Rasool-e-Maqbool Ka Tawakal Ala-Allah

Rasool-e-Maqbool Ka Tawakal Ala-Allah

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا توکل علی اللہ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

مکرم ومحترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن و مشنری انچارج برطانیہ نے جلسہ سالانہ انگلستان 2004 ء کے موقع پر مذکورہ بالا عنوان پر ایک نہایت علمی، تحقیقی اور ایمان افروز تقریر کی تھی جو جماعتی اخبارات میں طبع بھی ہوئی۔جولائی 2005ء میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے یہ تقریر تفصیلی نظر ثانی اور مفید ضروری اضافہ جات کے بعد افادہ عام کے لئے کتابی شکل میں شائع کی گئی۔ اس ٹائپ شدہ کتاب میں اقتباسات کے حوالہ جات اور ضروری ذیلی عناوین بھی موجود ہیں۔


Book Content

Page 1

رسول مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم توکل محل على الله عطاء المجيب راشد

Page 2

رسول مقبول صلى الله علیه وسلم کا تو گل علی اللہ ☆ محترم مولانا عطاء المجیب صاحب را شد امام مسجد فضل.لندن

Page 3

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا تو کل علی اللہ نام کتاب: مصنف: محترم مولانا عطاءالمجیب صاحب راشد امام مسجد فضل.لندن تاریخ اشاعت : جولائی ۲۰۰۵ ناشر: جماعت احمدیہ.برطانیہ مطبع رقیم پر لیں.اسلام آباد (برطانیہ) THE HOLY PROPHET'S ABSOLUTE TRUST IN ALLAH This book is based on a speech delivered by Maulana Ataul Mujeeb Rashed, Imam of the London Mosque,on 31st July 2004 at 38th Jalsa Salana UK.Printed by Jamaat Ahmadiyya United Kingdom in July 2005.Printed at Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey, UK

Page 4

Page 5

تعارف جماعت احمد یہ برطانیہ کا اڑتیسواں جلسہ سالانہ مورخہ ۳۰.۳۱ جولائی و یکم اگست ۲۰۰۴ کو اسلام آباد ٹیلفورڈ، سرے، انگلستان میں منعقد ہوا.برطانیہ میں منعقد ہونے والا خلافت خامسہ کا یہ دوسرا جلسہ سالا نہ تھا جس میں امام ہمام سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے شمولیت فرمائی اور دنیا کے گوشے گوشے سے تشریف لائے ہوئے احباب جماعت بھی شامل ہوئے.اس عالمگیر سہ روزہ جلسہ سالانہ میں ۳۱ جولائی ۲۰۰۴ کو دوسرے اجلاس کی صدارت مکرم ومحترم حضرت مرزا عبدالحق صاحب، ایڈوکیٹ صوبائی امیر پنجاب جماعت احمدیہ پاکستان نے کی.ماشاء اللہ آپ کی عمر ۱۰۵ سال ہے.اس اجلاس میں مکرم محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب مبلغ انچارج برطانیہ و امام مسجد فضل لندن نے رسول مقبول ﷺ کا تو کل علی اللہ “ کے موضوع پر نہایت علمی، تحقیقی اور ایمان افروز تقریر پیش فرمائی.یہ تقریر بعد ازاں احمد یہ گزٹ کینیڈا اور ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن میں شائع ہو چکی ہے.تفصیلی نظر ثانی اور بعض مفید اضافہ جات کے بعد اب یہ تقریر افادہ عام کے لئے پہلی بار جولائی 2005 میں جماعت احمد یہ برطانیہ کی طرف سے کتابی شکل میں پیش کی جارہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کی اشاعت ہر لحاظ سے مفید اور بابرکت بنائے آمین (ناشر)

Page 6

Page 7

6 12 14 17 19 21 22 7 ابتدائیہ تو کل کا حقیقی مفہوم تو کل کی عملی تشریح فہرست مضامین ہے قرآن مجید اور بائیبل کی گواہی حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے چند عارفانہ ارشادات تو کل کا مقام خائم تو کل علی اللہ کا شجرہ طیبہ واقعات کی دنیا میں ایک عظیم نکتۂ معرفت غزوات النبی میں تو کل علی اللہ لا واقعہ ہجرت میں تو کل علی اللہ اختتامیه 36 37 50 63

Page 8

Page 9

9 بسم اللہ الرحمن الرحیم صلى الله رسول مقبول ﷺ کا تو کل علی اللہ يا أَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّنَذِيرًا وَّ دَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُنِيرًا وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا وَ لَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَ الْمُنَافِقِينَ وَدَعْ اَ ذَهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًاه (سورۃ الاحزاب : ۴۶ تا ۴۹) اے نبی ! یقیناً ہم نے تجھے ایک شاہد اور ایک مبشر اور ایک نذیر کے طور پر بھیجا ہے.اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے اور ایک منور کر دینے والے سورج کے طور پر.اور مومنوں کو خوشخبری دیدے کہ ( یہ ) ان کے لئے اللہ کی طرف سے بہت بڑا فضل ہے.اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کر اور ان کی ایذا رسانی کو نظر انداز کر دے.اور اللہ پر توکل کر اور اللہ ہی کارساز کے طور پر کافی ہے.

Page 10

ابتدائیہ 10 اللہ تبارک و تعالیٰ کا بے حد کرم اور اس عاجز کی بے انتہا خوش قسمتی اور سعادت ہے کہ عشاق اسلام کے اس مقدس عالمگیر اجتماع میں مجھے ایک ایسے موضوع پر کچھ عرض کرنے کی توفیق مل رہی ہے جو ہر مومن کی روح کی غذا ہے.سرور کائنات حضرت محمد مصطفے ﷺ کی بابرکت سیرت کا موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر جتنا بھی کہا جائے ، کبھی بھی موضوع کا حق ادا نہیں ہو سکتا.بیان کرنے والے کے دل کی حسرت پوری نہیں ہوتی اور سننے والوں کے دل بھی اس زندگی بخش تذکرہ سے کبھی سیر نہیں ہوتے.سیرت النبی ﷺ کا موضوع واقعی کیسا دلر با موضوع ہے.ایک طرف دلوں اور روحوں کو سیراب کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی تشنگی کو مزید بڑھا تا چلا جاتا ہے.آج اس عاجز کو سیرت النبی ﷺ کے جس پہلو پر کچھ عرض کرنا ہے وہ تو کل علی اللہ ہے.تو کل کا حقیقی مفہوم تو کل ایک عربی لفظ ہے جس کے لفظی معنی سپر د کر نے کے ہیں.اللہ تعالیٰ پر تو کل کرنے سے یہ مراد ہے کہ انسان اپنے آپ کو کلیتہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اپنے نفس کو اس کے آستانہ پر ڈال دے.تو کل کے مضمون میں یہ بات بھی داخل ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے اور مہیا کردہ اسباب وقوانین کو اختیار کرے لیکن اس اعتدال کے ساتھ کہ نہ تو کلیتہ اسباب کا بندہ بن کر رہ جائے اور نہ یہ ہو کہ رعایتِ اسباب کو بالکل

Page 11

11 انداز کر دے.ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ہمیں تو کل کا یہی مفہوم سمجھایا ہے کہ عند الضرورت خدا دا د طاقت و صلاحیت کو انسانی وسعت کی آخری حد تک بروئے کار لایا جائے.اس کے باوجود انسانی کوشش میں جو کمی یا نقص رہ جائے اسے خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا جائے اور یقین رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت بالغہ سے خود ا سے پورا کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے : تو کل ایک طرف سے تو ڑ اور ایک طرف جوڑ کا نام ہے“ ( ملفوظات ، جلد ۵ صفحه ۱۹۲) تو کل کی تعریف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں فرمائی ہے : تو کل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں، ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ (اے) خدا ! تو ہی اس کا انجام بخیر کر.صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو اُن اسباب کو بھی بر با دو تہ و بالا کر سکتے ہیں، اُن کی دست برد سے بچا کر ہمیں کچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا “ الحکم جلد ۷ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰) تدبیر اور توکل کے تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: انسان کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اور انسان کے امکان اور طاقت میں ہو خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو پھر اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہو سکتی.

Page 12

12 خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے یہ معنے نہیں کہ انسان تدبیر کو ہاتھ سے چھوڑ دے بلکہ یہ معنی ہیں کہ تدبیر پوری کر کے پھر انجام کو خدا تعالیٰ پر چھوڑے.اس کا نام تو کل ہے.اگر تد بیر نہیں کرتا اور صرف تو کل کرتا ہے تو اس کا تو کل پھوکا ہوگا اور نری تدبیر کر کے اس پر بھروسہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ پر توکل نہیں ہے تو وہ تدبیر بھی پھوکی ہو گی تو کل کی عملی تشریح ( ملفوظات ، جلد ۶ صفحه ۳۳۴) اس امر کی ایک خوبصورت اور عملی تشریح ہمیں ہادی کامل حضرت محمد مصطفے ﷺ کی زندگی میں نظر آتی ہے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے ایک واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے : ایک شخص اونٹ پر سوار تھا.آنحضرت ﷺ کو اس نے دیکھا.تعظیم کے لیے نیچے اترا اور ارادہ کیا کہ تو کل کرے اور تدبیر نہ کرے.چنانچہ اس نے اونٹ کا گھٹنا نہ باندھا.جب رسول اللہ ﷺ سے مل کر آیا تو دیکھا کہ اونٹ نہیں ہے.واپس آکر آنحضرت ﷺ سے شکایت کی کہ میں نے تو تو کل کیا تھا لیکن میرا اونٹ جاتا رہا.آپ نے فرمایا کہ تو نے غلطی کی.پہلے اونٹ کا گھٹا باندھتا اور پھر تو کل کرتا تو ٹھیک ہوتا.“ 66 ( ملفوظات ، جلد ۶ صفحه ۳۳۴)

Page 13

13 ایک روایت یوں بھی آتی ہے کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھوں اور پھر تو کل کروں یا اُسے آزا د ر ہنے دوں اور خدا پر توکل کروں.آپ نے فرمایا: اِعْقِلُهَا وَ تَوَكَّلْ کہ پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر تو کل کرو.(ترمذی جلد ۲ باب صفة القيامة) یا درکھنا چاہئے کہ گھٹنا باندھ کر معاملہ کو خدا کے سپر د کر دینا درحقیقت تو کل کی پہلی منزل ہے.یہ ایک عام انسان کا مقام ہے.تو کل کا مضمون بہت گہرا ہے اور اسکی راہیں بہت باریک ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرتوں پر کامل ایمان رکھنے والے مومن کے توکل کا معیار اس سے بہت بلند ہوتا ہے.اسباب موجود ہوں تو وہ حکم خداوندی کے مطابق ان کو ضرور استعمال کرتا ہے لیکن اس بات پر بھی کامل یقین رکھتا ہے کہ ایک قادر وتوا نا خدا ہے جو کل اسباب کا خالق و مالک ہے.وہ آستانہ الوہیت پر جھکتا ہے اور رحمت باری تعالیٰ کو اس طرح حرکت دیتا ہے کہ خدا جو اسباب کا پابند اور محتاج نہیں ، اپنی قادرانہ قدرت کی تجلی سے معجزانہ طور پر غیر ممکن باتوں کو بھی ممکن بنا دیتا ہے.یہ تو کل کا وہ مقام ہے جو مومنوں کی زندگیوں میں اور خاص طور پر انبیاء کرام کی زندگیوں میں جلوہ گر نظر آتا ہے.ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ کی حیات طیبہ میں یہ حقیقی اور سچا تو کل علی اللہ اپنے نقطۂ معراج پر نظر آتا ہے.اس اعلیٰ مقام تو کل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : اگر کوئی طاقت رکھے تو تو کل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے“ کشتی نوح صفحه ۱۳ ، روحانی خزائن جلد ۱۹) )

Page 14

14 قرآن مجید اور بائیل کی گواہی قرآن مجید میں تو کل کا مضمون بڑی کثرت کے ساتھ بیان ہوا ہے.تو کل علی اللہ کو مومنوں کی ایک صفت قرار دیا گیا ہے.انبیاء کرام کے حوالہ سے بڑی کثرت سے یہ بات مذکور ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کا نمونہ دکھایا.انبیاء کے ماننے والوں کے تو کل کا بھی ذکر ملتا ہے.سب سے زیادہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ توکل کے ضمن میں ہمارے پیارے ہادی کامل حضرت محمد مصطفے ﷺ کا ذکر مختلف انداز میں ملتا ہے.تو کل علی اللہ کے سلسلہ میں آپ کے عملی نمونوں کو قرآن کریم نے ہمیشہ ہمیش کے لئے مشعل راہ کے طور پر محفوظ کر دیا ہے.قرآن مجید کی گیارہ آیات کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور پیارے رسول ﷺ کو تو کل کی تاکید فرمائی ہے.گیارہ کی تعداد میں کیا حکمت ہے؟ یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.لیکن یہ مضمون بہت واضح ہے کہ آپ کو تو کل اختیار کرنے کی اس تاکید میں دراصل آپ کی ساری کی ساری امت قیامت تک کے لئے مخاطب ہے.اس امر کی لطیف حکمتوں کا ذکر حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کے الفاظ میں عرض کرتا ہوں.فرمایا: یہ قرآنی فرمان اصل میں تو آنحضرت ﷺ کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تسلی کا پیغام تھا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی بے فکر رہ اور اپنے صحابہ کو بھی تسلی کروادے کہ جیسے بھی حالات ہوں......یہ کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے.پہلے بھی اللہ تعالیٰ کا رساز رہا ہے، تجھے ہر مشکل اور ہر مصیبت سے نکالتا رہا ہے اور

Page 15

15 آئندہ بھی وہی کارساز ہے......پس آپ اسی پر ہمیشہ کی طرح تو کل کرتے رہیں.یہ تسلی خدا تعالیٰ نے اس لئے نہیں دی تھی کہ خدانخواستہ آپ خوفزدہ تھے یا تو کل میں کوئی کمی آگئی تھی.بلکہ یہ صحابہ کے حوصلے بڑھانے کے لئے تھا کہ کسی کمزور دل میں بھی کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہم کمزور ہیں اور اتنی طاقتوں کے سامنے ہم کسی طرح مقابلہ کر سکتے ہیں.اور پھر یہ بھی کہ دشمن پر بھی اظہار ہو جائے کہ ہم تمہارے سامنے جھکنے والے نہیں ، ہم ہمیشہ کی طرح اس خدائے واحد پر ہی تو کل کرتے ہیں اور اس یقین سے پڑ ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح ہمارا مددگار ہو گا ، ہماری مددفرماتا رہے گا.اور دشمن ہمیشہ کی طرح ناکام و نامراد ہوگا“ ( خطبه جمعه فرموده ۸ اپریل ۲۰۰۵) علاوہ ازیں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول پاک ﷺ کے متوکل ہونے کی گواہی بار بار دی ہے اور ظاہر بات ہے کہ علام الغیوب خدا کی گواہی سے بڑھ کر کس کی گواہی سچی اور قطعی ہوسکتی ہے.خود رسول پاک ﷺ تو اپنے طبعی حجاب اور غایت درجہ منکسر المزاجی کہ وجہ سے اپنی صفات حسنہ کا کبھی بھی برملا اظہار پسند نہ فرماتے تھے لیکن وہ خدا جو آپ کی ہر حرکت و سکون پر نظر رکھنے والا اور آپ کی دلی حقیقی کیفیات سے خوب واقف تھا اس خدائے علیم وخبیر نے ارشاد فرمایا کہ اے میرے حبیب! تو میرے اذن اور میری اجازت سے اس بات کا اعلان کر دے کہ تو تو کل علی اللہ کے مقام محمود پر فائز ہے.قرآن مجید کی درج ذیل آیات اس پر گواہ ہیں : قُلْ هُوَرَ بِّي لَآ ا الهَ اِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَ كُلْتُ وَا لَيْهِ مَتَابِ﴾ (الرعد ١٣:٣١)

