Language: UR
’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے جلد نمبر 19 نہیں ہے۔
تاریخ احمدیت جلد نمبر 28 $ 1972
عرض ناشر اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی دی ہوئی توفیق سے تاریخ احمدیت کی جلد نمبر ۲۸ ہدیہ قارئین کی جارہی ہے.یہ جلد ۱۹۷۲ ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے.اس کے مطالعہ سے جہاں اس سال ہونے والے اہم جماعتی واقعات سے آگاہی ہوتی ہے وہاں اس سال وفات پا جانے والے بزرگان و جماعتی خدمتگاروں کے حالات بھی معلوم ہوتے ہیں.کی نگرانی میں بڑی محنت اور شوق کے ساتھ اس جلد کی تیاری میں معاونت فرمائی ہے اللہ تعالیٰ ان کی کا وشوں کو قبول فرمائے اور بہترین جزا سے نوازے.آمین.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ اور اس کے مطالعہ کے حوالہ سے حضرت مصلح موعود کا یہ ارشاد ہر احمدی کے پیش نظر رہنا چاہیے.سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.“ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس ارشاد کی تعمیل کی توفیق دے اور اس کا مطالعہ قارئین کے دلوں میں خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کی اطاعت و محبت کا جذ بہ موجزن کرنے کا موجب بنائے.آمین
پیش لفظ سال ۱۹۷۲ ء کے حالات و واقعات پر مشتمل تاریخ احمدیت کی یہ ۲۸ ویں جلد ہے.اس میں روز افزوں ہونے والی جماعتی ترقیات کا نہایت دلکش اور ایمان افروز تذکرہ موجود ہے.سال ۱۹۷۱ء میں پاکستان کا مشرقی حصہ الگ ہو جانے کی وجہ سے قوم پر جو سوگ اور غم کی حالت طاری تھی.اس سے نکلنے کے لیے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث مسلسل اپنے ولولہ انگیز ارشادات کے ذریعہ اہل پاکستان کی ہمت بندھاتے رہے اور ملک کے روشن مستقبل کے لیے از سرنو اپنی صلاحیتیں بروئے کارلانے کا پیغام دیتے رہے.اس سال مجلس صحت کا قیام بھی عمل میں آیا جس کے ذریعہ افراد جماعت کی ذہنی وجسمانی نشوونما کا عظیم منصوبہ پیش کیا گیا.اسی طرح ربوہ کی پر عظمت و پرشکوہ جامع مسجد اقصیٰ کا افتتاح عمل میں آیا.اس مسجد کی تعمیر کے اخراجات ایک نہایت مخلص احمدی بزرگ مکرم محمد صدیق بانی صاحب نے ادا کر کے اولین کی قربانیوں کی یاد تازہ کر دی.اس مسجد کے بعض دلچسپ کوائف اور تصاویر بھی شامل اشاعت ہیں.پاکستان کے ہمسایہ ملک چین کے سفیر چانگ تنگ ربوہ تشریف لائے تو اہلِ ربوہ نے اعلیٰ جماعتی روایات کے مطابق آپ کا فقید المثال استقبال کیا.ان کی ربوہ میں مصروفیات اور ملاقاتوں کا حال بھی لائق مطالعہ ہے.حکومت پاکستان نے زرعی اور تعلیمی اصلاحات کے نام سے جماعت احمدیہ کی زمینیں اور تعلیمی ادارے بغیر کسی معاوضہ کے اپنے قبضہ میں کر لیے، اس جلد میں اس کا مختصر تذکرہ موجود ہے.اگر چہ حکومت کے ان اقدامات کے پس پردہ حسن نیت کا فرمانہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق جماعت احمدیہ کو کسی قسم کی کوئی کمی نہ آنے دی.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو وہ دل دیئے ہیں جو اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لیے ہر دم تیار رہتے ہیں اور ایسے دل جن کے پاس ہوں ان کے ہاتھ میں کوئی کیسے کشکول پکڑ سکتا ہے.اس جلد میں جماعتی و ذیلی اجتماعات اور جلسوں کی رپورٹس بھی شامل ہیں.۱۹۷۲ء کا سالانہ جلسہ ایک خاص شان کے ساتھ منعقد ہوا.دسمبر ۱۹۷۱ ء میں پاک بھارت جنگ کی وجہ سے جو سالانہ جلسہ نہ ہو سکا تھا اس تشنگی کی وجہ سے بھی احباب جماعت کی بہت بڑی تعداد خاص ذوق و شوق سے شامل
جلسہ ہوئی.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام اور مخلصین سلسلہ کے حالات و واقعات اور ان کی سیرت و سوانح کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے.خاص طور پر حضرت قاضی محمد عبد اللہ بھٹی صاحب جو کے ۳۱۳ کے اصحاب میں سے آخری بزرگ تھے ، کے تفصیلی حالات اس میں موجود ہیں.اسی طرح لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پچاس سال پورے ہونے پر بطور شکرانہ جن عظیم الشان تقریبات کا اہتمام کیا گیا ان کی تفصیلی رو داد از حد ایمان افروز ہے کہ کس طرح حضرت المصلح الموعود کے دست مبارک سے لگایا ہوا پودا پچاس سالوں میں تناور درخت بن چکا تھا اور دنیا بھر میں اس کی شاخیں پھیل چکی تھیں.آخر پر حسب سابق بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی کا ایک مختصر خاکہ بھی تحریر کیا گیا ہے.اس جلد کی تیاری میں نے خصوصی معاونت فرمائی ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے فروری ۱۹۸۹ء سے جون ۲۰۱۵ء تک اطاعت اور وفا کے جذبہ کے ساتھ نہایت محنت اور عرق ریزی سے دفتر شعبہ تاریخ احمدیت میں خدمات سلسلہ بجالانے کی توفیق ملی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.کے لئے نے بھی خصوصی معاونت فرمائی ہے.تصاویر کے حصول نے تعاون فرمایا ہے.جلد ہذا کے مواد کی دستیابی اور حوالہ جات کی جانچ پڑتال کے لئے بمعہ عملہ کا تعاون بھی ہمہ وقت میسر رہا.اللہ تعالیٰ تمام تعاون کرنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے اور بیش از پیش خدمات دینیہ کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین فجزاهم الله ا - ه احسن الجزاء
i تاریخ احمدیت جلد 28 سال 1972ء) عنوان فہرست مضامین صفحه عنوان صلح تا فتح ۱۳۵۱ بهش / جنوری تا دسمبر ۱۹۷۲ء صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ساہیوال وقف جدید کے سال نو کا آغاز 1 میں آمد.وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا کرنے صدر ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات کی تحریک 1 سول جج صاحب درجہ اوّل ڈیرہ غازیخان کا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا سقوط ڈھا کہ پر ایک فیصلہ زندگی بخش پیغام 3 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا تعلیم الاسلام ہائی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اسفار اسلام آباد 5 سکول میں خطاب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا ایک فتنہ کا بے نقاب ہونا اور اس کی سرکوبی 10 - جماعت احمدیہ کی طرف سے عقیدت و محبت راولپنڈی میں خطاب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا بطور اعلیٰ سائنسی مشیر تقرر 10 کا ایمان افروز مظاہرہ ربوہ میں عید الاضحیہ کی مبارک تقریب 12 قبولیت دعا کا ایک نشان مکہ مکرمہ کی عید الاضحیہ کے دن عید منانے کا ارشاد 12 دوسرا آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ ۱۹۷۱ء کی جنگ پر حقیقت افروز تبصرہ 14 يوم مسیح موعود علیہ السلام پر ربوہ میں جلسہ عام صفحہ 23 ته شه 23 25 25 26 28 36 39 40 40 جماعت احمدیہ کا ملی قربانی میں مثالی کردار 18 | جامعہ نصرت ربوہ کے سائنس بلاک کا افتتاح 41 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی محلہ دار الصدر غربی حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا طلباء جامعہ احمدیہ میں تشریف آوری 20 | سے روح پرور خطاب 44 من حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا مجلس صحت کے قیام مسجد اقصیٰ ربوہ کی پرشکوہ عمارت کا شاندار افتاح 45 20 - مسجد اقصیٰ کے اہم اور دلچسپ کوائف کا اعلان 46
ii عنوان صفحہ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء عنوان صفحہ 49 - اختتامی خطاب حضرت خلیفتہ امسیح الثالث 90 ابادان ( نائیجیریا) کی ایک خاتون کی طرف ربوہ میں یوم خلافت کی تقریب سے مسجد کا تحفہ 65 پہلا آل ربوہ ہاکی ٹورنامنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ایک الوداعی تقریب 66 دی نیوز بلیٹن کینیڈا کا اجراء 66 جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام جماعت احمدیہ کراچی کا ذکر خیر حضور انور کی طرف سے مبلغین کی ریفریشر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا سفر ایبٹ آباد اور 68 اہم دینی مصروفیات 91 2200 92 93 95 97 97 کلاس کو دعوت عصرانہ آئین پاکستان میں مسلمان کی تعریف کا مسئلہ 68 - خطبات جمعہ صدق جدید کا ایک بے لاگ تبصرہ 73.آنے والے خطرات کی خبر اور قیمتی نصائح 99 چین کے سفیر چانگ ٹنگ کی ربوہ آمد 74 - حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی مجالس عرفان 101 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا، پاکستان.ایبٹ آباد میں عشاق خلافت کی آمد مارشل لاء کے خاتمہ اور عبوری آئین پر بصیرت.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو الوداع 107 78 اشاعت قرآن کی نئی عالمی تحریک کا آغاز افروز خطبه جمعه 106 107 مالی قربانیوں کے لئے بہتر نظام قائم کرنے کی.مخلصین جماعت کی طرف سے والہانہ لبیک 108 81 فضل عمر تعلیم القرآن کل اس برائے طالبات 109 کلاس اہم تحریک 110 مجلس ارشاد مرکزیہ کے اجلاسات 83 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس ربوہ کو ایک مثالی شہر بنانے کا عزم 84 ادارہ اشاعت و طباعت قرآن عظیم کا قیام 112 حضور انور کاربوہ کے وقار عمل کا معاینہ 85 جدید پریس کی مجوزہ زمین کا معاینہ 113 حضور انور کا آل ربوہ بیڈمنٹن ٹورنامنٹ ایک انقلاب عظیم کے برپا ہونے کی پیشگوئی 113 اختتامی خطاب مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ 85 جماعتی تعلیمی ادارہ جات کا قومیائے جانا 88 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا احمدی ڈاکٹروں کو ایک لطیف نصیحت 88 | خدمت دین کے لئے وقف کرنا 114 119 سالانہ تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ 89 جماعت احمدیہ کو محاسبہ نفس کرنے کی پر زور تحریک 120
صفحہ 144 144 144 147 147 148 iii عنوان صفحہ عنوان سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا اطفال سے.لجنہ اماءاللہ کی شاندار ترقی 122.امریکہ اور ماریشس میں جشن پنجاه سالہ بصیرت افروز خطاب 124 - متحدہ ہندوستان کے زمانہ کی لجنات رمضان المبارک کی برکتوں سے بھر پور فائدہ.بیرونی ممالک میں لجنات کا قیام اٹھانے کی تاکید 125 تحریک جدید کے سال نو کا اعلان اور اظہار (۱۹۷۲ء تک) خوشنودی ربوہ میں عیدالفطر کی مبارک تقریب پاکستان بھر میں لجنہ اماءاللہ کی شاخیں 125 دنیا بھر میں لجنہ اماءاللہ کی شاخیں (۱۹۷۲ء) 128 تک) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے ارشادات بابت.احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہونے والی مساجد 148 جلسہ سالانہ 128.لجنہ کے تحت چلنے والے ذیلی ادارے 149 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی اجتماعات پر قیمتی بجٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (۱۹۵۵ ء تا ۱۹۷۱ ء ) 150 129 - لجنہ اماءاللہ کا شائع کردہ اہم لٹریچر ہدایات مخالفین کی ناکامی اور احمدیت کی ترقی پر ایک شہادت 130 جماعت احمد یہ نبی کے نام حضرت امام ہمام کا الجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پنجاه سالہ جشن اور اس کے روح پرور پیغام عالمی نظام اور کارناموں پر ایک نظر 131 | سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ.پس منظر.مجلہ اور ” لجنہ سپیکس“ کی اشاعت 133 جماعت احمدیہ سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ 132 ایک اہلحدیث عالم کا اہم بیان بابت تکفیر 135 ایبٹ آباد میں جماعتی تعمیرات نذر آتش حضور انور کا بصیرت افروز خطاب 137 - الہی جماعتوں کی تاریخ اور جماعت احمدیہ.اشاعت قرآن کریم کے لئے عطیہ 138 کے لئے قرآنی لائحہ عمل نمائندہ خواتین کی تقاریر 151 152 154 156 157 158 138 ربوہ کو جنت نظیر بنانے کی خواہش اور عزم کا اظہار 160 پاکستانی پریس میں جشن لجنہ اماءاللہ کا ذکر 142 انفلوئنزا کا شدید حملہ اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح.قادیان دارالامان میں لجنہ کا پنجاه سالہ جشن 143 الثالث کی خصوصی ہدایات 161
iv عنوان صفحہ عنوان طبی مشورہ کے لئے ایک ہنگامی میٹنگ 161 حضرت چوہدری غلام قادر صاحب آف لنگڑ وعہ ربوہ میں پہلا گھڑ دوڑ ٹورنامنٹ 162 ضلع جالندھر صفحہ 208 جماعت احمدیہ کے خلاف ایک استعماری منصوبہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی مجاہد انگلستان 210 کی خبر 165 حضرت میاں سعد محمد صاحب 230 ربوہ میں ایک وسیع جلسہ گاہ کی تعمیر کے لئے حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوٹ ثانی حافظ آباد 230 خصوصی تحریک انتظامات جلسہ سالانہ کا معاینہ جلسہ سالانہ ریوم 167 حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب 168 حضرت کرم النساء صاحبہ 169 حضرت چوہدری محمد منیر صاحب آف گھٹیالیاں 234 236 حضرت خلیفتہ امسیح کے روح پرور خطابات 171 ضلع سیالکوٹ حوالہ جات (صفحہ 1 تا 180) 236 181 حضرت آمنہ بی بی صاحبہ آف گوہد پور ضلع سیالکوٹ 237 238 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر حضرت چوہدری علی احمد خان صاحب صحابہ کرام کا انتقال حضرت ڈاکٹر احمد دین صاحب آف کھاریاں 189 حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب سیکھوانی حضرت قریشی امیر احمد صاحب آف بھیرہ میانی 192 حضرت ڈاکٹر سراج الحق خان صاحب حضرت امیر بخش صاحب پہلوان قلعہ پچھمن سنگھ لاہور 238 196 197 ۱۹۷۲ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت 199 محمد جان خانصاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ حضرت حکیم رحمت اللہ صاحب حضرت چوہدری نور محمد صاحب حضرت فاطمه بی بی صاحبہ حضرت برکت بی بی صاحبہ 199 ناندی (نجی) حضرت شیخ اللہ بخش صاحب 238 240 242 200 مولوی محمد منشی خان صاحب آف ڈیریانوالہ 243 حضرت قاضی ضیاء اللہ صاحب 200 شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر الفضل 245 حضرت ملک فضل الہی صاحب رئیس مجوکہ 201 چوہدری شاہ محمد صاحب مرالہ ضلع گجرات حضرت راجہ علی محمد صاحب گجرات 202 اللہ بخش صاحب آف جھنگ 249 250 حضرت مسترکی جان محمد صاحب امرتسری آف بھڈیار 207 بابا محمد اسمعیل صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب 250
صفحہ 281 287 288 289 290 290 291 292 303 303 304 |304| 306 307 315 315 315 316 317 عنوان صفحہ عنوان با بو اللہ داد خان صاحب آف کراچی 251 مولا نا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی مولوی عبید الرحمن صاحب فانی در ویش قادیان 253 مولوی عبد العلی صاحب آف درگئی رضیہ بیگم صاحبہ 255 ملک عبد المغنی صاحب حضرت محمد رمضان صاحب آف گھنو کے ججہ 255 ملک گل محمد صاحب سید حسن محمد ابراہیم صاحب 255 ماسٹر چراغ الدین صاحب شیخ عبدالغنی صاحب یوگنڈا مشرقی افریقہ 257 منشی فیروز الدین صاحب حکیم نظام جان صاحب کا غانی مهتاب بی بی صاحبہ 258 محمد عبد اللہ خان صاحب 261 مولا نا محمد یعقوب خان صاحب صوفی عطا محمد صاحب آف راہوں ضلع جالندھر 261 چوہدری عصمت اللہ صاحب پہلو پوری ایڈو چوہدری عبد الرحمن صاحب بنگالی (مجاہد امریکہ) 263 گل النساء لطیف صاحبہ.نجی مولوی تاج دین صاحب دھرم کوئی 265 مولوی مهدی شاہ صاحب 266 خورشید بیگم صاحبه سرفراز خان صاحب افغان مولوی عبد الرحمن صاحب مولا نا تاج الدین صاحب لائلپوری 266 قاضی محمد عمر جان صاحب آف قاضی خیل ہوتی 267 ضلع مردان صوبیدار میجر عبد القادر صاحب 271 ٹھیکیدار عبدالعزیز صاحب سید عبدالجلیل شاہ صاحب سید محمد لطیف شاہ صاحب 272 حوالہ جات (صفحہ 189 تا306) 272 ۱۹۷۲ء کے متفرق اہم واقعات مولا نا ابوبکر الیوب صاحب آف پاڈا نگ 275 خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مبارک - حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی نصائح 275 تقاریب مولانا ابوبکر ایوب صاحب پر اظہار خوشنودی 278.ولادت چوہدری عبدالرحمن صاحب آف لندن 279.شادی بابو عبد العزیز صاحب مقبول شاہ صاحب خلیل 281 احمدی طلباء کی شاندار کامیابیاں 281 | احمدی حجاج کے اسمائے گرامی
vi عنوان مغربی افریقہ میں تائید الہی کے نشانات صفحہ 317 عنوان بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی مسیحی دعوت مناظرہ کا بھر پور جواب 318 انڈونیشیا مجلس صحت کے تحت سیر کا پہلا مقابلہ 320 انگلستان تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی علمی برتری 323 برما ساتواں آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ 325 تنزانیہ ناظر صاحب بیت المال قادیان کے اہم سفر 327 جاپان پشاور میں ایک اہم اجتماعی تقریب 328 سیرالیون ایک چرچ کو موسیقی کے مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ غانا 329 نجی مجلس صحت کے تحت والی بال ٹورنامنٹ 330 کینیا سلائیڈز کے ذریعہ پیغام حق 330 گیمبیا مسجد حسن اقبال‘ کاسنگ بنیاد 330 ماریشس حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک نشان 331 نائیجیریا دعا کا 331 ہالینڈ افریقہ میں اسلام کی روز افزوں ترقیات صفحہ 340 342 358 359 368 372 386 389 399 406 412 419 433 مجاہدین وقف عارضی کے تاثرات 333 ارض بلال میں خدمات بجالانے والے ڈاکٹرز 1437 محمد ممتاز خان دولتانه سفیر پاکستان مسجد فضل 334 مجاہدین احمدیت کی آمد وروانگی لنڈن میں فضل عمر کلب ربوہ کی کامیابی جماعت احمدیہ کراچی کا مذاکرہ علمیہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ کا دورہ خطبہ نکاح ایک سرکردہ افریقی مسلمان کی وصیت آمد 335 روانگی 335 نئی مطبوعات 336 رسائل 338 حوالہ جات (صفحہ 315 تا 443) 338 439 440 442 |443 444
تاریخ احمدیت.جلد 28 1 صلح تا فتح ۱۳۵۱ هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۷۲ء) وقف جدید کے سال نو کا آغاز سال 1972ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احد صاحب نے جبکہ آپ ناظم وقف جدید تھے، روز نامہ الفضل ربوہ میں وقف جدید کے سال نو کے حوالہ سے اعلان تحریر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ نوازش وقف جدید کے سال نو ( دفتر بالغان نمبر ۱۵ اور دفتر اطفال نمبر ۷ ) کے آغاز کا اعلان اپنی مندرجہ ذیل پرکشش و پر جذب دعا کیساتھ فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ وقف جدید کی دنیا کو اپنی رحمتوں سے بھر دے.وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا کرنے کی تحریک سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جنوری ۱۹۷۲ ء میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتے ہوئے ایک حقیقت افروز خطبہ ارشاد فرمایا.اس خطبہ میں اس عظیم ادارہ کے کام میں وسعت پیدا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ:.ہم زندہ خدا کی زندہ تجلیات کو دیکھنے والے اور اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.جس طرح بحیثیت فرد اس نے ہمیں پیدا کیا ہے اسی طرح بحیثیت جماعت اس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن اغراض کے لئے اس نے ہمیں قائم کیا ہے اور جن راہوں پر وہ ہمیں چلانا چاہتا تھا وہ فَدُهَدينَا سُبُلَنا کی رُو سے واضح ہیں.اس نے ہمیں اپنے راستے دکھائے ہیں.انسانی فطرت کے نئے تقاضے ہوتے ہیں.پھر وقت کا تقاضا ہے بدلے ہوئے حالات میں ہماری قربانیاں اور ہمارے خدمت کے طریق بدل جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اور اپنی محبوب جماعتوں کونئی راہیں بتاتا ہے اور انہیں نئے طریقے سکھاتا ہے نئے نئے طریقوں سے انہیں ترقی پر ترقی دیتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی ایک طریقہ یا ایک سبیل یا ایک راہ یا ایک صراط مستقیم وقف جدید وو
تاریخ احمدیت.جلد 28 2 سال 1972ء کی شکل میں ہمارے سامنے رکھی ہے اور وقف جدید کی روح یہ ہے کہ وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت میں وسعت پیدا کی جائے چنانچہ حضرت الصلح الموعود کا دراصل یہی منشا تھا کیونکہ اس سے پہلے جماعتی نظام تو موجود تھا.تحریک جدید بھی قائم تھی اور وہ اپنے کاموں میں لگی ہوئی تھی.جماعت کی ہر ایک تنظیم کا اپنا انتظام تھا اور وہ اپنے کام میں لگی ہوئی تھی لیکن میں نے جہاں تک غور کیا اور میں سمجھتا ہوں یہ میرا اپنا تجزیہ اور استدلال ہے کہ حضرت مصلح موعود کے سامنے ایک طرف تو یہ بات تھی کہ تحریک جدید کا اپنا ایک طریق متعین ہو گیا ہے اور تحریک جدید کے کام کا تقاضا یہ ہے کہ بہت بڑے عالم ہوں (خدا کرے کہ ہمیں ایسے عالم میں اور ہمیشہ ملتے رہیں) کیونکہ انہیں باہر بھی جانا پڑتا ہے.جہاں انہیں بڑے بڑے پادریوں سے جو اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں خواہ وہ معلم ہوں یا نہ ہوں بہر حال وہ اپنے آپ کو دنیا کا معلم سمجھتے ہیں ان کے ساتھ باتیں کرنی پڑتی ہیں اس غرض کے لئے جامعہ احمد یہ قائم ہے.جامعہ احمدیہ کو بھی اپنی ترقی کے لئے سوچنا چاہیے اور بہتری کے لئے سامان کرنا چاہیے.جامعہ احمدیہ سے شاہد کرنے کے بعد پھر ہم ان کو ریفریشر کورسز کرواتے ہیں.پھر بعض کو زبانیں سکھاتے ہیں اس کے اوپر بڑا خرچ آتا ہے ہمیں اس وقت جتنی ضرورت ہے اس کے مطابق ہمارے پاس وسائل نہیں ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں حالانکہ کام بڑھ گیا ہے.مبلغین کے علاوہ ہمارے پاس پاکستان میں جو شاہد اور معلم ہیں جو پرانے اصلاح کرنے والے ہیں وہ بھی اسی طرح بڑے پایہ کے ہونے چاہئیں.یہ سارے اس پایہ کے نہیں جس پایہ کے ان کو ہونا چاہیے اس لئے انہیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اعلیٰ پایہ کے مربیان و معلمین بن جائیں اور وہ بن سکتے ہیں.اگر چہ جامعہ احمدیہ کی پڑھائی کے نتیجہ میں تو نہیں بنتے لیکن وہ اپنی دعاؤں کے نتیجہ میں پایہ کے مبلغ ضرور بن سکتے ہیں کیونکہ دعاؤں کے نتیجہ میں اگر ہر چیز حسب منشاء بن سکتی ہے تو اس لحاظ سے ہر شخص پایہ کا مبلغ بھی بن سکتا ہے.جو شخص خدا تعالیٰ سے پیار کا تعلق پیدا کرے گا اور دعائیں کرے گا تو خدا تعالیٰ خود اسے سکھائے گا اور اس کا معلم بنے گا....پس
تاریخ احمدیت.جلد 28 3 سال 1972ء ایک طرف یہ چیز تھی اور دوسری طرف وسعت پیدا کرنی تھی اب میں سوچتا ہوں کہ جس طرح میرے دماغ میں آیا ہے حضرت مصلح موعود کے دماغ میں بھی یہی بات آئی تھی کہ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے کام میں وسعت پیدا کریں اور وسعت پیدا کریں ان لوگوں کے ذریعہ جو تھوڑا گزارہ لیں اور وقف کی روح کے ساتھ آئیں.چنانچہ آپ نے ایک خطبہ میں ہزاروں کی سکیم بنادی.آپ نے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا.اب وہ بیس سال کے بعد پوری ہوتی ہے یا پچاس سال کے بعد پوری ہوتی ہے.یہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن آپ نے اپنی ایک خواہش کا اظہار کر دیا کہ ۷۲ لاکھ روپے آمد ہوسکتی ہے اور اس کے مطابق ساٹھ روپے ماہوار پر کئی ہزار آدمی رکھے جاسکتے ہیں.- حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سقوط ڈھا کہ پر زندگی بخش پیغام دسمبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دولخت ہو جانے کے بعد پاکستانی عوام نہایت دل گرفتہ اور اپنے مستقبل سے مایوس نظر آرہے تھے اور اس المناک سانحہ پر ہر پاکستانی خون کے آنسورور ہاتھا مگر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پاکستانی قوم کو حوصلہ دلانے ، ہمت بڑھانے اور ان میں نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کرنے کے لئے مسجد مبارک ربوہ میں ۱۴ جنوری ۱۹۷۲ء کو ایک پر جوش خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے مسلمانان پاکستان کو ان کی تاریخ کی طرف توجہ دلائی اور پھر پاکستان کی ترقی اور استحکام کی خاطر تمام پاکستانیوں بالخصوص احمدیوں کو محنت کر کے اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی انقلابی تحریک فرمائی.چنانچہ فرمایا :- اگر کوئی قوم ایسی ہو کہ اس کے سارے شہری، اس میں بسنے والے سب افرادا اپنی صلاحیتوں کو اپنے اپنے دائرہ استعداد کی آخری حدود تک پہنچادیں تو اس سے زیادہ کامیاب اور اس سے زیادہ شاندار نتائج دکھانے والی دنیا میں اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے پر جب ہماری نگاہ پڑتی ہے تو ( یہ تو درست ہے کہ اس وقت بھی منافق تھے اور کمزور ایمان والے بھی تھے لیکن ) ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت بڑی بھاری اکثریت ایسی تھی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور تربیت میں اپنی صلاحیتوں کی نشونما کو اپنی استعدادوں کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 4 سال 1972ء دائرہ میں جو آخری حد تھی وہاں تک پہنچادیا تھا.چنانچہ وہ قوم جو شروع میں مٹھی بھر تھی اور جس کا دنیا کی آبادی کے لحاظ سے کوئی شمار تھا اور نہ ان کی کوئی حقیقت تھی، انہوں نے جب کسری سے ٹکر لی اس وقت حضرت خالد بن ولید کے پاس اٹھارہ ہزار فوج تھی.تھے تو وہ اٹھارہ ہزار مگر وہ ایسے تربیت یافتہ افراد تھے جنہوں نے اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو پالیا تھا (جس کو میں نجات کی معراج کہتا ہوں ) اس لئے انہوں نے لاکھوں کی تعداد میں اور دنیوی اموال کی کثرت رکھنے والوں کے مقابلے میں اپنی برتری کو ثابت کیا...غرض یہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ایک ایسی قوم تھی جس میں ہمیں یہ خوبی نظر آتی ہے.اگر پاکستان کے سارے کے سارے شہری اپنی اپنی استعداد کے دائرہ کے اندر اپنی صلاحیتوں کی نشو ونما کو اپنی انتہا تک پہنچا دیں تو ہمارا ملک دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ہو جائے گا اور دنیا کے حسین ترین ملکوں میں سے بھی ہو جائے گا کیونکہ اخلاقی لحاظ سے بھی ہم ایک ایسی مذہبی جماعت ہیں جس کا اسلام کے ساتھ تعلق ہے.اس لئے اگر ہماری ذہنی اور ہماری اخلاقی اور ہماری روحانی نشو و نما ہوگی تو مادی نشو و نما کے لحاظ سے اور مادی دولت کے لحاظ سے امریکہ بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.روس بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور چین بھی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکے گا کیونکہ اگر چہ یہ قو میں دنیوی لحاظ سے بڑی آگے نکل چکی ہیں لیکن میں نے بڑا غور کیا ہے اور بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ ابھی بحیثیت مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے یعنی مادی لحاظ سے بھی ذہنی لحاظ سے بھی ، اخلاقی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی اپنی نشوونما کے کمال تک نہیں پہنچے.اخلاقی اور روحانی لحاظ سے تو وہ بہت ہی پیچھے ہیں لیکن جسمانی اور ذہنی لحاظ سے بھی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا تک نہیں پہنچے.اگر ان کے مقابلے میں پاکستان بحیثیت مجموعی اپنے دائرہ استعداد کی انتہا کو پہنچ جائے تو وہ ان ملکوں سے آگے نکل جائے گا.ہم نے اگر سو میں سے دس نمبر لئے اور انہوں (یعنی امریکہ، روس، چین وغیرہ) نے سو میں سے پچاس نمبر لئے تو اس لحاظ سے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہم سے بہت آگے ہیں وہ ہم سے پانچ گنا آگے ہیں لیکن اگر ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے دس
تاریخ احمدیت.جلد 28 5 سال 1972ء کی بجائے سونمبر لینے کی صلاحیت رکھی تھی اور ہم یہ سونمبر حاصل کر لیں تو گویا ہم ان سے دو گنا آگے نکل گئے.ہر احمدی کو محنت کرنی چاہیے اور اپنی جدو جہد کو انتہا تک پہنچانا چاہیے.ہر فرد کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے صلاحیت کی شکل میں اسے جو اصلی قوت اور اصلی دولت عطا فرمائی ہے اس سے وہ اپنے دائرہ صلاحیت کے اندر زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے.اگر آج پاکستان میں بسنے والے احمدی ہی اپنی صلاحیتوں کی نشو نما کو ان کی انتہا تک پہنچادیں تو اسی سے ہمارے اس پیارے ملک کی کایا پلٹ جائے گی.حالانکہ ہم بہت تھوڑے ہیں لیکن اگر ہم اپنی تھوڑی تعداد کے باوجود بھی اپنی صلاحیتوں کی نشو و نما آخری حد تک پہنچادیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو زیادہ سے زیادہ دولت ہر چہارلحاظ سے کسی کو مل سکتی ہے وہ مل جائے تو پاکستان کی دولت میں اتنا اضافہ ہو جائے گا کہ دنیا کی کوئی اور طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اسفار اسلام آباد اس سال حضرت خلیفہ المسیح الثالث سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بعض اہم مقاصد کے پیش نظر مع حضرت منصورہ بیگم صاحبہ دو بار اسلام آباد تشریف لے گئے.پہلا سفر : (۱۷ جنوری تا ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ء) حضور انور ۱۷ جنوری صبح نو بجے بذریعہ موٹر کار براسته شیخو پورہ و گوجرانوالہ روانہ ہوئے.جماعت احمدیہ شیخو پورہ کے بعض احباب اپنے امیر جناب چوہدری محمد انور حسین صاحب کی قیادت میں شیخو پورہ شہر سے باہر حضور کے استقبال کے لئے حاضر تھے.حضور انور گیارہ بجے کے قریب شیخو پورہ پہنچنے پر چوہدری صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے جہاں بہت سے احمدی احباب اور غیر از جماعت معززین نے حضور کا خیر مقدم کیا.حضور نے تمام دوستوں کو شرف مصافحہ بخشا اور قریباً ایک گھنٹے تک ان سے مختلف امور پر گفتگو فرماتے رہے.یہاں سے روانہ ہو کر حضور نے تھوڑی دیر کے لئے جہلم کے قریب پاکستان چپ بورڈ فیکٹری میں صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب کے ہاں مختصر قیام فرمایا اور چائے پی.حضور شام چھ بجے اسلام آباد پہنچے اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی کوٹھی میں فروکش ہوئے.حضور کی تشریف آوری پر مقامی
تاریخ احمدیت.جلد 28 6 سال 1972ء جماعت کے بہت سے احباب نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے تمام دوستوں سے مصافحہ فرمایا اور پھر تھوڑی دیر تک ان سے گفتگو بھی فرماتے رہے.حضور نے فرمایا کہ پاکستان اس وقت جس المیہ سے دو چار ہے اگر انسان غور کرے تو وہ اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے بعد سے اب تک کسی قوم سے اتنے بڑے پیمانے پر غداری نہیں ہوئی.اب جوں جوں وقت گذر رہا ہے اس سانحہ کے درد اور اس المیہ کی ٹیس میں شدت پیدا ہو رہی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ قوم اپنے ملک کی سالمیت کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے تیار تھی.فرمایا:.یہ وقت بیان بازی کا نہیں بلکہ اس وقت ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی صفوں کو درست کریں، متحد و منظم ہو جائیں اور تعمیر نو کے کاموں میں حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کریں.انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں ۱۸ جنوری کو حضور قریبا دن بھر احباب سے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملاقاتیں فرماتے رہے ان میں بعض غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.اس روز حضور ماریشس کے ہائی کمشنر کے ہاں دو پہر کے کھانے پر مدعو تھے جہاں کئی ملکی اور غیر ملکی مسلم زعماء اور سفراء بھی موجود تھے جو حضور کے ساتھ اسلامی ممالک کے استحکام اور خوشحالی کے بارے میں تبادلہ خیال فرماتے رہے.اس موقع پر حضور نے بعض مسلم زعماء کو قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کے چند نسخے عطا فرمائے.جنہیں سب نے بڑی محبت اور شکریہ کے ساتھ قبول کیا.احباب جماعت نے کوٹھی پر مغرب اور عشاء کی نمازیں حضور کی اقتداء میں ادا کیں.اس کے بعد حضور قریباً نصف گھنٹے تک احباب میں رونق افروز رہے.حضور نے ملک میں رائج ہونے والی بعض اصلاحات کا خیر مقدم کرتے ہوئے فرمایا کہ اصلاحات ٹھوس منصوبہ بندی کی متقاضی ہیں اور منصو به بندی در اصل اعداد و شمار کے بغیر ہو نہیں سکتی.فرمایا.وہی اصلاحات انجام کار مفید اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہیں جن کی بنیاد صحیح اعدادوشمار پر ہوتی ہے.ہمارے ملک میں فنی اور سائنسی ذہنوں کی کمی نہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے اس قیمتی سرمایہ کا ضیاع نہ ہو.البتہ ان کی تعلیم و تربیت میں اس امر پر خصوصی توجہ دینی چاہیے کہ وہ فارغ التحصیل ہو کر ملک وملت کی خدمت کو اولیت دیں گے خواہ انہیں کسی دور دراز دیہات میں ہی کیوں نہ لگایا جائے.اس ضمن میں آپ نے ایک امریکن
تاریخ احمدیت.جلد 28 7 سال 1972ء عورت کا واقعہ بیان فرمایا جسے سل کا عارضہ ہو گیا تھا اور ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق اسے ایک ایسی جگہ بھجوایا گیا تھا جہاں ناخواندگی کا یہ عالم تھا کہ سارے علاقے میں صرف ایک آدمی پڑھا ہوا تھا.وہ عورت پڑھی لکھی تھی اس نے بحالی صحت کے ساتھ ساتھ اس علاقے کے سر بر آوردہ لوگوں کے مشورہ سے آبادی کے ایک حصے کو پڑھانا شروع کر دیا.ساتھ ہی وہ اپنے طلباء کو یہ باور کراتی رہی کہ وہ آگے چل کر اپنے اس علاقے کے ناخواندہ افراد کی پڑھائی اور بہتری کا انتظام کریں گے.چنانچہ ان میں سے جولڑ کا زیادہ ہوشیار اور محنتی تھا اسے یونیورسٹی اور پھر ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی گئی.اس نے اپنی اس معلمہ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ایک لاکھ ڈالر سالانہ کی ملازمت کی پیشکش کو رد کر دیا اور اپنے گاؤں میں آ گیا اور لوگوں کے علاج معالجہ کے لئے اپنے آپ کو شب و روز کے لئے وقف کر دیا.فرمایا یہ وہ اصل راہ ہے جس پر چل کر اور یہ وہ اصل طریقہ ہے جس کو اپنا کر قوموں کی کایا پلٹ سکتی ہے.زیر تعمیر جماعتی عمارات کا معاینہ ۱۹ جنوری کو حضور قبل از دو پہر مسجد احمد یہ اسلام آباد اور صدر انجمن احمدیہ کی زیر تعمیر عمارتوں کے دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.آپ نے قریباً ایک گھنٹے تک ان ہر دو عمارتوں کے کام کی رفتار اور معیار کا جائزہ لیا اور کارکنان کو ضروری ہدایات سے نوازا.رات کو کوٹھی پر ہی آپ نے اپنی آنکھوں کا معاینہ کروایا.ڈاکٹر نسیم احمد صاحب اور ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب نے معا ینہ کیا.اس موقع پر کرنل ڈاکٹر ضیاء الحسن صاحب بھی موجود تھے.ربوہ کے لئے روانگی ۲۰ جنوری کو صبح سے بوندا باندی شروع ہو گئی.حضور مع قافلہ گیارہ بجے اسلام آباد سے روانہ ہوئے.مقامی جماعت نے کثیر تعداد میں اپنے امیر جماعت جناب چوہدری عبدالحق صاحب ورک کی معیت میں حضور کو الوداع کہنے کی سعادت حاصل کی.جہلم پہنچنے پر حضور نے تھوڑی دیر کے لئے مرزا امنیر احمد صاحب کے ہاں پاکستان چپ بورڈ فیکٹری میں قیام کیا.قیام کے دوران دو پہر کا کھانا تناول فرمایا.یہاں سے روانہ ہو کر سرائے عالمگیر سے نہر کی پٹڑی پر سے ہوتے ہوئے براستہ سرگودھا سات بجے حضور مع قافلہ بخیر و عافیت ربوہ واپس تشریف فرما ہوئے.4 دوسرا سفر : ( ۸ فروری تا ۱۵ فروری ۱۹۷۲ ء ) اس سفر میں بھی حضور انور حسب معمول ربوہ سے
تاریخ احمدیت.جلد 28 8 سال 1972ء روانہ ہو کر کچھ وقت کے لئے راستہ میں چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع شیخوپورہ کی کوٹھی پر رونق افروز ہوئے.اس موقع پر بعض غیر از جماعت معززین بھی موجود تھے.حضور نے ان کے متعدد سوالات کے جوابات بھی دیئے.اس موقع پر ایک دوست کے سوال کے جواب میں فرمایا قرآن کریم نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ تمہاری زندگی ہمیشہ صراط مستقیم کے مطابق ہونی چاہیے اور تمہارے افعال میں کسی قسم کا تضاد نہیں ہونا چاہیے.تقضاء کی ایک مثال یہ ہو سکتی ہے کہ ایک احمدی کبھی کمیونسٹ نہیں ہو سکتا کیونکہ احمدیت اور کمیونزم آپس میں متضاد اصولوں پر قائم ہیں اس لئے جو احمدی بھی دونوں کشتیوں میں پاؤں رکھے گاوہ یقینا نا کامی کا منہ دیکھے گا.فرمایا:.ہم نے حال ہی میں اپنی لائبریری کے لئے ایک کتاب ”کتاب المؤلفین منگوائی ہے ( مؤلّف عمر رضا کحالہ.ناشر مطبعة الرقی دمشق ۱۳۸۰ ۵ / ۱۹۶۰ء) یہ کئی جلدوں میں ہے اور اس میں مسلمان مؤلفین کے نام اور ان کی تالیفات کا تذکرہ ہے.فرمایا میں نے اس کی ایک جلد ( نمبر ۱۱ صفحہ ۴۰) منگوائی ہے اور اس میں محی الدین ابن عربی " کا ذکر نکالا اس میں لکھا تھا کہ ان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا.اسی طرح حضرت سید عبد القادر جیلانی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں ولی ہوں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ مجھے کا فر اور زندیق کہا گیا ہے.گویا ان کے نزدیک ولایت کیلئے یہ شرط ہے کہ ولی پر فتاویٰ کفر لگائے جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی کفر کے فتوے لگائے گئے اور حضرت سید عبدالقادر جیلانی " کی دلیل کے مطابق یہ فتاوی تکفیر ہی آپ کے فرستادہ ہونے کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں.فرمایا :.حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں جب بعض لوگوں کو جماعت سے خارج کیا گیا تو ایک دوست مجھے ملنے آئے اور کہنے لگے کہ کیا آپ کی جماعت میں بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں؟ میں ان کو ایک یوکلپٹس کے درخت کے قریب لے گیا.اس میں چند سوکھی ٹہنیاں بھی تھیں لیکن درخت سرسبز و شاداب تھا میں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ چند سوکھی ٹہنیاں درخت کی موت کی علامت ہیں یا زندگی کی.انہوں نے کہا بس میں سمجھ گیا ہوں.فرمایا ہر صحت مند درخت میں سوکھی ٹہنیاں بھی ہوتی ہیں اصل چیز جڑ کی مضبوطی ہے.جماعت میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اگر چہ تعداد میں بہت ہی کم ہوتے ہیں لیکن ہوتے ضرور ہیں جو سوکھی ٹہنیوں کے مشابہ ہوتے ہیں لیکن جماعت کی جڑ مضبوط ہوتی ہے اس لئے یہ سوکھی ٹہنیاں خود بخود گرتی جاتی ہیں اس پر گھبرانے کی ضرورت نہیں ہوتی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 9 سال 1972ء فرمایا:.جب تک قومی طور پر ہم اخلاق کی اصلاح کی طرف توجہ نہ کریں گے کامیابی نہیں ہو سکے گی.توبہ استغفار اور اخلاق کی اصلاح کامیابی کی کنجی ہے اس کے بغیر تائید الہی نہیں آتی.پس اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے باشندے اللہ تعالیٰ سے صدق دل سے تو بہ کریں اور اپنے اخلاق اور اعمال کو درست کریں تا کہ خدا کی رضا ان کو نصیب ہو.پھر ان کو کسی چیز کا ڈر نہ ہوگا اور دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ان کو شکست نہ دے سکے گی.فرمایا:.کمیونزم کہتی ہے کہ مذہب افیون ہے لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ جو قوم اس خدا پر ایمان لاتی ہے جس کی ایک صفت یہ ہے کہ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْهُر اس پر غنودگی کیونکر طاری ہو سکتی ہے.مذہب تو بیداری کا نام ہے اسلام کے خدا پر غنودگی طاری ہی نہیں ہوسکتی اس کے ماننے والوں پر کیوں غنودگی طاری ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ایک خوابیدہ اور رسوم و رواج میں جکڑی ہوئی انسانیت کو خواب غفلت سے بیدار کر کے دنیا کا استاد بنا دیا تھا.کیا کبھی کوئی افیونی شخص یا قوم بھی اس مقام پر پہنچی ہے؟ ہرگز نہیں.حضور نے اسلام آباد میں ایک ہفتہ سے زائد قیام فرمایا.۱۳ فروری کو جماعت احمد یہ راولپنڈی نے طعام و چائے وغیرہ کا انتظام کر رکھا تھا.چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع نے تمام انتظامات کی نگرانی فرمائی.حضور انور کے قافلہ میں حضرت بیگم صاحبہ، صاحبزادی امتہ العلیم صاحبہ، بیگم مرزا مظفر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب، (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب شامل تھے.ربوہ کے لئے روانگی ۱۵ فروری کو حضور اقدس ربوہ کے لئے روانہ ہوئے.جہلم میں صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب کے ہاں مختصر قیام فرمایا.راولپنڈی کے چند افراد امیر صاحب کی قیادت میں جہلم تک ساتھ آئے.دو پہر حضور نے شیخو پورہ میں چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع شیخو پورہ کے ہاں کچھ دیر کے لئے قیام فرمایا.چوہدری صاحب نے معززین شہر کو بھی مدعو کر رکھا تھا.حضور نے اس موقع پر فرمایا کہ ماؤزے تنگ چیئر مین کمیونسٹ پارٹی چین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح مبارکہ سے بہت متاثر معلوم ہوتے ہیں اور ان کی بعض تحریرات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ کا مطالعہ کیا ہوا ہے.شام کو حضور ربوہ تشریف لے آئے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 10 سال 1972ء حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا راولپنڈی میں خطاب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج بین الاقوامی عدالت انصاف و سابق وزیر خارجه پاکستان نے مورخہ ۱۹ جنوری ۱۹۷۲ء کو راولپنڈی میں ایک اجتماع سے خطاب کیا.آپ نے اپنے خطاب میں مسلمانوں کو اتحاد قائم رکھنے کی نصیحت فرمائی نیز آپ نے فرمایا ہمیں پاکستان کی حالیہ شکست سے سبق سیکھنا چاہئے اور ملک وقوم کی بقاء اور سالمیت کے لئے مثبت کردار ادا کرنے اور ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا بطور اعلیٰ سائنسی مشیر تقرر صدر پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایک نئی وزارت قائم کرنے کا اعلان کیا اور مشہور عالم سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام کو اپنا اعلیٰ سائنسی مشیر مقرر کیا.اس کا اعلان صدر پاکستان نے مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ء کو پاکستانی سائنس دانوں کی اس کانفرنس میں کیا جو ملتان میں منعقد ہوئی تھی.صدر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی قابل قدر خدمات کو سراہا.صدرمملکت نے سابق چیئر مین ڈاکٹر عثمانی کی خدمات کا بھی اعتراف کیا.نیز اس موقعہ پر ڈاکٹر منیر احمد خان کو ایٹمی توانائی کمیشن کا نیا چیئر مین بھی مقرر کیا.7 ہر دو کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:.ڈاکٹر عشرت عثمانی پیدائش: ۱/۱۵اپریل ۱۹۱۳ ء وفات: ۱۷ جون ۱۹۹۲ء.آپ ایک جو ہری سائنسدان تھے.آپ ۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۲ ء تک پاکستان کے اٹامک انرجی کمیشن کے دوسرے چیئر مین رہے.اسی طرح خلائی ریسرچ کمیشن کے ڈائریکٹر بھی رہے.کراچی میں کینیڈا کے تعاون سے قائم ہونے والے پہلے جوہری طاقت کے پلانٹ کے قیام کا سہرا بھی آپ اور ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سر ہے.ڈاکٹر منیر احمد خان.پیدائش ۲۰ مئی ۱۹۲۶ ء.وفات : ۱/۲۲ پریل ۱۹۹۹ ء آپ پاکستانی جوہری سائنسدان تھے.جو ۱۹۷۲ء تا ۱۹۹۱ ء پاکستان کی اٹامک انرجی کمیشن کے چیئر مین بھی رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 11 سال 1972ء آپ کو پاکستان کے جوہری طاقت کے منصوبہ کا بانی قرار دیا جاتا ہے.آپ نے چار دہائیوں تک ملک کے مختلف سائنسی منصوبہ جات پر کام کیا.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے دنیا بھر کے لئے جو خدمات سرانجام دیں ان کا تذکرہ وقتاً فوقتاً تاریخ احمدیت میں آتا رہے گا.لیکن اس موقع پر بطور خاص ان کی اپنے وطن پاکستان کے لئے جو خدمات ہیں ان کی ایک جھلک پیش ہے.چنانچہ جناب ڈاکٹر منیر احمد خان صاحب سابق چیئر مین اٹامک انرجی کمیشن ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی پاکستان کے بارہ میں سائنسی خدمات کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں.سائنس کی دنیا کے لئے عبد السلام ہمارا دریچہ تھا کیونکہ تمام دنیا کے عظیم ترین سائنسدان ان کا احترام کرتے تھے.انہوں نے دنیا کے اعلیٰ ترین تحقیقی اداروں اور یو نیورسٹیوں میں تیسری دنیا کے سائنسدانوں کو مواقع مہیا کئے.تھیوریٹیکل فزکس میں ان کی نمایاں خدمات کے علاوہ جس کے لئے انہیں نوبل انعام ملا، ان کا سب سے بڑ اور نہ یہ ہے کہ انہوں نے تیسری دنیا کے لئے سائنس دانوں کی ایک کثیر تعداد کو تربیت دی.پروفیسر عبدالسلام نے پاکستان میں سائنس کی ترقی کے لئے نا قابل فراموش خدمات سرانجام دیں اور ۱۴ سال تک پی اے ای سی) Pakistan Atomic Energy Commission) کے رکن رہے.وہ اس کے قیام ہی سے اس کی راہنمائی کرتے رہے.انہوں نے ہی اس کے لئے عمارت تعمیر کرنے کے مقام کا تعین کیا اور حکومت کو قائل کیا کہ وہ سائنس دانوں کو تربیت دے، انہیں بیرون ملک بھیجے.انہوں نے نئے سائنس دانوں کو یونیورسٹیوں اور لیبارٹریوں میں جگہ دلوائی.انہوں نے پاکستان میں سیم و تھور کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے ایوب خان کو امریکہ سے مدد لینے کا مشورہ دیا جس کے بعد ریول مشن (Revelle Mission) قائم ہوا.۱۹۶۰ء کی دہائی میں مجھے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ نیوکلیئر فیول پروسیسنگ کے قیام کے لئے تجاویز تیار کرنے کا موقع ملا.66 ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی وطن عزیز کے لئے خدمات ڈاکٹر عبدالسلام صاحب مندرجہ ذیل اداروں کے ذریعہ اپنے وطن پاکستان کی خدمت میں کوشاں رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 ممبر پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن ممبر پاکستان سائنٹیفک کمیشن مشیر تعلیم 12 صدر پاکستان ایسوسی ایشن برائے فروغ سائنس سال 1972ء ۱۹۵۸ء تا ۱۹۷۴ ۱۹۵۹ء ۱۹۵۹ء ۱۹۵۹ء بانی صدر بالا ئی فضا کا تحقیقی ادارہ (SUPARCO) ۱۹۶۱ء تا ۱۹۶۴ پاکستان کے دوصد ور اور ایک وزیر اعظم کے اعزازی مشیر اعلیٰ ۱۹۶۱ء تا ۱۹۷۴ء ممبر نیشنل سائنس کونسل ممبر بورڈ آف پاکستان سائنس فاؤنڈیشن ربوہ میں عید الاضحیہ کی مبارک تقریب ۱۹۶۳ء تا ۱۹۷۵ء ۱۹۷۳ء تا ۱۹۷۷ء مورخہ ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء کو ربوہ میں عیدالاضحیہ کی مبارک تقریب دینی شعار کے مطابق پورے اہتمام کے ساتھ منائی گئی.اہل ربوہ نے مسجد مبارک میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اقتداء میں نماز عیدا دا کرنے کی سعادت حاصل کی.ربوہ کے مقامی احباب کے علاوہ بہت سے بیرونی مقامات مثلاً سرگودھا، لائل پور، چنیوٹ، احمد نگر اور لاہور سے بھی بہت سے احباب حضور کی اقتداء میں احمدنگر نماز عید ادا کرنے کے لئے تشریف لائے.حضور انور نے نماز عید کے بعد بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے عالمگیر غلبہ کی جو بشارت دی تھی اس کا تعلق آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ ہے.حضور نے فرمایا کہ عالمگیر غلبہ اسلام کے لئے تین چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے.ا.علم اور سفر کی سہولتوں کے لحاظ سے ساری دنیا ایک برا دری ہو جائے.۲.کتابوں اور لٹریچر کی بکثرت اشاعت ہو.- الہبی تائیدات اور نشانات دنیا کے ہر حصہ میں ظاہر ہوں.مکہ مکرمہ کی عید الاضحیہ کے دن عید منانے کا ارشاد حضور انور نے اپنے اس خطبہ میں وحدت اقوام عالم کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 13 سال 1972ء خواہش کا اظہار فرمایا کہ آئندہ ساری دنیا کی تمام احمدی جماعتیں جہاں تک ممکن ہو سکے مکہ معظمہ کی عید کے ساتھ عیدالاضحیہ منائیں تا کہ وحدت اسلامی کے قیام کا ہم عملا ایک مظاہرہ کرسکیں.10 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ ء کے خطبہ عید الاضحیہ میں یہ حقیقت نمایاں فرمائی کہ فریضہ حج کا ایک بڑا مقصد وحدت اقوامی کے قیام میں ممد و معاون بننا ہے اور حج کا تعلق اگر چه رویت ہلال سے ہے مگر یہ وہ رویت ہلال ہے جو مکہ مکرمہ میں رونما ہو کیونکہ حج تو مکہ کی مقدس بستی میں ہی ہوتا ہے اس لئے یہاں عید الفطر زیر بحث نہیں تھی بلکہ عید الاضحیہ کا ذکر ہے جو حج کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اس پس منظر میں حضور نے اعلان فرمایا کہ:.آئندہ سے ساری دنیا میں تمام احمدی جماعتیں انشاء اللہ مکہ مکرمہ کی عید کے دن عید منائیں گی اور ساری دنیا کی احمدی جماعتیں یہ کوشش کریں گی کہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کے لئے اسلام کے دن کا آغاز ( یعنی جہاں ہم نے کسی نقطہ پر ہاتھ رکھ کر کہنا ہے کہ یہاں سے دن شروع ہونا ہے ) اُس سورج کے طلوع ہونے سے تعلق رکھے گا جو مکہ مکرمہ کی زیارت کے لئے مشرق سے ابھر رہا ہوگا...کسی ملک میں چاند کے لحاظ سے مکہ سے پہلے عید نہیں ہوگی“.نیز فرمایا:.” میری ایک اور درخواست دنیا کے تمام ممالک سے یہ ہے کہ وہ اس وقت دن کی ابتداء یعنی اس کرہ ارض کے دن کی ابتداء ایک نقطہ جسے زیرو پوائنٹ کہتے ہیں اس سے کرتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ نقطہ مکہ مکرمہ ہونا چاہیے کیونکہ وہ ام القریٰ ہے وہ تمام بستیوں کی ماں ہے پس یہ وہ زیرو پوائنٹ اور مرکزی نقطہ ہے جہاں سے دن شروع ہوگا کیونکہ ہمیں یہ پختہ یقین ہے کہ انشاء اللہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہوگا اور پھر پہلے سے بنے ہوئے یہ فارمولے منسوخ کر دیے جائیں گے اور پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے جائیں گے اور انشاء اللہ ایک دن وہ وقت بھی آ جائے گا کہ ساری دنیا کا دن مکی دن سے شروع ہو گا اور اسی کے مطابق ہماری گنتیاں ہوں گی اور ہمارے مسائل حل ہوں گے خدا کرے کہ وہ دن جلد طلوع ہو.اور خدا کرے کہ وحدت اقوامی کے لئے ہماری یہ کوشش بارآور ہو.میں نے رات کو
تاریخ احمدیت.جلد 28 14 سال 1972ء بڑی دعا کی کہ اے میرے خدا! مجھ سے کوئی غلط فیصلہ نہ ہو جائے اس لئے میں نے یہاں ساری چیزیں کھول کر بیان کر دی ہیں کہ ہم آئندہ سے یہ عید الاضحیہ یعنی قربانیوں کی عید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فارمولے کے مطابق منائی تھی اس کے مطابق منائیں گے یعنی مکہ مکرمہ میں جس فارمولے کے مطابق عید الاضحیہ منائی جاتی ہے اس کے مطابق عید منائیں گے“.اس اعلان پر ہفت روزہ ” الاعتصام لاہور نے اپنی اا راگست ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں سخت برہمی کا اظہار کیا اور اسے امت مسلمہ سے علیحدگی کے واشگاف اعلان سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا:.اسلام میں رویت ہلال کا مسئلہ بالکل واضح ہے جو احادیث میں صراحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ ہر علاقے کے لوگ چاند دیکھ کر ہی اپنی عبادات حج و روزہ اور عید کا اہتمام کریں.یہ زہر یلا مضمون پڑھ کر خالد احمدیت مولانا ابوال العطاء صاحب نے مدیر الاعتصام“ کے نام ۱۵ اگست ۱۹۷۲ء کو بذریعہ خط دریافت کیا ” براہ کرم محض تحقیق کی غرض سے ان احادیث کی نشاندہی فرمائیں جن میں حج اور عید الاضحیہ (نہ کہ عید الفطر ) کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہو کہ ہر علاقے کے لوگ چاند دیکھ کر ہی ان کا اہتمام کریں.مولانا صاحب نے اپنے رسالہ الفرقان اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۴۱ پر اس امر کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.یہ خط پندرہ اگست کو بھجوایا گیا تھا مگر آج تک فاضل مدیر صاحب نے کوئی جواب نہیں دیا.ہم اس موضوع پر مفصل لکھنے سے پہلے اس خط کے اس حصہ کو اس لئے شائع کر رہے ہیں کہ اگر کوئی اور عالم دوست اس بارے میں آگاہ فرما سکیں تو ان کی تحقیق سے بھی استفادہ کر لیا جائے.واضح رہے کہ اس جگہ سوال صرف حج اور عیدالاضحی کے بارے میں ہے.۱۹۷۱ء کی جنگ پر حقیقت افروز تبصرہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۸ فروری ۱۹۷۲ء کو خطبہ جمعہ میں ہندوستان سے لڑی جانے والی ۱۹۷۱ ء کی جنگ پر تاریخ اسلام کی روشنی میں نہایت حقیقت افروز تبصرہ کیا اور غزوہ بدر، جنگ یرموک اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 15 سال 1972ء مسلم سپین کے معرکہ نیز یوسف بن تاشفین کے واقعات پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ:.اگر ہم اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ میں نے تمثیلی رنگ میں جس عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے، اسی وقت بالعموم اللہ تعالی کی مدد نازل ہوتی رہی ہے.چنانچہ کی زندگی کے بعد بدر کی جنگ تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت لڑی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے مکی زندگی میں مسلمانوں کو ہر قسم کے دکھ پہنچائے گئے.یہاں تک کہ اڑھائی سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو شعب ابی طالب میں بند رکھا گیا اور آپ کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا حتی کہ کفار مکہ کھانے پینے کی چیزوں تک کو اندر نہیں جانے دیتے تھے.گو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زندہ رکھنے کے سامان تو پیدا کر رہا تھا مگر آزمائش تھی امتحان تھا ( جو خدا ان کو زندہ رکھنے کے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا تھا وہ ان کو صحت مند اور طاقتور رکھنے کا انتظام بھی کر سکتا تھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آزمائش تھی ) اس لئے ان کی تکلیف کی یہ حالت تھی کہ ایک بزرگ صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز کے اوپر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا چنانچہ میں نے اسے اٹھایا اور کھا لیا لیکن مجھے آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ تھی کیا چیز.غرض اس تکلیف دہ حالت تک وہ پہنچے ہوئے تھے گواڑھائی سال تک انسان بھوکا نہیں رہ سکتا.ظاہر ہے محض زندہ رکھنے کے لئے ان کو جتنی غذا کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گئی.لیکن بھوک کی آزمائش بڑی سخت تھی علاوہ دوسری آزمائشوں کے جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو انہی کفار نے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور کہا کہ یہ باہر نکل کر کیسے جا سکتے ہیں ہم ان کو مٹا دیں گے.چنانچہ یہ وہ وقت تھا جب دکھ اور تکلیف، کرب اور ایذاء، آزمائش اور امتحان اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا.چنانچہ پھر دنیا نے بدر کے میدان میں یہ نظارہ دیکھا کہ تین سو اور کچھ مسلمانوں کے مقابلے میں جو اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے آئے وہاں تھے (وہاں آئے ) وہ اپنے قریباً سب بڑے بڑے سرداروں کے سر چھوڑ کر واپس بھاگے.غرض "الا ان نصر اللہ قریب“ کا ایک عجیب نظارہ تھا جو دنیا نے بدر کے میدان میں دیکھا اور پھر
تاریخ احمدیت.جلد 28 16 سال 1972ء یہی نظارہ ہم بعد کی لڑائیوں میں بھی دیکھتے ہیں.کیسے ہی حالات احزاب کے موقع پر پیدا ہو گئے قریباً سارا عرب اکٹھا ہو کر ان غریبوں اور مفلسوں اور نہتوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں جمع ہو گیا اور انہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک کے مارے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر چلتے تھے.دوسری طرف مسلمان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جس جگہ وہ اکٹھی کی گئیں وہاں ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کے لئے بھی مسلمان سپاہی میسر نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہ اس کی زیادہ ضرورت تھی.مسلمان عورت سے فرمایا کہ اگر آج تیری عزت کی آزمائش ہے اور خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان عورت میرے راستے میں اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں تو وہ اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے تیار ہو جائیں.چنانچہ وہ تیار ہوگئیں.پھر جس وقت یہ سارا جم غفیر اور یہ سارا مجمع جو اسلام کو مٹانے کے لئے جمع ہوا تھا اور ان کفار کی امید اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ بس اب وہ غالب آئے اور مسلمان مغلوب ہوئے ادھر مسلمانوں کے حالات کرب عظیم کو پہنچ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر اس وقت خدا تعالیٰ کی مدد نہ آئی تو وہ مارے جائیں گے، اس وقت خدا کی مدد آئی اور فرشتے اس مدد کو آسمان سے لے کر آئے...یرموک کی جنگ کو لیں یہ پانچ دن کی جنگ ہوئی ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید کو طفیل محمد ال ا ا یلتم الله تعالیٰ کی طرف سے یہ بتا دیا گیا تھا کہ چار دن تک آزمائشوں کا دور ہوگا یعنی ان کے ذہن میں پہلے سے یہ تصور موجود تھا کہ چار دن دشمن کے اور پانچواں دن ہمارا ہو گا.یعنی تین پہر دشمنوں کے ہوں گے اور چوتھا پہر ہمارا ہو گا چنانچہ دشمن اپنے وزن ، اپنی تعداد اور اپنے ہتھیاروں کے زور کے ساتھ مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے ان کے خیموں تک لے جاتا تھا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایثار پیشہ فدائی مسلمان عورتیں خیموں کے ڈنڈے لے کر مسلمانوں کے سر پر مارتی تھیں کہ واپس جاؤ یہاں کیا لینے آئے ہو.چنانچہ اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دو دن بھی یہی حال ہوا اس معرکے میں کئی مسلمان شہید ہو گئے جن میں عکرمہ اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے مگر کسی مسلمان
تاریخ احمدیت.جلد 28 17 سال 1972ء نے پیٹھ نہیں دکھائی حتی کہ عکرمہ جیسے شخص نے پیٹھ نہیں دکھائی جو فتح مکہ تک اسلام کا دشمن رہا تھا.کیونکہ عکرمہ اور اس جیسے دوسرے مسلمانوں کے دل بدل گئے ، حالات مختلف ہو گئے ، اندھیروں کی جگہ نور نے لے لی.وہ جو اسلام کے دشمن تھے ان کے دل میں محبت پیدا ہو چکی تھی.عکرمہ اور اس کے ساتھی اس خیال سے جلتے تھے کہ انہوں نے اپنے چہروں پر اسلام دشمنی کے داغ لگارکھے ہیں.ان داغوں کو دھونے کے لئے خدا جانے ہمیں کوئی موقع ملتا ہے یا نہیں.پس یہ لوگ بھی جو بعد میں آنے والے تھے دشمن کے مقابلے میں بھاگے نہیں کسی نے بزدلی نہیں دکھائی وہ خدا تعالیٰ سے نا امید نہیں ہوئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں کی بلکہ کئی ایک نے اپنی جان دے کر من قضى نحبه خدا تعالیٰ سے اپنا عہد پورا کر دیا اور اس طرح انہوں نے اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کئے اور پیچھے رہنے والوں کے لئے فتح کے سامان پیدا کر دیئے.غرض اس جنگ میں جب مسلمانوں کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تمثیلی زبان میں وہ آخری وقت یعنی عصر کا وقت آگیا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت یرموک کے میدان میں رومی اپنے پیچھے شاید ڈیڑھ لاکھ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے.حالانکہ پہلے چار دنوں میں رومی یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تو مٹھی بھر ہیں یہ بیچ کر کیسے جائیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ ہم اڑھائی لاکھ ہیں اور مسلمان صرف چالیس ہزار.اس لئے وہ مسلمانوں کو مٹادیں گے.غرض اس نیت کے ساتھ رومی آئے تھے کہ اس میدان میں سارے مسلمانوں کو قتل کر دیں اور اس فتنے کو ( جو اُن کے نزدیک فتنہ تھا ) ہمیشہ کے لئے مٹا دیں گے مگر جسے وہ فتنہ سمجھتے تھے اور جس کے مٹانے کے در پے تھے.اس نے ان کے خون کو کھاد بنا کر انہی کے علاقوں میں اسلام کے درختوں کو بویا جنہوں نے بڑے اچھے پھل دیئے...یوسف بن تاشفین کا واقعہ ہے جو پین میں رونما ہوا وہ افریقہ کے رہنے والے تھے میں نے تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے مگر ان کے اس واقعہ میں عملاً عصر کا وقت ہی تھا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی.“
تاریخ احمدیت.جلد 28 پھر حضور انور نے فرمایا:.18 سال 1972ء ” جو جنگ اس وقت ہندوستان کے خلاف لڑی گئی ہے میرا اندازہ ہے کہ صبح سات بجے ہمارے فوجیوں سے ظالم حکومت نے جنگ بند کروا دی.ہمارا سپاہی بڑی بے جگری سے لڑا ہے اس نے اپنے خون سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس پر بزدلی یا نا اہلی کا دھبہ نہیں آتا اس لئے میں ان کی بات نہیں کر رہا.لیکن جن کا بھی قصور تھا اور جہاں بھی وہ فتنہ تھا اس کی وجہ سے ہتھیار ڈالے گئے تو عصر کا وقت نہیں تھا ظہر کا وقت بھی نہیں تھا.بارہ بھی نہیں بجے تھے.دس بجے کا بھی وقت نہیں تھا.صبح سات بجے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آئی ؟ قرآن کریم کی واضح تعلیم کے خلاف ہے“.12 جماعت احمدیہ کا مالی قربانی میں مثالی کردار یہ سال اقتصادیات کے اعتبار سے بہت نازک سال تھا اور جماعتی چندوں پر اس کے ناگوار اثرات کا پڑنا بظاہر ناگزیر تھا.سیدنا حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے اس خطرہ کے پیش نظر مخلصین جماعت کو خصوصی ہدایت فرمائی کہ انہیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ہر حال میں اپنی تاریخی روایات کے شایان شان قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.چنانچہ حضور نے اس سلسلہ میں ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ:.دور وو غلبہ اسلام کے لئے ہماری جو عظیم جد و جہد اور عظیم مہم ہے اس کا بھی ایک ر ہے جس میں جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے یہ اتنا عظیم الشان کام ہے کہ بعض کمزور دل اور کمز ور ایمان آدمی ڈر جائیں گے وہ سمجھیں گے کہ یہ اتنا بڑا کام ہے.یہ کیسے سرانجام پائے گا؟ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں جتنا کام اس وقت تک ہو چکا ہے وہ بھی ” کیسے ہو سکنے والا سوال تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو قبل اس کے کہ کوئی ایک شخص بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا.دوسو علماء نے آپ علیہ السلام پر کفر کے فتوے لگا دیئے.آپ کی محفل میں دوسو علماء کے کفر کے فتوے تو تھے لیکن احمدی کوئی نہیں تھا کیونکہ ابھی آپ نے بیعت لینی شروع نہیں کی تھی.لیکن
تاریخ احمدیت.جلد 28 19 سال 1972ء آج دیکھو وہ اکیلی آواز، وہ خدا اور اس کے رسول کے پیار سے لبریز آواز ساری دنیا میں چکر لگارہی ہے.پس جو کچھ ہو چکا وہ بھی دراصل ایک معجزہ ہے.اس لئے جب ہم ایک معجزہ دیکھ چکے ہیں تو ہم آئندہ ظاہر ہونے والے معجزوں سے مایوس کیوں ہوں؟ خدا تعالیٰ وہ بھی ضرور دکھائے گا.البتہ ضرورت اس بات کے سمجھنے کی ہے کہ جب امت محمدیہ نے یا جماعت احمدیہ نے اس سے پہلے اپنی ذمہ داریوں کو نباہا ہے تو پھر ہم اپنی ان ذمہ داریوں کے نباہنے سے کیوں انکار کریں جو آئندہ نئے دور میں ہم پر پڑنے والی ہیں.“ پھر حضور انور نے پچھلے مالی سال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” جب ہمارا پچھلا مالی سال ختم ہوا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس وقت جماعت پر یہ بڑا فضل کیا تھا کہ جو ہمارا بجٹ تھا، احباب نے اس سے کہیں زیادہ چندے دیئے تھے.اب جو بچے ہیں یا جو لوگ جماعت کے اندر نئے داخل ہونے والے ہیں وہ سمجھتے ہیں صرف مالی قربانی دے دی یہ میچ نہیں ہے اس لئے ہماری جماعت کے علماء کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ دو چیزوں کو جماعت کے سامنے پیش کیا کریں.ایک یہ کہ جماعت نے ہر مالی سال کے شروع میں ایک اندازہ لگا کر کہ مثلاً اتنی ہماری مالی طاقت ہے اس کے مطابق جتنا منصوبہ بنایا یعنی بجٹ تیار کیا تھا اس سے زیادہ انہوں نے مالی قربانیاں دیں اور دوسرے یہ کہ ان مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے جتنے پیار کی وہ توقع رکھتے تھے اس سے کہیں زیادہ پیار اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فر مایا.“ حضور نے اس خطبہ کے آخر میں مزید فرمایا کہ:.پس دنیا کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اقتصادی بحران جماعت احمدیہ کی قربانیوں میں کبھی روک نہیں بن سکتے.اس واسطے تم ان دو مہینوں کے اندر خدا کی راہ میں قربانیاں دو اس یقین کے ساتھ کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں دو گے تو دنیوی دولت کے لحاظ سے غریب نہیں ہو جاؤ گے کیونکہ جوشخص خدا تعالیٰ کی راہ میں پیسے دیتا ہے وہ غریب نہیں ہوتا بلکہ اور زیادہ مالدار ہو جاتا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 20 سال 1972ء تم نے دنیا کو یہ بتانا ہے کہ ہمیں اپنے رب کی طرف سے جو پیار ملا ہے ہم اس کی قدر کرتے ہیں کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے ہیں.غرض ہمیں اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا چاہیے کہ دنیا میں اقتصادی بحران آئیں ، دنیا میں حوادث کی شکل میں طوفان برپاہوں یا دریاؤں میں طغیانیاں آئیں یا خشک سالی ہو دنیا میں خواہ کچھ بھی ہوتا ر ہے ہمارے عزم اور ہمارے ارادے اور ہماری قربانیوں میں کوئی رخنہ اور کوئی نقص پیدا نہیں ہو گا.ہم پہلے سے زیادہ آگے بڑھیں گے.13 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی محلہ دار الصدر غربی میں تشریف آوری مورخه ۲۶ فروری ۱۹۷۲ ء کا دن محلہ دارالصدر غربی ربوہ کے اطفال کے لئے ایک خاص اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس روز محلہ کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں ، کلر اور مٹی زیادہ ہونے کے باوجود حضور انور مسجد القمر میں تشریف لائے.جہاں حضور انور نے مغرب کی نماز ادا فرمائی.نماز کے بعد حضور اقدس نے فرمایا میں صرف بچوں سے مصافحہ کروں گا.چنانچہ اس موقع پر موجود تمام اطفال نے حضور انور سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل کی.مسجد میں انتہائی چھوٹے بچے بھی آئے ہوئے تھے.چنانچہ حضور انور نے مٹی اور گرد سے اٹے ہوئے بچوں سے بھی مصافحہ فرمایا.حضور انور کا چہرہ مبارک اس وقت خوشی اور مسرت سے مہک رہا تھا اور چھوٹے بچے حضور انور سے مصافحہ کرنے کے لئے اپنے ننھے 14 ننھے ہاتھ بڑھارہاتھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مجلس صحت کے قیام کا اعلان تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی ستائیسویں سالانہ کھیلوں کی تقریب ۲۹،۲۸ فروری اور یکم مارچ ۱۹۷۲ء کو نیو کیمپس کے وسیع اور پر فضا میدانوں میں منعقد ہوئی.اس میں کالج کے طلباء کے علاوہ اساتذہ نے بھی حصہ لیا.آخری روز یعنی یکم مارچ کو بعد نماز عصر ان کھیلوں کی اختتامی تقریب کو از راہ شفقت حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے تشریف لا کر رونق و برکت بخشی.حضور ساڑھے چار بجے شام تشریف لائے.کالج کے سٹاف نے اپنے پر نسپل محترم چوہدری محمد علی صاحب کی سرکردگی میں آگے بڑھ کر حضور کا خیر مقدم کیا.جملہ طلباء اور مہمانوں نے کھڑے ہو کر حضور کی خدمت میں اھلا و سهلا و
تاریخ احمدیت.جلد 28 21 سال 1972ء مر حبًا عرض کیا.حضور کے کرسی صدارت پر رونق افروز ہونے کے بعد پہلے کالج کے (اولڈ بوائز ) سٹاف کی دوڑ ہوئی.پھر طلباء کی دوڑ کا مقابلہ ہوا.بعد ازاں تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی جس کا آغاز کالج کے ایک طالب علم شہود الحق صاحب ابن مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نے تلاوت قرآن مجید سے کیا.تلاوت کے بعد سالانہ کھیلوں کے آرگنائزر مکرم محمد احمد صاحب انور ایم اے ڈی پی ای نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.بعد ازاں حضور نے کھیلوں میں اول اور دوم آنے والے طلباء اور پھر اساتذہ کو مصافحہ کا شرف بخشا اور اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.اس کے بعد حضور نے طلباء سے ایک ولولہ انگیز خطاب فرمایا نیز اہل ربوہ کے لئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کے انتظام کے لئے مجلس صحت کے قیام کا اعلان فرمایا.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”اسلام ہمیں قوی اور امین دیکھنا چاہتا ہے یعنی جسمانی لحاظ سے ہم مضبوط جسم کے مالک ہوں اور اخلاقی لحاظ سے ہم نہایت اعلیٰ کردار کے حامل ہوں.جسم انسانی کی مضبوطی ایک حد تک اخلاق پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس لئے اسلام جسمانی ورزش کو بھی ضروری قرار دیتا ہے تا کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ان نعمتوں اور انعامات کے حقیقی رنگ میں ہم امین بن سکیں جو امانت کے رنگ میں ہمیں عطا ہوئی ہیں.“ حضور انور نے فرمایا:.اس سلسلے میں اہل ربوہ پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ منظم ہو کر ورزش جسمانی کا اہتمام کریں تاکہ خدا کی نظر میں بھی وہ قوی اور امین بنیں اور اپنے وطن کی حفاظت اور استحکام کیلئے بھی خوش اسلوبی کے ساتھ فرائض سرانجام دے سکیں.اس لئے آج میں سارے ربوہ کو ایک مجلس میں منسلک کرنے کا اعلان کرتا ہوں اس مجلس کا نام مجلس صحت ہو گا.اس کے جملہ انتظامات آپ لوگوں نے خود سرانجام دینے ہیں.اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جس میں دود و نمائندے تعلیم الاسلام کالج تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء میں سے لئے جائیں گے.دو خدام الاحمدیہ کے اور دو انصار اللہ کے نمائندے بھی اس میں شامل
تاریخ احمدیت.جلد 28 22 سال 1972ء ہوں گے.ان کے علاوہ ایک اس کمیٹی کا صدر ہوگا.ربوہ کے تمام باشندوں کے لئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرنا اور اس کے لئے گراؤنڈز مہیا کرنا بھی اسی کمیٹی کی ذمہ داری ہو گی.اسے ہر ماہ کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنا منٹ ضرور منعقد کرانا چاہیے تا کہ سب کی دلچسپی قائم رہے.جب ٹورنامنٹ ہوں گے تو باہر سے مہمان بھی آئیں گے اس لئے میزبانی کے فرائض بھی یہی کمیٹی سرانجام دے گی اور یہ نہیں ہوگا کہ بعض لوگ از خود ہمارے علم میں لائے بغیر کھیلوں کا انتظام شروع کر دیں اور پھر یہ توقع بھی رکھیں کہ ہم ان کی مدد کریں.پس یہ مجلس گویار بوہ میں ہونے والی تمام کھیلوں کے لئے ایک مرکزی کمیٹی ہو گی جس کی منظوری ہر کھیل اور ٹورنامنٹ کے لئے ضروری ہوگی.“ آخر میں حضور نے مجلس صحت کے قیام کے سلسلے میں بعض ضروری اور اہم ہدایات دیتے ہوئے حضور نے فرمایا:.وو ربوہ کے ہر شخص کو اس کا ممبر بنا چاہیے اور اس کے اغراض و مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اس کے عہدیداروں کو مشورہ دیں اور ہر عہدیدار کا یہ حق ہے کہ وہ آپ سے مشورہ لے مگر اسے قبول یا مستر د کرنا بھی اس کے اختیار میں ہے اور مشورہ دینے والے کا فرض ہے کہ وہ بہر حال اطاعت کا نمونہ دکھائے.اس مجلس کا نشان ایک رومال ہوگا جو سفید اور سیاہ رنگ پر مشتمل ہوگا.یہ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوہی جھنڈے حدیثوں سے مروی ہیں بعض سیاہ رنگ کے اور بعض سفید.پس ان دونوں کو ملا کر یہ نشان بنایا گیا ہے اس رومال کو ایک چھٹے کے ذریعہ گلے میں باندھا جائے گا اس چھلے پر لکھا ہو گا القدرة الله.تاکہ ہر ممبر اس یقین پر قائم رہے کہ طاقت و قدرت کا اصل منبع صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اسے کبھی یہ وہم نہ ہو کہ میں کچھ بن گیا ہوں.اس مجلس کے عہدیداروں کے چھتے پر لکھا ہوگا العزة الله.تاکہ کبھی اس میں عہد یداری کا غرور پیدا نہ ہو اور ہمیشہ وہ یہی سمجھے کہ اصل عزت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے.خدا کرے کہ یہ مجلس اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہو.آمین.“
تاریخ احمدیت.جلد 28 23 سال 1972ء آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.16 صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کی ساہیوال میں آمد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے ماہ فروری ۱۹۷۲ء میں بطور صدر انصار اللہ ساہیوال کا دورہ کیا.آپ اپنے دورہ کے دوران ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ ساہیوال کے مکان پر بھی تشریف لے گئے.آپ اپنے اس سفر کے دوران پاک پتن بھی تشریف لے گئے اور تمام احباب جماعت سے ملاقات کی.واپسی پر آپ چک L-11 / 6 ضلع ساہیوال بھی تشریف لے گئے اور انصار اللہ ضلع ساہیوال کے اجلاس میں بھی شرکت فرمائی.اگلے روز آپ نے شیخو پورہ میں انصار اللہ کے ایک پروگرام میں شرکت فرمائی.اور پھر واپس مرکز سلسلہ تشریف لے آئے.16 صدر ذوالفقار علی بھٹو کی زرعی اصلاحات یکم مارچ ۱۹۷۲ء کو صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو نے ریڈیو پاکستان سے قوم کے نام خطاب کرتے ہوئے زرعی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے زمین کی ملکیت کے معاملہ میں فی خاندان یا فی کس کے مسئلے پر بڑی سنجیدگی سے غور کیا ہے.اور اس فیصلہ پر پہنچی ہے کہ خاندان کی بجائے انفرادی ملکیت کو ترجیح دی جائے.نیز سر حدی اضلاع میں فوجیوں کو اراضی الاٹ کرنے کی جو سکیم تھی حکومت نے ایسے تمام سودے اور تبادلے منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے.اس فیصلہ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ کی ہزاروں ایکڑ زمین بغیر کسی معاوضہ کے حکومت نے اپنے قبضہ میں کر لی.یہ زمینیں زیادہ تر ۳۴.۱۹۳۳ میں خریدی گئی تھیں.حضرت مصلح موعود نے خود ذاتی طور پر بھی زمین خرید فرمائی اور اس کے علاوہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید نے بھی زمینیں خریدیں.اسی طرح بعض دوسرے معروف احمدی خاندانوں نے بھی رقبہ خریدا.جس سے سندھ کا ایک بڑا علاقہ بھی احمدیت کے نور سے منور ہو گیا.چنانچہ ایک زمانہ میں ضلع تھر پارکر میں جھڈو ریلوے اسٹیشن سے پتھورو تک کی ریل احمدیوں کی زمینوں کو ملاتی ہوئی گزرتی ، جس کا نام تقسیم سے پہلے جودھپور ریلوے تھا جو بعد میں پاکستان ریلوے بن گئی.حیدر آباد سے بمبئی تک یہ چھوٹی پڑی کی ریلوے لائن تھی یعنی ایک میٹر چوڑی، اس لئے اسے میٹر کی بھی کہا جاتا تھا.اب حیدر آباد اور میر پور خاص کے حصہ کو تو بڑی پڑی میں تبدیل کیا جا چکا ہے اور چھوٹی ٹرین میر پور خاص سے بذریعہ جمڑ او یا پتھو رو چکر کاٹ کر
تاریخ احمدیت.جلد 28 24 سال 1972ء واپس آ جاتی ، اس گول چکر کو لوپ کہا جاتا تھا لیکن اب یہ ٹرین بھی بند ہو چکی ہے.ضلع تھر پارکر میں تحریک جدید کی زمینوں کا ہیڈ کوارٹر محمد آباد تھا جس میں محمد آباد فارم (۱٫۲۲۲۴ یکٹر ) نورنگر فارم (۱۸۶۱ ۱۷ یکٹر ) لطیف نگر فارم (۱/۲۰۱۸ یکٹر کریم نگر فارم (۱۷۸۸ ۱۷ یکٹر ) پر مشتمل تھا.ضلع حیدر آباد میں بشیر آباد فارم (۱/۱۷۱۴ یکٹر ) تھی جس میں سے صرف ۱/۲۰۰ یکٹر زمین ہی تحریک جدید کوملی باقی ہزاروں ایکڑ زمین حکومت نے بغیر کسی معاوضہ کے اپنے قبضہ میں کر لی.اسی طرح صدر انجمن احمدیہ کے نام جو اراضی تھی وہ صوبہ پنجاب، سرحد اور سندھ میں موجود تھی جس میں سے تقریباً ۲۸۰۰ ۱ یکٹر زمین بحق سرکار ضبط کر لی گئی.سندھ میں صدر انجمن کا مرکز احمد آباد فارم اور حضور کی ذاتی زمینوں کے مرکز محمود آباد اور ناصر آباد تھے.جبکہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے خاندان کی زمینوں کا مرکز نصرت آباد تھا.اسی طرح ضلع حیدر آباد میں تحریک جدید کا مرکز بشیر آباد، حضور کی ذاتی زمین کا مرکز مبارک آباد اور حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور چوہدری بشیر احمد صاحب کا ہلوں کے خاندان وغیرہ کی زمینوں کے ہیڈ کوارٹر ظفر آبادلوں کا اور ظفر آبادلا بینی تھے.اس کے علاوہ بہت سی ذیلی گوٹھوں کے نام صحابہ کرام کے ناموں پر مثلاً نورنگر، کریم نگر ، شریف آباد، صادقپور، برہان نگر ، لطیف نگر ، رحمان آباد اور فاروق آباد دوغیرہ تھے.ضلع تھر پارکر اور حیدرآباد جماعت کے مضبوط قلعے بن کر ابھرے.بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوئیں.کنری میں کاٹن فیکٹری بھی بنائی گئی.محمدآباد اور بشیر آباد میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قائم ہوئے جنہوں نے نئے تعلیمی ریکارڈ قائم کیے.ان زمینوں کو آباد کرنے میں بہت سے واقفین زندگی اور غیر واقف مگر وقف کے جذبہ کے تحت کام کرنے والوں کی بیش بہا قربانیوں کا بہت بڑا دخل ہے.منور احمد خالد صاحب جن کو ایک لمبا عرصہ ان زمینوں پر کام کرنے کا موقع ملا ہے انہوں نے ان زرعی اصلاحات کے پس منظر کو واضح کرنے والی ایک روایت بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ چوہدری غلام احمد صاحب کی روایت ہے کہ ان کے کزن چو ہدری محمد اسلم صاحب جو سینیٹر تھے، نے بتایا کہ جس دن شیخ محمد رشید صاحب نے جماعت احمدیہ کی زمینوں کے فیصلہ کے اعلان پر دستخط کئے دفتر سے باہر آکر دیگر سینیٹرز کو بڑے فخر سے کہا ” آج میں مرزائیوں کے گلے پر چھری پھیر آیا ہوں“ لیکن یہ چھری کس کس کی گردن پر چلی، یہ ایک داستانِ عبرت ہے جس پر تاریخ گواہ ہے.اس کے برعکس جماعت احمدیہ زندہ ہے اور قیامت تک زندہ رہے گی.انشاء اللہ العزیز 17
تاریخ احمدیت.جلد 28 25 سال 1972ء سول جج صاحب درجہ اوّل ڈیرہ غازیخان کا ایک فیصلہ ڈیرہ غازیخان کے درجہ اول کے فاضل سول جج جناب میر محمد افضل صاحب نے مقدمہ ۴۹۱ میں ۲ مارچ ۱۹۷۲ء کو ایک اہم فیصلہ دیا جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مطالبہ پر درج ذیل ریمارکس دیئے."After mature consideration of the lengthy oral as well as written arguments of the learned counsel for the parties I have arrived at the conclusion that it is neither legal nor expedient to adjudicate on the religious beliefs of the parties.If the civil courts start taking the liberty to record findings on the internal controversies of the type in question of various classes, which profess our religion, I am absolutely positive that it would tantamount to inviting innumerable cases resulting in abominable bickering and anarchy among the followers of different schools of thoughts within our greatest and finest religion of Islam which strictly forbids an act or a gesture to encourage as tussle between the believers.Thus, it is neither religious nor legal to scrutinize purely religious beliefs of a class and pronounce a judgement on the controversy that whether somebody known as a Muslim is in fact Muslim or something else.To my mind the true judgement on the controversial matter shall only be delivered on the True Day of Judgement and therefore, with all my humility I would desist from pursuing the matter any further.However, it is noteworthy that perusal of the written
سال 1972ء 26 تاریخ احمدیت.جلد 28 statement shows that the point vehemently argued by the learned counsel for the contesting defendant was not at all raised in the written statement and therefore, it appears to me that it is just an afterthought".ترجمہ : ” فریقین کے فاضل وکلاء کے طویل زبانی اور تحریری دلائل پر پوری طرح غور و فکر کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ فریقین کے مذہبی عقائد پر عدالتی محاکمہ نہ تو از روئے قانون درست ہے اور نہ ہی قرین مصلحت.جو مختلف فرقے اپنے آپ کو ہمارے مذہب کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کے مابین زیر بحث قسم کے داخلی مباحث کے متعلق اگر سول عدالتیں اپنے اخذ کردہ نتائج کوریکارڈ کرنے میں خود کو آزاد سمجھنے لگیں تو میری حتمی رائے یہ ہے کہ سول عدالتوں کا یہ طرز عمل اسی نوعیت کے لا تعداد مقدمات کو دعوت دینے کے مترادف ہوگا اور ان مقدمات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمارے عظیم ترین اور اعلیٰ ترین مذہب اسلام کے اندر مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کے مابین نفرت انگیز فروعی جھگڑے اٹھانا شروع کر دیں گے.حالانکہ اسلام ایسے عمل یا معنی خیز حرکات سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے جن سے اسلام کے ماننے والوں کے درمیان مناقشت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو.پس کسی فرقہ کے خالصہ مذہبی عقائد کے بارہ میں چھان بین اور جانچ پڑتال کرنے اور اس بحث کے متعلق کہ آیا کوئی مسلمان کہلانے والا فی الحقیقت مسلمان ہے فیصلہ صادر کرنے کا نہ مذہبی اور نہ قانونی جواز موجود ہے.میرے نزدیک زیر بحث معاملہ کا حقیقی عدالت کے دن یعنی بروز قیامت ہی فیصلہ صادر ہوگا لہذا میں پورے عجز کے ساتھ اس معاملہ کی مزید جستجو اور تعاقب سے دستبردار ہونے کو ترجیح دوں گا.تاہم یہ امر بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ تحریری بیان کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدعاعلیہ کے فاضل وکیل نے جس نکتہ پر پورے جوش و خروش سے بحث کی ہے اسے تحریری بیان میں سرے 18 66 ے اٹھایا ہی نہیں گیا.لہذا میرے نزدیک یہ خیال ہے ہی بعدکی پیداوار 1 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تعلیم الاسلام ہائی سکول میں خطاب مورخہ ۱۰ مارچ ۱۹۷۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں کھیلوں اور ورزشی مقابلہ جات کا انعقاد ہوا جس کی اختتامی تقریب میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 27 سال 1972ء تقریب میں حضور انور کے علاوہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے متعدد ناظر و وکلا صاحبان، جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل اور دیگر متعدد اصحاب نے بھی شرکت فرمائی.حضور انور کی تشریف آوری کے بعد ملک حبیب الرحمن صاحب نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.ایڈریس پڑھے جانے کے بعد حضور نے ورزشی مقابلہ جات میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کو مصافحہ کا شرف بخشا اور اپنے دست مبارک سے ان میں انعامات تقسیم فرمائے تقسیم انعامات کے بعد حضور نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری اس دنیا میں اپنی خلق ( پیدائش ) کو کچھ اس طرح بنایا ہے کہ ابتداء سے ہی اس کے اندر ترقی کرنے اور انعامات و ثمرات حاصل کرنے کی قابلیتیں اور طاقتیں موجود ہوتی ہیں گو یا ترقی کرنے کی جو انتہائی حد ہر خلق کے لئے مقرر ہوتی ہے وہ اس کی گھٹی میں پڑی ہوتی ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اس سے اپنی غفلت اور ستی کی وجہ سے فائدہ نہ اٹھائیں مثلاً ایک پھل کا بیج جب بویا جاتا ہے تو اس میں اول دن ہی وہ تمام خاصیتیں موجود ہوتی ہیں جو اسے میٹھا اور لذیذ بناتی ہیں.اسی طرح ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ترقی کی جو انتہائی حد مقرر کی ہوتی ہے.اس کی صلاحیت اول دن سے ہی اس کے اندر موجود ہوتی ہے یہ ان کے اساتذہ کا کام ہے اور ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں پر ان کی اس اہلیت اور ترقی کرنے کی قابلیت کو واضح کریں اور اس کی نشونما کے مناسب سامان مہیا کریں.“ حضور نے فرمایا: ”انسان اس وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے کہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ اس کے اندر کیا جو ہر مخفی ہیں اور اس نے ان کی بدولت کیا بننا ہے.اگر بچوں پر شروع سے ہی یہ واضح کر دیا جائے کہ ان کے اندر ترقی اور عروج حاصل کرنے کی بہت سی قابلیتیں اور جو ہر موجود ہیں اور وہ ان سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو وہ یقیناً بہت ترقی کر سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے بہت سے انعامات کے وارث ہو سکتے ہیں.حضور نے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیشہ اپنے ذہنوں میں یہ رکھو کہ تمہارے اندر
تاریخ احمدیت.جلد 28 28 سال 1972ء ترقی کرنے کی انتہائی صلاحیتیں اور جو ہر موجود ہیں.اس لئے تم نے آگے ہی آگے بڑھنا ہے.اور چھلانگیں لگا کر آگے بڑھنا ہے اور اس طرح ہاتھوں ہاتھ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور شیر میں ثمرات کو حاصل کرنا ہے انہیں حاصل کرنے کی صلاحیت تمہارے اندر موجود ہے ضرورت صرف اس سے فائدہ اٹھانے کی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.“ اس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور پھر مکرم ہیڈ ماسٹر صاحب اور مہمانوں کی معیت میں سکول کے اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں پر چائے کا انتظام تھا.یہاں سے فارغ ہونے پر حضور نے پھر دعا کرائی.اور پھر سکول کے جملہ اساتذہ کو مصافحہ کا شرف بخشا اس کے بعد حضور واپس تشریف لے گئے.19 ایک فتنہ کا بے نقاب ہوتا اور اس کی سرکوبی مارچ ۱۹۷۲ء میں بعض منافقین نے نظام خلافت کے خلاف مرکز خلافت میں رابعہ انقلابی کے فرضی نام سے ایک فتنہ برپا کرنے کی کوشش کی جسے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۰ مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں پوری طرح بے نقاب کر دیا.چنانچہ حضور نے قرآن مجید کی آیت اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّادِ (النساء : ۱۴۶) کی تلاوت فرمانے کے بعد فرمایا کہ منافق مصلح کی شکل میں فتنہ و فساد پھیلاتا ہے اور جھوٹ بول کر مومنوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی سزا جہنم کی شدید ترین آگ مقرر فرمائی.اس کے بعد حضور نے بعض منافقین کے چھ سراسر غلط اور بے بنیاد الزامات کی حقیقت کو واضح کیا اور مقام خلافت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ خلیفہ خدا تعالیٰ خود بنا تا ہے اور اس کی تائید و نصرت فرماتا ہے چنانچہ خلافت ثالثہ کو بھی اللہ تعالیٰ کی مدد اور تائید حاصل ہے جس کی وجہ سے منافقین کبھی اپنے مکروہ عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے.حضور کا یہ ایمان افروز خطبہ کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.20 سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے اس پر جلال، پر شوکت اور باطل شکن خطبہ سے اہم اقتباسات درج ذیل ہیں.(مکمل خطبہ خطبات ناصر جلد چہارم صفحہ ۸۱ تا ۱۱۲ پر موجود ہے.)
