Language: UR
مسجد فضل لندن خلفائے احمدیت کی قدم بوسی کے کثیر مواقع ملنے کے باعث سارے عالم میں ایک ممتاز اور مقدس جگہ ہے۔ نیز طلوع الشمس من المغرب کا آغاز اور عالمی فتح و ظفر کی ابتداء ہے۔ اس نصیبوں والی مسجد کی تواریخ پر بہت سا کام ہوا، اور ہمیشہ اس جگہ کی جزئیات کو بھی تاریخ میں محفوظ رکھا جائے گا ، لیکن توحید کے نور اور امن و سلامتی کے پیغام کو چاردانگ عالم میں پھیلانے والی اس مسجد کی ابتدائی تاریخ لکھنے کی سعادت حضرت سید میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی۔ آپ کا یہ علمی سرمایہ صدقہ جاریہ بن کر ہمیشہ آپ کے درجات کی بلندی کا باعث بنتا رہے گا۔ یہ کتاب پہلی بار 1927ء میں طبع ہوئی۔ موجودہ ایڈیشن ٹائپ شدہ ہے اور مؤلف کی پیش کردہ قیمتی معلومات کو نہایت سلیقہ سے پیش کیا گیا ہے۔
تواریخ (بيت) فضل الدین --- الله الله محمد ر او الله.There is none worthy of worship except Allah, Muhammad is the messenger of Alah Desid (بیت) (Bait) Fazl (built in 1924) امن است در مکان محبت سرائے ما 16 GRESSENHALL ROAD, LONDON, SW185QL, UNITED KINGDOM
کلام محمود جادو ہے میری نظروں میں تاثیر ہے میری باتوں میں میں سب دنیا کا فاتح ہوں ہاتھوں میں مگر تلوار نہیں میں تیز قدم ہوں کاموں میں بجلی ہے مری رفتار نہیں میں مظلوموں کی ڈھارس ہوں مرہم ہے مری گفتار نہیں ہوں صدر کہ شاہ کوئی بھی ہوں میں ان سے دب کر کیوں بیٹھوں سرکار مری ہے مدینہ میں یہ لوگ مری سرکار نہیں میں تیرے فن کا شاہد ہوں تو میری کمزوری کا گواہ تجھ سا بھی طبیب نہیں کوئی مجھ سا بھی کوئی بیمار نہیں کیا اس سے بڑھ کر راحت ہے جاں نکلے تیرے ہاتھوں میں جان کا لینے والا بن مجھ کو تو کوئی انکار نہیں
(احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے) تواریخ (بيت)) فضل لندن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب
نام کتاب مصنف 2 تواریخ ( بیت ) فضل لندن (بیت) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب
3 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ لجنہ اماء اللہ کو صد سالہ جشنِ تشکر کے سلسلے میں استقامت سے کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے تواریخ بیت فضل لندن از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اس سلسلے کی اٹھاسی ویں (88) کڑی ہے.فالحمدللہ علی ذالک اس نصیبوں والی بیت کے مقدر میں خلفائے احمدیت کے قدم چومنا لکھا ہے اس کی بہت تاریخیں لکھی جائیں گی مگر آغاز کی تاریخ لکھنا حضرت میر صاحب کے حصے میں آیا.اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے اور آپ کا علمی سرمایہ صدقہ جاریہ بن کر آپ کے درجات کی بلندی کا موجب بنتار ہے آمین اللھم آمین.اس عظیم الشان بیت کا قیام 1924ء میں عمل میں آیا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کے عین مطابق تھا.نصرت و فتح و ظفر تا بست سال حضرت اقدس مسیح موعود کا یہ الہام 4 جنوری اور 27 جنوری 1904 کا ہے 1904 میں میں سال جمع کرنے سے 1924 بنتا ہے.مذکورہ الہام میں 1924 کی طرف اشارہ ہے جب بیت فضل لندن کا قیام عمل میں آیا تھا.چنانچہ اب جو عظیم فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا ہے ان کا تعلق اسی ( بیت ) سے ہے اور یہی سال طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنَ الْمَغْرِبُ کا آغاز اور عالمی فتح و ظفر کی ابتدا ہے.(حاشیہ تذکرہ صفحہ 419)
4 اللہ تعالیٰ نے ہمارے شعبہ اشاعت کو حضرت میر صاحب کے قریباً تمام رشحات قلم اخبارات و رسائل اور لائبریریوں میں نایاب کتب کی صف سے نکال کر دوبارہ زیور طبع سے آراستہ کر کے افادۂ عام کے لئے پیش کرنے کی خصوصی سعادت عطا فرمائی ہے.قبل ازیں مضامین حضرت میر محمد اسمعیل صاحب دو جلدوں میں ( 1280 صفحات پر مشتمل ، بخار دل (304 صفحات) آپ بیتی (220 صفحات) اور کرنہ کر (78 صفحات) شائع ہو چکی ہیں.یہ کتاب آپ کی دستیاب کتب میں سے آخری ہے جو پہلی بار 1927 میں طبع ہوئی تھی.دوبارہ لکھوانے میں بعض الفاظ مجبورا تبدیل کرنے پڑے ہیں پڑھتے ہوئے بریکٹ میں لکھے ہوئے متبادل الفاظ کی جگہ اصل الفاظ پڑھئے تو لطف دو بالا ہو جائے گا.قارئین کرام کی سہولت کے لئے کتاب میں اردو میں لکھے ہوئے انگریزی الفاظ کو بریکٹ میں لکھوایا گیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر مساعی قبول فرمائے.یہ نایاب مائدہ آپ کی خدمت میں پہنچانے کے لئے عزیزہ امتہ الباری ناصر کی کاوشوں کا دعاؤں سے بدلہ دیں.ان کی ساری ٹیم ہماری خصوصی دعاؤں کی مستحق فجز اصن اللہ تعالیٰ احسن الجزاء یہ کتاب سے منظور شدہ ہے.
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود مہدی معہود
5 اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تواریخ ( بیت ) فضل لنڈن یعنی لنڈن کی سب سے پہلی ( بیت ) کے آغاز سے افتتاح تک کی تواریخ یہ رسالہ اس لئے لکھا گیا ہے کہ پبلک کو اس (بیت) کے تفصیلی حالات معلوم ہوں.جو حال ہی میں سلطنت برطانیہ کے دارالامارہ شہر لنڈن میں تعمیر کی گئی ہے اور جس کے افتتاح کے شاندار ذکر سے دُنیا کے تمام ممالک اخبارات کے صفحے مملو ہیں.یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جس قدر شہرت اس ( بیت) کی دنیا کے مختلف حصص اور گوشے گوشے میں ہوئی ہے.اور جس قدر عمائد اور معززین اس کے رسم افتتاح کے وقت جلسے میں شریک ہوئے.اور جس قدر تاریں اور مضامین اس کے لئے اخبارات میں چھاپے گئے اور جس قدر خوشی کا اظہار ہر طبقہ کے لوگوں کی طرف سے اس کی تعمیر پر کیا گیا ہے.اس قدر دُنیا کی کسی عبادت گاہ کی تعمیر پر آج تک نہیں ہوا.اس (بیت) کے حالات اور تاریخ بیان کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جماعت اور سلسلہ کا ذکر مختصر طور پر کیا جائے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ توفیق دی کہ دُنیا کی سب سے بڑی سلطنت کے سب سے بڑے شہر میں سب سے پہلا خدائے واحد کا گھر تعمیر کرے اور اس طرح تثلیث دہریت اور مادیت کے مرکز میں حقیقی اور مقدس توحید کی
حضرت حکیم نور الدین خلیفه اسمح الاول (اللہ آپ سے راضی ہو )
6 بنیاد قائم کر کے مشرق اور مغرب.سیاہ اور سفید غرض ہر قوم اور نسل کے طالبانِ حق کو ایک نقطہ اتحاد پر جمع کرے.اور اس بابرکت مقام سے ازلی اور ابدی صداقتوں کی اشاعت کرے.جن پر انسان کی تمام روحانی ،اخلاقی علمی اور مادی ترقیوں کا مدار ہے.( دین حق کو خدا نے اس لئے دُنیا میں نہیں بھیجا تھا کہ وہ ایک راز سربستہ رہے.مشیت الہی یہ تھی کہ یہ مذہب تمام عالم کے لئے ہے اور جبر سے نہیں بلکہ اپنے حسن و جمال و سچے دلائل کے اثر سے دلوں میں داخل ہونے کے لئے بنایا گیا ہے.اس کا خدا حقیقی خدا ہے.جو اپنی ذات وصفات میں یکتا تمام خوبیوں کا منبع تمام حُسنوں کی کان اور تمام احسانات کا سرچشمہ ہے.اس کی محبت تو الگ اس کی سزا بھی رحم اور محبت پر مبنی ہے.پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود بندہ سے تعلق پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی لئے اس نے انسان کو پیدا کیا ہے.وہ بندہ سے وصل و تعلق کا اس سے زیادہ طالب ہے جتنا بندہ خدا سے وصل کا.وہ ہر شخص سے ہم کلامی کو تیار ہے بشرطیکہ بندہ اس سے کلام کرنے کی اہلیت حاصل کرے.پھر ( دین حق ) کے تمام عقائد ایسے پاکیزہ ہیں کہ عقلِ سلیم ہر وقت ان کے ماننے کو مستعد ہے.کوئی عقیدہ یا عمل ( دین حق ) کا علوم صحیحہ اور عقل سلیم کے مخالف نہیں.اسی طرح (دینی) عبادات.(دینی) روحانیات (دینی) معاملات ،(دینی) معاشرت و رسومات.(دینی) اخلاق (دینی) نجات (دینی) احکام حلال و حرام (دینی) طہارت (دینی) سیاست (دینی) تہذیب و تمدن ، (دینی) تعزیرات غرض ہر شعبہ ایسا پاک بے عیب اور عالی شان ہے کہ بے اختیار زبان پر یہی آتا ہے.ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل میکشد که جا اینجاست
7 اوراسی ( دین حق کو دوبارہ زندہ کرنے اور دوسرے مذاہب کے مقابلہ میں اسے غالب کر کے دکھانے اور دنیا کو رُوحانی موت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو مسیح و مہدی بنا کر مبعوث فرمایا.حضرت مسیح موعود ایک معزز مغل زمیندار خاندان سے تھے اور 1836 (فروری 1835.ناقل ) کے قریب ایک گاؤں قادیان میں پیدا ہوئے.آپ کی جوانی کے زمانہ کے بے عیب ہونے پر آپ کے ہم وطن دشمن بھی تمام عمر شاہد رہے ہیں.آپ نے بچپن سے ہی اپنی عمر زہد و تعتبد میں گزاری.جب آپ کی عمر رُوحانی پختگی کو پہنچی تو آپ کو خدا تعالیٰ کی ہم کلامی اور الہام کا شرف حاصل ہوا.1891 میں آپ نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا.اور دعوے کے کرتے ہی تمام ہندوستان اور پھر اس کے بعد دُنیائے اسلام میں وہ مخالفت اور ہلچل مچی کہ خدا کی پناہ.قدیم سُنّت اللہ کے مطابق اپنے عزیز ، اہلِ شہر، اہل وطن ،علماء، صوفیاء،عوام ، ہر فرقہ اور ہر طبقہ کے لوگ سخت دشمن ہو گئے اور جان مال عزت اور جماعت.غرض ہر چیز کو تباہ کرنے کی کوشش میں ناخون تک کا زور لگایا.مگر تمام دُنیا کے مقابلہ میں خدائی سلسلہ کا بال بینکا نہ ہوا.اور خدا کا کہنا سچ ہوا کہ.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ پس خدا کے طالبوں نے اُسے قبول کیا.پہلے ایک نے پھر دو ( 2 ) نے پھر سو (100) نے.پھر ہزار نے.یہاں تک اب لاکھوں صدق دل سے اس کے
8 قبول کرنے والے موجود ہیں.اور ان سے بہت بڑھ کر وہ تعداد ہے جو دل میں اس کی صداقت پر یقین رکھتی ہے مگر کسی وجہ سے ظاہر میں اعلان نہیں کر سکتی.یہ وہ ذات بابرکات تھی جس نے اپنا کام پورا کرنے کے بعد 1908 میں وفات پائی.اور ان کے بعد ان کے پہلے جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب مقرر ہوئے جو قریباً چھ سال تک اپنا کام کر کے 1914 میں واصل بحق ہوئے.آپ ہی کے زمانے میں خلافت کے منصب کو مضبوط کیا گیا تبلیغی وفود کا سلسلہ شروع کیا گیا.اور سب سے پہلا مبلغ جماعت احمدیہ کا انگلستان میں بھیجا گیا تفصیل اس کی آئندہ آئے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.ان کے بعد حضرت مسیح موعود کے صاحبزادے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سریر آرائے خلافت ہوئے.ان کے زمانے میں انضباط سلسلہ کا وسیع اور مضبوط پیمانہ میں کیا گیا.دائرہ تبلیغ کو نہایت وسیع کیا گیا.ہر شاخ میں با قاعدگی اور انتظام قائم کیا گیا.بہت سے نئے محکمات کھولے گئے.ہر طرح سے آرگنائزیشن (Organisation) کو عمل میں لایا گیا اور انہی کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ 1926 میں ہم ایک مکمل ( دینی بیت) کا شاندار گنبد شہر لنڈن کے وسط میں دیکھ رہے ہیں.جہاں سے اللہ اکبر کا دل گرما دینے والا نعرہ پانچ وقت اہل انگلستان کے کانوں تک پہنچایا جاتا ہے.سلسلہ احمدیہ کے لوگ جن کا مرکز قادیان ہے.زیادہ تر ہندوستان میں ہیں.پنجاب میں خصوصیت سے ان کی کثرت ہے.مگر دیگر حصص ہندوستان میں بھی قریباً ہر جگہ پائے جاتے ہیں.اس کے سوا افغانستان، ایران، روس ، چین ،سماٹرا، آسٹریلیا، مصر، عرب، عراق، مغربی افریقہ، کینیا، ماریشس، امریکہ اور انگلستان میں بھی احمدی جماعت قائم ہے.افغانستان میں تو اس جماعت کے پانچ آدمی اور مصر میں عبد الجلیل نامی
9 ایک احمدی مذہبی تعصب کا نشانہ بن کر جام شہادت پی چکے ہیں.کل جماعت قریباً دس لاکھ نفوس پر مشتمل.ہے.ہر طبقہ کے لوگ اس میں موجود ہیں.امیر غریب، تاجر، سرکاری ملازم زمیندار، دستکار، وکلاء، بیرسٹر گریجوایٹ ،علماء مذہبی وغیرہ.جماعت احمدیہ کے مذہبی اصولوں میں ایک یہ بھی ہے جس حکومت کے ماتحت رہتے ہیں.اس کے دلی خیر خواہ رہتے ہیں.اور فساد اور شرارت اور امن شکنی اور غدر اور بغاوت کے طریقوں سے بچتے ہیں.اور دین کی نصرت اور اشاعت محبت، پیار اور دلائل سے کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.مرکز قادیان میں حضرت خلیفہ اسی امام جماعت احمدیہ کے متعدد سیکرٹری ہیں.جن میں بعض کے عہدے یہ ہیں.ناظر اعلیٰ یعنی چیف سیکرٹری ، ناظر دعوت و تبلیغ.غیر قوموں تک حق و صداقت پہنچانے کے لئے.ناظر تعلیم و تربیت جماعت کی اندرونی اصلاح اور استحکام کے لئے.ناظر بیت المال مالی انتظام کے لئے.ناظر تصنیف و تالیف محکمہ تصنیف و تالف کے لئے.ناظر امور خارجہ.گورنمنٹ اور غیر جماعتوں کے تعلقات کے لئے.ناظر ضیافت ، مہمانوں کے کھانے اور رہائش کے انتظام کے لئے.محکمہ قضا.مقدمات کے فیصلہ کے لئے محکمہ افتاء صحیح فتویٰ صادر کرنے کے لئے محکمہ احتساب.اندرونی نگرانی کے لئے.اور محکمہ ڈاک.حضرت امام کی خط و کتابت کے لئے وغیرہ وغیرہ.کئی اخبارات اور رسالے مرکز سے اور ایک رسالہ لنڈن سے شائع ہوتا ہے.اور بعض پرچے دیگر ممالک سے بھی نکلتے ہیں نیز مختلف بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کے مشن میں جن کا ذکر آئندہ آئے گا.ہر جگہ جہاں احمدی پائے جاتے ہیں.باقاعدہ جماعتیں قائم ہیں اور بڑی بڑی جماعتوں میں امیر
10 مقرر ہیں.قادیان میں اکثر ضروری امور میں مجلس شوری سے مشورہ لیا جاتا ہے.خود حضرت خلیہ اسیح مجلس شوری سے مشورہ لینے کے بعد کسی کام کا فیصلہ فرماتے ہیں.ہر سال خدا کے فضل سے آمد اور خرچ میں ترقی ہے.قادیان میں ایک عظیم الشان لائبریری.ایک مذہبی کالج اور ایک ہائی سکول ہے.ایک مہمان خانہ ہے جس سے گزشتہ سال ڈیڑھ لاکھ کے قریب آدمیوں نے کھانا کھایا تھا.مذہبی سالانہ جلسہ جو تعلیم اور وعظ کا رنگ دکھاتا ہے.ہر سال دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوتا ہے.گزشتہ جلسہ میں قریباً پندرہ ہزار آدمی شریک جلسہ ہوئے تھے.قصبہ کی آبادی جو پہلے دو ہزار کے قریب تھی اب پانچ ہزار نفوس کے قریب ہو گئی ہے.اور قصبہ اپنی پرانی حدود سے ایک میل آگے بڑھ گیا ہے اور بسرعت تمام ترقی کر رہا ہے.قصبہ کے مرکز میں ایک بڑی ( بیت ) ہے.جس میں (بانگ) اس سفید عالی شان عمارت پر دی جاتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشگوئی کو ظاہری طور پر پورا کرنے کے لئے تیار کیا گیا ہے جس میں مسیح موعود کے نزول کو ایک مشرقی مینارہ کے ساتھ وابستہ کیا گیا تھا.علاوہ جلسہ سالانہ کے سال میں ایک دفعہ جماعت کے ضروری معاملات پر غور کرنے کے لئے ایک خاص مجلس عموماً ایسٹر کی رخصتوں کے ایام میں مقرر ہوتی ہے اور تین دن تک اس کا اجلاس تمام تمام دن رہتا ہے.اور بعد پاس ہونے کے امور نفاذ کے لئے سیکرٹریوں کے سپرد کر دئے جاتے ہیں.اس جلسہ کا نام مجلس مشاورت ہے.اور مقامی اور بیرونی جماعتوں کے نمائندے اس میں شامل ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ تمام جماعت ایک باقاعدہ نظام کی صورت میں منسلک ہے.جس کے امام حضرت خلیفہ ایچ ہیں اور ہر امر کی نسبت با قاعدہ محکمہ کھلا ہوا ہے.
11 جماعت کے اخلاص اور فرمانبرداری اور انضباط اور ایمانی جوش اور عملی قوت کی بابت کچھ ذکر اس جگہ بے جا نہ ہوگا.حضرت مسیح کا کہنا.’درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.ایک ایسی مسلمہ صداقت ہے کہ ہم صرف اسی ایک معیار کو لے کر سلسلہ احمدیہ کی صداقت کو آسانی سے پرکھ سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی عظمت.اعلائے کلمۃ اللہ کا جوش.رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام انبیاء کی عزت.قرآن اور حدیث سے محبت.اشاعت (دین) کی لگن اور مخلوق خدا کے لئے ہدایت کی تڑپ ، نیکی ، تقویٰ اور پرہیز گاری ، اچھی معاشرت پاکدامنی علم کی خواہش ، بہترین شہری بننے کی کوشش.امن کی طلب اور فتنہ فساد اور بغاوت اور شرارت کے طریقوں سے بچنے اور بچانے کی جد وجہد.یہ باتیں ممتاز طور پر آپ کو اس جماعت میں نظر آئیں گی.کئی احمدی آپ کو ایسے ملیں گے جو پہلے ڈاکو تھے ، چور تھے، ظالم تھے، غاصب تھے ، خائن تھے، بد دیانت تھے ، عیاش تھے ، بد چلن تھے ، مرتش تھے، دھوکہ باز تھے ، جواری تھے ، بے دین تھے ، مذہب سے تمسخر اور استہزاء کرتے تھے.مفسد تھے.مگر اس سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد ان پر ایسا عظیم الشان تغیر آیا.اور ان کی ایسی کایا پلٹی گئی کہ آج ان کی نیکی اور پرہیز گاری دیانت اور امانت مخلوق پر شفقت اور خدا سے محبت پر ان کے دشمن بھی قسمیہ شہادت دے سکتے ہیں.بہت سے اُن پڑھ آپ کو ایسے ملیں گے کہ ان کی معمولی باتیں معرفت سے لبریز ہوں گی اور ان کی ایک معمولی تقریر بڑے بڑے علماء کے چھکے چھڑا دے گی.بکثرت ایسے ملیں گے جن کی دعاؤں کو آستانہ الوہیت میں شرف قبولیت حاصل ہے.اور بہت سے وہ ہیں جن پر الہام و کشوف کا دروازہ کھلا ہوا ہے.ان کے دل و دماغ علم و معرفت سے پُر ہیں.وہ دنیا سے حقیقی طور پر بے تعلق ہیں.گو بظاہر دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں.ان کا جو کچھ ہے
12 خدا کے لئے ہے.وہ خدا کے ہیں.اور خدا ان کا ہے.وہ اپنے بھائیوں کے رنج و راحت میں برابر کے شریک ہیں.اور سب کے سب اپنے آقا خلیفہ وقت کے ہاتھ پر اپنے تئیں بکا ہوا سمجھتے ہیں.اس کے ایک اشارہ پر وہ اپنے جان و مال اور دنیا کے آرام پر لات مار کر ہر تکلیف کو اُٹھانے کے لئے مستعد رہتے ہیں.بہتوں نے اپنے وطن گھر.رشتہ داروں ، ملازمتوں ،زمینداریوں، تجارتوں بڑے بڑے فوائد کی قربانی کر کے قادیان میں ڈیرے لگائے ہیں.ان میں ایک جماعت نو مسلموں کی بھی ہے جو ہندوؤں سکھوں ،عیسائیوں اور دیگر اقوام سے علیحدہ ہو کر (دین حق) کے حلقہ بگوش ہوئے ہیں.بہت سے ہیں جو اپنی بیبیوں ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر برسوں کے لئے غیر ملکوں میں اشاعت (دین) کے لئے جاتے رہے ہیں.بہت سے ہیں جنہوں نے اپنی جائدادیں اور آمدنیاں اشاعت (دین) کے لئے دے دی ہیں.بکثرت ایسے ہیں جنہوں نے اپنی اولاد کو صرف دین کی خدمت کے لئے خدا کے لئے نذر کر دیا ہے.اور بہت سے تعلیم یافتہ نوجوان ایسے ہیں جو اپنی زندگی کو پورے طور پر خدمت دین کے لئے وقف کر چکے ہیں.خواہ ان سے کوئی کام لیا جائے.وہ اپنی محنت سے کمائیں گے مگر کام سلسلہ کا کریں گے.ہر جماعت کے ہر فرد نے اپنے ذمہ اتنا چندہ لگایا ہے کہ دنیا میں کوئی اور جماعت اس کا نمونہ نہیں دکھا سکتی.ہر روپیہ کے پیچھے ایک آنہ.اور ہر من غلہ کے پیچھے ڈھائی سیر غلہ کم سے کم شرح ہے.بہت ہیں جو اپنی آمدنی کا دسواں حصہ دیتے ہیں.بہت سے پانچواں ،کئی تیسرا.اور ایسے بھی نمونے ہیں.جو گویا اپنا پیٹ کاٹ کر بھی خدا کی راہ میں دیتے ہیں.انہوں نے افغانستان میں خدا کی رضا کے لئے اپنی جانیں دیں.انہوں نے غیر ممالک اور ہندوستان میں ہر طرح کے ظلم ہے.قیدیں کاٹیں ، فاقے سہے، ان کو مارا گیا ، جلا وطن کیا گیا.ان کے مالی.
13 نقصان کئے گئے.ان کے مُردے قبروں سے اُکھیڑ کر پھینکے گئے.ان کا پانی بند کیا گیا.اُن کی عورتوں اور بچوں کو ان سے جدا کیا گیا.وہ سنگسار کئے گئے.ان کو گلا گھونٹ کر مارا گیا.ان کو بھری مجلسوں میں علی الاعلان قتل کر دیا گیا.مگر وہ فولادی چٹان کی طرح عزم اور استقلال سے قائم رہے اور ذرہ بھی متزلزل نہ ہوئے.انہوں نے اپنے خلیفہ کی جنبش لب پر بخارا اور روس اور ایران کے سفر ننگے پیر برفوں پر کئے.انہوں نے جنگ عظیم کے دنوں میں ان جہازوں پر سفر کیا.جو ہر وقت جرمن تارپیڈوں کی زد میں تھے.اور دُنیا گواہ ہے کہ انہوں نے ملکانہ کے علاقہ میں ایک غریب کمزور قوم کو بچانے کے لئے تمام ممکن سے ممکن مالی اور جسمانی صعوبتیں اور اذیتیں برداشت کیں.اور اس علاقہ کو کو نہ چھوڑا.جب تک ارتداد کی روکو بند نہ کر دیا.غرض انھوں نے اخلاص و ایمان ، ایثار و قربانی کا پورا پورا نمونہ دکھایا.اب اے وے تمام نیک دل انسانو! جو کسی آخری مصلح اور نجات دہندہ کی انتظار میں چشم براہ بیٹھے ہو.آؤ اور اس جماعت میں داخل ہو جاؤ.کیونکہ وہ جس کی تم انتظار کرتے تھے.آگیا اور جن مطالب اور مقاصد کے لئے اس کی انتظار کرتے تھے.وہ اب اس اور صرف اس جماعت میں داخل ہونے سے تم کو مل سکتے ہیں.کامیابی یقینی ہے.اور انجام نظر آ رہا ہے.صرف تمہارے قدم اُٹھانے کی دیر ہے.تبلیغ ممالک بیرونی کی ابتدا حضرت مسیح موعود کی بعثت کی ایک بڑی غرض کسر صلیب بھی تھی.یعنی عیسائی قوموں کو غلط راستہ سے ہٹا کر صحیح (دین) کی طرف بلانا.اس کے لئے حضور نے جو تصانیف لکھی ہیں وہ بجائے خود ایک عظیم الشان کام ہے.پھر حضرت مسیح ناصری کی وفات کا ثبوت قرآن و انجیل و کتب تاریخ سے دے کر
14 حضرت مسیح کی قبر کا پتہ کشمیر میں بتا کر اور اپنے مقابلہ میں تمام عیسائیوں کو بلا کر اور ان کو دلائل عقلی اور قوت روحانی سے شکست دے کر حضور نے اپنے کام کو اپنی وفات سے پہلے پورا کر دیا تھا.اس کے سوا یورپ و امریکہ کی دعوت الی اللہ ) کے بارے میں حضور نے بعض پیشگوئیاں بھی خدا تعالیٰ کی طرف کی ہیں.جن کا ذکر (بیت) کے ضمن میں انشاء اللہ آگے آئے گا.پھر انگلستان کی طرف خاص توجہ اس لئے بھی حضور کو تھی.کہ آپ برٹش گورنمنٹ کی رعایا تھے.اور ھــل جـزاء الاحسان الا الا حسان کی وجہ سے آپ ان کو اس خدا کی طرف لے جانا چاہتے تھے جس سے خود آپ نے فائدہ اُٹھایا تھا.ایک اور وجہ بھی انگلستان و امریکہ کی طرف توجہ کرنے کی یہ تھی کہ حضور علیہ السلام کو بہت سے الہامات انگریزی زبان میں ہوئے تھے.جو براہین احمدیہ میں درج ہیں.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم کسی وقت ضرور آپ کی اطاعت میں داخل ہوگی.پھر آپ نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ آپ کی آمد کے روحانی اثرات میں ایک اثر یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ یورپین لوگ اپنے غلط عقائد کو خود بخود چھوڑتے چلے جاتے ہیں.اور آخر ایک دن وہ آنے والا ہے کہ اس میں سے طالبانِ حق ضرور ( دین حق ) میں داخل ہوں.چنانچہ ایک جگہ آپ نے فرمایا ہے.کیا عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار
15 آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہلِ دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں نثار زمانہ حضرت خلیفہ اول 27 مئی 1908ء کو حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے خلیفہ اول ہوئے.آپ کے زمانہ خلافت میں جو چھ سال کے قریب تھا.خواجہ کمال الدین صاحب نے ولایت جا کر ووکنگ میں اپنا کام شروع کیا.اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت خلیفہ اول نے اپنا منشاء ظاہر فرمایا.کہ ہماری جماعت کے انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ میں سے کچھ لوگ ج کیلئے انگلستان جائیں.اس تحریک پر مولوی محمد الدین صاحب بی اے اور چودہری فتح محمد صاحب ایم اے نے اپنا نام پیش کر دیا.مگر دقت یہ تھی کہ سفر خرچ وغیرہ کے لئے روپیہ موجود نہ تھا.یہ دقت دیکھ کر چودہری فتح محمد صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے اس کا ذکر کیا.جس پر آپ نے ان کو تین سو (300) روپے انجمن انصار اللہ کے فنڈ سے دینے کا وعدہ کیا.چودہری صاحب فوراً حضرت خلیفہ اول کے پاس گئے اور حال سنایا کہ میں تیار ہوں اور کچھ روپیہ بھی مل گیا ہے.اس پر حضرت میر ناصر نواب صاحب نوراللہ مرقدہ نے ایک سو پانچ (105) روپے اپنے پاس سے پیش کئے.
16 تیسری رقم ایک سو پانچ (105) روپے کی صدر انجمن نے بھی حضرت خلیفہ اول کی فہمالیش پر دی.اس روپیہ سے چودہری فتح محمد صاحب 25 جولائی 1913ء کو لنڈن پہنچ گئے اور کچھ دن وہاں قیام کر کے 11/اگست 1913ء کو دوکنگ میں پہنچے.اور پھر سوائے ایک قلیل درمیانی وقفہ کے حضرت خلیفہ اول کی وفات تک جو مارچ 1914ء میں ہوئی وہیں قیام رکھا.حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد چودہری صاحب نے حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی اور خواجہ کمال الدین صاحب بیعت سے منحرف رہے.اس اختلاف کی وجہ سے جس نے ایک ناگوار صورت اختیار کر لی تھی.انہیں ووکنگ کو چھوڑ کر پھر مئی 1914ء میں لنڈن آنا پڑا اور یہاں پر انہوں نے (دینِ حق ) اور احمدیت کی تبلیغ کا انتظام اور کام کرنا شروع کیا.غرض یہ پہلا شخص تھا جسے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا پہلا...( داعی الی اللہ ) بن کر انگلستان جانے کی سعادت حاصل ہوئی.سب سے پہلا پھل چودہری صاحب کی مساعی کا ایک شخص مسٹر کوریو (Mr.Corio تھا.جو کہ ایک جرنلسٹ ہے اور اب تک زندہ ہے اور مسلمان ہے اس کا نام بشیر کو ریو رکھا گیا.اس کے بعد چودہری صاحب کی واپسی تک جو مارچ 1916 ء میں ہوئی.قریباً ایک درجن انگریز اور مسلمان ہوچکے تھے.چودہری صاحب کی تبلیغ زیادہ تر لیکچروں کے ذریعہ سے ہوئی جو انہوں نے ملک کے مختلف حصوں کی کلبوں اور سوسائٹیوں کے جلسوں میں دیے اور چودہری صاحب کی رہائش ایک کرایہ کے مکان میں رہی چودہری فتح محمد صاحب سے چارج لینے کو حضرت خلیفہ ثانی نے قاضی عبداللہ صاحب بی اے بیٹی کو انگلستان روانہ کیا.وہ اکتوبر 1915ء میں اس ملک میں داخل ہوئے اس کے چار ماہ بعد چودہری فتح محمد صاحب سبکدوش ہو کر جنگ کی وجہ سے کیپ آف گڈ ہوپ (Cape of Good Hope) یعنی افریقہ کے
17 گرد سفر کر کے ہندوستان واپس پہنچ گئے.قاضی صاحب نے پورے چارسال انگلستان میں بسر کئے اور جنگ کی وجہ سے بہت سی اُن تکالیف کا مزہ چکھا جس میں اُس وقت لنڈن اور تمام ملک کے لوگ گرفتار تھے.انہوں نے زیادہ تر لٹریچر اور خطوط کے ذریعہ اپنی کوشش کو جاری رکھا.اس جنگ عظیم کے زمانہ میں جب بچے سے بڑھے تک مصیبت میں مبتلا اور اکثر مرد غیر حاضر اور لوگوں کی توجہ کسی اور طرف لگ رہی تھی.(دعوت الی اللہ ) کا کام کرنا نہایت ہی دشوار تھا.قاضی صاحب کے زمانہ میں مشن کو ایک مستقل جگہ بنانے کی غرض سے سٹار اسٹریٹ کا وہ مکان جس میں اب تک ہماری تجارتی ایجنسی کام کرتی ہے گروی لے لیا گیا.ابھی قاضی صاحب انگلستان میں تھے کہ حضرت خليفة أسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کو تبلیغ کے لئے لنڈن روانہ کیا.انہوں نے اپریل 1917 ء سے جنوری 1920 ء تک قیام فرمایا جس کے بعد ان کو انگلستان سے امریکہ جانے کا حکم ہوا جہاں ان کے ایک ہزار اسود و احمر اہلِ امریکہ کو مسلمان کرنے اور ایک نئی (بیت) کے قائم کرنے کا کارنامہ معروف ہے.جزاہ اللہ احسن الجزا.قاضی عبداللہ صاحب کی جگہ حضرت خلیفہ اسیح نے اگست 1919ء میں چودہری فتح محمد صاحب کو دوباره مع مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ولایت مشن کا چارج لینے کے لئے بھیجا.اور قاضی صاحب نومبر میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے نیر صاحب 1920 ء میں افریقہ روانہ ہو گئے.جہاں ان کا ہزار ہا افریقی لوگوں کو مسلمان کرنا اور پھر ان کی تربیت کا انتظام کرنا سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا ایک مشہور واقعہ ہے.جزاہ اللہ احسن الجزا.
18 تحریک ( بیت ) لنڈن تحریک (بیت) لندن سب سے پہلے قادیان میں 1920ء کے آغاز میں ہوئی اور اس کے لئے فوراً چندہ جمع کیا گیا (تفصیل اس تحریک کی آئندہ انشاء اللہ آئے گی) اور چودہری صاحب کو اطلاع دی گئی کہ (بیت) کے لئے کوئی مناسب جگہ خرید کریں.چودہری صاحب نے بہت کوشش اور تگ و دو کے بعد لنڈن کے محلہ پٹنی ساؤتھ فیلڈ (Putney, South Field) میں ایک قطعہ زمین مع مکان کے 2223 پاؤنڈ یعنی 30 ہزار روپیہ میں اگست 1920ء میں خرید کیا.اور اس کی اطلاع بذریعہ تار حضرت خلیفۃ اسیح کو دی.جو ان دنوں ڈلہوزی پر تشریف فرما تھے.حضور نے اس خوشی میں وہیں 9 ستمبر 1920ء کو ایک جلسہ کیا اور انہی دنوں ڈلہوزی میں ( بیت ) کا نام بھی (بیت) فضل تجویز ہوا.انگلستان میں پہلا ( داعی الی اللہ ) بن کر جانے اور پھر ( بیت ) کے لئے زمین حاصل کرنے کا سہرا چودہری فتح محمد صاحب کے سر ہے اور جو کام ملکانہ میں ان کی امارت میں ہوا وہ بھی دنیا کے سامنے ہے.جزاہ اللہ فی الدینا والاخرة - قطعه زمین جو ایک یہودی سے چودہری صاحب موصوف نے (بیت) کے لئے خریدا تھا اس میں ایک معقول مکان اور ایک ایکڑ کے قریب احاطہ ہے.مکان جو مشن کے کام آتا ہے اُس پر پھر ایک ہزار پاؤنڈ مرمت درستی اور فرنیچر وغیرہ کے لئے خرچ ہوا تاکہ وہ قابل رہائش بن سکے.ذیل میں اس احاطہ کا نقشہ درج کیا جاتا ہے.
مشرق 19 شمال سڑک میلروز احاطه احمد پیشن چودہری صاحب کی واپسی پر مولوی عبدالرحیم صاحب نیّر افریقہ سے واپس آکر مشن کے انچارج ہو گئے اور اپنے وقت میں تبلیغ کا سلسلہ ٹریکٹوں، لیکچروں اور ہائڈ پارک (Hyde Park) کی تقریروں سے جاری رکھا.انہی کے زمانہ میں مشن کے مکان میں ٹیلیفون بھی لگوا لیا گیا وسط 1924 ء تک یہی حال جاری رہا.مگر تعمیر کا کام عملی طور پر جاری نہ کیا جا سکا.
20 لنڈن کی مذہبی کانفرنس اور احمد یہ سفارت 1934ء میں ویمبلے کی نمائش کے دوران بعض معززین کو یہ خیال آیا کہ اس عالمگیر نمائش کے ساتھ ساتھ دنیا کے تمام مذاہب کی بھی نمائش کی جاوے.اور عیسائی مذہب کو الگ رکھ کر جس کے حالات سے اہل مغرب خوب واقف ہیں کیونکہ وہ خود ان کا اپنا مذہب ہے باقی جتنے مذاہب اور ان کی نئی اصلاح شدہ شاخیں ہیں ان کے نمائندوں کو لنڈن بُلا کر اپنے اپنے مذاہب پر لیکچر کرائے جائیں.چنانچہ اس کے لئے ایک کمیٹی انہوں نے بنائی اور پورا سامان لیکچروں کا وسیع پیمانہ پر کیا گیا.مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو بھی اس کمیٹی نے احمد یہ سلسلہ کے لیکچر کے متعلق مدعو کیا.مولوی صاحب مذکور نے قادیان تار دیا اور کمیٹی کی طرف.سے دعوت کے علاوہ درخواست کی کہ مضمون کے ساتھ خود حضرت خلیفہ اسیح یا کوئی سلسلہ کا معزز کارکن بھی اگر لنڈن تشریف لائے تو بہت مناسب ہو گا.یہ دعوت جب یہاں پہنچی تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے فوراً مضمون لکھنا شروع کر دیا.جون کا مہینہ خطرناک گرمی اور تپش غرض راتوں کو لیمپ کے آگے وہ عظیم الشان مضمون لکھا گیا جو ایک ضخیم کتاب احمدیت یا ( دینِ حق ) کے نام سے شائع ہو چکا ہے.دوران تصنیف میں مجلس شوریٰ بلائی گئی کہ کون شخص لنڈن بھیجا جائے.مرزا بشیر احمد صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے تجویز پیش کی کہ یہ ایک خاص موقعہ ہے اگر خود حضرت خلیفہ اسی تشریف لے جاویں تو مناسب ہے غرض متعدد مشوروں اور بحثوں اور بیرونی جماعتوں کی رائے لینے کے بعد یہی مشورہ قرار پایا کہ اس موقعہ پر خود حضرت صاحب مع چند خدام کے انگلستان تشریف لے جاویں اور مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں اور علاوہ اس کے انگلستان کے
21 مقامی حالات کو دیکھ کر وہاں کے نظام ( دعوت الی اللہ ) کو مضبوط فرما دیں.اور نیز دمشق اور مصر اور یورپ کے بعض دیگر حصوں کے حالات بھی معلوم فرماویں اس سفر کے حالات چونکہ بہت طویل ہیں اور ان کے لئے ایک الگ کتاب کا لکھا جانا تجویز ہوا ہے اس لئے صرف متعلقہ حصہ کو میں لیتا ہوں.حضور کے ساتھ جانے کے لئے حسب ذیل احباب منتخب ہوئے اور ان کے لئے خاص یونی فارم (لباس) یعنی سبز عمامے، لمبے سیاہ کوٹ اور پاجامے تجویز ہوئے.چودہری فتح محمد صاحب، خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب، حافظ روشن علی صاحب، مولوی عبدالرحمن صاحب ،مصری، مولوی عبدالرحیم صاحب درد، ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی، بھائی شیخ عبدالرحمان صاحب، چودہری علی محمد صاحب اور میاں رحم دین صاحب باور چی، علاوہ ان اصحاب کے صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب اور چودہری ظفر اللہ خان حضور صاحب اور چود ہری محمد شریف صاحب وکیل اپنے طور پر شامل ہوئے.نے اپنا خرچ خود ادا کیا.تمام اخراجات اس سفارت کے ستر ہزار کے قریب ہوا.جو توجہ سلسلہ احمدیہ کی طرف اس موقعہ پر انگلستان، امریکہ اور یورپ اور تمام دنیا کو پیدا ہوئی، اس کے مقابل یہ خرچ کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا.حضور دمشق اور مصر سے ہوتے ہوئے اٹلی، سوئٹزرلینڈ اور فرانس کے راستہ سے انگلستان میں 22 اگست 1924 ء کو وارد ہوئے.اس ورود مسعود کے متعلق حضور کو ایک رویاً پہلے سے دکھلایا گیا تھا کہ وہ سمندر کے کنارے انگلستان کے ایک مقام پر اُترے ہیں اور ایک لکڑی کے گندے پر پاؤں رکھ کر ایک کامیاب جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کر رہے ہیں کہ آواز آئی ”ولیم دی کنگر" (William the Conqueror) گویا انگلستان کی روحانی فتح حضور کے ورود انگلستان کے ساتھ مقدر تھی جواب ظہور میں آئے گی.
