے.وہاں یہ کپڑے بھیج دیئے جاتے تا انہیں محفوظ رکھا جا سکتا اور آئندہ آنے والی نسلیں ان سے برکت حاصل کرتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ عمر میں بڑا ہونے کی وجہ سے آپ کی آلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی مجھے ملے.ہم تین بھائی تھے اور تین ہی انگوٹھیاں تھیں.مگر باوجود خواہش کے آپ نے قرعہ ڈالا اور عجیب بات یہ ہے کہ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ ہی اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی میرے نام نکلی.غَرَسْتُ لَكَ بِيَدِی رَحْمَتِی وَ قُدْرَتِی والی انگوٹھی میاں بشیر احمد صاحب کے نام نکلی اور تیسری انگوٹھی جو وفات کے وقت آپ کے ہاتھ میں تھی اور اس پر مولا بس“ لکھا ہوا تھا.تینوں دفعہ میاں شریف احمد صاحب کے نام نکلی اب دیکھو کہ کتنا خدائی تصرف ہے.ایک بار قرعہ ڈالنے میں غلطی ہوسکتی ہے.دوسری بار قرعہ ڈالنے میں بھی غلطی ہوسکتی ہے.لیکن تین بار
تذکار مهدی ) 507 روایات سید نا محمود قرعہ ڈالا گیا اور تینوں دفعہ میرے نام آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی نکلی میاں بشیر احمد صاحب کے نام غَرَسُتُ لَكَ بِيَدِی رَحْمَتِي وَ قُدْرَتِی والی انگوٹھی نکلی اور میاں شریف احمد صاحب کے حصہ میں وہ انگوٹھی آئی جس پر مولا بس لکھا ہوا تھا.میں نے نیت کی ہوئی تھی کہ میں آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ والی انگوٹھی جماعت کو دے دوں لیکن میں اس وقت تک اسے کس طرح دے دوں.جب تک کہ وہ اس کی نگرانی کی ذمہ داری نہ لے.اگر وہ انگوٹھی میرے بچوں کے پاس رہے تو وہ کم سے کم اسے اپنی ملکیت سمجھ کر اس کی حفاظت تو کریں گے.لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ انگوٹھی اپنے بچوں کو نہ دوں.بلکہ جماعت کو دوں.اس کے لئے میں نے ایک اور تجویز بھی کی ہے.کہ اس انگوٹھی کا کاغذ پر عکس لے لیا جائے.بعد اسے زیادہ تعداد میں چھپوا لیا جائے.پھر نگینہ والی انگوٹھیاں تیار کی جائیں.لیکن نگینہ لگانے سے پہلے گڑھے میں اس عکس کو دبا دیا جائے.اس طرح ان انگوٹھیوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگوٹھی سے براہ راست تعلق ہو جائے گا.گویا أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ نگ بھی ہو گا اور وہ عکس بھی نگ کے نیچے دبایا ہوا ہو گا.پھر اس قسم کی انگوٹھیاں مختلف ممالک میں بھیج دی جائیں.مثلاً ایک انگوٹھی امریکہ میں رہے ایک انگلینڈ میں رہے.ایک سوئٹزر لینڈ میں رہے.اسی طرح ایک ایک انگوٹھی دوسرے ممالک میں بھیج دی جائے.تا اس طرح ہر ملک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تبرک محفوظ رہے.پچھلے دنوں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی ایک پران تحریر لی تھی.میں نے وہ تحریر انڈونیشیا بھیج دی ہے.تا اس امانت کو وہاں محفوظ رکھا جائے.اور اس سے وہاں کی جماعت برکت حاصل کرے.مگر الہام میں کپڑوں کا ذکر ہے.یعنی خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ الہام فرمایا تھا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.اس لئے چاہئے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں کو ایسی جگہوں پر بھجوا دیں.جہاں کیڑا نہیں لگتا.تا کہ وہ زیادہ لمبے عرصہ تک محفوظ رہیں.بہر حال نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ آگے آئیں.اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور اسلام کی خدمت کریں.تا کہ ان کو بھی یہ دن دیکھنا نصیب ہو کہ ان کے ذریعہ سے ملکوں کے ملک محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور اسلام کا جھنڈا وہاں گاڑ دیا جائے اور یہ معمولی بات نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والی اور بڑی خوشی کی بات ہے.الفضل 8 فروری 1956ء جلد 45/10 نمبر 33 صفحہ 5)
تذکار مهدی ) 508 روایات سید نا محمود بعض اوقات شکست زیادہ بہتر ہوتی ہے عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھلائے گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے.چونکہ آپ نے خالصہ خدا اور اس کے رسول کے لئے انکسار اور تذلل اختیار کیا اس لئے اس محسنِ مطلق نے نہ چاہا کہ آپ کے اس فعل کو بغیر اجر کے چھوڑے.تو بعض اوقات شکست زیادہ بہتر ہوتی ہے.اس فتح سے جس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی نہ ہو.یہ بات میں نے پہلے بھی کئی بار کہی ہے اور اب پھر اسے دہرا دیتا ہوں کہ غیر مبائعین کے مقابلہ پر ایسے ذرائع اختیار کرو.جو خدا تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کا موجب ہوں.میں نے بار بار سخت کلامی سے روکا ہے.مجھے سخت کلامی کبھی پسند نہیں.خواہ وہ میرے شدید سے شدید مخالف کے متعلق ہی کیوں نہ ہو.بے شک بعض حقائق کے بیان کرنے میں بعض سخت الفاظ کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو دوسرے کے لئے ناگوار ہوتے ہیں.مگر ان کے بیان میں بھی جہاں تک ممکن ہو سخت الفاظ سے بچنا چاہئے اور ایسے رنگ میں بات کو بیان نہ کیا جائے کہ دوسرا سمجھے کہ اس کے دل میں غصہ اور بغض ہے.جو یہ نکال رہا ہے ایک ہی بات کو سخت الفاظ میں بھی ادا کیا جا سکتا ہے اور اسی کو نرم الفاظ میں بھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.لاہور میں ایک خاندان فقیروں کا مشہور ہے.ہمارے خاندان کے ساتھ ان کے تعلقات پرانے چلے آتے ہیں ہمارے بڑے بھائی خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اور اس خاندان کے آخری رئیس بھائی بھائی بنے ہوئے تھے.ان کے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیر تھے اور وہ بہت بلند پایہ طبیب تھے اور اس وجہ سے بہت اثر رکھتے تھے.گواس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت اچھی نہ تھی.مگر انہیں طب کی وجہ سے اور ذاتی قابلیت کے باعث بہت رسوخ حاصل تھا.مسلمانوں کو اس زمانہ میں چونکہ مصائب کا شکار ہونا پڑتا تھا.اس لئے جس کسی کو کوئی مصیبت پیش آتی.ان کے پاس امداد کے لئے پہنچ جاتا تھا اور آپ ہر ایک کی کچھ نہ کچھ مدد کر دیتے اور جو تھوڑی بہت رقم ممکن ہوتی دے دیتے.اس زمانہ میں پیسہ کی بہت قیمت تھی.روپیہ کا دس دس من غلہ مانتا تھا.ایک دفعہ ان کے پاس کوئی محتاج آیا.وہ بیٹھے کام کر رہے تھے اور اپنے نوکر سے کہہ دیا کہ میاں اسے آٹھ آنہ کے پیسے دے دو.نوکر نے دیئے تو اس نے شور مچا دیا کہ اتنے بڑے آدمی ہو کر آپ مجھے صرف آٹھ
تذکار مهدی ) 509 روایات سید نا محمود آنے دیتے ہو.حالانکہ اس زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بھی یہ کافی تھے.روپیہ مہنگا تھا اور میرا خیال ہے کہ اس وقت وزیر کی تنخواہ بھی دو تین سو روپیہ ہی ہوتی ہوگی.لیکن باوجود اس کے کہ وہ مخیر آدمی تھے اور جو حاجت مند آتا.جو کچھ ممکن ہوتا اسے دے دیتے.مگر اس محتاج نے شور مچا دیا اور کام کرنا مشکل کر دیا.آپ نے اسے بہت سمجھایا مگر وہ بعض نہ آیا اور کام میں حرج کرنے لگا.آخر مجبور ہو کر آپ نے نوکر سے کہا کہ اسے پولے پولے (نرم نرم) دھکے مار کر باہر نکال دو.گو وہ مجبور ہو گئے کہ دھکے مار کر اسے باہر نکالیں.مگر شرافت کی وجہ سے سے پولے پولے دھکے مارنے کی ہدایت بھی ساتھ ہی کر دی.تو انسان اگر نرمی اور محبت کو اپنا شعور بنالے.تو لڑائی میں بھی ایسے الفاظ استعمال کئے جا سکتے ہیں کہ جو سخت نہ ہوں.جس طرح فقیر صاحب کی مثال میں نے دی ہے.یادرکھنا چاہئے کہ سخت کلامی اخلاص پر دلالت نہیں کرتی.خطبات محمود جلد 21 صفحہ 128 تا 129) حقیقی مبلغ کی خصوصیات حقیقی مبلغ وہی ہوتا ہے جس کے دل میں ہار جیت کا کوئی سوال نہ ہو.جس کو ہر وقت یہ خیال رہے کہ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جو خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل گرفت ہو.کئی دفعہ پہلے بھی یہ واقعہ سنا چکا ہوں کہ جس زمانہ میں مولوی محمد حسین بٹالوی تعلیم حاصل کر کے بٹالہ آئے تھے.تو ان کے خلاف بہت شور تھا کہ پیروں فقیروں کے منکر ہیں.لوگ ان کی بہت مخالفت کرتے تھے.انہی دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی وہاں تشریف لے گئے بعض حنفیوں نے سوچا کہ ہمارے ایک حنفی عالم آگئے ہیں.ان کو مولوی محمد حسین صاحب کے مقابلہ پر لے چلیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اپنے آپ کو شفی کہا کرتے تھے.آپ سے لوگوں نے کہا تو آپ نے فرمایا کہ اچھا چلتے ہیں.اگر کوئی بات ہوئی تو کریں گے.لوگ مجلس میں اکٹھے ہو گئے آپ بھی تشریف لے گئے.آپ فرماتے کہ ہم کو اہل حدیث کے متعلق زیادہ واقفیت اس زمانہ میں نہ تھی.اس لئے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے عقائد کیا ہیں تا کہ بحث سے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ آپ کہتے کیا ہیں.مولوی محمد حسین صاحب نے کھڑے ہو کر بیان کیا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں.رسول کو مانتے ہیں.قرآن کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہیں قرآن کریم کو حدیث پر مقدم کرتے ہیں اور حدیث کو خیالی آراء پر مقدم کرتے ہیں.غالی اہل حدیثوں
تذکار مهدی ) 510 روایات سید نامحمود کا عقیدہ تو اس سے سخت ہوتا ہے.مگر ممکن ہے مولوی محمد حسین صاحب نے مصلحت وقت کے تحت یہ بات کہہ دی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ باتیں سن کر فرمایا کہ یہ باتیں تو بالکل معقول ہیں میں ان کا جواب کیا دوں.چونکہ اس جواب سے حنفیوں کو کچھ ذلت محسوس ہوئی.اس لئے انہوں نے بہت برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور طنزیں کرنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے ہم وہاں سے آگئے اور خاص اللہ کے لئے بحث کو ترک کر دیا.رات کو خدا وند کریم نے اپنے الہام اور مخاطبت میں اس ترک بحث کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.تیرا خدا تیرے اس فعل سے راضی ہوا اور وہ تجھے بہت برکت دے گا.یہاں 66 تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ (تذکرہ 8) پس میں چاہتا ہوں کہ ان لوگوں میں سے جو مربی تیار ہوں.وہ بھی تقوی کے ماتحت کام کریں.سنجیدگی کا دامن کبھی نہ چھوڑیں اور خدا تعالی کی خوشنودی کو ہمیشہ مد نظر رکھیں.ان کا مقصد بحث کبھی نہ ہو.بلکہ ایسا نمونہ پیش کریں کہ جو دوسروں میں خرابیاں ہیں دور ہو سکیں اور وہ ایسی سد سکندری کا کام دیں جو یا جوج ماجوج کے حملوں کو روک دے.پس اس کام کے متعلق اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک میں جماعت کے نوجوانوں کو کرتا ہوں.مامور کی بیعت میں شامل ہونا خطبات محمود جلد 21 صفحہ 466-467) پس جو چیز تحریک کا سواں حصہ ہے اس پر خواہ کس قدر جوش کے ساتھ عمل کیا جائے کامیابی نہیں ہوسکتی.اصل کام وہ ہے جو جماعت کو خود کرنا ہے روپیہ تو ایسے حصوں کے لئے ہے جہاں پہنچ کر جماعت کام نہیں کرسکتی باقی اصل کام جماعت کو خود کرنا ہے.قرآن اور حدیث سے کہیں یہ پتہ نہیں چلتا کہ کسی نبی نے مزدوروں کے ذریعہ فتح حاصل کی ہو.کوئی نبی ایسا نہ تھا جس نے مبلغ اور مدرس نوکر رکھے ہوئے ہوں.خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ ایک بھی مبلغ نوکر نہ تھا اب تو جماعت کے پھیلنے کی وجہ سے سہارے کے لیے بعض مبلغ رکھ لئے گئے ہیں.جیسے پہاڑوں پر لوگ عمارت بناتے ہیں تو اس میں سہارے کے لیے لکڑی دے دیتے ہیں تا لچک پیدا ہو جائے اور زلزلہ کے اثرات سے محفوظ رہے.پس ہمارا مبلغین کو ملازم رکھنا بھی
تذکار مهدی ) 511 روایات سید نامحمود لچک پیدا کرنے کے لیے ہے وگرنہ جب تک افراد جماعت تبلیغ نہ کریں، جب تک وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کے اوقات دین کے لیے وقف ہیں، جب تک جماعت کا ہر فر دسر کو تھیلی پر رکھ کر دین کے لیے میدان میں نہ آئے اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے علیحدہ کیا ہے تو اس کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اس کے بھائیوں کی تلوار اس کے خلاف اُٹھے گی اور اس کی تلوار ان کے خلاف.جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نبی ہوگا کیونکہ نبی کے خلاف ہی ساری دنیا کی تلوار میں اٹھتی ہیں.پس جب تک کوئی شخص ساری دنیا کی تلواروں کے سامنے اپنا سر نہیں رکھ دیتا اس وقت تک اس کا یہ خیال کرنا کہ وہ اس مامور کی بیعت میں شامل ہے فریب اور دھوکا ہے جو وہ اپنی جان کو بھی اور دنیا کو بھی دے رہا ہے.ہماری جماعت کے زمیندار اور ملازم اور تاجر یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اپنے اپنے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے اور چند مبلغ ملازم رکھ کر کامیاب ہو جائیں گے کیونکہ وہ خدا کی جماعت ہیں حالانکہ یہ حالت خدا کی جماعتوں والی نہیں اس صورت میں ہم زیادہ سے زیادہ ایک انجمن کہلا سکتے ہیں.خدائی جماعت وہی ہے جس کا ہر فرد اپنے آپ کو قربانی کا بکرا بنا دے اور جس کا ہراک ممبر موت قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے.یاد رکھو جو جماعت مرنے کیلئے تیار ہو جائے اسے کوئی نہیں مار سکتا اور نہ اس کے مقابلہ پر کوئی ٹھہر سکتا ہے.(خطبات محمود جلد 16 صفحہ 6) وقف زندگی قربانی کا تقاضا کرتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جب وقف زندگی کا اعلان کیا تو گو وقف زندگی کی شرائط آپ نے خود نہیں لکھیں بلکہ میر حامد شاہ صاحب سے لکھوائیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اِن کو دیکھا اور کچھ اصلاح کے ساتھ پسند فرمایا.مجھے خوب یاد ہے ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ میں کوئی معاوضہ نہیں لوں گا چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارہ کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا.یہی وہ طریق ہے جس سے صحیح طور پر تبلیغ ہوسکتی ہے.جب ہم اعداد و شمار سے کام لینے لگتے ہیں تو اخراجات کا اندازہ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا کہ یہ اخراجات کس طرح پورے ہو
تذکار مهدی ) 512 روایات سید نا محمودی سکیں گے.پس اصل تبلیغ ہم اسی طرح کر سکتے ہیں اس کے بغیر اگر ہم تبلیغ کرنا چاہیں تو مجھے اس میں کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.چونکہ بہت سے دوستوں نے میرے اعلان پر اپنی زندگیوں کو سلسلہ کے لئے وقف کیا ہے اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ قربانی کا ارادہ اور عزم اپنے اندر پیدا کریں ورنہ سلسلہ کبھی کامیاب تبلیغ نہیں کر سکتا.اگر ایسے مبلغ آئیں جو بغیر کسی معاوضہ کے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں تو ہمیں ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہو گا.مگر آب تو لوگ اُدھر زندگی وقف کرتے ہیں اور ادھر ہمیں فکر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ بھی ہے یا نہیں کہ ہم ان کا وقف قبول کریں.لیکن اگر وہ ہم سے معاوضہ لئے بغیر نکل جائیں، سادہ لباس پہنیں اور سادہ خوراک استعمال کریں، اخلاص اور تقویٰ سے کام لیں تو نہ سلسلہ پر بار پڑ سکتا ہے اور نہ ان کو کوئی خاص پریشانی لاحق ہوسکتی ہے کیونکہ جب وہ اخلاص سے کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ اِن کے کام میں برکت ڈال دے گا اور ان کے اردگرد ایک جماعت پیدا کر دے گا.پھر وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ کسی موزوں مقام کا انتخاب کر کے وہاں بیٹھ جائیں اور لوگوں کو درس دینا شروع کر دیں.( زندگی وقف کرنے کی تحریک.انوارالعلوم جلد 17 صفحہ 298-297) حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا وقف کرنا سب سے پہلے ہمارے خاندان میں عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا اور اس وقت تک اس نے اپنے وقف کو نباہا ہے.اب دوسرے نمبر پر عزیزم عباس احمد نے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے وقف کیا ہے اور اس عزم اور ارادہ کے ساتھ باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی دین کی خدمت میں لگائے گا.اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے بعد ہمارے خاندان میں سے کس کس کو ایسے رنگ میں وقف کرنے کی توفیق ملے کہ ان کا وقف سلسلہ کے لئے فائدہ مند ہو اور جس کے حالات وقف کے مطابق ہوں تا وہ خود اپنے لئے اور جماعت کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے ساٹھ ستر سال پہلے یہ الہام شائع فرمایا تھا تری نَسُلًا بَعِيدًا اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نشان کو ایسے رنگ میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ روز بروز اس نشان کی اہمیت اور عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ جس وقت وہ شائع کئے جاتے ہیں تو بڑے ہوتے ہیں اور ان کی عظمت زیادہ
تذکار مهدی ) 513 روایات سید نا محمود ہوتی ہے مگر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس نشان کی عظمت میں آہستہ آہستہ کمی ہوتی چلی جاتی ہے.لیکن بعض نشان اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ابتداء میں چھوٹے ہوتے ہیں مگر زمانہ کے ساتھ ساتھ وہ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں جوں جوں زمانہ گزرتا ہے اُن کی عظمت بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ تَرَى نَسُلًا بَعِيدًا اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صرف دو بیٹے تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ہاں کچھ اور بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئیں اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کو وسیع کیا اور اب ان بیٹوں اور بیٹیوں کی نسلیں الہام الہی کے ماتحت شادیاں کر رہی ہیں اور تری نَسُلًا بَعِيدًا کے نئے نئے ثبوت مہیا کر رہی ہیں.دُنیا میں نسلیں تو پیدا ہوتی ہی رہتی ہیں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ یہ کونسا نشان ہے نسلیں تو دُنیا میں اکثر آدمیوں کی چلتی ہی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کتنے آدمیوں کی نسلیں ہیں جو اُن کی طرف منسوب بھی ہوتی ہیں اور منسوب ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں.اکثر آدمیوں کی نسلیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر اُن سے پوچھا جائے کہ تمہارے پردادا کا کیا نام تھا تو اُن کو پتہ نہیں ہوتا مگر تری نَسُلًا بَعِيدًا کا الہام بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نسل آپ کی طرف منسوب ہوتی چلی جاتی جائے گی اور لوگ اُنگلیاں اُٹھا اُٹھا کر کہا کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ نسل آپ کی پیشگوئیوں کے ماتحت آپ کی صداقت کا نشان ہے.پس تری نَسُلًا بَعِيدًا میں صرف یہی پیشگوئی نہیں کہ آپ کی نسل کثرت سے ہو گی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظمت شان کا بھی اس رنگ میں اس پیشگوئی میں ذکر ہے کہ آپ کا مرتبہ اتنا بلند اور آپ کی شان اتنی ارفع ہے کہ آپ کی نسل ایک منٹ کے لئے بھی آپ کی طرف منسوب نہ ہونا برداشت نہیں کرے گی اور آپ کی طرف منسوب ہونے میں ہی ان کی شان اور ان کی عظمت بڑھے گی.پس اس پیشگوئی میں خالی اس بات کا ہی ذکر نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولا د کثرت سے ہوگی بلکہ یہ بھی ذکر ہے کہ روز بروز بڑھے گی اور وہ خواہ کتنے ہی اعلیٰ مقام اور اعلیٰ مرتبہ تک جا پہنچے اور خواہ اُن کو بادشاہت بھی حاصل ہو جائے پھر بھی وہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کرنے میں ہی فخر محسوس کرے گی.پس
تذکار مهدی ) 514 روایات سید نا محمود تَرَى نَسُلًا بَعِيدًا کے یہی معنی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے که تیری نسل تجھے کبھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں کرے گی اور تیری نسل کبھی اپنے دادا کو ( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 606 تا 607) بھلانے کی کوشش نہیں کرے گی.بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اللہ تعالیٰ اپنے آخری موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں دنیا کو یہ دکھانا چاہتا ہے کہ لو بغیر جماعت کی خاص کے قربانیوں کے اور بغیر ترقی کے خاص سامانوں کے ہم اپنی طاقت اور قدرت سے ہی کام کر کے دکھا دیتے ہیں لیکن بہر حال خواہ جماعت کی قربانیوں کے بغیر یہ کام ہو.چونکہ یہ کام ہمارے ہاتھوں سے ہوگا اس لئے ہمیں عزت ضرور مل جائے گی اور مفت میں ہمیں ثواب ہو جائے گا یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ایک تنکے سے خدا تعالیٰ کشتیوں کا کام لے لے.بے شک ایک تنکا اپنی ذات میں کچھ حقیقت نہیں رکھتا لیکن جس تنکے میں خدا تعالیٰ یہ طاقت پیدا کر دے گا کہ وہ سہارا دے کر لوگوں کو دریا سے گزار دے اُس میں بھی ایک خوبی پیدا ہو جاتی ہے.اس میں بھی ایک برکت پیدا ہو جاتی ہے اگر وہ تنکا دنیا میں محفوظ ہو تو یقیناً ہزاروں میل سے لوگ اس کی زیارت کرنے کے لئے آئیں اسی طرح ہمارے ہاتھ سے اگر یہ کام ہو جائے تو ہماری مثال گو ایک تنکے کی سی ہوگی.لیکن چونکہ خدا کا کام ہمارے ہاتھ سے ہوا ہو گا.اس لئے ہمارا وجود خدا تعالیٰ کی کرامت اور اس کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک مورد اور ذریعہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں ایک نشان بن جائے گا.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کرتہ ایک نشان تھا.جس پر سُرخی کے چھینٹے پڑے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ بقیہ کپڑے نشان ہیں.جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.یہ صاف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کر نہ قربانی نہیں کر رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پاجامہ قربانی نہیں کر رہا تھا بلکہ قربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہے تھے.وہ سوز و گداز سے بھری ہوئی دعائیں جو عرش سے ٹکرا رہی تھیں.وہ خدا کے نام کی اشاعت اور اس کی بلندی کے لئے دن رات کی کوششیں جو دنیا میں ہو رہی تھیں.وہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے انوار کو پھیلانے اور آپ ﷺ کی عظمت سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے جدو جہد جو اس عالم میں جاری تھی.وہ تمام
تذکار مهدی ) 515 روایات سید نا محمود جد و جہد ، وہ تمام کوشش وہ تمام قربانی کرتہ نہیں کر رہا تھا.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کر رہے تھے.وہ رات دن کی کوفت جو مختلف علمی کتب لکھنے سے آپ کو ہوتی.وہ مخفی علوم جو آپ دنیا پر ظاہر کر رہے تھے.وہ چھپے ہوئے خزانے جن کو آپ زمین سے باہر نکال رہے تھے.وہ دولتیں جن پر لوگوں کے بخل کی وجہ سے زنگ لگ گیا تھا اور وہ سکے جن پر اس قدر میل جم چکی تھی کہ وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے.ان کو صاف کرنے اور دنیا میں پھیلانے اور لوگوں کے گھروں میں وہ مال و دولت پہنچانے اور ان کی روحانی غربت و افلاس کو دور کرنے اور انہیں ایمان کی دولت سے مالا مال کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کر رہے تھے.آپ کا کرتہ یا پاجامہ یہ کام نہیں کر رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.گویا جس نے یہ کام کیا اُس کے جسم کے ساتھ لگا ہوا گر نہ، اُس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹا ہوا پا جامہ اُسی کے سر پر رکھا ہوا عمامہ اس کی جیب میں پڑا ہوا رو مال اور اس کے پاؤں میں بڑی ہوئی جوتی بھی برکت والی ہوگی کیونکہ جس شخص سے خدا نے کام لیا یہ چیزیں اُس کے ساتھ ملی ہوئی تھیں.پس اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم اس کام کے مستحق ہیں.ہم اس کام کے اہل ہیں، ہم میں وہ خوبیاں نہیں جو اعلیٰ جماعتوں میں پائی جانی چاہئیں مگر چونکہ خدا نے ہمیں ایک درجہ دے دیا ہے.اس لئے اس کام کے ہونے کی وجہ سے ہمیں وہ برکات ملنی ضروری ہیں جو برکات ایسے کاموں سے وابستہ ہوتی ہیں لیکن بہر حال ہمارے لئے ان برکات کے حصول کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وابستہ ہونا ضروری ہے.دیکھو وہی کرتہ برکت پا گیا.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جسم سے جا ملا.اسی پاجامہ نے برکت حاصل کی جو آپ کی ٹانگوں میں لپٹا رہا.اسی پگڑی نے برکت حاصل کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہنا.وہی گلا ء عزت کا مستحق ہوا جو آپ کے سر پر رہا.اس ٹوپی نے عزت حاصل کی جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے سر پر رکھا.وہی رومال برکت حاصل کر گیا جو آپ کی جیب میں پڑا رہا اور وہی جوتی برکت والی قرار پائی جو آپ کے پاؤں میں رہی.پس برکت حاصل کرنے کے لئے کم سے کم اتنا لگاؤ کا ہونا تو ہمارے لئے ضروری ہے، جس طرح کر تہ آپ کے جسم سے چمٹا رہا ، جس طرح پاجامہ آپ کی ٹانگوں سے لپٹا رہا ، جس طرح رومال آپ کی جیب میں پڑا رہا، جس طرح عمامہ آپ کے سر پر دھرا رہا ، جس طرح جوتی آپ کے پاؤں میں پڑی رہی.اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ اگر ہم الہی برکات حاصل کرنا چاہتے
تذکار مهدی ) 6516 روایات سید نا محمود ہیں تو ہم دھونی رما کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گرد بیٹھ جائیں.اگر ہم اپنے آپ میں کرتے جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں پاجامے جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں ٹوپی جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں گلاہ جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں عمامہ جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں رومال جیسی وابستگی پیدا کر لیں.اگر ہم اپنے آپ میں جوتی جیسی وابستگی پیدا کر لیں.تبھی ہم برکتوں کے مستحق ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں.بے شک ایک کر تہ میں ذاتی طور پر کوئی برکت نہیں ہوسکتی.مگر چونکہ وہ کر نہ آپ کے جسم سے لپٹا رہا.اس لئے برکت حاصل کر گیا.اسی طرح خواہ ہماری جماعت میں کس قدر کمزوریاں پائی جاتی ہوں.جو لوگ مجازی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ لیٹے رہیں گے.وہ برکت حاصل کر لیں گے اور جو لوگ آپ کے ساتھ نہیں لپٹیں گے وہ برکت حاصل نہیں کریں سکیں گے.اول تو ہر شخص کو اپنے اندر ایسی خوبی پیدا کرنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی برکات اور اس کے انوار کو حاصل کر سکے اور خود اس کا وجود اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت کا ایک نشان بن جائے.لیکن جو شخص یہ خوبی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا.اسے کم سے کم کرتہ اور پاجامہ اور رومال اور عمامہ کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ لپٹا تو رہنا چاہئے.ورنہ وہ ان برکات کو کس طرح حاصل کر سکتا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر ہیں.الفضل مورخہ 7 اپریل 1944 ء جلد 32 نمبر 81 صفحہ 3-2) یہودہ اسکر یوطی تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت تمہارے ہاتھ میں ہے.اس لیے تمہارا فرض ہے کہ تم اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو سدھارتے چلے جاؤ تا کہ دین کی خدمت کے لیے زیادہ سے زیادہ آدمی آگے آئیں.اگر تم دین کی خدمت کے لیے آگے نہیں آؤ گے اور اپنی نسلوں کو اس کام کے لیے تیار نہیں کرو گے تو خدا تعالیٰ اس کام کے لیے اور لوگ کھڑے کر دے گا کیونکہ یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کا قائم کردہ ہے کسی انسان کا قائم کردہ نہیں.تمہیں سوچنا چاہیے کہ کیا تمہاری نظر میں احمدیت کی کوئی قیمت ہے یا تم اسے چند روپوں کے بدلہ میں بیچنے کے لیے تیار ہو؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہودا اسکر یوطی پر کتنا مذاق اُڑایا ہے کہ اُس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو میں سکوں میں یہودیوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا.اسلام تو
تذکار مهدی 517 روایات سید نا محمود حضرت عیسی علیہ السلام سے بہت زیادہ قیمتی ہے.اگر تم احمدیت کو جو حقیقی اسلام ہے سو یا دوسو کے پھیر میں آکر بیچنے کے لیے تیار ہو تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہی مذاق جو آپ نے یہودا اسکر یوطی سے کیا تھا تم پر چسپاں ہوتا ہے یا نہیں؟ ملا وامل کا علاج ( الفضل 26 فروری 1956 ء جلد 45/10 نمبر 10 صفحہ 3) ملا وامل کے متعلق حضرت صاحب کا الہام تھا.” یہودا اسکر و یوطی ایک دفعہ اس کوسل ہو گئی تھی.علاج کرانے کے واسطے حضرت صاحب کے پاس آیا کرتا تھا.نہایت نازک حالت میں اس نے اقرار کیا تھا کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو مسلمان ہو جاؤں گا لیکن ابھی تک اچھا بھلا پھرتا ہے لیکن مسلمان نہیں ہو ا.حضرت خلیفہ اول کی مالی قربانیاں الفضل مورخہ 4 مئی 1922 ء جلد 9 نمبر 86 صفحہ 6) حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب جموں میں ملازم تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک خط میں انہیں لکھا کہ آپ کو اپنی آمد کا چوتھا حصہ جمع کرنا چاہئے اس سے کم نہیں.ہاں اگر زیادہ جمع کر سکیں تو یہ اور بھی زیادہ بہتر ہے.اس کی وجہ آپ نے یہ کھی کہ آپ اپنا روپیہ چونکہ دینی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں اور ممکن ہے کل کوئی زیادہ اہم دینی معاملہ پیدا ہو جائے جس کے لئے روپیہ کی فوری ضرورت ہو اس لئے بہتر ہے کہ ابھی سے روپیہ جمع کرنا شروع کر دیں.تا زیادہ ثواب کا موقعہ آنے پر آپ کو یہ رنج نہ ہو کہ کاش میرے پاس روپیہ ہوتا اور میں اسے دین کے لئے دے سکتا.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں الفضل 13 جنوری 1937 ء جلد 25 نمبر 9 صفحہ 5 | حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے زمانہ میں ایک زمیندار شخص جس نے کبھی شہر نہیں دیکھا تھا اور نہ شہری تمدن سے واقف تھا ریاست کپورتھلہ کا رہنے والا تھا، ایک دفعہ یہاں آیا اور پھر لاہور اور امرتسر جانے کا اسے جو موقع ملا تو شہری زندگی دیکھ کر ایک دم اُس کی کایا پلٹ گئی اور اُس
تذکار مهدی ) 518 روایات سید نا محمود کے دل میں یہ شوق سمایا کہ میں شہری طرز رہائش اختیار کروں.چنانچہ یہ جنون اُس میں یہاں تک بڑھا کہ وہ سیکنڈ کلاس کے بغیر ریل میں سفر نہیں کرتا تھا اور حالت یہ ہوگئی کہ جب وہ لاہور کے سٹیشن پر اُتر تا تو رومال یا چھتری قلمی کو دے دیتا اور کہتا میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ.حضرت خلیفہ اول نے ایک دفعہ اُس سے پوچھا کہ تم یہ کیا کرتے ہو رومال اور چھتری تک خود اُٹھا نہیں سکتے اور قلمی کو دے دیتے ہو؟ کہنے لگا یہ فیشن ہے اگر قلی ساتھ نہ ہو تو انسان معزز نہیں سمجھا جاتا.نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی ساری جائدا در گرو پڑی پھر اس کے بعد اُس نے جائداد بیچ ڈالی ، پھر اپنی بوڑھی ماں کو مار پیٹ کر اُس کا زیور بیچ ڈالا اور جب اس طرح بھی کام نہ چلا تو عیسائی ہو گیا چنانچہ وہ اب تک عیسائی ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ ایک سید ہا سادہا نیک طبع نوجوان تھا.اُس کا ایک لطیفہ مشہور ہے اُس نے ہمارا باغ ایک دفعہ ٹھیکے پر لیا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے.ایک لڑکا جو بورڈنگ میں رہا کرتا تھا اب تو بہت نیک اور مخلص احمدی ہے لیکن اُس وقت بڑا شوخ مزاج ہوتا تھا.اُس نے ایک دو اور لڑکوں کو اپنے ساتھ ملا کر کہا آؤ رات کو ہم باغ میں چل کر میوے کھائیں.جب وہ میوے کھانے گئے تو اُس نے انہیں پکڑ لیا.باقی دو تو بھاگ گئے مگر یہ قابو آ گیا.شاید درخت پر تھا اور اُس سے اُتر نہ سکا یا کوئی اور سبب ہوا بہر حال وہ پکڑا گیا.جب وہ پکڑا گیا تو اس شخص نے پوچھا بتا تیرا نام کیا ہے؟ اس کے نام میں عطر کا لفظ آتا تھا.پہلے تو اس نے بتانا چاہا اور اس کے منہ سے عطر نکل گیا پھر رُکا.پھر نام بتانے لگا تو عطر کا لفظ نکل گیا.مگر پھر اس نے اپنے آپ کو روکا اور چاہا کہ میں کوئی اور نام بتا دوں.اتفاقاً اس کا ایک دوسرا نام بھی تھا جو غیر معروف تھا یعنی فضل الدین اور اس کی وجہ سے بعض لوگ اسے فجا کہتے تھے.اُس نے آخر اپنا نام فجا بتا دیا.نام پوچھ کر اس شخص نے اسے چھوڑ دیا.جب صبح ہوئی تو وہ بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ کے پاس آیا اور کہنے لگا آپ کے ایک لڑکے نے رات باغ سے پھل چرایا ہے؟ انہوں نے پوچھا اُس کا کیا نام تھا ؟ وہ کہنے لگا اُس کا نام فجا ہے.وہ کہنے لگے اس نام کا تو کوئی لڑکا بورڈنگ میں نہیں.اُس نے کہا تو پھر سکول میں ہوگا.انہوں نے کہا سکول میں بھی فجا نام کا کوئی لڑکا نہیں.پھر انہوں نے خلیہ پوچھا تو اُس نے جو حلیہ بتایا اس سے انہیں شبہ پڑا اور انہوں نے اس لڑکے کا نام لیا.تو وہ کہنے لگا یہ نام نہیں اس کا نام فجا ہے.وہ کہنے لگے تمہیں کس طرح پتہ ہے کہ اس کا نام فجا ہے؟ وہ کہنے لگا اُس نے اپنا نام یہ بتایا تھا کہ عطر عطر فجا.وہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے نجا اس نے تمہیں دھوکا دینے کیلئے بتایا ہے ورنہ اصل نام تو
تذکار مهدی ) 519 روایات سید نا محمود اُس کا وہی ہے جو پہلے اس کے منہ سے نکل گیا تھا.تو اس قسم کی سادہ طبیعت کا وہ آدمی تھا لیکن بعد میں اسراف اور اپنے ہاتھ سے کام نہ کرنے کے نتیجہ میں اُس کا مال گیا، دولت گئی ، عزت گئی اور آخر میں مذہب بھی چلا گیا.تو ہاتھ سے کام نہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں.اس سے بڑی بڑی خرابیاں پیدا ہو جاتیں اور اچھے اچھے خاندان برباد ہو جاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں غرباء ہمیشہ غربت کی حالت میں رہتے ہیں اور انہیں اپنی حالت میں تغیر پیدا کرنے کا موقع نہیں ملتا.(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 60،59) حضرت مجد دسر ہندی کے ایک شعر کو نا پسند کرنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس شعر کو جو میں آگے بیان کروں گا.بہت ہی نا پسند کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس کے کہنے والے سے مجھے بڑی ہی محبت ہے مگر اس کا یہ قول مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے کیونکہ گو اس کا مضمون ایک رنگ میں درست ہے مگر لہجہ گستاخانہ ہے.حضرت مجد دسر ہندی اپنی کسی محبت کے جوش میں کہہ گئے ہیں.من در پنجه خدا دارم چه پروائے مصطفی دارم ارے میں نے تو خدا کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے مجھے محمد ﷺ کی کیا ضرورت ہے؟ در حقیقت اس کا مفہوم بالکل محدود تھا مگر شاعری نے اسے خراب کر دیا اگر وہ اسی مضمون کو نثر میں بیان کرتے تو نہایت عمدگی سے بیان کر سکتے تھے اور وہ مضمون یہی ہے کہ جہاں محبت کا تعلق ہوتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ ہر شخص کے لئے اپنی محبت پیش کر دیتا ہے.چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا وجود کیوں نہ ہو.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں آدھی رات کے بعد اللہ تعالیٰ آسمان سے اترتا اور اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے اور رمضان کے ایام میں تو وہ اور بھی قریب آ جاتا ہے.“ (خطبات محمود جلد 23 صفحہ 433 ) اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا میں آج جس نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ میرے لڑکے مرزا اظہر احمد کا ہے جو خان سعید احمد خان صاحب مرحوم (ابن کرنل اوصاف علی خاں صاحب مرحوم ) کی
تذکار مهدی ) 520 روایات سید نا محمود لڑکی قیصرہ خانم سعید سے قرار پایا ہے.قیصرہ خانم سعید پہلے ہماری دوہری رشتہ دار تھیں لیکن اب اس نکاح کی وجہ سے ان کا ہم سے تہرا رشتہ ہو گیا ہے.ان کا ایک رشتہ تو یہ ہے کہ وہ کرنل اوصاف علی خان صاحب کی پوتی ہیں اور کرنل اوصاف علی خاں صاحب نواب محمد علی خان صاحب کے بہنوئی اور خالہ زاد بھائی تھے.گویا یہ اس شخص کے بہنوئی کی پوتی ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی لڑکی کا رشتہ دیا بلکہ بعد میں حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے زمانے میں ان کے بیٹے کو آپ کی دوسری لڑکی کا رشتہ دے دیا گیا.دوسرا رشتہ جس کی بناء خدا تعالیٰ کے ایک الہام پر ہے یہ ہے کہ یہ خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کے بیٹے عبدالمجید خان صاحب کی نواسی ہیں.خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت پرانے صحابی تھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت اپنی تاریخ کے یادرکھنے میں نہایت ست واقع ہوئی ہے.شاید ہی کوئی اور قوم ایسی ہو جو اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سست ہو جتنی ہماری جماعت ہے عیسائیوں کو لے لو.انہوں نے اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں اتنی سستی سے کام نہیں لیا اور مسلمانوں نے تو صحابہ کے حالات کو اس تفصیل سے بیان کیا ہے کہ اس موضوع پر بعض کتابیں کئی کئی ہزار صفحات پر مشتمل ہیں لیکن ہماری جماعت باوجود اس کے کہ ایک علمی زمانہ میں پیدا ہوئی ہے.اپنی تاریخ کے یاد رکھنے میں سخت غفلت سے کام لے رہی ہے.میں نے بتایا ہے کہ خان محمد خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی تھے اور آپ سلسلہ سے اتنی محبت رکھتے تھے کہ جب وہ یکم جنوری 1904ء کو فوت ہوئے تو دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے اور فرمایا آج مجھے الہام ہوا ہے کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے.حاضرین مجلس نے کہا کہ حضور کے اہل بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیریت سے ہیں.پھر یہ الہام کس شخص کے متعلق ہے.آپ نے فرمایا خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کل فوت ہو گئے ہیں اور یہ الہام مجھے انہی کے متعلق ہوا ہے.گو یا خدا تعالیٰ نے الہام میں انہیں اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.پھر ان کے متعلق یہ الہام بھی ہوا کہ اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا.“ 66 بہر حال ان کی وفات پر اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعزیت
تذکار مهدی ) 521 روایات سید نا محمودی کرنا اور یہ کہنا کہ اہل بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ روحانی رنگ میں اہل بیت میں ہی شامل تھے.پس قیصرہ خانم کا ہم سے یہ دوسرا رشتہ ہے کہ وہ اس شخص کے ایک بیٹے کی نواسی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اہل بیت میں سے قرار دیا ہے.خطبات محمود جلد سوم صفحہ 678-677 ) حافظ محمد صاحب پشاوری ایک حافظ محمد صاحب پشاوری ہماری جماعت میں ہوا کرتے تھے ،اب تو وہ فوت ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سابقون میں سے تھے، کئی سال انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں قادیان رہنے کا موقع ملا ، ان کی طبیعت میں بہت جوش تھا، اگر کسی کی ذراسی غلطی بھی دیکھ لیتے تو جھٹ کہہ دیتے وہ منافق ہے.شیعوں کی طرح ان کا یہ خیال تھا کہ ہماری جماعت میں صرف اڑھائی مؤمن ہیں.ایک وہ ، ایک حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول اور آدھے مولوی عبد الکریم صاحب، احمد یہ چوک میں سے ایک گندہ نالہ گزرا کرتا تھا اور اس پر ایک پھٹہ پڑا رہتا تھا اب تو وہاں سڑک بن گئی اور نواب صاحب کے مکانات تعمیر ہو گئے ہیں.انہوں نے وہاں بیٹھ جانا اور ہاتھ اُٹھا کر بڑے زور زور سے یہ دعائیں کرنا کہ خدایا! اپنے مسیح کو منافقوں سے بچا اس جماعت میں تو ہم صرف اڑھائی مؤمن رہ گئے ہیں.ایک دفعہ وہ پشاور جارہے تھے ساتھ اور بھی احمدی تھے کسی نے رستہ میں کوئی بات جو کہی تو انہوں نے کہا کہ یہ بات یوں ہے.وہ کہنے لگا اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ یہ بات یوں ہے حافظ محمد صاحب کہنے لگے اس کا ثبوت یہ ہے کہ میں کہتا ہوں اور میں مؤمن ہوں.وہ کہنے لگا یہ آپ نے بڑا بھاری دعوی کر دیا آپ کے اندر تکبر معلوم ہوتا ہے تو بہ کیجئے.وہ پوچھنے لگے کہ کیا آپ مؤمن نہیں؟ وہ کہنے لگا میں بھلا مؤمن کہاں ہوں میں تو گناہگار بندہ ہوں.یہ کہنے لگے اچھا اگر آپ مؤمن نہیں بلکہ گنہگار ہیں تو میں آپ کے پیچھے آئندہ نماز نہیں پڑھوں گا.ایک اور مولوی صاحب بھی ان میں موجود تھے ان سے پوچھا گیا تو وہ کہنے لگے میں بھی اپنے آپ کو مؤمن کہنے سے ڈرتا ہوں.یہ کہنے لگے اچھا جناب.اب آپ کے پیچھے بھی آئندہ سے نماز بند.کچھ عرصہ کے بعد جب دوبارہ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے تو انہوں نے شکایت کی کہ حافظ صاحب الگ نماز پڑھتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ انہوں نے جب
تذکار مهدی ) 522 روایات سید نا محمود پوچھا کہ کیا تم مؤمن ہو تو ہم نے کہا کہ ہم تو گنہگار بندے ہیں اس پر حافظ صاحب نے ہمارے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ واقعہ سن کر فرمایا حافظ صاحب سچ کہتے ہیں جب کوئی اقراری مجرم ہو جائے تو اُس کے پیچھے نماز کس طرح جائز ہو سکتی ہے.اس کے بعد آپ نے فرمایا جسے خدا تعالیٰ ایک مامور کی شناخت کی توفیق دیتا ہے اور وہ پھر بھی کہتا ہے کہ میں مؤمن نہیں تو وہ آپ مجرم بنتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عدالت میں جا کر کہہ دے کہ میں چور ہوں یا ڈاکو ہوں پس جو شخص اپنے آپ کو چور اور ڈاکو کہتا ہے جس طرح وہ مجرم ہے اسی طرح چونکہ مؤمن اور متقی ہونا ایک ہی چیز ہے اس لئے جو شخص کہتا ہے کہ میں متقی نہیں اس کے پیچھے نماز کیوں پڑھی جائے.پس در حقیقت اللہ تعالیٰ کی جو جماعتیں ہوں ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ مؤمن ہوں.جس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ملک ہوں ، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ قدوس ہوں، ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ عَزِیز ہوں اور ان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ حکیم ہوں.طاعون کے ایام میں ردی اشیاء جلوا دیں ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 142 ، 143 ) | احباب کو چاہئے کہ وہ خاص طور پر اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر کسی جگہ ایسا چوہا نکلے تو بجائے گلی میں پھینکنے کے مٹی کا تیل ڈال کر اسے وہیں جلا دیا جائے.ایسے موقعوں پر تو یہ کرنا چاہئے کہ سب ردی چیزوں کو بھی جلا دیا جائے بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ وہ پرانی پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں مثلاً ایک ٹوکری ہے جو بالکل شکستہ ہے کسی کام نہیں آ سکتی.لیکن ایک شخص اسے بھی سنبھالتا ہے کہ یہ فلاں وقت کام آئے گی.اب یا فلاں وقت وہ کام آئے گی یا وہ ہلاکت کا باعث بنے گی کیونکہ وہ دوسری ایسی ہی چیزوں میں اضافہ کا باعث ہوگی جوردی ہوتی ہے اور جو اس قسم کے وبائی امراض کے پھیلنے کا باعث ہو جاتی ہے پس ایسی تمام رڈیات کو جلا دینا چاہئے اور ان کا مطلق لالچ نہیں کرنا چاہئے.کئی سالوں کی بات ہے جب طاعون پڑی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام ردی اشیاء جلوا دیں اور میں نے خود دیکھا کہ آپ نے چند بڑے بڑے بستے جن میں کاغذات وغیرہ تھے نکلوا کر جلا دیئے.انہیں میں ایک وہ بستہ بھی جلا دیا
تذکار مهدی ) 523 روایات سید نا محمودی جس میں گالیوں کے خطوط تھے.بعد ازاں جب لوگوں کو پتہ لگا کہ اب وہ خطوط تو ان کے پاس ہیں نہیں جن کا مختلف کتابوں میں ذکر ہے تو بعض نے اعتراض بھی کئے کہ وہ خطوط کہاں ہیں مگر آپ نے اس بات کی پرواہ نہ کی کیونکہ یہ خدا کے بنائے ہوئے قانون ہیں اور احتیاط ہر ایک کے لئے ضروری ہے اور اس احتیاط سے کام لینا ہر ایک کا فرض ہے.پس ردی سامان کو جلا دینا چاہئے اور بالکل اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ نقصان ہوتا ہے کیونکہ اول تو یہ نقصان نہیں کیونکہ یہ ردی ہی تو تھا.لیکن اگر کچھ نقصان ہو بھی تو بھی جان کے مقابلہ میں اس کی کیا حقیقت ہے.پس تمام ردی سامان جلا دینا چاہئے.چوہوں کو مارنا چاہئے.زہر کی گولیاں ڈال کر یا چوہے دان رکھ کر اور جہاں تک ہو سکے اس مکان کو چھوڑ دینا چاہئے.جس میں سے چوہے نکلے ہوں اور اس میں واپس نہ آیا جائے.جب تک کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ اب اس میں خطرہ نہیں.تاریخ دانی اور بزرگی ( خطبات محمود جلد نمبر 10 صفحہ 194-193 ) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے یہ واقعہ سنا ہوا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو بڑا بزرگ کہلاتا تھا.کسی بادشاہ کا وزیر ا تفاقاً اس کا معتقد ہو گیا اور اس نے ہر جگہ اس کی بزرگی اور ولایت کا پراپیگنڈا شروع کر دیا اور کہنا شروع کر دیا کہ وہ بڑے بزرگ اور خدا رسیدہ انسان ہیں.یہاں تک کہ اس نے بادشاہ کو بھی تحریک کی اور کہا کہ آپ ان کی ضرور زیارت کریں.چنانچہ بادشاہ نے کہا اچھا میں فلاں دن اس کے پاس چلوں گا.وزیر نے یہ بات فوراً اس بزرگ کے پاس پہنچا دی اور کہا کہ بادشاہ فلاں دن آپ کے پاس آئے گا آپ اس سے اس طرح باتیں کریں تا کہ اس پر اثر ہو جائے.اور وہ بھی آپ کا معتقد ہو جائے معلوم نہیں وہ بزرگ تھا یا نہیں مگر بیوقوف ضرور تھا جب اسے اطلاع پہنچی کہ بادشاہ آنے والا ہے اور اس سے مجھے ایسی باتیں کرنی چاہئیں جن کا اس کی طبیعت پر اچھا اثر ہو.تو اس نے اپنے ذہن میں کچھ باتیں سوچ لیں اور جب بادشاہ اس سے ملنے کے لئے آیا تو وہ کہنے لگا.بادشاہ سلامت آپ کو انصاف کرنا چاہئے.دیکھئے مسلمانوں میں سے جو سکندر نامی بادشاہ گزرا ہے وہ
تذکار مهدی ) 524 روایات سید نا محمودی کیسا عادل اور منصف تھا اور اس کا آج تک کتنا شہرہ ہے.حالانکہ سکندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام سے بھی پہلے ہو چکا تھا.مگر اس نے سکندر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعد کا بادشاہ قرار دے کر اسے مسلمان بادشاہ قرار دے دیا.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی سینکڑوں سال بعد ہوا تھا کیونکہ سکندر خلافت رابعہ کے زمانہ میں تو ہو نہیں سکتا تھا کیونکہ اس وقت خلفاء کی حکومت تھی.ย حضرت معاویہ کے زمانہ میں بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس وقت حضرت معاویہ تمام دنیا کے بادشاہ تھے.بنو عباس کے ابتدائی ایام خلافت میں بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس وقت وہی روئے زمین کے حکمران تھے.پس اگر سکندر مسلمان تھا تو وہ چوتھی پانچویں صدی ہجری کا بادشاہ ہو سکتا ہے.حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سینکڑوں سال پہلے گزرا ہے تو وہ جو سینکڑوں سال پہلے کا بادشاہ تھا.اسے اس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی امت میں سے قرار دے دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اس سے سخت بدظن ہو کر فورا اٹھ کر چلا گیا.تاریخ دانی بزرگی کے لئے شرط نہیں.مگر یہ مصیبت تو اس نے آپ سہیڑی.اسے کس نے کہا تھا کہ وہ تاریخ میں دخل دینا شروع کر دے تو تاریخ کا انکار اور ایسی تاریخ کا انکار جس کو غلط کہنے کی کوئی معقول وجہ نہ ہو لوگوں کی نگاہ میں انسان کو گرا دیتا ہے.عذاب نبی کی صداقت کا نشان (الفضل 17 ستمبر 1938 ء جلد 26 نمبر 215 صفحہ 2) ہمارے زمانہ کے رسول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں اور آپ کی موجودگی میں عذاب نازل ہوئے.آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں جب طاعون کا عذاب آیا تو آپ کے اپنے قصبہ میں بھی یہ عذاب نمودار ہوا.پھر آپ کے زمانہ میں زلزلے آئے اور وہ زلزلہ بھی آیا جو کہ قادیان میں بھی محسوس کیا گیا.ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ درست نہیں کہ جہاں اور جس وقت نبی موجود ہو وہاں کوئی عذاب نہیں آتا.بات اصل میں یہ ہے کہ عذابوں کی کئی قسمیں ہیں.بعض وہ عذاب ہیں جو کہ نبی کے زمانہ میں ان کی قوم پر آتے ہیں اور اس وقت آتے ہیں جبکہ نبی ان میں موجود
تذکار مهدی ) 525 روایات سید نامحمود ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں طاعون کا عذاب آیا اور قادیان میں بھی زور کے ساتھ طاعون پڑی.نیز زلزلہ بھی آپ کے زمانہ میں اور قادیان میں بھی آیا.اس میں اس قدر شدت تھی کہ اس وقت میں نے دروازہ کی کنڈی کھولنے کی کوشش کی مگر جب میں ہاتھ ڈالتا تو زلزلے کے جھٹکے سے کنڈی میرے ہاتھ سے دُور چلی جاتی اور میں بڑی مشکل سے کنڈی کھول سکا.اس قسم کے عذاب اس وقت آیا کرتے ہیں جبکہ نبی موجود ہوتا ہے بلکہ رسول کی آمد کے ساتھ ہی ایسے عذاب آنے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ نبی کی صداقت کے نشان بنتے ہیں.اس قسم کے عذابوں سے یہ نہیں ہوا کرتا کہ کوئی ایک بستی یا ایک ملک سارے کا سارا تباہ ہو جائے بلکہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایسے عذاب میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور بعض بچالئے جاتے ہیں اور اس طرح اس رسول کی صداقت کا نشان ظاہر کیا جاتا ہے.مثلاً جب طاعون قادیان میں آئی اور شدت کے ساتھ آئی اور اس محلہ میں آئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سکونتی مکان تھا اور آپ کے مکان کے اردگرد کے مکانوں میں بہت سی اموات ہوئیں تو آپ کے مکان میں ایک چوہا بھی نہ مرا.حالانکہ حفظانِ صحت کی رو سے بوجہ اس کے کہ بہت سے لوگ آپ کے گھر میں اپنی حفاظت کے خیال سے جمع ہو گئے تھے وہاں مرض کا آجانا زیادہ قرین قیاس تھا مگر خدا تعالیٰ نے آپ کے گھر کو بالکل محفوظ رکھا اور اس طرح آپ کی صداقت کا نشان ظاہر کیا.الغرض اس قسم کے عذاب رسول کے وقت میں ہی آتے ہیں اور اس کے گرد و پیش میں آتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اس کو محفوظ رکھتا ہے اور نبی کی صداقت کو نمایاں فرما دیتا ہے.الفضل مورخہ 12 اکتوبر 1939 ء جلد 27 نمبر 234 صفحہ 3) طاعون سے قادیان کی حفاظت یہی حال زلزلہ کا ہے.اکثر زلزلے ایسے ہی ہوتے ہیں جو ساروں کی تباہی کا موجب نہیں ہوتے.کچھ لوگ مرتے ہیں تو کچھ بچ بھی جاتے ہیں.کوئٹہ کا زلزلہ نہایت ہی شدید تھا مگر پھر بھی کچھ لوگ بچ گئے.بہار کا زلزلہ نہایت خطرناک تھا مگر اس زلزلہ میں بھی بعض لوگ محفوظ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہی جو زلزلہ آیا اس سے بیس ہزار آدمی صرف کانگڑہ میں ہلاک ہوئے تھے اور بعض قصبات میں ستر فیصدی تک لوگ ہلاک ہو گئے مگر
تذکار مهدی ) 526 روایات سید نا محمود تیس فیصدی پھر بھی بچ گئے.پس اس قسم کے عذاب انبیاء کی موجودگی میں بلکہ ان کے سامنے بھی آ سکتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرق نہیں کرتا کہ نبی موجود ہے یا نہیں.ہاں نبیوں اور ان کی جماعت کو دشمنوں کے مقابلہ میں زیادہ محفوظ رکھتا ہے جیسے زلزلہ آیا تو خدا تعالیٰ نے قادیان کو اس کے نتیجہ سے بہت حد تک محفوظ رکھا لیکن لاہور اور امرتسر میں بڑی موتیں ہوئیں.سینکڑوں عمارتیں گرگئیں اور سینکڑوں لوگ مر گئے مگر قادیان کو خدا تعالیٰ نے اس قسم کی تباہی سے محفوظ رکھا.تو آگے پیچھے زلزلے آئے.ارد گرد زلزلے آئے حتی کہ قادیان میں بھی زلزلہ آیا مگر بہت حد تک یہ مقام محفوظ رہا.اسی طرح طاعون کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ نہیں تھا کہ قادیان اس کے حملہ سے بالکل محفوظ رہے گا بلکہ یہ تھا کہ بہت حد تک اسکے حملہ سے احمدی محفوظ رہیں گے اور بہت حد تک اس کے حملہ سے قادیان بچا رہے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اردگرد کے دیہات میں طاعون سے بڑی موتیں ہوئیں.کسی گاؤں کے چالیس لوگ مر گئے کسی کے پچاس.حتی کہ میں نے بتایا ہے ایک گاؤں بالکل اُجڑ گیا لیکن قادیان میں اس کا ایسا حملہ نہیں ہوا کہ ایک شور مچ جائے اور لوگ گھبرا کر بھاگنے لگ جائیں.زیادہ سے زیادہ یہاں ایک یا دو فیصدی موتیں ہوئیں.(خطبات محمود جلد 20 صفحہ 472 ) طاعون نے تباہی پھیلا دی تو پھر مجھ پر ایمان کون لائے گا ہمارا یہی اصول ہونا چاہئے کہ ہم کسی کے لئے بددعا نہ کریں.بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کے لئے دعا کرنی چاہئے.آخر انہوں نے ہی ایمان لانا ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں چوبارہ میں رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مکان کے نچلے حصے میں تھے کہ ایک رات نچلے حصہ سے مجھے اس طرح رونے کی آواز آئی جیسے کوئی عورت درد زہ کی وجہ سے چلاتی.مجھے تعجب ہوا اور میں نے کان لگا کر آواز کو سنا.تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دعا کر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ اے خدا طاعون پڑی ہوئی ہے اور لوگ اس کی وجہ سے مر رہے ہیں.اے خدا اگر یہ سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.اب دیکھو طاعون وہ نشان تھا جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی.طاعون کے نشان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے بھی پتہ لگتا ہے.لیکن
تذکار مهدی ) 527 نامحمودی روایات سیّد نا محمود جب طاعون آتی ہے تو وہی شخص جس کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لئے وہ آتی ہے.خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑاتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ اگر یہ لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.پس مومن کو عام لوگوں کے لئے بددعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ انہی کے بچانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.اگر وہ ان کے لئے بددعا کرے گا تو وہ بچائے گا کس کو؟ احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ اسلام کو بچائے.احمدیت قائم ہی اس لئے ہوئی ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچائے.انسان کی عظمت انہیں واپس دلائے.بنو عباس اور بنو امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کو جو شوکت اور عظمت حاصل تھی.آج وہی شوکت اور عظمت احمدیت مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتی ہے کہ بنو عباس اور بنو امیہ کی خرابیاں ان میں نہ آئیں.پس جن لوگوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچانے کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے.ان کے لئے ہم بددعا کیسے کر سکتے ہیں.آخر تم سے زیادہ خدا تعالیٰ کی غیرت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام میں فرمایا ہے.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوي پیمبرم اس میں خدا تعالٰی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کو مخاطب کرتے ہوئے آپ کے منہ سے کہلاتا ہے.اے میرے دل تو ان لوگوں کے خیالات ، جذبات اور احساسات کا خیال رکھا کرتا ان کے دل میلے نہ ہوں.یہ نہ ہو کہ تنگ آکر بددعا کر نے لگ جائے.آخر ان کو تیرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور وہ اسی محبت کی وجہ سے جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے تجھے گالیاں دیتے ہیں.خطبات محمود جلد 33 صفحہ 222-221) بيت الدعا ہمارے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نمونہ راہنما ہے.آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایک نمونہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے بیان فرمایا ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی ترقی میں طاعون کا بڑا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے طاعون کے بڑے زور سے پھیلنے دیر تک قائم رہنے اور اس سے لاکھوں جانوں کے تلف ہونے
528 روایات سید نا محمود تذکار مهدی ) کی پیشگوئی فرمائی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء سابق کے کلام میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک ایسا مرض پھوٹے گا.پس جب ملک میں طاعون پھوٹا اور سخت زور سے پھوٹا تو دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوا اور ہزاروں لوگ جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.گویا طاعون کی شدّت اس کا دیر تک رہنا اور لاکھوں جانوں کی اس سے ہلاکت.جماعت کی ترقی کا باعث ہوئی.پھر پیشگوئی کا پورا ہونا اپنی ذات میں خوشی کی بات ہے.مگر ایسے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نمونہ پیش کیا.وہ عجیب اور مومنوں کے لئے اسوہ ہے.آپ نے مکان میں ایک جگہ بیت الدعا بنایا ہوا تھا.وہ اب بھی موجود ہے.چھوٹی سی جگہ ہے.جہاں دو آدمی کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں.آپ رات یا دن کے وقت جب بھی دعا کرتے.بالعموم یہیں کرتے تھے.جب یہ جگہ تعمیر ہونے لگی تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کیا کہ اگر ایسا ہی کمرہ اس کی چھت پر اور بن جائے.تو میں بھی وہاں حضور کے ساتھ دعا میں شریک ہو جایا کروں.چنانچہ آپ نے اس کے اوپر بھی کمرہ بنوا دیا اور مولوی صاحب بھی وہاں جا کر دعا کیا کرتے تھے.مولوی صاحب کا بیان ہے کہ ایک دفعہ نیچے کے کمرہ سے رونے اور گریہ وزاری اور کراہنے کی آواز آرہی تھی.اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کوئی عورت دردزہ سے کراہ رہی ہے.میں نے کان لگا کر سننا شروع کیا کہ کیا بات ہے.تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دُعا کر رہے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہوئے آہستہ آہستہ عرض کر رہے ہیں کہ الہی اگر تیرے بندے اسی طرح طاعون سے مرتے گئے تو پھر ایمان کون لائے گا.کتنے احمدی ہیں.جو کسی اندازی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ایسا نمونہ دکھاتے ہیں.عام طور پر ایسے موقع پر ایک ہی پہلو سامنے ہوتا ہے.یعنی پیشگوئی پورا ہونے پر خوشی کا پہلو.مگر یہ طریق غلط ہے.یہ خوشی کا ہی موقع نہیں ہوتا.بلکہ متضاد جذبات کا وقت ہوتا ہے.ایک طرف تو خوشی ہوتی ہے کہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے اور ددوسری طرف رنج کہ اللہ تعالیٰ کے بندے عذاب میں مبتلا ہو رہے ہیں.پس ایسے وقت میں مومن کے دل میں متضاد جذبات پیدا ہونے چاہئیں.( خطبات محمود جلد 22 صفحہ 241 تا 243 )
تذکار مهدی ) صداقت کا نشان دیکھنے کی خواہش 529 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے کہ امریکہ کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کے لئے قادیان آیا اور اُس نے کہا کہ آپ مجھے اپنی صداقت کا کوئی نشان دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے فرمایا آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اس نے کہا یہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اس وقت جب مجھے قادیان سے باہر کوئی بھی نہیں جانتا تھا.الہاما بتایا تھا کہ يَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ یعنی اللہ تعالیٰ دور دراز علاقوں سے تیرے پاس آدمی بھیجے گا اور وہ اتنی کثرت سے آئیں گے کہ جن راستوں پر وہ چلیں گے ان میں گڑھے پڑ جائیں گے.اب آپ بتائیں کہ کیا میرے دعویٰ سے قبل آپ میرے واقف تھے.اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر آپ جو یہاں میرا دعویٰ سن کر آئے ہیں.تو الہی تصرف کے ماتحت ہی آئے ہیں.پس آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اسی طرح آپ لوگ جو یہاں جمع ہوئے ہیں.آپ میں سے بھی ہر فرد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے.کجاوہ زمانہ تھا کہ قادیان میں جب پہلا سالانہ جلسہ ہوا تو اس میں صرف چھہتر 75 آدمی شریک ہوئے اور کجا یہ زمانہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے نصف لاکھ سے زیادہ مخلصین اس جلسہ میں شریک ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے اور دنیا کے سامنے اس امر کا کھلے بندوں اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا مگر سلسلہ کی یہ عظیم الشان ترقی جہاں ہمارے دلوں کو خوشی سے لبریز کر دیتی ہے.وہاں غم و اندوہ کی ایک درد ناک تلخی بھی اس میں ملی ہوئی ہے کیونکہ یہ خوشی جس مقدس انسان کے طفیل ہمیں میسر آئی وہ آج اس دنیا میں موجود نہیں ہے.خود میرے احساسات کی تو یہ حالت ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے سلسلہ کی خدمت کی اور اس دنیا سے گزر گئے وہ مجھے آج تک نہیں بھولے.میری نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات آج بھی اسی طرح تازہ ہے.جس طرح اس دن تھی جس دن آپ کا وصال ہوا پھر میری نظر میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح اس دن تھی جب آپ کا انتقال ہوا کیونکہ میرے نزدیک وہ شخص جو اپنے کسی احسان کرنے والے کو بھول جاتا ہے وہ پرلے درجہ کا حسن کش ہے.الفضل 2 جنوری 1962ء جلد 51/16 نمبر 1 صفحہ 3)
تذکار مهدی ) یادیں بھلائی نہیں جاسکتیں 530 روایات سید نا محمودی میں نے جب کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ پڑھا ہے کہ آپ نے جب پہلی مرتبہ چکی سے پسے ہوئے باریک آٹے کی روٹی کھائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے آپ کے آنسو بہہ پڑے تو اس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگ جاتے ہیں ایک عورت کہتی ہے میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے کہ اتنی عمدہ روٹی کھا کر بھی آپ کے آنسو بہہ رہے ہیں.انہوں نے فرمایا جب میں نے اس روٹی کا ایک لقمہ اپنے منہ میں ڈالا تو مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آگئے کیونکہ آپ کے زمانہ میں چکیاں نہیں تھیں ہم صرف سل بٹہ پر غلہ کوٹ کر اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے.مجھے خیال آیا کہ اگر اس وقت بھی چکیاں ہوتیں اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ملائم اور بار یک آٹے کی روٹی کھلاتی تو آپ کو کتنی راحت پہنچتی.میری حالت بھی ایسی ہی ہے.سلسلہ کی کوئی ترقی اور کوئی فتح نہیں.جو ایک رنگ میں میرے لئے غم کا ایک نیا سامان پیدا نہیں کرتی کیونکہ اس وقت مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ آج اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ ہوتے تو جو فتوحات اور کامیابیاں ہمیں حاصل ہو رہی ہیں ان کے پھول ہم آپ کے قدموں میں جا کر ڈال دیتے.مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ لوگ جو اپنا خون بہا کر اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہلکان کر کے خدائی کھیت میں بیج ڈالتے ہیں وہ پھل کاٹتے وقت اس دنیا میں موجود نہیں ہوتے لیکن ہمارا دل ان کو کب بھلا سکتا ہے.ہم ان کی یاد کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں.ایک ایک کام جو ہمارے سلسلہ میں ہو رہا ہے.ایک ایک علمی مسئلہ جوصل ہو رہا ہے.ایک ایک فیضان الہی جو ہم پر نازل ہو.انہی کی دعاؤں اور برکتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے.الفضل 2 جنوری 1962 ء جلد 51/16 نمبر 1 صفحہ 3 | علم غیب کی حقیقت مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب ہم نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے پڑھنا شروع کیا.تو میرے ساتھ میر محمد اسحاق صاحب بھی شامل ہو گئے.ہم دونوں اس وقت بہت چھوٹی عمر کے تھے.ان کی عمر کوئی دس سال کی تھی اور میری عمر بارہ سال کی تھی.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے
تذکار مهدی ) 531 روایات سید نامحمود صحابی کے ایک بیٹے ہوا کرتے تھے.جو پرانی طرز کے مولوی تھے اور ان کے خیالات بھی جاہل مولویوں والے تھے.کبھی بات ہوئی اور ہم نے کہنا کہ علم غیب تو خدا کو حاصل ہے.تو انہوں نے یہ کہنا شروع کر دینا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی عالم الغیب تھے.ہمیں چونکہ بچپن ہی سے شرک کے خلاف تعلیم ملی تھی.اس لئے ہم ان سے بحث شروع کر دیتے.میری طبیعت میں تو شرم اور ہچکچاہٹ تھی.اس لئے میں لمبی بحث نہ کرتا.مگر میرمحمد اسحاق صاحب اس کے پیچھے پڑ جاتے.مگر وہ بار بار یہی کہتا کہ نہ نہ یہ نہ کہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم الغیب حاصل نہیں تھا.ایک دن میر محمد اسحاق صاحب نے اپنے سر سے ترکی ٹوپی اتاری اور اسے چکر دیا.جب انہوں نے ٹوپی ہلائی تو اس کا پھندنا ہلا.اس پر انہوں نے کہا کہ بتاؤ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ ہے کہ اس کا پھندنا ہلا ہے.کہنے لگا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہے کہ اس کا پھندنا بلا ہے.اس پر ہم سب ہنس پڑے مگر وہ بڑی سنجیدگی سے یہی سمجھتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آدم سے لے کر اپنے زمانے تک اور اپنے زمانہ سے لے کر قیامت تک واقعہ ہونے والی ہر بات کا علم ہے.یہاں تک کہ اگر ٹوپی کا پھندنا ہلا ہے تو اس کا بھی آپ کو پتا ہے.الفضل 5 جولائی 1956 ء جلد 45/10 نمبر 155 صفحہ 3) طاعونی احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت کا ایک حصہ طاعونی احمدی ہے.یعنی ہزاروں ایسے لوگ ہماری جماعت میں شامل ہیں جو اگر چہ احمدیت قبول نہ کرنے کی حالت میں بھی احمدیت کو سچا سمجھتے تھے لیکن اگر طاعون نہ آتی تو وہ کہتے کہ ہمیں ظاہراً جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے اتنا ہی کافی ہے کہ ہم نے دل میں احمدیت کو سچا مان لیا مگر جب طاعون آئی اور اس نے احمدی اور غیر احمدی میں ممتاز فرق پیدا کرنا شروع کیا اور انہوں نے دیکھا کہ طاعون غیر احمدیوں کو کھائے چلی جا رہی ہے تو وہ کھلے طور پر احمدی کہلانے لگ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنستے ہوئے اس حصہ جماعت کو طاعونی احمدی کہا کرتے تھے.اسی طرح وہ شخص جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ وہ دوزخ سے بچ جائے ، اللہ تعالیٰ کے عذابوں سے محفوظ رہے وہ طاعونی احمدی کی طرح نجاتی مومن تو کہلا سکتا ہے مگر حقیقی نہیں.حقیقی
تذکار مهدی ) 532 روایات سید نا محمود وہی ہے جسے تقرب الہی کی خواہش ہو اور پھر وہ اس کے حصول کے لئے کوشش بھی کرے مگر یہ چیز تفصیلی ایمان کے بغیر نصیب نہیں ہوتی.خطبات محمود جلد 13 صفحہ 544) جو کچھ ہو گا دعاؤں سے ہوگا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ چاروں طرف ہمارے نشان ظاہر ہورہے ہیں مگر لوگ اندھے ہو کر چلتے ہیں.تم ہی بتاؤ کہ کونسی سیکھنے والی بات باقی رہ گئی ہے اور کیوں تمہارا قدم عمل کی طرف نہیں اٹھتا، کس دن کا تمہیں انتظار ہے.میں حیران ہوں کہ جولوگ اپنے وقتوں اور جائدادوں کی قربانیاں نہیں کر سکتے وہ اپنے نفوس کی قربانیاں کس طرح پیش کر دیں گے.یہ بات یاد رکھو کہ قومی عزت بغیر قربانیوں کے قائم نہیں ہو سکتی وہ لوگ جنہیں اپنی قومی عزت کا خیال نہیں اور وہ لوگ جن میں قومی غیرت موجود نہیں وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں.وہ دنیا میں ایسے ہی پھرتے ہیں جیسے گائیں اور بھیڑیں پھرتی ہیں وہ لوگ اپنی قوم کے لئے کسی فائدے کا موجب نہیں.ابتدائی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رؤیا دیکھا کہ ایک لمبی نالی ہے جو کہ کئی کوس تک چلی جاتی ہے اور اس پر ہزارہا بھیٹر میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیٹر پر ایک قصاب بیٹھا ہے وہ بھیڑ میں اس طرح لٹائی گئی ہیں کہ ان کا سر نالی کے کنارہ پر ہے کہ ذیج کرتے وقت ان کا خون نالی میں پڑے باقی حصہ ان کے وجود کا نالی سے باہر ہے اور ان تمام قصابوں کے ہاتھ میں ایک ایک چھری ہے جو کہ ہر ایک بھیٹر کی گردن پر رکھی ہوئی ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے گویا خدا تعالیٰ کی اجازت کے منتظر ہیں وہ لوگ جو دراصل فرشتے ہیں بھیڑوں کے ذبح کرنے کے لئے مستعد بیٹھے ہیں محض آسمانی اجازت کی انتظار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تب میں ان کے نزدیک گیا اور میں نے قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان کو کہہ دے کہ میرا خدا تمہاری پرواہ کیا رکھتا ہے اگر تم اُس کی پرستش نہ کرو اور اُس کے حکموں کو نہ سنو.میرا یہ کہنا ہی تھا کہ فرشتوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمیں اجازت دی گئی ہے گویا میرے منہ کے لفظ خدا کے لفظ تھے.تب فرشتوں نے جو قصابوں کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے فی الفور اپنی بھیڑوں پر چھریاں پھیر دیں اور چھریوں
تذکار مهدی ) 533 روایات سید نا محمودی کے لگنے سے بھیڑوں نے ایک دردناک طور پر تڑپنا شروع کیا.تب ان فرشتوں نے سختی سے ان بھیڑوں کی گردن کی تمام رگیں کاٹ دیں اور کہا تم چیز کیا ہو گوہ کھانے والی بھیٹر میں ہی ہو.اس رویا میں اللہ تعالیٰ نے دنیا دار اور دنیا پرست لوگوں کی تشبیہہ گوہ کھانے والی بھیڑوں سے دی ہے کہ ایسے لوگوں کی خدا تعالیٰ کو پرواہ ہی کیا ہے جس طرح بھیٹر میں بغیر کسی درد کے ذبح کی جاتی ہیں اسی طرح ایسے لوگ ذبح کیئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ان پر رحم نہیں کھائے گا.اللہ تعالیٰ بھی انہی لوگوں کی پرواہ کرتا ہے جو اس کی پرواہ کرتے ہیں.آخر رسول کریم ﷺ بھی آدمی ہی تھے کہ تمام دنیا کی مخالفت ان کو کوئی گزند نہ پہنچا سکی.بلحاظ بشریت کے دوسرے انسانوں کی طرح آپ بھی ایک بشر تھے اور ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ایک انسان کے خلاف ایک گاؤں کے لوگ ہی ہو جائیں تو اس کا جینا دشوار ہو جاتا ہے لیکن تمام دنیا ایک طرف تھی اور آپ ایک طرف تھے اس کے باوجود دنیا آپ کا بال بھی بیکا نہ کر سکی.ان لاکھوں لاکھ انسانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی غیرت نہ بھر کی لیکن اس ایک انسان کے لئے خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آگئی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا.واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس گویا یہ تمام دنیا کو ایک چیلنج تھا کہ تم ہمارے اس بندے کو چھیڑ کر تو دیکھو کہ تمہارا کیا حال ہوتا ہے میں اللہ جو تمام کائنات عالم کا مالک ہوں میں اس کی حفاظت کرنے والا ہوں.بعض دفعہ دشمن آپ تک پہنچ بھی گیا لیکن اللہ تعالی نے ایسے معجزانہ طور پر آپ کو بچایا کہ آج تک دنیا ان واقعات کو پڑھ کر حیران رہ جاتی ہے.( اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 378-377) دعاؤں کی عادت ڈالیں لوگوں کے دلوں سے دُعاؤں پر ایمان جاتا رہا ہے بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ بعض احمدیوں کی دُعائیں بھی رسمی ہوتی ہیں.دوسرے احمدی دُعا کرتے ہیں اس لئے وہ بھی شریک ہو جاتے ہیں مگر دُعا قبول وہی ہوتی ہے جس کے ساتھ یقین ہو اور یہ مقام عارف کو ہی حاصل ہوتا ہے.مومن کو تو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی نظر آتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ تھے چلتے چلتے جب ان کا گھوڑا رکتا تو وہ سمجھ لیتے کہ میں نے کوئی گناہ کیا ہے.انسان کا نفس خدا تعالیٰ کی سواری کے لئے بمنزلہ گھوڑے کے
تذکار مهدی ) 534 روایات سید نا محمودی ہے اور جب وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے تو میرا گھوڑا بھی میری نافرمانی کرتا ہے تو عارف ہر چیز میں خدا تعالیٰ کا نشان دیکھتا ہے.مگر نادان بڑے بڑے نشانات سے بھی یونہی گزر جاتا ہے لیکن حق یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور ایک مقام ایسا ہے کہ اس میں وہ ہر کافر و مومن کی دُعا سنتا ہے اور اس میں کوئی امتیاز نہیں کرتا.( خطبات محمود جلد 20 صفحہ 359) مصیبت باعث راحت ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ امت اسلامیہ کے لئے یہی مقدر ہے کہ جب کبھی بھی اس کے لئے مصائب اور مشکلات اور خطرات پیدا ہوں تو خدا تعالیٰ انہی خطرات میں سے اس کے لئے بہتری کے سامان پیدا کر دے.مولانا روم صاحب کا شعر ہے ہر بلا میں قوم را حق داده است زیر آن یک گنج با بنهاده است جس کو ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پڑھ کر فرمایا کرتے تھے.اگر کوئی قوم یا جماعت واقعہ میں مسلمان بن جائے تو اس کے تمام مصائب اور تمام خطرات جن میں وہ گرفتار ہو اس کے لئے موجب نجات و ترقی ہو جاتے ہیں اور اس پر کوئی مصیبت نہیں آتی جس کا نتیجہ اس کے لئے سکھ نہیں ہوتا.(خطبات محمود جلد نمبر 9 صفحہ 166 ) ہستی باری تعالیٰ یہ بھی ثابت ہے کہ دہریے بھی مرتے وقت یہی کہتے رہے ہیں کہ ہم خدا کی ہستی کا انکار نہیں کرتے.ممکن ہے کہ خدا ہو.چنانچہ ولایت میں ایک دہریے نے مرتے وقت بہت بڑی جائیداد اس بات کے لئے وقف کی کہ اس کے ذریعہ خدا کی ہستی پر بحث جاری رہے منکرین خدا کے متعلق تو اس قسم کی باتیں ثابت ہیں مگر خدا کے ماننے والوں میں سے کبھی کسی نے مرتے وقت نہیں کی کہ شاید خدا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ہمارے (ہمارے سے مراد حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ہیں ) ماموں میر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ ایک دہر یہ پڑھا کرتا تھا
تذکار مهدی ) 535 و روایات سید نا محمودی ایک دفعہ زلزلہ جو آیا تو اس کے منہ سے بے اختیار رام رام نکل گیا.میر صاحب نے جب اس سے پوچھا کہ تم تو خدا کے منکر ہو پھر تم نے رام رام کیوں کہا؟ کہنے لگے غلطی ہوگئی یونہی منہ سے نکل گیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ دہریے جہالت پر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو ماننے والے علم پر اس لئے مرتے وقت یا خوف کے وقت دہر یہ یہ کہتا ہے کہ ممکن ہے میں ہی غلطی پر ہوں اور نہ اگر وہ علم پر ہوتا تو اس کی بجائے یہ ہوتا کہ مرتے وقت دہر یہ دوسروں کو کہتا کہ خدا کے وہم کو چھوڑ دو کوئی خدا نہیں مگر اس کے الٹ نظارے نظر آتے ہیں.پس خدا تعالی کی ہستی کی یہ بہت زبردست دلیل ہے کہ ہر قوم میں یہ خیال پایا جاتا ہے.( ہستی باری تعالی.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 286) حفظ مراتب کا خیال ہر چیز کا خدا تعالیٰ نے ایک مرتبہ رکھا ہے اور اس مرتبہ کی حدود کے اندر اسے دیکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی یہ قول اگر چہ ہے تو کسی اور کا مگر آپ اس کا بہت ذکر فرمایا کرتے تھے اس کا مطلب ہے کہ جب تو ہر چیز کو اس کے دائرہ کے اندر نہیں رکھے گا بڑے کو بڑا اور چھوٹے کو چھوٹا نہیں سمجھے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تو زندیق ہو جائے گا.پس شہادت کے مختلف دائرے ہیں ہو سکتا ہے ایک شخص ہندو ہو یا عیسائی ہو اور وہ اپنے مال یا جان کی حفاظت میں مارا جائے وہ بھی اس حدیث کے ماتحت شہید سمجھا جائے گا اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر ایک مسلمان اپنے مال و جان کی حفاظت میں مارا جائے تو اسے اللہ تعالیٰ کے حضور اور بھی زیادہ درجہ ملے گا اور اگر ہندو اور عیسائی مارا جائے تو بھی اللہ تعالیٰ اسے اجر سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر شخص کی بزدلی کو سخت ناپسند فرماتا ہے.صحبت کا اثر خطبات محمود جلد 13 صفحہ 371) ایک دفعہ ایک سکھ طالب علم نے جو گورنمنٹ کالج میں پڑھتا تھا اور حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 536 روایات سید نا محمود علیہ السلام سے اخلاص رکھتا تھا حضرت صاحب کو کہلا بھیجا کہ پہلے مجھے خدا پر یقین تھا مگر اب میرے دل میں اس کے متعلق شکوک پڑنے لگ گئے ہیں.حضرت صاحب نے اسے کہلا بھیجا کہ جہاں تم کالج میں بیٹھتے ہو اس جگہ کو بدل لو.چنانچہ اس نے جگہ بدل لی اور پھر بتا یا کہ اب کوئی شک نہیں پیدا ہوتا جب یہ بات حضرت صاحب کو سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس پر ایک شخص کا اثر پڑ رہا تھا جو اس کے پاس بیٹھتا تھا اور وہ دہر یہ تھا.جب جگہ بدل لی تو اس کا اثر پڑنا بند ہو گیا اور شکوک بھی نہ رہے تو بُرے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بھی بلا اس کے کہ وہ کوئی لفظ کہے اثر پڑتا ہے اور اچھے آدمی کے پاس بیٹھنے سے بلا اس کے کہ وہ کچھ کہے اچھا اثر پڑتا ہے.پس دنیا میں خیالات ایک دوسرے پر اثر کر رہے ہوتے ہیں مگر ان کا پتہ نہیں لگتا.بچوں کو پگڑی پہننے کی تلقین ملائکۃ اللہ.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 537 ) ایک شادی کے موقعہ پر ایک دفعہ مجھے لاہور جانا پڑا جو لوگ شادی میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے ان میں لاہور کے ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر بھی تھے..کہنے لگے ہمیں آسٹریا کے مال کا بائیکاٹ کرنا چاہئیے اور اس کی کوئی چیز نہ خریدنی چاہئیے.میں اس وقت ٹوپی پہنے ہوئے تھا جو کہ اتفاقاً اٹلی کی بنی ہوئی تھی.وہ ایڈیٹر صاحب کہنے لگے کہ آسٹریا کی بنی ہوئی ٹوپیاں ہمیں نہیں پہنی چاہئے.میں نے کہا کہ میں تو اس خیال میں آپ سے متفق نہیں لیکن میری یہ ٹوپی تو اٹلی کی بنی ہوئی ہے.جس وقت کا یہ ذکر ہے اس وقت میں ٹوپی پہنا کرتا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹوپی کو پسند نہیں فرمایا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک دفعہ عید کے دن میں نے ٹوپی پہنی تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا.ہیں ! تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہوئی ہے.میں نے اسی وقت جا کر ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی ( اس کے کچھ عرصہ بعد میں نے بالکل ٹوپی کا استعمال ترک کر دیا ) ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ نہیں ہمیں لڑکی کی مخالف سلطنتوں کی چیزوں کا ضرور بائیکاٹ کر دینا چاہئے میں نے کہا ہم ایک بائیکاٹ سے فارغ ہو لیں تو پھر اور کسی کا بھی بائیکاٹ کر لیں گے اس نے کہا آپ کس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں.میں نے کہا شیطان کا سارے ملکوں پر شیطان کی حکومت ہے اور یہ ہمارے حقوق دن بدن دبائے جا رہا ہے
تذکار مهدی ) 537 روایات سید نامحمودی اور روز بروز ہمیں کمزور کر رہا ہے.کیا تمہیں اس کے بائیکاٹ کا فکر نہیں.ہم تو جب اس کا بائیکاٹ کرلیں گے تو پھر اوروں کو دیکھا جائے گا.ململ کی پگڑی برکات خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 207-206 ) | فیشن بدلنے کا شوق ہوتا ہے اس لئے اگلے سال کپڑے کا کوئی نیا ڈیزائن بازار میں آجائے گا اور پہلا ڈیزائن غائب ہو جائے گا.بلکہ بعض دفعہ ایک عام استعمال میں آنے والی چیز بھی ایسی غائب ہو جاتی ہے کہ اسے تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے.مثلاً ہمارے ملک کے تجربہ نے یہ بتایا ہے کہ نمبر 26 کی ململ کی پگڑی اچھی ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی نمبر 26 کی ململ کی پگڑی ہی پہنا کرتے تھے اور میں بھی نمبر 26 کی ململ کی پگڑی ہی پہنتا ہوں.لیکن اب یہ عمل بازار سے غائب ہو گئی ہے اور اس کا حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے.اب کوئی واقف کار ملتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ کہیں سے نمبر 26 کی ململ لا دو کیونکہ اسی ململ کی پگڑی باندھنے کی عادت پڑی ہوئی ہے.دوسری ململ موٹی ہو جاتی ہے اور اس کی پگڑی ہاتھ میں نہیں آتی اور یا پھر پتلی ہو جاتی ہے لیکن ابھی ایک نسل بھی نہیں گزری کہ یہ عمل بازار میں نہیں ملتی.بچپن میں جولٹھا آپ لوگ پہنا کرتے تھے.وہ آج نہیں ملتا.جس لٹھے کے کپڑے تم اب پہنتے ہو.وہ تمہارے بڑھاپے کے وقت نہیں ہو گا.لیکن جہاں تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد فیشن بدل جاتا ہے.وہاں تمہارا پرانا طریق نہیں بدلتا.وہی زربفت آج پائی جاتی ہے.جو سینکڑوں سال پہلے لوگ پہنا کرتے تھے.وہی مخمل اور دمشقی آج پائی جاتی ہے.جو آج سے ہزاروں سال پہلے مستعمل تھی.( خطبات محمود جلد 33 صفحہ 307) مصروفیت کی وجہ سے لباس کی طرف توجہ نہیں رہتی اگر کوئی شخص ان باتوں میں ہمہ تن مشغول ہو تو اسے یہ موقعہ ہی نہیں ملتا کہ وہ لباس کی درستی کی طرف توجہ کرے.میں نے دیکھا ہے کام کی کثرت کی وجہ سے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ادھر میں کھانا کھا رہا ہوتا ہوں اور ادھر اخبار پڑھ رہا ہوتا ہوں.بیویاں کہتی بھی ہیں کہ اس وقت اخبار نہ پڑھیں کھانا کھا ئیں.مگر میں کہتا ہوں میرے پاس اور کوئی وقت نہیں.پھر کئی دفعہ لوگ
تذکار مهدی ) 538 روایات سید نا محمود میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں آپ کے لباس میں یہ نقص ہے وہ نقص ہے.مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے تو اس بات کا احساس بھی نہیں.آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا کیوں خیال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم نے دیکھا ہے گو مخالف اس پر ہنسی اڑاتے اور یہ کہتے ہیں کہ آپ نعوذ باللہ پاگل تھے.مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کئی دفعہ بوٹ ٹیڑھا پہن لیتے.دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور بایاں بوٹ دائیں پاؤں میں.وہ نادان نہیں جاتے کہ جس کا دماغ اور باتوں کی طرف شدت سے لگا ہوا ہو.اسے ان معمولی باتوں کی طرف توجہ کی فرصت ہی کب مل سکتی ہے.اسی طرح کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ بٹن اوپر نیچے لگا لیتے.یعنی اوپر کا بٹن نچلے بٹن کے کاج میں اور نیچے کا بٹن اوپر کے بٹن کے کاج میں لگا دیتے.میرا بھی یہی حال ہے کہ دوسرے تیسرے دن بٹن اوپر نیچے ہو جاتے ہیں اور کوئی دوسرا بتا تا ہے تو درستی ہوتی ہے.گو بوٹ کے متعلق اب تک میرے ساتھ ایسا کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا کہ بایاں بوٹ میں نے دائیں پاؤں میں پہن لیا ہو اور دایاں بوٹ بائیں پاؤں میں اور اس کی وجہ شائد یہ ہے کہ میرے پاؤں پر بھنوری ہے اور ڈاکٹر نے مجھے بچپن سے ہی بوٹ پہنے کی ہدایت کی ہوئی ہے اور چونکہ بچپن سے ہی مجھے بوٹ پہننے کی عادت ہے.اس لئے ایسا کبھی اتفاق نہیں ہوا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تو اکثر ایسا ہوا کہ چلتے چلتے آپ کو ٹھوک لگتی اور کوئی دوسرا دوست بتاتا کہ حضور نے گر گابی الٹی پہنی ہوئی ہے اور آخر آپ نے انگریزی جوتی پہنی بالکل ترک کر دی.تو انسانی دماغ جب ایک طرف سے فارغ ہو تبھی دوسرا کام کر سکتا ہے.اگر ہم اپنے دماغ کو ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف لگا دیں تو اسلام کی ترقی کے کام ہم کب کر سکیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کھانے اور لباس میں انسان کو سادگی کا حکم دیا ہے.تا کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھنے کی بجائے اہم امور کی طرف توجہ کرے.لباس کی نہیں خوبیوں کی عزت ( الفضل 11 فروری 1938 ء جلد 26 نمبر 35 صفحہ 5) پچھلے سال شملہ میں دیکھنے کا اتفاق ہوا.بعض لوگ جسم کو اکڑائے اور سر کو اٹھائے چلتے ہوئے نہایت بھونڈے معلوم ہوتے تھے.یورپین لباس سے عزت نہیں بلکہ ان کی خوبیوں کو حاصل کرنے میں عزت ہے.ان
تذکار مهدی ) 539 روایات سید نا محمودی لوگوں نے نقل کی نقل تو کی مگر بھونڈی اور فضول نقل کی.جوان کے لئے بجائے فائدہ مند ہونے اور ذلیل کن ہے کیونکہ انسان معزز کوٹ پتلون و ہیٹ سے نہیں بن جاتا اور نہ ہی یورپ کے لوگ اپنے لباس کی وجہ سے معزز ہیں بلکہ کسی اور وجہ سے ہیں.ان لوگوں کو اگر اُن کی نقل کرنی تھی تو ان صفات کی کرتے جن سے وہ دنیا میں معزز ہیں.مثلاً دنیا ہی کو وہ سب کچھ سمجھتے ہیں.اور اس کے لئے کوئی بڑی سے بڑی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتے.لیکن اگر ان لوگوں کو کسی دور سفر پر جانے کے لئے کہا جائے.تو اول تو موجودہ زمانہ میں جہاز کے سفر کے خطرے کو رستے میں روک بنائیں گے.اور اگر جہاز کا سفر نہ ہو تو کسی ایسی جگہ کا سفر ہو جہاں ریل نہ جاتی ہو تو ریل کے نہ ہونے کا عذر کیا جائے گا.پھر اگر یورپ کے لوگوں کو مذہبی طور پر بھی دیکھا جائے.تو ان کی قربانیاں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.افریقہ کے وحشیوں نے سینکڑوں مشنری عورتوں کو بھون کر کھا لیا.مگر ایک کے بعد دوسری فوراً چلی جاتی اور عیسائیت کی اشاعت میں لگ جاتی اور اگر ایک کی ہلاکت کی خبر پہنچتی ہے.تو کئی درخواستیں آتی ہیں کہ ہم کو وہاں بھیجا جائے.چین میں اس وقت تک سات ہزار عیسائی مشنری قتل کیا گیا ہے.لیکن ایک مارا جاتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا چلا جاتا ہے.ان کی نقل کرنے والے محض لباس اور چال میں نقل اتارنے سے چاہتے ہیں کہ ان کی طرح عزت حاصل ہو جائے مگر اس سے یہ ممکن نہیں.عزت ان کی عمدہ صفات حاصل کرنے سے ہو سکتی ہے.بنگال اور مدراس کے لوگ تعلیم میں بہت ترقی کر گئے ہیں مگر اپنا لباس وہی رکھتے ہیں.بنگالی سر ننگے اور دھوتی باندھے ہوئے ہوتے ہیں.مفتی صاحب جب مدراس گئے تو انہوں نے بتایا کہ چیف کورٹ کے جج بھی ننگے پیر بازاروں میں پھرتے تھے.اور اس سے ان کی عزت میں کچھ بھی فرق نہیں آتا کیونکہ انہوں نے اہل یورپ کی سیکھنے کی باتیں سیکھی ہیں.حضرت مسیح موعود کوئی کوٹ پتلون نہیں پہنتے تھے.مگر خدا نے آپ کو کتنی عزت دی تو معلوم ہوا کہ لباس میں تقلید کرنے سے عزت حاصل نہیں ہوتی.پھر بعض لوگ بھیڑ کی طرح تقلید کرتے ہیں.اگر پوچھا جائے کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو کہیں گے کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طرح کرتے دیکھا.اگر کوئی عقل کی بات بتاؤ اور کہو کہ ایسا کرو تو کہیں گے ہم نہیں مان سکتے کیونکہ یہ ہمارے باپ دادا کے طریقہ کے خلاف ہے.یہ نہیں دیکھیں گے کہ کون سی بات مفید اور عقل کے مطابق ہے.( افضل 5 نومبر 1918ء جلد 6 نمبر 34 صفحہ 8-7)
تذکار مهدی ) 540 روایات سید نا محمودی کایی الہامات 18 مارچ 1907 ء کی بات ہے کہ رات کے وقت رویا میں مجھے ایک کاپی الہاموں کی دکھائی گئی اس کی نسبت کسی نے کہا کہ یہ حضرت صاحب کے الہاموں کی کاپی ہے اور اس میں موٹا لکھا ہوا ہے.عَسَى أَنْ تَكْرَ هُوًا شَيْئاً وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ.یعنی کچھ بعید نہیں کہ تم ایک بات کو نا پسند کرو لیکن وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہو.اس کے بعد نظارہ بدل گیا اور دیکھا کہ ایک مسجد ہے اس کے متولی کے برخلاف لوگوں نے ہنگامہ کیا ہے اور میں ہنگامہ کرنے والوں میں سے ایک شخص کے ساتھ باتیں کرتا ہوں.باتیں کرتے کرتے اس سے بھاگ کر الگ ہو گیا ہوں اور یہ کہا کہ اگر میں تمہارے ساتھ ملوں گا تو مجھ سے شہزادہ خفا ہو جائے گا.اتنے میں ایک شخص سفید رنگ آیا ہے اور اس نے مجھے کہا کہ مسجد کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے تین درجے ہیں.ایک وہ جو صرف نماز پڑھ لیں یہ لوگ بھی اچھے ہیں ، دوسرے وہ جو مسجد کی انجمن میں داخل ہو جائیں، تیسرا متولی اس کے ساتھ ایک اور خواب بھی دیکھی وہ یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں..8 مارچ کو میں نے یہ رویا دیکھی تھی اور وہ اس طرح کہ جس رات کو میں نے یہ رویا دیکھی اسی صبح کو حضرت والد ماجد کو سنایا آپ سن کر نہایت متفکر ہوئے اور فرمایا کہ مسجد سے مراد تو جماعت ہوتی ہے شاید میری جماعت کے کچھ لوگ میری مخالفت کریں یہ رو یا مجھے لکھوا دے چنانچہ میں لکھوا تا گیا اور آپ اپنی الہاموں کی کاپی میں لکھتے گئے.پہلے تاریخ لکھی پھر یہ لکھا کہ محمود کی رؤیا پھر تینوں رویا لکھیں ان تینوں رویا کے ارد گرد اس سے پہلے اور پچھلی تاریخوں کے الہام حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود ہیں ( کاپی لوگوں کو دکھائی گئی) اور یہ کاپی اب تک میرے پاس موجود ہے اور ہر ایک طالب حق کو دکھائی جاسکتی ہے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط پہچانتے ہیں وہ گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ سب کا پی حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے اور کئی سال کے الہام اس میں درج ہیں اور یہ میری رویا بھی آپ ہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی اس میں موجود ہے.یہ ایک ایسی شہادت ہے کہ کوئی احمدی اس کا انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ایسے کھلے کھلے نشان کا جو شخص انکار کرے گا اسے ہر ایک صداقت کا انکار کرنا پڑے گا..برکات خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 180 تا 183)
تذکار مهدی ) 541 روایات سید نا محمود دعاؤں کے لئے تعلق کی ضرورت ہے میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا دیا ہے کہ قادیان کی زمین بابرکت ہے.میں نے دیکھا کہ ایک شخص عبدالصمد کھڑا ہے اور کہتا ہے ”مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں.یہ بالکل درست ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے مقامات دیکھنے سے ایک رقت پیدا ہوتی ہے اور دعا کی تحریک ہوتی ہے اس لئے قادیان میں زیادہ آنا چاہئے.پھر دعاؤں کے لئے تعلق کی ضرورت ہے.حضرت صاحب کو میں نے دیکھا ہے مگر حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل بچتے تھے اور میں خود بھی بچتا ہوں.حضرت صاحب بعض لوگوں کو کہہ دیا کرتے تھے کہ تم ایک نذر مقرر کرو میں دعا کروں گا.یہ طریق محض اس لئے اختیار کرتے تھے کہ تعلق بڑھے اس کے لئے حضرت صاحب نے بارہا ایک حکایت سنائی ہے کہ ایک بزرگ سے کوئی شخص دعا کرانے گیا اس کے مکان کا قبالہ گم ہو گیا تھا.انہوں نے کہا میں دعا کروں گا پہلے میرے لئے حلوا لاؤ.وہ شخص حیران تو ہو مگر دعا کی ضرورت تھی حلوا لینے چلا گیا اور حلوائی کی دوکان سے حلوالیا.وہ جب حلوا ایک کاغذ میں ڈال کر دینے لگا تو وہ چلا یا کہ اس کو پھاڑ یو نہیں یہ تو میرے مکان کا قبالہ ہے اسی لئے وہ دعا کرانا چاہتا تھا.غرض وہ حلوا لے کر گیا اور بتایا کہ قبالہ مل گیا تو اس بزرگ نے کہا میری غرض حلوا سے صرف یہ تھی کہ تعلق پیدا ہو.غرض دعا کے لئے ایک تعلق کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اتنا ہی کہتا ہوں کہ خطوط کے ذریعہ یاد دلاتے رہو.تا کہ تم مجھ کو یا در ہو.( منصب خلافت.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 50 ) نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو حضرت صاحب دو صحابیوں کے متعلق ایک بات سناتے تھے.میں نے تو ان کا حال کسی کتاب میں نہیں پڑھا مگر چونکہ حضرت صاحب سناتے تھے اس لئے بیان کرتا ہوں.ایک بازار میں گھوڑا بیچنے کے لئے لایا.دوسرے نے اس سے قیمت دریافت کی اس نے کچھ بتائی لیکن خرید نے والے نے کہا نہیں اسکی یہ قیمت ہے.اور جو اس نے بتائی وہ بیچنے والے کی بتائی ہوئی قیمت سے زیادہ تھی لیکن بیچنے والا کہے میں تو وہی قیمت لوں گا جو میں نے بتائی ہے اور
تذکار مهدی ) 542 روایات سید نامحمود خرید نے والا کہے نہیں میں یہی قیمت دوں گا جو میں نے قرار دی ہے.یہ تو صحابہ کا ایک معمولی واقعہ ہے.وہ لوگ تو ہر ایک نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے بڑھنا چاہتے تھے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھو اگر ایک دین کا کوئی کام کرے تو تم کوشش کرو کہ اس سے بھی بڑھ کر کرو اور دوسرے کے مقابلہ میں اپنے نفس کو قربان کرو.ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے (خطبات محمود جلد 5 صفحہ 445 ) بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے اور کہتے کہ ہمارے گاؤں میں فلاں شخص ہے اگر وہ احمدی ہو جائے تو تمام گاؤں کے لوگ احمدی ہو جائیں گے حالانکہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ اگر وہ مان بھی لے تب بھی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو نہیں مانتے اور تکذیب سے باز نہیں آتے.چنانچہ ایک گاؤں میں تین مولوی تھے وہاں کے لوگ کہتے کہ اگر ان میں سے کوئی مرزا صاحب کو مان لے تو ہم سب کے سب مان لیں گے.ان میں سے ایک نے بیعت کر لی تو لوگوں نے کہہ دیا کہ ایک نے مان لیا تو کیا ہوا اس کی تو عقل ماری گئی ہے ابھی دو نے نہیں مانا.پھر ایک اور نے بیعت کر لی تو پھر مخالفین نے یہی کہا کہ ان دونوں مولویوں کا کیا ہے ابھی ایک نے تو بیعت نہیں کی ہے.ایسے واقعات ہمیشہ ہو تے رہتے ہیں لیکن جن لوگوں کا تجربہ وسیع نہیں ہوتا وہ اسی دھن میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں شخص مان لے تو سب لوگ مان لیں گے مگر اکثر ایسا نہیں ہوتا.(خطبات محمود جلد 5 صفحہ 451-450 ) راست بازی اختیار کریں یہ کتنا ظلم ہوگا کہ ایک احمدی خدا تعالیٰ سے محبت کی تو اُمید رکھتا ہو اور ایسی جماعت میں داخل ہو جس میں داخل ہونے سے دُکھ اور تکالیف بڑھتی ہیں مگر عمل یہ ہو کہ اس رسی کو چھوڑ کر جس سے خدا ملتا ہے دوسری طرف لگ جائے.اس قسم کے اخلاق نہایت ادنی ہوتے ہیں اور کفار میں بھی پائے جاتے ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئی بار سُنا ہے کہ ایک انگریز بیرسٹر راٹیکین نام تھا اسے اگر کسی مقدمہ کے دوران میں بحث کرتے کرتے بھی یہ ثابت ہو جاتا کہ جس کا کیس وہ ثابت کر رہا ہے وہ جھوٹا ہے تو اُسی وقت عدالت سے چلا آتا اور اپنے
تذکار مهدی ) 543 روایات سید نا محمود مؤکل سے کہتا کہ آ کر اپنی فیس لے جانا.یہ کوئی نیکی نہ تھی بلکہ انسانیت کا یہ تقاضا تھا جو ایک بندے کو خدا ماننے والے سے ظاہر ہوتا تھا مگر اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ زمانہ کے مامور پر ایمان لانے والوں کے اخلاق کتنے بلند ہونے چاہئیں.یہ کس قدر معیوب بات ہے کہ ایک شخص ایک من ترکاری بٹالہ سے لے آئے حالانکہ اس کی اجازت نہ ہو اور پھر بابو کو کچھ دے کر محصول کی ادائیگی سے بچ جائے.ایسا شخص تر کاری تو بے شک بٹالہ سے لے آیا اور محصول کے پیسے بھی بچالا یا مگر ایمان بٹالہ میں ہی چھوڑ آیا.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان باتوں کو چھوڑ دیا جائے.ایسا کرنے والے آخر اس طرح کتنا مال کما لیتے ہیں.اس طرح مال نہیں ملا کرتا اللہ تعالیٰ جب کسی کو مال دینا چاہتا ہے تو اسے کوئی نہیں روک سکتا خواہ وہ دیانتداری کے معیار کتنے سخت کیوں نہ کر دے.خدا تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اسے دینے کے لئے کوئی نہ کوئی رستہ نکال ہی لیتا ہے اور جب وہ نہ دینا چاہے تو اس طرح کمایا ہو ا مال کسی نہ کسی طرح نکل جاتا ہے.ایسے لوگوں میں سے کئی جماعت سے بھی نکل جاتے ہیں اور پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا بائیکاٹ کر دیا گیا ہے.حالانکہ ان کا بائیکاٹ کون کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے سزا ہوتی ہے.خطبات محمود جلد 20 صفحہ 324 تا325) خدا تعالی کی تائید اور نصرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس حالت اور اس کیفیت کا اندازہ اس نوٹ سے لگایا جا سکتا ہے جو آپ نے اپنی ایک پرائیویٹ نوٹ بک میں لکھا اور جسے میں نے نوٹ بک سے لے کر شائع کر دیا.وہ تحریر آپ نے دنیا کو دکھانے کے لئے نہ لکھی تھی کہ کوئی اس میں کسی قسم کا تکلف اور بناوٹ خیال کر سکے.وہ ایک سر گوشی تھی اپنے رب کے ساتھ اور وہ ایک عاجزانہ پکار تھی اپنے اللہ کے حضور جو لکھنے والے کے قلم سے نکلی اور خدا تعالیٰ کے حضور پہنچی.آپ نے وہ تحریر نہ اس لئے لکھی تھی کہ وہ دنیا میں پہنچے اور نہ پہنچ سکتی تھی اگر میرے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ اپنی مصلحت کے ماتحت نہ ڈال دیتا اور میں اسے شائع نہ کر دیتا.اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں
تذکار مهدی ) 544 روایات سید نامحمودی اے خدا! میں تجھے کس طرح چھوڑ دوں جبکہ تمام دوست و غمخوار مجھے کوئی مدد نہیں دے سکتے اس وقت تو مجھے تسلی دیتا اور میری مددکرتا ہے.(مفہوم) (افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1927 ء ، انوار العلوم جلد 10 صفحہ 60 ) دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزارے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک میراشن آئی.اُس کا لڑکا عیسائی ہو گیا تھا اور وہ رسل کا مریض بھی تھا.اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے درخواست کی کہ میرا یہ اکلوتا لڑکا عیسائی ہو گیا ہے اور ساتھ ہی سل کی بیماری میں مبتلا ہے.آپ اسے تبلیغ بھی کریں تا یہ دوبارہ اسلام قبول کرے اور علاج بھی کریں.آپ نے حضرت خلیفۃ امسیح اول رضی اللہ عنہ کو اس کے علاج کے لیے ہدایت فرمائی اور خود اسے تبلیغ کرتے رہے.لیکن وہ اس قدر کٹر عیسائی تھا کہ آپ جتنی تبلیغ کرتے وہ اتنا ہی عیسائیت میں پکا ہوتا.ایک رات جبکہ اُس کی حالت زیادہ خراب تھی وہ آدھی رات کو بھا گا اور بٹالہ کی طرف چل پڑا.وہاں عیسائیوں کا مشن تھا.اُس کی ماں کو پتا لگ گیا.وہ رات کو گیارہ میل کے سفر پر چل پڑی اور قادیان سے 9.8 میل کے فاصلہ پر دوانی وال کے تکیہ کے پاس اُسے جالیا.مجھے یاد ہے جب وہ قادیان واپس آئی تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پاؤں پر روتی ہوئی گر گئی اور کہنے لگی میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ آپ ایک دفعہ اسے کلمہ پڑھا دیں.پھر بے شک یہ مرجائے مجھے اس کی پروا نہیں لیکن میں یہ نہیں چاہتی کہ یہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.دیکھو ! اس میراثن میں کتنا ایمان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روحانی اور جسمانی اولاد میں کم از کم اُس میراثن جتنا ایمان تو ضرور ہونا چاہیے.اُس میراشن کا بیٹا عیسائی ہوگیا تھا.مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ عیسائی ہونے کی حالت میں مرے.اُس کی خواہش تھی کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک مرجائے.تم لوگ تو مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے ہو.تمہارے لئے تو اور بھی ضروری ہے کہ تم ایک دفعہ دوسروں کو کلمہ پڑھالو پھر بے شک مرجاؤ.تم وقف در وقف کی تحریک کرتے چلے جاؤ اور پھر ہر واقف یہ سوچے کہ آگے اُس کی اولاد
تذکار مهدی ) 545 روایات سید نا محمود میں خدمت دین کے لیے کتنا جوش ہے.وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی تھیں اُن میں سے کئی ہیں جن کی اولاد نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف نہیں کیں.صرف میری اولاد نے اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کی ہیں.خدا کرے کہ ان کا دین کی خدمت کے لیے یہ جوش قائم رہے اور آگے انکی اولاد در اولا دا پنی زندگیاں دین کی خدمت کے لیے وقف کرتی چلی جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی اولاد کو بھی یہ سمجھ آجائے کہ پندرہ سو یا دو ہزار روپیہ ماہوار کمانا کوئی چیز نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ انسان دین کی خدمت میں اپنی زندگی گزارے.باقی میرے ساتھ وقف کرنے والوں میں سے ایک چوہدری فتح محمد صاحب سیال تھے.چوہدری صاحب کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی کہ انہوں نے اپنے ایک لڑکے کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے بعد دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا.دوسرے درد صاحب تھے اگر ان کی اولاد میں سے کوئی لڑکا اچھا پڑھ جاتا تو وہ اُسے دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیتے.مگر کچھ ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ ابھی تک ان کی اولاد میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں ہوا کہ وہ دین کے لیے اپنی زندگی وقف کر سکے.باقی سب لوگوں کے خانے خالی ہیں.حالانکہ اسلام دنیا میں اُس وقت تک کبھی غالب نہیں آ سکتا جب تک مسلسل اور متواتر ہم میں زندگیاں وقف کرنے والے لوگ پیدا نہ ہوں.(الفضل 29 اکتوبر 1955 ء جلد 44/9 نمبر 253 صفحہ 4) سکھ لڑکا دہریت کے خیالات خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے یہ لوگ باوجود ارادہ کے میری غیر حاضری میں کچھ نہ کر سکے بلکہ ان کی شرارت کا کھسکتے کھسکتے میری واپسی تک آ گیا.چنانچہ جو گواہیاں ملی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ بات در اصل اس وقت شروع ہو گئی تھی جب میں ولایت گیا تھا لیکن وہ نکلی اس وقت جب میں واپس آ گیا تھا تا اگر کوئی کارروائی کی جائے تو میرا وجود اور میری دعائیں بھی اس کے ساتھ شامل ہوں.اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے کہ جتنی گواہیاں ملی ہیں.وہ بتاتی ہیں کہ یہ فتنہ اس وقت اٹھایا گیا تھا.جب مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا.26 فروری 1955ء کو مجھ پر بیماری کا حملہ ہوا تھا اور یہ باتیں مارچ 1955 ء کی ہیں لیکن ظاہر ہوئیں 1956ء میں آکر اور اب میں ان کا ہر طرح مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں حضرت خلیفہ امسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں......
6546 تذکار مهدی ) روایات سیّد نا محمود جموں سے قادیان آ رہا تھا کہ ایک سکھ لڑکا مجھے ملا اور اُس نے کہا میں پہلے بڑا نیک ہوا کرتا تھا لیکن اب میرے دل میں دہریت کے خیال پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.آپ مرزا صاحب سے میرا ذکر کریں اور اُن سے اس کا علاج دریافت کر کے مجھے بتائیں.وہ سکھ لڑکا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بڑا معتقد تھا اور آپ کی کتابیں پڑھا کرتا تھا.چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ قادیان میں آکر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اُس کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس کے دائیں بائیں دہریت کے خیالات رکھنے والے لڑکے بیٹھتے ہیں.کسے کہیں کہ وہ اپنی جگہ بدل لے.اُس کے خیالات درست ہو جائیں گے.حضرت خلیفہ اُسیج الاول فرمایا کرتے تھے میں نے اُس سکھ لڑکے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام پہنچا دیا.چنانچہ اس نے اپنی جگہ بدل لی.جب میں دوبارہ قادیان آنے لگا تو مجھے نتیجہ معلوم کرنے کا شوق تھا.وہ میرے پاس آیا تو میں نے اُس سے دریافت کیا کہ اب کیا حال ہے؟ اُس نے کہا جس دن سے میں نے اپنی جگہ بدلی ہے میرے سارے وساوس دور ہونے شروع ہو گئے ہیں..یہی بات یہاں ہے.اگر بعض لوگ کسی شخص کو اپنا دشمن خیال کریں اور اُس پر توجہ کرنا شروع کر دیں کہ وہ بیمار ہو جائے تو آہستہ آہستہ اُس کا دماغ اثر قبول کرنا شروع کر دیتا ہے اور وہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میں بیمار ہوں.مجھ پر بھی یہی اثر ہوا مگر 29 جولائی کو 5 بجے صبح مری میں اللہ کی طرف سے یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ اللہ تعالٰی نے تو مجھے بالکل اچھا کر دیا مگر میں اپنی بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں“.یعنی مجھے اپنے نفس پر بدظنی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل کو پوری طرح جذب نہیں کرتا اور بیماری کے متعلق یہ مایوسی ہے کہ وہ ابھی دور نہیں ہوئی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بالکل صحت عطا فرما دی ہے.عجیب بات ہے کہ یہی بات مجھے جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کے ڈاکٹروں نے کہی.ایک بہت بڑے ڈاکٹر نے مجھے کہا کہ آپ بالکل اچھے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ میرے علاوہ یہاں کے سوا چھے ڈاکٹروں سے بھی اپنا معائنہ کرائیں تو وہ یہی کہیں گے کہ آپ بالکل اچھے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ آپ انہیں بتائیں نہیں کہ آپ پر فالج کا حملہ ہو چکا ہے.اگر آپ بتا دیں گے تو وہ بھی وہم کرنے لگ جائیں گے.پھر اُس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ
تذکار مهدی ) 547 روایات سیّد نا محمود آپ غیر معمولی رنگ میں کام کر رہے تھے کہ یک دم آپ بیمار ہو گئے.اب اگر چہ آپ تندرست ہو گئے ہیں لیکن آپ کا دماغ بیماری کے خیال میں دب گیا ہے.اگر آپ اس خیال کو اپنے دماغ سے نکال دیں تو آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام میں بتائی ہے کہ میں بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں ورنہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بالکل صحت عطا فرما دی ہے.چنانچہ یہ بالکل درست ہے.اللہ تعالی کے فضل سے اب بیماری کا کوئی اثر باقی نہیں رہا.صرف کام کرنے کے بعد ایک کوفت سی میں اپنے جسم میں محسوس کرتا ہوں لیکن یہ ایک طبعی امر ہے کیونکہ جب انسان پر کسی بیماری کا حملہ ہو چکا ہو تو وہ جسمانی طور پر کمزور ہو جاتا ہے.پھر میری عمر بھی زیادہ ہو چکی ہے مگر یہ خدا تعالیٰ کا نشان ہی ہے کہ میں نے ان دنوں میں قرآن کریم کے بائیس پاروں کا ترجمہ مکمل کر لیا ہے اور امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے طاقت دی تو اگست کے آخر یا ستمبر کے شروع میں سارا ترجمہ ختم ہو جائے گا.اب ایک تندرست آدمی بھی اتنا علمی کام اتنے تھوڑے عرصہ میں نہیں کر سکتا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرما دی ہے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دے دی ہے.آخر دنیا میں بڑے بڑے علماء موجود ہیں انہیں کیوں یہ توفیق نہیں ملتی کہ وہ اتنے قلیل عرصہ میں قرآن کریم کا ترجمہ کر دیں.اور پھر یہ ترجمہ معمولی ترجمہ نہیں بلکہ جب یہ چھپے گا تو لوگوں کو پتا لگے گا کہ یہ ترجمہ کیا ہے، تفسیر ہے.پس جو کام بڑے بڑے علماء پانچ سال کے عرصہ میں بھی نہیں کر سکتے تھے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے میں نے تھوڑے سے عرصہ میں کر لیا.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے صحت دے دی ہے اور خدا تعالیٰ کے تازہ الہام سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی شخص مجھ سے سوال کرے کہ پھر اپنے آپ کو بیمار کیوں سمجھتے ہیں؟ تو مجھے اس کا یہی جواب دینا پڑے گا کہ میں صرف بدظنی اور مایوسی کی وجہ سے اپنے آپ کو بیمار سمجھتا ہوں ورنہ حقیقتا اللہ تعالیٰ نے مجھے تندرست کر دیا ہے.الفضل 8 /اگست 1956 ء جلد 45/10 نمبر 184 صفحہ 4-3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز اصلاح حضرت صاحب کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب تھا.ایک شخص آیا اس نے
تذکار مهدی ) 548 → روایات سید نا محمود باتوں ہی باتوں میں یہ بھی بیان کر دیا کہ ریلوے ٹکٹ میں میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں آپ نے ایک روپیہ اس کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے کہا اُمید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی ضرورت نہ رہے گی.(جماعت قادیان کو نصائح ، انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 23) خدا تعالیٰ کے لئے غیرت خدا نے تو تقدیر اس لئے بنائی ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق مضبوط ہو مگر اس کا الٹا استعمال کرتے ہیں اگر بعض لوگوں کے گھروں میں کوئی موت ہو جائے.مثلاً کوئی بچہ مر جاوے تو وہ کہتا ہے کہ ”ربا تیرا پتر مردا تے تینوں پتا لگدا یعنی اے خدا تیرا لڑکا مرتا تو مجھے معلوم ہوتا کہ اس کا کس قدر صدمہ ہوتا ہے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِک گویا خدا نے ان پر بڑا ظلم کیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خدا پر بھی ایسا ہی ظلم ہو.یہاں ایک شخص تھے بعد میں وہ بہت مخلص احمدی ہو گئے اور حضرت صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا مگر احمدی ہونے سے قبل حضرت صاحب ان سے ہیں سال تک ناراض رہے.وجہ یہ کہ حضرت صاحب کو ان کی ایک بات سے سخت انقباض ہو گیا اور وہ اس طرح کہ ان کا ایک لڑکا مر گیا.حضرت صاحب اپنے بھائی کے ساتھ ان کے ہاں ماتم پرسی کے لئے گئے ان میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور اس سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہوتے تو اس سے بغل گیر ہو کر روتے اور چیخیں مارتے اسی کے مطابق انہوں نے حضرت صاحب کے بڑے بھائی سے بغل گیر ہو کر روتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھ پر بڑا ظلم کیا ہے.یہ سن کر حضرت صاحب کو ایسی نفرت ہو گئی کہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے.بعد میں خدا نے انہیں توفیق دی اور وہ ان جہالتوں سے نکل آئے.غرض تقدیر کے مسئلہ کے غلط سمجھنے کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ ظلم کیا ، وہ ستم کیا اور اس طرح خدا کو گندی سے گندی گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے.( تقدیرالہی.انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 607-606) حضرت چوہدری رستم علی صاحب کا اخلاص بے شک ہماری جماعت میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مالی لحاظ سے سلسلہ کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور ہم اُن کی قدر کرتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے لیے وقف کر دیں اور رات اور دن وہ خدمت سلسلہ میں مصروف رہے اُن کے وجود.