تاریخ احمدیت.جلد 28 حضور انور نے فرمایا: 29 29 ایک بات (اور وہ بھی پہلی بار نہیں کہی جارہی ) یہ ہے کہ خلیفہ خدانہیں بناتا انسان بناتا ہے.یہی اعتراض حضرت خلیفہ اول پر کیا گیا.یہی اعتراض حضرت خلیفہ ثانی پر کیا گیا اور آج یہی اعتراض مجھ پر کیا جارہا ہے.حضرت خلیفہ اول کو انجمن کے چند آدمیوں نے خلیفہ منتخب کر دیا تھا پھر جماعت نے بھی آپ کی بیعت کر لی تھی.حضرت خلیفہ ثانی کے متعلق زیادہ سے زیادہ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ جو دوست حضرت خلیفہ اول کی وفات پر قادیان میں موجود تھے، وہ اکٹھے ہوئے اور جس طرح ایک آندھی آتی ہے اور وہ چیزوں کو ایک طرف کونے میں اڑا کر لے جاتی ہے اسی طرح خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے احمدیوں کے دلوں پر تصرف کیا اور وہ سب ( الا ماشاء اللہ جن کو ٹھوکر لگی ) ایک ہاتھ پر اکٹھے کر دیئے گئے.پھر حضرت خلیفہ ثانی نے ۱۹۵۶ء میں انتخاب خلافت کی ایک کمیٹی بنائی اور ایک نظام قائم کر دیا.چنانچہ جب خلافت ثالثہ کے انتخاب کا وقت آیا تو وہ جو ساری عمر کے مخالف تھے اور جماعت مبائعین جن پر اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور فضل نازل ہورہے تھے کو حسد، نفرت اور غصے کی نگاہ سے دیکھنے والے تھے ان کی زبان سے بھی یہ نکلا کہ کاش حضرت خلیفہ اول بھی ایسا انتظام کر جاتے تا کہ یہ فتنہ نہ پیدا ہوتا جو ۱۹۱۴ ء میں رونما ہوا.(اس فتنہ سے ان کی کیا مراد ہے ) یہ تو وہ جانیں یا اللہ تعالیٰ جانے لیکن بہر حال وہ بھی اس انتخاب خلافت کے نظام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے تھے.پس منافقین یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلافت کمیٹی جو ۱۹۵۶ء میں حضرت مصلح موعود نے قائم کی تھی اس نے خلیفہ ثالث کو مقرر کیا ہے اس لئے یہ خدا کا انتخاب کیسے ہو گیا ؟ یہ تو انسانوں کا انتخاب ہے اور وہ بھی چندلوگوں کا کیونکہ ساری جماعت کو اکٹھا نہیں کیا گیا حالانکہ ساری جماعت تو جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی اکٹھی نہیں ہوسکتی.بہر حال جو ممکن ہے وہ یہی ہے کہ جو اس وقت آجائے وہ اس میں شریک ہو جائے.اس کا انتظام کر دیا گیا تھا جس کی بنا پر بڑی سہولت سے انتخاب عمل میں آیا اور جس کے نتیجہ میں خلافت کی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی گئی.میرے تو وہم و گمان میں بھی سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 30 سال 1972ء کبھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ خدا تعالیٰ مجھے اتنی بھاری ذمہ داری کے نیچے رکھے گا جو کچل دینے والی ہے.لوگ اس کو مذاق سمجھتے ہیں مگر یہ اتنی بھاری ذمہ داری ہے کہ میں سمجھتا ہوں کوئی آدمی اپنے ہوش و حواس میں ایک لمحہ کے لئے بھی اس ذمہ داری کو اٹھانے کی خواہش نہیں کر سکتا.کہتے ہیں کہ میں نے باہر جا کر اپنے حق میں پراپیگنڈہ کیا تھا کہ مجھے خلیفہ بنایا جائے.اب اس وقت جو دوست یہاں بیٹھے ہوئے ہیں جن میں سے کچھ باہر سے بھی آئے ہوئے ہیں.کوئی ہے جو کھڑے ہو کر قسم کھا کر یہ کہہ سکے کہ میں نے اسے یہ کہا ہو کہ مجھے خلیفہ بنانا؟ (اس پر سامعین کی طرف سے نہیں نہیں کی آواز میں بلند ہوئیں) میں نے بتایا ہے کہ میرے تو دماغ میں بھی یہ خیال نہیں آسکتا تھا.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا حضرت مصلح موعود کی وفات پر چوہدری انورحسین صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے کوئی ایسی بات کی کہ مجھے یہ خیال آیا کہ ان کے دماغ میں ہے کہ آج جماعت شاید خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے باہر کسی کو خلیفہ منتخب کرے.تو یہ نہ ہو کہ خاندان کی وجہ سے کوئی ذراسی بھی بدمزگی پیدا ہو جائے.اس لئے محتاط رہنا چاہیے.میں نے سمجھا ٹھیک ہے انہیں یہ نیک نیتی سے خیال آیا ہے.خیر جب انہوں نے مجھ سے یہ بات کی تو میں نے ایک رؤیا کی بناء پر ان سے کہا کہ میں تمہیں تسلی دلاتا ہوں اور یہ ذمہ داری لیتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے کسی فرد کی وجہ سے بدمزگی پیدا نہیں ہوگی.جماعت جس کو چاہے خلیفہ منتخب کرے.ہم اس پر آمنا و صدقنا کہیں گے اور نیک نیتی سے اس کی اطاعت کریں گے.کہتے ہیں کہ باہر کے ٹور کئے اور اپنا پراپیگنڈہ کیا اور انتخاب کے وقت بڑی بدانتظامی ہوئی اور زبردستی خلیفہ بن بیٹھا.یہ باتیں میں بڑی دیر سے سن رہا ہوں اور سوائے اس کے کہ میں لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ کہوں اور کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے، ہم اس عقیدہ پر قائم ہیں اور ہم سے مراد امت محمدیہ ہے جس میں پہلے بھی خلافت رہی.اب بھی خلافت ہے اور رہے گی.اللہ تعالیٰ کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 31 سال 1972ء فضل اور اس کے رحم سے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور منافق کا یہ عقیدہ ہے یا کم از کم وہ اس عقیدہ کا اظہار یہی کرتا ہے کہ چونکہ انسانوں کے ہاتھ سے یہ فعل ہوتا ہے اس لئے خلیفہ خدا نہیں بناتا.اس کی منشاء نہیں ہوتی چنانچہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا ہے کہ کئی بیوقوف لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو کہا کہ تم جا کر اپنا انتخاب کر لو اور میں یہی سمجھوں گا کہ میں نے خلیفہ بنایا ہے.یہ بات تو خدا تعالیٰ کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے.حضرت خلیفہ اول پر بھی یہی اعتراض کیا گیا تھا کہ آپ کو خدا نے خلیفہ نہیں بنایا.اس سلسلہ میں آپ کے بہت سارے حوالے ہیں.جن میں سے اس وقت میں چند ایک آپ کو سنا دیتا ہوں.آپ نے ۱۹۱۲ ء میں فرمایا تھا:.وو یہ رفض کا شبہ ہے جو خلافت کی بحث تم چھیڑتے ہو.یہ تو خدا سے شکوہ کرنا چاہیے کہ بھیرہ کا رہنے والا خلیفہ ہو گیا.کوئی کہتا ہے خلیفہ کرتا ہی کیا ہے؟ لڑکوں کو پڑھاتا ہے کوئی کہتا ہے کتابوں کا عشق ہے.اسی میں مبتلا رہتا ہے ہزار نالائقیاں مجھ پر تھو پو.مجھ پر نہیں یہ خدا پر لگیں گی جس نے مجھے خلیفہ بنایا.21 اب میں ( بھی یہ ) کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جو نالائقیاں تم مجھ پر تھوپنے کی کوشش کرو گے وہ تم دراصل مجھ پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات پر اعتراض کر رہے ہوگے پھر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا:.اگر کوئی کہے کہ انجمن نے خلیفہ بنایا ہے تو وہ جھوٹا ہے.اس قسم کے خیالات ہلاکت کی حد تک پہنچاتے ہیں.تم اُن سے بچو.پھر سن لو کہ مجھے نہ کسی انسان نے ، نہ کسی انجمن نے خلیفہ بنایا اور نہ میں کسی انجمن کو اس قابل سمجھتا ہوں کہ وہ خلیفہ بنائے پس مجھ کو نہ کسی انجمن نے بنایا اور نہ میں اس کے بنانے کی قدر کرتا اور اس کے چھوڑنے پر تھوکتا بھی نہیں اور نہ اب کسی میں طاقت ہے کہ وہ اس خلافت کی رداء کو مجھ سے چھین لے.22 پھر آپ فرماتے ہیں:.خلافت کیسری کی دکان کا سوڈا واٹر نہیں تم اس بکھیڑے سے کچھ فائدہ نہیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 32 سال 1972ء اٹھا سکتے.نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے.میں جب مرجاؤں گا تو پھر وہی کھڑا ہو گا جس کو خدا چاہے گا اور خدا اس کو آپ کھڑا کر دے گا.تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں تم خلافت کا نام نہ لو.مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہو سکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے.اگر تم زیادہ زور دو گے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے.23 حضرت خلیفہ ثانی کے بھی بہت سے حوالے ہیں کیونکہ آپ ہی کے زمانہ خلافت میں غیر مبائعین نے زیادہ تر خلافت کی بحثیں چھیڑی تھیں.میں آپ کا ایک ہی حوالہ لیتا ہوں اور اس ضمن میں الفضل کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ یہ حوالے اخبار میں بار بار چھاپتے رہیں تا کہ نئی نسل اور نئے آنے والوں کو یہ پتہ لگے کہ اس سلسلہ میں کیا جھگڑے ہوئے اور کیا فیصلے ہوئے.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.اسلامی اصول کے مطابق یہ صورت ہے کہ جماعت خلیفہ کے ماتحت ہے اور آخری اتھارٹی جسے خدا نے مقرر کیا اور جس کی آواز آخری آواز ہے وہ خلیفہ کی آواز ہے.کسی انجمن، کسی شوری یا کسی مجلس کی نہیں ہے یہی وہ بات ہے جس پر جماعت کے دو ٹکڑے ہو گئے.خلیفہ کا انتخاب ظاہری لحاظ سے بیشک تمہارے ہاتھوں میں ہے.تم اس کے متعلق دیکھ سکتے اور غور کر سکتے ہو مگر باطنی طور پر خدا کے اختیار میں ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے خلیفہ ہم قرار دیتے ہیں اور جب تک تم لوگ اپنی اصلاح کی فکر رکھو گے.اُن قواعد اور اصول کو نہ بھولو گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ضروری ہیں.تم میں خدا خلیفہ مقرر کرتا رہے گا اور اسے وہ عصمت حاصل رہے گی جو اس کام کے لئے ضروری ہے.24 خالی اتنا نہیں کہ خدا خلیفہ بناتا ہے بلکہ ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر خدا خلیفہ بناتا ہے تو یہ بات جو حضرت خلیفہ ثانی نے مختصراً کہی اور جس کی وضاحت حضرت خلیفہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 33 سال 1972ء اول نے کی وہ بھی ماننی پڑے گی.چنانچہ حضرت خلیفہ اول آپس کے جھگڑے اور اختلافات کے متعلق فرماتے ہیں:.سنو! تمہاری نزاعیں تین قسم کی ہیں.( ان میں سے میں نے دو کو لیا ہے جن کا یہاں تعلق ہے ) اول ان امور اور مسائل کے متعلق ہیں جن کا فیصلہ حضرت صاحب نے کر دیا ہے.جو حضرت صاحب کے فیصلے کے خلاف کرتا ہے وہ احمدی نہیں.“ پھر فرماتے ہیں دوسرے وہ یعنی بعض ایسے مسائل جو تفصیل کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور آئندہ سامنے آنے والے تھے کیونکہ بعض مسائل سلسلہ خلافت شروع ہوتے ہی سامنے آ جاتے ہیں.سلسلہ خلافت شروع ہونے سے قبل ظاہر نہیں ہوتے مثلاً یہی مسئلہ کہ خلیفہ وقت اور جماعت احمدیہ کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ اس کا ایک یہ حل ہے جو میں نے پیش کیا اور ایک رنگ میں اور مجھ سے پہلے آنے والوں نے کہا اپنے اپنے رنگ میں.چنانچہ جب مجھ سے ۱۹۶۷ء میں پوچھا گیا کہ آپ کا تعلق جماعت احمدیہ سے کیا ہے؟ تو میں نے کہا یہ سوال غلط ہے.اس لئے کہ میں اور جماعت احمد یہ ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.انکو علیحدہ علیحدہ نہیں کیا جاسکتا.غرض آپ (حضرت خلیفہ اسیح الاول) نے فرمایا :.( دوسرے وہ ) جن پر حضرت صاحب نے گفتگو نہیں کی.ان پر بولنے کا تمہیں خود کوئی حق نہیں.جب تک ہمارے دربار سے تم کو اجازت نہ ملے.پس جب تک خلیفہ نہیں بولتا یا خلیفہ کا خلیفہ دنیا میں نہیں آتا.ان پر رائے زنی نہ کرو.25 پھر ایک اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا:.مجھ تک یہ رپورٹ بھی پہنچی ہے کہ بعض بیوقوف کمزور ایمان والے یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ مجد دتو اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور خلیفہ انسان بناتا ہے.اس بارہ میں موٹی بات تو یہ ہے کہ مجددکون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا اس کے متعلق ہمیں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ملتا ہے.قرآن کریم میں اس کے متعلق کوئی ارشاد نہیں.سارے قرآن کریم میں مجدد کا کوئی ذکر ہی نہیں ہے.خلیفہ کون بناتا ہے اور کون نہیں بناتا، اس کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نور میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 34 سال 1972ء فرماتا ہے لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم ( النور : ۵۶) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خلیفہ میں بنا تا ہوں.اب جس کے متعلق قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں بناتا ہوں اس کے متعلق تو کہتے ہیں کہ خدا نہیں بناتا اور جس کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا نہیں بناتا اس کے متعلق کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بناتا ہے.حالانکہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم سے زائد کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے تھے ور نہ قرآن کریم کامل اور مکمل نہیں ٹھہرتا.جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ مجدد اللہ تعالیٰ بناتا ہے یا مبعوث کرتا ہے تو آپ کا یہ ارشاد لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم کی تفسیر تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے فرمایا مجدد بھی ایک خلیفہ ہے اور خلیفہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسے میں بناتا ہوں.انسان نہیں بناتا کیونکہ جو خلیفہ آئے گا وہ خدا بنائے گا دوسرے یہ کہ وہ لوگ جنہیں ہمارے دربار سے اجازت نہیں ملی تب بھی خلافت کی بحث میں الجھتے ہیں.ان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آخر یہ کون کہے گا کہ یہ مجدد ہے.اس کو خدا تعالیٰ نے مجدد بنایا ہے.کیا یہ بتانے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے جو انبیاء علیہم السلام کے لئے بھی نہیں آئے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگے گئے لیکن انکار کر دیا گیا کہ اس غرض کے لئے نہیں آئیں گے.کیا کسی زمانہ میں یا کسی وقت میں انسانوں کا کوئی مجموعہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے کہ جس کے متعلق وہ کہیں گے کہ خدا نے مجدد بنایا ہے وہ مجدد بن جائے گا.قرآن کریم میں تو ہمیں یہ بات کہیں نظر نہیں آتی.پھر کون کہے گا ؟ وہ خود کہے گا جب کہے گا.بہتوں نے تو کہا ہی نہیں کہ ہم مجدد ہیں.جنہوں نے کہا کہ ہم مجدد ہیں انہوں نے بھی یہ کہا کہ خدا نے انہیں بتایا ہے کہ میں نے تمہیں مجدد بنایا ہے.پس اگر خلیفہ کہے کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے تو پھر؟ کیا تم فیصلہ کرو گے اس نے صحیح کہا ہے یا غلط.فیصلے کرنے کے اصول ہیں یعنی کوئی شخص جھوٹ بھی بول سکتا ہے مگر اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اصول مقرر فرمائے ہیں.حضرت خلیفہ اول نے جب یہ فرمایا تھا کہ نہ انجمن مجھے خلیفہ بنا سکتی ہے اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 35 سال 1972ء نہ کوئی انسان مجھے خلیفہ بنا سکتا ہے میں تو انجمنوں کے خلیفہ بنانے پر تھوکتا بھی نہیں ہوں.تو کیا انہوں نے اپنے کسی تکبر اور غرور کے نتیجہ میں کہا تھا یا خدا نے انہیں فرمایا تھا کہ میں نے تمہیں خلیفہ بنایا ہے.یقیناً خدا ہی نے حضرت خلیفہ اول کو یہ فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے.پھر خلافت ثانیہ آئی.کیا حضرت مصلح موعود نے اپنی طرف سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے درآنحالیکہ خدا نے آپ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ میں نے تجھے خلیفہ بنایا ہے وہ اتنا محتاط انسان کہ جس نے امت محمدیہ یعنی امت محمدیہ کے علماء اور سمجھدارلوگوں کے اصرار کے باوجود مصلح موعود ہونے کا دعویٰ اس وقت تک نہیں کیا کہ جب تک خدا نے اسے یہ نہیں بتادیا کہ میں نے تجھے مصلح موعود بنایا ہے اس کے متعلق تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ اس نے اپنی طرف سے خلیفہ ہونے کا اعلان کر دیا تھا.اور جہاں تک میرا تعلق ہے، ایک اور تکلیف کے وقت میں نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی اور میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جس کی جھوٹی قسم کھانالعنتیوں کا کام ہے اس مسجد میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اس نے مجھے بڑے پیار سے فرمایا: - يَدَاوُدُ اِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ پس میں خلیفہ اس لئے نہیں ہوں کہ تم میں سے کسی گروہ نے مجھے منتخب کیا ہے.میں خلیفہ اس لئے ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے منتخب کیا اور خلیفہ بنایا اور پیار کے ان الفاظ سے یاد فرمایا ہے.غرض خلیفہ خدا ہی بنایا کرتا ہے.انسانوں کا یہ کام ہی نہیں اور جن کو خدا خلیفہ بناتا ہے وہ انسانوں کے کام پر تھوکتے بھی نہیں اور نہ ان کی پرواہ کرتے ہیں.خلافت حقہ اصولی طور پر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید سے پہچانی جاتی ہے.اس کی آگے تفصیل ہے جو بہت لمبی ہے جس میں اس وقت میں نہیں جاسکتا.مراد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ خودا اپنی حکمت کا ملہ سے جس کا ہمیں پتہ نہیں ہوتا ، خود مجھے بھی پتہ نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت تھی لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ اس نے مجھے خلیفہ بنایا اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اس نے اپنی حکمت کاملہ سے جس کو اس وقت خلیفہ بنایا ہے، اس سے وہ پیار بھی کرتا ہے اور اس کی تائید بھی کرتا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی نصرت بتا رہی ہوتی ہے کہ یہ خلافت حقہ ہے.مگر
تاریخ احمدیت.جلد 28 36 سال 1972ء میں اپنے متعلق سوچتا ہوں تو اپنے آپ کو ایک ناکارہ مزدور پاتا ہوں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہی کہا تھا تو میں تو اتنا بھی نہیں.غرض خدا کا ایک ناکارہ مزدور ہوں.ویسے بھی انسان ہے کیا چیز جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال نہ ہو.انبیاء علیہم السلام جس وقت کہتے ہیں یا ان کے خلفاء جس وقت یہ کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو خود کو بالکل ناکارہ مزدور پاتے ہیں.خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر تو انسان کچھ بھی نہیں مگر جو خدا تعالیٰ سے ملاپ کے بعد ملتا ہے وہ انسان کا اپنا نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہ میری دعاؤں کو سنتا ہے اور اتنی کثرت سے سنتا ہے کہ آپ کو اگر میں ساری باتیں بتا دوں تو آپ حیران رہ جائیں گے.ممکن ہے آپ کے خیالات بھی پریشان ہو جائیں گے.بعض دفعہ ابھی دعا کی نہیں ہوتی ، دل میں خیال ہی آتا.اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول فرمالیتا ہے.ویسے یہ ٹھیک کہ اللہ اللہ ہے اور انسان انسان ہی ہے.کبھی وہ ہماری دعا بھی رد کر دیتا ہے اور نہیں مانتا کیونکہ وہ مالک ہے.ہمارا اس پر کوئی حق نہیں.ہم پر اس کے سارے حقوق واجب ہیں.اللہ تعالیٰ کبھی ہماری دعاؤں کو مہینوں کے بعد سنتا ہے کبھی وہ سالوں کے بعد سنتا ہے لیکن کبھی وہ اپنی شان اس رنگ میں بھی دکھاتا ہے کہ ابھی دعا کے الفاظ منہ سے نہیں نکلے ہوتے کہ وہ بات پوری ہو جاتی ہے.غرض اللہ تعالیٰ دعا سنتا ہے اور بات مان لیتا ہے اور کام کر دیتا ہے.چنانچہ بے شمار دفعہ دعاؤں کو اس رنگ میں بھی قبول ہوتے دیکھا ہے کہ ادھر دل میں خیال آیا اور اُدھر وہ بات پوری ہو گئی.پھر بعض دفعہ دعا کے نتیجہ میں اس نے ناممکن باتوں کو ممکن بنادیا.پس یا درکھو کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو الہی سلسلہ کے خلفاء بنایا کرے.“ جماعت احمدیہ کی طرف سے عقیدت و محبت کا ایمان افروز مظاہرہ اس بصیرت افروز خطبہ نے بزدل اور مفسدہ پرداز منافقین کے سراسر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات کی دھجیاں اڑا دیں جس کے بعد عشاق خلافت خصوصاً اہل ربوہ نے اپنے مقدس اور پیارے امام کے ساتھ عقیدت و محبت کا ایسا شاندار اور ایمان افروز مظاہرہ کیا کہ خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 37 سال 1972ء یاد تازہ ہو گئی.اس سلسلہ میں ۱۳ مارچ ۱۹۷۲ء کو بعد نماز عصر مسجد مبارک میں الحاج مرز اعبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا امیر جماعتہائے احمدیہ پنجاب کی زیر صدارت ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا.جلسہ میں بزرگان جماعت اور علماء سلسلہ احمدیہ نے بڑے مؤثر پیرا یہ میں نظام خلافت کی اہمیت و عظمت اور اس کی عظیم الشان روحانی برکات کو واضح کیا اور ثابت کیا کہ قرآن حکیم اور احادیث نبویہ سے اور بزرگانِ امت کے اقوال اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور علیہ السلام کے خلفائے عظام کے ارشادات سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہے کہ خلیفہ خود خدا بناتا ہے اور ہمیشہ اسے خدائی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے.انہوں نے بتایا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے خلافت کی برکات کو مشاہدہ کیا ہے اس لئے ہم علی وجہ البصیرت اس یقین پر قائم ہیں کہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اور آئندہ بھی منافقین خائب و خاسر رہیں گے.وہ مومنین کی جماعت میں کسی قسم کا رخنہ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے اور ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے خلافت ثالثہ کے موجودہ با برکت عہد میں شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.حتی کہ ساری دنیا پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانے میں ہم انشاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے.پروگرام کے مطابق محترم الحاج شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے ” خلیفہ خدا بناتا ہے“ کے موضوع پر، محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے ” خلافت ثالثہ کے بابرکت عہد میں غلبہ اسلام کی عظیم الشان مہم کے عنوان پر اور محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے ” خلفائے برحق پر منافقین کے اعتراضات اور ان کی حقیقت“ کے موضوع پر بڑی ہی پراثر اور ایمان افروز تقاریر فرمائیں.صدر جلسہ محترم مرزا عبدالحق صاحب نے بھی مختصر طور پر تقریر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم میں سے ہر ایک خلیفہ وقت کے ایک اشارہ پر اپنی ہر ایک عزیز ترین چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہے.تقاریر کے دوران وقتاً فوقتاً حاضرین جلسہ پر جوش اسلامی نعروں کے ساتھ اسلام ، احمدیت اور خلافت کے ساتھ اپنی والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کرتے رہے.اس جلسہ میں مولانا نذیر احمد صاحب مبشر سابق مبلغ احمدیت افریقہ، مولا نانسیم سیفی صاحب سابق رئيس التبلیغ مغربی افریقہ اور پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب ہیڈ آف دی فزکس ڈیپارٹمنٹ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے تین قراردادیں پیش کیں جو متفقہ طور پر منظور کی گئیں.ان قرار دادوں میں اہل ربوہ نے ان نقاب پوش بزدل اور کمینہ خصلت منافقین کے الزامات کو جھوٹ کا شرمناک پلندہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 38 سال 1972ء قرار دیتے ہوئے ان سے دلی بیزاری کا اظہار کیا اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں نہایت ادب سے گذارش کی کہ ہم حضور کے خدام اپنی جان ، مال اور ہر محبوب چیز حضور کے مقاصد کی تکمیل کے لئے قربان کرنے کو ہر وقت تیار ہیں.ہم حضور کے جانثار خادم ہیں اور ہمیشہ حضور کا ساتھ دیں گے اور ر بوہ کی مقدس سرزمین پر منافقین کے قدموں کو ہر گز ہرگز برداشت نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ کی جماعتیں جب ترقی کی طرف گامزن ہوتی ہیں تو منافقین جنہیں یہ ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی مصلح کے روپ میں آکر لوگوں کو گمراہ کرنے لگتے ہیں.قرآن مجید منافقین کی حرکات کو سمجھنے اور ان کا سد باب کرنے میں ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی ایک واضح علامت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں.اب بھی منافقین نے جن باتوں کو اپنی شرارت کا ذریعہ بنایا ہے سراسر جھوٹ اور بے بنیاد ہیں.منافقین ہمیشہ ہی سے وحدت اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں.موجودہ گروہ کا بھی یہی مقصد ہے.ہم ان کی اس جسارت کو نہایت درجہ نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں.جلسہ کے آخر میں چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ نے صاحب صدر، مقررین اور جملہ سامعین جلسہ کا شکر یہ ادا کیا.26 اس عظیم الشان جلسہ کے علاوہ یکم اپریل ۱۹۷۲ء کوصوبہ پنجاب اور دیگر صوبہ جات مغربی پاکستان کے صوبائی امراء اور ضلعی امرائے جماعت ہائے احمدیہ کا اجلاس زیر صدارت محترم مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ صوبہ پنجاب منعقد ہو کر حسب ذیل قرار دادیں بالاتفاق پاس کی گئیں.یہ قراردادیں محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع لائل پور نے پیش کیں جن کی تائید محترم مولوی محمدعرفان خان صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد اور محترم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ بلوچستان اور محترم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی ڈویر پنل امیر حیدرآباد نے کی..چند منافقین نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو نقصان پہنچانے کے لئے جو ریشہ دوانیاں اختیار کی ہیں ہم ان کے خلاف شدید نفرت اور بیزاری کا اظہار کرتے ہیں..ہم اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بابرکت قیادت وسیادت میں جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی منافقین کے لئے حسد اور بغض کا موجب بن رہی ہے لیکن ہمیں یقین
تاریخ احمدیت.جلد 28 39 سال 1972ء.ہے کہ منافقین اپنے منصوبے میں انشاء اللہ خائب و خاسر رہیں گے..ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے اس یقین پر قائم ہیں کہ خلافت حقہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک نعمت عظمی ہے اور خلیفہ خدا ہی بناتا ہے اور ہم خلافت کی حفاظت کے لئے کبھی کسی قسم کی قربانی سے بتوفیق الہی گریز نہیں کریں گے بلکہ حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے غلبہ اسلام کے لئے آگے سے آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ.ہم حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو خلیفہ برحق اور قدرت ثانیہ کا تیسر ا مظہر یقین کرتے ہیں.۴.قرار پایا کہ ان قرار دادوں کی نقول سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں بھیجی جائیں اور نیز سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تمام اخبارات و رسائل کو بغرض اشاعت بھیجی جائیں“.27 اخبار پیغام صلح لا ہور نے جو ہمیشہ ہی منافقین اور ان کے فتنوں کی پشت پناہی کرتا آرہا تھا اس موقع پر بھی اپنے دلی بغض و کینہ کا بر ملا اظہار کیا اور خلافت ربوہ میں انتشار کے زیر عنوان نوٹ لکھ کر نظام خلافت کو پارہ پارہ کرنے کا خواب دیکھنے لگا.28 مگر ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی قدرت ثانیہ کی قہری تجلیات اس پر اور اس کے ہمنواؤں پر بجلی بن کر گریں اور بد باطن منافقین کے سب نا پاک عزائم خاکستر ہو کر رہ گئے.قبولیت دعا کا ایک نشان مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع ساہیوال کے خلاف ۱۹۷۲ء میں ایک جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا اور آپ کو بہت مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا.آپ تحریر کرتے ہیں کہ خاکسار نے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے تحریر کیا اور حضور نے بھی خطوط کے ذریعہ سے مجھے تسلی دی.آپ مزید تحریر کرتے ہیں کہ بالآخر حضور کی دعائیں رنگ لائیں اور خدائے رحمان اور خدائے غفار نے مجھے باعزت بری کر دیا.نہ صرف یہ بلکہ اس قادر و توانا خدا نے اپنے پیارے خلیفہ کو پہلے سے میری بریت سے بھی مطلع فرما دیا تھا.چنانچہ ایک بار جبکہ میرے بھائی عزیز نصیر احمد اور میری اہلیہ محترمہ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ حضور دعا کریں کہ ضمانت ہو جائے تو حضور نے فرما یا ضمانت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آیا مجھے تو خدا تعالیٰ نے یہ اطلاع دی ہے کہ بری کر دیئے گئے ہیں چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 40 سال 1972ء تاریخ احمدیت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اللہ تعالیٰ خلفاء وقت کی دعاؤں کے طفیل قبولیت دعا کے ہمیشہ نشانات دکھاتا رہا ہے.قبولیت دعا کا یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور خلافت احمدیہ کی حقانیت اور دائمی برکات کی ایک زندہ مثال ہے.29 دوسرا آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنا منٹ مورخه ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء کو بعد از دو پہر دوسرے آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ کا آغاز بمقام ایوان محمود ربوہ ہوا.ابتدائی اور سیمی فائنل مقابلے ۲۴ مارچ کی دو پہر تک کھیلے گئے تقسیم انعامات کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی گئی جسے حضور نے از راہ شفقت قبول فرمایا.چنانچہ حضور انور ساڑھے پانچ بجے شام تشریف لائے.صدر صاحب مجلس اور ممبران عاملہ مرکزیہ نے حضور کا استقبال کیا.ہال میں تشریف لانے کے بعد حضور نے از راہ شفقت ایک خوش قسمت خادم کو اپنے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلنے کا موقعہ دیا.اس کے بعد حضور کی موجودگی میں سنگل اور ڈبل کے فائنل مقابلے ہوئے.مقابلوں کے اختتام پر حضور انور نے انعامات تقسیم فرمائے نیز اپنی طرف سے بھی ہر جیتنے والے کو قرآن مجید (مع ترجمہ انگریزی) کا ایک ایک نسخہ اپنے دستخطوں سے مرحمت فرمایا.اس کے بعد حضور نے حاضرین سے مختصر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.کام کا آغاز خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو چکا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کوئی انتہا نہیں اس لئے کوشش کرو کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہو.“ اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور یہ ٹورنامنٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اختتام پذیر ہوا.30 یوم مسیح موعود علیہ السلام پر ربوہ میں جلسہ عام مورخه ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء کو صبح 9 بجے مسجد مبارک ربوہ میں یوم مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ میں لوکل انجمن احمدیہ کے زیر اہتمام ایک خاص جلسہ منعقد ہوا جس میں علماء سلسلہ مولانا ابوالعطاء صاحب ، مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سابق مبلغ مغربی افریقہ، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئيس التبليغ مشرقی افریقہ اور مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض، آپ کے دعاوی اور ان کے دلائل ، آپ کا عشق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے کارناموں پر نہایت مؤثر انداز میں روشنی ڈالی اور بتایا کہ ۲۳ مارچ کو تاریخ احمدیت میں کیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 41 سال 1972ء اہمیت حاصل ہے.اس دن اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے قیام کے ساتھ دنیا میں غلبہ اسلام کی عظیم مہم کا آغاز فرمایا.31 جامعه نصرت ربوہ کے سائنس بلاک کا افتتاح جامعہ نصرت ربوہ کی مسجد اور سائنس بلاک کا سنگ بنیا دسید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۸ مارچ ۱۹۷۰ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.32 اس سال ۲۷ مارچ ۱۹۷۲ء کو حضور کے ہاتھوں اس کا مبارک افتتاح عمل میں آیا.اس کی تعمیر کا نصف خرچ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق لجنات اماء اللہ نے چندہ جمع کر کے فراہم کیا اور باقی اخراجات کا انتظام حضور انور کی منظوری سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے کیا.یہ عمارت جامعہ نصرت کے وسیع میدان میں ۱۰۰×۶۰ فٹ کے رقبہ پر مشتمل تھی اور نہایت خوبصورت اور جاذب نظر تھی.یہ صدر انجمن احمدیہ کے محکمہ تعمیرات کے زیر اہتمام اور پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود صاحب شاہد ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی صدر شعبہ کیمسٹری تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی عمی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچی.اس پر کم وبیش ڈیڑھ لاکھ روپی صرف ہوا.اس میں دو لیکچر روم، تین لیبارٹریز، چار لیکچررز کے ذاتی کمرے اور ایک بیالوجی میوزیم بھی موجود تھا.لیبارٹریز سائنس کے تمام ضروری سامان سے آراستہ تھیں.افتتاحی تقریب کے موقعہ پر ممبرات مجلس عاملہ لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور ربوہ کے محلہ جات کی لجنات کی صدر ان کے علاوہ ان خواتین کو خاص طور پر مدعوکیا گیا تھا جنہوں نے سائنس بلاک کی تعمیر کے لئے تین صد روپیہ یا اس سے زائد رقوم بطور عطیہ پیش کی تھیں.چنانچہ مختلف مقامات سے ایسی خواتین کثرت کے ساتھ تشریف لا کر اس میں شامل ہوئیں ان کے نام سائنس بلاک کے بڑے دروازہ کے قریب کندہ کر دیئے گئے تھے.مردوں کے لئے بیٹھنے کا علیحدہ انتظام تھا اس میں دیگر احباب کے علاوہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید، صاحبزادہ مرز امنصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان اور الحاج مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمدیہ پنجاب بھی تشریف فرما تھے.پونے پانچ بجے حضرت خلیفہ لمسیح الثالث تشریف لائے.جامعہ نصرت کی طرف سے محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے ناظر تعلیم اور محترم پروفیسر سلطان محمود شاہد صاحب نے آگے
تاریخ احمدیت.جلد 28 42 سال 1972ء بڑھ کر حضور کا خیر مقدم کیا اور حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے.حضور نے سب سے پہلے سنگ مرمر کی اس تختی کی نقاب کشائی فرمائی جو اس بلاک میں نصب تھی اور جس میں حسب ذیل الفاظ میں تاریخ سنگ بنیاد اور تاریخ افتتاح درج تھی." بسم الله الرحمن الرحيم تاریخ تنصیب سنگ بنیاد نحمده و نصلی علی رسوله الکریم تاریخ افتتاح ۸ امان ۱۳۴۹ هش/ ۸ مارچ ۱۹۷۰ء ۲۷ امان ۱۳۵۱ هش/ ۲۷ مارچ ۱۹۷۲ء سائنس بلاک (جامعہ نصرت ) تنصیب و سنگ بنیا د وافتتاح از دست مبارک حضرت خلیفہ المسیح الثالث حافظ مرزا ناصر احمد صاحب 13 33 پھر حضور نے تمام کمروں کا معاینہ فرمانے کے بعد خوشنودی کا اظہار فرمایا اور ضروری ہدایات سے نوازا.بعد ازاں حضور خوبصورت قناتوں اور شامیانوں سے مزین اس پنڈال میں تشریف لے گئے جہاں طالبات اور دیگر مستورات کے بیٹھنے کا انتظام تھا.تلاوت اور نظم کے بعد سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح حضرت مصلح موعود کی خصوصی توجہ سے جون ۱۹۵۱ء میں جامعہ نصرت کا قیام عمل میں آیا اور مرکز سلسلہ میں بچیوں کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام ہوا اور پھر یہ ادارہ بتدریج ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا سپاسنامہ کا متن رساله مصباح اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۱۸-۱۹ پر شائع ہوا).سپاسنامہ کے بعد حضور نے بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.”ہم جو اپنے طلباء اور طالبات کے لئے سائنسی علوم حاصل کرنے کا انتظام کرتے ہیں تو اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہمارے بچے ایسے رنگ میں تسخیر کائنات میں حصہ لیں اور دنیا کے تمام علوم کو حاصل کریں کہ وہ اپنے ایمان وعرفان میں بڑھتے چلے جائیں.اسلام علوم کو سیکھنے پر بڑا زور دیتا ہے وہ ہر مسلمان کا یہ فرض قرار دیتا ہے کہ وہ علم حاصل کرے مگر یہ علم وہی ہونا چاہیے جس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور دنیا میں امن و سکینت کی فضا پیدا ہو.وہ علم نہیں ہونا چاہیے جسے آج دنیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 43 سال 1972ء کی بڑی بڑی طاقتوں نے ہلاکت اور بربادی کا موجب بنارکھا ہے اور جس نے دنیا کا امن و چین چھین رکھا ہے.“ حضور نے فرمایا:.پس اے میری عزیز بچیو! بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے آپ پر.آپ نے پوری کوشش سے دنیوی علوم حاصل کرنے ہیں اور کسی سے بھی علم میں پیچھے نہیں رہنا.مگر آپ کی ہر کوشش کی جہت ایسی ہونی چاہیے جو آپ کو خدا کے قریب کر دے نہ کہ اس سے دور لے جانے کا موجب ہو.آپ کا زاویہ نگاہ درست ہونا چاہیے.اگر آپ کی نگاہ کے شیشے میں کوئی نقص نہ ہوگا تو آپ خدا تعالیٰ کی ہر خلق اور ہر چیز میں اس کے حسن واحسان کے جلوے دیکھ سکتی ہیں کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ہر دن جو چڑھتا ہے اس میں ہم اپنے خدا کے نئے سے نئے جلوے دیکھ سکتے ہیں.آپ نے صرف خود ہی حقیقی علم و عرفان حاصل نہیں کرنا بلکہ دنیا کے بچوں کو بھی علم سکھانا ہے.پس بڑی ذمہ داری ہے جو آپ پر عائد ہوتی ہے.خدا کرے کہ آپ اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے کی توفیق پائیں.پس اپنے زاویہ نگاہ کو درست رکھتے ہوئے علم سیکھو اور بڑھ چڑھ کر سیکھو اور پھر اسے دنیا میں پھیلاؤ اور اس طرح خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کے وارث بنتے چلے جاؤ.“ حضور نے اپنی تقریر کے دوران آئندہ سال بی ایس سی کلاسز کے اجراء کا بھی اعلان فرمایا.تقریر کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی جس کے بعد حضور اس جگہ تشریف لے گئے جہاں پر مردوں کے لئے دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا گیا تھا.یہاں حضور نے اپنے خدام کی معیت میں چائے نوش فرمائی اور پھر بذریعہ کا رواپس تشریف لے گئے اور اس طرح یہ تقریب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی.حضور کے تشریف لے جانے کے بعد رات گئے تک مستورات بڑے شوق سے سائنس بلاک دیکھتی رہیں اس عمارت کو اور اس سے ملحق میدان میں درختوں کو اس موقعہ پر خوبصورت رنگ برنگ کے برقی قمقموں سے بڑے سلیقے سے سجایا گیا تھا جس کی وجہ سے بہت خوبصورت منظر معلوم ہوتا تھا.اس تقریب کے انتظامات میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے علاوہ جامعہ نصرت کے سٹاف اور طالبات نے بھی پرنسپل مسز فرخنده اختر شاہ صاحبہ کی زیر نگرانی بھر پور حصہ لیا.34
تاریخ احمدیت.جلد 28 44 سال 1972ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا طلباء جامعہ احمدیہ سے روح پرور خطاب جامعہ احمدیہ کی الجميعة العلمیة کے تحت اردو، انگریزی اور عربی زبانوں میں سالانہ تقریری مقابلے کرائے جاتے ہیں.امسال یہ مقابلے ۳۰،۲۹،۲۸مارچ کو منعقد ہوئے جن کے اختتام پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے اور پھر اپنے روح پرور خطاب سے نوازا.حضور نے ارشاد فرمایا:.ہم پر قرآن کریم کے بارے میں مختلف قسم کے اعتراضات ہوتے ہیں.ایک قسم کے اعتراضات کا تعلق تو لفظی حفاظت سے ہے.یہ امر واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو اس کی لفظی حفاظت خود فرمائی اور لاکھوں حفاظ پیدا کر دیئے.جامعہ احمدیہ کے طلباء کو بھی اپنے طور پر قرآن کریم حفظ کرنا چاہیے تاکہ لفظی حفاظت کے جہاد کے ثواب میں شریک ہوسکیں.معنوی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجددین کا سلسلہ شروع فرمایا اور بالآخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرما کر قرآن کریم کی معنوی حفاظت فرمائی.آپ ثریا سے قرآن کریم واپس لائے.اس لئے آپ کی کتب کا مطالعہ اور تفسیر کا مطالعہ بار بار کرتے رہنا چاہیے.تیسری قسم کے اعتراضات ظاہری علوم کے ماہرین کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن یہ ان کی کوتاہ نہی ہے اور قرآنی علوم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے حالانکہ قرآن کریم بنیادی طور پر تمام علوم کا سرچشمہ ہے اس لئے ان کو اس حقیقت سے روشناس کرانا ہمارا کام ہے.قرآنی معجزات پر اعتراض کی صورت میں ہمارے مبلغین اور طلباء جامعہ احمدیہ کو فکر کرنا چاہیے کیونکہ ہر اعتراض کے توڑ کے لئے ایک ہی ہتھیار کام نہیں دیتا.ایسے اعتراضات کا جواب ہمیں معجزات سے دینا ہے اس لئے ہر مبلغ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ اتنا تعلق ہو کہ جب اسے اس قسم کے اعتراضات کا سامنا ہو خدا تعالیٰ خود اس کی دستگیری کرے اور اپنے کلام سے اس کی تسلی فرمائے.ہر مبلغ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل تعلق ہونا چاہیے تا کہ ہر میدان میں وہ کامیاب رہے.ہر جگہ کتا ہیں یا نوٹس نہیں ہوتے لیکن خدا تعالیٰ ہر وقت سننے والا ہے.دعائیں کریں اور اسے اپنا یار جانی
تاریخ احمدیت.جلد 28 45 سال 1972ء بنائیں تا کہ وہ ہر وقت آپ کا ساتھ دے.اساتذہ سے صرف آپ نے عقلی اور علمی دلائل سیکھنے ہیں لیکن خدا تعالیٰ سے روحانی اور معجزانہ رنگ میں علم اللہ نی حاصل کرنا ہے اور وہ صرف اسی کے سامنے گڑ گڑانے سے حاصل ہوگا.“ بعد ازاں حضور نے پرسوز دعا کرائی.جامعہ احمدیہ کی عمارت کے سامنے ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں حضور مع دوسرے مہمانان کرام و طلباء و اساتذہ جامعہ کے ساتھ رونق افروز ہوئے.35 مسجد اقصیٰ ربوہ کی پرشکوہ عمارت کا شاندار افتتاح مرکز احمدیت ربوہ کی تاریخ میں ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ ء کا جمعہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اس مبارک دن مسجد اقصیٰ کی پرشکوہ اور وسیع و عریض عمارت کا افتتاح ہوا.جس میں اہل ربوہ کے علاوہ طول وعرض سے احمدی جماعتوں کے نمائندگان مجلس مشاورت اور دیگر زائرین نے بھی شمولیت کی سعادت حاصل کی.زوال آفتاب کے بعد جب نماز جمعہ کی پہلی اذان ہوئی تو اس کے ساتھ ہی مسجد اقصیٰ کے دروازے نمازیوں کے لئے کھول دیئے گئے اور احباب جوق در جوق مسجد میں داخل ہونے لگے.دیکھتے ہی دیکھتے مین ہال کے بعد صحن بھی نمازیوں سے پر ہونے لگا.مسجد کی وسیع گیلری خواتین کے لئے مخصوص تھی مگر احمدی خواتین غیر معمولی طور پر اتنی کثرت کے ساتھ نماز جمعہ میں شامل ہوئیں کہ مستورات کے لئے جگہ ناکافی ثابت ہوئی.ٹھیک ایک بجے حضور بذریعہ کار تشریف لائے.ارکان استقبالیہ کمیٹی نے مسجد کی محراب کے باہر ڈیوڑھی (Porch) میں حضور کا پر تپاک خیر مقدم کیا.استقبال کرنے والوں میں یہ اصحاب شامل تھے.حضرت مولوی محمد الدین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ پاکستان.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلی.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید وصدر مجلس انصار اللہ.صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.سید داؤ د احمد صاحب.شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ صدر انجمن وقف جدید.الحاج مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ صوبہ پنجاب.چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز چوہدری انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ.خواجہ محمد امین صاحب امیر ضلع سیالکوٹ.مولانا ابوالعطاء صاحب.مولانا عبدالمالک خان صاحب.مولوی محمد عرفان صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 46 سال 1972ء صوبہ سرحد - شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ بلوچستان.چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد ڈویژن.مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوہ.سید محمود احمد صاحب ناصر نمائندہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ.بریگیڈیر اقبال احمد صاحب شمیم سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن.اس تقریب میں چار غیر ملکی طلباء نے اپنے اپنے ملک کی اس موقعہ پر نمائندگی کی ان کے نام یہ ہیں.ظفر احمد صاحب انڈونیشیا.محمد شمیم صاحب نجی.ذکر اللہ ایوب صاحب نائیجیریا.محمد یوسف صاحب یا سن گھانا.حضور نے ان سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر محراب میں تشریف لے گئے.جو نہی حضور مسجد میں داخل ہوئے ایک جانور محراب کے قریب اور چار جانور مسجد کے چاروں کونوں پر بطور صدقہ ذبح کئے گئے اور ان کا گوشت بعد میں غرباء میں تقسیم کر دیا گیا.خطبہ جمعہ کے لئے لکڑی کا ایک نیا بلند منبر بنوایا گیا تھا.جو محراب میں موجود تھا.دوسری اذان کے بعد جو بشارت اللہ صاحب (مہاجر قادیان) نے دی حضور منبر پر رونق افروز ہوئے اور ایک نہایت بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا.اس پر معارف خطبہ میں حضور نے فرمایا کہ آج ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے لبریز ہیں کہ اس نے ہمیں ایک نئی اور بڑی اور اچھی مسجد عطا فرمائی ہے.در اصل صرف تین مساجد ہیں جنہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مساجد کہا جا سکتا ہے باقی سب مساجدان کے اظلال ہیں.تم اپنی نیتوں کو ایسا بناؤ کہ وہ ہمیشہ تعمیر بیت اللہ کے مقاصد کی طرف متوجہ اور مائل رہیں.36 مسجد اقصیٰ کے اہم اور دلچسپ کو الف ربوہ کی اس عالیشان مرکزی مسجد کے بعض اہم کوائف کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.یہ عظیم الشان مسجد ستر ہزار مربع فٹ میں تعمیر کی گئی.افتتاح تک اس کی تعمیر پر کم و بیش ۱۵ لاکھ روپیہ خرچ ہوا.اس مسجد کی تعمیر کا فیصلہ ۱۹۶۵ء کی مجلس مشاورت میں حضرت مصلح موعود کے عہد خلافت میں کیا گیا تھا.اس کی تعمیر کے اکثر و بیشتر اخراجات سلسلہ کے نہایت مخلص، فدائی اور مخیر بزرگ شیخ محمد صدیق صاحب آف کلکتہ نے برداشت کئے مگر اپنی زندگی میں انہوں نے اپنا نام ظاہر کرنا گوارا نہیں فرمایا تعمیر کے اخراجات اندازے سے بڑھ گئے تھے اس لئے محمد صدیق بانی صاحب کی وفات کے بعد باقی کے کچھ اخراجات شیخ عبدالمجید صاحب آف کراچی نے ادا کئے.37) مسجد کا مین ہال بغیر ستونوں
تاریخ احمدیت.جلد 28 47 سال 1972ء کے کنکریٹ سے بنایا گیا جو ۸۰×۲۲۰ فٹ ہے.صحن کے ساتھ دونوں جانب ۲۰×۵۵افٹ کے دو برآمدے ہیں اور صحن ۱۸۰×۲۲۰ فٹ پر مشتمل ہے.مجموعی طور پر مسجد میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیک وقت قریباً ۱۵ ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے.مرکزی ہال میں چونکہ کوئی ستون نہیں ہے اس لئے اس میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ امام کی زیارت سے مشرف ہو سکتے ہیں.مسجد کے مسقف حصے میں مستورات کے لئے ایک وسیع گیلری ہے جو ۲۰ × ۳۴۰ فٹ پر مشتمل ہے.اس حصے میں سیمنٹ کی خوبصورت جالی کے پردوں کا نہایت معقول انتظام کیا گیا ہے.اس مسجد کو یہ شرف حاصل ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک حضرت خلیفہ المسیح الثالث اس کی تعمیر میں ذاتی طور پر گہری دلچسپی لیتے رہے.درجنوں بار خود تشریف لے جا کر اسے ملاحظہ فرمایا اور متعلقہ کارکنان کو نہایت اہم اور قیمتی ہدایات سے نوازا.اس امر کی حضور نے خاص طور پر بہت احتیاط کے ساتھ نگرانی فرمائی کہ عمارت کی تکمیل میں افادیت کا پہلو بہر حال مقدم رہے اور اخراجات میں کسی قسم کا بھی ضیاع نہ ہو بلکہ ہر ممکن کفایت سے کام لیا جائے.آخری بار حضور نے افتتاح سے ایک روز قبل ۳۰ مارچ کو بعد نماز عصر مسجد اور اس کے افتتاح کے جملہ انتظامات کا معاینہ فرمایا صحن کی جانب سے مسجد میں داخل ہونے کے گیارہ گیٹ ہیں جن میں سے درمیانی دروازے کی محراب بہت بڑی ہے.چار بڑے مینارے اور دو چھوٹے مینارے ہیں.ان کے گنبد سفید رنگ کے ہیں.بڑے گیٹ کے اردگرد نہایت خوبصورت رنگ دار ٹائلز لگائی گئیں جن کی وجہ سے مسجد کی خوبصورتی میں بہت اضافہ ہو گیا.مسجد کی پیشانی پر دروازوں کے اوپر نہایت جلی ، روشن اور خوبصورت طور پر یہ الفاظ لکھے گئے.الحكم الله _ لا غالب الا الله لا اله الا الله محمد رسول الله القدرة الله _ العِزَّةُ الله الا بذكر الله تطمئن القلوب.مسجد کی دیواروں کی اونچائی ۲۵ فٹ ہے تمام کھڑکیوں اور روشندانوں میں ایسا شیشہ استعمال کیا گیا جس کی چمک اندر بیٹھنے والوں کی آنکھوں کے لئے تکلیف دہ نہ ہو.محراب کی طرف جہاں پورچ بنایا گیا، دور استے الگ طور پر جاتے ہیں.مسجد کی تعمیر کے لئے حضور کی عمومی نگرانی میں ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے صدر صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب تھے.سیکرٹری کے فرائض اکتوبر ۱۹۷۱ ء تک شیخ مبارک احمد صاحب سرانجام دیتے رہے.جس کے بعد بریگیڈیر اقبال احمد صاحب شمیم نے اس نازک اور اہم ذمہ داری کو ادا کیا.آپ
تاریخ احمدیت.جلد 28 48 سال 1972ء کی عدم موجودگی میں چوہدری ظہور احمد صاحب قائمقام سیکرٹری رہے.ان کے علاوہ دیگر ارکان کمیٹی کے نام درج ذیل ہیں.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب،صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، سید میر داؤ د احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب، مولانا عبدالمالک خان صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، میاں عبد الحق صاحب رامہ، شیخ محبوب عالم خالد صاحب، بشیر احمد خاں صاحب رفیق ،مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری.مسجد کا نقشہ چودھری عبدالرشید صاحب احمدی چارٹرڈ آرکیٹیکٹ سابق پروفیسر انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور حال مقیم لنڈن نے تیار کیا.چوہدری نذیر احمد صاحب انجینئر شروع سے لے کر اکتوبر ۱۹۷۱ء تک کام کی نگرانی کرتے رہے.بہت سے دیگر احمدی انجینئر بھی تعمیر میں گہری دلچسپی لیتے رہے اور مشورہ دیتے رہے.ان کے علاوہ بعض دیگر قابل اور مشہور انجینئروں کو بھی وقتاً فوقتاً مشورہ کے لئے بلا یا جاتارہا.تا کہ اگر کسی جگہ بھی کوئی نقص نظر آئے تو اس کی نشاندہی اور اصلاح ہو سکے.اس خدا کے اس گھر میں سو ۱۰۰ برقی پنکھے لگائے گئے.پانی کی فراہمی کے لئے قریبی پہاڑی پر ۹۰ فٹ کی بلندی پر ایک ٹینکی نصب کی گئی جس میں پندرہ ہزار گیلن پانی کی وسعت تھی.اس ٹینکی میں پانی لانے کے لئے ۱۶انچ بور کا ایک ٹیوب ویل ۲۷ سوفٹ کے فاصلہ پر ایسی جگہ لگایا گیا جہاں پر پانی میٹھا تھا.روشنی کا بھی بہت معقول اور اعلیٰ انتظام کیا گیا.لائٹ پوائنٹ کی تعداد دوصد ہے.۶ فلڈ لائٹس صحن کے لئے ہیں.جہاں ۵۰۰ واٹ کے مرکزی بلب نصب کئے گئے.ایک فلڈ لائٹ سائیکل پارک اور ایک کار پارک کے لئے نصب کی گئی.اس پرشکوہ عمارت میں جانے کے لئے وسیع راستے اور سڑکیں بنائی گئیں جن کے درمیان مختلف قطعات میں گھاس اور پھولوں کے پودے لگائے گئے جس کی وجہ سے اس کا ماحول بہت سرسبز اور خوبصورت منظر پیش کرنے لگا.38 مسجد اقصی کی تعمیر کے بعد جمعہ اور عیدین کی مبارک تقریبات جو قبل ازیں مسجد مبارک میں ہوتی تھیں مسجد اقصیٰ میں ہونے لگیں.سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کی ہجرت انگلستان کے بعد صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے حفاظتی نقطہ نگاہ سے احاطہ مسجد کے اردگرد پختہ چار دیواری بنادی گئی.نظارت اصلاح و ارشاد کے ریکارڈ کے مطابق اس کی تعمیر جولائی ۱۹۸۷ء میں شروع ہوئی اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 49 سال 1972ء فروری ۱۹۸۹ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی.اس چاردیواری پر لا کھ انیس ہزار آٹھ سوا کانوے روپے کی لاگت آئی.39 مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء اس سال عالمگیر جماعت احمدیہ کی سالانہ مجلس مشاورت ۳۱ مار پچ، کیم و ۲ اپریل ۱۹۷۲ء کو ایوانِ محمود میں منعقد ہوئی.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نہایت ایمان افروز خطابات اور زریں نصائح سے نوازا.پہلا دن ۳۱ مارچ حضور انور نے اپنے بصیرت افروز افتاحی خطاب میں فرمایا کہ گذشتہ سال دنیا کی سیاست میں ایک نیا موڑ آیا ہے جبکہ ایک تیسری اہم طاقت چین دنیا میں ابھر رہی ہے اور امریکہ نے اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کی ہے.جس کی وجہ سے دنیا میں بڑی طاقتوں کی گروہ بندی میں تبدیلی واقع ہو گئی ہے اور ان حالات کا اثر دنیا بھر کے سیاسی اور اقتصادی حالات پر پڑا ہے.جن سے ہم بھی باہر نہیں ہیں.یہ حالات بتاتے ہیں کہ آئندہ ۲۰ - ۲۵ برس دنیا کے لئے اور انسانیت کے لئے واقعی بڑے نازک اور خطرناک ہیں.دنیا میں اگر کوئی ایسا دل ہے جولوگوں کے دکھوں کے احساس سے تڑپ اٹھتا ہے تو وہ ایک احمدی کا دل ہے اس لئے ہماری جماعت کو خصوصیت سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دنیا پر ایسا افضل کرے کہ وہ ہلاکت اور تباہی کی راہ سے بچ جاوے.اس ضمن میں حضور نے نہایت درد کے ساتھ بنگلہ دیش کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا نصف حصہ کٹ گیا اور ایسے طور سے کٹ گیا کہ اب تک وہاں خونریزی جاری ہے.وہاں جو ظلم ہوا اور ہورہا ہے اس کا خیال کر کے بھی ہماری راتوں کی نیند غائب ہو جاتی ہے.پس دنیا اور خصوصیت سے ہمارا ملک دعاؤں کا بہت ہی محتاج ہے.اس کے ساتھ ہی پاکستان کے استحکام کے لئے خاص کوشش کریں.ہر قسم کی قربانیاں پیش کریں اور ہر وقت چوکس اور بیدار ر ہیں تا کہ دشمن یہاں اپنے منصوبے میں کامیاب نہ ہو.مجھے ایک مندر خواب آئی ہے.جس کی وجہ سے میں خاص طور پر یہ تحریک کرتا ہوں کہ احباب کو ملک کی خاطر صدقات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے.ہر ایک کے ساتھ نیکی کا سلوک کرو اور غرباء کے دکھوں اور دردوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرو تا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 50 سال 1972ء اس کے بعد حضور نے گذشتہ سال رونما ہونے والے تیسرے انقلاب پر تفصیل سے روشنی ڈالی جو اسلام کے حق میں افریقہ کی سرزمین میں ظاہر ہوا تھا اور بتایا کہ کس طرح نصرت جہاں آگے بڑھو ! سکیم کے تحت احمدی ڈاکٹر نہایت اخلاص کے ساتھ دکھی انسانیت کی بے لوث خدمت کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں کس طرح شفاء کی غیر معمولی برکت رکھ دی ہے.چنانچہ فرمایا :.اللہ تعالیٰ نے اپنی برکت اور اپنے پیار کا اس طرح اظہار فرمایا کہ بعض وہ مریض جن کو بڑے بڑے چوٹی کے یورپین ڈاکٹروں نے جو بڑی بڑی ڈگریاں رکھتے تھے انہوں نے لا علاج قرار دے دیا تھا ان کو ایک غریب، دعا گو، عاجز بندہ خدا کے ہاتھوں شفا مل گئی اور سارے علاقہ میں ایک شہرت اور مقبولیت پیدا ہوگئی اور اس پر امیر لوگوں نے بھی وہاں آنا شروع کر دیا.اس عرصہ میں کہ جس میں ہمارے اکثر ڈاکٹر ایسے ہیں کہ جن کو ابھی وہاں پہنچے ہوئے پورا سال نہیں ہوا.ایک دو ہیں جنہیں بارہ مہینے ہو گئے یا شاید ایک ڈاکٹر ایسا بھی ہے جسے سوا سال ہو گیا ہے اور وہ ہیں بھی بوڑھے آدمی اور اس طرح زیادہ کام نہیں کر سکے.وہ سرجن بھی نہیں ہیں ہمیں وہاں ایسے ڈاکٹر ز چاہئیں جو فزیشن اور سرجن دونوں کا کام کر سکتے ہوں.یعنی ایک ہی ہاتھ فزیشن کے طور پر نسخہ لکھنے والا بھی ہو اور سرجن کے طور پر آپریشن کے لئے نشتر پکڑنے والا بھی ہو.غرض کوئی ڈاکٹر وہاں آٹھ مہینے سے کام کر رہا ہے کوئی نو مہینے سے کام کر رہا ہے اور بعض اس سے بھی کم عرصہ سے وہاں کام کر رہے ہیں اور جو امراء وہاں پہنچے ہیں اور انہوں نے وہاں فیس دی ہے جس سے ہمارے روز مرہ کے خرچ نکال کر جو خالص بچت ہوئی ہے اس کی مقدار ۴۸۵۲۶ پونڈ اسٹرلنگ ہے.الحمد للہ علی ذالک 40 آخر میں حضور نے بعض ان روکوں کا بھی ذکر کیا جو افریقہ میں مخالفین اسلام کی طرف سے پیدا کی جارہی تھیں.پھر فرمایا یہ باتیں ہمارے کاموں میں نہ پہلے کبھی روک بنی ہیں اور نہ آئندہ ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں.اگر دنیا کوئی ایک راہ بند کر دیتی ہے اس کی جگہ خدا اور کئی راہیں کھول دیتا ہے.کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا جو خدا کے فضلوں کو ہم پر بند کر دے.پس اپنی ذمہ داریوں کو بشاشت کے ساتھ ادا کرتے ہوئے غلبہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 51 سال 1972ء اسلام کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.حضور کا یہ نہایت درجہ روح پرور اور ایمان افروز خطاب کم و بیش ایک گھنٹہ تک جاری رہا.اس خطاب کے بعد بجٹ صدر انجمن احمدیہ، بجٹ تحریک جدید و وقف جدید، تجاویز مقبره بهشتی و وکالت تبشیر اور تجاویز اصلاح وارشاد و امور عامہ کے لئے چار سب کمیٹیوں کا تقرر عمل میں آیا.جن کے صدر حضور نے بالترتیب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب (ساہیوال)، چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ (ساہیوال)، کیپٹن سید افتخار حسین صاحب (کراچی) اور آدم خان صاحب ( مردان) مقرر فرمائے.دوسرے دن کا پہلا اجلاس اس روز پہلے اجلاس میں تعمیل فیصلہ جات شوری ۱۹۷۲ء، اضافہ بجٹ دوران سال اور سب کمیٹی بجٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی رپورٹیں حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں پیش کی گئیں.بجٹ کمیٹی کی عمومی بحث کے دوران حضور نے یہ انکشاف فرمایا:.سعودی عرب کے سفیر نے بڑا معرکہ مارا.ہمارے غانا کے احمدیوں کو حج کے لئے ویزے نہیں دیئے.کہا احمدیوں کو ویز انہیں دینا.اب دیکھو غانا کے ایک احمدی کو جو کسی اور قافلے کے ساتھ حج کرنے جارہا تھا اس کو تو ویز انہیں دیا گیا لیکن نائیجیریا میں ایک احمدی کو سالار قافلہ بنا دیا.یعنی احمدی اور غیر احمدیوں کا جو قافلہ تھا جس میں بہت سے احمدی بھی تھے اور دوسرے دوست بھی تھے ان کا سالار قافلہ احمدی تھا اور یہ انفرادی واقعات ہیں.دراصل اس وقت دنیا میں خوف اور بزدلی کی حکومت ہے.حالات ہی کچھ ایسے پیدا ہو گئے ہیں کہ بڑی بڑی طاقتور قوموں نے انسان کے دل کو چیرہ چیرہ کر دیا ہے.دل کے ساتھ ہمارے دماغ ، شجاعت اور بہادری اور بے خوفی کے جذ بہ کا تعلق ہے فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ کا جو جذ بہ ہے اس کے لئے بڑا مضبوط اور دلیر دل چاہیے لیکن دنیا کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ انسان کا دل بزدل بنا دیا گیا ہے.بڑے بڑے پھنے خان یعنی روس بھی بزدل ہے ان کے سارے معاہدے فراست اور ہمدردی اور خیر خواہی کی بنیادوں پر نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے ہیں اور یہ بھی بزدلی ہے یعنی حق و صداقت اور حقوق کی ادائیگی مدنظر نہیں بلکہ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں اپنی جان کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 52 سال 1972ء حفاظت کے لئے کر رہے ہیں.اس ساری بزدل دنیا میں شجاعت کا ایک ہی جزیرہ ہے جس کے باسی سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتے اور وہ جماعت احمد یہ ہے اس واسطے اس بات کی بھی نگرانی کیا کریں کہ کوئی دھبہ نہ پڑ جائے.انشاء اللہ اس میں Clash تو نہیں ہو گی.اللہ تعالیٰ فضل کرے گا ہم امید رکھتے ہیں.ہمارے کریکٹر پر یہ معمولی سا دھبہ بھی نہیں پڑنا چاہیے اور نہ کوئی تعصب پیدا ہونا چاہیے.ہم نے تو بچپن میں ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں آئی تھی تو یہی تعلیم پائی تھی کہ دشمن سے بھی تعصب کے ساتھ بات نہیں کرنی.وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا ( المائدہ :9 ) اس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ دنیا تم پر ظلم کرتی رہے تم نے عدل کو نہیں چھوڑ نا.11 41.ہے.شوری کے دوران ایک اور موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا:.ایک دفعہ حکومت کا ایک نمائندہ آ گیا کہ احمدیوں کی تعداد کتنی.نظارت امور عامہ نے مجھ سے پوچھا کہ کیا جواب دیں.میں نے کہا ان سے پوچھو کس تعریف کے ماتحت احمدیوں کی تعداد ما نگتے ہیں.کیا وہ جو سو فیصدی احمدی ہیں یا وہ جو اسی فیصدی احمدی ہیں یا وہ جو پچاس فیصدی احمدی ہیں یا وہ جو چالیس فیصدی احمدی ہیں یا وہ بیس فیصدی احمدی ہیں وغیرہ.بہر حال تعداد میں فرق ہے کیونکہ ہر وہ غیر از جماعت دوست جو اس وقت عملاً وفات مسیح" کا قائل ہو چکا ہے وہ گویا اس حد تک احمدی ہو چکا ہے.ہم نے اس کا عقیدہ کسی حد تک بدل دیا ہے اور میرے خیال میں ہم نے نوے فیصد مسلمانوں کا حیات مسیح کا عقیدہ بدل دیا ہے.جو سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ ہیں وہ اب حیات مسیح کے قائل نہیں رہے ان کا خیال بدل چکا ہے.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تبلیغ کا اثر ہوا اور ہورہا ہے.یہ مثال میں نے اس لئے دی ہے کہ پہلے ہمیں جو چیز پتھر محسوس ہوتی تھی اب اس میں وہ سختی نہیں رہی کو مجموعی طور پر مخالفت تو اب بھی ہے لیکن اس کا اثر نہیں رہا.میں جب سختی نہیں رہی کہتا ہوں تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ان کا ہم سے پیار بڑھ گیا ہے.شاید ہم سے نفرت ایک حصہ میں بڑھ گئی ہو لیکن نفرت کو دور کرنے کے لئے سختی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سختی اور نرمی کے الفاظ میں قبول اثر کے لحاظ سے کہہ رہا ہوں.پہلے اثر قبول کرنا
تاریخ احمدیت.جلد 28 53 سال 1972ء ن کیلئے مشکل تھا اب زیادہ آسان ہو گیا ہے وہ ہم سے بڑے قریب آگئے ہیں.پس تبلیغ کی شکل بدل گئی ہے اس لئے مناظرے تو اب نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ذریعہ بے اثر ہو گیا ہے.اگر ملکی حالات اجازت دیں تب بھی مناظرہ کا ہتھیار استعمال نہیں کیا جائے گا.اس کی نسبت دوسرے ہتھیار زیادہ کارگر ہیں.بہت زیادہ کارگر ہیں.42 نیز فرمایا:.میں افریقہ کے دورے پر تھا ایک ملک میں شام کے سفیر نے کہا کہ میں آپ سے علیحدہ ملنا چاہتا ہوں.خیر وہ اکیلے ملے کچھ اپنی مشکلات تھیں اس نے کہا میں دہر یہ ہو گیا تھا چھ سال نوکری چھوڑی پھر میں نے نئے سرے سے سوچا، قرآن کریم کو پڑھا.ویسے تو اس نے ارتداد کا اعلان نہیں کیا تھا مگر کہنے لگا ذہنی طور پر میں دوبارہ مسلمان ہوا ہوں.تاہم کچھ خیالات اس وقت بھی صحیح نہیں تھے.بعض باتیں پوچھ رہے تھے پھر آرام سے مجھے کہنے لگے کہ ہمارے ہاں بڑے زور سے پراپیگنڈا یا گیا ہے کہ آپ لوگ عیسائیوں کے ایجنٹ ہیں.میں نے کہا اچھا تمہارے تک بھی یہ پراپیگنڈا پہنچ گیا.میں نے کہا ٹھہرو.میں اس کا تمہیں جواب دیتا ہوں.میری عادت ہے کہ میں سفر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام ضرور ساتھ رکھتا ہوں کیونکہ ساری کتب تو سفر میں آدمی لے جانہیں سکتا.فارسی ، عربی ، اردو پر مشتمل آپ کے منظوم کلام میں قریباً سارے مسائل مختصراً،خلاصہ بڑے اچھے پیرا یہ میں آگئے ہیں.میں عربی کا کلام لے آیا اور میں نے کہا میں تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں کشکول میں مانگی ہوئی گندم اور دودھ وغیرہ کے خلاف بڑی سختی کے ساتھ لکھا ہے.میں نے وہ حصہ نکال کر اس کے پندرہ بیس کے قریب شعر سنائے.میں نے کہا جس شخص نے اس زمانہ میں یہ کہا ہو اس زمانہ میں اس کو کوئی عقلمند آدمی انگریز کا ایجنٹ کہہ سکتا ہے؟ کہنے لگے نہیں.پھر خود ہی کہنے لگے.ٹھیک ہے مسئلہ صاف ہو گیا ہے“.13 اس دوران حضور نے یہ بھی وضاحت فرمائی:.43