22 قادیان سے ممبئی تک کے ہندوستان کے الوداعی نظارے اور دمشق اور لنڈن کی پُر جوش خیر مقدم صرف دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.اخبارات نے سفید عمامے والے نائب مسیح اور اس کے سبز عمامہ والے بارہ حواریوں کی تصویریں مع سلسلہ کے حالات اور خصوصیات کے دنیا کے گوشہ گوشہ میں پہنچا دیں.لنڈن وکٹوریا اسٹیشن (Victoria Station) سے آپ اور آپ کی جماعت ہوتی ہوئی سینٹ پال St.Paul) کے عظیم الشان اور انگلستان کے سب سے بڑے گرجا کے سامنے پہنچی.اور اس کے سامنے ٹھہر کر خدائے ذوالجلال سے ( دین حق ) و توحید کی فتح کی دُعا کر کے شہر میں داخل ہوئی.مکان آپ کے لئے نہایت معزز محلہ میں پہلے سے لیا گیا تھا وہاں سب لوگ فروکش ہوئے.اس مکان کا نام Chesham Palace-6 تھا.مذہبی کانفرنس کے مضمونوں اور پرائیوٹ ملاقاتوں اور پبلک لیکچروں اور پھر اس پر نعمت اللہ خان شہید کے سنگسار ہونے کے تازہ واقعہ نے اس موقعہ پر لنڈن کو ہلا دیا اور ہر طرف جماعت احمدیہ کا چرچا ہونے لگا باوجود اس کے کہ حضور کے قیام کا زمانہ تعطیلات کا اور آخری پارلیمنٹ کے الیکشن کا تھا.پھر بھی اس وفد کی طرف انگلستان کے لوگوں کی وہ توجہ ہوئی جو فوق العادت کہی جانی چاہیے اور اس قدر عظمت سلسلہ کی قائم ہوئی جو کروڑوں روپیہ کے خرچ اور ہر طرح کے رسوخ سے بھی نا ممکن تھی یہ معلوم ہوتا تھا کہ کسی غیبی ہاتھ نے لوگوں کو اس طرف پھیر دیا ہے.القصہ جب اکثر کام حضور سرانجام دے چکے تو آخر میں بیت کے سنگ بنیاد رکھنے کی باری آئی.یہ کام بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت شاندار اور پر اثر طریقہ سے ہوا جس کا ذکر تفصیلی طور پر انشاء اللہ آگے آئے گا.بیت کے سنگ بنیاد رکھنے کے بعد حضور مع اپنے قافلہ خدام کے نومبر میں
23 واپس ہندوستان تشریف لائے.نیر صاحب بھی حضور کے ہم رکاب تھے.اور ان کی جگہ لنڈن مشن کے انچارج مولوی عبدالرحیم صاحب درد مقرر کئے گئے جن کے تقرر کے ساتھ ہی رسالہ ریویو آف ریلیجنز انگریزی کا مقام اشاعت قادیان سے لنڈن میں تبدیل کر دیا گیا جہاں سے اب یہ رسالہ نہایت کامیابی کے ساتھ شائع ہوتا ہے.مولوی درد صاحب کے ساتھ مولوی غلام فرید صاحب ایم اے بھی بطور مددگار لنڈن میں موجود ہیں.1925ء میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے ایک مختصر مخلص مجمع کے ساتھ...(بیت) کی بنیادوں کو دعائیں کرتے ہوئے کھودا.اور پھر اس کی تعمیر کو ایک انجینئر نگ کمپنی کو سپرد کیا.جنہوں نے اس کی تکمیل 1926 ء میں کر دی.پھر آخر وہ دن آیا جب تکمیل اور درستی کے بعد اس بیت کا افتتاح نہایت دھوم دھام اور رونق و اثر دہام کے ساتھ 3 اکتوبر 1926ء کو ہوا اور اس کا دروازہ خدائے قدوس اور یگانہ کی خالص عبادت اور دُعا کے لئے پبلک کے لئے کھول دیا گیا.پوری ( داعیان الی اللہ ) کا کام خدا کی شان ہمارے ( داعی) بھی گئے تو کس ملک اور قوم کی طرف.دیکھ کر حیرت ہوتی ہے یورپ اور پھر یورپ میں انگلستان اور انگلستان میں لنڈن.جہاں وہ لوگ رہتے ہیں جو اپنے آپ کو دنیا و مافیہا سے بالاتر سمجھتے ہیں جن کے خیالات اور دماغی کیفیات کو آپ ٹولیں گے تو محسوس کریں گے کہ ان کے خمار کو اُتارنا کسی انسانی عقل اور کوشش کا کام نہیں.فتوحات کا نشہ.عیش وعشرت کا نشہ.آزادی کا نشہ.فلسفہ اور سائنس کا نشہ.علم و عقل کا نشہ.دُنیا کے اُستاد ہونے کا نشہ پولٹیکل چالبازی کا نشہ.بحری طاقت کا نشہ.بڑی سلطنت کا نشہ.ہوائی قوت کا نشہ فیشن کا نشہ.حُسن وصورت کا نشہ.گورے
24 گورے رنگ کا نشہ.دہریت اور شریعت ہونے کا نشہ.عالم پر فرمانروائی کا نشہ.غرض تمام دنیاوی لذت کے نشے ان کے رگ رگ میں سرایت کر گئے ہیں اور اس طرح سرایت کر گئے ہیں کہ اُن کا اُتارنا سوائے کسی ایسے تریاق کے ممکن ہی نہیں جو خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ہو.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس زمانہ میں وہ تریاق ہماری جماعت کے پاس موجود ہے اور وہ زمانہ دور نہیں جب احیائے موتی کے وہی نظارے اہل مغرب میں دیکھے جائیں گے جو پہلے لوگوں نے مسیح ناصری اور حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانوں میں دیکھے تھے.ابتدا سے اب تک ( داعیان) انگلستان کے نام اور اُن کا عرصہ قیام (1) چودہری فتح محمد صاحب ایم اے تقریباً 2 سال (2) قاضی عبداللہ صاحب بی اے.بیٹی تقریباً 4 سال (3) مفتی محمد صادق صاحب تقریباً 1 سال (4) چودہری فتح محمد صاحب ایم اے (دوبارہ) 1 سال (5) مولوی مبارک علی صاحب بی اے.بی ٹی 4 سال (6) مصباح الدین صاحب (7) مولوی عبدالرحیم صاحب نیر تقریباً 21/2 سال تقریباً 3 سال (8) مولوی محمد الدین صاحب بی اے تقریباً 6 ماه (9) مولوی عبد الرحیم صاحب درد ایم اے 1925ء سے اب تک (10) ملک غلام فرید صاحب ایم اے 1928ء سے اس وقت تک
25 ذرائع (دعوت ) جو اختیار کئے جاتے ہیں (1) خطوط سے (2) پرائیویٹ ملاقاتوں سے (3) کھلی ہوا اور باغات کے لیکچروں سے (4) اخبارات کے ذریعہ (5) لٹریچر تقسیم کر کے (6) دعوت دے کر اور گھر بلا کر (7) مختلف کلبوں اور انجمنوں کی سرپرستی میں خاص خاص مضامین پر یہ سلسلہ کی مساعی کے انگلستان میں ظاہری شمرات اگر چہ سب سے زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور حضرت خلیفہ اسیح کے خود انگلستان میں تشریف لے جانے سے ظاہر ہوئے.مگر مجملاً کل باتوں کا ذکر ایک ہی جگہ کر دیتا ہوں.(1) اس وقت انگریزی قوم کے احمدی....کی تعداد انگلستان میں دو سو کے قریب ہے.(2) سلسلہ کا ذکر زبان زد خلائق ہے.لوگ اب دلچسپی لیتے ہیں اور ان کی توجہ اس جماعت کی طرف ہو گئی ہے.(3) صرف ( دینِ حق) کی اتباع میں وہاں کی دو نومسلمہ میموں نے اپنے بچوں کا ختنہ کرایا ہے جو ایک عظیم الشان انقلاب ہے.(4) سلسلہ کے کارناموں اور بیت کے بننے سے تمام عالم میں ایک اعلان ہو گیا ہے جو ہندوستان میں بیٹھ کر کرنا ناممکن تھا.(5) سلسلہ کا رُعب قائم ہو گیا ہے.(6) ایسے مخلص نو مسلم وہاں پیدا ہوتے جاتے ہیں جو سلسلہ کے لئے چندہ بھی دیتے ہیں اور بعض تو باقاعدہ دیتے ہیں ان میں کچی قربانی کا
26 جذبہ موجود ہے روحانیت کا اثر اپنے اندر پاتے ہیں اور (دینِ حق ) سے دلی محبت رکھتے ہیں کئی لوگ سچے خوابوں کی بناء پر سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.(7) خود (بیت) کا وجود میں آنا جس میں تمام دُنیا کے دیگر مسلمان باوجود کوشش کے ناکام رہے.(8) اسلام کی بابت بُرے خیالات.بدظنیوں اور غلط عقائد سے لوگوں کا دُور ہوتے جانا.(9) سے بڑھ کر صلیب اور تثلیث کا اثر اس قوم بلکہ ان کے سب مذہبی لیڈروں سے زائل ہوتے جانا اور مغربی قوموں کا اسلامی مسائل اور اعتقادات کی طرف رجوع کرتے آنا.(10) عورتوں اور مردوں کا باہمی مصافحہ بند ہونا جس نے عملی طور ثابت کر دیا ہے کہ یہ لوگ دراصل اسلامی احکام کو یورپین معاشرت اور رواج پر عملاً غالب کرنا چاہتے ہیں.(بيت) لنڈن کے متعلق پیشگوئیاں (1) سب سے پہلے ناظرین کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیش گوئی کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آخری زمانہ میں (یعنی مسیح موعود کے سورج مغرب کی طرف سے طلوع ہوگا اور جیسا کہ پیشگوئیوں کا قاعدہ ہے ان میں استعارات کا رنگ بہت غالب ہوتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کو استعارہ پسند ہے اس کی تاویل یعنی حقیقت حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے یہ فرمائی ہے کہ آخری زمانہ میں ( دینِ حق ) کا سورج مغربی ممالک پر طلوع ہو گا اور ان لوگوں کو بھی جو ہزارہا سال سے
یہ فوٹو روما میں کھنچوایا گیا جس میں چوہدری علی محمد صاحب بوجہ ایک ضروری کام میں مصروف ہونے کے شامل نہ ہو سکے پیچھے کھڑے ہوئے.میاں رحم دین صاحب باورچی، چوہدری محمد شریف یل منٹگمری ساہیوال، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد عبدالرحیم در د صاحب کرسیوں پر.مولوی عبد الرحمن صاحب مصری، حضرت چوہدری فتح محمد سیال حضرت خلیفہ اسیح الثانی حضرت ذوالفقار علی خاں صاحب کو ہر حضرت حافظ روشن علی صاحب فرش پر.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی
OUTHERN RAILWA ور و دلندن.کمیشن کا نظارہ
27 اندھیرے میں تھے منور کیا جائے گا اور چونکہ ( دینِ حق ) اور بیت کا وجود لازم و ملزوم چیز ہیں.اور بیت ( دینِ حق ) میں خانہ خدا سمجھی جاتی ہے اس لئے انگلستان میں بیت کا وجود دراصل اس پیشگوئی والے سورج کا مطلع ہے جہاں سے دینِ حق) ان ممالک میں پھیلے گا اور پھیل رہا ہے.انشاء اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے اپنے الفاظ اس بارے میں یہ ہیں.ایسا ہی طلوع شمس جو مغرب کی طرف سے ہوگا ہم اس پر بہر حال ایمان لاتے ہیں لیکن اس عاجز پر جو ایک رویا میں ظاہر کیا گیا ہے وہ یہ ہے جو مغرب کی طرف سے آفتاب کا چڑھنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ممالک مغربی جو قدیم سے ظلمت کفر و ضلالت میں ہیں آفتاب صداقت سے منور کئے جائیں گے اور ان کو ( دینِ حق ) سے حصہ ملے گا.“ (2) دوسری پیش گوئی خود حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی اس بارے میں ہے آپ فرماتے ہیں:.میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے ( دین حق کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہو گا.سو میں نے اس کی تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست باز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گے.درحقیقت آج تک مغربی ملکوں کی
28 مناسبت دینی سچائیوں کے ساتھ بہت کم رہی ہے گویا خدا تعالیٰ نے دین کی عقل تمام ایشیاء کو دے دی اور دنیا کی عقل تمام یورپ اور امریکہ کو.نبیوں کا سلسلہ بھی اوّل سے آخر تک ایشیاء ہی کے حصہ میں رہا اور ولایت کے کمالات بھی انہیں لوگوں کو ملے.اب خدا تعالیٰ ان لوگوں پر نظر رحمت ڈالنا چاہتا ہے.“ (ازالہ اوہام) اس کشف میں منبر کا لفظ ایک...( بیت) کے وجود پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اسلامی دنیا میں صاف طور پر بیت کی وہ جگہ جہاں امام یا خطیب اپنا خطبه حاضرین بیت کو سُنا تا ہے منبر کہلاتا ہے.(3) تیسری پیشگوئی وہ کشف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے جسے حضور اپنی کتاب تریاق القلوب صفحہ نمبر 40 میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:.”میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی اور میں نے بیت کی دیوار پر اس کا نام 66 لکھا ہوا پایا کہ محمود اس کشف سے حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کی ذات کا ایک بہیت سے تعلق ظاہر ہوتا ہے جو اب اس بیت کے ظہور میں آنے سے پورا ہوا.اور پھر ایسا ہوا کہ اس بیت کی دیوار پر کتبہ میں آپ کا نام لکھا جانے سے کامل طور پر لفظاً پورا ہو گیا.فالحمد اللہ علی ذلک.(4) چوتھی پیشگوئی بیت کے متعلق خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام میں تھی آپ کو خدا تعالیٰ کی وحی میں متعدد جگہ ابراہیم نام دے کر آپ کی مماثلت حضرت ابوالانبیاء سے ظاہر کی گئی.قرآن کریم اور تاریخ کہتی ہے کہ
29 حضرت ابراہیم کی ایک بڑی فضلیت اور خصوصیت یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر کعبہ کو بحکم الہی تعمیر کیا تھا.پس مماثلت کی رو سے مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ضروری ہوا کہ وہ اور اس کا بیٹا دونوں مل کر ایک عظیم الشان بیت دنیا کی ہدایت کے لئے تعمیر کریں.( بیت) کی تحریک 1920ء اگر چہ ولایت میں تبلیغی سلسلہ جاری ہوتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح ثانی کو بیت کے وجود میں لانے کا خیال پیدا ہو گیا تھا کیونکہ وہاں بار بار مکانوں کے بدلنے سے تبلیغ کے اثر کو سخت نقصان پہنچتا تھا مگر یہ کام بظاہر مشکل نظر آتا تھا کہ اس کے لئے کوئی عملی تدبیر 1919 ء تک پیدا نہ ہو سکی.روپیہ کی فراہمی، لنڈن میں موزوں زمین کا ملنا جو کافی ہو، شرفاء کے محلہ میں ہو، اور ایسی ہو کہ جس پر قانونی طور پر کوئی شرائط اور پابندیاں عائد نہ ہوں (اور یہ بات لنڈن کے مکانات اور قطعات اراضی کے خریدنے میں اور اس پر حسب منشاء عمارت بنانے میں بڑی سخت روک ہے) پھر اس کی تعمیر اور نگرانی.پھر سب سے بڑھ کر لوگوں کی توجہ کو اس طرف کھینچنا، یہ وہ امور تھے جو اس کے راستہ میں حائل تھے مگر خدا نے ہر انتظام بہترین صورت میں پورا کر دیا.سب سے پہلا زینہ روپیہ کی فراہمی تھی اور وہ اس طرح ہوئی کہ جنگ کے ختم ہونے کے بعد ایک زمانہ ایسا آیا کہ انگریزی پائرنڈ کا نرخ گرنا شروع ہوا جب پاؤنڈ کی قیمت بہت زیادہ گر گئی تو حضرت خلیفہ اسیح ثانی کے دل میں اس موقعہ سے فائدہ اُٹھانے کی تحریک بڑے زور سے پیدا ہوئی اور آپ نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا.6 جنوری 1920ء منگل کا دن تھا جب خاص طور پر حضرت صاحب کو اس کا خیال ہوا.حضور ظہر کی نماز پڑھا کر واپس تشریف لے جا ہی رہے تھے کہ آگے
30 نمازیوں کی وجہ سے راستہ نہ ملا اس پر حضور بیٹھ گئے اور ناظر صاحب بیت المال کو بلا کر فرمایا کہ اس وقت چودہ پندرہ ہزار روپیہ قرض لے کر بھیج دیا جاوے جس کے پونڈوں میں تبدیل ہونے سے زیادہ رقم بن جائے گی جب حضور گھر میں تشریف لے گئے اور تحریک تحریر فرمائی تو بجائے چودہ پندرہ ہزار کے تھیں ہزار رقم لکھ دی.اور بجائے قرضہ کے چندہ کا لفظ لکھ دیا.حضور فرماتے تھے کہ گویا خود بخود ہی ایسا ہو گیا.یہ تحریک لکھ کر اس روز عصر کے وقت ناظر بیت المال کو دے دی اور فرمایا کہ اس کے لئے مغرب کے بعد لوگوں کو جمع کیا جائے.بیت مبارک میں گنجائش کم اور اعلان کے لئے وقت تھوڑا! مگر پھر بھی حضور کی اس پہلی تحریک پر ہی چھ ہزار چندہ ہو گیا.دوسرے دن 7 جنوری 1920ء صبح کو حضور نے مستورات میں تحریک فرمائی پھر اس دن عصر کے وقت مردوں کے درمیان بیت اقصیٰ میں اور بالآخر 9 جنوری 1920ء جمعہ کے دن خطبہ میں عام اعلان اس کا کر دیا گیا.10، 11 جنوری تک صرف قادیان کا چندہ بارہ ہزار تک پہنچ گیا حضور فرماتے ہیں کہ:.اس غریب جماعت سے اس قدر چندہ کی وصولی خاص تائید الہی کے بغیر نہیں ہو سکتی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اس چندہ کے ساتھ شامل ہے.ان دنوں میں قادیان کے لوگوں کا جوش و خروش دیکھنے کے قابل تھا اور اس کا وہی لوگ ٹھیک اندازہ کر سکتے ہیں جنہوں نے اس کو آنکھوں سے دیکھا ہو.مرد اور عورت اور بچے سب ایک خاص نشہ محبت میں چور نظر آتے تھے کئی عورتوں نے اپنے زیور اُتار دیئے.اور بہتوں نے ایک
31 دفعہ چندہ دے کر پھر دوبارہ جوش آنے پر اپنے بچوں کی طرف سے چندہ دینا شروع کیا.پھر بھی جوش کو دیتا نہ دیکھ کر اپنے وفات یافتہ رشتہ داروں کے نام سے چندہ دیا.کیونکہ جوش کا یہ حال تھا کہ ایک بچہ نے جو ایک غریب اور محنتی آدمی کا بیٹا ہے، مجھے ساڑھے تیرہ روپے بھیجے کہ مجھے جو پیسے خرچ کے لئے ملتے تھے ان کو میں جمع کرتا رہتا تھا وہ میں سب کے سب اس چندہ کے لئے دیتا ہوں.نہ معلوم کن کن اُمنگوں کے ماتحت اس بچہ نے وہ پیسے جمع کئے ہوں گے لیکن اس کے مذہبی جوش نے خدا کی راہ میں ان پیسوں کے ساتھ ان اُمنگوں کو بھی قربان کر دیا.مدرسہ احمدیہ کے غریب طالب علموں نے جو ایک سو (100) سے بھی کم ہیں اور اکثر ان میں سے وظیفہ خوار ہیں ساڑھے تین سو روپے (350) چندہ لکھوایا.ان کی مالی حالت کو مدنظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے کئی ماہ کے لئے اپنی اشد ضروریات کے پورا کرنے سے بھی محرومی اختیار کر یہ حال عورتوں اور بچوں کا تھا جو بوجہ کم علم یا قلت تجربہ کے دینی ضروریات کا اندازہ پوری طرح نہیں کر سکتے تو مردوں کا کیا حال ہو گا اس سے خود خیال کیا جا سکتا ہے کہ بڑی تعداد ایسے آدمیوں کی تھی جنہوں نے اپنی ماہوار آمد نیوں سے زیادہ چندہ لکھوا دیا جن میں سے ایک معقول تعداد ان لوگوں کی تھی جنہوں نے تین تین چار چار گنا چندہ لکھوا دیا.بعض لوگوں کا حال مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ نقد لى..
32 پاس تھا انہوں نے دے دیا اور قرض لے کر کھانے پینے کا انتظام کیا.ایک صاحب نے جو بوجہ غربت زیادہ رقم چندہ میں داخل نہیں کر سکتے تھے نہایت حسرت سے مجھے لکھا کہ میرے پاس اور تو کچھ نہیں میری دوکان کو نیلام کر کے چندہ میں دے دیا جائے.لوگوں نے بجائے آہستہ آہستہ ادا کرنے کے زیورات وغیرہ فروخت کر کے اپنے وعدے ادا کر دیئے.امرتسر اور لاہور کی جماعتوں نے بھی خاص ایثار سے کام لیا...اس رفتار سے میں سمجھتا ہوں کہ گورداسپور، امرتسر اور لاہور اور دوسرے مقامات کے چندے مل کر تمیں ہزار (30000) کی رقم جس میں نے شروع میں اعلان کیا ان تین ضلعوں ہی سے پوری ہو جائے گی اور احمدیوں کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے میں ڈرتا ہوں کہ اس سے دوسری جماعتوں کو سخت صدمہ ہوگا کیونکہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ثواب کا موقعہ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گاپس میں اعلان کی رقم کو بڑھا کر ایک لاکھ کر دیتا ہوں تا کہ تمام جماعت ہائے احمد یہ اپنے اخلاص کا اظہار کر سکیں اور ثواب حاصل کرنے کا موقعہ پائیں.“ اس تحریک کا بیرونی جماعتوں میں پہنچنا تھا کہ ایک تلاطم اور جوش برپا ہو گیا.ایک صاحب نے قادیان میں حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی خدمت میں تار بھیجا کہ آپ دُعا کریں خدا تعالیٰ مجھے اپنے مقصد میں کامیاب کرے اس کے شکریہ میں میں ولایت میں احمد یہ بیت بنانے پر جس قدر خرچ ہو گا سارا خود ادا کروں گا.حضور نے فرمایا کہ میں نے اس بات کو منظور نہیں کیا تاکہ
33 جماعت کے دوسرے لوگ ثواب سے محروم نہ رہ جائیں.غرض بیرونی جماعت کے مردوں، عورتوں اور بچوں نے بھی اس جوش سے چندہ جمع کیا جس طرح مرکز کی جماعت نے اور بعض لوگوں نے باہر بھی وہ بے نظیر نمونے ایثار اور قربانی کے دکھائے جو صرف صحابہ کرام کے زمانہ میں دیکھے گئے تھے.پہلی قسط ولایت بھیجی گئی : 6 جنوری 1920ء کو تحریک تمیں ہزار روپے (30,000) سے شروع ہوئی ہے اور 12 جنوری کو لاہور سے مبلغ 30 ہزار روپے (30,000) کی رقم نیشنل بینک آف انڈیا لاہور کے ذریعہ نیشنل بینک آف انڈیا لنڈن کو بھیجی جاتی ہے اور اس میں ہزار روپے (30,000) سے 3,468/15 پاؤنڈ بن جاتے ہیں جس کی قیمت 15 روپیہ فی پاؤنڈ کے حساب سے باون ہزار (52,000) بن جاتی ہے غرض پچاس ہزار کی رقم جیسا کہ حضرت خلیفہ اسیح کا مقصد تھا کہ لنڈن بینک میں بھیجی جائے وہ حضور کی تحریک کے ایک ہفتہ کے اندر لنڈن بینک میں جمع ہو گئی.آخری قسط : غرض روپیہ ولایت جاتا رہا اور آخری قسط 21 فروری 1920ء کو 1,640 پاؤنڈ کی بھیجی گئی اس طرح کل روپیہ جو اس وقت ولایت بھیجا گیا چونسٹھ ہزار چھ سو پچاس (64,650) تھا اور اس سے آٹھ ہزار ایک سو چورانوے (8,194) پاؤنڈ خرید لئے گئے.اگر چہ اس وقت تک کل موعودہ وصول نہیں ہوا تھا مگر یہ دیکھ کر کہ پاؤنڈ کا نرخ بہت گر گیا ہے قرض لے روپیه
34 کر اس قدر رقم بھیجی گئی تھی.کم از کم پاؤنڈ کی قیمت چھ روپیہ چودہ آنے تک ہو گئی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسے موقعے مل گئے تھے کہ ہم نے کم سے کم شرح پر زیادہ حصہ پاؤنڈوں کا خریدا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس تحریک چندہ کے ضمن میں باقی چندہ اور متعلقہ امور کا مجمل حساب بھی دے دیا جائے.جب پونڈوں کا نرخ پھر بڑھ گیا اور قادیان میں اراضی ایک لاکھ روپیہ خریدنے کا انتظام ہو گیا جو سلسلہ اور مرکز سلسلہ کی ترقی کے لئے نہایت ہی اشد ضروری امر تھا تو اس چندہ میں سے بھی اٹھائیس ہزار پانچ سو (28,500) روپیہ اس خرید زمین پر لگا دیا گیا.کل رقم جو چندہ بیت کے حساب میں وصول ہوئی وہ چورانوے ہزار پانچ سو تمھیں (94,530) روپیہ تھی.1923ء میں (بیت) برلن کے لئے صرف مستورات سے بہتر ہزار (72,000) روپیہ چندہ وصول ہوا تھا اس میں مستورات نے بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا تھا.اس چندہ کی تحریک پچاس ہزار تھی مگر بعد ازاں جب چندہ زیادہ آنے لگا.اور ضرورت بھی زیادہ محسوس ہوئی اور تحریک کو ستر ہزار تک بڑھا دیا.اس طرح کل رقم بیت لنڈن کی 95 ہزار اور بیت برلن (BERLIN) کی 72 ہزار مل کر ایک لاکھ سڑسٹھ ہزار (1,67,000) روپیہ جمع ہوا.اس کے مقابلے میں حسب ذیل جائداد سلسلہ کے پاس ہے :- زمین مکان مشن لنڈن 4 ہزار پاؤنڈ عمارت بیت لنڈن 4 ہزار پاؤنڈ تجارت پر لگایا گیا 6 ہزار پاؤنڈ میزان کل 14 ہزار پاؤنڈ آج کل بحساب سوا تیرا (1314) روپیہ فی پاؤنڈ چودہ ہزار پاؤنڈ کی
35 ایک لاکھ پچاسی ہزار کے برابر ہے اور اس میں سے پچاس ہزار روپیہ کی قیمت کی جائداد اس وقت قادیان میں موجود ہے.غرض جماعت کے ایک لاکھ 67 ہزار روپیہ سے اس وقت دو لاکھ پینتیس ہزار کی جائداد اور تجارت چل رہی ہے.یہ اضافہ کچھ تو تبادلہ کی وجہ سے ہوا اور کچھ اراضی کی قیمت بڑھ جانے (بیت) کی ضرورت اس ضمن میں مسجد کے وجود اور اس کی ضرورت کے متعلق کچھ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا مسجد اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جگہ کو کہتے ہیں اور اگر چہ ایک مسلمان کے لئے ہر جگہ عبادت کرنی جائز ہے مگر مسجد وہ خاص جگہ ہے جو صرف اسی کام کے لئے مقرر کی گئی ہے اور جہاں مسلمان ہمیشہ جمع ہو کر با قاعدہ اپنی سب - بڑی عبادت یعنی نماز کو ادا کرتے ہوں.دنیا میں سب سے پہلی عبادت گاہ یا مسجد وہ ہے جو مکہ میں ہے جسے کعبہ کہتے ہیں اور جسے سب سے پہلے انسان نے خدا تعالیٰ کے حکم سے اس کی عبادت کے لئے تعمیر کیا باقی تمام مذہبی اور قومی عبادت گاہیں جو دُنیا میں موجود ہیں اس کے بعد ہی بنی.اغراض ہر مسجد قبلہ رخ ہوتی ہے خواہ وہ دنیا کے کسی حصہ میں ہو.اور یہ اس امر کا اظہار ہے کہ تمام مسلمانانِ روئے زمین ایک مرکز سے وابستہ اور ایک نقطہ جمع ہیں جو خدائے قدوس کی ذات یگانہ صفات ہے.مسجد میں سوائے خدائے تی و قیوم وحدہ لاشریک کے کسی کی عبادت نہیں ہوتی اور نہ کسی اور سے دُعا مانگی جاتی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں صرف اسی کے نام کے ذکر کو بلند کیا جاتا ہے.
36 وان المساجد لله فلا تدعو مع الله احداً (الجن).مسجد وہ جگہ ہے جہاں لوگ اپنے جسم کو پاک کر کے داخل ہوتے ہیں اور اس کے اندر آ کر اپنی روح کو پاک کرتے ہیں.غرض یہ مقام طہارت روحانی اور جسمانی کا جامع ہے.مسجد وہ پاک جگہ ہے جہاں محض دنیا داری کی باتیں ناجائز ہیں اس میں صرف وہی کام ہو سکتے ہیں جو دین کا حصہ اپنے اندر رکھتے ہوں.مسجد وہ پاک جگہ ہے جہاں اجتماع اور اتحاد کا سبق مسلمانوں کو ہر روز پانچ دفعہ سکھایا جاتا ہے اور اس کے فوائد سے متمتع کیا جاتا ہے.مسجد وہ عالی مقام ہے جہاں سچی مساوات انسانی کا روزانہ کئی بار کھینچا جاتا ہے جہاں بادشاہ اور مزدور.عالم اور جاہل.امیر اور غریب.بوڑھا اور جوان ایک ہی صف میں دوش بدوش کھڑے نظر آتے ہیں.مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں دُنیا سے حقیقی انقطاع میسر آتا ہے.دنیاوی خیالات.شور و شر اور کاروبار سے انسانی روح نجات پا کر کامل اور خالص توجہ سے اپنے خالق کی تعریف اور شکر اور دُعا میں مشغول ہوتی ہے.مسجد ہی وہ مقدس جگہ ہے جہاں اعتکاف.حسن عبادت میسر آ سکتی ہے جو اسی انقطاع کا ایک نہایت اعلیٰ درجہ ہے.مسجد ہی مسلمانوں کے لئے تبلیغ و ہدایت کا مرکز ہے.اللہ تعالیٰ نے بھی اسی لئے کعبہ کو ہدی اللعالمین فرمایا ہے.مسجد ہی ایک ایسا مقام ہے جہاں سے اصول اسلام کا اعلان باربار با آواز بلند آذان کے ذریعہ دنیا کے چاروں گوشوں میں ہر روز پانچ وقت کیا جاتا ہے.مسجد ہی وہ صاف اور مطہر جگہ ہے جو ایک نمونہ ہے اس لئے کہ مسلمان کسی طرح خود اپنے گھروں کو پاک وصاف رکھا کریں.مسجد ہی وہ پبلک جگہ ہے جہاں ہر مذہب و ملت کا آدمی اور ہر متلاشی حق بغیر روک ٹوک کے اسلام کی طرز عبادت اور اس کے فوائد کو آزادی کے ساتھ اپنی آنکھ سے ہر وقت دیکھ سکتا اور کلام الہی اور امام کے خطبوں کوسن
37 سکتا ہے.مسجد ہی وہ تعلیم کی جگہ ہے جہاں مسلمانوں کی آئندہ نسلیں اور نومسلم لوگ پہلوں کی اقتداء میں تعلیم و تربیت پاتے ہیں.مسجد ہی وہ مرکز ہے جہاں ایک مومن دوسرے مومنوں سے با قاعدہ مل کر اپنے ایمان کو تازہ اور مضبوط کرتا ہے.مسجد کے بے انتہا فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسجد کا مادی وجود ہر محلہ، ہر شہر، ہر ملک اور ہر براعظم میں خود اسلام کا قائم مقام ہے.حقیقت شناس آنکھ کے لئے ایک مقناطیسی کشش اپنے اندر رکھتا ہے.اس مقام پر نامناسب نہ ہوگا کہ ان مسجدوں کا ذکر بھی کر دیا جائے جن میں سے دو انگلستان سے اور ایک فرانس سے تعلق رکھتی ہے.مسجد ووکنگ :- اس مسجد کا حال یوں ہے کہ گزشتہ صدی کے آخر میں مسٹرلائٹنر (Mr.Leitner) رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی جب پنشن لے کر اپنے وطن دو کنگ (Woking) جانے لگے تو انہوں نے اس ملک سے کچھ چندہ جمع کیا تاکہ واپسی پر انگلستان میں ایک مسجد، ایک مندر اور ایک گوردوارہ بنائیں چنانچہ رؤسا نے ان کو اس معاملہ میں کافی مالی امداد دی اور لائٹر صاحب نے ووکنگ میں ایک قطعہ مکان تعمیر کر کے اس کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی.لیور پول (Liver Pool) میں بھی ایک مسجد تھی جو مسٹر عبداللہ کو کم نے قریباً 40-45 سال ہوئے بنائی تھی.دراصل وہ صرف ان کے مکان کا ایک حصہ تھا جو مسجد کے نام سے موسوم تھا ان کے گمنام ہونے کے بعد ان کے ورثاء نے وہ سب جائداد فروخت کر ڈالی اور اب اس کا نشان باقی نہیں.فرانس کے دارالسلطنت پیرس میں ایک مسجد اب تعمیر ہو رہی ہے اور مکمل نہیں ہوئی یہ مسجد فرانسیسی گورنمنٹ کے اشارہ سے بنی ہے شمالی افریقہ کی مسلمان فوج جس نے جنگ عظیم میں فرانس کے میدانوں میں داد شجاعت دی
38 تھی اس کی قدر دانی کے اظہار میں یہ بنائی گئی ہے اس کے لئے زمین پیرس کی میونسپل کمیٹی نے نذر دی اور تعمیر کے اخراجات رؤسائے مراکو ، ٹیونس، الجیریا وغیرہ نے حکام فرانس کے اشارہ سے ادا کئے.کچھ مصر کے لوگوں نے بھی حصہ لیا اس مسجد کی بنیاد دراصل پولیٹکس (Politics) پر ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ جب لنڈن سے واپس تشریف لائے تو یہ مسجد بن رہی تھی.آپ بھی اس کے دیکھنے کو تشریف لے گئے.اور مسجد میں داخل ہو کر بمعہ اپنے احباب کے بڑی دیر تک سب نے دُعا کی اور وہاں کی سب سے پہلی نماز ادا کی.گویا اس طرح اس مسجد کا افتتاح آپ نے فرمایا :- ( بیت ) لنڈن کا سنگ بنیاد جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے قیام لنڈن کے زمانہ میں اور کاموں کے علاوہ ایک کام یہ بھی کیا کہ روانگی سے بیشتر (بیت) لنڈن کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھوں سے 19 /اکتوبر 1924ء بروز اتوار چار بجے دن کے نصب فرمایا اور وہیں تمام جماعت نے نماز ادا کی.اس مبارک تقریب کی روئیداد حسب ذیل ہے.دُنیا کے مادی مرکز لنڈن میں پہلی (بیت) حضرت اولوالعزم فضل عمر خلیفہ اسیح نے سنگ بنیاد رکھا مبارک تقریب : 19 اکتوبر 1924 ء کا اتوار کا دن دنیا کی تاریخ میں عام طور پر اور لنڈن اور احمدیت کی تاریخ میں خصوصیت سے ایک یادگار دن ہو گا.کیونکہ اس
39 روز حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمد فضل عمر حضرت خلیفتہ امسیح و المهدی نے دُنیا کے مادی مرکز لنڈن میں (بیت) کا سنگ بنیاد رکھا.اس (بیت) کی تحریک 1920ء میں کی گئی تھی.اور اس وقت حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی تحریک پر ایک لاکھ کے قریب روپیہ جمع کیا.اور لنڈن کے ایک حصہ پٹنی میں ایک مکان معہ وسیع قطعہ زمین کے خرید لیا گیا.اس زمین اور مکان کی خرید کا فخر مکرم چودہری فتح محمد خان صاحب سیال کے حصہ آیا اور یہ ایک مبارک فال تھا.جو فتح محمد کے نام سے لیا جاتا ہے.حضرت کو کبھی یہ خیال آتا تھا کہ میں اس ( بیت ) کا سنگ بنیاد رکھوں اور یہ پاک خواہش اُن خواہشوں میں سے ایک تھی جو دُنیا کی رُستگاری کے لئے آنے والے لوگوں کی ہوتی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح کو حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ایک رؤیا (بیت) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے دکھائی تھی.جو بارہا اخبارات اور کتب میں شائع ہوئی ہے.بیت سے مُراد جماعت ہوتی ہے اور وہ رؤیا اپنے لفظوں کے موافق پوری بھی ہو چکی ہے.لیکن اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا (بیت) کے ساتھ خاص تعلق ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام ( بیت) کی دیوار پر حضرت مسیح موعود کو دکھایا تھا.اس قسم کے رویا اور کشوف کے متعدد مفہوم اور مطالب ہو سکتے ہیں لیکن یہ ضرور ثابت ہے کہ آپ کا کوئی خاص تعلق (بیت) سے ظاہری الفاظ میں بھی ہے.یہ میرے ذوق کی بات ہے اور واقعات اس کو ثابت کر رہے ہیں.غریب احمدی جماعت کا آپ کی تحریک پر لنڈن ( بیت) کے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کر دینا اور غریب احمدی خواتین کا ( بیت) برتن کے لئے ایک لاکھ روپیہ دے دینا چھوٹی باتیں نہیں.غرض 1920ء میں جس کا ارادہ کیا گیا تھا 19 اکتوبر 1924ء کو اس (بیت) کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حضرت اولوالعزم نے رکھ دی.
