Language: UR
مکرم ومحترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ ترجمہ و تفسیر القرآن بنام تفسیر صغیر کے متعلق ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ مرتب کیا جسے ایک مختصر کتابچہ کی صورت میں شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لائل پور(فیصل آباد) نے طبع کروایا تھا، زیر نظر دوسراایڈیشن مئی 1973ء میں سامنے آیا تھا۔ جس میں اردو زبان کی تاریخ اور اس میں ہونے والے اولین تراجم قرآنی کے تذکرہ کے بعد جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد ہونے والے خدمت قرآن کریم کے مشن کا بتایا گیا ہے اور تفسیر کبیر کے معنوی، لغوی اور ادبی کمالات پر الگ الگ ابواب میں مثالوں کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے نہایت عرق ریزی سے گزشتہ رائج مختلف تراجم قرآنی اور تفسیر صغیر کا باہم تقابل کرکے ایمان افروز نکات پیش کئے ہیں۔
مورانه دوست محمد صاحب شاید
بروید مجا من منظر روب main 15-5-1976 Presented to Khilafat Library, Rabwah by Mr.Muhammad Daud Tahip Islamabad بے مثال معنوی الغوی اور ادبی کمال مولانا دوست محمدرضا شاہد (مورخ احمدیت) الناشر مطبوعہ : ایور گرین پریس لاہور.
عنوان قرآن عظیم کا پہلا اردو ترجمہ حضرت مہدی معہود کا ظہور اُردو زبان سے متعلق عظیم انکشاف فرقانی علوم پر مشتمل بند پا یہ لٹریچر کلام اللہ کا شرف اور حضرت مصلح موعود تفسیر صغیر ایک بے مثال علمی و دینی شاہکار تفسیر صغیر ربانی قوت و طاقت سے معرض وجود میں آئی فصل اول معنوی کمالات کے بیان میں فصل دوم لغوی کمالات کے بیان میں فصل سوم ادبی کمالات کے بیان میں اختتامیه اسلام کا شاندار مستقبل قرآن تنظیم کے صحیح تراجم کے ساتھ وابستہ ہے (معاونین خصوصی کے اسماء گرامی) اک چین زار لطافت ہے یہ تفسیر صغیر (نظم) صفحه A ༈ ۱۲ ۱۳ ۱۵ " ۳۲ " " ۴۹ H ۵۳ ۵۶ i
تفسیر صغیر کے شہرہ آفاق مولف الحاج حضر مرزا بشیرالدین محمد محمد صل الموظ
Presented to Khilafat Library, Rabwah by Mr.Muhammad Daur tahir Islamaba بے مثال معنوی الغوی اور ادبی کمالات خدا نے ہے خضر راہ بنایا میں طریق محمدی کا " کلام رب رحیم در حمان بیانگ بالاسنا ئینگے ہم مقدمه قرآن عظیم کا پہلا تاریخی اردو ترجمہ المصلح الموعود) مسلمانان برصغیر کی مذہبی تاریخ میں قرآن عظیم کا پہلا تحت اللفظ اُردو ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی کے قلم سے اور با محاورہ اردو ترجمہ حضرت شاہ عبد القادر صاحب دہلوی کے قلم سے نکلا حضرت شاہ رفیع الدین صاحب کا ترجمہ ابتدا ہیں اسلام پریس کلکتہ سے شائع ہوا.جلد اول ۳۹-۱۸۳۸ء ) میں اور جلد ثانی دو برس بعد منصہ شہود پر آئی.اس ایڈیشن کی خصوصیت یہ تھی کہ اردو ترجمہ تین قرآن کے نیچے تعلیق ٹائپ میں تھا یہ دونوں ترجمے بہت
مقبول و مشہور ہوئے اور اب تک نہایت کثرت سے رائج ہیں اور بڑی قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق مرحوم ان تراجم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.یوں تو دونوں ترجمے لفظی ہیں لیکن شاہ رفیع الدین نے ترجمہ میں عربی جملہ کی ترکیب اور ساخت کی بہت زیادہ پابندی کی ہے.ایک حرف ادھر سے اُدھر نہیں ہونے پایا.ہر عربی لفظ بلکہ ہر حرف کا ترجمہ خواہ اردو زبان کے محاورے میں کچھے یا نہ تھے انہیں کرنا ضرور ہے.شاہ عبد القادر کے ترجمہ میں اس قدر پابندی نہیں کی گئی ہے.بلکہ وہ مفہوم کی صحت اور لفظ کے حسن کو بر قرار رکھنے کے علاؤ اردو زبان کے روز مرہ اور محاورے کا بھی خیال رکھتے ہیں.دوسری خوبی ان کے ترجمہ میں ایجاز کی ہے یعنی وہ ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو کم سے کم الفاظ میں مفہوم صحت کے ساتھ ادا ہو جائے." ( (بحوالہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور قرآن نمبر جلد دوم ق ) یہ ترجمے اس زمانہ میں ہوئے جبکہ اردو ادب کا کارواں اپنی ترقی و ارتقاء کے ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا.اُردو کو زیادہ تر دہلوی، ہندوی، ہندی، ریختہ اور ہندوستانی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا.اردو نثر کی کتا ہیں انگلیوں پر گنتی جا سکتی تھیں اور اہل قلم کو اس نئی زبان میں تصنیف و تالیف کرنے پر بہت تامل
تھا.ایسے ناموافق ،حوصلہ شکن اور صبر آزما ماحول میں شاہ ولی اللہی خاندان کا اردو میں ترجمہ قرآن کا بیڑا اٹھا نا بلاشبہ ایک ناقابل فراموش اور قابل تحسین کارنامہ ہے جو رہتی دنیا تک یادگار رہے گا.حضرت مہدی معہود کا ظہور ۱۴ ر ایک روایت کے مطابق، حضرت شاہ رفیع الدین رحمت اله علی لاین میں وفات پائی اور ۴ در سوال یہ مطابق ۱۳ / فروری شاہ کو حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل اور مہدی معہود شمالی ہند کی ایک مقدس بستی قادیان میں پیدا ہوئے اور جناب الہی کی طرف سے مارچ سے میں ماموریت و امامت کے مقام پر کھڑے کئے گئے اور آپ کو الہام ہوا.الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُران رو رحمن خدا نے تجھے قرآن سکھلایا ہے.كُل بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللهُ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتُعَلَّمَ (MAY ہر ایک برکت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہے.پس بڑا ہی مبارک ہے وہ جس نے تعلیم دی اور میں نے تعلیم پائی.(براہین احمدیہ حصہ سوم ، ص۲۳ حاشیه در حاشیہ نمبر طبع اول ) 44" ا تذکرہ علمائے ہند مصنفہ مولانا رحمان علیخان مطبع نولکشور طبع دوم ۱۹۱۴ء مورخ پاکستان جناب شیخ محمد اکرام صاحب نے رود کو تر میں حضرت شاہ صاحب کا سال وفات لکھا ہے.FIAIC-IA
اگر دو زبان سے تعلق عظیم انکشاف اس کے علاوہ عنایت الہی سے آپ پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس زمانہ میں اردو زبان کو خاص طور پر قرآنی حقائق و معارف کی اشاعت کا فریضہ سپرد کیا گیا ہے.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا :- خدا تعالیٰ نے تکمیل اشاعت کو ایک ایسے زمانہ پر ملتوی کر دیا جس میں قوموں کے باہم تعلقات پیدا ہو گئے اور بری اور بحری مرکب ایسے نکل آئے جن سے بڑھکر سہولت سواری کی ممکن نہیں اور کثرت مطابع نے تالیفات کو ایک ایسی شیرینی کی طرح بنا دیا جو دنیا کے تمام مجمع میں تقسیم ہو سکے.سو اس وقت حسیب منطوق آیت ذَا خَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم نیز حسب منطوق آيت قُلْ يَاتُهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ الله الم جميعا انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسر بحث کی ضرورت ہوئی اور ان تمام خادموں نے جو ریل اور تار اور اگن بوٹ اور مطابع اور احسن انتظام ڈاک اور با ہمی زبانوں کا علم اور خاص کر ملک ہند میں اردو نے جو ہندوؤں اور مسلمانوں میں ایک زبان مشترک ہوگئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بزبان حال درخواست کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم له الجمعه آیت ۴ سے الاعراف آیت ۱۵۹
ہم تمام خدام حاضر ہیں اور فرض اشاعت پورا کرنے کیلئے بدل و جان سرگرم ہیں آپ تشریف لائیے اور اس اپنے فرض کو پورا کیجئے.کیونکہ آپ کا دعوی ہے کہ تمام کا فہ ناس کے لیے آیا ہوں اور اب یہ وہ وقت ہے کہ آپ ان تمام قوموں کو جو زمین پر رہتے ہیں قرآن تبلیغ کر سکتے ہیں اور اشاعت کو کمال تک پہنچا سکتے ہیں اور اتمام حجت کے لیے تمام لوگوں میں دلائل حقانیت قرآن پھیلا سکتے ہیں تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت نے جواب دیا کہ دیکھو میں بروز کے طور پر آتا ہوں گھر میں ملک ہند میں آؤں گا کیونکہ جوش مذاہب و اجتماع جمیع ادیان اور مقابلہ جمیع ملل و نحل اور امن اور آزادی اسی جگہ ہے اور نیز آدم علیہ السلام اسی جگہ نازل ہوا تھا.(تحفہ گولڑویہ فن طبع اول) فرقانی علوم پرشتمل بلند پایہ لٹریچر چنانچہ حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے بروز رسول کی حیثیت سے عظیم انشان اردو لٹریچر پیدا کیا جس میں فرقانی علوم کے دریا بہا دیئے.کتاب اللہ کو ایک زندہ کتاب کی حیثیت سے پیش فرمایا.قرآن مجید کا مقدس ، صاف اور بکھرا ہوا حقیقی چہرہ نور وحی اور نور فراست سے نمایاں کیا.زبردست دلائل و براین دیئے کہ اس پاک کتاب کا ہر نقطہ اور شعشہ قیامت تک کے لیے محفوظ اور قابل عمل ہے.وہ ہر قسم کے شیطانی تصرف اور دست برد سے کلیتہ پاک اور
1.حفوظ ہے.سنت و حدیث اس پر قاضی نہیں بلکہ وہ ان سب کا پیشوا ہے.وہ مکمل کتاب نہیں مفصل کتاب ہے جس کی سطر سطر ایک اعجازی، ابلغ ، ارفع اور محکم نظام روحانی سے مربوط ہے.اس میں کوئی قصہ یا داستان موجود نہیں اور بظا ہر جو واقعات اس میں درج ہیں ان کے پس پردہ غیبی خبروں کا ایک غیر متناہی سلسلہ موجود ہے.آپ نے اپنے روحانی تجربات و مشاہدات کی بناء پر نیچری خیالات کی دھجیاں بکھیر دیں اور ثابت کیا کہ قرآن مجید اول سے آخر یک کلام اللہ ہے.مدتوں سے علمائے ظواہر کا ایک طبقہ حکیم المل نے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی کی ذات سے اس لیے پر خاش رکھت اور ان کو رمعاذ اللہ ) کافر قرار دیتا تھا کہ انہوں نے فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرنے کی بدعت کیوں رائج کی مگر حضرت مهدی موعود نے بحیثیت حکم عدل فیصلہ فرمایا کہ قرآن مجید کا ترجمہ جاننا ضروری ہے یہ نیز آپ نے اپنے قلم مبارک سے صد با قرآنی آیات کا نهایت روال ، شستہ اور دل آویز با محاورہ ترجمہ کیا اور قرآن مجید کے ٹھیک ٹھیک مفہوم کو واضح کرنے کے لیے زبان اردو کے برجستہ اور بر محمل الفاظ اور محاورے استعمال کیے.آپ کا ترجمہ نہ صرف نہایت واضح ، غایت درجہ لطیف اور شاندار حقائق و معارف سے عبریز ہے بلکہ اپنے اندر القائی رنگ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے اپنی ذات میں بھی مستقل برکات کا حامل ہے.اه حضرت مهدی موعود نے شاہ صاحب کو اپنی کتاب اتمام الحجہ میں اسی خطاب سے یاد فرمایا ہے ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد پنجم من الناشر الشركة الاسلامیہ ربوہ.