تاریخ احمدیت.جلد 28 54 سال 1972ء د, حج پر اگر ! اگر ! اگر ! پابندی لگ جائے کہ احمدی حج نہیں کر سکتے تو حج کے ثواب کے حصول کے مواقع بڑھ جاتے ہیں کم نہیں ہوتے.کیونکہ اگر دس ہزار لوگوں کے سینوں میں یہ خواہش پیدا ہوگی کہ اپنی محبت اور عشق کا اظہار خانہ کعبہ میں جا کر مستانہ وار چکر لگا کر اور حجر اسود کو بوسہ دے کر کریں اور دنیا ان کے راستے میں روک ہو تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کے راستے میں یہ دنیا روک نہیں بن سکتی اور نہ بنے گی.باقی رہا یہ کہ حج پر جانے پر احمد یوں پر پابندی لگائی گئی ہے یہ بات غلط ہے.اس لئے کہ مثلاً غنانا کے احمدیوں کو اس دفعہ نہیں جانے دیا.میں نہیں سمجھتا کہ سب کو روکا گیا ہے یا کچھ رک گئے ہوں لیکن بہر حال وہاں یہ چیز نمایاں ہوگئی.نائیجیریا سے بڑی کثرت سے احمدی حج پر گئے ، امریکہ سے گئے ، یورپ سے گئے ، انڈونیشیا سے گئے ، نبی آئی لینڈ سے گئے ، پاکستان سے گئے.حالانکہ اصل فتنہ وفساد کے مرکز یہیں ہیں مگر وہ بھی ہمارے راستے میں روک نہیں بن سکے.اس طرح آوازیں اٹھتی رہتی ہیں.ایک دفعہ ایک دوست سعودی عرب سے آئے کہ میں وہاں کام کرتا ہوں.میں نے کہا کیا کام کرتے ہو.کہنے لگا وائرنگ کا کام کرتا ہوں.میں نے کہا آجکل کہاں کام کر رہے ہو.کہنے لگا کہ خانہ کعبہ کے اندر.میں ہنس پڑا.میں نے دل میں کہا کہ مخالفین ہمارا کون کونسا راستہ روکیں گے.ہم تو خانہ کعبہ میں بھی موجود ہیں.خانہ کعبہ ہمارا ہے.دوست یہ بات یادرکھیں کہ بیت اللہ ہمارا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حج سے روکا گیا تھا.ہمیں بھی حج سے روکا جا رہا ہے.پس جو دلیل تمہارے حق میں جاتی ہے اس سے تم کیوں گھبراتے ہو.اس لئے بیت اللہ تو ہمارا ہے ہمارے پاس آئے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارتیں بھی ملی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو اپنے وعدوں کا پاس بھی ہے لیکن دنیا کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو.ہمیں خدا تعالیٰ نے پیار اور محبت کرنے کا اور ہمدردی کرنے کا ایک اتنا تیز ہتھیار دیا ہے کہ دنیا کے سخت سے سخت لو ہے اور اس سے بنی ہوئی چیزوں کو بھی یہ ہتھیار کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور اس کی سختی کو دور کر دیتا ہے.ہم پیار سے تمہارے دلوں کو جیت کر
تاریخ احمدیت.جلد 28 55 سال 1972ء رہیں گے اور ہم اس دن انتہائی طور پر خوش ہوں گے جس دن ہم یہ مشاہدہ کر رہے ہوں گے کہ تم ہماری راہوں میں کانٹے نہیں بچھا رہے بلکہ گلاب کے پھول بچھا رہے ہو اور انشاء اللہ وہ دن آئے گا.آج نہیں تو کل آئے گا.اس سال کے بعد نہیں تو ۷۵ سال بعد آئے گا مگر وہ دن ضرور آئے گا.خواہ دنیا کی ساری طاقتیں اکٹھی ہو جائیں اور زور لگا کر دیکھ لیں وہ اس چیز کو روک نہیں سکتیں.انشاء اللہ.اس واسطے آپ گھبرائیں نہیں.فرضی تکلیفیں ہیں.ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے اس نے حج کا ٹکٹ لیا ہوگا مگر حج نہیں کرسکتا.ایک شخص جو کہیں کام کر رہا ہوتا ہے عین وقت پر اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ ضروری کام آ گیا اس لئے تم نہ جاؤ.یا بعض دفعہ مخالف کھڑا ہو جاتا ہے وہ روک بن جاتا ہے یا بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بھیج دیتا ہے.میں نے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹا سا نوٹ تیار کروایا ہے میں ابھی اس سلسلہ میں اور معلومات اکٹھی کروا رہا ہوں کہ پچھلے چودہ سوسال میں کتنی بار کن کن موقعوں پر کس کس جگہ کس کس وجہ سے حج سے روکا گیا.یہ آج کی تو بات نہیں یہ تو پرانا قصہ ہے.مثلاً ایک علاقے میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی تو اس علاقہ کے لوگوں کے لئے حج پر جانا روک دیا گیا.یا خود سعودی عرب میں کوئی وبا پھیلی تو ج رک گیا.یا کسی بادشاہ نے اپنے مخالفوں کو حج نہیں کرنے دیا.یہ سب بعد کی باتیں ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق تو میں نے پہلے اشارہ کر دیا ہے.پس حج تو رکتے آئے ہیں اور حج کے رکنے کے نتیجہ میں کسی چیز کا غلط ہونا ثابت نہیں ہوتا اور نہ یہ امر احمدیت کے کفر ہونے پر دلیل ہے البتہ مخالفین کی نالائقیوں پر ضرور دلیل بن جائے گا کہ تم نے اس خانہ خدا کا دروازہ بند کیا جس کا دروازہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے واَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللهِ أَحَدًا (الجن : ۱۹) کے اعلان کے ساتھ کھولا تھا.تم خدا اور خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جواب دہ ہو گے.لیکن ہم چونکہ نیک نیت ہونے کے باوجود رو کے جائیں گے اس لئے ہم کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں گے کہ ہم نے حج کیوں نہیں کیا.ہم اس صورت میں حج کئے بغیر حج کا ثواب حاصل کریں گئے.44
تاریخ احمدیت.جلد 28 56 سال 1972ء اس کے بعد بجٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی سب کمیٹی کی رپورٹ پر تفصیلی بحث ہوئی.بعد ازاں نمائندگان نے متفقہ طور پر اس کے منظور کئے جانے کی سفارش حضور کی خدمت میں پیش کی جسے حضور نے بھی منظور فرمالیا.یہ بجٹ چون لاکھ چھبیس ہزار پندرہ روپے پر مشتمل تھا.45 دوسرے دن کا دوسرا اجلاس اس اجلاس میں تحریک جدید اور وقف جدید کی سب کمیٹی کی سفارشات زیر بحث آئیں اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ان کے میزانیوں کی منظوری عطا فرمائی جس کی تفصیل یہ ہے.۱- میزانیہ آمد و خرج تحریک جدید ۷۳ - ۱۹۷۲ ء پچپن لاکھ پچانوے ہزار ایک سو پچانوے.۲.میزانیہ آمد و خرج وقف جدید ۷۳ - ۱۹۷۲ء دولاکھ پینسٹھ ہزار.اس کا رروائی کے بعد نظارت اصلاح وارشاد و امور عامہ کی سب کمیٹی کی رپورٹ پیش ہوئی جس پر حضور نے اہم فیصلے فرمائے.حضور نے سب کمیٹی کی تجاویز پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا بدخواہشات، بد عادات، بد خیالات اور بد رسوم ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ صراط مستقیم اختیار کیا جائے.بدر سوم کا اصل منبع تضاد ہے اور تضاد کے خلاف ہم عقلی اور اسلامی دونوں لحاظ سے اقدام کر سکتے ہیں.جماعت کو بدرسوم کے اثرات سے محفوظ رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو میں جماعت کے سامنے اس تعلق میں تفصیلی پروگرام رکھوں گا.ایک تجویز جو نظارت امور عامہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھی یہ تھی کہ ربوہ ایک بین الاقوامی مرکز اسلام ہے اس کی خوبصورتی اور صفائی کو خاص امتیاز حاصل ہونا چاہیے.اس سلسلہ میں جماعتی سطح پر کوئی منصوبہ تیار کیا جائے اور پہلے مرحلہ میں بڑی بڑی سڑکیں پختہ کی جائیں.رپورٹ میں کہا گیا کہ سب کمیٹی کے علم میں یہ بات لائی گئی ہے کہ ربوہ میں حضور کی راہنمائی میں یہ کام شروع ہو چکا ہے اور مجلس صحت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جور بوہ کو خوبصورت اور صاف ستھرا بنانے کے لئے کوشاں ہے.سب کمیٹی کی رائے ہے کہ (۱) حضور اگر مناسب فرما ئیں تو ایک ڈویلپمنٹ کمیٹی کا تقررفرما ئیں جو حضور کی راہنمائی میں کام کرے.(۲) جلسہ سالانہ پر آنے والے ہر بالغ احمدی فرد سے ایک روپیہ اس مد میں وصول کیا جائے.(۳) مخیر لوگوں کو اس کام میں حصہ لینے کی تحریک کی جائے.(۴) ربوہ میں زمین فروخت کرنے والے منافع میں سے ایک حصہ اس مد میں ادا کریں.حضور نے فرمایا کہ جس رنگ میں یہ تجویز پیش ہوئی ہے اور اس کے متعلق سفارشات کی گئی ہیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 57 سال 1972ء ان کی ضرورت نہیں.ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا جانتے ہیں اور یہ جماعت کا کیریکٹر ہے اس میں کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہیے.ہماری کوشش ہے کہ ربوہ کی گلیاں صاف اور ستھری ہوں.خالی میدانوں کو صحیح مصرف میں لایا جائے اور ربوہ کو ایک مثالی شہر بنایا جائے.اس کے لئے ہم جماعت پر بار نہیں ڈالیں گے.معمولی اخراجات جو ہوں گے وہ مقامی طور پر برداشت کئے جائیں گے.چنانچہ فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا جانتے ہیں یہ ہمارا کریکٹر ہے.جماعت احمدیہ کے کسی فرد میں کمزوری نہیں پیدا ہونی چاہیے.میں نے کالج کی پرنسپلی کے زمانہ میں ایک امریکن کو کالج دکھا یا تھا اور پھر میں نے کہا میرے ساتھ جانے میں آخر کوئی حکمت ہے ورنہ میں اپنے کسی ساتھی سے کہتا وہ آپ کو کالج دکھا دیتا.کیا حکمت ہے؟ وہ بڑا پریشان ہوا.میں نے کہا حکمت یہ ہے کہ میں تم پر یہ امر واضح کرنا چاہتا تھا کہ ہم وہ قوم ہیں جسے امریکن امداد کی ضرورت نہیں ہے.ہم خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا جانتے ہیں.اس لئے ربوہ دوسروں کیلئے ایسا نمونہ ہونا چاہیے اور باہر والے احمدی بھی انشاء اللہ دوسروں کیلئے نمونہ بنیں گے.پس دوست اپنے شہروں اور دیہاتوں کی گلیوں کی صفائی کیا کریں خود احمدی دوست اور بچے گندے نظر نہ آئیں.آج ہی کوشش شروع کر دیں اور نتیجہ تو ممکن ہے سال کے بعد نکلے.لیکن کوشش جس حد تک ممکن ہے آج ہی سے شروع کر دو.پھر کسی معین شکل میں بھی سیکیم جاری کر دیں گئے.46 خلافت جو بلی علم انعامی سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء کے دوسرے روز مورخہ یکم اپر یل پہلے اجلاس سے قبل اے.۱۹۷۰ء میں مجالس خدام الاحمدیہ میں کارکر دگی اور مستعدی کے لحاظ سے اول آنے والی مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور شہر ( فیصل آباد ) کو از راہ شفقت اپنے دست مبارک سے خلافت جو بلی علم انعامی عطا فرمایا اور مجلس ڈرگ روڈ کراچی اور مجلس کنری سندھ کو علی الترتیب دوم وسوم قرار دیئے جانے کی بناء پر سندات خوشنودی عطا فرما ئیں.47
تاریخ احمدیت.جلد 28 تیسرا دن.۱/۲ پریل 58 سال 1972ء ۱/۲ پریل کے روز چوتھے اور آخری اجلاس میں سب کمیٹی شوری برائے نظارت بہشتی مقبرہ اور وکالت تبشیر تحریک جدید کی رپورٹ پر غور کیا گیا جس کے دوران واقفین زندگی کی طرف سے اخلاص اور فدائیت کا ایسا بے مثال مظاہرہ دیکھنے میں آیا جو مدتوں یادر ہے گا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایجنڈا کی تجویز نمبرے یہ تھی کہ واقفین زندگی کے لئے قوانین میں نرمی ہونی چاہیے تاکہ زیادہ نوجوانوں کو زندگی وقف کرنے کا شوق پیدا ہو.غیر ممالک بھجواتے وقت نوجوان مبلغین کے ہمراہ ان کی بیویوں کو بھی بھیجوایا جائے اس طرح ان کے جذبات اور قومی بداثرات سے محفوظ رہیں گے اور دونوں کو خدمت دین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا شوق پیدا ہوگا“.اس تجویز پر سب کمیٹی نے یہ سفارش کی ”وقف زندگی کے بعد کسی قسم کی شرائط اور قوانین کا سوال باقی نہیں رہتا.اس لئے سب کمیٹی اس تجویز کے رڈ کئے جانے کی سفارش کرتی ہے.“ حضور نے اس تجویز کے بارے میں جب نمائندگان کو اظہار خیال کرنے کا ارشاد فرمایا تو بیرونی جماعتوں کے متعدد احباب خصوصا واقفین زندگی اصحاب نے متفقہ طور پر یہ درخواست پیش کی کہ انہیں سب کمیٹی کی رائے سے پورا پورا اتفاق ہے براہ کرم اس تجویز کو بلا تامل کلیۂ رڈ کر دیا جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف زندگی کرنا غیر مشروط طور پر اپنے تئیں خلیفہ وقت کے سپر د کر دینے کے مترادف ہے لہذا اس قسم کی تجویز کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ وقف کی حقیقی روح کے سراسر منافی ہے بلکہ واقفین زندگی کے احساسات اور جذبات کی سخت تو ہین کے مترادف ہے.واقفین زندگی میں سے جن نمائندگان نے اپنے ان خیالات کا اظہار فرمایا ان میں سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ، شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ اور مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مجاہد مغربی افریقہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نمائندگان شوریٰ کی جملہ تقاریر سننے کے بعد ارشاد فرمایا:.”جب یہ تجویز مرکز میں پہنچی تو مرکز غور کرتا ہے کہ آیا یہ مجلس مشاورت میں پیش ہونی چاہیے یا نہیں.پیش ہونی چاہیے تو اس وجہ سے پیش ہونی چاہیے اس قسم کی سفارشیں میرے پاس آتی ہیں.اس تجویز کے متعلق سفارش نہیں تھی کہ یہ تجویز پیش نہیں ہونی چاہیے لیکن جب یہ تجویز میں نے پڑھی تو مجھے اتنا دکھ ہوا کہ آپ اس کا
تاریخ احمدیت.جلد 28 59 سال 1972ء اندازہ نہیں کر سکتے.پھر میں نے سوچا کہ اس دکھ میں آپ کو بھی شریک کروں اور جو زخم میری روح پر لگایا گیا ہے آپ بھی اس زخم کا مزہ چکھیں.اس لئے میں نے یہ تجویز مجلس شوریٰ میں پیش کرنے کا حکم دیا ورنہ صدر انجمن احمدیہ کی سفارش تھی کہ اسے مجلس میں پیش نہ کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ ایک واقف کے خیالات جو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ادا کئے جا سکتے ہیں وہ آپ نے واقفین کے منہ سے سن لئے ہیں اور جو واقف نہیں ہیں جنہوں نے اس دنیا کا مزہ نہیں چکھا اس کا حسن نہیں دیکھا اس کا سرور حاصل نہیں کیا خدا کی محبت کے جو جلوے اس میدان میں انسان پر ظاہر ہوتے ہیں وہ ان پر ظاہر نہیں ہوئے کہ اس دنیا کے رہنے والوں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں (اور یہی غرض تھی اس تجویز کو شوری میں رکھنے کی ) کہ اس قسم کی ساری تجاویز ہمیشہ رڈ کر دی جاتی ہیں ایسی تجاویز آئندہ پیش نہیں ہوں مدار فضل گئی.48 اس ارشاد مبارک کے بعد حضور کی ہدایت پر کرنل عطاء اللہ صاحب نائب صدر فاؤنڈیشن نے اس ادارہ کی سالانہ رپورٹ پیش کی جس کے بعد حضرت امام ہمام نے پر معارف اختتامی خطاب فرمایا جس کے آغاز میں اشاعتِ قرآن کریم کے اُس عظیم منصوبہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالی جو خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں جاری کیا گیا.ازاں بعد احمد یہ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کی سکیم کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.وو ریڈیو سٹیشن کے قیام کا بڑا فائدہ ہے.یہ میری خواہش ہے اور احباب اس کو یا درکھیں کہ جماعت احمدیہ نے اس خواہش کو پورا کرنا ہے.دنیا میں سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ سٹیشن گندے گانے گا کر اخلاق کو خراب کرتا ہے یا لغو باتیں بیان کر کے انسان کے وقت کو ضائع کرتا ہے یا اشتہارات وغیرہ کیلئے وقف ہوتا ہے یا غلط قسم کی فلسفیانہ دلیلیں اپنے حق میں اور مخالفوں کے خلاف دیتا ہے اس قسم کی باتیں ہمارے ریڈیوسٹیشن سے نشر نہیں ہوں گی.میں مانتا ہوں کہ آجکل کے ریڈیو سٹیشنوں سے بعض اچھی باتیں بھی نشر ہوتی ہیں آنکھیں بند کر کے تنقید بھی نہیں کرنی چاہیے اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 60 سال 1972ء نہ لوگ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بحیثیت ادارہ آنکھیں بند کر کے تنقید کرنے کے مجاز ہیں نہ اہل ہے اور نہ اس کی اجازت ہے.ہر چیز بنیادی طور پر خیر و برکت کا موجب ہے ہم اس کو غلط راہوں پر چلا کر اپنے لئے بدی کے سامان پیدا کر لیتے ہیں.اب یہ ٹیلیویژن فی الحقیقت بہت اچھی چیز ہے جب میں اپنی سکیمیں بتاتا ہوں تو بڑا مزہ آتا ہے لیکن آج کے ٹیلیویژن سے اس قسم کا فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا.جب ہمارے ہاتھ میں ریڈیو اور ٹیلیویژن آ گیا تو ہم دنیا کو بتا ئیں گے کہ ٹیلیویژن سے کیا کیا نیکی کے کام اور کیا کیا علمی ترقی کے کام اور اخلاقی اصلاح کے کام لئے جا سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ مخرب الاخلاق ہو وہ اخلاق پرحسن چڑھانے کا موجب بن سکتا ہے.وہ علم میں ترقی کا موجب بن سکتا ہے.وہ تقویٰ کی راہوں کو زیادہ نمایاں کر کے بنی نوع انسان کے سامنے رکھنے کا موجب بن سکتا ہے.پس ہم جو ریڈیو سٹیشن لگا ئیں گے تو اس سے انشاء اللہ یہ کام لئے جائیں گے.اس وقت جو سب سے بڑا ریڈیو سٹیشن ہے وہ میرے خیال میں روس میں ہے.دل یہ کرتا ہے کہ اپنی زندگی میں (موجودہ نسل کی زندگی میں ) کم از کم اتنا بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ضرور لگ جائے.ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خلاف جو لوگ باتیں کرنے والے ہیں یا مذہب کے خلاف باتیں کرنے والے ہیں.ان سے زیادہ طاقتور صوتی لہریں توحید باری تعالیٰ کو دنیا میں پھیلانے والی اور قرآن کریم کی شعاعوں کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے والی ہوں.یہ ایک بڑی خوشکن خبر ہے جس میں میں آج آپ کو شریک کرتا ہوں تا کہ آپ پھر میرے ساتھ اس مہم کو کامیاب انجام تک پہنچانے کی دعاؤں میں شرکت کے قابل ہو جا ئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں وہ دن جلد دکھائے جب دنیا کے کونے کونے میں خدا اور خدا کے رسول کا نام بلند ہورہا ہوگا.اس سکیم کے پہلے مرحلے میں میں بتاتا ہوں کہ خدا کرے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں اور مشرق وسطی کے ملکوں میں عربی میں ہم ان سے باتیں کریں اگر کہیں پابندیاں ہیں ناسمجھی کی وجہ سے اور بزدلی کے نتیجہ میں اور کم بختی کے باعث
تاریخ احمدیت.جلد 28 61 سال 1972ء وہ کمزوریاں ان لوگوں میں ہیں جن کے ہاتھ میں اس وقت اللہ تعالیٰ نے حکومت کی باگ ڈور دی ہوئی ہے اور وہ اپنے فرائض کو فراست اور عقل اور ہمدردی اور اخوت سے نہیں نباہ رہے یہ ایک حقیقت ہے اور اس کے اعلان میں مجھے کوئی باک نہیں لیکن وہاں کے جو عوام ہیں ان کے متعلق یہ بدظنی کبھی نہ کریں کہ وہ بھی ہماری باتیں سننے کیلئے تیار نہیں.وہ ہماری باتیں سنتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ مثلاً عراق میں ہمارے علم میں کوئی احمدی نہیں تھا.باہر سے گئے ہوئے ہیں وہ وہاں ہیں.ایک عراقی وفد مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں جو مدینہ یا مکہ یا جدہ میں منعقد ہورہا تھا اس میں شرکت کے لئے گیا.تو وفد کے اراکین میں ایک احمدی دوست بھی شامل تھے ہمیں اس کا کچھ پتہ نہیں تھا اور جس وقت وہ عراق سے باہر نکلے اور سعودی عرب ( یعنی غیر ملک) میں داخل ہوئے تو وہاں سے انہوں نے مجھے خط لکھا جس میں انہوں نے بڑے اخلاص اور محبت اور نیک جذبات کا اظہار کیا اور جماعت کی ترقی کے متعلق دعائیں کیں اور بتایا کہ وہ مؤتمر عالم اسلامی کے عراقی وفد میں شامل ہیں لیکن عراق کا اپنا پتہ نہیں دیا تھا.سعودی عرب میں مؤتمر عالم اسلامی کا تو دے دیا اس واسطے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہاں کے حالات اس وقت ساز گار نہیں ہیں.سعودی عرب میں بیت اللہ شریف کے متعلق کل میں نے کہا تھا کہ یہ تو ہمارا ہے اللہ تعالیٰ نے علاوہ عقلی دلیل کے جو ہمارے دماغ میں آئی ہے کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام واقعہ میں مسیح اور مہدی ہیں اور خدائی وعدے اور بشارتوں کے ساتھ جو قریباً معروف انبیاء میں سے سب کو دی گئی تھیں جو ایک لاکھ چوبیس ہزار میں سے جن کے نام کا بھی پتہ نہیں ان کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے.لیکن جن کے حالات ہم جانتے ہیں اور جن کے متعلق تاریخ نے ریکارڈ کر کے بعض باتیں پہنچائی ہیں ان میں سے اکثر نے خبر دی ہے خواہ انکا تعلق ایران سے تھا یا جو ہندوستان کہلاتا تھا وہاں کے بھی اور دوسرے ملکوں کے انبیاء نے بھی دی.پھر محدثین نے خبر دی.میں اکثر نائیجیریا کے حضرت عثمان بن فود یو کا ذکر کرتا ہوں جنہوں نے بڑی دلچسپ کتا میں لکھی ہیں ان پر کسی نے اعتراض کر دیا کہ تم تو کافر ہو اور کافر اس لئے ہو کہ تم نے مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 62 سال 1972ء ہے اس واسطے تم کا فر ہو.انہوں نے کہا کہ میں تو کافر نہیں ہوں میں تو خدا کا ایک عاجز بندہ ہوں لیکن یہ جھوٹا الزام ہے کہ میں نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیونکہ میں مہدی نہیں ہو سکتا اور نہ مہدی ہونے کا دعوی کر سکتا ہوں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کی جو علامات بتائی ہیں وہ میری زندگی میں پوری نہیں ہورہی ہیں لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں اور یہ بڑی دلچسپ بات ہے.اب وہ شخص عالم الغیب نہیں جو بات انہوں نے بتائی وہ اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کر کے بتائی.انہوں نے لکھا کہ ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ مہدی کے ظہور کا زمانہ بالکل قریب آگیا ہے اور اگلی ہجری صدی مہدی معہود کی ہے.اس کے بعد ۱۸۱۸ء میں وہ فوت ہوئے اور ۳۶-۱۸۳۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش ہوئی اور اگلی صدی میں دعوی کر دیا.یہ خبر تو وہ خدا تعالیٰ سے پا کر دے سکتے تھے کہ مہدی کا زمانہ بالکل قریب ہے.تو میں یہ بتا رہا ہوں کہ اگر واقعہ میں ( بلکہ ہمارا یقین ہے کہ واقعہ یہی ہے ) مرزا غلام احمد قادیانی خدا کے مسیح اور مہدی اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے اور حبیب اور سلامتی کی دعائیں حاصل کرنے والے اور اسلام کے غلبہ کو اس زمانہ میں قائم اور مستحکم کرنے والے ہیں تو پھر ساری دنیا آپ کی جماعت میں داخل ہوگی اور اس میں سعودی عرب باہر نہیں رہے گا.یہ تو ہے عقلی دلیل.اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ آپ کو یہ بھی بتایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ نظارہ دکھایا کہ سعودی عرب میں احمدی ہی احمدی ہیں.اس واسطے میں نے کہا تھا کہ یہ دروازے جو تم عارضی طور پر تو بند کر سکتے ہو ہمیشہ کیلئے بند نہیں کر سکتے لیکن جہاں تک احمدیت کے نظام کا تعلق ہے اس میں بعض لوگ بعض دفعہ غلطی کر جاتے ہیں.دوست اپنی زبان کے محاوروں کو درست رکھا کریں.ہمیں قطعاً کسی حکومت کی ضرورت نہیں ہے لیکن روحانی انتظام ہمارے ہی مشوروں سے ہوا کرے گا اور وہ ہمیں ملے گا.حکومت ہم نہیں چاہتے دنیا میں دنیوی فراستیں رکھنے والے لوگوں کو حکومتیں مبارک ہوں ہمیں حکومتوں سے کوئی غرض نہیں.بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں سے مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا
تاریخ احمدیت.جلد 28 63 سال 1972ء ہمیں کیا دلچسپی ہے حکومتوں سے.حکومتیں تو تم کو جو اس وقت حاکم خاندان ہو خدا مبارک کرے لیکن جو دینی کام ہیں وہ احمدیت ہی کو کرنے پڑیں گے انشاء اللہ اور پھر اس وقت جو اشد ترین بغض رکھنے والا اور مخالفت کرنے اور گندہ دہنی کرنے والا اور ایذا رسانی کرنے والا اور خود کو مسلمان ہونے کا اعلان کرنے والا ہوگا اس پر جماعت احمدیہ کے انتظام میں خانہ کعبہ کے دروازے بند نہیں کئے جائیں گے.انشاء اللہ.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں نے یہ دروازے کھولے ہیں کسی انسان کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان دروازوں کو بند کر دے اور کسی انسان کو یہ اخلاقی اور مذہبی جرأت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ عارضی طور پر ان دروازوں کو کسی قوم پر بند کرے مگر یہ تو نصیحت ہے جو میں آج کر رہا ہوں باقی جو واقعات اور حقائق ہیں مستقبل کے وہ اپنے وقت پر ایک ٹھوس حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آئیں گے اور ایک لحظہ کے لئے میرے دل میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہوا نہ آپ کے دل میں پیدا ہونا چاہیے.49 اس کے بعد حضور نے دسمبر ۱۹۷۰ ء کے ملکی الیکشن میں جماعتی پالیسی کی نسبت وضاحت کے ساتھ بتلا یا کہ:.ہم ایک مذہبی جماعت ہیں کسی ایک سیاسی جماعت یا پارٹی کے ساتھ ہم اتحاد نہیں کر سکتے لیکن الہی منشاء کے مطابق جو مجھ پر کئی خوابوں کے ذریعہ ظاہر ہوا ملک کے حالات کے لحاظ سے ضروری سمجھا گیا کہ اکثر مقامات پر احمدی پیپلز پارٹی کا ساتھ دیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کے افراد نے ان کا ساتھ دیا اور چونکہ احمدی باوفا قوم ہے جس جگہ قیوم لیگ کا ساتھ دیا دل سے ساتھ دیا اور پوری کوشش کی ، جس جگہ کنونشن کا ساتھ دیا وہاں بھی پوری کوشش کی.جہاں آزاد ممبروں کی حمایت کی وہاں بھی پوری کوشش کی مثلاً ضلع جھنگ ہے یہاں ہمارا مرکز ہے ایک آزاد ممبر قومی اسمبلی کا تھا اور اس کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی کا نمائندہ تھا اور ایک صوبائی اسمبلی کا آزاد ممبر تھا جس کے مقابلے پر ہمارے کہنے پر پیپلز پارٹی نے آدمی کھڑا نہیں کیا تھا یہ دونوں اچھے ووٹوں سے منتخب ہو گئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکثر جماعتوں کے شاید
تاریخ احمدیت.جلد 28 64 سال 1972ء نوے فیصد یا اس سے بھی زیادہ احباب کا فیصلہ یہی تھا کہ پیپلز پارٹی کا ساتھ دینا ہے چونکہ مختلف حلقہ ہائے انتخاب میں جماعت احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ملک کی فلاح اور بہبود کی خاطر ان کے نزدیک (جو بھی اللہ تعالیٰ نے کسی کو عقل و فراست عطا کی تھی اسی کے مطابق اس نے کام کرنا ہے) پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے چاہیے تھے ان کو کامیاب کروانا چاہیے تھا.چنانچہ انہوں نے کوشش کی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بڑی بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گئے.اگر مغربی پاکستان میں کوئی ایک پارٹی اس طرح کامیاب نہ ہوتی جس طرح پیپلز پارٹی ہوئی ہے تو آج ہمارا حال مشرقی پاکستان سے بھی زیادہ بدتر ہونا تھا.یہ خدائی مصلحت تھی وہ غیب کی باتیں جانتا ہے.50 66 حضور نے اپنے خطاب کے آخر میں ۱۹۵۳ء کی ایجی ٹیشن اور مخالف علماء کے احمدیوں کے خلاف فتاوی کفر پر تبصرہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا کہ:.اب پھر کسی نے مجھے کہا ہے کہ بعض علماء ظاہر بڑی خوشی سے یہ باتیں کر رہے ہیں کہ دستور میں ہم یہ شق ضرور رکھوائیں گے کہ جماعت احمد یہ غیر مسلم اقلیت ہے اس کا جواب مجھے دو گروہوں کو ، دو جماعتوں کو دینا چاہیے.ایک تو علماء ظاہر، ان کو تو میں کہوں گا کہ اسی سالہ کفر کے فتوے(ساٹھ سال کے بعد تو انہوں نے یہ کوشش کی تھی کہ حکومت بھی کفر کے فتوے میں شریک ہومگر حکومت شریک نہیں ہوئی اس میں بھی ان کو ناکامی ہوئی) نا کام ہو چکے ہیں اور آج سے ہیں سال قبل آپ نے اپنی ناکامی کا اعلان کر دیا تھا.جس دن آپ نے حکومت سے کہا احمدیوں پر کفر کا فتویٰ لگاؤ تو گویا آپ نے اپنی ناکامی کا اعلان کر دیا.اسی سال سے آپ ناکام ہوتے چلے آرہے ہیں اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت نے سنبھالا نہیں تو اگر یہ دنیا اسی کروڑ سال تک قائم رہی تو آپ اسی کروڑ سال تک نا کام ہوتے رہیں گے اور ہم تو زندہ رہنے اور زندگی دینے کے لئے پیدا ہوئے ہیں.روحانی مردوں کو زندگی عطا کریں گے اور وہ کامل زندگی، وہ روشن زندگی ، وہ منور زندگی ہماری وجہ سے یا ہمارے ذریعہ سے اللہ کے فضل سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل ان کو ملے گی کہ ان کے دل ہمارے لئے شکر کے جذبات سے معمور ہو جائیں گے.وہ تمہارے کفر کے فتووں کو
تاریخ احمدیت.جلد 28 65 سال 1972ء قبول کرنا تو کیا، پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھنا تو کیا، انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھیں گے.گو وہ اسلامی تعلیم کے مطابق شائستہ گفتگو کریں گے تمہارے خلاف گند نہیں اچھالیں گے.ناکامی کے خمیر سے تم بنے ہو اور ہماری فطرت میں نا کامی کا کوئی خمیر ہے ہی نہیں.پس یہ تو ان مولویوں کو جواب ہے لیکن حکومت کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہیں خدا نے مفتی نہیں بنایا.اس واسطے صحیح یا غلط ( میں کہتا ہوں کہ صحیح فتوی دینے کا بھی انہیں حق نہیں اس لئے صحیح یا غلط ) فتووں میں نہ الجھو کیونکہ اس سے ہمارے ملک کو ایسا نقصان پہنچے گا جس کی تلافی پھر ممکن نہیں ہوگی.دوسرے انہیں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارے لئے حکم یہ ہے کہ تم خدا اور اس کے رسول کے ارشادات کی پیروی کرو یہی ہے اسلامی سیاست اور اسلامی معاشرہ.تم کفر کے فتوے دے کر خوشی اور مسرت کے سامان پیدا نہیں کرو گے بلکہ دکھ اور حسرت اور تکلیف کے سامان پیدا کرنے والے ہو گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ تمہارے اوپر لگے گا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ کہ میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مسلمان کہلانے والا جو بھی ہے دنیا میں اس کو یہ شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے اپنے ہاتھ یا زبان سے تکلیف نہ پہنچائے.تو اگر حکومت نے اس قسم کی غلط جرات سے کام لیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ ہے کہ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ تمہارے اوپر یہ ہوگا کہ تم خود مسلم نہیں رہو گئے.51 ابادان ( نائیجیریا) کی ایک خاتون کی طرف سے مسجد کا تحفہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے تاریخی دورہ مغربی افریقہ (اپریل، مئی ۱۹۷۰ء) کے دوران الحاجہ فاطمہ نے اجیبو اوڈے میں کثیر رقم سے تیار شدہ مسجد حضور کی خدمت میں پیش کی تھی جس کا افتتاح حضور نے فرمایا اور ان کے اخلاص و قربانی کی تعریف فرمائی.اس سال ابادان کی ایک غیر از جماعت مخیر خاتون الحاجہ ثریا اگبا نجے صاحبہ نے بھی اس نیک مثال کی تقلید کی اور ایک ہزار پاؤنڈ سے بنی ہوئی مسجد جماعت احمدیہ کے سپر د کر دی.یہ مسجد موصوفہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 66 سال 1972ء نے ۱۹۶۶ء میں تعمیر کرائی تھی.جماعت احمد یہ ابادان نے ۶ ا پریل ۱۹۷۲ء کو اس تحفہ کو قبول کرنے کے لئے ایک خصوصی تقریب منعقد کی جس میں مولوی محمد اجمل صاحب شاہد انچارج مشنری نائیجیریا نے اس مخیر خاتون کے جذبہ دینی کو سراہتے ہوئے بتایا کہ خدا کا یہ گھر ہمیشہ الحاجہ ثریا اور ان کے والد ماجد کی طرف سے صدقہ جاریہ رہے گا اور اگر چہ اسے جماعت احمدیہ کی تحویل میں دیا گیا ہے لیکن اس کے دروازے بلا تمیز خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے کھلے ہیں.اس موقعہ پر الحاجہ ثریا نے مختصر تقریر کے بعد مسجد کی چابیاں مولوی محمد اجمل صاحب شاہد کو پیش کیں.آپ نے نعروں کی گونج میں دروازہ کھولا اور پھر اجتماعی دعا کرائی.52 دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں ایک الوداعی تقریب ۷ را پریل ۱۹۷۲ء کی شام کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ کے عملہ کی طرف سے ایک الوداعی تقریب منعقد کی گئی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بھی شرکت فرمائی اور عملہ کے ساتھ فوٹو بنوائی.مکرم بشیر احمد رفیق خان صاحب نہایت کامیابی کے ساتھ ایک سال تک پرائیویٹ سیکرٹری کی اہم خدمات بجالانے کے بعد اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے واپس انگلستان تشریف لے جارہے تھے.دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے رکن محمد سلیم صاحب نے الواداعی ایڈریس میں ان کے حسن سلوک، محبت و خلوص اور باغ و بہار طبیعت کا ذکر کرنے کے بعد انہیں نہایت پر خلوص طور پر الوداع کہا.اجتماعی دعا پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.53 جماعت احمدیہ کراچی کا ذکر خیر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں کراچی کو مثالی جماعت قرار دیتے ہوئے فرمایا:.دوستوں کی بڑی بھاری اکثریت ایسی ہے جو بحیثیت جماعت ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہے اور وہ عملاً دے بھی رہے ہیں اور بہت بھاری اکثریت ایسے دوستوں کی ہے جو سلسلہ کے کاموں کے لئے اپنا وقت قربان کرتے ہیں.اپنے آرام کو قربان کرتے ہیں اپنی توجہ کو قربان کرتے ہیں مثلاً وہ اپنی توجہ اپنے بیوی بچوں کی طرف پھیر سکتے تھے مگر وہ اپنی اس توجہ کو الہی سلسلہ کے کاموں کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 67 سال 1972ء طرف پھیر دیتے ہیں وہ درد جو اپنے محدود ماحول کے لئے ان کے دلوں میں پیدا ہو سکتا تھا وہی درد وہ جماعت کے لئے اور پھر بنی نوع انسان کے لئے اپنے دل میں پیدا کرتے ہیں اور خدمت کے جذبہ سے معمور ا کثر خدمت خلق میں مشغول رہتے ہیں.چنانچہ ایسی مثالیں کثرت سے ہیں جن میں اس وقت بڑی نمایاں مثال جماعت احمدیہ کراچی کی ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں جہاں تک مالی قربانی کا سوال ہے ساری جماعت ہی مالی قربانی دینے کے لئے تڑپتی رہتی ہے لیکن جہاں نظام قائم ہو اور نظام میں پختگی پائی جاتی ہو وہاں کے بہت سے دوست یہ سمجھتے ہیں کہ نظام کے ماتحت محصل جائے گا اور وہ پیسے وصول کرے گا اور رسید میں دے گا.پس احباب میں چندے دینے کی تڑپ کی کمی نہیں ہوتی.یہ نظام کی سستی یا نظام میں چستی کی کمی ہوتی ہے کہ جس کی وجہ سے وقتی طور پر ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ فلاں حلقہ مالی قربانیوں کے دینے میں پیچھے رہ گیا ہے.جہاں تک وقت کی قربانی کا سوال ہے اس کے متعلق میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا کہ خود میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ وہ لوگ جو بظاہر اپنے دنیا کے کاموں میں پڑے ہوئے ہیں وہ پانچ پانچ چھ چھ گھنٹے اور بعض دفعہ تو میرا خیال ہے کہ ہمارے صدر انجمن احمد یہ اور دوسرے اداروں کے کارکنوں سے بھی زیادہ وقت رضا کارانہ طور پر جماعتی کاموں کے لئے خرچ کرتے ہیں اور بڑی محنت اور بڑے پیار اور بڑی توجہ کے ساتھ کام کرتے ہیں اور سلسلہ احمدیہ جسے خدا تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے لئے قائم فرمایا ہے اس کے لئے تڑپ رکھتے ہیں اور اس کی ترقی کے لئے دن رات محنت میں لگے ہوئے ہیں.اب جس جماعت کے عہدیدار اس قسم کی لگن کے ساتھ کام کرتے ہیں.ظاہر ہے کہ وہ جماعت مالی قربانیوں میں بھی آگے نکل جاتی ہے.چنانچہ ابھی کل ہی مجھے جماعت احمدیہ کراچی کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے اپنے سالانہ بجٹ سے قریباً دس ہزار روپیہ زائد جمع کر دیا ہے حالانکہ ابھی موجودہ مالی سال ختم نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.اب یہ بڑا خوشکن نتیجہ ہے ہزار ہا دوست مالی قربانی دینے والے کراچی کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 68 سال 1972ء جماعت میں شامل ہیں.انہوں نے بحیثیت مجموعی بڑی اچھی قربانی دی ہے.انہوں نے جو وعدے کئے تھے ان میں وہ آگے نکل گئے ہیں.پھر جہاں تک وقت کی قربانی کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی کراچی نے بڑی قربانی دی ہے.وہاں کا جماعتی نظام پورا چوکس اور بیدار ہے.علاوہ ازیں پورے سال کے کام کو سارے سال پر پھیلا کر کرنے کی بدولت بھی وہ اچھا نتیجہ نکالنے میں کامیاب ہو گئے.ممکن ہے اسی طرح کی بعض اور جماعتیں بھی ہوں کیونکہ بہت سارے دوستوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ اپنا بجٹ پورا کر چکے ہیں.میں نے ہر ایک سے یہی کہا تھا کہ اپنے بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دو.اب بجٹ سے دس فیصدی زیادہ چندے دوست دے سکتے ہیں یا نہیں یہ تو خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال کو وصول کرنے کی ایک زائد خواہش ہے اور ان لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ کی راہ میں مال دینے کی ایک زائد خواہش ہے تاہم کئی دوسری جگہوں سے بھی اطلاع آئی ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنا بجٹ پورا کر دیا ہے بلکہ اس سے آگے نکل گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو جزائے خیر عطا فرمائے.54 حضور انور کی طرف سے مبلغین کی ریفریشر کلاس کو دعوت عصرانہ حضور انور نے از راہ شفقت مبلغین کی ریفریشر کلاس کو قصر خلافت کے خوشنما باغ میں دعوت چائے پر بلایا تھا یہ ریفریشر کلاس حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں ایک ماہ کے لئے جاری کی گئی تھی.اس کے انچارج مکرم عبدالوہاب صاحب آدم تھے.حضور دوران کورس دو مرتبہ کلاس میں تشریف لائے اور بعض اہم دینی مسائل پر نہایت عام فہم انداز میں روشنی ڈالی.حضور کی طرف سے دیئے گئے اس عصرانہ میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری حدیقہ المبشرین اور مکرم صاحبزادہ عبدالحمید صاحب آف ٹوپی کو بھی شمولیت کی سعادت نصیب ہوئی.55 آئین پاکستان میں مسلمان کی تعریف کا مسئلہ فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کے سلسلہ میں جو تحقیقاتی عدالت وسط ۱۹۵۳ء میں قائم ہوئی اس کے فاضل جوں نے متعد دعلماء سے عدالت میں مسلمان کی تعریف پوچھی تو ہر ایک عالم دین نے الگ الگ
تاریخ احمدیت.جلد 28 69 سال 1972ء جواب دیا.معزز جج صاحبان ) جسٹس محمد منیر اور ایم آر کیانی) نے اپنی رپورٹ میں یہ تمام جوابات علماء ہی کے الفاظ میں درج کرنے کے بعد لکھا:.ان متعد د تعریفوں کو جو علماء نے پیش کی ہیں پیش نظر رکھ کر کیا ہماری طرف سے کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ بجز اس کے کہ دین کے دو عالم بھی اس بنیادی امر پر متفق نہیں ہیں اگر ہم اپنی طرف سے مسلم کی کوئی تعریف کر دیں جیسے ہر عالم دین نے کی ہے اور وہ تعریف ان تعریفوں سے مختلف ہو جو دوسروں نے پیش کی ہیں تو ہم کو متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا اور اگر ہم علماء میں سے کسی ایک کی تعریف کو اختیار کر لیں تو ہم اُس عالم کے نزدیک تو مسلمان رہیں گے لیکن دوسرے تمام علماء کی تعریف کے رُو سے کافر ہو جائیں گئے.56 سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کی پہلی منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس (بتاریخ ۱۴ را پریل ۱۹۷۲ء) میں ایک خاص طبقہ کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ عبوری آئین میں مسلمان کی تعریف کیوں نہیں کی گئی.اس پر جناب کوثر نیازی صاحب وزیر اطلاعات و نشریات نے جواب دیا کہ اس مسئلہ پر علماء کے درمیان شدید اختلاف رائے پایا جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ ۱۹۵۶ء کے آئین میں بھی جس کے دن رات گن گائے جاتے ہیں مسلمان کی کوئی تعریف پیش نہیں کی گئی تھی.مولانا نے بتایا کہ اسلام ایک مذہب ہے اور اسے مختلف فرقوں میں تقسیم نہیں کیا جانا چاہیے.علماء سوء وہ لوگ ہیں جو اسلام میں تفرقہ پیدا کرتے ہیں.انہوں نے اس امر پر اظہار افسوس کیا کہ علماء نے خود کو مختلف گروپوں میں بانٹ لیا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمان کی تعریف پر بھی متفق نہیں ہو سکتے اور مختلف گروپوں کی طرف سے اسلامی نظریات و اصطلاحات کی مختلف تشریحات کی جاتی ہیں.انہوں نے علماء کو چیلنج کیا کہ وہ مسلمان کی کوئی متفقہ تعریف پیش کریں جسے حکومت فورا تسلیم کر لے گی.57 اسی طرح مدیر چٹان جناب شورش کا شمیری صاحب نے مسلمان کی تعریف کے زیر عنوان ایک نوٹ لکھا جس میں مسلمان کی تعریف کے لئے قرآن کریم اور احادیث نبوی سے مختلف حوالے دیئے لیکن حیرت ہے کہ جب جماعت احمدیہ کے خلاف فیصلہ کیا گیا تو بیک جنبش قلم ان تمام حوالوں کو نظر انداز کر کے وہ تعریف کی گئی جس کا ذکر قرآن وحدیث میں کہیں نہیں پایا جاتا.شورش صاحب نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ صدر بھٹو کے وزیر اطلاعات قومی اسمبلی میں فرماتے
تاریخ احمدیت.جلد 28 70 سال 1972ء ہیں کہ ' (۱) علماء کی کوئی سی کمیٹی مسلمان کی تعریف پیش کرنے کیلئے مقرر کی جائے تو وہ کبھی متفقہ تعریف پیش نہیں کر سکے گی.(۲) میں علماء کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں تعزیرات پاکستان پر نظر ثانی کر کے قوانین کا مسودہ پیش کریں تو حکومت اسے منظور کر لے گی...محولہ بالا دونوں سوال جو وزیر اطلاعات نے اٹھائے ہیں علماء و مشائخ کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں.خواجہ قمر الدین سیالوی بھی سیاست میں تشریف فرما ہیں.مولانا مفتی محمود تو قومی اسمبلی کے اکابر میں سے ہیں اول تو ان کا فرض تھا کہ اس کا جواب کھڑے کھڑے وہیں دیتے لیکن اب عند اللہ وعند الناس اس کی جوابدہی ان کا فرض ہو گیا ہے.اگر وہ مسلمان کی تعریف نہ کر سکے تو بہت سے لوگ سوچیں گے ہم مسلمان بھی ہیں یا نہیں.58 حق یہ ہے کہ اسلام کے دین کامل ہونے کا یہ بھی ایک واضح ثبوت ہے کہ جہاں دوسرے تمام مذاہب کی آسمانی اور ان کے نبیوں اور رشیوں کی طرف سے اپنے ماننے والوں کے لئے کوئی جامع نام اور اس کی کوئی معین تعریف موجودہ مذہبی لٹریچر میں آج نہیں ملتی وہاں قرآن مجید اور حدیث نبوی میں مسلم کی معین تعریف موجود ہے مثلاً قرآن کریم میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.اول: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ اَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنَّا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيُوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ( النساء: ۹۵) ”اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کر و اور مت کہو اس شخص کو جو تم سے سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں تم چاہتے ہو اسباب دنیا کی زندگی کا سواللہ کے ہاں بہت قیمتیں ہیں.تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے پہلے پھر اللہ نے تم پر فضل کیا سواب تحقیق کر لو بیشک اللہ تمہارے کاموں سے خبر دار ہے“.(ترجمہ از علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی ) اس آیت کریمہ کے شان نزول میں لکھا ہے.(ترجمہ) رسول الله سلاا اینم نے ایک چھوٹا لشکر بنو ضمرہ کی طرف بھیجا جس پر حضرت اسامہ امیر تھے.وہ ایک ایسے آدمی کو ملے جسے مرد اس بن نہیک کہتے جس کے پاس اس کا ریوڑ اور سرخ اونٹ تھا جب اس نے صحابہ کو دیکھا
تاریخ احمدیت.جلد 28 71 سال 1972ء تو پہاڑ کی ایک غار میں ان کو لے گیا.حضرت اسامہ نے اس کا پیچھا کیا.جب مرد اس غار تک پہنچا وہاں اپنا ریوڑ چھوڑا اور صحابہ کی طرف آیا ، کہا السلام عليكم أشهد أن لا اله الا الله و أن محمدا رسول اللہ.حضرت اسامہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اس کے اونٹ اور ریوڑ کی وجہ سے اسے قتل کر دیا.نبی کریم صلی سیستم جب حضرت اسامہ کو بھیجتے تو پسند کرتے کہ حضرت اسامہ کی تعریف کی جائے اور اس کے ساتھیوں سے اس کے بارے میں پوچھتے.جب یہ صحابہ لوٹے تو صحابہ سے اس کے بارے میں سوال نہ کیا.قوم حضور صلی شیتم سے گفتگو کرنے لگی اور عرض کی یا رسول اللہ مالی ای ام کاش آپ اسامہ کو اس وقت دیکھتے جب کہ انہیں ایک آدمی نے کہالا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ تو حضرت اسامہ نے اس پر حملہ کر دیا اور اسے قتل کر دیا جبکہ حضور ملی پیام ان صحابہ سے اعراض کر رہے تھے.جب انہوں نے زیادہ باتیں کیں تو حضور صلی ایم کیو ایم نے اپنا سر حضرت اسامہ کی طرف اٹھایا، پوچھا تیرا اور لا الہ الا اللہ کا کیا معاملہ ہوگا.حضرت اسامہ نے عرض کی اس نے یہ کلمہ جان بچانے کے لیے کہا تا کہ وہ بچ جائے.رسول اللہ صلی سی ایم نے فرما یا تو نے اس کا دل کیوں نہیں چیر لیا تا کہ تو دیکھ لیتا.اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں یہ آیت نازل فرمائی اور خبر دی کہ حضرت اسامہ نے اس کو اونٹ اور ریوڑ کی وجہ سے قتل کیا ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عرض الحیاة الدنیا کے الفاظ فرمائے ہیں.جب یہ الفاظ فرمائے فمن اللہ علیکم تو ان کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر رحمت فرمائی.حضرت اسامہ نے قسم اٹھائی کہ اس آدمی کے بعد وہ کسی ایسے آدمی کو قتل نہیں کریں گے جو لا الہ الا اللہ کہتا ہوگا.اور اس کے بعد رسول اللہ صلی سی ای ایم سے انہوں نے یہ رویہ نہ دیکھا.59 بیقی و ابو نعیم نے قبیصہ بن ذریب سے روایت کی انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے مشرکین کے لشکر پر حملہ کیا تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تو مسلمانوں میں سے ایک شخص مشرکوں کے ایک آدمی سے ملا.وہ بھاگا ہوا تھا جب مسلمان نے ارادہ کیا کہ تلوار اٹھا کر اسے مارے تو وہ کہنے لگا ”لا الہ الا اللہ تو اس مسلمان نے اسے نہ چھوڑا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا.اس کے بعد اس کے قتل کی بابت مسلمان کے دل میں خدشہ پیدا ہوا اور اس نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس کے دل میں جھانک کر دیکھ لیا تھا.کچھ دنوں کے بعد وہ قاتل شخص فوت ہو گیا اور اسے دفن کر دیا.جب دوسرا دن ہوا تو وہ زمین پر باہر تھا اس کے گھر کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ واقعہ بیان کیا.آپ نے فرمایا اسے دفن کر دو.تو انہوں نے اسے دفن کر دیا.پھر جب دوسرا دن ہوا تو دیکھا کہ وہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 72 سال 1972ء زمین کے اوپر باہر ہے، ایسا تین مرتبہ ہوا.اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانو ! سنو زمین اس سے زیادہ شریر کو قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم نصیحت و عبرت حاصل کرو تا کہ تم میں سے کوئی شخص اس آدمی کے قتل کرنے میں جلد بازی نہ کرے جو لا الہ الا اللہ کی گواہی دے یا کہے کہ میں مسلمان ہوں.جاؤ بنی فلاں کی گھائی میں اسے دفن کر دو اور زمین اسے قبول کر لے گی.تو انہوں نے اس گھاٹی میں اسے دفن کر دیا.دوم: صحیح بخاری میں ہے: "مَنْ صَلَّى صَلُوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبَلتَنَا وَ اكَلَ ذَبِيحَتَنَا ،، فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِى لَهُ ذِمَّةُ الله وَ ذِمَّة رَسُوْلِ اللَّهُ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهُ فِي ذِمَّتِهِ 60 ترجمہ : جو شخص ہماری طرح نماز پڑھتا ہے.ہمارے قبلے کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کوکھا تا ہے وہ مسلمان ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے پس اے مسلمانو اس کو کسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اس کے عہد میں جھوٹا نہ بناؤ.وو اس حدیث کے پیش نظر سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی امیر جماعت اسلامی اپنی تصنیف دستوری سفارشات اور ان پر تنقید و تبصرہ میں لکھتے ہیں:.اسلامی حکومت کا چوتھا اصول یہ ہے کہ اس میں لوگوں کو جان، مال اور عزت کے تحفظ کی جو ضمانت دی جائے گی وہ کسی شخص یا گروہ کی طرف سے نہیں بلکہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی جائے گی اور قانون خداوندی کے سوا کسی دوسرے قانون کے تحت کسی شخص کے ان بنیادی حقوق پر ہاتھ نہ ڈالا جا سکے گا اور دستوری قاعدے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:.جس شخص نے وہ نماز ادا کی جو ہم ادا کرتے ہیں اس قبلہ کی طرف رخ کیا جس کی طرف ہم رخ کرتے ہیں اور ہمارا ذبیحہ کھا یا وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے پس تم اللہ کے دیئے ہوئے ذقے میں اس کے ساتھ دغا بازی نہ کرو“.اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ اسلامی حکومت میں شہریوں کو بنیادی حقوق کی جو ضمانت دی جاتی ہے وہ دراصل خدا اور رسول کی طرف سے نیا بنہ دی جاتی ہے اور اگر کوئی حکومت یہ ضمانت دینے کے بعد قانونِ الہی کے سوا کسی دوسرے طریقے پر شہریوں کے اس حق کو چھینے تو وہ دراصل خدا کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 28 73 سال 1972ء وو دغا بازی کی مجرم ہے.ایک اور حدیث میں حضور نے اس دستوری مسئلے کو یوں بیان فرمایا ہے.مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں پھر جب وہ ایسا کر دیں تو وہ مجھ سے اپنی جانیں بچالیں گے الا یہ کہ اسلام کے حق کی بنا پر ان سے تعریض کیا جائے اور ان کے باطن کا حساب اللہ کے ذقے ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اسلامی حکومت کے فرمانروا کی حیثیت سے ہے لہذا آپ کے بعد آپ کے نام پر جو حکومت بھی بنے گی، اس کا یہی قانون ہوگا یعنی وہ اگر کسی کو تحفظ کے اس حق سے محروم کرے گی تو حق الاسلام کی بنا پر کرے گی اور وہ لوگوں کے باطن کا حساب اپنے ہاتھ میں نہ لے گی بلکہ اللہ پر چھوڑ دے گی اس کا معاملہ لوگوں کے ساتھ ان کے ظاہری اعمال کے لحاظ سے ہوگا وہ یہ نہیں دیکھتی پھرے گی کہ کون کیا سوچ رہا ہے کیا کرنا چاہتا ہے اور کیا کرنے والا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر ایک لاکھ سے زیادہ مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا فان دماء کم و اموالکم و اعراضکم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا.تمہاری جانیں، تمہارے مال، تمہاری آبرو ئیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن.یہ الفاظ قیامت تک کے لئے اسلامی حکومت کی رعایا کے بنیادی حقوق کا چارٹر ہیں.61 صدق جدید کا ایک بے لاگ تبصرہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب قرآن وحدیث میں چودہ سو سال قبل مسلم کی واضح تعریف موجود ہے تو پھر علماء اسے چھوڑ کر ایک نئی تعریف کی دریافت و تلاش میں کیوں سرگرداں پھر رہے تھے؟ اس کا جواب ایک غیر جانبدار ہندی مبصر کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے جو رسالہ ”صدق جدید لکھنو مورخہ ۶ دسمبر ۱۹۵۷ء میں اشاعت پذیر ہوا.فرماتے ہیں:.”بیشک لفظ مسلمان کی تعریف ضرور شائع ہونی چاہیے.مگر اس کی تعریف علماء کرام ہی فرمائیں گے تو ہو گی.اس کے صرف دو طریقے ہو سکتے ہیں اول یہ کہ جس فرقہ کو اسلام سے خارج کرنا یا اسے کافر قرار دینا ہو اسے پہلے سے ذہن میں محفوظ رکھیں اور پھر مسلمان کی کوئی ایسی تعریف نکالیں جس میں صرف وہی فرقے داخل ہو سکیں جن کو تعریف کرنے والے داخل کرنا چاہیں.مگر یہ طریقہ اختیار کرنے سے علماء کو بڑا تکلف کرنا ہوگا.پہلے سے مسلمان کی تعریف کئے بغیر یہ فیصلہ کر لینا
تاریخ احمدیت.جلد 28 74 سال 1972ء کہ فلاں فرقہ اسلام سے خارج ہے اور پھر اپنی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کتاب وسنت کے ساتھ زور آزمائی کرنا بڑی محنت اور ساتھ ہی بڑی بددیانتی چاہتا ہے اگر ہر فرقہ نے دوسرے فرقہ کو اسلام سے نکالنے کے لئے لفظ مسلمان کی کوئی من مانی تعریف کی تو کسی ایک تعریف پر بھی اتفاق نہ ہو سکے گا اور نتیجہ میں کوئی فرقہ بھی مسلمان ثابت نہ ہو گا.لیجئے میدان صاف اور لفظ مسلمان کی تعریف معلق.روز روز کے جھگڑوں سے نجات اور مسلمان در گور و مسلمانی در کتاب.دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کتاب وسنت کے الفاظ میں پہلے سے فیصلہ کئے بغیر ایمانداری سے مسلمان کی تعریف تلاش کی جائے.نہ تو ذہن میں یہ ہو کہ فلاں فرقہ کو ضرور مسلمان ثابت کرنا ہے نہ یہ کہ فلاں فرقہ کو اسلام سے نکالنا ہے.کتاب اللہ اور اقوال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے انہی کے الفاظ میں مسلمان کی تعریف اخذ کر لی جائے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی جائے کہ اس کی رو سے کون مسلمان اور کون کافر قرار پاتا ہے.جو فرقہ بھی اس تعریف میں آتا ہو اسے آنے دو اور جو اس سے نکلتا ہوا سے نکل جانے دو نہ تو کسی کو زبر دستی داخل کرو اور نہ زبردستی نکالو.اگر کوئی تعریف سب کو اسلام کی آغوش میں لیتی ہے تو تم بھی اسے گلے لگاؤ اور اسے دھکے دینے کی کوشش نہ کرو.“ 66 مندرجہ بالا وضاحت سے صاف کھل جاتا ہے کہ علماء کتب و سنت کو پس پشت ڈال کر کسی ایسی نئی تعریف یا اسلام کے ایک ایسے نئے کلمہ کی تلاش میں سرگرم عمل تھے کہ جس کے نتیجہ میں اسلام اور کلمہ طیبہ کی بنیاد خواہ متزلزل ہو جائے مگر احمد یوں کو دائرہ اسلام سے ضرور خارج کر دیا جائے.چین کے سفیر چانگ تنگ کی ربوہ آمد پاکستان میں چین کے سفیر چانگ تنگ سفارتخانہ چین کے تھر ڈسیکرٹری مسٹر چین سونگ ٹو کی معیت میں ۱۷ را پریل ۱۹۷۲ء بروز پیر دو پہر اسلام آباد سے بذریعہ ہوائی جہاز لائلپور تشریف لائے.جہاں ہوائی اڈہ پر محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ناظر امور عامه صدر انجمن احمد یہ پاکستان آپ کے استقبال اور مشایعت کے لئے پہلے سے موجود تھے.لائلپور کے ہوائی اڈہ سے آپ محترم باجوہ صاحب کی معیت میں بذریعہ موٹر کا رر بوہ تشریف لائے.استقبال ربوہ میں آپ کے استقبال کی خصوصی تیاریاں کی گئی تھیں.لائلپور سے سرگودہا جانے والی سڑک
تاریخ احمدیت.جلد 28 75 سال 1972ء سے لے کر تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس تک جہاں آپ نے قیام کرنا تھا شارع مبارک (وہ سڑک جس پر مسجد مبارک واقع ہے ) کو پاکستان اور چین کے لا تعداد چھوٹے چھوٹے جھنڈوں سے آراستہ کیا گیا تھا.اہل ربوہ مقررہ وقت سے قبل ہی شارع مبارک کے دونوں طرف اور اس کے ساتھ ساتھ پھیلے ہوئے گھاس کے قطعات میں جمع ہونے شروع ہو گئے تھے.تین بجے سہ پہر تک احباب ایک بہت ہی کثیر تعداد میں آجمع ہوئے.بچے، بوڑھے اور جوان سب صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس راستہ کے دونوں طرف قطار در قطار بہت نظم و ضبط کے ساتھ کھڑے تھے.سکولوں کے بچوں نے ہاتھوں میں پاکستان اور چین کے چھوٹے چھوٹے خوشنما جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے.گیسٹ ہاؤس کے باہر سڑک پر ایک بہت خوبصورت اور وسیع و عریض شامیانہ میں صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے صدران کرام نیز ناظر ، وکلاء اور ناظم صاحبان، فضل عمر فاؤنڈیشن ، حديقتة المبشرین اور مجلس نصرت جہاں کے عہد یداران تعلیمی اداروں کے سربراہان اور بعض امراء اضلاع ایک نظام کے ماتحت صف بستہ ایستادہ تھے.اکرام ضیف کے پیش نظر سوا تین بجے خود سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی استقبال کیلئے تشریف لے آئے.ساڑھے تین بجے سہ پہر جو نہی سفیر موصوف کی کارسرگودہا جانے والی پختہ سڑک سے شارع مبارک کی طرف مڑی اور ربوہ کی بستی کے اندر داخل ہوئی تو سرا پا شوق اہل ربوہ نے ایک نظام کے ما تحت أَهْلًا وَ سَهْلًا وَ مَرْحَبًا اور چینی زبان میں ”خوش آمدید کے پرجوش نعرے بلند کر کے اور ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے پاکستان اور چین کے چھوٹے چھوٹے جھنڈے ہلا ہلا کر اپنے معزز مہمان کا نہایت پر تپاک خیر مقدم کیا.جب تک موٹر کار اس راستہ پر سے گزرتی رہی اہل ربوہ جماعت احمدیہ کے چینی نژاد مبلغ اسلام مکرم محمد عثمان صاحب چینی کی اقتداء میں خیر مقدمی نعرے لگاتے رہے اور سفیر موصوف ہاتھ ہلا ہلا کر اور اردو میں شکریہ شکریہ کہ کہ کر بڑے ہی تقسم ریز چہرے کے ساتھ ان نعروں کا جواب دیتے رہے.جب موٹر کار گیسٹ ہاؤس کے باہر شامیانہ کے قریب آ کر رکی تو حضور انور نے موٹر کار کے قریب تشریف لے جا کر سفیر موصوف کا استقبال کیا اور خوش آمدید کہا.بعد ازاں آپ حضور انور کی معیت میں شامیانہ میں تشریف لائے جہاں محترم باجوہ صاحب نے آپ سے مرکزی انجمنوں کے صدران کرام، ناظر و وکلاء صاحبان تعلیمی اداروں کے سربراہان اور دیگر احباب کا تعارف کرایا.تعارف سے فارغ ہونے کے بعد سفیر موصوف حضور انور، محترم صاحبزادہ مرزا
تاریخ احمدیت.جلد 28 76 سال 1972ء مبارک احمد صاحب اور مکرم سید داؤ د احمد صاحب کی معیت میں گیسٹ ہاؤس کے اندر تشریف لے گئے.چند منٹ سفیر موصوف سے باتیں کرنے کے بعد حضور ان سے رخصت ہو کر قصر خلافت واپس تشریف لے آئے.دعوت چائے کا اہتمام پانچ بجے شام حضور انور نے سفیر موصوف کے اعزاز میں قصرِ خلافت کے عقبی لان میں وسیع پیمانہ پر دعوت چائے کا اہتمام کرایا.اس میں سفیر موصوف کے علاوہ مرکزی عہدیداران جماعت ، صوبائی امراء، ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلباء، گورنر پنجاب کے مشیر جیل خانہ جات محترم صوفی نذرمحمد صاحب اور صوبائی اسمبلی کے بعض ممبران نے بھی شرکت فرمائی.دعوت چائے سے فارغ ہونے کے بعد سفیر موصوف موٹر کار کے ذریعہ نوتعمیر شدہ نہایت وسیع و عریض جامع مسجد کی عالیشان عمارت جو مسجد اقصی کے نام سے موسوم ہے دیکھنے تشریف لے گئے.آپ اسلامی طریق کے مطابق جوتے اتار کر مسجد میں داخل ہوئے اور عمارت کے تفصیلی معاینہ کے بعد بہت پسندیدگی کا اظہار فرمایا.اس موقع پر آپ نے مسجد کی چھت پر جا کر بلندی سے ربوہ کے شہر پر طائرانہ نظر ڈالی اور شہر کی وسعت اور پھیلاؤ کا جائزہ لیا.بعد ازاں آپ نے موٹر کار میں بیٹھے بیٹھے ہی اس علاقہ کی سیر کی جس میں ربوہ کے تعلیمی ادارے اور کھیل کے میدان واقع ہیں.دعوت طعام رات کو ساڑھے آٹھ بجے اہل ربوہ کی طرف سے مجلس خدام الاحمدیہ کے وسیع وعریض ہال ایوان محمود میں بہت وسیع پیمانہ پر دعوت طعام کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر ایوان محمود کو اندر سے بہت نفاست اور نظافت کے ساتھ سجایا گیا تھا.اس دعوت میں جو احباب مدعو تھے ان میں مرکزی عہد یداروں کے علاوہ صوبائی اور بعض ضلعی امراء جماعت، بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے مبلغین اسلام نیز ربوہ میں دینی تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلباء بھی شامل تھے.اکرام ضیف کے جذبہ کے ماتحت از راہِ شفقت حضور انور نے بھی اس میں شرکت فرمائی.علاوہ ازیں اس موقع پر گورنر پنجاب کے مشیر جیل خانہ جات محترم صوفی نذر محمد صاحب اور محترم غلام مرتضی صاحب پراچہ ڈپٹی کمشنر جھنگ بھی تشریف لائے ہوئے تھے.دعوت طعام کے اختتام پر سفیر موصوف
تاریخ احمدیت.جلد 28 77 سال 1972ء حضور انور کی معیت میں ہال کے وسط میں تشریف لائے جہاں سب حاضرین نے باری باری آپ سے مصافحہ کیا.آپ نے بالخصوص بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے مبلغین اسلام سے مل کر بہت مسرت کا اظہار فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کے متعلق دریافت فرمایا کہ انہوں نے دنیا کے کس کس ملک میں کتنا کتنا عرصہ فریضہ تبلیغ ادا کیا ہے.جماعتی دفاتر کا معاینہ اگلے روز (۱۸ را پریل) کو سفیر موصوف نے محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ کی معیت میں دفاتر صدر انجمن احمدیه، دفاتر تحریک جدید، دفاتر وقف جدید، دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نیز تعلیمی اداروں میں سے جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام کالج، تعلیم الاسلام سائنس کالج ( نیو کیمپس) اور خلافت لائبریری کا معاینہ فرمایا.جس دفتر اور جس ادارہ میں بھی آپ تشریف لے گئے افسران و کارکنان نیز تعلیمی اداروں کے سربراہان، صدر شعبہ جات اور طلباء نے آپ کا نہایت پر تپاک خیر مقدم کیا.بالخصوص آپ نے دفتر وکالت تبشیر میں (جہاں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی و وکیل التبشیر نے آپ کو غلبہ اسلام کی آسمانی پیشگوئیوں نیز تبلیغ اسلام کے عالمگیر نظام اور اس کے نتائج واثرات کے متعلق معلومات بہم پہنچائیں ) جماعت کی تبلیغی مساعی کے عالمگیر نظام سے متعلق تفصیلات کو خاص اشتیاق سے سنا.اسی طرح مبلغین اسلام تیار کرنے والے دینی ادارے جامعہ احمدیہ کے طریق تعلیم، نصاب اور بالخصوص حافظ کلاس میں جس میں بعض غیر ملکی طلباء بھی قرآن مجید حفظ کر رہے ہیں آپ نے خاص دلچسپی ظاہر فرمائی اور اس ضمن میں جامعہ کے پرنسپل سید داؤ داحمد صاحب نے آپ کے استفسارات کے جو جواب دیئے انہیں بہت توجہ اور شوق کے ساتھ سنا.آپ اُس سینئر کلاس میں بھی تشریف لے گئے جس میں طلباء استاد کی مدد کے بغیر روزانہ باری باری قرآن مجید کا درس دیتے ہیں.آپ طلباء میں خود اعتمادی اور شغف پیدا کرنے کے اس طریق سے بہت متاثر ہوئے.جامعہ میں آپ نے ممبران اسٹاف کے علاوہ جملہ طلباء سے بھی مصافحہ کیا.نیز حافظ کلاس کے سب سے نو عمر طالب علم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اسے بہت شاباش دی.حضور انور سے الوداعی ملاقات دفاتر اور تعلیمی اداروں کے معاینہ سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے سوا دس بجے قصرِ خلافت
تاریخ احمدیت.جلد 28 78 سال 1972ء میں تشریف لا کر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے الوداعی ملاقات فرمائی.حضور نے آپ کو رخصت فرمانے سے قبل قرآن مجید مع انگریزی ترجمہ اور متعدد دیگر اسلامی کتب بطور تحفہ عطا فرمائیں.جنہیں آپ نے بصد شوق شکریہ کے ساتھ قبول کیا.اس کے بعد آپ صبح دس بج کر ۳۵ ، پر محترم باجوہ صاحب کی معیت میں ربوہ سے بذریعہ موٹر کار لائل پور واپس تشریف لے گئے.62 اخبار المنبر “ ( لائل پور) نے ” چینی سفیر کی ربوہ میں خفیہ آمد اور شاہانہ استقبال“ کے عنوان سے خصوصی ادار یہ لکھا.جس میں حسب عادت بہت کی بے سرو پایا میں تحریر کیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا، پاکستان سے مارشل لاء کے خاتمہ اور عبوری آئین پر بصیرت افروز خطبہ جمعہ صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے ۱/۲۱/۲۰ پریل ۱۹۷۲ء کی شب کو ملک میں عبوری آئین نافذ کر کے مارشل لاء کے اٹھانے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ملک میں قانون کو بالا دستی حاصل ہوگئی.اس مرحلہ پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک خصوصی خطبه جمعه (۱/۲۱ پریل ۱۹۷۲ء) ارشاد فرمایا.جس میں اس دن کو عوامی حکومت کے سورج کے طلوع سے تعبیر کرتے ہوئے ملک کے پچیس سالہ دور حکومت کا نہایت مختصر مگر بلیغ تجزیہ کیا.پھر ۱۹۷۰ء کے الیکشن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.مجھے کسی آدمی نے بتایا ہے واللہ اعلم یہ صحیح ہے یا غلط کیونکہ میرے پاس تو ایسے ذرائع نہیں ہیں کہ میں حکومت کو ملنے والی رپورٹوں کے متعلق یہ کہہ سکوں کہ واقعی ایسی رپورٹ کی گئی تھی تاہم یہ بات مشہور ہے کہ گذشتہ انتخابات سے معا پہلے پنجاب کے متعلق حکومت کی انٹیلی جنس کی رپورٹ یہ تھی کہ دولتانہ صاحب کو پنجاب سے قومی اسمبلی کی ۲۵-۲۶ نشستیں ملیں گی.جماعت اسلامی کو ۱۳ - ۱۴ نشستیں ملیں گی اور پیپلز پارٹی کوے، ۸ نشستیں ملیں گی وغیرہ.اس طرح انہوں نے پنجاب کی جو کہ غالباً ۸۲ نشستیں ہیں ان کا تجزیہ کیا ہوا تھا.جب انتخابات سے شاید ایک دن پہلے کسی نے مجھے یہ بتایا کہ یہ ان کا آخری تجزیہ ہے تو میں نے کہا نہ سیاستدانوں کو کچھ پتہ ہے اور نہ یہ جو حکومت کے کان اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 79 سال 1972ء آنکھیں ہیں (پولیس و انٹیلی جنس ) انہوں نے صحیح اندازہ لگایا ہے.دراصل وہ اس حصے یا ان دو گروہوں کو جن کے ووٹوں کی اکثریت تھی اور جنہوں نے اس موقع پر فیصلہ کن کردار ادا کرنا تھا بھول گئے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمجھ عطا فرمائی ہے.ہمارے مستعد غیر متعصب اور نہایت اچھی تربیت پانے والے نو جوانوں نے اس موقع پر بڑی سمجھ کے ساتھ کام کئے ہیں ، وہ ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد ہر حلقہ انتخاب کے متعلق اپنی ایک رائے بھجواتے تھے اور انہوں نے یہ سلسلہ انتخابات سے کوئی ایک مہینہ پہلے سے شروع کر رکھا تھا.مثلاً کسی حلقہ انتخاب میں ۴۰ فیصد آراء ہیں یا اپنی برادری کے لحاظ سے اتنے لوگ ہیں یا اتنے ڈاکٹر ہیں یا اتنے محنت کش ہیں.اسی نسبت سے وہ ہر ایک سے پوچھتے تھے کہ تمہاری رائے کدھر ہے؟ چنانچہ ہر ایک گروہ کی آراء معلوم کرنے کے بعد وہ ہمیں رپورٹ بھجوا دیتے تھے.چنانچہ جہاں حکومت کے کان اور آنکھوں نے یہ رپورٹ کی تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۷ - ۸ نشستیں ملیں گی وہاں ہمارے نو جوانوں نے جن کو سیاسی تجربہ بھی کوئی نہیں تھا کیونکہ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں ہم نے سیاست کی طرف کبھی خیال بھی نہیں کیا.ہم تو اپنے نوجوانوں کو بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن پڑھو، حدیثیں پڑھو، نمازیں پڑھو اور دعائیں کرو اپنے لئے بھی ، ملک کے لئے بھی اور سب سے زیادہ غلبہ اسلام کے لئے ، اور بداخلاقی میں نہ پڑو.مغربیت کا اثر نہ لو وغیرہ.غرض ہمارے نوجوانوں کو تو اس قسم کی دینی تربیت دی جاتی ہے مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست عطا فرمائی اور مستعدی بخشی تھی اس لئے ان کی آخری رپورٹ یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے قومی اسمبلی میں ۶۲ نشستیں ملیں گی.چنانچہ انتخابات میں واقعی انہوں نے ۶۲ نشستیں لیں.ایک کی غلطی بھی نہیں ہوئی.چنانچہ مجھے کسی نے بتایا کہ خود پیپلز پارٹی کے بعض لوگ آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ دنیا میں اندازے ہوا ہی کرتے ہیں لیکن ایک کی بھی غلطی نہ ہو اور جو ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہمارا یہ اندازہ ہے اسی کے مطابق نشستیں مل جائیں بڑی حیران کن بات ہے.یہ بات ان کے لئے واقعی حیران کن ہے.“