Page 16

16 تو کہہ دے وہ میرا رب ہے کوئی معبود اس کے سوا نہیں.اُسی پر میں تو کل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میرا عاجزانہ جھکنا ہے.فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ﴾ (التوبة ٩:١٢٩) پس اگر وہ پیٹھ پھیر لیں تو کہہ دے میرے لئے اللہ کافی ہے.اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.اسی پر میں تو کل کرتا ہوں اور وہی عرش عظیم کا رب رب ہے.ذَلِكُمُ اللهُ رَبِّي عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنَيْبُ ﴾ (الشورى ٣٢:١١) یہ ہے اللہ جو میرا رب ہے.اسی پر میں تو کل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میں جھکتا ہوں.بائیل میں بھی رسول پاک ﷺ کی اعلیٰ صفات کا ذکر ملتا ہے.ان صفات میں تو کل کی صفت بھی شامل ہے.حضرت عطا بن یسار ایک حدیث بیان کرتے ہیں کہ میں عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے ملا.میں نے کہا مجھے حضور ﷺ کی اس صفت کے متعلق بتا ئیں جو تورات میں مذکور ہے.انہوں نے فرمایا.اللہ کی قسم ! آپ کو تورات میں بعض ایسی صفات سے موصوف کیا گیا ہے جن سے قرآن میں بھی آپ کو موصوف کیا گیا ہے.پھر قرآنی آیت پڑھی کہ يَأَيُّها النَّبِيُّ إِنَّا أَرْ سَلْنكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا ﴾ (الاحزاب : ۴۶) کہ اے رسول ! یقیناً ہم نے تجھے شاہد اور مبشر اور ڈرانے والا بنا کر اور امتیون کے لئے محافظ بنا کر بھیجا ہے.تو میرا بندہ اور رسول ہے.سَمَّيْتُكَ الْمُتَوَكِّل میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے.(بخارى كتاب البيوع باب كراهية الصخب في السوق)

Page 17

17 پس یہ وہ متوکل انسان تھا ہے جس کا نام سینکڑوں ہزاروں سال پہلے سے اللہ تعالیٰ نے متوکل رکھ دیا تھا! حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے چند عارفانہ ارشادات جہاں تک ہمارے پیارے آقا حضرت اقدس محمد عربی ﷺ کا تعلق ہے آپ كَانَ خُلُقُه الْقُرْآنَ کے مطابق قرآن مجید کی جملہ تعلیمات پر سب سے زیادہ عامل اور ان کی مجسم تصویر تھے.آپ کے مقام تو کل علی اللہ کا اندازہ لگا نا عام انسان کے بس کی بات نہیں.اس کے لیے ایک عارف باللہ کی نظر اور چشم بصیرت کی ضرورت ہے.ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس موضوع پر حضرت نبی اکرم ﷺ کے روحانی فرزند جلیل ، حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام نے ہماری راہنمائی فرمائی ہے.اس لیئے مضمون کو آگے بڑھانے اور واقعات کے آئینہ میں تو کل علی اللہ کی جھلک دیکھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے پر معارف ارشادات سے روشنی اور بصیرت حاصل کریں.دوارشادات بطور نمونہ پیش کرتا ہوں.آپ نے فرمایا : ’ الله واقعات حضرت خاتم الانبیاء ﷺ پر نظر کرنے سے یہ بات نہایت واضح اور نمایاں اور روشن ہے کہ آنحضرت اعلیٰ درجہ کے یک رنگ اور صاف باطن اور خدا کے لئے جان باز اور خلقت کے بیم و امید سے بالکل منہ پھیر نے والے اور محض خدا پر توکل کرنے والے تھے کہ جنہوں نے خدا کی خواہش اور مرضی میں محو اور فنا ہو کر اس بات کی کچھ بھی پروانہ کی کہ

Page 18

18 توحید کی منادی کرنے سے کیا کیا بلا میرے سر پر آوے گی.اور مشرکوں کے ہاتھ سے کیا کچھ دکھ اور درد اٹھانا ہوگا.بلکہ تمام شد توں اور سختیوں اور مشکلوں کو اپنے نفس پر گوارا کر کے اپنے مولیٰ کا حکم بجالائے.اور جو جو شرط مجاہدہ اور وعظ اور نصیحت کی ہوتی ہے وہ سب پوری کی اور کسی ڈرانے والے کو کچھ حقیقت نہ سمجھا.ہم سچ سچ کہتے ہیں کہ تمام نبیوں کے واقعات میں ایسے مواضعات خطرات اور پھر کوئی ایسا خدا پر توکل کر کے کھلا کھلے شرک اور مخلوق پرستی سے منع کرنے والا اور اس قدر دشمن اور پھر کوئی ایسا ثابت قدم اور استقلال کر نیوالا ایک بھی ثابت نہیں.“ ( براہین احمدیہ جلد اول.روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۱۱۱.۱۱۲) اسی موضوع پر آپ مزید فرماتے ہیں : دو وہ مصیبتوں کا زمانہ جو ہمارے نبی ﷺ پر تیرہ برس تک مکہ معظمہ میں شامل حال رہا.اس زمانہ کی سوانح پڑھنے سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے وہ اخلاق جو مصیبتوں کے وقت کامل راستباز کو دکھلانے چاہئیں یعنی خدا پر توکل رکھنا اور جزع فزع سے کنارا کرنا اور اپنے کام میں سُست نہ ہونا اور کسی کے رُعب سے نہ ڈرنا ایسے طور پر دکھلا دیئے جو کفار ایسی استقامت کو دیکھ کر ایمان لائے اور شہادت دی کہ جب تک کسی کا پورا بھروسہ خدا پر نہ ہو تو اس استقامت اور اس طور سے دکھوں کی برداشت نہیں کر سکتا.“

Page 19

19 تو کل کا مقام خائم اسلامی اصول کی فلاسفی.روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۴۴۷) اللہ تعالیٰ کے سب انبیاء کرام اپنے اپنے وقت میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر محکم ترین ایمان رکھنے والے اور کلیتہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنے والے مقدس وجود ہوتے ہیں.ہمارے آقا و مولیٰ ، ہادی کامل حضرت محمد مصطفے ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین کے عالی منصب پر فائز فرما کر امام الانبیاء کا مرتبہ عطا فر مایا.اللہ تعالیٰ نے آپ میں نہ صرف جملہ انبیائے کرام کی صفات ودیعت فرما ئیں بلکہ آپ کی زندگی میں ہر فضیلت اپنی معراج پر نظر آتی ہے.تو کل علی اللہ کے باب میں بھی یہ کیفیت آپ کی ساری حیات طیبہ میں اس شان سے جلوہ گر نظر آتی ہے کہ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آپ کو اس میدان میں بھی سب انبیاء کرام پر افضلیت اور اکملیت کا مقامِ خاتم عطا فرمایا گیا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر آپ کی حیات طیبہ کے واقعات زندہ گواہ ہیں.اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے تحت آپ کی حیات طیبہ مختلف ادوار میں سے گزری.زندگی میں نشیب و فراز آتے رہے.سیرت نبوی کا مطالعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ نے زندگی کے ہر موڑ پر ، حالات کے ہر مرحلہ پر توکل علی اللہ کی صفت کو ہمیشہ سر بلند رکھا.تو کل علی اللہ کی شمع فروزاں نے آپ کی مبارک زندگی کے ہر زاویہ کو منور کیا.مگی زندگی کے پر آشوب دنوں میں جبکہ زہرہ گداز مظالم نے عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا، تیرہ سالہ عرصہ کا ایک ایک دن امتحان تھا.آپ کی ذات کو ظلم و

Page 20

20 20 ستم کا نشانہ بنایا گیا.آپ کے پیاروں اور جانثاروں سے آپ کی آنکھوں کے سامنے سفا کی اور بربریت کا سلوک کیا گیا لیکن آپ تو کل علی اللہ کا پہاڑ بن کر یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے اور اپنے صحابہ کو بھی صبر و استقامت کی نصیحت کرتے ہوئے یہی فرماتے رہے کہ گھبراؤ نہیں یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور ایک دن خدا ضرور ہماری مدد اور نصرت فرمائے گا.آپ کا یہ نمونہ تھا جو صحابہ کے دلوں کا سہارا تھا.ہجرت کے بعد آپ کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں آپ کو دشمنوں کے پے در پے حملوں کے جواب میں دفاعی جنگوں کے میدانوں میں اترنا پڑا.ہر غزوہ کے موقع پر نفری ، اسلحہ اور تیاری کے لحاظ سے حملہ آور دشمن کا پلہ بھاری ہوتا.ان حالات میں میدان مقابلہ میں اتر نا گویا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات ہوتی.عملاً بھی متعدد مراحل ایسے آئے کہ موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگی اور وقتی طور پر ہزیمت کی سی کیفیت سے بھی گزرنا پڑا لیکن ان حوصلہ شکن اور انتہائی خطرناک حالات میں بھی ہمارے پیارے آقا محمد عربی ﷺ نے استقامت ، جرات ، یقین اور توکل علی اللہ کے ایسے ایسے ایمان افروز نمونے دکھائے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی.دشمنانِ اسلام آج بھی ان واقعات کو حیرت اور تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آقائے دو جہاں محمد مصطفے اللہ کی عظمت و رفعت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں.

Page 21

21 تو کل علی اللہ کا شجرہ طیبہ تو کل علی اللہ کو اگر ایک درخت سے تشبیہ دی جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ رسول مقبول ﷺ کی زندگی میں یہ شجرہ طیبہ اپنے پورے عروج پر تھا.یہ ایک ایسا سدا بہار درخت تھا جس کو ہر زمانہ میں شیر میں ثمر لگتے رہے.آپ کے تو کل علی اللہ کو مکی دور میں صبر واستقامت کا پھل لگا.ظلم وستم کی ہر یلغار کے مقابل پر آپ ایک مضبوط چٹان کی طرح ثابت قدم رہے.اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت پر کامل تو کل اور بھروسہ کی بدولت آپ سارا وقت کوه استقامت بن کر کھڑے رہے.مدنی دور آیا تو وہاں مخالفین اسلام نے آپ کو اور آپ کے مشن کو ختم کرنے کی نیت سے پے در پے حملے کئے.اور آپ کو دفاعی جنگوں کی خاردار وادیوں میں اترنا پڑا.اس موقعہ پر آپ کے تو کل علی اللہ کے درخت کو جرات و بہادری ، خودداری، عفوو درگزر اور عدل و انصاف کے شیریں پھل لگے.آپ پر تنگی اور ناداری کا زمانہ بھی آیا اور مالی فراخی کا بھی ، کمزوری کا وقت بھی آیا اور اختیار و اقتدار کا وقت بھی.آپ عددی قلت کے دور سے بھی گزرے اور تعداد کے لحاظ سے کثرت کا زمانہ بھی آپ کو دیکھنے کا موقع ملا.آپ کی ساری زندگی اس بات پر گواہ ہے کہ اس عبد کامل نے ہر حالت عليسة عسر و یسر میں تو کل علی اللہ کا بے نظیر اور عدیم المثال نمونہ پیش فرمایا.آپ کے تو کل علی اللہ کا شجرہ طیبہ ہر دور میں شیر میں ثمرات سے لدا ہوا دکھائی دیتا ہے.حق یہ ہے کہ ہمارے ہادی کامل حضرت محمد عربی ﷺ کی ساری زندگی تو کل علی اللہ کے حسین نمونوں سے بھری پڑی ہے.خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین محکم

Page 22

22 22 اور قادر وتوا نا خدا کی تائید و نصرت پر کامل بھروسہ آپ کی حیات طیبہ کے ایسے عنوان ہیں جن کی جھلک آپ کی ساری زندگی پر محیط نظر آتی ہے.آپ نے ہر حالت میں ، ہر موقع پر تو کل علی اللہ کا علم سر بلند رکھا.تو کل کے اچھوتے اور دلکش انداز اختیار فرمائے ، نئے سے نئے اسلوب دنیا کو عطا فرمائے اور تو کل علی اللہ کی ہر راہ میں اپنے اسوہ حسنہ سے ایسے سنگ میل نصب فرمائے جو رہتی دنیا تک روشنی اور عظمت کے مینار کے طور پر قائم رہیں گے.چند ایک متفرق واقعات پیش کرتا ہوں.واقعات کی دنیا میں صل الله رسول مقبول ﷺ کے تو کل علی اللہ کے اس اجمالی ذکر کے بعد آیئے ہم واقعات کی دنیا میں اتر کر دیکھیں کہ ہمارے پیارے آقا نے کس کس انداز میں تو کل علی اللہ کی شمعیں فروزاں کی ہیں.آپ کی مظہر زندگی میں تو کل علی اللہ کے ایمان افروز واقعات اس کثرت سے نظر آتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ خوبصورت ستاروں سے بھرا ہوا آسمان ہے.ہر ستارہ ایک دلآویز رعنائی رکھتا ہے اور ستاروں کی یہ خوبصورت کہکشاں ایک مسحور کن منظر پیش کرتی ہے.☆ عین جوانی میں جب رسول خدا ﷺ کی مکہ کی ایک مالدار اور نیک خاتون حضرت خدیجہ سے شادی ہوئی تو حضرت خدیجہ نے آپ کو غلام اور زرکثیر تحفہ کے طور پر دیا.کوئی اور ہوتا تو خوشی سے پھولے نہ سماتا اور مال کثیر کو تجارت سے مزید