تذکار مهدی ) 549 روایات سید نا محمود ہمارے سلسلہ کو جو فائدہ پہنچا ہے وہ روپیہ کے ذریعہ خدمت کرنے والوں سے بہت زیادہ ہے.مجھے یاد ہے میری پندرہ سال کی عمر تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ بیمار ہو گئے.اُن دنوں جو ڈاک آیا کرتی تھی وہ آپ کی بیماری کی وجہ سے میں ہی آپ کو پڑھ کر - سنایا کرتا تھا.ایک دفعہ ایک منی آرڈر آپ کے نام آیا جو 180 روپیہ کا تھا اور ساتھ ہی خط تھا جس میں لکھا تھا کہ یہ روپیہ چندے کا نہیں بلکہ حضور کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش ہے.اس میں سے 80 روپے تو وہ ہیں جو میں ہمیشہ ماہوار حضور کو بھیجا کرتا ہوں اور 100 روپیہ زائد اس لیے ہے کہ پہلے میری تنخواہ - 180 روپیہ تھی جس میں سے 80 روپے میں حضور کو نذرانہ بھجوادیا کرتا تھا.اب مجھے یکدم سب انسپکٹر پولیس سے ترقی دے کر پراسیکیوٹنگ انسپکٹر بنادیا گیا ہے اور 280 روپے تنخواہ مقرر کی گئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مجھے یکدم یہ 100 روپیہ جو ترقی ملی ہے محض حضور کے لیے ملی ہے اس لیے سو روپے وہ جو اب بڑھے ہیں اور 80 روپے وہ جو میں ہمیشہ بھیجا کرتا ہوں حضور کی خدمت میں نذرانہ کے طور پر بھجوا رہا ہوں اور چونکہ خدا نے مجھے.180 سے - 280 روپیہ تک یکدم پہنچایا ہے اور یہ 100 روپیہ کی زیادتی میرے لیے نہیں بلکہ حضور کے لیے ہوئی ہے اس لیے میں آئندہ بھی ہمیشہ ایک 180 روپے ہی حضور کی خدمت میں بھجوایا کروں گا.میں نے جب یہ خط پڑھا تو بڑا متاثر ہوا کہ ہماری جماعت میں اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے مخلص وجود پیدا کئے ہیں یہ چودھری رستم علی صاحب تھے جو محکمہ پولیس میں ملازم تھے.اسی طرح میں نے کئی دفعہ سیٹھ عبداللہ بھائی کی خدمات کا ذکر کیا ہے.اب تو پارٹیشن اور ہندوستانی گورنمنٹ کے مظالم کی وجہ سے ان کی تجارت ویسی نہیں رہی.لیکن ساری عمران کی یہی کیفیت رہی کہ جو روپیہ بھی ان کے پاس آتا وہ اسے سلسلہ پر خرچ کر دیا کرتے اور اب بھی وہ اسی رنگ میں قربانی کرتے جا رہے ہیں.پس بے شک ہماری جماعت میں ایسے افراد ہیں.جو مالی لحاظ سے سلسلہ کے کاموں میں غیر معمولی حصہ لیتے ہیں.لیکن ان افراد سے جو سلسلہ کو فائدہ پہنچا ہے.کیا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی ایک تصنیف کے بھی برا بر ہے یا سلسلہ کے قائم کرنے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو وقت صرف کیا.اگر اس وقت کو سلسلہ کے لئے صرف کرنے کی بجائے آپ اپنے زمیندارہ کام میں لگ جاتے.تو کیا سلسلہ کو اتنا ہی فائدہ پہنچتا.جتنا اب پہنچا ہے.یا میں ہی اگر اپنے زمیندارہ کام میں مشغول ہو جاتا.تو میرے ذریعہ سلسلہ کو وہ فائدہ پہنچ سکتا تھا.جواب پہنچا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں نے زمیندارہ کام بھی
تذکار مهدی ) کارمهدی 550 روایات سید نامحمود کیا ہے.لیکن جب زمینوں کا کام اتنا بڑھا کہ میں نے سمجھا اب اگر میں نے اس کی طرف توجہ کی تو سلسلہ کے کام کو نقصان پہنچے گا تو میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو بلوایا اور زمین کے کاغذات ان کے سپرد کر دیئے اور خود میرے پاس جتنا وقت تھا وہ سارے کا سارا میں نے سلسلہ کے لئے وقف کر دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں یہ کام خود بھی چلا سکتا تھا مگر ان کے سپرد کرنے سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں زمینوں کے کام سے فارغ ہو کر سلسلہ کے کاموں میں زیادہ تندہی سے مصروف ہو گیا پھر سندھ کی زمینیں ملیں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ملازموں سے کام لینے کی توفیق عطا فرما دی.الفضل 22 اکتوبر 1955 ء جلد 44/9 نمبر 247 صفحہ (5-4 ) جماعت کی مالی قربانیاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری ایام میں لنگر کو چلانے کے لئے بعض دفعہ آپ کو قرض لینا پڑتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تحریک کرنی پڑتی تھی کہ دوست چندہ کی طرف توجہ کریں اور مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے لئے آٹھ دس ہزار روپیہ کی سالانہ ضرورت تھی.اس لحاظ سے ساری پونجی جو سلسلہ کو سالانہ ملتی تھی.26 یا 27 ہزار کے قریب تھی اور یہ روپیہ بہت مشکل کے ساتھ جمع ہوتا تھا.لیکن اب یہ حالت ہے کہ میں فخر کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ سلسلہ کے ایک نشان کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ اب اکثر میرا سالانہ چندہ ہی تھیں اور چالیس ہزار کے درمیان ہوتا ہے گویا اس زمانے کے تمام اخراجات میرے موجودہ چندوں سے پورے ہو سکتے تھے لیکن اس وقت ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے جماعت کو بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑتی تھیں اور یہ چیزیں جواب ہمیں نظر آ رہی ہیں اس وقت کے حالات کو دیکھتے ہوئے بہت مشکل نظر آتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا تھا.اس کے ماتحت آپ کو اس بات میں شبہ نہ تھا کہ ان کاموں کے لئے روپیہ آئے گا یا نہیں بلکہ آپ کو جس بات میں شبہ تھا وہ یہ تھی کہ اس روپیہ کو استعمال کرنے والے اس کو دیانت سے استعمال کریں گے یا نہیں.(الفضل 26 دسمبر 1946 ء جلد 34 نمبر 301 صفحہ 2-1) خدمت دین کو اک فضل الہی جانو شاکر وہ ہے جو فرض ادا کرنے پر پھولتا نہیں بلکہ وہ خدا کے حضور سجدے میں گر جاتا
تذکار مهدی ) 551 روایات سیّد نا محمود ہے.چندہ دینے والوں میں سے بعض تو ایسے ہیں جو چندہ دے کر صدر انجمن یا خلیفہ امسیح پر احسان کرتے ہیں بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں فرض ادا ہو گیا مگر ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم پر خدا کا احسان ہے کہ اس نے ہم سے یہ خدمت لی.مجھے اس زمانے کا ایک واقعہ یاد ہے کہ منی آڈروں میں سے جو حضرت صاحب کے نام آئے ایک کے کو پن پر لکھا تھا کہ یہ پندرہ روپیہ ارسال ہیں ایک روپیہ لنگر کے لئے اور باقی آپ خدا کے لئے اپنے نفس پر خرچ کریں اور مجھ پر احسان فرمائیں.پھر جب زلزلہ آیا اور حضرت اقدس باہر باغ میں تشریف لے گئے اور مہمانوں کی زیادہ آمد ورفت وغیرہ کی وجوہات سے لنگر کا خرچ بڑھ گیا تو آپ نے ارادہ فرمایا کہ قرض لے لیں.فرماتے ہیں میں اسی خیال میں آرہا تھا کہ ایک شخص ملا جس نے پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دیدی اور پھر الگ ہو گیا اس کی حالت سے میں ہر گز نہ سمجھ سکا کہ اس میں کوئی قیمتی چیز ہوگی لیکن جب گھر آکر دیکھا تو دوسو روپیہ تھا.حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ اس کی حالت سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنی ساری عمر کا اندوختہ لے آیا.پھر اس نے اپنے لئے یہ بھی پسند نہ کی کہ میں پہچانا جاؤں یہ شاکر کا مقام ہے.(مدارج التقوی.انوار العلوم جلد اول 381-380) | چودھویں رات کا چاند مومن کسی میدان میں بھی شکست کو تسلیم کر ہی نہیں سکتا اس لئے ہمارے اندر ترقی کی وہ روح ہونی چاہئیں کہ ہمارا زمیندار دوسرے زمیندار سے ہمارا لوہار دوسرے لوہار سے ہمارا ترکھان دوسرے ترکھانوں سے ہمارا پروفیسر دوسرے پروفیسر سے اور ہمارا وکیل دوسرے وکیل سے بڑھ کر ہو.جب ہم خدا تعالیٰ کی باتوں کو سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ دنیوی علوم دوسروں سے بہتر طور پر نہ سیکھ سکیں اور یہ اپنی سستی ہوگی اگر کوئی کوشش نہ کرے وگرنہ مومن کے معنی ہی یہ ہیں کہ اس کی نظر بہت بار یک چیزوں تک پہنچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے چودھویں رات کے چاند کی روشنی میں کسے شبہ ہوسکتا ہے مگر پہلی رات کا چاند ہر ایک کو نظر نہیں آیا کرتا جو لوگ انبیاء پر ابتداء میں ایمان لاتے ہیں وہ ایسے ہی ہوتے ہیں جو پہلی رات کو چاند کو دیکھتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ان کی نظر بہت تیز ہے.پس جوشخص پہلی رات کا چاند دیکھ سکتا ہے وہ دوسری ، تیسری اور چوتھی کا کیوں نہ دیکھ سکے گا.روحانی علم اور
تذکار مهدی ) 552 روایات سید نا محمود ) معرفت پہلی رات کا چاند ہے اور دنیوی علوم بعد کی راتوں کے.اگر ہم خدا کی باتیں سیکھ سکتے ہیں تو دنیوی علوم کیوں نہیں سیکھ سکتے ضرور سیکھ سکتے ہیں مگر مشکل یہی ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھتے نہیں ہمارے اندر یہ احساس ہونا چاہئیے کہ ہر میدان میں دوسروں سے آگے نکل جائیں.خطبات محمود جلد 13 صفحه 65-64 ) | خدا اور بندے کے کلام میں فرق آج کل یہ کمال خیال کیا جاتا ہے کہ جب کوئی بات کر رہا ہو تو فوراً درمیان میں بول پڑیں جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ ہم خوب سمجھتے ہیں اور گویا ان لوگوں کی علمیت ظاہر ہوتی ہے مباحثوں اور مناظروں میں علماء ایسا کرتے ہیں اس سے غرض مخالف پر رعب ڈالنا ہوتی ہے لیکن ہر جگہ یہ بات درست نہیں ہوتی.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک الہام سنا کر کہنے لگے کہ خدا اور بندے کے کلام میں کیا فرق ہوتا ہے اور اس کے لئے آپ نے ایک حریری کا فقرہ پڑھا ایک صاحب فوراً درمیان میں بول پڑے اور انہوں نے پہلی بات پر تو غور نہ کیا اور اس فقرے کو الہام سمجھ کر کہنے لگے واقعی کیسی عمدہ عبارت ہے اور کیا فصاحت و بلاغت ہے لیکن جب حضرت صاحب نے فرمایا.آپ نہیں تو سہی اور پھر آپ نے اس میں نقص بتلائے اور الہام کی اس پر فضیلت ثابت کی.غرض یہ طریق ہو گیا ہے کہ پورا کلام سنے بغیر لوگ نتیجہ نکالتے ہیں.( خطبات محمود جلد 6 صفحہ 526) اشتعال انگیزی سے بچنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طاعون طعن سے نکلا ہے اور طعن کے معنی نیزہ مارنا ہیں.پس وہی خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت آپ کے دشمنوں کے متعلق قہری جلوہ دکھایا، وہی اب بھی موجود ہے اور اب بھی ضرور اپنی طاقتوں کا جلوہ دکھائے گا اور ہرگز خاموش نہ رہے گا.ہاں ! ہم خاموش رہیں گے اور جماعت کو نصیحت کریں گے کہ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہو سکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سن کر امن پسند رہتی ہے.حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات ، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 512-511)
تذکار مهدی ) طاعون جماعت کی ترقی کا ذریعہ 553 روایات سید نا محمود طاعون خدا کا ایک عذاب ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید کے لئے بھیجی گئی ہے اگر ہماری جماعت کی رفتار ترقی کو دیکھا جائے تو ثابت ہو گا کہ ساٹھ ستر فیصدی آدمی طاعون کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.مجھ کو یاد ہے کہ طاعون کے دنوں میں پان پان سو، ہزار ہزار آدمی کی بیعت کے خطوط حضرت صاحب کے پاس روزانہ آتے تھے تو چونکہ یہ احمدیت کی صداقت کا ایک نشان ہے اور جب تک جماعت کی حفاظت نشان کے طور پر نہ ہو.یہ نشان کامل تجلی کے ساتھ ظاہر نہیں ہو سکتا اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ امتیازی طور پر ہماری جماعت کو اس مرض سے بچائے.کمزور بھائی کے لئے دُعا اور علیحدگی میں نصیحت ( خطبات محمود جلد 6 صفحہ 56 ) مامورین اور ان کی جماعتوں کے اندر ہمدردی اور رافت و رحمت کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی دراصل ان کا ایک نشان ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب کسی نے ذکر کیا کہ جماعت کے بعض لوگ روحانیت میں کمزور ہیں تو آپ نے فرمایا آپ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان کے لئے دعا کریں.میری اپنی کیفیت تو یہ ہے کہ اگر میں کسی بھائی کو دیکھوں کہ شراب کے نشہ میں مخمور ہو کر نالی میں پڑا ہے تو اسے اٹھا کر گھر لے آؤں تا ہوش میں آنے پر وہ شرمندہ نہ ہو.پھر اسے ہوش میں لاؤں، علیحدگی میں نصیحت کروں اور اس کے لئے دعا کروں مامورین کی جماعتوں کے متعلق یہ رافت و رحمت بھی ایک نشان ہی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ بتاتا ہے کہ اگر ایک طرف دنیا میں اس قدر بدکاری پھیلی ہوئی ہے جو ایسے عذابوں کا موجب ہے تو دوسری طرف ہمارے بندوں میں اس قدر نیکی بھی ہے کہ وہ مصیبت زدگان سے ہمدردی کرتے ہیں اور ہمارے مامور کے ذریعہ وہ اس قدر نیک ہو گئے ہیں کہ کفار سے بھی ہمدردی رکھتے ہیں.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 41) مخالفین کا مفت علاج ہماری جماعت کے افراد پر کسی موقع پر بھی کسی صورت میں یہ الزام نہیں آنا چاہئے کہ
تذکار مهدی 554 روایات سید نامحمود وہ ہندو، سکھ یا عیسائی سے حسن سلوک کا برتاؤ نہیں کرتے.ہاں یہ اور بات ہے کہ جہاں مسلمانوں کے حقوق کا سوال پیدا ہو گا.وہاں ہمیں مسلمانوں سے تعلق رکھنا پڑے گا کیونکہ علاوہ سیاسی اتحاد کے مذہبی لحاظ سے بھی ہمارا مسلمانوں سے سب سے بڑھ کر اتحاد ہے اور ہمارا ان سے ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ جسم کے دوٹکڑے اور باوجود اس کے کہ وہ اسلام سے دور ہیں ایسے عقائد اختیار کئے ہوئے ہیں جو اسلام کی جڑوں پر تبر کا حکم رکھتے ہیں.ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے اور ہمارے فوائد بہت حد تک یکساں ہیں.مگر باوجود اس اتحاد کے جو ہمارا مسلمانوں سے ہے ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم صلح و آشتی کے لئے پیدا کیئے گئے ہیں اور ہم نے نہ صرف لوگوں سے انصاف کرنا ہے بلکہ ان سے ہمدردی کرنی چاہیئے اور ان کی تکالیف میں غمگساری بھی کرنی ہے.پس ہمیں ان لوگوں کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کر کوشش کرنی چاہیئے کہ ان سے زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی طریق عمل تھا.ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ہندوؤں میں سے ایک شدید مخالف کی بیوی سخت بیمار ہوگئی، طبیب نے اس کے لئے جو دوائیں تجویز کیں ان میں مشک بھی پڑتا تھا جب کہیں اور سے اسے کستوری نہ ملی تو وہ شرمندہ اور نادم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور آ کر عرض کیا کہ اگر آپ کے پاس مشک ہو تو عنایت فرمائیں.غالباً اسے ایک یا دو رتی مشک کی ضرورت تھی مگر اس کا اپنا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مشک کی شیشی بھر کر لے آئے اور فرمایا آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہے، یہ سب لے جائیں تو درحقیقت اخلاق فاضلہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسرے کے دل میں محبت پیدا کرتی ہے.تریاق القلوب کی اشاعت (خطبات محمود جلد 15 صفحہ 124 ) اس میں کوئی شک نہیں کہ تریاق القلوب اکتوبر 1902ء کو شائع ہوئی اور ریویو جون 1902ء کو بلکہ دافع البلاء جس سے ریویو میں مضمون لیا گیا ہے وہ تو اپریل 1902 ء کو شائع ہوئی اور خود میں نے اپنے رسالہ القول الفصل میں تاریخ اشاعت کے لحاظ سے 1902 ء تک ہی تریاق القلوب کی تیاری لکھی ہے لیکن چونکہ اس وقت اس امر کو بالتفصیل لکھنے کی گنجائش نہ تھی اس لئے اس رسالہ میں وہی تاریخ لکھ دی گئی جو تریاق القلوب پر لکھی ہوئی تھی اور اگر میں ایسا نہ کرتا تو خوف تھا کہ بعض لوگ جھٹ مجھ پر جھوٹ کا الزام لگا دیتے لیکن اب میں بتاتا ہوں کہ تریاق القلوب
تذکار مهدی ) 555 روایات سید نا محمود ) اصل میں پہلے کی لکھی ہوئی کتاب ہے اور ریو یو بعد کا مضمون جو دافع البلاء سے لیا گیا ہے اس کے بعد کا بلکہ ایک سال سے بھی زیادہ عرصہ بعد کا ہے اور اس کے لئے میرے پاس خدائے تعالیٰ کے فضل سے یقینی ثبوت ہیں بشرطیکہ کوئی شخص ان پر غور کرے اور ضد اور ہٹ سے کام نہ لے.اصل واقعہ یہ ہے کہ تریاق القلوب 1899 ء سے لکھی جانی شروع ہوئی اور جنوری 1900 ء تک بالکل تیار ہو چکی تھی لیکن چونکہ ان دنوں میں ایک وفد صیبین جانے والا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عربی رسالہ لکھنا شروع کر دیا اور اس کی اشاعت رک گئی 1902ء میں جب کہ کتب خانہ کا چارج حکیم فضل الدین صاحب مرحوم کے ہاتھ میں تھا آپ نے حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول سے عرض کی کہ بعض کتب بالکل تیار ہیں لیکن اس وقت تک شائع نہیں ہو ئیں آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کریں کہ ان کو شائع کرنے کی اجازت فرما دیں چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا اور حضور نے اجازت دے دی تریاق القلوب ساری چھپ چکی تھی اور صرف ایک صفحہ کے قریب مضمون حضرت اقدس کے ہاتھ کا لکھا ہوا کاتب کے پاس بچا پڑا تھا اس کے ساتھ حضرت اقدس نے ایک صفحہ کے قریب مضمون اور بڑھا دیا اور کل دو صفحہ آخر میں لگا کر کتاب شائع کر دی گئی.(حقیقۃ النبوۃ (حصہ اوّل)، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 365 ) نبی کی عمر سے مراد اس کی امت کی عمر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جب کتاب ” چشمہ معرفت“ لکھ رہے تھے تو آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ بعض دفعہ اُس کے مضامین دوسروں کو بھی سُنا دیا کرتے تھے ایک دفعہ آپ نے حضرت نوح کی 950 سالہ عمر پر آریوں کے اعتراض کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اس کے جواب میں یہ لکھا ہے کہ نبی کی عمر سے مراد اُس کی اپنی عمر نہیں ہوتی بلکہ اُس کی جماعت کی عمر ہوتی ہے.آپ یہ سُنا ہی رہے تھے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب تشریف لے آئے.وہ کہنے لگے بات تو ٹھیک ہے مگر لوگ نیچریت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا.ہوتے ہیں تو ہوں پھر کیا ہوا ہمیں تو جہاں بھی اسلام کی صداقت نظر آئیگی ہم اسے پیش کریں گے خواہ کوئی اُس سے نیچریت کی طرف ہی کیوں نہ مائل ہو جائے.بہر حال قرآن مجید
تذکار مهدی ) 556 روایات سید نا محمود میں جہاں کسی نبی کی زیادہ عمر کا ذکر آتا ہے.وہاں ایک فرد کی عمر مُراد نہیں بلکہ اُس کی اُمت کی عمر مراد ہے.دُعا کے لئے تضرع ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 50) ہماری یہی خواہش ہونی چاہئے کہ ہم دلی اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکام کو بجا لائیں اور اس کے فرائض کی بجا آوری میں کسی قسم کی تنگی اور کبیدگی محسوس نہ کریں.لیکن اگر ایک وقت یہ درجہ حاصل نہیں ہوتا تو انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ تصنع ہی سے فرائض سرانجام دے.آہستہ آہستہ وہ مقام بھی حاصل ہو جائے گا.جب دلی بشاشت کے ساتھ امور سرزد ہوں گے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ دعا کے وقت حقیقی تضرع اس میں پیدا نہیں ہوتا تو وہ مصنوعی طور پر رونے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی رفت بھی پیدا ہو جائے گی.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 166) دماغی کام کرنے والوں کی اعصابی حس تیز ہوتی ہے میں نے کئی دوستوں کو دیکھا ہے اور توجہ بھی دلائی ہے کہ وہ دبانے بیٹھ جاتے ہیں حالانکہ دیگر فنون کی طرح دبانا بھی ایک فن ہے اور ہر شخص اسے نہیں جانتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے دیکھا ہے کہ آپ بعض دفعہ دبانے والوں کی طرف سے تکلیف پہنچنے کی وجہ سے اٹھ کر چلے جاتے.کوئی ایسا دبانے والا بیٹھ جا تا کہ آپ کو کھجلی ہونے لگتی.آپ طبیعت کی شرم کی وجہ سے کہہ نہ سکتے کہ ایسا نہ کرو اور اٹھ کر اندر تشریف لے جاتے.جتنے لوگ دماغی کام کرنے والے ہوتے ہیں ان کی اعصابی حس بہت تیز ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھجلی پیدا کرنے والی چیز برداشت نہ کر سکتے تھے.میرا بھی یہی حال ہے.پھر میری یہ حالت ہے کہ اگر میرے بدن پر ہاتھ رکھ دیا جائے تو میری حالت نا قابل برداشت ہو جاتی ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے.ایسے موقع پر میں اکثر چلا جاتا ہوں.یا اگر کوئی ضروری کام ہو یا بات ہو رہی ہو تو اپنے نفس پر جبر کر کے منع کر دیتا ہوں.(خطبات محمود جلد 15 صفحہ 171) چھر لاہور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام لاہور میں جب تقریر کرنے کے لئے کھڑے
تذکار مهدی ) 557 روایات سید نا محمود ہوئے تو لاہور کا سب سے وسیع ہال آدمیوں سے بھرا ہوا تھا.اور اس قدر اثر دہام تھا کہ دروازے کھول دیئے گئے بلکہ باہر قناتیں لگائی گئیں اور وہ بھی سامعین سے بھر گئیں.شروع میں تو جیسا کہ عام قاعدہ ہے آپ کی آواز ذرا مد ھم تھی اور بعض لوگوں نے کچھ شور بھی کیا مگر بعد میں جب آپ بول رہے تھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان سے کوئی بنگل بجایا جا رہا ہے اور لوگ مبہوت بنے بیٹھے تھے.تو آواز کی بلندی دینی خدمات کے اہم حالات میں سے ہے.پھر معلوم نہیں ہمارے دوست اس طرف کیوں توجہ نہیں کرتے یہ خیال کہ آواز بڑھ نہیں سکتی غلط ہے.خطبات محمود جلد 15 صفحہ 251 ) دعا موت قبول کرنے کا نام ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے.دعا موت قبول کرنے کا نام ہے اور آپ فرمایا کرتے تھے ”جو منگے سومر رہے.جو مرے سومنکن جائے.“ یعنی کسی سے سوال کرنا یا مانگنا ایک موت ہے اور موت وارد کئے بغیر انسان مانگ نہیں سکتا.جب تک وہ اپنے اوپر ایک قسم کی موت وارد نہیں کر لیتا وہ مانگ نہیں سکتا.پس دعا کا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے کیونکہ جو شخص جانتا ہے کہ میں یہ کام کر سکتا ہوں وہ کب مدد کے لئے کسی کو آواز دیتا ہے.کیا یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑے پہننے کے لئے محلہ والوں کو آواز میں دیتا پھرے کہ آؤ کپڑے پہناؤ یا تھائی دھونے کے لئے دوسروں سے کہتا پھرے کہ مجھے تھالی دھلواؤ یا قلم اٹھانے کے لئے دوسروں کا محتاج بنے.انسان دوسروں سے اس وقت مدد کی درخواست کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا.ورنہ جس کو یہ خیال ہو کہ میں خود کر سکتا ہوں وہ دوسروں سے مدد نہیں مانگا کرتا.وہی شخص دوسروں سے مدد مانگتا ہے جو یہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی وہی شخص مانگ سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے سامنے مرا ہوا سمجھے اور اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا ظاہر کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میرے رستے میں جب تک مر نہ جائے اس وقت تک دعا دعا نہ ہوگی کیونکہ پھر تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص قلم اٹھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہوا دوسروں کو مدد کے لئے آواز میں دے.کیا اس کا ایسا کرنا ہی نہ ہوگا.جب ایک شخص جانتا ہو کہ اس میں اتنی طاقت ہے کہ قلم اٹھا سکے تو اس کی مدد نہیں کرے گا.اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود فلاں کام کر سکتا ہوں وہ اگر اس کے
تذکار مهدی ) 558 روایات سید نا محمود لئے دعا کرے تو اس کی دعا در اصل دعا نہیں ہو گی.دعا اسی کی دعا کہلانے کی مستحق ہوگی جو اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل بیچ سمجھتا ہے.جو انسان یہ حالت پیدا کرے.وہی خدا کے حضور کامیاب اور اسی کی دعائیں قابل قبول ہو سکتی ہیں.ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں ( خطبات محمود جلد 9 صفحہ 104) جماعت کے دوست اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں میں نے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ اپنے ہاتھ سے کام کرنا ذلت سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ذلت نہیں بلکہ عزت کی بات ہے.ذلت کے معنی تو یہ ہوئے کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بعض کام ذلت کا موجب ہیں اگر ایسا ہے تو ہمارا کیا حق ہے کہ اپنے کسی بھائی سے کہیں کہ وہ فلاں کام کرے جسے ہم کرنا ذلت سمجھتے ہیں.ہم میں سے ہر ایک کو اپنے ہاتھ سے کام کرنا چاہئیے.امراء تو اپنے گھروں میں کوئی چیز ادھر سے اٹھا کر ادھر رکھنا بھی عار سمجھتے ہیں حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے بیسیوں دفعہ برتن مانجتے اور دھوتے دیکھا ہے اور میں نے خود بیسیوں دفعہ برتن مانجے اور دھوئے ہیں اور کئی دفعہ رومال وغیرہ کی قسم کے کپڑے بھی دھوئے ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک ملازم کو پاؤں دبانے کے لئے بلایا.وہ مجھے دبا رہا تھا کہ کھانے کا وقت ہو گیا.لڑکا کھانے کا پوچھنے آیا تو میں نے کہا دو آدمیوں کا کھانا لے آؤ.کھانا آنے پر میں نے اس ملازم کو ساتھ بٹھا لیا.لڑکا یہ دیکھ کر دوڑا دوڑا گھر میں گیا اور جا کر قہقہہ مار کر کہنے لگا حضرت صاحب فلاں ملازم کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں.اسلامی طریق یہی ہے اور میں سفر میں یہی طریق رکھتا ہوں کہ ساتھ والے آدمیوں کو اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لیتا ہوں.( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 465) محنت سے ہر پیشہ سیکھا جا سکتا ہے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک لڑکا تھا.جس کا نام تجا تھا.اسے آپ نے کسی معمار کے ساتھ لگایا تھا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ معمار بن گیا تھا.اس میں سمجھ بہت کم تھی.مگر مخلص اور دین دار تھا.وہ غیر احمدی ہونے کی حالت میں آیا تھا اور بعد میں احمدی ہو گیا تھا.اس کی عقل کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ بعض مہمان آئے اس وقت لنگر خانہ
تذکار مهدی ) 559 روایات سید نامحمود کا کام علیحدہ نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گھر ہی سے مہمانوں کے لئے کھانا جاتا تھا.شیخ رحمت اللہ صاحب، ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب اور قریشی محمد حسین صاحب موجد مفرح عنبری قادیان آئے.ایک دوست اور بھی تھے.آپ نے ان کے لئے چائے تیار کروائی اور فحے کو کہا کہ وہ مہمانوں کو چائے پلا آئے اور اس خیال سے کہ وہ کسی کو چائے دینا بھول نہ جائے.یہ تاکید کی کہ دیکھو پانچوں کو چائے دینا چراغ پر انا ملازم تھا.اسے آپ نے فجے کے ساتھ کر دیا.جب دونوں چائے لے کر گئے.تو معلوم ہوا کہ مہمان حضرت خلیفہ اسیح اول کے پاس ان کی ملاقات کے لئے گئے ہیں.چنانچہ وہ چائے لے کر وہاں گئے.چراغ پر انا ملازم تھا.اس نے پہلے چائے کی پیالی حضرت خلیفہ ایچ اول کے سامنے رکھی.لیکن فجے نے ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا نام نہیں لیا تھا.چراغ نے اسے آنکھ سے اشارہ کیا اور کہنی ماری اور یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ بے شک آپ نے حضرت خلیفہ ایسی اول کا نام نہیں لیا.لیکن آپ ان سب سے زیادہ معزز ہیں.اس لئے چائے پہلے آپ کے سامنے ہی رکھنی چاہئیے.لیکن وہ یہی بات کہے جاتا تھا کہ حضرت صاحب نے صرف پانچ کے نام لئے تھے.ان کا نام نہیں لیا گویا وہ اس قدر کم عقل تھا کہ اتنی بات بھی سمجھ نہیں سکتا تھا.لیکن وہ بہت جلد معمار بن گیا تھا.پس اگر لوگ ذرا بھی توجہ کریں تو اس قسم کے پیشے سیکھ سکتے ہیں اور نہ صرف ان کے ذریعہ روپیہ کمایا جا سکتا ہے بلکہ رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی حصہ لیا جا سکتا ہے.(الفضل 20 اکتوبر 1954 ءجلد 43/8 نمبر 180 صفحہ 4) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں علم کا سمندر ہیں مجھے تو یاد ہے جب میں سکول میں پڑھا کرتا تھا ہمیشہ مجھے کوئی نہ کوئی بیماری رہتی تھی اور مدرسہ سے بھی اکثر ناغے ہوتے مگر اس عمر میں ہی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھی ہیں.بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بستہ میں کوئی نئی کتاب رکھنی ، تو وہیں سے کھسکا کر لے جانی اور شروع سے آخر تک اسے پڑھنا.بلکہ موجودہ عمر میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کم کتابیں پڑھی ہیں کیونکہ اب میرے علم کے استعمال کرنے کا وقت ہے.مگر چھوٹی عمر میں جب مدرسہ کی پڑھائی سے بوجہ بیماری فراغت ہوتی اور کام نہ ہوتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں میں بہت پڑھا کرتا تھا اور درحقیقت حضرت مسیح موعود.
تذکار مهدی ) 560 روایات سید نا محمود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہی علم کا سمندر ہیں.اس وقت جب کہ اکثر لوگ خود ہی مسیح کو وفات یافتہ کہہ رہے ہیں ان بحثوں میں کیا رکھا ہے کہ وفات مسیح کے یہ دلائل ہیں اور فلانے علامہ نے یہ لکھا اور فلاں امام نے یہ لکھا.کن چیزوں پر حصر کرنے کا نام علم رکھ لیا گیا ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ بالکل بے کار چیزیں ہیں یہ بھی مفید چیزیں ہیں مگر ان کی مزید تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں.ان کے لئے کافی ذخیرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں آچکا ہے.اب ان سوالات سے ایسا ہی تعلق ہونا چاہئے تھا جبیںاسیر فی الکتب کرتے ہوئے کوئی نئی بات آ گئی تو اسے معمولی طور پر نوٹ کر لیا مگر اس پر اپنے دماغوں کو لگانے اور اپنی محنت کو ضائع کرنے کے کیا معنی ہیں.تمہیں اس سے کیا تعلق کہ فلاں امام نے کیا لکھا.تمہیں تو اپنے اندر ایک آگ پیدا کرنا چاہئے ایمان پیدا کرنا چاہئے ، اخلاق پیدا کرنے چاہئیں ،اُمنگیں پیدا کرنی چاہئیں اور تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہیں خدا نے کسی خاص کام کے لئے پیدا کیا ہے اور تم ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 39) زمین میں اس کے خلیفہ ہو.مخالفین بھی ایمان لانے کا موجب ہو سکتے ہیں جتنی زیادہ گالیاں دیتے ہیں اتنا ہی زیادہ ہمیں ان پر رحم آتا ہے یہ طریق ہے جو بچے مومن کو اختیار کرنا چاہئے اور اسی کو اختیار کر کے کامیابی اور برکت حاصل ہو سکتی ہے یہ مت خیال کرو کہ دنیا تمہاری مخالف ہو گئی ہے.یہی گالیاں ہیں جو کھاد کا کام دیں گی اور انہیں گالیوں کی وجہ سے انہیں کے بھائی بندوں میں سے لوگ ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک بڑے ادیب جو محاورات اردو کی کتاب بھی چالیس جلدوں میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور جس کا کچھ حصہ نواب صاحب رامپور نے شائع بھی کرایا تھا، قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو سلسلہ کی تبلیغ کس نے کی ؟ انہوں نے کہا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے.بچپن کی وجہ سے مجھے اس جواب پر بڑی حیرت ہوئی اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کس طرح؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے جب مولوی محمد حسین صاحب کی تحریریں پڑھیں تو مجھے ان میں اس قدر غصہ اور دیوانگی نظر آئی کہ جب تک حقیقی خطرہ سامنے نہ ہو اس وقت تک وہ غصہ اور دیوانگی پیدا نہیں ہو
561 روایات سید نا محمودی تذکار مهدی ) سکتی.پس میں نے اس وقت سمجھا کہ ضرور حضرت مرزا صاحب میں صداقت ہے.تب میں نے در شین وغیرہ پڑھی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ دشمن جو کچھ کہتے ہیں ، غلط ہے.میں حضور کی بیعت کے لئے قادیان آیا تو اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے بھی شریف الطبع لوگوں کو ہدایت دیتا ہے.کبھی انگریزوں کے آگے سر نہیں جھکایا خطبات محمود جلد 14 صفحہ 71-70) | میری یہ عادت ہے کہ جب دشمن کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو تو اس وقت میں اس کی بات نہیں مانا کرتا اور مجھے افسوس ہے کہ جب کبھی یہاں کے لوگوں نے مجھ سے صلح کرنے کی کوشش کی ہے تو ہمیشہ ایسی ہی صورت میں کہ پہلے کوئی ہم پر مقدمہ کر دیا یا فساد کھڑا کرا دیا اور پھر چاہا کہ ہم سے سمجھوتہ کر لیں حالانکہ میں ایسے مواقع پر سمجھوتہ نہیں کیا کرتا میں ہمیشہ ایسے موقع پر ہی سمجھوتہ کرنے کے لئے تیار ہوا کرتا ہوں جب میرا ہاتھ دینے والا ہو اور ان کا ہاتھ لینے والا لیکن جب کوئی ڈنڈا لے کر میرے سر پر آچڑھے اور کہے کہ مجھ سے صلح کر لو تو پھر میں اس کی بات نہیں مانا کرتا.مجھے تعجب آتا ہے کہ میری عمر پچاس سال کے قریب ہونے کو آ گئی ، صرف چند ماہ اس میں باقی ہیں اور میں تمام عمر اسی قادیان میں رہا ، یہیں پیدا ہوا، یہیں بڑھا، یہیں جوان ہوا اور یہیں پچاس سال کی عمر تک پہنچا مگر اب تک یہاں کے ہندوؤں اور سکھوں نے میری طبیعت کو نہیں سمجھا.میری طبیعت یہ ہے اور یہی طبیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی تھی بلکہ دینی لحاظ سے گو حالت کچھ ہی ہو یہی طبیعت ہمارے دادا صاحب کی بھی تھی کہ وہ کسی سے دب کر صلح نہیں کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے خاندان نے دوحکومتوں کے تغیر کے وقت سخت نقصان اٹھایا ہے.جب سکھ آئے تب بھی اور جب انگریز آئے تب بھی کیونکہ یہ ہماری طبیعت کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوں اسی لئے جب سکھ آئے تو نہ سکھوں کے آگے ہم جی حضور کرتے رہے اور نہ جب انگریز آئے تو انگریزوں کے آگے ہم نے جی حضور کیا.گو ہمارے خاندان نے سکھوں اور انگریزوں دونوں سے تعاون بھی کیا اور ان کی مدد بھی کی اور ان لوگوں سے زیادہ مدد کی جو جی حضور کرتے رہتے تھے مگر پھر بھی وہ کبھی انگریزوں کے آگے گردن جھکا کر کھڑے نہیں ہوئے.یہ ایک خاندانی اثر ہے جو میرے اندر پایا جاتا ہے
تذکار مهدی ) 562 روایات سید نا محمود الفضل 24 نومبر 1938 ء جلد 26 نمبر 1 27 صفحہ 5 اور مذہب نے اسے اور زیادہ رنگ دے دیا ہے.صبر وتحمل حضرت رسول کریم ﷺ کی فتح اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فتح اور ان تمام انبیاء کی فتح جن کی تاریخیں محفوظ ہیں اور جن پر ایمان لانا ہمارے فرائض میں داخل ہے.لم ، بردباری، محبت اور پیار سے ہی ہوئی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں ایک شخص آیا اور آپ کو آتے ہی گالیاں دینے لگ گیا اور جب خوب گالیاں دے چکا اور بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا.تسلی ہو گئی یا کچھ اور بھی باقی ہے.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور تشریف لے گئے تھے وہاں راستہ میں ایک شخص نے آپ کو دھکا دے دیا.لوگ اس کو مارنے لگے مگر آپ نے فرمایا نہیں اسے کچھ نہ کہو.اس نے تو اخلاص سے ہی دھکا دیا ہے وہ دراصل مدعی نبوت تھا.آپ نے فرمایا.اس نے سمجھا ہے کہ ہم ظالم ہیں اور اس کا حق مار رہے ہیں اس لئے اس نے دھکا دے دیا.پیغمبر اسنگھ جو یہاں آیا کرتے تھے ان کا وہ بھائی تھا وہ سنایا کرتے تھے دیا.کہ میرا بھائی بعد میں ساری عمر شرمندہ رہا اور کہتا تھا.مجھ سے سخت غلطی ہوئی کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کو دھکا دیا.تو اخلاقی نمونہ اور محبت کا اثر تو پاگلوں پر بھی ہو جاتا ہے.صحیح عقل والوں پر کیوں نہ ہوگا.( خطبات محمود جلد 13 صفحہ 108) دست به کار دل به یار حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ دست به کار دل بہ یار.جولوگ دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر مصلوں پر ہی بیٹھے رہتے ہیں وہ حقیقی عابد نہیں ہیں کیونکہ وہ خدا کی اکبریت کو چھوڑتے ہیں اور اکبریت کے بغیر خدا کی حقیقی عبادت نہیں ہوسکتی.پس عابد بننے کے لئے دُنیا کی طرف ضرور نظر کرنی پڑے گی اور جو اس کو چھوڑ دے گا وہ خدا کو کبھی نہیں پاسکے گا.جو شخص دنیا کو چھوڑتا ہے وہ تقویٰ سے نہیں بلکہ جہالت سے ایسا کرتا ہے.خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو حقیقی توحید کے سمجھنے کی توفیق عطاء کرے اور ہمیں ایسی بصیرت بخشے
تذکار مهدی ) 563 روایات سید نا محمودی کے ہمیں ہر بات میں اس کا جلال نظر آئے.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 257) کثرت سے مشک استعمال کرنا قرآن کے متعلق یہ کہا گیا کہ اس کی گار بھی مشک ہے تو اس گار سے مراد قرآن کریم کی ظاہری تعلیم ہوگی پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وہ کتاب ہے کہ اس کی ظاہری تعلیم بھی اچھی ہے اور اس کی باطنی تعلیم بھی اچھی ہے اس کی موٹی سے موٹی تعلیم جو کسی معاملہ کے متعلق ہو لے لو تو وہ مشک ہی مشک ہو گی اس سے تم قرآن کریم کی اعلیٰ درجہ کی روحانی تعلیمات کا اندازہ لگا سکتے ہو کہ وہ کیسی ہوں گی.تیسرے معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ جس طرح اس قرآن کی ابتداء اعلیٰ ہے اسی طرح اس کی انتہاء بھی اعلیٰ ہو گی.ابتداء میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان انسان اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام لے کر آیا اور آخری زمانہ میں مسیح موعود علیہ السلام اس کی اشاعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو گا.گویا یہاں ایک لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مشک بڑا پسند تھا اور آپ ہمیشہ اسے استعمال فرمایا کرتے تھے پس فرمایا کہ اس کا ختام بھی مشک پر ہو گا یعنی ایسے انسان پر جو کثرت سے مشک استعمال کرنے والا ہوگا.خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ بالعموم ایک ظاہری علامت شناخت کی بھی مقرر فرما دیتا ہے.جیسے ختم نبوت کے حقیقی معنوں کے ساتھ ایک نشان بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر بنا ہو ا تھا.( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 321-320) صحابہ حضرت امہات المومنین کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دُعا کی درخواست کرتے تھے صحابہ کا یہ طریق تھا کہ جب آتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور باقی امہات المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کرتے اور ان کی دعاؤں کے مستحق بنتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اور پھر بعد میں بھی کئی لوگ حضرت ام المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوتے اور دعا کی درخواست کرتے.نئے آنے والے لوگوں کو چونکہ اس قسم کی باتیں معلوم نہیں ہوتیں.پھر اتنے ہجوم میں یہ بھی خیال ہوسکتا ہے کہ شاید حاضر ہونے کا موقعہ نہ
تذکار مهدی ) 564 روایات سید نا محمود مل سکے اس لئے میں نے یہ بات یاد دلا دی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے ملنا چاہئے کئی ایسے ہوں گے جو پھٹے پرانے کپڑوں میں ہوں گے اور ان کے پاس سے کہنی مارکر لوگ گزر جاتے ہوں گے مگر وہ ان میں سے ہیں جن کی تعریف خود خدا تعالیٰ نے کی ہے ان سے خاص طور پر ملنا چاہئے اسی لئے میں نے منتظمین جلسہ سے کہا ہوا ہے کہ صحابہ مسیح موعود علیہ السلام میں سے کسی کا لیکچر ”ذکر حبیب پر رکھنا چاہئے مگر اب کے نہیں رکھا گیا یہاں ”ذکر حبیب“ کا جلسہ ہفتہ وار ہوتا ہے جو بہت مفید ہے.بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 579) تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لئے کوششیں مجھے خدا تعالیٰ نے ایسی ہی بینائی عطا کی ہے اور میری فطرت ہی ایسی ہے کہ مجھے شیطان میں بھی کئی خوبیاں نظر آتی ہیں اس لئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی یہ سن سکتا ہوں کہ ہمارے اس سکول میں کوئی خوبی نہیں.لیکن یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ان ایام میں یہ سکول اس مقصد کو پورا کر رہا ہے جس کے لئے اسے قائم کیا گیا تھا.اس سکول پر ایک زمانہ ایسا آیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے ایام میں بعض لوگوں نے کوشش کی کہ اس سکول کو توڑ کر صرف عربی کا ایک مدرسہ قائم رکھا جائے کیونکہ جماعت دو سکولوں کے بوجھ برداشت نہیں کر سکتی اور اس پر اتفاق جماعت اتنا زبردست تھا کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں شاید ڈیڑھ آدمی سکول کی تائید میں رہ گیا تھا ایک تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل تھے اور آدھا میں اپنے آپ کو کہتا ہوں کیونکہ اس وقت میں بچہ تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جو جوش مجھے اس وقت سکول کے متعلق تھا وہ دیوانگی کی حد تک پہنچا ہو ا تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل چونکہ ادب کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بات نہ کر سکتے تھے اس لئے آپ نے مجھے اپنا ذریعہ اور ہتھیار بنایا ہو اتھا وہ مجھے بات بتا دیتے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچا دیتا آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی عطا کی اور باوجود یکہ بعض جلد باز دوستوں نے قریباً ہم پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور کہا کہ یہ دنیا دار لوگ ہیں کیونکہ انگریزی تعلیم کی تائید کرتے ہیں پھر بھی فیصلہ ہمارے حق میں ہوا.( خطبات محمود جلد 13 صفحہ 480,481 ) |
تذکار مهدی ) با قاعدہ اخبار پڑھا کرتے تھے 565 روایات سید نا محمودی غرض یہ احساسات کا عجیب سلسلہ ہے.اس پر غور کرنے سے عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے.ایک بات ایک کے لئے خوشی کی گھڑی اور راحت کی واحد ساعت ہوتی ہے مگر دوسرے کے لئے ماتم کا اثر رکھتی ہے اور بہت ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو نہ کسی کی خوشی میں حصہ ہوتا ہے نہ غم میں.یہ مضمون مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک فقرے میں سکھایا تھا.حضرت مسیح موعود با قاعدہ اخبار پڑھا کرتے تھے.ایک دن 1907ء میں اخبار پڑھتے ہوئے مجھے آواز دی "محمود" یہ آواز اس طرح دی کہ جیسے کوئی جلدی کا کام ہوتا ہے.جب میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے خبر سنائی.ایک شخص (جس کا مجھ کو اس وقت نام یاد نہیں ) مر گیا ہے.اس پر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے کہا مجھے اس سے کیا حضرت صاحب نے فرمایا اس کے گھر میں تو ما تم پڑا ہوگا اور تم کہتے ہو مجھے کیا؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جس کے ساتھ تعلق نہ ہواس کے رنج کا اثر نہیں ہوتا.( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 162) اللہ تعالیٰ کی تصویر کو سامنے لانے کا واحد ذریعہ ذکر الہی خالی رب، مالک، رحمان، رحیم کہنے سے اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک تم ترجمہ کر کے اسے ذہن میں دہراؤ گے نہیں کہ اس کے یہ معنے ہیں.جب تم انہیں بار بار دہراؤ گے تو وہ دماغ کی فلم پر آجائیں گے اور ایک لفظ بار بار دماغ میں آنے کے بعد تصویر کا ایک حصہ بن جائے گا.پھر متعدد الفاظ سے خدا تعالیٰ کی ایک تصویر بن جائے گی اور پھر اُس تصویر سے خدا تعالیٰ کا وجود سمجھ لیا جائے گا.خدا تعالیٰ کی کوئی صفت روحانی ماتھا بنا دے گی ، کوئی صفت روحانی کان بنادے گی ، کوئی صفت روحانی آنکھ بنا دے گی اور اس طرح ایک تصویر بن جائے گی.بہر حال خدا تعالیٰ کی تصویر روحانی طور پر سامنے آئے گی جس سے تم یہ سمجھو گے کہ خدا تعالیٰ ایک حسین چیز ہے.اور جب تم یہ سمجھو گے کہ خدا تعالیٰ ایک حسین چیز ہے تو اس کی محبت خود بخود پیدا ہو جائے گی.اسی چیز کا نام ذکر الہی ہے.اس کا رواج ہماری جماعت میں نہیں دوسرے لوگوں میں اس کا رواج ہے.مثلاً پیروں اور فقیروں کی جماعتوں میں اس کا رواج عام طور پر پایا جاتا ہے لیکن انہوں نے اسے ایک کھیل بنادیا ہے.
566 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک پیر کا واقعہ سنایا کرتے تھے.وہ پیر شکار کا بہت شوقین تھا.وہ ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کے لیے گیا اور بڑی کوشش کے بعد اس نے ایک ہرن مارا.جب اس ہرن کو تیر لگا تو وہ تیز دوڑا.پیر صاحب نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑایا آخر بڑی محنت کے بعد اسے پکڑنے میں کامیاب ہوئے.پیر صاحب کو غصہ تھا کہ میرا گھوڑا بہت تھک گیا ہے.وہ جب ہرن کو ذبح کرنے لگے تو اپنے خیال میں وہ تکبیر کہہ رہے تھے لیکن کہہ یہ رہے تھے سو را! تو نے میرا گھوڑا مار دیتا ، سو را! تو نے میرا گھوڑا مار دیتا.اس کا نام انہوں نے ذکر الہی رکھ لیا تھا حالانکہ وہ لفظوں میں بھی نہیں ہو رہا تھا لیکن اُن کی تسبیح چلی جا رہی تھی.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ہمارے ماموں مرزا علی شیر صاحب تھے.وہ ہماری سوتیلی والدہ کے بھائی تھے.شاید میاں عزیز احمد صاحب کی دادی کے حقیقی بھائی یا قریبی رشتہ دار تھے.وہ قادیان میں آنے والوں کو ہمیشہ ورغلاتے رہتے تھے اور کہا کرتے تھے دیکھو! میں مرزا صاحب کا قریبی رشتہ دار ہوں میں بھی انہیں نہیں مانتا.مرزا صاحب نے دکان بنا رکھی ہے.صرف دکان.مرزا علی شیر صاحب تسبیح خوب پھیرا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ منکے پر منکا چلتا تھا.انہیں باغبانی کا شوق تھا اس لیے انہوں نے ایک باغیچہ لگایا ہوا تھا جس میں وہ سارا دن کام کرتے رہتے تھے.جہاں آجکل قادیان میں دور الضعفاء ہیں وہاں اُن کا باغیچہ تھا.درختوں سے انہیں عشق تھا اس لیے جو نہی کسی نے کسی درخت کو چھوا تو انہیں غصہ آیا اور وہ اُس کے پیچھے بھاگ پڑے.بچے شرارتیں کرتے ہیں.ہم تو بہت احتیاط کرتے تھے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شدید مخالف تھے لیکن دوسرے بچے انہیں چھیڑا کرتے تھے.مثلاً کوئی بیدا نہ کا درخت ہے تو بچوں نے پتھر مارنا اور اس طرح بیدا نہ اُتار کر کھانا.ماموں علی شیر صاحب نے جب بچوں کو پتھر مارتے دیکھنا تو اُن کے پیچھے بھاگنا اور گالیاں دینا سؤر، بد معاش! لیکن تسبیح کے منکے برابر چلتے جاتے تھے.ہم اُس وقت بھی حیران ہوتے تھے کہ انہوں نے تو تسبیح پر سو دفعہ خدا تعالیٰ کا نام لینا تھا لیکن اس میں سے پچاس دفعہ تو انہوں نے سور اور بدمعاش کہہ دیا ہے.اب انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ اصل ذکر الہی بھی چھوڑ دیا جائے.ہمارے ہاں ذکر الہی کا رواج نہیں.مسجد میں جاؤ تو وہاں آپس میں یہ گفتگو شروع ہوتی ہے کہ سنا ہے آپ نے بھینس خریدی ہے؟ کیسی ہے؟ کتنے کو لی؟ فلاں
تذکار مهدی ) کارمهدی 567 روایات سید نا محمود جگہ آپ نے جانا تھا گئے نہیں؟ آپ کی ترقی کے معاملہ کا کیا بنا؟ وغیرہ وغیرہ.مسجدوں میں خدا تعالی کا نام لو، مالک کا نام لو اور اُس کی مالکیت کو ذہن میں لاؤ، قدوس کا نام لو اور اُس کی قدوسیت کو ذہن میں لاؤ، ستار کا نام لو اور اُس کی ستاریت کو ذہن میں لاؤ، غفور کا نام لو اور اُس کی غفوریت کو ذہن میں لاؤ، غفار کا نام لو اور اس کی غفاریت کو ذہن میں لاؤ.جب تم تصویر ہی نہیں کھینچو گے تو خدا تعالیٰ کی محبت کس طرح پیدا ہو گی ؟ محبت کے لیے ضروری ہے کہ یا تو کسی کا وجود سامنے ہو اور یا اس کی تصویر سامنے ہو.مثلاً اسلام نے یہ کہا ہے کہ جب تم شادی کرو تو شکل دیکھ لو اور جہاں شکل دیکھنی مشکل ہو وہاں تصویر دیکھی جاسکتی ہے.میری جب شادی ہوئی میری عمر چھوٹی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈاکٹر رشید الدین صاحب کو لکھا کہ لڑکی کی تصویر بھیج دیں.انہوں نے تصویر بھیج دی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تصویر مجھے دے دی.میں نے جب کہا کہ مجھے یہ لڑکی پسند ہے تب آپ نے میری شادی وہاں کی.پس بغیر دیکھنے کے محبت ہو کیسے ؟ یہ تو ایسی ہی چیز ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے سامنے آئے اور تم آنکھوں پر ہاتھ رکھ لو اور پھر کہو کہ خدا تعالیٰ کی محبت ہو جائے وہ محبت ہو کیسے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے دیدار گر نہیں ہے تو گفتار ہی سہی حُسن و جمال یار کے آثار ہی سہی یعنی کچھ تو ہو.اگر محبوب خود سامنے نہیں آتا تو اس کی آواز ہی سنائی دے.اس کے حُسن کی کوئی نشانی تو نظر آئے.یہ تصویر ہے خدا تعالی کی.ربّ ، رحمان، رحیم، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ، ستار، قدوس، مومن، ہیمن، سلام، جبار اور قہار اور دوسری صفات الہیہ یہ نقشے ہیں جو ذہن میں کھینچے جاتے ہیں.جب متواتر ان صفات کو ہم ذہن میں لاتے ہیں اور ان کے معنوں کو تر جمہ کر کے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں تو کوئی صفت خدا تعالی کا کان بن جاتی ہے، کوئی صفت آنکھ بن جاتی ہے، کوئی صفت ہاتھ بن جاتی ہے اور کوئی صفت دھڑ بن جاتی ہے اور یہ سب مل کر ایک مکمل تصویر بن جاتی ہے.یہ تصویر الفاظ سے نہیں بنتی بلکہ اس حقیقت سے بنتی ہے جو اس کے پیچھے ہے.ان صفات کی تشریح کو دماغ میں لانے سے یہ دماغ کے اندر جمتی جاتی ہیں اور آہستہ آہستہ
تذکار مهدی ) 568 روایات سید نا محمود محبت الہی پیدا ہو جاتی ہے.یہ کوشش کرنا کہ تصویر کو سامنے لائے بغیر محبت ہو جائے یہ حماقت ہے.اللہ تعالیٰ کی تصویر کو سامنے لانے کا ذریعہ ذکر الہی ہے اور یہ قرآن کریم میں مذکور ہے.اب اگر کوئی کہے کہ محبت الہی کا کوئی اور گر بتاؤ تو یہ بیوقوفی ہو گی.کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ تم ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر فلاں صاحب کا اتنی دفعہ ذکر کیا کرو تو وہ کہے گا سُبْحَانَ اللهِ! کیا ہی عمدہ گر ہے محبت الہی کے پیدا کرنے کا.لیکن اگر یہ کہیں کہ ذکر الہی کیا کرو تو وہ کہے گا یہ بھی کوئی گر ہے.یا اگر کسی کو کہا جائے کہ سر کے بل لٹک کر فلاں ورد کیا کرو تو وہ خوش ہو جائے گا.لیکن اگر کہیں ستار، غفار، رحمان اور رحیم کا ورد کرو تو وہ کہے گا یہ تو پرانی بات ہے.خطبات محمود جلد 32 صفحہ 79 تا 81 ) جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں اولا د کتنی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب ہماری شادیوں کی تجویز فرمائی تو سب سے پہلے یہ سوال کرتے کہ فلاں صاحب کے ہاں کتنی اولاد ہے وہ کتنے بھائی ہیں.آگے ان کے کتنی اولاد ہے.مجھے یاد ہے کہ جس جگہ میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تحریک ہوئی.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ اس خاندان کی کس قد ر اولاد - ہے اور جب آپ کو معلوم ہوا کہ سات لڑکے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور تمام باتوں پر غور کرنے سے پہلے فرمانے لگے کہ بہت اچھا ہے.یہیں شادی کی جائے.میری اور میاں بشیر احمد صاحب کی شادی کی تجویز اکٹھی ہی ہوئی تھی ہم دونوں کی شادی کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی دریافت فرمایا کہ یہ معلوم کیا جائے کہ جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولا د ہے کتنے لڑکے ہیں، کتنے بھائی ہیں تو جہاں آپ نے اور باتوں کو دیکھا وہاں ولو دا کو مقدم رکھا.اب بھی بعض لوگ جو مجھ سے مشورہ لیتے ہیں میں ان کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ یہ دیکھو جہاں رشتے تجویز ہوئے ہیں ان کے ہاں کتنی اولاد ہے.جمعہ کے روز غسل کرنا اور نئے کپڑے بدلنا (خطبات محمود جلد سوم صفحہ 397-396) ایک لڑکی میری عزیز کے ہاں نو کر تھی ایک دن انہوں نے اسے کہا کہ فلاں عطر اٹھا کر
تذکار مهدی ) 569 روایات سید نامحمود لے آنا.وہ کہنے لگی بی بی! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو و شبو کیا ہوتی ہے؟ جب اسے عطر سونگھایا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی حس ہی نہیں تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میں بھی لے جاؤ تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے.لیکن ہم کیا دیتے ہیں فَرَوْحٌ ہم سب سے پہلے خوشبو سونگھنے اور اُس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میں پیدا کرتے ہیں.روح کے معنے ہیں وِجُدَانُ الرَّائِحَةِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوؤں کو محسوس کرے (روح) میرے اپنے ناک کی جس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے.اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بد بو دار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گھٹنے لگتا ہے، میں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگا یا کرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اول کو اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی.میں آپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میں آپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ میں نے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں.فرمانے لگے، مولوی صاحب سے پوچھنا کیا بخاری میں کوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میں ہی مشغول رہتے تھے یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طرف چل پڑتے.آپ تھے تو میرے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اِس لئے میں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا.آپ ہنس پڑے اور فرمایا ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے ، ہم تو اور کاموں میں بُھول ہی جاتے ہیں.
تذکار مهدی ) ❤ 570 روایات سید نا محمود ) میں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا، اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی جس بھی تیز بھی اور اس امر میں بھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے.تو ناک کی جس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ حس کہاں دے سکتی ہے.( سیر روحانی (3) ، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 374-373) مخالفانہ ہوا میں جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہیں پھر حضرت خلیفہ اول کو ہم نے دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں آپ ہمیشہ پیچھے ہٹ کر بیٹھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آپ پر نظر پڑتی تو آپ فرماتے مولوی صاحب آگے آئیں اور آپ ذرا کھسک کر آگے ہو جاتے.پھر دیکھتے تو فرماتے مولوی صاحب اور آگے آئیں اور پھر آپ ذرا اور آگے آجاتے.خود میرا بھی یہی حال تھا.جب حضرت خلیفہ اول کی وفات کا وقت قریب آیا اُس وقت میں نے یہ دیکھ کر کہ خلافت کیلئے بعض لوگ میرا نام لیتے ہیں اور بعض اس کے خلاف ہیں، یہ ارادہ کر لیا تھا کہ قادیان چھوڑ کر چلا جاؤں تا جو فیصلہ ہونا ہو میرے بعد ہو مگر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ میں نہ جاسکا.مر جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی تو اُس وقت میں نے اپنے دوستوں کو اس بات پر تیار کرلیا کہ اگر اس بات پر اختلاف ہو کہ خلیفہ کسی جماعت میں سے ہو، تو ہم ان لوگوں میں سے (جو اب غیر مبائع ہیں) کسی کے ہاتھ پر بیعت کر لیں اور پھر میرے اصرار پر میرے تمام رشتہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس امر کو تسلیم کر لیں تو اول تو عام رائے لی جائے اور اگر اس سے وہ اختلاف کریں تو کسی ایسے آدمی پر اتفاق کر لیا جائے جو دونوں فریق کے نزدیک بے تعلق ہو اور اگر وہ یہ بھی قبول نہ کریں تو ان لوگوں میں سے کسی کے ہاتھ پر بیعت کرلی جائے اور میں یہ فیصلہ کر کے خوش تھا کہ اب اختلاف سے جماعت محفوظ رہے گی.چنانچہ گزشتہ سال حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے بھی حلفیہ بیان شائع کرایا تھا کہ میں نے حافظ صاحب کو اُنہی دنوں کہا تھا کہ ”اگر مولوی محمد علی صاحب کو اللہ تعالیٰ خلیفہ بنادے تو میں اپنے تمام متعلقین کے ساتھ ان کی بیعت کرلوں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے دھگا دے کر مجھے آگے کر دیا.تو اللہ تعالیٰ جس کو بڑا بنانا چاہے وہ دنیا کے کسی کو نہ میں پوشیدہ ہو، خدا تعالیٰ اُس کو نکال کر آگے لے
احمدی 571 تذکار مهدی ) کارمهدی روایات سیّد نا محمود آتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی نظر سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوسکتی.چنانچہ اس کیلئے میں پھر حضرت لقمان والی مثال دیتا ہوں.حضرت لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں يُبْنَى إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُنْ فِي صَخْرَةٍ أَوْ في السَّمَوتِ اَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُہ کہ اے میرے بیٹے! اگر رائی کے دانہ کے برابر بھی کوئی چیز ہو اور وہ کسی پتھر میں پوشیدہ ہو یا آسمانوں اور زمین میں ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کو نکال کر لے آئے گا.اس کے معنے یہی ہیں کہ اگر تمہارے دل میں ایمان ہو تو خدا تعالیٰ تمہیں خود اس کام پر مقرر کرے جس کے تم اہل ہو.تمہیں خود کسی عہدہ کی خواہش نہیں کرنی چاہئے.تو وہ لوگ جو خدمت خلق کو اپنا مقصود قرار دیتے ہیں وہی ہر قسم کی عزت کے مستحق ہیں.پھر اگر خدا تعالیٰ تمہیں خود مخدوم بنانا چاہے تو ساری دنیا مل کر بھی اس میں روک نہیں بن سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو خدا تعالیٰ کے مسیح اور مامور تھے اور پھر ایسے مامور تھے جن کی تمام انبیاء نے خبر دی.اُن کا ذکر تو بڑی بات ہے.میں اپنے متعلق ہی شروع سے دیکھتا ہوں کہ مخالفتیں ہوتی ہیں اور اتنی شدید ہوتی ہیں کہ ہر دفعہ لوگ یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ اب کی دفعہ یہ مخالفانہ ہوائیں سب کچھ اُڑا کر لے جائیں گی مگر پھر وہ اس طرح بیٹھ جاتی ہیں جس طرح جھاگ بیٹھ جاتی ہے.تو جس کو اللہ تعالی قائم کرنا چاہے اُس کو کوئی مٹا نہیں سکتا.حضرت خلیفہ اول کا آپ سے عشق خطبات محمود جلد 19 صفحہ 205-204 ) | حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ جب آپ بہت جوش اور محبت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کرتے تو ”مرزا“ کا لفظ استعمال کیا کرتے اور فرماتے.ہمارے مرزا کی یہ بات ہے.ابتدائی ایام سے جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ابھی دعویٰ نہیں تھا.چونکہ آپ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے تعلقات تھے.اس لئے اس وقت سے یہ لفظ آپ کی زبان پر چڑھے ہوئے تھے.کئی نادان اس وقت اعتراض کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام
تذکار مهدی ) 6572 روایات سید نا محمود کا ادب نہیں.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آپ کو لوگ عام طور پر مولوی صاحب یا بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) میں نے خود کئی دفعہ یہ اعتراض لوگوں کے منہ سے سنا ہے.اور حضرت مولوی صاحب کو اس کا جواب دیتے ہوئے بھی سنا ہے.چنانچہ ایک دفعہ اسی مسجد میں حضرت خلیفہ اول جبکہ درس دے رہے تھے.آپ نے فرمایا بعض لوگ مجھ پر اعتراض کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب نہیں کرتا.حالانکہ میں محبت اور پیار کی شدت کے وقت یہ الفاظ ادا کرتا ہوں.تو ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہئے.بلکہ ان الفاظ کے اندر حقیقت جو خفی ہو اس کو دیکھنا چاہئے.جیسے میں نے بتایا ہے بعض الفاظ معمولی ہوتے ہیں مگر ان میں پیار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہوتا ہے اور بعض الفاظ اچھے ہوتے ہیں مگر ان کا مضمون نہایت برا ہوتا ہے ہمارے ملک میں عام طور پر جب کسی کو بیوقوف کہنا ہو تو اسے بادشاہ کہے دیتے ہیں اور باتیں کرتے ہوئے اس سے کہتے ہیں.”بادشا ہواے کی کہندے ہو.یعنی تمہاری باتیں احمقوں کی سی ہیں.حضرت خلیفہ اول کا اخلاص ( الفضل 30 جون 1938 ء جلد 26 نمبر 147 صفحہ 3) مجھے یاد ہے کہ ہم ابھی بچے ہی تھے تھوڑی آبادی کے گاؤں میں عموماً مزدور وغیرہ نہیں ملتے.شہروں میں مل جاتے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لوگوں نے اپنے اپنے کاموں کے لئے کام رکھے ہوئے ہوتے ہیں مگر یہ نہیں ہوتا کہ کسی وقت مزدور کی ضرورت ہو اور وہ مل جائے ابتدائی زمانہ میں چونکہ قادیان کی آبادی بہت کم تھی اس لئے قادیان میں بھی اس وقت یہی طریق رائج تھا.جب کوئی ایسا کام پڑ جاتا تھا جو گھر والوں سے نہیں ہوسکتا تھا تو اور لوگ آ جاتے اور وہ کام کر دیتے کسی گھر میں اگر دو تین مہمان آجائیں تو ایک کھلبلی سی مچ جاتی ہے مگر وہاں تو ساٹھ ستر کے قریب مہمان رہتے تھے ان کی خدمت کے لئے مختلف سامانوں کی ضرورت ہوتی تھی.کھانا پکوانے کی ضرورت ہوتی تھی.سودا وغیرہ لانے کی ضرورت ہوتی تھی اور یہ ظاہر ہے کہ یہ کام صرف ہمارے خاندان کے افراد نہیں کر سکتے تھے.اکثر یہی ہوا کرتا تھا کہ جماعت کے افراد مل ملا کر وہ کام کر دیا کرتے تھے.اس وقت طریق یہ تھا کہ اگر ایندھن آجاتا اور وہ اندر
تذکار مهدی ) 573 نامحمودی روایات سیّد نا محمود ڈالنا ہوتا تو گھر کی خادمہ آواز دے دیتی کہ ایندھن آیا ہے.کوئی آدمی ہے تو وہ آجائے اور ایندھن اندر ڈال دے.پانچ سات آدمی جو حاضر ہوتے وہ آ جاتے اور ایندھن اندر ڈال دیتے.دو تین دفعہ ایسا ہوا کہ کام کے لئے باہر خادمہ نے آواز دی مگر کوئی آدمی نہ آیا.ایک دفعہ لنگر خانہ کے لئے اپلوں کا ایک گڈا آیا.بادل بھی آیا ہوا تھا.خادمہ نے آواز دی تا کوئی آدمی مل جائے تو وہ اپلوں کو اندر رکھوا دے مگر اس کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہ کی.میں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول اس وقت مسجد اقصے سے قرآن کریم کا درس دے کر واپس تشریف لا رہے تھے.آپ اس وقت خلیفہ نہیں تھے.مگر علم دینیات ، تقویٰ اور طب کی وجہ سے آپ کو جماعت میں ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اور لوگوں پر آپ کا بہت اثر تھا.آپ درس سے فارغ ہو کر گھر جارہے تھے کہ خادمہ نے آواز دی اور کہا کہ کوئی آدمی ہے تو آجائے بارش ہونے والی ہے.ذرا اپلے اٹھا کر اندر ڈال دے.لیکن کسی نے توجہ نہ کی.آپ نے جب دیکھا کہ خادمہ کی آواز کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی.تو آپ نے فرمایا اچھا آج ہم ہی آدمی بن جاتے ہیں.یہ کہہ کر آپ نے اپلے اٹھائے اور اندر ڈالنے شروع کر دیئے.ظاہر ہے کہ جب شاگرد استاد کو اہلے اٹھاتے دیکھے گا تو وہ بھی وہی کام شروع کر دے گا.چنانچہ اور لوگ بھی آپ کا ساتھ کام کرنے لگ گئے اور اپلے اندر ڈال دیئے.مجھے یاد ہے میں نے دو تین مختلف مواقع پر آپ کو ایسا کرتے دیکھا اور جب بھی آپ اپلے اٹھانے لگتے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ مل جاتے.قصابوں کو میدان جنگ میں بھیجوانا ( الفضل 19 دسمبر 1948 ء جلد 2 نمبر 268 صفحہ 4-3 ) | مثلاً زخم پر پٹی باندھنا ہے.بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ معمولی بات ہے.حالانکہ یہ کام بھی بغیر مشق کے نہیں آ سکتا میرے گھٹنے میں ایک دفعہ درد ہوا.ڈاکٹر صاحب پٹی باندھ کر جائیں تو وہ دو دو دن تک بندھی رہے لیکن ایک دن پٹی میں نے خود باندھ لی اُس دن باہر نماز پڑھانے کے لئے جو گیا تو میں نے دیکھا کہ پٹی میرے پاؤں میں پڑی ہوئی ہے یا مثلاً دبانا ہے لوگ اسے معمولی کام سمجھتے ہیں حالانکہ یہ کام بھی بغیر مشق کے نہیں آ سکتا..اب تو پہرے والے کسی کو آگے آنے نہیں دیتے لیکن اس سے پہلے دبانے کی مشق ہمیشہ مجھ پر ہوا کرتی تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے دیکھا ہے
تذکار مهدی ) 6574 روایات سید نا محمود آپ کئی دفعہ نماز کے بعد جلدی گھر تشریف لے جاتے.والدہ صاحبہ نے دریافت کرنا کہ اتنی جلدی آپ کیوں آگئے؟ تو آپ نے فرمانا ایک ایسا دبانے والا مجھے دبانے لگ گیا تھا کہ مجھے اس سے سخت تکلیف ہوئی مگر چونکہ مجھے منع کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی ، اس لئے آپ ہی اُٹھ کر اندر چلا آیا.مجھے خود بھی کئی دفعہ اسی طرح کی تکلیف ہوئی ہے.حالانکہ یہی دبانے کا کمال جب کسی کو حاصل ہو جائے تو لوگ بڑے شوق سے اُسے دبانے کے لئے بلاتے ہیں.لاہور میں ایک یوروپین ڈاکٹر تھا ، اب تو وہ ولایت چلا گیا ہے، وہ محض پندرہ روپیہ فیس اس بات کی لیا کرتا تھا کہ مریضوں کو دباتا اور اس عمدگی اور خوبی سے دبا تا کہ محض دبانے سے کئی بیماریوں کا علاج کر دیتا.تو ہر چیز مشق سے آتی ہے، اس کے بغیر نہیں آ سکتی.حکومتیں چونکہ ان باتوں کو جانتی ہیں،اس لئے وہ ہمیشہ اپنے سپاہیوں کو مشق کراتی رہتی ہیں.لیکن جو اپنے سپاہیوں کو مشق کرانا چھوڑ دیں، ان کا سوائے اس کے کیا نتیجہ ہو سکتا ہے کہ دشمن حملہ کر کے ان کے ملک پر قابض ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ کو خیال آیا کہ پہلا ضرورت فوجوں پر جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے.اگر ملک پر کبھی دشمن نے حملہ کیا تو سارے قصابوں کو بلا کر میدان جنگ میں بھیج دیا جائے گا کہ جاؤ دشمن کا مقابلہ کرو.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور فوجیوں کو ملازمت سے برطرف کر کے گھر بھیج دیا.جب دشمنوں کو پتہ لگا کہ بادشاہ نے ایسا عقلمندی کا حکم دیا ہے تو جھٹ انہوں نے حملہ کر دیا.بادشاہ نے حکم دیا کہ فوراً قصابوں کو جمع کر کے میدانِ جنگ میں بھیج دیا جائے.جب قصاب میدانِ جنگ میں گئے اور دشمن نے انہیں تلواروں سے ہلاک کرنا شروع کیا، تو وہ یک دم بھاگ کر بادشاہ کے دربار میں پہنچے اور کہنے لگے انصاف، انصاف، دہائی، دہائی!.بادشاہ نے پوچھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا.حضور! وہاں کوئی انصاف نہیں ہو رہا.کہنے لگا کس طرح؟ انہوں نے کہا ہم با قاعدہ دو تین آدمی مل کر ان کے ایک آدمی کو پکڑتے اور اُسے لٹاتے ہیں، پھر چھری چلا کر اسے ذبح کرتے ہیں.مگر وہ اتنے میں ہمارے پچاس آدمی مار دیتے ہیں.بھلا یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے.تو مشق اور مسلسل مشق کے بغیر کوئی کام نہیں آ سکتا اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ مجھے مشق کی ضرورت نہیں لیکن وقت پر میں کام کر لوں گا تو وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے....تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 124-125)
تذکار مهدی ) ❤575 حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کا سیر میں ساتھ شامل ہونا روایات سید نا محمود کسی چیز کی عادت یا مشق نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو بہت سی مشکلات پیش آیا کرتی ہیں.حضرت خلیفہ مسیح الاول میں جس قدر اخلاص تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن انہیں تیز چلنے کی عادت نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو حضرت خلیفہ اول بھی ساتھ ہوتے مگر تھوڑی دور چل کر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تیز قدم کر لینے تو حضرت خلیفہ اول نے قصبہ کے مشرقی طرف قصبہ کے باہر ایک بڑ کا درخت ہے اس کے نیچے بیٹھ جانا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سیر سے واپس آنا تو پھر آپ کے ساتھ ہو لینا.کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا کہ حضرت مولوی صاحب سیر کیلئے نہیں جاتے.آپ نے فرمایا وہ تو روز جاتے ہیں.اس پر آپ کو بتایا گیا کہ وہ سیر کیلئے ساتھ تو چلتے ہیں لیکن پھر بڑ کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں اور واپسی پر پھر ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ حضرت خلیفہ اول کو اپنے ساتھ سیر میں رکھتے اور جب آپ نے تیز ہو جانا اور حضرت خلیفہ اول نے بہت پیچھے رہ جانا تو آپ نے چلتے چلتے ٹھہر جانا اور فرمانا مولوی صاحب فلاں بات کس طرح ہے.مولوی صاحب تیز تیز چل کر آپ کے پاس پہنچتے اور ساتھ چل پڑتے.تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگے نکل جاتے.تھوڑی دُور جا کر پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹھہر جاتے اور فرماتے مولوی صاحب! فلاں بات اس اس طرح ہے.مولوی صاحب پھر تیزی سے آپ کے پاس پہنچتے اور تیز تیز چلنے کی وجہ سے ہانپنے لگ جاتے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو اپنے ساتھ رکھتے.تمیں چالیس گز چل کر پھر مولوی صاحب پیچھے رہ جاتے اور آپ پھر کوئی بات کہہ کر مولوی صاحب کو مخاطب فرماتے اور وہ تیزی سے آپ سے آکر مل جاتے.آپ کی غرض یہ تھی کہ اس طرح مولوی صاحب کو تیز چلنے کی عادت ہو جائے.یہ صرف تیز چلنے کی مشق نہ ہونے کا نتیجہ تھا کہ مولوی صاحب آہستہ چلتے.چونکہ طب کا پیشہ ایسا ہے کہ اس میں عموماً انسان کو بیٹھا رہنا پڑتا ہے اور اگر باہر کسی مریض کو دیکھنے کیلئے جانے کا اتفاق ہو تو سواری موجود ہوتی ہے اس لئے حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کو تیز چلنے کی
تذکار مهدی ) 576 روایات سید نا محمود مشق نہ تھی.ورنہ اخلاص آپ میں جس قدر تھا، اس کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے لیکن مشق نہ ہونے کی وجہ سے منافق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ چل سکتے تھے حضرت مولوی صاحب نہیں چل سکتے تھے تو جب تک کسی قسم کی مشق نہ کی جائے کبھی وقت پر آ کر وہ کام نہیں ہو سکتا اسی وجہ سے میں نے محسوس کیا کہ اگر جماعت مختلف قسم کی قربانیوں کے لئے تیار نہیں رہے گی اور قربانیوں کا اس پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا تو مشکلات آنے پر اخلاص صرف مشغلہ بن کر رہ جائے گا.سلسلہ کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکے گا.پس میں نے ضروری سمجھا ہے کہ ایسی قربانیوں کی عادت ڈالی جائے جو جسمانی آرام اور آسائش پر اثر رکھنے والی ہوں مثلاً میں نے کہا ہے اپنے وطن کی قربانی کرو اور غیر ممالک میں اعلائے کلمہ اسلام کے لئے نکل جاؤ.تحریک جدید کے مقاصد اور ان کی اہمیت، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 127-126) اپنی آمد کا ایک حصہ پس انداز کرنا ضروری ہے اس وقت تحریک جدید کے امانت فنڈ کی طرف بھی میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.یہ ایک نہایت ضروری مد ہے اور جن دوستوں نے ابھی تک اس میں حصہ نہیں لیا انہیں چاہئے کہ اس میں شامل ہو جائیں اپنی آمد کا ایک حصہ پسانداز کرنا ایسا ضروری ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی یہ طبیعت دیکھ کر کہ آپ کو جو کچھ ملتا ہے خرچ کر دیتے ہیں، اُس زمانہ میں جب آپ جموں میں ملازم تھے آپ کو لکھا کہ اپنی آمد کا چوتھا حصہ جمع کرتے جائیں.پس ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ روپیہ جمع ہونا چاہئے کیونکہ ایسے کئی مواقع پیش آتے ہیں جب کہ روپیہ کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور اگر روپیہ پاس نہ ہو تو کئی قسم کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ تحریک جدید کے امانت فنڈ میں حصہ لیں.اس فنڈ میں روپیہ جمع کرانے کی وجہ سے کئی دوست ہمارے بے حد ممنون ہوئے ہیں کیونکہ اس عرصہ میں اچانک اُنہیں بعض سخت مشکلات پیش آگئیں اور انہوں نے ہمیں لکھا کہ اگر آج ہمیں روپیہ نہ ملا تو ہماری تباہی میں کوئی طبہ نہیں.چنانچہ گوامانت فنڈ کیلئے تین سال کی شرط تھی مگر جب ہمیں معلوم ہوا کہ انہیں حقیقی ضرورت درپیش ہے تو ہم نے ان کا روپیہ فورا ادا کر دیا اور اس طرح وہ
تذکار مهدی ) 577 روایات سید نا محمود بڑی بڑی مصیبتوں سے بچ گئے.پس دوستوں کو اس فنڈ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور جو دوست ماہوار کچھ روپیہ جمع کرا سکتے ہوں انہیں پالالتزام روپیہ جمع کراتے رہنا چاہئے تا کہ ضرورت پران کے کام آسکے.(مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 560 ، 561 ) | حضرت خلیفہ اول کی قربانیاں حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا لوگ حضرت خلیفتہ اسیح اول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ نے ملنے آیا کرتا ہے.اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گا کہ کیا بات ہے چنانچہ جب مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں نے فلاں بات سنی ہے میرا دل تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کر رہا ہوں کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اور مرد سے نکاح کر دیا ہے وہ کہنے لگا مولوی صاحب تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی میں نے کہا اس لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے اس پر وہ کہنے لگا.بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے.لیکن مولوی صاحب جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتنا روپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا پس اگر حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کی اولا دکو حکومت پاکستان یہ لالچ دے دیتی.کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا.تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آ جاتی ہے جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلاف شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا.انہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے مگر یہاں تو چڑیا چھوڑا نہیں کسی نے مردہ مچھر بھی نہیں دیا.حالانکہ یہ اولا داس عظیم الشان باپ کی ہے.جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے اس
تذکار مهدی ) 6578 روایات سید نا محمود پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا.اس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنارہے تھے جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوا رہے تھے تا کہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطب بھی کیا کریں موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفہ اسی اول نے یہ قربانی کی تھی.اس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا.اس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جا کر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے اب اسے دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ایسے عظیم الشان باپ کی اولا د ایک مردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آ گری.پھر دیکھو حضرت خلیفہ اسی اول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھوڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیان میں ہمارے دادا کی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں اب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل کا صرف ایک کچا مکان تھا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح اول کی بڑی جائیداد تھی.مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر احمدی کے دل میں آپ کا ادب و احترم پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولا د خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہوگی تو ہر مخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں کرے گا.مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 418 تا 420) حضرت خلیفہ اول کی بہن حضرت خلیفہ اول کی ایک بہن ایک پیر صاحب کی مرید تھیں.وہ قادیان میں آئیں اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.جب واپس گئیں تو ان کے پیر صاحب کہنے لگے تجھے کیا ہو گیا کہ تو نے مرزا صاحب کی بیعت کر لی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ نورالدین نے تجھ پر جادو کر دیا ہے.وہ آئیں تو حضرت خلیفتہ اسی اول سے انہوں نے اس کا
تذکار مهدی ) 579 روایات سید نا محمود ذکر کیا.آپ نے فرمایا اگر پھر کبھی پیر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا تو انہیں کہنا کہ آپ کے عمل آپ کے ساتھ ہیں اور میرے عمل میرے ساتھ ہیں.میں نے تو مرزا صاحب کو اس لئے مانا ہے کہ اگر آپ کو نہ مانا تو قیامت کے دن مجھے جوتیاں پڑیں گی.آپ بتائیں کہ آپ اس دن کیا کریں گے.جب وہ واپس گئیں تو انہوں نے پیر صاحب سے جا کر یہی بات کہہ دی.وہ کہنے لگا یہ نور الدین کی شرارت معلوم ہوتی ہے.اسی نے تجھے یہ بات سمجھا کر میرے پاس بھیجا ہے.مگر تمہیں اس بارہ میں کسی گھبراہٹ کی ضرورت نہیں.جب قیامت کا دن آئے گا اور پل صراط پر سب لوگ اکٹھے ہوں گے.تو تمہارے گناہ میں خود اٹھالوں گا اور تم دگر دگڑ کرتے ہوئے جنت میں چلے جانا.انہوں نے کہا پیر صاحب ہم تو جنت میں چلے گئے.پھر آپ کا کیا بنے گا.وہ کہنے لگے جب فرشتے میرے پاس آئیں گے.تو میں انہیں لال لال آنکھیں نکال کر کہوں گا کہ کیا ہمارے نانا امام حسینؓ کی شہادت کافی نہیں تھی کہ آج قیامت کے دن ہمیں بھی ستایا جاتا ہے.بس یہ سنتے ہی فرشتے دوڑ جائیں گے اور ہم دگر دگر کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو جائیں گے.غرض عیسائی جس کو خدا قرار دیتے ہیں وہ تو کہتا ہے کہ خدایا یہ تیرے بندے ہیں آپ چاہیں تو انہیں سزا دے دیں اور چاہیں تو معاف کر دیں مگر مسلمان کہتے ہیں کہ ہم فرشتوں کو لال لال آنکھیں دکھائیں گے جس سے وہ ڈر کر بھاگ جائیں گے اور ہم دگر دگر کرتے ہوئے جنت میں داخل ہو جائیں گے.غرض مسلمان اس معاملہ میں عیسائیوں سے بھی آگے نکل گئے.الا ما شاء اللہ وہ بزرگ جنہوں نے خدا تعالیٰ کی توحید کی اشاعت کے لئے رات دن کوششیں کیں اور اسلام کا جھنڈا بلند رکھا.(الفضل 27 جون 1957 ءجلد 46/11 نمبر 162 صفحہ 4-3) جماعت میں لاکھوں انسان صحابہ کا نمونہ ہیں اللہ تعالیٰ کی جماعت کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ عذاب یافتہ قوم ہے ایک بہت بڑا گناہ ہے.عبد الحکیم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی لکھا تھا کہ آپ کی جماعت میں مولوی نورالدین صاحب ہی ایک کامل انسان نظر آتے ہیں اور لوگ تو ایسے نہیں.اس کا جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے یہی دیا کہ مجھے تو اپنی جماعت میں لاکھوں انسان ایسے نظر آتے ہیں جو صحابہ کا نمونہ ہیں اور تم ان خیالات سے تو بہ کرو ورنہ اس کا انجام اچھا نہیں.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھ کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے آپ نے نہایت سختی سے اپنی جماعت کے عیوب بیان کئے ہیں تو
Ⓒ 580 ☀ روایات سید نا محمودی تذکار مهدی ) معالج والی نگاہ سے عیوب کا دیکھنا اور چیز ہوتی ہے اور اعتراض کی نیت سے عیوب کا دیکھنا بالکل اور چیز ہے.جتنے عیب میں اپنی جماعت میں دیکھتا ہوں غالباً اس دوست کو بھی اتنے عیب نظر نہیں آتے ہوں گے اور یقینا نہیں آتے مگر جس نگاہ سے مجھے نظر آتے ہیں وہ اور ہے اور جس نگاہ سے انہیں نظر آتے (خطبات محمود جلد 16 صفحہ 110) ہیں وہ اور ہے.افراد سے قو میں بنتی ہیں اسلام لانے سے پہلے عمرو بن عاص اور خالد بن ولیڈ کی حیثیت ایک قبائلی سردار کی سی تھی لیکن جب یہ لوگ اسلامی لشکر میں شامل ہوئے تو اُنہوں نے ایسی شہرت اور عظمت حاصل کی کہ آسمان کے ستاروں سے بھی آگے نکل گئے.وہ صرف معلومہ دنیا کے کناروں تک ہی مشہور نہیں ہوئے بلکہ اُن کی شہرت دنیا کی زندگی اور وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی اور آج تک اُن کو نہایت عزت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے.پس افراد سے قو میں بنتی ہیں اور قوموں سے افراد بنتے ہیں.اعلیٰ دماغوں کے مالک ذہین اور نیک انسان قوموں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اعلیٰ اور نیک مقاصد اچھے اور ہوشیار لوگوں کے ہاتھ آکر بہت زیادہ فائدہ مند ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی اللہ تعالی نے یہی سلوک کیا کہ آپ کے دعوے کے ابتداء میں ہی بعض ایسے افراد آپ پر ایمان لائے.جو کہ ذاتی جوہر کے لحاظ سے بہترین خدمات سرانجام دینے والے تھے اور اس کام میں آپ کی مدد کرنے والے تھے.جو اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے سپرد کیا تھا اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں وہ لوگ بہترین مددگار اور معاون ثابت ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ نبوت سے پہلے ہی حضرت خلیفہ اول مولوی نور الدین صاحب کی توجہ آپ کی طرف پھری اور آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ واسلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کیا تو نبوت کے متعلق بعض مضامین اپنی ابتدائی کتب فتح اسلام اور توضیح مرام میں بیان فرمائے.ایک شخص نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بدظنی رکھتا تھا.ان کتابوں کے پروف کسی طرح دیکھے تو وہ جموں گیا اور اس نے کہا.کہ آج میں نے مولوی نورالدین صاحب کو مرزا صاحب سے ہٹا دینا ہے.اس وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے.دعویٰ مسیحیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فتح اسلام اور
تذکار مهدی ) 581 روایات سید نا محمود توضیح مرام کی اشاعت کے زمانہ میں کہا.جو بیعت سے قریباً دو سال بعد ہوا اور انہیں میں مسئلہ اجرائے نبوت کی بنیاد رکھی.جب اس شخص نے آپ کی کتب میں نبوت کے جاری ہونے کے متعلق پڑھا تو اس نے کہا اب تو یقیناً مولوی نورالدین صاحب مرزا صاحب کو چھوڑ دیں گے.کیونکہ مولوی صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت رکھتے ہیں.جب وہ یہ سنیں گے کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتا ہے تو وہ مرزا صاحب کے مرید نہیں رہیں گے.چنانچہ اس شخص نے اپنے ساتھ ایک پارٹی لی اور خراماں خراماں حضرت مولوی صاحب کی طرف چلے.جب آپ کے پاس پہنچے تو اس شخص نے حضرت مولوی صاحب سے کہا.میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں.آپ نے کہا فرمایئے کیا پوچھنا چاہتے ہیں.اس شخص نے کہا اگر کوئی شخص کہے کہ میں اس زمانہ کے لئے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت محمدیہ میں نبوت جاری ہے.تو آپ اس کے متعلق کیا خیال کریں گے.اس شخص نے تو یہ خیال کیا تھا کہ میں ایک مولوی کے پاس جارہا ہوں.لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ میں ایک مولوی کے پاس نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے پاس جا رہا ہوں.جس سے اللہ تعالیٰ اپنے سلسلہ کا کام لینا چاہتا ہے.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا.اس سوال کا جواب تو دعوی کرنے والے کی حالت پر منحصر ہے کہ آیا وہ اس دعویٰ کا مستحق ہے یا نہیں.اگر یہ دعویٰ کرنے والا انسان راستباز نہ ہوگا.تو ہم اسے جھوٹا کہیں گے اور اگر دعوی کرنے والا کوئی راستباز انسان ہے تو میں یہ سمجھوں گا کہ غلطی میری ہے.حقیقت میں نبی آ سکتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے اس شخص نے جب میرا یہ جواب سنا.تو وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا.چلو جی ایہہ بالکل خراب ہو گئے ہیں.اب ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.آپ فرمایا کرتے تھے.اس پر میں نے اسے کہا.مجھے یہ تو بتا دو کہ بات کیا تھی تو اس نے کہا بات یہ ہے کہ آپ کے مرزا صاحب نے یہ دعوی کیا ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوتا ہے اور میں ایک نبی کے مشابہ ہوں.حضرت خلیفہ اول نے اس کی یہ بات سن کر فرمایا بے شک مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا ہے وہ درست ہے.مجھے اس پر ایمان ہے.حضرت خلیفہ اول اس زمانہ میں اچھی شہرت رکھتے تھے.آپ دلیری اور بہادری کے ساتھ کام کرنے والے تھے.اس کے علاوہ آپ بہت مخیر انسان تھے.غریبوں کو تعلیم دلانے کا آپ کو بہت شوق تھا اور آپ غریب بیماروں کا علاج بھی
تذکار مهدی ) 582 روایات سید نا محمود مفت کرتے تھے.اس طرح شروع شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسا ہمت والا اور عزت و شہرت رکھنے والا مددگار اور معاون عطا کر دیا.جس کا ملنا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے ہندوستان کے مشہور مصنفین اور علمی طبقہ میں ایک مشہور ومعروف انسان کو آپ پر ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی تھے.مولوی محمد احسن صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سناتے تھے کہ میں شروع میں سخت مخالف تھا اور مولوی بشیر احمد صاحب بھو پالوی اور میں نواب صدیق حسن خاں کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے.مولوی بشیر احمد صاحب بھو پالوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہت تائید کرتے تھے.ایک دن گفتگو کرتے کرتے یہ طے پایا کہ مرزا صاحب کی صداقت کے متعلق مباحثہ کیا جائے اور پہلے دونوں طرف کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان کے دلائل معلوم کئے جائیں.مولوی بشیر احمد صاحب نے کہا کہ ہم الٹ کتابیں پڑھیں.مجھے چونکہ مرزا صاحب سے حسن ظنی ہے.اس لئے میں آپ کی مخالف کتابیں پڑھوں گا اور آپ مرزا صاحب کے خلاف ہیں اس لئے آپ مرزا صاحب کی کتابیں پڑھیں.اس طرح ہمیں دونوں طرفوں کے دلائل سے واقفیت ہو جائے گی.اس بحث کی تیاری کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اور مولوی بشیر صاحب نے آپ کے خلاف جو کتب لکھی گئی تھیں ان کا مطالعہ شروع کیا چنانچہ جب مباحثہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ مولوی بشیر صاحب بھو پالوی سختی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت کرتے اور میں سختی سے آپ کی تائید کرتا آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ میں نے بیعت کر لی اور مولوی بشیر صاحب بھو پالوی احمدیت سے بہت دور چلے گئے.تیسرے وجود اس زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب تھے.جہاں تک ظاہری علوم کا تعلق ہے.انہوں نے حضرت خلیفہ اول سے کچھ علوم پڑھے تھے.لیکن ان کی خداداد ذہانت اور ذکاوت ایسی تیز تھی کہ وہ مضامین اور معارف کو یوں پکڑتے تھے جیسے باز چڑیا کو پکڑتا ہے اور جس بات کو عام آدمی گھنٹہ بھر میں سمجھتا ہے وہ اسے سیکنڈوں میں سمجھ جاتے تھے.وہ معارف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل ہوتے تھے اور وہ دعویٰ جو کہ آپ نے کچھ عرصہ کے بعد کرنا ہوتا تھا.وہ کچھ دن پہلے ہی ان کی زبان پر جاری ہو جاتا تھا اور پھر بولنے میں انہیں ایسی مہارت
تذکار مهدی ) 583 روایات سید نا محمود تھی اور ان کے کلام میں اتنی فصاحت تھی کہ ان کی تقریر سننے والا آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا آواز اتنی سریلی تھی کہ جب آپ قرآت کرتے تھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان کے فرشتے اللہ تعالیٰ کی حمد گا رہے ہیں.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت سے اتنی شدید محبت تھی کہ اس محبت کا اندازہ اس شخص کے سوا کوئی نہیں لگا سکتا.جس نے آپ کو دیکھا اور آپ سے باتیں کی ہوں.جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے ذرے ذرے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت داخل ہوگئی ہے.لیکھرام کے قتل کے واقعہ کے متعلق ایک دفعہ وہ مسجد کے محراب میں کھڑے تقریر کر رہے تھے.میں اس وقت چھوٹا تھا.لیکن وہ نظارہ مجھے اب تک یاد ہے ان کے ہاتھ میں ایک بڑا سوٹا تھا.جسے پنجابی میں کھونڈ کہتے ہیں.انہوں نے لیکھرام کی شوخیوں اور دیدہ دلیریوں کا ذکر کیا اور پھر کہا کہ لیکھرام کی ان دیدہ دلیریوں کو دیکھ کر ایک دبلا پتلا انسان جو کہ ہر وقت بیمار رہتا ہے.اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقابلہ کے لئے نکلا اور اس نے لیکھرام پر ایسے زور کے ساتھ حملہ کیا کہ اس بھڑوے جیہا آدمی نوں چک کے ایں ماریا کہ اس دا نام یا نشان وی نہ رہیا.یعنی اسلام کے اس دبلے پتلے سپاہی نے ہندوؤں کے موٹے کیے جیسے پہلوان کو یوں اٹھا کر زمین پر گرایا کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہ رہا.گویا انہوں نے اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے اس روحانی مقابلے کو ایک جسمانی مقابلہ سے تشبیہ دی اور ایسے مزے کے ساتھ بیان کیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ امیر حمزہ کی داستان بیان ہورہی ہے.ان کے کلام کی فصاحت دلوں کو موہ لیتی تھی.حضرت مسیح موعود کا لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی انہوں نے ہی لاہور میں پڑھا تھا.لیکچر سنے والوں نے کہا کہ بے شک لیکچر لکھنے والے کی خوبیوں اور علمی قابلیت کا کسی بھی طرح انکار نہیں کیا جا سکتا.لیکن وہ شخص جس نے یہ لیکچر پڑھا.وہ بھی بہت قابل تعریف انسان تھا.اس کی آواز ایسی شیریں تھی کہ سامعین مسحور ہوئے جاتے تھے.جب مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو گئے تو ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت گھبراہٹ ہوئی کیونکہ آپ نے آریہ سماج کے جلسہ کے لئے جو کہ لاہور میں منعقد ہوا تھا.ایک لیکچر تیار کیا.آپ کو یہ فکر لاحق ہوا کہ اب اسے سنائے گا کون پہلے آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جا کر یہ لیکچر سنائیں.جب یہ لیکچر چھپ گیا تو آپ نے مسجد میں حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ آپ یہ
تذکار مهدی ) 584 روایات سید نامحمودی مضمون پڑھ کر سنائیں.حضرت خلیفہ اول نے مضمون پڑھنا شروع کیا.لیکن ابھی آپ نے چار پانچ منٹ ہی مضمون پڑھا ہوگا کہ آپ نے فرمایا مولوی صاحب آپ رہنے دیں اب کوئی دوسرا آدمی پڑھے.اس کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھنا شروع کیا.مگر ان کو بھی تھوڑی دیر کے بعد روک دیا.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو آپ نے پڑھنے کے لئے فرمایا.شیخ صاحب نے ایک آدھ منٹ تو بہت بلند آواز میں پڑھا.اور یہ خیال کیا گیا کہ وہ پڑھ لیں گے.لیکن تھوڑی دیر میں ہی ان کا گلہ بھتر ا گیا اور آواز بیٹھ گئی.مجھے یاد ہے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ تو بڑی مشکل ہے.مولوی عبدالکریم صاحب خوب پڑھا کرتے تھے.اب تو کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا.آخر حضرت خلیفہ اول کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ آپ اس لیکچر کو پڑھ کر سنائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول اور آپ کے بعد غالباً مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم نے مضمون پڑھا.لیکن لیکچر کا وہ اثر نہ ہوا جو مولوی عبدالکریم صاحب کے پڑھنے سے ہوتا تھا.اسی طرح اس زمانہ میں ہماری جماعت میں کوئی اچھے پائے کا فلسفی اور منطقی دماغ رکھنے والا آدمی نہ تھا.سو اللہ تعالیٰ نے مولوی سید سرور محمد شاہ صاحب کو ہدایت دے دی اور وہ آپ پر ایمان لے آئے.اس کے بعد آپ پشاور میں پروفیسر مقرر ہوئے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد قادیان کی محبت نے غلبہ کیا اور آپ قادیان تشریف لے آئے اور دستی بیعت کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی صاحب سے فرمایا.آپ یہیں رہ جائیں.چنانچہ آپ یہیں رہنے لگ گئے.بعض لوگوں نے زور دیا کہ مولوی صاحب کالج میں پروفیسر ہیں اور اچھی جگہ کام کر رہے ہیں.ان کی ملازمت سے سلسلہ کو فائدہ ہوگا اور ان کے ذریعہ تبلیغ ہوگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو واپس جانے کی اجازت دے دی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت لے کر واپس آگئے اور قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی.(الفضل 13 جون 1947 ءجلد 35 نمبر 139 صفحہ 2 تا4) حضرت مولانا نورالدین صاحب بے شک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر کی بڑی تعریف فرمائی ہے.جس
تذکار مهدی ) 585 نا روایات سید نا محمود طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی نورالدین کی بڑی تعریف کی ہے.مگر قرآن اس لئے نہیں اترا تھا کہ ابوبکر کی عزت قائم کی جائے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں یہ کہیں ذکر آتا ہے کہ ہم نے تجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ تو نورالدین کی عزت قائم کرے.ہاں جو سچائی اور حقیقت تھی اس کا آپ نے اظہار کر دیا.مثلاً آپ نے فرمایا.چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دین بودے مگر یہ تو ایک سچائی ہے جو کہنی چاہئے تھی.جس نے قربانی کی ہو اس کی قربانی کا اظہار نہ کرنا ناشکری ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ایک مریض آیا اور اس نے ذکر کیا کہ مولوی صاحب سے میں نے علاج کروایا تھا جس سے مجھے بڑا فائدہ ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام اس دن بیمار تھے.مگر جب آپ نے یہ بات سنی تو آپ اسی وقت اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت اماں جان سے فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ ہی مولوی صاحب کو تحریک کر کے یہاں لایا ہے اور اب ہزاروں لوگ ان سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.اگر مولوی صاحب یہاں نہ آتے تو ان لوگوں کا کس طرح علاج ہوتا.پس مولوی صاحب کا وجود بھی خدا تعالیٰ کا ایک بڑا احسان ہے.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے تو آپ اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت کی ناشکری سے بچے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کو دیکھ لو آیا کسی الہام میں بھی یہ ذکر آتا ہے کہ اے مسیح موعود میں نے تجھے اس لئے مبعوث کیا ہے کہ تو نورالدین کی عزت قائم کرے یا قرآن میں کوئی آیت ایسی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہو کہ اے محمد رسول اللہ میں نے تجھے اس لئے بھیجا کہ تو ابوبکر کی عزت قائم کرے.بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکڑ کے حق میں جو فقرات کہے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی نورالدین صاحب کے حق میں نہیں کہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ لَو كُنتُ مُتَّخِذَا خَلِيلًا غَيْرَ رَبِّي لَا تَخَذْتُ اَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا.(بخاری جلد 2 باب فضائل اصحاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یعنی اگر خدا کے سوا کسی اور کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر کو اپنا خلیل بنا تا لیکن حضرت خلیفہ اول کی نسبت تو
تذکار مهدی ) کارمهدی 586 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف اتنا فرمایا کہ چہ خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے گویا اس میں آپ کا اور امت کا مقابلہ کیا گیا ہے.خدا اور نورالدین کا مقابلہ نہیں کیا گیا.مگر وہاں تو خدا اور ابوبکر کا مقابلہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اگر خدا کے سوا کسی اور کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابوبکر کو بناتا.پس بڑے آدمی کا بیٹا ہونا اسے سزا سے بچاتا نہیں بلکہ اور زیادہ عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے.بشرطیکہ وہ تو بہ نہ کرے.ہاں اگر وہ تو بہ کر لے.تو پھر کہنے کی ضرورت نہیں.ہر شخص اس کی عزت کرتا ہے.لیکن جب خدا کسی کی عزت کو کھونا چاہے، تو پھر کوئی شخص اسے عزت نہیں دے سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا تھا کہ إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ لِهَانَتَگ میں اس شخص کو ذلیل کروں گا.جو تیری ذلت اور اہانت کا ارادہ کرے گا.چنانچہ جب پادری مارٹن کلارک نے آپ پر قتل کا مقدمہ کیا.تو مولوی محمد حسین بٹالوی کو بھی جوش آ گیا.اور اس نے بھی اپنا نام گواہوں میں لکھوا دیا اور کہا کہ مرزا صاحب فسادی آدمی ہیں کوئی تعجب نہیں کہ انہوں نے کسی آدمی کو اسے قتل کرنے کے لئے بھجوا دیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مقدمہ کے لئے لاہور سے ایک غیر احمدی وکیل بلوایا جو اپنے کام میں بہت ہوشیار تھا.اس نے کریدنا شروع کیا کہ میں کیا جرح کروں.جس سے گواہ کی حیثیت مخدوش ہو جائے.آخر اسے معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی ماں اخلاقی لحاظ سے اچھی شہرت کی مالک نہیں تھی.لیکن بعد میں اس نے توبہ کر لی اور ان کے والد نے اس سے نکاح کر لیا.وکیل کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے کہا کہ اگر میں ثابت کر دوں کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کی ماں ڈومنی یا کنچنی تھی تو اس کی گواہی کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں اس کی اجازت نہیں دیتا اگر ماں میں کوئی نقص تھا تو اس کا مولوی محمد حسین بٹالوی پر کیا الزام آتا ہے.وہ کہنے لگا اگر جرح میں اس کی حیثیت کو گرایا نہ گیا تو خطرہ ہے کہ آپ کہیں قید نہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اگر وہ ہمارے خلاف کوئی قدم اٹھائے گا تو خدا خود اس کو پکڑے گا اور سزا دے گا مگر یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی ماں کے گناہ کی وجہ سے ہم اس کو قصور وار قرار دے دیں.جیسے
تذکار مهدی ).587 روایات سید نا محمودی کہ محمد بن ابی بکڑ نے جو گناہ کیا.اس کی وجہ سے ابوبکر پر کوئی الزام نہیں آ سکتا.یا جیسے حضرت خلیفہ اول کی اولا دا گر کوئی برا کام کرے تو اس کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول پر کوئی الزام نہیں آسکتا.بے شک یہ ان کی طرف منسوب ہوتے ہیں.مگر بیٹوں کے کسی فعل کی ماں باپ پر کیا ذمہ داری ہے.آخر نوح کے بیٹے کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے.مگر کیا اس کے بعد ہمارا اختیار ہے کہ ہم حضرت نوح کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیں.اگر ہم ایسا کریں گے تو کافروں میں شامل ہو جائیں گے.بہر حال یہ واقعات ایسے ہیں جو تاریخ میں ہمیں پہلے بھی دکھائی دیتے ہیں.جیسا کہ ڈاکٹر شاہ نواز صاحب نے لکھا ہے کہ آپ کیوں گھبراتے ہیں حضرت عثمان پر بھی ابو بکر کے بیٹے نے ہی حملہ کیا تھا اور آج تک سب مسلمان اس پر لعنت کرتے ہیں.مجھے خوب یاد ہے.جب ہم حضرت خلیفہ اول سے پڑھا کرتے تھے.تو جب بھی کربلا کے واقعات کا ذکر آتا آپ آہ بھر کر فرمایا کرتے تھے.کہ مجھے ہمیشہ اس بات کے تصور کا شدید صدمہ ہوتا ہے کہ امام حسین پر کس شخص کے بیٹے نے حملہ کیا.آپ پر حملہ کرنے والا اس شخص کا بیٹا تھا.جو عشرہ مبشرہ میں شامل تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھو آپ پر جب گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا تو آپ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ آریوں نے مجسٹریٹ کو سزا دینے پر آمادہ کر لیا ہے اور ہمیں اس کے مقابلہ کے لئے کوئی تدبیر اختیار کرنی چاہیے یہ رپورٹ لانے والے خواجہ کمال الدین صاحب تھے آپ نے جب یہ بات سنی تو اُٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا خواجہ صاحب آپ گھبراتے کیوں ہیں خدا کے شیر پر ہاتھ ڈالنا کوئی آسان کام ہے؟ میں خدا کا شیر ہوں اگر وہ مجھ پر ہاتھ ڈالے گا تو میرا خدا اُسے سیدھا کر دے گا پس یہ باتیں روحانی طور پر تو بے حقیقت ہیں لیکن خدا کے سامنے جواب دہی کے لحاظ سے بڑی اہم ہیں اور جماعت کو ان کی اہمیت سمجھنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے.(الفضل 2 اگست 1956ء جلد 45/10 نمبر 179 صفحہ 2 تا 5) جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کر خلافت مل گئی پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اور وہ میاں شریف احمد صاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا.اتفاقاً میں بھی اس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑا تھا.ہمیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب اس وقت سور ہے ہیں.اس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت
تذکار مهدی ) 588 روایات سید نا محمودی بنانے کے لئے آیا ہوں.انہیں اطلاع دے دی جائے.لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں.لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی.جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بلالیا.وہاں ایک چار پائی پڑی ہوئی تھی.میں نے انہیں کہا کہ اس پر بیٹھ جائیے.کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا.میں نے سمجھا کہ شاید یہ چار پائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے.اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لایا.لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروازہ کے سامنے جہاں جو تیاں رکھی جاتی ہیں.وہاں پائیدان پر جا کر بیٹھ گئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا.میں نے چار پائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے.پھر کرسی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اور ایک ایسی جگہ جا کر بیٹھ گئے.جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں.کہنے لگے میں تمہیں ایک قصہ سناؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی ہوں میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا.آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جوتیاں پڑی تھیں.ایک آدمی سیدھے سادھے کپڑوں والا آگیا اور آکر جوتیوں میں بیٹھ گیا.میں نے سمجھا کہ یہ کوئی جوتی چور ہے.چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کر دی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے.کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ کوئی اور شخص خلیفہ بن گیا ہے اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا.جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے جوتی چور سمجھا تھا.یعنی حضرت خلیفہ اول اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا.آپ کی عادت تھی کہ آپ جو تیوں میں آکر بیٹھ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے.پھر جب کہتے مولوی نورالدین صاحب نہیں آئے.تو پھر کچھ اور آگے آ جاتے.اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہا میاں.آپ کے باپ نے جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کر خلافت لی تھی.لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو.اس طرح کام نہیں بنے گا.تم اپنے باپ کی طرح جوتیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.اس پر وہ چپ کر گیا.اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے.آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے.ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہورہا تھا ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں سناتے ہیں کہ
تذکار مهدی ) 589 روایات سید نا محمودی حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے.یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مولوی صاحب جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرت اولا د بھی ہے.اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا حضور میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں.لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا اب باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے.لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یادر کھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے کیونکہ انہوں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا جب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.تو کل کا مقام اور ہماری جائیداد الفضل 27 / مارچ 1957 ء جلد 46/11 نمبر 74 صفحہ 5,4) وقف کرنے کے معنے تو یہ ہیں کہ آدمی کھڑا ہو گیا اب اس نے ہلنا نہیں اس کی زبان بند ہے.مگر یہ عجیب وقف ہے کہ تھوڑے دنوں کے بعد لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں چیز نہیں.میں دے تو دیتا ہوں مگر سوچتا ہوں کہ جسے کھانے پینے کے لئے میری مدد کی ضرورت ہے اُسے خدا تعالیٰ سے کیا تعلق ہے؟ واقفین کو ہم جو کچھ دیتے ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے.کیونکہ ان کی طلب کے بغیر ملتا ہے مگر یہ کہ اپنی خواہش ہو کہ مل جائے یہ خدا تعالیٰ پر توکل کے منافی ہے.تو کل کی مثال تو یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح اول ایک مرتبہ مطب میں بیٹھے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلی میں تھے وہاں حضرت میر صاحب سخت بیمار ہو گئے.قولنج کا اتنا سخت حملہ ہوا کہ ڈاکٹروں نے کہا آپریشن ہونا چاہئے.بعض لوگوں نے کہا کہ بعض یونانی دواؤں
تذکار مهدی ) 590 روایات سید نا محمودی سے بغیر آپریشن کے بھی آرام ہو جاتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت خلیفہ اول کو تار دے دیا کہ جس حالت میں بھی ہوں آجا ئیں.آپ مطب میں بیٹھے ہوئے تھے.کوٹ بھی نہیں پہنا ہوا تھا.پیسے بھی پاس نہ تھے.آپ نے غالبا حکیم غلام محمد صاحب مرحوم امرتسری کو ساتھ لیا اور اسی طرح اٹھ کر چل پڑے.حکیم غلام محمد صاحب نے کہا کہ میں گھر سے پیسے وغیرہ لے آؤں.مگر آپ نے کہا کہ نہیں حکم یہی ہے کہ جس حالت میں ہو چلے آؤ سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول چلنے میں کمزور تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو جاتے تو آپ پیچھے رہ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہو کر فرماتے مولوی صاحب کہاں ہیں اور حضرت خلیفہ اول بعد میں آکر ملتے اسی طرح پھر پیچھے رہ جاتے اور پھر کھڑے ہو کر انتظار فرماتے.مگر آپ غالباً حکیم غلام محمد صاحب کو ساتھ لے کر پیدل بٹالہ پہنچے سٹیشن پر جا کر بیٹھ گئے.حکیم صاحب نے کہا کہ اب کرایہ وغیرہ کا کیا انتظام ہوگا.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ یہاں بیٹھو اللہ تعالیٰ خود کوئی انتظام کر دے گا.اتنے میں ایک شخص آیا اور دریافت کیا کہ کیا آپ حکیم نور الدین صاحب ہیں.آپ نے کہا ہاں وہ شخص کہنے لگا کہ ابھی گاڑی آنے میں دس پندرہ منٹ باقی ہیں اور میں نے اسٹیشن ماسٹر سے کہ بھی دیا ہے کہ ذرا آپ کا انتظار کرے میں بٹالہ کا تحصیلدار ہوں میری بیوی بہت سخت بیمار ہے.آپ ذرا چل کر اسے دیکھ آئیں آپ گئے مریضہ کو دیکھ کر نسخہ لکھا اور اسٹیشن پر واپس آگئے.وہ شخص بھی ساتھ آیا اور کہا کہ آپ چل کر گاڑی میں بیٹھیں.میں ٹکٹ لے کر آتا ہوں اور وہ سیکنڈ کلاس کا ایک ٹکٹ اور ایک تھرڈ کلاس کا لے آیا اور ساتھ پچاس روپے نقد دیئے اور کہا کہ یہ حقیر ہدیہ ہے.اسے قبول فرما ئیں.آپ دہلی پہنچے اور جا کر میر صاحب کا علاج کیا.یہ صحیح تو کل کا مقام ہے.اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ میرے بندے کا تو کل صحیح ہے یا نہیں.ممکن ہے کہ اس آزمائش کے لئے وہ فاقے دے ننگا کر دے موت کے قریب کر دے تا بندوں کو بتائے کہ میرے اس بندے کا انحصار تو کل پر ہے.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسے لنگوٹی باندھنی پڑتی ہے دھجیاں لٹکنے لگتی ہیں اور بعض کو اس کی مدد کے لئے اس طرح ننگا دکھا کر الہام کرتا ہے.بعض کو لفظی الہام سے بھی مدد کا حکم دیتا ہے.مگر بعض کو اس کی حالت دکھا کر تحریک کرتا ہے.مگر تو کل کے صحیح مقام پر جو لوگ ہوتے ہیں.وہ کسی سے منہ سے مانگتے نہیں.دنیا میں ہر ایک شخص کے ماں باپ فوت ہوتے ہیں اور
تذکار مهدی ) کارمهدی 591 روایات سید نا محمود ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات بھی ہوئی.مگر ہمارے لئے مشکل یہ تھی کہ ہم سمجھتے ہی نہ تھے کہ آپ وفات پا جائیں گے.لوگوں کو اس کا احساس ہوتا ہے.اس لئے کوئی روپیہ جمع کرتا ہے.کوئی بیمہ کراتا ہے اور کوئی اور انتظام کرتا ہے مگر ہم تو سمجھتے ہی نہیں تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو جائیں گے.ہم میں سے ہر ایک یہی سمجھتا تھا کہ میں پہلے فوت ہوں گا اور ہر ایک کی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا جنازہ پڑھائیں.نوجوان احباب یہ درخواستیں کرتے تھے کہ حضور دعا کریں کہ ہم آپ کے ہاتھوں میں فوت ہوں اور آپ جنازہ پڑھائیں.آپ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات دیکھ کر ہر شخص یہی خیال کرتا تھا کہ آپ کو زندہ رہنا چاہئے اور قلوب کی اس کیفیت کی وجہ سے نہ ہمیں اس کا خیال تھا اور نہ اس کے لئے کوئی تیاری تھی کہ آپ فوت ہو گئے.بعض رشتہ داروں نے والدہ صاحبہ کو تحریک کی (ہمارے نانا جان مرحوم نے ایسا مشورہ نہیں دیا مبادہ کوئی یہ خیال کرے) میں یہ تو نہیں کہتا کہ ورغلایا.کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ نیک نیتی سے ہی کہہ رہے ہوں گے.مگر انہوں نے تحریک کی کہ آپ مطالبہ کریں کہ جو چندے آتے ہیں وہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہی آتے ہیں.اس لئے ان سے ہمارا حصہ مقرر ہونا چاہئے.میں اس وقت بچہ تھا مگر یہ مشورہ مجھے اتنا برا معلوم ہوا کہ میں نے کمرہ کے باہر ٹہلنا شروع کر دیا.کہ جو نہی مجھے موقعہ ملے میں والدہ سے اس کے متعلق بات کروں اور جب موقعہ ملا تو میں نے کہا کہ یہ چندہ کیا ہماری جائیداد تھی.یہ تو خدا تعالیٰ کے دین کے لئے ہیں ان میں سے حصہ لینے کا کسی کو کیا حق ہے.پھر بعض لوگ ایسے تھے کہ جو یہ مشورہ کر رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے لئے گزارہ مقرر کرنا چاہئے.چنانچہ ایک دوست نے مجھ سے آکر کہا کہ ہم نے یہ تجویز کی ہے کہ آپ کو گزارہ دیا جائے میں نے کہا کہ ہم اس کے لئے تیار نہیں ہیں.ہم بندوں کے محتاج کیوں ہوں.اس وقت ہماری جائیداد بھی پراگندہ حالت میں تھی.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی طرف توجہ نہ کی تھی اور بظاہر گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی.مگر میرے نفس نے یہی کہا کہ جو خدا انتظام کرے گا اسی کو منظور کروں گا.بندوں کی طرف کبھی توجہ نہ دوں گا.میرا جواب سن کر اس دوست نے کہا کہ پھر آپ لوگوں کے گزارہ کی کیا صورت ہو گی.میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء زندہ
تذکار مهدی ) 592 روایات سید نا محمود رکھنے کا ہوگا تو وہ خود انتظام کرے گا اور اگر اس نے مارنا ہے تو وہ موت زیادہ اچھی ہے جو اس کے منشاء کے ماتحت ہو.تو گویا میں نے یہ دونوں صورتیں رد کر دیں.حصہ والی تجویز تو شرعاً بھی ناجائز تھی.مگر میں نے دوسری صورت کو بھی منظور نہ کیا یہ ذاتی غیرت تھی.اب تیسرا پہلو سلسلہ کے لئے غیرت کا تھا اس کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ مرزا سلطان احمد کے دل میں مشورہ کی تحریک پیدا کی.آپ اس وقت غیر احمدی تھے آپ نے مناسب سمجھا کہ بڑے بھائی کی حیثیت میں مجھے مشورہ دیں اور شیخ یعقوب علی صاحب کو میرے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا کہ آپ سلسلہ سے کوئی رقم لینا منظور نہ کریں.یہ ہماری خاندانی غیرت کا سوال ہے.میرے نفس نے فوراً کہا کہ گو یہ مشورہ وہی ہے جو میرے دل نے دیا ہے.مگر اس وقت مشورہ دینے والا ایک ایسامی ایسا شخص ہے جو گو میرا بڑا بھائی ہے مگر ہے غیر احمدی اور مذہب کی روح سے سب سے زیادہ قریبی رشتہ ہم مذہبوں کا ہوتا ہے.یہ میرے اور سلسلہ کے تعلقات میں کیوں دخل دیں.چنانچہ اس خیال کے آتے ہی میں نے شیخ صاحب سے کہا کہ ان کا شکریہ ادا کریں اور کہہ دیں کہ میرا اور سلسلہ کا جو تعلق ہے اس کے بارے میں میں خود ہی فیصلہ کرنا پسند کرتا ہوں.انہیں اس سے تعلق نہیں آخر حضرت خلیفہ اسیج اول نے مجھے بلایا اور کہا کہ ہم آپ لوگوں کو اپنے پاس سے کچھ پیش نہیں کرتے.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے جس کے ماتحت میں نے گزارہ کی تجویز کی ہے اور الہام میں رقم تک مقرر ہے اب سوال انسانوں کا نہ رہا.بلکہ خدا تعالیٰ کے دین کا آ گیا اس لئے میں نے اس امر کو منظور کر لیا.جو گزارہ مقرر ہوا وہ ہمارے لئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی تھا.گو اس زمانہ میں ہمارے بچے بھی اس میں گزارہ نہیں کر سکتے.مجھے اس وقت ساٹھ روپے ملتے تھے.جن میں سے میں دس روپیہ ماہوار تو تفخیذ پر خرچ کرتا تھا.دو بچے تھے.بیوی تھی اور کو کوئی خاص ضرورت تو نہ تھی.مگر خاندانی طور طریق کے مطابق ایک کھانا پکانے والی اور ایک خادمہ بچوں کے رکھنے اور اوپر کے کام میں مدد دینے کے لئے میری بیوی نے رکھی ہوئی تھی.سفر اور بیماری وغیرہ کے اخراجات بھی اسی میں سے تھے پھر مجھے کتابوں کا شوق بچپن سے ہے جس وقت میری کوئی آمد سوائے اس کے کہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کپڑوں کے لئے مجھے دیا کرتے تھے نہ تھی.تب بھی میں کتب خرید تا رہتا تھا.بلکہ اس سے پہلے جب کا پیوں کا غذ اور قلم وغیرہ کے لئے مجھے تین روپے ماہوار ملا کرتے تھے.