40 موسمی حالت : 19 /اکتوبر 1924ء کے روزانہ اخبارات نے لنڈن کے 19 /اکتوبر کے موسم کے متعلق پیشگوئی تھی کہ یہ دن بہت عمدہ ہو گا.سورج نکلے گا مگر خدا تعالیٰ نے ان انکل بازوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اپنی ہستی کا ایک کھلا کھلا ثبوت دیا کہ صبح ہی سے بارش شروع ہوگئی اور بارش ہوتی رہی.حضرت کے سامنے اس کا ذکر ہوا تو نہایت مطمئن قلب سے فرمایا.اور یہ بہت اچھا ہے.ایسی حالت میں جو لوگ آئیں گے وہ اخلاص ہی سے آئیں گے اور انشاء اللہ یہ تقریب کامیاب ہو گی.حضرت نے لنڈن کے نازک مزاج موسم کا خیال کر کے پہلے ہی سے حکم دے دیا تھا کہ ایک خیمہ کا ضرور انتظام رکھا جاوے چنانچہ اس کا انتظام کیا گیا تھا.دوپہر کے بعد تقاطر میں کمی شروع ہو گئی.تاہم سورج نہ نکلا.ابتدائی تیاریاں اور مشکلات: سنگ بنیاد کی تاریخ مقرر کرنے میں بہت دیر ہوئی.قریباً چار دن پیشتر 19 اکتوبر مقرر ہوئی.اس عرصہ میں پورے طور پر لوگوں کو واقف کرنا آسان نہ تھا تا ہم ضابطہ کے دعوتی کارڈز لوگوں کو بھیجے گئے لیکن ان دنوں میں لنڈن میں پارلیمنٹ کے جدید انتخاب کی بلا نازل تھی اور لوگ اس میں مصروف و چکے تھے اور سر از پا نشاختہ دیوانہ وار اس میں مصروف تھے.غرض اوّل سنگ بنیاد کے دن موسم کی خرابی اور دوسرے لوگوں کا انتخاب کے جنجال میں مبتلا ہونا اور سب سے زیادہ نہایت ہی تنگ وقت میں تاریخ کا مقرر کرنا سب ایسے امور تھے کہ جن سے پایا جاتا تھا کہ یہ تقریب محض خاموشی کے ساتھ
41 چند آدمیوں میں ادا ہو گی.ہمارے زیر نظر نمائش نہ تھی.خدا تعالیٰ کی رضاء کے لئے یہ سنگِ بنیاد رکھا جانا تھا اور اس گھر کا سنگِ بنیاد جو اس کا نام بلند کرنے کے لئے دُنیا کو ایک نقطہ پر جمع کرنے کے لئے بنایا جا رہا ہے لیکن پھر بھی یہ خیال ضرور تھا کہ اس موقع پر غیر مذاہب کے لوگ آئیں تو ان کو اس طریق پر پیغام حق پہنچ جائے.پس مندرجہ بالا اسباب نے جمع ہو کر ہمارے ایمان کو بڑھایا جب ہم نے دیکھا کہ نتیجہ خلاف توقع نکلا.مہمانوں کی آمد: دو بجے سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی اور مہمانوں میں مختلف حکومتوں کے نمائندے اور سفیر تھے.لنڈن کے بعض اکابر اور پورٹ سمتھ (Portsmouth) تک کے بعض نو مسلم اور ہندوستانی بھائی غرض مختلف طبقہ اور درجہ کے لوگ اس تقریب پر جمع ہو گئے.یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ احمدی سائبان کے نیچے انگریز، جاپانی، جرمن، سروین، زگوسلاف، اتھوپین، مصری، اٹالین، امریکن، ہنگرین، انڈین اور افریقن سب جمع تھے گویا مشرق مغرب کو حضرت اولوالعزم نے ایک مقام پر اکٹھا کر دیا اور مذہب کے لحاظ سے عیسائی، یہودی، زرتشتی، آزاد خیال، ہندو اور مسلمان سب تھے اور یہ معزز مجمع دوسو (200) سے زائد آدمیوں پر مشتمل تھا جن میں سے بعض کے اسماء گرامی یہ ہیں.سر الیگزنڈر ڈریک Sir Alexander Drake سابق فنانشل کمشنر پنجاب، جن کو قادیان آنے کی بھی عزت حاصل تھی بحیثیت مہتمم بندوبست)، میئر آف وانڈز ورتھ (Wandsworth)، لیڈی بارک (Lady Bark)، مسز رینسی پین آف انڈیا آفس (Mrs.Rancy Spain)، ڈاکٹر و خاتون
42 پروفیسر لی اون (Dr.& Mrs.Lion)، (سابق عبداللہ کومکم ) ہز ایکسی لینسی بیران بیشی ( His Excellency Barin Heshy) معه دختر خود سفیر جاپان، سفیر جرمن، اتھو نیا اور سرویا کے منسٹرز، زگو سلاف کے نمائندے موجود تھے اور البانیہ اور فن لینڈ اور ترکی کے سفراء نے محبت آمیز ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے بوجہ علالت عدم شرکت کا افسوس ظاہر کیا.ترکی سفیر نے ایک روز قبل ٹیلیفون پر بمسرت شمولیت کا اظہار کیا تھا مگر یکا یک بیمار ہو جانے کی وجہ.ان کو موقع نہ مل سکا تھا جس کا ان کو افسوس ہے.انگلستان کے ہر سہ پارٹی کے لیڈروں نے اظہار ہمدردی کیا اور بوجہ انتخاب میں دن رات مصروف رہنے کے عدم حاضری کا افسوس سے غذر کیا.پرائم منسٹر کا مکتوب: سے سر ریمزے میکڈانلڈ (Sir Remze McDonald) پرائم منسٹر نے امام جماعت احمدیہ کی اس مبارک تقریب پر دعوت کا شکریہ ادا کیا لیکن چونکہ وہ لنڈن سے باہر تھا اسے اس موقعہ پر نہ آ سکنے کا بہت افسوس ہوا.غرض یہ مجمع جو دوسو (200) سے اوپر اصحاب کا تھا یہ معمولی مجمع نہ تھا اور الیکشن میں مصروفیت اور نہایت ہی تنگ وقت میں اطلاع ہونے کے باوجود احباب اس مبارک تقریب پر جمع ہوئے جلسہ کا پروگرام پہلے سے مرتب کیا ہوا تھا.اخبار نویس اور فوٹوگرافر اور سنیما والے : اس مجمع کے علاوہ سلطنت کے زبردست ستون (پریس) کے متعدد قائمقام موجود تھے اور یہ قائمقام انگلستان کے اس زبردست پریس کے قائم
43 مقام تھے جو اپنی قلم کی کشش میں فی الحقیقت انگلستان کی حکومت کی باگ رکھتا ہے اور جن کی تعداد اشاعت لاکھوں ہے اور قریباً ایک درجن فوٹو گرافر اور سنیما (Cinema) والے موجود تھے.ان کے علاوہ بعض لوگوں نے خود بھی فوٹو لئے.ابتدائی کاروائی مکان کے داخلہ کے دروازہ سے لے کر خیمہ کی سیڑھیوں تک بانات کا فرش تھا اور خیمہ میں تمام مہمان جمع تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ ٹھیک 3 بجے خیمہ میں داخل ہوئے.نیر صاحب نے اعلان کیا کہ حضرت اقدس خلیفہ اسیح آتے ہیں.اس پر تمام حاضرین سروقد کھڑے ہو گئے اور حضرت نے محبت آمیز تبسم کے ساتھ سب مردوں سے مصافحہ کیا اور کچھ دیر تک مہمانوں سے باتیں کرتے رہے.پروگرام کے مطابق ساڑھے تین بجے مکرم مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام بیت لنڈن نے ایک مختصر تقریر میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا.3:35 پر اعلان کیا گیا کہ احباب (بیت) کے جہاں سنگ بنیاد رکھا جائے گا.چنانچہ بدون کسی خاص امتیاز یا خصوصیت کے سارا مجمع اس جگہ پر پہنچا جہاں (بیت) کے محراب کی جگہ مقام پر ( بیت) کا سنگ بنیاد نصب کرنا تھا.سنگ بنیاد : اس مقام پر پہنچ کر حضرت صاحب محراب میں کھڑے ہوئے آپ نے تلاوت قرآن کریم کے لئے حافظ صاحب کو بلایا.حافظ صاحب نے وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشی اور سَبِّحِ اسْمِ رَبِّكَ الأعْلیٰ کی تلاوت کی اور اس کے بعد حضرت نے
44 اپنا ایڈریس انگریزی میں آپ پڑھا.اس ایڈریس کا حاضرین پر ایک خاص اثر تھا خود حضرت پر ایک قسم کی ربودگی طاری تھی.اس حالت کے فوٹو بعض فوٹو گرافر لے رہے تھے.اس ایڈریس کے پڑھے جانے کے بعد آپ نے سنگ بنیاد رکھا.ٹھیک اس وقت سلسلہ کے مرکز سے آپ کے نائب حضرت مولوی شیر علی صاحب کا تار جماعت کی طرف سے مبارکباد کا وصول ہوا.وادئ غیر ذی زرع اور (بیت) لنڈن: حضرت نے جس وقت ہاتھ میں کرنی لی اور اس تقریب کو شروع کیا مجمع کی عجیب حالت تھی اور جماعت کے لوگوں پر ایک کیفیت طاری تھی وہ نقشہ آنکھوں کے سامنے تھا جب حضرت ابراہیم و اسمعیل علیہ السلام نے مکہ کی مسجد کی بنیاد رکھی.جو وادی غیر ذی زرع میں تھی اور جس میں کوئی خدا کا نام لینے والا نہ تھا جو اگر چہ غیر ذی زرع تو نہیں مگر اپنی مادی ترقی میں مست اور مگن ہونے کی وجہ سے روحانی طور پر غیر ذی زرع ہے.غرض ایک کیفیت ذوق کے ساتھ اخلاص اور تقویٰ کے ساتھ اس (بیت) کی بنیاد حضرت نے رکھی اور اس کے بعد اس (بیت) کی معموری اور کامیابی اور خدا کے پرستاروں کا پاک مرکز ہونے کے لئے آپ نے لمبی دُعا کی اور اس کے بعد عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی گئی اور حضرت نے اعلان کیا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس (بیت) کا با قاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا.اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب مصوروں اور سنیما والوں نے لئے.نماز کے بعد مبارکباد کا نعرہ ہر طرف سے بلند ہوا.(بیت) کے محراب پر وہ جھنڈا لہرا رہا ہے جو حیدر آباد سیکریٹری نواب اکبر نواز جنگ بہادر نے دیا ہے اس کے بعد مجمع پھر خیمہ کی طرف آیا کہ پروگرام کے مطابق چائے نوش کرے.کے ہوم
45 ریفریشمنٹ کا انتظام اور معززین سے گفتگو: ریفریشمنٹ کا انتظام لنڈن کی مشہور کمپنی لی اون (Lion) سے کیا گیا تھا اور نہایت عمدگی سے یہ مرحلہ بھی طے ہوا.مہمان بہت ہی خوشی اور مسرت آمیز تبسم سے ایک دوسرے سے ملتے تھے اور بہت دیر تک حضرت کے ساتھ باتیں کرتے رہے.بعض نے کہا ہم بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ اس تقریب پر مدعو ہوئے.لیڈی بارک نے کہا کہ اگر میں نہ آتی تو مجھے بہت افسوس رہتا.میر (Mayor) آف وانڈز ورتھ نے کہا کہ اگر کوئی مذہب اس تقریر سے جو حضرت اقدس نے کی ہے اختلاف کرے تو وہ مذہب ہی نہیں.زگو سلافیہ کے قائم مقام نے کہا کہ وہ پہلی دفعہ ایسے خیالات کے سننے سے از بس مسرور ہوا ہے.غرض لوگوں نے حضرت کے درد اور اخلاص اور حقیقت میں رنگین تقریر سے بہت فائدہ اور حظ اُٹھایا اور احمد یہ سلسلہ کے وسیع خیالات ہمدردی و اتحاد سے واقفیت حاصل کی جو یہ سلسلہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے.دنیا حضرت خلیفہ ایک ایدہ اللہ کا مضمون حضرت طلیقہ آج ایدہ اللہ نے اس موقع پر حسب ذیل مضمون تعوذ اور تسمیہ کے بعد انگریزی میں پڑھا:- خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہمشیرگان و برادران ! ہوالناصر آج ہم ایک ایسے کام کے لئے جمع ہوئے ہیں جو اپنی نوعیت میں بالکل نرالا ہے یعنی اس (بیت) کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے جو محض اس ہستی کو
46 یاد کرنے اور اس کے حضور میں اپنی عبودیت کا اظہار کرنے کے لئے بنائی جاتی ہے.جو سب دنیا کی پیدا کرنے والی ہے.خواہ وہ کسی ملک کے رہنے والے ہوں یا کسی حکومت میں بستے ہوں یا کوئی زبان بولتے ہوں وہاں جا کر ایک ہو جاتے ہیں.وہ ہستی وہ نقطہ مرکزی ہے جس کے حضور میں کل انسان بڑے اور چھوٹے، کالے اور گورے، مشرقی اور مغربی کا سوال ہی نہیں رہتا کیونکہ جوں جوں اس کے نزدیک چلا جاتا ہے اختلاف مٹتے جاتے ہیں اور اتحاد بڑھتا جاتا ہے.پس جس عمارت کی بنیاد رکھنے کے لئے ہم آج جمع ہوئے ہیں وہ اتحاد اور اتفاق کا ایک نشان ہے اور اپنے وجود سے ہمیں اس امر کی طرف توجہ دلا رہی ہے کہ ہماری اُمید اور مرجع ایک ہی ہے پس ہمیں آپس کے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑنا اور فساد کرنا نہیں چاہیے.اختلاف دُنیا میں ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے اور نہ کبھی کوئی زمانہ آیا ہے کہ دنیا میں اختلاف نہ ہوئے ہوں اور نہ آئندہ آ سکتا ہے جب تک انسان ترقی کرنے کی قابلیت رکھے گا اختلاف بھی ضرور ہو گا کیونکہ جس قدر ترقی دنیا میں نظر آتی ہے.اختلاف ہی کے سبب سے ہے.پس اختلاف جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.ایک رحمت ہے.نہ کہ ނ نقصان دہ چیز.جو چیز بُری ہے وہ عدم برداشت ہے یعنی اتفاق کی.بڑھی ہوئی خواہش.درحقیقت اتحاد کو کسی چیز نے اس قدر نقصان نہیں پہنچایا جس قدر اس امر نے کہ بعض لوگ اتفاق پیدا کرنے کے ایسے ذرائع اختیار کرتے ہیں جو درحقیقت ان کی غرض کے بالکل خلاف ہوتے ہیں.اتحاد کو اس قدر اس کے دشمنوں سے نقصان نہیں پہنچا جس قدر کہ اس کے نادان دوستوں سے.
بیت کے سنگ بنیاد کا نظارہ مشن ہاؤس لندن
دوران تعمیر انجینئر کام دیکھ رہا ہے پہلی بیت لندن اور برف باری
47 قوت برداشت: اگر اختلاف بُری چیز ہے تو برداشت کے کیا معنی ہیں.برداشت تو اختلاف ہی کی موجودگی میں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.پس جس چیز کی دنیا کو ضرورت ہے وہ برداشت ہے یعنی لوگ اختلاف عقیدہ اور اختلاف اصول رکھتے ہوئے پھر ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں محبت کے ساتھ رہیں.بیشک ہر ایک شخص کا حق ہے کہ وہ دوسرے کو اس امر کی طرف بلائے جسے وہ اس کے لئے اچھا سمجھتا ہے کیونکہ بغیر تبلیغ کے علوم کی ترقی نہیں ہو سکتی مگر جس چیز کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے کے دل کے بدلنے سے پہلے اس کی زبان اور اس کے اعمال کو بدلنا چاہیے یا بعض امور میں اس سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے اس کو تکلیف دینے کی کوشش کرے.بیت الله : بہنو اور بھائیو! بیت اس قسم کی رُوح پیدا کرنے کے لئے بنائی جاتی ہے اور (دینِ حق) نے بیت کا نام بیت اللہ رکھا ہے یعنی وہ ایسا گھر ہے جس میں انسان کا حق نہیں کہ آپس کے اختلاف کی وجہ سے کسی کو نکالے یا کسی کو تکلیف دے سکے.کیونکہ یہ اس کا گھر نہیں بلکہ خدا کا گھر ہے جو اسی طرح اس کے دشمن کا خدا ہے جس طرح اس کا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ومن اظلم ممن منع مسجد الله ان يذكر فيه اسمه.یعنی اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائے جانے والے گھروں سے لوگوں کو روکے.اور ان کو عبادت نہ کرنے دے.تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ یمن کے مسیحیوں کا ایک
48 وفد حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہا تھا کہ ان کی نماز کا وقت آ گیا اور انہوں نے آپ سے اجازت چاہی کہ باہر جا کر نماز پڑھ لیں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باہر جا کر نماز ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہماری مسجد میں پڑھ لو.پس قرآن کریم کے حکم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے کہ اسلامی بیت کا دروازہ ہر اس شخص کے لئے کھلا ہے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے اور اسلامی بیوت مختلف مذاہب کو متحد کرنے کا نقطہ مرکزی ہیں.احمدیہ (بیت) کی غرض: اس روح کے ساتھ اور انہیں جذبات کے ساتھ جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں.جماعت احمدیہ نے اس (بیت) کے افتتاح کا ارادہ کیا ہے اور پیشتر اس کے کہ میں اس (بیت) کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ( بیت) صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے تا کہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں.متوجہ ہوں.اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے.بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم اس کے انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس (بیت) کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس (بیت) کے ذریعے سے پیدا کی جائے گی دُنیا سے فتنہ و فساد دُور کرنے اور امن و امان قائم کرنے میں بہت مدد دے گی اور وہ دن جلدی آجائیں گے جبکہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کر کے محبت و پیار سے آپس میں
49 رہیں گے اور سب دنیا اس امر کو محسوس کرے گی کہ جب سب بنی نوع انسان کا خالق ایک ہی ہے تو ان کو آپس میں بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ محبت و پیار سے رہنا چاہیے اور بجائے ایک دوسرے کی ترقی میں روک بننے کے ایک دوسرے کی ترقی کرنے میں مدد کرنی چاہیے کیونکہ جس طرح باپ کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کے بچے آپس میں لڑتے رہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کبھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی مخلوق آپس کے جنگ و جدل میں مشغول رہے.جھگڑوں کی وجہ: در حقیقت جھگڑے خدا تعالیٰ سے دُوری کا نتیجہ ہیں اور حضرت مسیح موعود بانی جماعت احمدیہ کو اسی غرض سے دنیا میں بھیجا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کریں تا کہ باہمی اختلافات پر سے نظر ہٹ کر موجبات اتحاد کی طرف لوگوں کی توجہ پھر جائے.پس جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام ان نسلی جنگوں اور سیاسی جنگوں کے مٹانے میں کوشاں رہے گی.ہم امید کرتے ہیں کہ ہر مذہب و ملت کے نیک دل لوگ ان کوششوں میں اس کے مددگار ہوں گے.اور اس کے آثار بھی نظر آ رہے ہیں جیسا کہ اس وقت مختلف مذاہب اور مختلف اقوام کے معزز لوگوں کے اجتماع سے ظاہر ہے.پورا نقشہ کتبہ کا بیت کی قبلہ رُخ دیوار پر محراب کی جانب لگایا گیا ہے اور جو حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا مع انگریزی ترجمہ کے ہے اس کا فوٹو ملاحظہ ہو.
50 اعوذ بالله من الشيطن الرجيم ہم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناص قل ان صلوتی و نشکی ومحياي ومماتی اللہ رب العالمين میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی امام جماعت احمد یہ جن کا مرکز قاریان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کے لیے اور اس غرض ہے کہ خدا تعالے کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاریں جو ہمیں ملی ہے آج ہم ربیع الاول کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کر لے اور ہمیشہ کے لیئے اس سجد کو نیکی تقوئی.انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانی کا مرکز بنائیے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفی خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی الله بروز و نائب محمد علیہم الصلوۃ و السلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لیے رومانی سورج کا کام دیے ایسے خدا تو ایسا ہی کر ور اکتوبر ۱۹۲۴
51 اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتي لله رب العالمین میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه ابیع الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج 20 / ربیع الاول 1343 ھ کو اس (بیت) کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے او راس (بیت) کی آبادی کیلئے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ کے لئے اس (بیت) کو نیکی ، تقویٰ، انصاف اور محبت کے خیالات پھیلا نے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیهما الصلوۃ والسلام کی ٹورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے.اے خدا تو ایسا ہی کر.19/اکتوبر 1924ء
52 IN THE NAME OF ALLAH THE MOST BENEFICENT AND THE MOST COMPASSIONATE WE PRAISE HIM AND INVOKE HIS BLESSING ON HIS PROPHET THE EXALTED ONE WITH THE GRACE AND MERCY OF GOD HE ALONE IS THE HELPER Verily my prayer, my sacrifice, my life, and my death are for Allah, the Lord of All the Worlds.I, Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad, Khalifatul Masih II, Head of the Ahmadiyya Community which has its Headquarters at Qadian, Punjab, India, Lay the foundation stone of this Mosque today, the 20th Rabiul Awwal 1343 Hijri, to seek the pleasure of God so that His name be glorified in England and that people of this country may also partake of the blessings which have been vouchsafed to us.I pray to God that He may accept this humble and sincere effort of all the members of Ahmadiyya Community, both women and men, and that He may provide means for the growing prosperity of this Mosque; and may He make it for ever and ever a centre for promulgating the views of purity, piety, justice and love, and may this place prove a sun of spiritual light radiating forth in this country and in all the countries around the blessed beams of the Heavenly light of the Holy Prophet Mohammad the Chosen one of God and the seal of the prophets and of Ahmad the Promised Messiah, the prophet of God, the Vicegerent, and the reflection of Mohammad (may peace and the blessings of God be upon them both).Amen.19-10-1924
حضرت مصلح موعود بیت الفضل لندن کے سنگِ بنیاد کے موقع پر نماز پڑھا رہے ہیں
53 اس تقریب پر ایسے ایسے لوگ آئے جن کی امید نہ تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شاہی کارروائی ہوتی ہے اور مختلف سلطنتوں کے وزراء آتے ہیں بعض کی بعد میں چٹھیاں آئیں کہ افسوس! ہم مجبوری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے.ایک اخبار نے مجمع کی تصویر شائع کی اور لکھا کہ افسوس! ہمارا قائم مقام شامل نہ ہو سکا مگر کارروائی شائع کی جاتی ہے.ایک سلطنت کے نمائندے نے اس وقت مبلغ مانگے اور ایک نمائندے نے اس تحریر کا نمونہ مانگا.حالانکہ بڑے آدمیوں کے لئے مانگنا بہت مشکل کام ہوتا ہے اس نے کہا کہ مجھے دو کا پیاں دی جائیں.ایک اپنے دوست کو دوں گا.اور دوسری اپنے ملک کی یونیورسٹی کو.زیگو سلافیا کے قائم مقام پر حیرت ہی طاری ہو گئی اور کہنے لگا میں بہت ہی بدقسمت ہوں کہ یہ عمر آگئی اور مذہب کے متعلق کچھ نہیں سنا.اور آج پہلا دن ہے کہ یہ باتیں سنی ہیں.ایک پادری تھا کہنے لگا میں بہت خوش قسمت ہوں کہ آج دین حق کے متعلق یہ بیان سُن لیا.وہ آخر تک کھڑا رہا.گویا جس طرح خدا قلوب کو کھول دیتا ہے اس طرح کی حالت تھی.اس کے علاوہ اخبارات نے تصاویر اور تقریر اور کتبہ اور سنگ بنیاد رکھنے کا حال بڑے زور سے شائع کیا اور پھر ان سے ترجمہ ہوکر دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان میں ان حالات کو شہرت دی گئی.چنانچہ دو نمونے ذیل میں درج ہیں.
54 لنڈن کی پہلی مسجد ساؤتھ فیلڈ (South Field) میں مسلم امام کے ہاتھ سے سنگِ بنیاد رکھا جانا (ڈیلی کرانیکل Daily Chronicle مورخہ 20 /اکتوبر 1924ء ) ہر ہولی نس خلیفہ اسیح نے جو کہ مسلمانوں میں سلسلہ احمدیہ کے امام ہیں.کل میلر وز روڈ (Melrose Road) ساؤتھ فیلڈز (Southfields) میں لنڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس اصلاحی سلسلہ کے پیرولنڈن میں ایک سو انگریز ہیں.اور مشرق اور افریقہ میں دس لاکھ سے زیادہ ہیں.فی الحال یہ ارادہ ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے کل روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے اس رسم کے متعلق جو اصحاب آج موجود تھے ان میں سفیر جاپان، جرمنی اور شہر وینڈ زورتھ لے (Windsworth) کا شریف، استھونیا کا وزیر اور ترکی اور البانیہ کے نمائندے شامل تھے.شہر لنڈن کے لئے ایک مسجد سنگ بنیاد رکھا گیا مؤذن کے لئے ستر فٹ اونچا مینارہ ویسٹ منسٹر گزٹ West Minister Gazette ﴾ مورخہ 30 اکتوبر 1924ء) 1 نقل بمطابق اصل
55 ایک مسجد جولنڈن میں پہلی مسجد ہو گی.ساؤتھ فیلڈز میں تعمیر کی جائے گی.جس کا مینارہ ستر فٹ (Feet (70) بلند ہو گا.جہاں سے ایک مؤذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا.سنگ بنیاد کل ایک باغیچہ میں رکھا گیا.پھلدار درختوں میں خوشبو کا نیلا نیلا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا گیلی زمین پر قالین بچھائے گئے اور اس مجمع میں مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے.ہر ہولی نس خلیفہ اسیح نے جنہوں نے قرمزی رنگ کے کفووں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا اور جن کے سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا جن کے ہاتھ میں ایک عصا تھا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی ہوئی تھی.اس رسم کو ادا کیا.انہوں نے فرمایا کہ ”میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح ثانی اور جماعت احمدیہ کا امام جس کا مرکز قادیان پنجاب.ہندوستان ہے.آج 20 / ربیع الاوّل 1343ھ کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس بیت کا سنگ بنیاد رکھتا ہوں تاکہ لنڈن میں اس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور تاکہ اس ملک کے لوگ بھی ان برکات سے حصہ لیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ تقریب تو انسان کی اخوت اور وحدت کا ایک نشان ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف رائے سے تفرقہ پیدا ہو.عرب کا مقدس نبی فرماتا ہے کہ اختلاف رائے رحمت کا ایک سر چشمہ ہے کیونکہ اس سے علم اور حکمت کی ترقی میں مدد ملتی ہے.رواداری اور عالمی حوصلگی صرف اختلاف رائے کے مدرسہ میں سیکھی جاسکتی ہے.ہر ہولی نس کی رائے میں وہ دن دور نہیں ہے جبکہ لوگ جنگ کے خیالات کو ترک کر دیں گے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک ہی خالق کے بندے ہو کر اتفاق سے زندگی بسر کریں گے.
56 امام مسجد عبدالرحیم درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جاویں گے اور انگلستان ان کے رابطہ اتحاد کا ذریعہ ہو گا.یہ سلسلہ جو کہ ( دین حق) میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے انگلستان کو ایشیاء سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا.انگلستان میں یہ پہلی بیت ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے.مسٹرسی.ایچ روشر (C.H.Rocher) (بیت) کے انجینئر نے ہمارے نامہ نگار کے پاس بیان کیا کہ وہ ایک وقت سلطان مراکش کے انجینئر تھے اس کی عمارت اپنی شکل میں شرقی طرز کی ہوگی.ر سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی.جن کا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.وہ مذہبی جنگوں کے مخالف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا سلسلہ دنیا کو نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے.(بیت) کی تعمیر حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کی واپسی پر (بیت) کی تعمیر کا انتظام شروع کیا گیا فوری طور پر روپیہ ( بیت ) برلن کے فنڈ سے بہم پہنچایا گیا اور نقشہ وہاں کے انجینئروں نے تیار کیا جو قادیان بھیجا گیا اور بعد منظوری حضرت صاحب کام کا ٹھیکہ میسرز رونی اینڈ سنز (Messr.Roofi & Sons) کی کمپنی کو دیا گیا.بنیادوں کی کھدوائی 28 ستمبر 1925 ء گیارہ بجے دن کو شروع ہوئی اس تمام کاروائی کا ایک پروگرام چھپوا کر تمام اخبارات کو بھیج دیا گیا چنانچہ موقعہ پر اخبارات کے نمائندے آئے حاضرین بہت متاثر ہوئے اور کئی فوٹو لئے گئے چنانچہ اس روز رپورٹر (Reverter) نے ہندوستان اور تمام اکناف عالم میں اس کا اعلان کر دیا.مولوی عبدالرحیم در دامام (بیت) اس تعمیر کے آغاز کا حال یوں فرماتے ہیں:.
57 لنڈن میں پہلی (بیت) کی تعمیر مبارک ہو تمہیں لنڈن میں (بیت) کا بنا کرنا زمین کفر میں اللہ اکبر کی ندا کرنا اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ 28 ستمبر 1925ء بروز سوموار دن کے گیارہ بجے بیت لنڈن کی بنیادوں کی گھدائی کا کام شروع کر دیا گیا.اس موقعہ پر اخباروں کے نمائندے موجود تھے.کام شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے احباب کے ساتھ جن کو اللہ تعالیٰ نے اس مبارک موقع میں شمولیت کی سعادت بخشی قبلہ رُخ ہو کر دُعا مانگی.میں دُعا مانگتا جاتا تھا اور احباب آمین کہتے جاتے تھے اس کے بعد ہم نے اپنے ہاتھوں کھدائی کا کام شروع کیا.ہم زمین کھودتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ بلند آواز سے وہ دعائیں پڑھتے جاتے تھے جو حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیل نے بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھاتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کرتے ہوئے مانگی تھیں.بعض دوسر دوست زمین کھودتے جاتے تھے اور بعض مٹی اٹھا کر دوسری جگہ لے جاتے تھے اور یہ پڑھتے تھے :- هذَا لُحِمَالُ لاَ حِمَالَ خَيْبَر هذا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَرُ فیشن اور ظاہریت کے دلدادہ لنڈن میں اس طرح اپنے ہاتھوں مٹی اُکھیڑنا اور اٹھانا ایک خاص نظارہ تھا خصوصاً جبکہ ایک انگریز عورت مسر عزیز الدین) بھی اسی طرح گشتی چلا رہی تھیں جس طرح ہم چلا رہے تھے.لنڈن کے مختلف اخبارات نے کام کرتے ہوئے ہماری مختلف حالتوں کے فوٹو لئے اور اس تقریب کی روئیداد بعض نے اختصار کے ساتھ اور بعض نے
58 تفصیل کے ساتھ شائع کی.خدا کے فضل سے امید کی جاتی ہے کہ یہ (بیت) جس کی بنیاد خدا کے مسیح کے خلیفہ نے اپنے چند درویشوں کے ساتھ رکھی اور جس کی بنیادوں کی کھدائی اس کے غریب ناچیز غلاموں نے کی کسی وقت یورپ میں اُم البوت کا مقام حاصل کرے گی اور اس کے میناروں سے لنڈن، خدائے بزرگ و برتر کی تقدیس ہوتی سنے گا اور اسے کلام رب و رحیم و رحماں بانگ بالا سُنائیں گے ہم یورپ کو اس ٹور کی کرنیں جو نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے اور جس کی مدہم پڑی ہوئی روشنی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پھر تیز کیا انشاء اللہ اس بیت سے منور کریں گے.نعرہ اللہ اکبر اس سے اب ہوگا بلند شرک کے مرکز میں یہ توحید کی بنیاد ہے جن اصحاب نے (بیت) کی بنیادیں کھودنے میں اپنے ہاتھ سے کام کیا ان کے اسماء حسب ذیل ہیں :- (1) شیخ یعقوب علی صاحب (2) سید وزارت حسین صاحب (3) شیخ ظفر حق خان صاحب (4) ملک محمد اسمعیل صاحب (5) خان عبدالرحیم خان صاحب خالد (6) مسٹر جبریل مارٹن صاحب (7) مسٹر شرف الدین صاحب (8) مسٹر عزیز الدین صاحب امة السلام صاحبہ (9) مسٹر ہنری ہنٹن صاحب (10) عبد العزیز صاحب پسر عبد اللہ مالک ہوٹل لنڈن (11) مسٹر کندن لال صاحب جو مفتی محمد صادق صاحب کے وقت میں مسلمان ہوئے (12) ملک غلام فرید صاحب (13) خاکسار عبدالرحیم درد
59 اس کے بعد تجویز کی گئی کہ اس تقریب سعید کی خوشی میں صدقہ کیا جائے.چنانچہ تمام دوستوں نے چندہ لکھایا جو حسب ذیل ہے.(1) شیخ یعقوب علی صاحب 10 شلنگ (2) سید وزارت حسین صاحب 1 پاؤنڈ (3) ملک محمد اسمعیل صاحب 10 شلنگ (4) خان عبدالرحیم صاحب خالد 10 شلنگ (5) شیخ ظفر حق خان صاحب 10 شلنگ (6) مسٹر جبریل مارٹن صاحب 10 شلنگ (7) مسٹر شرف الدین صاحب 212 شلنگ (8) مسٹر کندن لال صاحب 5 شلنگ (9) ملک غلام فرید صاحب 1 گنی (10) خاکسار درد 1 گنی والسلام خاکسار درد تعمیر کا کام تمام جاڑے جاری رہا اور 1926ء کے موسم گرما کے آخر میں ختم ہوا.اس کے متعلق تمام انگریزی اخبارات نے بکثرت فوٹو بنیادیں کھود نے کے نظارہ کے اور بیت کی عمارت کے مختلف مدراج کے شائع کئے ہیں.چنانچہ ٹائمز آف لنڈن (The Times of London) اپنے 29ستمر 1925ء کے پرچہ میں رقمطراز ہے.
60 ٹائمٹر آف لنڈن (THE TIMES OF LONDON) لنڈن کی اس پہلی مسجد کی تعمیر کے لئے بنیادیں b کھودی جانے کا کام شروع کیا گیا جو احمدی ساؤتھ فیلڈ میں تعمیر کرنے لگے ہیں.یہ بیت ایک مکان کے ملحقہ باغیچہ میں بنی تجویز ہوئی ہے جو کہ عرصہ سے احمدیوں کے قبضہ و ملکیت میں ہے اور جہاں وہ مدت سے نماز میں پڑھ رہے ہیں.اس مسجد کا سنگ بنیاد پچھلے موسم خزاں میں ہنر ہولی نس دی خلیفہ اسیح نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا تھا.ریورنڈ اے آر درد (مولانا عبدالرحیم صاحب درد) کی قیادت میں جو کہ احمدیہ مشن کے انچارج ہیں ہندوستانی احمدیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اکٹھی ہوئی.مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عربی زبان میں ان ادعیات کی تلاوت کی.جو تعمیر کعبہ کے وقت پڑھی گئی تھیں.بعد ازاں سلسلہ احمدیہ کے ممبروں نے وہ دُعائیں پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے کھدائی کا کام شروع کیا جو مسجد مدینہ کی تعمیر کے وقت پیغمبر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے پڑھی تھیں.جماعت احمدیہ کے مرکز میں اطلاع دینے کے ماسوا ہندوستان، امریکہ، سیریا، فلسطین وغیرہ تمام ان ممالک میں جہاں اس سلسلے کے افراد ہیں کام شروع کرنے سے پہلے ہی برقی
61 پیغامات ارسال کر دیئے تھے جس میں اس وقت کی اطلاع دے دی گئی تھی.جس وقت کہ لنڈن میں تعمیر مسجد کا کام شروع کیا جانا تھا.تا کہ شرق اور غرب، شمال اور جنوب ہر چہار اطراف سے ایک ہی وقت میں ایک ہی مقصد کے لئے ایک ہی خدا کے لئے دعائیں کی جائیں.“ اخبار ڈیلی گرافک (The Daily Graphic) یہ اخبار اپنے 29 ستمبر 1925ء کے پرچہ میں لکھتا ہے:- کل جبکہ اس مسجد کی بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو اس سے مسلمانوں کی رُوحانیت آشکار ہو رہی تھی اور اس روحانیت کا ادنیٰ کرشمہ یہ ہے کہ خدا کا گھر بنانے کے لئے یہ لوگ مزدوروں کی طرح خود مٹی کھودتے.مٹی اُٹھاتے اور دوسرے کام کرتے تھے.ہندوستان کے باشندوں کے علاوہ جو اس کام کو ہاتھوں سے کر رہے تھے ایک انگریز بھی ان کے ساتھ شامل تھا جو باوجود سفید بالوں کے جو اس کی پیرانہ سالی پر دلالت کرتے تھے بڑے شوق سے وہی کام کر رہا تھا جو اس کے انڈین ہم عقیدہ بھائی کر رہے تھے.ان تاروں کے جواب میں جو لنڈن سے یا مرکز سلسلہ سے اس تقریب پر جاری کی گئی تھیں ایک وقت مقررہ پر تمام عالم میں اس بیت کی تکمیل اور بابرکت ہونے کے لئے خلوص دل سے دُعا کی گئی.دوران تعمیر میں بکثرت لوگ آتے اور اسے بنتے دیکھتے تھے حتی کہ ایک سابق گورنر پنجاب نے ایک
62 مجلس میں بیان کیا کہ آپ کی بیت بہت خوبصورت اور دلکش ہے میں اپنی بیوی سمیت ریل میں گزر رہا تھا.دیکھ کر ہم اس کو بے خود ہو گئے اس طرح متعدد اشخاص نے بیان کیا کہ ہم یہاں سے ریل پر گزر رہے تھے ہم سے ضبط نہیں ہو سکا اور اس کے دیکھنے کے لئے ہم مجبور ہو گئے.(بیت) کی عمارت یہ (بیت) ایک مستطیل گنبد دار پختہ عمارت ہے جو ایک خوشنما باغیچہ کے اندر واقع ہے اس کے سامنے ایک فوارہ وضو کے لئے بنا ہوا ہے.یہ فوارہ بالکل عارضی ہے اور بعد میں زیادہ اعلیٰ نمونہ کا بہتر مقام پر بنایا جائے گا.برخلاف ہندوستان کی پکیتوں کے اس کا طول دروازہ سے محراب تک زیادہ ہے.بہ نسبت ایک پہلو کی دیوار سے دوسری پہلو کی دیوار تک کے یعنی عمارت کی لمبائی اس طرح ہے جس طرح پہلے زمانہ میں قادیان کی (بیت) مبارک تھی یعنی The Fast
63 تمام عمارت میں ایک ہی دروازہ ہے اور اس دروازہ کے دونوں پہلوؤں میں ایک ایک پتلی اور لمبی کھڑکی روشنی کے واسطے ہے جس میں شیشے لگے ہوئے ہیں.اسی طرح محراب کے دونوں طرف ایک ایک ہر دو پہلو کی دیواروں میں چار خانے کی کھڑکیاں لگی ہیں محراب جہاں کھڑے ہو کر امام نماز پڑھاتا ہے.نیم دائرہ کی شکل میں آگے کو بڑھا ہوا ہے اور اسی محراب کی بیرونی جانب وہ سنگِ بنیاد ہے جسے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے 1924ء میں نصب کیا تھا.گنبد صرف عمارت کے اس نصف حصہ پر ہے جو دروازہ کی طرف ہے.عمارت کے وسط میں نہیں ہے اور قریباً 50 فٹ بلند گنبد کے چاروں طرف او پر پانچ پانچ روشندان لگے ہوئے ہیں.بیت کے چاروں کونوں پر اتنے بڑے برجی دار مینارے بنے ہوئے ہیں جن میں مؤذن آسانی سے کھڑا ہو کر آذان کہہ سکتا ہے.بیت کے دروازہ پر بیرونی جانب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام فارسی خط میں تحریر ہے.ہے.”امن است در مکانِ محبت سرائے ما اور اس سے کچھ اوپر موٹے عربی خط میں کلمہ طیبہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ نہایت خوبصورت منقش ہے.دورازہ کھول کر اندر جاتے ہی دونوں طرف پینچ لگے ہوئے نظر آتے ہیں یہ جگہ بُوٹ اور جوتیاں اُتارنے کے لئے ہے.اس حصہ کو ایک آہنی زنجیر سے الگ کیا ہوا ہے اور پہلی دیوار پر کپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں لگی ہوئی ہیں.پہلو کی دونوں دیواروں میں ہر ایک کھڑکی کے پاس ایک فولادی انگیٹھی جس میں گیس جلتی ہے بیت کو گرم رکھنے کے لئے
64 لگی ہوئی ہے.ایسی کل 8 انگیٹھیاں بنی ہوئی ہیں.....(بیت) میں قریباً دوسو نمازیوں کی گنجائش ہے.فرش پر ایک نیلا قالین بچھا ہوا ہے جو خان بہادر سیٹھ الہ دین صاحب حیدر آبادی کا عطیہ ہے اور جس کی قیمت سو (100) پاؤنڈ ہے.جماعت حیدر آباد دکن نے پہلے سال کی روشنی کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے.گنبد اور تمام عمارت سفید اور بلند ہونے کی وجہ سے دُور دُور سے نظر آتی ہے.خصوصاً ریلوے مسافروں کے لئے جو ہر وقت اس کے پاس سے گزرتے رہتے ہیں بہت ہی دلکش نظارہ ہے.اس مکان کی تعمیر پر چار ہزار پاؤنڈ یعنی 60 ہزار روپیہ کی لاگت آئی.اور اس کی تکمیل پر قریباً دس ماہ خرچ ہوئے.عمارت...(بیت) کی اس طرح بنائی گئی ہے کہ پہلے تمام ڈھانچہ فولادی گرڈروں سے تیار کر کے بعد میں اینٹوں سے عمارت چن دی گئی ہے اور اوپر اعلیٰ قسم کے سفید سیمنٹ کا پلستر کر دیا گیا ہے.ٹھیکیداروں کے نام یہ ہیں:- (1) میسرز رونی اینڈ سنز ( Messrs Roofi & Sons) جنرل کنٹریکٹر (2) میسرز جان بوتھ اینڈ سنز ( Messrs John Booth & Sons) فولادی حصہ کا ٹھیکیدار (3) سیلف سنٹرنگ آکس بینڈ وئیل کمپنی لمیٹڈ Self Centering Arch.Bend & Hail Co.Ltd میناروں اور گنبد میں جو لوہا لگا ہے اس کے ٹھیکیدار (4) میسرز ٹرفٹن اینڈ ینگ.Messrs Trifton & Young) بجلی کے ٹھیکیدار (5) میسرز تھامس ماسن اینڈ سنز Messrs Thomas Mason & Sons انجينر
65 (6) تمام کام زیر نگرانی میر عمارت مسٹر جے آئی فیٹ ہرا.Mr.J.I) Fethra.) طول وعرض طول تمام عمارت مع دیواروں کا محراب کو چھوڑ کر 4312 فٹ اور عرض 2612 فٹ ہے.باہر سے عمارت اور گنبد کے اوپر کا حاشیہ طاق نما حاشیہ سے مزین ہے.بیت کی کھڑکیوں میں کوئی رنگین شیشہ نہیں لگایا گیا.دیکھنے والے بعض دفعہ لنڈن کے اندر اس عمارت کو دیکھ کر خیال کرتے ہیں کہ گویا مشرق کا سکے.ایک حصہ اُٹھا کر مغرب میں لا کر لگا دیا گیا ہے.(بیت) کی تعمیر میں یہ لحاظ رکھا گیا ہے کہ آئندہ ضرورت کے وقت اس کی اتنی مزید توسیع ہو سکے کہ اس میں ایک ہزار آدمی بخوبی نماز پڑھ ( بیت) کی کرسی باغیچہ کی زمین سے بقدر دو سیڑھیوں کے اُونچی ہے.روشنی کا انتظام برقی روشنی کے لیمپوں سے کیا گیا ہے ایک لیمپ دروازہ کے باہر اور دوسرا محراب کے اندر لگا ہوا ہے تین بڑے بڑے ہنڈے چھت میں لٹک رہے ہیں جن میں سے ایک گنبد کے پیچ آویزاں ہے.رعد اور برق سے عمارت کو بچانے کے لئے تار لگا ہوا ہے.بیت کی تعمیل 1345ھ ہجری میں ہوئی اور تاریخ بحساب عدد حروف جمل ہوئی.1 چمن مغربی 2 آفتاب تبلیغ یہ تو (بیت) کی ظاہری مادی صورت ہوئی مگر اس کے اندر وہ کیا چیز ہے جو اس کی روحانیت اور جان ہے اور جو اس (بیت) کو ایک زندہ وجود کی شکل
66 میں دنیا کے آگے پیش کر رہی ہے آؤ! میں بتاؤں کہ وہ کیا چیز ہے وہ برکت اور ہدایت ہے جو اس کے جزو جزو میں رچی ہوئی ہے اور اس کے ذرہ ذرہ سے نفوذ کر رہی ہے.یہ اس لئے کہ ایسی بیت جو بچے ایمانی جوشوں اور دل کی تہ سے نکلی ہوئی دُعاؤں کے ساتھ نبیوں کے نوشتوں کے مطابق وجود میں آئے.وہ بلاشبہ خدا کا مقدس گھر اور اس کے خاص نزول کی جگہ ہوتی ہے اور اس سے دُنیا وہ فیوض حاصل کرتی ہے جو دوسری جگہوں سے ملنے ناممکن ہیں.افتتاح کی تیاریاں (بیت) کا تیار ہونا تھا کہ قدرتی طور پر اس کے افتتاح کی تقریب اور پھر اسے شاندار طور پر کامیاب بنانے کا خیال حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایده اللہ بنصرہ العزیز کو پیدا ہوا.کسی بیت کا افتتاح کوئی (دینی) رسم نہیں ہے مگر ایسی بات چونکہ مغربی قلوب پر خاص اثر رکھتی تھی.اور تمام دنیا میں اعلان اور تن کے لئے بڑی ضرورت تھی اور پھر ایسے موقع پر جمع ہو کر برکت اور کامیابی کے لئے دعا ئیں بھی ہونی چاہیے تھیں.اس لئے یہ قرار پایا کہ اس کا افتتاح ایک خاص اہتمام کے ساتھ ہو.اور کسی مشہور آدمی سے کرایا جائے.اگر چہ بعد میں منشائے الہی نے یہ ثابت کر دیا کہ خدا کا گھر اس معاملہ میں کسی کا مرہون منت نہیں ہو سکتا.کوئی انسان خدا کے گھر کو شہرت نہیں دے سکتا بلکہ یہ افتتاح کرنے والے کی خوبی قسمت ہے کہ اسے اس سعادت سے حصہ ملے اور اس کا نام بھی چار دانگ عالم میں شہرت پائے.افتتاح کے لئے مختلف نام حضرت خلیفہ المسیح ثانی کے حضور فروری 1926 ء سے امام بیت مولوی درد صاحب نے پیش کرنے شروع کر دیئے تھے.21 اپریل 1926ء کو جو خط حضور کا امام (بیت) کے نام گیا اس میں
67 حضور نے تحریر فرمایا کہ بہتر ہو گا اگر افتتاح ملک فیصل شاہ عراق کے برخوردار امیر زید سے کرایا جائے.جو سابق شاہ حجاز کے صاحبزادے ہیں اور آکسفورڈ (Oxford) میں تعلیم پاتے ہیں.یہ خیال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ امیر زید اس شاہی خاندان کے ایک فرزند ہیں جو صدیوں سے گزشتہ سال تک کعبہ کا متولی رہا ہے.اس تحریک کو بار آور کرنے کے لئے حضور نے یہ تجویز کی کہ شاہ فیصل کو لکھا جائے کہ وہ اپنے بھائی امیر زید کو بذریعہ تار کے ہدایت دیں کہ لنڈن میں (بیت) کا افتتاح کر دیں چنانچہ ایسا خط 28 اپریل 1926 ء کو امور خارجیہ نے شاہ عراق کی خدمت میں تحریر کیا.23 مئی 1926ء کو شاہ موصوف کے پرائیوٹ سیکریٹری کا یہ جواب آیا کہ اس کام کے لئے آپ براہ راست امیر زید کی خدمت میں درخواست کریں تو مناسب ہے.شاہ عراق کے اس خط کو ماہ جون میں ناظر امور خارجیہ نے امام کے پاس لنڈن بھیج دیا کہ براہ راست امیر زید سے فیصلہ کریں.لیکن ساتھ ہی اس وقت اخبارات میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ فیصل شاہ عراق بھی لنڈن میں عنقریب تشریف لا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قادیان سے ناظر صاحب دعوت وتبلیغ کا یہ تار پہنچ گیا کہ امام (بیت) اس موقع پر شاہ عراق کی خدمت میں تحریک کریں کہ شاہ موصوف افتتاح کی رسم کو بذات خود ادا کریں.اس ہدایت پر مولوی درد صاحب نے تحریک شروع کر دی مگر شاہ فیصل نے لنڈن آنے میں بہت دیر کی اور وہ ان دنوں اپنی صحت کی خاطر فرانس میں مقیم تھے اور انگلستان کا کالونیل (Colonial Department) اور خود شاہ کا قائم مقام بھی نہیں بتا سکا کہ وہ کب داخل انگلستان ہوں گے.(بیت) تیار تھی اور......اس افتتاح کے لئے بے قرار تھے.آخر خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب شاہ فیصل ماہ اگست کے وسط میں لنڈن میں وارد ہوئے.