تاریخ احمدیت.جلد 28 80 سال 1972ء آخر میں حضرت امام ہمام نے اہل پاکستان کو توجہ دلائی کہ اگر انہیں دنیا میں عزت کا مقام حاصل کرنا ہے تو ضروری ہے کہ وہ صحیح تو کل اور عزم پیدا کریں چنانچہ فرمایا:.”جہاں ہمارے لئے یہ امر انتہائی دکھ دہ ہے کہ مشرقی پاکستان عارضی طور پر ہم سے جدا ہو گیا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے یہ خوشی کا سامان پیدا کر دیا ہے کہ لاقانونیت اور مارشل لاء کا دور ختم ہوا اور قانون اور عوامی حکومت کا دور شروع ہو گیا ہے.عوامی جمہوریہ دراصل مشاورت کے اصول پر قائم ہوتی ہے اسلام کا بنیادی اصول بھی یہی ہے کہ باہم مشورہ کے ساتھ حکومت کا نظم ونسق چلانا ہے.چنانچہ یہ مسئلہ تو طے ہو گیا ہے اس وقت میں جماعت کو جس امر کے متعلق توجہ دلانا چاہتا ہوں.وہ ان کی دعا کرنے کی ذمہ داری ہے.جماعت کو اس طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے.دراصل جہاں تک مشورہ کا تعلق تھا وہ لیجیسلیچر یعنی منتخب نمائندوں کی اسمبلی (جسے زیادہ تر ان ووٹوں نے منتخب کیا ہے جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے ) قائم ہوگئی.مارشل لاء ختم ہو گیا.اب انہوں نے سوچنا بھی ہے مشورے بھی کرنے ہیں.مشورے تو ہوں گے لیکن دنیا کا کام محض مشوروں سے کامیابی تک نہیں پہنچتا.پس مشورہ کے علاوہ دو اور چیزوں کی ضرورت ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ فلاح و کامیابی کے لئے ایک تو عزم اور دوسرے تو کل کی ضرورت ہے اگر کوئی مشورہ عزم پر منتج نہ ہو یعنی اگر لوگ ویسے ہی باتیں بنائیں اور دھواں دار تقریریں کریں اور پھر منتشر ہو جائیں تو یہ لا یعنی مشورہ ہے.مشورہ اگر صحیح راہ پر ہے تو اسے نتیجہ خیز بنانے کے لئے عزم کا ہونا ضروری ہے ورنہ کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.پس مجلس مشاورت یعنی لیجیسلیچر کے سامان تو پیدا ہو گئے لیکن اگر ہمارے ملک اور ہماری قوم نے ترقی کرنی ہے اور دنیا میں عزت کا کوئی مقام حاصل کرنا ہے تو اس کے لئے از بس ضروری ہے کہ مشاورت یعنی لیجیسلیچر کے مشوروں کے بعد صحیح عزم اور صحیح تو کل پیدا ہو.اس کے لئے ہمیں دعا کرنی چاہیے.64
تاریخ احمدیت.جلد 28 81 سال 1972ء مالی قربانیوں کے لئے بہتر نظام قائم کرنے کی اہم تحریک سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ۱/۲۸ پریل کو جماعت احمدیہ کی مالی قربانیوں میں وصولی.کے نظام کو بہتر کرنے کی اہم تحریک فرمائی چنانچہ اس روز خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا:.” جب مالی قربانیاں ایک نظام کے ماتحت دی جائیں تو احباب جماعت یہ توقع رکھتے ہیں کہ انتظام چُست ہوگا اور سارا سال باہمی مشوروں، یاددہانیوں اور نصیحت کے ذریعے ذمہ داریاں ادا کروائی جائیں گی.ایک نقطہ نگاہ سے نظام ذمہ داری ادا کرتا ہے اور ایک دوسرے نقطۂ نگاہ سے ذمہ داری ادا کرواتا ہے پس احباب جماعت یہ سمجھتے ہیں کہ ذمہ داریاں ادا کرائی جائیں گی اور کسی ایک کو بھی سست ہونے دیا جائے گا نہ غافل.اس طرح سارے مل کر اس انتظام میں آگے سے آگے اور تیز سے تیز تر ہوتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے.لیکن اس کے برعکس بعض جگہ تو بہت بھیانک حد تک اور بعض جگہ ایک حد تک سستی یہ ہوتی ہے کہ وہ مالی بوجھ جو احباب جماعت پر سارے سال میں پھیل کر پڑنا چاہیے، وہ پھیلاؤ کی بجائے بعض دفعہ آخری چھ ماہ یا آخری دو ماہ پر پڑتا ہے.پس احباب جماعت کے لئے حالات کے لحاظ سے پروگرام بننا چاہیے.مثلاً زمیندار ہیں ان کے لئے چھ ماہ کا پروگرام ہو کیونکہ انہوں نے فصلوں کے موقع پر اپنی مالی قربانیاں پیش کرنی ہیں.جب ان کی فصلیں تیار ہوں اور مالی قربانی کے قابل ہوں تو اس وقت ان کو یاد دہانی کرائی جانی چاہیے تا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں وقت پر ادا کریں اور بعد میں ان کو بوجھ برداشت نہ کرنا پڑے.جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں کہ جنہیں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ان کی ماہانہ مالی ذمہ داری ادا ہونی چاہیے، اگر وہ کسی ایک مہینہ میں سستی دکھا ئیں گے تو دوسرے مہینے ان پر بڑا بوجھ پڑ جائے گا.اگر آپ نے ان کو آٹھ نو مہینے ست رہنے دیا تو گویا دسویں، گیارہویں اور بارہویں ماہ میں سارے سال کے چندے ادا کرنے اور مالی قربانیاں پیش کرنے کا ان پر بڑا بوجھ پڑ گیا.یورپ وغیرہ میں اکثر جگہ ہفتہ وار تنخواہ ملتی ہے لہذا وہاں ہفتہ وار وصولی ہونی
تاریخ احمدیت.جلد 28 82 سال 1972ء چاہیے.مثلاً ایک شخص کو انگلستان میں آٹھ پاؤنڈ ہفتہ وار ملتے ہیں اگر آپ اس سے ہفتہ وار سولہواں حصہ یعنی دس شلنگ نہیں لیتے (سال کے حساب سے سولہواں حصہ کچھ کم بنے گا) دوسرے ہفتے بھی نہیں لیتے ، پھر تیسرے ہفتے بھی نہیں لیتے اور چوتھے ہفتے چار ہفتوں کا اکٹھا لینا چاہتے ہیں تو اس صورت میں اس پر بڑا بوجھ ہوگا.مزدور ہیں جو روزانہ کمانے والے ہیں اگر چہ اس معاملہ میں زیادہ سوچنے ،فکر و تدبر کرنے اور زیادہ مشورے کرنے کی ضرورت ہے لیکن کسی وقت ہمیں اس طرف آنا پڑے گا اور اس کے بارہ میں کوئی پروگرام بنانا ہو گا.ایک مزدور جو صبح سے شام تک محنت کر کے کما رہا ہے اگر اس کی کمائی پانچ روپے روزانہ ہے تو پانچ آنے اس کو چندہ عام دے دینا چاہیے.( آنے اگر چہ مروجہ سکوں میں ختم ہو چکے ہیں لیکن میں اس مثال میں ” آنے ہی لوں گا تا کہ آسانی سے سمجھ آ جائے ) پانچ روپے میں سے پانچ آنے دینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں لیکن مہینے کے آخر میں روزانہ کمانے والے کے لئے ڈیڑھ سو آنے دینا عملاً ناممکن ہے سوائے اس کے کہ وہ بہت قربانی کرنے والا ہو اور اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر یہ رقم ادا کرے اور اس صورت میں آپ اور آپ سے میری مراد اس تسلسل میں نظام جماعت ہے ) اُس تکلیف کے ذمہ وار ہوں گے.روزانہ ادائیگی اس کے لئے کوئی بوجھ نہیں ہے کیونکہ پانچ روپے وہ کماتا ہے اور پانچ آنے اس نے چندہ دینا ہے.اگر چہ جماعت میں اس وقت روزانہ وصولی کا یہ نظام نہیں ہے لیکن اب ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت جماعت میں وسعت پیدا کر رہی ہے اور الہی سلسلوں میں ابتداء میں غرباء ہی شامل ہوتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اکثریت مزدوروں اور کسانوں پر مشتمل ہے جن کو روزانہ یا دو دن بعد اجرت ملتی ہے یا بعض دفعہ مزدور کو جب سہولت ہو تو خود ہی کہتا ہے کہ میں نے تین دن تمہارا کام کرنا ہے تین دن کے بعد مجھے اکٹھی مزدوری دے دینا لیکن بہت سارے مزدور ایسے ہیں جو روزانہ کماتے ہیں اور روزانہ ہی ان کا خرچ ہوتا ہے.بہر حال اس کا تفصیلی جائزہ لینا چاہیے اور اس طرف توجہ کرنی چاہیے.65 66
تاریخ احمدیت.جلد 28 83 سال 1972ء مجلس ارشاد مرکزیہ کے اجلاسات پہلا اجلاس ۲۹ اپریل ۱۹۷۲ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مقامی احباب کے علاوہ بیرونجات سے بھی احباب نے شرکت فرمائی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کرسی صدارت کو رونق بخشی.اس اجلاس میں تلاوت اور نظم کے بعد پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب پی ایچ ڈی صدر شعبہ فر کس تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فارسی الاصل ہیں“ کے موضوع پر اپنا دلچسپ اور فکر انگیز مقالہ پڑھا.پھر (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام خذوا التوحید التوحید یا ابناء الفارس‘ کی تشریح پر مشتمل اچھوتے رنگ میں ایک اہم اور لطیف تقریر فرمائی.آخر میں حضور انور نے مختصر مگر بصیرت افروز خطاب فرمایا جس میں حضور نے بعض دیگر امور کے علاوہ ان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق رکھنے والے جسمانی اور روحانی ابناء پر قیام توحید کے سلسلے میں عائد ہوتی ہیں.حضور نے فرما یا ہر احمدی کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ ہمارا سب سے قیمتی لعل ہمارا خدا ہے باقی ہر چیز فانی ہے.وہی ہمارا محافظ ہے اور ہر طاقت کا سرچشمہ ہے.اس لئے اس سے تعلق پیدا کرنا اور باقی سب چیزوں پر اسے مقدم رکھنا ہم میں سے ہر ایک کے لئے ضروری ہے.اجلاس کے اختتام پر حضور انور نے اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح یہ با برکت اجلاس اختتام پذیر ہوا.66 دوسرا اجلاس مورخہ ۱۷ جون ۱۹۷۲ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشا د مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ناسازی طبع کے باعث تشریف نہ لا سکے اس لئے اجلاس کی صدارت کے فرائض محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کی درخواست پر محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے سرانجام دیئے.اجلاس میں تین تحقیقی اور ٹھوس علمی مقالے پڑھے گئے.تلاوت قرآن کریم سے کارروائی کا آغاز کیا گیا جو کہ مکرم نسیم احمد صاحب باجوہ نے کی.بعد ازاں محترم سید محمود احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 28 84 سال 1972ء نے مسجد قرطبہ پر اپنا مقالہ پڑھا.محترم سید عبدائی صاحب نے مسجدوں کے ذریعہ نفع اندوزی کے موضوع پر اور محترم چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے اسلام کے مقررہ کردہ اصول جنگ کے زیر عنوان اپنے مضامین پڑھ کر سنائے.آخر میں صاحب صدر نے اجتماعی دعا کرائی.67 تیسرا اجلاس مورخہ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ء بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں کثرت کے ساتھ مقامی احباب اور بعض بیرونی دوست بھی شامل ہوئے.حضرت خلیفۃ مسیح الثالث ناسازی طبع کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے.اس لئے حضور کی زیر ہدایت محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا ( صوبائی امیر ) نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جو کہ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے کی.بعد ازاں مکرم رفیق الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام پڑھ کر سنایا.اس اجلاس میں مسعود احمد صاحب جہلمی سابق مبلغ مغربی جرمنی محمد شفیع صاحب اشرف مربی سلسلہ اور مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے اپنے مقالے پڑھے جن کے موضوع علی الترتیب یہ تھے.(۱) ملائکہ کی حقیقت.(۲) ینصرک رجال نوحى اليهم من السماء.(۳) فریق لاہور کی علیحدگی کے اسباب.68 ربوہ کو ایک مثالی شہر بنانے کا عزم حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ربوہ کو صفائی اور باغات کے لحاظ سے ایک مثالی شہر بنانے کا منصوبہ بنایا تھا.اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے حضور انور نے ایک مجلس صحت کی تشکیل فرمائی.حضور انور دو مرتبه مجلس صحت کے زیر انتظام کئے جانے والے وقار عمل کا معاینہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور موقع پر ہدایات جاری فرما ئیں.اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ چین میں لوگوں نے وقار عمل کی روح پر عمل کرتے ہوئے بڑے بڑے عظیم ڈیم وغیرہ بنائے.ہمارے نو جوانوں میں تو اسلامی روح اور جذبہ کے ماتحت ان سے بہت زیادہ کام کرنے کی خواہش ہونی چاہئے.فرمایا اب انشاء اللہ بہت جلد ربوہ کوگل و گلزار بنا دیا جائے گا.حضور انور نے دونوں مرتبہ دوروں کے دوران اپنے ہاتھ سے کدال بھی چلائی اور اس طرح خدام کی حوصلہ افزائی فرمائی.69
تاریخ احمدیت.جلد 28 85 سال 1972ء حضور انور کاربوہ کے وقار عمل کا معاینہ اس سال ربوہ میں ایک عرصہ تک ہر جمعہ کو صبح کے وقت حضرت خلیفہ المسح الثالث کے زیر ارشاد اور مجلس صحت کے زیر اہتمام جملہ انصار، خدام اور اطفال ملکر اپنے اپنے محلوں میں صفائی کی خاطر وقار عمل کرتے رہے.حضور بھی وقتاً فوقتاً معاینہ کے لئے تشریف لے جاتے رہے.چنانچہ مورخہ ۵ مئی ۱۹۷۲ء بھی جب وقار عمل ہو رہا تھا تو حضور مختلف محلہ جات میں تشریف لے گئے اور حضور نے کام کا معاینه فرمایا نیز کارکنان کو اہم اور قیمتی نصائح سے نوازا.70 حضور انور کا آل ربوہ بیڈ منٹن ٹورنامنٹ سے اختتامی خطاب اس سال ۵ تاے مئی کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام آل ربوہ بیڈ منٹن ٹورنامنٹ منعقد ہوا.اس ٹورنامنٹ میں سنگلز مقابلوں میں کل ۲۲ کھلاڑی شامل ہوئے اور ڈبلز میں کل 19 ٹیمیں شامل ہوئیں.سنگلز مقابلوں میں فائنل میچ خالد محمود شاہ صاحب اور شاہد احمد سعدی صاحب کے مابین ہوا.یہ میچ شاہد احمد سعدی صاحب نے جیت لیا.انصار میں سنگلز کا فائنل میچ سید میر محمود احمد صاحب اور غلام باری سیف صاحب کے مابین ہوا.یہ میچ سید میر محمود احمد صاحب نے جیت لیا.ڈبلز میں محمد احمد صاحب انور اور غلام باری سیف صاحب اول قرار پائے.ٹورنامنٹ کے اختتام پر سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے ایوان محمود میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی ٹیموں میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے اور اپنے بصیرت افروز خطاب میں بیش قیمت نصائح سے نوازا.چنانچہ فرمایا:.صحت کے قیام کے لئے ورزش کرنا بہت ضروری ہے.ورزش کرنے کے نتیجہ میں بہت سے زہر جسم سے نکل جاتے ہیں.ایک دفعہ حضرت المصلح الموعود نے قادیان میں مجھے چھ مہینے کے لئے ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر بنا دیا.میں نے بڑا غور کیا اس میں حکمت کیا ہے.دو چار باتیں میرے ذہن میں آئیں.میں نے اپنی طرف سے ان کی اصلاح کرنے کی پوری کوشش کی.ان دنوں مجھے بتایا گیا کہ ہائی سکول کے بعض طلباء عشاء کے بعد ادھر اُدھر پھرتے اور گپیں ہانکتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 86 سال 1972ء مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں ان کو عصر اور مغرب کے درمیان دوڑا دوڑا کر اتنا تھکا دوں کہ وہ عشاء کے بعد گھر سے باہر نکل ہی نہ سکیں.چنانچہ میں ان تمام لڑکوں کو جو فٹ بال اور ہا کی نہیں کھیلتے تھے.ان سب کو ہائی سکول کے میدان میں روزانہ اکٹھا کرتا تھا (یہ بہت بڑا میدان تھا آپ میں سے بہتوں نے اس میدان کو نہیں دیکھا ہوگا ) اور پھر ان کی خوب دوڑ لگواتا تھا اور ان کو اتنا تھکا دیتا تھا کہ پھر وہ عشاء کے بعد گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے.یہ ایک الجھن تھی جسے میں نے اس طرح دور کر دیا تھا.پس ورزش کے بہت فائدے ہیں مثلاً ورزش کرنے سے گہری اور صحت مند نیند آتی ہے.ربوہ کے تمام تعلیمی اداروں کو چاہیے کہ وہ اس کا انتظام کریں اور لڑکوں کو اتنی ورزش کروائیں کہ ورزش کے بعد جو ابتداء میں تھکان اور کوفت محسوس ہوتی ہے وہ نہ رہے.یہ بھی ورزش کا ایک اصول ہے.مثلاً گھوڑوں کے متعلق لوگوں نے کہا ہے کہ ان کو اتنی ورزش کرواؤ کہ جس وقت وہ واپس تھان پر آئیں تو اتنے ہی تازہ دم ہوں جتنے ورزش کے لئے باہر لے جاتے وقت تازہ دم تھے.پس یہ تو ٹھیک ہے کہ شروع میں کچھ تھکان محسوس ہوگی لیکن یہ آہستہ آہستہ دور ہو جائے گی.ہمارے نوجوانوں کو اتنا مضبوط بن جانا چاہیے کہ اگر عرب گھوڑے کی طرح انہیں سومیل پیدل بھی چلنا پڑے تو چھلانگیں مارتے ہوئے جائیں اور واپس آ جائیں مگر کوئی کوفت محسوس نہ کریں.یہ عادت کی بات ہے اور ورزش کرنے سے یہ ایک خاص عادت بھی پیدا ہوتی ہے.ہم زندگی کے ہر میدان میں آگے نکلیں.جماعت احمدیہ کے افراد دنیا کے قائد بن جائیں.اس قیادت کے حصول میں کھیلیں بھی شامل ہیں پھر کھیلوں میں ہر کھیل شامل ہے“.اجتماعی دعا کے بعد حضور انور نے فرمایا:.میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں.میں نے اس سلسلہ میں آپ کو ایک رومال کا تخیل اور اس کو اپنی جگہ پر قائم رکھنے کے چھٹے کا تصور دیا تھا.چھتے تو پلاسٹک کے بن گئے ہیں.اس میں ہمیں بہت کچھ ریسرچ کرنی پڑی ہے اور بہت تحقیق کرنی پڑی ہے.بہت تجربہ کرنا پڑا ہے.چنانچہ جس طرح کا میں چاہتا تھا اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 87 سال 1972ء قسم کا چھلا بن کر آ گیا ہے اور چونکہ یہ پلاسٹک کا ہے اس لئے اس کی قیمت صرف ایک آنہ ہے.دراصل میں چاہتا تھا کہ یہ مہنگا نہ ہوتا کہ ہمارا ہر بچہ یا اس کے ماں باپ بغیر تکلیف کے خرید سکیں.اس کے اوپر دو مختلف فقرے لکھے ہوئے ہیں.ایک القدرة الله “ اور دوسرا العِزَّةُ لِله “ - القدرة الله عام نشان ہے.ہر احمدی نوجوان کا جو مجلس صحت کا ممبر بنے گا اور ” العِز اللہ کھیلنے والوں کے قائدین کو عارضی طور پر دیا جائے گا.اس سلسلہ میں ایک چیز ابھی پوری نہیں ہوئی ہوتی اور وہ یہ ہے کہ میں نے کچھ رومال بنوائے تھے لیکن کپڑا ابھی مجھے اپنی پسند کا نہیں ملا.اگر کوئی صاحب کسی جگہ سے سکاوٹس کا رومال مجھے لا کر دے سکیں تو شاید میں کپڑے کی بھی تعیین کر کے کچھ اور رومال بنوا دوں.میں چاہتا ہوں کہ جون کے آخر تک کم از کم ایک سواحمدی بچوں کو یہ رومال اور چھلا مہیا کر دیا جائے اور پھر جب چھٹیوں کے بعد سکول وغیرہ لگیں تو اس وقت وہ رومال اور چھلا جو مجلس صحت کے ممبر ہونے کی نشانی ہے وہ سارے ربوہ کو دے دیا جائے اور پھر کسی وقت ہم ایک جگہ پانچ سو یا ہزار ، دو ہزار چھوٹے اور بڑے سب کی پی ٹی کروائیں گے.پی ٹی ایک ایسی ورزش ہے جو دماغ میں اجتماعی روح کا تصور پیدا کرتی ہے.کیونکہ جو اجتماعی حرکات ہیں ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قانون ایک حسن پیدا کرتا ہے.پی ٹی میں بھی ایک ہی وقت میں دو ہزار آدمیوں کے ہاتھ یکساں طور سے اٹھیں اور حرکت کریں تو اس سے بھی ایک حسن پیدا ہوتا ہے.پی ٹی کی ورزش میں جو اجتماعی روح ہے یہ بڑے پیمانے پر نظر آتی ہے.چھوٹے پیمانے پر مسجد میں نماز کے وقت ہمیں یہی سکھایا گیا ہے.نماز کی حرکات بھی ڈسپلن پیدا کرتی ہیں مگر نہ ہماری ان کی طرف توجہ ہوتی ہے اور نہ ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہیں.نماز میں ہر وقت اور ہر ایک کی اپنی توجہ ہے لیکن جب غیر آدمی دیکھتا ہے تو وہ اس سے ایک اثر قبول کرتا ہے مگر پی ٹی کرنے والے تو ایسی حرکتیں کرتے ہیں کہ وہ قریبا سبھی ایک دوسرے کی کم از کم بعض حرکتیں تو ضرور دیکھ رہے ہوتے ہیں.پس اجتماعی ورزش کے اندر اپنا ایک حسن ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بڑا حسین ہے اس نے ہر چیز میں حسن پیدا کیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس کے حسن
تاریخ احمدیت.جلد 28 88 سال 1972ء کو دیکھنے اور اس کی حقیقت کو سمجھنے اور پھر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق اس حسن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.71 مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ گذشته سال صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے محاصل خالص کا بجٹ مشرقی پاکستان کے چندہ اور اراضیات سندھ کی آمد کی کمی منہا کر کے 37,41,170 روپے پر مشتمل تھا.پاکستان کی مخلص احمدی جماعتوں نے سخت ناموافق حالات کے باوجود نہ صرف یہ بجٹ پورا کردیا بلکہ 33,858 روپے کی زائد رقم اپنے مقدس و محبوب امام کے حضور پیش کر دی.جس پر سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۲ مئی ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنی جماعت کے مخلص افراد کو اپنے درخت وجود کی شاخیں قرار دیا ہے.ان شاخوں نے مالی قربانی اور ایثار کا جو خوشکن نمونہ پیش کیا ہے اسے دیکھتے ہوئے میں کہتا ہوں کہ اے مسیح محمدی اور مہدی معہود ( علیہ السلام) کے درخت وجود کی شا خو! جو ثمراتِ حسنہ سے لدی اور جھکی ہوئی ہو، میرے رب کریم کا تم پر سلام ہو ! ( آمین ) - 72 احمدی ڈاکٹروں کو ایک لطیف نصیحت حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مورخہ ۱۹ مئی ۱۹۷۲ء کو بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشادفرمایا جس میں حضور انور نے احباب جماعت کو فرمایا کہ وہ اس نئے مالی سال میں اپنی محنت تد بیر اور دعا کو انتہاء تک پہنچا دیں تا جنت کے دروازے ان کے لئے کھولے جائیں.حضور انور نے دوران خطبہ شفا کے بارہ میں فرمایا کہ شفاد یا اللہ کے اختیار میں ہے.حضور انور نے اس ضمن میں احمدی ڈاکٹروں کو خاص طور پر مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ:.جرمنی میں ایک بوڑھے ڈاکٹر تھے جنہوں نے آپریشن کر کے میرے گلے سے غدود نکالے تھے اور یہ غالباً ۱۹۳۶ء کی سردیوں کی بات ہے.میں حیران ہو گیا انہوں نے اتنے امیر ملک میں اپنی فیس صرف دو روپے رکھی ہوئی تھی مگر ان ساٹھ روپے فیس لینے والے ظالم ڈاکٹروں سے وہ زیادہ کما رہے تھے کیونکہ وہ خدمت خلق کے جذبہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ حاصل کر رہے تھے.ان ساٹھ
تاریخ احمدیت.جلد 28 89 سال 1972ء روپے فیس لینے والے ڈاکٹروں کے پاس تو دو تین مریض آتے ہیں مگر ان کے پاس روزانہ سو دو سو مریض آتے تھے اور اس طرح روزانہ ۳-۴ سو مارک کی کمائی تھی.اُس زمانے میں روپے اور مارک میں تھوڑا سا فرق تھا.فرض کریں اگر تین سو روپے یومیہ ہو تو بارہ ہزار مہینے کی آمد تھی.لیکن جو حریص ڈاکٹر ہے اس نے یہ ہنر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کیا مگر خدمت خلق کے جذبہ سے محروم رہنے کی وجہ سے وہ دنیوی لحاظ سے بھی ناکام ہوا.یہ اس کی اپنی غلطی ہے.میں کہتا ہوں اگر ہمارا احمدی ڈاکٹر خدمت خلق کے جذبہ سے اور پیار کے ساتھ اور اس تڑپ کے ساتھ کہ غریب سے غریب بیمار بھی آئے گا تو میں اسے بہتر سے بہتر مشورہ دوں گا.اگر اس طرح وہ کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے مال میں برکت ڈال دے گا.73 سالانہ تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اس سال ۱۹۷۲ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی انیسویں سالانہ تربیتی کلاس ۲۶ مئی تا ۸ جون بمقام ایوان محمود منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے ۲۹۸ مجالس خدام الاحمدیہ کے ۴۷۴ خدام شامل ہوئے.14 جناب لئیق احمد صاحب طاہر حال مبلغ انگلستان) نے ناظم اعلیٰ کے فرائض سرانجام دیئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نو نہالان جماعت کو دو بار اپنے روح پرور خطاب سے نوازا.خطاب حضور انور حضور انور نے مورخہ ۷ جون کو سالانہ تربیتی کلاس سے روح پرور خطاب فرمایا.حضور انور نے بعض لوگوں کی طرف سے احمدیت کی مخالفت میں متضاد اور غیر معقول رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ احمدی ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ کریں.عیسائیوں ، مشرکوں، دہریوں اور بت پرستوں کو کلمہ طیبہ پڑھا کر حلقہ بگوش اسلام کریں مگر وہ خود کافر ہوں.یہ بات عقلاً نا قابل تسلیم ہے.حضور نے وجد آفرین انداز میں عقائد احمدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے واضح فرمایا کہ ہم خدا تعالیٰ کو واحد و یگانہ سمجھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حقیقی معنوں میں خاتم الانبیاء مانتے ہیں.ہم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم کو ہر اعتبار سے کامل ومکمل کتاب یقین کرتے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 90 سال 1972ء آنحضرت صلی ایام کے روحانی افاضہ کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ سمندر سے پانی کے بخارات اٹھ اٹھ کر کوہ ہمالیہ کی ہزاروں فٹ بلند چوٹیوں پر باران رحمت بن کر برس سکتے ہیں تو آنحضرت صلی یتیم کی روحانیت کا بحر ز خار ماضی اور مستقبل ہر دو زمانوں میں موج در موج دور دور تک روحانی سرسبزی و شادابی کا ذریعہ کیوں نہیں بن سکتا.آنحضرت ملا لیا ایلیم سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے دل آپ کی محبت سے لبریز ہیں.ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ آپ کا احسان مند ہے اگر ہمارے بچوں کو بے دریغ قتل کر دیا جاوے تو اس صدمہ کو تو ہم برداشت کر سکتے ہیں مگر ہم ایک لحظہ کیلئے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ہمارے محبوب آقا حضرت خیر الا نام خاتم الانبیاء صلیما ایلم کی شان میں برا بھلا کہے.75 اختتامی خطاب حضرت خلیفہ مسیح الثالث مورخہ ۸ جون کو حضور انور نے اپنے روح پرور اور ایمان افروز اختتامی خطاب کے آغاز میں اعلان فرما یا کہ آئندہ سال سے اس کلاس کے پروگرام میں تین پریکٹیکل بھی ہوا کریں گے تا کہ اس کی افادیت میں اضافہ ہو سکے.حضور نے ہدایت فرمائی کہ صدر صاحب خدام الاحمدیہ مرکز یہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنادیں جو مجھ سے مشورہ حاصل کر کے تعلیمی پروگرام وضع کرے.حضور نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ ۷ جون کو حضور نے کلاس سے جو بیش قیمت اور اہم خطاب فرمایا تھا اس کا خلاصہ صیغہ زود نویسی کی طرف سے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا ہے اور آج جبکہ یہ کلاس اختتام پذیر ہو رہی ہے میں یہ پمفلٹ کلاس میں شامل ہونے والے ہر طالب علم کو بطور تحفہ دینا چاہتا ہوں.خدام کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھیں اور اس پر غور و تدبر کریں اور پھر اپنے غیر از جماعت دوستوں کے ساتھ گفتگو کے لئے بھی اس سے فائدہ اٹھائیں (اس مرحلہ پر حضور کے زیر ارشاد تمام طلباء میں یہ پمفلٹ تقسیم کر دیا گیا اور پھر حضور نے طلباء سے دریافت کر کے یہ تسلی کر لی کہ ہر طالب علم تک یہ پمفلٹ پہنچ گیا ہے) حضور نے فرمایا کہ انسان کا جسم اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ اسے کچھ وقت کھانا کھانے کے لئے چاہیے اور پھر کچھ وقت اسے ہضم کرنے کے لئے درکار ہوتا ہے اور ہضم کرنے کے لئے وقت نسبتاً زیادہ ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر صحت برقرار نہیں رہ سکتی.بالکل یہی حال حافظہ کا اور انسان کی اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں کا ہے کچھ وقت ان کو سیکھنے کے لئے چاہیے اور پھر کچھ وقت انہیں اپنانے
تاریخ احمدیت.جلد 28 91 سال 1972ء کے لئے ملنا چاہیے.جسمانی غذا کی طرح روحانی اور اخلاقی غذا کو ہضم کرنے کے لئے بھی کچھ وقت انسان کی روح اور اس کے دل و دماغ کو ملنا چاہیے.پس جو کچھ آپ نے یہاں پڑھا یا سیکھا.اب آپ اس پر غور و تدبر کریں اور اسے اپنے دل و دماغ میں جگہ دیں تا کہ وہ ہضم ہو کر حقیقی معنوں میں آپ کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور انہیں اجاگر کرنے کا موجب ہو سکے.حضور نے فرمایا آپ میں سے ہر ایک کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ آپ اپنے عمل سے دنیا کو یہ بتا دیں کہ حقیقی احمدی کیسے ہوتے ہیں.دنیا کو یہ نظر آ جانا چاہیے کہ احمدی وہ ہوتا ہے جو اپنے خدا سے اور اس کے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سے اور خدا کی تمام مخلوق سے حقیقی محبت اور پیار رکھتا ہے.حضور نے فرمایا قرآن کریم ہر لحاظ سے ایک جامع اور مکمل کتاب ہے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں اس پر عمل کر کے ہمیں دکھلا دیا.اسی کا نام اسوہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ ہے کہ حضور دن رات خدا کی مخلوق کی بہتری اور ہمدردی کے لئے کوشاں رہتے تھے.دوست دشمن سب کے لئے بے پایاں شفقت محبت اور ہمدردی رکھتے تھے.حضور خیر محض تھے جس میں سے شفقت و ہمدردی کی ہزاروں شعاعیں نکل نکل کر دنیا کو منور کرتی تھیں.آپ تڑپ تڑپ کر جو دعائیں کرتے تھے ان کا دائرہ اس وقت کی پوری معلوم دنیا پر محیط تھا.یہ ہے وہ اسوہ حسنہ جس پر ہم نے عمل کرنا ہے کسی کے خلاف نفرت کی گرمی نہ ہو.ہر ایک کے لئے حتی کہ مخالفین کے لئے بھی دل شفقت و ہمدردی سے بھرے ہوئے ہوں.دل میں بس ایک ہی گرمی ہو اور وہ خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار کی گرمی ہے.ہماری روح کے آئینہ میں سوائے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے اور کوئی تصویر آنی ہی نہیں چاہیے.76 ربوہ میں یوم خلافت کی تقریب مورخہ ۲۷ مئی ۱۹۷۲ء کو مسجد مبارک ربوہ میں صبح سات بجے یوم خلافت کی مبارک تقریب منعقد ہوئی.یہ مبارک تقریب مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کی زیر صدارت منعقد ہوئی.اس تقریب میں اہل ربوہ کثرت کیساتھ شامل ہوئے.مستورات کے لئے الگ پردہ کا بھی انتظام تھا.اس مبارک تقریب میں مکرم ابوالعطاء صاحب ، مکرم سید عبدالہادی صاحب، مکرم شیخ مبارک احمد صاحب، مکرم زکریا خان صاحب اور مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب نے تقاریر کیں.بزرگان سلسلہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 92 سال 1972ء اور علماء سلسلہ نے تقاریر کرتے ہوئے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکریہ ادا کیا کہ اس نے آج دنیا کے پردے پر صرف جماعت احمدیہ کو ہی خلافت کے بابرکت آسمانی انعام سے نوازا ہے اور اس کے ذریعہ سے وحدت و اتحاد کی لڑی میں منسلک کر کے ایک ایسی روحانی قیادت عطا فرمائی جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور اسکی برکات کی حامل ہے.فاضل مقررین نے اس امر پر زور دیا کہ ہمیں دعاؤں ، قربانیوں اور کامل اطاعت کے ذریعہ ایمان بالخلافت کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہئے تا کہ خلافت کے فیوض و برکات کو ہم زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکیں اور ہمیشہ یہ نعمت ہمیں حاصل رہے.یہ تقریب سوا نو بجے اجتماعی دعا کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.77 پہلا آل ربوہ ہاکی ٹورنامنٹ ۲۹ تا ۱ ۳ مئی ۱۹۷۲ء کو پہلا آل ربوہ ہاکی ٹورنامنٹ منعقد ہوا جس کا انتظام تعلیم الاسلام کا لج نے مجلس صحت ربوہ کے زیر اہتمام کرایا تھا.گل سات ٹیموں نے اس میں حصہ لیا.مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے مختلف بلاکس پر مشتمل دو ٹیمیں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ایک ٹیم، تعلیم الاسلام کالج کی دو ٹیمیں اور مجلس انصار اللہ کی دو ٹیمیں اس میں شامل ہو ئیں.تمام پیچ بڑے دوستانہ ماحول میں ہوئے اور کھلاڑیوں نے عمدہ کھیل کا مظاہرہ کیا.اس مئی کی شام کو فائنل میچ ہوا جس کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی از راه شفقت تشریف لا کر ملاحظہ فرمایا.فائنل میچ تعلیم الاسلام کالج اور رحمت بلاک کے درمیان ہوا جو تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم نے ایک گول سے جیت لیا.تاہم مد مقابل رحمت بلاک کی ٹیم نے بھی بڑا عمدہ کھیل پیش کیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کی بھی تعریف فرمائی اور اسے خاص انعام سے نوازا.تقسیم انعامات سے قبل تلاوت قرآن کریم سے کارروائی کا آغاز کیا گیا.جس کے بعد ٹورنامنٹ کمیٹی کے صدر پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب نے مختصر رپورٹ پڑھی.بعد ازاں حضور انور نے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے کھلاڑیوں کو مصافحہ کا شرف بخشا اور انہیں انعامات عطا فرمائے.حضور نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے اہل ربوہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ کھیلوں کا اتنا اعلیٰ اور عمدہ معیار قائم کریں کہ غیر ملکی ٹیمیں بھی یہاں آکر کھیل کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس کریں اور ہماری ٹیمیں ملک کی نامور ٹیموں کا مقابلہ کر سکیں.فرمایا ہمارے اندر جو ہر قابل کی کمی نہیں ہے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ صیح معنوں میں نشو نما ہوتا کہ صلاحیتیں اجاگر ہوسکیں.اس سلسلے میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 93 سال 1972ء حضور نے تعلیم الاسلام کالج کی ٹیم کے کھیل کو بھی سراہا اور اسے ایک ایسا ہیرا قرار دیا جسے اگر صحیح رنگ میں تراشا اور چمکایا جائے تو اس کی قدر و قیمت میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے.حضور نے فرمایا کھیل کے میدانوں میں اطاعت کی صحیح روح اور نظم وضبط کو بھی خاص اہمیت حاصل ہے اور بنیادی چیز یہ ہے کہ ہم اپنے رب کریم سے کبھی بیوفائی نہ کریں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے کی توفیق بخشے.78 دی نیوز بلیٹن کینیڈا کا اجراء جون ۱۹۷۲ء کا مہینہ کینیڈا کی احمد یہ تاریخ میں ایک یادگار اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس میں جماعت احمدیہ کینیڈا کے نیشنل پریذیڈنٹ خلیفہ عبدالعزیز صاحب کی کوشش سے ”دی نیوز بلیٹن جاری ہوا جو پہلے’دی مسلم آؤٹ لگ“ کے نام سے اور پھر احمد یہ گزٹ کے نام سے اشاعت پذیر ہونے لگا اور اب تک ایک دینی ترجمان کی حیثیت سے شاندار علمی خدمات بجالا رہا ہے.اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ جیسے ہی جماعت احمدیہ کینیڈا کی تنظیم عمل میں آئی تو اسی دن سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ جماعت احمدیہ کینیڈا کا ایک ترجمان رسالہ ہر دو زبانوں یعنی انگریزی اور اردو میں نکلنا چاہیے.چنانچہ اس کی اشاعت کیلئے متعدد بار کوشش کی گئی.لیکن بعض مشکلات کے پیش نظر اس کی طباعت ممکن نہ ہو سکی اور بالآخر کچھ عرصہ کے بعد خلیفہ عبدالعزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ کی کوششوں سے ”دی نیوز بلیٹن جون ۱۹۷۲ء میں منصہ شہود پر آیا.جو اپریل ۱۹۷۵ ء تک اسی نام سے نکلتا رہا.بعدہ مئی اور جون ۱۹۷۵ء کے دو شمارے دی مسلم آؤٹ لک“ کے نام سے شائع ہوئے.تاہم جولائی ۱۹۷۵ ء سے اس مجلہ کا نام احمد یہ گزٹ “ رکھ دیا گیا.اس مجلہ کے ۲۰۱۴ ء تک کے مدیران اعلیٰ اور مدیر ان کے نام درج ذیل ہیں.نگران اعلی و سر پرست : خلیفہ عبدالعزیز صاحب نیشنل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کینیڈا جون ۱۹۷۲ء تا فروری ۱۹۷۷ء سید منصور احمد بشیر صاحب امیر دمشنری انچارج مارچ ۱۹۷۷ء تا نومبر ۱۹۸۰ء منیر الدین شمس صاحب امیر ومشنری انچارج نومبر ۱۹۸۰ء تا جون ۱۹۸۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 94 سال 1972ء نسیم مهدی صاحب امیر ومشنری انچارج جون ۱۹۸۵ء تا جون ۲۰۰۷ء ملک لال خاں صاحب امیر جماعت احمدیہ کینیڈا جولائی ۲۰۰۷ء سے تا حال مدیر اعلیٰ : مبارک احمد خاں صاحب سید منصور احمد بشیر صاحب کرنل (ریٹائرڈ) محمد سعید صاحب منیرالدین شمس صاحب حسن محمد خاں عارف صاحب ملک لال خاں صاحب لسیم مهدی صاحب ہادی علی چوہدری صاحب مدیران محمد زکر یاورک صاحب خلیل احمد چوہدری صاحب محمد یوسف خاں صاحب ڈاکٹر عنایت اللہ منگلا صاحب حسن محمد خاں عارف صاحب ہدایت اللہ بادی صاحب سلیم اختر فرحان کھوکھر صاحب میاں ندیم احمد صدیق صاحب مدیران: (Contributing Editors) سلیم اختر فرحان کھوکھر صاحب جون ۱۹۷۲ء تا دسمبر ۱۹۷۷ء جنوری ۱۹۷۸ء تا فروری ۱۹۸۰ء مارچ ۱۹۸۰ ء تا جون ۱۹۸۱ء جولائی ۱۹۸۱ء تا مئی ۱۹۸۵ء جون ۱۹۸۵ ء تا اگست ۲۰۰۶ء ستمبر ۲۰۰۶ ء تا جون ۲۰۰۷ء جولائی ۲۰۰۷ ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء جنوری ۲۰۱۰ء سے تا حال دسمبر ۱۹۷۴ء تا مئی ۱۹۷۸ء دسمبر ۱۹۷۸ء تا اکتوبر ۱۹۸۰ء جنوری ۱۹۸۰ ء تا جنوری ۱۹۸۵ء جون ۱۹۸۲ء تا دسمبر ۱۹۸۳ء ستمبر ۱۹۸۴ء تامئی ۱۹۸۵ء اگست ۱۹۸۸ ء تا اگست ۲۰۰۶ء ستمبر ۲۰۰۶ ء تا فروری ۲۰۰۸ء مئی ۲۰۰۸ ء تا اگست ۲۰۰۹ء مارچ ۲۰۰۸ ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 ڈاکٹر اعجاز احمد قمر صاحب میاں ندیم احمد صدیق صاحب مدیران انصر رضا صاحب فرحان احمد نصیر صاحب عثمان احمد شاہد صاحب حصہ فرینچ عبدالحمید عبدالرحمان صاحب نوٹ: اس کے بعد یہ حصہ بند ہو گیا.مینیجر: عبدالرشید لطیف صاحب خلیفہ عبدالوکیل صاحب مبشر احمد خالد صاحب جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام 95 مارچ ۲۰۰۸ ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء مارچ ۲۰۰۸ ء تا دسمبر ۲۰۰۹ء ستمبر ۲۰۰۹ ء تا فروری ۲۰۱۱ء سال 1972ء معاون مدیر مارچ ۲۰۱۱ ء تا دسمبر ۲۰۱۱ء مدیر: جنوری ۲۰۱۱ ء تا ستمبر ۲۰۱۳ء اکتوبر ۲۰۱۳ء سے تا حال جون ۱۹۹۶ ء تا اکتوبر ۱۹۹۹ء جنوری ۱۹۸۵ء تا فروری ۱۹۸۹ء مارچ ۱۹۸۹ء تا جون ۲۰۰۷ء جولائی ۲۰۰۷ء سے تا حال 79 اس سال جرمنی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا با قاعدہ قیام عمل میں آیا.وسط ۱۹۵۵ء میں جب سیدنا حضرت مصلح موعود جرمنی میں رونق افروز ہوئے تو بعض جرمن نو جوان حلقہ بگوش احمدیت ہو چکے تھے بعد ازاں خال خال احمدی نوجوان حصول تعلیم یا تلاش روزگار کے سلسلہ میں وہاں پہنچنا شروع ہوئے.وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان مخلص اور مستعد احمدی نوجوانوں کے دل میں مجلس خدام الاحمدیہ کے باقاعدہ قیام کا احساس شدت اختیار کرتا گیا اور بالآخر ۱۹۷۲ ء میں سب سے پہلے فرینکفورٹ میں جماعت احمدیہ کی اس ذیلی اور عالمی تنظیم کی داغ بیل پڑی.ان دنوں مولا نا مسعود احمد
تاریخ احمدیت.جلد 28 96 سال 1972ء صاحب جہلمی انچارج مشن کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.مجلس کے قیام کے وقت خدام کی تعداد پندرہ کے قریب تھی.مجلس کے اولین قائد ڈاکٹر عبدالرؤف خان صاحب تجویز کئے گئے.تنظیم کے آغاز کے ساتھ ہی سے ستمبر ۱۹۷۲ء کو حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب فرینکفورٹ تشریف لائے تو آپ کے قیام اور دیگر انتظامات کی تکمیل کی سعادت مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو حاصل ہوئی.فرینکفورٹ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے ایک سال بعد خدا تعالیٰ کا فضل ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوا اور ہمبرگ میں مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور یہاں قیادت کا اعزاز سردار لطیف صاحب کو حاصل ہوا.۱۰ ۱۱ جون ۱۹۷۲ء کو مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا سب سے پہلا دوروزہ سالانہ اجتماع مسجد نور فرینکفورٹ میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں ۷۰ خدام نے شرکت کی.سویڈن اور ڈنمارک کے مبلغین سلسلہ بھی اس اجتماع میں شریک ہوئے.۲۲ اگست ۱۹۷۳ء کو حضور انور جرمنی کے دورہ پر تشریف لائے.ان ایام میں آپ کے قیام و طعام اور دیگر انتظامات کی تعمیل کی توفیق بھی مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کو عطا ہوئی.۱۹۷۳ء میں مشنری انچارج و نائب صدر مکرم فضل الہی صاحب انوری کی زیر نگرانی قیادت کی طرف سے پاکستان میں سیلاب زدگان اور بھارت میں قید جنگی قیدیوں کی رہائی کے سلسلہ میں تمام جرمنی میں پاکستانی سفارتخانہ کی درخواست پر تحریک چلائی گئی.۷۴-۱۹۷۳ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مغربی جرمنی کے دوسرے قائد مکرم خلیفہ فلاح الدین صاحب منتخب ہوئے.اس دور میں شعبہ وقار عمل کے تحت مسجد اور مشن ہاؤس کی تزئین نو کا کام کیا گیا.۱۹۷۴ء کا سال جماعت احمدیہ پاکستان کے لئے ابتلاؤں کا سال تھا.اپنے وطن میں غریب الوطنی کے حالات میں بعض احمد یوں نے دوسرے ممالک کا رخ کیا جن میں سے چند احباب جرمنی کے لئے عازم سفر ہوئے اور یوں اس سال خدام کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا.مجلس خدام الاحمدیہ مغربی جرمنی کے تیسرے قائد مکرم شاہد احمد صاحب مقرر ہوئے.اس دور میں خدام الاحمدیہ کے تحت سٹالز کے ذریعہ تبلیغ کا آغاز ہوا.فرینکفرٹ میں منعقدہ سالانہ عالمی نمائش کتب میں مکرم ہدایت اللہ صاحب ھیو بش اور ان کی اہلیہ صاحبہ نے کھڑے ہو کر Cyclostyle فولڈرز کے ذریعے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام جرمن احباب تک پہنچایا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 97 سال 1972ء ۷۶ - ۱۹۷۵ء میں نائب صدر مولا نا فضل الہی صاحب انوری کی زیر نگرانی خدام الاحمد یہ جرمنی اپنے فرائض انجام دیتی رہی.۱۹-۱۸ اکتوبر ۱۹۷۵ء کو مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کا دوسرا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس اجتماع میں ۱۵۰ کے قریب خدام نے شرکت کی.۱۹۷۵ء میں ہی مغربی جرمنی میں اطفال کی باقاعدہ تنظیم کا قیام عمل میں آیا.80 نوٹ: اس سے اگلے سالوں کی مختصر تاریخ متعلقہ جلدوں میں بیان کی جائے گی.انشاء اللہ حضرت خلیفہ المسح الثالث کا سفرایبٹ آباد اور اہم دینی مصروفیات اس سال کا ایک یادگار واقعہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سفر ایبٹ آباد ہے جو ۲۲ جون ۱۹۷۲ء سے شروع ہو کر ا ا ستمبر ۱۹۷۲ء کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.اس عرصہ کے دوران حضور انور ۲۰ جولائی کی شام ربوہ آگئے اور ۲۴ جولائی کی صبح پھر ایبٹ آباد تشریف لے گئے.نیز ۲۳ تا ۳۰/ اگست ر بوه تشریف فرما ر ہے.اس سفر میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، بیگم صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب اور مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل ( پرائیویٹ سیکرٹری ) کو ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.حضور کا قیام سعید ہاؤس میں تھا.81 قریباً سوا دو ماہ کا یہ کلبی سفر نہ صرف ایبٹ آباد اور اس کے ماحول کی خوش نصیب جماعتوں کے لئے بلکہ جماعت احمدیہ پاکستان کے لئے بہت سی برکتوں اور فضلوں کا موجب ثابت ہوا.قیام ایبٹ آباد کے دوران حضرت امام ہمام کی دینی مصروفیات پورے عروج پر رہیں اور ایبٹ آباد کی سرزمین حضور کے پر معارف خطبات جمعہ اور ایمان پرور مجالس عرفان کے باعث انوار قرآنی اور فیضان آسمانی کا گویا مرکز بنی رہیں.خطبات جمعہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ایبٹ آباد میں متعد دروح پرور خطبات جمعہ ارشاد فرمائے جو نہایت اہم دینی و روحانی مباحث پر مشتمل تھے.چنانچہ ۳۰ جون کے خطبہ جمعہ میں فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کے پیش نظر احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ قرآن کریم کی فقط تلاوت ہی کافی نہیں بلکہ ضروری ہے کہ ہمیں اس سے دلی لگاؤ ہو اور ہم اس کا اثر قبول کریں اور اس کے لئے خشیت الہی اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 98 سال 1972ء محبت الہیہ ذاتیہ نہایت ضروری ہے.82 2 جولائی کو اس حقیقت پر دلآویز رنگ میں روشنی ڈالی کہ جماعت احمدیہ کو خدا نے قرآن کریم کی عظمت کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اور اس کی اشاعت کی تکمیل کرنا جماعت کی اہم ذمہ داری ہے نیز اس شدید خواہش کا اظہار فرمایا کہ آئندہ پانچ سال میں قرآن کریم کی دس لاکھ کا پیاں دس لاکھ گھروں میں پہنچ جائیں.۱۴83 جولائی کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ یہ تھا کہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر ضرورت کو پورا کر نیوالا اور اس کے درخت وجود کی ہر شاخ کی پرورش کرنے والا ہے لہذا ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس عظیم کتاب پر غور کرے اور اسی میں سے اپنی تمام لذتوں کے سامان تلاش کرے.۲۸84 جولائی کو حضور نے اسلامی معاشرہ کے اس اہم پہلو پر خاص طور پر زور دیا کہ فتنہ و فساد اسلامی شریعت اور فطرتِ صحیحہ کے سراسر خلاف ہے.اللہ تعالیٰ ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اس سے انسان کی وہ استعداد میں ختم ہو جاتی ہیں جو صفاتِ الہیہ کے مظہر ہونے کی حیثیت سے اسے حاصل ہیں.85 اراگست کا بصیرت افروز خطبہ جمعہ بھی ۲۸ جولائی کے خطبہ کے تسلسل میں تھا جس میں حضور نے مزید بتایا کہ آج کی دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم و مقہور ہستی مزدور ہے اور اس کا سچا ہمدرد صرف اسلام اور قرآن کریم کی حسین تعلیم ہے.حضور انور نے فرمایا کہ آجکل آجر اور اجیر یعنی مالک اور مزدور اور حکومت اور حزب مخالف کے درمیان اکثر جھگڑے یھلک الحرث والنسل“ کے مصداق ہیں.حرث کے معنی مادی ذرائع پیداوار کے بھی ہیں اور نسل اُس محنت اور کوشش کو بھی کہتے ہیں جس سے ذرائع پیداوار کو بروئے کا رلایا جاتا ہے.دونوں کے ملاپ پر انسان کی فلاح کا دارو مدار ہے.اب اگر ایک کارخانہ بند رہتا ہے تو اس عرصہ کی متوقع پیداوار سے ملک محروم ہو گیا.دوسرے اس عرصہ میں مزدور کو اس کی محنت کا جو پھل ملنا تھا اس سے مزدور محروم ہو گیا.اس سے دو طبقوں کے درمیان مزید بے چینی اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے.فرمایا اسلام یہ کہتا ہے کہ مزدور کے سارے حقوق ادا کر ولیکن ساتھ ہی اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ مالک کے حقوق بھی ادا کرو.اس واسطے نہ کارخانے دار سے پیار کیا گیا ہے اس کے مالک ہونے کے لحاظ سے، اور نہ مزدور سے پیار کیا گیا ہے اس کے مزدور ہونے کے لحاظ سے.اسلام نے ہمیں پیار سکھایا ہے اپنے انسانی بھائی سے، انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کے لحاظ سے اور یہی وہ حکیمانہ راہ ہے جس سے دونوں طبقوں میں تلخی کم ہو جاتی ہے.مزید فر ما یا کہ اس وقت یہ فساد عالمگیر صورت اختیار کر گیا ہے جس سے ہمارا ملک بھی محفوظ نہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 99 سال 1972ء اس وباء سے بچنے کا علاج قرآن کریم میں موجود تو ہے مگر مسلمان اسے بھلا بیٹھے ہیں.اس لئے انہیں نہ اس بیماری کا احساس ہے اور نہ وہ اس کے علاج کی طرف متوجہ ہیں.اس احساس کو بیدار کرنے اور اس بیماری کو دور کرنے کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر ڈالی ہے.اس لئے ہم میں سے ہر چھوٹے اور بڑے خصوصاً نو جوانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں.اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا کا رہبر اور قائد بننے کے لئے پیدا کیا ہے وہ اپنے اس مقام کو پہچانیں اور قرآنی تعلیم کی روشنی میں دنیا کے معالج اور طبیب بن کر ان بیماریوں کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکیں جنہوں نے انسانی معاشرہ کو گھن کی طرح اندر ہی اندر کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے.86 اس دوران حضور انور نے ۲۱ جولائی اور ۲۵ اگست کا خطبہ جمعہ ربوہ میں ارشاد فرمایا.۴ /اگست کا خطبہ بیماری کی وجہ سے نہ دے سکے.۱۸ اگست کو حضور نے تحریک فرمائی کہ مجالس خدام الاحمدیہ کوشش کریں کہ اس سال سالانہ اجتماع میں ان کی نمائندگی سو فیصدی ہو.یہ اجتماع اصلاح نفس کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونے کا بہت بڑا ذریعہ ہے.87 یکم ستمبر کے خطبہ میں حضور انور نے تاریخ اسلام کے ابتدائی ادوار میں کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے موجودہ زمانہ کی صورتحال کا تجزیہ کیا.نیز اسلام کے آخری عالمگیر غلبہ کی نوید دیتے ہوئے احباب جماعت کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی.۸ ستمبر کو حضور نے قیام ایبٹ آباد کا آخری خطبہ ارشاد فرمایا جو عرفان الہی کے موتیوں سے مرضع اور اس کے لفظ لفظ سے حق و معرفت کی جھلک نمایاں تھی.حضور نے اس الوداعی خطبہ میں احباب جماعت کو واضح لفظوں میں ذہن نشین کرایا کہ خدا نے ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.خدا کی عظمت اور جلال ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت جماعت اللہ کے دامن کو عسر و ئیسر میں پکڑے رکھیں.اگر ہم کامل توکل اور کامل تذلل کا مظاہرہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو ضرور پورا کرے گا.آنے والے خطرات کی خبر اور قیمتی نصائح اسی خطبہ (۸) ستمبر ۱۹۷۲ء) میں حضور نے جماعت کی بعض سیاسی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے آئندہ آنے والے خطرات کی طرف بھی لطیف اشارہ کیا اور اس سلسلہ میں جماعت کو قبل از وقت نہایت بیش قیمت نصائح سے نوازا.چنانچہ فرمایا:.دراصل نہ کمزوری کے وقت شیطان سے ڈرنا چاہیے اور نہ طاقت کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 100 سال 1972ء وقت اپنے نفس کو خدا بنالینا اور نہ اپنے دوستوں کو خدا سمجھنا چاہیے.اس حقیقت اور اس صداقت پر ہمیشہ قائم رہنا ہے کہ جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے ہماری حیثیت مردہ کیڑے کے برابر بھی نہیں ہے.اگر ہم کچھ ہیں تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہیں اگر اس کا فضل اور رحمت ہمارے شاملِ حال نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہیں.پھر تو ہمارا دشمن بڑی آسانی کے ساتھ ہمیں پاؤں کے نیچے اسی طرح مسل سکتا ہے جس طرح افریقہ کا وحشی بھینسا جب غصہ میں آتا ہے تو وہ اپنے دشمن کو اس طرح لتاڑتا ہے کہ اس کی ہڈیوں تک کو پیس کر ذرے ذرے بنا کر مٹی میں ملا دیتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت میرے اور تمہارے شامل حال نہ ہو، اللہ تعالیٰ کا سہارا اور مدد حاصل نہ ہو تو اس وقت جب تم میں سے بعض لوگ بڑے فخر سے اپنی گردنیں اٹھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی دشمن میں اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ وہ اس وحشی بھینسے کی طرح ہمارے گوشت اور ہڈیوں کا قیمہ بنا کر مٹی میں ملا دے اور پھر ہوا کا جھونکا آئے اور اس غبار کو اڑا کر لے جائے.پس یہ بھی خطرہ کا مقام ہے اس سے بھی جماعت کو بچنا چاہیے.اب مثلاً گزشتہ سال ڈیڑھ سال میں سیاسی میدان میں بھی اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.جن لوگوں کے ساتھ جماعت کی اکثریت تھی وہ کامیاب ہو گئے لیکن اگر کوئی احمدی یہ سمجھتا ہے کہ اب ہم کامیاب ہو گئے ہیں اب ہم کچھ بن گئے ہیں تو یہ اس کی بڑی حماقت ہو گی.بعض دفعہ لوگ میرے پاس بھی آجاتے ہیں کہ سفارش کر دیں مجھے اس سے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور مجھے ان پر بڑا غصہ آتا ہے.اسلام کے ذریعہ اور اب اسلام کے عظیم روحانی جرنیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کے ذریعہ تمہیں خدا اور اس کی صفات سے روشناس کیا گیا ہے مگر اس کے باوجود تم خدا کو چھوڑ کر سفارشوں کی طرف متوجہ ہوتے ہو.اس لئے کہ سیاسی میدان میں بظاہر ایک چھوٹی سی فتح تمہیں حاصل ہو گئی ہے.ایک احمدی کا یہ مقام نہیں ہے اسے خود خدا تعالیٰ کو قاضی الحاجات سمجھنا چاہیے اور جو غیر ایسا نہیں سمجھتے ان کو سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسلام کے ذریعہ تم نے خدائے رحمان کو پہچانا ہے تو کیا پھر تم اس کے بعد بھی کسی اور پر توکل کرو گے؟ کیا اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 101 سال 1972ء کے علاوہ کسی اور ہستی کی خشیت تمہارے دل میں پیدا ہوگی ؟ نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو گا.خواہ ہمارے اوپر بظاہر کمزوری کا دور آئے اور مخالفت کی آندھیاں چلیں اس صورت میں بھی ہم نے اس بات سے نہیں ڈرنا کہ شیطان جیتے گا اور خدا تعالیٰ کے وعدے پورے نہیں ہوں گے.خدا تعالیٰ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے خدا تعالیٰ نے ہمیں ہلاک کر دینے کے لئے نہیں پیدا کیا.خدا تعالیٰ نے ہمیں زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے.ہماری جماعت دوسروں کی روحانی مردنی کو دور کرنے کے لئے معرض وجود میں آئی ہے دنیا میں کسی ماں نے ایسا بچہ نہیں جنا اور دنیا کی کوئی ایسی طاقت نہیں جو ہمیں بحیثیت جماعت منا سکے.88 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی مجالس عرفان ایبٹ آباد میں قیام کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بعض مواقع پر مجالس عرفان کا انعقادفرمایا اور ان مجالس میں احباب جماعت کی تربیت و اصلاح اور علمی ترقی کے لئے بیش بہا نکات معرفت بیان فرماتے رہے.ان میں سے بعض ارشادات درج ذیل ہیں.ا.مورخہ ۳۰ جون ۱۹۷۲ء کو حضور نے خطبہ جمعہ کے بعد احباب جماعت کو شرف ملاقات بخشا اور پھر دیر تک ان سے گفتگو بھی فرماتے رہے.دوران گفتگو حضور انور نے فرمایا کہ مخالفین کی گالیوں پر نہ ہار مانے کا سوال ہے اور نہ متاثر ہونے کا کوئی اندیشہ، وہ اپنا کام کئے جاتے ہیں اور ہم اپنا کام یعنی تبلیغ اسلام کئے جارہے ہیں.ایک دوست سے دھان اور کئی میں سے کسی ایک کی کاشت کو ترجیح دینے کے متعلق فرمایا ہر کام کو سوچ کر کرنا چاہیے قرآن کریم اس نصیحت سے بھرا پڑا ہے کہ ہر کام میں عقل سے کام لو.اگر اس علاقے میں دھان کی بجائے مکئی کی پیدا وار زیادہ ہے تو اسی کی کاشت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے.پاک بھارت مذاکرات کے ذکر پر فرمایا کہ ہم تو اس صبح سے دیکھتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور خدائے رحمن و رحیم پر ایمان لاتے ، احسان اور مروت کے خوگر اور اخوت کی لڑی میں منسلک ہیں.ہمارا واسطہ اُن لوگوں سے آ پڑا ہے جو اپنے آباء واجداد سے پتھروں کی پرستش کرتے چلے آ رہے ہیں جس سے ان کے دل بھی پتھر بن چکے ہیں.اب دیکھتے ہیں اسلام کے ٹھنڈے پانی کا تیز
تاریخ احمدیت.جلد 28 102 سال 1972ء دھارا ان پتھروں پر اپنے حسین نقوش چھوڑنے میں کس قدر وقت چاہتا ہے.فرمایا اب احمدیت کے ذریعہ اسلام نے دنیا میں غالب ہو کر رہنا ہے مگر اس کے لئے احباب جماعت کو اولی الایدی والابصار یعنی فعال اور دور اندیش بنا پڑے گا.اگر سارے احمدی اس روح کے ساتھ کام کریں تو ہم دنیا میں اسلام کے حق میں ایک حیرت انگیز انقلاب بپا کر سکتے ہیں.89 ۲ - ( مورخہ ۵ جولائی) مغرب کی نماز میں کیڈٹس کا ایک گروپ بھی شامل تھا جن کی عنقریب پاسنگ آؤٹ پریڈ ہونے والی تھی.نماز کے بعد حضور نے ان سے مصافحہ کیا اور تھوڑی دیر تک ان سے گفتگو فرماتے رہے.اس موقع پر حضور نے ان سے فرمایا کہ جس طرح ہیرے کی خوبیوں کو نمایاں کرنے کے لئے اس کی تراش خراش کے بعد اس میں چمک دمک پیدا کی جاتی ہے اسی طرح آپ کے اندر نظم وضبط اور شجاعت و استقامت پیدا کرنے کے لئے آپ کو سخت سے سخت اور زیادہ سے زیادہ ٹریننگ دی جاتی ہے.فرمایا پچھلے سال قیادت کی نا اہلی اور ناعاقبت اندیشی کی وجہ سے وطنِ عزیز کو ذلت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا.ہزیمت کے اس داغ کو مٹانے ، ملک کے وقار کو بحال کرنے اور اسے چار دانگ عالم میں شہرت بخشنے کے لئے نوجوان نسل پر خصوصاً بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.چنانچہ اس سے پہلے عام انتخابات کے موقع پر بھی نوجوان اپنے فیصلہ کن کردار کا مظاہرہ کر چکے ہیں.آپ بھی عنقریب میدانِ عمل میں اترنے والے ہیں.ساری قوم آپ کے لئے دعا گو ہے.جرات مندانہ اقدام اور پیشہ وارانہ مہارت کے شاندار مظاہرے کی بدولت آپ کو قوم کی توقعات پر پورا اترنا چاہیے.فرمایا: آپ میری اس نصیحت کو پلے باندھ لیں کہ قرآن کریم ہر خیر اور برکت کا سرچشمہ ہے.آپ جہاں کہیں بھی ہوں اس کو حرز جان بنائے رکھیں اور اس کی برکات سے مقدور بھر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہیں.90 ۳.حضور انور نے مورخہ 9 جولائی ۱۹۷۲ء کو احباب جماعت کو شرف مصافحہ بخشا اور بیش قیمت نصائح اور زریں ارشادات سے نوازا.گذشتہ عام انتخابات میں بعض لوگوں کی غیر معمولی کامیابی کے ذکر پر حضور انور نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.ناممکن کاممکن میں بدل جانا اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے.اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے نہ کسی کا اثر ورسوخ چلتا ہے اور نہ مال و دولت سے کام بنتا ہے.یہ انتخابات مذہبی مسئلہ تو نہیں تھے خالصتہ سیاست تھی جس میں اگر کسی کو فتح ہوئی ہے تو وہ اصول کی فتح ہے.فرمایا احمدی متعصب نہیں ہوتے.لوگوں کی گالیاں ہم سے قوتِ
تاریخ احمدیت.جلد 28 103 سال 1972ء احسان نہیں چھین سکیں.چنانچہ کل تک جو لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں.آج اگر ان کی کوئی ضرورت انہیں ہمارے پاس لے آئے تو ہم جائز حد تک ان کی مدد کرنے میں کبھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ ہمیں کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے.91 ۴.حضور انور نے دوران گفتگو اردو زبان کے بارہ میں فرمایا کہ اردو ایک بین الاقوامی زبان ہے.حضور انور نے اس بارہ میں فرمایا کہ موجودہ حالات میں ہمارے سیاسی راہنماؤں کو اپنی اپنی پارٹی کے مخصوص نظریات سے بالا رہ کر ملک کی بقا اور سلامتی اور استحکام کے لئے نہایت حزم واحتیاط اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرنا چاہیے.فرمایا زبان کے مسئلہ پر موجود ہنگامہ آرائی سے وطن دشمن عناصر کو تقویت ملے گی.ذرا ذراسی باتوں پر خونریز فسادات دراصل پاکستان کو تباہ کرنے کے مترادف ہیں.زبان تو کسی کی گڈی سے پکڑ کر باہر نہیں نکالی جاسکتی.اردو بولنے والے اردو بولیں گے اور سندھی بولنے والے سندھی.تاہم جہاں تک اردو کی قومی حیثیت کا تعلق ہے اسے تو کوئی بدل نہیں سکتا کیونکہ اس کا حلقہ اثر صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ایک لحاظ سے یہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر چکی ہے.غیر ملکوں میں احمدیت کے ذریعہ جو لوگ مسلمان ہوتے ہیں انہیں سلسلہ احمدیہ کے اخبارات اور دوسرے لٹریچر پڑھنے کے لئے اردو سیکھنی پڑتی ہے چنانچہ اب تک کئی انگریز ، افریقن ، انڈو نیشین اور دوسرے غیر ملکی دوست اچھی طرح اردو بول اور بعض تو لکھ بھی سکتے ہیں.92 ۵.ڈاکٹر مسعود الحسن نوری صاحب 9 جولائی کو اپنے ایک ڈاکٹر دوست کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر تھے.حضور نے ان سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا.پچھلے سال گھوڑے سے گرنے اور پھر ڈاکٹری ہدایت کے ماتحت لگا تار کئی ہفتے لیٹے رہنے کی وجہ سے میرے گھٹنے سخت ہو گئے.میرے لئے قعدہ میں بیٹھنا مشکل ہو گیا.مسجد میں جانا اور دوستوں سے ملنا بند ہو گیا تو یہ امر میرے لئے دو ہری تکلیف کا موجب بن گیا.میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے قدرتوں والے خدا! اگر تو سمجھتا ہے کہ میری زندگی میرے لئے اور جماعت کے لئے فائدہ مند ہے تو تو مجھے شفا بخش.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پنے فضل سے مجھے صحت عطا فرمائی.حالانکہ بیماری کے دوران کئی ڈاکٹروں کی یہ رائے تھی کہ گھٹنوں کی یہ بختی مستقل تکلیف بن جائے گی.فرمایا انسان نے میڈیکل سائنس میں خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کی ہو.پھر بھی ڈاکٹر کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ مریض کو شفا دینا تو کجا اس کی صحیح تشخیص اور اس کے مناسب حال نسخہ لکھنا بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ شافی مطلق ہے.اس کے اذن اور اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 104 سال 1972ء سے دعا کئے بغیر نہ ڈاکٹر کی لیاقت کام آتی ہے اور نہ کوئی دوائی کارگر ہوتی ہے.فرمایا یہی وجہ ہے کہ ہمارے جو ڈا کٹر افریقہ گئے ہیں وہاں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے ایسے مریضوں کا بھی علاج کیا اور ان کو شفاملی ہے جو بڑے بڑے ماہر غیر ملکی ڈاکٹروں کے نزدیک لا علاج تھے.93 ۶.حضور انور نے مورخہ ۳۰ جولائی کو احباب جماعت سے دوران گفتگو فر ما یا کہ پچھلی جنگ میں وہ بہادر فوجی جوان جو بلند و بالا برفانی پہاڑوں پر دشمن کے سامنے سینہ سپر تھے اور جن کے پاس پوری طرح گرم کپڑے بھی نہیں تھے ان کے لئے ہم نے فوجی سپاہیوں کی ضرورت اور ان کے مشورے سے ساڑھے چھ ہزار صدریاں تیار کر کے راولپنڈی میں متعلقہ حکام کو پیش کیں.بعض جگہوں پر مثلاً شیخو پورہ ضلع سے کل ۱۲۰ صدریاں ۳۰ روپے فی کس کے حساب سے تیار کر کے بھجوائی گئیں مگر اس کے مقابلے میں جہاں ہماری یہ پیشکش تعداد میں کہیں زیادہ تھی وہاں اس کی لاگت فی صدری ساڑھے چار روپے تھی.اس کی ایک وجہ تو کپڑے کے احمدی کارخانہ داروں کا تعاون تھا.انہوں نے کچھ کپڑ اتو مفت دے دیا اور کچھ اصل قیمت پر مہیا کر دیا.دوسرے سرگودھا اور لائل پور (فیصل آباد) کے بعض احمدی زمینداروں نے روئی مفت بھیجوا دی.تیسرے لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کے زیر اہتمام لجنات کا دیوانہ وار اور انتھک محنت سے کام کرنے کا جذبہ تھا.انہوں نے رضا کارانہ طور پر تھوڑے سے عرصہ میں بھرائی سلائی کر کے ہزاروں کی تعداد میں صدر یاں تیار کر دیں.94 ے.حضور انور نے مزید فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے مطابق كه الكلمة الحكمة ضالة المومن فحيث وجدها فهو احق بها‘ 95 ہر نیک اور اچھی بات جہاں سے بھی اور جس سے بھی ملے لے لینی چاہیے کیونکہ یہ مومن کا ورثہ ہے.ہر اچھی بات کا اصل سر چشمہ قرآن کریم ہے.فرمایا ” چیئر مین ماؤ زندہ باد کے نعرے تو لگتے ہیں لیکن اصل میں اس کا فائدہ اسی صورت میں ہے کہ ہمیں اس کے خیالات و افکار اور اس کے عقائد و نظریات کا بھی علم ہو.جو آدمی بھی اس کا مطالعہ کرے گا وہ ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس نے اپنے معاشرہ کو ترقی دینے اور غربت وافلاس، ظلم و نا انصافی کا قلع قمع کرنے کے لئے جتنے اچھے اور مفید اقدامات کئے ہیں وہ اسلامی تعلیم کے عین مطابق ہیں.اس لئے اس کی اچھی باتوں کی نہ صرف تعریف کرنی بلکہ انہیں لے لینا چاہیے.کیونکہ یہ تو دراصل ہمار اور شہ ہے مگر انہوں نے اسے اپنالیا ہے اور ہم اس کے وارث ہوتے ہوئے بھی اس جذ بہ عمل اور سچی لگن سے محروم ہیں جس سے چینی سرشار ہیں.96
تاریخ احمدیت.جلد 28 105 سال 1972ء حضور انور نے آنحضرت صل اللہ الیتیم کے ذریعہ پیدا ہونے والے انقلاب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نہ روسی انقلاب سے مرعوب ہونے کی وجہ ہے اور نہ چینی انقلاب سے دل لگانے کی چنداں ضرورت ہے.کیونکہ ہمارے سید و مولا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدا کردہ عظیم الشان انقلاب ہمارے لئے بیش قیمت سرمایہ حیات ہے.روسی اور چینی انقلاب سالہا سال کی جدو جہد کے مرہونِ منت ہیں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حسن و احسان سے سارے جزیرہ نما عرب کو چند سالوں میں اسلام کا گرویدہ کر لیا.لوگوں کو باخدا ہی نہیں بلکہ خدا نما وجود بنادیا.بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء کے زمانہ میں کسریٰ اور قیصر کی دو عظیم الشان طاقتیں مقابلے پر آئیں تو مٹھی بھر مسلمان جو عزم و ہمت کے پیکر اور ایمان وایقان کی مضبوط چٹا نہیں تھیں وہ ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں.یہ مسلمانوں کا حسنِ سلوک تھا جس سے گرویدہ ہو کر علاقے کے علاقے اور ملک کے ملک مسلمان ہو گئے.چنانچہ یہ مسلمانوں کے حسن و احسان کا کرشمہ تھا کہ کئی جگہوں پر غیر مسلموں نے رحمت کے فرشتے سمجھ کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کی جدائی پر غم واندوہ کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے.97 ۹ حضور انور نے اقتصادیات کے بارہ میں فرمایا کہ آج کے اقتصادی مسئلے کا صحیح حل قرآن کریم نے پیش کیا ہے.اسلام کہتا ہے ہر فرد کی استعداد خدا کی ودیعت کردہ اور مختلف ہے.اگر قوت و استعداد مختلف ہے تو اس کی کوشش بھی مختلف ہوگی ، جب کوشش مختلف ہوگی تو اس کے نتائج اور ثمرات بھی مختلف ہوں گے.گویا جو سب سے زیادہ کمائے گا وہ اعلیٰ اور جو اس سے تھوڑا کمائے گا وہ درمیانہ اور جوسب سے تھوڑا کمائے گا وہ نچلے درجہ کا کہلائے گا.اس قدرتی معاشرتی اونچے نیچے کے فرق کو کم سے کم کرنے کے لئے اسلام کہتا ہے کہ چونکہ کسی فرد کی استعدادا پنی نہیں بلکہ خدا کی عطا کردہ ہے اس لئے اگر کسی شخص کو زیادہ استعداد ملی ہے اور اس کے نتیجہ میں اس نے اپنی ضرورت سے زیادہ کمائی کرلی ہے تو اس میں تھوڑی استعداد مگر زیادہ ضرورت والے فرد کا بھی حصہ ہے وہ اُسے ضرور ملنا چاہیے.چنانچہ یہی وہ قدرتی فرق ہے جسے تسلیم کرتے ہوئے چین نے مکمل مساوات کو ناممکن قرار دیا ہے.روسیوں نے عملاً ثابت کر دکھایا ہے کہ مکمل مساوات ناممکن ہے.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے فرمایا، استعدادوں میں اختلاف یعنی عدم مساوات خالی از حکمت نہیں.اگر یہ اختلاف نہ ہوتا تو آسمانی ہدایت کی ضرورت نہ ہوتی.دوسرے مخلوق کے حقوق و واجبات کا احساس پیدا نہ ہوتا.ایک