تذکار مهدی ) 593 روایات سید نا محمود اس میں سے بھی بچا کر کتابیں خریدتا رہتا تھا.اب تو میں نے دیکھا ہے.اچھی اچھی نوکریوں والے بھی نہیں خریدتے.مگر مجھے اس وقت بھی یہ شوق تھا.اس رقم سے جو بھی گزارہ کے لئے ملتی تھی اپنی علمی ترقی کے لئے اور مطالعہ کے لئے کتابیں بھی خریدتا رہتا تھا اور کافی ذخیرہ میں نے جمع کر لیا تھا.تو میں بتا رہا تھا کہ تو کل کا صحیح مقام یہی ہے.بعض لوگ اب مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی بیویاں ہیں اتنے بچے ہیں.مگر میں پوچھتا ہوں کہ ان بیوی بچوں کے لئے کیا میں نے کسی سے کچھ مانگا ہے.میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ نے نہ دیا.تو فاقے کر لیں گے مگر کسی سے مانگیں گے نہیں.میرا اصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہی لینا ہے اور جو وہ بھیج دے اسی پر گزارہ کرنا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ وہ ایسی ایسی راہوں سے دیتا ہے کہ انسان گمان بھی نہیں کر سکتا.مجھے آٹھ دس غیر احمدیوں سے اس قدر امداد ملی ہے کہ شائد سب احمدیوں نے جو ہدایا دیئے ہوں ان کے برابر ہوگی.اور وہ ایسے لوگ ہیں کہ کبھی انہوں نے اپنے نام کے اظہار کی خواہش بھی نہیں کی.بعض کو اللہ تعالیٰ نے خوابوں کے ذریعہ تحریک کی.بعض کو دوسرے ذرائع سے بعض دنیوی کاموں میں اتنا رو پیدل گیا کہ جس کا وہم بھی نہ تھا.مگر اصول میرا یہی رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو دے اور اگر نہ دے تو انسان صبر سے کام لے اور بندوں کی طرف نگاہ نہ اٹھائے اور میں سمجھتا ہوں یہی تو کل ہے یہ بھی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کوئی اچھی چیز بھیج دے تو انسان اسے پھینک دے یہ تو کل نہیں گستاخی ہے اور نہ ہی یہ تو کل ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو وقف کرے اور پھر ضرورت پڑے تو مانگے یہ مانگنا خواہ خلیفہ سے بلکہ خواہ نبی سے ہی کیوں نہ ہو.بلکہ خواہ خاتم النبین سے ہی کیوں نہ ہو تو کل کے خلاف ہے.تو کل یہ نہ ہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دے تو لے نہیں تو جو ہے اسی پر قناعت کرے اور سمجھے کہ اگر اللہ تعالی مارنا ہی چاہتا ہے تو مار دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بزرگ کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ وہ کسی گوشہ میں بیٹھے وعظ نصیحت کرتے رہتے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کو وہیں روزی پہنچا دیتا تھا.دور شہر سے باہر جگہ تھی.جہاں وہ رہتے تھے.ایک دفعہ کئی دن گزر گئے اور کھانے کو کچھ نہ آیا یہ شائد اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان تھا.انہوں نے کہا کہ اب شہر میں جا کر کسی دوست سے کچھ مانگنا چاہئے چنانچہ وہ گئے اور ایک دوست سے کہا کہ کچھ کھانے کو دو.اس نے تین روٹیاں اور کچھ سالن اوپر ہی ڈال کر دیدیا.یہ چل پڑے تو ساتھ ہی اس دوست کا کتا بھی پیچھے پیچھے ہو
تذکار مهدی ) 594 نامحمودی روایات سیّد نا محمود لیا وہ دم ہلاتا جاتا تھا اور پیچھے پیچھے چل رہا تھا.اس بزرگ نے سمجھا کہ اس روٹی میں اس کا بھی حق ہے.کیونکہ اس گھر کی نگرانی کرتا ہے اور اس نے ایک روٹی پر سالن کا تیسرا حصہ ڈال کر اسے ڈال دی.کتے نے وہ کھالی اور پھر پیچھے پیچھے چل پڑا.بزرگ نے خیال کیا کہ بے شک اس کا حق زیادہ حصہ ہے کیونکہ یہ اس گھر کا محافظ ہے اور ایک روٹی پر سالن کا ایک اور حصہ ڈال کر اس کے آگے پھینک دی مگر کتا وہ کھا کر بھی پیچھے چل پڑا.ادھر اس بزرگ کو خود سخت بھوک لگی تھی.وہ کہنے لگا کہ تو بڑا بے حیا ہے میں تین میں سے دو روٹیاں تجھے دے چکا ہوں مگر پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا.یہ کہنا تھا کہ معا کشف کی حالت پیدا ہوئی.وہ دنیا کی حالت کو بالکل بھول گئے.کتے کی روح متمثل ہو کر ان کے سامنے آئی اور کہا کہ تم مجھے بے حیا کہتے ہو حالانکہ میں تو کتا ہوں اور تم انسان ہو.مجھے سات سات فاقے اس گھر میں آئے اور میں نے اس ڈیوڑھی کو نہیں چھوڑا.مگر تمہیں تین دن کا فاقہ آیا اور تم چھوڑ کر شہر کو آ گئے.بتاؤ بے حیا میں ہوں یا تم ہو.یہ بات سن کر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور تیسری روٹی بھی معا سالن سمیت کتے کے آگے پھینک دی.جب واپس اپنے مقام پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک شخص نہایت پر تکلف کھانے لئے بیٹھا ہے اور کہتا ہے کہ آپ کہاں چلے گئے تھے.میں انتظار میں تھا تو تو کل کا مقام یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی پر نظر نہ رکھے اور توکل کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ کی جستجو کرنے والوں کے لئے سامان کرنے منع ہیں.سامان بھی کئے جا سکتے ہیں.تجارت.نوکری.زراعت وغیرہ سب کام کرنے جائز ہیں مگر نظر خدا تعالیٰ پر ہی ہونی چاہئے کہ وہی سب ضروریات پوری کرے گا حضرت خلیفہ اول کے اسی سفر کا واقعہ ہے جس کا میں اوپر ذکر چکا ہوں آپ سنایا کرتے تھے کہ میرے پاس دوصدریاں تھیں جو بہت قیمتی تھیں اور مجھے ان پر بہت ناز تھا.گویا بڑی دولت تھی.مگر ایک روز میں اس حجرہ سے جہاں ٹھہرا ہوا تھا باہر گیا تو کسی نے ان میں سے ایک پھر الی.آپ فرماتے مجھے صدمہ تو بہت ہوا مگر مجھے خیال آیا کہ جس چیز کی نگرانی میں نہیں کر سکتا اُسے رکھنے کا کیا فائدہ اور دوسری خود لے جا کر خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دی.اس کے بعد وہ لوگ آئے جو شہزادہ کے علاج کے لئے آپ کو لے گئے.تو تو کل کے یہ معنے نہیں کہ انسان د نیوی سامان نہ کرے بلکہ یہ ہیں کہ نظر خُد اتعالیٰ پر ہو.اس کے سوا نظر کسی پر نہ ہو.( الفضل 8 رنومبر 1939 ءجلد 27 نمبر 257 صفحہ 6 تا 8 )
تذکار مهدی ) طبیہ کالج کی ضرورت 595 روایات سید نا محمود طب کے متعلق با قاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا لیکن مبلغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی اور یہ کام خصوصاً اس لئے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھا اور حضرت خلیفہ اول تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے.غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو.چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی.تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیا جائے.فی الحال مبلغین کوطب پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے.( ہر پیشہ سکھنے کی کوشش کی جائے ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 209) قادیان کے شب وروز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ قادیان میں ایک شخص آیا اور ایک دن ٹھہر کر چلا گیا.جنہوں نے اسے بھیجا تھا انہوں نے خیال کیا یہ قادیان جائے گا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنے گا وہاں کے حالات دیکھے گا تو اس پر احمدیت کا کچھ اثر ہو گا.مگر جب وہ صرف ایک دن ٹھہر کر واپس چلا گیا تو ان بھیجنے والوں نے اس سے پوچھا کہ تم اتنی جلدی کیوں آگئے؟ وہ کہنے لگا تو بہ کرو جی وہ بھی کوئی شریفوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے.انہوں نے خیال کیا کہ شاید کسی کے نمونے کا اچھا اثر نظر نہیں آیا ہو گا جس سے اس کو ٹھوکر لگی ہوگی.انہوں نے پوچھا کہ آخر کیا بات ہوئی جو تم اتنی جلدی چلے آئے.ان دنوں قادیان اور بٹالہ کے درمیان یکے چلا کرتے تھے.اس نے کہا میں صبح کے وقت قادیان پہنچا، مہمان خانہ میں مجھے ٹھہرایا گیا، میری تواضع اور آؤ بھگت کی گئی، ہم نے کہا سندھ سے آئے ہیں راستہ میں تو کہیں حقہ پینے کا موقع نہیں ملا اب اطمینان سے بیٹھ کر حقہ پیئیں گے اور آرام کریں گے.ابھی ذرا حقہ آنے میں دیر تھی کہ ایک شخص نے کہا بڑے مولوی صاحب حضرت خلیفہ اول کو لوگ بڑے مولوی صاحب کہا کرتے تھے ) اب حدیث کا درس دینے لگے
تذکار مهدی ) 596 روایات سید نا محمود ہیں پہلے درس سن لیں پھر حقہ پینا.ہم نے کہا.چلواب قادیان آئے ہیں تو حدیث شریف کا بھی درس سن لیں.حدیث کا درس سن کر آئے تو ایک شخص نے کہا.کھانا بالکل تیار ہے پہلے کھانا کھالیں.ہم نے کہا ٹھیک بات ہے کھانے سے فارغ ہو کر پھر اطمینان سے حقہ پیئیں گے.ابھی کھانا کھا کر بیٹھے ہی تھے کہ کسی نے کہا ظہر کی اذان ہو چکی ہے ہم نے کہا اب آئے ہیں چلو قادیان میں نماز بھی پڑھ لیتے ہیں.ظہر کی نماز پڑھ چکے تو مرزا صاحب بیٹھ گئے اور باتیں وہاں شروع ہو گئیں.ہم نے کہا چلو مرزا صاحب کی گفتگو بھی سن لیں کہ کیا فرماتے ہیں پھر چل کر حقہ پیئیں گے.وہاں سے باتیں سن کر آئے اور آ کر پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر اطمینان سے بیٹھے اور حقہ سلگایا کہ اب تو سب طرف سے فارغ ہیں اب تسلی سے حقہ پیتے ہیں لیکن ابھی دو کش بھی حقے کے نہ لگائے تھے کہ کسی نے کہا عصر کی اذان ہو چکی ہے نماز پڑھ لو.حقہ کو اسی طرح چھوڑ کر ہم عصر کی نماز کو چلے گئے عصر کی نماز پڑھی تو خیال تھا کہ اب تو شام تک حقہ کے لئے آزادی ہو گی کہ کسی نے کہا بڑے مولوی صاحب مسجد اقصیٰ میں چلے گئے ہیں اور وہاں قرآن کریم کا درس ہو گا.ہم نے سمجھا تھا کہ اب شام تک حقہ پینے کا موقع ملے گا.پر خیر.اب آئے ہیں تو قرآن کریم کا درس بھی سن ہی لیتے ہیں.بڑی مسجد میں گئے درس سنا اور سن کر واپس آئے تو مغرب کی اذان ہوگئی اور حقہ اسی طرح دھرا رہا اور ہم مغرب کی نماز کے لئے چلے گئے، نماز پڑھ کر پھر مرزا صاحب بیٹھ گئے اور ہم بھی مجبوراً بیٹھ گئے کہ مرز اصاحب کی باتیں سن لو.آخر وہاں سے آئے اور سوچا کہ اب شاید حقہ پینے کا موقع ملے لیکن کھانا آ گیا اور کہنے لگے کھانا کھالو پھر حقہ پینا.شام کا کھانا بھی کھا لیا اور خیال کیا کہ اب تسلی سے حقہ کے لئے بیٹھیں گے کہ عشاء کی اذان ہوگئی اور لوگ کہنے لگے نماز پڑھ لو.خیر عشاء کی نماز کے لئے بھی چلے گئے.نماز پڑھ کر خدا کا شکر کیا کہ اب تو اور کوئی کام نہیں رہا.اب پوری فرصت ہے اور حقہ پیتے ہیں لیکن ابھی حقہ سلگایا ہی تھا کہ پتہ لگا کہ باہر سے آنے والے مہمانوں کو عشاء کے بعد بڑے مولوی صاحب کچھ وعظ ونصیحت کیا کرتے ہیں.اب بڑے مولوی صاحب وعظ کرنے لگ گئے وہ ابھی وعظ کر ہی رہے تھے کہ سفر کی کوفت اور تکان کی وجہ سے ہم کو بیٹھے بیٹھے نیند آ گئی پھر پتہ نہیں کہ ہم کہاں ہیں اور ہمارا حقہ کہاں ہے.صبح جو اٹھا تو میں تو اپنا بستر اٹھا کر وہاں سے بھا گا کہ قادیان میں شریف انسانوں کے ٹھہرنے کی کوئی جگہ نہیں.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 498-497)
تذکار مهدی ) تازہ وحی معلوم کرنے کے لئے جستجو 597 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وحی کے متعلق یہ کیفیت تھی کہ احمدی دن چڑھتے ہی عاشقوں کی طرح ادھر اُدھر دوڑنے لگتے تھے کہ معلوم کریں حضور کو رات کیا وحی ہوئی ہے ادھر میں نکلا اور مجھ سے پوچھنے لگے یا کوئی اور بچہ نکلا تو اس سے دریافت کرنے لگے کہ آج کی تازہ وحی کیا ہے آپ کو کیا الہام ہوا ہے اور ہماری یہ حالت تھی کہ ادھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کے لئے تشریف لے گئے اور ہم نے جھٹ جا کر کاپی اٹھا کر دیکھا کہ دیکھیں تازہ الہام کیا ہے یا پھر خود مسجد میں پہنچ کر آپ کے دہان مبارک سے سنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس خطبات محمود جلد اوّل صفحہ 14-313) | ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں.میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا.ہم نے (ان مجالس میں ) اس قدر مسائل سنے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے تھے اس لئے آپ کی تمام باتیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشاء اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہیں.(سوانح فضل عمر جلد اصفحہ 113) صدر انجمن احمدیہ کا اجلاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں جب مختلف معاملات پر بحث ہوتی تو بسا اوقات خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب ایک طرف ہوتے اور بعض دوسرے دوست دوسری طرف.ان میں سے شیخ رحمت اللہ صاحب، مولوی محمد احسن صاحب امروہی سے عمر میں صرف پانچ سال چھوٹے تھے.مگر میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ جب آپس میں کسی بات پر بحث شروع ہو جاتی تو
تذکار مهدی ) 598 روایات سید نا محمود مولوی محمد احسن صاحب امروہی ، شیخ رحمت اللہ صاحب کو مخاطب کر کے کہتے کہ تم تو ابھی کل کے بچے ہو، تمہیں کیا پتہ کہ معاملات کو کس طرح طے کیا جاتا ہے.میرا تجربہ تم سے زیادہ ہے.اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے.حالانکہ مولوی محمد احسن صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب کی عمر میں صرف چار پانچ سال کا فرق تھا.مگر چار پانچ سال کے تفاوت سے ہی انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ مجھے اس بات کا حق حاصل ہے کہ دوسروں پر حکومت کروں.مجھے حق حاصل ہے کہ میں دوسروں کو نصیحت کا سبق دوں اور ان کا فرض ہے کہ وہ میری اطاعت کریں اور جو کچھ میں کہوں اس کے مطابق عمل بجالائیں.پس ایسی صورت میں اگر کوئی نو جوان کسی بوڑھے کو نصیحت کرے گا تو یہ صاف بات ہے کہ بجائے نصیحت پر غور کرنے کے اس کے دل میں غصہ پیدا ہو گا کہ یہ نوجوان مجھے نصیحت کرنے کا کیا حق رکھتا ہے اس طرح بجائے بات ماننے کے وہ اور بگڑ جائے گا.سبیل الرشاد جلد اول صفحہ 98-97) حقیقی ایمان ایک ماں کو اس کے بچہ کی خدمت کے لئے اگر صرف دلائل دیئے جائیں اور کہا جائے کہ اگر تم خدمت نہیں کرو گی تو گھر کا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو یہ دلائل اُس پر ایک منٹ کے لئے بھی اثر انداز نہیں ہو سکتے.وہ اگر خدمت کرتی ہے تو صرف اس جذبہ محبت کے ماتحت جو اس کے دل میں کام کر رہا ہوتا ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایمان العجائز ہی انسان کو ٹھوکروں سے بچاتا ہے.ورنہ وہ لوگ جو حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور قدم قدم پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں حکم کیوں دیا گیا ہے اور فلاں کام کرنے کو کیوں کہا گیا ہے وہ بسا اوقات ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور اُن کا رہا سہا ایمان بھی ضائع ہو جاتا ہے لیکن کامل الایمان شخص اپنے ایمان کی بنیا د مشاہدہ پر رکھتا ہے.وہ دوسروں کے دلائل کو تو سُن لیتا ہے مگر اُن کے اعتراضات کا اثر قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کو اپنی روحانی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوتا ہے.منشی اروڑے خان صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے اُن کا ایک لطیفہ مجھے یاد ہے.وہ کہا کرتے تھے کہ مجھے بعض لوگوں نے کہا کہ اگر تم مولوی ثناء اللہ صاحب کی ایک دفعہ تقریر سن لو تب تمہیں پتہ لگے کہ مرزا صاحب بچے ہیں یا نہیں وہ کہنے لگے میں نے ایک دفعہ اُن کی تقریر سنی.بعد میں لوگ مجھ سے پوچھنے لگے اب بتاؤ کیا
تذکار مهدی ) کارمهدی 599 روایات سید نا محمود اتنے دلائل کے بعد بھی مرزا صاحب کو سچا سمجھا جا سکتا ہے.میں نے کہا.میں نے تو مرزا صاحب کا مونہ دیکھا ہوا ہے.اُن کا مونہہ دیکھنے کے بعد اگر مولوی ثناء اللہ صاحب دو سال بھی میرے سامنے تقریر کرتے رہیں تب بھی اُن کی تقریر کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوسکتا اور میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ جھوٹے کا مونہہ تھا.بے شک مجھے اُن کے اعتراضات کے جواب میں کوئی بات نہ آئے میں تو یہی کہوں گا کہ حضرت مرزا صاحب بچے ہیں.غرض حکمت کا معلوم ہونا ایک کامل مؤمن کے لئے ضروری نہیں ہوتا کیونکہ اُس کا ایمان عقل کی بناء پر نہیں ہوتا بلکہ مشاہدہ پر مبنی ہوتا ہے.اس لئے اُسے احکام کی حکمت سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی.ہاں جس کا ایمان صرف دلائل کی حد تک ہوا سے حکمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.غرض ایمان کامل مشاہدہ کی بنا پر ہوتا ہے اور ایمان ناقص حکمت کی بنا پر کامل الایمان لوگوں کے لئے نبی کا تلاوت آیات اور تزکیہ ہی کافی ہوتا ہے.وہ آیات کی حکمت اور اس کی غرض معلوم کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے وہ نبی کی آواز کافی سمجھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے لئے دیوانہ وار کام شروع کر دیتے ہیں.حضرت منشی اروڑے خان صاحب کی محبت کا عالم ( تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ 280-279) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی کا نام اروڑہ تھا.بعض لوگ جن کے بچے عام طور پر فوت ہو جاتے ہیں.وہ بچہ کو میلے کو ڈھیر پر گھسیٹتے ہیں کہ شائد وہ اس طرح بچ جائے اور پھر ان کا نام اروڑہ رکھ دیا جاتا ہے.ان منشی صاحب کا نام بھی اسی طرح ان کے والدین نے اروڑہ رکھا تھا.مگر وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں اروڑہ نہ تھے.ماں باپ نے ان کا نام اس لئے رکھا تھا کہ شائد میلے کے ڈھیر پر پڑ کر ہی یہ بچہ زندہ رہے مگر اللہ تعالیٰ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں ڈال کر نہ صرف جسمانی موت سے بلکہ روحانی موت سے بھی بچانا چاہتا تھا.ماں باپ نے اسے گند کی نذر کرنا چاہا.مگر خدا تعالیٰ نے اس کے پاک دل کو دیکھا اور اسے اپنے لئے قبول کیا چنانچہ اس نے انہیں ایمان نصیب کیا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی بنے اور ایسے مخلص کہ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایسے اخلاص کے بغیر نجات کی امید رکھنا فضول بات ہے.ان لوگوں نے اپنے
تذکار مهدی ) 600 روایات سید نا محمود اخلاص کا ثبوت ایسے رنگ میں پیش کیا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.یہ لوگ محبت پیار کے مجسمے تھے.منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے مجھے خود ایک واقعہ سنایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ لیا تھا کہ آپ کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ ابتدائی زمانہ میں دو ریاستوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کا موقعہ نصیب ہوا ایک کپورتھلہ اور دوسری پٹیالہ.مجھے افسوس ہے کہ پٹیالہ نے اپنا معیار قائم نہ رکھا.بعد میں کئی فتنوں میں پٹیالہ کا کوئی نہ کوئی حصہ ہوتا رہا ہے.( یہ یمنی بات میں نے اس لئے کہہ دی کہ پٹیالہ کی جماعت کو توجہ ہو اور وہ اپنے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرے کیونکہ محض ماں باپ کی وجہ سے کوئی ہمیشہ کی زندگی حاصل نہیں کر سکتا ) تو کپورتھلہ کی جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خواہش کی کہ حضور وہاں تشریف لائیں آپ نے وعدہ فرمایا.منشی اروڑہ صاحب مرحوم نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ ایک دوکان پر بیٹھے تھے.اس زمانہ میں کپورتھلہ میں ریل نہ جاتی تھی.شائد پھگواڑہ سے ٹانگوں پر لوگ جاتے تھے.منشی صاحب مرحوم ایک دوکان پر بیٹھے ہوئے تھے.کہ ایک شدید دشمن سلسلہ جو ہمیشہ احمدیوں کے ساتھ برائی کیا کرتا تھا آیا اور ان سے کہا کہ تمہارے مرزا صاحب (علیہ الصلوۃ والسلام) آئے ہیں اور اڈے پر کھڑے ہیں.منشی صاحب اس وقت دوکان پر بیٹھے آرام سے باتیں کر رہے تھے.پگڑی اور جوتی اتاری ہوئی تھی.جب اس دشمن نے یہ خبر سنائی تو اسی طرح اٹھ کر دوڑ پڑے تھوڑی دور گئے.تو خیال آیا کہ یہ شخص ہمیشہ ہمیں چڑایا کرتا ہے.یہ بھی اس نے تمسخر نہ کیا ہو.اس لئے پندرہ ہیں قدم دوڑ نے کے بعد ٹھہر گئے.اور اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ تو بڑا خبیث ہے ہمیشہ ستاتا ہے.یہ بھی تو نے جھوٹ بولا ہو گا.ورنہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں.مگر اس نے کہا نہیں میں جھوٹ نہیں بولتا.میں انہیں استوں کے اڈے پر کھڑا چھوڑ کر آیا ہوں.یہ پھر دوڑ پڑے مگر پھر پندرہ بیس قدم دوڑ کر پھر کھڑے ہو گئے اور پھر اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا اور آخر میں کہا کہ ہماری قسمت ایسی کہاں کہ حضور تشریف لائیں اور اسی طرح تین چار مرتبہ کیا.تھوڑی دور بھاگتے اور پھر کھڑے ہو کر اسے کو سنے لگتے کہ اتنے میں سامنے سے حضرت صاحب تشریف لاتے ہوئے دکھائی دیئے.منشی صاحب مرحوم شائد مجسٹریٹ یا سیشن حج کی پیشی میں تھے.مہینہ میں ایک بار
تذکار مهدی ) 601 روایات سید نا محمودی ضرور قادیان آجاتے تھے اور چونکہ ایک چھٹی سے فائدہ نہ اٹھا سکتے تھے.جب تک ساتھ ہفتہ کا کچھ وقت نہ ملے اس لئے جس دن ان کے قادیان آنے کا موقع ہوتا.تو ان کا افسر دفتر والوں سے کہہ دیتا کہ آج جلدی کام ختم ہونا چاہئے کیونکہ منشی جی نے قادیان جانا ہے.اگر وہ نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں برباد ہو جاؤں گا اور اس طرح ہمیشہ ان کو ٹھیک وقت پر فارغ کر دیتا.افسر گو ہندو تھا مگر آپ کی نیکی ، تقویٰ اور قبولیت دعا کا اس پر ایسا اثر تھا کہ وہ آپ ہی آپ ان کے لئے قادیان آنے کا وقت نکال دیتا اور کہتا کہ اگر یہ قادیان نہ جا سکے تو ان کے دل سے ایسی آہ نکلے گی کہ میں نہیں بچ سکوں گا.تو انسان جیسا اللہ تعالیٰ سے معاملہ کرتا ہے.ویسا ہی وہ اس سے کرتا ہے.پس جس رنگ میں انسان اپنے دل کو اس کے لئے پگھلاتا ہے.اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ سلوک کرتا ہے.دنیا اسے مارتی ہے گالیاں دیتی ہے اسے دبانے کی کوشش کرتی ہے.مگر وہ ہر دفعہ دبائے جانے کے بعد گیند کی طرح پھر ابھرتا ہے.ایسے مومنوں کو ہر طرح کی روکوں کے باوجود اللہ تعالیٰ بڑھاتا ہے اور یہی حقیقی جماعت ہوتی ہے جو ترقی کرتی ہے.پس اپنے دلوں کو ایسا ہی بناؤ اور ایسی محبت سلسلہ کے لئے پیدا کرو.پھر دیکھو تمہیں اللہ تعالیٰ کس طرح بڑھاتا ہے.جو لوگ خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو تو مانگنا بھی نہیں پڑتا.بعض وقت وہ ناز کے انداز میں کہتے ہیں کہ ہم نہیں مانگیں گے اور اللہ تعالیٰ خود بخودان کی ضروریات پوری کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی میں نے یہ واقعہ بھی سنا ہے کہ ایک بزرگ تھے ایک دفعہ ان پر ایسی حالت آئی.کہ وہ سخت مصیبت میں تھے.کسی نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے کہا کہ اگر میرا رب مجھے نہیں دینا چاہتا تو میرا دعا کرنا گستاخی ہے.جب اس کی مرضی نہیں تو میں کیوں مانگوں اس صورت میں تو میں یہی کہوں گا کہ مجھے نہ ملے اور اگر وہ دینا چاہتا ہے تو میرا مانگنا بے صبری ہے.یہ مطلب نہیں کہ وہ دعا کرتے ہی نہیں.بلکہ کبھی کبھی کامل مومنوں پر ایسی کیفیات آتی ہیں کہ وہ کہتے ہیں.اچھا ہم مانگیں گے نہیں.اللہ تعالیٰ خود ہماری ضرورت کو پورا کرے گا.مگر یہ مقام یونہی حاصل نہیں ہوتا.یہ مت خیال کرو کہ تم یونہی بیٹھے رہو.اپنے قلوب میں محبت نہ پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع پیدا نہ کرو.صدقہ و خیرات اور چندوں میں غفلت کرو.جھوٹ اور فریب سے کام لیتے رہو اور پھر بھی
تذکار مهدی ) 602 روایات سید نامحمودی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے وارث ہو جاؤ یہ کبھی نہیں ہو سکتا...میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ قاضی امیر حسین صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی تھے.احمدی ہونے سے قبل وہ کٹر وہابی تھے اور اس وجہ سے کئی باتیں ظاہری آداب کی وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب حضور باہر تشریف لاتے تو دوست کھڑے ہو جاتے تھے.قاضی صاحب مرحوم کا خیال تھا کہ یہ جائز نہیں بلکہ شرک ہے اور اس بارہ میں ہمیشہ بحث کیا کرتے تھے کہ اگر آج ہم میں ایسی باتیں موجود ہیں تو آئندہ کیا ہو گا.وہ میرے استاد تھے میری خلافت کا زمانہ آیا.تو ایک دفعہ میں باہر آیا تو وہ معاً کھڑے ہو گئے.میں نے کہا قاضی صاحب یہ تو آپ کے نزدیک شرک ہے.اس پر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ خیال تو میرا یہی ہے.مگر کیا کروں رکا نہیں جاتا.اس وقت بغیر خیال کے کھڑا ہو جاتا ہوں.میں نے کہا بس یہی جواب ہے آپ کے تمام اعتراضات کا.جہاں بناوٹ سے کوئی کھڑا ہو.تو یہ بے شک شرک ہے.مگر جب آدمی بے تاب ہو کر کھڑا ہو جائے.تو یہ شرک نہیں.یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ بعض امور ایسے ہیں جنہیں تکلف اور بناوٹ شرک بنا دیتے ہیں.فرماتے تھے.اپنے ایک بھائی کی وفات پر حضرت عائشہؓ نے بے اختیار شیخ مار دی اور منہ پر ہاتھ مار لئے کسی نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا بے اختیاری میں ایسا ہو گیا میں نے جان کر نہیں کیا تو قاضی صاحب کی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہتی ہے کہ یا تو وہ بحث کیا کرتے تھے اور یا خود کھڑے ہو گئے.یہ قلبی حالت ہی اصل حالت ہے جو بات بے ساختگی میں آپ ہی آپ ہو جائے وہی اصل نیکی ہے، اس سے نیچے جو نیکی ہے وہ نیکی تو ہے مگر سہارے کی محتاج ہے.اصل نیکی وہی ہے جو آپ ہی آپ ہو اور ارادہ سے بھی پہلے کام ہو جائے.اذان دینا بڑے ثواب کا کام ہے (خطبات محمود جلد 19 صفحہ 886 تا 889 ) | احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ابوبکر کو میرے ساتھ رکھ.قرآن کریم اس معیت کی شہادت اِنَّ اللهَ مَعَنا کے الفاظ میں دیتا ہے.یہ معیت بوجہ سابق بالا یمان ہونے کے تھی.پھر ان سے اتر کر دیگر صحابہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علیؓ
+603 روایات سید نا محمودی تذکار مهدی ) وغیر ہم تھے.وہ لوگ بمنزلہ ایسی زمین کے تھے جن میں اسلام کا بیج بویا گیا اور بعد میں آنے والے اس وقت آئے جب پھل آ گیا.الشبقُونَ الْأَوَّلُونَ وہی لوگ تھے جو اس وقت آئے جب اسلام کا پودا لگایا جا رہا تھا اور جب ساری دنیا اسے اکھیڑنے کے درپے تھی گو نہیں کہہ سکتے کہ بعد میں آنے والے پھل کھانے کو آئے مگر آئے اس وقت جب پھل آچکا تھا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کا ہے.ان پر چندلوگ اس وقت ایمان لائے جب آپ کا ساتھ دینا ہلاکت تھا ایسے ہی لوگ ابو بکر، عمر، عثمان، علی کے مثیل تھے.انہوں نے اپنے قلوب کو پیش کیا کہ ان میں احمدیت کا بیج بویا جائے اور احمدیت کا پودانشو و نما پائے پھر اور لوگ آئے مگر وہ پہلے لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے سوائے اس کے کہ وہ تقویٰ میں اس قدر ترقی کر جائیں کہ اُن کے دل کا غم اُن کے بعد زمانی سے بھاری ہو جائے.پہلے آنے والے لوگوں میں سے ایک سید قاضی امیر حسین صاحب بھی تھے وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اُس وقت جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام ابھی الفاظ نبی اور محدث وغیرہ کی تشریح کر رہے تھے کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نبی ہیں.دوسرے لوگوں سے بھی اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام سے بھی کہتے.پہلے پہل وہ قادیان میں سات روپیہ ماہوار پر آئے اب تو اس تنخواہ پر چپڑاسی بھی نہیں ملتا.ان کی طبیعت بہت تیز تھی جلد غصہ آجاتا تھا حضرت خلیفہ اول کے سامنے تو غصہ کا اظہار بھی کرنے لگ جاتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کے سامنے ہمیشہ مؤدب رہتے.مجھے اُن کا ایک لطیفہ یاد ہے، یہاں ایک افغان مہاجر تھے جو مسجد میں اذان دیا کرتے تھے اُن کی آواز بھاری تھی ایک روز قاضی صاحب نے اُن کو اپنے پاس محبت سے بٹھا لیا وہ کہتا تھا میں نے سمجھا مجھے کچھ انعام دینے لگے ہیں مگر پاس بٹھانے کے بعد کہا دیکھو جس وقت تم اذان کہتے ہو اُس وقت خدا اور فرشتے لعنت کرتے ہیں.آج کل بھی ہماری دونوں مسجدوں میں اس قسم کے مؤذن ہیں کہ اُن کو مؤذن نہیں کہہ سکتے.اس مسجد کے موذن تو اس طرح اذان دیتے ہیں جیسے کوئی بند ٹوکرے میں بیٹھ کر بولتا ہے.اذان دینا بڑا ثواب کا کام ہے اور بڑے بڑے آدمی اذان دیا کرتے تھے حضرت عمر نے کہا تھا اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو اذان دیا کرتا.یہاں مولوی عبدالکریم صاحب بھی اذان دیا کرتے تھے.ہم بھی مؤذن تھے.ہم چند آدمی بڑے شوق
تذکار مهدی ) 604 روایات سید نا محمود سے اذان دیتے تھے یہاں تک کہ بعض اوقات ایک نے اذان کہہ دی ہوتی تو دوسرا بھی کہہ دیتا اس طرح کبھی کبھی اس مسجد میں نماز کے لئے تین تین اذانیں ہو جاتیں.مجھے یاد ہے مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک دفعہ اس پر بہت ڈانٹا.میں نے مولوی عبدالکریم صاحب کو اور حضرت خلیفہ اول کو بھی اذان کہتے دیکھا ہے مگر اب سمجھا جاتا ہے کہ جو دریاں وغیرہ جھاڑنے پر مقرر ہو وہی اذان بھی دے دیا کرے.اس مسجد مبارک کی اذان تو بعض دفعہ دکاندار بھی نہیں سنتے.صبح کے وقت جب کہ لوگ ابھی خواب کی حالت میں ہوتے ہیں ایسی اذان کچھ معنی نہیں رکھتی.میں اگر چہ پاس ہی سوتا ہوں بعض اوقات میں بھی بمشکل جاگتا ہوں.مجھے خیال آتا ہے کہ اگر قاضی امیر حسین صاحب اس وقت زندہ ہوتے تو ایسے مؤذن کو کتنی لعنتیں ملتیں.قاضی صاحب میں جوش تھا مگر اپنی غلطی معلوم ہونے پر دب بھی جاتے تھے.امام موسی رضا کی رہائی ( خطبات محمود جلد سوم صفحہ نمبر 332 تا 333 ) جہاں دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے اخلاص پایا جاتا ہو.وہاں وہ آپ ہی آپ ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ غالبًا ہارون الرشید کے زمانہ میں ایک بزرگ جو اہل بیعت میں سے تھے اور جن کا نام موسیٰ رضا تھا.اس بہانہ سے قید کر دیئے گئے کہ ان کی وجہ سے فتنہ کے پیدا ہونے کا احتمال ہے.ایک دفعہ آدھی رات کے وقت ایک شخص ان کے پاس قید خانہ میں رہائی کا حکم لے کر پہنچا.وہ بہت حیران ہوئے کہ میں تو سیاسی قیدی تھا.پھر اس طرح میری فوری رہائی کس طرح ہو گئی.وہ بادشاہ سے ملے تو اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح یکا یک رہا کر دیا.اس نے کہا کہ وجہ یہ ہوئی کہ میں سو رہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ کسی نے آکر مجھے جگایا ہے.خواب میں ہی میری آنکھ کھلی تو پوچھا آپ کون ہیں.تو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.میں نے عرض کیا کہ کیا حکم ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہارون الرشید یہ کیا بات ہے کہ تم آرام سے سور ہے ہو اور ہمارا بیٹا قید خانہ میں ہے.یہ سن کر مجھے پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اسی وقت رہائی کے احکام بھجوائے.انہوں نے کہا کہ اس روز مجھے بھی قید خانہ میں بڑا کرب تھا.اس سے پہلے مجھے بھی کبھی رہائی کی خواہش پیدا نہ ہوئی تھی.(خطبات محمود جلد 19 صفحہ 890 تا 89 )
تذکار مهدی ) منتقی ال محمد کی عصمت 605 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک واقعہ سنا ہوا ہے کہ ہارون الرشید نے امام موسی رضا کو کسی وجہ سے قید کر دیا اور اُن کے ہاتھوں اور پاؤں میں رستیاں باندھ دی گئیں.اُس زمانہ میں سپرنگ دار گدیلے تو نہ تھے عام روئی کے گدیلے ہوتے تھے ہارون الرشید اپنے محل میں آرام دہ گریلوں پر سویا ہوا تھا کہ اُس نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں اور آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ہیں.آپ نے فرمایا.ہارون الرشید ! تم ہم سے محبت کا دعوی کرتے ہو مگر تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم تو آرام دہ گدیلوں پر گہری نیند سور ہے ہواور ہمارا بچہ شدت گرما میں ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے قید خانہ کے اندر پڑا ہے.یہ نظارہ دیکھ کر ہارون الرشید بیتاب ہو کر اُٹھ بیٹھا اور ایک کمانڈر کو ساتھ لے کر اُسی جیل خانہ میں گیا اور اپنے ہاتھ سے اُن کے ہاتھوں اور پاؤں کی رستیاں کھولیں.انہوں نے ہارون الرشید سے کہا آپ تو اتنے مخالف تھے اب کیا بات ہوئی کہ خود چل کر یہاں آگئے.ہارون الرشید نے اپنا خواب سنایا اور کہا میں آپ سے معافی چاہتا ہوں.میں اصل حقیقت کو نہ جانتا تھا.اب دیکھو اُس زمانہ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی کے زمانہ میں کتنا بڑا فاصلہ تھا.ہم نے کئی بادشاہوں کی اولادوں کو دیکھا ہے کہ وہ در بدر دھکے کھاتی پھرتی ہیں.میں نے خود دتی میں ایک سقہ دیکھا جو شاہانِ مغلیہ کی اولاد میں سے تھا.وہ لوگوں کو پانی پلاتا پھرتا تھا مگر اس میں اتنی حیا ضرور تھی کہ مانگتا کچھ نہ تھا.دوسری طرف حضرت علی کی اولادکو دیکھو کہ اتنی پشتیں گذرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ ایک بادشاہ کو رویا میں ڈراتا ہے اور اُن سے حسن سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہے.اگر حضرت علی کو اس اعزاز کا پتہ ہوتا اور اُن کو غیب کا علم حاصل ہوتا اور وہ محض اس عزت افزائی کے لئے اسلام قبول کرتے تو ان کا ایمان صرف سودا اور دوکانداری رہ جا تاکسی ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 26 ) انعام کا موجب نہ بنتا.حضرت سید فضل شاہ صاحب ڈاکٹر سید عنایت اللہ شاہ صاحب ایک نہایت ہی پرانے احمدی خاندان میں سے ہیں ان کے والد سید فضل شاہ صاحب حضرت صاحب کے نہایت ہی مکرم صحابی تھے اور عام طور پر حضرت صاحب کی خدمت کیا کرتے تھے اور اکثر قادیان میں آتے جاتے تھے.سید ناصر شاہ صاحب
606 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمودی اوور سیر جو بعد میں شاید ایس ڈی او ہو گئے تھے ان کے بھائی تھے.ان میں بھی بڑا اخلاص تھا اور وہ بھی حضرت صاحب کو بہت پیارے تھے اور وہ بھی اپنے اخلاص کی وجہ سے اپنے بھائی کو کہا کرتے تھے کہ کام کچھ نہ کرو، قادیان جا کر بیٹھے رہو، حضرت صاحب سے ملاقات کیا کرو، مجھے کچھ ڈائریاں بھیج دیا کرو، کچھ دعاؤں کے لئے کہتے رہا کرو، اخراجات میں بھیجا کروں گا.چنانچہ وہ اپنے بھائی کی مدد کرتے رہتے تھے.محض اسی وجہ سے کہ وہ قادیان میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک وحی جس کے شروع میں الد جی آتا ہے اور جو خاص ایک رکوع کے برابر ہے.وہ ایسی حالت میں نازل ہوئی جب کہ حضرت صاحب کو درد گردہ کی شکایت تھی اور وہ ( سید فضل شاہ صاحب ) آپ کو دبا رہے تھے.گویا ان کو یہ خاص فضیلت حاصل تھی کہ ان کی موجودگی میں دباتے ہوئے حضرت صاحب پر وحی نازل ہوئی اور وحی بھی اس طرز کی تھی کہ کلام بعض دفعہ اونچی آواز سے آپ کی زبان پر بھی جاری ہو جاتا تھا.مجھے یاد ہے ہم چھوٹے بچے ہوتے تھے کہ ہم بے احتیاطی سے اس کمرہ میں چلے گئے جس میں حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے.آپ نے اوپر چادر ڈالی ہوئی تھی اور سید فضل شاہ صاحب مرحوم آپ کو دبا رہے تھے ان کو محسوس ہوتا تھا کہ وحی ہو رہی ہے.انہوں نے اشارہ کر کے مجھے کہا یہاں سے چلے جاؤ.چنانچہ ہم باہر آ گئے.بعد میں پتہ لگا کہ بڑی لمبی وجی تھی جو نازل ہوئی تھی.( خطبات محمود جلد سوم صفحہ 673) حضرت منشی اروڑہ صاحب کا عشق میں نے کئی دفعہ اس زمانہ کے ایک عاشق کا بھی قصہ سنایا ہے.منشی اروڑہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے.ان کی عادت تھی کہ وہ کوشش کرتے تھے کہ ہر جمعہ یا اتوار کو قادیان پہنچ جایا کریں.چنانچہ انہیں جب بھی چھٹی ملتی یہاں آ جاتے اور کوشش کرتے کہ اپنے سفر کا ایک حصہ پیدل طے کریں تا کہ کچھ رقم بچ جائے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر سکیں.اُن کی تنخواہ اس وقت بہت تھوڑی تھی.غالباً پندرہ بیس روپے تھی اور اس میں وہ نہ صرف گزارہ کرتے بلکہ سفر خرچ بھی نکالتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھی نذرانہ پیش کرتے.میں نے
تذکار مهدی ) 607 روایات سیّد نا محمود ان کا ہمیشہ ایک ہی کوٹ دیکھا ہے.دوسرا کوٹ پہنتے ہوئے میں نے ان کو ساری عمر میں نہیں دیکھا.انہوں نے تہہ بند باندھا ہوا ہوتا تھا اور معمولی سا کرتہ ہوتا تھا.ان کی بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کرتے رہیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ عقیدت کے طور پر پیش کر دیں.رفتہ رفتہ وہ اپنی دیانت سے ترقی کرتے چلے گئے اور تحصیلدار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے کچھ مہینوں یا ایک سال کے بعد وہ قادیان میں آئے اور مجھے اندر کسی نے آکر کہا کہ منشی اروڑہ صاحب دروازہ پر آپ کو ملنے کے لئے آئے ہیں.میں باہر گیا انہوں نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جیب میں سے ( مجھے اچھی طرح یاد نہیں) تین یا چار پونڈ سونے کے نکالے اور نکال کر میرے سامنے کیے.جونہی انہوں نے پونڈ دینے کے لئے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا.ان پر اتنی رقت طاری ہوئی کہ وہ چیچنیں مار کر رونے لگ گئے اور انہوں نے اس طرح تڑپنا شروع کر دیا جس طرح ذبح کیا ہوا بکرا تڑپتا ہے میری عمر اس وقت چھوٹی تھی انیس سال عمر تھی.میں انہیں اس حالت میں دیکھ کرگھبرا گیا کہ نا معلوم انہیں کیا ہو گیا ہے.مگر میں چپکا کھڑا رہا.وہ روتے رہے، روتے رہے اور روتے رہے کئی منٹ رونے کے بعد جب وہ اپنے نفس کو قابو کر سکے یعنی اتنا قابو کہ ان کے گلے میں سے آواز نکل سکے.تو نہایت ہی کرب اور اندوہ سے انہوں نے مجھے کہا کہ میری بدقسمتی دیکھو کہ ساری عمر میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے سونا تحفہ کے طور پر پیش کروں.مگر اس کی توفیق نہ ملی.مگر اب جو میں سونا پیش کرنے کے قابل ہوا.تو وہ اس دنیا میں نہیں ہیں.یہ کہہ کر ان پر پھر وہی حالت طاری ہوگئی اور ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگے اور میں جواب ان کے جذبات سے واقف ہو چکا تھا.اپنے جذبات کو بصد مشکل دبا کر ان کے سامنے کھڑا رہا.تو اگر واقعہ میں دنیا کی یہ نعمتیں کوئی نعمتیں ہیں اور اگر واقعہ میں ان سے ہمیں کوئی حقیقی آرام پہنچ سکتا ہے.تو ایک مومن کا دل ان کو استعمال کرتے وقت ضرور دکھتا ہے کہ اگر یہ نعمتیں ہیں تو پھر یہ اس قابل تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومتیں اور پھر آپ کے بعد آپ کے ظل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتیں میں چھوٹا ہی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مجھے شکار کا شوق پیدا ہو گیا.ایک ہوائی
تذکار مهدی ) 608 روایات سید نا محمود بندوق میرے پاس تھی.جس سے میں شکار مار کر گھر لایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ کھانا کم کھایا کرتے تھے اور آپ کو دماغی کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور میں نے خود آپ سے یا کسی اور طبیب سے یہ سنا ہوا تھا کہ شکار کا گوشت دماغی کام کرنے والوں کے لئے مفید ہوتا ہے.اس لئے میں ہمیشہ شکار آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا تھا.مجھے یاد ہی نہیں کہ اس زمانہ میں میں نے خود کبھی شکار کا گوشت اپنے لئے پکوایا ہو.ہمیشہ میں شکار مار کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دے دیا کرتا تھا.تو جب انسان کو اپنے محبوب سے محبت کامل ہوتی ہے.تو پھر یا تو وہ کسی چیز کو راحت ہی نہیں سمجھتا اور یا اگر راحت سمجھتا ہے تو کہتا ہے.یہ اس کے محبوب کا حق ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم کے بڑے بڑے معارف اپنے فضل سے کھولے ہیں.مگر بیسیوں مواقع مجھ پر ایسے آئے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نقطہ مجھ پر کھولا گیا.تو میرے دل میں اس وقت بڑی تمنا اور آرزو یہ پیدا ہوئی کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا حضرت خلیفہ اسی الاول کے زمانہ میں یہ نقطہ مجھ پر کھلتا.تو میں ان کے سامنے پیش کرتا اور مجھے ان کی خوشنودی حاصل ہوتی اصل مقام تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی ہے.حضرت خلیفہ اول کا خیال مجھے اس لئے آیا کرتا ہے کہ انہوں نے مجھے قرآن شریف پڑھایا اور انہیں مجھ سے بے حد محبت تھی اور ان کی یہ خواہش ہوا کرتی تھی کہ میں قرآن پر غور کروں اور اس کے مطالب نکالوں تو یہ چیزیں جو ہیں ہمارے لئے حقیقی راحت کا موجب نہیں ہوسکتیں بلکہ اگر ہمارے عشق وابستہ ہیں بعض ایسی ہستیوں سے جواب دنیا میں موجود نہیں تو یہ نعمتیں بجائے راحت کے ہمارے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتی ہیں.جب بھی جلسہ ہوتا ہے اور لوگ دور دور سے جمع ہوتے ہیں میرے قلب پر اس وقت رقت طاری ہو جاتی ہے اس خیال سے کہ سلسلہ کی یہ عظمت اور یہ شان اور اس کی یہ ترقی ہم لوگ جن کا اس ترقی میں کوئی بھی ہاتھ نہیں وہ تو دیکھ رہے ہیں مگر وہ شخص جس کے ذریعہ سے یہ سب کام ہوا اور جس نے اس کی خاطر سب دنیا سے تکلیفیں سہیں وہ انہیں نہیں دیکھ رہا.خطبات محمود جلد 24 صفحہ 167 تا 169) میں نے حضرت مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے ہمارے منشی اروڑے خان صاحب جو کپورتھلہ کے رہنے والے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نہایت پرانے مخلصوں اور آپ کے عاشقوں میں سے تھے.انہوں نے
تذکار مهدی ) 609 روایات سید نا محمودی مجھے خود سنایا کہ ایک دفعہ ہمارے علاقہ میں مولوی ثناء اللہ صاحب آگئے.میرے بعض دوست میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ آج کل بڑا عمدہ موقعہ ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں.آپ بھی چلیں اور ان کی کچھ باتیں سن لیں وہ کہنے لگے میں نے پہلے تو انکار کیا.مگر وہ اصرار کرتے چلے گئے اور آخر ان کے اصرار پر میں مولوی صاحب کے پاس چلا گیا مولوی صاحب آدھ گھنٹہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف دلیلیں دیتے رہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا.مولوی صاحب آپ بے کار گلا پھاڑ رہے ہیں.آپ دلیلیں دے رہے ہیں اور میں نے مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے.ان کا منہ دیکھنے کے بعد میں ان کو جھوٹا کہہ ہی نہیں سکتا.آپ خواہ رات اور دن دلیلیں دیتے رہیں.آپ کی ان دلیلوں کا اثر مجھ پر نہیں ہوسکتا.کیونکہ آپ کی باتیں سب سنی سنائی ہیں اور میری دیکھی ہوئی ہیں.میں نے جس شخص کے متعلق تجربہ کر لیا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتا.اگر اس کے متعلق آپ لاکھ دلیلیں بھی دیں گے.تو میں آپ کو ہی جھوٹا کہوں گا انہیں جھوٹا نہیں کہ سکتا یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا (الانفال: 46) اے مومنو جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو.تو اگر تم نے دلیل سے مانا ہے.تو تمہارے لئے گھبرانے کی کونسی بات ہے.میں نے دیکھا ہے کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خواب دیکھ کر ایمان لائے تھے.اب اگر کوئی شخص کسی مولوی کی تقریر سن کر آپ کو چھوڑ دیتا ہے.تو وہ خود اپنے عمل سے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ شیطان کا چیلا تھا جس نے اسے غلط راستہ پر چلا دیا.اسی طرح ہماری جماعت میں ہزاروں لوگ ایسے ہیں.جو خوا ہیں دیکھ کر میری بیعت میں شامل ہوئے.اب اگر کوئی شخص کسی نالائق بھکاری اور فقیر کی باتیں سن کر دھوکا میں آجاتا ہے یا اس لئے دھوکا میں آجاتا ہے کہ خلیفہ اول کا بیٹا ایسا کہہ رہا ہے.تو ہر انسان اسے کہے گا کہ اے بیوقوف کیا تجھے خدا نے نہیں کہا تھا کہ یہ شخص سچا ہے.اے بیوقوف اگر صداقت وہی ہے جس کا تو اب اظہار کر رہا ہے تو تو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی.اے کذاب جب تو نے مجھے یا الفضل والوں کو خواب بھجوائی تھی.تو صرف اس لئے بھجوائی تھی کہ تجھے یقین تھا کہ یہ خواب تجھے خدا نے دکھلائی ہے.اے کذاب اب تو اپنے خدا کو جھوٹا کہتا ہے اور خلیفہ اول کی اولا د کو سچا سمجھتا ہے.خلیفہ اول تو خود خدا کے غلام تھے.تجھے شرم
تذکار مهدی ) 610 روایات سید نامحمود نہیں آتی کہ تو خدا کے مقابلہ میں کس کو پیش کر رہا ہے.خدا کے مقابلہ میں تو مرزا صاحب کی بھی کوئی حیثیت نہیں.خدا کے مقابلے میں تو نوح اور ابراہیم اور موسٹی کی بھی کوئی حیثیت نہیں.اگر وہ خواب خدا کی طرف سے تھی.تو اے نالائق تو اب اسے رد کیوں کرنے لگا ہے اور کیوں اپنے خدا کے حکم کی خلاف ورزی کرنے لگا ہے.مجھے خوب یاد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے آدمی پائے جاتے ہیں.ایک تو وہ ہیں جنہوں نے مولوی صاحب (خلیفہ اول رضی اللہ عنہ) کی وجہ سے مجھے مانا ہے.وہ مولوی صاحب سے عقیدت رکھا کرتے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ مولوی صاحب احمدی ہو گئے ہیں.تو وہ بھی احمدی ہو گئے اور انہوں نے بیعت کر لی اور ایک وہ طبقہ ہے.جو تعلیم یافتہ ہے اس نے جب دیکھا کہ ایک منظم جماعت موجود ہے.تو اس نے کہا آؤ ہم بھی اس جماعت میں داخل ہو جائیں تا کہ ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں اور تیسرے وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے دلائل اور نشانات کو دیکھ کر میری صداقت کو تسلیم کیا ہے.میں صرف ان لوگوں پر اعتبار کرتا ہوں.جو میرے الہامات اور نشانات کو دیکھ کر مجھ پر ایمان لائے ہیں.جنہوں نے مولوی صاحب کی وجہ سے مجھے مانا ہے.وہ اگر مولوی صاحب کی کوئی ایسی بات دیکھیں گے جو انہیں نا پسند ہوگی تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرتد ہو جائیں.اسی طرح وہ لوگ جو اس لئے ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں کہ یہ ایک منظم جماعت ہے.ہم مل کر سکول اور کالج کھولیں گے وہ جس دن یہ دیکھیں گے کہ میرے بچے متبع کسی حکمت کے ماتحت سکولوں اور کالجوں پر کسی اور چیز کو تر جیح دے رہے ہیں.تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرتد ہو جائیں.میں صرف ان کو ترجیح دیتا ہوں جو خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے میرے دلائل اور نشانات کو دیکھ کر مجھ پر ایمان لائے ہیں.جو لوگ مولوی صاحب کی وجہ سے ایمان لائے ہیں.ان کا ایمان مولوی صاحب پر ہے مجھ پر نہیں.جولوگ تنظیم اور جتھہ بندی کو دیکھ کر جماعت میں داخل ہوئے ہیں.ان کا ایمان بھی واسطے کا ایمان ہے اور مجھے واسطے کے ایمان کی ضرورت نہیں.میں ایسے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہیں سمجھتا.میری جماعت میں بچے طور پر وہی لوگ داخل ہیں.جنہوں نے خدا کے نشانوں کی وجہ سے اور اس کی رضا کے لئے مجھے قبول کیا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت تک جن لوگوں نے اس فتنہ میں حصہ لیا ہے.وہ نہایت ہی ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں.ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ
تذکار مهدی ) 611 روایات سید نا محمودی جماعت کے صاحب علم اور تقویٰ اور صاحب کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کھڑے رہے.الفضل 31 اگست 1956 ء جلد 45/10 نمبر 204 صفحہ 3 | آنحضرت ﷺ کی عزت کے قیام کی دھن 6 عارضی غیرت بھی دنیا میں بڑے بڑے کام کرا لیتی ہے جیسے بغداد کے برائے نام بادشاہ سے کرا دیا مگر یہ غیرت ایمان کی علامت نہیں.اگر ایمانی غیرت ہوتی تو اسلام کے دن اُسی وقت پھر جاتے مگر انہوں نے عورت کو چھڑایا اور پھر سو گئے.ایسی عارضی غیرت سے اسلام زندہ نہیں ہو سکتا.اسلام اُس غیرت سے زندہ ہوتا ہے جو کبھی مٹ نہ سکے.اُس آگ سے زندہ ہوسکتا ہے جو بھی سرد نہ ہو سکے جب تک کہ سارے جہاں کو جلا کر راکھ نہ کر دے.اُس زخمی دل کبھی سے ہو سکتا ہے جو کبھی اند مال نہ پائے ، اُسے وہ دیوانہ زندہ کر سکتا ہے جس کی دیوانگی پر ہزار فرزانگیاں قربان کی جاسکیں.یہی دیوانگی پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے.اور اسی روح کو آپ کی زندگی میں ہم نے مشاہدہ کیا.آپ کے اندرسوتے ، جاگتے ، اٹھتے بیٹھتے ، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے ہم نے دیکھا کہ ایک آگ تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ محمد رسول ﷺ کی عزت کو دنیا میں دوبارہ قائم کیا جاسکے.آج نادان اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسول کریم نے کی ہتک کی.مگر ہمیں تو معلوم ہے کہ آپ کو کس طرح ہر وقت آنحضرت ﷺ کی عزت قائم کرنے کی دھن لگی رہتی تھی.مجھے ایک بات یاد ہے جو گو اُس وقت تو مجھے بُری ہی لگی تھی مگر آج اس میں بھی ایک لذت محسوس کرتا ہوں.ہمارے بڑے بھائی میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم ایک دفعہ باہر سے یہاں آئے.ابھی تک اُنہوں نے بیعت کا اعلان نہیں کیا تھا.میں اُن سے ملنے گیا میرے بیٹھے بیٹھے ہی ڈاک آئی.اُس زمانہ میں توہینِ مذاہب کے قانون کا مسودہ تیار ہو رہا تھا.اس سے بات چل پڑی تو مرزا سلطان احمد صاحب کہنے لگے اچھا ہوا بڑے مرزا صاحب فوت ہو گئے.(وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑے مرزا صاحب کہا کرتے تھے ) ورنہ سب سے پہلے وہ جیل جاتے کیونکہ اُنہوں نے حضرت رسول کریم ﷺ کی توہین کو برداشت نہیں کرنا تھا.اُس وقت تو یہ بات مجھے بُری لگی
+612 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمودی کیونکہ اس میں بے ادبی کا پہلو تھا مگر اس سے اُس محبت کا اظہار ضرور ہوتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آنحضرت ﷺ سے تھی.تو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کو دیکھا.آپ ایک آگ میں کھڑے تھے وہی آگ آپ نے ورثہ میں ہمیں دی ہے اور جس احمدی میں وہ آگ نہیں وہ آپ کا صحیح روحانی بیٹا نہیں.میں کہہ رہا تھا کہ ایک سال کا عرصہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ فرعونی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا جائے گا.گالیاں تو آپکو ہمیشہ ہی دی جاتی ہیں مگر یہ آواز قادیان میں سخت گستاخی اور دل آزار طریق پر اُٹھائی گئی.ہمارے کانوں نے اسے سنا اور ہمارے دلوں کو اس نے زخمی کر دیا.اور جماعت میں ایک عام جوش اور اس کے نتیجہ میں کام کرنے کا ایک عام ولولہ پیدا ہو گیا مگر میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا وہ زخم ابھی تک ہرا ہے یا مندمل ہو رہا ہے ؟ جس کا زخم مندمل ہو رہا ہے وہ سمجھ لے کہ وہ اُس ایمان کو نہیں پاسکا جو کامیابی کے لئے ضروری ہے.لیکن اگر آج بھی ہرا ہے ، آج بھی تم قربانی کے لئے اُسی طرح تیار ہو ، آج بھی اپنی گردن آستانہ الہی پر اُسی طرح کٹوانے پر آمادہ ہو تو سمجھو کہ تمہارے اندر ایمان موجود ہے.اچھی طرح یاد رکھو کہ ایمان جنون اور موت ایک ہی چیز ہے سوائے اس کے کہ ڈ نیوی جنون میں عقل ماری جاتی ہے اور صحیح مذہبی جنون میں عقل تیز ہو جاتی ہے پس اپنے دلوں کوٹولو اور دیکھو کہ تمہارے دل کی آگ کی وہ حالت تو نہیں جولو ہے کی ہوتی ہے.جب اُسے آگ میں ڈالا جاتا ہے، جب اُسے آگ سے نکالا جائے تو سرد ہو جاتا ہے.خدا کی محبت کی آگ ایسی نہیں کہ اس کے بغیر ایمان قائم رہ سکے.اس آگ میں مؤمن کا دل ہر وقت پگھلا رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد کر کے بہت سی باتیں دور کر دی ہیں.اسی مقام قادیان میں گو حقیقتاً اس کی زمین میں نہیں ایک سال ہوا کہ احرار اصحاب فیل کی طرح آئے اور ان کے صدر نے اعلان کیا کہ فرعونی تخت اُلٹ دیا جائے گا لیکن تمہاری کوشش اور محنت کے بغیر.آج کہاں ہے وہ تخت جس پر بیٹھ کر جماعت کے متعلق یہ الفاظ کہے گئے تھے.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 655-654) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق صرف وہی تحریریں پیش ہونی چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی ہوں کیونکہ ان
تذکار مهدی ) 613 روایات سید نا محمود کے متعلق ایک لحظہ کے لئے بھی ہمیں یہ خیال نہیں آ سکتا کہ ان میں رسول کریم مہ کی بہتک کی گئی ہے.ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں خود اپنے کانوں سے سنیں آپ کے طریق عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور آپ کی پاکیزہ زندگی کا روز وشب مشاہدہ کیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پڑھی جائیں یا نہ پڑھی جائیں ہم تو ہر تحریر کو مدنظر رکھتے ہوئے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن کو ظاہر ہونے کا موقع نہیں ملا ہر وقت قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ﷺ کی تو ہین نہیں کی.بھلا آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی کوئی شبہ رہ سکتا ہے.منشی اروڑے خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور صحابی گزرے ہیں کپورتھلہ میں تحصیلدار تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے مولوی ثناء اللہ صاحب کپورتھلہ یا کسی قریب کے مقام پر گئے تو ان کے دوست انہیں بھی مولوی صاحب کی تقریر سنانے لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے اپنی تقریر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراضات کئے تو منشی اروڑے خان صاحب کے ساتھی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے بعد میں انہیں کہا آپ نے دیکھا مرزا صاحب پر کیسے کیسے اعتراض پڑتے ہیں.منشی صاحب کہنے لگے تم ساری عمر اعتراض کرتے رہو میں نے تو اپنی آنکھوں سے مرزا صاحب کو دیکھا ہے انہیں دیکھنے کے بعد اور اُن کی سچائی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرنے کے بعد میں کس طرح تمہاری باتیں مان سکتا ہوں.ہماری جماعت میں ابھی تک سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے آپ کی باتیں اپنے کانوں سے سنیں.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس عشق کا معائنہ کیا جو آپ کو رسول کریم علی کی ذات سے تھا.سینکڑوں نہیں ہزاروں وہ لوگ زندہ ہیں جن کے دلوں میں رسول کریم ﷺ سے محبت و عشق کی لہریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام اور آپ کی قوت قدسیہ سے پیدا ہوئیں.اس کے بعد اگر ساری دنیا بھی متفق ہو کر یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسول کریم ﷺ کی ہتک کی تو بجز اس کے ہمارا کوئی جواب نہیں ہو سکتا کہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الظَّلِمِينَ اور ہم ہر وقت ہر میدان میں یہ قسم کھانے کے لئے تیار ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شدید سے شد ہمارے بیوی بچوں پر نازل ہوا گر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شمہ بھر بھی رسول کریم نے کی ہتک کی ہو یا رسول کریم ﷺ کی ہتک کو کبھی برداشت کیا ہو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے الله
تذکار مهدی ) 6614 روایات سید نا محمودی بڑھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عاشق اس اُمت میں پیدا ہوا ہو.پس اس کے لئے ہمیں کسی قسم کی شرط کی ضرورت نہیں، لمبی بحثیں کرنے کی حاجت نہیں.اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالے پڑھنا چاہتے ہیں تو بیس پچیس منٹ اس کے لئے کافی ہیں اور اتنا وقت انہیں دے دیا جائے گا.اور اتنے ہی وقت میں ہم جواب دیدیں گے اور اگر وہ زیادہ وقت کی خواہش کریں تو جس قدر مناسب وقت کی ضرورت ہو اُن کو دے دیا جائے گا اور اُسی قدر وقت میں ہم جواب دے دیں گے.پھر یہ غلط ہے کہ میں اس مباہلہ میں شامل نہیں ہوں گا ، میں ضرور شامل ہوں گا.یہ بھی غلط ہے کہ میرے بیوی بچے شامل نہیں ہوں گے وہ بھی ضرور شامل ہوں گے خواہ مجلس میں وہ شریک ہوں یا نہ ہوں.اسی طرح میرے بھائی بھی شامل ہوں گے،سلسلہ کے ناظر شامل ہوں گے اور کم سے کم پانچ سو یا ہزار افراد بھی شامل ہوں گے.اگر مباہلہ میں لوگوں کو شریک کرنے کے لئے وقت پیش آئے تو انہیں آ سکتی ہے جن کی نمائندگی کا دعوی بے حقیقت ہے.میرے پاس تو جماعتوں اور افراد کی تاریں آ رہی ہیں کہ ہمیں اس مباہلہ میں ضرور شریک کیا جائے.پس ہمارے لئے کسی قسم کی گھبراہٹ کی بات نہیں.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 581 تا 583) عاشق کا اپنے معشوق کی طرف جانا ایک عاشق کا اپنے معشوق کی طرف جانا تھا اور دیکھ لو اس کا کیا رنگ تھا.جب تک نماز روزہ اور دوسری عبادت میں یہ رنگ پیدا نہیں ہوتا.اس وقت تک ان کا کوئی فائدہ نہیں.ایک شخص چندہ دیتا ہے مگر دل میں کہتا ہے کہ یہ ایک فرض قوم کی طرف سے لگایا گیا ہے.اس لئے اسے ادا کرتا ہوں.اس کا چندہ ادا کرنے کا رنگ اور ہوگا.لیکن ایک دوسرا شخص جو خدا تعالیٰ کی طرف بڑھنے اور اس سے تعلق پیدا کرنے کا جوش اپنے دل میں رکھتا ہے.وہ اسے خدا کے قرب کا ایک ذریعہ سمجھ کر ادا کرے گا.اس لئے اسے ادا کرتے وقت اس کے دل میں امنگ اور جوش اور اس کی آنکھوں میں روشنی پیدا ہو گی.وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے ذریعہ میں خدا تعالیٰ کے اور قریب ہوں گا.اسی طرح جو شخص روزہ اسی کا نام سمجھتا ہے.کہ سحری کھالی اور پھر شام کو کھانا کھا لیا اس کی حیثیت صرف ایک مزدور کی سی ہے.جس کے سر پر ٹوکری رکھ دی گئی کہ فلاں جگہ پہنچا دے اور ظاہر ہے کہ مزدور کا سر پر ٹوکری اٹھانا اور رنگ رکھتا ہے.لیکن ایک شخص جس کا اکلوتا لڑکا سخت بیمار ہے.وہ گھر سے باہر اس کے لئے دوائی لانے کی غرض سے نکلتا ہے.تو اسے ایک
تذکار مهدی ) 615 روایات سید نا محمود طبیب مل جاتا ہے.جو اسے کہتا ہے کہ یہ دوائی لے جا کر اپنے بیٹے کو کھلا دو.وہ ایک منٹ میں تندرست ہو جائے گا.فکر کیوں کرتے ہو.وہ بھی ایک بوجھ اٹھا کر گھر کو لوٹتا ہے.مگر اس کے بوجھ اٹھانے اور مزدور کے بوجھ اٹھانے میں فرق ہے.مزدور تو سمجھتا ہے کہ میں نے یہ بوجھ فلاں جگہ پہنچانا ہے اور اس کے عوض دو آنے لینے ہیں اور بوجھ اس کی کمر کو توڑ رہا ہوتا ہے.مگر دوسرا سمجھتا ہے میں بوجھ نہیں بلکہ اپنے لڑکے کی زندگی اٹھائے لئے جا رہا ہوں.یہی حالت مومن کی ہوتی ہے جب وہ روزہ رکھتا ہے.تو یہ نہیں سمجھتا کہ میں بھوکا رہ رہا ہوں.بلکہ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوتی ہے.دل میں جوش اور امنگ پیدا ہوتی ہے اور امیدیں وسیع ہوتی ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ شائد آج کا روزہ ہی اس پردہ کو اٹھا دے جو میرے اور میرے خدا کے درمیان ہے اور جس کے اٹھنے کے بعد میرا خدا مجھے مل جائے.ہو سکتا ہے کہ وہ شام کو مایوس ہی ہو جائے مگر دوسرے دن پھر وہ اسی شوق سے اٹھتا ہے اور پھر اسی جوش اور شوق کے ساتھ روزہ رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ مومن کی مثال کیمیا گر کی ہوتی ہے.کیمیا گر بھی بار بار سونا بنانے کی کوشش کرتا ہے اور جب نہیں بنتا تو سمجھتا ہے.کہ میری غلطی سے نہیں بن سکا.آنچ کی کسر رہ گئی اور مجھ سے غلطی ہو گئی اور وہ پھر کوشش کرتا ہے اور پھر ناکام رہنے کے باوجود پھر کرتا ہے.اسی طرح مومن نماز پڑھتا ہے کہ اس کا خدا اسے مل جائے.مگر جب نہیں ملتا تو وہ مایوس ہو کر چھوڑ نہیں دیتا بلکہ پھر پڑھتا ہے.(الفضل 6 اکتوبر 1942 ء جلد 30 نمبر 233 صفحہ 4 | حضرت منشی اروڑے خان صاحب کے اخلاص و قربانی کی مثال مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں بھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچے نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے میں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا.جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ چینیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ
تذکار مهدی ) 616 روایات سید نامحمود یوں معلوم ہوتا تھا.جیسے بکرے کو ذبح کیا جا رہا ہے.میں کچھ حیران سا رہ گیا کہ رو کیوں رہے ہیں مگر میں خاموش کھڑا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو ان سے رونے کی وجہ دریافت کروں.اسی طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے منشی اروڑے خان صاحب مرحوم نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کرتے تھے.پھر اہلمد کا عہدہ آپ کو مل گیا.اس کے بعد نقشہ نویس ہو گئے.پھر اور ترقی کی تو سر رشتہ دار ہو گئے اس کے بعد ترقی پاکر نائب تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے.ابتداء میں ان کی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی.جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں.وہ کہنے لگے میں غریب آدمی تھا مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی میں قادیان آنے کے لئے چل پڑتا تھا.سفر کا بہت سا حصہ پیدل ہی طے کرتا تھا.تا کہ خدمت کے لئے کچھ پیسے بچ جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا.یہاں آکر جب امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش! میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بجائے چاندی کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہو گئی (اس وقت ان کی تنخواہ شائد میں پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں نے اپنے دل میں یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو میں چاہتا ہوں.تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا.پھر کہنے لگے.جب میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہوگئی.تو وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈ لے لیا.پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی شروع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہو گئی.تو دوسرا پونڈ لے لیا.اس طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں پونڈوں کی صورت میں جمع کرتا رہا.اور میرا منشاء یہ تھا.کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا.مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہو گئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت کی حالت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئے.آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرہ کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی.یہ اخلاص کا کیسا شاندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے.قربانیاں بھی کرتا ہے.مہینے میں ایک دفعہ نہیں بلکہ
تذکار مهدی ) 617 روایات سید نا محمود تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جاتا ہے.سلسلہ کے اخبار اور کتا بیں بھی خرید تا ہے.ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے جبکہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی قربانی نہیں کرتے.اُس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں.تو میں ان سے پیچھے کیوں رہوں چنانچہ وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے ماہوار کچھ رقم جمع کرتا اور ایک عرصہ دراز تک جمع کرتا رہتا ہے.نا معلوم اس دوران میں اس نے اپنے گھر میں کیا کیا تنگیاں برداشت کی ہوں گی.کیا کیا تکلیفیں تھیں جو اس نے خوشی سے جھیلی ہوں گی.محض اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کر سکے.مگر جب اس کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کو اس رنگ میں خوشی حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے.جس رنگ میں وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا.تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو.فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور ان کی باتوں کا جواب دو مینشی اروڑے خان صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے.دورانِ ملازمت ہی جو انہیں پڑھنے لکھنے کی مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی.وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا.تو میں نے کہا اچھا چلو.چنانچہ وہ انہیں جلسہ میں لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دیئے جب وہ تقریر کر کے بیٹھ گئے.تو منشی اروڑے خان صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے.منشی اروڑے خان صاحب فرماتے تھے.میں نے ان سے کہا یہ مولوی ہیں اور میں ان پڑھ آدمی ہوں.ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا.میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے.اسی طرح ایک دفعہ ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی ہنسے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے دوست بھی بہت محظوظ ہوئے.منشی روڑے خان صاحب شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے.بعد میں چونکہ بعض اہم کام ان کے سپر د ہو گئے.اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا.مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے.ہمیں یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے تو ان
تذکار مهدی ) 6618 روایات سید نا محمود کا آنا ایسا ہی ہوا کرتا تھا.جیسے کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آکر ملے.کپورتھلہ کی جماعت میں سے منشی اروڑے خان صاحب.منشی مظفر احمد صاحب اور منشی محمد خان صاحب جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہوا کرتی تھی.غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں.پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا میں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں.اس نے انکار کر دیا.اس وقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے.انہوں نے کہا قادیان تو میں نے ضرور جانا ہے.مجھے آپ چھٹی دے دیں وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جاسکتی.وہ کہنے لگے بہت اچھا آپ کا کام ہوتا رہے.میں تو آج سے ہی بددعا میں لگ جاتا ہوں.آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں.آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دینا کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا.اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحب کا قادیان آنے کا ارادہ ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا اور وہ قادیان پہنچ جاتے.الفضل 28 راگست 1941 ء جلد 29 نمبر 196 صفحہ 4 تا 6 ) حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات میں اس وقت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات اور ان کے جنازہ کا ذکر کر رہا تھا.میں نہیں کہہ سکتا کہ ان کے جنازہ میں کتنے لوگ شامل ہوئے کیونکہ مجھے اس کے متعلق کچھ بتایا نہیں گیا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزاروں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں.ان کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں ہوتا.میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی ، اپنے بچوں، اپنے باپ، اپنی ماں، اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہئے اور یہ واقعہ تو ایسا ہے کہ دل اس کا تصور کر کے سخت دردمند ہوتا ہے کیونکہ منشی ظفر احمد صاحب ان آدمیوں میں سے آخری آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
619 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود کے ساتھ ابتدائی ایام میں اکٹھے رہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ رتبہ پنجاب کی دوریاستوں کو ہی حاصل ہوا ہے.پٹیالہ میں میاں عبداللہ صاحب سنوری کو خدا تعالیٰ نے یہ رتبہ دیا اور کپورتھلہ میں منشی اروڑے خان صاحب ، عبدالمجید خان صاحب کے والد منشی محمد خان صاحب اور منشی ظفر احمد صاحب کو یہ رتبہ ملا.یہ چار آدمی تھے جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دعوئی ماموریت اور بیعت سے بھی پہلے کے تعلقات تھے اور اس قسم کے خادمانہ تعلقات تھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی دور رہنا برداشت نہیں کر سکتے تھے.پس ایسے لوگوں کی وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لئے دعا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے کیونکہ جو شخص ان لوگوں کے لئے دعا کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس کا بدلہ دینے کے لئے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس دعا کرنے والے کے لئے دعا کریں اور یہ بات تو ظاہر ہی ہے کہ تمہاری دعا سے خدا تعالیٰ کے فرشتوں کی دعا زیادہ سنی جائے گی...غرض جو دعا وہ دوسرے کے لئے کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فرشتے وہی ساتھ ساتھ اس کے لئے بھی کرتے جاتے ہیں.یہی حال جنازہ کی دُعا کا ہے جو مرنے والے کے لئے آخری دعا ہوتی ہے.اس میں بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے بہت زیادہ جوش کے ساتھ نماز جنازہ پڑھنے والوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں.پس جب کوئی شخص جنازہ پر دعا مانگتا ہے تو وہ صرف اس کے لئے دعا نہیں کر رہا ہوتا بلکہ وہ ایک سودا کر رہا ہوتا ہے.جس میں یہ خود بہت زیادہ فائدہ میں رہتا ہے.وہ میت کے لئے دعا کرتا ہے اور فرشتے اس کے لئے دعا کرتے ہیں.جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے وفات پائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جنازہ پڑھایا تو آپ بہت دیر تک ان کے لئے دعا فرماتے رہے اور جب نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج ہم نے اپنی ساری جماعت کے لوگوں کا جنازہ پڑھا دیا.میں سمجھتا ہوں اس کا بھی یہی مفہوم تھا کہ آپ نے فرشتوں والا کام کیا یعنی جس طرح فرشتے جب کسی کو اپنے بھائی کے لئے دُعا کرتے اور دیکھتے ہیں.تو خود اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کرنے لگ جاتے ہیں.اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھا کہ جماعت کے لوگ خدا تعالیٰ کے ایک نیک بندے کی وفات پر اس کے لئے یہ دُعا کر رہے ہیں کہ خدا اس کے مدارج کو بلند کرے اسے اپنے قرب میں جگہ دے اور اسے اپنی رضا کا مقام عطا کرے تو آپ نے بھی ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے خدا تو ان دعا کرنے
تذکار مهدی ) 620 روایات سید نا محمود والوں کے مدارج کو بھی بلند فرما انہیں اپنے قرب میں جگہ دے اور انہیں اپنی رضاء کی نعمت سے متمتع فرما.گویا فرشتوں والا معاملہ آپ نے اپنی جماعت کے تمام افراد سے کیا اور اس طرح سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سے حصہ مل گیا.غرض یہ دعا معمولی نہیں ہوتی.الفضل 28 اگست 1941 ء جلد 23 نمبر 196 صفحہ 3-2 مطالعہ کتب اور خواجہ کمال الدین صاحب خواجہ کمال الدین صاحب کی کامیابی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کر کے ایک لیکچر تیار کرتے تھے.پھر قادیان آ کر کچھ حضرت خلیفہ اول سے پوچھتے اور کچھ دوسرے لوگوں سے اسی طرح ایک لیکچر مکمل کر لیتے.پھر اسے لے کر ہندوستان کے مختلف شہروں کا دورہ کرتے اور خوب کامیاب ہوتے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر بارہ لیکچر آدمی کے پاس تیار ہو جائیں.تو اس کی غیر معمولی شہرت ہوسکتی ہے.انہوں نے ابھی سات لیکچر تیار کیے تھے کہ ولایت چلے گئے.لیکن وہ ان سات لیکچروں سے ہی بہت مقبول ہو چکے تھے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایک لیکچر بھی اچھی طرح تیار کر لیا جائے کیونکہ وہ خوب یاد ہوتا ہے.اس لئے اس کا لوگوں پر اچھا اثر ہو سکتا ہے.پہلے زمانہ میں اسی طرح ہوتا تھا کہ صرف میر کا الگ استاد ہوتا تھا.نحو میر کا الگ استاد ہوتا تھا.پکی روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا اور کچی روٹی کا الگ استاد ہوتا تھا اور چاہئے بھی اسی طرح کہ جو لیکچرار ہوں.ان کو مضامین خوب تیار کر کے دیئے جائیں اور وہ باہر جا کر وہی لیکچر دیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سلسلہ کے مقصد کے مطابق تقریر میں ہوں گی اور ہمیں یہاں بیٹھے بیٹھے پتہ ہوگا کہ انہوں نے کیا بولنا ہے.اصل لیکچر وہی ہوں گے.اس کے علاوہ اگر مقامی طور پر ضرورت ہو تو تائیدی لیکچروں کے طور پر وہ کسی اور مضمون پر بھی بول سکتے ہیں.(الفضل 7 نومبر 1945 ءجلد 33 نمبر 161 صفحہ 3) حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب پس بجائے اس کے کہ دوست مشکلات کے وقت گھبرائیں یا کسی تشویش میں مبتلا ہوں انہیں اس بات کی عادت ڈالنی چاہئے کہ ادھر کوئی مصیبت آئی اور ادھر انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا...حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں مفتی فضل الرحمن صاحب کے بچے
تذکار مهدی ) 621 روایات سید نا محمود مرجایا کرتے تھے.بعد میں ان کی اولاد چلی ہے.حضرت خلیفہ اسیح اول کی لڑکی ان سے بیاہی ہوئی تھی.جب بھی ان کا بچہ بیمار ہوتاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جاتیں اور دعا کی درخواست کرتیں.لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ بچہ فوت ہو جاتا.جب ایک دو دفعہ ایسا ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا.دیکھو جو چیز ٹوٹ جاتی ہے اس کی مرمت کی جاتی ہے.تمہارے بچے بھی مرمت کے لئے خدا تعالیٰ کے پاس جاتے ہیں.اس کے بعد جب بچے فوت ہو جاتے تو وہ کہتیں کوئی بات نہیں.وہ مرمت کے لئے خدا تعالیٰ کے پاس گئے ہیں.پھر ایسا ہوا کہ ان کی اولا د زندہ رہنی شروع ہوئی بلکہ دوسری بیوی سے بھی اولاد ہوئی اور زندہ رہی اور اب تو شاید مفتی صاحب کی اولاد دو درجن کے قریب ہے.اس رنگ میں اگر یقین پیدا ہو جائے تو کوئی تشویش نہیں ہوتی.اس قسم کے یقین کی موجودگی میں اگر کوئی مارکھا بھی لے تو وہ محبت والی مار ہوگی.مشہور عالم دین کی بیعت (الفضل 23 جون 1954 ء جلد 43/8 نمبر 83 صفحہ 4 حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عالم دین جوصرف ونحو کے متبحر عالم تھے اور سارے ہندوستان میں اُنکی علمیت کا شہرہ تھا.وہ بہت سادہ طبع تھے اور اگر انہیں کوئی ایسا شخص دیکھتا جو ان کو پہلے سے نہ جانتا تو وہ یہی سمجھتا کہ یہ گھاس کاٹ کر آئے ہیں.اُن کا نام مولوی خان ملک صاحب تھا.وہ کہیں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے دعوئی کے متعلق خبر سُن کر قادیان آئے اور آپ کی باتیں سُن کر ایمان لے آئے.واپسی پر جب وہ لاہور پہنچے تو انہوں نے ارادہ کیا کہ مولوی غلام احمد صاحب سے ملتے چلیں.مولوی غلام احمد صاحب شاہی مسجد میں درس دیتے تھے اور وہ مولوی خان ملک صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے.مولوی غلام احمد صاحب بھی بہت مشہور عالم تھے اور چونکہ لاہور کے لوگ اچھے متمول تھے اس لئے مولوی غلام احمد صاحب کی مالی حالت بہت اچھی تھی اور سینکڑوں طالبعلم اُن کے پاس ھتے تھے.جب مولوی خان ملک صاحب شاہی مسجد میں پہنچے تو وہاں کے طلباء کو تو اس بات کا علم نہ تھا کہ یہ کس پایہ کے آدمی ہیں انہوں نے اُن کے معمولی لباس اور ظاہری صورت سے یہ اندازہ لگایا کہ یہ کوئی معمولی آدمی ہیں.مولوی غلام احمد صاحب نے مولوی خان ملک صاحب سے پوچھا.فرمائیے.کہاں سے تشریف لا رہے ہیں.انہوں نے کہا قادیان سے ” انہوں نے
تذکار مهدی 622 روایات سید نا محمود حیران ہو کر پوچھا.قادیان سے؟ انہوں نے کہا ہاں قادیان سے.انہوں نے کہا کیوں؟ کہنے لگے مرزا صاحب کا مرید ہونے کے لئے گیا تھا انہوں نے کہا آپ اتنے بڑے عالم ہیں آپ نے اُن میں کیا خوبی دیکھی کہ اُن کے مرید ہونے کے لئے چلے گئے.مولوی خان ملک صاحب نے پنجابی میں انہیں کہا کہ توں اپنا گر کر تینوں تے قَالَ يَقُولُ وی چنگی طرح نہیں آوندا یعنی تو اپنا کام کر تجھے تو ابھی قَالَ يَقُولُ بھی اچھی طرح نہیں آتا.چونکہ مولوی غلام احمد صاحب بھی بڑے مشہور عالم تھے اس لئے جب مولوی خاں ملک صاحب نے یہ الفاظ کہے تو مولوی غلام احمد صاحب کے شاگردوں کو سخت غصہ آیا اور انہوں نے مولوی خان ملک صاحب سے مخاطب ہو کر کہا.بڑھے ! تو نے یہ کیا بات کہی ہے.مولوی غلام احمد صاحب نے اُن کو منع کیا اور کہا خاموش رہو جو کچھ کہہ رہے ہیں بالکل ٹھیک ہے.غرض مولوی خان ملک صاحب مرحوم کوصرف ونحو پر اتنا عبور تھا اور وہ اپنے فن میں اتنے ماہر تھے کہ تمام ہندوستان میں اُن کا شہرہ تھا اور اس کی بعض تصانیف کے متعلق لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ان کتب کا لکھنے والا چار پانچ سوسال پہلے کا کوئی عالم ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 288 ،289) حضرت میر مہدی حسن صاحب انگریزوں میں یہ بڑی خوبی ہے کہ وہ ہر چیز کے معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.میر مہدی حسن صاحب بھی اس طرز کے آدمی تھے.میر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں چھپوائی کے انچارج تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی کتاب کی کاپی چھپتی تو وہ بڑے غور سے پڑھتے.اگر فل سٹاپ بھی غلط جگہ لگا ہوتا تو اُس کاپی کو تلف کر دیتے اور نئی لکھواتے.اِس طرح کام کرنے والے دو چار دن تک جب تک کہ نئی کا پی تیار نہ ہوتی یونہی بیٹھے رہتے.پھر جب وہ تیار ہوتی تو پھر وہ دیکھتے اور اگر کوئی غلطی دیکھتے تو پھر اسے تلف کر دیتے اور اُس وقت تک کتاب چھپنے نہ دیتے جب تک کہ انہیں یقین نہ آتا کہ اب اس میں کوئی غلطی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دریافت فرماتے کہ اتنی دیر کیوں لگائی.تو وہ کہتے حضور ابھی پروف میں بڑی غلطیاں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی صاف اور اچھی چیز چاہتے تھے اس لئے آپ کبھی بھی اس بات کا خیال نہ فرماتے کہ مزدور اور کام کرنے والے یونہی بیٹھے ہیں اور مفت کی تنخوا ہیں کھا رہے ہیں بلکہ آپ کی بھی یہی خواہش
تذکار مهدی ) 623 نامحمودی روایات سیّد نا محمود ہوتی کہ لوگوں کے سامنے اچھی چیز پیش ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بھی عادت تھی کہ کتاب میں ذرا نقص ہوتا تو اس کو پھاڑ دینا اور فرمانا دوبارہ لکھو.کاتب نے پھر کتاب لکھنی اور اگر کہیں ذرا بھی نقص ہوتا تو اسے پھاڑ دینا اور جب تک اچھی کتابت نہ ہوتی اُس وقت تک مضمون چھپنے کے لئے نہ دینا حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن سے کتابت کرواتے تھے وہ شروع میں تو احمدی نہیں تھے لیکن بعد میں احمدی ہو گئے اُن کا لڑکا بھی احمدی ہے.ان میں یہ خوبی تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قدر پہچانتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن کی قدر پہچانتے تھے.باوجود غیر احمدی ہونے کے جب بھی حضرت صاحب کو کتابت کی ضرورت ہوتی انہوں نے قادیان آ جانا.اس زمانے میں تنخواہیں کم ہوتی تھیں پچیس روپے ماہوار اور روٹی کے لئے الاؤنس ملتا تھا.ان کی یہ عادت تھی کہ جب کام ختم ہونے کے قریب پہنچتا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آنا اور کہنا حضور ! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے اب گھر جانے کی اجازت دیں.آپ نے فرمانا کیوں اتنی جلدی کیا پڑی ہے.انہوں نے کہنا حضور ! ضرور جانا ہے.آپ نے فرما نا ابھی تو کچھ کتابت باقی ہے کہنا حضور ! روٹی پکانی پڑتی ہے.اس پر سارا دن صرف ہو جاتا ہے، روٹی پکایا کروں یا کتابت کیا کروں، سارا دن روٹی پکانے میں لگ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمانا آپ کی روٹی کا میں لنگر خانہ سے انتظام کروا دیتا ہوں.اس طرح اُن کو 35 روپے تنخواہ مل جاتی اور روٹی مفت.کچھ دن کے بعد انہوں نے پھر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنا حضور ! سلام عرض کر نے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں.حضرت صاحب نے پوچھنا کیوں کیا بات ہے؟ کہنا حضور النگر کی روٹی بھی کوئی روٹی ہے دال الگ پانی الگ اور نمک ہے ہی نہیں اور کسی وقت اتنی مرچیں ڈال دینی کہ آدمی کو سوکھی روٹی کھانی پڑے یہ روٹی کھا کر کوئی انسان کام نہیں کر سکتا.آپ نے فرمانا اچھا بتاؤ کیا کروں؟ اُنہوں نے کہنا اس کے لئے کچھ رقم الگ دے دیا کریں اس مصیبت سے تو خود روٹی پکانے کی مصیبت اٹھانا بہتر ہے میں خود روٹی پکا لیا کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دس روپے اور بڑھا دینے اور کہنا لو اب آپ کو 45 روپے ملا کریں گے.پھر انہوں نے دس دن کے بعد آ جانا اور کہنا حضور ! سلام عرض کرنے آیا ہوں مجھے گھر جانے کی اجازت دیں.یہاں سارا دن روٹی پکاتا رہتا ہوں کام کیا کروں.آپ نے فرمانا پھر کیا کریں؟ کہنا حضور! لنگر خانے میں انتظام کروا دیں.آپ نے فرمانا اچھا تمہیں 45 روپے ملتے رہیں
624 تذکار مهدی ) روایات سید نامحمودی گے اور کھانا بھی لنگر خانے میں لگوا دیتا ہوں.انہوں نے واپس آکر پھر کام شروع کر دینا.کچھ دنوں کے بعد پھر آ جانا اور کہنا حضور ! سلام عرض کرنے آیا ہوں جانے کی اجازت چاہتا ہوں.حضور نے پوچھنا کیا بات ہے؟ کہنا حضور ! لنگر کی روٹی تو مجھ سے نہیں کھائی جاتی بھلا یہ بھی کوئی روٹی ہے آپ مجھے دس روپے روٹی کے لئے دے دیں میں خود انتظام کرلوں گا.حضرت صاحب نے دس روپے بڑھا کر 55 روپے کر دینے.چونکہ وہ حضرت صاحب کی طبیعت سے واقف تھے اُنہوں نے اپنے لڑکے کو سکھایا ہوا تھا کہ میں تیرے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر بھاگوں گا اور تو شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور اس اس طرح کہنا.چنانچہ باپ نے ڈنڈا لے کر اُس کے پیچھے بھا گنا اور اُس نے شور مچاتے اور چیختے چلاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور کہنا حضور ! مار دیا مار دیا.اتنے میں اس کے والد نے آ جانا اور کہنا باہر نکل تیری خبر لیتا ہوں.حضرت صاحب نے یہ حالت دیکھ کر پوچھنا کیا بات ہے کیوں چھوٹے بچے کو مارتے ہو؟ کہنا حضور ! سات آٹھ دن ہوئے اس کو جوتی لے کر دی تھی وہ اس نے گم کر دی ہے.اس وقت میں خاموش رہا پھر لے کر دی وہ بھی گم کر دی.اب مجھ میں طاقت کہاں ہے کہ اس کو اور جوتی لے کر دوں میں اسے سزا دوں گا.اگر آج سزا نہ دی تو کل پھر جوتی گم کر دے گا.حضرت صاحب نے فرمانا میاں ! بتاؤ جوتی کتنے کی تھی؟ کہنا حضور ! تین روپے کی.حضرت صاحب نے فرمانا اچھا یہ تین روپے لے لو اور اس کو کچھ نہ کہو.اُنہوں نے تین روپے لے کر واپس آ جانا چار دن نہ گزر نے تو پھر لڑکے نے شور مچاتے ہوئے حضرت صاحب کے کمرے میں گھس جانا اور انہوں نے لاٹھی لے کر اُس کے پیچھے پیچھے آنا اور کہنا باہر نکل، اُس دن تو حضرت صاحب کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج تو تجھے نہیں چھوڑنا.حضرت صاحب نے پوچھنا کیا بات ہے کیوں اس بچے کو مارتے ہو؟ اُس نے کہنا حضور! اُس دن تو میں نے آپ کے کہنے پر چھوڑ دیا تھا آج اسے نہیں چھوڑ نا آج پھر یہ جوتی گم کر آیا ہے.حضرت صاحب نے فرمانا اسے نہ مارو جوتی کی قیمت مجھ سے لے لو.پھر انہوں نے جو رقم بتانی وصول کر کے لے جانی اور کہنا حضور! میں نے اس دفعہ چھوڑ نا تو نہیں تھا لیکن آپ کے فرمانے پر چھوڑ دیتا ہوں.غرض اس طرح اُنہوں نے کرتے رہنا لیکن کتابت ایسی اچھی کرتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ اُن ہی سے اپنی کتابیں لکھوایا کرتے تھے اور یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ کسی معمولی کا تب سے کتاب لکھوا کر خراب کی جائے کیونکہ اس طرح
تذکار مهدی ) 625 روایات سید نامحمود کتاب کا معیار لوگوں کی نظروں میں کم ہو جاتا ہے.بہر حال ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ اخلاق پیدا کرے اور نہ صرف وہ خوبیاں حاصل کرے جو انگریزوں میں پائی جاتی ہیں بلکہ اُن سے بھی بہتر خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے تا کہ ہماری جماعت کا معیار بلند ہو اور لوگوں پر ہمارا رعب قائم ہو.( مسلمانوں نے اپنے غلبہ کے زمانہ میں اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دکھایا، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 227 تا 230 ) | حضرت میر عنایت علی صاحب کی طبیعت نرم تھی فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ میر عنایت علی صاحب لدھیانوی حیدر آباد سندھ میں وفات پا گئی ہیں.حیدر آباد اور کوٹری کے بہت تھوڑے احمدی احباب جنازہ میں شامل ہوئے.مرحومہ نہایت مخلص خاتون تھیں.کہتے ہیں کہ انہوں نے 1900 ء میں بیعت کی لیکن در حقیقت ان کا تعلق احمدیت سے بہت پرانا تھا.ان کے خاوند میر عنایت علی صاحب لدھیانوی اُن چالیس آدمیوں میں سے تھے جنہوں نے لدھیانہ کے مقام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلے دن بیعت کی.ان کی بیوی بھی درحقیقت اُسی دن سے احمدیت سے تعلق رکھتی تھیں.ان کی طبیعت تیز تھی میر عنایت علی صاحب کی طبیعت نرم تھی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے، بہت دعائیں کرنے والے اور مستجاب الدعوات تھے.میاں بیوی کا اختلاف ہو جاتا تھا تو اکثر میر صاحب کو ایک طعنہ دیتی تھیں جو نہایت پُر لطف ہے.بات یہ ہوئی کہ بیعت کرنے والوں کی ترتیب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائی تھی اُس کے لحاظ سے میر صاحب کی بیعت غالباً ساتویں نمبر پر تھی لیکن میر صاحب اپنے ایک رشتہ دار یا دوست خواجہ علی صاحب کو جو پرانے بزرگوں میں سے ایک ہیں بلانے چلے گئے.انہیں ڈھونڈنے میں دیر لگ گئی.اس وجہ سے اُن کی بیعت بجائے ساتویں نمبر کے غالباً 37 ویں نمبر پر ہوئی.تو جب بھی میاں بیوی کی لڑائی ہوتی بیوی خاوند کو ہمیشہ یہ طعنہ دیتی تھیں کہ تمہاری حیثیت تو یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کے لئے تمہیں ساتواں نمبر ملا تھا لیکن تم اپنی بیوقوفی کی وجہ سے 37 ویں نمبر پر پہنچے.پس مرحومہ در حقیقت پرانا تعلق رکھنے والی خاتون تھیں ظاہری بیعت گودیر سے کی ہو.خطبات محمود جلد 33 صفحہ 277-275)
تذکار مهدی ) بندہ کا خدا تعالے پر کوئی حق نہیں 626 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ کسی شخص کا بیٹا مر گیا اور اُس کا ایک دوست تعزیت کے لئے اُس کے پاس گیا تو وہ چیخ مار کر رو پڑا اور کہنے لگا خدا نے مجھ پر بڑا بھاری ظلم کیا ہے گویا نعوذ باللہ اُس کا کوئی حق خدا تعالیٰ نے مارلیا تھا جس کا اُسے شکوہ پیدا ہوا.مگر سوچنا چاہئے کہ وہ کون ساحق ہے جو بندہ نے خدا تعالیٰ پر قائم کیا ہے.مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج اور تقوی وطہارت پر فخر کیا کرتے ہیں وہ تو کسی تکلیف کے موقعہ پر چلا اٹھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم پر ظلم کیا لیکن ہندوستان کا وہ مشہور شاعر جو دین سے بالکل نا واقف تھا ایک سچائی کی گھڑی میں باوجود شراب کا عادی ہونے کے کہہ اٹھا کہ جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا غور کرنا چاہئے کہ جو چیز بھی انسان کے پاس سے جاتی ہے.وہ آتی کہاں سے تھی؟ ذرا اپنی حیثیت کوتو دیکھو وہ کونسی چیز ہے جسے اپنی کہہ سکتے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا ابتدائی زمانہ ( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 599) اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوتا ہے اور نیا دور شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے.پہلے دور کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیا جاتا ہے تا کہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہوشیار کرتا رہے اور تباہی سے بچائے لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اور جو باری باری ساری دنیا کو روشن کرتا ہے.بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی.تین سو آدمی یقیناً تین سے زیادہ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کے وقت قادیان میں آبادی گیارہ سو تھی.گیارہ سو
تذکار مهدی ) 627 روایات سید نامحمودی اور تین کی نسبت 1/366 کی ہوتی ہے.اگر قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے تو موجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے 1/36 ہوتی ہے.گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کام شروع کیا اس سے آپ کی طاقت دس گنا زیادہ ہے.پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمد یہ جماعت نہیں تھی لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمد یہ جماعتیں قائم ہیں.ان جماعتوں کو بیدار کرنا اور منظم کرنا ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادہ کے ساتھ ان طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں یہ آپ (سوانح فضل عمر جلد چہارم صفحہ 388,389) لوگوں کا ہی کام ہے.احساس کا فرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کسی شہر میں چند شہری آپس میں ذکر کر رہے تھے کہ تل بہت گرم ہوتے ہیں.ایک پاؤ تل کوئی نہیں کھا سکتا.اگر کھائے تو فوراً بیمار ہو جائے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی پاؤ تل کھائے اور بیمار نہ ہو جائے.اس گفتگو کے دوران ایک نے کہا اگر کوئی اتنے تل کھائے تو میں اسے پانچ روپے انعام دوں.کوئی زمیندار وہاں سے گزر رہا تھا.اور زمیندار بھی کوئی اکھر زمیندار تھا.وہ نہایت تعجب اور حیرت سے ان کی یہ باتیں سنتا رہا اور خیال کر رہا تھا کہ عجیب بات ہے ایسے مزے کی چیز کھانے پر پانچ روپے انعام بھی ملتے ہیں.اس نے آگے بڑھ کر پوچھا ٹہنیوں سمیت کھانے ہیں یا بغیر ٹہنیوں کے یہ اس نے اس لئے پوچھا کہ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ بغیر ٹہنیوں کے پاؤ بھر تل کھانے سے پانچ روپے انعام کیونکر دیں گے.گویا وہ ٹہنیوں سمیت بھی کھانے کے لئے تیار تھا.حالانکہ باتیں کرنے والے اتنے تل کھانا ناممکن خیال کر رہے تھے.اب ان دونوں کے احساس میں کتنا بڑا فرق ہے.ایک تو وہ ہیں کہ پاؤ بھر تل کھانے ناممکن خیال کرتے ہیں اور ایک وہ ہے کہ جو بمع ٹہنیوں کے کھانے کے لئے تیار ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ بغیر ٹہنیوں کے تو یہ بہت معمولی مزے کی بات ہے.اس پر کب پانچ روپے انعام مل سکتے ہیں.(خطبات محمود جلد 9 صفحہ 86-85 ) سنت کی یا بندی کی کوشش ایک دعوت میں میں نے ایک شخص کو بائیں ہاتھ سے پانی پینے سے روکا تو اس نے کہا
تذکار مهدی ) 628 روایات سید نا محمودی کہ حضرت صاحب بھی بائیں ہاتھ سے پانی پیا کرتے تھے حالانکہ حضرت صاحب کے ایسا کرنے کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ آپ بچپن میں گر گئے تھے جس سے ہاتھ میں چوٹ آئی اور ہاتھ اتنا کمزور ہو گیا تھا کہ اس سے گلاس تو اٹھا سکتے تھے مگر منہ تک نہ لے جاسکتے تھے.مگر سنت کی پابندی کے لئے آپ کو بائیں ہاتھ سے گلاس اٹھاتے تھے مگر نیچے دائیں ہاتھ کا سہارا بھی دے لیا کرتے تھے.(الفضل 17 اگست 1922 ء جلد 10 نمبر 13 صفحہ 3) نماز با جماعت کی پابندی جس شخص کا باپ پانچ وقت نماز اپنے گھر پر ادا کرتا ہے اُس کے بچے کے دل میں نماز باجماعت کا احساس پیدا نہیں ہو سکتا.باپ تو اس لئے نہیں جاتا کہ جگہ نہیں ہوتی مگر جب جگہ بن جاتی ہے تو بیٹا اس لئے نہیں جاتا کہ اُس کا باپ نہیں جاتا تھا.اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ باپ کس وجہ سے گھر پر نماز پڑھا کرتا تھا وہ اس کے عمل سے ایک غلط نتیجہ اخذ کرتا ہے اور اس طرح اپنے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا کر لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دایاں ہاتھ ٹوٹا ہوا تھا جب آپ پانی پیتے تو گلاس آپ کو بائیں ہاتھ سے اٹھانا پڑتا تھا.منہ کے قریب آ کر آپ گلاس کو اپنا دایاں ہاتھ بھی لگا دیتے تھے.بعض نئے احمدی جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بائیں ہاتھ سے پانی پیتے دیکھتے تو وہ سمجھتے کہ مولوی یونہی کہتے رہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ سے کھانا پینا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعامل تو بتاتا ہے کہ بائیں ہاتھ سے بھی پانی پینا جائز ہے اور وہ خود بھی ایسا کرنے لگ جاتے تھے.بعض لوگ جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر پڑ جاتی تھی آپ اُن کو ٹوک دیتے تھے لیکن سینکڑوں لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی نظر نہیں پڑتی تھی اور وہ یہ نیا مسئلہ سمجھ کر اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے کہ اسلام میں کھانے پینے کے لئے دایاں ہاتھ استعمال کرنا ضروری نہیں اور یہ بات اتنی عام ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایک دفعہ ہمارے نانا میر ناصر نواب صاحب نے یہ طریق جاری کیا کہ ہفتہ میں ایک دن سب دوست اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھایا کریں.شیخ رحمت اللہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی صحبت میں بہت رہے تھے لیکن ایک دن کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے بائیں ہاتھ سے گلاس اٹھایا اور پانی پی لیا.میر ناصر نواب صاحب
تذکار مهدی ) 629 روایات سید نا محمودی چونکہ وہابی رہ چکے تھے اور وہ ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے تھے انہوں نے شیخ رحمت اللہ صاحب کوٹو کا اور کہا کہ دائیں ہاتھ سے پانی پینا چاہیے.شیخ رحمت اللہ صاحب نے کہا میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا ہے کہ آپ بائیں ہاتھ سے پانی پیتے تھے.میر صاحب نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں ہاتھ کی ہڈی جوانی میں ٹوٹی تھی اور کمزور ہو گئی تھی اس لئے آپ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ بائیں ہاتھ سے پانی پینا جائز ہے.حضرت خلیفہ اول بھی اُس وقت کھانے میں موجود تھے.آپ نے بھی تصدیق فرمائی کہ میر صاحب کی بات درست ہے.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فوت ہوئے بھی کئی سال گزر گئے تھے مگر ایک قریب رہنے والا شخص بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ چونکہ آپ بائیں ہاتھ سے پانی پیتے ہیں اس لئے اسلام میں بائیں ہاتھ سے کھانا پینا منع نہیں.اسی طرح جو ماں باپ اپنے گھروں میں نماز میں پڑھیں گے جب مسجدیں بن جائیں گی تب بھی ان کے بچے نمازوں میں نہیں آئیں گے.کیونکہ وہ کہیں گے کہ جب ہمارا باپ اپنے گھر پر نمازیں پڑھتا رہا تو ہم مسجد میں کیوں جائیں.پس جب آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ آپ جامع مسجد بنائیں تو اب آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے محلہ میں چاہے چھوٹی سے چھوٹی مسجد بنانی پڑے بنالیں.اس طرح مساجد میں نماز باجماعت ادا کریں.الفضل 22 ستمبر 1950 ء جلد 38/4 شماره 218 صفحہ 4) نماز با جماعت کی عادت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نماز اتنی پیاری تھی کہ جب کبھی بیماری وغیرہ کی وجہ سے آپ باہر تشریف نہ لا سکتے اور گھر میں ہی نماز ادا کرنی پڑتی تھی تو والدہ صاحبہ یا گھر کے بچوں کو ساتھ ملا کر نماز باجماعت پڑھا کرتے.(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 538) حضرت معاویہ کو نماز کا اجر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہؓ کی صبح کے وقت آنکھ نہ کھلی اور جب کھلی تو دیکھا کہ نماز کا وقت گزر گیا ہے اس پر وہ سارا دن روتے رہے.دوسرے دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ایک آدمی آیا اور نماز کے لئے اٹھاتا ہے.انہوں
تذکار مهدی ) 630 روایات سید نا محمود نے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں شیطان ہوں جو تمہیں نماز کے لئے اٹھانے آیا ہوں.انہوں نے کہا تجھے نماز کے لئے اٹھانے سے کیا تعلق؟ یہ بات کیا ہے؟ اس نے کہا کل جو میں نے تمہیں سوتے رہنے کی تحریک کی اور تم سوتے رہے اور نماز نہ پڑھ سکے اس پر تم سارا دن روتے رہے خدا نے کہا اسے نماز باجماعت پڑھنے سے کئی گنا بڑھ کر ثواب دے دو.مجھے اس بات کا صدمہ ہوا کہ نماز سے محروم رکھنے پر تمہیں اور زیادہ ثواب مل گیا.آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ آج بھی کہیں تم زیادہ ثواب نہ حاصل کر لو.تو شیطان تب پیچھا چھوڑتا ہے جب کہ انسان اس کی بات کا توڑ کرتا رہے.اس سے وہ مایوس ہو جاتا ہے اور چلا جاتا ہے.ملائکۃ اللہ ، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 552) محبت سے ایمان بڑھتا ہے حضرت موسیٰ کے قصہ میں اس کی مثال موجود ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس قصہ کو بار ہا بیان فرمایا کرتے تھے.کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ جب مصر سے نکلے تو راستہ میں عمالیق سے مقابلہ آن پڑا.ان کے بادشاہ کو خطرہ ہوا کہ ہم شکست کھا جائیں گے ان کے ہاں ایک بزرگ تھا.بادشاہ نے اس سے دعا کی درخواست کی.اس نے دعا کی تو خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ موسیٰ خدا کا نبی ہے.اس کے خلاف دعا نہیں کرنی چاہئیے.اس نے بادشاہ کو کہہ دیا کہ موسیٰ کے خلاف دعا نہیں ہو سکتی جب بادشاہ کو معلوم ہوا کہ میری کوئی بات کارگر نہیں ہوتی.تو اس نے وہی چال چلی.جو آدم کو جنت سے نکلوانے کے لئے شیطان نے چلی تھی کہ حوا کے ذریعہ پھسلایا تھا.اسی طرح اس نے بہت سے زیورات وغیرہ تیار کرائے اور موسیٰ کے برخلاف دعا کرانے کے لئے اس بزرگ کی بیوی کو دیئے.اس نے تحریک کی مگر اس بزرگ نے جواب دیا کہ موسیٰ خدا کا مقرب ہے اس لئے اس کے خلاف بددعا نہیں ہوسکتی.میں نے کی تھی.مگر وہاں سے جواب مل گیا، لیکن وہ مصر ہوئی اور کہا کہ کیا ضرور ہے کہ اب بھی وہی حالات ہوں.تم بددعا تو کرو.آخر وہ رضا مند ہو گیا.اس کو ایک جگہ لے گئے اس نے کہا کہ یہاں سینہ نہیں کھلتا اور اسی طرح دو تین جگہ گیا.آخر چونکہ اس کا ایمان جانا تھا.اس نے بددعا کی.کہتے ہیں کہ جونہی اس نے بددعا کی.موسیٰ کی قوم میں تباہی پڑ گئی.کیونکہ اس کے پہلے ایمان کا کچھ تو اثر ہونا تھا اور ادھر اس کا ایمان کبوتر کی شکل میں اڑ گیا.بیشک یہ ایک قصہ ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ
تذکار مهدی ) 631 روایات سید نا محمود جس طرح کبوتر ہاتھ سے نکل جاتا ہے.اسی طرح ایمان اس کے دل سے نکل گیا.پس چونکہ ایمان محنت سے آتا ہے اور جاتا ایک فقرہ میں ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ انسان ہر وقت ہوشیار رہے.(خطبات محمود جلد 6 صفحہ 341-340) حضرت سید عبدالقادر جیلانی کا خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ پیر عبدالقادر جیلانی نے خواب میں دیکھا ان کا ایک مرید کسی کافرہ عورت کے پیچھے مرتد ہو گیا ہے چونکہ وہ مرید ان کا محب خاص تھا اس کے لئے آپ نے بہت دعائیں کیں مگر ہر دفعہ یہی الہام ہوا کہ یہ تقدیر مبرم ہے ٹل نہیں سکتی مگر آپ پھر بھی نہی دعا کرتے رہے کہ خدایا تو اگر چاہے تو اسے بھی ٹال سکتا ہے آخر جب ان کی دعا انتہاء کو پہنچ گئی تو انہیں الہام ہو ا ہم نے تیری دعا بھی قبول کر لی اور تقدیر کو بھی پورا کر دیا.صبح انہوں نے اس مرید کو بلایا اور اس سے کہا میں نے آج تک تمہیں بتایا نہیں لیکن اب بتاتا ہوں کہ اس طرح خواب دیکھا تھا اور دعائیں کرتا رہا یہ جواب ملتا رہا لیکن آج یہ الہام ہوا ہے تم بھی بتاؤ آخر کیا ماجرا ہے.اس نے کہا بات یہ ہے میں ایک یہودن پر عاشق تھا وہ کہتی تھی کہ تو اگر یہودی ہو جائے تو تیری خواہش پوری ہو سکتی ہے.عشق کے جذبہ کی وجہ سے میرے دل میں بھی یہ خیال آتا تھا کہ یہودی ہو جاؤں اور قریب تھا کہ اسلام کو خیر باد کہہ کر یہودی ہو جاؤں کہ آج رات وہ خواب میں مجھ سے ملی اور مجھے اس سے یکدم نفرت ہو گئی.گو یا اس طرح اللہ تعالیٰ نے دونوں باتیں پوری کر دیں رویا کو بھی اور دعاؤں کو بھی.اسی طرح یہاں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے وہ رویاء بھی پورے کر دیئے جو دوستوں نے میری موت کے متعلق دیکھے تھے اور پھر ان دعاؤں کو بھی قبول کر لیا.(خطبات محمود جلد 12 صفحہ 434) حضرت سید عبدالقادر جیلانی کالباس میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ سید عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ ایک ایک ہزار دینار کا لباس پہنا کرتے تھے.کسی نے اس پر اعتراض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ نادان نہیں جانتا کہ میں اُس وقت تک کوئی کپڑا پہنتا ہی نہیں ہوں جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ اے عبد القادر ! تجھے میری ہی قسم کہ یہ کپڑا پہن اور میں نہیں کھاتا جب تک خدا تعالیٰ مجھے نہیں کہتا کہ عبد القادر ! تجھے میری ہی قسم کھا اور تم کو یاد ہوگا کہ 1933 ء کی عید الفطر کے خطبہ کے موقع پر میں نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا.میں نے دیکھا کہ ایک بڑا
تذکار مهدی ) 632 روایات سید نا محمود ہجوم ہے میں اس میں بیٹھا ہوں اور ایک دو غیر احمدی بھی میرے پاس بیٹھے ہیں.کچھ لوگ مجھے دبار ہے ہیں.ان میں سے ایک شخص جو سامنے کی طرف بیٹھا تھا، اُس نے آہستہ آہستہ میرا ازار بند پکڑ کر گرہ کھولنی چاہی.میں نے سمجھا اس کا ہاتھ اتفاقا لگا ہے اور میں ازار بند پکڑ کر اُس کی جگہ پر اٹکا دیا.پھر دوبارہ اس نے ایسی ہی حرکت کی اور میں نے پھر یہی سمجھا کہ اتفاقیہ اُس سے ایسا ہوا ہے.تیسری دفعہ پھر اس نے ایسا ہی کیا تب مجھے اس کی بدنیتی کے متعلق شبہ ہوا اور میں نے اسے روکا نہیں جب تک کہ میں نے دیکھ نہ لیا کہ وہ پالا رادہ ایسا کر رہا ہے تا جب میں کھڑا ہوں تو ننگا ہو جاؤں اور لوگوں میں میری سبکی ہو.تب میں نے اُسے ڈانٹا اور کہا تو جانتا نہیں مجھے اللہ تعالیٰ نے عبدالقادر بنایا ہے ( یہ خواب جیسا کہ ظاہر ہے موجودہ فتنہ پر بوضاحت دلالت کرتا ہے ).پس میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ بالکل سید عبدالقادر جیلانی والا ہے.وہ میرے لئے اپنی قدرتیں دکھاتا ہے مگر نادان نہیں سمجھتا.یہ زمانہ چونکہ بہت مشبہات کا ہے اس لئے میں تو اس قد را حتیاط کرتا ہوں کہ دوسروں سے زیادہ ہی قربانی کروں.پس یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کو دیکھتے ہوئے میں انسانوں پر انحصار نہیں کر سکتا اور تم بھی یہ نصرت اس طرح حاصل کر سکتے ہو کہ اطاعت کا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور ایسا کرنے میں صرف خلیفہ کی اطاعت کا ثواب نہیں بلکہ موعود خلیفہ کی اطاعت کا ثواب تمہیں ملے گا اور اگر تم کامل طور پر اطاعت کرو تو مشکلات کے بادل اُڑ جائیں گے، تمہارے دشمن زیر ہو جائیں گے اور فرشتے آسمان سے تمہارے لئے ترقی والی نئی زمین اور تمہاری عظمت وسطوت والا نیا آسمان پیدا کریں گے.لیکن شرط یہی ہے کہ کامل فرمانبرداری کرو.جب تم سے مشورہ مانگا جائے مشورہ دو ورنہ چپ رہو ، ادب کا مقام یہی ہے.لیکن اگر تم مشورہ دینے کے لئے بیتاب ہو بغیر پوچھے بھی دے دو مگر عمل وہی کرو جس کی تمہیں ہدایت دی جائے.ہاں صحیح اطلاعات دینا ہر مومن کا فرض ہے اور اس کے لئے پوچھنے کا انتظار نہیں کرنا چاہئے.باقی رہا عمل اس کے بارہ میں تمہارا فرض صرف یہی ہے کہ خلیفہ کے ہاتھ اور اُس کے ہتھیار بن جاؤ ، تب ہی برکت حاصل کر سکو گے اور تب ہی کامیابی نصیب ہوگی.اللہ تعالیٰ تم کو اس کی توفیق بخشے.( خطبات محمود جلد 18 صفحہ 380،379) کوئی تو خانہ خدا کے لئے بھی چھوڑ دینا چاہئیے.ہر وہ شخص جوان سامانوں سے کام نہیں لیتا جو خدا تعالیٰ نے اس کو بخشے ہیں اور کہتا ہے
تذکار مهدی ) 633 روایات سید نا محمود کہ میں اپنا کام خدا پر چھوڑتا ہوں وہ جھوٹا ہے وہ خدا سے تمسخر کرتا ہے اور ہر وہ شخص جو سامانوں سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے کہ اب فلاں کام میں ہی کروں گا وہ بھی جھوٹا ہے کیونکہ وہ اپنے کاموں میں خدا تعالیٰ کا دخل تسلیم نہیں کرتا.کام آسان ہوں یا مشکل آخر اُن کی کنجی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک بات میں نے بار ہاسنی ہے.آپ ترکیہ کے سلطان عبدالحمید خان کا جو معزول ہو گئے تھے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبد الحمید خان کی ایک بات مجھے بڑی ہی پسند ہے.جب یونان سے جنگ کا سوال اُٹھا تو وزراء نے بہت سے عذرات پیش کر دیئے.دراصل سلطان عبدالحمید خان کا منشاء تھا کہ جنگ ہو مگر وزراء کا منشاء نہیں تھا اس لئے انہوں نے بہت سے عذرات پیش کئے.آخر انہوں نے کہا.جنگ کے لئے یہ چیز بھی تیار ہے اور وہ چیز بھی تیار ہے لیکن کسی اہم چیز کا ذکر کر کے کہہ دیا کہ فلاں امر کا انتظام نہیں ہے.مثلاً یوں سمجھ لو کہ انہوں نے کہا ( اور غالباً یہی کہا ہوگا ) کہ تمام یورپین طاقتیں اس وقت اس بات پر متحد ہیں کہ یونان کی امداد کریں اور اس کا ہمارے پاس کوئی علاج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب وزراء نے اپنا مشورہ پیش کیا اور مشکلات بتائیں اور کہا کہ فلاں چیز کا انتظام نہیں تو سلطان عبدالحمید نے جواب دیا کہ کوئی خانہ تو خدا کیلئے بھی چھوڑنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سلطان عبدالحمید کے اس فقرہ سے بہت ہی لطف اٹھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اس کی یہ بات بہت ہی پسند ہے.تو مومن کیلئے اپنی کوششوں میں سے ایک خانہ خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ نا ضروری ہوتا ہے.در حقیقت کچی بات یہ ہے کہ مومن کبھی بھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا بلکہ دراصل کوئی شخص بھی ایسے مقام پر نہیں پہنچتا جب وہ کہہ سکے کہ اب کوئی رستہ کمزوری کا باقی نہیں رہا اور اگر کوئی انسان کہے کہ میں اپنا کام ایسا مکمل کرلوں کہ اس میں کوئی رخنہ اور سوراخ باقی نہ رہے تو یہ حماقت ہوگی.مگر اُسی طرح یہ بھی حماقت ہے کہ انسان اسباب کو بالکل نظر انداز کر دے.اس وقت یوروپین قومیں پہلی حماقت میں مبتلاء ہیں اور مسلمان دوسری حماقت میں.(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 542-541) مومن کو ایمان کا نمونہ دکھانا چاہئے حضرت اقدس علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ جب ترکوں نے بغداد پر حملہ کیا تو اٹھارہ لاکھ آدمی انہوں نے قتل کئے اور ایسی تباہی مچائی جس کا کوئی ٹھکانہ نہیں.پھر فرماتے تھے کہ ایک
تذکار مهدی ) 634 روایات سید نا محمود شخص ایک ولی اللہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ دعا کریں کیونکہ مسلمان تباہ اور ہلاک ہو رہے ہیں اور کفار نے تمام بڑے بڑے آدمیوں کو قتل کر دیا ہے تو اس وقت اس نے کہا کہ میں جب آسمان کی طرف دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتا ہوں تو ملائکہ کی طرف سے یہ آواز آتی ہے.أَيُّهَا الْكُفَّارُ اقْتُلُوا الْفُجَّارَ.اے کا فرو! ان فاجروں کو مارو.حالانکہ ان دونوں فریقوں میں بڑا فرق تھا.ایک خدا کو ماننے والے تو دوسرے اس کے منکر.ایک رسولوں اور اس کی کتابوں کو ماننے والے مگر دوسرے اس سے متنفر.ایک دین کو ماننے والے اور دوسرے اس سے بیزار.ایک قرآن کو ماننے والے اور دوسرے اس کو مٹانے والے.اس میں کیا بھید ہے.یہی تو ہے کہ کفار گوایسے ظاہر دشمن ہیں کہ جن کے دل میں ذرا بھی ایمان نہیں وہ تو خدا کا انکار کرتے ہیں مگر یہ باوجود ماننے کے پھر نہیں مانتے اور دین سے خارج ہیں.مسلمان کہتے تو تھے کہ ہم میں ایمان ہے مگر دراصل ان میں ایمان نہ تھا.لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہتے تھے مگر پھر ناکام و نامراد تھے یہی بات تو تھی کہ ان کے ایمانوں میں دنیا کی محبت مل گئی تھی اور خدا تعالیٰ سے پورا تعلق نہیں رہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خالص ایمان رکھ کر خدا تعالیٰ کو نہیں پکارتے تھے بلکہ ان کا آہ و زاری کرنا کسی خاص مدعا اور مقصد کے لئے تھا وہ خدا کی عبادت کرتے تھے لیکن در حقیقت ان کی عبادت کسی خاص غرض کے لئے ہوتی تھی.پس مومن کو چاہئے کہ یک طرفہ تعلق رکھے اور ہر رنج دکھ تکلیف اور آرام میں غرض بہر حال خدا تعالیٰ سے راضی ہو.بہت مسلمان جب کہ ان سے کہا جاتا ہے کہ تم نماز روزہ ادا کرو تو کہہ دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہم کو دیا کیا ہے جو اتنی مشقت میں پڑیں.حالانکہ وہ احمق نہیں جانتے کہ جس منہ سے وہ یہ جواب دیتے ہیں اور جس دماغ سے سوچتے ہیں وہ بھی تو خدا ہی کا دیا ہوا تو ہے جب اس کے اس قدر احسان اور انعامات ہم پر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہم اس کی شکر گزاری میں نہ لگ جائیں.مولانا روٹی نے خاص ایمان والے انسان کے متعلق ایک عجیب قصہ لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ایک شخص کے پاس لقمان بطرز غلام رہتے تھے ان کو ان سے بڑی محبت تھی اور ان سے بڑا تعلق تھا اور جو کچھ وہ کھاتا انہیں ساتھ شامل کرتا.ایک دفعہ بے فصل خربوزہ ان کے پاس آیا تو اس نے اس کی قاشیں کاٹ کر حضرت لقمان کو دیں تو انہوں نے اسے بڑے شوق سے کھایا پھر ایک اور دی اسے بھی بڑے شوق سے کھایا.آخر اس شخص کو بھی یہ خیال آیا کہ بڑے ہی مزے کی یہ چیز ہوگی جسے لقمان اتنے مزے اور شوق سے کھاتا ہے.جب اس
تذکار مهدی ) 635 روایات سید نا محمود نے خود ایک قاش لے کر منہ میں ڈالی تو وہ نہایت تلخ تھی اس نے کہا لقمان یہ تو بڑی تلخ اور کڑوی ہے تم اسے اس مزے اور شوق سے کھا رہے ہو تو حضرت لقمان نے جواب میں کہا کہ جس کے ہاتھ سے ہزاروں میٹھی چیزیں کھائی ہیں اگر ایک دفعہ کڑوی اور تلخ کھالی تو کون سا حرج ہو گیا.اس شخص کے احسانات حضرت لقمان پر اتنے کیا ہوں گے لیکن انہوں نے اس کی ایسی قدر کی کہ اس کی دی ہوئی تلخ شے کو بھی میٹھا سمجھ کر کھا لیا.پھر خدا تعالیٰ کے اس قدر احسانات کے ہوتے ہوئے بھی جن کا کوئی حساب نہیں مومن کو کس ایمان کا نمونہ دکھانا چاہئے اور اگر کبھی اس کے لئے تکلیف برداشت کرنی پڑے تو کس خوشی سے اس کو قبول کرنا چاہئے.( خطبات محمود جلد چہارم صفحه 514 تا 515 ) | سلطان عبد الحمید کا توکل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سلطان عبد الحمید کی ایک بات کا اکثر ذکر فرماتے اور فرمایا کرتے کہ اُس کی یہ بات مجھے بہت ہی پیاری لگتی ہے.باوجود اس کے کہ آپ ترکوں کی حالت پرشا کی تھے کہ وہ دین کی طرف توجہ نہیں کرتے مگر اس بات کو آپ بہت ہی پسند فرماتے تھے کہ جب جنگ یونان یا شاید کوئی اور جنگ ہونے لگی تو سلطان نے اپنے جرنیلوں کو مشورہ کے لئے بلایا وہ لوگ چونکہ غدار تھے اور یورپ کی سلطنتوں سے رشوتیں لے چکے تھے اس لئے انہوں نے کہا کہ فلاں سامان ہے، فلاں ہے اور پھر آخر میں کسی اہم چیز کا نام لے کر کہہ دیا کہ وہ نہیں.مطلب یہ تھا کہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں سلطان لڑائی پر کیسے آمادہ ہو گا.لیکن سلطان نے ان کی یہ بات سن کر کہا کہ کوئی خانہ تو خدا کے لئے بھی خالی رہنے دو اور چلولڑائی شروع کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے.تو جنگ بدر کے موقع پر بھی اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کا خانہ خالی رہے اور کوئی مقام ایسا ہو جہاں سے وہ اپنے دشمنوں پر حملہ کر سکے.مسلمان تو چاہتے تھے کہ سب کچھ ہم ہی کریں لیکن خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ میرا بھی حصہ ہو اور اس طرح گویا مؤمن اور خدا میں محبت کی بحث تھی ہاں جو لوگ مخلص نہیں ہوتے وہ یہی کہتے ہیں کہ سارا خدا کرے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہہ دیا کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ (المائدہ: 25) جا تُو اور تیرا رب لڑتے پھر وہم تو یہاں بیٹھے ہیں.لیکن خالص مسلمانوں نے کہا ہم موسیٰ کے صحابہ والا
تذکار مهدی ) 636 جواب نہیں دیں گے بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے لڑیں گے.روحانی جماعتیں تو کل خدا تعالیٰ پر رکھتی ہیں روایات سید نا محمود خطبات محمود جلد 16 صفحہ 592-591 ) | روحانی جماعتوں کا تعلق مادیات سے نہیں ہوتا.روحانی جماعتیں اپنے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی امداد اور اس کی نصرت پر انحصار رکھتی ہیں.جب کبھی بھی روحانی کہلانے والی جماعتیں مادی اشیاء پر نظر کرتی ہیں اور ان سے اُمید رکھتی ہیں تو اُن کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے اور جب کبھی بھی وہ خدا تعالیٰ پر نظر رکھتی ہیں اور اُس پر تو کل رکھتی ہیں تو اُن کی روحانی طاقت کے علاوہ مادی طاقت بھی ترقی کرتی چلی جاتی ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبدالحمید جو ترکوں کے بادشاہ تھے اور عارضی طور پر اُن کے زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ترقی ہوئی اُس کی ایک بات مجھے بہت پسند ہے.جب ملک کی نوجوان پارٹی نے انہیں معزول کر کے اپنا سکہ جمالیا تو اردگرد کی حکومتوں نے ترکی حکومت کو کمزور کر دیا.عرب لوگ بھی بدظن ہو گئے کیونکہ سلطان عبدالحمید کا سلوک اُن سے اچھا تھا.ان سے پہلے عرب شا کی تھے کہ ترک ان سے اچھا سلوک نہیں کرتے.سلطان عبدالحمید نے انہیں تعلیم دلانا شروع کی ، انہیں کالجوں میں تعلیم دلوا کر فوجی اور دوسرے اہم کاموں پر لگایا اور ترکی حکومت میں انہیں داخل کرنا شروع کیا.ترک سمجھتے تھے کہ سلطان عبدالحمید عربوں کو آگے لا کر ترکوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اس لیے ان کی یہ پالیسی درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ سلطان عبدالحمید بہت اچھا آدمی تھا اور اُس کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے.ایک جنگ کے متعلق جو شاید یونان والی جنگ تھی یا کوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب اُس کے آثار پیدا ہوئے تو سلطان عبدالحمید نے تمام وزراء اور بڑے افسروں کی ایک کانفرنس بلائی کہ اس صورتِ حالات میں ترکی حکومت کو دب کر صلح کر لینی چاہیے یا جنگ کرنی چاہیے.ترکی کے بعض جرنیل یورپین حکومتوں کے خریدے ہوئے تھے، وہ جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ کہنے کے لیے بھی تیار نہیں تھے کہ ہم جنگ کے لیے تیار نہیں.جب سلطان عبدالحمید نے اُن سے مشورہ طلب کیا تو انہوں نے کہا فلاں چیز بھی ٹھیک ہے، فلاں چیز بھی ٹھیک ہے لیکن فلاں
تذکار مهدی ) 637 روایات سید نامحمود خانہ خالی ہے.اس طرح انہوں نے چاہا کہ وہ ملک اور بادشاہ کے سامنے نیک نام ہو جائیں کہ انہوں نے جنگ کے خلاف مشورہ نہیں دیا بلکہ سب حالات بتا کر سلطان عبدالحمید پر یہ بات چھوڑ دی ہے.اصل مطلب یہ تھا کہ بعض کمزور پہلو دیکھ کر وہ خود ہی لڑائی نہ کرنے کا فیصلہ کرے.سلطان عبدالحمید نے اُن کا مشورہ سن کر جواب دیا کہ سارے کام انسان ہی نہیں کرتا خدا تعالیٰ بھی کچھ کام کرتا ہے.اگر آپ نے سب خانے پر کر دیئے ہیں اور صرف ایک خانہ خالی ہے تو وہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو اور جنگ لیے تیار ہو جاؤ.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت گرے ہوئے زمانہ میں بھی مسلمان تو کل سے خالی نہیں تھے اور یہ واقعہ یونانی جنگ کا ہے اور غالبا یہ اسی سے متعلق ہے.تو اس میں ترکوں کو اتنی شاندار فتح حاصل ہوئی کہ تمام یورپ حیران رہ گیا اور وہ ترکی حکومت میں دخل دینے سے کترانے لگا.حقیقت یہی ہے کہ سارے کام بندے نہیں کرتے کچھ کام خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے.ہمارے اور دوسرے مذاہب کے درمیان یہی لڑائی ہے.ہم کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ زندہ ہے اور وہ انسان کے کاموں میں اُسی طرح دخل دیتا ہے جیسے وہ پہلے دیا کرتا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کی سب تدابیر نا کام ہو جاتی ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف رُخ کرتا ہے تو اسے باوجود ظاہری سامان نہ ہونے کے کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.نپولین نے کتنی تیاریاں کی تھیں، قیصر نے کتنی تیاریاں کی تھیں، مسولینی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ ناکام ہوئے.انور پاشا اور اُس کی پارٹی نے کتنی تیاریاں کی تھیں لیکن وہ نا کام ہوئے اور ایک دھتکارا ہوا شخص مصطفی کمال پاشا آگے آ گیا.بیشک وہ بھی دیندار نہیں تھا لیکن انور پاشا پر یہ الزام تھا کہ اُس نے ایسے بادشاہ کو جس کے زمانہ میں اسلام نے ترقی کی تھی معزول کیا.مصطفی کمال پاشا کا یہ قصور نہیں تھا.اُس نے بیشک خلافت کو توڑا لیکن اس نے اس خلافت کو توڑا جس نے پہلے سے قائم شدہ خلافت کو برخواست کیا تھا اور اس کا مقابلہ کیا تھا.اس لیے وہ باغی سے مقابلہ کرنے والا کہلاتا ہے.دراصل اس آخری زمانہ میں جو خلافت تھی یہ اصل خلافت نہیں تھی.اصل خلافت خلفائے راشدین والی خلافت ہی تھی.سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہوگئی ہے.بیشک بعد میں آنے والے بادشاہوں کو بھی خلفاء کہا گیا لیکن وہ خلفائے راشدین نہیں تھے.وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اگر بادشاہ کو خلیفہ نہ کہا تو پکڑے جائیں گے.اس لیے انہوں نے پہلی خلافت کو خلافت راشدہ کا نام دے دیا اور اس طرح بادشاہوں کا منہ بند کر دیا.
