Tasdeeq Barahin-e-Ahmadiyya

Tasdeeq Barahin-e-Ahmadiyya

تصدیق براھین احمدیہ

بجواب تکذیب۔ خبط۔ تنقیہ وغیرہ
Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ کی لاجواب کتاب براہین احمدیہ پر پنڈت لیکھرام اوربعض دوسرے آریوں نے جو اعتراضات کئے تھے وہ تکذیب براہین احمدیہ ، نسخہ خبط احمدیہ وغیرہ کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ گئے۔ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کی  اس جوابی  کتاب میں ان تمام اعتراضات کا بڑی عمدگی سے رد کرتے ہوئے اسلام کی صداقت بڑے زور سے ثابت کی گئی ہے۔ اور قرآن کریم کی بڑی لطیف تفسیر کی گئی ہے۔حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حکم پر لکھی گئی یہ کتاب 1307ہجری بمطابق 1890ء میں شائع ہوئی۔ بعدازاں نومبر 1923میں مہتمم کتاب گھر قادیان نے دوبارہ شائع کیاتھا۔ موجودہ ایڈیشن نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ٹائپ کرواکر 306 صفحات پر شائع کیا ہے۔


Book Content

Page 1

بك بوابما ميد اللين تصديق براهين احمدية بجواب تکذیب.خبط.تنقیہ وغیرہ از حضرت حکیم مولوی نورالدین بھیروی خلیفة المسیح الاول

Page 2

تصدیق براہین احمدیہ انٹروڈکشن جہاں تک تاریخی واقعات قدیمہ اور جدیدہ آثار اور عقل شہادت دیتی ہے اس دنیا میں اضداد کا مقابلہ ہوتا رہا اور یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بھی کسی مدت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا.کیمسٹری کی گواہی ذرات عالم کی نسبت اس وقت چھوڑ دو.انسانی گروہ پر نظر کر وسعید کے ساتھ شفقی یا سریشٹ کے ساتھ دیسیو کب سے مقابلہ کر رہا ہے مومن و کافر کا جھگڑا اور عالم و جاہل کا تنازع کوئی پہلے قسم سے جدا فساد نہیں یہ الفاظ سعید اور شقی.بھلے اور برے یا سریشٹ اور دیسیو کے ہی عنوان ہیں اور ان کا مخاصمہ وہی اضداد کی باہمی جنگ ہے یہ با ہمی حملہ بڑے بڑے نتائج کا موجب اور خدا ترس پر سمجھ والوں کے واسطے انواع و اقسام فوائد کا باعث ہے.ان منافع کا تذکرہ جو اس جدال و قتال سے اس حملہ کے مجاہدین اور شہدا کے حق میں پیدا ہوتے ہیں اس رسالے میں ناموزوں ہے.مگر قدرت کے کارخانہ میں جب اختلاف موجود ہے پھر ایسی قوت اور طاقت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ مخلوق میں کوئی بھی نہیں گزرا اور نہ ہے جس نے اس اختلاف کو مٹایا ہو.بلکہ یہ سچا الہام علم الكيميا ولَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ (هود: ۱۲۰،۱۱۹) اس جنگ کے قیام کی خبر دیتا اچھا را ہے اور ہمیشہ رہیں گے اختلاف مچاتے مگر جن پر رحم کیا تیرے پروردگار نے.

Page 3

تصدیق براہین احمدیہ ہے.کارخانہ قدرت کا کام چونکہ خبیر و علیم اور عزیز وحکیم کے صفات کا نتیجہ اور انہی کا اثر ہے.اور اس واسطے ظہور پذیر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کاملہ صفات کا اقتضا پورا ہو اور وہ صفات منتج نتائج اور مثمر ثمرات ثابت ہوں نہ کمی اور برکار ! اس لئے ممکن ہی نہیں کہ بے وجہ اور بدوں حکمت ہو بلکہ ضرور یہ الہی کام بھی انواع و اقسام حکمتوں پر مبنی ہوگا اور ظاہر ہے کہ اختلاف اور تضاد کے وقت دونوں گروہ ایک دوسرے کے مغلوب کرنے میں اولوالعزمی سے کام لیتے ہیں.پس ضرور ہے کہ ان میں سے ایک فتحیاب ہو اور دوسرا شکست پاوے.گو ایک کی کامیابی اور دوسرے کی ناکامی کچھ دیر کے بعد اور دونوں کا فیصلہ بعضوں کو محنتی مجاہد غازی اور شہید اور بعض کو اسیر اور مقتول بنا دینے کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو.اور یہ بھی عیاں ہے کہ ان دونوں گروہوں کی لڑائی گو ہر زمانے میں نئے رنگ سے شروع ہوتی ہے دونوں نئے ، ان کی وردیاں نئی ، زبانیں نئی ہتھیار بھی نئے ہوتے ہیں.مگر اصلی دعووں پر گہری نگاہ کرو تو وہی پرانے دعوے ہیں ہاں طرز بیان میں کچھ ایسی تراش و خراش ہو جاتی ہے کہ سرسری نگاہ والا ان دعووں کو نئے دعوے اور اثبات و نفی کے سوالوں اور جوابوں کو نئے سوال اور نئے جواب خیال کرتا ہے.مگر متامل جانتا ہے کہ یہ وہی آدم اور شیطان والا پرانا جھگڑا ہے جو نئے رنگ سے رنگین کیا گیا ہے.یہ امر بھی شاید فروگذاشت کے قابل نہ ہوگا کہ ان حملوں کے دیکھنے والے دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، کمزور ، کم حوصلہ، نا تجربہ کار، یا قوی ، بلند حوصلہ اور تجربہ کار، گو پہلے گروہ کا یہی خیال ہوتا ہے کہ مومن اور سریشٹ آج نہ گرے تو کل پسپا ہوں گے.کیونکہ یہ مقدس گروہ ابتدا میں بلحاظ اپنی سوسائٹی کے بہت ہی قلیل اور اس پر خر با اور ضعفا کا مجمع ہوتا ہے.دنیاوی سامان کے لحاظ سے اس جماعت کے عام ممبر ابتدائی حالت میں بیچیر ز نظر آتے ہیں.مال و منال اور حصص سلطنت میں اس گروہ کے اعضا کم قدردکھائی دیتے ہیں.

Page 4

تصدیق براہین احمدیہ اس لئے ان مخلصوں اور سچے اہل ایمان کو ان کے مخالف حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں.لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ (المنفقون:9) مگر عاقبت اندیش اللہ تعالیٰ کی صفت عدل اور رحم اور صفت فوقیت علی الکل پر ایمان رکھنے والا فتح و نصرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو یقین کرنے والا.تمام نظام عالم کا قابض اور متصرف صرف ایک اله الحق قدوس رب کو سمجھنے والا اللہ تعالیٰ ہی کو حق اور راستی کا حامی اور مددگار جاننے والا جانتا ہے کہ الہی امداد انجام کا راستبازی کے ساتھ ہے.حق ہی کی عمارت مستحکم چٹان پر قائم ہے سچائی کامیابی سے مال کا ر علیحدہ نہیں ہوتی.اور وہ الہام الہی بالکل سچ ہے جس میں ہے.وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبَّكَ لِلْمُتَّقِينَ (الزخرف: ٣٦) متمول مگر کافر کے مقابلہ میں یہی مفلس مگر مومن آخر کار دولتمند ہوا کرتے ہیں.ابتدائی حالت میں ظاہر کے ذلیل مگر اللہ تعالیٰ کے سچے فرمانبردار ہی ظاہری عزت سے بھی معزز ہوتے ہیں.سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْعَظْمَةُ لِلَّهِ تَعَالَى !!! یہ عجیب و غریب راستی اور راستبازی کی معیار ہے.یہی ہمیشہ ہر ملک میں تعجب انگیز اور راحت بخش معجزہ اور الہی نشان ہے! اور یہی بھلوں کو بروں سے مقابلہ کرتے وقت یقیناً تسلی رہ رہا اور ہے اور رہے گا.آدم سے پہلے ملائکہ، دیوتا’سرتوں کے سامنے جن ، شیاطین“ اور سروں کی جوگت ہوئی اور جس ذلت کو وہ پہنچے آثار صحیحہ اور اپنشدوں سے عیاں ہے.لے اگر ہم شہر میں گئے تو ضرور معزز لوگ ان ذلیلوں کو وہاں سے نکال دیں گے.آخر کار کامیابی خدا کے پاس پر ہیز گاروں ہی کا حصہ ہے.ے فرشتوں شیطان ۵ ویدوں کے خلاصے یا تفاسیر

Page 5

تصدیق براہین احمدیہ پھر آدم عـلـى نبينا و عليه الصلوة والسلام کی عداوت سے جو و بال ابلیس پر آیا اور اس کی شرارت کے بدلے شیطان کی جو حقارت ہوئی وہ غالب عمرانات کے زن و مرد بلکہ بچے سے بھی مخفی نہیں مگر آدم علی نبینا و عليه الصلوة آخر اہل ایمان کے مورث اعلیٰ بنے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں ہزاروں ہزار انبیا اور ملوک اپنے پیارے پیدا کئے.الحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اَللّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُمْ وَاحْشُرُنَا مَعَهُمُ - آمين ہم ہرگز اس سے انکار نہیں کر سکتے کہ شیطان کی اولا دبھی چلی اور ان میں بھی بڑے بڑے شہنشاہ (اس نے الاسماء) اور فرعون پیدا ہوئے جو ہمہ تن شیطان کے مظہر ، اس کے لمہ اور تعلق کے باعث شیطان اور شیطان کی ذریت کے اولیا.ان ملاعنہ کے اعضاء ہتھیار ان کے پیادے اور سوار ہوئے اور کسی وقت تک رہیں گے.مگر کیوں ہوئے؟ غور کرو.اسی نشان کے قائم رکھنے اور یاد دلانے کو کہ بھلوں کے مخالف شیطان اور اس کے مظہر اور اس کے اولیا بُرے لوگ کیسے ہی کثیر التعداد قوی اور دولتمند کیوں نہ ہوں آخر ایسے ذلیل اور خوار ہوا کریں گے جیسے آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں شیطان.کون بتا سکتا ہے؟ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے عدو کدھر گئے؟ کچھ کھوج تو لگاؤ کیا ہوئے؟ سب بے نام و نشان ہیں اب تاریخ بھی ان کی تشخیص سے ساکت ہے.اور الہی غضب نے پانی کو جو ایک آیت رحمت اور حیات کا مدار ہے ایسی شکل بخشی کہ ایک طرف اس کی خانہ زاد لکڑیوں سے جہاز بنے جس میں اس سعید اور مومن کے متبع نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے خدام جا بیٹھے اور پانی نے جوش سے انہیں اپنے کندھوں پر اٹھالیا اور دوسری طرف نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں کو ، نہیں نہیں راستی کے مخالفوں، حق کے مقابلہ کرنے والوں کو ان کی بدکرداری کے بدلہ جہنم پہنچا دیا.ے ترجمہ.اے اللہ ہم کو بھی ان میں سے کر اور ان کے ساتھ اٹھا اور ہماری عرض قبول کر.ے نہایت مکروہ نام

Page 6

تصدیق براہین احمدیہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کا قصہ قرآن کریم میں عقل والوں کو عبرت دلانے اور نصیحت پر چلنے والوں کو نصیحت کے واسطے بار ہامذکور ہوا.سنو.وَيَضَعُ الْمُلْكَ وَكُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَا مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوْا مِنْهُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُونَ (هود: ۳۹) نوح علیہ السلام کے نام لیوے اور اس کی طرف منسوب ہونے پر فخر کرنے والے آج تک موجود ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار روحانی معلم اور پر اپکارتی الہی انعامات اور احسانات سے سرافراز اور ممتاز ہیں.نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے معبودان باطلہ و ڈ سُواع، يغوث، يعوق، نسر کا کوئی حامی نہیں رہا.اور نوح کی تعلیم تو حید نبوت اور معاد کے ہزاروں ہزار ناصر و معین موجود ہیں.نوح علیہ السلام کے مخالفوں حق کے دشمنوں پر کمزور اور مظلوم کی وہ آہ اثر کر گئی جس کا بیان آیت ذیل میں ہے.رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكُفِرِينَ دَيَّارًا (نوح: ۲۷).حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو برکت پائی وہ ایشیا، یورپ، امریکہ اور افریقہ اور بڑے بڑے معلوم اور آباد جزائر کی آنکھ سے مخفی نہیں.اور جو و بال اس کے دشمنوں پر ان کی بے ایمانی بدکرداری اور حق کی عداوت کے بدلے پڑا کیا اس کا یہ نشان کچھ کم ہے کہ وہ تمام بے نام ونشان ہو گئے ؟ ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تو ایک برکت ہوگا اور جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور ان کو جو تجھ پر لعنت کرتے ہیں لعنتی کروں گا.“ (پیدائش باب ۱۲.آیت ۳) لے اور وہ ( نوح علیہ السلام) جہاز بنا تا تھا اور جب اس کے پاس سے نکل جاتے اس کی قوم کے سردار نسی کرتے نوح علیہ السلام سے ( نوح علیہ السلام) نے کہا اگر تم ہنسو ہم پر تو ہم ہنستے ہیں تم پر پھر یہ بھی اس لئے یا اتنا جو تم بنتے ہو.کاف سبب کے معنے دیتا ہے یا مثل کے.خیرخواہ نفع رسان ے اے میرے رب مت چھوڑ اس زمین پر ان کافروں سے کوئی بسنے والا.

Page 7

تصدیق براہین احمدیہ اور فرمایا - وَمَنْ يَرُغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَهِمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ (البقرة: ۱۳۱) حضرت لوط علیہ الصلوۃ والسلام کے نہایت صحت بخش اور نجات دہ نصائح پر کان نہ رکھنے والے وضع الہی کے دشمن فطرت کی مخالفت میں قومی کو برباد کر نے والے موذنی کدھر گئے؟ ان کی بستی کی یہی خبر ہے جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا - (هود:۸۳) غریب ، سعید اور راستباز حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مصری بادشاہ کے اس سخت ظلم اور تعدی کو دیکھ کر جو اس نے آپ کی قوم پر شروع کر رکھی تھی اس خیال سے کہ جس بادشاہ کی رعایا ہوکر رہے اس سے بغاوت کرنا اہل ایمان اور کچے اسلام والوں کا کام نہیں فرعون شاہ مصر سے درخواست کی اور بجا درخواست کی.فَأَرْسِلْ مَعَنَا بَنِي إِسْرَاوِيْلَ وَ لَا تُعَذِّبُهُمْ (طه: ۴۸) پر اس نافہم نے حضرت موسیٰ جیسے مومن ناصح کی عمدہ اور بجا درخواست کی طرف توجہ نہ کی الٹا بنی اسرائیل کو زیادہ تر دکھ دینے لگا بلکہ جناب موسیٰ علیہ السلام جیسے پاک خیر خواہ کی نسبت ناعاقبت اندیشی کے باعث حقارت کی راہ سے کہا.يُقَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَ هَذِهِ الْأَنْهُرُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِى أَفَلَا تُبْصِرُونَ أَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ سُورَةٌ مِنْ ذَهَبٍ اَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَيْكَةُ مُقْتَرِنِينَ (الزخرف: ۵۲ تا ۵۴) ے اور ابراہیمی ملت سے کون روگردان ہو سکتا ہے سوائے اس کے جس نے اپنے تئیں احمق ٹھہرایا.یہ بدکار لونڈے باز تھے نعوذ باللہ.سے ہم نے اس کو زیر و بالا کر دیا.ے بنی اسرائیل (میری قوم کو میرے ہمراہ کر دے اور انہیں دکھ نہ دے.اے میری قوم کیا تم نہیں دیکھتے.ملک مصر کا میں مالک ہوں اور یہ ندیاں میرے نیچے بہتی ہیں بلکہ میں بہت اچھا ہوں اس ذلیل سے اور یہ تو صاف صاف بول بھی نہیں سکتا.بھلا کیوں نہ ڈالے گئے اس کو سونے کے کنگن.اور نہ آئے اس کے ساتھ فرشتے پر باندھ کر.کنگن اس کے زمانہ میں عزت کا نشان تھا جیسے ہندوستان کی ہندو ریاستوں میں اب بھی.

Page 8

تصدیق براہین احمدیہ اور موسیٰ علیہ السلام کا ضعیف مگر سعید اور دشمنوں کی سختیوں پر صابر گروہ آخر اسی قاعدہ الہی کے مطابق کہ صادق بخلاف کا ذب ومکذب کامیاب ہوتا ہے کامیاب ہوا.وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِى بُرَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَفَرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ (الاعراف: ۱۳۸) بے بس نہایت خاکسار، بنی اسرائیل کے گھرانے کے خاتم الانبیاء، رسول، مسیح ابن مریم بہا السلام کے قسی القلب دشمن کدھر گئے ؟ کوئی ان کا پتہ بتا سکتا ہے؟ ان ”بے ایمان سانپوں“ 9966 اور سانپوں کے بچوں پر فتوی لگ گیا.ان پر حکم ہو چکا.اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اتباع جس جاہ و حشم کے ساتھ جناب مسیح علیہ السلام کے منکروں پر حکمران ہیں اس سے ہند والے کیا تمام آباد دنیا بے خبر نہیں.ہمارے ہادی (اے رب اے رحمن اے رحیم مولیٰ کریم مجھے بھی اس کے خدام میں رکھیو اور اسی کی مرافقت جنت میں عطا کریو) کے آیات نبوت میں حضرت مسیح کے اتباع اور ان کے منکروں کا تذکرہ بطور پیشینگوئی مندرج ہے.اس پر غور کرو.إِذْ قَالَ اللهُ يُعِيلى إِنّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ (ال عمران: ۵۶) حضرت عیسی علیہ السلام کے اتباع اور ان کے ساتھ والے مسلمان ہیں یا عیسائی اور ان لے اور ہم نے مالک بنایا موسیٰ کی ضعیف قوم کو مبارک ملک شام کی تمام زمین کا.اور پوری ہوئی اچھی بات تیرے رب کی بنی اسرائیل پر اس لئے کہ صابر ہوئے اور خراب کیا اس کو جسے بنایا فرعون اور اس کی قوم نے.سے جب اللہ نے فرمایا اے عیسی میں لینے والا ہوں تجھ کو اور بلند کرنے والا ہوں اپنی طرف اور پاک کرنے والا.تجھے کافروں سے اور کرنے والا ہوں تیرے اتباع کو کافروں کے اوپر قیامت تک.

Page 9

تصدیق براہین احمدیہ کے منکر یا یہود ہیں اور تھے یا اس انڈیا میں آریہ اور مختلف بلاد میں کچھ پارسی اور کچھ بدھ.یہ تمام منکر قو میں، حضرت مسیح علیہ السلام کے اتباع کے ماتحت ہیں اور ہمیشہ ماتحت رہیں گی اور یہ پیشینگوئی قیامت تک ثابت اور استحکام کے ساتھ ظاہر رہ کر قاتل کے واسطے آیت صداقت اور نشان نبوت رہے گی.کیا جس کتاب میں اس پیشینگوئی کا تذکرہ ہے جس کتاب میں اس پیشینگوئی کا دعوی اس طرح پر ہے کہ قیامت تک اسی طرح رہے گی وہ کتاب ایسے علیم وخبیر کی نہیں.جو جزئیات اور کلیات پر محیط اور ان پر بہت تفصیل واقف ہے؟ اب میں تمام سریشٹوٹی کے سریشٹ اور تمام اہل ایمان کے سردار اسعد الخلق (فداك ابی و امى صلى الله عليك و سلم) کے قصہ پر اس کلام کوختم کرتا ہوں.حضور علیہ السلام نے ایسے وقت جب تمام دنیا پر روحانی، تمدنی اور اخلاقی حالت کی نسبت ظلمت اور تاریکی چھائی ہوئی تھی اور دنیا کے لوگ گم کردہ راہ بھول بھلیاں میں مبتلا تھے.آفتاب کی مانند طلوع فرما کر راہ نمائی کا بیڑا اٹھایا اور لگے نکالنے لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف.خدا کے واسطے ذرا غور تو کرو.اس سراج منیر کی نور افشانی کے وقت تمام آباد دنیا کا کیسا حال تھا؟ دنیا کے اشیاء جنہیں انسان کے خادم کہنا چاہیئے اور حسب الحکم.ا لَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان: ۳۱) انسان کے ماتحت ہیں بالعکس انسان کے معبود بنائے گئے.غور کرو.ہندوستان کا ملک ایسا تھا کہ اس میں پتھر اور درخت پوجے جاتے تھے.بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ آریہ ورت بقول آریوں کے بھی ہندوستان ہو چکا تھا.لے کچھ بدھ اور اور قو میں مسیح علیہ السلام سے ابھی ناواقف ہیں اور ان کے پورے منکر نہیں ہوئے ہیں یا در ہے.تمام عمدہ لوگوں سے افضل.سے کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے مفت تمہاری خدمت میں لگا دیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے.

Page 10

تصدیق براہین احمدیہ حیرانی ہوتی ہے کہ لنگ کی مہمان اور اس کی پوجا کا دور دورہ یہاں تھا ! بھنگ اور شکتی کی پرستش یہاں تھی ! وام مارگ ، اگہور ، کپال مت کے بانی اور گروہ یہاں ہی تھے.جین اور ناستکوں کا مبدا اور مولد یہی آریہ ورت تھا ! آریوں کے یا ہندوؤں کے ہمسایہ یا پہلے استاد بلکہ بھائی بند قدیم ایرانی اگنی ہوتری تھے.جنہوں نے آسمانی بروج سیاروں، ستاروں اور خاص کر سورج کو معبود بنا رکھا تھا بلکہ ان کے نہایت نا پاک اثر سے فارسی لٹریچر میں تمام سکھوں اور دکھوں کو آسمانی گردش کی طرف منسوب کیا گیا تھا.اسلام کے مدعی لائق منشیوں نے سورج کو حضرت نیر اعظم وغیرہ مقدس الفاظ سے یاد کیا.یہ لوگ یزدان اور آہر من دو خداؤں خالق خیر اور خالق شر کے معتقد تھے مغرب اور شمال بلکہ اندرونی حصہ عرب میں یہود اور عیسائی تھے.عیسائیوں کا یہ حال کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا ازلی بیٹا بلکہ خدا یقین کرتے اور اس کو اصل ایمان جانتے تھے.اور ان کا اعتقاد تھا اور ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک له من كل الوجوہ ایک ہے اور تین ہے.پنا ہم بخدا !!! عیسائی کہتے ہیں.خدا باپ از لی ، خدا بیٹا ازلی ، خدا روح القدس از لی.تینوں خدا ہیں پھر خدا ایک ہے!!! تكَادُ السَّمُوتُ يَتَقَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الْأَرْضُ وَتَخِرُ الْجِبَالُ هَذَا أَنْ دَعَوُا لِلرَّحْمَنِ وَلَدًا وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّحْمَنِ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ إِلَّا أَتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا (مریم: ۹۱ تا ۹۴) لے لنگ پوجا حسب اعتقاد عام ہنود کے شیو جی کے عضو تناسل کی پرستش ہے.عظمت.سے عورت کا عضو تناسل.قریب ہے کہ آسمان چور چور ہو جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ذرہ ذرہ ہوکر گر پڑیں کہ وہ رحمن کا بیٹا پکارتے ہیں.اور رحمن کو سزاوار نہیں کہ بیٹا اختیار کرے کیونکہ سب جو آسمان وزمین میں ہیں رحمن کے حضور میں بندہ بن کر آنے والے ہیں.

Page 11

تصدیق براہین احمد به اس وقت کیتھولک فرقہ کا عروج تھا اور عیسائیوں میں بعض ایسے بھی تھے جو صدیقہ مریم علیہا السلام کو تم تثلیث جان کر ان کی تصویر پر گوٹے کناری کے کپڑے ڈالتے تھے.ہند میں بھی بعض لوگ بتوں کو گرمی اور سردی کا لباس علیحدہ علیحدہ چڑھاتے ہیں.پادری کا مذہبی مقدس کا یہ رعب اور یہ عظمت تھی اور ہے کہ عیسائیوں کا بچہ بدوں مذہبی مقدس، اس کے خاص لباس اور اس خاص رسم کے جو سیحی کلیسیا کے واسطے ضرور ہے کلیسیا کا عضو اور اس کا ممبر نہیں ہوسکتا.کوئی عیسائی بدوں وساطت پوپ کے نکاح نہیں کر سکتا.نماز کے واسطے کنیسہ میں جانا ضرور ہے اور وہاں قسمیس کا ہونا لازم، گناہ گار کو گناہ کی معافی لیتے وقت لا بد ہے کہ قسمیس کو اپنی بدکرداریوں پر واقف کرے.اگر بد کا راپنے گناہوں پر پادری کو آگاہ نہ کرے تو گناہ گار کا گناہ معاف ہی نہ ہو ! ہی نہ ہو.مرنے کے بعد دفن کے موقع پر اگر پادری موجود نہ ہو تو یہ لا بہ کی سفر یہ آخری منزل طے عیسائیوں کے استاد اور معلم اور ان کے پاک کتاب کے پہلے اور آج تک کے محافظ یہود تھے.جنہوں نے تو حید کو تشبیہ تک اور عبادت کو اس کے صرف جسمانی مظہر تک اور اخلاق کو قساوت قلبیہ کے ساتھ مختلط اور محدود کر رکھا تھا تو حید اور اخلاق فاضلہ کی طرف عام دعوت ہرگز نہیں کرتے تھے.یہود کے کئی فرقے قیامت کے منکر بھی تھے.بلکہ انا جیل سے واضح ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام سے بھی اس مسئلہ میں انہوں نے تکرار کی.اور اکثر یا قریباً کل اس بُرے اور تمام بُرائیوں کے سرچشمہ بد اعتقاد کے معتقد تھے کہ یہود.بنی اسرائیل خدا کی برگزیدہ قوم ابراہیم راستباز کی راستبازی سے انجام کا رنجات

Page 12

تصدیق براہین احمدیہ 11 پائیں گے.جس کا قرآن کریم نے تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَّا كَسَبْتُمْ (البقرۃ: ۱۳۵) کہہ کر ابطال کیا.پھر عیسائی یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام جیسا نیک بندہ اور رسول بلکہ عیسائیوں کا خدا تمام عیسائیوں کی لعنتوں سے ملعون ہو کر اور عیسائی قوم کی بدکاری اور فسق و فجو راور گنہگاری سے گنہگار بن کر عیسائیوں کا کفارہ ہوا.!!! اس لئے عرب کے لوگ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے اور شرک کی ذاتی لازم جہالت میں سخت مبتلا تھے اور اس کے نتیجہ باہمی اختلاف میں پھنس کر ایک دوسرے پر حملہ کر کے کمزور اور ذلیل اور مفلس بن رہے تھے.نہ ان میں کوئی ہدایت نامہ تھا نہ کوئی قانون شراب خوری ، قمار بازی، عزت اور فخر اور بہادری کا نشان تھا.اور بس.تعصب ، ہٹ ،ضد اور عداوت، گویا ان کی فطرت ہورہی تھی.ایسے وقت میں حضرت خاتم الانبیاء، اصفی الاتقیا سید ولد آدم، فخر بنی آدم واعظ سعادت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت اور راہنمائی پر کمر باندھی اور ساتھ ہی یہ بھی دعوی کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملہم ہوا ہوں.میں بھی ان سعیدوں میں سے ایک ہوں جن میں آدم علیہ السلام ، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، لوط علیہ السلام، موسیٰ اور عیسی علیہم الصلوۃ والسلام تھے.انبیا کے قصے بار بار قرآن کریم میں پڑھ کر لوگوں کو یاد دلاتے کہ گزشتہ رؤساء اہل ایمان اور اعداء حزب شیطان کی تاریخ پڑھ لو.اس پاک گروہ کے مخالفوں کی تباہی سے عبرت پکڑو.ان سرشٹوں کے قصوں کو پڑھ کر نصیحت حاصل کرو.یہی قصے میری راستی اور راستبازی کے آیات اور لے یہ وہ لوگ ہیں جن کی نسبت آریوں اور پادریوں کا خیال ہے کہ اسلام بلکہ بادی اسلام کے معلم تھے اسلام نے اگر اقتباس کیا ہے.تو غور کر وکیسی جو ہر شناسی اور کامل ہدایت کو کام میں لایا ہے.کھوٹے اور کھرے ملے جلے جواہرات میں سے کھرے موتیوں کو الگ کرنا کیا چھوٹا سا کام ہے؟ غور کرو.

Page 13

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲ علامات یا بطور محاورہ محدثه معجزات اور خوارق عادات ہیں.منکر و! جس طرح بھلے ہمیشہ بروں کے مقابلہ میں انجام کار رفتحیاب ہوتے رہے اور راستی کے دشمن یا انبیا علیہم السلام کے مخالف ہر زمانہ میں آخر شکست پا کر بے نام ونشان ہوتے رہے ہیں ایسے ہی اور دشمنو! حق کے مخالفو! میری مخالفت میں تم ذلیل اور خوار ہو جاؤ گے.حملہ آوروں کے حملوں کی خبر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ میرے مخالفو! اگر تم مجھ پر حملہ آور ہو گے تو نتیجہ یہ ہوگا.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلَّوْنَ الدُّبُرَ (القمر: ٤٦) سورہ شعرا وغیرہ میں انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے ان قصص کا بیان ہے جن میں انبیا علیہم السلام کے ساتھ ان کے دشمنوں کے مقابلوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور مخالفوں کی بے وجہ تکذیب کا آخری نتیجہ اور دائمی شمرہ بتایا جاتا ہے.اور پھر آخر میں ہر قصہ کے یوں کہا جاتا ہے.إِنَّ فِى ذلِكَ لَآيَةٌ ، وَمَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِينَ (الشعراء : ۲۸) سے روکا.اسی سورہ میں حضرت نوح علیہ السلام کے اعدا نے جب نوح علیہ السلام کو یہ کہہ کر وعظ لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يُوْحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُوْمِينَ (الشعراء : ۱۷) اس وقت حضرت علیہ السلام نے یہی فرمایا اور اس طرح دعا کی.رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ فَافْتَحْ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَ نَجِنِي وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الشعراء : ۱۱۹،۱۱۸) لے شتاب ہے وہ وقت کہ میرے مخالفوں کی جمعیت ہزیمت پاوے اور پیٹھ دے کر بھا گئیں.ے اس قصہ میں بے ریب ایک نشان معجزہ ہے اور اکثر نہیں مانتے.سے اگر تو اس منادی سے اے نوح نہ رکا تو تجھ پر پتھراؤ کیا جاوے گا.ے اے میرے رب ! میری قوم نے مجھے جھٹلایا.تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے اور مجھے اور میرے ساتھ والے ایمان والوں کو بچالے.

Page 14

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳ پھر جو نتیجہ نکلا اس کا بیان ہے.فَانْجَيْنَهُ وَمَنْ مَّعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ ثُمَّ أَغْرَقْنَا بَعْدُ الْبَقِينَ إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً (الشعراء : ۱۲۰ تا ۱۲۲) اسی طرح اس سورہ شعرا میں قوم عاد کا جناب ہود علیہ السلام سے مقابلہ اور قوم ثمود کا حضرت صالح علیہ السلام سے جھگڑا اور قوم لوط کا جناب لوط علیہ السلام کے مواعظ حسنہ پر کان نہ دھرنا ایسی ہی طرز سے بیان ہوتا ہے.سورہ مزمل مکہ معظمہ میں اُتری جب حضور علیہ السلام بظا ہر نہایت کمزوری کی حالت میں تھے اور بظا ہر کوئی سامان کامیابی کا نظر نہ آتا تھا.قرآن نے صاف صاف جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.یہ رسول اس رسول کی مثل ہے جو فرعون کے وقت برگزیدہ اور بنی اسرائیل کا ہادی بنایا گیا.جس طرح اس رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دشمن بے نام ونشان ہو گئے.ایسے ہی اس رسول کے دشمن معدوم ہوں گے.إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمُ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا فَعَلَى فِرْعَوْنُ الرَّسُوْلَ فَاَخَذْنُهُ اَخَذَا وَبِيْلًا فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ (المزمل: ۱۲تا۱۸) اور جس طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم دشمنوں سے نجات پا کر آخر معزز اور ممتاز اور خلافت اور سلطنت سے سرفراز ہوئی.اسی طرح ٹھیک اسی طرح لاریب اسی طرح اس رسول کے اتباع بھی موسیٰ علیہ السلام کے اتباع کی طرح بلکہ بڑھ کر ابراہیم کے موعود ملک بالخصوص اور اپنے لے پھر بچالیا ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری کشتی میں اور غرق کر دیا اس کے پیچھے سب کو.لاریب اس قصہ میں ایک نشان معجزہ ہے.ے ہم نے ہی بھیجا تمہاری طرف رسول نگر ان تم پر جیسے بھیجا تھا فرعون کو رسول پھر جب نافرمانی کی فرعون نے اس رسول کی تو سخت پکڑ لیا ہم نے اسے.پھر تم اگر اس رسول کے منکر ہوئے تو کیونکر بچو گے.

Page 15

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴ وقت کے زبر دست بادشاہوں پر علی العموم خلافت کریں گے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمُ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنَّا (النور: ۵۶) آخر دیکھ لو.اس فطرت کے قاعدہ نے.اس الہی سنت یا عادۃ اللہ نے ناظرین کو وہی نتیجہ دکھایا جو ہمیشہ اہل ایمان کے ساتھ ان کے بے ایمان مخالفوں کے بیجا حملوں کے وقت دکھاتی چلی آتی ہے.ہمارے ہادی، بلکہ ہادی انام علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم میں.نہیں نہیں.آپ کے مولد مسکن اور آپ کے ملک میں آپ کا کوئی دشمن نہ رہا.دشمن کیسے؟ ان کے آثار بھی نہر ہے! مکہ معظمہ نہیں، بلکہ جزیرہ نمائے عرب پر نگاہ کر لو تمام عرب آپ کے خدام یا خدام کے معاہدین کی جگہ ہو گیا.الله الله !!! جیسے آپ بے نظیر ہیں ویسے ہی آپ کی کامیابی بھی بے نظیر واقع ہوئی.ناظرین! ایسی کامیابی کسی ملہم، کسی مدعی الہام، کسی ریفارمر، کسی مصلح، کسی رسول یا کسی بادشاہ کو کبھی ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں.کس مقتدا نے کس بادشاہ نے ، نام تو لو، وحدت ارادی کی روح پھرالہامی دعوے کے بعد اپنی قوم میں اپنے ملک میں.اولاً وبالذات اس طرح پھونکی ؟ کس نے ، بتاؤ تو سہی ،اس طرح کی نئی زندگی بخشی ؟ کس کے وسیلے ایسی عملی طاقت ظہور میں آئی ؟ مذہب والو! ا وعدہ دے چکا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تم میں سے جو ایمان لائے اور کام کئے انہوں نے اچھے ضرور خلیفہ کر دے گا ان کو اس خاص زمین میں (جس کا وعدہ ابراہیم سے ہوا ) جیسے خلیفہ بنایا ان کو جوان اسلامیوں سے پہلے تھے اور طاقت بخشے گا انہیں اس دین پھیلانے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا اور ضرور ہی بدل دے گا انہیں خوف کے بعد امن سے.من قبلهم سے وہ قوم موسیٰ کی بنی اسرائیل مراد ہے جن کا ذکر وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِيْنَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِى بُرَكْنَا فِيهَا (الاعراف: ۱۳۸) میں ہے.

Page 16

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵ کس کا مولد آزادد یکھتے ہو؟ حضور علیہ السلام نے نہ صرف اپنا ملک بلکہ اپنے مورث حضرت ابراہیم علیہ السلام کا موعود ملک آزاد کرالیا.ہمیشہ حق کے مخالف اور متکبر ، انبیا اور ان کے غریب جان نثاروں کو ستاتے اور ان کے مقابلہ میں ظالمانہ صف آرا ہوتے ہیں.پر مآل کا روہی کمزور اور مومن غالب ہوتے ہیں ، بیچ ہے.أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنَّا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوْنَ (السجدة :19) یاد رکھو یہی ایک راحت بخش قانون ہے جو سچائی کا معیار رہا.اور رہے گا اور یہی تسلی دہ معجزہ ہے جس سے بھلائی اور برائی کو عام نظر کا آدمی بھی امتیاز کر سکتا ہے.ہاں فتح مندی اور کامیابی کا تاج لینے کے واسطے استقامت ، حسن نظمن ، وفاداری، راستی اور کوشش شرط ہے.) إِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ إِلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا رحم السجدة: ۳۱) ب - الظَّائِينَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمُ دَابِرَةُ السَّوْءِ ۚ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ (الفتح:۷) وَظَنَنْتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنْتُمْ قَوْمًا بُورًا (الفتح: ۱۳) لے کیا جو مومن ہے وہ فاسق کا سا ہوسکتا ہے نہیں وہ برابر نہیں.ے یقیناوہ لوگ جنہوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر وہ پکے رہے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور غم نہ کھاؤ.سے اللہ کی نسبت بدظن کرنے والے.ان کی نسبت سخت سزا کا فتویٰ ہے اور ان پر اللہ کا غضب پڑا.ے اور تم نے بُرا گمان کیا اور تم کھپ جانے والے لوگ ہو گئے.

Page 17

تصدیق براہین احمد به ۱۶ ج- د._ O وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدُنكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخُسِرِينَ (حم السجدة: ۲۴) وفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرة :(۴) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: ١١٩) وَانْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَه سَوْفَ يُرى (النجم : ۴۱،۴۰) یہ ایک مختصر تذکرہ ہے جو گزشتہ واقعات پر مبنی ہے جس کی شہادت آثار باقیہ اور تواریخ صحیحہ سے ظاہر ہے.یہاں انڈیا میں ہمارے مورث آئے ، استقامت، باری تعالیٰ پرحسن ظن، وفاداری، صداقت اور سعی اور سعادت کا مخزن توحید الوہیت اور جزا اور سزا کا مستحکم مسئلہ اور ایمان بالملائکہ اور ایمان بِمَا اَنْزَلَ اللهُ اور إِیمَان بِالْأَنْبِيَاء کا پاک اعتقاد جو تمام نیکیوں کا منشا ہے.اور تقدیر کا نہایت سچا مسئلہ جو تمام بلند پروازیوں کا سرچشمہ ہے.اور مروت، شجاعت، ہمت، عدل اور اخلاص.یہ ساری صفات فاضلہ اپنے ساتھ لائے ان کا ظاہر وباطن ایک تھا جیسا ایمان اور اخلاص رکھتے تھے ویسے ہی کامیاب بھی ہوتے رہے.مگر ان کی اولاد نے اپنے آباء کی اقتدا میں ستی کی ، بزرگوں کی چال نہ چلے.بلکہ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الثَّهَوتِ (مريم:۲۰) حرص و ہوا کے پیچھے پڑے تب ان کو حسب الہی وعید لے اور اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب سے کیا تمہیں ہلاک کیا پھر تم زیاں کا رہو گئے.میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا.سے اے مومنو اللہ سے ڈرواور صادقوں کا ساتھ اختیار کرو.ہے انسان کا بہرہ وہی ہے جو اس نے کمایا اور اس کی کمائی دیکھی جاوے گی.پھر ان کے بعد ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے عبادت الہی کو ترک کیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے.

Page 18

تصدیق براہین احمدیہ ل فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا (مريم:۲۰) ۱۷ بت پرستوں کی رسوم اور عادات لینے کی سزا ملی جس کو آج تم او مسلمانو! دیکھتے ہو اور سنتے ہو.اگر قلب سلیم رکھتے ہو تو فکر کرو.البتہ ان میں نہایت نیک اور با ایمان بھی تھے اور ہیں.الا عام گروہ نافرمان ہوا.بھلوں کوان نافہموں کے ساتھ ملا جلا رہنے اور علیحدہ نہ ہونے کے باعث بروں کی سزا کا حصہ دار ہونا پڑا اور کیونکر شریک نہ ہوتے ؟ لَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ (هود : ۱۱۴) کی ممانعت پر ان کا بھی عمل درآمد نہ رہا اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا ہاں.اللہ تعالیٰ کے ان پیارے بندوں نے اپنی قوم کے نافرمانوں کا ساتھ کیوں نہ چھوڑا؟ کیوں ایسے لوگوں سے الگ نہ ہوئے ؟ غالباً قوم کی خیر خواہی ، ان کی بھلائی کے خیال سے مگر ہدایت نامہ قوم کے پاس تھا اور کم و بیش اس پر عملدرآمد بھی تھا.پاک کتاب کی زبر دست تا شیر کبھی کبھی غافل ، مست قوم کو جگاتی رہی.اس لئے ان میں اللہ تعالیٰ کے پیارے راستباز ، اولیاء کرام، علماء عظام، واعظ حق پیدا ہوتے رہے اور بقدر استعداد و ہمت سچائی کو پھیلاتے رہے اور ان کے مجاہدات ، دعاؤں ، خلوص اور توجہ کی برکات سے اپنے بریگا نے متنبہ ہوتے رہے اور ان پاک لوگوں کی کوششیں مثمر ثمرات ہوئیں و الحمد لله رب العالمین.ہندوستان کی بُت پرستی، ہندؤں کا دور از عقل قصص کو یہود سے بھی زیادہ مقدس جاننا.دنیا سے مخفی نہیں اور ان دونوں مہلک مرضوں سے جو بد نتائج ظہور میں آئے اُن سے دیا نندی پنتھ کو بھی انکار نہیں.لے جلدی وہ سزا کو پہنچیں گے.ے ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمہیں آگ چھوئے گی.سے اے خدا تو معاف کرنے والا ہے.عفو کو دوست رکھتا ہے.ہم سے درگز رفرما.

Page 19

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸ تو حید الوہیت اور اعلیٰ درجہ کے علوم اتفاق یکتائی کے حاصل کرنے میں یہی دونوں.(۱) غیر اللہ کی پرستش.(۲) خیالی جھوٹے افسانوں پر یقین کرنا بڑی روک ہوتے ہیں.میرے پیارے بھائی مسلمانو! یہی دونوں آفتیں اب تم کو دامنگیر ہوگئیں اور یہی دونوں برباد کن اسباب جو مشرکوں اور یہودوں کی بدولت تمہاری سوسائٹی میں ور آئے تمہیں ان کے ساتھ ہی لے ڈو ہے.عاقبت اندیشی کرو! اللہ تعالیٰ کا خوف کرو! مشرکوں یہودوں کی شاگردی سے تو بہ کر کے اور قرآن کریم اور حدیث نبی رؤف الرحیم کا اتباع اختیار کر کے دیکھ لو! جیسے کہ اس اتباع سے تمہارے اسلاف، دین و دنیا کے سلاطین اور امراء و خلفاء بن گئے.ویسے ہی تم بھی بن جاؤ گے.یاد رکھو! نصرانیت، دہریت، یہودیت، شرک کے اجتماع سے جن سے اب تمہارے اکثر كالجئيوز مرکب ہیں.کبھی بھی تم کامیاب نہ ہو گے ! غرض ان با ہمت ارواح مقدسہ کے قومی اثر سے ہند میں ہمیشہ اسلام پھیلتا رہا.نہ جیسے ہمارے بعض طلیق اللسان لیکچراروں کا بیان ہے کہ اسلام ہند میں بجبر داخل ہوا.زمانہ حال کا تذکرہ ہے کہ مولوی شیخ عبید اللہ صاحب ساکن بنت نے ایک تحریک کی جس سے صد ہا اپنے اور بیگانے بیدار ہو گئے.بلکہ مخالفوں کی تعلیم یافتہ سوسائٹی بلند آواز سے پکا راٹھی کہ ”بت پرستی اور لغو افسانے بے ریب تباہی کا موجب ہیں.مولوی صاحب کا ایک بڑا مکذب اپنا قدیمی طرز ترک کر کے دیا نندی عالی جنابوں میں آداخل ہوا مگر ترقی ہمیشہ بتدریج ہوا کرتی ہے اور ان نئے جاگنے والوں کو پوری راستی پر پہنچ جانا شاید اس لئے بھی نصیب نہ ہوا کہ قومی تعلقات اور انواع واقسام کی جسمانی ضرورتوں نے یکدم قوم سے علیحدگی کی اجازت نہ دی.برہمو مذہب والوں نے آریہ سے زیادہ جلدی قدم اٹھایا.بہ نسبت آریہ کے بہت کچھ اسلام کے قریب آگئے اور آریہ

Page 20

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹ برہموں کے ساتھ اس لئے بھی شریک نہ ہوئے کہ ذات پات کا امتیاز جو بدظنی ، تکبر اور باہمی تنظر کا منشاء ہے اور بنی نوع کے اتحاد میں سخت خلل انداز ہے، چھوڑ نہ سکے، بلکہ میں کہتا ہوں دفعی جذب اس واسطے بھی نصیب نہ ہوا کہ دل صرف اللہ تعالیٰ کا طالب نہ تھا.دنیوی آسائش اور نیشنیلٹی کا خیال قوت ایمانیہ پر غالب آ گیا.ایسے ہی اسباب نے نور فطرت اور سلیم کانشنس کی بینائی کو دھندلا کر دیا اور آخرت یا پیچھے آنے والی حالت پر دنیا یا موجودہ خیالی راحت کو ترجیح دے دی.سبحان الله !!! کسی زمانہ میں آخرت کو دنیا پر ترجیح تھی اور دنیا ایک فانی اور محض خواب خیال سمجھی جاتی تھی اور اب اس زمانہ میں نو جوانوں کالجیروں اور ان کے ہم خیالوں میں عام طور پر دیکھا جاوے (إِلَّا مَنْ عَصِمَهُ الله ) تو صرف چند روزه دنیوی آسائش ہی نجات اور آرام کی جگہ ہے.ان نے جاگنے والوں نے قصہ مختصر اسلام کے قریب آتے آتے روگردانی اور اجتناب کیا.معلوم ہوتا ہے اور یقینا ہے بھی یوں ہی کہ کسی شریر کی یہ خواہش آنظِرْنَ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُوْنَ (الاعراف:۵) منظور ہوگئی.اس منظوری میں کیا حکمت ہے؟ یہ ایک جدا بحث ہے اور یہ فرمان بالکل سچ ہے کہ اُسے کہا گیا.فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إلى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ (الحجر:۳۹،۳۸) مگر تعجب ہے! اس گروہ نے جس کتاب کو کافی ہدایت نامہ یقین کیا اس کے پورے سمجھنے والے پنجاب کے منتہا تک نظر کرو کہیں نہ ملیں گے.ویدک سنسکرت کی عبارت بھی نہیں پڑھ سکتے.ے مجھے کو بعثت کے دن تک مہلت دے.یقینا تجھے وقت معلوم کے دن تک ڈھیل دی گئی.

Page 21

تصدیق براہین احمدیہ مگر یہ کہے جاتے ہیں کہ ہماری ہی کتاب تمام علوم اور فنون کی معلم اور استاد ہے.ثبوت پوچھیئے تو کیا ہوگا ! اس کتاب کے وجود سے آریہ کے ماوراء اور بلاد کے لوگ واقف بھی نہ تھے ہند سے کس ملک میں وید کا ترجمہ پہنچا؟ آریہ صاحبو! کوئی مستحکم دلیل چھوڑ ، ناقص شہادت ہی پیش کرو.مسلمانو! اس حملہ کا باعث جو آر یہ جماعت اس وقت مسلمانوں پر کر رہی ہے اور اس تنفر کا موجب جو آریہ نے ظاہر کیا ہے.صرف آریہ ہی نہیں بلکہ تمہاری غفلت اور اپنی پاک کتاب کی خدمت میں علمی اور عملی طور پر بے پروائی بھی اس کی علت ہے.تم نے اپنی کتاب کو طاق نسیاں پر رکھ دیا جس کا وبال تم پر یہ پڑا کہ تمہارے کئی فرقے ہو گئے.میں مانتا ہوں کہ یہود اور عیسائیوں کا ساتمہارا حال نہیں.تم کو باہم الفت بھی ہے مگر نہ ایسی جیسے چاہیئے.اہل کتاب کا نمونہ دیکھ لو! اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے.وَمِنَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّا نَصْرَى أَخَذْنَا مِيثَاقَهُمْ فَنَسُوا حَظَّا مِمَّا ذُكِّرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء (المائدة : ۱۵) سو چواگر انہیں اتفاق ہوتا تو تمام دنیا پر جو چاہتے کرتے.مگر جرمن سے فرانس ، روس سے انگلستان کو جو کچھ کھٹکا ہے ظاہر ہے.با اینکہ سب عیسائی ہیں! مسلمانو! تمہارا مالک رازق اللہ ایک، تمہاری کتاب ایک تمہارا رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ایک.عیسائی تین کے بندے ہیں.آریہ چار کتابوں کے متبع.ان میں اختلاف ہوتا تو ہوتا.ہم میں ایسی وحدت کے ہوتے اتنا تفرقہ بھی کیوں ہوا؟ لے اور ان لوگوں سے جنہوں نے کہا ہم نصرانی ہیں.ہم نے پختہ اقرار ان کا لیا.اس یاد دلائی گئی بات پر عمل کرنا بھول گئے.پھر ہم نے ان میں عداوت اور بیر کو اکسا دیا.

Page 22

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱ الحاصل مشرکوں سے نکلتے ،توحید کی طرف آتے ہوئے گروہ، بلکہ یوں کہیئے اسلام کے قریب آنے والے دیا نندی پنتھ کو جب مختلف اسباب سے رکاوٹ ہوئی اور دھو کے میں مبتلا ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان میں کے سعیدوں کی غلطی سے بچنے کے لئے حضرت میرزا غلام احمد صاحب مجد کو پیدا کیا اور انہیں توفیق دی کہ آریہ اور ان کے سوا جس قدر اسلام کے مخالف ہیں ان سب کو موجہ اقوال سے سمجھا دیں اور مغالطات کے مواقع سے انہیں آگاہ کریں.حضرت میرزا صاحب نے اس مقصد اعلیٰ کی ابتدائی تحریک کے واسطے ایک کتاب لکھی اور اس کا نام براہین احمد یہ رکھا.اللہ تعالیٰ کے سامان قدرت کو دیکھو غافل قوم کے جگانے کو کیا تدبیر نکالی ! اس کتاب کی تکذیب پر ایک پولیس مین کھڑا ہو گیا.الحمد للہ تعالیٰ.اس مکذب نے تمام مباحث ضرور یہ کو ایک جا جمع کرنا شروع کر دیا.آریہ کے عام مذہب میں گو کاسہ لیسی اور جوٹھا کھانا نا پسند ہے مگر اس شخص نے تمام عیسائیوں اور پادریوں کے اعتراض بھی لے لئے.اس واسطے عیسائیوں کے ایک ریفارمر نور افشاں نے تکذیب کی مدح میں کئی صفحے سیاہ کئے ہیں.ایک جگہ لکھتا ہے.تکذیب براہین ایسی دلچسپ ہے جب اسے ابتدا سے دیکھنا شروع کرو تو دل یہی چاہتا ہے کہ آخر تک دیکھ لی جاوے.سبحان اللہ کیا سچ ہے! الَمُ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوْا سَبِيلًا (النساء : ۵۲) لے دیکھو تو ان کتاب والوں کو یقین لا رہے ہیں ساتھ بدکاروں اور نا فرمانوں حد سے نکلنے والوں کے.اور منکروں کو کہتے ہیں.یہ اسلامیوں اور مومنوں سے زیادہ ہدایت یافتہ ہیں.

Page 23

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲ اگر چہ عیسائیوں میں ایسے منصف بھی ہیں جن میں سے ایک نے مجھے لکھا ہے تکذیب کے ریویو سے اتفاق صرف صاحب ریویو کے سے مزاج والوں کا ہوگا.تکذیب براہین کو بندہ بھی دیکھ چکا ہے بجز یاوہ گوئی کے میرے ہاتھ تو کچھ نہیں آیا.ہاں کوئی مخش سیکھنا چاہے تو اچھی کتاب ہے.عیسائی اعتراض بہم پہنچا کر اپنی لیاقت ضرور جتائی ہے ایسے مباحثہ سے چکلے کی کہانیاں اچھی ہیں.“ خاکسار نے جب اس کتاب تکذیب کو دیکھا تو وہ کل مکذب یاد آ گئے جو آدم سے لے کر.ہمارے ہادی (فداه ابی و امی صلی الله علیه و سلم) تک آپ کے اور آپ کے بچے اور نیک فرمانبرداروں اور جان شاروں کے مقابل گزرے.مگر وہی الہی سنت اور خدائی قاعدہ کہ انجام کار اہل ایمان اور راستباز ہی فتحیاب ہوتے ہیں میرے واسطے جان افزا، راحت بخش ہوا.ہمارے ہادی علیہ الصلوۃ والسلام کو باری تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدْ كُذِبَتْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلى مَا كَذِبُوا وَ أُوذُوا حَتَّى أَتُهُم نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِ اللهِ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَنِى الْمُرْسَلِينَ (الانعام: ۳۵) اور جگہ جب حضور علیہ السلام تنہا مکہ معظمہ میں تھے فرماتا ہے کہ اپنے مخالفوں اور بیجا حملہ آوروں نافہم مذ بوں کوسنادے.سِيرُوا فِي الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (الانعام :۱۲) کوئی دیکھ لے جو حالت انبیاء علیہم السلام کے مکذبوں کی ہوئی اس سے بڑھ کر ہمارے لے بے شک جھٹلائے گئے رسل تجھ سے پہلے پھر صبر کیا انہوں نے تکذیب پر اور دکھ دیئے گئے یہاں تک کہ آئی ان کے پاس مدد ہماری اور الہی باتیں کوئی نہیں بدل سکتا.اور بے ریب آ چکی تجھے خبر پہلے رسولوں کی.زمین میں سیاحت کرو پھر دیکھو جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا.

Page 24

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳ حضور علیہ السلام کے نافہم مکذبوں کی ہوئی.جہاں سے مکذبوں نے آپ کو نکالا وہاں سے خود ہی ابدال آباد کے واسطے نکل گئے.سچ ہے و العاقبة للمتقین.حضرت مرزا صاحب خاتم الانبیاء اصفی الاصفیا صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے خادم اور اسلام کے با اخلاص حامی اس زمانہ کے مسجد دلہم ہیں.میں نے چاہا اور خدا کے فضل سے یقین ہے کہ میری نیت کا ثمر ہ مجھے ضرور ملے گا) کہ راستبازوں کا ساتھ دوں اور ان کے انصار سے بنوں.اس لئے براہین کی تصدیق پر کمر ہمت کو چست باندھ کر اس رسالہ کو لکھا.وانما الاعمال بالنيات وانما لامرإ ما نوى اللهم وفقنى لما تحب و ترضى وانت حسبي ونعم الوكيل تکذیب صفحہ اول.”انسانیت سے باہر آزادی مبدا فساد ہے اصل میں وہ آزادی نہیں بلکہ آواگون کی بنیاد ہے“.مصدق براہین.بے ریب انسانیت سے باہر کی آزادی مبدا فساد ہے.وہ آزادی نہیں بلکہ انواع و اقسام کے سزاؤں کی موجب اور تکالیف کی باعث ہے.لیکن آریہ دیا نند یو! بتاؤ تو سہی تمہارے اعتقاد کے بموجب کبھی کوئی انسان اس آزادی اور مبدا فساد آزادی سے پاک بھی ہوا یا نہیں؟ بتاؤوید کا کوئی قاعدہ ہے جس پر عمل کرنے سے کوئی شخص ابدی نجات پاسکتا ہے؟ اور تمہاری مقدس کتاب نے ہی مخلوق کو کوئی ایسا ذریعہ بتایا ہے جس سے انسان آئندہ آواگون سے بچ جاوے؟ مکذب کی کتاب صفحہ نمبر ۲۲۰ میں ہے.محدود ارواح کے اعمال محدود ہیں.اور محمد وداعمالوں کا نتیجہ بے حد نہیں ہوسکتا اس واسطے (بطور دیا نندی پنتھ ) نجات ابدی روح حاصل نہیں کر سکتی.اور نہ ابدی دکھ

Page 25

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴ بھوگ سکتی ہے اور یہ بھی آپ لوگوں کا اعتقاد ہے.”مہان پر لے کے وقت ( جب مرکبات کے اجزا الگ الگ ہو جاویں گے اور اجزا کا با ہمی تعلق ٹوٹ جائے گا ) بیج انکر ماتر ( بقدر تخم ) اعمال اور برائی اعمال کے ارواح میں موجود رہتی ہے اور اسی مقدار اعمال سے مہان پر لے کے بعد جاندار اشیاء کا پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.‘یا در ہے.ایسے مہان پر لے کا وجو د صرف خیالی ہے دیا نندیوں کے پاس کوئی اس کی دلیل نہیں.مکذب ! تمہاری تحریر اور دیا نندیوں کی تقریر سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس مبداء فساد اور آواگون کی محکم بنیاد کا حامی صرف آپ کا خیال یا اعتقاد ہے اور اسی بُرے اعتقاد کا ثمرہ ہے جو آپ کو اُس مذہب سے سخت بغض ہو رہا ہے.جس میں ابدی نجات اور دائمی آرام کو جو روح کا اصلی تقاضا اور سلیمہ فطرت کا منشاء ہے تسلیم کیا گیا اور جس مذہب نے ایسی یاس اور قنوط کو کفر کہا ہے اُس کے مقابلہ میں آپ سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں اور اموال کو خرچ کرتے ہیں اگر چہ مجھے یہ صدا آ رہی ہے.سَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ (الشعراء: ۲۲۸) اور اس مال کے خرچ کرنے پر یہ الہی وعید اُس کے انجام کی خبر دے رہا ہے.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصدُّوا عَنْ سَبِيْلِ اللهِ فَسَيُنْفِقُونَ ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ (الأنفال: ٣٧) لے ان ظالموں کو پتا لگ جائے گا کہ کیسی گردش ان پر آنے والی ہے.ے جولوگ اپنے مالوں کو اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ اللہ کے رستہ سے روکیں.سو وہ خرچ تو کریں گے پھر مآل کار پشیمان ہو کر مغلوب ہو جا ئیں گے.

Page 26

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵ تمام سلیم الفطرتوں کا اعتقاد ہے.جب ارواح اللہ تعالیٰ کے رحم یا عدالت یا دونوں سے بری الذمہ اور غیر مجرم ٹھہریں گے یا جب ارواح اپنے اعمال بد کی سزا الہی عدالت سے پا چکیں گے.تو وہ نجات پا کر اعلی درجہ کی نیکی حمد اور ثنائے الہی میں مشغول رہیں گے اور ہمیشہ فرمانبرداری کریں گے اور چونکہ نیک اعمال کا نتیجہ ہمیشہ آرام ہی ہوتا ہے اس لئے وہ ہمیشہ کے آرام اور سد یو کال کے آنند میں مسرور ہوں گے.غیر محدود زمانہ میں اُن کے محدود اعمال کا نتیجہ یا ان کے غیر محدود اعمال کا ثمرہ جن کو وہ غیر محدود زمانہ میں کرتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابدی نجات بے انت سکھ ہوگا.آپ کے پاس کون سی دلیل ہے کہ محدود اعمال کا نتیجہ غیر محدود آرام نہیں ہوسکتا ؟ کیا فضل الہی محدود ہے؟ غیر محدود نہیں؟ یا اس میں کمی ہے؟ بطور آپ کے بھی میں اس مشکل کو حل کر دیتا ہوں کیونکہ یہاں فضل کا بیان ہے.آپ نے تکذیب کے صفحہ دوسو میں میں’اعمال محدودہ کے عوض غیر محد و دنجات کا ملنا اسنبہو یا محال کہا ہے.حالانکہ یہ صرف آپ کا دعوی ہے جو دلیل نہیں رکھتا آپ نے محدود کاموں کا پھل غیر محدود ملنا اپنی عقل سے جس کو آپ نے سلیم مان رکھا ہے پسند نہیں کیا حالانکہ روح کا تقاضا یہ نہیں.حل اشکال یوں ہے ” نیک اعمال کا نتیجہ اللہ کے فضل سے وہ آرام ہو گا جس کو اہل اسلام جنت اور تم لوگ خوشی کا مقام کہتے ہو.وَتِلْكَ الْجَنَّةُ الَّتِى أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُوْنَ (الزخرف:۷۳) انسان کو بلحاظ انسانیت ضرور ہے اپنے خالق اپنے رازق اپنے محسن رحیم اور کریم مالک کی حمد اور ثنا کرے اور اسی کے شکریہ میں مشغول رہے.اور اس کے بعد تمام خلق سے عموماً اور ابناء جنس سے خصوصاً پیار اور محبت کرے اور بنی نوع سے برادرانہ برتاؤ سے پیش آوے.اور بغض و کینہ سے پاک رہے اب قرآن کریم پر نظر کرو اس میں اہل جنت کی نسبت کیا تذکرہ ہے اور اس آرام گاہ میں لا اور یہی وہ جنت ہے جس کے وارث اپنے اعمال کے سبب تم ہوئے.

Page 27

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶ پہنچنے کے بعد کیسے صلح آمیز اور با امن انجمن کا ذکر فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُمْ بِإِيْمَانِهِمْ ۚ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهِمُ الْأَنْهرُ فى جَنَّتِ النَّعِيمِ دَعْوبُهُمْ فِيهَا سُبْحَنَكَ اللهُمَّ وَتَغَيَّتُهُم فِيهَا سَلَمُ ۚ وَاخِرُ دَعْونَهُمْ اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (يونس :۱۱،۱۰) وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُ وُهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَمٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَلِدِينَ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَأَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبَوَّأُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ ۚ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ (الزمر: ۷۵،۷۴) جنت میں باہمی تعلقات کیسے ہوں گے وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ اِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُقْبِلِينَ لَا يَمَسُّهُمُ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ (الحجر : ۴۹،۴۸) مسلمانو! کیا تم اسی دنیا میں اسلام کی برکت سے اَصبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (ال عمران :۱۰۴) کے مخاطب نہیں ہو چکے ؟ اب تم کو کیا ہو گیا ؟ کیا بغضبه اعداء تو نہیں ہو گئے ؟ غور کرو مَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ کا جملہ دوام نجات کا مثبت ہے اور جس آیت کو مکذب نے تکذیب کے صفحہ ۲۲۰ میں لکھا ہے اس کا جواب موقع پر دیں گے یہاں اتنا یا در ہے اس السموت کا الف و لام جو آیت مَا دَامَتِ السَّموتُ وَالْاَرْضُ میں خصوصیت کے معنی ے یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور اچھے عمل کئے ان کا رب انہیں راحت کی جنتوں میں لے جاوے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.ان کی پکاران ( جنتوں ) میں ہوگی ، اے اللہ تو قدوس ہے! اور ان کی باہمی دعا و سلام کی باتیں امن اور سلامتی ہوں گی.اور آخری پکار ان کی یہ ہوگی کہ اللہ رب العالمین کی حمد ہو.جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جنت کو گروہ گروہ میں انہیں لے چلیں گے.جب اس کے پاس آویں گے اور اس کے دروازے کھوتے جائیں گے جنت کے نگہبان انہیں کہیں گے تم پر سلامتی ہو تم نے پاک زندگی بسر کی تو اب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے درآؤ.اور وہ (بہشتی ) کہیں گے اللہ کی حمد ہے جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا اور اس زمین کا وارث ہمیں بنایا.اس جنت میں جہاں ہم چاہیں ٹھکانا بنالیں عاملوں کا اجر کیا ہی خوب ہے.سے اُن (اہل بہشت ) کے دلوں میں کوئی ( دنیوی) بغض رہا بھی ہو گا تو ہم اسے نکال ڈالیں گے(وہاں) وہ بھائی بن کر چوکیوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے.وہاں انہیں کوئی دکھ درد نہ ہوگا اور نہ وہ نکالے جائیں گے.

Page 28

تصدیق براہین احمدیہ ۲۷ دیتا ہے.یعنی جنت کے سموات اور والسموتُ مَطویت کے الف و لام سے دنیا کے سموات مراد ہیں جو فنا ہو جائیں گے دیکھو آیت يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (إبراهيم: ۴۹) تکذیب براہین احمدیہ صفہ نمبر ۲ و ۳، قرانی کرانی پرانی.تمام الخ مصدق براہین.ناصحانہ گزارش پرداز ہے.مکذب برا مین! اپنی بے باکی کے نتائج پر جو آپ کے دور از اخلاق کلمات ہیں سلیم کانشنس یا بے تعصب فطرت کے ساتھ یا غضب اور طمع سے ذرہ الگ ہو کر نظر ثانی کر کے دیکھئے اور زیادہ نہیں اس وقت بقدر امکان راستی اور راستبازی کی خوبی آپ کے مدنظر رہے.پھر کہتا ہوں منصفانہ نگاہ سے دیکھئے قرآن کریم مناظرات اور مباحثات کے وقت کیا پسندیدہ طرز سکھاتا ہے اور تہذیب و شرافت سے کام لینے کے فوائد کیسی حکیمانہ تدبیر سے بیان فرماتا ہے.مکذب! آپ اپنی بناوٹ سے بے ریب کسی قدر معذور ہیں مگر انسانی ملکی قوی.اللہ کریم نے آپ کو بالکل محروم نہیں رکھا.پس آپ پر فرض ہے کہ اُن سے بھی کام لیا کریں اللہ کریم نے اگر چاہا.آہستہ آہستہ بتدریج وہ قوی ہو جاویں گے.انسانی گروہ کمزور ہے.اس میں ایسے بھی گزرے جو ” کلوخ انداز را پاداش سنگ است کا فتوی دے گئے.میں ان کے کہے پر عمل کرتا تو بدلہ میں گالی گلوچ کی مجھے بھی اجازت تھی مگر قرآن کریم نے میری دستگیری فرمائی جہاں فرمایا.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقُهَا إِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (حم السجدة: ۳۶،۳۵) غور کر وقرآن کریم کی تہذیب کیسی ہے.ٹھوکر کھانے کے اسباب ہیں جو بغض آلود دل کی تو بری بات کو نیک بات کے عوض میں ٹال دے.تب جلد تیرا دشمن بھی دلی دوست ہو جاوے گا.اس کام کا ذمہ اٹھانا بڑی برداشت والوں کا کام ہے.اور اسے بڑے حظ والے اختیار کرتے ہیں.

Page 29

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸ راہ میں بکثرت موجود ہیں.پر انصاف اور راستی بھی اگر کوئی مثمر برکات ہے تو حق کے لینے میں بھی کوئی روک نہیں.دنیا میں بہ سبب اختلاف مذاہب اور عادات کے بے شک وریب یہ مرض پھیلا ہوا ہے کہ ایک مذہب کا پابند دوسرے مذہب والے کو برانہیں بہت ہی برا کہتا ہے اپنے مذہب اور اپنے مذہب والوں کے سواد دوسرے مذہب اور دوسرے مذہب والوں میں کسی خوبی کا وجود تسلیم نہیں کرتا ! شدت غیظ و غضب میں غالب اشخاص ہمیشہ اپنے مقابل کو یہی کہتے ہیں تو کچھ راہ پر نہیں، افسوس؟ کئی مسلمانوں نے بھی باہمی جھگڑوں میں بخلاف حکم قرآنی یہی طرز اختیار کر رکھا ہے.مگر قرآن اسلامیوں کے اعلیٰ درجہ کی مریلٹی اور وز پو سکھانے کے واسطے یہود اور عیسائیوں کے اس بُرے برتاؤ کو بیان کرتا ہے جو ہٹ اور ضد اور جہالت کا لازمہ ہے.کیونکہ اسلامی تعلیم کے وقت بھی دونوں قومیں مدعی اتباع کتاب اللہ اور مدعی علوم حقہ ابتداء جناب خیر خواہ انام علیہ التحیة والسلام کے سامنے موجود تھیں جس سے غرض یہ ہے کہ پیروان قرآن کریم بلکہ خواہشمندان راستی اور راستبازی اُس بُری طرز سے محفوظ رہیں.وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصُرُى عَلَى شَيْ وَقَالَتِ النَّصْرِى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَبَ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة : ۱۱۴) یہود نے کہا عیسائی کچھ راہ پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا یہود کچھ راہ پر نہیں.حالانکہ ممکن ہے بلکہ واقعی یوں ہے کہ عیسائیوں میں بہت سی خوبیاں ہوں.پس یہود کا عام طور پر یہ کہنا کہ عیسائی کچھ راہ پر نہیں غلطی اور نا سمجھی ہے.ایسا ہی ممکن ہے بلکہ واقعی ہے کہ یہود میں کچھ بھلائی بھی ہو.پس عیسائیوں کا علی العموم یوں کہہ دینا کہ یہود کچھ بھی راہ پر نہیں بڑی نا سمجھی اور بے انصافی ہے.غرض علی العموم کسی مذہب کو یوں کہہ دینا کہ وہ بالکل ہی بھلائی سے مبرا ہے کوئی علمی بات نہیں.اس لے اور یہود کہتے ہیں نصاری کچھ بھی نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں.یہود کچھ بھی نہیں.حالانکہ وہ کتاب (مقدس) کو پڑھتے ہیں نا دان ایسا ہی کہا کرتے ہیں.

Page 30

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹ واسطے قرآن اور اس کے لانے والے محسن خلق نے یہود اور نصاری کی مقدس کتابوں کو جہاں یاد کیا بڑے انصاف اور راستبازی سے یاد کیا مدح کے الفاظ بولے.إِنَّا أَنْزَلْنَا الشَّوْرةً فِيْهَا هُدًى وَنُوْرٌ (المائدة: ۴۵) وَاتَيْنَهُ الْإِنجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَنُوْرُ (المائدة: ۴۷) یا در ہے تمام قرآن اور صحیح احادیث میں تو ریت، انجیل اور مجوسیوں کی مقدسہ کتب کی اہانت کا نام ونشان نہیں با اینکہ ان میں انواع و اقسام کا تبدل اور تغیر اور ایزاد ہے.بلکہ تمام دنیا کی مقدس کتابوں کی نسبت ایسا اشارہ بھی نہیں کیا جس کی نسبت خلاف ادب کا وہم بھی کر سکیں.حالانکہ اس وقت بہت سی کتابیں اور صحف دنیا میں موجود تھے جو انبیا کی طرف منسوب کئے جاتے.بلکہ بقول دارا شکوہ کے جس کو آپ نے صفحہ تکذیب نمبری ۷۹ میں نقل کیا ہے.اپنشد وید کے ضمیمہ یا اس کے خلاصے یا کسی قسم کی تفسیر ) کو بھی قرآن نے کتاب مکنون اور اس کے چھونے والوں کو مطہرون کہا ! گو یہ قول حاشیہ کا محتاج ہے.قرآن کریم نے تمام مذاہب کے ان معبودوں کی دشنام دہی سے جن کو بت پرست پکارتے ہیں حکما قطعی ممانعت کر دی ہے جہاں فرمایا ہے.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الأنعام: ١٠٩) مکذب براہین کے ان عالی جنابوں میں سے جن کی فہرست تکذیب کے صفحہ ۲۹ میں دی گئی ہے.ایک نے جس کو عربیت کا دعویٰ ہے مجھے فرمایا ” قرآن کریم نے اگر گالی سے منع کیا ہے تو تعجب ہے کہ بتوں کے توڑنے کا کیوں تاکیدی حکم کیا.اس وقت ان کی خدمت میں کہا گیا کہ لے ہم نے توریت اتاری اس میں ہدایت اور نور ہے.ے ہم نے اسے انجیل دی اس میں ہدایت اور نور ہے.سے ان کو جنہیں اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہیں برا مت کہو.پھر وہ ضد اور نادانی سے اللہ کو بُرا کہیں گے.

Page 31

تصدیق براہین احمدیہ آپ قرآن دانی کے بڑے مدعی ہیں از راہ مہربانی آیت کا نشان دیجیئے جس میں قرآن کریم نے بتوں کے توڑنے کا تاکیدی حکم دیا ہے.ہاں کسی تاریخی واقع کے بیان میں اگر قرآن نے کہا ہے فلاں موحد بت پرستی کے دشمن نے اپنے یا اپنی قوم کے بت توڑے تھے تو یہ امر اور ہے اور ایک واقع اور نفس الامر کا بیان ہے.تکذیب صفیہ میں فرماتے ہیں ”مرزا صاحب کی کتاب (براہین احمدیہ ) میں کہیں برہمو دھرم کو گالی گلوچ ہے.کسی جگہ مرزا صاحب عیسائیوں کو کوس رہے ہیں.کسی جگہ آریوں کو بُرا بھلا بتا رہے ہیں.برہمو اور عیسائیوں کے تو آپ وکیل نہیں.وہ ہم سے یا مرزا جی سے نپٹ لیں گے.اگر مرزا صاحب نے آپ کو برابھی کہا اور بھلا بھی کہا تو خفگی کی کیا بات ہے.برائی کے لحاظ سے برا کہنا اور بھلائی کی جہت سے بھلا کہنا تو انصاف ہے اور منصف کا کام ہے.برا ہی کہنا اور بھلائی و برائی ہر دو پر برائی کا برتاؤ بے ریب بُرا ہے جو اکثر مقامات میں آپ سے ہوا.غور کیجیئے ! آپ کے اس شعر میں جو ذیل میں درج ہے.( تمام ) کا لفظ کس طرح انصاف کا خون کرتا ہے.قرانی - کرانی پرانی تمام فتادند هر یک از بنیا د خام اور آپ نے صفحہ ۳۶ میں کسی قوت سے کام لیا جہاں کہا ہے.”خدائے محمد یان بے علم ، نافہم ، دھوکہ باز، فریبی وغیرہ وغیرہ باری تعالیٰ اپنے رحم اور فضل سے تمہیں ہدایت کرے یا سفا قلوس کے مبتلا عضو کو کاٹ ڈالے.آمین کیا آپ نے اور آپ کے عالی جناب اندرمن نے تہذیب سے کام نہ لینے میں کچھ کمی فرمائی ہے؟ بالفرض اگر مرزا صاحب نے آپ کے نزدیک تہذیب کے خلاف سخت کلامی سے کام لیا تھا تو کیا آپ مرزا صاحب کے پیرو تھے ؟ آپ کو دعویٰ ہے کہ آپ ایک کامل کتاب کے متبع ہیں !

Page 32

تصدیق براہین احمدیہ ۳۱ برائی کا پیرو کیا آریہ اور سریشٹ ہوسکتا ہے؟ کیا آپ کی کامل کتاب یہ چال سکھلاتی ہے جو آپ نے تکذیب میں برتی ہے؟ قرآنی طرز مباحثات میں جو خوبی ہے کچھ تو آگے بیان کر چکا ہوں اور اور گزارش کرتا ہوں.قرآن کریم منادی ، مناظرات اور جدال کے وقت حکم کرتا ہے.ادْعُ إِلَى سَبِيْلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (النحل: ١٣٦) ہر ایک سلیم الفطرت ، دنیا کے معاملات کا واقف خوب جانتا ہے کہ بعض لوگ صبر سے کام لے سکتے اور یہ بھی کہ بعض اوقات چشم پوشی ، صبر، درگز ر نقصان عظیم کا موجب ہوتی ہے.چور، باغی اور راستہ لوٹنے والے کو اگر سزا نہ دی جاوے اور صرف رحم ہی اس پر کیا جاوے تو کتنا نقصان ہوتا ہے.فطری قویٰ میں انتقامی طاقت بھی سلیم الفطرت انسان کے ساتھ لازمی ہے.پھر اگر کوئی قوت انتقام کو ہی کام میں لاوے اور مقابلہ ہی چاہے تو اسے بھی قرآن کس طرح نیک روی کی تعلیم کرتا ہے اور کس طرح صبر اور نرمی کی ترغیب دیتا ہے.وَان عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصُّبِرِينَ - وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ اِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ (النحل : ۱۲۷تا۱۲۹) فائدہ.قرآن کی تعلیم سبحان اللہ کس حکیمانہ طرز کی ہے اور کیوں نہ ہو؟ عزیز حکیم کی لے اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور اچھے وعظ سے ( لوگوں کو ) بلا اور ان سے پسندیدہ طرز سے مباحثہ کر تیرا رب انہیں بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بہک گئے اور وہ راہ پانے والوں کو بھی جانتا ہے.ے اور اگر تم سزا دو تو اتنی جتنی تمہیں دی گئی ہے اور اگر تم صبر کرو تو صابروں کے حق میں تو وہ بہت ہی بھلا ہے.اور تو (اے محمد ) صبر کر اور تجھے صبر دینا اللہ کا کام ہے اور ان پر غمگین نہ ہو اور ان کی بدسگالیوں سے ملول نہ ہو.جان لے کہ اللہ ڈرنے والوں اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے.

Page 33

تصدیق براہین احمدیہ صبر کے بیان میں بھی کہیں الصابرین میں الف ولام عہد کا لگا کر اور کہیں فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) فرما کر بتا دیا کہ جس عفو میں اصلاح اور سنوار نہ ہو وہ بے جا اور برا ہے اور جس میں اصلاح اور سنوار ہو اس پر اجر ہے اور اس کا اجر اور بدلہ پر ور دگا ر دے گا.مکذب براہین.”محمدی اور عیسوی معجزات اب قدر کے لائق نہیں.شعبدہ بازی روتی ہے“ مصدق - عیسوی معجزات کے مثبت کمزور نہیں اور وہ میرے جواب کے محتاج نہیں آپ کے مذہب میں یہی دنیا سورگ اور یہی دنیا نرگ ہے.دنیوی عیش و آرام، نیک اعمال اور راستی کا نتیجہ اور اسی کا ثمرہ اور اسی کا پھل ہے.عیسوی معجزات کے قائلین کی سچائی تو بقول آپ کے عیسائیوں کے عیش و آرام سے ظاہر ہے.محمدی معجزات کی بابت مجھ سے سن لیجیئے.اوّل تو خود آپ نے جو تکذیب کے صفحہ ۱۶۳ میں کئی آیات لکھ دیئے ہیں جن سے آپ نے اپنے خیال میں ثابت کر لیا ہے کہ قرآن شریف میں محمد صاحب نے معجزات سے انکار فرمایا.اپنی کتاب خبط نام میں اور ایسے دلائل دیئے ہیں جن سے بزعم خود ثابت کر لیا ہے کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے معجزات سے انکار فرمایا.پس میں کہتا ہوں کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے معجزات سے انکار فرمایا تو آپ کا اعتراض کس قدر اور خوبی کا رہا! اور بطریق اولی آپ ہی کے قول کے موافق اسلام ہر قسم کے شعبدوں سے بری ٹھہرا.دوم یہ عربی لفظ معجزہ قرآن کریم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نہیں آیا.اگر معجزے کے معنی شعبدہ بازی اور بھان متی کا تماشا ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ شعبدہ بازی کا دعویٰ حضرت خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں فرمایا.آپ عربی دانی کے بڑے مدعی ہیں قرآن کریم میں کہیں دکھلائیے کہ حضرت نے شعبدہ بازی کا دعوی کیا ہو.بلکہ صحیح احادیث کی اعلیٰ جس نے درگزر کی اور سنور گیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے.

Page 34

تصدیق براہین احمدیہ طبقہ کی کتابوں بخاری ،مسلم اور تر ندی میں اس لفظ مجزہ کا پتہ دیجئے.ہاں ایک صورت آپ کی تصحیح کلام کی بن سکتی ہے.جب ہادی اسلام نے شعبدہ بازی کا دعوئی نہ کیا اور اس کو کام میں نہ لائے تو بے شک شعبده بازی روتی ہوگی کیونکہ قدر کے لائق نہیں رہی.اگر قدر کے لائق ہوتی تو اسے اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ، برگزیدوں کا سردار اور اللہ تعالیٰ کا پیارا خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ترک نہ فرماتا.جب انہوں نے شعبدہ بازی کو ترک فرمایا اور آپ کے کروڑوں فرمانبرداروں نے آپ کی باعث نجات پیروی کو اختیار کر کے شعبدہ بازی کو چھوڑ دیا اور لغو جانا تو بے ریب شعبدہ بازی روئے گی اور روتی ہے.مگر اکثر اہل ہند اور آریاورت کا شکریہ کرے جس کی طفیل اس کو ہند میں اب تک جگہ مل رہی ہے.اگر انکار ہو تو آپ کا اور آپ کے بعض عالی جنابوں کا امرتسر سے تعلق ہے وہاں بت پرست آپ کے بھائی بند اس کے لئے چندہ جمع کر رہے ہیں دیکھ لیجئے.سوم معجزہ کے معنی عربی میں دوسرے کو عاجز کر دینے والا ہیں.آپ لغت عرب میں تحقیق کر لیں اور بعد تحقیق کامل اور انصاف محمدی اور عیسوی معجزات کی تصدیق کے واسطے کچھ تو اپنی تاریخ ہند سے کام لیں اور کچھ ہمارے آثار دیکھ لیں.میں یقین کرتا ہوں کہ آپ کو محمدی اور عیسوی معجزات یا محمد یوں کا اور عیسائیوں کے افعال معجزہ سے ہرگز انکار نہ ہوگا.اگر شک ہو تو حسب ہدایت وید مقدس ڈشٹ قوموں کے نکالنے کے واسطے ذرہ شستر ( ہتھیار اٹھا کر امتحان کر لیجئے.خوب واضح ہو جاوے گا کہ ان دونوں اہل کتاب قوموں نے بت پرست حریفوں کو عاجز کر دینے میں کیا کیا معجزات اور کا رہائے نمایاں دکھائے ہیں اور اب بھی ان کا مقتدر ہاتھ ویسے ہی معجزات دکھانے کو تیار ہے.آپ تو صفحہ ۳ میں کہہ چکے ہیں کہ آپ کو واقفیت رزم و آزرم ہے پھر دیر کیا ہے؟ یا اس وقت کا انتظار ہے جس کے واسطے آپ چست و چالاک سرپٹ گھوڑے دوڑا رہے ہیں.

Page 35

تصدیق براہین احمدیہ ۳۴ چہارم اب اثبات معجزہ لیجیئے اور جب معجزہ ثابت ہو گیا تو بھی آپ کا اعتراض اٹھ گیا.یہاں میں نے معجزہ کے معنے خرق عادت بھی مان لئے ہیں.مگر بغور پڑھیئے.آپ کو تواریخ عرب سے عیاں ہوگا کہ حضور (فداہ ابی و امی ( صلی اللہ علیہ وسلم یتیم رہ گئے تھے.جس ملک میں آپ نے وعظ شروع کی وہاں کی بت پرستی ایک خطرناک تھی اور وہاں جس قدر لوگ آباد تھے قریب گل اس میں گرفتار تھے اور اس پر بھی جیسا بت پرستی کا لازمہ ہے سخت کندے ناتراش اور ضدی جاہل تھے.عرب کے حدود و اطراف کا حال دنیا جانتی ہے مشرق میں ایک طرف یہی آپ کا آریہ ورت تھا آپ اچھی طرح اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان دنوں میں اس آریہ ورتا کی کیا حالت تھی اور اب تک ہے.مگر آئندہ امید ہے کہ جیسا اسلام کے فیض و برکت سے کسی قدر بت پرستی کی گھنونی عادت کو چھوڑا ہے کامل موحد دیندار بھی ہو جائیں گے دوسری جانب پارسی تھے جنہوں نے سیارہ پرستی اور یزدان اور آہرمن دو خداؤں کا ماننا ایمان سمجھ رکھا تھا.شمال اور مغرب میں یہود اور عیسائی تھے جن کا تذکرہ گزر چکا اگر اور مطلوب ہے تو اس کے واسطے قرآن کریم کی یہ آیت پڑھ لو جس میں ان کی حالت کا خوب فوٹو کھینچا ہے.المُتَرَ إِلَى الَّذِينَ أوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوْا سَبِيلًا (النساء:۵۲) اُن کے کامل نمونے ہمارے وطنی عیسائی بھائیوں کو دیکھ لو نو را فشاں میں کس زور وشور سے تکذیب کار یو یو دیا ہے اور محض بغض و عناد کی وجہ سے کتاب والوں (اہل اسلام) کے مقابلے میں مانی ہوئی بت پرست قوم کی ستائش میں فصاحت کو خرچ کیا ہے یہود کا بچھڑوں کی پوجا کرنا موسی کے سامنے کا واقعہ ہے اور بعد کی بت پرستی قاضیوں کی کتاب سے جو کتب مقدسہ میں کی ایک کتاب ہے پڑھ لیجیئے.عیسائیوں کی بت پرستی ظاہر ہے کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام جیسے خاکسار نیک بندے کو خدا یقین کرتے ہیں.اگر بیٹا کہتے ہیں تو اول مسیح کو خدا کا ازلی بیٹا اور خود خدا ہاں ذاتاً خدا لے دیکھتے ہو ان کو جن کو کتاب سے بہرہ ملا وہ شیاطین اور ناپاک روحوں پر اعتقاد لارہے ہیں اور (ضد میں ) کافروں کی نسبت کہتے ہیں کہ وہ مومنوں سے اچھی راہ پر ہیں.

Page 36

تصدیق براہین احمدیہ ۳۵ سے متحد بتاتے ہیں.دوم اس کی انسانیت کے ساتھ اس کی الوہیت کے اعتقاد اور پرستش کو ایمان اور باعث نجات یقین کرتے ہیں.اس سے استعانت اور نجات طلب کرتے ہیں.کفارات معاصی پر جو کچھ ان قوموں کا خیال ہے وہ نا گفتہ بہ ہے.اور اس مسئلہ سے جو خطرناک نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ عیاں، یہ قصہ طول ہے.اور اس وقت یہود عیسائیوں اور پارسیوں سے بحث نہیں بلکہ تاریخی طور پر اس کا تذکرہ مطلوب ہے.میرے مخاطب آریہ تسلیم کریں گے کہ یہ طرز عیسائیت کا بے ریب شرک ہے گو عیسائی اس کا کچھ ہی جواب دیں.خود عرب کیا تھے سابق میں کہہ چکا ہوں ان کے رسومات کا تذکرہ کہیں اور جگہ کروں گا.ایسے وقت حضرت نے توحید کی وعظ شروع کی.ایسے وقت میں توحید الوہیت اور صرف باری تعالیٰ کے معبود برحق ہونے کی منادی اختیار کی بے شک علمی طور پر تو حید الوہیت کا وعظ کتب مقدسہ میں موجود ہو گا یا تھا.الا عملی حالت بالکل مفقود تھی عملاً تو اعتقاد توحید پر ظلمت کا ابر چھایا ہوا تھا.عیسائیوں نے لوتھر کے زمانہ میں کچھ ترقی مذہب میں کی.مگر شرک سے پاک نہ ہوئے اور آریہ ورت میں اب تک توحید کا جو کچھ حال ہے آپ سے مخفی نہیں.گو خدا کے فضل سے برہمو بہت کچھ ہمارے قریب آگئے اور بت پرستی سے بیزار ہو گئے ہیں.اور قرآنی راستی ظہور پاتی جاتی اور اس کا اصل مطلب پورا ہوتا جاتا ہے اور امید قوی ہے کہ انشاء اللہ کچھ عرصہ کے بعد آفتاب حق وصدق ضرور جلوہ گر ہوگا.حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے وقت میں توحید الوہیت کی طرف بلایا جب چاروں طرف اند ھیر مچا ہوا تھا اور کہا.وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (النساء :۳۷) إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ (النساء :۴۹) وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَللَّا بَعِيدًا (النساء : ۱۱۷) لے اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو.ے اللہ اس کو کہ اس سے شرک کیا جاوے معاف نہ کرے گا اور اس کے سوا جسے چاہے گا معاف کر دے گا.ے اور جس نے اللہ سے شرک کیا وہ سخت گمراہ ہوا.

Page 37

تصدیق براہین احمدیہ ۳۶ تمام ملک کے رؤساء امراء اور بت پرستی کی عادی قو میں مخالفت پر کھڑی ہو گئیں اور سخت سخت ایذا ئیں دینی شروع کر دیں جس قدر موحد دیندار جناب رسالت مآب کے ساتھ ہوئے ان سب کو ملک چھوڑ چھاڑ ہجرت کرنی پڑی اور جبش کو چل دیئے.آخر نوبت با بیجا رسید کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ مدینے چل بسے.بت پرستوں نے وہاں بھی چین نہ لینے دیا اور استیصال کے در پے ہو گئے تب قرآن کریم میں حکم ہوا کہ جب مشرکوں نے اسلام کا استیصال چاہا تو اہل اسلام کو بھی اپنے تحفظ پر کمر باندھنی چاہیئے.قَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة : ١٩١) اور کسی آئندہ زمانہ میں اعتراضات کو دفع کرنے کی خاطر قرآن کریم نے صریح طور پر مقاتلہ کی وجہ بیان فرمائی ہے جہاں فرمایا.أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُوْلِ وَهُمُ بدَءُ وُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبة: ۱۳) آخر الہی نصرت شامل اسلام اور اہل اسلام ہوئی کہ صاحب اسلام ہی غالب رہے.اور آپ کے دشمنوں کی ایک نہ چلی اور آپ کی تمام پیشین گویاں فتح و نصرت کی پوری ہونے لگیں اس نعمت کا بیان آیت ذیل میں دیکھو.وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَفَكُمُ النَّاسُ فَأُونَكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (الانفال: ۲۷) لے اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی مت کرنا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پیار نہیں کرتا.سے تم کیوں نہیں لڑتے ایسے لوگوں سے جنہوں نے تو ڑ دیئے عہد اور قسمیں اور فکر میں رہے کہ رسول کو نکال دیں.اور انہوں نے تم سے پہلے چھیڑ کی.سے اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اور اس سرزمین ( مکہ ) میں ناچیز سمجھے جاتے تھے تمہیں ڈر تھا کہ لوگ تمہیں اچک کر لے جائیں گے ایسے حال میں تم کو خدا نے ) جگہ دی اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی اور عمدہ چیزیں مرحمت فرما ئیں تا کہ تم شکر کرو.

Page 38

تصدیق براہین احمدیہ ۳۷ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ہی معجزات تھے کہ تمام عرب مقابلہ میں عاجز ہو گئے.اور ایسا عجز اختیار کیا کہ اپنے خیالی مذہب سے آخر دست بردار ہو گئے.اللہ اللہ کیسے آیات بینات ہیں اور کیسے برکات ہیں.کیا کوئی قریشی آپ کا مخالف دنیا میں موجود ہے.آپ کی ساری قوم آپ کے سامنے آپ کے جیتے جی اس دین میں داخل ہوگئی.جس میں داخل کرنے کا آپ نے بیڑا اٹھایا تھا.عرب کے ایسے شہر میں جہاں آپ نے وعظ شروع کی قربانت شوم یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ الہام سن لیا.الْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائدة : ٤) یہ نصرت کسی بادی مذہب کو اپنے سامنے اپنی زندگی میں ہوئی ہے تو اس کی نظیر دو.اس بے نظیر کامیابی میں بھی اعجاز ظاہر ہے اور عدم نظیر میں اس کامیابی کے خرق عادت ہونے میں کونسا شبہ ہے؟ مسیح علیہ السلام کو بڑی کامیابی ہوئی مگر کیا ان کی اپنی قوم اُس بادشاہت میں داخل ہوئی جس میں داخل کرنے کے لئے حضرت مسیح کو بادشاہ بنایا گیا تھا اور جس کے حصول کی امید میں اُس کے سر پر پاک تیل ڈالا گیا تھا؟ کیا وہ قوم جو ہدایت کے لئے مقصود بالذات اور مسیح کی اپنی قوم تھی اس نجات سے نجات یاب ہوئی ؟ کیا مسیح ان کے لئے قربانی ہوا؟ کیا کھوئی ہوئی بھیڑیں اس کے ہاتھ آ ئیں؟ نہیں نہیں، ہرگز نہیں.بلکہ اس بیت المقدس میں جہاں کبوتر فروشی سے مسیح علیہ السلام نے منع کیا تھا سور کی قربانی ہوئی !!!.کیا بدھ مذہب کا بانی اس کامیابی پر خوش ہو گا کہ آریہ ورت میں اُس نے اپنا کچھ ثبات اور قیام مذہب نہ دیکھا؟ ویدوں کے اور پرانوں کے حامی برابر آریہ ورت میں موجودرہے.علاوہ بریں اس نے الہام کا دعوی ہی کیا کیا ؟ کیا یہ نصرت دیانند جی کو آج میں نے تمہارا دین تمہارے واسطے کام کر دیا اور اپنا فضل تم پر پورا کیا اور اسلام کا دین تمہارے لئے پسند کیا.

Page 39

تصدیق براہین احمدیہ ۳۸ حاصل ہوئی ؟ ویدوں کے حامی نے ہمارے دیکھتے دیکھتے وید کی حمایت کا بیڑا اٹھایا مگر اپنی مقدس اور پیاری کتاب کا ترجمہ بھی پورا پورا اقوم کے سامنے نہ رکھ سکا.ملک اور قوم کی نجات تو ایک خواب و خیال ہے جس کتاب پر نجات کا مدار سمجھا تھا وہ کتاب بھی پبلک کو دکھا نہ سکا !!! حسب دعوئی آریہ صاحبان ویدوں کو اس موجودہ دنیا میں آئے ہوئے دوارب برس کے قریب زمانہ گزرتا ہے.پر اس کتاب کی نسبت نصرت الہیہ کا یہ حال ہے کہ آریہ ورت میں بھی یہ کتا ہیں پورا رواج نہیں پاسکیں اور اور بلا د کی نسبت دعوی بلا دلیل ہے.چشم دید حالت سے بڑھ کر ان کی خیالی اشاعت کو کوئی کیوں کر مانے اور کیونکر یقین کرے کہ وید ہی کی بدولت تمام دنیا نے سچے علوم سیکھے اور تو حید ذاتی اور توحید صفاتی اور توحید الوہیت کا پتہ وید ہی سے لگا!! ہم تو اب بھی آریہ ورت میں جین مت والوں کو ان کا سخت مخالف پاتے ہیں پھر اس کامیابی کی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوئی.اگر نظیر دکھانے سے بجز ہے اور واقعی بجز ہے تو آپ کے وہ افعال جو کامیابی کے باعث ہوئے بے ریب خرق عادت اور معجزہ ہیں.کون گزرا ہے جس نے ملہم الہی ہونے کا جھوٹا دعوی کیا ہو اور ایک کتاب کو خدا کی بنائی ہوئی کتاب بتایا ہو پھر اپنی قوم اور اپنے ملک پر خاص کر ان عظیم الشان موجودہ سلطنتوں پر جو اپنی جگہ بے نظیر تھیں.مثلاً ہمارے ہادی (فداہ ابی وامی) کے وقت ایرانی سلطنت جو ایشیا کی بے نظیر اور قریباً گل ایشیا پر حاوی اور دوسری روم کی سلطنت جو قریباً کل یورپ اور آبادافریقہ پر متسلط تھی پوراختیاب ہوا ہوا اور کامیابی جو راستبازی کا معیارتھی حاصل کر چکا ہو.پنجم.اگر معجزہ کسی علامت نبوت یا نشان رسالت کا نام ہے جسے قرآنی اصطلاح میں آیت کہتے ہیں تو سینے آیات رسالت محمدیہ اس قدر ہیں اور تھیں کہ صاحب آیات کے آیات دیکھ کر اس قدر لوگ اس کے دین میں داخل ہوئے کہ منکرین کے چھکے چھوٹ گئے اور حضرت نے اپنے کانوں سے سن لیا.اَلْيَوْمَ يَبِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ دِينِكُمُ (المائدة: ۴)

Page 40

تصدیق براہین احمدیہ ۳۹ سبحان اللہ کیا معجزہ ہے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر: ۲ تا ۴) معرا ہے.آپ کی تعلیم کچھ کم آیت نبوت ہے؟ جو تمام نیکیوں کا مجموعہ اور تمام برائیوں سے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ (آل عمران :) قرآنی اوامر اور نواہی کی کیفیت کا فوٹو ملا حظہ کرنا ہو تو دیکھو.إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَائِ ذِي الْقُرْبَى وَ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: ٩١) تکذیب صفحه ۵ مکذب.قومی حمایت بیکار اور بے جا بحر طویل سے قرآنی حفاظت دشوار.کیونکہ خود حدیث راوی ہے.جس قدر فرقے مومنوں کے ہیں سب دوزخ کی آگ میں جلیں گئے.پھر آخر کہا ہے.اہل تشیعہ اہل تسنن کا خاکہ اوڑا رہے ہیں“.مصدق.کیا آپ کو اپنے آریہ ورت سریشٹوں کے ملک میں اتفاق نظر آیا ہے؟ کیا جن کو آپ پرانی کہتے ہیں.آریہ ورتی نہیں؟ کیا آپ ان کا اور وہ آپ کا خاکہ نہیں اوڑ اتے ؟ کیا ے جب اللہ کی نصرت آگئی اور فتح حاصل ہو گئی اور لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق جوق داخل ہوتے تو نے دیکھ لیا تو ( بس تو تو اپنا کام پورا کر چکا ) اب اللہ کی حمد وستائش کر اور اس سے استغفار کر کیونکہ وہ تو اب ہے.ہے تم ایک اچھی جماعت ہو لوگوں کے لئے نمونہ کے طور پر نکالے گئے.تم نیکی کا امر کرتے اور بدی سے روکتے ہواور اللہ پر اعتقادر کھتے ہو.سے اللہ ام کرتا ہے عدل و احسان کا اور قریبیوں کو دینے کا اور روکتا ہے بے حیائی اور منکر اور بدکاری سے.تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ دھیان کرو.

Page 41

تصدیق براہین احمدیہ ۴۰ آپ کے قلیل اور کمزور گروہ کے ساتھی جن میں علمی طاقت والے جیسے کچھ ہیں دنیا پر مخفی نہیں لنگ کے پوجاری پر تمان (بت) کے فدا، بت پرست، وحدت وجود کے قائل ویدانتی ،سنیاسی، بیراگی، ہوگی ،سکھ ، چین بدھ ، برہمو وغیرہ وغیرہ اور دہریوں کے کئی فرقے آریہ ورتی یا ہندوستانی ، آریوں کے نور چشم آریوں کے مخالف آریہ ورت میں موجود نہیں اگر آپ کا فرمانا سچ ہے تو کیا آپ ہی کے قول کو لے کر آپ کا مخالف کہہ نہیں سکتا.دیانندوں کی قومی حمایت بریکار ہے اور بے جا بحرطویل سے وید کی حفاظت دشوار ہے.کیونکہ ہمارا مشاہدہ دکھا رہا ہے کہ ان میں با ہمی سخت نفاق ہے اور آتش نفاق سے سخت کباب ہو رہے ہیں.عقل کہتی ہے کہ جس قدران میں حق کے مخالف ہیں وہ اپنے کئے کی سزا ضرور پائیں گے.مکذب.مسلمان تیغ آبروئی غلمان سے سر بریدہ ہیں“.مصدق.بہشتی نعمتوں میں اسلام بیان کرتا ہے کہ بڑی نعمت خدا کی رضامندی ہے.دیکھو قرآن کریم.وَرِضْوَانَ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ (التوبة : ۷۲) پس سچے مسلمان الہی رضامندی کے گرویدہ ہو کر اس کی عبادت کرتے ہیں نہ اس بات کے لئے جس کی نسبت آپ نے کہ دیا.دنیا کی نعمتیں اور دنیوی عیش و آرام اور دولتمندی آریوں کے اعتقاد میں نیکیوں کا پھل ہے اور ظاہر ہے کہ غلمان بعض دولتمند ہندیوں کے لوازمات میں داخل ہیں.پس کیا یقینا یہ الزام آپ لوگوں پر نہیں ہوسکتا؟ بلکہ جب دیا نند کے نزدیک یہی دنیا ہی سورگ اور نیکی کے ثمرات لینے کی جگہ ہے.گو چند اعمال کے بدلے ارواح چندے شواغل دنیا سے بھی آزادی اور انند میں رہیں گے تو اس صورت میں دیا نندی پنتھ کے مطابق غلمان نیکی کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہیں ! بات یہ ہے کہ سخت عداوت کے سبب آپ کو غلمان کا قصہ سمجھ میں نہیں آیا یا قرآن کریم کو نہ دیکھا ہے اور نہ سمجھا ہے افسوس اس ادعائے تہذیب کے زمانے میں یہ درشت زبانی تمام اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے.

Page 42

تصدیق براہین احمدیہ قرآن کریم میں غلمان کا لفظ صرف ایک جگہ ستائیسویں سپارہ سورہ طور میں ہے.اگر قرآن کریم کا اردو تر جمہ بھی آپ دیکھ لیتے اور تھوڑا سا ما قبل سے پڑھ لیتے تو بشرط انصاف آپ ایسے خلاف تہذیب امر کے مرتکب نہ ہوتے.سنیئے وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيْمَانِ الْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا اَلَتُنْهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِى بِمَا كَسَبَ رَهِينُ وَامْدَدْنُهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَأْ سَالًا لَغُوَّ فِيْهَا وَلَا تَأْثِيمُ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤُ مَّكْنُونُ (الطور: ۲۲ تا ۲۵) باری تعالیٰ فرماتا ہے.” بہشتیوں کی اولا دان کے پاس پھرے گی“.وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ ولا تـــائیـم صریح اس کی صفت میں موجود ہے.جس کے معنی ہیں نہ گناہ میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسانا شایاں خیال کیوں گزرا؟ اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورہ دہر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غِلْمَان کے بدلے وِلْدَان کا لفظ جو ولد یا وَلِید کی جمع ہے فرمایا ہے.وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ ۚ إِذَارَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا (الدهر : ٢٠) اور سورہ واقعہ میں ہے.يطوف عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِالْوَابِ وَآبَارِيْقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَّعِيْنِ (الواقعة: ۱۹،۱۸) ے اور جولوگ ایمان لائے اور ان کی اولا د نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولا د کو بھی ہم ان سے لاحق کر دیں گے اور ان کے عمل سے کچھ بھی کمی نہ کریں گے ہر شخص اپنی اپنی کمائی کا گرویدہ ہوگا اور ہم ان کو من بھاتے گوشت اور میوے عنایت کریں گے.ان میں ایسے پیالوں کو دور دیں گے جن میں ( بخلاف دنیوی مے ) بہکنا اور بد خیالات کا اثر نہ ہوگا.اور ان کے در مکنون کے ایسے لڑکے بالے ان کے ارد گر دا چھلتے کودتے ہوں گے.ے اور پھرتے ہیں ان کے پاس بچے سدا رہنے والے جب تو انہیں دیکھے خیال کرے انہیں موتی بکھرے.اور پھرتے ہیں ان کے پاس بچے سدار ہنے والے.آبخورے نتیاں.اور پیالے ستھرے پانی کے لے کر.