الغرض حضرت مهدی موعود علیہ السلام سے قرآنی تفسیر اور ترجمہ کی دنیا میں ایک نئے اور انقلابی اور کا آغاز ہوتا ہے جس کی تفصیلات پر نیم کتا ہیں بھی لکھی جائیں تو ہر گز مکتفی نہیں ہو سکتیں.کلام اللہ کا شرف اور حضرت مصلح موعونی قرآن شریف کے معارف دقیقہ، علوم حکمیہ اور طباعت کالہ کا یہ ریائے فیض خدائے عزوجل کی پاک بشارتوں کے مطابق آپ کے بعد اس ز کی غلام، مقدس روح رکھنے والے ، رجز سے پاک اور مبارک وجود میں منتقل ہوا جسے حسن و احسان میں آپ کا نظیر بتلایا گیا تھا اور حسین کے ساتھ کلام اللہ کا شرف“ ازل سے والبتہ تھائیے میری مراد سیدنا و امامنا و مرشد نا حضرت امیر المومنین مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود رضی اللہ عنہ سے ہے جن کی زندگی کا ایک ایک سائنس خدمت قرآن اور اشاعت قرآن کے لیے وقف رہا اور جن کے پیدا کردہ بلند پایہ اسلامی وقرآنی لٹریچر کی عظمت و اہمیت کا اقرار غیر از جماعت محقق علماء کو بھی ہے.چنانچہ " صدق جدید" کے مدیر شہیر مولانا عبد الماجد صاحب در یا بادی نے حضور کے وصال پر تحریر فرمایا :- قرآن و علوم قرآن کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انھوں نے سرگرمی او را ولوالعربی نه اشتهار ۲۰ فروری شله ( تذکره طبع سوم ۲۳۵ تا ۱۳۲ -
اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا اللہ انہیں صلہ دے علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح ، تبیین و تر جمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند و ممتاز مرتبہ ر صدق جدید ۱۸ نومبر ۱۹۶۵ء ہے" تفسیر صغیر ایک بے مثال علمی و دینی شاہر کار اس تعلق میں حضور پر نور کی آخری معرکة الآراء تالیف تفسیر صغیر ایک لاجواب اور بے مثال علمی و دینی شاہکار ہے.یہ تفسیر پہلی بار دسمبر و اد میں شائع ہوئی اور اب تک اس کے چار مینتھو اور دو نہایت اعلیٰ درجہ کے عکسی ایڈیشن چھپ چکے ہیں.اور خدا کے فضل سے قبولیت عامہ کی سند حاصل کر چکے ہیں.اخبار امروز لاہور نے اپنی 19 مئی ۱۹۶۶ ہ کی اشاعت میں اس پر یہ تبصرہ لکھا:.یہ تفسیر احمدیہ جماعت کے پیشوا الحاج مرزا بشرالدین محمود مرحوم کی کا وش فکر کا نتیجہ ہے.قرآن کے عربی متن کے اردو ترجمے کیساتھ کئی مقامات کی تشریح کے لیے حواشی اور تفسیری نوٹ دیئے گئے ہیں.ترجمہے اور حواشی کی زبان نہایت سادہ اور آسان فہم ہے.تفسیر صغیر حسن کتابت اور حسن طلبات کا مرقع ہے " رسالہ سیارہ ڈائجسٹ (جلد دوم) نے قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر نه و مطابق فتح ۱۳۳۶ هش رجب ۱۳۷۷هـ )
۱۳ کے زیر عنوان چالیسویں نمبر پر اس بے نظیر تالیف کا تعارف درج ذیل الفاظ میں کرایا :- ۴۰ - بشیر الدین محمود احمد مرزا خلیفہ ثانی جماعت احمدیہ ترجمہ قرآن مع تفسیر صغیر لاہور نقوش پر میں ۱۹۶۷ء کیفیت 1944 ء 1999 میں بہترین ایڈیشن آرٹ پیپر پر بڑی نفاست سے چھپا.صفحہ دو کالی ہے.ایک میں تمن دوسرے میں ترجمہ - حاشیہ میں تفسیری نوٹ دیئے گئے ہیں.پہلا ایڈیشن 1904ء میں ربوہ سے شائع ہوا.۶۱۹۵۶ تفسیر صغیر کا با محاورہ اردو ترجمہ جو اس مقالہ کا موضوع خاص ہے اپنی بے مثل اور امتیازی شان کے باعث عالم کبیر قرار دیا جائے تو قطعاً مبالغہ نہ ہوگا.جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا تفسیر صغیر ربانی قوت وطاقت سے معرض وجود میں آئی اگر ہم واقعاتی نقطہ نگاہ سے غور کریں تو صاف معلوم ہوگا کہ تفسیر صغیر کا معرض وجود میں آنا تراجم قرآن کی دنیا کا ایک غیر معمولی اور ناقابل فراموش واقعہ ہے جس کے پیچھے ربانی قوت و طاقت صاف طور پر کار فرما نظر آتی ہے.وجہ یہ کہ اس مبارک تالیف کے وقت سیدنا حضرت المصلح الموعوض کی عمر مبارک اڑسٹھ سال کے قریب تھی جو جنوبی ایشیا کے ماحول میں بڑھاپے کی عمر کہ سہو ہے.۱۹۵۷ء چاہیے (ناقل )
سمجھی جاتی ہے.علاوہ ازیں دو سال پہلے حضور پر ایک قاتلانہ حملہ ہو چکا تھا جس کے اثرات ابھی باقی تھے کہ 1900ء میں آپ کی علامت انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر گئی اور حضور کو بغرض علاج یورپ تشریف لے جانا پڑا.سفر یورپ پر روانگی سے قبل حضور نے احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں تحریر فرمایا کہ: میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی.تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کہ جاؤں اور دنیا پھر ایک لیے عرصے کے لیے قرآن شریف سے واقف ہو جائے اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے الفضل ۱۰ را پریل شاء مقت) له خدا تعالیٰ کے اس محبوب بندہ کی اس پر سوز دعائے عرش الہی ہلا دیا.خدا کی رحمت یکایک ہوش میں آگئی اور بڑھاپے کے مستقل عوارض اور دوسری بیماریوں نیز انتہائی جماعتی مصروفیتوں اور رکاوٹوں کے باوجود چند ماہ کے اندر اندر پورے قرآن کے مطالب پرمشتمل نہایت مختصر مگر جامع و مانع تفسیر نه صرف مرتب ہوئی بلکہ چھپ کر شائع بھی ہو گئی.یہ گویا ایک الہی تمغہ ، ایک روحانی تاج اور ایک آسمانی خلعت تھی جو اللہ جلشانہ کی طرف سے کلام اللہ ے مطابق ۱۰ شهادت ۱۳۳۲ هش
10 کے شرف اور مرتبہ کے اظہار کے لیے حضرت مصلح موعود سید نا محمود رضی اللہ عنہ کو عطا کی گئی.اس شہرۂ آفاق ترجمہ کے محاسن و کمالات کو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں تاہم اصولی طور پر اس کے حسب ذیل تین کمالات بالکل نمایاں ہیں.اور سرسری مطالعہ سے ہی معلوم ہو سکتے ہیں :- ای معنوی کمالات :.دینی قرآن مجید کی روح اور اس کے مفہوم کو اردو میں منتقل کرنیکے کمالات ).لغوی کمالات :.یعنی وہ کمالات جو عربی لغت کی روشنی میں ہمارے سامنے آتے ہیں ).۳.ادبی کمالات :- ریعنی ترجمہ کے لیے اردو زبان کے موزوں، شستہ اور فصیح الفاظ کے انتخاب سے متعلق کمالات جن سے اس کے بلند پایہ اور با محاورہ ترجمہ کی عظمت کا پتہ چلتا ہے).فصل اوّل معنوی کمالات کے بیان میں حضرت مهدی معهود و مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.سب سے اول معیار تفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں.یہ بات نہایت تو جہ سے یا د رکھنی چاہیئے کہ قرآن کریم اور معمولی کتابوں کی طرح نہیں
14 جو اپنی صداقتوں کے ثبوت یا انکشاف کے لیے دوسرے کا محتاج ہو وہ ایک ایسی متنا سب عمارت کی طرح ہے جس کی ایک اینٹ ہلانے سے تمام عمارت کی شکل بگڑ جاتی ہے اس کی کوئی صداقت ایسی نہیں ہے جو کم سے کم دس یا ہیں شاہد خود اسی میں موجود نہ ہوں.سو اگر ہم قرآن کریم کی ایک آیت کے معنے کریں تو ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ان معنوں کی تصدیق کے لیے دوسرے شواہد قرآن کریم سے ملتے ہیں یا نہیں.اگر دوسرے شواہد دستیاب نہ ہوں بلکہ ان معنی کی دوسری آیتوں سے صریح معارض پائے جاویں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وہ معنے بالکل باطل ہیں کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآن کریم میں اختلاف ہو اور نیچے معنوں کی یہی نشانی ہے کہ قرآن کریم میں سے ایک لشکر شواہد مبینہ کا اس کا مصدق ) بركات الدعا طبع اول صلات ۱۵ l سید نا منضرت امام مہدی معہود علیہ السلام کے مندرجہ بالا ارشاد مبارک کی روشنی میں ترجمہ تفسیر صغیر کا بنیادی اصول یہی ہے کہ قرآن مجید کوسب سے اول قرآن مجید ہی سے حل کیا جائے اور متشابہات کے معنے محکم آیات کے ماتحت لا کر کئے جائیں.اس حقیقت کی وضاحت کے لیے بطور نمونہ چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں ہے پہلی مثال | آیت الله الذِينَ كَفَرُ وا سوا لا عَلَيْهِمْ وَأَصْنَ رَم اس مقالہ میں آیات قرآنی کے نمبر تفسیر صغیر کے مطابق دیئے گئے ہیں.