تذکار مهدی ) 638 روایات سید نا محمودی غرض عام بادشاہوں کو خلیفہ ہی کہا جاتا تھا لیکن جس خلافت کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ مسلمانوں کی اصطلاح میں خلافتِ راشدہ کہلاتی ہے اور اس بات پر سارے مسلمان متفق ہیں کہ خلافت راشدہ حضرت علی پر ختم ہو چکی ہے.ہاں ! اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد نئے سرے سے قائم ہوئی ہے.لیکن یہ خلافت روحانی ہے دنیوی سلطنت کا اس سے کوئی تعلق نہیں.چونکہ مص مصطفی کمال پاشا نے ایک باغی کا مقابلہ کیا اس لیے وہ جیت گیا اور انور پاشا اور اُس کی پارٹی ہار گئی.اس نے ترکی کی پہلی حکومت کو جس میں اسلام کو کچھ نہ کچھ ترقی ہوئی تھی منزل نہیں ہوا تھا تو ڑنا چاہا.اس لیے خدا تعالیٰ نے اُسے توڑ دیا.مصطفی کمال پاشا نے اس حکومت کو دوبارہ کھنڈرات سے قائم کیا.پھر اس کا نام خلافت نہیں رکھا.اس نے ایک دنیوی حکومت قائم کر دی جو انور پاشا کی حکومت سے زیادہ بہتر ، مضبوط اور ترکوں اور عربوں کے لیے مضبوطی کا موجب تھی.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُس کی مدد کی اور اللہ تعالیٰ ایسے مواقع پر ہر ایک کی مدد کیا کرتا ہے.جن لوگوں نے انگریزی تاریخیں پڑھی ہیں اور پھر سارے جھگڑوں کا مطالعہ کیا ہے جو پہلی جنگِ عظیم میں چرچل اور دوسرے وزراء میں پڑ گئے تھے وہ جانتے ہیں کہ دراصل چرچل ہی ترکی میں فوج اتارنے کا ذمہ دار تھا.انگریزی حکومت نے ترکی میں فوجیں اتار دیں.ترکی نے اُن کا مقابلہ کیا اور پھر یونانیوں کو جن کو اتحادیوں نے ترکی کے ملک پر قابض کر دیا تھا گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا.غرض انور اور مصطفی کمال سے دو الگ الگ سلوک بتاتے ہیں کہ سلطان عبدالحمید کے ساتھ ایک حد تک خدائی مدد تھی.بیشک وہ روحانی بادشاہ نہیں تھا وہ ایک دنیوی بادشاہ تھا لیکن اُس نے اسلام کی خدمت کی.اس لیے اُس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو بھینچ لیا.اس نے اسلام کی سچے دل سے مدد کی تو خدا تعالیٰ نے بھی اُس کی مدد کی اور ایک طاقت ور دشمن کے مقابلہ میں اسے فتح عطا فرمائی.خطبات محمود جلد 32 صفحہ 158-155) نیت کا ثواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے.فرماتے ایک بزرگ تھے وہ ایک اور بزرگ کو جو دریا کے پار رہا کرتے تھے روز کھانا دینے جایا کرتے تھے ایک دن بیمار ہو گئے.انہوں نے اپنی بیوی سے کہا آج تم کھانا پکا کر دریا کے پارفلاں بزرگ کے پاس لے جانا
تذکار مهدی ) 639 روایات سید نا محمودی اور اسے کھلانا.اس نے کہا.دریا سے کس طرح گزروں گی.انہوں نے کہا دریا پر جا کر کہنا.اے دریا! فلاں (اپنا نام بتا کر ) آدمی کی خاطر جس نے کبھی اپنی بیوی سے صحبت نہیں کی مجھے راستہ دے دے.اس نے کہا یہ تو جھوٹ ہے اتنے بچے موجود ہیں اور تم کہتے ہو کبھی صحبت نہیں کی.انہوں نے کہا تمہیں کیا تم اسی طرح کہہ دینا تمہیں رستہ مل جائے گا اس نے جا کر اسی طرح کہا تھوڑی دیر بعد ایک کشتی آگئی اور وہ سوار ہو کر دریا سے پار ہو گئی کھانا کھلانے کے بعد کہنے لگی میں نے آنے کے وقت تو دعا سیکھ لی تھی اب کیا کروں، کیونکر پار اتروں.بزرگ نے کہا یہ معمولی بات ہے دریا پر جا کر کہنا.مجھے اس شخص کی خاطر (اپنا نام بتا کر ) رستہ دے دے جس نے کبھی اپنے منہ میں ایک دانہ بھی نہیں ڈالا (حالانکہ ابھی ابھی اس کے سامنے کھانا کھا چکے تھے ) اس نے کہا یہ جھوٹ ہے.کہنے لگے تمہیں کیا تم اسی طرح کہنا.اس نے جا کر کہا کشتی آگئی اور وہ پاراتر گئی.گھر جا کر اس نے اپنے خاوند سے کہا.آج دو جھوٹوں کے ذریعہ دعا قبول ہوتی دیکھی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ نہ ہم نے کبھی نفس کی خاطر صحبت کی اور نہ انہوں نے کبھی نفس کے لئے کھانا کھایا.ہم نے تعلق رکھا تو اس لئے کہ خدا نے کہا اور انہوں نے کچھ کھایا تو اس لئے کہ خدا نے حکم دیا.پس نہیں کا مطلب یہ نہیں کہ وہ فعل نہیں ہوا بلکہ یہ کہ اپنی خواہش اور لذت اس میں نہ تھی تو کامل تو حید اس وقت ہوتی ہے کہ تمام چیزوں سے لذت کھینچ کر ایک ہی لذت باقی رہ جاتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ کسی چیز میں مزا نہیں آتا.نمکین چیز نمکین نہیں معلوم ہوتی اور میٹھی چیز میٹھی نہیں لگتی بلکہ یہ ہے کہ انسان ہر ایک چیز اس لئے کھاتا ہے کہ خدا نے حکم دیا ہے مطلب تو دونوں کا حاصل ہو جاتا ہے جو اس نیت سے کھاتا ہے کہ خدا کا حکم ہے وہ بھی لذت حاصل کرتا ہے اور جو اپنے نفس کی خاطر کھاتا ہے وہ بھی مزا پاتا ہے.ذکر الہی خطبات محمود جلد 8 صفحہ 434-433 ) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی بزرگ کا یہ مقولہ سُنایا کرتے تھے کہ دست در کار و دل بایار یعنی انسان کے ہاتھ تو کاموں میں مشغول ہونے چاہئیں لیکن اس کا دل اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.اسی طرح ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ اُن سے کسی نے پوچھا کہ میں کتنی دفعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کروں.تو انہوں کہا کہ ”محبوب کا نام لینا اور
تذکار مهدی ) 640 روایات سید نا محمودی پھر گن گن کر.تو اصل ذکر وہی ہے جو ان گنت ہو.مگر ایک معین وقت مقرر کرنے میں یہ خوبی ہوتی ہے کہ انسان اس وقت اپنے محبوب کے لئے اور کاموں سے بالکل الگ ہو جاتا ہے اور چونکہ یہ دونوں حالتیں ضروری ہیں اس لئے صحیح طریق یہی ہے کہ معین رنگ میں بھی ذکر الہی کیا جائے اور غیر معین طور پر بھی اُٹھتے بیٹھتے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے اور اُس کے فضلوں اور ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحه 309) احسانات کا بار بار ذکر کیا جائے.تسبیح دل سے نکلتی ہے ” مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کہتے ہیں تو ایک ہی دفعہ کی تسبیح میں ہمیں خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرا انسان ہزاروں ہزار دفعہ ویسی تسبیح کر کے بھی اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتا.میں اس مجلس میں نہیں تھا.کسی ہمارے ہم عمر نے یہ بات سن لی.وہ مجھے ملے تو انہوں نے تعجب سے کہا.پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معلوم نہیں کی تسبیح کا ذکر کیا ہے.اس نے مجھ سے ذکر کیا تو یہ بات فوراً میرے ذہن میں آگئی کہ ایک تسبیح دل سے نکلتی ہے.اور ایک تسبیح زبان سے نکلتی ہے جب تسبیح زبان سے نکلتی ہے تو ایک دم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے اور جو تسبیح زبان سے نکلتی ہے وہ خواہ کوئی انسان ہزاروں دفعہ دہرائے وہ وہیں کا وہیں بیٹھا رہتا ہے.میں نے اسے کہا میں سمجھ گیا ہوں جو تسبیح دل سے نکلتی ہے.اس کا اثر فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور جو صرف زبان سے نکلتی ہے اس کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا.وہ ہنس پڑے اور کہا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.آپ نے بھی کس طرح ایک اہم بات کو چٹکیوں میں اڑا دیا.غرض جو چیز سہل الحصول ہو اسے لوگ چھوڑ دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں کوئی جنتر منتر مل جائے.حالانکہ خدا تعالیٰ کے ملنے کے لئے کسی جنتر منتر کی ضرورت نہیں ہوتی.بلکہ ان فطرتی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں جس طرح لوگ اپنے ماں باپ اور بیٹے بیٹی اور بھائی بہنوں سے تعلق پیدا کر لیتے ہیں جس طرح لوگ کسی کو اپنا دوست بنا لیتے ہیں وہی طریق خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ہیں تم اپنے ارد گرد دیکھ لو کہ لوگ ایک دوسرے کے کس طرح دوست بنتے ہیں.(خطبات محمود جلد 32 صفحہ 57)
تذکار مهدی ) 641 روایات سید نا محمود مصائب کے وقت ایمان بڑھنا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.بدقسمتی سے مسلمانوں میں یہ رواج پڑ گیا ہے کہ وہ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں حالانکہ وہ دعا کا وقت نہیں ہوتا.دنیا میں تم کسی افسر سے کچھ مانگتے ہو تو اُس وقت مانگتے ہو جب ملاقات کا وقت ہوتا ہے نہ کہ ملاقات کے بعد.اسی طرح خدا تعالیٰ سے مانگنے کا وقت وہ ہوتا ہے جب تم اُس کے دربار میں گئے ہوتے ہو.جب تم نماز پڑھ رہے ہوتے ہو.اگر وہ موقع تم ہاتھ سے ضائع کر دیتے ہو تو بعد میں دعا کرنا کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.اسی طرح جب مشکلات آتی ہیں ، مصائب آتے ہیں تو خدا تعالیٰ مومن کے قریب آجاتا ہے اور یہ وقت دعا کی قبولیت کا ہوتا ہے.اگر تم اُس وقت کو ضائع کر دیتے ہو تو تمہیں خدا تعالیٰ پر کیا امید ہو سکتی ہے کہ وہ تمہاری دعائیں سنے گا ؟ جب ہم نے اُس وقت خدا تعالیٰ سے کچھ نہ مانگا جب وہ ہمارے قریب تھا تو اُس وقت کس طرح مانگیں گے جب وہ دُور ہوگا.بہترین وقت خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا وہی ہوتا ہے جب تم مشکلات اور مصائب میں پڑے ہوتے ہو.مشکلات اور مصائب کے وقت تمہارا ایمان بڑھنا چاہیے اور تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ تمہاری دعائیں سنے گا.تمہیں خوش ہونا چاہیے کہ وہ تمہارے زیادہ قریب آگیا ہے.تمہیں خوش ہونا چاہیئے کہ اس کے وصال کا وقت آ گیا ہے.جب ایک عورت کو اُس کا گم شدہ بچہ مل جاتا ہے تو وہ خوشی میں دنیا وَ مَا فِيْهَا سے غافل ہو جاتی ہے.تو جب تمہیں خدا تعالیٰ مل جائے تو تمہیں تمہارا دشمن نظر ہی کیوں آئے.جب تمہیں خدا تعالیٰ مل جائے گا تو تم محسوس ہی نہیں کرو گے کہ کوئی شخص تم سے دشمنی کرتا ہے کیونکہ تم خدا تعالی کی گود میں ہو گے.میں نے بسا اوقات دیکھا ہے کہ جب کسی غریب ماں کے بچہ کو کوئی دوسرا بچہ مارتا ہے تو وہ اپنی ماں کی گود میں بھاگ جاتا ہے اور پھر اُسے گھورتا ہے اور کہتا ہے آ تو سہی !! حالانکہ اُس کی ماں خود فقیر ہوتی ہے اور مارنے والا کسی امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہے.لیکن جب وہ اپنی ماں کی گود میں چلا جاتا ہے تو اُسے تسلی ہو جاتی ہے کہ وہ محفوظ ہو گیا ہے.پھر کتنی شرم کی بات ہے کہ تم خدا تعالی کی گود میں جاؤ اور پھر دشمن سے ڈرو.کون ہے جو تمہارا کچھ بگاڑ سکتا ہے یا کون سی قوم ہے جو تمہارے مقابلہ میں کھڑی ہو سکتی ہے؟ دنیا کی سب قومیں، دنیا کی سب طاقتیں، دنیا
تذکار مهدی ) 642 روایات سید نا محمود کی سب حکومتیں خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں.وہ جس کا بھی چاہے دل بدل سکتا ہے، اور تمہارے دشمن خواہ کتنا ہی جتھا رکھتے ہوں تمہارے مقابل میں بیچ ہیں کیونکہ تم خدا تعالیٰ کی گود میں ہو اور جو تلوار لے کر تمہارے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ تم پر حملہ نہیں کرتا خدا تعالیٰ پر حملہ کرتا ہے.خدا تعالیٰ لوگوں کے دل تمہاری تائید میں پھر ا دے گا اور سچائی کو لوگوں پر ظاہر کر دے گا.اور یہ مصائب کے بادل فضل کی ہواؤں سے بکھر جائیں گے اور انشاء اللہ تم امن میں آجاؤ گے.“ عورتوں میں لیکچر دینا خطبات محمود جلد 33 صفحہ 242-241) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں ان کی تربیت کے لئے مختلف لیکچر دینے شروع کر دیئے اور کئی دن تک آپ لیکچر دیتے رہے.ایک دن آپ پنے فرمایا کہ ہمیں عورتوں کا امتحان بھی لینا چاہئے تا معلوم ہو کہ وہ ہماری باتوں کو کہاں تک سمجھتی ہیں.باہر سے ایک خاتون آئی ہوئی تھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے پوچھا.بتاؤ مجھے آٹھ دن لیکچر دیتے ہو گئے ہیں.میں نے ان لیکچروں میں کیا بیان کیا ہے وہ کہنے لگی یہی خدا اور رسول کی باتیں آپ نے بیان کی ہیں اور کیا بیان کیا ہے.آپ کو اس جواب سے اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ نے ٹیچروں کا سلسلہ بھی بند کر دیا اور فرمایا ہماری عورتوں میں ابھی اس قسم کی غفلت پائی جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے ابھی وہ بہت ابتدائی تعلیم کی محتاج ہیں.اعلیٰ درجہ کی روحانی باتیں سننے کی ان میں استعداد ہی نہیں.یہی بعض مردوں کا حال ہے.اس کے مقابلہ میں صحابہ کو دیکھو.وہ کس طرح رات اور دن رسول کریم ہے کی باتوں کو سنتے اور پھر ان پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں.انہوں نے آپ کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات کو لیا اور دنیا میں نہ صرف اس کو پھیلا دیا بلکہ اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں ہیں.ان کو پڑھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی جماعت کے اہم ترین فرائض میں سے ہے.مگر یاد رکھو صرف لذت حاصل کرنے کے لئے تم ایسا مت کرو.بلکہ فائدہ اٹھانے اور عمل کرنے کی نیت سے تم ان امور کی طرف توجہ کرو.تم لذت حاصل کرنے کے لئے سارا قرآن پڑھ جاؤ تو تمہیں کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا.لیکن
تذکار مهدی ) 643 روایات سیّد نا محمود نامحمودی اگر تم اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہوئے اس کی محبت کے جوش میں ایک دفعہ بھی سُبحَانَ الله کہہ لو.تو وہ تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجلس میں بیان فرمایا کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کرتے ہیں تو ایک تسبیح سے ہی ہم کہیں کے کہیں جا پہنچتے ہیں.میں اس مجلس میں موجود نہیں تھا.ایک نوجوان نے یہ بات سنی تو وہ وہاں سے اٹھ کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا.خبر نہیں آج حضرت صاحب نے یہ کیا کہا ہے.وہ صاحب تجربہ نہیں تھا مگر میں اس عمر میں بھی صاحب تجربہ تھا.حالانکہ میری عمر اس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی.میں نے جب اس سے یہ بات سنی تو میں نے کہا ہاں ایسا ہوتا ہے وہ کہنے لگا کس طرح میں نے کہا کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ میں نے اپنی زبان سے ایک دفعہ سُبحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں معلوم ہوا جیسے میری روحانیت اڑ کر کہیں سے کہیں جا پہنچی ہے.وہ یہ سنتے ہی نہایت تحقیر سے کہنے لگا.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ.اس کی وجہ یہی تھی کہ اس نے کبھی سنجیدگی سے سُبحَانَ اللہ کے مضمون پر غور ہی نہیں کیا تھا.اسے سارا سارا دن سُبحَانَ اللہ کہہ کر کچھ نہیں ملتا تھا.مگر میں اپنے ذاتی تجربہ کی وجہ سے جانتا تھا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب میں نے سُبحَانَ اللہ کہا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ پہلے میں اور تھا اور اب میں کچھ اور بن گیا ہوں دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی اسی مضمون کو کس عمدگی کے ساتھ بیان کیا ہے.حالانکہ میں نے اس وقت تک بخاری نہیں پڑھی تھی.مگر میرا تجربہ صحیح تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ.دو کلے ایسے ہیں کہ رحمن کو بہت پیارے ہیں.خَفِیفَتَانِ عَلَى اللّسان زبان پر بڑے ہلکے ہیں.انسان ان الفاظ کو نہایت آسانی کے ساتھ نکال سکتا ہے.کوئی بوجھ اسے محسوس نہیں ہوتا.ثَقِيلَتَانِ فِی الْمِيزَانِ.لیکن قیامت کے دن جب اعمال کے وزن کا سوال آئے گا.تو وہ بڑے بھاری ثابت ہوں گے اور جس پلڑے میں ہوں گے اسے بالکل جھکا دیں گے.وہ کیا ہیں.سُبْحَانَ الله وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِیمِ.مجھے ان کلمات کے پڑھنے کی بڑی عادت ہے اور میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ ایک ایک مرتبہ ہی ان کلمات کو کہنے سے میری روح اڑ کر کہیں کی کہیں جا پہنچتی ہے.تو اصل چیز یہی ہے کہ ہم سنجیدگی سے اللہ تعالیٰ کے احکام پر غور کریں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.تم صحابہ کبھی خواہش سے نہیں بن سکتے.تم میرے متعلق خواہ کس قدر سمجھو کہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے
تذکار مهدی ) 644 روایات سید نامحمودی مشابہت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مشابہت ہے.تمہیں خالی ایسا اعتقاد صحابیت کے مقام تک نہیں پہنچا سکتا.صحابہ تم تبھی بنو گے جب تم اپنی قوت عملیہ سے کام لو گے.(خطبات محمود جلد 25 صفحہ 118 تا121) قصہ ریچھ سے دوستی کا ہماری جماعت کا فرض ہے کہ اخلاق کو دنیا میں قائم کرے اس لئے اس حالت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے ممکن ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوں جو کہہ دیں کہ یہ لوگ اپنے ملک کی خیر خواہی کر رہے ہیں ہمیں انہیں برا کہنے کی کیا ضرورت ہے مگر یہ خیر خواہی ویسی ہی ہے جیسے ایک قصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص کی ریچھ کے ساتھ دوستی تھی اور جس طرح لوگ کرتے اور دوسرے جانوروں کو سدھا لیتے ہیں اُس نے اِسے سدھایا ہو ا تھا.اس شخص کی ماں سورہی تھی اور کچھ بیٹھا اس کی لکھیاں اڑا رہا تھا ایک مکھی بار بار آ کر بیٹھتی تھی جسے وہ بار بار اُڑانے سے تنگ آ گیا آخر اس نے ایک پتھر اٹھا کر مارا جس سے ماں بھی مر گئی.پس یہ خیر خواہی بھی اس ریچھ کی خیر خواہی سے مشابہ ہے.اگر حکومت کے حصول کے لئے ضمیر کو تباہ کر لیا جائے تو آئندہ نسل چوروں، ڈاکوؤں اور فریبیوں کی پیدا ہوگی.(خطبات محمود جلد نمبر 12 صفحہ 548) پرانی حکایتیں سبق حاصل کرنے کے لئے ہوتی ہیں دوستی کے معنی یہ ہیں کہ ایک انسان دوسرے دوست کے کام آئے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کی عارضی تکلیف کو دائمی تکلیف پر مقدم کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص کا ریچھ سے دوستانہ تھا.اس نے اسے پالا تھا یا کسی مصیبت کے وقت اس پر احسان کیا تھا.اس وجہ سے وہ اس کے پاس بیٹھا کرتا تھا.یہ گویا ایک حکایت ہے جو حقیقت بیان کرنے کی غرض سے بنائی گئی ہے.اگر چہ ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ آدمی ریچھ وغیرہ جانوروں کو پال کر اپنے ساتھ ہلا لیتا ہے.مگر جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی حکایت روایت کرتا ہوں تو اس کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت بیان کرنے کی غرض سے ایک قصہ ہے یہ میں اس لئے کہ رہا ہوں کہ تا دشمن یہ اعتراض نہ کرے کہ یہ ایسے بے وقوف لوگ ہیں کہ سمجھتے ہیں ریچھ انسانوں کے پاس آ کر بیٹھتے ہیں.یہ پرانی حکایتیں سبق حاصل
645☀ تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود کرنے کے لئے ہوتی ہیں اور ان سے مراد ایسے خصائل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں.مثلاً پرانی حکایتوں میں بادشاہ کے دربار کو شیر کا دربار اور اس کے امراء و وزارء کو دوسرے جانوروں کی صورت میں پیش کیا جاتا تھا اور اس طرح وہ بادشاہ بھی جس کے متعلق بات ہوتی نہایت مزے لے لے کر پڑھتا.خیر تو ریچھ اس آدمی کا دوست تھا اور اس کے پاس آتا تھا.ایک دن اس کی والدہ بیمار پڑی تھی اور وہ پاس بیٹھا پنکھا ہلا رہا اور مکھیاں اڑا رہا تھا.اتفاقاً اسے کسی ضرورت کے لئے باہر جانا پڑا اور اس نے ریچھ کو اشارہ کیا کہ تم ذرا مکھیاں اڑاؤ میں باہر ہو آؤں ریچھ نے اخلاص سے یہ کام شروع تو کر دیا مگر انسان اور حیوان کے ہاتھ میں فرق ہوتا ہے اور حیوان ایسی آسانی سے ہاتھ نہیں ہلا سکتا جتنی آسانی سے انسان ہلا سکتا ہے.وہ مکھی اڑائے لیکن وہ پھر آ بیٹھے پھر اڑائے پھر آ بیٹھے.اس نے خیال کیا مکھی کا بار بار آ کر بیٹھنا میرے دوست کی ماں کی طبیعت پر بہت گراں گزرتا ہو گا.چنانچہ اس کا علاج کرنے کے لئے اس نے ایک بڑا سا پتھر اٹھایا اور اسے دے مارا تا مکھی مر جائے.لیکھی تو مر گئی مگر ساتھ ہی اس کے دوست کی ماں بھی کچلی گئی.یہ ایک مثال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض نادان کسی سے دوستی کرتے ہیں مگر دوستی کرنے کا ڈھنگ نہیں جانتے.وہ بعض دفعہ خیر خواہی کرتے ہیں مگر ہوتی دراصل تباہی ہے.اگر اپنے دوست کے بچے خیر خواہ ہوتے تو بے ایمانی کی طرف نہ لے جاتے بلکہ اگر اسے اس طرف مائل بھی دیکھتے تو اسے روکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی کا نقشہ کیا خوب کھینچا ہے.فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا بات ہے کیا ہم ظالم کی مدد بھی کیا کریں.آپ نے فرمایا جب تو ظالم کا ہاتھ ظلم سے روکے تو تو اس کی مدد کرتا ہے.گویا فرمایا اصل مدد کے معنی یہ نہیں کہ کسی کی منشاء کے مطابق چلتے جاؤ بلکہ یہ ہیں کہ اس کے فائدہ کے لئے اس کے خلاف بھی چلنا پڑے تو چلو اور بجائے اس کے کہ اس کے ساتھ مل کر ظلم کروا سے بھی اس سے روکو اگر تم ایسا نہیں کرتے تو اسے تباہ کرتے ہو.پس صحیح دوستی وہی ہے جو سمجھ اور عقل سے ہو.(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 205-204) تلوار کے زخم سے زبان کا زخم بہت زیادہ شدید ہوتا ہے تم تجربہ کر کے دیکھ لو گندے اخلاق کے آدمی کو ذرا دق کرو، فوراً گالیاں دینا شروع کر دے گا.لیکن اگر وہ تلوار چلانے والا ہوگا تو گالیاں نہیں دے گا بلکہ لڑنے لگ جائے گا اسی لئے جو
تذکار مهدی ) 646 روایات سید نامحمودی قو میں قتل کرتی ہیں ان میں گالیاں دینے کی عادت کم ہوتی ہے اور جو قتل نہیں کرتیں اُن میں گالیاں دینے کی عادت زیادہ ہوتی ہے.پس در حقیقت گالی قتل کے قائم مقام ہوتیں ہیں اور اس میں کیا شبہ ہے کہ بعض دفعہ گالی کا زخم تلوار کے زخم سے بہت سخت ہوتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی ریچھ تھا، اس کا ایک آدمی سے دوستانہ تھا.اس کی بیوی ہمیشہ اسے طعن کیا کرتی تھی کہ تو بھی کوئی آدمی ہے، تیرار کچھ سے دوستانہ ہے.ایک دن اس کی دلآزار گفتگو اس قدر بڑھ گئی اور ایسی بلند آواز سے اس نے کہنا شروع کیا کہ ریچھ نے بھی سن لیا.ریچھ نے تب ایک تلوار لی اور اپنے دوست سے کہا.یہ تلوار میرے سر پر مار ( اس گفتگو کے متعلق حیرت نہیں ہونی چاہئے یہ صرف ایک کہانی ہے یہ بتانے کے لئے کہ کوئی آدمی ریچھ کی شکل کا ہوتا ہے اور کوئی انسان کی صورت کا) اس شخص نے بہتیرا انکار کیا.مگر ریچھ نے کہا کہ ضرور میرے سر پر مار.آخر اس نے تلوار اٹھائی اور ریچھ کے سر پر ماری.وہ لہولہان ہو گیا اور جنگل کی طرف چلا گیا.ایک سال کے بعد پھر اپنے دوست کے پاس آیا اور کہنے لگا، میرا سر دیکھ کہیں اس زخم کا نشان ہے؟ اس نے دیکھا تو کہیں زخم کا کوئی نشان دکھائی نہ دیا.تب ریچھ نے کہا بعض جنگل میں کوٹیاں ہوتی ہیں.میں نے علاج کیا اور زخم اچھا ہو گیا.لیکن تیری بیوی کے قول کا زخم آج تک ہرا ہے.تو بعض اوقات تلوار کے زخم سے زبان کا زخم بہت زیادہ شدید ہوتا ہے اور یہ تلوار ایسا زخم لگاتی ہے جو کبھی بھولنے میں نہیں آتا.پس گولوہے کی تلوار چھین لی گئی لیکن چونکہ اخلاق درست نہ تھے اس لئے انہوں نے ایسی تلوار تلاش کی جو پر امن حکومت میں رہتے ہوئے مخالف پر چلا سکیں اور چونکہ لوہے کی تلوار ان سے لے لی گئی تھی اس لئے انہوں نے زبان کی تلوار چلانی شروع کر دی.(خطبات محمود جلد 14 صفحہ 32-31 ) | کہانیاں سنانا، تعلیم کا بہترین ذریعہ بچپن کی حالت کے لئے جو لوازم مخصوص ہیں کوئی بچہ خواہ بڑا ہوکر نبی ہونے والا ہو وہ بھی اُن میں سے ضرور گزرے گا اور اس کی یہ حالت بعد کی زندگی میں اُس کے لئے کسی اعتراض کا موجب نہیں ہو سکتی.پس اس عمر میں ورزش کے ذریعہ بچہ کی تربیت اشد ضروری ہے اور اسے کلی طور پر دماغی کام میں لگا دینا خطر ناک ہوتا ہے اس زمانہ میں اس کی صحیح تربیت کا طریق وہی
تذکار مهدی ) 647 روایات سید نامحمود ہے جو اسے کھیل کو دسکھائے پہلے تو جب وہ بہت چھوٹا ہو کہانیوں کے ذریعہ اس کی تربیت ضروری ہوتی ہے.بڑے آدمی کے لئے تو خالی وعظ کافی ہوتا ہے.لیکن بچپن میں دلچسپی قائم رکھنے کے لئے کہانیاں ضروری ہوتی ہیں.یہ ضروری نہیں کہ وہ کہانیاں جھوٹی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے کبھی حضرت یوسٹ کا قصہ بیان فرماتے کبھی حضرت نوح کا قصہ سناتے اور کبھی حضرت موسیٰ کا واقعہ بیان فرماتے مگر ہمارے لئے وہ کہانیاں ہی ہوتی تھیں.گو وہ تھے سچے واقعات ایک حاسد ومحسود کا قصہ الف لیلہ میں ہے وہ بھی سنایا کرتے تھے.وہ سچا ہے یا جھوٹا بہر حال اس میں ایک مفید سبق ہے.اسی طرح ہم نے کئی ضرب الامثال جو کہانیوں سے تعلق رکھتی ہیں آپ سے سنی ہیں پس بچپن میں تعلیم کا بہترین ذریعہ کہانیاں ہیں.گو بعض کہانیاں بے معنی اور بے ہودہ ہوتی ہیں.مگر مفید اخلاق سکھانے والی اور سبق آموز کہانیاں بھی ہیں اور جب بچہ کی عمر بہت چھوٹی ہو تو اس طریق پر اسے تعلیم دی جاتی ہے پھر جب وہ ذرا ترقی کرے تو اس کے لئے تعلیم و تربیت کی بہترین چیز کھیلیں ہیں کتابوں کے ساتھ جن چیزوں کا علم دیا جاتا ہے.کھیلوں سے عملی طور پر وہی تعلیم دی جاتی ہے.مگر کہانیوں کا زمانہ کھیل سے نیچے کا زمانہ ہے.لیکن کوئی عقل مند کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچوں کو کہانیاں سنانا یا کہانیاں بتانا کلی طور پر کسی جاہل کے سپر د کر دیا جائے یا بچوں ہی کے سپر د کر دیا جائے بلکہ اس کام پر ہر قوم کے بڑے بڑے ماہرین فن لگے رہتے ہیں دنیا کے بہترین مصنف جو لاکھوں روپے سالانہ کماتے ہیں وہ کہانیاں ہی لکھتے ہیں.الفضل 28 / مارچ 1939 ء جلد 27 نمبر 71 صفحہ (2) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو کہانیاں بھی سنایا کرتے تھے ورزش کے شعبہ کو مفید بلکہ مُفید ترین بنایا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس میں تین باتوں کا خیال رکھا جائے.ایک تو یہ کہ وہ آئندہ زندگی میں بھی مفید ثابت ہونے والی ہوں نہ صرف بچپن میں بلکہ بڑے ہو کر بھی فائدہ دینے والی ہوں.بچپن میں کھیل کا جو فائدہ ہوتا ہے وہ بھی حاصل ہو، جسم بھی مضبوط ہو اور ذہن بھی ترقی کرے.بچپن میں جو کہانیاں بچوں کو سنائی جاتی ہیں.ان کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے.کہ بچہ شور نہ کرے اور ماں باپ کا وقت ضائع نہ کرے.
تذکار مهدی ) 6648 روایات سید نا محمود لیکن اگر وہ کہانیاں ایسی ہوں جو آئندہ زندگی میں بھی فائدہ دیں.تو یہ کتنی اچھی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں کہانیاں سنایا کرتے تھے.کہانیاں سنانے کا جو فائدہ اس وقت ہوتا ہے.وہ بھی ان سے حاصل ہوتا تھا.اگر اس وقت آپ وہ کہانیاں نہ سناتے.تو پھر ہم شور مچاتے اور آپ کام نہ کر سکتے تھے.پس یہ ضروری ہوتا کہ ہمیں کہانیاں سنا کر چپ کرایا جاتا اور یہی وجہ تھی کہ رات کے وقت ہماری دلچسپی کو قائم رکھنے کے لئے آپ بھی جب فارغ ہوں.کہانیاں سنایا کرتے تھے.تاہم سو جائیں اور آپ کام کر سکیں.بچہ کو کیا پتہ ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ کتنا بڑا کام کر رہے ہیں.اسے تو اگر دلچسپی کا سامان مہیا نہ کیا جائے.تو وہ شور کرتا ہے اور کہانی سنانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بچے سو جاتے ہیں اور ماں باپ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں اور کہانیوں کی یہ ضرورت ایسی ہے جسے سب نے تسلیم کیا ہے.گو وہ عارضی ضرورت ہوتی ہے.اس وقت اس کا فائدہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ بچہ کو ایسی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ محو ہو کر سو جاتا ہے.ماں باپ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہمارا وقت ضائع نہ ہو.اس لئے وہ اسے لٹا کر کہانیاں سناتے ہیں.یا ان میں سے ایک اسے سناتا ہے اور دوسرا کام میں لگا رہتا ہے.یا پھر ایک سناتا ہے اور باقی خاندان آرام سے کام کرتا ہے.اگر اس وقت فضول اور لغو کہانیاں بھی سنائی جائیں.تو یہ مقصد حاصل ہو جاتا ہے.مگر ہم اس پر خوش نہیں ہوتے.بلکہ چاہتے ہیں کہ ایسی کہانیاں اسے سنائیں کہ اس وقت بھی فائدہ ہو یعنی ہمارا وقت بچ جائے اور پھر وہ آئندہ عمر میں بھی اُسے فائدہ پہنچا ئیں اور جب کہانیوں کے متعلق یہ کوشش کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ کھیل کے معاملہ میں بچوں کو یونہی چھوڑ دیں.بچوں کو سبق آموز کہانیاں سنانا الفضل 28 / مارچ 1939 ء جلد 27 نمبر 71 صفحہ 4-3 ) | بچپن میں ہمیں کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہتے تو آپ ہمیں ایسی کہانیاں سناتے جنہیں سن کر عبرت حاصل ہوتی.انہی کہانیوں میں سے ایک کہانی مجھے اس وقت یاد آگئی جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے میں نے سنا.آپ فرماتے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں طوفان اس وجہ سے آیا کہ لوگ اُس وقت بہت گندے ہو گئے تھے اور گناہ کرنے لگ گئے تھے.وہ جوں جوں اپنے گناہوں میں بڑھتے
تذکار مهدی ) 649 روایات سید نامحمود جاتے خدا تعالی کی نگاہ میں ان کی قیمت گرتی جاتی.آخر ایک دن ایک پہاڑی کی چوٹی پر کوئی درخت تھا اور وہاں گھونسلے میں چڑیا کا ایک بچہ بیٹھا ہوا تھا اُس بچے کی ماں کہیں گئی اور پھر واپس نہ آسکی شاید مرگئی یا کوئی اور وجہ ہوئی کہ نہ آئی.بعد میں اس چڑیا کے بچہ کو پیاس لگی اور وہ پیاس سے تڑپنے لگا اور اپنی چونچ کھولنے لگا تب خدا تعالیٰ نے یہ دیکھ کر اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور زمین پر پانی برساؤ اور اتنا برساؤ کہ اس پہاڑ کی چوٹی پر جو درخت ہے اُس کے گھونسلہ تک پہنچ جائے تا کہ چڑیا کا بچہ پانی پی سکے.فرشتوں نے کہا خدایا! وہاں تک پانی پہنچانے میں تو ساری دنیا غرق ہو جائے گی.خدا تعالیٰ نے جواب دیا کوئی پرواہ نہیں اس وقت دنیا کے لوگوں کی میرے نزدیک اتنی بھی حیثیت نہیں جتنی اُس چڑیا کے بچہ کی حیثیت ہے.اس کہانی میں یہی سبق سکھایا گیا ہے جو بالکل درست ہے کہ صداقت اور راستی سے خالی دنیا ساری کی ساری مل کر بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک ایک چڑیا کے بچہ جتنی حیثیت نہیں رکھتی.تو پھر بتاؤ کہ ایک یا چند انسانوں کی صداقت کے مقابلہ میں کیا حیثیت ہو سکتی ہے.(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 679،678) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کو لطائف بھی سنایا کرتے تھے.اخلاقی تعلیم وہ ہے جو قرآن سکھاتا ہے کہ اگر مارکھانے میں فائدہ ہو تو مار کھا اور اگر مارنے میں فائدہ ہو تو مار بہر حال جس سے دنیا کو فائدہ پہنچتا ہو جس سے لوگوں میں امن قائم ہوتا ہو جس سے دوسرے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہو وہ کام کر نہ مار کھانا اچھا ہے نہ مارنا اچھا ہے ہاں وہ چیز اچھی ہے جو اپنے موقعہ پر کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ کہیں شیر اور بھیڑیا میں بحث ہو گئی کہ سردی پوہ ہوتی ہے یا ماگھ میں.خوب لڑے شیر کہے پوہ میں ہوتی ہے، بھیڑیا کہے ماگھ میں ہوتی ہے.آخر بڑی دیر بحث کرنے کے بعد انہوں نے کہا گیدڑ کو بلاؤ اور اس سے فیصلہ چاہو.گیدڑ بیچارہ آیا اس کے لئے وہ بھی مار کھنڈ تھا اور یہ بھی مار کھنڈ.اس کی بات کہے تو وہ مارے.اس کی بات کہے تو یہ مارے.آخر کہنے لگا ٹھہر جاؤ سوچ لوں.سوچ سوچ کر کہنے لگا.سنو سنگھ سردار بگھیاڑ راجی نہ پالا پوہ نہ پالا ماگھ پالا واجی
تذکار مهدی ) 650 روایات سید نا محمود یعنی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو سردی ہو جاتی ہے.ورنہ سردی نہ پوہ میں ہے نہ ماگھ میں.ربوہ میں تو یہی ہوتا ہے کہ ہوا چلتی ہے تو ہم ٹھٹھر نے لگ جاتے ہیں اور ہوا بند ہوتی ہے تو رات کے وقت دروازے کھول دیتے ہیں.تو اصل چیز یہی ہے کہ کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر جب تک تھپڑ نہ ماریں.اس کی اصلاح نہیں ہوتی اور کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ مارنا اس کے الفضل 4 رمئی 1960ءجلد 49/14 نمبر 100 صفحہ 3) مضر ہو جاتا ہے.حضرت اماں جان بچوں کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں ہم جب بچے تھے تو حضرت اماں جان ہمیں کہانی سنایا کرتیں تھیں کہ ایک جولاہا کہیں کھڑا تھا کہ بگولا اُٹھا اور وہ اس کی لپیٹ میں اُڑتے اڑتے کسی شہر کے پاس آ گرا.اس شہر میں ایک نیم پاگل بادشاہ رہا کرتا تھا اور اُس کی ایک خوبصورت لڑکی تھی.کئی شہزادوں نے رشتہ کی درخواست کی مگر اس نے سب درخواستوں کو رد کر دیا اور کہا کہ میں اپنی لڑکی کی شادی کسی فرشتہ سے کروں گا جو آسمان سے اُترے گا کسی اور کو رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں.جوں جوں دن گزرتے گئے لڑکی کی عمر بھی بڑی ہوتی گئی ایک دن وہ جولاہا بگولے کی لپیٹ میں جو اُس شہر کے قریب آ کر ننگ دھڑنگ گرا تو لوگ دوڑتے ہوئے بادشاہ کے پاس گئے اور کہنے لگے کہ حضور! آسمان سے فرشتہ آ گیا ہے اب اپنی لڑکی کی شادی کر دیں.بادشاہ نے اپنی لڑکی کی جولا ہے سے شادی کر دی وہ پہاڑی آدمی تھا نرم نرم گدیلوں اور اعلیٰ اعلیٰ کھانوں کو وہ کیا جانتا تھا اُسے تو سب سے بہتر یہی نظر آتا تھا کہ زمین پر ننگے بدن سوئے اور روکھی سوکھی روٹی کھا لے مگر جب بادشاہ کا داماد بنا تو اُس کی خاطر تواضع بڑھنے گی نوکر کبھی اس کے لئے پلاؤ پکا ئیں کبھی زردہ پکائیں، کبھی مرغا تیار کریں، پھر جب بستر پر لیٹے تو نیچے بھی گدے ہوتے اور او پر بھی اور کئی خادم اسے دبانے لگ جاتے.کچھ عرصہ کے بعد وہ اپنی ماں سے ملنے کے لئے آیا ماں نے اُسے دیکھا تو گلے سے چمٹا لیا اور رونے لگی کہ معلوم نہیں اتنے عرصہ میں اس پر کیا کیا مصیبتیں آئی ہوں گی.جولاہا بھی چینیں مار مار کر رونے لگ گیا اور کہنے لگا اماں! میں تو بڑی مصیبت میں مبتلا رہا ایک ایک دن گزارنا میرے لئے مشکل تھا کوئی ایک تکلیف ہو تو بیان کروں میرے تو پور پور میں دکھ بھرا ہوا ہے.اماں! کیا بتاؤں مجھے صبح شام لوگ کیڑے پکا کر کھلاتے (چاول جو اسے کھانے کے لئے دیے جاتے تھے اُن کا نام اُس نے کیٹرے رکھ دیا) پھر وہ نیچے بھی روئی رکھ دیتے اور اوپر بھی اور
تذکار مهدی ) ا 651 روایات سید نا محمودی مجھے مارنے لگ جاتے یعنی دبانے کو اُس نے مارنا قرار دیا اس طرح ایک ایک کر کے اُس نے سارے انعامات گنانے شروع کئے ماں نے یہ سنا تو چیچنیں مار کر رونے لگ گئی اور کہنے لگی ہے بہت تجھ پہ یہ یہ دکھ ، یعنی اتنی چھوٹی سی جان اور یہ یہ مصیبتیں.یہی حال بعض واقفین کا ہے کہ جماعتیں ان کو گلے لپٹاتی ہیں سینہ سے لگاتی ہیں اور کہتی ہیں ” ہے پت تجھ پہ یہ یہ دکھا“.بہر حال ہمیں واقف چاہئیں مگر بُزدل اور پاگل واقف نہیں بلکہ وہ ہر قسم کے شدائد کو خوشی کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں.میں جہاں واقفین میں سے اس حصہ کی مذمت کرتا ہوں وہاں میں دوسرے حصہ کی تعریف کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا.خدا تعالیٰ کے فضل سے نوجوانوں میں ایسے واقفین زندگی بھی ہیں جنہیں ہر قسم کے خطرات میں ہم نے ڈالا مگر اُنہوں نے ذرا بھی پرواہ نہیں کی، وہ پوری مضبوطی کے ساتھ ثابت قدم رہے اور انہوں نے دین کی خدمت کے لئے کسی قسم کی قربانی پیش کرنے سے دریغ نہیں کیا.تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے اغراض و مقاصد، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 288 تا 290 ) اندھے کی کہاوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کوئی اندھا تھا.جو رات کے وقت کسی دوسرے سے باتیں کر رہا تھا ایک اور شخص کی نیند خراب ہو رہی تھی.وہ کہنے لگا حافظ جی سو جاؤ.حافظ صاحب کہنے لگے.ہمارا سونا کیا ہے.چپ ہی ہو جاتا ہے.مطلب یہ کہ سونا آنکھیں بند کرنے اور خاموش ہو جانے کا نام ہوتا ہے.میری آنکھیں تو پہلے ہی بند ہیں.اب خاموش ہی ہو جانا ہے اور کیا ہے.تو مومن کے لئے یہ حالات تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتے.کیونکہ وہ کہتا ہے میں تو پہلے ہی ان حالات کا عادی ہوں.جیسے مومن کو دنیا مارنا چاہتی ہے.تو وہ کہتا ہے مجھے مار کر کیا لو گے.میں تو پہلے ہی خدا کے لئے مرا ہوا ہوں.دنیا موت سے گھبراتی ہے.مگر ایک مومن کو جب دنیا مارنا چاہتی ہے.تو وہ کچھ بھی نہیں گھبراتا.اور کہتا ہے.میں تو اسی دن مر گیا تھا.جس دن میں نے اسلام قبول کیا تھا.فرق صرف یہ ہے کہ آگے میں چلتا پھرتا مردہ تھا اور اب تم مجھے زمین کے نیچے دفن کر دو گے.میرے لئے کوئی زیادہ فرق پیدا نہیں ہوگا.پس اگر لوگ اسلام کے احکام کے ماتحت اپنی زندگی بسر کرنے کی کوششیں کریں تو وہ یقینا اس قسم کے حالات کے مقابلہ کے لئے پہلے سے تیار رہیں.(الفضل 23 رمئی 1943 ء جلد 31 نمبر 121 صفحہ 6)
تذکار مهدی ) بچوں کو کہانیاں سنانا 652 روایات سید نا محمود گویا والدین کی غفلت کی وجہ سے جماعت کی آئندہ نسل تباہ ہو رہی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے.اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ بیوقوف اور جاہل ماؤں کے قدموں میں بھی جنت ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگر مائیں اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں اسلامی اخلاق سکھائیں تو وہ انہیں جنتی زندگی کا وارث بنا سکتی ہیں لیکن اگر وہ اپنے بچوں پر مناسب دباؤ نہیں ڈالتیں ، وہ ان کی تربیت نہیں کرتیں تو ان کی اگلی نسل جنت سے دور ہو جائے گی.گویا بچوں کو جنت یا دوزخ میں ڈالنا ماں باپ کے اختیار میں ہے.پس ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خدا تعالیٰ کے احکام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے باخبر رکھیں ، صحابہ کی فضیلت اُن پر واضح کریں، بزرگوں کا تذکرہ اُن کے سامنے کرتی رہیں.اور اگر ضرورت سمجھیں تو کہانیوں کے ذریعہ خدا اور رسول کی باتیں ان کے ذہن نشین کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی کبھی ہمیں فرمایا کرتے تھے کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں کہانی سناتا ہوں.وہ کہانی کیا ہوتی تھی یہی بزرگوں کے واقعات ہوتے تھے جن کا نام کہانی رکھ لیا جاتا تھا اور ہم دلچسپی سے اُسے سنتے تھے بلکہ بعض دفعہ ہم پیچھے پڑ جاتے تھے کہ ابھی کہانی پوری نہیں ہوئی.غرض اس طرح بھی دینی باتیں سکھائی جاسکتی ہیں.اگر بچوں کو یہ کہا جائے کہ آؤ تمہیں نماز سکھا ئیں تو وہ اسے سبق سمجھ لیتے ہیں لیکن اگر یوں کہا جائے کہ ایک بزرگ تھے ، وہ نبیوں کے سردار تھے، وہ خدا کی بڑی عبادت کیا کرتے تھے اور پھر بتایا جائے کہ وہ یوں عبادت کرتے تھے تو اس طرح بچوں کو ساری نماز یاد ہو جائے گی اور پھر وہ اسے کہانی کی کہانی سمجھیں گے.اسی طرح تاریخ اسلامی ، آداب اور اخلاق وغیرہ بچوں کو سکھائے جائیں.اسی لیے میں نے کتابوں کا ایک کورس مقرر کیا تھا اور جماعت کے علماء کو توجہ دلائی تھی کہ وہ بچوں کے لیے تربیتی مسائل پر مختلف کتب لکھیں.اس وقت سات آٹھ پروفیسر جامعتہ المبشرین میں ہیں، چار پانچ جامعہ احمدیہ میں ہیں.یہ گیارہ آدمی اگر ہر چھ ماہ میں ایک کتاب بھی لکھتے تو اڑھائی سال میں پچپن کتابیں لکھ لیتے.ہائی سکول میں تھیں کے قریب استاد ہیں ، کالج میں ہیں پروفیسر یا لیکچرار ہیں، ساٹھ کے قریب مبلغ ہیں.گویا ایک سو دس یہ ہیں.اگر یہ لوگ ایک ایک کتاب فی سال بھی لکھتے تو
تذکار مهدی ) 653 روایات سید نامحمود تین سال میں تین سو تیں کتابیں لکھ لیتے.بچوں کے لیے کتابیں لکھنا کونسی مشکل بات ہے.لیکن یہ لوگ یہ تو کوشش کرتے ہیں کہ یونیورسٹی انہیں پرچے دیکھنے کے لیے بھیج دے اور انہیں کچھ پیسے مل جائیں لیکن اس طرف توجہ نہیں کرتے کہ وہ علمی اور اخلاقی اور تربیتی کتابیں لکھیں حالانکہ ہم نے بھی اُن کے معاوضہ میں ایک رقم مقرر کی ہوئی ہے.اندھا دھند قانون بنا دینا درست نہیں ہوتا ( خطبات محمود جلد 32 صفحہ 153-152 ) پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور سمجھ سوچ سے کام لیتے ہوئے ہر کام کو پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ چلانے کی کوشش کرو.اندھادھند قانون بنا دینا کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کسی قانون کے متعلق یہ ثابت نہ ہو جائے کہ یہ واقعی مفید ہے اور ہر جگہ جاری کیا جا سکتا ہے.اسی طرح اندھا دھند قانون بنانے والوں کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مثل سنایا کرتے تھے کہ ایک ملا تھا اور اُس کے ساتھ اُس کا کنبہ بھی تھا وہ دریا کے کنارے کشتی پر سوار ہونے کے لئے آئے ملاح اُن کے لئے کشتی لینے گیا کشتی چونکہ کنارے کے پاس ہی تھی ملا نے دیکھا کہ ملاح کے ٹخنوں تک پانی آتا ہے اور دریا کی چوڑائی اتنی ہے اس لحاظ سے زیادہ سے زیادہ پانی کمر تک آجائے گا حالانکہ دریا کے متعلق اس قسم کا اندازہ لگا نا حد درجے کی حماقت ہے کیونکہ دریا میں اگر ایک جگہ ٹخنے تک پانی ہو تو اُس کے ساتھ ہی ایک فٹ کے فاصلہ پر بانس کے برابر ہو سکتا ہے مگر اُس ملا نے اربعہ سے نتیجہ نکالا کہ پانی کمر تک آئے گا.یہ خیال کرتے ہوئے اُس نے کشتی کا خیال چھوڑ دیا اور سب بیوی بچوں کو لے کر دریا عبور کرنے لگا.ابھی تھوڑی دُور ہی گیا تھا کہ پانی بہت گہرا ہو گیا اور سب غوطے کھانے لگے خود تو وہ تیرنا جانتا تھا اس لئے اُس نے اپنی جان بچالی مگر بیوی بچے سب ڈوب گئے.دوسرے کنارے پر پہنچ کر پھر اربعہ لگانے لگا کہ شاید پہلے میں نے اربعہ لگانے میں کوئی غلطی کی ہے لیکن دوبارہ وہی نتیجہ نکلا تو وہ کہنے لگا کہ اربعہ نکلا جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں.پس بعض حالات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں اربعہ نہیں لگایا جاسکتا ہر ایک چیز کا اندازہ الگ الگ طریقہ پر کیا جاتا ہے اور ہر ایک بیماری کا علاج الگ الگ ہوتا ہے، خالی قانون بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک حالات کو مدنظر نہ رکھا جائے.مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 204)
تذکار مهدی ) بھیڑئیے اور بکری کی مثال 654 روایات سید نا محمود مشہور ہے کہ ایک بھیڑیا اور بکری کا بچہ ایک ندی پر پانی پی رہے تھے.بھیڑیا اس طرف تھا جس طرف سے پانی آ رہا تھا.بھیڑیے نے جب اس کا نرم نرم گوشت دیکھا تو اس کا جی چاہا کہ اسے کھالے چنانچہ اس نے غصہ سے اسے کہا کہ تم میرے پانی کو گدلا کیوں کر رہے ہو؟ بکری کے بچہ نے کہا کہ حضور! میں پانی گدلا نہیں کر رہا کیونکہ پانی تو آپ کی طرف سے آرہا ہے.اس پر بھیڑیے نے اس کے زور سے تھپڑ مارا اور یہ کہتے ہوئے اُسے چیر پھاڑ دیا کہ کم بخت! آگے سے جواب دیتا ہے.گویا پہلے اس نے ایک غلط دلیل دی اور جب اسے اپنی غلطی کی طرف توجہ دلائی گئی تو اس نے دوسرا بہانہ بنالیا کہ آگے سے جواب دیتا ہے اور اسے مارڈالا.یہی حال احمدیت کے دشمنوں کا ہے.جب ان کے سوالوں کا ہماری جماعت کے دوست جواب دیتے ہیں تو وہ شور مچا دیتے ہیں کہ ہمیں اشتعال دلاتے ہیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ کیا تو مولویوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار بار ان لوگوں سے کہا کہ میرا کیا قصور ہے میں تو اسلام کی تعلیم ہی پیش کرتا ہوں.مگر مولوی اپنی مخالفت میں بڑھتے چلے گئے.چنانچہ 1891ء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے سارے ملک کا دورہ کیا اور مولویوں سے کفر کا فتویٰ لے کر شائع کروایا.جس میں آپ کو کافر، مرتد ، دجال ،نمرود، شداد، فرعون اور ابلیس وغیرہ کہا گیا.پھر یہ بھی کہا گیا کہ ان کی عورتیں بھگا لینا جائز ہے.ان کی اولا د ولد الزنا ہے اور ان کو مسجدوں میں داخل ہونے دینا منع ہے.بلکہ قبرستانوں میں ان کو دفن کرنے کی بھی اجازت نہیں.غرض جو کچھ ممکن تھا وہ انہوں نے کیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ میں تو اسلام کو زندہ کرنے کے لیے آیا ہوں.تم کیوں میرے پیچھے پڑ گئے ہو؟ میں تمہارا کیا بگاڑتا ہوں ؟ مگر اس پر بھی لوگ باز نہ آئے اور وہ متواتر دس سال تک گالیاں دیتے چلے گئے.اس پر 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان فرمایا کہ اس حدیث کے مطابق کہ ایک مسلمان کو کافر کہنے والا خود کا فر ہو جاتا ہے.مجھے کافر قرار دینے والے خود کافر ہو چکے ہیں.یہ سن کر مولویوں نے پھر شور مچا دیا کہ ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور یہی شور اب تک مچایا جا رہا ہے.کوئی نہیں سوچتا کہ پہلے فتوے لگانے والے کون تھے اور انہوں نے ہم کو کیا کچھ کہا.ہم نے
تذکار مهدی ) 655 روایات سید نامحمود تو اس کا 1/80 حصہ بھی کسی کو کچھ نہیں کہا.جس قدر کہ ان مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں کہا ہے مگر پھر بھی یہ سیخ پا ہوئے جاتے ہیں.اگر ہم کو کافر ، دجال، ملحد ، ابلیس ، شداد، فرعون اور ابوجہل وغیرہ کہنا اُن کے لیے جائز ہو گیا تھا.تو کیا ان کے ایسا کہنے سے اشتعال پیدا نہ ہوتا تھا؟ حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر گھمنڈ ہے.جیسے بھیڑیے نے بکری کے بچے کو کہا تھا کہ آگے سے جواب دیتا ہے؟ وہی سلوک ہمارے ساتھ کیا جارہا ہے.لمصل (اسح کراچی 13 اکتوبر 1953ء جلد 6 نمبر 163 صفحہ 3) چھوٹے بچوں کی دلداری حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں ایک لڑکی تھی.جواب فوت ہوگئی ہے.اُس کی آنکھیں کمزور تھیں.اُس کے والد کثرت سے قادیان آتے تھے اور اکثر ہمارے گھروں میں ہی رہتے تھے.اُس کی آنکھ کا پوٹا جھکا ہوا تھا اور وہ بڑی کوشش سے پپوٹے اٹھا کر دیکھ سکتی تھی اور بڑی عمر تک اس کا یہی حال تھا.میں نے اسے ادھیڑ عمر تک دیکھا ہے.اُسے پہلے سے تو آرام تھا لیکن پھر بھی وہ بڑی مشکل سے دیکھتی تھی.چونکہ اُس کی آنکھوں میں نقص تھا اور وہ دوسرے کو دیکھ نہیں سکتی تھی اس لیے وہ بچپن میں سمجھتی تھی کہ لوگ بھی اُسے نہیں دیکھتے.اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ضروری کتاب لکھ رہے تھے.آپ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ بچے آپ کو ستائیں نہیں تا کتاب کا مضمون خراب نہ ہو.ہم تو ایسی عمر کے تھے کہ یہ بات سمجھ سکتے تھے.میری عمر اس وقت پندرہ سولہ سال کی تھی ، میاں بشیر احمد صاحب دس گیارہ سال کے تھے اور میاں شریف احمد صاحب آٹھ نو سال کے تھے.اس لیے ہم تو سمجھ سکتے تھے کہ ہمارے وہاں جانے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کام میں حرج واقع ہوگا.لیکن ہماری چھوٹی بہن امتہ الحفیظ بیگم جو میاں عبداللہ خاں صاحب سے بیاہی ہوئی ہیں ڈیڑھ دوسال کی تھیں وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتی تھیں.اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مٹھائی منگوا کر اپنے پاس رکھ لیتے تھے.جب امتہ الحفیظ بیگم باتیں شروع کر دیتیں تو آپ انہیں مٹھائی دے دیتے اور وہ باہر آجاتیں.اس طرح آپ اپنے وقت کا بچاؤ کر لیتے تھے.ہماری بہن کا نام تو امتہ الحفیظ بیگم ہے لیکن اس وقت ھیچی هیچی " کہا کرتے تھے.اُس لڑکی نے جب یہ بار بار سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بھیجی مٹھائی لے لو تو خیال کیا کہ میں بھی
تذکار مهدی ) 656 روایات سید نا محمودی مٹھائی لاؤں.اُس نے خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میری طرح دیکھتے تو ہیں نہیں.اس لیے انہیں پتا نہیں لگے گا کہ میں کون ہوں.چنانچہ وہ اپنی چھوٹی بہن کو ساتھ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے پاس گئی اور ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی حضرت صاحب جی! میں بھیجی ہوں مجھے مٹھائی دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے مٹھائی دے دی.لیکن بعد میں گھر میں بتایا کہ یہ سمجھتی ہے کہ اُس کی طرح ہمیں بھی نظر نہیں آتا.اپنی وفات سے کوئی ایک سال پہلے وہ لڑکی میرے پاس ملنے آئی تو میں نے اُسے کہا کیا تمہیں اپنے بچپن کا لطیفہ یاد ہے؟ تو اُس نے کہا ہاں خوب یاد ہے.کیونکہ اُس کے ماں باپ اور رشتہ دار وغیرہ اُسے وہ لطیفہ ساری عمر یاد دلاتے رہے تھے.یہی حالت عام لوگوں کی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سارے لوگ ہی اندھے ہیں اور کوئی اُن کے عیب کو نہیں دیکھ رہا.حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے.حضرت خدیجہ کی مالی قربانیاں خطبات محمود جلد 18 صفحہ 583 تا 584) رسول کریم ﷺ خود بے شک کسی بڑی جائداد کے مالک نہ تھے لیکن حضرت خدیجہ ایک مالدار عورت تھیں.انہوں نے نکاح کے بعد تمام مال رسول کریم ﷺ کی نذر کر دیا تھا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ کے بڑے بڑے امراء بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے گاؤں کے امراء ہوتے ہیں.لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے.مکہ میں بڑے بڑے مالدار لوگ بھی تھے.ان کے مالدار ہونے کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین کے لئے رسول کریم ﷺ نے مکہ کے ایک کا فررئیس سے تمہیں ہزار درہم قرض لئے اور کئی ہزار نیزہ قرض لیا اور اسی شخص سے کئی سو زرہیں قرض لیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی لکھ پتی آدمی تھا اور ہمارے اس زمانہ کے لحاظ سے کروڑ پتی تھا کیونکہ اس زمانہ میں روپے پیسے کی بہت قدر تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ مجھے ایک بڑھے سکھ نے سنایا کہ اس نے آٹھ آنے میں گائے خریدی تھی اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن کے زمانہ میں مہینہ بھر کی صفائی کی اُجرت خاکروب کو چار یا آٹھ آنہ دی جاتی تھی اور اب ایک بوری ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھوائی جائے تو مزدور اس کی مزدوری آٹھ آنے مانگتے ہیں.لیکن اُس وقت خاکروب آٹھ آنے خوشی سے لے لیتا تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ غلہ اور دوسری کھانے پینے کی
تذکار مهدی ) 657 روایات سید نا محمودی الله چیزیں بہت سستی تھیں.ایک روپے کا دس پندرہ من غلہ اور چار پانچ سیر گھی آ جاتا تھا.ایک روپیہ کا ڈیڑھ سیر تو میری ہوش میں بھی تھا.جب چار پانچ سیر روپے کا گھی سیر ڈیڑھ سیر ہو گیا.تو لوگوں میں شور مچ گیا کہ گھی کا قحط پڑ گیا ہے.لیکن اب پانچ روپے سیر بک رہا ہے.پس آجکل روپے کی قیمت اس وقت کے ایک آنے سے بھی کم ہے.اس لحاظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے پاس اس وقت ایک لاکھ روپیہ تھا آج کے لحاظ سے اُس کے پاس بیس پچیس لاکھ روپیہ تھا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں جو کہ مکہ میں مالدار سمجھے جاتے تھے.آپ نے اپنی تمام جائداد اور روپیہ رسول کریم ﷺ کو دے دیا تھا.اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ کو کچھ مکان وغیرہ ورثہ میں بھی ملے تھے.لیکن ہجرت کرنے کی وجہ سے وہ سب آپ کو چھوڑنے پڑے.جب مکہ فتح ہوا تو صحابہ نے عرض کیا یا رَسُولَ الله ! آپ کس مکان میں ٹھہریں گے؟ آپ نے جو جواب دیا وہ ایسا دردناک تھا کہ اس کو پڑھ کر انسان کو معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو کس قدر مالی قربانیاں کرنی پڑیں.آپ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی جگہ مکہ میں چھوڑی ہے کہ ہم اس میں ٹھہریں؟ ہمارے خیمے وہاں لگاؤ جہاں کفار مکہ نے قسمیں کھائی تھیں کہ ہم محمد (رسول اللہ ﷺ ) اور اس کے ساتھیوں کو تباہ کر دیں گے.کتنی بڑی قربانی ہے جو رسول کریم ﷺ نے کی.ہمارے چندے ان قربانیوں کے مقابل پر کیا حیثیت رکھتے ہیں.( خطبات محمود جلد 27 صفحہ 447 تا 448) روزہ ملازمہ.ہم بچپن میں ایک قصہ سنا کرتے تھے.جسے سن کر ہنسا کرتے تھے.حالانکہ درحقیقت وہ ہنسنے کے لئے نہیں.بلکہ رونے کے لئے بنایا گیا تھا.اور اس میں موجودہ مسلمانوں کا ہی نقشہ کھینچا گیا تھا.مگر اس قصہ کے بنانے والے نے اشارے کی زبان مسلمانوں کی حالت کو بیان کیا تا کہ مولوی اس کے پیچھے نہ پڑ جائیں.وہ قصہ یہ ہے کہ کوئی لونڈی تھی.جو سحری کے وقت با قاعدہ اٹھا کرتی مگر روزہ نہیں رکھتی تھی.مالکہ نے سمجھا کہ شائد یہ کام میں مدد دینے کے لئے اٹھتی ہے.مگر چونکہ وہ روزہ نہیں رکھتی تھی اس لئے مالکہ نے خیال کیا کہ اسے خواہ مخواہ سحری کے وقت تکلیف دینے کی کیا ضرورت ہے.اس وقت کا کام میں کر لیا کروں گی.چنانچہ دو چار دن کے بعد مالکہ اس سے کہنے لگی.لڑکی تو سحری کے وقت نہ اٹھا کر ہم خود اس وقت کام کر لیا کریں
تذکار مهدی ) کارمهدی 658 روایات سید نا محمودی گے.تمہیں اس وقت تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں ہے.یہ بات سن کر اس لڑکی نے نہایت حیرت کے ساتھ اپنی مالکہ کے چہرہ کی طرف دیکھا کہ یہ مجھ سے کیا کہہ رہی ہے اور کہنے لگی بی بی نماز میں نہیں پڑھتی روزہ میں نہیں رکھتی.اگر سحری بھی نہ کھاؤں تو کافر ہی ہو جاؤں.درحقیقت یہ تصویری زبان میں مسلمانوں کی حالت ہی بیان کی گئی ہے.دوسرے لفظوں میں تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اگر کسی مسلمان کو کہا جائے کہ میاں جمعۃ الوداع سے کیا بنتا ہے.تم کیوں خواہ مخواہ اس کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتے ہو.تو وہ حیرت سے تمہارے منہ کو دیکھنے لگ جائے گا اور کہے گا بھائی جان یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں.روزانہ نمازوں کے لئے میں مسجد میں نہیں جاتا.روزے میں نہیں رکھتا.اگر جمعتہ الوداع بھی نہ پڑھوں تو کافر ہی ہو جاؤں.پس یہ بھی ایک ہنسی ہی ہے کہ ایک وقت آکر نماز پڑھ لی اور سمجھ لیا کہ ہمارے سب فرائض ادا ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کا میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی کئی دفعہ ذکر فرمایا کرتے تھے.قرآن کریم میں مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَہ والی آیت جو آتی ہے.اس آیت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ واقعہ بیان کیا کرتے تھے.بلکہ اس آیت کا شان نزول بھی بعض لوگ اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں.بدر کی جب لڑائی ہوئی تو صحابہ نے اس جنگ میں بڑی بڑی قربانیاں کیں.ایسی قربانیاں کہ ان واقعات کو پڑھ کر دل ان کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے.( الفضل 17 /اکتوبر 1942ءجلد 30 نمبر 242 صفحہ 5,4) محنت سے کام آسان ہو جاتا ہے میں نے اپنی جماعت کے دوستوں کو بارہا اس امر کی طرف متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر کبھی سرانجام نہیں دے سکتے جب تک وہ یہ پختہ عزم نہ کر لیں کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اسے ہم نے جلد سے جلد اور اچھے طریق پر سرانجام دینا ہے یہ کہنا کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں اس سے کوئی تغیر پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ تغیر اگر چاہیں“ سے نہیں بلکہ چاہنے اور پھر عمل کرنے سے ہوا کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک امیر آدمی تھا اس کا ایک بڑا لنگر تھا.جس سے محتاج لوگ کثیر تعداد میں روزانہ کھانا "
تذکار مهدی ) 659 روایات سید نا محمودی کھاتے تھے.لیکن بڑی خرابی یہ تھی کہ بد نظمی بہت زیادہ تھی خود اس میں نگرانی کی رغبت نہیں تھی اور ملازم خائن اور بددیانت تھے.کچھ تو سودا لانے والے بہت مہنگا سودا لاتے تھے اور کم مقدار میں لاتے تھے اور کچھ استعمال کرنے والے اپنے گھروں کو لے جاتے تھے اور پھر کھانا تیار کرنے والے کچھ خود کھا جاتے تھے.کچھ اپنے رشتہ داروں کو کھلا دیتے تھے اور کچھ ادھر اُدھر ضائع کر دیتے تھے.اسی طرح سٹور روم کھلے رہتے تھے اور ساری رات کتے اور گیدڑ وغیرہ سامان خوراک کھاتے اور ضائع کرتے رہتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بہت مقروض ہو گیا اور بیس سال کی بدنظمی کے بعد اسے بتایا گیا کہ تم مقروض ہو چکے ہو.اُس کی طبیعت میں سخاوت تھی.اس لئے لنگر کا بند کرنا اس نے گوارہ نہ کیا.لیکن ادھر قرض کے اتارنے کی بھی فکر تھی.اس نے اپنے دوستوں کو بلایا.اپنا نقص تو کوئی بتاتا نہیں.ان سب نے کہا کہ سٹور روم کا کوئی دروازہ نہیں ساری رات گیڈر اور کتے وغیرہ سامان خوراک خراب کرتے رہتے ہیں.اس لئے بہت سارا سامان ضائع ہو جاتا ہے.اگر سٹور روم کو دروازہ لگا دیا جائے.تو بہت حد تک بچت ہوسکتی ہے.اُس نے حکم چلایا کہ دروازہ لگا دیا جائے.چنانچہ وہ لگا دیا گیا.یہ کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے اور کہانیوں میں کتے اور گیدڑ بھی بولا کرتے ہیں.رات کو کتوں اور گیدڑوں نے سٹور روم کو دروازہ لگا ہوا دیکھا.تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا.اچانک کوئی بڑھا خرانٹ گیدڑ یا کتا آیا اور اس نے ان سے دریافت کیا کہ تم شور کیوں مچاتے ہو.اس کی جنس کے افراد نے کہا کہ سٹور روم کو دروازہ لگ گیا ہے.ہم کھائیں گے کہاں سے.ہمارے تو علاقہ کےسارے کتے اور گیدڑ یہیں سے کھاتے تھے.اس نے کہا یونہی تم رونے اور شور مچانے میں اپنا وقت ضائع کر رہے ہو.جس شخص نے ہیں سال تک اپنا گھر لٹتے دیکھا اور اس کا کوئی انتظام نہ کیا.اس کے سٹور روم کا بھلا دروازہ کس نے بند کرنا ہے.اس لئے گھبراؤ نہیں.اس کہانی میں یہی بتایا گیا ہے.کہ اگر چاہیں اور چاہیں“ میں بہت فرق ہے کتوں اور گیدڑوں نے شور مچایا کہ اگر اس نے چاہا اور دروازہ بند کر دیا تو ہم کیا کھائیں گے.کہاں سے اور خرانٹ کتے یا گیدڑ نے کہا اس نے چاہنا ہی نہیں پھر شور کیسا.پس اگر ہماری جماعت کے افراد نے چاہنا ہی نہیں تو کچھ نہیں ہو سکتا.لیکن اگر وہ چاہیں تو بڑے سے بڑا مشکل کام بھی دنوں میں کر سکتے ہیں.ہماری بچپن کی کہانیوں میں الہ دین
تذکار مهدی ) 660 روایات سید نا محمود کے چراغ کی کہانی بہت مشہور تھی.الہ دین ایک غریب آدمی تھا.اسے ایک چراغ مل گیا.وہ جب اس چراغ کو رگڑتا تھا تو ایک جن ظاہر ہوتا تھا.جس کو وہ جو کچھ کہتا وہ فوراً تیار کر کے سامنے رکھ دیتا.مثلاً اگر وہ اسے کوئی محل بنانے کو کہہ دیتا.تو وہ آنا فانا محل تیار کر دیتا.بچپن میں تو ہم یہی سمجھتے تھے کہ الہ دین کا چراغ ایک سچا واقعہ ہے.لیکن جب بڑے ہوئے تو ہم نے سمجھا کہ یہ محض ایک واہمہ اور خیال ہے.لیکن اس کے بعد جب ہم جوانی سے بڑھاپے کی طرف آئے.تو معلوم ہوا کہ یہ بات ٹھیک ہے.الہ دین کا چراغ ضرور ہوتا ہے.لیکن وہ تیل کا چراغ نہیں ہوتا بلکہ عزم اور ارادہ کا چراغ ہوتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ وہ چراغ بخش دے وہ اس کو حرکت دیتا ہے اور بوجہ اس کے کہ عزم اور ارادہ خدا تعالیٰ کی صفات میں سے ہیں.جس طرح خدا تعالیٰ گن کہتا ہے اور کام ہونے لگ جاتا ہے.اسی طرح جب اس کی اتباع میں اسکے مقرر کردہ اصول کے ماتحت ، اس کے احکام پر عمل کرتے ہوئے.اس سے دعائیں کرتے ہوئے اور اس سے مدد مانگتے ہوئے.کوئی انسان گن کہتا ہے تو وہ ہو جاتا ہے.غرض بچپن میں ہم الہ دین کے چراغ کے قائل تھے.لیکن جوانی میں ہمارا یہ خیال متزلزل ہو گیا مگر بڑھاپے میں ایک لمبے تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ الہ دین کے چراغ والی کہانی سچی ہے.لیکن یہ ایک تمثیلی حکایت ہے اور چراغ پیتل کا نہیں بلکہ عزم اور ارادہ کا چراغ ہے.جب اسے رگڑا جاتا ہے تو خواہ کتنا بڑا کام کیوں نہ ہو وہ آناً فاناً ہو جاتا ہے.(الفضل 24 جنوری 1962 ء جلد 51/16 نمبر 20 صفحہ 3,2) بخیل عورت کی مثال کلکتہ کے ایک دوست نے پانچ ہزار روپیہ دیا ہے مگر وہ ایک فرد ہیں جماعت ان کے چندہ کو اپنے چندہ میں شمار کر کے یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا.کلکتہ کی جماعت کا بحیثیت جماعت کا لج کا چندہ نہ ہونے کے برابر ہے ایسے افراد کے چندوں کو شمار کر کے جماعتوں کا یہ سمجھ لینا کہ انہوں نے کافی رقم دے دی ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت کسی شادی میں شامل ہوئی وہ بخیل تھی مگر اس کی بھاوج حوصلہ والی تھی.اس عورت نے ایک روپے کا تحفہ دیا مگر اس کی بھاوج نے ہمیں روپے کا جب وہ واپس آئیں تو کسی نے اس بخیل عورت سے پوچھا کہ تم نے شادی کے موقع پر کیا خرچ کیا تو اس نے کہا میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیئے تو بعض افراد کے خاص چندوں کو
تذکار مهدی ) 661 روایات سید نا محمودی جماعتوں کا اپنی طرف منسوب کرنا ایسا ہی ہوتا ہے جیسا اس بخیل عورت کا یہ کہنا کہ میں نے اور بھاوج نے اکیس روپے دیئے ہیں.ان چندوں کو نکال کر اگر دیکھا جائے تو جماعتوں کی آنکھیں کھل جائیں کہ انہوں نے کتنی کوتاہی کی ہے.بھو کے کیلئے ایک لقمہ کافی نہیں خطبات محمود جلد 25 صفحہ 395 - 396 ) دنیا میں قوموں پر کئی شکلوں میں مشکلات اور کئی صورتوں میں ابتلاء آتے رہتے ہیں مگر ان سب کا جواب صرف ایک ہی ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ استقلال اور بہادری سے ایسی مشکلات کا مقابلہ کیا جائے مگر یہ روح تبھی پیدا ہوسکتی ہے جب نوجوان اپنی ذمہ واریوں کو سمجھتے ہوئے ان کے مطابق کام بھی کریں یعنی جتنی زیادہ ذمہ واریاں ہوں اتنا ہی زیادہ کام بھی کیا جائے کیونکہ جب تک اندازے کے مطابق کام نہ کیا جائے وہ کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوا کرتا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی دفعہ ایک مثال بیان فرمایا کرتے تھے کہ کسی بھوکے کے منہ میں صرف ایک لقمہ روٹی کا دے دینے سے اس کی بھوک دور نہیں ہو سکتی اور کسی پیاسے کے منہ میں ایک قطرہ پانی ڈال دینے سے اس کی پیاس نہیں رک سکتی.یعنی جب تک بھوکے کو اتنی غذا نہ مہیا کی جائے.جس سے اس کا پیٹ بھر سکے یا جب تک ایک پیاسے کو اتنا پانی نہ دیا جائے جس کو وہ سیر ہو کر پی سکے.اس وقت تک نہ وہ بھوکا اور نہ ہی وہ پیاسا بھوک اور پیاس کی تڑپ کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کی صحت قائم یا بحال ہو سکتی ہے.ایک کپڑی کی مثال الفضل 16 مئی 1961 ء جلد 50/15 نمبر 112 صفحہ 3 | کئی لوگ جب بدلہ لینا چاہتے ہیں تو بد دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا بیڑا غرق ہو تو اچھا ہے.بلکہ بعض تو مجھے خط لکھتے ہیں کہ فلاں نے ہمیں دکھ دیا ہے دعا کریں کہ اس کا بیڑا غرق ہو.میں انہیں لکھتا ہوں کہ تمہیں تو اس سے غرض ہے کہ تمہارا فائدہ ہو جائے.اس بات سے کیا فائدہ کہ دوسرے کا بیڑا غرق ہو مگر وہ اس پر ضرور مصر رہتے ہیں کہ ہم تو تب خوش ہوں گے جب دشمن کا بیڑا غرق ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک کبڑی کی مثال سنایا کرتے تھے کہ اس سے کسی نے
تذکار مهدی ) 662 روایات سید نا محمودی پوچھا کہ آیا تو یہ چاہتی ہے کہ تیری کمر سیدھی ہو جائے یا باقی لوگ بھی کبڑے ہو جائیں.تو جیسا کہ بعض طبیعتیں ضدی ہوتی ہیں.اس نے آگے سے یہ جواب دیا کہ مدتیں گزرگئیں کہ میں کبڑی ہی رہی اور لوگ میرے کبڑے پن پر ہنستے اور مذاق کرتے رہے اب تو یہ سیدھا ہونے سے رہا.مزہ تو جب ہے کہ یہ لوگ بھی کبڑے ہوں اور میں بھی ان پر ہنس کر جی ٹھنڈا کروں.اسی طرح کی بعض حاسد طبیعتیں ہوتی ہیں کہ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تکلیف دور ہو جائے بلکہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ دوسرا تکلیف میں مبتلاء ہو جائے.حالانکہ اگر نادان سوچیں تو انسان سے ہزاروں غلطیاں روزانہ ہوتی ہیں اور اس کے دل میں بغض اور کینہ کپٹ نہ ہو.( خطبات محمود جلد 24 صفحہ 94) بچپن کی خواہش کسی قوم کی ترقی سے پہلے اس کے خیالات میں ترقی پیدا ہو جاتی ہے.چھوٹی چھوٹی قومیں اور ذلیل قومیں معمولی معمولی باتوں پر تسلی پا جاتی ہیں مگر بڑھنے والی قومیں ہمیشہ اپنے حوصلوں کو بلند رکھا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک چوہڑا تھا جو اصطبل وغیرہ میں اور ہمارے گھر میں کام کرتا تھا.فرماتے تھے ایک دفعہ بچپن میں ہم نے کھیلتے ہوئے ہمجولیوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے؟ پھر اسی بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس سے بھی ہم نے دریافت کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے اور کس چیز کو سب سے زیادہ تمہارا دل چاہتا ہے اس نے جواب دیا کہ میرا دل اس بات کو چاہتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بخار چڑھا ہوا ہو، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو، سردی کا موسم ہو، میں لحاف اوڑھے چار پائی پر لیٹا ہو ا ہوں اور دو تین سیر بھنے ہوئے چنے میرے سامنے رکھے ہوں اور میں انہیں ٹھونگتا جاؤں یعنی ایک ایک کر کے کھاتا جاؤں.یہ تھی اُس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش.کسی سننے والے نے کہا تم نے اس میں بخار کی شرط کیوں لگائی ہے؟ تو اس نے کہا اس لئے کہ پھر مجھے کوئی کام کیلئے نہیں بلائے گا.کسی فارسی شاعر نے بھی کہا ہے کہ ے فکر ہر کس بقدر ہمت اوست جتنی ہمت کسی فرد میں ہوتی ہے اتنے ہی بلند اس کے خیالات ہوتے ہیں.خطبات محمود جلد 18 صفحہ 47،46 ) |
تذکار مهدی ) 663 دنیا کے اکثر جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے ایک لطیفہ سنا ہوا ہے جو شاید مقامات حریری یا کسی اور کتاب کا قصہ ہے آپ فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان کسی جگہ نہانے کے لئے گیا حمام کے مالک نے مختلف غلاموں کو خدمت کے لئے مقرر کیا ہوا تھا اتفاق ایسا ہوا کہ اس وقت مالک موجود نہ تھا جب وہ نہانے کے لئے حمام میں داخل ہوا تو تمام غلام اسے آ کر چمٹ گئے اور چونکہ سر کو آسانی سے ملا جا سکتا ہے اس لئے یکدم سب سر پر آ گرے ، ایک کہے یہ میرا سر ہے، دوسرا کہے یہ میرا سر ہے، اس پر آپس میں لڑائی شروع ہو گئی اور ایک نے دوسرے کے چاقو مار دیا جس سے وہ زخمی ہو گیا شور ہونے پر پولیس آئی اور معاملہ عدالت تک پہنچ گیا عدالت کے سامنے بھی ایک غلام کہے یہ میرا سر تھا، دوسرا کہے میرا سر تھا عدالت نے نہانے والے سے پوچھا تو وہ کہنے لگا حضور یہ تو بے سر تھے ان کی باتوں پر تو مجھے تعجب نہیں تعجب یہ ہے کہ آپ نے بھی سوال کر دیا حالانکہ سر نہ اس کا ہے نہ اُس کا سر تو میرا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ مثال اس لئے دیا.کرتے تھے کہ دنیا کے جھگڑے بیہودہ ہوتے ہیں میرا کیا اور تیرا کیا.غلام کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا وہ تو جب اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں عبد اللہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب اس کا کچھ نہیں سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے، اس کے بعد میرے تیرے کا سوال ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے.قرآن مجید پڑھ کر دیکھ لو اس میں رسول کریم ﷺ کا نام بھی عبد اللہ رکھا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ تو خدا تعالیٰ کا غلام ہوتے ہوئے ہماری کوئی چیز نہیں رہتی بلکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے اسی لئے قرآن مجید نے بالوضاحت بتایا ہے کہ ہم نے مؤمنوں سے مال و جان لے لی دوست عزیز ، رشتہ دار سب جان کے ماتحت آتے ہیں اور باقی مملوکات مال کے ماتحت آتی ہیں اور یہی دو چیزیں ہوتی ہیں جن کا انسان مالک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں چیزیں مؤمنوں سے لے لیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں یہ جھگڑے نہیں ہونے چاہئیں کہ یہ چیز میری ہے اور وہ اس کی.تم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے زور لگاؤ اور چھوڑ دو ان باتوں کو کہ تم کہو فلاں پریذیڈنٹ کیوں بنا فلاں کیوں نہ بنا، فلاں سیکرٹری کیوں ہوا فلاں کیوں نہ ہوا، یا جب تک فلاں شخص امام نہ بنے ہم فلاں کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے.مجھے افسوس ہے کہ کئی دفعہ اس قسم کی شکایات پہنچ جاتی ہیں کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں ہم
تذکار مهدی ) 664 روایات سید نامحمود فلاں احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے حالانکہ میں نے یہ بات کہ کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا مت چھوڑو اتنی دفعہ دہرائی ہے کہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک طوطا میرے پاس ہوتا تو وہ بھی یہ ضرور سیکھ جاتا کہ اختلاف کی بناء پر کسی احمدی کے پیچھے نماز پڑھنی کبھی نہیں چھوڑنی چاہئے.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 270 ، 271 ) | احمدیت ضرور غالب ہو کر رہے گی ہم احرار کو مٹادیں گے مگر جب میں نے اس فقرہ کا جواب سوچا تو ان میں سے کوئی فقرہ میرے ذہن میں نہ آیا میں نے سوچا اگر کہوں ایسا کر کے تو دیکھو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تم سے کمزور نہیں حالانکہ میرے نفس میں کوئی طاقت نہیں دوسرا جواب یہ تھا کہ ہم تم کو مٹا دیں گے اس کے متعلق میں نے سوچا کہ میں یہ کہنے والا کون ہوں کیا پتہ ہے کہ ہم کسی کو مٹا سکیں گے یا نہیں.پس میں نے اُس وقت وہی جواب دیا جو اس کا سچا جواب ہے کہ مٹانا یا قائم رکھنا خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اگر وہ ہمیں مٹانا چاہے تو آپ لوگوں کو کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں لیکن اگر وہ ہمیں قائم رکھنا چاہے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا اور تقویٰ ہی ہے جو انسان کو ایسے دعووں سے بچاتا ہے کہ میں یہ کر دوں گا وہ کر دوں گا ایسے دعوؤں کا کیا فائدہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ قادیان میں یا شاید کسی اور جگہ سخت ہیضہ پھوٹا.ایک جنازہ کے موقع پر ایک شخص کہنے لگا یہ لوگ تو خود مرتے ہیں ہیضہ پھیلا ہوا ہے مگر لوگ کھانے پینے سے باز نہیں آتے خوب پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ ہیضہ کے دن ہیں دیکھو ہم تو صرف ایک پھل کا کھاتے ہیں مگر یہ کم بخت ٹھونستے جاتے ہیں.دوسرے روز ایک اور جنازہ آیا کسی نے پوچھا کس کا ہے؟ تو ایک شخص کہنے لگا ایک پھل کا کھانے والے کا.پس اس قسم کے دعووں کا کیا فائدہ کہ ہم یوں کر دیں گے ؤوں کر دیں گے ہاں اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے وہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ یوں ہو جائے گا.انکسار کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے اسے بھی چھپا ئیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے که كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ آنَا وَ رُسُلِی ہم نے فرض کر لیا ہے کہ ہم اور ہمارے رسول غالب ہوں گے اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہم تمہیں پیس دیں گے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اگر تو میری طاقت کا سوال ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اگر یہ الفاظ احمدیت کے متعلق کہے گئے ہیں تو یہ کبھی نہیں ہو سکتا احمدیت ضرور غالب ہو کر رہے گی.خواہ میرے ہاتھوں سے یا کسی اور کے ہاتھوں سے.
تذکار مهدی ) 665 خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ہمیں اتنا یقین ہے کہ جتنا اپنی جان پر بھی نہیں.دوسرے کو اس کا حق دلانا روایات سید نا محمود ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 344-343 ) | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک صحابی اپنا گھوڑا دوسرے صحابی کے پاس فروخت کرنے کیلئے لایا اور اس کی قیمت مثلاً دوسو روپیہ بتائی دوسرے صحابی نے کہا کہ میں اس قیمت پر گھوڑا نہیں لے سکتا کیونکہ اس کی قیمت دگنی ہے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو گھوڑوں کی قیمت سے واقفیت نہیں لیکن مالک نے زیادہ قیمت لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب میرا گھوڑا زیادہ قیمت کا نہیں تو میں کیوں زیادہ قیمت لوں اور اس پر ان کی تکرار ہوتی رہی یہاں تک کہ ثالث کے ذریعہ سے انہوں نے فیصلہ کرایا.یہ اسلامی روح تھی جوان دوصحابیوں نے دکھلائی.اسلام کا حکم یہی ہے کہ ہر شخص بجائے اپنا حق لینے اور اس پر اصرار کرنے کے دوسرے کے حق کو دینے اور اُسے قائم کرنے کی کوشش کرے جس وقت یہ روح قائم ہو جائے اُس وقت ساری سٹانگیں آپ ہی آپ بند ہو جاتی ہیں مگر کم سے کم نیکی یہ ہے کہ جب کسی کی طرف سے اپنے حق کا سوال پیدا ہو تو وہ حق اُسے دے دیا جائے.یہ غیر اسلامی روح ہے کہ چونکہ دوسرے کے حق پر ہم ایک لمبے عرصہ سے قائم ہیں اور اس حق کو اپنا حق سمجھنے کی ایک عادت ہمیں ہوگئی ہے اس لئے ہم دوسرے کو وہ حق نہیں دے سکتے.اسلامی روح یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرے کا حق ہو اور یہ اس پر عرصہ سے قبضہ جمائے بیٹھا ہو تو اُس کے دل میں اور بھی ندامت پیدا ہونی چاہئے کہ میں نے اتنا عرصہ ناجائز طور پر دوسرے کے حق کو غصب کیا اور اس سے فائدہ اُٹھاتا رہا.صلى الله خطبات محمود جلد 17 صفحہ 138-137 ) دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ یہ الہی نصرت تھی جس نے اُس وقت جب انسانی تدابیر بریکار ہوچکی تھیں آسمان سے نازل ہوکر رسول کریم ہے اور آپ کے صحابہ کو نجات دی.پس آسمانی نصرت اُسی وقت آتی ہے جب ساری تدابیر انتہاء کو پہنچ کر ختم ہو جاتی ہیں اور کامیابی کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتیں.جب وہ دنیا دار نگاہوں میں مضحکہ خیز اور روحانی نظر والوں کیلئے رقت انگیز ہو جاتی ہیں اُس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلتے ہیں مگر اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ بندہ چلائے.