تاریخ احمدیت.جلد 28 106 سال 1972ء دوسرے سے تعاون کی روح بھی پیدا نہ ہوتی.تیسرے جب سب لوگ برابر استعدادوں کے مالک ہوتے اور ایک دوسرے کی مدد کے محتاج نہ ہوتے تو وہ اس قسم کے ثواب سے محروم ہو جاتے.98 ۱۰.حضور نے انسان کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں اور ان کی کامل نشوونما پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہ قوتیں اور استعدادیں ایسی ہی لازم و ملزوم ہیں.ان کی درجہ بدرجہ اور کامل نشو نما پر انسان کی تمام تر ترقیات کا دارو مدار ہے تمثیلی زبان میں انسان کو ایک مکان کہہ لیں جس کی بنیاد جسمانی طاقتوں کی نشو ونما پر اٹھتی ہے.ذہنی قوتیں بمنزلہ دیواروں کے ہوتی ہیں.اخلاقی صلاحیتیں چھت کا کام دیتی ہیں تو روحانی اقدار کی حکمرانی قائم ہونے سے وہ مکان روحانی برکتوں کا گہوارہ اور انوار الہیہ سے بقعہ نور بن جاتا ہے.ہماری جماعت کو اصلاح نفس کی طرف بہت توجہ کرنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اسلام کا عالمگیر غلبہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی حکومت کا قیام ہے.یہ عظیم الشان ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالی گئی ہے.اس اہم ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لئے ہمیں اپنے اندروہی نو رایمان اور فدائیانہ رنگ، وہی ایثار کا جذبہ، وہی قربانی کی روح اور بنی نوع انسان سے وہی سچی ہمدردی پیدا کرنی پڑے گی جو صحابہ رضوان اللہ علیہم کا طرہ امتیاز تھا.فرمایا پاگل تھے وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے اور نادان تھے وہ مسلمان جنہوں نے کہا تھا کہ مسلمان ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر نکلے تھے.ہمارے دائیں ہاتھ میں بھی قرآن ہے اور بائیں ہاتھ میں بھی قرآن ہے یہی قرآنی انوار ہیں جن کے ساتھ ہم نے دنیا میں اسلام کو پھیلانے کی نسلاً بعد نسل جد و جہد جاری رکھنی ہے.99 ایبٹ آباد میں عشاق خلافت کی آمد جب تک حضرت امام ہمام ایبٹ آباد میں رونق افروز رہے ملک کے گوشہ گوشہ سے آنے والے عشاق خلافت کا گویا تانتا بندھا رہا.واہ کینٹ ، ٹیکسلا اور لائل پور (فیصل آباد ) کے ۱۰۰ مخلصین نے تو ایک دن میں ہی اجتماعی ملاقات کی ان کے علاوہ مانسہرہ، دانہ، پھگلہ، لاہور، گوجرانوالہ، پشاور، تربیلا، راولپنڈی، ربوہ، اسلام آباد، کیمبلپور، مظفر آباد (آزاد کشمیر )، مری، ٹیکسلا، کراچی، مردان، گجرات اور کوئٹہ کے مخلصین بھی آئے اور اپنے پیارے امام کی زیارت اور بابرکت کلمات سے مستفید ہوئے.حضور کے قیام ایبٹ آباد کے دوران جن حضرات نے شرف ملاقات حاصل کئے ان میں سے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا، چوہدری احمد جان
تاریخ احمدیت.جلد 28 107 سال 1972ء صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی اور چوہدری فضل احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ لیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو الوداع ۱۰ را گست کو صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب راولپنڈی سے بذریعہ ہوائی جہاز عازم امریکہ ہونے والے تھے.حضور ان کو الوداع کہنے کے لئے بنفس نفیس راولپنڈی تشریف لے گئے اور مکرم میجر سید مقبول احمد صاحب کی کوٹھی بیت السلام پر قیام فرمایا.یہاں کثیر تعداد میں احباب جمع تھے.حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور دیر تک گفتگو فرماتے رہے.بعد ازاں حضور انور نے محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کو اجتماعی دعا کے ساتھ الوداع کیا.چونکہ دو پہر کا وقت تھا.گرمی بھی بہت تھی اس لئے حضور ہوائی اڈہ پر تشریف نہ لے جاسکے.وہاں حضور کی نمائندگی محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے کی.بعد ازاں دو بجے دوپہر واپس ایبٹ آباد تشریف لے گئے.100 اشاعت قرآن کی نئی عالمی تحریک کا آغاز سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے سے جولائی ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں نہایت شرح وبسط سے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اشاعت قرآن کی دنیا میں کتنا عظیم انقلاب رونما ہو رہا ہے نیز اشاعت قرآن کی ایک عظیم الشان عالمی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے اس دلی تمنا کا اظہار فرمایا کہ آئندہ پانچ سال میں قرآن کریم کی دس لاکھ کا پیاں دس لاکھ گھروں تک پہنچ جائیں.حضور نے خلافت اولی اور ثانیہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ہونے والی ان کوششوں کا ذکر فرمایا جو اشاعت قرآن کریم کے تراجم کے سلسلہ میں کی گئی تھیں.اس کے بعد حضور انور نے فرمایا:."پس جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت کا تعلق ہے ایک انقلاب آ گیا ہے.گو اس انقلاب کی اس وقت ہمیں ایک موج نظر آتی ہے.میرے دل میں یہ شدید خواہش ہے کہ اگلے پانچ سال میں قرآن کریم کی کم از کم دس لاکھ کا پیاں دس لاکھ افراد کے پاس یا یوں کہنا چاہیے کہ دس لاکھ گھروں میں پہنچ جانی چاہئیں.اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.میں نے یہ کام کروا دیا ہے.میں خود حیران ہوں.میرا زمانہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 108 سال 1972ء خلافت ابھی بہت تھوڑا ہے.پانچ چھ سال کے اس تھوڑے سے عرصہ میں قرآن کریم کی ایک لاکھ کا پیاں چھپ چکی ہیں.میرا خیال ہے آپ میں سے کسی دوست کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی ہوگی کہ کتنا بڑا انقلاب آگیا ہے...امت محمدیہ میں در اصل قرآن کریم کی اشاعت دو رنگ میں کی گئی ہے.ایک اس کو تجارت کا مال بنا کر منڈی میں پھینکا گیا اور اس سے مادی فائدہ اٹھایا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے تاجر نہیں بنایا مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب بنایا ہے.اس واسطے میں نے تجارت نہیں کرنی.پس ہم نے اس کی تجارت اللہ تعالیٰ سے کرنی ہے ہم نے پانچ دس فیصدی نفع نہیں لینا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے ساتھ تجارت کرے گا اسے دس گناہ زیادہ دوں گا اور اگر چاہوں تو اس سے بھی زیادہ دوں گا.اس لئے ہم نے یہ دعا کرنی ہے کہ اے ہمارے خدا ہمارے لئے یہ پسند فرما اور توفیق دے کہ ہم اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کریں اور زیادہ سے زیادہ ثواب اور اجر کے مستحق ٹھہریں اس وقت یہ تین نسخے قرآن کریم کے ایک سادہ، دو مترجم اشاعت کے لئے موجود ہیں.‘101 اسی خطبہ میں حضور نے اس عظیم الشان منصوبہ کی تکمیل کے سلسلہ میں آسان سکیم پیش فرمائی کہ ہر تحصیل اشاعت قرآن کے لئے دو ہزار روپیہ جمع کرے اور امرائے ضلع اس سرمایہ سے حمائل سائز میں سادہ اور اردو ترجمہ والا قرآن خریدیں اور اصل لاگت (یعنی چھ روپے فی کاپی) پر فروخت کریں.( یہی سکیم حضور نے قبل ازیں مشاورت ۱۹۷۲ ء کے موقع پر رکھی اور ارشاد فرمایا تھا کہ امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اس بات کا انتظام کریں کہ ہر تحصیل میں دو ہزار روپیہ جمع کیا جائے اور یہ رقم سرمایہ کے طور پر ہو اور اس سے قرآن مجید کی اشاعت کا کام تحصیل وار ہو.)102 مخلصین جماعت کی طرف سے والہانہ لبیک حضرت خلیفہ امسح الثالث کی تجویز فرمودہ سکیم پر پاکستان اور بیرون ممالک کے جن امراء حضرات نے فوری طور پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کی ان کے نام یہ ہیں.(۱) چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر ضلع لاہور
تاریخ احمدیت.جلد 28 109 (۲) شیخ محمد بشیر احمد علی صاحب امیر ضلع جھنگ (۳) شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر ضلع لائلپور (فیصل آباد) (۴) شیخ محمد حنیف صاحب امیر کوئٹہ (۵) چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع راولپنڈی (۶) عبد الغنی صاحب امیر جماعت احمدیہ کویت 103 سال 1972ء جماعت احمدیہ کراچی نے امیر چوہدری احمد مختار صاحب کی قیادت میں اشاعت قرآن مجید کی جد و جہد میں قابل تقلید نمونہ دکھایا اور وہ یہ کہ جنوری ۱۹۷۳ ء تک اس نے ادارہ طباعت واشاعت قرآنِ عظیم سے تقریباً چالیس ہزار روپے کے قرآن مجید حاصل کئے اور کراچی کے گوشہ گوشہ تک پہنچائے اس کے علاوہ تین سو نسخے کلام پاک کے ہوٹلوں میں رکھوائے.104 خواتین احمدیت نے اس سلسلہ میں اپنی گذشتہ روایات کے شایان شان ایثار و قربانی کی ایک نہایت شاندار مثال قائم کی.چنانچہ حضرت سیّدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے لجنہ اماء اللہ کی ممبرات کی طرف سے ایک لاکھ روپے کا گرانقدر عطیہ اشاعت قرآن مجید کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.حضور نے اسے شرف قبولیت بخشا اور رقم جدید پریس کی تعمیر میں لگانے کا ارشاد فرمایا.105 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس برائے طالبات خدا تعالیٰ کے فضل سے تعلیم القرآن کلاس کا پہلا دور ۱۹۶۷ ء سے شروع ہو کر ۱۹۷۲ء میں نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.۱۹۷۲ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق پہلا ہفتہ (۱۵ جولائی تا ۲۱ جولائی) کی کلاس ربوہ کی سطح پر منعقد کی گئی جس میں بیرون از ربوہ سے بھی کچھ طالبات نے شرکت کی دور و نزدیک کے ۵۳ مقامات سے ۱۷۳ ممبرات اس میں شامل ہوئیں.ربوہ سے ۲۷۶ طالبات شامل ہو ئیں یعنی کل ۴۴۹ طالبات نے کلاس میں شرکت کی.پہلے ہفتے طالبات کی کلاس لجنہ اماءاللہ ہال میں منعقد ہوئی.اس نصاب کا ۲۰ جولائی کو امتحان لیا گیا جس میں ۳۶۵ طالبات نے شرکت کی.اس کے بعد مرکزی کلاس ۲۲ جولائی سے ۱۳ اگست تک جاری رہی.۲۲ جولائی سے طالبات روزانہ مسجد مبارک میں مقررہ نصاب پڑھتی رہیں، پردہ کا
تاریخ احمدیت.جلد 28 110 سال 1972ء انتظام تھا.ہر روز شام کو طالبات کی کلاس زیر نگرانی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ہوتی رہی.۱۳ اگست کو طالبات کا امتحان لجنہ ہال اور نصرت گرلز ہائی سکول کے ہال میں منعقد ہوا جس میں ۶۴ معیار اول اور ۳۳۵ معیار دوم کی لڑکیاں شامل ہوئیں.اسی شام اختتامی تقریب دفتر لجنہ اماءاللہ کے لان میں حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کی زیر صدارت ہوئی.مورخہ ۱۴ اگست کی صبح طالبات کے کھیلوں کے مقابلہ جات لجنہ کے میدان میں منعقد ہوئے.ربوہ اور بیرون از ربوہ طالبات کا نیٹ بال کا مقابلہ بھی ہوا جس میں ربوہ کی ٹیم نے کامیابی حاصل کی.اسی طرح تقریری مقابلہ جات لجنہ کے ہال میں زیر صدارت حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ منعقد ہوئے.106 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس اس سال چھٹی مرکزی فضل عمر درس القرآن کلاس ۲۲ جولائی تا ۱۳ راگست ۱۹۷۲ء مسجد مبارک ربوہ میں انعقاد پذیر ہوئی جو ہر لحاظ سے نہایت کامیاب رہی.کلاس میں پاکستان کی ۱۷۲ جماعتوں کے ۳۹۱ طلباء اور ۴۰۹ طالبات نے شمولیت کی.اس کلاس کی متعدد خصوصیات تھیں مثلاً اس سال پورے قرآن مجید کے ترجمہ کا پہلا دور ختم ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق ایک ہفتہ تک کلاس مقامی طور پر امراء جماعت اور مربیان کرام کی زیر نگرانی منعقد ہوئی جس کے بعد طلباء نے تین ہفتہ تک ربوہ میں آکر مرکزی انتظام کے ماتحت ترجمہ قرآن اور دیگر اہم دینی علوم حاصل کئے.اس سال حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے قیام و طعام اور نظم وضبط کے لئے با قاعدہ ایک سب کمیٹی نیز تدریسی انتظامات کے لئے ایک مستقل سب کمیٹی مقرر فرما دی جس سے کلاس کے انتظامات پہلے سے بہتر رنگ میں انجام پاگئے.107 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث ان ایام میں ایبٹ آباد میں مقیم تھے اور گرمی بلا کی پڑ رہی تھی مگر طلباء کو انوار قرآنی سے فیضیاب کرنے کے لئے حضور خاص طور پر ایبٹ آباد سے ربوہ تشریف لائے اور ۲۲ جولائی ۱۹۷۲ء کو ایک بصیرت افروز خطاب میں فرمایا کہ قرآن کریم کے بغیر قرآن کریم کی برکات کو چھوڑ کر اور قرآنی انوار کی طرف سے پیٹھ پھیر کر ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی رفعت اور کامیابی حاصل نہیں کر
تاریخ احمدیت.جلد 28 111 سال 1972ء سکتے.اس لئے ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ ہماری نسلیں قرآن کریم کو حرز جان بنا لیں اور اس کو مہجور نہ چھوڑیں اور اس کا ایک طریق یہ اختیار کیا گیا ہے کہ ہر سال جماعت کے بچوں کے ایک گروہ کو مرکز میں اکٹھا کیا جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کے معانی، اس کی خوبیوں، اس کے انوار اور اس کے حقائق و معارف سے واقف کرایا جاتا ہے تا ہماری نسل کا ہر فرد اس کتاب کی عظمت کا قائل ہو، اس کی غلو شان سے واقف ہو، اس کی خوبیوں سے آگاہ ہو، اس کے نور کا اسے علم ہو، اس کی روح اور اخلاق پر اس کا اثر ہو، اس کے دل میں اس کے لئے محبت کا ہر وقت ایک سمندر موجزن ہو اور کسی وقت بھی اس کے نفس میں شیطان کوئی ایسا وسوسہ پیدا نہ کرے جو اسے قرآن کریم سے دور لے جانے والا ہو.“ حضور نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.قرآن کریم نے اپنی کئی صفات کا ذکر کیا ہے ان صفات میں سے ایک صفت هدئ للناس ہے یعنی قرآن کریم خدا تعالیٰ کے قرب کی راہوں کی نشاندہی کرتا ہے اور پھر انسانی استعداد کے مطابق منزل به منزل بہتر سے بہتر ہدایت عطا کرتا ہے اور عطا کرتا چلا جاتا ہے....دوسری صفت قرآن کریم نے اپنی یہ بیان کی ہے کہ بينات من الهدی کہ جو ہدایت میں تمہیں دیتا ہوں وہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے اس لئے ہر استعداد کا انسان اس کو اور اس کی تفاصیل کو قبول کرے گا.پھر قرآن کریم نے اپنے اس دعوی کے عقلی نقلی تاریخی اور اعجازی دلائل بیان کئے ہیں.اس نے اپنے اس دعوی کی صداقت کا ایک نشان قبولیت دعا بھی پیش کیا ہے جو ایک زبر دست دلیل ہے اس بات پر کہ خدا اور انسان میں پختہ اور زندہ تعلق قائم ہے.پہلی کتابوں نے بعض احکام شریعت ایسے دیئے تھے جن کے دلائل نہیں دیئے گئے تھے اور اگر دلائل دیئے بھی تھے تو وہ ابتدائی نوعیت کے تھے لیکن قرآن کریم نے بوجہ جامع ہدایت ہونے کے ان شرائع کا جو حصہ لیا ہے اس کے دلائل بھی دیئے ہیں پھر تیسری صفت قرآن کریم نے اپنی یہ بیان کی ہے کہ میں الفرقان ہوں یعنی میں ان تمام اختلافات کو دور کرتا ہوں جو مذاہب اور نیم مذاہب میں پائے
تاریخ احمدیت.جلد 28 112 سال 1972ء جاتے ہیں.کوئی مذہب دنیا میں ایسا نہیں پایا جاتا جو یہ کہے کہ میرے عقائد کا یہ اختلاف ہے اور قرآن کریم اسے دور نہیں کرتا.میں دعوی کرتا ہوں کہ دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کر کے میں ان اختلافات کو قرآن کریم کے ذریعہ دور کر دوں گا.یہ وہ عظیم کتاب یعنی قرآن کریم ہے جس سے متعارف کرنے کے لئے آپ کو قریباً ایک ماہ کے لئے اکٹھا کیا جاتا ہے.آپ کو اس کی عظمت اور شان کے متعلق جو بات بھی کسی سبق اور تقریر میں ملے اسے اپنے ذہن میں رکھیں اور آئندہ زندگی میں اس سے فائدہ اٹھا ئیں تا کہ ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جائیں کہ ہماری کوئی نسل ایسی نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہیں کہ اس نے قرآن کریم کو مہجور بنا دیا ہے.نسلاً بعد نسل ہم قرآن کریم کے ذریعہ اپنے سینوں کو تسکین دینے والے، اپنے ذہنوں کی چلا اور اپنی روح کے لئے نور کا سامان پیدا کرنے والے ہوں اور محمد رسول اللہ صلی ا یہی ہم پہ نظر ڈالیں تو خوش ہوں کہ یہ لوگ بعد میں آئے اور پہلوں سے جاملے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.“ اس کلاس کی اختتامی تقریب مورخه ۱۳ / اگست ۱۹۷۲ء کو محترم چوہدری حمید اللہ صاحب امیر مقامی کی زیر صدارت دفتر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے لان میں منعقد ہوئی.تلاوت و نظم کے بعد مولا نا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے خطاب فرمایا.آخر میں اس تقریب کے صدر محترم چوہدری حمید اللہ صاحب نے مختصر تقریر کی اور اجتماعی دعا کے ساتھ تقریب اختتام پذیر ہوئی.108 ادار و اشاعت و طباعت قرآن عظیم کا قیام حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اگست ۱۹۷۲ء میں قرآن مجید کی اشاعت وطباعت کی مہم کو تیز کرنے کے لئے مرکز احمدیت ربوہ میں ادارہ اشاعت و طباعت قرآن عظیم کا قیام فرمایا.اس کے سپر دقرآن مجید سادہ اور باترجمہ اور تفاسیر کی طباعت و اشاعت کا انتظام فرمایا.یہ ادارہ ابتدا ہی میں قرآن پبلیکیشنز (Quran Publications) کے نام سے رجسٹرڈ کروالیا گیا اور شروع میں حضور نے ابتدائی دو سال کے لئے مندرجہ ذیل احباب کو مجلس منتظمہ کا ممبر مقرر فرمایا:.۱.مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اشاعت لٹریچر صدرانجمن احمد یہ پاکستان
تاریخ احمدیت.جلد 28 113 سال 1972ء ۲.مولا نا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشادصدرانجمن احمد یہ پاکستان ۳.مولوی نور محمد صاحب نیم سیفی وکیل التعلیم تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ۴.صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے ربوہ ۵.مولانا دوست محمد شاہد صاحب ربوہ ۶.مولا نا غلام باری سیف صاحب استاذ الجامعه ربوہ ے.مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب مولوی فاضل ( مینیجنگ گورنر قرآن پبلیکیشنزر بوه ) 109 جدید پریس کی مجوزہ زمین کا معائینہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مرکز احمدیت ربوہ میں ایک جدید پریس لگائے جانے کا اعلان فرمایا تھا.اس منصوبہ کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے حضور نے نصرت پرنٹرز اینڈ پبلشرز کے نام سے ایک کمپنی تجویز فرما دی تھی جس کو رجسٹرڈ کروالیا گیا اور اس نے اپنا کام شروع کر دیا.پریس لگانے کے لئے ابتدائی اہم مرحلہ مناسب اور کھلی زمین کے حصول کا تھا کیونکہ حضور کا منشاء مبارک یہ تھا کہ زمین اتنی کشادہ ہو جس میں پریس کو وقتاً فوقتاً بڑھایا جا سکے.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ۲۴ اگست ۱۹۷۲ء کو بعد نماز عصر تعلیم الاسلام کالج کے مشرقی جانب کھلی زمین کا معاینہ فرمایا اور چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب سیکرٹری آبادی کمیٹی ربوہ کو ارشاد فرمایا کہ وہ زمین کی حدود کی لائنیں لگوا دیں چنانچہ حدود کی لائنیں مکمل ہو جانے کے بعد ۲۸ اگست کو بعد نماز عصر حضور مجوزه زمین دیکھنے تشریف لے گئے اور زمین کو چاروں طرف سے ملاحظہ فرمایا اور پریس کیلئے اس زمین کی منظوری عطا فرما دی.اس زمین کا رقبہ قریباً چارا یکڑ تھا.110 بعد ازاں اس کا سنگ بنیاد ۱۸ فروری ۱۹۷۳ء کو رکھا گیا.ایک انقلاب عظیم کے برپا ہونے کی پیشگوئی حضور انور نے عظمت قرآن کریم کے حوالہ سے خطبات جمعہ کا ایک سلسلہ شروع فرمایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک عظیم ہدایت ہے اور کامل شریعت ہے.حضور انور نے مؤرخہ ۲۵ /اگست ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس صدی میں مبعوث ہوئے.اس صدی کی انسانی ضروریات کے تحت انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں.حضور انور نے فرمایا
تاریخ احمدیت.جلد 28 114 سال 1972ء کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جو انقلاب رونما ہوا اس سے بڑا کوئی اور انقلاب انسانی تصور میں نہیں آسکتا.پھر آخری زمانہ میں اسلامی انقلاب اور غلبہ کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کے رنگ میں فرمایا:.اسلام کو غالب کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مصلحت نے یہ تقاضا کیا کہ اسلامی انقلاب سے پہلے یکے بعد دیگرے تین انقلاب رونما ہوں گے اور اس طرح اسلامی انقلاب کے رونما ہونے کے لئے زمین تیار ہو جائے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اسلام کا جو آخری غلبہ ادیان باطلہ اور فلسفہ ہائے باطلہ پر مقدر ہے اس کے لئے سرمایہ داری کے انقلاب کے وقت سے بنی نوع انسان کو تیار کیا گیا ہے اس لئے میرے احمدی بھائیوں اور بہنوں کو ان انقلابی تحریکوں سے گھبرانا نہیں چاہیے یہ تو ہمارے لئے تمہید کے طور پر ہیں.چنانچہ دیکھ لیں جس وقت سرمایہ داری کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہورہا تھا اس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنی جوانی کے زمانہ میں داخل ہو رہا تھا.جس وقت اشتراکیت کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہورہا تھا اس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا تھا اور انشاء اللہ اور اسی کے فضل سے اور جیسا کہ میں دیکھ رہا ہوں یہ ایک خاص سلسلہ ہے جو ایک زبردست الہی منصوبے کے تحت تیار کیا گیا ہے.اس لئے میں علی وجہ البصیرت اور پورے وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ جس وقت چینی سوشلزم کا انقلاب اپنے بڑھاپے میں داخل ہو رہا ہوگا اسلام کا عظیم انقلاب اپنی جوانی میں داخل ہو رہا ہو گا.اس لئے ہماری جماعت پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں“.111 جماعتی تعلیمی ادارہ جات کا قومیائے جانا صدر مملکت ذوالفقار علی بھٹو نے ریڈیو پاکستان پر تمام پرائیویٹ سکولوں کو سرکاری تحویل میں لینے کا اعلان کیا اور کہا کہ ان سکولوں کو دو سال تک قومی تحویل میں لے لیا جائے گا.اور پرائیویٹ
تاریخ احمدیت.جلد 28 115 سال 1972ء کالج یکم ستمبر ۱۹۷۲ ء سے سرکاری تحویل میں لے لئے جائیں گے اور ان کا کوئی معاوضہ ادا نہیں کیا جائے گا.112 پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت نے دوسرے تعلیمی اداروں کی طرح جماعت احمدیہ کے سب مرکزی تعلیمی اداروں کو بھی قومی تحویل میں لے لیا تھا جس سے جماعت کے حلقوں میں پریشانی کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا جس پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنی خداداد فراست و بصیرت سے احباب جماعت کی کامیاب راہنمائی کی اور ۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے افتتاحی خطاب میں فرمایا:.”ہمارے کچھ حالات تو اس طرح بدلے کہ ہماری موجودہ حکومت جو اپنے آپ کو عوامی حکومت کہتی ہے اس نے ہمارے تعلیمی اداروں کو بھی Nationalise کرلیا یعنی قومی تحویل میں لے لیا جس سے کچھ احمدی گھبرا جاتے ہیں.میں ایسے دوستوں کو کہتا ہوں اگر یہ واقعی عوامی حکومت ہے تو پھر یہ ہماری اپنی حکومت ہے کیونکہ ہم بھی عوام ہیں اور عوام ہی ہیں جنہوں نے زیادہ تر ووٹ دے کر یا دوسروں سے دلوا کر ان لوگوں کو منتخب کروایا تھا جن کی آج حکومت ہے.چنانچہ حزب مخالف نے ایک موقع پر کہا تھا کہ ۲۲ لاکھ احمدی ووٹوں کے نتیجہ میں پیپلز پارٹی جیت گئی.میں نے تو اس سلسلہ میں اعداد و شمار اکٹھے نہیں کروائے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک احمدی رائے دہندگان کی تعداد کا تعلق ہے انہوں نے مبالغہ کیا ہے احمدی ووٹروں کی تعداد لاکھ نہیں ہے لیکن ایک اور حقیقت بھی کارفرما ہے اور یہ اعداد و شمار اس حقیقت کے.بہت قریب معلوم ہوتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پارٹیشن کے وقت جماعت کو ایک بڑا دھکا لگا تھا.پھر بھی ہر احمدی ووٹر کم از کم دو غیر احمدی دوست بطور ووٹر اپنے ساتھ رکھتا ہے.چنانچہ عام انتخابات سے پہلے ایک دوست مجھے ملنے آئے وہ گجرات کے ایک حلقے میں امیدوار تھے کہنے لگے آپ مجھے ووٹ دیں.میں نے کہا کہ آپ کے اس حلقہ میں ساٹھ ستر ہزار ووٹ ہیں جبکہ ہمارے احمدی دوستوں کے ووٹ کے ہزار کے لگ بھگ ہیں.یہ اگر تمہیں ووٹ نہ بھی دیں تو کیا فرق پڑتا ہے.ستر ہزار ووٹوں
تاریخ احمدیت.جلد 28 116 سال 1972ء میں ان کی نسبت ۱/۱۰ ہے.کہنے لگے نہیں احمدی ووٹر سات ہزار نہیں نو ہزار ہیں.میں نے کہا اگر نو ہزار ہیں تب بھی کیا فرق پڑتا ہے.کہنے لگے فرق یہ پڑتا ہے کہ ہم نے سر جوڑے اور غور کیا اور آپس میں مشورے کئے اور حالات کا اندازہ لگایا تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ کے ساتھ ۲۷ ہزار ووٹ ہے کیونکہ 9 ہزار آپ کا اور ۱۸ ہزار آپ اپنے ساتھ لے کر آئیں گے اور ساٹھ ستر ہزار کے حلقے میں ۲۷ ہزار ووٹ بڑی اہمیت رکھتے ہیں اس لئے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس امیدوار کی طرف یہ ووٹ جائیں وہ ہار جائے.پس میں اپنے دوستوں سے یہ کہتا ہوں کہ آپ خوامخواہ کیوں گھبراتے ہیں.اگر یہ عوامی حکومت ہے اور آپ عوام ہی کا ایک حصہ ہیں تو یہ آپ کی حکومت ہے.اب جس حلقہ انتخاب میں ستائیس ہزار ووٹ کسی امیدوار کو احمدیت کی وجہ سے ڈالے گئے ہیں وہاں کے عوام جا کر اس کی گردن پکڑیں گے کہ تم کیوں غلط کام کر رہے ہو.پس اس لحاظ سے ۲۲لاکھ ووٹر سارے احمدی تو نہیں مگر کچھ احمد یوں کے اور کچھ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے، سمجھدار اور صاحب فراست اور صاحب شرافت دوستوں کے، دونوں کی مل کر تعداد کم و بیش اتنی ضرور ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.اس لئے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں کے قومی تحویل میں چلے جانے کی وجہ سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس علاقہ کے عوام کی مرضی کے خلاف ان تعلیمی اداروں کی روایات توڑ دی جائیں اور کوئی اور پالیسی اختیار کی جائے.اگر ایسا ہوا تو ہمارے یہاں کے عوام کہیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا جس طرح ہماری مرضی ہوگی اس طرح کالج چلے گا کیونکہ اگر عوامی حکومت نے عوامی حکومت رہنا ہے تو پھر یہاں کے عوام کی مرضی کے مطابق کالج چلے گا.فرض کریں ہمارے کا لج میں کوئی بڑا اسخت متعصب پر نسپل آجاتا ہے تو وہ بھی کالج کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتا کیونکہ ربوہ کے عوام کا یہ تقاضہ ہوگا کہ اس طرح کالج کو چلا ؤ اور عوامی حکومت کو ماننا پڑے گا یا عوامی حکومت کو حکومت چھوڑنا پڑے گی یا یہ اعلان کرنا پڑے گا کہ اب ان کی حکومت عوامی حکومت نہیں رہی اس لئے دوستوں کو قطعاً گھبرانا نہیں چاہیے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 117 سال 1972ء میں نے ضمنا یہ بات بتادی ہے کیونکہ کئی دوست آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا.یہ سوچنے کی کیا ضرورت ہے کہ اب کیا ہوگا.اب وہی ہوگا جو خدا تعالیٰ چاہے گا ہم نے خود آخر کیا کرنا ہے.اگر ہم نے مل کر اور سر جوڑ کر احمدیت کو بنایا ہوتا تو ہمارے دل میں یہ سوال پیدا ہونا چاہیے تھا کہ اب کیا ہو گا لیکن کیا تم نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا ہے؟ اور اس کو چلا رہے ہو؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو پھر جس نے یہ سلسلہ بنایا ہے وہ ہمارے اس سلسلہ کے کام بنانے والا ہے ہمیں تو کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے.ہمیں اگر کوئی فکر ہے تو اس بات کا فکر ہے کہ جن قربانیوں کا ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے ہم ان کو لفظ اور معناً پورا کرنے والے ہوں.چنانچہ آج تک احمدیت کے حق میں جو نتیجے نکلتے رہے ہیں وہ ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے پیار کو ظاہر کرتے رہے 66 ہیں.113 قومیائے گئے احمد یتعلیمی ادارے اس پالیسی کے تحت جماعت کے مندرجہ ذیل تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لئے گئے.ا تعلیم الاسلام ہائی سکول بشیر آباد (سندھ) تعلیم الاسلام ہائی سکول محمد آباد (سندھ) اس کے علاوہ پنجاب کے درج ذیل تعلیمی ادارے قومیائے گئے.ا تعلیم الاسلام ( پرائمری و ہائی سکول ربوہ ۲.نصرت گرلز ( پرائمری وہائی) سکول ربوہ ۳ فضل عمر ہائی سکول ربوہ م تعلیم الاسلام ہائی سکول کھاریاں گجرات ۵ - احمد یہ پرائمری سکول شادیوال گجرات تعلیم الاسلام پرائمری سکول چوکنا نوالی گجرات تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں سیالکوٹ ۸.احمد یہ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ شہر
تاریخ احمدیت.جلد 28 118 سال 1972ء و تعلیم الاسلام کالج ر بوہ ۱۰.جامعہ نصرت کا لج ربوہ ۱۹۷۲ ء سے لیکر ۱۹۹۶ ء تک ان ادارہ جات کو حکومت پنجاب چلاتی رہی.۲۸ جولائی ۱۹۹۶ ء کو حکومت پنجاب کی طرف سے ایک گزٹ مراسلہ زیر نمبر SO(A.1)SA.1.18/90A.III جاری کیا گیا.جس میں قومی تحویل میں لئے جانے والے تعلیمی اداروں کے مالکان کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ ایک مخصوص جانچ پڑتالی عمل کو پورا کر کے ادارہ جات کو دوبارہ اپنی تحویل میں لے سکتے ہیں.صدر انجمن احمدیہ نے اس حکومتی سہولت سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا.چنا نچہ محکمہ تعلیم پنجاب سے رابطہ کیا گیا اور تمام مطلوبہ شرائط کو پورا کرتے ہوئے مذکورہ بالا ۸ سکولوں کی ایک مخصوص رقم جو 1,10,12,483 ( ایک کروڑ دس لاکھ بارہ ہزار چار صد تر اسی روپے ) بنتی تھی (جس میں ہدایات کے مطابق عملہ کی ۶ ماہ سے لے کر ایک سال کی تنخواہیں اور دیگر الاؤنسز شامل تھے ) اسی وقت حکومتی خزانہ میں جمع کرا دی گئی.لیکن اس کے باوجود یہ سکول تاحال (۲۰۱۵ء) جماعت کو واپس نہیں کئے گئے.پھر جولائی ۲۰۰۲ء میں ایک مرتبہ پھر ترمیمی مراسلہ زیر نمبر S.O(R&B)1.18/90.A III کے تحت قومی تحویل میں لئے جانے والے اداروں کی نجکاری کی سکیم جاری کی گئی لیکن ۱۹۹۷ ء سے جماعت کی جانب سے حکومت پنجاب کو بھجوائی گئی بار بار کی یاددہانیوں کے باوجود آج تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی.حکومت نے صدر انجمن احمدیہ کے دو کالجز کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا تھا.جن کے نام درج ذیل ہیں.ا تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ۲.جامعہ نصرت کالج ربوہ ترمیمی مراسلہ کے ضمن میں ہی صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ۱۳ جولائی ۲۰۰۲ء کوحکومت پنجاب سے مذکورہ بالا کا لجز کو بھی واپس انجمن کی تحویل میں دینے کی درخواست کی تھی.لیکن حکومت نے نہ تو جواب دیا اور نہ ہی جماعت کی درخواست پر کوئی تحریری کا رروائی کی.یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ گذشتہ ۱۵ سالوں سے اس قسم کے اہم مسئلہ پر انجمن کی جو کہ ایک فلاحی ادارہ ہے، سے اتنی بڑی رقم وصول کرنے کے باوجود لاہور میں بیٹھی ہوئی صوبائی قیادت نے جماعت کی طرف سے بھجوائے گئے خطوط ، فیکسز اور پٹیشنز کا ایک مرتبہ بھی نہ صرف جواب نہ دیا بلکہ وصولی تک کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 119 سال 1972ء اطلاع بھی نہ دی گئی.اگر چہ اسی قسم کے مسئلہ میں دیگر کئی تعلیمی ادارہ جات جیسا کہ F.C کالج لاہور کو ان کے مالکان کے سپرد کر دیا گیا لیکن جماعت احمدیہ کے معاملہ میں حکومت کی طرف سے ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا.114 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا خدمت دین کے لئے وقف کرنا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی سوانح عمری ( تحدیث نعمت ) میں تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۷۲ء میں اراکین عدالت کے انتخابات کے سلسلہ میں میرا نام بھی دوبارہ انتخاب کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن ایک انتہائی مبشر رو یا میں مجھے تقسیم ہوئی کہ مجھے اپنے تئیں خدمت دین کے لئے وقف کرنا چاہیے چنانچہ میں نے فور وزارت امور خارجہ پاکستان کو چٹھی لکھ دی کہ میرا نام واپس لے لیا جائے.۵ فروری کی رات کو نصف شب سے قبل میں خاموشی سے بیگ سے بحری راستہ سے لندن روانہ ہو گیا جہاں حضرت خلیفہ اُسیح کی ہدایت کے ماتحت میں نے اپنی رہائش کا انتظام کر لیا تھا.“ اس کے نیچے حاشیہ میں ناشرین کتاب کی طرف سے حضرت چوہدری صاحب کی ایک غیر مطبوعہ تحریر دی گئی ہے جس میں اس اجمال کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ عالمی عدالت پر میری دوسری مرتبہ رکنیت کی میعاد ۶ فروری ۱۹۶۴ء کو شروع ہوئی تھی اور ۵ فروری ۱۹۷۱ء کو ختم ہونے والی تھی.اکتوبر ۱۹۷۲ ء میں جو انتخابات ہونے والے تھے ان میں میرے مکرر انتخاب کے لئے حکومت پاکستان کی طرف سے میرا نام بھیج دیا گیا تھا.ستمبر ۱۹۷۲ء میں مجھے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زیارت نصیب ہوئی.خواب میں میں نے دیکھا کہ میں نے اپنی چھڑی حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں پیش کی اور حضور علیہ السلام نے از راہ شفقت اسے تبسم فرما کر قبول فرمایا.میں اس خواب کی تعبیر کا مفہوم یہ سمجھا کہ مجھے اب کلی طور پر اپنے تئیں خدمت دین کے لئے وقف کر دینا چاہئیے.میری عمراتی سال کو پہنچ رہی تھی.ثلث صدی سے زائد عرصہ سے میں ذیا بیطس کا مریض تھا.ذہنی اور جسمانی قوی کا انحطاط بڑھ رہا تھا.میرا دینی علم نہایت محدود تھا.اکیس سال کی عمر میں میں نے بیرسٹری کی سند
تاریخ احمدیت.جلد 28 120 سال 1972ء حاصل کی تھی.اکیس سال کا عرصہ میں نے وکالت میں صرف کیا.قریب سات سال کا عرصہ میں حکومت ہند میں وزیر رہا اور اسی قدر عرصہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے فرائض ادا کئے.چھ سال ہندوستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کا رکن رہا.پندرہ سال سے زائد عرصہ عالمی عدالت کی رکنیت میں گذارا.تین سال امم متحدہ میں پاکستان کی سفارت سرانجام دی.محض اللہ تعالیٰ کی ذرہ نوازی سے یہ مواقع میسر آئے اور اسی کی تائید اور نصرت سے ان کے فرائض کی ادائیگی کی تو فیق ملی.عالمی عدالت کی رکنیت سے علیحدہ ہونے پر جس قدر پنشن کا میں حقدار ہو چکا تھا وہ میری ضروریات سے بہت بڑھ کر تھی.سو بفضل اللہ اس پہلو سے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی.لیکن میری تمام عمر دنیا کے دھندوں میں گذری تھی اور میں اپنے تئیں دین کی کسی پہلو سے خدمت کے قابل نہیں پاتا تھا.چونکہ خواب واضح تھا میں نے یہ اقدام تو فوراً کیا کہ حکومت پاکستان کی وزارت خارجہ کو لکھ دیا کہ وہ میرا نام عالمی عدالت کی رکنیت کی امیدواری سے واپس لے لیں اور یہ تہیہ کر لیا کہ جس پہلو سے مجھے خدمت دین کا موقع میسر آئے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور اس کی تائید اور نصرت پر انحصار کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا.وَ اللهُ الْمُسْتَعَانُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدَيْر - 115 جماعت احمدیہ کو محاسبہ نفس کرنے کی پرزور تحریک سید نا حضرت خلیفتہ لمسح الثالث نے ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ء کوتحریک فرمائی کہ سب احمدی خصوصی دعاؤں کے ساتھ ساتھ غلبہ اسلام کے حصول کی خاطر حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اس ضمن میں ہر فرد اپنے نفس کا محاسبہ کرے.یہ اہم تحریک حضور ہی کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے.میں جماعت احمدیہ کے ہر چھوٹے اور بڑے، ہر جوان اور بوڑھے اور ہر مرد اور عورت سے کہتا ہوں کہ تم بھی اپنے نفس کا محاسبہ کرو.تا ایسا نہ ہو کہ آج ملک میں جو فتنہ فساد ہمیں نظر آ رہا ہے تباہی اور انتشار کی بھڑکتی ہوئی جس آگ کو ہم دیکھ رہے ہیں ، اس کے شعلوں کی لپیٹ میں ہم میں سے بھی کوئی آجائے.کیونکہ بسا اوقات جو ظالم نہیں ہوتا وہ بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اس کا بھی قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ ایک اور مضمون کے ضمن میں ہے اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 121 سال 1972ء میرے سامنے اب بڑی کثرت سے یہ باتیں آنے لگ گئی ہیں کہ بعض خاندانوں یا بعض افراد میں دنیاداری زیادہ آگئی ہے.ابھی کل ہی میں ایک خط پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ خاوند کا بیوی سے اس بات پر جھگڑا ہو گیا ہے کہ بیوی زیادہ جہیز نہیں لائی.میرا شرم کے مارے سر جھک گیا.میں کہتا ہوں جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو پکڑ لیا تو پھر اپنی بیوی سے یہ کیوں کہتے ہو کہ چونکہ تو جہیز ہمارے مطلب کا لے کر نہیں آئی اس لئے ہم تجھے تنگ کریں گے.اسی طرح بعض عورتیں اپنے خاوندوں کو تنگ کرتی ہیں.بعض امیر لوگ ہیں جو اپنے غریب بھائیوں کو تنگ کرتے ہیں یا ان کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھتے.تاہم میں بعض لوگوں کا ذکر کر رہا ہوں جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ورنہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمیں بحیثیت جماعت ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے.یہ مقام ہمیں خدا کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ ہی ملا ہے.غرض میں مخلصین جماعت کی بات نہیں کر رہا.میں جماعت کے کمزور لوگوں کی بات کر رہا ہوں لیکن چونکہ ہمیں یہ الہی حکم ہے وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا یعنی بغیر استثناء کے تم سب کے سب خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اس کی پناہ میں آ جاؤ.اس لئے میں نے استثناء کا ذکر کیا ہے.اس غرض سے کہ یہ استثناء بھی جماعت میں نہیں رہنے چاہئیں.یا تو ان کی اصلاح ہو جانی چاہیے اور یا ان کو چاہیے کہ وہ خودہی جماعت کو چھوڑ دیں.ہمارا اس شخص سے آخر کیا واسطہ ہے جو خدا کی آواز کو نہیں سنتا جو اعتصام باللہ نہیں کرتا.جو تقویٰ کی راہوں کو اختیار نہیں کرتا اور جو شیطانی تفرقے کی راہوں کو اختیار کرتا ہے؟ ہمارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.اللہ تعالیٰ نے جمیعاً فرما کر سب کے اوپر ذمہ داری ڈالی ہے اس لئے ساری جماعت کا یہ فرض ہے کہ جہاں کہیں بھی اس قسم کا گند اور بھیا نک استثناء نظر آئے اس آدمی کو سمجھا ئیں اور اس طریق سے سمجھا ئیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے اور جس کے متعلق اس نے فرمایا ہے کہ وہ احسن اور پر حکمت ہونا چاہیے یعنی ایسے لوگوں کی اصلاح کے لئے سب سے اچھا طریق اختیار کرنا چاہیے.تاہم ایسے
تاریخ احمدیت.جلد 28 122 سال 1972ء استثنائی احمدیوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے تو جماعت احمدیہ میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار میں ان کا کوئی حصہ نہیں 66 ہے.‘116 سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اس سال مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی باسکٹ بال گراؤنڈ سے متصل وسیع میدان میں ۵-۶.۷ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو منعقد ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ایبٹ آباد میں خصوصی ارشاد فرمایا تھا کہ اس اجتماع میں ہر مجلس کا ایک ایک نمائندہ ضرور شامل ہونا چاہیے.اس ہدایت کی تعمیل میں اجتماع کے پہلے روز ۵۱۲ مجالس کے ۳۱۷۶ خدام ربوہ پہنچ چکے تھے جبکہ ۱۹۷۱ ء کے اجتماع کی اختتامی کارروائی کے وقت ۴۲۸ مجالس کے ۳۱۰۲ خدام موجود تھے.اس خوشکن حاضری پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:.دو گزشتہ سال کے اختتامی اجلاس میں جتنی مجالس شامل ہوئی تھیں آج خدا کے فضل سے اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں ہی اُس پر پچاس مجالس کا اضافہ ہو چکا ہے اور ابھی مزید مجالس آ رہی ہیں.“ چنانچہ اجتماع کے پہلے روز ہی گزشتہ سال سے تقریبا ۸۴ مجالس زائد آچکی تھیں.اس کے علاوہ افتتاح کے وقت تقریباً گیارہ سو زائرین اور دو ہزار اطفال بھی پنڈال میں موجود تھے.117 افتاحی خطاب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے ایمان افروز افتتاحی خطاب میں نہایت مؤثر پیرایہ میں مختصر طور پر بتایا کہ علم کن مراحل سے گذر کر کامل ہو کر عرفان کی شکل اختیار کرتا ہے.بعد ازاں خدام احمدیت کو نصیحت فرمائی کہ وہ دنیا کے بدلے ہوئے حالات کے پیش نظر اپنے عمل کے میدان میں تبدیلی پیدا کریں اور علم ،فکر اور عقل کو صحیح رنگ میں استعمال کر کے لوگوں کی راہنمائی کریں.بدلے ہوئے حالات میں ہماری ذمہ داریوں میں بہت اضافہ ہو گیا ہے اور ان ذمہ داریوں کو ادا کر کے ہی ہم اللہ تعالیٰ کے پیار کے حسین جلوے دیکھ سکتے ہیں اور غلبہ حق کے دینی مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں جو بہر حال مقدر ہو چکا ہے.118
تاریخ احمدیت.جلد 28 123 سال 1972ء اختتامی خطاب مورخہ ۷ اکتو بر ۱۹۷۲ ء اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ کا آخری دن تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث گیارہ بجکر آٹھ منٹ پر مقام اجتماع تشریف لائے.حضور انور کی تشریف آوری پر خدام نے حضور انور کانعروں کے ساتھ والہانہ استقبال کیا.اختتامی اجلاس کا انعقاد تلاوت قرآن کریم سے ہوا.اس کے بعد حضور انور نے اپنے دست مبارک سے مجلس اطفال الاحمد یہ سیالکوٹ شہر کو امسال کارگذاری کے لحاظ سے اول آنے پر علم انعامی عطا کیا.اسی طرح گذشتہ سال اگست میں منعقد ہونے والی درس القرآن کلاس میں امتیاز حاصل کرنے والے احباب کو بھی انعامات سے نوازا.حضور انور نے مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس میں اپنے نہایت روح پرور اور بصیرت افروز خطاب میں خدام الاحمدیہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فوج کے سپاہی بننا چاہتے ہو تو آج یہ عہد کر کے یہاں سے اٹھو کہ قرآن کریم کے حکم اور تنبیہہ کے مطابق کہ وَلَوْ أَرَادُ والخُرُوجَ لَا عَدُّ واله عُدَّةٌ جنگ کرنی ہے تو اس کے لئے تیاری بھی کرنی پڑتی ہے تم عمل کرو گے.چونکہ جس شخص نے سپاہی بننا ہوتا ہے.اس کے لئے اپنے اندر سپاہی کی صفات کو پیدا کر ناضروری ہے.پھر یہ عہد محض زبانی نہ ہو بلکہ تمہیں عمل کر کے دکھانا پڑے گا.اس رستہ میں تکالیف بھی آئیں گی ، مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑے گا.لیکن ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ بغیر امتحان آئے اور ابتلاؤں میں ڈالے کسی کو اپنی رضا کی جنتوں کا وارث نہیں بنایا کرتا.پھر جتنا بڑا کام ہوگا اتنا بڑا امتحان بھی ہوگا.اس روحانی جنگ میں حصہ لینے کے لئے تمہیں ظاہری ہتھیاروں کی ضرورت نہیں اور یہ ہتھیار تمہارے پاس موجود ہیں.تمہاری تیاری یہ ہے کہ قرآن کریم کے ہتھیار سے لیس ہو جاؤ اور بداخلاقی سے بچنے کے لئے تقویٰ کو اپنی ڈھال بنالو.اس کے علاوہ حضور انور نے سورۃ التین کی پر معارف تفسیر کرتے ہوئے چارا نقلابات کا بھی تفصیلی ذکر فرمایا.اس ضمن میں پہلے حضرت آدم، حضرت نوع ، حضرت موسیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ برپا ہونے والے عظیم روحانی انقلابات کا تفصیلی تذکرہ کیا اور پھر عہد حاضر کے تین مادی انقلابات یعنی سرمایه داری، روسی اشتراکیت اور چینی سوشلزم سے متعارف کرایا نیز روسی اشتراکیت اور چینی سوشلزم کا فرق واضح کیا.حضور نے تقریر کے آخری حصہ میں مادی انقلابات کے پس پردہ کارفرما الہی حکمت کو نمایاں کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے لائحہ عمل کو واضح فرمایا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 124 سال 1972ء فرمایا:- حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے پر معارف خطاب کے آخر میں پرشوکت انداز میں ’ہمارا مستقبل بشارات کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے.وہ چھپا ہوا ہے.لیکن خدا کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے ہماری آنکھ اس سے زیادہ دور بین ہے جو آدم ، نوح اور موسیٰ (علیہم السلام) کے ماننے والوں کی تھی.اگر انہوں نے غیب کی باتوں کو جو مستقبل کے متعلق تھیں حال کی باتیں سمجھا اور ان پر ایمان لائے اور ان پر یقین کیا تو ہم اس سے بھی زیادہ پختہ یقین کے ساتھ اپنے مستقبل کو مانتے ہیں.کوئی وسوسہ اور کوئی دجل ہمارے دل کے ایمان اور ہمارے عزم میں کوئی رخنہ نہیں پیدا کر سکتا.“ 119 حضور کا یہ ولولہ انگیز خطاب کم و بیش دو گھنٹے جاری رہا جسے ملک کے طول وعرض سے آنے والے خدام نے نہایت توجہ اور گہرے انہماک سے سنا.اختتامی خطاب کے بعد حضور نے خدام الاحمدیہ کا عہد دہرایا اور لمبی پر سوز دعا کروائی.جس کے ساتھ خدام الاحمدیہ کا تیسواں اجتماع بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا اطفال سے بصیرت افروز خطاب مجلس اطفال الاحمدیہ کا تیسواں سالانہ اجتماع مورخہ ۵ تا ۷ /اکتوبر بمقام ایوان محمود منعقد ہوا.جس میں ربوہ اور دیگر ۱۱۲ مجالس کے ۱۹۷۶ نمائندگان نے شرکت کی.مورخہ ۶ اکتوبر کو صبح ساڑھے دس بجے اطفال اپنے جھنڈے اٹھائے ہوئے خدام الاحمدیہ کے مقام اجتماع میں شامل ہوئے جہاں وہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطاب سے مستفیض ہوئے اور اجتماعی دعا میں شامل ہوئے.مورخہ ۶ راکتو بر ۱۹۷۲ء کو بعد نماز مغرب سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث اجتماع میں تشریف لائے اور نصف گھنٹہ کے قریب بچوں میں تشریف فرما ر ہے.اور احمدی بچوں سے ایک نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا.جس میں حضور نے انہیں نہایت مؤثر پیرایہ میں یہ تلقین کی کہ اپنے عمل سے ثابت کرو کہ ہم نے دنیا کے دلوں میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرنی ہے
تاریخ احمدیت.جلد 28 125 سال 1972ء اور بنی نوع انسان کی خدمت میں ہم کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا کا قائد بنانا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے آپ کو سخت محنت اور خدمت کا جذبہ پیدا کرنا پڑے گا.اس ضمن میں حضور نے مزید فرمایا کہ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ئیں کرو اور اسی سے ان کو پورا کرنے کے سامان طلب کرو.120 رمضان المبارک کی برکتوں سے بھر پور فائدہ اٹھانے کی تاکید اس سال پاکستان میں رمضان کے بابرکت مہینہ کا آغاز ۱۰ را کتوبر ۱۹۷۲ء کو بروز منگل ہوا.جس کے چار روز قبل حضور نے ۶ / اکتوبر کے خطبہ جمعہ میں اس پر کیف اور مبارک مہینہ کی عظیم برکات پر روشنی ڈالی مثلاً خشوع خضوع، ترک لغو، انفاق فی سبیل اللہ اور مجاہدہ بالنفس.بعد ازاں احباب جماعت کو تاکید فرمائی کہ وو رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آ رہا ہے...میں اپنی جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں ، جوانوں اور بوڑھوں سے کہتا ہوں کہ تم اپنے درخت وجود یعنی ایمان کے درختوں کی نشو نما کے جو بھی سامان اور ذرائع ماہ رمضان میں دیکھو ان سے فائدہ اٹھانے کی ہرممکن کوشش کرو تا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم بھی 66 خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.121 تحریک جدید کے سال نو کا اعلان اور اظہار خوشنودی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس سال تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ۳ نومبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا اور اس سلسلہ میں فرمایا :.چار سال ہوئے میں نے اُس وقت کے حالات کے مطابق اور گذشتہ سالوں میں تحریک جدید کی مالی قربانیوں کا جائزہ لے کر جماعت کے سامنے ایک ٹارگٹ رکھا تھا اور وہ یہ تھا کہ اندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے.ویسے تو تحریک جدید کا مجموعی بجٹ یعنی تحریک جدید کی ساری دنیا کی آمد جب اکٹھی کی جائے تو وہ کم و بیش پچاس لاکھ روپے بنتی ہے جس میں آپ کا یعنی پاکستان کی جماعتوں کا چندہ اس وقت بہت کم ہے اس لئے میں نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 126 سال 1972ء یہ تحریک کی تھی کہ تحریک جدید کا چندہ سات لاکھ نوے ہزار روپے تک پہنچ جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو سکا.تاہم اس کی چند وجوہ ہیں.گذشتہ چار سال میں ملک میں جو حالات گذرے ہیں جب ان کا جائزہ لیتا ہوں تو میں اپنے دل کو حمد کے جذبات سے معمور پاتا ہوں.آپ کے خلاف میرے دل میں غصہ نہیں پیدا ہوتا.تحریک جدید کے دفتر اول کے چونتیسویں سال یعنی ۶۸ - ۱۹۶۷ ء میں دفتر دوم اور سوم کو بھی ملا کر اندرون پاکستان تحریک جدید کا چندہ پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھا.اور اس سے اگلے سال یعنی ۶۹ - ۱۹۶۸ء میں چھ لاکھ تیس ہزار تک پہنچ گیا.یعنی اتنی ہزار روپے کا اضافہ ہوا اور یہ بڑا خوشکن اضافہ تھا پھر اس سے اگلے سال یعنی ۷۰-۱۹۶۹ء میں یہ چندہ چھ لاکھ تیس ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے تک پہنچ گیا.مگر اس سے اگلے سال اے.۱۹۷۰ء میں یہ رقم چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے گر کر چھ لاکھ اڑتیس ہزار روپے پر آگئی کیونکہ ملک میں ہنگاموں کی وجہ سے بڑا شور مچ گیا.جلوس اور سٹرائیکس گھیراؤ اور جلاؤ کی ایک جنونی کیفیت تھی جو قوم پر طاری ہوگئی لیکن اتنے بڑے ہنگاموں اور اس قدر جنونی کیفیت کے باوجود تحریک جدید کے چندوں میں صرف ستائیس ہزار روپے کی کمی واقع ہوئی اور میں سمجھتا ہوں یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ ملکی حالات تو بڑے دگرگوں تھے.چنانچہ ملک میں سٹرائیکس وغیرہ کا سلسلہ ایک حد تک اب بھی جاری ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ ملکی سٹرائیکس کا تحریک جدید کے چندوں کے ساتھ کیا تعلق ہے اس کا تعلق ہمارے تاجروں کے ساتھ ہے اور اس کا تعلق ہمارے دوستوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میں ملازم ہیں اور اس کا تعلق ان چیزوں کے ساتھ ہے جو کارخانوں میں بنتی ہیں یا نہیں بنتیں.ہڑتالوں کی وجہ سے جب پیداوار کم ہوگی تو ملک کی آمد بھی مجموعی طور پر کم ہو جائے گی.پیداوار اور آمد ایک ہی چیز کی دو شکلیں اور دوز او یے ہیں.ہم ایک کو پیداوار اور دوسرے کو آمد کہہ دیتے ہیں.بہر حال ہنگاموں اور ہڑتالوں کی وجہ سے جہاں ملکی معیشت تباہ ہوتی ہے وہاں تحریک جدید اور جماعت کے دوسرے چندوں پر بھی اثر پڑتا ہے مگر ان غیر تسلی
تاریخ احمدیت.جلد 28 127 سال 1972ء بخش حالات کے باوجود تحریک جدید کے پچھلے سال یعنی ۷۲-۱۹۷۱ء میں چھ لاکھ پچھتر ہزار روپے کی آمد ہوئی حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کا چندہ شامل نہیں ہے گو ہماری دعائیں ہیں کہ خدا کرے ملک کے دونوں حصے پھر سے ایک ہو جائیں لیکن بظاہر حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے ہیں کہ تحریک جدید کا جو چندہ مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی طرف سے آتا تھا وہ نہیں آسکا اور نہ آ سکتا تھا.ویسے ہم امید رکھتے ہیں اور غیر ممالک مثلاً انگلستان سے مختلف ذرائع سے ہمیں خبریں بھی مل رہی ہیں کہ مشرقی پاکستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ہنگاموں اور وحشتوں کے باوجود مالی قربانیاں بھی دے رہی ہے.وہاں نئی سے نئی جماعتیں بھی قائم ہو رہی ہیں.نئے احمدی بھی ہو رہے ہیں.چنانچہ اس قسم کی خوشکن خبریں جب انگلستان یا دوسرے ممالک میں پہنچتی ہیں تو یہ ایک قدرتی بات ہے کہ وہاں کے دوست ہمیں بھی اس خوشی میں شامل کرتے ہیں اور ان کے حالات لکھ بھیجتے ہیں.غرض مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات کے باوجود پچھلے سال تحریک جدید کا چندہ تدریجی ترقی کے آخری سال یعنی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار سے بڑھ کر چھ لاکھ پچھتر ہزار تک جا پہنچا.حالانکہ اس میں مشرقی پاکستان کی آمد شامل نہیں ہے.اگر وہ بھی چھ لاکھ پینسٹھ ہزار روپے والی آمد کی طرح ہی سمجھ لی جائے تو یہ رقم سات لاکھ پانچ ہزار روپے بنتی ہے.پس اگر چہ ساری دنیا میں ایک آگ لگی ہوئی ہے لیکن چونکہ ہمارے ساتھ یہ وعدہ ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.یہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی اس قدرت کا مظاہرہ تحریک جدید کے چندوں میں اضافہ کی صورت میں ہوا.لوگوں کی آمدنیوں پر اثر پڑنا چاہیے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو مجموعی طور پر یہ تو فیق عطا فرمائی کہ وہ اس فتنہ وفساد کی آگ سے اپنی آمد نیوں کو متاثر نہ ہونے دیں.تا کہ غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دینے کی جو ذمہ داری ان پر عائد کی گئی ہے وہ اثر انداز نہ ہو اور ان کی کوششوں میں کمی واقع نہ ہو یا اسی نسبت سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں کمی نہ آجائے.122
تاریخ احمدیت.جلد 28 128 سال 1972ء ربوہ میں عید الفطر کی مبارک تقریب ۸ نومبر ۱۹۷۲ء کو پاکستان کے دوسرے مقامات کی طرح ربوہ میں بھی عید الفطر کی تقریب نہایت سادہ اور پروقار طریق اور رب کریم کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ منائی گئی.یہ عید پہلی مرتبہ مسجد اقصیٰ کی وسیع و عریض سادہ مگر پرشکوہ عمارت میں ادا کی گئی جس میں اہل ربوہ نے پورے جوش و خروش کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی.حضور انور نے نماز عید پڑھائی اور ایک بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ دین کی راہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر صبر و استقامت کے ساتھ مسلسل قربانیوں کے نتیجہ میں ہر عید ہمارے لئے خدا کی برکات کے نزول کا موجب بن جاتی ہے اور دراصل یہی وہ برکات ہیں جو ہر مومن کے لئے حقیقی عید اور خوشی و مسرت کا موجب ہوتی ہے.حضور انور نے فرمایا یہ سب عیدیں ہماری ضیافتیں ہیں جو ہمارے رب کی طرف سے مختلف رنگوں میں آتی ہیں اور ہماری روحانی سیری کا موجب بنتی ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان عیدوں کی قدر کریں اور استقامت کے ساتھ قربانیاں کرتے ہوئے اپنے خدا کی حمد میں مصروف رہیں.123 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ارشادات بابت جلسہ سالانہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے خطبہ فرمودہ ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں اہل ربوہ اور دیگر احباب جماعت کو بعض ارشادات فرمائے.حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا جلسہ سالانہ قریب ہے اس لئے اپنی ذمہ داریوں کی طرف خصوصی توجہ دیں نیز شب وروز دعائیں بھی کریں.حضور نے فرمایا کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر کالج سکولوں کے بچے اور بچیاں رضا کارانہ طور پر کام کریں اور جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے اہالیان ربوہ اپنے مکانات پیش کریں اور جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کی عام صفائی کا خیال رکھا جائے نیز حضور نے فرمایا کہ ہمارے جلسہ سالانہ میں نانبائیوں کی کمی رخنہ انداز نہیں ہونی چاہئے.ہمارے مردوزن ہر دو کو پیٹڑے اور روٹیاں بنانے کے لئے جلسہ سالانہ کے ایام میں تیار رکھا جائے.حضورانور نے فرمایا کہ چونکہ عام طور پر مرد نانبائی نظر آتا ہے.اس واسطے دنیا میں احمدی مرد بھی
تاریخ احمدیت.جلد 28 129 سال 1972ء نانبائی ہوں گے اس لئے ان کو تیار کرنا چاہئے کہ وہ یہاں جلسہ سننے آئیں اور ساتھ یہ بھی نیت کریں کہ اگر روٹی پکانے کی ضرورت پڑی تو ہم سب اس میں شامل ہوں گے.121 پھر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں بھی احباب جماعت کو بالعموم اور اہل ربوہ کو بالخصوص ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف تفصیل سے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامات اہل ربوہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری تعداد میں رضا کارانہ طور پرا اپنی خدمات منتظمین جلسہ کو پیش کریں.نیز حضور انور نے سکولوں اور کالجوں کے بچوں کے بارہ میں فرمایا کہ سکولوں اور کالجوں کے بچے اور بچیاں انشاء اللہ اسی طرح رضا کارانہ طور پر کام کریں گی جس طرح وہ سالہا سال سے کام کرتے چلے آئے ہیں اور عوام کی یہ عمارتیں بھی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت میں پیش ہوں گی اور اپنی مہمان نوازی اور خدمت پیش کریں گی جس طرح پہلے کرتی چلی آئی ہیں.حضور انور نے صفائی کے حوالے سے فرمایا: وو جلسہ سالانہ کے ایام میں ربوہ کی صفائی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے.جلسہ کے دنوں میں بھی صفائی ہونی چاہیے اور اس سے پہلے بھی صفائی ہونی چاہیے.صفائی کی طرف اہل ربوہ کو بالعموم اور مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس صحت کو بالخصوص توجہ 166 دینی چاہیے.125 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی اجتماعات پر قیمتی ہدایات ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ ء کو مرکز میں انصار اللہ اور لجنات کے اجتماعات شروع ہو رہے تھے اس لئے اس روز حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خطبہ جمعہ میں ہدایت فرمائی کہ :.پاکستان میں اس وقت بیماری بھی بہت پھیلی ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے.دوستوں کو بہت احتیاط کرنی چاہیے.ان دنوں عام طور پر تین بیماریاں اکٹھی حملہ کرتی ہیں.ملیریا، انفلوئنزا ، گلے کی تکلیف جسے انگریزی میں Throat Infection ( تھروٹ انفیکشن) کہتے ہیں.تو یہ اللہ کی تقدیر ہے اور ہم اس سے گھبراتے نہیں.لیکن باوجود اس کے کہ بہت دوست بیمار رہے ہیں پھر بھی وہ اس
تاریخ احمدیت.جلد 28 130 سال 1972ء اجتماع پر آگئے ہیں اس لئے یہ بیماری ہمارے راستے میں روک نہیں بنی.اسی طرح لجنات کے متعلق بھی کہنے والوں نے تو یہی رپورٹ دی ہے کہ اس دفعہ مستورات زیادہ تعداد میں شامل ہو رہی ہیں لیکن یہ رات کی گنتی ہے.غرض انصار اللہ لبنات دونوں کے اجتماع آج شروع ہو رہے ہیں.امت محمدیہ میں جب بھی اجتماع ہوں اس بارہ میں قرآن کریم کی ایک ہدایت موجود ہے جسے بھولنا نہیں چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی دینی اجتماع ہو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اور توبہ و استغفار بڑی کثرت سے کرنا چاہیے.اس پر نہ تو کوئی پیسہ خرچ ہوتا ہے اور نہ وقت لگتا ہے یہ صرف عادت کی بات ہے.پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان دنوں کثرت سے سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ - اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ محمد کا ورد کریں.پھر استغفار ہے یعنی اَسْتَغْفِرُ اللَّهُ رَبِّ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ ائیہ بھی کثرت سے پڑھنا چاہیے.اس کے ساتھ جو دوست لاحول پڑھ سکیں وہ لاحول بھی پڑھیں.میرا تجربہ ہے کہ استغفار کرنا اندرونی کمزوریوں کے دور کرنے کے حق میں اکسیر کا حکم رکھتا ہے اور لاحول بیرونی حملوں کے شر سے حفاظت کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے.پس لَن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم:۸) کی رو سے آپ جتنی زیادہ تسبیح وتحمید کریں گے آپ اپنے محسن اور انسانیت کے محسن صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنا زیادہ درود پڑھیں گے اتنے ہی زیادہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں گے“.126 مخالفین کی ناکامی اور احمدیت کی ترقی پر ایک شہادت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے ماہنامہ الفرقان اکتوبر ۱۹۷۲ء میں تحریر فرمایا کہ مدیر المنبر لائل پور مولوی عبدالرحیم صاحب اشرف سلسلہ احمدیہ کے سخت مخالف ہیں انہوں نے آج سے سولہ سال پیشتر ایک بیان اپنے اخبار المنبر میں شائع کیا تھا.بعد ازاں دو ملاقاتوں میں مختلف اوقات میں انہوں نے اسے پھر دہرایا بلکہ چند ہفتے پیشتر جوان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا تھا کہ اسوقت مسلمانوں پر عذاب الہی طاری ہے.اور حالت دن بدن انحطاط کی طرف جارہی
تاریخ احمدیت.جلد 28 131 سال 1972ء ہے.لیکن اس سوال کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس بری حالت سے نکالنے کے لئے کیا انتظام فرمایا ہے؟ مولوی عبد الرحیم اشرف صاحب کا متعلقہ بیان درج ذیل ہے.”ہمارے بعض واجب الاحترام بزرگوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں سے قادیانیت کا مقابلہ کیا لیکن یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ قادیانی جماعت پہلے سے زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتی گئی.مرزا صاحب کے بالمقابل جن لوگوں نے کام کیا ان میں سے اکثر تقویٰ تعلق باللہ، دیانت ، خلوص، علم اور اثر کے اعتبار سے پہاڑوں جیسی شخصیتیں رکھتے تھے.سید نذیر حسین صاحب دہلوی، مولانا انورشاہ صاحب دیوبندی ، مولانا قاضی سید سلیمان منصور پوری ، مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولانا عبد الجبار غزنوی ،مولانا ثناء اللہ امرتسری اور دوسرے اکابر رحہم اللہ وغفر لہم کے بارے میں ہمارا حسن ظن یہی ہے کہ یہ بزرگ قادیانیت کی مخالفت میں مخلص تھے اور ان کا اثر ورسوخ بھی اتنازیادہ تھا کہ مسلمانوں میں بہت کم ایسے اشخاص ہوئے ہیں جو ان کے ہم پایہ ہوں.اگر چہ یہ الفاظ سننے اور پڑھنے والوں کے لئے تکلیف دہ ہوں گے اور قادیانی اخبار اور رسائل چند دن انہیں اپنی تائید میں پیش کر کے خوش ہوتے رہیں گے.لیکن ہم اس کے باوجود اس تلخ نوائی پر مجبور ہیں کہ ان اکابر کی تمام کوششوں کے باوجود قادیانی جماعت میں اضافہ ہوا ہے.متحدہ ہندوستان میں قادیانی بڑھتے رہے.تقسیم کے بعد اس گروہ نے پاکستان میں نہ صرف پاؤں جمائے بلکہ جہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا وہاں ان کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو روس اور امریکہ کے سرکاری سطح پر آنے والے سائنسدان ربوہ آتے ہیں اور دوسری جانب ۵۳ ء کے عظیم تر ہنگامہ کے باوجود قادیانی جماعت اس کوشش میں ہے کہ اس کا ۱۹۵۶-۵۷ء کا بجٹ پچیس لاکھ روپے کا ہو.“ 127 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا پنجاه سالہ جشن اور اس کے عالمی نظام اور کارناموں پر ایک نظر ۱۹۷۲ء کی یہ اہمیت و خصوصیت بھی ہے کہ اس میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی انقلاب آفرین عالمی تنظیم نے اپنا پچاس سالہ جشن منا کر اپنی عظیم الشان تاریخ کا نیاورق الٹا اور ایک نے سنہری باب کو رقم کرنے کے لئے پوری شان و شوکت کے ساتھ نئے دور میں قدم رکھنے کی توفیق پائی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 132 سال 1972ء پس منظر جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد پنجم میں ذکر آ چکا ہے.لجنہ اماءاللہ کی بنیاد حضرت مصلح موعود کے دست مبارک سے ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو رکھی گئی.حضرت سیّدہ اُمّم ناصر صاحبہ قیام لجنہ سے اپنی وفات (۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء) تک (۱۹۴۲ء سے ۵ مارچ ۱۹۴۴ ء تک کے اس عرصہ میں حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ نے صدر لجنہ کے فرائض انجام دئے) قریباً چھبیس سال تک لجنہ اماءاللہ کی صدارت کے عہدہ پر فائز رہیں.آپ کی وفات کے بعد ۱۹۵۸ ء سے اس کی زمام صدارت اتم متین حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے سپرد ہوئی.جس کے بعد خواتین احمدیت کی دینی سرگرمیوں اور قربانیوں کی رفتار میں مزید غیر معمولی تیزی پیدا ہو گئی.اپنی کامیاب قیادت کے دسویں سال آپ نے دنیا بھر کی لجنات کے سامنے ۱۹۷۲ ء میں پنجاه سالہ جشن منانے کی تجویز پیش کی اور اس کے ساتھ ہی چندہ تحریک خاص کی تحریک فرمائی جس کے تین بنیادی مقاصد تھے.اول.تاریخ لجنہ اماءاللہ کی تدوین و اشاعت ہو.دوم.اشاعت قرآن عظیم کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی خدمت میں ایک لاکھ روپے کی پیشکش کی جائے.سوم.چار لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے دفتر ، ہال، مہمان خانہ اور نصرت انڈسٹریل سکول کی تعمیرات پر خرچ کئے جائیں.128 اس تحریک پر لجنہ کے ہر حلقے کی طرف سے پُر جوش خیر مقدم کیا گیا.جن مخلص خواتین احمدیت نے اس میں حصہ لیا.ان کے اسماء بالاقساط رسالہ مصباح میں محفوظ کر دیئے گئے.اس تحریک کے مطابق ۱۹۷۲ ء تک تاریخ لجنہ اماء اللہ کی تین جلدیں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں جن کو قبولِ عام کی سند حاصل ہوئی.ان میں سے پہلی اور تیسری حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے قلم سے تھی اور جلد دوم کی تالیف و ترتیب آپ ہی کی نگرانی میں امتہ اللطیف صاحبہ سیکرٹری شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے انجام دی.ان تین جلدوں میں لجنہ اماءاللہ کی پچاس سالہ تاریخ پایہ تکمیل کو پہنچی.چند سال بعد حضرت سیدہ موصوفہ کی رقم فرمودہ چوتھی جلد بھی منظر عام پر آگئی جو ۱۹۷۲ء سے ۱۹۷۷ء تک کے حالات پر مشتمل تھی.(اب پانچویں جلد مشتمل بر حالات سال ۱۹۷۸ ء تا جون ۱۹۸۲ء بھی شائع ہو چکی ہے.)