ولا يُؤْمِنُونَ ، والبقره آیت ) (ترجمہ تفسیر صغیر :: ایسے لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے (اور) تیرا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اُن کے لیے کیساں راثر پیدا کرتا ہے (جب تک وہ اس حالت کو نہ بدلیں ) ایمان نہیں لائیں گے " ی ترجمہ قرآن مجید کی اُن تمام آیات سے مطابقت رکھتا ہے جن میں آئیندہ کفار کے فوج در فوج حلقہ بگوش اسلام ہونے کی خبر دی گئی ہے (سورۃ النصر) اس ترجمہ کی یہ بھی خوبی ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات مقدس پر وہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتا.جو خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ کی اگلی آیت کی بناء پر دشمنان قرآن مثلاً پنڈت دیانند وغیرہ نے بڑی شدومد سے کیا ہے.دوسرے تراجم ) : بے شک جو لوگ کفر راختیار کئے ہوئے ہیں ان کے حق میں یکساں ہے خواہ آپ انھیں ڈرائیں یا آپ نہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لائینگے مولانا عبد الما بعد صاحب دریا بادی مدیر صدق جدید.(اے پیغمبر) جن لوگوں نے رقبول اسلام سے انکار کیا ان کے حق میں یکساں ہے کہ تم ان کو عذاب الٹی سے ڈرا دیا نہ ڈراؤ وہ تو ایمان لانے والے ہیں ہی نہیں " شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی ، بے شک جو لوگ کافر ہو چکے ہیں برا بر ہے اُن کے حق میں خواہ آپ اُن کو ڈرائیں یانہ ڈرائیں وہ ایمان نہ لاویں گے " رشاہ اشرف علی صاحب تھانوی قادری چشتی جو لوگ کافر ہیں انھیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو اُن کے لیے برابر ہے وہ ایمان نہیں لانے کے رمولانا فتح محمد صاب J'
جالندھری " بے شک جو لوگ کافر ہو چکے برابر ہے ان کو تو ڈرائے یا نہ ڈرائے وہ ایمان نہ لائیں گے.(مولانا محمود حسن صاحب شیخ الہند) " جن لوگوں نے ان باتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اُن کے لیے کیساں ہے، خواہ تم اُنھیں خبر دار کر دیا نہ کرو بہر حال وہ ماننے والے نہیں ہیں.(مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی) - دوسری مثال اللہ تعالی کا حکم ہے.لَا تَسْجُدُ وَاللشَّمْسِ وَلا لِلْقَمَرِ واسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ، رحم السجدہ آیت (۳۸) نہ سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ رفت اللہ کو جس نے ان دونوں کو پیدا کیا ہے.سجدہ کرو اگر تم پکے موحد ہو.اس قرآنی وضاحت کی روشنی میں تغییر صغیر میں دَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلائِكَةِ اسْجُدُ والأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبليس البقرہ آیت ۳۵) کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے." اور راس وقت کو بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو.پس انہوں نے تو فرمانبرداری کی مگر ابلیس نے نہ کی.عربی زبان میں سجدہ کے معنے ظاہری سجدہ کرنے کے علاوہ فرمانبرداری کے بھی ہوتے ہیں را قرب ) پس جناب الٹی کی طرف سے فرشتوں کو آدم کے لیے ظاہری سجدہ کا نہیں اطاعت ہی کا حکم دیا جا سکتا تھا.ر دوسرے تراجم : اور یاد کرد جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کروٹ (مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی "امام المسنت) -
19 تفسیری مثال | قرآن عظیم نے جس خدا کا تصور پیش کیا ہے وہ قدوس ہے یعنی پاک اور سب خوبیوں کا جامع.(الجمعہ آیت ۴ ) ترجمہ تفسیر صغير مي خدا تعالیٰ کی صفت قدوسیت کا رنگ پوری شان سے جلوہ گر نظر آتا ہے.اس سلسلے میں چند نمونے ملاحظہ ہوں.(الف) آیت قُلِ اللهُ اَسْرَعُ مَكَرَاط ریونس آیت (۲۲) (ترجمہ تغیر صغیر : تو انہیں کم رکہ اس کے مقابل پر اللہ کی تدبیر تو بہت ہی جلد (کارگر ہوا کرتی ہے.دوسرے تراجم :: ان سے کو اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے." (مولانا سید ابو الا علی صاحب مودودی) " آپ کہہ دیجئے اللہ چالوں میں ان سے بھی بڑھا ہوا ہے ؛ مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی) - چوتھی مثال آیت وَاللهُ خَيْرُ الْمَاكِرين ، (آل عمران آیت ۵۵) (ترجمہ تفسیر صغیر ) : " اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے " دوسرے ترام اور خدا خوب چال چلنے والا ہے.مولانا فتح محمد خاں صاحب جالندھری ) کا پانچویں مثال | قرآن مجید عصمت انبیاء کے مضمون سے بھرا پڑا ہے.ایک مقام پر ارشاد ہوتا ہے.اِنَّ عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيهِم سُلْطَانُ..الحجر آیت ۴۳) یعنی جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا ریعنی شیطان کا کبھی تسلط نہیں ہوگا.
دوسری جگہ لکھا ہے وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُول و إِلَّا إِذَا تَمَى القَى الشَّيْطَنُ فِي أَمْنِيَّتِهِ (الحج آیت ۵۳) سید نا حضرت مصلح موعود نے پہلی آیت کی رہنمائی سے دوسری آیت میں القائے شیطان سے اس کی پیدا کردہ مشکلات مراد لی ہیں اور یہ ترجمہ فرمایا.ہے کہ:.اور ہم نے تجھ سے پہلے نہ کوئی رسول بھیجا نہ نبی مگر جب بھی اس نے کوئی خواہش کی شیطان نے اس کی خواہش کے رستہ میں شکلات ڈال دیں " ان معنوں نے ان تمام اختراعی روایات پر خط تنسیخ کھینچ دیا ہے.جن میں ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سيد الاحیاء امام الاصفياء ختم المرسلين فخر النبيين جناب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر شیطانی القاء کی تہمت لگائی گئی اور جودشمنان اسلام کی سوچی سمجھی سازش سے اسلامی لٹریچرمی بھی راہ پاگئی ہیں.ر دوسرے تراجم ) : ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر راس کا یہ حال تھا کہ جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آرزو میں (وسوسہ) ڈال دیتا تھا " (مولانا فتح محمد خان صاحب جالندھری) چھٹی مثال اللہ جل شانہ فرماتا ہے.حَتَّى إِذَا اسْتَيْسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أنهُمْ قَدْ كُذِبُوا ریوسف آیت (11) تفسیر صغیر میں اس آیت کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ :- اور جب ایک طرف تو ) رسول رانکی جانب سے نا امید ہوگئے اور دوسری
طرف) ان منکروں کا، یہ پختہ خیال ہو گیا کہ ان سے روحی کے نام سے ) جھوٹی باتیں کی جارہی ہیں.یه ترجمه سوره یوسف آیت مہم کی روشنی میں کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی رحمت سے کافروں کے سوا کوئی نا امید نہیں ہوتا.ر دوسرے تراجم ) : یہاں تک کہ پیمبر یوس ہو ہو گئے ہیں اور گمان کرنے لگے کہ ان سے غلطی ہوئی " (مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی ) نیاں تک کہ جب نا امید ہونے لگے رسول اور خیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا." (مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند ) یہاں تک کہ جب پیغمبر نا امید ہو گئے اور انہوں نے خیال کیا کہ راپنی نصرت کے بارے میں جو بات انہوں نے کسی تھی اس میں) وہ پیچھے نہ نکلے کہ (مولانا فتح محمد خان صاحب جالندھری) ساتویں مثال آیت قَالَ بَلْ فَعَلَهُ لا كَبِيرُهُم هذا | نَسْتَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنْطِقُونَ ، (الانبیاء آیت (۶۴) ترجمہ تفسیر صغیر) : " (ابراہیم نے کہا کہ (آخر) کسی کرنے والے نے تو یہ کام ضرور کیا ہے.یہ سب سے بڑا بت سامنے کھڑا ہے اگر وہ بول سکتے ہوں تو ان سے ข دوو ریعنی اس بہت سے بھی اور دوسرے بتوں سے بھی پوچھ کر دیکھے " قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کو حد يقا نبیاہ کے خطاب سے یاد کیا ہے.مندرجہ بالا ترجمہ اسی نظریہ کی تائید میں کیا گیا ہے جس سے ان تمام روایات کی تغلیط ہو جاتی ہے جن میں اس جلیل القدر پیغمبر پر چھوٹ کے شرمناک
الزامات عائد کئے گئے ہیں.( دوسرے تراجم ) :.اس نے جواب دیا بلکہ یہ سب کچھ ان کے اس سردار نے کیا ہے ان ہی سے پوچھ لو اگر یہ بولتے ہوں.(مولانا سید ابوالاعلی صاحب مودودی) آٹھویں مثال آیت وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهُم بِهَا ، ریوسف آیت (۲۵) ترجمہ تفسیر صغیر : " اور اس عورت نے اُس کے متعلق را پنا ارادہ پختہ کر لیا اور اُس (یوسف) نے بھی اس کے متعلق (اپنا ارادہ رلینی اس سے محفوظ رہنے کا ) پختہ کر لیا " اس پر معارف ترجمہ کی حقانیت پر اگلا حصہ آیت شاہد ناطق ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام تو تقدس کے اس مقام بلند پر پہنچے ہوئے تھے جہاں رب ذوالجلال کی برہان کا جلوہ صاف دکھائی دیتا ہے میں ایسا مقدس انسان جو انوار اللی کا محبت ہو وہ (عزم کے درجہ میں بدخیالی میں مبتلا ہی کب ہو سکتا ہے ؟ ر دوسرے تراجم :.اور اس (عورت) کے دل میں تو ان کا خیال جسم ہی رہا تھا اور انہیں بھی اس دعورت کا خیال ہو چلا تھا.(مولانا عبدالماجد صاب دریا بادی اور اس عورت نے اُن کا قصد کیا اور انہوں نے اس کا قصد کیا." رمولانا فتح محمد خان صاحب جالندھری) اور اس عورت کے دل میں تو ان کا خیال جسم ہی رہا تھا اور اُن کو بھی اس عورت کا کچھ خیال ہو چلا تھا " و مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی قادری پشتی )