تذکار مهدی ) 666 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا میں محبت کا بہترین مظاہرہ وہی ہوتا ہے جو ماں کو اپنے بیٹے سے ہوتا ہے.بسا اوقات ماں کی چھاتیوں میں دودھ خشک ہو جاتا ہے مگر جب بچہ روتا ہے تو دودھ اُتر آتا ہے.پس جس طرح بچے کے روئے بغیر ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اُتر سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمت کو بندہ کے رونے اور چلانے سے وابستہ کر دیا ہے.جب بندہ چلاتا ہے تو رحمت کا دودھ اُترنا شروع ہوتا ہے اس لئے جیسا کہ میں نے بتایا تھا ہمیں چاہئے کہ اپنی طرف سے انتہائی کوشش کریں مگر وہ کوشش نہیں جو منافق مراد لیا کرتے ہیں اور اس کے بعد جس حد تک زیادہ سے زیادہ دعاؤں کو لے جاسکتے ہیں لے جائیں.پچھلے سال میں نے سات روزے مقرر کئے تھے مگر چونکہ فتنہ ابھی جاری ہے، شرارت کا سلسلہ بند نہیں ہوا ، مخالفوں نے اللہ تعالیٰ کی تنبیہہ سے عبرت حاصل نہیں کی اور گزشتہ عذاب سے اپنی اصلاح نہیں کی اس لئے آؤ ہم پھر خدا تعالیٰ کے حضور چلا ئیں.تا جس طرح بچہ کے رونے سے ماں کی چھاتیوں سے دودھ اُتر آتا ہے آسمان سے ہمارے رب کی نصرت نازل ہو اور وہ روکیں اور مشکلیں جو ہمارے رستہ میں ہیں دور ہو جائیں.بعض مشکلات ایسی ہیں جن کا دور کرنا ہمارے اختیار میں نہیں.ہم دشمن کی زبان کو بند نہیں کر سکتے اور اُس کے قلم کو نہیں روک سکتے.اُن کی زبان اور قلم سے وہ کچھ نکلتا رہتا ہے جسے سننے اور پڑھنے کی ہمیں تاب نہیں.ہم نے بارہا حکومت کو توجہ دلائی ہے مگر اُس کے کان ہماری بات سننے سے بہرے ہیں.وہی باتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں اگر کسی اور کے متعلق کہی جاتیں تو ملک میں آگ لگ جاتی.مگر وہ باتیں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی جاتی ہیں لیکن کہنے والوں کی کوئی گرفت نہیں کی جاتی.حتی کہ ہمیں تو یہاں تک رپورٹ پہنچی ہے کہ بعض مخالفوں کے حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمیں افسروں نے یقین دلایا ہے کہ احمدیوں کے خلاف جو چاہو خطبات محمود جلد 17 صفحہ 153-152) لکھو کوئی گرفت نہ ہوگی.تقوی وطہارت پیدا کرو بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جب رسول کریم ﷺ کو دعائیں کرتے دیکھتے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ایک ہنڈیا جوش سے اُبل رہی ہے.پس اپنے نفوس کی اصلاح کی طرف توجہ کرو اور تقوی وطہارت پیدا کرو اور مت سمجھو کہ تم نیک کام کر رہے ہو کیونکہ نیک سے نیک کام میں
تذکار مهدی ) ❤667 روایات سید نا محمود بھی بے ایمانی پیدا ہوسکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ نہ معلوم کیا بات ہے کہ آج کل لوگ حج کر کے آتے ہیں تو ان کے قلوب میں آگے سے زیادہ رعونت اور بدی پیدا ہو چکی ہوتی ہے یہ نقص اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ وہ حج کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور بجائے روحانی لحاظ سے کوئی فائدہ اُٹھانے کے محض حاجی بن جانے کی وجہ سے تکبر کرنے لگ جاتے ہیں.اس کے ساتھ ہی آپ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بُڑھیا سردی کے دنوں میں رات کے وقت اسٹیشن پر تنہا بیٹھی تھی کہ کسی نے اُس کی چادر اٹھالی جب اسے سردی لگی اور اُس نے چادر اوڑھنی چاہی تو اسے گم پایا.یہ دیکھ کر وہ آواز دے کر کہنے لگی ”بھائی حاجیا! میری تے اکو چادرسی میں پالے مر جاواں گی.تو ایہہ تے مینوں واپس کر دے“.یعنی بھائی حاجی ! میری تو ایک ہی چادر تھی اس کی مجھے ضرورت ہے وہ مجھے واپس کر دے.یہ سن کر جس نے چادر اٹھائی تھی شرمندہ ہوا اور اس نے اُس کی چادر اس کے پاس رکھ دی مگر ساتھ ہی اُس نے پوچھا تجھے یہ پتہ کس طرح لگا کہ چادر چرانے والا کوئی حاجی ہے؟ وہ کہنے لگی کہ اس زمانہ میں اس قدر سنگدلی حاجی ہی کرتے ہیں.پس یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک کاموں میں لگے ہوئے ہیں، یہ مت خیال کرو کہ ہم نیک ارادے رکھتے ہیں کتنا ہی نیک کام انسان کر رہا ہو اس میں سے بدی پیدا ہوسکتی ہے اور کتنا ہی نیک ارادہ انسان رکھتا ہو وہ اس کے ایمان کو بگاڑ سکتا ہے کیونکہ ایمان ہمارے اعمال کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے رحم کے نتیجہ میں آتا ہے.پس تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے رحم پر نگاہ رکھو اور تمہاری نظر ہمیشہ اُس کے ہاتھوں کی طرف اُٹھے کیونکہ وہ سوالی جو یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دروازہ سے اُٹھنے کے بعد میرے لئے اور کوئی دروازہ نہیں کھل سکتا وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر لیتا ہے.پس تمہاری نگاہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف اُٹھنی چاہئے جب تک تم اپنی نگاہ اس کی طرف رکھو گے تم محفوظ رہو گے کیونکہ جس کی خدا تعالیٰ کی طرف نگاہ اُٹھ رہی ہوا سے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا مگر جو نہی نظر کسی اور کی طرف پھیری جائے اور انسان اس کے دروازہ سے قدم اٹھالے پھر خواہ کتنے ہی نیک ارادے رکھے اور کتنے ہی اچھے کام کرے اس کا کہیں ٹھکانہ نہیں رہتا بلکہ وہ شیطان کی بغل میں ہی جا کر بیٹھتا ہے.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 216 تا 218 ) |
تذکار مهدی رستم کا خوف 668 روایات سید نا محمود رعب ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہیں ٹھہر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام رستم کے متعلق ایک قصہ سناتے تھے کہ اس کے گھر ایک دفعہ چور آیا اور رستم سے اسکی لڑائی شروع ہو گئی جسے گرا کر وہ چھاتی پر چڑھ بیٹھا اور مارنے لگا اس پر رستم نے سمجھا کہ اسے معلوم نہیں کہ میں کون ہوں اس لئے اس نے کہا رستم آ گیا رستم آگیا.یہ سن کر چور بھاگ گیا اصل رستم کو تو اس نے گرا لیا مگر اسکے نام سے بھاگ گیا.یہ رعب ہی تھا تو رعب ایک ایسی چیز ہے کہ اسی کی بناء پر حکومتیں قائم رہتی ہیں اور جس حکومت کے رعب میں فرق آ جائے وہ خواہ کسی قدر طاقت رکھتی ہو کچھ نہیں کر سکتی نہ امن قائم رکھ سکتی ہے اور نہ فساد وفتنہ روک سکتی ہے.(اطاعت اور احسان شناسی ، انوار العلوم جلد چہارم صفحه 10 حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی ایک دوسرے پر سبقت ایک دفعہ امام حسن اور امام حسین کے درمیان کسی بات پر تکرار ہوگئی بھائیوں بھائیوں میں بھی بعض دفعہ ناراضگی کی کوئی بات ہو جاتی ہے.حضرت امام حسنؓ کی طبیعت بہت سلجھی ہوئی اور نرم تھی.لیکن حضرت امام حسین کی طبیعت میں جوش پایا جاتا تھا ان میں جو جھگڑا ہوا اس میں حضرت امام حسین کی طرف سے زیادتی ہوئی.لیکن حضرت امام حسنؓ نے صبر سے کام لیا.اس جھگڑے کے وقت بعض اور صحابہ بھی موجود تھے.جب جھگڑا ختم ہو گیا تو دوسرے دن ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت امام حسن جلدی جلدی کسی طرف جا رہے ہیں.اس نے ان سے پوچھا آپ کہاں جا رہے ہیں.حضرت حسنؓ کہنے لگے میں حسین سے معافی مانگنے چلا ہوں وہ کہنے لگا کیا آپ معافی مانگنے چلے ہیں؟ میں تو خود اس جھگڑے کے وقت وہاں موجود تھا اور میں جانتا ہوں کہ حسین نے آپ کے متعلق سختی سے کام لیا.پس یہ ان کا کام ہے کہ وہ آپ سے معافی مانگیں نہ یہ کہ آپ ان سے معافی مانگنے چلے جائیں.حضرت حسنؓ نے کہا.یہ ٹھیک ہے میں اسی لئے تو ان سے معافی مانگنے جا رہا ہوں کہ انہوں نے مجھ پر سختی کی تھی کیونکہ ایک صحابی نے مجھے سنایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا جب دو شخص آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں سے جو پہلے صلح کرتا ہے وہ جنت میں دوسرے سے پانچ سو سال پہلے داخل ہو گا.میرے
669 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمودی دل میں یہ بات سن کر خیال پیدا ہوا کہ کل میں نے حسین سے برا بھلا سنا اور انہوں نے مجھ پر سختی کی.اب اگر حسین معافی مانگنے کے لئے میرے پاس پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے صلح کر لی تو میں دونوں جہان سے گیا کہ یہاں بھی مجھ پر سختی ہو گئی اور اگلے جہان میں بھی میں پیچھے رہا.چنانچہ میں نے یہی فیصلہ کیا کہ مجھ پر جو سختی ہو گئی ہے وہ تو ہوگئی.اب میں ان سے پہلے معافی مانگ لوں تا کہ اس کے بدلہ میں مجھے جنت تو ان سے پانچ سو سال پہلے مل جائے.یہ خواہش تھی جو انہیں نیکیوں میں ترقی کرنے کی طرف لے جاتی تھی.بات سننا اور کان سے نکال دینا یہ کوئی مفید طریق نہیں.ہزار بات سننے اور عمل نہ کرنے سے یہ زیادہ بہتر ہے کہ انسان ایک بات سنے اور اس پر عمل کرے.جو ( خطبات محمود جلد 25 صفحہ 341-340 ) | صرف زبان سے اطاعت کا دعوی کرنا کوئی بات نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے فرماتے تھے، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں یا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں، مجھے صحیح یاد نہیں چوری ہوگئی اور ان کا کچھ زیور چُرایا گیا.ان کا ایک نوکر تھا وہ شور مچاتا پھرے کہ ایسے کم بخت بھی دنیا میں موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے خلیفہ کے ہاں چوری کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے.وہ چوری کرنے والے پر بے انتہاء لعنتیں ڈالے اور کہے خدا اس کا پردہ فاش کرے اور اسے ذلیل کرے.آخر تحقیقات کرتے کرتے پتہ لگا کہ ایک یہودی کے ہاں وہ زیور گرو رکھا ہوا ہے.جب اُس یہودی سے پوچھا گیا کہ یہ زیور کہاں سے تمہیں ملا ؟ تو اس نے اسی نوکر کا نام بتلا یا جو شور مچا تا اور چور پر لعنتیں ڈالتا پھرتا تھا.تو منہ سے لعنتیں ڈال دینا یا زبان سے فرمانبرداری کا دعویٰ کرنا کوئی چیز نہیں عمل اصل چیز ہوتی ہے.ورنہ منہ سے اطاعت کا دعویٰ کرنے والا سب سے زیادہ منافق بھی ہوسکتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ لوگ جنہوں نے تحریک جدید میں وعدہ کیا اور پھر اُسے پورا نہیں کیا منافق ہیں مگر کئی تھے جنہوں نے پہلے سال وعدہ کیا اور پھر وعدہ پورا بھی کیا مگر دوسرے سال کی تحریک میں آکر رہ گئے.ایسے لوگ یک سالہ مومن تھے اُن کی دوڑ پہلے سال میں ہی ختم ہوگئی دوسرے سال کی دوڑ میں وہ شریک نہ ہو سکے.یہی وجہ ہے کہ وہ پہلے سال شور مچاتے تھے کہ جو قربانی لینی ہے ابھی لے لو.ایسے تمام لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ میں نے اسی لئے تحریک جدید
تذکار مهدی ) 670 روایات سید نامحمودی کے متعلق تین سال کی شرط لگا دی تھی تا وہ جو پہلے یا دوسرے قدم پر تھک کر رہ جانے والے ہیں وہ پیچھے ہٹ جائیں اور خالص مؤمن باقی رہ جائیں.ایمان اور اخلاص کے سانس بھی مختلف جائیں.ایمان ہوتے ہیں.جیسے کہتے ہیں فلاں اونٹنی دس میل دوڑ سکتی ہے، فلاں اونٹنی ہیں میل اور فلاں سو میل.ایمان کی بھی دوڑیں ہوتی ہیں اور ایمان کی دوڑ میں وہی جیتتے ہیں جن کیلئے کوئی حد بندی نہ ہو.ہمیں نہ یک سالہ مؤمن کام دے سکتے ہیں نہ دو سالہ مؤمن بلکہ وہی کام دے سکتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے ہمیشہ قربانیوں کیلئے تیار رہنے والے ہوں.(خطبات محمودجلد 17 صفحہ 516-517) فرشتوں کے ساتھ تعلق پیدا کریں پس اگر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تمہارا فرض ہے کہ تم فرشتوں کو اپنی مدد کے لیے بلا ؤ اور ان سے کام لو.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خود سنا ہے کہ جب کوئی بادشاہ یا امیر کسی جگہ جاتا ہے تو اس کا اردلی بھی ساتھ جاتا ہے.اسے اندر جانے کی اجازت طلب نہیں کرنی پڑتی.مثلاً اگر وائسرائے کسی گورنر کو بلائے تو وہ بلاوے پر جائے گا.مگر اس کا اردلی گورنر جنرل کے گھر پر بغیر کسی دعوت کے جائے گا.گورنر کی دعوت میں اس کے محافظ اور خادم شامل ہوں گے.اس لئے تمہاری حالت کتنی بھی ادنی ہو.اگر تم فرشتوں سے تعلقات پیدا کر لو تو وہ جہاں بھی جائیں گے تم ان کے ساتھ جاؤ گے.تم ان کے اردلیوں اور چپڑاسیوں میں شامل ہو جاؤ گے.اگر وہ لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں جائیں گے.تو تم بھی ان کے ساتھ جاؤ گے.پس تم اس عظیم الشان طاقت کو سمجھو.جسے خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے بنایا ہے.تمہاری قوت روحانیت کے ساتھ وابستہ ہے تم اسے مضبوط بنانے کے لئے فرشتوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات پیدا کرو.تا تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے.اگر تمہیں لوگوں کے قلوب تک پہنچ حاصل ہو جائے تو سارے پر دے دور ہو جائیں گے اور جہاں خدا تعالیٰ کا نور پہنچے گا تم بھی وہاں پہنچ جاؤ گے.پس تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور جس شوق سے تم یہاں آئے ہوا سے پورا کرنے کے سامان پیدا کرو.اس طرح نہ ہو کہ جس طرح کشتی دیکھنے کے لئے کچھ لوگ پہلے آ جاتے ہیں.تم بھی یہاں آگئے ہو.تمہارا یہاں آنے کا مقصد وہی ہے جو اَلسَّابِقُونَ الْاَوَّلُونَ کا مقصد ہوتا ہے.اور سابق کا اصل مقام یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب بنے.پس اپنے پہلے آنے کی لاج رکھتے ہوئے تم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا مقرب بناؤ
671 روایات سید نا محمودی تذکار مهدی ) اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کرو تا تمہارا یہاں آنا خدا تعالیٰ اور دوسرے لوگوں کی نظر میں مقبول ہو.الفضل 9 جنوری 1955 ء جلد 44/9 نمبر 8 صفحہ 3) خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے دوستوں کو یا درکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ہر انسان کے قریب ہوں اور یہ کہ میں ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں اور جس کے قریب خدا تعالیٰ ہو وہ اکیلا نہیں ہوسکتا.بیشک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کشفی حالت میں اپنے بازو پر یہ تحریر فرمایا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اکیلے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن حقیقہ خدا میرے ساتھ ہے.اگر خدا کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کوئی شخص اپنے آپ کو اکیلا کہتا ہے تو اس کی مثال اُس بیوقوف کی سی ہوگی جو اپنے باپ کے ساتھ سفر کر رہا تھا کہ رستہ میں ڈاکہ پڑا اور چور اُن کا مال ٹوٹ کر لے گئے.جب کسی نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اُس نے کہا ”چور تے لاٹھی دو بئنے میں تے باپو کلے“.پس جو خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی کہتا میں اکیلا ہوں تو یہ اس کی بیوقوفی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان الفاظ کے یہ معنے ہیں کہ دنیا کی نظروں میں تو میں اکیلا ہوں لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر سے فرمایا تھا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا - ابوبکر ! گھبرانے کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور جب اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے تو دس بارہ لفنگوں کی کیا طاقت ہے کہ وہ ہمیں تکلیف پہنچا سکیں.خدا تعالیٰ انہیں خود تباہ کر دے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کشف میں جو کہا گیا ہے کہ میں اکیلا ہوں اس کا یہی مطلب ہے کہ دنیا کو تو نظر نہیں آتا کہ میرے ساتھ کوئی اور بھی ہے لیکن خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر وہ مجھ پر حملہ کریں گے تو وہ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے میں کامیاب و کامران ہوں گا اور وہ ناکام اور ذلیل ہوں گے.( الفضل یکم مارچ 1957 ء جلد 46/11 نمبر 52 صفحہ 5-4) وہم کا کوئی علاج نہیں ہر زمانہ میں سینکڑوں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ دنیا میں قوت واہمہ ہی اصل چیز ہے.اس کے سوا دنیا میں کسی اور چیز کا کوئی وجود ہے ہی نہیں.ایک قوت
تذکار مهدی ) 672 روایات سید نامحمود.واہمہ ہے جو آپ ہی آپ خیال دوڑاتی ہے اور اس کے اس خیال دوڑانے کے ماتحت مختلف وجود اپنے آپ کو محسوس کرنے لگتے ہیں ورنہ اس کے سوا دنیا میں نہ کوئی سورج ہے، نہ چاند ستارے اور نہ ستارے اور نہ ہی انسان موجود ہے جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ آندھی چلتی ہے تو آگے چلتی جاتی ہے اسی طرح ایک وہم سے دور پیدا ہوتا جاتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا کہ یہ دنیا سب وہم ہی وہم ہے.آپ بھی وہم ہیں.میں بھی وہم ہوں.بادشاہت اور حکومت بھی وہم ہے.بادشاہ اسے بہت عرصہ تک سمجھاتا رہا کہ یہ بات درست نہیں اور اس سے خوب بحث مباحثے ہوتے رہے.مگر وہ اپنی رائے پر قائم رہا.بادشاہ نے خیال کیا کہ اسے کسی ایسی آزمائش میں ڈالنا چاہئے کہ اس کا یہ خیال دور ہو.ایک دن اس نے اپنا در بار اوپر کی منزل میں منعقد کیا اور سب درباریوں اور امراء وغیرہ کو اوپر ہی بلوالیا.مگر اسے نیچے ہی رہنے دیا.اس کے بعد جانوروں کے افسروں کو حکم دیا کہ ایک مست ہاتھی لا کر وہاں چھوڑ دیں اور ایک سیڑھی اوپر کی منزل پر آنے کے لئے لگی رہنے دی.جب ہاتھی آیا اور نظر ماری.تو اسے وہاں ایک آدمی کھڑا دکھائی دیا اور معاً اس پر حملہ آور ہوا.وہ شخص ادھر ادھر جان بچانے کے لئے بھاگتا رہا.مگر جدھر وہ جاتا.ہاتھی پیچھے جاتا.آخر وہ گھبرا کر سیڑھیاں چڑھنے لگا.بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا.تم گھبرا کر اوپر کیوں چڑھنے لگے یہ تو محض وہم ہے.ہاتھی بھی وہم ہے اور تم پر اس کے حملہ کا خیال بھی وہم ہے اور جب سب کچھ وہم ہے تو بھاگتے کیوں ہو.وہ بھی کوئی ہوشیار اور چالاک آدمی تھا.اس نے فوراً جواب دیا کہ سیڑھیوں پر چڑھ کون رہا ہے.یہ بھی وہم ہی ہے.تو اس قسم کے لوگوں کا کوئی علاج دنیا میں نہیں.یہ در حقیقت مریض ہوتے ہیں اور قوت فیصلہ ان میں نہیں ہوتی.اس لئے جو بات سنتے ہیں اس کے متعلق آسان طریق یہی نظر آتا ہے کہ کہہ دیں یہ وہم ہے.ان کی مثال اس کبوتر کی طرح ہوتی ہے.جو آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ اب بلی اس پر حملہ نہ کر سکے گی.ہر چیز کا سبب ایک نہیں ہوتا الفضل 18 جون 1941 ء جلد 29 نمبر 135 صفحہ 3 واقعات سے موجبات کو دریافت کرنا کوئی محفوظ طریق نہیں ہوتا.ہم ایک واقعہ دیکھتے
6673 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود نا ہیں اور بغیر اس کے کہ اصل سبب ہمیں معلوم ہو.ہم اس کا ایک سبب فرض کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے لئے یہ جائز ہو گیا ہے کہ ہم وہ سبب ہر جگہ بیان کرتے پھریں.حالانکہ ایک قسم کا نتیجہ ہمیشہ ایک ہی سبب کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا.بلکہ ایک ہی قسم کے نتیجہ کے مختلف اسباب ہوتے ہیں.پیٹ درد ایک مرض ہے.جو بالعموم لوگوں کو ہوتا رہتا ہے.مگر ہر پیٹ درد ایک ہی کھانے سے نہیں ہوتا.بلکہ بیسیوں کھانے ایسے ہیں جن کے کھانے سے پیٹ درد ہو جاتا ہے.پھر بیسیوں دردیں ایسی بھی ہیں.جو کھانے سے تعلق ہی نہیں رکھتیں.کسی کو چوٹ لگ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.معدہ کے اعصاب میں حدت اور تیزی پیدا ہو جائے.تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.تیزابی مادہ معدہ میں بڑھ جائے تو اس سے بھی پیٹ درد ہو جائے گا.خلو معدہ سے بھی پیٹ درد ہو جاتا ہے.اسی طرح اور بیسیوں اسباب ہیں.جن کے نتیجہ میں پیٹ درد پیدا ہو جاتا ہے.اب اگر کوئی سمجھے کہ پیٹ درد محض ثقیل غذا کھانے سے ہوتا ہے اور جب کسی کے متعلق یہ سنے کہ اسے پیٹ درد ہے تو یہ کہنا شروع کر دے کہ ضرور اس نے ثقیل غذا کھائی ہو گی.تو یہ نادانی ہو گی.اسی طرح ہیضہ زیادہ کھانا کھانے سے بھی ہو جاتا ہے اور ہیضہ خالی معدہ رہنے سے بھی ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہیضہ پڑا.ایک شخص ہیضہ میں مبتلا ہو کر مر گیا.جب اس کی نعش آئی اور جنازہ پڑھا جانے لگا تو ایک شخص بغیر اس بات کا کوئی خیال کئے کہ اس کے رشتہ داروں کو تکلیف ہوگی.صفوں میں ادھر اُدھر دوڑتا پھرے.اور شور مچاتا پھرے کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ لوگوں کی عقل کو کیا ہو گیا.بس وہ کھانے بیٹھتے ہیں تو غذا ٹھونستے چلے جاتے ہیں اور اس بات کا کوئی خیال نہیں کرتے کہ زیادہ کھا لیا تو ہیضہ ہو جائے گا.بس اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے کھانے کا فکر رہتا ہے.اور پھر اتنا کھائیں گے کہ حلق تک غذا ٹھونس لیں گے.کوئی یہ خیال نہیں کرتا کہ اپنی صحت کا بھی خیال رکھا جائے.ہم تو ہمیشہ ایک پھلکا کھاتے ہیں.ہم تو ہمیشہ ایک پھلکا کھاتے ہیں.ہمیں ہیضہ کیوں نہیں ہوتا.بس وہ ادھر ادھر دوڑتا پھرے اور بار بار یہ الفاظ کہتا جائے.دوسرے دن پھر ایک جنازہ آیا کسی نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے کوئی دل جلا پاس کھڑا تھا وہ کہنے لگا یہ اسی ایک پھلکا کھانے والے کا جنازہ ہے.بات یہ ہوئی کہ دوسرے ہی دن اس ایک پھلکے کا شور مچانے والے کو بھی ہیضہ ہو گیا اور وہ فوت ہو گیا.تو ہر چیز کا سبب ایک
تذکار مهدی ) 6674 روایات سید نا محمودی نہیں ہوتا.بلکہ مختلف اسباب ہوتے ہیں کیونکہ ایک نتیجہ کئی موجبات سے نکل سکتا ہے.قصائیوں کو فوج میں بھرتی کرنا ( الفضل 30 جون 1938 ء جلد 16 نمبر 147 صفحہ 5 | میں اپنے منصب اور مقام کے لحاظ سے تو نہ مشرقی ہوں نہ مغربی نہ عورتوں کا ایجنٹ ہوں نہ مردوں کا مگر اس کے اس لطیفہ میں مجھے مزا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو بھی جواب کا موقع دے دیا.ہمیں چاہئے کہ قربانی کیلئے ہر وقت تیار رہیں اور تیاری کرتے رہیں ورنہ وقت آنے پر فیل ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی ایک مثال سنایا کرتے تھے کہ کسی بادشاہ نے کہا، سپاہیوں کا کیا فائدہ ہے خواہ مخواہ بیٹھے تنخواہ لیتے ہیں، سب سپاہی موقوف کر دیے جائیں.جب قریبی ملک کے بادشاہ کو اس کا علم ہوا تو اس نے جھٹ حملہ کر دیا.اب اس نے مقابلہ کی یہ تجویز کی کہ سب قصائیوں کو بھیجا جائے تا کہ حملہ آور فوج کا مقابلہ کریں.چنانچہ انہیں بھیجا گیا مگر تھوڑی ہی دیر کے بعد وہ بھاگے ہوئے آئے کہ حضور بہت ظلم ہو گیا.وہ لوگ تو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ پٹھا، ہم تو چار چار آدمی مل کر پہلے ایک آدمی کو لٹاتے ہیں اور پھر قاعدہ کے ساتھ اسے ذبح کرتے ہیں مگر وہ لوگ اتنے عرصہ میں ہمارے ہیں آدمی مار ڈالتے ہیں ہم فریادی ہو کر آئے ہیں کہ کوئی انتظام کیا جائے.پس جو قوم دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں رہتی، اس کا وہی حال ہوا کرتا ہے جو ان قصائیوں کا ہوا.تمہارا مقابلہ بھی ان لوگوں سے ہے جو نہ رگ دیکھتے ہیں نہ بیٹھا، اور جب تک تم بھی ان کے مقابلہ کے لئے اچھی طرح تیار نہ ہو گے کامیابی نہیں ہو سکتی اس لئے تکالیف کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ.سادہ غذا کھاؤ اور جو اس ہدایت سے منہ موڑے، تم اُس سے منہ موڑ لو اور اس سے صاف کہہ دو کہ آج سے میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں.احرار اور منافقین کے مقابلہ میں ہم ہرگز کوئی کمزوری نہیں دکھائیں گے، انوارالعلوم جلد 14 صفحہ 19) تجسس کی عادت نہیں ہونی چاہئے بیعت کی شرطوں میں اب جھوٹ سے بچنے کے عہد کو بھی شامل کر لیا گیا ہے.پہلے بیعت کے الفاظ یہ تھے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گی مگر اب اس کے ساتھ یہ زیادہ کر دیا گیا
تذکار مهدی ) 675 نامحمودی روایات سیّد نا محمود ہے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گی.پس تم اپنے دلوں میں یہ اقرار کرو کہ جھوٹ نہیں بولوں گی.جھوٹ کے یہ معنی نہیں کہ تم ہر ایک کو اپنی بات بتلاؤ.مثلاً اگر کسی چور کی بیوی تمہارے پاس راز لینے آتی ہے تو تم اس سے کہہ سکتی ہو کہ میں نہیں بتاتی جاؤ نکل جاؤ.یہ جھوٹ نہیں ہو گا لیکن یہ ضرور جھوٹ ہو گا کہ تم اسے اصل جگہ چھپا کر دوسری جگہ بتاؤ.پس آج تمام احمدی عورتیں کان کھول کر سن لیں کہ عورت کی بیعت میں یہ عہد شامل ہے اور جو جھوٹ بولے گی وہ خود اپنی بیعت کی شرط کو توڑنے والی قرار پائے گی.وَ اِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا پھر مؤمن کی یہ علامت بتلائی کہ جب وہ کوئی لغو بات دیکھتا ہے تو اس کے پاس سے گزر جاتا ہے لیکن یہ بات نہایت ہی افسوسناک ہے کہ عورت ہمیشہ لغویات کی طرف متوجہ ہوتی ہے.مثلاً بلا وجہ دوسری سے پوچھتی رہتی ہے کہ یہ کپڑا کتنے کا لیا، یہ زیور کہاں سے بنوایا اور جب تک اس کی ساری ہسٹری معلوم نہ کر لے اسے چین نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک عورت نے انگوٹھی بنوائی لیکن کسی نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اس نے تنگ آ کر اپنے گھر کو آگ لگا دی.لوگوں نے پوچھا کچھ بچا بھی؟ اس نے کہا سوائے اس انگوٹھی کے کچھ نہیں بچا.ایک عورت نے پوچھا بہن تم نے یہ انگوٹھی کب بنوائی تھی؟ یہ تو بہت خوبصورت ہے.وہ کہنے لگی اگر یہی بات تم پہلے پوچھ لیتیں تو میرا گھر کیوں جاتا.یہ عادت عورتوں سے ہی مخصوص نہیں بلکہ مردوں میں بھی ہے.اَلسَّلامُ عَلَيْكُمُ کے بعد پوچھنے لگ جاتے ہیں کہ کہاں سے آئے ہو؟ کہاں جاؤ گے؟ کیا کام ہے؟ آمدنی کیا ہے؟ بھلا دوسرے کو اس معاملہ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ انگریزوں میں یہ کبھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک دوسرے سے پوچھیں کہ تو کہاں ملازم ہے؟ تعلیم کتنی ہے؟ تنخواہ کیا ملتی ہے؟ وہ کبھی کریدنے کا خیال نہیں کرتے.نمائش کی عبادت (مستورات سے خطاب، انوارالعلوم جلد 15 صفحہ 397 ) حقیقت یہ ہے کہ سچائی کے لیے کسی بڑی نمائش کی ضرورت نہیں ہوتی.سچائی انسان کے عمل سے ثابت ہو جاتی ہے اور خواہ کتنا ہی کسی کو دبایا جائے ، کتنا ہی کسی کو مٹایا جائے اگر اس کے دل میں نور ہو تو وہ کبھی چُھپ نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کے دل میں ریا تھا اُس نے مسجد میں رات دن عبادت شروع کر دی تا کہ کسی طرح وہ
6 676 ☀ تذکار مهدی ) روایات سید نا محمودی لوگوں میں ولی مشہور ہو جائے لیکن باوجود سارا دن عبادت کرنے کے اور ہر وقت مسجد میں رہنے کے جب وہ باہر نکالتا تو لڑکوں نے اُس سے مذاق کرنا اور عورتوں نے بھی اس کی طرف انگلیاں اٹھا کر کہنا کہ یہ بڑا منافق انسان ہے.اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی ایمان نہیں پایا جاتا.محض ریاء کاری کے لیے نمازیں پڑھتا ہے.یہاں تک کہ چھ سات سال گزر گئے وہ برابرلوگوں میں بزرگ اور ولی مشہور ہونے کے لیے نمازیں پڑھتا رہا اور لوگ اُسے منافق اور ریاء کار کہتے رہے.آخر سات سال گزرنے پر اُسے خیال آیا کہ میں نے تو اپنی عمر برباد کر دی.جس چیز کو حاصل کرنے کے لیے میں نمازیں پڑھتا رہا وہ اب تک مجھے حاصل نہیں ہوئی.میں چاہتا تھا کہ لوگوں میں ولی مشہور ہو جاؤں مگر لوگ مجھے منافق اور ریاء کار کہتے رہے.اب میں اس بے ایمانی کو چھوڑتا ہوں اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے عبادت کرتا ہوں.چنانچہ وہ جنگل میں چلا گیا.اس نے وضو کیا اور پھر نماز میں کھڑے ہو کر اللہ تعالی سے دعا کی کہ الہی ! اتنے عرصہ تک میں نے بناوٹی ولی بننے کی کوشش کی.مگر نہ میں بناوٹی ولی بنا اور نہ ہی مجھے تو ملا.اب دنیا والے مجھے جو چاہیں کہیں مجھے ان کی پروا نہیں میں صرف تیری رضا کے لیے عبادت کروں گا اور صرف تجھ سے تعلق رکھوں گا.اس کے بعد وہ مسجد میں آیا اور اس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے سچے دل سے عبادت شروع کر دی.ابھی اُس کے اس عزم پر چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ لوگ اس کی طرف انگلیاں اٹھا کر اشارہ کرنے لگے کہ یہ تو بڑا بزرگ ہے.اس کے چہرے سے تو خدا تعالیٰ کا نور ظاہر ہوتا ہے تو جب کوئی خدا کا ہو جائے تو لوگ اُسے تبلیغ سے خواہ کتنا روکیں آپ ہی آپ تبلیغ ہوتی چلی جاتی ہے.کیونکہ اس کا منہ بتا رہا ہوتا ہے کہ اُس پر خدائی نور چمک رہا ہے.لوگ ایک دوسرے کو اُس کی طرف آنے سے روکتے ہیں.مگر خدا آپ لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے اور انہیں ہدایت کے قبول کرنے کے لیے کھینچ کر لے آتا ہے.اور جب خدا کسی کو آپ تحریک کرے تو اور کون ہے جو اُسے روک سکے.یہ لوگ زید کو کہہ سکتے ہیں کہ تم کسی کومت تبلیغ کرو اور زید اس ہدایت کی پابندی کرے گا.لیکن جب خدا کسی سے کہے گا کہ جا اور زید سے جا کر پوچھ کہ یہ کیا بات ہے؟ تو وہ اُس شخص کو زید کے پاس آنے سے کس طرح روک سکیں گے.وہ تو کہے گا کہ مجھے خدا نے تمہاری طرف بھیجا ہے میں اُس وقت یہاں سے نہیں ہلوں گا جب تک میں تم سے یہ دریافت نہ کرلوں کہ وہ کیا چیز ہے جو تم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہو.(خطبات محمود جلد 34 صفحہ 206-205)
تذکار مهدی ) 677 اللہ تعالے تو بہ قبول کرتا اور پہلے سے زیادہ رحم کرتا ہے روایات سید نا محمود دنیا کی ہر چیز خدا تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے انسان کا دل و دماغ اس کے ظاہری اور باطنی حالات پر وہی قبضہ رکھتا ہے اور حالات کا صحیح علم بھی اسی کو ہوسکتا ہے.بسا اوقات ہم ظاہری حالات کو دیکھ کر غلطی کر جاتے ہیں اور ان سے غلط نتیجہ نکال لیتے ہیں.پس ہم اپنے بھائی کی عدم موجودگی میں اس کا بیان سنے بغیر کوئی رائے قائم نہیں کریں گے لیکن اس میں کیا شبہ ہے کہ اگر فی الواقعہ ہمارا ایک بھائی ایک غلطی کا مرتکب ہوا ہے تو وہ اور بھی زیادہ ہمارے رحم اور ہماری ہمدردی کا مستحق ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک مثال بیان کی ہے فرماتے تھے.کسی شخص کے دو بیٹے تھے اس نے اپنا مال ان میں بانٹ دیا.چھوٹا بیٹا اپنا سارا مال لے کر دور دراز چلا گیا اور وہاں اس نے سارا مال بدچلنی میں ضائع کر دیا.آخر وہ ایک شخص کے ہاں چرواہے کے طور پر ملازم ہو گیا.اس حالت میں اس نے خیال کیا میرے باپ کے کتنے ہی مزدوروں کو روٹی افراط سے ملتی ہے مگر میں یہاں بھوکا مر رہا ہوں کیوں نہ میں اس کے پاس جا کر یہ کہوں کہ مجھے بھی اپنے مزدوروں کی طرح رکھ لے.اس پر وہ اپنے باپ کے پاس گیا باپ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اسے گلے لگا لیا اور نوکروں سے کہا خوب موٹا تازہ بچھڑا لا کر ذبح کرو تا کہ ہم کھائیں اور خوشی منائیں.جب اس کا دوسرا بیٹا آیا تو اسے یہ بات بہت بُری لگی اس نے اپنے باپ سے کہا میں اتنے برس سے تیری خدمت کر رہا ہوں اور کبھی تیری حکم عدولی نہیں کی مگر تو نے کبھی ایک بکری کا بچہ بھی نہ دیا کہ اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی مناتا لیکن جب تیرا یہ بیٹا آیا جس نے تیرا مال عیش و عشرت میں ضائع کر دیا تو اس کے لئے تو نے پلا ہوا بچھڑا ذبح کرایا.باپ نے کہا تو ہمیشہ میرے پاس ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ تیرا ہی ہے لیکن تیرے اس بھائی کے آنے پر اس لئے خوشی منائی گئی کہ یہ مردہ تھا اب زندہ ہو ا کھویا ہوا تھا اب ملا ہے.پس جو شخص کسی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے.جب وہ غلطی کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور جاتا، اس کے آگے جھکتا اور اپنے قصور کا اعتراف کرتے ہوئے ندامت کا اظہار کرتا ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول کرتا اور پہلے سے زیادہ اس پر رحم کرتا ہے.اسی اصل کے ماتحت خدا تعالیٰ کے بندے بھی اپنے بھائیوں سے سلوک کرتے ہیں جب وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے کسی بھائی سے غلطی ہوئی.کوئی قصور سرزد ہوا تو اس غلطی کا دلیری سے اعتراف کرتے ہیں یہ نہیں کہ
تذکار مهدی ) 678 روایات سید نا محمود بھائی کی غلطی کی وجہ سے اس پر پردہ ڈالتے اور اسے چھپا نا شروع کر دیتے ہیں.بعض اہم اور ضروری امور، خطبات محمود جلد 12 صفحہ 589) سکھوں کا ظلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.امرتسر میں کسی سکھ نے ایک مسلمان کو خط دیا کہ پڑھ دو.اس وقت سکھ کی قابلیت یہ مجھی جاتی تھی کہ وہ پڑھا ہوا نہ ہو اور سکھ مختلف بہانوں سے لوگوں سے خط پڑھواتے تا کہ اگر کوئی پڑھ دے تو یہ اس کے مسلمان ہونے کی علامت ہوگی اور اسے مار دیا جائے جسے خط پڑھنے کے لئے دیا گیا اس نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں.سکھ نے کہا.نہیں.ضرور پڑھ دو.اس نے کہا.میں بالکل نہیں پڑھا ہو ا.سکھ نے کہا اگر تم پڑھے ہوئے نہیں تو یہ بالکل کا لفظ کہاں سے سیکھ لیا تم ضرور پڑھے ہوئے ہو یہ کہ کر اس نے تلوار سے اس کا سراڑا دیا.(انوار العلوم جلد نمبر 12 صفحہ 589) اندھا دھند تقلید نہیں کرنی چاہئے ،، دو سب سے پہلی بات جو انسان کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ انانیت کو قائم رکھے اور ایسے طریق پر قائم رہے کہ جباریت کا رنگ نہ اختیار کرے پس مومن کو چاہئے کہ وہ ان تینوں صفات کو قائم رکھے یعنی اس میں انانیت بھی ہوا چھے برے میں تمیز بھی ہو اور اندھا دھند نقل بھی نہ کی جائے بلکہ اپنے آپ کو ایسے رنگ میں قوم کے ساتھ ملائے کہ قوم کے ساتھ ملا بھی رہے اور اس کا اپنا وجود بھی الگ نظر آئے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بالکل ست بچنئے بن جاتے ہیں.خواہ کچھ ہی بات ہو وہ سچ ہے سچ ہے“ کہتے اور اپنی رائے اور اپنے ارادے کو دبا کر ضائع کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک راجہ نے ایک دفعہ بینگن کھائے تو اسے بہت ہی مزہ آیا.وہ جب دربار میں آیا تو کہنے لگا.بینگن کیا ہی اچھی چیز ہے.اس کا ایک مصاحب تھا اس نے بھی بینگن کی تعریف کرنی شروع کر دی کہ اور تو اور اس کی شکل ہی دیکھئے کیسی عمدہ ہے.سر تو ایسا ہے جیسے کسی پیر نے سبز پگڑی باندھ رکھی ہو، نیلگوں لباس تو آسمان کی رنگت کو مات کر رہا ہے، پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی شہزادہ جھولا جھول رہا ہے.اور طبی طور پر جتنی اس کی خوبیاں تھیں ساری کی ساری رگن ڈالیں.یہ باتیں سن کر راجہ کو اور شوق پیدا ہوا اور اس نے کچھ دن بینگن کھائے ، بینگن چونکہ گرم
تذکار مهدی ) 679 روایات سید نا محمود ہوتے ہیں اس لئے انہوں نے جدت پیدا کی تو راجہ نے ایک دن کہا بینگن بہت بری شئے ہے.اس پر اسی مصاحب نے اس کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں.کہنے لگا شکل تو دیکھئے.کالا مونہہ نیلے پاؤں ہیں اس سے بھی زیادہ اور کیا اس کی برائی ہوسکتی ہے کہ الٹا لٹکا ہوا ہے.جیسے کسی نے پھانسی پر لٹکایا ہو.چونکہ ہر شئے کی کچھ خوبیاں اور کچھ برائیاں ہوتی ہیں اس موقعہ پر اس مصاحب نے اس کی تمام وہ برائیاں جو طبی طور پر تھیں بیان کیں.پاس بیٹھنے والوں میں سے کسی نے کہا یہ کیا؟ اس نے جواب دیا.میں راجہ کا نوکر ہوں نہ بینگن کا.ایسے لوگ جوست بچنئے ہوتے ہیں جس مجلس میں جاتے ہیں ویسے ہی ہو جاتے ہیں اگر وہ جماعت کے لوگوں سے ملتے ہیں تو وہی کام کرنا شروع کر دیتے ہیں جو جماعت کے افراد کر رہے ہوتے ہیں وعظ کہنا شروع کر دیتے ہیں.تبلیغ کرنی شروع کر دیتے ہیں.مضامین نویسی شروع کر دیتے ہیں لیکن جب دوسروں میں جاتے ہیں تو انہیں کے سے ہو جاتے ہیں.راجہ کا غلام ہوں بینگن کا نہیں (خطبات محمود جلد نمبر 10 صفحہ 78) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک راجہ نے ایک دفعہ بینگن کی بھیجیا کھائی.جو اسے بڑی مزیدار معلوم ہوئی.وہ دربار میں آیا اور کہنے لگا بینگن بڑی اچھی چیز ہے.آج میں نے اس کی بھجیا کھائی ہے جو بڑی مزیدار تھی.اس پر ایک درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور بینگن تو عجیب چیز ہے.جس وقت یہ پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ہوتا ہے تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے.جیسے کوئی صوفی ایک کو نہ میں سر نیچے اور پیر اونچے کر کے خدا کی عبادت میں مشغول ہو اور پھر حضور اگر طب کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں تو حضور کو معلوم ہوگا کہ اس میں بڑی بڑی خوبیاں ہیں.چنانچہ اس نے ایک ایک کر کے بینگن کی خوبیاں بیان کرنی شروع کر دیں.اس کے بعد چند دن متواتر جو راجہ نے بینگن استعمال کیے تو اسے بواسیر ہو گئی.اس پر وہ دربار میں آکر کہنے لگا کہ میں تو سمجھتا تھا کہ بینگن بڑی اچھی چیز ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بھی نقص ہیں.میں نے چند بینگن کھائے تو مجھے بواسیر ہوگئی ہے اس پر وہی درباری پھر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.حضور بینگن بڑی خراب چیز ہے.طب کی کتابوں میں اس کا یہ نقص بھی ہے وہ نقص بھی لکھا ہے.طب کی کتابوں میں آخر ہر چیز کے فوائد کا بھی ذکر ہوتا ہے.اور لکھا.
تذکار مهدی ) 680 روایات سید نامحمود نقصانات کا بھی.اس نے نقصانات بتانے شروع کر دیئے کہ اس میں یہ بھی خرابی ہوتی ہے اور وہ بھی خرابی ہوتی ہے اور پھر کہنے لگا.حضور اس کی شکل بھی دیکھئے کتنی منحوس ہوتی ہے.جس وقت یہ کمبخت پودے کے ساتھ لٹکا ہوا ہوتا ہے.تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے.جیسے کسی چور کے ہاتھ منہ کالے کر کے اسے کسی صلیب پر لٹکا یا ہوتا ہے درباریوں نے بعد میں اسے بڑی ملامت کی اور کہا کہ تو بڑا بے حیا ہے.اس دن تو بینگن کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور آج تو نے اس کی مذمت شروع کر دی وہ کہنے لگا.میں راجہ کا نوکر ہوں.بینگن کا نہیں.اسی طرح ہم بھی خدا کے نوکر ہیں مولویوں کے نہیں.اگر خدا کسی وجہ سے ہمارا ساتھ دینے لگتا ہے تو چاہے وہ کتنی چھوٹی وجہ ہو.ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہو گی کہ وہ چھوٹی وجہ ہے.اگر ایک چھوٹی وجہ سے ہی خدا ہمارے ساتھ ہو گیا ہے اور اس کی تائید ہمارے شامل حال ہو گئی ہے.تو ہمیں اس وجہ کے چھوٹا ہونے کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی.کیونکہ ہمارا اصل مقصود خدا ہے.اور ہم خدا کے نوکر ہیں مولویوں کے نہیں.جب خدا ہمارے ساتھ ہو گیا تو ہماری غرض پوری ہو گئی.اب ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ دنیا ہمیں اچھا کہتی ہے یا برا کہتی ہے.اگر خدا ہمارے ساتھ ہے تو دنیا کی مخالفت ہماری نگاہ میں ایک ذرا بھر بھی حقیقت نہیں رکھتی.(الفضل 8 جون 1957ءجلد 46/11 نمبر 136 صفحہ 4) علم مجلس بھی نہایت ضروری ہے مبلغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ علم مجلس سے واقف ہو اور کسی بات کے متعلق ایسی لاعلمی کا اظہار نہ کرے جو بیوقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہو.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو کسی پیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو.وزیر چونکہ اس کی حقیقت جانتا تھا اس لئے ٹلاتا رہتا.آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا.پیر صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا.بادشاہ سلامت دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے سکندر بادشاہ نے دین اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے یہ سن کر وزیر نے کہا دیکھئے حضور! پیر صاحب کو ولائیت کے ساتھ تاریخ دانی کا بھی بہت بڑا ملکہ ہے.اس پر بادشاہ کو اس سے نفرت ہو گئی.حضرت صاحب یہ قصہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ علم مجلس بھی نہایت ضروری ہے.جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے.اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے مثلاً ایک مجلس مشورہ کی ہو رہی ہو اور کوئی
تذکار مهدی ) 681 روایات سید نا محمود ) بڑا عالم ہو مگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر بہت برا اثر پڑے گا.پس یہ نہایت ضروری علم ہے اور مبلغ کا اس کو جاننا بہت ضروری ہے.ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب ، طب، آداب گفتگو، آداب مجلس و غیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو.جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہوسکتی ہے.اس کے لئے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پھر واقعات حاضرہ سے واقفیت ہونی چاہئے.مثلاً کوئی پوچھے کہ مسٹر گاندھی کون ہے اور مبلغ صاحب کہیں میں تو نہیں جانتا تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور اسے حقیر سمجھیں گے اس لئے ایسے واقعات سے جو عام لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں اور روز مز ہ ہو رہے ہوں ان سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے.( ہدایات زریں.انوار العلوم جلد 5 صفحہ 584 تا 585 ) سلسلہ کی کتابوں میں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ سے سوسو دو دو سو میل کے اندر جتنے لوگ ہیں ان کو تو یہ اقرار کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی طرح ہم نے تین چار دفعہ مہینہ میں ضرور پہنچنا ہے.وہ ہر اتوار کو آپہنچتے تھے.مفتی محمد صادق صاحب کو تو تم نے دیکھا ہے.ان کی صحت کتنی کمزور ہے مگر وہ کمزور شخص ہر اتوار کو بٹالہ سے بارہ میل پیدل چل کر قادیان آ پہنچتا تھا.اسی طرح منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم کپورتھلہ سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے.اُس وقت ان کی تنخواہ صرف پانچ چھ روپے ہوتی تھی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو وہ آئے اور آ کر مجھے پیغام بھیجا کہ ملنا ہے.میں باہر آیا تو انہوں نے مصافحہ کیا اور تین یا چار اشرفیاں میرے ہاتھ میں دے دیں اور پھر رونے لگے.میں نے سمجھا کہ شاید حضرت صاحب کی وفات کی وجہ سے رورہے ہیں مگر ان کی چچنیں نکلتی چلی گئیں اور ہچکی بندھ گئی.میں نے سمجھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور بات بھی ہے اور انہیں کوئی اور واقعہ یاد آیا ہے.میں اُن کو تسلی دیتا چلا جاؤں کہ صبر کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مشیت تھی.آخر بڑی مشکل سے چپ ہوئے.مگر چپ کر کے دوبارہ ہچکی لی اور رونے لگ گئے.میری طبیعت بھی کچھ گھبرائی مگر میں نے صبر کیا.آخر کہنے لگے میری ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ میں حضرت صاحب کو سونا نذرانہ کے طور پر پیش
تذکار مهدی ) 682 روایات سید نا محمودی کروں.میں سارا مہینہ پیسے جمع کرتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے قادیان بھی ضرور جانا ہے مگر پیدل جاؤں گا تو پیسے جمع کروں گا اس لئے کہ حضرت صاحب خدا تعالیٰ کے بڑے مقرب اور مسیح موعود ہیں اُن کو نذرانہ دینا ہے تو سونا دینا ہے مگر سونا کبھی نہیں ہوتا تھا.باوجود یکہ میں پیدل آتا تھا پھر بھی روپے بنتے تھے سونا نہیں بنتا تھا اس وقت وہ تحصیلدار ہو گئے تھے مگر ریاستوں میں تحصیلداروں کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے.بہر حال اُن کی تنخواہ اُس وقت اتنی تھی کہ وہ قربانی کر کے سونا بنا سکتے تھے ) انہوں نے یہ کہا اور پھر پیچکی لی اور پھر چینیں مار کر رونے لگ گئے.پھر کہنے لگے ”ساری عمر جوڑ جوڑ کے ایس انتظار وچ رہے کہ حضرت صاحب نوں ملاں گے تے سونا نذرانہ دیاں گے.جب تک حضرت صاحب رہے سونا نہیں لھیا.جدوں سونالھیا تے حضرت صاحب نہیں رہے، پھر مجھے پتا لگا کہ اس شخص کے دل میں کتنا اخلاص اور کتنی محبت تھی.تو چاہئے کہ تم بھی صحابہ والا رنگ اختیار کرو، زیادہ سے زیادہ ربوہ آؤ اور زیادہ سے زیادہ مجھ سے مل کر اور دوسرے دوستوں سے مل کر کوشش کرو کہ تمہارا علم بڑھے.اور پھر سلسلہ کی کتابیں خریدو اور ان کو پڑھو.ہمارے سلسلہ کی کتابوں میں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں اور سلسلہ کی دوسری کتابیں پڑھ لے اس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی آدمی نہیں ٹھہر سکتا.(متفرق امور، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 216 تا217) مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات پیدائش دنیا کے نزدیک ایک ہی نکتہ رکھتی ہے یعنی خوشی کا کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر زیادہ لیکن آسمان کے فرشتے کسی کی پیدائش پر اگر ان کے لئے رونا ممکن ہو تو آنسو بہاتے یا دوسرے الفاظ میں اپنے رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر خواہ دنیا کے لوگ خوشی نہ منائیں فرشتے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہیں یہی حال موت کا ہے موت کے وقت بھی دنیا کے ہر انسان کے رشتہ دار اور دوست تھوڑے ہوں یا بہت رنج محسوس کرتے ہیں.ایک ڈاکو مرتا ہے تو اس کے بیوی خوش نہیں آتے کہ ہمارا باپ ڈا کو تھا، قاتل تھا، فتنہ وفساد پھیلاتا تھا، اچھا ہوا کہ وہ مر گیا بلکہ اُن کی اسی طرح چیچنیں نکل جاتی ہیں جس طرح بڑے سے بڑے محسن اور نیک باپ کے بچوں کی اُس کی وفات پر نکل جاتی ہیں اور وہ دنیا کے لئے اس کی موت کو ایسا ہی خطرناک سمجھتے ہیں جیسے کسی بڑے سے بڑے مصلح کی وفات کو بلکہ شاید اس سے زیادہ.
تذکار مهدی ) 683 روایات سید نامحمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات ہوئی تو چونکہ ان کے دور حکومت میں امن قائم ہوا تھا.اور وہ طوائف الملو کی جو پہلے پھیلی ہوئی تھی جاتی رہی تھی اس لئے سکھوں کے علاوہ جو ان کے ہم مذہب اور ہم قوم تھے ہندو اور مسلمان بھی عام طور پر یہ سمجھتے تھے کہ اب ان کی وفات کے بعد پھر فتنے پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے لوگوں میں ایک کہرام مچا ہوا تھا اور ہر شخص کے آنسو رواں تھے.جن کے زیادہ گہرے تعلقات تھے وہ چیچنیں مار رہے تھے.فرماتے تھے کہ کوئی چوہڑا لا ہور کے قریب سے گزرا اور اس نے جب دیکھا کہ ہر شخص ماتم کر رہا ہے تو اس نے کسی سے پوچھا کہ آج لاہور والوں کو کیا ہو گیا ہے کہ جس کو دیکھو رو رہا ہے.جس کو دیکھو رو رہا ہے اس نے کہا.تمہیں پتہ نہیں.مہاراجہ رنجیت سنگھ فوت ہو گئے ہیں.وہ بڑی حیرت کا اظہار کر کے کہنے لگا.اچھا! رنجیت سنگھ مر گیا ہے اور اس پر لوگ رور ہے ہیں.پھر کہنے لگا.”باپو ہوراں جیسے مر گئے تے رنجیت سنگھ بیچار اکس شمار وچ.یعنی جب میرے باپ جیسا آدمی مر گیا تو رنجیت سنگھ بھلا کس شمار میں تھا.اب مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ذریعہ بے شک امن قائم ہوا تھا.مگر چونکہ اس چوہڑے کا جو تعلق اپنے باپ سے تھا وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ سے نہیں تھا.اور سیاسی فوائد کو وہ سمجھنے کے قابل نہیں تھا اس لئے اس کے نزدیک سب سے بڑی رنج کی بات اپنے باپ کی وفات تھی.اسی طرح کئی بادشاہ بڑے ظالم ہوئے ہیں.مثلاً ہلاکو خاں بڑا ظالم مشہور ہے.مگر جب ہلاکومرا ہوگا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ اس کی بیوی اور بچوں کو دوسروں کی بیویوں اور بچوں سے کم صدمہ ہوا ہوگا.یقینا انہیں ہلاکو خاں کی وفات پر ویسا ہی صدمہ ہوا ہوگا.جیسے نوشیروان عادل کی وفات پر اس کے بیوی بچوں کو ہوا تھا.حالانکہ نوشیرواں عدل کی وجہ سے مشہور ہے اور ہلاکو خاں ظلم کی وجہ سے مگر دونوں کے بیوی بچوں کو یکساں صدمہ ہوا ہوگا.بلکہ ممکن ہے ہلاکو خان کی بیوی بچوں کو احساسات کے زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے نوشیرواں کے بیوی بچوں سے بھی زیادہ صدمہ ہوا ہو.مگر آسمان پر یہ بات نہیں جس طرح پیدائش پر دنیا میں سارے بندے خوش ہوتے ہیں گو کسی کی پیدائش پر تھوڑے لوگ خوش ہوتے ہیں اور کسی کی پیدائش پر زیادہ لوگ خوش ہوتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں.وہاں کسی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور کسی کی پیدائش پر رنج کا اظہار کیا جاتا ہے.اسی طرح موت کا حال ہے.موت پر سب لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں گو کسی کی موت پر
تذکار مهدی ) 684 روایات سید نا محمودی تھوڑے لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں اور کسی کی موت پر زیادہ لوگ رنج کا اظہار کرتے ہیں مگر آسمان پر یہ بات نہیں.وہاں کسی کی موت پر رنج کا اظہار کیا جاتا اور کسی کی موت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے.پھر یہ جذ بہ بھی اموات کے لحاظ سے نسبتی طور پر تقسیم ہو جاتا ہے اور فرشتوں کا رنج اور ان کی خوشی بعض دفعہ مرکب ہو جاتی ہے.یعنی فرشتے صرف رنج یا صرف خوشی کا اظہار نہیں کرتے بلکہ ان کی خوشی اور ان کا رنج ملا جلا ہوتا ہے.مثلاً جب کوئی بدقسمت اور گنہگار انسان مرتا ہے یا ایسا ظالم انسان مرتا ہے جس نے دنیا کے امن کو برباد کیا ہوا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ خوش بھی ہوتے ہیں کہ بندوں کو اس ظالم انسان سے نجات ملی اور وہ رنج بھی کرتے ہیں کہ اپنے مولا کو راضی کرنے کے سے پہلے وہ شخص مر گیا.اسی طرح جب اللہ تعالی کے بزرگ اور نیک لوگ فوت ہوتے ہیں اور دنیا میں ان کی وفات کی وجہ سے کہرام مچا ہوا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کے مچا فرشتے ان کی صحبت کے خیال سے خوشی منارہے ہوتے ہیں.موت کیا ہے؟ موت اس دنیا سے اگلے جہان میں جانے کا ایک دروازہ ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحه 171-173 ) تجارت کا شہ اختیار کرنا چاہئے ہندوؤں میں بھی تنظیم ہے.ہندوؤں میں سے اگر کوئی شخص بیکار ہو تو وہ کبھی متنظر نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ پیشے بہت ہیں.ایک جگہ نہیں.تو دوسری جا کر کوئی کام شروع کر دوں گا اور اگر دوسری جگہ بھی نہیں تو کہیں اور جا کر کوئی پیشہ اختیار کرلوں گا لیکن اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دیکھو اگر کوئی مسلمان بے کار ہو جائے تو ایک آدھ جگہ ملازمت کی کوشش کرے گا اگر 6* وہ ناکام رہا تو سوائے بھیک مانگنے کے وہ کسی دوسرے پیشہ کی طرف متوجہ ہی نہیں ہو گا.میں ابھی طالب علم تھا عبدالرحمن صاحب کا غانی مرحوم جن کا اخبارات میں اٹھرا کی گولیوں کا اشتہار چھپا کرتا تھا وہ بھی طالب علم تھے، وہ مجھ سے پہلے سے پڑھ رہے تھے اس لئے وہ مجھ سے سینئر تھے ہم حضرت خلیفہ اول سے طب پڑھتے تھے ایک دن مطب میں ہم بیٹھے ہوئے تھے حضرت خلیفہ اول ہمیں کوئی طب کی کتاب پڑھا رہے تھے اُس وقت حضرت خلیفہ اول خلیفہ نہ تھے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے.حضرت خلیفہ اول نے کسی شخص کا پچاس ساٹھ روپے قرض دینا تھا آپ نے عبدالرحمن صاحب کا غانی کو بلایا اور کہا کہ
تذکار مهدی ) 685 روایات سید نا محمودی ہاتھ بڑھاؤ یہ روپیہ لے جاؤ اور فلاں آدمی کو جا کر دے آؤ.عبدالرحمن صاحب کا غانی نے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے وہ روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے مگر ہم نے دیکھا کہ روپے لیتے وقت عبدالرحمن صاحب کا غانی کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور وہ کچھ متوحش سے نظر آنے لگے.حضرت خلیفہ اول نے کہا دیکھو مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ چونکہ پچاس یا ساٹھ رو پیدا نہوں نے بھی دیکھا نہ تھا اس لئے روپیہ پکڑتے وقت ان کے ہاتھ کانپنے لگے، صرف اس خیال سے کہ اگر یہ روپیہ رستہ میں کہیں گم ہو جائے یا گر جائے تو میں اتنا روپیہ کہاں سے ادا کروں گا.آپ نے فرمایا ایک ہندو کو بلاؤ اس کو میں اگر ایک لاکھ روپیہ بھی دوں تو وہ دھوتی کے کسی کونے میں دبا کر اطمینان سے لے جائے گا اور اُس کو خیال بھی نہ ہو گا کہ میں کیا لئے جا رہا ہوں.تو ہندو اگر بے کار بھی ہوگا تو اسے فکر نہ ہو گی مگر اس کے مقابلہ میں ایک مسلمان کو سخت تکلیف کا سامنا ہوگا.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ مسلمانوں نے تجارت جیسے منافع بخش پیشے کو چھوڑ دیا، اگر مسلمان تجارت کو ہاتھ سے نہ جانے دیتے تو آج یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا.(ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 446، 447) سچے مومن کی مثال وہ لوگ جو تھوڑی سی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے بہت کچھ دے دیا اور وہ اپنے آپ کو تھکا ہوا پاتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے بہادر سپاہی کس طرح کہلا سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کا بہادر سپاہی وہ ہے جو اپنی ہر چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی آواز پر قربان کرنے کے لئے تیار ہو اور ہر وقت پا بہ رکاب رہتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے مومن کی مثال کچے دوست سے دیتے تھے آپ سنایا کرتے تھے کہ کوئی امیر آدمی تھا اس کے لڑکے کے کچھ اوباش لڑکے دوست تھے باپ نے اُسے سمجھایا کہ یہ لوگ تیرے بچے دوست نہیں ہیں محض لالچ وغیرہ کی خاطر تمہارے پاس آتے ہیں ورنہ ان میں سے کوئی بھی تمہارا وفا دار نہیں مگر لڑکے نے اپنے باپ کو جواب دیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو کوئی سچا دوست شاید میسر نہیں آیا اس لئے آپ سب لوگوں کے متعلق یہی خیال رکھتے ہیں مگر میرے دوست ایسے نہیں وہ بہت وفادار ہیں اور میرے لئے جان تک قربان کرنے کو تیار ہیں.باپ نے پھر سمجھایا کہ سچے دوست کا ملنا بہت مشکل ہے ساری عمر میں مجھے ایک ہی سچا.
تذکار مهدی ) 686 روایات سید نامحمود دوست ملا ہے لیکن وہ لڑکا اپنی ضد پر قائم رہا کچھ عرصے کے بعد اس نے گھر سے خرچ کے لئے کچھ رقم مانگی تو باپ نے جواب دیا کہ میں تمہارا خرچ برداشت نہیں کر سکتا تم اپنے دوستوں سے مانگو میرے پاس اس وقت کچھ نہیں.دراصل اُس کا باپ اس کے لئے موقع پیدا کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کا امتحان لے جب باپ نے گھر سے جواب دے دیا اور تمام دوستوں کو معلوم ہو گیا کہ اسے گھر سے جواب مل گیا ہے تو انہوں نے آنا جانا بند کر دیا اور میل ملاقات بھی چھوڑ دی آخر تنگ آکر خود ہی ان کو ملنے کے لئے ان کے گھروں پر گیا.جس دوست کے دروازہ پر دستک دیتا وہ اندر سے ہی کہلا بھیجتا کہ وہ گھر میں نہیں ہے کہیں باہر گئے ہوئے ہیں یا وہ بیمار ہیں اس وقت مل نہیں سکتے.سارا دن اُس نے چکر لگایا مگر کوئی دوست ملنے کے لئے باہر نہ نکلا آخر شام کو گھر واپس لوٹ آیا.باپ نے پوچھا بتاؤ دوستوں نے کوئی مدد کی وہ کہنے لگا سارے ہی حرام خور ہیں کسی نے کوئی بہانہ بنالیا ہے اور کسی نے کوئی.باپ نے کہا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ لوگ وفادار نہیں ہیں اچھا ہوا تمہیں بھی تجربہ ہو گیا ہے.اب آؤ میں تمہیں اپنے دوست سے ملاؤں وہ پاس ہی کسی چوکی میں سپاہی کے طور پر ملازم تھا یہ باپ بیٹا اُس کے مکان پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.اندر سے آواز آئی کہ میں آتا ہوں لیکن کافی دیر ہوگئی اور وہ دروازہ کھولنے کے لئے نہ آیا.لڑکے کے دل میں مختلف خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے اُس نے باپ سے کہا ابا جی ! معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا دوست بھی میرے دوستوں جیسا ہی ہے.باپ نے کہا کچھ دیر انتظار کرو آدھا گھنٹہ گزر چکنے کے بعد اُس نے دروازہ کھولا گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی، ایک ہاتھ میں ایک تھیلی اُٹھائی ہوئی تھی اور دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑے ہوئے تھا، دروازہ کھولتے ہی اُس نے کہا معاف فرمائیے آپ کو بہت تکلیف ہوئی میں جلدی نہ آسکا.میرے جلدی نہ آنے کی وجہ یہ ہوئی کہ آپ نے جب دروازہ پر دستک دی تو میں سمجھ گیا کہ آج کوئی خاص بات ہے کہ آپ خود آئے ہیں ورنہ آپ کسی نوکر کو بھی بھجوا سکتے تھے، میں نے دروازہ کھولنا چاہا تو مجھے یکدم خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی مصیبت آئی ہو یہ تین چیزیں میرے پاس تھیں ایک تلوار اور ایک تھیلی جس میں میرا ایک سال کا اندوختہ جو کہ پانچ سو روپے کے قریب ہے اور میری بیوی خدمت کے لئے آئی ہے کہ شاید آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو اور یہ دیر جو ہوئی ہے وہ اس تھیلی کے کھودنے میں ہوئی ہے.میں نے خیال کیا کہ ممکن ہے کوئی ایسی مصیبت ہو جس میں کوئی جانباز کام آ سکتا ہو اس لئے میں نے تلوار ساتھ لے لی ہے کہ اگر جان کی ضرورت ہو تو میں جان پیش کر سکوں، پھر میں نے
تذکار مهدی ) 687 روایات سید نا محمود خیال کیا کہ گو آپ امیر آدمی ہیں لیکن ہو سکتا ہے کہ کوئی مصیبت ایسی ہو جس سے آپ کا مال ضائع ہو گیا ہو اور میں روپیہ سے آپ کی مدد کر سکوں تو میں نے یہ تھیلی ساتھ لے لی ہے اور پھر میں نے خیال کیا کہ بیماری وغیرہ انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی تکلیف ہو تو میں نے بیوی کو بھی ساتھ لے لیا ہے تا کہ وہ خدمت کر سکے.اس امیر آدمی نے کہا میرے دوست! مجھے اس وقت کسی مدد کی ضرورت نہیں اور کوئی مصیبت اس وقت مجھ پر نہیں آئی بلکہ میں صرف اپنے بیٹے کو سبق سکھانے کے لئے اس وقت آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہ سچی دوستی ہے اور اس سے بڑھ کر سچی دوستی انسان کو اللہ تعالیٰ سے قائم کرنی چاہئے کہ وہ اپنی جان اور مال اور اپنی ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہے جس طرح دوست کبھی مانتے ہیں اور کبھی منواتے ہیں اسی طرح انسان کا فرض ہے کہ وہ صدقِ دل کے ساتھ اور شرح صدر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں کرتا چلا جائے.اللہ تعالیٰ ہماری کتنی باتیں مانتا ہے رات دن ہم اس کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں، اُس نے جو چیزیں ہماری راحت اور آرام کے لئے بنائی ہیں ہم ان کو استعمال کرتے ہیں، آخر کس حق کے ماتحت ہم ان چیزوں سے فائدہ اُٹھاتے ہیں.خدا تعالیٰ ہماری کتنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ دفعہ اپنی خواہش کے خلاف ہو جائے تو کس طرح لوگ اللہ تعالیٰ سے بدظن ہو جاتے ہیں اصل تعلق یہ ہے جو عسر اور یسر دونوں حالتوں میں استوار رہے اور اس میں کوئی فرق نہ آئے.(اب عمل اور صرف عمل کرنے کا وقت ہے ، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 382 تا 384 ) سچے دوست کی پہچان خدا کی رحمتیں ہوں اس شخص پر اس نے عشق کا ایک ایسا نمونہ قائم کیا کہ قیس اور مجنوں کا عشق اگر اس میں کوئی حقیقت تھی بھی اس کے عشق کے مقابل پر مرجھا کر رہ جاتا ہے.اس حقیقی محبت کے مظاہرہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں دلیلیں نہیں پوچھی جاتیں.وہاں انسان پہلے اطاعت کا اعلان کرتا ہے پھر یہ سوچتا ہے کہ میں اس حکم پر کس طرح عمل کروں.یہی کیفیات انبیاء کی ہوتی ہیں.جب اللہ تعالیٰ کا پہلا کلام اترتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کی محبت ان کے دلوں میں اتنی ہوتی ہے کہ وہ دلیل بازی نہیں کرتے اور جب خدا کی آواز ان کے کانوں میں پہنچتی ہے.تو وہ یہ نہیں کہتے کہ اے ہمارے رب کیا تو ہم سے جنسی کر رہا ہے کہاں ہم اور کہاں یہ کام.
تذکار مهدی ) 688 روایات سید نا محمود بلکہ وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب بہت اچھا اور یہ کہہ کر کام کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کے بعد سوچتے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہئے.یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رات کیا.خدا نے کہا اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور وہ فوراً کھڑے ہو گئے اور پھر سوچنے لگے کہ اب میں یہ کام کس طرح کروں گا.پس آج سے پچاس سال پہلے کی وہ تاریخی رات جو دنیا کے آئندہ انقلابات کے لئے زبر دست حربہ ثابت ہونے والی ہے.جو آئندہ بننے والی نئی دنیا کے لئے ابتدائی رات اور ابتدائی دن قرار دی جانے والی ہے.اگر ہم اس رات کا نظارہ سوچیں تو یقیناً ہمارے دل اس خوشی کو بالکل اور نگاہ سے دیکھیں.ہم میں سے کتنے ہیں.جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ خوشی انہیں کس گھڑی کے نتیجہ میں ملی یہ مسرت انہیں کس پل کے نتیجہ میں حاصل ہوئی اور کس رات کے بعد ان پر کامیابی و کامرانی کا یہ دن چڑھا.یہ خوشی اور یہ مسرت اور یہ کامیابی و کامرانی کا دن ان کو اس گھڑی اور اس رات کے نتیجہ میں ملا جس میں ایک تن تنہا بندہ جو دنیا کی نظروں میں حقیر اور تمام دنیوی سامانوں سے محروم تھا.اسے خدا نے کہا کہ اٹھ اور دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا ہو اور اس نے کہا اے میرے رب میں کھڑا ہو گیا.یہ وہ وفاداری تھی.یہ وہ محبت کا صحیح مظاہرہ تھا.جسے خدا نے قبول کیا اور اس نے اپنے فضل اور رحم سے اس کو نوازا.رونا اور ہنسنا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی شان سے بعید ہیں لیکن محبت کی گفتگو میں اور محبت کے کلاموں میں یہ باتیں آہی جاتی ہیں.پس میں کہتا ہوں اگر خدا کے لئے بھی رونا ممکن ہوتا.اگر خدا کے لئے بھی ہنسنا ممکن ہوتا.تو جس وقت خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑا کرتا ہوں اور آپ فوراً کھڑے ہو گئے اور آپ نے یہ سوچا تک نہیں کہ یہ کام مجھ سے ہوگا کیونکر؟ اگر اس وقت خدا تعالیٰ کے لئے رونا ممکن ہوتا.تو میں یقیناً جانتا ہوں کہ خدا رو پڑتا اور اگر خدا کے لئے ہنسنا ممکن ہوتا.تو وہ یقینا ہنس پڑتا.وہ ہنستا بظاہر اس بیوقوفی کے دعوی پر جو تمام دنیا کے مقابلہ میں ایک نحیف و ناتواں وجود نے کیا اور وہ رو پڑتا اس جذبہ محبت پر جو اس تن تنہا روح نے خدا کے لئے ظاہر کیا.یہی سچی دوستی تھی جو خدا کو منظور ہوئی اور اسی رنگ کی سچی دوستی ہی ہوتی ہے جو دنیا میں کام آیا کرتی ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہی واقعہ سنا ہوا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو ہمیشہ یہ نصیحت کیا کرتا تھا کہ تم جلدی لوگوں کو دوست بنا
تذکار مهدی 689 روایات سیّد نا محمود لیتے ہو.یہ کوئی اچھی بات نہیں بچے دوست کا ملنا بہت ہی مشکل ہوتا ہے اور وہ کہتا کہ آپ کو غلطی لگی ہوئی ہے.میرے دوست سب بچے ہیں اور خواہ مجھ پر کیسی ہی مصیبت کا وقت آئے.یہ میری مدد سے گریز نہیں کریں گے.اس نے بہتیرا سمجھایا مگر بیٹے پر کوئی اثر نہ ہوا.باپ نے کہا کہ میں ساٹھ ستر سال کی عمر کو پہنچ گیا.مگر مجھے تو اب تک صرف ایک ہی دوست ملا ہے اور وہ بھی فلاں غریب شخص جسے اس کا بیٹا حقارت سے دیکھا کرتا تھا اور اپنے باپ سے کہا کرتا کہ آپ اتنے بڑے ہو کر اس سپاہی سے کیوں محبت رکھتے ہیں اور باپ ہمیشہ یہی کہتا کہ مجھے تمام عمر میں اگر کوئی سچا دوست ملا ہے تو یہی ہے آخر ایک دن اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم میری بات نہیں مانتے تو تجربہ کر لو اور اپنے دوستوں سے جا کر کہو کہ میرے باپ نے مجھے اپنے گھر سے نکال دیا ہے.میرے پاس رہنے کی کوئی جگہ نہیں.میرے لئے رہائش اور خوراک کا انتظام کر دو.اس نے کہا بہت اچھا.چنانچہ وہ ایک ایک کے پاس گیا.مگر جس دوست کے پاس بھی جاتا.وہ پہلے تو کہتا کہ آپ نے بڑی عزت افزائی فرمائی.سنائیے آپ کا کیسے آنا ہوا اور جب یہ کہتا کہ میرے باپ نے مجھے نکال دیا ہے.اب میں آپ کے پاس آیا ہوں.تا کہ آپ میری رہائش وغیرہ کا انتظام کر دیں.تو وہ یہ سنتے ہی کوئی بہانہ بنا کر اندر چلا جاتا.غرض اسی طرح اس نے سارے دوستوں کا چکر لگا لیا اور آخر باپ کے پاس آکر کہا کہ آپ کی بات ٹھیک نکلی.میرے دوستوں میں سے ایک بھی تو نہیں جس نے مجھے منہ لگایا ہو.باپ نے کہا اچھا تم نے اپنے دوستوں کا تو تجربہ کر لیا.اب آج کی رات میرے دوست کا بھی تجربہ کر لینا.چونکہ وہ امیر آدمی تھا.اس لئے وہ اپنے دوست کے مکان پر نہیں جایا کرتا تھا.اکثر وہی اس کے مکان پر آجاتا.مگر اس رات وہ اچانک بیٹے کو ساتھ لے کر اپنے دوست کے مکان پر گیا اور دروازہ پر دستک دی.آدھی رات کا وقت تھا اس نے پوچھا کون.اس نے اپنا نام بتایا کہ میں ہوں.وہ کہنے لگا.بہت اچھا ذرا ٹھہرئیے میں آتا ہوں.یہ باہر انتظار کرنے لگ گئے.مگر کافی وقت گزر گیا اور وہ اندر سے نہ نکلا.یہ دیکھ کر بیٹا کہنے لگا جناب آپ کا دوست بھی آخر ویسا ہی نکلا.باپ کہنے لگا ذرا ٹھہرو.مایوس نہ ہو.دیر لگانے کی کوئی وجہ ہوگی.آخر کوئی آدھ گھنٹہ کے بعد وہ دوست باہر نکلا.اس کی حالت یہ تھی کہ اس نے گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی.ایک ہاتھ میں روپوں کی تھیلی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور کہنے لگا معاف کیجئے مجھے دیر ہو گئی.
تذکار مهدی ) 6 690 ☀ روایات سید نامحمود اصل بات یہ ہے کہ جب مجھے آپ کی آواز آئی تو میں نے سمجھا کہ ضرور کوئی بڑا کام ہے جس کے لئے آپ رات کو میرے پاس آئے ہیں.میں نے سوچا کہ آخر آپ کو مجھ سے اس وقت کیا کام ہوسکتا ہے اور میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ دنیا میں مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور بعض دفعہ بڑے بڑے امیر آدمی بھی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں.پس میں نے سمجھا کہ شائد کوئی بیمار ہے جس کی خدمت کے لئے مجھے بلایا ہے.اس لئے میں نے فوراً اپنی بیوی کو جگایا اور کہا کہ میرے ساتھ چل.ممکن ہے کسی خدمت کی ضرورت ہو.پھر میں نے سوچا ممکن ہے کسی دشمن سے مقابلہ ہو جس میں میری جان کی ضرورت ہو.سواس خیال کے آنے پر میں نے تلوار نکال کر گلے میں لٹکالی کہ اگر جانی قربانی کی ضرورت ہو تو میں اس کے لئے بھی حاضر ہوں.پھر میں نے سوچا کہ آپ امیر تو ہیں ہی.مگر بعض دفعہ امراء پر بھی ایسے اوقات آجاتے ہیں کہ وہ روپوں کے محتاج ہو جاتے ہیں.پس میں نے سوچا کہ شاید اس وقت آپ کو روپوں کی ضرورت ہو.میں نے ساری عمر تھوڑا تھوڑا جمع کر کے کچھ روپیہ حفاظت سے رکھا ہوا تھا اور اسے زمین میں ایک طرف دبا دیا تھا.اس خیال کے آنے پر میں نے زمین کو کھود کر اس میں سے تھیلی نکالی اور اب یہ تینوں چیزیں حاضر ہیں.فرمائیے آپ کا کیا ارشاد ہے؟ دنیا کی زبان میں یہ دوستی کی نہایت ہی شاندار مثال ہے اور انسان ایسے جذبات کو دیکھ کر بغیر اس کے کہ وہ اپنے دل میں شدید ہیجان محسوس کرے نہیں رہ سکتا.مگر اس دوستی کا اظہار اس دوستی کے مقابلہ میں کچھ بھی تو نہیں.جو نبی اپنے خدا کے لئے ظاہر کرتے ہیں.وہاں قدم قدم پر مشکلات ہوتی ہیں.وہاں قدم قدم پر قربانیاں پیش کرنی پڑتی ہیں.اور وہاں قدم قدم پر مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے.پس نبیوں کا جواب اپنے خدا کو ویسا ہی ہوتا ہے.بلکہ اس سے بہت بڑھ کر جیسے اس غریب آدمی نے امیر آدمی کو دیا.بے شک اگر ہم معقولات کی نظر سے اس کو دیکھیں اور منطقی نقطہ نگاہ سے اس پر غور کریں.تو اس غریب آدمی کی یہ حرکت ہنسی کے قابل نظر آتی ہے کیونکہ اس امیر کے ہزاروں نوکر چاکر تھے.ان کے ہوتے ہوئے اس کی بیوی نے کیا زائد خدمت کر لینی تھی.اسی طرح وہ لاکھوں کا مالک تھا.اس کو سو ڈیڑھ سو روپیہ کی تھیلی کیا فائدہ پہنچا سکتی تھی اور خود اس کے کئی پہر دار اور محافظ تھے.اس کو اس دوست کی تلوار کیا نفع پہنچا سکتی تھی مگر محبت کے جوش میں اس نے یہ نہیں سوچا کہ میری یہ تلوار کیا کام دے گی.میرا تھوڑا سا روپیہ کیا فائدہ دے گا اور میری بیوی کیا خدمت سرانجام دے سکے گی.اس نے اتنا ہی سوچا
تذکار مهدی ) 691 روایات سیّد نا محمود کہ جو کچھ میرے پاس ہے.وہ مجھے حاضر کر دینا چاہئے.ایسے ہی بیوقوفی کے واقعات میں مجھے بھی اپنا ایک واقعہ یاد ہے.کئی دفعہ اس واقعہ کو یاد کر کے میں ہنسا بھی ہوں اور بسا اوقات میری آنکھوں میں آنسو بھی آگئے ہیں.مگر میں اسے بڑی قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا کرتا ہوں اور مجھے اپنے زندگی کے جن واقعات پر ناز ہے.ان میں وہ ایک حماقت کا واقعہ بھی ہے.وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک رات ہم سب صحن میں سو رہے تھے.گرمی کا موسم تھا کہ آسمان پر بادل آیا.اور زور سے گر جنے لگا.اسی دوران میں قادیان کے قریب ہی کہیں بجلی گر گئی.مگر اس کی کڑک اس زور کی تھی کہ قادیان کے ہر گھر کے لوگوں نے یہ سمجھا.کہ یہ بجلی شاید ان کے گھر میں ہی گری ہے.ہمارے مدرسہ میں ہی ایک واقعہ ہوا.جس کو یاد کر کے لڑ کے مدتوں ہنستے رہے اور وہ یہ کہ فخر الدین ملتانی جو بعد میں مرتد ہو گیا.وہ اس وقت طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاؤس میں رہا کرتا تھا.جب بجلی کی زور سے کڑک ہوئی تو اس نے اپنے متعلق سمجھا کہ بجلی شاید اس پر گری ہے اور وہ ڈر کے مارے چار پائی کے نیچے چھپ گیا اور زور زور سے آواز دینے لگا کہ ملتی بیتی.بجلی کا لفظ اس کے مونہہ سے نکلتا ہی نہیں تھا.ڈر کے مارے بلی بلی کہنے لگ گیا.پہلے تو سارے ہی لڑکے بھاگ کر کمروں میں چلے گئے.مگر پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے.تو اسے چار پائی کے نیچے چھپا ہوا پایا اور دیکھا کہ وہ بلی بلی کر رہا ہے.آخر پوچھا تو اس ا کے ہوش ٹھکانے آئے اور کہنے لگا مجھ پر بجلی گر پڑی ہے.تو وہ اتنی زور کی کڑکی تھی.کہ ہر شخص نے یہ سمجھا کہ اسی کے قریب بجلی گری ہے.اس کڑک کی وجہ سے اور کچھ بادلوں کی وجہ سے تمام لوگ کمروں میں چلے گئے.جس وقت بجلی کی یہ کڑک ہوئی.اس وقت ہم بھی جو سن میں سورہے تھے.اٹھ کر اندر چلے گئے مجھے آج تک وہ نظارہ یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب اندر کی طرف جانے لگے.تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سر پر رکھ دیئے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے.ان پر نہ گرے.بعد میں جب میرے ہوش ٹھکانے آئے.تو مجھے اپنی اس حرکت پر جنسی آئی کہ ان کی وجہ سے تو ہم نے بجلی سے بچنا تھا.نہ یہ کہ ہماری وجہ سے وہ بجلی سے محفوظ رہتے میں سمجھتا ہوں.میری وہ حرکت ایک مجنون کی حرکت سے کم نہیں تھی.مگر مجھے ہمیشہ خوشی ہوا کرتی ہے.کہ اس واقعہ نے مجھ پر بھی اس محبت کو ظاہر کر دیا جو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ والسلام سے تھی.بسا اوقات انسان خود بھی نہیں جانتا کہ مجھے دوسرے سے کتنی محبت ہے.جب اس قسم کا کوئی واقعہ ہو تو اسے بھی اپنی محبت کی وسعت اور اس کی گہرائی
تذکار مهدی ) 692 روایات سید نا محمود کا اندازہ ہو جاتا ہے.تو جس وقت محبت کا انتہائی جوش اٹھتا ہے.عقل اس وقت کام نہیں کرتی.محبت پرے پھینک دیتی ہے عقل کو اور محبت پرے پھینک دیتی ہے فکر کو.اور وہ آپ سامنے آجاتی ہے.جس طرح چیل جب مرغی کے بچوں پر حملہ کرتی ہے.تو مرغی بچوں کو جمع کر کے اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے اور بعض دفعہ تو محبت ایسی ایسی حرکات کرا دیتی ہے کہ دنیا اسے پاگل پنے کی حرکات قرار دیتی ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ جنون دنیا کی ساری عقلوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور دنیا کی ساری عقلیں اس ایک مجنونانہ حرکت پر قربان کی جاسکتی ہیں کیونکہ اصل عقل وہی ہے جو محبت سے پیدا ہوتی ہے.نبی کو بھی جب آواز آتی ہے کہ خدا زمین و آسمان کو پیدا کرنے والا خدا.خدا عزت و شوکت کو پیدا کرنے والا خدا.بادشاہوں کو گرا اور گداؤں کو بادشاہ بنانے والا خدا.حکومتوں کو قائم کرنے اور حکومتوں کو مٹانے والا خدا، دولتوں کے دینے اور دولتوں کو لے لینے والا خدا، رزق کے دینے اور رزق کو چھیننے والا خدا.زمین و آسمان کے ذرہ ذرہ اور کائنات کا مالک خدا آواز دیتا ہے.ایک کمزور ناتوان اور ایک نحیف انسان کو کہ میں مدد کا محتاج ہوں.میری مدد کرو.تو وہ کمزور اور ناتوان اور نحیف بندہ عقل سے کام نہیں لیتا.وہ یہ نہیں کہتا کہ حضور کیا فرما رہے ہیں؟ کیا حضور مدد کے محتاج ہیں.حضور تو زمین و آسمان کے بادشاہ ہیں.میں کنگال غریب اور کمزور آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں.وہ یہ نہیں کہتا.بلکہ وہ نحیف وزار اور کمزور جسم کو لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں.کون ہے جوان جذبات کی گہرائیوں کا اندازہ کر سکتا ہے.سوائے اس کے جس کو محبت کی چاشنی سے تھوڑا بہت حصہ ملا ہو.آج سے پچاس سال پہلے اسی خدا نے پھر یہ آواز بلند کی اور قادیان کے گوشہ تنہائی میں پڑے ہوئے ایک انسان سے کہا کہ مجھے مدد کی ضرورت ہے.مجھے دنیا میں ذلیل کر دیا گیا ہے.میری دنیا میں کوئی عزت نہیں میرا دنیا میں کوئی نام لیوا نہیں.میں بے یار و مددگار ہوں.اے میرے بندے میری مدد کر اس نے یہ نہیں سوچا کہ یہ کہنے والا کون ہے اور جس سے خطاب کیا جاتا ہے وہ کون ہے.اس کی عقل نے یہ نہیں کہا کہ مجھے بلانے والے کے پاس تمام طاقتیں ہیں.میں بھلا اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں.اس کی محبت نے اس کے دل میں ایک آگ لگا دی اور وہ دیوانہ وار جوش میں کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.میرے رب میں حاضر ہوں.میرے رب میں حاضر ہوں.میرے رب میں بچاؤں گا.میرے رب میں بچاؤں گا.( الفضل 25 جنوری 1940 ء جلد 28 نمبر 15 صفحہ 8 تا 10 ) |
تذکار مهدی ) گزشتہ قصور کی سزا 693 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک قصہ سُنایا کرتے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک دفعہ اپنے باورچی کو محض اس جرم میں کہ کھانے میں اُس نے کچھ نمک زیادہ ڈال دیا تھا ایک سو کوڑے لگانے کی سزا دی.عزیز الدین ایک مسلمان اُن کے وزیر تھے وہ بڑے نرم دل تھے کہنے لگے.یہ بادشاہ کی شان سے بعید ہے کہ کھانے میں ذرا سا نمک زیادہ ہو جائے تو وہ اس پر چڑ کر ایک سو کوڑے لگانے کا حکم دے دے مہا راجہ کہنے لگا.وزیر صاحب! آپ یہ خیال نہ کریں کہ میں اسے نمک کی زیادتی پر یہ سزا دے رہا ہوں اس نے میرا ایک سو بکرا کھایا ہوا ہے اور ایک ایک بکرے پر ایک ایک ڈرے کی سزائیں اسے دے رہا ہوں.کھانے میں نمک کی زیادتی محض ایک بہانہ ہے.اس ذریعہ سے تو مجھے اس کو گزشتہ قصوروں کی سزا دینے کا موقع مل گیا ہے.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 389 ) بندہ کو اللہ تعالیٰ سے دوستی اور محبت کرنی چاہئیے ہمارے لئے اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا گر یہی رکھا ہے کہ تقویٰ سے وابستہ رہیں اپنے اندر بیداری اور تقویٰ پیدا کرو ہم دنیوی باتوں سے کامیاب نہیں ہو سکتے.دوست، علم، جتھہ کوئی چیز ہمیں کامیاب نہیں کر سکتی دنیا میں ہم سے بہت زیادہ یہ چیزیں رکھنے والے موجود ہیں.ہم تو ایسی صورت میں ترقی کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے ہمارے آگے آگے چلتے جائیں کہ ان کے لئے راستہ چھوڑ دو راستہ چھوڑ دو پس تم اپنے نفوس میں تقویٰ خوف الہی اور بیداری پیدا کرو تم میں سے کتنے ہیں جو تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کر لو تو خود بخود ہی سب کام ہوتے جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص کسی سفر پر جانے لگا تو اس نے اپنا کچھ روپیہ قاضی کے پاس بدامانت رکھوایا.عرصہ کے بعد واپس آکر اس نے جب روپیہ مانگا تو قاضی کی نیت بدل گئی اور اس نے کہا میاں عقل کی دوا کرو کونسا رو پید اور کیسی امانت.میرے پاس تم نے کب رو پیر رکھوایا تھا.اس نے کوئی تحریر وغیرہ تو لی نہیں تھی کیونکہ وہ سمجھتا تھا قاضی صاحب کی ذات ہی کافی ہے.مگر قاضی صاحب نے کہا کہ اگر کوئی روپیہ رکھ گئے تھے تو لاؤ ثبوت پیش کرو، کوئی رسید دکھاؤ کوئی گواہ لاؤ.اس نے بہت یاد دلایا مگر وہ یہی کہتا گیا کہ تمہارا دماغ پھر گیا ہے.میں نے کوئی روپیہ نہیں لیا.
تذکار مهدی ) 694 روایات سید نامحمود آخر اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی.بادشاہ نے کہا کہ عدالت کے طور پر تو میں تمہارے خلاف فیصلہ کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ کوئی تحریر نہیں، گواہ نہیں ، ہاں ایک ترکیب بتاتا ہوں اگر تم بچے ہو تو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو.فلاں دن ہمارا جلوس نکلے گا اور قاضی بھی اپنی ڈیوڑھی کے آگے موجود رہے گا تم بھی کہیں اس کے پاس کھڑے ہو جانا.میں تمہارے پاس پہنچ کر تمہارے ساتھ بے تکلفی سے بات چیت شروع کروں گا کہ تم ہمیں ملنے کیوں نہیں آتے اتنے عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی اور تم کہنا کہ یونہی کچھ پریشانیاں کی تھیں اس لئے حاضر نہیں ہو سکا.اس شخص نے ایسا ہی کیا اور جلوس کے دن قاضی صاحب کے پاس ہی کھڑا ہو گیا.بادشاہ آیا تو بادشاہ نے قاضی کی بجائے اس شخص سے مخاطب ہو کر بات شروع کر دی اور کہا تم کہاں چلے گئے تھے، عرصہ سے ملاقات نہیں ہوئی اس نے اپنے سفر کا حال بتایا.پھر بادشاہ نے پوچھا واپسی پر کیوں نہیں ملے.اس نے جواب دیا کہ یونہی بعض پریشانیاں تھیں، کچھ وصولیاں وغیرہ کرنی تھیں.بادشاہ نے اسے کہا نہیں تمہیں ضرور ملنا چاہئے، جلدی جلدی آیا کرو.جب بادشاہ کا جلوس گزر گیا تو قاضی صاحب نے اس سے کہا کہ میاں ذرا بات تو سنو.تم اس دن آئے تھے اور کسی امانت کا ذکر کرتے تھے.میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں ، عقل اچھی طرح کام نہیں کرتی ، کچھ آتا پتا بتاؤ تو یاد آئے.اس نے پھر وہی باتیں یاد دلائیں جو پہلے کئی بار یاد دلا چکا تھا.اس پر قاضی صاحب کہنے لگے.اچھا فلاں قسم کی تحصیلی تمہاری ہی ہے وہ تو پڑی ہے لے جاؤ، اور لا کر رو پیدا اسے دے دیا.یہ قصہ سنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام فرمایا کرتے تھے کہ دنیا کی مخالفت سے کیا ڈرنا.کوئی بڑے سے بڑا جرنیل بھی تو تلواروں اور گولیوں وغیرہ سے ہی نقصان پہنچا سکتا ہے.مگر یہ ساری چیزیں ہمارے خدا کی ہیں.اگر وہ کہے کہ اس طرف وار نہ کرو تو کون کر سکتا ہے.پس بندہ کو اللہ تعالیٰ سے دوستی کرنی چاہئے ، اس سے محبت کرنی چاہئے ، ڈر سے یا مرنے مارنے سے کام نہیں بنتا.ترقی کی یہی راہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو خدا کے ہاتھ میں دے دے اور جس طرف وہ لے جانا چاہے ، چلتا جائے.( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 273 تا 275 ) مہمان کا احسان جو چوری نہیں کی غرض انسان کے لئے جنت و دوزخ پیدا کرنا خود اس کے اختیار میں ہوتا ہے چاہے تو وہ اپنے لئے دوزخ پیدا کرے اور چاہے تو جنت.جنت کے حاصل کرنے کے لئے قربانیوں کی
تذکار مهدی ) 695 روایات سید نا محمود ضرورت ہوتی ہے اور یہ قربانیاں کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں.بہتیرے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قربانیاں تو کرتے نہیں البتہ قربانیاں بنالیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک آدمی نے کسی شخص کی دعوت کی اور اپنی طاقت کے مطابق اس کی تواضع میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جب مہمان جانے لگا تو اس سے معذرت کرنے لگا کہ میری بیوی بیمار تھی کچھ اور بھی مجبوریاں بتلائیں اس لئے آپ کی پوری طرح خدمت نہیں کر سکا اُمید ہے آپ در گذر فرمائیں گے یہ سن کر مہمان کہنے لگا میں جانتا ہوں تم کس غرض سے کہہ رہے ہو تمہارا منشاء یہ ہے کہ میں تمہاری تعریف کروں اور تمہارا احسان مانوں لیکن تم مجھ سے یہ امید نہ رکھو بلکہ تمہیں میرا احسان ماننا چاہئے.میزبان نے کہا نہیں میرا ہرگز یہ منشاء نہیں میں واقعی شرمسار ہوں کہ پوری طرح آپ کی خدمت نہیں کر سکا اگر آپ کا مجھ پر احسان ہے تو وہ بھی فرما دیجئے میں اس کا بھی شکریہ ادا کر دوں.اس پر مہمان نے کہا تم خواہ کچھ ہو میں تمہارے دل کی منشاء کو خوب جانتا ہوں لیکن یاد رکھو تم نے تو مجھے کھانا ہی کھلایا ہے.میرا تم پر بہت بڑا احسان ہے.تم ذرا اپنے کمرہ کو دیکھو کئی ہزار کا سامان اس میں پڑا ہے جب تم میرے لئے کھانا لینے اندر گئے تھے میں چاہتا تو دیا سلائی دکھا کر یہ سب کچھ جلا دیتا تم ہی بتلاؤ ایک پیسہ کا بھی سامان باقی رہ جاتا مگر میں نے ایسا نہیں کیا کیا میرا احسان کم ہے.یہ سن کر میزبان نے کہا واقعی آپ نے بہت بڑا احسان کیا میں اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں.دیکھولو ایک تو انسان ایسا بھی ہوتا ہے کہ بجائے محسن کا احسان پہچانے اور اس کا شکر یہ ادا کرنے کے یہ سمجھتا ہے کہ میں احسان کر رہا ہوں.دعا اور خر گدا کی مثال ( خطبات محمود جلد 13 صفحہ 592-591 ) دعا کے ساتھ عجز وانکسار بھی نہیں ہوتا تو ایسی دعا بھی نہیں سنی جاتی جس کے ساتھ عجز وانکسار نہ ہو پھر اگر بجز و انکسار ہو لیکن دعا میں اصرار نہ ہو تو بھی دعا قبول ہونے سے رہ جاتی ہے ایسا شخص دعا تو مانگتا ہے مگر ایک دفعہ اور جب دیکھتا ہے کہ اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا تو پھر اسے مانگنا چھوڑ دیتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ بعض وقت خدا تعالیٰ اس کو دیتا ہے جو اس طرح مانگتا ہے کہ اگر وہ ساری عمر بھی نہ دے تو یہ ساری عمر ہی مانگتا چلا جائے سوائے اس صورت کے کہ
تذکار مهدی ) 696 روایات سیّد نا محمود نامحمودی خدا تعالیٰ منع کر دے کہ ایسی دعا نہ مانگو.جو شخص اس طرح اصرار کے ساتھ دعا مانگتا ہے.اسی کو ملتا ہے پس اصرار ایک ایسی چیز ہے کہ دعا کے لئے ضروری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.گداگر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک نرگرا اور دوسرے خر گدا.نرگرا وہ ہوتا ہے جوکسی کے دروازے پر جا کر آواز دیتا ہے کچھ دو اور کسی نے کچھ ڈال دیا تو لے لیا نہیں تو دو تین آواز میں دے کر آگے چلے گئے.مگر خر گدا وہ ہوتا ہے کہ جب تک نہ ملے ٹلتا نہیں.اس قسم کے گدا گر لئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے اور ایسے گداگر بہت تھوڑے ہوتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بھی آکر ایک شخص بیٹھا کرتا تھا وہ نہیں اٹھتا تھا جب تک کچھ لے نہ لیتا وہ بیٹھا رہتا تھا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر نہیں نکلتے اور اسے کچھ دے نہ دیتے.پھر بعض اوقات وہ رقم مقرر کر دیتا کہ اتنی لینی ہے اور اگر حضرت صاحب اس سے کم دیتے تو وہ ہرگز نہ لیتا.کئی دفعہ ایسا ہوا کہ مہمان اسے اتنی رقم پوری کر دیتے تھے کہ چلا جائے.میں نے دیکھا اگر اس کے منہہ سے کوئی رقم نکل گئی کہ یہ لینی ہے اور وہ پوری نہ ہوتی تو وہ جاتا نہ تھا جب تک رقم پوری نہ کر دی جاتی اور اگر حضرت صاحب بیمار ہوتے تو تب تک نہ جاتا جب تک صحت یاب ہو کر آپ باہر تشریف نہ لاتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے دعا کی قبولیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان خرگدا بنے اور مانگتا چلا جائے اور خدا کے حضور دھونی رما کے بیٹھ جائے اور ٹلے نہیں جب تک کہ خدا کا فعل ثابت نہ کر دے کہ اب اس کے متعلق دعا نہ کی جائے.قانون قدرت کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا خطبات محمود جلد 10 صفحہ 200 ) ہمارے ملک میں مثل مشہور ہے کہ ” جاندے چور دی لنگوٹی ہی سہی، یعنی جاتے چور کی لنگوٹی ہی سہی.اگر چور چوری کر کے بھاگا جا رہا ہو اور تم اس سے اور کچھ نہیں چھین سکتے تو اس کی لنگوٹی ہی چھین لو آخر کچھ نہ کچھ تو تمہارے ہاتھ آ جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں ایک فقیر تھا جو اکثر اُس کمرے کے سامنے جہاں پہلے محاسب کا دفتر تھا بیٹھا کرتا تھا.جب اُسے کوئی آدمی احمد یہ چوک میں سے آتا ہوا نظر آتا تو کہتا ایک روپیہ دیدے، جب آنے والا کچھ قدم آگے آجاتا تو کہتا اٹھنی ہی سہی.جب وہ کچھ اور آگے آتا تو کہتا چونی ہی سہی،
تذکار مهدی ) 697 روایات سید نا محمود جب اُس کے مقابل پر آجاتا تو کہتا دو آنے ہی دے دے، جب اس کے پاس سے گزر کر دو قدم آگے چلا جاتا تو کہتا ایک آنہ ہی سہی ، جب کچھ اور آگے چلا جاتا تو کہتا ایک پیسہ ہی دیدے، جب کچھ اور آگے چلا جاتا ہے تو کہتا دھیلا ہی سہی، جب جانے والا اُس موڑ کے قریب پہنچتا جہاں سے مسجد اقصیٰ کی طرف مڑتے ہیں تو کہتا پکوڑا ہی دیدے، جب دیکھتا کہ آخری نکڑ پر پہنچ گیا ہے تو کہتا مرچ ہی دے دے.وہ روپیہ سے شروع کرتا اور مرچ پر ختم کرتا.اسی طرح کام کرنے والوں کو بھی یہی سمجھنا چاہئے کہ کچھ نہ کچھ تو ہمارے ہاتھ آ جائے.اگر پہلی دفعہ سو میں سے ایک کی طرف توجہ کرے گا تو اگلی دفعہ دو ہو جائیں گے اس سے اگلی دفعہ چار ہو جائیں گے اور اس طرح آہستہ آہستہ بڑھتے چلے جائیں گے پس کام کرو اور پھر نتیجہ دیکھو.جب دنیوی کام بے نتیجہ نہیں ہوتے تو کس طرح سمجھ لیا جائے کہ اخلاقی اور روحانی کام بغیر نتیجہ کے ہو سکتے ہیں لیکن جن کے من حرامی ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کام کرتے ہیں لیکن نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.نتیجہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کہنے سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے تو اپنی طرف سے پوری محنت کی تھی لیکن اللہ تعالیٰ ہم سے دشمنی نکال رہا ہے.یہ کہنا کس قدر حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے.گویا اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو کام ہم کرتے ہیں اُس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ مرتب ہوتا ہے.لیکن اچھے یا بُرے نتیجہ کا دارو مدار ہمارے اپنے کام پر ہوتا ہے.کسی شخص نے 1/10 حصہ کسی کام کے لئے محنت کی تو قانون قدرت یہی ہے کہ اُس کا 1/10 نتیجہ نکلے.اب اس کے 1/10 حصہ نکلنے کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کی وجہ سے 1/10 حصہ نتیجہ نکلا ور نہ اُس نے محنت تو زیادہ کی تھی.قانون قدرت کسی محنت کو ضائع نہیں کرتا لیکن شرارتی نفس یہ کہتا ہے کہ میں نے تو اپنا فرض ادا کر دیا تھا لیکن اللہ میاں اپنا فرض ادا کرنا بھول گیا اس سے بڑا کفر اور کیا ہوسکتا ہے.پس جہاں تک محنت اور کوشش کا سوال ہے نتائج ہمارے ہی اختیار میں ہیں.اگر نتیجہ اچھا نہیں نکلتا تو سمجھ لو کہ ہمارے کام میں کوئی غلطی رہ گئی ہے.کوشش کرنی چاہئے کہ ہر کام کے نتائج کسی معین صورت میں ہمارے سامنے آ سکیں.( مجلس خدام الاحمدیہ کا تفصیلی پروگرام، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 201 202) لالچی پیر کا قصہ ایسے ذکروں سے روحانی صفائی نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کہتے ہیں کہ ہمارا ذکر عرش تک
تذکار مهدی ) 698 روایات سید نا محمود پہنچتا ہے.ان میں بھی روحانی صفائی نہیں ہوتی.اس پر انہوں نے سنایا کہ یہ بات بالکل درست ہے.ایک شخص تھا جو کہتا تھا کہ میں نے سب درجے طے کر لیتے ہیں مگر باوجود اس کے لوگوں سے غلہ اور دانے مانگتا پھرتا تھا میں اس کی نسبت یہ خیال کرتا تھا کہ جب یہ اس مقام پر پہنچا ہوا ہے تو پھر کیوں لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک شخص کی نسبت فرماتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خاص درجہ تک پہنچا ہوا سمجھتا تھا.مگر ایک دفعہ ایک مرید کے ہاں گیا اور جا کر کہا.لاؤ میرا ٹیکس (یعنی نذرانہ ) قحط کا موسم تھا.مرید نے کہا کچھ ہے نہیں.معاف کیجئے.پیر صاحب بہت دیر تک لڑتے جھگڑتے رہے اور آخر کوئی چیز بکوائی اور روپیہ لے کر جان چھوڑی.تو اس قسم کی کمزوریاں اور گند ان لوگوں میں دیکھے جاتے ہیں جو بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں.گورنمنٹ کے شبہات کا ازالہ ذکر الہی ، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 495-494) حضرت مسیح موعود علیہ السلام گورداسپور کے ہی ایک اعلیٰ افسر کا ذکر فرمایا کرتے تھے.وہ ای.اے.سی تھا اور وہابی عقیدہ کا تھا.ان ایام میں وہابیوں کے متعلق گورنمنٹ کو کچھ شبہات تھے ان ڈپٹی صاحب کے متعلق کسی نے ڈپٹی کمشنر سے جا کر رپورٹ کر دی کہ فلاں شخص وہابی ہے اس پر ڈپٹی کمشنر نے ان کو بلا کر پوچھا مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ آپ وہابی ہیں.میں تو آپ کے متعلق ایسا خیال نہیں کرتا.اس پر انہوں نے کہا یہ بالکل جھوٹ ہے میں ہرگز وہابی نہیں ہوں.ے متعلق آپ کے پاس کسی نے غلط رپورٹ کی ہے اس وقت کے وہابیوں اور دوسرے لوگوں میں بڑا امتیاز یہ تھا کہ وہابی نچینیوں وغیرہ کے نچوانے کو جائز نہ سمجھتے تھے.ان ڈپٹی صاحب نے ڈپٹی کمشنر کے پاس سے واپس آکر بڑی دعوت کی اور کچنیاں نچوائیں تا ڈپٹی کمشنر اور لوگوں کو یقین ہو جائے کہ وہ وہابی نہیں ہیں.پس جب تعلیم یافتہ لوگ اپنے افسروں کو خوش کرنے کے لئے اپنے عقائد تک کو چھوڑ بیٹھتے ہیں تو جو لوگ غیر تعلیم یافتہ ہوں ان پر اپنے افسروں اور حکاموں کا اور بھی زیادہ اثر اور رعب ہو گا.لیکن مسلمان ان جھوٹی رپورٹوں پر جو عیسائی مشنریوں کی طرف سے اخبارات میں شائع ہوتی رہتی ہیں خوشیاں مناتے ہیں کہ اسلام خود بخود افریقہ اور دوسرے ممالک میں ترقی کر رہا ہے.حالانکہ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہندوستان میں تو
تذکار مهدی ) 699 روایات سید نا محمود اسلام پھیلتا نہیں پھر افریقہ کے وحشیوں میں خود بخود کس طرح پھیل رہا ہوگا.یہاں ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان ہیں جن میں سے اکثر تعلیم یافتہ بھی ہیں اور پھر ان میں بہت سے مولوی بھی ہیں جو تبلیغ اسلام کے مدعی ہیں.لیکن یہاں پر کس قدر اسلام پھیل رہا ہے.پھر افریقہ کے وحشیوں میں جہاں مسلمانوں کی تعداد اتنی نہیں ہے.لوگ سخت جاہل ہیں.وہاں پر کس طرح خود بخود پھیل رہا ہے.آج مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے کیوں گر رہے ہیں اور ان پر کیوں تنزل آ رہا ہے.اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ عیسائیوں کی رپورٹوں پر خوش ہوتے رہتے ہیں اور اسلام کی اشاعت کی طرف قطعاً کوئی توجہ نہیں کرتے اور طریقہ تبلیغ سے بالکل ناواقف ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں کیا وجہ تھی کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں جبکہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اسلام بہت ترقی کر رہا تھا.سو اس کا یہی باعث تھا کہ صحابہ کرام جانتے تھے کہ کس طرح تبلیغ کی جاتی ہے اور وہ محض علماء پر انحصار نہیں رکھے ہوئے تھے.بلکہ ان میں سے ہر ایک شخص مبلغ تھا اور اسلام کی اشاعت کو وہ اپنا فرض منصبی خیال کرتے تھے.جالینوس سے مناسبت خطبات محمود جلد 9 صفحہ 124-125 ) اگر یہاں نماز کے چور اور نماز کے ست موجود ہیں تو دوسری طرف وہ بھی تو موجود ہیں جو میل میل ڈیڑھ ڈیڑھ میل سے چل کر مسجد میں آتے ہیں.وہ کیوں کمزوروں کے پیچھے لگتے ہیں اور کیوں ان کے پیچھے نہیں لگتے جو میل میل ڈیڑھ ڈیڑھ میل دور سے آتے ہیں اور اپنے اخلاص اور اپنے ایمان میں ہر لحظہ ترقی کر رہے ہیں مگر ان کی رغبت ان کی طرف تو ہے جو نمازوں میں سستی کرتے ہیں.مگر ان سے ان کی کوئی مناسبت پیدا نہیں ہوتی جو ماسوا فاصلہ کے تکلیفوں کو بھی برداشت کرتے ہیں مگر اپنے ایمان میں اور اپنے اخلاص میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہونے دیتے اور نمازیں مسجدوں میں پڑھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ جالینوس ایک جگہ کھڑا تھا.ایک دیوانہ دوڑتا ہوا آیا اور آ کر اس سے چمٹ گیا.جب جالینوس کو اس نے چھوڑا تو اس نے کہا میری فصد نکلواؤ.اس پر لوگوں نے پوچھا.فصد کیوں کھلواتے ہو؟ کہنے لگا یہ دیوانہ جو آ کر مجھ کو چمٹ گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھ میں بھی کوئی رگ جنون کی
تذکار مهدی ) 700 روایات سید نامحمود ہے کہ یہ اوروں کو چھوڑ کر مجھ سے آچمٹا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میرے اندر جنون کی رگ ہے جس سے اس دیوانہ کو مناسبت ہوئی اور وہ میری طرف کھنچا آیا تو ایسے آدمیوں کا ادھر جھکنا اور ان کے پیچھے چلنا جو نمازوں میں ست ہیں بتاتا ہے کہ انہیں بھی سست لوگوں سے مناسبت ہے.خطبات محمود جلد 9 صفحہ 348.349 ) | ہو.بہت سی بیماریاں نیم پختہ کھانا کھانے سے لاحق ہوتی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے میں نے سنا.آپ کسی عورت کا قصہ بیان فرماتے کہ اس کا ایک ہی لڑکا تھا.وہ لڑائی پر جانے لگا تو اس نے اپنی ماں کو کہا کہ آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیں جو میں اگر واپس آؤں تو تحفہ کے طور پر آپ کے لئے لیتا آؤں اور آپ اسے دیکھ کر خوش ہو جائیں.ماں نے کہا اگر تو سلامت آجائے تو یہی بات میرے لئے خوشی کا موجب ہو سکتی ہے.لڑکے نے اصرار کیا اور کہا آپ ضرور کوئی چیز بتا ئیں.ماں نے کہا.اچھا اگر تم میرے لئے کچھ لانا ہی چاہتے ہو تو روٹی کے جلے ہوئے ٹکڑے جس قدر زیادہ لا سکولے آنا میں انہی سے خوش ہو سکتی ہوں.اس نے اسکو بہت معمولی بات سمجھ کر کہا کہ کچھ اور بتائیں لیکن ماں نے کہا بس یہی چیز مجھے سے زیادہ خوش کر سکتی ہے.خیر وہ چلا گیا.جب روٹی پکا تا تو جان بوجھ کر اسے جلاتا تا جلے وئے ٹکڑے زیادہ جمع ہوں روٹی کا اچھا حصہ تو خود کھا لیتا اور جلا ہوا حصہ ایک تھیلے میں ڈالتا جاتا.کچھ مدت کے بعد جب گھر آیا تو اس نے جلے ہوئے ٹکڑوں کے بہت سے تھیلے اپنی ماں کے آگے رکھ دیئے.وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی.اس نے کہا اماں! میں نے آپ کے کہنے پر عمل تو کیا ہے مگر مجھے ابھی تک معلوم نہیں ہوا کہ یہ بات کیا تھی؟ ماں نے کہا اس وقت جبکہ تم گئے تھے اس کا بتانا مناسب نہ تھا اب بتاتی ہوں اور وہ یہ کہ بہت سی بیماریاں انسان کو نیم پختہ کھانا کھانے کی وجہ سے لاحق ہو جاتی ہیں میں نے جلے ہوئے ٹکڑے لانے کا اس لئے کہا کہ تم ان ٹکڑوں کے لئے روٹی کو ایسا پکاؤ گے کہ وہ کسی قدر جل بھی جائے.جلی ہوئی کو رکھ دو گے اور باقی کھا لو گے اس سے تمہاری صحت بہت اچھی رہے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ کیا چھوٹی سی بات تھی لیکن در حقیقت اس کے بچہ کو بچانے کا موجب ہو گئی.سپاہی چونکہ جلدی جلدی کھانا پکا کر کھا لیتے ہیں اور اس طرح اکثر کچا رہتا ہے اسی لئے انہیں پیچش اور محرقہ وغیرہ امراض اکثر لاحق رہتی ہیں.اُس کی ماں نے ایسی بات بتائی جو بظاہر تو بہت معمولی تھی مگر جب اُس نے اس پر عمل کیا تو بہت بڑا فائدہ اُٹھایا یعنی اس سے اُس کی صحت سلامت رہی.(خطبات محمود جلد 5 صفحہ 189-188)
تذکار مهدی ) بار بار قادیان آؤ 701 روایات سید نا محمودی ایک نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جلسہ سالانہ کے بغیر بھی دوستوں کو قادیان آتے رہنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے جو بار بار قادیان نہیں آتا اس کے ایمان کے متعلق مجھے خطرہ ہے.ادھر یہاں کی بود و باش کو آپ نے ضروری قرار دیا ہے.پس احباب کو چاہئیے کہ قادیان کو زندگی میں وطن بنانے اور مرکز مدفن بنانے کی کوشش کریں.اسی کے ماتحت میں نے ایک تحریک کی ہے کہ مکانات بنوانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں شامل ہونے والوں کے لئے پچیس روپیہ کا ایک حصہ رکھا گیا ہے.دوست اس کمیٹی میں شریک ہوں حصہ ڈالیں اور یہاں مکان بنوائیں.( بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 581-580) قصہ ایک خطیب کا بہت لوگوں کے نزدیک کسی مقرر کا کمال یہ ہوتا ہے کہ جس کا خلاصہ وہ ان الفاظ میں بیان کیا کرتے ہیں کہ فلاں شخص بڑا صاحب کمال ہے کہ اس نے اتنی دیر تک تقریر کی لیکن وہ اس کی تقریر کی طرف توجہ نہیں کریں گے خواہ وہ اتنے عرصہ میں بکواس ہی کرتا رہا ہو یا اس نے اس عرصہ میں قرآن کریم کے معارف کے دریا بہا دیئے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک خطیب کا ذکر سناتے تھے کہ وہ لیکچر کے لئے کھڑا ہوا اس کا مضمون رقت والا تھا ایک شخص آیا اور کھڑا ہو گیا اس کے ہاتھ میں تنگڑی ( زمینداروں کا وہ سہ شاخہ آلہ جس سے وہ بھوسہ وغیرہ درست کرتے ہیں ) تھی جتنے حاضرین تھے ان پر تو اس تقریر کا کچھ اثر نہ ہوا لیکن وہ زمیندار تھوڑی ہی دیر بعد رونے لگ گیا.واعظ کی جو شامت آئی اور اس کے دل میں ریاء پیدا ہوئی تو اس نے خیال کیا کہ یہ میرے وعظ سے متاثر ہوا ہے.اس نے لوگوں کو مخاطب کر کے کہا کہ دیکھو انسانوں کے قلوب بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ ہیں جو گھنٹوں سے میرا وعظ سن رہے ہیں لیکن مطلق اثر نہیں ہوا مگر یہ ایک اللہ کا بندہ ہے کہ اس پر فورا اثر ہو گیا ہے اور یہ رو پڑا ہے.پھر اس نے لوگوں کو بتانے کے لئے اس سے پوچھا میاں کس بات نے تم پر اثر کیا کہ تم رو پڑے اس نے کہا کل اسی طرح میری بھینس کا بچہ اڑا اڑا کے مر گیا تھا جب میں نے آپ کی آواز سنی تو وہ یاد آگیا اور میں رو پڑا یہ سن کر خطیب بہت شرمندہ ہوا.خطبات محمود جلد 6 صفحہ 137-136 )
تذکار مهدی ) عمل کے وقت نیت رضاء الہی ہو 702 روایات سید نا محمود بے شک حج ایک بڑی نیکی ہے لیکن اگر کوئی شخص محض اس لئے حج پر جاتا ہے کہ اس کا لوگوں میں اعزاز بڑھ جائے یا رسم و رواج کے ماتحت جاتا ہے یا اس لئے جاتا ہے کہ لوگ اسے حاجی کہیں تو وہ اپنا پہلا ایمان بھی مٹا کر آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سُنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سردی کا موسم تھا کسی ریل کے اسٹیشن پر کوئی اندھی بُڑھیا گاڑی کے انتظار میں بیٹھی تھی.اس کے پاس کوئی کپڑا بھی نہ تھا سوائے ایک چادر کے جو اس نے پاس رکھی ہوئی تھی.تا کہ جب گاڑی میں بیٹھنے کے بعد تیز ہوا کی وجہ سے سردی محسوس ہو تو اوڑھ لے.اُس نے وہ چادر پاس رکھی ہوئی تھی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ اسے ٹول لیتی تھی.ایک شخص اس کے پاس سے گذرا اور اس نے سوچا کہ یہ تو اندھی ہے اور پھر اندھیرا بھی ہو چکا ہے اس لئے اگر میں یہ چادر اٹھالوں تو نہ اس کو پتہ لگے گا اور نہ پاس کے لوگوں کو پتہ لگے گا.اس پر اُس نے چپکے سے وہ چادر کھسکا لی.بڑھیا چونکہ بار بار اُسے بولتی تھی اُسے پتہ لگ گیا کہ کسی نے چادر اٹھالی ہے.اُس نے جھٹ آواز میں دینی شروع کر دیں کہ اے بھائی حاجی! میری چڈر دے دو.میں اندھی غریب ہوں اور میرے پاس اور کوئی کپڑا نہیں.وہ شخص فوراً واپس مڑا اور اس نے چادر تو آہستہ سے اس کے ہاتھ میں پکڑا دی مگر کہنے لگ مائی ! یہ تو بتاؤ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ میں حاجی ہوں.وہ بڑھیا کہنے لگی ؟ بیٹا! ایسے کام سوائے حاجیوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.میں اندھی کمزور اور غریب ہوں.سردی کا موسم ہے اور میں بالکل اکیلی ہوں.ایسی حالت میں میرا ایک ہی کپڑا چرانے کی کوئی عادی چور بھی جرات نہیں کر سکتا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 35) ماں باپ سے حسن سلوک کرنا چاہئیے مومن کو جب اس کے ماں باپ سے اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ مومن خدا تعالیٰ سے جو ماں باپ سے بھی زیادہ محسن ہے اچھا معاملہ نہ کرے اور جب ماں باپ خدا تعالیٰ کے خلاف کوئی بات کہیں تو اُن کی بات کو رد نہ کرے.بہر حال اس استثناء کے سوا ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے.مجھے افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے نوجوان ایسے
تذکار مهدی ) 703 روایات سید نا محمود دکھائی دیتے ہیں جو اپنے ماں باپ کا مناسب احترام نہیں کرتے اور نہ ان کے حقوق کا خیال رکھتے ہیں بلکہ اولاد میں سے کسی کو اگر کوئی اچھا عہدہ مل جائے تو وہ اپنے غریب والدین سے ملنے میں بھی شرم محسوس کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ کسی ہندو نے بڑی تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو بی اے یا ایم اے کرایا اور اس ڈگری کو حاصل کرنے کے بعد وہ ڈپٹی ہو گیا.آج کل ڈپٹی ہونا کوئی بڑا اعزاز نہیں سمجھا جاتا لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بھی بڑی بات تھی.اس کے باپ کو خیال آیا کہ میرا لڑکا ڈپٹی ہو گیا ہے میں بھی اس سے مل آؤں.چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تو اس وقت اس کے پاس وکیل اور بیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گیا.باتیں ہوتی رہیں کسی شخص کو اس غلیظ آدمی کا بیٹھنا برا محسوس ہوا اور اس نے پوچھا کہ ہماری مجلس میں یہ کون آ بیٹھا ہے.ڈپٹی صاحب اس کی بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اور شرمندگی سے بچنے کے لئے کہنے لگے یہ ہمارے پہلیا ہیں.باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جل گیا اور اپنی چادر سنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا.جناب میں ان کا ٹہلیا نہیں ان کی ماں کا ٹہلیا ہوں.ساتھ والوں کو جب معلوم ہوا کہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں تو انہوں نے اس کو بہت لعن طعن کی اور کہا کہ اگر آپ ہمیں بتاتے تو ہم ان کی مناسب تعظیم و تکریم کرتے اور ادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے.بہر حال اس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں کے ساتھ ملنے سے جی چراتے ہیں تا کہ ان کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہو جائے.گویا ماں باپ کا نام روشن کرنا تو الگ رہا ان کے نام کو بٹہ لگانے والے بن جاتے ہیں اور سوائے ان لوگوں کے جو اس نقطہ نگاہ کے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ والدین کی عزت کرو.دنیا داروں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو والدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں اور زمینداروں اور تعلیم یافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 593) مالن کی مثال جماعت کا امام ہونا بھی انسان کے لئے جہاں بہت سی برکتوں کا موجب ہوتا ہے وہاں اس کو بعض دفعہ لا نخیل عُقدوں میں ڈال دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان کے دو آدمیوں کا آپس میں اختلاف ہو گیا.دوستوں نے انہیں سمجھانا چاہا
704 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود بہت نصیحتیں کیں مگر انہوں نے خیال کیا ہمارا فیصلہ سوائے انگریز عدالت کے نہیں ہوسکتا ہر ایک کو دوسرے پر بدظنی تھی اور خیال کرتا تھا کہ میں نے اگر بات مان لی تو دوسرے کو فائدہ ہو جائے گا اس لئے انہوں نے ایک دوسرے پر سرکاری عدالت میں نالش کر دی پھر جس دن ان کے مقدمہ کی پیشی ہو وہ خود یا ان کے قائمقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہیں کہ آپ دعا کریں خدا کامیابی دے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت ہنسا کرتے اور فرماتے دونوں میرے مرید ہیں اور دونوں سے مجھے تعلق ہے میں کس کے لئے دعا کروں کہ وہ ہارے اور کس کے لئے دعا کروں کہ وہ جیتے ہم تو یہی دعا کرتے ہیں دونوں میں سے جو سچا ہے وہ جیت جائے اور اسے اپنا حق مل جائے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام ایک مالن کی مثال بیان فرمایا کرتے.فرماتے اس کی دولڑکیاں تھیں ایک گھماروں کے گھر بیاہی ہوئی تھی.دوسری مالیوں کے ہاں جب کبھی بادل آتا.تو وہ عورت دیوانہ وار گھبرائی ہوئی پھرتی.لوگ کہتے اسے کیا ہوا ہے.وہ کہتی ایک بیٹی ہے نہیں.اگر بارش ہو گئی تو جو گھماروں کے ہاں ہے وہ نہیں اور اگر نہ ہوئی تو جو مالیوں کے گھر ہے وہ نہیں کیونکہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے ترکاریاں نہ ہوں گی اور اگر ہو گئی تو گھمارن کے برتن خراب ہو جائیں گے.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 211-210) خواہشات بلند رکھنی چاہئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ یہاں ایک چوہڑا تھا جو اصطبل وغیرہ میں اور ہمارے گھر میں کام کرتا تھا.فرماتے تھے ایک دفعہ بچپن میں ہم نے کھیلتے ہوئے ہمجولیوں سے دریافت کرنا شروع کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے پھر اس بچپن کی عمر کے لحاظ سے اس سے بھی دریافت کیا کہ تمہاری کیا خواہش ہے اور کس چیز کو سب سے زیادہ تمہارا دل چاہتا ہے.اس نے جواب دیا.میرا دل اس بات کو چاہتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا بخار چڑھا ہوا ہو، ہلکی ہلکی بارش ہو رہی ہو، سردی کا موسم ہو، میں لحاف اوڑھے چار پائی پر لیٹا ہوا ہوں اور دو تین سیر کھنے ہوئے چنے میرے سامنے رکھے ہوں اور میں انہیں ٹھونکتا جاؤں یعنی ایک ایک کر کے کھاتا جاؤں.یہ تھی اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش کسی سننے والے نے کہا.تم نے اس میں بخار کی شرط کیوں لگائی ہے تو اس نے کہا اس لئے کہ پھر مجھے کوئی کام کے لئے نہیں بلائے گا.(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 47-46)
تذکار مهدی ) 705 روایات سید نا محمود طب کے تمام اصول قرآن مجید میں بیان ہیں مجھے قران مجید سے باہر کسی چیز کی ضرورت نہیں سوائے ان تفاسیر کے جو آنحضرت ﷺ یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیں اور وہ بھی قرآن کا ایک حصہ ہی ہیں اس سے باہر نہیں.اگر چہ پھر بھی کئی باتیں ایسی ہیں جو ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آئیں جن کا مجھے سے زیادہ عرفان تھا انہیں ان کا علم تھا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.طب کے تمام اصول قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں اور دنیا کی تمام امراض کا علاج قرآن مجید میں موجود ہے.ہو سکتا ہے مجھے اس طرح قرآن مجید پر غور کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو اور ممکن ہے میرا عرفان ابھی تک اس حد تک نہ پہنچا ہو مگر بہر حال اپنا عرفان اور اپنے بڑوں کا تجربہ ملا کر میں کہہ سکتا ہوں کہ قرآن مجید سے باہر ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے.خطبات محمود جلد 13 صفحہ 503) قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی تفسیر سنائیے.تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابو جہل کے لئے نازل ہوا ہے.ابو بکر کے لئے نازل ہوتا تو اس کیب ” ہی کافی تھی کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابو بکر کے لئے یہ کافی تھا کہ انہیں کہہ دیا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں.باقی ابو جہل نہیں مانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے ورنہ ابوبکر کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی.تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے.آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ گے اور عملی طور پر دیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے.اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی تو تمام آفات اور
تذکار مهدی ) 706 روایات سید نا محمود مصائب تمہیں اپنی نظروں میں بیچ نظر آنے لگ جائیں گے.گزشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کرتا رہا ہے.مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات، انوار العلوم جلد 25 صفحہ 499 ) جزاء سے نا اُمید نہیں ہونا چاہئیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے.کیمیا گر جب ناکام رہتا ہے تو کہتا ہے کہ ایک آنچ کی کسر رہ گئی ہے.گویا وہ کیمیا گر بننے سے نا امید نہیں ہوتا بلکہ اپنی کوشش کا نقص قرار دیتا ہے حالانکہ کیمیا گری میں اُمید کی گنجائش ہی نہیں اور خدا کے ساتھ تعلق بڑھنے اور اس کے قریب ہونے کی تو پوری اُمید ہے.مگر کیمیا گر جس کی ساری عمر ہی ایک آنچ کی کسر میں گذر جاتی ہے وہ تو باوجود ہر دفعہ کی ناکامی کے نا امید نہیں ہوتا لیکن وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے قریب ہونا چاہے کامیاب نہیں ہوتا تو اپنے طریق عمل کا نقص قرار نہیں دیتا بلکہ خدا تعالیٰ سے ناامید ہو کر فوراً ناامید ہو جاتا ہے اور اپنی تمام کوششیں چھوڑ بیٹھتا ہے.پس کیمیا گر تو غلطی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور سونا بننے کے خیال کو یقینی سمجھتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کو پانے کی کوشش کرنے والا اپنی غلطی کو خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے.ایسے لوگ عبادتیں ہی غلط طریق سے کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا نہیں ملتا.اگر وہ غلطی اپنی طرف منسوب کرتے اس کی اصلاح کی کوشش کرتے تو ضرور کامیاب ہو جاتے لیکن وہ ایسا کرتے ہی نہیں.علم کے ساتھ تجربہ بھی ضروری ہے (خطبات محمود جلد 11 صفحہ 60) علم کے ساتھ تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے.اگر کوئی شخص محض کتاب پڑھ کر طبیب بننا چاہے تو محال ہے ضرورت ہے کہ طب کی کتب پڑھنے کے ساتھ لائق طبیب کے سامنے مریضوں کی تشخیص اور علاج کیا ہوتب کامل ہوگا ورنہ علم بغیر عمل کے ناقص رہے گا اور عمل بغیر علم کے مفید نہیں ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی علم اور عمل کے متعلق سناتے تھے کہ ایک طبیب تھا جو
تذکار مهدی ) 707 روایات سید نا محمود بہت بڑا عالم تھا.اس نے طب کا علم خوب پڑھا تھا اس نے رنجیت سنگھ کا شہرہ سنا تو دتی سے اس کے دربار میں پہنچا کہ شاید ترقی حاصل ہو.رنجیت سنگھ کا وزیر ایک مسلمان تھا اس نے اس سے ملاقات کی اور اس سے مہاراجہ سے ملنے کے لئے سفارش چاہی.وزیر کو اندیشہ ہوا کہ اگر اس کا رسوخ ہو گیا تو میں نہ کہیں گر جاؤں اور طبیب کی سفارش نہ کرنا بھی اس نے مروت کے خلاف سمجھا.مہاراجہ رنجیت سنگھ سے اس نے سفارش کی اور کہا کہ حضور یہ بہت بڑے عالم ہیں انہوں نے فلاں کتاب پڑھی ہے فلاں کتاب اور اس کے علم کی بہت تعریف کی مہاراجہ نے پوچھا کہ یہ تو بتاؤ کہ انہوں نے علاج میں کیا کیا تجربے حاصل کئے ہیں؟ وزیر نے کہا کہ تجربہ بھی حضور کے طفیل ہو جائے گا.رنجیت سنگھ دانا آدمی تھا سمجھ گیا کہ علم بغیر عمل کے کچھ نہیں اور کہا کہ تجربہ کے لئے کیا غریب رنجیت سنگھ ہی رہ گیا ہے بہتر ہے کہ حکیم صاحب کو انعام دے کر رخصت کر دیا جائے.تو ایک لوگ عملی تجربہ کار ہوتے ہیں جن کو مختلف شعبوں میں کام کی عملی واقفیت ہو اور عالم ہوتے ہیں کہ جہاں غلطی ہو ان سے مشورہ لیا جائے غلطیاں ہوں گی مگر اس سے بھی قابلیت پیدا ہوگی.جیکب آباد میں گرمی خطبات جمعہ جلد 7 صفحہ 19-18 ) | مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی میں اخبارات پڑھا کرتا تھا.تو ایک دفعہ اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جیکب آباد میں درجہ حرارت 111 تک جا پہنچا ہے اور اس پر شور مچ گیا تھا.کہ دوزخ کا منہ کھل گیا ہے.ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دوزخ سال میں دو دفعہ سانس لیتا ہے.ایک سانس تو وہ گرمی میں لیتا ہے اور ایک سانس سردی میں لیتا ہے.اس دفعہ بھی گرمی اتنی شدید ہے کہ کمزور آدمی اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھتا.نوجوان آدمی تو اس کی پروا نہیں کرتا.آخر اس گرمی میں دوست روزے بھی رکھتے رہے ہیں.(الفضل 20 مئی 1958 ء جلد 47/12 نمبر 117 صفحہ 1) دنیا میں کوئی چیز اپنی ذات میں نقصان دہ نہیں اگر اندازہ لگایا جائے تو سال میں ہزار دو ہزار آدمی سنکھیا کھانے سے مرتے ہیں لیکن جولوگ اس سے شفا پاتے ہیں ان کی تعداد لاکھوں تک ہے پرانے ملیریا کے مریض پر جب کوئی
تذکار مهدی ) 708 روایات سید نا محمود دواثر نہیں کرتی تو وہ سنکھیاں کی قلیل مقدار سے ٹھیک ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ اور بھی کئی قسم کے امراض کے لئے ہے اسی طرح کچلہ ہے.یہ بھی زہر ہے اس کے کھانے سے کئی لوگ مرجاتے ہیں لیکن لاکھوں لاکھ انسان اس سے بچتے بھی ہیں.اسی طرح بہت بڑی تباہی والی چیز افیون ہے لیکن اس کی تباہی کے مقابلہ میں اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اطباء کا قول ہے کہ طب کی آدھی دوائیں ایسی ہیں جن میں افیون استعمال ہوتی ہے اور اس کا اتنا فائدہ ہے کہ اندازہ لگانا مشکل ہے.جب انسان کو بے چینی اور بیکلی ہوتی ہے، جب انسان کی نیند اُڑ جاتی ہے، جب انسان درد سے نڈھال ہوکر خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اُس کو مارفیا کا ٹیکا لگاتے ہیں جس سے اُسے فوراً آرام ہو جاتا ہے پس دنیا میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو اپنی ذات میں نقصان دینے والی ہو.نقصان دینے والی چیز صرف غلط استعمال ہے جو انسان کی اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے.اسی لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرض کو اپنی طرف اور شفاء کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے مگر ہمارے ملک میں ایک مسلمان خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہوئے جب کسی کام میں ناکام ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے میں نے تو پورا زور لگا دیا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے نا کام کر دیا.گویا وہ خوبی کو اپنی طرف اور برائی کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی بڑی بھاری ہتک ہے جو ہمارے ملک میں کی جاتی ہے حالانکہ سچے مومن کا یہ طریق ہوتا ہے کہ جب اس کے کام کا اچھا نتیجہ نکل آتا ہے تو کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلهِ خدا تعالیٰ نے مجھے کامیاب کر دیا اور اگر خراب نتیجہ نکلتا ہے تو اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھتا ہے اور کہتا ہے میں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ناکام رہا ہوں.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 169 تا 170 ) اخبارات کی اہمیت جماعتی معاملات میں افراد کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے بلکہ کبھی زندہ نہیں رہ سکتے جب تک اُن کا جڑ سے تعلق نہ ہو اور اس زمانہ میں یہ تعلق پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ اخبارات ہیں انسان کسی جگہ بھی بیٹھا ہوا ہوا گر ا سے سلسلہ کے اخبارات پہنچتے رہیں تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پاس بیٹھا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے میں اب بول رہا ہوں گو عورتوں کا جلسہ بہت دُور ہے مگر لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے وہ بھی میری تقریر سن رہی ہیں.اگر لاؤڈ سپیکر نہ ہوتا تو انہیں کچھ علم نہ
تذکار مهدی ) 709 روایات سید نا محمودی ہوتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.پس لاؤڈ سپیکر نے عورتوں کو میری تقریر کے قریب کر دیا اسی طرح اخبارات دُور رہنے والوں کو قوم سے وابستہ رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ الحکم اور بدر ہمارے دو بازو ہیں گو بعض دفعہ یہ اخبارات ایسی خبریں بھی شائع کر دیتے تھے جو ضرر رساں ہوتی تھیں مگر چونکہ ان کے فوائد ان کے ضرر سے زیادہ تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ ہم ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے یہ دو اخبارات ہمارے دو بازو ہیں.دو بازو ہونے کے یہی معنی ہیں کہ ان کے ذریعہ ہمارا جو بازو ہے یعنی جماعت وہ ہم سے ملا ہوا ہے پھر اُس زمانہ میں ہمارے اخبارات کی طرف احباب کو بہت توجہ ہوا کرتی تھی حالانکہ جماعت اُس وقت آج سے دسواں یا بیسواں حصہ تھی.چنانچہ بدر کی خریداری ایک زمانہ میں چودہ پندرہ سو رہ چکی ہے، اسی طرح الحکم کے خریداروں کی تعداد ایک ہزار تک تھی بلکہ الحکم نے تو ایک دفعہ روزانہ ہونے کی صورت بھی اختیار کر لی تھی تو جماعت کے دوست اس زمانہ میں کثرت سے اخبارات خرید تے تھے بلکہ جو پڑھے لکھے نہیں تھے بعض دفعہ وہ بھی خریدتے اور دوسروں کو پڑھنے کے لئے دے دیتے اور سمجھتے کہ یہ بھی تبلیغ کا ایک ذریعہ ہے.مجھے یاد ہے.میاں شیر محمد صاحب جو بنگہ کے رہنے والے تھے.انہوں نے بہت سے احمدی کئے ایک دفعہ جب میں ان کے علاقہ میں گیا تو دوسروں تو مجھے بتایا کہ ان کے ذریعہ کئی آدمی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں.شفاء کا معجزہ (مصری صاحب کے خلافت سے انحراف کے متعلق تقریر، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 544 ) | صحت اور حفاظت کے سارے سامانوں کے ہوتے ہوئے بھی انسان ہلاک ہوسکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان کے کاموں میں دخل دیتا ہے لیکن اس نے اسے آزاد بھی چھوڑا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے دو تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو شدید کھانسی ہوئی میری عمر اس وقت 17 سال کے قریب تھی اور میرے سپرد آپ کی دوائی وغیرہ پلانے کی خدمت تھی اور قدرتی طور پر جس کے سپرد کوئی کام کیا جائے وہ اس میں دخل دینا بھی اپنا حق سمجھنے لگتا ہے میں بھی اپنی کمپونڈری کا یہ حق سمجھتا تھا کہ کچھ نہ کچھ دخل آپ کے کھانے پینے میں دوں چنانچہ مشورہ کے طور پر عرض کر بھی دیا کرتا تھا کہ یہ نہ کھائیں وہ نہ کھائیں
تذکار مهدی ) 710 روایات سیّد نا محمود نا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے نسخے بھی تیار ہو کر استعمال ہوتے تھے اور انگریزی دوائیاں بھی مگر کھانسی بڑھتی ہی جاتی تھی.یہ 1907 ء کا واقعہ ہے اور عبدالحکیم مرتد نے آپ کی کھانسی کی تکلیف پڑھ کر لکھا تھا کہ مرزا صاحب سل کی بیماری میں مبتلاء ہو کر فوت ہوں گے اس لئے ہمیں کچھ یہ بھی خیال تھا کہ غلط طور پر بھی اسے خوشی کا کوئی بہانہ نہ مل سکے.مگر آپ کو کھانسی کی تکلیف بہت زیادہ تھی اور بعض اوقات ایسا لمبا او چھوا تا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ سانس رک جائے گا ایسی حالت میں باہر سے کوئی دوست آئے اور تحفہ کے طور پر پھل لائے میں نے وہ حضور کے سامنے پیش کر دیئے آپ نے انہیں دیکھا اور فرمایا کہ دو جزاک اللہ اور پھر ان میں سے کوئی چیز جو غالباً کیلا تھا اٹھایا اور میں چونکہ دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اس لئے شاید مجھے سبق دینے کے لئے فرمایا کہ یہ کھانسی میں کیسا ہوتا ہے میں نے کہا اچھا تو نہیں ہوتا مگر آپ مسکرا پڑے اور چھیل کر کھانے لگے.میں نے پھر عرض کیا کہ کھانسی بہت سخت ہے اور یہ چیز کھانسی میں اچھی نہیں آپ پھر مسکرائے اور کھاتے رہے میں نے اپنی نادانی سے پھر اصرار کیا کہ نہیں کھانا چاہئے اس پر آپ پھر مسکرائے اور فرمایا مجھے ابھی الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہوگئی.چنانچہ کھانسی اسی وقت جاتی رہی حالانکہ اس وقت نہ کوئی دوا استعمال کی اور نہ پر ہیز کیا بلکہ بد پرہیزی کی اور کھانسی بھی دور ہو گئی اگر چہ اس سے پہلے ایک مہینہ علاج ہوتا رہا تھا اور کھانسی دور نہ ہوئی تھی تو یہ البی تصرف ہے.یوں تو بد پر ہیزی سے بیماریاں بھی ہوتی ہیں اور علاج سے صحت میں ہوتی ہے مگر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے دخل بھی دے دیتا ہے اور دعا کا ہتھیار اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سکھایا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور جا کر کہے کہ میں آزادی نہیں چاہتا.میں اپنے حالات سے تنگ آ گیا ہوں آپ مہربانی کر کے میرے معاملات میں دخل دیں اور اللہ تعالیٰ بھی دیکھتا ہے کہ بندہ متوکل ہو گیا ہے اور چاہتا ہے کہ میں اس کے معاملات میں دخل دوں تو وہ دیتا ہے.پس گو اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے مگر وہ دخل بھی دیتا ہے.بچوں کی صحت کی طرف توجہ (الفضل مورخہ 17 جولائی 1942 ء جلد 36 نمبر 164 صفحہ 3) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض بچوں کی صحت عموماً ماؤں کے وہم کی وجہ سے ٹھیک رہتی ہے.اسے ذرا بھی کوئی تکلیف ہو تو ماں اسے انتہائی سمجھ لیتی.