تاریخ احمدیت.جلد 28 133 سال 1972ء سلسلہ احمدیہ کی ذیلی تنظیموں میں لجنہ اماء اللہ مرکز یہ پہلی تنظیم تھی جسے سب سے قبل اپنی تاریخ شائع کرنے کی توفیق ملی." تاریخ انصار اللہ نومبر ۱۹۷۸ء میں اور تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ (جلد اول ) ۱۹۹۱ء میں شائع ہوئی.مجلہ اور ” لجنہ سپیکس“ کی اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے پچاس سالہ جشن کی بابرکت اور پرمسرت تقریب پر جماعت احمدیہ اور لجنہ کے قیام کی تاریخ ، مقاصد اور کارناموں سے روشناس کرانے کے لئے اردو اور انگریزی میں مندرجہ ذیل دوسو نیئر شائع کئے گئے جو قیمتی معلومات سے لبریز تھے.مجلہ (اردو) کل صفحات ۹۶.یہ رسالہ سیدہ نسیم سعید صاحبہ ایم اے کی محنت و کاوش کا نتیجہ تھا اور روح پرور پیغامات، فکر انگیز مضامین، ایمان پرور نظموں اور نایاب تصاویر کا حسین مرقع تھا جس پر نہ صرف جماعت کے ممتاز اہل قلم نے خراج تحسین ادا کیا بلکہ پاکستان کے مقتدراردو رسالہ ”انقلاب نو“ نے اسے بہت سراہا.چنانچہ لکھا:.مسلمان خواتین کی ایک عالمی تنظیم لجنہ اماء اللہ کا شائع کردہ مجلہ تبصرہ کے لئے اس وقت ہمارے سامنے ہے.لجنہ اماءاللہ ایک عربی ترکیب ہے جس کا مطلب ”اللہ کی کنیزیں“ ہے.یہ مجلہ اس تنظیم کی پنجاہ سالہ سرگرمیوں کا ایک مختصر جائزہ ہے جو اس نے اپنے جشنِ پنجاه سالہ کی تقریب پر شائع کیا ہے.دنیا کے مختلف ممالک میں اس کی ۶۶۲ شاخیں کام کر رہی ہیں.ہر قوم کے معاشرے میں عورت بڑا اہم کردار ادا کرتی رہی ہے بالخصوص اسلام کی نشاۃ اولی میں صحابیات نے معاشرہ کو پاک بنانے اور اسے پاکیزہ رکھنے میں جو حصہ لیا وہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے لیکن زمانہ جیسے جیسے اسلام کی نشاۃ اولیٰ سے دور ہوتا چلا گیا عورت بھی ان اعلیٰ اقدار سے پھر تہی دست ہوتی گئی یہاں تک کہ مغربی تہذیب کے غلبہ نے عورت کی سیرت کا وہ حلیہ بالکل بگاڑ دیا.جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس صورتحال کو بھانپ کر اس کا مؤثر سد باب کرنے کا اہتمام کر دیا.انہوں نے دسمبر ۱۹۲۲ء میں احمدی خواتین کی ایک تنظیم لجنہ اماءاللہ کے نام سے قائم کر دی جس کی صدر آپ کی بیوی سیدہ ام ناصر صاحبہ بنیں.سیدہ امتہ الحی صاحبہ، سیدہ اُمّم طاہر صاحبہ، سیدہ ام متین صاحبہ ان کا ہاتھ بٹاتی رہیں.۱۹۵۹ء سے لے کر اب
تاریخ احمدیت.جلد 28 134 سال 1972ء تک سیدہ مریم صدیقہ اُتم متین صاحبہ اس کی صدر ہیں.صدارت کی ذمہ داری سنبھالنے سے پہلے سولہ سال آپ اس تنظیم کی جنرل سیکرٹری رہیں.اس تنظیم کا مقصد تھا:.کوئی (احمدی) خاتون، کوئی بچی، کوئی بہن، کوئی بیٹی دینی علوم، دینی تربیت، دینی درس و تدریس، تحریر و تقریر میں کسی سے پیچھے نہ رہے.اس خاص تنظیم کے تحت ہماری خواتین ، ہماری بچیاں اور بہنیں تمام کی تمام دنیا بھر کی خواتین کے مقابلہ میں ان معنوں میں معیاری حیثیت رکھنے والی ہوں.وہ اعلیٰ اخلاق و کردار کی مالک ہوں نہ صرف یہی کہ وہ خودان نمایاں خصوصیات کی حامل بنیں بلکہ اپنے ان اعلیٰ اور نمایاں اخلاق و کردار سے اقوام عالم کی تمام خواتین کی حقیقی معنوں میں رہنما کہلانے والی ہوں.تازہ ترین اعداد کے مطابق دنیا میں احمدی مسلمانوں کی تعداد ایک کروڑ سے کچھ اوپر ہے.جہاں جماعت احمدیہ کے مردوں نے دنیا کے مختلف ممالک میں پونے چارسومساجد تعمیر کیں.پچاس کے قریب ممالک میں اپنے اسلامی تبلیغی مشن قائم کئے اور تقریباً سولہ زبانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا جن میں انگریزی، جرمن ، روسی ، ڈچ ، اٹالین، انڈونیشین، اسپرانٹو سواحیلی وغیرہ شامل ہیں وہاں احمدی خواتین نے اپنی اس تنظیم کے ذریعہ یورپ میں تین مساجد لندن، ہیگ (ہالینڈ)، کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں لاکھوں روپے کے صرف سے تعمیر کرائیں اور چار تعلیمی ادارے نصرت انڈسٹریل سکول، فضل عمر ماڈل ہائی سکول ربوہ ، مریم مڈل سکول گھٹیالیاں (ضلع سیالکوٹ ) ، چک منگلا پرائمری سکول ( سرگودہا) قائم کر کے انہیں چلا رہی ہے.اس کے علاوہ نصرت گرلز کالج ربوہ کا سائنس بلاک نمیر کرایا.اب لجنہ اماء اللہ ایک لاکھ روپے سے ایک اور زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ کرانے کا منصوبہ بنا چکی ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے احمدی خواتین کی بر وقت تنظیم کر کے جو کام اس سے لینا چاہا اور ان کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کے موجودہ امام حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس تنظیم میں نئی روح پھونک کر جو تو قعات اس سے وابستہ کیں وہ بہ تمام و کمال پوری ہوگئی معلوم ہوتی ہیں اس لئے کہ:.(۱) جماعت احمدیہ کی تقریباً سو فیصد خواتین خواندہ ہیں.(۲) تمام احمدی بچے بچیاں ، عورتیں ناظرہ قرآن پڑھی ہوئی ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 135 سال 1972ء (۳) باقی مسلمانوں کی نسبت احمدی مسلمانوں کے گھر میں خدا اور اس کے رسول صلی یتیم کا ذکر، شعائر اسلام کی پابندی، تلاوت قرآن، تہجد گذاری، فریضہ حج کی ادائیگی کا شوق بہت زیادہ ہے.(۴) ان کے گھر کا ماحول اسلامی ہونے کی وجہ سے بچوں کی پرورش اور ذہنی تربیت صحت مند طریق پر ہو رہی ہے.مجلہ میں شامل مضامین بلند پایہ اور معلومات افزا ہیں.لجنہ اماءاللہ کی پنجاہ سالہ سرگرمیاں بڑے سلیقے سے پیش کی گئی ہیں.ان میں بڑا صحتمند اور مسلسل ارتقاء نظر آتا ہے.مجلہ کی نگران سیدہ مریم صدیقہ ام متین صاحبہ ایک خاص طرز نگارش کی مالک ہیں.آپ کی نگارشات حجم اور خوبی دونوں لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتی ہیں.سیدہ نسیم سعید کا اپنا مخصوص اسلوب تحریر ہے.آپ کی وسعت مطالعہ نے اس اسلوب کو اور بھی نکھار دیا ہے.نظم کا حصہ بہت ٹھوس اور پائیدار ہے.مجلہ کی کتابت نہایت پاکیزه، طباعت بہترین تصاویر روح پرور، کاغذ نہایت دیدہ زیب اور بیش قیمت ہے.بحیثیت مجموعی یہ شہ پارہ اپنے حسن و جمال کے لحاظ سے آرٹ کا ایک بہترین نمونہ ہے.129 ۲.لجنہ سپیکس (Lajna Speaks) صفحات ۸۶.اس انگریزی رسالہ کی مدیرہ کے فرائض محترمہ شمیم شریف صاحبہ ایم اے نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیئے.میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی مبلغ امریکہ نے اس پر درج ذیل رائے لکھی:.زیر نظر لجنہ سیکس لجنہ اماءاللہ کے پنجاہ سالہ کارناموں کی جاذب نظر، دیدہ زیب منہ بولتی تصویر ہے.اس کا محض سرسری مطالعہ ہی مغرب زدہ خواتین وحضرات کے اس خیالِ خام کی مؤثر تردید کر دیتا ہے کہ پردہ تمدنی ترقی کے راستہ میں روک ہے.130 یہ با تصویر سونیئر خاص طور پر بیرونی ممالک کی بجنات کی شاندار دینی سرگرمیوں کا آئینہ دار تھا.سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ میں سالانہ اجتماع لجنہ ۱۹۷۲ ء اور جشن پنجاه سالہ کی تقریب ۱۷.۱۸.۱۹ نومبر کو انعقاد پذیر ہوئی جس میں بحمد اللہ تعالیٰ پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی لجنات کی نمبرات کے علاوہ مشرق و مغرب کے چھ دیگر ممالک (امریکہ، انگلستان، ڈنمارک، کینیا، ماریشس اور انڈونیشیا) کی نمائندہ خواتین نے بھی شرکت کی.یہ سب نمائندہ خواتین لجنہ کے قیام پر پچاس سال پورے ہونے کی پُر مسرت تقریب کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے اس خصوصی اور بابرکت اجتماع میں شرکت کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 136 سال 1972ء لئے ہزار ہا میل کا سفر طے کر کے ربوہ تشریف لائیں.ان میں امریکہ کی ایک، انگلستان کی دو، ڈنمارک کی ایک ، کینیا کی ایک، ماریشس کی دو اور انڈونیشیا کی تین خواتین شامل تھیں.انہوں نے بھی اجتماع سے خطاب فرمایا.اجتماع دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے وسیع و عریض احاطہ میں نہایت خوبصورت شامیانوں اور قناتوں سے تیار کردہ پنڈال میں منعقد ہوا جسے سلیقہ اور خوش ذوقی کی آئینہ دار سجاوٹ کے علاوہ نہایت خوبصورتی اور نظافت سے جلی حروف میں لکھے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے مزین کیا گیا تھا.اجتماع کا پہلا دن اجتماع اور تقریب پنجاه سالہ کا آغاز ۱۷ نومبر بروز جمعہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ناصرات الاحمدیہ کے پروگرام سے ہوا.ان کے پروگرام کا افتتاح حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکزیہ نے اجتماعی دعا اور ایک پراثر خطاب سے فرمایا.131 ناصرات نہایت صاف ستھرے لباس میں ملبوس اس حال میں اجتماع میں شریک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے مخصوص جھنڈے ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے افتتاحی خطاب کے بعد معیار اول ، معیار دوم اور معیا رسوم کے تقریری مقابلہ جات منعقد ہوئے.سب سے پہلے معیار سوم میں حصہ لینے والی مقررات نے تقریریں کیں جس میں ۸ تا ۱۰ سال کی بچیوں نے حصہ لیا.معیار دوم ۱۱ تا ۱۳ سال کی بچیاں مقابلہ میں شامل تھیں اور معیار اول چودہ اور پندرہ سال کی بچیوں کے لئے مخصوص تھا.مقابلہ جات کے اختتام پر انعام کی مستحق قرار پانے والی مقررات میں انعامات تقسیم کئے گئے اور اجتماع کا پہلا اجلاس جو ناصرات کے لئے مخصوص تھا بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.لجنہ اماءاللہ کے پندرھویں سالانہ مرکزی اجتماع کا افتتاح اسی روز ( یعنی ۷ ا نومبر کو ) تین بجے سہ پہر عمل میں آیا.اس کا افتتاح بھی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اجتماعی دعا اور ایک نہایت ایمان افروز خطاب سے فرمایا.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.بعدہ حضرت سیدہ موصوفہ نے اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد جملہ حاضر خواتین نے کھڑے ہو کر آپ کی اقتداء میں اپنا عہد دُہرایا اور پھر آپ نے ایک ایمان افروز افتتاحی خطاب سے اجتماع کو نوازا.132
تاریخ احمدیت.جلد 28 اجتماع کا دوسرادن 137 سال 1972ء پنجاه سالہ تقریب اور اجتماع کے دوسرے دن یعنی ۱۸ نومبر کے پروگرام کا آغاز قرآن مجید کے درس سے ہوا جو خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد ( تعلیم القرآن) نے دیا.آپ نے سورۃ القصص کے پہلے رکوع کا درس دیا.اس کے بعد نقار پر کا مقابلہ ہوا.متعدد مقررات نے شائع شدہ عنوانات پر تقاریر کیں.پنجاہ سالہ تقریب سعید کے سلسلہ میں نظموں کے انعامی مقابلہ کا انعقاد بھی عمل میں آیا جو بہت دلچسپ ثابت ہوا.صبح آٹھ بجے ناصرات الاحمدیہ کے کھیلوں کے مقابلے بھی ہوئے.بچیوں نے مختلف کھیلوں میں ذوق وشوق سے حصہ لے کر انعامات حاصل کئے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ نے انعامات تقسیم فرمائے.حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نے حضرت سیدہ نصرت جہاں صاحبہ کی سیرت پر بہت دلنشیں انداز میں تقریر فرمائی جو بہت ہی ایمان افروز واقعات اور اذکار مقدس پر مشتمل تھی.اس روز اجتماع میں شریک مستورات کو ذکر حبیب“ کے موضوع پر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی رقم فرمودہ نہایت ہی ایمان افروز تقریر سننے کی سعادت بھی ملی جو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نے پڑھ کر سنائی.رات کے اجلاس میں جو ۸ بجے سے ساڑھے نو بجے تک منعقد ہوا مجلس شوری کا انعقاد عمل میں آیا.133 حضور انور کا بصیرت افروز خطاب سوا گیارہ بجے سیدناحضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بنفس نفیس اجتماع میں تشریف لاکر روح پرور اور بصیرت افروز خطاب سے سرفراز فرمایا.حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ اماءاللہ کی تنظیم نے اپنے پچاس سالہ دور کو بہت عزم اور عمل کے ساتھ گزارا.اس دوران بہت سی تکالیف بھی آئیں لیکن لجنہ اماءاللہ کی تنظیم نے قربانیوں اور استقامت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں کو حاصل کیا ہے.حضور انور نے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ پہلے جلسوں میں کھانا کھلانے کے لئے بعض دفعہ رات کے گیارہ بھی بج جاتے تھے.لیکن اب شاملین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کھانا پکانے وغیرہ کے انتظامات میں پہلے سالوں کی نسبت کھانا جلد تیار ہو جاتا ہے.حضور انور نے اس ضمن میں اپنے بچپن کے بعض واقعات کا بھی ذکر فرمایا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 138 سال 1972ء حضور انور نے دوران خطاب احمدی مستورات کو خاص طور پر پردہ کرنے کی طرف توجہ دلائی نیز حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ پیار کرنے کی ضرورت ہے.آپ اس کے پیار کے جلوے دیکھیں گی تو اپنے نفسوں میں یہ محسوس کریں گی کہ یہ کوئی مہنگا سودا نہیں.حضور انور نے دوران خطاب احمدی مستورات کو نماز تہجد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلائی.134 اشاعت قرآن کریم کے لئے عطیہ اس موقع پر حضور کی خدمت اقدس میں صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے لجنہ اماءاللہ کی طرف سے اشاعت قرآن کے لئے دولاکھ روپے بطور عطیہ پیش کئے.ان میں سے ایک لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے اور ایک لاکھ روپے لجنہ اماءاللہ انگلستان کی طرف سے پیش کئے گئے.اجتماع کا تیسرا اور آخری دن پنجاه سالہ تقریب اور اجتماع کے تیسرے اور آخری دن (۱۹ نومبر ) کا پروگرام ایک طویل اجلاس پر مشتمل تھا جو صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہو کر ایک بجے بعد دو پہر تک جاری رہا.اجلاس کا آغاز تلاوت قرآنِ مجید اور درس حدیث سے ہوا جو مولانا عبد المالک خان صاحب ناظر اصلاح و ارشاد نے دیا.اس اجلاس میں اہم تربیتی اور تنظیمی موضوعات پر احمدی خواتین کی متعدد اردو اور انگریزی تقاریر کے علاوہ سوا دس بجے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے بھی اجتماع میں شریک خواتین سے خطاب فرمایا.نیز اپنے دست مبارک سے انعامات بھی تقسیم فرمائے.ساڑھے بارہ بجے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اختتامی تقریر فرمائی جس کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی.اس طرح لجنہ اماءاللہ کی پنجاہ سالہ تقریب اور پندرھواں سالانہ اجتماع اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا پر نہایت کامیابی اور خیر و خوبی سے اختتام پذیر ہوا.یہ اجتماع اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی فضلوں اور رحمتوں کا آئینہ دار ثابت ہوا اور اس میں شریک خواتین کے لئے غیر معمولی رنگ میں ازدیاد ایمان کا باعث بنا.فالحمد للہ 135 نمائندہ خواتین کی تقاریر اس بابرکت تقریب پر ماریشس، انڈونیشیا، کینیا، امریکہ، انگلستان اور ڈنمارک کی نمائندہ خواتین نے بھی تقاریر فرمائیں جو قیمتی معلومات سے لبریز تھیں.مثلاً :
تاریخ احمدیت.جلد 28 139 سال 1972ء ا.ہدایت سوقیہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ ماریشس ( ہدایت سوقیہ صاحبہ شادی کے بعد جرمنی میں قیام پذیر ہوگئیں اور جرمنی کی لجنہ اماءاللہ کی صدارت کے فرائض انجام دینے کا موقعہ ملا ) نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ سب سے پہلے میں لجنہ اماء اللہ ماریشس اور اپنی طرف سے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی خدمت میں خصوصی مبارک باد اور نیک خواہشات کا تحفہ پیش کرتی ہوں.حضرت مریم صدیقہ صاحبہ کے لئے میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی ہے اور نکلتی رہے گی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے نیک مقصد میں کامیاب فرمائے.خدا تعالیٰ آپ کو غیر معمولی استقلال اور عزم وحوصلہ بخشے تا اسلام اور احمدیت کی زیادہ خدمت کر سکیں.آمین.اسلام اور احمدیت کی تاریخ کے اوراق میں لجنہ اماءاللہ کے کارنامے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں.ہمیں امید ہے اور ہم یہ دعا کرتی ہیں کہ لجنہ اماءاللہ کے آئندہ پچاس سال پہلے سالوں سے زیادہ درخشندہ اور تابندہ ہوں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام بہنیں خلافت حقہ سے اپنی وابستگی کو اور زیادہ پختہ کر لیں اور اپنی زندگیوں کو قرآن کریم اور اسلام کے مطابق ڈھال لیں.136 ۲.صدر لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا.لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا نے تین خواتین پر مشتمل ایک وفد جشنِ پنجاہ سالہ میں شرکت کے لئے بھجوایا تھا جس کی قیادت وہاں کی صدر لجنہ مریم سوچی باقی صاحبہ نے کی.مریم سوچی باقی ۲۲ / اگست ۱۹۷۱ء سے لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا کی صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئیں.نہایت قابل خاتون اور حج تھیں اور اپنے دوسرے فرائض کے ساتھ لجنہ اماءاللہ کی ذمہ داریوں کو احسن طریق سے ادا کر رہی تھیں.آپ نے اپنی تقریر میں سب سے پہلے لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا کی مہرات کی طرف سے جملہ ممبرات مرکز یہ وپاکستان کی خدمت میں پرخلوص سلام پیش کیا بعد ازاں لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اس وقت لجنہ اماء اللہ انڈونیشیا کی ۳۷ شاخیں ہیں.۱۹۳۶ء میں لجنہ کی پہلی شاخ جکارتہ میں وجود میں آئی تھی اور باقی زیادہ تر شاخیں ۱۹۵۲ء اور ۱۹۶۰ ء کے درمیانی حصہ میں بنیں اور چند ایک اس کے بعد.لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا کی ایک مرکزی مجلس عاملہ ہے جو لجنہ کی تمام شاخوں کو کنٹرول کرتی ہے اس مجلس عاملہ کی ۹ عہد یدار ہیں.ممبرات کی تعداد دو ہزار ہے.انڈونیشیا میں احمدی لڑکیاں جب تک شادی نہیں کرتیں ناصرات کہلاتی ہیں لیکن شادی کے بعد وہ لجنہ اماء اللہ میں شامل ہو جاتی ہیں.یہ فیصلہ خاص طور پر
تاریخ احمدیت.جلد 28 140 سال 1972ء انڈونیشیا کے ماحول کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے کیونکہ وہاں کی لڑکیاں شادی سے پہلے بڑوں کے ساتھ گھل مل کر رہنا پسند نہیں کرتیں.سال میں ایک بار جماعت انڈونیشیا جلسہ سالانہ منعقد کرتی ہے جس میں تمام اراکین شامل ہوتی ہیں.اس جلسہ سالانہ میں لجنہ اماءاللہ اپنا کام بڑی مستعدی سے سرانجام دیتی ہے.ان کے سپر دکھانا تیار کرنا اور جلسہ میں شامل ہونے والے اراکین کو کھا نا کھلانا ہوتا ہے.اس کے علاوہ لجنہ اماءاللہ کی مجلس عاملہ کچھ اجلاس بلاتی ہے جس میں تمام شاخوں کی نمائندہ شامل ہوتی ہیں.یہ نمائندے تین سال کے لئے مرکزی مجلس عاملہ کے عہدیدار منتخب کرتے ہیں مرکزی مجلس عاملہ پچھلے سال (یعنی ۱۹۷۱ء میں ) اپنا مجلہ شائع کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے جس کا نام ”سوار الجنہ “ یعنی لجنہ کی آواز ہے.یہ مجلہ ہر تین ماہ بعد شائع ہوتا ہے (اب یہ ماہوار ہو چکا ہے ) بانڈونگ کے شہر میں ایک ہوٹل کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس میں کالج کے لڑکے رہائش پذیر ہوتے ہیں اور یہ ہوٹل با نڈونگ کی لجنہ کی زیر نگرانی کام کرتا ہے.لجنہ اماءاللہ پندرہ روزہ تربیتی کیمپ میں جو خدام الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے لئے منعقد کیا جاتا ہے بڑے ذوق و شوق سے شامل ہوتی ہیں.یہ تربیتی کیمپ ۱۹۵۱ء سے لے کر اب تک ہر سال منعقد ہوتا ہے.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کے قوانین وضوابط کے مطابق انڈونیشیا کی لجنہ بھی اپنے اصول وقوانین مرتب کر رہی ہے.مرکزی مجلس عاملہ انڈونیشیا وقتا فوقتا اپنے نمائندے مختلف شاخوں میں بھجواتی ہے.موصیات کی تعداد چالیس ہے.لجنہ کی ممبرات باقاعدگی سے احمد یہ مسجد میں جمعۃ المبارک کی نماز ادا کرتی ہیں اور اس کے بعد درس میں شریک ہوتی ہیں.اسی طرح خدمت خلق کے مختلف کاموں میں مثلاً تامی، بیواؤں اور غرباء کی امداد کرتی ہیں.مالی تحریکوں اور قربانیوں میں خاص طور پر تحریک جدید اور قرآن کریم کے انڈو نیشین زبان میں ترجمہ کے خصوصی فنڈ ا کٹھا کرنے میں پیش پیش ہیں.137 ۳.لجنہ نیروبی ( کینیا ) کی جنرل سیکرٹری.نیروبی کی لجنہ کی جنرل سیکرٹری محترمہ صبیحہ منان قریشی صاحبہ نے تمام ممبرات لجنہ نیروبی کی طرف سے محبت بھر اسلام پہنچاتے ہوئے کہا:.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ کا یہ سالانہ اجتماع اس کی پچاس سالہ جو بلی کے موقع پر انعقاد پذیر ہورہا ہے اور طبعاً آج اپنے محسن اور ہمارے آقا حضرت مصلح موعود کی عنایت کی خوشکن یاد ہمارے قلوب میں تازہ ہو رہی ہے.آپ نے پچاس سال پہلے عورتوں کو معاشرے میں ان کا جائز مقام دلوانے اور ان
تاریخ احمدیت.جلد 28 141 سال 1972ء کی ہمہ جہتی ترقی کے لئے لجنہ کی تنظیم قائم فرمائی تھی.اس وقت اس کی حیثیت ایک کمزور پودے سے کچھ زیادہ نہ تھی لیکن وہ آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے کہ جس کی شاخیں اکناف عالم میں پھیلی ہوئی ہیں اور مذہبی علمی اور معاشرتی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے اس کے ذریعہ جو مساعی ہو رہی ہیں اور جو دین کی خدمت سرانجام پارہی ہے وہ ہماری قومی زندگی و جد و جہد کا ایسا زریں باب ہے جس پر ہم اور ہماری نسلیں بجاطور پر فخر کر سکتی ہیں.ظاہر ہے کہ اس مبارک موقع پر بالخصوص اپنے محسن کی یاد تازہ ہوگئی ہے.ہماری عاجزانہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور برکتیں ہمارے آقا مصلح موعود پر نازل ہوں اور آپ کے مدارج بلند سے بلند تر ہوں.آمین 138 وو ۴.لجنہ امریکہ کی نمائندہ.امریکہ سے لجنہ اماءاللہ دین کی صدر محترمہ امتہ الالہی صاحبہ بطور نمائندہ تشریف لائی تھیں.آپ بڑی ہی مخلص اور انتھک کام کرنے والی خاتون تھیں.(اس اجتماع میں شرکت کے بعد جلد ہی آپ کی وفات ہوگئی ) آپ نے حاضرات جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یہ امر میرے لئے باعث فخر وانبساط ہے کہ میں لجنہ اماءاللہ کے اس بابرکت اجتماع میں موجود ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں اپنی حقیر مساعی کو بیان کرنے میں کامیاب ہوسکوں گی.گو یہ کام اتنا آسان نہیں لیکن ہمارے بانی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنی خداداد ذہانت سے یہ چیز بھانپ لی کہ خواتین اسلام کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں اس لئے انہوں نے لجنہ اماءاللہ کی تشکیل کی جس کا مطلب ہے کہ ہمیں محنت اور مسلسل محنت کرنا ہوگی اور اس وقت تک کام کرتے رہنا ہوگا جب تک کہ زندگی کی آخری رمق باقی ہے اور کسی وقت اور کسی لمحہ بھی اس کام کو نظر انداز نہیں کرنا.ہمیں روشنی کا ایک مضبوط قلعہ بننا ہو گا اور تاریک دلوں اور مایوس روحوں کے لئے مشعل راہ بننا ہو گا.ہمیں خدا تعالیٰ سے ہر وقت یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ محض اپنے فضل سے ہمیں یہ توفیق بخشے کہ ہم اکناف عالم میں اشاعت اسلام کے لئے مقدور بھر کوشش کرتی رہیں.139 ۵.لجنہ اماءاللہ انگلستان کی نمائندگی مکرمہ پروین رفیع صاحبہ نے کی.آپ نے مختصر طور پر لجنہ اماءاللہ انگلستان کی طرف سے تمام بہنوں کو السلام علیکم اور مبارکباد کا پیغام دیا.نیز وہاں کی ناصرات الاحمدیہ کی سرگرمیوں کا مختصر تذکرہ کیا.پچاس سالہ جشن کے موقع پر ایک لاکھ روپے لجنہ اماء اللہ انگلستان نے پیش کئے تھے.140 ۶.صدر لجنہ اماءاللہ ڈنمارک محترمہ قانتہ خاں صاحبہ نے اس بابرکت موقع پر ایک پرمغز اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 142 سال 1972ء معلوماتی مقالہ پڑھا جس میں ڈنمارک کی لجنات کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ یورپین ممالک میں پیش آمدہ مشکلات پر بھی روشنی ڈالی.141 تقریب سعید جشن پنجاه سالہ لجنہ اماءاللہ کے تفصیلی کوائف ماہنامہ مصباح ربوہ دسمبر ۱۹۷۲ء میں بھی شائع ہوئے.پاکستانی پریس میں جشن لجنہ اماءاللہ کا ذکر ا.اخبار مغربی پاکستان (۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء) نے حسب ذیل نوٹ سپر داشاعت کیا :.احمدی خواتین کی بین الاقوامی تنظیم کا اجلاس ر بوه ۲۰ نومبر ( نامہ نگار) گذشتہ دنوں یہاں احمدی خواتین کی بین الاقوامی تنظیم لجنہ اماءاللہ نے اپنے سالانہ تربیتی اجتماع کے موقع پر اپنے قیام پر پچاس سال پورے ہونے کی تقریب منائی.اس تقریب میں پاکستان کے کونہ کونہ سے آنے والی خواتین کے علاوہ متعدد بیرونی ممالک انگلستان، امریکہ، مشرقی افریقہ، ماریشس، انڈونیشیا اور ڈنمارک سے بھی نمائندہ خواتین نے شرکت کی اور اجتماع سے خطاب کیا.اس موقعہ پر امام جماعت احمدیہ، ان کی بیگم صاحبہ،صدر لجنہ اماءاللہ سیدہ مریم صدیقہ ایم اے اور بانی جماعت کی دختر سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی خطاب کیا.لجنہ اماءاللہ نے اس موقع پر صنعتی نمائش کا بھی اہتمام کیا اور مختلف زبانوں میں لجنہ کے شائع کردہ لٹریچر کی بھی نمائش کی گئی.اجتماع تین روز جاری رہا.۲.پاکستان کے کثیر الاشاعت روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی اشاعت ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ ء میں جشن لجنہ سے متعلق حسب ذیل خبر شائع کی:.احمدی خواتین کی تنظیم کی طرف سے اشاعت قرآن کے لئے عطیہ ر بوه ۲۷ نومبر ( نامہ نگار) احمدی خواتین کی بین الاقوامی تنظیم "لجنہ اماءاللہ نے اپنے سالانہ تربیتی اجتماع کے موقع پر اپنی پچاس سالہ سالگرہ کی تقریب کا اہتمام کیا.اس تقریب میں ملکی خواتین کے علاوہ انگلستان، امریکہ، مشرقی افریقہ، ماریشس، انڈونیشیا اور ڈنمارک سے بھی نمائندہ خواتین نے شرکت کی اور اجتماع سے خطاب کیا.لجنہ اماءاللہ نے اشاعت قرآن مجید کے لئے دولاکھ روپے کی رقم امام جماعت احمدیہ کو پیش کی.صنعتی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 143 سال 1972ء ۳ روز نامه امروز ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء) نے لکھا:.احمدی خواتین کی تنظیم کا سالانہ اجتماع ر بوه ۲۷ نومبر.گذشتہ دنوں یہاں احمدی خواتین کی بین الاقوامی تنظیم لجنہ اماءاللہ نے اپنے سالانہ تربیتی اجتماع کے موقع پر تنظیم کے قیام کے پچاس سال پورے ہونے پر تاریخی تقریب منائی.اس تقریب پر پاکستان کے کونہ کونہ سے آنے والی خواتین کے علاوہ انگلستان، امریکہ ، مشرقی افریقہ، ماریشس، انڈونیشیا اور ڈنمارک سے بھی نمائندہ خواتین نے شرکت کی.تقریب سے جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد، ان کی بیگم، صدر لجنہ اماءاللہ سیدہ مریم صدیقہ نے بھی خطاب کیا.لجنہ اماء اللہ نے اس تقریب خاص پر دو لاکھ روپے اشاعت قرآن کریم کے لئے امام جماعت احمدیہ کو پیش کئے.احمدی خواتین کی یہ تنظیم اپنے چندے سے ہالینڈ اور ڈنمارک میں تین خوبصورت مساجد تعمیر کر چکی ہے.یہ اجتماع تین روز جاری رہا.142 قادیان دارالامان میں لجنہ کا پنجاه سالہ جشن قادیان میں لجنہ اماءاللہ نے پنجاہ سالہ جشن ۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پرمنایا.اس تقریب سعید میں بھارت کی مندرجہ ذیل لجنات کی نمائندگان نے شرکت کی :.حیدرآباد.سکندرآباد.یادگیر.بنگلور.شموگہ.مدراس کلکتہ.برہ پور.بھا گلپور.شاہجہانپور.اودے پور کٹیا.شورت.آسنور.رانچی.پٹنہ.آرہ.بھدرواہ.مظفر پور.بریلی.یہ تقریب جلسہ گاہ مستورات میں سیدہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ بھارت کے زیر صدارت منعقد ہوئی جس میں پہلے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.بعدازاں سیدہ امۃ القدوس صاحبہ نے خطاب کیا.بعد میں انہوں نے خواتین کو سندات خوشنودی دیں.اس تقریب میں سیدہ امتہ القدوس بیگم صاحبہ کے علاوہ مندرجہ ذیل ممبرات لجنہ کی بھی تقاریر ہوئیں.بشریٰ طیبہ صاحبہ، اعظم النساء صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ حیدر آباد، سہیلہ محبوب صاحبہ محبوب ظفر صاحبہ سیکرٹری لجنہ شاہجہانپور، اختر بیگم صاحبہ صدر لجنہ بنگلور، معراج سلطانہ صاحبہ، رضیہ بیگم صاحبہ صدر لجنہ کلکتہ، صدیقہ صاحبہ اللہ دین سیکرٹری لجنہ سکندر آباد، صادقہ خاتون صاحبہ، نعیمه بشری بقا پوری صاحبہ شمیم بیگم صاحبہ.143
تاریخ احمدیت.جلد 28 144 سال 1972ء امریکہ اور ماریشس میں جشن پنجاه سالہ امریکہ کی لجنہ نے پچاس سالہ تقریب کی خوشی میں اپنی سالانہ کنونشن کے موقع پر جو پروگرام شائع کیا اس کا نام "American Lajna Imaillah Commemorative Program" رکھا گیا.اس میں حضرت مصلح موعود کی فوٹو بھی شائع کی گئی.لجنہ اماء اللہ ماریشس نے لجنہ اماءاللہ گولڈن جوبلی منانے کے لئے عورتوں کے خصوصی رسالہ مصباح ۱۹۷۲ء کو انگریزی اور فرانسیسی زبان میں شائع کیا.رسالہ کی اشاعت عید الاضحی کے مبارک موقع پر عمل میں آئی.اس کو ماریشس اور تقریباً تمام دنیا میں کثرت سے تقسیم کیا گیا.144 لجنہ اماءاللہ کی شاندار ترقی لجنہ اماء اللہ کی وہ تحریک جس کا آغاز ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو صرف چودہ ممبرات سے ہوا تھا پچاس سالوں میں دنیا بھر کی ایک فعال اور بین الاقوامی تنظیم بن گئی اور اس کی ممبرات کی تعدا دلا کھوں تک جا پہنچی اور جہاں وہ ابتدأ صرف قادیان کی مقدس بستی تک محدود تھی وہاں ۱۹۷۲ء میں مجلہ لجنہ (صفحہ ۹۶) کے مطابق پاکستان میں ۵۴۶ اور بیرونی ممالک یعنی یورپ، امریکہ، انڈونیشیا، افریقہ اور مشرق وسطی میں ۱۱۶ شاخیں مضبوطی سے قائم ہو چکی تھیں اور مرکز سے اٹھنے والی ہر تحریک پر مردوں کے دوش بدوش پورے جوش و خروش کے ساتھ لبیک کہتی ہوئی قربانیوں کے میدان میں آگے ہی آگے بڑھ رہی تھیں.145 اس حوالہ سے بعض کو ائف درج ذیل ہیں.متحدہ ہندوستان کے زمانہ کی لجنات متحدہ ہندوستان کے زمانہ میں ۱۹۲۲ء سے ۷ ۱۹۴ ء تک حسب ذیل مقامات میں لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا.۲۵ دسمبر قادیان ۱۹۲۲ء ۱۹۲۳ء فیروز پور ۱۹۲۴ء نوشہرہ.سیالکوٹ ۱۹۲۵ء لاہور
تاریخ احمدیت.جلد 28 ١٩٢٦ ء برہمن بڑیہ (بنگال).امرتسر 145 ۱۹۲۷ء دہلی.کھاریاں.نوشہرہ ( مجلس کا احیائے نو ) سال 1972ء ۱۹۲۸ ء لائلپور (فیصل آباد ) منٹگمری (ساہیوال).ملتان.پشاور - جہلم ۱۹۲۹ ء گوجرانوالہ.حیدر آباد دکن.چک ۴۶ شمالی ضلع سرگودہا.انبالہ.ڈیرہ غازیخان.سیلون (سری لنکا) ۱۹۳۰ ء اٹھوال ضلع گورداسپور محبوب نگر دکن.پیٹیالہ.سالٹ پانڈ (غانا مغربی افریقہ) ۱۹۳۱ء شملہ بھیرہ.چھور چک نمبر ۱۱۷ ضلع شیخو پورہ.بہلولپور چک نمبر ۱۲۷.جموں.بنگہ نمبر ۱ بکا نہ رکھ برانچ.کڑیانوالہ ضلع گجرات.نیروبی.سنور.گجرات ۱۹۳۲ ء راولپنڈی.ڈسکہ ۱۹۳۳ء شاہدرہ.کوٹ قیصرانی.بھاگلپور لکھنو.سرگودہا ۱۹۳۴ء کوئٹہ کا ٹھ گڑھ لدھیانہ سٹیالہ شیخوپورہ.شموگہ.سہارنپور.ناسنور.امریکہ.زنجبار ( مشرقی افریقہ) ۱۹۳۶ء نوشہرہ ککے زئیاں ضلع سیالکوٹ.لالہ موسیٰ.چک نمبر ۹۸ شمالی ضلع سرگودہا.بنوں.گاروت (جاوا) ۱۹۳۷ء | عارف والا ۱۹۳۸ء کند را پاڑہ ضلع کٹک اڑیسہ کو ہاٹ.کراچی.ناصر آباد ( سندھ ) ۱۹۳۹ء جمشید پور.آگرہ ۱۹۴۰ ء ٹوپی.فیض اللہ چک.شادیوال ۱۹۴۱ ء بھڈال ضلع سیالکوٹ.سید والہ ضلع شیخو پورہ.درگانوالی.مگر اضلع سیالکوٹ.کلکتہ قصور ۱۹۴۲ء کنری.سونگھڑہ.مونگ ضلع گجرات ۱۹۴۳ ء محمود آباد سٹیٹ.بیری ضلع گورداسپور ۱۹۴۴ء مری.پٹی ضلع قصور
تاریخ احمدیت.جلد 28 146 سال 1972ء ۱۹۴۵ء بریلی.آنبہ.تہاں ضلع گجرات.دولت پور ضلع گورداسپور.درسی والا ضلع سیالکوٹ.چک ضلع سرگودہا.دوالمیال.اور حمہ.پاکپتن.لنگری ضلع جالندھر.زیرہ ضلع فیروز پور.سوھا وہ ڈھلواں ضلع گوجرانوالہ محمود آباد جہلم.سکھر.سرائے نورنگ بنوں.بمبئی.کبیر وال ضلع ملتان.دھیر کے کلاں ضلع گجرات.اجنالہ ضلع امرتسر - تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ، ایبٹ آباد.پونچھ.گولیکی ضلع گجرات.کانپور.سرہندضلع لدھیانہ.گوکھووال ۲۷۶ ضلع لائلپور میلسی ضلع ملتان و نجواں ضلع گورداسپور.چک ۲۷۰ الف ضلع تھر پارکر سندھ.سندر گڑھ ضلع سیالکوٹ.بنگہ ضلع جالندھر.چنتہ کنٹہ حیدرآباد دکن.بہر اور ریاست پٹیالہ.کھر ڈ ضلع انبالہ.ڈسکہ کلاں ضلع سیالکوٹ.موسیٰ والا ضلع سیالکوٹ.چونڈہ علی پور کھیڑہ (یوپی).گھوڑے واہ ضلع گورداسپور.گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ.کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ.ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ.شکار ضلع گورداسپور.رائے پور ضلع سیالکوٹ.قادر آباد ضلع سیالکوٹ.دلم ضلع سیالکوٹ.بھا گووال ضلع سیالکوٹ.قتالپور ضلع ملتان.سامانہ ریاست پٹیالہ.بھڑتا نوالہ ضلع سیالکوٹ.گوجرہ حسن پور ضلع ملتان - چک ۱۴۵ ضلع ملتان.چک سکندر ضلع گجرات.ترگڑی چیمہ ضلع گوجرانوالہ.انبالہ.ڈنگہ ضلع گجرات کھارا ضلع گورداسپور.ٹوبہ ٹیک سنگھ.ہانڈو گجر ضلع لاہور.فتح پور ضلع گجرات.دنیا پور ضلع ملتان.چاه شیخواه ضلع ملتان.چک ۱۳۶۱ ضلع ملتان.ہنکل ضلع کٹک.شادیوال ضلع گجرات.ہوشیار پور علم پورضلع ہوشیار پور - چک ۲/ ۷۸ ضلع سرگودہا.بیگم پورضلع ہوشیار پور.کر یام ضلع جالندھر - چک ۶۵/۴ ضلع رحیم یار خاں.جوڑ ضلع لاہور.ہیرو غربی ضلع ڈیرہ غازیخاں.آدم پور دوا به ضلع جالندھر.فرید کوٹ سٹیٹ.کوٹ کپورہ (ریاست) فرید کوٹ ) کالا گجراں ضلع جہلم.بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ.مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ.سو بلی خورد ضلع گجرات.موضع لنگر و یہ ضلع جالندھر.میادی نانوں تحصیل نارووال.سماعیلہ ضلع گجرات.حاصل پور ضلع ہوشیار پور.مونگھیر.پوہلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ.چک ۳۴۶ ضلع ملتان.۱۹۴۷ء مدراس، بنگلور، یاد گیر 146
تاریخ احمدیت.جلد 28 147 سال 1972ء بیرونی ممالک میں لجنات کا قیام لجنہ اماءاللہ کی بیرونی ممالک میں قائم مختلف شاخوں کی تفصیل اور ان کی بنیاد کے معین سال حسب ذیل ہیں.پنجو.لنکا (۱۹۲۹ء).سالٹ پانڈ.غانا مغربی افریقہ (۱۹۳۰ء).نیروبی.مشرقی افریقہ (۱۹۳۱ء).امریکہ.زنجبار مشرقی افریقہ (۱۹۳۵ء) - گاروت.جاوا (۱۹۳۶ء).کماسی.غانا مغربی افریقہ (۱۹۴۸ء).انڈونیشیا میں لجنہ کی بنیاد (۱۹۵۰).فری ٹاؤن.مغربی افریقہ.ماریشس.سنگا پور.مرکزی لجنہ انڈونیشیا.شمالی بورنیو (۱۹۵۲ء).طبورا.مشرقی افریقہ.لیگوس نائیجیریا.پہلا لجنہ اجتماع (۱۹۵۳ء).ناصرات الاحمدیہ انڈونیشیا کی بنیاد (۱۹۵۶ء).ڈچ گیا نا.دار السلام (۱۹۵۷ء) ٹورانٹو کینیڈا (۱۹۶۳ء).سنگاپور (۱۹۶۴ء).مڈل سیکس.برطانیہ (۱۹۲۶ء).کوپن ہیگن.ڈنمارک کو بیت.نیچی مان.غانا مغربی افریقہ (۱۹۶۷ء).ہڈرز فیلڈ.برطانیہ (۱۹۶۸ ء ).ابوظہبی (۱۹۶۹ء).جزائر فجی (۱۹۷۰ء ).147 پاکستان بھر میں لجنہ اماءاللہ کی شاخیں (۱۹۷۲ء تک) تعداد شاخیں اضلاع جھنگ گجرات مالتان ساہیوال شیخو پوره لاہور میانوالی رحیم یارخان کوہاٹ کیمبل پور مردان ۲۳ ۳۸ ۲۷ ۲۲ ۲۴ ΙΔ ۱۲ اضلاع تعداد شاخیں لائل پور سرگود با 으수 ۵۱ گوجرانوالہ سیالکوٹ ۳۳ ۷۲ راولپنڈی کوئٹہ ۹ 1 مظفر گڑھ بنوں 1 پشاور ڈیرہ اسماعیل خان
تاریخ احمدیت.جلد 28 ڈیرہ غازیخان بہاولنگر خیر پور نواب شاہ تھر پارکر کراچی آزاد کشمیر ۴ 10 ۲۵ 1 148 دنیا بھر میں لجنہ اماءاللہ کی شاخیں (۱۹۷۲ء تک) ممالک مغربی جرمنی ہالینڈ برما عدن بنگلہ دیش جزائر برطانیہ یوگنڈا غانا جزائر فجی کینیڈا کویت تعداد شاخیں ۱۳ 1 1 بہاولپور میرپور لاڑکانہ حیدر آباد ہزارہ 3 3 سال 1972ء ممالک تعداد شاخیں ڈنمارک ماریشس انڈونیشیا پاکستان ریاستہائے متحدہ امریکہ كينيا تنزانیہ نائیجیر یا سیرالیون سوئٹزرلینڈ ۲۲ ۵۳۲ ۲۱ 1 1 148 احمدی خواتین کے چندہ سے تعمیر ہونے والی مساجد احمدی خواتین نے اپنے پنجاہ سالہ دور میں انگلستان ، ہالینڈ اور ڈنمارک جیسے اہم یورپین ممالک میں اپنے چندہ سے تین عالیشان مساجد بنوائیں جن کے کوائف یہ ہیں :.
تاریخ احمدیت.جلد 28 149 سال 1972ء ا.مسجد فضل لندن.(انگلستان) سنگ بنیاد سید نا حضرت مصلح موعود کل چنده ۸۳ ہزار مسجد فضل کی تحریک پہلے صرف عورتوں کے لئے نہ تھی.عورتوں نے دس ہزار روپیہ چندہ دیا.جب مسجد برلن تعمیر نہ ہوسکی تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے فیصلہ کیا کہ مسجد برلن کی رقم سے جو ۷۲ ہزار ۷۶۱ رو پی تھی مسجد فضل لندن تعمیر کی جائے اور یہ عورتوں کے نام سے موسوم کی جائے.اس طرح عورتوں کا چندہ ۸۳ ہزار روپیہ بن جاتا ہے.149 افتتاح کرنے والے سر عبد القادر صاحب.تاریخ تحریک ے جنوری ۱۹۲۰ء.تاریخ سنگ بنیاد ۱۹ را کتوبر ۱۹۲۴ء تاریخ افتتاح ۳ /اکتوبر ۱۹۲۶ء.۲.مسجد مبارک ہیگ.(ہالینڈ) سنگ بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.کل چندہ ایک لاکھ ۴۳ ہزار ۶۶۴ روپے.افتتاح کرنے والے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.تاریخ تحریک ۱۲ مئی ۱۹۵۰ ء.تاریخ سنگ بنیاد ۲۰ مئی ۱۹۵۵ء.تاریخ افتتاح ۹ دسمبر ۱۹۵۵ء..مسجد نصرت جہاں کوپن ہیگن.(ڈنمارک) سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحر یک جدید کل چند لاکھ 1 ہزار روپے.افتتاح سید نا حضرت مرزا ناصراحم صاحب خلیفۃ امسیح الثالث تاریخ تحریک ۲۷ دسمبر ۱۹۶۴ ء.تاریخ سنگ بنیاد ۶ مئی ۱۹۶۶ء.تاریخ افتتاح ۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء بروز جمعہ.150 لجنہ کے تحت چلنے والے ذیلی ادارے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام چلنے والے سات اداروں کی تفصیل یہ ہے.ا.نصرت انڈسٹریل سکول ربوہ.تاریخ قیام مئی ۱۹۵۶ء.مقصد : غریب اور مسکین خواتین اور بچیوں کو خود کفیل بنانا.نصاب : کٹائی مشین کی سلائی مشین کی کڑھائی ، ہاتھ کی کڑھائی ، نٹنگ ،لکڑی اور چمڑے کا کام.اسٹاف: ۴.نتیجہ: شاندار رہتا ہے ہر سال کثیر تعداد میں طالبات ڈپلومہ لے کر جاتی ہیں.۲.فضل عمر ماڈل ہائی سکول ربوہ.تاریخ قیام : 9 دسمبر ۱۹۵۷ء.مقصد : چھوٹے بچے بچیوں کے لئے مزید تعلیمی سہولت.نصاب : محکمہ تعلیم کے نصاب کے علاوہ دینیات اور قرآن کریم خصوصی طور پر.مزید ترقی : ۱۹۷۰ ء سے نویں دسویں کا اجراء.اسٹاف: ۱۲ راسا تذہ.نتیجہ: نہایت شاندار.- مریم مڈل سکول گھٹیا لیاں ضلع سیالکوٹ.تاریخ قیام : ۱۹۶۳ء.مقصد : اس علاقہ میں پرائمری کے بعد لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں.بچیوں کی تعلیم کے پیش نظر لجنہ اماءاللہ نے سکول قائم کیا.نصاب محکم تعلیم کے نصاب کے علاوہ دینیات اور قرآن کریم.
تاریخ احمدیت.جلد 28 150 سال 1972ء -۴- چک منگلا سکول ضلع سرگودہا.تاریخ قیام : اکتوبر ۱۹۶۳ء.وجہ قیام : اس علاقہ میں بچیوں کے پرائمری سکول کا فقدان.نصاب محکمہ تعلیم کے نصاب کے علاوہ دینیات اور قرآن کریم پر خصوصی توجہ.اسٹاف: ایک معلمہ.نتیجہ: سو فیصد.۵ امتہ الحئی لائبریری ربوہ.تاریخ قیام : ۱۹۲۷ء میں جاری کی گئی.وجہ قیام : حضرت سیدہ امتہ الحی مرحومہ جو لجنہ اماء اللہ کی روح رواں اور سیکرٹری تھیں ان کی یاد میں.( ربوہ میں اس کا احیاء ۱۹۵۰ء میں ہوا.) ۶.نصرت زنانه جنرل سٹور ربوہ.تاریخ قیام : ۱۹ اکتوبر ۱۹۵۶ء.وجہ قیام : احمدی عورتوں کو بازار جانے کی تکلیف سے بچانے اور بارعایت ضروریات فراہم کرنے کے لئے.نتیجہ: بہت عمدہ.ے.رسالہ مصباح ربوہ.مقام اور تاریخ اجراء : ۱۹۲۶ء میں قادیان سے جاری ہوا.احمدی خواتین اور لجنہ اماءاللہ کا واحد ترجمان جو بڑی باقاعدگی سے شائع ہورہا ہے.151 بجٹ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (۱۹۵۵ء تا ۱۹۷۱ء) لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے مالی نظام کے ارتقاء کا اندازہ کرنے کے لئے اس کے بجٹ ۱۹۵۵ء تا ۱۹۷۱ ء کا خاکہ درج ذیل کیا جاتا ہے.مالی سال آمد خرچ Rs.5,481 Rs.6,291 1955-56 Rs.15,855 Rs.16,894 1956-57 Rs.29,693 Rs.31,642 1957-58 Rs.34,319 Rs.36,762 1958-59 Rs.49,327 Rs.38, 128 1959-60 Rs.46,544 Rs.39,030 1960-61 Rs.50,059 Rs.45,743 1961-62 Rs.55,112 Rs.49,651 1962-63 Rs.68,072 Rs.59,484 1963-64 Rs.63,173 Rs.66,248 1964-65
سال 1972ء 151 تاریخ احمدیت.جلد 28 Rs.61,648 Rs.68,954 1965-66 Rs.72,724 Rs.74,007 1966-67 Rs.70,400 Rs.82,260 1967-68 Rs.80,338 Rs.83,856 1968-69 Rs.79,037 Rs.88,720 1969-70 Rs.93,057 Rs.90, 183 1970-71 Rs.99,648 Rs.1,03,992 1971-72 152 لجنہ اماءاللہ کا شائع کردہ اہم لٹریچر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے جشن کے حالات اور اس مرکزی تنظیم کی پنجاہ سالہ ترقیات اور کارناموں کا تذکرہ کرنے کے بعد لجنہ کے شائع کردہ اہم لٹریچر کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.الازهار لذوات الخمار ( عورتوں میں حضرت مصلح موعود کی تقریروں کا مجموعہ ) طبع اول ۱۹۴۴ء الازهار لذوات الخمار ( عورتوں میں حضرت مصلح موعود کی تقریروں کا مجموعہ ) طبع دوم ۱۹۶۷ء راه ایمان طبع اوّل ۱۹۶۰ء ۴ راه ایمان (انگریزی ترجمه ) ۵ راه ایمان (بنگله ترجمه ) ۶ مقامات النساء.تالیف مولانا ابوالعطاء صاحب (انگریزی ترجمہ ) ے تربیتی نصاب حصہ اول تربیتی نصاب حصہ دوم و تربیتی نصاب حصہ سوم المصابیح ( حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خواتین سے تقاریر کا مجموعہ ) یاد محمود ( حضرت مصلح موعود کی یاد میں نظموں کا مجموعہ ) یا د محمود ( حضرت مصلح موعود کی یاد میں نظموں کا مجموعہ ) ١٩٦٢ء ١٩٦٣ء ١٩٦٣ء ١٩٦٤ء ۱۹۶۵ء ١٩٦٦ء ۱۹۶۷ء طبع اول ۱۹۶۷ء طبع دوم ۱۹۶۸ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 152 مختصر تاریخ احمدیت ( مؤلفه شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر افضل) ۱۴ رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم مصنفہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صدر لجنه مرکزیہ ) سال 1972ء ١٩٦٧ء ١٩٦٨ء ۱۵ ہمارا دستور العمل ۱ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اوّل ۱۹۷۰ء (۱۹۲۲ء سے ۷ ۱۹۴ ء تک.مؤلفہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ) ۱۷ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم 1921ء ۱۸ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم (۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک مؤلفہ امۃ اللطیف صاحبہ ) (۱۹۵۹ء سے ۱۹۷۲ء تک.مؤلفہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ) ۱۹ مجله بتقریب جشن پنجاه ساله ( مرتبه سیده نسیم سعید صاحبه ) ۱۹۷۲ء نومبر ۱۹۷۲ء ۲۰ Lajna Speaks (۱۹۲۲ء.۱۹۷۲ء.مرتبہ شمیم شریف صاحبه ) دسمبر ۱۹۷۲ء جماعت احمد یہ نبی کے نام حضرت امام ہمام کا روح پرور پیغام 153 نجی کے ایک مخلص احمدی دوست نے ربوہ سے واپسی پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں نبی کی احمدی جماعتوں کو خصوصی پیغام عطا کئے جانے کی درخواست کی جسے حضور نے از راہ شفقت شرف قبولیت بخشا اور حسب ذیل پیغام ریکارڈ کرا کے ارسال فرمایا.جسے جزائر فجی کی مخلص جماعتوں نے اپنے تمام جلسوں اور دیگر تقاریب پر بار بار سنا اور اپنے ایمانوں کو تازہ کیا.حضور نے تشہد وتعوذ کے بعد فرمایا:.دو فجی میں بسنے والے احمدی بھائیو! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مرکز احمدیت سے آپ کے جزائر کا فاصلہ ہزاروں میل کا ہے لیکن صرف آپ ہی مرکز سے اتنے فاصلہ پر نہیں.مغربی افریقہ میں بسنے والے احمدی بھی ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہیں اسی طرح امریکہ میں بسنے والے احمدی آپ سے بھی
تاریخ احمدیت.جلد 28 153 سال 1972ء زیادہ فاصلہ پر بستے ہیں.پس محض مرکز سے دوری اخلاص کی کمی اور ایثار و قربانی سے بے پرواہی پر منتج نہیں ہوتی بلکہ فاصلے محبت اور پیار سے اخلاص اور ایثار سے سکڑ جاتے اور زائل ہو جاتے ہیں.جو محبت جو ایثار اور غلبہ اسلام کے لئے جو جوش میں نے مغربی افریقہ کے افریقن احمدیوں میں پایا ہے اگر ویسا ہی اخلاص اور جوش ساری دنیا کے احمدیوں میں ہو جائے آپس میں پیار کرنے لگیں بنی نوع انسان کی خدمت پر کمر بستہ ہو جائیں اور اگر اللہ تعالیٰ کے حقوق کو بھی اسی طرح ادا کریں جس طرح انہیں اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین اور وصیت کی گئی ہے تو غلبہ اسلام کی جو مہم اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کے اور بھی زیادہ خوشکن نتائج بہت جلدی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں اور اپنی زندگیوں میں ہم غلبہ اسلام کی آخری فتح اور آخری غلبہ کے ایام اپنی آنکھوں سے دیکھنے لگیں.ہماری روح انہیں محسوس کرنے لگے اور ہماری خوشیوں کی کوئی انتہا نہ رہے کیونکہ اسی میں ہماری خوشی اور مسرت ہے.میہ دنیا اور اس دنیا کے اموال اور دنیا کی مستر تیں اور لذتیں حقیقی نہیں.ابدی بھی نہیں ہیں.ابدی اور حقیقی مسرت تو اللہ تعالیٰ کے پیار میں انسان کو ملتی ہے اور اسی کی طرف رجوع کر کے اس کے پیار کو ہمیں حاصل کرنا چاہیے.آج اس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کر کے ہمیں یہ وعدہ دیا ہے کہ تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس موعود عظیم روحانی فرزند کی باتوں کو سنو اور غلبہ اسلام کی جو مہم اس نے جاری کی ہے اس میں حصہ لو.معمولی حصہ نہیں بلکہ انتہائی حصہ.ساری دنیا کی لذتوں اور دولتوں کو بھول کر اس حقیقی لذت اور حقیقی رویت کی تلاش کرو جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.پس اگر تم حقیقی معنی میں پورے اخلاص کے ساتھ خدا کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرو گے اور توحید حقیقی پر پوری طرح قائم ہو جاؤ گے اور بے نفس محبت اسلام سے کرو گے اور قرآن کریم کی عظمت کو دلوں میں بٹھاؤ گے....اور خدا کی رضا کے متلاشی رہو گے اور خدا کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ساری دنیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 154 سال 1972ء کے دل میں بٹھانے کی کوشش کرو گے تو اپنے لئے اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کر لو گے.اگر یہ نہیں کرو گے تو دنیا تو تباہی کی طرف جا رہی ہے تم اس قافلہ کے ساتھ کیوں شامل ہونا چاہتے ہو جس کے لئے ہلاکت مقدر ہو چکی ہے تم اس جماعت میں پوری طرح اور اخلاص سے کیوں رہنا نہیں چاہتے کہ جس کے لئے دنیا کی عزتیں اور آخرت کی عزتیں مقدر ہو چکی ہیں اور جو پیدا ہی اس لئے کئے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمتوں اپنے فضلوں اور پیار سے نوازے.خدا آپ کو بھی اور ہمیں بھی اور دنیا میں ہر جگہ بسنے والے احمدیوں کو بھی یہ توفیق عطا کرے کہ سب احمدی انفرادی طور پر بھی اور جماعتی لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگیں اور جو کام اللہ تعالیٰ نے ان کے سپر د کیا ہے خدا کی رضا کیلئے وہ اس کام میں ہمہ تن مشغول رہیں.اللہ تعالیٰ کی رضا کو پائیں اور ابدی جنتوں کے وہ وارث ہوں.آمین.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ السلام علیکم" " 154 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا ستر ہواں مرکزی اجتماع ۱۷-۱۸-۱۹ نومبر ۱۹۷۲ء کو دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے احاطہ میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ۵۳۵ مجالس انصار اللہ کے ۴۳۲۱ نمائندگان ، اراکین اور زائرین نے شرکت کی.155 حضور انور کا افتتاحی خطاب اس اجتماع کے افتتاح کے لئے حضرت خلیفہ المسح الثالث مورخہ ۱۷ نومبر کو پنڈال میں تشریف لائے اور اپنے بصیرت افروز افتتاحی خطاب میں فرمایا:.ایک احمدی مسلمان کو اس حقیقت کا عرفان حاصل کرنا چاہیے کہ وہ محض اس لئے پیدا نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے نفس کی اپنے بیوی بچوں اور دوستوں کی اپنے قبیلے اور اپنی قوم کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرے بلکہ اخرجت للناس کی رُو سے اسے تمام بنی نوع انسان اور کل عالم کا خادم بنایا گیا.“
تاریخ احمدیت.جلد 28 155 سال 1972ء حضور انور نے اپنے خطاب میں مزید فرمایا کہ ” جب تک احمدی ہونے کی حیثیت میں ہم میں یہ ذہنیت پیدا نہ ہوگی اس وقت تک بعثت مہدی معہود علیہ السلام کی اصل غرض پوری نہ ہو گی اور وہ غرض جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے یہ ہے کہ روئے زمین کے انسانوں کو عَلَی دِینِ وَاحد جمع کر کے امتہ واحدہ کی شکل میں ڈھال دیا جائے.یہ مقصد تکمیل اشاعت ہدایت کے بغیر ممکن نہیں اور اشاعت ہدایت کی تکمیل اس وقت نہیں ہوسکتی جب تک کہ اخرجت للناس کی رو سے اس حقیقت کی پوری معرفت ہمیں حاصل نہیں ہو جاتی کہ ہمیں تمام بنی نوع انسان کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی نشوونما کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور ہمیں ہر قوم ہر رنگ اور ہر نسل کا خادم بنایا گیا ہے.ہمیں نہ صرف خود تمام بنی نوع انسان کا خادم بننا ہے بلکہ ہر انسان کو تمام دوسرے بنی نوع انسان کا خادم بنانا ہے.جس وقت تکمیل اشاعت ہدایت کی خدائی بشارتیں پوری ہوں گی تو ہمارے ذریعہ سے ہر دل میں توحید کی عظمت کا جھنڈا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و پیار کا جھنڈا گاڑ دیا جائے گا.اس وقت کوئی کسی کا مخدوم نہ ہوگا بلکہ ہر انسان دوسرے انسان کا خادم ہو گا.ان بشارتوں کے پورا ہونے کے لئے ہمیں اخرجت للناس کے رفیع الشان مقام کی معرفت سے بہرہ ور ہونا ہو گا اور اپنی انتہائی کوشش کو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے وقف کر دینا ہو گا.“ حضور کا یہ پر معارف اور بصیرت افروز خطاب پینتالیس منٹ تک جاری رہا ، اس دوران حضور ن اخرجت للناس کے رفیع الشان مقام کی ماہیت اور اس کے عملی تقاضوں پر نہایت ہی روح پرور اور مسحور کن انداز میں روشنی ڈالی.156 اختتامی اجلاس مجلس انصار اللہ کا ستر ہواں سالانہ مرکزی اجتماع دعاؤں ، ذکر الہی ، انابت الی اللہ اور روحانی کیف و سرور سے معمور فضا میں تین دن تک جاری رہنے کے بعد مورخہ ۱۹ نومبر کو نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 156 سال 1972ء حضور انور نے اپنے اختتامی خطاب سے قبل اپنے دست مبارک سے ناظمین اعلیٰ علاقائی اور ناظمین اضلاع کو اسناد خوشنودی نیز تعلیمی امتحانات میں اول اور دوم آنے والے انصار اور اجتماع کے موقع پر منعقد ہونے والے تقریری اور ورزشی مقابلہ جات میں امتیاز حاصل کرنے والی مجالس اور انصار کو انعامات عطا فرمائے.حضور انور کا اختتامی خطاب بعد ازاں حضور انور نے ایک بصیرت افروز خطاب میں منافقین سے متعلق قرآنی تعلیم کی وضاحت فرمائی.حضور انور نے اس موقع پر اپنی ایک خواہش کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ” میری ایک خواہش یہ ہے کہ پاکستان کے ہر گاؤں میں ہماری جماعت کی طرف سے طبع کردہ قرآن مجید کا کم از کم ایک نسخہ پہنچ جانا چاہیے.لجنات ہر اس قربانی میں شامل ہیں جو مرد کرتے ہیں مثلاً فضل عمر فاؤنڈیشن اور نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریکوں میں وہ برابر کی شریک ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ بعض کام ایسے کرتی ہیں جن میں مردوں کو شریک نہیں کرتیں مثلاً انہوں نے یورپ میں متعدد مساجد اپنے چندوں سے تعمیر کرائی ہیں.اب لجنہ اماءاللہ نے اپنے قیام کی پنجاہ سالہ تقریب کے موقعہ پر دو لاکھ کی رقم پیش کی ہے کہ اسے میں جس کام پر چاہوں خرچ کروں.میرے سامنے سب سے اہم کام اشاعت قرآن کا ہے سو یہ رقم اس کام پر ہی خرچ کی جائے گی.پس میں آپ سے کہتا ہوں اپنے دائرہ خدمت کو وسیع کریں اور قرآن کریم کی برکت کو اگر گھر گھر نہیں تو کم از کم قریہ قریہ پہنچانے کی کوشش کریں.یہ قطعاً مشکل نہیں ہے ہر گاؤں میں قرآن مجید کا ایک ایک نسخہ بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے.157 ایک اہلحدیث عالم کا اہم بیان بابت تکفیر جماعت احمدیہ اہل حدیث عالم مولوی محمد عطاء اللہ صاحب حنیف (مدیر الاعتصام لاہور ) نے لکھا کہ قادیانی اور لاہوری احمدی دونوں کا فر ہیں.اس پر ایک روشن خیال اہل حدیث عالم مولوی محمد لکھوی صاحب نبیرہ مولانا حافظ محد لکھوی صاحب) نے زبر دست نوٹس لیا اور اس کے جواب میں ایک بیان شائع کیا جس کے آغاز میں تحریر کرتے ہیں کہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 157 سال 1972ء ”ہر پڑھے لکھے پر یہ بات مخفی نہیں کہ علماء متقدمین اہل قبلہ کی تکفیر سے اجتناب کرتے تھے.موجودہ دور میں بھی ایسے علماء کی کمی نہیں جو اسلامی فرقوں کے کسی بھی فرد پر کفر کا فتویٰ لگانا پسند نہیں کرتے.انقلاب سے تقریباً دس بارہ سال پہلے انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں میں نے سردار اہلحدیث مولانا ثناء اللہ امرتسری مرحوم کی زبان سے خود یہ الفاظ سنے ( میں کسی اسلامی فرقہ کو کافر نہیں کہتا یہاں تک کہ میں مرزائیوں کی تکفیر سے بھی اجتناب کرتا ہوں ) مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم تو صالحین اہل کتاب کے جنت میں جانے کے قائل تھے پھر اس کے متعلق کسی اسلامی فرقہ پر کفر کا فتویٰ لگانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.حضرت خالد بن ولید ( سہو ہے اصل حضرت اسامہ بن زید ) کا واقعہ ہر پڑھے لکھے کو معلوم ہے کہ ایک جنگ میں دشمن نے آپ کا سخت مقابلہ کیا.دشمن کو جب شکست ہونے لگی اس نے فوراً کلمہ طیبہ پڑھ لیا.لیکن حضرت خالد نے جوش میں اسے قتل ہی کر دیا.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے حضرت خالد سے جواب طلبی کی.حضرت خالد نے جواب دیا کہ اس نے اپنی جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یاهلا شققت قلبہ تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا؟ فقہ حنفیہ کا مشہور اصول ہے کہ اگر ایک شخص میں نانوے باتیں کفر کی اور ایک ایمان کی ہو تو اسے کا فرنہیں کہنا چاہیے.کلمات کفر کی تاویل کی جائے گی جو بات ایمان کی کہی اس کی کوئی تاویل نہیں.یہی وجہ ہے کہ حنفیہ مسلک کے محتاط علماء کسی بھی اسلامی فرقہ پر فتویٰ نہیں لگاتے.اس دور میں جبکہ اسلام دشمن طاقتیں اسلام کو سرے سے ہی مٹانے پر آمادہ ہیں، دوراندیشی یہ ہے کہ سارے اسلامی فرقے جمع ہو کر اسلامی شجر کی حفاظت کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمارا حامی و ناصر ہو.158 ایبٹ آباد میں جماعتی تعمیرات نذرآتش 66 صوبہ سرحد میں کاکول ( ایبٹ آباد) کے قریب جماعت احمدیہ کے زیر انتظام متعدد مکانات رہائشی ضروریات کے پیش نظر تعمیر کئے گئے تھے جن کو اکتوبر ۱۹۷۲ء میں شرارت پسند عناصر نے نذر آتش کر دیا.مذہبی تعصب اور فرقہ پرستی کے اس افسوسناک مظاہرہ کی عبدالقیوم خاں وزیر داخلہ حکومت پاکستان نے پرزور مذمت کی.اس ضمن میں اخبار جنگ (راولپنڈی) کی ۲۸ /اکتوبر ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر شائع ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 158 کا کول کے قریب ۱۲۰ گھروں پر مشتمل کالونی کو نذرآتش کر دیا گیا سال 1972ء راولپنڈی ۱/۲۷ اکتوبر (اسٹاف رپورٹر) مرکزی وزیر داخلہ خان عبد القیوم نے کہا ہے کہ صوبہ سرحد میں امن و امان کی حالت انتہائی خراب ہے کسی کی جان و مال و عزت محفوظ نہیں ابھی حال میں کا کول کے نزدیک خاص فرقے کے لوگوں پر مشتمل ۱۲۰ گھروں کی کالونی کو نذرآتش کر دیا گیا.یہ انتہائی شرمناک فعل ہے“.159 وو اخبار ” نوائے وقت راولپنڈی (مورخہ ۲۸ /اکتوبر ۱۹۷۲ء) نے لکھا:.راولپنڈی ۱/۲۷ اکتوبر (نامہ نگار خصوصی) مرکزی وزیر داخلہ خان عبدالقیوم نے انکشاف کیا ہے کہ کاکول ( ایبٹ آباد) کے قریب ایک فرقے کے پورے گاؤں کو نذرآتش کر دیا گیا ہے.جس کی اطلاع سرحد حکومت نے پریس کو نہیں دی انہوں نے کہا کہ اس آتشزدگی سے تقریباً ۱۲۰ مکان جل کر راکھ ہو گئے اور کئی افراد زخمی ہوئے.عبدالقیوم خان نے یہ بات صوبہ سرحد میں بگڑتے ہوئے امن عامہ ولا قانونیت کا ذکر کرتے ہوئے کہی.انہوں نے کہا کہ تمام مفرور ملزمان وا پس مختلف شہروں خصوصاً نوشہرہ، پشاور پہنچ گئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل پشاور کے بازار میں تین افراد نے ایک غریب آدمی کو روک دیا اور اس کی جیب سے نو آنے نکال کر بھاگ گئے.انہوں نے کہا کہ جہاں تک مرکزی وزارت داخلہ کا تعلق ہے تو سارے ملک میں اس کی طرف سے صرف ایک شخص کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جبکہ صوبہ سرحد میں سینکڑوں افراد کو امن عامہ کے قوانین کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے.ان حالات میں وہاں برسر اقتدار حکومتوں کا جمہوریت کا نعرہ بھی مضحکہ خیز 66 ہے.160 النبی جماعتوں کی تاریخ اور جماعت احمدیہ کے لئے قرآنی لائحہ عمل اس آتشیں ماحول میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احمدیوں کی ایسی کامیاب راہنمائی فرمائی کہ وہ روحانی بشاشت، شوق عمل اور جذبہ ایثار کا حقیقی نمونہ بن گئے اور باطل طاقتیں ان میں ذرہ بھر ضعف اور کمزوری کا احساس پیدا کرنے میں یکسر ناکام و نامراد ر ہیں.اس سلسلہ میں حضور نے ۱۰ نومبر ۱۹۷۲ء کو ایک نہایت ولولہ انگیر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قرآن کریم کی سورۃ آل عمران، ۱۴۷ - ۱۴۸ - ۱۸۷ اور سورۃ الممتحنہ : ۳ اور تاریخ اسلام کی روشنی میں بڑے شرح وبسط سے بتایا کہ خدائی جماعتوں کے خلاف ہمیشہ ہی زبان اور ایذا رسانی کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 159 سال 1972ء ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ اس قرآنی دعا سے کریں جو اس غرض سے خدا نے ہمیں سکھائی ہے جو یہ ہے رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنَ (آل عمران: ۱۴۸) اے ہمارے رب ہمارے قصور ( یعنی کو تا ہیاں ) اور ہمارے اعمال میں ہماری زیادتیاں معاف کر اور کا فرلوگوں کے خلاف ہماری مدد کر.یہ یادگار خطبہ جمعہ ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جس کے بعض اقتباسات سپر دقر طاس کئے جاتے ہیں.حضور انور نے فرمایا:.دوستوں کو علم ہو چکا ہوگا کہ ایبٹ آباد میں جماعت کی جو کوٹھیاں تھیں ( کچھ بن چکی تھیں اور کچھ بن رہی تھیں ) جن میں ایک دو میری ذاتی بھی تھیں.پچھلے مہینے ان کو جلانے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں ( ہمارا اندازہ ہے ) بیس پچیس ہزار روپے کا نقصان ہوا ہے.کئی دوستوں نے مجھے بڑے غصے کے خط لکھے ہیں.میں نے ان کو یہی سمجھایا ہے کہ دیکھو! مالی لحاظ سے بیس پچیس ہزار روپے کا نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کو نا کام اور ہلاک کر دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے.اب تو خدا کے فضل سے وہ وقت آ گیا ہے کہ جماعت کے اندر ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی ایک فرد کی ایسی پچاس کو ٹھیاں جلا دی جائیں تو اس کو محسوس بھی نہ ہو.اللہ تعالیٰ کے خزانے تو بھرے ہوئے ہیں اس نے جماعت احمدیہ کو مال بھی عطا فرمایا ہے.پس ایک ایسا آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مالی قربانیوں کی توفیق عطا کی ہو اس کے پچاسویں حصے کو نقصان پہنچا کر اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت احمد یہ کونا کام کر دیں گے تو ان کی حالت واقعی قابل رحم ہے.غرض دوستوں کو یہ امر یا درکھنا چاہیے کہ لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ کی رو سے یہ چیزیں ہمارے ساتھ بھی لگی ہوئی ہیں.الہی سلسلوں کے ساتھ مخالفین کا یہ سلوک کوئی نئی بات نہیں.تاہم ایسے موقعہ پر خوف اس بات کا نہیں ہوا کرتا کہ مخالفین کی حرکتیں جماعت کو نا کام کر دیں گی.بلکہ یہ خوف ہوتا ہے کہ کہیں جماعت کا رد عمل اللہ کی رضا اور اس کی منشاء کے خلاف ظاہر نہ ہو.میں نے شروع میں جو دو آیات تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی آیت میں تین قسم کے خوف ہیں اور دوسری
تاریخ احمدیت.جلد 28 160 سال 1972ء آیت میں ان کے علاج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.فرما یا اللہ تعالیٰ کی راہ میں تمہیں دکھ اور تکلیف پہنچے گی.مگر تمہارا یہ کام ہے کہ تم اپنے اندروہن ، ضعف اور استکانت پیدا نہ ہونے دو.میں سمجھتا ہوں یہ آیت ایک لحاظ سے ہمارے لئے خوشخبری کا باعث بھی ہے کہ ہمیں مالی نقصان بھی پہنچایا جائے گا.جذباتی اور روحانی نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی جائے گی لیکن یہ نقصان ہمیں اس لئے نہیں پہنچایا جائے گا کہ ہم تباہ و برباد ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے ہمیں مارنے کے لئے پیدا نہیں کیا بلکہ ہمیں زندہ رکھنے اور ہمارے ذریعہ دوسروں کو زندہ کرنے کیلئے پیدا کیا ہے.161 ربوہ کو جنت نظیر بنانے کی خواہش اور عزم کا اظہار ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مرکز احمدیت ربوہ کو جنت نظیر بنانے کی دلی تمنا اور عزم کا بھی اظہار کیا.چنانچہ آپ نے ربوہ کے مکینوں کو ربوہ میں شجر کاری اور ربوہ کے درختوں کی حفاظت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:.ربوہ کے ہر مکین کا یہ فرض ہے کہ اسے جہاں بھی نظر آئے کہ کوئی شخص درخت کاٹ رہا ہے تو وہ اس کے پاس چلا جائے اور اسے درخت کاٹنے سے روک دے.یہ توتھی وہ ذمہ داری جو ان درختوں کی حفاظت کے لئے ہے جو پہلے سے موجود ہیں جو نئے درخت لگائے جائیں گے ان کی حفاظت کی ذمہ داری اطفال الاحمدیہ پر ہے سوائے اس کے کہ جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق دس فیصد درخت مرجاتے ہیں اور بڑھتے نہیں انسانی غلطی یا لا پرواہی کے نتیجہ میں ایک درخت بھی ضائع نہیں ہونا چاہیے.سارے چھوٹے اور بڑے بچے درختوں کی حفاظت کے لئے ذمہ دار ہیں.مجلس صحت کو چاہیے کہ ان کی ٹولیاں بنا کر ہر ٹولی کے ذمہ لگائیں کہ مثلاً انہوں نے فلاں جگہ کے اتنے درختوں کی حفاظت کرنی ہے...غرض درختوں کے بے شمار فوائد ہیں یہ انسان کے ہزاروں کام آتے ہیں اس لئے نئے اور پرانے درختوں کی حفاظت از بس ضروری ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سایہ دار اور پھلدار درختوں کے کاٹنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم نے بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالی ہے.چنانچہ ایک موقع پر جنگ کے دوران انسان کی جان کی حفاظت کے لئے نہیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 161 سال 1972ء بلکہ ایک مسلمان کی جان کی حفاظت کے لئے (جس کی قیمت زیادہ ہے ) غالباً نو درخت کاٹنے پڑے تھے جس پر قرآنی وحی نازل ہوئی کہ یہ درخت ہمارے حکم سے کالے گئے ہیں.غرض اتنی چھوٹی سی استثنائی صورت کا ذکر حکمت سے خالی نہیں ہے آخر نو درخت ہیں کیا چیز ؟ لیکن چونکہ امت مسلمہ کو یہ سبق دینا مقصود تھا کہ اتنی اہم ضرورت کے لئے نو درخت کاٹنے پر بھی اللہ کا الہام نازل ہوا.گو اس طرح آئندہ کے لئے بوقت ضرورت درخت کاٹنے کی اجازت تو مل گئی لیکن اس سے بالواسطہ طور پر درخت خواہ وہ سایہ دار ہوں یا پھلدار ہوں ان کے نہ کاٹنے بلکہ نئے درخت لگانے اور ان کی حفاظت کرنے کی تاکید کی گئی ہے.162 66 انفلوئنزا کا شدید حملہ اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خصوصی ہدایات ۱۹۱۸ء کی طرح ۱۹۷۲ء میں بھی برصغیر اور بعض دوسرے ممالک پر انفلوئنزا کا شدید حملہ ہوا.ربوہ میں بھی بڑے اور چھوٹے بچے بڑی کثرت سے اس بیماری کی لپیٹ میں آگئے.الغرض بہت سے گھر اس وباء میں مبتلا ہو گئے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب جماعت سے تحریک فرمائی کہ وہ ان ایام میں پانی ابال کر پئیں.اگر پانی بد مزہ لگے تو سبز چائے کی پتی اس میں ڈال لیں.ابلا ہوا پانی معدہ اور انتڑیوں کے لئے مفید ہے.علاوہ ازیں ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ء کو خاص طور پر ایلو پیتھی ، طب یونانی ( مسلم طب) اور ہومیو پیتھی طریق ہائے علاج پر بصیرت افروز رنگ میں تبصرہ کیا اور احباب جماعت کو نصیحت فرمائی کہ امراض کی تکالیف اور اس کے نتائج سے بچنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان دوا بھی کرے اور خدا کے حضور بھی جھکے نیز اپنے تجربات کی روشنی میں مشورہ دیا کہ علاج سمیت ہر کام میں عقل وفراست سے کام لیں حتی الوسع آپریشن سے پر ہیز کریں اور مہلک ادویہ کا استعمال سوائے شدید ضرورت کے نہیں کیا جانا چاہیے.اس تعلق میں حضور نے متعدد واقعات بھی بیان فرمائے.163 طبی مشورہ کے لئے ایک ہنگامی میٹنگ ۲۵ نومبر ۱۹۷۲ء کوسیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بغرض مشورہ جملہ ایلو پیتھ اور ہومیو پیتھ ڈاکٹروں اور طبیبوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب فرمائی 164 اس کی کارروائی کی نسبت حضور نے خود
تاریخ احمدیت.جلد 28 162 سال 1972ء اگلے خطبہ جمعہ ( مورخہ یکم دسمبر ۱۹۷۲ء) میں فرمایا کہ میں نے ربوہ کے اطباء کے ذمہ یہ کام لگا یا تھا کہ وہ ہر گھر جا کر جائزہ لیں کہ ربوہ میں کتنے مریض ہیں اور کس قسم کے مریض ہیں.حضور انور نے فرمایا کہ میرے پاس جور پورٹ آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان دنوں ربوہ میں ۱۶۳۲ مریض تھے.جنہیں مختلف امراض لاحق تھیں.حضور انور نے صدر ان محلہ اور ان کی مجالس عاملہ کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے محلہ وار صدر صاحبان اور ان کی مجالس عاملہ کا انتظام کیا ہوا ہے اور ایک صدرعمومی ہیں یہ ان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ محلہ میں رہنے والوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں اور ایک بڑی ضرورت (احساس کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں سب سے بڑی ضرورت ) یہ ہے کہ کسی گھر میں اگر کوئی بیمار ہے تو اس کا علاج تسلی بخش طور پر ہونا چاہیے.حضور انور نے درختوں کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ لوگ گھروں میں تو درخت لگا رہے ہیں.انہیں باہر سڑکوں اور کھلی جگہوں پر درخت لگانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے درختوں کے ذمہ بہت سے کام لگائے ہیں اور ان کے بہت سے فوائد ہیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان فرمایا ہے.حضور انور نے یوکلپٹس کے درخت کی مثال دی کہ یہ ملیریا کی روک تھام اور کلر زدہ زمین کو آباد کرنے کے لئے بہت مفید ہے.حضور انور نے یوکلپٹس کے بارہ میں فرمایا کہ بہاولپور کی طرف ایک بہت بڑا علاقہ تھا جہاں کوئی درخت نہیں اگتا تھا.دس پندرہ سال پہلے کی بات ہے اس وقت کی حکومت نے مشورہ کے لئے آسٹریلیا سے ماہرین منگوائے اور لاکھوں روپیہ ان پر خرچ کیا.وہ یہاں پر چھ مہینے یا سال رہے اور ہیں لاکھ روپیہ خرچ کر دیا اور دو سطروں میں اپنی رپورٹ لکھ کر چلے گئے کہ یہاں یوکلپٹس کے سوا اور کوئی درخت نہیں لگ سکتا.انہی دنوں محکمہ زراعت کے ایک بڑے افسر جو میرے واقف تھے وہ مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے چونکہ یوکلپٹس کے متعلق تجربہ کیا ہوا تھا میں نے ان سے کہا کہ آپ نے خواہ مخواہ آسٹریلیا والوں کو تکلیف دی.مجھ سے پوچھ لیتے کیونکہ میرا یہی مشاہدہ ہے کہ جو حالات انہوں نے بتائے ان میں ایسی جگہوں پر یوکلپٹس ہی لگ سکتا ہے.165 ربوہ میں پہلا گھر دوڑ ٹورنامنٹ ربوہ میں ۹ - ۱۰ دسمبر ۱۹۷۲ء کو شعبہ صحت مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلا گھر دوڑ
تاریخ احمدیت.جلد 28 163 سال 1972ء ٹورنامنٹ منعقد ہوا.جس کا پس منظر یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت مسلمہ کو گھوڑوں کی پرورش اور نگہداشت کرنے کی خصوصی تاکید فرمائی ہے حتی کہ حضور کا ارشاد مبارک ہے الْخَيْلُ مَعْقُوْدَ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ “ (بخارى كتاب الجهاد باب الْخَيْلُ مَعْقُوْدْ فِي نَوَاصِيهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ ( کہ گھوڑوں کی پیشانیوں سے تا قیامت خیر و برکت وابستہ رہے گی.اس ارشاد نبوی کی تعمیل میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اپنے عہد میں ذی استطاعت احباب کو گھوڑے کی سواری سیکھنے اور اچھی نسل کے پالنے کی خصوصی تحریک فرمائی.اس سلسلہ میں اخبار ”الفضل میں گھوڑوں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی اشاعت خاص کا انتظام کیا گیا ( حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی ہدایت پر مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے متعدد نوٹ لکھے تھے جو الفضل کی متعدد اشاعتوں میں محفوظ ہوئے ) اور اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے اس ٹورنامنٹ کا آغاز کیا گیا.اس پہلے دو روزہ ٹورنامنٹ میں ضلع جھنگ، ضلع سرگودھا اور ربوہ کے چالیس گھوڑے شریک ہوئے.166 افتتاحی پروگرام حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی ہدایت پر صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے ٹورنامنٹ کا افتتاح کیا اور اپنے خطاب میں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے گھوڑے تو رکھے جاتے تھے لیکن ان کی طرف صحیح رنگ میں توجہ نہ دی جاتی تھی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو توجہ دلائی جس کے بعد مسلمانوں میں گھوڑے کو بھی ایک مقام ملا اور بہتر قسم کے عربی گھوڑوں کی نسل کی قسمیں پیدا کی گئیں جو کہ جنگ اور سواری کے لئے استعمال ہو سکتی تھیں.چنانچہ اس چیز کا اعتراف انگریز قوم آج بھی کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کی عربی نسل کو دنیا میں ممتاز کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر کوشش فرمائی.گھوڑے کی اہمیت مسلمانوں کے لئے اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ بخاری میں حدیث ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت کے دن تک (مسلمانوں کے لئے ) خیر و برکت رکھی گئی ہے.اجر بھی اور غنیمت بھی.آجکل ہم لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ گھوڑا اب پرانے زمانہ کی بات ہو گئی.موٹر، موٹر سائیکل نکل آئے اس کو ہم کیوں رکھیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ قیامت تک کے لئے خیر و برکت ہے اس لئے تمام احمد یوں کو جو کہ اس بات کی استطاعت رکھتے ہوں اس حدیث کو مدنظر رکھنا چاہیے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 164 سال 1972ء پھر بخاری میں ہی گھوڑا پالنے کی فضیلت یوں بیان کی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے اور اس کی طرف سے فتوحات کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے کوئی گھوڑا پال کر تیار کرتا ہے تو اس گھوڑے کا چارہ جس سے وہ سیر ہوتا ہے اور وہ پانی جس سے وہ پیاس بجھاتا ہے حتی کہ اس گھوڑے کا بول و براز بھی اس شخص کے میزان میں بروز قیامت رکھا جائے گا“.اگر آپ لوگ بھی گھوڑے رکھتے ہوئے یہ نیت کر لیا کریں کہ جب ضرورت ہوگی یہ گھوڑے جماعتی کام آئیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ قیامت کے دن آپ لوگوں پر بھی یہی حدیث صادق آئے گی.گھوڑا تو رکھنا ہی ہے نیت یہ ہونی چاہیے.ثواب بھی اور فائدہ بھی دونوں آپ کے حصہ میں آئیں گے.لوگوں میں گھڑ دوڑ ، تیراندازی کھیل کود کا ہی ایک شغل سمجھا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے لئے گھڑ دوڑ اور تیر اندازی کو ایسا کھیل بنادیا ہے جس میں فرشتے بھی شریک ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَا تَشْهَدُ المَلائِكَةُ مِن لَهِوِ كُم إِلَّا الرِّهَانِ وَالنَضَال (شرح جامع الصغير الجزء ۲ باب حرف المیم ) یعنی تمہارے کھیل کود کے کاموں میں سے سوائے گھڑ دوڑ اور تیراندازی کے مقابلوں کے اور کسی کام میں فرشتے شریک نہیں ہوتے.جس کام میں فرشتے شریک ہوں وہ کتنا مبارک کام ہے پس ہمیں چاہیے کہ ہم ان مشاغل کو اپنائیں.اس کے علاوہ جسم کی طاقت کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ نہایت اعلیٰ قسم کی ورزش بھی ہے.طاقت بحال رہے گی تو دینی کاموں میں زیادہ دلچسپی پیدا ہوگی.نیک کام کرنے کی اللہ تعالیٰ توفیق دے گا.167 انتظامی پروگرام و خطاب حضور انور سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث مورخہ ۱۰ دسمبر کو گھڑ دوڑ ٹورنامنٹ کی اختتامی تقریب میں تشریف لے گئے اور امتیازی کامیابی حاصل کرنے والوں کو اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم کئے اور پھر ارشاد فرمایا:.اس سال گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں چالیس گھوڑوں نے حصہ لیا ہے.آئندہ سال تو نہیں لیکن آئندہ چار پانچ سال کے اندر چالیس سو گھوڑوں کو اس مقابلہ میں حصہ لینا چاہیے.اس لئے دوست اس طرف توجہ کریں.گھوڑے خریدیں، گھوڑوں کی نسلیں پالیں، نکالیں اور ڈھونڈیں.میں نے ایک چھوٹی سی بچھیری بچوں کے لئے لی تھی جسے آپ نے کیٹی کے نام سے دیکھا ہے.یہ ماشاء اللہ بڑی اچھی نکل رہی ہے.نون.