۲۳ نویس مثال آیت قَالَ هَؤُلَاءِ بَنتِى إِن كُنتُمْ فَعِلين، والحجر آيت (٢) (ترجمہ تفسیر صغیر) :.اس نے کہا کہ اگر تم نے (میرے خلاف کچھ کرنا رہی ہو تو یہ میری بیٹیاں رقم میں موجود ہی) ہیں جو کافی ضمانت ہیں.اس ترجمہ سے حضرت لوط علیہ السلام کا پیغمبرانہ انداز اور دشمنان حق کی سیاسی چالبازی، دونوں کی صحیح عکاسی ہوتی ہے.رد وسرے تراجم : " بولا یہ حاضر ہیں میری بیٹیاں اگر تم کو کرنا ہے " (مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند ) و سویس مثال | آیت يَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ دَمَا نَاخَرَ الفتح آیت ۳) اترجمہ تفسیر صغیر ، : " جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے گزر چکے میں ڈھانک دیگا اور جواب تک ہوئے نہیں رلیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے) ان کو بھی ڈھانک دیگا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتم الوہیت تھے جن کا آنا خدا کا آنا، جن کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ، جن کی بیعت خدا کی بیعت اور جن کا ظہور خدا کا ظہور تھا.را فعال ہے.فتح لع ) آپ کا وجود مبارک مرتی اعظم تھا المجمد (ع) اور آپ کی برکت سے ظلمات نور میں بدل گئے راحزاب (ع ) پس آپ کی ذات سے کسی ادنی ترین گناہ کا بھی تصور نہیں ہو سکتا.لہذا مانا پڑیگا کہ حضرت مصلح موعود کار رقم فرمودہ ترجمہ قرآنی روح اور مزاج کے بالکل مطابق ہے.ر دوسرے تراجم ) : تا کہ اللہ آپ کی (سب) اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دے.
۲۴ ولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی " تم معاف کرے تجھ کو اللہ جو آگے ہو مولانا پکے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے.شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب) گیارہویں مثال ) اللہ جل شانہ فرماتا ہے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غواى را نجم آیت) را نجم آیت ) تمہارا ساتھی نہ رستہ بھولا ہوا ہے نہ گمراہ ہوا ہے.حضرت مصلح موعود نے اس ارشادِ ربانی کے مد نظر آیت وَوَجَدَكَ ضَا لا فَهَدی (الضحی) کا کیا نفیس، پاکیزہ اور روح پر در ترجمہ کیا ہے فرماتے ہیں:.اور (جب ) اس نے تجھے اپنی قوم کی محبت میں سرشار دیکھا تو ان کی اصلاح کا صحیح راستہ تجھے بتا دیا اس ترجمہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نسل انسانی کے محسن عظم اور ریب کریم کے سب سے بڑے محبوب ہونے کا پتہ چلتا ہے.دوسرے تراجم ) : " اور تم کو دکھا کہ راہ حق کی تلاش میں بھٹکے بھٹکے پھر رہے ہو.تو تم کو دین اسلام کا سیدھا رستہ دکھا دیا.ر شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی) ھجر ور پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی.شیخ الہندمولا نا محمد من صاب) راہ الہند مولانا مومن بارھویں مثال | آیت وَالرَّجُزَ فَاهْجُرة والمدار آیت (4) (ترجمہ تفسیر صغیر ) : " اور شرک کو مٹا ڈال " عربی میں رجز شرک کیلئے گھر کاٹ ڈالنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی عظمت کے مدنظر حضرت مصلح موعود نے یہی معنے انتخاب فرمائے ہیں.دوسرے تراجم ) : " اور نیتوں سے دور رہو.مولانا احمد رضاخان صاء امام المنت)
۲۵ وو اور نیتوں سے الگ رہونا (مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قادری) اور گندگی سے دوررہ" (مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند ) اور بتوں سے الگ رہیئے" (مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی) اور ناپاکی سے دور ہو" (مولانا فتح محمد خان صاحب بجالندھری) تیرہویں مثال آیت تُمَّ دَ في فَسَدَلی : النجم آیت (۹) (ترجمہ تفسیر صغیر : " اور وہ دینی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اس اضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کر کے خدا سے ملنے کے لیے ) اس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں ) اوپر سے نیچے آگیا " ر دوسرے تراجم : پھر قریب آیا پھر اوپر معلق ہو گیا ؟ ) مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی ) پھر وہ فرشتہ (آپ کے نزدیک آیا پھر اور نزدیک آیا ہے ( مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی) چودھویں مثال | آیت إِنَّ أَصْحَبُ الجَنَّةِ اليَومَ فِى شُغْلِ فکهونه رییس آیت (۵۶) اترجمہ تفسیر صغیر مینتی لوگ اس دن ایک اہم کام دینی ذکر الہی میں مشغول ہونگے یا حضرت مصلح موعود نے "اہم" کے معنے شغل کی تنوین سے نکالے ہیں.علاوہ ازیں قرآن مجید سے ثابت ہے کہ جنت خدا کی رضا اور لقاء کی تیملی گاہ ہے جہاں بہشتی لوگ ہر وقت اور ہر لحظہ خدا کے ذکر میں مصروف رہیں گے اور
۲۶ ان کی ترقیات غیر متناہی ہوں گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اتمم لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيره التحريم آیت 9) یعنی جو لوگ دنیا میں ایمان کا نور رکھتے ہیں ان کا نور قیامت کو اُن کے آگے اور اُن کے داہنی طرف دوڑتا ہو گا وہ ہمیشہ یہی کہتے رہیں گے کہ اسے خدا ہمارے نور کو کمال تک پہنچا اور اپنی مغفرت کے اندر ہمیں لے لے.تو ہر چیز پر قادر ہے.جنتیوں کا اپنے نور کو کمال تک پہنچنے کے لیے دعاؤں میں مصروف رہنا اشارہ کرتا ہے کہ اہل جنت محتم دُعا بن جائیں گے اور ان کی خوشیوں اور مسترتوں کا سب راز دعا ہی میں پنہاں ہو گا جو اُن کی دائمی زندگی کا اصل مقصد اور تخلیق انسانی کی غرض و غایت ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُ دُنه (الذریت آیت ۵۷) الغرض حضرت مصلح موعوض کا مندرجہ بالا ترجمہ دوسری آیات قرآن مجید کے عین مطابق ہے.دوسرے تراجم ) : " بے شک جنت والے آج دل کے بہلاؤؤں میں چین کرتے ہیں." (مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی قادری چشتی) اہل جنت بے شک اس دن اپنے مشغلوں میں خوش دل ہونگے.ر مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی قادری چشتی و مولانا عبدالماجد صاحب دریا بادی )
تحقیق بہشت کے لوگ آج ایک مشغلہ میں ہیں باتیں کرتے یا (مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند ) آج جنتی لوگ مزے کرنے میں مشغول ہیں.ر مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی بانی جماعت اسلامی) جنت والے اس دن ایک کام میں لگے ہوئے خوش ہونگے ؟ مولانا محمدعلی باب امیر احمد به ان اشاعت اسلام الامور) اہل جنت اس روز عیش و نشاط کے مشتعلے میں ہوں گے.(مولانا فتح محمد خان صاحب جالندھری) پندرہویں مثال عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُم فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمج والبقره آیت (۱۸۸) (ترجمہ تفسیر صغیر ) : " اللہ کو معلوم ہے کہ تم اپنے نفسوں کی حق تلفی کرتے تھے اس لیے اس نے تم پر فضل سے توجہ کی اور تمہاری راس حالت کی اصلاح کر دی: قرآن مجید نے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و رفعت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ انہوں نے نے اپنی نفسانی خواہشات چھوڑ کر خدا کی رضا مقدم کرلی.اور رضوان الہی کا تاج ان کے سروں پر رکھا گیا رضی اللہ عَنْهُمْ وَرَضُوا عثر التوبہ آیت ۱۰۰) وہ شرک سے پاک اپنے مولا کے مطیع اور مہر دم اس کی رضاء کی جستجو میں زندگی گزارنے والے بزرگ تھے.رتَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْد انا الفتح آیت ۳۰)
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں تفسیر صغیر کا مذکورہ ترجمہ اس شان کا ہے که روح و قلب و جد کر اُٹھتے ہیںاور صحابہ النبی پر بے ساختہ درود پڑھنے کو جی چاہتا ہے اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ - حضرت مصلح موعود تحریر فرماتے ہیں تختانون انفلو کے منے اپنے نفسوں کی حق تلفی کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے ہم نے اس جگہ کئے ہیں کیونکہ وہ صحابہ کی شان کے مطابق ہیں اور مطلب یہ ہے کہ گو یہ حکم شرعی نہیں تھا مگر پھر بھی تم اپنی جانوں کو تکلیف میں ڈالنے کی کوشش کرتے تھے اب ہم نے شرعی حکم بتا دیا ہے تاکہ تم خواہ مخواہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالو عفا الله عن کے معنے ہیں اَصْلَحَكَ اللهُ وَاعَزَّكَ یعنی اللہ تیرے کاموں کو درست کرے اور تجھے عزت دے (اقرب) ہم نے اسی محاورہ کے مطابق عَفَا عَنکم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ نے تمہاری اس حالت کی اصلاح کردی " ردوسرے تراجم اللہ نے جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے تھے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا " ر مولانا احمد رضا خاں صاحب قادری چشتی امام اہلسنت) اللہ کے علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ تم اپنے اندر ایک بات کا خیال رکھکر ، پھر اس کی بجا آوری میں خیانت کر رہے ہو یعنی اپنے ضمیر کی خیانت کہ رہے ہو کیونکہ اگرچہ اس بات میں برائی نہ تھی مگر تم نے خیال کر لیا تھا کہ بڑائی ہے ) پس اُس نے راپنے فضل و کرم سے تمہیں اس غلطی کے لیے جو اہدہ نہیں