Page 43

تصدیق براہین احمدیہ ۴۲ تکذیب.تلوار کے دین اور پیار کے دھرم کا مقابلہ کر کے اور جبر و اکراہ کو محبت و چاہ کے رو بر ولا کر الخ مصدق.اسلام کے معنے صلح کے ساتھ زندگی بسر کرنا، چین سے رہنا، کیونکر یہ لفظ سلم سے مشتق ہے جس کے معنی صلح اور آشتی کے ہیں بعضے پادریوں کی دشمنانہ تحریر نے ، میں سچ کہتا ہوں آپ کو دھوکہ دیا ہے.جبر اور اکراہ سے اسلام اور تصدیق قلبی کا حصول ممکن نہیں قرآن کی دوسری سورہ کو جو مدینہ میں نازل ہوئی اور جس میں جہاد کا حکم ہوا ہے پڑھ لیجیئے اور غور کیجیئے آپ کا کلام کہاں تک سچ ہے.کہاں تکہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرة : ۲۵۷) اسلام میں شرط ہے کہ آدمی صدق دل سے باری تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی معبودیت اور اس کے رسولوں کی رسالت وغیرہ وغیرہ ضروریات دین پر یقین لاوے تب مسلمان کہلاوے اور ظاہر ہے کہ دلی یقین جبر و اکراہ سے کبھی ممکن نہیں ہے.میں بڑی جرأت سے کہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام اور ان کے راشد جانشینوں کے زمانے میں کوئی شخص جبر واکراہ سے مسلمان نہیں بنایا گیا.بلکہ محمود غزنوی اور عالمگیر کے زمانے میں بھی کوئی شخص عاقل و بالغ جبر سے مسلمان نہیں کیا گیا.دنیا میں تاریخ موجود ہے صحیح تاریخ میں اس الزام کو ثابت کیجیئے.میں نے زمانہ نبوی اور خلافت راشدہ کے وقت اور محمود عالمگیر کی تاریخ کو اچھی طرح دیکھ بھال کر یہ دعویٰ کیا ہے.زمانہ رسالت مآب میں اور خلافت راشدہ میں صلح اور معاہدہ امن کے بعد کل مذہب کے لوگ مذہبی آزادی حاصل کر لیتے تھے.خیبر کے یہود بحرین اور غسان کے عیسائی ، حضرت خاتم الانبیاء اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے وقت شام کے یہود اور عیسائی اسلام کی رعایا تھے اور اپنے مذہبی فرائض کی بجا آوری میں بالکل آزاد تھے.عالمگیر کے عہد میں بڑے بڑے عہدوں پر ممتاز ہندوستان کے پرانے باشندے اپنی بت پرستی لے اس میں زبردستی نہیں اور حق و باطل واضح ہو گیا.

Page 44

تصدیق براہین احمدیہ ۴۳ پر قائم دکھلائی دیتے.اگر عالمگیر کی لڑائیوں سے اسلام پر الزام ہے تو عالمگیر نے تانا شاہ سے جوایک سید تھا دکن کے ملک میں جنگ کی پھر اپنے مسلمان باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ مخفی نہیں.پس عالمگیری جنگ مذہبی جنگ کیوں خیال کی جاتی ہے؟ عالمگیر نے کبھی کسی ہندو کو تلوار اس سبب سے نہیں لگائی کہ وہ ہندو تھا اور کبھی اس نے زبردستی ان کو مسلمان نہیں کیا.ان کی جو مذہبی عبادت اور رسومات جو قدیم سے چلی آتی تھیں ان کو نہیں روکا.محمود کی نسبت کہیں تاریخ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے اشاعت اسلام اور دعوت اسلام میں ہمت صرف کی ہو.گجرات میں اتنے دنوں تک پڑا رہا مگر ایک ہندو کو مسلمان نہ بنایا.اپنے بھائی مسلمان امیر اسماعیل سے جنگ کی کیا وہ لڑائی بھائی کو مسلمان بنانے کے لئے تھی؟ اور ہند کے حملے تو راجہ جے پال نے خود کرائے جس نے محمود سےلڑنے میں ابتدا کی.والا محمود کا تو یہ منشا تھا کہ تاتار کے بلا د کو فتح کرے نہ ہند کو.اسلام نے اپنے مخالفوں پر بے ریب تلوار اٹھائی ہے مگر کس شرط پر.اس شرط کا تذکرہ خود قرآن کریم میں موجود ہے.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرة: 191) وَقْتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ (البقرة: ۱۹۴) بخاری جلد ۳ صفحه ۸۸ مطبوعہ مصر میں لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ کے معنی تفصیل سے مندرج ہیں.وَ كَانَ الإِسْلَامُ قَلِيلًا فَكَانَ الرَّجُلُ يُفْتَنُ فِي دِينِهِ إِمَّا قَتَلُوهُ وَإِمَّا يُعَذِّبُوهُ حَتَّى كَثُرَ الْإِسْلَامُ فَلَمُ تَكُنْ فِتْنَةٌ.(بخاری کتاب التفسير باب قوله وقتلوهم حتى لا تكون فتنة.......لے اللہ کے رستہ میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے مت بڑھو.اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پیار نہیں کرتا.اوران سے ( کافران مکہ اور ان کے خصال وصفات کے آدمی ) لڑو جب تک روک ٹوک اٹھ جاوے اور دین اللہ کے لئے ہو.یعنی فرائض دین بلا روک ٹوک ادا کئے جاسکیں اور مخل خلل اندازی چھوڑ دیں.سے مسلمان تھوڑے تھے اس لئے یوں ہوتا کہ دین میں ستائے جاتے یا تو قتل کئے جاتے یا سخت عذاب میں مبتلا کئے جاتے پھر جب مسلمان بڑھ گئے تو یہ مصیبت اٹھ گئی.

Page 45

تصدیق براہین احمدیہ ۴۴ اچھا ہم نے بطریق تنزل یہ بھی مانا کہ اسلام نے جنگ کی.مگر وید میں جنگ کی جس قدر تاکید ہے اور وید کے مخالفوں کے استیصال اور ان کے خطرناک سزاؤں کا جس قدر حکم ہے.اگر آپ اس کا علم رکھتے بشرطیکہ خوف الہی ساتھ ہوتا تو آپ اور آپ کا کوئی آریہ بھائی اسلام پر جنگ کا الزام دینے کی کبھی جرات نہ کرتا.ایک مختصر تذکرہ سنا کر وید کے چندا حکام آپ کے دیانندی بھاش سے لکھتا ہوں ذرا بغور ملاحظہ فرمائیے.لیکن میں اس تذکرہ میں پہلے ان آیات قرآنی کا بھی ذکر کروں گا جن پر ہمارے مخالفوں کے خاص اعتراضات ہیں.فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْ تُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (التوبة: ۵) اس آیت شریف پر ہمارے بعضے آریہ دوستوں نے خاص توجہ کی ہے اور بڑے بھاری اعتراض کا نشانہ اسے بنایا ہے اس لئے اس آیت کی تصدیق کے واسطے اتماماً للحجۃ آپ کے مقدس رگوید سے چند منتر لکھتا ہوں سینے.حسب وید مقدس آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سریشٹ (اچھے) اور دوسرے دیسیو (برے) اور ڈشٹ دیکھو منتر ۸ رگوید منڈل نمبر سوکت نمبر۵۱ اور تکذیب صفحہ.اور ایسے ہی قرآن نے بھی آدمی کی دو قسمیں بیان کی ہیں شقی و سعید.ان دشت اور شتر وں کی نسبت جن کو قرآن نے مشرک اور کافر کہا ہے وید کہتا ہے (۱) سیناد بکش آدی لوگ (سپه سالار ) جیسے لوہا کے گہن سے لو ہے اور پاشان ( پتھر ) آدکوں کو توڑتے ہیں ویسے ہی آدھرمی دشٹ شتروں کے ( بے ایمان دشمنوں کے انگوں کو (اعضاء کو ) چھن بھن کر دن رات دھرم آتما پر جاجنوں کے پالن میں تت پر ہوں جس سے شتر و جن ان پر جاؤں کو دکھ دینے کے سامرتھ نہ ہوسکیں..چھے گن کرم اور سبھاؤ والے سجاد بکش راجہ کو چاہئے کہ راج کی رکھیا نیتی اور ڈنڈ کے بہی سے سب لے ان مشرکین کو جہاں پاؤ ما روانہیں پکڑو اور ان کی راہ میں پوری پوری گھات لگاؤ.دیا نندی بھاش صفحه ۶۹۹ سوکت ۷۳۶

Page 46

تصدیق براہین احمدیہ ۴۵ منشوں کو پاپ سے ہٹا سب شترؤں کو مارا اور و دوان کی سب پر کارسیوا کر کے پر جا میں گیان اور سکھ اور اوستا بڑھانے کے لئے سب پر انیوں کے شب گن یکت سدا کیا کرے.یہ تو قتل کے احکام دوو ہیں اب قید کی بابت سنیئے ؟ جو آریہ کو جملہ قرآنیہ - وَاحْصِرُ وُهُمُ کے مانے کا انشاء اللہ ذریعہ ہوگا.دھارمک پرشوں کو چاہیے کہ تیجسوی سجاد بکش راجہ کے ساتھ ملکے بیگ سے ان کے پدارتھوں کو ہر نے کھوٹے سبھاؤ یکت اور اپنے وجے کی اچھیا کرنے والے ڈاکوؤں کو بلا ان کو پر بت آدی اکانت استھانوں میں بنے ہوئے گھروں میں گھسا کر اور باندھ کے ان کو قید میں رکھیں.جیسے سورج انتر کھ سے میگھ کے جس کو بھومی پر گرا کے سب پرانیوں کے لئے سکھ دیتا ہے ویسے ہی سینا دبکش آدی لوگ دشٹ منش شترؤں کو باندھ کر دھارمک منشوں کی رکھشا کر کے سکھوں کا بھوگ کریں اور کرا دیں،.یہ قید کے احکام گزرے اب استیصال اعداء کا قصہ سنیئے اور غور کیجئے.ویدوں نے دشمنوں کے جلانے کا بھی حکم دیا ہے ذرہ یہاں انصاف کو بھی کام میں لاویں.سجاد بکش آدی راج پرشوں اور پر جا کی منشوں کو چاہیئے کہ جس پر کا راگنی آدی پراتھ بن آدمی کو بھسم کر دیتے ہیں.( جس طرح آگ جنگل کو جلاتی ہے ) ویسا ہی دکھ دینے والے شتر وجنوں کو بناش کے لئے اس پر کار پر تین کریں.اب جبر اور کراہ کا حکم جس طرح وید میں ہے ملاحظہ ہو.سنیئے اور اپنے پیار اور محبت والے دھرم کا حال پڑھیئے.” جیسے بجلی میگھ کے او یوء بدلوں کو مکھن بیگ سے چھن بھن اور بھومی سر گیر کر اسکودش میں کرتی ہے ویسی ہی سجا سنمیاد بکش کو چاہیے که بدهی شریل واسینا کے بیگ سے شترؤں کے بیگ کو چھن بھن اور شترؤں کی اچھی پر کار پر ہار ے رگ وید بھاش صفحه ۶۹۶ دیانندی بھاش صفحه ۷۰۳ سوکت ۳۶ ه دیانندی بھاش رگ وید صفحه ۷۰۷ پہاڑوں کی کھوہ میں الگ بند کر دے.دیانندی بهاش صفحه ۶۲۰

Page 47

تصدیق براہین احمد به ۴۶ سے پرتھوی پر گرا کر اپنے سمٹی میں لاویں ہیں.اب نہایت غور سے ویدک اخلاق کی حالت سنیئے.وید دشمنوں میں عداوت اور پھوٹ کرانے کی ترغیب دیتا ہے.”سمجھاد بکش کو چاہیے کہ شانتی بچن کہنے ڈشٹوں کو ڈنڈ دینے اور شتروں کو پر سپر پھوٹ کرانے کی کرایا نوں سے نیتی کو آچھے پر کار پراپت ہو کے پر جاجنوں کی دکھ کونت دور کرنے کے لئے اڈم کرے.اچھا میں آپ کے کانشنس پر چھوڑتا ہوں.ایک ایسے جانور کے بدلے میں جس کی جنس کی تکلیف دینے میں آپ کے کا شتکار کمی نہیں کرتے.آپ ہی کس قدر منصو بے امکان سے بھی زائد انسان کو ایذارسانی کے باندھ رہے ہیں جن مشرکوں کی نسبت آیات ذیل میں حکم ہوتا ہے.فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ (التوبة : ۵) وہ وہی دشٹ ہیں جو دغا باز موقع پر معاہدہ اور صلح کو توڑ کر اسلام کا استیصال کرتے ہیں.دیکھو کم بالا کے آگے فرماتا ہے.كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدُ عِنْدَ اللهِ وَعِنْدَ رَسُولِةٍ إِلَّا الَّذِيْنَ عُهَدْتُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوالَكُمْ فَاسْتَقِيمُوَالَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوْا فِيْكُمْ إِلَّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأبى قُلُوْبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فُسِقُوْنَ (التوبة: ۸،۷) اور پھر کہتا ہے ا دیا نندی بھاش صفحه ۶۱۶ صفحہ نمبر ۱۶۶۱ سے اللہ اور اس کا رسول ان مشرکین کے عہد کی کیونکر رعایت کر سکتے ہیں.سوائے ان کے جن سے تم نے مسجد حرام کے پاس عہد کیا.سو جب تک اپنے معاہدہ پر قائم رہیں تم بھی قائم رہو.کیونکہ اللہ والوں کو پیار کرتا ہے.کیونکر ! ( ان کے عہد کی رعایت ہو سکتی ہے ) اور اگر وہ تم پر غالب آویں تو تمہارے حق میں کسی رشتے اور عہد کا لحاظ اور نگہداشت نہیں کرتے.منہ سے تو تمہیں خوش کریں گے پر جیون میں ان کے انکار ہے اور اکثر ان میں سے فاسق ہیں.

Page 48

۴۷ تصدیق براہین احمدیہ وَاِنْ نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَبِمَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنْتَهُونَ وَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا وو اَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَهُ وكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبة : ۱۳،۱۲) جنگ جو غضب الہی کا نشان ہے اس میں بھی اسلام نے ہمدردی اور رحم کے اصول کو ترک نہیں کیا.اسلام جنگ میں بے قصور بچوں، بوڑھوں ، عورتوں، مزدوروں ، جانوروں کو قتل کی اجازت نہیں دیتا.دشمن جب جزیہ گزار ہو جاوے یا اسلام قبول کرے تو اسلام جنگ کو موقوف کر دیتا ہے اور فاتح ومفتوح برابر ہو جاتے ہیں.پھر اسلام کو جنگ میں ملک گیری مقصود نہیں فقط تو حید کی وعظ مطلوب ہے اور جنگ بھی جب تک کہ اسلام کے مخالف مذہبی آزادی کو نہ روکیں“.غور کر لو! جب ابتدائے اسلام میں مسلمان توحید کے اقرار پر بے گناہ قتل ہونے لگے.گھروں سے نکال دیئے گئے.توحید کی منادی سے روکے گئے ان کے دشمن با تفاق حملہ آور ہوئے.دشمنوں نے مدینہ طیبہ، دار النبوۃ کا محاصرہ کر لیا.اس وقت اسلام نے تلوار پکڑی.” بتاؤ کیا یہ عقل تھی کہ اسلام اپنے آپ کو معدوم کر دیتا؟ کیا صاحب اسلام اپنی اصل غرض نبوت و رسالت کو چھوڑ دیتا؟.ایسی ضرورت میں کوئی دانشمند قوم جنگ سے مانع نہیں.الا اسلام نے پھر بھی اکراہ سے منع کیا.کیا اگر مشنریوں پر ایسی زیادتی ہونے لگے تو عقل والے خدا ترس با طاقت بادشاہ حملہ آوری نہ کریں گے؟ یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ جب کوئی حاکم مسلمانوں کے دین میں دخل دے اور ارکان اسلام کو آزادانہ طور پر نہ کرنے دے تو مسلمانوں کا ہر فرد جان دینے کو حاضر اور اس میں مرنے کو شہادت جانتا ہے.الحمد للہ اسی اصل جہاد کی برکت سے بڑے بڑے سلاطین مسلمانوں کے امور مذہبی میں دخل دینے سے کوسوں بھاگتے ہیں جہاد کے نام سے ان کی روح کا نپتی ہے تعجب ہے اس لے اور اگر وہ عہد کر کے پیچھے اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو ان کفر کے سرداروں سے جنگ کرو.ان لوگوں کی قسمیں ویسمیں کچھ بھی نہیں تو کہ باز آ جاویں.کیا وجہ ہے کہ تم ایسے لوگوں سے جنگ نہ کرو جنہوں نے اپنی قسمیں تو ڑ ڈالیں اور اس رسول کے نکال دینے پر ہمتیں لگائیں اور انہوں ہی نے تم سے ابتداء (جنگ) بھی کی.

Page 49

تصدیق براہین احمدیہ ۴۸ قومی در داور مذہبی محبت کو بعض جاہل عیب شمار کرتے ہیں“.( برکات اسلام ) مکذب.تکذیب صفحہ ے.” پوشیدہ نہ رہے.اعتراض کرنے سے پہلے فریق ثانی کی کتب کا مطالعہ کرنا شرط اولی ہے مگر وہ معترض نے نہیں دیکھا“.مصدق.آپ اپنے ایمان سے کہیئے.آپ نے عربی زباندانی کی کتابیں کس قدر پڑھی ہیں؟ عربی دواوین اور خطبات میں کتنی مہارت پیدا کی ہے؟ قرآن اور حدیث کا کتنا علم حاصل کیا ؟ مرزا صاحب نے دیا نند جی سے بڑھ کر قدم نہیں مارا جنہوں نے ستیارتھ میں اسلام پر اعتراض کئے.کیا وہ عربی کے ماہر تھے؟ مجھے یاد ہے میں نے لاہور میں اپنے کان سے سنا کہ دیانند جی فرمارہے تھے کہ رحیم اور کریم لوگوں کی گھڑت ہے“.تاریخ کے اتنے بڑے ماہر تھے کہ ایک جگہ ستھ ارتھ پرکاش کے صفحہ تین سو اکیس میں کہتے ہیں کہ ”سلطان محمود غزنوی جب قیدیوں کو مکہ میں لے گیا تو فلاں تکلیف دی !!! سچ پوچھیئے تو مرزا صاحب نے بہت کوشش سے بقدر امکان وید کو دیکھا.سوامی جی کا ترجمہ چار ویدوں کا با وجود اتنے قومی جوش کے اب تک نا تمام ہے.اسے کون دیکھ سکے.جبکہ خود سوامی جی کو عادل اور رحیم نیا کاری خدا نے کامیابی کا منہ نہ دکھایا تو دنیا کی اور غیر قومیں اس ترجمہ سے کب نفع اٹھا سکتی ہیں اور مرزا صاحب اس غیر موجود کو کب دیکھ سکتے ہیں، جو تر جمہ دنیا میں موجود تھا اور آپ کی قوم نے چھپوایا اسے مرزا صاحب نے دیکھ لیا دو ارب کے قریب بقول آپ کے گزرتے ہیں کہ خدا نے ویدوں کو الہام کیا.پر خدائی کارخانے پر نظر کیجئے کہ دوارب برس میں ویدوں کے تراجم بھی دنیا میں کیا آریہ ورت کے اندر بھی نہیں مل سکتے !! جب اس کتاب کی اشاعت کا یہ حال ہے تو مرزا صاحب کا کیا قصور.آج تک آریہ ورت کی تین ربع سے زیادہ قومیں شرعا گودہ شرع کیسی صحیح یا غلط کیوں نہ ہو، وید پڑھنے کے لائق خیال نہیں کی گئیں.تعجب ہے

Page 50

تصدیق براہین احمدیہ ۴۹ آپ لوگ ویدوں کو عام خلقت کے سامنے رکھتے نہیں اور لوگوں کا لکھا ہوا تر جمہ پسند نہیں کرتے.بھلا یہ بے انصافی نہیں تو کیا ہے؟ کہ خود تو دنیا کی عام زبانوں میں ترجمہ کرتے نہیں اور جو ترجمے فضلائے یورپ نے کئے ہیں انہیں پسند نہیں کرتے.باقی یہ خیال کہ تمام دنیا کو اسی سے فیض پہنچا ایک خوش اعتقادی کا خیال ہے خود آریہ ورت کے باشندے علی العموم محروم ہیں.پنڈت دیا نند جی نے وید کے اشاعت کی کوشش کی مگر اس میں بھی اول تو غیر بلکہ اپنی بھی تو میں محروم رکھی گئیں.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ علی العموم مسلمان اور عیسائی تعلیم یافتہ گروہ بھاشا نہیں پڑھ سکتے.بلکہ ستیارتھ کا ترجمہ بھی وہ اردو حروف میں پسند نہیں کرتے تھے اور اردو میں کیوں لکھواتے ادھر وید کا عام فہم ترجمہ ہوا اُدھر دیکھو اس کا وہ سارا کارخانہ كَأَن لَّمْ يَكُن شَيْئًا ہوا.دوم.باری تعالیٰ نے بھی ان کو اتمام ترجمہ کی توفیق نہ دی ساری دنیا کو کب اور کس دن فائدہ پہنچا؟ میں نہایت راستی ،سچائی اور صاف دلی سے چاروں ویدوں کا ترجمہ سننا پسند کرتا ہوں مگر کوئی صورت اتنی بھی نہیں نکل سکتی کہ ایک بار سرسری طور پر ہی سُن سکوں.جب کوشش کرتا ہوں اور ایک دو دفعہ ایسا ہوا بھی.تو آریہ مہربان بھائی سنانے والے کی عداوت کو کھڑے ہو جاتے ہیں اپنے دلوں میں جھک کر انصاف کر لو کہ کہاں تک تمہارا دل گوارا کرتا ہے کہ ایک مسلمان وید کی پوری ماہیت سے واقف ہو.پہلے اتمام حجت کے لئے چاروں ویدوں کا ٹھیک ترجمہ جسے آپ کے عام علماء تسلیم کر تیار کیجئے.ہم لوگ بھی ویدک اردو ترجمہ میں امداد کے لئے دل سے حاضر ہیں.پھر آپ کا دعوت دنیا وی کرنا بھی موزوں ہوگا.مکذب.وید کے رو سے دو قو میں ہیں.ایک آریہ اور دوسری دیسیؤ مصدق.یہی تقسیم تمام دنیا کے مذاہب نے کر رکھی ہے.بلکہ عام عقل کے نزدیک یہی تقسیم مسلم ہے.کوئی ویدک خصوصیت نہیں.دیکھو قرآن کہتا ہے.( فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ _ الشورى: ۸ ) ( ایک فریق جنتی اور ایک فریق ناری)

Page 51

تصدیق براہین احمد به (فَمِنْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدٌ - هود: ۱۰۶) (ان میں سے شقی اور سعید ہیں ).آریہ کے معنے اگر سریشٹ ، نیک اور خدا ترس کے ہیں تو یہ ایک لقب ہے جو عمدہ اعمال کے ذریعہ ہر نیک آدمی کو مل سکتا ہے.کسی خاص قوم اور ایک ملک والوں کے واسطے اس کی خصوصیت نہیں.ان معنوں کے رو سے بنی اسرائیل کا نیک حق شناس ہادی آریہ ہے.گو وہ شام کا رہنے والا ہو یا مصر کا.ایک پارسا عیسائی مذہب کا ہادی آریہ ہے گو وہ ناصرت میں پیدا ہوا ہو.خیر خواہ بنی آدم واعظ تو حید نبی عرب آریہ ہے.گو مکہ معظمہ میں جلوہ گر ہوا.اور آریہ ورت کا شہدا، پھکڑ ،خدا کو برا کہنے والا دیسیو ہے.دیکھ صفحہ ۱۶ تکذیب.اور اگر وید کے معنے اس سث ودیا کے ہیں جس سے باری تعالیٰ کی.رضا مندی کا اور کسی بچی بشارت کا پتہ لگ سکتا ہے اور وہ چیز ہے جو مقدسوں کے پڑھنے کے قابل ہے.تو تمام مقدسہ کتب وید ہیں سب قرآن ہیں ساری کی ساری انجیل ہیں.تکذیب صفحہ ۷ تا ے میں وید کی قدامت کا بیان ہے.مگر ہم کہتے ہیں کہ نفس قدامت کسی خوبی کی مثبت نہیں ہو سکتی.دیکھئے مادہ آپ کے نزدیک قدیم ہے حالانکہ جڑھ ہے چین نہیں تو کیا نفس قدامت کسی خوبی کی مثبت ہے؟ اگر ہے تو پہاڑ بہت پرانے ہیں اور مادہ بقول تمہارے ان سے بھی پرانا ہے.اول.آپ ثابت کریں کہ وید الہی کلام ہے.بلکہ ثبوت سے پہلے از راہ کرم دنیا کو دکھلائیں کہ فلاں چیز کا نام وید ہے اور اس کے یہ مضامین ہیں پھر دنیا پر ثابت کیجیئے کہ وید کے بعد اللہ تعالیٰ کا فیضان جسے الہام کہتے ہیں بند ہو گیا.باری تعالی ویدوں کے بعد کسی سے کلام نہیں کرتا.یہاں تک کہ دنیا فنا ہو پھر پر لے آوے سرشٹی اور مخلوق بنے اس وید کے ماورا جو صرف آریہ ورت میں نازل ہوا.کسی اور ملک میں کوئی الہی کلام کبھی نہیں ہوا.اور نہ ہو سکتا ہے ہم کب منکر ہیں کہ ہند کو اللہ تعالیٰ کے فیضان سے محرومی رہی.اور اس میں ہادی و واعظ تو حید نہیں گزرے.بلکہ قرآن صاف بتا تا ہے.

Page 52

تصدیق براہین احمدیہ ۵۱ وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَةٍ رَّسُولًا (النحل:۳۷) وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) رہی یہ بات کہ قرآن میں ان کے قصے نہیں.تو یا در ہے قرآن میں سب نبیوں کے نقص بیان نہیں ہوئے.سنو ! وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُم مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المومن: ۷۹) مگر کلام اس میں ہے کہ ابتدائے پیدائش عالم میں یا وید کے بعد جن دنوں وید کا نزول ہوتا تھا.ان دنوں اور بلاد میں الہام الہی ناممکن اور محال تھا! اور ویدوں کے بعد پھر خدا تعالیٰ چپ ہو گیا اور اس نے اپنے فیضان کو بند کر لیایا اس وید کے سوا کسی اور زبان میں کلام کرناممکن نہیں اور نہ اس نے کیا یا ہنوز آں ابر رحمت در خروش است کا معاملہ ہے.اللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الْمُلْهَمِينَ.امِينَ مختلف بلاد میں مختلف ہادی ہوتے رہے صرف ایک اسلام ہی کا اعتقاد ہے کہ لَم يَزَلْ مُتَكَلَّما اللہ ہمیشہ کلام فرماتا ہے.اس کے فیضان خاص میں کبھی کمی نہیں ہوئی.ہمیشہ ہمیشہ بندگان خاص سے اس کا مکالمہ اور مخاطبہ ہوتا رہتا ہے اور ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا.ختم نبوت نے الہام اور مکالمہ اور مخاطبہ سے مخلوق کومحروم نہیں کیا.اسلامیوں میں ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ایسے لوگ ہوتے رہے جو اس فیض ربانی سے فیضیاب ہوئے.دیکھو حالات شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ محی الدین ابن عربی ، شیخ معین الدین چشتی ، بابا شیخ فرید شکر گنج ، شہاب الدین سہروردی، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ دہلوی اور عبد اللہ غزنوی وغیرہ وغیرہ اولیاء کرام اور ہمارے اس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ.انصاف کریں تو اسلام ہی قدیم اور بہت پرانا مذہب ہے اور یہی سنت اللہ ہے جس کی قدامت کی تعیین سے ہندسہ عاجز ہے.اسلام کیا ہے.خدا کا فرمانبردار ہونا.وید ے کوئی ایسی امت نہیں جس میں کوئی ڈرانے والا نہ گزرا ہو.ے ہم نے ہر ایک گروہ میں رسول بھیجا.سے ہم نے تجھ سے پہلے رسول بھیجے بعض کا حال تیرے آگے ذکر کیا بعض کا نہیں.

Page 53

تصدیق براہین احمدیہ ۵۲ کے ملہم اگر خدا کے قائل اور اس کے فرمانبردار تھے تو انہوں نے بے ریب وہی کام کیا جس کے باعث باری تعالیٰ ابراہیم کی تعریف کرتا ہے اور اس کے طریق کی خلاف ورزی کو بُرا بتا تا ہے.وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَةِ إِبْرَهِمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ وَوَضَى بِهَا إِبْرهُمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ لِبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ (البقرة : ۱۳۱تا۱۳۳) اور بے ریب بشرط فرمانبرداری باری تعالیٰ کے وید کے ملہم مسلمان تھے.آریہ تھے اچھے یہودی نئی زندگی سے زندہ عیسائی اور پورے محمدی تھے.خاص خاص بت پرستی پر بحث کرتے جاؤ مثلاً جس وقت سری کرشن دیو جی دنیا میں ظاہر نہیں ہوئے تھے کیا اس وقت کوئی ان کی پوجا کرتا تھا؟ ہرگز نہیں پھر اُن سے پہلے جب تک سری رام چندر جی نہ ہوئے کوئی ان کا پوجاری ہوا ؟ نہیں.بلکہ جب ہنومان ہوئے تب ان کی پوجا شروع ہوئی جب گنیش ہوئے تب ان کی پوجا شروع ہوئی.اسی طرح اوپر کا وقت لیتے جاؤ یہاں تک کہ خالص باری تعالیٰ کی پوجا کا وقت نکل آوے.مثلا فرض کر لیں کہ بر ہما جی سرشٹی کی ابتدا میں یا وید کے لہم اس سرشٹی کے ابتدا میں کس کی پوجا کرتے تھے اگر وہ باری تعالیٰ کے پوجاری تھے اور موحد تھے تب وہ ضرور مسلمان تھے اور لا ریب مسلمان تھے.والحمد لله على ذالك تکذیب صفحہ ۱۲ تا ۷ا میں مكذب صاحب! آریہ لفظ اور ہندو لفظ پر بحث کرتے ہیں.سوان الفاظ کی نسبت جو کچھ لے اور ابراہیم کی سنت سے وہی منہ پھیرتا ہے جس نے اپنے تئیں بے وقوف بنایا ہم نے تو اس کو دنیا میں چن لیا اور انجام میں وہ نیکو کاروں میں ہے جب اس کو اس کے رب نے کہا فرمانبردار ہو جا.اس نے کہا میں رب العالمین کا فرمان بردار ہوا.اور ابراہیم اور یعقوب نے اپنی اولاد کو وصیت کی اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے چن لیا تو تم اسلام (فرمان برداری الہی ) پر مرنا.

Page 54

تصدیق براہین احمدیہ ۵۳ میرے محسن جناب پادری طامس ہاول بشیر مقیم پنڈ دادنخان ضلع جہلم نے ارقام فرمایا ہے میرے نزدیک وہ مضمون نہایت راستی سے لکھا گیا ہے.اس مضمون اور اپنی ایک ابتدائی تحریر کو جو اس بحث پر ( لفظ آریہ اور ہندو) کے متعلق ہے جناب پادری صاحب نے دوبارہ بطور رسالہ لکھا ہے.جزاه الله احسن الجزاء پادری صاحب کی پہلی تحریر کو مرزا صاحب نے بھی فور حق میں نقل کیا اس پر کچھ اور زیادہ کرنا صرف شیخی بگھارنا ہے.مگر اتنازیادہ عرض کر دینا شاید نا مناسب نہ ہو کہ آپ نے یا آپ کے مصلح نے اس لفظ ہند یا ہندو پر بحث کرنے میں بالکل انصاف سے کام نہیں لیا یہ بحث اس نے مختلف اغراض کے واسطے چھیڑ دی.میں راستی سے کہتا ہوں کہ مسلمان فاتح لوگوں نے اس نام کو اہانا اختیار نہیں کیا تھا.عربی کی مشہور لغت کی کتاب قاموس اللغات ہے.اس میں اس لفظ کے مختلف معنی لکھے ہیں.دیکھو عمدہ عمدہ معنی اسی لفظ ہند کے واسطے موجود ہیں.ہند.سواونٹ کے گلے کا نام ہے اور ایک عورت کا نام بھی جو عمرو نام بادشاہ عرب کی والدہ تھی.بنو ہندا ایک قبیلہ عرب کا نام ہے ہند ایک پہاڑ کا نام ہے.تلوار کے تیز کرنے کو بھی ہند کہتے ہیں اس واسطے مُهند اس تلوار کو کہتے ہیں جو بہت ہی تیز ہو.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں ایک آپ کا پیروآ کے سامنے کہتا ہے.اِنَّ الرَّسُولَ لَنُورٌ يُسْتَضَاءُ بِهِ - سَيِّفٌ مُهَنَّدٌ مِنْ سُيُوفِ الْهِنْدِ مَسْلُول.ہندوان ایک نہر کا نام ہے جو خراسان میں واقع ہے ابو جعفر فقیہ ہندوانی ایک بڑے بزرگ مسلمانوں کے مقتدا وہاں کے رہنے والے تھے.اور تعجب نہیں آریہ کے بزرگ اسی ندی کے کنارے سے آئے ہوں.اسی واسطے وسط ایشیا کی واقف اور فاتح قوم نے ان کو ہندو کہا ہو.اور آری لفظ عرب میں کوئی عمدہ مدح کا لفظ نہ تھا کیونکہ عربی آری طویلہ کو کہتے ہیں.پس کیا تعجب ہے اگر ہمارے بزرگوں نے بجائے لفظ آری ہندو کا لفظ اخلاقی شریعت کے حکم سے زیادہ تر برتا ہو یا اور کوئی باعث خاص ہو جو دل آزاری کے سوا ہے.اب بھی عرب کے دار السلام مکہ معظمہ میں ہندی

Page 55

تصدیق براہین احمدیہ ۵۴ مسلمانوں کے شیخ کو شیخ الہنود کہتے ہیں.وَالْعِلْمُ عِندَ اللهِ.مکذب نے تکذیب کے صفحہ ۷ امیں مرزا صاحب کا قول ” وہ (موجودہ آریہ مت ) بہ ہیئت مجموعی کسی قدیم ہندو مذہب میں نہیں جاتے، نقل کر کے شدت غضب سے سراسیمہ ہوکر عجب بے سروپا جواب دیا ہے حقیقت میں خوش فہمی کی داد دے دی ہے.میرے نزدیک خفگی کا کوئی مقام نہیں.اول تو اس لئے کہ مرزا صاحب فرماتے ہیں.”ہندو مذہب میں نہیں جاتے“.اور ہند و ہونے سے خود آپ کو اور آپ کے معاونین آریہ کو انکار ہے.بلکہ تکذیب کے صفحہ ۱۳ میں ایک اپنے فاضل کا نکتہ لکھا ہے اور وہاں کہا ہے کہ ”جب تک ودیا کا زور اور ایجادوں کی ترقی ست دھرم کی طرف توجہ وید مقدس پر عمل درآمد رہا.تو ہمات سے رستگاری ایک پر میشور کی پرستش رہی.یہ ملک آریہ ورت اور اس کے باشندے آریہ یا آرج رہے.مگر جب سے انہوں نے طوق غلامی پہنا، بت پرستی اختیار کی.ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں کے آگے سر جھکانے لگے.اصلی کتابوں پر نقلوں اور فسانوں یعنی ویدوں پر پرانوں کو ترجیح دی.تب ہندو بن گئے اور ملک ہندوستان ہو گیا.لاریب یہ نکتہ صحیح اور درست ہے.تو پھر آپ کیوں ابھی اس ہندو قوم کو آریہ فرماتے ہیں..ابھی تو بقول آپ کے بھی یہ ملک ہندوستان اور اس کے باشندے ہند و نظر آتے ہیں.دوم علی العموم ہندوستانی آپ کے بھائی بند بُت پرست ہیں اور آپ کے پنتھ کے منکر ہیں بلکہ جین اور بدھ، ہند کے باشندے اس وید کے بھی منکر ہیں جسے آپ کلام الہی کہتے ہیں.ہزاروں تو ہمات میں آپ کے برگزیدہ پھنسے ہوئے ہیں بلکہ تمام قوم ابھی تک قدیم بزرگوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے.تعلیم یافتہ ہندو جماعت لفظاً نہ سہی تو عملی طور پر وید کے خاصے منکر ہیں.پس آپ غور کیجیئے.یہ ملک ان معنوں کے بموجب جو آپ نے خود کئے ہیں کیونکر ا بھی آریہ ورت ہو سکتا ہے انصاف ! انصاف !! انصاف !!!

Page 56

تصدیق براہین احمدیہ ۵۵ سوم.اگر اس ملک کے لوگ وید کے مخالف نہ ہوتے تو غیر مذہب والے یہاں بالکل حکومت نہ کر سکتے.کیونکہ آپ کا دعویٰ ہے.وید وکت ریتی سے ہمیشہ آرام ملتا ہے اور ظاہر ہے کہ رعایا بننے سے بڑھ کر کوئی بے آرامی نہیں اور غیر ملک والوں کے ماتحت رہنے سے بڑھ کر کوئی ذلت وخواری نہیں.اگر آپ کے بزرگ دیا نندی پنتھ کے پیرو ہوتے تو بقول آپ کے اس ذلت وخواری میں مبتلا نہ ہوتے.یا یوں کہا جاوے کہ یوروپین بادشاہ وید وکت ریتی کے مطابق پور بلی جنم میں بزرگ آریہ تھے.اس جنم میں اپنے نیک اعمال کا پھل بھوگ رہے ہیں اور چونکہ بھلائی کا نتیجہ بھی بھلائی ہوتا ہے اور باری تعالیٰ دھوکہ باز نہیں اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس دولت اور نیکی کو ان کے لئے وبال نہ فرماوے گا یا ویدوں کی دعائیں جو صرف دشمنوں کی تباہی اور ہلاکت کے واسطے تھیں سالہا سال سے بیکار ہو گئیں بلکہ الٹی پڑیں.پس یا تو دعا ئیں الہامی نہیں یا آپ کے قدیم آریوں کے اعمال نہایت خراب تھے کہ ان کو دنیوی عیش و آرام کے ساتھ اصل ارج دھرم پراپت نہ ہوا.اصل یہ ہے کہ آپ نے بہ بیت مجموعی کا لفظ جو مرزا صاحب کے کلام میں مندرج تھا نہیں دیکھایا اس پر توجہ نہیں کی.مکذب " قرآن صرف اقتباس سابقہ کتب کا ہے“.مصدق.اس کا مفصل جواب ہم نے رو نصاریٰ میں دیا ہے.اور آپ کو بھی مختلف مقامات پر اس کا جواب دیں گے.پھر نمبر صفحہ ۲۰ میں ارقام فرمایا ہے.لقمان اور سکندر کے قصص نے (دور از قیاس) یونانیوں کی تواریخوں سے جلوہ دکھایا سنیئے صاحب! قرآن نے لقمان کا قصہ جہاں بیان کیا ہے.اس سورہ کا نام سورہ لقمان ہے جوا کیسویں سپارہ میں موجود ہے.مہربانی کر کے وہ قصہ سنیئے.آپ کو اپنے انصاف اور نیک نیتی اور استعداد اور عربی دانی کا خود بخود پتا لگ جائے گا.

Page 57

تصدیق براہین احمدیہ وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَنَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلهِ وَمَنْ يَشْكُرُ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ اویر وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ وَإِذْ قَالَ لُقْمَنُ لِابْنِهِ وَهُوَ يَعِظُهُ يُبْنَى لا تُشْرِكَ بِاللهِ إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ وَوَضَيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ ۚ حَمَلَتْهُ أمهُ وَهَنَّا عَلى وَهْنٍ وَ فِصَلَهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَى الْمَصِيرُ وَ إِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبُهُمَا في الدُّنْيَا مَعْرُوفًا وَاتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ آنَابَ إِلَى ثُمَّ إِلَى مَرْجِعُكُمُ فَأَنبِئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ بَيْنَى إِنَّهَا إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَو فِي السَّمَوتِ اَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللهُ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفُ خَبِيرٌ يُبْنَى أَقِمِ الصَّلوةَ وَأمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ وَلَا تُصَمِّرُ خَدَّكَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ وَ اقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ إِنَّ اَنْكَرَ الْأَصْوَاتِ نَصَوْتُ الْحَمِيرِ (لقمان: ۱۳تا ۲۰) ان آیات کریمہ پر غور فرمائیے اور داد دیجیئے.نہ صرف داد بلکہ قبول فرمائیے.میں آپ کو حق کی طرف بلاتا ہوں اور بے انصافی کے سخت وبال سے آگاہ کرتا ہوں.دیکھو! مرنا ہے اور لے ہم نے لقمان کو حکمت ( اپنی پہچان ) دی کہ تو اللہ کا شکر گزار ہو اس لئے کہ جو شکر گزار ہوا اس میں اس کا اپنا فائدہ ہے.اور جس نے کفران نعمت کیا وہ جان لے کہ اللہ غنی ہے تعریف کیا گیا.اور جب لقمان نے وعظ کرتے اپنے بیٹے سے کہا اے پیارے بیٹے اللہ سے شرک مت کر کیونکہ شرک بڑا بھاری ظلم ہے.ہم نے انسان کو والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے.اس کی ماں نے دکھ پر دکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا.اور دوسال میں اس کا الگ ہونا ہوا.تو اب میرا اور اپنے والدین کا شکر گزار ہو.اور پھر آنا میری طرف ہے.اور اگر تیرے ماں باپ مجھ سے شرک کرنے پر تجھے مجبور کریں جس سے تو بالکل نادان ہے تو ان کا کہا مت مان.اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک سے سنگت رکھ اور میری جانب رجوع کرنے والوں کی راہ کے پیچھے چل پھر تم سب کا لوٹنا میری طرف ہے میں تم کو تمہارے عملوں کی خبر دوں گا اے پیارے بیٹے اگر رائی کے ایک دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے تلے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں اللہ اسے لے آوے گا یقینا اللہ لطیف و خبیر ہے.اے بیٹے نماز کی پابندی کر نیک باتوں کا امر کر اور بُری سے روک اور مصیبتوں پر صبر کر یقینا یہ بڑے حوصلہ کی بات ہے.اور لوگوں پر اپنی گا لیں مت چپکا ( گھمنڈ مت کر) اور زمین پر اترا کر مت چل یقینا اللہ مغرور بڑائی جتانے والے کو پیار نہیں کرتا.اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی رکھ ( کڑک کر مت بول ) کیونکہ بُری سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے.

Page 58

تصدیق براہین احمدیہ ۵۷ بھلائی اور برائی کا نتیجہ پانا ہے کیا یہ دور از قیاس ہے؟ انصاف سے کہیئے بلکہ یہ قصہ تمام بھلائیوں کا مجموعی عطر ہے.ہاں بت پرست ناشائستہ کج خلق آدمی اس کو دور از قیاس کہے تو ممکن ہے.رہا سکندر کا قصہ جس کو آپ نے دور از قیاس لکھا ہے.میں راستی اور خیر خواہی سے عرض کرتا ہوں.سکندر کا نام تمام قرآن کریم میں ہرگز موجود نہیں.کسی صحیح حدیث میں رومی سکندر کا قصہ جناب خاتم الانبیاءمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا.پھر کہتا ہوں ہرگز سکندر کا قصہ قرآن کریم میں نہیں.پھر اس رومی سکندر کا جو مشرک اور بت پرست تھا اور آخر کا ر شراب خوری میں ہلاک ہوا ! مجھے یقین ہے کہ یہ خیال آپ کو قرآن کریم کے مطالعہ اور عربی دانی سے نہیں ہوا بلکہ اس موقع پر آپ نے پادری صاحبان یا منشی اندر من صاحب یا کسی اور صاحب کی خوشہ چینی فرمائی ہے آپ نے ذوالقرنین کے قصہ کو جو قرآن میں موجود ہے.سکندر کا قصہ تجویز کیا اور دھو کہ کھایا.صاحب من وہ قصه کتاب دانیال کے ایک مشکل مقام کی تفسیر ہے.سنیئے دانیال کی کتاب میں جو بائبل کے مجموعہ میں ستائیسویں کتاب ہے.اس کے آٹھ باب ۴ آیت میں حضرت دانیال نبی کا مکاشفہ ہے.دانیال کی نبوت اور اس کا مکاشفہ آپ کے نزد یک کیسا ہی ہو اور کچھ ہی وقعت کیوں نہ رکھے.الا یہود اور عیسائیوں میں جو قصہ ذوالقرنین کے سائل اور مجیب کے مخاطب تھے.یہ مکاشفہ صحیح اور دانیال کی کتاب صحیح اور مسلم ہے اور اس مکاشفہ میں یہ بات مندرج ہے.تب میں نے اپنی آنکھ اٹھا کر نظر کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے آگے ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ تھے اور وہ دوسینگ اونچے تھے اور ایک دوسرے سے بڑا تھا.پھر دانیال کو جبرائیل نے اس مکاشفہ اور خواب کی تعبیر بتائی کہ مینڈھا جسے تو نے دیکھا کہ اس کے دوسینگ ہیں سو وہ ماداور فارس کی بادشاہت ہے دانیال (۸-۲۰) قرآن نے اسی بادشاہ کا تذکرہ کیا اور

Page 59

تصدیق براہین احمدیہ ۵۸ نہایت راست اور صاف فرمایا ہے اس میں کوئی دور از قیاس بات مندرج نہیں اب میں وہ سارا قصہ نقل کرتا ہوں.وَيَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ قُلْ سَأَتْلُوا عَلَيْكُمْ مِّنْهُ ذِكْرًا ( الكهف: ۸۴) تفسیر.دو سینگ والا وہی ماد، فارس کی بادشاہت جس کا ذکر دانیال ۸ باب ۴ میں ہے.إِنَّا مَكَثَالَهُ فِي الْأَرْضِ وَأَتَيْنَهُ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا (الكهف: ۸۵) الارض کا ترجمہ میں نے خاص زمین کیا ہے.جاننے والے تو اس کا ستر جانتے ہیں مگر ہم کھولے دیتے ہیں کہ الف اور لام عربی لٹریچر میں خصوصیت کے معنی بھی دیتا ہے بلکہ عزرا نبی کی کتاب باب ۱ آیت ۲ سے جس کا ذکر آگے آتا ہے اور بھی قرآن کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَغْرُبُ فِي عَيْنٍ حَمَّةٍ وَوَجَدَ عِنْدَهَا قَوْمًا (الكهف: ۸۷) تفسیر.یہ بادشاہ جو دانیال کے خواب میں دو سینگ کا مینڈھا دکھائی دیا اور فارس اور ماد کا حکمران ہوا.اس کا نام خورس ہے جب وہ بلا دشام اور شمالی غرب کو فتح کر چکا تو بلیک سی یا بحر اسود کا سمندر اور اس کا کالا دلدل آگے آ گیا.اتنے بڑے سمندر کا کنارہ کیقباد کو کہاں نظر آ سکتا تھا وہاں اُسے سورج سمندر میں ڈوبتا دکھائی دیا قرآن یہ نہیں فرما تا کہ فی الواقع سورج کالے پانی میں ڈوبتا تھا.بلکہ کہتا ہے کہ اُس نے یعنی ذوالقرنین نے سورج کو کالے پانی میں ڈوبتا پایا.لفظ وَجَدَهَا تغرب پر غور کیجیئے.جس کے معنے ہیں پایا اس نے اس کو کہ ڈوبتا ہے.اور یہ نہیں کہا.وَكَانَ هُنَاكَ تَغُرُبُ الشَّمسُ کہ وہاں واقعی سورج ڈوبتا تھا.یہ ایسا نظارہ ہے جسے ہر ایک بحری سفر کرنے والے کی آنکھ نے دیکھا ہے کہ وسیع اور اتھاہ سمندر میں سورج اسی میں سے نکلتا اور اسی میں پھر ڈوبتا دکھائی دیتا ہے.اسی قدرتی منظر کو جو ذوالقرنین کے پیش نظر واقع ہوا قدرت کی صحیح نقل یعنی قرآن لے تجھ سے ذوالقرنین ( دوسینگ والے) کی بابت پوچھتے ہیں تو کہہ میں ابھی اس کا قصہ تمہیں سناتا ہوں.سے ہم نے زور دیا اس کو خاص زمین میں اور دیا ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان اور وہ تابع ہوا ایک سامان کا.ے یہاں تک کہ جب وہ پچھتم میں پہنچا اسے ایسا معلوم ہوا کہ سورج دلدل کے چشمہ میں ڈوبتا ہے.

Page 60

تصدیق براہین احمدیہ ۵۹ نے بیان کیا.کورس یا خورس کا تسلط پچھتم زمین پر ہوا.اول تو دانیال ۸ باب ۴ میں ہے.”میں نے اس مینڈے کو دیکھا کہ پچھتم اتر دکن کو سینگ مارتا ہے، دوم تواریخ ایران پر نظر ڈالو.اس واقعہ کے مفصل حالات اس میں ملیں گے.قلنا ييُذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَنْ تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَنْ تَتَّخِذَ فِيهِمُ حُسُنَّا قَالَ أَمَّا مَنْ ظَلَمَ فَسَوْفَ نُعَذِّبَهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلَى رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذَابًا نُّكْرًا وَأَمَّا مَنْ أَمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُ جَزَاءِ الْحُسْنَىٰ ۚ وَسَنَقُولُ لَهُ مِنْ أَمْرِنَا يُسْرًا (الكهف: ۸۹۸۷) تفسیر.غرض ماد اور فارس کی سلطنت جب بلا دشام پر فتحیاب ہوئی تو اس کے بادشاہ نے حسب وحی الہی اور الہام خداوندی وہاں بروں کو سزا اور نیکوں کو انعام دیئے.اگر کسی کو یہود اور عیسائیوں سے جو قصے کے مخاطب ہیں اس کی نیکی اور بزرگی بلکہ ملہم ہونے میں کلام ہو تو وہ عزرا کی کتاب دیکھے.شاہ فارس خورس یوں فرماتا ہے کہ خداوند آسمان کے خدا نے زمین کی سب مملکتیں مجھے بخشیں اور مجھے حکم کیا ہے.عز راباب ۱.۲.اس سے یہ ظاہر ہے کہ حسب کتب مقدسہ وہ حکم الہی کا پابند اور مملکتوں کا بادشاہ تھا.تم اتَّبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ مَطْلِعَ الشَّمْسِ وَجَدَهَا تَطْلُعُ عَلَى قَوْمٍ نَّمُ نَجْعَلْ لَهُمْ مِنْ دُونِهَا سِتْرًا كَذَلِكَ وَقَدْ اَحَطْنَا بِمَا لَدَيْهِ خُبْرًا (الكهف : ۹۰ تا۹۲) تفسیر.جب خورس بلوچستان میں پہنچا تو وہاں کے لوگ بے خانماں پائے جن کی چھت آسمان اور بستر زمین تھا یہ لوگ جب بالکل خانہ بدوش جنگلی تھے.م اتَّبَعَ سَبَبًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَيْنَ السَّدَّيْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمَا قَوْمًا لَا يَكَادُونَ ہم نے کہا اے ذوالقرنین تو دوطرح کا برتاؤ کر یا سزادے اور خسروانہ رحم کر یعنی سزا کے لائقوں کو سزا اور رحم کے لائقوں پر رحم کر اس نے کہا ظالموں کو ہم سزا دیں گے پھر اپنے رب کے ہاں جا کر ان پر سخت عذاب ہوگا.پر مومن اور نیکو کار کے لئے نیک بدلہ ہے اور ہم بھی اس سے حسن سلوک سے پیش آویں گے.ے پھر وہ ساز و سامان کر کے روانہ ہوا جب پورب میں پہنچا وہاں سورج کے تلے ایسے لوگ پائے جن پر سورج کے سوا کسی چھت کا سایہ نہ تھا.ایسا ہی تھا اور ذوالقرنین کے لاؤلشکر کا حال ہم کو خوب معلوم ہے.سے پھر سامان کیا اور وہ دو خاص پہاڑوں کے درمیان پہنچا.اور ان پہاڑوں کے ورے ایک ایسی قوم کو پایا جو بات سمجھنے میں کمزور تھی.

Page 61

تصدیق براہین احمدیہ يَفْقَهُونَ قَوْلاً (الكهف : ۹۴۹۳) تفسیر.یہ وہ مقام ہے جو ایران کے شمال میں در بند کر کے مشہور ہے اور اس کے قریب اب تک قبہ نام ایک بستی اسی کیقباد خورس کے نام سے قرآن کی تصدیق کے لئے موجود ہے.قَالُوا يُذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا (الكهف: ۹۵) تفسیر.یا جوج اور ماجوج کون ہیں؟ غور کرو ا روضۃ الصفا کے خاتمہ پر لکھا ہے "اقلیم چہارم مشرق سے شمال چین سے گزر کر تبت اور جہال کشمیر اور بدخشان کے شمال سے اور بلا دیا جوج اور ماجوج کے جنوب سے مغرب کو چلی جاتی ہے.یہ تو اقلیم چہارم کا قصہ مختصر ہوا.اب لیجیئے اقلیم ششم اس کی بابت لکھا ہے.بلا دیا جوج و ماجوج سے یہ اقلیم ششم شمال میں ہے“.پس ہر عاقل اب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ بلا دیا جوج اور ماجوج اقلیم پنجم میں ہے پس جیسے شاہنامہ میں لکھا ہے کہ باختر کے شمال میں یعنی بخارا کی جانب یا جوج ماجوج کا مسکن ہے بالکل ٹھیک ہے.غیاث اللغات میں جس سے مکذب نے تفصیل مذاہب اسلام کے لئے کئی ورق نقل کئے ہیں.یہ مضمون صاف لکھا ہے اور تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے.ما بین آذربائیجان اور آرمینیا کے ذوالقرنین نے تیں میل کی دیوار بنائی تھی.اور تفسیر معالم میں سُدی اور قتادہ سے روایت ہے کہ ترک کو ٹرک اسی واسطے کہتے ہیں کہ ذوالقرنین نے یا جوج اور ماجوج کے بائیس قبیلوں میں سے ان کو چھوڑ کر باقی قوموں کے حملوں کی روک کے واسطے دیوار بنائی تھی.اور ضخاک سے روایت کیا ہے یا جوج ماجوج ترکوں کی قوم سے ہیں.یہ کچھ کچھ تذکرہ ایشائی عام اور مشہور کتابوں کا تھا.جن میں کسی الہامی کتاب سے استدلال نہیں کیا.اب سنیئے حز قیل کے ۳۸ باب میں لکھا ہے ( یہ کتاب بائبل کے مجموعہ میں دانیال سے پہلے ہے ) اے جوج روس اور مشک (اسکو ) اورطو بال کے سردار، میں تیرا لے انہوں نے عرض کیا اے ذوالقرنین یا جوج ماجوج ہمارے ملک میں آ کر فساد کرتے ہیں.ہم تجھ کو روپیہ دیتے جو تو ان کے اور ہمارے درمیان ایک دیوار کھینچ دے.

Page 62

تصدیق براہین احمدیہ ۶۱ مخالف ہوں اور میں تجھے پھر ا دوں گا اور تیرے منہ میں بنسیاں ماروں گا ۳ ۴.اور اسی باب کی آیت اول و دوم میں ہے.اے آدم زاد! تو جوج کے مقابلے میں جو ماج کی سرزمین میں بستا ہے.اور روس اور مسک اور طوبال کا سردار ہے منہ کر اور اس کے برخلاف نبوت کر“.اس سے ناظرین یقین کریں گے کہ روس بے ریب یا جوج ہے گویا جوج کی اور قو میں بھی ہوں.یا جوج کی تحقیق ختم ہوئی.اب ماجوج کا حال سنیئے.حز قیل کے ۳۹ باب ۶ آیت میں ہے.” اور میں ماجوج پر اور ان پر جو جزیروں پر بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں.ایک آگ بھیجوں گا“.اُس زمانے میں ایسی دیواروں سے حملوں کی روک ہو جاتی تھی.دیکھو چین کی دیوار ایسے حملوں اور یا جو جی قوموں کی روک کے واسطے اہل چین نے بنائی تھی اور اُن کے لئے اس وقت کی حالت کے مناسب مفید اور کارگر ہوئی.قَالَ مَا مَسَّنِي فِيْهِ رَبِّي خَيْرٌ فَاعِيْنُونِي بِقُوَّةٍ أَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ رَدْمًا أتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ حَتَّى إِذَا سَاوَى بَيْنَ الصَّدَفَيْنِ قَالَ انْفُخُوا حَتَّى إِذَا جَعَلَهُ نَارًا قَالَ أَتُونِى أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْرًا فَمَا اسْطَاعُوا أَنْ يَظْهَرُوهُ وَمَا اسْتَطَاعُوا لَهُ نَقْبا (الكهف: ۹۸۲۹۶) پس آخر یہ جنگ جو تو میں نچلی نہ بیٹھ سکیں.جرمن، ڈنمارک اور سویڈن، ناروے وغیرہ بلاد میں آہستہ آہستہ پھیل گئیں.گا تھ قوم نے جزائر برطانیہ آباد کر لئے.قَالَ هَذَا رَحْمَةٌ مِنْ رَّبِّي فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّي جَعَلَهُ دَكَاءٍ ۚ وَكَانَ وَعْدُرَ حَقًّا (الكهف: ٩٩) ے کہا جو قدرت میرے رب نے مجھے دی ہے وہی بہتر ہے.تو تم مجھے صرف اپنے زور سے مدد دو میں تم میں اور ان میں ایک موٹی دیوار بنادوں گا تم میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لے آؤ.آخر جب اس نے دونوں پہاڑوں میں برابر کر دیا کہا دھونکو.آخر جب اس کو گرم آگ سا کر دیا بولا میرے پاس لے آویں اس پر پگھلا ہوا تا نباڈالوں.پھر ان سے نہ ہو سکا کہ اس سے پھاند جاسکیں اور نہ بن ہی پڑا کہ اس میں چھید کرسکیں.کہا یہ میرے رب کا احسان ہے پھر جب میرے رب کا وعدہ آیا اسے چور چور کر دے گا اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے.

Page 63

تصدیق براہین احمدیہ ۶۲ تفسیر.جن حملہ آوروں کے لئے وہ دیوار روک تھی کچھ اور بلا د میں چلے گئے.اور جگہوں میں ریاستیں اور سلطنتیں قائم کر لیں.آخر عجیب عجیب راستوں سے بعد ہزار سال ہجری وہ قو میں پھر اُس ملک پر چڑھنے کے لئے آہستہ آہستہ متوجہ ہوئیں.جس کی طرف اُن کے پہلے مورث متوجہ تھے.اور اسی طرح کتب مقدسہ کی سچائی ظاہر ہونے لگی.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَبِذٍ يَّمُوجُ فِي بَعْضٍ وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَجَمَعْتُهُمْ جَمْعًا ( الكهف : ١٠٠) تفسیر.مکاشفات یوحنا کے بیسویں باب کے ساتویں آیت سے پڑھو.اور جب ہزار سال ہو چکیں گے ( یہ ہزار سال حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت سے ہیں اور شمسی اور قمری مہینوں کا حساب ناظرین یہاں سوچ کر کر لیں ) قید سے چھوٹے گا اور نکلے گا کہ ان قوموں کو جو زمین کے (وہی خاص زمین یروشلم اور مکہ کی زمین ہے ) چاروں کونوں میں ہیں یعنی یا جوج اور ماجوج کو فریب دیئے اور انہیں لڑائی کے لئے جمع کرئے ان قدیمی نوشتوں اور روس اور انگریز ، جرمن اور فرانس کے تسلط پر جو ہزار سال ہجری کے بعد سے عرب اور شام کے چاروں کونوں پر شروع ہوا غور کی نگاہ سے دیکھو! اور دیکھو ! ۱۶۹۱ء سے کس طرح یہ قو میں اسلامی بلا د پر مسلط ہورہی ہیں.اگر انگریزی تواریخ ہند کچھ صحت رکھتی ہے اور آریہ قوم بھی انگریزوں سے اعلیٰ نسل میں متحد ہے جو تحقیق تھے برج وغیرہ محتقان یورپ مسلم ہے تو یہ بھی ماجوج میں داخل ہیں.تو ہم آریہ کی اس تیز ترقی کو اپنی مقدس کتابوں کی صداقت ہی یقین کریں گے.مگر ہم یقینی رائے قائم نہیں کر سکتے کہ ہندوستانی اور انگریز ایک ہی ہیں ہمارا علم اس تحقیق تک پہنچنے سے ابھی تک قاصر ہے.قرآن کو نازل ہوئے تیرہ سو برس گزرے اور مکاشفات اور حز قیل نبی کی کتاب کو اور بھی بہت زمانہ گزرا.مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عالم بالجزئیات والکلیات ہے ان کا ہونا کیسے واضح ے اور جس دن ہم چھوڑ دیں گے کہ وہ آپس میں لڑکٹ مریں.اور نر سنگا پھونکا جاوے گا پھر ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے.

Page 64

تصدیق براہین احمدیہ ۶۳ دلیلوں سے ثابت ہوا.اب یہ دونوں قو میں یا جوج روس اور ماجوج انگریز کیسے نزدیک نزدیک آ پہنچے ہیں اور بہت ہی قریب ہے کہ دونوں آپس میں الجھ پڑیں اور قرآن کریم کا یہ فرمانا.وَتَرَكْنَا بَعْضَهُمْ يَوْمَذٍ تَمُوجُ فِي بَعْضٍ (الكهف: ١٠٠) جو ہمیشہ سے صادق ہے تمام آنکھوں کو اپنی ۱۰۰) سچائی دکھا دے.دیکھو مکاشفات ۲۰ باب ۹ اور انہوں نے مقدس چھاؤنی اور عزیز شہر کو گھیر لیا.تب آسمان پر سے خدا کے پاس سے آگ اتری اور ان کو کھا گئی اور تو بڑا اندیشہ کرے گا اور تو کہے گا کہ میں دیہات کی سرزمین ( وادی القری مکہ معظمہ ) پر چڑھوں گا.میں ان پر جو چین میں ہیں اور آرام سے بستے ہیں جو شہر پنا ہیں نہیں رکھتے اور بغیر اڑ بنگوں اور پھاٹکوں کے رہتے ہیں حملہ کروں گا تا کہ تو لوٹے اور مال کو چھین لے اور تو اپنا ہاتھ ان ویرانوں پر جواب بسے ہیں اور ان لوگوں پر جو ساری قوموں سے فراہم ہوئے (دیکھو اہل مکہ ومدینہ ) جنہوں نے مال اور مویشی حاصل کئے اور جو زمین کی ناف پر بستے ہیں (ہمارے وہ پادری صاحبان جو کہ مکہ کو زمین کی ناف کہنے سے ہنستے ہیں یہاں ذرا انصاف کریں ) چلا دے.اور سبا، دوان اور ترسیس کے سوداگر اور ان کے سارے شیر بر تجھے کہیں گے کیا تو غارت کرنے آیا.حز قیل ۳۸ باب ۱۰-۱۳.ہم نے یہ واقعات اس لئے لکھے ہیں اور یہ تذکرہ صرف اسی واسطے کیا ہے کہ الہام کی قدر نہ کرنے والے کچھ کچھ تو ان زبر دست پیشگوئیوں کی صداقت کا لحاظ کر کے الہامی کتابوں کی بے ادبیوں سے باز آویں اور غور کریں کہ یا جوج کے باہمی فسادات کا کب اور کس حالت اور کس زمانے میں ذکر کیا گیا جس کا ظہور آج آنکھ سے مشاہدہ کر رہے ہیں.یا جوج اور ماجوج دونوں قوموں کی نسبت بعض مصنفوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ دراز گوش ہیں.اس فقرہ کے سمجھنے میں بہت لوگوں نے جو مقدس کتابوں کی طرز کلام سے بالکل نا آشنا ہیں.کئی غلط نتیجے نکالے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ دراز گوش گدھے کو کہتے ہیں اور جو آدمی علم کے مطابق عمل نہ کرے اسے بھی الہامی زبان میں گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے.دیکھو قرآن میں آیا ہے.

Page 65

تصدیق براہین احمدیہ ۶۴ مَثَلُ الَّذِينَ حَمِلُوا الثَّوريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا (الجمعة: ٦) اور ظاہر ہے کہ روس اور انگریز ، جرمن اور ڈنمارک والے الہیات کے نیچے علوم اور روحانی برکات سے بالکل محروم ہیں علم الہیات ان کا نہایت کمزور ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے علمی مذاق والے آریہ بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں کر سکیں گے.تکذیب صفحہ ۲۱ میں مکذب صاحب.مرزا صاحب کا قول نقل کرتے ہیں.پہلا اصول اس فرقہ آریہ کا یہ ہے پر میشور روحوں اور اجسام کا خالق نہیں بلکہ یہ سب چیزیں پر میشور کی طرح قدیم اور انا دی ہیں.اور پھر اس کے جواب میں فرماتے ہیں آریوں کا یہ پہلا اصول نہیں ہے بلکہ آریوں کا پہلا اصول اور ہی ہے.مصدق.گھبرایئے نہیں اپنی کتاب تکذیب ہی کے صفحہ ۶۳ پر نظر فرمائیے.سنسار میں جتنے مذاہب ہیں عقل کو صندوق میں بند کر قفل لگانا اپنا پہلا اصول جانتے ہیں ان مذاہب میں فسٹ نمبر دین محمدی ہے.غور کیجئے ! تمام مذاہب پر آپ نے یہ الزام جڑ دیا ہے کہ عقل کو صندوق میں بند کر کے قفل لگانا ان کا پہلا اصول ہے اور اس معاملہ میں محمدی مذہب کو فسٹ نمبر دیا ہے حالانکہ عقل کو بند کرنا اور اس سے کام نہ لینا کسی مذہب کا پہلا اصول نہیں !!! اسلامیوں کا پہلا اصول اگر آپ کو معلوم نہیں تو ایک مسلمان بچہ سے پوچھ لیجیئے.وہ بھی یہی کہے گا.اشھد ان لا اله الا اللہ یعنی کوئی پرستش کے لائق نہیں بجز ایک معبود حق کے.عیسائیوں اور یہودیوں سے پوچھئے وہ بھی یہی کہیں گے اور اپنا پہلا اصول یہی بتائیں گے کہ خدا کو تو سارے دل ساری جان اور ساری قوت سے پیار کرے.یہی شریعت کا پہلا اور بڑا حکم ہے دیکھومتی ۲۲-۳۷ ولوقا ۱۰-۲۷ ، استثنا.۶-۵ ۱۰-۱۲ ،۱۱ ۱۳.سوچئے تو سہی آپ اس ے ان لوگوں کی مثال جن پر تو ریت اٹھوائی گئی پھر انہوں نے اس کو نہ اٹھایا گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدیں ہیں

Page 66

تصدیق براہین احمدیہ الزام کا کیا جواب دے سکتے ہیں جو اس کا جواب تحریر کریں وہی مرزا صاحب کی طرف سے یقین کریں.مرزا صاحب نے جو فرمایا ان کا منشا یہ ہے کہ پہلا اصول جس پر ان کو آریہ سے مخالفت ہے یہی پہلی اصل ہے جسے خود آپ نے بھی مان لیا ہے چنانچہ آپ نے عین موقع انکار پر صفحہ ۲۲ سے ۲۶ تک ارواح کے غیر مخلوق اور مادہ عالم کی انادی از لی ہونے کے دلائل شروع کر دیئے! باری تعالیٰ کے خالق ارواح ہونے سے انکار کر گئے.تکذیب صفحہ ۲۲ میں مکذب - آریہ محمدی لوگوں کی طرح پانچ ہزار یا چھ ہزار سال سے خالق ، رازق، مالک، رحیم ، عادل اور قادر مطلق نہیں مانتے.“ مصدق.تمام قرآن کریم اور حدیث نبی رؤف الرحیم میں سے یہ بات نکال دیجیئے.کہاں اسلام نے کہا ہے کہ خدا پانچ چھ ہزار سال سے خالق، رازق، مالک ، رحیم، عادل اور قادر مطلق ہے.خدا کے واسطے کچھ تو خوف الہی کو دل میں جگہ دو ! عدالت الہی کا دھیان کرو! صرف نیشنیلٹی اور صرف دنیوی پارسی کس کام آوے گی.باری تعالیٰ عالم الغیب اور انتریا می اور عادل ہے علیم بذات الصدور ہے.راستی پر اپنے فضل سے آرام کا داتا ہے.مسلمان تو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے خالق ، رازق، مالک، عادل، رحیم ، قادر یقین کرتے ہیں بلکہ ایک جم غفیر مسلمانوں کا عینیت صفات کا قائل ہے جس سے صاف عیاں ہے کہ صفات اپنے موصوف سے علیحدہ نہیں ہوسکتیں.گورا تم عینیت صفات کا قائل نہیں.مگر یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا بلکہ کوئی موصوف کسی وقت اپنے لازمہ صفات سے خالی نہیں ہوسکتا.اگر اللہ تعالیٰ کا خالق رازق ہونا بلحاظ انسانی پیدائش کے آپ لیتے ہیں تو بتائیے مہا پر لے کے وقت انسان کہاں ہوتے ہیں جن کا وہ خالق رازق ہوتا ہے.

Page 67

تصدیق براہین احمدیہ ہم زیادہ بحث نہیں کرتے.پانچ چھ ہزار برس سے کل مخلوق کی پیدائش کا زمانہ بلکہ انسانی پیدائش کا زمانہ قرآن کریم یا حدیث نبی رحیم سے نکال دیجیئے پس اسی پر فیصلہ ہے تعجب ہے کہ آپ نے خود صفحہ ۲۳ میں ارقام فرمایا ہے.یہ امر مسلم فریقین ہے کہ پر میشور اور اس کی سب صفات اور علم اور ارادہ قدیم ہیں اس واسطے اس پر بحث کی ضرورت نہیں.پھر میں کہتا ہوں.اگر یہ بات مسلّم فریقین ہے تو آپ نے صفحہ ۲۲ میں کس بنا پر اسلام کو الزام لگایا کہ محمدی پانچ ہزار سال سے اللہ تعالیٰ کو خالق رازق جانتے ہیں.غرض اسلام تو اللہ تعالیٰ کی اتنی مخلوق کا قائل ہے جو حد و شمار سے باہر ہے.دیکھو قرآن کریم میں صاف موجود ہے.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ (المدثر: ۳۲) وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيُّ مِنْ عِلْمِةٍ (البقرة: ۲۵۲) اور اسلامیوں کی مسلم الثبوت اور اعلیٰ درجہ کی کتاب صحیح بخاری میں كَانَ اللَّهُ غَفُورًا کے یہ معنی لکھے ہیں.لَمْ يَزَلْ كَذَالِكَ فَإِنَّ الله لَم يُرِدُ شَيْئًا إِلَّا أَصَابَ بِهِ الَّذِي أَرَادَ - (صحیح بخاری کتاب التفسیر زیر تفسير سورة حم السجدة) منشی لیکھرام صاحب دیا نندی مسافر یا ان کے کسی معین شرما صاحب یا کسی اور ور ما صاحب نے ارواح اور مادہ عالم کے قدم اور مادہ اور ارواح کے غیر مخلوق ہونے پر تکذیب براہین میں کئی صفحہ لکھتے ہیں اور ایسی نئی (اقلیدس) ایجاد کی ہے کہ مفقو درسالہ کی پوری تلافی کر دی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ واقعی ہندوستان علوم قدیمہ کا مخزن ہے حسب طرز اقلیدس کے قبل دعاوی اور دلائل کے علوم متعارفہ قائم کئے ہیں اس سے پہلے تو میں نے سنا ہوا تھا کہ علوم متعارفہ وہ علوم ہوتے ہیں جو عر فا مانے ہوئے اور علی العموم مسلم ہوں مگر مکذبین کے علوم متعارفہ مانند ان کے اور ان کے بہت سے کاموں کے نرالے اور بس ایجاد بندہ ہی ہیں.کیونکہ یہ علوم متعارفہ نہ سب کے سب عرفاً ے تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا.ے اس کے کسی قدر علم کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے.ے یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی ہے بے شک اللہ تعالیٰ جب ارادہ کرتا ہے وہ کام ہو ہی جاتا ہے.

Page 68

تصدیق براہین احمدیہ ۶۷ مسلم ہیں اور نہ علی العموم عقول سلیمہ کے نزدیک مبرہن اور پسند ہیں.بلکہ بجز دو تین علوم کے اکثر غلط اور اکثر نہایت مہمل اور سخیم ہیں اور ہرگز معہود اظہار حق کے لئے کافی نہیں ہو سکتے.خاکسار نے صرف بغرض اظہار حق ان کو مع اپنی کلام کے بیان کیا ہے.پہلا علم ” جو چیز جہاں ہوتی ہے وہی وہاں سے برآمد ہوتی ہے.دوسرا علم ” جو چیز جہاں نہیں ہوتی وہ وہاں سے برآمد بھی نہیں“.مصدق میں کہتا ہوں یہاں اتنا یا در ہے.تمام ارواح اور ساری اشیاء جو ظاہری وجود میں آئیں اور آتی ہیں اور آویں گی ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہیں اور موجود رہیں گی.اللہ تعالیٰ علیم اور خبیر موجود ہے اور اس کا علم جو اس کی صفت ہے وہ بھی موجود.اللہ تعالیٰ کے سچے اور واقعی ست گیان ست و دیا حقیقی علم کے مطابق اس کی کامل قدرت سے وہ اشیاء جو الہی علم میں موجود ہیں اور موجود تھیں حسب اسی تقدیم ، تاخیر اور ترتیب کے خارجی وجود پا کر موجود کہلاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے تھی جو چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود ہے وہی علمی وجود سے برآمد ہوتی ہے.اور جو چیز وہاں موجود نہیں ہوتی وہ ہرگز ہرگز برآمد بھی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ تمام سموات اور زمین کا خالق اور نور ہے.وہی تمام سرشٹی اور مخلوق کا پر کا شک ہے.عدم محض نہ کسی چیز کا خالق اور نہ کسی چیز کا مادہ اور نہ کسی شئی کا جزو نہ عدم محض کوئی مخلوق ہے.ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی معدوم محض نہ تھی.علمی وجود کے بعد مخلوق کو اپنے خالق سے بتدریج خارجی وجود عطا ہوتا ہے.جیسے بقول دیا نندی پنتھ کے پرلے کے وقت اس سرشٹی سے پہلے جو اس پر لے خاص کے بعد ہوگی و ید صرف اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود رہتے ہیں.پھر جب مرکب سرشٹی یعنی مخلوق پیدا ہوتی ہے اور اگنی ، وایو، سورج اور انگرہ ملہمان وید ( بقول تسلیم کنندگان وید ) کو خدا تعالیٰ نے وجود عطا فرمایا وہ وید علم الہی کے مطابق ان چاروں رشیوں کے گیان میں ظاہر ہوئے اور انہیں کے ذریعہ آج معتقدان وید کے پاس موجود ہیں.لیکن ان ویدوں کے باری تعالیٰ کے علم کے ورا موجود ہونے نے اس علیم وخبیر ذات کو دیدوں سے بے علم نہیں کیا بلکہ اس وقت بھی وید علم الہی میں ایسے ہی موجود ہیں جیسے پہلے تھے اور مخلوق کے پاس بھی موجود ہیں.ایسا ہی یعنی ویدوں کی طرح ساری مخلوق کا حال

Page 69

تصدیق براہین احمدیہ ۶۸ ہے جو کبھی صرف علم میں رہی ہے اور کبھی علم اور خارجی وجود دونوں میں موجود ہوتی ہے.تیسرا اور چوتھا علم."جوگل میں ہوتا ہے وہ جزو میں ہوتا ہے جو کل میں نہیں وہ جزو میں بھی ناممکن ہے“.مصدق.یہ دونوں علوم متعارفہ نہیں بلکہ محض خیالی اور سراسر غلط اعتقادات ہیں.کیونکہ ان علوم میں یہ تفصیل نہیں کی کہ کون گل مراد ہے؟ آیا بسیط یا مرکب، مجرد یا غیر مجر دنا نا پر کار کے قوی رکھنے والا اور انواع و اقسام قویٰ کا جامع کل یا ایک قوت کا منشا ؟ مکذب نے کچھ تذکرہ اور تفصیل نہیں کی بلکہ دوسرے دعویٰ کی دلیل سے معلوم ہوتا ہے کہ جزو سے بھی اس نے ہر ایک جز و مراد لی ہے.کیونکہ وہاں کہا ہے.اگر ارواح خدا کے ٹکڑے ہیں تو ہر ایک روح خدا ٹھہرتی ہے“.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکذب کا خیال ہے کہ جو کل میں ہے وہ ہر ہر جزو میں ضرور ہوتا ہے.صادق غور سے کھل سکتا ہے کہ یہ قول غلط ہے.کیونکہ ہم ایک ایسا گل فرض کرتے ہیں جو چار اجزائے بسیط سے بنا ہے اس کل میں یہ بات موجود ہے کہ اسے ہم کہتے ہیں کہ یہ مرکب ہے.اس میں چار قسم کی چیزیں موجود ہیں مگر اس کے اجزاء میں یہ بات موجود نہیں اور ایسے کل اور مرکب کے اجزا کی نسبت ہم نہیں کہہ سکتے اس مرکب کا ہر ایک جزو بھی چار قسم کے اجزا سے مرکب ہے.ایسا ہی بالعکس یعنی چوتھا علم آپ کے علوم متعارفہ سے بھی علی الاطلاق صحیح نہیں کہ ”جو کل میں نہیں جزو میں بھی نہیں“.ایک بڑا موٹا رسن فرض کرو جو کتنی تاروں سے بنایا گیا ہو اور وہ موٹا.رسن ایک کمزور آدمی کو دو اور اسے کہو کہ اسے ہاتھ سے کھینچ کر تو و ڈال.ممکن نہیں کہ وہ کمز ور اس موٹے رسن کو توڑ سکے.اب رسن کی ایک بار یک تار کو جو اس کی جزو ہے الگ کر لو اور اسی کمزور کو جسے پہلے کہا تھا کہو کہ اس تار کو توڑ ڈالے تو یقیناً وہ کمزور توڑ دے گا.اب دیکھو وہ چیز ( شکست ) جو گل میں نہ تھی جزء میں پائی گئی اور وہ ٹوٹا جوگل میں ممکن نہ تھا اسی گل کی ہر ایک جزو میں موجود ہے.ہاں بعض صورتوں میں یہ آپ کا دعوی صحیح ہو سکتا ہے مگر چونکہ آپ نے کوئی تحدید و تفصیل نہیں کی.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا یہ علم متعار ف اپنے عموم اور اطلاق میں صحیح نہیں اور نہ مہر بہن ہے.

Page 70

تصدیق براہین احمد به ۶۹ وو پانچواں علم " مقدار معین کے برابر حصے کئے جاویں تو وہ آپس میں برابر ہوں گئے.چھٹا.اگر کسی وزن یا پیمانہ مقرہ سے کئی چیزیں یکساں تو لی جاویں تو وہ سب وزن میں برابر ہوں گے.مصدق.چھٹے علم میں اگر اتنا اور بڑھا دیا جاوے.’ یا نا پے جاویں پھر وزن یا پیمانہ میں برابر ہوں گئے.تو وہ دونوں علوم صحیح ہیں.9966 ساتواں علم.” اجتماع ضدین باطل ہے یہ دعوی بھی علی العموم صحیح نہیں.آپ نے ایک جگہ لکھا ہے.آدمی مختار اور آزاد ہے.یعنی انسان بطور آپ کے آزاد، مختار اور غیر آزاد ہے“ سبحان اللہ کیسا مجمع اضداد ہے چھت کے نیچے لٹکا ہوا جھاڑ چھت سے نیچے اور ہم سے وہی جھاڑ اونچا ہے ہم اس جھاڑ کو اونچا اور نیچا مجمع اضداد کہہ سکتے ہی.امتناع اجتماع اضداد کے لئے کئی شرطیں ہیں بدوں ان شرائط کے اجتماع ضدین باطل نہیں.دیکھو علم بحث تضاد.آٹھواں علم.قائم کی سب ذاتی صفات قدیم ہوتی ہیں“ مصدق.یہاں اتنا یادر ہے.عربی میں قدیم پرانے کو کہتے ہیں.قرآن کریم میں خشک شاخ اور ایک انسانی صفت کو قدیم کہا ہے.العُرْجُونِ الْقَدِيمِ (يس:۴۰) اور إِنَّكَ لَفِي ضَلِلِكَ الْقَدِيمِ (يوسف: ٩٢) خدا کا نام یا صفت یہ لفظ قدیم قرآن اور حدیث میں مذکور نہیں اور یہ بھی یادر ہے کہ قدیم کی ذاتی صفات اگر چہ قدیم ہوتی ہیں الا اگر وہ قدیم اپنی بعض ذاتی صفات سے کام لینے میں بااختیار ہے اور اپنے منشا اور ارادہ سے کام کرنے والا ہے اور کسی کا اس پر جبر اور اکراہ نہیں تو ایسے قدیم سے یہ بات ممکن ہوگی کہ جب چاہے اپنی ان صفات سے کام لے اور جب چاہے نہ لے.فرض کرو ہم گویائی کی ایک ایسی صفت رکھتے ہیں جس سے ہم با اختیار کام لے سکتے ہیں.اگر ہم قدیم ہوں تو یہ بات ممکن ہے کہ جب ہم چاہیں اس گویائی سے کام لیں اور جب چاہیں نہ لیں جب ہم نے اس گویائی سے کام نہ لیا تو ایک وقت ہمارے اس سے کام نہ لینے سے ہماری صفت گویائی پر لے سوکھی ٹہنی کی مانند تو اسی اپنی پرانی دیوانگی میں ہے.

Page 71

تصدیق براہین احمدیہ کوئی نقص عائد نہ ہوگا اور یہ نہ کہا جائے گا کہ ہم میں صفت گویائی ہی نہیں.اسی طرح دید مثلاً آریہ کے نزدیک خدا کا کلام ہے جو اس نے چار آدمیوں کو سرشٹی کے ابتدا میں سکھایا اب بعد اس زمانے کے وہ خدا متکلم بہ وید کسی آریہ یا آریہ ورتی سے بات نہیں کرتا اور نہ اب کسی کے گیان میں اپنا کوئی اور کلام القایا پر کاش کرتا ہے بلکہ سوائے وید کے اس نے بھی کوئی کلام ہی نہیں کیا اور نہ کسی ملک میں سوائے آریہ ورت کے اس نے کسی کو اپنے مکالمہ اور مخاطبہ سے سرفراز فرمایا.پس باوجود ایسی خاموشی اور ترک کلام کے آریہ کے نزدیک خدا کی صفت تکلم میں کوئی نقص تسلیم نہیں کیا جاتا.با اینکہ حسب اعتقاد آریہ اللہ تعالی سوائے ویدک سنسکرت اور چار دید کے نہ کبھی کچھ بولا اور نہ کبھی کچھ بولے گا.پھر بھی ہرقسم کی زبان میں کلام کرنے کا سرب شکتی مان اور قادر مطلق ہے.جب صرف وید والی بانی میں کلام کر سکتا ہے اور اس کی صفت کلام صفت قدرت و زبا ندانی میں اسے کوئی نقص نہیں آتا بلکہ وہ ہر طرح پوتر قدوس ہے اور متکلم رہتا ہے تو اگر انسان مخلوق اور موجود نہ ہو اور باری تعالیٰ کو پھر بھی خالق رازق کہیں تو کیا حرج ہے.کیا اس کا خالق رازق علیم ہونا انسانی ہستی پر موقوف ہے؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں !!! علاوہ بریں ذاتی صفات کے دو معنے ہوتے ہیں.ایک لوازم ذات یعنی ایسی صفات جو ذات سے کبھی الگ نہیں ہوئیں اور دوسری وہ صفات جو ذات میں موجود ہوتی ہیں.قدیم کے وہ ذاتی صفات جو تم اول سے ہیں بے ریب قدیم ہیں.مگر دوسری قسم کی صفات کا قدیم ہونا ضروری نہیں.مثلاً پنڈت لیکھرام مکذب کی روح حسب اعتقاد لیکھرام کے قدیم ہے.پر اس کی روح کو پنڈت کے جسم سے جو تعلق ہے وہ بالکل جدید ہے.گو یہ تعلق اس کی روح کی ذات کو ہے اور اس وقت یہ تعلق خاص اور بالفعل اس کی قدیم روح کی صفت ہے.مگر یہ صفت قدیم نہیں بلکہ حادث اور غیر قدیم ہے.کیونکہ یہ تعلق ایک قسم کی سزا ہے اور آواگون کی بنیاد جس کو مکذب نے تکذیب صفحہ نمبرا کتاب میں برا تجویز فرمایا ہے اور ممکن ہے بلکہ یقینی ہے کہ مہان پر لے کے وقت یہ صفت روح میں بالفعل موجود نہ تھی.اور نہ پھر اور پر لے کے وقت یہ صفت روح میں موجود رہے گی.

Page 72

تصدیق براہین احمدیہ نواں علم صفت موصوف سے جدا نہیں ہوتی.مصدق.یہ بھی اپنے عموم اور اطلاق میں درست نہیں.کیونکہ صفات دو قسم کی ہوتی ہیں ایک لوازم ذات اور دوسری صفات عرضیہ قسم اول کا جدا ہونا بے شک محال ہے.مگرفتم ثانی کا جدا ہونا ممکن ہے اور وہ صفات موصوف سے جدا ہو جاتی ہیں.مثلاً سفید چیز کی صفت ہے سفید ہونا جب اس سفید چیز پر سیاہی پھیر دی جاوے تو اس سفید چیز کو صفت سیاہ کا موصوف کہیں گے حالانکہ وہ چیز صفت سے سفید متصف تھی.ایک وقت وہ چیز صفت سفید سے موجود تھی جب وہ صفت موصوف سے جدا ہوئی تو پھر وہ موصوف سیاہی سے متصف ہوا.مکذب کو لازم تھا کہ تفصیل فرماتے.بدوں تفصیل کے یہ علم غلط ہے یہ بیان کرنا واجب تھا کہ کس قسم کی صفات موصوف سے جدا نہیں ہوتی اور جدائی صفات کے کیا معنے ہیں؟ غور کرو.میں ایک متکلم بالفعل انسان ہوں اور تکلم بالفعل میری صفت ہے جس وقت چپ ہوں گا اس وقت کوئی بھی مجھے متکلم بالفعل سے موصوف نہ کرے گا.جب کلام کروں گا پھر متکلم بالفعل ہو جاؤں گا.دیکھئے تکلم بالفعل کی صفت کبھی مجھ میں موجود ہوتی ہے اور کبھی مجھ سے جدا ہوتی ہے.پس صفت موصوف سے جدا ہوگئی اور مکذب کا قاعدہ غلط ثابت ہو گیا.غرض یہ جملہ کہ صفت موصوف سے الگ نہیں ہوتی.بدوں کسی تفصیل کے اپنے عموم پر میچ نہیں ہوسکتا.دسواں علم.علم معلوم کے بغیر نہیں ہوتا“.مصدق.یہ علم بھی آپ کے علوم متعارفہ سے تفصیل کا محتاج ہے.کیونکہ ہر ایک معلوم کا علم بے ریب معلوم کے وجود کا محتاج ہے.الا کبھی اس معلوم کا وجو دصرف علم میں ہی ہوتا ہے اور کبھی با وجود وجود علمی کے معلوم کو خارجی وجود بھی لاحق ہوتا ہے.دیکھو وید مہان پر لے کے وقت بقول تمہارے صرف علمی وجود رکھتے تھے اور صرف باری تعالیٰ کے علم میں موجود تھے.اور اب اس وقت با وجود وجود علمی کے جو علم الہی کے باعث ہے ایک اور وجود بھی رکھتے ہیں مثلاً ان آریوں کے گیانوں میں بھی ان کا وجود ہے یا سرٹی کی ابتدا میں اگنی ، وایو، سورج، انگرہ کی گیان میں اور

Page 73

تصدیق براہین احمدیہ ۷۲ باری تعالیٰ کے گیان میں بھی ان کا وجود تھا.غرض وید دونوں جگہ موجود تھے.یہ نہیں کہ ابتداء باری تعالیٰ کے علم میں تھے اور جب باری تعالیٰ نے ان چار رشیوں کو سکھلایا اور ان کے گیان میں ویدوں کو پرکاش کیا تب خود جاہل ہو گیا اسی طرح الہی معلوم جو الہی علم میں موجود ہوتا ہے جب خارجی وجود سے موجود ہو جاوے علمی وجود سے اس کا معدوم ہو جانا ممکن نہیں ہاں خارجی وجود سے پہلے صرف وہ معلوم علمی وجود سے موجود تھا.پھر جب سے خارجی وجود عطا ہوا تو دونوں وجودوں سے موجود ہے.گیارہواں علم.”جو پیدا نہیں ہوا وہ نہیں مرے گا اور جو پیدا ہوا ہے وہی مرے گا “.مصدق.یہ علم علوم متعارفہ میں سے دو جملوں پر منقسم ہے.اس علم کا دوسرا جملہ مکذب نے یا تو کسی اپنے معمولی خیال پر لکھ دیا ہے.کیونکہ مکذب اور ان کے سماجیوں کا خیال ہے جو پیدا ہوا وہ ضرور مرے گا اور مانتے ہیں کہ ہر حادث کو فنا ضروری ہے.اگر چہ اس جملے کے الفاظ سے یہ مضمون نہیں نکلتا.کیونکہ اس جملے میں ضرورت کا لفظ موجود نہیں.الا مکذب کی روش سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی معنے لیے ہیں یا اس معہود فی الذہن جملے کا یہ منشا ہے کہ فنا اسے ہی ہے جس کو وجو د ملا اور جو پیدا ہوا ہو تو بات سچ ہے یعنی اگر فنا طاری ہوئی تو اسی حادث پر ہی طاری ہوگی جس کا وجود کہیں سے آیا اور اگر پہلے معنے لئے ہیں کہ جو چیز پیدا ہوئی اور جس کو وجود ملا وہ ضرور فنا ہوگی.تو اول تو یہ جملہ اس مضمون کا مثبت نہیں.دوم اس معنے پر یہ جملہ غور کے قابل ہے.بلکہ اپنے عموم پر غلط ہے اس لئے کہ فنا کے معنی اگر بالکل معدوم ہو جانے کے لیں تو جملہ قابل برہان اور ثبوت طلب ہے.کیونکہ ممکن اور محتمل ہے کہ خالق کسی مخلوق چیز کو خارج میں بالکل معدوم نہ کرے.کون امر اس احتمال کو روک سکتا ہے؟ پس ہر ایک جو پیدا ہوا وہ ضرور نہ مرا!.مثلاً اجسام کی نسبت ہم کہتے ہیں کہ وہ مرکب اور مخلوق ہیں اور مرکب کو تغیر ہوتا رہتا ہے.اس طرح اجسام کو تغیر ہوتا رہے گا کلی فنا على العموم ان پر طاری نہ ہوگی.بلکہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی کسی چیز کو پیدا کر کے فنانہ کرے حتی کہ اس

Page 74

تصدیق براہین احمدیہ ۷۳ میں تغیر بھی جگہ نہ پائے ہاں موت اگر ایک خاص تغیر ہے جو مخلوق پر آنے والا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے.كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ (الرحمن: ۲۷) كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ (القصص:۸۹) تو ممکن ہے کہ مکذب کی بات کچھ بن جاوے البتہ جنت میں پہنچ جانے والے تنزل کا تغیر نہ پاویں گے.ان کا تغیر ترقی کی طرف ہوگا اس واسطے باری وعدہ فرماتا ہے.وَلَدَيْنَا مَزِيدُ (۳۶:3) کیمسٹری والوں کا یہ اصول کہ مرکب ایک حالت پر نہیں رہتا بے شک صحیح معلوم ہوتا ہے.66 مکذب کا دعوئی.(۱) پر میشور قدیم ہے اور اس کی سب صفات، علم اور ارادہ قدیم ہے (۲) اس واسطے اگر روحیں انادی نہ مانی جاویں تو خدا کی صفات زائل ہوتی ہیں.اس پر دلیل یہ ہے (۳) چونکہ یہ امر مسلم فریقین ہے کہ پر میشور اور اس کی سب صفات علم اور ارادہ قدیم ہیں.اس واسطے اس پر بحث کی ضرورت نہیں (۴) اور اگر قدیم نہ مانا جاوے تو حادث ماننا پڑے گا.پر میشور جو مالکیت رازقیت اور عادلیت میں رحیم اور کریم وغیرہ صفات سے موصوف ہے.کیا یہ صفات جدید اور حادث ہیں (۵) کیونکہ اگر روحیں قدیم نہیں تو سب صفات خدا تعالیٰ بھی قدیم نہیں رہیں گی.جو بموجب (۸، ۹ ۱۰ علوم متعارفہ ) کے ناممکن ہے‘ (۶) اس واسطے روحیں قدیم اور انادی ہیں (۷) اور انادی پر تمان کی انادی قدرت اور قبضہ میں موجود ہیں‘ (۸) ''حادث نہیں اور یہی ہمارا دعوی تھا“.66 مصدق.جواب دینے سے پہلے اتنا کہہ دینا بے موقع نہ ہو گا کہ میں نے تسہیل کی خاطر مکذب کے فقروں پر علیحدہ علیحدہ نمبر دیے ہیں اور یہ امر بھی مدنظر رکھا ہے کہ اس کے قول کی بار بار نقل کرنے کی ضرورت نہ رہے مکذب کا یہ دعوئی دو جزو پر منقسم ہے دعوے کی جز واول کی دلیل یہ دی ہے کہ دلیل کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ جز و مسلّم فریقین ہے اس کو بحث سے بے نیازی حاصل ہے لے ہمارے ہاں تو ترقی ہی ترقی ہے.