Page 23

23 بڑھانے کی فکر میں لگ جاتا کہ کہیں یہ دولت کم نہ ہو جائے لیکن رسول خدا ﷺ کی سوچ با لکل مختلف تھی.بن مانگے کثیر دولت پانے پر آپ کا دل اس خدا کے شکر سے لبریز ہو گیا جو ہر خیر و برکت اور دولت کا عطا کرنے والا ہے.آپ کا دل اس یقین سے بھر گیا کہ جس خدا نے آج دیا ہے وہ کل بھی دینے پر قادر ہے اور اسکے خزانوں میں کوئی کمی نہیں.آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے شکر گزاری کے جذبہ سے سب غلاموں کو آزاد کر دیا اور ساری دولت ضرورت مندوں میں تقسیم کر دی ! منصب نبوت پر فائز ہونے سے پہلے کی بات ہے آپ نے مجلس حلف الفضول میں اس غرض سے شمولیت فرمائی کہ مظلوموں کی مدد کی جا سکے اور انہیں ان کا حق دلایا جائے.دعوی نبوت کے بعد مکہ کے سردار ابو جہل نے آپ کی مخالفت میں طوفان کھڑا کیا ہوا تھا.ابو جہل کے ایک قرض خواہ نے اس سے قرض کا مطالبہ کیا تو اس کے انکار پر وہ رؤسائے مکہ کے پاس دادرسی کے لیئے آیا.کسی نے شرارت سے کہا کہ محمد ﷺ کے پاس جاؤ اور معاہدہ کے حوالے سے کہو کہ میرا حق دلایا جائے.لوگوں کا خیال تھا کہ یا تو آپ ڈر جائیں گے اور مدد سے انکار کر کے وعدہ شکنی کے مرتکب ہوں گے اور یا ابو جہل آپ کو ذلیل و رسوا کرے گا.وہ شخص آپ کے پاس آیا اور مدد کی درخواست کی.آپ فورا مظلوم کی مدد پر کمر بستہ ہو گئے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے بڑے حوصلہ اور عزم سے گئے اور ابو جہل کو کہا کہ اس قرض خواہ کی رقم ادا کر و.آپ نے کچھ ایسے انداز میں یہ بات کہی کہ وہ مرعوب ہو گیا اور فوراً ادائیگی کر دی.لوگوں کے

Page 24

24 24 پوچھنے پر بتایا کہ میں نے دومست اونٹ دیکھے تھے جو مجھ پر حملہ آور تھے.اس واقعہ میں رسول خدا ﷺ کی جرات بھی نظر آتی ہے اور توکل علی اللہ بھی.آپ نے ایک نیک مقصد کی خاطر اپنی عزت کو خطرہ میں ڈال دیا اور سرخرو ہو کر لوٹے.☆ اسلام کے ابتدائی دور کی بات ہے.جب مکہ میں رفتہ رفتہ اسلام الله پھیلنے لگا تو رؤسائے مکہ نے سوچا کہ ہم لالچ اور دباؤ کے ذریعہ اس پیغام کو ہمیشہ کے لیئے دبا دیں.وہ رسول پاک ﷺ کے چا ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ آپ اپنے بھتیجے کو اس کام سے روکیں.اگر وہ عزت کا خواہاں ہے تو ہم اسے سردار بنانے کو تیار ہیں، دولت کا آرزومند ہے تو ہم اس کے لیئے دولت کا انبار لگا دیتے ہیں اگر شادی کی خواہش ہے تو اسکی پسند کی خوبصورت عورت سے شادی کرا دیتے ہیں لیکن ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ تو حید کی منادی کرے اور ہمارے بتوں کو بڑا بھلا کہے.انہوں نے ابو طالب سے مطالبہ کیا کہ یا تم اپنے بھتیجے کو اس بات سے روکو ورنہ اسے اپنی پناہ سے آزاد کر دو یا پھر اپنی سرداری سے ہاتھ دھو لو.ابو طالب نے یہ بات آپ سے بیان کی تو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ علیہ نے جرات و استقامت اور توکل علی اللہ کا بے نظیر مظاہرہ فرمایا.آپ نے فورا فرمایا : چا ! آپ میری وجہ سے اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالیں.آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں.جہاں تک میرا تعلق ہے میرا خدا میرے ساتھ ہے وہ کبھی میرا ساتھ نہ چھوڑے گا.اور اے میرے چا! میں یہ بھی آپ کو بتا

Page 25

25 دوں کہ میں تو اپنے مولیٰ کا ہو چکا ہوں وہی میرا سہارا اور معین و مددگار ہے.مجھے ان دنیا وی سہاروں اور وجاہتوں کی قطعاً ضرورت نہیں.جن چیزوں کی پیشکش یہ کر رہے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے؟ یہ لوگ اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر اور چاند کو بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں اور پھر مجھ سے یہ چاہیں کہ میں توحید کی منادی سے رک جاؤں تو بخدا یہ بات کبھی نہ ہو سکے گی.میں زندگی کے آخری سانس تک تو حید کی منادی کرتا چلا جاؤں گا اور اسی راہ میں ساری زندگی قربان کر دوں گا.تو کل اور استقامت کا یہ اعلان سن کر ابوطالب کی خوابیدہ فطرت بیدار ہو گئی.آپ نے کہا : اے میرے بھتیجے! جا اور اپنا فرض ادا کرتا رہ.قوم اگر مجھے چھوڑ نا چاہتی ہے تو بے شک چھوڑ دے لیکن میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا.(سيرة ابن هشام ـ الجزء الاول ذكر ما دار بين الرسول ﷺ وابي طالب) حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے موقعہ پر بھی رسول کریم ﷺ کے تو کل علی اللہ کی عجیب شان نظر آتی ہے.حضرت عمر آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے.راستہ میں بہن اور بہنوئی کے مسلمان ہونے کی خبر ملی تو فوراً ان کا رخ کیا اور سورہ طہ کی ابتدائی آیات پڑھنے سے یکدفعہ دل کی کایا پلٹ گئی.اسی طرح ننگی تلوار ہاتھ میں لئے دار ارقم پہنچے جہاں رسول پاک ﷺ صحابہ کے ساتھ موجود تھے.صحابہ نے اس دشمنِ

Page 26

26 اسلام کو اس حالت میں دیکھا تو ڈرے کہ اس کی نیت ٹھیک نہیں.لیکن رسول خدا علی کے تو کل علی اللہ اور جرات کا عالم دیکھیئے کہ آپ نے ایک لمحہ توقف کیئے بغیر صحابہ سے فرمایا کہ ڈرو نہیں اور دروازہ کھول دو.عمر تلوار پکڑے اندر داخل ہوئے.آپ آگے بڑھے اور فرمایا عمر ! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمرؓ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! مسلمان ہونے آیا ہوں.آپ نے بلند آواز سے اللہ اکبر فر مایا اور صحابہ کے پر جوش نعروں سے مکہ کی ساری وادی گونج اٹھی ! ☆ (سيرة ابن هشام - الجزء الاول ذكر سبب اسلام عمر ) سفر طائف کا واقعہ بھی ایک دلگد از واقعہ ہے جو ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ کے عزم وحوصلہ، استقامت اور توکل علی اللہ پر غیر معمولی روشنی ڈالتا ہے.تبلیغ کے بے پناہ جذبہ سے سرشار آپ نے طائف کی بستی کا سفر اختیار کیا.اس امید پر کہ شاید اہل طائف کو خدا تعالیٰ قبول حق کی توفیق عطا فرما دے لیکن یہ لوگ تو اہل مکہ سے بھی سنگدل نکلے.رؤسائے طائف نے نہ صرف دعوتِ اسلام کو رد کر دیا بلکہ شہر کے اوباشوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا.ان نوجوانوں نے کتے ساتھ لیے، جھولیوں میں پتھر بھر لیئے اور نہایت سفا کی سے سید المعصومین حضرت محمد عربی ﷺ پر اسقدر پتھراؤ کیا کہ آپ کا جسم لہولہان ہو گیا اور جوتیاں مقدس خون سے بھر گئیں.اس حالت میں ان ظالموں نے خدا کے فرستادہ کو بستی سے باہر دھکیل دیا.آپ نے ایک قریبی نخلستان میں پناہ لی.پہاڑوں کے فرشتے نے عرض کیا کہ اجازت ہو تو پہاڑوں کو الٹا کر اس بستی کا نام الله

Page 27

27 و نشان مٹا دوں لیکن آپ نے فرمایا کہ نہیں.میں تو ان کے لئے ہدایت اور رحمت کا پیغام لیکر آیا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں میں ایسے اشخاص پیدا کرے گا جو خدائے واحد کے پرستار بنیں گے.حضرت زید بن حارثہؓ اس سفر میں آپ کے ساتھ تھے.روایت میں آتا ہے کہ جب آپ چند روز آرام کے بعد مکہ کے لئے روانہ ہونے لگے تو حضرت زید نے عرض کیا : حضور ! آپ پھر وہاں تشریف لے جا رہے ہیں حالانکہ قریش نے آپ سے اچھا سلوک نہیں کیا.آپ نے کمال تو کل اور یقین سے فرمایا : ,, زید ! تم دیکھو گے کہ ایک دن اللہ اپنے دین کی مدد فرمائے گا اور اپنے نبی کو غلبہ نصیب کرے گا اور مشکلات کی یہ گھڑیاں ختم ہو جائیں گی“.اس وقت آپ کی حالت بہت ہی کسمپرسی کی تھی.دو بستیوں کے درمیان بے یار و مددگار پڑے تھے لیکن اس حالت میں بھی حصول مدد کیلئے آپ کی نگاہ اٹھی تو اپنے قا در و توا نا خدا کی طرف اٹھی اور آپ نے ایک درد بھری دعا کی جس میں اپنی بے بسی کے حوالہ سے خالق کائنات سے مدد کی التجا کی.بہتے آنسوؤں کے ساتھ آپ نے یوں عرض کیا: اللَّهُمَّ اِلَيْكَ اَشْكُو ضُعْفَ قُوَّتِى وَ قِلَّةَ حِيْلَتِي وَ هَوَانِي عَلَى النَّاسِ - اللَّهُمَّ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ أَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَ أَنْتَ رَبِي..الخ 1 (سيرة ابن هشام ـ ـ الجزء الثانی صفحه.۱۶ ذكر سعى الرسول الى الطائف)

Page 28

28 یعنی اے اللہ ! میں اپنے ضعف و ناتوانی اور کوتا ہی تدبیر کا حال تیرے سوا کس سے کہوں.میں لوگوں میں رسوا ہو گیا ہوں.اے سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے! تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خدا ہے.تو مجھے کس کے سپر د کرے گا؟ کیا ایسے دشمن کے حوالے کرے گا جو مجھے تباہ کر دے یا کسی ایسے قریبی کے سپر د جسے تو میرے معاملہ میں سب اختیار دے دے؟ خیر ! اگر تو مجھ سے ناراض نہیں تو پھر مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں مگر ہاں تیری وسیع تر عافیت کا پھر بھی میں طلبگار ہوں.میں تیرے عزت والے چہرے کے نور کی پناہ مانگتا ہوں کہ جس سے زمین و آسمان روشن ہیں اور جس نے اندھیروں کو منور کر دیا ہے اور دنیا اور آخرت کے معاملے جس کے ساتھ درست ہوتے ہیں کہ تیرا غضب مجھ پر نازل ہویا تیری ناراضگی کا موجب ٹھہروں.تیری مرضی ہے ، تو جو چاہے کرے کہ سب قوت و طاقت تجھے ہی حاصل ہے.مشہور و معروف مصنف سرولیم میور نے اپنی کتاب ” لائف آف محمد میں اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد لکھا ہے : There is something lofty and heroic in this Journey of Muhammad to At-Ta'if; a solitary man, despised and rejected by his own people, going boldly forth in the name like Jonah to Nineveh, and of God, summoning an idolatrous city to repent and

Page 29

29 support his mission.It sheds a strong light on the intensity of his belief in the divine origin of his calling.(Life of Muhammad by Sir William Muir, 1923 edtition, pp.112-113) محمد (ﷺ) کے سفر طائف میں ایک شاندار شجاعت کا رنگ پایا جاتا ہے.اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور دھتکار دیا ، خدا کے نام پر کس بہادری کے ساتھ نینوا کے یونس نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو تو بہ کی اور اپنے مشن کی دعوت دینے کو نکل کھڑا ہوتا ہے.یہ بات اس کے پختہ ایمان کو خوب آشکار کرنے والی ہے کہ وہ اپنے آپ کو قطعی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یقین کرتا تھا.( لائف آف محمد از سرولیم میور مطبوعہ 1923 صفحات 112-113) ایک غیر مسلم مستشرق کا یہ بیان آپ کے تو کل علی اللہ کا منہ بولتا اعتراف ہے.رسول پاک ﷺ کے عظیم الشان تو کل علی اللہ کے سلسلہ میں یہ واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ مدینہ میں ایک رات یکدم شور اٹھا کہ جیسے کسی فوج نے مدینہ پر حملہ کر دیا ہو.یہ ان دنوں کی بات ہے جبکہ قیصر کی فوجوں کے حملہ کا خطرہ تھا.آدھی رات کو شور سن کر صحابہ پریشان ہو گئے اور تیاری کرنے لگے کہ باہر جا کر حقیقت حال معلوم کی جائے.ابھی

Page 30

30 50 وہ یہ ارادہ کر ہی رہے تھے تو کیا دیکھا کہ سامنے سے حبیب خدا ﷺ گھوڑے پر سوار چلے آرہے ہیں.آپ نے فرمایا کہ فکر نہ کرو کوئی خطرہ کی بات نہیں.میں سب جائزہ لے آیا ہوں.(البخارى كتاب الجهاد باب السرعة والركض في الفزع) آنحضرت ﷺ کی بہادری ، جرأت اور توکل علی اللہ کا کیا ہی ارفع مقام ہے کہ آدھی رات کو خطرہ محسوس ہوتا ہے اور آپ اکیلے ہی باہر نکل جاتے ہیں اور کسی کو ساتھ بھی نہیں لیتے.گھوڑے پر زین ڈالے بغیر ، بے خوف و خطر گھوم پھر کر حالات کا جائزہ لے کر واپس آجاتے ہیں اور ان صحابہ کو تسلی دیتے ہیں جو ابھی باہر جانے کی تجویز میں سوچ رہے ہوتے ہیں ! سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ کا کیسا ایمان افروز نظارہ ہے! صلى الله یہ جاننے کے لئے کہ کسی انسان کا اللہ تعالیٰ پر توکل ہے یا نہیں اور یہ کہ توکل ہے تو کس معیار کا ہے، مشکلات اور آزمائش کی گھڑیاں اس کی میزان بن جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت میں لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ پر خاص طور پر پانچ ایسے مواقع آئے جبکہ آپ پر سخت خطرے اور امتحان کی گھڑی تھی.اور ان پانچوں مواقع پر خاص طور پر آپ نے بے مثال استقامت، جرات اور تو کل علی اللہ کا نمونہ دکھایا.ان مواقع کا ذکر متفرق مقامات پر کیا گیا ہے.بطور مثال ایک واقعہ کا ذکر اس جگہ کرتا ہوں.جب ہمارے آقا مبلغ اعظم ﷺ نے وقت کے بادشاہوں کو بذریعہ خطوط دعوتِ اسلام دی تو ان میں شہنشاہ فارس خسرو پرویز بھی شامل تھا.کسری ایران نے آپ کا خط سن کر بڑے تکبر اور رعونت سے خطا ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.جب آپ کو بادشاہ کے اس رد عمل کا علم ہوا تو