۲۹ ٹھہرایا ) تمہاری ندامت قبول کرلی، اور تمہاری خطا بخش دی " ر امام الہند مولانا ابوالکلام صاحب آزاد ) اللہ کو معلوم ہوگیا کہ تم لوگ چپکے چپکے اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے نگر اُس نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور تم سے در گزر فرمایا " مولانا سید ابو الاعلیٰ مودوی بانی جماعت اسلامی ) "خدا تعالیٰ کو اس کی خیر تھی کہ تم خیانت (کہ ) کے گناہ میں اپنے کو مبتلا کر رہے تھے (گھر) خیر اللہ تعالیٰ نے تم پر عنایت فرمائی اور تم سے گناہ کو دھو دیا مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قادری چشتی ) سولہویں مثال آیت وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ " العفوط (البقره آیت ۲۲۰) ترجمہ تفسیر صغیر) : " اور وہ (لوگ) تجھ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ وہ (یعنی سائل کیا خرچ کریں ؟ تو کہہ دے کہ جتنا تکلیف میں نہ ڈالے یا قرآن مجید ایک دائمی شریعت ہے اس لیے اس کے پیش کردہ لازمی نظام زکواۃ ، نظام وراثت اور انفاق فی سبیل اللہ کے طوعی رستے قیامت تک کھلے رہین گے اس لیے عضو کے لغوی معنوں میں سے اپنی معنوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو اس مقام کے سیاق و سباق سے مطابقت رکھتے ہوں اور وہی معنے حضرت مصلح موعود نے لفظ عفو کے کئے ہیں ریعنی جتنا تکلیف میں نہ ڈالے، چنانچہ حضرت مصلح موعود و فرماتے ہیں :." عقد کے تین معنے ہوتے ہیں (1) خيار الي واطيبه یعنی سب
سے اچھی اور پاکیزہ شے (۲) مَا يُفْضُلُ عَنِ النَّفَقَةِ وَلَا عُسُه عَلى صاحبه في إعطائه جو اپنے ضرور کی خرچ سے بچ جائے اور دینے والے کو اس کے دینے سے تکلیف نہ پہنچے (٣) يُقَالُ اَعْطَيْتُهُ عَفْوَ الْمَالِ أَى بِغَيْرِ مَسْتَكَتے.یعنی عفو کے منے بغیر مانگے دینے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب پہلے بھی ایسا ہی سوال گزر چکا ہے اور وہاں جواب دیا تھا کہ جو بھی سلال و طیب مال خرچ کر و مناسب ہے وہاں اقسام صدقہ کے متعلق سوال تھا یہاں کمیت کے متعلق سوال ہے یعنی کتنا ہے.؟ سو اس کے جواب میں عضو کا لفظ استعمال کیا جو دو معنے رکھتا ہے اور دونوں ہی یہاں مراد ہیں جن کی ایمانی حالت ادنی ہے اُن کے لیے یہ معنے ہیں کہ اس قدر صدقہ کرو کہ بعد میں تمہارے ایمان میں تزلزل نہ آئے اور تم دکھ میں نہ پڑ جاؤ.دُکھ میں پڑنے کے اس جگہ یہ بھی معنے ہیں کہ بعد میں لوگوں سے مانگتا نہ پھر سے یا یہ کہ دین اور ایمان کو صدمہ نہ پہنچے.دوسرا گروہ متوکلین کا ہے ان کے لیے یہ حکم ہے کہ اپنے مال کا بہترین حصہ خدا کی راہ میں دو.ان لوگوں کا چونکہ ایمان مضبوط ہوتا ہے ان کا حکم دوسرے مومنوں سے الگ ہے لیکن یہ قرآن کریم کا کمال ہے کہ دونوں قسم کے لوگوں کا حکم ایک ہی لفظ میں بیان کر دیا.دوسرے تراجم ) : " اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں.کہدے جو بچے اپنے خرچ سے" (مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند ) اور تم سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں.تم فرماؤ جو فاضل بیچے " (مولانا احمد رضا خان صاحب)
" پوچھتے ہیں ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں.کہو جو کچھ تمہاری ضرورت - زیادہ ہو ر مولانا سيد ابو الاعلیٰ صاحب مودودی ) سترھویں مثال آیت إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّهِ فَقَدْ صَغَتْ قلوبكما ج (التحریم آیت (۵) ترجمہ تفسیر غیر : تم دونوں کے دل تو پہلے ہی اس بات کی طرف جھکے ہوئے ہیں.یہ آیت ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے جن کو کلام الہی میں مومنوں کی مائیں قرار دیا گیا ہے اور جن کا پاکیزہ اور اعلیٰ اور قابل رشک نمونہ ہونا اشارۃ النص سے ثابت ہے (الاحزاب آیت ۳۴-۳۵) لغت میں صفی اليه کے معنی مال یعنی جھکنے کے ہیں (مفردات، پس حضرت مصلح موعود کا ترجمہ قرآن اور لخت دونوں کے عین مطابق ہے." دوسرے تراجم : ضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں : رمولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی امام المسنت " تم دونوں نے کھبرائی اختیار کی ہے یا رشمس العلماء ڈپٹی مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی' تمہارے دل کیج ہو گئے ہیں.(مولوی فتح محمد خان صاحب جالندھری)
۳۲ فصل دوم لغوی کمالات کے بیان میں حضرت مهدی معهود و سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لغات عرب کو قرآن مجید کے صحیح ترجمہ اور تفسیر کے لیے ایک بنیادی معیار قرار دیا ہے چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے لیکن قرآن کریم نے اپنے وسائل آپ اس قدر قائم کر دیئے ہیں کہ چنداں لغات عرب کی تفتیش کی حاجت نہیں ہاں موجب زیادت بصیرت بے شک ہے بلکہ بعض اوقات قرآن کریم کے اسرار مخفیہ کی طرف لغت کھودنے سے توجہ پیدا ہو جاتی ہے اور ایک بھید کی بات نکل آتی ہے یہ د بركات الدعاملات ) طبع اول ) حضرت اميرالمومنين المصلح الموعود عہد حاضر کے وہ عظیم مترجم میں جنہوں نے نہ صرف وسیع پیمانے پر تحقیق و تفحص اور چھان بین کے بعد ترجمہ کا بیڑا اٹھایا بلکہ اپنے ترجمہ کے فلسفے پر ساتھ کے ساتھ بلغ روشنی ڈال کر کتاب رحمان پر ایمان لانے والوں کے لیے عرفان کی نئی سے نئی راہیں روشن کی ہیں اور اسرار مخفیہ کے نئے سے نئے چراغ جلائے ہیں.علاوہ ازیں نہایت سختی سے یہ التزام بھی کیا ہے کہ لغت کے متعدد معانی میں سے انہی کا انتخاب کیا جائے جو
۳۳ سیاق وسباق کے اعتبار سے موزوں ترین ہوں اور اس سلسلے میں عربی کے مشہور و متداول اور مستند لغات مثلا اقرب الموارد) مفردات راغب، تاج العروس ، مغنی اللبیب، لسان العرب اور فقہ اللغہ الثعالبی کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے.ترجمہ تفسیر صغیر کے لغوی محاسن میں سے یہ بھی ہے کہ اس میں لغت کیساتھ ساتھ قواعد صرف ونحو کی پابندی کا خاص اہتمام کیا گیا ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے شروع زمانہ خلافت ہی سے جماعت کے سامنے اپنا یہ مسلک پیش فرمایا تھا کہ ترجمہ قرآن کے وقت لغت اور صرف و نحو کے خلاف معنی کرنا ہرگزہ صحیح نہیں چنانچہ حضور نے جلسہ سالانہ الہ کی تقریر کے آخر میں ترجمہ قرآن کے جو سات اصول بیان فرمائے ان میں تفسیرے اور چوتھے نمبر پر بتایا کہ:.جو معنی لغت عرب کے خلاف ہوں وہ بھی نہ کرو.جو معنی صرف و نحو کے خلاف ہوں وہ کبھی نہ کرو بعض لوگ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو صرف و نحو کی کیا پروا ہے ؟ وہ کسی کے بنائے ہوئے قاعدوں کا پابند نہیں ہے لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اللہ کو تو پروا نہیں ہے لیکن ہم انسانوں کو تو ہے اگر اللہ تعالیٰ کی کلام ایسی نہیں ہے جو ہم سمجھ سکیں تو اس کا فائدہ کیا ؟ (برکات تلاقت ص۱۳۷ طبع اول) ترجمہ تفسیر صغیر میں لغات عرب اور قواعد صرف و نحو کا جو خاص اہتمام کیا گیا ہے ذیل میں اس کے چند نمونے ہدیہ قارئین کئے بجاتے ہیں.استهزاء - عربی زبان میں جزائے جرم کے لیے بھی اس جوم کا لفظ
استعمال کیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تفسیر صغیر میں اللہ ينتهي بهم البقی نی آیت کا یہ ترجمہ کیاگیا ہے کہ اللہ انہیں ان کی ہنسی کی سزا دیگا." حضرت امام راغب نے اپنی مفردات میں اس آیت کہ میہ کا یہی مطلب لکھا ہے ورنہ لفظی ترجمہ کرنے سے حضرت احدیت جلشانہ کی ذات اقدس پر سخت حرف آتا ہے.دوسرے تراجم ) : " اللہ ہنسی کرتا ہے ان سے " زمولا نا محمود حسن صاحب شیخ الهند) "اللہ تعالیٰ ہی استہزاء کر رہے ہیں ان کے ساتھ " (مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی) اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے " مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ) حقیقت یہ ہے کہ خود انہی کے ساتھ تمسخر ہو رہا ہے ! مولانا ابوالکلام صاحب آزاد امام الهند ) اللہ ان سے مذاق کر رہا ہے" (مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی) دیہ لوگ مسلمانوں کو کیا بنائیں گے حقیقت میں اللہ ان کو بناتا ہے یا رشمس العلماء مولانا ڈپٹی نذیر احمد صاحب دہلوی ) انہیں اللہ بنا رہا ہے." ر مولانا عیب الماحد صاحب دریا بادی مدیر صدق جدید)