Page 75

تصدیق براہین احمدیہ ۷۴ جیسے مکذب کی دلیل کی جز واول سے جو اس کے فقرہ نمبر ۳ میں ہے ظاہر ہے پھر دلیل کی جز و دوم نمبرہ میں فرماتے ہیں.اگر قدیم نہ مانا جاوے تو حادث ماننا پڑے گا.مطلب یہ کہ اگر قدم تسلیم نہ کرو گے تو حدوث مانو گے.مگر افسوس ابطال حدوث صفات پر کوئی دلیل نہیں دی ! صرف استفہام کر کے سکوت کیا ہے جس سے آخر یہی پایا گیا کہ بطلان حدوث صفات باری اور ثبوت قدم صفات مسلم فریقین ہے اس پر کوئی حاجت دلیل کی نہیں مگر میں تعجب کرتا ہوں کہ پھر اس دوسرے جملے کے بڑھانے کی کیا ضرورت تھی.غرض بات یہ رہی کہ پر میشور اور اس کی سب صفات حسب تسلیم فریقین قدیم ہیں مکذب کے نزدیک دلیل کی ضرورت نہیں پھر نمبر ۵ میں فرماتے ہیں.اگر روحیں قدیم نہیں تو سب صفات بھی قدیم نہیں.کیا اچھی منطق تھی کہ اگر اس کے ساتھ یہ ثابت ہوجاتا کہ روحیں باری تعالیٰ کی صفات ہیں.مگر افسوس کہ فریقین میں سے کوئی بھی روحوں کو تمام صفات باری تعالیٰ کا ہونا تسلیم نہیں کرتا.نازم بریں منطق و آفرین بریں دعوئی ہمہ دانی.اپنے ذہن سے جو فرضی تسلیم کئے ہوئے تو ہمات اور خیالات کے قبضہ میں آچکا ہوا ہے ایک خیالی بے بنیاد دعوی تر اشنا اور پھر اس پر یقینی دلائل کو بنی کرنا !.کیا خوب فلسفہ ہے.کس نے اور کس دلیل کی بنا پر اسے تسلیم کیا ہے کہ اگر روحیں قدیم نہیں تو سب صفات بھی قدیم نہیں“.اور روحوں کو سب صفات الہی کون مانتا ہے؟ آپ نے علوم متعارفہ میں تو یہ فرمایا تھا کہ قدیم کی سب ذاتی صفات قدیم ہوتی ہیں اور یہاں بدوں امتیاز ذاتی صفات اور غیر ذاتی کے عام طور پر فرما دیا میرے علم میں تو یہ آتا ہے کہ یہاں بہت کچھ کلام آپ کے دل ہی میں رہ گیا.جو صفحہ قرطاس پر نہیں لکھا گیا.لازم یہ تھا کہ آپ جب تک تفصیل کرتے ہم بھی چپ رہتے.مگر بائیں غرض کہ بحث سے ہم کو تفتیش حق مقصود ہے خود ہی تفصیل کے متکفل ہوتے ہیں.اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان ضعف قوت بیانی کے باعث اپنا مافی الضمیر بوجہ اکمل ادا نہیں کر سکتا ہاں روشن دماغ کے لئے اضطرارا اپنے کلام میں کچھ قرائن ایسے چھوڑ جاتا ہے جسے وہ اپنی ذکاوت سے موزوں کر دیتا ہے میرے نزدیک آپ

Page 76

تصدیق براہین احمدیہ کے اس مجمل کلام کا مدعا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب روحیں قدیم نہ رہیں تو پر میشور قدیم ان حادث ارواح کا ان کے حدوث سے پہلے کسی طرح خالق اور ان کا عالم اور ان کا رازق بھی نہ ہو گا.مگر جناب من میں پوچھتا ہوں یہ اجسام مرکبہ مع ترکیب موجود کے قدم میں موجود تھے یا نہیں؟ اور قدم اور ازل میں آپ کی یہ جون جس کو آپ اس وقت بھوگ رہے ہیں اور وہ جو نہیں جو آپ بعد اس جون کے بھوگیں گے موجود تھیں یا نہیں ؟.اگر موجود تھیں تو ظاہر ہے کہ آپ کی یہ جون اور اور جو نہیں جو ہوں گی قدیم ہیں کسی عمل کی سزا یا جز انہیں اور نہ الہی خلق ہیں.اسی سے مسئلہ تناسخ اور مسئلہ سزا جزا کا بکلی استیصال ہو جاتا ہے اور قدم میں اگر موجود نہ تھیں تو ہم پوچھتے ہیں کہ خدا ان سے پہلے ان خاص جونوں کا خالق تھایا نہ تھا؟ اگر تھا تو عالم بدوں معلوم اور رازق بدوں مرزوق اور خالق بدوں مخلوق کیسے ہو گیا؟ اور اگر نہ تھا تو اب کیسے ان کا رازق عالم اور خالق ہو گیا ؟ حالانکہ بقول آپ کے اس کی سب صفات قدیم ہیں ! جناب من اگر روح حادث مانی جاوے تو اللہ تعالیٰ کی صفت آخر اور امر اور اَحنَمَا اور پوتر تا پر کیا نقصان عائد ہوتا ہے؟ پھر ہم کہتے ہیں کہ پر لے کے وقت جب ارواح آپ کے خیال میں بالکل انند میں ہوتے ہیں اور پر مانو بالکل الگ الگ ہوتے ہیں اس وقت باری تعالیٰ کس چیز کا خالق اور کس چیز کا رازق اور کس مرکب کا عالم رہتا ہے؟ اور کس طرح سزا یا جزا دینے والا قرار پاتا ہے؟ یا در ہے صفات کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک لوازم ذات جو ذات سے الگ نہیں ہوتے ان کو صفات حقیقیہ اور ذاتی صفات بھی کہتے ہیں اور دوسری صفات اضافیہ یہ صفات بھی ذات کی صفات کہلاتی ہیں مگر بلحاظ کسی اور چیز کے اور تیسری صفات اضافیہ محضہ جن کو عقل اور ادراک ہی صرف لحاظ کر سکتا ہے.صفات حقیقیہ اور ذاتیہ میں تو ضرور ہے کہ ذات اگر قدیم ہے تو صفات بھی قدیم ہوں.اور اگر صفات قدیم ہیں تو ذات بھی قدیم ہو.مگر صفات اضافیہ اور اضافیہ محضہ میں یہ بات نہیں ہوتی.کیا معنی کہ صفات اضافیہ کے تغیر سے ذات میں تغیر نہیں آتا مثلاً مشاہدہ میں دیکھ لو.زید عمرو کے آگے بیٹھا ہے پس زید کو تقدم اور عمرو کو تاخر کی

Page 77

تصدیق براہین احمدیہ صفت لاحق ہے.جب عمروز ید کیا گے ہو بیٹھا اور معاملہ بالعکس ہو گیا تو ظاہر ہے کہ اس تغیر صفت تقدم سے جو تاخر کے ساتھ بدل گئی زید کی ذات میں کوئی تغیر نہیں ہوتا.اور باری تعالیٰ کی نسبت زید کا پیدا کرنا عمرو سے پہلے اور عمرو کا پیدا کر نا زید کے پیچھے ہے.اگر وہ قادر مطلق عمرو کو پہلے زید کے پیدا کر دے تو اس کی ذات میں تغیر نہیں ہو سکتا.پس آپ کا یہ فرمانا کہ پر میشور کی سب صفات قدیم ہیں کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ صفات اضافیہ نسبتین ہوتی ہیں اور نسبتین منتسبین کو چاہتی ہیں جب منتسبین میں سے ایک حادث ہو تو یہ صفت جو اس منتسب کے باعث پیدا ہوئی ضرور حادث ہوگی.پس آپ کا یہ فرمانا کہ باری تعالیٰ کی سب صفات حسب تسلیم فریقین قدیم ہیں على العموم صحیح نہیں.غور کیجیئے اسی موجود سرشٹی کے ابتدا میں جب تک اگنی ،سورج اور وایو وغیرہ مہاتما ملهمان وید پیدا نہ ہوئے تھے.اس وقت صفت تکلم وید ہمراہ اس اگنی اور سورج اور وایو باری تعالیٰ میں بالفعل موجود نہ تھی.جب ان لوگوں نے اپنے اعمال کے نتیجہ میں جنم پایا اور الہام کے قابل ہوئے تو ان کے گیان میں ویدوں کا پرکاش کیا.مگر جب اللہ تعالیٰ نے ویدوں کا ملہمان وید کے گیان میں پر کاش کیا.اس میں اس وقت سے پہلے یہ صفت (بالفعل وید کے پر کاش کرنے کی) ی تھی بعد پرلے کے بالفعل وید کی پر کاش کرنے کی صفت باری تعالیٰ کو لاحق ہوئی اور اس وقت کے بعد اب آپ لوگوں کی نسبت وید یا کسی اور کتاب کے الہام اور پرکاش کرنے کی طاقت اور صفت اس سرب شکستیمان پر میٹر میں نہیں رہی.تو اب خوب سمجھ لیجئے کہ آپ کا فقرہ نمبر چھ اور نمبر آٹھ صرف ایسے دعوے ہیں جو دلیل نہیں رکھتے اور فقرہ نمبر سات کو آپ کے دعوی یا دلیل سے تعلق نہیں.مکذب کا دعوی نمبر ۲.روحیں مجرد اور غیر مرکب چیتین ہیں اس واسطے ان کی پیدائش نہیں ہو سکتی.اب اس انوکھے دعوے کے ثبوت میں آپ کے عقلی دلائل ملاحظہ ہوں.نمبرا پیدائش دو طرح کی ہوتی ہے.ایک اپنے آپ سے دوسرے کسی غیر سے نمبر۲ اپنے آپ سے پیدائش دو طرح ہوتی ہے.ایک یقینی دوسری وہمی یقینی جیسے کوئی اپنا حصہ کاٹ کر یا جدا کر کے بنائی

Page 78

تصدیق براہین احمدیہ جاوے.وہمی جیسے اندھیری رات اور تنہائی میں بھوت پریت چڑیلوں کے غلط خیال ہوتے ہیں.نمبر ۳ اگر بالفرض مانا جاوے کہ روحوں کو خدا نے پیدا کیا.تو فی الفور سوال پیدا ہوتا ہے.کیوں ؟ اور کس چیز سے اور کب؟ نمبر ۴ اگر یہ جواب دیا جاوے کہ اپنے قدرت کے اظہار کے واسطے اپنے جسم سے کوئی ٹکڑا کاٹ کر جب چاہا بنا لیا یا جب سے خدا ہے تب سے بنالیا‘ نمبر۵ ” تو یہ اعتراض آتا ہے کہ کیا خدا پر اس سے پہلے اس کی قدرت پوشیدہ تھی یا ظاہر.صورت اول غلط.صورت ثانی فعل عبث نمبر 4 اور اپنے جسم سے روحیں بنانا بردی اور برآمدی کے نقشہ کی کیفیت ہو جاتی ہے اور ہر ایک روح خدا ٹھہرتے تھے جو خلاف عقائد فریقین ہونے سے باطل ہے.اور علاوہ بریں اس طرف کمی آ جاتی ہے اور آمدنی کے نہ ہونے سے خدا منقسم ہو جاتا ہے، نمبرے اور ا یہ کہ جب چاہا بنا لیا اور جب سے خدا ہے تب سے بنایا.دونوں شقوق باطل ہیں کیونکہ چاہا بغیر خواہش کے نہیں ہوتا.اور خواہش اپراپت کی ہوتی ہے جس سے خدا محتاج اور کمزور ثابت ہوتا ہے جو بموجب مذہب فریقین کے باطل ہے نمبر ۸ ' جب سے خدا ہے تب سے بنایا انا دیت کو ثابت کرتا ہے.مگر بنانے کی تردید کیونکہ تقدم و تاخر صانع اور مصنوع ضروری ہے اس واسطے بنانا ثابت نہیں ہوتا بموجب علوم متعارفہ نمبر۲ کیونکہ عالم و معلوم و عالم ، لازم ملزوم ہیں اور بموجب علوم متعارفہ نمبر9 کے صفت موصوف سے جدا نہیں ہوسکتی اور نہ بموجب علوم نمبر 1 کے معلومات کے بغیر علم ہوسکتا ہے.اس واسطے ثابت ہوا کہ روحیں انادی ہیں اور نہ ان کی پیدائش ہوسکتی ہے.اور یہی مطلب تھا.مصدق.دلیل میں تو اپنی شقوق کے طومار لگا دیئے.مگر روح کے مجرد غیر مرکب اور چین ہونے کی دلیل کا تذکرہ تک بھی نہ کیا.جو آپ کا اصلی دعوی تھا.شاید جوش میں آکر اصل مطلب کو بھی بھول گئے.آپ نے پیدائش کو دو حصوں پر حصر کیا ہے.ایک اپنے آپ سے دوسرے غیر سے اور ان دونوں قسموں کے معنے بھی دلیل میں بیان فرمائے ہیں.مگر ہم لوگ اس حصر کے قائل نہیں بلکہ

Page 79

تصدیق براہین احمدیہ ZA کہتے ہیں کہ پیدائش کی تین قسمیں ہیں ایک پیدائش خالق کی اپنی مخلوق اور اس مخلوق کے مادہ کو اپنی کامل شکتی (قدرت) سے اور دوم پیدائش اپنی غیر سے جیسی ہماری پیدائش عناصر سے اور سوم پیدائش اپنے آپ سے جیسا تم نے خود بیان کیا.پس پیدائش کی تین قسمیں ہوئیں.نہ دو جیسے تم نے لکھی ہیں.ان تین اقسام میں سے پہلی دوستم کی پیدائش کا ماننا عام مسلمانوں ، پران والوں ،حکما اور فلسفیوں، یہودی اور عیسائی مذہب والوں کا اعتقاد ہے.تیسری قسم کی پیدائش بھی ان ہی لوگوں سے بعض وحدت وجود اور ویدانتیوں کا اعتقاد ہے.افسوس ان اقسام میں سے آپ کسی ایک کا بھی ابطال نہ کر سکے.پس آپ کی دلیل کا پہلا نمبر غلط ہوا.کیونکہ آپ پیدائش کی گل دوستم مانتے ہیں! حالانکہ نفس پیدائش تین طرح کی ہوتی ہے اور نمبر ۲ میں آپ نے بے وجہ تفصیل لکھی ہے جس کی کچھ حاجت نہ تھی.پھر آپ فقرہ نمبر ۳ میں لکھتے ہیں.روح کو کیوں اور کس چیز سے اور کب بنایا ہے؟‘ شق اول کا جواب یہ ہے.اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اس لئے پیدا کیا کہ اس کی کمال طاقت اور اعلیٰ درجہ کی قدرت اور اس کی صفات کا مقتضا پورا ہو اور وہ مثمر ثمرات ہوں اور اس لئے بھی کہ انسان ان اشیاء سے فائدہ اٹھائے اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے.شق دوم کا جواب یہ ہے کہ اس نے محض اپنی قدرت کے زور سے بدوں کسی مادہ سابقہ کے پیدا کیا.اگر کہو یہ امر محال ہے.کیونکہ اگر ممکن ہوتا تو ہم بھی بدوں مادہ بنا سکتے تو یا در ہے وہ انوپیم ہے وہ ہماری مثل نہیں اور اس کی قدرت ہماری قدرت کی مانند نہیں.جو چیز ہم کو ناممکن معلوم دیتی ہے ضرور نہیں کہ اسے بھی ناممکن معلوم دے وہ قادر مطلق اعلیٰ درجہ کی صفات سے متصف ہے.وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى.(الروم: ۲۸) شق سوم کہ اللہ تعالیٰ نے روح کو کب پیدا کیا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال کچھ روحانی فوائد پر مشتمل نہیں.اس واسطے کسی الہامی کتاب میں تو اس کا جواب نہیں آیا لیکن اگر ہم جواب میں یہ کہیں کہ جس وقت اور اشیاء کے مواد بنے اس وقت یا اس سے پہلے یا پیچھے روحوں کا بننا بھی شروع ہوا.تو بتائیے کہ اس جواب میں کیا اشکال ہے؟ اور اس پر کیا اعتراض ہے؟ اگر ہم

Page 80

تصدیق براہین احمدیہ و بجواب دوم یہ کہیں کہ باری تعالیٰ نے روح کو عناصر سے بنایا تو اس پر آپ کیا اعتراض وارد کر سکتے ہیں؟ غایۃ مافی الباب یہ کہ عناصر چین نہیں اور روح چین ہے.ہم کہتے ہیں کہ ان کی خاص ترکیب پر چتنا کا فیض ہوتا ہے جیسے سورج، اگنی ، وایو اور انگرہ کے پر مانو جمع ہونے کے بعد خدائے تعالیٰ وید کو پر کاش کرتا ہے.اسی طرح عناصر کی خاص ترکیب پر چنا کا فیضان ہوتا ہے.اور پھر ہم تیسرے سوال کا جواب یوں دیتے ہیں کہ ایک مادہ نے حیوانیہ یا نباتیہ یا دونوں قسم کی غذا کھائی ان میں سے ایک حیوانی میٹر اُت پت ہوا اور وہ اس کے رحم میں گیا اور اسی قسم کے مواد سے نر کے جسم میں ایک حیوانی میٹر پیدا ہوا.جب یہ میٹر جو نر میں پیدا ہوا تھا اس رحم والے میٹر سے خاص حالت اور خاص وقت پر ملا.اسی ملاوٹ اور اختلاط سے ایک انسانی یا حیوانی روح بن گئی.غرض عناصر کے عطر اور خلاصہ کا نام روح ہے.اور مختلف ارواح کی پیدائش کے واسطے مختلف اوقات ہیں جن کو ہم روز اپنے مشاہدہ میں دیکھتے ہیں.ہم نے اپنے نزدیک راستی اور صفائی سے ان فضول سوالوں کے ( روح کیوں کس چیز سے اور کب بنی ) مختصر مگر معقول جواب دے دیئے ہمیں پورا اعتماد ہے کہ آج کل کا ترقی یافتہ سائنس بھی اس میں ہمارا مؤید ہے.اگر کوئی انصاف کی آنکھ رکھتا ہو تو خوب غور سے دیکھے.دلیل نمبر ۴ پر عرض ہے.قادر مطلق نے ان مقدورات اور مخلوقات کو اس لئے بنایا ہے کہ اس کی مستحکم اور سچی قدرت کے آثار ظاہر ہوں.اگر اس کی قدرت ہوتی اور اس کی قدرت کے آثار نہ ہوتے تو اس قدرت کا وجود ہی کیا ہوتا ؟ جس طرح روشن چیز کو روشنی دینا ضرور ہے.اسی طرح قدرت کو اور کامل طاقت کو اپنے مقتضا کے مطابق آثار کا ظاہر کرنا ضرور ہے ہاں اتنا فرق ہے کہ بعضے اشیاء اپنے خواص کے اظہار میں مختار ہوتے ہیں اور بعضے غیر مختار اور مضطر.باری تعالیٰ کو اپنی صفات کی تاثیرات کے اظہار میں اختیار ہے اور اضطرار نہیں.جب چاہے ان سے کام لے اللہ تعالیٰ دنیا سے وراء الوراء اور اس سے بائن ہے.دنیا معہ کل موجودات کے مخلوق اور وہ دنیا کا خالق ہے اور

Page 81

تصدیق براہین احمدیہ اعتقادلَمْ يَزَلْ خَالِفًا وَرَازِقًا رَحِيمًا وَ مُتَكَلَّما سچ ہے جو بحمد اللہ صرف اہل اسلام کو حاصل ہے.دلیل نمبر ۵ میں گزارش ہے.قادر مطلق پر اپنی قدرت ہمیشہ ظاہر ہے.کبھی پوشیدہ نہیں مگر آپ نے جو کہا کہ اگر ظا ہر تھی تو فعل عبث یہ فقرہ ہی عبث ہے اور لا ریب فعل عبث ہے) کچھ معنی نہیں رکھتا.دلیل نمبر 4 کی نسبت عرض ہے.باری تعالیٰ کو کسی الہامی کتاب میں جسم نہیں کہا گیا.پس آپ کا سارا تارو پود ہی ادھڑ گیا.دلیل نمبرے میں مکذب نے دو شقیں بیان کی ہیں.اول ” جب چاہا بنالیا‘ دوم ” جب سے باری تعالیٰ ہے تب سے بنا لیا پہلی شق پر یہ اعتراض کیا ہے کہ ” خواہش اپراپت یعنی غیر میسر کی ہوتی ہے یہ اعتراض صحیح نہیں.ارادہ اور خواہش کبھی اپراپت پر ہوتی ہے اور کبھی پراپت ہونے والی یعنی ایسی چیز پر ہوتی ہے جو میسر ہو سکے باری تعالیٰ کی سب خواہشیں چونکہ پراپت اور میسر ہو سکتی ہیں.اس لئے ایسی خواہش کا ہونا اس میں نقص نہیں بلکہ کمال ہے.دوسری شق کا بیان فقرہ نمبر ۸ میں کیا ہے.اس کا جواب ہم وہاں دیتے ہیں.فقرہ نمبر ۸ میں کہا ہے.” جب سے خدا ہے تب سے بنایا انا دیت کو ثابت کرتا ہے یہ بھی صحیح نہیں.کیونکہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کا بنایا ہواماننا دنیا کی انا دیت کو باطل کرتا ہے ہر گز ثابت نہیں کرتا جب ہم نے دنیا کا خالق باری تعالٰی کو اعتقاد کیا اور یقین سے کہا کہ وہ تمام دنیا کا آدی مول ہے تو یہ ساری دنیا سرشٹی اس کی رچی ہوئی مانی گئی نہ انادی.سوچو تو پھر بنانے کی تردید میں آپ نے لکھا ہے.” صانع اور مصنوع میں تقدم اور تاخر ضروری ہے.اس واسطے بنانا ثابت نہیں.یہ نہایت درجہ کا تعجب انگیز فقرہ ہے! اس لئے کہ نقدم اور تاخر کے بہت اقسام ہوتے ہیں ایک تقدم علت تامہ کا اپنے معلول پر اس تقدم سے اللہ تعالیٰ کا اس دنیا کو بنانا اور اس کی علت ہونا اور خالقیت ثابت ہے.اور یہ تقدم صفت کو موصوف سے علیحدہ کرنے کا باعث نہیں.اور نہ اس تقدم سے علم کا بغیر معلوم کے ہونا لازم آتا ہے.سو چونتقدم بھی بالرتبہ ہوتا ہے اور کبھی نتقدم طبعی اور کبھی بالزمان آپ کس تقدم کو سمجھ کر چلا رہے ہیں! اور انشاء اللہ ہم اپنے اُس خط

Page 82

تصدیق براہین احمدیہ Al میں جو اس کتاب کے اخیر میں ہوگا تقدم کی تفصیل کریں گے.مکذب ” نیستی سے ہستی نہیں ہو سکتی اور نہ ہستی سے نیستی ہو سکتی ہے“.”اس واسطے روحیں انادی ہیں، نیستی کے معنی یہ ہیں جو کچھ نہیں اور ہستی کے معنی جو کچھ ہو نمبر ۲ اگر روحیں نہ تھیں تو کہیں بھی نہ ہوں گی اور بموجب ( علوم متعارفہ نمبر۲) کے وہ اس عدم خانہ سے برآمد بھی نہیں ہوسکتیں.کیونکہ بموجب علوم متعارفہ نمبرا جو چیز جہاں ہوتی ہے وہی وہاں سے برآمد ہوتی ہے.نمبر چونکہ روحیں اب موجود ہیں اس واسطے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ پہلے بھی کہیں تھیں ور نہ اب بھی نہ ہوتیں.نمبر ۴ ” اور عدم ان پر کسی طرح جائز نہیں.لہذا ثابت ہوا کہ روحیں انادی نیستی سے ہستی میں نہیں آئیں اور یہی ثابت کرنا ہمارا مقصود تھا.مصدق - مکذب نے دلیل کے فقرہ اول میں نیستی کے معنوں میں یہ کہا ہے کہ ”جو کچھ نہیں اور نمبر ۲ میں آپ نے فرمایا کہ اگر روحیں نہ تھیں تو کہیں بھی نہ ہوں گی ان دونوں فقروں میں غور کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا یہ منشا ہے کہ اگر روحیں کسی قسم کا وجود نہیں رکھتی تھیں تو وہ موجود نہیں ہوسکتیں.مگر مکذب صاحب یا د رکھیں کہ اہل اسلام کے نزدیک روحیں قبل از وجود بوجود خارجی باری تعالیٰ کے علم میں موجود تھیں اور علمی وجود سے موجود تھیں ارواح کا خارجی وجود باری تعالیٰ کی کامل قدرت کا نتیجہ اور اس کا اثر ہے.بطور آپ کے بھی ہم کہتے ہیں ارواح محض نیستی سے ہست میں نہیں آئے بلکہ علمی وجود سے ان کو خارجی وجود بھی عطا ہوا.گویا ہستی سے ہستی ہوئی نہ نیستی سے ہستی.وللہ الحمد یہ دعوی کہ ” نیستی سے ہستی نہیں ہوسکتی.یہ مجمل فقرہ ہے اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں اول نیستی کسی ہستی کا مادہ نہیں ہوتی.دوم نیستی ہستی کی علت فاعلی اور خالق نہیں ہو سکتی.اب ان دونوں معنوں میں سے کوئی سے معنے لو.کوئی بھی ارواح کی انادی اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے نہ ہونے پر چسپاں نہیں اول معنے کہ نیستی کسی ہستی کا مادہ نہیں ہوتی.ہم کہتے ہیں سچ ہے.مگر جب ارواح موجود ہیں تو ان کے موجود ہونے کے تو یہی معنے ہیں کہ ان کا مادہ موجود ہو گیا یا موجود ہے اور ارواح کے مخلوق ہونے کے یہی معنے ہیں کہ ارواح کا مادہ یا وہ مخلوق ہوئی.کوئی

Page 83

۸۲ تصدیق براہین احمدیہ معدوم شی ہرگز موجود ارواح کا مادہ نہیں.اور کوئی ایسی چیز نہیں کہ اس کے اجزا اور مادہ موجود ہوں اور وہ چیز نیستی یعنی کچھ بھی نہ ہو.اور دوسرے معنے پر کہ نیستی جو کچھ بھی نہیں وہ ارواح کی علت نہیں اور نہ ممکن ہے کہ عدم محض ہمارا یا ہمارے ارواح کا خالق ہو.بلکہ ہمارا خالق اور موجد اور مبدع موجود ہے.اسی موجود حقیقی اور اسی کی طاقت اور قدرت سے ہم کو وجود مرحمت ہوا.پس اگر آپ کے دعوئی کے یہی معنے ہیں تو آپ کو اس بے فائدہ دلیل کی کوئی ضرورت نہ تھی.اور پھر آپ کا دعویٰ اور دلیل ایک ہے ! تعجب ہے؟ آپ نے دلیل میں لکھا ہے.”عدم ان پر کسی طرح طاری نہیں“ اور دلیل کا یہ جزو اور یہ دعوی بلا دلیل چھوڑ دیا ! اور جو آپ نے ثابت کیا اور وہی آپ کا مقصود تھا.وہ بعینہ آپ کا دعوئی نہ تھا.کیونکہ آپ کے دعوی میں روح کا ذکر بھی نہیں.مقصود میں ثابت کیسے کیا.ذرا غور کیجئے آپ کی دلیل کا ایک اور نتیجہ آپ کو سناؤں.ہاں غور کیجئے.خود بدولت منشی لیکھر ام پشاوری ساتھ اس ترکیب موجودہ اور ہیئت حاصلہ اس وقت کے جو ۱۸ بھادوں سم میں ۴۶ ان کو حاصل ہے اور اب موجود ہیں اس ترکیب اور اس ہیئت کے ساتھ رحم میں آنے سے پہلے کہیں موجود تھے یا نہ تھے؟ اگر نہ تھے تو ضرور کہیں بھی نہ ہوں گے.اور بموجب علوم نمبر ۲ وہ عدم خانہ سے برآمد نہیں ہو سکتے کیونکہ بموجب علوم متعارفہ نمبر جو چیز جہاں ہوتی ہے وہی وہاں سے برآمد ہوتی ہے.چونکہ اب وہ بائیں شکل موجود ہیں اسی واسطے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ پہلے بھی بایں شکل کہیں تھے اور ایسی شکل کے ساتھ تھے ورنہ اب بھی اس شکل کے ساتھ نہ ہوتے.اور اس صورت کا عدم بھی ان پر کسی طرح جائز نہیں.لہذا ثابت ہوا کہ منشی صاحب رحم میں آنے سے پہلے ہمیں ہیئت موجودہ تھے.نیستی سے ہستی میں نہیں آئے.مگر اب تعجب یہ ہے کہ وہاں ہمیں ہیئت اتنا بڑا جسم لے کر کیسے داخل ہوئے! اور جب موت آئی جنم بدلا.تو اگر چیونٹی کا جسم ان کو مرحمت ہوا تو اس کے رحم میں ہمیں ہیئت جو قدیم ثابت ہوئی کیسے داخل ہوں گے کیونکہ موجودہ ہیئت کی نیستی بقول آپ کے ممکن نہیں.اگر حامیان تکذیب میں سے کسی صاحب کو خیال ہو کہ منشی صاحب بلحاظ اپنے ہر دوا جزا کے جو مادہ

Page 84

تصدیق براہین احمدیہ ۸۳ اور روح ہیں پہلے موجود تھے نہ بایں جسم اور ہیئت کذائیہ تو انہیں یادر ہے کہ اہل اسلام کے نزدیک بھی روح بلحاظ علم الہی پہلے موجود تھی معدوم محض نہ تھی.تکذیب.روحیں ابدی ہیں اس واسطے ازلی یا انا دی بھی ہیں“.دلیل یہ ہے نمبرا ابدی ہونا مسلم فریقین ہے اس واسطے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں.نمبر ۲.ابد کے معنی وہ زمانہ جس کی انتہا نہ ہو.اور ازلی کے معنے وہ زمانہ جس کی ابتدا نہ ہو.نمبر ۳.اب مقام غور ہے کہ ابدی روحیں کیوں ابدی ہیں وجوہ ظاہر ہیں.نمبر ۴.اول وہ مرکب نہیں کہ ترکیب پذیر ہوں دوم وہ چین اور لطیف جو ہر ہیں.اس واسطے وہ مردہ نہیں ہوسکتیں.على هذا نمبر ۵.اب اگر انہیں وجوہات کو منقلب کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ ابتدا ماننا صرف پیدائش کی غرض سے ہے ورنہ جس کی پیدائش نہیں اس کی ابتدا نہیں.نمبر 4 تو روحیں ترکیب پذیر اور نہ منقسم ہونے والی چیز ہے.پھر ان کی پیدائش کس طرح ہوئی.نمبرے.کیونکہ ہر ایک چیز ترکیب پذیر کا انحلال لازمی ہے.اور وجود بعد العدم کا نام حادث ہے.نمبر ۸.مگر جب روحوں پر عدم نہیں حدوث بھی لازم نہیں ہوتا.کیونکہ بہ حکم علوم متعارفہ نمبر 11 کے ناممکن اور اسنبھو ہے.جس طرح ایک کنارہ کا دریا ناممکن ہے جس طرح آفتاب میں اندھیراناممکن ہے.نمبر ۹.ویسے ہی ابدی کا حادث ہونا ناممکن ہے.کیونکہ بحکم نمبرے علوم متعارفہ کے یہ اجتماع ضدین باطل ہے لہذ ا ثابت ہوا کہ روحیں انا دی ہیں اور یہی مطلوب ہے.مصدق.مکذب صاحب غور کریں فقرہ نمبر ۵ میں آپ نے کہا ہے اگر انہیں وجوہات کو منقلب کریں، لاکن وجوہات کو منقلب کر کے نہیں دکھایا کہ یہ وجوہ کس طرح منقلب ہوتی ہیں اور س طرح اس انقلاب کا نتیجہ وہ نکلا جو آپ نے نکالا.جو دعوئی فقرہ نمبر 4 میں کیا ہے.اس کی دلیل سے خاموشی کیوں کی.پھر فقرہ نمبرے جو دلیل میں ہے.وہ بالکل بے دلیل ہے.اور فقرہ نمبر ۸ میں جو دعوئی ہے اول تو وہ بھی بے دلیل ہے.دوم اس نمبر ۸ میں جو آپ نے لکھا ہے حدوث بھی لازم نہیں اس کے معنے یہ معلوم دیتے ہیں کہ حدوث لازم اور ضروری نہیں.مگر اس

Page 85

تصدیق براہین احمدیہ ۸۴ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر حدوث ہو تو حرج بھی نہیں.مگر بحکم علوم متعارفہ نمبر اس حدوث کو ناممکن کہ دیا ہے.جس علم متعارفہ کی غلطی کو میں آگے ہی لکھ چکا ہوں.لطیفہ، مکذب صاحب! اپنی دلیل کو منقلب صورت میں بھی سن لیں.مثلاً آپ بحالت موجودہ جو آپ پر آج بھادوں کے اخیر سم میں طاری ہے.مرکب ہیں یا غیر مرکب اگر مرکب ہیں تب ظاہر ہے کہ آپ چند مادی پر مانو اور روح سے ترکیب یافتہ ہیں.اور یہ ترکیب آپ کے اس گل میں پائی جاتی ہے جس کو رام مصنف تکذیب براہین یا مکذب براہین کہا جاتا ہے.اب آپ کو آپ ہی کے تین چار علوم متعارفہ کی طرف توجہ دلاتا ہوں آپ کا علوم متعارفہ نمبر’ جوگل میں ہوتا ہے وہی اس کی جزو میں ہوتا ہے.اور نمبر ” جوگل میں نہیں اس کی جزو میں بھی ناممکن ہے“.مکذب صاحب! آپ تو مرکب ہیں اور آپ کا کل روح اور پر مانو سے مرکب ہے.اس لئے بحکم آپ کے علوم متعارفہ نمبر ۱۳ آپ کی روح اور آپ کے پر مانو ( جو آپ کی جزو ہیں ) مرکب ہوں گے اور چونکہ آپ کے کل میں بساطت نہیں اس واسطے آپ کی اس جزو میں جسے آپ روح کہتے ہیں اور آپ کے پر مانو میں بحکم آپ کے علوم متعارفہ نمبر۴ بساطت نہ ہوگی.بلکہ ترکیب ہوگی اور بساطت کا ہونا ناممکن ہے اور چونکہ آپ کو ( جو مرکب اور کل میں ) موت اور فوت اور فنا آنے والی ہے.اس لئے بحکم آپ کے علوم متعارفہ نمبر ۴ آپ کی روح پر بھی فنا آنے والی ہے.کیونکہ آپ نے مانا ہے جو کل میں ہوتا ہے وہ اس کی جزو میں بھی ہوتا ہے.اس واسطے ثابت ہوا روحیں ازلی اور ا نا دی نہیں.ارواح کو از لی اور انادی کہنا سچ نہیں اور نہ وہ سچ ہے جو آپ نے اپنی دلیل کے فقرہ نمبر ۴ میں لکھا ہے کہ روحیں مرکب نہیں بلکہ روحیں مرکب اور حادث ہیں اور ارواح عناصر کی خاص ترکیب کا خلاصہ اور مرکب اشیاء کا نتیجہ ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ ارواح یا وجود حدوث کے مرکب ہیں.ارواح کی حالت کا متغیر ہونا.ان کے مرکب ہونے کی بڑی بھاری دلیل ہے اور انسانی ارواح کے تغیر سے انکار کرنا بداہت کا انکار ہے.

Page 86

تصدیق براہین احمدیہ ۸۵ مکذب کا دعوی نمبر ۵ روحوں میں فنایا موت نہیں اس واسطے روحیں خدا کے قبضہ قدرت میں ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گی.دلیل یہ ہے نمبرا کہ موت نام روح اور جسم کی جدائی کا ہے ورنہ موت اور کوئی چیز نہیں.نمبر ۲.اور روحوں کے واسطے بالذات موت نہیں.نمبر ۳.کیونکہ وہ باقی ہیں اور نہ روحوں میں کوئی ایسا مادہ ہے جو کبھی شامل ہوا ہویا کبھی ان سے اخراج پذیر ہو.نمبر۴.اس واسطے کہ مادہ جاندار نہیں بحکم (علوم متعارفہ نمبر۲) اس سے روحانیت بھی برآمد نہیں ہوسکتی.نمبر ۵.علاوہ بریں جڑھ و چین کی ایکتا یعنی وحدت الوجودی ناممکن ہے.اور یہ بموجب حکم نمبرے علوم متعارفہ کے باطل ہے نمبر 4.لہذا روح کے بالذات چین اور مرگ سے مبرا اور فنا سے آزاد ہونے کے سبب اس کی ابتدا نہیں اسی واسطے ہمہ وجوہ ثابت ہے کہ روح انادی ہے اور یہی ثابت کرنا ہمارا فرض تھا“.مصدق جواب نمبرا.مکذب نے موت کی تعریف بھی عجیب وغریب کی ہے جو نہ برہان سے ثابت اور نہ ان کے مخالفوں کو مسلم !.کیونکہ مکذب کے مخالف کل اہل اسلام شہداء کو احیا اور زندہ کہتے ہیں اور اہل اسلام کی پاک کتاب قرآن کریم میں حکم ہے.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يَقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَلكِنْ لا تَشْعُرُونَ (البقرة : ۱۵۵) اور نمبر۲ میں پھر وہی دعویٰ کی پہلی ٹانگ ہے.اور نمبر ۳ وہی دعویٰ ہے اور فقرہ نمبر ۲ کا اعادہ ہے گوالفاظ اور ہیں اور آپ کا یہ فرمانا کہ روحوں میں نہ کوئی مادہ شامل ہوا اور نہ اخراج پذیر ہوا.بالکل دعوی بے دلیل ہے.اس کو کون مانتا ہے؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ اروح میں ہمیشہ ایسا ہی تغیر ہوتا ہے جیسا اور مرکبات میں ہوتا ہے.اگر ارواح مرکب نہ ہوتے تو ان میں مرکبات کا سا تغیر کیوں آتا اور کہاں سے آتا ؟ یہ تغیر تو ارواح کی ترکیب کی راہ بتاتا ہے.بلکہ یہاں تک تغیر ہوتا ہے کہ آپ کو بھی اپنا پہلا جنم کچھ بھی یاد نہیں.بھلا بدوں ترکیب کے یہ فاحش تغیر ممکن ہے؟ آج کل سائنس کا دورہ ہے کیمسٹوں سے پوچھ لیجئے یا ڈاکٹروں سے دریافت کیجئے.غور فرمائیے.جن لے اور ان کو جو اللہ کے رستے میں مقتول ہوتے ہیں مردے مت کہو بلکہ وہ زندے، پر تم نہیں سمجھتے.

Page 87

تصدیق براہین احمدیہ ۸۶ مقامات میں روشنی زیادہ پڑتی ہے.کہربائی حصہ بدن پر زیادہ اثر کرتا ہے.تازہ ہوا لینے کا لوگوں کو اچھا موقع ملتا ہے.تعفن سے حفاظت ہوتی ہے.جن لوگوں کے واسطے گرمی اور سردی اور بہار اور برسات کے لباس خوراک مکان اور پانی کا انتظام اچھا موجود ہوتا ہے اور جن کے لئے ہر طرح پر حفظ صحت کے سامان مہیا کئے جاتے ہیں اور جو لوگ متعدیہ امراض اور وبائی آفات سے بچنے کی عمدہ تدابیر کام میں لاتے ہیں وہاں کے ارواح ہشیار سمجھدار اور اچھے چین وغیرہ وغیرہ صفات کے متصف پائے جاتے ہیں.اور جو لوگ اندھیرے اور برے مقامات میں سکونت کرتے.کہربائی حصہ کم لیتے ہیں تازہ ہوا کا سامان ان کو کم میسر ہے.عفونت میں سانس لیتے ہیں.حفظان صحت کے قواعدان میں بالکل رائج نہیں.اور ان کی صفات پہلوں کی صفات سے بالکل علیحدہ ہوتی ہیں بلکہ برین اور دماغ کی مخ اور حرام مغز اور اعصاب کی مختلف بناوٹ سے روح کے مختلف تقاضے نظر آتے ہیں وہ غروی مادہ جس سے غالب ہڈیوں کا بناؤ ہو رہا ہے.اور وہ لینفاوی مادہ جس سے گوشت وغیرہ بنا ہے.اور وہ زلالی حصہ جس سے اعصاب کی بناوٹ ہوتی ہے.اس کے اختلاف سے مختلف صفات کے لوگ نظر آتے ہیں.بعض اغذیہ اور ادویہ ایسی ہیں جن کے استعمال سے صفات روحانیہ میں تغیر اور تبدل آجاتا ہے.پس کیا یقین نہیں ہوسکتا کہ روح کی ترکیب میں ان چیزوں کا دخل ہے.بے شک ہے.بے ریب روحوں میں کبھی کوئی مادہ شامل ہو جاتا ہے اور کبھی وہ مادہ اخراج پذیر ہوتا ہے.موت ایک خاص تغیر کا نام ہے.فنا بھی اسی تغییر کا عنوان ہے.ارواح کی ابدیت کیا ہے؟ وہی ان کا لا انتہا تغیر مگر یادر ہے کہ عمدہ حالت کا نام حیات ہے.اور آپ کا یہ دعوای کهہ مادہ جاندار نہیں اس سے روحانیت بھی برآمد نہیں ہوسکتی.بحکم علوم متعارفہ نمبر ۲ آپ کے مفید مطلب نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ دعویٰ بے دلیل ہے اور آپ کے علوم متعارفہ نمبر ۲ پر جو کلام ہے وہ سابق عرض کر چکا ہوں.صاحب من جڑھ پدارتھ سے جڑھ کے خاص خاص تغیرات کے بعد خاص ترکیب اور خاص تناسب پر چیتنا کا فیضان ہو جاتا ہے جیسے پہلے آدمیوں سے خاص آدمیوں، اگنی وایو، سورج اور انگرہ کی خاص حالتوں کے باعث ان پر بطور آپ کے وید کا الہام ہوا.ایسے ہی

Page 88

تصدیق براہین احمدیہ تناسب کے خاص حصہ پر چینا کا فیضان ہوتا ہے اور خاص وہی حصہ انسانی یا حیوانی روح ہے.آپ کا علی العموم یہ فرمانا کہ جڑھ سے چین پدارتھ نہیں بن سکتا دعوی بے دلیل ہے.ہرگز صحیح مسلم نہیں.اور آپ کے نزدیک عدم امکان سے کسی شئی کے یہ لازم نہیں آتا کہ باری تعالیٰ کے نزدیک بھی وہ محال ہو.صاحب من وہ ہمہ دان لطیف و خبیر تمام مخلوق پر محیط ہے اس کے ید قدرت کے نزدیک جو ممکنات ہیں وہ سب کی سب آپ کی قاصر اور محدود طاقت کے نزدیک محال ہیں علی ھذا تمہارے محال سے محال اس کے نزدیک ممکن ہیں.آپ نباتات جمادات اور حیوانات پر تجر بہ کر لیں.نمبر ہ کی فلسفی بھی داد کے قابل ہے.ہم جڑھ اور چین کو وحدت الوجودی کب مانتے ہیں؟ اور کب اس کے قائل ہیں؟ غور کرو گلاب کی شاخ پھوٹی.اس نے پتے نکالے پتوں کانٹوں گلاب کی شاخ اور جڑھ سے گلاب کا پھول پیدا ہوا.اس سے عطر نکلا.کیا وہ عطر گلاب کی جھاڑی سے وحدت الوجودی رکھتا ہے؟ ہر گز نہیں دونوں کا وجود جدا جدا ہے.پس خلاصہ مطلب یہ ہوا.کہ ایک معنی کے لحاظ سے انسانی یا حیوانی روح ایک ایسی چیز ہے جو خاص قسم کے اجتماع عناصر کا ثمرہ ہے یا بطور اور عناصر کے یہ عنصر بھی مخلوق ہے.اگر عناصر کا ثمرہ ہے تو بھی ان سے متحد الوجود نہیں.اور اگر الگ عصر ہے تو بھی متحد الوجود نہیں.اور فقرہ نمبر 4 اگر تسلیم کیا جائے تو آپ سے سوال ہے کہ ذاتی صفات بقول آپ کے لوازم ذات ہوتی ہیں.اور بموجب آپ کے علوم متعارفہ نمبر ۸ قدیم کے سب ذاتی صفات قدیم ہوتی ہیں.اور علوم متعارفہ نمبر 9 سے ثابت ہے کہ صفت موصوف سے جدا نہیں ہو سکتی یہ چیتنا جو روح کی صفت ہے آپ کے نزدیک جیسا آپ کے کلام سے ظاہر ہے روح کی ذاتی صفت ہے.آپ کی روح کو اس وقت جب آپ رحم میں تھے یا رحم سے نکلنے کے بعد دو مہینے میں کس قدر علم حاصل تھا؟ اور وہ علم کا مقدار اب بھی ضرور آپ میں موجود ہے یا تغیر پا کر اور کا اور ہی ہو گیا؟ اب اگر ذرا بھی انصاف سے کام لیا جاوے تو یہ بات صاف معلوم دیتی ہے کہ علوم اور روح کی وہ صفات کچھ مدت کے بعد بالکل دور ہو جاتی ہیں اور روح جدید صفات سے متصف ہو جاتی ہے.اس واسطے ثابت ہوا کہ روح بالذات چین اور ترکیب سے مبرا نہیں اس لئے بطور

Page 89

تصدیق براہین احمدیہ ۸۸ آپ کے بھی اس کی ابتدا اور اس کا حدوث ضروری ہے.مکذب.میٹر کے انادی ہونے پر دلائل نمبر.چونکہ خدا غیر مادی ہے اس واسطے مادی دنیا کا اس سے نکلنا نہیں ہوسکتا.نمبر۲ کیونکہ کسی چیز سے وہی چیز نکلتی ہے جو پہلے اس کے اندر موجود ہو.نمبر ۳.اور جو موجود نہ ہو کسی طرح نہیں نکل سکتی حکم متعارفہ نمبر ۲.اس واسطے مادہ انادی ہے“.مصدق جہاں تک اس فلسفہ اور لا جک کو دیکھتا ہے.یقین کرتا ہے کہ دلیل کا بہت بڑا حصہ مکذب مدلل کے دل ہی دل میں رہ گیا.اور لکھنے میں نہیں آسکا.ناظرین غور کریں اول تو تینوں فقرے دلیل کے صرف دعوی ہی دعویٰ ہیں.دوم ہم نے مانا کہ خدا غیر مادی ہے اور اس کے اندر سے مادی دنیا نہیں نکی مگر یہ نتیجہ کیسے مرتب ہوا کہ مادہ انادی ہے! اس دلیل سے جو آپ نے لکھی اگر خواہ مخواہ مان لیں تو صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ مادی دنیا خدا کے اندر سے نہیں نکلی.یہ دنیا کچھ اور چیز ہے اور باری تعالیٰ کچھ اور چیز ہے اور اس دنیا اور باری تعالیٰ میں ظرف اور مظروف کا تعلق نہیں.کیا معنے؟ یہ بات صحیح نہیں کہ باری تعالیٰ ظرف ہو اور دنیا اس کی مظروف جیسے پانی کے واسطے گھڑا!! غرض دنیا ایک اور چیز ہے اور ہی وستو ہے جب اور ہی چیز ٹھہری تو اب ہم مشاہدہ کرتے ہیں اور اس دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں تو اس میں کچھ حصہ ایسا پاتے ہیں جس کو جمادات کہتے ہیں، پہاڑ پتھر مٹی وغیرہ اور کچھ حصہ نباتات کا نظر آتا ہے.بڑ، پیپل، پلاس وغیرہ وغیرہ اور کچھ حصہ حیوانات کا دکھائی دیتا ہے.آدمی شیر ہاتھی وغیرہ وغیرہ.ان تمام اشیا کو ہم مرکب پاتے ہیں اور ان کے ہر فرد پر یہ کہنا صحیح ہے کہ یہ مرکب ہیں اور یہ خدا کے بنائے ہوئے اور اسی کے رچے ہوئے ہیں.آریہ کو ہمارے اس دعوئی سے ہرگز انکار نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ بھی مانتے ہیں کہ جڑھ میں خود بخود ترکیب پانے کی شکتی نہیں.جب ہر ایک مرکب مثلاً لیکھر ام مرکب اور مخلوق ٹھہرا تو حسب الحکم لیکھر امی علوم متعارفہ نمبر ۳ نمبر ہ جو کل میں ہوتا ہے وہی جزو میں بھی ہوتا ہے.ان مخلوقات ومرکبات کے اجزا بھی مرکب اور مخلوق ہوں گے.اور پھر اجزا کے اجزا بھی مرکب اور مخلوق ہوں گے اس

Page 90

۸۹ تصدیق براہین احمدیہ واسطے ثابت ہوا کہ مخلوقات اور مرکبات کے اجزا بھی مخلوق اور مرکب ہوں گے اور چونکہ وہی اجزا ان گل اشیاء کا مادہ ہیں اس واسطے ثابت ہوا کہ مادہ بھی آدی اور مخلوق ہے.انادی اور غیر مخلوق نہیں اور اگر آپ کی تکذیب کے صفحہ ۲۶ کی اخیری سطر صحیح ہے کہ جو چیز جزو میں ہے وہی گل میں ہوگی تو یوں کہا جاتا ہے کہ اگر ان مرکبات کے اجزاء غیر مخلوق اور انادی ہوتے اور ان اجزا میں یہ بات پائی جاتی تو کل ان کا یعنی یہ مرکبات ہم تم وغیرہ سب انادی اور غیر مخلوق ہوتے.آپ بھی تو یہی مانتے ہیں کہ ہم تم اور گل مرکبات انادی اور غیر مخلوق نہیں.پس ثابت ہوا کہ مادی دنیا کا مادہ اور اس کے اجزا بھی انا دی نہیں.مکذب.دوسری دلیل مادہ کے قدم پر نمبرا.دنیا نہ صرف ذرات سے بن سکتی ہے.اور نہ حکم سے.نمبر۲.کیونکہ قدرت قادر کی ایک صفت ہے اور کوئی صفت اپنے موصوف سے علیحدہ نہیں ہوسکتی ( بحکم علوم متعارفہ نمبر ۹) نمبر ۳ حکم بغیر محکوم کے عمل پذیر ہونا دھوکہ بازی ہے.نمبر ۴.اور حکم صرف شہد ہے.اور جگت کا شہد سے بنا ناممکن ہے بلکہ مادہ سے ، پس مادہ انا دی ہے“.مصدق جہاں تک اس دلیل پر گہری نگاہ کرتا ہے.اسے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ اگر مکذب کی دلیل کو تسلیم کیا جاوے تو اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ قدرت اور اس کا حکم اور اس کا شبد مادی دنیا کا جز و یا مادہ نہیں ہو سکتا.اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ صفات باری تعالیٰ اور چیز ہے اور مادی دنیا کا مادہ اور چیز ہے.کوئی صفت (اس کا حکم یا اس کا شہد یا اس کی قدرت) مادہ عالم کا عین نہیں اور نہ مادہ عالم سے اس کی وحدت الوجودی ہے.نہ اس کا جزو اور نہ صفات باری کو مادہ عالم سے ذاتی اتحاد ہے یا یوں کہئے کہ آپ کا یہ آریہ ورتی ویدانت مت صحیح نہیں.دلیل کے صرف اس قدر حصے سے مادہ کی انادیت اور مادے کا غیر مخلوق ہونا کچھ نہیں نکلتا.ہم مانتے ہیں کہ ہمارے وجود کا مادہ یا ہمارا مادہ ہمارے اجزا اور اعضا ہیں.شیر، چیتا، گھوڑے، ہاتھی کا وجود یا ان کا مادہ ان کے اعضا ہیں.صفات باری تعالیٰ یا اس کا حکم یا اس کی قدرت یا اس کا شہد ہمارا یا ہمارے اعضا کا جزو یا عین

Page 91

تصدیق براہین احمدیہ نہیں.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ حکم کا بدوں محکوم عمل پذیر ہونا دھوکہ بازی ہے.اگر حکم کامل اورست نہ ہو مگر اتنے قصے سے مادہ کا آدی یا انادی ہونا معلوم نہیں ہوتا اگر اس مقدار کو اور بڑھانا اور دلیل کو پورا کرنا مقصود ہو تو یوں ہو سکتا ہے کہ ہم دنیا کی مادی اشیا کو تقسیم اور تفریق قبول کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جس قدر اجزا ہیں ان کی علیحدگی ممکن یا محسوس ہے.ہمارے آریہ بھائی بھی قائل ہیں کہ ان مرکبات کے اجزا مہان پر لے میں چھن بھن اور جدا جدا اور منقسم ہوں گے اور مکذب کے علوم متعارفہ نمبرس میں یہ امر مسلم ہو چکا ہے.جو کل میں ہوتا ہے وہ اس کے اجزا میں بھی ہوتا ہے“.اور یہ بھی مسلم ہے کہ صفت موصوف سے جدا نہیں ہوسکتی دیکھو تکذیب صفحہ ۲۳ علوم متعارفہ نمبر9.تمام مرکب اشیاء منقسم اور متفرق اور مخلوق ہونے کے ساتھ متصف ہیں اس واسطے بحکم مکذب کے علوم متعارفہ نمبر ۳ کے ان مرکب اشیا کے اجزا بھی منقسم اور متفرق اور مخلوق ہونے کے ساتھ متصف ہوں گے.اور چونکہ صفت موصوف سے بحکم اس دلیل کے جس کو مکذب صاحب نے بیان کیا الگ نہیں.اس لئے ثابت ہوا کہ مرکبات کے تمام اجزا ہمیشہ منقسم اور متفرق اور مخلوق ہی رہیں گے.جب مخلوق ہونا ثابت ہوا.تو یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ انادی نہیں بلکہ آدی اور مخلوق ہیں نہ انا دی اور غیر مخلوق.پس ہمارا مطلب بھی یہی تھا.مکذب کی دلیل پر ایک اور نظر.آریہ صاحبان آپ کی ارواح اس جنم سے پہلے کسی علم کسی صفت کسی معرفت کے ساتھ موصوف تھے یا نہیں؟ اگر نہ تھے تو ارواح کی چتنا باطل اور اگر تھے تو وہ صفات آپ کے ارواح سے زائل ہو گئیں یا نہیں اگر زائل ہوگئیں تو ثابت ہو گیا کہ صفت کیا صفات بھی موصوف سے الگ ہو گئیں.اس صورت میں آپ کی دلیل کا ایک حصہ باطل ہو گیا اور اگر زائل نہیں تو بتائیے آپ کن کن علوم کے عالم تھے اور کس کس زمانے میں وہ صفات آپ کو لاحق ہوئیں.دلیل کا فقرہ نمبر ۳ حکم کا بغیر حکوم کے عمل پذیر ہونا دھوکہ بازی ہے“.عجب دھوکہ بازی ہے.حکم حاکم کے بغیر البتہ نہیں ہوسکتا.اور یہاں تو جب حکم ہوا.محکوم ہو ہی گیا.شاید قرآنی کلمہ کی نظر نہیں پڑا.مکذب.میٹر کے انادی ہونے کی تیسری دلیل.پدارتھ ودیا یعنی علم سائنس کا اصول

Page 92

تصدیق براہین احمدیہ ۹۱ یہ عربی دانی کا نتیجہ ہے ) کہ کوئی چیز نیستی سے ہستی میں نہیں آتی مگر ہستی سے.جو نہیں اس کا کسی طرح بہاؤ یعنی پر کاش نہیں ہوتا.اور جو ہے اس کا بہاؤ اور پرکاش ہوتا ہے.ہستی سے ہستی ہوتی ہے.اس کے برخلاف ہستی سے نیستی یا نیستی سے ہستی کبھی نہیں ہوسکتی.اس واسطے مادہ 66 انا دی ہے.مصدق براہین.علم اور سائنس کا پہلا اصول بایں معنے کہ نیستی ہستی کا مادہ اور اصل نہیں اور ہستی نیستی کا مادہ اور اصل نہیں ہوتی.صحیح ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ بہاؤ اور پر کاش اسی کا ہوتا ہے یا ہو گا جو ہے یا ہو گا مگر اس قصے کو مادہ کے انادی یا آدمی ہونے سے کیا تعلق ہے! ہم کب کہتے ہیں کہ موجودات اور مخلوقات خداوندی کا مادہ موجود اور مخلوق نہیں جس حالت میں موجودات اور مادی دنیا موجود ہے تو ضرور اس موجودات کا مادہ بھی موجود ہے.کسی چیز کا موجود ہونا تو یہی معنی رکھتا ہے کہ اس کا جزو کا مادہ موجود ہو.اور سائنس کا فقرہ بایں معنی بھی صحیح ہے کہ نیستی ہستی کی علت یا نیستی ہستی کی خالق نہیں ہوتی اور نہ بالعکس.الا ہم کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ جو ہمارا خالق ہے وہ بالکل ہستی ہے اور موجود ہے.ہرگز ہر گز نیستی نہیں.وہ ہستی ہے اور یہ کہ بچی ہستی کسی طرح نیست نہیں اسی واسطے اس کا پر کاش ہے ہم سائنس کا پہلا اصل تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیستی ہستی کا مادہ یا ہستی کا خالق نہیں ہوتی.اور نیست مادہ یا نیست خالق کا پر کاش یا ظہور نہیں ہوتا آریہ کے وکیل نے صرف یہاں تک دلیل کو بیان کر کے دلیل کے پورا کرنے سے سکوت کیا ہے چونکہ دلیل کی اتنی مقدار سے کوئی نتیجہ یا مدعا ثابت نہیں ہوتا.اس واسطے خاکسار دلیل کو پورا کرتا ہے.مادی دنیا کا وجود اور اس کا ظہور ہم دیکھتے ہیں اس واسطے ثابت ہوا کہ اس کا مادہ اور اس کی علت ضرور موجود ہے.اور پدارتھ ودیا یا سائنس سے یہ بھی ثابت ہے کہ مرکبات ایک حال پر نہیں رہتے مرکبات میں ہمیشہ تبدل و تغیر ہوتارہتا ہے.کبھی دو چیزیں باہم ایسے طور پر ملتی ہیں کہ ان کی اپنی پہلی خاصیت جو علیحدہ علیحدہ رہنے کی صورت میں تھی باطل ہو جاتی ہے.اور نئی صفات کی تیسری چیز ان سے پیدا ہو جاتی ہے ہم صاف دیکھتے ہیں کہ کوئلہ ، شورہ اور گندھک کی خاص ترکیب سے بارود بن گیا.جب

Page 93

تصدیق براہین احمدیہ ۹۲ اسے آگ لگائی تو بعد اس کے ریکا یک نیا جسم نرالی خاصیت کا پیدا ہو گیا.آکسیجن اور ہائیڈ روجن کے خاص میل سے پانی بن گیا.کبھی آکسیجن اور نائیٹروجن سے ہوا پیدا ہوگئی.نباتی اغذیہ سے حیوانی اجزا بنے اور نباتی یا حیوانی یا دونوں قسم کے اجزا کے ملنے سے انسانی اجزا بن گئے انسان مرد کے جسم میں خالص حالت میں انہیں اغذیہ نباتیہ یا حیوانیہ سے ایک اور قسم کے جانور پیدا ہوئے جن کو حیوانات منی کہتے ہیں ( بلکہ اگر خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ (العلق : ۳) سے وہی حالت سمجھی جاوے تو نہایت قریب ہے ) یا اور انسان پیدا ہو گیا.اور چونکہ ان اشیاء مرکبہ کو خاص قسم کی ہیئت اور خاص قسم کی شکل عارض ہے.اور یہ ترکیب اور باہمی بندش خالق کے سوا ممکن نہیں ( یہ امر یا خالق کا ہونا آریہ کو مسلم ہے اور اس وقت ہمارا خطاب دہر یہ سے نہیں ) اس واسطے معلوم ہوا کہ مادی دنیا جس سے ہوئی وہ ہستی ہے اور موجود ہے اور وہ ہستی اس کی خالق ہے اور یہ مادی دنیا اس ہستی کی مخلوق ہے.مثلاً میں مخلوق ہوں.جس مادہ سے یہ دنیایا میں مخلوق ہوا وہ بھی ایک مجموعہ اور مرکب ہے چند اور اشیاء کا جواس کا مادہ ہیں اور بعینہ ہمارے جیسی حالت احتیاج الی الخالق اور مخلوق ہونے کی اس کو بھی لاحق ہے.جیسے ہم کو یا جیسے ہم سے آئندہ آنے والی ہستی کو جو ہمارے اعمال و افعال یا تغیرات کا نتیجہ ہوگی.پس جب ہم اور ہماری موجودہ دنیا مخلوق ہوئی.اور ہم سے آئندہ آنے والی دنیا یا آخرت موجود یا مخلوق ہوگی ایسے ہی ہم سے پہلی دنیا جس کا ہم نتیجہ ہیں وہ مخلوق اور خدا کی بنائی ہوئی ہے.اور اس سے پہلے کی بھی اسی طرح مخلوق ہے علی ہذا القیاس ازل کی طرف بھی سلسلہ چلا جاتا ہے اور باری تعالیٰ ہمیشہ سے خالق اور ہمیشہ سے رازق اور ہمیشہ سے متکلم ہے.اور ہمیشہ ہمیشہ رہے گا اس کا کیا ثبوت ہے کہ کسی وقت یہ مرکبات بالکل علیحدہ علیحدہ تھے اور ان کا باہم میل جول نہ تھا.جیسا کہ آریہ صاحبان کا اعتقاد ہے چونکہ پہلی اشیاء ترکیب میں کبھی محض باطل اور مفقود ہو جاتی ہیں اس واسطے یقین ہوتا ہے کہ ہزاروں ہزار اشیاء اسی طرح معدوم اور ہزاروں ہزارنٹی.جو پہلے موجود تھیں پیدا ہوئیں اسی طرح ہزاروں ہزار آئندہ مفقود ہوں گی اور ہزاروں ہزار نئی پیدا ہوں گی.کبھی باری تعالیٰ کی ذات پاک کو صفات سے تعطیل اور بیکاری نہ ہوگی.اور نہ ہوئی جس دلیل سے یہ دنیا مخلوق ہے.اسی دلیل سے جس چیز کا یہ دنیا نتیجہ ہے.وہ بھی مخلوق ہے.کبھی انحلال تام اور کلی تفریق ان

Page 94

تصدیق براہین احمدیہ ۹۳ اجزائے لا یتجری کی ہوئی ہے نہ ہوگی.اس دلیل سے جو سائنس کی گواہی اور ہمارے مشاہدے سے ثابت ہے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مادہ انادی نہیں.بلکہ مخلوق ہے اور اس کا آدی مول ایشر ہے.طرہ یہ ہے کہ تکذیب کے صفحہ ۲۷ سطر میں یہ بات مکذب صاحب خود مان چکے ہیں اور وہاں مادہ کو خدا کا بنایا ہوا کہا ہے جہاں کہا ہے.اور مادہ خدا کے قبضہ قدرت میں انادی زمانے سے موجود ہے.قدرت اور علم اور ارادہ قدیم سے ہے اور بموجب قاعدہ قدیم خدا اس کا بنانے والا ہے“.میٹر یا مادہ عالم کے قدیم یا غیر مخلوق ہونے کی چوتھی دلیل بھی کچھ کم حیرت انگیز نہیں.کیا تو اس لئے کہ مکذب نے آدم کے قصے میں قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن تکرار کر کے پسے کو پیتا ہے.اور خود مکذب نے روح کے قدم کی دلیل کو یہاں مکرر چھانا ہے.اور کیا اس لئے کہ اس دلیل کا نتیجہ بطور سابقہ دلائل کے بیان کیا اور کیا اس باعث سے کہ اس دلیل کے اخیر میں باری تعالیٰ کو مادہ کا بنانے والا مانا ہے جیسے مذکور ہوا.اور کیا اس لئے کہ اس کے آخر پر روح کو چین اور زندہ مرکب جڑ دیا ہے جس کو میٹر کے مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کی بحث اس سے پہلے گزر چکی.اس چوتھی دلیل میں پہلے تو یہ کہا ہے.نمبر ۴ ” جس وقت بیان کیا جاتا ہے.دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ہے تو فی الفور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہاں سے اور کس چیز سے.محمدی جواب دیتے ہیں ” عدم میں سے بذریعہ قدرت خود کے بنایا.انتهى مصدق.ناظرین غور کریں کہ محمد یوں نے کہاں یہ جواب دیا ؟ کیا ان کے پاک قرآن میں ایسی بات ہے.کیا ان کی حدیثوں میں یہ روایت ہوا ہے؟ کیا ان کے ائمہ کا قول ہے؟ کیا ان کے سلف یا صحابہ اور تابعین نے ایسا کہا؟ ہمارے آریا کچھ تو جواب دیں.ہاں محمدیوں کے قول کے یہ معنے ہیں اگر انہوں نے کہا کہ یہ مادہ موجودہ زمانہ سے پہلے ایسا نہ تھا جیسا اب ہے.بلکہ یہ مادہ معدوم تھا موجود بھی نہ تھا.علاوہ بریں مادہ کو معدوم محض بلحاظ وجود خارجی کے کہا ہے.والا

Page 95

تصدیق براہین احمدیہ ۹۴ اسلام کا بچہ بچہ اور محمد یوں کا مجلسی بھی جانتا ہے کہ موجودہ دنیا اور آئندہ آنے والی اور گزری ہوئی دنیا تمام اللہ تعالیٰ کے علم میں موجود تھی.عدم محض کے تو یہ معنے ہیں کہ کسی طرح کہیں بھی اس کا وجود نہ ہو.حالانکہ دنیا کا علمی وجود تھا اور ہے.پس مکذب براہین کا یہ کہنا کہ محمدی جواب دیتے ہیں کہ دنیا عدم محض سے وجود میں آئی.علی العموم صحیح نہ ہوا بلکہ اتہام ہے جو محمد یوں پر لگایا گیا.جبکہ عدم مادہ کے یہ معنے ہوئے جو ہم نے بیان کئے.تو آپ کا سوال ہی اٹھ گیا اور محمد یوں کا یہ کہنا.اپنے سے بنایا“ اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہماری پیدائش کا باعث اور ہمارا خالق ہے محمد یوں کے اس کلام کے یہ معنے نہیں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کا ٹکڑہ ہے یا اللہ تعالیٰ ہمارا جزو بدن ہے.یہ آپ کا خیال اور غلط گمان ہے.اسلامی گروہ اس سے بالکل پاک ہے.اور آپ کا فرمانا.مادہ خدا کے قبضہ قدرت 66 میں انادی زمانہ سے موجود ہے.بے ریب تمام دنیا اور اس کا مادہ ازل سے ابد تک یعنی ہمیشہ سے ہمیشہ اس کے علم اور قدرت میں ہے اور رہے گا.مگر اس سے انادیت نہیں نکلتی بلکہ ہم کہتے ہیں جیسے ہمیشہ سے وہ اللہ تعالیٰ کی صفت علم اور قدرت میں ہے اور رہے گا.ایسا ہی اس کی صفت خلق کے تحت بھی ہے اور رہے گا.اسلامی گروہ ہندی آریوں کی طرح نہیں کہتا کہ مادہ عالم اور ارواح خدا تعالیٰ کی صفت خلق سے باہر ہیں.اور چونکہ کوئی جڑھ خود بخود نہ بن سکتی ہے اور نہ بناسکتی ہے.جیسے آپ نے اپنی اخیری دلیل میں کہا اس واسطے ثابت ہوا کہ مادہ بھی خود نہ بن سکا اور نہ مرکبات کو بنا سکا.والحمد لله ثم الحمد لله صفحہ ۲۷ سے پھر مکذب صاحب نے روح کی بحث شروع کی ہے.مجھے اس قصہ سے اب سروکار نہیں رہا.کیونکہ یہ بحث کہ روح مفرد ہے؟ یا مرکب بقدرضرورت گزرچکی ہے.اور مکذب نے بھی بجز ایک سنسکرت شلوک کے نقل کر دینے کے اس پر کوئی حکیمانہ بحث نہیں کی.اور وید کا کلام جسے مکذب نے لکھا ہے کہ روح کو شتر کاٹ نہیں سکتے.آگ جلا نہیں سکتی.پانی بھگو نہیں سکتا ہے.”ہوا خشک نہیں کر سکتی.وہ مفر د لطیف زندہ ہے“.بالکل ایک دعوی ہے جو بے دلیل ہے.

Page 96

تصدیق براہین احمدیہ ۹۵ کیا ثبوت اس امر کا کہ روح ایسی چیز ہے جیسے وید نے بیان کیا؟ مکذب - آیت شریف يَتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ (بنی اسرائیل: ۸۶) پر جس قدر کلام کیا ہے اب اسے لیتا ہوں ناظرین ذرا غور سے دیکھیں.مکذب.اب ناظرین پر یہ امر ہو یدا کرتا ہوں کہ قرآن نے روح کی بابت کون سی نئی تعلیم فرمائی ہے.سورہ بنی اسرائیل يَنتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِرَيْ (بنی اسرائیل:۸۶) اے محمد اگر تجھ سے روح کی بابت سوال کریں.کہو مجمل جواب کہ خدا کا حکم یا حکمت.اس سے بھی ثابت ہے کہ روح انادی ہے.مگر سمجھنا آسان نہیں تھا.اس واسطے خلقت کو حیرانی میں ڈالا.صریحا ثابت ہے کہ جب سے حاکم ہے تب سے حکم ہے.کیونکہ خدائے قدیم کا حکم و علم و ارادہ قدیم ہے.اور جب سے حکیم ہے تب سے حکمت ہے.بلکہ با ہمی لازم وملزوم ہیں انتھی.پھر مکذب صاحب نے بطور عادت قدیمہ کے کہا ہے.جبکہ خود قرآن ہی اس معاملہ میں کم زبان ہے.وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا (بنی اسرائیل : ۸۶) یعنی نہیں علم دیا تم کو مگر تھوڑا.زیادہ اعتراض مت کرو.اور مت پوچھو.پھر ایک جگہ کہا ہے ” قرآن قاصر البیان ہے“.پھر مرزا صاحب کو خطاب کر کے کہا ہے.تم حقیقت روح بیان کرو.اگر پدر نتواند پسر تمام کند.پھر کہا.سوائے اس آیت اور وہمی روایت کے اپنے سارے قرآن سے الخ ، غرض اس قسم کی بدتہذیبی سے کام لیا ہے کہ تمام عبارت کا نقل کرنا بھی مجھے اس لئے پسند نہیں کہ کہیں نقل کفر، کفر باشد کا مصداق نہ ہو جاؤں.مكذب صاحب! آپ کو عربی دانی کا بڑا دعویٰ اور قرآن کے سمجھنے کا بڑا ادعا کیا اسی مایہ پر افتخار تھا ؟ کیا وید مقدس کو بھی اسی طرح سمجھا ؟ اگر اور کچھ نہیں آتا تھا تو اس آیت شریف کا ماقبل اور ما بعد ہی دیکھ لیا ہوتا ! آریہ صاحبان سنو! حیات دو قسم کی ہوتی ہے.ایک جسمانی اور دنیوی اور دوسری روحانی یا اخروی.پہلی قسم کی حیات حاصل کرنے کے سامان اگر جڑھ پدارتھ میں اللہ تعالیٰ

Page 97

تصدیق براہین احمدیہ ۹۶ نے رکھے ہیں تو دوسرے قسم کے حیات کے اسباب بھی چین وستُو میں ضرور رکھے ہیں.قرآن میں دونوں محاوروں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے سنو! اول جسمانی حیات اور جسمانی زندگی کی نسبت فرمایا ہے.وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (البقرة : ۱۲۵) وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءَ مُبْرَكًا فَأَنْبَتْنَابِ، جَنْتٍ وَحَبَّ الْحَصِيْدِ وَالنَّخْلَ بسِقْتٍ لَهَا طَلْعُ نَضِيدُ (ق: ۱۱،۱۰) رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَأَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذَلِكَ الْخُرُوجُ (ق:۱۲) اور روحانی زندگی ، دھرم اوکت حیاتی، ایمانی حیات اور دھرم جیون کے بارے میں فرمایا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ (الانفال: ۲۵) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيُوةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (النحل: ٩٨) جیسے جسمانی زندگی کے واسطے جسمانی روح کی ضرورت ہے.ویسے ہی ایمانی زندگی کے واسطے کسی ایمان سکھلانے والی بلکہ ایمان دینے والی روح کی ضرورت ہے.اسی ایمان دینے والی روح کا تذکرہ اس آیت شریف میں ہے جس پر مکذب نے محض نا سمجھنے سے اعتراض کیا ہے اصل ے اتارا اللہ نے بادلوں سے پانی اور زندہ کیا اس کے ساتھ زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے.ے اتارا ہم نے بادلوں سے پانی برکت والا پھر لگائے ہم نے اس کے ساتھ باغ اور اناج کاٹنے کے.اور کھجور میں بلند جن کے خوشے نہ برتہ ہیں.رزق ہے بندوں کے لئے اور زندہ کیا ہم نے اس کے ساتھ مردہ شہر کو اسی طرح نکلنا ہے ( یعنی زمین سے پھر نکلنا ہے) ے اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بات سنو جب وہ تمہیں اس امر کی طرف بلاتا ہے جو تمہیں زندگی بخشے.۵ جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو ہم ان کو پاکیزہ زندگی بخشیں گے اور ہم ان کو اجر دیں گے ان کے اچھے کاموں کے عوض میں.

Page 98

تصدیق براہین احمدیہ ۹۷ یہ ہے کہ اس آیت کے حقیقی معنی سمجھنے میں اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.میں ماقبل اور مابعد کی آیات بھی نقل کرتا ہوں اور کلام الہی کی واقعی تفسیر خود کلام الہی کی رہنمائی سے کرتا ہوں امید ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے حظ وافی اٹھائیں گے.وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلَا يَزِيدُ الظَّلِمِينَ إِلَّا خَسَارًا وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِهِ ۚ وَإِذَا مَسَّهُ الشَّرُّكَانَ يَوْسًا قُلْ كُلُّ يَعْمَلُ عَلى شَاكِلَتِهِ فَرَبَّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَ اهْدَى سَبِيلًا وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا وَلَبِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا إِلَّا رَحْمَةً مِنْ رَّبِّكَ إِنَّ فَضْلَهُ كَانَ عَلَيْكَ كَبِيرًا قُل نَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمُ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا (بنی اسرائیل: ۸۲تا ۹۰) اب اس امر کے اثبات کے لئے روح سے مراد وہی کلام الہی ہے جس سے ایماناً مردہ ا اور کہہ دے حق آ گیا اور باطل دور ہو گیا یقیناً باطل دور ہونے والا ہی تو تھا.ے اور ہم قرآن سے مومنوں کے لئے شفا اور رحمت اتارتے ہیں اور ظالموں کو اس سے گھاٹا نصیب ہوتا ہے.ے اور جب ہم انسان پر فضل کرتے ہیں منہ پھیر لیتا ہے اور اسی (مال) کی طرف ہو جاتا ہے اور جب اس کو دکھ پہنچتا ہے نا امید ہو جاتا ہے.کہہ دے ہر ایک اپنی طرز پر عمل کرتا ہے تمہارا رب خوب جانتا ہے اس کو جو سیدھی راہ پر ہے.۵، اور تجھ سے اس روح ( قرآن ) کی بابت پوچھتے ہیں کہہ دے یہ روح میرے رب کا امر ہے.اور تم اسے مخالفو! کچھ سمجھتے بوجھتے نہیں.اور اگر ہم چاہتے یہ کلام جو تجھ پر وحی کیا ہے لے جاتے پھر تجھے ہم سے لینے کے لئے کوئی وکیل نہ ملتا سوا تیرے رب کی رحمت کے یقینا اس کا فضل تجھ پر بڑا ہے.کے کہہ دے اگر جن وانس اس پر متفق ہو جاویں کہ اس قرآن کی مانند لاویں تو ہرگز نہ لاسکیں گے گو وہ ایک دوسرے کے مددگار ہو جاویں.ہم نے اس قرآن میں ہر مثال مختلف طرزوں میں بیان کی ہے.پراکثر لوگوں نے کا فرمتی سے انکار کیا.

Page 99

تصدیق براہین احمدیہ ۹۸ لوگ حیات ابدی پاتے ہیں.اور جو ہم نے مراد و معنی لئے ہیں وہی حق اور منشائے فرقان مجید کے مطابق ہے خود قرآن کریم سے موید آیات نقل کرتے اور اس محاورے کو واضح کرتے ہیں.سنو! وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (الشوری:۵۳) انّى اَمْرُ اللَّهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوهُ سُبْحْنَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ يُنَزِّلُ الْمَلبِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِةٍ أَنْ انْذِرُوا أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ (النحل: ٣٢) رَفِيعُ الدَّرَجَتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ الثَّلَاقِ (المومن: (١٦) لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ ط وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمُ بِرُوجٍ مِّنْهُ وَيُدْخِلُهُمُ جَنَّتٍ (المجادلة: ٢٣) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ روح کلام الہی ہی کا نام ہے جس پر عمل کرنے سے ے اور ایسا ہی ہم نے تیری طرف اپنے امر سے روح بھیجی ہے.تو نہ تو کتاب ہی سمجھتا تھا.اور نہ ایمان پر ہم نے اسے نور بنایا ہے اس سے جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے ہدایت دیتے ہیں.اور یقینا تو سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے.ے اللہ کا امر آ گیا اب جلدی تو نہ کرو وہ بلند و برتر اس سے ہے کہ شرک کرتے ہیں.فرشتوں کو روح دے کر اپنے حکم سے جن بندوں پر چاہے اتارتا ہے کہ ڈر سناؤ کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پھر مجھ ہی سے ڈرو.سے بلند درجوں والا صاحب تخت کا اپنے امر سے جس بندے پر چاہتا ہے روح ڈالتا ہے تو کہ وہ ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈراوے.جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں تو انہیں نہ دیکھے گا کہ وہ ایسے لوگوں کو دوست رکھتے ہوں جو جنگ کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول سے خواہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا قبیلہ ہی کیوں نہ ہوں.یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں لکھ دیا ہے اور انہیں اپنی روح سے قوت دی ہے اور انہیں جنتوں میں داخل کرے گا.

Page 100

تصدیق براہین احمدیہ ۹۹ موتی اور مردہ بے ایمان زندہ ہوتے ہیں.بلکہ قرآن نے انبیاء اور ملائکہ کو بھی روح فرمایا ہے.کیونکہ وہ بھی اسی زندگی کے باعث ہیں جسے ایمان کہتے ہیں.إِنَّمَا المُسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللهِ وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ (النساء :۱۷۲) وَاتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنْتِ وَايَّدْنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (البقرة : ۸۸) ان آیات سے ناظرین کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ روح کی حقیقت کو قرآن نے کیسے بیان کیا ہے.یہ محاورہ روح کی نسبت اگر چہ میں نے قرآن سے ثابت کر دیا ہے اور آفتاب کے سامنے کسی ستارہ کی حاجت نہیں.مگر مزید تذکرہ کے واسطے کتب سابقہ سے بھی بیان کرتا ہوں.” پھر جبکہ وہ تسلی دینے والا جسے میں تمہارے لئے باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی روح حق جو باپ سے نکلتی آوے تو وہ میری گواہی دے گا.یوحنا ۱۵ اباب ۲۶ ” لکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں سچائی کی راہ بتا وے گی.یوحنا۱۶ باب ۱۳ اس لئے تم سے کہتا ہوں لوگوں کا ہر طرح کا گناہ اور کفر معاف کیا جاوے گا مگر وہ کفر جو روح کے حق میں ہولوگوں کو معاف نہ ہوگا‘ متنی ۲ اباب ۳۱.اور نیکی کو زندگی اور بدکاری کو موت کہنے کا محاورہ تو اس قدر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عند الشرع یہی حقیقی معنے ہیں.مگر میں اب اس قصہ میں زیادہ طوالت لا حاصل جانتا ہوں.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ.میں اگر یہ پوچھا جاوے کہ یہ سوال عیسائیوں اور یہودیوں نے کیوں کیا ؟ تو وجہ ظاہر ہے.یوحنا کی انجیل میں جیسے سابق گزر چکا اس روح کی آمد کی خبر تھی اور بہت لوگوں کا خیال تھا پس حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا گیا کہ قرآن کریم جسے تو نے بارہا روح کہا ہے کس کی تصنیف ہے تو خود قرآن کریم نے اس کا یوں جواب دیا کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم اور اس کا کلام ہے.اور جو کہا وَمَا أُوتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا اس کے لے اس کے سوا نہیں کہ عیسی بن مریم اللہ کا بھیجا ہوا اور اس کا مخلوق ہے جو مریم کی طرف ڈالا گیا اور اس کی روح ہے پس ایمان لا واللہ پر اور اس کے رسولوں ہیں.اور ہم نے عیسی بن مریم کو کھلی دلیلیں دیں اور روح پاک سے اس کو قوت دی.

Page 101

تصدیق براہین احمدیہ مخاطب وہی سائل ہیں جن کو بہت ادلہ سے ثابت کر دیا گیا تھا کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے.روح کی نسبت یہود کا سوال ہے یا عیسائیوں یا دونوں کا یا مان لیتے ہیں کسی ایسے دیا نندیوں کے ہم خیال کا سوال ہے جو انسانی روح کے غیر مخلوق ، قدیم ، انادی ہونے کا معتقد تھا کسی کا سوال ہو کسی طرح کا سوال ہوا ایسا وسیع جواب قرآن کریم نے دیا ہے کہ سب کو حاوی ہے.اور جواب دہندہ کی بے علمی یا قلت علم کا یہاں ذکر نہیں بلکہ مخاطبین کی بے علمی کا ذکر ہے جو باوجود دلائل واضح اور حجت ہائے قاطع کے سر تسلیم جھکانا پسند نہ کرتے تھے.سید نا حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے دشمن اور عد ومبین شیطان لعین کا قصہ اور اس قصہ پر آریہ بلکہ دیا نندی پنتھ کے اعتراضات مکذب براہین نے آدم کے قصہ کو کچھ قرآن سے اور کچھ کہیں اندر من مراد آبادی کی تصانیف سے نقل کر کے اسلام پر اعتراضات ذیل بیان کئے ہیں.دیکھو تکذیب صفحہ نمبر ۳۲.دیکھو تکذیب صفحہ نمبر ۳۲ پہلا اعتراض محمد یوں پر خدائے محمد یاں بے علم اور نافہم اور مکار اور دھوکہ باز اور فریبی بلکہ حیلہ پرداز ہے.کیونکہ اول.فرشتوں سے آدم کے پیدا کرنے میں مشورہ لینا صلاح پوچھنا.ضرور بے علمی کا مثبت ہے اور جو اپنی عقل نہیں رکھتا اور لوگوں کی صلاح برتا ہے وہ کسی طرح خدائی کے لائق نہیں.دوم.فرشتوں نے معقول اور فاضلانہ جواب دیا.آدم کے چال چلن اور برائیوں سے فرشتوں نے خدا کو آگاہ کیا.مگر اس نے ہٹ کی.اس واسطے نافہم ہے.کیونکہ وہی ظہور پذیر ہوا جو فرشتوں نے کہا تھا.سوم.فرشتوں سے مکر کیا.جب فرشتوں نے خدا کو شرمندہ کیا اور کہا ہم تیری حمد اور تقدیس کرتے ہیں.کیا خون اور فساد کرنے والے آدم کو تو باستثنائے ہمارے اپنا نا ئب کرے گا.

Page 102

تصدیق براہین احمدیہ 1+1 تب خدا نے پوشیدہ آدم کو مخلوقات کے نام سکھلائے اور پھر پارلیمنٹ یعنی فرشتوں کو کہا اگر تم بزرگ ہو اور اپنی عقل پر فخر کرتے ہو تو تمام مخلوقات کے نام بتلاؤ.اس سوال کا جواب فرشتوں سے نہ بن آیا.تب خدا نے اپنے پالتو طوطے کو کہا کہ اے آدم بتا دے ان کو نام ان کے.تب آدم نے بتا دیے.خدا نے صریح و توضیحا مکر کیا فریب کیا دھوکہ دیا.داؤ کھیلا.پس خدا انہیں صفات سے موصوف ہے.دوسرا اعتراض.شیطان کی پیدائش خدا کے ارادہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کے احاطہ اقتدار سے باہر ہے یا اس کی مرضی کے برخلاف اگر ارادہ اور قدرت سے باہر نہ ہوتے تو شیطان کو اپنے مقربین ملائک کا معلم نہ بناتا اور جب عمدہ شیطانیت کی تعلیم دے چکا تو اس وقت کنبہ کرن کی نیند سے خدائے محمد یان بیدار ہوئے.تیسرا اعتراض.قرآنی خدا عالم الغیب بھی نہیں.اگر عقل رکھتا اور حور وغلمان کی محبت سے آزاد ہوتا وقت پر یا وقت سے آگے سوچتا.مگر وہ تو محمد شاہ رنگیلے یا واجد علی شاہ کی طرح زائچہ حمل میں بیٹھا ہوا تھا.والا شیطان سے سجدہ کرنے کی بابت پوچھ کر شرمندہ نہ ہوتا.چھ دانی و پرسی سوالت خطار چوتھا اعتراض.خدائے محمد یاں علم مباحثہ سے نا واقف اور ساتھ ہی زود رنج ہے اور تعصب والا جو اسے معقول جواب دے اس پر لعن طعن کرتا ہے.فرشتے کاٹ کے پتلے غیر اللہ کو سجدہ کر کے ہی کافر ہوئے اور شیطان نے سمجھا مخلوق کو سجدہ کفر ہے.مست کھڑا رہا.جب خدا نے وجہ پوچھی تو عمدہ وجہ بیان کی.خدا نے کہا آدم کو مخلوق کے نام آنے سبب بزرگی ہے.شیطان نے کہا مجھے تیرے عشق سے.خدا نے کہا آدم خاکی ہے اور خاک پاک.شیطان نے کہا وہ عرض کثیف ہے میں جو ہر لطیف ہوں.خدا نے کہا اس کو میں نے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے.شیطان نے کہا مجھے تو نے قدرت سے، بناوٹ سے قدرتی عمدہ ہے.خدا نے کہا کہ تو عزت والا ہے یا متکبر.

Page 103

تصدیق براہین احمدیہ ۱۰۲ شیطان نے کہا بسبب علم و حکمت کے عزت والا ہوں.خدا نے کہا جا چلا جا.یہاں سرکشی مت کر.پانچواں اعتراض.شیطان خدا سے زور آور بھی ہے کیونکہ خدا شیطان کو گالیاں دیتا ہے اور لعنتیں کرتا اور شیطان کا بال بیکا نہیں ہوتا.شیطان کا قول ہے.اے خدا تو مباحثہ میں بند ہو گیا جواب سے دردمند ہوا.اب روتا اور گالیاں دیتا ہے اپنی حرمت کھوتا ہے.چونکہ یہ تیرا مکان ہے اس لئے بموجب دفعہ ۴۴۴ تعزیرات ہند مداخلت بے جانہیں کرتا“.پھر مکذب نے شیطان کے مقدمہ کا قطعی فیصلہ دیا ہے اور اس میں اخیر روبکاریوں لکھی ہے.بقول محمد یاں شیطان نے خدا کا دیدار بھی دیکھا.خدا سے باتیں بھی کرتا رہا.فرشتوں کا معلم اول بھی تھا با وجود ایں ہمہ سوائے خدا کے اور کسی کو نہیں مانتا تھا گویا موحد تھا یا صوفی مذہب عالم اجل ہونا اس کا محتاج بیان نہیں.فضیلت میں اس کے ہم پلہ کوئی ملائک یا انسان نہیں.پھر مجیب الدعوات (ایوب کی کتاب) اور برارندہ حاجات، پسران آدم کو اس کا مرہون ہونا چاہیئے کیونکہ وہی باعث ایجا د اولاد آدم ہوا.اگر وہ آدم کو دانہ گندم نہ کھلا تا ان کو اس عالم میں کون لاتا.جب آدم اور اولاد آدم کو شیطان نے بہکایا تو پھر شیطان کو کس نے بہکایا اور خدا سے مقابلہ کرایا.پھر مکذب نے کہا کہ قابل غور دو امر ہیں.اول.پر میشور دانا گل ہے یا نہیں.دوم.کسی مخلوق کو سجدہ کرنا کفر ہے یا نہیں.اے مومنو! سخت حیرت کا مقام اور قابل الزام کلام ہے کہ خداوند پاک کفر کا حکم دے اور جو اس کے کفر کا حکم نہ مانے اسے مطعون ٹھہراوے.

Page 104

تصدیق براہین احمدیہ مکذب نے پھر کہا ہے.١٠٣ عام محمد یوں کا عقیدہ ہے کہ خدا سے خیر اور شیطان سے شر آفریدہ ہے.یعنی خیر کا خالق رحمن اور شر کا خالق شیطان ہے.ثبوت.إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوةِ ۚ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائدة: ٩٢) أَلَمْ أَعْهَدُ إِلَيْكُمُ يُبَنِي أَدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَنَ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوُّ مُّبِينٌ وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبلًا كَثِيرًا أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ (يس: ۶۱ (۶۳) کیا ممکن ہے.نادان بے وقوف کے پو بارہ اور دانا حق پرست پشیمانی اٹھاوے.قرآن میں خدائے محمد یاں شیطان سے مقابلہ کرنے میں ترساں ہے.یہ اس کلام کا اختصار ہے جس کو مکذب براہین نے صفحہ ۳۲ سے ۴۷ تک لکھا ہے.مصدق - سبحنك لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيمُ (البقرة: ۳۳) چونکہ تکذیب میں آدم کے قصہ پر مذب براہین نے خاص قسم کی تہذیب کو دکھایا ہے.اس واسطے میری راستی پسند طبیعت کا منشاء ہے کہ اس قصہ کو جہاں تک قرآن کریم اور احادیث صحیحہ اور تاریخ معتبرہ سے پتہ لگ سکتا ہے بیان کروں اور دکھاؤں کہ یہ قوم جو اپنے تئیں آریہ کہتی ہے کس قدر راستی کی حامی ہے میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ بھلوں اور بُروں کا ہمیشہ مقابلہ ہوتا رہا اور انجام کار کامیابی اور فتمندی کا تاج راستبازوں کے سر پر رکھا گیا.سعیدوں کے ایک مورث اعلیٰ سعید کا قصہ قرآن کریم نے مکرر عبرت کے لئے بیان کر کے مشاہدہ کرایا ہے کہ ہمیشہ بُرے بھلوں پر حملہ آور ہوتے رہے.مگر انجام کار بھلوں ہی کی فتحیابی ہوتی رہی اور اشقیا ہمیشہ شقاوت کا نتیجہ پاتے رہے.اس سعید کا نام آدم علیہ السلام تھا.اس کا مورث اعلیٰ ہونا یہود کو توریت سے اور عیسائیوں کو نیوٹسٹمنٹ سے ظاہر ہے.عرب کے لوگوں کو اپنی

Page 105

تصدیق براہین احمدیہ ۱۰۴ قومی اور ملکی روایت اور یہود اور عیسائیوں کے قرب سے یہ قصہ معلوم تھا اور غالب عمرانات کے لوگ آدم علیہ السلام کے اس دشمن کی بدحالت سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ تمثیل سے بہتر اور نتائج کے دکھانے سے زیادہ کوئی عمدہ ذریعہ روحانی اور اخلاقی تعلیم کے لئے نہیں ہوسکتا.باری تعالیٰ نے ایک خاص ملک اور ایک خاص زمین میں آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ آدم کو خلیفہ اور امام اور دینی دنیوی بادشاہ بناوے اس ملک کے دیوتا اور سروں * اور ملائکہ کو الہاماً آگاہ فرمایا کہ میں اس زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.غور کرو اس سے پہلی آیت میں جو معترض نے آدم کے قصہ میں لکھی ہے.وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة: ٣١) الارض کا الف اور لام اگر چہ عموم اور استغراق کے معنے بھی دیتا ہے.مگر خصوصیت کے معنے بھی دیتا ہے.ہر دو معنے اپنے اپنے موقع پر لئے جاتے ہیں.یہاں آدم علیہ السلام کے ایک جگہ سے نکالے جانے اور دوسری جگہ چلا جانے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جہاں آدم علیہ السلام خلیفہ * نوٹ.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب اشرار کی فتنہ پرداز حرکات حد سے بڑھ گئیں.اور اخیار کو امن کی جگہ ملنی ان کے ہاتھوں دشوار ہوگئی.باری تعالیٰ کی قاہر تقدیر نے ان اخیار میں سے جو انتظام ملک رانی اور سیاست مدن میں اقران و امثال کی نسبت خاص امتیاز رکھتا تھا اسے چن لیا.اس نے اپنی تدابیر کی خوبی سے انہی نیکوکاروں کو مجموعی اور قوی ہیئت میں لا کر دشمنان حق کا استیصال کیا.بنی اسرائیل کی برگزیدہ مگر اس وقت شکستہ حال جماعت کو جو سفاک دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے تھے حضرت یسعیا نبی بشارت دیتے ہیں کہ بہت جلد ایک جوان عورت ایک بچہ جننے والی ہے جو درماندہ قوم کا نجات دینے والا ہوگا.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ارض شام کے صلحا اور عارفین کو (بحسب اختلاف السنہ انہیں اُسر کہو.دیوتا کہو.ملائکہ سے تعبیر کرو) الہاما خوشخبری دی کہ میں ایک ایسا آدمی مبعوث کیا چاہتا ہوں جو علاوہ صلاح و تقویٰ کی صفت کے امور دنیوی کی باگ ہاتھ میں لینے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو.وہ سادہ اور پاک لوگ جو جفا کار اشرار کے دست تعدی سے تنگ آئے ہوئے تھے اپنے پہلے تجربہ کی بنا پر جو وہ ظالموں کی نسبت کر چکے تھے بولے وہ بھی کوئی ایسا ہی خون ریز بے رحم ہوگا جیسے عملی نمونے آگے موجود ہیں.اللہ تعالیٰ نے پھر جیسا سیاق کلام سے مفہوم ہوتا ہے اس شخص کا نشان انہیں دیا.ان ملائکہ کو اس کی صفات و حالات کی تحقیقات کے بعد پوری تسلی ہوگئی اور اس کے محاسن کو دیکھ کر وہ دنگ ہو گئے.ے جب کہا تیرے رب نے ملائکہ کو کہ میں اس سرزمین میں ایک خلیفہ بنایا چاہتا ہوں.

Page 106

تصدیق براہین احمدیہ ۱۰۵ بنائے گئے تھے.وہ ایک خاص ملک تھا اور جہاں آدم پیچھے روانہ کئے گئے وہ اور ملک تھا اس لئے یہاں الف لام تخصیص کے معنے رکھتا ہے.اور لفظ خلیفہ اور الا رض کے معنے معلوم کرنے کے واسطے آیت ذیل کو پڑھنا چاہیئے.يدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (ص:۲۷) اس آیت میں لفظ خلیفہ اور لفظ الارض سے اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ الف ولام خصوصیت کے معنے دیتا ہے اور آگے چل کر لفظ جنت کی تحقیق میں ہم اور زیادہ تفصیل کریں گے تفاسیر میں لکھا ہے.فهموا من الخليفة انه الذي يفصل بين الناس ما يقع بينهم من المظالم و يرد عنهم المحارم والماثم قرطبی ابن كثير زير آيت البقرة: ۳۱ والصحيح انه انما سمى خليفة لانه خليفة الله في ارضه لاقامة حدوده و تنفيذ قضاياه ـ فتح البيان الخليفة هو من يخلف غيره والمعنى خليفة منكم لانهم كانوا الخليفة هو.سكان الارض او خليفة الله فى ارضه و كذالك كل نبيـ نحو يا داؤد انا جعلناك خليفة في الارض تفسير مدارك - لے اے داؤد ہم نے تجھ کو اس زمین میں خلیفہ بنایا سو تو لوگوں میں حق حق فیصلہ دیا کیجیؤ.لفظ خلیفہ سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے تنازعات با ہمی کو فیصل کرے.اور نا کر دنی امور سے انہیں باز رکھے.قرطبی.ابن کثیر.ے اور اصل یہ ہے کہ اسے خلیفہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کا خلیفہ بن کر اس کی زمین میں حدود کو قائم کرتا اور اور احکامات کو جاری کرتا ہے.فتح البیان ے خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کا قائم مقام ہو.آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تم میں کا خلیفہ ہے.کیونکہ وہ لوگ زمین کے باشندے تھے.اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اللہ کا خلیفہ ہے اس کی زمین میں.اور اسی طرح ہر نبی اس کا خلیفہ ہے مثلاً اے داؤد! ہم نے تجھے اس زمین میں خلیفہ بنایا.تفسیر مدارک

Page 107

تصدیق براہین احمدیہ 1+4 غرض اس زمین کے تمام مقدس فرشتوں کے مقدس گروہ نے آدم علیہ السلام سے پہلی قوموں کی بدا طواری اور کافروں، ڈشٹوں ، دیسیوں، شیطانوں اور آسروں کے برے کام اور بدچلنی دیکھی ہوئی تھی عالم الغیب تو بجز ذات پاک باری تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں الا من شاء اللہ نہ انبیاء نہ اولیاء.وہ ملائکہ بھی ایسے ہی محدود العلم.محدود التجربہ مخلوق تھے.اپنی کم علمی اور غیب نہ جاننے کے باعث اور کچھ خلیفہ کے لفظ سے جس کے معنی نائب اور قائم مقام کے ہیں.غلطی سے سمجھ بیٹھے کہ یہ آدم بھی آدم ہے پہلی قوموں کی طرح فساد قتل ، اور سفک دمانہ کرے.اس آدم کی واقعی نیکی اور نیک چلنی کا ان کو علم نہ تھا.اس لئے باری تعالیٰ کی معلی بارگاہ میں عرض کیا.أتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ (البقرة: ٣١) بزرگوں دیوتاؤں کا کام تو یہی تسبیحات اور تجید الہی اور باری تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے.اور بس، وہ بیچارے اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت اور اس کے کاموں کے اسرار سے کیا واقف کہ فقط لسانی تحمید و تقدیس سے دنیوی انتظام اور دینی کام اس دار نا پائیدار کے نہیں چلتے.میرا یہ کہنا کہ آدم سے پہلے اور قو میں دنیا میں آباد تھیں اول تو قرآن کی اس آیت سے ظاہر ہے بلکہ مکذب نے بھی اس امر کو تکذیب میں تسلیم کیا ہے.فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ (البقرة: ۳۵) اور لفظ مِن کے معنی بعض کے ہوتے ہیں اور کان ماضی کا صیغہ ہے.اور اخبار الدول اور آثار الا قل کی چوتھی فصل میں لکھا ہے.پہلے ہی سے فتنہ وفساد کی رویں اور شر کے طوفان تھوڑے چل رہے ہیں.یہ بھی تو کوئی از این قبیل ہی ہوگا.تیرا جلال ظاہر کرنے کو ہم بھی آخر ہیں ہی.ے ان سب نے اس کی اطاعت کی مگر ابلیس نے ابا کیا اور گردن کشی کی اور باغیوں میں سے ایک وہ بھی ہو گیا.

Page 108

تصدیق براہین احمدیہ روی مــجــاهــد ـ عن ابن عباس رضی ا الله عنه قال كان في الارض قبل الجن خلق يقال لهم الجنّ، والبنّ، والطم، والرمّ وانقرضوا وذكر غيره ان اول الله من سكن الأرض امة يقال لهم الجنّ والبنّ ثم سكنها الجنّ قاموا يعبدون ) زمانًا فطال عليهم الامد ففسدوا فارسل الله اليهم نبيا منهم لقوله تعالى يا معشر الجن والانس الم ياتكم رسل منكم و قيل ملكا منذرًا يقال له يوسف فلم يطيعوه و قاتلوا فارسل الله عليهم الملائكة فاجلتهم الى البحار اور تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے.فسدت الجن في الارض فبعث اليهم طائفة من الملائكة فطر دوهم الى البحار و رؤس الجبال واقاموا مكانهم فتح البيان اسكن الجن في الارض فمكثوا فيها دهراً طويلاً ثم ظهر فيهم الحسد والبغـى فـافسدوا فيها فبعث الله تعالى عليهم جندًا من الملائكة يقال له الجنّ و هم خزان الجنان اشتق لهم اسم من الجنّة رأسهم ابليس و تفسیر سراج المنير خطیب شربینی جزء اصفحه ۹۵ كان رئيسهم- وعن مجاهد عن عبد الله بن عمر و كان الجن بنو الجان في ۲۰۰۰ الارض قبل ان يخلق آدم بالفي سنة فـافسدوا في الارض وسفكوا لے مجاہد ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جن سے پہلے یہاں زمین پر ایک لوگ رہتے تھے جنہیں جن ، بن حلم ، رقم کہتے تھے اور وہ سب نا پید ہو گئے.اور ایک شخص کا قول ہے کہ زمین کے پہلے باشندے ایک قوم تھی جنہیں جن اور بن کہتے تھے.پھر اس پر جن آباد ہوئے.کچھ دنوں تو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بنے رہے پھر لگے شرارتیں کرنے تو اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کی طرف ایک نبی بھیجا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے گروہ جن وانس کیا تم میں سے تمہاری طرف رسول نہیں آئے؟ کہتے ہیں ڈرانے والا بادشاہ اس کا نام تھا یوسف.انہوں نے اس کا کہا نہ مانا اور اُس سے لڑنے کو کھڑے ہوئے تب اللہ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو بھیجا.انہوں نے ان باغیوں کو سمندر کی طرف نکال دیا.سے جنوں نے زمین میں فساد برپا کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر ملائکہ کو بھیجا وہ انہیں پہاڑوں اور سمندر کی طرف ہنگا کر ان کی جگہ آباد ہو گئے.

Page 109

تصدیق براہین احمدیہ الدماء فبعث الله جندًا من الملائكة فضربوهم حتى الحقوهم بجزائر البحور ابن كثير ( زیرآيت بقرة : ۳۱) ان عبارات سے صاف واضح ہوتا ہے جیسے ہمیشہ فاتح لوگ قلب ملک پر قابض ہو جاتے ہیں.ایسے ہی ملائکہ اور وہ دیوتا جن کے سامنے یا جن پر آدم علیہ السلام خلیفہ بنائے گئے شیاطین پر فاتح تھے.اور شیاطین ذلیل اور خوار ہو کر دور دور بلاد میں بھاگ گئے اور امام الائمہ حضرت سیدنا امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے جیسے تفسیر کبیر میں لکھا ہے اس آدم علیہ السلام سے پہلے ہزار در ہزار آدم گزر چکے ہیں.حضرت شیخ محی الدین بن عربی رحمۃ اللہ فتوحات مکیہ کے باب حدوث الدنیا میں فرماتے ہیں.” میں ایک دفعہ کعبہ کا طواف کرتا تھا.مجھے کچھ لوگ طواف کرتے ملے.ان کی حالت سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کوئی روحانی گروہ ہے.فــلـت لـواحــد مـنهـم من انتم فقال نحن من اجدادك الاول فقلت كم لكم من الزمان والمدة فقال بضع واربعون الف سنة فقلت ليس لادم قريب من تلك السنين فقال عن اى ادم تقول عن هذا الاقرب اليك او غيره فـفـكـرت فـتـذكـرت حديثا من رسول الله صلى الله عليه و سلم ان الله خلق قبل أدم المعلوم عندنا مائة الف آدم شیخ صاحب کہتے ہیں میں عالم کشف میں حضرت ادریس نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے ملا اور اس کشف کی صحت پر سوال کیا.فقال ادريس صدق الخبر وصدق شهودك و مكاشفتك جب ملائكه ، دیوتا نے اپنے اس غلط قیاس کے باعث وہ عرض کی جس کا ذکر آیت اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا مِیں میں نے ان میں کے ایک سے کہا آپ کون لوگ ہیں اس نے کہا ہم تیرے پہلے باپ دادوں سے ہیں.میں نے کہا تمہیں کتنا عرصہ ہوا.کہا قریب پچاس ہزار سال کے.میں نے کہا اس ہمارے آدم کو تو اتنے برس نہیں ہوئے.اس نے کہا تو کس آدم کی بابت کہتا ہے اس اپنے قریبی آدم کی بابت یا کسی اور کی بابت.میں سوچ میں پڑ گیا اتنے میں مجھے ایک حدیث یاد آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس معلوم آدم سے پہلے لاکھ آدم پیدا کئے.

Page 110

تصدیق براہین احمدیہ 1+9 گزرا تب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا.إلى أعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: (۳۱) اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کی غیب دانی پر غور کرو.کیسی غیب دانی ہے اور وہ پاک ذات اپنے کے ساتھ کیسا محیط الکل ہے.کسی تاریخ سے قرآن کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے کسی قسم کا فساد فی الارض باسفك دماء ہوا ہو.ملائکہ کا اعتراض حضرت آدم پر تھا.اور اعتراض بھی یہ کہ فساد فی الارض اور سفك دماءاس سے سرزد ہوگا.مگر حضرت آدم ان عیوب سے پاک اور بری نکلے.اگر حضرت آدم کی اولاد میں سے کوئی شخص ان کی طرز پر نہ چلا تو اس کے جرم سے حضرت قصور وار نہیں ہو سکتے اولاد کے گناہ سے باپ کو بدنام کرنا اور بیٹے کے قصور پر باپ کو ملامت کے قابل بنانا بے انصافی ہے.باپ کی کرتوت سے بیٹا بدنام ہو تو ہومگر بالعکس بالکل غلط ہے.ہاں حضرت آدم شیطان کی ناراستی اور قسم پر دھوکہ کھا جاتے تو ممکن تھا.کیونکہ نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں.نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے نیک گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں.شیطان نے تو حضرت آدم سے قسم کھائی تھی.جیسے آیت ذیل سے ظاہر ہے.وَقَاسَمَهُما إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّصِحِينَ فَدَلْهُمَا بِغُرُورٍ (الاعراف: ۲۳:۲۲) مگر حضرت آدم نے شیطان کے کہنے پر عمل نہیں کیا اور نہ شیطان کے دھوکے میں آئے ہاں جب آدم درخت ممنوع کی ممانعت بھول گئے.جیسے عنقریب آتا ہے اور اس درخت کو استعمال کر چکے تو اس نسیان اور عدم حزم اور عدم احتیاط کے باعث اس ملک کے قیام سے روکے گئے جہاں مقیم تھے.اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا (البقرة : ٣٩) لے ان سے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں پھر انہیں دھوکے کی راہ دکھائی.ے یہاں سے سب کے سب نکل جاؤ.

Page 111

تصدیق براہین احمدیہ 11.یہ حکم اللہ تعالیٰ کے فضل کا نشان تھا.حضرت آدم غالبا ہند بلکہ سراندیب میں چلے آئے جیسے جابر، ابن عمر سید نا علی اور جماعت صحابہ اور تابعین اور مَنْ بَعْدَهُمُ سے مروی ہے.کیونکہ جس مکان پر کسی سے غلطی ہوتی ہے وہ منحوس جگہ اس قابل نہیں ہوتی کہ محتاط لوگ وہاں رہیں.علاوہ بریں ایسے مکان سے ہجرت کرنا آئندہ کے واسطے ہشیار اور خبر دار بنا دیتا ہے.ہاں حسب اپنشد ہائے بید ملائکہ یعنی دیوتا ملزم ہو سکتے ہیں کیونکہ سر ( یعنی فرشتے) با اسر کہ شیاطین باشند برائے جنگ کردن با ہمد گر جمع میشوند (اپنیشد چہاندوک ادیہائے اوّل) اللہ تعالیٰ نے ملائکہ دیوتا اور سروں کو آدم کے خلیفہ بنانے پر جب یہ فرمایا.اتى أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ.(البقرة: ٣١) اس دعوے کی نہایت لطیف دلیل بتائی.دعوئی تو یہ فرمایا کہ بے ریب میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اس دعوئی کا ثبوت یوں دیا.وَعَلَمَ ادَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَهَا (البقرة: ۳۲) آدم کو چیزوں کے نام سکھائے اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو دی اتنا تو ثابت ہوا کہ جو چیز آپ کو سکھائی گئی وہ فرشتے نہیں جانتے تھے.اگر وہ جانتے تو اس چیز کے بنانے سے عاجز آکر یہ نہ کہتے.شبختك لا علمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرة: ۳۳) آدم کو ایسی بات تعلیم کر دینی جس کا علم فرشتوں کو نہ ہو.ضرور اس کا مثبت ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ کچھ جانتا ہے جسے فرشتے نہیں جانتے.اگر فرشتے جانتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اگر آدم کو پڑھا دیا تھا گو ہم نے مانا کہ علیحدہ پڑھایا تھا.تو واجب تھا کہ فرشتے بدوں اس کے کہ خدا سے پڑھتے بتلا دیتے.اور اگر نہ بتلا سکے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمودہ ا میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا.

Page 112

تصدیق براہین احمدیہ أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: ۳۱) بالکل سچ تھا.جب وہ ایسا علیم تھا کہ فرشتے اس کے علوم سے بے خبر ہیں تو اس کے کسی فعل پر کسی کو خواہ ملائکہ کیوں نہ ہوں اعتراض کا موقع نہیں.چونکہ حضرت آدم کی خلافت ان کے کمال علمی کے باعث ثابت ہوگئی اور علمی کمال بطریق اولی تسبیح اور تحمید کا باعث ہوتا ہے.جیسے قرآن کریم نے کہا.إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعَلَموا (فاطر:۲۹) يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجُتٍ (المجادلة:۱۲) تو حضرت آدم ملائکہ سے بڑھ گئے اور ان پر فضیلت پاگئے.جن باتوں پر خلافت کا مدار ہے اس آیت میں بیان ہوئی ہیں.انَّ اللهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِكًا قَالُوا رَأَى يَكُوْنُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ (البقرة: ۲۴۸) اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اس خلیفہ اور حاکم کی اطاعت کرو.الہی خلفاء کی تابعداری اور فرمانبرداری انسانی ضرورت، تمدن اور سیاست کا لابدی مسئلہ ہے.اسی واسطے جامع العلوم کتاب قرآن کریم اس بارے میں حکم دیتی ہے.اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء :۲۰) اللہ کے بندوں سے جو اللہ سے ڈرتے ہیں وہ جاننے والے ہی ہیں.ے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا.اللہ ان کے درجے بلند کرے گا.سے اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے.انہوں نے کہا ہم پر اس کی بادشاہی کیونکر ہو سکے گی بلکہ ہم اس کی نسبت بادشاہی کے زیادہ حق دار ہیں.اور اس کے پاس مال کی طرف سے کوئی وسعت نہیں.اس نے کہا اللہ نے اسے تم پر چن لیا اور اسے علم وجسم دونوں میں کشائش دی ہے.اللہ اور رسول کی اور حاکموں کی اپنے اطاعت کرو.

Page 113

تصدیق براہین احمدیہ تمام مذاہب میں یہ امر مسلم ہے کہ عبادت نام ہے اللہ تعالیٰ کی آ گیا کے پالن کرنے یعنی اس کا فرمانبردار ہونا جب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو آدم کو سجدہ کرنا اور اس کی آ گیا کا پالن کرنا در حقیقت باری تعالیٰ کی جناب کو سجدہ تھا نہ آدم کو.سچ ہے.مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (النساء : ۸۱) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے خلفاء کی فرمانبرداری بھی خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے.اور حکام وقت کے بھلے حکموں اور اچھے ارشادوں کی اطاعت حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی ہی اطاعت ہوا کرتی ہے.سجدہ کا لفظ اسلامی شرع میں ایک وسیع لفظ ہے اُس کے معنے سمجھنے کے لئے ان آیات و محاورات پر غور کرو.وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (النحل:۵۰) وَلِلهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (الرعد: ١٦) سجدہ کا لفظ عرب کی لغت میں انقیاد اور فرمانبرداری کے معنے دیتا ہے زید الخیل عرب کا ایک مشہور شاعر ایک قوم کی بہادری کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے اس بہادر قوم کے سامنے ٹیلے اور پہاڑ سب سجدہ کرتے ہیں یعنی فرمانبردار ہیں.ان میں سے کوئی چیز بھی اس قوم کو روک نہیں سکتی.بِجَمْعِ تُضِلُّ الْبَلْقَ فِي حُجُرَاتِهِ تَرَى الْأُكُمَ فِيهَا سُجَّدًا لِلْحَوَافِرِ وَالسَّجُودُ التَّذَلُّلُ وَالْاِنْقِيَادُ بِالسَّعي فِي تَحْصِيلِ مَا يَئُوطُ بِهِ مَعَاشَهُمُ فتح لے جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.آسمانوں اور زمین کی اشیاء اللہ کو سجدہ کرتی ہیں.سے آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں.

Page 114

تصدیق براہین احمدیہ تفسیر مدارک میں ہے.وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا (البقرة: ۳۵) اى اخضعوا له واقرؤا بالفضل له (تفسير النسفى المسمّى بمدارك التنزيل زير آيت سورة البقرة: (٣٥) غرض آدم علیہ السلام وہاں رہے اور ہر طرح اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے رہے اللہ تعالیٰ نے کہ دیا تھا کہ انگور یا الشجر اور انجیر کے پاس بھی نہ جانا.وَقُلْنَا يَا دَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ (البقرة : ٣٦) سعید بن جبیر، سدی شعمی ، جعدہ بن ہبیر ، محمد بن قیس عبد اللہ بن عباس، مرہ ابن مسعہ اور کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے کہ وہ انگور کا درخت تھا.مدارک میں لکھا ہے کہ یہی درخت تمام فتنوں کی جڑھ ہے.اور منذر بن سعید نے اپنی تفسیر میں ایسا ہی لکھا ہے.جیسے امام ابن قیم نے حادی الارواح میں بیان کیا.اور وہ جنت جس میں آدم علیہ السلام رہے وہ زمین پر تھا.غور کر و دلائل ذیل پر والقول بانها جنة في الارض ليست بجنة الخلد قول ابی حنیفه الله عنه : و اصحابه رضی | و هذا ابن عيينة بقول في قوله عز و جل وان لك ان لا تجوع فيها ولا تعرى قال يعنى فى الارض وابن عيينة امام وابن نافع امام و هم ای المنكرون) لا ياتوننا بمثلهما - اور امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں فرمایا ہے.خلق آدم و زوجة ثم تركهما و قال اعتمروا واكثروا واملئوا الارض و تسلطوا على الوان البحور وطير السماء والانعام و عشب لے اور ہم نے کہا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور جہاں چاہو اس میں سے کھاؤ پر اس درخت کے نزدیک نہ جائیو کہ گناہگار ہو جاؤ گے.آدم اور اس کی بی بی کو پیدا کر کے فرمایا جاؤ آباد ہو بڑھو پھولو اور زمین کو بھر دو اور طرح طرح کے دریاؤں، آسمان کے پرندوں ، مویشیوں، زمین کی گھاس پات اور اس کے درخت و ثمر سب پر قابض ہو جاؤ پھر کہتا ہے کہ وہ (جنت جہاں یہ پیدا ہوئے اور یہ حکم ہوا ) زمین میں ہے پھر کہتا ہے فردوس کو بنایا اور اس میں چار نہریں بنائیں بیچون پیچون ، دجلہ ، فرات.