Page 31

31 آپ نے دینی غیرت کے جوش میں اور اللہ تعالیٰ کی غالب تائید و نصرت پر کامل تو کل کے نتیجہ میں بڑے جوش سے فرمایا: 66 ” خدا خودان لوگوں کو پارہ پارہ کرئے“ (البخارى كتاب الجهاد باب دعوة اليهودي والنصراني و على صلى الله ما يقاتلون عليه وما كتب النبی الله الی کسری و قیصر) اس کے بعد کسری نے یمن کے گورنر کے ذریعہ آپ کو گرفتار کرنے کے لئے دو سپاہیوں کو خط دے کر مدینہ بھجوایا.آپ نے خط کا مضمون سنا.جس میں لکھا تھا کہ فی الفور اپنے آپ کو ان لوگوں کے سپرد کر دیں.اس خطرناک موقع پر آپ نے کسی گھبراہٹ کا اظہار کئے بغیر ان لوگوں سے فرمایا کہ تم آج رات یہاں ٹھہرو میں انشاء اللہ تمہیں کل جواب دوں گا.اس رات خدا کے متوکل بندے نے اپنے مولیٰ سے کیا مناجات کیں، یہ کسی کو معلوم نہیں.لیکن نتیجہ یہ ہوا کہ اسی رات خدائے ذوالجلال نے اپنی طاقت وقدرت کا عظیم الشان جلوہ دنیا کو دکھایا.صبح ہوئی تو آپ نے ان نمائندوں کو فرمایا : دو تم واپس چلے جاؤ اور اپنے آقا والئی یمن سے جا کر کہہ دو کہ میرے رب نے آج رات تیرے رب یعنی کسری کو قتل کر دیا ہے!“ صل الله (الخصائص الكبرى الجزء الثاني صفحه ۱۰ باب ما وقع عند كتابه عالی کسری وہ لوگ یہ بات سن کر ہکا بکا رہ گئے اور واپس چلے گئے.بعد میں معلوم ہوا کہ اسی رات خسرو پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر دیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی بات لفظا لفظاً پوری ہوئی.یہ عظیم الشان واقعہ اللہ تعالیٰ کی غالب قدرت کا اور رسول خدا ﷺ کے

Page 32

32 32 بے مثال تو کل علی اللہ کا ایک درخشندہ نمونہ ہے.☆ رسول خدا ﷺ کے توکل علی اللہ میں ہر پہلو سے ایک عجیب شان دلر بائی پائی جاتی ہے.آپ اگر چاہتے تو اپنے لئے دنیاوی اموال و اسباب کے پہاڑا کٹھے کر لیتے لیکن آپ نے ایسا نہ کیا.بلکہ اموال بکثرت آنے پر بھی اَلْفَقْرُ فَخْرِی کا متوکلانہ نعرہ بڑی شان سے لگایا اور یہی نمونہ آپ نے اپنی ازواج اور اولاد کے لئے چھوڑا.آپ کی ساری زندگی اس بات پر شاہد ناطق ہے کہ آپ گو ہر مرحلہ پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل رہی اور جب بھی ضرورت پیش آئی اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر اس ضرورت کو پورا کیا.ساری زندگی کا نچوڑ آپ کے سامنے تھا اور یہ یقین آپ کی روح کی پاتال تک اتر چکا تھا کہ جو معطی اور وھاب خدا میری ضروریات کا متکفل رہا ہے وہ میرے بعد میرے پسماندگان کا بھی متولی ہوگا.خدا پر اس کامل تو کل کی وجہ سے آپ نے نہ پسند فرمایا نہ ضرورت محسوس کی کہ اپنے پسماندگان کے لئے دنیا کے اموال چھوڑ کر جائیں.آپ کو خدا پر کامل تو کل تھا اور آپ تو کل کی یہ عظیم دولت ہی اپنے بعد ورثہ میں چھوڑ کر گئے.یہ تو کل کا وہ اعلیٰ مقام ہے جس کی نظیر نہ جملہ انبیاء میں ملتی ہے اور نہ آپ جیسے تو کل والا کوئی انسان دنیا میں پیدا ہوا، نہ پیدا ہو سکتا ہے.دنیا میں عام مشاہدہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس مال و دولت ہوتی ہے وہ اپنی صلى الله اولاد کے حق میں اسے وقف کر چھوڑتے ہیں.رسول خدا ہے کے پاس دولت تو کبھی بھی جمع عليسة نہ ہوئی کیونکہ آپ ہمیشہ ہر چیز ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیتے تھے.لیکن خدا نے آپ کو

Page 33

33 33 حکومت اور اقتدار و اختیار سے بھی مالا مال کیا.اگر آپ چاہتے تو دنیا کے لوگوں کی طرح اپنی اولاد کے لئے کوئی معین حصہ بیت المال کے مصارف میں مخصوص کر دیتے.اگر چاہتے تو زکوۃ اور غزوات کے اموال غنیمت میں اپنی اولاد در اولا د کو بھی شامل کر دیتے لیکن آپ کی شان تو کل علی اللہ کا کیا ہی حسین نمونہ ہے کہ آپ نے اپنی اولاد کے لئے کوئی ایسا استثنائی قاعدہ قانون نہ بنایا.با غیرت اور متوکل دل جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا تھا وہ کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ اپنی اولا د کو دیگر پیروکاروں پر اس پہلو سے ترجیح دے.پھر یہ بھی عین ممکن تھا کہ مسلمان ، سادات کو صدقات کا اولین حقدار سمجھ لیتے اور سادات بھی انہی صدقات کو اپنا ذریعہ معاش سمجھ لیتے.اس کی پیش بندی کے طور پر ہمارے حسن آقا ﷺ نے یہ بھی فرما دیا کہ إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ (مسلم کتاب الزکواة، باب ترک استعمال آل النبي على الصدقة ) یعنی میری ذریت و نسل کے لئے صدقہ و خیرات کی کوئی رقم لینا جائز نہ ہوگا.اس طرح آپ نے اپنی جسمانی ذریت کو اور ان کے حوالہ سے ساری روحانی ذریت کو بھی عزت نفس اور تو کل کا کیسا عمدہ سبق دیا اور ان کو خود محنت کرنے اور رزق حلال کما کر زندگی بسر کرنے کا راستہ دکھایا.آپ کے اس نمونہ میں سادات کے لئے یہ درس نصیحت بھی شامل ہے کہ اگر ایک متقی کی سات نسلوں تک خدا تعالیٰ رعایت رکھتا ہے تو وہ خدا خاتم المتقین ﷺ سے نسبت رکھنے والوں کا قیامت تک متکفل رہے گا بشرطیکہ وہ اس نسبت میں بچے اور وفا دار ٹھہر ہیں.مسیلمہ کذاب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی رسول پاک ﷺ کی شان ☆

Page 34

34 تو کل علی اللہ ایک عجیب انداز میں اجاگر کرتا ہے.یہ جھوٹا مدعی نبوت آپ کی زندگی میں ایک لشکر جرار لے کر مدینہ آیا اور آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ اسے اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں تو وہ اپنی جماعت سمیت آپ کی اطاعت کرنے کو تیار ہے.اگر کوئی دنیاوی مشن کا علمبر دار ہوتا ، دنیاوی و جاہت کا طالب ہوتا یا دنیاوی عزت و توقیر کا متمنی ہوتا تو فوراً یہ پیشکش مان لیتا لیکن ہمارے آقا حضرت محمد مصطفے ﷺ نے اس کی بات سنتے ہی اس کو رڈ فرما دیا.اور کھجور کی شاخ سے ایک چھوٹا سا تنکا اتار کر اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا: لَوْ سَاَلْتَنِي هَذَا الْعَسِيْبَ مَا أَعْطَيْتُكَه (سيرة ابن هشام الجزء الرابع صفحه ۱۲۳ ذکر ما حدث بين الرسول ومسيلمة) اگر اس ایک تنکا کے بدلہ میں مجھے تیری حمایت مل سکتی ہو اور تو اس کا سوال کرتا تو میں یہ ایک تنکا بھی تجھے دینے کو تیار نہیں.اللہ ! اللہ ! کیا شان ہے ہمارے آقا و مولی کے توکل علی اللہ کی.یہ شان تو کسی اور نبی کی زندگی میں بھی نظر نہیں آتی ! آپ کے عظیم تو کل کی شان اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ اگر آپ چاہتے تو اسی وقت مسیلمہ کذاب کو پکڑ کر مروا دیتے کیونکہ وہ اس وقت مدینہ میں آیا ہوا تھا اور آپ کے ہاتھ کے نیچے تھا لیکن اس معاملہ میں بھی آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا کہ خدا خود ہی اس جھوٹے کو اپنے دستِ قدرت سے ہلاک کر دے گا.تو کل علی اللہ کے اس شاندار نمونہ کا تذکرہ حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں سینیے.فرماتے ہیں:

Page 35

35 وہ میرا پیارا زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھا.بڑھتے ہوئے لشکر اور دوڑتے ہوئے گھوڑے، اٹھتے ہوئے نیزے اور چمکتی ہوئی تلوار میں اس کی آنکھوں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھیں وہ ملائکہ آسمانی کا نزول دیکھ رہا تھا اور زمین و آسمان کا پیدا کنندہ اس کے کان میں ہر دم تسلی آمیز کلام ڈال رہا تھا اس کا دل یقین سے پر اور سینہ ایمان سے معمور تھا.غرضیکہ بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کرنے کے اس کا تو کل خدا پر تھا.پھر بھلا ان مصائب سے وہ کب گھبر اسکتا تھا اس نے مسیلمہ اور اس کے لشکر پر بھروسہ کرنا ایک دم کے لئے بھی مناسب نہ جانا اور صاف کہہ دیا کہ خلافت کا دھوکہ دے کر تجھے اپنے ساتھ ملانا اور تیری قوم کی اعانت حاصل کرنی تو علیحدہ امر ہے ایک کھجور کی شاخ کے بدلہ میں بھی اگر تیری حمایت حاصل کرنی پڑے تو میں اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھوں.اس غیور دل کی حالت پر غور کرو.اس متوکل انسان کی شان پر نظر ڈالو.اس یقین سے پر دل کی کیفیت کا احساس اپنے دلوں کے اندر پیدا کر کے دیکھو کہ کس یقین اور توکل کے ماتحت وہ مسیلمہ کو جواب دیتا ہے.کیا کوئی بادشاہ ایسے اوقات میں اس جرأت اور دلیری کو کام میں لاسکتا ہے.کیا تاریخ کسی گوشت اور پوست سے بنے ہوئے انسان کو ایسے مواقع میں سے اس سلامتی سے نکلتا ہوا دکھا سکتی ہے.اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپ کی زندگی سے مقابلہ کرنا ہی غلط ہے کیونکہ آپ نبی تھے اگر آپ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے تو انبیاء سے مگر جوشان آپ کو حاصل ہے اس کی نظیر انبیاء میں بھی نہیں مل سکتی کیونکہ

Page 36

آپ کوسب انبیاء پر فضیلت ہے.“ ایک عظیم نکتۂ معرفت 36 انوار العلوم جلد اوّل صفحہ 502- 503) تو کل علی اللہ کے باب میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے ﷺ نے یہ عظیم نکتۂ معرفت بھی اپنی امت کو سکھایا کہ ہر حال میں اپنے خدا کو یا درکھو اور ہر ضرورت کے وقت خواہ وہ ہمالہ جیسی بڑی ہو یا جوتی کے تسمہ جیسی چھوٹی ، ہمیشہ تمہاری نظر اسی خدا کی طرف اٹھے جو ہر چھوٹی بڑی ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.اور پھر یہی نہیں کہ ایک دنیا دار مطلبی شخص کی طرح صرف ضرورت پڑنے پر تمہیں خدا یاد آ جائے اور باقی وقتوں میں تم اپنے زور باز و یا لیاقت پر اترانے لگ جاؤ.آپ نے یہ نکتہ سمجھایا کہ حقیقی مومن وہ ہے جو ہر وقت اپنے آپ کو نعمائے الہی کا محتاج سمجھے اور اپنا کشکول لئے ہر وقت اس کے در پر بیٹھا رہے.ہر قدم پر آپ نے دعا سکھائی اور ہر اہم موقعہ کے لیئے ایک دعا تعلیم فرمائی.آپ کی سکھائی ہوئی یہ ساری دعائیں آپ کے تو کل علی اللہ کا زندہ ثبوت ہیں.آپ نے نصیحت فرمائی کہ صحت کی حالت میں بھی خدا کو یا درکھو کہ بیماری میں وہ تمہارا ساتھی اور شافی ہوگا.فراخی کے وقت میں بھی اپنے مولیٰ کو یا درکھو کہ مشکل کے وقت وہ تمہارا معین و مددگار اور مشکل کشا ثابت ہو گا.حق یہ ہے کہ اس نصیحت پر سب سے زیادہ جس وجود نے عمل کیا وہ خود آپ کا و جو د مبارک تھا.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ خدا ﷺ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے ہر

Page 37

37 وقت اپنے مولیٰ کی یاد میں مصروف رہتے ، ہاتھ کا موں میں مصروف ہوتے اور دل خدا کی یاد سے آباد رہتا.عسر و یسر میں آپ کی آنکھ اسی خدا کی طرف اٹھتی جس پر آپ کا سارا تو کل تھا.یہ کیفیت اسی کو نصیب ہو سکتی ہے جو تو کل علی اللہ کے حقیقی مفہوم سے خوب آشنا ہو ، جس کی نظر میں بس خدا ہی خدا ہو، جو اپنا سب کچھ راہ خدا میں فدا کر کے بس اسی کا ہو چکا ہو.لا ریب یہی کیفیت ہمارے آقا و مولیٰ ، رسول خدا ﷺ کی تھی.غزوات النبی میں تو کل علی اللہ پیارے آقا حضرت محمد مصطفے ﷺ کی زندگی کے کسی باب کو کھول کر دیکھ لیں، ہر جگہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور اسکی نصرت پر کامل بھروسہ نظر آتا ہے.بطور مثال غزوات پر ایک نظر کرنے سے یہ ایمان افروز منظر سامنے آتا ہے کہ میدان جنگ میں جہاں وسائل کی کمی ، ہر طرف سے خطرات کی یلغار اور غیر یقینی کیفیت ہوتی تھی وہاں پر بھی ہمارے ہادی کامل محمد عربی ﷺ نے تو کل علی اللہ کے ایسے ایسے نمونے دکھائے ہیں کہ تاریخ عالم میں ان کی نظیر دکھائی نہیں دیتی.چند واقعات بطور نمونہ پیش کرتا ہوں غزوہ بدر کفر و اسلام کا وہ عظیم معرکہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح مبین سے نوازا.ایک ہزار مسلح اور تجربہ کار سپاہیوں کے مقابل پر تین سو تیرہ نسبتے اور ناتجربہ کار مسلمانوں کو لیکر میدان مقابلہ میں اترنے کا فیصلہ ہی حضور ﷺ کے تو کل کو ظاہر کرتا ہے.بظاہر دنیا کی نظر میں یہ فیصلہ خود کوموت کے منہ میں دھکیلنے والی ☆