68 امام (بیت) نے نہایت پر تپاک خیر مقدم کا تار ان کی خدمت میں بھیجا مگر حیرت اور استعجاب کی کوئی حد نہ رہی جب ان کی طرف سے کوئی فوری جواب اس معاملہ میں وصول نہ ہوا.البتہ ان کا شکریہ امام کے پاس اس وقت پہنچا جب وہ لنڈن سے واپس جا چکے تھے اور اس طرح یہ خیال بھی یوں ہی چونکہ فیصل شاہ عراق کی طرف سے کوئی رضا مندی کا جواب موصول نہیں ہوا تھا اس لئے ابھی وہ لنڈن میں ہی تھے کہ امام ( بیت ) لنڈن کی توجہ شاہ حجاز کی طرف مبذول ہوئی اور اس طرح افتتاح بیت کے لئے تیسری تجویز کا آغاز ہوا جس کا انجام سب سے زیادہ دلچسپ ہے لنڈن سے شاہ حجاز کے ایک انگریز دوست نے مکہ ان کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ اگر آپ اس موقعہ سے فائدہ اُٹھا ئیں تو آپ کے لئے ہر دلعزیزی حاصل کرنے کا اچھا موقع ہے اس کے جواب میں شاہ حجاز نے فوراً اپنی رضا مندی کا تار اپنے انگریز دوست کے نام بھیج دیا.جب امام کو یہ معاملہ معلوم ہوا تو انہوں نے با قاعده درخواست بذریعه تار بھیجی کہ چونکہ آپ مقامات مقدسہ کے ظاہری محافظ ہیں اس لئے بیت لنڈن کے افتتاح کے لئے اگر آپ اپنا صاحبزادہ یہاں بھیج دیں تو عین موقعہ کے مناسب و موزوں ہو گا.سلطان نے بذریعہ تار کے اس دعوت کو قبول کیا اور ان الفاظ میں اطلاع دی:.”ہم آپ کی دعوت قبول کرتے ہیں.ہمارا بیٹا فیصل ستمبر کے پہلے ہفتہ میں جدہ سے روانہ ہو گا.“ 66 اس کے بعد باقاعدہ تیاریاں بیت کے شاندار افتتاح کی ہونی شروع ہو گئیں.کو موزون جہاز بندرگاہ بلائی سمتھ (Blyssmouth) میں امیر فیصل اور ان کے رفقاء کو لایا.جہاں امام نے ساحل پر شہزادہ کا نہایت پُر جوش خیر مقدم کیا اور ٹرین میں شاہزادہ کے ساتھ ہی لنڈن تک سفر کیا اور اس سفر میں
69 تمام پروگرام افتتاح کا باہمی مشورہ سے تیار کیا گیا اور 12 بجے دن کے 23 ستمبر 1926ء کو امیر فیصل لنڈن کے پڈنگٹن اسٹیشن پر اُترے.اور جیسا کہ امام اور ان کے رفقاء کی طرف سے پہلے سے انتظام کیا گیا تھا مقامی مسلمانوں نے ان کا وہ شاندار اور پُر جوش خیر مقدم کیا.جس کی نظیر کسی بیرونی بادشاہ یا شہنشاہ تک کے لئے آج تک لنڈن کے اسٹیشن پر نہیں دی گئی.ریلوے اسٹیشن اهلا وسهلا مرحبا کے نعروں سے گونج اُٹھا.سینکڑوں کی تعداد میں مسلمان خوش آمدید کہنے کو موجود تھے امام نے شہزادہ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے.اور حاضرین نے گلاب کے پھولوں کی پتیوں اور کاغذ کے بنے ہوئے رنگا رنگ کے پھولوں کی ان پر بارش کی.امیر فیصل اس پر تپاک خیر مقدم کے بعد جو شہنشاہوں کے حصہ میں بھی کم آتا ہے.ہائڈ پارک ہوٹل ( Hyde Park Hotel میں بطور گورنمنٹ برطانیہ کے مہمان کے فروکش ہوئے.لنڈن کی تاریخ میں یہ پہلا دن تھا.کہ اللہ اکبر کے متواتر اور مسلسل نعروں سے اس کی فضاء غیر معمولی طور پر گونج اُٹھی.مشرقی زرق و برق کے لباس اور مطلا عماموں اور رنگ برنگ کے عربی جھنڈوں اور علموں نے، جن کو ساؤتھ فیلڈ محلہ یعنی وہ محلہ جہاں بیت تعمیر ہوئی ہے.کے انگریز بچوں نے اُٹھایا ہوا تھا، الف لیلہ کے قصوں کو آنکھوں کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا.اور مشرق اور مغرب نے مل کر مکہ کے وائسرائے کا اس دھوم دھام اور شان و شوکت سے خیر مقدم کیا.کہ انگلستان کے اخبارات کئی کئی دن تک اس کی تفاصیل اور تصاویر سے مزین اور مملو نظر آتے رہے.امام بیت لنڈن نے 29 ستمبر کی رات شہزادہ کے استقبالیہ دعوت کے لئے مقرر کی.اس دن دوپہر کا کھانا گورنمنٹ کی طرف سے تھا.ہوٹل میٹرو پول (Hotel Metropole) میں اس کا انتظام کیا گیا.اور شہزادہ اور تین سو معزز اشخاص کے نام دعوتی کارڈ بھیجے گئے.26 ستمبر اتوار
70 72 بجے صبح امام کو ایک تار ملا کہ مسٹر جارڈن ( جو جدہ میں برٹش کونسل ہیں اور شہزادہ کے ہمرکاب وہاں سے آئے تھے).”مسٹر درد سے 26 ستمبر اتوار کو 9 بجے صبح ہوٹل میں ملنا چاہتے ہیں.“ - مولوی درد صاحب نے فوراً ہائڈ پارک میں ٹیلیفون کیا.کہ 9بجے کا وقت تو گزر چکا.اب 10 بجے ہیں.کیا مسٹر جارڈن (Mr.Jordan) مل سکتے ہیں.ہوٹل سے جواب ملا کہ مسٹر جارڈن موصوف مع دیگر رفقا کے ابھی ہوٹل سے باہر تشریف لے گئے ہیں.اس پر مولوی درد صاحب نے مسٹر بیر (Mr.Bayor) صاحب کو ٹیلیفون کیا (جو سرکاری محکمہ مہمان نوازی کے افسر ہیں اور جنہوں نے مسٹر جارڈن کے مشورے سے استقبالیہ دعوت اور تقریب افتتاح کی تاریخیں مقرر کی تھیں.مسٹر بیر صاحب نے جواب دیا ” کہ آپ کچھ تر ڈد نہ فرمائیں.بلکہ انتظام ہر طرح درست رکھیں مگر ساتھ یہ بھی کہا.کہ فارن آفس (Foreign Office) کی رائے ہے کہ دعوت استقبالیہ 29 ستمبر کو نہیں ہونی چاہئے تھی.مگر پھر اپنی طرف سے یقین دلایا کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے.اور ایک خواہش سے زیادہ اس کی وقعت نہیں.اس گفتگو سے قدرتی طور پر مولوی درد صاحب کو ایک گونہ تر ڈد ہوا.اسی رات 9 بجے پھر امام نے ہائڈ پارک ہوٹل میں مسٹر جارڈن کو ٹیلیفون کیا جس کے جواب میں صاحب موصوف نے کہا.اب ہر گز 29 ستمبر کو شہزادہ کی دعوت نہ کریں.کیونکہ اسی دن دن کا کھانا شہزادہ کو فارن آفس کی طرف سے دیا جائے گا.امام نے کہا سرکاری کھانا دن کا کھانا ہے.اور ہماری دعوت رات کی ہے اور پہلے سے سب انتظام مشورہ سے قرار پاچکا ہے.اور دعوتی رفعے تمام عمائد کو بھیج دیے گئے ہیں.اگر اس کو ملتوی کر دیا جائے.تو بہت نامناسب اور تکلیف دہ امر ہو گا.لیکن مسٹر جارڈن اپنی رائے پر قائم رہے
71 دوسرے دن 2 ستمبر کو مولوی درد خود ہوٹل میں گئے.اور بہت کوشش کی.مگر کونسل جدہ نے ان کی بات نہ مانی.آخر امام نے کہا کہ پھر خود آپ ہی دعوت کی تاریخ مقرر کر دیں.جس پر انہوں نے کہا کہ 16اکتوبر کر دیں ساتھ ہی....( بیت) کے افتتاح کی تفاصیل بھی سب ان سے مل کر طے کر لیں.چلتے ہوئے انہوں نے فرمایا.کہ اب آپ اطمینان سے جا کر انتظام کریں.28 ستمبر 1926ء کو ایک بارسوخ دوست کا خط امام کو ملا.جس کا مطلب یہ تھا: - ” مجھے بہت افسوس ہے.کہ دعوت استقبالیہ اور افتتاح کے راستہ میں بہت سی مشکلات پیدا ہو گئی ہیں.یہاں کے سرکاری افراد کو تو آپ سے ہمدردی ہے.مگر ہندوستان کے مسلمانوں نے یہ مشکلات پیدا کی ہیں.جو میں زبانی بیان کروں گا.وقت چونکہ اب بہت تنگ ہے، اس لئے آپ اخبارات میں اور ان لوگوں کو جنہیں آر دعوتی رقعے ارسال فرما چکے ہیں.حسب ذیل اطلاع بھیج دیں.مولوی عبدالرحیم درد اپنی اور اپنی جماعت کی طرف سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ دیگر ضروری مشاغل اور مصروفیات کے باعث ہز ہائی نس امیر فصیل ابن سعود اس استقبالیہ دعوت میں شامل نہ ہوسکیں گے.جو ان کے اعزاز میں 29 ستمبر 1926ء بدھ کے دن دی جانے والی تھی اور جو مجبوراً فسخ کی جاتی ہے.انہی وجوہات بالا کے سبب سے ہی بیت لندن کا افتتاح جو 3 اکتوبر اتوار کے دن اُن کے ہاتھ سے کرایا جانا تھا.وہ بھی فی الحال ملتوی کیا جاتا ہے.
72 مناسب انتظام کے بعد وقت اور تاریخ کی اطلاع دی جائے گی.“ یہ دوست جب امام سے بالمواجہ ملے.تو انہوں نے کوئی نئی بات بیان نہ کی.صرف یہ معلوم ہوا کہ خود امیر فصیل تک اس روک کی اصلی وجہ سے بے خبر ہیں.ان کے والد شاہ ابن سعود نے افتتاح کی ممانعت کا تار شہزادہ کو بھیجا ہے.اور خود شہزادہ کو بھی اس ممانعت کا بہت رنج ہے.جب وجوہات کی تفصیل معلوم ہو گی.بتائی جائے گی.یہ انکار ایسے وقت ظاہر کیا گیا.کہ (بیت) کے کارکن حیران و ششدر رہ گئے.نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا.حیران تھے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں.مگر یہ پریشانی صرف ایک ساعت کے لئے تھی.مومن کا ایمان اس کے خدا پر ہوتا ہے.نہ کہ شہزادوں اور بادشاہوں پر.وہ پیچھے پھر کر نہیں دیکھتا.نہ وہ تاسف میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے.وہ ہر ٹھوکر اور ہر روک کے لئے تیار ہوتا ہے.اور پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرتا ہے.خواہ یہ روک بعض شریروں کی شرارت کا نتیجہ تھی.یا صرف غلط فہمی کی بنا پر تھی.یا کسی پولیٹیکل چال کی وجہ سے ظہور میں آئی تھی کچھ بھی تھی اب اس کے دریافت اور تحقیق کا وقت نہ تھا.مگر اب کیا کیا جاتا.ایک بادشاہ وعدہ کرتا ہے.ایک شہزادہ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے اس کام کے ارادہ سے عرب سے آتا ہے.مگر نتیجہ پھر وہی یعنی التوا.وہی تاخیر.دن رات کی دوڑ بھاگ اور کام اور انتظام سے ہمارے دوست تھک کر چور چور ہو رہے تھے.ہزاروں آدمیوں اور پریس کو افتتاح کی دعوتی رقعے پہنچ چکے تھے.ایسے لوگوں کے خط بھی آچکے تھے.جو ڈنڈی، اڈنبرا اور ملک کے دیگر دور دراز حصص سے شرکت کے لئے تشریف لا رہے تھے.اب اس حالت میں کیا کیا جاوے.کیا ہم سے
73 کوئی غلطی ہوئی.نہیں.ہم جو کچھ کر رہے تھے خدا کے لئے اور محض اس کے دین کے لئے کر رہے تھے اور یہ نہیں ہو سکتا.کہ خدا دین کے لئے کچی کوششوں کو ضائع کر دے.ہمیں اس پر بڑی بڑی اُمید میں ہیں.اور وہی ہمارا رہنما ہے.کیا سچ مچ التوا کر دیا جاتا؟ امام کے دل نے انکار کیا.اس نے کہا کہ میں سب انتظام کو جاری رکھوں گا.اور اسی تاریخ کو (بیت) کا افتتاح ہو گا.جو مقرر ہو چکی ہے.خواہ کتنی ہی روکیں.کیوں نہ حائل ہوں.لندن سے حضرت خلیفتہ اسیح کی خدمت میں تار بھیجا.اور جس کا حضور نے فوراً جواب دیا.میں پسند کرتا ہوں.کہ تیاری جاری رکھی جائے.اللہ تعالیٰ اس تقریب کو اور بھی زیادہ مبارک کرے گا 66 اللہ تعالیٰ خلیفہ پر اپنی برکات نازل فرمائے.خدا اس کی زندگی میں برکت دے.اور وہ ہماری رہنمائی کرتا رہے ایسے وجو د اور اس کی برکات سے انکار کرنے والا بے وقوف ہی ہو سکتا ہے یہ تار لندن کیا پہنچی.کہ تھکے ہوئے پھر اُٹھ کھڑے ہوئے.اور شہزادہ کی نظر عنایت کے منتظر دنیا بھر کے بادشاہوں سے مستغنی ہو گئے.ہ باب یہیں نہیں بند ہوا.پہلی اکتوبر کو ایک اور تار امام کے پاس پہنچا.جس کا مضمون یہ تھا.کہ سلطان نجد نے امیر فصیل کو اس لئے افتتاح سے روکا تھا کہ مارننگ پوسٹ کے حوالہ سے الا ہرام قاہرہ میں یہ خبر چھپی تھی کہ ( بیت) تمام مذاہب کے پیروؤں کے لئے عبادت گاہ ہو گی اور خالص اسلامی بیت نہ ہو گی.اور اب سلطان نے امیر فصیل کو تار بھیج دی ہے کہ افتتاح کی رسم ادا کرے.“ یہ خبر پہنچی ہی تھی کہ 2 اکتوبر کو ڈاکٹر ڈبلو جی فارن منسٹر حجاز خود امام کے پاس تشریف لے آئے.اور فرمانے لگے کہ جو کچھ اب تک ہوا ہے.
74 اس کا ہم کو بہت افسوس ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا.کہ شاہ حجاز کے الفاظ صاف واضح نہیں ہیں اور شہزادہ نے زیادہ واضح ہدایت کے لئے مکہ معظمہ تار دی ہے.فارن منسٹر نے یہ یقین دلایا کہ ہماری پارٹی افتتاح میں شامل ہونا اپنے لئے باعث فخر خیال کرتی ہے.اور آپ لوگ (دینِ حق) کی بڑی خدمت کر رہے ہیں.اور ہم لوگ اس خدمت کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.مگر جیسا کہ اب حالات پیدا ہو گئے ہیں.ہم سوائے سلطان کے صاف اور واضح حکم کے افتتاح میں شامل ہونے سے معذور ہیں.اصل بات یہ کہ سلطان نے امیر فصیل کو یہ تار دیا تھا کہ (بیت) کا افتتاح تم اپنی اور اپنے رفقاء کی ذمہ داری پر کر سکتے ہو.اور اس معاملہ میں وہاں کے دیگر مسلمانوں سے بھی رائے لے لو.مگر امیر فیصل نے اپنی ذمہ داری ہ کام کرنا مناسب نہ سمجھا.اور سلطان کو پھر تار دیا.کہ وہ ایک صاف حکم بھیجیں.ڈاکٹر ڈبلو جی نے امام کو یقین دلایا.کہ امیر فصیل اس تقریب میں نہایت خوشی سے شریک ہوں گے.کہ آخری منٹ پر بھی ان کو سلطان کی طرف سے اجازت کا تار آ جائے.اور اُمید ہے کہ سلطان کی طرف سے وقت سے پہلے جواب آ جائے گا.آگے جواب خواہ مخالف ہو یا موافق اہل مسجد اور اہل حجاز اور اہل انگلستان، غرض سب اس تار کا انتظار کرتے رہے.مگر کوئی واضح حکم نہ پہنچا.یہ ایک راز تھا.جو راز ہی رہا.اور اخبارات نے اس راز کو مختلف پیرایوں میں لکھا.اگر کسی نے اسے امیر فیصل کی مسٹری کے نام سے شائع کیا.تو دوسرے نے (بیت) لنڈن کی مسٹری کے نام سے تیسرے نے خاموش امیر کے ہیڈنگ سے وغیرہ وغیرہ.غرض افتتاح کے روز تک یہ حال تھا کہ ہائڈ پارک ہوٹل جہاں شہزادہ فیصل فروکش تھے.وہاں جو کوئی اس امر کے متعلق پوچھنے جاتا.تو باہر سے یہی جواب ملتا.
75 ( بیت) کے افتتاح کے تقریب کی بابت کوئی اطلاع نہیں دی جاسکتی.“ شیخ عبدالقادر صاحب: ایک طرف ادہر تو یہ ہو رہا تھا.اب دوسری طرف دیکھئے کہ ایک نیا شخص اسٹیج پر نمودار ہوا.پردہ کے پیچھے سے دست قدرت اس شخص کو آہستہ آہستہ دھکیل رہی تھی جس کے سر اس افتتاح کی سعادت کا سہرا بندھنا تھا.ہفتہ کا دن اور 2 اکتوبر کی تاریخ تھی.کہ امام کے پاس ایک خط غیر متوقع طور خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب سابق وزیر پنجاب اور پریزیڈنٹ پنجاب ليجسلیٹو کونسل (President Punjab Legislative Council) کا پہنچا.کہ ”میں آج کل چند روز کے لئے لنڈن میں آیا ہوں.اور میں چاہتا امام ہوں کہ مسجد کو دیکھوں.“ نے اس ہوٹل میں ٹیلیفون کیا.جہاں شیخ صاحب موصوف ٹھہرے ہوئے تھے مگر معلوم ہوا.کہ وہ کہیں باہر تشریف لے گئے ہیں.اس پر اس ہوٹل والے کو کہہ دیا گیا کہ جب شیخ صاحب واپس آویں.تو ان کو کہہ دینا که امام سے ٹیلفون پر بات کریں.جب شیخ صاحب ہوٹل میں آئے تو انہوں نے ڈیڑھ 112 بجے دن کے امام کو فون کیا.امام نے ان کو کہا کہ جس طرح ہو.فوراً بیت میں تشریف لائیے.شیخ صاحب فوراً بیت میں پہنچے.جہاں امام نے تمام روئیداد ان کو سنائی.جس پر خان بہادر صاحب نے حسب ذیل تار اپنی طرف سے شاہ حجاز کو دیا:- ”یہ سُن کر مجھے بہت تعجب ہوا ہے کہ بعض لوگوں نے آپ کے لڑکے کے بیت کو افتتاح کرنے سے بر خلاف
76 تار بھیجے ہیں.یہ مشورہ ان کا غلط ہے.اور احمدیوں کے دشمنوں کی طرف سے ہے.میں خود احمدی نہیں ہوں مگر اشاعت اسلام میں ان لوگوں کی کوشش کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.شہزادہ کا یہاں بھی اور ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی بہت بُرا اثر ہو گا.یہ مسجد تمام مسلمانوں کے لئے بغیر فرقہ بندی کی تمیز کے کھلی ہے.اور مغرب میں مشعلِ اسلام کے روشن کرنے کا باعث ہے.میں بہت ادب سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ شہزادہ کو تار برقی احکام بھیج دیں.کہ وہ اس تقریب کو ادا کریں.جس کا اس کثرت سے اعلان ہو چکا ہے.اور اس.عام نااُمیدی سے پبلک کو بچائیں.جو ان کی غیر حاضری سے پیدا ہو گی.“ (2-10-1926) اس دن تیسرے پہر خان بہادر خود ہائڈ پارک (Hyde Park) ہوٹل تشریف لے گئے.تاکہ وہ امیر کو اس بات پر آمادہ کریں.کہ وہ اپنی ذمہ داری پر ہی یہ افتتاح کر دیں لیکن ہوٹل کے ملازم نے یہ جواب دیا کہ امیر اور ان کی پارٹی باہر گئی ہوئی ہے.اس پر امام اور ان کے دوستوں نے مشورہ کر کے یہ فیصلہ کر لیا.کہ اگر شہزادہ فیصل شریک افتتاح نہ ہو سکے.تو پھر خان بہادر شیخ عبدالقادر ہی افتتاح کے لئے بہت موزوں شخص ہیں.ایک اور رات انہی تفکرات اور ترددات میں گزر گئی.اور آخر وہ دن آ گیا جس کے لئے سب تیاریاں اور اعلان کئے گئے تھے.وقت تو 3 بجے بعد دو پہر کا رکھا گیا تھا مگر بارہ (12) بجے دوپہر سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو
77 گئی تھی.مگر اس وقت بھی کسی کو معلوم نہ تھا کہ افتتاح کون کرے گا.اور صرف ایک گھنٹہ باقی رہ گیا.تو ایک پیغامبر یہ خط امیر کی طرف سے لایا.23 اکتوبر 1926 ء بخدمت عالی مولوی عبدالرحیم صاحب درد امام مسجد.(اکتوبر سہو کتابت ہے.ستمبر ہونا چاہئے.مرتب) بعد سلام و تکریم کے میں نہایت افسوس سے جناب کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ ہز ہائی نس شہزادہ فیصل اس مسجد کی افتتاح کی تقریب میں شامل نہیں ہوسکیں گے.جو آپ نے تعمیر کی ہے.شہزادہ والا تبار کو خود اس بات کا بہت رنج ہے.اور امیر اور میں دونوں دل سے آپ کی کامیابی اور اس عظیم الشان مسجد کے لئے ہر طرح کی برکات اور آبادی کی خواہش کرتے ہیں.اور ہم خدا سے دُعا کرتے ہیں.کہ آپ کی محنت کو کامیابی کا سہرا چڑھائے.میری طرف سے بہت بہت سلام اور نیاز قبول فرماویں.آپ کا خیر اندیش عبدالله الدملوجی جو پیغامبر یہ خط لایا تھا.وہ چونکہ شاہ حجاز کا دوست اور نہایت معزز انسان تھا اس سے پھر بھی یہ دیکھا نہ گیا کہ ایسا زرین موقع اور شہرت کا وقت سلطان کے ہاتھ سے یوں نکل جائے.اس لئے اس نے پھر ایک دفعہ آخری کوشش کرنے کی اپنے دل میں ٹھان لی.وہ خان بہادر اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو ایک موٹر میں بٹھا کر پھر ہائڈ پارک ہوٹل میں پہنچا.تاکہ کسی طرح امیر اور اس کے فارن منسٹر ڈبلو جی اپنی ذمہ داری پر اس افتتاح کی
78 تقریب میں شمولیت اختیار کریں.مگر افسوس....کہ سب سمجھانا اور دلائل بیکار گئے.امیر کی قسمت میں یہ نہ تھا کہ وہ نصرت ( دینِ حق ) کی اس عظیم الشان سعادت کو حاصل کرتا وہ لوگ حجاز کے بادشاہ کے خوف سے کچھ نہ کر سکے.اور شاید یہ بھی ان کو خیال ہو کہ ہماری ہر دلعزیزی میں ایسی جماعت کے ساتھ ملنے سے فرق آ جائے گا.جس کے افراد کو مذہبی متعصبوں نے شارع عام پر سنگسار کیا ہے.بہر حال یا تو وہ کمزور دل تھے یا ان کو غلط فہمی ہوئی.یا دی گئی.مگر زمانہ جلدی ہی ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے اس سنہری موقع کو ہاتھ سے دینے میں کیسی غلطی کھائی ہے.انہوں نے ایک کام کا وعدہ کیا.اور پھر اس وعدہ کو خود توڑا.اور اس افسوسناک طریق سے توڑا.کہ دُنیا ان کی زیادتی کی گواہ اور آئندہ نسلیں ان کے لئے دست تاسف ملیں گی.گھنٹے نے تین بجائے.وقت افتتاح کا آ گیا.اور پھر امام اور سب حاضرین اس بات سے بے خبر تھے کہ اس عظیم الشان تاریخی واقعہ کے ساتھ کس خوش قسمت کا نام وابستہ ہونے والا ہے.کیا ایک شہزادہ افتتاح کرے گا.یا ہندوستان کا ایک نمائندہ؟ کیا وہ ہندوستان جو قدیم زمانہ میں تمدن اور تہذیب کا منبع تھا.اور اس آخری زمانہ میں نبوت کے نور کا مرکز اس موقع پر پیچھے دھکیلا جا سکتا تھا.نہیں اور ہر گز نہیں.آخری قرعہ ہندوستان کے اس نمائندہ کے نام پر ہی پڑا.جسے خدا کا دست قدرت جنیوا سے لنڈن کی اسٹیج پر اس کام کے لئے لایا تھا.ہزار ہا آدمی جمع تھے.صحن، باغ اور سڑکوں پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی.ہر مذہب اور ہر ملک کے لوگ اس مجمع میں شامل تھے.جو صرف اس لئے آئے تھے کہ مشرق اور مغرب کے سب سے بڑے متحد ڈرامہ کو دیکھیں.دروازہ پر سب کی ٹکٹکی لگی تھی کہ کون قفل کھولنے کے لئے نمودار ہوتا ہے.امام کو صرف چند منٹ پہلے شہزادہ کے قطعی اور آخری انکار کا علم ہوا.اور انہوں نے فوراً ایک
ELCOME wwwww افتتاح کے دن ایک اور منظر
شہزادہ کا استقبال
79 نوٹس اس امر کا دروازہ کے باہر لکھ کر لگا دیا.لوگ ابھی اس اعلان کو پڑھ ہی رہے تھے کہ اتنے میں موٹر آئی.اور وہی خان بہادر جو گھنٹہ بھر پہلے شہزادہ کو ہمراہ لانے کے لئے لے گئے تھے.اب افتتاح کنندہ کی حیثیت سے احاطہ میں داخل ہوئے.امام اور اس کے دوستوں نے خاص دروازہ پر اُن کا خیر مقدم کیا.اور رسم افتتاح با قاعدہ شروع ہوگئی.افتتاح: لِلہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر میخواست آخر آمد ز پس پرده تقدیر پدید 3 /اکتوبر 1926ء اتوار کے دن 3 بجے بعد دو پہر ( بیت) کا افتتاح ہوا.( بیت) چند ماہ قبل تیار تھی.اس موقع پر باغیچہ اور احاطہ کی درستی اور آراستگی کرائی گئی.سڑک کی طرف جھنڈیاں آویزاں کی گئیں.ایک خاص دروازہ بنایا گیا.اور اس پر خوش آمدید لکھا گیا.(بیت) کے کنارے ہر طرف پھول لگائے گئے.مہمانوں کے ناشتہ وغیرہ کے لئے باغیچہ میں خیمے نصب کئے گئے.پروگرام جو پہلے سے چھاپ کر شائع کر دیا گیا تھا.وہ یہ ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم ( بیت ) لنڈن کی تقریب افتتاح کا پروگرام ( جو 3 اکتوبر 1926ء اتوار کے روز عمل میں آئے گا.) 3 بجے بعد دو پیر.....دروازه پر شہزادہ والا تبارا میر فیصل کا استقبال............3:15 امام کا تلاوت قرآن کرنا اور کنجی کا چند دعائیہ الفاظ کے ساتھ پیش کرنا
80 3:20........امام کا اس پیغام کو پڑھنا جو احمد یہ جماعت کے پیشوا نے ہندوستان سے خاص اس موقع کے لئے بذریعہ تار 3:35 برقی ارسال فرمایا ہے.باغ میں امام کی طرف سے ایڈریس، مبارکباد کی تاروں اور خطوط کا پڑھا جانا جو دنیا کے مختلف حصوں سے وصول ہوئی ہیں.3:50 4:00 4:10 4:20 4:35 5:00...شہزاہ امیر فصیل کا جواب آذان عصر، ملک غلام فرید صاحب عصر کی نماز جو امام پڑھائے گا.بیت کے دروازے پر امیر سے ملاقات ریفریشمنٹ امام کی طرف سے شکریہ اور دُعا کے بعد جلسہ برخاست ہوگا.راقم : عبدالرحیم درد امام بیت لنڈن اس پروگرام پر پورا عمل کیا گیا.سوائے اس کے کہ امیر فیصل کی جگہ خان بہادر شیخ عبدالقادر نے لے لی.چونکہ اخبارات میں اعلان ہو چکے تھے.اور فرداً فرداً بھی کئی سو خطوط شمولیت کے لئے بھیجے گئے تھے.اس لئے دو پہر سے ہی چہل پہل شروع ہو گئی.اور بارہ بجنے نہ پائے تھے کہ معزز مہمان آنے لگے.اور آخر جب پائیں باغ بھر گیا.تو پولیس نے مجبوراً لوگوں کو اندر آنے سے روک دیا.مگر لوگوں کا سیلاب تھا.کہ چلا آتا تھا.اندر جگہ نہ ملی.تو باہر سڑکیں رُک گئیں.یہاں تک سینما (Cinema) کے فلم میں تو معلوم ہوا ہے
81 کہ سڑکیں نہیں ہیں.بلکہ آدمیوں کے چہروں کا ایک سمند ر ہے.جو لہریں مار رہا ہے.احاطہ کے اندر کا اندازہ ایک ہزار کے قریب کا ہے.اور باہر خدا جانے کتنی مخلوق تھی.لوگوں کو راستہ گزرنا مشکل تھا.پاس کی دیواروں اور درختوں پر چڑھے بیٹھے.پولیس تک کو دقت تھی.ہر ایک دروازہ پر اور اندر باغ میں کانسٹیبل پھر رہے تھے.ایک سامنے کا پھاٹک تو ہجوم کے باعث ٹوٹ ہی گیا دس آدمی ایک ہوٹل سے منگائے گئے تھے.جو انتظام میں مدد کریں.اور پھر اپنے آدمی تھے مگر سب بے بس ہو گئے تھے اور بیت سے خیمہ تک آنے کے لئے راستہ نہ ملتا تھا.جس حصہ باغ میں خیمہ لگایا گیا تھا.وہ 100 فٹ لمبا اور 50 فٹ چوڑا ہے.ایک خیمہ اور ایک شامیانہ لگایا گیا تھا.250 سے زیادہ کرسیاں تھیں.مگر اس سے بہت زیادہ آدمی ارد گرد کھڑے تھے.چائے باوجود وسیع انتظام کے سب لوگوں کو نہیں پلائی جاسکی.اور ان کو بغیر چائے کے واپس جانا پڑا.آنے والوں میں لارڈ، لیڈیاں، مہاراجے ( ,Lords, Ladies Earls) ، ممبران پارلیمنٹ (Members of Parliament)، اخباروں کے نمائندے، غیر سلطنتوں کے سفیر، معزز اراکین سلطنت، مسلم، غیر مسلم، ہر قسم، طبقہ - رنگ اور قومیت کے لوگ تھے.ایک دروازہ باغ کا خاص افتتاح کننده کے لئے بنایا گیا تھا وہاں سے خان بہادر اندر داخل ہوئے.ان کے داخل ہونے سے تھوڑی ہی دیر پہلے ایک نوٹس باہر لگا دیا گیا تھا.جس کی عبارت یہ تھی.اپنی خواہش کے برخلاف امیر فیصل کو اس تقریب میں شامل ہونے سے روک دیا گیا ہے.اُن کی غیر حاضری میں خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب بی اے بیرسٹر ایٹ لاء سابق وزیر گورنمنٹ پنجاب اور حال ممبر
82 ڈپلیکیشن لیگ آف نیشنز ( Indian Delegation Leage of Nations) رسم افتتاح ادا انڈین کریں گے.“ دستخط اے آر درد - امام امام نے باقاعدہ طور پر خان بہادر کا خیر مقدم کیا.اور ان کو ہمراہ لے کر بیت کے دروازہ کی سیڑھی پر کھڑے ہو گئے امام دروازہ کے جنوبی جانب تھے.اور خان بہادر شمالی جانب.باقی تمام حاضرین اس وقت بیت کے دروازہ کی طرف جمع ہو گئے.سامنے فوارہ چل رہا تھا.اور اس کے پانی کے گرنے کی آواز سے تمام سناٹا طاری ہو گیا.جب امام نے بلند آواز سے قرآن مجید میں سے یہ رکوع تلاوت کیا.مَا كَان لِلْمُشْرِكِيْنَ اَنْ يَّعْمُرُوا مَسْجِدَ اللَّهِ شَهِدِينَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ بِالْكُفْرِ أُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَا لُهُمْ صَى وَفِي النَّارِ هُمْ خَلِدُونَ ، إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَآتَى الزَّكُوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ فَعَسَى أُولَئِكَ اَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ.أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجَ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ - لَا يَسْتَوْنَ عِنْدَ اللهِ ، وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِيْنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُ وَافِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ لا ط ط أَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللَّهِ ، وَ أُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ، يُبَشِّرُ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِنْهُ وَرِضْوَانِ وَجَنَّتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٍ لا خلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ط اِنَّ اللَّهَ عِنْدَةً أَجْرٌ عَظِيمٌ يَأَيُّهَا الَّذِينَ
83 آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا ابَاءَ كُمْ وَاِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيْمَانِ ، وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ.قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَاخْوَانُكُمْ وَاَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَتُكُمْ وَاَمْوَالُ هِ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (التوبه : 17 تا 24) ترجمہ: مشرکوں کا یہ کام نہیں.کہ خدا کی مسجدیں بنائیں یا آباد کریں.حالانکہ وہ اپنے آپ پر کفر کی گواہی دیتے ہیں.ان لوگوں کے اعمال ضائع ہو گئے.اور وہ آگ میں رہیں گے.البتہ اللہ کی مسجدوں کو صرف وہی لوگ بناتے اور آباد کرتے ہیں جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں.اور نماز کو قائم کرتے ہیں.اور زکوۃ دیتے ہیں.اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے.پس قریب ہے کہ یہی لوگ سیدھے راستہ پر چلنے والے ہوں.کیا تم نے حاجیوں کا پانی پلانا اور مسجد حرام کی خدمت کرنا اس کے برابر سمجھا ہے.جو اللہ پر ایمان لائے.اور خدا کے راستہ میں جہاد کرے.یہ لوگ اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہوتے.اور اللہ ظلم کرنے والی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.وہ لوگ جو ایمان لائے اور ہجرت کی.اور اللہ کے راستہ میں اپنے جان و مال سے جہاد کیا.وہ اللہ کے نزدیک بڑے درجے والے ہیں.اور یہی لوگ مراد یں پانے والے ہیں.ان کا رب ان کو اپنی رحمت اور رضا مندی کی خوشخبری دیتا ہے.اور ان کے لئے جنتیں ہیں.جن میں لازوال نعمتیں ہیں.وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے.یقیناً اللہ کے پاس بڑے انعام ہیں.اے ایمان والو! اپنے بزرگوں اور اپنے بھائیوں کو دوست نہ بناؤ.اگر وہ ایمان کے مقابلہ میں کفر کو
84 زیادہ پسند کریں.اور تم میں سے جو لوگ انہیں دوست بنائیں گے.وہ ایک سخت بے جا فعل کے مرتکب ہوں گے.تو کہہ دے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیبیاں اور رشتہ دار اور وہ مال جو تم نے کمائے ہیں.اور تجارت جس کے نقصان سے تم ڈرتے ہو.اور گھر جن کو تم پسند کرتے ہو.اللہ اور اس کے رسول اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پیارے ہیں تو انتظار کرو.جب تک کہ اللہ اپنا فیصلہ فرما دے اور اللہ بدعہد لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.تلاوت قرآن کے وقت عجیب سماں تھا.ایک صاحب فرماتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیتیں آج ہی اس موقع کے مناسب حال نازل ہوئی ہیں.اس کے بعد امام نے بلند آواز سے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا وہ پیغام پڑھ کر سنایا.جو ہندوستان سے خاص اس موقع کے لئے بذریعہ برقی تار کے وہاں بھیجا گیا تھا.یہ انگریزی میں قریباً ایک ہزار الفاظ کا خط ہے.اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ فيصيث صحك دپ قلدت میں سب سے پہلے خدا تعالی کا شکریہ ادا کرتا ہوں.جس نے ہم کمزوروں اور ناتوانوں کو سینکڑوں سالوں کی گہری نیند کے بعد پھر جاگنے کی توفیق دی.اور پھر یہ ہمت دی کہ ہم اہل مغرب کے اس عظیم الشان احسان کے بدلہ میں جو ہماری غافل نیند کے عرصہ میں شمع علم کو بلند رکھ کر انہوں نے
85 ہم پر اور باقی بنی نوع انسان پر کیا تھا.اس مقدس گھر کو ان کے سب سے بڑے مرکز میں بنا کر ان کے احسان کے بارِ گراں سے سبکدوش ہونے کی سچی خواہش کا عملی ثبوت دیں پھر میں صدر جلسہ شیخ عبدالقادر صاحب کا خصوصاً اور باقی احباب کا عموماً اپنی طرف سے اور اپنی تمام جماعت کی طرف سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے دُور و نزدیک سے تشریف لا کر ہماری اس ناچیز سعی کی تکمیل کے موقع پر تعاون و ہمدردی کا ہاتھ بٹایا.اس کے بعد اس نادر موقع کو غنیمت جانتا ہوں.تمام حاضرین اور پھر پریس کے ذریعے سے تمام دنیا کے لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی پیدائش کی غرض کو سمجھیں.اور اپنی مجموعی کوشش سے اس مقصد کے حصول کی طرف توجہ کریں.جس کے لئے دنیا کی بہترین ہستیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں.میرے مخاطب خصوصیت کے ساتھ انگلستان کے لوگ اور پھر دوسرے اہل مغرب ہیں.جنہوں نے اپنے ملک کے روشن گوہروں کی یادگاروں سے اپنی سر زمین کو بھر دیا ہے.میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ خیر خواہانِ ملک جن کی یاد کو وہ تازہ رکھتے ہیں.ان خدا کے مقدس نبیوں کے مقابلہ میں جنہوں نے دنیا کی بہتری کے لئے اپنے دل اور اپنی روح کو اس طرح پگھلا دیا.جس طرح آگ میں سیسہ پھل جاتا ہے.کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.پھر کیا افسوس کی بات نہیں.کہ اس وقت لوگ ان بزرگوں کی یادگار قائم رکھنے کی کوشش نہیں کرتے.یہ لوگ توحید ، خدا کی محبت ، روحانی پاکیزگی، اخلاق کی درستی، غرباء کی سچی ہمدردی، بنی نوع انسان کے حقوق کی نگہداشت، اتحاد اور حقیقی مساوات کو دنیا میں قائم رکھنے کے لئے آئے تھے اور یہی وہ خوبیاں ہیں.جن کی طرف سے سخت غفلت برتی جا رہی ہے.اور یہی وہ بات ہے جس کی طرف بیوت ہمیں بلاتی ہیں.بیت کیا ہے؟ ایک اینٹوں یا پتھروں کی عمارت ہے جس میں
86 مقام اور دوسری عمارتوں میں کوئی فرق نہیں.اور یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جعلت لی الارض مسجداً.یعنی کسی خاص قام کی خصوصیت نہیں.سب دنیا ہی میرے لئے مسجد ہے.پس باوجود اس کے سب دنیا ہی مسجد ہے.ایک خاص مقام کو منتخب کرنا درحقیقت انسان کے سوئے ہوئے جذبات کو جگانے کے لئے ہے.یہ خاموش مگر باوقار گنبد انسانی زبان سے زیادہ فصاحت کے ساتھ ان بار یک رشتوں کو جو انسان خواہ کیسی ہی ادنی درجہ کی بے دینی کی حالت کو پہنچ گیا ہو.اس کے اندر زندہ رہتے ہیں.ہلا دیتا ہے.اور اپنے پیدا کرنے والے کی محبت کا راگ پیدا کر دیتا ہے.یہ عمارت زبان حال سے ان تمام پاکیزہ تعلیموں کو جو خدا تعالیٰ کے نبی دنیا میں لائے تھے بیان کرتی ہے یہ ان حقیقتوں کی جو نبیوں اور ان کے سچے پیرووں سے زندہ ہوتی چلی آئی ہیں ایک مادی یادگار ہے.یہ خدائے واحد کی پرستش کی طرف بلاتی ہے.اُس خدا کی طرف جس نے ہمیں اور ہمارے باپ، دادوں کو پیدا کیا.جو ہماری اور ہمارے باپ دادوں کی پرورش کر رہا ہے.اور جس کی طرف ہم اور ہمارے باپ دادے لوٹ کر جائیں گے وہ اکیلا خدا ہے.آسمان میں بھی اور زمین میں بھی، اوپر بلندیوں میں بھی اور نیچے پاتال میں بھی اس کی بادشاہت ہے.سب محبت کرنے والوں سے زیادہ محبت کرنے والا.سب محسنوں سے زیادہ محسن، جس کا رحم تو رحم ہے ہی.لیکن جس کی سزا بھی محبت سے پُر اور شفقت سے لبریز ہوتی ہے.ہماری روح اس کے فضلوں کو دیکھ کر اس کے آستانہ پر گرتی ہے.اور کہتی ہے کے اے قدوس! تیری بڑائی ہو.تیرا نام انسانوں کے دلوں میں بھی اسی طرح بلند ہو.جس طرح تیری وسیع قدرت کے مناظر میں بلند ہے.پھر بیت خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے وقف ہونے کے سبب سے
87 رُوحانی اور اخلاقی ترقیات کی طرف بلاتی ہے.جماعت اتحاد کی طرف.صفیں مساوات کی تعلیم کی طرف.امام نظام کے فوائد کی طرف.اور نماز کے آخر میں دائیں بائیں سلام پھیرنا.دائیں بائیں سلامتی کی تعلیم پھیلانے کی طرف توجہ دلاتا ہے.غرض بیت ان اعلیٰ تعلیمات کا ایک ظاہری نشان ہے.جو انبیاء دنیا میں لائے.ورنہ جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا ہوں.مسلمانوں کو ان کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی تعلیم دی ہے کہ وہ سب دنیا کو ہی مسجد سمجھیں.یعنی ان اعلیٰ تعلیمات کو جو انبیاء کی طرف سے انہیں ملی ہیں.ایک خاص مکان کی چار دیواری میں ہی محدود نہ رکھیں.بلکہ اپنے تمام معاملات میں ان کو ظاہر کریں.اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کو مدنظر رکھیں.اور خدائے واحد کی محبت ان کے دلوں میں ہو.اُس کے نام کی عظمت کے قائم کرنے کی فکر انہیں لگی رہے اخلاقی درستی، حریت ضمیر، اتحاد، غریبوں کی خبر گیری، مساوات کے جذبات کو وہ اپنے دل میں پیدا کریں.اور لوگوں کو بھی اس طرف بلائیں.انہی امور کے قیام کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود حضرت مرزا غلام حمد علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا اور آپ کے اس مشن کو پورا کرنے کیلئے ہی احمدی جماعت کی طرف سے مغرب میں داعی الی اللہ ) بھیجے گئے ہیں.اور اس مشن کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ہی بیت بنائی گئی ہے.اس خدا کے گھر کی بنیاد اکتوبر 1924ء میں میں نے صرف ان مذکورہ بالا اعلی تعلیمات کو رائج کرنے کے لئے رکھی تھی.جو نیبوں کے سردار حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فداہ نفسی و روحی دنیا میں لائے تھے.ہمیں مسیحیت سے کوئی دشمنی نہیں.ہم حضرت مسیح کو خدا تعالیٰ کا راست باز نبی اور ایک اولوالعزم نبی مانتے ہیں.لیکن ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ آپ ہی کی