Page 115

۱۱۴ تصدیق براہین احمدیہ الارض و شجرها و ثمرها - فاخبر انه فى الارض - ثم قال و نصب الفردوس فانقسم على اربعة انهار سيحون و جيحون و دجله و فرات و قال منذر بن سعيد ـ هذا وهب بن منبة يحكى ان آدم علیه السلام خلق في الارض وفيهـا ســكــن و فيها نصب له الفردوس و انه كان بعدن ان الاربعة الانهار انقسمت من ذالك النهر الذى كان يسمّى فردوس آدم و تلك الانهار معنا فى الارض لا اختلاف بين المصلين في ذالك فاعتبروا یا اولی الالباب اور اِهْبِطُوا کا لفظ ایسا ہے جیسا اِهْبِطُوا مِصْرًا میں ہے.ہاں تو ان دلائل پر بھی غور کرنی چاہیئے (۱) جنت الخلد جس میں نیک لوگ موت کے بعد داخل ہوں گے اس کی صفت میں قرآن کریم فرماتا ہے.وہ دار المقام ہے وہ ایسی جگہ ہے جہاں داخل ہو کر پھر لوگ نہ نکلیں گے.اور آدم علیہ السلام جس جنت میں رہے وہاں سے نکالے گئے.(۲) جنت الخلد دار تکلیف نہیں اور جہاں آدم علیہ السلام رہتے تھے وہاں درخت کے نزدیک جانے سے ممانعت اور شرعی تکلیف ان پر قائم تھی.(۳) جنت الخلد کو اللہ تعالیٰ دار السلام فرماتا ہے.اور آدم اور حوا علیہما السلام جہاں رہے وہاں سے سلامت نہ نکلے.وہ جگہ ان کے لئے دارالسلام نہ ہوئی.(۴) جنت الخلد کا نام دار القرار ہے اور جہاں آدم علیہ السلام اقامت پذیر تھے وہ مقام ان کے واسطے دار الزوال ہو گیا.(۵) جنت الخلد کی تعریف میں آیا ہے وَ مَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ (الحجر:۴۹) اور جہاں آدم علیہ السلام رکھے گئے وہاں سے نکلے یا نکالے گئے.(1) جنت الخلد کی نسبت آیا ہے.لَا يَمَتُهُمْ فِيهَا نَصَب (الحجر:۴۹) اور جہاں آدم علیہ السلام رکھے گئے یا مقیم ہوئے وہاں ان کو تکلیف پہنچی.لے اس میں ان کو کوئی کوفت نہ ہوگی.

Page 116

تصدیق براہین احمدیہ ۱۱۵ (۷) جنت الخلد کی نسبت جس کو بہشت کہتے ہیں وارد ہے لا لغو فِيهَا لَغُوفِيهَا وَلَا تَأْثِيمُ (الطور : ۲۴).اور جہاں آدم علیہ السلام رہتے تھے وہاں شیطان نے لغو اور گناہ کیا.(۸) جنت الخلد کی نسبت آیا ہے " لَا يَسْمَعُوْنَ فِيهَا لَغُوا وَّلَا كِذْبَّا (الا: ٣٦) اور جہاں آدم علیہ السلام رہے وہاں جھوٹ سنا.(۹) جنت الخلد آسمان میں ہے اور جس جنت میں آدم رہے وہ زمین میں ہے جیسے کہا ہے إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرۃ: ۳۱) اور نہیں فرمایا.فِي السَّمَاءِ أَوْ جَنَّةَ الْمَأوى (۱۰) جنت الخلد میں شیاطین کو دخل نہیں اور ان کی خبیث باتیں وہاں نہیں پہنچ سکتیں إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ (فاطر: (۱).غرض آدم علیہ السلام اس ملک میں رہے.اور شیطان ان سے عداوت کرتا رہا.انگور یا اس درخت کے کھانے کے بہانے بتا تا رہا جس کی ممانعت تھی جیسے آیات ذیل میں ظاہر ہے.فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَنُ لِيُبْدِيَ نَهُمَا مَا وُرِى عَنْهُمَا مِنْ سَوْاتِهِمَا وَ قَالَ مَا نَهُكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخَلِدِينَ وَقَاسَمَهُما إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ التَّصِحِينَ (الاعراف:۲۲،۲۱) قَالَ يَا دَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكِ لَا يَبْلى (طه: ۱۳۱) مگر شیطان کے کہنے پر آدم علیہ السلام نے کبھی عمل نہ فرمایا اور اس بے ایمان کے قول پر لے جنت میں بدکاری اور بہکنا نہیں.ے اس میں لغو اور جھوٹ نہ سنیں گے.سے اس کی طرف پاک باتیں صعود کرتی ہیں.پھر شیطان نے ان میں بدخیال ڈالنے شروع کئے اس لئے کہ ان کی پوشیدگی کو ظاہر کر دے اور کہا کہ تمہارے خداوند نے تمہیں اس درخت سے اس واسطے روکا ہے کہ (اس کے استعمال سے ) فرشتے یا سدا زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اوران سے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں.اور کہا اے آدم میں تمہیں ہمیشگی کا درخت اور غیر فانی بادشاہی دکھلاؤں.

Page 117

تصدیق براہین احمدیہ نہ چلے اور شیطان کا ان پر کوئی زور اور دخل نہ تھا اور نہ شیطان خالق شر تھا نہ اس کا کوئی تسلط آدم علیہ السلام پر تھا.دیکھو فَإِذَا قَرَأتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَنَّ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ إِنَّمَا سُلْطَنُهُ عَلَى الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ (النحل : ۹۹ تا ۱۰۱) وَقَالَ الشَّيْطَنُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ اِنَّ اللهَ وَعَدَكُمُ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَاخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِي عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطن إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لي فَلَا تَلُومُونِي وَلُوْمُوا أَنْفُسَكُمْ (إبراهيم: ۳۳) ٢٣) قَالَ الَّذِينَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هَؤُلَاءِ الَّذِينَ أَغْوَيْنَا ۚ أَغْوَيْنُهُمْ كَمَا غَوَيْنَ تَبَرَّأَنَا إِلَيْكَ مَا كَانُوا اِيَّانَا يَعْبُدُونَ (القصص: ۶۴) ہاں ایک جگہ شیطان نے کہا ہے.فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا قَعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الأعراف: ۱۷) قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا زَيْنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ (الحجر : ۴۰، ۴۱) مگر شیطان کی تابعداری وہی کریں اور اس کے قول کو وہی حجت پکڑیں جو اسے مانیں.لے جب تو قرآن پڑھے راندہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ.یادرکھو اس کو مومنوں اور اپنے رب پر تو کل کرنے والوں پر کوئی قدرت نہیں.اس کا بس تو ان پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے اور اس کے ساتھی ہیں.جب فتوی لگ چکا شیطان بولا اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا.وعدہ تو میں نے بھی کیا پر خلاف کیا اور میرا تم پر کوئی تصرف نہ تھا ہاں اتنی بات ہے کہ میں نے بلایا تم نے مان لیا سواب مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو کرو.سے ان لوگوں نے جن پر سزا وارد ہوئی کہا اے ہمارے رب یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے بہکایا.ہم بھی بہکے انہیں بھی بہکایا تیری ہی دو ہائی ہے یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے.تو نے مجھے بہکایا تو ہی اب میں ان کے لئے تیری سیدھی راہ کو گڈ مڈ کروں گا.اب جو تو نے مجھے راند دیا میں زمین میں بری راہوں کو ان پر سجاؤں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا ہاں تیرے مخلص بندوں پر میراز ورنہ چلے گا.

Page 118

تصدیق براہین احمدیہ شیطان کے کلمات کی نسبت قرآن کریم کا فتویٰ یہ ہے.وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَنُ إِلَّا غُرُورًا (النساء :۱۳۱) بلکہ شیطان نے خود بھی اپنے تئیں بغاوت کا ملزم ٹھہرایا جیسے گز را بلکہ ہر بد کا را پنی بغاوت اور سرکشی اور نافرمانی اور غواستہ میں ہرگز ہرگز باری تعالیٰ کی قدوس ذات پر ظلم اور جبر کا الزام نہ لگادے گا اور جب پوری راستی سے اظہار دے گا تو یہی کہے گا أَغْوَيْنَهُمْ كَمَا غَوَيْنَا (القصص: ۲۴) کیونکہ اللہ تعالیٰ بجبر کسی سے شر اور برائی نہیں کراتا.اگر چه آدم علیہ السلام شیطان کے کہنے پر نہ چلے.مگر مدت کے بعد وہ درخت کے پاس جانے کی الہی ممانعت کو بھول گئے ایسی بھولوں سے بچنے کے واسطے باری تعالیٰ نے ہمارے ہادی اور سردار عالم رحمت عالمیاں کو قرآن کریم کے یاد رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کا قصہ فرمایا ہے.وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا وَلَقَدْ عَهِدْنَا إِلَى أَدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما (طه : ۱۱۶،۱۱۵) اور اُسی نسیان پر آدم علیہ السلام کو عَلَى أَدَهُ رَبَّهُ فَغَوى (طه: ۱۳۳) فرمایا اور چونکہ اصل مبدء اور اس نسیان کا باعث وہی مکالمہ شیطان تھا اور اسی گفتگو کا زنگ تھا آدم علیہ السلام کے قصہ میں فرمایا.د فَازَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ (البقرة: ۳۷) کتاب خازن کی تفسیر میں لکھا ہے.ے شیطان کے وعدے ان سے نرمی دھوکہ بازی ہے.ے ہم تو ڈوبے تھے پر انہیں بھی لے ڈوبے.ے اور جلدی مت کر قرآن سے قبل اس کے کہ اس کی وحی تجھ پر پوری ہو اور کہو اے رب مجھے علم زیادہ دے.اور ہم نے آدم سے عہد کیا وہ بھول گیا اور اس میں اس کا کوئی قصد نہ تھا.آدم نے اپنے رب کا عصیان کیا اور بہک گیا.ان کو شیطان نے پھسلانا چاہا.اور پھر ان کو جہاں وہ تھے وہاں سے نکال دیا.

Page 119

تصدیق براہین احمدیہ ۱۱۸ أَزَلَّ اَى اِسْتَزَلَّ آدم و حوا او دعاهما الى الزلة و هي الخطيئة.(كتاب التأويل، تفسیر خازن تفسير سورة البقرة زير آيت فازلهما الشيطان ) غرض آدم علیہ السلام اس ملک سے چل دیئے اور کسی اور زمین میں جا کر آباد ہوئے.توریت شریف میں لکھا ہے ” خداوند خدا نے آدم علیہ السلام کو لے کے باغ عدن میں رکھا کہ اس کی باغبانی اور نگہبانی کرئے ( پیدائش ۲ باب ۱۵) اور پیدائش ۳ باب ۲۴ آیت میں ہے اس نے آدم کو نکال دیا اور باغ عدن کے پورب کی طرف کرو بیوں کو جو چمکتی تلوار کے ساتھ چاروں طرف پھرتے تھے مقرر کیا تو غالباً یہ وہ مکان تھے جہاں قائن جا کر آباد ہوا.سو قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا اور عدن کے پورب کی طرف نود کی سرزمین میں جا رہا.( پیدائش ، باب.۱۲) اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اس واسطے تم کو نکالتے ہیں کہ تم لوگوں میں باہمی عداوت ہے.اور باہمی عداوت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ آخر کچھ قوموں کو نکلنا پڑتا ہے.سوچو آریہ ہند میں کس طرح آئے مقام تامل اور غور ہے.اب بھی اگر نا عاقبت اندیشوں کے باعث محرم دوسہرہ وغیرہ کے فساد ہوتے رہے تو بہت ساروں کو حکم ہوگا پورٹ بلیر چلے جاؤ اور یوں مجبوراً وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ (پورٹ بلیر) مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعٌ إِلى حِنين (البقرۃ: ۳۷) کی تعمیل کرنی پڑے گی.مکذب.عام محمدیوں کا اعتقاد ہے کہ خدا سے خیر اور شیطان سے شر آفریدہ ہے نمبر صفحہ ۲۵ مصدق.ہرگز یہ اعتقاد محمدیوں کا نہیں اور کہیں یہ تفریق قرآن کریم میں نہیں لکھی اور نہ کسی حدیث صحیح میں آئی ہے.سورہ مائدہ کی آیت شریفہ إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنُ (المائدة: ۹۲) سے اتنا نکلتا ہے کہ شیطان ایسا ارادہ کرتا ہے مگر اس سے یہ کیسے نکلا کہ وہ خالق شر ہے؟ اور سورہ یس کی آیت وَلَقَدْ اَضَلَّ (يس: ۶۳) سے بھی خلق ثابت نہیں ہوتا.غور کرو سورۃ ابراھیم.لے ہم نے کہا چلے جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہر نا اور برتاؤ کرنا ہے.

Page 120

تصدیق براہین احمدیہ ۱۱۹ وَاذْقَالَ ابْرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ امِنَّا وَاجْنُبْنِي وَبَنِي أَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ (إبراهيم: ۳۷،۳۶) اَضُلَلُن کا لفظ قابل غور ہے اس لئے کہ اضلال اور گمراہ کرنے کی نسبت بتوں اور پتھروں کو دی گئی جن میں گمراہی کے خلق کرنے کا ارادی مادہ بالکل نہیں بلکہ محض بے جان بے ضرر چیزیں ہیں.مکذب صفحہ ۴۹.” جس مذہب میں اعتراض کرنا یا شک لانا کفر کا نشان ہے اُس ایمان بالجبر یا ایمان بالمکر کا خود اس کی زبان سے ہی بد یہی البطلان“.مصدق.یادر ہے جبر اور اختیار یہ دونوں ناقص اور مہمل الفاظ ہیں.جبر یہ ہے کہ کسی کا دل نہ چاہے اور زور کے ساتھ اس سے کام لیا جاوے.باری تعالیٰ اس طرح کسی شخص سے بجبر اعمال صالح یا بُرے کام نہیں کراتا.کیونکہ جابر ظالم ہوتا ہے اور باری تعالیٰ کی ذات پاک اس الزام سے بری ہے قرآن نے اسی واسطے یہ دونوں لفظ چھوڑ دیئے ہیں اور تقدیر پر اعتراض کرنے والوں کو خوب جواب دیا ہے جیسے فرمایا ہے.سَيَقُولُ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا أَبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَبَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَ إِنْ أَنْتُمُ إِلَّا تَخْرُصُوْنَ لے اور جب کہا ابراہیم نے اے رب اس شہر (مکہ) کو با امن بنانا اور مجھے اور میری اولادکو بتوں کے پوجنے سے بچائے رکھنا.اے رب ! ان بتوں نے بہتیرے لوگوں کو گمراہ کر دیا.ے مشرک بول اٹھیں گے اگر اللہ چاہتا ہم اور ہمارے باپ دادے نہ تو شرک کرتے اور نہ کسی شئی کو حرام کرتے ان سے پہلوں نے بھی ایسا ہی کہا یہاں تک کہ ہماری سزا کا مزا چکھا.اے نبی ! ان سے کہ تمہارے پاس کوئی اس بارہ میں علم ہے تو لاؤ ہمیں نکال کر دکھا ؤ تم تو ظن کے نیچے لگے ہو اور انکلیں لگارہے ہو.اے نبی ! کہہ ( جب تمہارے پاس اس اپنے دعوی کی کہ اللہ کی مرضی سے شرک ہوتا ہے کوئی دلیل نہیں اور تم جھوٹے نکلے تو پورا غلبہ اللہ کو حاصل ہے اگر اس کی مشیت ہوتی تو تمہیں ہدایت دیتا نہ یہ کہ شرک کرواتا جیسا تمہارا گمان ہے ).

Page 121

تصدیق براہین احمد به ۱۲۰ قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدلُّكُمْ أَجْمَعِينَ (الانعام : ۱۵۰،۱۴۹) خلاصہ مطلب.اگر ذات بابرکات باری تعالیٰ کا ارادہ ہو کہ خواہ مخواہ انسان کو ایک طرف کھینچے تو ایسی مقدس ذات سے بعید ہے کہ انسان کو گمراہی و شرک کی طرف لے جاوے بلکہ کیوں نہ سب کو ہدایت پر لا کر فرشتے ہی بناڈالے.مگر جب اُس نے انسان کو علی العموم ہدایت پر مجبول نہیں فرمایا اسی سے یہ بھی قیاس کر لینا چاہیے کہ اس نے انسان کو گمراہی پر بطریق اولی مجبول نہیں کیا یا مجبور نہیں فرمایا.اس طریق کا نام استدلال بالاولیٰ ہے.اور یہی استدلال قرآن کریم کا خاص طرز ہے.ہاں اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک استطاعت بخشی ہے اور ایک قدرت عنایت فرمائی ہے.اسی قوت پر انسان کو مکلف بنایا ہے.اور اس پر جزا اور سزا کو مرتب کیا ہے.حضرت مخدوم مکرم جناب مرزا صاحب نے براہین میں لکھا ہے.فرقان مجید ہر ایک اصولی اعتقاد کو جو مدار نجات ہے محققانہ طور سے ثابت کرتا ہے.(۱) جیسے وجود صانع عالم کا ثبوت (۲) توحید کا ثبوت (۳) ضرورت الهام احقاق حق اور ابطال باطل.یہ امور فرقان کے من جانب اللہ ہونے پر بڑی دلیل ہیں.اس کے جواب میں مکذب صاحب آریہ کے چوتھے نیم کو یاد دلاتے ہیں اور وہ یہ ہے.”سچ کے اختیار کرنے اور جھوٹ کے چھوڑنے میں سر د تھا ادت رہنا چاہئے.پھر کچھ اور داد خوش فہمی دی ہے اور کہا ہے.جس مذہب میں شک کرنا کفر ہے ایسے ایمان بالجبر یا ایمان بالمکر کا خود اس کی زبان سے ہی بدیہی بطلان ہے.پھر قرآن کریم پر حملہ کرنے کی وجہ میں کہا ہے.” جب تک سچائی کے مقابلہ جھوٹ کو لا کر کامل شکست نہ دی جائے تب تک راستی کے جو ہر انکشاف نہیں پاتے اور نہ تسلی کامل پہنچاتے ہیں“.پھر مکذب نے دیانند کی تعریف اور ان کے چمنستان کی خوبی بیان کر کے امور مرقومہ بالا میں موازنہ قرآن وید پر قلم اٹھایا ہے.پھر مکذب نے وجود صانع پر سات دلائل لکھے ہیں.جن کو میں ایک ایک کر کے

Page 122

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۱ بیان کرتا ہوں.پہلے.(۱) نجات یا مکتی کے واسطے اصل مقصود یا پرم ات کرسٹ یا سب کے جاننے یوگ سرب بیا پک پر تما ہے.سب کو پوری پر تین سے اس کے حصول یا پراپتی کے لئے کوشش اور تین کرنا چاہیئے.اس کے گیان سے پرمانند میں رہ سکتے ہیں.ست و دیا ہی سے اس کا گیان ہوتا ہے اور گیان ہی سے پر ماتما کا جاننا ہے جس طرح اکاش میں نیتر اور سورج کی بیا پتی اور پر کاش آس من تات بیا پت ہے.ایسے ہی برہم سب جگہ پر پتی پورن ایک رس بیا پک ہے اس کی پرابتی سے جیو سب دکھوں سے چھوٹتا ہے اور کسی طرح نہیں“.پھر مکذب نے اس بڑی دلیل کی اور بھی زیادہ تفصیل کی ہے.(۱) ایشر ہی کے گیان سے مکتی اور اس سے اعلیٰ سوکھ حقیقی انند یا زیادہ مدارج ترقی انسان کے واسطے کوئی نہیں ہے.(۲) جانی سوکھ اور شہوی یا ا گیانی لذائذ کا اس میں نام ونشان بھی ندارد ہے.(۳) ایشر محسوس نہیں اور نہ محدود ہے.اس کا کوئی خاص مکان یا تخت نہیں اور نہ اس کی حاضری کے واسطے کسی عرض بیگی کی ضرورت ہے.بلکہ وہ سرب بیا پک ہے.(۴) و دیا گیان کا ذریعہ اور گیان ملکتی کا.پس مکتی کا نتیجہ پر ماتما کی پراپتی ہے.اس سوکھم بات کے جاننے کے واسطے ایک ایسی ہی سوکھم دلیل کی ضرورت تھی جو ایشر کی طرف سے ہدایت دی گئی.پر میشر آگیا دیتا ہے کہ جس طرح سے آکاش میں نیتر کی بیا پتی ہے اور محسوس نہیں ہوتی.بصارت اپنا کام چلا رہی ہے اور دکھائی نہیں دیتی جس طرح سوریہ کا پر کاش اکاس میں اس میں تات بیا پت ہے اور زیادہ سوکھم ہونے سے اکاس استھ پدارتھ اس کی ماہیت کو نہیں جانتے ویسے ہی ایک مہان شکتی مان پر ماتما انتظام عالم کا کر رہا ہے.مگر سورج کی طرح جڑھ نہیں اور نہ ایک ویشی ہے چونکہ فانی نہیں اس واسطے محسوس بھی نہیں مگر سرب بیا پک چین اور

Page 123

تصدیق براہین احمدیہ سرب شکتی مان ہے.انتھی.۱۲۲ ناظرین غور فرمائیں.ہاں خوب غور فرمائیں.اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس کی پاک کلام کی بے ادبی اور اس کے مقابلہ میں ہٹ اور ضد کا کیا برا نتیجہ ہوتا ہے.اور کس طرح راستبازی کا دشمن اندکاری میں تباہ ہوتا ہے.سوچو تو یہ کیا دلیل ثبوت ہستی صانع عالم کی ہے؟ اس منتر سے حسب ترجمہ یا تفسیر با بیان مکذب براہین کے طرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے واسطے سرب بیا پک اور جاننے لوگ پر ماتما ہے.اس کے گیان سے انند ہوتا ہے جیسے سورج سب جگہ ایسے ہی برہم سب جگہ ہے.کوئی بتا دے کہ اس میں ثبوت صانع کی کون سی دلیل ہے یہ تو ایک نصیحت ہے.جو خدا کے ماننے والوں کے واسطے اس کی محبت بڑھانے میں مفید ہوسکتی ہے.اس بیان کو ثبوت صانع میں کوئی دخل نہیں.مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب مکذب نے شیطان کے حق میں اخوت و دوستی کے حقوق قدیم کی رعایت سے یہ موافق فیصلہ دیا.باغی اور دشمن حق کی اس طرف داری کے عوض میں عادل اور منصف خدا نے حق فہمی اور حق نیوشی سے مکذب کے دیدہ و گوش کور و کر کر دئے.انصاف کا مقتضا بھی یہی ہے کہ جس نعمت کی انسان قدر نہ کرے وہ اس سے ضرور چھین لی جاوے.شیطان کا غلط خیال اور اس کی واہی دلیل باری تعالیٰ کے صریح حکم اور عقل کے مخالف ہے.کیونکہ اُسے باری تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو جو اس ملک کے خلیفہ تھے سجدہ یا آگیا پالن اور فرمانبرداری کرنے کا حکم دیا.اس عمدہ حکم کی جو تمدن کا ایک بڑا بھاری مسئلہ ہے.شیطان نے مخالفت کی اور یہ بیہودہ عذر تر اشا.انا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ (الاعراف: ۱۳) حالانکہ حاکم کا حکم ماننا اصل محکومیت ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور فرمانبرداری اسی میں تھی کہ آدم کی آگیا کا پالن کیا جاتا.مگر ابلیس باغی نے بغاوت کی اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مجبور کر کے

Page 124

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۳ فرمانبردار نہ بنایا اگر ایسا کرتا تو جابر ظالم بنتا اور آریہ کا وکیل یا اس کا کوئی ہم خیال شیطان کا حامی کہتا کہ شیطان پر جبر ہوا اور شیطان کا خدا کا دیدار کرنا جو آپ نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۴۳ میں ذکر کیا ہے اس پر تعجب آتا ہے کہ آپ کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ حاکم کا دیدار فرمانبرداروں کو ہی راحت بخشتا ہے نہ کہ نافرمانوں کو.اگر اثبات وجود صانع میں یہ طریق اور ثبوت کافی تھا جو آ نے یا آپ کے وید نے دیا تو کیا آپ کو قرآن کریم میں اس قسم کا ثبوت نہ مل سکا؟ (۱) نجات کے واسطے اصل إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ مقصود سرب (محیط) بیا پک آلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدة: ٣١) پر ماتما ( خدا ) سب کے فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (الزمر:٣) وَأَخِرٌ دَعْوهُمْ آنِ جاننے لوگ ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (يونس: ۱) (۲) اُن کے گیان (علم) مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمُ سے پرم انند ( بڑی خوشی) میں رہ سکتے ہیں.(۳) اصل مقصود عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: ٢٣) وَرِضْوَانٌ مِنَ اللهِ أَكْبَرُ (التوبة : ۷۲) (۴) وہ سرب ( محیط) " وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيْطًا (النساء : ۱۲۷) بیا پک ہے.وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ (الحديد:۵) لے جنہوں نے کہا ہما را رب اللہ ہے.پھر وہ مستقیم ہو گئے ان پر فرشتے اترتے ہیں کہ خوف و غم نہ کھاؤ.اور اللہ کی عبادت کرو خالص کرتے ہوئے اس کے لئے تو حید کو.اور ان کی آخری پکار یہ ہوگی کہ اللہ رب العالمین کی ستائش ہے.جو شخص ایمان لایا اللہ پر اور پچھلے دن پر اور عمل صالح کئے رب کے پاس ان کا اجر ہوگا.اور انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور نہ غم کھائیں گے.اور اللہ کی رضامندی تو سب ہی سے بڑی ہے.ہے اللہ ہر شے پر محیط ہے.اور وہ جہاں ہو تمہارے ساتھ ہے.

Page 125

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۴ (۵) سب کو پوری پرتین سے اس ل وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ کے حصول کے لئے کوشش کرنا لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ (العنكبوت :۷۰) چاہئے.(1) فانی سکھ اور شہوے یا آگیا هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ (جہالت ) کے لذائذ سے پاک ہے السلم (الحشر: ۲۴) (۷) ایشر محدود نہیں.لا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام: ۱۰۴) وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (طه: ١١١) وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ (۸) اُس کی بارگاہ میں کسی عرض وَ يَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِئُونَ بیگی کی حاجت نہیں.الله بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَوتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَنَهُ ہاں کچھ اور بھی سن لیجئے.وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (يونس: ١٩) اول: سورج یا بصارت کا پر کاش جس طرح ہوتا ہے اس کا پتہ تو کچھ سائنس سے لگ سکتا ہے.دوم : یہ ظہور اور پر کاش محدود ہے.سوم: کوئی اعلیٰ درجہ کا ظہور نہیں بلکہ عقل اور فہم کا پر کاش اس سے سوکھم اور لطیف ہے.قرآن کریم ن لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام: ۱۰۴) فرما کر اور ساتھ ہی یہ کہہ کر لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) اپنے پیروؤں کو تشبیہ سے لے اور جولوگ ہم میں کوشش کرتے ہیں ہم ضرور انہیں اپنی راہیں بتائیں گے.اور اللہ خلاص والوں کے ساتھ ہے کے وہ وہ اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہ قدوس سلام ہے.سے آنکھیں اس کو ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ آنکھوں کو ادراک کرتا ہے اور علم سے اس کا احاطہ نہیں کر سکتے.ہے اور اللہ کو چھوڑ کر ایسوں کو پوجتے ہیں جو ان کو ضرر و نفع دے نہیں سکتے اور کہتے ہیں یہ اللہ کے پاس ہمارے شفیع ہوں گے تو کہ کیا تم اللہ کو وہ کچھ بتاتے ہو جو وہ آسمان و زمین میں نہیں جانتا وہ تمہارے شرکوں سے بلند و برتر ہے.

Page 126

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۵ بچا لیا.اگر آردی کا چوتھا اصل کا عمل کے قابل صداقتوں پر مشتمل ہے.اگر آپ راستی کے لینے پر ہر وقت مستعد ہیں تو انصاف کیجئے.کیا قرآن کریم رد و انکار کے قابل ہے؟ ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.اب میں اس ویدک منتر کا لفظ بہ لفظ ترجمہ کرتا ہوں جس کو مکذب نے وجود باری تعالیٰ کی دلیل سمجھ کر وید سے تکذیب براہین احمدیہ میں درج کیا ہے.وشبُو يَرَمُ يَدَم سدا پشتی اس محیط کے عمدہ مقام کو ہمیشہ یکھتے ہیں سوريه عالم لوگ آسمانی فضا میں مانند آنکھ یا سورج کے لنبا ( مطلب ) علم والے محیط الکل خدا کے اچھے مقام کولنبی نظر یا سورج کی مانند دیکھتے ہیں.نوٹ.: قدیم سے اب تک ہر ایک قوم نے ناقص یا کامل طور پر کسی نہ کسی پیرائے سے وجود باری تعالیٰ کا اقرار ضرور کیا ہے اگر علی العموم نگاہ کی جاوے تو محض وجود حق سبحانہ وتعالیٰ اقوام عالم میں غیر متنازع فیہ ثابت ہوتا ہے.ہاں قوموں نے اور قریباً کل قوموں نے جس امر میں نہ سنبھلنے کے قابل ٹھو کر کھائی وہ مسئلہ صفات ہے.اسی اتنا کہہ دینے سے کہ خدا ہے کوئی فائدہ تو مترتب نہیں ہوسکتا.وہ کیسی ذات ہے اس کو یعنی اس کی صفات کو عالم سے مخلوقات عالم سے کیا مناسبت کیسا تعلق واقع ہوا ہے.انتظام عالم جذبات انواع مخلوقات خصوصاً نوع انسانی کے قومی کے تقاضا ؤں اور میلانوں کی ہیئت کذائی کس قسم کی صفات والا خدا چاہتی ہے.صرف یہی ایک راہ ہے جس پر دنیا کے کسی مذہب نے کوئی روشنی نہیں ڈالی بلکہ ہر ایک نے اپنی اپنی نوبت پر اسے اور بھی دھندلا کیا ہے.عیسائیوں نے خدا کو اس طرز پر بیان کیا کہ قالب انسانی میں پورا ڈھال کر ویسی ہی ضعیف اور ناقص ہستی ثابت کر دکھایا اور تشبیہ کی تاریک راہ اختیار کر کے سالک طریق کو حیرت میں ڈال دیا.ہندؤوں ( دی سو کالڈ آریہ ) نے یہ غضب ڈھایا کہ ایک خیالی اور محض وہمی وجود کے ماننے پر قناعت کی اور صفات کاملہ سے اس پاک ذات کو قطعا معطل کر دیا کہ مادہ عالم اور ارواح اس کی مخلوق ہی نہیں.اور وہ روح کے اصلی تقاضا یعنی سرمدی نجات دینے پر قادر نہیں وغیرہ اس عظیم الشان مسٹری (راز ) کو کھولا ہے تو اس مہیمن کتاب فرقان حمید نے کھولا ہے کہ وہ صانع، خالق، رازق، رب ، قادر ، رحمن ، رحیم ، سمیع، بصیر ہے اور ان صفات میں کامل ہے.اور یہ اور ان کی مانند دیگر صفات ایسی ہیں جنہیں عالم کی ضروریات کے سرانجام کے ساتھ پوری مناسبت ہے.اس پر بھی ہر قسم کے ممکن ظنون اور محتمل مشہوں کے مٹانے کو فرما دیا.لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ (الشوری: ۱۳) سارا قرآن کریم مسئلہ صفات کے اکمل طور پر واضح کرنے کا ذمہ لیتا ہے اور طالبان نجات کو بتاتا ہے کہ ان کا منجی خدا کیسا ہونا چاہیئے.(عبدالکریم صیح )

Page 127

تصدیق براہین احمد به ناظرین! غور کریں اس ویدک فلسفی سے دہر یہ پر کیا حجت قائم ہوسکتی ہے؟ اب قرآن کے دلائل اور آیات وجود صانع عالم سنئے.مگر قبل اس کے کہ اصل مقصود شروع کیا جاوے تھوڑا الطور تمہید کے بیان کرنا خالی از فائدہ نہ ہوگا.(۱) اثبات صانع میں لوگوں نے کبھی امکان اجسام سے استدلال کیا ہے.کبھی امکان صفات اجسام سے گاہے حدوث اجسام سے کسی وقت حدوث صفات اجسام سے اور ظاہر ہے کہ ان دلائل کا مدار مسئلہ ترجیح بلا مرجح کے ابطال پر ہے یا دور تسلسل کے امتناع پر اور یہ دونوں راہیں بڑی دور دراز ہیں بلکہ یوں کہیئے کہ ایسی مشکل ہیں کہ ان پر چلنے سے عامہ خلق کا منزل مقصود پر پہنچ جانا دید کے سمجھنے کی طرح مشکل ہی نہیں بلکہ محال ہے.(۲) علاوہ بریں اثبات مطالب میں منطقی اور فلسفی مزاج لوگ قیاس تمثیلی سے دلیل پکڑتے ہیں یا قیاس شمولی سے حالانکہ ان قیاسات کا مدار تماثل اجسام پر ہے یا ایسے چند امور مشترکہ کے ماننے پر جن کو کلیات خمسہ کہتے ہیں اور تماثل اجسام و کلیات خمسہ کا مسئلہ ایسا بودا اور غلط ہے جس پر ہمیشہ سلف نے انکار فرمایا اور سچے طبعیات نے اسے غلط ثابت کیا.قرآن کریم ہمیشہ استدلال بالا ولی سے کام لیتا ہے جو بالکل یقینی اور فطرت کے مناسب ہےاستدلال بالاولیٰ کی مثال لَا تَقُل لَّهُمَا أَفْ (بنی اسرائیل: ۲۴) ہے.اس کلمہ الہیہ میں حکم ہے ماں باپ کو اف تک نہ کرو.جس سے ثابت ہوا.والدین کو کسی قسم کی ایذا دینا بطریق اولی اسلام میں جائز نہیں دوسری مثال سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (الحالية : ١٤) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ پتھر ، درخت، جانور ، سورج وغیرہ تمہارے خادم ہیں.یہ تو تمہارے مساوی بھی نہیں.پس ان کو معبود بنانا اور آپ ان کا خادم بننا بطریق اولی باطل ہوگا! کیونکہ شرک میں معاملہ بالعکس ہے!! (۳) یہ بھی یاد رہے قرآن کریم دلائل کے بیان میں انعامات اور احسانات

Page 128

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۷ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کا تذکرہ بھی برابر کرتا رہتا ہے.اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے تذکار سے ایمان اور اللہ تعالیٰ کی محبت دونوں میں ترقی ہوتی رہتی ہے.(۴) ہر ایک انسان اپنی فطرت اور جبلت پر مکلف ہے پس فطری دلائل ہی اصلی اور صحیح دلائل ہوں گے.(۵) آیات اور علامات کسی چیز کے وہ ہوتے ہیں جن کے وجود سے اس چیز کے وجود کا یقینی پتہ لگتا ہے.جس کے واسطے یہ آیات اور علامات دلیل ہیں نشان اور علامت کسی چیز کی اپنے مدلول کے اثبات میں کسی وجہ کلیہ قضیہ کی محتاج نہیں ہوتی.اسی واسطے قرآن مجید جن دلائل کو بیان کرتا ہے ان کا نام آیات رکھتا ہے.میں نے دلائل نبوت میں بارہا بیان کیا ہے کہ قرآن کریم نے اثبات نبوت میں بھی بجائے لفظ معجزہ اور خرق عادت کے آیات ہی کا لفظ اختیار فرمایا ہے.انسان جہاں تک بنظر تحقیق تجربہ کرتا جاوے اور اپنی گرد و پیش کی اشیاء کو اپنے کام میں لانے کی کوشش کرے اسے یقین ہوتا جائے گا کہ سَخَّرَ لَكُمُ مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا منه (الحانية: ۱۴) جس کتاب میں لکھا ہے وہ پاک کتاب علاوہ بریں کہ ہم کو تمام علوم مفیدہ اور فنون راحت بخش کے سکھلانے کی راہ دکھاتی ہے یہ بھی واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ بے ریب اس کتاب کا بنانے والا تمام قدرتی اشیاء اور ان کے نتائج کا پہلے سے پورا عالم اور کامل خبیر تھا.روز مرہ کے تجربے گواہی دے رہے ہیں.انسان کے ارد گرد کی تمام چیزیں اس کے ماتحت اور اس کی خدام ہیں.اس عجوبہ قدرت کی آسائش کے واسطے تمام ہمہ تن بے مزد حاضر ہیں.انسان کیا بلحاظ اس روز افزوں ترقی کے جو اسے حاصل ہوسکتی ہے اور کیا با یں خیال کہ وہ اپنے جدیدہ علوم وفنون ابنائے جنس کو سکھا سکتا ہے کیا باعث اس سطوت اور تسلط کے جو اسے مخلوق پر محض فضل الہی سے حاصل ہے.اگر اپنی پیدائش، اپنی ابتدائی حالت پر غور کرے تو اسے صاف عیاں ہو جائے گا کہ وہ کیسا ضعیف، بے بس، ناتواں اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنے سے عاجز تھا.پھر کیسا عالم،

Page 129

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۸ فاضل ، شجاع ، زبر دست ہو گیا ! سمندر کے کنارے بیٹھ کر سمندر کی تہ کی حالت دریافت کرتا ہے اور سمندر کی اشیاء پر حاکمانہ تصرف جمانا چاہتا ہے یہ خا کی پتلا اپنی چار دیوار میں بیٹھا ہوا سورج ، چاند اور آسمانی بروج کے قطر و محیط ناپنے کو تیار ہے یہ بجو بہ قدرت اگر بدن کے ذرات کو غور سے دیکھے تو بشرط سلامتی فطرت ضرور گواہی دے گا کہ اپنی خلق و بقا میں ہمہ تن ایک زبر دست علیم وحکیم کے قبضہ قدرت میں گرفتار ہے اور اس غنی ذات کا محتاج ہے جس کو کسی قسم کی احتیاج نہیں.اس اثنا میں اسے اس آیت کی واقعی صداقت کا اعتراف کرنا پڑے گا.يَا يُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَآءُ إِلَى اللَّهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر: ١٦) بے ریب انسان اپنا خالق آپ نہیں.نہ اس کے ماں باپ اور اس کے خویش اقارب نے جو اسی کی استعداد کے قریب قریب ہیں اس کو گھڑ کر درست کیا.اپنی بدصورتی کوحسن سے بدلا نہیں سکتا.اپنی طول و عرض پر متصرفا نہ دخل نہیں رکھتا.معلوم نہیں کتنی مدت سے چھری لے کر اپنا پوسٹ مارٹم کر رہا ہے پر اس غریب کو اپنے بدن کے عجائبات کا بھی آج تک پتہ نہ لگا.مائیکرس کوپ ایجاد کر کے کہتے ہیں پچھلوں نے پہلوں سے سبقت لی.مگر عجائبات انسانی پر اور بھی حیرانی حاصل کی افعال الاعضاء کے محقق اور کیمیا گر اب تک کتاب قدرت کے طفل ابجد خواں ہیں.صوفی ، یوگی ، الہیات، اخلاق، طبعی والے قوی انسانیہ کا بیان کرتے کرتے تھک گئے مگر احاطہ علم الہی سے قطعاً محروم چل دیئے اچھے فلاسفروں اور نیکو کار عقلاء کے گھروں میں ایسے جاہل کندہ نا تراش پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے مربیوں کی عمدہ عقل کو چرخ دے دیا! اور وہ بیچارے کف افسوس ملتے رہ گئے اور ان سے کچھ بھی نہ ہوسکا کہ اپنی اخلاقی ارث سے انہیں تھوڑا ہی سا بہرہ مند کر جاتے.بڑے بڑے مدبر اپنے عندیہ میں تدابیر کے ہر پہلو پر لحاظ کر کے مناسب وقت اور عین موافق لوازم کو مہیا کرتے ہیں.پھر نتائج سے محروم ہو کر اپنی کم علمی پر افسوس مگر قانون قدرت کے مستحکم انتظام کو دیکھ کر ہمہ قدرت ذات پاک کا لابد اقرار کرتے ہیں.سلیم الفطرت دانا لے اے انسانوں تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی غنی حمد کیا گیا ہے.

Page 130

تصدیق براہین احمدیہ ۱۲۹ جب تمام اپنے ارد گرد کی مخلوق کو بے نقص، کمال ترتیب، اعلیٰ درجہ کی عمدگی پر پاتے ہیں ضرور بے تابی سے ایک علیم وخبیر قادر کے وجود پر گواہی دیتے ہیں.فطرت کی اس زبر دست دلیل کو غور کرو.قرآن مجید کیسے الفاظ میں بیان فرماتا ہے.وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرُ تَنْتَشِرُونَ (الروم: ۲۱) ان کلمات میں قرآن ان آیات صانع عالم کی طرف توجہ دلاتا ہے جوانسان کی ذات میں موجود ہیں.ان کلمات طیبات سے پہلے اور اس دلیل سے اول اللہ تعالیٰ نے اپنی قدوسیت ہر ایک نقص سے پاک ہر ایک صفت کاملہ کے ساتھ متصف ہونے کا اظہار اور عبادت کی تاکید کی ہے اور کہا ہے.فَسَبِّحْنَ اللَّهِ حِيْنَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ (الروم:۱۹،۱۸) اس دعوے کا مدار وجود صانع پر تھا.اس لئے وجود صانع کی دلیل بیان فرمائی اور دلیل بھی ایسی دی جس سے یہ مطلب بھی ثابت ہو گیا.بیان دلیل یہ ہے کہ آدمی کو دو باتیں حاصل ہو رہی ہیں اول شخص انسانی کا وجود اور اس کی بقا.دوم بقائے نوع جو مرد عورت کے ملنے سے حاصل ہوتا ہے.پہلے انعام کی نسبت فرمایا کہ انسان اپنی اصل بناوٹ پر نظر کر کے دیکھے کہ وہ مٹی سرد اور خشک ہے.اسی سرد و خشک سے تیری گرم اور تر جسمانی روح کو پیدا کیا.اور عیاں ہے کہ مٹی میں تو کوئی ادراک نہیں.حرکت اراد یہ نہیں.کوئی حیات نہیں رنگت میں دیکھے تو میلی گدری ، وزن میں ثقیل ، کثافت میں یکتا سبحان الله و له الحمد ے اور اس کے نشانوں سے ہے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر تم اچانک چلتے پھرتے آدمی ہو گئے.سے اللہ کی قدوسیت بیان کرو جب تم شام کرتے اور جب تم صبح کرتے ہو اور اسی کے لئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور تیسرے پہر اور جب تم ظہر کرتے ہو.

Page 131

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۰ اسی مٹی کے ذرات سے ایک مدرک متحرک بالا رادہ، زندہ نئی زندگی کے قابل انسان کی ایسی جسمانی روح بنادی جو کدورتوں سے پاک، ہلکا پھلکا، اعلیٰ درجہ کا شفاف صاف نیر جو ہر ہے.کس تحتانی حالت سے کس بلند درجے پر پہنچایا! پھر بے ریب وہ زبر دست طاقت موجود اور بے تردد وہ قدوسیت اور حمد کے لائق ہے.یہ اسی ید قدرت کا نقش ہے.جسے اللہ، یہواہ، یزدان، اوم، گنجک کہتے ہیں بناءً علیٰ ہذا اس مبارک آیت کو پڑھو اور مانو.فسبحن اللهِ حِيْنَ تُمْسُونَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُوْنَ (الروم: ۱۸).پھر اسی مٹی غیر مدرک غیر متحرک سے انسان کی بقائے نوع اور اس کے آرام کے لئے اسی کے جنس کی بی بی بنائی.اور اپنے اس ارادہ کو جو دونوں کے باہمی تعلق کی نسبت تھا غور کرو کن پیارے پیارے الفاظ میں بیان فرمایا.وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَايْتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الروم: ۲۲) پھر انسانی صفات کی طرف انسانی فطرت کو توجہ دلاتا اور فرماتا ہے وَمِنْ أَيْتِهِ خَلْقُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ الْسِنَتِكُمُ وَالْوَانِكُمْ إِنَّ في ذلك لايتِ لِلْعَلِمِينَ (الروم: ٢٣) مگر یاد رہے.انسانی صفات ایک تقسیم میں دو تم ہوا کرتے ہیں ایک قسم انسان کے اعراض لازمہ اور دوسری قسم انسان کے اعراض مفارقہ.انسان کے اعراض لازمہ میں اس کی رنگت ، بول چال ، اشکال و خطوط ہیں ان ترابی ذرات سے مختلف انسان اگر ایک ہی رنگت ایک ہی آواز ، ایک ہی بول چال ایک قسم کی اشکال اور خطوط رکھتے تو کیا ہم دوست کو دشمن سے ممتاز کر لیتے ؟ کیا رات میں بلکہ دن میں کچھ اپنے اور پرائے کا تفرقہ کر سکتے ؟ ہرگز ہرگز نہیں.پس جس لے اور اس کے نشانوں سے ہے کہ تم ہی میں سے تمہارے واسطے جوڑا بنایا تو کہ تم اس سے آرام پکڑو اور تمہارے درمیان دوستی اور رحمت ڈال دی یقیناً اس میں سوچنے والوں کے واسطے نشانیاں ہیں.اور اس کے نشانوں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں اور زمین کا اور اختلاف تمہاری بولیوں اور تمہارے رنگوں کا یقیناً اس میں عالموں کے لئے نشانیاں ہیں.

Page 132

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۱ غالب طاقت نے یہ تفرقہ کر دیا.وہ معدوم نہیں بلکہ وہ موجود اور اس قابل ہے کہ اس کی نسبت کہیں سُبْحَنَ اللهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (الروم: ۱۹،۱۸) اور انسانی شخص کے اعراض مفارقہ میں سونا اور جاگنا، حرکت، سکون، کمانا وغیرہ وغیرہ ہیں جن کی طرف اشارہ فرماتا ہے.وَمِنْ أَيْتِهِ مَنَامُكُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَابْتِغَاؤُكُمْ مِنْ فَضْلِهِ ۖ إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ (الروم: (۲۴) اب دلائل انفسی کے بعد آفاقی دلائل سنئے ، کس ترتیب سے یہ بیان نباہا ہے وَ مِنْ أَيته يُرِيكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءَ فَيُحْيِ بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (الروم: ۲۵) و من اليَّة أَنْ تَقُومَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضُ بِأَمْرِهِ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ الْأَرْضِ إِذَا أَنْتُمْ تَخْرُجُونَ (الروم: ٢٦) مکذب براہین نے جو دلیل ثبوت ہستی صانع پر قرآن کریم سے بیان کی ہے وہ ایسی ہے جیسے کوئی سورج کے محیط پر حرارت مرکز ارض کو دلیل ٹھہر اوے.وَهَلْ أَنكَ حَدِيثُ مُوسَى إِذْ رَا نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي أَنَسْتُ نَارًا لعَلَّى اتِيْكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدًى فَلَمَّا أَتْهَا نُودِيَ يُمُوسَى اِنّى اَنَا رَبُّكَ (طه: ۱۰ تا ۱۳) ے اور اس کے نشانوں سے ہے تمہارا رات کو سونا اور دن کو اس کے فضل کی تلاش کرنا یقیناً اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کے لئے.ے اور اس کے نشانوں سے ہے کہ بیم و امید کی خاطر تمہیں بجلی دکھاتا ہے اور بادل سے پانی اتارتا ہے پھر اس سے زمین کو مرجانے کے پیچھے زندہ کرتا ہے یقیناً اس میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں.ے اور اس کے نشانوں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے امر سے قائم ہیں پھر جب تم کو ایک ہی پرکار سے پکارے گا اچانک تم زمین سے نکل پڑو گے.ہے.کیا موسیٰ کی بات تجھے پہنچی جب اس نے آگ دیکھی پس اپنے اہل کو کہا ٹھہر جاؤ میں نے آگ دیکھی ہے تو کہ میں وہاں سے انگاری لے آؤں یا آگ پر کوئی راہ بتانے والا مجھے مل جاوے.پس جب اس کے پاس آیا پکارا گیا.اے موسیٰ یقینا میں تیرا رب ہوں.

Page 133

تصدیق براہین احمدیہ یہ کیا ہے.۱۳۲ مکذب نے اپنی نافہمی سے قرآنی دلیل اثبات صانع اس آیت کو کہا ہے اور اس کا ترجمہ آئی تیرے پاس بات موسی کی جس وقت دیکھی اس نے آگ.پس کہا اپنے ساتھ والوں کو کہ ٹھہر و تحقیق میں نے آگ دیکھی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ لاؤں اس آگ سے تمہارے پاس سلگا کر یا پاؤں اس آگ پر کوئی واقف کار راستہ جاننے والا.جب آیا اس کے پاس آواز آئی (آگ سے) اے موسی“.آریہ کے وکیل کی راستبازی اور اس کا علم قابل ملاحظہ ہے.نُودِی ماضی مجہول ندا مصدر سے بنا ہے جس کے معنی ہیں پکارا گیا پکارنے والا کون تھا.مکذب نے دو خطوط میں کہا ہے (آگ سے) کوئی مصنف ذرہ عربی جاننے والا کہے.یہ لفظ ( آگ سے ) قرآن کریم کے کس لفظ کا ترجمہ ہے.کا ذب مکذب نے صرف اعتراض کے لئے یہ لفظ جڑ دیا جو اس کے باغی اور حاسد دل کا اپنا نتیجہ ہے قرآن مجید نے تو خود ظاہر فرمایا ہے کہ ندا کنندہ کون تھا.بلکہ مکذب نے بھی تکذیب کے صفحہ ۵۲ میں لکھ دیا ہے.سورہ نمل میں اس کا بیان عمدہ ہے جہاں صاف لکھا ہے.پس جب آیا اس کے پاس پکارا گیا یہ کہ برکت دیا گیا جو کچھ کہ بیچ آگ کے ہے اور جو کوئی گرداس کے اور پاک ہے پروردگار عالموں کا.“ اس آیت سے صاف واضح ہے کہ آگ خدا نہیں اور نہ آگ سے ندا آئی.بلکہ ندا کرنے والے نے تو یہ کہا کہ بُورِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا (النمل:9) یعنی آگ میں کے اور اس کے ارد گر دوالے کو برکت دی گئی.اور اللہ تعالیٰ تو جہانوں کا اور ان سب اشیاء کا جن سے اس کا علم آتا ہے جن میں آگ بھی ایک ہے پالنے والا ہے.قرآنی آیات کریمہ کے وہ نتائج جو مکذب نے فٹ نوٹ میں دیئے ہیں وہ تمام رگوید کے مشہور اردو ترجمہ کے الفاظ ہیں.قرآن کریم ان ناپاک مشرکانہ بد بودار خیالات سے پاک ہے یہ مقدس کتاب اللہ تعالیٰ کو ایسی صفات سے ایسے عیوب

Page 134

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۳ سے منزہ ومبر ا ثابت کرتی ہے.آگ بیچاری تو ایسی الہی مخلوق ہے کہ پانی سے معدوم ہوسکتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفت قرآن میں ہے سُبْحَنَ اللهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (النمل: ٩) جناب موسیٰ علیہ السلام نے آگ سے باتیں نہیں کیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا موسیٰ علیہ السلام نے صرف اللہ تعالیٰ کی آواز سنی محیط الکل اللہ تعالیٰ نے ہرگز آگ میں حلول نہیں فرمایا مکذب کا یہ کہنا.موسیٰ علیہ السلام آگ کو فرماتے تھے اے آگ فرعون کو جلا دے.دریائے نیل کو سکھا دے اے اگنی دیوتا میری قربانی قبول کر.اے آگ مرنے کے بعد مجھے خراب نہ کر وغیرہ “ یہ سب مکذب کا بالکل افترا اور قرآن کے بالکل خلاف ہے اور مکذب کا کذب و بہتان وجوہات ذیل سے ظاہر ہے.وجہ اولی کہ اُسی جگہ خود جناب موسیٰ علیہ السلام ہی کے قصہ میں آیا ہے.إذْ رَا نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امُكُثُوا إِنَّ أَنَسْتُ نَارًا لَعَلى أُتِيْكُمْ مِنْهَا بِقَبَسٍ أَوْ أَجِدُ عَلَى النَّارِ هُدى اور اسی قصہ میں دوسری جگہ فرمایا ہے ان انست نَارً ا لَعَلَى اتِيْكُمْ مِنْهَا بِنَبَرٍ اَوْ جَدُّوَةٍ مِنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ (القصص:۳۰) آیات کا منشاء صاف ظاہر ہے اصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر جاتے راستہ میں رات کے وقت آگ دکھائی دی اور آگ کے دیکھنے کے بعد ان کو وہ خواہش پیدا ہوئی جو ہمیشہ سمجھ دار اور عقلمند مسافروں کو پیدا ہوا کرتی ہے.راستہ میں آگ جلانا، پہاڑی ملکوں کا عام دستور ا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سفر میں رات کا وقت ، سردی کا موسم پیش آیا اس پر راستہ بھول گئے.دور سے آگ کو دیکھا اسے دیکھ کر ساتھ والوں کو فرمایا.تم لوگ ٹھہرو، میں تمہارے لئے آگ سلگالا تا ہوں تا کہ تم اسے سردی میں تا ہو.اور وہاں جا کر کسی سے راستہ کا پتہ بھی لوں گا.بتاؤ اس لے میں نے آگ دیکھی ہے تو کہ میں تمہارے پاس اس کی کوئی خبر لاؤں یا آگ کی کوئی چنگاری لاؤں تو کہ تم تا پو.

Page 135

تصدیق براہین احمدیہ میں کیا قباحت ہوئی ؟ ۱۳۴ وجہ ثانیہ.قرآن کریم میں صاف لکھا ہے.آگ اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار اور اس کے حکم کے ماتحت ہے.اور یہ بھی قرآن میں لکھا ہے کہ مخلوق کی عبادت جائز نہیں.غور کرو.قُلْنَايُنَارُ كُوْنِى بَرْدَا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء: ۷۰ ) فَرَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُوْرُونَ أَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ نَحْنُ جَعَلْنَهَا تَذْكِرَةً وَ مَتَاعًا لِلْمُقْوِيْنَ (الواقعة: ۷۲ تا ۷۴) اور مخلوق کی نسبت حکم ہے.وَمِنْ أَيْتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (حمَ السَّجِدَة : ۳۸) وجہ ثالثہ سورہ قصص کی اس آیت سے جس میں یہ قصہ مندرج ہے صاف معلوم ہوتا کہ یہ آواز جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سنا تھا آگ سے نہیں آئی بلکہ ایک درخت کی طرف سے وہ آواز سنائی دی.چنانچہ اس میں فرمایا ہے.فَلَمَّا أَتَهَا نُودِيَ مِنْ شَاطِيُّ الْوَادِ الْأَيْمَنِ فِي الْبَقَعَةِ الْمُبْرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ أَنْ يمُوسَى إِنِّي أَنَا اللَّهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ (القصص: ۳۱) وجہ رابعہ.اگر ہم مان لیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگ سے آواز سنی مگر یہ تو پھر بھی ا ہم نے کہا اے آگ ! تو ابراہیم پر سر داور سلامت ہو جا.سے اس آگ کو جسے جلاتے ہو سمجھتے ہو کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا یا ہم پیدا کرنے والے ہیں.سے اور اس کے نشانوں سے ہے رات دن، سورج اور چاند.مت سجدہ کر وسورج اور چاند کو بلکہ اللہ کوسجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو.۴.پس جب اس کے پاس آیا برکت والے میدان کے کنارے سے مبارک زمین میں درخت کی طرف سے پکارا گیا کہ اے موسیٰ ! یقینا میں ہوں اللہ عالموں کا پروردگار.

Page 136

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۵ نہیں ہوسکتا کہ ہم مکذب کی طرح کہیں آواز دینے والی خود آگ ہی تھی.کیونکہ اگنی ، وایو، سورج، انگر ه، ماهان وید (حسب تسلیم آریہ) نے جب وید کی رچائیں لوگوں کو سنائیں جو کچھ لوگوں نے اپنے کانوں ان رشیوں سے سنا وہ حسب تسلیم آریہ کے خدا کا کلام تھا.نہ اس اگنی اور سورج وغیرہ کا حالانکہ اگنی اور وایو اور سورج کی زبان سے سنا گیا.انصاف کرو! اگنی ، سورج، وایو اگر آدمی اور رشی تھے جیسے دیا نندی آریہ کا اعتقاد ہے.اور ان کا بولا ہوا کلام الہی کلام مانا گیا تو موسیٰ علیہ السلام کا وہ الہام جس کی آواز انہوں نے آگ سے سنی الہی کلام کیوں نہیں مانا جاتا ؟ آگ کا غیر ناطق ، غیر متکلم ، جڑ ہونا صاف گواہی دیتا ہے کہ وہ کلام آگ کا نہ تھا بلکہ کسی اور کا کلام تھا.بخلاف اس کے ملہان وید کی کلام پر ایسا یقین نہیں ہوسکتا.کیونکہ ادعاء واختلاق ان کی طرف منسوب ہو سکتا ہے.سنو! ملہم کو جب الہی آواز کان میں پڑے گی تو ضرور ہے کہ اگر وہ ہم کسی موجود مخلوق کے سامنے کھڑا ہے تو اسی چیز یا مہم کے قلب سے اس کو وہ آواز سنائی دے گی.اس میں شبہ ہی کیا ہے مشاہدہ فطرت سے عیاں ہے پر دیکھنے والی آنکھیں بھی ہوں.اگر ہم مان لیں کہ آگ سے وہ آواز سنائی دی.پھر بھی وہ آواز آگ کی کیسے ہو سکتی ہے؟ مثلاً ہم دیوار یا کسی جڑھ پدارتھ کے پاس ایسے جنگل میں جہاں کوئی بولنے والا نہ ہو کوئی کلام سنیں تو کیا ہم کہ دیں گے کہ دیوار بول رہی ہے.یہ یقینی امر ہے کہ جو آگ جناب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھی تھی وہ عصری آگ نہ تھی بلکہ عالم مثال کی ایک کیفیت تھی.اور جناب موسیٰ علیہ السلام کی کشفی آنکھ نے اسی نور الانوار کی زبر دست نجلی کو دیکھا.مکذب براہین نے اثبات صانع کی دوسری دلیل اپنی وید سے وہ لکھی ہے جس کو خاکسار

Page 137

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۶ نے نمبر الف کے نیچے لکھا ہے حالانکہ وہ دلیل نہیں بلکہ صرف باری تعالیٰ کی صفات کا بیان ہے اگر صرف صفات باری کا بیان اثبات وجود باری میں دہر یہ پر حجت ہے تو قرآن مجید نے صفات باری کے بیان میں کسی قسم کی کمی نہیں کی تھی.مکذب نے صفات کا بیان قرآن کریم میں کیوں نہ دیکھا.اگر آریہ کی نظر میں نہیں آیا تو اب زیر نمبرب ملاحظہ کریں.وید منتر کے الفاظ کو دو خطوط میں لکھا گیا ہے.اور دو خطوط کے سوا باقی مکذب کے اپنے فقرات ہیں.الف اوم سرب جگت کرتار ( خالق الکل، سرب ادبار اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا ( قیوم) سرب سوامی (غالب)، گیان مے (علیم).تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ سرب بیا پگ (محیط) انتریا می (علیم بذات الصدور)، وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ ایشر (حاکم)، ہرنیہ گر بہہ ( معدن زر ) - إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا ) ابناشی (غیر فانی ( بھو) پرانوں سے (اعضاء سے) خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ پیارا ( بھوا) مکت (نجاہ ) اور سب سکھوں کو إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ داتا.(سوا) سب کا دہارن کرنے والا وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ (قیوم).(سونیو) سب ایشرج کا داتا.(ورینیم ) جو سو پکار کرنے کے لائق اتی سریشٹ ( بھر گو) شدہ اور پوتر کرنے والا.الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة: ۲۵۶) الله وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ لے اللہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ہی قیوم ہے اس کو اونگھ اور نیند نہیں آتی.آسمان وزمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے.کون اس کے پاس اس کے اذن کے بغیر شفیع ہو سکتا ہے جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے اور پیچھے ہے.اور اس کے علم سے کسی قدر کا احاطہ بھی کر نہیں سکتے مگر جتناوہ خود چاہے.اس کا تخت آسمان وزمین پر پھیل گیا ہے اور ان (آسمان وزمین ) کی نگہبانی سے وہ تھک نہیں جاتا اور وہ بلند و بزرگ ہے.ے مومنوں کا دوست اللہ ہے ان کو اندھیرے سے نور کی طرف نکال لاتا ہے اور بے ایمانوں کے دوست طاغوت ہیں وہ انہیں نور سے نکال کر اندھیرے میں لے جاتے ہیں.

Page 138

تصدیق براہین احمدیہ ۱۳۷ (دیوسیه) سب کے آتما نو کا پر کاش کرنے الظلمتِ إِلَى النُّوْرِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا والا ( نت ) اس پر ماتما کو.( دہی مہی ) ہم دہارن کریں اوليهمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمتِ (البقرة: ۲۵۸) (دیہو ٹونہ پر چو دہیات) جو سوتیا دیو نے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ پر میشر ہماری بدھ یوں ست کی طرف پرين الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کرے اور برے کاموں سے بچاوے.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ” اس منتر میں عالم کل جگد بیشور نے اس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ قدر خوبیوں سے بھری ہوئی پرارتھنا صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (دعا) ہمیں سکھلائی ہے جس کے کامل غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ - بیان کرنے کو ایک دفتر چاہیئے“.انتھی (الفاتحة: ۲ تا ۷ ).واہ صاحب واہ.پرارتھنا تو دعا کو کہتے ہیں.یہ منتر جب دعا کا طریقہ ٹھہرا تو اثبات صانع کی دلیل جو آپ کا یہاں اصل مدعا تھا کدھر گئی !!! اس منتر کو بیان کر کے مکذب نے پانچ ورق میں منتر کے فضائل بیان کئے ہیں.پہلی فضیلت اس منتر کی جس کو مکذب نے بیان کیا ہے.اس میں سرب جگت کرنا.سرب ادہار، سرب سوامی اوصاف موجود ہیں جن سے نہایت واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ جگت کا کرتا ر، اور سب کا ادہار اور سب کا مالک ایک ہے.دوسرا کوئی نہیں.اس تمام چراچر مہان جگت کا جو بنانے والا اور بنا کر ادہار رکھنے والا اس کو عمدہ انتظام میں چلانے والا اور ہمیشہ مہان شکتی سے اس کا سوامی کہلانے والا جو تمام برکات کا چشمہ اور جمیع فیوض کا مبدا ہے وہی جانے یوگ ہے.لے حمد اللہ کے لئے جو رب العالمین رحمن رحیم مالک انصاف کے دن کا ہے.ہم تیری ہی عبادت کرتے اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.ہمیں صراط مستقیم دکھا صراط ان کا جن پر تو نے فضل کیا.نہ ان کا جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ گمراہوں کا.

Page 139

تصدیق براہین احمد به ۱۳۸ سنو! کیا قرآن میں اللہ تعالیٰ کو خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ - الْقَيُّومُ - كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ نہیں کہا گیا؟ جس کے معنے سرب جگت کرتا.سرب ادہار سرب سوامی کے ہیں اور کیا یہ تمام صفات لفظ اللہ کے معنوں میں داخل نہیں ؟ اب میں آپ کو چند ایسے لطائف سناتا ہوں جن سے منصف لوگ اسلام کی حقیت کی حقیقت اور دیانندی آریہ کا بطلان یقین کریں گے.لطیفہ اولی آپ نے لفظ اوم سے تمام جگت کا کرتا.اور تمام چرا چرمہان جگت کا بنانے والا اللہ تعالیٰ کو بتایا ہے.میں پوچھتا ہوں تمام چراچر میں جیو (ارواح) اور اُن کے گن ، کرم، سبہا ؤ، پر مانو اور ان کے گن، کرم سبہا ؤ، کال داخل ہیں یا نہیں؟ اگر یہ چیزیں جگت میں داخل ہیں تو دیا نندی پنتھ بتاوے ان کا خالق کون ہے؟ اگر کہیں وہی ہے جس کو اللہ ، اوم، جگدیش کہتے ہیں تو چشم ما شاد دل ما روشن.وَلَهُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى پس اللہ تعالیٰ کو خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ کہنے والا اور اس پر ایمان لانے والا مومن اور نجات کا پانے والا ہے ولِلهِ الْحَمْدُ.اگر دیا نندی لوگ کہیں کہ یہ جگت میں داخل ہی نہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق نہیں تو بتادیں یہ فضائل قرآن کریم سے بڑھ کر کس امر کے مثبت ہوئے ؟ تمہارے فضائل والے وید نے تو تمہاری تحقیق پر اللہ تعالیٰ کے قدم اور بقا اور غیر مخلوق ہونے کی صفت میں بھی خدا کو یکتا نہ مانا !!! لطیفہ ثانیہ مکذب نے لفظ اوم سے ثابت کیا ہے کہ باری تعالیٰ تمام برکات کا چشمہ ہے اور جمیع فیوض کا مبدا.میں پوچھتا ہوں ابدی نجات ہمیشہ کی مکت کوئی با برکت اور عمدہ چیز ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس رحیم ، کریم ، دیا لو، جگدیش کے گھر میں ضرور ہوگی کیونکہ وہ تمام برکات کا چشمہ اور جمیع فیوض کا مبدا ہے اور اگر ابدی نجات اور دائمی آرام کچھ بابرکت شی نہیں تو تھوڑے وقت کا آرام اور نجات بھی جو ابدی نجات کا جزو ہے اچھا اور بابرکت نہ ہوگا کیونکہ آپ کے علوم متعارفہ میں ہم پڑھ چکے ہیں ” جو گل میں نہیں وہ جزو میں بھی نہیں ہوسکتا.مگر تھوڑے وقت کے آرام کو با برکت نہ کہنا بالکل غلط اور ہدایت کے خلاف ہے.

Page 140

تصدیق براہین احمد به بھی ہیں.۱۳۹ اس لئے وہی کتاب سچ ہے جو کہتی ہے کہ الہی انعامات اور اس کی عطایات عطاء غیر مجذوذ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِى خَادِمَ كِتَابِكَ وَ سُنَّةِ نَبِيِّكَ وَارْزُقْنِي مُرَافَقَتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فِي أَعْلَىٰ عِلِّيِّينَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ 66 لطیفہ ثالثہ.لفظ اوم کی دوسری فضیلت میں مکذب نے کہا ہے اللہ تعالیٰ جسم ، طول، عرض عمق ، جہل، غفلت ، کمزوری ، مکان اور تمام الزامات سے پاک ہے.میں پوچھتا ہوں قرآن مجید نے بھی اللہ تعالیٰ کو المَلِكُ الْقُدُّوسُ السلم فرما کر اہل اسلام کو یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک الزام سے پاک ہے مگر دیا ندی آریہ کہتے ہیں خدا ارواح کا خالق نہیں ! اگر رزق دیتا ہے تو یہ صرف ارواح کے اعمال کی مزدوری ہے! اور وہ با اینکہ ارواح کا خالق نہیں مگر ان کے پیچھے ایسا پڑا ہے کہ اس کی دست برد سے انہیں کبھی ابدی نجات نہ ہوگی !!! لڑکوں کی بیماری اور ان کی تکالیف دیکھ کر دیا نندی کہتے ہیں اگر تناسخ کا ماننا غلط ہے تو معصوم بچوں پر ایسی تکالیف کیوں آتی ہیں؟ اگر تناسخ نہ مانے تو رحیم خدا پر الزام آتا ہے.ہم کہتے ہیں.اگر ارواح البہی مخلوق نہیں تو ان پر ایسی حکومت اور تصرف کیوں ہوا؟ کہ وہ کبھی مطلق آزاد نہ ہوئے مہان پر لے میں بھی بیچ آنکر ما تر کرم سے داغدار ہیں! اگر حقیقت الا مرکود یکھ تو لا محالہ وہی مذہب سچا ماننا پڑے گا جو یہ بشارت دیتا ہے.كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الانعام: ۵۵) اللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الزمر: ٦٣) لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) ثُمَّ نُنَخِي الَّذِينَ اتَّقَوْا (مریم: ۷۳) ا تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو لکھ لیا ہے.ے اللہ ہرشی کا خالق ہے.سے اس کی مثل کوئی شئی نہیں.پھر ہم ڈرنے والوں کو نجات دیں گے.

Page 141

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۰ لطیفہ رابعہ.مکذب نے لفظ اوم کی دوسری فضیلت میں کہا ہے اللہ تعالیٰ ایک ویشی یعنی عرش یا پانی پر بیٹھا ہوا نہیں.میں پوچھتا ہوں خود مکذب نے تکذیب کے صفحہ اہم میں باری تعالیٰ کی مدح میں لکھا ہے.وہ تینوں زمانوں کے اوپر براجمان ہے.اس قول پر وید سے استدلال کیا ہے.اور بڑھ کر یہ ہے کہ صفحہ نمبر ۷۴ میں ایک وید منتر لکھا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.’ دیوتہ امرت مان شوناس ترتیئے دہام ندہی تم.اور ان الفاظ کے اصل معنی یہ ہیں دیو تہ لوگ آب حیات کا پینا ترک کر کے تیسرے مقام میں پر کاش والے کی عبادت کرتے ہیں.سوچو ایک مقام تو زمین ہے اور دوسرا آسمان تیسرا کیا ہوا اسے وہی کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا ہے جسے اہل اسلام عرش کہتے ہیں.لطیفہ خامسہ.مکذب نے اوم کے لفظ سے یہ بھی نکالا ہے کہ باری تعالیٰ کی جناب میں سپارش نہیں، رشوت جرم ہے جبرائیل، میکائیل کا وحی پہنچانے رزق رسانی کا محتاج بنانا جہالت ہے“.میں کہتا ہوں باری تعالیٰ کی پاک ذات کو مسلمان بھی رشوت خوار اور وحی میں جبرائیل وغیرہ کا محتاج ہر گز نہیں جانتے.ان کلمات سے کس قوم پر طعنہ کی راہ تکتی ہے؟ کیا قرآن کریم میں یہ آیت شریفہ نہیں آئی.وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَ يَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللهِ قُلْ اَتُنَيّونَ اللهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَوتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يُشْرِكُونَ (يونس: ١٩) وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْنَ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ (البقرة : ۴۹) وَاللهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ (محمد: (۳۹) مگراب یہ تو فرمائیے پر ارتھنا اور دعاؤں اور خاص کر مضطروں اور پاک لوگوں کی دعاؤں میں بھی کوئی اثر ہے یا نہیں؟ اور خیرات ، صدقات اور خوشبو والی اشیاء کا آگ میں ڈالنا کچھ مفید لے اور ڈرو اس دن سے کہ کوئی جی کسی جی کے کام نہ آئے گا اور نہ اس کی سفارش منظور کی جائے گی اور نہ اس سے کوئی رشوت لی جائے گی اور نہ وہ مدد دیئے جائیں گے.

Page 142

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۱ ہے یا نہیں ؟ اگر جبرائیل کا وحی میں درمیانی یقین کرنا اور میکائیل کا توسط ماننا کبیرہ گناہ ہے اور الہی بارگاہ میں کوئی واسطہ نہیں تو کیا یہ بات بالکل غلط ہے جو دیا نندی آریہ کہتے ہیں.اگنی ، وایو، سورج، انکرہ کی وساطت اور درمیانی ہونے سے وید جیسا الہی کلام لوگوں کو پہنچا اور کیا ہمارا یہ مشاہدہ غلط ہے؟ اور سوفسطائیہ کا قول صحیح ہے.مشاہدوں کا اعتبار نہیں ؟ جو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے کھیتوں اور باغوں کے ہرا بھرا آباد کرنے میں بعض ہوائیں اور مینہ برسانے والے بادل اور روشنی اور اندھیرا مظاہر قدرت کی وساطت ہوتی ہے اور تمام حوادث اور واقعات علوی وسفلی وسائط واسباب سے مربوط ہیں.تیس پر بھی حقیقتا باری تعالیٰ کی ذات پاک ان تمام علل اور درمیانی اشیاء سے مستغنی ہے اور یہی امر بالکل اسلام کے مطابق ہے.إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنُهُ أَنْ نَّقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (النحل: ۳۱) اس ویدک منتر کی جو ایک قسم کی دعا ہے مکذب نے چوتھی فضیلت دیکھی ہے جو جس کو پیار کرتا ہے دوسرے کے دل میں اس کی محبت اتنی ہی اثر کر رہی ہے.ایشر کو پرانو سے پیارا جاننا حصول قرب کا اول درجہ ہے“.میں کہتا ہوں قرآن کریم الہی محبت کے مسئلہ کو جس آب و تاب و عمدگی سے بیان کرتا ہے اسے ذرہ تامل سے سنو.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا تُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ وَالَّذِيْنَ امَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة: ١٦٦) بعض آدمی بعض اشیاء کو مختلف اغراض کے باعث پرانوں سے پیارا سمجھتے ہیں تم نے سنا ہوگا کہ ہزاروں اپنے پرانوں کو خدا کے سوا اور اشیاء کی محبت پر تیاگ دیتے ہیں.پس سچی تعلیم اور کامل تعلیم میں بجائے اس کے کہ باری تعالیٰ کو پرانوں سے پیارا کہا جاوے اس کو ہر ایک چیز سے بعض آدمی اللہ کو چھوڑ کر شریکوں کو اختیار کر لیتے ہیں ان سے اللہ کا سا پیار کرتے ہیں.پر ایمان والے سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے کرتے ہیں.

Page 143

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۲ زیادہ پیارا ہونے کا یقین کرایا جاوے اور یہی فائدہ ہے جو قرآن کریم کے لفظ من دون الله.حاصل ہوتا ہے اور یہی قرآن کریم کی تکمیل ہے.فضیلت پنجم میں لکھا ہے.اس ایک راحت اور آنند کو لوگ حسب مرضی چاہتے ہیں اور یہی سبب ہے کہ محروم رہ جاتے ہیں، مگر میں کہتا ہوں کیا أَفَرَءَ يْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوبِهُ (الحانية: ۲۴) قرآن کریم میں موجود نہ تھا؟ یا کیا مکذب اس سے بے علم ہے؟ فضیلت ششم تمام سرشٹی کے واسطے پر میشر سرب ادہار ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ (الانعام: (۱۰۳) لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاء وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَلَا يَودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرة : ۲۵۶) فضیلت ہفتم و ہشتم میں جو کچھ لکھا ہے.وہ فضیلت ششم میں موجود ہے.اگر زیادہ سننے کی ضرورت ہے تو سنو.قرآن کریم میں ہے.وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (النساء: ۳۷) إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ (النساء: ۱۱۷) اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ (البقرة: ۲۵۸) فَلَا تَدْعُ مَعَ اللهِ الَهَا أَخَرَ (الشعراء: (۲۱۴) فَتُلْقَى فِي جَهَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُورًا (بنی اسرائیل:۴۰) منتر دوم کی فضیلت ہشتم میں.شیطان کے وجود پر اور اللہ تعالیٰ کے نام قہار، جبار اور اس کی صفت مکر پر بھی اعتراض کیا ہے اور مکار اس کا نام بتایا ہے! شیطان کا قصہ ہم مفصل بیان کر آئے ہیں.شیطان کو گمراہ کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے نہیں بھیجا.قرآن کریم میں نہیں لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو گمراہ کرنے کے واسطے پیدا کیا.قہر کے معنی عربی میں غلبہ اور طاقت کے ہیں قاہر کے معنی غالب اور طاقتور ہے القاھر جو اللہ تعالیٰ کا نام ہے اس کے معنی ہیں وہ ذات پاک جو سب پر غالب ہے الْقَهَّارُ القَاهِر کا مبالغہ ہے قرآن کریم نے خود القاهِرُ کے معنے بتائے ہیں.جہاں لے تم دیکھتے ہو بعض آدمی اپنی خواہش کو معبود بنا لیتے ہیں.

Page 144

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۳ فرمایا ہے.وهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ (الانعام: 19) کیا تمہارے یہاں اسے سرب شکستیمان سوامی نہیں کہا گیا ؟ پس اسے الْقَاهِرُ کا ہم معنی سمجھ لو.جبر کے معنی اصلاح کرنا سنوارنا.الجَبَّارُ کے معنے وہ بڑا اصلاح کرنے والا اور سنوار نے والا.پس اس معنی پر اللہ تعالیٰ کا نام ہوا الْجَبَّارُ ہم ہزاروں طرح سے اپنی صحت کا بگاڑ کرتے ہیں.مگر اس معنی بارگاہ میں ہماری اصلاح کے سامان پہلے ہی سے علیم وخبیر خدا نے کر رکھے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ یقینا ہماری کرتوتوں سے پہلے ہی واقف تھا.دیکھو عربی زبان کے الفاظ بولنے والے طبیب اس بندھن کو جوٹوٹی ہوئی ہڈی پر ہڈی کی اصلاح کے واسطے باندھتے ہیں جبیرہ کہتے ہیں.یہ لفظ اسی مادہ جبر سے نکلا ہے جس سے جبار نکلا ہے.اور جبر نقصان تو عام لکھے پڑھے لوگوں میں مشہور ہے جس کے معنے نقصان کی اصلاح کے ہیں.مسکر کے معنی تدبیر اور بار یک تجویز کے ہیں اور فریب کی سزا دینے کو بھی عربی میں مسکر کہتے ہیں.حیلہ کا لفظ بھی عربی میں لفظ مکر کے ہم معنی ہے اور گید بھی یہی معنے رکھتا ہے اور گید کے معنے جنگ اور تدابیر جنگ کے بھی ہیں.لے عداوت ایک تاریک بخار ہے جو دل و دماغ کو مکدر کر کے صفات حسنہ سے انہیں محروم کر دیتا ہے عیسائیوں نے محض حسد سے ان الفاظ ( مکر، کید) کو اعتراض کا نشانہ بنا رکھا ہے اور قرآن کریم کی ان آیات پر حقارت آمیز نگاہ ڈالتے ہیں کہ تو رات و انجیل میں ایسے محاورات بکثرت موجود ہیں عربی اور عبری محاورات قریب قریب ہونے کی وجہ سے لازم آتا تھا کہ وہ قرآن کریم کی مصطلحات کی صداقت کا اعتراف کرنے میں پس و پیش نہ کرتے مگر ضد نے ان کی بصیرت کو دھندلا کر دیا.ہمارے دیا نندی بھائیوں نے بھی حق پوشی میں انہی اگیانی لوگوں کے اقتدا کو ضروری سمجھا ہے.صاف ظاہر ہے کہ ایک بولی کا لفظ جب اپنی اصلی زبان سے دوسرے ملک میں دوسری زبان میں منتقل ہوتا ہے اس کا منشاو مفہوم اصلی دوسرے ملک کے مذاق کے قالب میں ڈھل جاتا ہے مکر، گید ملٹری ٹرمس ( فوجی اصطلاحیں) ہیں قرآن کریم کی یہ آیتیں ان الفاظ کی پوری تشریح کرتی ہیں وَإِذْ يَمْكُرُبِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتَوكَ اَو يَقْتُلُوك أو يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللهُ - وَاللهُ خَيْرُ المُكِرِينَ (الانفال: (۳۱).جب بے ایمان تیری نسبت خفیہ تدابیر کر رہے تھے کہ تجھے قید کر لیں یا جلا وطن کریں یا مار ہی ڈالیں اور وہ تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ بھی بچا کر نکال لے جانے کی تدبیر کر رہا تھا اور اللہ کی تدبیر آخر غالب ثابت ہو گئی.اب عرب کی ناشکر گزار قوم کی اس بدسگالی اور خفیہ سازشوں کو جو آنجناب صلعم کی نسبت کرتے تھے اور ان کی اختلاف آرا کو لفظ مکر سے ظاہر کیا ہے خود حل بتائے دیتا ہے کہ اس لفظ کا معنی کیا ہے.دوسری آیت جناب ابراہیم کی نسبت ہے جہاں فرمایا ہے وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْتُهُمُ الْآخَرِينَ (الانبياء (1) انہوں نے اس کو ضرر پہنچانا چاہا پر ہم نے انہیں کو ذلیل کیا.وہ جناب ابراہیم کو آگ میں ڈالنا چاہتے تھے اور اس ارادہ میں باری تعالیٰ نے انہیں نا کامیاب رکھا اسی کو لفظ کید سے تعبیر فرمایا ہے.عبدالکریم

Page 145

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۴ دیا نند نے اپنی کتاب ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے کہ الفاظ کے مختلف معانی میں مناسب معنی لینے چاہیئے.ستھیار تھے.نمبر ۲ آپ اگر اس دیا نندی فقرہ پر ایمان رکھتے ہیں تو انصاف سے غور کریں کہ ان الفاظ میں کیا قباحت رہی ؟ اس منتر کی نویں فضیلت میں مکذب نے پھر باری تعالیٰ کے لئے پوتر تا کا بیان چھیڑا ہے اور میں لکھ چکا ہوں کہ قرآن نے کلمہ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السّلام میں باری تعالیٰ کی صفات کاملہ پوتر تا اور شدھی کا کامل بیان کر دیا ہے.اور اس فضیلت میں مکذب نے پھر دعا کی طرف ناظرین کو توجہ دلائی ہے اور اتنا نہیں سوچا کہ صانع عالم کے وجود پر دلائل لانا اور گم کردہ راہ دہریہ کے آگے وجود باری کو ثابت کرنا اور بات ہے اور دعا مانگنا اور، یہ بتانا کہ دعا کس طرح مانگی جاوے اور بات.اس مقام پر صانع کی ہستی پر دلائل لانے واجب تھے نہ دعائیں سکھانا.اگر دعاؤں کی عمدگی سے دہریہ پر حجت قائم ہو جاتی ہے تو قرآنی دعا سن لو جو تمام عمدہ مطالب پر حاوی ہے اور اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھی جاوے تو ہر قسم کی انسانی دعاؤں سے بالا تر ہے.اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحة: ٧،٦) رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرة: ٢٠٢) اس میں پھر لکھا ہے عید کے بکرے اور بھیڑیں تیری خوراک نہیں اور خون تیرے حضور نہیں پہنچتا.العجب !ثم العجب! کیا یہ فقرہ جس کو آپ نے لکھا ہے کسی ویدک منتر کا ترجمہ ہے؟ کیا یہ آپ کا یا کسی اور انسان کا ایجادی فقرہ ہے؟ نہیں نہیں.ہرگز نہیں.یہ تو قرآن کریم کی آیت کا ترجمہ ہے.اور وہ آیت یہ ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمُ (الحج: ۳۸) لے اے ہمارے رب ہم کو اس زندگی میں نیکی دے اور آنے والی زندگی میں بھی نیکی عنایت فرما.اللہ کوان کا گوشت اور لہو نہیں پہنچتا لیکن اسے تو تمہاری (صفت) تقویٰ ( خداترسی ) پہنچتی ہے.

Page 146

تصدیق براہین احمد به ۱۴۵ روحانی صداقتیں تو قرآن کریم سے باہر نہیں.مگر ہم تعریض کرنے والے سے یہ پوچھتے ہیں.سوم لتا کے رس سے کس دیوتا کا پیٹ موٹا اور پھلایا جاتا ہے؟ وید کے عام پسند لفظی تراجم سے پتہ دیجئے.اس منتر کی دسویں فضیلت میں لکھا ہے.”حقیقی دعا اور شانتی (آرام) دینے والی اپاشنا ( عبادت ) وہی ہے جس کے کرنے سے اپا شک (عابد) کو شک نہ رہے جو اس کے حصول کے وسائل ہیں اول ان کا گیان نہایت لازمی ہے.اور یہ بتانا اس مذہب کا ذمہ ہے جو کاملیت کا دعویٰ کرے.پا شک کو شک نہ رہے.کی نسبت تو آپ نے صرف اتنا ہی کہا ہے کہ باری تعالیٰ اپا شک اور دعا کرنے والے سے قبولیت کا وعدہ کر لے جیسے تکذیب کے صفحہ ۶۴ سطر میں آپ نے لکھ دیا اور اس کے حصول کے وسائل کو صرف ترقی علم کی دعا میں منحصر کیا ہے جیسے تکذیب کے صفحہ ۶۲ سے ظاہر ہے.مگر کیا تم لوگوں نے قرآن میں قبولیت دعا کا وعدہ اور ترغیب علم کی آیات نہیں پڑھیں؟ اچھا اب سن لو.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: ۱۸۷) وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (طه: ۱۱۵) يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجُةٍ (المجادلة:۱۲) قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر:١٠) اس منتر کی گیارہویں فضیلت میں مکذب نے کہا ہے.جتنے مذہب ہیں عقل کو صندوق میں بند کر قفل لگانا اپنا پہلا اصول جانتے ہیں اور ان مذاہب میں سے فسٹ نمبر دین محمدی ہے.مصنف اعجاز محمدی نے صفحہ ۱۹ میں معقول فلسفہ سے منع فرمایا ہے.لے میں دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو چاہئے کہ مجھ ہی سے قبولیت کی طلب کریں اور مجھ پر ایمان لا دیں تو کہ راہ پاویں.اور کہہ اے میرے رب مجھے علم میں ترقی دے.سے اللہ ایمان والوں اور عالموں کے درجے بلند کرے گا.ہے تو کہہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہیں.

Page 147

تصدیق براہین احمد به ۱۴۶ میں کہتا ہوں صاحب اعجاز محمدی نے یونانی لغو فلسفہ سے منع کیا.جو غالباً ہندیوں بلکہ ایرانیوں کی کاسہ لیسی کا بد نتیجہ ہے.والا قرآن سے فلسفے کی تاکید کرتا ہے اور نیچر کے نظارہ پر کبھی فرماتا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: ۱۲.اور کبھی فرماتا ہے لایت لِلْعَلِمِينَ (الروم: ۲۳) کسی وقت فرماتا ہے لایت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (الرعد:۵) اور کہیں فرماتا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لايتٍ لِأُولِي النعلی (طه: ۵۵) اور کسی جگہ اشارہ کرتا ہے اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ (الزمر:١٠) ان نصوص کے بعد کوئی عقلمند منصف کہہ سکتا ہے کہ قرآن یا اسلام کا پہلا اصل یہ ہے کہ عقل سے کام نہ لیا جاوے یا عقل کو صندوق میں بند کر کے اس پر قفل لگا دینا چاہیئے.مولوی غلام علی صاحب مرحوم کا قصہ کہ ” یوشع بن نون کے قصہ میں سورج کا کھڑا ہونا مولانا مرحوم و مغفور بیان کر رہے ہیں.اور اس وقت مکذب براہین نے اُن کو بند کر لیا.ایک شخصی بحث ہے جو ہمیں پسند نہیں.اور مولوی صاحب مرحوم کا اب انتقال ہو چکا ہے.والا ہم ان سے دریافت کرتے کہ مکذب کہاں تک راست باز ہے حالانکہ نہار کا طول یا لیل کا طول جس کو سرمدیت لیل اور سرمدیت نہار کہتے ہیں.ایک لطیف محاورہ ہے اور مکذب کے گرو ( پیشوا، دیانند ) کی اس تحقیق پر جس سے اس نے اگنی اور وایو اور سورج رشیوں کے نام رکھے.اس قصہ کی توجیہ کچھ بھی دقت نہیں رکھتی.مگر قرآن کریم میں یہ قصہ موجود نہیں ہے.ہمیں یا مولوی صاحب مرحوم کو اس کے بیان کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دواز دہم فضیلت کے بیان میں پھر تم کو آیت ذیل یاد دلاتا ہوں.اللهُ وَلِى الَّذِينَ امَنُوا يُخْرِجُهُمُ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ (البقرة: ۲۵۸) اور خلوص نیت اور استقامت (استقلال) و درستی وسائل کے متعلق ان آیات پر غور کیجئے وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (البينة: ٢) اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ (حم السجدة: ٣١) اس منتر میں کتنی طول کلامی کرنی پڑی.با اینکہ اثبات صانع کے دلائل سے اس کا کوئی تعلق نہیں.مگر امر مجبوری ہے بے تکی ہانکنے والوں سے سابقہ پڑ گیا ہے اب لفظی ترجمہ اس منتر کا

Page 148

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۷ لکھتا ہوں.جس پر اس قد ر گفتگو ہوئی ہے.اوم ( حافظ ) ، بہو ( خدا ) ، ئہوا ( جس میں سب ہیں ) ، سُوا ( خوش و خرم ) ، تت (وہ)، سویت ( خالق)، ور مینیم (لینے کے لائق ) بھر گو ( تیج )، دیو سے (پرکاش والا ) ، دہی مہی ( دھیان کرتے ہیں ) ، دہیو ( عقلوں کو ) ، ٹوئہ (جو ہمارے) ، پر چو (اپنی طرف کھینچے )، دیات مطلب اللہ تعالیٰ ہماری عقلوں کو اپنی طرف متوجہ کرے.مگر کیا یہ دعا قرآنی دعاؤں کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ سنو ! رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى وَيَسر لي أمرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِي وَاجْعَلْ لِي وَزِيْرًا مِنْ أَهْلِي هُرُونَ أَخِي اشْدُدْ بِةٍ أَزْرِي وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي كَيْ نُسَيْحَكَ كَثِيرًا وَنَذْكُرَكَ كَثِيرًا (طه: ۳۵۲۲۶) رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (الكهف: (1) سورہ فاتحہ کو بھی مکذب نے دلیل اثبات صانع خیال کر کے اس پر اعتراض کئے ہیں.پہلا اعتراض تکذیب کے صفحہ ۵۵ میں اگر خدائے قرآنی بموجب ان دو آیتوں کے ( الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( موصوف ہوتا تو غیر مذہب والوں اور حیوانوں کو مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل اور ذبح نہ کراتا.کیونکہ ذبح وقتل رحیمیت ور بوبیت کے برخلاف ہے“.مصدق.بدکاروں کے قتل کا تذکرہ تو گزر چکا ہے اور اس پر ویدک تاکید میں بیان ہو چکیں.حیوانات کے ذبح پر سنئے رحم ہے کہ نہیں.گوشت کھانے کے منکروں نے جانوروں کے ذبح کرنے میں گوشت کھانے والوں پر جس لے اے میرے رب میرے سینے کو کھول دے اور میرا امر میرے لئے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول کہ میری بات تبلیغ احکام الہی ) کو سمجھ لیں اور میرے خاندان میرے بھائی ہارون کو میرا بوجھ بٹانے والا بنا.اس سے میری پیٹھ کو تقویت دے اور میرے معاملہ میں اسے ساجھی بنا تو کہ ہم مل کر تیرے نام کی تقدیس کریں اور تجھے بہت یاد کریں.اے ہمارے رب ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملہ میں ہمیں راہ کھول دے.

Page 149

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۸." قدر اعتراض کئے ہیں.اس کا مفصل جواب برہان لائح نام ایک بسیط کتاب میں مولوی سید قمر علی لکھنوی نے لکھا ہے اس کا خلاصہ بقدر ضرورت یہاں گذارش ہے.معترضوں کے اعتراضات کا مداران چند وجوہ پر ہے.منکرین کی پہلی وجہ ” جانوروں کا ذبح کرنا، باری تعالیٰ کی صنعت کا مٹانا ہوتا ہے.جواب صنعت الہیہ کا وجود جیسا حکمتوں پر مبنی ہے.ویسے ہی ذبح کرنا بھی چونکہ ضروری امر ہے حکمتوں سے خالی نہیں وہ بھی حکمتوں پر مبنی ہے.ایضاً.منکرین ذبح بھی نباتات اور معدنیات کی قدرتی صنعت کا ابطال کرتے ہیں.اگر جانوروں کا ذبح کرنا قدرتی صنعت کا تغیر ہے تو نباتات اور جمادات کا استعمال بھی قدرتی صنعت کا تغیر ہے.ایضاً.ہمیشہ مرکبات میں تغیر ہوا کرتا ہے اور کسی آن میں مرکبات موجودہ تغیر سے محفوظ نہیں رہ سکیں پس تغیر ایک امر لازمی ہے جو مصنوعات کو لا بد ہے ذبح ہوں یا نہ ہوں.پھر ذبیح پر انکار کیوں کیا جاتا ہے؟ دوسر اطعن یہ کرتے ہیں کہ ذبح کرنے میں جانور کو بقیہ حیات اور تمتع زندگی سے محروم کیا جاتا ہے مگر پہلے یہ ثابت ہونا چاہیئے کہ حیوانات کو اس محرومی سے ضر ورصدمہ پہنچتا ہے حیوانات کے اضطراب اور ان کے عند الذبح حرکات سے اندازہ نہیں لگ سکتا کیونکہ کیا ثبوت ہے کہ انہیں تکلیف ہوتی ہے یا وہ تکلیف کا نتیجہ ہے؟ بارہا میں نے مصروع ( مرگی زدہ) کے حالات اضطرابیہ کو دیکھا بعد افاقہ جب اس سے دریافت کیا اس نے اپنی تکالیف سے بے خبری بیان کی.علاوہ بریں یہ نقص نباتات پر بھی عائد ہوتا ہے اور ان کے استعمال سے ان نباتات کے سلسلے کا قطع بھی جن کو ہم نے استعمال کیا لازم آتا ہے.سیوم تمتع نفس وجود حیات سے حیوانات بے خبر ہیں.چہارم.تمتع مستلذات کبھی اضطراری ہوتا ہے اور کبھی اختیاری.اضطراری کی مثال

Page 150

تصدیق براہین احمدیہ ۱۴۹ بھوکے کو کھانا کھلانا اور پیاسے کو پانی پلا دینا.اور اختیاری کی مثال لذیذ میوہ جات کا استعمال کرنا.اضطراری تمتع اور لابدی استلذاذ کی محرومی اور ان کا دفع ہونا دوطرح ہوتا ہے.اول دفع رنج اور مصیبت اس طرح پر کہ رنج اور مصیبت کا ہی استیصال کیا جاوے.دوم.صورت یہ ہے کہ رنج اور مصیبت کو باقی رکھ کر رنج زدہ کو آرام سے روکا جاوے.اول کی مثال خارش والے مریض کا مرض کسی طرح دور کیا جاوے اور اسے خارش کی دوائی کھانے سے محروم رکھا جاوے.اس طرح مرض کا دور کرنا اور مریض کو دوائی سے محروم رکھنا کوئی جرم نہیں اور نہ کوئی ظلم ہے بلکہ مریض پر پرلے درجہ کا احسان ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ خارش والے مریض کے مرض کو باقی رکھ کر خارش کی دوائی کے استعمال کرنے سے محروم رکھا جاوے یا کھجلانے سے روکا جاوے.یہ قسم البتہ ظلم ہے اب غور کرو.حیوانات کے تمتعات اضطراری ہیں یا اختیاری.ظاہر ہے کہ حیوانات کے تمتعات کیا ہیں.یہی کھانا، پینا، بول و براز کرنا اور نفس لینا اور یہ اقسام ظاہر ہے کہ بالکل اضطراری ہیں.پس حیوانات کو بند کر کے ایذا دینا ظلم ہوگا اور بے انصافی ہوگی کیونکہ جانوروں کو اس صورت میں ان کے ضروری تمتعات کھانے پینے سے محروم رکھا جاتا ہے اسی واسطے جناب رحمة للعالمین (فداه ابی و امی و نفسی و مالی) نے فرمایا ہے.امَرَاةٌ دَخَلَتِ النَّارَ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا وَلَا هِيَ أَطْعَمَتُهَا تَأْكُلُ مِنْ خَشَاشِ الْأَرْضِ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب (۵۴) حیوانات کو ذبح کر دینا اور ان کے مادہ اضطرار کو ہی قطع کرنا ظلم نہ ہوگا.یادر ہے ذبح میں قلیلہ تمتعات (مثلاً جانوروں کا کو دنا پھاندنا ) کا ابطال ضرور ہوتا ہے.ے ایک عورت ایک بلی کے بدلے جہنم میں داخل ہوئی جسے اس نے بند کر کے کھانے پینے سے محروم کر دیا وہ بیچاری حشرات الارض ہی کھاتی.

Page 151

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۰ مگر انسانی فوائد کے لئے اتنے قلیل نقصان کا ارتکاب منکرین ذبح بھی کرتے ہیں.چنانچہ وہ دودھ کی خاطر جانوروں کے ننھے ننھے شیر خوار بچوں کو باندھ کر ایسے تمتعات سے روک دیتے ہیں.ذبح پر یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ ذبح میں بے جرم جانور کو سخت سے سخت تکلیف پہنچائی جاتی ہے.اس کا جواب یہ ہے.خدا کی کمزور مگر نہایت پیاری مخلوق انسان کے بہت سے کام حیوانات کی تکلیف پر موقوف ہیں.گوشت کھانے کے منکروں کے ملک میں زراعت کے تمام کاروبار حرفت اور تجارت پر نظر کرو.یہاں کیا غالب عمرانات کے اکثر کام حیوانات کی تکلیف پر موقوف ہیں.اسی واسطے باری تعالیٰ نے حیوانات کی بناوٹ اور ان کے طبعی قوالی میں جیسی مضبوطی رکھی ہے.ان کے نفسانی قوای اور ادرا کی طاقتوں میں ایسا استحکام نہیں رکھا.حیوانی مسکن اور حیوانی لباس اور حیوانی خوراک اور حیوانی عیش و آرام پر نظر کرو.پھر انسانی محل ، قصور اور اقسام اقسام کے لباسوں ، کپڑوں اور انواع اطعمہ لذیذ اور فرحت افزا منظروں کو دیکھو اس قانون قدرت کے نظارے سے صاف عیاں ہے کہ ذبح کے آلام سمجھنے میں بھی ان کے قومی ایسے ہی کمزور اور ضعیف ہیں.جیسے اور ادرا کی قوای.حیوانات کا ذی روح ہونا اس امر پر راہ نمائی نہیں کرتا کہ ان کے قوائے نفسانیہ بھی قوی ہوں.دیکھو آدمی کا جگر اورشش با وجود ذی روح کے اعضاء اور قومی الا دراک انسان کے اجزا ہونے کے بالکل بے حس ہیں اسی طرح بعض حیوانی قوی کی حدت حیوانات کی عام ذکاوت کی مستلزم نہیں.دیکھو اکثر حیوانات بدوں وحشت اور اضطراب کے ذابح کے پاس کھڑے رہتے ہیں.رحم ایک قلبی حالت ہے ایسے ہی قہر بھی ایک جبلی صفت ہے یہ دونوں صفتیں کسی نہیں ہوتیں.ہاں کبھی سوسائٹی اور تعلیم سے ان میں کمی اور زیادتی ہوا کرتی ہے.گو وہاں اصل اور عرض کا فرق ضرور رہتا ہے.مگر اس سے دونوں افراط اور تفریط کی جانبین کسی عام حکیمانہ قانون کے باعث نہ ہوں گی.ظالم تخلق آزار یا عقرب اور مارخونخوار پر رحم کرنا ظلم ستمگار سے ہرگز کم نہیں.نکوئی با بداں کر دن چنان است که بد کردن بجائے نیک مرداں

Page 152

تصدیق براہین احمد به ۱۵۱ اچھے تجربہ کے ڈاکٹر کو زخموں کا چیر نافی نہیں گو اس عمدہ کام کو ایک رقیق القلب نہ کر سکے اور ڈاکٹروں کو اپنے زعم میں قسی القلب کہا کرے.مگر تعجب ہے کہ ذبح کے منکر ذبح کے سوائے انواع و اقسام کے شدائد اور تکالیف جانوروں پر جائز رکھتے ہیں.حالانکہ (اول) صدمہ موت جو ذبح سے حاصل ہوتا ہے.بدوں دخل انسانی بھی شدنی ہے.اور جن تکالیف کو منکرین ذبح جائز رکھتے ہیں وہ بدوں جبر انسان کے اور کسی طرح حیوانات کو لاحق ہوئی ممکن نہیں.(دوم) ان تکالیف سے جن کو منکرین جائز رکھتے ہیں حیوانات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.صرف اس میں انسانی فائدہ ہے.اور ذبح جانور کو تکالیف امراض اور تدریجی موت کے شدائد سے نجات بخش ہے بخلاف ان تکالیف کے جن کو منکرین جائز رکھتے ہیں.مصائب شدیدہ کے تحمل پر مہلت دینا رحم نہیں پس ذبح کر نا رحم ہے.کیونکہ ذبح کرنے میں جانور کو شدائد مرض الموت اور دیگر شدائد زمانی سے بچایا جاتا ہے.اور ذبح سے جانور کو وہی امر پیش آتا ہے جو اسے بدوں ذبح بھی پیش آنے والا تھا.حیوانات کے ذبح کرنے میں انسان کیوں مستثنیٰ کیا گیا.اس لئے کہ (اول) انسان مدنی الطبع اور بہت حقوق کا ذمہ وار ہے اور بہت معاملات کا اس پر مدار ہے.ہاں انسان کے ہاتھ سے جن حقوق کا اتلاف معاملات ذبح میں ممکن تھا مذ ہب حق نے اس کا انسداد ضرور کیا ہے چنانچہ اسی مصلحت کی بنا پر شیر دار جانور کا ذبح بلحاظ اس کے بچہ کے اور اور ملک کے جانور کا ذبح کرنا بلحاظ اتلاف حقوق غیر کے درست اور پسندیدہ نہیں.(دوم) انسانی بناوٹ پر نظر کرو.انسان کی ابتدائی پرورش کس طرح جانوروں سے زیادہ پر از تکالیف ہے.اس کی خوراک، پوشاک اس کے علوم کس دقت اور محنت سے اس کو حاصل ہوتے ہیں.پس اس قانون الہی سے قیاس ہو سکتا ہے انسان کی موت بھی بخلاف حیوانات انہیں حکمتوں کے لحاظ سے بڑی بڑی دقتوں اور مشکلات پر مبنی ہوگی.