تذکار مهدی ) 711 روایات سید نا محمودی اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کا توجہ سے علاج کرواتی ہے اور بچہ بیماری کے مزمن ہو جانے سے بچ جاتا ہے.لیکن بعض مائیں ایسی ہوتی ہیں.جنہیں بچے کی بیماری کا اس وقت علم ہوتا ہے.جب وہ مزمن شکل اختیار کر لیتی ہے اور علاج مشکل ہو جاتا ہے غرض ماں کا وہم بھی بچے کی صحت کے لئے بہت مفید ہوتا ہے.اسی طرح اپنی ذات میں اس قسم کا وہم کہ شاید یہ کوئی بیماری نہ ہو بہت مفید ہے.اس طرح انسان خطرے کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور اپنے آپ کو اُس کے حملہ سے محفوظ کر لیتا ہے.الفضل 7 اگست 1949 ء جلد 3 نمبر 180 صفحہ 4 | اللہ تعالیٰ مداری نہیں وہ کوئی تماشا نہیں دکھاتا میں نے تحریک جدید کے متعلق اس قدر باتیں کہہ دی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں مجھے اس بارہ میں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں مگر انسانی فطرت جدت پسند بھی ہے اور وہ سب کچھ سننے کے بعد پھر بھی خواہش کرتی ہے کہ کچھ اور سنایا جائے اور وہ اس سوال پر بھی برا مناتی ہے کہ تم جو اور سننے کے خواہش مند ہو.پچھلے سننے پر تم نے کیا عمل کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ایک دفعہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا میں معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں.اگر مجھے فلاں معجزہ دکھا دیا جائے تو میں آپ پر ایمان لانے کیلئے تیار ہوں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ مداری نہیں وہ کوئی تماشہ نہیں دکھاتا بلکہ اس کا ہر کام حکمت سے پر ہوتا ہے.آپ یہ بتائیں کہ جو پہلے معجزے دکھائے گئے ہیں ان سے آپ نے کیا فائدہ اُٹھایا ہے کہ آپ کیلئے اب کوئی نیا معجزہ دکھایا جائے.مگر انسانی فطرت کی کمزوری اس کو بھی ناپسند کرتی بلکہ شاید اسے بدتہذیبی قرار دیتی ہے ، وہ جائز سمجھتی ہے کہ سستی اور غفلت میں مبتلا چلی جائے بلکہ سستی اور غفلت میں ہمیشہ پڑی رہے اور کوئی اس سے اتنا بھی سوال نہ کرے کہ اس نے اپنی ذمہ واری کو کس حد تک ادا کیا ہے.ہاں جب بھی وہ کوئی تماشہ دیکھنا چاہے اُس وقت اسے وہ تماشہ ضرور دکھا دیا جائے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دے کر بھیجا ہے وہ کوئی پاگل وجود نہیں.جمادات کی طرح اور حیوانات کی طرح وہ محدود عقل کا یا بالکل بے عقل وجود نہیں مگر وہ خدا تعالیٰ کی اس نعمت سے جو اسے دی گئی ہے کیا فائدہ اٹھاتا ہے کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عقل کو استعمال کرتے
تذکار مهدی ) 712 روایات سید نا محمودی ہیں، کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی سمجھ کو استعمال کرتے ہیں، کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے فہم کو استعمال کرتے ہیں، دنیا میں بڑی چیزوں پر ہمیشہ چھوٹی چیزوں کو قربان کیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کمزور انسانیت پر اپنے پیدا کئے ہوئے قیمتی سے قیمتی جو ہروں کو قربان کیا.آدم اپنے زمانہ کا سب سے قیمتی جو ہر تھا مگر خدا تعالیٰ نے ان کمزور لوگوں کے لئے جنہوں نے شیطان کو جنت میں دخل دیا.آدم کی سی قیمتی جان کو قربان کرا دیا.تحریک جدید ایک قطرہ ہے ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 227 228 ) تحریک جدید دراصل تحریک قدیم ہے انسان کی اوسط عمر چالیس پچاس سال ہوتی ہے.اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی اس کے کئی بھائی بند، رشتہ دار اور دوست اس کے سامنے فوت ہو جاتے ہیں مگر کتنے ہیں جو اپنی موت یاد رکھتے ہیں اور پھر کتنے ہیں جو موت کے آنے سے پہلے اس کیلئے تیاری کرتے ہیں.در حقیقت میری تحریک کوئی جدید تحریک نہیں بلکہ یہ قدیم ترین تحریک ہے.اور اس جدید کے لفظ سے صرف اُن ماؤف اور اُن بیمار دماغوں سے تلقب کیا گیا ہے جو بغیر جدید کے کسی بات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.جس طرح ڈاکٹر جب ایک مریض کا لمبے عرصہ تک علاج کرتا رہتا ہے تو بیمار بعض دفعہ کہتا ہے مجھے ان دواؤں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.تب وہ کہتا ہے اچھا میں آج تمہیں نئی دوا دیتا ہوں.یہ کہہ کر وہ پہلی دوا میں ہی ٹنکچر کارڈمم ملا کر اور خوشبودار بنا کر اُسے دے دیتا ہے.مریض سمجھتا ہے کہ مجھے نئی دوا دی گئی ہے اور ڈاکٹر بھی اسے نئی دوا کہنے میں حق بجانب ہوتا ہے کیونکہ وہ اس میں ایک نئی دوا ملا دیتا ہے.مگر وہ اس لئے اسے جدید بناتا ہے تا مریض دوائی پیتا رہے اور اس کی امید نہ ٹوٹے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ایک دفعہ ایک بڑھیا آئی.اسے ملیریا بخار تھا جو لمبا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے فرمایا تم کو نین کھایا کرو.وہ کہنے لگی کو نین؟ میں تو اگر کسی کو نین کی گولی کا چوتھا حصہ بھی کھالوں تو ہفتہ ہفتہ بخار کی تیزی سے پھنکتی رہتی ہوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ کو نین کھانے کیلئے تیار نہیں.تو چونکہ عام طور پر ہمارے ملک میں کو نین کو گوئین کہتے ہیں جس کے معنی دو جہانوں کے ہوتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے کھانے کو تو کونین ہی کی گولیاں دیں مگر فرمایا.یہ ڈائرین کی گولیاں ہیں، انہیں استعمال کرو.دو تین گولیاں ہی اس نے
تذکار مهدی ) 6713 روایات سید نامحمود کھائی ہوں گی کہ آکر کہنے لگی مجھے تو اس دوا سے ٹھنڈک پڑ گئی ہے، کچھ اور گولیاں دیں.میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح پرانی تحریک کا نام جدید رکھ دیا اور تم نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ جدید تحریک ہے.وہ لوگ جن کے اندرا خلاص تھا اور وہ چاہتے تھے کہ روحانیت میں ترقی کریں انہوں نے جب ایک تحریک کا نیا نام سنا تو انہوں نے کہا یہ نئی چیز ہے آؤ ہم اس سے فائدہ اُٹھائیں اور وہ لوگ جن کے اندر نفاق تھا انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ نئی چیز ہے، کہنا شروع کر دیا کہ اب یہ نئی نئی باتیں نکال رہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طریق سے انحراف کر رہے ہیں.نہ اس نے بات سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اُس نے فائدہ اُٹھایا.تحریک جدید ایک قطرہ ہے، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 230 تا 231) دعا ، تو کل اور تبلیغ اکٹھے چلتی ہیں لکھا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلائی بعض اوقات کئی کئی ہزار روپیہ کا کپڑا پہنتے تھے.جب ان پر اسراف کا اعتراض ہوا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں تو ننگا رہنے کو بھی تیار ہوں اور میں تو نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے کہ یہ کھا.اور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم ہے کہ یہ پہن.ورنہ میں تو بھوکا اور نگارہنے کو بھی تیار ہوں.غرض جب تک انسان ایسے مقام پر نہ پہنچ جائے اُس وقت تک دعا تو کل اور تبلیغ تینوں چیزیں اکٹھی چلتی ہیں.قرآن کریم میں دعا کا بھی حکم ہے.کہ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن :61) اور تبلیغ کا بھی حکم ہے.کہ بَلِغْ مَا أُنْزِلُ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ (المائدہ:68) اور پھر فرمایا کہ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَة (التوبہ: 6 ) مخالفین اسلام کو بلاؤ اپنے پاس رکھو، ان کو خوب تبلیغ کرو اور پھر ان کو اگر وہ نہ مانیں تو بحفاظت ان کے مقام پر پہنچا دو.(ایک رئیس سے مکالمہ، انوار العلوم جلد 14 صفحہ 303-302) ایک جوشیلے عرب کا ایمان لے آنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک جوشیلا عرب قادیان میں آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور باقی احباب نے اسے خوب سمجھایا لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا.تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ یہ شخص تبلیغ سے نہیں بلکہ دعا سے سمجھے گا اور اس پر دعا کا حربہ اثر کرے گا.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا فرمائی تو دوسرے دن ہی وہ خود
تذکار مهدی ) 714 روایات سید نا محمود مسجد میں آ کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے غور کیا ہے وفات مسیح کا یہ ثبوت ہے اور صداقت مسیح موعود کا یہ ثبوت ہے اور خود ہی دلائل دینے لگ گیا.گویا اللہ تعالیٰ نے خود ہی اُسے دلائل سکھا دیئے اور اس نے بیعت کر لی.پھر وہ شخص اپنے ملک کو واپس چلا گیا.جب میں حج کو گیا تو مجھے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں لوگ کہتے ہیں کہ یہاں ایک شخص یوسف نامی تھا.وہ ایک قافلہ کے ساتھ مل کر ایک ہندوستانی کو مسیح و مہدی کہتا تھا اور لوگوں کو باتیں سناتا جاتا تھا اور قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا جاتا تھا.لوگ اس کو مارتے اور وہ بیہوش ہو جاتا مگر جب اسے ہوش آتا تو وہ بھاگ کر پھر قافلے سے آ ماتا اور تبلیغ کرنے لگ جاتا.پھر معلوم نہیں اُس کو مار دیا گیا یا وہ فوت ہو گیا.عرب میں اس کا کوئی پتہ نہیں لگ سکا.غرض جب اللہ تعالیٰ نے اُس کو سمجھایا تو اُس نے اس قدر جوش سے تبلیغ کی کہ جس کی نظیر مشکل سے ملتی ہے.پس کہیں کہیں ایسے واقعات بھی رونما ہو جاتے ہیں.ایک رئیس سے مکالمہ،انوارالعلوم جلد 14 صفحہ 303) نائی کے پاس مرحم کا نسخہ سید احمد نور صاحب کابلی کے ناک پر زخم تھا.انہوں نے کئی علاج کرائے لاہور کے میوہسپتال میں گئے ایکسرے کرا کر علاج کرایا.مگر زخم اور بھی خراب ہوتا گیا.آخر وہ پشاور گئے اور وہاں ایک نائی سے علاج کرایا.اس نے صرف تین روز دوائی استعمال کرائی اور زخم اچھا ہو گیا.تو اب بھی ایسے ماہرین فن موجود ہیں.جن کو ایسے ایسے پیشے آتے ہیں کہ اگر انہیں زندہ رکھا جائے.تو ان سے آگے کئی نئے پیشے جاری ہو سکتے ہیں.لیکن ان کے جاننے والے چونکہ انہیں زندہ رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اس لئے وہ ترقی نہیں کر رہے.اگر ان کی طرف لوگوں کو توجہ ہو تو ان سے آگے کئی فنون نکل سکتے ہیں.مثلاً یہی ہڈیوں کا ٹھیک کرنا ہے.پہلوان اور نائی اسے جانتے ہیں اور اس سے پرانی دردوں اور ٹیڑھی ہڈیوں کو درست کیا جا سکتا ہے.اسے سیکھ کر پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے.پرانے زمانہ میں لوگ ان پیشوں کے اظہار میں بہت بخل سے کام لیتے تھے اور کوئی کسی کو بتاتا نہ تھا اس لئے وہ مٹ گئے یورپ والے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے فن کو عام کر دیتے ہیں.اس سے وہ روپیہ بھی زیادہ کما سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک نائی تھا جسے ایسی مرہم کا علم تھا.جس سے بڑے بڑے خراب زخم اچھے ہو جاتے تھے.لوگ دور دور سے اس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے تھے.اس کا بیٹا اس کا نسخہ پوچھتا تو وہ جواب
6715 تذکار مهدی ) روایات سید نا محمود دیتا کہ اس کے جاننے والے دنیا میں دو نہیں ہونے چاہئیں.آخر وہ بوڑھا ہو گیا اور سخت بیمار ہوا.تو اس کے بیٹے نے کہا کہ اب تو بتادیں وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر تم سمجھتے ہو میں مرنے لگا ہوں تو بتا دیتا ہوں.مگر پھر کہنے لگا کہ کیا پتہ میں اچھا ہی ہو جاؤں اور اس لئے پھر بتانے سے رک گیا.چند گھنٹوں بعد اس کی جان نکل گئی اور اس کا بیٹا اس فن سے محروم رہ گیا وہ آرام سے بیٹھا تھا اور مطمئن تھا کہ گھر میں فن موجود ہے.لیکن وہ اس کے کسی کام نہ آسکا.تو بخل ترقی کا نہیں بلکہ ذلت اور رسوائی کا موجب ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ خاندانوں کی تباہی کا موجب ہو جاتا ہے.تو ان پیشوں اور فنون کا سکھا نا مضر نہیں بلکہ مفید ہے.اس سے علم ترقی کرتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ فنون خصوصاً مردہ فنون کو ترقی دی جائے.فنون بالکل مٹ گئے ہیں الفضل 29 را پریل 1939 ء جلد 27 نمبر 98 صفحہ 4) مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام دہلی تشریف لے گئے بعد میں آپ نے نانا جان میر ناصر نواب صاحب کو بھی وہاں بلا لیا.وہاں نانا جان کے پیٹ میں شدید درد ہوئی ڈاکٹروں کو دکھایا گیا تو انہوں نے بتایا یہ اپنڈے سائٹس (APPENDICITIS) ہے اور اُس کا آپریشن کرانا پڑے گا.اور آپریشن بھی تین چار گھنٹے کے اندر اندر کرانا پڑے گا ورنہ مریض کی جان خطرے میں ہے.آپ مریض کو فوری طور پر ہسپتال بھیج دیں.میر صاحب کا دل کمزور تھا.وہ آپریشن سے گھبراتے تھے.انہوں نے کہا آپریشن سے بھی مرنا ہے اور یوں بھی مرنا ہے.آپ میرا کوئی اور علاج کریں آپریشن نہ کرائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا آپریشن میں زبردستی تو نہیں کی جاسکتی.مریض کی مرضی سے ہی آپریشن کروایا جاسکتا ہے.اگر میر صاحب آپریشن کروانا پسند نہیں کرتے تو کسی طبیب سے علاج کرایا جائے.چنانچہ ایک پرانا طبیب بلایا گیا.اُس نے آپ کو دیکھا اور کہا کہ میں ابھی دوا بھجواتا ہوں.وہ دوا مریض کو کھلا دی جائے اور ایک دوا پیٹ پر لگا دی جائے درد ہٹ جائے گا.چنانچہ انہوں نے دوا بھجوائی اور وہ میر صاحب کو کھلائی گئی اور دوسری دوا پیٹ پر لگائی گئی.ہمیں پچپیں منٹ کے بعد آپ سو گئے اور چار پانچ گھنٹے کے بعد آپ بالکل تندرست ہو گئے اور چلنے پھرنے لگ گئے.اب دیکھو ایک طرف ڈاکٹر کہتا تھا یہ اپنڈے سائٹس (APPENDICITIS) ہے
تذکار مهدی ) +716 روایات سید نامحمود اس کا فوری طور پر آپریشن کروانا پڑے گا ورنہ مریض کی جان خطرہ میں ہے.اور دوسری طرف ایک طبیب یہ کہتا ہے کہ یہ معمولی تکلیف ہے دوا سے ٹھیک ہو جائے گی.غرض کئی فنون تھے جو ہمارے ملک میں موجود تھے لیکن بد قسمتی سے جس طرح ہم نے دین کو ضائع کر دیا ہے.اسی طرح فنون کو بھی ضائع کر دیا ہے.اب یا تو وہ فنون بالکل مٹ گئے ہیں اور اگر باقی رہ گئے ہیں تو اُن کے عملی حصے باقی رہ گئے ہیں اور بوجہ اس کے کہ اُن کی بیک گراؤنڈ (BACKGROUND) یا علمی بنیاد اچھی نہیں ان کی قدر گر گئی ہے.اب جو باتیں ایک انجینئر کہتا ہے وہی باتیں ایک معمار کہتا ہے.لیکن جب فن کے متعلق کوئی بات ہوتی ہے تو انجینئر آگے آجاتے ہیں اور معمار پیچھے بیٹھے رہتے ہیں اس لیے ان لوگوں کا اعتبار مٹ گیا ہے.جس وقت وہ جراح میرے پاس آئے تو لازماً میرے دل میں بھی شبہ پیدا ہوا.لیکن چونکہ لاہور جانے میں مشکلات تھیں.اس لیے میں نے خیال کیا چلوان سے علاج کرالو.چنانچہ انہوں نے مجھے بعض تدابیر بتائیں.سو وہ تدابیر میں نے کر لیں.حقیقت یہ ہے کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ وہ اس کا علاج کر سکیں گے.میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لا ہور نہ جانے کے سامان پیدا کر دیئے ہیں.اگر میں یہیں علاج کرالوں تو میری گھبراہٹ دور ہو جائے گی.چنانچہ میں نے کل اُس جراح کو بلایا.میں نے ہدایت دی کہ ڈاکٹر منور احمد کو بھی بلا لیا جائے.چنانچہ انہیں بھی بلالیا گیا.میں نے کہا ناخن کاٹنے سے شدید درد ہوگی.کیا اُسے روکنے کی بھی کوئی تجویز کر لی ہے؟ جراح نے کہا کہ ایسا نہیں ہوگا.میں آرام سے ناخن کاٹ دوں گا، کوئی تکلیف نہیں ہوگی.میں نے کہا آپ نے پانی کی پٹی کیوں کروائی ہے؟ انہوں نے کہا پانی کی پٹی سے گوشت الگ ہو جاتا ہے.ڈاکٹر منور احمد نے کہا جہاں تک ناخن ہے بس اُس قدر کاٹا جائے.جراح نے کہا اُس قدر ناخن کاٹنے سے فائدہ نہیں ہو گا.لیکن ڈاکٹر منور احمد نے کہا اس سے زیادہ نہ کاٹیں.چنانچہ اُس نے آدھا ناخن کاٹا اور وہ ناخن اس طرح کٹ گیا جیسے روئی کائی جاتی ہے.اور میری طبیعت پر یہ اثر پڑا کہ جراح کو یہ فن آتا ہے.ناخن کے کٹ جانے سے زخم ننگا ہو گیا اور معلوم ہوا کہ زخم ابھی آگے جاتا ہے.چنانچہ جراح نے اور ناخن کاٹنا چاہا.لیکن میاں منور احمد نے مزید ناخن کاٹنے کی اجازت نہ دی اور کہا مزید ناخن کاٹنے سے تکلیف ہوگی.جراح نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.مجھے تو اب تسلی ہو چکی تھی اس لیے میں نے ناخن کے اگلے حصہ
تذکار مهدی ) 717 روایات سید نامحمود کو کاٹنے کی بھی اجازت دے دی.چنانچہ اُس نے بقیہ حصہ بھی اس طرح کاٹا کہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہوئی.بعد میں ضرور تکلیف ہوئی.کیونکہ ناخن کا ایک حصہ زخم میں گھسا ہوا تھا.پہلے تو یہ خیال کیا کہ یہ اگر رہ جائے تو کوئی حرج نہیں.لیکن بعد میں خیال کیا گیا کہ اگر یہ حصہ رہ گیا تو تکلیف ہوگی اس لیے جراح نے اُسے اوزار ڈال کر کھینچا جس سے کافی تکلیف ہوئی.بہر حال ناخن کاٹنے کے بعد پٹی کر دی گئی.اور آج زخم کی بظا ہر کیفیت ایسی تھی جیسے آنکھ میں پھولا نکلا ہوا ہوتا ہے.اور زخم ناخن سے اونچا ہو گیا تھا.تاہم حالت درمیانی دور میں ہے.زیادہ خراب نہیں.میں نے یہ تمام قصہ جمعہ میں بیان کر دیا ہے.کیونکہ دوست ملنے آتے ہیں یا خطوط لکھتے ہیں تو بات کو گریدتے رہتے ہیں.روزانہ پیغام آتے رہتے ہیں اب کیا حال ہے کیا علاج کیا ؟ اس سے کیا فائدہ ہوا؟ آئندہ کیا علاج کرانے کا ارادہ ہے؟ اس سے طبیعت گھبرا جاتی ہے.اور بعض دفعہ تو ملاقات میں یہ سلسلہ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ عرشی سے بات ختم کرنا پڑتی ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے.بندر کا زخم جلد اچھا نہیں ہوتا.جب کسی بندر کو کوئی زخم ہو جاتا ہے تو دوسرے بندر آکر زخم میں انگلی ڈال ڈال کر دیکھتے ہیں.جس سے زخم بڑھ جاتا ہے اور زخمی بندر چڑ جاتا ہے اور پھر بھاگ کر جنگل کے کسی کونے میں چلا جاتا ہے.بہر حال بار بار ایک ہی قسم کے سوال سے طبیعت چڑ جاتی ہے.میری طبیعت تو بچپن سے کمزور ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی وفات سے دس پندرہ دن پہلے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور فرمایا ذرا محمود کو دیکھئے.مجھے تو اپنی صحت سے زیادہ اس کی صحت کا خیال ہے.میری اُس وقت ایسی حالت تھی کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ میری عمر میں پینتیس سال سے زیادہ نہیں ہوگی.لیکن خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں اب اس سے قریباً دگنی عمر کو پہنچ چکا ہوں.طبیعت اگر چہ کمزور ہی رہتی ہے.کبھی کوئی تکلیف ہو جاتی ہے اور کبھی کوئی تکلیف.لیکن پھر بھی اتنی عمر تک پہنچ چکا ہوں.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے.ہمارے ایک غیر احمدی دوست تھے بعد میں وہ احمدی ہوگئے.وہ احمدی ہونے سے چار پانچ سال پہلے قادیان آیا کرتے تھے.وہ جب بھی قادیان آتے مجھے ملنے کے لیے ضرور آتے اور جب بھی آتے مجھے کھانسی یا کوئی اور تکلیف ہوتی.ایک دن کہنے لگے آپ کو اتنی کھانسی ہے آپ جلسہ پر تقریر کیسے کریں گے؟ لیکن جب تقریر کی تو وہ چھ گھنٹے کی لمبی تقریر ہوگئی.دو تین
تذکار مهدی ) 718 روایات سید نامحمود سال بعد وہ دہلی کی جماعت کے ساتھ مجھے ملنے آئے تو کہنے لگے میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.میں نے کہا بڑے شوق سے پوچھیں.کہنے لگے کہ آپ سچ مچ بیمار رہتے ہیں یا بہانے بنایا کرتے ہیں؟ میں اُن کے اِس سوال پر حیران ہوا.وہ کہنے لگے ہم جب آپ کی مجلس میں آتے ہیں تو آپ کھانس رہے ہوتے ہیں اور اس قدر کھانسی ہوتی ہے کہ ہم سمجھتے ہیں آپ چھوٹی سی تقریر بھی نہیں کر سکیں گے.لیکن جب تقریر کرتے ہیں تو وہ چھ چھ گھنٹے تک کی لمبی ہو جاتی ہے.میں نے کہا یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ بیمار بھی ہوتا ہوں تو وہ مجھ سے کام لے لیتا ہے.پس میں نے یہ سارا واقعہ اس لیے بیان کر دیا ہے کہ لوگ محبت کی وجہ سے زخم کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں.سوکل ناخن کاٹا گیا ہے.اب دباؤ پڑے تو تکلیف ہوتی ہے ورنہ درمیانی کیفیت ہے.گوشت کا ٹکڑا لمبا ہو گیا ہے اور پھولا سا معلوم ہوتا ہے.دوسرے مجھے اس سے خیال آیا کہ ہمارے پاس جو علوم تھے اور جن کی وجہ سے ہم دنیا میں سر بلند ہو سکتے تھے افسوس کہ ہم نے ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اُٹھایا.اس بیماری کے سلسلہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب لاہور گئے ہوئے تھے.انہوں نے ایک احمدی ڈاکٹر سے اس بات کا ذکر کر دیا کہ میں ایک جراح سے علاج کروانا چاہتا ہوں تو وہ ڈاکٹر صاحب چونکہ دیسی طب کے سخت خلاف ہیں اس لیے کہنے لگے آپ حضور سے میری طرف سے عرض کر دیں کہ ایسا ہر گز نہ کرائیں.اور اگر ایسا کرانا ہی ہے تو پھر ہمیں بھی داتا گنج بخش صاحب کے دربار میں جانے کی اجازت دے دیں.یعنی جس طرح وہاں جانا بیوقوفی کی بات ہے اسی طرح کسی دیسی جراح سے علاج کروانا بھی بیوقوفی کی بات ہے.( خطبات محمود جلد 34 صفحہ 295 تا 298 ) زلزلہ کی وجہ سے باغ میں قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دفعہ ایسی ہی دو مختلف طبیعتیں رکھنے والوں کا اجتماع ہو گیا.4 اپریل 1905ء کو جو خطرناک زلزلہ آیا.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو زلازل کے متعلق کثرت سے الہامات ہوئے.آپ خدا تعالیٰ کے کلام کا ادب اور احترام کرتے ہوئے باغ میں تشریف لے گئے.کئی بیوقوف کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طاعون سے ڈر کر باغ میں چلے گئے اور تعجب ہے کہ میں نے
تذکار مهدی ) 719 روایات سید نا محمود بعض احمدیوں کے منہ سے بھی یہ بات سنی ہے حالانکہ طاعون کے ڈر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی اپنا گھر نہیں چھوڑا.اس وقت چونکہ زلازل کے متعلق آپ کو کثرت سے الہامات ہو رہے تھے، اس لئے آپ نے یہی مناسب خیال فرمایا کہ کچھ عرصہ باغ میں رہیں.باقی دوستوں کو بھی آپ نے وہیں رہنے کی تحریک کی اور چونکہ جلدی تھی اس لئے کچھ تو خیموں کا انتظام کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اینٹیں اور چٹائیاں وغیرہ ڈال کر رہنے کے لئے خطبات محمود جلد 14 صفحہ 114-113) جھونپڑیاں بنالیں.ہر قسم کا علاج کروانا چاہیئے ہندوستانی ڈاکٹروں میں سے نانوے فیصدی ایسے ہیں جو دوسرے سے مشورہ کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تجربہ میں جتنے سب اسسٹنٹ سرجن میں نے دیکھے ہیں، ان سے اچھے ہیں.مگر باوجود اس کے یہ معنے نہیں کہ انہیں مشورہ کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قاعدہ تھا اور خود میں بھی جب 1918ء میں بیمار ہوا تو میں نے بھی ایسا ہی کیا کہ طبیب اور ڈاکٹر سب جمع کر لئے ڈاکٹروں کی دوائی بھی کھاتا تھا اور طبیبوں کی بھی.کیا معلوم اللہ تعالیٰ کس سے فائدہ دے دے.اگر کوئی ڈاکٹر اپنے آپ کو خدا سمجھتا ہے تو سمجھے، ہم تو اسے بندہ ہی سمجھتے ہیں.یورپ کے ڈاکٹروں میں یہ مرض نہیں وہاں کے ڈاکٹر جب دیکھیں کہ حالت خطر ناک ہے یا ان کا جو اندازہ ہے کہ اتنے دنوں میں آرام ہوگا وہ پورا نہ ہو تو خود کہہ دیتے کہ دوسرا ڈاکٹر بلاؤ اور پھر اس سے خود تبادلہ خیالات کر کے (خطبات محمود جلد 14 صفحہ 129) مناسب علاج تجویز کریں گے.مسجد مبارک کی برکت سے شفاء ایک دفعہ حضرت ام المؤمنین بیمار ہوئیں اور قریباً چالیس روز تک بیمار رہیں.ایک دن حضرت صاحب نے فرمایا.اس مسجد (مبارک) کے متعلق الہام ہے.مُبَارِكٌ وَمُبَارَكٌ وَكُلُّ مُّبَارَكِ يَجْعَلُ فِيهِ ( تذکرہ صفحہ (83) اس میں چل کر دوا دیں.آپ نے یہاں آ کر دوا پلائی دو گھنٹے کے اندرام المومنین اچھی ہو گئیں.الفضل 14 فروری 1921 ءجلد 8 نمبر 61 صفحہ 6 )
تذکار مهدی ) 720 بیماروں کو تبلیغ کیونکہ ان کا دل نرم ہوتا ہے روایات سید نا محمود قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ فردا فردا غور کرنے سے فائدہ اٹھاتی ہیں.ایسے لوگوں کو جب اشتہارات پہنچائے جاتے ہیں اور وہ ان پر غور کرتے ہیں تو متاثر ہو جاتے ہیں اور دشمن کے ان تک پہنچنے سے پہلے پہلے ان کے دل میں نیکی قائم ہو جاتی ہے پھر مخالف خواہ انہیں دھوکا دینے کے لئے کچھ کہیں اس کا ان پر اثر نہیں ہوتا پھر بیمار اور بوڑھے جو جلسہ میں نہیں آسکتے اشتہارات کے ذریعہ اُن تک بھی بات پہنچ جاتی ہے اور بیماروں پر حق وصداقت کا اثر بہت جلدی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک طبیب نے پوچھا میں کیا خدمت دین کروں ؟ تو آپ نے فرمایا آپ بیماروں کو تبلیغ کیا کریں یہ بہت اچھا موقع ہوتا ہے کیونکہ بیمار کا دل نرم ہوتا ہے.اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 13 صفحہ 338 ) حضرت مسیح موعود کا تفقہ فی الدین اسلامی مسائل کی بنیاد تفقہ پر ہے.ان کے اندر بار یک حکمتیں ہوتی ہیں اور جب تک ان کو نہ سمجھا جاوے انسان دھوکہ کھا کر بعض دفعہ گمراہی کی طرف نکل جاتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ کسی مجلس میں بیان فرمایا کہ انسان اگر تقویٰ سے کام لے تو چاہے سوشادیاں کر لے.یہ بات سلسلہ کے اخباروں میں سے ایک میں شائع ہوئی جس پر یہ چرچا شروع ہو گیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مذہب یہی ہے کہ چار کی حد نہیں.شادیاں کوئی جتنی چاہے کر لے.حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے اس بحث اور جھگڑے کو جو باہر ہوتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پہنچایا اور پوچھا کہ اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ آپ نے فرمایا.میرا یہ مطلب تھا کہ اگر ایک بیوی مر جائے یا کسی وجہ سے طلاق دی جائے تو انسان اس کی بجائے اور شادی کر سکتا ہے اسی طرح خواہ سوشادیاں کر لے.اس سے آپ نے اس خیال کی تردید فرمائی جو بعض مذاہب نے پیش کیا ہے کہ عمر بھر دوسری شادی نہ کرنی چاہیئے.اب اگر حضرت مسیح موعود مجھے یاد آیا حضرت خلیفہ مسیح الاول کا اعتقاد ایک عرصہ تک یہی تھا کہ چار سے زیادہ شادیاں جائز ہیں.ان دنوں چونکہ چھوٹی
تذکار مهدی ) 721 روایات سید نا محمود ) جماعت تھی اور دوست اکثر باہم ملتے تھے ایسے مسائل پر بڑی لمبی بحثیں ہوتی رہتی تھیں انہیں دنوں ایک زمانہ میں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا.حضرت خلیفہ مسیح الاول نے فرمایا چار بیویوں کی حد بندی شریعت سے ثابت نہیں اور ابوداؤد کی ایک روایت بھی پیش کی جس میں لکھا تھا کہ حضرت امام حسن کے اٹھارہ یا انیس نکاح ہوئے.اس مجلس میں کسی نے یہ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ عقیدہ نہیں.اس پر حضرت خلیفہ امسیح الاول نے یہ خیال کیا ممکن ہے آپ کے پاس یہ معاملہ پوری طرح پیش نہ کیا گیا ہو اس لئے کسی سے کہا کہ یہ کتاب لے جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ حوالہ دکھا آؤ.کتاب لانے والا راستہ میں مجھے بھی ملا.وہ بغل میں کتاب دبائے نہایت شوق سے جارہا تھا.میں نے دریافت کیا کیا بات ہے؟ اس نے بتایا.حضرت مولوی صاحب نے یہ حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھانے کے لئے بھیجا ہے.میں بھی جواب کے شوق میں واپسی کا منتظر رہا.وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا.میں نے دیکھا جاتے وقت تو بہت خوش خوش گیا تھا مگر واپس آتے وقت سر جھکائے آ رہا تھا.میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب سے جا کر پوچھو کہ کہاں لکھا ہے کہ یہ ساری بیویاں ایک ہی وقت میں تھیں.اور بات بھی یہی ہے ایک تاریخ نویس جب لکھے گا تو یہی لکھے گا کہ فلاں شخص نے اتنے نکاح کئے آگے سوچنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ سب ایک ہی وقت میں کیسے یا بعض ان میں پہلی بیویوں کی وفات پر کئے.امام کا آواز دینا خطبات محمود جلد 13 صفحہ 36-35) اللہ تعالیٰ کا نبی کسی شخص کو آواز دے اور وہ جسے بلایا گیا ہو اُس وقت نماز بھی پڑھ رہا ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اُسی وقت نماز توڑ دے اور خدا تعالیٰ کے نبی کی خدمت میں حاضر ہو جائے کیونکہ وہ صفات الہیہ کا کامل مظہر ہوتا ہے اور اس کی آواز گویا خدا کی آواز ہوتی ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو آواز دی.وہ اس وقت نماز پڑھ رہا تھا.اُس نے نماز توڑ دی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا.لوگوں نے اعتراض کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور خدا کا نبی اُسے بلائے تو
تذکار مهدی ) 722 نامحمودی روایات سیّد نا محمود وہ نماز بھی تو ڑ سکتا ہے.اسی طرح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ ایسی حالت میں آواز دی جبکہ آپ نماز پڑھ رہے تھے تو آپ نے بھی نماز توڑ دی اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے.معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ استدلال قرآن کریم کی اس آیت سے کیا تھا کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال آیت (25) امام کے سامنے اپنی آواز نیچی رکھو 色 ( تفسیر کبیر جلد 2 صفحہ 279-278) | دوسری بات یہ فرمائی.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ (الحجرات : 3 ) اگر رسول بیٹھا ہے.اور کوئی بات بیان کرے تو اس کے سامنے ادب سے بات کی جائے اور اونچی آواز میں بات نہ کی جائے.عموماً یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص بات کرے اور اس پر اعتراض ہو کہ اپنی بات کو واضح کیجئے تو جواب میں وہ شخص اپنی بات کو واضح کرنے اور کلام پر زور دینے کے لئے زور سے بولتا ہے.اور یہ صورت ایک مباحثہ کی ہو جاتی ہے.اس کے متعلق سکھلایا کہ اگر رسول تمہاری بات واضح کرنے کے لئے سوال کرے تو بلند آواز سے نہ بولو.آپ کی آواز سے تمہاری آواز نیچی رہے.زور اس لئے دیا جاتا ہے کہ بات مانی جائے.یہ طریق درست نہیں رسول اور اس کا نائب مشورہ کو مانتے بھی ہیں.مجھے تو اس سات سال کے عرصہ میں یاد نہیں کہ احباب نے مشورہ دیا ہو اور میں نے اس مشورہ کو رد کر دیا ہو گو ہمیں حق ہے کہ ہم رد کر دیں.تم اپنی تحکم کی صورت اختیار نہ کرو جس سے ظاہر ہو کہ تم حاکم اور وہ محکوم ہیں.بلکہ اپنی آواز ان کی آواز سے تو بہر حال اونچی نہیں ہونی چاہئے.اگر رسول یا اس کا نائب بات کرنے میں بلند آواز استعمال کریں تب بھی تمہیں آواز نیچی ہی رکھنی چاہئے.حضرت صاحب کو دیکھا ہے کہ بعض اوقات بات کرتے ہوئے اس قدر بلند آواز سے بولتے تھے کہ مدرسہ (احمدیہ ) کے صحن میں آپ کی آواز سنائی دیا.کرتی تھی پس اس حالت میں بھی تمہاری آواز نیچی ہی رہے.اگر ایسا نہیں کرو گے تو آن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جا ئیں اور تم
تذکار مهدی ) 723 روایات سید نا محمود کو پتہ بھی نہ لگے کتنی چھوٹی بات ہے مگر نتیجہ کتنا خطرناک ہے.بات یہ ہے کہ جب انسان کسی کے مقابلہ میں بلند آواز سے بولتا ہے تو اس کا ادب دل سے نکل جاتا ہے اور جب ادب نہ ہو تو محبت بھی کم ہو جاتی ہے اور محبت کے کم ہونے کے ساتھ ایمان بھی کم ہو جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایمان نہ تھے.مگر ایمان کو آپ سے وابستہ کر دیا گیا تھا.مومن کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا.(خطبات محمود جلد 7 صفحہ 324 ) مؤمن در حقیقت زیادہ ترغیب کا منتظر نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے صرف اشارہ ہی کافی ہوتا ہے اور اس اشارہ کو سمجھ کر وہ ایسے جوش سے کام کرتا ہے کہ بعض لوگوں کو دیوانگی کا شبہ ہونے لگتا ہے.اسی لئے جتنے کامل مؤمن دنیا میں ہوئے انہیں لوگوں نے پاگل کہا ہے.اللہ تعالیٰ مغفرت کرے میرے اُستاد ہوا کرتے تھے مولوی یار محمد صاحب ان کا نام تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے ان کے دماغ میں کچھ نقص ہو گیا تھا مگر یہ نقص اُن کا اس رنگ کا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنا محبوب اور اپنے آپ کو عاشق سمجھتے تھے اسی عشق کی وجہ سے وہ خیال کرنے لگے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پسر موعود اور مصلح موعود بنادیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ بات کرتے کرتے بعض دفعہ جوش میں اپنی رانوں کی طرف یوں ہاتھ کو لاتے جس طرح کسی کو بلا یا جاتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی رنگ میں جوش سے کچھ کلمات فرما رہے تھے کہ مولوی یار محمد صاحب کود کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس جا بیٹھے بعد میں کسی نے پوچھا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ تو وہ کہنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں اشارہ کیا تھا اور یہ اشارہ میری طرف تھا کہ تم آگے آجاؤ چنانچہ میں گو دکر آگے آگیا.- - یہ دیوانگی تھی مگر بعض رنگ کی دیوانگی بھی اچھی ہوتی ہے آخر ان کی یہ دیوانگی بغض کی طرف نہیں گئی بلکہ محبت کی طرف گئی پس محبت کا دیوانہ غیر اشارہ کو بھی اپنے لئے اشارہ سمجھ لیتا ہے پھر جو قوم خدا تعالیٰ کی محبت کا دعویٰ کرنے والی ہو وہ صحیح اشارہ کو کیوں نہیں سمجھ سکتی.کیا ہماری جماعت کے دیوانوں کی وہ محبت جو وہ سلسلہ سے رکھتے ہیں مولوی یار محمد صاحب جتنی بھی نہیں
تذکار مهدی ) 724 روایات سید نا محمودی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رانوں پر آہستگی سے ہاتھ مارا اور انہوں نے سمجھا کہ مجھے بلا رہے ہیں.اصل چیز محبت الہی ہے ( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 734،733) ظاہری چیزیں کچھ نہیں ہوتیں جب تک باطن میں تبدیلی نہ پیدا کی جائے.مومن کے لئے کوئی چیز بھی چھوٹی نہیں ہونی چاہئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں کسی نے عرض کیا کہ ہماری جماعت کے اکثر لوگ داڑھیاں منڈواتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اصل چیز تو محبت الہی ہے جب ان لوگوں کے دلوں میں محبت الہی پیدا ہو جائے گی تب خود بخود یہ لوگ ہماری نقل کرنے لگ جائیں گے.(ہمارے ذمہ تمام دنیا کو فتح کرنے کا کام ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 465) راج اور جن ہم نے بھی یہ قیاس کر لیا تھا کہ عارضی مکانات تھوڑے بنیں گے اور مستقل عمارات دیر سے بنیں گی لیکن ہمارا یہ اندازہ غلط نکلا.پھر منظوریاں دیتے وقت ہم نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ منظور یاں ہمیں کہاں پہنچا دیں گی.”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جن اور راج دونوں ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں.جس طرح بقول جہال جن گھر سے نہیں نکلتا.اسی طرح راج بھی گھر سے نہیں نکلتا.پھر یہاں تو ہم نے صرف ایک گھر نہیں بنانا ایک شہر آباد کرنا ہے.یہاں تو راج جنوں کا بھی بادشاہ بن جائے گا.الفضل 27 /اکتوبر 1949 ء جلد 3 نمبر 246 صفحہ 3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار کا شوق باہر سے آنے والے دوست جن کو یہاں آنے کا بار بار موقع نہیں ملتا یا جمعہ کے موقع پر جب کہ مقامی لوگوں میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں ہفتہ بھر ملنے کا اور کوئی موقع نہیں ملا ہوتا ، مجھ سے مصافحہ کرتے ہیں اور ان کے لئے مصافحہ کی معقولیت میری سمجھ میں آ سکتی ہے کیونکہ مصافحہ قلوب میں وابستگی اور پیوستگی پیدا کرتا ہے اور یہ معمولی چیز نہیں بلکہ احادیث سے
تذکار مهدی ) 725 روایات سید نا محمود ثابت ہے کہ عیدین وغیرہ مواقع پر صحابہ خصوصیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا کرتے مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر نماز کے وقت مصافحہ کرنا دینی ضرورتوں میں سے کوئی ضرورت ہے.بعض لوگ محبت میں گداز ہوتے ہیں.میں ان کو الگ کرتا ہوں کیونکہ ان پر کوئی قانون جاری نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں سارا سارا دن اس کھڑکی کے سامنے بیٹھے رہتے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر آیا کرتے تھے اور جب باہر آتے تو وہ آپ سے مصافحہ کرتے یا آپ کے کپڑوں کو ہی چھو لیتے.ایسے لوگ محبت کی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں.مگر مجھے شبہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہر وقت مصافحہ کرنا ضروری ہے.مصافحہ کا اصل وقت تو وہ ہوتا ہے جب کوئی شخص باہر جا رہا ہو یا باہر سے آیا ہو.یا ساتویں آٹھویں دن اس لئے مصافحہ کرے کہ تا دعاؤں میں اسے یاد رکھا جائے اور اس کا تعارف قائم رہے یا کسی بیمار نے بیماری سے شفا پائی ہو تو وہ یہ بتانے کے لئے مصافحہ کرے کہ اب وہ اچھا ہو گیا ہے یہ اور چیز ہے.مگر بالالتزام بغیر اس کے کہ نفس اس مقام پر پہنچا ہوا ہو کہ انسان مصافحہ کرنے پر مجبور ہو جائے دوسروں کو دیکھ کر یہ کام کرنا کوئی پسندیدہ امر نہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قاضی سید امیرحسین صاحب مرحوم جو کہ میرے استاد بھی تھے بوجہ اس کے کہ وہ اہلحدیث میں سے آئے تھے بعض مسائل میں اختلاف تھا.ایک دفعہ یہ سوال زیر بحث تھا کہ مجلس میں کسی بڑے آدمی کے آنے پر کھڑا ہونا جائز ہے یا نہیں؟ قاضی سید امیرحسین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ شرک ہے اور رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے.آخر یہ جھگڑا اتنا طول پکڑ گیا کہ اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے پیش کیا گیا.اس وقت یہ سوال ایک رقعہ پر لکھا گیا اور میں رقعہ لے کر اندر گیا.اس وقت اگرچہ میں طالب علم تھا مگر چونکہ مذہبی باتوں سے مجھے بچپن سے ہی دلچسپی رہی ہے اس لئے میں ہی وہ رقعہ اندر لے گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے جواب میں زبانی کہا یا تحریر کیا مجھے اچھی طرح یاد نہیں.خیال یہی آتا ہے کہ آپ نے تحریر فرمایا کہ دیکھو وفات کے موقع پر کوئی ایسی حرکت کرنا جیسے دو ہتر مارنا شریعت نے سخت ناجائز قرار دیا ہے، لیکن جہاں تک مجھے خیال ہے روایت تو صحیح یاد نہیں ، آپ نے غالباً حضرت عائشہ کا ذکر کیا کہ
تذکار مهدی ) 726 روایات سید نامحمود رسول کریم ﷺ کی وفات کے موقع پر انہوں نے بے اختیار اپنے سینہ پر ہاتھ مارا.یہ روایت لکھ کر آپ نے تحریر فرمایا کہ ایک چیز ہوتی ہے تکلف اور بناوٹ اور ایک چیز ہوتی ہے جذبہ بے اختیاری.جو امر جذبہ بے اختیاری کے ماتحت ہو اور ایسا نہ ہو کہ جو نص صریح سے ممنوع ہو بعض حالتوں میں وہ جائز ہوتا ہے اور وہاں یہ دیکھا جائے گا کہ یہ فعل کرنے والے نے کس رنگ میں کیا.سجدہ تو بہر حال منع ہے خواہ کسی جذبہ کے ماتحت ہو مگر بعض افعال ایسے ہوتے ہیں کہ وہ بعض صورتوں میں تکلف اور بعض صورتوں میں جذبہ بے اختیاری کے ماتحت صادر ہوتے ہیں.اس کے بعد تحریر فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ ایک بڑے آدمی کے آنے پر چونکہ باقی لوگ کھڑے ہیں اس لئے میں بھی کھڑا ہو جاؤں تو وہ گنہگار ہو گا.مگر وہ جو بے قرار ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے جیسے معشوق جب عاشق کے سامنے آئے تو وہ اس کے لئے کھڑا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس پر گرفت نہیں.قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص احمدی تھے.میں نے ان سے بہت عرصہ پڑھا ہے وہ احمدیت کے متعلق اپنے اندر عشق کا جذبہ رکھتے تھے.مجھے یاد ہے میری خلافت کے ایام میں ایک دفعہ جب میں مسجد میں آیا تو قاضی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے مجھے دیکھتے ہی کھڑے ہو گئے میں نے کہا قاضی صاحب! آپ تو کسی کی تعظیم کے لئے کھڑا ہونا شرک قرار دیا کرتے تھے کہنے لگے " کی کراں میں سمجھداتے ایہی ہاں پر دیکھدے ای کچھ ہو جاندا ہے رہیا جاندا ای نہیں.یعنی کیا کروں میں سمجھتا تو یہی ہوں لیکن آپ کو دیکھ کر ایسا جذ بہ طاری ہوتا ہے کہ میں بیٹھا نہیں رہ سکتا.تو حالات کے مختلف ہونے اور جذبات کی بے اختیاری کی وجہ سے حکم بدلتے رہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں مصافحہ بھی اسی رنگ کی چیز ہے جب مصافحہ رسم ورواج کے ماتحت ہو یا دکھاوے کے طور پر یا اس لئے ہو کہ شاید یہ شرعی احکام میں سے ہے یا اخلاص کے اظہار کا یہ بھی کوئی ذریعہ ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.لیکن جب کوئی دیر سے ملتا ہے اور چاہتا ہے کہ بتلائے کہ میں آ گیا ہوں یا بیمار چاہتا ہے کہ میں بتاؤں مجھے صحت ہو گئی ہے.یا کوئی اس لئے مصافحہ کرتا ہے کہ تا دعاؤں میں وہ یادرہ سکے تو ایسے موقعوں پر مصافحہ ایک نہایت ہی مفید مقصد کو پورا کر رہا ہوتا ہے.مگر دوسرے اوقات میں وہ بعض دفعہ وقت کو ضائع کرنے والا بھی ہو جاتا ہے.خطبات محمود جلد 14 صفحہ 106 تا 108 )
تذکار مهدی ) 727 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر روایات سید نا محمود اگر معمولی خوش الحانی سے یہ ریکارڈ بھرے گئے ہیں تو اجازت ہے کہ جماعت کے وہ لوگ جنہیں وسعت ہو بے شک خریدیں لیکن اگر راگ یا ڈھولک وغیرہ اور مزامیر ہیں تو پھر صدر انجمن احمدیہ کو بھی چاہئے کہ پروٹیسٹ کرے اور اس کمپنی کے پاس بھی پروٹیسٹ کرے نہ صرف یہ کہ ان ریکارڈوں کو احمدی خریدیں نہیں بلکہ اس کے خلاف سخت پروٹیسٹ کریں کیونکہ ایسے رستے کھلنے سے بات کہیں سے کہیں پہنچ جائے گی...میں امور عامہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس معاملہ کی تحقیق کرے اور اگر ثابت ہو کہ یہ ریکارڈ ڈھولک اور مزامیر کے ساتھ بھرا گیا ہے تو ایسے ذرائع اختیار کرے کہ اس کا انسداد ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنی تصویر کھنچوائی لیکن ایک کارڈ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا جس پر آپ کی تصویر تھی تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ کوئی شخص ایسے کارڈ نہ خریدے.نتیجہ یہ ہوا کہ آئندہ کسی نے ایسا کرنے کی جرات نہ کی.حالانکہ کارڈ پر تصویر چھاپنا ایسی بے حرمتی نہیں جیسی کہ ڈھولک سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی نظمیں گانا.پس امور عامہ کو چاہئے کہ تحقیقات کرے اور جماعت کے متعلق نگرانی کی جائے اگر کوئی ایسا ریکارڈ رکھے تو مجھ سے پوچھے بغیر اس کا فوراً بائیکاٹ کر دیا جائے اور مجھے صرف اطلاع دی جائے اور امور عامہ کو چاہئے کہ باہر کی جماعتوں کو بھی لکھے کہ اس کے خلاف پروٹیسٹ کریں کیونکہ یہ ایسی بے حرمتی ہے جس کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے.(خطبات محمود جلد 14 صفحہ 215-214) آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے یہ کہنا کہ سینما یا با کیسکوپ یا فنونوگراف اپنی ذات میں بُرا ہے صحیح نہیں.فونوگراف خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنا ہے بلکہ اس کیلئے آپ نے خود ایک نظم لکھی اور پڑھوائی اور پھر یہاں کے ہندوؤں کو بلو ا کر سنائی.یہ وہ نظم ہے جس کا ایک شعر یہ ہے.آواز آرہی ہے یہ فونو گراف ނ ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے پس سینما اپنی ذات میں برا نہیں بلکہ اس زمانہ میں اس کی جو صورتیں ہیں وہ
تذکار مهدی ) 728 روایات سید نا محمود مخرب الاخلاق ہیں.اگر کوئی فلم کلی طور پر تبلیغی یا تعلیمی ہو اور اس میں کوئی حصہ تماشہ وغیرہ کا نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.میری یہی رائے ہے کہ تماشہ تبلیغی بھی ناجائز ہے.قادیان میں عید کی نماز کیلئے انتظار رپورٹ مجلس مشاورت 1939ء صفحہ 86) رسول کریم ﷺ کی سنت تھی اور آپ کا یہ طریق تھا کہ اس عید کے موقع پر آپ نماز جلدی پڑھایا کرتے تھے اور خطبہ بھی مختصر فرماتے تھے تا کہ جن لوگوں نے قربانی کرنی ہو وہ نماز اسے فارغ ہو کر یا اگر خطبہ سننا چاہیں تو خطبہ سن کر قربانی کر سکیں.ہمارے ملک میں چونکہ اسلامی عادات اور طریق کی بہت کمی ہے اس لئے عام طور پر اس عید اور اس سے پہلی عید کی نمازوں کے وقت میں زیادہ فرق نہیں کیا جاتا.میرا منشاء ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سنت کو جاری کیا جائے.لیکن اگر یکدم تغیر کیا جائے تو خطرہ ہے کہ بہت سے لوگ نماز سے محروم رہ جائیں اس لئے آہستہ آہستہ اس سنت کو جاری کیا جائے اور لوگوں کو عادت ڈالی جائے کہ اس عید کی تیاری صبح ہی سے شروع کر دیا کریں اور وقت پر نماز کے لئے پہنچ جایا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں اس لئے عید کی نمازوں کے متعلق انتظار کیا جاتا تھا کہ یہاں جماعت کم تھی اور باہر سے بہت سے دوست آیا کرتے تھے.ان کے آنے پر عید کی نماز ہوتی تھی.لیکن اب حالات بدل رہے ہیں باہر سے آنے والے دوستوں کی تعداد نسبتا کم ہوتی جا رہی ہے اور مقامی دوستوں کی تعداد بہت زیادہ ہے.اردگرد کے گاؤں کے لوگوں کو شامل کر کے جو عید کی نماز کے لئے قادیان میں آتے ہیں میرے نزدیک یہاں کی تعداد ڈیڑھ دو ہزار کے قریب ہو جاتی ہے.اور باہر سے آنے والے دوست 10.20 سے زیادہ نہیں ہوتے.اس طرح یہاں کے اور باہر سے آنے والے دوستوں میں اس قدر فرق ہو گیا ہے کہ باہر سے آنے صلى الله والوں کی خاطر ہم اس حکم سے ہمیشہ کے لئے دستبردار نہیں ہو سکتے جس کے لئے رسول کریم ہے کا ارشاد موجود ہے.باہر کے جو دوست نماز میں شامل ہوسکیں اور خدا تعالیٰ نے اس مقام کو برکت دی ہے اس لئے جس قدر بھی آ سکیں آئیں.ان کو آئندہ یا تو شام کو ہی یا زیادہ سے زیادہ صبح سویرے یہاں پہنچ جانا چاہئے.بہر حال اس عید کی نماز کو سنت کے مطابق ادا کرنے کی ہمیں آہستہ آہستہ کوشش کرنی چاہئے.( خطبات محمود جلد 2 صفحہ 119)
تذکار مهدی ) 729 روایات سید نا محمود خطبہ الہامیہ خواب کے ذریعہ نئے نئے علوم سکھائے جاتے ہیں شیطان میں نئے علوم سکھانے کی طاقت نہیں اور نہ ہی نفس کو یہ طاقت ہے کہ جو باتیں اسے معلوم ہی نہیں وہ بتادے تو جس خواب کے ذریعہ سے نئے علوم معلوم ہوں سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے نئے علوم کی تازہ مثال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا واقعہ ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ آپ عربی میں عید کا خطبہ پڑھیں آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم دیا جائے گا.آپ نے اس سے پہلے کبھی عربی میں تقریر نہ کی تھی لیکن جب تقریر کرنے کے لئے آئے اور تقریر شروع کی تو مجھے خوب یاد ہے گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا مگر آپ کی ایسی خوبصورت اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی کہ میں اول سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا حالانکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا.تو ایسی خواب جس میں زائد علم دیا جائے وہ ضرور رحمانی ہوتی ہے.(حقیقۃ الرؤیا.انوار العلوم جلد 4 صفحہ 126 تا 127 ) | حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو عید الاضحیٰ سے مشابہت عربی میں اس کو عید الضحیٰ کہتے ہیں.عوام میں عید الاضحی یعنی دو پہر کی عید مشہور ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عَجَلِ الْأَضْحَى وَآخِرِ الْفِطْرَ يعني عيد الاضحى کو جلدی پڑھو اور عیدالفطر کو دیر سے پڑھو.یہ عید ہمارے سلسلہ میں خاص تعلق اور مناسبت رکھتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس عید کو ہمارے سلسلہ میں ایک خاص خصوصیت دی ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کبھی کسی جمعہ یا عید کا خطبہ نہیں پڑھا کرتے تھے.مگر ایک مرتبہ اسی عید کے موقعہ پر الہام کے ذریعہ آپ کو حکم ہوا کہ خطبہ پڑھیں.چنانچہ آپ نے پڑھا اور اب وہ خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر موجود ہے.تو یہ عید ہمارے سلسلہ سے ایک خاص مناسبت اور تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مناسبت بیان فرمائی ہے جو اس طرح ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کو عید الاضحیٰ سے مشابہت بتائی ہے اور وہ مشابہت اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر میں بیان کی ہے جو میں نے ابھی پڑھی ہے.فرماتا ہے:.
تذکار مهدی ) 730 روایات سید نا محمود إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَة فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُهُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُةُ خطبہ الہامیہ آسانی سے یاد ہو جاتا ہے (خطبات محمود جلد دوم صفحہ 25) اگر قرآن کریم کے بعد آسانی اور سہولت سے کوئی عبارت حفظ ہوسکتی ہے تو یہی تقریر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی.یہ حفظ کرنے کیلئے اس قد را قرب ہے کہ وہ دن جس میں کی گئی تھی ابھی ڈوبا نہیں تھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے اس کے فقرے گلیوں میں دوہراتے پھرتے تھے.وجہ یہ کہ ایسی مقطع اور سمیع ہے کہ بہت آسانی سے یاد ہوسکتی ہے.اس وقت میری عمر بارہ برس کے قریب تھی اور کئی بچے مجھ سے بھی چھوٹی عمر کے تھے مجھے یاد ہے ہمیں اس تقریر کے کئی فقرے یاد ہو گئے تھے اور تقریر کرنے کے وقت کے نقشہ کا ایسا اثر تھا کہ بغیر اس بات کے علم کے کہ سواری کا پڑھنے کے ساتھ خاص تعلق ہوتا ہے ہم دیواروں کو گھوڑا بنا لیتے اور فقرات کو پڑھتے اور ہم سمجھتے کہ سواری سے ان فقرات کو کوئی خاص مناسبت ہے.تو بلحاظ اس کے کہ اس عید کو ہماری جماعت کے ساتھ یہ خاص خصوصیت ہے کہ اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک بہت بڑا معجزہ دکھایا.ہمارے لئے یہ بڑی عید ہے پھر اس لحاظ سے بھی بڑی ہے.کہ اس کے ذریعہ قربانیوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور تمام بڑائیوں کے حاصل کرنے کے لئے نفس کی قربانی ضروری ہوتی ہے.اس عید پر نفس کی قربانی کی طرف اشارہ ہے اور مال کی قربانی کرائی جاتی ہے.قادیان میں دو جمعے الفضل 20 ستمبر 1919 ء جلد 7 نمبر 33 صفحہ 4 اگر تم نے جمعہ کی مشق ہی کرنی ہے تو ہفتہ یا اتوار کے کسی دن اکٹھے ہو کر جمعہ کی مشق کر لیا کرو دین کو تمسخر بنانا جائز نہیں ہے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان میں تو دو جمعے ہوتے رہے ہیں.پھر ہمیں روکا کیوں جاتا ہے.سو یا درکھنا چاہئے کہ اس کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ ان دنوں ملک میں شدید طاعون پھیلا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اور آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق مسجد مبارک اور اس کے
تذکار مهدی ) 731 روایات سید نا محمودی اردگرد کا حلقہ زیادہ تر طاعون سے محفوظ رہا لیکن مسجد اقصیٰ کے اردگرد چونکہ کثرت سے ہندو رہتے تھے ان میں طاعون پھوٹی اور ان میں سے اکثر ہلاک ہو گئے اور چونکہ مسئلہ یہ ہے کہ جہاں طاعون پھیلی ہوئی ہو وہاں کے لوگ دوسرے علاقوں میں نہ جائیں اور دوسرے علاقوں کے لوگ طاعون زدہ علاقہ میں نہ آئیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مسجد مبارک میں الگ جمعہ ہوتا رہا اور مسجد اقصیٰ میں الگ.مسجد اقصیٰ میں وہ لوگ جو اس مسجد کے اردگر درہتے تھے اور وہ لوگ جن کے علاقہ میں طاعون پھیلی ہوئی تھی اکٹھے ہو جاتے تھے اور مسجد مبارک میں وہ لوگ جمع ہو جاتے جو طاعون سے محفوظ تھے.پس یہ شریعت کا حکم تھا جس کے ماتحت دو جمع ہوتے تھے کسی بندے نے یہ حکم نہیں بنایا تھا لیکن رتن باغ میں جمعہ کی نماز الگ پڑھنا بندوں کی خالص اپنی ایجاد ہے.(خطبات محمود جلد دوم صفحہ 328-327) فقہی مسائل کا حل بے شک ایک دوسرے سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن اختلاف رائے کے معنی غلطی نہیں ہوتے میں سمجھتا ہوں اور تو اور اگر رسول کریم ﷺ کا زمانہ ہوتا اور کسی بات میں مشورہ طلب کیا جاتا تو بیسیوں دفعہ اختلاف ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہم نے دیکھا ہے آپ کوئی مشورہ دیتے تو بعض اوقات اس سے بعض کو اختلاف ہوتا مگر اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ غلطی کرتے تھے مگر بسا اوقات ہم نے دیکھا کہ آپ اپنی رائے چھوڑ دیتے اور دوسروں کی قبول کر لیتے.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مسئلہ کے متعلق آپ نے فرمایا مجھے قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے اس پر مولوی محمد احسن صاحب نے تو کہا ہاں حضور یہی درست ہے اور یہی قرآن سے ثابت ہے لیکن حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے فرمایا پہلے فقہاء نے ایسا نہیں لکھا اس پر آپ نے فرمایا اچھا میں لوگوں کو ابتلاء میں نہیں ڈالنا چاہتا جس طرح پہلے فقہاء نے لکھا ہے اسی طرح سمجھا جائے.گواب بھی مجھے خیال آتا ہے کہ اگر تحقیقات کریں تو ممکن ہے اس مسئلہ میں بھی پہلے فقہاء میں اختلاف نکل آئے.تو اختلاف رائے کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے کی بات کو غلط قرار دیا جائے.اختلاف رائے طبعی بات ہے اور اسے نقص قرار دینا اور غلطی سمجھنا بہت بڑا نقص ہے.( الفضل مورخہ 7 فروری 1930 ء جلد 17 نمبر 62 صفحہ 12 )
تذکار مهدی ) آمین بالجبر و رفع یدین 732 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ان جھگڑوں کو ایسا مٹایا ہے کہ اب کسی احمدی کے دل میں خیال بھی نہیں آتا کہ آمین بالجبر کہنی چاہئے یا آمین پالتستر ، ہاتھ اوپر باندھنے چاہئیں یا نیچے ، رفع یدین کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.آپ نے ایک اصول لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور فرمایا کہ یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ کسی نے ان مسائل کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے انبیاء حکمت سے کلام کیا کرتے ہیں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی طبائع میں جوش ہوتا ہے.ان کا جوش جب تک نکلتا نہ رہے ان میں استقلال پیدا نہیں ہو سکتا اور کئی لوگ خاموش طبیعت ہوتے ہیں وہ اگر اظہار جذ بات کرنے لگ جائیں تو ان کا جوش مدھم پڑ جاتا ہے.اس لئے دونوں قسم کی طبائع کو مد نظر رکھ کر رسول کریم ﷺ نے دو مختلف احکام دے دیئے.وہ لوگ جو اپنی طبیعت میں جوش رکھتے ہیں وہ آمین بالجبر کہہ لیا کریں اور جو خاموش طبیعت ہیں ان کے لئے شریعت نے دل میں ہی آمین کہہ لینے کا دروازہ کھول دیا.اسی طرح بعض لوگ حرکات سے اظہار عقیدت میں زیادہ لذت محسوس کرتے ہیں ان کے لئے شریعت نے رفع یدین کا حکم رکھ دیا مگر بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جنہیں حرکات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سکون کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے شریعت نے رفع یدین کی صورت کو اڑا دیا.اسی طرح ہاتھ باندھنا ہے کوئی شخص سپاہیانہ طبیعت رکھنے والا ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہاتھ اونچے باندھے.اس کے لئے شریعت نے نماز میں ہاتھ اونچے باندھنے کا مسئلہ رکھ دیا اور کوئی ایسا ہوتا ہے جو بڑھا اور بیمار ہوتا ہے اس کے ہاتھ اوپر اٹھتے ہی نہیں اور خود بخود نیچے ڈھلک جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے شریعت نے یہ آسانی رکھ دی کہ وہ نیچے ہاتھ باندھ لیا کریں.غرض رسول کریم نے دونوں طبائع کا خیال رکھ لیا اور ہر ایک کے حسب حال حکم دے دیا.مجھے ایک دفعہ ان معنوں کا بڑا لطف آیا.میں بیمار تھا اور نماز پڑھ رہا تھا کہ یکدم مجھے محسوس ہوا کہ ضعف کی وجہ سے میں نے ہاتھ نیچے باندھے ہوئے ہیں.اُس وقت مجھے خیال آیا کہ شریعت کی یہ اجازت دراصل اسی لئے ہے کہ ہر طبیعت کا آدمی فائدہ اٹھا سکے.ایک بیمار آدمی جو ہاتھ اوپر باندھ ہی نہیں سکتا اس سے شریعت یہ کس طرح مطالبہ کر سکتی ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ضرور او پر باندھے.پس بیمار اور کمزور یا سکون رکھنے والی طبیعت کے انسان
تذکار مهدی ) 733 روایات سید نا محمود کے لئے ہاتھ نیچے باندھنے کی رسول کریم ﷺ نے اجازت دے دی مگر جو ہمت والا اور قوی اور تندرست ہے اور سپاہیانہ روح اپنے اندر رکھتا ہے اس کے لئے ہاتھ اوپر باندھنے کا حکم دے دیا.اس طرح ایک ہی کلمہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمام جھگڑے طے کر دیئے اور ان نادانوں کو جو رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث کو ضعیف اور دوسری کو قوی قرار دیتے تھے بتا دیا کہ دونوں حدیثیں ہی قوی ہیں البتہ تم ان کا مفہوم سمجھنے میں ضعیف ہو.غرض رسول کریم علی کے کلام پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب کے فائدے کے لیئے ہیں، ہر زمانہ کے لئے ہیں اور ہر حالت کے لیئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی حکمتیں ہیں.ان حکمتوں کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی لوگ ان بحثوں میں پڑ جاتے ہیں کہ فلاں حدیث ضعیف ہے اور فلاں قومی.حدیثوں میں سے بعض ضعیف بھی ہوتی ہیں مگر وہی حدیثیں ضعیف ہوتی ہیں جو اصول دین یا اصول اخلاق کے خلاف ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تعویذ دبینا خطبات محمود جلد 22 صفحہ 122 تا 124 ) ایک سوال پیش کیا گیا کہ جماعت میں ایسے لوگ ہیں جو تعویذ اور ٹونے کرتے ہیں کیا یہ جائز ہے میرے نزدیک یہ نہایت ہی کمزوری ایمان کی علامت ہے.بعض لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک تعویذ دیا تھا.اس میں شبہ نہیں کہ دیا تھا مگر وہ واقعہ یہ ہے کہ خلیفہ نور الدین صاحب جموں والے کے ہاں کوئی لڑکا نہ تھا انہوں نے مجھے کہا کہ میں حضرت صاحب سے ان کو تعویذ لے دوں.میری اس وقت بہت چھوٹی عمر تھی میں حضرت صاحب کے پیچھے پڑ گیا آپ نے دعا لکھ کر دی جو میں نے خلیفہ صاحب کو دے دی وہ دعا قبول ہوگئی اور خلیفہ صاحب کو خدا تعالیٰ نے نرینہ اولا د دی دراصل وہ دعا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھی اسی وقت قبول ہو چکی تھی.آگے اس تعویز کو باندھنا خلیفہ صاحب کا کام تھا اس کا دعا کی قبولیت سے کوئی تعلق نہ تھا.پس لوگوں کا یہ خیال کرنا کہ اگر دعا کولکھ لیا جائے اور لٹکا دیا جائے تب وہ قبول ہوتی ہے بیہودہ و ہم پیدا کرتا اور ذکر الہی کرنے کی جڑ کاٹتا ہے.بعض اہم اور ضروری امور، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 606)
تذکار مهدی ) 734 لوگوں کو خوش کرنے کے لئے کام نہیں کرنا چاہئے روایات سید نا محمودی مولوی غلام علی صاحب ایک کٹر وہابی ہوا کرتے تھے.وہابیوں کا یہ فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے.لیکن حنفیوں کے نزدیک ہندوستان میں جمعہ کی نماز جائز نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے تھے کہ جمعہ پڑھنا تب جائز ہو سکتا ہے جب مسلمان سلطان ہو.جمعہ پڑھانے والا مسلمان قاضی ہو اور جہاں جمعہ پڑھا جائے وہ شہر ہو، ہندوستان میں انگریزی حکومت کی وجہ سے چونکہ وہ نہ مسلمان سلطان رہا تھا.نہ قاضی اس لئے وہ جمعہ کی نماز پڑھنا جائزہ نہیں سمجھتے تھے ادھر چونکہ قرآن کریم میں وہ یہ لکھا ہوا پاتے تھے کہ جب تمہیں جمعہ کے لئے بلایا جائے تو فوراً تمام کام چھوڑتے ہوئے جمعہ کی نماز کے لئے چل پڑو.اس لئے ان کے دلوں کو اطمینان نہ تھا.ایک طرف ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ جمعہ پڑھیں اور دوسری طرف وہ ڈرتے تھے کہ کہیں کوئی حنفی مولوی ہمارے خلاف فتوی نہ دے دیں.اس مشکل کی وجہ سے ان کا یہ دستور تھا کہ جمعہ کے روز گاؤں میں پہلے جمعہ پڑھتے اور پھر ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور وہ خیال کرتے کہ اگر جمعہ والا مسئلہ درست ہے تب بھی ہم بچ گئے اگر ظہر پڑھنے والا مسئلہ صحیح ہے تب بھی ہم بیچ گئے.اسی لئے وہ ظہر کا نام ظہر کی بجائے احتیاطی“ رکھا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ خدا نے اگر ہمارے جمعہ کی نماز کو الگ پھینک دیا تو ہم ظہر کو اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں گے اور اگر اُس نے ظہر کو رڈ کر دیا تو ہم جمعہ اس کے سامنے پیش کر دیں گے اور اگر کوئی احتیاطی“ نہ پڑھتا تو سمجھا جاتا کہ وہ وہابی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ہم مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گورداسپور گئے.راستہ میں جمعہ کا وقت آ گیا.ہم نماز پڑھنے کے لئے ایک مسجد میں چلے گئے آپ کا عام طریق وہابیوں سے ملتا جلتا تھا کیونکہ وہابی حدیثوں کے مطابق عمل کرنا اپنے لئے ضروری جانتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنا ہی انسان کی نجات کے لئے ضروری ہے.غرض آپ بھی مولوی غلام علی صاحب کے ساتھ گئے اور جمعہ کی نماز پڑھی.جب مولوی غلام علی صاحب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے چار رکعت ظہر کی نماز پڑھ لی.آپ فرماتے تھے کہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب یہ جمعہ کی نماز کے بعد چار رکعتیں کیسی ہیں.وہ کہنے لگے.یہ احتیاطی ہے.میں نے کہا.مولوی صاحب! آپ تو وہابی ہیں اور عقیدہ اس کے مخالف ہیں.پھر احتیاطی کے کیا معنے ہوئے؟ وہ کہنے لگے یہ احتیاطی ان معنوں میں نہیں کہ خدا کے سامنے ہمارا جمعہ قبول
تذکار مهدی ) 735 روایات سید نا محمود ہوتا ہے یا ظہر.بلکہ یہ ان معنوں میں ہے کہ لوگ مخالفت نہ کریں.تو کئی لوگ اس طرح بھی کام کر لیتے ہیں جیسے مولوی غلام علی صاحب نے کیا کہ اپنے دل میں تو وہ اس بات پر خوش رہے کہ انہوں نے جمعہ پڑھا ہے اور اُدھر لوگوں کو خوش کرنے کے لئے چار رکعت ظہر کی نماز بھی پڑھ لی.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 383-382) سردہ کا مسئلہ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ( النور : 32) کے یہ معنے ہیں کہ وہ حصہ جو آپ ہی آپ ظاہر ہو اور جسے کسی مجبوری کی وجہ سے چھپایا نہ جا سکے.خواہ وہ مجبوری بناوٹ کے لحاظ سے ہو.جیسے قد کہ یہ بھی ایک زینت ہے مگر اس کو چھپانا ناممکن ہے اس لئے اس کو ظاہر کرنے سے شریعت نہیں روکتی.یا بیماری کے لحاظ سے ہو کہ کوئی حصہ جسم علاج کے لئے ڈاکٹر کو دکھانا پڑے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ ہو سکتا ہے ڈاکٹر کسی عورت کے متعلق تجویز کرے کہ وہ منہ نہ ڈھانچے اگر ڈھانپے گی تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور ادھر اُدھر چلنے پھرنے کے لئے کہے.تو ایسی صورت میں اگر وہ عورت منہ نگا کر کے چلتی ہے تو بھی جائز ہے بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور کوئی اچھی دایہ میسر نہ ہو اور ڈاکٹر یہ کہے کہ اگر یہ کسی قابل ڈاکٹر سے اپنا بچہ نہیں جنوائے گی تو اس کی جان خطرہ میں ہے تو ایسی صورت میں اگر وہ کسی مرد سے بچہ جنوائے تو یہ بھی جائز ہوگا.بلکہ اگر کوئی عورت مرد ڈاکٹر سے بچہ نہ جنوائے اور مرجائے تو خدا تعالیٰ کے حضور وہ ایسی ہی گنہگار سمجھی جائے گی جیسے اس نے خود کشی کی ہے.پھر یہ مجبوری کام کے لحاظ سے بھی ہوسکتی ہے جیسے زمیندار گھرانوں کی عورتوں کی میں نے مثال دی ہے کہ اُن کے گزارے ہی نہیں ہو سکتے جب تک کہ وہ کا روبار میں اپنے مردوں کی امداد نہ کریں.یہ تمام چیزیں إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا میں ہی شامل ہیں.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 299) بعض الہامات حدیث النفس ہوتے ہیں بعض دفعہ اس قسم کے الہامات حدیث النفس بھی ہوتے ہیں اور شیطانی بھی ہوتے ہیں چنانچہ ایک ایسا ہی شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت یہاں آیا اور کہنے لگا مجھے خدا کہتا ہے کہ تو محمد ہے تو ابراہیم ہے تو موسی" ہے تو عیسی ہے اور مجھے خدا عرش پر اپنی جگہ پر بٹھاتا ہے.