تاریخ احمدیت.جلد 28 165 سال 1972ء صاحب کی گھوڑی ہٹلر (جو دراصل ہٹلر نہیں ہے ) اس کے برابر برابر تو قریباً اب بھی ہے.پس اچھی نسل کے گھوڑے پالنے کی طرف دوست زیادہ توجہ دیں.زمیندار دوستوں کو تو ان پر زیادہ خرچ بھی نہیں کرنا پڑتا.ان کے لئے انہیں نوکر نہیں رکھنے پڑتے.وہ خود ہی سنبھال سکتے ہیں.پھر ہماری لینی ٹائپ جو گھوڑے ہیں وہ تو کچھ زیادہ کھاتے بھی نہیں.لیبنی عرب گھوڑے سے بس دگنا کھاتی ہے اور جو آپ کے دیسی گھوڑے ہیں وہ عرب گھوڑے سے دس گنا زیادہ کھانے والے ہیں.پھر ان کو مشق بھی زیادہ کروانی چاہیے.روزانہ ۴۰-۵۰ میل سفر کروانا چاہیے.پس دوست یہ کوشش کریں کہ پانچ سال میں چار ہزار گھوڑے شامل ہونے کا جو پہلا ٹارگٹ مقرر کیا گیا ہے اس تک پہنچ جائیں.صرف سرگودھا اور جھنگ ہی نہیں بلکہ دوسرے اضلاع جن کے متعلق ابھی ذکر کیا گیا ہے انہیں ملا کر اگلے چار پانچ سال تک چار ہزار گھوڑا اس مقابلہ میں شامل ہونا چاہیے.168 66 جماعت احمدیہ کے خلاف ایک استعماری منصوبہ کی خبر ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلافت جو فتنہ و فساد برپا ہوا اور جس طرح نہتے ، کمزور احمد یوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے ان کی منصوبہ بندی بہت دیر پہلے سے کی جارہی تھی.چنانچہ حضور انور کی دور بین نگاہوں نے اس بر پا ہونے والے فتنہ کو بھانپ کر اپنے خطبہ جمعہ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء میں احباب جماعت کو باخبر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.”ہمارے ملک میں فتنہ و فساد کی آگ بھی بھڑک رہی ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ ہم پاکستان کو زیادہ اچھا چلا سکتے ہیں.ہم آگے بڑھیں گے اتحاد کا دعوی کر کے پاکستان کی بنیاد کے اوپر تبر چلانا اور فساد کرنا اس کو تو خدا تعالیٰ پسند نہیں کرتا اور پاکستان کے جو اموال اور خزانے ہیں انہیں تباہ کرنا اور انہیں آگئیں لگانا اور پاکستان کی جو حقیقی دولت ہے یعنی انسان اور اس کی فراست اور اس کی محنت اور اس کی جد و جہد، اس کی جفاکشی اور اس کا مجاہدہ اس حقیقی دولت کو تباہ و برباد کرنا یا اس کی جد و جہد میں روکیں پیدا کر کے دراصل قوم کی دولت کو نقصان پہنچانا ہے یہ اسلام کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 166 سال 1972ء مسابقت نہیں.اسلام کی مسابقت تو وہ ہے کہ جس کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَة لیکن تمہارے اختلاف تو امت مسلمہ کے لئے زحمت بن گئے ہیں.یہ ایک دوسرے کو زخمی کرنا اور سر پھوڑنا امتی کا اختلاف کہاں سے ہو گیا؟ پس یہ جو فتنہ بپا ہے یہ پانچ سات دن کا نہیں یہ ایک منصوبہ ہے جو پیپلز پارٹی کے برسراقتدار آنے کے معا بعد شروع ہو گیا تھا.جماعت احمد یہ دنیوی معیار کے مطابق، ایک کمزورسی، ایک بے سہارا سی ، ایک لاوارث سی جماعت ہے لیکن نہ ہم کمزور ہیں نہ بے سہارا کیونکہ ہمارا سہارا تو وہ چیز ہے جو دنیا کونظر نہیں آتی یعنی خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی رحمت ہمارا سہارا ہے.اس لئے ہم کمزور بھی ہیں دنیا کی نگاہ میں اور ہم طاقتور بھی ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں اور ہم کوشش کرتے ہیں اور ہم اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہیں کہ وہ ہمارا سہارا بنے گا.پس قادر و توانا خدا جس کا سہارا بن جائے اس کو دنیا کیسے کمزور پائے گی؟ گو ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیں لیکن تھوڑا بہت علم ہوتا رہتا ہے.چنانچہ گزشتہ جولائی میں ایک ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان پیدا کیا مجھے یہ خبر ملی کہ یونیورسٹیز کو بند کروانے اور تعلیمی اداروں میں فتنہ وفساد کروانے کے لئے ایک بہت بڑی سازش پاکستان کے باہر ہوئی ہے.میں سیاسی حکمتوں کی وجہ سے نام کسی کا نہیں لوں گا لیکن جو بات کروں گا وہ بالکل پکی ہے یعنی مجھے یہ اطلاع ملی کہ پاکستان کی یو نیورسٹیز اور کالجز کو ہنگاموں کے ذریعہ اور فساد کے نتیجہ میں بند کروانے کے لئے ایک سیاسی جماعت کو دس کروڑ روپیہ دیا گیا ہے پاکستان کی سلامتی کا جذبہ اور پاکستان کی محبت اگر تمہارے دلوں میں ہو تو پھر تمہیں ہر فساد کے لئے باہر سے پیسے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں.پھر ہمیں 4 راکتو بر کی چلی ہوئی بیرون پاکستان سے یہ اطلاع آئی کہ بڑے منصوبے بن رہے ہیں اور ان میں یہ بھی منصوبہ ہے کہ چونکہ جماعت احمدیہ کے افراد بھی عوام ہیں اور ان کی ہمدردیاں پیپلز پارٹی سے ہیں اس لئے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی کا ایک بہت بڑا منصوبہ پاکستان سے باہر بنایا گیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 167 سال 1972ء ہے.پھر نومبر میں پاکستان کے ایک ذریعہ سے پتہ چلا کہ بعض غیر ملکی جماعت احمد یہ میں غیر معمولی مفسدانہ دلچسپی لے رہے ہیں.اس طرح پہلی خبر کی تصدیق ہو گئی میں نے بتایا ہے کہ ہم تو ایک کمزور سی جماعت ہیں.ہمارے ذرائع بڑے محدود ہیں ہمیں یہ خبریں ملیں مگر حکومت کے زیادہ ذرائع ہیں اسے زیادہ صحیح اور زیادہ خبریں ملتی ہوں گی اور یہ نتیجہ میں پنجاب کے گورنر غلام مصطفی کھر کی پچھلے سات آٹھ دن کی نقار پر سے نکالتا ہوں کیونکہ ان کو حالات کی زیادہ خبر ہے.آج تو انہوں نے بہت زیادہ سخت بیان دیا ہے.انہوں نے کہا کہ تم نے منصوبہ بنایا ہے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے پاکستان میں خون بہانے کا لیکن اگر خون ایک دفعہ بہنا شروع ہو گیا یعنی تم نے پہل کر دی تو پھر اس وقت تک خون بہتا رہے گا جب تک تمہارا سارا خون نہ نکل جائے.آئندہ کیا حالات رونما ہوتے ہیں یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن کیا ضرورت سمجھی حکومت نے اس قسم کی تنبیہہ کی.وہ آج کے بیان سے ظاہر ہے.ہمیں اپنے ذرائع سے پہلے سے علم تھا کہ ہمارے خلاف منصوبہ بنایا جارہا ہے اور میں انتظار کر رہا تھا، میں دعائیں کر رہا تھا.بعض دوستوں کو میں نے بعض باتیں بتائیں اور بعض کو دوسری باتیں بتائیں میں نے کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر لحظہ ہر آن ہر لحاظ سے اپنی حفاظت اور امان میں رکھے.اگر ہم نے خدا کے حضور صحیح قربانیاں دیں تو ہم اس کی مدد اور نصرت کو معجزانہ طور پر آسمان سے نازل ہوتے دیکھیں گے.جہاں تک احمدیت کو تباہ کرنے کا سوال ہے.وہ تو ایک ایسا خواب ہے جو کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا.جس جماعت کو خدا نے تمام بنی نوع انسان کو زندہ کرنے کے لئے پیدا کیا ہے اس جماعت کو انسانوں کا ایک چھوٹا سا ناسمجھ گروہ تباہ کیسے کرسکتا ہے؟ یہ تو کبھی ہو ہی نہیں سکتا مگر اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا تعلق ہے وہ نہ کبھی ٹوٹنا چاہیے.نہ کمزور 66 ہونا چاہیے.دنیا جو مرضی کرتی ہے ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے.169 ربوہ میں ایک وسیع جلسہ گاہ کی تعمیر کے لئے خصوصی تحریک سلسلہ احمدیہ کا مقدس قافلہ خلیفہ راشد سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی ولولہ انگیز قیادت میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 168 سال 1972ء غیر معمولی ترقیات کی منازل جلد جلد طے کر رہا تھا اور جلسہ سالانہ میں آنے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی تعداد میں ہر سال زبردست اضافہ ہو رہا تھا.اس پر حضور انور کی دور بین نگاہ نے ربوہ میں ایک وسیع جلسہ گاہ کی ضرورت کو محسوس کیا اور ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں اس کی تعمیر کے لئے خصوصی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.ایک لمبا عرصہ ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ خواہش پیدا کی کہ ایک ایسا بڑا اہال ہو جہاں لیکچروں کا انتظام کیا جاسکے اور جس میں یکصد سامعین سا سکیں.آپ نے اُس زمانے کی ضرورت کے مطابق فرمایا تھا.پھر ۱۹۴۵ء میں حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی نے تحریک کی کہ ایک لاکھ سامعین کے بیٹھنے کے لئے انتظام کیا جائے اور آج خلیفہ المسیح الثالث تمہیں کہتا ہے کہ اس وقت ہمیں ایک ایسی جلسہ گاہ کی ضرورت ہے جس میں کم از کم دواڑ ہائی لاکھ آدمی بیٹھ سکیں.اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو یہ توفیق ہے اور وہ عملاً یہ کام کر سکتے ہیں یعنی یہ محض ایک خواب و خیال والی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی تجویز ہے جو ممکن الحصول ہے اس کی طرف جماعت احمدیہ کو توجہ دینی چاہیے اور سٹیڈیم کی شکل کی کوئی ایسی جلسہ گاہ بن جانی چاہیے جو ایام جلسہ میں دواڑ ہائی لاکھ مردوں اور عورتوں ( دونوں کے لئے جلسہ گاہ اکٹھا کرنا پڑے گا بیچ میں پردے کا انتظام ہو جائے گا) کے لئے بیٹھنے کا انتظام ہو جائے.170 انتظامات جلسہ سالانہ کا معاینہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء کی شام کو نفس نفیس انتظامات جلسہ سالا نہ کا معاینہ فرمایا چنانچہ انگر خانہ نمبر میں روٹی پکانے والی خود کار مشینوں کو ملا حظہ فر ما یا نیز جلسہ سالانہ میں مختلف ناظمین شعبہ جات کو شرف مصافحہ بخشا اور جملہ کا رکنان سے بصیرت افروز خطاب کیا.171 حضور انور نے دوران خطاب فرمایا کہ اس وقت جو محنت آپ سے جلسہ سالانہ کے انتظام کے سلسلہ میں لی جاتی ہے وہ اپنے وقت کے لحاظ سے بڑی برکتوں والی محنت ہے.آپ سے جو محنت لی جا رہی ہے وہ ان رضا کاروں کی محنت سے جو اسی جلسہ سالانہ کے موقع پر آج سے سو سال بعد کام کریں
تاریخ احمدیت.جلد 28 169 سال 1972ء گے اپنے اندر ایک فرق رکھتی ہے ایک امتیاز قائم کرتی ہے آج کی محنتوں کا (اگر اخلاص سے کی جائیں تو ) یقیناً بہت زیادہ اجر ہے.حضور انور نے ربوہ کی بنجر زمین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ ایک بنجر زمین پر کام کر رہے ہیں.پس اس وقت آپ کی محنت اللہ تعالیٰ سے زیادہ انعام پانے والی ہے.حضور انور نے کارکنان جلسہ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتہائی برکات کے حصول کا جو موقع جلسہ سالانہ کی صورت میں عطا فرمایا ہے اس موقع سے بھی فائدہ اٹھا ئیں اور برکتوں کو حاصل کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں.172 جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۱ ء کے افسوسناک اور تکلیف دہ حالات کے باعث سالانہ جلسہ منعقد نہ ہو سکا تھا.جس کی روحانی تشنگی پورا سال احباب جماعت محسوس کرتے رہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اس سال ۱۹۷۲ء کے جلسہ سالانہ سے اس کی تلافی کر دی.اس مبارک و مقدس اجتماع میں دنیا کے کونے کونے سے آنے والے فدائیوں کی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار تک پہنچ گئی.اس موقع پر انگلستان، کویت، مشرق وسطی اور عرب ریاستوں سے درجنوں کی تعداد میں مخلصین جماعت تشریف لائے.علاوہ ازیں امریکہ، کینیڈا، مغربی جرمنی، سوڈان، افریقہ، ہالینڈ، ناروے اور انڈونیشیا سے بھی متعدد احمدیوں نے شرکت فرمائی.جن میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صدر عالمی عدالت انصاف ( ہیگ)، السید منیر احصنی صاحب امیر جماعت احمدیہ دمشق (شام) ، بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ احمدیت اور محمد ناصر بن بہر دم یوسف صاحب انڈونیشیا خاص طور پر ممتاز تھے.خواتین کے جلسہ سالانہ میں ڈنمارک ، امریکہ، کینیڈا، انگلستان، زیمبیا، کینیا، کویت اور انڈونیشیا کی بعض احمدی بہنیں شامل ہوئیں.یہ مبارک جلسه ۲۸،۲۷،۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ء کوذکر الہی ، انابت الی اللہ کے ایمان پرور ماحول اور آسمانی برکتوں اور رحمتوں کے سایہ میں منعقد ہوا.مردانہ جلسہ گاہ مسجد اقصیٰ سے ملحق وسیع میدان میں سٹیڈیم کی طرز پر گیلریوں کے ساتھ بنائی گئی تھی اور اسے پہلے سے بہت وسیع کر دیا گیا تھا.زنانہ جلسہ گاہ تو اس دفعہ سراسر نا کافی ثابت ہوئی.173 افسر جلسہ سالانہ کے فرائض محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے سرانجام دیئے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 170 سال 1972ء جنہیں خدا کے فضل سے مہمان نوازی کی تقریبات کا وسیع انتظامی تجربہ تھا.آپ کے ماتحت تین نائب افسر جلسہ سالانہ تھے یعنی محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے، محترم چوہدری حمید اللہ صاحب اور محترم سید محمود احمد صاحب ناصر.انتظامات کو بہ احسن سرانجام دینے کے لئے تیس مختلف نظامتیں مقرر تھیں مثلاً نظامت سپلائی، نظامت مکانات، نظامت استقبال و الوداع، نظامت مہمان نوازی، نظامت نگرانی و حاضری سامعین ، نظامت آب رسانی ، نظامت اجرائے پر چی خوراک ، نظامت طبی امداد وغیرہ وغیرہ.ہر نظامت میں افسر صیغہ اور نائب افسر صیغہ کے ماتحت معاونین کی بہت بڑی تعداد تھی جو دن رات اپنے فرائض میں منہمک رہی.مہمانوں کے قیام کے لئے مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ مختلف اجتماعی قیام گاہوں کا انتظام تھا جہاں وہ ایک تنظیم کے ماتحت جماعت وار ر ہائش پذیر رہے.پھر بہت سے خیمہ جات اور چھولداریوں کا بھی اہتمام تھا ان کے علاوہ ربوہ کا قریباً ہر گھر مہمانوں سے پر تھا.ان سب جگہوں پر پر الی بچھا دی گئی تھی جس پر مہمان رات کو آرام کرتے تھے.ان کے لئے روٹی اور کھانا تیار کرنے کے لئے تین لنگر خانوں کی علیحدہ علیحدہ نظامتیں قائم تھیں.یعنی لنگر خانہ دار الصدر ( ناظم ملک سیف الرحمن صاحب) لنگر خانہ دارالرحمت (ناظم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) لنگر خانہ دارالعلوم ( ناظم پروفیسر ڈاکٹر سید سلطان محمود صاحب شاہد ) لنگر خانہ دار الصدر میں روٹی تیار کرنے کے لئے سوئی گیس سے چلنے والی ۱۶ مشینیں نصب تھیں جو تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں ہزاروں کی تعداد میں روٹیاں تیار کرتی رہیں.اس لنگر خانہ میں سوئی گیس کی ایک خود کار مشین بھی نصب تھی جس میں روٹی کے پیڑے بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی.گوندھا ہوا آٹا مشین میں ڈال دیا جاتا ہے روٹیاں از خود تیار ہو کر پکتی چلی جاتی ہیں.لنگر خانہ دارالرحمت میں سوئی گیس کی دس مشینیں دن رات کام کرتی رہیں.البتہ لنگر خانہ دار العلوم میں تندوروں پر ہی حسب سابق روٹی تیار ہوتی رہی کیونکہ وہاں پر ابھی سوئی گیس نہیں پہنچی تھی.ہر روز جلسہ سالانہ شروع ہونے سے پہلے تمام مہمانوں کو جو اجتماعی قیام گاہوں کے علاوہ ربوہ کے تمام محلہ جات میں اور قریباً ہر ایک گھر میں موجود تھے کھانا کھلا دیا جاتا تھا.بیمار ہو جانے والے مہمانوں کے لئے پر ہیزی کھانا تیار کرنے کی الگ نظامت موجود تھی.الغرض مہمانوں کے قیام وطعام کے لئے
تاریخ احمدیت.جلد 28 171 سال 1972ء ہر ممکن سہولت میسر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور اس کوشش میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اہل ربوہ نے بھر پور حصہ لیا.اہل ربوہ کے علاوہ باہر سے تشریف لانے والے بہت سے ایسے جواں ہمت مہمان بھی تھے جنہوں نے اپنی خدمات جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کو پیش کیں اور اس کے ماتحت وہ بھی دن رات خدمت کے مختلف کاموں میں مصروف رہے.انتظامات جلسہ سالانہ کا جو حصہ جلسہ گاہ کی تعمیر اور جلسہ کے پروگرام اور سٹیج کے ٹکٹ وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے وہ نظارت اصلاح و ارشاد کے ذمے ہوتا ہے.چنانچہ ناظر اصلاح و ارشاد مولانا عبدالمالک خان صاحب کی زیر نگرانی یہ جملہ امور طے پائے.سٹیج اور گیلریوں کی تعمیر تو جلسہ سے کئی روز پہلے ہی شروع کر دی گئی تھی.سٹیج کے دائیں اور بائیں طرف کچھ حصہ سامعین خاص کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور ان کے بیٹھنے کے لئے کرسیوں کا انتظام کیا گیا.اس دفعہ سٹیج کے دائیں پہلو میں لوائے پاکستان اور بائیں طرف لوائے احمدیت لہرانے کا انتظام کیا گیا تھا.چنانچہ جلسہ کے تینوں روز یہ دونوں جھنڈے برابر لہراتے رہے اور خدام باری باری ان کے نیچے کھڑے ہو کر پہرہ دیتے رہے.جلسہ گاہ کے تین طرف اس دفعہ بھی گیلریاں بنائی گئی تھیں.174 جلسہ سالانہ کے دوسرے روز ۲۷ دسمبر کی شام کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے کمیٹی ہال میں ورلڈ احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن کا تیسرا سالانہ اجلاس کرنل عطاء اللہ صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا.سب سے پہلے مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر سیکرٹری مجلس نصرت جہاں نے مغربی افریقہ میں احمدی ڈاکٹروں کی عظیم الشان طبی خدمات کی مختصر رپورٹ سنائی بعد ازاں کرنل رمضان صاحب نے غانا میں متعین احمدی ڈاکٹروں کی خوشکن مساعی کا آنکھوں دیکھا حال مؤثر انداز میں بیان کیا.دوران اجلاس مختلف تجاویز بھی زیر غور آئیں.احمدی ڈاکٹروں نے افریقہ میں خدمت خلق کے کام میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا.اجلاس میں کثیر التعداد ڈاکٹروں اور لیڈی ڈاکٹروں کے علاوہ میڈیکل کالجوں کے طلبہ نے شرکت کی.175 حضرت خلیفہ اسیح کے روح پر در خطابات سلسلہ احمدیہ کی روایات کے مطابق اس جلسہ کا اصل پروگرام سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی روح پرور اور ایمان افروز تقاریر تھیں جن کی بدولت دنیائے احمدیت کو نیا عزم اور نیا ولولہ عطا ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 172 سال 1972ء حضور نے حسب دستور مردانہ جلسہ سے تین بار خطاب فرمایا.علاوہ ازیں ایک مخصوص خطاب احمدی خواتین کے سٹیج سے ہوا.افتتاحی خطاب حضور انور نے اپنے خطاب میں جلسہ سالانہ کے حوالہ سے بیان فرمایا کہ یہ جلسہ دنیاوی میلوں کی طرح نہیں ہے بلکہ یہ وہ جلسہ ہے جس کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے.حضور انور نے فرمایا کہ پہلے جلسہ میں ۷۵ احمدی احباب شریک ہوئے اور آج اس جلسہ میں اللہ کے فضل سے ۷۵ ہزار سے زائد احمدی احباب شریک ہورہے ہیں.( گنتی پر یہ تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار ثابت ہوئی).حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے وہ کامل قدرتوں والا ہے.اس نے ساری دنیا کو یہ کہا کہ اٹھو اور میرے اس سلسلہ کو مٹانے کی کوشش کرو اور سارے ساز وسامان اس کے خلاف اکٹھے کرو لیکن تم کامیاب نہیں ہو گے.وہی ہو گا جس کا خدا نے ارادہ کیا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ سے یعنی جماعت احمدیہ کو آلہ کار بنا کر دنیا کے سفید فام کے ساتھ سرخ رنگ اور گندمی رنگ والوں کے ساتھ ان کو بھائی بھائی بنادیا ہے.حضور انور نے خطاب کے آخر میں احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اجتماع کی بنیادی اینٹ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھی اس لئے اس اجتماع کے مقاصد اپنی نظر کے سامنے رکھیں.حضور نے فرمایا کہ اپنی عاجزانہ کیفیت اور عاجزانہ مقام کو نہ بھولیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں سے کبھی غافل نہ ہوں.یہ خطاب مختصر ہونے کے باوجود نہایت درجہ جامع و مانع شان رکھتا تھا.اور اس میں غور وفکر کرنے والوں کے لئے ایمان ویقین اور معرفت و بصیرت کے صدہا سبق پنہاں تھے.176 حضور انور کا خواتین سے خطاب مورخہ ۲۷ دسمبر کو حضور نے قبل از ظہر خواتین احمدیت سے پر معارف خطاب فرمایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ جماعت پر جو برکات سماوی نازل ہو رہے ہیں اور جو برکات نازل ہو چکی ہیں ان کے شکرانے کے طور پر کثرت سے تسبیح و تحمید اور استغفار کریں.حضور انور نے فرمایا کہ لجنہ اماءاللہ جو ہماری احمدی مستورات کی بنیادی تنظیم ہے انہوں نے اس سال پچاس سالہ جشن منایا ہے.اللہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 173 سال 1972ء تعالیٰ آپ کو اجر احسن عطا کرے.حضور انور نے خطاب کے آخر میں مستورات کو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے اور مخلوق خدا کی خدمت کرنے کی تلقین فرمائی.177 مردانہ جلسہ گاہ سے دوسرا خطاب اسی روز حضور نے مردانہ جلسہ گاہ سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جس کے آغاز میں اس عارفانہ نکتہ پر روشنی ڈالی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور آپ کے وجود باجود کی خاطر اللہ جلشانہ نے سارے عالم کو پیدا کیا یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکات ماضی کی طرف بھی اسی طرح بہہ رہی ہیں جس طرح وہ مستقبل کی طرف جاری و ساری ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور شریعت قرآنیہ کو پورے جلال اور پوری ہمہ گیری کے ساتھ تا قیامت بھیجا گیا ہے.آپ کے ذریعہ جو جسمانی ، مادی ، اخلاقی اور روحانی برکات دنیا میں نازل کی گئی ہیں انہیں کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ اور ہر دور میں اسلام کو ایسے فدائی خدام عطا کئے جو اپنے زمانہ اور اپنے مقام کے لحاظ سے علی قدر مراتب اسلام کی خدمت کرتے رہے.سب سے بڑا زمانہ ان میں سے ان مجددین امت کو ملا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہر صدی کے سر پر مبعوث ہوتے رہے کیونکہ ان کی خدمت کا زمانہ ایک صدی پر محیط تھا.آخر تیرہ سوسال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق اس مہدی معہود کا ظہور ہوا جو اسلام کا عظیم خادم اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عظیم روحانی فرزند تھا اور جس کی خدمت کا زمانہ قیامت تک ممتد ہے اور ساری دنیا پر احاطہ کئے ہوئے ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کتب تحریر فرمائیں اور ان میں قرآن کریم کی جو تفسیر بیان فرمائی اس میں ان تمام مسائل کا حل موجود ہے جو معاشرتی ، اقتصادی ، اخلاقی اور روحانی اعتبار سے آج دنیا کو در پیش ہیں.حضور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ میں ہر سال جو نیا لٹریچر شائع ہوتا ہے وہ بھی بنیادی طور پر قرآن کریم کی تفسیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے لٹریچر سے استفادہ کا نتیجہ ہوتا ہے.اس لئے اس کی ضرورت و افادیت بھی ظاہر و باہر ہے اس لٹریچر کا کچھ حصہ کتب پر مشتمل ہے اور کچھ اخبارات و رسائل کی شکل میں شائع ہوتا ہے اور کچھ تاریخی مواد پر مبنی ہوتا ہے اپنی اپنی جگہ یہ سارے حصے ہی ضروری اور اہم ہیں اور اس قابل ہوتے ہیں کہ جماعت کے دوست بکثرت خرید میں انہیں پڑھیں اور پھر ان سے فائدہ اٹھا کر دنیا کی راہنمائی کریں.اس کے بعد حضور نے جماعت میں شائع ہونے
تاریخ احمدیت.جلد 28 174 سال 1972ء والے اخبارات ورسائل اور نئی کتب کا ذکر فرمایا اس ضمن میں سب سے پہلے حضور نے تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد سوم اور تاریخ احمدیت جلد ۱۳ کا ذکر کیا.حضور نے فرمایا یہ دونوں تاریخی کتا بیں ہماری جماعت کی نوجوان نسل کو اور ان دوستوں کو جو جماعت میں نئے شامل ہوئے ہیں ضرور پڑھنی چاہئیں اس سے انہیں یہ علم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت پر کتنے فضل کئے ہیں اور اس علم کے بعد وہ علی وجہ البصیرت اپنے رب قدیر کی حمد کرنے لگیں گے.اس کے علاوہ ہر تاریخ اگلے زمانہ کے لئے سیڑھی کا کام بھی دیتی ہے اس لحاظ سے بھی نئے آنے والوں کو اپنی تاریخ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے.اس کے بعد حضور نے روزنامہ الفضل کا ذکر کیا اور فرمایا اس کی اشاعت اتنی نہیں ہے جتنی کہ ہونی چاہیے احباب کو اس کی توسیع اشاعت کے لئے کوشش کرنی چاہیے.رسالہ تحریک جدید بیرونی ممالک میں ہماری تبلیغی مساعی کو پیش کرتا ہے اور ایک خاص طبقہ میں اس کی اشاعت بہت مفید ہوسکتی ہے.ماہنامہ انصار اللہ جوانوں کے جوان یعنی انصار اللہ سے تعلق رکھتا ہے.اس کی توسیع اشاعت میں بھی جماعت کو دلچسپی لینی چاہیے.ماہنامہ خالد خدام کا رسالہ ہے.تفخیذ الاذہان بچوں کے لئے جاری کیا گیا ہے اسی طرح ماہنامہ الفرقان ہے.دوستوں کو ان سب رسالوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے.نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف کی طرف سے تفسیر کبیر (از حضرت مصلح موعود ) کے مختلف اقتباسات پر مشتمل ایک اہم کتاب اسلام.غریبوں اور یتیموں کا محافظ کے زیر عنوان شائع کی گئی ہے جسے موجودہ حالات میں کثرت کے ساتھ ملک میں اور بالخصوص ملک کے سیاستدانوں میں تقسیم کیا جانا چاہیے تا کہ انہیں یہ علم ہو کہ اسلام نے غریبوں اور یتیموں کے حقوق کا کس طرح تحفظ کیا ہے.اس کے بعد حضور انور نے جماعت کے مختلف اداروں کی طرف سے شائع کردہ کتب کو بکثرت خریدنے ، بغور مطالعہ کرنے اور پھر ان کی وسیع اشاعت کرنے کی طرف احباب جماعت کو مؤثر رنگ میں توجہ دلائی.178 حضور نے جماعتی کتب اور اخبارات و جرائد کو خریدنے اور ان کی وسیع اشاعت کرنے کی تحریک کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے ان غیر معمولی افضال وانعامات کا خاص طور پر ذکر فرمایا جو گذشتہ دوسال کے دوران جماعت احمدیہ پر نازل ہوئے.احباب جماعت کے لئے اللہ تعالیٰ کی برکات کا یہ تذکرہ غیر معمولی طور پر بہت ہی از دیاد ایمان کا موجب بنا اور وہ بار بار پُر جوش اسلامی نعروں کے ساتھ اپنے شکر وحمد سے پر جذبات کا مخلصانہ اظہار کرتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 175 سال 1972ء سب سے پہلے حضور نے تحریک وقف جدید کے تحت ہونے والے افضال خداوندی کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ اس وقت وقف جدید کے تحت ۶۴ معلمین مغربی پاکستان کے مختلف مراکز میں تعلیم و تربیت کا کام بڑی کامیابی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں.ان کا دائرہ کار کر دگی ۱۱۱۵ دیہات پر مشتمل ہے جو تعلیمی کام ان کے ذریعہ سے ہو رہا ہے.اس کا خاکہ یہ ہے:.قاعدہ یسر نا القرآن پڑھنے والے ۱۲۷۲ قرآن مجید با ترجمہ پڑھنے والے نماز با ترجمہ پڑھنے والے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے والوں کی تعداد ۶۵۸ ۷۵۴ معلمین وقف جدید کے حلقہ احباب میں گذشتہ دو سالوں میں ۶۱۵۹ را فراد کو دینی کتب پڑھنے کے لئے مہیا کی گئیں.حضور نے فرمایا نئے سال کے لئے واقفین کی تعلیمی کلاس کا انتظام کیا جا رہا ہے.جماعت کو چاہیے کہ اس میں دلچسپی لے اور زیادہ سے زیادہ واقفین کو اس کلاس میں بھیجنے کی کوشش کرے.آخر میں حضور نے بتایا کہ مشرقی پاکستان سے کم و بیش ۳۵۰۰۰ روپیہ چندہ وقف جدید وصول ہوا کرتا تھا جو موجودہ افسوسناک حالات کی وجہ سے وصول نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود یہ خدا کا خاص فضل و احسان ہے کہ وقف جدید کی آمد میں ترقی ہوئی ہے چنانچہ ۷-۸ ہزار روپیہ زیادہ آمد ہوئی ہے.حضور نے صدر انجمن احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ صدر انجمن احمدیہ نے اپنے کارکنان کو ان کی گندم کی سالا نہ ضرورت کا ۴ / ۱ بلا قیمت مہیا کیا جس کا وزن ۲۲۳۰ من بنتا ہے اور اس کی قیمت ۴۲۷۵۲ ہے اور اس کے علاوہ اس نے موسم سرما کی ضروریات کیلئے کارکنان کے افراد خاندان کو ۱۶ روپے فی کس کے حساب سے ۳۰۴۷۲ روپے تقسیم کئے.نظارت اصلاح و ارشاد ( تعليم القرآن) کے ذریعہ مستحقین ربوہ اور بیرون از ربوہ میں ۱۹۶۷ من گندم تقسیم کی گئی جس کی قیمت ۳۴۷۱۳ روپے بنتی ہے.اس کے علاوہ زکوۃ اور فطرانہ کی مد سے بھی غرباء کی مدد کی گئی.مجموعی طور پر اس سلسلے میں ۷۶ ۷ ۱۶۳ روپے کی رقم خرچ کی گئی.حضور نے بتایا کہ صدر انجمن احمدیہ کے لازمی چندہ جات کا بجٹ گزشتہ سال کے نامساعد حالات کے باوجود جماعت نے ۳۷۰۰۰ روپے کی بیشی کے ساتھ پورا کیا.امسال بجٹ میں تین
تاریخ احمدیت.جلد 28 176 سال 1972ء لاکھ روپیز ان تجویز کیا گیا ہے.خدا کے فضل سے امید ہے کہ جماعت انشاء اللہ اسے بھی پورا کرنے کی توفیق پائے گی.فضل عمر فاؤنڈیشن کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ اس میں نقد عطیہ جات اور جائیداد کی صورت میں ۳۴۱۷۵۸۰ روپے وصول ہوئے جن کے ایک حصہ کو نفع مند کاموں میں لگانے کے نتیجہ میں ۸۲۶۸۲۰ روپے منافع ہوا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے سرمایہ کی کل رقم ۴۲۴۴۴۰۰ روپے تک پہنچ چکی ہے.منافع کی رقم سے بعض ایسے اہم کام سرانجام دیئے جا رہے ہیں جو بنیادی اہمیت کے حامل ہیں.امید ہے کہ ان سے غلبہ اسلام کی موجودہ آسمانی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے میں بہت مدد ملے گی.ان کاموں میں خلافت لائبریری کی نئی اور جاذب نظر عمارت کی تعمیر بھی شامل ہے جس پر ۴۱۶۵۷۰ روپے خرچ آئے.حضور نے فرمایا کہ اس وقت پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کی طرز کا ایک ادارہ قائم کرنے کا منصوبہ بھی فاؤنڈیشن کے زیر غور ہے.علمی تصانیف کے سالانہ انعامی مقابلہ کی تفصیل بتاتے ہوئے حضور نے توجہ دلائی کہ جماعت کے علم دوست طبقہ کو اس میں زیادہ دلچسپی لینی چاہیے.نظارت اصلاح وارشاد ( تعلیم القرآن) کے کام کا جائزہ لیتے ہوئے حضور نے بتایا کہ ۱۹۷۲ء میں یکم جنوری تا ۱۰ دسمبر وقف عارضی کے کل ۴۳۳۲ فارم موصول ہوئے.مردوں اور خواتین کے کل ۲۷۹۴ وفود مختلف مقامات پر تعلیم و تربیت کے لئے بھجوائے گئے.فضل عمر درس القرآن کلاس میں ۳۹۱ طلبہ اور ۴۰۹ طالبات نے شرکت کی.تعداد اور نتیجہ کے لحاظ سے طالبات نے طلبہ پر سبقت حاصل کی.تحریک جدید کے تحت بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا جو عظیم الشان کام ہو رہا ہے.حضور انور نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ دو سالوں میں بیرونی ممالک میں ۲۴ سے زیادہ نئی مساجد تعمیر ہوئیں.۷ انٹی جماعتیں قائم ہو ئیں.۳۴ مبلغین اسلام کو اس عرصہ میں تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک بھجوایا گیا جبکہ ۲۸ مبلغین فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد واپس مرکز میں تشریف لائے.کل ۳۱ ممالک میں اس وقت تحریک جدید کے تحت تبلیغ اسلام کا کام سرانجام دیا جا رہا ہے.تحریک جدید کے تحت جو اسلامی لٹریچر شائع کیا گیا اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ سواحیلی زبان میں ترجمہ قرآن کریم پانچ ہزار کی تعداد میں شائع ہوا اور لوگینڈا زبان میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 177 سال 1972ء پاروں کی طباعت ہوئی.سویڈیش زبان میں قرآن کے ۲۱ پاروں کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار کتب پانچ پانچ ہزار کی تعداد میں انگریزی زبان میں شائع کی گئیں.حضور علیہ السلام کی تصانیف کشتی نوح اور مسیح ہندوستان میں سپینش زبان میں زیر طبع ہیں.جبکہ حضور علیہ السلام کا لیکچر اسلامی اصول کی فلاسفی دو ہزار کی تعداد میں سپینش زبان میں شائع ہو چکا ہے.حضرت مصلح موعود کی آٹھ اہم تصانیف انگریزی، عربی، ترکی، سواحیلی اور پینش زبانوں میں شائع ہو چکی ہیں یا زیر طبع ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افریقہ کے نام محبت و اخوت کا پیغام انگریزی زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے اور حضور کا فرمودہ ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباه یوگو سلاوین زبان میں پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے.ان کے علاوہ بھی متعدد کتب شائع کی گئی ہیں اور بعض کتب ترکی ، فرینچ، جرمن زبانوں میں زیر طبع ہیں.حضور نے ادارہ طباعت و اشاعت قرآن عظیم کی کارگذاری کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارہ کی طرف سے اس وقت تک ۷۵۰۰۰ کی تعداد میں قرآن مجید طبع ہو چکے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے.ترجمہ قرآن کریم انگریزی پاکٹ سائز ترجمه قرآن کریم انگریزی حمائل سائز قرآن مجید اردو حمائل سائز قرآن مجید ساده بطرز یسرنا القرآن ۲۵۰۰۰ ۳۰۰۰۰ ۳۱۲۹۴ قرآن مجید مندرجہ ذیل ممالک میں بھجوائے جاچکے ہیں: نائیجیریا.سیرالیون.غانا.گیمبیا.آئیوری کوسٹ.لائبیریا.جنوبی افریقہ.امریکہ.حضور نے بتایا کہ پریس کی تعمیر کا کام ابتدائی مراحل میں شروع ہو چکا ہے احباب دعا کریں کہ جلد پریس لگ جائے تا کہ میری یہ خواہش پوری ہو سکے کہ آئندہ پانچ سال میں دس لاکھ قرآن کریم کے نسخوں کی اشاعت کر دی جائے.اس کے بعد حضور نے نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے غیر معمولی فضلوں اور انعامات کا اور اس کی تائید و نصرت کے نشانات کا ایمان افروز تذکرہ فرمایا.حضور نے بتایا کہ یہ سکیم ۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کے چھ ممالک کے دورہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے اذن کے مطابق جاری کی گئی تھی جبکہ اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء مجھ پر ظاہر ہوا کہ کم از کم ایک لاکھ
تاریخ احمدیت.جلد 28 178 سال 1972ء پونڈ (جو اُس وقت کی شرح کے مطابق تیرہ چودہ لاکھ روپیہ بنتا تھا ) افریقہ میں اس سکیم پر خرچ کیا جائے.اب دیکھو اس تنظیم میں اللہ تعالیٰ نے کتنی برکت عطا فرمائی ہے.نصرت جہاں ریز روفنڈ میں ۵۸۴۱۱۹۰ روپے کے وعدے ہوئے تھے جن سے اب تک افریقہ کے مختلف ممالک میں ۱۶ طبی مراکز اور دس نئے ہائر سیکنڈری سکول کھل چکے ہیں ان طبی مراکز سے ۳۷۸۲۵ نادار مریض اب تک بلا معاوضہ فائدہ اٹھا چکے ہیں.۳۰۴۸۸۷ مریضوں نے فیس دے کر علاج کرایا.اب تک طبی مراکز پر ۱۷۱۵۸۲۹ روپے خرچ ہوئے جبکہ ۳۲۵۶۶۳۵ روپے آمد ہوئی گویا ۱۵۴۰۸۰۶ روپے خالص بچت ہوئی.اس بچت میں سے ۱۳۲۱۳۵۹ روپے دس مزید ہائرسیکنڈری سکولوں کے کھولنے پر خرچ ہوئے پھر بھی ۷ ۲۱۹۴۴ روپے بیچ رہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تیس لاکھ روپے خرچ کرنے کے باوجو دسرمایہ بھی پورے کا پورا محفوظ رہا اور بچت کی دولاکھ روپے سے زائد رقم بھی بچی رہی.الحمدللہ حضور نے فرمایا بعض دوستوں نے مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ نصرت جہاں ریز روفنڈ میں جو رقم جمع ہو اسے کسی منافع کے کام پر لگا دیا جائے اور پھر اس کی جو آمد ہوا فریقہ میں خرچ کی جائے تا کہ اصل سرمایہ بھی محفوظ رہے لیکن میں نے اس مشورہ پر عمل کرنے کی بجائے ساری کی ساری رقم افریقہ میں رہنے والوں کی خدمت پر لگا دی کیونکہ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھا کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْعِفَهُ لَةَ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَ يَنْقُطُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرہ: ۲۴۶) میں نے اپنے رب کریم پر بھروسہ کرتے ہوئے سارا سرمایہ خرچ کر دیا اور اپنے رب سے ایسی تجارت کی جس میں ضائع ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ اصل سرمایہ بھی محفوظ رہا اور دولاکھ سے زائد رقم کی بچت بھی ہو گئی اور اس طرح خدا نے جو تمام خزانوں کا اصل مالک ہے ہماری حقیر کوششوں میں غیر معمولی برکت ڈال دی.پھر خدا نے یہ بھی فضل کیا احمدی ڈاکٹروں کے علاج میں بھی خاص برکت ڈالی اور ان کے ہاتھوں سے لاعلاج مریضوں کو شفا بخشنے کے بکثرت معجزے ظاہر ہوئے جو بجائے خود ایک نشان ہے.179 اختتامی خطاب جلسہ کا آخری روز ۲۸ دسمبر تھا.آخری روز حضور انور نے ہزاروں عشاق خلافت کے سامنے
تاریخ احمدیت.جلد 28 179 سال 1972ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارہ میں نہایت وجد آفریں خطاب فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت کے ساتھ قرآن عظیم جیسی ہدایت اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا اسوہ حسنہ ہمیں عطا فرمایا ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن عظیم کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ یہ رسول صلی یلم قیامت تک کے لئے تمام بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اول المسلمین بھی تھے اور صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بھی.اللہ تعالیٰ کی اتم الصفات سورۃ فاتحہ میں چار بتائی گئی ہیں.رب.رحمان.رحیم.مالک یوم الدین.حضور نے چاروں صفات کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں کی روشنی میں الگ الگ نہایت لطیف اور پر معارف تشریح فرمائی اور پھر بتایا کہ ان ام الصفات کی پہلی اور کامل جلوہ گاہ انسان کامل یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک و مطہر دل ہے جو ان صفات کا مظہر اتم تھا.یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ حسن و احسان کے کامل جلوے ہمیں نظر آئے.ہماری جماعت کے تمام افراد کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو اپنے کمال تک پہنچا کر اپنے اپنے دائرہ استعداد میں ان چاروں صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے اور اس طرح صحیح معنوں میں اسوہ نبی کی اتباع کرنے کی کوشش کریں تا کہ ہم میں بھی خدا کے حسن و احسان کے جلوے نظر آئیں.ہمارے نفس کے سب جوش ٹھنڈے ہو جا ئیں سب کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں.کوئی اگر ہمیں گالیاں بھی دے تو ہم جوش میں نہ آئیں بلکہ وہی رد عمل ظاہر کریں جو خدا کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے گالیوں کے جواب میں ظاہر کیا.ہم نے اپنی تمام استعدادوں کو اسوہ نبوی کے مطابق دنیا کی بھلائی کے لئے استعمال کرنا ہے.ہم اسی لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ ہم اپنے آنسوؤں کے پانی سے دنیا کے غضب و قہر کی آگ کو ٹھنڈا کریں.قرآن ہمیں یہی سکھاتا ہے اور اسی سے ہم اپنے خدا کا قرب حاصل کر سکتے ہیں اور یاد رکھو کہ زندگی وہی ہے جو ہمیں اپنے خدا کے قریب کرے خدا سے دور رہنے میں تو زندگی کا کوئی مزا ہی نہیں ہے.خدا کرے کہ ہم سب اللہ تعالیٰ کی ام الصفات کے مظہر بن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اختیار کرنے والے بن جائیں تا کہ دنیا آج ہمارے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھ سکے.آمین.اپنی بصیرت افروز تقریر کے آخر میں حضور نے ملک کے موجودہ افسوسناک حالات کا ذکر کرتے ہوئے ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرنے کی تحریک فرمائی.حضور
تاریخ احمدیت.جلد 28 180 سال 1972ء نے فرمایا کہ ہمارا ملک جب سے بنا ہے یہ بڑا ہی مظلوم چلا آتا ہے.اس کی سب سے بڑی دلیل گزشتہ دوسال کے فساد کا زمانہ ہے.گزشتہ انتخابات میں ممکن ہے بعض شکایات پیدا ہوئی ہوں اور وہ درست بھی ہوں لیکن یہ امرسب تسلیم کرتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس میں دھاندلیاں نہیں ہوئیں.ان انتخابات کے نتیجہ میں عرصہ کے بعد ملک میں جمہوریت قائم ہوئی ہے لیکن افسوس ہے کہ اب اسے بھی کام کرنے کا موقع نہیں دیا جا رہا اور جمہوریت کا نام لے کر کند چھری سے جمہوریت کو ذبح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں.یہ لوگ اگر واقعی جمہوریت چاہتے ہیں تو پھر انہیں صرف جمہوری طریق ہی اختیار کر کے موجودہ حکومت کو ہٹانے کی کوشش کرنی چاہیے.گلیوں میں نکل کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنا تو کوئی جمہوری طریق نہیں.موجودہ حکومت سے ہزار اختلاف ہو سکتے ہیں مگر صبر و تحمل کے ساتھ اسے کچھ عرصہ کام کا موقع تو دو.حضور نے فرمایا کہ ملک کے یہ افسوسناک حالات ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہم اپنی دعاؤں کا بڑا حصہ اپنے ملک کے لئے وقف کر دیں تا کہ اللہ تعالیٰ اس کی قسمت کو سنوار دے اس میں رہنے والوں کو سمجھ اور فراست عطا کرے.وہ فتنہ وفساد کی بجائے ایک دوسرے کی خدمت کو اپنا شعار بنا ئیں تاکہ سب کا دکھ درد دور ہو اور کوئی بھی تکلیف نہ رہے.پھر غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کریں جو ہماری زندگیوں کا اصل مقصد ہے اس کے لئے جس قدر اموال کی جس قدر واقفین زندگی کی اور جس قدر مادی ذرائع کی ضرورت ہے اس کا کروڑواں حصہ بھی ہمارے پاس موجود نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ اپنے بندوں سے وعدہ ہے کہ جتنی طاقت ان کے پاس ہے وہ اگر پیش کر دیں تو پھر باقی طاقت میں خود دے دوں گا.وہ فرماتا ہے کہ جو تمہارا ہے وہ مجھے دے دو پھر جو کچھ میرا ہے وہ سب میں تمہیں دے دوں گا.اس وعدہ پر بھروسہ کرتے ہوئے قربانیاں پیش کرتے چلے جاؤ اور پھر یہ دعا بھی کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری قربانیوں کو قبول کرے اور ان کے وہ نتائج ظاہر کرے جن کا اس نے وعدہ کر رکھا ہے.180
تاریخ احمدیت.جلد 28 1 3 4 5 6 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 56 18 19 20 181 حوالہ جات (صفحه 1 تا 180) الفضل ۸ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ الفضل ۶ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۲، ۳ الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ تا ۴ ، خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۱۱ تا ۲۱ الفضل ۵ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۴،۳ الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۲، صفحه ۶ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۲، صفحه ۶ ماہنامہ خالد.ڈاکٹر عبدالسلام نمبر.دسمبر ۱۹۹۷ صفحہ ۱۵۰ ۱۵۱ عالمی شہرت یافتہ سائنسدان عبد السلام - مصنف عبدالحمید چودھری - صفحہ ۱۰۷ الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶،۱ الفضل ۷ امارچ ۱۹۷۲ء صفحہ ۴، ۵ ، خطبات ناصر جلد دہم صفحہ ۱۴۷ تا ۱۶۵ الفضل ۱۱مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۴ ، خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۳۹ تا ۵۴ خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۵۵ تا ۶۷ تشخيذ الاذہان ربوہ اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۲۷ الفضل ۷ مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ ۱و۶ سال 1972ء شکر نعمت از ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ ساہیوال الفضل ۳ مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ ماخوذ از کتاب گر تو برانہ مانے مرتبہ منور احمد خالد صفحه ۶ تا ۱۵، خط وکیل الزراعت صاحب (۲۰۱۵-۰۶ - ۲۴۰/۲۲) و خط ناظم صاحب جائیداد (۲۰۱۵-۰۶ - ۲۴/ ۲۰۹۲) بنام شعبه تاریخ احمدیت الفرقان مئی ۱۹۷۲ ء سرورق ۴ صفحه ۶،۵ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۶ الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۲ء صفحہ ۱
تاریخ احمدیت.جلد 28 21 بدرا ۱ جولائی ۱۹۱۲، صفحہ ۳ کالم ۳ 22 بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ کالم ۱ 23 بدر ا ا جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴ کالم ۳ 182 سال 1972ء 24 تقریر حضرت مصلح موعود فرموده ۱۲ ۱۷ پریل ۱۹۲۵ء بر موقع مجلس مشاورت.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ صفحه ۲۳ 25 بدر ۱۱ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۵ کالم۱ 26 الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶۰۱ الفضل ۱۱؍ اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۲ 27 28 29 30 31 32 33 اخبار پیغام صبح لاہور ۵ را پریل ۱۹۷۲ صفحه ۱۰٫۸-۳۰۰ راگست ۱۹۷۲ء صفحه ۶ الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۲، صفحه ۴ ماہنامہ خالد.اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۶ د الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱.۶ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۷۰ ء صفحه ۸ 34 35 36 37 38 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد ۳ صفحہ ۷۳۰.مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ناشر سیکرٹری اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکزیہ.اشاعت دسمبر ۱۹۷۲ء الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ صفحه او۶ مجلة الجامعه ربوہ اپریل ۱۹۷۲ ء صفحه ۹۰ مکمل متن الفضل ۲۳ / اپریل ۱۹۷۲ صفحہ ۲ تا ۵ پر شائع شدہ ہے، خطبات ناصر جلد چہارم ۱۴۳ تا ۱۵۴ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت الفضل ۲ / اپریل ۱۹۷۲ صفحه ۲۰۱ 39 ملاحظہ ہوریزولیوشن نمبر C288687 صدر انجمن احمد یہ پاکستان 40 41 42 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱۹ - ۱۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲، صفحه ۵۵ تا ۵۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء صفحہ ۷۳ - ۷۴ 43 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲، صفحہ ۷۸ - ۷۷ 44 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ صفحه ۹۵ تا۹۷ میز انت تفصیلی بابت ۵۲ - ۱۳۵۱ بهش مطابق ۷۳ - ۱۹۷۲ء 45 46 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲، صفحہ ۱۵۸ 47 الفضل ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ صفحه ۳
تاریخ احمدیت.جلد 28 183 48 49 50 51 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ ، صفحہ ۲۱۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲، صفحه ۲۳۵ تا ۲۳۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲، صفحه ۲۴۱-۲۴۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ء صفحہ ۲۵۱ - ۲۵۳ ملاحظہ ہو الفضل ۲.۴.۶.۸.۱٫۹ پریل ۱۹۷۲ء 52 الفضل ۱۹ مئی ۱۹۷۲، صفحه ۴ 53 54 55 56 57 58 الفضل ۱۱ ر ا پریل ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۳ الفضل ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ صفحه ۳ رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو المعروف منیر انکوائری رپورٹ صفحہ ۳۴۰.انصاف پریس لاہور روزنامه امروز لاہور ۱۶ را پریل ۱۹۷۲ ء.نوائے وقت ۱۶ ر ا پریل ۱۹۷۲ ء رسالہ چٹان لاہور ۲۴ ا پریل ۱۹۷۲ صفحه ۴ 59 تفسیر در منشور متر جم جلد دوم صفحه ۵۵۰،۵۴۹- اداره ضیاءالمصنفین بھیره 60 اصحيح البخاری.کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلة 61 62 دستوری سفارشات اور ان پر تنقید و تبصره صفحه ۱۵۳ - ۱۵۴ مرتبه شعبه نشر و اشاعت جماعت اسلامی پاکستان الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۷۲ صفحه ۲، رساله خالد مئی ۱۹۷۲ صفحه ۶-۸ ہفت روزہ المنبر لائل پور شمارہ نمبر ۱ ۱/۲۸اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۱۰۶،۲رئیس التحریر عبدالرحیم اشرف 63 64 65 66 67 68 69 70 71 الفضل ۱۴ مئی ۱۹۷۲، صفحه ۲ تا ۴ الفضل ۴ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۲، ۳ الفضل ۳ مئی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱ الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۷۲ ، صفحه ۴ الفضل ۶ مئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ الفضل ۴ راگست ۱۹۷۲ء صفحه ۳ تا ۵ 72 مفصل خطبه اخبار الفضل ۱۸ جون ۱۹۷۲ صفحه ۲ تا ۴.الفضل ۱۴ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۱ 73 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 184 سال 1972ء 74 75 16 76 مختصر روداد کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶.ماہنامہ خالد جولائی ۱۹۷۲، صفحه ۴۹ تا ۵۲ ملخص الفضل ۱۷ جون ۱۹۷۲، صفحہ ۳.۴.ماہنامہ "خالد" جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۴-۸ الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶ 77 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۷۲، صفحه ۱-۶ 7 00 78 الفضل ۳ جون ۱۹۷۲، صفحه ۶ 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 91 احمد یہ گزٹ مارچ ۱۹۸۹ ء جوبلی نمبر ٹورانٹو.کینیڈ اصفحہ ۹۹-۱۰۰.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت سه ما ہی رساله مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی ” نور الدین جولائی اگست ستمبر ۱۹۹۰ صفحه ۱۷-۱۸ تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۳ جون ۳۰ جون - ۱۲-۲۰۱۳ جولائی.۱۳-۲۵-۳۱/ اگست.۱۰ - ۱۶ ستمبر - ۱۴-۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء مفصل خطبه مطبوعه الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۲-۴ تفصیلی مخطہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء تفصیلی خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۵ اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۴ تفصیلی خطبہ کے لئے ملاحظہ ہوالفضل ۱۳ / اگست ۱۹۷۲ صفحه ۳-۴ الفضل ۲۰ را گست ۱۹۷۲ صفحہ ۶٫۳ تفصیلی خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۷۲ صفحہ ۱-۸ الفضل ١٠ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲ متن خطبه جمعه الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۵-۶ الفضل ۶ جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۶،۳ 90 الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱ الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۳ الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۳ الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۳ الفضل ۲۰ /اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۲ 2 2 2 2 0 92 93 94 95 ترمذی کتاب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة الفضل ۲۰ راگست ۱۹۷۲ء صفحه ۲ الفضل ۲۰ اگست ۱۹۷۲ صفحه ۳ الفضل ۲۰ را گست ۱۹۷۲ صفحه ۳ 96 97 98
تاریخ احمدیت.جلد 28 99 الفضل ۲۰ اگست ۱۹۷۲ ء صفحه ۳ 185 سال 1972ء 100 الفضل ۲۰۶ جولائی ۲۰ / اگست ۱۹۷۲ صفحه ۳ 101 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۶-۸.اس تحریک کی اہمیت کی مزید وضاحت کیلئے ملاحظہ ہو.الفضل ۷، ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء 102 الفضل ۲۰ را گست ۱۹۷۲ صفحه ۱ 103 الفضل ۳ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۶ 104 الفضل ۴ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۱ 105 الفضل ۱/۲۱ پریل ۱۹۷۳ ء صفحہ ۱ 106 الفضل ۲۶ اگست ۱۹۷۲ صفحه ۶ 107 الفضل ۲۶ جولائی ۱۷-۲۵ / اگست ۱۹۷۲ء 108 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ او۶ - الفضل ۱۷ /اگست ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ 109 الفضل ۵ / اگست ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ 110 الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۱ 111 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۵۰۴ 112 الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۵ 113 الفضل ۲۸ جون ۱۹۷۳ صفحه ۴-۵ 114 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 115 تحدیث نعمت طبع دوم ری پرنٹ فروری ۲۰۰۹، مطبع ضیاء الاسلام پریس، ناشر طارق محمود صفحه ۸۹۴-۸۹۵ 116 الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۴۲۲، ۴۲۳ 117 ماہنامہ خالد نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴۸ و ۵۷ تا ۶۴ 118 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱.مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۵-۹ 119 ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۸ تا ۱۰ 120 الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۲، صفحہ ۶ ، الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۴ 121 الفضل ۵ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۴ 122 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۲، صفحه ۵ 123 الفضل اا نومبر ۱۹۷۲ صفحہ او۶ 124 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۳ 125 الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ تا ۳ 126 الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴
تاریخ احمدیت.جلد 28 186 سال 1972ء 127 ہفت روز المنبر لائل پور ۲۳ فروری ۱۹۵۶ء - بحوالہ ماہنامہ الفرقان.اکتوبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳۲ 128 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۷۲ صفحہ ۳-۴- ماہنامہ مصباح مارچ ۱۹۷۳ ء صفحہ ۲۲ 129 انقلاب کو لاہور.فروری ۱۹۷۳ء صفحہ ۷ - ۸ بحوالہ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحه ۵۰ - ۵۳ مرتبه حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ 130 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحہ ۴۹.مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ 131 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۳ متن خطاب 132 مکمل متن کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد سوم صفحہ ۷۶۴ تا اے ۷ مرتبہ حضرت ام متین صاحبہ اشاعت ۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء 133 ماہنامہ مصباح دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱۷-۲۲ 134 المصابیح صفحه ۲۴۳ - ۲۶۶ مرتبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ.اشاعت ستمبر ۱۹۷۹ء 135 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۲ 136 الفضل ۵ جنوری ۱۹۷۳ صفحہ ۳-۵ پر مفصل تقریر شائع شدہ ہے 137 الفضل ۶ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۳-۴ 138 الفضل 9 جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۴ 139 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۶ 140 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحہ ۱۱ 141 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحه ۱۲ تا ۲۷ 142 تاریخ نجنه جلد چهارم صفحه ۱۰۴-۱۰۵ 143 اخبار بدر ۴ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۱ بحوالہ تاریخ مجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحه ۵۴ -۵۶ 144 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد چہارم صفحه ۵۳ 145 مجله بتقریب جشن پنجاه ساله صفحه ۹۶ 146 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ایڈیشن دوم صفحہ ۶۹۰۰۶۷۳ تا ۶۹۴.مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ Lajna Speaks Page:84 147 148 مجله بتقریب جشن پنجاه ساله ۱۹۲۲ء تا ۱۹۷۲ صفحه ۶۲ 149 مجله بتقریب جشن پنجاه ساله صفحه ۶۲ 150 مجله بتقریب جشن پنجاه ساله صفحه ۶۲ 151 مجله بتقریب جشن پنجاه ساله صفحه ۶۱ 152 Lajna Speaks صفحه ۸۵
تاریخ احمدیت.جلد 28 187 سال 1972ء 153 الازهار لذوات الخمار حصہ دوم طبع دوم صفحه ۹۵ - ۱۰۰ مرتبه حضرت ام متین سیده مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ.ناشر لجنہ اماءاللہ مرکز یر بوہ 154 الفضل ۸ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۳ 155 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۱ 156 الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۶ 157 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۷۲ ، صفحه ۶ 158 بحوالہ ہفت روزہ پیغام صلح لاہور ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ صفحہ ۶.الاعتصام لاہور ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ صفحہ ۵ 159 اخبار جنگ راولپنڈی ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۲ء 160 اخبار ” نوائے وقت راولپنڈی ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۲ء 161 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲ تا ۵ 162 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۸،۷ 163 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۳-۵ 164 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۶ 165 الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۷۳ ء صفحه ۲-۳ 166 الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ 167 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ 168 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۶ 169 الفضل سے اگست ۱۹۷۳ء صفحہ ۴ خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۵۶۰ تا ۵۶۳ ناشر نظارت اشاعت ربوہ نومبر ۲۰۰۶ء 170 الفضل کے جنوری ۱۹۷۳ ، صفحہ ۴-۵، خطبات ناصر جلد چہارم صفحه ۷۱ ۵ تا ۵۸۳ 171 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ 172 الفضل ۱۰ را پریل ۱۹۷۳ ء صفحه ۳ 173 الفضل ۲ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحہ ۱.۶ 174 الفضل ۵ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۱-۶ 175 الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۶ 176 الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۳-۴
تاریخ احمدیت.جلد 28 177 الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۳، ۴ 178 الفضل سے جنوری ۱۹۷۳ ، صفحہ ۱.۸ 188 179 الفضل 9 جنوری ۱۹۷۳ ، صفحہ ۱.۶.خطابات ناصر جلد اصفحہ ۵۶۲ 180 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۱.۸ سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 189 سال 1972ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام انتقال فرما گئے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.وفات پانے والوں میں حضرت قاضی محمد عبداللہ بھٹی صاحب کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ ۱۳ ۳ اصحاب کبار میں سے آخری صحابی تھے.حضرت ڈاکٹر احمد دین صاحب آف کھاریاں ولادت : انداز ۱۸۹۸ء بیعت: پیدائشی احمدی 1 وفات : ۲۸ جنوری ۱۹۷۲ء2 آپ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر جہلم جنوری ۱۹۰۳ء کے دوران کھاریاں میں پہلی بار شرف زیارت حاصل کیا.مولوی عبدالکریم صاحب یاد گیر (حیدر آبادی) جن کے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا سے اعجازی شفا کا نشان ظہور پذیر ہوا، آپ کے کلاس فیلو تھے.آپ نے اپنے خود نوشت حالات میں لکھا ہے کہ ”جب حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے تو ایک ہندو ( سردار ہری سنگھ ) کی کوٹھی میں اترے جو دریائے جہلم کے کنارے تھی.غیر احمدی کثرت سے آئے انہوں نے پتھر برسانے شروع کئے حضرت صاحب بند بگھی میں گئے جس کے آگے ایک گھوڑا تھا جب حضرت صاحب جہلم گئے تو حضور کی آمد کی اطلاع کھاریاں کے اسٹیشن پر ملی تو احمدی زمیندار حضور کے لئے دودھ مکھن لائے اور انہوں نے دودھ حضرت صاحب اور آپ کے صحابہ کو پلایا.میں جب قادیان آیا تو ان دنوں مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر تھے مولوی سید سرور شاہ صاحب بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ تھے.میں پہلی جماعت میں داخل ہوا.ہم ان دنوں نماز با قاعدہ پانچوں وقت مسجد (مبارک) میں جا کر ادا کرتے تھے.مسجد مبارک میں ایک صف کے اندر ۴-۵ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے.مسجد اقصیٰ وہاں تک ہوتی تھی جہاں تک آجکل چھوٹی اینٹیں لگی ہیں.اس کے ایک سرے پر شہتوت کا درخت تھا جو مسجد سے باہر تھا.مسجد اقصیٰ کے اردگرد ایک خام دیوار ہوا کرتی تھی...عبد الکریم صاحب یادگیری ( حیدرآباد دکن) جنہیں باؤلے کتے نے کاٹا تھا وہ بھی ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے.میرے دیکھتے ہی باؤلے کتے نے ان کو مدرسہ احمدیہ کے صحن میں کا ٹا تھا.میں نے خود دیکھا کہ کتے نے اسے دائیں یا بائیں بازو پر کاٹا بعدہ اسے کسولی بھیجا گیا اور خدا نے بالکل شفادے
تاریخ احمدیت.جلد 28 190 سال 1972ء دی.جب عبد الکریم واپس آیا تو میں نے خود دیکھا کہ اس میں باؤلے پن کے آثار ظاہر ہوئے اور منہ سے جھاگ جاری تھی.آخر اسے کمہاروں کے محلہ کی طرف ایک مکان میں بند کر دیا.غالباً حضرت صاحب نے اس کے لئے دوائی کی پڑیاں بھی بھیجی تھیں.آخر دولڑکوں ڈاکٹر گو ہر دین صاحب اور جمیل صاحب ساکن منگل کو جو متعلم جماعت دہم تھے ان کو لائین دے کر رات کے وقت ہی بٹالہ کسولی کو تار دینے کے لئے بھیجا گیا جہاں سے جواب آیا Nothing can be done for Abdul Karim حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے لئے دعا کی اور وہ تندرست ہو کر ہمارے ساتھ کھیلتا رہا ہے....جب ہم موجودہ دفاتر نظارت ہائے سلسلہ عالیہ احمد یہ متصل مسجد اقصیٰ کے نیچے سے گذرتے تھے جس میں اس وقت ہندو ر ہا کرتے تھے اور یہ مکان ان کی ملکیت تھا تو ہندو عورتیں ہم پر دال کا ٹھنڈا پانی گرایا کرتی تھیں اور ہم کو حضرت صاحب کی طرف سے حکم تھا کہ بولنا نہیں.حضرت میاں مبارک احمد صاحب جب فوت ہوئے تو ان کا جنازہ مدرسہ احمدیہ کے صحن میں پڑھا گیا اور باغ میں پہنچانے کے لئے مستریوں کے مکان کے پاس سے چونکہ پختہ پل تیار نہ ہوا تھا اس لئے وہاں سکول کی بنچیں اور ڈیسک رکھ کر پل بنایا گیا اور جنازہ گزارہ گیا اور اگلے دن اسے اکھیڑ دیا گیا کیونکہ اس جگہ بہت پانی ہوا کرتا تھا“.ڈاکٹر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ایمان افروز نشان کے چشم دید گواہ تھے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کو حضرت اقدس کو الہاماً بتایا گیا' سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہو گی.خوش آمدی نیک آمدی حضور نے صبح کو ہی قبل از وقوع یہ خبر تمام جماعت کو سنادی.اس وقت آسمان پر ایک ناخن کے برابر بھی بادل نہ تھا اور آفتاب اپنی پوری تیزی دکھلا رہا تھا کہ نماز ظہر کے بعد یکا یک بادل آیا اور بارش ہو گئی نیز ۲ - ۳ مارچ ۱۹۰۷ء کی شب کو سخت زلزلہ آیا اور زمین تھرا اٹھی جس کی خبر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور ( مورخہ ۱۵ مارچ ۱۹۰۷ ء ) اور اخبار عام لاہور ( مورخہ مارچ ۱۹۰۷ء) میں شائع ہوئی.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۵۶ تا ۵۸ میں یہ پوری تفصیل دینے کے بعد ان معزز گواہان روایت کی فہرست دی جن کو ۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کے وقت یہ پیشگوئی سنائی گئی جبکہ دھوپ صاف طور پر نکلی ہوئی تھی اور آسمان پر سورج چمک رہا تھا اور بادل کا نام ونشان نہ تھا.ان گواہان روایت میں حضور علیہ السلام نے اپنے قلم مبارک سے آپ کا نام بھی درج فرمایا.حضور علیہ السلام نے تحریر فرمایا :.