Page 153

تصدیق براہین احمد به ۱۵۲ (سوم) تعجب ہے کہ تمام دنیا کے جانوروں کا مرنا ، تمام مدعیان الہام کے نزدیک خدائے رحیم کی طرف منسوب ہے.پھر نہایت تعجب ہے کہ ذبح کے حکم کو کیوں یہ لوگ رحم کے خلاف یقین کرتے ہیں؟ شکاری جانوروں کا خالق کیا رحیم نہیں ؟ امراض شدیدہ اور معمولی موت جو تدریجی اور سخت تکالیف کے بعد ہوتی ہے اس آنی موت ذبح سے اگر زیادہ تکلیف دہ ہے تو کیوں ایسی پہلی قسم کی موت دینے والا خدا یا وہ کر پالو، نیا کاری بنا رہتا ہے؟ اور ذبح کے حکم دینے سے ظالم کہا گیا ! آریہ صاحبان ! وبائی ہواؤں کا بھیجنے والا رحیم اور عادل نہیں؟ بے شک ہے! ضرور ہے ! اور قدرتی نظارہ دیکھ لو! انسان کی بناوٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خا کی پتلا ، حیوانات نباتات اور جمادات پر حکمران ہے.اس کی بناوٹ بتاتی ہے کہ اس کا پورا حق ہے حیوانات سے سواری اور بار برداری کا کام لے.ان کے بچوں کا دودھ پئے جانوروں پر حبس اور زدوکوب کی سزا بدوں جرم تجویز کرے جس کے باعث اگر جانوروں میں اور اک اور قوی ارادہ ہوتا تو ان سے خود کشی بھی ممکن تھی تو اس حکمران کے حق میں ایسی دیر پا تکالیف کے جواز پر ذبح کی تکلیف کی جو صرف ایک دو منٹ کے لئے ہوتی ہوگی.کس عقل سے ممانعت کی جاتی ہے؟ ایک اور نظارہ دیکھولو ! قتل اخس بخاطر اشرف کل مذاہب میں معمول ہے.روح کی خاطر اور حفاظت کے لئے بعض امراض میں اعضا کا کاٹنا پسند ہے اور زخم کے ہزاروں کیٹروں کا مارڈالنا ضرور ہے اور ان کیڑوں کا وہاں سے نکالنا اور جلا وطن کرنا لا بد ہے.ایک بادشاہ یا ریفارمر کے بچانے کو ہزاروں جانوروں کا قتل جائز ہے تو کیا انسانی آرام کے لئے ذبح حیوانات ممنوع ہوگا ؟ ہر گز نہیں.ذبح کا حکم جانوروں پر رحم ہے اوّل اگر جانوروں کے واسطے ذبح کا حکم نہ کیا جاتا تو بار برداری اور سواری کے کام میں سخت دکھ اٹھاتے.دوم جانور پیری،ضعف ناتوانی اور عدم خبر گیری سے تکلیف پاتے.سوم تدریجی موت کے شدائد سے ہر گز محفوظ نہ ہوتے.چہارم ایک جگہ چارہ نہ ملتا جنگل میں کوئی ساتھ نہ جاتا پیری اور ضعف سے خود نہ جا سکتے.اگر جاتے بھی تو وہاں قدرتی

Page 154

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۳ گوشت خوار جانور دانتوں کی چھریاں لے کر موجود ہو جاتے.پنجم لوگوں کے کھیت ضائع کرتے تو کھیت والے آخر ان سے وہی معاملہ کرتے جو ذبح کے مجوز کرتے ہیں.ششم اگر بدوں جواز فتویٰ ذبح سب جانور خود مر جاتے تو ان کی عفونت باعث امراض ہوتی.یا جلانے کی مالا يطاق تکلیف بے وجہ انسان پر رکھی جاتی.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے جنگلوں میں تو شکاری جانوروں اور گوشت خواروں کو پیدا فرمایا اور شہروں میں مجوزین ذبح کو.ہند کے اصل باشندے یا تو گوشت خوری کے مجوز ہوں گے یا انہیں عفونتوں کے سبب کمزور ہوکر ہمیشہ مغلوب ہی رہے.بعضے یہ اعتراض کرتے ہیں گوشت اگر قدرتی طور پر انسان کے لئے مفید ہوتا تو انسان کو اس میں اتنی صنعت اور تکلیف کی حاجت نہ ہوتی.اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی مرغوبات اور اس کی پسندیدہ چیزیں سب کی سب اس کے تصرف اور ترکیب سے اسے پسندیدہ ہوتی ہیں.کیونکہ یہ مرکب القویٰ متصرف اور جامعیت کا پہلا بھلا بدوں دخل خود کچھ پسند کرتا ہے؟ اس کی میوہ خوری میں میووں کی تراش اور تصفیہ کو دیکھو.اس کی غمگسار بی بی کے زیورات پر نگاہ کرو.اس کے جواہرات کی بناوٹ پر نظر دوڑاؤ، اس کے لباس کو سوچو.اس لئے تو اس کو مردار کا کھانا اور خون کھانا حرام ہوا کہ اس کو اس سے بدمزگی نہ ہو.ایک اور قدرتی نظارہ دیکھو.عمدہ صفات میں شجاعت ہے اور گوشت اس کا معین ہے.اس واسطے گوشت خوروں میں فتحمندی محدود رہی اور جبانت نہایت درجہ کی رذالت ہے اور گوشت اس کا دشمن ہے.اگر کاملین کو اجازت ذبح نہ ہوتی تو شریر خود احکام الہی اور احکام فطرت کے پابند نہ ہوتے.ضرور گوشت کھاتے اور کاملوں کو ستاتے اور دنیا کو انواع اقسام کے مفاسد کا سامنا کرنا پڑتا.اللہ تعالیٰ نے کاملین کو بھی اجازت دے دی کہ اشرار کا مقابلہ کر سکیں.گوشت خوری ایک ضروری امر ہے علم اور اس کا تجربہ ایک ایسی ضروری چیز ہے جس پر انسان کی انسانیت کا مدار ہے اور ظاہر ہے کہ علوم کی ترقی بدوں صحرانوردی اور سیر و سیاحت جبل و بحار بالکل محال ہے.اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسی ریاضت میں عمدہ غذا کی ضرورت ہے اور علوم کے

Page 155

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۴ عاشق بیچارے اکثر عاشق تہی دست اور بے زر ہوتے ہیں.بدوں شکار وحشی و طیور ان کے اوقات کیونکر بسر ہوتے ؟ علوم طبقات الارض اور جغرافیہ کے عشاق کو قطبین کا سفر اور جہازوں کی سیاحت بدون دریائی شکار کیونکر میسر آتی ؟ مقیمین میں سے بھی بعض جبال اور بعض بیابانوں کے باشندوں اور قطبین کے رہنے والوں کو گوشت اور مچھلی کی حاجت لا بدی ہے.جہاز والوں کو بعض حالتوں میں مچھلی کا شکار کرنا بہت ضروری ہوتا ہے جس سے سیاح ناواقف نہیں.تلوار ہر جگہ عام طور پر میسر نہیں ہوسکتی.اور بالکل ظاہر ہے کہ چھری کے ساتھ گردن کی طرف سے ذبح کرنا ایسا آرام دہ نہیں جیسے گلے کی طرف سے ہے.مکذب ” تکذیب نمبر ۵۶ دنیا کے مسلمان جب کسی حیوان کو ذبح کرتے ہیں.اس وقت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نہیں پڑھتے بلکہ بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر قتل کرتے ہیں“.مصدق.مسلمان نادان نہیں.الفاظ کے معانی سے بے خبر نہیں.جب ہی تو اپنے اس تصرف اور عظمت پر نگاہ کر کے جوان کو قاضی الحاجات خدا نے ان اشیا پر محض اپنے فضل سے بخشا ہے روحانی تربیت کے خیال پر باری تعالیٰ کی کبریائی کو یاد کرتے ہیں.سنو! ایام حج میں جب پہاڑی یا بلندی پر چڑھتے ہیں.اس وقت بھی اللہ اکبر کہا کرتے ہیں اور جب نشیب میں اترتے ہیں اور اپنا نزول دیکھتے ہیں تو سبحان اللہ کہہ کر باری تعالیٰ کی قدوسیت خیال کرتے ہیں.ہر ایک عمدہ فعل ایک صفت الہیہ کا مظہر ہوا کرتا ہے.اس فعل کے مناسب اللہ تعالیٰ کی صفات کو یاد کیا کرتے ہیں.مكذب ( مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) یہ فقرہ قرآن کا حیرت افزا ہے جس سے خدا کی ذات پر عیب وارد ہو رہا ہے.کیا پر میشر ہر روز انصاف نہیں کرتا.کیا آدم کے وقت سے مرے ہوئے لوگ اب تک سشن سپرد ہیں.مگر معلوم نہیں ضمانت پر یا جوڈ بلکل حوالات میں.پھر یہ فقر و سریع الحساب کے خلاف ہے.عدل یہ ہے کہ فورا کارروائی شروع ہو“.تکذیب صفحہ ۵۷

Page 156

تصدیق براہین احمد به ۱۵۵ مصدق.آپ نے تکذیب کے صفحہ (۸۵) میں لکھا ہے.آریہ حق کے چھپانے سے البتہ ڈرتے ہیں مگر میں نے جہاں تک غور کیا آپ کا طریقہ یہ نہ پایا.سنئیے صاحب! یوم کا لفظ عربی زبان میں وسیع معنے رکھتا ہے منجملہ ان معنے کے یوم کے معنی وقت ہے سنو ! محاوره عربــيــوم ولد للملك ولد يكون سرور عظيم و يوم مات فلان بكت عليه الفرق المختلفة.حالانکہ لڑکے کا پیدا ہونا اور آدمی کا مرنا کبھی دن کو ہوتا ہے اور کبھی رات کو.پس مالک یوم الدین کے معنے ہوئے.مالک ہے وقت جزا کا ہر روز جس وقت کسی کو اپنے اعمال نیک کے بدلے انعام اور بد اعمال کے بدلے سزا ملتی ہے.اس وقت کا مالک باری تعالیٰ ہے.بلکہ یوم اتنے وقت کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی واقعہ گزرا ہو.دیکھو یوم بعاث.وَذَكِّرْهُمْ بِأَيْهِ اللهِ (ابراهيم:۲) ہمارے ملک میں دن ٹھیک ترجمہ یوم کا ہے لوگ کہتے ہیں آج فلاں شخص کے دن اچھے آئے ہیں اور فلاں شخص کے برے آئے ہیں.پس یوم کا ترجمہ دن بھی کریں تو کوئی عیب نہیں ، غور کرو، تمام ان مصائب کی نسبت ( جو یہاں دنیا میں برداشت کی جاتی ہیں ) قرآن کیا کہتا ہے.وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمُ (الشورى :(۳) فَأَصَابَهُمْ سَيَّاتُ مَا عَمِلُوا النحل: ۳۵).یعنی جو کچھ تم کو مصیبت پہنچتی ہے سب تمہارے کسب اور اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے.اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کل مقدمات دورہ سپرد نہیں.اور اگر بعض لوگوں کے معاملات سشن سپرد ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں.ضمانت کی ضرورت ان ناقص حکام کو ہوتی ہے جن کو ڈر ہوتا ہے کہ ان کا مجرم ان حکام کے تصرف سے کہیں بھاگ جاوے گا باری تعالیٰ کے ملک سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں مجرموں میں سے بعض اسی وقت سزا یاب ہو جاتے ہیں اور بعض جوڈیشل حوالات میں رہتے ہیں یا ان پر عفو ہو جاتا ہے.ضمانت کی حاجت نہیں سَرِيعُ الْحِسَابِ اور مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ میں تعارض نہیں.(اول ) اس لئے کہ سَرِيعُ الْحِساب کے معنے ہیں کہ جب حساب شروع کر دے تو جھٹ پٹ

Page 157

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۶ لے لیتا ہے.اگر جزا اور سزا میں مہلت دے تو ممکن ہے کہ یوم الآخرہ تک مہلت دے دے.( دوم ) جس حالت میں ہر وقت یوم الدین ہے جیسے گذارش ہوا تو تعارض کیا ہوا؟ (سوم) مالك يوم الدين سے یہ نہیں نکل سکتا کہ آج کے دن کا مالک نہیں.اور آج سزا یا جز انہیں دیتا.کوئی کلمہ حصر کا یا آج مالک ہونے کی نفی کا قرآن میں موجود نہیں.اگر آپ کے نزدیک فورا کارروائی ضروری ہے تو چاہئے کہ تمام زانیوں کو پورا آ تشک یا پورا سوزاک جو پوری سزا ہے فورا شروع ہو جاوے، حالانکہ ان دونوں امراض کا ظہور ان لوگوں میں مختلف اوقات پر ہوا کرتا ہے.یا جب مجرم مختلف گناہ کر کے مختلف سزاؤں کا مستحق ہو تو بطور آریہ ہاں! دیا نندی پنتھ کے یکدم وہ تمام جو نہیں بھگت لے جن کا وہ مستحق ہے کیونکہ دیا نندی پنتھ کے نزدیک تناسخ ہی سزا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ معاصی پر مسخ ہو کر انسان حیوان نہیں بن جاتا.پھر مکذب صاحب فرماتے ہیں.ان دنوں ختم المرسلین انتظام کرتا ہوگا“ اے انصاف کے دشمنوسنو! ختم المرسلین سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم الی یوم الدین تو اپنے مالک انتظام ہونے کی نسبت حسب الہام الہی یوں خبر دیتا ہے.لَا أَمْلِكُ لِنَفْسِى ضَرًّا وَلَا نَفْعًا إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ (یونس :۵۰) قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمُ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا (الحن: ۲۲) اور رب العالمین تو خواب استراحت نہیں فرماتے قرآن کریم باری تعالیٰ کی صفت میں فرماتا ہے لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم (البقرة : ۲۵۲).البتہ پر لے کے وقت ہاں مہان پر لے کے وقت جو ایک بے دلیل اور خیالی امر ہے.بتائے کیا کرتے ہیں؟ اس وقت کس کو خلق کرتے اور رزق دیتے ہوں گے؟ مہان پرلے کے قائل اس کا جواب دیں.میں نے تو آریہ ورتوں میں وہ بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں کہ اسوقت نیند کرتے ہیں !!! لے مجھے تو اپنی ذات کے ضر و نفع کا کوئی بھی اختیار نہیں ہاں جو چاہے اللہ.

Page 158

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۷ لطیفہ.امید ہے کہ غالبا ناظرین پسند کریں گے بجائے لفظ وقت اور حین کے قرآن نے یوم کا لفظ ملِكِ يَوْمِ الدِین میں کیوں اختیار کیا؟ سوگزارش ہے کہ عرب لوگ کبھی رات کی طرف ان امور کو نسبت کرتے ہیں جن میں نقص اور عیب ہوتا ہے دیکھو شعر حماسہ کا لاذَتُ هُنَالِكَ بِالْاشُعَافِ عَالِمَةٌ ان قَدْ أَطَاعَتُ بِلَيْل أَمْرٍ غَادِيهَا اگر چہ بعض اوقات کسی خاص مصلحت کے واسطے لیل کی طرف بھی بعض امور کو منسوب کرتے ہیں.مگر وہاں لیل کو خاص صفت سے موصوف کر لیتے ہیں یا اسے معرف بالسلام بنا لیتے ہیں.جیسے اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِى لَيْلَةِ قُبُرَكَةِ (الدخان: ٢) اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر:۲) وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةٌ لَكَ (بنی اسرائیل :۸۰) اسی واسطے باری تعالیٰ فرماتا ہے.ہم جو انصاف کرتے ہیں وہ بے نقص ہوتا ہے اس میں حرف گیری کا موقع نہیں ہوتا.ہمارا انصاف اور ہماری سزا روز روشن کا معاملہ ہوتا ہے.إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة: ۵) - پر مکذب کا اعتراض ہے.”چوری قبل ، ڈکیتی ، قمار بازی کے لئے یہی کلام مسلمانوں اور ان کے ملانوں کا وظیفہ ہوا کرتا ہے.مكذب! انصاف تو کرو.یہ کیا اعتراض ہے؟ چوری، ڈکیتی، قمار بازی خدائی عبادت نہیں اور نَسْتَعِينُ سے پہلے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لفظ ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ تیرے ہی فرمانبردار ہوں یار ہیں اور نَسْتَعِيْنُ کے مابعد اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: ٢) موجود ہے جس کے معنے ہیں.دکھا ہمیں سیدھی راہ ، ہوش کرو چوری کی نسبت خود قرآن کریم میں حکم ہے السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاء بِمَا كَسَبَا (المائدة :٣٩) وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (البقرة: ۱۸۹) ے چوری کرنے والا اور چوری کرنے والی ان کے ہاتھ کاٹ دو بدلے میں ان کے کسب کے.ے اپنے مال کو آپس میں ناحق مت کھاؤ.

Page 159

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۸ اور قتل کی نسبت حکم ہے.وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ (الانعام: ۱۵۲) وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيْهِ سُلْطَنَّا (بنی اسرائیل: ۳۴) اور ڈکیتی کی نسبت کہا ہے.إِنَّمَا جَزَوا الَّذِيْنَ يُحَارِبُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ تُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا اَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمُ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (المائدة: (۳۴) قمار بازی کی برائی میں قرآن کا حکم ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالاَزْلَامُ رِجْسٌ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة: (۹) إِنَّمَا يُرِيدُ الشَّيْطَنَ اَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ وَعَنِ الصَّلوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائدة: ۹۲) بتلائیے اس قدر شدید دھمکیوں کے بعد جوان صفات زمیمہ کی نسبت قرآن مجید میں مذکور ہوئیں آپ کی منصف ضمیر (اگر اس میں انصاف ہو ) گواہی دیتی ہے کہ ایسے غیر موزوں اور خلاف ے اور مت قتل کرد کسی جان کو جو اللہ نے حرام کی ہے مگر حق پر.ے اور جو مظلوم مقتول ہوا ہم نے اس کے وارث کو قدرت دے دی.سے سوائے اس کے نہیں کہ جزا ان لوگوں کی جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں یہ ہے کہ قتل کئے جاویں یا سولی دیئے جاویں یا اس زمین سے جلا وطن کئے جاویں.یہ واسطے ان کے رسوائی ہے دنیا میں اور آخرت میں ان کے لئے بڑا عذاب ہے.اے ایمان والو! اس کے سوا نہیں کہ شراب ، جوا، بہت اور تیر ناپاک شیطانی عمل ہیں ان سے بیچ جاؤ تو کہ نجات پاؤ.۵.شیطان کا ارادہ یہ ہے کہ جوئے اور شراب کے بہانہ تمہارے درمیان بغض و عداوت ڈلوا وے اور تم کو اللہ کے ذکر اور نماز سے روکے.اب بھی باز آؤ گے؟

Page 160

تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۹ تہذیب اشارات اس کی نسبت کئے جاویں؟ مكذب اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 1) - آج کل سیدھی راہ ایک اور بھی مشہور ہے پھر کہتے ہیں اگر سیدھی راہ کے طلبگار ہو تو علم اور عقل کو کیوں دخل نہیں دیتے اور معقولات کے پڑھنے سے کیوں گریز ہے“.مصدق.آپ نے یہاں عجیب و غریب طور پر انصاف کی راہ اختیار کی ہے.دل کو روکتا ہوں، تھامتا ہوں، کانشنس دھکے دیتی ہے مگر مبار کی ہو! اس پاک مذہب اسلام کو جس نے گالی اور بدتہذیبی کا بدلہ اس قسم کی کارروائی کے ساتھ دینے سے منع کیا ہے جس نے حکم دیا ہے وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ۱۲۶) اور پھر فرمایا ہے وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا الله عَدُوا بِغَيْرِ عِلْم (الانعام: ۱۰۹) افسوس صد ہزار افسوس! پاکیزگی اخلاق اور طہارت باطن دنیا سے یک قلم موقوف ہو گئی.اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس قدر بے با کی اور کپکپا دینے والی گستاخی روا رکھی گئی.اگر کوئی منصف ہو تو اس کے نزدیک اس ناشائستہ کتاب ( تکذیب) کی بے قدری اور خفت کے لئے بس ایسے ناجائز مضامین کا ہونا ہی بس ہے.تعجب پر تعجب ہوگا اگر اس پر بھی یہ کہا جاوے کہ تکذیب لا جواب لکھی گئی یا مطلب خیر لکھی گئی ض کا منہ کالا ہوصاف اور سیدھی باتوں سے بھی کیسے پھر ا دیتی ہے.یہ بھی کیا اعتراضات ہیں؟ ان کا کافی جواب یہی ہے کہ ان کے جواب سے اعراض کیا جاوے.کیا یہ آپ کا اتہام آمیز کلام کچھ بھی انصاف پر مبنی ہے؟ مسلمانوں کو اسلام کو علم و عقل کی راہ سے کب نفرت ہوئی مسلمانوں نے علوم و فنون میں جس قدر ترقی کی اور دنیا میں انوار علوم کی اشاعت کی ایک عالم اس کا شاہد ہے.اہل یورپ اس امر کے معترف ہیں کہ یورپ کی آغاز شائستگی اور قوائے عقلی کی شگفتگی کا اصلی چشمہ عرب اور اہل عرب ہیں افسوس بغض وعناد نے ہمارے مخالفوں کو اس درجہ تک پہنچادیا کہ مسلمات سے انکار کرتے ہوئے بھی کوئی حیا دامنگیر نہیں ہوتی.مسلمانوں کی اصطلاح میں کفر کے زمانہ کو ایام جاہلیہ کہا گیا ہے جس سے صاف عیاں ہے کہ جہالت اور بے علمی سے اس قوم کو کیسی نفرت رہی ہے؟ خیر کچھ ہی سہی مگر اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنَ (الفاتحة: ۵) سے

Page 161

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۰ اس اعتراض کو کیا چسپید گی ہے؟ خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا ٹھیکہ لے لینا ہے.نفس کلمات طیبات میں کیا نقص ہے؟ اس کے معانی کیا فطرت انسانی سے مناسبت نہیں رکھتے ؟ ناظرین با انصاف سو چواس میں ہم تیرے ہی ذلیل محتاج بندے فرمانبردار بندے ہیں اور ان اپنے اقراروں پر مستقیم رہنے اور ہر طرح کی ضروریات کے سرانجام و انصرام کے لئے تیری ہی جناب سے مدد چاہتے ہیں، کیا نقص ہے؟ اس قسم کے اعتراض ظاہر نہیں کرتے کہ ان لوگوں میں مخالفت حق اور ترویج بطلان کی کس قدر عادت ہے! مجھے یقین واثق ہے کہ ان لوگوں کی ایسی کارروائی قرآن کریم کی صداقتوں کی اور بھی زیادہ استحکام دینے والی اور اشاعت کرنے والی ہوگی اور صاحبان بصیرت پر کھل جائے گا کہ بغض آلود دلوں نے مہ منیر کو تیرہوتا رثابت کرنے کی ناکامیاب کوشش کرنی چاہی ہے.قرآن کریم نے جس قدر تاکید تحصیل علوم کی کی ہے ایسی دنیا میں کسی الہی الاصل ہونے کا دعویٰ کرنے والی کتاب نے نہیں کی.اللہ اکبر ! سارا قرآن انہیں مضامین سے لبریز ہے.کہیں کائنات الجو کی طرف توجہ دلانے کو فرماتا ہے اَفَلَم يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمُ الآية (ق: 4 ) اور اس کی مثل بیسیوں آیتیں.کہیں تحصیل علوم طبقات الارض و معد نیات وغیرہ کی طرف دلوں کی توجہ کو معطوف کرتا ہے وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ (الغاشية: ۲۰).غرض اس کلام مجید کا طرز بیان اور سیاق کلام ہی اس طرح واقع ہوا ہے کہ نصیحت و ہند کے اول و آخر نظار ہائے فطرت و مشاہد قدرت کے نقشے کھینچتا ہے اور اس قسم کی آفاقی و انفسی (اندرونی و بیرونی) شہادتوں سے اپنے کلام اللہ ہونے کا صریح ثبوت دیتا ہے.عبرت انگیز اور نصیحت آمیز کلام کے مقطع میں ضرور یہ قابل غور الفاظ وار دکرتا ہے يَعْلَمُونَ، يَعْقِلُونَ، يَتَفَقَّهُونَ، يَتَذَكَّرُونَ، يَتَدَبَّرُونَ.اب ان ترغیبات کا منشا کیا ہے؟ یہی کہ اس کے پیرو، غور و تفکر کے مذہبا پابند ہو جاویں ورنہ وہ اتباع کتاب اللہ کی صفت سے موصوف نہ ہوسکیں گے.سبحان اللہ ! اس سے زیادہ ذخائر علمی کے اکٹھا کرنے کی اور کیا ترغیب و تحریص ہو سکتی ہے؟ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا الآية (الحج : ۴۷) یعنی عالم کی سیر و سیاحت کرو جس سے سوچنے والے دل پیدا ہوں.

Page 162

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۱ مكذب.غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ.چونکہ مسلمان تناسخ کے قائل نہیں پس خدا کا کسی کو نعمت دینا اور کسی پر غضب کرنا اور کسی کو گمراہی میں ڈالنا.چہ معنی دارد.نہ اس کا انصاف قائم رہتا ہے نہ اس کا رحم اور نہ اس کا علم ، أَنعَمتَ عَلَيْهِمُ - مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ - ضَالٌ عَلَيْهِم کی ضمیر میں خدا کی طرف پھرتی ہیں.پس ان اعمال کا فاعل خدا ہوا.انتھی مختصرًا.مصدق.آپ تو بڑے عربی دان ہیں اس کلام میں.کون سی ضمیر میں خدا کی طرف پھرتی ہیں ذرہ تو سوچو.خدا کا کسی کو نعمت دینا اور بدوں کسی سابق مزدوری اور کسی محنت کے اللہ تعالیٰ کا انعام اور اکرام کرنا، اس کی رحمت اور فضل کا نشان ہے جو باری تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی صفت ہے.تناسخ والے تو یہی کہیں گے ہمیں یہ آرام اور راحتیں جوملی ہیں ہماری محنتوں اور ہمارے کاموں کا پھل ہے.اگر مان لیں کہ منصف بادشاہ کا ضروری کام ہے تو کوئی اس کا فضل خاص اور خالص احسان نہیں.مگر مسلمان آرام پانے والا یہ کہے گا کہ یہ باری تعالیٰ کا فضل اور احسان اور اس کی دیا لتا اور کر پالتا ہے.اور کسی پر غضب کا آنا بے وجہ نہیں ہوتا قرآن خود غضب کے وجوہ کو بیان کرتا ہے.سنو.وَلَكِن مَّنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (النحل: ۱۰۷).بِئْسَمَا اشْتَرَوْا أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزَّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ فَبَاءُ وَ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكُفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ (البقرة : ٩١) دیکھو غضب کے اسباب قرآن کریم میں کس طرح بیان ہوتے ہیں؟ اور دیکھو غضب بھی بے وجہ نہیں آتا بلکہ اس صورت میں آتا ہے جب کسی نے اپنے دل کی وسعت میں بجائے اس کے کہ الہی محبت کو جگہ دیتا الہی نافرمانی کو جگہ دی.ضالین کا صیغہ بخلاف مَغْضُوب مجہول نہیں معروف کا صیغہ ہے صال کے معنے گمراہ ہونے والا ، بہکنے والا ، اس ضد کو چھوڑو یہ بھی کوئی اعتراضات

Page 163

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۲ ہیں اس سے قرآن کریم کی عظمت کم ہو جائے گی حق وصدق خود اونچا ہوتا ہے.یہ سراج منیر کسی دشمن کے پھونک مارنے سے بجھ نہیں سکتا.ایک زمانہ میں عیسائیان یورپ نے قرآن کریم اور اس کے حامل و احب التکریم کو بہت برے برے پیرائیوں میں دکھانا شروع کیا کہ یہ غیر مغلوب صداقت کہیں یورپ میں پھیل نہ جائے.جناب ہادی کامل علیہ الصلوۃ والسلام کو بدنما ڈراموں کی سٹیجوں پر عیب ناک قابل نفرت ایکٹر بنا کر دکھایا.اس فرضی کبوتر کی قبیل کے مصنوعی افسانے تراشے ! مگر کیا وہ اس آفتاب حقیقت کو پوشیدہ کر سکے؟ آج یورپ میں بے شمار منصف غور کرنے والے پیدا ہو گئے جو اشاعت کلام ربانی کی راہیں تیار کر رہے ہیں.اثبات صانع عالم کے ان دلائل میں سے جن کو مکذب براہین نے اپنے غلط خیال کے باعث قرآنی دلائل اثبات صانع کہا ہے قرآن کریم سے دو دلیلیں وہ بیان کی ہیں جن کو تکذیب کے صفحہ ۶۴ اور ۴ سے میں بضمن نمبر ۳ و نمبرے لکھا ہے دلیل نمبر ۳ صفحہ ۶۴ میں سورہ والنجم کے پہلے رکوع کی چند آیتیں ہیں اور دلیل نمبرے صفحہ ہے میں جو کچھ نقل کیا ہے اس میں کچھ حصہ تو ان دو آیت شریفہ کا ہے جس کو مکذب نے نمبر ۳ میں چھوڑ دیا تھا اور وہ دو آیتیں یہ ہیں.أَفَرَءَ يُتُمُ اللَّهَ وَالْعُزَّى وَمَنُوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (النجم :۲۱،۲۰) اب اس آیت شریفہ نمبری ۱۹ کے آگے مکذب ایک عربی کا فقرہ لکھتا ہے اور اس مجموعہ پر جلی قلم سے سورہ نجم کا حوالہ دیتا ہے.وہ عربی فقرہ یہ ہے تِلكَ الغَرَانِيقُ العُلى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُر تخی.پھر اس فقرہ کا ترجمہ کرتا ہے.یہ تینوں بہت بڑے بزرگ ہیں اور ان کی شفاعت کی امید رکھنی چاہیئے.میں نے اسلام کے مختلف مذاہب کے لوگوں سے یہ سورہ نجم سنی ہے کسی میں یہ ناپاک اور گندہ شرک کا بھرا فقرہ نہ پایا اور نہ کسی مطبوعہ یا قلمی قرآن کریم میں لکھا ہوا دیکھا.مکذب کے تمام ان اعتراضات کا مدار جن کو صفحہ ہ ے سے شروع کیا ہے یہی ناپاک اور شیطانی فقرہ ہے جس کو مکذب نے کہا ہے کہ سورہ والنجم میں ہے اور فی الوقع سورہ نجم کیا

Page 164

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۳ قرآن کریم میں نہیں.پس مکذب کے اعتراض بھی نہ رہے.ہاں پہلا حصہ دو آیت کر کے سورہ والنجم کے پہلے رکوع کی ان آیات کے آخر میں ہے جن کو مکذب نے دلیل نمبر ۳ تکذیب کے صفحہ نمبر ۶۴ میں لکھا ہے ان دونوں آیات کریمہ کو مع ان آیات کے جو سورہ والنجم کے ابتدا سے تا آیت ۱۷ ہیں اثبات صانع عالم سے بالذات تعلق نہیں مکذب نے نامنہمی سے اسے دلیل اثبات صانع گمان کیا ہے البتہ ان آیات کریمہ کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی راستی اور عظمت اور بزرگی کے اثبات میں ایک خاص تعلق ہے اور یہ امر بھی چونکہ احقاق حق اور ابطال باطل میں ضروری ہے اس لئے مجھے اس رکوع کی تشریح اور بیان کی ضرورت پڑی.ناظرین غور کریں ہر دو آیات مرقومہ صفحہ نمبر ۷۴ تکذیب کیسی لطیف ہیں اور کس خوبی کے ساتھ احقاق حق اور ابطال باطل کرتی ہیں.سنو! مطالب دو قسم کے ہوتے ہیں اول بڑے ضروری دوسرے ان سے کم درجہ کے.بڑے ضروری مطالب کو بہ نسبت دوسرے مقاصد کے بلا ریب تاکید اور براہین و دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میرا دعویٰ بہت صاف اور ظاہر ہے تاکید کے واسطے ہر زبان میں مختلف کلمات ہوا کرتے ہیں ایسے ہی عربی زبان میں بھی تاکید کے لئے بہت الفاظ ہیں.مگر ایشیائی زبانوں میں جیسے علی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں.ایسے ہی عربی کے لٹریچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تا کیدی لفظ نہیں.قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اس لئے اس میں عربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا.اقسام القرآن کی نسبت جہاں مکذب نے اعتراض کیا ہے وہاں مفصل انشاء اللہ بیان کروں گا.رہی یہ بات کہ اہم اور بہت ضروری مطالب میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے؟ سویا در ہے جہاں

Page 165

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۴ قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے.وہ چیز قانون قدرت میں قسم والے مضمون کے واسطے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے.اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہوگا.مثلاً اِنَّ سَعْيَكُو لَشَی الخ (اليل : ۵) ایک مطلب ہے جس کے معنی ہیں.”لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں، قرآن مجید اس مطلب کو قانون قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَى وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (اليل: ۲ تا ۴) کیا معنی؟ رات پر نظر کرو جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے پھر دن پر نظر ڈالو جب اس نے اپنے انوار کو ظاہر کیا.پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر غور کرو.اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہوگا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام جان و مال کو دینے اور نافرمانیوں سے بچنے والا اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مصدق اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والا نا فرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مکذب بھی الگ الگ ہیں اور الگ نتیجہ حاصل کریں گے.ہمارے پاک ہادی، سرور اصفیا، خاتم الانبیاء کی اثبات نبوت اور آپ کی عظمت اور بڑائی ثابت کرنا بڑا احقاق حق اور آپ کے منکروں کو ملزم کرنا بڑا ابطال باطل تھا.قرآن کریم نے اس احقاق حق اور ابطال باطل پر پر زور دلائل دیئے ہیں.ان دلائل کا بیان اس جگہ موزوں نہیں البتہ ان براہین میں سے اس والنجم کے پہلے رکوع میں احقاق حق اور ابطال باطل کا ایک ثبوت ہے.اور قبل اس کے کہ حضور علیہ السلام کی صداقت اور راستی اور سچائی کو ثابت کیا جاوے.نفس نبوت اور مصلح کی ضرورت کو قرآن میں والنجم کا لفظ فرما کر باری تعالیٰ نے ثابت فرمایا ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے.عرب ایک ایسا جزیرہ نما تھا جس میں علی العموم پانی کی قلت تھی اور اس کے ملک حجاز میں بخصوص

Page 166

تصدیق براہین احمدیہ ܬܪܙ سڑکوں اور میلوں کے نشانات اس کے راہوں میں ہرگز نہ تھے.اس لئے عرب لوگ غالبا رات کو سفر کرتے تھے.اور ثریا نام انجم سے سمت کو قائم کر لیتے تھے جس طرح آج جہازی مسافر قطب نما سے سمت کو قائم کر لیتے ہیں.اندھیری راتوں میں وہ انجم کو یا بدرقہ کا کام دیتا تھا.قر آن کریم نے جہاں النجم کے فائدے بیان کئے ہیں وہاں یہ بھی فرمایا ہے.وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ (النحل: ۷) اور یہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ النجم اگر سمت الراس پر واقع ہو تو اس سے مسافروں کو راستہ کا پتہ نہیں لگ سکتا.اس النجم کا مشرق یا مغرب میں ہونا سفر والوں کے لئے ضروری ہے.عربی زبان میں ھویٰ چڑھنے اور ڈھلنے دونوں کے معنی دیتا ہے.پس اس رکوع کی پہلی آیت وَالنَّجْمِ إِذَا هَوى (النجم:۲) کے معنی یہ ہوئے قسم ہے النجم (ثریا) کی جبکہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف ہو باری تعالیٰ رات کے اندھیروں میں جنگلوں اور راستوں کے چلنے والوں کو فرماتا ہے لوگو! تمہارے لئے تم کو منزل مقصود تک جانے کے واسطے اور جسمانی سمتوں کے سمجھنے کی خاطر ہم نے النجم کو تمہارے کام میں لگایا.تو کیا جسمانی ضرورتوں سے بڑھ کر تمہاری ضرورت کے واسطے اور روحانی منزل مقصود تک پہنچ جانے کے واسطے تمہارے لئے کوئی ایسا مصلح اور کوئی ایسا ریفارمرسلیمۃ الفطرت سچا ملہم نہ ہوگا جو تم کو تمہارے روحانی اندھیروں اور اندرونی ظلمتوں کے وقت راہنمائی کرے؟ فانی اور چند روزہ تکلیف جسمانی راہوں کے نہ سمجھنے میں جب تمہارے گرد و پیش کے نشانات تم کو راہ نمائی نہیں کرتے تو ہمارے روشن اور بلند ستاروں سے ضرور تمہاری دستگیری کی جاتی ہے.پھر جب تمہارے فطری قویٰ اور تمہاری روحانی اور ایمانی طاقتوں پر تمہاری جہالتوں تمہاری نادانیوں تمہاری بد رسومات اور عادات اور حرص اور ہوا اور بے جا خود پسندی اور ناجائز آزادی کی اندھیری رات آجاتی ہے اور اس وقت تم ابدی نجات کی منزل تک پہنچنے سے حیران وسرگرداں ہو جاؤ تو کیا ہماری رحمت خاص اور فضل عام سے کوئی روشنی بخش اور رہنما سیارہ نہ ہو گا ؟ لے اور النجم سے وہ راہ پاتے ہیں.

Page 167

تصدیق براہین احمد به ۱۶۶ اور کیا وہ اللہ تعالیٰ جس کی ذات بابرکات نے جسمانی ظلمتوں میں تمہارے آرام کے واسطے ایسے جسمانی سامان بنائے ہیں جن سے تم آرام پاؤ بشرطیکہ ان کی طرف توجہ کرو اس نے تمہارے ابدی آرام اور روحانی راحتوں کے واسطے تدابیر نہ رکھی ہوں گی؟ بے ریب رکھی ہیں.جسمانی لیل اور چند گھنٹوں کی رات میں اگر کوئی راہنما ستارہ موجود ہے تو اس روحانی لیل اور غموم اور ہموم کی نہایت بڑی لمبی رات کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہاری منزل مقصود اور جاودانی آرام تک پہنچانے کا راہ نما بھی ضرور رکھا ہو گا.وہ کون ہے؟ بے ریب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.ثبوت مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى (النجم: ۳) وجہ ثبوت اپنے ہی ملک میں ذرا تجربے اور بلند نظری سے کام لو.نظر کو اونچا کر کے دیکھو.یہ شخص تمہارے شہر کا تمہارا ہم محبتی جس کا نام محمد، احمد ، امین ہے اور جس کو تمہارے چھوٹے بڑے انہیں پیارے ناموں سے پکارتے ہیں کیسا ہے؟ کیا تمہارے لئے کافی راہ نما نہیں؟ بے ریب ہے.کیونکہ نظریات کا علم ہمیشہ بدیہات سے ہوتا ہے اور غیر معلومہ نتائج پر پہنچنا ہمیشہ معلومہ مقدمات سے ممکن ہے.نہایت بار یک فلسفی کا پتہ عامہ قواعد سے لگتا ہے.جانتے ہو.کسی انسان کو انسان کامل یقین نہ کرنے کے تین سبب ہوتے ہیں.اول یہ کہ تم اس شخص کے حالات سے پورے واقف نہیں جس نے ہادی اور انسان کامل ہونے کا دعویٰ کیا.دوم یہ کہ وہ شخص جس نے ہادی اور انسان کامل ہونے کا دعوی کیا اسے علم صحیح نہ ہو.سوم یہ کہ با وجود علم صحیح رکھنے کے اس کی عادت ایسی ہو کہ علم صحیح پر عمل نہ کرے سواس رسول خاتم الرسل محمدصلی اللہ علیہ وسلم میں ان تینوں عیوب میں سے ایک بھی نہیں مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى (النجم:۳) یعنی نہ بھولا اور نہ بے علمی سے کام کیا تمہارے ساتھ رہنے والے نے اور نہ کبھی علم صحیح کے خلاف کرنے کا ملزم ہوا.پہلی وجہ عدم تسلیم کا جواب تو یہ ہے کہ چالیس برس کامل کے تجربہ سے دیکھ لو.یہ شخص محمد امین (بابی و امی صلی الله علیه و سلم ) بھلا اس میں کوئی عیب رکھنے کی بات ہے.دوسری وجہ کا جواب یہ ہے کہ مَاضَل جس کے معنی ہیں کبھی نہ بھولا ہمیشہ تمہاری

Page 168

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۷ اور اپنی بہتری کی جو تد بیر نکالی وہ تدبیر آخر مثمر ثمرات نیک ہوئی تیسری وجہ کا جواب دیا.وَمَا غَوى (النجم: (۳) چالیس برس تمہارے ساتھ رہا اور تمہارا صاحب کہلایا.مگر کبھی کسی بد عملی کا ملزم ہوا ؟ ہرگز نہیں.چالیس برس تک جس نے راستی اور راستبازی کا برتاؤ کیا.جس کے ہاتھ پر صدیق نے بھی بیعت کی جس کے سینکڑوں مریدوں میں سے ایک بھی تبلیغ احکام اسلام میں کذب کا ملزم نہ ہوا.وہ جس نے کبھی مخلوق پر افترا نہ باندھا اب وہ کیا ہماری ذات پاک پر مفتری ہوگا ؟ ہر گز نہیں اگر اپنے پہلے تجارب اور اپنی پہلی معلومات صحیحہ پر صحیح نظر کرو گے اور اس کے چالیس سال کے برتاؤ سے پتہ لو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم : ۵،۴).اور سنو! اس کے علوم اور اس کی ہدایات کسی کمزور معلم کی تعلیم کا نتیجہ نہیں اور نہ ایسا ہے کہ یہ پورا تعلیم یافتہ نہ ہواس کی تعلیم تو اس کی نبوت اور رسالت کا عمد و نشان ہے.اس کی تعلیم بڑے طاقتور معلم کی تعلیم ہے اور یہ بھی تعلیم کے اصلی مدارج پر پہنچ کر ٹھیک اور درست ہو چکا ہے.یہی معنی ہیں آیات ثلثہ عَلَّمَهُ شَدِيْدَ الْقُوَى ذُوْمِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى (النجم: ۸۶) قانون قدرت کا عام قاعدہ ہے جس قدر کوئی چیز دوسری چیز سے تعلق پیدا کرے گی اسی قدر اس دوسری چیز سے متاثر اور متحد ہوگی ایک عادل بلکہ ہمہ عدل مالک اور علیم وخبیر سلطان کے لائق اور جان نثار ، چست و ہوشیار رضامندی کے طالب نوکر اور خادم کو جو جو انعام اور اکرام ملیں گے اور ایسے مقتدر اور مقدس بادشاہ کے ایسے پیارے خادم جن جن انعامات اور الطاف کے مورد ہوں گے ویسے نالائق اور نکھے خود پسند، مطلبی، کاہل نام کے نوکر اور جھوٹے خادم ہرگز ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کی ذات سے جس قدر اس کے بندوں کو تعلق ہوگا اسی قدر وہ قابل انعام ہوں اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے مگر جو بولا وہ الہی الہام ہے جو بھیجا گیا.ے سکھایا اس کو بڑے طاقتور نے.بڑے جگرے کا تھا پس پورانظر آیا.اور وہ اب بلند کنارے پر ہے.

Page 169

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۸ گے.جتنی بندگی اور عبودیت کامل ہوگی اتنا ہی الوہیت کا میل اس سے زیادہ ہو گا.اور بقدر ترقی عبودیت روح القدس کا فیضان ہوتا.تا ہے.لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا أَبَاءهُمْ أَوْ أَبْنَاءهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيْرَتَهُمْ أُولَيكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ مِنْهُ (المجادلة: ۲۳) یادر ہے یہی تو حید اور تثلیث کا مسئلہ تھا جس کو عیسائی نہ سمجھ کر شرک میں گرفتار ہو گئے.اور یہی وہ بھید ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور رسل اور اولیا کے باہمی تعلق کے باعث فیضان روح کا پتا لگ سکتا ہے.طالب صداقت کچی ارادت سے چند روز بحضور مرز اصاحب حاضر ہوکر استقلال وصبر سے منتظر ہو اور دیکھ بھی لے.عرب کا دستور تھا جب دو آدمی با ہم اتحاد پیدا کرتے اور معاہدہ کر لیتے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں اس طرح ملاتے کہ ایک کی کمان کی لکڑی دوسری کی کمان کی لکڑی سے از ابتدا تا انتہا ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملائی جاتی.اور ایک کمان کی تار دوسری کمان کی تار سے ملائی جاتی تب دونوں قوسوں کے دو قاب ایک قاب کی شکل دکھلائی دیتے.پھر دو کمانوں کو اس طرح ملا کر دونوں معاہدہ کنندے ایک تیر، ان دونوں کمانوں مگر اب ایک ہوگئی ہوئی کمان میں رکھ کر چھوڑتے اور یہ رسم عرب کے اس امر کا نشان ہوتا تھا کہ اس وقت کے بعد ایک کمان والے کا دوست دوسرے کمان والے کا دوست ہوگا اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن قرار پائے گا.اسی طرح انبیاء اور رسولوں کی پاک ذات کا خاصہ اور ان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ پاک گروہ اور ان کے اتباع مگر گرویدہ اتباع الحُبُّ لِلهِ اور الْبُغْضُ فِی اللہ میں منفرد ہوتے ہیں اپنے ہر ایک اعتقاد اور قول اور فعل میں حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی رضا مندی کو مقدم رکھتے ہیں اسی کے بلائے سے بولتے اور اسی کے چلائے سے چلتے ہیں.ان کا رحم اور ان کا غضب اللہ تعالیٰ کا رحم اور اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا

Page 170

تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۹ ہے ایسی وحدت و اتحاد کے باعث ان کے ہاتھ پر بیعت اور اقراراللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت اور اسی سے اقرار ہوتا ہے اور اسی اتحاد کا بیان آیات ذیل میں ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح !!) مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ (النساء :) وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَلَى (الأنفال: ۱۸) وغیرہ آیات کریمہ میں ہے والا وہ تو بشر ہوتے ہیں اور اپنی بشریت اور عجز اور فقر کو إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ (الكهف : - وَإِنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وَمَا أَدْرِى ١١١) مَا يُفْعَلُ بِى وَلَا بِكُمْ (الاحقاف:١٠) لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَابِنُ اللَّهِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ (الانعام: ۵۱) فرما کر ثابت کرتے ہیں.اللهم اهدنا الصراط المستقيم صراط الذین انعمت علیھم.باری تعالیٰ کی گرامی اور مقدس ذات پاک سے ان کی ذات کو دنو اور تقرب ہوتا ہے اور ان کی کمان اللہ تعالیٰ کی کمان سے بالکل وحدت پیدا کرتی ہے.اسی عمدہ مضمون کو قرآن کریم نے اس سورہ والنجم میں بائیں کلمات فرمایا ہے.ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنى (النجم: ١٠٠٩) اب حسب بیان سابق ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تقرب اور اس کی بارگاہِ معلی میں عبودیت تامہ کے ثبوت کے بعد روح حق اور روح القدس کا فیضان ہوتا اس لئے جناب رسالت مآب کی اعلیٰ درجہ کی عبودیت اور فرمانبرداری اور محب اللہ اور بغض فی اللہ کے نتیجہ اور فیضان کا بیان ہوتا ہے.لے یقیناً جولوگ تجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ اللہ سے ملاتے ہیں اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.ہے اور جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.ے اور تو نے نہ پھینکا جب پھینکا لیکن اللہ نے پھینکا.ے پھر نزدیک ہوا اور پاس کھڑا ہوا پس دو کمانوں کا ایک قاب یا اس سے بھی قریب تر ہو گیا.

Page 171

تصدیق براہین احمدیہ ۱۷۰ فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى (النجم: 1) مَا أَوخی میں ابہام نہیں جیسا کہ مکذب براہین نے وہم کیا ہے مسا عربی لفظ موصولہ اور معرفہ ہے او حسیٰ اس کا صلہ ہے ما اوحی کیا چیز ہے یہی قرآن کریم اور حضور علیہ السلام کی تمام پاک تعلیم جس کو اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ روح بھی فرمایا ہے.جہاں فرمایا.وكذلك أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشوری: ۵۳) اور یہ وہی روح ہے جو الوہیت اور عبودیت کے کامل میل سے پیدا ہوتی ہے بلکہ یوں کہیئے کہ اس کا اللہ سے فیضان ہوتا ہے اللـهـم ایــدنـی بروح القدس امین.اب اس کی عمدگی اور راستی کی نسبت فرماتا اور مدعی الہام کی حالت کو بتا تا ہے.مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى اَفَتُمُرُونَهُ عَلَى مَا يَرَى (النجم: ۱۳:۱۲) عرب کا یہ بھی دستور تھا جیسے قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب بڑے بڑے کاموں کے واسطے پبلک اور عام اہل الرائے کی رائے لی جاتی تو کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتے کیونکہ ان کے چھوٹے خیمے جلسہ کے قابل نہ ہوتے تھے.اور عام سایہ دار درختوں میں سے بیری کا درخت اس ملک میں بڑا درخت سمجھا جاتا ہے.اس رسم کے مطابق باری تعالیٰ حجاز کے باشندوں کو جو حضرت صاحب الوحی کے مخاطب ہیں اور آپ کی دعوت کا ابتداء روئے سخن بھی ان ہی کی جانب ہے یوں فرماتا ہے کہ جہاں اس ہادی محسن خلق ، رحمت عالمیان نے مشورہ لیا وہ بیری تمام دنیا کی بیریوں سے بڑی بیری تھی.اور وہ تمہاری دنیا کی سی بیری نہ تھی وہ تمہارے نظام تشسی سے کہیں اونچی سات آسمانوں سے پرے کی بیری ہے وہ بیری تو کچھ ایسی بیری ہے جس کی جڑھ سے تمام دینی اور دنیوی منافع کی ندیاں نکلتی ہیں.باغ عدن کی ندیاں بھی اسی کی جڑھ سے نکلتی ہیں.جن کو تم جیحون اور سیون اور نیل و فرات کہتے ہو اسی کی جڑھ سے نکلتے ہیں جنة الخلد کی ندیاں بھی وہاں ہی سے رواں ہیں خود جنة السماوی بھی اسی کے پاس ہے.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ ا پھر اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دل میں ان عظیم الشان اسرار ( قرآن کریم ) کو ڈالا.ہے اس دل نے جو دیکھا خوب دیکھا ( یعنی مغالطہ نہ کھایا ) کیا تم اس کی دید پر جھگڑتے ہو.

Page 172

تصدیق براہین احمدیہ 121 ان آیتوں میں بیان فرماتا ہے.وَلَقَدْرَاهُ نَزْلَةً أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى إذْ يَخْشَى السَّدْرَةَ مَا يَخُشُى (النجم ۱۴ تا ۱۷) ما یغشی کا ما بھی موصولہ اور معرفہ ہے مکذب براہین نے کم علمی سے کہہ دیا ہے کہ ہادی اسلام ما یغشی کا پتہ نہیں دے سکے.یادر ہے یہ کلمہ ما کا عربی میں تفخیم اور تعظیم کے معنے دیتا ہے.وہاں سدرۃ المنتھی میں جناب رسالت مآب فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا اپنے رب تعالیٰ کے بڑے بڑے نقش قدرت دیکھے.کمالات انسانیہ کے حاصل کرنے کے نشانات کا نظارہ کیا جیسے فرماتا ہے.مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ أَيْتِ رَبِّهِ الكَبْرَى (النجم : ۱۹،۱۸) مشرکو! اس مہربان ہادی کے منکر و! بت پرستو تم نے کیا دیکھا؟ جس کے دیکھنے کے بعد بت پرستی جیسے گڑھے میں ڈوب مرے.بت پرستی کے لوازم و ہم پرستی اور جہالت میں مبتلا ہو گئے نہ کوئی تمہارے ملک میں تمدن کا قاعدہ نہ معاشرت کا اصل نہ سیاست کا ڈھنگ اور نہ روحانی تعلیم کا ذریعہ نہ حقیقی عزت اور فخر کا تم میں وسیلہ.افَرَ يَتُمُ اللَّهَ وَالْعُزَّى وَمَنُوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (النجم :۲۱،۲۰) ذرا غور تو کرو.انصاف سے کام لو.عقل کو بریکار نہ رکھو.اس عجیب و غریب تفرقہ پر نگاہ تو کرو.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سدرۃ المنتھی تک پہنچنے کا نتیجہ کیا ہے؟ اور تمہارے لات اور عزی اور منات کی پرستش کا ثمرہ کیا ہے؟ ایک وہ تو حید کا واعظ سچے علوم کا معلم ، قوم کو ذلت اور ادبار سے لے اور یقینا اس نے اسے بار دیگر دیکھا (یعنی نظر ثانی کی ) سدرۃ المنتھی کے پاس (سب سے بڑی بیری) جس کے پاس جنة الماوی ہے.اس سدرہ ( بیری) کو بڑے اعلیٰ درجہ کے انوارڈھانکے ہوئے ہیں.ے اس کی آنکھ نے کجی نہیں کی اور غلطی نہیں کھائی.ضرور اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے.سے واہ تم نے تو لات و عزی ہی کو دیکھا اور منات کو جو تیسرا اور سب سے گیا گزرا ہے.

Page 173

تصدیق براہین احمدیہ ۱۷۲ عزت وسلطنت عالمگیر پر پہنچانے والا.دوسرے تم لوگ پتھروں سے حاجات کے مانگنے والے فسق و فجور میں قوم اور ملک کو تباہ کرنے والے اور وہم پرست ایسے کہ اپنے لئے تو اولاد نرینہ کو پسند کریں اور باری تعالیٰ کی پاک ذات پر یہ عیب لگاویں اور یہ بدا عتقاد کریں کہ معاذ اللہ فرشتے اور ملائکہ اللہ تعالیٰ رحمن کی بیٹیاں ہیں.مشرکو! دیکھا بت پرستی نے تم کو کس کو ئیں میں گرایا ان کی اسی نادانی کا بیان ہے.الَكُمُ الذَّكَرُ وَلَهُ الْأُنثَى تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيزُى (النجم: ۲۳:۲۲) اس تفسیر سے مکذب کے ان اعتراض نمبر ۳ اور نمبرے دونوں کا جواب ہو گیا جن کو مکذب نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۶۴ اور اے میں بیان کیا ہے.سورہ والنجم کی پہلی چند آیات اور پہلے رکوع کی آخری چند آیات کے مقابل مکذب نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۶۴ وصفحہ نمبر ۷۴ میں یہ دو منتر لکھے ہیں.سورہ والنجم کے قریباً تمام رکوع کا ترجمہ مع تفسیر لکھ چکا ہوں.اب منتروں کا ترجمہ سنو اول منتر : پرتیسے ( محیط) بہوتانی ( عناصر) پر تیے ( محیط ) لوکانی (عالم) پر تیے (محیط) سروا ( تمام ) پر دشو( زوایا عالم) هیچ (جوانب ) لسپتہاے( قریب ٹھہرا ہوا ہے ) جامرت سیا ( غیر فانی ) تمنا تمانم ( اپنے آپ کر کے اپنے آپ میں ) پھ سنوشیش ( داخل ) یہ تیسری دلیل ہے جس کو مکذب براہین نے ہستی صانع عالم کے اثبات میں وید سے بیان کیا ہے.جہاں تک میں خیال کر سکتا ہوں.اس قسم کا بیان دہر یہ پر حجت نہیں ہوسکتا البتہ صانع عالم کے ماننے والے کے لئے بشرطیکہ کوئی اس کلام پر ایمان لانے والا ہو.ذات باری کے ساتھ ازدیاد محبت کا باعث ضرور ہے.اور اگر مان لیا جاوے کہ اس طرح صفات کا ملہ الہیہ کا بیان بھی اثبات صانع عالم میں کافی ہے تو کیا پھر ایسا بیان قرآن کریم میں نہیں ؟ اگر آریہ کو علم نہیں تو ہم قرآن کریم سے بیان کرتے ہیں.پہلے آٹھ نو الفاظ کے بدلے گانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا (الاحزاب: ۳۱) إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ محيط (حم السجدة : ۵۵) ـ أحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا (الطلاق:۱۳).اسپتھا شہد کے بدلے لے کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے.

Page 174

تصدیق براہین احمدیہ ۱۷۳ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيب (البقرة : ۱۸۷) کو پڑھ لو.پرتھم جامرت سیا کے بالمقابل.هُوَ الاول (الحديد: ۴- هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (البقرة : ۲۵۲).دیکھ لو اس منتر کے تمام آخری حصہ کے مقابلہ میں وَاللهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ (محمد:۳۹) پورا تسلی بخش ہے.دوسرا منتر سنو ( وہ ہمارا) بندھو ( دوست ) رجنتا (خالق) سود ہانا (مبدع) دہامانی (عناصر ) وید (عالم) بہوتانی (عالم) دشوا ( تمام ) بیتر (عالم) دیویہ (فرشته ) امرت مانشو ناس ( آب حیات کو نہ پی کر ) تریبے ( تیسری دہام لوک ندھیر تم.مطلب اللہ تعالیٰ ہمارا دوست خالق عناصر عالم تمام جہان دیو تہ آب حیات جیسے چیز کو ترک کر کے.اس تیسرے مقام والے کی عبادت کرتے ہیں.اس قسم کی صفات قرآن کریم کی آیات ذیل میں موجود ہیں.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة : (٢) خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام: ١٠٣) - وَاللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة: ۲۸۳) ـ وَالَّذِينَ امَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرة : ۱۲۲) سے جو سورہ بقر میں ہے معلوم ہوتا ہے کہ عام ایمان والے بھی باری تعالیٰ کی ذات پاک کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں.اور ملائکہ تو پھر بطریق اولی ایسے ہوں گے.آب حیات کیا چیز ہے.آب حیات بھی ایک شَىءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ ہے وَرِضْوَانُ مِنَ اللهِ اَكْبَرُ (التوبة: ۷۲) اس کے مقابلہ میں قرآن کریم فرماتا ہے.لطیفہ.اس وید منتر کا آخری جملہ بتاتا ہے کہ باری تعالیٰ زمین اور آسمان کے وراء کسی تیسرے مقام میں ہے.غالبا یہ ہی وہ مقام ہے جس کو اہل اسلام عرش کہتے ہیں.مکذب براہین نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۶۹ میں قرآن شریف کی آیت.يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ (القلم: ۴۳) کو صانع عالم کی ہستی کی دلیل سمجھ کر یہ اعتراض کیا ہے.”خدائے بے چون و چرا محمد یوں کو کہتا ہے.میں قیامت کے روز تم کو دیدار دوں گا اور تم نہیں مانو گے اور پھر میں تمہارے اصرار کرنے پر پنڈلی سے جامہ اٹھا کر بتلاؤں گا تب تم سجدہ میں گرو گے.جائے تعجب اور حیرت ہے.خدا تعالیٰ بسبب زودرنجی کے جامہ سے باہر ہوا جاتا ہے اور نہیں شرما تا “

Page 175

تصدیق براہین احمد به ۱۷۴ مصدق.تمام اعتراض از سرتا پا افتر او بہتان اور راستی سے بے نام ونشان ہے اول اس لئے کہ اگر معترض ہی کا وہ ترجمہ مان لیا جاوے جو خود معترض نے اس آیت کے نیچے لکھا ہے ” جس روز جامہ اٹھایا جاوے گا پنڈلی سے اور بلائے جاویں گے لوگ واسطے سجدہ کرنے کے بس نہ کر سکیں گے.تکذیب صفحہ نمبر ۶۸.جب بھی اس ترجمہ سے وہ باتیں نہیں نکلتیں جو مکذب براہین نے اپنے اعتراض میں بیان کی ہیں مثلاً ” تم کو دیدار دوں گا ایک اور تم نہیں مانوں گے.دو.پھر میں تمہارے اصرار پر.تین تب تم سجدہ میں گرو گے.چار.زود رنچی.پانچ نہیں شرماتا.چھ.تعجب و حیرت ہے.فَلَا يَسْتَطِيعُون کے معنی مکذب نے یہ لکھے ہیں پس نہ کر سکیں گے اور اعتراض میں مکذب نے لکھا ہے تب تم سجدہ میں گرو گے“.آریہ صاحبان! انصاف کرو! اور بیچ کے اختیار کرنے میں دیر نہ کرو وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: (۱۲۹).اب میں آپ کو اس آیت کی بقدر ضرورت تشریح سناتا ہوں.اور آیت کا مابعد بھی ساتھ ہی بیان کرتا ہوں.يَوْمَ يُكْشَفَ عَنْ سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِئَةً وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَلِمُونَ (القلم : ۴۴۴۳) الساق عربی میں شدت اور تکلیف کو کہتے ہیں.اور کشف الساق شدت اور تکلیف کا ظہور ہے پس يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقِ کے معنے ہوئے جب شدت اور تکلیف کا ظہور ہوگا.ان معنوں کا ثبوت علاوہ لغت عرب کے قرآن کریم سے دیا جاتا ہے.كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ الشَّرَاقِيَ وَقِيْلَ مَنْ رَاقٍ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ إِلى رَبِّكَ يَوْمَبِينِ الْمَسَاقُ (القيامة : ۲۷ تا ۳۱) یادر کھوانجام کار کامیابی خداترسوں کے حصہ میں آتی ہے.ے جس وقت سخت اضطراب کا وقت ہوگا اور سجدہ کی طرف بلائے جائیں گے پس ان کو سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو گی.ان کی آنکھیں (مارے ضعف و دہشت ) کے بے نور ہوگئی ہوں گی ذلت نے انہیں ڈھانک رکھا ہوگا اور (اس حالت سے پہلے ) جب بھلے چنگے تھے سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے.سے ایسا نہ ہوگا جس وقت سانس پنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کون افسوں کرنے والا ہے ( جو اسے اب بچالے ) اور (مریض) یقین کرتا ہے کہ اب جدائی کا وقت ہے اور سخت گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے اس وقت چلنا تیرے رب کی طرف ہے.

Page 176

تصدیق براہین احمدیہ را جز عرب کے نامی شاعر کا قول ہے ۱۷۵ عجبتُ مِنْ نَفْسِى وَمِنْ اَشْفَاقِى وَ مِنْ طَرَاوَى الطَّير عَنْ أَرْزَاقِهَا فِي سَنَةٍ قَدْ كَشَفَتْ عَنْ سَاقِهَا اور جب جنگ کی شدت ہوتی ہے تو کہتے ہیں كَشَفَ الْحَرْبُ عَنْ سَاقٍ یعنی گھمسان کا رن واقع ہوا.اب اس تحقیق پر آیت شریفہ کا یہ مطلب ہوا کہ جب عبادت کے کمزور کو مرض موت کی شدت انتہا درجہ کو پہنچ جاتی ہے اور بڑا بوڑھایا نا تو ان زار ونزار ہو جاتا ہے.اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانے والے موذن نے حَيَّ عَلَى الصَّلَواةِ - حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ كا کلمہ بڑے اونچے منار سے بلند آواز کے ساتھ پکار سنایا.اور وہ میٹھی آواز سلیم الفطرت ناتواں کے کان میں پہنچی.اب اس کا دل مسجد کو جانے کے لئے تڑپتا ہے مگر اس وقت وہ مرنے کی حالت میں مبتلا.اچھی طرح بل جل بھی نہیں سکتا اور دل میں کڑہتا ہے مگر اب اس کڑہنے سے قومی نہیں ہو جاتا.اسی آیت شریف میں وَقَدْ كَانُوا يُدْعَونَ إِلَى السُّجُودِ کے پیچھے وَهُمْ سَلِمُونَ (القلم: ۴۴) کا کلمہ ان معنی کا قرینہ موجود ہے جس کے معنی ہیں اور تحقیق وہ لوگ بلائے جاتے تھے سجدہ کی طرف جبکہ بھلے چنگے تھے ان معنی کی تصدیق تفسیر کبیر کے جلد نمبر ۸ صفحہ نمبر ۲۷۴ سے بخوبی ہوسکتی ہے.دوسری توجیہ اس آیت شریف کی اَلسَّاقُ ذَاتُ الشَّيْءِ - وَحَقِيقَةُ الأَمرِ کیا معنی ساق کا لفظ عربی زبان میں کسی چیز کی ذات اور اس کی اصل حقیقت کو کہتے ہیں يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ کے معنے یہ ہوئے.جس دن اشیا کی اصل حقیقت ظاہر ہو گی اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کے منکر اپنی نافرمانیوں کا بدلہ دیکھیں گے اس وقت اتُـمـامـا للحجة پھر سجدہ کی طرف بلائے جائیں گے مگر پہلی نافرمانی کا بد نتیجہ یہ ہوگا کہ اس وقت سجدہ نہ کر سکیں گے.ے تعجب ہے کہ قحط کے دنوں میں جب شدت سے اضطراب واقع ہوا، میں بھوکوں مرنے کے خوف سے پرندوں کو ان کی روزی کھانے سے روکتا تھا.

Page 177

تصدیق براہین احمدیہ تیسری توجیہ اس آیت شریف کی یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی پہچان مختلف اسباب سے ہوا کرتی ہے.مثلاً کوئی شخص ایک آدمی کو اس کا منہ دیکھ کر پہچان سکتا ہے اور سابقہ جان پہچان والا ادنی نشان جیسے قدم اور ساق کو دیکھ کر پتہ لگا سکتا ہے.اسی طرح ایک سمجھ دار صحیح الفطرت صاحب دانش ادنی ادنیٰ امور سے باری تعالیٰ کے وجود اور اس کی ہستی کا پتہ حاصل کر سکتا ہے شعر برگ درختان سبز در ہر نظرے ہوشیار ورقے دفتری معرفت کردگار اور کم فہم مریض الفطرت کو عمدہ عمدہ دلائل سے بھی معرفت الہی حاصل نہیں ہو سکتی اسی طرح ہنگامہ محشر کے وقت جو اسی موجود دنیا کا نتیجہ ہے جب الہی صفات کا ظہور ہوگا تو ناسمجھ اپنی کمی معرفت اور نقص عرفان کے باعث بخلاف سمجھ داروں کے سجدہ سے محروم رہ جاویں گے اور اسلام والے اپنے عرفان اور ایمانی نور کے باعث ادنی ظہور صفات پر جسے کشف ساق کہتے ہیں جو کشف وجہ سے کم ہے سجدہ میں گریں گے.اور منافقوں نافہموں کی پیٹھ اس وقت طبق واحد ہو جائے گی.چوتھی تو جیہ جو بالکل میرے مسلک پر ہے یہ ہے.ساق اور اس کا کشف باری تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ ان کی حقیقت ہمیشہ بلحاظ اپنے موصوف کے بدل جایا کرتی ہے مثلاً بیٹھنا ہماری صفت ہے جس سے ہم ہر روز متصف ہوتے ہیں.مگر ایک بڑے ساہوکار یا کسی امیر کا عروج کے بعد بیٹھ جانا ہمارے ہر روزہ بیٹھ جانے سے نرالا ہوگا.برسات کے دنوں میں مینہ کے زور سے دیوار کا بیٹھ جانا پہلے بیٹھنوں سے بالکل الگ ہوگا اور ایک پادشاہ کا تخت پر بیٹھ جانا کوئی اور ہی حقیقت رکھے گا.ان مثالوں میں دیکھ لو.بیٹھنا ایک صفت ہے مگر بلحاظ تبدیل موصوفین کے اس صفت کا ایک قسم دوسرے قسم سے بالکل علیحدہ ہے.اب ان سب سے ایک لطیف بیٹھنا سنو! جس کی حقیقت ان تمام بیٹھنوں سے بالکل الگ ہے.وہ بیٹھنا کیا ہے؟ کسی کی محبت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا اور کسی کی عداوت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا.کسی کی کلام کا کسی کے دل

Page 178

تصدیق براہین احمدیہ 122 میں گھر کر لینا یا بیٹھ جانا جب اہل اسلام نے باری تعالیٰ کو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری: ۱۲) انو پیم بے مانند مانا ہے تو اس بات کا تسلیم کرنا ہر عاقل منصف کا فرض ہے کہ وہ اس کی تمام صفات بھی اس پاک موصوف کی طرح لیس کمثل اور انو پیم بے مانند مانتے ہوں گے اس کی قدرت اس کی طاقت ، اس کا علم ، اس کی حیات ، اس کا موجود ہونا، اس کا از لی ہونا، اس کا ابدی ہونا ، اس کا ید، اس کا وجہ، اس کی ساق ، اس کا کشف، اس کا عرش پر بیٹھنا سب بے مثل ہوگا.چونکہ ہم اس کی پاک ذات سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے اس لئے ہماری کوئی صفت اس کی کسی صفت سے مشابہ نہ ہوگی.إن رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف: ۵۵) آیت مرقومۃ الصدر کو مکذب نے اثبات صانع کی دلیل سمجھا ہے اور تکذیب کے صفحہ نمبر ۷۰ میں عادتا ٹھیکہ پورا کرنے کو پے در پے چند اعتراضات کئے ہیں.پہلا اعتراض یہ ہے کہ آیت مرقومۃ الصدر اور آیت ذیل میں تعارض “ اور وہ آیت یہ ہے.هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَيَوْمَ يَقُوْلُ كُنْ فَيَكُونُ (الانعام: ۷۴) دوسرا اعتراض یہ ہے ” خدا جو سب چیزوں کا مالک ہے افسوس کہ ان کے بنانے میں اتنا حیران اور سرگرداں ہو اور چھ دن رات میں ایک دم بھی نہ سو دے اور لگا تار کام کرتا رہے“.تیسرا اعتراض.حدیث میں ذکر ہے اس نے (خدا نے ) آدم کی مٹی کو بھی چالیس روز تک اپنے دونوں ہاتھوں سے ضمیر کیا جس سے معلوم ہوتا ہے بڑا محنتی آدمی ہے جس کے چالیس روز ایک آدم کے قالب بنانے میں خرچ ہوئے.حدیث حَمَّرُتُ طِيْنَةَ آدَمَ بِيَدَيَّ أَرْبَعِينَ صَبَاحًا (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح كتاب الصوم باب ليلة القدر) اس کی گواہ ہے“.چوتھا اعتراض ” جن کا خدا دنیا کے بنانے میں اس قدر کمزور اور بے کس ہے.کیا ان کی کسی اور علمی معاملہ میں دسترس ہوگی“.

Page 179

تصدیق براہین احمدیہ ۱۷۸ پانچواں اعتراض مٹی کہاں سے لی اور کیوں صرف كُن فَيَكُونُ سے قالب تیار نہ کر لیا.چھٹا اعتراض ” فانی جسم کے واسطے تو چالیس روز دونوں ہاتھوں سے محنت کرے تب کامیاب ہو اور اب اس باقی اور جاودانی روح کے واسطے پیدائش کا ذکر نہ کیا کہ کن کن مصالحوں سے اس کو کتنے سالوں میں خمیر کیا.مٹی کی پیدائش بھی قرآن سے واضح نہیں ہوتی کہ کہاں سے آئی“.پھر آخر میں کہا ہے اگر مادہ انادی ( غیر مخلوق ) نہیں مانتے تو مصنف قرآن کو نہایت ضروری تھا کہ اس بات کو مشرح دلائل سے واضح کرتا مگر اس نے نہیں کیا.مادہ اور روح کی تشریح بالتفصیل نہیں ملتی.بلکہ صرف مجملا ذیل کی پیدائش کا حوالہ ہے پس ضرور مٹی سے آدم کا جسم بنایا.اور انادی مادہ سے زمین بنائی.اور انادی روح کو اس میں پھونک اور نہ کسی طرح کا کامل جواب قرآن نہیں دے سکتا.اگر در خانہ کس است ہمیں عبارت بس است‘.انتہی تکذیب صفحہ نمبر ۷۱،۷۰ مصدق.مکذب کے اعتراضات پر جملۂ جملۂ نظر کرے گا.پھر انشاء اللہ تعالیٰ بعض خاص جوابوں کی طرف متوجہ ہوگا اور مکذب کی طویل اور لفاظا نہ عبارت کو مختصر لفظوں میں نقل کرنے پر اکتفا کیا جائے گا.مكذب صاحب پوچھتے ہیں کہ ان دو آیتوں میں (سِتَّةِ أَيَّام ) والی آیت اور كُنْ فَيَكُونَ ) والی آیت میں تعارض اور اختلاف ہے پس دو آیت میں سے کس آیت کو بیچ مانا جاوے.سوگزارش ہے کہ دونوں آیتیں کچی دونوں باہم موافق ہیں اور ایک دوسرے کی مخالف نہیں دونوں نور دونوں ہدایت صداقت کی رہنما ہیں.دونوں آیتوں پر ایمان لائے.کسی پر انکار نہ کیجئے.پہلی آیت کا منشا ہے کہ سموات اور زمین کو اللہ تعالیٰ نے چھ یوم میں بنایا.چھ یوم میں پیدا کیا.اور دوسری آیت شریف کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ مخلوق جسے آسمان و زمین کہتے ہیں اسے اللہ تعالیٰ نے باطل نہیں بنایا بلکہ حق یعنی حکمت اور عمدگی کے ساتھ بنایا ہے جیسے اور جگہ فرمایا ہے.

Page 180

تصدیق براہین احمدیہ ۱۷۹ مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ (الملك : ٤) اور فرمایاتٌ مَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا (ص: ۲۸) خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ (الانعام: ۷۴) پر ایک جملہ تمام ہو گیا.دیکھو.بالحق لفظ کے آگے طایک نشان ہے جسے انگریزی میں فل سٹاپ کہتے ہیں اور عربی میں مطلق.یہ حرف اس بات کا نشان ہے اس کے پہلے جو جملہ مذکور ہوا وہ تمام ہو چکا اور اس کے بعد کا جملہ علیحدہ جملہ ہے اور وہ یہ ہے.وَيَوْمَ يَقُولُ كُنْ فَيَكُونُ (الانعام: ۷۴).اس کا مطلب یہ ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ حشر والے ہنگامہ کی نسبت حکم دے گا کہ گن یعنی ہو جا.فَيَكُونُ جس کے معنی یہ ہیں پس وہ ہنگامہ (حشر کا ) ہو پڑے گا یہی مضمون بعینہ اور زیادہ وضاحت سے دوسری جگہ موجود ہے وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ اَقْرَبُ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (النحل: ۷۸).غرض ( سِتَّةِ أَيَّاءِ ( یعنی چھ دن میں زمین اور آسمان کی پیدائش ہوئی اور گن سے آنا فانا محشر کا ہنگامہ برپا ہوگا.دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ قرآن خبر دیتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَ مَا مَسَّنَا مِنْ تُغُوبٍ (ق:۳۹) اور ایک اور جگہ فرمایا ہے.اَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقٍ جَدِيدٍ (قَ:۱۲) ایک جگہ آسمان وزمین کی حفاظت کی نسبت فرمایا ہے.وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا (البقرة: ۲۵۲) غرض حیرانی اور سرگردانی کا عیب لگانا جناب باری تعالیٰ کی نسبت یہ مادہ پرست طبائع کا اختراع ہے اسلام تو رحمن کی پیدائش میں کوئی تفاوت نہ دیکھے گا تواپنی آنکھ کو پھیرا تو کیا تجھے کوئی نقص نظر آتا ہے.ے ہم نے آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا.سے اور بے شک ہم نے ہی آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور کسی قسم کی تکلیف نے ہمیں نہیں چھوا.ہ کیا ہم پہلی پیدائش سے تھک گئے ہیں.نہیں یہ لوگ نئی پیدائش سے شبہ میں ہیں.

Page 181

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۰ اس سے بری ہے.اور یہ جو آپ نے کہا ایک دم بھی نہ سودے“.یہ ہمدردی مکذب براہین کی جناب حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کے حق میں کچھ کم تعجب انگیز نہیں.سنواے دیا نند یو! سنواے عمد احق کے مخالفو! اہل اسلام کو جناب باری تعالیٰ کی نسبت اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اونگھنے اور سونے کے عیوب سے پاک ہے قرآن کریم خبر دیتا ہے.اللہ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم (البقرة: ۲۵۲).اسلامی لوگ ہندؤں کی طرح باری تعالیٰ کے سو جانے اور لچھی کا اس کے پاؤں ملنے کے معتقد نہیں.بلکہ اس کے لئے رات اور دن کے تغیر کے بھی قائل نہیں البتہ ایک آریہ صاحب اپنی کتاب تنقیہ دماغ نام میں فرماتے ہیں.اجزاء صغار عالم کا ظہور پر میترا کے نمت کارن سے اور پر میشر نے اپنی نادر حکمت و دانائی سے اجزاء صغار عالم کو بھی قدیم اور انادی رکھا ہے.تو کہ چھوٹی پر لنے کے بعد پھر اس قدر تکلیف نہ اٹھانی پڑے“.تنقیہ دماغ جواب سرمہ چشم صفحہ نمبر ۱۹.لفظ تکلیف باری تعالیٰ کی نسبت غور کے قابل ہے.تیسرے اعتراض کا جواب سنیئے.مشاہدہ سے بڑھ کر اور کیا اور کس طرح اسلامی لوگ اپنی صداقتوں کے ثبوت دیں؟ آریہ لوگوسنو! ہر ایک آدمی کا جسمی قالب چالیس روز میں تیار ہو جاتا ہے.اگر آپ کے مذہب میں طبی علوم کی تکمیل کی خاطر تشریح کا فن اور انسانی فزیالوجی جیوہت کے لحاظ سے ممنوع ہو تو تمام دنیا کے ڈاکٹروں سے پوچھ لیجئے.تمام آدمیوں کے قالب کی بناوٹ کی نسبت حکماء ڈاکٹروں کا گروہ یک زبان ہو کر محمدی حدیث کی تصدیق کرے گا.جب ہر ایک آدمی کا قالب چالیس روز میں تیار ہوتا ہے تو اس روز مرہ کے مشاہدہ اور تجربہ سے یقین پڑتا ہے کہ سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام کا قالب عصری بھی جو اسی جنس کے مورث اور باپ کا قالب ہے.ضرور ہی چالیس روز میں تیار ہوا.یہ امر ثابت ہو گیا ہے کہ انسانی شکل اور اس کے تمام خط و خال کا کھلا خا کہ رحم مادر میں چالیس روز تک پورا ہو جاتا ہے گویا تمام اولا دآدم اپنے اس مورث اعلیٰ کے ے احکم الحاکمین اور یہ نام اللہ تعالیٰ کا ہے.علیہ فاعلیہ اور قدرة قادر ے قیامت بلکہ فنا علم افعال الاعضاء

Page 182

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۱ چالیس روز میں بنے کی شہادت دیتی ہے.اور خبر محمدی اور حدیث احمدی (حَمَّرُتُ طِينَ آدَمَ ) کی تصدیق کرتی ہیں.آریو! آپ کو طوعا نہ سہی کر ہا محمدی حدیث مانی پڑی فَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ.بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے.إِنَّ أَحَدَكُمُ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ اَرْبَعِينَ يَوْمًا - بخاری کتاب القدر چوتھے اعتراض کا جواب تقریر بالا سے بالکل ظاہر ہے.اور مکذب براہین کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ بڑا محنتی آدمی ہے غلط ہے.آریو! اسلامی لوگ جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں وہ تو خالق آدم ہے.وہ آدمی نہیں.یا درکھو جس طرح عام ہند و اعتقاد کرتے ہیں کہ سری کرشن جی اور رامچندرجی خدا اور پھر آدمی تھے! اور جس طرح عیسائی شاید ان سے ہی سنی سنائی حضرت مسیح علیہ السلام کو آدمی اور خدا کہتے ہیں اس طرح اسلامیوں کا اعتقاد نہیں کہ اللہ تعالیٰ آدمی ہے.اسلامی تو اللہ تعالیٰ کو ہر ایک عیب اور نقص سے بالکل پاک جانتے ہیں.اسی چوتھے اعتراض میں مکذب نے باری تعالیٰ کو جس کی صفت اسلامیوں میں هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (هود: (۱۷) مذکور ہے کمزور کہا ہے.یہ سوء ادب ہے.سنوا سلام کی پاک کتاب میں اللہ تعالیٰ کی صفت میں آیا ہے وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (المائدة: ۱۲۱).البتہ ایک معنی میں اسے بے کس کہو تو شاید ممکن ہو کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی تعریف میں آیا ہے وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ (الاخلاص : ۵) اور حدیث میں وارد ہے كَانَ اللهُ وَلَمُ يَكُنُ مَعَهُ شَيْئًا - كنز العمال حدیث نمبر ۰ ۲۹۸۵ جلده اصفحه ۳۷ منشورات مكتبة التراث الاسلامي - مطبعة الاصيل حلب الطبعة الاولى ١٩٧١ء) پانچویں اعتراض میں مکذب براہین نے پوچھا ہے مٹی کہاں سے آئی ؟ شکن سے کیوں تیار نہ کر لیا ؟ سنو! صاحب مٹی کو اس نے خود پیدا کیا.تم کو اطلاع نہیں ہوئی مگر اسی آیت شریف میں خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ کا جملہ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ (الاعراف:۵۵) کے پہلے موجود ہے جس کے معنی ہیں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا مٹی زمین ہی کا حصہ ہے.جس نے زمین کو بنایا اس نے مٹی کو بھی بنایا صرف كُنُ سے جیسا آپ چاہتے ہیں اس لئے پیدا نہ کیا کہ اسے اختیار ہے جیسے چاہے پیدا کرے.

Page 183

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۲ وہ تمہارا یا کسی کا ماتحت نہیں.اور نہ کسی سے مشورہ کا محتاج ہے وَهُوَ الْقَاهِرَ فَوْقَ عِبَادِهِ (الانعام: ۱۹) پھر میں کہتا ہوں کہ لفظ گن کا تو یہ مطلب ہے.اور یہ معنی کہ ہو جا، یا ہو پڑے تو جیسے اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کا ہونا چاہا اسی طرح وہ چیز ہو گئی جس چیز کا وجود تدریجا اور آہستگی سے چاہا وہ چیز بتدریج و آہستگی پیدا ہوئی اور جس چیز کا وجود فعہ چاہا وہ چیز دفعہ پیدا ہوگئی.مثلاً چنے کا درخت چالیس روز میں پک کر تیار ہوتا ہے چنے کے لئے گن کہنے والے کا یہ منشا ہوا.جوان آدمی چھپیں برس میں جوان بنتا ہے، بڑ کا درخت صدی میں کمال کو پہنچتا ہے ان کے لئے کن کہنے والے کا یہی منشا ہوا کہ اتنی مدت میں بنے.غرض ہر چیز کے تیار ہونے میں اللہ تعالیٰ نے جدا جدا اوقات مقرر کر رکھے ہیں کسی کی کیا سکت کہ اس پر اعتراض کرے کہ الہی تو نے فلاں چیز کو تدریجا بننے والی اور فلاں کو دفعہ بننے والی کیوں نہ کیا لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَ هُمْ يُسْتَلُونَ (الانبياء: ۲۴) صادق آیت ہے اور رفتار نظام عالم اس کی مصدق ہے.چھٹے اعتراض کے جواب میں سر دست اتنا کہنا کافی ہوگا کہ روح کو کتب مقدسہ اور پاک کتاب قرآن کریم نے بہت معنوں پر استعمال کیا ہے.اوّل، روح کلام الہی کا نام ہے.اور اس لئے کہ کلام الہی سے بڑھ کر کوئی چیز زندگی کا موجب نہیں.اگر اس متعارف روح سے چند روزہ زندگی حاصل ہوسکتی ہے تو اس روح ( کلام الہی سے جاودانی حیات ، ابدی نجات، نیولائف ، دھرم جیون کو انسان لے سکتے ہیں! اگر اس روح سے چند روزہ جسمانی خوشیوں کو لے سکتے ہیں تو اس روح سے ابدی سرور مها انند ابدی آرام پا سکتے ہیں! ان معنے کے رو سے روح مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اس لئے کہ یہ روح الہی کلام ہے اور اللہ تعالی اس کا متکلم، جب ان معنے کے لحاظ سے روح خدا کی صفت ٹھہری اور مخلوق نہ ہوئی اس کے لئے کسی مصالح کی ضرورت بھی بجز ذات الہی کی نہ رہی.قرآن کریم سے ان معنی کی شہادت سنو ! وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحَامِنْ أَمْرِنَا (الشوری: ۵۳) يُنزِلُ المُلبِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ أَمْرِهِ عَلى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِةٍ (النحل: ٣)

Page 184

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۳ دوم.روح ملائکہ اور انبیاء کو کہا ہے اور ظاہر ہے کہ ملائکہ اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام مختلف اوقات میں مختلف عناصر سے پیدا ہوئے اور مختلف مصالحوں سے بنے.ان معنی کا ثبوت قرآن کریم سے سنئیے.وَأَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَأَيَّدَنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (البقرة: ۸۸) إِنَّمَا الْمَيْحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ الْقُهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحُ مِّنْهُ (النساء : ۱۷۲) سوم.روح جسمانی جس کا نفخ انسانی جسم میں اور وہ اور شرائین کی تجویف بن جانے کے بعد ہوتا ہے جس کا اشارہ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُّوحِى (الحجر: ۳۰) میں ہے.اگر اس کی بابت پوچھتے ہو کہ مٹی کہاں سے آئی؟ تو ہم نہایت جرات سے بلا تذبذب جواب دیتے ہیں مٹی سرب شکستیمان ( قادر مطلق) با اختیار قادر کی ایجادی طاقت کا نتیجہ اور اثر تھا.رب النوع کا ماننا اسلامی اعتقاد نہیں.اس تذکرہ سے کس قوم پر تعریض کرتے ہو؟ اسلامیوں میں تو یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی موجود بالذات کوئی غیر مخلوق اور فاعل مستقل نہیں.رب النوع کے معتقد اسلامیوں میں مشرک کہلاتے ہیں اور شرک کے حق میں قرآنی فتویٰ یہ ہے.ان الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمُ (لقمان: ۱۳) إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ (النساء: (٤٩) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو رب ماننے میں قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے.اور اس امر میں صاحب قرآن کریم کو یوں حکم ہوتا ہے.قُل ياهل الكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَ لے اور ہم نے عیسی ابن مریم کو کھلی دلیلیں دیں اور روح پاک سے اس کی تائید کی.ے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عیسی ابن مریم اللہ کا رسول اور اس کا مخلوق ہے جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اللہ کی طرف سے روح ہے.ے یقیناً شرک بڑا بھاری ظلم ہے.ے یقینا اللہ سے معاف نہ کرے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جاوے.کہہ اوکتاب والو! آجاؤ ایسی بات کی طرف جو تمہارے ہمارے درمیان ٹھیک مسلم ہے اور وہ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی پرستش فرمانبرداری نہ کریں اور نہ اس کا کوئی شریک ٹھہر اویں اور نہ بنارکھے کوئی بھی ہم سے کسی کو رب اللہ کے سوا کیونکہ رب ایک ہی ہے.اور لو گو! اگر تم نہ مانو تو ہم اس بات کے ماننے والے ہیں ہی کہ اللہ کے سوا کوئی رب نہیں.

Page 185

۱۸۴ تصدیق براہین احمدیہ بَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (ال عمران: ۶۵) ہاں اسلام کو.دیانندی آریہ کا سا اعتقاد نہیں کہ جیو اور مادہ عالم اس کے ساتھ تھے بلکہ زمانہ بھی اس کے ساتھ تھا.تب اللہ تعالیٰ سرشتی کور بچ سکا!!! مسلمانوں کا اعتقاد یہ ہے اللہ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الرعد: ۱۷) اس اعتقاد سے مٹی کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور مٹی کے مادہ کا خالق بھی وہی ہے.مادہ اور روح کی تشریح جس قدر روحانی تربیت میں مفید ہے اس قدر قرآن کریم نے تشریح کر دی ہے اور جس تفصیل کی ضرورت روحانی تعلیم میں نہیں اس سے قرآن کریم نے سکوت فرمایا.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اگر روح کے معنی کلام الہی کے ہیں تو روح غیر مخلوق اور غیر مادی ہے.یہ روح الہی صفت ہے اور مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر نازل ہوتی رہی اور نازل ہوتی ہے اور نازل ہوگی اور ان کی وساطت سے عام مخلوق الہی کے پاس پہنچی اور پہنچے گی.اور روح کے معنی اگر ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام کے لیں تو وہ مخلوق ہیں ایک وقت میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ مختلف اوقات اور انواع واقسام کے مختلف اشیاء سے پیدا ہوا گئے.انسانی جسمانی روح ایک قسم کی لطیف ہوا ہے جو انسان میں شریانی عروق اور انسانی پھیپھڑوں کے بن جانے اور قابل فعل ہونے کے وقت نفخ کی جاتی ہے.اس مطلب کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر غور کرو یہ صادق کتاب حقیقت نفس الامری کی خبر دیتی ہے کہ انسان اسی نطفہ سے جو عناصر کا نتیجہ ہے خلق ہوتا ہے اور پھر یہیں اسے سمیع و بصیر یعنی مدرک اور ذی العقل بنایا جاتا ہے نہ یہ کہ پیچھے سے اپنے ساتھ کچھ لاتا ہے اور پرانے اعمال کا نتیجہ اس کے ساتھ چپٹا ہوتا ہے جس وہم و فرض کا کوئی مشاہدہ کا ثبوت نہیں.هَلْ آلى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَّذْكُورًا إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا (الدهر: ۳۲) ے مخلوقات مرکبہ.رچ سکا پیدا کر سکا.ے زمانہ میں سے ایک وقت بے شک انسان پر ایسا گزرا ہے کہ اس کا نام ونشان کچھ بھی نہ تھا ہم نے انسان کو ملے ہوئے نطفہ سے پیدا کیا.ہم اس کا امتحان لیا چاہتے ہیں.(اور اس امتحان کے لئے ) ہم نے اس کو سمیع و بصیر بنایا.

Page 186

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۵ یا درکھو عہد اگست کا تذکرہ ہم مسئلہ تناسخ میں کریں گے.انشاء اللہ تعالی.ایک مدت تک مجھے تعجب اور افسوس ہوا کہ تکذیب براہین کے مصنف صاحب نے اس قدرطول طویل اعتراض.آیت شریفہ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ (الاعراف: ۵۵) ایام پر کیوں کئے اور میرے تعجب اور افسوس کی کئی وجہیں ہیں.اول اس لئے چھ دن میں زمین آسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے اس کے پیدا ہونے کی خبر ایسے بچے لوگوں نے دی ہے جن کا صدق مختلف دلائل اور نشانات سے ثابت ہے.اور اس خبر کو مشاہدہ ضرور یہ علوم اور قانون قدرت کے مستحکم انتظام نے نہیں جھٹلایا.دوم اس لئے کہ جن لوگوں نے یہ خبر دی ہے ان میں سے ایک کا نام سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہے اور دوسرے کا نام سیدنا محمد بن عبداللہصلی اللہ علیہ وسلم ہے.اور ان لوگوں نے یوں کہا ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی اور اسی کے مکالمہ سے یہ بات ہمیں معلوم ہوئی.ان خبر دہندوں کی امداد اللہ تعالیٰ نے جیسے کی ہے اس کی خبر دنیا سے مخفی نہیں.اور جو تعجب انگیز کامیابی ان لوگوں کو ہوئی اس کی نظیر مدعیان الہام میں کوئی نہیں دکھا سکا.انصاف کرو کیا جناب الہی کی پاک اور مقدس بارگاہ سے جھوٹوں کو ایسی امدادل سکتی ہے.سوم اس لئے کہ جس کتاب میں یہ خبر دی گئی.اس کا من جانب اللہ ہونا بہت وجوہ سے ثابت کیا گیا.چاہو اس کا نام تو ریت لوچا ہو قرآن کریم کہو.چہارم اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے اکثر بلکہ تمام کام جن کو ہم دیکھتے ہیں آہستگی اور تدریج سے ہوا کرتے ہیں.بقدر امکان اپنے ارد گرد کا کارخانہ قدرت دیکھ لو! پھل دار درخت کتنے دنوں میں پھل دار کہلاتا ہے.گھوڑے اور ہاتھی کا آج پیدا ہوا بچہ کتنے دنوں میں اللہ تعالیٰ اس کو ہماری سواری کے قابل بنائے گا.آدمی کا وہ بچہ جو آجکل ماں کے رحم میں یا باپ کے جسم میں آرام گزیں ے دن یا یوم کے معنی بارہ گھنٹے کے نہیں یا درکھو.۱۲

Page 187

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۶ ہے اللہ تعالیٰ اس کو کتنے دنوں میں عالم فاضل اور ریفارمر کرے گا.پس جب ایسے کام جو بتدریج ہورہے ہیں اسی قادر مطلق سرب شکتیمان حُسن کے کلمہ کے ساتھ پیدا کر سکنے والے کی پیدائش ہے تو زمین و آسمان اور اس کے درمیانی اشیاء کا چھ روز میں پیدا ہونا کیوں محل انکار ہے.پنجم.اس لئے کہ زمین ، آسمان اور ان دونوں کی درمیانی تین چیزیں ہیں اور ان کی بناوٹ دو طرح پر ہے.اول ان اشیاء کی اصل بناوٹ.دوم ان کی ترتیب.پس یہ چھ چیزیں ہوئیں جو چھ یوم میں پیدا ہوئیں.یہاں یہ امر بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آرمی نے بھی تمام مخلوق کے اصول اشیاء چھ چیزوں کو مانا ہے ارضی ایشیاء چہار جین کو اربعہ عناصر یا چارتت کہتے ہیں.اور سماوی چیزیں دو.زمین کی چار چیزیں مٹی پانی آگ ہوا سماوی دو چیزیں آکاش جسے سمایا السماء کہیئے.اور دوسری روح جسے جیو کہتے ہیں قرآن کریم میں ایک جگہ کچھ تفصیل کی گئی ہے اسے بھی سنو.قُلْ أَإِنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَةَ انْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءَ لِلسَّابِلِينَ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ انْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَابِعِيْنَ فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَمَوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءِ أَمْرَهَا (حم السجدة: ۱۰ تا ۱۳) ششم.اس لئے کہ ان چیزوں کے بنانے میں یہ نہیں فرمایا کہ تمام تمام دن اور رات میں ے تو کہہ کیا تم ایسے خدا کا کفر کرتے ہو جس نے زمین کو دودن میں پیدا کیا.اور اس کے شریک مقرر کرتے ہو.یہی تو عالموں کا پروردگار ہے.پھر اس پر پہاڑ بنائے اور زمین کو برکت دی اور اشیائے خوردنی کے اس میں اندازے باندھے یہ سب کچھ چار دن میں ہوا.حاجتمندوں کے لئے سب سامان درست ہو گیا.پھر سماء کی جانب متوجہ ہوا ، اور وہ دخان تھا.( یعنی اسے ٹھیک کیا) پھر اسے اور زمین دونوں کو کہا کہ خواستہ یا نخواستہ تم دونوں حاضر ہو جاؤ.انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں.( یہ ایک انداز محاورہ ہے جس کا مدعا یہ ہے کہ یہ اشیاء ہمارے مطیع فرمان ہیں اور کبھی کسی طرح ہمارے حکم سے انحراف کر نہیں سکتیں).پھر ان کو سات سماء مقرر کیا دو دن میں اور ہر سماء کو اس کا متعلق کام سپرد کیا.ستیارتھ پر کاش صفحہ ۹۴ میں ہے کہ کائنات کے چھ حصے ہیں ہر حصہ کا بیان چھ شاستروں میں علیحدہ علیحدہ ہے.

Page 188

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۷ ان اشیاء کو پیدا کیا بلکہ یہ فرمایا ہے کہ چھ روز میں یہ چھ چیزیں پیدا کیں.یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایک چیز ایک ایک روز میں ایک آن کے اندر کلمہ حُسن سے پیدا ہوئی.ہفتم.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خَالِقُ الْاَرْضِ وَالسَّمَوَاتِ معطل بریکار نہیں وہ ہمیشہ اپنی کاملہ صفات سے موصوف ہے.ایسا کیوں مانا جاوے کہ تمام اشیاء کو ایک آن میں پیدا کر کے پھر معطل ہو گیا؟ بلکہ وہ ہمیشہ خالق ہے اور مخلوق کا حافظ ہے اور رہے گا.ہشتم.اس لئے کہ یوم عربی زبان میں مطلق وقت کو کہتے ہیں پس سِتَّةِ آیا م کے یہ معنی ہوں گے چھ وقت میں.چاہو وہ وقت ایک آن كَلَمْحِ الْبَصَر لو چاہوتو وہ ایک ایک یوم لاکھوں کروڑوں برس کا یوم جیسے راقم کا اعتقاد ہے سمجھو.نہم.اس لئے کہ یوم عربی زبان میں اس زمانہ اور وقت کو بھی کہتے ہیں جس میں کوئی واقعہ گزرا.گو وہ واقعہ کتنے بڑے وقت میں گزرا ہو.دیکھو.یوم بعاث، یوم حنین، یوم بنو بکر، یوم بسوس، یوم عاد وغیرہ وغیرہ اس زمین و آسمان وغیرہ کی پیدائش کے زمانہ کو اس محاورہ پر یوم کہا گیا.وہم.اس لئے کہ پدارتھ و دیا یعنی علم طبعیات خصوصاً علم طبقات الارض سے ثابت ہو چکا ہے.یہ زمین کسی زمانہ میں آتشین گیاس تھا.بلکہ یوں کہئے کہ ایک ستارہ روشن تھا جب قدرتی اسباب سے اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی قدر کثافت پیدا کر دی تو یہ زمین اس وقت ایک سیال مادہ ہو گیا جسے عربی زبان میں السماء کہتے ہیں اور اس پر اس وقت ہوا چلا کرتی تھی جیسے تو ریت شریف کی کتاب پیدائش کی پہلی آیتوں میں لکھا ہے.پھر جب وہ الماء زیادہ کثیف ہو گیا تو اس پر وہ حالت آ گئی جس کے باعث اس پر زمین کا لفظ بولا گیا.پس ایک دن اس پر وہ تھا کہ یہ زمین سیال ہوئی اور دوسرا دن وہ آیا کہ کثیف ہو گئی طبقات الارض سے یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جس قدرزمین کے نیچے مرکز کی طرف کھودا جاوے زمین کی گرمی بہ نسبت بالائی سطح کے نیچے کو بڑھتی جاتی ہے حتی کہ اب بھی چھتیں میل کی دوری پر ایسا گرم مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصور سے باہر ہے اس

Page 189

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۸ زمانہ سے بہت عرصہ پہلے جب اس کا بالائی حصہ کثیف ہونا شروع ہوا تھا ایک دن اس ہماری آرام گاہ پر وہ گزرا تھا کہ اس زمین کی بالائی نہایت پتلی سطح کے نیچے اس مادہ کا آتشین سمند ر موجیں مارتا تھا اور اس کی بالائی باریک سطح کو تو ڑتوڑ کے بڑے راکس اور بڑے بڑے حجرے قطعات باہر نکلتے تھے اور پہاڑوں کا سلسلہ پیدا ہوتا جاتا تھا اور ظاہر ہے کہ اس وقت بڑے بڑے زلزلے اور بھونچال ہوتے تھے.جب بڑے بڑے پہاڑ پیدا ہو گئے.اور زمین کا بالائی حصہ زیادہ موٹا ہو گیا پھر تیسرا اور چوتھا دن یا تیسرا اور چوتھا وقت اس کرہ ارضی پر وہ آیا کہ نباتات، جمادات، پھل، پھول وغیرہ اشیاء انسانی آرام اور آسائش کے سامان مہیا ہوئے.ایک دن ان اشیا کی پیدائش کا اور دوسرا دن ان اشیا کی ترتیب کا.غرض دو دن پہلے اور دو دن یہ کل چار روز زمین کی درستی کے ہوئے اسی طرح زمین کی بالائی فضا اور زمین کی سقف اور زمین کی بناء آسمان کو اللہ تعالیٰ نے دو روز مین بنایا اور ان میں امر الہی کی وحی ہوئی اور وہ وقت آ گیا کہ انسان زمین پر آباد ہوں کیونکہ جیسے قرآن کریم نے فرمایا ہے سَوَاءٌ لِلسَّابِلِينَ (ختم السجدة: 1) انسان کی تمام ضرورتیں اور اس کے لئے سب مایحتاج پورا ہو گیا.یادداشت اس تکذیب براہین سے غالباً پہلے کا ذکر ہے میرے ایک پیارے عزیز نے مجھ سے اسی آیت پر سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو قرآن میں القادِرُ یعنی قادر مطلق کہا ہے اور وہ تمام زمین اور آسمان کو ایک آن میں پیدا کر سکتا ہے کیونکر مان لیا جاوے آسمان و زمین کو اس نے چھ دن میں بنایا ہو.اس وقت ایک جوار کا کھیت ہمارے سامنے لہلہا رہا تھا.میں نے تھوڑی دیر سکوت کر کے پوچھا.اس کھیت کا دانہ کب تک تیار ہو کر کھانے کے قابل ہوگا.اس عزیز نے جواب دیا کئی مہینے کے بعد پک کر کھانے قابل ہوگا.تب میں نے کہا اس کے دانہ کو کون بناوے گا ؟ اس نے جواب دیا وہی جسے القادِرُ قادر مطلق سرب شکتی مان جگد یشر کہتے ہیں میں نے کہا وہ ایک

Page 190

تصدیق براہین احمدیہ ۱۸۹ ن میں سب کچھ پیدا کر سکتا ہے کیونکر مانا جاوے کہ وہی ایسی قدرت والا دانوں کے بنانے میں اتنی دیر کرے تب اس عزیز نے کہا صاحب یہ اس کی خواہش.اچھا اس کی مرضی ہے اور ساتھ ہی ہنس دیا اور کہا کہ جواب ہو گیا.مکذب کی دلیل جو صفحہ نمبر ۶۹ میں ہے اور جو آپ نے اس آیت کے مقابلہ میں لکھی ہے.ہرن ( زر) گربہ ( کار معدن ) سمورتنا ( ہوتا ہوا ) گرئے (اول) بھونسی ( تمام عالم ) جات ( کے جو ہوا) پتی (غالب) ریک (ایک) آاسیت ( ہوتا ہوا) سدا د ہار ( قیوم ) پرتھوی (زمین ) آنگ دیا (آسمان) موتے مان (یہی نشان ہیں ) کسمئے (ایسے دروپ) دیوائی ( پر کاش والوکو ) ہو دیکھا ( ہون کر کے ) و دھیم ( قربانی کرتے ہیں ) تکذیب کے صفحہ نمبر اے میں اثبات وجود صانع پر چھٹی قرآنی دلیل دیکھی ہے.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ (الكهف :) اور اس کو دلیل اثبات صانع سمجھ کر اس پر یہ پانچ اعتراض کئے ہیں.ایک ہے.(۱) عرب والے اللہ کو پہلے ہی مانتے تھے اور صدق دل سے جانتے تھے کہ خدا (۲) محمد صاحب کے باپ کا نام عبد اللہ تھا.حالانکہ مکہ کے مندر کا پوجاری تھا.پھر اس میں ( آیت قرآنیہ ) کوئی نئی تعلیم ظاہر نہیں ہوئی“.اور پھر آیہ ذیل إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدَ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: (۱) کو اعتراضات کا نشانہ بنانے کے لئے کلام کو اس طرح پر طول دیا ہے.(۳) '' یہاں پر محمد صاحب کے ہاتھ کو قرآن خدا کا ہاتھ بتلاتا ہے اور اس سے ہاتھ ملانا خدا سے ہاتھ ملانا جتلایا گیا ہے کیا یہی تو حید کی تعلیم ہے“.لے تو کہ سوا اس کے اور کچھ نہیں کہ میں تم سا ایک بشر ہوں میری طرف وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے.