۳۵ " نَصْرُهُنَّ إِلَيْكَ " چونکہ اُس کے معنے مفردات اور اقرب الموارد میں قتل کرنے کے علاوہ سدھانے کے بھی لکھتے ہیں اس لیے حضرت مصلح موعوض نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان کو اپنے ساتھ سدھالے" یہ معنے سیاق قرآن کے بھی مطابق ہیں.جس پر لفظ الیٰ کا قرینہ موجود ہے کیونکہ یہ کہنا بے معنی ہے کہ پھر ان کو اپنی طرف قتل کر.دوسرے تراجم :- اپنے پاس منگا لو راور ٹکڑے ٹکڑے کرا دو (مولانا فتح محمد صاحب جالندھری) بَصَابُرُ - بَصِيرَة کی جمع ہے جس کے معنے دلیل کے ہوتے ہیں اسی لیے حضرت مصلح موعود نے الاعراف آیت ۲۰۴ میں بصائر کا ترجمہ دلائل سے پیڑ کے الفاظ سے کیا ہے جو بہت لطیف ہے.(دوسرے تراجم ) : یہ تمہارے رب کی طرف سے آنکھیں کھولنا ہے." ر مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی امام المسنت) سلامًا اور سلام سورۂ ہود آیت میں لکھا ہے وَلَقَدُ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَى قَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَم - تفسیر صغیر میں اس کا ترجمہ یوں کیا گیا ہے:.اور ہمارے فرستادے یقینا ابراہیم کے پاس خوشخبری لائے تھے (اور) کہا تھا ر ہماری طرف سے آپ کو ) سلام ہو.اسر نے کہا (تمہارے لیے بھی ہمیشہ کی ) سلامتی ہو" آنے والے مہمانوں نے سلاماً کہا جو جملہ فعلیہ سلم سلاماً مرگ
اور عارضی دعا کا آئینہ دار ہے مگر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سلام کہا جو جملہ اسمیہ ہے اور ستقل دُعا پر دلالت کرتا ہے تفسیر صغیر کے تر جمہ میں اس فرق کو نہایت خوبی سے نمایاں کیا گیا ہے جس سے آنے والوں اور ابراہیم علیہ اسلام کے مقام و منصب کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے.دوسرے تراجم ) : " اور بے شک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس مردہ لیکر آئے.بولے سلام کہا سلام" (مولانا احمد رضاخان صاحب بریلوی) ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم کے پاس خوشخبری لیکر آئے تھے.انہوں نے کہا تم پر سلامتی ہو.ابراہیم نے کہا " تم پر بھی سلامتی " (مولانا ابوالکلام صاحب آزاد امام الهند ) " ابراہیم کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے.کہا تم پر سلام ہو.ابراہیم نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو." مل سوم ر مولانا سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی ) بی کمالات کے بیان میں ماہرین لسانیات اس نظریہ پر متفق ہیں کہ کسی زبان کے سترادف الفاظ بھی درحقیقت ایک مفہوم نہیں رکھتے اور روح میں ضرور کوئی نہ کوئی فرق پایا جاتا ہے بر صغیر
کے ایک ادیب و فاضل جناب طالب الہ آبادی مقدمہ ادب اردو میں لکھتے ہیں :- اگر غور سے دیکھئے توکسی زبان میں کوئی دو لفظ مرادف یا ہم معنی نہیں ہو سکتے.یہ ممکن ہے کہ وہی خیال ایک سے زیادہ الفاظ میں ادا ہو سکے مگر ہر لفظ میں کوئی لطیف و مخصوص خوبیاں ہوتی ہیں مثلاً نوازش، عنایت، مهربانی ، کرم، احسان الطف قریب المعنی تو ہیں مگر ہر لفظ کی معنوی شان، خاص اثر مخصوص موسیقی جدا جدا ہے اور محل استعمال بھی مخصوص و مختلف ہے" ان کا فرق انسان نہیں.اسی فرق کے لیے اور ہر لفظ کی مکمل تاریخ یعنی پیدائش، نشو و نما، استعمال، اثرات، ازدواج، مشتقات اور مفاہیم مختلفہ کی تحقیق کے لیے ایک مستقل فن ہے جس کو ہم علم اللسان کہتے ہیں.ادیب کا سب سے پہلا فرض اور ادب کا اہم ترین جوہر یہی ہے کہ مذکورہ بالا ، متیازات خفی و لطیف سے پورا پورا آراستہ ہو.کوئی لفظ کیا ، حرف کیا، نقطہ بھی اپنی جگہ تھے بانی کے برابر ہٹ کر استعمال نہ ہویا ر صفحه ۱۲۹۰۲۸ جب دنیا کی عام زبانوں کے کوئی دو لفظ بھی کامل طور پر سند ایسی نہیں تو خدا تعال کی کامل وکیل اور آخری شریعت کی اعجازی زبان کی تو حضرت بانی جماعت احمدیہ کی وریہ ایران تحقیق کے مطابق اسامی او را دوست بھی ہے کیا کیفیت ہوگی اور پھر دوسری بانوں
میں اس کا صحیح صحیح ترجمہ کتنا دشوار ہوگا ، اس کے متعلق کچھ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں خصوصاً جبکہ ترجمہ اردو جیسی زبان میں ہو جس کی تنگ دامانی کا چرچا ہے.ان حالات میں جن عشاق قرآن نے پاک نیت اور مخلصانہ ارادوں کے ساتھ اور محض اپنے رب جلیل کی خوشنودی کے لیے قرآن مجید کے مکمل اردو تراجم کئے ہیں یقیناً ان کی محنت و کاوش کا کوئی ٹھکانہ نہیں اور اُن کی یہ خدمت قابل داد اور عند اللہ اجر عظیم کی مستحق ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.شاہ رفیع الدین صاحب کو اس فن میں اولیت کا فخر حاصل ہے اور موجودہ زمانہ کے تمام تراجم ان کے ترجمہ کی خوشہ چینی کر کے تیار ہوتے ہیں اور مولوی نذیر احمد صاحب پہلے شخص ہیں.جنہوں نے یہ کوشش کی ہے کہ عربی عبارت کا مفہوم اردو میں صحیح ادا کریں جس سے ترجمہ پڑھنے والا صرف برکت حاصل نہ کرے بلکہ کچھ مطلب بھی سمجھ جائے شاہ صاحب کے بعد مولوی صاحب کی محنت قابل قدر ہے.جہاں تک اردو مفہوم کا سوال ہے موجودہ زمانے کے تراجم اسی طرح مولوی صاحب کے ترجمہ کے خوشہ چین ہیں جس طرح شاہ صاحب کے لفظی ترجمہ کے یہ ( عکسی تفسیر صغیر) یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کے جو ہزار رہا انوار نمودار ہوئے ان میں یہ برکت بھی انتشار روحانیت اور نورانیت کے باعث ظاہر ہوئی کہ امت مسلمہ کی نیک استعداد میں جاگ اٹھیں دینی تفقہ
۳۹ کی صلاحیتوں اور اس کے تدبر اور تفکر کی قوتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اور جو لوگ قرآن عظیم کی خدمت واشاعت کے ساتھ کچھ نہ کچھ مناسبت رکھتے تھے ان کا ذہن غیر معمول طور پر قرآن مجید کے اردو تراجم کی طرف منتقل ہوگیا یہی وجہ ہے کہ شہداء یعنی حضور کے دعوئی ماموریت سے لیکر آج تک اردو تراجم قرآن اس کثرت سے ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر اس سے قبل نہیں ملتی اور اس مبارک زبان کا دامن مالا مال ہوگیا ہے.بایں ہمہ یہ دھونی سراسر باطل ہے کہ کسی ترجمہ نے قرآنی الفاظ میں.پوشیدہ سب غیر محدود حقائق و معارف اور لا تعداد اسرار و عوامض اردو زبان میں سمو دیئے ہیں.وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ہاں یہ ممکن ہے کہ خدا کے پاک کلام کا ترجمہ ایسا رواں سلیس اور شگفتہ ہو جو قرآنی روح اور عربی مزاج سے قریب تر ہونے کیساتھ ساتھ لفظی اور با محاورہ ترجمہ کا حسین امتزاج ہو اور جس سے خدا تعالیٰ کے اس پر شوکت اور پر جلال اور شاہی کلام کے تحت دلوں پہ قائم ہو جائیں اور روح بے اختیار ہو کر حضرت احدیت کے آستانہ پر نہ پڑے.یہ کمال تاثیر حضرت امام مهدی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تفسیر صغیر کے اُردو ترجمہ کو حاصل ہے.ترجمه تفسیر سی کی کوثر و تسنیم سے ڈھلی ہوئی پاکیزہ اور عام فہم زبان کے چند نمونے ذیل میں ملاحظہ ہوں :-
۴۰ نمبر شمار آیت کریمر مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے يسة لِلهِ مَا فِي السّمواتِ پاکی بول رہا ہے اللہ کی جو کچھ ہے وَمَا فِي الْأَرْضِ (التغابن آیت (۲) آسمانوں میں اور جو کچھ ہے زمین ہیں.آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی شیخ الہند مولانا محمد حسن صاحب ) اور مولانامحمود تسبیح کر رہا ہے.انْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً اور اتارا ہم نے آسمان سے پانی طهوراًة (الفرقان آیت ۴۹) پاکی حاصل کرنے کا.ہم نے بادل سے پاک روصاف ، پانی شیخ الهند مولانا محمودین مناسب نارا - نحن نسبح بحمدِكَ وَ ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح نقَدِّسُ لَكَ (البقرہ آیت (۳) کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں.رہم تو وہ ہیں جو تیری حمد کے ساتھ ساتھ (مولانا احمد رضا خان صاحب تیری تسبیح بھی کرتے ہیں اور تجھے میں سب ! بریلوی) بڑائیوں کے پائے جانے کا اقرار کرتے ہیں الخَبيتُتُ لِلْخَبین کندیاں میں گندوں کے واسطے.(النور آیت ۲۷) بیت باتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں.ر مولانا محمود حسن صاحب شيخ الهند )
نمبر شمار آیت کریمہ مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے تَتَجَا فِى جُنُوبُهُم عَن ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی المضاجع (السجدۃ آیت (۱) ہیں.ان (مومنوں کے پہلو اُن کے بستروں (مولاناسید ابوالا علی اصحاب مودودی) سے الگ ہو جاتے ہیں ریعنی تمجید کی نماز پڑھنے کے لیے) 3.→ ثمَّ نُكَسُوا عَلَى رُو و سہم گھر پھر ان کی مت پلٹ گئی.پھر (الانبیاء آیت ۶۶) ( مولانا سید ابو الا علی صاحب اور وہ لوگ اپنے سروں کے بل گرائے مودودی ) گئے ریعنی لا جواب کئے گئے فَقُتِل كيف قدرہ سو مارا جائیو کیسا ٹھرایا.(المدثر آیت ۲۰) مولانا محمود حسن صاحب شیخ المسند ) اور وہ ہلاک ہو جائے اس نے کیسا غلط اندازہ کیا.فانتشروا في الأرْضِ جمعہ آیت تو پھیل پڑو زمین میں.تو زمین میں پھیل جایا کرو.و شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب) ) وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُ لاہ اور ہے اللہ کا حکم بجا لانا مولانا محمود حسن صاحب شیخ الهند) (الاحزاب آیت (۳۸) الالالالای والی بال پر ہو کر رہا تھا.