تذکار مهدی ) 736 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا کیا جب تمہیں محمد کہا جاتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے اعلام اور صفات بھی تم میں آجاتے ہیں اور پھر جب تمہیں عرش پر بٹھایا جاتا ہے تو علم غیب بھی حاصل ہو جاتا ہے.کہنے لگا ہوتا تو کچھ بھی نہیں یونہی آواز آتی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا تو یہ شیطان ہے جو تم سے جنسی اور ٹھٹھا کر رہا ہے ورنہ اگر خدا کی طرف سے واقعہ میں تمہیں مخاطب کیا جائے تو پھر یہ باتیں کیوں حاصل نہ ہوں.(حقیقۃ الرؤيا، انوار العلوم جلد چہارم صفحہ 180) حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب کی مالی قربانیاں اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہو گئے جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں.ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب تھے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے زمانہ میں قبول کیا جبکہ چاروں طرف مخالفت زوروں پر تھی اور پھر طالب علمی کے زمانہ میں قبول کیا اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا.آپ کا ایسے خاندان کے ساتھ تعلق تھا کہ جس کا یہ فرض سمجھا جاتا تھا کہ حضرت مسیح موعود سے دنیا کو روکیں.اور اُس وقت ساری دنیا آپ کی مخالفت پر تکی ہوئی تھی.پس ان کا ایسے حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کرنا اُن کی بہت بڑی سعادت پر دلالت کرتا ہے.ڈاکٹر صاحب پر مخالفت کا زمانہ ہی نہیں آیا.جب اُنہوں نے ایک دوست سے حضرت مسیح موعود کا دعوی سُنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعوئی کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.حضرت صاحب نے اُن کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی تھیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ زمانہ مجھے یاد ہے جبکہ آپ پر مقدمه گورداسپور میں ہو رہا تھا اور اس میں روپیہ کی ضرورت تھی.حضرت صاحب نے دوستوں میں تحریک بھیجی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں.لنگر خانہ دو جگہ پر ہو گیا ہے ایک قادیان میں اور ایک یہاں گورداسپور میں.اس کے علاوہ اور مقدمہ پر خرچ ہورہا ہے لہذا دوست امداد کی طرف توجہ کریں.جب حضرت صاحب کی تحریک ڈاکٹر صاحب تک پہنچی تو اتفاق ایسا ہوا کہ اسی دن ان کو تنخواہ قریباً 450 روپے ملی تھی وہ ساری کی ساری تنخواہ اُسی وقت حضرت صاحب کی
تذکار مهدی ) 737 روایات سید نا محمودی خدمت میں بھیج دی.ایک دوست نے سوال کیا کہ آپ کچھ گھر کی ضرورت کے لیے رکھ لیتے تو اُنہوں نے کہا کہ خدا کا مسیح لکھتا ہے کہ دین کے لئے ضرورت ہے تو پھر اور کس کے لئے رکھ سکتا ہوں.غرض ڈاکٹر صاحب تو دین کے لیے قربانیوں میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ حضرت صاحب کو انہیں روکنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں کہنا پڑا کہ اب آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں.ایک دفعہ میری صحت کمزور ہو گئی تو میں گورداسپور چلا گیا.حضرت صاحب کو خیال آیا شاید بیوی کے آنے پر میری صحت ٹھیک ہو جائے تو آپ نے ڈاکٹر صاحب کو لاہور لکھ بھیجا کہ محمود احمد کی صحت اچھی نہیں اس لئے آپ اپنی لڑکی یہاں بھیج دیں.ڈاکٹر صاحب میڈیکل کالج لا ہور میں پروفیسر تھے اور پرنسپل آپ سے کچھ شا کی رہتا تھا.اُن کو خیال تھا کہ پرنسپل چھٹی تو دے گا نہیں اس لئے میں استعفیٰ دے دوں گا.اس خیال سے آپ استعفیٰ دینا چاہتے تھے کہ آپ کو دوست نے اس سے روکا اور کہا کہ چھٹی کیوں نہیں لیتے.اُنہوں نے کہا حضرت صاحب نے مجھے یہ لکھا ہے اب میں کسی طرح رُک نہیں سکتا اور میں جلدی قادیان پہنچنا چاہتا ہوں.اگر پرنسپل نے چھٹی دے دی تو خیر ورنہ اُسی وقت استعفیٰ دے دوں گا تا میرے جانے میں دیر نہ لگے.پھر قادیان کی رہائش با وجود مشکلات کے اختیار کی.میں نے اس خیال سے قادیان کی رہائش سے اُن کو روکا تھا کہ وہ یہاں گزارہ نہیں کر سکیں گے.چنانچہ انہوں نے تکلیف سے ہی گزارہ کیا.( تقاریر جلسہ سالانہ 1926 ، انوار العلوم جلد 9 صفحہ 402 تا 403 ) حلال اور طیب کے باوجود بعض جانور نہ کھانے چاہئیں بہترین غذا طیب سے اتر کر حلال ہے.اس کے بعد اور اشیاء ہیں وہ ممنوع ہیں.ان کا کھانا درست نہیں.مثلاً ڈاکٹر ہیضہ کے دنوں میں کھیرے کا کھانا منع کر دے تو گوکھیرا عام دنوں میں حلال اور طیب ہے مگر ان دنوں میں حلال تو رہے گا طیب نہ رہے گا.جو چیزیں حرام کے بعد ہیں یعنی ممنوع ہیں ان کے متعلق بھی ہم کہیں گے کہ ان کا کھانا درست نہیں.یعنی ان کے کھانے سے انسان نقصان اٹھائے گا.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے مختلف جانور مختلف کاموں کے لئے پیدا کئے ہیں کوئی خوبصورتی کے لئے کہ دیکھنے میں خوبصورت معلوم ہوتا ہے ، کوئی آواز کے لئے کہ اس کی آواز بہت عمدہ ہے، کوئی کھانے کے لئے کہ اس کا گوشت اچھا ہے، کوئی دوائی کے
تذکار مهدی ) 738 روایات سید نامحمودی لئے کہ اس کے گوشت میں کسی مرض سے صحت دینے کی طاقت ہے، صرف جانور اور حلال دیکھ کر اسے نہیں کھانا چاہئے.ہو سکتا ہے کہ ایک جانور کا گوشت صحت کے لئے مضر نہ ہومگر وہ مثلاً بعض فصلوں یا انسانوں میں بیماری پیدا کرنے والے کیڑوں کو کھا تا ہو تو گوشت کے لحاظ سے اس کا گوشت حلال بھی ہوگا اور طیب بھی مگر پھر بھی بنی نوع انسان کا عام فائدہ دیکھتے ہوئے اس کا گوشت طیب نہ رہے گا کیونکہ اس کے کھانے کی وجہ سے انسان بعض اور فوائد سے محروم رہ جائیں گے.مجھے بچپن ہی میں یہ سبق سکھایا گیا تھا.میں بچپن میں ایک دفعہ ایک طوطا شکار کر کے لایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے دیکھ کر کہا محمود ! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے ہی پیدا نہیں کیا بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لیئے ہیں کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں راحت پائیں.بعض جانوروں کو عمدہ آواز دی ہے کہ ان کی آواز سُن کر کان لذت حاصل کریں.پس اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہر حس کے لئے نعمتیں پیدا کی ہیں وہ سب کی سب چھین کر زبان ہی کو نہ دے دینی چاہئیں.دیکھو یہ طوطا کیسا خوبصورت جانور ہے.درخت پر بیٹھا ہوا دیکھنے والوں کو کیسا بھلا معلوم ہوتا ہوگا.غرض طیب کے لئے جہاں صحت کے لحاظ سے اچھا ہونا شرط ہے وہاں اس کے کھانے میں یہ بھی شرط ہے کہ اس چیز کے کھانے سے انسان کے دوسرے حواس یا دوسرے بنی نوع انسان یا دوسری مخلوق کا حق نہ مارا جائے.بلکہ دوسروں کے جذبات کو مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے.( تفسیر کبیر جلد چہارم صفحہ 263) مہمان کی ضرورتوں کا خیال رکھتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بادشاہ کی جو بلی پر چراغاں کیا.مگر بادشاہ کی جو بلی پر تو میں بھی کرنے کو تیار ہوں.سوال تو یہ ہے کہ کیا خلافت جو بلی پر بھی ایسا کرنا جائز ہے؟ ہمیں کئی ہندو ملتے ہیں اور ہاتھ سے سلام کرتے ہیں اور جواب میں ہم بھی اس طرح کر دیتے ہیں مگر مسلمان کو تو اس طرح نہیں کرتے بلکہ اسے تو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں تو جن چیزوں کی حرمت ذاتی نہیں بلکہ نسبتی ہے بلکہ حرمت ہے ہی نہیں صرف کراہت ہے اسے ہم اپنے لئے تو اختیار نہیں کر سکتے ہاں دوسرے کے لیئے کرنے کو تیار ہیں.جب ترکی سفیر حسین کا می یہاں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک خاص آدمی بھیج کر لاہور سے اس کے
تذکار مهدی ) 739 روایات سید نامحمودی لئے سگریٹ اور سگار منگوائے کیونکہ قرآن کریم میں تمباکو کا ذکر نہیں آتا صرف قیاس سے اس کی کراہت ثابت کی جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس سے کراہت کرتے تھے مگر مہمان کے لئے لاہور سے منگوائے.(الفضل مورخہ 14 دسمبر 1939 ء جلد 27 نمبر 286 صفحہ 4 ) مومنوں کے لئے حلال و طیب کھانا بانی سلسلہ احمدیہ بھی چونکہ نبوت کے مدعی تھے اس لئے آپ پر بھی کھانوں کے متعلق اعتراض کیا گیا.آپ بعض امراض کی وجہ سے مشک اور عنبر اور بادام روغن وغیرہ کا استعمال فرمایا کرتے تھے.اور یہ بات اُن لوگوں کو عجیب معلوم ہوتی تھی جو ان چیزوں کا استعمال روحانیت کے منافی سمجھا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ایک دفعہ درس دے کر مسجد اقصیٰ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ راستہ میں ایک ہندو جو ریٹائرڈ ڈپٹی تھا اور جس کا مکان بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کے لئے خرید لیا گیا تھا.بڑے ادب کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا.مولوی صاحب میں نے ایک بات پوچھنی ہے آپ خفا تو نہیں ہوں گے.آپ نے فرمایا.مجھے خفا ہونے کی کیا ضرورت ہے آپ شوق سے دریافت فرمائیں.وہ کہنے لگا میں نے سنا ہے کہ مرزا صاحب مشک اور عنبر اور بادام روغن اور پلاؤ وغیرہ بھی کھا لیتے ہیں.کیا یہ ٹھیک ہے؟ آپ نے فرمایا.ہاں ٹھیک ہے.وہ یہ غیر متوقع جواب سن کر سخت حیران ہوا اور کہنے لگا.کیا فقیروں کے لئے بھی یہ چیزیں جائز ہیں؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہمارے مذہب میں فقراء کے لئے بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس جواب سے وہ سخت حیران ہوا اور اچھا کہہ کر چلا گیا.یہ تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جو تہذیب اور شرافت سے بات کرنے کے عادی تھے.ہمارے ایک دوست جو تیز زبان تھے اور امرتسر کے رہنے والے تھے اُن کو کوئی ہندو مجسٹریٹ مل گیا اور کہنے لگا.کیا ہے تمہارا مرزا ! تم کہتے ہو وہ خدا کا ماً مور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے ہم نے تو سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے.وہ کہنے لگے.آپ مرزا صاحب کو چڑانے کے لئے پاخانہ کھایا کریں مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه 450)
تذکار مهدی ) حق مہر ادا کرنا چاہئے 740 روایات سید نا محمود حکیم فضل دین صاحب جو ہمارے سلسلہ میں سابقون الاولون میں سے ہوئے ہیں.ان کی دو بیویاں تھیں.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.مہر شرعی حکم ہے اور ضرور عورتوں کو دینا چاہئے.اس پر حکیم صاحب نے کہا میری بیویوں نے مجھے معاف کر دیا ہوا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا.کیا آپ نے ان کے ہاتھ میں رکھ کر معاف کرایا تھا.کہنے لگے نہیں حضور یونہی کہا تھا اور انہوں نے معاف کر دیا.حضرت صاحب نے فرمایا پہلے آپ ان کی جھولی میں ڈالیں پھر اس سے معاف کرائیں (یہ بھی ادنی درجہ ہے اصل بات یہی ہے کہ مال عورت کے پاس کم از کم ایک سال رہنا چاہیئے اور پھر اس عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرے تو درست ہے) ان کی بیویوں کا مہر پانچ پانچ سو روپیہ تھا حکیم صاحب نے کہیں سے قرض لے کر پانچ پانچ سورو پید ان کو دے دیا اور کہنے لگے تمہیں یاد ہے تم نے اپنا مہر مجھے معاف کیا ہوا ہے.سواب مجھے یہ واپس دیدو.اس پر انہوں نے کہا اس وقت ہمیں کیا معلوم تھا کہ آپ نے دے دینا ہے اس وجہ سے کہ دیا تھا کہ معاف کیا اب ہم نہیں دیں گی.حکیم صاحب نے آ کر یہ واقعہ حضرت صاحب کو سنایا کہ میں نے اس خیال سے کہ روپیہ مجھے واپس مل جائے گا ایک ہزار روپیہ قرض لے کر مہر دیا تھا مگر روپیہ لے کر انہوں نے معاف کرنے سے انکار کر دیا.حضرت صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور فرمانے لگے درست بات یہی ہے کہ پہلے عورت کو مہر ادا کیا جائے اور کچھ عرصہ کے بعد اگر وہ معاف کرنا چاہے تو کر دیے ورنہ دیئے بغیر معاف کرانے کی صورت میں تو مفت کرم داشتن والی بات ہوتی ہے.عورت سمجھتی ہے نہ انہوں نے مہر دیا اور نہ دیں گے چلو یہ کہتے جو ہیں معاف ہی کر دو.مفت کا احسان ہی ہے نا.تو جب عورت کو مہر مل جائے پھر اگر وہ خوشی سے دے تو درست ہے ورنہ دس لاکھ روپیہ بھی اگر اس کا مہر ہو.مگر اس کو ملا نہیں تو وہ دے دے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میں نے جیب سے نکال کے تو کچھ دینا نہیں صرف زبانی جمع خرچ ہے.اس میں کیا حرج ہے.پس عورتوں سے معاف کرانے سے پہلے ان کو مہر دیا جانا ضروری ہے اور اگر یہ مہر ایسے وقت میں دیا جاتا ہے.جب ان کو اپنی ضروریات کی خبر نہیں یا جب کہ والدین ان سے لینا چاہتے ہیں.تو یہ نا جائز ہے اور بردہ فروشی ہے جو کسی طرح درست نہیں ہو سکتی.اگر بردہ فروشی کی صورت نہ بھی ہو تو بھی ناجائز ہے کہ ایسا فعل کیا جائے جس سے عورت کو نقصان پہنچے ایسا سودا دھوکہ ہے ناجائز ہے.( خطبات محمود جلد 9 صفحہ 217)
تذکار مهدی ) 741 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کی بہت دلجوئی کرتے تھے رسول کریم ﷺ اپنی بیویوں کے حقوق بھی ادا کرتے تھے اور اتنی توجہ سے ادا کرتے تھے کہ ہر بیوی سمجھتی تھی کہ سب سے زیادہ میں ہی آپ کی توجہ کے نیچے ہوں.پھر بیوی بھی ایک نہیں آپ کی نو بیویاں تھیں اور نو بیویوں کے ہوتے ہوئے ایک بیوی بھی یہ خیال نہیں کرتی تھی کہ میری طرف توجہ نہیں کی جاتی.چنانچہ عصر کی نماز کے بعد رسول کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ساری بیویوں کے گھروں میں ایک چکر لگاتے اور ان سے ان کی ضرورتیں دریافت فرماتے.پھر بعض دفعہ خانگی کاموں میں آپ ان کی مدد بھی فرما دیتے اس کام کے علاوہ جو میں نے بیان کیئے ہیں اور بھی بیسیوں کام ہیں جو رسول کریم مے سرانجام دیتے تھے.پس آپ کی زندگی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں جو فارغ ہو مگر آپ بھی اسی ملیر یا والے ملک کے رہنے والے تھے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم دیکھتے ہیں جو آپ کے ظلن تھے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کام کی یہ حالت ہوتی کہ ہم جب سوتے تو آپ کو کام کرتے دیکھتے اور جب آنکھ کھلتی تب بھی آپ کو کام کرتے دیکھتے اور باوجود اتنی محنت اور مشقت برداشت کرنے کے جو دوست آپ کی کتابوں کے پروف پڑھنے میں شامل ہوتے آپ ان کے کام کی اس قدر، قدر فرماتے کہ اگر عشاء کے وقت بھی کوئی آواز دیتا کہ حضور میں پروف لے آیا ہوں تو آپ چار پائی سے اُٹھ کر دروازہ تک جاتے ہوئے راستہ میں کئی دفعہ فرماتے جَزَاک اللہ.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی جزاک اللہ.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی.حالانکہ وہ کام اس کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہوتا تھا جو آپ خود کرتے تھے.غرض اس قدر کام کرنے کی عادت ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دیکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہمیں حیرت آتی.بیماری کی وجہ سے بعض دفعہ آپ کو ٹہلنا پڑتا مگر اس حالت میں بھی آپ کام کرتے جاتے.سیر کیلئے تشریف لے جاتے تو راستہ میں بھی مسائل کا ذکر کرتے اور سوالات کے جوابات دیتے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس ملیریا زدہ علاقہ کے تھے بلکہ حق یہ ہے کہ دنیا میں جتنے عظیم الشان کام کرنے والے انسان ہوئے ہیں وہ سب اسی ملیر یا والے ملک میں ہوئے ہیں کیونکہ اکثر معروف انبیاء ایشیاء میں ہوئے ہیں.خطبات محمود جلد 17 صفحہ 250-249)
تذکار مهدی ) 742 روایات سید نا محمود روزہ کب فرض ہوتا ہے یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ شریعت نے چھوٹی عمر کے بچوں کو روزہ رکھنے سے منع کیا ہے لیکن بلوغت کے قریب انہیں کچھ روزے رکھنے کی مشق ضرور کرانی چاہئے.مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی لیکن بعض بے وقوف چھ سات سال کے بچوں سے روزے رکھواتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس کا ثواب ہوگا.یہ ثواب کا کام نہیں بلکہ ظلم ہے کیونکہ یہ عمر نشو ونما کی ہوتی ہے.ہاں ایک عمر وہ ہوتی ہے کہ بلوغت کے دن قریب ہوتے ہیں اور روزہ فرض ہونے والا ہی ہوتا ہے اُس وقت اُن کو روزہ کی ضرور مشق کرانی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اور سنت کو اگر دیکھا جائے تو بارہ تیرہ سال کے قریب کچھ کچھ مشق کرانی چاہیئے اور ہر سال چند روزے رکھوانے چاہئیں یہاں تک کہ اٹھارہ سال کی عمر ہو جائے جو میرے نزدیک روزہ کی بلوغت کی عمر ہے.مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی.اس عمر میں تو صرف شوق ہوتا ہے.اس شوق کی وجہ سے بچے زیادہ روزے رکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ماں باپ کا کام ہے کہ انہیں روکیں.پھر ایک عمر ایسی ہوتی ہے کہ اس میں چاہیئے کہ بچوں کو جرات دلائیں کہ وہ کچھ روزے ضرور رکھیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھتے رہیں کہ وہ زیادہ نہ رکھیں اور دیکھنے والوں کو بھی اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیئے کہ یہ سارے روزے کیوں نہیں رکھتا کیونکہ اگر بچہ اس عمر میں سارے روزے رکھے گا تو آئندہ نہیں رکھ سکے گا.اسی طرح بعض بچے خلقی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنے بچوں کو میرے پاس ملاقات کے لئے لاتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اس کی عمر پندرہ (15) سال ہے حالانکہ وہ دیکھنے میں سات آٹھ سال کے معلوم ہوتے ہیں.میں سمجھتا ہوں ایسے بچے روزہ کے لئے شاید اکیس سال کی عمر میں بالغ ہوں.اس کے مقابلہ میں ایک مضبوط بچہ غالباً پندرہ سال کی عمر میں ہی اٹھارہ سال کے برابر ہو سکتا ہے.لیکن اگر وہ میرے ان الفاظ ہی کو پکڑ کر بیٹھ جائے کہ روزہ کی بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے تو نہ وہ مجھ پر ظلم کرے گا اور نہ خدا تعالیٰ پر بلکہ اپنی جان پر آپ ظلم کرے گا.اسی طرح اگر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ پورے روزے نہ رکھے اور لوگ اس پر طعن کریں تو وہ اپنی جان پر ظلم کریں گے.بہر حال ان باتوں میں بہت احتیاط کی
تذکار مهدی ) کارمهدی 743 روایات سید نا محمود ضرورت ہوتی ہے جہاں شریعت روکتی ہے وہاں رک جانا چاہیئے اور جہاں حکم دیتی ہے وہاں عمل کرنا چاہیئے.( تفسیر کبیر جلد دوم صفحه 385 ) مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے مصائب کا زمانہ روحانی ترقی کے لیے ایک نہایت ضروری چیز ہے.اگر کسی وقت باہر سے مصائب نہ آئیں تو مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے لیے اندرونی طور پر مصائب تلاش کرنے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان ضرور لیتا ہے مگر جب بندہ خود اپنے آپ کو امتحانات میں ڈالے رکھے تو اللہ تعالیٰ کسی اور امتحان میں اسے نہیں ڈالتا.آپ فرمایا کرتے تھے سردی میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا یا گرمیوں میں روزے رکھنا یہ بھی ایک ابتلا ہے اور انسان ان کاموں میں حصہ لینے سے تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن جب کوئی انسان خوشی سے اپنے اوپر مختلف ابتلا ء وار د کر لے، گرمیوں میں روزے رکھنے پڑیں تو وہ روزے رکھنے کے لیے تیار ہو جائے ، سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کرنا پڑے تو وضو کر نے کے لیے تیار ہو جائے ، حج کرنے کا موقع نکل آئے تو گھر بار اور وطن چھوڑ کر حج کے لیے چلا جائے ، زکوۃ دینے کا وقت آئے تو اپنے مال کا مقررہ حصہ فوراً غرباء کے لیے نکال دے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں نے اس کا امتحان تو لینا تھا مگر اب میں امتحان لے کر کیا کروں یہ تو اپنے آپ کو خود ہی امتحان میں ڈالے ہوئے ہے.لیکن جب وہ ان باتوں میں سستی کرتا ہے اور اپنے آپ کو ابتلاؤں میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مختلف امتحانات میں ڈالا جاتا ہے.اس وقت اگر تو اُس کے اندر صرف عملی سستی پائی جاتی ہو تو خدائی امتحان کے بعد اُس میں بیداری پیدا ہو جاتی ہے.اور اگر اس کا ابتلاؤں سے بچنا اندرونی بگاڑ کی وجہ سے ہو اور ایمان کی خرابی اس کا باعث ہو تو ابتلاء آنے پر وہ تباہ ہو جاتا ہے.غرض قوموں کے لیے خصوصاً انبیاء کی جماعتوں کے لیے ابتلاؤں کا آنا نہایت ضروری ہوتا ہے.روزہ اور نماز قصر کرنے کے احکام میں فرق ( خطبات محمود جلد 30 صفحہ 180 تا 181 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی سنت یہی ہے مگر روزہ اور نماز قصر کرنے کے
تذکار مهدی ) 744 روایات سید نا محمودی لینک احکام میں فرق ہے.نماز کے متعلق تو یہ حکم ہے کہ اگر کسی نے چودہ دن تک رہنا ہو تو نماز پوری پڑھے ورنہ قصر کرے لیکن روزہ کے متعلق یہ پابندی نہیں.چنانچہ آپ نے قادیان میں آنے والوں کو اجازت دی کہ یہاں روزہ رکھ لیں بشرطیکہ وہ دن سفر میں نہ ہو اس کی اور بھی کئی حکمتیں ہیں جو میں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں مثلاً یہ کہ قادیان کو آپ نے ایک روحانی گھر قرار دے کر اس میں روزہ کی اجازت دے دی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے روزہ و نماز کے سفر میں فرق کیا ہے.بعض ان لوگوں کے روزے جو باہر سے عصر کے بعد یہاں پہنچے آپ نے تڑوا دیئے اور فرمایا کہ سفر کا روزہ قبول نہیں ہوتا.یہ تو محض بھوکا پیاسا رہنے والی بات ہے لیکن یہاں پہنچ کر دوسرے دن رکھنے کی آپ نے اجازت دی ہے اور اس طرح دونوں سفروں میں امتیاز ہے گو ایک رنگ میں مشابہت بھی ہے اور وہ اس طرح کہ نماز کی جماعت سفر میں بھی ضروری ہے اور اس لئے سفر کی رعایت کو استعمال کرنے کا انسان کو بہت کم موقع ملتا ہے مثلاً جو لوگ قادیان آتے ہیں ان میں کوئی معذور یا بد بخت ہی ہو سکتا ہے جو مسجد میں نہ آئے اور مہمان خانہ میں علیحدہ نماز پڑھ لے.جو شخص یہاں آئے گا وہ اگر معذور نہ ہوگا تو مسجد میں ہی آئے گا اور اس طرح اسے قصر کا بہت ہی شاذ موقع مل سکے گا یا اگر باہر کسی جگہ جائے گا تو وہاں بھی عام طور پر جماعتیں ہیں اس لیئے وہاں بھی مسجد میں نماز کے لیے جائے گا اور وہ اگر مومنانہ طریق اختیار کرے تو باجماعت نماز پڑھنے کی کوشش کرے گا اور چونکہ مقامی امام ہی نماز کرائے گا اس لیئے قصر سے فائدہ اُٹھانے کا بہت ہی کم موقع ملے گا.لیکن روزہ انفرادی فعل ہے.اگر اس میں بھی وہی شرط رکھی جاتی تو بہت سے لوگ روزوں سے محروم ہو جاتے (چنانچہ اس بناء پر میر ا مدت سے یہ خیال ہے کہ روزہ کا سفر جبکہ ایک جگہ انسان کا قیام ہو، تین دن کا ہے.برخلاف نماز کے جس کے لئے سفر کی مدت چودہ دن مقرر ہے.) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قیام کے دن قادیان میں روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو شخص یہاں ایک دو دن ٹھہرے ضرور روزہ رکھے بلکہ آپ نے صرف روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے.غرض روزہ کے بارہ میں شریعت نے نہایت تاکید کی ہے اور جہاں اس کے متعلق حد سے زیادہ تشد دنا جائز ہے، حد سے زیادہ نرمی بھی ناجائز ہے.پس دوستوں کو چاہیئے کہ نہ تو اتنی
تذکار مهدی ) 745 روایات سید نا محمود سختی کریں کہ جان چلی جائے اور نہ اتنی نرمی اختیار کریں کہ شریعت کے احکام کی ہتک ہو اور ذمہ داری کو بہانوں سے ٹال لیا جائے.کئی لوگ کمزوری کے بہانہ کی وجہ سے روزہ نہیں رکھتے.بعض کہہ دیتے ہیں کہ اگر روزہ رکھا جائے تو پیچش ہو جاتی ہے.بعض کہتے ہیں ضعف ہو جاتا ہے حالانکہ روزہ چھوڑنے کے لئے یہ کوئی کافی وجہ نہیں کہ پیچش ہو جایا کرتی ہے.جب تک پیچش نہ ہو روزہ رکھنا ضروری ہے.جب پیچش ہو جائے پھر بے شک چھوڑ دے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں ہمیں روزہ رکھنے سے ضعف ہو جاتا ہے.یہ بھی کوئی دلیل نہیں روزہ چھوڑنے کی.صرف اُس ضعف کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز ہے جس میں ڈاکٹر روزہ رکھنے سے منع کرے ور نہ یوں تو بعض لوگ ہمیشہ ہی کمزور رہتے ہیں تو کیا وہ کبھی بھی روزہ نہ رکھیں؟ خطبات محمود جلد 20 صفحہ 452 تا 454 ) سفر اور بیماری میں روزہ مجھے خوب یاد ہے غالباً مرزا یعقوب بیگ صاحب جو آجکل غیر مبائع ہیں اور ان کے لیڈروں میں سے ہیں ایک دفعہ باہر سے آئے عصر کا وقت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زور دیا کہ روزہ کھول دیں اور فرمایا سفر میں روزہ جائز نہیں.اسی طرح ایک دفعہ بیماریوں کا ذکر ہوا تو فرمایا.ہمارا مذہب یہی ہے کہ رخصتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے ، دین سختی نہیں بلکہ آسانی سکھاتا ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ بیمار اور مسافر اگر روزہ رکھ سکے تو رکھ لے ہم اسے درست نہیں سمجھتے.اس سلسلہ میں خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے محی الدین ابن عربی کا قول بیان کیا کہ سفر اور بیماری میں روزہ رکھنا آپ جائز نہیں سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک ایسی حالت میں رکھا ہو ا روزہ دوبارہ رکھنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سن کر فرمایا.ہاں ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے.(خطبات محمود جلد 13 صفحہ 37 ) سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں زمانہ خلافت کے پہلے ایام میں سفر میں روزہ رکھنے سے میں منع کیا کرتا تھا کیونکہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھا تھا کہ آپ مسافر کو روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ مرزا ایوب بیگ صاحب رمضان میں آئے اور انہوں نے روزہ رکھا ہوا تھا لیکن عصر کے وقت جب کہ وہ آئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
تذکار مهدی ) 6746 روایات سید نا محمود نے یہ کہہ کر روزہ کھلوا دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا نا جائز ہے.اس پر اتنی لمبی بحث اور گفتگو ہوئی کہ حضرت خلیفہ اول نے سمجھا کہ شاید کسی کو ٹھوکر لگ جائے اس لئے آپ ابن عربی کا ایک حوالہ دوسرے دن تلاش کر کے لائے کہ وہ بھی یہی کہتے ہیں.اس واقعہ کا مجھ پر یہ اثر تھا کہ میں سفر میں روزہ رکھنے سے روکتا تھا.اتفاق ایسا ہوا کہ ایک رمضان میں مولوی عبداللہ سنوری صاحب یہاں رمضان گزارنے کے لئے آئے تو انہوں نے کہا میں نے سنا ہے آپ باہر سے یہاں آنے والوں کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں.مگر میری روایت ہے کہ یہاں ایک صاحب آئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے عرض کیا کہ مجھے یہاں ٹھہرنا ہے اس دوران میں میں روزے رکھوں یا نہ رکھوں؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ہاں آپ روزے رکھ سکتے ہیں کیونکہ قادیان احمدیوں کے لئے وطن ثانی ہے.گو مولوی عبد اللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بڑے مقرب تھے مگر میں نے صرف ان کی روایت کو قبول نہ کیا اور لوگوں کی اس بارے میں شہادت کی تو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان کی رہائش کے ایام میں روزہ رکھنے کی اجازت دیتے تھے البتہ آنے اور جانے کے دن روزہ رکھنے کی اجازت نہ دیتے تھے.اس وجہ سے مجھے پہلا خیال بدلنا پڑا.پھر جب اس دفعہ رمضان میں سالانہ جلسہ آنے والا تھا اور سوال اٹھا کہ آنے والوں کو روزہ رکھنا چاہیئے یا نہیں تو ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب جلسہ رمضان میں آیا تو ہم نے خود مہمانوں کو سحری کھلائی تھی ان حالات میں جب میں نے یہاں جلسہ پر آنے والوں کو روزہ رکھنے کی اجازت دی تو یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی فتویٰ ہے.پہلے علماء تو سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز قرار دیتے رہے ہیں اور آج کل کے سفر کو تو غیر احمدی مولوی سفر ہی نہیں قرار دیتے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سفر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا.پھر آپ نے ہی یہ بھی فرمایا کہ یہاں قادیان میں آکر روزہ رکھنا جائز ہے.اب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم آپ کا ایک فتویٰ تو لے لیں اور دوسرا چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ عید تو ہے چاہے کرو یا نہ کرو.تو انہیں میں کیا کہوں جب کہ خدا تعالیٰ نے عید کرنا ان کی مرضی پر چھوڑا.فقہاء نے یہی بحث کی ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیئے اور چاند دیکھ کر عید کرنی چاہیئے کیونکہ وہ ظاہری طور پر ہی مسئلہ بیان کر سکتے تھے.مگر
تذکار مهدی ) 747 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام کے ذریعہ بتایا گیا کہ عید تو ہے اور ظاہری شریعت کا لحاظ رکھتے ہوئے کہہ دیا چاہے کرو یا نہ کرو یعنی جو یہ سمجھتا ہے کہ شریعت کے ظاہری پہلو کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اس کے لئے اجازت ہے کہ مسئلہ کی ظاہری صورت پر عمل کرے اور عید نہ کرے.لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ الہام کے ذریعہ جو خبر دی گئی ہے، اس کا لحاظ رکھنا چاہئیے وہ اس دن روزہ نہ رکھے.یہی بات یہاں روزہ رکھنے کے متعلق ہے.جس کے دل میں اس بات کا غلبہ ہے کہ یہ سفر ہے ، وہ روزہ نہ رکھے ورنہ اس پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا اور جس کے دل میں اس بات کا غلبہ ہے کہ یہ مبارک دن ہیں اور یہ مبارک مقام ہے، یہاں کیوں نہ رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھاؤں جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی اجازت دی ہے تو وہ روزہ رکھے.ورنہ خطرہ ہے کہ دل کو زنگ نہ لگ جائے.پس جو دوست یہاں ٹھہر نے کے ایام میں روزے رکھیں گے، ان کے روزے ادا ہو جائیں گے.یہ نہیں کہ یہاں جو روزے رکھیں گے وہ نفلی روزے ہوں گے، یہ روزے فرضی ہوں گے اور ان دنوں کے روزے بعد میں دوبارہ نہیں رکھنے پڑیں گے.اہم اور ضروری امور، انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 322 تا324) رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ نہیں بنانا چاہئے جب تک خدا کے لئے تکالیف اور مصائب برداشت نہ کرو تم سہولت نہیں اٹھا سکتے.اس سے ان لوگوں کے خیال کا بھی ابطال ہو جاتا ہے جو بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رمضان کو موٹے ہونے کا ذریعہ بنا لیتے ہیں.حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگوں کے لئے تو رمضان ایسا ہی ہوتا ہے جیسے گھوڑے کے لئے خوید وہ ان دنوں میں خوب گھی ، مٹھائیاں اور مرغن اغذیہ کھاتے ہیں اور اسی طرح موٹے ہو کر نکلتے ہیں جس طرح خوید کے بعد گھوڑا.یہ چیز بھی رمضان کی برکت کو کم کرنے والی ہے.ہماری جماعت کے دوستوں نے عام اقرار کیا ہے کہ غذا کو سادہ کر دیں گے اور صرف ایک سالن پر گزارہ کریں گے.اس میں شک نہیں کہ اس پر عمل میں نے ہر ایک کی مرضی پر چھوڑا ہے اور یہ تحریک اختیاری ہے.سفر میں روزہ نہیں رکھنا چاہیئے ( خطبات محمود جلد 15 صفحہ 514-513 ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں جبکہ آپ سفر کی
تذکار مهدی ) 748 روایات سید نا محمود ) حالت میں تھے امرتسر میں تقریر فرمارہے تھے کہ آپ کے گلے میں خشکی محسوس ہوئی.ایک دوست نے یہ دیکھ کر آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیالی ہٹا دی لیکن تھوڑی دیر کے بعد اُس نے حلق کی تکلیف کے خیال سے پھر پیالی پیش کر دی آپ نے پھر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن تیسری دفعہ اس نے پھر پیالی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آگے کر دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غالباً یہ سمجھ کر کہ اگر میں نے چائے کی پیالی نہ لی تو یہ ریاء ہو جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ میں نے لوگوں کو دکھانے کی خاطر اس حکم پر عمل نہیں کیا جو سفر کے وقت روزہ نہ رکھنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دیا ہے جب تیسری بار اُس دوست نے پیالی پیش کی تو آپ نے لے لی اور اس میں سے تھوڑا سا گھونٹ بھر لیا.یہ دیکھتے ہی لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ امام مہدی ہونے کا دعوی کرتے ہیں مگر رمضان میں روزے نہیں رکھتے.وہ لوگ جو اُس وقت شور مچارہے تھے ان میں سے یقیناً نوے فیصدی نماز با جماعت کیا نماز کے ہی تارک تھے اور یقیناً ان میں سے ننانوے فیصدی جھوٹ بولنے، دھوکا فریب کرنے اور لوگوں کے مال لوٹ لینے والے تھے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان میں سے ننانوے فیصدی روزہ دار تھے کیونکہ ہندوستان میں روزہ کو سب سے بڑی نیکی سمجھا جاتا ہے مگر روزہ وہ اس طرح نہیں رکھتے جس طرح رسول کریم ﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولتا ، غیبت کرتا یا گالی دیتا ہے خدا تعالیٰ کے حضور اس کا کوئی روزہ نہیں وہ صرف بھوکا اور پیاسا رہتا ہے.اس حدیث کے مطابق گوننانوے فیصدی مسلمان بظاہر روزہ رکھ کر بھو کے اور پیا سے رہتے ہیں مگر وہ اس بھو کے پیاسے رہنے کو سب سے بڑی نیکی سمجھتے ہیں.ان کے نزدیک جو شخص روزے رکھ لے اور چند اور نیکیوں پر عمل کرلے اُس کا بیڑا پار ہے.ایسے لوگ دنیا میں پاکیزگی کے قائم کرنے میں کبھی ممد نہیں ہو سکتے اور نہ وہ صحیح معیار گناہ قائم کر سکتے ہیں.انہوں نے اپنے ذہن میں یہ نقشہ جمالیا ہوتا ہے کہ کچھ چھوٹی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی نیکیاں ہوتی ہیں اور کچھ چھوٹی بدیاں ہوتی ہیں اور کچھ بڑی بدیاں ہوتی ہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جس نیکی کو بڑا سمجھے ہوئے ہوتے ہیں اسے تو وہ اختیار کر لیتے ہیں مگر جن بدیوں کو چھوٹا سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے.حالانکہ اسلام نے اسی نیکی کو بڑا قرار دیا ہے جس پر عمل کرنا اس کے لئے دوبھر ہو اور اسی بدی کو بڑا قرار دیا ہے جس سے بچنا انسان کے لئے دوبھر ہو.( خطبات محمود جلد 17 صفحہ 343،342)
تذکار مهدی ) سٹر انگس میں شامل نہیں ہونا چاہیئے 749 روایات سید نا محمود اسلامی عمارت جو تمدن کے متعلق ہے اس کی بنیاد انصاف اور محبت پر ہے اس لئے اپنے حقوق کے حصول کیلئے بھی وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو انصاف اور محبت پر مبنی ہو.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں جب کہیں سٹرائک ہوتی اور کوئی احمدی اس میں شریک ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُسے سخت سزا دیتے اور اُس پر اظہارِ ناراضگی فرماتے اور یہی وجہ ہے کہ سٹرائک یا سٹرائک کے مشابہ بھی جب بعض احمد یوں نے کوئی حرکت کی ہم نے اسے سخت ناپسند کیا.(خطبات محمود جلد 17 صفحہ 134-133) شریعت کی پیروی لازمی ہے ہمیں تو خدا تعالیٰ نے دنیا میں عقلیں قائم کرنے اور نفلوں کو تباہ کرنے کے لئے بھیجا ہے نہ کہ دنیا داروں کی نقلیں کرنے کے لئے.پس میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے تمام کاموں میں شریعت کی پیروی کیا کریں، محمد ﷺ کی پیروی کیا کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیروی کیا کریں.ابھی تھوڑے دن ہوئے مجھے ایک کاغذ دکھایا گیا میں نے تو اتنا ہی دیکھا کہ اس کاغذ پر اس قسم کا نقشہ تھا جیسے فارموں وغیرہ پر ہوتا ہے مگر بتانے والے نے بتایا کہ یہ ایک آنہ پر بکتا ہے اور معلوم ہوا کہ ہماری لوکل انجمن نے اس کو ایجاد کیا ہے.ا نہوں نے سرکاری اسٹامپ دیکھے تو خیال آیا کہ ہم بھی ایک کاغذ بنا کر اس کی کچھ قیمت مقرر کر دیں.کہتے ہیں کو اہنس کی چال چلا اور وہ اپنی چال بھی بھول گیا.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ہنس کوے کی چال چلا اور اپنی چال بھی بھول گیا.ہمیں دنیوی گورنمنٹوں سے بھلا واسطہ ہی کیا ہے کہ ہم ان کی نقل کریں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قسم کی فار میں کبھی نہیں بنائیں پھر دشمن کو اعتراض کا خواہ مخواہ موقع دینا کہاں کی عقلمندی ہے.اسی قسم کی باتوں کے نتیجہ میں دشمن کو حرف گیری کا موقع ملتا ہے اور وہ کہتا ہے خبر نہیں یہ کیا چیز بنارہے ہیں ، کرنے والا کوئی ہوتا ہے اور بدنام سلسلہ ہوتا ہے.لوکل کمیٹی والوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے گورداسپور میں ایک بڑھا شخص رہا کرتا تھا لمبا سا قد اور بڑی سی داڑھی تھی ، عرائض نویس یا نقل نویس تھے ، ان کا طریق تھا جب کسی دوست کو دور سے
تذکار مهدی ) 750 روایات سید نا محمود دیکھتے تو بجائے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کے اللهُ أَكْبَرُ.اَللهُ أَكْبَرُ کہنا شروع کر دیتے اور جب پاس پہنچتے تو اس کے انگوٹھے پکڑ کر اللہ اکبر کہنے لگ جاتے اور ساتھ ساتھ اچھلتے بھی جاتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اکثر ملنے کے لئے آ جاتے تھے.انہیں بھی ہمارے لوکل کمیٹی کے پریذیڈنٹ کی طرح نقل کا شوق تھا.وہ غریب چونکہ روز مسلوں کا کام سنا کرتے اس لئے ان کا بھی دل چاہتا کہ میں مجسٹریٹ بنوں اور مسلیں لانے کا آرڈر دیا کروں مگر چونکہ یہ ہوس پوری نہ ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے گھر میں نمک کی مسل ،گھی کی مسل، مرچوں کی مسل اور ایندھن کی مسل بنا رکھی تھی.جب وہ دفتر سے فارغ ہو کر گھر آتے تو ایک گھڑا اُلٹا کر اُس پر بیٹھ جاتے.بیوی کہتی نمک چاہیئے وہ بیوی کو مخاطب کر کے کہتے.ریڈر! فلاں مسل لا ؤ.بیوی مسل لے آتی اور وہ اسے پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر غور کرتے پھر کہتے اچھا اس میں درج کیا جائے کہ ہمارے حکم سے اتنا نمک دیا جاتا ہے.ایک دن اس بیچارے کی بد قسمتی سے کچہری میں سے کچھ مسلیں چرائی گئیں تحقیق شروع ہوئی تو اس کا ایک ہمسایہ کہنے لگا سر کار مجھے انعام دے تو میں مسلوں کا پتہ بتا سکتا ہوں.اسے کہا گیا اچھا بتاؤ.اسے چونکہ روز ہمسایہ کے گھر سے مسلوں کا ذکر سنائی دیتا تھا اس نے جھٹ اس بوڑھے کا نام لے دیا.اب پولیس اپنے تمام ساز وسامان کے ساتھ اس کے گھر کے گرد جمع ہوگئی اور تلاشی شروع ہوئی مگر جب مسلوں کی برآمد ہوئی تو کوئی نمک کی مسل نکلی ، کوئی گھی کی مسل ، اور کوئی مرچوں کی.یہی نظارہ میں آج کل یہاں دیکھتا ہوں ہمارے کچھ دوست یہ سمجھ کر کہ مغربی چیزیں بڑی اچھی ہیں ، ان کی نقل کرنی شروع کر دیتے ہیں مثلاً کاغذ پر بلاوے کی بجائے سمن لکھ دیتے ہیں اس پر جھٹ گورنمنٹ کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ Parallel گورنمنٹ قائم ہو رہی ہے اور وہ جاسوس چھوڑ دیتی ہے.مگر ثابت ہوتا ہے تو یہ کہ ایک رقعہ کو جو غلطی سے سمن کہ دیا گیا تھا یا ایک اور ناواقف نے اسٹامپ کی نقل کرتے ہوئے کاغذ کی قیمت ایک آنہ رکھ لی.نقلیں کرنے والا تو اپنے عمل سے انگریزوں کی تعریف کرتا ہے مگر وہ اُلٹا اسے اپنی تو ہین سمجھتے ہیں صاف پتہ لگتا ہے کہ اپنی نقل کرنے کی اجازت دینا بھی بڑے حوصلہ والوں کا کام ہوتا ہے.زکوۃ دینی واجب ہے ( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 230،229) اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے
تذکار مهدی ) 751 روایات سید نا محمود لوگوں کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کیا ہوتا ہے.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا ہے کہ کسی نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ کتنے رپوؤں پر زکوۃ فرض ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لئے مسئلہ ہے کہ تم چالیس روپے میں سے ایک روپیہ زکوۃ دو.اُس نے کہا.” تمہارے لیئے کا کیا مطلب ہے.کیا زکوٰۃ کا مسئلہ بدلتا رہتا ہے؟ انہوں نے کہا.ہاں.تمہارے پاس چالیس روپے ہوں تو اُن میں سے ایک روپیہ زکوۃ دینا تمہارے لئے ضروری ہے.لیکن اگر میرے پاس چالیس روپے ہوں تو مجھ پر اکتالیس روپے دینے لازمی ہیں کیونکہ تمہارا مقام ایسا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کماؤ اور کھاؤ.لیکن مجھے وہ مقام دیا ہے کہ میرے اخراجات کا وہ آپ کفیل ہے اگر بیوقوفی سے میں چالیس روپے جمع کرلوں تو میں وہ چالیس روپے بھی دونگا اور ایک روپیہ جرمانہ بھی دوں گا.غرض بعض لوگوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ صرف دین کی طرف اپنی توجہ رکھیں لیکن باقی دنیا کا صرف یہی مقام ہے کہ وہ دنیا کمائیں اور اپنے مال اور وقت کا کچھ حصہ مناسب نسبیت کے ساتھ عبادت اور دین کے کاموں میں بھی لگائیں وہ ذکر الہی کریں.( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 546) الگ جماعت بنانے کی وجہ فساد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے سے پہلے ہی تھے.مسیح موعود علیہ السلام نے تو آ کر اصلاح کی چوٹ لگانے والا فسادی ہوتا ہے یا ڈاکٹر جو نشتر لے کر علاج پر آمادہ ہوتا ہے؟ ایک شخص کا بخار سے منہ کڑوا ہو ڈاکٹر کو نین دے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ظالم نے منہ کڑوا کر دیا.اگر ڈاکٹر بلغم کو نہ نکالتا تو جسم کی خرابی بڑھ جاتی بلغم نکال دینے پر اعتراض کیسا؟ ہڈی ٹوٹی رہتی اگر زخم کو نشتر سے صاف نہ کیا جاتا اس پر جلن آمیز دوائی نہ چھڑ کی جاتی تو مریض کی حالت کس طرح بہتر ہوسکتی.اس کی تو جان خطرہ میں پڑ جاتی اس صورت میں کس طرح کوئی ڈاکٹر کو ملزم بنا سکتا ہے.ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اسی تفرقے کے متعلق سوال کیا.آپ نے فرمایا.اچھا بتاؤ.اپنا اچھا دودھ سنبھالنے کے لئے دہی کے ساتھ ملا کر رکھتے ہیں یا علیحدہ ؟ ظاہر ہے کہ دہی کے ساتھ اچھا دودھ ایک منٹ بھی اچھا نہیں رہ سکتا.پس فرستادہ جماعت کا درماندہ جماعت سے علیحدہ کیا جانا ضروری تھا.جس طرح بیمار سے پر ہیز نہ ہو تو تندرست بھی ساتھ گرفتار ہو جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ روحانی بیماروں سے فرستادہ
تذکار مهدی ) کارمهدی 752 روایات سید نا محمودی جماعت کو علیحدہ رکھے اسی لئے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ جنازہ، شادی، نماز وغیرہ علیحدہ ہو کیونکہ اکثر عورتیں ہی اس میں اختلاف کرتی ہیں اس لئے میں عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح مریض کے ساتھ تندرست کی زندگی خطرہ میں پڑ جاتی ہے یادرکھو یہی حالت تمہاری غیر احمد یوں سے تعلق رکھنے میں ہوگی.(مستورات سے خطاب، انوار العلوم جلد 11 صفحہ 518-519) حضرت مرزا شریف احمد کی رویا میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ مولوی محمد احسن صاحب کی نسبت خط آیا ہے کہ مر گئے ہیں اور مرنے کی ایک تعبیر مرتد ہونا بھی ہے میں نے یہ رویا لوگوں کو سنا دی تھی اور اس بات کے کئی ایک گواہ اس وقت بھی موجود ہوں گے پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میرے چھوٹے بھائی میاں شریف احمد نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو حضرت صاحب کو سنائی گئی تھی کہ ایک شخص ہے جس کا نام محمد احسن ہے اس کی قبر بازار میں بنی ہوئی ہے.حضرت صاحب کو جب یہ خواب سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس نام کا کوئی شخص مرتد ہو جائے گا.گلی میں قبر کے ہونے کی تعبیر مرتد یا منافق ہے.متفرق امور، انوار العلوم جلد 3 صفحہ 414) ہم نے دشمنان اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے مجھے یاد ہے ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں.آپ نے فرمایا.اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہوا ہو اور اس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دیئے جائیں تو سارا دودھ خراب ہو جاتا ہے مگر لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوت عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور ان کے بداثرات سے اسے بچایا جائے.آخر ہم نے دشمنان اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے اگر ان سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے لوگوں سے ہم مل جل کر رہیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہو جائیں گے اور ہم بھی جہاد قرآنی سے غافل ہو جائیں گے.پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے ہمیں دوسری
تذکار مهدی ) 753 روایات سید نا محمود ) جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے.تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغ اسلام کا ہے بھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے.اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اسے میسر ہیں وہ بھی ست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے دشمنوں کا کیا مقابلہ کرنا ہے.....قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ ذوالقرنین سے بعض قوموں نے درخواست کی کہ یا جوج ماجوج نے ہمارے علاقوں میں بڑا فساد برپا کر رکھا ہے آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک روک بنا دیں تا کہ وہ ہم میں داخل ہو کر کوئی خرابی پیدا نہ کر سکیں.چونکہ اس زمانہ کے ذوالقرنین بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اس لئے بالکل ممکن ہے کہ ذوالقرنین کے دیوار حائل کرنے سے مراد اس زمانہ میں مغربیت اور اسلام میں ہی دیوار حائل کرنا ہو اور دو قوموں سے مراد دو قسم کے جذبات اور قومی خیالات افکار ہوں.بہر حال ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربیت اور اسلام کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل کر دیں جس کے بعد مغربیت کے لئے ہمارے اندر داخل ہونے کا راستہ کھلا نہ رہے اور اسلامی فوج ایک ایسے قلعہ میں محفوظ ہو جائے جس پر شیطان کا کوئی حملہ کارگر نہ ہو سکے.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ 522 تا524) رشتہ ناطہ کے لئے رجسٹر کی تجویز اہم مسئلہ جس پر میں آج کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ احمدیوں اور غیر احمدیوں میں نکاح کا سوال ہے اور اسی کے ضمن میں کفو کا سوال بھی پیدا ہو جاتا ہے ہماری جماعت کے لوگوں کو شادیوں کے متعلق جو مشکلات پیش آتی ہیں.مجھے پہلے بھی ان کا علم تھا لیکن اس 9ماہ کے عرصہ میں تو بہت ہی مشکلات اور رکاوٹیں معلوم ہوئی ہیں اور لوگوں کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں ہماری جماعت کو سخت تکلیف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے متعلق تجویز کی تھی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام ایک رجسٹر میں لکھے جائیں اور آپ نے یہ رجسٹر کسی شخص کی تحریک پر کھلوایا تھا.اس نے عرض کیا تھا کہ حضور شادیوں میں سخت دقت ہوتی ہے آپ کہتے ہیں کہ غیروں سے تعلق پیدا نہ کرو، اپنی جماعت متفرق ہے اب کریں تو کیا کریں؟ ایک ایسا رجسٹر ہو جس میں سب ناکتخدا لڑکوں اور لڑکیوں کے نام ہوں تا رشتوں میں آسانی ہو.حضور سے جب کوئی درخواست کرے تو اس رجسٹر سے معلوم کر کے اس کا رشتہ کروا دیا
تذکار مهدی ) 754 روایات سید نا محمود کریں کیونکہ کوئی ایسا احمدی نہیں ہے جو آپ کی بات نہ مانتا ہو.بعض لوگ اپنی کوئی غرض درمیان میں رکھ کر کوئی بات پیش کیا کرتے ہیں اور ایسے لوگ آخر میں ضرور ابتلاء میں پڑتے ہیں.اس شخص کی بھی نیت معلوم ہوتا ہے درست نہ تھی.انہیں دنوں میں ایک دوست کو جو نہایت مخلص اور نیک تھے شادی کی ضرورت ہوئی.اسی شخص کی جس نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ رجسٹر بنایا جائے ایک لڑکی تھی حضرت مسیح موعود نے اس دوست کو اس شخص کا نام بتایا کہ اس کے ہاں تحریک کرو لیکن اس نے نہایت غیر معقول عذر کر کے رشتہ سے انکار کر دیا اور لڑکی کہیں غیر احمد یوں میں بیاہ دی.جب حضرت صاحب کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج سے میں شادیوں کے معاملہ میں دخل نہیں دوں گا.اس طرح یہ تجویز رہ گئی لیکن اگر اس وقت یہ بات چل جاتی تو آج احمدیوں کو وہ تکلیف نہ ہوتی جواب ہو رہی ہے.برکات خلافت.انوار العلوم جلد نمبر 2 صفحہ 209 ) قرآن اور حدیث کے خلاف کوئی خواب سچی نہیں ہوسکتی حقیقت یہی ہے کہ بعد میں آنے والے علماء چاہے کتنے بڑے ہوں سب محمد رسول الله الا اللہ کے تابع ہیں.آج ایک عورت ہمارے ہاں آئی وہ قادیان کی پرانی عورت ہے.اس کے دماغ میں کچھ نقص ہے کہنے لگی میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ نے فرمایا ہے کہ اگر تم چھ ماہ تک متواتر روزے رکھو تو خلیفہ مسیح کو صحت ہو جائے گی.مگر میں نے جن علماء سے پوچھا انہوں نے یہی کہا ہے کہ چھ ماہ کے متواتر روزے رکھنا ناجائز ہے.اس نے کہا میاں بشیر احمد صاحب نے کہا ہے کہ تو جمعرات اور پیر کے روزے رکھ لیا کر.لیکن اس کے بعد میں نے پھر خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے ہیں اور انہوں نے مجھ سے کہا میں نے تو کہا تھا کہ تو چھ ماہ کے متواتر روزے رکھ تو متواتر روزے کیوں نہیں رکھتی.میں نے کہا تیری خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے الہاموں کے متعلق یہ فرماتے ہیں کہ اگر میرا کوئی الہام قرآن اور سنت کے خلاف ہو تو میں اسے بلغم کی طرح پھینک دوں.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی وحی کو قرآن کریم اور سنت کے اتنا مطابق کرتے ہیں.تو ہمیں بھی اپنی خواب آپ کے احکام کے مطابق رکھنی پڑے گی.جب رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ نے
تذکار مهدی ) 755 روایات سید نا محمودی متواتر اور لمبے عرصہ کے روزوں سے منع کیا ہے.تو اگر تمہیں کوئی خواب اس حکم کے خلاف آئی ہے.تو وہ شیطانی سمجھی جائے گی.خدائی نہیں سمجھی جائے گی.اگر خدائی خواب ہوتی تو وہ رسول اللہ ﷺ کی تصدیق کرتی.آپ کی تردید کبھی نہیں کرتی.پس جو خواب ایسی ہو جو قرآن کریم یا رسول کریم ﷺ کے فتویٰ اور سنت کے خلاف ہو.وہ بہر حال رد کر نے کے قابل کرنے سمجھی جائے گی.کیونکہ نہ تو قرآن کریم کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے اور نہ سنت کے خلاف کوئی خواب سچی ہو سکتی ہے اور نہ صحیح حدیث کے خلاف کوئی خواب سچی ہوسکتی ہے.حدیث کے متعلق زیادہ سے زیادہ کوئی کہہ دے گا کہ مشتبہ ہے.لیکن قرآن اور سنت کو کیا کہے گا اور پھر عقل کو کہاں لے جاوے گا اکثر عقل بھی رسول کریم ﷺ کی حدیث کے ساتھ مل جاتی ہے تو پھر حدیث کو دو طاقتیں مل جاتی ہیں ایک تو احتمال ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کا قول ہو اور دوسرے عقل سلیم نے کہہ دیا کہ وہ قول صحیح ہے ایسی صورت میں بہر حال وہ حدیث قابل عمل ہوگی.(الفضل 25 /نومبر 1958 ء جلد 47/12 نمبر 272 صفحہ 3 ) جماعت احمدیہ لاہور کی تاریخی حیثیت انسان سمجھتا ہے اب اگر میں نے انکار کیا تو اس کی دل شکنی ہو گی.غرض لاہور کی جماعت کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لے آئے اور اگر وہ نہیں تو ان کے رشتے دار ایسے موجود ہیں.جو صحابی ہیں.خواہ وہ ایسے مقام پر نہیں کہ دعوی سے پہلے انہوں نے آپ کی مدد کی ہو.مگر وہ ایسے مقام پر ضرور ہیں کہ وہ اس وقت ہوش والے تھے اور عقل والے تھے جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ان لوگوں کے خاندانوں میں اب وہ جوش نہیں رہا جو پہلے ہوا کرتا تھا کہ احمدیت کی خدمت میں انسان خدائی برکات سے حصہ لیتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ احساس ساری جماعت میں پیدا ہو جائے گا.جلسہ مذاہب عالم کے لیئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آخری پیغام ”پیغام صلح کے نام سے دیا اور جو اپنے اندر وصیت کا ایک رنگ رکھتا ہے.وہ بھی لاہور میں ہی پڑھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایام زندگی بھی اسی جگہ گزارے اور پھر یہیں آپ دنیا سے جدا ہو گئے.اس کے بعد یہ خلافت کا جھگڑا پیدا ہوا.تو مخالفت کا مرکز بھی یہیں لاہور بنا اور موافقت کا مرکز بھی یہیں لاہور بنا.اس وقت
تذکار مهدی ) 756 روایات سید نا محمودی جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے بہت کم تھی.باہر سے بھی اگر لوگ آ جاتے تو ان کو شامل کر کے یہاں کی جماعت اتنی نہ ہوتی تھی.جتنی اس وقت خطبہ میں بیٹھی ہے.مگر اس وقت اخلاص اور محبت کی یہ کیفیت تھی کہ جب میں لاہور میں آتا تو سینکڑوں لوگ ارد گرد کی جماعتوں میں سے لاہور میں آ جاتے.اور یہاں کا ہر احمدی دوسرے احمدی کو اپنا بھائی سمجھتا تھا.( تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 19-18) حضرت قاضی محبوب عالم صاحب آف لاہور :.نماز کے بعد میں ایک جنازہ پڑھاؤں گا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابی قاضی محبوب عالم صاحب لاہور کا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ان کی یہ عادت تھی.کہ وہ آپ کو ہر روز دعا کے لئے خط لکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک جگہ پر شادی کرنا چاہتے تھے.لیکن فریق ثانی رضا مند نہیں تھا اس لئے وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خط لکھتے کہ حضور دعا فرمائیں کہ یا تو لڑکی مجھے مل جائے یا اللہ تعالیٰ میرا دل اس سے پھیر دے.اب مجھے یاد نہیں رہا کہ آیا ان کا دل پھر گیا تھا.یا ان کی اس لڑکی سے شادی ہوگئی.بہر حال دونوں میں سے ایک بات ضرور ہوئی تھی.پھر نہ صرف وہ خود اس نشان کے حامل تھے.بلکہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک اور شخص کو بھی اپنے نشان کا حامل بنایا.ہمارے ایک دوست ماسٹر عبدالعزیز صاحب تھے، جنہوں نے قادیان میں طبیہ عجائب گھر کھولا ہوا تھا.اس وقت ان کا لڑکا مبارک احمد دواخانہ چلا رہا ہے اور ان کی دوائیاں بہت مقبول ہیں.انہوں نے قاضی محبوب عالم کے متعلق سنا ہے کہ وہ ہر روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قسم کے خط لکھا کرتے تھے.تو انہوں نے بھی روزانہ خط لکھنا شروع کر دیا.انہیں بھی ایک ذیلدار کی لڑکی سے جو ان کے ماموں یا پھوپھا تھے محبت تھی.وہ روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھتے اور کہتے حضور دعا فرمائیں کہ قاضی محبوب عالم صاحب کی طرح یا تو میرا دل اس لڑکی سے پھر جائے اور یا پھر میری شادی اس لڑکی سے ہو جائے.چنانچہ ان کی وہاں شادی ہو گئی اور مبارک احمد اسی بیوی سے ہے.گویا قاضی صاحب نہ صرف خود ایک نشان کے حامل تھے.بلکہ ایک دوسرے نشان کے محرک بھی تھے.انہوں نے اپنی زندگی میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ میں ان کا جنازہ پڑھاؤں.الفضل 27 جولائی 1956 ءجلد 45/10 نمبر 173 صفحہ 5)
تذکار مهدی ) 757 جماعت احمدیہ کے قیام میں ایک بہت بڑی حکمت روایات سید نا محمود ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کو کیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں؟ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھرا ہو اہو اور اُس میں کھٹی لسی کے تین چار قطرے بھی ڈال دیئے جائیں تو سارا دودھ خراب ہو جاتا ہے تو لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوت عملیہ کو قائم رکھنے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے.آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے.اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مل جبل گئے تو یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہو جائیں گے اور ہم بھی جہاد قرآنی سے غافل ہو جائیں گے.پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تا کہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغ اسلام کا ہے بھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں.خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے.اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسر آئیں وہ بھی سست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے.پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ اِن دونوں کو جداجدا رکھے گا، کاش! دوسرے مسلمانوں میں بھی یہ حس پیدا ہو.(سیر روحانی (3) ، انوار العلوم جلد 16 صفحہ 390 ، 391 ) دین کے لئے غیرت اور جوش دکھانا چاہئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے میں نے بار ہا سنا ہے اور سینکڑوں صحابہ ابھی ہم میں ایسے زندہ ہیں جنہوں نے سنا ہوگا کہ آپ فرمایا کرتے تھے بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ وہ اپنی طبیعت کی اُفتاد کی وجہ سے کوئی صحیح طریق اختیار نہیں کر سکتیں.باوجود اپنی نیک نیتی اور نیک ارادوں کے آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص تھا اُس نے کسی دوست سے کہا کہ میری لڑکی کے لئے کوئی رشتہ تلاش کرو.کچھ روز کے بعد اُس کا دوست آیا اور کہا میں نے موزوں رشتہ تلاش کر لیا ہے.اُس نے پوچھا لڑکے کی کیا تعریف ہے؟ وہ کہنے لگا
تذکار مهدی ) 758 روایات سید نامحمود لڑکا بڑا ہی شریف اور بھلا مانس ہے.اس نے کہا کوئی اور حالات اس کے بیان کرو.اس نے جواب دیا بس جی اور حالات کیا ہیں، بے انتہا بھلا مانس ہے.پھر اس نے کہا کہ کوئی اور بات اس کی بتاؤ.اس نے جواب دیا کہ اور کیا بتاؤں بس کہ جو دیا کہ وہ انتہا درجہ کا بھلا مانس ہے.اس پر لڑکی والے نے کہا میں اس سے رشتہ نہیں کر سکتا جس کی تعریف سوائے بھلا مانس ہونے کے اور ہے ہی نہیں.کل کو اگر کوئی میری لڑکی کو ہی لے جائے تو وہ اپنی بھلا مانسی میں ہی پچر کا بیٹھا رہے گا.تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں صرف بھلے مانسی ہی ہوتی ہے، غیرت اور دین کا جوش نہیں پایا جاتا.وہ بوجہ نیک نیت ہونے کے مومن تو ضرور کہلاتے ہیں مگر ان کی بھلے مانسی خود ان کے لئے اور جماعت کیلئے بھی مضر پڑا کرتی ہے.(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 206 ) ولی کی اجازت کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہمارے ہاں معزز وہ ہے جو شریعت پر عمل کرتا ہے اور اسی شریعت اسلامی کو دنیا میں صحیح طور پر قائم کرنا احمدیت کی غرض ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے اور واقعہ میں آپ اُسی کی طرف سے ہیں تو ہماری شریعت یہی کہتی ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر سوائے ان مستثنیات کے جن کا استثناء خود شریعت نے رکھا ہے، کوئی نکاح جائز نہیں اور اگر ہوگا تو نا جائز نکاح ہوگا اور ادھالہ ہوگا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ایسے لوگوں کو سمجھائیں اور اگر نہ سمجھیں تو ان سے قطع تعلق کر لیں.اس قسم کے واقعات بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی ہوئے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ ایک لڑکی نے جو، جوان تھی ایک شخص سے شادی کی خواہش کی مگر اس کے باپ نے نہ مانا.وہ دونوں منگل چلے گئے اور جا کر کسی ملانے سے نکاح پڑھوا لیا اور کہنا شروع کر دیا کہ ان کی شادی ہوگئی ہے.پھر وہ قادیان آگئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہو ا تو آپ نے ان دونوں کو قادیان سے نکال دیا اور فرمایا یہ شریعت کے خلاف فعل ہے کہ محض لڑکی کی رضامندی دیکھ کر ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے.وہاں بھی لڑکی راضی تھی اور کہتی تھی کہ میں اس مرد سے شادی کروں گی لیکن چونکہ ولی کی اجازت کے بغیر انہوں نے نکاح پڑھوایا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں قادیان سے نکال دیا.اسی طرح یہ جو نکاح ہوا یہ بھی ناجائز ہے اور یہی وہ بات ہے جو میں نے اس مائی سے کہی.میں نے
تذکار مهدی ) 759 روایات سید نا محمود اسے کہا دیکھو اس وقت تمہارے بیٹے کو رشتہ مل رہا ہے اس لئے تم کہتی ہو جب لڑکی راضی ہے تو کسی ولی کی رضامندی کی کیا ضرورت ہے لیکن تمہاری بھی لڑکیاں ہیں اور اگر وہ بیاہی جا چکی ہیں تو ان کی بھی لڑکیاں ہوں گی کیا تم پسند کرتی ہو کہ ان میں سے کوئی لڑکی اسی طرح نکل کر کسی غیر مرد کے ساتھ چلی جائے.(خطبات محمود جلد 18 صفحہ 175 ، 176 ) حلوہ پر جادو قرآن کریم سے زیادہ دلچسپ کتاب اور کوئی نہیں ہوسکتی مگر اس میں کھیل تماشہ کی کوئی بات نہیں.پھر بھی کافر یہ کہتے تھے کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لو.خوب شور مچاؤ تا یہ کلام کا نوں میں نہ پڑے.وہ آنحضرت ﷺ کو ساحر اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے.یہ دلچسپی کی ہی بات ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کہ جو سنے اس پر ضرور اثر ہوتا ہے.بشرطیکہ اس کے دل میں خدا کا خوف ہو.ہاں جس کا دل ہی بیمار ہو اس پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا جس طرح کوئی کھانا خواہ کس قدر لذیذ اور عمدہ کیوں نہ ہو.بیمار آدمی کو اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی.پس جن کے دل بیمار نہ ہوں.ان پر خدا تعالیٰ کے کلام کا اثر ضرور ہوتا ہے اور جن کے دل بیمار نہیں اور جو دل سے مذہب کو سچا سمجھتے ہیں ان کے لئے قرآن کریم سحر کا کام دیتا ہے اور ایسا اثر کرتا ہے کہ گویا جادو ہے جو اپنی طرف کھینچے لئے جا رہا ہے.اسی وجہ سے مکہ کے لوگ رسول کریم ﷺ کو ساحر اور قرآن کریم کو سحر کہتے تھے اور اسی وجہ سے سب انبیاء کو ساحر کہا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ساحر کہتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دوست نے سنایا کہ فیروز پور کے علاقہ میں ایک مولوی تقریر کر رہا تھا کہ احمدیوں کی کتابیں بالکل نہ پڑھنی چاہئیں اور قادیان میں ہرگز نہ جانا چاہئے اور اس کذاب نے لوگوں کو اپنا ایک من گھڑت واقعہ بھی اپنی بات کی تائید میں سنایا.اس نے کہا میں ایک دفعہ قادیان گیا.میرے ساتھ ایک رئیس بھی تھا.ہم مہمان خانہ میں جا کر ٹھہرے اور کہا کہ مرزا صاحب سے ملنا ہے.تھوڑی دیر میں مولوی نورالدین صاحب آگئے اور بڑی میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگے.اس کے تھوڑی دیر کے بعد ہمارے لئے ایک شخص حلوہ لایا اور مولوی نورالدین صاحب نے کہا کہ یہ آپ کے لئے تیار کروایا گیا ہے.میں تو جانتا تھا اس لئے سمجھ گیا کہ اس حلوے پر جادو کیا گیا ہے.اس لئے اسے ہاتھ تک نہ لگایا.مگر میرے ساتھی کو.
تذکار مهدی ) 760 روایات سید نا محمود پتہ نہ تھا اس لئے اس نے کھا لیا.میں کوئی بہانہ بنا کر وہاں سے کھسک گیا.مولوی نورالدین صاحب کو یہ پتہ نہ لگ سکا کہ میں نے حلوہ نہیں کھایا.تھوڑی دیر کے بعد میرا وہ ساتھی کہنے لگا کہ میرے دل کو تو ایسی کشش ہو رہی ہے کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.گویا اس پر حلوے کا اثر ہو گیا مگر میں نے تو کھایا ہی نہ تھا.اس لئے مجھے پر کوئی اثر نہ ہوا اور تھوڑی دیر ہوئی تو مرزا صاحب نے اپنی فٹن تیار کروائی اس میں وہ خود بھی بیٹھے اور مولوی نور الدین صاحب کو بھی بٹھایا.مجھے بھی ساتھ بٹھا لیا اور لگے مجھ سے باتیں کرنے ، میں بھی تجربہ کرنے کے لئے سر ہلاتا گیا.انہوں نے سمجھا یہ مان لے گا.اس نے حلوہ کھا لیا ہوا ہے.پہلے تو کہا کہ میں نبی ہوں.پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا میں محمد (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) سے بھی بڑھ کر ہوں اور پھر کہا کہ میں خدا ہوں.یہ باتیں سن کر میں نے کہا استغفر اللہ یہ سب جھوٹ ہے.اس پر مرزا صاحب نے مولوی نورالدین صاحب سے حیرت سے پوچھا کہ کیا اسے حلوہ نہیں کھلایا تھا.انہوں نے کہا کھلایا تو تھا.اس مجلس میں ایک غیر احمدی وکیل بھی تھے.جو کسی زمانہ میں یہاں حضرت خلیفہ اول کے پاس علاج کے لئے آئے تھے.یہ بات سن کر وہ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں تو مولویوں سے پہلے ہی بدظن تھا اور سمجھتا تھا کہ یہ لوگ بہت جھوٹے ہوتے ہیں.مگر آج میں نے سمجھا کہ ان سے زیادہ جھوٹا اور کوئی ہوتا ہی نہیں.انہوں نے لوگوں سے کہا آپ لوگ جانتے ہیں میں احمدی نہیں ہوں.مگر میں علاج کے لئے خود وہاں ہو کر آیا ہوں اور وہاں رہا ہوں.مولوی صاحب نے جتنی باتیں کیں سب غلط ہیں.فٹن تو کجا وہاں تو کوئی ٹانگہ بھی نہیں (اس زمانہ میں ) یہاں یکے ہی ہوتے تھے اور خدا تعالیٰ کی عجیب قدرت ہے کہ فٹن آج تک یہاں نہیں ہے.تو اب بھی ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہاں جادو ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ اس جماعت میں داخل ہوتے ہیں ان کو ماریں پڑتی ہیں.گالیاں دی جاتی ہیں.بے عزت کیا جاتا ہے.ان کو مالی نقصان پہنچایا جاتا ہے.پھر بھی یہ فدائی رہتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں ان کو مار پیٹ گالی گلوچ اور نقصانات کی وجہ سے ڈر جانا چاہیئے.مگر ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا.وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عقل بھی رکھتے ہیں بے وقوف بھی نہیں ہیں اور عقل رکھنے کے باوجود ان کا اس طرح وابستہ رہنا جادو کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے حالانکہ یہ جا دوسچائی کا جادو ہوتا ہے.خطبات محمود جلد 23 صفحہ 496 تا 498 )
تذکار مهدی ) گورداسپور سفر میں قصر نماز 761 روایات سید نا محمود خطبہ ثانیہ میں فرمایا:.میں نماز قصر کر کے پڑھاؤں گا اور گو مجھے یہاں آئے چودہ دن ہو گئے ہیں مگر چونکہ علم نہیں کہ کب واپس جانا ہو گا اس لئے میں نماز قصر کر کے ہی پڑھاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ گورداسپور میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ تک قصر نماز پڑھتے رہے کیونکہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ کب واپس جانا ہوگا.داڑھی رکھنا الفضل 25 رمئی 1944 ء جلد 32 نمبر 121 صفحہ 4 | حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جماعت کے بعض دوست داڑھی منڈواتے تھے.کسی نے حضور علیہ السلام سے شکایت کی کہ فلاں شخص داڑھی منڈوا تا ہے.آپ نے فرمایا اگر تو ان میں اخلاص نہیں تو ہماری نصیحت کا ان پر کیا اثر ہو سکتا ہے اور اگر اخلاص ہے تو ہماری داڑھی کو دیکھ کر خود ہی رکھ لیں گے.تو اصل بات یہی ہے کہ جس سے محبت ہو اس کا نمونہ ہی کافی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کوئی احمدی آیا کسی نے آپ کو بتایا کہ یہ بغیر ٹکٹ کے آگئے ہیں.یہ ہمارے ملک میں ایک عام رواج ہے.بغیر ٹکٹ کے سفر کرنا ایک کارنامہ سمجھا جاتا ہے.جیسے چیتے کا شکار کر لیا.اسی طرح بغیر ٹکٹ کے سفر کر لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ بات سنی.تو جیب سے ایک روپیہ نکال کر اسے دیا اور فرمایا کہ کسی کا مال استعمال کرنا گناہ ہے.آپ اب واپس جائیں تو اس روپیہ سے ٹکٹ خرید لیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق ہے.جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیئے.( خطبات محمود جلد 22 صفحہ 388 ) روحانی ترقی کے لئے تقوی وطہارت کی ضرورت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے میں نے خود سنا ہے.بعض دفعہ جب آپ سے کوئی فقہی مسئلہ پوچھا جاتا.تو چونکہ یہ مسائل زیادہ تر انہی لوگوں کو یاد ہوتے ہیں.جو ہر وقت اسی کام میں لگے رہتے ہیں.بسا اوقات آپ فرما دیا کرتے کہ جاؤ مولوی نور الدین سے پوچھ لو.یا مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا نام لیتے کہ ان سے پوچھ لو مولوی سید محمد احسن صاحب کا نام
تذکار مهدی ) 762 روایات سید نامحمود لے کر فرماتے کہ ان سے پوچھ لو یا کسی اور مولوی کا نام لے لیتے اور بعض دفعہ جب آپ دیکھتے کہ اس مسئلہ کا کسی ایسے امر سے تعلق ہے.جہاں بحیثیت مامور آپ کے لئے دنیا کی راہنمائی کرنا ضروری ہے.تو آپ خود وہ مسئلہ بتا دیتے.مگر جب کسی مسئلہ کا جدید اصلاح سے تعلق نہ ہوتا.تو آپ فرما دیتے کہ فلاں مولوی صاحب سے پوچھ لیں.اور اگر وہ مولوی صاحب مجلس میں ہی بیٹھے ہوئے ہوتے.تو ان سے فرماتے کہ مولوی صاحب یہ مسئلہ کس طرح ہے.مگر بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ جب آپ کہتے کہ فلاں مولوی صاحب سے یہ مسئلہ دریافت کر لو تو ساتھ ہی آپ یہ بھی فرماتے کہ ہماری فطرت یہ کہتی ہے کہ یہ مسئلہ یوں ہونا چاہیئے اور پھر فرماتے ہم نے تجربہ کیا ہے کہ باوجود اس کے کہ کوئی مسئلہ ہمیں معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق جو آواز ہماری فطرت سے اٹھے.بعد میں وہ مسئلہ اسی رنگ میں حدیث اور سنت سے ثابت ہوتا ہے یہ چیز ہے جو تنویر کہلاتی ہے.تو تنویر اس بات کو کہتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو خیالات بھی پیدا ہوں وہ بھی درست ہوں جس طرح ایک تندرستی تو یہ ہوتی ہے کہ انسان کہے میں اس وقت تندرست ہوں اور ایک تندرستی یہ ہوتی ہے کہ انسان آگے بھی تندرست رہے تو تنویر وہ فکر کی درستی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں آئندہ جو خیالات بھی پیدا ہوں درست ہوں.تو روحانی ترقی کے لئے تنویر فکر ضروری ہوتی ہے.اسی طرح روحانی ترقی کے لئے تقویٰ و طہارت کی ضرورت ہوتی ہے.الفضل 19 مارچ 1938 ء جلد 26 نمبر 55 صفحہ 2 ہنسی مذاق کرنا جائز ہے میں یہ نہیں کہتا کہ تمسخر اور مذاق کرنا جائز نہیں.اپنے موقع پر تمسخر اور مذاق کرنا جائز ہے، ہم بھی تمسخر اور مذاق کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں، بیویوں سے کرتے ہیں.خدا تعالیٰ سے نہیں کرتے.تم بھی تمسخر کرو ، مذاق کرو لیکن خدا تعالیٰ سے تمسخر اور مذاق نہ کرو.ہم یہ نہیں کہتے کہ تم ہمیشہ روتے رہو تم ہنسو بھی کھیلو بھی ، لیکن وقار کو ہمیشہ سامنے رکھو.پیشگوئی میں جس قسم کے الفاظ ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اُسی دن ہاکی کھیلی جائے ، فٹ بال کے میچ کھیلے جائیں تو جائز ہوں گے.لیکن خوشی منانے اور ہتک کرنے میں بھاری فرق ہے.ہندوؤں میں دیوالی میں رنگ پھینکنا خوشی کی بات ہے چاہے وہ حماقت ہو.باپ بیٹے پر رنگ پھینکتا ہے اور بیٹا باپ پر رنگ پھینکتا ہے لیکن اسے کوئی بُرا نہیں منا تا.اگر اُس روز کوئی کسی پر
تذکار مهدی ) 763 روایات سید نا محمود رنگ پھینکے تو سارے لوگ یہی کہیں گے فلاں نے خوشی منائی ہے.لیکن اگر کوئی دوسرے پر پیشاب پھینک دے تو چونکہ اِس کا ہندوؤں میں رواج نہیں اور نہ اُن کے مذہب میں یہ بات داخل ہے اس لئے وہ اسے بُرا منائیں گے اور اسے خوشی نہیں کہیں گے.اسلام اس بات کا قائل نہیں کہ مومن ہمیشہ روتا رہے.ہنسی اور مذاق کرنا جائز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مذاق کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بھی مذاق کر لیتے تھے.ہم بھی مذاق کر لیتے ہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مذاق نہیں کرتے.ہم سو دفعہ مذاق کرتے ہیں.لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں اپنی بیویوں سے کرتے ہیں لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی کی تحقیر کا رنگ ہو.اگر منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جس میں تحقیر کا رنگ پایا جاتا ہو تو ہم استغفار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی.پس پرسوں جو کچھ ہوا میں اسے اس لحاظ سے برانہیں منا تا کہ ہنسنا کھیلنا جائز نہیں.تم بے شک ہنسو اور کھیلو لیکن بازی بازی باریش بابا ہم بازی.کھیل کھیل ہے تو ٹھیک ہے.لیکن اگر باپ کی داڑھی سے بھی کھیلا جائے تو یہ جائز نہیں.خدا تعالیٰ کا مقام خدا تعالیٰ کو دو.فٹ بال کا مقام فٹ بال کو دو.مشاعرے کا مقام مشاعرے کو دو اور پیشگوئیوں کا مقام پیشگوئیوں کو دو اگر تمہیں کھیل اور تمسخر کا شوق ہو تو لاہور جاؤ اور مشاعروں میں جا کر شامل ہو جاؤ.اگر تم لاہور جا کر ایسا کرو گے تو لوگ کہیں گے لاہور والوں نے ایسا کیا.یہ نہیں کہیں گے احمدیوں نے ایسا کیا لیکن یہاں اس کا دسواں حصہ بھی کرو گے.تو لوگ کہیں گے.احمدیوں نے ایسا کیا.پس میں تمہیں بنی سے نہیں روکتا.میں یہ کہتا ہوں کہ ہنسی میں اس حد تک نہ بڑھو.جس میں جماعت کی بدنامی ہو.الفضل 12 / مارچ 1952 ء جلد 40/6 نمبر 62 صفحہ 4) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مشاعرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کچھ نو جوانوں نے جن میں میں بھی شامل تھا.ایک مشاعرہ کیا اس میں جتنی نظمیں پڑھی گئیں وہ سب سلسلہ کے متعلق ہی تھیں اور اسلام کی ہی تائید میں سارے شعر کہے گئے تھے.مگر پھر بھی اس وقت کی صدر انجمن احمد یہ نے یا اس کے بعض کارکنوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس کے خلاف رپورٹ کی اور آپ نے آئندہ کے لئے مشاعرہ بند کر دیا.میری عمر اس وقت چھوٹی تھی اور اپنی عمر اور بچپن کے جوشوں کے لحاظ سے یہ فعل ان ممبران کا مجھے بھی برا لگا اور دوسرے لوگوں کو بھی جو اس کام میں شامل تھے بُر الگا.لیکن باوجود ہماری کوشش کے وہ قید اٹھائی نہ گئی اور قادیان میں اس کے بعد کوئی
تذکار مهدی ) 764 روایات سید نامحمود مشاعرہ نہیں ہوا.پھر نا معلوم کس بنا پر نظارت امور عامہ نے اس سال یہاں مشاعرہ کی اجازت دے دی اور واقعات نے بتایا کہ جس قسم کی ذہنیت کسی گروہ میں ہوتی ہے.اس کے نقال میں بھی ویسی ہی ذہنیت پیدا ہو جاتی ہے.ایک اچھا بھلا، ہنستا کھیلتا ، اور خوش بخوش انسان جب مصنوعی طور پر رونے لگتا ہے.تو وہ ویسی ہی حرکتیں کرتا ہے جو ایک رونے والا کرتا ہے.ایک سمجھدار انسان جب بچہ کی نقل اتارتا ہے تو وہ ویسی ہی حرکتیں کرتا ہے جیسے کہ ایک بچہ کرتا ہے.اسی طرح ان مشاعروں کے ساتھ بعض باتیں ایسی لگی ہوئی ہیں کہ جب کوئی شخص ان میں حصہ لیتا ہے تو وہ اسی قسم کی باتیں کرنے لگ جاتا ہے.وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا مذہب کیا ہے.وہ بھول جاتا ہے کہ اس کا طریق کیا ہے یا یوں کہو کہ وہ خود اپنے آپ کو بھلانا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ احمدی نہیں یا وہ مسلمان نہیں تا کہ مذہب اسے اس قسم کی حرکات کرنے سے روکے نہیں.چنانچہ پرسوں ثقہ اور مومنوں کی مجلس میں گرا ہوا مذاق اور بھانڈ پن کیا گیا اور وہ ساری باتیں جو بھانڈ اور میراثی کرتے ہیں.پیٹ بھر کے کی گئیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایسا کرنے والے تو چند ہی ہوں گے.ساری مجلس کے متعلق تو یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ سب کی سب بھانڈ بن گئی ہو.لیکن دوسرے لوگوں کی ذہنیت اتنی ضرور بدل گئی ہوئی تھی کہ انہوں نے ایسی باتیں کرنے دیں.خدا تعالیٰ نے صاف نسخہ بیان کیا ہوا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب کوئی مجلس وقار انسانیت اور شرافت کے خلاف ہو تو اس میں بیٹھا نہ جائے اور یہ ایسا نسخہ ہے کہ جس میں پارٹی لیڈر یا جتھے کی ضرورت نہیں.اگر کوئی شخص ایسی مجلس میں بیٹھا ہے جو شرافت وقار اور اخلاق کے خلاف ہو.تو وہ وہاں سے چل دے.یہی خیال پھر دوسرے کے دل میں آئے گا.تو وہ بھی وہاں سے چل دے گا.یہی خیال تیسرے کے دل میں آئے گا تو وہ بھی وہاں سے چل دے گا.یہی خیال چوتھے کے دل میں آئے گا تو وہ بھی وہاں سے چل دے گا اور اگر اس مجلس میں کثرت شریفوں کی ہو گی.تو شرارت کرنے والے ان سے معافی مانگ لیں گے اور ایسی حرکات سے پر ہیز کریں گے.پس پرسوں پہلی غلطی امور عامہ نے کی کہ جس چیز کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منع فرمایا تھا.نظارت ہذا نے اس کی اجازت دے دی، دوسری غلطی خدام الاحمدیہ نے کی کہ باوجود اس حکم کے ایسے مواقع پر وہ آپ ہی آپ انتظام ہاتھ میں لے لیں.انہوں نے انتظام ہاتھ میں نہ لیا.تیسری غلطی سننے والوں نے کی.اگر مشاعرہ میں بعض لوگوں نے
تذکار مهدی ) 765 روایات سید نا محمود بیہودہ حرکات کی تھیں تو وہاں سے اٹھ کر کیوں نہ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آریوں نے ایک جلسہ کیا.اس میں انہوں نے شرارتاً ایسی طرز اختیار کی.جس سے معلوم ہو کہ ان کی نیت نیک ہے اور وہ انصاف اور امن کے ساتھ کام کر رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے ظاہر یہ کیا کہ وہ امن صلح اور آشتی کے ساتھ جلسہ کریں گے.تمام مذاہب اپنی اپنی خوبیاں بیان کریں گے اور کسی دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بعض احمدیوں کی معرفت اس جلسہ میں تقریر کرنے کی دعوت دی گئی.در حقیقت یہ دعوت لاہور کے بعض احمد یوں کو تھی اور انہوں نے آگے اس دعوت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دیا اور آپ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ یہ نہایت عمدہ موقعہ ہے.اگر اس جلسہ میں آپ کی تقریر ہو جائے.تو جس طرح جلسہ مذاہب میں بھاری کامیابی ہوئی تھی.اسی طرح اس جلسہ میں بھی بھاری کامیابی ہوگی اور اسلام کا بول بالا ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے تو انکار کیا اور فرمایا کہ ہم ان لوگوں کی فطرت سے واقف ہیں.ہمارا پرانا تجربہ ہے کہ وہ ضرور شرارت کریں گے.لیکن انہوں نے کہا نہیں یہ لوگ بہت پچھتا رہے ہیں اور آپ کا طریق انہوں نے پسند کیا ہے کہ صرف اپنی اپنی خوبیاں بیان کی جائیں اور کسی دوسرے مذہب پر حملہ نہ کیا جائے.آخر آپ نے تقریر تیار کی.پھر سوال پیدا ہوا کہ یہ تقریر کون پڑھے.مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہو چکے تھے.ان کے پڑھنے کی نرالی شان تھی.آپ نے دوستوں کو بلا کر مشورہ کیا کہ جلسہ میں تقریر کون پڑھے.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے کہا کہ میں پڑھوں گا آپ نے کہا اچھا تقریر پڑھ کر سناؤ.انہوں نے شروع کے ہی چند فقرے اتنے زور سے کہے کہ ان کا گلہ بیٹھ گیا.اور پھٹی ہوئی ئے کی طرح آواز نکلنے گی آپ نے فرمایا آپ تقریر نہیں پڑھ سکتے.اسی طرح ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے پڑھا.اسی طرح حضرت خلیفتہ اسی اول نے پڑھا ( پڑھنے کی ترتیب مجھے یاد نہیں ) اگرچہ میں مجلس میں موجود تھا لیکن مجھے یاد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان دونوں میں سے کس کو مقرر کیا تھا.غالباً حضرت خلیفہ اُسی اول کو تقریر پڑھنے کا حکم ملا اور اگر وہ نباہ نہ سکیں تو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ان کی جگہ پڑھنے کا حکم ملا یا اس کے الٹ تھا یہ مجھے یاد نہیں احمدی لوگ بڑے شوق سے اس جلسہ میں شامل ہوئے.مجھے یاد ہے کہ میں نے بڑے اصرار کے ساتھ اس جلسہ میں جانے کی اجازت لی اور چونکہ یہ اعلان کیا گیا تھا کہ جلسہ شرافت
تذکار مهدی ) 766 روایات سید نا محمود) انسانیت اور صلح پسندی سے ہوگا.اس لئے ہم میں سے ہر ایک جانتا تھا کہ فتح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہی ہوگی اور آپ کی تقریر ہی جیتے گی.کیونکہ جہاں شرافت ہو اور انسانیت اور صلح پسندی سے کام لیا جائے.وہاں فتح ہماری ہی ہوتی ہے.ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی پر چراغاں الفضل 12 / مارچ 1952 ، جلد 40/6 نمبر 62 صفحہ 2 میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے چراغاں ثابت ہے آپ نے دوبار ملکہ وکٹوریہ اور غالباً شاہ ایڈورڈ کی جو بلیوں پر چراغاں کرایا یا شاید دونوں جو بلیاں ملکہ وکٹوریہ ہی کی تھیں اور مجھے خوب یاد ہے کہ دونوں مواقع پر چراغاں کیا گیا چونکہ بچپن میں ایسی باتیں اچھی لگتی ہیں اس لئے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مسجد مبارک کے کناروں پر چراغ جلائے گئے اور بنولے ختم ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آدمی بھیجا کہ جا کر اور لائے.ہمارے مکان پر بھی مسجد میں بھی اور مدرسہ پر بھی چراغ جلائے گئے تھے اور میر محمد اسحاق صاحب نے بھی اس کی شہادت دی ہے اس لئے خالی چراغاں کی مخالفت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میرا عقیدہ ہے کہ حکم و عدل ہونے کی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآنی نص کے خلاف کوئی بات نہیں کرتے تھے اور چراغاں آپ سے ثابت ہے اس کے متعلق گواہیاں بھی موجود ہیں اور الحکم میں بھی یہ درج ہے اس لئے خاص چراغاں کے متعلق کسی بحث کی ضرورت نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس رنگ میں جو خوشی کا اظہار کیا وہ اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے جیسا کہ مؤمن کی ہر بات اپنے اندر حکمت رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو چراغاں کرایا وہ ایک سیاسی مصلحت پر مبنی تھا.اور اسی طرح بعض اوقات آپ ہمیں آتشبازی بھی لے دیا کرتے تھے تاکہ بچوں کا دل خوش ہو اور فرمایا کرتے تھے کہ گندھک کے جلنے سے جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں.چنانچہ آپ نے کئی دفعہ ہمیں انار اور پھلجھڑیاں وغیرہ منگوا کر دیں.گو یہ ایک قسم کا ضیاع ہے مگر اس میں وقتی فائدہ بھی ہے گو ایسا نمایاں نہیں مگر اس سے بچوں کا دل خوش ہو جاتا تھا اور بچوں کے جذبات کو دبانے سے جو نقصان پہنچ سکتا ہے اس سے بچاؤ ہو جاتا تھا مگر آپ نے ساری جماعت کو آتش بازی چلانے کا حکم نہیں دیا.رپورٹ مجلس مشاورت 1939ء صفحہ 74-75)
تذکار مهدی ) 767 روایات سید نا محمود مدرسہ کے لئے غیر از جماعت سے چندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مدرسہ کیلئے دوسروں سے بھی چندہ لے لیتے اور فرماتے اس میں دوسروں کے بھی بچے پڑھتے ہیں اس لئے کوئی ہرج نہیں.اسی طرح ہسپتال بنایا گیا تو اس کے لیئے چوہڑوں تک سے چندہ لیا گیا.رپورٹ مجلس مشاورت 1928ء صفحہ 335) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں مخالفت مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے میں چھوٹا بچہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ ملتان تشریف لے گئے.میں بھی آپ کے ساتھ تھا.میری عمر اس وقت سات آٹھ سال کی تھی اس سفر کے صرف دو واقعات مجھے یاد ہیں یوں تو بعض واقعات مجھے اس وقت کے بھی یاد ہیں جبکہ میری عمر صرف دو سال کی تھی بلکہ ابھی چند دن ہوئے ایک دوست نے ایک واقعہ بتایا جو مجھے بھی یاد آگیا اور اس کی جو تاریخ انہوں نے بتائی.اس کے لحاظ سے میری عمر اس وقت ایک سال کی بنتی ہے.پس مجھے اتنی چھوٹی عمر کے بھی بعض واقعات یاد ہیں لیکن اس سفر کی صرف دو باتیں میرے ذہن میں ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے.وہاں ان دنوں مومی تصویریں دکھائی جارہی تھیں.جن سے مختلف بادشاہوں اور ان کے درباروں کے حالات بتائے جاتے تھے.شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش وئیر ہاؤس جو ان دنوں بمبئی ہاؤس کہلاتا تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے عرض کیا کہ یہ ایک علمی چیز ہے.آپ اسے دیکھنے کے لئے تشریف لے چلیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انکار کر دیا.اس کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا کہ میں چل کر وہ مومی مجسمے دیکھوں.میں چونکہ بچہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیچھے پڑ گیا کہ مجھے یہ مجسمے دکھائے جائیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرے اصرار پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے.مختلف بادشاہوں کے حالات تصویروں کے ذریعہ دکھائے گئے تھے.جن میں بعض کی موتوں اور بعض کی بیماریوں وغیرہ کا نقشہ کھینچا گیا تھا.پس ایک تو یہ واقعہ مجھے یاد ہے.دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لاہور کے اندر کسی نے دعوت کی اور آپ اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے گئے.کچھ اثر میرے دل پر یہ بھی ہے کہ دعوت نہیں تھی بلکہ مفتی محمد صادق صاحب یا ان کا کوئی بچہ بیمار تھا اور آپ انہیں دیکھنے کے
تذکار مهدی ) 768 روایات سید نا محمود ) لئے تشریف لے گئے تھے.بہر حال شہر کے اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام واپس آ رہے تھے کہ سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے پاس میں نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا جو گالیاں دے رہا تھا اور ایک شخص ان کے درمیان کھڑا تھا.ممکن ہے وہ کوئی مولوی ہو اور جیسے مولویوں کی عادت ہوتی ہے.وہ شاید اپنی طرف سے بے موقعہ چیلنج دے رہا ہو.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گاڑی پاس سے گزری.تو ہجوم کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی میلہ ہے.چنانچہ میں نے نظارہ دیکھنے کے لئے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا.اس وقت کا یہ واقعہ مجھے آج تک نہیں بھولا جو میں نے دیکھا.کہ ایک شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور جس پر ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں.وہ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا جا رہا تھا.مرزا دوڑ گیا.مرزا دوڑ گیا".اب دیکھو.ایک شخص زخمی ہے.اس کے ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں.مگر وہ بھی مخالفت کے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے ٹنڈے ہاتھ سے ہی نعوذ باللہ احمدیت کو دفن کر آؤں گا.یہ کیسی خطرناک دشمنی ہے.جو لوگوں کے قلوب میں پائی جاتی ہے اور کس کس طرح انہوں نے زور لگایا کہ لوگ قادیان میں نہ آئیں اور احمدیت کو قبول نہ کریں.ایسے کئی لوگ احمد یوں میں موجود ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں قادیان آنے کے ارادہ سے بٹالہ تک آئے مگر پھر ان کو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے واپس کر دیا.چنانچہ میں نے سنا ہے کہ مولوی عبد الماجد صاحب بھاگلپوری بھی اسی لئے شروع میں احمدیت قبول کرنے سے محروم رہے کہ جب وہ بٹالہ آئے.تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے ان کو ورغلا کر واپس کر دیا اور یہی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا روزانہ مشغلہ رہتا تھا.وہ ہر روز ریل پر جا پہنچتے اور جب بعض لوگ قادیان جانے کے ارادہ سے اترتے.تو وہ انہیں کہتے کہ وہاں جا کر کیا لو گے.وہاں گئے تو ایمان خراب ہو جائے گا اور کئی لوگ انہیں عالم سمجھ کر واپس چلے جاتے اور خیال کرتے کہ مولوی محمد حسین صاحب جو کچھ کہہ رہے ہیں.یہ سچ ہی ہوگا.الفضل 24 /جنوری 1943 ء جلد 31 نمبر 21 صفحہ 3 | احمدی کو سچا اور اپنے کام سے مخلص ہونا چاہئے ہمارے سلسلہ کا ایک شدید مخالف دشمن اور احرار کا لیڈر ہے مگر وہ اپنے خانگی معاملات
روایات سید نامحمود تذکار مهدی ) 769 کے لیے ایک احمدی پر اعتماد کرتا ہے وہ پبلک میں آکر تو یہ کہتا ہے کہ کسی احمدی کا منہ تک نہ دیکھو مگر خود ایک احمدی کے سوا کسی پر اعتماد نہیں کرتا.پس جہاں بھی احمدیوں نے اپنے معیار کو قائم رکھا ہے دشمنوں نے بھی ان کی دیانت اور قابلیت کو تسلیم کیا ہے.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے ایک رپورٹ پہنچی کہ ایک احمدی افسر کے متعلق بعض لوگوں نے بہت شور مچایا مگر جب بالا افسروں نے تحقیقات کی تو مخالفوں کے ایک حصہ نے ہی گواہیاں دیں کہ گذشتہ سالہاسال سے ایساد یا نتدار کوئی افسر ہمارے علاقہ میں آیا ہی نہیں.پہلے جو بھی آتا تھا رشوت لیتا تھا صرف یہی ایک ہے جو انصاف سے کام لیتا ہے اور افسران بالا کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ وہ بہت دیانتدار آدمی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دوست فوج میں ملازم تھے بعض فوجی کبھی جوش میں آکر لوٹ مار بھی کر لیتے ہیں اور بعض افسر فوج کی نیک نامی کے قیام کے لیئے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ جس کمپنی میں تھے اُس کا بھی اُس وقت یہی حال تھا لیکن وہ احمدی سچا اور مخلص احمدی تھا وہ ہمیشہ سچی بات کہہ دیتا اور اس وجہ سے ہندوستانی افسر ہمیشہ اس سے ناراض رہتے وہ اکثر کوارٹر گارڈ میں ہی رہتا.ایک دفعہ ان کی فوج کوئٹہ کی طرف گئی اور وہاں بعض فوجیوں کا ایک چھابڑی والے سے جھگڑا ہو گیا اور انہوں نے غصہ میں آکر اس کی چیزیں چھین لیں اور اسے مارا بھی.پولیس نے اس معاملہ کی تحقیقات شروع کی تو چند ہندوستانی افسر اس میں رکاوٹیں ڈالنے لگے.عدالت میں مقدمہ پیش ہوا مجسٹریٹ کوئی دیانتدار انگریز تھا جو چاہتا تھا کہ صداقت کھلے.دُکانداروں نے اسے بتایا کہ فوجیوں کے ساتھ ایک می ایسا بھی تھا کہ جو ان کو اس کام سے منع کرتا تھا.مجسٹریٹ نے فوجی افسروں کو لکھا کہ وہ شخص کہاں ہے اُسے پیش کیا جائے.جواب میں لکھا گیا کہ وہ سزایاب ہے اور کوارٹرگارڈ میں ہے.مجسٹریٹ نے لکھا کہ اسے گواہی کے لیے بھیج دو.چنانچہ وہ پیش کیا گیا تو مجسٹریٹ نے اس سے پوچھا کہ تم سزایاب کیوں تھے؟ اُس نے صاف کہہ دیا کہ اسی لئے کہ گواہی نہ دے سکوں اور پھر صاف بات بتادی.مجسٹریٹ نے اس کے افسروں کو لکھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی آپ کے ہاں کھپت نہیں اسے ڈسچارج کر دیا جائے تو میں اسے پولیس افسر بنانا چاہتا ہوں اور اسے ڈسچارج دلا کر پولیس میں ایک اچھے عہدے پر مقرر کر دیا اور اس طرح راستی کی بدولت وہ مالی لحاظ سے بھی شخص
تذکار مهدی ) 770 روایات سید نا محمود فائدہ میں رہا پس صداقت ایک ایسی چیز ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے.سفر میں جمعہ کی نماز خطبات محمود جلد 17 صفحہ 121-120 ) | مجھ سے ایک سوال کیا گیا ہے.ابھی جمعہ کی نماز کے وقت بعض دوستوں میں اختلاف ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ ہے کہ اگر نمازیں جمع کی جائیں تو پہلی پچھلی اور درمیان کی سنتیں معاف ہوتی ہیں.اس میں شک نہیں کہ جب نماز ظہر و عصر جمع ہوں تو پہلی اور درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں یا اگر نماز مغرب اور عشاء جمع ہوں تو درمیانی اور آخری سنتیں معاف ہو جائیں گی لیکن اختلاف یہ کیا گیا ہے کہ ایک دوست نے بیان کیا کہ وہ ایک سفر میں میرے ساتھ تھے.میں نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور جمعہ کی پہلی سنتیں پڑھیں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.نمازوں کے جمع ہونے کی صورت میں سنتیں معاف ہو جاتی ہیں.یہ بات بھی صحیح ہے اور یہ بھی صحیح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز سے قبل جو سنتیں پڑھا کرتے تھے.میں نے وہ سفر میں پڑھیں اور پڑھتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کی نماز سے پہلے جو نوافل پڑھے جاتے ہیں.وہ نماز ظہر کی پہلی سنتوں سے مختلف ہیں.ان کو دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جمعہ کے اعزاز میں قائم فرمایا ہے.سفر میں جمعہ کی نماز پڑھنا بھی جائز ہے اور چھوڑ نا بھی جائز ہے.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سفر میں پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی دیکھا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مقدمہ کے موقعہ پر گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا کہ آج جمعہ نہیں ہوگا کیونکہ ہم سفر پر ہیں.ایک صاحب جن کی طبیعت میں بے تکلفی ہے وہ آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ سنا ہے.حضور نے فرمایا ہے.آج جمعہ نہیں ہوگا.حضرت خلیفہ اسیح الاول یوں تو ان دنوں گورا سپور میں ہی تھے.مگر اس روز کسی کام کے لئے قادیان آئے تھے.ان صاحب نے خیال کیا کہ شاید جمعہ نہ پڑھے جانے کا ارشاد آپ نے اس لئے فرمایا ہے کہ مولوی صاحب یہاں نہیں ہیں.اس لئے کہا کہ حضور مجھے بھی جمعہ پڑھانا آتا ہے.آپ نے فرمایا.ہاں آتا ہوگا.مگر ہم تو سفر پر ہیں.ان صاحب نے کہا کہ حضور مجھے اچھی طرح جمعہ پڑھانا آتا ہے اور
تذکار مهدی ) 771 روایات سید نا محمودی میں نے بہت دفعہ پڑھایا بھی ہے.آپ نے جب دیکھا کہ ان صاحب کو جمعہ پڑھانے کی بہت خواہش ہے تو فرمایا کہ اچھا آج جمعہ ہو جائے.تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سفر کے موقع پر جمعہ پڑھتے بھی دیکھا ہے اور چھوڑتے بھی اور جب سفر میں جمعہ پڑھا جائے.تو میں پہلی سنتیں پڑھا کرتا ہوں اور میری رائے یہی ہے کہ وہ پڑھنی چاہئیں کیونکہ وہ عام سنتن سے مختلف ہیں اور وہ جمعہ کے احترام الفضل 24 جنوری 1942 ء جلد 30 نمبر 21 صفحہ 1) کے طور پر ہیں.جدھر قرآن ادھر ہی ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک شخص تھے وہ تھے تو ان پڑھ مگر انہوں نے دس بارہ حج کیئے ہوئے تھے.اس زمانہ میں حج کرنا بہت مشکل تھا کیونکہ بعض علاقوں میں ریل گاڑی نہیں تھی اور کئی جگہ پیدل جانا پڑتا تھا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوست تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب دعویٰ کیا کہ حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں اور اپنی مسیحیت کا بھی اعلان کیا تو تمام ہندوستان میں ایک شور مچ گیا.ان دنوں لاہور میں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جموں سے رخصت لے کر آئے ہوئے تھے.مولوی محمد حسین بٹالوی بھی وہاں جا پہنچے اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کا چیلنج دے دیا اور کہا کہ صرف حدیثوں سے وفات مسیح کے مسئلہ پر بحث ہونی چاہیئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے کہ حدیث حاکم نہیں بلکہ قرآن حاکم ہے.پس ہمیں اس معاملہ میں قرآن کریم کی آیات سے فیصلہ کرنا چاہیئے.اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور ایک دوسرے کی طرف سے اشتہارات بھی نکلتے رہے.وہ چونکہ دونوں کے دوست تھے.اس لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ اس جھگڑے کو نپٹانا چاہئے.انہوں نے اپنے دل میں یہ سمجھا کہ مرزا صاحب نیک آدمی ہیں.انہوں نے کوئی ایسی بات کہی ہوگی جسے مولوی محمد حسین بٹالوی سمجھے نہیں اور چونکہ ان کی طبیعت میں غصہ زیادہ ہے.اس لئے وہ جوش میں آکر مخالفت پر آمادہ ہو گئے ہوں گے.ورنہ یہ نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کہیں اور ان پر کفر کے فتوے لگانے کی ضرورت پیش آجائے.یہ مخالفت ضرور کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے اور میرا فرض ہے کہ میں اس کو دور کروں چنانچہ وہ بڑے جوش سے قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام
تذکار مهدی ) Ⓒ772> روایات سید نامحمودی کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے.میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا ہاں.وہ کہنے لگے میں تو سمجھتا تھا آپ نے قرآن کے خلاف کوئی بات نہیں کہی ہوگی اور مولوی محمد حسین بٹالوی یونہی کسی غلط فہمی کے ماتحت آپ کے دشمن ہوگئے ہیں.مگر اب معلوم ہوا کہ آپ نے واقعہ میں قرآن کے خلاف عقیدہ اختیار کر لیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا یہ قرآن کے خلاف عقیدہ نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے.وہ کہنے لگے اگر قرآن سے یہی ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ اپنا یہ عقیدہ ترک کر دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کیوں نہیں اگر قرآن سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں.تو میں انہیں زندہ ماننے لگ جاؤں گا.انہوں نے کہا میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں.وہ قرآن کے خلاف عمداً کوئی بات نہیں کہہ سکتے.انہیں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.اچھا آپ بتائیں.اگر میں قرآن کریم سے سوایسی آیتیں نکال کر لے آؤں.جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے.وہ چونکہ مولویوں سے یہ سنا کرتے تھے کہ سارا قرآن حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات کے ذکر سے بھرا ہوا ہے.اس لئے انہوں نے سمجھا کہ سو آمیتیں تو ایسی ضرور ہوں گی جن سے ان کی زندگی ثابت ہوتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے.سو چھوڑ آپ ایک آیت ہی ایسی لے آئیں.تو میرے لئے وہی کافی ہے اور میں حضرت مسیح کی وفات کا عقیدہ ترک کر دوں گا.وہ کہنے لگے اچھا سو نہ سہی پچاس تو میں ضرور لے آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ ایک آیت بھی کافی ہے.سو پچاس کی شرط کی ضرورت ہی کیا ہے.وہ کہنے لگے.اچھا تو دس آیتیں تو میں ضرور ہی لے آؤں گا.میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب قرآن کے عاشق ہیں.وہ قرآن کے خلاف کوئی بات مان ہی نہیں سکتے.ضرور انہیں کوئی غلطی لگی ہے.اب یہاں آکر میرے اس خیال کی تصدیق ہوگئی ہے.اچھا اب میں جاتا ہوں اور دس آمیتیں ایسی لکھوا کر آپ کے پاس لاتا ہوں.جن سے حضرت مسیح ناصری کی حیات ثابت ہوتی ہے.چنانچہ وہ لاہور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے ملنے گئے.مولوی صاحب اس وقت مسجد میں بیٹھے ہوئے بڑے زور شور سے لافیں مار رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو ایسی پٹھنیاں دیں.وہ حدیث کی طرف آتا ہی نہیں تھا.مگر میں نے اسے اس قدر پٹھنیاں دیں کہ آخر وہ حدیث کی طرف آنے پر مجبور ہو گیا.دراصل بات یہ ہوئی
تذکار مهدی ) 773 روایات سید نا محمود کہ لمبی بحث سے تنگ آکر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ اچھا قرآن کے علاوہ بخاری سے بھی تائیدی رنگ میں حدیثیں پیش کی جاسکتی ہیں.بس اس پر وہ بے حد خوش تھے اور بار بار کہتے تھے کہ میں نے نورالدین کو خوب پکڑا.اتفاقاً یہ ہوا کہ ادھر وہ یہ باتیں کر رہے تھے اور ادھر یہ حاجی صاحب جا نکلے اور کہنے لگے.بس اب اس بحث مباحثہ کو ایک طرف رکھیں اور میری بات سنیں میں قادیان گیا تھا اور میں حضرت مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن میں سے دس ایسی آیتیں نکال کر لے آؤں.جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت ہوتی ہو تو وہ اپنے پہلے عقیدہ کو ترک کردیں گے بلکہ میں ان سے یہ بھی منوا آیا ہوں کہ وہ لاہور کی شاہی مسجد میں آکرسب کےسامنے توبہ کریں گے اور واقعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا بھی اقرار کر لیا تھا.ان کا منشا یہ تھا کہ تو بہ ایسی جگہ ہو کہ سب کو معلوم ہو جائے اور یہ فتنہ جو اٹھا ہوا ہے دب جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.جہاں آپ کہیں گے.وہیں میں تو بہ کرنے کے لئے تیار ہوں.آپ پہلے دس آیتیں تو لے آئیں غرض انہوں نے جاتے ہی کہا کہ میں مرزا صاحب سے سب کچھ منوا کر آیا ہوں.آپ اس جھگڑے کو چھوڑیئے اور مجھے فوراً دس آیتیں لکھ دیجئے تا کہ میں مرزا صاحب کو تو بہ کرانے کے لئے یہاں لا سکوں.اس وقت چونکہ مولوی صاحب سخت جوش کی حالت اور بڑے فخر سے کہہ رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو یوں پٹخنیاں دیں.میں نے اسے گردن سے اس طرح پکڑا.انہوں نے جب یہ بات سنی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور غصہ سے کہنے لگے تجھ جاہل کو کس نے کہا تھا کہ تم مرزا صاحب کے پاس جاتے.میں دو مہینے سے جھگڑ جھگڑ کر نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا.وہ آدمی تھے نیک انہیں یہ فقرہ کھا ہی گیا.وہ سادگی سے یہ سمجھتے تھے کہ قرآن سے حیات مسیح ثابت ہے اور وہ اسی امید میں خیالی پلاؤ پکار ہے تھے اور خیال کرتے تھے کہ جہاں سارے ہندوستان کے مولوی ناکام رہے ہیں.وہاں میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور مرزا صاحب سے تو بہ کراؤں گا.پس انہوں نے جو نہی یہ فقرہ سنا کہ میں دو مہینے بحث کر کر کے نورالدین کو حدیث کی طرف لایا تھا.تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا تو تھوڑی دیر تو حیرت اور استعجاب سے خاموش بیٹھے رہے.پھر اٹھے اور مولوی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا کہ اچھا مولوی صاحب جدھر قرآن ادھر ہی ہم اور یہ کہہ کر مجلس سے چلے گئے.
تذکار مهدی ) 774 روایات سید نا محمودی اب انہوں نے نہ کوئی دلیل سنی نہ کوئی نشان دیکھا نہ کوئی مباحثہ سنا صرف انہوں نے یہ فقرہ سنا اور سمجھ گئے کہ قرآن مرزا صاحب کی تائید میں ہے اور انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ جدھر قرآن ہے ادھر ہی مجھے ہونا چاہئے.چنانچہ انہوں نے قادیان آگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بیعت کر لی.تو حق یہ ہے کہ جو شخص اس مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے کہ بجائے اس کے کہ اپنے جذبات یا غیرت کا پاس کرے.وہ یہ فیصلہ کر لے کہ جدھر میرا خدا ہے ادھر ہی میں ہوں گا وہ کبھی ناکام نہیں ہوسکتا وہ کبھی نامراد نہیں ہوسکتا وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا.یہی وہ مقام ہے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اور یہی وہ مقام ہے.جس کے بعد ساری دنیا کے شیطان مل کر بھی اگر انسان کو گمراہ کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے ایک ایسے عروۃ مٹھی کو پکڑ لیا ہے.جس کے لئے ٹوٹنا مقدر نہیں.وہ کھچا ہوا اپنے خدا کی طرف چلا جائے گا.پس جس شخص کے دل میں یہ ایمان ہو کہ جدھر میرا خدا ہے ادھر میں ہوں.اسے شیطان نہ دوستوں کی محبت سے ورغلا سکتا ہے نہ رشتہ داروں کی محبت سے ورغلا سکتا ہے نہ حلم سے ورغلا سکتا ہے اور نہ کسی اور طریق سے ورغلا سکتا ہے کیونکہ شیطان اسے یہ تو کہ سکتا ہے کہ یہ دوستوں کی محبت کا تقاضا ہے.یہ رشتہ داروں کی محبت کا تقاضا ہے یہ قومی غیرت کا تقاضا ہے یہ اسلامی محبت کا تقاضا ہے مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ قرآن کا تقاضا ہے.وہ انسانی طبیعت کو سو طرح ابھار سکتا ہے وہ لالچ دے سکتا ہے وہ ڈراوے دے سکتا ہے وہ جذبات برانگیختہ کر سکتا ہے مگر وہ قرآن کی آیت اپنے پاس سے نہیں بنا سکتا کیونکہ قرآن خدا کی کتاب ہے اور وہی اس کا حافظ و ناصر ہے.پس جب کوئی شیطان قرآن کی آیت اپنے پاس سے نہیں بنا سکتا تو وہ شخص جو یہ فیصلہ کر لے کہ میں ادھر ہی ہوں گا.جدھر قرآن ہے وہ گمراہ کس طرح ہو سکتا ہے.غرض جو شخص اس مقام پر کھڑا ہو جائے کہ جدھر خدا ہے ادھر میں ہوں جس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ جدھر قرآن ہے اُدھر میں ہوں وہ کبھی ٹھو کر نہیں کھا سکتا.کیونکہ انسانوں کے لئے خدا تعالیٰ کا کوئی حکم نہیں جو قرآن سے باہر ہوا اور قرآن کا کوئی لفظ نہیں جو خدا تعالیٰ سے باہر ہو پس جدھر خدا ہے ادھر قرآن ہے اور جدھر قرآن ہے ادھر خدا ہے اور وہ جس نے کہا کہ جدھر خدا ہے ادھر میں ہوں اس نے یہی کہا کہ جدھر قرآن ہے ادھر میں ہوں اور جس نے کہا کہ جدھر قرآن ہے ادھر میں ہوں اس نے یہی کہا کہ جدھر خدا ہے ادھر میں ہوں اور ایسے شخص پر
تذکار مهدی ) 6775 نامحمودی روایات سیّد نا محمود شیطان کا کوئی حملہ کارگر نہیں ہوسکتا.وہ انسانی علم کی کمی کی وجہ سے عارضی طور پر دھوکا کھا سکتا ہے وہ عارضی طور پر کسی بات کو صحیح طور پر سمجھنے سے قاصر رہ سکتا ہے مگر وہ فنانہیں ہوسکتا.وہ گمراہ نہیں ہوسکتا کیونکہ اس نے خدا کو پکڑا ہوا ہے اور جس نے خدا کو پکڑا ہوا ہو.وہ گمراہ نہیں ہوسکتا.( الفضل 14 ستمبر 1939 ء جلد 27 نمبر 11 صفحہ 8،7) حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہم نے بیسیوں دفعہ سنا ہے کہ مسیح کی بن باپ ولادت نبوت کا کانٹا پھیر نے اور یہود کو یہ بتانے کے لئے تھی کہ بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ نے اب اپنا منہ موڑ لیا ہے اور وہ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں اب نبوت کا سلسلہ ایک دوسری قوم میں منتقل کرنے والا ہے.چونکہ سلسلہ نسب باپ کی طرف سے چلتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا.یہ بتانے کے لئے کہ اب یہود میں کوئی مرد ایسا نہیں رہا جس کی اولاد میں سے کسی کو نبی بنایا جا سکے.چنانچہ اب ہم جس کو نبی بنا رہے ہیں بغیر باپ کے بنارہے ہیں صرف اس کی ماں اسرائیلی ہے مگر آنے والے نبی میں اتنا حصہ بھی نہیں ہوگا اور اللہ تعالیٰ اسرائیل سے اپنے تعلقات کلی طور پر منقطع کر لے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں بھی اس مسئلہ کا بار بار ذکر فرمایا ہے چنانچہ مواہب الرحمن وغیرہ میں یہ مضمون پایا جاتا ہے اور درجنوں دفعہ ہم نے آپ کی زبان سے بھی یہ بات سنی ہے کہ حضرت مریم بھی ایک علامت تھیں اس خدائی انتباہ کی کہ نبوت اب بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل میں منتقل ہونے والی ہے اور موسی“ کی اس پیشگوئی کا ظہور بالکل قریب ہے جس میں اس نے بتایا تھا کہ خدا وند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں (یعنی بنی اسماعیل ) میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.‘ (استثناء باب 18 آیت 15) پس چونکہ مریم بھی ایک خدائی نشان تھیں اس لئے ہمیں پوری طرح تحقیق کرنی چاہیئے کہ بائبل اور قرآن نے ان کے وجود کو کس شکل میں پیش کیا ہے.(تفسیر کبیر جلد پنجم صفحہ 153 تا154) مدرسہ احمدیہ کی بنیاد خدا تعالی کی قدرت اور اس کا منشاء کبھی اس سے بڑے معجزے بھی دکھا سکتا ہے.تو
تذکار مهدی ) 776 روایات سید نا محمود ہمارا سر خدا تعالیٰ کے سامنے اور زیادہ شکر گزاری کے ساتھ جھک جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہی سکول جواب تعلیم الاسلام ہائی سکول کہلاتا ہے قائم ہوا.یہ سکول اس وقت قائم ہوا تھا.جب میں ابھی نو دس سال کا تھا ہمارے بعض لڑکے آریہ سکول میں پڑھا کرتے تھے.جو اس وقت قائم ہو چکا تھا اور ابھی مڈل تک تھا اور بعض لڑکے گورنمنٹ پرائمری سکول میں پڑھتے تھے.جس کا ہیڈ ماسٹر اتفاقی طور پر آریہ تھا اور وہ ہر وقت بچوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرتا رہتا تھا.جس کی وجہ سے طلباء اپنے اپنے گھر جا کر اسی قسم کی باتیں کرتے تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ایک سکول کھولا جائے.چنانچہ ایک پرائمری سکول قائم کیا گیا.جو اسی سال مڈل تک ہو گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد ہائی سکول بن گیا.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی یہ سکول قائم ہو گیا تھا.پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مخالفین نے جماعت پر شدت سے حملے کرنے شروع کر دیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.اب ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی جدوجہد کرنی چاہیئے اور آپ نے ایک مجلس شوری بلائی تا جماعت مشورہ دے کہ اس فتنہ کے مقابلہ میں ہم کیا کر سکتے ہیں.اس وقت مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم بھی آئے ہوئے تھے.انہوں نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی تحریک کر دی جائے جو ہماری کسی سکیم کے خلاف ہو.مناسب یہی ہے کہ وہ خود ہی یہ تحریک کر دیں کہ ہائی سکول کو توڑ دیا جائے اور اس کی بجائے علماء کی ایک جماعت تیار کی جائے.ہائی سکول اور بھی بہت ہیں اور ہمارے بچے ان میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت علماء کی ضرورت ہے اور ان کے تیار کرنے کے لیے ایک دینیات کے سکول کی ضرورت ہے.ہائی سکول کی ضرورت نہیں.تعجب یہ ہے کہ وہی لوگ جو انگریزی زبان کے حامی تھے وہی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ ہائی سکول توڑ دیا جائے.صرف حضرت خلیفۃ اسیح اول ایک ایسے شخص تھے.جن کا خیال تھا کہ ہائی سکول کو توڑنا نہیں چاہیئے.ہائی سکول بھی قائم رہے اور د مینیات کی تعلیم بھی دی جائے اور میرا خیال بھی یہی تھا.حضرت خلیفتہ اسی اول کی عادت تھی کہ آپ اپنی بات کا زیادہ پرو پیگنڈا نہیں کرتے تھے.ہاں ملنے جلنے والوں سے باتیں کر لیتے تھے لیکن یہ نہیں ہوتا تھا کہ عام لوگوں میں جا کر کوئی لیکچر دیں.آپ نے ایک مضمون لکھا تا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچ جائے اور آپ کے خیالات کا حضور کو علم ہو جائے.آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا.میاں سنا ہے کیا باتیں
تذکار مهدی ) 777 روایات سیّد نا محمود ہورہی ہیں.تمہارا کیا خیال ہے.میں نے کہا میں تو اس کا قائل نہیں آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایک سے دو ہو گئے.میں ساری رات سویا نہیں.میرے دل پر ایک بوجھ سا تھا کہ کوئی میرا ہم خیال نہیں.اب تمہاری بات سے یہ خیال معلوم ہوا تو میں نے کہا.اَلْحَمْدُ لِلہ میں ایک نہیں رہا.بلکہ دو شخص ایسے موجود ہیں جو ہم خیال ہیں.میں نے ایک مضمون لکھا ہے.یہ چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لے جاؤ.میں وہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لے گیا.چنانچہ ایک جلسہ ہوا اور عام طور پر لوگوں نے یہی کہا کہ ہائی سکول کو جاری رکھنا فضول ہے.آخر دنیا میں اور ہائی سکول بھی موجود ہیں.ہمارے بچے وہاں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.بعض افراد ایسے بھی تھے.جنہوں نے یہاں تک کہا کہ ہمیں د مینیات کی بھی کیا ضرورت ہے چنانچہ کوئٹہ کے تحصیلدار نذیر احمد صاحب نے یہی بات کہی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات کی تائید کی کہ ہائی سکول بھی قائم رکھا جائے.آپ نے فرمایا میرا یہ منشا ہرگز نہیں تھا کہ ہائی سکول کو توڑ دیا جائے اور دینیات کلاس کھولی جائے.پھر مدرسہ احمدیہ قائم ہوا 1906ء یا 1907 ء کی بات ہے گویا.مدرسہ احمدیہ کی بنیاد بھی نہایت چھوٹے پیمانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خود رکھی.اس کے سال دو سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے آپ کے فوت ہو جانے کے بعد وہی لوگ جنہوں نے یہ تجویز کی تھی کہ ہائی سکول توڑ کر دینی کلاس کھولی جائے.انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مدرسہ احمدیہ توڑ دیا جائے اور ہائی سکول کو قائم رکھا جائے اور لڑکوں کو وظیفے دے کر کالج کی تعلیم حاصل کرائی جائے.الفضل 11 اپریل 1961 ، جلد 50/15 نمبر 82 صفحہ 4-3) ایک گنجے اور اندھے کی کہانی ایک گنجا اور ایک اندھا تھا.خدا کا فرشتہ متشکل ہو کر گنجے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تو کیا چاہتا ہے تو گنجے نے کہا میرے سر کے بال ہو جاویں اور مال دولت ہو جاوے چنانچہ فرشتے نے گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تو خدا کی قدرت سے اس کے سر پر بال بھی نکل آئے اور مال دولت نوکر چاکر بھی مل گئے.پھر اندھے کے پاس آیا اور اس سے پوچھا تو کیا چاہتا ہے؟ اندھے نے کہا کہ میری آنکھیں روشن ہو جاویں تو میں ٹکریں کھاتا نہ پھروں اور روپیہ پیسہ مل جاوے تو
تذکار مهدی ) 778 روایات سید نا محمود کسی کا محتاج نہ رہوں.فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا تو وہ روشن ہو گئیں اور مال دولت بھی مل گیا.پھر وہی فرشتہ خدا تعالیٰ کے حکم سے اندھے اور گنجے کی آزمائش کو ایک فقیر کے بھیس میں آیا اور گنجے کے پاس جا کر سوال کیا.گنجے نے تر شروئی سے جواب دیا اور جھڑک دیا اور کہا کہ چل تیرے جیسے بہت فقیر پھرتے ہیں.فرشتے نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر دیا اور پھر وہ گنجے کا گنجا ہی ہو گیا اور سب مال و دولت جاتا رہا اور پھر ویسا ہی تنگ حال ہو گیا پھر وہی فرشتہ فقیر کی شکل میں اندھے کے پاس آیا جواب بڑا دولتمند اور بینا ہو گیا تھا اور سوال کیا اس نے کہا سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی نے دیا ہے اور اس کا مال ہے تم لے لو.اس پر پھر اللہ تعالیٰ نے اندھے کو اور بھی مال دولت دیا.نتیجہ :.پس اے عزیز بچو! تم بھی یادرکھو کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر کرو اور اس کی قدر کرو اور سوالی کو جھڑ کی نہ دو.خیرات کرنا اچھی بات ہے اور سوالی کو دینا چاہیئے.اس سے خدا خوش ہوتا ہے اور نعمت زیادہ کرتا ہے.(الحکم 13 ستمبر 1898ء جلد 2 نمبر 27-26 صفحہ 11) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر لینا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کے ابتدائی زمانہ کی بات ہے.میں چھ سات سال کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ سیر کے لئے نکلے.آپ مسجد مبارک کے سامنے جو چوک ہے.اس میں پہنچے تو حضرت خلیفہ اسیح اول نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوست حضور کی تصویر لینے کی خاطر یہاں آئے ہیں یہ 1894ء یا 1895ء کی بات ہے.اس زمانہ میں ابھی کیمرہ کا زیادہ رواج نہیں تھا.اس شخص نے ایک سٹینڈ کھڑا کیا اور اس کے اوپر گتے کی ایک چیز رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فوٹولی.جب آپ سیر کے لئے آگے تشریف لے گئے تو اس شخص کے متعلق بات شروع ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا کہ وہ شخص مڈل تک تعلیم رکھتا ہے اور اس نے بڑی محنت کے ساتھ کیمرہ کی ایجاد کی ہے اور یہ کیمرہ جس سے آپ کی فوٹو لی گئی ہے اس کا اپنا ایجاد کر دہ ہے.اس شخص نے ایجادات کے شوق میں روس تک کا سفر بھی کیا ہے اور متعدد ایجادیں کی
تذکار مهدی ) 779 روایات سید نا محمود ہیں.وہ دوست جلد ہی فوت ہو گئے.کیونکہ اس کے بعد وہ دکھائی نہیں دیئے.پس محنت اور کوشش کے ساتھ ہی انسان انسان بنتا ہے.“ ( الفضل 14 دسمبر 1952 ء جلد 40/6 نمبر 290 صفحہ 4) اللہ تعالیٰ دشمنوں کے دل بدل دیتا ہے اللہ تعالیٰ بچانے پر آئے تو بڑے بڑے دشمنوں کو بھی ناکام کر دیتا ہے.یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے.میری تدبیروں سے ہوگا حالانکہ انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ کسی کا دل بدل سکے ہاں اللہ تعالیٰ دوسروں کے دل بدل سکتا ہے دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیسے کیسے دشمن تھے مگر بعد میں وہ آپ کے بڑے جاں نثار ثابت ہوئے مجھے یاد ہے کہ لکھنو میں ایک عرب آیا لوگ اس کی بڑی خاطر تواضع کرتے تھے کہ یہ بغداد شریف سے آیا ہے.میاں چٹو اہل قرآن کے لیڈر ہوتے تھے وہ اسے قادیان لے آئے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن شریف میں یوں لکھا ہے اور آپ نے ”ق“ کو پنجابی لہجہ میں ادا کیا اس پر عرب کہنے لگا آپ کو کس نے مسیح بنایا ہے.آپ تو ”ق“ بھی نہیں بول سکتے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے اسے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فوراً ان کا ہاتھ پکڑ لیا پاس ہی حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے انہیں فرمایا کہ ان کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیں اور جب تک مجلس برخاست نہ ہو جائے ان کا ہاتھ نہ چھوڑیں.چنانچہ انہوں نے آپ کا ہاتھ پکڑے رکھا.بعد میں اس نے میاں چٹو کے ساتھ دھوکہ بازی کی اور انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا.حکیم محمد حسین صاحب قریشی جو ہماری جماعت کے ایک بڑے مخلص دوست تھے.میاں چٹو کے پوتے تھے.میاں چٹو مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی کے معتقد تھے.مگر بعد میں انہیں پتہ لگا کہ اس میں کوئی اخلاقی نقص ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ جس شخص کے اخلاق خراب ہیں.اسے یہ حق کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے.چنانچہ وہ ان سے الگ ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیرتا رہتا ہے اور کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے.پس خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہیئے اور اسی پر ساری امیدیں رکھنی چاہئیں کیونکہ اس سے زیادہ
تذکار مهدی ) 780 روایات سید نا محمود مہربان اور طاقتور اور کوئی نہیں.(الفضل 3 اپریل 1959 ء جلد 48/13 نمبر 78 صفحہ 8) سزا اصلاح کی غرض سے ہونی چاہئے حقیقت یہ ہے کہ نظام کی درستی کے لئے اتحادِ خیالات کا ایک دائرہ ہوتا ہے.ہوسکتا ہے کہ ایک اختلاف بڑا نظر آئے لیکن اگر وہ کسی فتنے کا موجب نہ ہو تو اس اختلاف رکھنے والے کو جماعت میں شامل ہونے کی اجازت دے دی جائے لیکن ایک دوسرا شخص خواہ اس سے کم اختلاف رکھتا ہو لیکن اس کا اختلاف کسی فتنے کا موجب ہو تو اسے جماعت سے نکال دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ ایک دوست نے پوچھا کہ میں ابھی شیعیت سے نکل کر آیا ہوں اور حضرت علیؓ کو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ سے افضل سمجھتا ہوں پس کیا اس عقیدہ کے ہوتے ہوئے میں آپ کی بیعت کر سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں لکھا کہ آپ بیعت کر سکتے ہیں.لیکن اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ چند آدمیوں کو قادیان سے باہر چلے جانے کا حکم دے دیا اور ان کے بارہ میں اشتہار بھی شائع کیا مگر وجہ صرف یہ تھی کہ وہ پنجوقتہ نماز میں حاضر نہیں ہوتے تھے اور بعض ایسے تھے کہ ان کی مجلسوں میں حقہ نوشی اور فضول گوئی کا شغل رہتا تھا.اب بتاؤ حضرت علی کو حضرت ابوبکر سے افضل سمجھنے اور حقہ پینے میں سے کون سی بات بڑی ہے.لازماً ہر شخص یہی کہے گا کہ حضرت علی کو حضرت ابو بکر سے افضل سمجھنا بڑی بات ہے اور حقہ پینا چھوٹی بات ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک بڑا اختلاف رکھنے کے باوجود ایک شخص کو اپنی بیعت کی اجازت دے دی اور حقہ پینے اور جنسی ٹھٹھا میں مشغول رہنے پر دوسروں کو مرکز سے چلے جانے کی ہدایت فرمائی.حالانکہ ایک دعوت کے موقع پر خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا انتظام کیا تھا.چنانچہ ترکوں کا سفیر حسین کا می جب قادیان میں آیا اور اس کے لئے دعوت کا انتظام کیا گیا تو جماعت کے خرچ پر اس کے لئے سگار اور سگریٹ منگوائے گئے.میں اس وقت چھوٹا تھا.مگر مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مجلس میں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ذکر کیا کہ یہ لوگ سگریٹ کے عادی ہوتے ہیں.اگر ہم نے کوئی انتظام نہ کیا تو اسے تکلیف ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں.اس کے لئے سگریٹ منگوا لیئے جائیں کیونکہ یہ ایسی حرام چیزوں میں سے نہیں.جیسے شراب وغیرہ ہوتی ہے.پس آپ نے وہ چیز جو اس قسم کی حرمت نہیں رکھتی.جیسے
تذکار مهدی ) 781 روایات سید نا محمود شراب اپنے اندر حرمت رکھتی ہے استعمال کرنے پر تو ایک شخص کو جماعت سے خارج کر دیا اور وہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں کہ میں حضرت ابو بکر سے حضرت علی کو افضل سمجھتا ہوں.باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا عقیدہ یہ تھا کہ حضرت ابوبکر، حضرت علیؓ سے افضل ہیں.اسے بیعت کرنے کی اجازت دے دی.در حقیقت بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے بڑی ہوتی ہیں.حالانکہ وہ اصل میں چھوٹی ہوتی ہیں اور بعض باتیں وقتی فتنہ کے لحاظ سے چھوٹی ہوتی ہیں.حالانکہ اصل میں بڑی ہوتی ہیں.پس وقتی فتنہ کے لحاظ سے کبھی بڑی بات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور چھوٹی بات پر ایکشن لے لیا جاتا ہے.مگر ان لوگوں نے کبھی عقل سے کام نہیں لیا.ان کا مقصد صرف اعتراض کرنا ہوتا ہے.“ الفضل 13 ستمبر 1961 ء جلد 50/15 نمبر 211 صفحہ 4).تجدید عہد بیعت تجدید عہد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صوفیاء سے ثابت ہے جسے بیعت ارشاد کہا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دفعہ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے کہ دوبارہ بیعت کرلو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے بعض لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ستر ستر اور سوسو مرتبہ بیعت کی یعنی جب بھی موقعہ ملتا وہ شامل ہو جاتے تو تجدید عہد خوبی کی بات ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست اس ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں جماعت کے اندر نئی بیداری اور نئی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ عہدیداران کے بھی امتحان کا وقت ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبروں کا بھی اور باقی جماعت کا بھی.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں سچائیوں کو کھول کھول کر بیان کرسکوں اور جماعت کو بھی توفیق دے کہ ان کو قبول کر سکے اور ان پر عمل کر سکے.آمین.خطبات محمود جلد 19 صفحہ نمبر 344) اس زمانہ اور پرانے زمانہ میں فرق مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے.نواب محمد علی خاں صاحب مرحوم بھی ساتھ تھے.آپ نے بڑے تعجب سے فرمایا.نواب صاحب یہ کتنا اندھیر ہے کہ پہلے جو چوڑھا ہمارے ہاں کام کرتا تھا.اسے ہم چار آنہ ماہوار دیا کرتے تھے
تذکار مهدی ) 782 روایات سید نا محمودی اور وہ خود اور اس کا سارا ٹبر ہماری خدمت کیا کرتا تھا لیکن اب اس کی بیوی کو ہم دو روپے ماہوار دیتے ہیں اور وہ پھر بھی کام سے جی چراتی ہے.اس پر نواب صاحب کہنے لگے.حضور آپ تو دو روپیہ دیتے ہیں.ہم چودہ روپے ماہوار دیتے ہیں اور پھر بھی چوڑھا راضی نہیں.غرض اس زمانہ میں اور پرانے زمانہ میں بڑا بھاری فرق ہے.اب بیرونی ممالک میں جانے پر اتنا خرچ ہوتا ہے کہ اسے کوئی فرد آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا.ہاں ایک قوم مل کر کسی کو باہر بھیج سکتی ہے.فرد چاہے چارسو یا پانچ سوروپے ماہوار تنخواہ پانے والا ہو.تب بھی ایسا نہیں کرسکتا.( الفضل 6 رنومبر 1956 ء جلد 45/10 نمبر 260 صفحہ 3) اشتہارات تبلیغ کا بہترین ذریعہ تبلیغ اور منظم تبلیغ میں فرق ہے.ہمیں اپنے ملک کا پوری طرح جائزہ لینا چاہیے کہ ملک میں کس حد تک تقریروں کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے، کس حد تک لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت ہے.کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں پمفلٹ زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں، کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں اشتہارات زیادہ مقبول ہو سکتے ہیں اور کون سے گروہ ایسے ہیں جن میں کتابیں زیادہ مقبول ہو سکتی ہیں.اس وقت نظارت دعوۃ و تبلیغ پمفلٹ کے ذریعہ تبلیغ کرتی ہے لیکن پمفلٹ ایسی چیز ہے.جس کا بوجھ زیادہ دیر تک نہیں اٹھایا جاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تبلیغ اشتہارات کے ذریعہ ہوتی تھی.وہ اشتہارات دو چار صفحات پر مشتمل ہوتے تھے اور ان سے ملک میں تہلکہ مچا دیا جاتا تھا.ان کی کثرت سے اشاعت کی جاتی تھی.اس زمانہ کے لحاظ سے کثرت کے معنے ایک دو ہزار کی تعداد کے ہوتے تھے.بعض اوقات دس دس ہزار کی تعداد میں بھی اشتہارات شائع کئے جاتے تھے.لیکن اب ہماری جماعت بیسیوں گنے زیادہ ہے.اب اشتہاری پراپیگینڈا یہ ہوگا کہ اشتہارات پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں.پھر دیکھو کہ یہ اشتہارات کس طرح لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.اگر اشتہارات پہلے سال میں بارہ دفعہ شائع ہوتے تھے.تو اب خواہ انہیں سال میں تین دفعہ کر دیا جائے اور صفحات دو چار پر لے آئیں.لیکن وہ لاکھ لاکھ دو دو لاکھ کی تعداد میں شائع ہوں تو پتہ لگ جائے گا کہ انہوں نے کس طرح حرکت پیدا کی ہے.( الفضل 11 جنوری 1952 ء جلد 40/6 نمبر 10 صفحہ 4)
تذکار مهدی ) 783 روایات سید نامحمود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ریلوے اسٹیشن پر حضرت ام المومنین کے ساتھ ٹہلنا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت ام المومنین کو ساتھ لے کر اسٹیشن پر پھر رہے تھے.ان دنوں پردہ کا مفہوم بہت سخت لیا جاتا تھا.اسٹیشن تک ڈولیوں میں عورتیں آتی تھیں اور پھر ڈبہ تک پردہ کا انتظام کیا جاتا تھا اور جب ڈبے میں بیٹھ جاتی تھیں تو پھر کھڑکیاں بند کر دی جاتی تھیں.یہ پردہ تکلیف دینے والا تھا اور اسلام کی تعلیم کے خلاف تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے تھے.حضرت ام المومنین برقعہ پہن لیتی تھیں اور سیر کے لئے باہر چلی جاتی تھیں.اس دن بھی حضرت ام المومنین نے برقعہ پہنا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو ساتھ لئے پلیٹ فارم پر ٹہل رہے تھے.مولوی عبد الکریم صاحب کی طبیعت تیز تھی.آپ نے جب دیکھا تو کہا بڑا غضب ہو گیا ہے.کل کو اشتہارات اور ٹریکٹ نکل آئیں گے کہ مرزا صاحب پلیٹ فارم پر اپنی بیوی کو ساتھ لئے پھر رہے تھے.ان میں خود تو اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس طرف توجہ دلاتے.وہ حضرت خلیفہ اسی الاول کے پاس گئے اور کہا مولوی صاحب غضب ہو گیا.کل اخباروں میں شور پڑ جائے گا.اشتہارات اور ٹریکٹ نکل آئیں گے کہ مرزا صاحب پلیٹ فارم پر اپنی بیوی کو ساتھ لے کر پھر رہے تھے اور اگر ایسا ہوا تو بہت خرابی ہو گی.آپ خدا کے واسطے حضرت صاحب کو سمجھائیں.حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ آخر اس میں کون سی بُرائی ہے؟ گاڑی میں طبیعت گھبرا جاتی ہے.اگر حضرت صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر باہر ٹہل رہے ہیں تو اس میں کون سا حرج ہے؟ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی آپ کو اگر یہ بات بری لگتی ہے تو خود جائیے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ بات کہہ دیجئے.میں تو نہیں جاؤں گا.مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا.بہت اچھا میں خود جاتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ٹہلتے ٹہلتے بہت دور جا چکے تھے.مولوی صاحب وہاں گئے.جب واپس آئے تو گردن جھکائی ہوئی تھی.حضرت خلیفہ مسیح الاول فرماتے ہیں کہ مجھے شوق پیدا ہوا کہ پوچھوں کیا جواب ملا ہے.چنانچہ میں نے دریافت کیا مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا فرمایا ہے مولوی صاحب نے کہا میں نے جب کہا کہ حضور آپ کیا کر رہے ہیں.کل اخبارات
تذکار مهدی ) 784 روایات سیّد نا محمود شور مچا دیں گے کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کے ساتھ اسٹیشن پر پھر رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ آخر وہ کیا کہیں گے یہی کہیں گے نا کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لئے ہوئے پھر رہے تھے.مولوی صاحب شرمندہ ہو کر واپس آگئے.واقعی بات یہی تھی حضرت ام المومنین نے پردہ کیا ہوا تھا اور پھر میاں بیوی کا اکٹھے پھر نا قابل اعتراض بھی تو نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی بیویوں کے ساتھ پھرتے تھے.ایک دفعہ لشکر کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ دوڑے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہار گئے اور حضرت عائشہ جیت گئیں.دوسری دفعہ پھر دوڑے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیت گئے اور حضرت عائشہ ہار گئیں کیونکہ حضرت عائشہ کا جسم کچھ موٹا ہو گیا تھا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا يَا عَائِشَه تِلْكَ بِتِلْكَ عائشہ اس ہار کے بدلہ میں یہ ہار ہوگئی.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے ساتھ پھرنا معیوب خیال نہیں فرماتے تھے اور جس بات کی اجازت اسلام نے دی ہے.اس کو عیب نہیں کہا جا سکتا.پس اگر کوئی شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے.تو اس کے یہ معنی ہیں کہ اس کے نزدیک یہ شخص اسلامی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا لیکن شکایت کرنے والے نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ فلاں چھوٹے درجہ کا ہے.فلاں کمینہ ہے.(الفضل مورخہ 8اکتوبر 1952ء جلد 40/6 نمبر 235 صفحہ 3) اپنے او پر خدا تعالیٰ کی حکومت قائم کرو شریعت کے قواعد سے نہ تو میں آزاد ہوں نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آزاد ہیں اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آزاد ہیں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود شریعت کے قواعد پر چلنے کے لئے مجبور تھے.پس اس شخص نے بعض ایسے اعتراضات کئے ہیں جن پر شریعت حد لگاتی ہے اور شریعت نے ان کے لئے گواہی کا جو طریق مقر ر کیا ہے اُس طریق پر چلنا ضروری ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ فلاں نے قرآن کریم کا فلاں حکم تو ڑا ہے اسے سزا دو لیکن مجھے کچھ نہ کہو.مجھے بچپن کا ایک لطیفہ یاد ہے.اس وقت میں نے اس سے بہت مزہ اُٹھایا تھا اور اب بھی وہ مجھے یاد آتا ہے تو ہنسی آجاتی ہے.پانچویں یا چھٹی جماعت میں میں پڑھتا تھا ہمارے استاد نے یہ طریق مقرر کیا ہوا تھا کہ ان کے سوال کا جواب جو طالب علم وقت مقررہ میں دے دے.