Page 191

تصدیق براہین احمد به ۱۹۰ (۴) ” غالب یقین ہوتا ہے کہ خدا کی طرف جھکاتے جھکاتے آخری وقت میں حضرت کو خدا بننے کا خیال آ گیا تھا.اور بہت شخصوں کو اپنی عبادت کی طرف بھی رجوع کرانے لگے تھے.اس کی تصدیق اس خطبہ سے ہوتی ہے جو بر وقت وفات ان کے حضرت عمرؓ نے پڑھا تھا.( دیکھو محمد صاحب کی زندگی کے حالات) (۵) یہ ہمہ اوست کی تعلیم ہے.یا خود پرستی اور مشرکانہ ہدایت ہے.غرض یہ پانچ اعتراض ہیں جن کو میں نے خلاصہ بیان کر دیا ہے اور میں نے آسانی کے لئے ان پر نمبر لگا دیئے ہیں.مصدق.مکذب کا پہلا دعوئی ہے.عرب والے صدق دل سے جانتے تھے کہ اللہ ایک ہے.اس ادعا سے بڑھ کر جھوٹا اور بے بنیاد دعوئی اور کیا ہو سکتا ہے؟ الہ کے معنی معبود کے ہیں.اور تمام خواندہ دنیا سے مخفی نہیں کہ عرب میں کیسی خطرناک بت پرستی تھی.اس امر کے ثابت کرنے اور اس پر شہادتیں لانے کے لئے وقت کو صرف کرنا اور ایک مسلم الثبوت امر کو پھر معرض اثبات میں لانا محض تحصیل حاصل ہے.یہ تاریخی واقعہ ہے کہ عرب کے لوگوں نے اسی توحید کے مسئلہ پر صحابہ کرام کو ایسے دکھ دیئے کہ ان کو بمجبوری وطن چھوڑ حبشہ کو بھا گنا پڑا احضور علیہ السلام بھی آخر مشرکوں کی شرارت سے مدینہ طیبہ کو چل دیئے.سمیہ عمار بن یاسر کی والدہ کو اسی توحید کی دشمنی پر دکھ دیا کہ اس کی شرمگاہ میں برچھی مار کر گلے سے نکالی اس طرح کے ظلم کا ظالم اور ایسی شرمناک کارروائی کا مرتکب وہی کمبخت علیہ اللعیۃ (ابو جہل ) تھا جسے مکذب براہین تکذیب میں ابوالحکم علیہ الرحمۃ کر کے لکھتا ہے !!! اس بھائی چارے کے قربان جائیے ! سچ ہے الْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةٌ سیاه اندرونی دیکھئے کہ حق کے دشمن سے کیسی ہمدردی ظاہر کی جاتی ہے.مشرکین مکہ کے اعتقاد کو ایک جگہ قرآن بیان کرتا ہے ذرہ غور سے سنو.مشتے نمونہ خروارے.ایک دو آیتیں سناتا ہوں تو کہ ناظرین کو پتہ لگے کہ مکذب کے کلام میں کہاں تک سچائی پائی جاتی ہے.

Page 192

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۱ وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سُحِرٌ كَذَّابٌ اجَعَلَ الْأَلِهَةَ الْهَا وَاحِدًا إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ عُجَاب وَانْطَلَقَ الْمَلَأُ مِنْهُمْ آنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى الهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ يُرَادُ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقُ (ص: ۵تا۸) اور ایک جگہ آیا ہے وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَّا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُمُ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمُ إِلَّا يَظُنُّونَ (الجاثية :۲۵) لات ، عزی اور منات وغیرہ کی پرستش کا تو مکذب کو بھی انکار نہیں ہوگا کیونکہ مکذب نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۷۵ میں ایک نوٹ لکھا ہے جس کی پہلی سطریہ ہے.یہ خبر چاروں طرف مشہور ہوگئی کہ اب بت پرستوں کے ساتھ محمد صاحب نے صلح کرلی“ اس تقریر سے صاف واضح ہوتا ہے کہ اس وقت عام عرب مشرک بت پرست تھے.پس مکذب کا کہنا کہ عرب صدق دل سے جانتے تھے خدا ایک ہے.کذب ثابت ہوا.دوسرا.دوسرا دعوی مکذب کا یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کے والد کا نام عبداللہ تھا حالانکہ وہ مکہ کا پوجاری تھا.اول عبد اللہ آپ کے والد کو مکہ کا پوجاری کہنا دعویٰ بے دلیل ہے.دوم ایسا نام رکھنے سے کیونکر واضح ہوا کہ عرب والے اللہ تعالیٰ خَالِقُ الْأَرْضِ وَالسَّمَوَات کے سوا کسی کو اللہ کی مخلوق میں سے اللہ نہیں جانتے تھے؟ اور نیز یہ کہ عامہ عرب مشرک نہ تھے اور موجودات کی پوجا نہیں کرتے تھے.اگر اس نام سے خواہ خواہ توحید کے ثبوت وجود کو مان لیں تو اتنا ثابت ہوگا کہ آپ کا دادا بت پرست اور مشرک نہ ہو.خواہ مخواہ کا لفظ میں نے اس لئے بولا ہے کہ بت پرست مشرک تو لے اور وہ حیران ہوئے کہ انہی میں سے ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا اور ان منکروں نے کہا.یہ جھوٹا جادوگر ہے.دیکھو اس نے متعدد معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا.یہ تو اچنبھے کی بات ہے.اور ان کے سردار یہ کہتے ہوئے (انہیں) چلے کہ چلو اپنے معبودوں پر پکے رہو.کیونکہ یہ ایک بات ہے جس کا منشا کچھ اور ہے ہم نے پچھلے دین میں یہ بات نہیں سنی یہ تو کچھ گھڑت سی معلوم ہوتی ہے.ے اور وہ کہتے ہیں ہماری دنیا کی زندگی ہے ( یہیں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے انہیں اس بات کا کچھ بھی علم نہیں وہ تو بس انکلیں دوڑاتے ہیں.

Page 193

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۲ اس لئے مشرک کہلاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے سوا اور مخلوق کی بھی پرستش کرتے ہیں وہ بالکل اللہ تعالیٰ کے منکر یا اس کی پرستش کے منکر نہیں ہوا کرتے حق پرستی کے ساتھ بت پرستی بھی کرتے ہیں ان کی عبودیت خالصہ عبودیت نہیں ہوتی.معبودیت کی صفت میں باری تعالیٰ کو یکتا نہیں رکھتے خدا کو بھی معبود جانتے ہیں اور اپنے بتوں کو بھی معبود بناتے ہیں اسی واسطے مشرک کہلاتے ہیں.مثلاً ہم لوگ عامہ ہنود کو اس واسطے مشرک کہتے ہیں کہ وہ باری تعالیٰ کو بھی معبود جانتے ہیں.اور سری کرشن چندر.اور سری رامچند رجی گنیش جی وغیرہ وغیرہ کی بھی پرستش کرتے ہیں.اور دیانندی آریہ کو اس لئے یقیناً مشرک سمجھتے ہیں کہ وہ باری تعالیٰ کو غیر مخلوق مانتے ہیں اور اسی صفت میں ارواح اور ارواح کے گن کرم اور سبھاؤ یعنی ارواح کے خواص افعال عادات کو بھی غیر مخلوق اعتقاد کرتے ہیں پر مانو اور ان کے گن کرم اور سبھاؤ کو بھی غیر مخلوق بتاتے ہیں !!! اور زمانہ کو بھی غیر مخلوق کہتے ہیں.باری تعالی دیانندیوں کے نزدیک مطلق انو ہم نہیں بلکہ اور اشیا بھی اس کی اس صفت میں شریک ہیں.تَعَالَى شَأْنُهُ عَمَّا يَقُولُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا - بِنَاءً عَلى هذا.دیانندی آریہ مشرک ہیں اور پکے مشرک ہیں.یادر ہے مسلمان جنت دوزخ ارواح وغیرہ کو اُن معنی پر ابدی نہیں کہتے جن پر باری تعالیٰ کو ابدی کہتے ہیں.مسلمان قوم کے نزدیک ان اشیا کا وجود ممکن اور باری تعالیٰ کا وجود واجب ہے.ان اشیا کا وجود باری تعالیٰ کی عطا اور اس کا ایجاد اور اس کی خلق ہے باری تعالیٰ کا وجود کسی کا عطیہ نہیں کسی کا ایجاد نہیں کسی کی مخلوق نہیں ان اشیاء کا وجود اسلام کے نزدیک وجود اور بقا دونوں میں جناب باری تعالیٰ کا محتاج اور باری تعالیٰ مِنْ كُلِّ الْوُجُوه غنی ہے.وَاللهُ الْغَنِيُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ (محمد: ۳۹) قرآن کریم کی آیت ہے.غرض حضور کے والد ماجد کا عبداللہ نام رکھنے سے گو حضور کے مشن اور صداقت کی عمدہ فال ہے مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ عرب لوگ بت پرست اور مشرک نہ تھے! ہم یہاں ہندوستان یا آریہ ورت میں دیکھتے ہیں بعضے ہندی، آریہ ورتی اپنے بچوں کا نام ہری داس، برائن داس ، رام داس رکھتے ہیں اور شرک بھی کرتے ہیں بلکہ ا لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (الاخلاص : ٤) - لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری:۱۲)

Page 194

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۳ مسلمانوں میں ایک گھرانے کے آدمیوں کو دیکھتے ہیں.ایک کا نام عبد اللہ ہے دوسرے کا نام عبدالرسول.تیسرے کا نام فضل الرحمن.اور پھر چوتھے کا نام کرامت حسین فَاِنَّا لِلَّهِ عَلَى حَالَةِ الْإِسْلَامِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک مسلمان اللہ دتا ہے تو اس کے دوسرے بھائی کا نام نعوذ باللہ منہا پیراں دتا ہے.تیسرا دعوی مکذب کا یہ ہے کہ آیت يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِم (الفتح : 1) میں حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے.میرا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.خاکسار کہتا ہے.یہ دعوی مکذب کا بالکل افترا اور بہتان ہے.قرآن شریف کی کسی آیت میں ہرگز ہرگز ، ہرگز موجود نہیں کہ سید نا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ میرا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ اِنْ تَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكهف : ۲) جس آیت سے یہ استدلال کیا ہے.اس کے معنی صاف ہاں بالکل صاف ہیں کیونکہ ید اللہ کے معنی عربی زبان میں (۱) ید الله یعنی انعامه تعالى (۲)يد الله یعنی نصرته تعالى (۳) يَدُ اللهِ صِفَةٌ مِنْ صِفَاتِهِ تَعَالَى الَّذِى لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ - (الشوری:۱۲) جیسے میرا اعتقاد ہے ان محاورات پر آیہ شریفہ کے معنے ہوئے.(1) يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ اللہ تعالیٰ کا انعام ان لوگوں کے انعامات کے اوپر ہے.(۲) اللہ تعالیٰ کی نصرت اس کی امداد ان لوگوں پر ان لوگوں کی نصرت اور امداد سے اوپر ہے.(۳) اللہ تعالیٰ بے مثل کی صفت ید.ان لوگوں کی صفت ید کے اوپر ہے.حیرانی کی بات ہے کہ اس میں اشکال ہی کیا ہے !ہاں اگر یوں ہوتا کہ يَدِى وَهِيَ يَدَ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمُ تو کسی قدر اعتراض کا موقع ہوتا.ہم اس آیت اور پہلی آیہ کی تشریح آگے کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ چوتھا اعتراض.اور دعوی یہ کیا ہے ”آخری وقت میں حضور کو خدا بننے کا خیال آیا“.خاکسار کہتا ہے تمام دنیا میں توحید کے واعظ آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو شرک سے روکا.تو حید الوہیت کی طرف بلایا آخر کچھ زمانہ کے بعد وہی ہادی معبود بنائے گئے.دور نہ جاؤ صرف حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی حالت پر غور کر لو کہ اس خا کی نہاد انسان کو کیسا آسمان پر اٹھایا گیا.

Page 195

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۴ ہادی اسلام نے تمام انبیاء ورسل کے وعظ کی اس طرح تکمیل فرمائی کہ اپنی عبودیت کے اقرار و اعتقاد کو توحید کے اقرار و اعتقاد کی جز ولازم کر دیا کہ کہیں آپ کی قوم بھی امم سابقہ کی طرح آپ کو خدا اور معبود نہ بنالے اس احتیاط اور حزم کی یہ برکت اور یہ اثر ہے کہ قوم کی قوم شرک میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہی اَشهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُه - سبحان اللہ کیا حکمت ہے کہ آپ کی قبر مکہ معظمہ سے بہت دور بنائی گئی تو کہ مکہ معظمہ کی طرف سجدہ کرتے وقت اس قسم کا ممکن احتمال بھی نہ رہے کہ ساجدین کا قبلہ توجہ وہ قبر ہے.آثار صحیحہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد صحابہ جب سفر سے واپس آتے تو سیدھے مسجد نبوی میں جا کر دوگانہ ادا کرتے.مرقد مبارک کی جانب کوئی بھی رخ توجہ نہ لاتا.افسوس اس پر بھی معترضین کا یہ حوصلہ ہے.خدا وند تعالیٰ ہدایت کرے آپ نے عین وفات کے وقت فرمایا.قاتل الله اليهود والنصارى اتخذ وا قبور انبيائهم مساجد اور وصیت کی.ولا تجعلوا قبری و ثنا يعبد.اشتد غضب الله على قوم اتخذوا قبور انبيائهم مساجد اور سنو! عن جبير بن مطعم قال اتى النبي رسول الله صلى الله عليه وسلم اعرابي فقال جهدت الانفس وضاع العيال و نهكت الاموال و هلكت الانعام فاستسق الله لنا فانا نستشفع بك على الله نستشفع بالله عليك فقال النبي صلى الله عليه وسلم سبحان الله ! سبحان الله ! فما زال يسبح حتى عرف في وجوه اصحابه ثم قال ويحك انه لا تستشفع بالله على احد شان الله اعظم من ذالک.ایک دفعہ لے یہود و نصاری پر خدا لعنت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا.اور میری قبر کو بت نہ بناتا جوپو جا جاوے اللہ کا غضب امنڈ آیا ان لوگوں پر جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو جدہ گا ہیں بنالیا.ے جبیر بن مطعم روایت کرتے ہیں کہ ایک اعرابی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا.جانوں پر آفت بنی ہوئی ہے.بال بچے تلف ہو گئے ہیں.مال تباہ ہو گئے مویشی ہلاکت پر آگئے آپ اللہ تعالیٰ سے ہمارے واسطے پانی مانگیے ہم آپ کو اللہ کے پاس سفارشی لے جاتے ہیں اور اللہ کو آپ کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں کہا سبحان اللہ سبحان اللہ اور بار بار سبحان اللہ پڑھتے.( جیسے اس کے کلام سے سخت بے زار اور مضطرب ہو گئے ہیں ) پھر فرمایا بھولے آدمی اللہ کو کسی کے پاس سفارشی نہیں لے جایا کرتے اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بڑی ہے.

Page 196

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۵ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد برکت مہد میں ایک خطیب نے اثنائے خطبہ میں من يطع الله ورسوله فقد رشد و اهتدی کے بعد یہ کہا.ومن يعصهما.اس پر آپ نے فرمایا بس الخـطـيـب انـتـ و عن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم لا تطروني كما اطرت النصارى ابن مريم فانما انا عبده - فقولوا عبد الله و رسوله متفق عليه سجده کرنے کرانے کی بابت سن لو.کیا لطیف واقعہ گزرا ہے.عن قیس بن سعد قال اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم فقلت لرسول الله صلى الله عليه وسلم احق ان يسجد له، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت اني اتيت الحيرة فرايتهم يسجدون لمرزبان لهم فانت احق بان يسجد لك، فقال لى ارايت لو مررت بقبرى أكنت تسجد له، فقلت لا فقال: لا تفعلوا - ( مشکوۃ شریف صفح نمبر ۲۷۴۰ کتاب النکاح.باب عشرۃ النساء - الفصل الثالث ) ہمہ اوست کے مسئلہ پر ایک آیت بھی نص صریح الدلال ہی نہیں یہ دیگر بات ہے یہ دیگر بات ہے کہ خود غرض لوگوں نے اپنے مدعا کے اثبات کے لئے قرآن کریم سے اس پر استدلال کیا ہے.میں نے یہ دو آیتیں قائلین وحدۃ الوجود سے استدلال میں سنی ہیں.اول وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (الذاریات: ۲۲).مگر جب اس آیت کا ماقبل ان سے دریافت کیا جاوے تو حیران رہ جاتے ہیں.اس کا ماقبل یہ ہے وَفِي الْأَرْضِ لیتُ لِلْمُوقِنِينَ (النزاريات:۲۱).بات نہایت صاف ہے کہ اس زمین میں اس موجودات میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں.اور جب تم اس سیر قیس بن سعد کہتے ہیں کہ میں حیرہ میں جو گیا وہاں کے لوگوں کو دیکھا کہ اپنے حاکم کو سجدہ کرتے ہیں میں نے اپنے دل میں کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو اور بھی زیادہ حق ہے کہ انہیں سجدہ کیا جاوے.میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے حیرہ میں ایسا دیکھا کہ وہاں کے لوگ اپنے حاکم کو سجدہ کرتے ہیں آپ تو زیادہ تر حق دار نہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جاوے آپ نے فرمایا اچھا تو اگر تجھے میری قبر پر سے گزرنے کا اتفاق کبھی ہوا تو تو کیا اسے سجدہ کرے گا.تو میں نے کہا نہیں.اس پر آپ نے فرمایا: ہاں، خبر دا رایسا مت کیجیئو.ہیں.نوٹ: دنیا میں یہ عام مرض پھیلا ہوا ہے کہ متکلم یا قائل کی ذاتی وجاہت اس کی معروف شہرت اس کی مسلم الثبوت سیرت اور اس کی معہود اصطلاح و مراد کے خلاف اس کے کلام کا مطلب لیا جاتا ہے.اور بڑے بڑے اہم مقاصد یا اعتراضات کا مبنی اس کو قرار دیا جاتا ہے.یہ ایک مغالطہ ہے جس نے تحقیق حق کے رستہ میں اہل چٹان کا کام دیا ہے.اب اسلام اور صاحب اسلام کا منشا مشن عیسائیوں کے مسئلہ تثلیث و کفارہ کی طرح چیستان لانخیل کا ہم پہلو نہیں رہا قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (البقرة: ۲۵۷)

Page 197

۱۹۶ تصدیق براہین احمدیہ بیرونی سے فارغ ہو جاؤ تو پھر اپنے نفوس میں مطالعہ کروند بر کرو.دوسری آیت شریف هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ (الحدید: ۴ مگر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ جس چیز کے اول و آخر وہ ہو وہ چیز آپ کیا ہوئی ؟ اور جس چیز کا ظاہر و باطن وہ ہوا وہ خود کیا ہوئی ؟ تو عوام مدعیان وحدة الوجود ساکت رہ جاتے ہیں.ہاں البتہ وید میں مسئلہ وحدۃ وجود کی بنیاد مستحکم رکھی گئی ہے.اس لئے کہ آریہ ورت میں وحدۃ وجود کے مسئلہ کو ویدانت کہتے ہیں.اور خود یہ لفظ ہی ظاہر کئے دیتا ہے کہ اس کی اصل کہاں سے ہے.اور حضرت میرزا صاحب کے شحنہ حق اور سرمہ چشم کے جواب میں ایک میرٹھ کے آریہ صاحب جو چھاؤنی نصیر آباد ضلع اجمیر کی عدالت کے سرشتہ دار ہیں.اپنی کتاب تنقیہ میں فرماتے ہیں.وہی پر آتما اپنی اچھا سے بہ روپ ہو گیا یعنی رب شکلوں میں ظاہر ہوا.یہ بقیہ حاشیہ نہ نہایت واضح اور صاف راہ ہے اور پہلا اور ایک ہی مذہب ہے جس کے بانی کو اپنی صداقت اپنی کامیابی کا کامل تیقن اور علی بصیرت اذعان ہے کہ دن رات میں پانچ بار علی رؤوس الاشہاد بلند مناروں پر اس مذہب کے اصول کی ندا کی جاتی ہے.اللہ اللہ ، کوئی جو یائے حق سلیم القلب ہے کہ اس ایک دلیل سے اس کامل بادی کا صادق پیر و بن جائے؟ فرقان حمید نے خلق وخالق، ممکن و واجب، فانی و باقی میں امتیاز و تفرقے کی نسبت پردہ برنداز گفتگوئیں کی ہیں.جناب نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے جو آپ کی عملی لائف کا سچا حقیقت نما دستور العمل ہے ہرگز کوئی ایم یا صراحت بھی ایسے لغو خیالات ( ہمہ اوست یا ہمہ از واست وغیرہ) کے متعلق پائی نہیں جاتی.صدرامت اور ائمہ سلف کے کسی قول اور فعل سے کوئی دلیل لائی نہیں جاسکتی.پس یہ کافی ثبوت ہے کہ نفس اسلام اور اس کے صادق اتباع ایسے خلاف عقل عقائد و تعلیمات سے بری ہیں.ایک شخص جس نے اعلائے کلمتہ اللہ میں توحید کا نور عالم میں پھیلانے کو اپنی اور اپنے پیروؤں کی جانیں کھپادیں.وہ شخص جو قدم قدم پر اپنے بندہ ہونے اور عاجز بندہ الہی ہونے کے ثبوت دیتا ہے.وہ جو مشرک اور کافر کو تیغ بے دریغ کا عرضہ بنانے سے تذبذب نہیں کرتا جس نے ایک عالم سے قولاً وفعلاً غیر اللہ کے آثار مٹاڈالے.مظاہر شرک و بدعت کو جڑ سے اکھاڑ دیا جس کے ادنیٰ سے ادنی خادم نے سومنات کے ایسے شرک گڑھ کو حرف غلط کی طرح صفحہء عالم سے حک کر دیا.ایسے مقدس وجود کی نسبت یہ کہا جاوے کہ اس نے شرک کی تعلیم دی یا ویدانتی مسئلہ کی بنیاد ڈالی سراسر افترا ہے.یوروپ کے سخت سے سخت دشمن بھی جنہوں نے اسلام پر لکھا ہے اس امر کا اعتراف کرنے سے پہلوتہی نہیں کرتے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جس نے دنیا میں توحید کو شائع کیا.ڈریپر صاحب لکھتے ہیں مسیحی مذہب نے گو کافی طور پر ثابت کر دیا تھا کہ وہ حکومت وسلطنت کے انتظام کے لئے کفیل ہو سکتا ہے مگرکس پر بھی اپنے حریف ( شرک و کفر) کے استیصال کے لئے قومی نہ تھا بنا بریں غیر مذہب کے ساتھ اس کے مجاہدہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کے اصول خلط ملط ہو گئے.اس مادہ میں عیسویت و اسلام میں تناسب نہیں جس (اسلام) نے اپنے مخالف و حریف کو بکلی معدوم کر دیا اور بلا اختلاط غیرے فقط اپنے ہی اصول کو شائع کیا.( تاریخ منازعت مابین مذہب و علم دیا ندیوں کے یہ اعتراضات اسلام کی شوکت اور قرآن کی صداقت مٹانے سے رہے.وہ ان باتوں سے اپنی ہی دانش و بینش کی ہنسی اڑا رہے ہیں.اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُهُمْ فِي طغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ (البقرة: ۱۲).صاحبان بصیرت سمجھتے ہیں کہ ایسی خردہ گیریوں سے ان کا منشا کیا ہے.حقیقت میں فرعون کی طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں دل ہی دل میں شکست کھا گئے ہیں مگر اب ظاہر میں نمودی رسیوں کے سانپوں سے حق تعالیٰ کے قدوس کا سامنا کیا چاہتے ہیں.سوانجام وہی ہوگا جو الیسوں کا ہوا کیا ہے.(عبدالکریم)

Page 198

۱۹۷ تصدیق براہین احمدیہ تیترے اپنیشد کا بچن ہے.انتھی تنقیہ نمبرے.پھر صفحہ نمبر ۸ میں کہا ہے.اس تمام عالم مجسم کا ظہور نمت کا رن پر کرتے یعنی علت فاعلی پر میشر سے ہے.انتھی پھر صفحہ نمبر ۲۷ میں لکھا ہے.یہ بھی واضح ہو کہ ویدانتی یعنی آریوں کے فلاسفر پر میشر کو واحد الوجود مانتے ہیں یعنی جو کچھ ہے اللہ ہی اللہ ہے ماسوا کچھ نہیں ، صفحہ نمبر ۳۰ میں لکھا ہے ارجن سرشٹی کا آد( ابتدا) اور مدہ (اوسط) اور انت (آخر) میں ہوں.ودیاؤں (علم) میں برہم ودیا ( عرفان البی) چر چا( تذکرہ) کرنے والوں میں یاد میں ہوں“.مدہ کا لفظ جس کے معنی اوسط کے ہیں بہت ہی توجہ کے قابل ہے صرف پر میشر ہی یہ تمام دنیا ہے.جو کچھ ہو چکا ہے وہی تھا جو کچھ ہوگا وہی ہو گا ر گوید بھاگ ۲ سکت۹۰ منتر دوم ”سین اچارج کہتے ہیں.جو کچھ گزشتہ زمانوں میں تھا پر میشور تھا.جو کچھ اب موجود ہے پر میشر ہے آدمیوں کے جسم جواب موجود ہیں اور گزشتہ زمانوں میں زندہ تھے تمام پر میشور ہیں اور تھے جو کچھ آئندہ زمانوں میں ہوگا وہ بھی پر میشر ہے.وہ دیوتاؤں کا دیوتا ہے.اس چیز سے جو لوگ کھاتے ہیں وہ نشو ونما پاتا ہے اور دنیا بھی اس کے ساتھ بڑھتی ہے.مایا کے سبب چیزیں مختلف نظر آتی ہیں.لاکن دراصل ہر ایک شی پر میشر ہے برہم کے تین حصہ اس دنیا سے پرے ہیں.اس کا ایک حصہ تمام دنیا ہے یہی تمام ہے جو اس کے ایک حصہ سے بنا ہے منتر ہ“.پھر سنو! تنقیہ دماغ کا مصنف آریہ کیا کہتا ہے.” بموجب قرآن کے صرف اس قدر تو حید ہے کہ پیدا کرنے والا ایک ہے دو نہیں ہیں مگر بمقابلہ خدا کے دوسری موجودات مخلوق کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا.گو اس نے ہی گھڑے پیدا کئے ہوں.مگر اس کے مقابلہ میں اسے علیحدہ موجود ہونا اور تا ابد موجود رہنا اہل اسلام کے یہاں ثابت ہے.جب اسے علیحدہ دوسری چیز کا موجود ہونا ثابت وظاہر ہے تو پھر تو حید کہاں یہ تو دوئی ہوگئی.تنقیہ صفحہ نمبر ۲۸ اب میں ان دونوں آیات کا مطلب سناتا ہوں.مگر بیان شروع کرنے سے قبل مختصر سی تمہید کا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے جب دو یا کئی چیز میں با ہم کسی امر میں شریک ہوتی ہیں اور کسی امر میں مختلف ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ امر مشترک کے احکام میں ان مشتر کہ اشیا کو اتحاد ہوگا.اور جن

Page 199

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۸ جن باتوں میں ان چیزوں کو باہمی اختلاف ہوتا ہے ان باتوں میں جو جو احکام ہوں گے ان میں بھی اختلاف ہو گا.مثلاً حیوانات و نباتات جسمیت اور نمو میں با ہم شریک ہیں.مگر حیوانات تحرک بالا راده خورد، نوش وغیرہ اوصاف میں نباتات سے ممتاز ہیں.پس حیوانات و نباتات کو جسمیت اور نمو کے احکام میں بھی شرکت ہو گی مگر خورد، نوش، جماع وغیرہ احکام میں حیوانات اور نباتات میں اشتراک ہوگا بلکہ حیوانات کو ان باتوں اور ان کے احکامات میں امتیاز و خصوصیت ہو گی.اسی طرح انسان و حیوان کے درمیان کھانے پینے ، جماع کی خواہش میں جس قدر اشتراک ہے اسی قدر کھانے پینے جماع کے احکام میں بھی اشتراک ہوگا.مگر انسان ترقی سطوت جبروت نے علوم وفنون کی تحصیل اور نئے علوم کو اپنے ابنائے جنس کے سکھلا دینے میں حیوان سے ممتاز ہے.ان اشیا کے احکام میں بھی حیوان سے ممتاز ہو گا.ایسے ہی ہادی رسولوں اور عامہ آدمیوں میں گو عام احکام بشریت کے لحاظ سے اشتراک ہوتا ہے.رسولوں کا گروہ بخلاف اور عام آدمیوں کے الہی ہلہم مصلح قوم ، موید من اللہ ہوتا ہے.اس لئے عام احکام بشریت میں اگر چہ عامہ بشر سے اشتراک رکھتے ہیں لیکن اپنی خصوصیت رسالت نبوت، اصلاح قوم کے احکام میں عامہ خلائق سے ضرور جدا ہوتے ہیں بلاتشبیہ ایک مفتوح ملک کی رعایا کے ساتھ ایک فاتح اور حکمران گورنمنٹ کا سپہ سالار یا مجاز حاکم اپنی گورنمنٹ کے حکم سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کو اپنی گورنمنٹ کے احکام سناوے تو اگر اس مفتوح رعایا کے لوگ ان معاہدات اور احکام کی تعمیل نہ کریں تو ضرور وہ رعا یا اس گورنمنٹ کی مجرم، باغی ، غدار، نا فرمان ٹھہرے گی.مگر وہی سپہ سالار اور گورنمنٹ کا ماتحت حکمران اس رعایا کو کوئی اپنا ذاتی کام بتاوے اور اپنے طور پر ان رعایا میں سے کسی سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کا آدمی اس سپہ سالار اور اس حاکم کی بات نہ مانے یا معاہدہ کا خلاف کرے تو شخص جو اس سپہ سالا راور گورنمنٹ کے ماتحت حکمران کے معاہدہ اورحکم کا مخالف ٹھہرا ہے گورنمنٹ کی بغاوت کا مجرم نہ ہوگا.کیونکہ پہلی قسم میں اس سپہ سالا راور حاکم کے احکام فاتح گورنمنٹ کے احکام ہوا کرتے ہیں.اور اس سپہ سالار کی زبان فاتح گورنمنٹ کی زبان اس کی تحریر فاتح گورنمنٹ

Page 200

تصدیق براہین احمدیہ ۱۹۹ کی تحریر ہوا کرتی ہے.غور کرو.ایک قاتل کو مجاز حاکم کے حکم سے قتل کرنے والے یا پھانسی دینے والے کے ہاتھ اس گورنمنٹ کے ہاتھ ہوتے ہیں جس کے حکم سے قاتل کو قتل کرنے والے اور پھانسی دینے والے نے قتل کیا اور پھانسی دیا.در صورت دیگر وہی پھانسی دینے والا کسی اور ایسے آدمی کو جس پر اس گورنمنٹ نے موت کا فتویٰ نہیں دیا قتل کر کے دیکھ لے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ پس اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول ان کی بھی دو حالتیں اور دو جہتیں ہیں.ایک حالت و جہت میں وہ آدمی ہیں بشر ہیں.اور دوسری حالت ان کی رسالت و نبوۃ کی ہے.جس کے باعث وہ رسول ہیں نبی ہیں الہی احکام کے مظہر اور احکام رساں ہیں جس کے باعث ان کو پیغامبر کہتے ہیں پہلی حالت و جہت سے اگر وہ حکم فرما نویں تو اس حکم کا منکر باغی منکر رسول نہ ہوگا جس کو شرعی اصطلاح میں کافر ، فاسق ، فاجر کہتے ہیں اور دوسری حالت و جہت سے اگر کوئی ان کے حکم کو نہ مانے تو ضرور ان کے نزدیک اس پر بغاوت، انکار کا جرم قائم ہوگا.اور ضرور وہ کافر ، فاسق فاجر کہلا وے گا.اس جہت سے چونکہ وہ خداوندی احکام کے مظہر ہیں اور جس سے معاہدہ کرتے ہیں اس سے خدا کے حکم سے معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کنندہ جو معاہدہ ان سے کرتا ہے وہ اصل میں باری تعالیٰ سے معاہدہ کرتا ہے.پس اگر معاہدہ کنندہ معاہدہ کے خلاف کرے تو باغی و منکر بلکہ کافر ہوگا نبی عرب محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت و نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا رسول بتایا اب ان کو جب لوگوں نے نبی رسول مانا اور ان کے احکام کو الہی احکام یقین کیا لا محالہ آپ سے ان کا معاہدہ حقیقہ اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ہو گا.ہاں جو احکام اور مشورے اس عہدہ رسالت کے علاوہ فرمانویں ان احکام کی خلاف ورزی میں کفر و فسق نہ ہو گا صحابہ کرام آپ کے عہد سعادت مہد میں یہ تفرقہ عملاً دکھاتے تھے.بریرہ نام ایک غلام عورت تھی جب وہ آزاد ہوگئی وہ اپنے خاوند سے جو ایک غلام تھا بیزار ہوگئی.مگر اس کا شوہر اس پر فدا تھا وہ اس کی علیحدگی کو گوارا نہ کرتا تھا وہ اس پر سخت کبیدہ خاطر ہوا اور آنجناب کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی آپ نے بریرہ سے اس کے ساتھ مصالحت کر لینے کو ارشاد فرمایا.بریرہ نے جواب دیا.آپ یہ وحی سے فرماتے ہیں یا عہدہ

Page 201

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۰ نبوت سے علاوہ بطور مشورہ کے فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا میں رسالت کے لحاظ سے یہ حکم نہیں دیتا اپنی ذاتی رائے سے تجھے کہتا ہوں.اس نے نہ مانا اور کہا مجھے اختیار حاصل ہے.اسی طرح إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّ أَحَدًا (الكهف : ).اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس امر کا بیان ہے کہ میں ایک بشر ہوں بشریت میں تمہاری مثل ہوں.خبر دار کبھی شرک نہ کرنا مجھے خدا نہ کہہ بیٹھنا نہ میری عبادت کرنا اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا اور ایسا ہی ان آیات کریمہ میں غور کرنے والا یقین کر سکتا ہے کہ اسلام کہاں تک شرک سے بیزاری ظاہر کرتا ہے.وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكْتِ الظَّاثِينَ بِاللهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَلَعَنَهُمْ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا إِنَّا أَرْسَلْنَك شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ b وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله ط يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيْهِمْ ۚ فَمَنْ نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ ۚ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عُهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيْهِ أَجْرًا عَظِيمًا (الفتح: ۷ تا ۱۱) لے اس کے سوا نہیں کہ میں تم سا ایک بشر ہوں مجھے حکم ہوتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے.پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے وہ عمل نیک کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بلاوے.ے اور اللہ سزادے کا منافق مردو عورت اور مشرک مرد و عورت کو جو اللہ کی نسبت بدظنی رکھتے ہیں انہیں کے اوپر برائی کا پھیر ہے.اور اللہ ان پر ناراض ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کے لئے جہنم تیار کیا اور وہ برا ٹھکانا ہے.( یہ لوگ اپنی دولت کثرت اور قوت پر فریفتہ نہ ہوں اور اپنے موجودہ وقت کو جس سے سزا ابھی غائب ہے سر دست آرام کا زمانہ تصور فرما کر مغرور نہ ہو جاویں.ان کو سزاد ینا ان کا استیصال کرنا اور عقل و فکر انسان سے باہر نا اندیشہ سامانوں کا ہلاکت کے بہم پہنچانا ہم پر کچھ دشوار نہیں ہے.اسباب ہمارے ہیں اور اسباب کے خالق ہم ہیں) اور آسمان و زمین کے لشکر اللہ کے قبضہ میں ہیں اور اللہ غالب حکمت والا ہے ہم نے تجھ کو (اے نبی) شاہد مبشر نذیر بھیجا ہے ( اب ضرور ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤا سے ( رسول کو ) قوت دو اور اس کی تعظیم کرو.اور صبح و شام اللہ کے نام کی تقدیس کرو.یقیناً جو لوگ مجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں اللہ کاہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.اب جس نے عہد کو تو ڑ دیا وہ جان لے کہ وہ عہد شکنی کی سزا پا دے گا.اور جس نے پورا کیا اسے جس پر اس نے اللہ سے معاہدہ کیا ہے تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم دے گا.

Page 202

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۱ مکذب نے صفحہ نمبر ۷۴ تکذیب میں سورہ نجم کے حوالہ سے یہ لغو فقرہ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِنَّ شَفَاعَتَهُنَّ لَتُرتجي.اعتراض کرنے کو لکھا ہے اسلام کے مختلف فرقے دنیا میں موجود ہیں.سب کے پاس قرآن ہے مگر تعجب ہے کہ کسی میں یہ موجود نہیں اور ہو کیسے قرآن کریم کی شان اس سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ اس مجموعہ توحید میں ایسا مشرکانہ مضمون ہو اب حقیقت میں قرآن پر کوئی اعتراض نہ رہا.مکذب فٹ نوٹ میں.مفصل حال اس کا معالم جلالین بیضاوی معتمد میں ذکر ہے.“ مصدق نے ان تفاسیر کی طرف رجوع کیا.مگر ان میں یہ لکھا پایا جو ناظرین کے عرض خدمت ہے.بیضاوی نے اس واہی قصہ کو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ العلی الخ پڑھا تھا لکھ کر کہا ہے وَهُوَ مَردُودٌ عِندَ الْمُحَقِّقِینَ.اور یہی بات معالم کے حاشیہ پر مرقوم ہے.تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے.تلك الغرانيق الخ کی نسبت یہ کہنا کہ رسول اللہ نے سورہ نجم میں اس کو پڑھا صحیح نہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں.لم يـصـح شـيء مـن هـذا ولا ثبـت بوجـه مـن الوجوه و مع عدم صحته بل بطلانه فقد دفعه المحققون بكتاب الله سبحانه.حيث قال الله تعالى وَلَوْ تَقَوْلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ و قوله تعالى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى و قوله تعالى وَلَوْلَا أَنْ تَبَّتْنَكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنَّ إِلَيْهِمْ فنفى المقاربة الركون فضلا عن الركون قال البزار هذا حديث لا نعلمه يروى عن النبي صلى الله عليه و سلم باسناد متصل - قال البيهقى هذه القصة غير ثابتة من جهة النقل ثم اخذ يتكلم ان رواة هذه القصة مطعونون فيهم- لے اس قسم کی کوئی بات بھی کسی وجہ سے ثابت اور صحیح نہیں ہوئی.اگر چہ خود ہی اس کی عدم صحت اور اس کا بطلان ظاہر ہے.مگر محققین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی تو اسے رد کر رہی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر یہ ( نبی ) ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات لگا تا تو ہم اس کا دہناہاتھ پکڑتے پھر ہم اس کی رگ حیات کو کاٹ ڈالتے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ نبی اپنی طرف سے نہیں بولتا.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر ہم تجھ کو مضبوط نہ رکھتے تو تو ان کی جانب قریب تھا کہ مائل ہو جاتا.اب یہ آیت مقاربت میلان کی بھی نفی کرتی ہے.چہ جائیکہ آنجناب کا میلان ان کی جانب ہوتا.ہزار کہتے ہیں ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس حدیث کو متصل اسناد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو.بیہقی کہتے ہیں یہ قصہ نقل کے قانون کے لحاظ سے ثابت نہیں ہوا.پھر بہقی نے یہ کلام کیا ہے کہ اس قصہ کے راویوں میں طعن کیا گیا ہے.

Page 203

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۲ قال امام الائمة ابن خزيمة ان هذه القصة من وضع الزنادقة - (تفسير البغوى ، معالم التنزيل زير آيت الحج: ۵۳) قال الرازي هذه القصة باطلة موضوعة لا يجوز القول بها - (الفجر الساطع على الصحيح الجامع محمد الفضيل بن محمد ا قال الله تعالى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: ۵،۴) بسی الفاطمي) و قال الله تعالى سَنُقْرِيكَ فَلَا تَنْسَى ولا شك ان من جوز على الرسول تعظيم الاوثان فقد كفر لان من المعلوم بالضرورة ان اعظم سعيه كان فى نفى الاوثان - تفسير السراج المنير سورة الحج) قال ابن كثير في تفسيره: ان جميع الروايات فى هذا الباب اما مرسلة او منقطعة لا تقوم الحجة بشيءٍ منها ـ ثم قال فقد عرفناك انها جميعها لا تقوم بها لحجة لانه لم يروها احد من اهل الصحة ولا اسندها ثقة بسند صحيح او سليم متصل (فتح البيان مختصرًا) و قال في الكبير رُوِيَ عن محمد بن اسحاق بن خزيمة انه سئل عن هذه القصة فقال هذا وضع من الزنادقة وصنّف فيه كتابًا.مکذب براہین صفحہ نمبر ۷۸ میں لکھتے ہیں.اور اپنشدوں کے مخفی رکھنے میں یہ مصلحت تھی اور اہل اسلام سے چھپانے کا یہ مطلب تھا کہ وہ تعصب و جہالت سے غیر مذہب کی کتب کو جلا دیا امام الائمہ ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ اس قصہ کو زندیقوں نے وضع کیا ہے.امام رازی کہتے ہیں.یہ قصہ جھوٹا بناوٹی ہے اس کا ماننا نا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتا یہ تو وہی کہتا ہے جو اس کے دل میں وحی کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عنقریب ہم تجھے قرآن پڑھاتے ہیں.پھر تو اسے فراموش نہ کرے گا جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ کہنا روا ر کھے کہ آپ نے بتوں کی تعظیم کی ایسا شخص بے شک کافر ہے.اس لئے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بھاری کوشش بتوں کا نابود کرنا تھا.ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس باب میں جتنی روایتیں ہیں یا تو مرسلہ ہیں یا منقطعہ ہیں اور ایسی روایتیں حجت نہیں ہوا کرتیں.پھر امام صاحب فرماتے ہیں ہم تجھے سمجھا چکے ہیں کہ یہ تمام روایتیں حجت پکڑنے کے قابل نہیں ہیں.کیونکہ اہل صحت میں سے کسی نے انہیں روایت نہیں کیا.اور نہ کسی ثقہ نے سند صحیح یا سلیم متصل سے انہیں اسناد کیا.اور امام صاحب تفسیر کبیر میں کہتے ہیں.محمد بن اسحق بن خزیمہ سے روایت ہے کہ اس سے اس قصہ کی بابت سوال کیا گیا.اس نے جواب دیا کہ زندیقوں نے اسے گھڑا ہے اور اس نے اس بارہ میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے.

Page 204

تصدیق براہین احمدیہ کرتے تھے.ایسا نہ ہو کہ ان ست دھرم کی کتابوں کو جلا دیں.پھر مکذب نے صفحہ نمبر۷۹ میں اسکندریہ کے کتب خانہ کی تباہی کا ذکر کیا ہے.کہ "فیلونس حکیم اور فاضل اجل کی عرض پر عمر وسپہ سالا را فواج نے امیر المومنین عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ثانی سے اس کتب خانہ کے بارے میں ارشاد پوچھا تو خلیفہ نے لکھا فی الفور جلا دیے جاویں.چھ مہینہ تک وہ حمام گرم ہوتے رہے.انتھیٰ مختصرًا یہ اعتراض صرف پادری صاحبان کی کاسہ لیسی کا نتیجہ ہے.والا ناظرین غور کریں.اوّل.اگر اسلام کی عادات میں یہ ہوتا تو اسلام والے پھر خلیفہ عمر ا پنے عہد سعادت مہد میں یہود اور عیسائیوں کی پاک کتابوں کو جلاتے.کیونکہ وہی دونوں مذہب ہاں پاک کتابوں والے مذہب لے اگر چہ اس وقت تک جبکہ اس واقعہ کی تحقیق نہ کی گئی تھی اور سیح حالات روشنی میں نہ آئے تھے.یہ الزام مسلمانوں کو دیا جاتا تھا مگر اب منصف مزاج اور حق پسند علماء میں ایسے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جو یہ نا حق الزام مسلمانوں کو دیتے ہوں اس الزام کی وجہ زیادہ تر تعصب یا نا واقفیت پر مبنی تھی اور اس وقت بھی جب یہ الزام لگانے والے کے پاس کوئی صحیح سند موجود نہ تھی.یعنی اس قصہ کے بیان کرنے والے دو مورخ اس واقعہ سے ۵۸۰ برس بعد پیدا ہوئے تھے.اور کوئی پہلی سندان کے پاس موجود نہ تھی سینٹ کرائی سے جس نے اسکندریہ کے کتب خانہ کی تحقیق میں بہتسی کتابیں لکھی ہیں.اس روایت کو بالکل جھوٹا ٹھہرایا ہے.اور معلوم ہوا ہے کہ یہ کتا بیں جولیس سیزر کی لڑائی میں جل گئی تھیں چنانچہ پلو ٹارک بھی لائف آف سیزر میں لکھتا ہے کہ جولیس سیزر نے دشمنوں کے ہاتھ میں پڑ جانے کے خوف سے اپنے جہازوں کو آگ لگا دی اور وہی آگ بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی کہ اس نے اسکندریہ کے مشہور کتب خانہ عظیم کو بالکل جلا دیا.ہینڈی صاحب (Haydn) نے اپنی کتاب ”ڈکشنری آف ڈیٹس ریلیٹنگ ٹو آل ایجز میں جہاں اس غلط روایت کو درج کیا ہے وہاں اپنی تحقیقات سے یہ نوٹ لکھا ہے کہ یہ قصہ بالکل مشکوک ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول اگر وہ کتا بیں مخالف اسلام ہیں تو جلا دینا چاہئیں“.مسلمانوں نے تسلیم نہیں کیا.اس قول کو بعض نے تھیو فلس اسکندریہ کے بشپ سے منسوب کیا ہے.جو ۳۹۰ء میں ہوا اور بعض نے اسے کارڈنل زمنیز کے ماتھے لگایا ہے جو ۱۵۰۰ء میں تھا“.ہمارے مشہور جوان مرد ڈاکٹر لائیٹر نے اپنی کتاب سنین الاسلام میں اس غلط روایت کی پیروی کی ہے اور افسوس سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کو اپنی تحقیقات میں دھوکا ہوا ہے.ڈریپر صاحب نے مشہور کتاب میں پہلے اس قول کو غلط راویوں سے نقل کیا ہے لیکن بعد میں جا کر اس قول کی غلطی کو تسلیم کیا ہے اور لکھا ہے کہ در حقیقت یہ کتابیں جولیس سیزر کی لڑائی میں جل گئی تھیں.اور اب کامل یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قول بالکل بے اصل اور محض فسانہ ہے.اگر رونے کے لائق ہے تو یہ سچا واقعہ ہے کہ متعصب کار ڈانل زمنیز نے اسی ہزار عربی قلمی کتا بیں گرینڈا کے میدانوں میں برباد کرنے والی آگ کے شعلوں کے حوالے کر دی تھیں.( دیکھو کا نفلکٹ بیٹوین سائنس اینڈ ریلیجن).عبدالکریم

Page 205

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۴ اسلام کے پہلے مخاطب تھے.پھر مجوس پر اسلام کا پورا تسلط ہوا مگر کوئی تاریخ نہیں بتاتی کہ اسلام نے ان کی کتابیں جلائیں.اگر یہ فعل اسلام یا خلفاء اسلام کا داب ہوتا تو اس کے ارتکاب کے اسباب ہمیشہ اسلام میں موجود تھے اور اسلام کا کوئی مانع نہ تھا.دوم.اگر مذہبی وغیرہ کتابوں کا جلانا اسلامی بادشاہوں اور عوام اسلام کا کام ہوتا تو یونانی فلسفہ، یونانی طب یونانی، یونانی علوم کے ترجمے عربی زبان میں محال ہوتے.سیوم.اگر کتابوں کا جلانا اسلامی لوگ اختیار کرتے تو ضرور تھا کہ مکذب براہین اپنے ملک سے کوئی نظیر دیتے اور انہیں اسکندریہ میں سمندر پار نہ جانا پڑتا.چہارم.سات سو برسوں سے زیادہ اسلام نے ہندوستان میں سلطنت کی اور اس عرصہ میں بھاگوت، رامائن، گیتا، مہابھارت اور ان کے مثل، لنگ پران ، مارکنڈی، مشہور کتا ہیں جو آج تک مذہبی کتابیں اور مقدس پستک یقین کی جاتی ہیں کسی کے جلانے کی خبر کان میں نہیں پہنچی بلکہ ان کتابوں میں سے بعض کے ترجمے ہوئے.پس تعجب آتا ہے کہ ان ہندوؤں نے کیونکر سمجھ لیا کہ مسلمان ان کی پتکوں کو جلاتے ہیں.انصاف سے سوچو.پنجم.یا درکھو ہم ایک الزامی جواب دیتے ہیں.اگر چہ الزامی جواب بعض لوگ پسند نہیں کرتے.مگر ہم اس لئے ایسا جواب پسند کرتے ہیں کہ اس قسم کے جواب سے راستی پسند مخاطب کا دل خود بھی اندرونی جواب کا طالب ہوتا ہے اور حقیقی جواب ایسی حالت میں زیادہ تر موثر بنتا ہے.اس الزامی جواب میں پہلے ہم عیسائیوں کو لیتے ہیں جو اس اعتراض کے پہلے بانی ہیں اور مکذب براہین نے انہیں کے اخبار نور افشاں.نمبری ۲۱، جلد ۱۲ مطبوعہ ۲۲ مئی ۱۸۸۴ء سے یہ سوال اخذ کیا ہے اور اس وقت الزامی جواب کی خوبی پر ان کو مستی کے باب ۱.۵.لوقا باب ۳۷ یاد دلاتے ہیں اور پھر عرض کرتے ہیں کہ وہ اعمال ۱۹ باب ۲۰۱۸ میں ملاحظہ فرمائیں کہ اس میں کیا لکھا ہے.اور بہتیروں نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے آ کے اپنے کاموں کا اقرار کیا.

Page 206

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۵ اور بہتوں نے جو جادوگر تھے اپنی کتابیں اکٹھی کر کے سب لوگوں کے آگے جلا دیں اور ان کی قیمت کا حساب کیا تو پچاس ہزار روپیہ ثابت ہوئیں.اسی طرح خداوند کریم کا کلام بڑھ گیا اور غالب ہوا.اب اس تعلیم پر جو عملی کارروائیاں ہوئیں وہ سنیئے اور یہ بھی یادر ہے کہ اسکندریہ کے کتب خانہ میں مذہبی کتا بیں نہ تھیں جو اصل محل اعتراض ہے کتاب والٹن مطبوعہ ۱۷۸ء جلد سوم میں ہے.جب ڈ کلف کے ترجمہ جلانے کا حکم ہوا تو ۱۴۰ء میں ایک کتاب ٹیلر نے تصنیف کی اور ۱۴۲۸ء میں کونسل منعقد ہوئی جس کے حکم سے وکلف کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلائی گئیں.۱۵۲۶ء میں کارڈنل ولی اور بشپ لوگوں نے حکم دیا کہ ٹنڈیل کا ترجمہ نہ پڑھا جاوے.اور اس مضمون کے اشتہار اپنے علاقوں میں جاری کئے کہ لوتھر کے بعضے پیرؤوں نے ترجمہ غلط کیا ہے.اور خدا کے کلام کو جھوٹے ترجموں اور الحادی حاشیوں سے خراب کیا ہے اس لئے وہ ترجمے جس جس کے پاس ہوں تمیں دن کے عرصہ میں جنرل واٹیکر کے پاس حاضر کرے ورنہ کلیسیا سے نکالا جاوے گا اور بدعتی کہلا دے گا.اور اسی سال ٹونسل بشپ لنڈن اور ٹامس مور نے تمام نسخے ی نوٹ.جادوگری کس کو کہا گیا ہے.پادری کلارک آیت ۱۹ کے نیچے لکھتے ہیں.دنیا میں ہزار ہا کتا بیں نفسانی اور شیطانی موجود ہیں جن سے لوگ بگڑتے ہیں عقلاً و نقل وہ بُرے ہیں.مثلا بُرے شعروں کی کتابیں کوک شاستر کی کتابیں یا جو ٹھے قصے کہانیاں جو شہوت انگیز ہیں اور وہ افسانے اور قصے جولوگوں نے بُرے مطلب پر تیار کئے ہیں.پھر رابرٹ کلارک تفسیر اعمال ۳ باب ۸ درس کی تفسیر میں لکھتے ہیں.ہشیار، نجومی ، جادوگر یہ ایک ہی بات ہے.(متی ۲-۱) میں جو لفظ مجوسی لکھا ہے وہ لفظ اور یہ لفظ ایک ہی ہے پھر کہا ہے تو اریخ میں لکھا ہے کہ یا رسیوس بزرگ ، پم پیوس، کلاس، جو لیں ، طبر یوس شہنشاہ یہ سب کے سب اپنے اپنے ساتھ جادوگروں کو رکھتے تھے.اور نپولین شہنشاہ فرانس جو ابھی مرا ہے ایسی دانائی کے زمانہ میں بھی اپنے ساتھ جادوگر رکھتا تھا.اعمال کے۱۳ باب ۶ درس کے تفسیر میں کہا ہے.رومی لوگ جادوگروں کو بہت چاہتے تھے اور ان سے شگون و فال دریافت کرتے تھے.جیسے اس وقت ہندؤں میں ہو رہا ہے.اور بعضے مسلمان بھی تعویذ گنڈے اور رمالی اور فال کشائی اور ٹو ٹکے کرتے ہیں.رابرٹ کلارک تفسیر اعمال ۱۹ باب ۲۰ درس میں لکھتے ہیں.پس یہ کتابیں بھی خداوند کے کلام کے غلبہ سے جل گئیں اور جادوگری کا اعتقاد دالوں سے نکل گیا.بطلان مٹ گیا.کلام صدق پھیل گیا.

Page 207

تصدیق براہین احمدیہ خرید کر کے پالیکر اس میں جلا دئیے پھر ۱۵۲۹ء میں یہ نسخہ چھپ سار میں علانیہ جلا دیئے گئے.جب ۱۵۳۰ء میں ٹنڈیل نے اس پر نظر ثانی کر کے دوبارہ چھپوایا اور جان وغیرہ کی معرفت اس کی اشاعت کی تو لنڈن کے بشپ نے شائع کرنے والوں کی تشہیر کی اور یک لاکھ اٹھاسی ہزار چارسور و پیہ چھ آ نہ آٹھ پائی جرمانہ کیا.پھر ۱۵۴۶ء میں ہنری ہشتم شاہ انگلستان کا حکم صادر ہوا کہ ٹنڈیل اور کور ڈیل کے ترجمے اور نیز وہ کتا بیں جن کی پارلیمنٹ نے اجازت نہیں دی اور نیز فرت اور دکلف کی کتابیں نہ پڑھی جاویں اور ملکی اور کلیسائی افسروں کو دیجا دیں کہ وہ جلا دی جاویں.پھر۱۵۵۴ء میں نماز کی کتاب مع انجیل جلائی گئی.پھر ۱۵۵۵ء میں اشتہار جاری ہوا کہ بدعتی کتا بیں کہیں نہ بھیجی جاویں اور نہ کوئی اپنے پاس رکھے.یہ پاک عیسائیوں کی کارروائیاں تھیں جو انہوں نے خلاف مذہب تحریرات اور کتب کی اشاعت کے انسداد میں جاری رکھیں.اب ہم روشن ضمیر آریہ صاحبان کو ستیارتھ پر کاش مطبوعہ بار اول کے صفحہ ۱۹۴ و ۲۱۶ ۳۱۲۹ کے دیکھنے کی تکلیف دیتے ہیں جو ان کے واجب القدر گور و دیانند صاحب کی تصنیف سے ہے وہ تحریر فرماتے ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ بید آدی ست شاستروں کا پرتیت پر چار کرے.اور جو کوئی جال پستک رچے ، وا پڑھے، پڑھاوے، اس کو راجہ شر چھیدن تک ڈنڈ دیوے.جسے کہ کوئی منتھیا جال پستک نرچے.ستھیار تھ پر کاش صفحہ ۱۹۴.اور صفحہ نمبر ۲۱۵ میں دیا نند جی نے لکھا ہے.بیاس ارتھا تھ آ کا دشی، بھاگوت آدکون کی کتھا کرنے والے اور مندروں کے پوجاری اور سنپر واء والے، بیراگی سندھ ، بام مارگی اوک پنڈت مہاتما اور سدہ یہ تو اوپر سے بنے رہتے ہیں

Page 208

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۷ پرنتو ان کو سب جگت کے ٹھگنے والا جاننا.ہیں.اور یہ سب پر سدہ چور ہیں ان کو ڈنڈ سے راجہ اپدیش کر دے.ایسا ڈنڈ دے کہ کوئی اس پر کار کا منکھ پر جائیں نہ رہنے پاوے.تب ہی راجہ اور پر جا کی انتی ہو گی.انتہا نہیں.پھر ستیارتھ پرکاش میں آریہ ورتی مذاہب کی کارروائی صفحہ ۳۱۲ میں لکھی ہے اور جو جو بید آدکون کے پستک کو پایا اور پورب کے آتی ہانسوں کا ان کا پر ایا ناش کر دیا جسے کہ ان کو پورب اوستھا کا سمرن بھی نہ رہے.پھر جینیوں کا راج اس دیش میں اتنیت جم گیا.تب جین بھی بڑے ادمان میں ہو گئے اور کو کرم انیا بھی کرنے لگے.الزامی جوابات پر نظر ڈالنے کے واسطے جو تکلیف دی گئی تھی اس تکلیف کو اب ہم زیادہ کرنا نہیں چاہتے اور انصاف پسند طبائع کو اب اسی طرف مائل کرتے ہیں کہ وہ اسکندریہ کے کتب خانہ کا حال ملاحظہ فرمائیں.مصر کے جغرافیہ میں جس کو فکری نے لکھا ہے یوں آیا ہے.احترقت كتب خانه بطليميوس الاول فى عهد يوليس قيصر الرومان بان عند محاصرة يوليس بالاسكندرية رامت الاعداء الاستيلاء على سفينته - فاضرم فيها النار انتهى ثم قال الظوان الرومانى - اهدى الى الملكة كيلو سطبرة من كتب خانه برجام ٣٠٠ الف أو ٤٠٠ الف كتب فـاصـابـهـا الحريق مرتين بواسطة الديانة النصرانية لازالة افكار عبدة الاوثان في مدة حكم تيدوس قبل الاسلام.علاوہ بریں اہل اسلام بے سند بات کو پرانے زمانہ کی باتوں سے قابل اعتبار نہیں سمجھتے

Page 209

تصدیق براہین احمدیہ مخالفوں کو ضرور ہے کہ اس کا پورا ثبوت دیں.۲۰۸ اب بمقابلہ ڈاکٹر لائیٹر کی بے سند بات کے مشہور اور یورپ والوں کے نزدیک محقق ہسٹورین گبن صاحب کے فٹ نوٹوں کا ترجمہ ملاحظہ ہو.( تاریخ گبن صفحہ نمبر ۶۶.باب ۵۱، جلد نمبر ۶ ) اول.یہود یا عیسائیوں کی مذہبی کتابوں کے نہ جلانے کی دلیل یہ ہے کہ اہل اسلام خدا کے نام کی بہت عزت کرتے ہیں اور ان کی کتابوں کو وہ کتب الہیہ مانتے ہیں جیسا کہ صفحہ نمبر ۳۷ جلد ۶ میں ذکر ہے.دیکھ مکتوبات فریفش دوم.اسکندریہ میں دو کتب خانہ تھے.ایک برو چین کا کتب خانہ جو گیلنس کے عبد حکومت میں ۲۶۳ ء میں جلایا گیا تھا.جیسا گبن باب ۱۰، جلد اصفحہ ۳۴۷ میں ہے.دوسرے کا نام سیر پیم (Serapeum) کا کتب خانہ تھا.جس کے نصیب میں اسی وصیت کا سامنا ہوا جو پہلے کتب خانہ کو ہوا.یعنی تھو پالیس کے جور و جفا سے تباہ کیا گیا جس کا باب ۲۸ میں ذکر ہو چکا ہے.اور جن کا حوالہ گن اس موقع پر دیتا ہے.یہ بیش قیمت ذخیرے دوسو پچاس برس پہلے حضرت عمرؓ کے حملہ کے تباہ ہو چکے تھے اور اس وقفہ کے عرصہ میں کوئی تو اریخ کسی بادشاہ محب وطن یا کسی عالم کا پتہ نہیں لگا سکتی جس کو ان کتب خانوں کے پورا کرنے کی خواہش ہوئی ہو.یا جس کے پاس وسائل ان کے پورا کرنے کے ہوں.ابوالفریگیس کا افسانہ اس قدر مشہور نہ ہو جا تا.اگر اسے یہ غرض نہ ہوتی کہ روم کے وحشی فتح یا بوں کو اس بات کا الزام دیا جاوے کہ انہوں نے دنیا میں علمی تاریکی پھیلانے کی کوشش کی.گین صفحه نمبر ۲۸۸ جلد نمبر ۳ باب ۲۸) تھیوڈاس کے زمانہ (۳۷۸-۳۹۵) میں جب اسکندریہ کے بتوں کی تباہی کا حکم نافذ کیا گیا تو عیسائیوں نے بڑی خوشی اور خورمی کے نعرے بلند کئے اور بدنصیب پیگنس نے جن کی

Page 210

تصدیق براہین احمدیہ ۲۰۹ تندی کے باعث یہ حملہ ہوا تھا.جلدی شکست کھائی اور کچھ بھاگے اور کچھ چھپ گئے.تھو فیلس نے آگے قدم بڑھایا تو کہ سیر میس کے مندر کو تباہ کرے.اور بجز اس کے کوئی مشکل اسے سد راہ نہ ہوئی کہ وہاں کی بڑی بڑی اشیا جو مقدار اور وزن میں بھاری تھیں.دشوار رکا وٹیں معلوم ہوئیں اور مجبوراً اسے ان بناؤں کو چھوڑ کر اس بات پر قناعت کرنی پڑی کہ اس مندر کو توڑ کر ایک تو وہ خاکستر بنایا اور اس کے ایک حصہ پر تھوڑی دیر بعد ایک گر جا تعمیر کیا تو کہ عیسائی غازیوں کی یاد گا رر ہے.قیمتی کتب خانہ اسکندریہ کا تباہ اور برباد کیا گیا اور قریباً بیس سال بعد خالی الماریاں ایسے نظارہ کنندوں کے غم و غصہ کو بڑھاتی تھیں.جن کا دل مذہبی تعصب سے بالکل سیاہ نہ ہوا ہو.پرانے عقلا کی تصانیف جن میں سے بہت تباہ ہو گئیں یقیناً بعض ان میں سے بت پرستی کے زمانہ کی تباہی سے بچ گئی ہوں گی.تا کہ آئندہ نسلیں ان سے فائدہ اٹھاویں اور ان کے مطالعہ سے اپنے دل کو خوش کر یں.پھر گین صفحہ ۳۴۸ باب ۱۰ جلدا میں اسکندریہ کی آبادی اور اس کا جلیل القدر تجارت گاہ ہونا بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس میں مختلف قوموں کے آدمی آباد تھے.آخران میں ایسا عام فساد ہوا کہ بارہ برس تک قائم رہا.یہ لڑائی سیول اور ملٹری آدمیوں میں ایک جوتے سے شروع ہوئی.اس تباہ شدہ شہر کے بعض حصوں میں باہم خط و کتابت اور آمد و رفت کا سلسلہ قطع ہو گیا.اور ہر ایک کو چہ خون سے پُر ہو گیا اور اس کی عمارتیں ڈھائی گئیں حتی کہ اس کا بہت حصہ تباہ ہو گیا.وسیع اور شاندار محلہ پر و چین کا معہ دیگر محلوں اور عجائب خانوں اور بادشاہوں اور فلاسفروں کے مکانات کے تباہ ہو گیا.اور اس کے بعد قریباً ایک سو برس تک ویران پڑا رہا بلکہ اب بھی اس کی حالت ایسی ہے.مکذب صفحہ نمبر ۸۱ مگر اہل اسلام سے ایک ضروری گزارش ہے کہ آدم و حوا ، و شیطان،

Page 211

۲۱۰ تصدیق براہین احمدیہ و موسیٰ ، ونوح و ابراهیم، و یوسف، وخضر، و یعقوب ، ولوط، ولقمان، وسکندر، و اصحاب کہف ، و یا جوج و ماجوج و عمران و زکریا و عیسی، و مریم ، ومحمد صاحب کے خانگی امورات و جنگ و جہاد وسامری، و یونس ، ویجی، و دوزخ، و بہشت کی نہروں کا حال حور و قصور، غلمان، وخیرات ، وزكوة، و حج و احرام و سنگ اسود، و نکاح، ومتاع، وحلال، وحرام، وقربانی وغیرہ کے قصہ و کہانی نکال کر باقی کواے بھائیو! اگر آپ انصاف سے مطالعہ فرماویں گے تو بخوبی جان جاویں گے کہ کس قد ر الہی تعلیم باقی ہے“.مصدق.اس سمجھدار کو اتنی بھی خبر نہیں کہ حرام و حلال کی بحث اور خیرات اور زکوۃ کا حکم قصہ کہانیوں میں داخل ہے یا سچی تعلیمات میں؟ پھر یہ خبر نہیں کہ ان پاک قصوں میں کس قدر صداقتیں بھری ہوئی ہیں.بہر حال ان قصہ کہانیوں کے سوا جو کچھ صداقتیں اور پاک تعلیمات قرآن کریم میں ہیں.ان کے لئے کئی مجلد بھی کفایت نہیں کر سکتیں.اس لئے کہ قرآن کریم ان تمام حقہ تعلیمات و علوم کا مجموعہ ہے.جن کی ضرورت ہم کو لاحق ہے یا ہوگی.کیا ہی سچ کہا ہے جس نے کہا.جَمِيعُ الْعِلْمِ فِى الْقُرْآنِ لَكِنْ تَقَاصَرَ عَنْهُ أَفَهَامُ الرِّجَالِ.مگر یہاں جس قدر اس کتاب میں گنجائش ہو سکتی ہے نہایت مختصر گذارش کرتے ہیں تفصیل کے واسطے احکام القران حضرت پیر ومرشد مجددا لوقت میرزاغلام احمد صاحب کی اور اقتباس انوار شیخ محمد عبید اللہ صاحب اور جواہر صمد یہ جناب عبدالصمد پیغام محمدی، سید محمد علی، نیل المرام نواب صاحب وغیرہ دیکھنے چاہیئے.ہاں ان مضامین بالا کے سوا جن کو مکذب نے بیان کیا.قرآن کریم میں اس قسم کے مضامین ہیں.اول.باری تعالی کی ہستی اور اس کی توحید کا بیان بسم الله الرحمن الرحيم قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدة او مخاطب تو کہہ دے اصل بات تو یہ ہے کہ خود بخو دموجود جس کا نام ہے اللهُ الصَّمَدْنَ اللہ پوجنے کے لائق، فرمانبرداری کا مستحق وہ ایک ہے اپنی ذات میں

Page 212

تصدیق براہین احمدیہ لَمْ يَلِدُ ۲۱۱ یکتا، صفات میں بے ہمتا ترکیب و تعدد سے پاک.اللہ جس کا نام وَلَمْ يُولَدُ ہے وہ اصل مطلب مقصود بالذات ہر کمال میں بڑھا ہوا جس کے اندر نہ کچھ جاوے کہ کھانے پینے وغیرہ کا محتاج ہو نہ اس کے اندر سے وَلَمْ يَكُن لَّهُ کچھ نکلے کہ کسی کا باپ بنے.پس نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا.اس كُفُوًا اَحَدُ (الاخلاص: ۲ تا ۵) بھی اس کے جوڑ کا نہیں.کے وجود میں اس کے بقا میں اس کی ذات میں اس کی صفات میں کوئی والهكم إله واحد تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے جسے اللہ کہتے ہیں.ہر ایک کا ملہ صفت سے لا إله إلا هو موصوف ہر ایک برائی سے پاک، بن مانگے احسانات کرنے والا.مانگنے الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ والوں کے سوال و محنت پر عنایت فرما.اس اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں.(البقرة: ۱۶۴) وَمَا أُمِرُوا إِلا لِيَعْبُدُ وا لوگوں کو ایک اللہ کی پوجا کے سوا کسی کی پوجا کا حکم نہیں ایک ہی معبود الْهَا وَاحِدًا ۚ لَا إِلَهَ ایک ہی پورن پوجنی کے بنا کوئی پرستش و عبادت فرمانبرداری کے إِلَّا هُوَ (التوبة: ٣١) لائق نہیں.دوم.باری تعالیٰ کے وجود اور توحید پر دلائل إِنَّ فِي خَلْقِ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں کہ دونوں میں کس قدر السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ مختلف القویٰ اشیا موجود ہیں اور پھر ان میں کیسا با ہمی تعلق ہے تم کو وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ کس قدر وقتا فوقتا ضروتوں کا سامنا ہوتا ہے پھر آسمان اور زمین میں وَالْفُلْكِ الَّتِي کتنا سامان تمہاری ضرورتوں کے علاوہ تمہاری راحت کے واسطے تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا بھی موجود ہے.اور رات و دن کے اختلاف میں کہ کس طرح دونوں طول البلد میں بایں اختلاف کہ ہر ایک دوسرے

Page 213

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۲ يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا کے پیچھے موجود ہے اور عرض بلد میں بائیں اختلاف کہ کم و زیادہ أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ موجود رہتے ہیں.اور ان جہازوں میں جولوگوں کے لئے ہر قسم کے منافع کے واسطے سمندر میں پتلے پتلے پانیوں پر بڑے بڑے بوجھوں مِنْ مَّا فَأَحْيَا بِهِ کے ساتھ دوڑ رہے ہیں.اور اس میں کہ اللہ تعالیٰ ویران آباد الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا زمینوں کو اس پانی سے آباد کر دیتا ہے.جس کو وہ آپ بادلوں سے و تَصْرِيفِ الرِّيح.وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَآبَّةٍ اتارتا ہے.اور اس میں کہ پینے کے لئے پانی ، کھانے کے لئے کھانے.غرض آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کی روشنی واند ھیری اور بادلوں کی بارش کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہی زمین میں ہر و السَّحَابِ المتخي قسم کے جانداروں کو پھیلایا اور ہواؤں کے ادھر اُدھر پھیر نے میں بَيْنَ السَّمَاءِ کہ کہیں ان میں کوئی حیوانات و نباتات کی زندگی کا باعث ہیں.کہیں خون کے صاف کرنے اور گھسے پیسے اجزا کے نکالنے میں وَالْأَرْضِ لايت لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ مددگار.کہیں جہازوں اور کشتیوں کے لے جانے میں مفت کے ور کہیں بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں مزدور فرمانبردار.کہیں ضرورت کے موافق ذرات کو جمع کر دیں.کہیں (البقرة: ۱۶۵) صفائی میں مدد دیں.اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان اللہ تعالیٰ کے قبضہ حکم میں مسخر ہورہے ہیں.ضرور ہی ان باتوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی یکتائی اس کی کا ملہ صفات ، حکمت، قدرت، علم ، رحم وغیرہ وغیرہ کے نشان ہیں.مگر صرف اس قوم کے واسطے جو عقل سلیم رکھتے ہیں.

Page 214

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۳ سوم.نہایت درجہ کا ظلم اور بے ایمانی جس نے دنیا میں جہالت اور اختلاف اور توہمات کو پھیلایا وہی جس کو شرک کہتے ہیں قرآن کریم نے اس کا ابطال کیا إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ آن جان لو جس کا نام ہے اللہ ہر برائی سے پاک ہر ایک کامل صفت سے يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما موصوف وہ یہ گناہ تو کبھی نہ بخشے گا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جاوے دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ذات میں اس کا ہمتا سمجھا یا صفات میں اس کے ہم پلہ خیال کیا وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ جاوے.یا کسی عبادت میں کسی کو اس کا ساجھی بنایا جاوے.اور شرک فَقَدِ افْتَرَى کے نیچے کے گناہ تم کو عفو کر دے گا جس کے لئے اپنے رحم سے چاہے.اِثْمًا عَظِيمًا جس نے کوئی شرک کیا اس نے بڑی بھاری بدی کا طوفان باندھا.(النساء: ۴۹) إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ آن جان لو جس کا نام ہے اللہ ہر برائی سے پاک ہر ایک کامل صفت سے يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ ما موصوف وہ یہ گناہ تو کبھی نہ بخشے گا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جاوے دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ذات میں اس کا ہمتا سمجھا یا صفات میں اس کے ہم پلہ خیال کیا وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ جاوے یا کسی عبادت میں کسی کو اس کا ساجھی بنائے اور شرک سے.فَقَدْ ضَلَّ ضَللًا بَعِيدًا نیچے کے گناہ اس کو عفو کر دے گا جس کے لئے اپنے رحم سے چاہے (النساء: ۱۱۷) جس نے کوئی شرک کیا وہ راہ حق سے بہک کر کہیں دور جا پڑا.إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ بات یہ ہے کہ جس نے کسی چیز کوکسی پہلو پر بھی خدا کا شریک بنایا اس فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الجَنَّةَ پر اس معبود نے جو ہر ایک برائی سے پاک اور ہر ایک کامل صفت

Page 215

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۴ وَمَوهُ النَّارُ سے موصوف ہے بچے آرام گاہ کو جس کا نام جنت ہے اس پر حرام کر وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِن دیا.اور ایسے بد کار کا ٹھکانا وہ آگ ہے جسے دوزخ کہتے ہیں.ان ظالموں کا جو رزق کسی کا کھاتے ہیں اور فرمانبرداری کسی دوسرے کی کرتے ہیں.مخلوق کسی کی ہیں اور مطیع کسی کی جزا سزا کے واسطے (المائدة: ۷۳) حاضر کسی کے پاس ہونا ہے حساب و کتاب کسی نے لینا ہے اور فرمانبردار کسی کے بنتے ہیں کوئی بھی حامی نہ ہوگا.أَنصَارٍ اگر زمین و آسمان میں ایک معبود برحق کاملہ صفات سے موصوف اور لَوْ كَانَ فِيْهِمَا الهَةٌ برائیوں سے پاک ذات اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ اور معبود بنا لیے إِلَّا اللهُ لَفَسَدَتَا جاویں.تو آسمان و زمین میں ایسی بڑی خرابی پڑے کہ دونوں میں (الانبياء: ۲۳) تباہی آجاوے.کیونکہ ظاہر ہے جس قوم میں شرک پھیلتا ہے وہ قوم جاہل، وہم پرست، بیچے علوم سے محروم افسانوں، ڈھکونسلوں میں مبتلا ہوکر آخر پھوٹ میں گرفتار ہو جاتے ہیں.سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِی تمام وہ چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں موجود ہیں انسان کے قابو السَّمواتِ وَمَا فی میں ہو کر انسان کے مفت مزدور اور انسان کے خادم ہیں.الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ۱۴) چہارم.تمام مخلوقہ اشیاء جو انسانی نوع کے واسطے بے مزدوری مزدور ہیں اور مزدوروں کو اپنا معبود بنانا اس طرح باطل کیا فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ پس درست رکھ مخاطب اپنے آپ کو سچے دین پر، اور وہ یہ ہے

Page 216

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۵ حَيْفًا فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتی کہ انسان سب سے قطع تعلق کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف جھک جاوے فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لا تبدیل اور تمام اقوال و افعال حرکات وسکنات اسی کی محبت سے صادر ہوں.لِخَلْقِ اللَّهِ ذلك الدین یہی الہی فطرت کے مطابق بات ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا الْقَيْمُ (الروم: ۳۱) کیا.الہی اندازہ کو بدلا نا نہ چاہیے.یہی پکا اور ٹھیک دین ہے.پنجم اللہ تعالیٰ کے کاملہ صفات کا بیان إِلَّا اللهُ لَا إِلهَ الا ھو ہر ایک عیب سے پاک تمام صفات کاملہ کے ساتھ موصوف جس کا نام الْحَيُّ الْقَيُّومُ لا تَأْخُذُهُ ہے اللہ اس کے بغیر کوئی بھی پرستش وفرمانبرداری کا مستحق نہیں.دائم اور سِنَةٌ وَلَا نَوْمُ لَهُ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا باقی تمام موجودات کا مد بر اور حافظ جس کو کبھی ستی اونگھ اور نیند نہ ہواسی فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِی کے تصرف اور ملک اور خلق میں ہیں آسمان وزمین اسی کی ہستی اور یکتائی يَشْفَعُ عِنْدَةً إِلَّا بِاِذْنِ) کو ثابت کرتے ہیں کوئی بھی نہیں کہ اس کی کبریائی عظمت کے باعث يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ اس پاک ذات کی پروانگی کے سوا کسی کی سپارش بھی کر سکے.پس کسی کو وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَئ من عِلمِةٍ إِلَّا مقابلہ وحمایت کی تو کیا سکت ہوگی.وہ جانتا ہے تمام جو کچھ آگے ہوگا اور بِمَا شَاء وَسِعَ جو کچھ گزر چکا ہے.موجودات کی نسبت کیا کہنا ہے کوئی بھی اس کے علم چکا كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَ سے کسی چیز کا اس کی مشیت کے سوا احاطہ نہیں کر سکتا.اس کا کامل علم الْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے اور وہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت الْعَظِيمُ (البقرة : ۲۵۲) سے کبھی نہیں تھکتا.وہ شریک اور جوڑ سے بلند ہے.هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا وہ ذات پاک جس کا نام ہے اللہ تمام صفات کا ملہ سے موصوف تمام هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ برائیوں سے پاک وہی جس کے سوا کوئی بھی پرستش وفرمانبرداری کے هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ هُوَ لائق نہیں.اپنی ذات کو جو تمام غیبوں کا غیب ہے آپ ہی جانتا ہے.ف كُرْسِيُّهُ عِلْمُهُ ( بخاری ) ງ

Page 217

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۶ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ تمام ان اشیاء کو جو موجود ہو کر فنا ہوگئیں.یا اب تک ابھی پیدا ہی نہیں ہوئیں.صرف اس کے علم میں ہی ہیں.اور تمام موجودات کو جانتا الملك الْقُدُّوسُ ہے.وہ رحمان بروں بھلوں سب کو روزی رساں ، بن مانگے فضل کرنے والا وہ رحیم جو بھلوں کو اپنے فضل و رحم سے بخشے اور کسی کے السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ سوال ومحنت کو ضائع نہ کرے.وہی اللہ جس کے سوا کوئی دوسرا پرستش و فرمانبرداری کے لائق نہیں الملك پورا مالک اشیا کی خلق و بقا پر الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ القدوس تمام ان اسباب عیوب سے پاک جن کو حس دریافت کر سکے یا خیال تصور کرے یا و ہم اس طرف جا سکے.یا قلبی قومی سمجھ سکیں.السلام تمام عیوب سے مبرا سلامتی کا دینے والا.المو من امن کا بخشنے والا سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ الْمُتَكَثِرُ اپنے کمالات و توحید پر دلائل قائم کرنے والا المهیمن سب کے اعمال هو الله کا واقف سب کا محافظ، العزیز بے نظیر ، سب پر غالب، ذرہ ذرہ پر متصرف الجبار سنوار نے والا.ہمارے بگاڑوں پر اصلاح کے سامان پیدا کرنے والا.اصلاح کی توفیق دینے والا المتکبر تمام مخلوقی عیوب الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ اور مخلوق کے اوصاف سے مبرا.تمام چھوٹوں بڑوں آسمانی اور زمینی شریک اور ساجھی سے اس کی پاک ذات بلند ہو وہ خود بخود موجود جس کا لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى نام ہے اللہ الخالق.ہر ایک چیز کا کامل حکمت کے ساتھ اندازہ کرنے يُسَبِّحُ لَهُ مَا والا.الباری ہر ایک چیز کو اس کے اندازہ کے مطابق بے نقص و تفاوت في السَّمَوتِ ظاہر کرنے والا.المصور اسی اندازہ اور عمدگی سے صورتوں اور شکلوں وَالْأَرْضِ وَهُوَ کا عطا کرنے والا.اسی کے ایسے نام ہیں کہ تمام خوبیوں پر شامل ہوں الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اسی کی تسبیحیں کرتی اور اسی کی پاک اور کامل ترین ہستی کو تمام وہ چیزیں جو آسمان وزمین میں ہیں ثابت کرتی ہیں وہ غالب جس کے تمام کام (الحشر: ۲۳ تا ۲۵) حکمتوں پر مبنی ہیں.

Page 218

تصدیق براہین احمد به ۲۱۷ ششم.الہی عبادت کی تاکید وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا فرمانبردار عبادت کرنے والے اللہ کے بنو اور کسی چیز کو کچھ ہی ہو اس کا بِه شَيْئًا ( النساء:۳۷) کسی امر میں ساجھی اور شریک نہ بناؤ.فَادْعُوا الله اللہ تعالیٰ کو پکارو.اس کی عبادت میں اخلاص سے کام لو اور دین کے مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ قبول کرنے میں ظاہر و باطن میں دکھ سکھ میں.غرض کسی حالت وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ میں ہو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے ساتھ تمہارا تعلق نہ ہوا گر منکر برا (المومن: ۱۵) مناویں تو پڑے منادیں.ہفتم.اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کی دلیل بیان فرمائی يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا سنو! اولوگو! فرمانبرداری کرو اپنے اس محسن مربی کی جس نے تم کو اور تم رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ سے پہلوں کو خلق کیا.اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ دکھوں سے بیچ رہو وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ گے.وہ تمہارا مربی اور خالق وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ گول پھر آرامگاہ بنایا اور آسمان کو ایسا کر دیا کہ وہ زمین کے قیام کا فِرَاشًا وَ السَّمَاءِ بِنا باعث ہو رہا ہے.اور جہاں دیکھو وہ آسمان زمین کے لئے نیو ہے.وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاء وہی جس نے بادلوں سے ایسا پانی اتارا جس سے تمہارے کھانے کے مَاءً فَأَخْرَجَ بِه واسطے رنگ برنگ کے پھل نکالے ایسے محسن مربی کامل صفات کے مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ جامع کا کسی کو کسی امر میں شریک نہ ٹھہراؤ.اور تم جانتے ہو تمہارے فَلَا تَجْعَلُو اللَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ انسانی عمدہ قولی میں اتنا تو رکھ ہی دیا ہے کہ ایسا محسن مربی کامل فرمانبرداری اور عبادت کا مستحق ہے پس اپنے قومی کو بریکارنہ کرو.(البقرة: ۲۳،۲۲)

Page 219

تصدیق براہین احمد به ۲۱۸ ہشتم.اخلاق فاضلہ کی تعلیم دی لَيْسَ الْبِرَّانْ تُوَلُّوا پسندیدہ باتیں یہی تو نہیں کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ کر کے نماز وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ پڑھ لی.نیکی اور عمدہ بات تو اس شخص کی ہے جس نے دل سے مانا وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ زبان سے اقرار کیا اور اپنے کاموں سے کر دکھایا کہ وہ اللہ کو مانتا، جزا الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وسزا کے دن پر یقین رکھتا ہے.ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب اور وَالْكِتُبِ وَالنَّبِيِّنَ سچے نبیوں پر اس کے اعتقاد لایا.اور با اینکہ اسے خود حاجت و وَالَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِى الْقُربى واليتی ضرورت ہے اور زندگی کا امیدوار ہے.مگر اپنے مال سے رشتہ داروں وَالْمَسْكِينَ وَاب کی خبر گیری کرتا ہے اور قیموں مسکینوں اور مسافروں سائل کی پرورش السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ غلاموں کے آزاد کرنے میں مال کو خرچ کرے.عبادت و نمازوں کو فِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَإِلَى الزَّكَوةَ ٹھیک درست رکھے اپنے مال سے مقرری حصہ جسے زکوۃ کہتے ہیں ادا وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ کرتا رہے اور نیکی تو ان کی ہے جو تمام ان بھلے معاہدوں اور اقراروں إِذَا عُهَدُوا وَ الصّيرِينَ فِي کا ایفا کریں جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے یا اس کے کسی بندے سے وَحِيْنَ الْبَاسِس باند ھے.باتوں میں صداقت کو کام میں لاویں.امانت میں خیانت أُولَيكَ الَّذِينَ صَدَقُوا نہ کریں افلاس میں ، مرض میں ، جنگ کی شدت میں تنگی میں ، تکلیف الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ میں، وفادار ، ثابت قدم مستقل مزاج رہیں.(البقرة: ۱۷۸) لَا تَجْعَلْ مَعَ اللهِ الهَا او مخاطب ! کبھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود نہ بنانا کہ خدا کی بھی اخَرَ فَتَقْعُدَ مَدُمُومًا مَّخْدُولاً عبادت و فرمانبرداری کی اور اس کی بھی.اگر شرک کا مرتکب ہوا تو دنیا (بنی اسرائیل: ۲۳) میں بُرا اور ذلیل ہوگا.

Page 220

تصدیق براہین احمدیہ ۲۱۹ وَقَضَى رَبُّكَ الَّا او مخاطب ! تیرے مربی اور محسن پالنے والے والی کا حکم تو یہ ہے کہ تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاه اس کے سوا کسی کی پرستش اور فرمانبرداری نہ کی جاوے اور ماں باپ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا سے پورا نیک سلوک ہو.اگر او مخاطب ! تیرے جیتے ہوئے والدین إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا اور بوڑھے ہو جاویں ایک یا دونوں.تو خبر دار کبھی ان سے کسی قسم کی كِلَهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا کراہت نہ کر بیٹھو.اور نہ کبھی ان کو جھڑ کیو.اور ان سے پیاری أَفْ وَلَا تَنْهَرْهُمَا میٹھی نرم ادب کی باتیں کیا کرنا.ان کی پرورش دنیا داری کے وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا لحاظوں سے نہیں بلکہ صرف دلی محبت و پیار سے اس طرح کرنا جس الدُّلِ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل طرح پرندے اپنے بچوں کو پروں میں پرورش کے لئے لیتے ہیں.رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا اور خدا سے یوں دعائیں مانگنا.اے میرے رب ! ان سے اس رَبَّيْنِي صَغِيرًارَ بكُم طرح رحم کے سلوک کر جس طرح انہوں نے میرے لڑکپن میں أَعْلَمُ بِمَا فِی نُفوسِكُف پرورش فرمائی.غرض جیسے والدین تیرے لڑکپن میں تیرے ہمدرد وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ إِنْ تَكُونُوا تھے ایسا ہی تو ان کے لئے ہو.سنو مخاطبو! تمہارا پرورش کرنے والا صلِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا تمہارے دلوں کے بھید جانتا ہے.پس وہاں ریا اور دکھلاوا کام نہیں وَاتِ ذَا الْقُرْبی آتا.اگر سچ سچ کے نیک ہو تو وہ خدا ہمیشہ ہی اپنی طرف رجوع مسكين حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ لانے والوں کو بخشنے والا ہے.او مخاطب ! ہر ایک رشتہ دار اور وَابْنَ السَّبِيلِ وَلَا اور مسافر کو جو کچھ اس کا حق ہے دے دے.اور اپنی نفسانی تُبَذِرْ تَبْذِيرًا إِنَّ خواہشوں پر ، فخر پر اور بڑائی کے لئے اور بے ایمانی کے کاموں میں الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيطين اموال کو ضائع مت کر، ناجائز طور پر مالوں کو ضائع کرنے والے قال کا لفظ عرب میں افعال پر بھی بولتے ہیں.

Page 221

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۰ وَكَانَ الشَّيْطَنُ لِرَبِّهِ شیاطین کے بھائی ہیں.اور شیطان تو ایسا ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا وَإِمَّا تُعْرِضَ اور جس نے اس کو پرورش کیا اس کا بھی منکر ہو گیا.اگر ان لوگوں كَفُورًا عنْهُمُ ابْتِغَاء رَحْمَةٍ فِین کے دینے کو جنہیں دینا ہے ترے پاس کچھ نہ ہو اور تو اس امید پر کہ رَّبَّكَ تَرْجُوْهَا فَقُلْ عنقریب تجھے تیرا محسن رب کچھ دے گا تو سر دست ان کو ایسا جواب لَّهُمْ قَوْلًا مَّيْسُورًا وَلَا تَجْعَلُ يَدَكَ دے جس سے ان کو آرام ہو.اور ان کی امید بڑھے.نہ ایسا بھیل مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ کنجوس بن کہ گویا تیرے ہاتھ تیری گردن سے بندھے ہیں.اور نہ اتنا وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فضول خرچ بن کہ کچھ بھی تیرے پاس نہ رہے.اگر ایسا ہوا تو تجھے فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُورًا اِنَّ رَبَّكَ ملامت لگے گی.اور تھکا ماندہ رہ جاوے گا.( بعض انسانوں کی يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ حالت ایسی حالت ہوتی ہے کہ محتاج کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور يَشَاءُ وَيَقْدِرُ إِنَّهُ كَانَ بِعِبَادِهِ خَبِيرًا فضول کر بیٹھتے ہیں ایسوں کو مخاطب کر کے فرمایا ) تیرے رب کی بَصِيرًا وَلَا تَقْتُلُوا طرف سے ہے کہ کس کو دولتمند کرتا ہے اور کسی کو مفلس تو کیوں گھبراتا أَوْلَادَكُمُ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ ہے وہ حکیم اپنے بندوں سے واقف اور ان کے حالات پر آگاہ ہے او وَإِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُمُ لوگو! اپنی اولا د کو اس لئے تو قتل نہ کیا کرو کہ ہم ان کو کہاں سے کھلا دیں كَانَ خِطئًا كَبِيرًا گے.تم اور وہ ہمارا ہی رزق کھاتے ہیں.اور بات تو یہ ہے کہ اولاد إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً کا قتل کسی سبب سے کیوں نہ ہو بڑی بھاری غلطی اور بدی ہے اور زنا وَسَاءَ سَبِیلا کے تو نزدیک بھی مت جاؤ.یہ بڑی بے حیائی اور بُری راہ ہے اور وَلَا تَقْرَبُوا الزَّنَى وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ ایسے شخص کو بے وجہ قتل نہ کر جس کا قتل اللہ نے حرام فرمایا.جو الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ

Page 222

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۱ وَمَنْ قُتِلَ کوئی بے وجہ قتل کیا گیا اس مقتول کے وارث کو ہم نے طاقت دی مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيْهِ سُلْطَنَّا فَلَا ہے.کہ قاتل کو مار ڈالے مگر کوئی نا جائز کام اس قصاص میں نہ يُسْرِفُ فِي الْقَتْلِ وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ إِنَّهُ كَانَ مَنْصُورًا کرے.اور بے ریب مقتول کو مدد دی گئی کہ اس کا بدلہ دنیا میں بھی الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِی لیا جاوے.اور آخرت میں گناہ کے بوجھ سے ہلکا ہو.کسی بھلے غرض أَحْسَنُ حَتَّی تبلغ کے سوا قیموں کے مال کے پاس مت جاؤ اور ان کا خیال رکھو.أَشَدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًاً یہاں تک کہ مضبوط اور بڑے ہو جاویں اپنے معاہدوں پر وفاداری وَأَوْفُوا الْكَيْلَ إِذَا كِلْتُمْ وَزِنُوا دکھلاؤ.تمہارے معاہدے خدا تعالیٰ سے ہوں یا اس کے بندوں بِالْقِسْطَانِ الْمُسْتَقِيمِ سے.یاد رکھو عہدوں کی بابت پوچھے جاؤ گے.ماپنے اور تو لنے میں ذلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَوِيلًا وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ پورا ماپ اور پورا تول اختیار کرو.اس بات کا نتیجہ اس دنیا میں بہت لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ ہی اچھا ہوگا.اور اس امر کا انجام بھی بہت عمدہ ثابت ہوگا.اور جو كُلُّ أُولَيْكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا وَلَا تَمْشِ فِى بات معلوم نہ ہو اس کا دعولی مت کرو.نا سمجھی سے گواہی نہ دو.کان الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن اور آنکھ اور اعصابی مرکز جسے قلب کہتے ہیں سب سے ان کے تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنُ تَبْلُغَ الجبال طولاً کاموں کا سوال ہوگا خوشی سے اتراتے ہوئے زمین پر مت چلو.تو كُلُّ ذلِكَ كَانَ سَيْتُه عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوها او مخاطب ! اپنی طاقت سے زمین کو نہیں پھاڑ سکتا اور نہ پہاڑوں سے ذلِكَ مِمَّا أَوْحَى اونچا ہوسکتا ہے یہ سب بری باتیں ہیں ان کی بُرائی تیرے رب کو إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ ۖ وَلَا تَجْعَل نا پسند ہے.یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں کہ تیرے رب نے تجھے وحی مَعَ اللَّهِ الْهَا أَخَرَ فَتَلْقَى فِي جَهَنَّمَ کے ذریعہ بتلا دیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی معبودمت ٹھہرانا.مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا - اگر شرک کیا تو جہنم میں ملزم ہو کر دھکیل دیا جاوے گا.(بنی اسرائیل: ۲۴ تا ۴۰)

Page 223

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۲ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى وَعِبَادُ الرَّحْمنِ رحمن کے فرمانبردار بندے تو وہی ہیں جو زمین میں سکینہ وقار اور تواضع الْأَرْضِ هَوْنًا وَ إِذَا کی چال چلتے ہیں.نہ تکبر اور ستی کی اور جب جاہل ان سے الجھیں تو خَاطَبَهُمُ الجهلُونَ قَالُوا ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جس میں نہ بدی وایذ ا ہو اور نہ جہل و سَلْمًا وَالَّذِيْنَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا نادانی وہی جو اپنے رب کے آگے سجدوں اور قیام میں راتیں گزار وَالَّذِينَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا دیتے ہیں.وہی جن کی دعا ہے کہ اے ہمارے رب ہٹا دے ہم سے اصْرِفُ عَنَا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غراما دوزخ کا عذاب.اس کا عذاب تو دائمی ہلاکت ہے.اور دوزخ تو إِنَّهَا سَاءَتْ بڑی تکلیف کی جگہ اور برا مقام ہے وہی فرمانبردار بندے کہ جب مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا وَالَّذِينَ إِذَا انْفَقُوا اموال کو خرچ کرتے ہیں تو مالوں کو نہ بے جا ضائع کریں اور نہ موقع لَمْ يُسْرِفُوا وَلَم میں دینے سے کمی دکھلاویں.بلکہ خرچ میں پسندیدہ راہ اختیار کریں يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ وہی جو اللہ تعالیٰ کی یاد کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پکارتے.اور مَعَ اللهِ الهَا أَخَرَ وَلَا ایسی جانوں کے ناحق قتل سے بچتے ہیں جن کا قتل اللہ تعالیٰ نے حرام يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ - اللهَ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا فرمایا اور کسی قسم کا زنا نہیں کرتے اور جو کوئی بندوں میں سے ایسی يَزْنُونَ ۚ وَمَن يَفْعَلُ کرتوت کرتا ہے وہ بڑی سخت بدکاری میں گرفتار ہوا.ایسے بدکار کے ذلِكَ يَلْقَ أَثَامًا يُضْعَفْ لَهُ الْعَذَابُ لئے عذاب بڑھا اور ذلیل وخوار ہو کر اس عذاب میں رہ پڑا.مگر بیچا تو يَوْمَ الْقِيمَةِ وَيَخْلُدْ وہی بچا جس نے بدی کو چھوڑ دیا اور تمام بھلائیوں کی اصل ایمان کو فِيْهِ مُهَانًا إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا اختیار کر لیا اور اچھے اعمال کئے.آخر ایسے لوگوں کی برائیاں جاتی صَالِحًا فَا و لنک رہتی ہیں اور ان کے بدلہ میں نیکیاں آجاتی ہیں.(دیکھو عربوں کے يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنَتٍ وَكَانَ الله حالات اسلام سے پہلے اور پیچھے ) اور ہر تائب کی تو بہ اللہ تعالیٰ قبول غَفُورًا رَّحِيمًا کرنے والا.

Page 224

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۳ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ اور اس کی تو بہ پر رحم کرنے والا ہے.جو کوئی بدی کو چھوڑ بھلے صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ اِلَی کاموں کی طرف متوجہ ہوا وہی اللہ تعالیٰ کی طرف پسندیدہ طور سے اللَّهِ مَتَابًا وَالَّذِينَ لَا جھکا.وہی رحمان کے فرمانبردار بندے ہیں.جو دھو کے کے پاس يَشْهَدُونَ الزَّوْرَ وَ إِذَا بھی نہیں جاتے اور جب کبھی کسی بے ہودہ کام کے پاس سے بھی مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا گزرتے ہیں تو اس طرح گزرتے ہیں کہ بھلائیوں کا حکم کرتے وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِالیت اور برائی سے روکتے ہیں.وہی جن کو جب کبھی الہی نشان دکھلائے رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا گئے تو اس نشان پر اندھے اور بہرے کی طرح ٹھو کر نہیں کھاتے وہی صُمَّا وَعُمْيَانًا وَالَّذِينَ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمارے ساتھیوں يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا سے بیبیاں ہوں یا اور دوست ) اور ہماری اولاد سے ہمیں آرام مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ دے.وہ ہماری آنکھوں کا نور ہوں جو دل کے سرور کا نشان ہے أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ امَامًا أُولَيكَ يُجْزَوْنَ اور دعا مانگتے ہیں کہ ہم سچے فرمانبرداروں کے واسطے آئندہ کے لئے نمونے ہوں وہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے نیک اعمال کا الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَ يُلْقَوْنَ فِيهَا تَحِيَّةٌ وَسَلْنَا بدلہ بڑے بلند مقامات کو پا کر وہاں نئی زندگی اور پوری سلامتی خُلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ پاویں گے.اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ تناسخ سے بچ کر وہاں ہی ہمیشہ مُسْتَقَرًّا وَ مُتَامَّا قُل مَا ہمیشہ کے لئے رہیں گے.واہ وہ کیسے آرام کی جگہ اور رہنے کا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلا مقام ہے.او مخاطب ! کہہ دے میرے رب کو تمہارے ہلاک و تباہ دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَبْتُمْ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے اگر تمہاری بت پرستی نہ ہوتی مگر تم فَسَوْفَ يَكُوْنُ لِزَاما تو راستی کو جھٹلا چکے.پس نا فرمانی کا لازمی و بال تم پر ضرور آنے (الفرقان: ۶۴ تا ۷۸) والا ہے.

Page 225

تصدیق براہین احمد به ۲۲۴ نہم.سیاست مدن کے اصول أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا فرمانبرداری کرو اللہ کی چاہے اس کا حکم اس کے کلام سے پہنچے چاہے الرَّسُولَ وَ اُولی اسکے فعل سے ( قانون قدرت) سے اور فرمانبردار بنو اللہ کے رسول الْأَمْرِ مِنْكُمُ کے کہ وہ اسی اللہ تعالیٰ کے احکام تمہیں پہنچاتا ہے.اور فرمانبردار رہو (النساء: ۶۰) حکومت والوں کے دنیوی احکام ہوں یا سچے دین کے علماء ہوں.وہم.جمہوری سلطنت کی بنا ڈالی اور مسلمانوں کی صفات میں کہا وَشَاوِرْهُمْ فِي الْآخرِ ( جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو بطریق اولویت بلکہ ہر ایک (ال عمران: ۱۲۰) مخاطب کو حکم ہوتا ہے ) کہ حکومت میں اپنے لوگوں سے مشورہ کر لیا کر.وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ أَبْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّھے وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں بہت ہی اچھی اور ہمیشہ رہنے والی يَتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبير الإِثْمِ ہیں اور انہیں کو ملیں گی کہ جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر ان کا وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ بھروسہ ہے.اور وہ جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ سے بچے رہتے ہیں اور اگر کسی پر غضب کریں تو عفو کرتے ہیں اور ان أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کی حکومت با ہمی مشورہ سے ہوتی اور کچھ ہما راد یا خرچ کرتے ہیں.(الشوری: ۳۷ تا ۳۹)

Page 226

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۵ یاز دہم.بغاوت کی برائی سے آگاہ کیا اور بغاوت سے حکما روک دیا قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ او مخاطب ! تو کہہ دے.میرے رب نے تمام بے حیائیوں کو حرام کر دیا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ کھلی بے حیائیاں یا چھپی اور ہر ایک اثم و بدی اور بے وجہ بغاوت کو اور وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَآنُ اس کو کہ اس کا شریک ٹھہراؤ.اللہ کے ساتھ ایسی اشیا کو جن کے شریک تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَالَمْ يُنَزِّلُ بِه سلط و ان تَقُولُوا عَلَی ہونے کی دلیل کوئی بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں اتاری.اور یہ بھی حرام.اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف: ۳۴) کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت ایسی باتیں بناؤ جن کا تم کو علم ہی نہیں.دوازدہم.باہمی معاملات و اصول تمدن پر فرمایا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا او ایمان والو! اللہ تعالیٰ کے عذاب سے جو اس کے نافرمانوں کے اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرَّبوا الان لئے مقرر ہے اپنے آپ کو بچائے رکھو.اور چھوڑ دو جو کچھ بیا جوں کا كُنتُمْ مُؤْمِنِينَ فَإِن روپیہ تم کو لوگوں سے لینا ہے.اگر مومن ہو تو ایسے ہی کام کرو.اگر لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ اس معاملہ میں تم نے فرمانبرداری نہ کی تو جان لو کہ تم سے جنگ وان تُبْتُم کرنے کا حکم خدا اور اس کے رسول سے لگ چکا.اگر اللہ کی طرف أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ توجہ رکھو تو تم کو اصل سرمایہ کے لئے کی اجازت ہے.ظالم نہ بنو والا وَلَا تُظْلَمُونَ وَإِنْ كَانَ ظلم کی سزا بھگتو گے.اصل بھی نہ ملے گا.اگر تمہارا مقروض مفلس ذُوعُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا ہے تو اسے آسودگی تک مہلت دو.اور اگر قرضہ عفو کر دو تو تمہارے فَلَكُمْ رُءُوسُ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُم حق میں بہت بھلا ہے اگر سمجھو.تَعْلَمُونَ وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللهِ ثُمَّ ڈرتے رہو اس وقت سے کہ تمہارا معاملہ اللہ کے سامنے پیش ہو اور تَوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَّا وہاں ہر جی اپنے کئے کی سزا بھگتے اور وہاں کسی پر ظلم نہ ہوگا.كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

Page 227

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۶ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا او ایمان والو! ہر ایک معاملہ کولکھ لیا کرو جس کے لئے کوئی میعادی تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبُ معاہدہ ہو اور ہر ایک کو نہ چاہئیے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیئے کہ بيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاملوں کا لکھنے والا ہو.اور معاہدہ کو اس وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبُ كَمَا عَلَّمَهُ اللهُ فَلْيَكْتُبُ انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسک میں نقص نہ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ نکلے.اور تمسک نویس کو تمسک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہوا کرے.الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّة وَلَا يَبْخْ مِنْهُ شَيْنا فان کیونکہ کا تب کو اللہ تعالیٰ نے فضل سے ایسا کام سکھایا.پس چاہیئے کہ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقِّ تمسکات کو لکھے اور لکھاوے وہ جس نے دینا ہو.اور ضرور ہے کہ سَفِيهَا أَوْ ضَعِيفًا أَوْلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ تُمِل هُوَ لکھاتے ہوئے لکھانے والا اللہ سے ڈرتا رہے.اور ذرہ بھی اس میں وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ فَيَميلُ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ کمی و قص نہ کرے.اور اگر لکھانے والا کم عقل اور بچہ اور لکھانے کے رِجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ قابل نہیں تو اس کا سر براہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے.اور اپنے يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ قَ معاملات پر دومرد گواہ بنالیا کر واگر دومرد گواہ نہیں سکیں تو ایک مرد اور دو امْرَاتْن مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء اَنْ تَضِل عورتیں، دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھول گئی تو دوسری احدهما فَتُذَكَّر اسے یاد دلائے گی.اور گواہ بلانے پر انکار نہ کریں.اور ایسے سست نہ إحْدُهُمَا الْأُخْرَى وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءِ إِذَا مَا دُھوا نیو کہ تھوڑایا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو.اللہ تعالیٰ کے یہاں وَلَا تَسْمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ یہ انصاف کی باتیں ہیں.اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذلِكُمْ أَقْبَطَ عِنْدَ اللہ یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی.اور ایسی تدابیروں سے باہمی بدگمانیاں أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَن تَكُونَ جاتی رہیں گی.ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر کے نہ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى تِجَارَةً حَاضِرَةً ہونے سے گناہ بھی نہیں مگر ہر ایک سودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمُ فَلَيْسَ علیکم جناح الا ضرور چاہئے (اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا )

Page 228

تصدیق براہین احمدیہ ۲۲۷ تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَار كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَ اِن اور یادر ہے کہ کا تب اور گواہ کو ان کا ہرجانہ دو.اگر نہ دو گے تو بد کار وَإِنْ تَفْعَلُوا فَانَّهُ فُسُوقُ بنو گے خدا کا ڈر رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتا ہے.اور بِكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ ويعلمُكُمُ الله وَاللہ اللہ تعالیٰ ہر شئے کو جانتا ہے اگر کہیں ایسے سفر میں لین دین کرو.بكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ وَإِنْ كُنتُمْ عَلَى سَفَرٍ ولَم جہاں تم کو کا تب نہ مل سکے تو رہن سے کام لو.مگر ضرور ہے کہ مرہون فَرِهُنَّ تَجِدُوا كاتب فرمن چیز کا قبضہ کر لیا کرو اور اگر ایسے معاملات میں ایک کو دوسری کی فَقْرُوْضَةٌ فَإِنْ آمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَليُود امانت و دیانت پر یقین ہو تو امین کو چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کر کے الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللهَ رَبَّهُ وَلَا امانت دار کے حقوق کو پورا ادا کر دے.اور گواہی کو مت چھپاؤ يَكْتُمْهَا فَإِنَّةَ أَثِم قَلْبُهُ تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ گواہی کا چھپانے والا دل کا بڑا بدکار ہوتا ہے.اور اللہ تعالیٰ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیمٌ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.(البقرة : ۲۷۹ تا ۲۸۴ ) إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا او ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے اور یہ بات کر اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ دکھاؤ کہ تمہاری موت اسلام ہی پر ہو اور اسلام یہ ہے کہ اپنے تمام وجود وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعاؤ اور اپنی تمام طاقتوں سے خدا تعالیٰ کے رستے پر پنجہ مارو کیا معنی تمام و لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا کمال ظاہر و باطن الہی ارادوں کے پیرو ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ کچھ خدا کے اور نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُم اِن کچھ غیر کے بنے رہو.اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو تو سوچو! تم کیسے آپس كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ میں ایک دوسرے کے دشمن تھے اسلام کے باعث تم سب کے دل ایک قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةِ اِخْوَانًا وَكُنتُم ہو.ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ایک عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ دوسرے کے خیر خواہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک.اور تم اپنی فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِك بدى بدکاری شرارتوں سے دوزخ کے کنارے اور باہمی جنگوں میں يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِ لَعَلَّكُمْ پھنسے پڑے تھے اللہ تعالیٰ نے تم کو اس آفت سے نکالا.غور تو کروکس تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أَمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ طرح اللہ تعالیٰ بیان کرتا ہے اپنے نشان کہ اسلام حق اور راحت بخش وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ ہے.اور یہ اس لئے کہ تم راہ پر آؤ.او مسلمانو! تم سے ہمیشہ

Page 229

تصدیق براہین احمد ۲۲۸ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ایک ایسا گروہ رہے کہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے ہر ایک پسندیدہ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِینَ کام کا حکم کرے ہر ایک ناپسندیدہ کام سے منع کرے.اور وہی لوگ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنت و مراد کو پہنچنے والے ہیں اور نہ بنوان لوگوں کی طرح کہ جنہوں نے دین أوليْك لَهُمْ عَذَابٌ میں تفرقہ ڈالا اور اختلاف مچایا.حالانکہ ان کو اتفاق کی خوبیاں اور اتفاق عظيم (ال عمران : ۱۰۳ تا ۱۰) کی عمدگی کے دلائل بھی معلوم تھے.ایسے لوگوں کو بڑا عذاب ہوگا.يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوالا اے ایمان والو! اپنے گھر کے سوا کسی کے گھر میں اطلاع واجازت تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ کے بنا کبھی نہ جائیو.بے اجازت و اطلاع جانا وحشیوں کا کام ہے.بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا بلکہ سلام کہ کر اجازت لو.(اگرا تفاقا وہ نہ سنے تو تین بار تک پوچھو ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ حدیث میں ہے ) یہ عمدہ باتیں ہیں اور اس لئے بتائی جاتی ہیں کہ ان لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ فَإِنْ لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا پر عمل کرو.اگر وہاں کوئی نہ ہو تو وہاں بدوں اجازت مت جاؤ.اگر فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّی تم کو کہا جاوے کہ اس وقت تم کو اندر آنے کی اجازت نہیں واپس يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِنْ چلے جاؤ، یہی پسندیدہ طرز ہے.اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال پر قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا ه لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ فَارْجِعُوْا هُوَ أَزْكَى لَكُن واقف ہے.ہاں ایسے غیر آباد گھروں میں جہاں کسی کی سکونت نہیں وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ اور تمہارا وہاں اسباب رکھا ہے.بدوں اطلاع واجازت بھی جانا روا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ ہے.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تم کسی گھر میں بھلائی کو جاتے ہو یا مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعُ لَكُمْ شرارت کو.تو کہہ دے ایمان والوں کو کہ آنکھوں کو نیچا رکھا کریں وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں.یہ نہایت پسندیدہ بات ہے.اور وَمَا تَكْتُمُوْنَ قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِن جو کچھ اپنی زبانوں سے کہتے اور دل سے مانتے اور اعضا سے لیتے أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا ہو.سب کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے ایسے ہی ایمان والی عورتوں سے بھی فُرُوجَهُمْ کہہ دے کہ آنکھوں کو برائی سے بچا رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت ذلِكَ أَزْكى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ رکھیں اور اپنے بناؤ سنگھار کو مت دکھلاویں.