۳۲ نمبر شماره آیت کریمه مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے تَعالُو اليَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ او معاف کرا دے تم کو رسول اللہ کا لو داره وسهم والمنافقون آیت ٹکاتے ہیں اپنا سر.آؤ اللہ کا رسول تمہارے لیے استغفار (مولانا محمود حسن صاحب ) کرے تو وہ اپنے سر تکبر اور انکار سے ) پھیر لیتے ہیں.سُورَة انْزَلْنَهَا وَفَرَضْتَها یہ ایک سورت ہے کہ ہم نے اتاری وَاَنْزَلْنَا فِيهَا ايت بنت اور ذمہ پر لازم کی اور اتاریں اس (النور آیت (۲) میں باتیں صاف.دیہ) ایک ایسی سورۃ ہے جو ہم نے (مولانا محمود حسن صاحب ) اناری ہے اور (جس پر عمل کرنا ہم نے فرض کیا ہے اور اس میں ہم نے اپنے روشن احکام بیان کئے ہیں.يُعَلِّمُكَ مِن تَأْوِيلِ الاَحادیث سکھلائے گا تجھے کو ٹھکانے پر لگا نا باتوں (یوسف آیت) گا.ر الٹی باتوں کا علم تجھے بخشے گا.) مولانا محمود حسن صاحب ) (عبس آیت (۳) ور اس کیساتھ ہی گھنے باغات بھی.اور گھن کے باغ.(مولانا محمود حسن صاحب)
نمبر شمار آیت کریمہ مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے لا يَرُونَ فِيهَا شَمْسًا وَ لا نہیں دیکھتے وہاں دھوپ اور نہ اما در زمهريراة الدہر آیت (۱۴) تھر.نہ تو اس باغ میں شدید گرمی رکھیں گے (مولانا محمود حسن صاحب ) اور نہ شدید سردی إن الإنسان خلق صلو عا ل بے شک آدمی بنا ہے جی کا کچا.(المعارج آیت ۲۰) انسان کی فطرت میں تلون ہے ) مولانا محمود حسن صاحب ) وإذا الوحوش حُسرت یا اور جب جنگل کے جانوروں میں رول پڑ جائے.اور جب وحشی اکٹھے کئے جائیں گے.(مولانا محمود حسن صاحب ) والتکویر آیت (4) فيها حب قيمة جن میں درست مضمون لکھے ہوں.البینہ آیت ۴) دشاہ اشرف علی صاحب تھانوی ) جن میں قائم رہنے والے احکام ان میں سیدھی باتیں لکھی ہیں.ر مولانا احمد رضا خان صاحب ہوں.بریلوی) اس میں لکھی ہیں کتابیں مضبوط.) مولانا محمود حسن صاحب )
م ہم نمبر شمار آیت کریمه مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے انطَلِقُوا إلى ظلّ ذِي ثلث چلو ایک چھاؤں میں میں کی تین شعبة المرسلات آیت ۳۱) پھانکیں ہیں.in اس سائے کی طرف جاؤ جس کے تین (مولانا محمود حسن صاحب ) پہلو ہیں.19 قالو اسلاماه والفرقان آیت ۱۲ کہیں صاحب سلامت - کہتے ہیں کہ ہم تمہارے لیے سلامتی کی دعا (مولانا محمد حسن صاحب) ۲۱ کرتے ہیں إن اردن تحصنا والنور آیت ۳۳) اگر وہ چاہیں قید سے رہنا.اگر وہ نیک رہنا چاہتی ہوں.) مولانا محمود حسن صاحب ) واذكر عبدَ نَا إِبْرَاهِيم داسحق اور ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحاق وَيَعْقُوبَ اُولِى الايدئی اور یعقوب کو یاد کیجئے جو ہا تھوں والے وَالاَبْصَارِ ( آیت ۴۶) اور آنکھوں والے تھے.اور یاد کہ ہمارے بندوں ابراہیم اور مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی اسحاق اور یعقوب کو جو بڑے فعال اور مولانا محمود حسن صاحب، دور اندیش تھے.مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی) وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدہ اور نہیں اس کے جوڑ کا کوئی.الا خلاص آیت (۵) ور ا سکی صفات میں اسکا کوئی بھی شرکت کار نہیں.- ) مولانا محمود حسن صاحب )
۴۵ نمبر شمار آیت کریمہ مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے ياتها الإِنْسَانُ إِنكَ كادح الى اسے انسان تو کام میں جتا رہتا ہے اپنے رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيهِ : پروردگار کے پاس پہنچنے تک پھر اس الانشقاق آیت ، ) سے جاملے گا.۲۴ اے انسان تو اپنے رب کی طرف پورا ( مولانا عبد الماجد حساب دریا بادی زور لگا کر جانے والا ہے (اور ) پھر اس مدیر صدق جدید ) سے ملنے والا ہے.وَمَنْ يُعَظَّمْ شَعَائِر اللہ جو کوئی ادب رکھے اللہ کے نام لگی را لحج آیت ۳۳) چیزوں کا.جو شخص اللہ کی مقررہ کردہ نشانیوں کی (مولانا محمد حسن صاحب شیخ الهند) عزت کریگا.قتِلَ الإِنْسَانُ مَا الفَرة مارا جائیں ! آدمی کیانا شکر ہے.(عیس آیت (۱۸) 0 انسان ہلاک ہو وہ کیسا نا شکر گزار ہے.( مولانا محمود حسن صاحب) دَاذَا النفوسُ زُوجَتْ ما اور جب جیوں کے جوڑے باندھے (التکویر آیت (۸) جائیں.اور جب (مختلف) نفوس جمع کئے جائینگے.(مولانا محمود حسن صاحب ) لا قل يايها الكفرون کا راسکافرون ) تم فرماؤ اے کا فرو ! تو اپنے زمنہ کے کفار سے کہتا چلا جا.(مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی )
YA ۲۹ آیت کریمہ مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے وَلَوْ يُعَمِّلُ اللهُ لِلنَّاسِ الشر اور اگر اللہ لوگوں پر برائی واضح کر دیا کرتا جس استحجَالَهُمْ بالخير يقضى طرح وہ بھلائی کی جلدی مچاتے ہیں توان کی میاد رکبھی کی پوری ہوچکی ہوتی.دیونس آیت (۱۲) ر مولانا عبد الماجد صاحب در یا بادی) اور اگر اللہ لوگوں پر ان کے اعمال کی ایدی اگر کہیں اللہ لوگوں کے ساتھ برا معاملہ کا نتیجہ ان کے مال کو جلد چاہنے کی طرح کرنے میں بھی اتنی ہی جلدی کرتا جتنی وہ جلد وارد کرتا تو ان کی زندگی کے اختتام ان کے ساتھ بھلائی کرنے میں جلدی کرتا کی میعاد ان پر لائی جا چکی ہوتی ہے تو ان کی حلت عمل کبھی کی ختم کردی گئی ہوتی.ر مولانا سید ابو الا علی صاحب مودودی) وَلَا يَخَافُ عُقْبَهَاهُ اور اس کے پیچھا کرنے کا اس کو والشمس آیت ۱۶) خوف نہیں.اور وہ (اسی طرح) ان رمکه ر مولانا احمد رضاخان صاحب والوں کے انجام کی بھی پروانہیں بریلوی امام اہلسنت) گا.