88 پیشگوئیوں کے مطابق عرب میں بانی اسلام اس آخری ہدایت نامہ کو لے کر مبعوث ہوئے.جو اب دنیا کے خاتمہ تک کے لئے ہدایت نامہ ہے.حتی کہ اس زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جو خود حضرت مسیح کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوئے ہیں.اسی ہدایت نامہ کی حقیقت کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.ہم لوگوں کا مقصد اس مرکز توحید میں بیٹھ کر محبت اور اخلاص کے ساتھ واحد خدا کی پرستش رائج کرنا اور اس کی محبت کو قائم کرنا ہو گا.ہم مذاہب سے منافرت اور تباغض کو دُور کر کے تحقیق کی سچی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.اور اخلاق کی درستی اور ظلم کے مٹانے کی سعی کریں گے.آقا اور نوکر، گورے اور کالے، مشرقی اور مغربی کے درمیان تعلقات اخلاص اور حقیقی مساوات جس میں جائز فوقتوں کا تسلیم کرنا شامل ہو گا.ہمارا مقصد ہو گا اور ہم اس موقع پر مسیحی دُنیا سے بھی التجاء کرتے ہیں.کہ وہ ( دین حق ) کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھے.بلکہ اس کے عیب نکالنے کی بجائے اس کی خوبیوں کی جستجو کرے.کیونکہ سچائی دوسرے کے عیوب نکالنے سے ظاہر نہیں ہوتی.بلکہ اپنی فوقیت ثابت کرنے سے ظاہر ہوتی ہے.اے بھائی! دنیا شرک، بے دینی، خدا سے بے توجہی، ملکی تباغض، قومی تنافر اور جماعتی کش مکشوں کی جولان گاہ ہو رہی ہے پس ہر ایک جو خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے.اس کا فرض ہے.کہ وہ اپنی غفلت سے بیدار ہو.اور خدا کے نام پر بنائے ہوئے گھروں کو بے دینی اور شقاق کا مرکز بنانے کی بجائے تو حید اور اتحاد کا مرکز بنائے.آؤ ! ہم سب مل کر تو حید کو جن پر سب کا اتفاق ہے.قائم کریں.ہم لوگوں کے اندر یہ رُوح پیدا کریں کہ وہ تعصب سے آزاد ہو کر جو سب سے بڑا بت ہے.خدائے واحد کی دیانت داری سے
89 جستجو کریں.اور خواہ وہ کسی مذہب میں ہو.اُسے قبول کر لیں.ہم اس خدا کی طرف نہ جھکیں.جو ہمارے دماغوں نے پیدا کیا ہے.کیونکہ خواہ ہم اس کا نام کچھ رکھیں.وہ ایک بُث ہے.بلکہ اس خدا کی طرف جھکیں.کہ جو سب دنیا کا خالق ہے جس کے جلوے دنیا کے ہر ذرے میں نظر آتے ہیں.جو اپنی زندہ طاقتیں ہمیشہ اپنے مقدسوں کے ذریعہ سے ظاہر کرتا رہتا ہے.اور پھر اس مشرق و مغرب کے خدا پر ایمان لاتے ہوئے یہ کوششیں کریں.کہ دُنیا میں امن و امان قائم ہو.اور ایک ملک کے اندرونی نظام میں بھی.اور مختلف ممالک کے درمیان بھی.ہماری بڑائی اس میں نہ ہو.کہ ہم اپنے مال اور طاقت کے ذریعہ سے لوگوں کو زیر کریں نہ اس میں کہ ہم اپنے جتھے کے ذریعہ سے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کریں.بلکہ ہماری بڑائی کمزور پر رحم کرنے اور حقدار کو اس کا حق دینے میں ہی ہو.اے خدا ! تیرا جلال دنیا میں ظاہر ہو.اور یہ (بیت) تیرے نام کو بلند کرنے اور تیرے بندوں کے دلوں میں محبت و اخلاص پیدا کرنے کا ایک بڑا مرکز ہو.آمین.و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ اس خطبہ کے ختم ہونے کے بعد امام نے بیت کی کنجی خان بہادر کی خدمت میں یہ الفاظ کہتے ہوئے پیش کی.میں اپنی قلبی دعاؤں اور تمام دنیا کے لئے محبت اور ہمدردی کے جذبات سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ یہ
90 کنجی اس لئے پیش کرتا ہوں کہ آپ اس (بیت) کا افتتاح فرما دیں.“ خان بہادر نے چاندی کی کنجی کو امام سے لیا.اور اس قفل میں داخل کر کے جب پھرایا تو با آواز بلند یہ الفاظ کہے.کرتا ہوں.“ ”خدائے رحیم و رحمن کے نام پر میں اُس کی اس عبادت گاہ کا افتتاح دروازہ کھل گیا.اور اندر کی عمارت کی صفائی اور چمک اور نیلے فرش کی زینت نے لوگوں کی نظروں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچا.مگر اندر کوئی داخل نہ ہوا.کیونکہ ابھی لیکچر (Lecture) اور سیچیں (Speeches) باقی تھیں.جو خیموں میں ہوئی تھیں.لوگوں میں اعلان کر دیا گیا کہ باقی کارروائی خیموں میں ہو گی.مگر آدمیوں کی وہ کثرت تھی.کہ بیٹھنے کو جگہ نہ ملتی تھی.امام نے خیمے کی طرف آ کر پہلے تو ایک مختصر تقریر اس امر کے متعلق کی کہ کس طرح سلطان ابن سعود نے امیر فیصل کو ہماری دعوت پر بیت کی افتتاحی تقریب میں شامل ہونے کے لئے بھیجا اور کس طرح بعض غیر معلوم وجوہات کی بناء پر وہ اس تقریب میں شامل نہ ہوئے جس کے لئے انہوں نے ہزاروں میل کا سفر کیا تھا.اس مختصر تمہید کے بعد امام نے اپنا ایڈریس (Address) پڑھا جو وہی ہے.جو سنگِ بنیاد کے رکھے جانے کے موقع پر حضرت خلفیہ اسیح کی طرف سے پڑھا گیا تھا.اور جو اوپر درج ہو چکا ہے.ایڈریس کے ختم ہونے پر امام نے مبارکباد کے وہ تار پڑھے.جوان کی اس تقریب پر ہندوستان کے تمام حصص اور ماریشس، امریکہ، سماٹرا وغیرہ ممالک سے بھیجے گئے تھے.ان کے علاوہ بہت سے خطوط بھی تھے.جن میں ہیر فاسٹر (Her Foster) ممبر پارلیمنٹ اور لارڈ لے (Lord Lee) کے
91 پیغام خاص طور پر قابل ذکر ہیں.امام کی تقریر ختم ہوئی.تو شیخ عبدالقادر صاحب نے اپنا ایڈریس انگریزی میں پڑھا جس کا ترجمہ حسب ذیل ہے.ایڈریس جناب شیخ عبدالقادر صاحب: میں باوثوق کہہ سکتا ہوں کہ ہم سب کو شہزادہ امیر فیصل کی عدم شمولیت کی وجہ سے کچھ مایوسی ہوئی ہے.کیونکہ ان سے اس موقع پر اپنے قابل فخر والد امیر ابن سعود کے نمائندہ کی حیثیت سے رونق افروز ہونے کی امید کی جاتی تھی.اغلب ہے.کہ ان کی موجودگی سے آج کے کام کی تاریخی اہمیت میں اضافہ ہو جاتا.اور وہ لنڈن میں مسلمانوں کی سب سے پہلی عبادت گاہ کی رسم افتتاح کی انجام دہی کی یاد گار کو اپنے مقدس وطن میں اپنے ساتھ لے جاتے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان واقعات کے پلٹا کھانے میں اللہ تعالیٰ کے اپنے خاص ارادہ کا دخل تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نہایت پرانے صحابی اور چچازاد بھائی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک نہایت لطیف مقولہ ہے: - عــرفـت ربـی بفسخ العزائم (میں نے اپنے رب کو مصمم ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ) مجھے اس سے بڑھ کر کسی اور مشاہدہ کا علم نہیں.جو اس سے زیادہ واضح اور سچے طور پر کسی بالا ہستی کے وجود کی صداقت پر دلالت کرتا ہو..یہ ایک حقیقت ہے.جو اسلامی تاریخ کے مطالعہ کرنے والوں پر خوب ظاہر ہے کہ اسلام کی ابتدا کمزور طبقہ میں ہوئی.عرب کا پیغمبر اعظم جو دُنیا کے لئے زندہ کرنے والا پیغام لایا.ایک یتیم تھا.جس کے بہت دوست نہ تھے اور جس کو ایک عرصہ تک اپنے مُریدوں کی چھوٹی سی جماعت پر اپنی شوکت کا سارا دارو مدار رکھنا پڑا.پس وہ ہدایت جو ان کے ذریعہ پھیلائی گئی.اس کی طاقت کا
92 منبع دنیا کے بڑے اور طاقتور لوگ نہ تھے.بلکہ اس کو اپنی ہی باطنی روحانی طاقت کی وجہ سے قوت اور اقتدار حاصل ہوا.اسی طرح کون کہہ سکتا ہے کہ یہ چھوٹی سی مسجد جس کی رسم افتتاح آج ادا ہو رہی ہے.اپنے اس مبارک کام کی کامیابی کے لئے، بغیر ظاہری سامان شان و شوکت اور اقتدار کے، پوری طاقت حاصل کرنے میں ناکام ہو گئی.باوجود اس عزت کا پورا احساس ہونے کے جو مسجد کی منتظمہ کمیٹی نے مجھ کو رسم افتتاح کی ادائیگی کے لئے کہہ کر دی ہے.میں نے اس فرض کی سرانجام دہی کو جو میرے سپرد کیا گیا ہے بلا تامل اپنے اوپر نہیں لیا.اوّل تو میرے جیسا ایک عاجز انسان ایک شہزادے کا ادنی بدل ہوسکتا ہے.دوسرے میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں.جو رسوم کی ادائیگی کیا کرتے ہیں.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں.کہ اس قسم کے کاموں سے اشاعت خوب ہو جاتی ہے.اور اشاعت ایک ایسی چیز ہے.جس کو موجودہ زمانہ میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.اگر اس طرح رسم افتتاح ادا نہ کی جاتی.اور پھر میں نے بھی اس میں اس قدر دلچسپی نہ لی ہوتی.تو یقیناً لنڈن جیسے بڑے شہر میں یہ چھوٹی سی مسجد جو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے.باوجود اس خوبصورتی کے جو اس کی سادہ طرز تعمیر میں ہے.گوشئہ گمنامی میں رہتی.ایک لحاظ سے یہ امر میرے لئے خصوصیت سے موجب مسرت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے لنڈن کی ایک مسجد کی رسم افتتاح میں شامل ہونے کی توفیق دی ہے بیس (20) سال کا عرصہ ہوا.کہ جب میں لنڈن میں تعلیم حاصل کر رہا تھا.تو مجھے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ان مسلمانوں کے لئے جو لنڈن میں سکونت رکھتے یا بغرض سیاحت آتے ہیں.ایک مسجد ہونی چاہیے.نماز عیدین کے لئے جو کہ مسلمان کھلے طور پر پبلک باغوں (پارک) میں ادا کرتے تھے ایک موقع پر جب مجھے امامت کا شرف
حضرت خلیفہ مسیح کا برقی پیغام سنایا جارہا ہے
افتتاح کے وقت چابی پیش کی جارہی ہے
93 حاصل ہوا.تو میں نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ ممکن ہے کہ اس چھوٹی سی ابتداء ( جو اس وقت ہوئی) کا نتیجہ کسی وقت یہ ہو کہ ہم کو عبادت الہی کے لئے اپنی جگہ مل جائے.مجھے طبعا اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ میرا وہ خواب حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (جو کہ مسلمانوں کے فرقہ احمد یہ قادیان پنجاب کے واجب الاحترام اور ذی وجاہت امام ہیں) کی سعی بلیغ اور ان کے بے نظیر قربانی کرنے والے مُریدوں کی کوشش سے عملی صورت میں نمودار ہوئی ہے.مجھے خوب معلوم ہے کہ مسلمانوں کے اس نئے فرقہ کو دیکھ کر بعض پرانے اور بڑے فرقے خوش نہیں ہوتے.اور یہ ہوسکتا ہے کہ شہزادہ فیصل کی عدم شمولیت کا باعث بھی ان کے اسی قسم کے مخالفین کی کوششوں کا نتیجہ ہو.میں جرات سے اس خیال کا اظہار کرتا ہوں کہ ہمیں اس کام کو فرقہ بندی کے کسی تنگ پیمانہ سے نہیں ناپنا چاہئے.بلکہ اس پر کمال فراخ حوصلگی اور وسعت قلبی سے نظر ڈالنی چاہیے.میں جب مغربی لوگوں کی پاک فطرت کے سامنے اسلام کے احکام کو رکھنے اور اس کی خوبیوں کے اظہار کی اشد ترین ضرورت کا اندازہ لگاتا ہوں تو مجھے مختلف فرقوں کے اختلاف ایسے معلوم ہوتے ہیں.جو آسانی سے نظر انداز کئے جا سکتے ہیں کسی مذہب کے متعلق اس قدر غلط فہمیاں نہیں پھیلائی گئیں.اور اس کو اتنا بدنام نہیں کیا گیا.جتنا اسلام کو کیا گیا ہے.اور صرف چند سالوں سے ہی مغرب کے اہل علم طبقہ کو اس بات کا علم ہوا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ صرف دُنیا کے عظیم الشان نبیوں میں سے ایک نبی تھا.بلکہ وہ اخلاق اور تمدن کے اعلیٰ اور مفید اصولوں کا معلم بھی تھا.قطع نظر اس بات کے کہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے.ہر مسلمان جو اپنے دل میں دین کی خدمت کرنے کی اُمنگ رکھتا ہے.اور اس کے پاس اس کے لئے ضروری سامان اور علم بھی ہے.اس کا یہ فرض ہے کہ وہ مغربی لوگوں پر اسلام کی.
94 اصل حقیقت کو آشکار کرے.جب میں انگلستان میں ایک متعلم کی حیثیت سے چند سال رہا.تو زندگی کا وہ شعبہ جو مجھے سب سے زیادہ اپیل کرتا تھا.یہ تھا کہ ہم سب ہندوستانی ہیں.اور نہ ہندو مسلمان یا عیسائی.اور اسی طرح مسلمان جو یہاں پر رہتے ہیں.سب مسلمان ہیں.اور نہ شیعہ سنی یا احمدی.گو میں احمدی نہیں ہوں.مگر میں اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک مسجد کا جو احمدیوں نے بنائی ہے.افتتاح کرنے کے لئے یہاں کھڑا ہوا ہوں.مجھے بھی بعض دفعہ احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے مگر میں نے ان کی اور دیگر مسلمانوں کی نمازیں بلحاظ ارکان اور کیا بلحاظ الفاظ کوئی فرق نہیں دیکھا.ان کا بھی وہی قرآن ہے.جو ان کے دیگر ہم مذہبوں کا ہے.وہ نبی کریم کے ایسے ہی مطیع اور فرمانبردار ہیں.جیسے کوئی شیعہ یاسنی ہے.اور وہ اسلام کے سب احکام کو مانتے اور عمل کرتے ہیں.گو بعض احکام کی تشریح میں وہ پرانے فرقوں سے اختلاف رکھتے ہیں.مگر مغربی لوگوں کے پاس ان تفصیلات میں پڑنے کی بالفعل فرصت نہیں اور ان کو چاہئے کہ وہ ابتداء میں اس ملک میں ان تفصیلات میں نہ پڑیں.اور اپنی زیادہ توجہ اسلام کے ارکان اور اس کے بنیادی اُصولوں کی طرف رکھیں.جن سے اسلام کی تعلیم کی خوبیاں اور اس کی شوکت ان پر ظاہر ہو.دُنیا کا کوئی مذہب نہیں.جو مختلف فرقوں میں منقسم نہ ہو.اور اسلام اس قاعدہ سے مستثنیٰ نہیں ہے.مسلمانوں کے اپنے حساب سے ان کے 270 فرقے ہیں.مگر یہ اندازہ بہت پرانے وقت کا ہے.حافظ (شیرازی) جو آج سے چھ صدیاں قبل زندہ تھا.ہمیشہ اپنے شعروں میں اس تقسیم کی طرف اشارہ کیا کرتا تھا.جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر آج اسلام کے مختلف فرقوں کا شمار کیا جائے.وہ تو اس تعداد سے کہیں زیادہ ہوں گے.مگر یہ اختلاف اسلام کے کسی فدائی کی پست حوصلگی یا اس کے مخالفین کی حوصلہ
95 افزائی کا موجب نہیں ہونا چاہیے.اسلام کے مضبوط اور غیر متزلزل اُصولوں کا یہ ثبوت ہے کہ اس نے زمانہ کے اثرات اور اس کی تباہ کن کوششوں کا خوب دلیری سے مقابلہ کیا ہے.اور اب بھی اس کی مضبوط بنیادوں کی یہ حالت ہے.کہ وہ اسلام کی وسیع عمارت کو صدمہ پہنچائے بغیر کئی زہریلے اثرات کا مقابلہ کر سکتی ہیں مجھے یقین ہے کہ جزائز برطانیہ کے رہنے والے مسلمان اور خصوصاً جو لنڈن کے رہنے والے ہیں.وہ فرقہ بندی کے اختلافات سے اپنے آپ کو بالا قرار دیتے ہوئے اپنے ہم مذہبوں کے ایک گروہ کثیر کے لئے قابل تقلید نمونہ پیش کریں گے.مجھے امید ہے کہ وہ اس مسجد کے وجود سے جو اسلام کے اصولوں پر روشنی ڈالنے کے لئے عیسائیت کے مرکز میں بنائی گئی ہے.پورا فائدہ اٹھائیں گے.بہت سے طالبان حق اس نور سے حصہ پانے کے لئے تیار ہیں جس کو ہمارے پیغمبر اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) دنیا میں لے کر آئے تھے.اور جن کا اسم مبارک تمام دنیا ئے اسلام میں بڑی محبت اور احترام سے لیا جاتا ہے.اور روئے زمین کی تمام مسجدوں کے بلند میناروں پر سے دن میں پانچ دفعہ پکارا جاتا ہے.اور وہ دن قریب ہے.جبکہ یہ چھوٹی سی مسجد ایک بہت بڑی درس گاہ بن جاوے گی.یا شاید اس کے علاوہ ایک اور بڑی اور زیادہ شاندار مسجد لنڈن کے کسی مرکزی مقام پر بنا دی جائے.اس پایہ کی مسجد یا تو ہندوستان کے مسلمانوں کی ہمت سے بنائی جا سکتی ہے.یا مختلف اسلامی ممالک مل کر اس میں حصہ لے سکتے ہیں.یا ممکن ہے کہ حکومت برطانیہ کو ایک دن حکومت فرانس کے نمونہ پر چلنے کے فوائد کا احساس ہو جائے.اور وہ بھی دارالخلافہ کی شان کے شایان ایک مسجد لنڈن میں بناوے جس طرح حکومت فرانس نے ایک شاندار مسجد پیرس میں بنائی ہے.ایسی شاندار عمارت جب مل جائے گی.تو اس کا خوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا.مگر بالفعل اس کی حقیقت
96 ایک دلچسپ خواب سے زیادہ نہیں.مگر اسلام کی کامیابی کا دنیا کے اس روشن خیال اور بیدار حصہ میں (جہاں ہر بات کو نہایت غور و خوض اور چھان بین کے بعد مانا جاتا ہے ) انحصار اس بات پر نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے پاس کس پائیہ کی اور کتنی مسجدیں ہیں.بلکہ اس بات پر ہے کہ ہم کیا کرتے ہیں اور ہمارا دستورالعمل کیا ہے.اب یہ بات اس ملک کے طالب علموں، پیشہ وروں، تاجروں اور مبلغوں کے اختیار میں ہے.جو اسلام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں.کہ وہ اسلام کے ہونہار فرزند ہونے کا ثبوت دیں.یا اس کو بدنام کرنے والے ہوں.ان لوگوں کی اخلاقی اور روحانی حالت کا اندازہ ان کی روزمرہ کی زندگی کے حالات، ان کے ایفائے عہد، فرائض ادا ئیگی اور بنی نوع انسان سے دوستانہ سلوک سے لگایا جائے گا اور اسی سے ان کی مذہبی تعلیم کا اندازہ ہو سکے گا.یہاں پر ایک مسجد بنا کر اس طرح مسلمانوں کی سوسائٹی Society کا ایک مرکزی نقطہ قائم کر کے ہمیں اپنے ایمانوں کی آزمائش کا موقعہ ملا ہے.اب ہمارے نفس پر اسلام اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرض ہے کہ ہم اس آزمائش میں پورے اُتریں.اب ہم سب مل کر دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جو خالق ارض و سما ہے.ہم میں سے ہر ایک کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے.یعنی راہ ان لوگوں کی جن پر اس نے انعام کیا.اور نہ مغضوب علیہ کی.آمین پیشتر اس کے کہ میں تقریر کو ختم کر دوں.میں چاہتا ہوں کہ ان تمام مسلمانوں کی طرف سے جو یہاں جمع ہوئے ہیں.ان لوگوں کا شکریہ ادا کر دوں.جو دیگر مذاہب سے یہاں تشریف لائے ہیں.ان لوگوں نے بلاشبہ اپنی شمولیت سے ہماری حوصلہ افزائی کی ہے.اور اس مبارک موقعہ پر تشریف لا کر ہمدردی اور اتحاد کی ان کڑیوں کو مضبوط کرنے میں ہماری امداد کی ہے جن کی طفیل کئی قومیں اور لاکھوں نفوس حکومت برطانیہ کے سایہ عاطفت کے نیچے
97 مزے سے زندگی بسر کرتے ہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا.کہ مختلف اقوام کو آپس میں اتحاد اور یگانگت پیدا کرنے میں بہت سہولت ہو گی اور اس طرح بنی نوع انسان کے بھائی بھائی ہونے کا حقیقی اصل اپنی صحیح شکل میں ظاہر ہو کر عملی جامہ پہن لے گا.جس سے ہماری یہ زندگی موجودہ حالت سے زیادہ خوشگوار اور بہتر صورت میں بدل جائے گی.“ جب خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب اپنا ایڈریس پڑھ چکے.تو مہاراجہ صاحب بردوان نے جو اس وقت حاضرین میں موجود تھے.حسب ذیل تقریر فرمائی:- تقریر مہاراجہ صاحب بردوان : جس وقت مجھے دعوتی خط اس موقع پر شریک ہونے کے لئے ملا.تو میں نے محسوس کیا کہ اس موقعہ پر شریک ہونا صرف میرا فرض نہیں ہے.بلکہ یہ فرض ہے کہ میں خوشی کے ساتھ اس میں شرکت اختیار کروں.ہندوستان کے ہر اس باشندہ پر جو کہ اپنا مادری وطن چھوڑ کر مغرب میں آتا ہے.یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے.کہ وہ مغربی عجائبات کو دیکھ کر اپنے مذہب اور مذہبی جوش کو کھو دیتا ہے.مگر زمانہ یہ اشارہ کر رہا ہے کہ ان ہندوستانیوں کو کہ جنہوں نے مغربی ممالک کو عارضی طور پر اپنی جائے رہائش بنایا ہے.اپنی مذہبی ضروریات کا احساس ہونا چاہئے.اور جاننا چاہیے کہ ان کا مذہب ان کے لئے ضروری قرار دیتا ہے.کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں.اپنی ایک ایسی عبادت گاہ بنائیں جہاں وہ تمام جمع ہوسکیں.اس لئے میرا آج یہاں آنا اور افتتاحی رسم مسجد لنڈن میں معاون ہونا میرے لئے موجب خوشی ہے.اور میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امام مسجد اور دوسرے مسلمان
98 بھائیوں کا جو یہاں جمع ہیں.شکریہ ادا کرتا ہوں.کہ انہوں نے مجھے اس شرکت کا موقع دیا.اخبارات میں ہندو مسلمانوں کے اختلافات کے متعلق بہت کچھ لکھا جا رہا ہے.جو یا تو اس وجہ سے ہے کہ وہ جان بوجھ کر شرارت کرنا چاہتے ہیں.یا اس وجہ سے کہ برٹش دماغ کو پریشان کرنا ان کا مقصود ہے لیکن ان لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے.کہ جب بھی اختلاف ہوتا ہے تو وہ صرف مذہب کی وجہ سے ہوتا ہے نہ کہ کسی دنیاوی فائدہ اور شے کے لئے.باوجود ان سب باتوں کے پھر بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اعلیٰ طبقہ اپنے اپنے فرائض کو خوب پہچانتا ہے.اور جاننا چاہئے کہ جو واقعات اس وقت ہندوستان میں ہو رہے ہیں.وہ عارضی ہیں.کیونکہ سچے ہندوؤں اور سچے مسلمانوں کے دل صاف ہیں.(نعرہ ہائے مسرت و تالیاں ) جیسا کہ میرے دوست خان بہادر آف پنجاب نے فرمایا کہ باجود دوسرے اسلامی فرقہ کے ساتھ تعلق رکھنے کے میں نے یہاں آنا اور اس مسجد کی رسم افتتاح ادا کرنا جو کہ اس ملک میں احمد یہ سلسلہ کی انتہائی کامیابی کو ظاہر کر رہی ہے.اپنا فرض خیال کیا ویسے ہی اسی جوش اور اسی روح کے ساتھ میں بھی بحیثیت ایک غیر مسلم ہونے کے کھڑا ہوا ہوں کہ میں احمدیوں کو اس بہت بڑے کام کے لنڈن میں سر انجام دینے پر مبارکباد عرض کروں.اور اس وسعت قلب پر جو خان بہادر نے اس موقع پر مسجد کے افتتاح کرنے میں دکھائی.لب تشکر وا کروں.(نعرہ ہائے مسرت و تالیاں ) مہاراجہ صاحب کی تقریر کے بعد سر عباس علی بیگ نے مختصر تقریر کی.اور ایسے مبارک موقع پر اپنے حاضر ہونے کی خوشی کا اظہار کیا.ابھی ایک طرف سر عباس بیگ کی تقریر ہو رہی تھی.کہ یکا یک بیت کے ایک مینارہ پر سے اللہ
wwwww ww wwwwww S | ! ! ! بیت فضل کا نظارہ سڑک کی طرف سے
افتتاح کے بعد دس اکتوبر کو "نداء“ کا نظارہ
99 اکبر کی آواز آئی.اس موقعہ پر اس آذان کا فخر ملک غلام فرید صاحب کے حصّہ میں آیا.جو لنڈن کی سب سے پہلی بیت کے مینارہ سے سب سے پہلی مرتبہ فضاء میں گونجتی ہوئی سننے والوں کے دلوں کے اندر گھستی چلی گئی.حتی علی الصلوۃ کی ندا پر خدائے واحد کے پرستار پروانوں کی طرح بیت کی طرف دوڑے.ان نمازیوں کے سروں پر ترکی ٹوپیاں.عمامے ظر پوش اور انگریزی ٹوپیاں ( دین حق کی متحد کرنے والی قوت کا پتہ دے رہی تھیں.کئی انگریزوں نے بھی فوارہ پر وضو کیا.منہ، ناک، چہرہ، ہاتھ اور پیر پانی سے صاف کئے.اور پھر بوٹ اُتار کر صرف جرابوں والے پیروں کے ساتھ وہ بیت کے اندر عبادت کے لئے داخل ہوئے.مشرق نے لا انتہا دفعہ مغرب کی عظمت کے لئے اپنی ٹوپی اتاری ہو گی.مگر آج وہ پہلا دن تھا جب مغرب نے مشرق کی اقتدا میں خدائے واحد کی تعظیم کے لئے نہ صرف اپنی ٹوپیاں بلکہ بُوٹ بھی اتار دئے امام نے بیت کی طہارت اور صفائی کے خیال سے پہلے ہی وہاں انگریزی میں نوٹس لگا رکھا تھا.فاخلع نعلیک انک بالواد المقدس اور اس غرض کے لئے بیت کے دروازہ کے اندر دونوں طرف ٹوٹ رکھنے کی جگہ بنائی گئی ہے.سو (100) کے قریب نمازی ہوں گے.جنہوں نے بیت میں پہلی نماز پڑھی.اور وہ عصر کی نماز تھی.جو مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کی اقتدا میں پڑھی گئی.اور جس کی پہلی اقامت کہنے کا فخر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم کو حاصل ہوا.شیخ عبدالقادر صاحب اور سر عباس علی بیگ بھی شریک نماز ہوئے.سوا چار بج گئے.نماز ختم ہوئی.مسلمان باہر آئے.اور اپنے غیر مسلم دوستوں کے ساتھ مل کر خیموں میں امام کی مہمان نوازی اور اس کی
100 مبارکبادی میں حصہ لینے لگے.کئی لیڈیاں بھی اس تقریب میں شامل تھیں.اور امام جب اپنی تقریر میں بہنو اور بھائیو کہہ کر مجمع کو مخاطب کرتے.تو لوگ خوشی سے اُچھل اچھل پڑتے.حاضرین میں سے بعض معززین کے نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں:.(1) غیر ملکوں کے سفیر :.کونسل جنرل حکومت بولو یا کرنیل اینٹا نسکو ملٹری اٹاچی ڈیلیگیشن (Colonel Antansco Military Attachee) رومانیہ (Romania).چین (China) کی سفارت کا اعلیٰ افسر - کمانڈر واس لی ایڈس (Commander Wesley Adds).یونان کے سفارتخانے کا بحری اٹاچی ڈاکٹر انٹانیو (Dr.Antonio).حکومت سیلوے ڈلا کا کونسل جنرل کپتان نالگرن (Capt.Nolgarn) حکومت فن لینڈ کے کونسل جنرل کمانڈر پر جی زار شاہی اٹالین کونسل جنرل - وائس کونسل ملک ہالینڈ.لتھونیا کا کونسل.سویڈن کا وزیر ڈاکٹر مے نیو (Manu) جرمن سفارت خانہ کا سیکریٹری.کونسل جنرل لائے بیریا.(2) لارڈ : - رائٹ آنریبل وائی کونٹ مرسی.رائٹ آنریبل لارڈ مرسی (Mercy).رائٹ آنریل لارڈ رڈل.رائٹ آنریبل لارڈ آلیش فیلڈ پی سی (Lord Hon.Ishfield PC) ( جن کی تصویر بھی اس کتاب میں دی گئی ہے).رائٹ آنریبل لارڈسٹر میتھس پی (Lord Stramthis).(3) ممبران برٹش پارلیمنٹ: کرنیل سر ارتھر ہال بروک ( Col.Sir Arthur Hall Brook) کے بی-ای-وی- ڈی ممبر پارلیمنٹ.سر پری برٹین ( Sir Pree Burton) کے بی-ای-سی-ایم- جی ممبر پارلیمنٹ.سر پارک گاف (Sir Park Goff) کے سی ممبر پارلیمنٹ.سر ہنری جیکسن
101 (Sir Henry Jackson) ممبر پارلیمنٹ.مسٹر جے ڈی کیلز (.Mr.J D.Cales) کے ہی.رائٹ آنریبل جے.ایچ.ٹامن ہے.پی سابق وزیر.مسٹر اے.ای ٹونسز (A E Tonsis.مسٹر پی.جے.ہینسن (P.J.Henson).مسٹر اے-ای- جوزف (A.E.Joseph).(4) دیگر عمائد اور اعلیٰ آفیسر سرمائیکل اوڈوائر ( Sir Michael Odwire) سابق گورنر پنجاب.مسٹر ای اے سینٹ آبن ہالولی ( St Abbon Holly) کے سی.کونسل نائب امیرالبحر - وانہم سی.بی.جے.پی لیفٹیننٹ کرنل فورڈ سی- بیای لیفٹینٹ جنرل ہمنیسن.کرنل و کرس ڈنفی.کیپٹن پی کلو.ایلڈرمین اے ڈبلیو مے تھیاس جے-پی-میراف وینڈس ورتھ (جن کی تصویر شامل ہے اور جو لنڈن کے اس حصہ کے میئر ہیں جس میں بیت واقع ہے).مسٹر ولیم ہے وڈ (Wiliam Haywood) جے-پی.مسٹر لیونارڈ شیفرڈ (Leonard Shepherd) ہے.پی.مسٹر بی کلی نن (B Calenon) ایم-بی-ای-ڈی-سی-ایم.مسٹرسی-بی- گریس (Grace) سی.بی.ای.مسٹر ڈی اے نکلسن (Nicolson).ایم اے کونسلر آف وینڈس ورتھ کپتان گارڈن کنگ (Garden King).مسٹر این-سی-لین مسٹرایم ہمفر مانچسٹر.(5) بعض لیڈیوں کے نام یہ ہیں:.لیڈی اوڈوائر (Odwire).لیڈی راس Lady Ross میں اے ابراڈسٹ (Abradust) ایم اے پریزیڈنٹ این.پی.ایل.مس ایم.فرکو ہارس (M.Fricohurs) سیکریٹری این.پی.ایل.ان کے علاوہ بکثرت معزز عمائدین شامل ہوئے.چنانچہ مہاراجہ صاحب بردوان اور سر عباس علی بیگ کا نام آ چکا ہے.مسٹرسین (Senn)
102 سیکریٹری ہائی کمشنر آف انڈیا.لارڈ ٹری اون اور سر ہیری فاسٹر اور لارڈے.لارڈ ایسکوئتھ اور کئی دیگر نہایت معزز اصحاب نے مبارکبادی کے خطوط بھیجے.اور اپنے نہ حاضر ہو سکنے پر معذرت کی.(6) اخبارات کے نمائندوں، فوٹوگرافروں اور سینماء والوں کا تو کہنا ہی کیا تھا.غالباً لنڈن کا کوئی اخبار نہ تھا جس کا نمائندہ اس تقریب کو دیکھنے اور اس پر رپورٹ کرنے کے لئے موجود نہ ہو.(8) (7) ان کے علاوہ دُنیا بھر کے مختلف ممالک کے شرفاء وہاں موجود تھے.اور بعض تو ایسے تھے.جو انگلستان کے دُور دُور حصوں سے صرف اس تقریب میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے تھے.ڈنڈی، اڈنبرا، کیمبرج، آکسفورڈ، ڈربی، بلیک پول، مانچسٹر وغیرہ سے مسلمانوں نے اس جلسہ میں شرکت کی.چرچ آف انگلینڈ اور دوسرے متعدد کلیساؤں کے پادری بھی اس تقریب میں دلچسپی کے ساتھ شامل ہوئے.ریفریشمنٹ وغیرہ کے بعد لوگوں نے امام اور اس کے رفیقوں کو اس کامیاب تقریب پر مبارکبادیں دیں.اور نہایت گرمجوشی سے اپنی خوشی کا اظہار کیا اور اس طرح یہ جلسہ بخیر و خوبی ختم ہوا.چار (4) انگریزوں نے اس تقریب سعید پر اپنے (دینِ حق ) کا اعلان کیا.جن کے نام مسٹر کنگ (Mr.King) ، مسٹر نقل (Mr.Nittil)، مسٹر کا ڈپ (Mr.Coddip) اور مسٹر ابی جارڈن (Mrs.Albey Jordan) ہیں.اور یہ اس مبارک تقریب کا پہلا ظاہری شمر ہے.اللہم زدفرد افتتاح بیت سے لے کر سال 1926ء کے آخر تک انگریز مرد و عورت احمدی ہو چکے ہیں.جو معزز اور تعلیم یافتہ طبقہ کے ہیں.جلسہ تو ختم ہو گیا.اور اکثر مہمان بھی چلے گئے.مگر پھر بھی لوگوں کی دلچسپی اور رشوق کم نہ ہوتا تھا.اور برابر جمگھٹا لگا رہا.اور اگر رات کے نو (9) بجے کے بعد بیت کا
103 دروازہ بند نہ کر دیا جاتا تو لوگ جمع ہی رہتے.آج کا دن عظیم الشان کامیابی کا دن تھا.یہ تقریب کیا تھی.ایک رعد آسمان تھی.جس نے تمام انگلستان، مصر، عرب، ہندوستان بلکہ تمام دنیا کو کئی دن تک جگائے رکھا.دُنیا میں ایک نذیر آیا.پر دُنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.اسمعو صوت السماء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار میں تیرے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ وقت سے پہلے کون کہہ سکتا تھا.کہ یہ تقریب بھی خدا کی اس وحی کے پورا ہونے کا باعث ہو گی.مگر چند ہی دن میں بیت لنڈن اور جماعت احمدیہ کا ذکر دنیا کے ہر کونے اور کنارے تک پہنچ گیا.اور مسیح کی جماعت ( دینِ حق ) کے ناخلف فرزندوں سے ممتاز ہو کر دنیا کے سامنے آگئی.کیونکہ خدا نے یہ بھی فرمایا تھا.ما كان الله ليذر الـمـومـنـيـن عـلـى مـا انـتـم عـلـيـه حتـى يميز الخبيث من الطيب اے خدا جس طرح تو نے اس بیت کے افتتاح کے موقع پر عظیم الشان کامیابی اور نصرت عطا فرمائی ہے.اسی طرح تو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ وہ حقیقی کامیابی اور نصرت بھی عطا فرما جس کے لئے یہ بیت تعمیر کی گئی ہے.تو اس جگہ کو ہدایت نور کا سرچشمہ اور مغرب میں اپنے جلال اور توحید کی اشاعت کا مرکز بنا.اور اس ملک کے رہنے والوں کو اس کی برکت سے رُوحانی طور پر بھی ویسا ہی خوبصورت سفید اور نورانی کر دے.جیسا کہ وہ جسمانی طور پر ہیں.آمین
104 افتتاح کے بعد: رات ہو گئی.لوگ اپنے گھروں میں چلے گئے.بلکہ بستروں میں لیٹ گئے.مگر دن کا نظارہ ابھی تک ان کی آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے.اور دن کی باتیں ان کے کانوں میں اب بھی سنائی دے رہی ہیں.یہی وہ ضروری اثر اور خیالات ہیں.جن سے ناظرین کو بھی واقف ہونا ضروری ہے.چنانچہ چند ایسی باتوں کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.بیت کے ہمسایہ میں ایک شخص رہتا ہے.وہ کہنے لگا کہ ان لوگوں نے کروڑوں روپیہ کی پلیٹی (اشاعت) کر لی ہے.بیت کے متعلق نوٹ لکھنے تو الگ بعض اخبارات نے اس کے متعلق خاص پوسٹر شائع کئے.بیت کے انجینئر نے فون کیا.کہ افتتاح کی تقریب نے مجھ پر گہرا اثر کیا.اور جو خیالات میں نے سنے.میں اُن سے بہت متاثر ہوا.حضرت خلیفہ اسیح کا پیغام بہت پسند کیا گیا.جب پہلی آذان ہوئی.تو چاروں طرف ایک سناٹا چھا گیا.جس شوق جوش اور رونق کا اس تقریب پر اظہار ہوا ہے.ویسا کبھی اس سر زمین میں کسی مذہبی جلسہ پر دیکھنے میں نہیں آیا.اور اس لحاظ سے کہ معزز ترین احباب اور ہر شعبہ زندگی کے برگزیدہ اصحاب موجود تھے.ایسی کامیابی (دینی) تقریب انگلستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی.مبصرین نے کہا.کہ آج کی تقریب نے ( دینِ حق ) کا جھنڈا با قاعدہ طور پر انگلستان کے دارالسلطنت میں قائم کر لیا ہے.مہاراجہ صاحب بردوان ہندوستان کی غیر مسلم اقوام کے نمائندہ کے طور پر شامل ہوئے تھے کسی نے ریمارک کیا.کہ امیر فیصل کے نہ آنے نے اس تقریب کو بہت زیادہ مشہور کر دیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح کا پیغام طبع کر کر تقسیم کیا گیا.ایک ہزار کی تعداد میں
105 چھپوایا تھا.سب کا سب تقسیم ہو گیا.مگر معلوم ہوا کہ پھر بھی کثرت سے لوگوں کو نہیں ملا.بعض لوگوں نے پوچھا کہ نمازیں کس کس وقت پر ہوا کریں گی.اور کیا ہم آ سکتے ہیں یا نہیں کئی نے جمعہ کے روز اور اتوار کے روز آنے کا وعدہ کیا.ایک آدمی نے کہا کہ آپ کے خیالات ایسے اچھے ہیں کہ میں اپنے آپ کو آپ کی جماعت میں ہی سمجھتا ہوں بیت میں پہلی نماز تقریباً ایک سو آدمیوں نے پڑھی.ایک ہمسایہ نمازیوں کو دیکھ کر مارے جوش کے رہ نہ سکا.اور بُوٹ اتار کر صفوں میں جا داخل ہوا.اس نے بعد میں بتایا کہ میں ایک صف میں کھڑا تھا اور آنکھیں بند کر کے دُعا کر رہا تھا تھوڑی دیر کے بعد جب آنکھ کھولی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اکیلا کھڑا ہوں باقی سجدے میں تھے.کہنے لگا میں شرمندہ سا ہو گیا.مگر خیر دُعا تو ہو گئی بہت خوش تھا.شیخ عبدالقادر صاحب نے جس وقت اپنی تقریر میں کہا.کہ وہ باوجود احمدی نہ ہونے کے اس بات کو فخر سمجھتے ہیں کہ اس موقعہ پر شامل ہوئے.تو لوگ بہت خوش ہوئے.اور خوب چیرز دیئے.اسی طرح جب مہاراجہ صاحب بردوان نے کہا کہ اس کا فرض تھا کہ وہ آتا.تو اس وقت بھی خوب چیرز دیئے گئے.غیرت مند ہندی اور مصری مسلمان امیر فیصل کو بہت بُرا بھلا کہتے تھے.اور بعض نے کہا کہ تماشے دیکھنے ٹھہرتا ہے اور بیت میں نہیں آ سکتا.کئی لوگوں نے کہا کہ 25 سال پہلے اس ملک میں ایسا اجتماع ہونا ناممکنات سے تھا.لوگ یہ بھی کہتے تھے.کہ اچھا ہوا امیر فیصل نہ آیا.اگر وہ آتا.تو لوگوں کی توجہ صرف اس کی طرف ہوتی.مگر اب صرف بیت اور سلسلہ کی طرف ہے.خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب نے بہت جرات سے کام کیا.وہ
106 مسر فلمی کو کہتے تھے.کہ ابن سعود کا کیا نقصان تھا.اگر وہ فیصل سے بیت کا افتتاح کرا دیتا.اس کو تو اتنا بھی اندیشہ نہیں.جتنا کہ مجھے ہو گا.مگر میں جانتا ہوں کہ یہ حق بات ہے.اگر مجھے نقصان پہنچے بھی تو میں پرواہ نہیں کروں گا.معززین کے طبقہ سے کوئی شخص بغیر امام سے ملے اور مصافحہ کئے اور مبارکباد دیئے نہیں گیا.مہمانوں کے چہروں پر عجیب انبساط اور خوشی تھی.اس کے علاوہ افتتاح کے وقت سے آج تک یہ حال ہے کہ جس وقت دیکھو چار پانچ آدمی مکان کی دیوار کے ساتھ چھٹے کھڑے بیت کو دیکھ رہے ہیں.اور آذان سننے سے تو سیری ہوتی ہی نہیں افتتاح کو کئی روز ہو چکے.مگر مبارکبادی کے خطوط کا سلسلہ ہی بند نہیں ہوتا.نمونہ کے طور پر مہاراجہ الور کا خط درج ذیل ہے.جو ان دنوں اسکاٹ لینڈ کی طرف تشریف رکھتے تھے.مہاراجہ الور کا پیغام مبارک باد آپ کے پرائیوٹ سیکریٹری صاحب تحریر فرماتے ہیں:.”جناب من! مجھے ہز ہائی نس نے ہدایت فرمائی ہے کہ میں آپ کے دعوتی خط مورخہ 30 ستمبر کی رسید دوں.ہز ہائی نس آپ کی اس دعوت شمولیت کے شکر گزار ہیں.اور وہ ان جذبات کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.جو آپ نے ہز ہائی نس کے متعلق ظاہر کئے ہیں.کہ وہ اپنی رعایا کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ یکساں محبت کا برتاؤ رکھتے ہیں.ہز ہائی نس جیسا کہ آپ کو معلوم ہے.فی الحال اسکاٹ لینڈ میں بہت دُور ہیں.اس اثناء میں آپ کی چٹھی اس قدر تاخیر سے ملی.کہ افتتاح کی تاریخ 3 را کتوبر 1926ء گزر ا ہے.اس لئے آپ اندازہ کر سکتے ہیں.کہ اس تقریب پر ہز ہائی نس کی شمولیت ناممکن ہو گئی تھی.تاہم ہزہائی نس آپ کو اور آپ کی جماعت کو دلی
107 مبارکباد دیتے ہیں.کہ آپ نے مسجد کے نام سے ایک عبادت گاہ بنائی ہے.جہاں ہم سب کے محبوب اور مشترک رب العالمین کا ذکر و عبادت ہو گی.فقط سینما والوں نے فلم لے کر فوراً ہی لنڈن میں دکھانی شروع کر دی.اور اس کا عنوان رکھا لنڈن کی عظیم الشان مسجد کی رسم افتتاح“ یہ فلم لاہور میں بھی ماہ نومبر کے آخر میں دکھائی جا چکی ہے.اور اب تک ہر اس ملک میں جہاں سینما کا انتظام ہے.لوگوں کو یہ سین دکھایا جا چکا ہوگا.امام بیت فرماتے ہیں.پریس نے جو دلچپسی دکھائی ہے.وہ اخبارات سے واضح ہے.صبح شام اور رات کے بارہ بجے تک نمائندے آتے رہے ہیں.فوٹو گرافر تو اتنے آئے ہیں کہ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہوگا.جہاں بہیت کا فوٹو نہ پہنچا ہو گا.کئی مصور کھڑے تصویریں بناتے رہے ہیں کوئی سڑک پر کھڑا ہے، کوئی باغ کے اندر کوئی کسی جگہ، ایک مصور نے اندرونہ بیت کی تصویر اتاری.یہ تصویر لنڈن کی ایک نمائش میں بھیجی گئی.امریکہ افریقہ، آسٹریلیا اور ہالینڈ کے پریس کے نمائندے عجیب عجیب سوالات کرتے رہے.غرض دنیا کے کناروں تک مسیح موعود علیہ السلام کا نام پہنچ گیا.فالحمد للہ علی ذالک جماعت کی شہرت اس قدر بڑھ گئی ہے.کہ یہاں ایک عالی شان ہسپتال امراض مخصوصہ منطقہ حارہ کا ہے.ان لوگوں نے ہمارے دوستوں کو چائے پر بلایا.اور پھر تمام ہسپتال کی سیر کرائی.اور دوسرے دن ان کا ایک آدمی ایک کتاب لے کر آیا.کہ اس پر بطور یادگار کے اپنے دستخط کر دیں کئی شوقین لوگ چپکے چپکے آ کر بیت کا فوٹو کھینچ کر لے جاتے ہیں اور کئی پہلے اجازت لیتے ہیں پھر فوٹو کھینچتے ہیں.اور پھر بہت خوش ہوتے ہیں.امیر فیصل مسٹری:
108 امیر فیصل سے اگر کوئی آج جا کر پوچھے کہ اس کو بیت کے افتتاح کے حالات معلوم ہو چکے ہیں.تو وہ ضرور اقرار کریں گے.کہ ان سے ایک سخت نا قابل تلافی غلطی سرزد ہوئی ہے بلکہ معلوم ہوتا ہے.کہ ایسا احساس افتتاح کے بعد خود امیر فیصل کو ضرور ہوا.یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی غلطی اور شرمندگی کو کسی حد تک مٹانے کے لئے امام کے نام ایک خط بھیجا.جس میں افتتاح کی کامیابی اور اس کوشش کے بارآور ہونے کی دُعا کرتے ہوئے اپنے شامل نہ ہو سکنے پر بہت رنج و افسوس کا اظہار کیا.اور ان کے خاندان کے ایک سرگرم انگریز دوست مشہور مسٹر فلمی نے مولوی درد صاحب کو اپنے ایک خط میں لکھا.میں آپ کو دلی مبارکباد اس عظیم الشان کامیابی پر عرض کرتا ہوں.جو آپ کو اپنی مسجد کے افتتاح پر حاصل ہوئی ہے.یہ بڑا عالیشان موقع تھا.جس میں حاضر ہونے کا مجھے بہت فخر ہے.اور میں آپ کو پھر یقین دلاتا ہوں.کہ کوئی شخص بھی مجھ سے زیادہ اس افسوسناک تاریک دل پر شکستہ خاطر جو افتتاح کے وقت اس تقریب پر چھا رہا تھا.مگر اس نے اس کی رونق اور چمک دمک کو کسی طرح کم نہیں کیا تھا.اور یہ رونق جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا.شہزادہ کی موجودگی یا عالم سفلی کے بڑے لوگوں کی حاضری پر منحصر نہ تھی.ذاتی طور پر مجھے بہت رنج ہے.کہ ابن سعود نے اپنے آپ کو اسلامی دنیا کا لیڈر ظاہر کرنے کا ایک نہایت بیش قیمت موقع ہاتھ سے کھو دیا.اور یہ نقصان اس کا ہوا.نہ کہ آپ کا.مگر ہم کو اُمید رکھنی چاہیے کہ ناگوار باتوں میں سے بہتری نکل آتی ہے.اور یہ کہ عالم اسلامی اب اتحاد کی
109 ضرورت کو اچھی طرح محسوس کرے گا.“ امیر فیصل کیوں شریک جلسہ نہ ہوا: اس سوال کا جواب بہت آسان ہے.یہ غذر کہ سلطان ابن سعود کو بیت کے افتتاح کے لئے وعدہ کرتے وقت معلوم نہ تھا.کہ یہ بیت احمدیوں کی ہے.بالکل غلط ہے.کیونکہ اول تو ان کو معلوم تھا.پھر ان کا عذر یہ نہیں تھا.کہ میرا اجازت نہ دینا ان لوگوں کے احمدی ہونے پر مبنی ہے.بلکہ اس کی وجہ اس کے اعلان میں الاہرام کا وہ مضمون تھا جس میں غلطی سے یہ شائع کر دیا گیا تھا کہ یہ مسجد تمام مذاہب کی عبادت گاہ ہے.جب اس کی تردید اچھی طرح بذریعہ تار کے سُلطان ابن سعود کے سامنے کر دی گئی.تو انہوں نے اپنی طرف سے امیر فیصل کو اجازت دے دی.مگر ہندوستان کے بعض مسلمانوں نے ہندوستان سے سُلطان کے نام تار دی اور شاید مکہ کے اور عمائد کو بھی دیئے ہوں گے.غرض یہ کہ سلطان پھر متزلزل ہو گئے.اور انہوں نے امیر فیصل کو لنڈن میں اطلاع دی.کہ معاملہ غور کے قابل ہے.تم اپنی ذمہ داری پر انگلستان کے دیگر مسلمانوں کے مشورہ سے یہ کام کر سکتے ہو.اس پر انگلستان میں ایک عجیب عبرتناک معاملہ ہوتا ہے.وہ یہ کہ انگلستان کے وہ مسلمان جو فرقہ بندی کو اسلام کی جڑ کے لئے تبر خیال کرتے تھے.اور جو اپنے آپ کو دُنیا بھر میں غیر متعصب اور قادیانی احمدیوں کو فرقہ بندی کے جھگڑے پیدا کرنے والی جماعت کہا کرتے تھے.وہ خود آگے بڑھ کر کوشش کرتے ہیں.اور فارن منسٹر عبدالله الدملوجی کو مشورہ دیتے ہیں کہ جس طرح ہو سکے.شہزادے کو اس افتتاح میں شامل نہ ہونے دے.یہ وہی لوگ ہیں.جو تعصب کا الزام آج تک ہم پر لگاتے رہے.مگر آج ان کی حقیقت آشکارا ہو گئی.اور نقاب اُٹھ
110 گیا.اور معلوم ہو گیا کہ کون اس الزام کا مورد ہے:.مشکل دارم ز دانشمند مجلس نا ز پرس تو به فرمایاں چرا خود تو به کمتر می کنند غرض ان لوگوں کے مشورہ سے عبداللہ دملوجی فارن منسٹر حجاز نے یہ فیصلہ کر لیا.کہ شہزادہ شامل تقریب نہ ہو.ممکن ہے.کہ بعض اور وجوہات بھی اس کی تائید میں ہوں مگر ہندوستان کے کر اور انگلستان کے غیر متعصب اور فرقہ بندی سے آزاد کہلانے والے مسلمانوں کی کوشش کا یہ ایک کرشمہ تھا.جو ظہور میں آیا.فیصل اور عبداللہ بے شک ان کے اثر میں آ گئے.مگر سب حالات معلوم ہونے کے بعد وہ دست تاسف ہی ملتے ہوں گے.لیکن اب وقت نکل چکا.خیال زلف بتاں میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر مگر کیا تقریب افتتاح میں کوئی نقص یا کمی آئی.حاشاء و کلا ہرگز نہیں.افسوس! کہ جگہ کی کمی تھی ورنہ آدمی تو اتنے آئے تھے.کہ اس سے چار گنا قطعہ باغ بھی ان کے لئے کافی نہ ہوتا.اگر شہزادہ آتا تو لوگوں کی توجہ کا کچھ حصہ اس کی طرف ہوتا کیونکہ وہ ایک غیر ملک کا باشندہ اور ایک بادشاہ کا لڑکا تھا لیکن اب جو ہوا اس میں خالص (بیت) اور (بیت) کے بانی کی طرف لوگوں کا خیال رہا بلکہ شاہزادہ کے نہ آنے کی وجہ نامعلوم رہنے اور عین وقت پر اس کا شرکت سے انکار کر دینے کی وجہ سے یہ تقریب پبلک کے لئے بہت زیادہ دلچسپ اور مشہور ہو گئی اور یہی مقصد تھا.انگلستان کی پبلک اور وہاں کے اخبارات نے فیصل کے اس فیصلے پر جو لے دے کی ہے وہ بذات خود دلچسپ ہے.کوئی لکھتا ہے کہ اختلاف عقائد
111 کی وجہ سے یہ شقاق پیش آیا ہے اور یہ کہ احمدی جماعت وسیع الحوصلہ اور غیر متعصب جماعت ہے.کوئی تحریر کرتا ہے کہ شہزادہ نے سمجھا کہ یہ مسلمانوں کی مسجد نہیں ہے حالانکہ یہ خیال تک بیہودہ ہے.بعض کہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں نے سلطان کو غلط فہمی میں ڈال دیا.ٹائمنز لکھتا ہے کہ شاہ حجاز کا فیصلہ حیرت ناک ہے کیونکہ اس نے مدت پہلے اگست میں ہی بیت کے افتتاح کا وعدہ کر لیا تھا اور احمدی جماعت کا تعلق ( دین حق) کے ساتھ اچھی طرح تحقیق کر کے پھر وعدہ کیا تھا.ڈیلی ٹیلی گراف (Daily Telegraph) لنڈن لکھتا ہے کہ شہزادہ کا يه فعل اُن مسلمانوں کی کوشش کا نتیجہ ہے جو احمدی جماعت کو کافر سمجھتے ہیں.کسی ایک اخبار نے بھی شہزادہ کے اس فعل کو مستحسن نہیں ٹھہرایا بلکہ اس کی نکتہ گیری ہی کی اور سب نے اسے غلط پالیسی کی طرف منسوب کیا اور یہی حق تھا.زبانِ خلق کو نقارہ خدا سمجھو.فیصل مسٹری کی اصلی حقیقت نمونه خلق عظیم - نمونه اخلاق محمدی اب حقیقی مسٹری بھی سُن لیجئے.وہ یہ کہ منشائے الہی یوں تھا کہ ایک شہزادہ کے نام کی وجہ سے پہلے تو لوگوں میں اعلان اور دلچسپی کی صورت پیدا کرے پھر اس کے انکار کی وجہ سے اس اعلان اور دلچسپی کو ہزاروں گنا زیادہ کر دے اور دُنیا پر یہ واضح کر دے.کہ اس کے گھر کی شہرت کسی مشہور انسان کے احسان کی مرہونِ منت نہیں.بلکہ برعکس اس کے یہ خود خدا کا احسان ہے کہ وہ کسی بندے کو ایسی خدمت کی توفیق دے.اور پھر اس خدمت کی سعادت کی وجہ سے اپنے گھر کے نام کے ساتھ اس شخص کے نام کو بھی اطراف عالم میں
112 مشہور کر دے چنانچہ ایسا ہی ہوا.سلطان نے پہلے اس خدمت کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کی.مگر سلسلہ کے دُشمنوں نے مگر کیا اور اسے روک دیا.تا کہ بیت کی شہرت عالمگیر نہ ہو جائے.مگر خدا نے ان کے اس مکر کو ہی زیادہ شہرت کا موجب بنا دیا.اور ان کی تمام آرزؤں پر پانی پھیر دیا.ومہ پر پانی پھیر دیا.ومـــــــــــــروا ومكر الله والله خیر الما کریں.ادھر تو آپ نے یہ ملاحظہ کیا.کہ امیر فیصل نے معاہدہ کی پابندی نہ کی.اور آخر وقت تک اصل بات کا پتہ نہ دیا.امام اور اس کے رفقاء کو سخت تشویش میں ڈالے رکھا پھر عین وقت پر جواب دے دیا.ادھر یہ ملاحظہ ہو.کہ جب اس کی لنڈن سے روانگی کا وقت آیا تو امام کو حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی طرف سے اس مضمون کا تار ملا.کہ باوجود وقت پر انکار کر جانے کے چونکہ ابن سعود نے امیر فیصل کو صرف بیت کے افتتاح کی خاطر اتنا دُور دراز کا سفر کرایا.اور شہزادہ نے اس سفر کی تکلیف اُٹھائی.ہم کو چاہئے کہ اُن کا شکریہ ادا کریں.اور اس طرح گرم جوشی سے شہزادہ کو لنڈن سے رخصت کریں جس طرح اُس کا استقبال کیا گیا تھا.اخبارات اور رائیں: اس تقریب سعید کے متعلق جو کچھ انگلستان اور دُنیا کے اخبارات نے لکھا اس کا نمونہ مشتے از خروارے درج کرنا شائقین کی واقفیت کے لئے اشد ضروری ہے.جو کچھ وہاں کے اخبارات نے لکھا ہے.وہ تو اتنا ہے.کہ انگلستان میں کوئی فرد بھی اب باقی نہیں رہا.جو اخبار پڑھنے کا عادی ہو اور اس کولنڈن کی (بیت) کا علم نہ ہو.کوئی اخبار نہ لنڈن کا نہ بیرونجات کا ایسا ہے.جس میں دو دو تین تین بار (بیت) کے متعلق نہ لکھا ہو.اور کوئی اخبار ایسا نہیں
113 رہا.جس میں فوٹو چھپتے ہوں.اور اس میں (بیت) کا فوٹو نہ چھپا ہو.لنڈن ٹائمز سے لے کر انگلستان کے دُور دراز گاؤں اور قصبوں کے نہایت معمولی اخبارات میں بھی بیت کے فوٹو اور اس کے متعلق نوٹ نکلے ہیں.یہی حالت یورپ کے دیگر ممالک اور اس کے بعد ہندوستان اور دیگر ممالک کے اخبارات کی ہوئی ہے.اقتباسات از اخبارات انگلستان (1) ایوننگ اسٹینڈرڈ (Evening Standard) ( مورخہ 23 ستمبر 1926ء) لنڈن کی نئی مسجد مُسلمانوں کی نئی بیت واقع ساؤتھ فیلڈ کا افتتاح امیر فیصل 3 /اکتوبر کو کریں گے.امیر موصوف مکہ کے وائسرائے (Viceroy) ہیں اور ابن سعود شاہ حجاز کے دوسرے صاحبزادے ہیں.امام مسجد جناب -اے-آر- درد صاحب شہزادہ کے استقبال کے لئے لنڈن سے پلیمتھ (Plymouth) تشریف لے گئے ہیں.شہزادہ موصوف خاص کر مسجد کے افتتاح کے لئے انگلستان آ رہے ہیں.پہلی مرتبہ وہ 1921ء میں معاہدات صلح کے بعد بطور سفیر شہنشاہ جارج پنجم کی ملاقات کے لئے آئے مسجد کی عمارت سفید اور عظیم الشان ہے.اس پر سیمنٹ (Cement) کی لپائی ہوئی ہے.اس میں ایک بڑا سفید گنبد اور چار مینارے ہیں.میناروں پر سے مؤمنین کو نماز کے لئے بلایا جائے گا.اس مسجد میں اور ایشیائی مسجدوں میں اتنا فرق ہے کہ اس میں کئی ایک لمبی اور تنگ کھڑکیاں ہیں جو گرجا کی
114 ھڑکیوں کے مشابہ ہیں مگر ان سے ذرا تنگ ہیں.عمارت میں رنگ دار شیشے نہیں لگائے گئے.دروازہ کے اوپر ایک کتبہ ہے جس پر کلمہ لکھا ہوا ہے.اس کو ایک انگریز نقاش نے ایک فوٹو سے تیار کیا ہے.دروازہ کے بالمقابل سیمنٹ کا ایک فوارہ ہے جو وضو کے لئے ہے.دروازہ کے ہر دو جانب ایسی جگہ ہے جس میں مسلمانوں کے دستور کے مطابق نمازی نماز کے لئے داخل ہونے سے پیشتر جوتے اُتاریں گے.مکان کے اندر ایک محراب ہے جس میں امام نماز کے وقت کھڑا ہوتا ہے.ایونگ اسٹینڈرڈ کے ایک نمائندہ کو یہ بتایا گیا ہے کہ شہزادہ کی آمد کے لئے سب بندوبست ہو چکا ہے.قالین بچھایا گیا ہے.جو قالین مقدس کا قائم مقام ہے.دوکنگ (Woking) میں ایک دوسری مسجد ہے جو کہ اس سے چھوٹی ہے.اس کا اُس مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اس نئی مسجد میں 175 نمازی سما سکتے ہیں.اس مسجد کو جماعت احمدیہ نے بنایا ہے.اس جماعت کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے 1889ء میں ڈالی تھی.گروہ مذہبی بُردباری کا بہت حامی ہے.تشد داور مذہبی لڑائیوں کا مخالف ہے.ان کا عقیدہ ہے کہ تمام مذاہب میں رسول پائے جاتے ہیں اور خداوند تعالیٰ کی وحدت کو مل کر پیش کرتے ہیں.(2) ہل ڈیلی میل (Daily Mail) (مورخہ 23 ستمبر 1926ء) مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب ہے اور یہ دو کبھی نہیں ملیں گے مندرجہ بالا مقولہ کے ہم اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ہم اس کو ٹھیک مان لیتے ہیں لیکن جب ہم پڑھتے ہیں کہ ایک احمدیہ (بیت) ساؤتھ فیلڈ لنڈن میں کھولی جائے گی تو ہم شک کرنے لگتے ہیں کہ کیا واقعی
مہا راجہ بردوان افتتاح کے وقت لیفٹیننٹ کرنل فورڈ (سی بی ای)
میئر آف وانڈس ورتھ
115 مشرق مغرب سے اتنا دور ہے جتنا کہ ہم خیال کرتے تھے.خوبصورت نوجوان امیر فیصل لندن کی پہلی بی مسجد کا افتتاح فرمائیں گے.آج کل چونکہ بازنشائن طرز کی معماری کا رواج ہے.بدیں سبب احمدیہ بی مسجد کے سفید گنبد مسیحی معبد کے درمیان بہت کم فرق معلوم ہوتا ہے.ہمیں اطلاع ملی ہے کہ یہ ایک سیدھی سادی وہی اعلیٰ قسم کی عمارت ہے جس کے چاروں کونوں پر مینار ہیں جہاں سے مودن نماز کے لئے مؤمنین کو بُلایا کرے گا.باغ کے حوض اور وضو کے فوارہ میں اگر چہ کچھ کام باقی ہے لیکن اتوار تک سب کچھ مکمل ہو جائے گا.دروازہ پر عربی اور فارسی کتبے ہیں جس میں لکھا ہے کہ صرف اللہ معبود ہے اور محمد اُس کا رسول ہے مسجد کے اندر ایک موٹی قالین ہے جس پر جوتے سمیت نہیں جاتے.جوتے اتارنے کے لئے بیٹھنے کی جگہیں دروازے کے قریب بنی ہیں.بیٹھ کر نماز پڑھنے کا خیال ایشیائی ہے.لندن میں 2000 مسلمان ہیں اور نئی مسجد میں صرف 250 کے لئے جگہ ہے.یہ مسجد کافی نہیں.عورتوں کو مسجد میں نماز کی اجازت ہے مگر مردوں کے ساتھ مل کر نہیں.امام مسجد کا قول ہے کہ عورت کو جو حیثیت ہم نے دی ہے وہ اتنی بڑی ہے کہ ایشیا نے کبھی بھی اتنی بڑی حیثیت عورت کو نہیں دی.ہمارا خیال ہے مغربی اقوام افراط سے کام لیتی ہیں.66 (3) سنڈر لینڈ ڈیلی ایکو (Sunderland Daily Echo) (مورخہ 23 ستمبر 1926ء) ایک نئی مسجد - ساؤتھ فیلڈ کی نئی مسجد کا افتتاح" اسلامی دنیا میں ایک اہم واقعہ ہے.اس نئی مسجد کا افتتاح امیر فیصل یں گے جو سلطان ابن سعود کے صاحبزادہ ہیں.یہ مسجد اس ملک میں
116 مسلمانوں کے ہاتھ کی بنائی ہوئی پہلی مسجد ہو گی.وہ کنگ میں بھی ایک مسجد ہے جس کو ایک انگریز نے بنوایا ہے.ساؤتھ فیلڈ کی نئی مسجد بہت بڑی ہے کیونکہ اس میں 175 آدمی سما سکتے ہیں.اس کو احمدیہ جماعت نے تعمیر کیا ہے.اس مسجد کا سنگِ بنیاد 1924 ء میں رکھا گیا تھا.جناب اے آر درد صاحب امام مسجد نے شاہ حجاز کو ایک نمائندہ بھیجنے کی دعوت دی جس کے جواب نے امام مسجد کو مشکور کیا کیونکہ شاہ حجاز نے اپنے لڑکے کو بھیجا ہے جو چند دنوں میں پہنچ جائے گا.افتتاحی رسم کی ادائیگی 3 راکتو بر کو ہو گی.مسٹر درد استقبال کے لئے پلے متھ جائیں گے.اغلب ہے کہ افتتاح سے قبل استقبال کی جائے گی.مسجد ایک بہت بڑی عمارت ہے جس میں ایک گنبد اور آذان کے لئے چار مینارے ہیں.اس مسجد اور ایشیائی مسجد میں فرق یہ ہے کہ اس ملک کی آب و ہوا کو ملحوظ رکھ کر اس میں گرجا کی طرز کی کھڑکیاں رکھی گئی ہیں.دروازہ کے دونوں جانب جوتے اُتارنے کے لئے جگہ ہے.ایک محراب بھی ہے جس میں امام نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.مسجد کے سامنے وضو کے لئے ایک فوراہ لگا ہے.دروازہ کے اوپر کلمہ لکھا ہوا ہے جس کو ایک انگریز نقاش نے اصلی حروف کے عکس سے لکھا ہے.مسٹر درد نے کہا کہ تصویر کو بڑا کر کے اس کی نقل کی گئی ہے.نقاش کی تعریف کی، کہا کہ اس کا کام اگر ایشیائی نقاش سے بہتر نہیں تو برابر ضرور ہے.سلسلہ احمدیہ کی بنیاد حضرت میرزا غلام احمد صاحب نے 1889ء میں ڈالی.ان کا اُصول یہ ہے کہ تمام مذاہب میں رسول آئے ہیں اور خدا کے ماننے میں سب مذاہب متفق ہیں.دوسرے مسلمانوں کے برخلاف اُن کا عقیدہ یہ ہے کہ آسمانی علوم کا چشمہ جو کہ قرآن میں ہے ختم نہیں ہو چکا.
117 (4) ڈیلی ایکسپریس (Daily Express) (مورخہ 24 ستمبر 1926ء) لنڈن میں موذن کی اذان موذن کی آذان یعنی (لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ) بہت جلد سنی جائے گی.لنڈن کی عمارات میں ایک مزید اضافہ ساؤتھ فیلڈ کی مسجد ہے.اس کی بنیاد فرقہ احمدیہ نے ڈالی ہے.یہ عمارت جو جزائر برطانیہ میں اپنی قسم کی ایک ہی عمارت ہے.175 آدمیوں کے لئے گنجائش رکھتی ہے.مسجد ایک سفید عمارت ہے جس پر سیمنٹ کی لپائی کی ہوئی ہے.اس میں ایک گنبد اور چار مینارے ہیں.میناروں سے مؤمنین کو آذان دی جائے گی.اس میں اور ایشیائی مسجدوں میں فرق اتنا ہے کہ اس میں لمبی اور تنگ کھڑکیاں رکھی گئی ہیں.دروازہ پر خاص قسم کے سیمنٹ کا بنایا ہوا ایک کتبہ ہے جس پر کلمہ لکھا گیا ہے.اس کو ایک انگریز نقاش نے ایک بڑی کی ہوئی تصویر سے کندہ کیا ہے.امیر فیصل اس مسجد کا افتتاح 3 راکتو بر کو کریں گے.مسجد کے ایک کارکن نے کل ڈیلی ایکسپریس کے ایک نمائندہ کو کہا کہ اس ملک میں اسلام کی کافی تبلیغ ہوتی ہے.نومسلموں کی تعداد خاصی بڑھ رہی ہے.(5) ویسٹ منسٹر گزٹ (West Minister Gazette) (مورخہ 24 ستمبر 1926ء) مشرق اور مغرب نے مل کر شہزادہ فیصل کا پیڈ لیکن اسٹیشن پر خیر مقدم کیا.شہزادہ فارن آفس کے مہمان ہوں گے.استقبال کے لئے لنڈن کے مسلمان موجود تھے.بعض پگڑیاں پہنے ہوئے تھے.اور بعض ہندوستانی لباس
118 میں تھے، یا پلر کوارٹر کے ہندوستانی ملاح بھی آئے تھے.ان سب نے فارن آفس اور دیگر افسروں کے ساتھ استقبال کیا.اس موقع پر مسجد کے سیکریٹری مسٹر ملک ساؤتھ فیلڈ کے لڑکوں کا ایک دستہ لے کر آئے.ان کے ہاتھوں میں انگریزی اور عربی جھنڈیاں تھیں.ایک ہے.نیلے رنگ کے جھنڈے پر سنہری عربی عبارت میں یہ لکھا ہوا تھا ”خدا ایک محمد اُس کا رسول ہے.اے شہزادہ! ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں، شہزادہ اپنے رفقاء کے ساتھ ہائیڈ پارک ہوٹل کو روانہ ہوا.اگلے مہینہ کے شروع میں شہزادہ فیصل ایک مسجد کا افتتاح کریں گے جو مسلمانوں نے بنائی ہے.(6) برسٹل ایوننگ نیوز (Bristol Evening News) مورخہ 24 ستمبر 1926ء) مودن لنڈن میں " ہم عنقریب لنڈن کی مسجد کے میناروں سے موذن کی آواز سنیں گے.مسلمانوں کی عمارت ساؤتھ فیلڈ میں بنائی گئی ہے جس کا افتتاح شاہ حجاز کے لڑکے امیر فیصل کریں گے.جو اس ہفتہ اس ملک میں آئے ہیں.اسلامی پروپیگنڈا کافی طور پر یہاں جاری ہے اور یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انگریز نومسلموں کی تعداد بڑھ رہی ہے.میں نے اس دعوے کے ثبوت میں کوئی اعداد و شمار نہیں دیکھے.نئی بیت میں صرف 175 نمازیوں کے لئے گنجائش ہے جو مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے ناکافی ہے.بلاشبہ یہاں انگریز نومسلم بھی ہیں جس میں سلطنت کا ایک لارڈ بھی ہے اور ان کی نظروں میں بیت کا بن جانا ایک ممتاز درجہ رکھتا ہے.اس ملک میں مذہبوں کی کثرت اب بھی اس قدر ہے جتنی کہ پہلے تھی نئے فرقے بنتے رہتے ہیں اور پرانے فرقے وسیع ہوتے
119 جاتے ہیں.یہاں تک کہ قوم کی مذہبی زندگی روز افزوں ترقی پر ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ بیت کے بنائے جانے سے بعض کو صدمہ ہوا ہو گا.اونچے میناروں سے آذان کی آواز باشندوں کے کانوں پر پڑے گی جو عجیب اور غیر مانوس ہو گی.عبادت کا طریقہ شروع شروع میں ہمارے لئے نیا ہو گا لیکن ہم بہت جلدی اس سے مانوس ہو جائیں گے.یہ بیت فرقہ احمدیہ نے بنائی ہے جو مذہبی بردباری کا حامی ہے اور تشدد اور مذہبی لڑائیوں کا مخالف ہے.اس کا ایمان ہے کہ آسمانی علوم کا سرچشمہ جو قرآن شریف میں ہے سوکھ نہیں گیا بلکہ اب بھی جاری ہے.مسجد کا افتتاح دلچسپ اور سبق آموز ہے.(7) ریفری (Refree) (مورخہ 26 ستمبر 1926ء) و مینارہ اور موذن " خوبصورت نوجوان شہزادہ کے آنے اور لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح کرنے سے نہ صرف مشرق و مغرب ) کا اتصال ہوگا) بلکہ افسانہ اور حقیقت کا بھی اتصال ہو گا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا.حقیقت کو پورے طور پر جاننے کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ مسجد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے جیسا کہ میں نے کیا.عمارت بالکل سیدھی سادی خوبصورت اور گنبد والی ہے.ایک باغیچہ میں اس کا نصف حصہ پوشیدہ.جن لوگوں کے خیال میں مسجد کے ساتھ غرناطہ والی گل کاری اور قاہرہ یا قسطنطنیہ والی شان و شوکت ضروری چاہئے.ان کو اس مسجد سے کسی قدر صدمہ ہوگا.ویسٹ ہل (West Hill) کے ڈھلوانوں سے اس کا منظر بخوبی دکھائی دیتا ہے.پہاڑ کے گردا گرد کے نظارے کے بعد عین پہاڑ کے نیچے مسجد کا سفید
120 گنبد دکھائی دیتا ہے.مسجد کے چاروں کونوں پر مینارے ہیں جو مومنین کو نماز کے واسطے بلانے کے لئے استعمال کئے جائیں گے.آج کل ہمارے گرجے بائی زینٹاین (Byzantine) طرز پر بنے ہیں اور احمدیہ بیت میں بھی چمکدار کھڑکیاں موجود ہیں.وہ عیسائی عبادت گاہوں کی طرح دکھائی دیتی ہے.سادہ پین اور اچھا مذاق اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے.مسجد تقریباً مکمل ہے.باغ کے حوض اور وضو کے فوارہ کا ابھی بھرنا باقی ہے.دو انگریز مزدوروں کی مدد سے جو کہ دیوار کے پاس کھانا کھا رہے تھے میں نے امام مسجد کو دیکھا مسٹر درد ہندوستانی ہے، پگڑی پہنے ہے اور داڑھی رکھے ہوئے ہے اگر وہ عینک نہ پہنے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا وہ الف لیلہ سے ابھی نکل کر آئے ہیں.بہت متانت اور اخلاق سے انہوں نے مجھے مکان دکھایا.دروازہ پر عربی اور فارسی کے کتبے ہیں جن میں لکھا ہوا ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کرنی چاہئے اور محمد اس کا رسول ہے اس میں محمد رسول اللہ کی تکبیر یا بڑائی کی طرف اشارہ نہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ وہ معبود نہیں.مسجد کے اندر ایک موٹے نیلے رنگ کی قالین ہے جس پر جوتے سمیت نہیں جاتے.روشنی بجلی کی ہے.کمرہ کو گرمی پہنچانے کا بندوبست کیا جائے گا.کوئی زیبائش کی چیز مسجد کے اندر نہیں اور نہ کبھی رکھی جائے گی.اندر کوئی کرسی نہیں.صرف دروازہ کے پاس دونوں جانب جوتے اُتارنے کے لئے چوکیاں ہیں.بیٹھ کر نماز پڑھنے کا خیال میرے ایشیائی دوست کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا.وہاں کوئی ایسی چیز نہ تھی جس سے رسومات کا پتہ چل سکے.صرف ایک محراب ہے جس میں کھڑے ہو کر امام نماز پڑھایا کرتا ہے.اسلام اور یہودیت : امام نے بتایا کہ مسجد میں عیسائی، یہودی اور مسلمان سب کو واحد خدا کی پرستش کرنے کی اجازت ہے.اسلام، یہودیت
121 اور ابتدائی عیسائیت میں کوئی بڑا فرق نہیں.ہم سب ایک خدا کی پرستش کرتے ہیں.امام نے مجھے بہت باتوں کا علم دیا.ازانجملہ ایک بات یہ تھی کہ احمدیہ فرقہ کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے 1880ء میں ڈالی تھی اور کہا کہ ہمارے عقائد مذہبی بُردباری کی حمایت میں ہیں اور مذہبی لڑائی اور تشدد کے سخت مخالف ہیں.جن مذاہب میں ایک خدا کی پرستش ہوتی ہے اُن کے رسولوں کو ہم مانتے ہیں.امام نے یہ بھی کہا کہ لنڈن میں دو ہزار مسلمان ہیں“ چونکہ ساؤتھ فیلڈ کی بیت میں صرف دو سو نمازی سما سکتے ہیں اس لئے یہ کافی نہ ہو گی.جب میں ویسٹ ہل کے پاس سے گزر رہا تھا تو ایک نظارہ سے میں سوچ میں پڑ گیا.لڑکیاں دوہری قطار بنائے ہوئے اور یونیفارم پہنے ہوئے خوشی خوشی جا رہی تھیں.مجھے خیال آیا کہ مسجدان کے لئے کیا کرے گی.امام نے مجھے تسلی دی کہ عورتوں کو مسجد میں داخل ہونے اور نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر مردوں کے ساتھ مل کر نہیں اور کہا کہ ہمارے ہاں عورتوں کا درجہ اس سے بہت بڑھ کر ہے جو ایشیا میں ان کو کبھی بھی نصیب ہوا ہو یہ عام خیال کہ قرآن نے عورتوں کو آئندہ زندگی سے بے بہرہ کیا ہے بالکل غلط ہے.سورہ نمبر 4 میں لکھا ہے کہ جو کوئی نیک اعمال کرے.خواہ مرد ہو یا عورت، جنت میں داخل ہوگا بشرطیکہ مؤمن ہو.(8) ایوننگ اسٹینڈرڈ (Evening Standard) (مورخہ یکم را کتوبر 1926ء) لا اله الا الله محمد رسول اللہ آذان کی یہ آواز جو کہ عام طور سے صحرا میں سنائی دیتی ہے.اب پٹنی میں سنائی دے گی.اتوار کے دن 1 نقل بمطابق اصل
122 -/3 3 بجے شام امیر فیصل لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح فرما دیں گے.افتتاحی رسم سے قبل بیت کے مینارہ سے آذان کی آواز سنائی دے گی.اس آواز سے تمام مؤمنین نماز میں سر بسجو د ہو جاتے ہیں.پٹنی ایک قسم کی مالکانہ دلچسپی اس پھانے (Wedge) میں لیتی تمام ہے جو اسلام نے جزائر برطانیہ کے مذہب میں گاڑ دیا.پٹنی کے مقامی باشندے کھڑے ہو کر ان آدمیوں کا تماشا کرتے ہیں جو باغ میں کنکر کی روشیں بناتے ہیں اور اس عجیب و غریب باغ کو مکمل کرتے ہیں.ایوننگ اسٹینڈرڈ کے ایک نمائندے نے مسٹر درد امام مسجد کو افتتاحی رسومات کا پروگرام خوبصورت عربی الفاظ میں بناتے ہوئے پایا.کالے رنگ، شاندار داڑھی، رنگدار پگڑی اور خوبصورت ایشیائی لباس کے ساتھ مسٹر درد مُلاں معلوم نہیں ہوتے.مسٹر درد نے کہا کہ ہم قدرتاً اس بات میں عزت محسوس کرتے ہیں کہ وائسرائے مکہ ہماری بیت کا افتتاح کریں گے.ایشیاء اب ہمارے سلسلے میں دلچسپی محسوس کرتا ہے.افتتاحی رسومات میں تمام طبقوں کے معزز انگریز شامل ہوں گے.اس کام پر تین گھنٹے صرف ہوں گے.ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے تقریباً تمہیں ممبروں نے آنے کا وعدہ کیا ہے چونکہ مجمع میں انگریز خاصی تعداد میں ہوں گے لہذا ہم کارروائی دو زبانوں میں کریں گے چونکہ امیر انگریزی نہیں جانتا اس لئے وہ پیغام جو وہ اپنے باپ کی طرف سے لایا ہے عربی میں پڑھا جائے گا.جونہی پیغام ختم ہو گا ایک مترجم اس کو انگریزی میں دُہراتا جائے گا اور یہ کارروائی آخیر تک جاری رہے گی.جلسہ کی کارروائی کا نہایت اہم حصہ یہ ہوگا کہ امام جماعت کا ایک پیغام سنایا جائے گا.ہم بیتابی سے اس پیغام کا انتظار کر رہے ہیں جو ہم تک بذریعہ تار پہنچے گا.کارروائی خاص کر تقریروں اور مسجد کے مبارک ہونے کی
میر آف وانڈ روتھ لارڈاش فیلڈ پی سی
سر ہنری جیکسن، ڈاکٹر نو بلز (ایم ڈی)
سر پری برٹن کے بی ای سی (ایم.ایس.ایل.ایل ڈی.ایم اے.ایم پی ) لیفٹیننٹ کرنل ٹی جے بی ولیم ( سابق ایم پی)
123 دُعاؤں پر مشتمل ہو گی.مسجد چندہ کے روپیہ سے بنائی گئی ہے وہ بالکل ایشیائی مسجد کی طرح ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اس میں لمبی لمبی کھڑکیاں ہیں جو یہاں کے موسم کی وجہ سے بنائی گئی ہیں.(9) ٹائمز (Times) مورخہ 3 اکتوبر 1926ء) "لندن کی پہلی مسجد کل تین بجے مکہ کے وائسرائے امیر فیصل اس مسجد کا افتتاح کریں گے جس کو احمد یہ جماعت نے ساؤتھ فیلڈ میں بنایا ہے.یہ موقع میسحیت کے علاوہ دیگر مذاہب کی تاریخ میں ایک بڑا اہم واقعہ ہے کیونکہ یہ لنڈن میں سب سے پہلی مسجد ہے.ووکنگ میں بھی ایک مسجد ہے جس کو بہت عرصہ ہوا کہ ڈاکٹر لیٹنر (Leitner) نے ہندوستان کے چندہ سے بنایا تھا تاکہ وہ ہندوستانی جو تعلیم کی غرض سے یہاں آئے ہیں.اس مسجد میں اپنی مذہبی رسومات ادا کر سکیں لیکن تھوڑے عرصے سے اس مسجد کو عبادت گاہ کے طور پر استعمال کیا جانا شروع ہوا ہے.یہ واٹر لو اسٹیشن سے 25 میل کے فاصلے پر ہے.ٹائمنر نے اوائل 1911ء میں ایک مسجد کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی تھی اور چندہ جمع کرنے کے لئے ایک با اثر کمیٹی کا اعلان کیا گیا تھا مگر یہ تجویز بارآور نہ ہوئی.صرف جمعہ کی نماز کے لیے ایک کمرہ کرایہ پر لیا گیا تھا.اس کمی کو پورا کرنا جماعت احمدیہ کے حصہ میں تھا.اس فرقہ کے امام حضرت خلیفہ اسیح پچھلے سال مع اپنے رفقاء کے مذہبی کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے آئے تھے اور اس بیت کی بنیاد رکھی تھی.ہر ہولی نس حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ السلام) کے دوسرے جانشین ہیں جنہوں نے مسیح موعود
124 علیہ السلام ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کی آمد کی خبر انجیل اور اسلامی کتب میں ہے.نیز اس نے موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کی آمد کی خبر ہر ایک نبی نے دی ہے.موجودہ خلیفہ 1908ء میں بانی سلسلہ کی وفات پر منتخب ہوئے اور 38 برس کے ہیں.یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سلسلہ جس کے پیرو تمام روئے زمین پر دس لاکھ نفوس ہیں ( دینِ حق) سے ایسا ہی وابستہ ہے جیسا کہ عیسائیت یہودیت سے.مسجد نہایت سادی اور انڈوسیرسینک (Indo Saracenic) وضع کی ہے دو سو (200) نمازیوں کے نماز پڑھنے کی اس میں گنجائش ہے.اس میں ایک گنبد اور چار مینارے ہیں.مینارے اسلامی ممالک کے طرز پر استعمال کئے جائیں گے.پانچ دفعہ دن میں مؤذن مینارہ پر چڑھ کر پکارے گا کہ خدا سب سے بڑا ہے میں شہادت دیتا ہوں کہ خدا اکیلا عبادت کے قابل ہے.نماز کے لئے آؤ صبح کی آذان میں یہ بھی پکارا جائے گا کہ نماز نیند سے اچھی ہے.دروازہ پر کلمہ لکھا ہوا ہے خدا ایک ہے محمد اُس کا رسول ہے.اُس کے نیچے فارسی کتبہ ہے جو کہ بانی سلسلہ پر بذریعہ الہام اُترا تھا.وہ یہ ہے ”اس عمارت میں امن ہے، یہ خدا کی محبت کے رہنے کی جگہ ہے.مسجد کا رُخ مکہ کی طرف ہے.دروازہ کے قریب جوتے اتارنے کی جگہ ہے اور فوارہ پر وضو کرنے کی.عمارت کا کام میسرز تھامس ماسن اینڈ سنز کے ہاتھ میں ہے اور معمار مسٹر آلی فینٹ ہیں.66 جب حضرت خلیفہ مسیح اس ملک میں آئے تھے تو انہوں نے احمدنیہ مشن کا کام مسٹر اے.آر.درد صاحب کے سپرد کیا جو اس سے پہلے ان کے پرائیوٹ سیکریٹری تھے اور اب مسجد کے امام ہیں.مسجد کے پاس ایک گھر ہے جو 1 نقل بمطابق اصل
125 دفتر اور لیکچر ہال کا کام دے گا.لنڈن اور اس کے قرب و جوار میں سو (100) کے قریب نو مسلم ہیں جن میں سے بہت سے یورپین ہیں.مسٹر درد ریویو آف ریلیجنز (Review of Religions) کی ایڈیٹری کا کام بھی کریں گے.جمعہ کے دن مسجد میں جمعہ کی نماز ہوا کرے گی اور اتوار کو لیکچر ہال میں لیکچر ہوا کرے گا.سمجھ اور بُردباری احمدیہ جماعت کا خاصہ ہے.خلیفہ اسیح نے اپنے پیروؤں کو موجودہ مذہبی کشمکش سے جو ہندوستان میں جاری ہے روکا ہے.شروع ہی سے ان کے امام نے گورنمنٹ کی اطاعت کو لازم قرار دیا ہے.ہر ہولی نس (His Holyness) کی ہدایات کے ماتحت امام مسجد نے یہ انتظام شروع کیا ہے کہ غیر مسلم لیڈرانِ مذہب اپنے اپنے مذہب کے اُصولوں کی خوبیوں کے بارے میں تقریریں کیا کریں عیسائی اور یہودی پیشواؤں کو اس بارے میں مخاطب کیا ہے.کل امیر فیصل کا مسجد کے دروازہ پر استقبال کیا جائے گا.وہ چاندی کی چابی سے مسجد کا افتتاح کریں گے.ایک بڑے شامیانے کے نیچے جلسہ منعقد کیا جائے گا جہاں امیر کو ایڈریس پیش کئے جائیں گے.ان کو وہ جواب دیں گے.سلسلہ کے امام کی طرف سے ایک تار کا پیغام سنایا جائے گا.امریکہ، مصر، شام اور دوسرے ممالک کے احمدیوں کی طرف سے پیغام سنائے جائیں گے.(10) ویسٹ منسٹر گزٹ (West Minister Gazette) مورخہ 2/اکتوبر 1926ء) مؤذن کی آواز لنڈن میں کل سہ پہر کو ایک مؤثر تقریر عربی اور انگریزی میں مسلمانوں کی پہلی
126 مسجد کے افتتاح کے موقع پر ساؤتھ فیلڈ میں کی جائے گی.یہ بات پہلے سے قرار پا گئی تھی کہ شاہ حجاز کا صاحبزادہ امیر فیصل اس مسجد کا افتتاح کریں گے اور ان کی اس ملک میں آنے کی وجہ بھی یہی ہے.اب ریورٹر (Reverter) کی خبر ہے کہ شہزادہ مسجد کا افتتاح نہیں کریں گے مگر گزشتہ رات امام بیت نے ریورٹر کو اطلاع دی ہے کہ اُسے بذریعہ تار یہ اطلاع ملی ہے کہ شہزادہ ضرور بیت کا افتتاح کریں گے.بہت سے معزز انگریز اس موقع پر موجود ہوں گے.ان میں سے تمہیں (30) پارلیمنٹ کے ممبر ہوں گے.مقامی باشندے پہلے آذان کی آواز سنیں گے.اس کے بعد کارروائی ہوگی.(11) ایوننگ نیوز (Evening News) مورخہ 2 /اکتوبر 1926ء) مکہ کے وائسرائے اور شاہ حجاز کے بیٹے امیر فیصل کو اپنے باپ سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ ساؤتھ فیلڈ کی مسجد کے افتتاح میں شریک نہ ہوں.شہزادہ کے لنڈن میں آنے کی ایک وجہ مسجد کا افتتاح کرنا تھا.ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ مکہ کو ایک تار گیا تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ امام مسجد نے یہ انتظام کر رکھا ہے کہ غیر مسلموں کے لئے بھی یہ مسجد کھلی ہو گی تاکہ وہ ( دین حق) کی طرف جھک جائیں.اس بات کو اسلام کی سبکی خیال کیا گیا.اس لئے شہزادہ کو روکا گیا تا کہ اس بدعت کا سد باب ہو.ایوننگ نیوز کو فارن آفس سے یہ اطلاع ملی ہے کہ کل کی افتتاحی کارروائی میں شہزادہ شامل نہ ہوگا.چونکہ امام مسجد کو اس کی بابت کوئی اطلاع نہ تو مکہ سے ملی ہے اور نہ شہزادہ فیصل سے اس لئے ان کو امید ہے کہ شہزادہ ضرور تشریف لائے گا.مسجد جماعت احمدیہ کی ہے جس کے بانی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی (علیہ السلام)
127 تھے.یہ فرقہ مذہبی بُردباری کا ہمیشہ حامی رہا ہے اور مذہبی تشدد اور مذہبی لڑائیوں کو صفحہ دُنیا سے ہمیشہ کے لئے مٹانے میں کوشاں رہا ہے.ایوننگ نیوز کے ایک نمائندہ کو مسجد کے ایک کارکن نے یہ کہا کہ یہ نئی مسجد کی ایک مخصوص مشنری تحریک ہے.ہم عیسائیوں کو کہتے کہ آؤ اور خوبصورت چیزوں کی بابت علم حاصل کرو اور علوم کے آسمانی چشمے کو چکھو.مسلمانوں میں کئی ایک فرقے ہیں، ہم بھی ایک فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں.ہمارا فرقہ سب سے زیادہ مضبوط اور راسخ الاعتقاد ہے.دو سال قبل صرف دوسو (200) انگریز تو مسلم تھے اور آج تقریباً دو ہزار (2000) ہیں.ہماری نئی مسجد صرف 175 آدمیوں کے لئے کافی ہے مگر ہمیں جلدی سینٹ پال (St.Paul) یا ویسٹ منسٹر ایسے (West Minister Abbey) جتنی بڑی جگہ کی ضرورت پڑے گی، اس لئے ہندوستان اور دوسرے ممالک میں چندہ جمع کیا جا رہا ہے.(12) آبزرور (Observer) (مورخہ 3 اکتوبر 1926ء) فرقہ وارانہ خصومت“ شہزادہ فیصل کے مسجد کے افتتاح میں حصہ نہ لینے کے فیصلے نے ایک عالمگیر دلچسپی پیدا کر دی.امیر چند ہفتوں سے لنڈن میں ہے اور یہ فیصلہ شدہ بات تھی کہ وہ مسجد کا افتتاح کریں گے.بندوبست مکمل ہو چکا تھا.افتتاحی رسم ادا کرنے کا وقت آج تین بجے تھا.امیر نے ایک چاندی کی چابی سے مسجد کا دروازہ کھولنا تھا اور ایک ایڈریس کا بھی انہوں نے جواب دینا تھا.کل کے اخبارات میں افتتاح کی بابت اعلانات تھے مگر ساتھ ہی ایک اخبار نے یہ لکھا کہ امیر افتتاح میں شامل نہ ہوں گے.اس کا راز کل
128 معلوم نہ ہو سکا.صرف اتنا ہی پتہ چلا کہ امیر اس میں حصہ نہیں لیں گے.یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیر کو سلطان ابن سعود نے تار کے ذریعہ روکا ہے.اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ شاہ نجد نے جو کہ وہابی فرقہ کا سردار ہے ایک حریف فرقہ کی مسجد کے افتتاح کو غیر موزوں سمجھا.ان دونوں فرقوں میں بعض شدید اختلافات ہیں.وہابی اپنے مذہبی خیالات میں افراط کے درجہ کو پہنچے ہیں.وہ تمباکو کو قطعی حرام جانتے ہیں.اور کافی جو صحرائی قوموں کی تسکین ہے.ان کے خیال میں ایک قابل شرم عیاشی ہے.احمدی انسانی کمزوریوں کو ایک وسیع اور بردبارانہ نظر سے دیکھتے ہیں.عبادت کے رسومات کے متعلق بھی ان میں اختلاف ہے.(13) ٹائمز (Times) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) لنڈن کی پہلی مسجد - سلطان ابن سعود کی ممانعت لنڈن کی پہلی مسجد کے افتتاح سے امیر فیصل کے آخری گھڑی پر دست کش ہو جانے نے پبلک کو ڈرامے والی حیرت میں ڈال دیا اور امام اور اس کے احمدی دوستوں کو از حد مایوس کر دیا.دستبرداری کا پیغام امام مسجد کو ہفتہ کے دن گیارہ بجے صبح دیا گیا.شہزادہ کا فارن سیکریٹری ان کو یہ اطلاع دینے کے لئے آیا کہ امیر کو افتتاحی رسم میں شامل نہ ہو سکنے سے سخت رنج و مایوسی ہے کیونکہ اسے حجاز اور نجد کے بادشاہ کی طرف سے ممانعت کی تار وصول ہوئی ہے.امیر نے نہ صرف معذرت پیش کی بلکہ اپنے نمائندہ کی معرفت یہ کہلا بھیجا کہ اُس نے باپ کو تار دی ہے کہ کچھ غلط فہمی ہوئی ہے.ممانعت پر نظر ثانی کی جائے.