Page 230

تصدیق براہین احمدیہ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ ۲۲۹ وَقُل لِّلْمُؤْمِنتِ يَغْضُضْنَ مگر وہ حصہ لا بدی ہے جو ظاہر ہے اور اوڑھنی کو ایسا اوڑھیں کہ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ جیب تک چھپ جاوے.اور عورتیں اپنے بناؤ سنگھار کو کسی پر ظاہر زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِهِنَّ نہ کریں مگر اپنے خاوندوں اور باپوں اور خسر اور اپنے بیٹوں اور عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ خاوند کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی زِيْنَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ اپنے أوْ أَبَا بِهِنَّ أَوْابَاء نیک بخت بیبیوں ) عیسائی مشن کی عورتوں کو جو لوگ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَا بِهِنَّ گھروں میں آنے دیتے ہیں اور اسلام کے مدعی ہیں وہ غور أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي اخْوَانِهِنَّ کریں).اور غلاموں اور ان نوکروں پر جنہیں عورتوں کی رغبت أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَوْ نِسَا بِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ ہی نہیں.( جیسے پاگل ) اور بچوں پر جو عورتوں کے معاملات سے أوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي واقف ہی نہیں.اور عورتوں کو واجب ہے کہ ایسی طرح پاؤں زمین الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ القِفْلِ الَّذِينَ لَمْ پر نہ ماریں کہ ان کے کسی سنگھار کی کسی کو خبر ہو جاوے.اللہ کی النَّسَاءِ وَلَا يَضْرِينَ طرف رجوع رکھو.ایمان والو! تو کہ نجات پاؤ اور نکاح کر دو اپنی بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ بیوہ عورتوں کو اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کو اگر غریب و مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَتِ اللهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ مفلس ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کرے گا اور اللہ تعالیٰ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ بڑی وسعت والا بڑے علم والا ہے.(النور: ۲۸ تا ۳۲) إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں امیر سے غریب تک اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ شریف سے وضیع تک اجنبی سے اپنے پرائے ہم قوم تک اگر ایمان اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ والوں میں رنج آ جاوے تو ان بھائیوں میں صلح کرا دو.اور اللہ سے ڈرتے رہو تو کہ تم پر رحم ہو.أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا (الحجرات:۱۱)

Page 231

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۰ سیز دہم.اپنے لوگوں اور غیر قوموں سے تعلق يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا اوایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے جس سے تم ہنسی کرتے يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا ہو اور جسے تم مسخرہ بناتے ہو شاید تم سے اچھا ہو.اور نہ عورتیں ہنسی کریں منْهُمْ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَاءِ عورتوں سے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس سے ایک عورت تمسخر کرتی ہے عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ دوسری سے اچھی ہو.اور اپنوں کو کوئی طعن مت دیا کرو.اور کسی کی نسبت وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بر القب مت بولو ایسی کرتوتوں سے برے لقب دینے والا اللہ تعالیٰ کے بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَن لم یہاں سے فاسق و بدکار ہونے کا لقب پاتا ہے اور مومن کہلا کر فاسق بننا يتب فأوليك هم الظليمون برا ہے جولوگ برے کاموں سے باز نہ آئے وہی بدکار ہیں.(الحجرات: ۱۲) يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا او ایمان والو! بہتی بدگمانیوں سے بچو.بعض بدگمانی بدکاری ہوتی إِنَّ بَعْضَ الطلب الو ہے.لوگوں کی عیب جوئی مت کیا کرو.اور ایک دوسرے کا گلہ کبھی نہ لَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب کرو گلہ کرنا ایسا برا ہے جیسا بھائی کا گوشت کھا لینا کیا یہ امرکسی کو پسند بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أحَدُكُمْ أَن يَا كُل لَحْمَ ہے.بے ریب کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں.اللہ سے اس کی اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّلن أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ " نافرمانیوں پر ڈرو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو نا فرمانیوں کو چھوڑ ، اس کی وَاتَّقُوا الله اِنَّ اللهَ تَوَّابُ رجيم (الحجرات: ۱۳) طرف متوجہ ہوتے ہیں رحم کرتا ہے.: يَأْيُّهَا النَّاسُ إِنَّا (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) ہم نے ہی تم کو پیدا کیا نر و مادہ سے اور تم کو خَلَقْتُكُمْ مِنْ ذَكَرٍ و اُنى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبا وقبائل قوموں اور قبائل پر تقسیم کیا.تو کہ ایک دوسرے سے تعارف رکھو اور اور پر اور لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُم تمہیں یاد رہے کہ خدا کے یہاں تم میں سے وہی معزز ہے جو بڑا عِنْدَ اللهِ انْقُكُمْ إِنَّ اللهَ علیم خبیر (الحجرات: ۱۴) پر ہیز گار ہے اور جان رکھو.اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے.وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا نیکی و بدی.دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم پلہ اور خوبی میں مساوی السَّيِّئَةُ ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ احْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَ نہیں.بدی کا دفعیہ نیکی کے ساتھ کر دکھاؤ.اگر ایسا ہی حسن سلوک !

Page 232

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۱ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا بَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَهُ وَلِي شمنوں سے کر دکھاؤ گے تو تمہارے دشمن بھی تمہارے بچے دوستوں الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا اور گرم جوش والے خیر خواہوں کی طرح ہو جاویں گے.اس نصیحت کو يُلَقَّهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (ختم السجدۃ:۳۵ ۳۶) وہی لوگ مانیں جو بڑی بردباری اور بلند حوصلگی کا حصہ رکھتے ہیں.چہار دہم مومنین کے صفات میں فرمایا الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللهِ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الأَلْبَابِ نصیحت تو وہی پکڑیں جو عقل والے ہیں.وہی جو الہی معاہدوں کا وَلَا يَنتُضُونَ الميثاق و پورا خیال رکھتے ہیں اور جس کسی سے مستحکم وعدے کئے ان کو نہیں لَّذِينَ يَصِلُونَ مَا آمَرَ اللہ توڑتے جن سے ملاپ کرنا چاہئے ان سے ملاپ کرتے.اللہ کی رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءِ الْحِسَابِ نافرمانی کا خوف رکھتے اور برے کاموں کے بدلہ سے ڈرتے وہی وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاء وَجْدِ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے طالب ہو کر بردباری کرتے ہیں اور بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ مِمَّا رَزَقْتُهُمْ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ الفَتَوْا مِنا رزقتهم سرا ؤ نمازوں کو درست رکھتے اور کچھ اللہ کا دیا.ظاہری اور باطنی طور پر اور کا عَلَانِيَةً وَيَدْرَهُ وَق بِالْحَسَنَةِ خرچ کر دیتے ہیں.اور خاص بدی کا مقابلہ خاص نیکی سے کیا کرتے الشَّيْئَةَ أُولَبِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: ۲۰ تا ۲۳) ہیں.انہیں کو انجام کا رآرام ہوگا.أُولَيكَ يُؤْتون پہلی کتابوں کے ماننے والے اگر قرآن کریم پر بھی ایمان لائے تو أَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوا وَيَدْرَءُونَ انہیں دو ہر ابدلہ ملے گا اس لئے کہ انہوں نے بڑی ہی بردباری کی.اور بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ (القصص: ۵۵) ان کی چال ہی ایسی ہے کہ بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کر دیتے ہیں لَا يَنْصُكُمُ اللَّهُ عَنِ جو لوگ تم سے مذہبی عداوت پر نہیں لڑتے.اور نہ انہوں نے تم کو الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم من جلا وطن کیا.ان سے سلوک اور انصاف کے برتاؤ سے اللہ تعالیٰ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتَقْسِطُوا إِلَيْهِم اِن کبھی نہیں منع کرتا بلکہ ایسے منصف تو اللہ تعالیٰ کو محبوب و پیارے اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ إِنَّمَا يَتْكُمُ اللهُ عَنِ ہیں.اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کی محبت و دوستی سے تم کو منع کرتا ہے

Page 233

تصدیق براہین احمدیہ الَّذِينَ قُتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ ۲۳۲ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ جنہوں نے تم سے مذہبی جنگ کی اور اسلام کے باعث تم سے لڑے وَظُهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمُ أَن تَوَلَّوهُمْ وَمَن اور تم کو جلا وطن کیا اور تمہاری جلا وطنی میں تمہارے دشمنوں کے مددگار يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ ہوئے.اور جوایسے دشمنوں سے پیار کریں وہی ظالم ہیں.الظَّلِمُونَ (الممتحنة: ٩ ١٠) فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلم تو ان سے درگزر کر اور سلام کہہ دے.(الزخرف: ۹۰) وَلْيَعْفُوْا وَلَيَصْفَحُوا الا دکھ اور تکلیف دینے والوں پر عفو کرو اور ان سے درگزر.کیا تم کو پسند تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ الله نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم سے درگزر کرے اگر اللہ تعالیٰ کا تم سے درگزر کرنا تمہیں پسند ہے تو اس کی یہی تدبیر ہے کہ تم لوگوں سے درگزر کرو.لحم ( النور : ٢٣) پانزدہم تعلیم اور تعلم اور علم کی ترقی کے واسطے.وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً او اسلام والو! تم سے ایسے لوگ ہوا ہی کریں جو بھلائیوں کی طرف يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ بلاویں اور ہر ایک پسندیدہ بات کا حکم کریں اور ہر ایک برائی سے يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ و روکیں اور وہی ہیں نجات پانے والے ( یہاں محمدن مشتری بننے کی لا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا تاکید ہے ) کبھی نہ ہونا ان لوگوں کی طرح جو آپس میں پھٹ وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنتُ وَ أُوليك پڑے اور کھلے نشانوں کے بعد بھی اختلاف مچایا.یا درکھو انہیں کو بڑا بڑے اور.لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (ال عمران : ۱۰۶،۱۰۵) عذاب ہوگا.كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ اسلام والو! تم تو بڑی عمدہ قوم بھلائیوں کے سکھلانے والے ہو صرف لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ لوگوں کے فائدہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بنایا ہر پسندیدہ بات کا بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ حکم کرتے ہو اور ہر ایک ناپسند امر سے روکتے ہو اور اس پر بڑھ کر (ال عمران:ااا) بات ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہو.

Page 234

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۳ إِنَّمَايَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ اللہ کے بندوں میں اللہ تعالیٰ سے وہی ڈریں جن کو علم ہے یعنی پاک الْعُلَموا (فاطر: ۲۹) علم والے ہی اللہ کے نافرمان نہیں ہوا کرتے.يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا الله ایمان داروں اور پاک علوم کے عالموں کو ہی درجات پر مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ درجت (المجادلة: ۱۲) پہنچاتا ہے.دَرَجَتِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ مخاطب ! تو کہہ بھلا کہیں علم والے اور جاہل بھی برا بر ہوتے ہیں يَعْلَمُونَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: ۱۰) ہر گز نہیں.وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا اور تو اے محمد! کہہ دے یا اے مخاطب ! کہہ دے اے میرے رب ! (طه: ۱۱۵) مجھے علم میں ہمیشہ ترقی دے.أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ نبی نے کہا.خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے ہوں.الجهلِينَ (البقرة: ۲۸) فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ وہ لوگ ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ان کی ہر ایک قوم وقبیلہ سے ایک مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي بڑا گر وہ دین میں سمجھ پیدا کرے.اور واپس ہو کر اپنی اپنی قوم کو الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ علم سیکھ کر برائیوں کے بدنتائج سے ڈراوے تو کہ ان کی قومیں يَحْذَرُونَ (التوبة: ۱۲۲) برائیوں سے ڈر جاویں.فَعَلُوا أَهْلَ الذِّكْر ان كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ اگر تم کو علم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ لیا کرو.(النحل: ۴۴) وَإِذْ اَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ تمام کتاب والوں سے تو اللہ تعالی مستحکم وعدہ لے چکا ہے کہ وہ لوگ أُوتُوا الْكِتَبَ لَتُبَيِّنُنَّه کتاب کا مطلب لوگوں کی بھلائی کے لئے سنادیں.اور الہی کتاب کو لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ (ال عمران: ۱۸۸) نہ چھپاویں ( آریو تمہاری عملی کارروائی کیا دکھاتی ہے)

Page 235

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۴ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ اس شخص سے بھلی بات کس کی جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا (ختم السجدة: (۳۴) اور اچھے کام کئے..شانز دہم.بتائی کے حق میں فرمایا إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ جو لوگ ظلم کی راہ سے تیموں کا مال کھا جاتے ہیں وہ یا درکھیں الْيَتَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ وہ انگارے کھاتے ہیں آگ ہی ان کے پیٹ میں جاتی ہے.فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سعِيرًا (النساء:1) بے ریب وہ جلتے دوزخ میں بیٹھیں گے.لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِيثَ بِالطَّيِّبِ وَأَتُوا الْيَتَنَی أَمْوَالَهُمْ و تیموں کے اموال قیموں کو دے دو.اور ان کی اچھی چیزیں اپنی بری وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَهُمْ إِلَى اشیا سے نہ بدلو.اور اپنے اموال سے ملا کر بھی ان کے مال نہ کھاؤ پس أَمْوَالِكُمْ إِنه گان خوب گھیرا بالکل انہیں کامل کھا جانا کیا برا ہوگا.بے شک یہ بات بڑی بدی ہے (النساء: ۳) ہشید ہم.کورٹ آف وارڈس اور حجر کا راحت بخش قانون سمجھایا اگر اس قانون پر عمل ہوتا تو دنیا سے ہزاروں مفاسد اٹھ جاتے کیونکہ اس قانون کے مطابق حکم ہے جب کوئی یتیم مالداررہ جاوے یا کوئی شخص گو کم عمر نہیں مگر اپنے اموال کو نادانی کم عقلی سے ضائع کرتا ہے تو دونوں صورتوں میں صاحب مال کو اس مال کے تصرف سے روک دو.اور اس مال کی حفاظت رکھو اور صاحب مال کو بقدر ضرورت اس وقت دیتے رہو کہ عاقبت اندیشی سے خرچ کر سکے.

Page 236

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۵ وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاء أَمْوَالَكُم نادان بچوں کو ان کے مال نہ دے دینا.مال ہے تو معیشت اور گزارہ وارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ کا ذریعہ ہے ہاں ان بچوں کو کھانے اور پہنے کے لئے ان اموال سے الَّتِي جَعَلَ اللهُ لَكُمْ قِيمًا وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَعْرُوفًا کچھ دیتے رہو.اور انہیں میٹھی پیاری زبان سے تسلی دو.بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِن انتم اور امتحان کرتے رہو.جب یتیم بڑے اچھے جوان نکاح کرنے کے وَابْتَلُوا الْيَتَى حَتَّى إِذَا مِنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا الهم قابل ہو جاویں اور تمہیں ثابت ہو جاوے کہ اپنا آپ اب سنبھال أَمْوَالَهُمْ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وبِدَارًا أَن يُكْبَرُوا لیں گے تو ان کے مال انہیں دے دو.اور ایسا نہ کہو کہ نا جائز طور پران وَمَنْ كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ وَمَنْ كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ کے بڑے ہونے سے پہلے ہی تم خرد برد کر لو.بِالْمَعْرُوفِ فَإِذَا دَفَعْتُه الهه دولتمند یتیم کے اموال کا نگران تو اس مال سے کچھ بھی نہ لے.مگر أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ غریب نگران مناسب حق الخدمۃ کھالے.وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبٌ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَن و اور جب میموں کا مال یتیموں کو دو تب ہی گواہ رکھ لو کہ یہ چیز میرے الْأَقْرَبُونَ وَ پاس تھی صحیح و سالم پوری تم نے دے دی.اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کافی لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَنِ وَالْأَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَل حساب کرنے والا ہے ماں باپ اور رشتہ داروں کے مال کے وارث مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مفروض مر بھی ہیں اور عورتیں بھی کوئی کم کوئی زیادہ حقدار ہے.وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقَرْبى و التثنی ہر ایک وارث کا حق الہی قانون میں مقرر ہے.اور جب ورثہ کی تقسیم وَالْمَسْكِينَ فَارْزُقُوهُم مِنه پر رشتہ دار یتیم اور مسکین جمع ہوں تو انہیں اس میں سے کچھ دو اور جو وَقُوْلُوْا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا وَلْيَخْشَ بات کہو ایسی ہو کہ شریعت اسے پسند کرے.الَّذِينَ لَوْ تَرَكُوا مِنْ خَلْفِهِمْ خدا کا خوف کرو تمہارے ننھے ننھے بچے اگر رہ جاویں اور تم مرجاؤ تو ذُرِّيَّةً ضِعَفٌ خَافُوا عَلَيْهِمْ فَلْيَتَّقُوا اللهَ وَلْيَقُولُوا قَوْلاً تم کو مرتے وقت کتنا ہی ان کا فکر ہوتا ہے.ایسے ہی عام یتیموں کا فکر سَدِيدًا إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ رکھو اور جو بات کہو بڑی پختہ ہو.أَمْوَالَ الْيَتَى ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا جو لوگ یتیموں کے مال کھا جاتے ہیں.بے ریب اپنے پیٹ میں وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا آگ ڈالتے ہیں اور جلتے دوزخ میں بیٹھیں گے.(النساء: ۶ تا ۱۱)

Page 237

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۶ ہر دہم.غلامی کی پرانی رسم کے استیصال کی ہدایت فرمائی فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ جب کفار سے تم معرکہ آرا ہو تو ان دشمنوں کی گردنیں مارو، یہاں حَتَّى إِذَا اثْخَتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنَّا تک کہ تم فتمند ہو جاؤ پھر دشمنوں کو قید کرلو.آخر احسان کر کے چھوڑ بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارها دو یا جرمانہ لے کر رہا کرو.(محمد:۵) پھر اس پر ہی اکتفا نہیں فرمایا.بلکہ اور جگہ کے گرفتار غلاموں کے رہا کرانے کے واسطے اس مذہبی چندہ میں جس میں ہر ایک مسلمان کو جو پچاس باون روپیہ کا بھی مالک ہو.اسی اڑھائی روپیہ فیصدی کے حساب سے دینے پڑتے ہیں.ایک رقم غلام آزاد کرنے کی بھی قائم کی.بدوں اسلام کے کسی مذہب نے یہ تدبیر تجویز کی ہو تو کوئی نشان دے بلکہ ماورا اس کے اور بہت سی تدابیر قائم کیں جن کے ذریعہ غلام آزاد کئے جاویں مثلاً فرمایا.إِنَّمَا الصَّدَقْتُ لِلفقراء و خیرات تو فقیروں ، مسکینوں، اور صدقات کے کارکنوں اور ان کافروں الْمَسْكِينِ وَالْعَمِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُھر کا جن کو اسلام و مسلمانوں سے لگاؤ ہے حق ہے صدقات کو غلاموں وَ فِي الرَّقَابِ وَالْعُرِمِينَ کے آزاد کرنے اور جن پر خاص آفتیں آئی ہیں ان کی امداد دینے اور وَفِي سَبِيلِ اللهِ وَابْنِ السَّبِيْلِ فَرِيْضَةً مِنَ اللهِ خدائی کا موں جہاد و غیرہ اور مسافروں کی مددگاری میں خرچ کرو.یہ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ امر اللہ کی طرف سے نہایت ضروری ہے اور اللہ تعالی علم والا ہے.(التوبة: ٢٠) وَالَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ جولوگ اپنی بیبیوں کو ماں کہ بیٹھے اور انہیں الگ کرنا چاہتے ہیں پھر نِسَآبِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ من اس بات پر نادم ہوئے ان پر لازم ہے کہ بی بی کے پاس جانے سے پہلے غلام آزاد کریں وغیرہ وغیرہ قَبْل أَن يَمَاشا (المجادلة:۴)

Page 238

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۷ اور جنگ کے قیدیوں کو بجائے اس کے کہ جیل خانوں میں جاہل بنائے جاویں یا جاہلوں کی صحبت میں رکھے جاویں.اہل اسلام کے گھروں میں اس طور پر رکھنے کا حکم ہوا کہ انہیں بھائیوں کی طرح رکھو جیسے آپ کھاتے ہو ویسے کھلا ؤ جیسا آپ پہنتے ہو ویسا پہناؤ.ان کی عمدہ تادیب کرو.نوز دہم.عام احسان تمام مذاہب کے بڑوں کی بے ادبی سے منع کیا اور فرمایا.وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ کبھی برا نہ کہنا ان کو جن کو لوگ پوجتے ہیں اور جنہیں لوگ اللہ تعالیٰ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فیسبوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ کے ورے پکارتے ہیں اگر تم برا کہہ بیٹھو گے تو بت پرست تمہارے (الانعام: ۱۰۹) مقابلہ میں نا سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کو برا کہ بیٹھیں گے.کل دنیا میں منذرین کا آنا تسلیم فرمایا اور انصاف سے مذاہب پر کلی انکار نہیں کیا.بلکہ تمام انبیاء ورسل پر یقین کرنا اور ان پر ایمان لانا سکھایا اور فرمایا إِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا تمام امتوں میں نافرمانوں کو ڈر سنانے والے گزر چکے ہیں.نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا متقی وہی ہیں جنہوں نے مان لئے وہ احکام جو خاص تجھ پر اترے اور أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ وہ احکام بھی جو تجھ سے پہلے عام لوگوں کی ہدایت کو نازل ہو چکے ہیں يُوقِنُوْنَ أُولَيْك عَلَى هُدى اور پچھلے دن پر ان کا یقین ہے خدا کی طرف سے وہی سیدھی راہ پر مِنْ رَّبِّهِمْ وَأُولَيكَ هُمُ ہوئے اور وہی نجات پانے والے بنے.الْمُفْلِحُونَ (البقرة: ۶،۵)

Page 239

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۸ کسی نبی کی نسبت طعن نہیں کیا.انبیا کی تعلیم پر کہیں بھی نکتہ چینی نہیں کی بلکہ نصائح کو بدوں طعن و تشنیع بیان کیا ہے.مطاعن بیان کرنے میں بالکل سکوت فرمایا.طعن کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں جو کسل اور ستی ، حرام خوری، عیاشی، فضول خرچی غرور ہے وہ صرف اسلامی تعلیمات کا نتیجہ ہے مگر میں کہتا ہوں آیات ذیل کن لوگوں کی مقدس کتاب میں ہیں.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا ایمان والو! اپنی کمائی اور زمین کی عمدہ برکات سے جو ہم نے تمہار.مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَالَكُم مِّنَ الْأَرْضِ لئے نکالے ہیں اچھی اچھی چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کرو.(البقرة: ۲۶۸) يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلوا او ایمان والو! اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیزوں سے نہایت ستھری اور مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَ پسندیدہ کمائیوں کو کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کا شکر یہ کرو.اگر اس کے وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ (البقرة :۱۷۳) فرمانبردار ہو.سردمه شته و وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ آپس میں ایک دوسرے کے اموال کو نا جائز طور پر مت کھایا کرو.بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُمَّامِ لِتَنا لو افریقا اور نہ اپنے مالوں کو حکام تک پہنچاؤ کہ اس ذریعہ سے لوگوں کے منُ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة : ۱۸۹) اموال کو دبا لو اور جان بوجھ کر بدی میں مبتلا ر ہو.وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَى إِنَّهُ بدکاری کے پاس بھی نہ جاؤ زنا بڑی بے حیائی اور بُرائی ہے اور بُری كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (بنی اسرائیل: ۳۳) راہ ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ او ایمان والو! شراب، قمار بازی ، بت پرستی ، شگون لینے یہ شیطانی وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ کام بڑے ہی گندے ہیں پس ان سے بچو تو کہ نجات پاؤ.لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة: ٩١)

Page 240

تصدیق براہین احمدیہ ۲۳۹ بستم - عیاشی سے یہاں تک نفرت دلائی کہ بد کار عورتوں اور کسبیوں سے نکاح کے بارے میں کہا إِلَّا الزَّانِي لَا يَنْكِحُ الازانية بد کار تو بدکاروں یا بت پرست عورتوں کو ہی نکاح کرتے ہیں اور بدکار بد أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحَهَا إِلا زان او عورتیں بھی ایسی ہیں کہ انہیں بدکار یا مشرک ہی بیا ہیں اور ایمان مُشْرِك وَحُدِمَ ذَلِكَ عَلى والوں پر تو یہ با تیں حرام ہی ہیں.الْمُؤْمِنِينَ (النور:۴) بست و کم.اسراف اور حق تلفی اور غرور کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے وَاتِ ذَا الْقُرْبى حَقَّهُ وَ الْمِسْكَانَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَلا رشتہ داروں، مسکینوں، مسافروں کو ان کے حق دے دو اور فضولی مت تُبَذِرْ تَبْذِيرًا إِنَّ الْمُبَذِرِينَ کرو، فضولی والے شیطانوں کے بھائی ہوا کرتے ہیں.كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيْطِينِ (بنی اسرائیل: ۲۸،۲۷) وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا اتراتا ہوا زمین پر مت چلا کر.کیا تو زمین کو پھاڑے گا کبھی نہیں اور إِنَّكَ لَنْ تَخْرِقَ الْأَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبال ظولا حل اونچائی اور بلندی میں پہاڑ کونہ پہنچے گا.تمام یہ بُری باتیں تیرے رب ذلِكَ كَانَ سَيْتُهُ عِنْدَ رَبِّكَ مَكْرُوهًا (بنی اسرائیل: ۳۹،۳۸) کونا پسند ہیں.رہی یہ بات کہ یہ قص قرآن میں کیوں ہیں سو اس پر گزارش ہے.آدم وحوا شیطان کا قصہ صفہ ۳ ۱۰۳ تصدیق سے شروع ہوتا ہے اس پر غور کرو.کیا صرف کہانی ہے؟ سیدنا موسیٰ نمبرے ونوح نمبر ۵ لوط علیہم السلام کے مختصر قصے تصدیق نمبرے میں مندرج ہیں لقمان صفحہ نمبر ۵۵ و سکندر نمبر ۵۷ یا جوج ماجوج کے قصے تصدیق صفحہ نمبر ۶۰ میں مذکور ہیں سنگ اسود کا تذکرہ آگے آتا ہے.ابراہیم علیہ السلام کا قصہ اس وقت سنا دیتے ہیں اور انصاف مانگتے ہیں کہ کیا یہ کہانی لغو ہے یا تمام بلند پروازیوں اور ترقیوں کی جڑھ ہے.

Page 241

تصدیق براہین احمدیہ حَاجَّ ۲۴۰ الَمْ تَرَإِلَى الَّذِي حَآج بھلا دھیان تو کرو.اس شخص کی طرف جس نے ابراہیم راستباز.ابرهم فِي رَبَّةٍ أَنْ الله الله رب کی بابت بحث کی.کیا یہ بحث بدلہ تھی اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَهِم رَى الَّذِي يُغِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا اسے پادشاہی دے رکھی تھی.جب ابراہیم علیہ السلام راستباز نے کہا أخي وَأُمِيْتُ قَالَ ابر هم میرا رب تو ایسا طاقتور ہے کہ زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نادان نے (غور فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِان میں کرو) کیا جواب دیا؟ میں بھی مارتا اور زندہ کرتا ہوں.جب ابراہیم علیہ مِنَ الْمُشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ السلام نے دیکھا کہ یہ ایسانا دان ہے کہ زندہ کرنا اور مارنا ہی نہیں سمجھتا تو الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ فرمایا.اچھا اللہ تعالیٰ تو سورج کو مشرق کی جانب سے طلوع کرتا ہے تو وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظلمين سورج کو مغرب کی طرف سے لا دکھا.اتنی بات سن کر کا فر بغلیں جھانکنے (البقرة : ۲۵۹) لگا.اور اللہ تعالیٰ تو ایسے بدکاروں کو بحث کی سمجھ بھی نہیں دیتا.إِبْرَاهِيمَ وَاذْكُرْ فِي الكتب إبرهيم اور بیان کر دے اس کتاب میں ابراہیم کا قصہ بے ریب وہ راستباز نبی إِنَّهُ كَانَ صِدِيقًا نَّبِيًّا إِذْ قَالَ تھا.ابراہیم نے اپنے باپ کو کہا اے پیارے باپ! کیوں بتوں کی لِأَبِيهِ يَابَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِی پرستش کرتا ہے.وہ تو تمہاری دعاؤں کو سنتے نہیں.اور تمہاری حالت کو عَنْكَ شَيْئًا يَابَتِ إِني قد دیکھتے نہیں.اور اگر سنتے اور دیکھتے بھی تو تمہاری کچھ بھی حاجت براری جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَالَمْ يَأْتِكَ نہیں کر سکتے.میرے پیارے باپ! مجھے تو خدا پرستی کے فوائد کی سمجھے فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا يَابَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيطنَ إِنَّ ہے مجھے معلوم ہے کہ بت پرستی ہمارے تمدنی اخلاقی وغیرہ وغیرہ میں الشَّيْطَنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِبا مضر ہے.مگر افسوس تجھے ان باتوں کی خبر نہیں.پس تجھے چاہیئے میرا کہا يَابَتِ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَمَشَكَ مان.میں تجھے سیدھی راہ بتا دوں گا.اے پیارے باپ ! نافرمان اور عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَنِ ولبیا قَالَ آرَاغِب رحمت سے دور شیطان کی فرمانبرداری مت کر.شیطان تو رحمن جیسے محسن أَنْتَ عَنْ أَلِه یا بر جنید کا نافرمان ہے.میرے پیارے باپ ! بے ریب مجھے تو ڈر ہے کہ تجھے

Page 242

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۱ لَبِنْ لَمْ تَنْتَهِ لَا جُمَنَّكَ وَ رحمن بھی عذاب دے اور تو شیطان کا ساتھی ہو جاوے.ابراہیم کے اهْجُرْنِي مَلِيًّا قَالَ سَلم باپ نے جواب دیا.کیا تو ہمارے بتوں سے پھر گیا.اگر تو اپنے خیال و اعتقاد سے نہ ٹلا تو میں تجھے سنگسار کروں گا.پس چاہیے کہ تو عَلَيْكَ سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي مجھ سے بیچ کر کہیں چلا جا.ابراہیم نے کہا تجھے بُرے اعتقاد سے إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا وَ أَعْتَزِلُكُمْ سلامتی رہے.میری طرف سے تجھے دکھ نہ پہنچے میں تو بہر حال اپنے وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ الله رب سے تیرے لئے معافی مانگوں گا وہ مجھ پر مہربان ہے اور تم سے وَادْعُوا رَى عَلَى الَّا اور تمہارے بتوں سے جنہیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو سب سے اكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا فَلَنَا الگ ہوں.اور صرف اپنے رب کو ہی پکارتا ہوں اور امید ہے کہ اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِنْ جس طرح تم بتوں کو پکار کر پورے کامیاب نہیں ہوتے.یقیناً میرا حال ایسا نہ ہو گا.پس جب ابراہیم ان لوگوں سے اپنے بت پرست دُونِ اللَّهِ وَهَبْنَا لَةَ إِسْحَقَ باپ اور اپنی بت پرست قوم اور ان کے بتوں سے الگ ہوا تو اسے وَيَعْقُوْبَ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا اللہ تعالیٰ نے نبی بیٹا الحق جیسا اور نبی پوتا یعقوب جیسا عطا فرمایا.وَوَهَبْنَا لَهُمْ مِنْ رَّحْمَتِنَا وَ اور ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اتنے انعامات جَعَلْنَا لَهُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِيًّا بخشے جن کے بیان کی حاجت ہی نہیں.کیونکہ ابراہیمی خاندان کے (مریم: ۴۲ تا ۵۱) برکات ظاہر ہیں تمام دنیا کے لوگ ان کی مدح اور ثنا کرتے ہیں.وَاتْلُ عَلَيْهِمُ با ابرهيم ابراہیم کی وہ خبر ان پر پڑھ سنا.جب اس نے اپنے باپ کو اور اپنی اذْقَالَ لَا بِنِهِ وَ قَوْمِهِ مَا قوم کو کہا کہ تم لوگ کس کی پرستش کرتے ہو.ابراہیم کے باپ اور تَعْبُدُونَ قَالُوانَعبُدُ أَصْنَامًا قوم نے جواب دیا کہ ہم تو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور انہیں فَنَظَلُّ لَهَا عَكِفِينَ قَالَ کے پاس بیٹھ رہتے ہیں ابراہیم نے کہا.کیا یہ بت تمہاری پکار کو هَلْ يَسْمَعُوْنَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ أَوْ سنتے ہیں؟ یا کیا تم کو نفع دیتے ہیں یا تم کو کوئی دکھ دیتے ہیں؟ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ بت پرست لوگوں نے جواب دیا ہم بت پرستی کی دلیل تو قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا أَباءَنَا نہیں رکھتے.مگر ہم نے اپنے بزرگوں کو پایا ہے کہ وہ ایسا ہی كَذلِكَ يَفْعَلُوْنَ قَالَ

Page 243

تصدیق براہین احمدیہ انْتُمْ وَآبَاؤُكُمُ الْأَقْدَمُونَ ۲۴۲ أَفَرَيْتُهُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ کرتے ہیں تب ابراہیم نے جواب میں کہا سنو ! تم بت پرستی کے فَإِنَّهُمْ عَدُو لِي إِلَّا رَبَّ معتقد تو کہا کرتے ہو کہ جن کی پرستش ہم کرتے ہیں اگر ہم چھوڑ الْعَلَمِيْنَ الَّذِي خَلَقَنِی فَهُوَ بیٹھیں تو شاید ہمیں دکھ دیں.سنو ! جن لوگوں کی تم نے اور تمہارے يَهْدِيْنِ وَالَّذِي هُوَ يُطْعِمُنِي باپ دادا نے پرستش کی وہ سب کے سب مجھے بُرے لگتے ہیں.اور وَيَسْقِيْنِ وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ وَالَّذِي يُميتنى ثُمَّ اللہ تعالیٰ رب العالمین کے سوا کوئی بھی مجھے پیارا نہیں.وہی رب يُحْيِينِ وَالَّذِي أَطْمَعُ أَنْ جس نے مجھے پیدا کیا.اور وہی میرا راہ نما ہے اور مجھے منزل مقصود يَغْفِرَ لِي خَطِيئَنِي يَوْمَ الدِّينِ رَبِّ هَبْ فِي حُكْما تک پہنچانے والا.وہی جو مجھے کھانا دیتا ہے اور پانی پلاتا ہے.اور والْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ جب کبھی اپنی غلطی سے بیمار ہوتا ہوں تو فضل سے شفا بخشتا ہے.وہی وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ جو مجھے مارے اور پھر جلا دے.وہی جس پر مجھے امید ہے کہ بُرے وَرَقَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ اعمال کی سزا اور نیک اعمال کی جزا کے وقت مجھے معافی دے گا.وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الصَّالِينَ وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ اے میرے رب ! مجھے سمجھ عطا کر اور بھلے لوگوں کے ساتھ رکھ اور يُبْعَثُونَ يَوْمَ لا ينفع مجھے اپنی انعام والی جنت کا وارث کر.اور میرے باپ پر عفو کر.مَالُ وَلَا بَنُوْنَ إِلَّا مَنْ سَلِيمٍ الَی اللہ بِقَلبِ سلیم وہ تو بھولا اور بہک گیا اور مجھے قیامت میں ذلیل نہ کر.قیامت کا وَاز لِقَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِينَ وہ دن ہے جس میں مال اور اولاد کام نہ آوے.مگر وہی نجات (الشعراء: ا۷ تا ۹۱) پاوے جو اللہ تعالیٰ کے پاس سلامت والے دل کے ساتھ آیا.مکذب.ضرورت الہام پر دلائل قاطع کا لکھنا بعد ملاحظہ کل قرآن شریف کے ہر چند غور وفکر سے دیکھا گیا.کوئی ضرورت الہام قرآن کی بپا یہ گمان نہ پہنچی.چہ جائیکہ ثبوت واطمینان سوائے قصہ جات مذکورہ بالا کے اگر کوئی عمدہ بات قرآن شریف سے ثابت کرے جو وید مقدس میں نہ ہوتب ہمیں بھی موقعہ کلام کا ہو.“ مصدق.ایک پادری نے قرآن کریم کی عدم ضرورت پر ایک رسالہ بنام عدم ضرورت قرآن

Page 244

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۳ لکھا ہے.یہاں مکذب براہین نے وہی مضمون اپنے مطلب پر لا ڈھالا ہے.اس جگہ کوئی اپنا کمال نہیں دکھایا.رسالہ عدم ضرورت قرآن کے مصنف سے میرے ایک دوست نے با لمواجہ گفتگو میں کہا ہے.پادری صاحب ! دنیا میں نیک بھی گزر چکے ہیں اور بدکار بھی.کتابوں کے مصنف بھی خدا تعالیٰ پیدا کر چکا اور تصنیفات کو تباہ کر دینے والے عیسائی بھی جیسے ڈکلائن اینڈ فال آف رومن امپائر وغیرہ میں اسکندریہ کے عظیم الشان کتب خانہ کی بابت مذکور ہے.اور جیسے حواریوں کے اعمال سے ظاہر ہے کہ پچاس ہزار کی کتابیں ان کی تعلیم سے جلا دی گئیں.(دیکھو اعمال ۱۹ باب ۱۹) اور آریہ ورت میں بدھ اور جینیوں نے کتابیں جلا دیں.جیسے ستھیار تھ پر کاش طبع اول کے صفحہ نمبر ۳۱۲ میں مندرج ہے.پادری صاحب ! برے اور بھلے سب تو ہو چکے اب اللہ تعالیٰ کو اچھے لوگوں کے پیدا کرنے اور بروں کے خالق ہونے کی کیا ضرورت ہے.پادری صاحب اس سوال کے جواب سے اس وقت ہی ساقط نہ تھے بلکہ آج بھی چپ ہیں مگر میرا اس کتاب میں پادریوں کے جواب دینے کا ارادہ نہیں اور نہ میری مخاطبت کا منشا ہے کہ اس میں ایسے جواب لکھے جاویں.بلکہ یہاں تو یہ تفتیش ہے کہ قرآن کریم نے اپنی ضرورت کو کس طرح ثابت فرمایا ہے.اس لئے مجھے یہ بیان کرنا پڑا کہ قرآن کریم اپنی وجوہ ضرورت میں کیا کچھ بیان کرتا ہے سو ان وجوہات کو لکھتے ہیں.مگر اس قدر کہنے سے چشم پوشی نہیں کر سکتے کہ مکذب نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۹۵ میں لکھا ہے.”ہم لوگ جو تناسخ کو مانتے ہیں کسی کا الہام پانے سے محروم رہنا اس کی شامت اعمال جانتے ہیں“.پس ہم آریہ کو کہتے ہیں ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بد عملی میں گرفتار نہ تھے جس کی شامت کے باعث الہام سے محروم رہتے.سوچو! اور غور کرو! قرآن کریم ہمارے سید و مولیٰ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن لانے والا رسول ثابت کرنے اور حضور علیہ السلام کو قرآنی ہادی بنانے پر فرماتا ہے کہ اس قسم

Page 245

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۴ کا عہدہ رسالت و نبوت کا عطا کرنا ایک خاص شخص کی نسبت ہمارافضل ہے.اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل بے ثمر و ضائع نہیں ہوسکتا.اس لئے کہ ہمہ قدرت ہمہ طاقت کا فضل ہے.اگر ایک شخص کے حال پر باری تعالیٰ کی نظر عنایت ہو اور اللہ تعالیٰ اسے معزز وممتاز ہادی اور رسول بنانا اور اسے قرآن جیسی کتاب دینا چاہے اور پھر رسول نہ بنا سکے اور قرآن جیسی کتاب نہ دے سکے تو کیا اللہ تعالیٰ قادر مطلق کی طاقت بے کار نہ ہوگی ؟ اس ہمارے سید ابن ابراہیم علیہم الصلوۃ والسلام کی نسبت جب آپ کے پہلے مخاطبوں میں سے چند نا سمجھ اور نا عاقبت اندیشوں نے اس قسم کا اعتراض کیا تھا تو وہ دوگروہ تھے.عرب کے قدیم باشندے اور یہود، دونوں کو قرآن کریم میں اس طرح جواب دیا گیا.اول عربوں کے سوال کو اس طرح نقل فرمایا ہے.وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۲) اور جواب میں فرمایا ہے آهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمُنَابَيْنَهُمْ فَعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ (الزخرف:۳۳) اس سوال و جواب میں ایک لطیفہ غور کے قابل ہے.اُمی ، ان پڑھ عربوں نے یہ تو نہ کہا کہ رسول کیوں ہوا؟ اور اللہ تعالیٰ نے کیوں رسول کر کے بھیجا؟ کیونکہ آخر اتنی تو سمجھ رکھتے تھے کہ لے اور عربوں نے کہا یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اترا.کے قرآن کا نازل ہونا قرآن کالا نے والا ہونا تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کے گزارے میں یہی تو ہم نے ہی تقسیم کر رکھی ہے اور بعض کو بعض پر مختلف درجوں کے فضائل دے کر عزت بخشی ہے تو کہ ایک دوسرے کے کام آویں.بادشاہ رعایا کا خادم اور رعایا بادشاہ کی خدمتگذار.جب ظاہری دنیا و دولت کی تقسیم ان لوگوں کی تجویزوں پر نہیں تو نبوت و رسالت والا تو ان تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے جس کو یہ لوگ جمع کرتے ہیں.کیا اس رحمت و فضل کو یہ لوگ اپنے ناقص عقل پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں.

Page 246

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۵ رسولوں کا آنا ملہموں کا پیدا ہونا بے وجہ نہیں.ضرور ان کا بابرکت وجود برکات کا مثمر ہے.مگر یہ کہا کہ رسولوں کا آنا بے شک ضروری اور فضل ہے پر جن پر دنیوی فضل ہورہا ہے وہی اس روحانی فضل کے مورد کیوں نہ ہوئے ؟ اگر امیر ہی رسول ہوتے تو بڑی کامیابی ہو جاتی.پا در یو! آریو! کاش تم اتنی عقل رکھتے ! اور جواب سے یہ ظاہر کیا جب دنیوی ترقیات کو دیکھتے ہو کہ بعض ترقی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے ہیں اور بعض سخت تنزل میں گرفتار.پس روحانی معاملات کو دنیا کے حال پر کیوں نہیں قیاس کرتے جیسے دنیاوی عزتوں کی تقسیم الہی ارادوں اور اس کے قدرتی اسبابوں سے ہو رہی ہے اور تمہاری عقلیں وہاں پوری حاوی نہیں ایسے ہی روحانی عزت بھی جس کا اعلیٰ حصہ نبوت و رسالت ہے.تمہاری غلط منطق سے کسی کو نہیں مل سکتی.ہاں یہاں ختم نبوت پر بحث ہو سکتی ہے.مگر وہ دوسری بحث ہے جو عنقریب ہم خود بیان کریں گے.(انشاء اللہ تعالیٰ ) اور یہود اور عیسائی ضرورت قرآن کے دریافت کرنے والوں کو فرمایا.أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَتْهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُلْكًا عَظِيمًا (النساء:۵۵) عیسائی یہودی مانتے ہیں کہ ابراہیم راستباز کے ساتھ اس کی راستبازی پر وعدہ ہے کہ اس کے گھرانے کو معزز و ممتاز کیا جاوے.اور اس کے گھرانے سے تمام گھرانے برکت پاویں ( پیدائش ۱۲ باب ۳) یہ وعدہ جیسا اس راستباز سے الہامی طور پر کیا گیا ویسا ہی الحمد للہ اس کا ظہور مشاہدہ میں آ رہا ہے.غور کرو.آریہ اپنے گھرانے کی کتابوں کی اشاعت اور ابراہیمی گھرانے کی تعلیمات کی اشاعت دیکھ لیں ابراہیمی تعلیمات کی اشاعت عیسائیوں کے ذریعہ سے ہو یا اہل اسلام کے وسیلہ سے.لے کیا ان یہود اور عیسائیوں کو اس بات پر حسد آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عربوں میں رسول بھیجا اور اسے کتاب دی تو انہیں کہ تم ابراہیم کے فرزند ہو.اب بھی تو کتاب اور حکمت اور بڑی بادشاہت ابرا ہیم ہی کی نسل کو ملی ہے کیونکہ اسماعیل ابراہیم کا پہلوٹھا تھا اور قریش جن میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم رسول ہوئے اسی کی اولاد ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے سے ابراہیم کی نسل والو! عہدۂ رسالت ابراہیم کے گھر سے نہیں نکلا پس تمہیں کیوں حسد آ گیا.

Page 247

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۶ یہود نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے مدینہ طیبہ میں ایک داؤ کھیلا اور حضور علیہ السلام سے لوگوں کو ہٹایا اور کہا وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ (ال عمران: ۷۴) اس کے جواب میں قرآن فرماتا ہے.قُلْ إِنَّ الهُدَى هُدَى اللهِ أَنْ يُولّ اَحَدٌ مِثْلَ مَا أُوتِيْتُمْ أَوْ يُحَا جُوَكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (ال عمران: ۷۴) غرض اللہ تعالیٰ کا وہ فضل، ارادہ علم اور قدرت جس سے وہ مخلوق کو پیدا کرتا اور عزت کے لائقوں کو عزت دیتا ہے.اس کی تکمیل اور اس کا پورا ہونا ایک لا بدی امر ہے.کیونکہ اس کا کوئی مانع نہیں.جب سیدنا نبی عرب کو اس نے اپنے خاص فضل اور رحمت سے نبی رسول، رسولوں کا سردار رسولوں کا خاتم بنایا اور اسے قرآن جیسی پاک کتاب دینی چاہی تو اس قادر مطلق کے فضل وارادہ کا کون مانع ہے یہ دنیا اور دنیا کے لوگ اس کا ملک اور ملک ہے.اور اللہ تعالیٰ اپنے ملک کی رعایا پر مختلف جسمانی حکام بنایا کرتا ہے تو کہ ان کا انتظام دنیا میں کسی قدرا من کو قائم رکھے.روحانی انتظام جسمانی انتظام سے زیادہ ضروری اور توجہ کے قابل ہے.اگر دنیا کے انتظام کے واسطے اللہ تعالیٰ نے مختلف ناظم بھیج دیئے تو دنیوی انتظام سے زیادہ دینی روحانی انتظام کے واسطے کئی ناظموں کا آنا ضروری نہیں؟ دوسری ضرورت جزیرہ نما عرب کے لوگ الہیہ مواعظ سے مدت تک محروم رہے.توریت اور انجیل نے عرب کے جیتنے میں کوئی کامیابی نہ دکھائی.بھلا بید جس کی تعلیم سے ہم آریہ ورتی لوگ باوجود کوشش کے بھی واقف نہیں ہو سکے کیونکر فائدہ اٹھاتے.تجربہ نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام بلاد کے لوگ بیرونی یا اندرونی یا دونوں قسم کے معلموں کی تعلیمات کو قبول کرتے اور مان سکتے ہیں اور جیسی جسمانی لیے تو کہہ دے وہ خاص ہدایت جسے الہی کہتے ہیں وہ تو یہی ہے کہ دیا جاوے کوئی مثل اس کی کہ دیئے گئے تم (استثناء ۸ ا باب ۱۸) بلکہ تم پر حجت میں غالب آوے تمہارے پالنے والے رب کے سامنے تو کہہ دے یہ نبوت اور رسالت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اسی کے ہاتھ ہے، جسے چاہے دے، اور اللہ وسیع وعلم والا خاص عزت و رحمت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ تعالی بڑے فضل والا ہے.

Page 248

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۷ فتوحات میں بیرونی لوگوں کے محکوم بن جاتے ہیں.ویسے ہی روحانی فتوحات میں بیرونی فاتحوں کے ماتحت ہو سکتے ہیں.یورپ افریقہ امریکہ پر جو اثر شامی مذہب کا پڑا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اصل اور پاک عیسائیت در کنار اور سیدنا مسیح علیہ السلام کا رسول ماننا کیا.یہ لوگ ابن اللہ بلکہ خود خدا ماننے کو تیار ہیں.ہند، سندھ، افغانستان، چین کے حالات ظاہر ہیں کہ چین والے تو نہایت کمزور قوم آریہ ورتوں سے ایک غیر الہامی شخص گوتم کی تعلیم ماننے کے لئے بھی تیار ہیں اور بلاد کی حالت پر اگر نگاہ کو دوڑاؤ اور افریقہ کی اندرونی اس پھیلاؤ پر نظر کرو جس میں اسلام سرتوڑ اور کچھ عیسائی مذہب ترقی کر رہا ہے تو میری اس عرض کی صداقت پر ناظرین کو کلام نہ ہوگا.تجربہ اور مشاہدہ نے صاف طور پر ظاہر کر دیا ہے کہ صرف عرب کے بلکہ قریش اور ان میں بھی حجازی اور اہل مکہ ہی بخصوصیت اس دنیا میں ایسے لوگ ہیں جن پر عام طور سے غیر قوموں کی ظاہری یا باطنی تا شیر نے اثر نہیں کیا.(دیکھو یرمیاہ کی کتاب اباب۱۰) دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس کے مرکز پر بیرونی حملوں کی زدکا اثر نہیں پہنچا ہم نے ایشیا، یورپ، افریقہ، امریکہ، نیو ہولینڈ، نیوزی لینڈ وغیرہ اور ان کے پیروشلم اور پیر امون کے معبد پارسیوں کے ایرانی آتشکده ، بابل ، کانشی جی ، لاسہ، انطاکیہ وغیرہ کو دیکھ لیا.کسی میں مکہ یا مکہ والوں کی آن نہ دیکھی.جب دنیا پر اور دنیا کے ہادیوں پر اور ہادیوں کے جان شار مشنریوں پر حجت کے طور پر ثابت ہو گیا کہ کوئی بھی عرب کے مرکز تک راستبازی کو کامل طور پر نہ پہنچا سکا جب پہلے اُپدیشکوں اور مشنریوں نے اس قوم عرب کی نسبت یہ کمزوری دکھائی اور ان پر اتمام حجت نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم نے جوش مارا اور اس قوم کو محروم نہ رکھا بلکہ وہاں ایسا ہادی پیدا کر دیا اور اسے قرآن جیسی کتاب دی.جس کی قومی تاثیر نے وہ تمام صداقتیں اور راستبازیاں جو دنیا بھر کے ملہموں کے پاس اور پاک کتابوں میں مندرج تھیں مرکز عرب کو بھی پہنچا دیں اور اس طرح جو الزام دنیا کے راستباز مشنریوں پر تھا کہ انہوں نے اپنا پورا کام نہ کیا یعنی مرکز عرب کو نہ جیتا اس کو اٹھا دیا.اور ان راستبازوں اور راستبازیوں کے بدلہ میں حضرت نبی عرب اور

Page 249

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۸ قرآن کریم نے کفایت کی.اور راستبازوں کے بچے ارادے کی تکمیل نے قرآنی ضرورت ثابت کر دی.ترقی چونکہ بتدریج دنیا میں پھیلتی ہے اس لئے وہ تمام صداقتیں ہمارے سید ومولی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اول عرب کے مرکز اور تمام عرب میں پھیلیں پھر اس کے جانشینوں کی وساطت سے اور بلا د میں پھیل رہی ہیں اور امید ہے آہستہ آہستہ تمام دنیا پر اس مجموعہ صداقتوں کی حجت قائم ہو جائے گی.چونکہ تجربہ پھر مشاہدہ نے ثابت کر دیا ہے کہ اور لوگوں پر اور ان کے مرکز پر مختلف مشنریوں کا اثر پڑتا رہا.اور ان مشنریوں پر اور ان کے مرکز پر عرب کا اثر پڑ سکتا ہے.تو اس نیچر کے تجربہ اور مشاہدہ سے پورا یقین ہے کہ تشریعی نبوت ختم ہوچکی، کیونکہ اب کوئی براعظم نہیں رہا جس کے عام باشندے ایسے ہوں کہ ان پر کسی قوی الہمت مشن کا اثر نہ پڑ سکے.بلکہ کل دنیا کا اثر دوسرے پر اور عرب کا اثر دنیا پر ثابت ہو چکا.اب موجودہ دنیا پر ثابت ہو چکا ہے کہ عرب کا درہ مستقل وفادار راستباز مشن قائم ہو تو تمام قومیں اس کی بات ماننے کو تیار ہیں اس مضمون کو قرآن کریم اس طرح بیان فرماتا ہے.وَهُذَا كِتَب أَنْزَلْنَهُ مُبْرَكَ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ أَنْ تَقُولُوا إِنَّمَا أُنْزِلَ الْكِتُبُ عَلى طَائِفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَإِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغْفِلِينَ أَوْ تَقُولُوا لَوْ أَنَّا أنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتُبُ لَكُنَا أَهْدَى مِنْهُمْ فَقَدْ جَاءَ كُمُ بَيْنَةً مِنْ رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْةٌ - (الانعام: ۱۵۶ تا ۱۵۸) لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوْا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكَيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيْنَةُ رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُوْا صُحَفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ (البينة : ۲ تا ۴) لے یہ بابرکت کتاب اسے ہم نے ہی اتارا.پس اس کے مطابق عمل درآمد کرو اور اپنے آپ کو نافرمانی کے بدنتائج سے بچائے رکھو تو کہ رحم پاؤ یہ کتاب تمہیں اس لئے دی ہے کہ کہیں یہ نہ کہ دو کہ الہی کتاب ہم سے پہلے ایسے دوگروہ یہود و عیسائیوں کو اتاری گئی جن کے علوم سے ہم بے خبر تھے.یا یہ نہ کہہ دواگر ہمیں الہی کتاب ملتی تو ہم پہلوں سے زیادہ راستی کے راہ پر چلتے.پس سنو ! تمہارے رب کی طرف سے تمہیں کھلی مفصل کتاب ملی ہے جو راہ نما رحمت ہے.اہل کتاب کے منکر اور مشرک کبھی اپنی بدی سے نہ مٹلتے اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کا رسول جو کھلی دلیل ہے نہ آتا.اور وہ پاک صحیفے جن میں کئی مضبوط کتابیں موجود ہیں نہ پڑھ سناتا.

Page 250

تصدیق براہین احمدیہ ۲۴۹ عرب جو دنیا بھر کو ٹھم کا خطاب دیتے تھے کیا نہیں کہہ سکتے تھے ہم مجموں گونگوں کی کب مانیں کس نے عرب کو وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُ وَانِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمُ کا حکم دے کر فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا (ال عمران: ۱۰۴) کا لقب دیا.يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَ (الاعراف: ۱۵۹) کس نے کہا ذرا اس کا نشان دو ! تیسری ضرورت دنیا میں ہمارے سادات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تشریف لائے اور انہوں نے بقدر امکان راستی اور راستبازی کو دنیا میں پھیلایا مگر ان کے ناعاقبت اندیش اور جھوٹے بلکہ ناسمجھ پیروؤں نے ان کی پاک تعلیم میں نافہمیوں کو ملا دیا اور اس میں اختلاف مچایا، ہندؤں نے اللہ تعالیٰ کو معاذ اللہ کئی اوتاروں ، کچھ ، کچھ اور سؤر کی اشکال پر دنیا میں آنا اعتقاد کیا.عیسائیوں نے اللہ تعالیٰ کے خاکسار بندے حضرت سیدنا مسیح علیہ الصلواۃ والسلام کو خدا یا خدا کا ازلی بیٹا یقین کیا.بلکہ ان میں رومن کیتھولک نے سیدنا مسیح کی والدہ صدیقہ مریم کو بھی معبود ٹھہرایا.یہودوں نے اللہ تعالیٰ کی صفات میں تشبیہ تک نوبت پہنچائی آریہ بے چارے تو یہاں تک گرے کہ باری تعالیٰ کی ہمہ قدرت سرب شکستیمان ذات کو اپنے پر قیاس کر کے کہہ دیا جیسے بدوں میٹر اور مادہ مخلوق میں کوئی شخص کوئی چیز نہیں بنا سکتا.باری تعالیٰ سے بھی بدوں مادہ کے کسی چیز کا بنا اسنھو اور محال ہے اور اس فاسد قیاس کے باعث کروڑوں کروڑ ذرات عالم کو غیر مخلوق ، کروڑ کروڑ ارواح کو غیر مخلوق کہہ بیٹھے.ابدی نجات کی سچی طلب ہر سلیم الفطرت کے قلب میں موجود ہے.اس کے حصول کے واسطے لوگ کیسے بھول بھلیاں میں پڑے ہیں یہود نے تو یقین کر لیا ہم ابراہیم راستباز کے فرزند ہیں صرف اسی رشتہ کے باعث نجات پا جائیں گے جیسے کہتے ہیں کہ کن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً (البقرة: ۸۱).لے خدا تعالیٰ کے رستے پر پنجہ ما رو کیا معنی تمام و کمال ظاہر و باطن الہی ارادوں کے پیرو ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ کچھ خدا کے اور کچھ غیر کے بنے رہو اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو تو سوچو! تم کیسے آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے.اسلام کے باعث تم سب کے دل ایک ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپس میں بھائی بھائی ہو گئے ایک دوسرے کے خیر خواہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک.ے اولوگو! بے ریب میں تم سب لوگوں کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہو کر آیا ہوں.گنتی کے دن ہی ہمیں تو آگ چھوٹے گی پھر نجات پا جائیں گے.

Page 251

تصدیق براہین احمد به ۲۵۰ عیسائی تو ایسی حالت میں جا پڑے کہ اپنی ساری لعنتوں ملامتوں کے بدلہ میں حضرت سیدنا مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کو معاذ اللہ ملعون بنایا.(دیکھونامہ گلتیاں ۳ باب۱۳) اور بعض نے معہ بعض آریہ ورتی سادھوں کے رہبانیت اختیار کی.آریہ جو گھبرائے اور بھولے تو تناسخ کے قائل ہو کر ابدی نجات کے ہی منکر ہو بیٹھے.اور بعض آریہ ورتیوں نے تو اپنی نجات کے واسطے باری تعالیٰ کوسو را ور کچھ اور کچھ تک اوتار لینے والا مان لیا.ایسے لوگوں کے واسطے ضرور تھا کہ ایک زبر دست ملہم والہام آوے جو ان لوگوں کو ان عظیم الشان غلطیوں سے بچاوے یا آگاہ تو کر دے اور وہ ہمارا ہادی اور ہمارا قرآن تھا.جس نے ان بطلانوں کا ابطال فرمایا غرض ایسی ضرورت کی نسبت فرمایا.إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَقُصُّ عَلَى بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ اَكْثَرَ الَّذِى هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (النمل: ۷۷) وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي اخْتَلَفُوْا فِيْهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (النحل: ۶۵) إِنَّهُ لَقَولُ فَصْلٌ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ (الطارق : ۱۵،۱۴) آریوں سے جس قدر اختلاف ہوا ہم نے قرآن کریم کے ذریعہ اس کا فیصل قول لکھ دیا ہے.باقی یہود تو ایسے ذلیل ہورہے ہیں کہ سر دست ان کے واسطے قلم اٹھانے کی ضرورت نہیں اور عیسائیوں کے واسطے بقدر ضرورت اہل اسلام نے ہر زمانہ میں اتمام حجت کر دیا ہے.جن میں خاکسار نے بھی چار مجلد کی کتاب جس کے دو مجلد شائع ہو چکے ہیں.اور باقی بھی انشاء اللہ شائع ہونے والے ہیں لکھ دی اور رسالہ ابطال الوہیت مسیح غالبا ان دنوں شائع ہو جائے گا.اس لئے یہاں ہر ایک مسئلہ پر بحث نہیں کرتے.لے بے ریب یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر وہی باتیں ظاہر کرتا ہے جس میں وہ اختلاف مچارہے ہیں.ے ہم نے قرآن تو صرف اس لئے تجھ پر اتارا ہے کہ جن باتوں میں انہوں نے اختلاف کر رکھا ہے اسے تو ظاہر کر دے اور یہ قرآن ہدایت و رحمت ہے ایمان داروں کے لئے.سے بے ریب یہ قرآن ایک فیصلہ کی بات ہے.اور یہ قرآن کو ئی ہنس اور تمسخر نہیں.

Page 252

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۱ چوتھی ضرورت اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے دنیا میں آئے اور انہوں نے الہی الہام سے لوگوں کو بت پرستی سے روکا مگر آخر کا رلوگوں کی سابقہ بت پرستی ہادیوں کی حجت کے ساتھ ایسی ملی کہ ہادی ہی معبود بنائے گئے.دیکھو حالات حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام اور رامچند رجی اور سری کرشن جی کے مگر ہادی اسلام نے اس دعوت توحید کو اس طرح پورا کیا کہ اپنی عبودیت کو الہی تو حید کا لازمی جزو قرار دیا اور کھول کھول سنایا.قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ (حم السجدة: ٧) پانچویں ضرورت حضرات انبیاء اور رسولوں ( صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِمُ وَ سَلَامُهُ ) کی وساطت اور ان کے جان نثار پیرؤں کی کوشش سے صداقتیں اور راستبازیاں دنیا میں پھیلتی رہیں.اور لوگوں کی استعداد اور ترقی کے موافق مختلف ملکوں میں مختلف وقتوں پر اللہ تعالیٰ نے صداقتوں کے لانے والے راستبازیوں کے پھیلانے والے پیدا کئے.مگر ہر ایک ہادی نے جہاں وہ روحانی قوانین اور ضروری جسمانی قاعدے الہی الہام سے سکھائے جو انسانی نوع کے لئے مشترک النفع تھے وہاں ہر ایک نبی نے اپنی اپنی قوم کو کچھ قواعد وضوابط مختص الزمان اور مختص المقام بھی تعلیم کئے.علاوہ بریں ترقی یافتہ قوم جس کو کبھی الہی الہام نصیب ہوا.آخر وہ الہی نافرمانیوں کے لے کہہ دے ( میں تمام دنیوی معاملات میں) تم سا ایک آدمی ہوں ( تم میں مجھ میں فرق یہ ہے ) میری طرف وحی ہوتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی ہے.اس کے احکام کی بجا آوری میں پکے ہو جاؤ.اور ہر قسم کی لغزش کی معافی اسی سے مانگو.مشرکین کے لئے ہلاکت ہے.

Page 253

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۲ باعث ادبار میں آگئی ان سے الہام کی حفاظت ہی نہ ہوسکی یا وہ لٹر پچر اور زبان ہی مرگئی جس میں وہ الہام ہوا تھا.یہاں تک وہ قوم ادبار میں پھنسی کہ اس میں اپنے ہادی کے جانشین ملہم اور مقدس لوگ جو اس الہامی زبان کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور ان تعلیمات کو مختلف تدابیر سے پھیلایا کریں ان کا آنا بھی موقوف ہو گیا جیسے آریہ اور عیسائیوں میں اور ان کے بعد یہودیوں پارسیوں وغیرہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے.اور اس قدیم الہام کی تفاسیر بھی ایسی مختلط ہو گئیں کہ حق کا باطل سے جدا کرنا محال ہوا.اور قومی التاثیر مخلص ملہم جس کو اللہ کی طرف سے تائید ہو.اس قوم میں پیدا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ اور قوم کو جو صداقتیں پھیلا دے الہام فرماتا ہے اور اسے قوت بخشتا ہے.تمام قرآنی صداقتیں اگر دنیا کی مختلف کتابوں اولڈ ٹسٹمنٹ ، نیوٹیسٹمنٹ ،سقراط کے ملفوظات، چاروید ، ژند ، وستا، دساتیر وغیرہ سے عبری، یونانی، ویدک ، سنسکرت ، دری ، کالڈی ، چین وغیرہ السنہ سے لینی پڑتیں اور ان میں ان کے مفسرین کے غلط مختصہ خیالات کو الگ کرنا پڑتا تو کیا مشکل بلکہ محال کام ہوتا.پھر اگر کوئی ایسا جان باز ہوتا بھی اور وہ شب و روز کی محنتوں سے کسی حد تک پہنچ بھی جاتا تو اس کو دوسروں کے تسلیم کرانے میں کتنی وقتیں ہوتیں تامل کرو! جو کچھ کھیتوں میں سے ہم لاتے ہیں.جولطیف دودھ خون و گوبر کے درمیان سے چارپایوں کی وساطت سے ہمیں ملتا ہے.جولطیف لطیف و راحت بخش میوے ہم باغوں سے لاتے ہیں اور وہ نہایت صحت بخش چیز جو شہد کی مکھی کی وساطت سے ہمیں ملتی ہے.اگر ہم اپنے کمسٹری آلات کے ذریعہ لینا چاہتے تو کتنی مشقت پھر غلطی و نانہی میں مبتلا ہوتے اللہ تعالیٰ نے تمام تعلیمات کو قرآن میں یکجا جمع کر دیا ہے.اب ہمیں مختلف السنہ اور اقسام اقسام کی کتب کے جابجا ایک آسان کتاب پڑھ لینا کافی ہے وَالْحَمْدُ لِلَّهِ.اب ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ کوئی روحانی صداقت قرآن سے باہر نہیں اسی ضرورت کی طرف قرآن شریف اشارہ فرماتا ہے جہاں فرماتا ہے.

Page 254

۲۵۳ تصدیق براہین احمدیہ تَاللهِ لَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَنُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم وَمَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ إِلَّا لِتُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِى اخْتَلَفُوا فِيهِ وَهُدًى وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ وَاللهُ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ بَعْدَ مَوْتِهَا إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَسْمَعُونَ وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةٌ تُسْقِيكُمْ مِمَّا فِي بُطُونِهِ مِنْ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ تَبَنَّا خَالِصًا سَا بِنَا لِلشَّرِ بِيْنَ وَمِنْ ثَمَرُتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا إِنَّ فِي ذَلِكَ لَا يَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا يَعْرِشُوْنَ ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِكِ ذُلُلا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ تَخَتَلِفَ أَلْوَانُهُ فِيْهِ شِفَاءً لِلنَّاسِ اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (النحل : ۶۴ تا ۷۰) ے اللہ کی قسم تجھ سے پہلے بھی ہم نے رسول بھیجے پر مردود شیطان نے لوگوں کو ان کی بدعملیاں خوبصورت کر دکھا ئیں.وہی آج ان کا دوست اور والی ہوا.اور ایسوں کو دکھ کی مار ہے.اور قرآن تو تجھ پر انہی فوائد کے لئے نازل کیا ہے کہ جن اہم دینی معاملات میں لوگوں نے اختلاف مچارکھا ہے.تو کھول کر سنا دے کہ ان اختلاف میں حق کیا ہے.علاوہ بریں تمام صداقتوں کو یکجا جمع کر کے بتانے والا اور یقین کرنے والوں اور اس کے مطابق عمل رکھنے والوں کے واسطے بڑے فضل و رحمت کا ذریعہ ہے.اللہ ہی بادل سے پانی اتارتا ہے جس سے اس نے ویران زمین کو آباد کیا اس قدرتی نظارہ میں نبوت کے نشان ہیں.مگر اس قوم کے لئے جو سنے.سننے والو! جو کچھ آباد کھیتیوں سے لاتے ہو وہ سب کچھ تو پہلے بھی موجود ہوتا ہے.مگر جب تک پانی نہیں برستا.تب تک تم اور تمہارے کھیتوں کے طبعی قوامی یہ ضروری سامان عمدگی سے کیا بلکہ مہیا ہی نہیں کر سکتے ایسی ہی صداقتیں بھی بُری تعلیمات اور دھوکوں سے ملی جلی موجود تھیں.تم تمیز نہ کر سکتے اگر یہ الہی الہام اللہ کی طرف سے نہ ہوتا اور بے ریب تمہارے دودھ دینے والے چارپایوں میں بھی ایک ایسا ہی جسمانی نظارہ روحانی نصیحت لینے کو موجود ہے کہ ہم ہی تم کو چارپایوں میں لہو.اور گو بر میں ملاخوشگوار دودھ الگ کر کے پلاتے ہیں.غور کرو دودھ کے ذرات اور عام ذرات سے ملی تھی.کس طرح انہی سامان نے الگ کئے اور انگور و کھجور کے پھلوں سے سرکہ اور کھانے کے لئے میوہ اور پینے کو ان میں سے عمدہ عمدہ نبیذ اور رس لیتے ہو اس قدرتی نظارہ میں بھی عقل والوں کے واسطے نشان ہے.کہ یہ ذرات جن سے شہر بنتا ہے.موجود تو تھا ہی مگر الہی عطا کردہ قومی نے کس طرح ان کو یکجا کر دیا.ایسے ہی صداقتیں بھی مختلف جگہوں میں موجود گر مخلوط تھیں اس الہام کے ذریعہ جو نبی عرب کو ہوا یکجا جمع ہو گئیں.شہد کی مکھی کو تیرے رب ہی نے وحی بھیجی کہ پہاڑوں اور درختوں اور بعض بیلوں میں گھر بنا.اور اپنے مذاق کے تمام پھلوں سے کھا.فرمانبردار ہو کر اپنے رب کے بتائے ہوئے راہوں پر چل اس مکھی کے اندر سے مختلف رنگت کی شربت نکلتی ہے.جس میں کئی لوگوں کے لئے شفا ہے بے ریب اس میں فکر والوں کے واسطے نشان ہے.یہ جواب ہیں ان لوگوں کے واسطے جو کہتے ہیں قرآن کریم کتب سابقہ کا اقتباس ہے.

Page 255

تصدیق براہین احمد ۲۵۴ اور فرمایا وَ انْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ مُصَيْقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَبِ وَمُهَيْمِنَّا عَلَيْهِ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ (المائدة : ٤٩) اور فرمایا تے لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ اَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكَيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيْنَةُ رَسُولٌ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صَحْفًا مُطَهَّرَةً فِيْهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ (البينة: ۲تا۴) چھٹی ضرورت جس میں سوال کے اس حصہ کا جواب بھی ہے کہ قرآن میں کیا ایسی صداقتیں بھی ہیں جو مادر کتب میں موجود تھیں.صداقتیں راستبازیاں قرآن کریم سے پہلے بھی دنیا کی مختلف اقوام کے پاس موجود تھیں.گو محرف ومخلوط ہی کیوں نہ ہوں مگر پھر بھی وہ صداقتیں صرف دعوے ہی تھے.جن کی عوام کو حاجت تھی علی العموم سابقہ کتب میں ان دعووں کے دلائل موجود نہ تھے اگر کچھ ان دعووں کے دلائل تھے بھی تو پہلی کتابوں میں آنے والے باطلہ مذاہب کی تردید میں مدلل گفتگو کا سامان بخلاف قرآن کے موجود نہ تھا.بلکہ یوں ہی کہئے کہ قرآن ایسی صداقتوں کی جامع کتاب نازل ہوا ہے جس کی جمعیت کے سامنے کسی نئی اور پرانی پستک کو مقابلہ کی تاب نہیں.میں نے کئی دفعہ تمدن کے ایک ضروری مسئلہ نکاح پر عیسائیوں ،سکھوں، ہندوؤں سے سوال کیا کہ کسی رشتہ میں نکاح کی ممانعت ہے.اس ممانعت پر کوئی خاص قول جناب سیدنا مسیح کا یا اس کے رسول بنانے والا کا اپنی کامل کتاب انجیل سے پیش کرو.گورونانک جی کے گرنتھ صاحب سے بتاؤ دید کی خالص شرتی سے یا شرقی کے خاص ملہموں کے اقوال سے دکھاؤ کسی نے آج تک تو کوئی نشان بھی نہیں دکھایا.جب ایسے ضروری مسائل پر بھی بحث نہیں تو ہماری گل روحانی ضرورتوں کو کیونکر یہ کتابیں پورا کر سکتی ہیں.اور اگر ایسے مسائل میں جن کا ذکر اوپر گزرا ہر ہموں یا نیچرل ایسٹ لوگوں کے قواعد سے کام لے اور ہم نے ہی صداقت والی کتاب تیری طرف نازل کر دی جس نے سچ کر دکھایا اس کتاب کو جو اس کتاب کے سامنے ہے اور تمام مواعظ پر شامل ہے.پس ان میں اس اللہ کی اتاری کتاب پر حکم کر.سے اہل کتاب اور مشرکوں کا کا فر گروہ اپنی شرارت و کفر سے کبھی نہ ٹلتے اگر اللہ کا ایسا رسول جو ایک کھلی دلیل ہے نہ آتا.اور یہ پاک صحیفہ جس میں تمام مضبوط کتابیں موجود ہیں نہ پڑھ سنا تا.

Page 256

تصدیق براہین احمدیہ لینا ہے تو اپنی کتاب کے کامل ہونے کا دعویٰ مت کرو.غرض اگر صداقتوں کا یکجا جمع ہونا اور ان کا مدلل ہونا عقلا کے نزدیک کوئی ضروری امر ہے.اور ہے تو قرآن کریم کا نازل ہونا بھی ضروری ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ موجود ہے ایک ضروری مسئلہ ہے جس پر قرآن نے یہ دلیل دی ہے.إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ نَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (ال عمران: ١٩١) اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں.ایک دوسرا مسئلہ ہے.اس پر قرآن فرماتا ہے.لَوْ كَانَ فِيْهِمَا أَلِهَةً إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا (الانبياء: ٢٣) قرآن کے کلام الہی ہونے کی دلیل فرماتا ہے.إِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوْا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ (البقرة:۲۴) اور فرماتا ہے.قُل نَّبِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسَ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوْا بِيشِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (بنی اسرائیل:۸۹) اور فرمایا ہے وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا (النساء:۸۳) یاد رہے اختلاف دو قسم کا ہوا کرتا ہے اول یہ کہ ایک آیت دوسری آیت کے خلاف ہو.دوم یہ کہ کوئی قرآنی مضمون نیچرل فلسفی یا کسی بچے علوم کے خلاف ہو.قرآن میں ہر دو قسم میں سے کسی قسم کا اختلاف نہیں اس تیرہ سو برس میں نیچرل فلسفی کی کتنی سر توڑ ترقی ہوئی.مگر کچھ بھی قرآنی بیان کی غلطی ثابت نہ ہوسکی.ہاں عامہ قر آنی دلائل کوتو عامه علماء اسلام اور متکلمین ملتِ خیر الانام علیہ وآلہ الصلوۃ والسلام بیان کرتے رہے اور کرتے ہیں اور کریں گے مگر قرآنی آیات بینات تو لے اگر زمین و آسمان کے درمیان ایک اللہ کے سوا کئی اور معبود بھی پوجے جاویں تو یہ دونوں خراب ہو جاویں.کیونکہ جہالت، وہم پرستی ، نفاق و شرارت ، بت پرستی کالازمی نتیجہ ہے.اور ان باتوں سے اس آبادی میں ویرانی کا آجانا ضروری ہے.ے اگر اس کتاب میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر اتاری تم کو کچھ تردد ہے.اور تمہارے خیال میں ہے کہ اس شخص نے خود ہی بنالی ہے.تو مصنوعی مصنوعی ہو سکتی ہے.اس کی مثل ایک سورہ بنالا ؤ.سے تو کہہ دے کہ اگر تمام جن اور آدمی اس امر پر تل جاویں کہ قرآن کی سی کتاب بنالیں.تو ہرگز اس کی مثل نہ بنا سکیں گے.اگر چہ ایک دوسرے کی پیٹھ بھریں.اور باہم مددگاری کریں.کیونکہ قدرتی مصنوعی نہیں ہوسکتی.اگر قرآن اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور شخص کا بنایا ہوتا تو اس میں تھوڑا کیا بہت ہی اختلاف ہوتا.

Page 257

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۶ ایسے بھی ہیں کہ ان کی پر زور تاثیرات سے ہمیشہ خلقی طور پر اس قسم کے نمونے اسلام میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی پاک تاثیرات سے دنیا میں الہی کچی تو حید اور اپنی کتاب کے فاضلہ اخلاق کو پھیلایا کرتے ہیں اور غیر قوموں پر مختلف پیرائیوں سے اس الہی حجت اور فضل کو پورا کیا کرتے ہیں جن کے لئے ملہموں اور کتابوں کا آنا الہی کتاب ماننے والے مذاہب میں ضروری ہے.ہمیشہ ہر صدی میں اس تحریف اور ایز اداور نقص کو دور کرتے ہیں جو انسانی آزادی کے باعث بچے مذہب میں آجاتی ہے.اور ہمیشہ قوم کو جگاتے اور اصل کتاب کو پھیلاتے ہیں.حال ہی کے اہل اسلام کو دیکھ لو کیسے کمزور ہیں ضعیف ہیں مگر اپنی کتاب کا درس اس کی اصلی زبان میں کس قدر دے رہے ہیں.عیسائی ، آریہ، پارسی ذرہ آنکھ اٹھا کر دیکھیں اور منہ پر سے پردہ اٹھاویں.لَا يَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِى ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ (السنن الكبرى للبيهقى.کتاب الجزية باب لا خير في ان يعطيهم المسلمون شيئاً على ان يكفوا عنهم) اور إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا (ابو داؤد كتاب الملاحم باب ما يذكر في قدر قرن المائة) كا مصداق بن کر اسلام کی طرح اپنی صداقت کو کون ظاہر کرتا ہے عملی حالت پر نگاہ کرو ادھر کوئی اسلام میں شریک ہوا مسلمانوں کا بھائی بن گیا.جماعت اسلام میں شریک، کھانے میں، مصافحہ کا ہاتھ ملانے میں آزاد.قرآن پڑھنے میں قوم کا مساوی مستحق ، مسجد میں غرض ہر امر میں جماعت اسلام کے بادشاہ اسلام کا بھی اسلام میں ہم پلہ، یورپین چرچ میں نیٹو عیسائیوں کے لئے عملی ممانعت کہانی میں ان کی تحقیر کو ہم ذکر کے آریہ کے حالات سے چشم پوشی ہی کرنا مناسب سمجھتے ہیں.کیونکہ آج تک انہوں نے نہ کسی غیر قوم کو وید پڑھایا اور نہ وید کو پڑھا کر اپنے ساتھ بے تکلف آریہ کے حقوق میں کسی کو مساوی حقدار کیا ایسی ہی عملی اور علمی ضرورتوں کے پورا کرنے کے واسطے قرآن نازل ے ایک طائفہ میری امت کا اپنی راستبازی کے باعث ہمیشہ غالب رہے گا.ے اور ہر صدی کے سرے پر اللہ تعالیٰ اس امت میں ایسے لوگ پیدا کر دیتا ہے جو اصل دین سے ایزادیوں اور تحریفوں کو دور کرتے رہتے ہیں اور جاہلوں کی غلط تاویلات کو باطل کر کے ہمیشہ دین کو تر و تازہ اور نو بنور کھتے ہیں اس میں پژمردگی نہیں آنے دیتے.

Page 258

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۷ ہوا.جیسے فرماتا ہے.قَدْ جَاءَكُمْ بُرْهَانٌ مِن رَّبِّكُمْ وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا (النساء:۱۷۵) اور فرماتا ہے.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا (ال عمران: ۱۰۴) ساتویں ضرورت قرآن والی صداقتیں مختلف بلاد، مختلف کتابوں میں اگر مان لیں پہلے بھی موجود تھیں.مگر اول تو ان کتابوں کا غیر محرف ہم تک بہم پہنچنا اور پھر ان صداقتوں پر نہایت پرانی بولیوں کے ذریعہ واقف ہونا اور ان کی تفاسیر میں سے غلط کو صحیح سے الگ کرنا کیسا مشکل اور محال ہوتا.پھر آخران صداقتوں کے مجموعہ کو بھی کسی نہ کسی پیرایہ میں بیان کرنا ہی پڑتا.علاوہ بریں جو ایک پیرا یہ میں نہ مانے اسے دوسرے پیرا یہ میں بتانا بلحاظ رحم اگر ضروری ہے تو اسی ضرورت پر قرآن لتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتُهُمْ مِنْ نَّذِيرٍ (السجدة:٤) نے فرمایا ہے.اور فرماتا ہے قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِتُنْذِرَ أُمَّ الْقُرَى وَمَنْ حَوْلَهَا (الشورى: ۸) آٹھویں ضرورت جب اللہ تعالیٰ زمین و آسمان اور ان کے درمیان غرض جو انسانی ضرورت کی اشیاء تھی پیدا کر چکا تو اس نے انسان کو جس کا وجود و بقا ان اشیا پر موقوف تھا پیدا کیا اور اس میں علاوہ ان قومی لے بے ریب تمہارے پاس اپنے رب کی طرف سے ایک برہان آ گئی اور ہم نے ہی تمہاری طرف ایک ایسا نور نازل فرمایا جس میں ذرہ کدورت نہیں اور ہر طرح خالص ہے.پھر تم اللہ کے فضل و انعام سے بھائی بھائی ہو گئے.ے جن لوگوں کے پاس کوئی بھی ایسا اہم نہیں پہنچا جو لوگوں کو ان کی نافرمانیوں سے ڈراوے.تو ان کو بھی ڈرا دے.ے یہ قرآن عربی زبان میں ہے اس لئے کہ تو ان نافرمانوں کو ڈرا دے جو اس شہر میں رہتے ہیں.جو دنیا کے تمام شہروں کی مربی ماں ہے.اور تو حید الہی کی تعلیم سب کا اصل ہے اور ان تک بھی نا فرمانی کا ڈر پہنچا دے جو اس شہر کے گر درہتے ہیں.

Page 259

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۸ کے جو جمادات، نباتات، حیوانات میں موجود ہیں نیک و بد علوم واخلاق کا مادہ بھی رکھ دیا.علمی حصہ میں انسان ان سوشل ، مارل، پولیٹکل قواعد وضوابط کا محتاج تھا.جن کے باعث اکل ، شرب ، لباس ، آسائش، آرام، جماع اور تمدن و امن میں ابتداء انجام ، نشیب وفراز پھر شائستگی آخر، افاده و استفادہ ہی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہی علوم لینے کا حقدار ہو جاتا ہے اور عملی حصہ میں انسان اراده استطاعت کو لے کر کبھی باری تعالیٰ سے انس و محبت پیدا کر کے استقلال، استقامت، فراخ حوصلگی، نفع رسانی، عاقبت اندیشی سے ایسا پاکیزہ باطن بنتا ہے کہ ظاہری نجاست کے ساتھ بھی بارگاہ الہی میں مناجات نہیں کرتا.مگر کبھی انسان شتر بے مہار ہر ایک ضرورت میں ناعاقبت اندیش،رہبان، فرعون، مضطرب ، تنگ دل ، بخیل، ایسا گندہ کہ پاکیزگی کا نام بھی نہ جانے ، ہو جاتا ہے.فطرت کے موافق سچی آرام دہ اشیا کا نام نیکی اور مخالف اشیاء کا نام بدی ہے.مگر رسم رواج آب و ہوا، ناقص تعلیم ، افلاس، دولتمندی.حکومت کی بُری تاثیر انسان کو ایسے پھندے میں پھنساتی ہے کہ مخالف اشیا کو موافق اور موافق کو مخالف سمجھ کر عقل و تمیز کوکھو بیٹھتا ہے.فطری ممیزہ قوت اور نور ایمان اور کانشنس جسے نفس تو امہ کہیئے وہ ایک بیج کی طرح ایسے کمزور ہو جاتی ہے کہ اس میں ایجاد کیا تمیز ہی نہیں رہتی.سنو! میرے ایک پیارے نوجوان نے (اللہ تعالیٰ اسے علم و عمل میں ترقی دے ) اگنی ہوتری کو اس کا یہ لفظ سن کر کہ ” ہے پر بھو میں تیری راحت بخش بارگاہ کے پاس لوگوں کو لایا چاہتا ہوں مگر وہ نہیں آتے.سچی دعا کے بعد کہا.کیا آپ یقینی طور پر ہمیں اس بارگاہ تک پہنچا دو گے جس کا دعویٰ کرتے ہو؟ تب اگنی ہوتری نے کہا.یقیناً میں نہیں کہہ سکتا کہ تم میری تعلیمات کے ذریعہ ضرور وہاں تک پہنچ جاؤ گے کیوں کہ ممکن ہے کبھی میرے اقوال کی غلطی ثابت ہو جاوے.تب میرے پیارے نوجوان عزیز نے (اَعْطَاهُ اللهُ عِلْمًا وَ عَمَلًا آمین ) کہا ہم نجات کے طالب ہمارا کانشنس ضعیف ہے.غلطی سے محفوظ نہیں.ایک طرف محمد صاحب ہمیں بلاتا ہے.ادھر آؤ.میں یقینا تمہیں نجات تک پہنچا دوں گا“.دوسری طرف آپ کہتے ہیں ادھر آؤ شاید

Page 260

تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۹ میں ہی پہنچادوں.بتاؤ کس کے پیچھے چلیں.اس پر اگنی ہوتری ساکت ہوئے.فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ (البقرة: ۲۵۹) غرض جب ان اسباب سے جن کا ذکر اوپر ہوا.تمیز ٹھیک نہیں رہتی تو انسان کو یقینی آرام دہ مقئن و ممیز کے ملنے کا سوال پیدا ہوتا ہے.تب ہمہ قدرت ہمہ فضل، ہمہ طاقت اللہ تعالیٰ جس کے گھر میں بخل نہیں اس کی طرف سے الہام ہوتا ہے.پھر جو کچھ ایک ملک میں الہام سے سکھایا ممکن ہے کہ دوسرے ملک میں اس الہامی تعلیم کا اثر نہ پھیلے.اس لئے دوسری قوموں میں اللہ تعالیٰ مہم بھیجتا ہے.جیسے فرماتا ہے اور فرمایا وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل:۱۲) دنیا میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کو ملہم رسول بھیجے اور ان کو صداقتیں بتا ئیں.اور ان ملہموں کو ان صداقتوں کے پھیلانے کی لولگا دی.مگر ان تعلیمات کے پھیلانے میں انبیاء ورسل کو کوئی حد بندی نہیں کر دی گئی کہ فلاں مدت تک فلاں ملک تک اس ہدایت کو پھیلاؤ پھیلانے کا ثواب ملے گا.انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی مقدس روح بھی سنتر آزاد بنائی گئی تھی.وہ مجبور نہیں تھی.جب ایک مہم کے ہدایات و تعلیمات کے پھیلاؤ میں ظاہری یا باطنی یا دونوں صورت میں کچھ ذرہ کمزوری ہوئی.اور اس کا پورا اثر اس کی تلامیذ یا قوم یا ملک تک بھی ایسا نہ ہو جس کے بعد قوم کا عذر نہ رہے.تو اور پاک شخص اس عہدہ پر ممتاز کیا گیا.غور کر و حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کی تاثیر کیسی کمزور ثابت ہوئی جناب کے حواریوں لے تب منکر اسلام لگا بغلیں جھانکنے اوراللہ ظالم بد کار کومنزل مقصود تک نہیں پہنچاتا.سے نافرمانوں کو نا فرمانی پر ڈرانے والے ہر قوم میں گزر چکے.سے جب تک ہم اپنی طرف سے رسول نہ بھیج دیں جب تک کسی قوم کو عذاب نہیں دیتے.

Page 261

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۰ سے فسٹ نمبر کے حواری عیسائی کلیسیا کے فون ڈیشن سٹون سیدنا مسیح علیہ السلام کو ملعون کہہ بیٹھے.اور جو کچھ یہودا اسکر یوطی نے سلوک کیا وہ دنیا سے مخفی نہیں اور جو کچھ روحانیت آپ کی پاک تعلیم سے آپ کی قوم کو حاصل ہے معلوم.سوچو! حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کا وہ قول کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے نکلنا اس سے آسان ہے کہ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل ہو ( متی ۱۹ باب ۲۴) اور یورپ و امریکہ کی دنیا داری.سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے مخاطب ایسے تھے کہ جب ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر کے آہنی تنور ( یرمیاہ.اباب۴ ) سے نکال لائے اور حکم کیا کہ کنعان کو چلو تو انکار کر بیٹھے قرآن کریم اس قصہ کو عبرت کے لئے نقل فرماتا ہے.و إذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمُ مُلوكًا وَأَنكُمْ قَالَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِنَ الْعَلَمِينَ يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِينَ قَالُوا يَمُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِيْنَ وَإِنَّا لَنْ تَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا ۚ فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَخِلُونَ قَالَ رَجُيْنِ مِنَ الَّذِيْنَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ ۚ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غُلِبُونَ وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ قَالُوْا مُوسَى إِنَّا لَنْ تَدْخُلَهَا اَبَدًا مَّا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قُعِدُونَ (المائدة: ۲۱ تا ۲۵) آخر بدوں یوشع بن نون اور کالب بن یفنہ کے کوئی بھی فرمانبردار نہ نکلا دیکھو گنتی ۱۴ باب ۳۰ ے جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا.اے میری قوم اللہ تعالیٰ کے انعام کو یاد کرو جو تم پر کیا کہ تمہاری قوم میں انبیا بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو اپنے اپنے فضل سے وہ کچھ دیا کہ کسی کو نہ دیا اے میری قوم کنعان کی پاک زمین ( ہوئی لینڈ ) جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ابراہیمی بشارتوں میں لکھ دیا ہے.اس میں داخل ہو جاؤ.اور کبھی پیچھے نہ پھر یو.اگر پیچھے ہٹے اور میری نافرمانی کی تو ٹوٹا پاتے پیچھے پھرو گے.تب انہوں نے (موسیٰ کی قوم نے ) جواب میں کہا موسیٰ اس زمین کے لوگ بڑے طاقتور ہیں اور جب تک وہ نہ نکلیں ہم تو کبھی اس ملک میں نہ جاویں.ہاں اگر وہ لوگ نکل کر کہیں چلے جاویں تو خیر ہم اسی ملک میں چلے جائیں گے.کہا ان دو آدمیوں نے جو اللہ کی نافرمانی سے ڈرنے والے تھے اور ان پر ہمت و حوصلہ کا انعام تھا.ہمت مت ہارو.چوری بھی نہیں بلکہ دروازوں کے راستہ چلے جاؤ جب حسب الحکم الہی داخل ہو گئے تو جیسے الہی وعدہ ہے فتحمید رہو گے.اگر ایمان رکھتے ہو اللہ پر بھروسا کرو.پھر بھی یہی جواب دیا اے موسیٰ جب تک وہ لوگ وہاں موجود ہیں ہم اس ملک میں کبھی نہیں جائیں گے.ہاں تو اور تیرا رب تم دونوں لڑو ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے.

Page 262

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۱ سبحان اللہ کسی نے بھی سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے حکم ماننے میں دلیری نہ دکھائی.وید والے سورج ، وایو، اگنی، انگرہ کس گنتی ، کتنے ہیں ان کی نسبت کوئی شہادت نہیں دے سکتا کون تھے.کہاں کے رہنے والے، کیسے چال چلن کے تھے اور یہ کہ انہوں نے اگر ملہم تھے اور وید کچے الہامات ہیں تو کس قدر ویدوں کا اثر دنیا میں پھیلایا ہے ان کے جانشین اور جانشینوں کے تعلیم یافتہ سو بموجب دعوی آریہ کے قریباً دوارب برس گزرتے ہیں کہ ویدوں نے دنیا میں ظہور پایا اور اس عرصہ میں وید کے اتباع میں کسی نے ان کا صحیح ترجمہ بھی نہ کر دکھایا.دوسروں سے کیا اپنے لوگوں سے بھی اختفا کرتے ہیں.رہی یہ بات کہ ویدوں پر عمل درآمد ر ہا سو آریہ کا چال چلن ہی بتاتا ہے کہ کس قدروید پر عمل کرتے ہیں.غرض جب کسی نبی کی پاک تعلیم نے دنیا پر اپنا قوی اثر نہ دکھایا.اور نہ اس نبی کے جانشین نے ان پاک تعلیمات کو جگت پر ظاہر کیا.تو اللہ تعالیٰ کے رحم وفضل نے اور کو یہ عہد ہ عطا کر دیا.یہاں تک کہ ایک ایسا آدمی دنیا پر ظاہر ہوا جس نے ان تعلیمات کو پھیلایا.اور اشاعت میں جو کسر باقی رہی اس کی تلافی اس کے وہ جانشین کرنے لگے جن کی کرامات و پاک تاثیرات کے اثبات میں عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانُبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ (مرقاة شرح مشكاة كتاب المناسك باب حرم المدينة) کی پیشین گوئی ہوچکی تھی.اور چونکہ اَلدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ (ترمذی کتاب العلم باب ما جاء الدال على الخير كفاعله) کی رو سے جانشینوں کی پاک کوششوں کا ثواب ان ہادیوں کے نامہ اعمال میں بھی انصافا درج ہوتا ہے.اس واسطے یہ سب آپ کی کوششیں ہیں.صلی اللہ علیہ وسلم.روحانی ہدایت و ترقی دفعی اور مخلوق کے فرد فرد کے لئے کسی مذہب میں ضروری نہیں امید ہے کہ جس طرح عرب وشام و مصر و روم اور ہند وسندھ تا تار پر بلا واسطہ یا بالواسطہ حجت قائم ہوگئی اسی طرح تمام دنیا پر حجت قائم ہو جائے گی.جب سب دنیا کو مجموعہ صداقتوں کا پہنچ گیا اور ان پر حجت قائم ہو گئی تو یہ حصہ احکام سنانے کا پورا ہو گیا.اب ان کی جزا و سزا کا وقت آ جاوے گا.اسی ضرورت کی

Page 263

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۲ طرف قرآن شریف اشارہ فرماتا ہے.لَقَدْ مَنَ اللهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ۚ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ (ال عمران: ۱۶۵) ایک عجیب یاد داشت خاکسار تو قرآن کریم کی ضرورت پر مضمون لکھ کر مطبع میں روانہ کر چکا تھا.کیونکہ مجھے زیادہ تر قرآنی صداقتوں کا اظہار اور اسپر اتمام حجت مطلوب رہتا ہے مگر الہی قدرت سے وہ مضمون چند آیات کے ترجمے لکھنے کے واسطے میرے پیارے عبد الکریم نے واپس کر دیا.ابھی وہ اوراق میرے پاس ہی تھے کہ ۲ را پریل ۱۸۹۰ء کو حضرت پیر و مرشد سَلَّمَهُ رَبُّہ کی علالت طبع سن کر قادیان چلا گیا.وہاں کسی تقریب پروید کی قدامت کا ذکر آ گیا تو اس وقت مجھ خاکسار کے دل میں ضروری معلوم ہوا کہ دید کی قدامت پر کچھ لکھوں.یورپین لوگوں کی تحقیقات اور بریلی سبہا کے پنڈتوں کے خیالات ویدوں کی نسبت شائع ہو چکے ہیں ان کا تذکرہ شاید موجب تطویل ہو اس لئے ایک مختصر امر کا لکھنا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ مکذب براہین نے تکذیب کے صفحہ نمبر ۸ ونمبر ۸ میں دعویٰ کیا ہے.وہی باتیں یا اس سے عمدہ باتیں قرآن سے پہلے کتابوں میں موجود ہیں.پس اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ ان پہلی کتابوں نے وہ باتیں قرآن سے نہیں چورا ئیں.مگر فریق ثانی کے ذمہ یہ الزام ضرور ہے جس سے اس کی راستی والہا میت سراسر کا فور ہے سو اس پر ایک ریمارک ہے کہ پارسیوں کو دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کا مذہب ان کی کتاب، آریہ ورتی کتابوں سے ہاں آریہ ورتی مقدس کتابوں بلکہ ویدوں سے بہت پرانے ہیں.کیونکہ آریہ نے دیانندی تحقیق پر ایک ار ے بے شک احسان کیا اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر جبکہ اس نے بھی انہیں سے ایک رسول بھیجا جو پڑھتا ہے ان پر میری آیات اور عملی طور پر انہیں پاک وصاف کرتا ہے.اور ان کو سکھاتا ہے کتاب اور نہایت پاکیزہ وعمدہ باتیں اگر چہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے.