Page 38

38 بات تھی لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین رکھتے ہوئے اپنے جانثاروں کو ساتھ لیکر دشمن کے مقابلہ کے لیئے نکل کھڑے ہوئے.☆ ابھی روانہ ہوئے ہی تھے کہ ایک مشرک جو اپنی بہادری اور شجاعت کی وجہ سے بہت شہرت رکھتا تھا آپ سے ملا اور لشکر میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا.عددی قلت کے وقت ایک تجربہ کار اور جنگ جو بہادر کامل جانا ایک غیر معمولی بات تھی الله اور صحابہ بھی اس کے آنے سے خوش ہو رہے تھے لیکن رسول پاک ﷺ کی عجیب شانِ تو کل تھی کہ آپ نے اس شخص کی پیشکش مستر د کر دی اور فرمایا کہ میں اسلام کی سربلندی کے اس معرکہ میں کسی مشرک سے مدد لینے کو تیار نہیں ہوں خواہ وہ کتنا ہی نامور اور تجربہ کار کیوں نہ ہو.تھوڑی دیر بعد وہ شخص پھر آیا اور شمولیت کی اجازت چاہی لیکن آپ نے پھر انکار کر دیا.وہ تیسری بار آیا اور اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا کہ ہاں اب ٹھیک ہے.اگر تم برضا و رغبت مسلمان ہوتے ہو تو پھر ہمارے ساتھ شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں.مسلم كتاب الجهادو السير ـ باب كراهة الاستعانة في الغزو بكافر) یہ واقعہ آپ کے کردار کی عظمت اور تو کل علی اللہ کی ایک شاندار مثال ہے.اسی طرح کا ایک اور واقعہ اس وقت ہوا جب کہ میدان بدر میں صف بندی کی جارہی تھی.یہ وہ موقعہ تھا کہ ایک ایک شخص کا وجود بسا غنیمت تھا.عین اس وقت

Page 39

39 حضرت حذیفہ بن یمان اپنے ایک اور ساتھی ابو جبل کے ساتھ مکہ سے سید ھے اس جگہ پہنچ گئے اور بتایا کہ ہم آرہے تھے کہ راستہ میں کفار نے ہمیں پکڑ کر روک لیا کہ کہیں ہم آپ کے لشکر میں نہ شامل ہو جائیں.ہم نے انہیں کہا کہ ہم تو مدینہ جارہے ہیں.اس پر انہوں نے ہم سے یہ عہد لیکر ہمیں آنے کی اجازت دی ہے کہ کفار کے خلاف لڑائی میں ہم شامل نہیں ہوں گے.کفار نے یہ عہد زبر دستی ان صحابہ سے لیا تھا اور حالتِ جنگ میں اس کا ایفاء ضروری نہ تھا اور وقت بھی ایسا تھا کہ ایک ایک فرد بہت مفید ہوسکتا تھا.ان سب الله باتوں کے باوجود جب یہ بات رسول خدا ﷺ کو پہنچی تو آپ نے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے عظیم الشان تو کل سے فرمایا : اِنْصَرِفَا - نَفِى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَ نَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ - (صحيح مسلم كتاب الجهاد باب الوفاء بالعهد) یعنی تم جاؤ اور اپنے عہد کو پورا کرو.ہم بھی اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جو ہم نے ان سے کیا ہے اور ہم ان کے خلاف اللہ ہی سے مدد چاہتے ہیں.میدان جنگ میں عہدوں کی پابندی کرنے والا اور انتہائی خطرناک حالت میں بھی تو کل علی اللہ کا علم اس شان سے بلند کرنے والا محمد عربی ﷺ کے سوا اور کون ہے؟ صلى الله ساری دنیا کی تاریخ میں ایسی شاندار مثال ڈھونڈے سے نہیں مل سکتی ! اسی غزوہ بدر کے حالات پر نظر کرنے سے ایک عجیب نظارہ ہمارے سامنے آتا ہے.انتہائی نامساعد حالات میں بھر پور عزم و یقین اور توکل علی اللہ کے ساتھ رسول مقبول

Page 40

40 میدان مقابلہ میں اترتے ہیں اور ہر ممکن احتیاط اور تدبیر بروئے کار لاتے ہیں..سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت پر نظر رکھے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں.ایک خیمہ بطور خاص آپ کے لیے نصب کیا گیا اور چشم فلک نے دیکھا کہ اسی خیمہ میں رسول خدا نہایت رقت کی حالت میں خدا کے حضور ہاتھ پھیلائے ہوئے دعاؤں میں مصروف ہیں.سخت اضطراب کی کیفیت ہے، کسی گھبراہٹ کی وجہ سے نہیں کہ خدا تعالیٰ نے نصرت اور فتح کی بشارت تو پہلے سے دے رکھی تھی بلکہ عرفان الہی کے نتیجہ میں تو کل علی اللہ کے انتہائی ارفع مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے آپ کی یہ کیفیت تھی اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب نکتہ بیان فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں: علوس قرآن شریف میں بار بار آنحضرت ﷺ کو کا فروں پر فتح پانے کا وعدہ دیا گیا تھا مگر جب بدر کی لڑائی شروع ہوئی جو اسلام کی پہلی لڑائی تھی تو آنحضرت نے رونا اور دعا کرنا شروع کیا اور اور دعا کرتے کرتے یہ الفاظ آنحضرت کے منہ سے نکلے اللّهُمَّ اِنْ اَهْلَكْتَ هَذِهِ الْعِصَا بَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ فِي الْاَرْضِ اَبَدًا یعنی اے میرے خدا! اگر آج تو نے اس جماعت کو ( جوصرف تین سو تیرہ آدمی تھے ) ہلاک کر دیا تو پھر قیامت تک کوئی تیری بندگی نہیں کرے گا.ان الفاظ کو جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کے منہ سے سنا تو عرض کی یا رسول اللہ ! آپ اس قدر بے قرار کیوں ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے تو آپ کو پختہ وعدہ دے رکھا ہے کہ میں فتح دوں گا.آپ نے فرمایا کہ یہ سچ ہے مگر اس کی بے نیازی پر میری نظر ہے یعنی کسی وعدہ کا پورا کرنا خدا تعالیٰ پر

Page 41

41 و حق واجب نہیں ہے (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۲۵۵-۲۵۶) اللہ! اللہ ! کیا شان ہے اس تو کل علی اللہ کی جس کا عرفان اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہادی کامل، خاتم العارفین حضرت محمد مصطفے ﷺ کو عطا فر مایا اور دیکھو کہ اسی تو کل نے بدر کے میدان میں کیسا انقلاب بر پا کر دیا.خیمہ نبوی میں کی جانے والی انہی دعاؤں کی برکت سے کفار مکہ کو عبرت ناک شکست ہوئی اور مٹھی بھر غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم معجزانہ رنگ میں عظیم الشان فتح سے سرفراز ہوئے.☆ توکل علی اللہ کا ایک اور لطیف قرینہ رسول پاک ﷺ کے مبارک اسوہ میں یہ نظر آتا ہے کہ دنیاوی اسباب اور سہاروں کے نہ ہونے یا ہاتھ سے چلے جانے پر بھی آپ کے تو کل علی اللہ میں رتی برابر فرق نہ آتا تھا.آپ کا سہارا اول و آخر خدا تعالیٰ تھا جس نے آپ کو یہ مدہ دے رکھا تھا اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ.(الزمر:۳۷) کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ؟ اس خدائی وعدہ کے مقابل پر دنیاوی سہاروں اور وسائل کی حقیقت پر کاہ کے برابر بھی نہ تھی.ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر آرام کی غرض سے آپ ایک درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے.باقی صحابہ بھی الگ الگ آرام کر رہے تھے.ایک دشمن آپ کی گھات میں تھا.اس نے آپ کی تلوار جو درخت سے لٹک رہی تھی سونت لی اور آپ کو بیدار کر کے یوں للکارا کہ بتاؤ اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟

Page 42

42 آپ لیٹے ہوئے تھے ، کوئی ساتھی اور محافظ پاس نہ تھا، تلوار آپ کے سر پر لہرا رہی تھی.اس حالت میں تو بڑے بڑے بہادروں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے.لیکن جرات واستقامت اور توکل علی اللہ کی شان دیکھئے کہ آپ نے نہایت پرسکون اور پر اعتما دانداز میں فرمایا اللہ یہ پر شوکت لفظ سن کر دشمن پر کپکپی طاری ہوگئی.تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ اٹھے، تلوار اپنے ہاتھ میں لی اور حملہ آور سے کہا کہ اب تم بتاؤ کہ تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ بے چارہ اس قدر مبہوت ہوا کہ آپ کے قدموں میں گر گیا.آپ نے اسے آزاد فر ما دیا.ایسا تو کل، ایسی حجرات اور ایسا عفو تو اس انسان نے کبھی ساری زندگی نہ دیکھا ہوگا.اس واقعہ سے اتنا متاثر ہوا کہ واپس اپنے ساتھیوں کو جا کر کہنے لگا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کا بہترین انسان ہے! کتنی سچی بات ہے جو اس دیہاتی کی زبان پر جاری ہوئی (بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع محمدی آئیے اب ذرا احد کے تاریخی میدان میں چلتے ہیں جہاں سرور کائنات حضرت محمد مصطفے ﷺ کی شان تو کل کے روح پرور نظارے آج بھی جگمگاتے نظر آتے ہیں.بدر کی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کفار مکہ بھر پور تیاری کے ساتھ مدینہ پر حملہ آور ہوئے.آنحضور کی اپنی رائے اور صحابہ کا مشورہ تھا کہ مدینہ کے اندر رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے لیکن بعض دیگر صحابہ اور نو جوانوں نے باہر نکل کر لڑنے کا مشورہ بڑے زور سے دیا.اس پر حضور نے باہر جا کر مقابلہ کا فیصلہ فرمایا.آپ تیار ہوکر نکلے تو صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اپنی رائے پر اصرار میں غلطی کی ہے حضور جو بھی فیصلہ فرما ئیں وہی بابرکت ہوگا.اس موقعہ پر رسول پاک ﷺ نے فرمایا:

Page 43

43 ” خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر انہیں اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے“ (سيرة ابن هشام غزوة احد ذكر روء يا رسول الله و مشاورته القوم الجزء الثالث صفحہ ۵) آپ کا یہ ارشاد آپ کے تو کل علی اللہ کا پر شوکت اظہار ہے جو آیت کریمہ فاذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلُ عَلَى الله (ال عمران آیت 160) کے عین مطابق تھا.چنانچہ آپ اپنے ایک ہزار صحابہ کی فوج لیکر احد کے میدان میں نکل آئے تا کہ مدینہ سے باہر ہی دشمن کو روک لیا جائے.کفار مکہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی.اور اسلحہ وغیرہ کے لحاظ سے بھی انہیں مسلمان فوج پر برتری حاصل تھی.اس پر مستزاد یہ کہ جنگ سے قبل رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول نے غداری کی اور اپنے تین سو ساتھیوں کے ساتھ اسلامی لشکر سے علیحدہ ہو گیا اور کہنے لگا کہ یہ تو کوئی لڑائی نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی بات ہے.اب مسلمانوں کی تعداد صرف ۷۰۰ رہ گئی.اِس کمزوری کی حالت میں جسے مسلمان پہلے ہی خوب محسوس کر رہے تھے عبداللہ بن ابی کے تین سو آدمیوں کی غداری سے بعض کمزور دل مسلمانوں میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہو گیا لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی عالی کے عزم و استقلال میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا.آپ کا بھروسہ کبھی بھی لشکر کی تعداد یا سامانِ حرب پر نہ تھا بلکہ صرف اور صرف خدا پر تھا.آپ نے اس نازک امتحان کے وقت بھی تو کل علی اللہ کے علم کو بڑی شان کے ساتھ سر بلند رکھا.بعض صحابہ نے عرض بھی کیا کہ یا رسول اللہ ! یہودیوں میں سے جو لوگ ہمارے حلیف ہیں اور حمایتی ہیں کیا ہم اس موقعہ پر معاہدہ کی شرط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان یہودیوں سے مدد نہ لے لیں؟ آپ نے نہایت جلال اور تو کل سے

Page 44

فرمایا: 44 نہیں، ہمیں ان کی مدد کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں.ہمارا مددگار تو ہمارا خدا ہے اور وہی ہماری مدد کے لیے بہت کافی ہے.“ ☆ (سيرة ابن هشام غزوه احد ذكر انخذال المنافقين الجزء الثالث صفحه ۶) غزوہ احد میں ایک مرحلہ پر چند مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے عارضی اور وقتی ہزیمت کی صورت پیدا ہوگئی.ابتداء کفار مکہ شکست کھا کر اور سخت نقصان اٹھا کر میدان سے بھاگ نکلے تھے لیکن خالد بن ولید نے درہ کو خالی پا کر بھاگتی ہوئی فوج کو منظم کیا اور اچانک اس شدت سے مسلمانوں پر حملہ کر دیا کہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے.افراتفری کا ایسا عالم تھا کہ متعدد صحابہ اس معرکہ میں کام آئے.خود رسول کریم ﷺ بھی شدید زخمی ہو گئے اور بے ہوش ہو کر ان صحابہ کی لاشوں پر جا گرے جو آپ کے اردگر داڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکے تھے.اس کے بعد کچھ اور صحابہ نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اس طرح رسول خدا ﷺ کا جسم مبارک صحا بہ کی لاشوں کے نیچے دب کر نظروں سے اوجھل ہو گیا.دشمن یہ سمجھ کر کہ اس نے اپنا مقصود حاصل کر لیا ہے ذرا پیچھے ہٹا تو صحابہ کرام غیر معمولی جذ به فدائیت کے ساتھ شمع کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو گئے.تھوڑی دیر میں آپ کو ہوش آ گیا اور آپ جانثار صحابہ کے جلو میں پہاڑ کے دامن میں چلے گئے اور باقی صحابہ بھی وہاں جمع ہونے لگے.رئیس مکہ ابو سفیان کو یقین تھا کہ رسول پاک ﷺ اور نامور صحابہ شہید ہو چکے ہیں اور اس الله نے میدان جیت لیا ہے.اس خیال سے اس نے رسول پاک ﷺ حضرت ابو بکر اور حضرت

Page 45

45 عمرؓ کے نام لے کر بآواز بلند یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے ان سب کو مار دیا ہے.صحابہ جوار چاہتے تھے لیکن آپ نے ہر بار حکمت عملی کے تحت صحابہ کو جواب سے روک دیا.یہ خاموشی دیکھ کر ابوسفیان نے اعل مبل أعل مبل کے نعرے لگائے ھبل بت کی جیت ہو اور اس کی شان بلند ہو کہ ہم نے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.پہلے افراد کی زندگی کا سوال تھا اور آپ نے حفاظت کے خیال سے خاموش رہنے کی ہدایت فرمائی لیکن اب تو خدائے واحد کی عزت کا سوال تھا.توحید کی غیرت نے محمد ﷺ کے قلب اطہر کو پریشان کر دیا آپ نے بڑے جوش سے صحابہ سے فرمایا کہ تم جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ! ہم کیا کہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ کہو : اللهُ عَلَى وَ اَجَل (البخارى كتاب المغازی باب غزوه احد) کہ تم جھوٹ کہتے ہو کہ صبل کی جیت ہوئی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی معزز ہے اور اللہ کی شان ہی سب سے بلند ہے.صحابہ نے اس شان سے یہ نعرے لگائے کہ احد کی ساری وادی ان نعروں سے گونج اٹھی اور دشمن پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ مٹھی بھر زخمی جماعت مسلمین پر حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکا ! اس موقعہ پر رسول پاک ﷺ کی غیر معمولی فراست اور توکل علی اللہ کی شان بڑی عظمت سے نظر آتی ہے.جوابا نعرے لگانے کا مطلب تو اپنی زندگی کا ثبوت دینا، اپنی جگہ بتانا اور اس طرح کثیر تعدا دوالے بپھرے ہوئے دشمن کو دوبارہ حملہ کرنے کی دعوت دینا تھا لیکن اللہ تعالی کی غیرت کی خاطر، اسی کی تائید و نصرت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے آپ نے ایسا نمونہ دکھایا جو حالات کے تناظر میں غیر معمولی عظمت شان کا حامل ہے.