تذکار مهدی ) 785 روایات سید نامحمود وہ اوپر کے نمبر پر آ جائے گا.ہم کھڑے تھے استاد نے سوال کیا ایک لڑکے نے اس کا جواب دیا.دوسرے نے ہاتھ بڑھا کر کہا ماسٹر جی یہ جواب غلط ہے.ماسٹر صاحب نے پہلے لڑکے سے کہا تم نیچے آ جاؤ اور دوسرے کو کہا تم اوپر چلے جاؤ نیچے آتے ہی اس لڑکے نے جو پہلے اوپر کے نمبر پر تھا کہا کہ مولوی صاحب اس نے میری غلطی نکالتے ہوئے غلط لفظ کو غلط کہا ہے.جو غلط ہے.اس استاد نے پھر اسے سابق جگہ پر کھڑا کر دیا.اور دوسرے لڑکے کو پھر نیچے گرا دیا.یہی حالت بعض معترضوں کی ہوتی ہے.وہ دوسرے پر غلط یا صحیح اعتراض کرتے ہیں.لیکن اعتراض کا طریقہ مجرمانہ اختیار کرتے ہیں اور اس طرح اس کو سزا دلاتے دلاتے خود سزا کے مستحق ہو جاتے ہیں اور پھر شور مچاتے ہیں کہ مجرم کو کوئی نہیں پکڑتا جو توجہ دلاتا ہے اسے سزا دیتے ہیں.حالانکہ سزا دینے والے کو کیا کریں.وہ بھی تو شریعت کے غلام ہیں.اگر تم قرآن کریم کی حکومت کو قائم کرنا چاہتے ہو.تو اپنے پر بھی خدا تعالیٰ کی حکومت کو قائم کرو.اگر تم یہ چاہتے ہو کہ دوسروں پر تو خدا تعالیٰ کی حکومت قائم ہو اور تم پر خدا تعالیٰ کی حکومت قائم نہ ہو تو یہ درست بات نہیں میں شکایت کرنے والے سے کہتا ہوں.ایاز قدرے خود بشناس.سیر حضرت اماں جان کے ساتھ (خطبات محمود جلد 33 صفحہ 271-270 ) | اس وقت پردہ میں اتنی شدت تھی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے کر پھرنا لوگوں کی نگاہ میں معیوب سمجھا جاتا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے.آپ آخری دنوں میں جب لاہور میں مقیم تھے.تو با قاعدہ حضرت ام المومنین کو ساتھ لے کر سیر پر جایا کرتے تھے.آپ چونکہ خود بھی بیمار تھے اور اعصاب کی بھی تکلیف تھی اور حضرت ام المومنین بھی بیمار رہتی تھیں.اس لئے جب تک آپ لا ہور میں رہے روزانہ فٹن میں بیٹھ کر آپ سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضرت ام المومنین بھی آپ کے ساتھ ہوتیں اور قادیان میں بھی یہی کیفیت تھی.حضرت ام المومنین ہمیشہ سیر کے لئے جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ان کی سہیلیاں وغیرہ بھی ہوا کرتی تھیں.پس پردہ کے یہ معنی نہیں کہ عورتوں کو گھروں میں بند کر کے بٹھا دو.وہ سیر وغیرہ کے لئے جاسکتی ہیں ہاں گھروں کے قہقہے سنے منع ہیں.
تذکار مهدی ) 786 نامحمودی روایات سیّد نا محمود لیکن اگر دوسروں سے وہ کوئی ضروری بات کریں تو یہ جائز ہے.مثلاً اگر وہ ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیں.تو بے شک کریں یا فرض کرو کوئی مقدمہ ہو گیا ہے اور عورت کسی وکیل سے بات کرنا چاہتی ہے.تو بے شک کرے.اسی طرح اگر کسی جلسہ میں کوئی ایسی تقریر کرنی پڑے جو مرد نہیں کر سکتا.تو عورت تقریر بھی کر سکتی ہے.حضرت عائشہ کے متعلق تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ مردوں کو رسول کریم ﷺ کی حدیثیں سنایا کرتی تھیں بلکہ خود لڑائی کی بھی ایک دفعہ آپ نے کمان کی.جنگ جمل میں آپ نے اونٹ پر بیٹھ کر سارے لشکر کی کمان کی تھی.پس یہ تمام چیزیں جائز ہیں جو چیز منع ہے وہ یہ ہے کہ عورت کھلے منہ پھرے اور مردوں سے اختلاط کرے.ہاں اگر وہ گھونگھٹ نکال لے اور آنکھ سے رستہ وغیرہ دیکھے تو یہ جائز ہے.لیکن منہ سے کپڑا اٹھا دینا یا مکسڈ پارٹیوں میں جانا.جبکہ ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں اور ادھر بھی مرد بیٹھے ہوں یہ ناجائز ہے اسی طرح عورت کا مردوں کو شعر گا گا کر سنانا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ ایک لغو فعل ہے.غرض عورتوں کا مکسڈ مجالس میں جانا مردوں کے سامنے اپنا منہ تنگا کر دینا اور ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرنا.یہ سب ناجائز امور ہیں لیکن ضرورت کے موقعہ پر شریعت نے بعض امور میں انہیں آزادی بھی دی ہے.بلکہ قرآن کریم ني إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے الفاظ استعمال فرما کر بتا دیا ہے کہ جو حصہ مجبوراً ظاہر کرنا پڑے اس میں عورت کے لئے کوئی گناہ نہیں.اس اجازت میں وہ تمام مزدور عورتیں بھی شامل ہیں جنہیں کھیتوں اور میدانوں میں کام کرنا پڑتا ہے اور چونکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے لئے آنکھوں اور اس کے ارد گرد کا حصہ کھلا رکھنا ضروری ہوتا ہے.ورنہ ان کے کام میں دقت پیدا ہوتی ہے.اس لئے إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا کے ماتحت ان کے لئے آنکھوں سے لے کر ناک تک کا حصہ کھلا رکھنا جائز ہوگا.( الفضل 27 جون 1958 ء جلد 47/12 نمبر 149 صفحہ 5 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مشکلات ہماری جماعت میں معمولی کام کو بڑا کام اور معمولی تکلیف کو بڑی تکلیف سمجھنے لگ پڑتے ہیں.ایک دفعہ قادیان میں کچھ فساد ہوا اور میں نے تحقیق کے لئے ایک دوست کو جو کمہار ہیں ایک بات دریافت کرنے کے لئے بلایا.انہوں نے سمجھا کہ میں گھبرا گیا ہوں اور مجھے تسلی دینے
تذکار مهدی ) 787 روایات سید نا محمودی کے لئے کہا کہ یہ واقعہ کیا چیز ہے اس سے بہت بڑھ کر مصیبتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم پر آئی ہیں.ایک دفعہ تالاب سے مٹی اٹھا رہے تھے کہ مرزا نظام الدین صاحب آئے اور کہا کہ کون ہماری اجازت کے بغیر مٹی اٹھا رہا ہے.ان کو دیکھ کر سب لوگ بھاگ گئے اور صرف میں ہی اکیلا وہاں رہ گیا.میں نے دعا کی یا اللہ یہ ایسا ہی وقت ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر غار ثور میں آیا تھا.اس طرح وہ مجھے تسلی دے رہے تھے حالانکہ یہ ان کی نفس کی بزدلی تھی میں حیران تھا کہ اس شخص نے کتنے معمولی سے واقعہ کو غار ثور جیسے عظیم الشان واقعہ سے تشبیہ دی ہے.غرض یہ حالت ہے اس زمانہ کے لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ذمہ داری کے کاموں سے گھبرا جاتے ہیں.ریلوں وغیرہ سے آرام کے ساتھ بجائے شکریہ میں بڑھنے کے غفلت میں ترقی ہو رہی ہے اور کام میں بڑھنے کی بجائے اس کی مقدار اور اس کا معیار کم ہو رہا ہے اور کھانے پینے کی چیزوں میں زیادتی کے ساتھ سے غفلت میں بھی زیادتی ہوتی چلی جاتی ہے اور انسان کو فاقہ رہنے کی مشق کم ہو رہی ہے.ان کی زندگی وحوش کی سی ہے بلکہ وحوش کی زندگی ان سے اچھی ہے.(الفضل 8 اگست 1939 ء جلد 27 نمبر 179 صفحہ 4) خدا کے نشانوں سے آنکھ بند نہ کرو جب خدا کا رسول غلطی کر سکتا ہے اور ہزار فیصلوں میں سے ایک فیصلہ اس کا نادرست ہوسکتا ہے تو میرے لئے ہزار میں سو کا غلط ہونا ممکن ہے لیکن باوجود، اس کے اگر کوئی یہ کہتا پھرے کہ اس نے فلاں فیصلہ غلط کیا ہے.فلاں غلطی کی.چاہے وہ غلطی ہو پھر بھی اسے خدا تعالیٰ پکڑے گا کیونکہ ایسا آدمی نظام کو توڑتا ہے پس میں کہتا ہوں.خدا کے نشانوں سے آنکھیں بند نہ کروا گر جان بوجھ کر بند کرو گے تو خدا تعالیٰ فی الواقع دل کا نابینا بنادے گا.کئی لوگ حضرت صاحب کے پاس آ کر کہتے کوئی نشان دکھاؤ تو آپ فرماتے کیا پہلے نشانات سے تم نے کوئی فائدہ اٹھایا کہ اور چاہتے ہو.جب پہلے ہزاروں نشانات سے تم نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا تو کسی اور سے کس طرح اٹھاؤ گے.ایسے لوگ ہمیشہ محروم ہی رہے.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 225) نشانوں کی قدر کرو کئی لوگ بیعت کرتے رہتے ہیں جنہیں رویا اور کشوف ہوئے مگر یہ تمام نشان ایک
تذکار مهدی ) 788 روایات سید نا محمودی ایسے انسان کے لیئے ہیں جس کی ضد اور عداوت سے عقل نہ ماری گئی ہو.وہ دیکھ سکتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہوں.اب جو میرا مقابلہ کرے گا.وہ خدا کا مقابلہ کرے گا افسوس ان لوگوں پر جو ان نشانات سے فائدہ نہ اٹھائیں ورنہ میرے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے نشان دکھائے ہیں جو عقل کے دروازے کھولنے کے لیئے کافی ہیں لیکن جو انسان آنکھیں بند کر لے وہ کچھ نہیں دیکھ سکتا نبی نشان پر نشان دکھاتا ہے مگر منکر یہی کہتے رہتے ہیں کہ کچھ نہیں دکھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نشان پر نشان دکھائے بعض لوگ آئے جنہوں نے آ کر کہا ان کی تو پگڑی ٹیڑھی ہے یہ مسیح موعود علیہ السلام کس طرح ہو سکتے ہیں.آپ نے معجزہ پر معجزہ دکھایا مگر بعض ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا یہ تو قاف صحیح طور پر نہیں بول سکتے یہ کہاں مسیح موعود علیہ السلام ہو سکتے ہیں.آپ نے آیت پر آیت دکھائی مگر ایسے لوگ آئے جنہوں نے کہا انہوں نے بیوی کے لیئے زیور بنوائے ہیں، یہ بادام روغن استعمال کرتے ہیں انہیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں.( خطبات محمود جلد 11 صفحہ 224) دعا.جو منگے سومر ر ہے دُعا مانگنے کا بھی ایک طریق ہوتا ہے.ہمارے ملک میں ایک طریق ہے کہ بغیر عقل کے نقل کرتے ہیں جسے میں تو چھچھورا پن سمجھتا ہوں مثلاً میں نے جو یہ بات بیان کی ہے اب تو خیر میں نے روک دیا ہے لیکن اگر نہ روکتا تو کل ہی مجھے کئی رقعے آنے شروع ہو جاتے کہ دُعا کریں ہماری ہر دعا قبول ہو جایا کرے.حالانکہ صرف منہ سے کوئی بات کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا.دُعا قلب کے تغیر کا نام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ دعا کی مثال وہی ہے جو کہتے ہیں جو منگے سو مر رہے مرے سومنگن جائے.یعنی کوئی سوال ایسا ہوتا ہے کہ اس سے موت بہتر ہوتی ہے.مگر بعض سوال جیسے مثلاً خدا تعالیٰ سے مانگنا جائز تو ہے.مگر اس کے پورا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اپنے اوپر ایک موت وارد کرے.صرف یہ نہیں کہ منہ سے الفاظ دہراتا جائے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ لوگ کوئی بات سنتے ہیں تو یونہی منہ سے کہنے لگ جاتے ہیں کہ دعا کریں یوں ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مجلس میں فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے بعد الموت ان ان انعاموں کے وعدے کئے ہیں.ایک صحابی جھٹ بول اٹھے یا رسول اللہ دعا کریں میں بھی جنت میں آپ کے ساتھ ہوں.آپ نے فرمایا
789 روایات سید نامحمودی تذکار مهدی ) وہاں تم ساتھ ہی ہو گے.جیسے ہم میں بہت سے نقال ہیں اور ان میں بھی بعض تھے.چنانچہ یہ بات سنتے ہی ایک دوسرا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور بولا یا رسول اللہ میرے لئے بھی یہی دعا فرما ئیں.آپ نے فرمایا یہ نقل ہے.پہلے نے جو لینا تھا لے لیا.تو نقل سے کام نہیں چلتا.کسی سے بات سنی اور منہ سے کہہ دیا یا رقعہ لکھ دیا.اس سے کوئی فائدہ نہیں.الفضل 8 نومبر 1939 ، جلد 27 نمبر 258 صفحہ 3 دہلی میں اولیاء اللہ کے مزاروں پر دُعائیں اصل بات یہ ہے کہ وہ انسان جو خدا پر بھروسہ رکھتا ہے وہ بھی الہی کا موں کی نسبت یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ان کا نتیجہ نہیں نکلے گا.میں اُس وقت چھوٹا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تشریف لائے تھے آپ یہاں کے اولیاء اللہ کے مزاروں پر گئے اور بہت دیر تک لمبی دعائیں کیں اور فرمایا.میں اس لئے دعا کرتا ہوں کہ ان بزرگوں کی روحیں جوش میں آئیں تا ایسا نہ ہو کہ ان لوگوں کی نسلیں اس نور کی شناخت سے محروم رہ جائیں جو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے اور فرمایا کہ یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا اور وہ حق کو قبول کریں گے میں گو اس وقت چھوٹا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس قول کا اثر اب تک میرے دل پر باقی ہے.پس یہاں کی جماعت اپنی کوششوں کا اگر کوئی نیک نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہیئے کہ خدا پر بھروسہ رکھے یقینا ایک دن ایسا آئے گا کہ جس چیز کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہے گی.( جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 83,84) سچا مذہب تازہ نشانات رکھتا ہے سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے بولتا تھا اب بھی بولتا ہے اور جس طرح پہلے نشان دکھاتا تھا اب بھی دکھاتا ہے اور جس طرح پہلے اس کے فرشتے اس کے بندوں پر نازل ہوتے تھے اب بھی اترتے ہیں اور یہ کہ وہ مذہب جس کی بنیاد قصوں پر ہو مذہب نہیں ایک کہانی ہے اور وہ عقیدے جن کی بنیاد صرف روایت پر ہو عقیدے نہیں بلکہ تو ہمات ہیں.پس سچا مذہب وہی ہے جو اپنے ساتھ تازہ نشانات رکھتا ہو اور میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر
تذکار مهدی ) 790 روایات سید نامحمود گواہی دیتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر ہم نے اس قدر نشانات دیکھے ہیں کہ جو شمار میں نہیں آسکتے اور آپ کے طفیل اور آپسے تعلق رکھ کر ہم میں سے ہزاروں نے کلام الہی سے بقدر اپنے ظرف کے حصہ پایا ہے.چنانچہ ان لوگوں میں سے ایک میں بھی ہوں میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے رؤیا اور الہامات سے حصہ پایا ہے اور سینکڑوں امور قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے بتائے ہیں جو اپنے وقت پر جا کر پورے ہوئے حالانکہ اس سے پہلے سامان ان امور کے وجود میں آنے کے بالکل مخالف تھے.( تحفہ لارڈارون.انوار العلوم جلد 12 صفحہ 48-49) آنے والا مسیح موعود نبی ہی ہوگا اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کلام بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ آپ نبی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ابتدائی زمانہ کا ایک الہام بیان فرماتے ہیں کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُسے قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اس الہام کی دو قر آتیں ہیں.ایک یہ کہ دنیا میں ایک نذیر آیا اور دوسری یہ کہ دنیا میں ایک نبی آیا.گو یا اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کلام ابتداء ہی میں اس طرح شروع کرتا ہے.کہ دنیا میں ایک نذیر اور نبی آیا.نذیر کا لفظ بھی قرآن کریم میں جہاں استعمال ہوا ہے نبی کے معنوں میں ہی ہوا ہے.اس لیے نذیر کے لفظ سے کوئی شبہ پیدا نہیں ہوسکتا پھر تذکرہ نکال کر دیکھو کہ کتنی جگہ آپ کے الہامات میں آپ کے لیے مجد دی محدث کا لفظ ہے؟ اور کتنی جگہ نبی اور رسول کا ؟ یہ صحیح ہے کہ ہر نبی محدث بھی ہوتا ہے.جیسے ایم.اے ، بی.اے بھی ہوتا ہے.ہم ایم.اے کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ جب اس نے بی.اے پاس کیا تھا.بلکہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب وہ مدرسہ میں داخل ہوا تھا.مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ ایم.اے نہیں.اسی طرح نبی مومن بھی ہوتا ہے.صالح اور شہید بھی اور صدیق بھی.یہ سب لفظ اس کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں.عجیب بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نعوذ باللہ غلطی کی کہ آنے والے کا صحیح روحانی مرتبہ ایک بار بھی بیان نہ فرمایا.ایک ہی دفعہ اس کے مرتبہ کا ذکر فرمایا.مگر وہاں بھی نبی اللہ کے نام سے اسے یاد کیا.اب چاہیئے تو یہ تھا کہ اللہ تعالے اس غلطی کا ازالہ فرما دیتا اور کہہ دیتا کہ اس حدیث سے غلطی نہیں کھانی
تذکار مهدی ) 791 نامحمودی روایات سیّد نا محمود چاہیئے آپ کا اصل مقام محدث ہے آپ نبی نہیں.مگر ابتدائی باتیں جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیں.ان میں ہی یہ فرمایا کہ دنیا میں ایک نبی آیا پھر آپ کے الہامات کا مجموعہ جو شائع شدہ ہے اس میں کئی سو جگہ آپ کے لیے نبی کا لفظ استعمال ہوا ہے.وضاحت کے ساتھ یا تشبیہ کے ساتھ.اور یہ خدا تعالیٰ کا قول ہے اور اگر یہ بھی صحیح نہیں تو کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالے نے بھی نعوذ باللہ پھر لوگوں کو اسی گمراہی میں ڈال دیا.عجیب بات ہے کہ اصل مرتبہ کا ذکر یہاں بھی نہیں نبی اللہ نبی اللہ ہی بار بار فرمایا ہے.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بعض اوقات میں رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہوں تو تکیہ پر سر رکھتے ہی یہ الہام ہونا شروع ہوتا ہے کہ إِنِّي مَعَ الرَّسُولِ اَقُومُ میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں یعنی میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری تائید پر ہوں.آپ نے فرمایا ہے کہ تکیہ پر سر رکھنے سے لے کر سر اٹھانے تک برابر یہ الہام ہوتا رہتا ہے.الفضل 18 جون 1941 ء جلد 29 نمبر 135 صفحہ 4) ہمیشہ خدا پر بھروسہ رکھنا چاہئے یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے دلوں کو کھول دے گا اور وہ حق کو قبول کریں گے.میں گو اس وقت چھوٹا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قول کا اثر اب تک میرے دل پر باقی ہے.پس یہاں کی جماعت اپنی کوششوں کا اگر کوئی نیک نتیجہ دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ خدا پر بھروسہ رکھے.یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ جس چیز کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے وہ ہو کر رہے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کشف میں دیکھا کہ ایک نالی بہت لمبی کھدی ہوئی ہے اور اس کے اوپر بھیڑ میں لٹائی ہوئی ہیں اور ہر ایک بھیڑ کے سر پر ایک قصاب ہاتھ میں چھری لئے ہوئے تیار ہے اور آسمان کی طرف ان کی نظر ہے جیسے حکم کا انتظار ہے میں اس وقت اس مقام پر ٹہل رہا ہوں.ان کے نزدیک جا کر میں نے کہا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ انہوں نے اسی وقت چھریاں پھیر دیں.جب وہ بھیڑیں تڑپیں تو انہوں نے کہا تم چیز کیا ہو.گوں کھانے والی بھیٹر میں ہی ہو.ان ایام میں ستر ہزار آدمی ہیضہ سے مرا تھا.پس اگر کوئی توجہ نہیں کرتا تو خدا کو اس کی کیا پرواہ ہے.اس کے کام رک نہیں سکتے وہ ہو کر رہیں گے.( جماعت احمد یہ دہلی کے ایڈریس کا جواب، انوار العلوم جلد 12 صفحہ 84)
تذکار مهدی ) غلبہ احمدیت کے ذرائع 792 روایات سید نا محمود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے متواتر بتایا کہ جماعت احمدیہ کو بھی ویسی ہی قربانیاں کرنی پڑیں گی جیسی پہلے انبیاء کی جماعتوں کو کرنی پڑیں.چنانچہ ایک دفعہ آپنے رویا میں دیکھا کہ میں نظام الدین کے گھر میں داخل ہوا ہوں.نظام الدین کے معنی ہیں ”دین کا نظام اور اس رؤیا کا مطلب یہ ہے کہ آخر احمد یہ جماعت ایک دن نظام دین بن جائے گی اور دنیا کے اور تمام نظاموں پر غالب آ جائے گی مگر یہ غلبہ کس طرح ہوگا.اس کے متعلق رؤیا میں آپ فرماتے ہیں.ہم اس گھر میں کچھ سنی طریق پر ہوں گے اور کچھ حسینی طریق پر داخل ہوں گے.( تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ 789-788) یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت حسنؓ نے جو کامیابی حاصل کی وہ صلح سے کی اور حضرت حسینؓ نے جو کامیابی حاصل کی وہ شہادت سے حاصل کی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ نظام الدین کے مقام پر جماعت پہنچے گی تو سہی مگر کچھ صلح محبت اور پیار سے اور کچھ شہادتوں اور قربانیوں کے ذریعہ.اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بغیر صلح اور محبت اور پیار کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تو وہ بھی غلطی کرتا ہے اور اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ بغیر قربانیوں اور شہادتوں کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تو بھی غلطی کرتا ہے.ہمیں کبھی صلح اور آشتی کی طرف جانا پڑے گا اور کبھی حسینی طریق اختیار کرنا پڑے گا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے دشمن کے سامنے مر جانا ہے مگر اس کی بات نہیں مانی.یہ دونوں طریق ہمارے لئے مقدر ہیں.نہ خالی مسیحیت والا سلوک ہمارے لئے مقدر ہے نہ خالی مہدویت والا سلوک ہمارے لئے مقدر ہے.ایک درمیانی راستہ ہے جس پر ہمیں چلنا پڑے گا.ایک غلبہ ہوگا صلح اور محبت اور پیار کے ساتھ اور ایک غلبہ ہو گا قربانیوں کے ساتھ.اس کے بعد جماعت نظام الدین کے گھر میں داخل ہوگی اور اسے کامیابی حاصل ہوگی.(تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 3 58) بیزی گورنمنٹ کے لئے دعا میں نے حضرت مسیح موعود سے زبانی سنا تھا شاید آپ نے کہیں لکھا بھی ہو کہ ایک خطرناک جنگ ہوگی.معلوم نہیں اس وقت ہم ہوں گے یا نہیں ہوں گے مگر گورنمنٹ کے لیئے اسی وقت دعا کر دیتے ہیں کہ خدا اسے کامیاب کرے.انبیاء کے بھی کیسے پاک دل ہوتے ہیں
تذکار مهدی ) 793 روایات سید نامحمود اور کیسا احسان کا بدلہ احسان کرنے کا خیال رکھتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ ایک ایسا وقت ہندوستان میں آنے والا ہے کہ جب سب فرقے گورنمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اس وقت صرف میری جماعت ہوگی جو فرمانبردار رہے گی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنی جماعت پر اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ وہ ہمیشہ گورنمنٹ کی اطاعت شعار رہے گی.(اطاعت اور احسان شناسی ، انوار العلوم جلد چہارم صفحه 15 شرکاء کی مخالفت سب سے زیادہ ہوتی ہے دنیا میں سب سے خطر ناک مخالفت شرکاء کی ہوتی ہے.پنجابی میں تو مشہور ہے.شراکت دا دانہ سر دکھدے وی کھانا.سب سے بڑی مخالفت اعزاء اور اقرباء کی ہوتی ہے کیونکہ برداشت نہیں کر سکتے کہ انہی میں سے کھڑا ایک شخص دنیا میں بڑائی اور عزت حاصل کرے وہ جو اس کے مقابلہ میں چپہ چپہ زمین کے لئے لڑتے مرتے ہیں.وہ کب گوارا کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اس کے پاس آ جائے اس لئے وہ پورا زور لگاتے ہیں کہ اسے دبائیں حتی کہ جو بے بس ہو جاتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے.وہ بھی کبھی کسی نہ کسی طرح دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہ پور کے رئیسوں میں سے کسی کو جب خان بہادر کا خطاب ملا تو اسی خاندان میں سے ایک عورت نے جو بہت غریب تھی اپنے لڑکے کا نام خان بہادر رکھ دیا.اس سے پوچھا گیا.یہ تو نے کیا کیا تو کہنے لگی کہ معلوم نہیں میرا بچہ بڑا ہوکر کیا بنے گا لیکن لوگ جب نام لیں گے، تو جس طرح اس کے شریک کو خان بہادر کہیں گے اسی طرح اس کو بھی کہیں گے تو جو کچھ اور نہیں کر سکتے وہ نام ہی رکھ لیتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو آپ کے رشتہ داروں میں سے بھی ایک شخص نے امام ہونے کا دعوی کیا مگر کہتے ہیں فکر ہر کس بقدر ہمت اوست - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ دعویٰ کیا کہ میں ساری دنیا کے لئے حکم بنا کر بھیجا گیا ہوں اور چھوٹے درجہ کے لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے بادشاہوں پر بھی فرض ہے کہ میری اتباع کریں لیکن اس کی نام ہی رکھنے والی بات تھی اس نے دعویٰ تو کیا مگر چوہڑوں کا امام ہونے کا ادھر حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا تو یہاں تک لکھ دیا کہ بادشاہ انگلستان پر بھی فرض ہے کہ مجھے مانے چنانچہ خود لکھ کر
تذکار مهدی ) 794 روایات سید نا محمودی ملکہ کو جو اس وقت بادشاہ تھی بھیج دیا اس کے مقابلہ میں چوہڑوں کا امام ہونے کا دعوی کرنے والے کی دلیری اور اس کی جماعت کا یہ حال تھا کہ یہاں آ کر جب تھانیدار نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے کوئی دعوی کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں نے تو کوئی دعوی نہیں کیا کسی نے یونہی جھوٹی رپورٹ کر دی ہوگی.تو شراکت والوں کی سب سے بڑی مخالفت ہوتی ہے اور جس طرح حضرت رسول کریم ﷺ کی بڑی مخالفت وہی ہے جو آپ کے قریبی رشتہ داروں نے کی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی مخالفت بھی آپ کے قریبی رشتہ داروں نے ہی کی.( خطبات محمود جلد سوم صفحه 39-38 ) احمدیت کی وجہ سے قطع تعلق ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں احمدیت کی وجہ سے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نہیں چھوڑنا پڑا.بہت قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو یہ قربانیاں نہیں کرنی پڑیں.حتی کہ ہمارا خاندان جس کے مقامی حالات کی وجہ سے بظاہر ممکن نہیں معلوم ہوتا کہ ہمیں بھی اس مشکل سے دو چار ہونا پڑا ہو گا ہمارے بھی بہت سے رشتہ داروں کے ہم سے تعلقات احمدیت کی وجہ سے منقطع ہو گئے میری بیوی کے چا انسپکٹر آف سکولز تھے.غیر متعصب بھی تھے.قادیان میں انسپکشن کے لئے آئے.تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ مجھ سے نہ ملیں.ایک دفعہ لاہور میں ایک شادی کے موقعہ پر مجھ سے انہی کے خاندان کے ایک شخص نے کہا کہ آپ کیوں ان سے نہیں ملتے.میں نے کہا وہ ملنا نہیں چاہتے میری تو خواہش ہے کہ ان سے ملوں ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں وہ آگئے.ان صاحب نے ان میری ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا ابھی آتا ہوں اور پھر جب تک ہم وہاں رہے.وہ تقریب میں شامل نہ ہوئے.میں سمجھتا ہوں ہمارے درجنوں ایسے رشتہ دار ہیں جو احمدیت کی وجہ سے منقطع ہو گئے.اس واسطے نہیں کہ ہم ان سے ملنا نہیں چاہتے بلکہ اس واسطے کہ وہ نہیں ملنا چاہتے.ہمیں اپنے خاندان کے لوگوں سے گالیاں ملتی تھیں.ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں احمدی ہو گئیں وہ ہم کو برا بھلا کہتی تھیں.مجھے یاد ہے.ایک دفعہ جبکہ میری عمر 6-7 سال کی ہوگی.میں سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر بار بار یہ کہنا شروع کیا.”جیہو جیہا کال او ہو جیہی کوکو اس فقرہ کو انہوں نے اتنی دفعہ دہرایا کہ مجھے یاد ہو گیا.میں نے گھر میں جا کر یہ بات بتلائی اور
تذکار مهدی ) 795 روایات سید نا محمود پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے بتایا.جیسا باپ بُرا ہے ویسا ہی بیٹا بھی بُرا ہے.قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بائیکاٹ کیا گیا.لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جا تا کمہاروں کو روکا گیا ، چوہڑوں کو صفائی سے روکا گیا.ہمارے عزیز ترین بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھاوج اور دیگر عزیز رشتہ دارختی کہ آپ کے ماموں زاد بھائی علی شیر یہ سب طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے.ایک دفعہ گجرات کے علاقہ کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے.قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا تھا.راستہ میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے.انہوں نے ان سے دریافت کیا.کہا سے آئے ہو؟ اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا.گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے لئے آئے ہیں.انہوں نے کہا دیکھو میں ان کے ماموں کا لڑکا ہوں (اس کا نام مرزا شیر علی بیگ تھا جو حضور علیہ السلام کا سالہ بھی تھا اور سدھی بھی یعنی مرزا افضل احمد صاحب کا خسر بھی تھا.از مرتب ) میں خوب جانتا ہوں.یہ ایسے ہیں ویسے ہیں.ان میں سے ایک نے جو دوسروں سے آگے تھا.بڑھ کر ان کو پکڑ لیا اور اپنے بھائیوں کو آواز دی کہ جلد آؤ.اس پر وہ شخص گھبرایا تو اس احمدی نے کہا.میں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار ہو.میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانا چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا مگر آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ایسا ہوتا ہے.پس ہم میں سے کوئی نہیں جس نے اپنے رشتہ داروں، قریبیوں اور اپنے احساسات کی قربانی نہیں کی اور آج کل جو کچھ دنیا میں ہمیں کہا جاتا ہے.کون اسے آسانی سے سن سکتا ہے.مخالف یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ ہم نے خدا کے فرستادہ کو قبول کیا ہے.جب ہم نے احمدیت کے لئے دنیا کو قربان کر دیا ہے.دنیا کی سب چیزوں کو کھو کر دیانت اور امانت کو حاصل کیا ہے تو نو جوانو! دیانت اور امانت کا ایسا ثبوت دو کہ کوئی تم پر حرف نہ لا سکے.( الفضل مورخہ 4 دسمبر 1935 ء جلد 23 نمبر 132 صفحہ 4-3) حضرت مسیح موعود کے مخالف شرکاء کی حالت بظاہر ابوجہل کی اولاد ہوئی اور رسول کریم ﷺ کی نہیں ہوئی مگر خدا تعالیٰ آپ کو فرماتا
تذکار مهدی ) Ⓒ796 روایات سید نا محمود ہے کہ تیرے دشمن ابتر ہوں گے.اس کے یہی معنی ہیں کہ اب وہی اولاد قائم رہے گی جو رسول کریم ﷺ کی اولاد بن کر رہے گی.چنانچہ دیکھ لومکر مہ جو ابو جہل کا بیٹا ہے اولاد ہوئی مگر کون ہے جو یہ کہے کہ میں ابو جہل کی اولاد ہوں وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کی اولاد ہیں اور اس سے زیادہ کسی کی نسل کیا منقطع نہیں ہو سکتی ہے کہ نسل موجود ہوتے ہوئے بھی اپنے اباء کی نسل ہونے سے انکار کر دے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا کہ تیرے سوا اس خاندان کی نسلیں منقطع ہو جائیں گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اب اس خاندان میں سے وہی لوگ باقی ہیں جو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور باقی سب کی نسلیں منقطع ہو گئی ہیں جس وقت حضرت مسیح موعود نے دعوی کیا اس وقت اس خاندان میں ستر کے قریب مرد تھے لیکن اب سوائے ان کے جو حضرت مسیح موعود کی جسمانی یا روحانی اولاد ہیں.ان ستر میں سے ایک بھی اولاد نہیں ہے حالانکہ انہوں نے حضرت صاحب کا نام مٹانے میں جس قدر ان سے ہو سکا کوششیں کیں اور اپنی طرف سے پورا زور لگا یا مگر نتیجہ کیا ہوا! یہی کہ وہ خود مٹ گئے اور ان کے نسلیں منقطع ہو گئیں.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے.(خطبات محمود جلد سوم صفحہ 39) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کی مخالفت بہت زیادہ تھی رشتہ داروں نے آپ سے ملنا ترک کر دیا تھا اور آپ بھی ان سے نہیں ملتے تھے بلکہ خاندان والوں کی مخالفت کا یہ عالم تھا کہ والدہ صاحبہ سناتی ہیں کہ حضرت صاحب کے ننھیال میں ایک بڑی عمر کی عورت تھیں وہ بین ڈالا کرتی تھیں کہ چراغ بی بی کے لڑکے کو کوئی دیکھنے بھی نہیں دیتا.حضرت مسیح موعود کو چوراور ڈاکوؤں کی طرح علیحدہ رکھا جاتا تھا کیونکہ ان کو خاندانی عزت کو بٹہ لگانے والا سمجھا جاتا تھا.خطبات محمود جلد 11 صفحہ 252 ) تائی صاحبہ کی بیعت ان حالات میں یہ قیاس کرنا کہ تائی احمدی ہو جائے گی.بظاہر ایک غیر معمولی بات تھی انسان کا دل بدل سکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ حالات کیا کہتے ہیں؟ ایسے وقت میں آپ کو الہام ہوا
تذکار مهدی ) 797 روایات سید نا محمودی ہے تائی آئی“ تائی صاحبہ حضرت صاحب کی بھاوج تھیں اس لئے ان الفاظ سے یہ مرا تھی کہ آپ اس وقت بیعت کریں گے جس وقت بیعت لینے والے سے ان کا تعلق تائی کا ہوگا.اگر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنی ہوتی الہام کے یہ الفاظ ہوتے بھاوج آئی اور اگر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیعت کرنی ہوتی تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مسیح موعود کے خاندان کی ایک عورت آئی مگر تائی کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لڑکا جب آپ کا خلیفہ ہوگا تو اس کے ہاتھ پر بیعت کریں کیونکہ اگر آپ کی اولاد سے کسی نے خلیفہ نہیں ہونا تھا تو تائی کا لفظ فضول تھا.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 253-252) تین پیش گوئیاں اس الہام میں دراصل تین پیشگوئیاں ہیں اول یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے خلیفہ ہوگا.دوم یہ کہ اس وقت تائی صاحبہ جماعت میں شامل ہوں گی تیسرے تائی صاحبہ کی عمر کے متعلق پیشگوئی تھی اور وہ اس طرح کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کی اپنی عمر اس وقت 70 سال کے قریب تھی ایک ایسی عورت کے متعلق پیشگوئی کرتے ہیں جو اس وقت بھی عمر میں ان سے بڑی تھی کہ وہ زندہ رہے گی اور آپ کی اولاد سے ایک خلیفہ ہوگا جس کی بیعت میں شامل ہوگی اتنی لمبی عمر کا ملنا بہت بڑی بات ہے انسانی دماغ کسی جوان کے متعلق بھی نہیں کہ سکتا کہ وہ فلاں وقت تک زندہ رہے گا چہ جائیکہ بوڑھے کے متعلق کہا جائے پس یہ ایک بہت بڑا نشان ہے گویا ان کا بیعت کرنا اور میرے زمانہ میں کرنا پھر حضرت مسیح موعود کے بیٹوں میں کرنا پھر حضرت مسیح موعود کے بیٹوں میں سے خلیفہ ہونا کئی ایک پیشگوئیاں ہیں جو دولفظوں (خطبات محمود جلد 11 صفحہ 253) میں بیان ہوئی ہیں.تائی صاحبہ کی وصیت میں سمجھتا ہوں کہ جس قسم کی روایات اور احساسات پرانے خاندانوں میں پائے جاتے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ عظیم الشان تغیر ہے کہ تائی صاحبہ نے بیعت میں شامل ہونے کے بعد وصیت بھی کر دی تھی پہلے تو وہ اس کی بھی مخالف تھیں کہ حضرت مسیح موعود کو آبائی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن کیا جائے.چنانچہ مجھے انہوں نے اس وقت کہلا بھی بھیجا کہ آپ کو جدی قبرستان کی بجائے دوسری جگہ دفن نہ کیا جائے.کیونکہ یہ ایک ہتک ہے اور بعد میں بھی کئی سال
تذکار مهدی ) 798 روایات سیّد نا محمود تک اس پر معترض رہیں مگر پھر ان کی یہ حالت ہوگئی کہ خود وصیت کی اور مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئیں.ایک سمجھ دار انسان کے لیئے یہ بہت بڑا نشان ہے ظاہر میں تو یہ معمولی بات ہے.جو ایک شخص کے متعلق ہے مگر اس میں صداقت کے ثبوت کے کئی ایک پہلو ہیں اور جیسا کہ حضرت صاحب نے فرمایا ” کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے اکثر لوگ نشانات سے آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کی ہدایت کا وقت آ جائے غرض کہ سوچنے والے کے لیئے اس میں بہت بڑا ثبوت ہے.(خطبات محمود جلد 11 صفحہ 253) مبلغین کی بیرون پاکستان روانگی میں تاریخ کا بڑا مطالعہ کرنے والا ہوں میں نے مثال کہیں بھی نہیں دیکھی کہ ایک نوجوان نے اپنی نوجوانی میں ایک جتھہ قائم رکھا ہو اور پھر اسے بڑھاپے میں بھی اسے قائم رکھنے کی توفیق ملی ہو.تم دیکھو گے کہ ایک شخص جوانی میں ایک چیز بناتا ہے اور پھر وہ بنتی چلی جاتی ہے.ایک شخص بڑھاپے میں ایک چیز بناتا ہے اور پھر وہ بنتی چلی جاتی ہے مگر ایک شخص نے اپنی جوانی میں بھی ایک ایسے حملہ کا مقابلہ کیا جس نے جماعت کو تہ و بالا کر لینے کا تہیا کر لیا تھا ابھی تو میں نے خلافت کا جھگڑا نظر انداز کر دیا ہے جب میں صرف 25 سال کی عمر کا تھا اور دشمن نے ہمارا جتھہ اجاڑنے کی کوشش کی.غرض ایک شخص سے جوانی میں بھی یہ کام لیا گیا ہو اور بڑھاپے میں اس سے بھی زیادہ خطر ناک حالت میں اس سے وہی کام لیا گیا ہو اور اس نے جماعت کو پھر اکٹھا کر دیا ہو اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا بڑی محنتی تھی اس نے سوت کات کات کر اس کی مزدوری سے سونے کے کڑے بنائے لیکن ایک چور آیا اور ایک رات زبر دستی وہ کڑے چھین کر لے گیا.اُس بڑھیا نے چور کی شکل پہچان لی.سال دو سال کے بعد اُس بڑھیا نے پھر کڑے بنالئے.ایک دن وہ گلی میں بیٹھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ چرخہ کات رہی تھی کہ وہ چور لنگوٹی پہنے پاس سے گزرا.اس عورت نے اس کی شکل پہچان لی اور آواز دے کر کہا بھائی ذرا بات سن جانا وہ چور تھا اور اسے معلوم تھا کہ میں نے اس گھر میں چوری کی ہے اسے کھٹکا پیدا ہوا کہ کہیں مجھے پکڑوا نہ دیا جائے.وہ بھا گا اس عورت نے کہا میں تجھے پکڑواتی نہیں ہوں صرف ایک بات کرنی ہے اس عورت نے کچھ اس انداز سے بات کہی کہ اس چور کا خوف دور ہو گیا اور وہ ٹھہر گیا اس عورت نے کہا میں نے تمہیں
تذکار مهدی ) 799 روایات سید نا محمود اتنا ہی بتانا تھا کہ حلال حرام میں کتنا فرق ہے.میں نے محنت مزدوری کر کے سونے کے کڑے بنائے تھے اور وہ تو لے گیا لیکن تمہاری اب بھی لنگوئی کی لنگوٹی ہے اور میرے پاس اب بھی کڑے موجود ہیں.ہمیں غیر مبائع کہا کرتے تھے کہ قادیان میں ہونے کی وجہ سے ان کو یہ قبولیت حاصل ہے اور لوگ ان کی طرف اس لیئے آتے ہیں کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ مرکز ہے صرف اسی لیے ان کے گرد جماعت اکٹھی ہو رہی ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں وہاں سے نکال دیا اور مخالف کو یہ دیکھنے کا موقعہ ملا کہ قادیان سے نکلنے کے بعد بھی مخالف اور - ہماری طاقت کو نقصان نہیں پہنچا سکا.ہم اس عورت کی طرح انہیں کہتے ہیں کہ تمہاری وہی لنگوئی کی لنگوٹی ہے اور ہمارے پاس کڑے اب بھی موجود ہیں.ہم قادیان سے نکل کر بھی کمزور نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے ہم ایک ایک دو دو مبلغوں کی دعوتیں کرتے تھے اور اب ہم درجنوں کی دعوتیں کرتے ہیں کیونکہ اب مبلغوں کے رسالے باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ایک ہی دفعہ مبلغوں کی بٹالین باہر جائیں گی.وہ دن دور نہیں جب مبلغوں کے بریگیڈ باہر جائیں گے وہ دن دور نہیں جب مبلغوں کے ڈویژن تبلیغ اسلام کے لئے باہر جائیں گے.انشاء اللہ تعالی.الفضل 11 اپریل 1961 ء جلد 50/15 نمبر 82 صفحہ 5) آئندہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں حضرت صاحب نے آئندہ کے لیے پیشگوئی فرمائی ہے کہ آئندہ آپ ہی کا سلسلہ رہ جائے گا اور باقی فرقے بالکل کم تعداد اور کم حیثیت رہ جائیں گے اور ہم اس کے آثار دیکھ رہے ہیں اور اس کا کچھ اور حصہ ہم اپنی زندگی میں دیکھیں گے.ان کو اپنی کثرت پر گھمنڈ ہے لیکن یہ یا درکھیں کہ ان کی کثرت کو قلت سے بدل دیا جائے گا اور ان کی کثرت چھین کر خدا کے پیارے کو دی جائے گی اور وہ قلت جو آج ہمارے لئے قابل ذلت خیال کی جاتی ہے کل ان کو ذلیل کرے گی.ہم تھوڑے ہیں لیکن وہ یاد رکھیں زمانہ ختم نہیں ہوگا اور قیامت نہیں آئے گی جب تک حضرت مرزا صاحب کے ماننے والے ساری دنیا پر نہ پھیل جائیں.یورپ میں احمدیت ہی احمدیت ہوگی.امریکہ میں احمدیت ہوگی، چین و جاپان، عرب و ایران و شام غرض ساری دنیا
تذکار مهدی ) 800 روایات سید نامحمود میں احمدیت ہی احمدیت ہو گی.ان سب ممالک کو خدا کا کلام سنایا جائے گا اور ایک دن وہ ہوگا کہ خدا کا سورج احمد یوں ہی احمد یوں پر چڑھے گا.حضرت مرزا صاحب کی پیشگوئیاں ہیں جو پوری ہونگی.یہ تو عام پیشگوئی ہے لیکن ایک ملک کے متعلق ایک خاص پیشگوئی بھی ہے جو میں سناتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے فرمایا ہے کہ زار روس کا عصا مجھے دیا گیا اور امیر بخارا کی کمان آپ کو ملی.“ (مفہوماً تذکرہ صفحہ 458 ایڈیشن چہارم) پس ہم امید کرتے ہیں کہ روس کی حکومت عنقریب احمدی ہو گی.زار کی سلطنت مٹ چکی ہے عصاء زار روس سے چھینا جا چکا ہے اور آدھا حصہ پیشگوئی کا پورا ہو چکا ہے مگر اب دوسرا حصہ بھی انشاء اللہ پورا ہوگا اور دنیا اپنی آنکھوں سے خدا کے مقدس کی صداقت کو دیکھ لے گی.معیار صداقت.انوار العلوم جلد 6 صفحہ 64) وفات سے قبل میری صحت کے بارے میں فکر علاج کی طرف توجہ یہ ایک سچی بات ہے.کوئی انسان اس دنیا میں ہمیشہ تک زندہ رہا ہی نہیں آخر ہر شخص نے کسی نہ کسی وقت اس دنیا سے جانا ہے.اپنی مثال کو میں دیکھتا ہوں تو وہ ایک معجزانہ نظر آتی ہے کیونکہ مجھے بچپن میں ہی کئی قسم کی بیماریاں لگی ہوئی تھیں میں چھوٹا ہی تھا جب کہ مجھے خسرہ نکلا.پھر اس کے بعد کالی کھانسی ہوگئی اور یہ بیماری اتنی شدید ہوئی کہ اس سے خنازیر پیدا ہو گئیں.وہ خود اپنی ذات میں ایک مہلک مرض ہے اس کے بعد جب قریب بلوغت پہنچا.تو چھ مہینے سال تک متواتر بخار رہا اور اس کے ایک دو حملے ہوئے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت تھی اس لئے وہ اس بات کو اور نگاہ سے دیکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے اور نگاہ سے دیکھتے تھے.ایک ہی واقعہ کو دونوں نے مختلف شکلوں سے دیکھا مجھے تو یاد نہیں کہ ان دنوں میں میں خاص طور پر بیمار تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دس پندرہ دن پہلے بغیر میرے کہنے کے یا بغیر میرے کسی قسم کی بیماری کی شکایت کرنے کے لاہور میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور کہا محمود کی صحت بہت خراب رہتی ہے.مجھے اس کی بڑی فکر ہے.آپ اس کو اچھی طرح دیکھیں اور اس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں.یہ بھی کہا کہ میری بھی صحت اچھی نہیں پر اس کی زیادہ خراب ہے اور اس -
تذکار مهدی ) 801 روایات سید نا محمودی کی مجھے بہت فکر ہے.مجھے نہیں یاد کہ ان دنوں میں مجھے خاص طور پر کوئی بیماری تھی صرف چھ مہینے پہلے بخار رہا تھا.لیکن اس حالت کو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اور طرح بیان فرمایا میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا تو کہنے لگے میاں تم بیمار ہو تمہاری صحت بڑی خراب ہے پر مجھے مرزا صاحب کی فکر ہے ان کی صحت تم سے بھی زیادہ خراب ہے.تو انہوں نے اپنی محبت میں بیماریوں کا توازن یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیماری کو بڑھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی محبت پدری کی وجہ سے میری بیماری کو بڑھایا بہر حال وہ حالت اس قسم کی تھی کہ میں بھی اور جو واقف لوگ تھے وہ بھی سمجھتے تھے کہ میں کسی لمبی عمر کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی لمبا اور بوجھ اُٹھانے والا کام نہیں کرسکتا.مجھے یاد ہے کہ شروع ایام خلافت میں جب مجھ پر جماعت نے اتفاق کیا تو میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میں یہ بوجھ کہاں اُٹھا سکتا ہوں اور بعض دفعہ اس سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی.مجھے خوب یاد ہے کہ اس وقت میں اپنے دل کو اس رنگ میں تسلی دیا کرتا تھا کہ میری صحت تو ایسی ہے ہی نہیں کہ میں زیادہ دیر تک زندہ رہوں اس لئے یہ بوجھ تھوڑے دنوں کا ہی ہے کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں لیکن ان حالات کے ہوتے ہوئے باوجود بیماریوں کے اور باوجود اس حملہ کے جو پچھلے سال مجھ پر ہوا اب میں اس عمر کو پہنچ گیا ہوں کہ اس سال کے ختم ہونے پر جنوری میں میں چھیاسٹھ سال کا ہو جاؤں گا.گویا گورنمنٹ جس عمر میں جا کے پینشن دیتی ہے اس سے گیارہ سال بڑی عمر ہو جائے گی.(سال 1954 ء کے اہم واقعات، انوار العلوم جلد 24 صفحہ 508 تا 510) پیشگوئی مصلح الموعود کا حقیقی مصداق اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے وہ پیشگوئی جس کے پورا ہونے کا ایک لمبے عرصہ سے انتظار کیا جا رہا تھا.اللہ تعالیٰ نے اُس کے متعلق اپنے الہام اور اعلام کے ذریعہ مجھے بتا دیا ہے کہ وہ پیشگوئی میرے وجود میں پوری ہو چکی ہے اور آب دشمنانِ اسلام پر خدا تعالیٰ نے کامل حجت کر دی ہے اور اُن پر یہ امر واضح کر دیا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب، محمد رسول اللہ نے خدا تعالیٰ کے سچے رسول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے سچے فرستادہ ہیں.جھوٹے الله
تذکار مهدی ) 802 روایات سید نا محمود ہیں وہ لوگ جو اسلام کو جھوٹا کہتے ہیں.کاذب ہیں وہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کاذب کہتے ہیں.خدا نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے ذریعہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت لوگوں کے سامنے پیش کر دیا ہے.بھلا کس شخص کی طاقت تھی کہ وہ 1886ء میں آج سے پورے اٹھاون سال قبل اپنی طرف سے یہ خبر دے سکتا کہ اُس کے ہاں 9 سال کے عرصہ میں ایک لڑکا پیدا ہو گا ، وہ جلد جلد بڑھے گا، وہ دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا، وہ اسلام اور رسول کریم ﷺ کا نام دنیا میں پھیلائے گا، وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا، وہ جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور اُس کی قربت اور اُس کی رحمت کا وہ ایک زندہ نشان ہوگا.یہ خبر دنیا کا کوئی انسان اپنے پاس سے نہیں دے سکتا تھا.خدا نے یہ خبر دی اور پھر اُسی خدا نے اس خبر کو پورا کیا.اُس انسان کے ذریعہ جس کے متعلق ڈاکٹر یہ امید نہیں رکھتے تھے کہ وہ زندہ رہے گا یا لمبی عمر پائے گا.میری صحت بچپن میں ایسی خراب تھی کہ ایک موقع پر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہہ دیا کہ اسے سل ہو گئی ہے کسی پہاڑی مقام پر اسے بھجوا دیا جائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے شملہ بھجوا دیا مگر وہاں جا کر میں اُداس ہو گیا اور اِس وجہ سے جلدی ہی واپس آ گیا.غرض ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی ؟ اُس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لئے زندہ رکھا کہ اُس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے.پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا؟ مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لئے بھجوایا اور مجھے قرآن کے اُن مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایاوہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے جو یہ دعوی کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اُس سے مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم قرآن بخشا ہے اور اس زمانہ
تذکار مهدی ) 803 روایات سید نا محمودی میں اُس نے قرآن سکھانے کے لئے مجھے دنیا کا اُستاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ ہے اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زور لگا لے، وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور اُن کی حکومتیں بھی مل جائیں، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے، دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقت ور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لئے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے اُن کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریم اللہ کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا اور اُس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول اللہ ﷺ کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے.الموعود، انوار العلوم جلد 17 صفحہ 647،646) تین سو سال کے اندر اندر غلبہ اسلام کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مجھے خدا نے بتایا ہے کہ تین سو سال کے عرصہ میں ہماری جماعت ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پر پہنچ جائے گی کہ دنیا کے تمام مذاہب پر غالب آ جائے گی اور وہ اقوام جو احمد بیت میں شامل نہیں ہوں گی وہ ایسی ہی بے حیثیت رہ جائیں گی جیسے اچھوت اقوام اِس وقت بے دست و پا اور حقیر ہیں.اگر ایٹم بم اور اسی قسم کی ایجادوں نے دنیا کو پندرہ میں سال میں تباہ کر دینا ہے تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی اور اگر اس پیشگوئی نے پورا ہونا ہے تو سائنسدانوں کے تمام خیالات غلط ثابت ہوں گے اور خدا کوئی نہ کوئی ایسی صورت پیدا کر دے گا جس کے نتیجہ میں جس طرح ان کی امید میں غلط ہوتی ہیں اسی طرح ان کے خطرے بھی غلط ثابت ہوں گے.دنیا نے ابھی قائم رہنا ہے اور دنیا میں پھر اسلام نے سر اُٹھانا ہے.عیسائیت نے سر اُٹھایا اور ایک لمبے عرصہ تک اس نے حکومت کی مگر اب عیسائیت کی حکومت اور اس کے غلبہ کا خاتمہ ہے.وہ چاہتے ہیں کہ عیسائیت کے خاتمہ کے ساتھ
تذکار مهدی ) 804 روایات سید نا محمود ) ہی دنیا کا خاتمہ ہو جائے تا وہ کہہ سکیں کہ دنیا پر جو آخری جھنڈا لہرایا وہ عیسائیت کا تھا مگر ہمارا خدا اس امر کو برداشت نہیں کر سکتا.ہمارا خدا یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا پر آخری جھنڈا عیسائیت کا لہرایا جائے دنیا میں آخری جھنڈ امحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گاڑا جائے گا اور یقیناً یہ دنیا تباہ نہیں ہوگی جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر اپنی پوری شان کے ساتھ نہیں لہرائے گا.انہوں نے اپنی کوششوں اور تدبیروں کے ساتھ موت کے ذریعہ کو معلوم کر لیا ہے مگر اسلام کو قائم کرنے والا وہ خدا ہے جس کے ہاتھ میں موت بھی ہے اور حیات بھی ہے.یہ موت کے ذریعہ کو اپنے ہاتھ میں لے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر حاکم ہو گئے ہیں حالانکہ اصل حاکم وہ ہے جس کے قبضہ میں موت اور حیات دونوں ہیں.اگر یہ ساری دنیا کو مار بھی دیں گے تب بھی وہ خدا جس کے قبضہ میں حیات ہے اسی طرح اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کر دے گا جس طرح آدم کے ذریعہ اُس نے نسل انسانی کو قائم کیا.بہر حال دنیا پر قیامت کا دن نہیں آ سکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ساری دنیا پر نہیں لہرایا جاتا.مگر یہ تو خدا کی باتیں ہیں اور خدا اپنی باتوں کا آپ ذمہ دار ہے ہم پر جو فرض عائد ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ ہم اپنی زندگیوں اور اپنی جانوں کو خدا کے لیئے قربان کر دیں اور اپنے نفوس کو ہمیشہ اس کی اطاعت کے لئے تیار رکھیں تا کہ اس کا فضل اور اس کی رحمت اور اس کی برکت ہم پر نازل ہو اور ہم اس کے حقیر ہتھیار بن کر دنیا میں عظیم الشان نتیجہ پیدا کرنے کا موجب بن جائیں.پس ہمارا ذہن اور ہماری ذمہ داری ہمیں اس طرف بلاتی ہے کہ باوجوداس کے وعدوں کے ہم اپنی کمزوریوں اور اپنی بے بسیوں کو دیکھتے ہوئے.خدا تعالیٰ کے حضور جھک جائیں اور اُسی سے التجا کریں کہ اے ہمارے ربّ! اے ہمارے رب! تو نے ہمیں ایک کام کے لئے کھڑا کیا ہے جس کے کرنے کی کروڑواں اور ار بواں حصہ بھی ہم میں طاقت نہیں، اے ہمارے رب! تو نے اپنے رسول کے ذریعہ ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اگر تم اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لو جو اُس کی طاقت سے باہر ہو تو تم خود اس کے ساتھ مل کر کام کرو ورنہ اُس سے ایسا کام نہ لو جو اس کی طاقت سے باہر ہو، اے ہمارے رب! تو نے جب اپنے بندوں کو جن کی طاقتیں محدود ہیں یہ حکم دیا ہے کہ کسی کے سپر د کوئی ایسا کام نہ کرو جو اُس کی طاقت سے بالا ہو تو اے ہمارے رب! تیری شان اور تیرے فضل اور تیری رحمت سے ہم کب یہ امید کر سکتے ہیں کہ
تذکار مهدی ) 805 روایات سید نا محمودی تو ایک ایسا کام ہمارے سپرد کر دے گا جو ہماری طاقت سے بالا ہوگا لیکن خود ہماری مدد کے لئے آسمان سے نہیں اُترے گا یقیناً اُترے گا اور ہماری مدد کرے گا اور ہم تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے اپنے فضلوں کو بڑھاتا جا، اپنی رحمتوں کو بڑھاتا جا، اپنی برکتوں کو بڑھاتا جا یہاں تک کہ ہماری ساری کمزوریوں کو تیرے فضل ڈھانپ لیں اور ہمارے سارے کام تیرے فضل سے اپنی تکمیل کو پہنچ جائیں تا کہ تیرے احسانوں میں سے ایک یہ بھی احسان ہو کہ جو کام تو نے ہمارے سپرد کیا تھا اسے تو نے خود ہی سرانجام دے دیا.کام تیرا ہو اور نام ہمارا ہو.آمین یہ تیری شان سے بعید نہیں.اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 518 تا 520) جنگ مقدس میں عیسائیوں کی سازش اور اس کا جواب آتھم کا جن دنوں مباحثہ تھا عیسائی ایک دن شرارت کر کے مسلمانوں اور عیسائیوں کو جوش دلانے اور ہنسی مذاق کی ایک صورت پیدا کرنے کے لئے کچھ اندھے، لولے اور لنگڑے جمع کر کے لے آئے اور انہیں ایک گوشہ میں چھپا کر بٹھا دیا اور تجویز یہ کی کہ ہم مرزا صاحب سے کہیں گے کہ آپ کا دعوی ہے کہ آپ مسیح موعود ہیں اور حضرت مسیح اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے لنگڑوں اور لولوں پر ہاتھ پھیرتے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے.اب ہم نے آپ کو تکلیف سے بچا لیا ہے اور یہ کچھ لولے لنگڑے اور اندھے جمع کر کے لے آئے ہیں آپ بھی ان پر ہاتھ پھیریں اور انہیں اچھا کر کے دکھائیں، اگر آپ کے معجزہ سے یہ اچھے ہو جائیں گے تو ہم آپ کو اپنے دعوی میں سچا مان لیں گے.میں تو اس وقت بچہ تھا.شاید پانچ یا چھ سال میری عمر ہوگی مگر حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل سے اور بعض دوسروں سے بھی جو اس واقعہ کے عینی شاہد تھے میں نے تمام باتیں سنی ہیں.آپ فرماتے جب ہم نے یہ بات سنی تو ہم سخت گھبرائے اور ہم نے کہا.بس اب بڑی ہنسی ہوگی.جواب تو خیر دیا ہی جائے گا.مگر عوام الناس میں اس کی وجہ سے بڑا جوش پیدا ہو جائے گا لیکن جس وقت انہوں نے اس امر کو پیش کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا.تو دیکھنے والے جو اس وقت موجود تھے.سناتے ہیں کہ عیسائیوں کے لئے سخت مشکل پیش آگئی اور انہوں نے چوری چھپے ان اندھے لوگوں اور لنگڑوں کو ایک ایک کر کے غائب کرنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے باقی نہ رہا.
تذکار مهدی 806 روایات سید نا محمودی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے جواب میں لکھوایا کہ یہ دعویٰ کہ حضرت مسیح اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے.لولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیر تے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے.ان معنوں میں کہ وہ ظاہری لوگوں اندھوں کو بینا کیا کرتے تھے یا ظاہری لولوں اور لنگڑوں کو تندرست کر دیا کرتے تھے.عیسائی دنیا کا ہے اور حضرت مسیح انجیل میں یہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو وہ تمام معجزے دکھا سکے گا.جو میں دکھاتا ہوں.پس آپ نے فرمایا تم لوگ جو اس وقت مسیح کی طرف سے نمائندہ بن کر آئے ہو.تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر تو ضرور ایمان ہونا چاہئے ورنہ تم نمائندے کیسے ہو سکتے ہو بلکہ حق یہ ہے کہ تم میں ایک رائی کے دانہ سے بہت زیادہ ایمان ہوگا کیونکہ تم معمولی عیسائی نہیں بلکہ عیسائیوں کے پادری ہو اور اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہیں تو تم مسیح کے نمائندے نہیں ہو سکتے.اس صورت میں تو تم میں کم از کم ایک رائی کے دانہ کے برابر ایمان موجود ہے تو ہم آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں اس تکلیف سے بچالیا کہ ہم خود ان اندھوں، لولوں اور لنگڑوں کو اکٹھا کر کے لاتے اور آپ سے کہتے کہ انہیں اچھا کر دکھا ئیں.اب یہ آپ کی کوشش سے خود ہی حاضر ہیں.آپ ان پر ہاتھ پھیریں یا پھونک ماریں اور انہیں اچھا کر کے دکھا دیں.دنیا کو خود بخود معلوم ہو جائے گا کہ واقعہ میں آپ مسیح کے بچے پیرو ہیں اور انجیل میں ایمان اور صداقت کا جو معیار بتایا گیا تھا.اس پر آپ پورے اترتے ہیں.کہتے ہیں جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جواب لکھوانا شروع کیا تو عیسائیوں نے ان اندھوں، لولوں اور لنگڑوں کو کھسکانا شروع کر دیا.یہاں تک کہ اس پر چہ کے سناتے وقت وہ سب اندھے لولے اور لنگڑے غائب ہو گئے.حالانکہ یہ صاف بات ہے اور انجیل میں بھی موجود ہے کہ حضرت مسیح سے یہود ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ.اگر واقع میں وہ اندھوں کو آنکھیں دیا کرتے تھے.لولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیر تے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے.تو دشمنوں کے یہ کہنے کا کیا مطلب تھا کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ.خصوصاً ایسی صورت میں جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مطالبہ حضرت مسیح سے انہوں نے آخری زمانہ میں کیا ہے.اگر واقعہ میں وہ ایسے ہی معجزے دکھایا کرتے تھے.تو وہ کہہ سکتے تھے کہ تم مجھ سے معجزات کا بار بار کیوں مطالبہ کرتے ہو.میں نے اتنے اندھوں کو آنکھیں دیں.اتنے لنگڑوں کو تندرست کیا.اتنے لوگوں کو اچھا کیا.اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا معجزہ چاہئے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتے.بلکہ
تذکار مهدی ) 807 روایات سید نا محمودی جواب یہ دیتے ہیں کہ اس زمانہ کے بُرے اور حرام کا رلوگ مجھ سے نشان طلب کرتے ہیں.مگر وہ یا درکھیں کہ انہیں یونس نبی کے نشان کے سوا اور کوئی نشان نہیں دیا جائے گا.یعنی اب تمہارے لئے یہی معجزہ ہوگا کہ تم میرے قتل کی تدبیریں کرو گے.مجھے صلیب پر لٹکا کر مجھے ملعون ثابت کرنا چاہو گے.مگر میرا خدا مجھے صلیب سے بچالے گا اور جس طرح یونس مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکلا اسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اتروں گا اور یہی تمہارے لئے معجزہ ہوگا اس کے سوا اور کوئی نشان تمہیں نہیں دکھایا جائے گا.اگر واقع میں وہ اندھوں کو ظاہری آنکھیں دے دیا کرتے تھے.کوڑھیوں کو اچھا کر دیتے تھے، لولوں اور لنگڑوں پر ہاتھ پھیر تے اور وہ اچھے ہو جاتے تھے تو وہ ہزاروں آدمیوں کو اپنے معجزات کے ثبوت میں پیش کر سکتے تھے اور کہہ سکتے تھے کہ اتنے ہزار اندھوں کو میں نے بینا بنایا.اتنے ہزار لولوں کو میں نے تندرست کیا.اتنے ہزار لنگڑوں کو میں نے اچھا کر کے کام کے قابل بنایا.منارة المسیح کی عظمت الفضل 31 اگست 1938 ء جلد 26 نمبر 200 ) اسی طرح اس مینارہ پر اعتراض کرتے ہیں.اس پر جو روپیہ خرچ ہوا اس کا مقصد ایک عظیم الشان پیشگوئی کو پورا کرنا تھا.مجھے افسوس آتا ہے کہ اسے ہم اور زیادہ بلند نہ کر سکے اسے تو اتنا بلند ہونا چاہئے تھے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہ ہوتی.یہ سوفٹ ہے فرانس میں ایک مینارہ سات سوفٹ کا ہے اور خواہش تھی کہ یہ ہزار فٹ کا ہوتا اور کیا تعجب ہے کہ آئندہ نسلیں اس کی بنیاد کو قائم رکھتے ہوئے اسے ایک ہزار فٹ ہی بلند کر دیں.تو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے مزے لے لے کر کہا کرتے تھے کہ کیا ہی لطف آئے گا جب اسٹیشن سے ہی روشنی دیکھ کر ہر کوئی کہہ اٹھے گا کہ وہ مینارہ ہے.تو اس روپیہ کی ہستی کیا ہے ہمارے تو اگر اختیار میں ہوتا تو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے اسے اتنا بلند کرتے کہ جالندھر اور لاہور سے دکھائی دیتا تو پیشگوئی کو پورا کرنا بہت بڑی بات ہے اور یہ اٹھارہ ہزار روپیہ صرف پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ہی صرف کیا گیا ہے اور مسیح موعود علیہ السلام نے اسے اتنی اہمیت دی ہے کہ اس میں صرف وہی لوگ حصہ لیں جو سو روپیہ چندہ دے سکیں اور اس پر ان کے نام لکھے جائیں تا ہمیشہ ان کی
تذکار مهدی ) 808 روایات سید نا محمود یادگار رہے اور اب انجمن نے فیصلہ کر دیا ہے اور ایسے لوگوں کے نام لکھے جائیں گے اگر کوئی اسے اسراف سمجھتا ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ کیا اسراف کرنے والوں کے نام اس طرح ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اسراف کرنے والا تو چھپاتا ہے مگر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو اتنا قیمتی قرار دیا کہ فرمایا ان کے نام لکھے جائیں تا وہ ہمیشہ زندہ رہیں تو پیشگوئی کو پورا کرنا بہت بڑا کام ہے.( خطبات محمود جلد 11 صفحہ 507) ایک عجیب نظارہ ایک خاص بات میرے دل میں آئی اور معاً ایک نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے.خدا کے فضل سے مجھے اس قسم کی طبیعت ملی ہے کہ میں اپنے جذبات کو روک سکتا ہوں مگر اس بات کو دیکھ کر میں بے بس ہو گیا.اسی خوشی کے موقع پر مجھے حضرت عائشہ کا ایک واقعہ یاد آ گیا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ میدے کی روٹی حضرت عائشہ کے سامنے آئی تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.جب پوچھا گیا کہ آپ کیوں روتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو کی روٹی کھاتے تھے اور چکیاں اور چھلنیاں اس وقت نہ تھیں.جو کی روٹی بے چھنے آٹے کی ہم پکا کر آپ کے سامنے رکھ دیتے اور آپ کھا لیتے.اب اس میدہ کی روٹی کو دیکھ کر اور اس حالت کو یاد کر کے یہ میرے گلے میں پھنستی ہے.مجھے بھی یہ نظارہ دیکھ کر ایک بڑا نظارہ یاد آ گیا.وہ وقت جب مینارہ کے بنانے کا سوال در پیش تھا اس پر میری نظر آج سے بیس سال پیچھے جا پڑی.چھوٹی مسجد جس میں اس وقت چند آدمی بیٹھ سکتے تھے وہاں حضرت صاحب بیٹھے تھے مینارہ کے بنانے کی تجویز در پیش تھی اور دس ہزار کا حضرت صاحب نے تخمینہ لگایا تھا تا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی کی تھی وہ اپنے ظاہری لفظوں کے لحاظ سے بھی پوری کر دی جائے.اب سوال یہ تھا کہ دس ہزار روپیہ کہاں سے آئے کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت زیادہ کمزور تھی.اس کے لئے دس ہزار کو سوسو روپیہ کے حصوں پر تقسیم کیا گیا اور اس فہرست کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں پر بھی سو روپیہ لگایا گیا جن کی حیثیت سورو پیدا دا کرنے کی نہ تھی اور اس وقت گویا دس ہزار روپیہ کا جمع کرنا ایک امر محال تھا.اس وقت بعض لوگوں نے اپنی حالت اور حیثیت سے بڑھ کر چندہ دیا.چنانچہ منشی شادی خان صاحب پر بھی سو روپیہ غالبا لگا تھا.انہوں نے اپنا تمام ا
تذکار مهدی ) 809 روایات سید نا محمودی گھر کا سامان بیچ کر تین سو روپیہ پیش کر دیا اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا که شادی خان صاحب سیالکوٹی نے بھی وہی نمونہ دکھایا ہے جو حضرت ابوبکر نے دکھایا تھا کہ سوائے خدا کے اپنے گھر میں کچھ نہیں چھوڑا.جب میاں شادی خان نے یہ سنا تو گھر میں جو چار پائیاں موجود تھیں ان کو بھی فروخت کر ڈالا اور ان کی رقم بھی حضرت صاحب کے حضور پیش کر دی.مگر باوجود اتنی کوششوں کے یہ روپیہ پورا نہ ہوا.مجھے یاد ہے کہ اس کام کے لئے سیالکوٹ سے حضرت صاحب نے میر حسام الدین صاحب کو جو میر حامد شاہ صاحب کے والد تھے بلایا کیونکہ ان کو عمارت کا مذاق تھا.جو بھٹہ تیار کیا گیا ، اس پر اتنا خرچ آ گیا کہ خیال تھا کہ جمع شدہ روپیہ سے صرف بنیادوں سے اوپر تک شاید عمارت بلند ہو سکے.اب خیال ہو ا کہ کیا کیا جائے.حضرت صاحب فرماتے تھے اسی روپیہ میں کام کرو.میر صاحب بلند آواز کے آدمی تھے اور حضرت صاحب کے بچپن کے دوست تھے بعض اوقات حضرت صاحب سے لڑ بھی پڑتے تھے انہوں نے کہا حضرت! آپ مجھ سے وہ کام کرانا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ، اس روپیہ میں کچھ نہیں ہوسکتا حضرت صاحب نے فرمایا اچھا میر صاحب آپ جتلائیں کہ آپ کے اندازہ میں کتنا روپیہ درکار ہوگا.انہوں نے کہا کہ چھپیں ہزار.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب آپ کے اتنے بڑے اندازہ کے تو یہ معنے ہوئے کہ کام کو روک دیا جائے.اس وقت بہت سے لوگ ہوں گے جو خیال کرتے ہوں گے کہ اگر ہم ہوتے تو پچیس ہزار کیا بات تھی، فورا مہیا کر دیا جاتا.مگر جب تو یہ حالت تھی کہ پچیس ہزار کا نام سن کر کہہ دیا جا تا تھا کہ کام کو روک دینا چاہئے.یا اب تمہیں ہزار کہا جاتا ہے اور ایک مہینہ کے اندر جمع کرانے کا خیال ہے اور جس طرح قادیان میں چندہ ہو ا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مہینہ کے اندر اندر یہ روپیہ جمع ہو جائے گا اور امید ہے کہ اس رقم کو گورداسپور، امرتسر ، لاہور کے تینوں اضلاع ہی پورا کر دیں گے اور باقی اضلاع کے لوگ یہی کہیں گے کہ ایک تحریک ہوئی تھی جو لاہور میں پہنچ کر ختم ہوگئی.( قیام تو حید کے لئے غیرت ، انوار العلوم جلد 5 صفحہ 23-22 ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال ایک بھو کے شخص کی تکلیف دور کرنے کے دو ہی علاج ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ اُس کی بھوک اڑا دی جائے اور دوسرے یہ کہ اسے کھانا دے دیا جائے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 810 روایات سید نا محمود علیہ السلام کی زندگی کا آخری سال تھا یا آپ کے بعد خلافت اولی کا کوئی رمضان تھا.بہر حال موسم کی گرمی کے سبب یا اس لئے کہ میں سحری کے وقت پانی نہ پی سکا تھا.مجھے ایک روزہ میں شدید پیاس محسوس ہوئی تھی کہ مجھے خوف ہوا کہ میں بے ہوش ہو جاؤں گا اور دن غروب ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا.میں نڈھال ہو کر ایک چارپائی پر گر پڑا اور میں نے کشف میں دیکھا کہ کسی نے میرے منہ میں پان ڈالا ہے میں نے اسے چوسا تو سب پیاس جاتی رہی.چنانچہ جب وہ حالت جاتی رہی تو میں نے دیکھا کہ پیاس کا نام ونشان بھی نہ باقی رہا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے اس طریق سے میری پیاس بجھا دی اور جب پیاس بجھ جائے تو پانی پینے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی.غرض تو یہ ہوتی ہے کہ ضرورت پوری کر دی جائے خواہ مناسب سامان مہیا کر کے ہو.خواہ اس سے استغناء کی حالت پیدا کر کے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک شخص نے لکھا کہ دعا کریں فلاں عورت کے ساتھ میرا نکاح ہو جائے آپ نے فرمایا کہ ہم دعا کریں گے مگر نکاح کی کوئی شرط نہیں.خواہ نکاح ہو جائے خواہ اس سے نفرت پیدا ہو جائے.آپ نے دعا کی اور چند روز بعد اس نے لکھا کہ میرے دل میں اس سے نفرت پیدا ہوگئی ہے.اسی طرح مجھے بھی ایک شخص نے ایسا لکھا تھا اور میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت میں اسے یہی جواب دیا اور اس نے مجھے بعد میں اطلاع دی کہ اس کے دل سے اس کا خیال جاتا رہا.پس اللہ تعالیٰ دونوں صورتوں میں مدد کر دیتا ہے.عظیم الشان ترقی کا نشان خطبات محمود جلد 20 صفحہ 191 تا 192 ) دیکھو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات میں کتنا عظیم الشان نشان دکھایا ہے گوتم نے اس زمانہ کو نہیں پایا مگر ہم نے اسے پایا اور دیکھا ہے پس اس قدر قریب زمانہ کے نشانات کو اپنے خیال کی آنکھوں سے دیکھنا تمہارے لئے کوئی زیادہ مشکل نہیں اور نشانات جانے دو.مسجد مبارک کو ہی دیکھو مسجد مبارک میں ایک ستون مغرب سے مشرق کی طرف کھڑا ہے اس کے شمال میں جو حصہ مسجد کا ہے یہ اس زمانہ کی مسجد تھی اور اس میں نماز کے وقت کبھی ایک اور کبھی دوسطریں ہوتی تھیں اس ٹکڑا میں تین دیوار میں ہوتی تھیں ایک تو دو کھڑکیوں والی جگہ میں
تذکار مهدی ) 811 روایات سید نامحمود جہاں آج کل پہریدار کھڑا ہوتا ہے.اس حصہ میں امام کھڑا ہوا کرتا تھا پھر جہاں اب سنتون ہے وہاں ایک اور دیوار تھی اور ایک دروازہ تھا اس حصہ میں صرف دو قطار میں نمازیوں کی کھڑی ہوسکتی تھیں اور فی قطار غالباً پانچ سات آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اس حصہ میں اس وقت کبھی ایک قطار نمازیوں کی ہوتی اور کبھی دو ہوتی تھیں.مجھے یاد ہے جب اس حصہ مسجد سے نمازی بڑھے اور آخری یعنی تیسرے حصہ میں نمازی کھڑے ہوئے تو ہماری حیرت کی کوئی حد نہ رہی تھی.گویا جب پندرھواں یا سولہواں نمازی آیا تو ہم حیران ہو کر کہنے لگے کہ اب تو بہت لوگ نماز میں آتے ہیں.تم نے غالبا غور کر کے وہ جگہ نہیں دیکھی ہوگی مگر وہ ابھی تک موجود ہے جاؤ اور دیکھو صحابہ کا طریق تھا کہ وہ پرانی باتوں کو کبھی کبھی عملی رنگ میں قائم کر کے بھی دیکھا کرتے تھے اس لئے تم بھی جا کر دیکھو اس حصہ کو الگ کر دو.جہاں امام کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہاں فرضی دیوار میں قائم کرو اور پھر جو باقی جگہ بچے اس میں جو سطریں ہوں گی ان کا تصور کرو اور اس میں تیسری سطر قائم ہونے پر ہمیں جو حیرت ہوئی کہ کتنی بڑی کامیابی ہے اس کا قیاس کرو اور پھر سوچو کہ خدا تعالیٰ کے فضل جب نازل ہوں تو کیا سے کیا کر دیتے ہیں.مجھے یاد ہے ہمارا ایک کچا کوٹھا ہوتا تھا اور بچپن میں کبھی کھیلنے کے لئے ہم اس پر چڑھ جایا کرتے تھے.اس پر چڑھنے کے لئے جن سیڑھیوں پر ہمیں چڑھنا پڑتا تھا وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کے پاس سے چڑھتی تھیں اس وقت ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں آکر احمدی بھی ہو گئیں مجھے دیکھ کر کہا کرتی تھیں کہ ” جیہو جیا کاں اور ہو جئی کو کو“ میں بوجہ اس کے کہ میری والدہ ہندوستانی ہیں اور اس وجہ سے بھی کہ بچپن میں زیادہ علم نہیں ہوتا اس پنجابی فقرہ کے معنے نہیں سمجھ سکتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ میں نے اپنی والدہ صاحبہ سے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کو ا ہوتا ہے ویسے ہی اس کے بچے ہوتے ہیں.کوے سے مراد ( نعوذ باللہ ) تمہارے ابا ہیں اور کوکو سے مراد تم ہو مگر پھر میں نے وہ زمانہ بھی دیکھا ہے کہ وہی تائی صاحبہ اگر میں کبھی ان کے ہاں جاتا تو بہت عزت سے پیش آتیں میرے لئے گدا بچھا تیں اور احترام سے بٹھاتیں اور ادب سے متوجہ ہوتیں.اور اگر میں کہتا کہ آپ کمزور ہیں ضعیف ہیں ہلیں نہیں یا کوئی تکلف نہ کریں تو وہ کہتیں کہ آپ تو میرے پیر ہیں گویا وہ زمانہ بھی دیکھا جب میں کو کو تھا اور وہ بھی جب میں پیر بنا.اور ان ساری چیزوں کو دیکھ کر تم
تذکار مهدی ) 812 روایات سید نا محمودی سمجھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ جب دنیا کو بدلنا چاہتا ہے تو کس طرح دل بدل دیتا ہے.پس ان نشانوں کو دیکھو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اندر وہ تبدیلی پیدا کرو کہ جو تمہیں خدا تعالی کا وب بنادے اور تم حزب اللہ میں داخل ہو جاؤ.خطبات محمود جلد 19 صفحہ 232-233 ) جماعت کے اموال کو ذاتی مصرف میں نہیں لانا چاہئے میں کہتا ہوں ایک منٹ کے لئے اگر اس بات کو فرض بھی کر لیا جائے کہ اس وجہ سے سلسلہ کا ایک مال اپنے قبضہ میں کر لینا ان کے لئے جائز تھا تو سوال یہ ہے کہ یہ مال تو سلسلہ کا تھا مولوی محمد علی صاحب کو اس بات کی کس نے اجازت دی کہ وہ اس مال کو اپنی ذاتی جائیداد قرار دے لیں.مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو شیخ رحمت اللہ صاحب دیا کرتے تھے، مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب دیا کرتے تھے مان لیا کہ وہ ترجمہ قرآن اور کتب وغیرہ اس چندہ کے بدلہ میں لے گئے جو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب دیا کرتے تھے.ہم نے ان تمام باتوں کو تسلیم کر لیا مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا وہ کون سا قانون ہے جس کے مطابق قوم کے چندہ اور قوم کے روپیہ سے تیار ہونے والی چیز مولوی محمد علی صاحب کی ذاتی ملکیت بن جائے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص باغ سے انگور کا ٹوکرا اٹھا کر گھر کو لیئے جا رہا تھا کہ باغ کے مالک کی اس پر نظر پڑ گئی اور اس نے پوچھا کہ تم میرے باغ سے انگور توڑ کر اور ٹوکرے میں بھر کر کس کی اجازت سے اپنے گھر لیئے جا رہے ہو؟ وہ کہنے لگا پہلے میری بات سن لیجئے اور اگر کوئی الزام مجھ پر عائد ہو سکتا ہو تو بے شک مجھ پر عائد کیجئے.مالک آدمی تھا شریف اس نے کہا بہت اچھا پہلے اپنی بات سناؤ ؟ وہ کہنے لگا بات یہ ہے کہ میں راستہ پر چلا جارہا تھا کہ ایک بگولا آیا اور اس نے اڑا کر مجھے آپ کے باغ میں لا ڈالا.اب بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ مالک بہت رحم دل تھا اس نے کہا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں بلکہ مجھے تم سے ہمدردی ہے.وہ کہنے لگا آگے سنیئے اتفاق ایسا ہوا کہ جہاں میں گرا وہاں جابجا انگوروں کی بیلیں لگی ہوئی تھیں.ایسے وقت میں آپ جانتے ہیں کہ
تذکار مهدی ) 813 روایات سید نا محمود انسان اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارا کرتا ہے میں نے بھی ہاتھ پاؤں مارے اور انگوروں نے گرنا شروع کر دیا.بتائیے اس میں میرا کوئی قصور ہے؟ وہ کہنے لگا قصور کیسا اگر تمہاری جان بچانے کے لئے میرا سارا باغ بھی اجڑ جاتا تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہ ہوتی.پھر وہ کہنے لگا کہ جب انگور گرنے لگے تو نیچے ایک ٹوکرا پڑا تھا انگور ایک ایک کر کے اس ٹوکرے میں اکٹھے ہو گئے.فرمائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ مالک نے کہا یہ تم عجیب بات کہتے ہو میں نے مانا کہ بگولا تمہیں اڑا کر میرے باغ میں لے گیا، میں نے مانا کہ تم ایسی جگہ گرے جہاں انگور کی بیلیں تھیں، میں نے مانا کہ تم نے اپنی جان بچانے کے لئے ہاتھ پاؤں مارے تو انگور گر نے لگے، میں نے مانا کہ اس وقت وہاں کوئی ٹوکرا پڑا تھا جس میں انگورا کٹھے ہوتے چلے گئےمگر تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ ٹوکرا سر پر اٹھا کر اپنے گھر کی طرف لے جاؤ.وہ کہنے لگا بس یہی بات میں بھی سوچتا آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو گیا.خطبات محمود جلد 21 صفحہ 113-112) اسلام کی تبلیغ کے لئے جوش خدا تعالٰی ہماری جماعت کو توفیق دے کہ وہ سمجھ کر اس کام کو سرانجام دے اور جو صداقت ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ملی ہے اور وہ اسلام جو ہم کو پاک صاف ہو کر اب ملا ہے ہم اسے دنیا کے سامنے پیش کریں اور ہمیں اُس وقت تک صبر نہ آئے جب تک تمام دنیا میں اس کو پھیلا نہ لیں.میں تو حیران ہوتا ہوں کہ اگر ایک چیز کی قدر معلوم ہو تو پھر اس کو دنیا میں نہ پھیلایا جائے.حضرت صاحب کو رات کے وقت کئی لوگ بہت معمولی معمولی شعر سناتے اور آپ سنتے رہتے.ایک دن کسی نے عرض کیا کہ حضور ایسے شعروں کو آپ کیوں سنتے ہیں جن کا کچھ مطلب نہیں ہوتا.جب میں رات کو لیٹتا ہوں تو اس کثرت سے اسلام کی تبلیغ کے خیالات میرے دماغ میں آتے ہیں کہ میرا دماغ پھٹنے لگتا ہے اور مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں ان خیالات سے دماغ پھٹ نہ جائے.جب لوگ شعر سناتے ہیں تو کچھ خیال ہٹ جاتا ہے اور ان خیالات سے توجہ ہٹ جاتی ہے.واقعہ میں اسلام ایسی ہی نعمت ہے اور پھر تازہ بتازہ انعام اور وہ زندہ مذہب جو لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ أَبْنَاءِ فَارَسَ - کالا یا ہوا ہے اس کو تو وہی چھپا سکتا ہے جس کو اس کی قدر معلوم
تذکار مهدی ) 814 روایات سید نامحمود نہ ہو اور جو قدر جانتا ہو اس کو تو بغیر ظاہر کئے صبر نہیں آسکتا.بعض لوگ ایسے لوگوں کو وسیع الحوصلہ کہا کرتے ہیں جو اپنے مذہب کی صداقت کو پیش ہی نہیں کرتے لیکن یہ وسعت حوصلہ نہیں.کیا کبھی بخیل بھی وسیع حوصلہ رکھتا ہے؟ ہمیشہ سخی ہی وسیع الحوصلہ ہوا کرتا ہے.پس خدا کی ایک نعمت کا دنیا تک پہنچانا ہی وسعت حوصلہ ہے نہ کہ اسے اپنے پاس چھپائے رکھنا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم تبلیغ اسلام کے فرض کو سمجھیں.مجھے تو بار بار خیال آتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ترقی کا یہی حال رہا تو پھر ہماری تو نسلوں کی نسلیں بھی ان وعدوں کو پورا ہوتا نہیں دیکھیں گی جو حضرت مسیح موعود سے خدا تعالیٰ نے کیئے ہیں.(خطبات محمود جلد 5 صفحہ 331) مکہ میں بڑے بڑے مالدار لوگ بھی تھے رسول کریم ﷺ خود بے شک کسی بڑی جائیداد کے مالک نہ تھے لیکن حضرت خدیجہ ایک مالدار عورت تھیں.انہوں نے نکاح کے بعد تمام مال رسول کریم ﷺ کی نذر کر دیا تھا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ مکہ کے بڑے بڑے امراء بھی ایسے ہی ہوں گے جیسے گاؤں کے امراء ہوتے ہیں.لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے.مکہ میں بڑے بڑے مالدار لوگ بھی تھے.ان کے مالدار ہونے کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد جنگ حنین کے لئے رسول کریم ﷺ نے مکہ کے ایک کا فر رئیس سے تمہیں ہزار درہم قرض لئے اور کئی ہزار نیزہ قرض لیا اور اسی شخص سے کئی سو زر ہیں قرض لیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوئی لکھ پتی آدمی تھا اور ہمارے اس زمانہ کے لحاظ سے کروڑ پتی تھا کیونکہ اس زمانہ میں روپے پیسے کی بہت قدر تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سنایا کرتے تھے کہ مجھے ایک بڑھے سکھ نے سنایا کہ اس نے آٹھ آنے میں گائے خریدی تھی.اور مجھے بھی اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بچپن کے زمانہ میں مہینہ بھر کی صفائی کی اُجرت خاکروب کو چار یا آٹھ آنہ دی جاتی تھی اور اب ایک بوری ایک جگہ سے دوسری جگہ رکھوائی جائے تو مزدور اس کی مزدوری آٹھ آنے مانگتے ہیں.لیکن اُس وقت خاکروب آٹھ آنے خوشی سے لے لیتا تھا.اس کی وجہ یہ تھی کہ غلہ اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں بہت بہت سستی تھیں.ایک روپے کا دس پندرہ من غلہ اور چار پانچ سیر گھی آ جاتا تھا.ایک روپیہ کا ڈیڑھ سیر تو میری ہوش میں بھی تھا.جب چار پانچ سیر روپے کا گھی سیر ڈیڑھ سیر ہو گیا.تو
تذکار مهدی ) 815 روایات سید نا محمودی لوگوں میں شور مچ گیا کہ گھی کا قحط پڑ گیا ہے.لیکن اب پانچ روپے سیر پک رہا ہے.پس آجکل روپے کی قیمت اس وقت کے ایک آنے سے بھی کم ہے.اس لحاظ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس کے پاس اس وقت ایک لاکھ روپیہ تھا آج کے لحاظ سے اُس کے پاس ہیں پچیس لاکھ روپیہ تھا.حضرت خدیجہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں جو کہ مکہ میں مالدار سمجھے جاتے تھے.آپ نے اپنی تمام جائیداد اور روپیہ رسول کریم ﷺ کو دے دیا تھا.اس کے علاوہ رسول کریم ﷺ کو کچھ مکان وغیرہ ورثہ میں بھی ملے تھے.لیکن ہجرت کرنے کی وجہ سے وہ سب آپ کو چھوڑنے پڑے.جب مکہ فتح ہوا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کس مکان میں ٹھہریں گے؟ آپ نے جو جواب دیا وہ ایسا دردناک تھا کہ اس کو پڑھ کر انسان کو معلوم ہوسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو کس قدر مالی قربانیاں کرنی پڑیں.آپ نے فرمایا کیا عقیل نے ہمارے لئے کوئی جگہ مکہ میں چھوڑی ہے کہ ہم اس میں ٹھہریں؟ ہمارے خیمے وہاں لگاؤ جہاں کفارِ مکہ نے قسمیں کھائی تھیں کہ ہم محمد (رسول اللہ اللہ ) اور اس کے ساتھیوں کو تباہ کر دیں گے.کتنی بڑی قربانی ہے جو رسول کریم ﷺ نے کی.ہمارے چندے ان قربانیوں کے مقابل پر کیا حیثیت رکھتے ہیں.پھر انصار کی قربانیوں کا تصور تو کرو کہ وہ کس قدر شاندار تھیں.جب صحابہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے مہاجرین و انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا یعنی ایک ایک انصاری کو ایک ایک مہاجر کا بھائی بنا دیا.جب رسول کریم ﷺ نے مہاجرین و انصار کو بھائی بھائی بنا دیا تو انصار نے اس بات پر اصرار کیا کہ یا رسول اللہ ! جب مہاجرین ہمارے بھائی بن گئے ہیں اور ان کے پاس گزارے کی کوئی صورت نہیں تو آپ ہماری جائیدا ایں برابر برابر ہم میں بانٹ دیں.آخر ایک بھائی کو دوسرے بھائی کی جائیداد سے حصہ ملنا چاہئے.آپ کیوں ہماری جائیداد میں ہمارے درمیان تقسیم نہیں کر دیتے.کتنا محبت کا جذبہ ہے جو انصار نے مہاجرین کے لئے ظاہر کیا.خطبات محمود جلد 27 صفحہ 448-447) جماعت کے ابتدائی حالات کسی چیز کو بڑھانا یا گھٹانا اللہ تعالیٰ نے اپنے اختیار میں رکھا ہے اور اس کا قانون یہی ہے کہ جب وہ کسی چیز کو ترقی دینا چاہتا ہے تو اس کے بیج کو بڑھا دیتا ہے.جب وہ ایک بیج ہوتا
تذکار مهدی ) 816 روایات سید نا محمود ہے تو لوگ کہتے ہیں اس سے سینکڑوں کیسے بنیں گے اور جب سینکڑوں ہو جائیں تو کہتے ہیں اس سے ہزاروں کیونکر ہوں گے.پھر ہزاروں سے لاکھوں ، لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں تک بڑھنے میں شک کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ اسی طرح بڑھاتا چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو دنیا حیران تھی اور کہتی تھی کہ ایک سے دو کس طرح ہوں گے.کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں ہو گا جو ان عقائد کو مان جائے.لیکن جب چند لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے تو دنیا نے کہا کہ چالیس پچاس پاگل تو دنیا میں ہو سکتے ہیں.مگر یہ آخری حد ہے.اس سے زیادہ نہیں بڑھ سکتے اور جب یہ تعداد سینکڑوں تک جا پہنچی.تو کہا جانے لگا کہ دنیا میں پاگلوں کے علاوہ بعض احمق بھی ہوتے ہیں جو شریک ہو گئے ہیں.مگر ساری دنیا تو عقل مندی کو نہیں چھوڑ سکتی.اب ان کی تعداد نہیں بڑھ سکتی اور جب جماعت ہزاروں تک پہنچ گئی تو کہا گیا کہ بعض اچھے بھلے سمجھدار لوگ بھی دھوکا کھا سکتے ہیں.مگر اب یہ لوگ لاکھوں تک نہیں پہنچ سکتے اور اب حیران ہیں کہ یہ کروڑوں کس طرح ہوں گے اور یہ نہیں سوچتے کہ جس طرح ایک سے دسیوں.دسیوں سے سینکڑوں.سینکڑوں سے ہزاروں.اور ہزاروں سے لاکھوں ہوئے.اسی طرح اب لاکھوں سے کروڑوں اور کروڑوں سے اربوں ہو جائیں گے اور خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو کر ان کو اسی طرح بڑھاتا جائے گا اور کون ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل کو روک سکے.(خطبات محمود جلد 20 صفحہ 535) جماعت احمدیہ کا مستقبل ذرا غور کرو تم پر اللہ تعالیٰ نے کتنا فضل کیا کہ اپنا مسح تمہیں دکھایا پھر دنیا پر تمہیں کیا اتنا بھی رحم نہیں آتا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نہی اسے دکھا دو.پچاس ساٹھ سال بعد یہ صحابہ" ہم میں نہ ہوں گے غور کرو یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ہم دنیا کو جا کر جب آپ کا پیغام سنائیں اور لوگ پوچھیں کہ وہ کہاں ہیں تو ہم کہ دیں وہ فوت ہو گئے اور جب وہ پوچھیں کہ کون لوگ ہیں جو آپ کے ہاتھ پر ایمان لائے تھے تو کہہ دیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے مجھے یہ واقعہ کبھی نہیں بھولتا میں جب انگلستان میں گیا تو وہاں ایک بوڑھا انگریز نو مسلم تھا اسے علم تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا اور خلیفہ ہوں مگر پھر بھی وہ نہایت محبت واخلاص سے کہنے لگا کہ میں ایک بات پوچھتا ہوں آپ ٹھیک جواب دیں گے؟ میں نے کہا ہاں.وہ کہنے لگا کیا حضرت مسیح موعود
تذکار مهدی ) 817 روایات سید نامحمود نبی تھے میں نے کہا ہاں تو اس نے کہا اچھا مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.پھر کہنے لگا آپ قسم کھا کر بتائیں کہ آپ نے انہیں دیکھا؟ میں نے کہا ہاں میں ان کا بیٹا ہوں.اس نے کہا نہیں میرے سوال کا جواب دیں کہ ان کو دیکھا؟ میں نے کہا ہاں دیکھا.تو وہ کہنے لگا کہ اچھا میرے ساتھ مصافحہ کریں اور مصافحہ کرنے کے بعد کہا مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی کہ میں نے اس ہاتھ کو چھوا جس نے مسیح موعود کے ہاتھوں کو چھوا تھا اب تک وہ نظارہ میرے دل پر نقش ہے وہ شخص گزشتہ سال ہی فوت ہوا ہے اُسے رؤیا اور کشوف بھی ہوتے تھے اور وہ اس پر فخر کرتا تھا کہ اسلام لانے کے بعد اسے یہ انعام ملا ہے.تو مجھے اس کی یہ بات کبھی نہیں بھولتی کہ کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام کو دیکھا ہے اور جب میں نے کہا ہاں تو کہا کہ مجھے بڑی ہی خوشی ہوئی ہے میں نے آپ کو دیکھا ہے.مجھے اس خیال سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لاکھوں انسان جو چین ، جاپان ، روس، امریکہ، افریقہ اور دنیا کے تمام گوشوں میں آباد ہیں اور جن کے اندر نیکی اور تقویٰ ہے ان کے دلوں میں خدا کی محبت ہے مگر ان کو ابھی وہ نور نہیں ملا کہ ہم ان تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچائیں اور وہ خوشی سے اُچھلیں اور کہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود دکھلا ؤ اور جب ہم کہیں کہ وہ فوت ہو گئے تو وہ پوچھیں کہ اچھا ان کے شاگرد کہاں ہیں؟ تو ہم انہیں کہیں کہ وہ بھی فوت ہو گئے احمدیوں کا یہ جواب سن کر وہ لوگ کیا کہیں گے.اگر ایسا ہو تو وہ ہمارے مبلغوں کو کس حقارت سے دیکھیں گے کہ ان نالائقوں نے ہم تک پیغام پہنچانے میں کس قدر دیر کی ہے تو ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی موجودگی میں ہم ساری دنیا میں احمدیت کا پیغام پہنچا دیں تا ہر ایک کہہ سکے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ سے مصافحہ کیا ہے اور دنیا کے ہر ملک بلکہ ہر صوبہ میں بسنے والے لوگ اور ہر زبان بولنے والے اور ہر مذہب کے پیرو یہ کہہ سکیں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں ہاتھ دینے والوں کے ہاتھ میں ہاتھ دیا ہے.یہ اتنی بڑی خوشی ہے کہ اس سے ہمیں دنیا کو محروم نہیں رکھنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے اس کا یہ مطلب نہیں کہ کپڑوں میں برکت زیادہ ہوتی ہے بلکہ اس میں بتایا ہے کہ جب انسان نہ ملیں گے تو لوگ کپڑوں سے ہی برکت ڈھونڈیں گے ورنہ انسان کے مقابلہ میں
تذکار مهدی ) 818 روایات سید نا محمود کپڑے کی کیا حیثیت ہوتی ہے وہ کپڑا جو جسم کو لگا اُس ہاتھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھ سکتا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں گیا اور وہیں پیوست ہو گیا آپ سے نور اور برکت لی اور آپ کے نور میں اتنا ڈوبا کہ خود نور بن گیا.کبھی ممکن نہیں کہ ایسے ہاتھ کو چھونے سے تو برکت نہ ملے اور کپڑوں کو چھونے سے ملے.کپڑوں سے برکت ڈھونڈنے سے مراد تو حالت تنزل ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب لوگ آپ سے ملنے والوں کو ڈھونڈیں گے اور جب کوئی نہ ملے گا تو کہیں گے اچھا کپڑے ہی سہی اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے ایک وقت آئے گا کہ بادشاہ بھی آپ کے کپڑوں کے لئے ترسیں گے.پس براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھونے والے انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتے اور ہم سے یہ اتنی بڑی غفلت ہورہی تھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جگا دیا.( خطبات محمود جلد 16 صفحہ 259-258) خلفاء کے چار کام پس یہ خلفاء کے چار کام ہیں اور انہی پر یہ روپیہ خرچ کیا جائے گا پہلے اسے کسی نفع مند کام میں لگا کر ہم اس سے آمد کی صورت پیدا کریں گے اور پھر اس آمد سے یہ کام شروع کریں گے.ایک تو ایسا اُصولی لٹریچر شائع کریں گے کہ جس سے ہندو، سکھ اسلامی اُصول سے آگاہی حاصل کر سکیں.اب تک ہم نے ان کی طرف پوری طرح توجہ نہیں کی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی ہدایت مقدر ہے.مثلاً آپ کا ایک الہام ہے کہ آریوں کا بادشاہ ایک ہے ” جے سنگھ بہادر “.” ہے کرشن رو ڈر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے، مگر ہم نے ابھی تک ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کی.پس آب ان کے لئے لٹریچر شائع کرنا چاہیئے.میں چاہتا ہوں کہ یہ اتنا مختصر ہو کہ اسے لاکھوں کی تعداد میں شائع کر سکیں.پھر ایک حصہ مسلمانوں میں تبلیغ پر خرچ کیا جائے.ایک آرٹ ، سائنس، انڈسٹری اور زراعت وغیرہ کی تعلیم پر اور ایک حصہ نظام سلسلہ پر دشمنوں کے حملہ کے مقابلہ کے لیئے.آہستہ آہستہ کوشش کی جائے کہ اس کی آمد میں اضافہ ہوتا رہے اور پھر اس آمد سے یہ کام چلائے جائیں.اس روپیہ کو خرچ کرنے کے لئے یہ تجویزیں ہیں.اس کے بعد میں جھنڈے کے نصب کرنے کا اعلان کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے سامان لے آئیں.جھنڈا نصب کرنے کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہ کانگرس کی رسم ہے
تذکار مهدی ) 819 نامحمودی روایات سیّد نا محمود لیکن اس طرح تو بہت سی رسمیں کانگرس کی نقل قرار دینی پڑیں گی.کانگرسی جلسے بھی کرتے ہیں اس لئے یہ جلسہ بھی کانگرس کی نقل ہوگی.گاندھی جی دودھ پیتے ہیں دودھ پینا بھی ان کی نقل ہو گی اور اس اصل کو پھیلاتے پھیلاتے یہاں تک پھیلانا پڑے گا کہ مسلمان بہت سی اچھی باتوں صلى الله سے محروم رہ جائیں گے.حقیقت یہ ہے کہ یہ کانگرس کی نقل نہیں.رسول کریم علیہ نے خود جھنڈا باندھا اور فرمایا کہ یہ میں اُسے دوں گا جو اِس کا حق ادا کرے گا.پس یہ کہنا کہ یہ بدعت ہے تاریخ اسلام سے ناواقفیت کی دلیل ہے.جھنڈا لہرانا نا جائز نہیں ہاں البتہ اس ساری تقریب میں میں ایک بات کو برداشت نہیں کر سکا اور وہ ایڈریسوں کا چاندی کے خولوں وغیرہ میں پیش کرنا ہے اور چاہے آپ لوگوں کو تکلیف ہوئیں حکم دیتا ہوں کہ ان سب کو بیچ کر قیمت جو بلی فنڈ میں دے دی جائے.پس جھنڈا رسول کریم ﷺ سے ثابت ہے اور لڑائی وغیرہ کے مواقع پر اس کی ضرورت ہوتی ہے.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے تو جہاد سے ہی منع کر دیا ہے پھر جھنڈے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر میں کہوں گا کہ اگر لوہے کی تلوار کے ساتھ جہاد کرنے والوں کے لئے جھنڈا ضروری ہے تو قرآن کی تلوار سے لڑنے والوں کے لئے کیوں نہیں.اگر اب ہم لوگ کوئی جھنڈا معتین نہ کریں گے تو بعد میں آنے والے ناراض ہوں گے اور کہیں گے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نہی جھنڈا بنا جاتے تو کیا اچھا ہوتا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے ایک مجلس میں یہ سُنا ہے کہ ہمارا ایک جھنڈا ہونا چاہیئے.جھنڈا لوگوں کے جمع ہونے کی ظاہری علامت ہے اور اس سے نو جوانوں کے دلوں میں 66 ایک ولولہ پیدا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ”لواے ماپنہ ہر سعید خواهد بود یعنی میرے جھنڈے کی پناہ ہر سعید کو حاصل ہو گی اور اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنا جھنڈا نصب کریں تا سعید روحیں اس کے نیچے آ کر پناہ لیں.یہ ظاہری نشان بھی بہت اہم چیزیں ہوتی ہیں.جنگ جمل میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں دشمن نے فیصلہ کیا کہ اُونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں تو آپ نیچے گر جائیں اور آپ کے ساتھی لڑائی بند کر دیں لیکن جب آپ کے ساتھ والے صحابہ نے دیکھا کہ اس طرح آپ اگر جائیں گی تو گو آپ دین کا ستون نہ تھیں مگر بہر حال رسول کریم ﷺ کی محبت کی مظہر تھیں اس لئے صحابہ نے اپنی جانوں سے ان کے اونٹ کی حفاظت کی اور تین گھنٹہ کے اندر اندرستر جلیل القدر صحابی کٹ کر گر گئے.قربانی کی ایسی مثالیں دلوں میں جوش پیدا کرتی ہیں.پس جھنڈا نہایت ضروری ہے اور بجائے
820 روایات سید نا محمودی تذکار مهدی ) اس کے کہ بعد میں آکر کوئی بادشاہ اسے بنائے یہ زیادہ مناسب ہے کہ یہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں اور موعودہ خلافت کے زمانہ میں بن جائے.اگر اب کوئی جھنڈا نہ بنے تو بعد میں کوئی جھنڈا کسی کیلئے سند نہیں ہو سکتا.چینی کہیں گے ہم اپنا جھنڈا بناتے ہیں اور جاپانی کہیں گے اپنا اور اس طرح ہر قوم اپنا اپنا جھنڈا ہی آگے کرے گی.آج یہاں عرب، سماٹرنی، انگریز سب قوموں کے نمائندے موجود ہیں ایک انگریز نو مسلمہ آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ایڈریس بھی پیش کیا ہے.جاوا ، سماٹرا کے نمائندے بھی ہیں، افریقہ کے بھی ہیں انگریز گویا یورپ اور ایشیا کے نمائندے ہیں.افریقہ کا نمائندہ بھی ہے امریکہ والوں کی طرف سے بھی تار آ گیا ہے اور اس لئے جو جھنڈا آج نصب ہوگا اس میں سب تو میں شامل سمجھی جائیں گی اور وہ جماعت کی شوکت کا نشان ہو گا اور یہی مناسب تھا کہ جھنڈا بھی بن جاتا تا بعد میں اس کے متعلق کوئی اختلافات پیدا نہ ہوں.پھر یہ رسول کریم ﷺ کی سنت بھی ہے.حضرت مسیح موعود کے ایک شعر کو بھی پورا کرتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ مسیح دمشق کے منارہ شرقی پر اُترے گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے وہ مینارہ بنوایا تا رسول کریم ﷺ کی بات ظاہری رنگ میں بھی پوری ہو اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں یہ جھنڈا بنانے کی توفیق دی کہ جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک شعر ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوتا ہے اور اِس وجہ سے کہ ہم لوگوں کو باطن کا بھی خیال رہے اور یہ محض ظاہری رسم ہی نہ رہے میں نے ایک اقرار نامہ تجویز کیا ہے پہلے میں اسے پڑھ کر سُنا دیتا ہوں اس کے بعد میں کہتا جاؤں گا اور دوست اسے دُہراتے جائیں.اقرار نامہ یہ ہے:.میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام ، اس کی مضبوطی اور اس کی اشاعت کیلئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اُونچا اُڑتا رہے.اَللَّهُمَّ امِينَ.اَللَّهُمَّ أَمِينَ.اللَّهُمَّ امِينَ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.» تقریر بجواب ایڈریس ہائے جماعتہائے احمدیہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 438 تا 440)