129 یہ کہا جاتا ہے کہ اس اپیل میں ابن سعود کے ایک گہرے انگریز دوست کی مدد استعمال کی گئی ہے.امیر کا اسٹاف ہمیں کچھ نہ بتا سکا کہ اس اپیل کا کیا اثر ہو گا.بیت کی افتتاحی رسم کی ادائیگی خان بہادر شیخ عبدالقادر کے حصہ میں آئی جو پنجاب کونسل کے پریذیڈنٹ رہ چکے ہیں اور لیگ آف نیشنز (League of Nations) کے اجلاس میں ہندوستانی نمائندہ ہیں.شاہ حجاز ونجد کا فیصلہ اس وجہ سے زیادہ تعجب انگیز ہے کہ بہت عرصہ پیشتر یعنی ماہ اگست میں انہوں نے اس کام کے لئے وائسرائے (Viceroy) مکہ کو اپنے نمائندہ کی حیثیت سے بھیج دینا منظور کیا تھا اور اس بات کی تحقیقات کی تھی کہ احمدیہ مذہب کا اسلام کی راسخ الاعتقادی کے ساتھ کیا تعلق ہے.اس بات کے باور کرنے کے لئے دلیل موجود ہے کہ جونہی اس کام کے لئے امیر کے انگلستان جانے کا اعلان کیا گیا تو ہندوستان کے بعض مسلمانوں نے اس ناخوشگوار واقعہ کے پیدا کرنے کی بہت کوشش کی جو ظہور میں آیا.سلطان ابن سعود کو بہت تار اس مضمون کے ملے کہ احمدیوں کے اعتقادات ملحدانہ ہیں اور جن باتوں کو وہابی بہت اہم جانتے ہیں ان کو یہ غیر ضروری سمجھتے ہیں.ابتداء میں یہ کوشش کارگر نہ ہوئی اور سلطان اپنی رائے پر قائم رہا.اگر چہ مسجد ایک چھوٹے فرقہ کی ہے لیکن تاہم اس کا سلطنت برطانیہ کے دارالخلافہ میں قائم ہونا اسلام کے لئے ایک مبارکبادی کا کام ہے اور مقاماتِ مقدسہ کے وائسرائے کی شمولیت کا ایک نہایت موزوں موقع ہے.یہ رائے سلطان کی پالیسی کے عین مطابق تھی کہ حجاز میں حج کرنے والوں کو خواہ وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں داخل ہونے کے لئے انتہا درجہ کی آزادی دی جائے.اس شور و شر کے اُٹھانے سے بعض مسلمانوں کا مقصد زیادہ تر پولیٹیکل (Political) تھا جو لوگ انگریزوں کے برخلاف تھے انہوں نے اس بات کو
130 ناگوار جانا کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس سے برطانیہ اور عرب کے کثیر یا قلیل حصہ کے درمیان دوستانہ راہ و رسم بڑھائے جانے کا احتمال ہو.جنگِ عظیم میں پنجابی احمدیوں کی غیر متزلزل وفاداری اور مفید خدمات ان کو نہیں بھولے تھے.ان کی کوششوں کو ایک بلا ارادہ مدد لنڈن کے ایک اخبار سے ملی جس نے چند دن ہوئے بمقابلہ غیر احمدیوں کے احمدیوں میں زیادہ مذہبی بردباری پائے جانے پر بہت زور دیا تھا.یہ بیان مصر اور دیگر اسلامی ممالک کے عربی اخبارات کو اس رنگ میں پہنچا کہ جس سے یہ خیال ہوتا تھا کہ یہ نئی مسجد مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں کے لئے ہے.اہلسنت میں سے وہابی بہت سخت ہیں.اُن کے نزدیک تمباکو حرام ہے.احمدیوں کے خیالات وسیع ہیں.ان کا اثر ان کی تعداد کی نسبت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے.تعلیم یافتہ مسلمان ان کے قابو میں ہیں لہذا ان کا اثر عظیم الشان ہے.احمدیہ فرقہ اور سلطان کے اختلاف عقائد کو بار بار پیش کیا گیا ہے اور احمدیوں کی مذہبی بردباری کی غلط تعبیر کئے جانے نے اس کی تعمیل کر دی.سلطان نے جس کام کے لئے اپنا نمائندہ بھیجا تھا اس سے اس کو روکا اس سے پتہ لگتا ہے کہ اس پر بہت بڑا اثر ہوا ہے.دو کنگ مشن (Woking Mission) جس کو بیگم صاحبہ بھوپال بہت امداد دیتی ہیں تیرہ سال سے کام کر رہا ہے.اس کے کارکن احمدیوں کی کوششوں سے بے تعلقی ظاہر کرتے ہیں اور ان کو فرقہ وارانہ سمجھتے ہیں.مسجد کا افتتاح مسجد کے افتتاح کے وقت کل سہ پہر ایک بہت بڑا مجمع موجود تھا.اس میں زیادہ تر لنڈن کے مختلف مقامات کے غیر مسلم شامل تھے.ہندوستان اور دیگر ممالک کے مسلمان چرچ آف انگلینڈ کے پادری اور دوسرے گرجوں
131 اور وینڈ زورتھ کی میونسپلٹی (Municipality) کے نمائندے اس مجمع میں حاضر تھے.مسجد کے دروازہ کے احاطہ کے دروازہ پر یہ اعلان لگا ہوا تھا ”امیر فیصل کی خواہش کے برخلاف اس کو افتتاحی کارروائی میں حصہ لینے سے روکا گیا ہے.ان کی غیر موجودگی میں خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب بی.اے بیرسٹر ایٹ لاء سابق وزیر گورنمنٹ پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز افتتاح کریں گے اس پر مسٹر درد کے دستخط تھے.مسٹر درد نے کہا کہ ہفتہ کے دن وہابی بادشاہ کے نمائندے نے ان سے کہا کہ اسے اور امیر کو پوری تسلی ہے کہ افتتاحی رسومات میں شامل ہونے سے کوئی حرج نہیں کیونکہ اسے یقین ہے کہ مغرب میں مسجد بنانے سے وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.خان بہادر شیخ عبدالقادر نے جنہوں نے مسجد کا افتتاح کیا یہ کہا کہ ان کی رائے میں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور مکہ کے وائسرائے کی غیر موجودگی کا سبب فرقہ وارانہ کم ظرفی نہیں.لندن میں مسلمان فرقوں کے جھگڑوں سے بالا ہیں.مہاراجہ بردوان نے کہا کہ جو کچھ ہندوستان میں اس وقت ہو رہا ہے وہ ایک جلد گزر جانے والی حالت ہے اور یہ مسجد اسلام کے غیر متعصب ہونے کی دلیل ہے.دوسرے مقرروں نے اسلامی وحدت پر زور دیا اور کہا کہ ہم فرقہ بندیوں کو نظر انداز کر سکتے ہیں.انہوں نے بڑے یقین سے اس بات کا اظہار کیا کہ مذہب کے اثر سے عالمگیر اور مستقل صلح قائم رہ سکتی ہے.(14) ویسٹ منسٹر گزٹ (West Minister Gazette) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) مسجد کا معمہ - آخری گھڑی پر شہزادہ کی دست برداری“
132 لنڈن کی مسجد کے افتتاح کے موقع پر امیر فیصل کی غیر موجودگی نے لوگوں کو استعجاب میں ڈالا اور کثرت سے رائے زنیاں ہوئیں.اسلامی حلقوں میں یہ ایک بہت بڑا موقع تھا اور کچھ عرصہ پیشتر کہا گیا تھا کہ امیر فیصل اپنے والد کے نمائندہ کی حیثیت سے مسجد کا افتتاح کریں گے دو دن ہوئے یہ افواہ اُڑی کہ امیر افتتاح مسجد میں شامل نہ ہوں گے.کوئی سرکاری اطلاع اس کی بابت مسجد کو نہیں ملی تھی.اس لئے شہزادہ کے استقبال کے لئے تیاریاں ہو رہی تھیں.کل اڑھائی بجے یعنی افتتاح مسجد سے آدھ گھنٹہ قبل جبکہ تمام لندن کے مسلمان حاضر تھے اور بہت سے معزز انگریز مہمان جمع ہو گئے تھے امام مسجد کو سلطان کے فارین سیکریٹری سے یہ تار ملا کہ افسوس! امیر فیصل شامل نہ ہو سکیں گے.اس اچانک دستبرداری کی وجہ بیان نہیں کی گئی.امیر کی غیر حاضری میں مسجد کا افتتاح خان بہادر شیخ عبدالقادر سابق وزیر پنجاب حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کی.مسجد کے سیکریٹری مسٹر جی ایف ملک نے ویسٹ منسٹر ( West Minister) کے ایک نمائندہ کو کہا کہ شہزادہ کی غیر حاضری سے سب کو افسوس ہے.میرے خیال میں شہزادہ کو اس کے والد نے روکا ہے اور اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابنِ سعود کے بعض طاقتور دوست بہت متعصب ہیں اور احمد یہ فرقہ کی مذہبی بُردباری کے مخالف ہیں.ان بااثر لوگوں نے سلطان کو اپنے بیٹے کے روکنے پر آمادہ کیا ہو گا.امام نے سوا تین بجے قرآن شریف کی تلاوت کی.اُس کے بعد شیخ عبدالقادر صاحب نے چاندی کی چابی سے مسجد کا دروازہ کھولا اور مسجد کے افتتاح کا اعلان کیا.
133 (15) ڈیلی ٹیلی گراف (Daily Telegraph) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) ابن سعود کی کارروائی ملہ کا وائسرائے امیر فیصل کل لنڈن کی پہلی مسجد کے افتتاح کے موقع پر حاضر نہ تھا.اعلان شدہ وقت کے آدھ گھنٹہ پہلے تک یہ اُمید کی جاتی تھی کہ وہ افتتاحی رسم کو ادا کریں گے مگر آخر کار اُس کی جگہ خان بہادر شیخ عبدالقادر نے سنبھالی جو کہ پنجاب گورنمنٹ کے سابق وزیر تھے اور انجمن بین الاقوام کے موجودہ نمائندہ ہیں.نامعلوم وجوہات کے ماتحت امیر کو اس وعدہ کے ایفا سے روک دیا گیا جو اس کے والد نے کیا تھا.مسجد کے متعلقین کی رائے میں اس کی غیر حاضری کا سبب ان مسلمانوں کا فعل ہے جو فرقہ احمدیہ کو سمجھتے ہیں.وہابی جن کا سردار ابن سعود ہے شدید ترین مسلمانوں میں سے ہیں.امام مسجد کی رائے یہ ہے کہ اس کی ایک گفتگو جولنڈن کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی اس طرح سے ترجمہ کی گئی کہ جس سے یہ مطلب نکلتا تھا کہ یہ مسجد گویا ایک گرجے کی حیثیت رکھتی.ہے اور اس وجہ سے ابن سعود نے اپنے لڑکے کو منع کیا ہے.خدائے رحیم کے نام کے ساتھ یکا یک مسجد کے دروازے کھل گئے.امام مسجد اور شیخ عبدالقادر اور مہاراجہ بردوان نے تقریریں کیں.امام نے کہا ابن سعود کے فارین سیکریٹری سے یہ خط ملا ہے کہ امیر فیصل افتتاح میں شریک نہ ہوں گے.خط میں یہ بیان تھا اس بات سے ہر ہائی نس کو سخت رنج ہوا ہے.ہر ہائی نس اور میں آپ کی کامیابی چاہتے ہیں اور کہ اسے.اس بڑی مسجد کے لئے برکت مانگتے ہیں.“
134 امام نے کہا کہ میں کسی کی بے ادبی یا گستاخی نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ میں نے ہر میجسٹی (His Majesty) ابن سعود کو تار دی کہ وہ بیت کے افتتاح پر ایک نمائندہ بھیجیں کیونکہ وہ آج کل مقامات مقدسہ کے محافظ ہیں.مجھے ہنر میجسٹی کی طرف سے 30 راگست کو یہ اطلاع ملی کہ ہمیں آپ کی دعوت منظور ہے.ہمارا بیٹا اس کام کے لئے آئے گا.ہم نے پیڈنگٹن (Pedington) اسٹیشن پر امیر کا استقبال کیا اور مجھے یقین دلایا کہ 3 /اکتوبر اس کام کے لئے نہایت موزوں دن ہے.جب تمام بندوبست ہو چکے تو میری تعجب کی انتہا نہ رہی جب مجھے یکم اکتوبر کے اخباروں سے یہ پتہ لگا کہ امیر کو روک دیا گیا ہے.میں نے سرکاری تصدیق کا انتظار کیا کیونکہ مجھے باوثوق بتایا گیا تھا کہ ہر میجسٹی نے ہمارے ہندوستان کو اطلاع دی ہے کہ اُن کا بیٹا ضرور شامل ہو گا.امیر کا فارین سیکریٹری حالات واضح کرنے کے لئے مسجد میں آیا اور کہا کہ امیر کو بکتی اطمینان ہے کہ افتتاحی رسم میں شامل ہونے سے کوئی حرج نہیں.مگر اب حالات ایسے ہو گئے کہ جتنی بھی ان کی خواہش ہو وہ شامل نہ ہو سکیں گے.امام کو اصلی راز کا پتہ نہیں اور ان کے خیال میں امیر کو بھی اس کا علم نہیں.یہ کہا گیا تھا کہ شاہ حجاز کو کسی نے یہ اطلاع دی ہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کی نہیں مگر یہ صریح غلط ہے.ڈیلی ٹیلی گراف (Daily Telegraph) کے نمائندہ کو مسٹر ملک نے یہ کہا کہ ہندوستان میں بعض لوگ ابن سعود کے ہمدرد ہیں اور وہ کٹر مسلمان ہیں اور ان میں اور ہم میں اختلاف ہے.سب سے بڑا ختلاف یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ خدا نے تمام قوموں میں انبیاء بھیجے ہیں اس لئے ہم مختلف مذاہب کے پیروؤں کو بھائی اور دوست سمجھتے ہیں.ہم مذہبی تشدد کے قائل نہیں مگر ان لوگوں کا یہ عقیدہ نہیں جس میں ابن سعود بھی شامل ہے.جونہی سلطان کے
135 دوستوں کو علم ہوا کہ امیر مسجد کا افتتاح کریں گے تو انہوں نے اعتراض کیا.دوسری ممکن وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ امام کی گفتگو کو لنڈن کے ایک اخبار نے شائع کیا تھا اور اس کا غلط ترجمہ کیا گیا تھا.امام نے یہ کہا تھا کہ ہم تمام مذاہب کے پیروؤں کو خوش آمدید کہتے ہیں.ایک مصری اخبار نے اس کا مطلب یہ لیا کہ یہ مسجد ایک اسلامی مسجد نہیں بلکہ گر جا سا ہے.اس کو بذریعہ تار بھیجا اور ابن سعود کی کارروائی اسی کے نتیجے میں ہوئی.(16) ڈیلی کرانیکل (Daily Chronicle) مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) مشرق و مغرب کا ایسا عجیب اور دلفریب ملاپ شاذ و نادر کبھی ہوا ہو جیسا کہ دیکھنے میں آیا جبکہ لنڈن کی لمبی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی آذان ساؤتھ فیلڈ (South Field) کے چمکدار میناروں سے سنائی دی.موقع کی دل آویزی میں ایک نادر آمیزش ڈرامے کی بھی تھی کیونکہ آخری گھڑی تک مؤمنین کو خلاف اُمید یہ توقع تھی کہ امیر فیصل ان کی بیت کا افتتاح کریں گے.کارروائی شروع ہونے سے کچھ عرصہ پہلے مسٹر اے.آر.درد کو شاہ حجاز کے فارن سیکریٹری سے یہ اطلاع ملی جو حسب ذیل ہے:.میں بہت افسوس کے ساتھ آپ کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہز ہائی نس امیر فیصل شمولیت نہ کر سکیں گے.اس کے باعث ہز ہائی نس کو بہت رنج گزرا ہے اور ہر ہائی نس اور میں آپ کی کامیابی اور اس بڑی مسجد کے مبارک ہونے کے خواستگار ہیں.ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ آپ کا کام کامیاب ہو.“
136 عربی شہزادہ کی غیر حاضری میں لندن کی پہلی مسجد کا افتتاح شیخ عبد القادر صاحب سابق وزیر پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کیا.یہ رسمی کارروائی ایسے حالات میں کی گئی جو کہ عجائبات سے بھر پور لنڈن کے لئے بھی انوکھی تھی.مہمان آ آ کر باغیچے میں چلے جاتے تھے جہاں پولیس کا پہرہ لگا تھا.جہاں امام نے اُن کو خوش آمدید کہا.یہاں پر جیسا کہ سوشل اجتماعوں کے موقع پر دستور ہے.دو بڑے بڑے شامیانے نصب تھے جس کے نیچے چائے کے میز لگے ہوئے تھے.ہم مسجد کے سفید ر کنکریٹ (Concrete) کے بنے ہوئے چمن سے آگے بڑھے.ادھر امام نے سریلی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کی اور دُعا کے چند الفاظ کے ساتھ شیخ عبد القادر صاحب کو چابی دی تو کیمروں اور ادھر سینامیٹو گرافی (Cinematography) کی مشینوں کے ایک توپ خانہ نے حرکت شروع کی.جونہی دروازہ کھلا.خوشبو سارے چمن میں پھیل گئی اور مومنین نے خوشی کے نعرے لگائے.تقریروں کے ختم ہوتے ہی میناروں سے مؤذن کی دل سوز آواز مومنین کو نماز کے بلانے کے لئے سنائی دی.کالا لباس پہنے ہوئے ایک شخص ایک مینارہ سے دوسرے مینارہ تک چلتا ہوا دکھائی دیتا تھا اور ڈسٹرکٹ ریلوں کے شور کو چیرتی ہوئی الصلوۃ الصلوۃ کی آواز آئی.مومنین نے جس میں یورپین نو مسلم بھی تھے.فوارہ پر وضو کیا.منہ، ناک، ہاتھ ، کلائی اور پاؤں کو پانی سے دھویا اور جراب پہنے ہوئے سفید دیواروں والی بڑی عمارت میں سجدہ کرنے کے لئے گئے.آذان کی آواز میناروں سے پانچ مرتبہ دن میں آیا کرے گی یعنی صبح سویرے، دوپہر ، سہ پہر، مغرب اور عشاء کے وقت.مسجد کی موجودہ حالت میں موزوں سیڑھی کے
137 ذریعے مینارہ تک پہنچے گا.آئندہ کبھی مسجد کو وسیع کیا جائے گا.یہاں تک کہ گنبد جو کہ اب دروازہ کے بازو پر واقع ہے عمارت مکمل ہونے پر عین وسط میں آ جائے گا.کارروائی کے اثناء میں ایک گروہ تعجب کے عالم میں باہر کھڑا رہا اور آذان کے وقت خاموشی سے لرز رہا تھا.لوگ مشرق مغرب کے فیشن کو دیکھ کر استعجاب میں غرق تھے.چمکدار قبائیں، خوش رنگ صافے، سُرخ ٹوپیاں، سیویل رو کے سوٹوں اور انگریزی ٹوپیوں کے ساتھ مل کر تعجب انگیز معلوم ہوتے تھے.عمارت باغیچہ میں ترچھی کھڑی ہے کیونکہ اس کا رخ مکہ کی طرف ہے اس کو ٹھیک ٹھیک ایشیائی طرز پر کھڑا کرانا کوئی معمولی کام نہ تھا.ایسا معلوم ہوتا ہے گویا ہندوستان کا ایک گم شدہ کھڑا حوالی لنڈن میں لا کر کھڑا کر دیا گیا ہے.(17) مارننگ پوسٹ (Morning Post) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) امام نے کہا کہ امیر کے نہ آنے کے بعض خفیہ وجوہات ہوں گے جو کہ عرب اور اسلامی شان کے شایان نہیں.ان کو یقین ہے کہ اس راز کا پتہ بعد میں لگ جائے گا.شاہ حجاز کو صریح بے بنیاد غلط خبریں دی گئی ہیں.شہزادہ کے بجائے شیخ عبد القادر صاحب نے بیت کا افتتاح کیا.انہوں نے بتایا کہ احمدیہ فرقہ کو دقیانوسی خیالات کے مسلمانوں میں ہر دلعزیزی حاصل نہیں.شاید انہی کی کرتوتوں کی وجہ سے شہزادہ کو منع کیا گیا ہے.(18) ناردرن ایکو (Northern Echo) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) مجمع میں بہت سے انگریز شامل تھے.ان میں سر ہیری
138 برٹن (Sir Harry Burton) ایم پی اور مسٹر پی جے ہین (.J.Hennin) ایم پی بھی شامل تھے.اسلام کی تبلیغی اسکیم.آنریبل (Honourable) شیخ نے اپنے ایڈریس کے دوران میں کہا کہ وہ ظاہری رسومات کے مؤید نہیں لیکن چونکہ ظاہری رسومات سے اشاعت و شہرت ہوتی ہے لہذا ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے.مسجد چونکہ اسلامی تحریک کا آغاز ہے اس لئے اگر اس کی شہرت نہ ہوئی تو یہ محض گمنامی میں رہے گی.یہ شہرت افتتاحی رسومات کی اشاعت سے حاصل ہو گی.میں احمدیہ فرقہ کا ممبر نہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام کے بعض بڑے اور پرانے فرقے اس فرقہ کو پسند نہیں کرتے ہیں اور امیر کی ممانعت کی بھی یہی وجہ ہے.اس مسجد کے کام کو فرقہ وارانہ نظر سے نہیں جانچنا چاہئے.اسلام کو مغربی قوموں کے سامنے اصلی معنوں میں پیش کرنے کے کام کے سامنے فرقہ بندی بیچ ہے.اسی رائے کو لے کر میں اس مجمع میں شامل ہوا ہوں.(19) ساؤتھ ویلز نیوز (South Wales News) مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) لنڈن نے کل ایک ایسے نظارہ کو دیکھا.جسے اس نے اپنی طویل تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا.ساؤتھ فیلڈ واقع لنڈن میں مسلمانوں کی پہلی بیت رحیم خدا کے نام کے ساتھ کھولی گئی.مسجد کے افتتاح سے پہلے امام بیت نے احمدیہ فرقہ کے امام کی طرف سے ایک پیغام سنایا جس میں ہر ہولی نس (His Holyness) نے یہ فرمایا کہ مسجد کا وجود اس عظیم الشان نیکی کا معاوضہ ہے.جو مغرب نے ہماری گہری نیند کے زمانہ میں ہمارے لئے علوم کی مشعل کو روشن کرنے سے کی ہے.انہوں نے عیسائیوں سے یہ اپیل کی ہے کہ
139 وہ اسلام کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں.کیونکہ اسلام عیسائیت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا.ہم حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں.مجمع میں بہت سے اکابرین شامل تھے.مثلاً لارڈ الیش فیلڈ ( Lord Ashfield)، سر ہیری برٹن (Sir Harry Berton) اور سر مائیکل اوڈوائر (Sir Michael Adwire).(20) یارک شائر پوسٹ (Yorkshire Post) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) سلسلہ احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب جن کی مسجد کا افتتاح آج ہوا.شمالی ہند میں اپنی زندگی کے ایام میں ایک عظیم الشان اثر رکھتے تھے.ان کی ذاتی شہرت اور عزت بہت بڑی تھی.انہیں اپنی راست بازی پر کامل ایمان تھا.اُن کے بڑے مُرید ہیں.پنجاب کے اعلیٰ ترین دماغ والوں میں سے بعض ان کے پیروؤں میں ہیں اور یہی وجہ کہ ان کے اصول آج دُور دُور تک پھیل گئے ہیں.اس میں ہر گز شک نہیں کہ مرزا صاحب کو کامل یقین تھا کہ انہیں خدا کی طرف سے انسانی طاقتوں سے بالا طاقتیں حاصل ہوئی ہیں.وہ بڑی عمر تک زندہ رہے.ان کو فوت ہوئے 15 سال ہوئے ہیں.وہ خلیق اور شریف آدمی تھے وہ اپنے پیروؤں اور عام لوگوں کو ہمیشہ وفاداری کی دانشمندانہ تعلیم سکھاتے تھے.جہاں ان کے اپنے مذہب کا سوال اٹھتا تھا وہاں وہ مذہبی جوش سے بھر جاتے تھے.آریہ سماج کا فرقہ جو انہی کے زمانہ میں نمودار ہوا اور لوگوں کو مرتد کرانے کا ایک مضبوط ذریعہ تھا.ان کے غیظ و غضب کے نیچے آ گیا اور ایک آریہ مبلغ کے قتل کا واقعہ جس کی بابت انہوں نے تباہی کی پیشگوئی کی تھی اب تک پنجاب میں یاد ہے.
140 (21) مانچسٹر گارڈین (Manchester Guardian) (مورخہ 4/اکتوبر 1926ء) جب مسجد کے سیاہ دروازے چاندی کی چابی سے کھولے گئے تو جلسہ کی کارروائی قرآن شریف کی تلاوت اور دُعا سے شروع ہوئی.جلسہ میں مشرق و مغرب کا اجتماع تھا.مسلمانوں کے ہر فرقہ کے لوگ صافے باندھے ہوئے ہندوستان کے دوسرے مذاہب کے پیرو مہاراجہ بردوان جیسے ذی اثر شخص، بیرونی سفارت خانوں کے ممبر اور بہت سے مشہور انگریز جن کو ایشیاء کا تجربہ تھا موجود تھے.امام مسجد نے جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفہ اسیح مرزا محمود احمد صاحب کا ایک پیغام سنایا جنہوں نے دو سال قبل اس مسجد کی بنیاد رکھی تھی.پیغام میں یہ دلچسپ عبارت تھی.”ہم عیسائیت کے برخلاف دشمنی نہیں رکھتے بلکہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ رسول کریم انہی کی پیشگوئی کے مطابق آئے.خداوند تعالیٰ نے مقدس بانی اسلام کے ذریعہ سے دنیا کو آخری ہدایت دی اور یہ ہدایت دنیا کے اختتام تک رہے گی.یہاں تک کہ اس زمانہ کے مصلح حضرت مسیح موعود بانی سلسلہ احمدیہ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیش گوئی کے پورا کرنے کے لئے آئے.ان کا کام اس آخری ہدایت کی سچائی کو قائم کرنا اور اس کے مخفی خزانوں کو ظاہر کرنا تھا لہذا ہمارا کام وحدت کے اس مرکز میں پیار اور دیانت داری کے ساتھ ایک زندہ اور قادر خدا کی پرستش کو پھیلانا اور خالق کی محبت کو لوگوں کے دلوں میں قائم کرنا ہے.ہم مختلف مذاہب کے پیروؤں کے دلوں سے بغض و عداوت کو دُور کرنے کی کوشش کریں گے اور تحقیقات کی سچی رُوح پیدا کرنے کے لئے اپنا پورا زور لگائیں گے.ہم اخلاق کے سنوار نے اور گناہ و تعدی کے
141 مٹانے اور راست بازی کے احساسات پیدا کرنے کے لئے کوشش کریں گے.ہم سچے مساوات جس میں درجوں کے جائز فرق کو تسلیم کیا گیا ہے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.ہم برادری اور باہمی ہمدردی اور تعاون کے جذبات پیدا کرنے کے لئے زور لگائیں گے.میں اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر عیسائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی اسلام کو دشمنی کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور اسلامی تعلیم کے نقائص معلوم کرنے کے بجائے وہ اس کی خوبیوں کو تلاش کریں کیونکہ مذہب کی سچائی دوسروں کے عیوب ظاہر کرنے سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اپنی تعلیم کی خوبیاں ثابت کرنے سے حاصل ہوتی ہے.بھائیو! آج کل کا زمانہ شرک، لامذہبی، خدا سے تغافل، ملکوں کی دشمنی، قوموں کی منافرت اور فرقوں کی رنجشوں کا ایک افسوسناک نظارہ ہے.لہذا ہر ایک خدا سے پیار کرنے والے دیانت دار آدمی کا فرض ہے کہ اپنی نیند سے بیدار ہو جائے اور خدا کے گھروں کو بجائے لامذہبی اور نفاق کا مرکز بنانے کے خدا کی وحدت کے قلعے اور اتفاق کے مرکز بنائے.(22) ٹائمز (Times) (مورخہ 5 /اکتوبر 1926ء) امیر فیصل کا پیغام افسوس“ امیر فیصل نے اپنا دلی افسوس ظاہر کرنے کے لئے ایک دوسرا پیغام بھیجا اور کہا کہ اس کو اس کے باپ نے مسجد کے افتتاح سے روکا ہے اور جس کام کے لئے وہ آئے تھے اُس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا.مسجد کی خیر و برکت کے لئے انہوں نے دُعا دی.سلسلہ کے امام اور مسیح موعود کے جانشین مرزا محمود احمد صاحب کے.
142 ایک برقی پیغام سے مسجد کے مقاصد پر روشنی پڑتی ہے.اس مسجد کے مقاصد کی غلط تعبیر کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ شاہِ نجد جو تقویت بیت کو دینا چاہتا تھا اس سے دستبردار ہو.اس پیغام میں فرقہ کے امام نے خدا کا شکریہ ادا کیا جس نے مغرب کے سب سے بڑے مرکز میں انہیں مسجد بنانے کی توفیق عطا کی اور انہیں اس قابل بنایا کہ وہ اس بڑی نیکی کا معاوضہ دیں جو اُن کی گہری نیند کے زمانے میں مغرب نے علوم کی مشعلوں کو ان کے سامنے روشن کرنے میں کی ہے وہ مسجد کو اس تعلیم کا ظاہری نشان بتاتے ہیں جس سے خدا کی محبت دلوں میں پیدا ہوتی ہے جس سے اخلاق درست ہو جاتے ہیں، جس سے ضمیر کی آزادی حاصل ہوتی ہے جن سے اتفاق و مساوات قائم ہو جاتی ہے، جس سے غریبوں اور محتاجوں کو سہارا مل جاتا ہے.جب انہوں نے 1924ء میں مسجد کی بنیاد رکھی تو ان کے دل میں سوائے اس تعلیم کے اور کچھ نہ تھا.تصویر کا دوسرا پہلو عام رائے تو آپ نے ملاحظہ فرما لی، اب خاص پادریوں کی حالت بھی دیکھ لیجئے.ریورنڈ جے ٹی ڈیوس (Reeve Rend J.T.Davis) لندن کا مشہور یونی ٹیرین (Unitarian) پادری اپنے خط میں جماعت احمدیہ کو مسجد کے بن جانے پر دلی مبارک پیش کرتا ہے اور ان کی اس مراد کے بر آنے پر کہ انہیں ایسی جگہ مل گئی جہاں وہ خدائے واحد کی پرستش کر سکیں وہ بہت خوشی کا اظہار کرتا ہے وہ دُعا کرتا ہے کہ 3 اکتوبر کی رسم افتتاح بڑی برکات کا پیش خیمہ ہو اور اس تحریک کا آغاز ہو جس سے بنی نوع انسان اس نہایت رحیم وکریم خدا پر اپنا بھروسہ اور ایمان مضبوط کریں.مجھے افسوس ہے کہ ضروری مشاغل کی وجہ سے میں افتتاح کے دن شامل نہ ہوسکوں گا.مگر اس چرچ کے
143 دیگر ممبر اس مبارک افتتاح میں ضرور شامل ہوں گے.ڈرہم کے بشپ (Bishop of Durham) یعنی لاٹ فرماتے ہیں کہ:- پادری مجھے چند روز ہوئے امام کی طرف سے ایک دعوتی رقعہ ملا تھا کہ میں مسجد کے افتتاح کے وقت وہاں حاضر ہوں اگر میرا وہاں پہنچ سکنا آسان ہوتا تو میں ضرور اس دعوت کو خوشی سے قبول کرتا، اس کے علاوہ خود تقریب کے وقت کئی پادری صاحبان موجود تھے.اس کے برخلاف بہت سے مذہبی انسان اب بھی انگلستان میں موجود ہیں جن کو مسجد کے ساتھ دلی مخالفت ہے.آرچ بشپ آف کنٹر بری (Archbishop of Canterbury) سب سے بڑے انگلستان کے پروٹسٹنٹ (Protestant) پادری ہمارے دعوتی رقعہ کے جواب میں فرماتے ہیں آپ آسانی سے اس بات کو سمجھ لیں گے کہ میرے لئے مسلمانوں کی کسی تقریب میں شامل ہونا موزوں نہ ہوگا“.اس طرح رومن کیتھولک (Roman Catholic) کے سب سے بڑے پادری کا جواب یہ ہے ”آپ جانتے ہیں کہ ہم کسی اور مذہب کی عبادت میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ایمان عبادت پر مقدم لاٹ پادری صاحب کی خدمت میں لکھا گیا کہ ہم نے آپ کو عبادت میں شریک کرنے لئے نہیں بلایا بلکہ تقریب افتتاح میں شامل ہونے کے لئے مگر پادری صاحب کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی.باپٹسٹ ٹائمنر (Baptist Times) جو مسیحوں کے ایک فرقہ کا اخبار ہے یوں رقمطراز ہے.اس مسجد کی تعمیر کو ایک چیلنج سمجھنا چاہئے.مغرب اب تک مشرق کو
144 مذہباً اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا رہا ہے مگر افسوس کہ اس نے اپنی طاقت کو اپنے گھر میں ہی کمزور کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مشرق بھی مغرب کی طرف دیکھنے لگا ہے.اب مسلمانوں کی آذان کا نعرہ اس سر زمین میں سنایا جانے والا ہے اس کے بعد وہ ان پادریوں پر اعتراض کرتا ہے جو افتتاح میں شریک ہوئے تھے اور ان کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر عیسائیت کا کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ اسلام ہی ہے.اسی طرح مقام کلکٹن (Kilkton) میں ایک بحث کے دوران میں مسٹر لارنس نے بڑا تعجب ظاہر کیا کہ انگلستان کی تمام مسیحی جماعتوں نے کیوں متحد ہو کر ایسا مقابلہ نہ کیا کہ اس سر زمین پر یہ مسجد تعمیر ہی نہ ہو سکتی، مگر اخبار کلکٹن گریفک (Kilkton Grapihc) میں ایک دوسرے شخص نے اس کا منہ توڑ جواب دیا کہ اگر یہی عمل عیسائی گرجوں اور مشنوں کے ساتھ دوسرے ممالک میں کیا جائے تو کیا ہمارے ملک کے باشندے اس کے برخلاف صدائے احتجاج بلند نہ کریں گے وغیرہ وغیرہ.بیت کے افتتاح کا فوری اثر اور اس سے فائدہ اُٹھانے کی تجویز مجھے اس موضوع پر خود کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ بہتر ہے کہ اس کے متعلق خود حضرت خلیفہ اسیح کا وہ خطبہ درج کر دیا جائے جو آ.نے قادیان میں 26 نومبر کے دن بیان فرمایا : - خطبہ جمعہ: میں نے ایک دفعہ پہلے بھی بیت لنڈن کے افتتاح کے متعلق ذکر کیا تھا اور آج اس کے ایک اور پہلو کے متعلق جماعت کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.