Page 46

46 46 آنحضرت ﷺ کی زندگی میں تو کل کا مضمون ایک عجیب ایمان افروز مضمون ہے جو ہمیشہ جاری و ساری نظر آتا ہے.ایک بلند منزل کے بعد اس سے بلند تر منزل پر بھی یہی عنوان نظر آتا ہے اور یہ سلسلہ کہیں ختم نہیں ہوتا.غزوہ احد میں ستر صحابہ نے شہادت کا مرتبہ پایا اور قریباً سب صحابہ زخمی حالت میں مدینہ کو واپس لوٹے.حتی کہ رسول پاک ﷺ بھی اس غزوہ میں شدید زخمی ہوئے.آپ کے چار دندان مبارک شہید ہوئے اور جسدِ اطہر پر بھی کئی زخم آئے.ایسی حالت میں عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ فوری طور پر کوئی اور مہم در پیش نہیں ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر دنیا کو نبی پاک ﷺ کے تو کل اور جرات کا ایک اور نمونہ دکھانا چاہتی تھی! الله ہوا یہ کہ قریش مکہ جب واپس جارہے تھے تو ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہم تو حقیقت میں خالی ہاتھ واپس لوٹ رہے ہیں.مسلمانوں کی شان و شوکت بھی اسی طرح قائم اور ان کے سرکردہ افراد بھی موجود ہیں لہذا ہمیں واپس جا کر ان کو مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہیئے.نتیجہ یہ ہوا کہ کفار مکہ کی واپس جاتی ہوئی فوج راستہ میں ہی رک گئی اور مدینہ پر دوبارہ حملہ کا ارادہ کرنے لگے.رسول پاک ﷺ کو اگلی صبح ہی مدینہ میں لشکر قریش کے ان عزائم کی اطلاع مل گئی.یہ ایسا وقت تھا کہ مسلمان شہدائے احد کے صدمہ سے نڈھال، زخموں سے چور اور جسمانی کمزوری کی حالت میں تھے.خود رسول خدا ﷺ سخت زخمی حالت میں تھے لیکن ایسی کمزوری کی حالت میں جب آپ کو کفار مکہ کے ارادہ کی اطلاع ملی تو آپ نے ایک ایسا فیصلہ فرمایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں کسی جگہ نہیں ملتی.

Page 47

47 ، آپ کی جرات و شجاعت اور توکل علی اللہ کا اندازہ کریں کہ آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ دشمن کے امکانی حملہ کو ناکام بنانے کے لیئے مسلمان فوری طور پر روانگی کی تیاری کر لیں.اور مزید یہ بھی فرمایا کہ اس غزوہ میں صرف وہ لوگ شامل ہوں گے جنہوں نے غزوہ احد میں شرکت کی ہے.یہ بات آپ کے حوصلہ کی عظمت کے علاوہ ایک عجیب نفسیاتی نکتہ پر مبنی تھی جس نے زخم رسیدہ صحابہ کے دلوں میں غیر معمولی ولولہ پیدا کر دیا.چنانچہ اسی روز آپ مدینہ سے روانہ ہو گئے.لکھا ہے کہ رسول خدا ﷺ کی ایک آواز پر احد کے مجاہدین جن میں سے اکثر زخمی تھے اپنے زخم باندھ کر ایسے جوش اور عزم کے ساتھ نکلے کہ جیسے کوئی فاتح لشکر دشمن کے تعاقب میں نکلتا ہے.آٹھ میل کا سفر طے کر کے اسلامی لشکر حمراء الاسد کے میدان میں خیمہ زن ہو گیا.آپ کا یہ اقدام ایسا جرات مندانہ اور غیر معمولی تھا کہ اس نے دشمن کو نفسیاتی طور پر احساس کمتری میں مبتلا کر دیا اور جو نہی کفار کو یہ معلوم ہوا کہ جن مسلمانوں کو ہم زخمی ، کمزور اور شکست خوردہ سمجھتے ہیں وہ تو سروں پر کفن باندھ کر میدان میں اتر آئے ہیں، وہ اس بات سے اتنے مرعوب اور خوف زدہ ہوئے کہ میدان مقابلہ میں اترنے کی ہمت بھی نہ کر سکے اور مکہ کی سمت روانہ ہو گئے.یہ عظیم الشان واقعہ رسول پاک ﷺ کی جرات ، بصیرت اور توکل پر شاہد ناطق ہے.(سيرة ابن هشام الجزء الثالث غزوه احد ذكر خروج الرسول في اثر العدو) رسول خدا ﷺ کی زندگی میں غیر معمولی تو کل اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کے واقعات اس طرح بھرے ہوئے ہیں جس طرح آسمان ستاروں سے بھرا ہوتا ہے.بعض واقعات

Page 48

48 میں تو یہ جلوہ کچھ اس شان سے نظر آتا ہے کہ اس کے قریب کی مثال بھی دوسری جگہ نظر نہیں آتی.اس طرح کا ایک ایمان افروز واقعہ حنین کے میدان میں رونما ہوا.اس غزوہ کے دوران ایک ایسا نازک موقع آیا کہ رسول کریم ﷺ صرف چند صحابہ کے درمیان میدان جنگ میں کھڑے تھے.ہر طرف سے دشمن کا دباؤ تھا.دائیں اور بائیں اور سامنے تینوں طرف سے تیر پڑ رہے تھے اور بچاؤ کے لئے صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے ایک وقت میں صرف چند آدمی گزر سکتے تھے.اس خطرناک راستہ سے گزرے بغیر بچاؤ کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی.یہ مرحلہ اتنا نازک تھا کہ حضرت ابو بکڑ نے آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے خیال سے نہایت لجاجت سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ تھوڑی دیر کے لیئے پیچھے ہٹ جائیں تا کہ اسلامی صلى الله لشکر کو پھر سے جمع ہونے کا موقع مل جائے.وقت انتہائی نازک تھا لیکن ہمارے آقا و مولی علی نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی نصرت و حفاظت پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے ایسا جرات مندانہ اقدام فرمایا جو ساری تاریخ میں عدیم النظیر ہے.آپ اس وقت ایک خچر پر سوار تھے آپ نے خچر کو ایڑ لگائی اور اسی تنگ راستہ پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں سے مسلسل تیر برسائے جارہے تھے.ایک طرف یہ جرات اور مردانگی اور دوسری طرف آپ کی زبان پر یہ نعرہ حق جاری تھا.انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب (البخاری.کتاب المغازی باب قول الله تعالى و يوم حنين اذ أعجبتكم كثر تكم..) کہ لوگوسنو ! اور خوب کان کھول کر سنو کہ میں خدا کا نبی ہوں اور بخدا میں اس دعوی میں جھوٹا نہیں.میں تو کل اور خدائی حفاظت کے نتیجہ میں محفوظ ہوں وگرنہ میں بھی تمہاری طرح ایک

Page 49

49 انسان ہوں اور عبدالمطلب کا پوتا ہوں! انتہائی خطرناک حالات میں، جبکہ موت ہر طرف سے سر پر منڈلا رہی تھی آپ کا یہ جرات مندانہ قدام آپ کے تو کل علی اللہ کی ایک درخشندہ مثال ہے.فتح مکہ کے موقعہ پر آپ کا عفو عام بھی آپ کے تو کل علی اللہ کا ایک حیران کن نظارہ تھا.عفو عام کے اس بے نظیر نمونہ کے پیچھے تو کل علی اللہ کا جو غیر معمولی جذ بہ نظر آتا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے.دنیا کے حکمران تو فاتح بننے پر دشمنوں کے سروں کے مینار تعمیر کرتے ہیں اور جب تک ایک ایک دشمن کا سرتن سے جدا نہ کر دیں انہیں چین کی نیند نصیب نہیں ہوتی.جب تک ایک ایک دشمن سے پورا بدلہ نہ لے لیں ان کے دلوں کو سکون نہیں ملتا.اور یہاں یہ حالت ہے کہ سرور کائنات ﷺ ایک فاتح کی حیثیت میں دس ہزار قد وسیوں کے ہمراہ مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو عجز وانکسار اور شکر گزاری سے آپ کا سر اونٹ کے کجاوہ کے ساتھ لگا ہوا تھا.یہ سب تو کل علی اللہ کا ایک دلر با اظہار تھا کہ میرے مولیٰ ! یہ سب تیری عطا ہے.میں اس فتح کے وقت اس ذات کو نہیں بھولا جس پر میرا سب تو کل ہے اور جس کے کرم سے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے.دیکھ میں کس عاجزی سے تیرے در پر جھکا ہو اہوں اور تیری حمد کے ترانے گا رہا ہوں.آگے بڑھے تو اس فاتح عالم کے سامنے وہ دشمن دست بستہ کھڑے تھے جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ پرظلم وستم کرتے ہوئے سفا کی کی آخری حدود کو چھولیا تھا.یہ موقع تھا کہ ان سے بدلہ لیا جاتا اور ایک ایک کو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا.ہمارے ہادی کامل ﷺ نے اُس روز اپنے ان دشمنوں سے بدلہ لیا اور خوب بدلہ لیا.ایسا بدلہ کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادر کھا جائے گا.ہاں ایسا بدلہ جو آپ کی شانِ اقدس سے مطابقت رکھتا تھا.

Page 50

50 جب ان دشمنوں سے بدلہ لینے کا وقت آیا تو آپ نے اپنی ذات کو بھول کر اس ذات کو یا درکھا جس کے وسیلہ سے یہ فتح نصیب ہوئی.آپ کے دل میں ہرگز یہ خیال نہیں آیا کہ اگر میں نے دشمنوں کو معاف کر دیا تو ایک بار پھر مجھے ظلم وستم کا نشانہ بنالیں گے بلکہ فتح عطا کرنے والی قا در وتوانا ذات پر کامل تو کل کرتے ہوئے آپ نے ان سارے دشمنوں کو یک قلم معاف فرما دیا.کوئی ایک دشمن بھی ایسا نہ تھا جس کو آپ نے قتل کی سزا دی ہو.جن دشمنوں کے حق میں آپ نے اس سے قبل قتل کی ہدایت بھی فرمائی ہوئی تھی ان سب دشمنانِ اسلام کو بھی اس عظیم فتح کے روز معاف کر دیا گیا.عفو عام اور توکل علی اللہ کی یہ مثال ایسی ہے کہ اس نے ہمیشہ کے لئے انسانیت کا سر بلند کر دیا ہے! لیا ظلم کا عفو ނ انتقام عليـ واقعہ ہجرت میں تو کل علی اللہ لوة عليك السلام ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی میں مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے کا واقعہ ایک غیر معمولی عظمت اور اہمیت کا حامل ہے.اس واقعہ سے اسلامی سن ہجری کا آغاز ہوتا ہے.بظاہر ایک واقعہ ہے لیکن اس میں آپ کے تو کل علی اللہ کے بے شمار پہلو جلوہ گر ہیں.میں چاہتا ہوں کہ اس عظیم تاریخی واقعہ کا قدرے تفصیل سے ذکر کیا جائے اور اس میں آپ کے تو کل علی اللہ کے تابندہ گوہر تلاش کئے جائیں.تیرہ سالہ ملکی دور کا ایک ایک دن پہاڑ کی مانند تھا.کفار مکہ نے ظالموں کی حد کر دی.فلم و

Page 51

51 ستم کا ہر وار آپ کے جانثار صحابہ پر کیا گیا.مظالم کی ظالم چکی میں پیسے جانے کے باوجود آپ نے اور آپ کے صحابہ نے صبر و استقامت کے علم کو سر بلند رکھا.ہر وقت نظریں آسمان کی طرف تھیں کہ کب اللہ تعالیٰ ان زہرہ گزار حالات سے مخلصی عطا فرماتا ہے.مکہ میں حالات نازک ہوتے جا رہے تھے لیکن ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مدینہ میں اسلام کا پودا لگ چکا تھا اور تیزی سے نشو نما پارہا تھا.بذریعہ خواب آپ کو ہجرت کا اشارہ مل چکا تھا.چنانچہ آپ نے صحابہ کو اجازت عطا فرمائی کہ وہ مدینہ ہجرت کر جائیں.رفتہ رفتہ یہ مرحلہ آگیا کہ اب مکہ میں آپ کے ساتھ گنتی کے چندا فرادرہ گئے.کفارِ مکہ نے دارالندوہ میں اکٹھے ہو کر یہ طے کیا کہ رات کے وقت آپ پر یکد فعہ حملہ کر کے آپ کو قتل کر دیا جائے اور حملہ کرنے میں سب قبائل کے نمائندے شامل ہوں تا کہ سب سے انتقام نہ لیا جا سکے.ادھر کفار نے یہ فیصلہ کیا، ادھر علام الغیوب خدا نے اپنے حبیب ﷺ کو کفار کے اس ارادہ کی اطلاع دیتے ہوئے ہجرت کی اجازت عطا فرما دی.دنیا کے صاحبانِ اقتدار تو خطرہ کے وقت بھاگنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور رسول خدا ﷺ کا نمونہ یہ ہے کہ آپ نے سب کو پہلے بھجوایا اور خود آخر وقت تک مکہ میں مقیم رہے اور اُس وقت تک وہاں سے ہجرت نہ کی جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اجازت نہ مل گئی.یہ واقعہ اتنا عظیم ہے کہ ایک مشہور غیر مسلم مستشرق Stanley Lane-poole نے اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے.وہ لکھتا ہے : Like the captain of a sinking ship, the Prophet would not leave till all the crew were safe.(Studies in a mosque, 1966, Khayats Beirut, Page 60)