مام نمبر شمار آیت کر یہ مع ترجمه تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے كذلك سخرها لكم لنترو اس طرح ان کو بس میں کر دیا تمہارے الله عَلَى مَا هَد يكڈ کہ اللہ کی بڑائی پڑھو اس بات پر رانچ آیت (۳۸) کہ تم کو راہ سمجھائی.اس طرح اللہ نے ان قربانیوں کو تمہاری (مولانا محمود سن صاحب) خدمت میں لگا دیا ہے تاکہ تم اللہ کی ہدایت کی وجہ سے اس کی بڑائی بیان کر فَسَوفَ يَكُونُ لِرَامًاة اب آگے کو ہوتی ہے مٹھ بھیٹر.۳۲ (الفرقان آیت ۷۸) ) مولانا محمود حسن صاحب) ( اب ) اس کا عذاب (تم سے چھٹا چلا جائے گا.وارادو به كيدا وہ چاہتے تھے کہ ابراہیم کے ساتھے (الانبیاء آیت (۷) بڑائی کریں.اور انہوں نے اس سے کچھ برا سلوک رسید ابوالاعلی مودودی سے بانی جماعت اسلامی ) کرنا چاہا.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا شاید تو گھونٹ مار سے اپنی جان يكُونُوا مُؤْمِنينَ (الشعراء آیت ) اس بات پر کہ وہ یقین نہیں کرتے.شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب ) گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے.
۴۸ نمبر شمار آیت کریمہ مع ترجمہ تفسیر صغیر دوسرے تراجم کے نمونے ۳۴ قَالَ الظَّلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ کہنے لگے بے انصاف تم پیروی کرتے ا لا رَجُلاً مَّسْحُورًاہ ہو اس ایک مرد جادو مارے گی.الفرقان آیت (۹) ظالم کہتے ہیں کہ تم تو ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جس کو کھانا کھلایا جاتا ہے.( مولانا محمود حسن صاحب) وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قومی اور کہا رسول نے اے میرے رب ! اتَّخَذُوا هذا القرآن میری قوم نے ٹھہرایا ہے اس مهجوراه (الفرقان آیت (۳) قرآن کو جھک جھک.اور رسول نے کہا اے میرے رب ! (شیخ المشائخ مولانا میری قوم نے تو اس قرآن کو بیٹھ | محمود حسن صاحب ) کے پیچے پھینک دیا ہے.
اختتامیه اسلام کا شاندا تقبل قرآن عظیم کے صحیح تراجم کے ساتھ وابستہ ہے خاتمہ کلام میں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام کا شاندار مستقبل قرآن عظیم اور اس کے صحیح تراجم با لخصوص اُردو تراجم کے ساتھ وابستہ ہے.چنانچہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم رفداہ ابی واقی و روحی و جنانی ، آخری زمانہ کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں وَالْقُوَّةُ عَلَيْهِ يَوْمَئِنِ بِالقُرانِ - رکنز العمال جلد ، ص۲۶۳) یعنی اس زمانے میں اسلام اور سلمانوں کو قوت و طاقت و قبال کے خلاف قرآن مجید ہی کے ذریعہ حاصل ہوگی.اسی طرح دتی کے مشورہ ممتاز صوفی حضرت خواجہ میر در درحمتہ اللہ علیہ نے پیشنگوئی فرمائی : اے اردو اگھبرانا نہیں تو فقیروں کا لگایا ہوا پودا ہے خوب پھلے پھولے گی.تو پروان چڑھے گی.ایک زمانہ ایسا آئیگا کہ قرآن و حدیث تیری آغوش میں آکر آرام کریں گے" امیخانه درد ص۱۵۳ مولفه سید ناصر نذیر صاحب فراق دہلوی) اس پس منظر میں حضرت امام مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کی بیان فرموده تغییر،
حضرت مصلح موعود کی تفسیر صغیر اور جماعت احمدیہ کے شائع شدہ یا آئندہ شائع ہونے والے تراجم کا صحیح مقام باسانی متعین کیا جا سکتا ہے.سید نا و امامنا و مرشد نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی الصلح الموعود (نور اللہ مرقدہ ، جماعت احمدیہ کے ذریعہ عالمگیر قرآنی حکومت کے قیام کی پر شوکت خبر دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :- آج دنیا کے ہر براعظم پر احمدی مشنری اسلام کی لڑائیاں لڑرہے ہیں قرآن جو ایک بند کتاب کے طور پر سلمانوں کے ہاتھ میں تھا.خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے ہمارے لیے یہ کتاب کھول دی ہے اور اس میں سے نئے سے نئے علوم ہم پر ظاہر کئے جاتے ہیں.دنیا کا کوئی علم نہیں جو.اسلام کے خلاف آواز اُٹھاتا ہو اور اس کا جواب خدا تعالی مجھے قرآن کریم سے ہی نہ سمجھا دیتا ہو.ہمارے ذریعہ سے پھر قرآنی حکومت کا جھنڈا اونچا کیا جارہا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلاموں اور الہاموں سے یقین اور ایمان حاصل کرتے ہوئے ہم دنیا کے سامنے پھر قرآنی فضیلت کو پیش کر رہے ہیں.گو دنیا کے ذرائع ہماری نسبت
۵۱ کروڑوں کروڑ گئے زیادہ ہیں لیکن دنیا خواہ کتنا ہی زور لگائے ، مخالفت میں کتنی ہی بڑھ جائے، یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ سورج مل سکتا ہے.ستارے اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں زمین اپنی حرکت سے رک سکتی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی فتح میں اب کوئی شخص روک نہیں بن سکتا.قرآن کی حکومت دوبارہ قائم کی جائے گی اور دنیا اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یا انسانوں کی پوجا چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے گی اور باوجود اس کے کہ دنیا کی حالت اس وقت قرآنی تعلیم کو قبول کرنے کے خلاف ہے.اسلام کی حکومت پھر قائم کر دی جائے گی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وجَاعِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كبيراہ اے محمد رسول الله ! تیری سب سے بڑی تلوار قرآن کریم ہے.تو اسے لیکر دنیا سے سب سے بڑا جہاد کر.اس حکم کے ماتحت -----
۵۲ اسلام کی تبلیغ اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لیے ہمارے مبلغ بھی مختلف ملکوں میں کام کر رہے ہیں.نیز فرماتے ہیں :.و ہم امید کرتے ہیں کہ یہ روحانی جہاد ان تراجم اور ان مبلغوں اور ان کے بعد آنے والے ترائم اور مبلغوں کے ذریعہ سے اسلام کی فتح کا راستہ کھولنے کے لیے نہایت کامیاب رہے گا کیونکہ ہماری کوششیں نہ صرف خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے مل گئی ہیں بلکہ ہم یہ کام خدا تعالٰی کے برادر است حکم کے ماتحت کر رہے ہیں ! دیبا چه تفسیر القرآن طبع دوم ص۲۹۹-۵۰۱ واخرُ دَعُونَنَا آنِ الْحَمْدُ اللهِ رَبِّ الْعَلَمينَ
۵۳ معاونین خصوصی کے اسماء گرامی ذیل میں ان احباب کے نام درج کئے جاتے ہیں جن کے گرانقدر مالی تعاون اور سر پرستی سے یہ حقیقت افروز مقالہ کتابی صورت میں شائع ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو بے شمار فضلوں سے نوازے ، اور ہر لمحہ انوار قرآنی سے منور رکھے.آمین.-+ ڈاکٹر محمد علیم صاحب قائد مجلس چاک ۸۴ - ارکان مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ لائل پور شهر میاں مبارک احمد صاحب قائد خدام الاحمدیہ ضلع لامپور مکرم میاں غلام احمد صاحب انصاف کمپنی لائلپور ۵ مکرم نذیر احمد صاحب سہگل نائب قائد ضلع لائلپور -4 -L -A • - مکرم ظهور اسلم صاحب لائلپور (ناشر) عزیزم ہارون احمد صاحب ابن ڈاکٹر رشید احمد اختر صاحب لائلپور اعجاز احمد صاحب کھاد والے لائلپور - محترمہ والدہ صاحبہ امجد بٹ صاحب لائلپور ٠١٠ محترم محمد افضل صاحب بٹ زعیم حلقہ مسجد فضل لائلپور محترم عبدالرحمن صاحب کشمیری لائلپور
۵۴ محرم مظفر احمد صاحب منصور نگران حلقه ظفر وال ضلع لائلپور کرم افتخار احمد صاحب تقسیم " " بڑا نوالہ -۱۴- چوہدری مقصود احمد صاحب لودھی نگل " " لاٹھیا نوالہ چوہدری بشیر احمد صاحب " کرو الله " " " کھو کر " H ستیاله بنگلہ " " چوہدری رشید احمد صاحب -14 ۱- محمد حنیف صاحب زعیم فیکٹری ایریا ظفر اقبال صاحب ناظم اطفال محمد یونس صاحب بھٹی ناظم اشاعت -A چوہدری فضل کریم صاحب زعیم جھال خانوانه ۲۱ - شیخ خالد مسعود صاحب ۸۶ بی پیپلز کالونی نمبر ۲ لائلپور
ملنے کا پتہ انصاف کہنی.پرانی غلہ منڈی لائل پور محمد ادریس عابد دفتر حدیقہ المبشرین.ربوہ کتابت شیخ عبد الماجد ننکانہ صاحب طبع دوم تین ہزار مئی ۱۹۷۳ ء ایور گرین لاہور
اک چمن نار لطاقة آئینہ دار حقیقت ہے یہ تفسیر صغیر طالبوں کے لیے نعمت ہے ریف صغیر نام محمود ہے اور کام بھی محمود ترا تیری عظمت کی علامت ہے یہ نفس صغیر بند اک گوزے میں دریا کو کیا ہے تو نے واقعی ایک کرامت ہے یہ تفسیر صغیر دلنشین طرز بیان حسن معانی روشن اک چمن زار لطافت ہے یہ تفسیر صغیر دعوت عام ہے یہ اہل خرد کو شبیر کوئی لکھ کر تو بنائے بھلا ایسی تفسیر د الحاج چوہدری شبیر احمد صاحب واقف زندگی }