145 اس تقریب اور اس شاندار افتتاح پر جس طرح اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں ایک تہلکہ اور زلزلہ برپا کر دیا ہے اور ایک شور پیدا کر دیا ہے اور اس کی طرف تمام دنیا کی نگاہیں اُٹھا دی ہیں اس سے پہلے ایسی شاندار تقریب کبھی انگلستان کی تاریخ میں نظر نہیں آتی.چنانچہ یورپ کے بڑے بڑے اخباروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ انگلستان میں اس قسم کا عظیم الشان نظارہ عیسائی مذہب کی تقریب پر بھی اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا.یہ ان لوگوں کی آواز ہے جو انگلستان کے عیسائی ہیں.ایک تو وہ لوگ انگلستان کے رہنے والے.پھر عیسائی اور عیسائی بھی پختہ.اور اس کے ساتھ متعصب اور قومی تعصب میں بھی تمام دنیا کے عیسائیوں سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس تعصب کے باعث کبھی کوئی عجیب بات کسی اور قوم کی طرف منسوب ہونا پسند نہیں کرتے.باوجود ان باتوں کے پھر ولایت کے بڑے بڑے اخبار والوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کبھی کوئی ایسا شاندار اجتماع اور اس قدر دلچسپی رکھنے والی تقریب اس سے پہلے انگلستان میں نظر نہیں آئی.یہاں تک کہ ایک بہت بڑے اخبار والے نے اس حد تک بھی لکھا ہے کہ یہ شاندار اجتماع اس بات کو ثابت کر رہا تھا اور دلوں میں ایک گہری خلش پیدا کر رہا تھا کہ اب انگلستان کو عیسائی مذہب کے علاوہ اور مذاہب میں بھی سچائی تلاش کرنی چاہئے.یہ وہ ہوا ہے جس سے ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ اب انگلستان کے خیالات کس طرف جا رہے ہیں.پھر انگلستان میں ہی اس افتتاح کا چرچا نہیں بلکہ تمام ملکوں اور تمام زبانوں میں اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے اور تمام دنیا کے خیالات میں یک لخت عجیب تغیر پیدا ہو رہا ہے.چناچہ آج ہی جدہ سے ایک خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ یہاں ہم سلسلہ کی کتب لوگوں کو پڑھنے کے
146 لئے دیتے تھے لیکن لوگ کبھی اس طرف توجہ نہیں کرتے تھے اور نہ کبھی کتابیں ہی پڑھتے تھے لیکن اب ہمارے گھروں میں آ آ کر لٹریچر مانگتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں سلسلہ کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے.اور ضرور ہے کہ یہ غیر معمولی اور عالمگیر رغبت اپنا رنگ لائے کیونکہ جب لوگ ہمارے لٹریچر کا مطالعہ شروع کریں گے اور ہماری باتیں توجہ سے سنیں گے تو ان کی خوشبو خود بخود ان کو متوالا کرے گی.کوئی چیز اس وقت تک لوگوں کو اپنی طرف نہیں کھینچتی جب تک لوگ اپنی آنکھوں کو بند رکھتے ہیں اور وہ چیز پردہ اخفا میں رہتی ہے لیکن جب لوگ اس چیز کو کھولتے ہیں یا وہ خود ظاہر ہوتی ہے تو اس کی خوشبو دلوں کو مائل کرتی چلی جاتی ہے اور لوگ شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے.جب اس افتتاح ( بیت) کی تقریب سے نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں سلسلہ کی طرف ایک زبردست رو چلنی شروع ہوئی ہے تو اب ہمارے لئے اس عذر کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ لوگ توجہ نہیں کرتے بلکہ اب سوال یہ باقی ہے کہ ہم ان کی توجہ سے فائدہ اُٹھا ئیں اور کس طرح اُٹھا ئیں.دنیا میں کسی قوم کے غالب آنے کے لئے پہلی چیز یہ ہے کہ اس کا رُعب دلوں میں بیٹھ جائے.جب رُعب بیٹھ جائے تو اس کے بعد دُنیا کو فتح کرنا آسان ہو جاتا ہے کیونکہ رُعب وہ چیز ہے جو اصلی طاقت وقوت سے بھی بہت زیادہ مفید ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن چند باتوں پر فخر کیا ہے ان میں سے ایک رُعب ہے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ” نصرت بالرعب" کہ میری نصرت رُعب سے ہوئی ہے.دُور دراز کے فاصلہ پر بھی دشمن کے دل میرے خوف اور رُعب سے کانپ رہے ہیں.آپ
147 صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ”نصرت بالجند“ کہ لشکروں کے ساتھ مجھے نصرت دی گئی ہے یہ اس لئے کہ دنیا میں جو اثر رُعب کرتا ہے وہ دنیا کی کوئی طاقت اثر نہیں کرتی.لشکر وہ اثر نہیں کرتے جو رعب کرتا ہے اور قوت و طاقت وہ نتائج نہیں پیدا کرتی جو رعب پیدا کرتا ہے کیونکہ رُعب خیالات کو منتشر کر دیتا ہے اور تمام طاقتوں کو کمزور اور پراگندہ کر دیتا ہے پس رُعب کا دنیا کی کوئی چیز مقابلہ نہیں کرسکتی.پنجاب میں ایک لطیفہ مشہور ہے جو بظاہر تو لطیفہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے مگر اس میں بڑی سچائی مخفی ہے مشہور ہے کہ ایک دفعہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ یہ ملّتی جو ہر روز ہمیں تنگ کرتی ہے اس کا کوئی علاج کرنا چاہئے.آخر یہ ہے تو ایک ہی اور اس کے مقابل ہم کافی تعداد میں ہیں، ہم اگر سارے مل کر اُس کا مقابلہ کریں اور اسے پکڑ کر ایک دفعہ اس کا فیصلہ کر دیں تو وہ ایک ہمارے مقابلہ میں کیا کر سکتی ہے اور کہاں تک ہمیں مارے گی.کسی نے کہا میں اس کی ٹانگ پکڑ لوں گا، کسی نے کہا میں اس کی دوسری ٹانگ پکڑ لوں گا، ایک نے کہا میں اس کا منہ پکڑ لوں گا.غرض اس طرح انہوں نے اپنے اپنے حصّہ بلی کے پکڑنے کے لئے ایک کام لے لیا اور خیال کیا کہ بس اب بلی ماری گئی.ہم جب سارے مل کر کام کریں گے تو اس کے مارے جانے میں کیا شک ہو سکتا ہے اور بظاہر یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعی میں بلی کو مارنا چاہیں تو اس طرح وہ ضرور اسے مار سکتے ہیں لیکن جو چیز انہوں نے نہیں سوچی تھی وہ بلی کا رُعب تھا اس اکیلی کا رُعب اپنے اندر اس قدر طاقت رکھتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ہزاروں چوہوں کی طاقت کچھ حقیقت نہیں رکھتی.اسی وجہ سے جو ان میں دانا تھا اس نے بھی یہی کہا کہ بیشک تم سب مل کر اس کو پکڑ لو گے لیکن یہ تو پہلے بتاؤ کہ اس کی میاؤں کو کون پکڑے گا کیونکہ جب وہ ابھی میاؤں ہی
148 کرے گی تو نہ تمہارے ہاتھوں میں طاقت رہے گی نہ تمہارے پاؤں میں طاقت رہے گی.تو یہ لطیفہ در حقیقت اس بات کے بیان کرنے کے لئے بطور مثال بنایا گیا ہے کہ جو کام رُعب دنیا میں کرتا ہے وہ طاقت اور قوت نہیں کر سکتی.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرا رُعب دلوں بٹھا دیا گیا ہے اب جہاں میں جاتا ہوں دشمن کا دل کانپ اُٹھتا ہے اور وہ اپنی طاقت کو بھول جاتا ہے اس کے خیالات منتشر ہو جاتے ہیں اور وہ میرے سامنے ایک بچہ کی حیثیت میں ہو جاتا ہے.پس پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ غالب آنے والی قوم کو دیتا ہے.وہ رُعب ہے.اس قوم کو رُعب دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر چیز پر غالب ہوتے چلے جاتے ہیں اور کوئی چیز ان کے مقابلہ پر نہیں ٹھہرتی.اب دیکھو ایک پولیس مین (Policeman) کے آنے ایک معمولی افسر کے آنے پر سب پر رُعب طاری ہو جاتا ہے حالانکہ وہ اکیلا ہوتا ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ اس کے پیچھے حکومت کا رُعب ہوتا ہے.تو اب اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے ہمارے لئے ایسے سامان تو پیدا کر دیے ہیں جن سے سلسلہ کا رُعب قائم ہو گیا ہے.چنانچہ یورپ کے لوگوں نے بھی اس بات کو لکھا ہے کہ امیر فیصل کے روکنے کی یہ وجہ بھی ہے کہ دوسرے مسلمانوں کے دل اس بات کو دیکھ کر جل گئے ہیں کہ وہ باوجود تعداد اور مال میں ہماری نسبت کروڑوں درجہ زیادہ ہونے کے پھر اس کام میں کامیاب نہ ہو سکے جس میں ایک چھوٹی سی جماعت کامیاب ہو گئی ہے.ادھر یہی خیال ان کے لئے محرک ہوا کہ چلو اس جگہ کو بھی چل کر دیکھیں کہ جس کے افتتاح کے لئے امیر فیصل مکہ سے چل کر آیا.اور پھر مذہبی حساد کے روکنے کی وجہ سے اس تقریب سے رُک گیا.اور درحقیقت اس میں اللہ تعالی کا ہاتھ تھا.کیونکہ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی بیت کسی
149 انسان کی مرہونِ منت ہو.بلکہ اس کے شاندار افتتاح اور اس کی عظمت و شہرت کے سامان اللہ تعالیٰ نے خود ہی پیدا کر دیے.چنانچہ بعض اخباروں میں تین تین دن تک افتتاح کی خبروں کا تانتا لگا رہا.یورپ کے اخباروں کی طاقت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ ایک ایک خبر کے شائع کرنے میں سبقت کرنے کے لئے ہزاروں روپیہ خرچ کر دیتے ہیں.اور پھر ایک دفعہ شائع ہونے کے بعد دوسری دفعہ کبھی شائع نہیں کرتے.اور اگر کسی وجہ سے کسی اور اخبار کے ذریعہ وہ خبر پہلے شائع ہو جائے.تب بھی اسے شائع نہیں کرتے.لیکن افتتاح بیت کے متعلق ولایت کے ایک ایک اخبار مثلاً ٹائمنر (Times) جیسے اخبار نے بھی تین دن متواتر خبریں درج کیں اور یہ نہیں خیال کیا کہ اب یہ خبر پرانی ہو گئی ہے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انگلستان کے ہر گھر میں بیت کے متعلق ایک شور پڑا ہوا ہے.اور چرچا ہو رہا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر رُعب اور عزت جو سلسلہ کو بخشی ہے.اس سے فائدہ اٹھانے کی کیا صورت ہے ان لوگوں کے دلوں میں اب جوش پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ( دینِ حق ) کی صحیح تعلیم کا مطالعہ کریں اور مسلمانوں سے ملیں.ان کی مذہبی حالت ان کی دینی حالت کے متعلق دریافت کریں لیکن اگر ہمارے پاس اس کام کے لئے کافی لٹریچر نہ ہو جو اُن کے ان جذبات کو جو اُن میں پیدا ہو گئے ہیں.ٹھنڈا کرے تو وہ ضرور پھر دوسرے لوگوں کی طرف متوجہ ہوں گے اور ان کے پاس جائیں گے.اور اس طرح گویا ہماری تمام محنت اور لاکھوں روپیہ کا خرچ بالکل ضائع چلا جائے گا.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب ہماری جماعت کے لئے بہت بڑی ذمہ داری ہے.ایک تو پہلے میرے ہی وہاں جانے سے ان کے اندر زبردست ہیجان
150 پیدا ہو چکا تھا کیونکہ وہ لوگ تو مسیح کا نائب پوپ کے سوا اور کسی کو نہیں سمجھتے تھے.ان کو یہ کہاں معلوم تھا کہ اور مسیح بھی مسلمانوں میں پیدا ہوا ہے جس کا نائب ہمارے ملک میں آئے گا.اس لئے پہلے تو میرے وہاں جانے نے اُن کے اندر ایک بہت بڑا ہیجان پیدا کر دیا تھا.چنانچہ اسی وجہ سے اس کثرت سے انہوں نے ہمارے فوٹو لئے کہ ہم تھک جاتے تھے.پھر بڑی بڑی اخباروں کے نمائندے ملنے کے لئے آتے تھے اور ہمارے متعلق متواتر اخباروں میں اس کثرت کے ساتھ ذکر ہوتا رہا کہ ایک نمائندے نے ہمارے ایک دوست کو کہا کہ آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ آپ کو یہاں کس قدر عزت ملی ہے آپ کے خلیفہ کی آمد پر اس کے متعلق اخباروں میں چھ چھ سات سات دفعہ حالات شائع ہوئے ہیں.حالانکہ یہاں بڑے سے بڑے بادشاہ کا بھی سوائے ایک دو دفعہ کے اخباروں میں ذکر نہیں ہوتا.تو ایک میرا وہاں جانا خود ایک ایسی تحریک تھی.جس سے ان کے طبائع میں ایک جوش پیدا ہو چکا تھا.پھر امیر فیصل والا معاملہ درمیان میں آ گیا.جس سے سلسلہ کی شہرت ہوئی.اور پھر باوجود اس کے رُک جانے کے ایسے شاندار افتتاح کا ہونا جس سے نہ صرف انگلستان میں بلکہ تمام دنیا میں ہلچل مچی ہوئی ہے.اس لئے اور بھی ان لوگوں ہے.کے دلوں میں ایک غیر معمولی رغبت ( دینِ حق ) کی طرف پیدا کر دی غرض تھوڑے سے روپیہ کے خرچ کرنے سے اتنی عظیم الشان لہر کا پیدا ہو جانا ایک ایسی بات ہے کہ اب اگر ہماری غفلت سے یہ تحریک ٹھنڈی پڑ جائے.اور اس کے مفید نتائج نہ نکلیں.تو پھر شاید کروڑوں روپیہ بھی خرچ کرنے سے اس قسم کی تحریک نہ پیدا ہو سکے.جب تک میلان نہ ہو تب تک اشتہار دینا بھی کچھ کام نہیں دیتا.اس لئے ان حالات کے ہوتے ہوئے اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہماری
151 طرف سے سلسلہ کا لٹریچر ایسے رنگ میں شائع ہو کہ جس سے ان لوگوں کو سلسلہ کی طرف پورے زور سے توجہ پیدا ہو.اور ان تک لٹریچر پہنچانے کا یہی طریق ہے کہ انگریزی دان دوست انگریزی میں مضامین لکھنے کی طرف توجہ کریں.میں نے بہت سے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی لیکن افسوس کہ سوائے ایک دو دوستوں کے اور کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی.یہ خیال کرنا کہ انگلستان کے (مناد) ہی مضامین بھی لکھیں گے.لوگوں کو بھی ملیں گے.ملاقاتیں بھی کریں گے.سوسائٹیوں میں بھی شامل ہوں گے.لیکچر بھی دیں گے.اور رپورٹیں بھی یہاں بھیجیں گے یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ پدی آسمان کو سر پر اٹھائے یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی آدمی حساب کتاب بھی رکھے.رپورٹیں بھی بھیجے.لیکچر بھی دے اور سوسائٹیوں میں بھی شامل ہو.ملاقاتیں بھی کرے اور ہر وقت مکان پر بھی موجود رہے اور پھر مضامین بھی لکھے حالانکہ صرف ملاقات کرنا ہی ایک ایسا کام ہے کہ جس پر بعض دفعہ دو دو تین تین گھنٹے صرف ہو سکتے ہیں.اور ملاقات میں ناممکن ہے کہ ایک شخص جو دُور سے گھر پر ملاقات کے لئے آیا ہے.اسے چند منٹ مل کر وہیں چھوڑ دے.اور دوسرے کاموں میں لگ جائے.اور پھر باقی کاموں میں سے بھی کوئی ایسا کام نہیں جسے وہ چھوڑ سکیں.مثلاً یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ سوسائیٹیوں میں جانا چھوڑ دیں.اور یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ لیکچر چھوڑ دیں.اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ بچوں کو یا اور نومسلموں کو پڑھانا چھوڑ دیں اور یہ بھی ناممکن ہے کہ ملاقاتیں چھوڑ دیں ہاں اگر ہو سکتا ہے تو یہ ہو سکتا ہے کہ ریویو کے کام کی تخفیف ان سے کی جائے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اگر دوست ریویو میں اعلیٰ درجہ کے مضامین نکالیں تو ان کا ہاتھ بٹ جائے گا.کیونکہ کم از کم ہماری جماعت میں ایک سو انگریزی دان دوست ہیں.جن میں ہر آدمی بھی اگر تین صفحہ کا مضمون بھی سال بھر میں
نکلیر 152 لکھے تو دو سال تک صرف ان کے ہی مضامین سے اخبار چل سکتا ہے.اگر نصف بھی سمجھ لیں اور تین ماہ میں پانچ صفحہ کا مضمون لکھیں تب بھی ریویو کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے.اور ایسا مضمون جسے تین ماہ میں بڑی تحقیق کے ساتھ لکھے گا.نہایت اعلیٰ درجہ کا علمی مضمون تیار ہوسکتا ہے.اور اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ مثلاً ہزار صفحہ میں سے اگر 400 صفحہ بھی چھانٹ لیا جائے تو وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے مضامین ہوں گے.یورپ کے لوگوں میں یہ قاعدہ ہے کہ وہ ہر مضمون نہیں چھاپ دیتے.پس جب تک ریویو میں اس قسم کے اعلیٰ مضامین نہ جو ( دین حق کے تمدن، ( دینِ حق کے اخلاق اور ( دین حق) کی سیاست اور مدنیت غرض اس کے مختلف شعبوں کے متعلق ہوں.تب تک ( دینِ حق ) کا رُعب یورپ میں قائم نہیں رہ سکتا اور ( دینِ حق ) نہیں پھیل سکتا.اور جو انگریزی نہیں جانتے وہ دو طرح سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.ایک تو (دین حق) کی مالی خدمت میں پہلے سے زیادہ باقاعدہ ہو جائیں.اگر صرف با قاعدگی اور اخلاص کے ساتھ فرض ادا کریں تو بھی بہت بڑے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اور جو لوگ سست بیٹھے ہوئے ہیں.اور بجائے کام کرنے کے دوسروں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں.وہ ست بیٹھنا اور اعتراض کرنا چھوڑ دیں.اور اس کی بجائے دعاؤں کے ساتھ کام لیں.تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ تر اعتراض کرنے والے ہی کام میں سست ہوتے ہیں.ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ اعتراض کرنے والا سلسلہ کی پورے طور پر خدمت بجا لاتا ہو.آج تک ایک مثال بھی اس قسم کی نہیں ملتی.کہ معترض کو کام کرنے کی توفیق ملی ہو.کیونکہ اعتراض کرنے والے کے دل میں محبت اور اخلاص نہیں ہوتا.اور محبت اور اخلاص کے ہوتے ہوئے کبھی اعتراض نہیں پیدا ہوتے.پھر تجربہ یہ بھی بتاتا ہے کہ جب کبھی بھی اعتراضات کا سلسلہ شروع
153 ہوتا ہے تو سلسلہ کی تباہی ہوئی ہے.اور یہ کہنا کہ ہم نے اخلاص اور ہمدردی سے اعتراض کیا ہے یہ بھی بالکل غلط طریق ہے.اس سے نہ کبھی اصلاح ہوئی اور نہ ہو گی.یہ ایسی ہی بات ہے.جیسے کوئی کسی کو جوتے مارے اور کہے میری غرض تو اس سے تمہاری عزت پیدا کرنا ہے کیا یہ کبھی ہوسکتا ہے کہ سلسلہ کے کاموں اور مرکزی کاموں کے لئے محبت و اخلاص بھی ہو اور پھر اعتراض بھی کرتے چلے جائیں.پس بجائے اعتراضات میں طاقتیں خرچ کرنے کے خدمت دین میں اپنی طاقتیں خرچ کرو.دوسرا ذریعہ مدد کرنے کا یہ ہے کہ اپنے دلوں میں خشیت پیدا کر کے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ ان موجودہ تغیرات کو ہمارے لئے مفید کرے.یہ دوطریق ہیں جن سے جماعت کے دوست مدد کر سکتے ہیں.یاد رکھو کہ سست اور نکمے معترض جماعت اور سلسلہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.ان کی غفلت کا بوجھ ان کی ہی گردن پر ہو گا یہ کبھی نہیں ہو گا کہ کام کرنے والوں کے انعامات اور اجر ان کو دیئے جائیں.بلکہ وہی لوگ نعمتوں کے وارث ہوں گے جو سچے طور پر دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو خود تو غفلتوں میں پڑے ہوتے ہیں اور دوسرے کام کرنے والوں پر اعتراض کرتے رہتے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی درگاہ سے دھتکارے جائیں گے.بعد اس کے کہ ان کو بلایا گیا تھا.اور وہ مارے جائیں گے.بعد اس کے کہ وہ زندہ کئے گئے تھے.آخر میں میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سچا تقویٰ اور اخلاص عطا کرے.اور ہر قسم کی ٹھوکروں اور ابتلاؤں سے محفوظ رکھے.خاتمہ ودعا خود کنی و خود کنانی کار را
154 خود وہی رونق تو این بازار را اس خدا کا ہزار ہزار شکر ہے جو اپنے بندوں کے کام خود کرتا ہے مگر اجر اور ثواب ان کے اعمالنامہ میں لکھ دیتا ہے.یہ محض اسی کا فضل تھا کہ ایک کمزور جماعت کو اس نے ایسے کام کی توفیق دی جس کی کوشش بادشاہوں اور قوموں نے کی مگر ان کو کامیابی نصیب نہ ہوئی.یہ اس کی غریب نوازی اور ذرہ پروری ہے.ورنہ ہم لوگ کہاں.اور لندن میں خدا کا گھر کہاں؟ اور پھر ان لوگوں کے دلوں کا اس طرح مائل ہو جانا کہاں؟ یہ سب اس کی قدرت نمائی ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے.اللَّهُمَّ مَلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ طَ بِيَدِكَ الْخَيْرِ طَ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ (ال عمران : 27) شئ قَدِيره پس اے جماعت احمدیہ کے قابل رشک ممبر و! اور اے الہی سلسلہ کی لڑی کے درخشندہ گوہرو! آؤ ہم اس خدا کی حمد و ثنا کریں اور اسی سے یہ دعا کریں کہ جس طرح یہ اینٹ بھر کی ( بیت ) محض اس کے احسان اور کرم سے ظہور میں آئی ہے اسی طرح ہم کو قلوب کی ( بیت ) بھی عطا فرما دے یہ جہان اس وقت سخت اندھیرے میں ہے اور دُنیا ہدایت سے بے بہرہ.اور اکثر حصہ آدمی کی نسل کا روحانی آنکھوں سے اور کانوں سے معذور ہے نیکی اور بدی کی تمیز معدوم ہے خدا کی معرفت اور محبت کی جنس بازار عالم میں مفقود ہو گئی ہے ہر کس و ناکس جیفہ دنیا پر گرا پڑتا ہے اور آخرت کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا پسند بھی نہیں کرتا.اے ہمارے خداوند خدا تو ہی اس حالت کو دُور کر سکتا ہے.اور صرف تو ہی ایسا انقلاب پیدا کر سکتا ہے.جس سے مادر زاد اندھے سو جا کھے ہو
155 جائیں اور بہرے سنے لگیں.لنگڑے چلنے لگیں اور مجزوم تندرست ہو جائیں.دیکھ دنیا کے آخری دن آ گئے اور تیرے وعدے ہمارے ساتھ بڑے غفلتوں بڑے ہیں اور ہماری ساری اُمیدیں تجھے ہی میں ہیں.ایسا کر کہ ہماری غم اور کمزوریوں کی طرف نہ دیکھ بلکہ اپنی عظمت اور شان کی طرف نظر کر اور اپنے وعدوں کو پورا کر.اس تاریک دُنیا کو ٹور ( دین حق ) سے منور اور بھر پور کر، کفر اور ظلمت کی تاریکی کو ہٹا اور تمام قوموں اور تمام بنی نوع انسان کو اس سچی توحید کے مرکز پر جمع کر دے جس کے اعلان کے لئے یہ چھوٹی سی (بیت) ہم نے تیرے نام پر وقف کی ہے آمین.اللهم صل على محمد و علی آل محمد و علی عبدك المسيح الموعود واله و اصحابه اجمعین قطعه تاریخ افتتاح مسجد احمد یه لندن تبلیغ چوں ( بیت ) لندن را گشودند وا محمد بفرنگ باب ایں مُردہ جہاں جہاں رسیدہ یورپ شده فیضیاب تبلیغ رخشانی آفتاب تبلیغ از مهر منیر ہم گزشته با دولت و حشمت حکومت کس گشت نه بهره یاب تبلیغ نہ ایں فضلِ خدائے ذوالمن میں بخشید بما ثواب تبلیغ شمشیر نگر حریف شمشیر تبلیغ ہیں جواب تبلیغ تاریخ چنین نوشت مظہر
156 بجز طالع شده آفتاب تبلیغ 26 19 کلام حضرت اقدس مسیح موعود فضل خداوندی چه درمانی ضلالت را نه بخشد سود اعجازی تهیدستان قسمت را اگر بر آسماں صد ماہتاب و صد خورے تابد نه ببیند روز روشن آنکه گم کرده بصارت را تو اے دانا بترس از آنکه سُوئے او بخواهی رفت به دنیا دل چہ مے بندی چه دانی وقت رحلت را مشو از بهر دُنیا سرکش فرمان احدیت مخر از بہر روزے چند اے مسکین تو شقوت را اگر خواهی که یابی در دو عالم جاه و دولت را خدارا باش و از دل پیشه خود گیر طاعت را غلام درگهش باش و بعالم پادشاہی گن نباشد بیم از غیرے پرستاران حضرت را تو ازل دل سوئے یار خود بیا تا نیز یار آید محبت می کشد پا جذب روحانی محبت را خدا در نصرت آنکس بود کو ناصر دین است ہمیں افتاد آئیں از ازل درگاه عزت را اگر باور نمے آید بخواں ایس واقعاتم را کہ تابینی تو در هر مشکلم انواع نصرت را
157 ہر آں کو یابد از درگاه از خدمت همی یابد کہ غفلت را سزائے ہست و اجرے ہست خدمت را من اندر کار خود حیرانم و رازش نمے دانم کہ من بے خدمتے دیدم چنین نعماء و حشمت را نہاں اندر نہاں اندر نہاں اندر نہاں ہستم کجا باشد خبر از ما گرفتاران نخوت را ندائے رحمت از درگاه باری بشنوم هر دم اگر در حلقه اہل خُدا داخل شوی یا نے اگر کر می کند لعنت چه وزن آں ہر زہ لعنت را نوشتیم از ره شفقت که ماموریم دعوت را روحانی خزائن 21 براہینِ احمد یہ 77،76 ضمیمہ لنڈن 23 ستمبر 1926ء امیر فیصل آج بخیریت پہنچ گئے ہیں.نہایت کامیابی کے ساتھ اُن کا استقبال کیا گیا.افتتاح کے لئے 3 اکتوبر تاریخ مقرر ہوئی ہے.ان کی دعوت ہوٹل میں 29 ستمبر کو کی جائے گی.آج کل مصروفیت بہت زیادہ ہے حضور سے دُعا کی درخواست ہے.لندن یکم اکتوبر 1926ء درد
158 رائٹر کو معلوم ہوا ہے کہ امیر فیصل ابن سعود ساؤتھ فیلڈز کی بیت کی رسم افتتاح کو ادا نہ کریں گے جو پرسوں تیسری اکتوبر کو ہونے والی تھی.اس ارادہ کی تبدیلی کی وجہ نہیں معلوم، لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ مکہ معظمہ سے ایک تار کے آنے کے بعد ایسا کیا گیا.لنڈن 2 /اکتوبر 1926ء....(بیت) کے افتتاح کے متعلق امیر فیصل نے جو تامل کیا اُس کی معلوم ہوئی ہے کہ ولایت کے اخبارات میں بعض غلط بیانات شائع ہو گئے تھے جن کو مصری اخباروں نے نقل کیا، وہ یہ کہ امام بیت نے بیان کیا ہے کہ یہ بیت عیسائیوں کے لئے بھی ایسی ہی کھلی ہے جیسی کہ مسلمانوں کے لئے.یہ بیان مکہ معظمہ) میں مشہور ہو گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں سے شہزادہ کو ممانعت کا تار بھیجا گیا.قادیان 29 ستمبر 1926ء سلطان ابن سعود کو تار دیا ہے.آپ امیر فیصل سے درخواست کریں کہ وہ سلطان ابن سعود کو تار دیں کہ اس معاملہ میں یہاں تک آگے بڑھنے کے بعد پیچھے ہٹنا اسلام اور آپ کی حکومت کو غیر مسلموں کی ہنسی کا نشانہ بنا دے گا.ابن سعود کی حکومت پہلے ہی ہندوستان کے عوام کی ہمدردی اپنے ہاتھ سے کھو چکی ہے اور اب اس طرح سمجھدار اور تعلیم یافتہ طبقہ بھی ان سے برگشتہ ہو جائے گا.اگر امیر فیصل افتتاح میں شرکت نہ کریں تو مسٹر فلمی سے مشورہ کر کے مقامی حالات کو مد نظر رکھ کر مناسب کارروائی کریں.میں اس کو پسند کرتا ہوں کہ بیت کا افتتاح بہر حال کر دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ اس تقریب کو بابرکت
کرے گا.159 قادیان ۲۹ ستمبر بخدمت ہنر میجسٹی سلطان آف مکہ لنڈن کے ایک بحری پیغام سے معلوم ہوا ہے کہ جناب نے امیر فیصل کو ( بیت ) کی تقریب افتتاح میں شرکت سے روک دیا ہے.براہ نوازش امیر فیصل کو شرکت کے لئے ارشاد فرما ئیں ورنہ جناب کی حکومت عیسائی دنیا کی ہنسی کا نشانہ بن جائے گی.ہندوستان کے عوام الناس پہلے ہی جناب کی حکومت کے خلاف ہو چکے ہیں.سمجھدار اور تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کا یہ موقع جناب کو ضائع نہیں کرنا چاہئے.مکہ معظمہ 30 ستمبر 1926 مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ - قادیان بخدمت مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان ہم نے امیر فیصل کو شرکت سے اس لئے منع کیا ہے کہ اخبار الاحرام نے مارننگ پوسٹ سے خبر لے کر یہ مضمون شائع کیا تھا کہ یہ مسجد ہر مذہب و ملت کے لئے عبادت گاہ ہو گی.ہم نے امیر فیصل کو یہ تار دیا ہے کہ اگر یہ مسجد ہر مذہب کے لئے عبادت گاہ ہو گی تو شرکت نہ کریں لیکن اگر یہ مسجد صرف مسلمانوں کے لئے ہے تو ہندوستانی، مصری اور انگلستان کے مسلمانوں سے اس بارے میں اطمینان کر کے تقریب میں شریک ہو جائیں اور اس کی بہبودی کا خیال رکھیں.
160 قادیان یکم راکتوبر 1926ء بادشاہ حجاز و سلطان نجد عبدالعزیز بخدمت درد صاحب لنڈن سلطان نجد نے بذریعہ تار اطلاع دی ہے کہ انہوں نے امیر فیصل کو شرکت سے اس لئے منع کیا تھا کہ انہوں نے الاحرام میں مارننگ پوسٹ سے لے کر یہ لکھا ہوا پڑھا تھا کہ یہ ( بیت ) ہر مذہب و ملت کے لئے عبادت گاہ ہو گی اور یہ کہ انہوں نے امیر فیصل کو یہ اطلاع دے دی ہے کہ وہ ہندوستانی، مصری اور انگریز مسلمانوں سے اس بارے میں اطمینان کر کے کہ یہ (بیت) واقعی (بیت) ہی ہے اس تقریب میں شرکت کریں.مناسب انتظام کر لیں.(حضرت) خلیفة اتح قادیان لندن 2 اکتوبر 1926ء بحضور سید نا حضرت خلیفة اصبح امیر فیصل ابھی تک مکہ سے حکم کے انتظار میں ہیں.شیخ عبدالقادر صاحب جنیوا سے لنڈن پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے بھی ہماری تائید میں مکہ معظمہ تار دیا ہے.ہماری تجویز ہے کہ اگر امیر فیصل شرکت نہ کریں تو شیخ عبد القادر صاحب سے افتتاح کروایا جائے.درد
161 لنڈن 3 اکتوبر 1926ء بحضور حضرت خلیفۃ ایح خدمت اقدس میں تہ دل سے مبارک باد عرض ہے.الحمد للہ کہ اس تقریب میں شاندار کامیابی اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.شیخ عبدالقادر صاحب نے آج سہ پہر کے 3 بجے بیت کا افتتاح کیا.حاضرین کی تعداد چھ سو سے زیادہ تھی.چار سو سے زائد کا جم غفیر باہر کھڑا دیکھ رہا تھا.گیارہ قونصل خانے، چھ لارڈز، بارہ ممبر پارلیمنٹ، مہاراجہ بردوان، سرمائیکل اوڈوائر، سر عباس علی، میئر آف وانڈ زورتھ مسٹرسین اور بہت مشہور نمائندے بڑی و بحری فوج اور سول سروس کے مصری شامی ، اطالی، مغربی اور مشرقی افریقہ کے لوگ، عراقی، ملائی اور ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگ اس تقریب میں شامل ہوئے اور لوگ مانچسٹر، ڈنڈی، ایڈنبرا، لیور پول، لسٹر ، ڈار بی، نیو کیسل، بلیک پول، آکسفورڈ، کیمبرج تلک اس میں شریک ہونے کے لئے آئے.لندن کے ہر حصہ کے لوگ موجود تھے.حضور کا پیغام افتتاح کے وقت پڑھ کر سنایا گیا اور چھپا ہوا لوگوں میں تقسیم کیا گیا جس کو حاضرین نے بہت ہی پسند کیا.اس کے بعد میں نے اپنا ایڈریس پڑھا اور میرے بعد شیخ عبدالقادر صاحب ،مہاراجہ بردوان اور سرعباس صاحب نے تقریریں کیں.تمام حاضرین (بیت) کے کامیاب افتتاح پر مبارکباد کہتے تھے.مبارکبادی کے پیغامات جو حیدر آباد، پنجاب، صوبہ سرحدی برار، ماریشس، امریکہ، کراچی، سماٹرا، بہار، بنگال، مدراس، نائیجریا، گولڈ کوسٹ
162 سے آئے تھے پڑھے گئے.اس کے بعد پہلے نماز ادا کی گئی اور بعد ازاں ایک بڑے خیمے کے نیچے مہمانوں کی خدمت میں ریفریشمنٹ (ناشتہ ) پیش کیا گیا.اس موقع پر چار انگریزوں نے اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا.پریس نے بہت ہی دلچسپی لی.بہت سے فوٹو گرافر اور سینما کے لئے فوٹو لینے والے موجود تھے.ڈلہوزی8اکتوبر 1926 درد بخدمت درد صاحب لنڈن ہم انشااللہ 11 تاریخ کو ڈلہوزی سے قادیان روانہ ہوں گے.کچھ بھی ہو.لیکن امیر فیصل نے اتنے لمبے سفر کی صعوبت محض ہماری خاطر اٹھائی.اُن کی روانگی کے وقت ان کو نہایت خلوص سے الوادع کہیں اور ان کی خدمت میں دو فوٹو بیت کے ایک ان کے لئے اور ایک ان کے والد سلطان نجد کے لئے پیش کریں اور ان سے کہیں کہ جماعت احمدیہ بہر حال سلطان نجد کی اور ان کی مشکور ہے اور امید کرتی ہے کہ آپ اس غلط فہمی کو دور کر دیں گے.قادیان (حضرت) خلیفة اح
28 32 له ي له شه له 20 76 40 40 88 104 64 216 24 48 24 58 92 480 163 فہرست کتب فہرست مطبوعات لجنہ اماءا 1 اخلاق حسنہ حضرت خلیفتہ مسیح الرابع کا خطبہ 25 مارچ 1988ء بمقام لندن..2 ” مقدس ورثہ بچوں کی لئے سیرتِ نبوی کے سلسلے کی پہلی کتاب...3" سبز اشتہار اور لیکچر سیالکوٹ“ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں..4 کونپل پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب...5 چشمہ زمزم بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب...غنچه " سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب اس میں تصویروں کے ساتھ 8 وضو کرنے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے..ضرورۃ الامام اور لیکچر لدھیانہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں..’THE NAZARENE KASHMIRI CHRIST دنیا پور کی مجلس عرفان..و قواریر قوامون اصلاح معاشرہ پر کتاب.10 گل دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمہ 11 ایک بابرکت انسان کی سرگزشت" حضرت عیسی کی زندگی کے حالات.12 افاضات ملفوظات حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات..13 اصحاب فیل“ بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب...14 بیت بازی در مشین ، کلام محمود ، کلام طاہر، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار.15 پانچ بنیادی اخلاق حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کا خطبہ 24 نومبر 1989ء 16 تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں..17 حضرت رسول کریم ہے اور بچے“.18 صد سالہ تاریخ احمدیت بطرزِ سوال و جواب..19 فتوحات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انداری پیشگوئیاں..20 " بے پردگی کے خلاف جہاد“ جلسہ سالانہ 1982ء خواتین سے سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الرابع" کا خطاب...21 آداب حیات“ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں..22 مجالس عرفان حضرت خلیفہ مسیح الرابع کی مجالس سوال و جواب کراچی لجنہ میں..23 واقفین نو کے والدین کی راہنمائی کے لئے“.72 28 224 144 24
48 144 204 252 60 30 30 48 160 172 54 160 120 162 20 128 28 152 ه له یه یه هه یه هه یه به په له 290 192 252 88 64 168 280 32 28 100 80 20 160 164 24 برکات االدعاء اور مسیح ہندوستان میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب سوال و جواب کی شکل میں..25 بدرگاہ ذیشان منتخب نعتوں کا مجموعہ..26 الحر اب صد سالہ جشنِ تشکر نمبر 1989 27 الحر اب سوواں جلسہ سالانہ نمبر 1991.28 ” پیاری مخلوق“ بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی چوتھی کتاب...29 ” دعوت الی الله 30 SAYYEDNA BILAL‘ بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات...31 خطبه لقاء سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطاب 23 مارچ 1990ء 32 حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ خطابات حضرت خض رت خلیفة امسیح الرابع.33 ” میرے بچپن کے دن حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی.34 ری الانبیاء انبیاء کرام کے مستند حالات زندگی.35 عہدیداران کے لئے نصائح سید نا حضرت خلیفہ المسیح الرابع 31 اگست 1991 کا خطار 36 ” گلدستہ تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب..37 سيرة وسوانح حضرت محمد بطرز سوال و جواب...38 دعائے مستجاب دُعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دُعا کے واقعات...39 ” ہماری کہانی “ محترم حاجی عبدالستار آف کلکتہ کے حالات.40 کلام طاہر “ سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا شیریں کلام معہ فرہنگ.41 انبیاء کا موعود " سیرت النبی پر بچوں کے لئے سلسلہ کی پانچویں کتاب..42 حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ اُسیح الثالث حضرت طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی.43 ترکیبیں آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں.44 قندیلیں سبق آموز واقعات.45 جماعت احمدیہ کا تعارف دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات.46 سیرت حضرت محمد ولادت سے نبوت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب...47 نماز با ترجمه با تصویر..48 گلشن احمد پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب...49 عاجزانہ راہیں حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں.50 اچھی کہانیاں بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں.51 قواریر قوامون حصّہ اوّل.52 دلچسپ سبق آموز واقعات از تقاریر حضرت مصلح موعود..53 سیرت حضرت محمد اللہ نبوت سے ہجرت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب...54 بچے احمدی کی ماں زندہ باد.55 کتاب تعلیم.
496 160 32 358 144 64 32 28 144 24 24 ㅎㅎ 170 40 104 40 80 326 216 88 530 32 720 560 144 96 288 176 304 548 16 220 78 165 تجلیات الہیہ کا مظہر محمد 56 57 احمدیت کا فضائی دور 58 امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ سیرت النبی پر بچوں کے لئے چھٹی کتاب..59 بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت".60 سیرت حضرت محمد مصطفے ﷺ ہجرت سے وصال تک“ بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب..61 انسانی جواہرات کا خزانہ سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب..62 حضرت محمد مصطفے ﷺ کا بچپن سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب...63 مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب..64 ” جنت کا دروازہ والدین کی خدمت اور اطاعت ، پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے.65 سیرت و سوانح حضرت محمد مصطف معه آغاز رسالت سیرت النبی پر بچوں کے لئے دسویں کتاب..66 " کو نیل (سندھی' پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اور تربیتی نصاب.67 ”ربوہ“ منظوم کلام..68 ”سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفے ﷺ دعوت الی اللہ اور ہجرت حبشہ سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیارہویں کتاب...69 جوئے شیریں منتخب نظموں کا مجموعہ.70 سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی کے شعب ابی طالب و سفر طائف سیرت النبی پر بچوں کے لئے بارہویں کتاب...71 سفر آخرت آداب و مسائل 72 ورمین مع فرهنگ.73 ہجرت 74 ہجرتِ مدینہ و مدینے میں آمد سیرت النبی پر بچوں کیلئے تیرہویں کتاب...75 مرزا غلام قادر احمد خاندان حضرت مسیح موعود کا پہلا شہید مع تصاویر..76 یروشلم.77 حضرت میر محمد اسمعیل صاحب (جلد اوّل)...78 حضرت میر محمد اسمعیل صاحب (جلد دوم)...79 ” جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ “ (احمدی بچوں کے لئے )..80 غیبت ایک بدترین گناه.81 محسنات“ (احمدی خواتین کی سنہری خدمات 82 حمد و مناجات".83 بخار دل..84 ” کلام محمود مع فرہنگ..85 ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ ( نہ صرف شریعت کا حکم بلکہ سراسر انصاف و رحمت ہے...86 ” آپ بیتی از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب.87 کر نہ کر از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب...
166 تواریخ بیت فضل لندن از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحہ 89 رفقائے احمد کی قبولیت دعا کے واقعات.90 بیٹی کو نصائح (شادی بیاہ کے موقع پر )..91 علم و عمل.92 الصَّلوةُ مُخُ الْعِبَادَة ( نماز عبادت کا مغز ہے...93 اچھی مائیں ( تربیت اولاد کے دس سنہری گر ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد.94 انبیاء علیهم السلام کی دعا ئیں.95- حسن اخلاق 96 - قدرتِ ثانیہ کا دور اول..97.حضرت مفتی محمد صادق صاحب عفی اللہ عنہ 98.زنده درخت 99 - فارسی در مشین مع نقل صوتی ( ٹرانسلٹریشن ) اردو ترجمہ اور فرہنگ 100 نمی کا عکس ( شعری مجموعہ...148 360 12 36 272 32 64 164 164 340 400 (زیر ترتیب) (زیر ترتیب)
دعوت حق کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آرہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید از جاں نثار اسمعوا صوت صوت السماء جاء اسیح جاء اسی بشنو از زمین آمد امام کامگار اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار وقت در مشین ص ۱۲۱