Page 52

52 59 یعنی ایک ڈوبتے ہوئے جہاز کے کپتان کی طرح رسول پاک ﷺ نے اس وقت تک جہاز کو نہ چھوڑا جب تک عملہ کے سب افراد پوری طرح محفوظ نہ ہو گئے! اس مصنف نے نہایت شاندار انداز میں آپ کی جرات ، استقامت اور توکل علی اللہ کو کتنا عظیم خراج عقیدت پیش کیا ہے.حق یہ ہے کہ آپ اس دین کے پیغمبر اور اس پیغام کے علمبر دار تھے جس کا محافظ و دخدا تھا.اور اسی خدا پر کامل تو کل اور بھروسہ کی بناء پر آپ پورے یقین اور اطمینان کے ساتھ ، جرات و استقامت کا پیکر بنے آخری وقت تک مکہ کی بستی میں قیام پذیر رہے.پھر جن حالات اور جس انداز میں آپ نے ہجرت فرمائی اس میں قدم قدم پر تو کل علی اللہ کے ایمان افروز مناظر نظر آتے ہیں.جو نہی آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کا اذن ملا آپ فوراً اس ہجرت کے لئے تیار ہو گئے جبکہ حالت یہ تھی کہ ہر طرف موت کے سائے سر پر منڈلا رہے تھے.چاروں طرف سے دشمنوں نے آپ کوگھیرا ہوا تھا.لیکن آپ ان سب خطرات سے بے نیاز اپنے قادر و توانا مولیٰ پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے اس حال میں روانہ ہوئے کہ صرف ایک ساتھی آپ کا شریک سفر تھا.کسی دنیاوی سہارا پر آپ کا بھروسہ نہ تھا.بھروسہ تھا تو صرف ایک خُدا پر تھا جو بحر و بر کا مالک اور ہر جگہ حافظ و ناصر تھا.روایت میں آتا ہے کہ آپ کو ہجرت کی اجازت دو پہر کے وقت ملی.آپ کے توکل کی شان دیکھئے کہ آپ اسی وقت ، چلچلاتی دھوپ میں، اپنے گھر سے نکلے اور مخالفانہ ماحول میں سے گزرتے ہوئے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور انھیں اس بات

Page 53

53 33 سے مطلع فرمایا اور رات کو روانگی کا پروگرام طے کر کے واپس تشریف لائے.دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے خطرناک حالات میں بڑے بڑے بہادروں پر کیا گزرتی ہے.گھبراہٹ اور خوف سے نبضیں چھوٹنے لگتی ہیں لیکن رسول پاک و توکل علی اللہ کی وجہ سے اطمینان اور یقین کی دولت سے مالا مال اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف تھے.مکہ کے لوگوں نے باوجود ہزار مخالفت کے اپنی امانتیں آخر وقت تک آپ کے پاس رکھوائی ہوئی تھیں.آپ نے یہ سب امانتیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیں اور مالکان کو واپس پہنچانے کی ہدایت دی تا کہ قیامت تک کو ئی شخص اس لاثانی امین اور صدیق پر انگشت نمائی نہ کر سکے.اور انہیں اپنے بستر پر لٹا کر اللہ پر تو کل کرتے ہوئے رات کی تاریکی میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے.تصور کی آنکھ سے دیکھئے وہ کیا نظارہ تھا.آپ متنِ تنہا گھر سے روانہ ہوئے.اور اس حالت میں نکلے کہ کفار مکہ نے گھر کا محاصرہ کیا ہوا تھا.جان کے دشمن اور خون کے پیاسے درندے اس ڈیوٹی پر کھڑے ہیں کہ آپ نکلیں اور وہ آپ کے سلسلہ ء حیات کو منقطع کر دیں.اللہ کا بندہ ان کے سامنے سے گزرا اور کچھ ایسا تصرف اٹھی ہوا کہ وہ اسے دیکھ نہ سکے.عبد کامل آسمانی فرشتوں کی حفاظت میں محفوظ و مامون نکل گیا اور کوئی اس کا بال بیکا نہ کر سکا.ایسے تو کل علی اللہ اور نصرت الہی کی مثال باقی دنیا میں کہاں نظر آتی ہے! راستہ میں مقررہ جگہ پر حضرت ابو بکر سے ملے اور تین میل کا فاصلہ رات کی تاریکی میں پیدل طے کر کے آپ جبل ثور کی چوٹی پر ایک متروک غار میں پناہ گزین ہو گئے.جہاں آپ نے تین رات قیام فرمایا.دوسری طرف مکہ میں یہ حالت تھی کہ صبح جب کفار کو معلوم ہوا کہ آپ مکہ سے جاچکے

Page 54

54 ہیں تو دشمنوں پر عجیب دیوانگی طاری ہو گئی.ہر طرف آپ کی تلاش ہونے لگی اور اعلان کیا گیا کہ جو آپ گو زندہ یا فوت شدہ حالت میں لائے گا اسے ایک سوسرخ اونٹ بطور انعام دیئے جائیں گے.اس خطیر انعام کا سُن کر انعام کے متلاشی سارے علاقے میں پھیل گئے.کفار مکہ نے ایک ماہر کھوجی کی خدمات حاصل کیں جو انہیں سیدھا اور پہاڑ کی چوٹی پر واقع اس غار کے دروازہ پر لے آیا جس کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر بیٹھے ہوئے تھے.کھوجی کا کہنا تھا کہ آپ یا تو اس غار میں ہیں اور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں.غار کا نقشہ کچھ اس طرح ہے کہ اندر سے آپ دونوں کو باہر کھڑے ہوئے جانی دشمنوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور ان کے پاؤں بھی نظر آتے تھے.اگر وہ ذرا بھی جھک کر غار کے اندر دیکھنے کی کوشش کرتے تو بات ختم ہو جاتی.لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ غار کے دروازے پر مکڑی کے جالے اور کبوتری کے گھونسلے کی وجہ سے کسی دشمن نے اندر دیکھنے کا خیال تک نہ کیا اور اس امکان کو ہی رد کر دیا کہ کوئی شخص وہاں پر موجود ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کو محفوظ رکھا.لیکن ذرا سوچئے کہ اس وقت وفا شعار اور جان نثار ابوبکر کے دل پر کیا گزر رہی تھی؟.اپنا تو کچھ غم نہ تھا،فکر تھی تو یہ تھی کہ اگر دشمن نے دیکھ لیا تو پھر کیا بنے گا.اضطراب اور غم کی کیفیت نا قابل بیان تھی.دل بے قابو ہورہا تھا.جذبات کو د با نا ممکن نہ تھا.بے اختیار آپ کی زبان سے نکلا: یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں.اگر دشمن نے نظر جھکا کر دیکھ لیا تو پھر ہم پکڑے جائیں گے! لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں عبد کامل محمد مصطفے ﷺ پر کہ حالات کی نزاکت کے پورے احساس کے باوجود، خوف اور ڈر یا مایوسی کا گزر تک آپ کے دل

Page 55

55 میں نہیں ہوا.وہ دل تو اللہ کے یقین سے پر تھا.ایسا مطہر دل تھا جہاں خدائی نور اور سکینت کا بسیرا تھا.آپ نے اپنے یار غار کوتسلی دیتے ہوئے فرمایا: لا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ( ۹ :۴۰) کہ اے میرے حبیب ! میری محبت میں اپنی جان کو ہلکان کرنے والے ! تم کچھ فکر نہ کرو اور نہ گھبراؤ یقیناً خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے.اس بات کا بھی غم نہ کرو کہ ہم دو ہیں نہیں ، ہم تین ہیں.ہمارا قادر و توانا خدا ہمارے ساتھ ہے.اس کے ساتھ ہوتے ہوئے پھر ڈرنے کی کیا بات ہے! کتنی عظمت اور رفعت ہے اس تو کل علی اللہ میں کہ ہمالیہ کی چوٹیاں بھی اس کے مقابل کو تاہ نظر آتی ہیں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس خطرناک حالت اور اس میں آپ کے تو کل علی اللہ کی عظمت کا کیا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.آپ فرماتے ہیں : اللہ اللہ کیا توکل ہے.دشمن سر پر کھڑا ہے اور اتنا نزدیک ہے کہ ذرا آنکھ نیچی کرے اور دیکھ لے لیکن آپ کو خدا تعالیٰ پر ایسا یقین ہے کہ باوجو دسب اسباب مخالف کے جمع ہو جانے کے آپ یہی فرماتے ہیں کہ یہ کیوں کر ہوسکتا ہے.خدا تو ہمارے ساتھ ہے پھر وہ کیوں کر دیکھ سکتے ہیں؟ کیا کسی ماں نے ایسا بچہ جنا ہے جو اس یقین اور ایمان کو لے کر دنیا میں آیا ہو؟ یہ جرات و بہادری کا سوال نہیں بلکہ تو کل کا سوال ہے، خدا پر بھروسہ کا سوال ہے.اگر جرات ہی ہوتی تو آپ یہ جواب دیتے کہ خیر پکڑ لیں گے تو کیا ہوا ، ہم موت سے نہیں ڈرتے.مگر آپ کوئی معمولی جرنیل یا میدانِ جنگ کے بہادر سپاہی نہ تھے آپ خُدا کے

Page 56

56 صلى الله رسول تھے اس لئے آپ نے نہ صرف خوف کا اظہار نہ کیا بلکہ حضرت ابو بکر کو بتایا کہ دیکھنے کا تو سوال ہی نہیں ہے خدا ہمارے ساتھ ہے اور اس کے حکم کے ماتحت ہم اپنے گھروں سے نکلے ہیں پھر ان کو طاقت ہی کہاں مل سکتی ہے کہ یہ آنکھ نیچی کر کے ہمیں دیکھیں.یہ وہ تو کل ہے جو ایک جھوٹے انسان میں نہیں ہو سکتا.جو ایک پر فریب دل میں نہیں ٹھہر سکتا.رسول کریم ﷺ کا توکل ایک رسولا نہ تو کل تھا“ (انوارالعلوم جلد اوّل صفحہ 495) تین راتیں غار ثور میں گزارنے کے بعد آپ نے پھر سفر کا آغاز کیا.ایک اونٹنی پر آپ اور ایک راہنما سوار تھے اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابو بکر اور آپ کے ایک غلام.آپ نے ساحلِ سمندر کا راستہ لیا اور سفر تیزی سے طے ہونے لگا.کفار مکہ نے آپ کو پکڑ کر لانے والے کے لئے جس انعام کثیر کا اعلان کر رکھا تھا اس کی جستجو دلوں میں مچل رہی تھی.سراقہ بن مالک انعام کے لالچ میں آپ کے تعاقب میں نکلا اور اس نے آپ کو دیکھ لیا.وہ اس طرح پھرتی سے آپ کی طرف لپکا جس طرح ایک شکاری اپنے شکار کی طرف لپکتا ہے.بہت بڑی آزمائش اور امتحان کا وقت تھا.بہادر سے بہادر انسان بھی ایسی حالت میں ہمت ہار دیتا ہے.لیکن قربان جائیے پیارے محمد مصطفے ﷺ کی استقامت اور جرات پر کہ آپ نے اس انتہائی خطرناک موقعہ پر ذرا برابر بھی پریشانی یافکر کا اظہار نہیں کیا.آپ برابر قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف رہے اور ایک بار بھی چہرہ مبارک پھیر کر دائیں بائیں یا پیچھے کی طرف نہیں دیکھا.یہ اس تو کل علی اللہ کا نتیجہ تھا جو آپ کی روح میں بسا ہوا تھا.آپ کو

Page 57

57 یقین تھا کہ کائنات کا خدا میرے ساتھ ہے اس کے حکم اور اس کی اجازت سے میں اس سفر پر نکلا ہوں اور وہی ہر جگہ میرا محافظ ہے! اس بات نے سراقہ کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور وہ ساری عمر اس بات کو نہ بھول سکا اور اپنی روایت میں بطور خاص اس بات کا ذکر کیا.اس موقعہ پر آپ کے یار غار پر کیا گزری؟ سراقہ نے بیان کیا کہ جب میں دونوں کے اتنا قریب آگیا کہ مجھے تلاوت کی آواز سنائی دینے لگی اور آپ اب میرے نشانہ کی زد میں تھے تو غم کے مارے ابو بکر کا یہ حال تھا کہ آپ اپنے محبوب کی جان کے خوف سے بار بار پلٹ کر دیکھتے سخت اضطراب اور پر یشانی آپ پر طاری تھی.حضرت ابو بکر خودروایت کرتے ہیں کہ میں جذبات خوف سے مغلوب ہو گیا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اب تو پکڑنے والا بالکل سر پر آ پہنچا ہے اور میں اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کی خاطر فکرمند ہوں.اس پر ایک بار پھر آپ کی زبانِ مبارک سے وہی بابرکت کلمات نکلے جن سے آپ کی روح کا خمیر اٹھایا گیا تھا.آپ نے فرمایا: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا کہ اے ابو بکر ہر گز غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے.دشمن ہمارے سر پر آ گیا ہے تو پھر بھی گھبراؤ نہیں ،سب قدرتوں اور طاقتوں کا مالک ہمارا خدا اس سے بھی زیادہ قریب ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایسا حتمی یقین اور کامل تو کل علی اللہ صرف اور صرف ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی علی کو عطا کیا گیا تھا! حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ پر بہت حقیقت افروز تبصرہ کیا ہے.آپ ہی کے الفاظ میں عرض کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: اللہ اللہ اخد اتعالیٰ پر کیسا بھروسہ ہے.دشمن گھوڑا دوڑا تا ہوا اس قدر نزدیک