Page 264

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۳ چھیا نویں کروڑ کا زمانہ اس موجودہ سلسلہ کے واسطے اپنے عندیہ میں ثابت کیا ہے اور پارسیوں کے دسا تیر میں لکھا ہے.دیکھونا مہشت جی.افرام دسا تیر نمبر ۲.سفرنگ صفحه ۴۳.(۱۶) بنام ایز دروزی ده جاندار و آمرزنده نیکوکار (۱۷) گفتم کرنخستین آبا درا بگزیدم پس از وسیزده پیغمبر آبا د نام پیم فرستادم - (۱۸) باین چهارده پیغمبر جہاں آراستہ و آرام یاب شد.(۱۹) پس از یشان که چهارده آباد باشند با دشاہان جانشین و پیرہ ہائے ( خلفاء) آنان جهان را خوب داشتند - (۲۰) چون صد زاد سال در با دشاہی ایشان را رفت آبا د آراد - بادشاہ جہانداری گذاشته یزدان پرست شد ایک سو زاد کتنا ہوتا ہے اس کی دیکھو تفصیل.بائد دانست که فرسنداج کیشان ہزار بارہ ہزار سال را یک فرد گویند و هزار باره فرد ر ایک ورد و هزار باره ورد را یک مرد دو هزار باره مرد را یک جادوسه ہزار جادر ایک واد و هزار وا در ایک زاد نامند و بدین شماره صد زاد سال در گروه آبادیان خسروی پائید (سفرنگ دسا تیر صفحه ۴۴، ۴۵) یہ حساب لگائے تو یہ عدد ۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ ہوتا ہے.حساب دانو! ذرہ اس پر غور کرو ایک ارب چھیا نویں کروڑ سے کتنا آگے ہے.اب اگر اس کے آگے ست جی افرام کی ابتدا سے آج تک کا حساب لگائے تو اور سوچ لونو بت بکجا رسید کا معاملہ ہے.کیونکہ نامہ شت شائے کلیوجی میں لکھا ہے.(۴) اے شاہ کلیو پور جی الا دچوں آب ( رونق ) و پر مان رواے جہاں بیک اسپارسال کشید مردمان بزه کار ( گناه گار) شدند جی الا دازیشان بیرون رفت - سفرنگ صفحہ نمبر ۶۰ ، اور اسپار ایک ارب سال کو کہتے ہیں یہ زمانہ بالا کے بعد جیان کی سلطنت و مذہب کا وقت ہے.اگر مکذب براہین کا قول درست ہے تو فرسنداج گیشون نے وید سے کچھ نہیں چورایا بلکہ

Page 265

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۴ فریق ثانی کے ذمہ یہ الزام ضرور ہے جس سے اس (وید ) کی راستی الہامیت سراپا کا فور ہے.والا آریہ ثابت کریں کہ آبادیوں نے بھی دید سے تعلیم پائی.اب خاکسار چند وہ دلائل بیان کرتا ہے جن سے یقین پیدا ہوا ہے کہ ہندیوں نے پارسیوں سے سیکھا.اول.قدامت پارسی بحساب بالا آریہ کے پہلے ہیں.دوم بیاس جی کا پارسی فرسنداج کیش زرتشت کے پاس جانا اور اس کا مذہب قبول کرنا.اور یہ امر کچھ مخفی بھی نہیں ہوا بلکہ بڑی ہی مجلس میں واقع ہوا.دیکھونامہ زرتشت آیت نمبر ۶۵ و ۶۶ و آیت نمبر ۱۶۲، سفر نگ صفحه نمبر ۱۲۰ دو نمبر ۱۳۵.سیوم.دونوں ادیان کی ان تعلیمات کا باہم موافق ہونا جن پر سچے دین اسلام سے آریہ کو اختلاف ہے.مثلاً مسئلہ تناسخ.دیکھو دساتیر فرز آبا د وخشوران و خشور آیت نمبر ۶۷ ۶۸.گوشت نہ کھانا اور اس کے ترک کو ضروری یقین کرنا دیکھو آیت نمبر ۱۳۶و۱۳۷.سورج اور چاند اور کواکب اور عناصر کی پرستش دیکھو نا مہ شت شائے کلیو آیت نمبر ۴۶ و ۴۷ و ۴۸ و نامه خشور یا سان آیت نمبر ۴ ۵۵٫۵- بلکہ غور کیجئے تو اکثر حصہ کیا ان کی کل تعلیمات کا خزانہ وہی پارسی ہیں وبس ( ذرا غور کرو) تکذیب.صفحہ نمبر ۸۲ احقاق حق و ابطال باطل سے قاصر رہنا.احقاق حق میں جس قدر قرآن کم زبان ہے اسی قدر ابطال باطل میں وہ قاصر البیان ہے.سات آسمانوں اور سات زمینوں کا ہونا زمین کے اوپر پہاڑوں کو بمنزلہ میخوں کے ٹھوکنا تا کہ زمین جنبش نہ کرے.سورج کا چشمہ گلی میں ڈوبنا چاہ بابل میں ہاروت و ماروت کا قید ہونا چشمہ ہائے دودھ وشہر وشراب کا بہنا، سلیمان کے وقت جانوروں کا بولنا وغیرہ حق کے ظاہر کرنے سے قطعی پر ہیز ہو رہا ہے.ورنہ اہل عالم و ماہران تو اریخ و ہیئت و جغرافیہ ان کی تردید نمبر وار کر رہے ہیں.مصدق.احقاق حق کا قصہ سن چکے ہو.تمام حقوق کا سرتاج اور بڑا حق عقل کانشنس اور الہامی مذاہب میں اللہ تعالیٰ کا ماننا ہے.اس کو غور کرو کس کامل طور پر قرآن نے بیان کیا اور کس

Page 266

تصدیق براہین احمدیہ کامل طور پر ثابت کیا اور کس طرح اللہ تعالیٰ کو عیوب سے مبرا بتایا.سور اور کچھ اور کچھ بننے سے پاک یقین کر لیا.یہودیوں کے ہاتھ سے پیٹنے سے پاک بتایا البطل اباطیل شرک کی جڑھ کائی.رہی یہ بات کہ سات آسمان باطل ہیں وغیرہ وغیرہ سواس کا جواب نمبر وار دیتے ہیں.اول سات آسمانوں اور سات زمینوں کی ہر کسی عالم بلکہ اہل عالم ماہر تواریخ و ہیئت وجغرافیہ نے نمبر وار تردید کی ہے.مرد آدمی ان کا نام ہی لکھ دیا ہوتا.سنیئے آپ کو ہم بتا دیں.آپ نے تو منکر اہل علم کا نام نہیں لیا.ہم ماننے والوں کے نام سناتے ہیں.لوگ پانجل کرت سوتر نمبر ۲۵ دیاس منی کی بہاس اور اد ہیا سوم سورج دہا رنا کی نرنی میں لکھا ہے.بھوکی اوپر بُھورُ سُورُ مَهَرُجَنُ تپ انتر کھ ست.یہ سات آسمانی طبقات ہیں.جو زمین کے اوپر ہیں اور مہیاتل، رسائل، اتل، ستل ، وتل، تلاتل، پاتال.یہ سات طبقات زمین کے نیچے ہیں.اب بتائیے یہ آریہ ورتی اہل علم و ہیئت دان اور جا گرفی کے ماہر تھے یا نہ تھے مگر یہ تو بتاؤ جنبو دیپ کے گردلون سمندر اور شاک دیپ کے گرد، اکھیورس (شہد)، سمندر، کشن دیپ کے گردسورا (شراب) سمندر، کرونج دیپ کے گردسرپی ( گھی ) سمندر.شال مل دیپ کے گرد دوہی سمندر، گیومید دیپ کے گرد کھیر سمندر، پشکر دیپ کے گرد، جل سمندر، ان دیپوں کا بیان اور تشریح کس جا گرفی دان سے پوچھیں.پھر میں کہتا ہوں کہ زمین اور آسمان کا سات سات حصص پر منقسم ہونا کچی تقسیم ہے جو سراسر حق ہے اس کے ماننے میں بطلان ہی کیا ہے کہ قرآن کریم نے اس کا ابطال نہیں کیا.قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں سَبْعَ اَرضِینَ کا تذکرہ موجود ہے.مگر یا در ہے موجودات مرکبہ کی تقسیم کئی طرح ہو سکتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرما دی تو بطلان کیا ہوا.اب ہم ایک ایسی بات کہتے ہیں جس کے سننے سے کسی منصف آریہ کو قرآن کریم کے سبع سموات کہنے میں انکار کی جگہ نہیں.زمین سے لے کر جہاں تک فوق میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.اس مخلوق کو اللہ نے ایک تقسیم میں سات حصوں پر تقسیم کیا ہے.ہر ایک آسمان جس کا بیان

Page 267

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۶ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے ان کا بیان آیات ذیل موجود ہے.اول وہ مقام جس میں ہمارے لئے کھانے کا سامان رکھا ہے.جیسے فرمایا ہے.وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُونَ (الزاريات: ۲۳) دوم.وہ مقام جس کے اندر جانوراڑتے ہیں جیسے فرمایا.اَلَمْ يَرَوْا إِلَى القَلِيرِ مُسَخَّرَاتٍ فِي جَوِ السَّمَاءِ (النحل :۸۰) سوم.وہ مقام جس میں اولے بنتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو ویران کرتے ہیں جیسے فرمایا.فَانْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرة : ٢٠) چہارم.وہ مقام جس میں سے مینہ آتا ہے جیسے فرمایا.وَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَا فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَّكُمْ (البقرة: ۲۳) پنجم.وہ مقام جس میں ستارے اور نیازک گرتے ہیں جیسے فرمایا وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رَجُوْمًا لِلشَّيْطِيْنِ وَاعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ (الملك : ٦ ) ششم.وہ مقام جس میں ستارے ہیں جیسے فرمایا.وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَيَّتُهَا لِلْتُظِرِينَ (الحجر: ۱۷) ہفتم.وہ حصہ جو ان سب سے اوپر ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے بہشتوں کو رکھا ہے کہ ان مشہو دستاروں سے او پر بھی کوئی مقام ہے جیسے فرمایا.لے اور آسمان ہی میں تمہارے لئے رزق یعنی کھانے پینے کا سامان رکھا ہے اور وہ چیز ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا.ے کیا یہ لوگ پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے صفیں باندھے آسمانی فضا میں موجود ہیں.سے پھر ہم نے ہی اتارا بد کاروں پر ان کی بدکاری کے بدلہ آسمان سے عذاب.ہے اور ہم نے آسمانوں یعنی بادلوں سے پانی اتارا اور اس کے درمیانی ہونے سے پھل نکالے.جو تمہارے لئے رزق یعنی کھانے اور پینے کا سامان ہیں.

Page 268

تصدیق براہین احمدیہ وو ۲۶۷ جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْاَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (ال عمران: ۱۳۴) بقیه اعتراضات تکذیب صفحہ نمبر ۸۲ کا جواب دوم.” پہاڑ زمین پر میخوں کی طرح ٹھو کے گئے“.ضرور پڑھو.مصدق.یہ مشاہدہ ہے اور ہم نے اس پر ایک مضمون لکھ دیا ہے جو عنقریب آتا ہے اسے سوم.سورج کا چشمہ گلی میں ڈوبنا‘.مصدق.قرآن میں نہیں لکھا.چہارم.چاہ بابل میں ہاروت ماروت کا قید ہونا.مصدق.قرآن میں نہیں لکھا.بلکہ چاہ بابل کا کوئی تذکرہ بھی قرآن میں نہیں.ہاروت ماروت کے قید ہونے کا بیان بھی نہیں.پنجم.چشمہ ہائے دودھ و شہد و شراب کا نمونہ.مصدق.ہم دنیا میں بھی دیکھتے ہیں تو آپ نے اس کا ابطال کیسے تجویز کر لیا.دیکھو مادہ گائے بھینس کا شیردان یکھی کا چھتہ.انگور کی چھتریاں.ششم ”سلیمان کے وقت جانوروں کا بولنا.“ مصدق.یہ امر بھی قرآن کریم میں نہیں آیا جانور تو اب بھی بولتے ہیں.اس وقت کی کیا خصوصیت ہے قرآن میں صرف اتنی بات آئی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام منطق الطیر کو جانتے تھے علم منطق الطیر کو عبری میں وَبُرَهَا عَرَفْ کہتے ہیں وبُر کے معنی بات، عرف کے معنی پرندہ اور یونانی زبان میں اس علم کا نام ارنـى شـولـوجـيـا ہے.ارنیس اور ارنی تھوس کہتے ہیں اڑنے والے کو.اور لو جیا کے معنی لغت اور علم کے ہیں.کتاب تاریخ میں جو

Page 269

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۸ غالباً شا ہی روز نامچوں سے یا الہام سے تیار ہوئی ہے.اس کا ۴ باب ۳۳ ملا حظہ ہو.تکذیب صفحہ نمبر ۸۳ - پر نظر (۱).بیت اللہ کی نسبت کہ وہی خانہ خدا ہے“.(۲).چاہ زمزم کی منبع نہر ہائے جنت کے سوتے ہیں.(۳).زمزم دل سے گناہوں کے سیاہ داغ دھوتا ہے.(۴)."حجر الاسود کی تعظیم و چومنے سے گناہ معاف ومنہ پاک ہوتا ہے“.(۵) زیارت مدینے سے دل کی نورانی ہے.(1).شق القمر کی سحر آمیر تعلیم“.(۷).عرش کے برابر خدا کا وجود بیان کرنا“.مصدق.ان امور کا قرآن کریم میں کہیں وجود نہیں.ذرا مکذب صاحب دکھا دیں.باقی بیت اللہ کی طرف سجدہ کرنا.اس کی طرف سے پھر کر سجدہ کرنا نا روا بلکہ گناہ وخطا ہے.حج و طواف احرام کعبہ عمرہ میں دوڑتے.قربانی حور و غلمان شراب کا تذکرہ اسی کتاب میں کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ تکذیب صفحہ نمبر ۸۴ موسیٰ کو آگ کے سامنے کس نے مسجود کرایا ہے.اور ابراہیم کا سورج کو کس نے خالق اور رب ٹھہرایا ہے.آگ چاند سورج اور ستاروں کو هذا ربي كون بتلاتا ہے.اور فرشتوں کو رب النوع کون ٹھہراتا ہے.“ مصدق.سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کبھی آگ کو سجدہ نہیں کیا.آؤ کچھ خدا کا خوف کرو.سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اہل توحید کے سردار اور موحدین کے مقتدا تھے.سنو! اور ہوش کی کہو یہ مال و اسباب فانی اور زوال پذیر ہے.آخر اسے چھوڑنا ہے.سوشل اصلاحوں کی ناجائز تدبیریں

Page 270

تصدیق براہین احمدیہ ۲۶۹ تمہیں پھندے میں ڈالیں گی.اور بجائے اس کے کہ تم مذہب کو صرف خیالی سوشل حالت کی اصلاح کا ذریعہ بنا رہے ہو.اور تمہارے دل میں اپنے کانوں بہتوں سے سن چکا ہوں ، کچھ بھی نہیں.الا ماشاء اللہ.یا در کھوسوشل اصلاح میں یہ منافقانہ کارروائی فائدہ نہ دے گی.غورکر واورسنو ابراہیم علیہ السلام بچے اور پکے موحد خدا پرست تھے.ان کی قوم ستارہ پرست اور سورج پرست تھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے سیارہ پرستی کی برائی پر مناظرہ کیا.اور کہا کیا یہ غائب ہونے والی اشیاء تمہاری رب ہوسکتی ہیں.ہرگز نہیں رب تو وہ ہو جو ہر وقت ان اشیاء کا نگران رہے جن کی پرورش کرتا ہے.اور یہ اشیاء تو غائب ہو جانے والے ہیں.دیکھو اس ابراہیمی بحث کے اخیر چند آیتیں جن میں صاف لکھا ہے یہ سارا مناظرہ صرف تو حید کے لئے تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا.ہاں آگ کو هذَا رَبِّی کہنا اس امر کا تذکرہ بھی قرآن کریم میں نہیں.معلوم نہیں ہوا کہ مکذب نے کہاں سے دھوکا کھایا.اور ابراہیمی مناظرہ یہ ہے.فَلَمَّارَا الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَذَا رَ فِى هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يُقَوْمِ إِنِّي بَرِئَ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ إِنِّي وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا آنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَ حَاجَّهُ قَوْمُهُ - قَالَ أَتُحَاجُونِي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدُين وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبّى شَيْئًا ۖ وَسِعَ رَبِّ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمُ أَشْرَكْتُمُ بِاللَّهِ مَالَمُ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَا فَلَى الْفَرِيقَيْنِ اَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَك لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا أَتَيْنَهَا إِبْرِهِيْمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مَّنْ نَّشَاءُ ۖ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيم عَلِيمٌ (الانعام: ۷۹ تا ۸۴)

Page 271

تصدیق براہین احمدیہ ۲۷۰ فرشتوں کو رب النوع کہنا قرآن کریم کا حکم نہیں اسلامیوں کا اعتقاد نہیں.قرآن کریم تو مخلوقات میں کسی کو رب کہنا جائز نہیں بتلاتا.جیسے فرماتا ہے.وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِن دُونِ الله (ال عمران: (۶۵) تکذیب کے صلہ نمبر ۸۶ میں شخصی بحث ہے جو اس حصہ میں ہم نہیں کرتے.کیونکہ یہ حصہ خالص اسلام کے متعلق ہے تکذیب کے صفحہ نمبر ۸۶ سے نمبر ۹۴ تک کوئی دلچسپ بحث نہیں.اس لئے اس کا ہم ذکر ہی نہیں کرتے.البتہ صفحہ نمبر ۹۲ میں تکذیب کا وہ فٹ نوٹ جس کا خلاصہ یہ ہے که حسب اعتقاد یہودو عیسائی ، اہل اسلام، بنی اسرائیل کے سوا کسی قوم میں کوئی پیغمبر کتاب لے کر نہیں آیا.“ ذکر کے قابل ہے.اس اعتقاد کے اثبات میں ( اگر چہ مسلمانوں کا اعتقاد نہیں) مکذب نے جو اشارہ کیا ہے.وہ یہ تین آیتیں ہیں.اوّل وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (البقرة: ۱۳۷) ووم ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ ( ال عمران: ۱۸۳) وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ سوم وَجَعَلَكُمْ قُلُوكًا (المائدة: ٢١) مگر مکذب ، یا درکھیں کہ ان آیات میں حصر و تخصیص کا کوئی لفظ نہیں آیا.بلکہ قرآن شریف میں آیا ہے.ان مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر:۲۵) وَمَا أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ إِلَّا لَهَا مُنْذِرُونَ (الشعراء: ۲۰۹) تکذیب صفحہ نمبر ۸۵ ”جہاں تک مجھے معلوم ہے.ممبران آریہ سماج ہمیشہ اخلاق و محبت کے ساتھ غیر مذہب والوں سے گفتگو کرتے ہیں“.

Page 272

تصدیق براہین احمدیہ مصدق منشی صاحب اور کس شخص پر الزام لگائیے کس آریہ کی شکایت کیجئیے.آپ ہی کا کلام آپ کی تکذیب میں آپ کے اخلاق کا عمدہ نمونہ ہے جو آپ کے رد کو کافی دلیل ہے کیونکہ آپ ہی مدعی ہیں علمی طور پر کہاں تک آپ اپنے اصل ہفتم کے تابع ہیں ”سب سے پریتی پور بک دھرم انسار میتا یوگ برتنا چاہیے.ہاں دھرم انسار کا لفظ آپ کے بچاؤ کی اچھی سپر ہے.غور کرو اور اپنے اخلاق کی خوبی دیکھو.تکذیب صفحہ نمبر ۳ بسا پنڈت و مولوی پادری بنا حق شماتت شده مفتری اللہ تعالیٰ آپ کو فہم عطا کرے آپ نے کن ہاتھوں سے یہ سطر لکھ ماری ہے جو تکذیب صفحہ نمبر ۳۶ میں ہے.” خدائے محمد یاں بے علم نافہم ، مکار، دھوکہ باز، فریبی ، حیلہ پرداز ہے.ہمارا خدا کون ہے.وہی جس کا نام الرحمن الرحیم ہے رب العالمین اور مالک یوم الدین ہے وہی القدوس السلام المومن المهيمن الخالق الرزاق العليم الحكيم ذو الجلال و الاکرام وہی جس نے آسمان اور سورج اور چاند اور ہزاروں ہزار گرے اور سب کچھ بنایا.منشی صاحب آپ کے اخلاق اور آپ کی محبت بھری گفتگو کا فیصلہ آپ کی کانشنس پر نہیں چھوڑ سکتا.آپ اپنے اور کسی آریہ سے ہی پوچھ لیں یہ تو آپ کے جن کو ریغا مری کا دعویٰ ہے برتاؤ کا نمونہ تھا والا جو کچھ میں نے آریہ صاحبان کا سلوک اپنے ساتھ دیکھا اس کی شہادت دوں تو منصف سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاویں.مگر میں اشْكُوْابَتِي وَحُزْنِی اِلَى اللهِ (یوسف:۸۷) اپنی پریشانی اور دکھ کو صرف اللہ ہی کے آگے بیان کرتا ہوں اور کہتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ ہی میرا اور میرے عیال کا حافظ و ناصر ہو.اور ہماری حفاظت میں صرف اپنے رحم کو کام میں لاوے.آمین.تکذیب صفحہ نمبر ۹۹ نمونہ کے طور پر کچھ اختلاف دکھاتا ہوں“.

Page 273

تصدیق براہین احمدیہ ۲۷۲ مصدق منشی مکذب! قرآن نے اپنی راستی سچائی اور قرآن کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل میں یہ دلیل بھی دی ہے کہ اس میں اختلاف نہیں جیسے فرمایا.لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثیرا (النساء: ۸۳) کیا معنی اگر قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اس علیم و خبیر کی کلام نہ ہوتا تو اس میں بہت ہی اختلاف ہوتا.حالانکہ اس میں ایک ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں ہے.مکذب! آپ نے توریت شریف اور انجیل شریف کے اختلافات جس قدر ارقام کئے ہیں ان کا جواب اس وقت میں نہیں دیتا کیونکہ آپ نے با تخصیص ہم سے جواب طلب کیا ہے عیسائیوں کے متعلق اعتراض کا جواب عیسائی دیں گے.دیکھو صفحہ ۴ تکذیب اور تکذیب صفحہ نمبر ۸۵.اپنے اختلافات کے بیان کرنے سترہ نمبر اختلافات کے بیان کئے ہیں.ان میں صرف نمبر ۳ اور نمبر ۱۵ اور نمبر ۱۶ اور نمبر ۱۷.پانچ اختلاف قرآن کریم کے متعلق ہیں.نمبر ۳ جب خاوند چاہے طلاق دے سکتا ہے.( یہ پہلا اختلاف ہے).اول.قرآن میں یہ حکم نہیں.رکوع یا آیت کا پتہ دیکھیئے.علی العموم خاوند جب چاہے عورت کو طلاق دے دے.یہ قرآن کا حکم نہیں.ہاں یہ حکم اگر کچھ شرائط کے ساتھ ہو تو جدا امر ہے.دوم.اگر مان لیں کہ قرآن میں یہ حکم ہے تو اس میں اختلاف کیا ہوا.یہ تو ایک حکم ہوا اس کا مخالف حکم کہاں ہے؟ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَلى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا ( النساء : ٢٠) خیال کرو خاوندوں کو بیبیوں کے ساتھ کس حکمت کے ساتھ عمدہ نباہ کا حکم ہوتا ہے قرآن فرماتا ہے اگر کسی اتفاق سے بی بی مکروہ بھی لگے تو بھی پسندیدہ سلوک کرو اس کا بدلہ اللہ تعالیٰ بہت ہی بہت بہتری ان بیبیوں میں رکھے گا.غور کرو! قرآن ماننے والا ، خدا کے وعدوں کو سچ یقین

Page 274

تصدیق براہین احمدیہ ۲۷۳ کرنے والا ، اس امید پر بُری سے بُری بی بی کے ساتھ بھی کتنا سلوک کرے گا.قرآن نے دو ہی صورتیں طلاق کے جواز کے لئے رکھی ہیں اور ان دونوں صورتوں میں طلاق کا ہونا کمال حکمت پر مبنی ہے کیونکہ وہ دونوں صورتیں اصل منشا نکاح کے خلاف ہیں اول زنا جیسے فرمایا.وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ (النساء : ٢٠) لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ (الطلاق:٢) دوم.بد چلنی اور با ہمی جھگڑا اور فسادمنزل لاکن اس میں بھی پہلے مصالحت کی تمام تدابیر کی جاویں تب طلاق دیں جیسے فرمایا.وَالَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا (النساء: ۳۵) وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيْدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا (النساء: (٣٦) سوم.طلاق دینے پر ایک زبر دست جرمانہ رکھا ہے.وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَأَتَيْتُمْ إِحْدُهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إلى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيْثَاقًا غَلِيظًا (النساء: ۲۲،۲۱) چہارم.یہ حکم جس کو مکذب نے لکھا ہے غالباً اس صورت میں ہے جہاں میاں بی بی میں خلوت ہی نہیں ہوئی گویا نکاح ہی پورا نہیں ہوا.ہمارے مولا نا جناب مولوی ابوسعید صاحب نے اشاعۃ السنتہ میں ان مسائل پر مفصل کلام کیا ہے.افسوس اس سفر میں وہ پرچے پاس نہیں.ناظرین ان کو ضرور ملا حظہ کریں.

Page 275

تصدیق براہین احمدیہ ۲۷۴ مکذب.اختلاف نمبر ۱۳ شراب کی حرمت مصدق.شراب کی حرمت کا قرآن میں حکم ہے اور اس پر سخت ممانعت ہے پھر اس میں اختلاف کیا ہوا.اختلاف تب ہوتا کہ کہیں قرآن میں شراب کی حلت ہوتی اور کہیں حرمت صرف اس میں اختلاف کیا ہوا غور کرو.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَنِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ إِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُوقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء فِى الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ وَأَطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَاحْذَرُوا ۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّمَا عَلَى رَسُولِنَا الْبَاغُ الْمُبِينُ (المائدة: ٩٣٥٩١) ایک ہمارے پرانے دوست نے جس کو اب ہم سے کچھ ایسا تعلق نہیں رہا اور معلوم نہیں ہو سکتا کہ کیوں مگر یہ کہ اس کے جلیں ہی ہم سے ناخوش ہیں ایک دفعہ سوال کیا شراب کی نسبت صریح لفظ حرمت بھی موجود ہے؟ میں نے اس کے آگے پہلی آیت متذکرہ بیان کی اگا اس کو انکاررہا.اور کہا که صریح حرمت ہو تو مانوں گا.خاکسار نے اس سے عرض کیا صریح لفظ حرام بھی قرآن میں ہے.يَسلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمُ كَبِيرُ (البقرة:٢٢٠) اس آیت شریف سے ثابت ہوا شراب میں اثم ہے اور بڑا اثم ہے.اب اثم کا حکم سنو.1 بے ریب شراب اور قمار بازی اور بت پرستی اور بدھنی کا ماننا شیطانی نا پاک باتیں ہیں.ان سے بچے رہو تو کہ نجات پاؤ.شیطان کا تو منشا یہی ہے کہ شراب اور قمار کے باعث آپس میں تمہاری عداوت و بغض پیدا ہو.اور تمہیں الہی یاد اور نماز سے اس بہانے سے روک لے.پس اب بھی ان بُری باتوں سے رکو گے کہ نہیں اور فرمانبردار رہو اللہ ورسول کے اور نافرمانی سے خوف رکھو.اگر ہمارے حکموں کو نہ مانو گے تو جان رکھو ہمارے رسول کے ذمہ تو اتنا ہی تھا کہ اس نے کھول کر سنا دیا.لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں کہ شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے تو کہہ دے ان دونوں میں بڑی بدی ہے.اور یہ دونوں بڑے اثم ہیں.

Page 276

۲۷۵ تصدیق براہین احمدیہ اقُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَّا وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَى اللهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف: ۳۴) ذرہ غور کر وشراب کی ممانعت کس زور سے فرمائی ہے.تکذیب صفحہ نمبر ۱۰۰ مکذب براہین اختلاف نمبر ۵ عام مسلمانوں کے لئے چار چار ، اور محمد صاحب کو ۹.۱۱.۱۸ بلکہ لا انتہا قرآن سورہ احزاب.مصدق.منشی صاحب! آپ کی عربی دانی کا میں قائل ہو جاؤں اگر بنام خدا سورہ احزاب وغیرہ میں سے نو اور گیارہ اور اٹھارہ اور لا انتہا کا حکم نکال دو.آپ کے لا انتہا کہنے کی راستی سورہ احزاب کی آیت ذیل سے ظاہر ہے " لا يحل لك النِّسَاءُ مِنْ بَعْدُ وَلَا أَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجِ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ (الاحزاب : ۵۳) سورہ احزاب کی اس آیت سے تو آپ کا لا انتہا کہنا بالکل غلط معلوم ہوتا ہے.مکذب براہین کے نزدیک نمبر ۱۶ اور نمبر ۱۷ میں قرآنی اختلاف یہ ہیں.بیت المقدس کی طرف سجدہ کرو مکہ کی طرف سجدہ کرو پہلا حکم منسوخ ہوا.منشی صاحب کہیں تو فطرت و عقل سے بھی کام لیا ہوتا.کیا کرتے ہو.کہاں قرآن میں لکھا ہے کہ بیت المقدس کی طرف سجدہ کرو.اور نہ قرآن میں لکھا ہے کہ اب یہ حکم منسوخ ہوا.قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ بیت المقدس کی طرف سجدہ کرو.اصل بات یہ ہے کہ ہر ایک مذہب میں دو قسم کے احکام ہوا کرتے ہیں چاہے یہ تقسیم عرفاً اور رسما ہو جاوے.چاہے حکما.ایک قسم کے لے تو کہہ دے ہر ایک ظاہری اور باطنی بے حیائی کو اور اثم و ناحق کی بغاوت اور شرک کو جس کم بخت کے واسطے اللہ نے کوئی ثبوت کی وجہ نہیں بتائی.اور اس امر کو کہ خدا پر ایسی باتیں بناؤ جس کا تم کوعلم نہیں.میرے اللہ نے حرام کر دیا ہے.ہے ان بیبیوں کے بعد تجھے کوئی بی بی حلال نہیں.اور نہ یہ امر تجھے جائز ہے کہ ان کے بدلہ میں اور بیبیاں بنالے اگر چہ تجھے کیسی پسند آویں مگر وہی عورتیں جن کا تو مالک ہو چکا.

Page 277

تصدیق براہین احمدیہ احکام میں ایک مذہب کا آدمی اگر دوسرے مذہب میں چلا جاوے تو عام طور پر وہ بدنام نہیں ہوتا.مثلاً کوئی ہندو ز کوۃ دیا کرے یا کوئی مسلمان علی الصباح خواہ مخواہ ضروری نہالے یا موچھیں بڑھا لے تو اپنی قوم سے علی العموم علیحدہ نہیں ہو جاتا.اور دوسری قسم کے وہ احکام جن کے کرنے سے جھٹ ایک قوم سے الگ اور دوسری میں شامل سمجھا جاتا ہے.مثلاً کوئی مرتد مسلمان عام مجلس میں نعوذ باللہ سُورکھالے یا کوئی آریہ کہلا کر ہماری نماز کی جماعت میں شامل ہو جاوے.اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کے خالص احباب الگ کرنے کو ابتدا میں جب آپ کے حضور ا کثر عرب آتے تھے اور مکہ کو قبلہ مانتے تھے بیت المقدس کو قبلہ بنا لیا تھا.مگر وہ حکم قرآن میں موجود نہیں جب مدینہ میں تشریف لے گئے اور یہودونصاری سے سابقہ پڑا تو مکہ کو قبلہ ٹھہرایا.

Page 278

تصدیق براہین احمد به ۲۷۷ نظم در مدرح تصدیق البرامین از سید حامد شاہ صاحب اہلمد معافیات ضلع سیالکوٹ جس کے ہر ایک کے ابتدائی حرف کے اعداد جمع کرنے سے ۱۸۹۰ء برآمد ہوتا ہے.کہاں ہے طالب صادق کہاں ہے صداقت کے لئے جو نیم جاں ہے کہاں ہے راستی کا جو ہے صراط مستقیم حق کا سپاس وہ حمد بھوکا تلاش راست بازی میں دواں ہے جویاں کدھر ہے کس طرف کو اب رواں ہے العالمیں ہے کہ جو بندوں پہ اپنے مہرباں ہے خود ناصر ہے دین احمدی کا مخالف ٹھہرے یہ طاقت کہاں ہے محبوں کو بشارت ہے بشارت مبارک ہو برکت کا سماں ہے پکار و چوٹ ڈنکے کی عزیزو سنا دو سب کو جو پیر و جواں ہے کہ پہلی جلد تصدیق البرا ہیں نکل کر راہنمائے گمرہاں ہے کلام صدق پھیلا ہے جہاں میں بطالت کوئی دن کی میہماں ہے مکذب ہیں کہاں تصدیق دیکھیں ذرا جاگیں کہ سونے میں زیاں ہے بہت سی شوخیاں حق سے ہوئی ہیں نگہباں حق کا خود حق ہے عیاں ہے صداقت منصفوں سے داد لے گی عجب تصدیق کا طرز بیاں ہے ذرا تکذیب کو رکھ کر مقابل بتائیں کون ان میں بد زباں ہے ادھر شیریں زبانی عوض میں بد کے کیا نیکی عیاں ہے اُدھر تلخی ادب سیکھے ذرا وه طفل مکتب وہ بزرگوں سے جو کرتا شوخیاں ہے بتاوے گی اُسے تحریر تصدیق مصنف اس کا کیا رطب اللساں ہے

Page 279

تصدیق براہین احمدیہ فضولی ۲۷۸ سے نہیں ہرگز سروکار دلائل اور حقیقت کا بیاں ہے وہی سمجھے گا قدر ان موتیوں کی ہدایت جس کے سینے میں نہاں ہے نہیں تعریف کرنے کی غرض کچھ صداقت خود بخود یاں مدح خواں ہے قرآں یہ دنیا کو جتانا بے گماں ہے خزانہ ہر صداقت کا ہے مصنف کو دعا دیتا ہے حامد کہے آمین جو مشتاق جناں ہے ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬

Page 280

تصدیق براہین احمدیہ بتاتے ہیں.۲۷۹ بسم الله الرحمن الرحيم جلد دوم تناسخ تناسخ کو سنسکرت والے اواگون کہتے ہیں اور تناسخ کے ماننے والے تناسخ کے یہ معنی گنا ہوں اور نیکیوں کے باعث بار بار جنم لینا ( پیدا ہونا ) اور مرنا“.جہاں تک تناسخ کے ماننے والوں سے دریافت کیا اور ان کے رسائل میں دیکھا اثبات تناسخ میں ان کی یہی ایک دلیل سر دفتر ان کے دلائل کا دیکھی.”ہم دیکھتے ہیں کئی آدمی جنم کے اندھے لنگڑے لولے، کانے ، بہرے، کنگال ہوتے ہیں اور کئی راجہ ٹھکر دولتمند امیر جو یہ کہو کہ پر میشر کی مرضی ہے.تو کیا پر میشر منصف و عادل نہیں جو بلا قصور ایک دوسرے میں فرق کرتا ہے.پس بجز نتیجہ سابقہ جنم کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کیونکہ خدا ایسی طرف داری اور نام منصفی نہیں کر سکتا.“ کوئی نہیں.تناسخ کی دلیل کا خلاصہ ہم اس دنیا میں تفرقہ کو دیکھتے ہیں اور اس تفرقہ کی وجہ بجز پہلے جنم کی برائی بھلائی کے اور صدق اللهُمُ اهْدِنِي بروح الفلس) پہلا جواب.قائلین تناسخ کی اس دلیل سے صاف واضح ہے کہ تناسخ ماننے کا کوئی ثبوت لے اے اللہ میری روح پاک سے تائید فرما اور مجھے منصور کر.

Page 281

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۰ تناسخ مانے والوں کے پاس نہیں.بلکہ صرف اس لئے کہ سکھی آسودہ اور آرام والے کے سکھ، آسودگی اور آرام کی وجہ اور دکھی بیمار، رنج والے کے دکھ، بیماری، رنج کی وجوہ اور ان لوگوں کے باہمی تفرقہ کےاسباب تناسخ ماننے والوں کو معلوم نہیں ہوئے اس واسطے کہ ان لوگوں نے یقین کر لیا کہ سابقہ اعمال ہی اس تفرقہ کا باعث ہیں.پر شکریہ اس رب العالمین کا جس نے اسلامیوں کو ایسے دلائل سے بچنے کے واسطے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا.ولا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَيْكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: ۳۷) دوسرا جواب.اپنی کم علمی اپنی کم نہی اور کمزوری سے تفرقہ کے اسباب رنج اور راحت کے موجبات اور سامان نہ جاننے سے یہ اعتقاد کر لینا کہ ان تفرقوں کا باعث ہمارے پہلے جنم کے اعمال ہی ہیں گویا بے وجہ تو یہ ایک چیز کوکسی دوسری چیز کا سبب قرار دے لینا ہے.اور یہ جرات اس قسم کی ہے کہ ہم کسی آدمی کو اندھیری رات میں کہیں جاتا دیکھیں اور اپنے ہی آپ میں یہ سوچ لیں کہ اس وقت کچہریاں بند ہیں بازار بند ہیں پس بجز اس کے کہ یہ آدمی اس وقت صرف چوری کرنے جاتا ہے اور کوئی وجہ نہیں.عقل والے سوچ لیں یہ کیسی منطق اور لاجک ہے اسی واسطے قرآن کریم نے تناسخ ماننے والوں کی نسبت فرمایا ہے اور کہا ہے کہ یہ لوگ انکل بازی میں پڑے ہیں.وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (الجاثية: ۲۵) لے اور جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے مت لگ کیوں کہ کان، آنکھ اور دل سب سے سوال کیا جاوے گا.ہے اور وہ کہتے ہیں یہی دنیا کی زندگی ہے ہم مرتے ہیں اور زندے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے.اس بات کا ان کو علم نہیں یہ انکل لگاتے ہیں.

Page 282

تصدیق براہین احمد به ۲۸۱ تیسرا جواب.دنیا میں ہم یہ تفرقہ تو دیکھتے ہیں کہ ایک جنم کا بیمار ہے اور دوسرا تندرست.ایک جنم سے دولتمند ہے اور دوسرا غریب اور مفلس.اور دنیا کا تمام کارخانہ اور اس کا تمام انتظام چونکہ ایک علیم وحکیم کی زبر دست طاقت اور صفات کا نتیجہ اور اثر ہے.پس ہمیں یقین ہے کہ یہ تفرقہ بے وجہ و بے حکمت نہ ہو گا مگر یہ کیا ضروری ہے کہ اس غیر محدود کی کل بار یک حکمتیں اور بے تعداد تدبیریں ایسی ہوں کہ انسانی محدود عقل اور سمجھ ان پر حاوی ہو جاوے؟ یا درکھوکسی کی بصر اور بصیرت اس کو احاطہ نہیں کر سکتی اور وہ سب پر محیط ہے قرآن فرماتا ہے.لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام: ۱۰۴) اور فرمایا ہے.يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاء (البقرة: ۲۵۶) اور فرمایا ہے يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا (طه: ۱۱۱) چوتھا جواب.کسی کا بیمار ہونا اور کسی کا تندرست کسی کا آسودوں کے گھر جنم لینا اور کسی کا مفلسوں کے گھر میں جائز ہے.اعمال کے سوا کسی اور وجہ سے ہو.پس بائیس احتمال اواگون ماننے والوں کا استدلال صحیح اور تام نہیں.پس ہم ان کو کہتے ہیں کوئی ایسی عقلی دلیل لاؤ جس سے ثابت ہو جاوے کہ ایسے تفرقوں کا اعمال کے سوا اور کوئی باعث نہیں.صرف اعمال ہی اس تفرقہ کا باعث ہیں.بلکہ بہ تعمیل ارشاد قرآنی جو ذیل میں ہے کہتے ہیں کو ئی علمی دلیل لا ؤانکلوں اور گمانوں سے کام نہ لو کیونکہ سچ ہے جس میں لکھا ہے.قُل هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتَخْرِجُوْهُ لَنَا إِن تَتَّبِعُونَ إِلا الظَّنَّ وَإِنْ اَنْتُم إِلَّا تَخْرُصُونَ (الانعام: ۱۴۹) ے اس کو آنکھ ادراک نہیں کرتی اور وہ آنکھوں کو ادراک کرتا ہے اور وہ لطیف و خبیر ہے.سے ان کے آگے اور پیچھے کی سب چیزوں کو جانتا ہے اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکے مگر جو وہ آپ چاہے.کہ تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے پاس نکال لاؤ تم تو ظن کی پیروی کرتے ہو اور انکلیں دوڑاتے ہو.

Page 283

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۲ پانچواں جواب.اگر آریہ اس پر از راہ انصاف غور کریں تو کسی قدر لطیف اور داد کے قابل ہے.موجودہ اشیا میں اس تفرقہ سے بڑھ کر ایک بڑا تفرقہ ہم دیکھتے ہیں اور اس بڑے تفرقہ کا باعث پہلے جنم کی جزا و سزا نہیں اور اس امر کو دیا نندی آریہ صاحبان آپ بھی تسلیم کریں گے.سنو.ارواح ایک چیتین وستو یعنی عالم ہوشیار چیز ہے.اور پر کرتی بلکہ پر مانو.یعنی اجسام صغیرہ اور نہایت باریک ذرات جن کو عربی علوم طبعیہ کے عالم اجسام ذیمقراطیسی کہتے ہیں.ایک جڑھ اور غیر ذی شعور چیز ہے اور باری تعالیٰ علیم وخبیر ، عزیز و غالب القدوس السلام ایک تیسری چیز ہے.جو ان دونوں اول الذکر ارواح اور اجسام بلکہ کال یعنی زمانہ پر حکمران ہے.دیانندی آریہ صاحبان بلکہ تمام تناسخ کے ماننے والو! ان تین اشیا موجودہ میں اول روحیں جنم سے کیا ازل سے بقول آریہ اللہ تعالیٰ کے ماتحت اور اس کی صفت عدل کے باعث جزا وسزا میں گرفتار ہیں اور بقول تناسخ کے ماننے والوں کے بلکہ دیا نندی آریہ کے ابد الآباد تک اسی طرح گرفتار رہیں گی.اگر مہان پر لے کے وقت یا اس سے کسی قدر پہلے اور پیچھے اجسام سے الگ ارواح آرام و راحت میں بھی رہے تو اس وقت بھی تخم کی طرح برائی ان میں بنی رہتی ہے.جس کے باعث ارواح کو پھر جنم لینا پڑتا ہے.اور دوم پر مانو بے چارے تو ازل سے ابد تک بھی بقول آریہ کے محروم ہی رہیں گے اور سوم اللہ تعالیٰ ازل سے ابد تک ہمیشہ ان پر حکمران رہا اور ہمیشہ ان پر حکمران رہے گا.اب ہم تناسخ والوں کی دلیل کی طرف توجہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں ان تین میں بعض اشیاء جنم سے کیا ہمیشہ سے لنگڑے اور بعض اشیاء جنم سے کیا ہمیشہ سے جزا اور سزا میں گرفتار اور ایک اغنی اور ان دونوں پر حکمران جل شانہ.اب آپ کی دلیل تناسخ کو بعینہ لے کر کہتے ہیں دیکھو اثبات تناسخ بحث کی ابتدا میں ”جو کہو پر میشر کی مرضی تو کیا وہ عادل نہیں پس بجز نتیجہ سابقہ جنم کے اور کیا کر سکتے ہو.لیکن تم آریہ اور تمام قومیں اللہ تعالیٰ کو ماننے

Page 284

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۳ والے اللہ تعالیٰ اور پر مانوں میں تو جنم کے قائل نہیں.پس ظاہر ہوا کہ تفرقہ کا باعث فقط اعمال ہی نہیں جو ہم تناسخ کے قائل ہو جاویں.بلکہ تفرقہ کے اور اسباب بھی ہوتے ہیں.بلکہ ایزدی مخلوق میں ہم دیکھتے ہیں کوئی چیز پھر کہلاتی ہے اور کوئی پانی کچھ روشنی کی کرنیں اور الکٹرسٹی کے ذرات اور کچھ پرلے درجہ کی کثیف اشیاء کار بن وغیرہ، بتاؤ! کیا اس تفرقہ کا باعث پور بلی جنم کے اعمال ہیں.ان کے کسی کام کی جزا اور سزا؟ معلوم ہوا کہ تفرقہ کا باعث فقط اعمال ہی نہیں بلکہ اس الْقَادِرُ کی اور بار یک حکمتیں ہیں جس نے ہم کو بنایا اور جزوی وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا(نوح: ۱۵) وَسَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِنْهُ (الجاثية : ١٤) چھٹا جواب.سائنس یعنی پدارتھ و دیا.علم طبعی نے ثابت کر دیا ہے کہ مابین جمادات اور نباتات اور انسان اور حیوانات کے تباین اور تفرقہ ضرور ہے.مگر تناسخ ماننے والے کہتے ہیں کہ ان اشیاء میں کوئی تبائین نہیں انسانی روح ناقص اعمال سے مرکز حیوان اور حیوانی روح انسانی بن جاتی ہے.بعض انسان شجر وحجر ہو جاتے ہیں.اور بعضے شجر و حجر انسان اور روح وہی روح رہتی ہے اور یہ امر سائنس کے بالکل خلاف ہے.تعجب آتا ہے دیا نندی آریہ کے اعتقاد پر روح کے گن گرم سمجھاؤ یعنی روح کے خواص، افعال اور عادات آنا دی اور غیر مخلوق ہیں اور روح کے لئے یہ امور دیا نندیوں کے نزدیک لازمی ہیں روح سے کبھی علیحدہ نہیں ہوتے پھر روح کے شجر اور حجر ہو جانے کی حالت میں ہم پوچھتے ہیں وہ صفات اور لوازمات کہاں چلے جاتے ہیں کیا ثبوت ہے کہ یہ صفات ولوازمات اس وقت بھی روح کے ساتھ موجود رہتے ہیں؟ ساتواں جواب.تناسخ کے ماننے میں سچے علم طب کا وہ بڑا بھاری خزانہ جس کی صداقت کو ہم رات و دن بچشم خود دیکھتے ہیں لغو ہو گا.حالانکہ بداہت مشاہدہ اس کو لغو نہیں ٹھہرا سکتا یقیناً اس نے تم کو مختلف طور پر بنایا.آسمان و زمین میں جو کچھ ہے سب تمہارے لئے پیدا کیا.اور یہ سب اشیاء ہماری ہیں.

Page 285

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۴ اور کیوں لغو ٹھہرا سکے خالق فطرت اور نیچر کا پیدا کرنے والا خود فرماتا ہے.خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (البقرة: ٣٠) تناسخ ماننے میں علم طب کا بے فائدہ ہونا اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ جب ہم نے مانا کہ تمام بیماریاں جو انسان اور حیوانات کو لاحق ہوتی ہیں.وہ سب بیماروں کے سابقہ اعمال کا نتیجہ اور ثمرہ ہے اور بد اعمال کی سزا ہے.تو طبیب اور نیچرل فلاسفی کے جاننے والے نیچرل اسباب کو کیوں ڈھونڈ نے لگے اور جب حسب الاعتقاد تناسخ کے مانا گیا کہ سزاؤں کا بھگتنا ضروری ہے.اور کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت سے وہ سزائل جاوے تو علاج سے کیا فائدہ اور اس کے باعث کیونکر فضل اور کرم الہی ہم کو الہی عدالت سے چھوڑ سکتا ہے.اور اور اسباب الامراض اور معالجتہ الامراض سے کیا نفع ہوگا.آٹھواں جواب.روح کے گن یعنی خواص روح کے کرم یعنی افعال روح کی سبھاؤ یعنی عادات دیا نندی آریوں کے نزدیک ارواح کو لازم اور ارواح میں انادی ہیں اور آریہ کے نزدیک یہ صفات ارواح میں باری تعالیٰ کی دی ہوئی نہیں.اب تناسخ کے وہم کا منکر اگر یوں کہے کہ بعض ارواح کا سبھاؤ اور اس کے گن ہی ایسے ہیں کہ ناقص ذرات کا جسم لیا کریں اور دکھ دائک جس میں زندگی بسر کریں.آسودگی میں رہنے والوں کے گھر جنم نہ لیں.اور یہ امران کے لئے پور بلی جنم یعنی پہلی زندگی کے اعمال کی جزا یا سزا نہ ہو.بلکہ ایسی روح کی شقاوت از لیہ اور اس کا سبھاؤ ہی اس تکلیف کا موجب ہو.بعض ارواح اصل سے ایسا سجاؤ رکھتے ہوں کہ عورتوں کا بدن لیں.بعضے ارواح مردوں کا جسم اپنے لئے اپنے سبھاؤ سے پسند کرلیں سابقہ اعمال کو اس میں کچھ دخل نہ ہو.اور نہ پہلے جنم کی یہ جزا اور سزا ہو سچ ہے.نْهُمْ شَقِيٌّ وَسَعِيدُ (هود: ١٠٦) ے سب جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا.ے ان میں سے کوئی سعید ہے اور کوئی شفقی ہے.

Page 286

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۵ نواں جواب دیا نندی آریہ کا اعتقاد ہے کل ارواح محدود اور غیر مخلوق ہیں.ہمیشہ اوا گون یعنی جنم اور مرن میں مبتلا رہے اور ہمیشہ رہیں گے.اگر کچھ زمانہ آزاد بھی رہے تو بھی ان میں بیج ان کر ماتر یعنی تخم کی طرح برائی موجود رہتی ہے.جس کے باعث آخر پھر ارواح کو جنم لینا پڑتا ہے.اور جو لوگ ارواح کو مخلوق مان کر تناسخ کو مانتے ہیں ان کو بھی ماننا پڑتا ہے کہ ارواح غیر مخلوق اور قدیم ہیں کیونکہ ہر ایک جنم کے اعمال افعال اور اقوال جب پہلے جنم کے پھل اور ثمرات ٹھہرے تو بصورت مخلوق ہونے ارواح کے پہلے جنم کے اعمال افعال اور اقوال اور ارواح کا باہمی تفرقہ کس جنم کا ثمرہ ہوگا اس لئے بر تقدیر تسلیم مسئلہ تناسخ یعنی اواگون کے ارواح کو غیر مخلوق اور ہمیشہ سے جنم اور مرن میں رہنا پڑا.جب روح انادی غیر مخلوق ٹھہری اور روح کا وجود اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا نہ ٹھہرا اور روح ازلی اور ابدی ہوئی.تو چاہیے کہ روح اپنی بقا میں اللہ تعالیٰ کی محتاج نہ ہو.لاکن ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہمارا بدن کھانے پینے پہننے وغیرہ وغیرہ کا محتاج ہے.روح بھی بدن سے کم محتاج نہیں.اور احتیاجوں سے قطع نظر کر کے اس امر کا خیال کرو کہ روح علوم کے حاصل کرنے میں کتنی محتاج ہے.اسی دلیل کی طرف قرآن کریم نے ایما فرمایا ہے.يَاأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللَّهِ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ (فاطر:۱۲) وَاللهُ (١٦ الْغَنِيُّ وَأَنتُمُ الْفُقَرَآءُ (محمد: ۳۹) اور فرمایا.الله خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ (الرعد: ۱۷) دسواں جواب.اگر ارواح الہی مخلوق نہیں تو ہم پوچھتے ہیں بدی اور بدکاری ارواح کا ذاتی اور فطری تقاضا ہے یا عرضی؟ اگر بدی اور بدکاری ارواح کا ذاتی تقاضا اور جبلّی منشا ہے تو ظاہر ہے کہ ذاتی تقاضوں اور جبی منشاؤں کے پورا ہونے کا نام راحت اور آرام ہے نہ رنج اور تکلیف اور اگر بدی اور بدکاری کوئی عارضی امر ہے جو ارواح کو لاحق ہوا.تو چاہے کبھی وہ عرض دور لے اے لوگو تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی غنی حمد کیا گیا ہے.ہے اور اللہ ہی فنی ہے اور تم محتاج ہو.

Page 287

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۶ ہو جاوے.جب عرض دور ہو گئی تو روح پاک اور پوتر ہو کر آئندہ ہمیشہ نیک اعمال کی طرف متوجہ رہے بلکہ یقین ہے کہ وہ ایسا ہی کرے کیونکہ روح کو آریہ نے چین اور سمجھ دار مانا ہے.آریہ صاحبان.اگر اتنے تجربہ پر روح نے اب تک نہیں سمجھا تو وہ چین نہیں.یا کسی راز دار الہامی کو الہاما پتہ لگ جاوے کہ الہی ارادہ بعض کے حق میں اس عرض کے دوام لحوق کا ہو چکا ہے.گیارہواں جواب.لڑکوں کی پرورش کی جاتی ہے اور ان کو تعلیم کے واسطے تکلیف اور سرزنش دی جاتی ہے.اس تکلیف کو سزا یا جز انہیں کہا جاتا بلکہ اس کا نام تربیت رکھتے ہیں.پس ایسی ہی وہ تکالیف جو دنیا میں عارض ہوتی ہیں ان کی نسبت کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ تربیت الہی میں داخل ہیں.نہ سزا اور جزا میں ہمارے لئے نہ سہی مجموعہ عالم کے واسطے سہی اس جواب کو بارہواں جواب اور زیادہ واضح کرتا ہے.بارہواں جواب.حضرت سیدنا مسیح علیہ السلام کے ہاتھ پر جب ایک جنم کا اندھا اچھا ہوا تو حضور علیہ السلام کے حواریوں نے عرض کیا.یہ لڑکا کیوں نا بینا تھا.کیا اپنے گناہ کے باعث یا اپنے ماں باپ کے گناہ کے باعث.حضرت مسیح علیہ السلام نے جواب دیا نہ اپنے گناہ کے باعث اور نہ اپنے ماں باپ کے گناہ کے باعث بلکہ یہ لڑکا اس لئے نابینا تھا کہ الہی جلال ظاہر ہو.کیا معنی اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول اور بنی اسرائیل کے گھرانے کے خاتم الانبیاء نبی حضرت مسیح علیہ السلام کی بزرگی اور صداقت ظاہر ہو میرا اس قصہ کے بیان سے صرف یہ مطلب ہے کہ دکھ اور سکھ کے واسطے اعمال کی جزا اور سزا کے ماسوا اور بھی بہت اسباب ہیں.اواگون ماننے والوں کے پاس کیا دلیل ہے کہ پور بلی جنم کے اعمال ہی اس کا باعث ہیں.تیرہواں جواب.قانون قدرت اور اللہ تعالیٰ کے بے انت کارخانہ میں ہزاروں ہزار اسباب ہیں مثلاً غور کرو.ان اسباب پر جو علم طب میں بیان ہوتے ہیں اور ان علامات و معالجات پر جن کے ذریعہ ہم اسباب کا پتہ لگاتے ہیں اور ان کے دفعیہ کی صائب تدبیر کر سکتے ہیں بیماریوں کے اسباب جاننے سے ہم افلاس اور غریبی دولتمندی اور حکومت کے اسباب کا اجمالی علم حاصل کر سکتے ہیں.

Page 288

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۷ اس مختصر تمہید کے بعد گزارش ہے اس تفرقہ کا باعث جس سے ایک لڑکا بیمار اور دوسرا تندرست ہے ناملایم عناصر ہیں اس لئے کہ انسانی اور حیوانی روح یا تو عناصر کا خلاصہ ہے یا فرض کر لیتے ہیں کہ روح کو عناصر کے ساتھ تعلق ہے.پہلی صورت میں ظاہر ہے جیسے عناصر ہوں گے ویسی ہی روح ہوگی اور دوسری صورت میں جیسے عناصر کے ساتھ روح کا تعلق ہوگا ویسی تندرستی اور بیماری کے ثمرات روح کو لینے پڑیں گے.اور جیسی جگہ ارواح جمع ہوں گے ویسا ہی سکھ اور دکھ بھوگیں گے.پہلی صورت میں روح کا وجود ہی عناصر سے ہوا.جزا اور سز ا سابقہ جنم کی کہاں! اور دوسری صورت پر اگر کوئی اعتراض کرے کہ ارواح نے ایسی جگہ کیوں تعلق پیدا کیا جہاں ان کو آخر تکلیف اٹھانی پڑی تو اس کا جواب بالکل ظاہر ہے کیونکہ ارواح بقول آریہ کے ستنتر اور آزاد ہیں ارواح کو کوئی روک نہیں.اور یہ بھی ہے کہ اس روح کو جب ابد الآباد ترقی کی راہ کھول دی گئی تو اس پر کوئی ظلم نہ ہوا.بلکہ اس پر رحم ہوا.اور یہ بھی ہے کہ اگر چہ آج روح کو بظا ہر تکلیف معلوم ہوتی ہے کہ ناقص اور دکھی قالب سے اس کا تعلق ہے مگر اسی عنصری میں اسے بڑی بڑی فضیلتوں کے لینے کا موقع دیا گیا ہے.اس لئے اس پر رحم ہے ظلم نہیں.ہاں ایسے موقع ملتے ہیں اگر روح نے نافرمانی کی تو ضرور سزا کا مستحق ہے.اللہ تعالیٰ رحیم ، کریم اور عادل چاہے پکڑے چاہے عفو کرے اور وہ اپنے امر پر غالب ہے.چودہواں جواب.مختلف ملکوں کی آب و ہوا سے ارواح کی مختلف صفات ہم مشاہدہ کرتے ہیں بلکہ مختلف پیشوں مختلف قسم کے مکانوں جن میں روشنی اور ہوا کی آمد ورفت اور صفائی کے لحاظ سے اختلاف ہو.مختلفہ اشیا کے کھانے اور مختلف چیزوں کے پینے پہنے اور استعمال میں لانے سے اور انواع و اقسام کے عادت سے، ارواح کے حالات، صفات اور معاملات میں اختلاف نظر آتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں بگڑے ہوئے حالات کی اصلاح ان مختلف تدابیر سے

Page 289

تصدیق براہین احمدیہ ۲۸۸ ہو جاتی ہے جن کو اطبا طب میں اور طبعی حکما علوم طبعیات میں بیان کرتے ہیں.جن لوگوں کے لڑکے بیمار پیدا ہوتے ہیں ان کے علاج و معالجہ وحفظ صحت تبدیل آب و ہوا اور کچھ مدت کے ترک جماع سے تندرست بچوں کا پیدا ہونا.بگڑی اور خراب گلوں کی اس حالت کا جس سے تکلیف ہونیچر کے اسباب سے درست ہو جانا وغیرہ وغیرہ ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ یا تو ارواح انہیں عناصر کا لطیف جو ہر ہیں یا ان عناصر سے ارواح کا تعلق ایسے مختلف اور اقسام اسباب سے ہے جن میں بعض خاص حالتوں میں ہم اعمال کو داخل کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہتے کہ پور بلے جنم کے اعمال ہوں کیونکہ اس دعویٰ کی دلیل کوئی نہیں اور دعوی بے دلیل عقلا کا کام نہیں.پندرہواں جواب.پہلے جنم کے اعمال ہرگز ہرگز اس تفرقہ کا باعث نہیں جس تفرقہ کو دیکھ کر تناسخ کے ماننے والوں نے تناسخ پر اعتقاد کیا.کیونکہ ہم قدرتی نظارہ میں دیکھتے ہیں.تمام اشیا انسانی آرام اور راحت کے سامان ، روشنی، ہوا، پانی ہٹی ، برق ، نباتات، حیوانات سب کچھ اس کے کام میں لگ رہا ہے مگر یہ پتلا ان اشیا میں سے کسی کے مصرف کا نہیں.تو پھر کیا یہ عجوبہ قدرت بالکل لغو اور اتنی بڑی مخلوق پر حکمران محض نکہا ہے ؟ ہر گز نہیں.بلکہ جیسے ملہمین کو بذریعہ الہام اور سلیم الفطرتوں کو بوساطت فطرت معلوم ہوا ہے کہ یہ لطیفہ عبادت الہیہ کے واسطے پیدا ہوا مگر ظاہر ہے جب تک انسان کے پاس یہ چیزیں موجود نہ ہوں انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا.پس ثابت ہوا یہ تمام سامان انسان کو عبادت کے لئے دیئے گئے ہیں.اور یہ کل اسباب مقصد عبادت کے آلات اور متممات ہیں.یہ مضمون قرآن میں یوں ادا ہوا.ايُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَ السَّمَاءَ بِنَا وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلَّهِ أَنْدَادًا (البقرة: ۲۳،۲۲) لے اولوگو! فرمانبردار بنے رہو اپنے اس رب کے جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو بنایا.اور فرمانبرداری کا یہ فائدہ ہوگا کہ تم دکھوں سے بچے رہو گے اسی رب نے زمین کو تمہارے لئے فراش (آرامگاہ اور گول) اور آسمان کو بناء بنایا.اور بادلوں سے پانی اتارا.پھر نکالے اس سے کئی قسم کے پھل رزق تمہارے لئے.پس خبر دار اللہ کاکسی کو کسی امر میں شریک نہ بنا یو.

Page 290

تصدیق براہین احمد به اور فرمایا ۲۸۹ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذَّاريات: ۵۷) جب عبادت الہی انسان پر واجب ہوئی اور یہ سامان اس لئے عطا ہوا کہ انسان اپنے فرائض منصبی کو ادا کر سکے.پس یہ سامان جزا اور سزا میں داخل نہ ہوگا کیونکہ اگر جزا اور سزائے اعمال میں اسے داخل کیا جاوے تو باری تعالی پر ظلم کا الزام ہوگا.اس لئے کہ یہی چیزیں منصبی فرائض کے ادا کرنے میں بھی ضروری تھیں اور یہی اشیا مزدوری میں بھی داخل ہوگئیں.ہاں ان کا وفور اور ان کا عمدگی سے میسر ہو جانا بعض وقت اعمال کے بعد ہوتا ہو تو بعید نہیں.سولہواں جواب.اگر یہ تفرقہ جس کے باعث تناسخ کے ماننے والوں کو شبہ پڑا سابقہ جنم کے اعمال کی سزا اور جزا ہوتا تو ضرور تھا کہ اتنی مدت کی بات بلکہ یوں کہیے کہ لا انتہا زمانہ کی باتیں ہمیں یاد ہوتیں.اتنی لمبی مدت کے ہزاروں ہزار باتیں اور کام ہم یک قلم کیوں بھول گئے؟ اب انعام اور خلعت کے لینے والے کو خبر نہیں کس کس نیک عمل پر مجھے انعام ملا اور سزا پانے والے کو اطلاع نہیں کس بدکاری کے بدلہ میں ماخوذ ہوں.لڑکپن کے حالات بھول جانے پر قیاس نہیں ہوسکتا.اول.تو اس لئے کہ اس وقت انسانی عقل ناقص اور بالکل نکمی ہوتی ہے.دوم.جیسے آریہ مانتے ہیں کہ سب آدمی سو در پیدا ہوتے ہیں.قرآن کریم یوں فرماتا ہے.وَاللهُ اخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا (النحل : ٧٩) سیوم.وہ حالت بھی مختصر وقت کی ہے اور کچھ بڑے کاموں سے اس کا تعلق نہیں.البتہ اہل اسلام اس جنم سے پہلے ارواح پر عہد الست کا زمانہ تجویز کرتے ہیں اور اس زمانہ کو مانتے ہیں.لے جن وانس تو صرف اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار رہیں.

Page 291

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۰ مگر اول تو وہ ایک عالم مثال کے عجائبات اور اس کی نیرنگیوں کی ایک بات ہے.دوم اس وقت کو بہت تھوڑا سا وقت سمجھا جاتا ہے مگر پھر بھی غور کرو آج تک اس کا کتنا اثر باقی ہے کہ تمام ارواح کی فطرت میں اس اثر کے باعث باہمہ اختلاف ادیان وازمان اور تباغض و تحاسد کے اس بات پر قریباً اتفاق ہے کہ ہمارا کوئی رب ہے.چاہے کوئی اسے اللہ کہے کوئی یہوواہ کوئی اونگ کہے، کوئی میز دان.کسی کی زبان پر دہر کے نام سے موسوم ہوا کسی کے دہن پر شکتی کے نام سے.انبیاء علیہم السلام کو لوگوں نے دیکھا ان کے عجائبات معجزات کو مشاہدہ کیا مگر ان کے منکر رہے.اور باری تعالیٰ کو بن دیکھے یہاں یوں مان لیا کہ گویا وہ عیاں ہے.دلائل سے یہ اتفاق ہرگز مت سمجھو کیونکہ ہم روز مرہ دیکھ رہے ہیں.مباحث اور دلائل سے متخاصمین میں جھگڑا اور عناد بڑھتا ہے نہ اتفاق.بات یہی ہے کہ کبھی کانوں نے اپنے خالق و فاطر کی آواز سن لی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ کیسی کیسی پر تکلیف عبادات کی طرف اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے پر متوجہ ہیں.کیا ایسی جان کا ہی اور اس طرح کی محبت بدوں کسی تجلی دیکھنے کے صرف شنید سے ہے؟ نہیں نہیں.ایسا ہوتا تو نا دیدہ حسینوں کے حسن کو سن کر لوگ ایسے ہی عشق میں مبتلا ہوتے جیسے حسینوں کو دیکھ کر جانباز عشاق کا حال ہو رہا ہے.وَ لَيسَ الخَبُرُ كَالْمُعَايَنَةِ(المستدرك للحاكم كتاب التفسير تفسير سورۃ الاعراف) ایک سلیم الفطرت ہمارے سید و مولیٰ کا مقولہ عَلى قَائِلِهَا الصَّلوةَ وَالسَّلَام بالکل سچ ہے.اس تحقیق پر یقین واثق ہے.بے ریب کبھی ارواح کو تجلی الہی کی سعادت حاصل ہو چکی ہے گو اس عالم میں نہ سہی عالم مثال میں سہی.اور گو اس وقت ہمارے جسمانی ذرات اس قدر عظیم و کبیر ہوں جیسے اس وقت ہیں بلکہ اگست کے وقت نہایت چھوٹے اجسام ہوں.ستر ہواں جواب.ابدی نجات اور دائمی آرام کا حاصل کرنا تمام صحیح الفطرۃ ارواح کا تقاضا

Page 292

تصدیق براہین احمد به ۲۹۱ ہے تو کیا یہ فطری خواہش جبلی طلب اور بے تاب پیاس طالب کو محروم رکھے گی؟ اور باری تعالیٰ کے کامل رحم کامل فضل والے گھرانے سے بچے طالبوں کو صاف جواب ملے گا کہ ابدی نجات ، سرمدی راحت اور دائمی آرام و سرور کا سامان اس ہمہ قدرت ہمہ فضل ہمہ طاقت کے گھر میں موجود نہیں ہرگز ایسا نہ ہو گا.اوکم نصیب آریو! ہرگز ایسا نہ ہوگا.ہاں او تناسخ کے ماننے والو! اس کریم کی بارگاہ سے ایسا روکھا سوکھا جواب ہرگز نہ ملے گا! بلکہ بات تو یہ ہے کہ اس کی صفت عدل بھی ہم طالبوں کی سپارش فرما ہوگی اور عرض کرے گی کہ ان غرباء کے فطری اور جبلی تقاضا کو پورا کیجئے اے اللہ الکریم آپ کے دروازہ کو چھوڑ کر کدھر جاویں.آپ کی سرب شکتیمان القادر بارگاہ معلی سے محروم ہو کر کہاں سے کامیاب ہو سکتے ہیں.آپ کی شب و روز کیا ازل سے ابد تک کی بخششیں ایسی نہیں کہ انہیں کوئی خرچ بھی کم کر سکے تب ہم کو انشاء اللہ تعالیٰ ابدی آرام نصیب ہوگا..ہاں تناسخ کے قائل ابدی آرام کے منکر.دیانندی آریہ ابدی آرام ابد الآبادنجات سے محروم رہ جاویں تو شاید رہ جاویں.اس لئے کہ ان کی فطرت اور جبلت میں یہ طلب ہی نہیں رہی.ان کی روح نے ابدی آرام کا سوال ہی چھوڑ دیا.اس اعتقاد نے ان کی فطرت کو اگر مسخ کر دیا تو ممکن ہے ان پر نہ وہ رحم ہو اور نہ عدل ان کی سپارش کرے.اٹھارہواں جواب دیا نندی آریہ کے نزدیک آواگون ہی ایک جہنم اور یہی مع کچھ دن کی اس آزادی کے جس میں روح جسم سے الگ رہے گی، بہشت ہے والا نہ کوئی بہشت نہ سرگ اور نہ جہنم اور نہ نرگ.اور تمام ارواح ازل سے ابد تک ہمیشہ گرفتار رہے اور ہمیشہ گرفتار رہیں گے.پس ہم کو سخت حیرانی ہے.اگر تمام ارواح کو ہمیشہ ایسی گرفتاری رہی.با اینکہ دیا نندی آریہ مانتے ہیں کہ ارواح اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں اور نہ اس کے پرتے بمب یعنی ظل ہیں.پس دیا نندی آریہ صاحبان بتائیے ایسی سخت گیری کسی رحیم یا عادل کا کام ہے.قرآن کریم کیسے لطف سے فرماتا ہے.

Page 293

تصدیق براہین احمدیہ وَ لَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (الكهف: ۵۰) ۲۹۲ انیسواں جواب.قطع نظر اس امر کے دیانندیوں کے نزدیک اللہ تعالی ارواح کا خالق نہیں اور پھر ان پر ایسا سخت گیر ہے کہ ارواح کو کبھی ابد الآبادنجات نہ دے گا بتقدیر تسلیم اعتقاد آواگون کے وہ رحیم، کریم محسن یعنی دیالو، کر پالو بھی نہیں ( معاذ اللہ ) کیونکہ اس رحمن ، رحیم ، کریم کے ہر ایک احسان کے بدلہ میں آریہ لوگ کہہ دیں گے کہ ان کو اپنے اعمال کی مزدوری مل رہی ہے.پس بس اللہ تعالیٰ کا کوئی فضل ان پر نہیں.مگر سچ ہے وہی کتاب جس میں لکھا ہے نجات اس کے فضل سے ہوگی.وَوَقُهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ فَضْلًا مِنْ رَّبِّكَ (الدخان: ۵۸،۵۷) سابِقُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (الحديد: ۲۲) نجات کا مسئلہ فصل الخطاب نام رد نصاری میں مفصل ہے.بیسواں جواب.آریہ صاحبان! باری تعالیٰ کو فضل و کرم سے کس نے روکا.اس پر کون غالب.اس پر کون حکمران.اس نے کب عہد نہیں بلکہ وعید کر دیا ہے کہ کسی پر محض فضل نہ کرے گا ؟ ہم تو کہتے ہیں اگر ایسا سخت ڈراوا دیا بھی ہے تو بھی وہ نجات دے سکتا ہے.کیونکہ وہ ہر طرح کے عیوب سے پاک جانتا ہے کہ وعدوں کے خلاف کا نام اگر کذب ہے تو وعید کے خلاف کذب نہیں بلکہ کرم اور فضل ہے.لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْتَلُونَ (الانبياء :۲۴) ے تیرا رب تو کسی پر ظلم نہیں کرتا.ے اور بچایا ان کو دوزخ کے عذاب سے.یہ فضل ہوا تیرے رب کا.سے دوڑ واپنے رب کی معافی اور اس جنت کی طرف جس کا پھیلاؤ ہے آسمان اور زمین کے پھیلاؤ کے برابر.رکھی گئی ہے ان کے لئے جو یقین لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر یہ فضل ہے اللہ کا دیتا ہے جسے چاہتا ہے.اور اللہ کا فضل بڑا ہے.ے جو کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے اس پر کس کونکتہ چینی اور سوال کی جگہ نہیں اور جو کچھ لوگ کرتے ہیں اس پر تو نکتہ چینی اور سوال ہوسکتا ہے.

Page 294

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۳ اکیسواں جواب تناسخ کا مسئلہ جیسے تو حید کے خلاف ہے اور شرک کا باعث.ویسے ہی اخلاق، اور مارل فلاسفی کا خطرناک دشمن ہے.توحید کے خلاف تو اس لئے ہے کہ تناسخ ماننے والوں پر لازم ہے جیسے دیانند یوں کا اعتقاد ہے کہ ارواح اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے نہیں.پر مانو اس کے مخلوق نہیں.زمانہ اس کی رکرت نہیں.جس طرح اللہ تعالیٰ غیر مخلوق ہے ارواح اور میٹر بھی غیر مخلوق ہے.یہ لوگ وحدت وجود کے بھی قائل نہیں.جیسے ان کے ویدانتیوں کا خیال ہے تو کہ کہا جاوے کہ اصل واحد کے معتقد ہو کر تو حید کے مدعی ہیں اور اخلاق مارل فلاسفی کا اس واسطے خطرناک دشمن ہے کہ بشرطیکہ اعتقاد مسئلہ تناسخ، کوئی شخص اپنے کسی محسن، خیر خواہ ، البہی محبت، انسانی ہمدرد کی نسبت اعتقاد یقین نہیں کر سکتا کہ اس شخص نے مجھ پر احسان کیا یا رحم کھایا.بلکہ تناسخ کا معتقد محسن کے ہر ایک احسان کے بدلہ میں کہہ سکتا ہے کہ اس محسن نے کوئی احسان نہیں کیا.ممکن ہے کہ اس نے ہمارے پہلے احسانوں کا بدلہ دیا ہو.مجھے یاد ہے ایک مہاراجہ کو بچھونے کاٹا.شدید درد میں ایک مسمریز کرنے والے نے جن کو اس ملک کی زبان میں منتر جھاڑ نیوالا کہتے ہیں.جھاڑا کیا جب اس عصبی المزاج راجہ کو آرام آیا اور جھاڑا کرنے والے کو انعام دیا اس کا پہرہ معاف کیا.تو تناسخ والے خوش اعتقاد بول اٹھے.دیکھو کس طرح اس بچھونے سپاہی کا قرضہ اتارا.بائیسواں جواب تناسخ کا مسئلہ ماننے سے ثابت ہوتا ہے.باری تعالیٰ سخت خود غرض ہیں کہ بے مزدوری کسی پر رحم ، احسان و فضل نہیں فرماتے.سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَصِفُونَ (الانعام: (۱۰۱) تنیسواں جواب.ہم لوگ بعض وقت بے وجہ احسان کرتے اور پھر دوسرے وقت احسان

Page 295

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۴ کے خلاف کرتے یا احسان نہیں کرتے اس دو قسم کی مختلف کارروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ احسان کرنا ہمارا ذاتی اور خانہ زاد وصف نہیں بلکہ مابا لعرض ہم کو یہ صفت لاحق ہو جاتی ہے اور ہر مابالعرض کے واسط مابالذات ضرور ہے پس لازم آیا کسی جگہ احسان بالذات موجود ہے.تو کیوں آریو! اس جگہ کا نام باری تعالیٰ کی پاک ذات نہیں جانتے ؟ چوبیسواں جواب.تاریخ کے اعتقاد پر ضرور ہے کہ کسی شخص کو جناب باری تعالی کی پاک ذات سے محبت نہ رہے حالانکہ نص ہے اور آپ مانتے ہیں.وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: ١٦٦) اور یہ بات کہ تناسخ کو ماننے پر باری تعالیٰ سے محبت نہیں رہ سکتی اس لئے ہے کہ جس حج کی نسبت مجرم کو اعتقاد ہو جاوے کہ ممکن نہیں کہ میری خلاف ورزی قانون اور جرم کے بعد یہ حاکم مجھے قصور وار پر رحم کرے گا وہ حاکم مجرم کو کیوں پیارا ہونے لگا.ہاں جس مجرم کو یہ ایمان ہو کہ شاید حاکم سے درگزر ہو جاوے آج نہ سہی کل.البتہ وہاں محبت ممکن ہے.پچیسواں جواب.حسب الاعتقاد ایسے عدل ایزدی کے جس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم ، عطا اور احسان کی امید نہ رہے.بد کار کو اس کی جناب میں دعا ، پرارتھنا لغو اور بے ہودہ ہو گی.معاذ اللہ.مگر کیا پیارا کلمہ قرآن کریم میں موجود ہے.إِنَّهُ لَا يَايْتَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُوْنَ (يوسف:۸۸) اور کیا پیارا ہے لَا تَقْنَضُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر: (۵۴) - لے ایمان والے تو اللہ تعالیٰ سے بڑی محبت رکھا کرتے ہیں.بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور احسانوں سے اس کے منکر ہی نا امید ہوا کرتے ہیں.سے خبردار اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہو جو اللہ تعالیٰ تو تمام گناہوں کو عفو کیا کرتا ہے.پس ایسے رحیم کریم کے در سے نا امیدی جہل ہے.

Page 296

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۵ اور کیسا روح افزا ہے یہ کلمہ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي (البقرة: ۱۸۷) ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دَخِرِيْنَ (المؤمن: ٢١) چھبیسواں جواب.بدکاری اور نافرمانی کے بعد تناسخ ماننے والے کو عصیان و نافرمانی سے نکلنے کے واسطے تناسخ کے اعتقاد پر چاہے کوئی مددگار نہ رہے اس لئے کہ جناب باری تعالیٰ سے کسی عطیہ کی امید نہیں.اس واسطے کہ اس عدالت سے سزا ہی سزا بھگتنے کا فتویٰ لگ چکا.وہاں سے عفو کی امید نہیں مگر کیسی لطیف بشارت ہے اس کتاب میں جس میں آیا ہے.أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ (النمل: ۲۳) ستائیسواں جواب.تناسخ کے اعتقاد پر چاہئے کہ گناہ اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت ہمیشہ ہوتی رہے اور بدی دنیا سے کبھی نہ اٹھے.اول.اس لئے کہ باری تعالیٰ کو بدی کے قائم رکھنے کی ضرورت ہے.دوم.اس واسطے کہ نیکیوں اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبرداروں کو بھی بدی کے قائم رہنے کی ضرورت ہے.باری تعالیٰ کو اس واسطے کہ جب نیک نے نیکی کی تو حسب الاعتقاد اہل تناسخ کے ضرور ہے کہ باری تعالیٰ اس نیک کو نیکی کا بدلہ دیوے.بدلہ کیا ہے.یہی گھوڑے، ہاتھی ، بیل، اونٹ، بکری، خوبصورت عورتیں وغیرہ وغیرہ.اب اگر بد کار بدکاری نہ کریں تو نیکوں کے واسطے وہ یا جب تجھ سے میرے بندے یہ پوچھیں ہمارا رب کہاں ہے جو ہم اس سے دعا کریں تو کہ وہ فرماتا ہے میں تو بہت ہی قریب ہوں.جب کبھی خاص لوگ دعا مانگنے والے مجھ سے مانگیں.پس لوگو! چاہیے اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہاری دعائیں قبول ہوا کریں.اور پورے طور پر مجھے مانو.ے مجھ ہی سے مانگو اور میری ہی عبادت کرو.میں تمہاری دعا اور عبادت قبول کروں گا.جو لوگ میری فرمانبرداری سے تکبر کرتے ہیں وہ تو ضرور ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے.سے اللہ تعالیٰ کے سواد وسرا کون ہے جو مضطر کے اضطراب کے وقت اس کی دعا پر قبولیت عطا کرے اور اس دیکھی کے دکھ کو دور کرے.

Page 297

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۶ اسباب جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کہاں سے آوے اس واسطے یا تو بدکاروں کا اس پر احسان ہے کہ ایسے سامان مہیا کر دیتے ہیں یا وہ معاذ اللہ بہ مجبوری ان سے بدی کراتا ہے.تا کہ اسے نیکوں کے انعام میں مدد ملے.نیک اس واسطے بدکاری کو چاہیں کہ ان کو بدوں بدی بدکاروں کے گھوڑے، ہاتھی ، خچر عورتیں کہاں سے ملیں.مکانات کی لکڑیاں کہاں سے آویں.گرمی میں بچارے ہندوستانی کس بڑ، برگد، پیپل کے نیچے آرام کریں.اسی واسطے آریہ کے خیال پر لا انتہا زمانہ سے بدکاری دنیا میں موجود ہے اور لا انتہازمانہ تک بدی میں موجود رہے گی.اٹھائیسواں جواب.جب گناہ کا ہمیشہ رہنا جیسا ستائیسویں جواب میں بیان ہوا ضروری ٹھہرا اور بدکاری کی سزا اٹھانا بھی ضرور پڑا.تو بتا ؤ پھر بد کا رکو جناب باری تعالیٰ سے محبت ہو گی یا نفرت؟ انتیسواں جواب محسن ، مربی، مخدوم ، مصلح، ہادی، مکرم کو بُرا کہنا فطرت کی گواہی ہے کہ بہت بڑا ظلم ہے.خالق فطرت کے کلام میں ایک صدیق کا ذکر ہے وہ فرماتا ہے.إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ (يوسف: ۲۴) إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (الشورى: ۴۱) اور خالق فطرت کے کلام میں ہے.الطَّيِّبَتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَتِ (النور: ۲۷) مگر تناسخ کے ماننے والے اپنے تمام محسنوں کو بد کار اور بُرا جانتے ہیں بلکہ ان پر سوار ہوتے اور ان سے زنا ، لواطت کے واقع ہونے کے مجوز ہیں.کیونکہ اگر ان کے محسن برائیوں کے مرتکب نہ ہوں.تو وہ آواگون اور جنم مرن میں کیونکر آویں.مگر جنم مرن میں آنا تو ضرور ہے.اس لئے ثابت ہوا کہ وہ لوگ بدی کے بھی مرتکب ہوا کرتے ہیں.لے وہ تو میر امر بی ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا اگر میں اس سے بدسلوکی کروں تو ظالم بنوں ، اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے محبت نہیں رکھتا.کے پھلوں کو بھلی بات کہو بھلی باتیں تو بھلوں ہی کے لئے ہیں.اور بھلے لوگ ہی بھلی باتوں کے مستحق ہیں.

Page 298

تصدیق براہین احمدیہ ۲۹۷ مسلمان انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی عصمت کے قائل ہیں اور جو اعتراض عیسائیوں یہودوں کی تواریخ سے اہل اسلام پر کئے جاتے ہیں ان میں معترضوں کو دھوکا ہے یا وہ دھوکا دیا چاہتے ہیں.تیسواں جواب.ہم دیانندی آریہ سے پوچھتے ہیں.ان کے بزرگ مہاتما نیک مجستہ کر دار تھے اور ہیں.یا پاپی اور بدکار؟ اگر نیک اور بھلے تھے اور ہیں اور برائی ان میں نہیں تو چاہیے وہ ابدی نجات پا جاویں اور آئندہ اواگون میں جو جہنم اور سزا کا گھر ہے نہ آدیں.پھر اور لوگ آپ کے محسن، مربی اور بزرگ بن جاویں اور وہ بھی اسی طرح نجات پالیں یہاں تک کہ محدود ارواح کا سلسلہ آخر محدودزمانہ میں ختم ہو جاوے.پھر سرشٹی کے پیدا ہونے کا سامان ہی خدا کے یہاں نہ رہے.معاذ اللہ اور بصورت ثانیہ اگر نیک اور بھلے نہیں تو ان میں کوئی بھی قابل اعتبار نہ رہے.بھلا بد کار کا اعتبار کیا.اکتیسواں جواب.میں نے اپنے کانوں بڑے بڑے راجوں مہاراجوں سے سنا اور بتقد بر ماننے مسئلہ تناسخ کے بیچ بھی ہے.وہ لوگ کہا کرتے تھے تپ دراج اور راجوں نرگ، کیا معنی تپ یعنی ریاضتوں اور سخت سخت اور مشکل عبادتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاضت کنندہ ریاضت کے بعد راجہ ہو جاتا ہے پھر راج کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ انسان یعنی راجہ دوزخی ہو جاتا ہے.اس کلام کا دوسرا جملہ یعنی راجوں نرک اس لئے بھی سچ ہے کہ راجوں اور مہاراجوں سے اکثر ظلم وتعدی ہو جاتی ہے.ان سے پورا انصاف محال ہے.پھر عیاشی اور فضولی وغیرہ وغیرہ آفات میں مبتلا رہتے ہیں.بلکہ میرے جیسا تجربہ کار تو شہادت بھی دے سکتا ہے کہ علی العموم یہ دوسرا جملہ سچ ہو کیونکہ دوزخ کا نمونہ ان میں مجھے دکھائی دیتا ہے.جسے سفلس ، آتشک، پہاڑی ، روگ، گرمی ، باد، مشجر، مبارک کہتے ہیں.اہل مصر نے نائیٹریٹ آف سلور کا کیسا خوبصورت نام رکھا ہے.

Page 299

تصدیق براہین احمد به ۲۹۸ الحجر الجهنمی میں جب کبھی آتشک کے زخموں پر اس کا استعمال کرتا ہوں اس وقت اس مصری نام کی خوبی جیسی مجھے معلوم ہوتی ہے شاید ایک نا تجربہ کار یا شرائع سے ناواقف کو ہرگز معلوم نہ ہوتی ہوگی.بتیسواں جواب.ہم نے مانا آرام و تکلیف اعمال کے ثمرات ہیں.مگر یہ کیوں نہیں کہا جاتا ہے کہ وہ اعمال دنیوی اور اسی جنم کے ہیں.ہاں ثمرات کہنے میں یہ فائدہ بھی ہے کہ جزا سزا میں باعث انعام اور موجب سزا کا علم اور اس کا یاد ہونا ضرور ہے.ثمرات میں علم اور یا داسباب ضروری نہیں.غاية ما في الباب ہمیں وہ اسباب وموجبات یاد نہ ہوں سوایسی یادداشت تو تناسخ ماننے والوں کے نزدیک بھی ضرور نہیں.رہی یہ بات کہ بچہ میں ایسے کون سے اعمال ہیں جن کے باعث بچہ نے سزا بھگتی یا جس کا ثمرہ اٹھایا.سواس کے سر دست دو جواب ہیں.اول.یہ کہ اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ اعمال ہیں جن کا ثمرہ یا جزا لینے میں عامل اور فاعل یا مرتکب کا عاقل و بالغ اور سمجھ دار ہونا جان بوجھ کر قانون قدرت کی خلاف ورزی کا مرتکب ہونا ضرور نہیں.مثلاً ایک نادان لڑکا آگ میں ہاتھ ڈال دے.زہریلا دودھ پلایا جاوے.ایسی خلاف ورزی میں سزا، جزا، اور شمرہ کا اٹھانا ضرور ہے بہت نہ ہو تھوڑ اسہی مگر ایسی صورتیں اگر قدرے قلیل دکھ دائک اور رنج رساں ہوں تو ان کی تلافی اس اجر عظیم سے ہو جاتی ہے جسے شہادت کا مرتبہ کہتے ہیں.دوسرے وہ اعمال ہیں جن میں قانون کی خلاف ورزی میں مرتکب جرائم کا عاقل، بالغ، جان بوجھ کر جرم کا مرتکب ہونا ضروری ہے.ایسے قوانین کو قانون شریعت، قانون حکما، قانون حکام کہتے ہیں.پس لڑکے قانون قدرت کی خلاف ورزی میں گرفتار ہیں انہوں نے خود کی ہے یا ان کے والدین اور مربیوں نے.

Page 300

تصدیق براہین احمد به ۲۹۹ دوئم.لڑکے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جان بوجھ کر کسی برائی کے مرتکب ہوا کرتے ہیں اور اسی کی سزا میں گرفتار ہوتے ہیں.یا تو اس لئے کہ برائی کی مرتکب ان کی روح ہے اور ان کی روح چین ہوشیار اور ان کی کمزوری کے وقت ایسی گن، کرم اور سبھاؤ کے ساتھ ہے جیسے جوانی کے وقت.اور یا اس لئے کہ جس قدر کے وہ لڑکے ہیں اور جس قدر ان کے جسم اور عناصر کی استعداد ہے اس قدر کی سمجھ والی ان کی روح بھی ہے.پھر جیسے چھوٹی سی چیونٹی بھی روح اور سمجھ کا ایک مقدار رکھتی ہے اور سمجھ کے خلاف مرتکب بھی ہوتی ہے.اسی طرح وہ لڑکے بھی جن کو بیمار دیکھتے ہو.اپنی وسعت سمجھ کے موافق کسی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہوں.جب ہم عقلا اور حکما اور بڑے بڑے سمجھ والوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ بھی عقل اور سمجھ کے خلاف کرتے ہیں اور اس کی سزا پاتے ہیں بھلا چھوٹی سی عقل کے بچے ایسا کیوں نہ کرتے ہوں.بلکہ ہم کہہ سکتے ہیں.لڑکوں کو کچھ بڑی تکلیف نہیں ہوتی.اور اس کے والدین و مربی اپنے اسی جنم کے اعمال کی سزا بھگت لیتے ہیں.اور جائز ہے کہ ایسے لڑکوں کو آئندہ ابد الآبادزندگی میں ترقی کا سامان مل جاوے.تیسواں جواب.نیکی کا اثر اگر چہ عمدہ ہوتا ہے مگر نیک اپنی نیکی پر کبھی تکبر کرتا نیکی کو ریا اور لوگوں کو دکھلانے کے واسطے بجالاتا ہے.کمزور لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.اور بدی کا اثر اگر چہ بُرا ہونا چاہئے مگر بد کار اپنی بدکاری پر جب نظر کرتا ہے تو بارگاہ الہی میں عجز وانکسار، اضطراب، شرمندگی ظاہر کرتا اور دعائیں مانگتا ہے.اس لئے نیک اپنی نیکی کو تباہ کر دیتا ہے اور بدکار بدی کے بعد مقرب بارگاہ الہی ہو جاتا ہے.تب جس کو ہم اور تم عام نگاہ کے لوگ نیک سمجھتے تھے دکھی دیکھتے ہیں اور بد کار کو سکھی.اور اپنے غلط تو ہمات سے اگر کہہ دیں کہ یہ تکلیف نیک پر اس کے پور بلے جنم کا پھل ہیں اور یہ آسائشیں بد کار کو اس کے پور بلے جنم کا پھل ہیں تو ہمارا

Page 301

تصدیق براہین احمدیہ ۳۰۰ یہ تو ہم غلط ہوگا.کیونکہ ممکن ہے ہماری تشخیص نے غلطی کھائی ہو.چوٹنیسواں جواب.نیکیوں کے بہت اقسام ہیں پھر جیسے نیکیوں کے انواع و اقسام ہیں.ایسے ہی نیکیوں کے ثمرات اور نتائج کے بھی اقسام ہیں.اکثر لوگوں کی یہ حالت ہے.ایک قسم یا سو ہزار قسم کی نیکی کرتے ہیں اور جس جس قسم کی نیکی کرتے ہیں.اس کے انواع واقسام کی برکات اور ثمرات کو حاصل کرتے ہیں.مگر وہی نیک ایک قسم کی نیکی کرنے والے اور اور طرح کی بدی بھی کرتے ہیں اور ان بدیوں کی سزا بھگتے ہیں.پھر یہ بھی ہے کہ بعض نیکیاں اس قسم کی ہیں کہ جلد اپنا پھل دیتی ہیں اور بعض نیکیاں اپنا ثمرہ مدت کے بعد ظاہر کرتی ہیں.ایسی حالت میں نظارہ کنندہ کبھی غلطی میں پھنس کر کسی قسم کی بدی کے مرتکب کو مطلق نیک اور کسی قسم کی نیکی کرنے والے کو بد کار کہ بیٹھتا ہے.اس جواب کو یہ قصہ واضح کرتا ہے.خاکسا ایک بار مجلس میں اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المومن : ۵۲) پر احباب کو کچھ سنا رہا تھا ایک شخص نے اس میں دریافت کیا کہ جب تمام آرام ایمان سے حاصل ہو سکتے ہیں اور انواع و اقسام آلام کفر و نا فرمانی سے تو انگریز کیوں حیات دنیا میں منصور و دولتمند ہیں.تب خاکسار نے اسے اور عام اہل مجلس سے عرض کیا کہ ایمان کے ادنی ترین شعبوں میں سے اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ (ترمذى كتاب الايمان باب ما جاء في استكمال الايمان) ہے.یعنی رستوں کو صاف کرنا، راستوں میں سے دکھ دینے والی اشیاء کو دور کرنا اور مومنوں کی تعریف میں آیا ہے.وَأَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (الشوری:۳۹) مومن وہ ہے جن کی حکومت جن کے کام مشورہ سے ہوں اور مومنوں کو کہا گیا ہے.

Page 302

تصدیق براہین احمدیہ ۳۰۱ وَانْ لَّيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى (النجم:۴۱،۴۰) میرے پیارے مخاطبو! ان چند ایمانی احکام پر انگریزوں نے عمل کیا اور تم نے ان احکام پر عمل درآمد سے منہ موڑا.جن لوگوں نے ان احکام اسلام کو لیا وہ ان احکام کے پھل بھی اٹھا رہے ہیں.تم نے نافرمانی کی اس کا بدلہ بھی بھگت رہے ہو یہ تو اوامر کی تمثیل ہے.ایسا ہی الہی نواہی پر نظر کرو.وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ (الانفال: ۴۷) آیت شریف بالا میں تم کو حکم ہے با ہمی جنگ و جدال چھوڑ دوو الا بودے ہو جاؤ گے.تمہاری ہوا بگڑ جائے گی.اس نہی کی تم نے پروانہ کی.اللہ کے فضل سے تم بھائی بھائی تھے مگر با ہم اعداء ہو گئے.غرض تم لوگ اپنی نافرمانیوں کے وبالوں میں گرفتار ہو.ہاں نمازیں پڑھتے ہو روزے رکھتے ہوڑ کو تیں دیتے ہو، حج ادا کرتے ہو اور ان سب سے مقدم تو حید پر ایمان لائے ہو.اور انگریز مثلاً ان احکام کے منکر ہیں تو ان اعمال کے ثمرات تم ہی اٹھاؤ گے.انگریز ان کا پھل نہ لیں گے غرض جو شخص جس قسم کا بیج بوئے گا اس قسم کا پھل اٹھائے گا.لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ (البقرة: ۲۲۱،۲۲۰) کی صداسن کر صحابہ کرام اور ان کے اتباع عظام نے دین اور دنیا دونوں حسنات کا بیج بویا تھا.دونوں کا پھل اٹھایا.پینتیسواں جواب.نیک شخص کے دو پہلو ہیں ایک جہت میں وہ اللہ تعالیٰ کا محب اور ایک جہت میں باعث اپنی نیکیوں کے اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے.نیک پر تکالیف کا آنا ممکن ہے کہ محبت کی جہت سے ہو نہ محبوبیت کی جہت سے اور انعامات محبوبیت کی جہت سے ہوں نہ محبّ ہونے کی وجہ سے.لے آدمی کو اپنی سعی و کوشش کا نتیجہ ملا کرتا ہے.اور اپنی کوشش کے نتائج کو دیکھے گا.سے آپس میں مت جھگڑا کر و.باہمی اختلافات سے بودے ہو جاؤ گے اور تمہاری عزت و ہوا اڑ جائے گی.سے تو کہ تم دنیا اور آخرت میں فکر کرو.

Page 303

تصدیق براہین احمدیہ تناسخ پر عقلی بحث تو بقدر ضرورت لکھ چکا ہوں اب ایک نقلی سنیئے اور اس بحث کی ضرورت اس لئے پڑی کہ تنقیہ دماغ کے مصنف نے تناسخ کے اثبات میں قرآن کریم کی آیات کریمہ سے استدلال کیا ہے اگر چہ عقل والے اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اس سمجھدار قوم کو اتنی عاقبت اندیشی نہیں مسلمان تو تیرہ سو برس میں تناسخ جیسے ضروری اور اعتقادی مسئلہ کو جو قرآن میں (معاذ اللہ ) موجود ہونہ سمجھیں.اور یہ ہندی نژاد جس کو عربی لٹریچر کی بھی خبر نہیں قرآن سے تناسخ کو سمجھ جاوے.خیر کچھ ہی کیوں نہ ہو.تنقیہ دماغ والے نے تناسخ کی لفظی بحث میں تین مقد مے قائم کئے ہیں اور تینوں کا ثبوت قرآن سے دیا ہے.اول.روح کا ایک قالب سے دوسرے قالب میں آنا.دوم.ایک صورت سے دوسری صورت میں آنا.سوم.پاپ کرموں کی وجہ سے بار بار سنساروں میں جنم لینا.امراول کا ثبوت یہ دیا ہے.قالواء إِذَا كُنَا عِظَامًا وَرُفَانَّاءَ إِنَّا لَمَبْعُوثُوْنَ خَلْقًا جَدِيدًا (بنی اسرائیل: ۵۰) أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ قَادِرٌ عَلَى اَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ (بنی اسرائیل: ۱۰۰) دوسری دلیل یہ دی ہے.كَمَا بَدَانَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَعِلِينَ (الانبیاء: ۱۰۵).اس کا ترجمہ کیا ہے.جیسا ابتدا سے بنایا ہم نے پہلی بار پھر اس کو دہرا دیں گے وعدہ ضرور ہو چکا ہے ہم پر بے شک ہم کرنے والے ہیں.مصدق.مگر ناظرین یا درکھیں ان دونوں آیات کریمہ سے تو اتنا ثابت ہوا کہ دنیا کے ختم ہو جانے پر قیامت کے روز لوگ پھر جی اٹھیں گے اور اسلامیوں کو اس بات سے انکار نہیں.ا ترجمہ مصنف تحقیہ دماغ.بولے کیا جب ہم ہو گئے ہڈیاں اور چورا.کیا ہم پھر اٹھیں گے نئے بن کر.کیا نہیں دیکھ چکے کہ جس اللہ نے بنائے آسمان اور زمین سکتا ہے ایسوں کو بنانا.

Page 304

تصدیق براہین احمدیہ امر ثانی یعنی ایک صورت سے دوسری صورت میں آنا اس کے اثبات میں کہا ہے.وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَسِينَ فَجَعَلْنَهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (البقرة: ۲۷،۶۶) اور اس کا ترجمہ کیا ہے.اور البتہ جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے زیادتی کی ہفتہ کے دن میں تو کہا ہم نے ہو جاؤ بندر پھٹکارے.پھر ہم نے وہ دہشت رکھی اس شہر کے روبرو والوں کے اور پیچھے والوں کو.اور نصیحت رکھی ڈروالوں کو“.قوم عاد بھی بندر بنائی گئی تھی.ناظرین غور کرو یہ آیت کریمہ تو تناسخ کا ابطال کر رہی ہے.کیونکہ بظاہر اور بلحاظ تر جمہ مصنف تنقیہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ یہود جیتے جیتے بندر بن گئے تھے.اور تناسخ ماننے والوں کا اعتقاد یہ ہے کہ جاندار مرکر دوسرے جنم میں ظہور پاتا ہے.اور انندے لال جی کا یہ اضافہ بھی کہ ” قوم عاد بھی بندر بنائی گئی تھی ، آفرین کے قابل ہے.جس کا اشارہ بھی قرآن واحادیث میں نہیں.یہ دیا ہے.امر ثالث پاپ کرموں کی وجہ سے بار بار سنساروں میں جنم لینا اور اس کا ثبوت وَحَرُم عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ (الانبياء: ۹۲ تا ۹۷) اور اس آیت کریمہ کا یہ ترجمہ کیا ہے.اور مقرر ہو رہا ہے ہر بستی پر جس کو ہم نے کھپا دیا کہ وہ نہیں پھریں گے.یہاں تک کہ

Page 305

تصدیق براہین احمدیہ ۳۰۴ جب کھولا جاوے یا جوج ماجوج اور وہ ہر اوچان سے پھیلتے آویں“.پھر کہا ہے.یہ ترجمہ ذرہ صاف نہیں اس واسطے ہم اس کا انگریزی ترجمہ جو سیل نے کیا ہے یہاں لکھتے ہیں ، پھر انگریزی ترجمہ لکھا ہے.افسوس آپ کو دعویٰ ہے مگر اتنی سوجھ نہیں کہ مسلمان قرآن کا ترجمہ صاف نہیں کر سکے.اس لئے آپ کو سیل صاحب کے ترجمہ کی ضرورت پڑی.خود ہی لفظی ترجمہ کر لیا ہوتا یا کسی مسلمان سے پوچھ لیا ہوتا.آریو! اگر میں یا کوئی اور مسلمان ولسن ویدک ترجمہ کے رو سے تم پر الزام لگانا چاہے تو کیا انصاف ہوگا.خیال ہی نہیں انصاف کر لو.اس آیت کریمہ میں اول حرام کا لفظ تحقیق طلب تھا.مگر تنقیہ کے مصنف نے جس کا تنقیہ خبط کے واسطے مناسب ہے جو معنی لئے وہی مناسب اور عمدہ ہیں.اور وہ معنی کیا ہیں.مقرر ہو رہا ہے.ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کے معنے ”واجب‘ کئے ہیں.ان معنی کا ثبوت گو تفسیر میں مخاطب کے لئے ضرور نہیں مگر قوم کے واسطے بہت مفید ہو گا.میں اس معنی کی شہادت قرآن سے دیتا ہوں لے قُلْ تَعَالَوْا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا (الانعام: ۱۵۲) دوسر الفظ اس آیت کریمہ میں لَا يَرْجِعُونَ ہے.جس کے معنی ہیں وہ نہیں پھریں گے.غور طلب یہ امر ہے کہ کس طرف نہ پھریں گے.اول.احتمال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف نہ پھریں گے اور جزا سزا کے واسطے زندہ نہ ہوں گے.سو یہ معنی تو صحیح نہیں کیونکہ اس آیت کے ماقبل گزر چکا ہے.كُلٌّ إِلَيْنَا رُجِعُونَ (الانبیاء: ۹۴) اور اس کے معنی ہیں تمام لوگ ہماری طرف رجوع کریں گے.لے تو کہ، آؤ میں پڑھ دوں تم پر وہ باتیں جو اللہ نے تم پر مقرر کر دی ہیں وہ یہ ہیں کہ مت شریک کرو اللہ کا کسی کو اور والدین سے سلوک رکھو.

Page 306

تصدیق براہین احمد به ۳۰۵ دوم معنی ہیں دنیا میں پھر کر نہ آویں گے.سوم معنی ہیں وہ شریر جن کو اللہ تعالیٰ نے کھپایا اور ہلاک کیا اپنی شرارت سے پھرنے والے نہیں.یہ دونوں معنی صحیح ہیں.تیسرا لفظ حَتَّی کا ہے جو حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجُ (الانبیاء: ۹۷) میں ہے یہ حتی حرف ابتدا ہے فقط جیسے زمخشری اور ابن عطیہ نے کہا ہے.اس صورت میں حَتَّی کے معنی یہاں تک کرنے صحیح نہ ہوں گے بلکہ یہ کلام علیحدہ ہوگا اور جملہ شرطیہ إِذَا فُتِحَتُ کا جواب فَإِذَا هِيَ شَاخِصَةٌ كَا اِذَا اچانک کے معنے دیتا ہے جس کو عربی میں مفاجات کہتے ہیں اور یہ اداء فا کی تاکید ہوا کرتا ہے.یا حتی کا حرف السی کے معنی رکھتا ہے.پس مطلب یہ ہوگا کہ جن جن بستیوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا ہے یا جوج اور ماجوج کے فتح مند ہونے یا شکست پانے اور قیامت کے نزدیک آجانے تک.جتنے شریر ہلاک ہو رہے ہیں وہ نہ تو دنیا میں واپس آویں گے اور نہ وہ اپنی شرارت سے باز آویں گے.ہاں جب دنیا کا کارخانہ ہی ختم ہو گیا اور قیامت آگئی اور جزا وسزا کا وقت آ پہنچا تو سب آجائیں گے جیسے كُلُّ الینا رجعُونَ (الانبیاء: ۹۴) سے ثابت ہو چکا تھا جو پہلے گزر چکا.معلوم ہوتا ہے مصنف تنقیہ کولفظ حتی سے خیال پیدا ہوا ہے کہ اس کا ماقبل مابعد کے خلاف ہوا کرتا ہے.مگر اس آیت پر غور کرنا چاہیے.وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَ أَقَلُّ عَدَدًا (الجن: ۲۵،۲۴) اب ہم تناسخ کے مدعیوں کو جن کو دعوی ہے کہ تناسخ قرآن سے بھی ثابت ہوتا ہے دو تین آیت قرآنیہ سنا کر تناسخ کی بحث کو ختم کرتے ہیں.

Page 307

تصدیق براہین احمدیہ ۳۰۶ اوّل أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَ وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعُ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ (يس:۳۳۳۲) دوم- فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (يس:۵۱) سوم.وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّةِ خُلِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاء غَيْرَ مَجْذُوذٍ (هود: ۱۰۹) اور مصنف تنقیہ دماغ کا یہ کہنا کہ قرآن میں لکھا ہے.” اصحاب کہف کا کتا نیک اعمال کے باعث بہشت میں چلا گیا اور جانور گواہی دیں گے.یہ باتیں اس قابل نہیں کہ عقل والا جواب دے کیونکہ ان لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ یہ باتیں قرآن کریم میں مندرج ہیں حالانکہ قرآن مجید میں مندرج نہیں.لے کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ان سے پہلے کئی بستیاں ہم کھپاچکے وہ ان کی طرف دھیان نہیں کرتے.یقین سب کے سب ہمارے حضور میں حاضر ہونے والے ہیں.ے نہ تو وہ وصیت ہی کر سکیں گے اور نہ انہیں اپنے خاندان کی طرف لوٹنا ملے گا.سے سعادت مندوں کو تو جنت ملے گی.اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین رہیں.مگر جو تیرا رب چاہے یہ بخششیں کبھی بند نہ ہوں گی.

Page 307