Page 58

58 آ گیا ہے کہ آپ کی آواز اس تک پہنچ سکتی ہے اور آپ تیر کی زد میں آگئے ہیں مگر آپ ہیں کہ گھبراہٹ کا محسوس کرنا تو الگ رہا قرآن شریف پڑھتے جاتے ہیں.ادھر حضرت ابو بکر بار بار دیکھتے جاتے ہیں کہ اب دشمن کس قدر نز دیک پہنچ گیا ہے.کیا اس بھروسہ اور تو کل کی کوئی اور نظیر بھی مل سکتی ہے.کیا کوئی انسان ہے جس نے اس خطرناک وقت میں ایسی بے تو جہی اور لا پرواہی کا اظہار کیا ہو.اگر آپ کو دنیاوی اسباب کے استعمال کا خیال بھی ہوتا تو کم سے کم اتنا ضرور ہونا چاہئے تھا کہ آپ اس وقت یا تو سراقہ پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے یا وہاں سے تیز نکل جانے کی کوشش کرتے لیکن آپ نے ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی نہیں اختیار کی.نہ تو آپ تیز قدم ہوئے اور نہ ہی آپ نے بی ارادہ کیا کہ کسی طرح سراقہ کو مار دیں بلکہ نہایت اطمینان کے ساتھ بغیر اظہارِ خوف وہراس اپنی پہلی رفتار پر قرآن شریف پڑھتے ہوئے چلے گئے.وہ کون سی چیز تھی جس نے اس وقت آپ کے دل کو ایسا مضبوط کر دیا.کونسی طاقت تھی جس نے آپ کے حوصلہ کو ایسا بلند کر دیا.کونسی روح تھی جس نے آپ کے اندر اس قسم کی غیر معمولی زندگی پیدا کر دی؟ یہ خدا پر توکل کے کرشمے تھے اس پر بھروسہ کے نتائج تھے.آپ جانتے تھے کہ ظاہری اسباب میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.دنیا کی طاقتیں مجھے ہلاک نہیں کر سکتیں کیونکہ آسمان پر ایک خدا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے جو ان سب اسباب کا پیدا کر نیوالا ہے پس خالق اسباب کے خلاف اسباب کچھ نہیں کر سکتے“ (انوار العلوم جلد اوّل صفحہ 493)

Page 59

59 لا تحزن ان الله معنا کے جن الفاظ میں نبی پاک ﷺ نے اپنے جانثار اور غمخوار ساتھی حضرت ابو بکر کو تسلی دی اور جن کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے قرآن مجید میں محفوظ فرما دیا ہے ان میں بھی آپ کے تو کل کی عظیم شان مضمر ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر مشکل وقت آیا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو کہا تھا کہ گھبراؤ نہیں.إِنَّ مَعِيَ رَبِي سَيَهْدِينِ (الشعراء: 63) یقیناً میر ارب میرے ساتھ ہے وہ ضرور میری راہنمائی کرے گا.لیکن واقعہ ہجرت میں جب پے در پے انتہائی خطرناک مواقع آئے تو آپ نے ہر بار اپنے ساتھی سے یہی فرمایا.لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا : (سوره توبه : 40) کہ گھبراؤ نہیں.خدا ہمارے ساتھ ہے.صلى الله اس جگہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور رسول پاک ﷺ کے بظاہر ایک جیسے الفاظ میں بلحاظ ذاتی عجز و انکسار ایک عظیم الشان فرق ہے جو ہمارے محبوب آقا ﷺ کی عظمت شان کو خوب اجاگر کرتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھ ہونے (معیت) کا ذکر پہلے کیا ہے اور رب کا ذکر بعد میں آیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے محبوب ترین بندے کی عاجزانہ اور حسین اداد یکھئے کہ آپ کی زبان مبارک پر پہلے اللہ کالفظ آتا ہے اور معیت کا ذکر بعد میں.اس میں ایک لطیف نکئیہ معرفت ہے جو آپ ﷺ کی پاکیزہ سوچ کا غماز ہے! اس تسلسل میں یہ بات بھی بہت ایمان افروز ہے کہ آپ کو خدائے قادر کی جس معیت کا وعدہ دیا گیا اس کا دائرہ آپ کے ساتھی کو بھی اپنے اندر لئے ہوئے تھا.معیت کا یہ وعدہ حضرت ابو بکر کی زندگی میں بھی نہایت عظمت اور شان سے پورا ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے.اس سفر ہجرت

Page 60

60 میں آپ اللہ کی حفاظت میں رہے.اسکے بعد آپ نے مدنی زندگی میں ہر غزوہ میں بھر پور شرکت کی اور خدا تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں کے ہاتھوں موت سے محفوظ رکھا.بعد ازاں خلافت اولی کے دور میں آپ کی حفاظت فرمائی بلکہ چاروں خلفائے راشدین میں سے صرف ایک آپ ہیں جن پر دشمن حملہ کر کے آپ کے سلسلہ حیات کو منقطع نہ کر سکا.اور پھر طبعی وفات کے بعد اس وعدہ معیت کا فیض اس شکل میں آپ کو عطا ہوا کہ آپ کو رسول پاک ﷺ کے پہلو میں قریب ترین جگہ پر آخری آرام گاہ نصیب ہوئی اور قرب کا یہ شرف ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے نصیب میں لکھ دیا گیا.سراقہ اس تعاقب میں گھوڑے سے بار بار گرا اور سنبھلا اور بالآخر اپنا ارادہ ترک کر کے صلح کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے معافی کا خواستگار ہوا.اس کا گھوڑا ریت میں دھنس گیا تھا جو آپ کی دعا کی برکت سے باہر نکلا.سراقہ نے جو کچھ دیکھا اور مشاہدہ کیا اسکی بناء پر اسے یقین کامل ہو گیا کہ بالآخر آپ یقیناً غالب آئیں گے.اس خیال سے اس نے کمال دور اندیشی سے درخواست کی کہ مجھے امن کی تحریر عطا فرمائیں.چنانچہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر یہ تحریر لکھ کر اسے دے دی گئی.یہاں ایک لمحہ کے لئے رک کر ذرا یہ سوچئے کہ اس واقعہ میں بھی تو کل علی اللہ کی کیسی ارفع شان نظر آتی ہے.آپ کتنی کسمپرسی اور خوف کی حالت میں ، جان بچاتے ہوئے ، حالت سفر میں ہیں.ہر طرف دشمن آپ کی تاک میں ہے اور ہرلمحہ جان کا خطرہ ہے لیکن یقین اور وثوق سے آپ کا دل پر ہے کہ بالآخر اللہ تعالیٰ آپ کو یہ مقام عطا کرے گا کہ آپ ہی لوگوں کو امن کی ضمانت دیں گے اور بالآخر یہی تقدیر فتح مکہ کے روز بڑی شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی !

Page 61

61 اس موقعہ پر آپ کے استغناء اور توکل علی اللہ کی ایک اور شان ظاہر ہوئی.سراقہ اس وقت آپ کا ممنون احسان تھا.آپ چاہتے تو اس موقعہ سے فائدہ اٹھا سکتے تھے.آپ جو کہتے وہ کرنے کو تیار ہو جاتا لیکن آپ کے تو کل کا کمال دیکھئے کہ آپ نے سراقہ سے کوئی فائدہ طلب نہیں کیا.نہ اس کو کوئی سزا دی بلکہ آپ نے تو نہ صرف اسے معاف کیا بلکہ امن کی ضمانت بھی لکھ کر دی تاکہ بعد میں کبھی کوئی مسلمان اس سے انتقام لینے کا سوچ بھی نہ سکے.آپ نے اسے کوئی جھوٹی بات کہنے اور پھیلانے کو بھی نہ کہا.کہا تو صرف یہ کہا کہ بس ہمارے بارہ میں کسی سے ذکر نہ کرنا.روایت میں آتا ہے کہ سراقہ نے واپسی سے قبل اپنے زادِ راہ میں سے کچھ حصہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کیا لیکن آپ نے ایک مشرک کی طرف سے یہ معمولی امداد بھی قبول نہ فرمائی.حالت سفر میں انسان محتاج اور ضرورت مند ہوتا ہے اور بالعموم ہر امداد بخوشی قبول کر لی جاتی ہے.لیکن رسول پاک ﷺ نے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اپنی طبیعت کے استغناء کی وجہ سے ایک مشرک کی طرف سے ادنی سا احسان قبول کرنا بھی پسند نہ فرمایا.آپ کا مقام محسن انسانیت کا تھا آپ کو اللہ تعالیٰ نے اليد العليا عطا فر مایا تھا اور آپ نے اس ہاتھ کو ہمیشہ بالا رکھا.(البخاری.كتاب بدء الخلق باب هجرة النبى الله و اصحابه الى المدينة.و سيرة ابن هشام و زرقانی) سراقہ امان کی تحریر وصول کرنے کے بعد جانے لگا تو رسول پاک ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر اپنے اس دشمن کو جو آپ کی جان لینے آیا تھا ایک ایسی نوید سنائی جسے سن کر وہ حیران و ششدر رہ گیا.آپ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :

Page 62

62 سراقہ ! اس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے؟ (اسد الغابة ذكر سراقة بحوالہ سیرۃ خاتم النبین صفحہ ۲۴۲) یہ ایک ایسی بات تھی کہ اُن حالات میں سوچی بھی نہ جاسکتی تھی.ایسی ناقابل یقین کہ سراقہ جو اگر چہ مال و دولت کا متمنی تھا اور اسی دولت کے لالچ میں آپ کے تعاقب میں نکلا تھا لیکن جب سونے کے کنگنوں کا وعدہ دیا گیا تو یہ بات اس کے لئے بھی نا قابل یقین تھی.وہ حیرت کی تصویر بن گیا اور اس نے بڑے تعجب سے پوچھا: آپ نے فرمایا: کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران؟“ ” ہاں.اسی بادشاہ کے سونے کے کنگن ایک دن تیرے ہاتھوں میں ہوں گئے یہ سن کر سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ حیرت میں گم ہو گیا.کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدو انسان اور کہاں شہنشاہ ایران کے طلائی کنگن ! کیا واقعی ایک روز ایسا ہوگا؟ سراقہ کو کیا معلوم تھا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر سے اور ساری دنیا کو یہ نظارہ دکھانا چاہتی ہے کہ جو شخص آج اللہ کے محبوب بندے محمد مصطفیٰ لے کے خون کا پیاسا ہے اور دنیاوی دولت کے لالچ میں اس کے تعاقب میں بھاگا چلا آیا ہے یہی سراقہ ایک دن اپنا سرای حبیب خدا ﷺ کے پاؤں پر رکھنا اپنا فخر سمجھے گا.وہ جو دنیا کی دولت کے لالچ میں آیا ہے ، خدا اسے دین کی دولت سے مالا مال کرے گا اور بطور نشان دنیاوی دولت کی علامت کے طور پر وقت کے مشہور بادشاہ کے سونے کے کنگن اس کو عطا ہوں گے.یہ نظارہ خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو کشفاً دکھایا اور آپ نے

Page 63

63 کمال تو کل علی اللہ سے، پورے یقین اور تحدی کے ساتھ اسی وقت اس کا اعلان بھی کر دیا کہ یہ خدا کی بتائی ہوئی بات ہے جو اپنے وقت پر لازماً پوری ہوکر رہے گی.اور پھر دنیا نے دیکھا کہ قریباً سترہ سال بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں یہ بشارت لفظاً لفظاً پوری ہو کر رہی.! آٹھ دن کا یہ سفر ہجرت بظاہر ایک واقعہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے توکل علی اللہ کے بے شمار ایمان افروز جلووں پر مشتمل ہے.حق یہ ہے کہ آپ کی ساری زندگی اور آپ کا ہر قول وفعل توکل علی اللہ کے خمیر سے گندھا ہوا تھا! اختتامیه حضرات! آج دنیا کا ہر اسود و احمر امن وسکون اور سلامتی کا متلاشی ہے.ہر جگہ یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ یہ مقصد کیسے حاصل ہو سکتا ہے.بظاہر اس بہت مشکل سوال کا آسان جواب یہ ہے کہ اپنے معاملات کلیہ خدا تعالیٰ کے سپر د کر دینے سے اور تو کل علی اللہ کے مفہوم کو حقیقی معنوں میں اختیار کرنے سے سب کچھ نصیب ہو سکتا ہے.حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے: یا درکھو کہ مصیبت کے زخم کے لئے کوئی مرہم ایسا تسکین دہ اور آرام بخش نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا ہے“ ( ملفوظات جلد ۸ صفحه (۴۵) ہماری خوش قسمتی اور سعادت ہے کہ ہم اسی ہادی کامل کے پیروکار ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے ہر خلق میں اسوہ حسنہ قرار دیا اور جس نے مکارم اخلاق کی ہر چوٹی کو سر کیا.وہ ہمارا

Page 64

64 آتا ہے اور ہم اس کے غلام.دیکھو ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفے ﷺ نے کس طرح اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ کر کے تو کل علی اللہ کی بلند ترین چوٹیوں کو تاراج کیا اور اسی تو کل کی برکت سے آپ نے مقام محمود پایا نفسِ مطمئنہ آپ کو عطا ہوا اور خدا تعالیٰ سے قرب اور محبت کا وہ مقام آپ کو نصیب ہو اجس سے قریب تر کوئی اور مقام نہیں.دیکھو اور سنو! کہ آج ہمارے لئے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ فلاح اور نجات کا نہیں کہ صلى الله الله ہم ہادی کامل، فجر دو عالم حضرت محمد مصطفے ﷺ کی پیروی کریں کہ آج ہر خیر و برکت آپ ہی کے قدموں سے وابستہ کر دی گئی ہے.پس اے محمد عربی ﷺ کے غلامو! جو اس کی محبت کو اپنے سینوں میں بسانے والے ہو! اپنے اس دعوئی محبت کو سچ کر دکھاؤ اور آپ کی روشن کی ہوئی راہوں پر چلتے ہوئے تو کل علی اللہ کی منازل کو طے کرتے چلے جاؤ.یاد رکھو کہ اسی راہ سے تمہیں حقیقی نجات نصیب ہوگی اور اسی راہ سے خدا تعالیٰ کی محبت تمہیں عطا ہوگی.دیکھو ہمارے محبوب نے ہمیں یہ نوید سنائی ہوئی ہے: إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (۳:۳۲) کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.خدا کرے کہ محمد عربی ﷺ ( فداہ ابی وامق ) کے نقوشِ پا کی برکت سے ہم سب کو خدا کی محبت کی یہ لازوال دولت نصیب ہو جائے.آمین وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينِ

Page 65

رہے خلق کامل رہے حسنِ تام ـلیک الـ ـوة عليك السلام ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام و تبتل کا عملی نمونہ ہمارے پیغمبر خدا ﷺ ہیں.نہ آپ کو کسی کی مدح کی پروا، نہ ذم کی.....یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ جو شخص متبثل ہو گا متوکل بھی وہی ہو گا......جیسے ہمارے نبی کریم ﷺ کامل متبتل تھے ویسے ہی کامل متوکل بھی تھے.اور یہی وجہ ہے کہ اتنے وجاہت والے اور قوم و قبائل والے سرداروں کی ذرا بھی پروانہیں کی اور ان کی مخالفت سے کچھ بھی متاثر نہ ہوئے.آپ میں ایک فوق العادت یقین خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا.اسی لئے اس قدر عظیم الشان بوجھ کو آپ نے اٹھا لیا اور ساری دنیا کی مخالفت کی اور ان کی کچھ بھی ہستی نہ سمجھی.یہ بڑا نمونہ ہے تو کل کا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی الحکم جلد ۵ نمبر ۳۷ صفحه ۱ تا ۳ پرچه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۱ء)

Page 65