تاریخ احمدیت.جلد 28 191 سال 1972ء زلزلہ زمین سے متعلق ہے اور بارش آسمان سے آتی ہے پس یہ ایسی پیشگوئی ہے کہ اس میں زمین اور آسمان دونوں جمع کر دئے گئے ہیں تا پیشگوئی دونوں پہلوؤں سے پوری ہو کیونکہ یہ امر انسان کی طاقت سے باہر ہے کہ وہ اپنی طرف سے ایسی پیشگوئی کرے جس میں زمین اور آسمان دونوں شامل کر دئے جائیں بلکہ خود یہ امر انسانی طاقت سے باہر ہے کہ عین دھوپ کے وقت جبکہ بارش کا خاتمہ ہو چکا ہو یہ پیشگوئی کرے کہ آج بارش ہوگی اور پھر بارش ہو جائے.حضرت ڈاکٹر صاحب ۱۹۱۹ ء میں مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور وہاں آپ کو کینیا، یوگنڈا اور ٹانگانیکا میں مختلف سرکاری حیثیت سے خدمت خلق اور طبی خدمات بجالانے کے بہت مواقع میسر آئے.جہاں جہاں رہے اسلام کی اشاعت کا فریضہ بھی انجام دینے میں سرگرم رہے خصوصاً سروٹی اور بمبو میں افریقن اور علاقہ ہزارہ اور پنجاب کے غیر احمدی دوستوں تک خوب پیغام حق پہنچایا.ڈڈومہ میں آپ نے نیروبی سے چھپنے والے جماعتی اشتہاروں اور ٹریکٹس اور رسالہ سواحیلی کی عمدگی سے تقسیم کی یہاں آپ نے اپنے حلقہ احباب میں تبلیغ بھی کی اور اپنے خرچ پر لٹریچر بھی تقسیم کیا.کملی میں ایک بار آپ نے چند آغا خانیوں کو دعوت چائے دی اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب کو بھی تبادلہ خیالات کے لئے مدعو کیا.۳۹-۱۹۳۸ء میں جب احمدیہ مشن مالی مشکلات سے دو چار تھا افریقن مبلغ شیخ صالح کے ماہوار الاؤنس کے لئے چند بزرگوں نے باقاعدگی سے حصہ لیا، ان میں آپ بھی شامل تھے.کا سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ مسا کہ ( یوگنڈا) میں مستقل طور پر قیام پذیر ہو گئے جہاں آپ نے اپنے رہائشی پلاٹ کے ساتھ حکومت سے مشن ہاؤس مسجد اور قبرستان کے لئے دوا یکڑ کا پلاٹ حاصل کیا اور ۱۹۶۳ء میں اپنی نگرانی میں مسالہ کی پہلی احمدیہ مسجد تعمیر فرمائی جس کا امام سید نا حضرت مصلح موعود نے آپ ہی کو مقررفرمایا.مرحوم کی اہلیہ محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ حضرت چوہدری اللہ بخش صاحب مالک اللہ بخش سٹیم پریس قادیان کی بڑی صاحبزادی تھیں.آپ نے اپنے پیچھے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں یادگار چھوڑیں.وفات کے وقت مرحوم کے دو صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں انگلستان میں تھیں.ایک صاحبزادی اور دو صاحبزادے یوگنڈا میں اور دو صاحبزادیاں پاکستان میں مقیم تھیں.جن میں سے ایک صاحبزادی لعیقہ طور صاحبہ لاہور میں مقیم تھیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 192 سال 1972ء سب سے چھوٹے صاحبزادے منیر الدین احمد صاحب تھے جنہیں آپ نے حصول تعلیم کے لئے لاہور بھجوایا تھا جو کہ یکم جولائی ۱۹۷۰ء کو میو ہسپتال میں انتقال کر گئے اور اسی روز ربوہ کے عام قبرستان میں سپردخاک کئے گئے.8 ڈاکٹر صاحب دل کے مریض تھے مگر انہوں نے یہ صدمہ نہایت صبر اور رضا بالقضاء کے ساتھ برداشت کیا.اولاد: ظہیر الدین صاحب.صلاح الدین صاحب.منیر الدین احمد صاحب.لئیقہ طور صاحبہ حضرت قریشی امیر احمد صاحب آف بھیرہ میانی ولادت : ۱۸۹۰ ء 9 بیعت وزیارت : ۱۹۰۱ ء 10 وفات : ۸ فروری ۱۹۷۲ء11 سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاول کے برادر زادہ حضرت قریشی حکیم سردار محمد صاحب کے صاحبزادے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بارش اور سخت زلزلہ والی پیشگوئی (۲۸ فروری ۱۹۰۷ء) کے عینی شاہدوں میں سے تھے.حضور نے تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۵۷ میں آپ کا نام بھی اپنے قلم مبارک سے درج فرمایا ہے.زمانہ مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق آپ کے بعض چشمد ید واقعات ذیل میں تحریر کئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں :.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عصر کے قریب بچوں کو شربت پلا رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو ایک ایک گلاس شربت کا پلایا تو اس وقت اتفاقیہ طور پر یہ خاکسار بھی وہاں چلا گیا تو حضور نے اپنے ہاتھ مبارک سے شربت کا ایک گلاس خاکسار کو بھی پلایا.شربت میں کیوڑا اور تخم بالنگو بھی ملا ہوا تھا.وہ شربت نہایت اعلیٰ اور مفترح تھا.(۲) حضور کے گھر میں ایک مائی تابی ہوا کرتی تھی وہ بہت ضعیف العمر تھیں.انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں آکر کہا کہ حضرت صاحب جی میرا سر بہت کمزور ہو گیا ہے.تو حضور علیہ السلام نے اسی وقت ان کو بادام اور مصری دی اور فرمایا کہ شیرہ بنوا کر پیا کرو.لیکن جس نے بھی مائی تابی کے واسطے شیرہ بنایا مائی تابی کو پسند نہ آیا.میں بھی پاس ہی کھڑا تھا حضور نے مسکراتے ہوئے مجھے فرمایا میاں امیر احمد مائی تابی کو شیرہ بنا دو.چنانچہ حسب الحکم مائی تابی کے سامنے لوٹے سے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے اور تین بار اپنے ہاتھوں کو پاک کیا پھر کونڈی اور سونٹے کو تین بار دھویا اور تین بار ہی پاک کیا اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 193 سال 1972ء پھر نہایت صفائی کے ساتھ شیرہ بنایا اور مائی تابی کو پلا یا وہ بہت ہی خوش ہوئیں اور اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس گئیں اور جا کر عرض کیا کہ حضرت جی امیراحمدکا شیرہ بنایا ہوا مجھے پسند ہے حضورا میر احمد کو ہی کہیں کہ مجھے شیرہ بنا دیا کرے.چنانچہ حضور نے مجھے بلایا.جب میں حضور کے سامنے آیا تو حضور نے نہایت پیار سے مسکراتے ہوئے خاکسار کو فرمایا.میاں امیر احمد مائی تابی کو تم ہی شیرہ بنا کر دیا کرو.چنانچہ روزانہ میں آتا اور مائی تابی کو شیرہ بنا کر دیا کرتا اور شیرہ پی کر وہ بہت خوش ہوتی تھیں اور حضور نے یہ بھی فرمایا تھا کہ جب بادام مصری ختم ہو جائے تو اور لے لیا کرو.(۳) پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کے ایک خلیفہ حضور کی خدمت میں ملاقات کے لئے آئے.مسجد مبارک میں وہ حضور کے سامنے بیٹھ گئے اور باتیں شروع ہوئیں.ان کی طرز گفتگو نہایت ہی مؤدبانہ تھی.دورانِ گفتگو میں انہوں نے یہ کہا کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن حضور کا دعوی ہم ماننے کے لئے تیار نہیں تو ان کے یہ الفاظ سن کر حضور جوش میں آگئے اور حضور نے جوش کے رنگ میں فرمایا کہ مباہلہ کر لوتو وہ مباہلہ کا لفظ سن کر بہت ہی گھبرائے اور انہوں نے کہا کہ میں مباہلہ کے لئے تیار نہیں اور انہوں نے گھبراہٹ کی حالت میں مباہلہ کرنے سے بار بارا انکار کیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ جب آپ کے نزدیک میں مفتری ہوں تو مباہلہ کا اثر تو مجھ پر پڑے گا اور آپ کا مباہلہ سے کیا نقصان ہو سکتا ہے تو پھر انہوں نے بار بار اس بات کا اظہار کیا کہ حضور میں مباہلہ کے لئے تیار نہیں ہوں.(۴) حضور مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے تو کسی دوست نے عرض کیا کہ حضور گورنمنٹ نے چوہے پکڑوانے کے واسطے پنجرے بنوائے ہیں اور لوگوں کے گھروں میں تقسیم کئے جا رہے ہیں تا کہ چوہے مر جائیں تو طاعون دور ہو جائے.تو حضور نے فرمایا کہ گورنمنٹ لاکھوں پنجرے بنوائے اور لاکھوں روپے خرچ کرے جب تک ان لوگوں کے دلوں کے چوہے نہ مریں گے طاعون دور نہیں ہوسکتی.(۵) مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے باتیں ہو رہی تھیں تو حضور نے جوش کی حالت میں فرمایا میرے مخالف اگر ابراہیم علیہ السلام کی طرح مجھے بھی باندھ کر آگ میں ڈال دیں تو جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہو گئی تھی میرے لئے بھی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی.(۶) ایک بار صبح کے وقت حضور نے فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ زلزلہ آیا اور بارش ہوئی.یہ حضور کی زبان مبارک سے الفاظ میں نے بھی سنے تھے چنانچہ اسی دن بارش ہوئی اور ۲، ۳ مارچ کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 194 سال 1972ء درمیانی رات زلزلہ بھی آیا.حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جن لوگوں نے میری زبان سے یہ الفاظ سنے ہیں ان کی گواہیاں لکھ لی جائیں.چنانچہ ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے سابق مہر سنگھ میرے پاس آئے اور انہوں نے یہ گواہی لکھ لی اور حضور کی خدمت میں جا کر پیش کی.چنانچہ میری گواہی کو بھی حضرت صاحب نے حقیقۃ الوحی میں لکھا ہے.....(۷) تحصیلدار صاحب بٹالہ قادیان میں آئے اور انہوں نے شیخ یعقوب علی صاحب سے آ کر کہا کہ میرالڑ کا سخت بیمار ہے میں مولوی ( نور الدین) صاحب کو لینے کے واسطے آیا ہوں.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب پہلے ان کو لے کر حضرت صاحب کے پاس گئے اور عرض کیا کہ حضور یہ بٹالہ کے تحصیلدار صاحب ہیں ان کا لڑکا بہت بیمار ہے یہ مولوی صاحب کو لینے کے واسطے آئے ہیں.حضور سے اجازت چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ مولوی صاحب کو کہہ دو کہ چلے جائیں اور آج ہی واپس آ جائیں.چنانچہ وہ حضرت خلیفہ اول کے پاس شفا خانہ میں گئے تو شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کیا کہ تحصیلدار صاحب کا لڑکا بہت بیمار ہے اور یہ حضور کو لینے کے واسطے آئے ہیں تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ لوگ میرے طرز سے ناواقف ہیں.میرا جانا یا نہ جانا میرے اختیار میں نہیں ہے تو شیخ یعقوب علی صاحب نے فرمایا کہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ چلے جائیں اور آج ہی واپس آجائیں.چنانچہ اسی وقت حضرت خلیفہ اول کھڑے ہو گئے اور پگڑی سر پر لیٹے ہوئے ہی چل پڑے.بٹالہ میں پہنچتے ہوئے رات پڑ گئی اور مریض کو دیکھ کر واپس روانہ ہوئے تو اس وقت تیز بارش ہو رہی تھی اور تحصیلدار نے بہت اصرار کیا کہ تیز بارش ہو گئی ہے آپ یہاں رہیں.صبح ہم آپ کو قادیان میں پہنچا دیں گے اور حضرت خلیفہ اول نے فرمایا کہ حضرت صاحب کا حکم ہے کہ آج ہی واپس آجائیں اس لئے میں ٹھہر نہیں سکتا.چنانچہ بارش میں رات کو بٹالہ سے چل پڑے اور پیدل ہی پانی میں چلتے آئے اور آدھی رات کے قریب قادیان پہنچے تو پیدل چلنے کی وجہ سے پاؤں میں کانٹے لگ گئے تھے.صبح کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ اطلاع پہنچی کہ مولوی صاحب بارش میں ہی پیدل چلتے آئے ہیں اور پاؤں میں کانٹے لگ گئے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے ہی کہا تھا کہ آج واپس آجا ئیں اس لئے مولوی صاحب وہاں رہ نہیں سکے.(۸) میرے چچا مولوی دوست محمد صاحب میانی میں بہت سخت بیمار ہو گئے تو میرے والد
تاریخ احمدیت.جلد 28 195 سال 1972ء صاحب نے خط لکھا کہ دوست محمد سخت بیمار ہے آپ جلدی آجا ئیں تو حضرت خلیفہ اول نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ حضور میرا بھتیجا بہت بیمار ہے تو حضور نے فرمایا مولوی صاحب آپ ایک دن کے لئے چلے جائیں.چنانچہ حضرت خلیفہ اول میانی میں تشریف لے گئے اور صرف ایک دن ہی وہاں رہ کر واپس قادیان چلے آئے.(۹) حضرت خلیفہ اول کو دستوں کی بیماری تھی.دست آ رہے تھے اور بہت ضعف ہو گیا تھا.تو حضرت صاحب کی طرف سے حکم پہنچا کہ باہر جا کر تقریر کریں.چنانچہ اسی وقت حکم سنتے ہی باہر چلے گئے اور قریباً تین گھنٹہ تک تندرستوں کی طرح تقریر فرمائی.(۱۰) ہمارے ایک رشتہ دار پیر سید نجف شاہ صاحب حلالپوری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت میں ایک نظم لکھ کر لائے اور مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے سنانے لگے تو ان کی آواز کا نپتی تھی اور وہ سنانہ سکتے تھے تو مجھے انہوں نے کہا کہ تم سناؤ.چنانچہ میں نے بآواز بلند سنانا شروع کیا تو حضرت خلیفہ اول نے عرض کیا حضور یہ سردار محمد کا لڑکا ہے.حضور بہت خوش ہوئے اور بہت دیر تک نظم سنتے رہے.یہ نظم حضور کے ارشاد مبارک سے اخبار بدر میں چھپ بھی گئی تھی.(۱۱) لاہور میں حضور تقریر فرما رہے تھے.اس جلسہ میں شہر کے امراء بلائے گئے تھے.دوران تقریر میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ میرے مخالفوں کے میرے پاس خط آتے جو کہ گالیوں سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور میں ان کو پڑھ کر صندوق میں ڈال دیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ دراصل یہ لوگ مجھے گالیاں نہیں دیتے بلکہ میرے بھیجنے والے کو گالیاں دیتے ہیں.12 آپ کے لخت جگر محترم منیر احمد صاحب قریشی تحریر فرماتے ہیں:.”میرے والد قریشی امیر احمد صاحب حضرت خلیفہ اول کے حقیقی بھیجے کے بیٹے ہیں اور وہ ان کو بھیرہ سے اپنے ساتھ ہی قادیان ہجرت کر کے لے آئے اور ان کی پرورش ان کے گھر میں ہی ہوئی.حضرت خلیفہ اول کے تمام کام جو ذاتی ہوتے تھے وہ ان کے سپر دہی کئے جاتے تھے.حضرت خلیفہ اول نے ان کی شادی اپنی بیوی حضرت صغراں بیگم صاحبہ کے حقیقی بھائی (حضرت) پیر افتخار احمد صاحب کی صاحبزادی فہمیدہ بیگم سے تجویز فرمائی اور اپنی وفات سے قبل خلیفہ اول نے ان کا ہاتھ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور اس طرح زندگی کا ایک کثیر حصہ ان کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 196 سال 1972ء پاس گذرا.کچھ عرصہ لنگر خانہ (دار الضیافت) کے انچارج رہے اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب اکثر اوقات ان کے کام پر بڑی خوشنودی کا اظہار فرمایا کرتے تھے.وہاں سے فارغ ہو کر نظارت بیت المال میں بطور انسپکٹر بیت المال کے لمبے عرصے تک ملازمت کی ( آپ کا تقرر ایک بار بھیرہ میں بھی ہوا 13 اور وہاں سے ہی پنشن حاصل کی) اور اس دوران حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے ہمیشہ ہی ان کے ساتھ بڑا ہی مشفقانہ سلوک روا رکھا.حضرت مصلح موعود ان کا بڑا خیال اس وجہ سے رکھتے کہ حضرت امتہ الحئی صاحبہ کو ان کے ساتھ بڑا انس تھا اور وہ ہمیشہ ہی ان کا بڑا خیال رکھتی تھیں.اس لئے حضور بھی اکثر موقعوں پر یاد فرماتے رہتے تھے اور خاص طور ( پر ) موسموں کے پھل ضرور بھجوایا کرتے تھے اور ان کے فرمودات تو سب قادیان ہی رہ گئے تھے.جسم کے تین کپڑوں کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں تھا جب وہ پاکستان پہنچے.14 حضرت قریشی صاحب بہت نیک، دعا گو، بے ضرر اور متقی بزرگ تھے.صدر انجمن احمدیہ کے کارکن کی حیثیت سے عرصہ دراز تک خدمت دین کی توفیق پائی 15.آپ کا ذکر صدر انجمن احمدیہ کی مطبوعہ رپورٹوں میں ملتا ہے.اولاد : قریشی میر محمد صاحب.ڈاکٹر قریشی محمد عبداللہ صاحب.قریشی منیر احمد صاحب.سلطان احمد صاحب.زینب قدسیہ صاحبہ اہلیہ مرزا محمد رفیع صاحب امیر جماعت احمد یہ کنری 16 حضرت حکیم رحمت اللہ صاحب ولادت: اندازاً ۱۸۷۴ء17 بیعت : دسمبر ۱۹۰۷ ء18 وفات : ۱۲ فروری ۱۹۷۲ء19 محترم حکیم صاحب ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور اس کے بعد تا وفات نہایت استقلال کے ساتھ احمدیت پر قائم رہے.۲۲ مئی ۱۹۱۶ء کو نظام وصیت میں شمولیت کا شرف حاصل کیا.آپ موضع جو گووال نز د کلانور ضلع گورداسپور کے باشندہ تھے.غالباً ۱۹۲۷ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے اور تقسیم ملک تک وہاں طبابت اور پنسار کا کاروبار کرتے رہے.قیام پاکستان کے بعد پاکستان تشریف لے آئے.پہلے کچھ عرصہ کراچی میں مقیم رہے.۱۹۵۰ء میں ربوہ تشریف لے آئے.جہاں تا وفات آپ مقیم رہے.آپ اپنے والد حکیم محمد بخش صاحب کے اکلوتے فرزند تھے.آپ نے اپنے والد سے ہی طب
تاریخ احمدیت.جلد 28 197 سال 1972ء پڑھی.بیعت کے بعد آپ کے والد اور دوسرے اعزہ اور قارب بھی مخالف ہو گئے لیکن آپ نے ان کی مخالفت نہایت حوصلہ اور صبر سے برداشت کی.ہر جمعہ کو گاؤں سے پیدل چل کر قادیان آتے نماز جمعہ ادا کرتے اور پھر اسی دن پیدل ہی واپس چلے جاتے.ہجرت تک آپ کا یہی معمول رہا.قادیان کے قیام کے دوران علاوہ اور جماعتی خدمات کے آپ مسجد متصل سٹار ہوزری لمیٹڈ ( جس میں دکاندار احباب نماز ادا کیا کرتے تھے.فسادات ۱۹۴۷ء کے بعد یہ مسجد قائم نہ رہی ) میں قیام پاکستان تک امام الصلوۃ رہے.اذان بڑی بلند آواز سے دیتے اور ایک ہی سانس میں ساری اذان مکمل کر لیتے.آپ بڑے خلیق ، ملنسار، نیک، تقولی شعار اور دعا گو بزرگ تھے.اپنا سارا کام خود کرتے.عمر بھرا اپنی اولاد میں سے کسی پر بوجھ نہ بنے.طبابت کے ذریعے اپنی روزی کماتے اور دکان میں ہی رہائش رکھتے.ورزش بڑے استقلال سے با قاعدہ کرتے جس کی وجہ سے آپ کی صحت غیر معمولی طور پر اچھی تھی وفات کے وقت آپ کی عمر تقریباً ۹۵ برس کی تھی.20 اولاد محمد عالم صاحب.بشیر الدین صاحب.حفیظ بیگم صاحبہ نظیر بیگم صاحبہ 21 حضرت چوہدری نور محمد صاحب ولادت : ۱۸۹۲ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء22 چوہدری صاحب تحریر فرماتے ہیں.” بندہ نے خط کے ذریعہ ۱۹۰۳ء میں بیعت کی تھی اور ۱۹۰۵ء میں قادیان آکر حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہشتی مقبرہ باغ میں مجلس فرمایا کرتے تھے.تین دن ہم رات دن وہاں ہی حضور کی خدمت کرتے رہے.مولوی عبدالکریم صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے.آپ ۱۹۴۱ء میں ہجرت کر کے قادیان آئے اور پھر قادیان سے ہجرت کر کے ربوہ میں آباد ہوئے.23 آپ کے فرزند چوہدری نذیر احمد صاحب ایکسین بہاولنگر ( بعد ازاں ایس ای محکمہ انہار وامیر ضلع بہاولپور ) تحریر فرماتے ہیں.محترم والد صاحب ۱۸۹۲ء میں پھمبیاں ضلع ہوشیار پور میں حضرت چوہدری وزیر علی صاحب مدفون بہشتی مقبره قادیان وفات ۱۹۴۵ء) کے ہاں پیدا ہوئے.پھمبیاں کی نصف آبادی مسلمانوں اور نصف آبادی غیر مسلموں کی تھی.اس گاؤں میں ایک نہایت نیک سیرت بزرگ حضرت بابا باشم
تاریخ احمدیت.جلد 28 198 سال 1972ء صاحب رہتے تھے جو صاحب رؤیا وکشوف تھے.آپ کو الہاماً بتایا گیا کہ امام وقت کا ظہور ہو چکا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کے مطابق آپ کا سلام اسے پہنچانا ہر مسلمان کا فرض ہے.اس الہی خبر کے بعد حضرت با با باشم صاحب قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے مشرف ہوئے اور پھمبیاں واپس آکر لوگوں کو بتایا کہ مسیح موعود علیہ السلام جس کی صدیوں سے انتظار تھی قادیان کی مقدس بستی میں آگیا ہے.آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں ۱۹۰۳ء میں گاؤں کے قریباً سو گھرانوں نے بیعت کے خطوط لکھے.انہی بیعت کرنے والوں میں میرے دادا حضرت چوہدری وزیر علی صاحب اور میرے والد محترم چوہدری نور محمد صاحب بھی تھے.۱۹۰۵ء میں دادا جان اور والد صاحب مرحوم نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دستی بیعت کا بھی شرف حاصل کیا.محترم والد صاحب کی ظاہری تعلیم کچھ نہیں تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق ،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت اور اپنی کوشش کے نتیجہ میں اپنے طور پر علم حاصل کیا.اردو اور عربی پڑھ لیتے تھے.دماغی صلاحیتوں کا یہ حال تھا کہ گاؤں کے ہندو اور مسلمان ہر کام میں آپ سے مشورہ لیتے تھے اور پھر آپ کے مشورہ پر عمل کرتے.جسمانی لحاظ سے آپ بہت مضبوط تھے.۶۰ سال کی عمر میں بھی کوئی جوان آپ کے مقابلہ پر کام نہیں کر سکتا تھا.تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب خصوصاً ملفوظات بڑے ترنم سے پڑھتے.اخبار الفضل کا با قاعدہ مطالعہ کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے آپ کو والہانہ عشق تھا.حضرت المصلح الموعود کے مبارک خطبات کو سن کر آپ پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی.آپ کے ہر حکم کی تعمیل کرنا اپنا فرض جانتے.حضور کی وفات کی وجہ سے آپ کو جو صدمہ ہوا وہ بہت ہی درد ناک تھا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے بھی آپ کو بہت محبت تھی.آپ کی صحت اور درازی عمر کے لئے ہر وقت دعا کرتے رہتے.اولا دکو دینی اور دنیوی تعلیم دلانے کا بہت شوق تھا.اس شوق کی وجہ سے اور ایک رؤیا کی بناء پر آپ ۱۹۴۱ء میں پھمبیاں سے ہجرت کر کے قادیان آگئے.مالی حالت گواچھی نہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس تمنا کو پورا کیا.قیام پاکستان کے بعد آپ نے پہلے اوکاڑہ میں سکونت اختیار کی پھر ضلع میانوالی میں چلے گئے.جب میرے چھوٹے بھائی نے ربوہ میں ایک دکان بنالی تو آپ ربوہ تشریف
تاریخ احمدیت.جلد 28 199 سال 1972ء لے آئے اور آپ بہت خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مرکز میں خلافت کے زیر سایہ رہائش اختیار کرنے کی توفیق عطا کی ہے.آپ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا ور دفرمایا کرتے تھے اور ہمیں بھی ایسا کرنے کا ارشاد فرمایا کرتے.دعا رب کل شئ خادمک رب فاحفظنی و انصرنی و ارحمنی کثرت سے پڑھتے اور فرمایا کرتے اس دعا نے میری دنیا ہی بدل دی ہے.اللہ تعالیٰ کے نور سے میرا دل منور ہو گیا ہے تم بھی اسے پڑھا کرو تم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نئے نئے نظارے دیکھو گئے“.24 رحلت کے وقت آپ کی عمر ۸۰ سال تھی.آپ نے ۵ لڑکے اور لڑکیاں یادگار چھوڑیں.۲۴ مارچ ۱۹۷۲ء کو آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد قطعہ خاص میں تدفین عمل میں آئی.تدفین کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.اولاد بشیراں بی بی صاحبہ.چوہدری نور احمد صاحب.چوہدری غفور احمد صاحب.چوہدری علی احمد صاحب.چوہدری نذیر احمد صاحب ( ان کے داماد ڈاکٹر منیر احمد مبشر صاحب ہیں جو حضرت مولانا نذیر احمد مبشر صاحب کے بیٹے ہیں ).چوہدری بشیر احمد صاحب.غفوراں بی بی صاحبہ.انور بیگم صاحبہ حضرت فاطمہ بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : بیعت کے سال کی تعین نہیں ہوسکی وفات : ۱۳ را پریل ۱۹۷۲ء آپ شیخ فتح محمد صاحب فیض اللہ چک کی اہلیہ، محمد کریم صاحب آف چک E.B/۲۴۵ گگومنڈی ضلع وہاڑی کی والدہ تھیں.اور حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ فاضل امیر جماعت احمد یہ قادیان اور بابومحمد عبد اللہ صاحب کی بڑی ہمشیرہ تھیں.آپ نے مورخہ ۱۱۳ پریل ۱۹۷۲ء کو ۷ ۸ سال کی عمر میں وفات پائی.25 اولاد: زہرہ بیگم صاحبہ عائشہ بیگم صاحبہ مختاراں بیگم صاحبہ محمد کریم صاحب.ارشاد بیگم صاحبہ حضرت برکت بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸ مارچ ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۲ء حضرت برکت بی بی صاحبہ زوجہ حضرت ملک عبد الغنی صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام
تاریخ احمدیت.جلد 28 200 سال 1972ء سکنہ کنجاہ ضلع گجرات کو ۱۹۰۴ء میں اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.آپ مورخہ ۱/۲۷ پریل ۱۹۷۲ء کو قلیل عرصہ کی بیماری کے بعد وفات پا گئیں.مرحومہ صوم صلوۃ کی پابند تھیں اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں.حضرت ملک عبدالغنی صاحب کے حالات زندگی تاریخ احمدیت جلد ۲۱ صفحه ۳۲۵ تا ۳۲۸ پر شائع شده ہیں.26 اولاد: عبدالرشید کنجاہی صاحب.عبدالسمیع خان صاحب.عبدالرحمن صاحب.صادقہ صاحبہ حضرت شیخ اللہ بخش صاحب ولادت : انداز ۷۸-۱۸۷۷ء 27 بیعت : یکم فروری ۱۸۹۲ ء28 وفات : ۲۵ مئی ۱۹۷۲ء 29 آپ خان بہادر شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم گیریژن انجینئر دارالعلوم قادیان کے بھائی تھے.آپ بہت مرنجان مرنج اور مخلص صحابہ کرام میں سے تھے.آپ نے چنیوٹ میں وفات پائی.ربوہ میں دفن کئے گئے.30 حضرت قاضی ضیاء اللہ صاحب ولادت: ۱۸۹۸ء بیعت : پیدائشی احمدی وفات: یکم جون ۱۹۷۲ء31 آپ کے والد ماجد حضرت قاضی چراغدین صاحب ساکن پسر ورضلع سیالکوٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.قاضی ضیاء اللہ صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی پہلی بار زیارت اکتوبر ۱۹۰۴ء میں بمقام سیالکوٹ کی اور دستی بیعت کا شرف بھی حاصل کیا.فرمایا کرتے تھے کہ اس موقعہ پر سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس عاجز کی کمر پر دست شفقت پھیرا.آپ جے وی کا امتحان گوجرانوالہ سے پاس کر کے ڈسٹرکٹ بورڈ گوجرانوالہ میں ملازم ہو گئے اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے ماتحت احمد نگر اور کوٹ ہر اتحصیل وزیر آباد اور پنڈی بھٹیاں میں بطور مدرس کام کیا.۱۹۳۲ ء میں ڈسٹرکٹ بورڈ سے میونسپل کمیٹی حافظ آباد منتقل ہوئے اور حافظ آباد ہی سے ۱۹۵۳ء میں ہیڈ ٹیچر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے.آپ کی سروس بک میں افسران بالا کے اعلیٰ ریمارکس کے مطابق آپ سارا عرصہ ملازمت نہایت محنت، دیانت اور اخلاص سے علمی خدمات بجالاتے رہے.علاوہ ازیں دوران ملازمت جہاں جہاں رہے وہاں کے ماحول کے احمدی احباب کو منظم کر کے نماز
تاریخ احمدیت.جلد 28 201 سال 1972ء جمعہ پڑھاتے اور ان سے چندے وصول کر کے مرکز میں بھجواتے تھے.حافظ آباد میں آپ پہلے سیکرٹری اصلاح و ارشاد، جنرل سیکرٹری اور پھر پریذیڈنٹ کے عہدے پر فائز ہوئے.آپ تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدین میں سے تھے.آپ کے داماد جناب سید اعجاز احمد شاہ صاحب سابق انسپکٹر بیت المال حال مقیم جرمنی کا بیان ہے کہ:.قیام پاکستان کے موقع پر جو احمدی گھرانے حافظ آباد آئے ان کو آباد کرنے میں مرحوم نے بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.نماز تہجد با قاعدگی سے ادا کرتے تھے.باوجود پیرانہ سالی اکثر نصف شب کے بعد بستر سے اٹھ کھڑے ہوتے اور گھنٹوں نوافل، ذکر واذکار میں مشغول رہتے.اذان فجر پر مسجد جا کر نماز باجماعت پڑھتے اور نماز کے بعد سورج چڑھنے تک بلکہ بعض دفعہ کافی دیر بعد قرآن کریم کی تلاوت کے بعد گھر لوٹتے.دعاؤں کی خصوصی عادت تھی.ایک لمبی فہرست دعاؤں کی ان کو از بریا تھی چنانچہ نوافل کی آٹھ رکعتوں میں ہر رکعت وسجدہ کے لئے علیحدہ علیحدہ دعاؤں کے مضامین ترتیب دیئے ہوئے تھے.سادہ لباس پہنے کے عادی تھے.ساری عمر پگڑی پہنی.غذا سادہ تھی چنانچہ اس عادت کے طفیل ان کی صحت بفضل خدا وفات کے دن تک اچھی رہی اور معدہ اچھا رہا.سیر کی عادت تھی اور روزانہ مسجد میں قرآن کریم کی تلاوت سے فراغت پر لمبی سیر کر کے گھر آتے اکثر میری اہلیہ (سعیدہ اقبال بیگم صاحبہ ) سے فرمایا کرتے کہ بیٹی اگر مر جاؤں تو تم ( یا تمہارا خاوند ) مجھے ربوہ پہنچا دینا باقی عزیز واقارب تو غیر احمدی ہیں ان پر بھروسہ نہیں سو محترم قاضی صاحب مرحوم کی یہ خواہش بکمال تمام پوری ہوئی.بوقت وفات عاجز آزاد کشمیر کی جماعتوں کے دورہ پر تھا میری اہلیہ اور میرے برادر نسبتی قاضی امان اللہ صاحب نے بڑی ہمت و جرات سے ربوہ لے جا کر تدفین کی.جزاھم اللہ 22 اولاد آپ نے پانچ لڑکیاں اور دولڑ کے قاضی امان اللہ صاحب اور قاضی شریف احمد صاحب یادگار چھوڑے.حضرت ملک فضل الہی صاحب رئیس مجو کہ (وفات: یکم ستمبر ۱۹۷۲ء) 32 مکرم ملک فضل الہی صاحب رئیس مجو کہ مورخہ یکم ستمبر ۱۹۷۲ء کو بعمر ۹۰ سال وفات پاگئے.ان
تاریخ احمدیت.جلد 28 202 سال 1972ء کی بیعت تقریباً ۱۹۰۰ - ۱۸۹۹ء کی تھی.مگر حضور علیہ السلام کی زیارت سے مشرف نہ ہو سکے تھے.مرحوم خلافت کے ساتھ مضبوط تعلق رکھتے تھے.نیک طبیعت مخلص احمدی اور خدمت خلق کرنے والے بزرگ تھے.آپ جماعت احمدیہ مجوکہ کے صدر بھی رہے.آپ کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.ایک بیٹے ملک ظل محمد صاحب بھی لمبا عرصہ جماعت احمدیہ مجوکہ کے صدرر ہے.33 حضرت را جہ علی محمد صاحب گجرات ولادت : ۲۶ دسمبر ۱۸۸۵ء34 تحریری بیعت : ۱۹۰۵ ء 35 وفات : ۱۴ / ۱۵ ستمبر ۱۹۷۲ء36 موضع کوٹ راجگان چھمبی تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم میں پیدا ہوئے.آپ کا خاندان اس علاقہ میں نہایت معزز حیثیت سے روشناس ہے.۱۹۰۵ء میں ایک رؤیا کی بناء پر خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ ہی کے قلم سے آپ کے حالات قبول احمدیت درج ذیل کئے جاتے ہیں.فرماتے ہیں:.میں اس عَلِیمَ بِذَاتِ الصُّدُورِ خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کی جھوٹی قسم کھانا ایک بڑی لعنت ہے جو اس کے محبت کے دامن سے انسان کو دور کر دیتی ہے کہ یہ میرا بیان کسی قسم کی نفسانی خواہش یا دنیوی سود و بہبود کے محرکات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ میں سلسلہ حقہ کی ایک امانت خیال کرتے ہوئے اس کو ادا کر رہا ہوں.میرا نام علی محمد ہے.میرے والد کا نام شاہ ولی خان ہے.میں اس وقت اکسٹرا اسسٹنٹ مہتم بندو بست لاہور ہوں.میرا اصلی وطن ضلع چھمبی تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم ہے.میری قوم راجپوت جنجوعہ ہے.جو علاقہ میں اس وقت یہی ایک نہایت معزز قوم خیال کی جاتی ہے اور جو کسی وقت میں سکھوں کے عہد سے پہلے وہاں کی حکمران قوم تھی.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سب سے پہلی بار میرے کان میں احمدیت کے متعلق جو آواز پہنچی اس کی تقریب اس طرح پیدا ہوئی کہ میں جب بالکل بچہ تھا تو اپنے ماموں کے ساتھ دریا میں جہلم شہر کے قریب کشتی پر سوار تھا.غالباً اس دن سورج گرہن لگا تھا اور وہ پیشگوئی کہ مہدی کے زمانہ میں چاند گرہن اور سورج گرہن رمضان کے مہینہ میں لگیں گے پوری ہو رہی ہے کہ اس وقت میرے ماموں صاحب نے اپنے دیگر رفقاء کے ساتھ برسبیل تذکرہ ذکر کیا کہ مرزا صاحب اس واقعہ کو اپنی صداقت میں پرزور پیش کر رہے ہیں.”مرزا صاحب“ کے الفاظ
تاریخ احمدیت.جلد 28 203 سال 1972ء کے متعلق میرے حافظہ میں یہ بات موجود ہے کہ پہلی دفعہ میں نے وہاں سنی تقریباً جنوری یا فروری ۱۹۰۵ء میں مجھے کرنال سے باہر ایک گاؤں میں پیمائش کا کام سیکھنے کے لئے بھیج دیا گیا.میں وہاں اکیلا تھا ( یعنی کوئی ملنے جلنے والا اور ساتھی نہ تھا ایک رات عشاء کی نماز کے بعد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مختصر سوانح عمری جو کسی برہمو سما جی نے لکھی تھی میں پڑھ رہا تھا.جب اس واقعہ پر پہنچا کہ طائف والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سلوک کیا تو میرے دل میں سخت درد اور قلق پیدا ہوا اور زار و زار رونے لگ گیا اور میرے دل میں اس وقت جن خیالات و احساسات کا ہجوم تھا کہ آج اس زمانہ میں کروڑوں انسان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اپنے جان و مال اور ہر ایک چیز کو قربان کرنا اپنی زندگی کا مقصد یقین کرتے ہیں لیکن اپنے وقت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نور کو بھی لوگ شناخت نہ کر سکے.تو اے میرے مولا اگر مرزا صاحب تیری طرف سے ہیں تو تو مجھے ان کی شناخت سے محروم نہ رکھیو.میں ایک جاہل، بے علم اور نادان انسان ہوں.اپنی حکمت، تدبیر تحقیق سے ان کی شناخت سے بالکل قاصر ہوں.اگر مرزا صاحب بچے ہیں اور تیری طرف سے ہیں تو تو مجھے اپنے فضل و کرم سے ان کی شناخت کا نور عطا فرما اور ایسا نہ ہو کہ میں اس فضل سے محروم رہ جاؤں اور میں نہایت مضطرب حالت میں ہی روتے روتے سو گیا.خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی کا آپس میں مقابلہ ہے اور حضرت صاحب پیر صاحب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ ” پیر صاحب اس قیل و قال سے کچھ فائدہ نہیں بہتر یہ ہے کہ دواند ھے آپ انتخاب کر لیں اور دواند ھے میں انتخاب کر لیتا ہوں پھر ہم اپنے اپنے اندھوں کے لئے دعا کریں.جس کے اندھوں کو اللہ تعالیٰ نے بینائی دے دی وہی سچا ہے اور منجانب اللہ ہے.چنانچہ جو دواند ھے حضرت صاحب کے حصے میں آئے ان میں سے ایک میں ہوں.مجھے حضرت صاحب نے بازو سے پکڑ کر حضرت قبلہ مولوی صاحب ( حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل) کے حوالہ کر دیا.آپ نے ایک دوائی کھلائی جو برف کی مانند صاف و شفاف تھی اور جس کا اثر میں دو طرح پر بیان کر سکتا ہوں.یا تو وہ ایسی جیسی کہ ایک برف کی چھوٹی سی ڈلی ہو جو نہایت شدید پیاس کی حالت میں نگلی جائے اور اس وقت نگلنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اب وہ منہ میں یا حلق میں یا حلق سے نیچے اتر رہی ہے گویا جہاں جہاں سے وہ جاتی ہے وہاں ایک اثر محسوس ہوتا ہے.اس طرح وہ دوائی جہاں جہاں سے گذری میں نے اپنے اندر اس کا اثر محسوس کیا.یا یہ کہ وہ ایک ہیرے کی کنی کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 204 سال 1972ء طرح کہ جو شیشہ کے ٹکڑے پر سے کھینچی جائے تو وہ لکیر ڈال دیتی ہے ویسے ہی میں اپنے سینہ میں ایک لکیر پاتا تھا.جب صبح کو میں اٹھا تو اپنے سینہ میں ایک لکیر محسوس کرتا تھا.خواب میں اُس دوائی کے کھا چکنے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے مجھے پھر حضرت اقدس کی طرف آگے کر دیا.تب حضور نے اپنا انگوٹھا اور انگوٹھا کے ساتھ والی دو انگلیوں کو اس طرح میری آنکھوں پر رکھا کہ انگوٹھا ایک آنکھ پر تھا اور دونوں انگلیاں دوسری آنکھ پر اور پھر ان کو ایک دو دفعہ نرم سی حرکت رجعی دی.جس پر میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے بینائی حاصل ہوگئی.تب میں بہت رویا اور آخر حضرت اقدس نے کسی قدر زجرانہ رنگ میں فرمایا کہ بہت جزع فزع بھی نہیں کرنی چاہیے.انسان کا اس بات پر ایمان ہونا چاہیے کہ خدا غفور رحیم ہے اور پھر تسلی اور تشفی کے سلوک کے انداز سے فرمایا کہ یہ پلنگ ہے اس پرسو جاؤ.وہ خاصہ بڑا پلنگ تھا اور اس پر سفید براق چادر بچھی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ پلنگ حضور کی اپنی استراحت گاہ ہے چنانچہ میں خواب میں اس پلنگ پر سو جاتا ہوں.صبح جب میں اٹھا تو ایک طرف تو اس دوائی کا اثر جو خارج میں میں اس وقت محسوس کر رہا تھا اس کے پیش نظرا اپنی خواب کو سچا سمجھتا تھا لیکن دوسری طرف یہ وسوسہ ستا تا تھا کہ میرے دل میں کئی دنوں سے یہ خیال تھا کہ اگر حضرت صاحب اپنے دعوے میں سچے ہیں تو علمائے وقت نے ان کو قبول کر لیا ہوتا.تو کیا ایسا تو نہیں کہ میرے اپنے خیالات کا ہی یہ اثر ہو.جہاں تک اس وقت یاد ہے ایک دودن اس کشمکش میں گزر گئے اور میں کچھ فیصلہ نہ کر سکا.لیکن آخر کار میرے دل پر خواب کی خارجی کیفیت کا اثر زیادہ غالب پایا گیا اور میں نے بیعت کے لئے عریضہ حضرت اقدس کی خدمت میں لکھ دیا.لیکن دل میں وہ کشمکش قائم رہی بلکہ بڑھتی گئی اور اُدھر سے بیعت کی منظوری کی بھی اطلاع نہ آئی.چنانچہ جہاں تک مجھے یاد ہے پندرہ میں یوم اسی حالت میں گزر گئے مگر میں دعا کرتا رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے یقین دلی فرمائے اور سیدھی راہ دکھائے تو ایک رات پھر خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک ریل گاڑی ڈاک گاڑی کی طرح تیز جارہی ہے لیکن وہ گاڑی دو منزلہ ہے.میں ایک کھیت میں جہاں سے فصل کنک ( گندم ) کٹ چکی ہے اور کنک کے منڈھ (سنڈھا) موجود ہیں اور اس میں پوہلی ( کنڈیاری) بھی ہے کھڑا ہوں اور گاڑی کی طرف مونہہ ہے جیسا کہ دیہاتی چرواہے لڑکے کسی قدر حیرت سے جب گاڑی ان کے قریب سے گذرتی ہے ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہیں دیکھ رہا ہوں.جب گاڑی میرے قریب سے گذر رہی ہے تو مجھے پیچھے سے کسی زبر دست پنجه دار جانور نے جیسا کہ عقاب کا تخیل ہے
تاریخ احمدیت.جلد 28 205 سال 1972ء گردن سے پکڑ کر توری کی مانند جیسا کہ وہ بیل سے لٹکتی ہوتی ہے مجھے لٹکائے ہوئے گاڑی کے ساتھ متوازی پرواز کیا ہے اور ایک خانہ کے سامنے میرا چہرہ کر کے پیچھے سے آواز دی ہے ” یہی تو مسیح موعود ہے اور اس بالا خانہ میں حضرت اندر تشریف فرما ہیں.صبح جب میں بیدار ہوا تو میرے دل میں کامل سکون اور تسلی تھی میں نے اسی وقت بیعت کا عریضہ لکھ دیا جس کا جواب از قلم حضرت مولوی عبد الکریم صاحب چار پانچ یوم کے اندر آ گیا کہ بیعت منظور ہے اور یہ محض خدا وند تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نے یہ نعمت عطا فرمائی.37 حضرت راجہ صاحب ایک نہایت بلند پایہ بزرگ تھے.آپ کے مبارک نمونہ کے باعث کئی ایک معزز لوگوں نے احمدیت قبول کی.آپ پُر جوش داعی الی اللہ تھے اور اپنے ملنے والوں سے کوئی نہ کوئی پہلو نکال کر کلمہ حق پہنچا دیتے تھے.38 ۱۹۰۴ء میں قانون گو کی حیثیت سے ملازمت شروع کی لیکن محنت و قابلیت اور دیانت کی بدولت پہلے تحصیلدار اور پھر افسر مال کے عہدہ تک ترقی کی.سیدنا حضرت مصلح موعود مجلس مشاورت میں اور سلسلہ کے دیگر اہم کاموں میں آپ کو بالعموم ضرور مختلف سب کمیٹیوں کا ممبر نامزد فرماتے تھے اور آپ نے اس سلسلہ میں نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں.۱۹۴۵ ء میں آپ ریٹائر ہوئے.۴۶ - ۱۹۴۵ء میں حضور نے آپ کو ناظر بیت المال مقررفرمایا.39 آپ کو تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین میں شمولیت کا شرف بھی حاصل تھا.40 آپ کے داماد محترم مرزا منظور احمد صاحب ( ابن حضرت مرزا غلام رسول صاحب آف پشاور ) نے آپ کی وفات پر ایک نوٹ میں لکھا کہ :.اللہ تعالیٰ نے آپ کو فراست، بصیرت اور صائب الرائے ہونے کی صفت سے نوازا تھا.اسی لئے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی آپ کو ہمیشہ ہی مجلس مشاورت کے لئے بطور خاص ممبر نامزدفرماتے.آپ ریونیو اور مالی امور میں اپنے زمانہ میں اتھارٹی سمجھے جاتے تھے.حضرت اصلح الموعود نے آپ کو ۴۶ - ۱۹۴۵ء میں ناظر بیت المال مقرر فرمایا.اس خدمت کے دوران آپ نے حسن کارکردگی کی وجہ سے بارہا حضور سے خوشنودی حاصل کی.تقسیم ملک کے وقت ۱۹۴۷ء میں حفاظت قادیان کے سلسلہ میں حضور نے جو کمیٹی تشکیل فرمائی تھی اس کے آپ ممبر رہے.پاکستان میں نئے مرکز احمدیت کی تلاش اور قیام کے لئے حضور مصلح موعود نے جو کمیٹی بنائی تھی اس کے بھی آپ ممبر تھے.آپ نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 206 سال 1972ء ۱۹۰۴ء میں قانون گو ملازمت شروع کی تھی بعد میں محنت اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کر کے افسر مال کے عہدہ تک پہنچے اور یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز مسلمانوں کو محکمہ مال میں ملازمت دیا ہی نہیں کرتے تھے آپ اس وقت ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں سارے پنجاب میں نہایت قابل اور ماہر مشہور تھے.پنشن سے تین سال قبل آپ کو سیٹلمنٹ کمشنر اراضی کے عہدہ پر لاہور میں تعینات کیا گیا.ان تین سالوں میں آپ نے بندو بست اراضی کے سلسلہ میں جو کام کیا ہے اس کی وجہ سے محکمہ مال کے موجودہ افسر آج تک آپ کو احترام سے یاد کرتے ہیں.چنانچہ آپ کی حسن کارکردگی اور قابلیت کی وجہ سے حکومت نے آپ کو ” خان کے خطاب سے نوازا.۱۹۴۳ء میں محکمہ مال میں تقریباً چالیس سال ملازمت ختم کر کے فارغ ہی ہونے والے تھے کہ انڈیا گورنمنٹ نے آپ کے لئے جودھ پور ریاست میں بطور وزیر مال سفارش کر دی لہذا آپ جودھ پور ریاست میں اس حیثیت سے ۱۹۴۵ء تک کام کرتے رہے.محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آئی سی ایس اوائل ٹریننگ میں مالی امور کی تربیت کے سلسلے میں مکرم راجہ صاحب کے ساتھ ہی منسلک ہوئے تھے.میں نے ان کو ایک لمبا عرصہ نہایت قریب سے دیکھا آپ نہایت درجہ خلیق، ملنسار ، خدا تعالیٰ سے بے پناہ محبت کرنے والے اور ہر معاملہ میں اس کی خوشنودی اور رضا کو مدنظر رکھنے والے منقطع الی اللہ اور برگزیدہ انسان تھے.ہر شخص کے ساتھ اس کی عقل اور تعلیم اور نفسیات کے مطابق گفتگو کیا کرتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور احمد یہ لٹریچر پر کافی عبور حاصل تھا.آپ کے کئی رؤیا اور کشوف اپنے تمام معانی اور مطالب کے ساتھ حرف بحرف پورے ہوئے.۱۹۴۲ء میں جب آپ کو پنشن ملنے والی تھی آپ اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں جو ابھی تمام چھوٹے چھوٹے تھے مشوش ہوئے.چنانچہ آپ نے بڑے الحاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں آپ کو یہ الفاظ القا ہوئے ”میرے منعم کریمی میرے رازق حقیقی چنانچہ اس القا کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو فراوانی رزق سے خوب نوازا بلکہ میں اپنے مشاہدہ کی بناء پر تو یہ کہوں گا کہ ہر دوسرا دن پہلے دن سے زیادہ بسط اور فراوانی لے کر آتا تھا.چنانچہ اسی القا کے بعد آپ جودھ پور ریاست میں وزیر مال مقرر ہوئے اور اسی کے بعد آپ کو گورنمنٹ نے بورے والا میں سرکاری مقررہ شرح قیمت پر مربعے لینے کی اجازت دی اسی کے بعد آپ کو گجرات میں عین شہر کے وسط میں قطعات اراضی الاٹ ہوئے جن کو بیچ کر گلبرگ لاہور میں مکانات بنوائے.رازق حقیقی اور منعم کریمی کی نعماء اور حسنات صرف ان کی ذات پر ہی ختم نہیں ہوئیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 207 سال 1972ء بلکہ ان کی اولاد کو بھی غیر معمولی طور پر ان نعمتوں سے نوازا گیا.آپ کی ماشاء اللہ تقریباً ساری اولا دہی اچھے عہدوں پر فائز ہے اور آپ کی تمام بیٹیاں اچھے گھروں میں بیاہی گئی ہیں.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے جو بھی حاصل کیا وہ محض احمدیت کے ساتھ لگاؤ ، خلافت کے ساتھ وابستگی اور عقیدت اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی تعلق کی بناء پر حاصل کیا ہے اور فی الواقع یہ حرف بحرف درست اور صحیح ہے.تجدید بیعت کے بعد آپ نے خلیفہ اسیح الثالث کا فوٹو فریم کروا کے اپنے خاص کمرے میں لگوایا اور پانچوں وقت نماز فرض میں اور تہجد میں حضور کی سلامتی ، صحت اور کامیابی کے لئے دعائیں کرتے رہے“.41 اولاد راجہ غالب احمد صاحب چیئر مین ایجوکیشن بورڈ سرگودھا.راجہ منصور احمد صاحب کرنل.راجہ مبشر احمد صاحب لیفٹیننٹ کرنل.راجہ باسط احمد صاحب میجر راجہ منور احمد صاحب 12 عارفہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا منظور احمد صاحب.آصفہ بیگم صاحبہ اہلیہ لیفٹینٹ کمانڈر چوہدری محمد اسلم صاحب.منصورہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر لیفٹینٹ کرنل ضیاء الدین ملک صاحب.طاہرہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ سید حمید احمد صاحب دہلوی.آنسہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ منیر احمد صاحب 43 حضرت مستری جان محمد صاحب امرتسری آف بھڑ یار ولادت: ۱۸۸۸ء44 تحریری بیعت ۱۸۹۷ء دستی بیعت ۱۹۰۲ء45 وفات : ۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ء مولانا محمد صدیق صاحب فاضل امرتسری انچارج مبلغ جزائر فجی اور مکرم محمد لطیف صاحب ریٹائر ڈ اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ کے تایا جان تھے.آپ کو متعدد بار سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں قادیان جانے اور حضور علیہ السلام کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل ہوا.نیز اٹاری سٹیشن پر بھی جماعت بھڑ یار کے ساتھ حضور سے شرف مصافحہ اور ملاقات نصیب ہوئی.46 میاں عبدالحکیم صاحب زعیم اعلی مجلس انصار اللہ حلقہ گنج پورہ لاہور نے آپ کی وفات پر ایک نوٹ میں لکھا:.محترم میاں جان محمد صاحب نہایت ذکی اور عبادت گذار بزرگ تھے.بڑے شوق سے نماز تہجد ادا فرمایا کرتے تھے.ذکر الہی گویا آپ کی روح کی غذا تھی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت تو ۱۸۹۷ء کے بعد کی تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک ہاتھ پر بیعت کا شرف آپ کو ۱۹۰۲ء میں حاصل ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 208 سال 1972ء مرحوم بتا یا کرتے تھے کہ مجھے مسیح الزمان علیہ السلام کی زندگی میں متعدد بار حضور علیہ السلام کی زیارت کرنے اور ملاقات سے مشرف ہونے کی اللہ تعالیٰ نے سعادت عطا فرمائی تھی.آپ کی دیگر اولا د تو جلد فوت ہوگئی البتہ ایک فرزند مکرم میاں دین محمد صاحب ایم اے ایل ایل بی عمر پانے والے 66 ہوئے.47 حضرت چوہدری غلام قادر صاحب آف لنگر و ضلع جالندھر ولادت : ۱۸۸۶ ء 48 بیعت : اپریل ۱۹۰۴ ء 49 وفات : ۲۶ / ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ء50 حضرت چوہدری صاحب کا بیان ہے : ”میں ایک معزز راجپوت خاندان کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں.ہمارے گاؤں اور علاقہ میں اکثریت راجپوتوں کی تھی.میرے والد ماجد کا نام چوہدری خیر و خاں تھا جو کہ ایک صاحب علم ، صوم وصلوٰۃ کے پابند رئیس آدمی تھے.میں ابھی چھٹی جماعت ہی میں تھا کہ آپ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.میرے بڑے بھائی چوہدری محمد امیر خاں میری سر پرستی کرتے تھے.پلیگ کے ایام میں میرے بہنوئی ڈاکٹر دوست خاں مجھے اپنے پاس امرتسر لے گئے.وہاں میں نے ۱۹۰۳ء میں فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس کیا.اس وقت میری عمر ۱۹-۲۰ سال کی تھی.۱۹۰۳ء ہی کا واقعہ ہے کہ بورڈنگ ہاؤس میں جہاں میں رہا کرتا تھا ایک احمدی بورڈ رلٹر کے کریم اللہ نامی سکنہ فیض اللہ چک ضلع گورداسپور نے بیان کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آج (مورخہ ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء) جہلم جانے کے لئے امرتسر سے گذریں گے.پیشتر اس کے حضرت حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام قادیان سے واپس آکر مجھے امرتسر بورڈنگ ہاؤس میں تشریف لا کر بتلا گئے تھے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی ہے.ان کی بیعت کی وجہ سے میرے دل میں بھی اس بات کی زبردست خواہش پیدا ہوئی کہ میں کم از کم ایسے شخص کی زیارت تو کرلوں.چنانچہ ہم کئی لڑکے اکٹھے ہو کر حضور کی زیارت کے لئے امرتسر اسٹیشن پر پہنچے.امرتسر کی جماعت نے حضور کے لئے چائے وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.جب گاڑی آکر اسٹیشن پر ٹھہری تو نامعلوم کیا کشش تھی کہ ہم نے بھی درود شریف پڑھتے ہوئے اور کشاں کشاں بڑھتے ہوئے حضور سے سلام علیکم کیا اور مصافحہ کیا.حضور کے چہرہ مبارک کو دیکھا جو بہت نورانی تھا.چنانچہ جو طالب علم زیارت کے لئے گئے بعد ازاں ان میں سے کئی ایک کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.از انجملہ ایک طالب علم
تاریخ احمدیت.جلد 28 209 سال 1972ء عطر دین صاحب بھی تھے جو بعد ازاں ڈاکٹر عطر دین مشہور ہوئے اور آجکل قادیان میں درویشی کی من زندگی بسر کر رہے ہیں.میٹرک پاس کرنے کے بعد میں نے اسلامیہ کالج انجمن حمایت اسلام لاہور میں داخلہ لیا اور جب موسمی تعطیلات میں اپنے گاؤں واپس گیا تو میرے ایک چا زاد بھائی چوہدری جیوے خاں صاحب بھی احمدی ہو چکے تھے اور ارد گرد کے دیہات کر یام، سر وعہ، کاٹھ گڑھ اور بنگہ وغیرہ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں.تعطیلات کے ایام میں چوہدری جیوے خاں صاحب مذکور مجھے چوہدری غلام احمد صاحب سکنہ کر یام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں لا کر دیا کرتے تھے جن کو میں نے خوب پڑھا.چنانچہ مجھ پر احمدیت کی صداقت ظاہر ہو گئی اور میں نے اپریل ۱۹۰۴ء میں قادیان جا کر حضور کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک.ایف اے کا امتحان دینے کے بعد ۱۹۰۵ء میں قادیان شریف میں ایک مکان کرایہ پر لیا اور ایک سال لگا تار نمازوں، درسوں اور جلسوں میں شامل ہو کر حضور کی صحبت سے مستفیض ہوتا رہا.جب حضور نے رسالہ الوصیت لکھا تو خاکسار نے بھی تھوڑا عرصہ بعد ۱۵ نومبر ۱۹۰۶ء کو اپنی جائیداد غیر منقولہ کی وصیت زیر نمبر ۱۵۲ کی اور پھر اس سلسلہ میں حصہ آمد کی وصیت ۲۸ دسمبر ۱۹۳۱ء کو کی.جن ایام میں طاعون زوروں پر تھی ہمارا ایک تایا زاد بھائی چوہدری حمایت خاں طاعون میں گرفتار ہو گیا.ایک ڈاکٹر نعمت خاں نامی کو ہم نے علاج کے لئے بلا یا اس نے ملاحظہ کے بعد کہا کہ اس کے پھیپھڑے خراب ہو گئے ہیں اور یہ ہرگز بیچ نہیں سکتا.اب خواہ مرزا صاحب بھی اس کے لئے دعا کریں اس کا طاعون سے خلاصی پانا ناممکن ہے.یہ بھی کہا کہ اگر شخص طاعون کا شکار ہونے سے بچ جائے تو میں بھی احمدی ہو جاؤں گا.ڈاکٹر صاحب کے چلے جانے کے بعد پہلے تو ہم سب احمدی احباب نے مریض کی شفایابی کے لئے مل کر دعا کی اور صدقہ کیا.پھر میں نے نواں شہر جا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کے لئے تار دیا.خدا کی قدرت کہ تار دینے کی دیر تھی کہ مریض کی حالت سدھرنے لگی اور تھوڑے دنوں میں وہ بالکل تندرست ہو گیا.گویا مردہ زندہ ہو گیا.یہ نشان دیکھ کر چوہدری حمایت خاں صاحب نے تو بیعت کر لی اور مخلص احمدی بن گئے مگر ڈاکٹر صاحب اپنے قول سے پھر گئے.“ محترم چوہدری صاحب فرماتے ہیں کہ : ” میرے بڑے بھائی صاحب میری شادی کا انتظام ہمارے غیر احمدی مالدار اور صاحب جائیدا درشتہ داروں میں کرنا چاہتے تھے مگر میرا دل کسی احمدی رشتہ کی تلاش میں تھا سو اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ مخالف حالات کے باوجود میری شادی محترم بابو
تاریخ احمدیت.جلد 28 210 سال 1972ء عبدالی خان صاحب ڈپٹی پوسٹ ماسٹر سکنہ کا ٹھ گڑھ کی حقیقی ہمشیرہ اور مولوی عبدالسلام صاحب کا ٹھکراھی کی چچازاد ہمشیرہ سے ہوگئی اور اس طرح سے آئندہ نسل خدا تعالیٰ کے فضل سے محفوظ ہوگئی.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات پر جب غیر مبائعین نے انجمن اور خلافت کا فتنہ کھڑا کیا تو اللہ تعالیٰ کا سراسر فضل و احسان ہے کہ مجھے اس نے خلافت کی تائید میں کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی چنانچہ کتاب ”حیات نور میں میرا نام بھی اعلان خلافت کرنے میں غلام قادر آف لنگر وعد سیکرٹری جماعت احمد یہ لنگڑ وعہ کے نام سے درج ہے.میں نے ملکانہ تحریک شدھی میں بھی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تحریک پر تین ماہ اپنے خرچ پر تبلیغی کام سرانجام دیا اور جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو میں محکمہ سپلائی میں ملازم ہو کر بصرہ ، بغداد، نجف وغیرہ میں گیا اور وہاں پر بکثرت سلسلہ کالٹر پچر تقسیم کیا.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہے کہ اس نے مجھے ہر مالی قربانی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی.چنانچہ میں نے منارۃ اُسیح میں ۱۰۰ روپیه، مسجد فرینکفورٹ میں ۱۰۰ روپیہ تعمیر دفتر انصار اللہ میں ۱۰۰ روپیہ، حصہ جائیداد وصیت میں اب تک ۲۵۰۰ روپیہ دیا.51 66 حضرت چوہدری صاحب ۱۹۲۳ء کی دوسری سہ ماہی کے پہلے وفد شدھی میں شامل تھے اور آپ کانمبر ۱۹۷ تھا.اس وفد کے ارکان کو یہ حکم تھا کہ وہ ۲۰ جون کو آگرہ جانے کے لئے ۱۵ جون کو قادیان پہنچ جائیں.52 آپ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شمولیت کا شرف بھی حاصل تھا.آپ پر جوش داعی الی اللہ تھے.تبلیغی لٹریچر اپنی جیب میں رکھتے تھے اور غیر از جماعت دوستوں سے گفتگو کے دوران تبلیغ کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نکال لیتے تھے.53 اولاد: عبدالجبار خاں صاحب.عبدالوہاب خاں صاحب.عبدالحکیم خاں صاحب.عائشہ بیگم صاحبہ.54 حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی مجاہد انگلستان ولادت: ۹ نومبر ۱۸۸۶ ء 55 بیعت: ۱۸۹۵ ء 56 وفات : ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ ء57 آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت قاضی ضیاء الدین صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 28 211 سال 1972ء متوطن کوٹ قاضی (ضلع گوجرانوالہ) کے صاحبزادے تھے جنہیں بیعت اولی کے پہلے ہی روز سلسلہ احمدیہ سے منسلک ہونے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.حضرت اقدس نے ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۴ پر ۳۱۳ /اصحاب کبار کی فہرست میں ۲۸۱ نمبر پر آپ کا نام درج فرمایا ہے.حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب اپنے والد ماجد کے ساتھ پہلی بار مارچ ۱۹۰۰ء میں قادیان آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخلہ لے لیا.58 بعد ازاں بی اے کا امتحان علی گڑھ سے اور بی ٹی کا ٹریننگ کالج لاہور سے پاس کیا.59 مدرسہ تعلیم الاسلام میں ملک نور خان صاحب جو بعد میں شفاخانہ نور میں ڈسپنسر رہے آپ کے ہم جماعت تھے.قادیان آجانے کے بعد مدرسہ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ حضور علیہ السلام سے آٹھ سال تک فیضان پایا.مسجد مبارک میں نماز پڑھنے اور حضور علیہ السلام کے پاؤں دبانے اور حضور کے ہمراہ سیر میں جانے اور لاہور اور گورداسپور کے بعض سفروں میں ہمرکاب ہونے کا موقع ملا.آپ خطبہ الہامیہ کے دوران بھی مسجد اقصیٰ میں موجود تھے.60 سردار مصباح الدین صاحب (سابق مبلغ انگلستان) نے قادیان میں ایک عرصہ تک ذکر حبیب کی مجالس قائم کر کے بہت سے صحابہ کرام کے حالات محفوظ کئے.اس سلسلہ میں ۲۰ ۱٫ پریل ۱۹۳۱ء کی ایک مجلس میں حضرت قاضی صاحب نے بتایا.”ہم بچوں میں بھی حضور علیہ السلام کی خدمت کا بڑا شوق تھا.ایک دفعہ میں اور مرحوم ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر نے ارادہ کیا کہ ہم حضرت کو دباتے رہیں گے.چنانچہ ہم دبانے لگے اور دیر تک دباتے رہے.جب حضرت کو خیال آیا کہ بہت دیر ہوگئی ہے تو فرمایا اب تم جاؤ.ہم نے کہا کہ نہیں حضور ہم ٹھہریں گے مگر حضور علیہ السلام نے ہم کو بھیج ہی دیا.ان ایام میں حضور علیہ السلام احباب کے ساتھ دوپہر کا کھانا بیت الفکر میں اور شام کا کھانا بیت کی چھت پر تناول فرمایا کرتے تھے.مسجد مبارک چھوٹی تھی.مغرب کے بعد اس کے شاہ نشین پر حضور علیہ السلام بیٹھ جایا کرتے تھے اور وہ شاہ نشین مغرب کی سمت تھا.احباب اردگرد حلقہ کر کے بیٹھ جاتے اور حضور ایمان افروز باتیں بیان فرمایا کرتے تھے.باتیں مختلف امور کے متعلق ہوا کرتی تھیں حضرت کا معمول تھا کہ اگر کوئی خاص روک نہ ہو تو صبح سیر کے لئے تشریف لے جاتے.حضور کے اندر سے تشریف لانے سے قبل اکثر احباب حضور کے انتظار میں باہر کھڑے رہتے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 212 سال 1972ء سیر کے وقت حضور علیہ السلام کا یہ بھی دستور تھا کہ مولوی فخر الدین ملتانی کی دکان ( یہ دکان بعد میں بنائی گئی) کے قریب ٹھہر جاتے اور فرماتے کہ مولوی صاحب کو بلا و یا نواب صاحب کو بلاؤ.جب دوست آ جاتے تو پھر سیر کے لئے چلتے.شہتوت کے ایام میں اپنے باغ سے شہتوت بھی منگوا یا کرتے تھے اور اکٹھے بیٹھ کر کھایا کرتے تھے.کبھی بعض دوست سیر میں نظمیں بھی سنایا کرتے تھے.میر مہدی حسین صاحب جب پہلی دفعہ ب جب پہلی دفعہ قادیان میں آئے تو انہوں نے بھی بڑ کے راستے میں نظم پڑھ کر سنائی تھی.میں نے شیخ عبدالرحیم صاحب سے سنا تھا کہ جب وہ اسلام میں آئے اس سے قبل وہ حضرت سے کچھ دریافت کرتے.ایک سوال وہ کرتے اور دوسرا ابھی دل میں ہوتا تو حضرت دوسرے کا بھی جواب دے دیتے جس پر میں مسلمان ہو گیا.قاضی صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت ہم طالب علم سیر میں حضور کے دائیں اور بائیں اور آگے نکل جاتے تھے اور میں اکثر حضور علیہ السلام کا شملہ مبارک اپنی آنکھوں سے لگا یا کرتا تھا اور میں یہ یقین رکھتا تھا کہ اس کی برکت سے میری آنکھیں نہیں دُکھیں گی.میں اور میرے کلاس فیلو ملک نور خان بعض سفروں میں بھی حضور کے ساتھ گئے ہیں مثلاً لاہور اور گورداسپور کے سفر.حضور اپنی نسبت فرماتے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے کئے ہیں.فرماتے تھے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی فرماتے یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ کب اور کس وقت یہ وعدے پورے ہوں گے مگر یہ سنت اللہ ہے اور اسی طرح یہ بھی ہو گا.میرے معاملہ میں جلد بازی نہ کرو...طاعون کے دنوں میں حضور صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے.بہت سی گندھک وغیرہ جلائی جاتی تھی.ایک دفعہ حضور کو درد گردہ کی تکلیف ہوئی.ہم طالب علم پڑھ کر درخت کے نیچے میروڈ بہ کھیلتے تھے جب ہم کو پتہ لگا تو ہم کھیل چھوڑ کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضرت اقدس نے سب طالبعلموں کو دیکھ کر فرمایا کہ دعا کرو.61 ستمبر ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقف زندگی کی پہلی منظم تحریک فرمائی جس پر آپ نے لبیک کہا.حضرت اقدس نے اپنے قلم مبارک سے آپ کی درخواست پر لکھا:
تاریخ احمدیت.جلد 28 213 سال 1972ء خط کے مضمون سے آگہی ہوئی.امید ہے آپ کو انتظام کے وقت میں یاد کروں گا اور مناسب جگہ میں خدمت دین کے لئے بھیجوں گا.مناسب ہے اپنا نام مفتی صاحب کے رجسٹر میں درج کرا دیں.والسلام مرزا غلام احمد - 62 حضرت قاضی صاحب کی عظیم الشان خدمات کا آغاز تعلیم الاسلام ہائی سکول سے ہوا جہاں وہ پہلے سیکنڈ ہیڈ ماسٹر رہے پھر جنوری ۱۹۲۰ء سے ۱۹۲۷ء تک ہیڈ ماسٹر کے فرائض انجام دئے.احمد یہ گزٹ ۱ مئی ۱۹۲۷، صفحہ ۳.اس صفحہ پر مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کے مرکزی نمائندگان میں آپ کا نام بحیثیت ہیڈ ماسٹر ہائی سکول درج ہے ).اسی دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے انگلستان مشن کے بانی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی مدد اور مشن کی سرگرمیوں میں وسعت اور تیزی پیدا کرنے کے لئے انگلستان بھجوانے کا فیصلہ فرمایا.۲ ستمبر ۱۹۱۵ء کو اساتذہ وطلبہ مدرسہ احمدیہ نے آپ کو الوداعی ایڈریس دیا.63 ازاں بعد ۵ ستمبر کی شب کو طلبہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے آپ کے اعزاز میں الوداعی جلسہ کیا گیا جس میں متعد معلمین اور متعلمین نے انگریزی اور اردو میں اخلاص سے بھری ہوئی تقریریں کیں.آخر میں آپ کی کامیابی اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے دعائیں کی گئیں.اگلے روز 4 ستمبر کو آپ بغرض تبلیغ قادیان سے روانہ ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی مع صد با مخلصین کے مشایعت کے لئے ڈیڑھ دو میل تک تشریف لے گئے.راستہ میں حضرت خلیفہ امسیح نے قاضی صاحب سے فرمایا کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تمام روحانی بیماریوں کا علاج قرار دے کر بھیجا ہے اور اسی میں اس وقت دنیا کی جمیع امراض کی شفا ہے اس لئے ہر موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ضرور پیش کریں.بٹالہ سڑک کے موڑ پر حضرت صاحب مع احباب ٹھہر گئے اور کھڑے ہو کر ایک لمبی دعا کی.جس کے بعد حضرت صاحب نے آپ کو رخصت فرمایا.بہت سے احباب نے آپ سے مصافحہ کیا اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب ( نیز ) اور حضرت شیخ عبدالرحمن صاحب قادیانی امرتسر تک آپ کے ساتھ گئے.64 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کو ولایت جاتے وقت اپنے دست مبارک سے حسب ذیل قیمتی اور مبارک نصائح تحریر کر کے مرحمت فرمائیں :.اعوذ بالله من الشيطان الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الکریم
تاریخ احمدیت.جلد 28 214 سال 1972ء میں آپ کو اس خدا کے جو ایک اور صرف ایک ہی خدا ہے نہ جس کا بیٹا نہ جورو.سپر د کرتا ہوں وہ آپ کا حافظ ہو.ناصر ہو.نگہبان ہو.ہادی ہو.معلم ہو.رہبر ہو.اللهم آمین ثم آمین.آپ جس کام کے لئے جاتے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے بلکہ انسان کا کام ہی نہیں.خدا کا کام ہے کیونکہ دلوں پر قبضہ سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں.دلوں کی اصلاح اسی کے ہاتھ میں ہے.پس ہر وقت اس پر بھروسہ رکھیں اور کبھی نہ خیال کریں کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں.دل محبت الہی سے پُر ہو اور تکبر اور فخر پاس بھی نہ آئے.جب کسی دشمن سے مقابلہ ہو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گرادیں اور دل سے اس بات کو بالکل نکال دیں کہ آپ جواب دیں گے بلکہ اس وقت یقین کر لیں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا.اپنے سب علم کو بھلا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی یقین کر لیں کہ آپ کے ساتھ خدا ہے وہ خود آپ کو سب کچھ سکھائے گا.دعا کریں اور ایک منٹ کیلئے بھی خیال نہ کریں کہ آپ دشمن سے زیر ہو جائیں گے.بلکہ تسلی رکھیں کہ فتح آپ کی ہوگی اور پھر ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے غنا پر نظر رکھیں.خوب یاد رکھیں کہ وہ جو اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے وہ دینِ الہی کی خدمت کرتے وقت ذلیل جوا.کیا جاتا ہے اور اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا.لیکن ساتھ ہی وہ جو خدمت دین کے وقت دشمن کے رعب میں آتا ہے خدا تعالیٰ اس کی بھی مدد نہیں کرتا.نہ تو گھمنڈ ہو نہ فخر، نہ گھبراہٹ ہو نہ خوف.متواضع اور یقین سے پر دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں.پھر کوئی دشمن اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے آپ پر غالب نہ آ سکے گا.اگر کسی ایسے سوال کے متعلق بھی آپ کا مخالف آپ سے دریافت کرے گا جو آپ کو نہیں معلوم تو بھی خدا کے فرشتے آپ کی زبان پر حق جاری کریں گے اور الہام کے ذریعہ سے آپ کو علم دیا جائے گا.یہ یقینی اور سچی بات ہے اس میں ہر گز شک نہ کریں.آپ جس دشمن کے مقابلہ کے لئے جاتے ہیں وہ وہ دشمن ہے کہ تین سوسال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ سے اسلام کی لہروں نے اس سے سر ٹکرایا ہے لیکن سوائے اس کے کہ واپس دھکیلی گئیں کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اس دشمن نے اسلام کے قلعے ایک ایک کر کے فتح کر لئے ہیں.پس بہت ہوشیاری کی بات ہے لیکن مایوسی کی نہیں.کیونکہ جس
تاریخ احمدیت.جلد 28 215 سال 1972ء اسلام کو اس نے زیر کیا ہے وہ حقیقی اسلام نہ تھا بلکہ اس کا ایک مجسمہ تھا اور اس میں کیا شک ہے کہ رستم کے مجسمہ کو بھی ایک بچہ دھکیل سکتا ہے.آپ حقیقی اسلام کے حربہ سے ان پر حملہ آور ہوں وہ خود بخود بھاگنے لگے گا.یورپ اس وقت مادیات میں گھرا ہوا ہے.دنیاوی علوم کا خزانہ ہے.سائنس کا دلدادہ ہے.اسے گھمنڈ ہے کہ جو اس کا خیال ہے وہی تہذیب ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے بد تہذیبی ہے وحشت ہے.اس کے علم کو دیکھ کر لوگ اس کے اس دعوی سے ڈر جاتے ہیں اور اس کے رعب میں آجاتے ہیں حالانکہ یورپ کے علوم اس علم کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو قرآن کریم میں ہے.اس کے علوم روزانہ بدلنے والے ہیں اور قرآن کریم کی پیش کردہ صداقتیں نہ بدلنے والی صداقتیں ہیں.پس ایک مسلم جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو.ایک سیکنڈ کے لئے بھی ان کے رعب میں نہیں آسکتا اور جب وہ قرآن کریم کی عینک لگا کر ان کی تہذیب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ تہذیب در حقیقت بد تہذیبی نظر آتی ہے اور چمکنے والے موتی سیپ کی ہڈیوں سے زیادہ قیمتی ثابت نہیں ہوتے.پس اس بات کو خوب یا درکھیں اور یورپ کے علوم سے گھبرائیں نہیں.جب ان کی عظمت دل پر اثر کرنے لگے تو قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کریں.ان میں آپ کو وہ علوم ملیں گے کہ وہ اثر جاتا رہے گا.آپ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے.اس کے دعوؤں سے ڈریں نہیں کہ ان کے دعوؤں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں.یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں بلکہ اہلِ یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں.مگر یا درکھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے بشروا ولا تنفروا یعنی لوگوں کو بشارت دینا ڈرانا نہیں.ہر ایک بات نرمی سے ہونی چاہیے.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ صداقت کو چھپائیں.اگر آپ ایسا کریں تو یہ اپنے کام کو تباہ کرنے کے برابر ہو گا.حق کے اظہار سے کبھی نہ ڈریں.میرا اس سے یہ مطلب ہے کہ یورپ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے اگر عقائد صحیحہ کو مان کر کوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے لیکن بعض عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا تو یہ نہیں کہ اسے دھکا
تاریخ احمدیت.جلد 28 216 سال 1972ء دے دیں اگر وہ اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اس کمزوری کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہے تو اس سے درشتی نہ کریں، خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقاید صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں.جوحق ہوا سے لوگوں تک ضرور پہنچائیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اگر آپ حق بتائیں گے تو لوگ نہیں مانیں گے.اگر لوگ نہ مانیں تو نہ مانیں.لوگوں کو ایماندار بنانے کے لئے آپ خود بے ایمان کیوں ہوں؟ کیسا احمق ہے وہ انسان جو ایک زہر کھانے والے انسان کو بچانے کے خیال سے خود زہر کھا لے.سب سے اول انسان پر اپنے نفس کا حق ہے پس اگر لوگ صداقت کو سن کو قبول نہ کریں تو آپ نفس کے دھوکہ میں نہ آئیں کہ آؤ میں قرآن کریم کو ان کے مطلب کے مطابق بنا کر بتاؤں.ایسے مسلمانوں کا اسلام محتاج نہیں.یہ تو مسیحیت کی فتح ہوگی نہ کہ اسلام کی.جس نقطہ پر آپ کو اسلام کھڑا کرتا ہے اس سے ایک قدم آگے پیچھے نہ ہوں اور پھر دیکھیں کہ فوج در فوج لوگ آپ کے ساتھ ملیں گے.وہ شخص جو دوسرے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے حق چھوڑتا ہے دشمن بھی اصل واقعہ کی اطلاع پانے پر اس سے نفرت کرتا ہے.کھانے پینے پہنے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں بیشک خلاف دستور بات دیکھ کر لوگ گھبراتے ہیں لیکن جب ان کو حقیقت معلوم ہو اور وہ سمجھیں کہ یہ سب اتقا کی وجہ سے ہے نہ کہ غفلت کی وجہ سے تو ان کے دل میں محبت اور عزت پیدا ہو جاتی ہے.ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا جو دم گھونٹ کر مارا گیا ہوکھانا جائز نہیں.قرآن کریم منع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا.پس اسے استعمال نہ کریں.ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں تو وہ بہر حال جائز ہے.خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں آپ بسم اللہ کہہ کر اسے کھالیں.یہودی ذبح کرنے میں نہایت محتاط ہیں ان کے گوشت کو بیشک کھائیں لیکن مسیحی آجکل جھٹکا کر کے یا دم کھینچ کر مارتے ہیں اس لئے بغیر تسلی ان کا گوشت نہ کھائیں.ان کا پکا ہوا کھانا جائز ہے مچھلی کا گوشت جائز ہے.شکار کا جو بندوق سے ہو گوشت جائز ہے.کسی مسیحی کے ساتھ ایک
تاریخ احمدیت.جلد 28 217 سال 1972ء ہی برتن میں کھانا پڑے تب بھی جائز ہے.انسان نا پاک نہیں.ہاں ہر ایک ناپاک چیز سے ناپاک ہو جاتا ہے.عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے.احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتادیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب ایک یوروپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا.یہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اس میں عورتوں کی ہتک نہیں کیونکہ جس طرح مرد کے لئے عورت کو ہاتھ لگانا منع ہے اسی طرح عورت کے لئے مرد کو ہاتھ لگانا منع ہے.پس اگر ایک عورت کی ہتک ہے تو دوسرے کی بھی ہتک ہے لیکن یہ ہتک نہیں بلکہ اسلام گناہ کو دور کرنے کے لئے اس کے ذرائع کو دور کرتا ہے.یہ نفس کی چوکیاں ہیں جہاں سے اسے حملہ آور دشمن کا پتہ لگ جاتا ہے.ہمیشہ کلام نرم کریں اور بات ٹھہر ٹھہر کر کریں.جلدی سے جواب نہ دیں اور ٹالنے کی کوشش نہ کریں.اخلاص سے سمجھا ئیں اور محبت سے کلام کریں.اگر دشمن سختی بھی کرے تو نرمی سے پیش آئیں.ہر ایک انسان کی خواہ کسی مذہب کا ہو خیر خواہی کریں حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اسلام کیسا پاک مذہب ہے.جو لوگ آپ کے ذریعہ سے ہدایت پائیں (انشاء اللہ) ان کی خبر رکھیں اور جس طرح گڈریا اپنے گلہ کی پاسبانی کرتا ہے ان کی پاسبانی کریں.ان کی دینی یا دنیاوی مشکلات میں مدد کریں اور ہر ایک تکلیف میں برادرانہ محبت سے شریک ہوں.ان کے ایمان کی ترقی کے لئے دعا کریں.انگریزی زبان سیکھنے کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور چوہدری ( ظفر اللہ ) صاحب کے کہنے کے مطابق عمل کریں.وہ آپ کے امیر ہوں گے جب تک وہاں ہیں.ان کی تمام باتوں کو قبول کریں.جہاں تک اسلام آپ کو اجازت دیتا ہے.محبت سے ان کا ساتھ دیں اور ان کے راستہ میں روک نہ ثابت ہوں بلکہ ان کا ہاتھ بٹائیں.تحریر کا کام آپ کریں تا ان کی آنکھوں کو آرام ملے.آپ دونوں کی محبت کو دیکھ کر وہاں کے لوگ حیران ہوں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 218 سال 1972ء قرآن کریم اور احادیث کا کثرت سے مطالعہ کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے پوری طرح واقفیت ہو.مسیحی مذہب کا کامل مطالعہ ہو.فقہ کی بعض کتب زیر مطالعہ رہیں کہ وہ نہایت ضروری کام ہے.آخر وہاں کے لوگوں کو آپ لوگوں کو ہی مسائل بتانے پڑیں گے.جماعت احمدیہ کی وحدت اور اس کی ضرورت لوگوں پر آشکارا کریں.اسلام اور احمدیت کو جو اس زمانہ میں دو مترادف الفاظ ہیں صفائی کے ساتھ پیش کریں اور ایک مذہب کے طور پر پیش کریں اور لوگوں کے دلوں سے یہ خیال مٹائیں کہ یہ بھی ایک سوسائٹی ہے.خدا تعالیٰ کی مرضی کے مقابلہ میں اپنی مرضی کے چھوڑ دینے کی تعلیم اہل یورپ کو دیں.اب تک وہ خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض کر لینا جائز سمجھتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق مذہب کو رکھنا چاہتے ہیں.ان کو بتائیں کہ سب دنیا پر حکومت کرو مگر خدا کی حکومت کو اپنے نفس پر قبول کرو.اس بات کی پروا نہ کریں کہ کس قدر لوگ آپ کی بات مانتے ہیں بلکہ یہ خیال رکھیں کہ کیسے لوگ آپ کو مانتے ہیں.اسلامی سادگی ان لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کریں اور لفظوں سے کھینچ کر روحانیت پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں.آپ تو ایک گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہو سکتے لیکن ایک شیر پر سوار ہونے کے لئے جاتے ہیں.بہت ہیں جنہوں نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی لیکن بجائے اس کی پیٹھ پر سوار ہونے کے اس کے پیٹ میں بیٹھ گئے ہیں.آپ دعا سے کام لیں تا یہ شیر آپ کے آگے اپنی گردن جھکا دے.ہر مشکل کے وقت دعا کریں اور خط برابر لکھتے رہیں.میرا خط جائے یا نہ جائے.آپ ہر ہفتہ مفصل خط جس میں سب حال بالتفصیل ہو لکھتے رہیں.اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں.اگر کوئی بات کرنی ہو اور فوری جواب کی ضرورت ہو خط لکھ کر ڈال دیں اور خاص طور پر دعا کریں.تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا نہ پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے.خدا کی قدرتیں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے اپنے اندر تصوّف کا رنگ پیدا کریں.کم خوردن، کم گفتن کم خفتن عمدہ نسخہ ہے.تہجد ایک بڑا ہتھیار ہے یورپ کا اثر اس سے محروم رکھتا ہے کیونکہ لوگ ایک بجے سوتے اور آٹھ بجے اٹھتے ہیں.آپ عشاء کے ساتھ سو
تاریخ احمدیت.جلد 28 219 سال 1972ء جائیں تبلیغ میں حرج ہو گا لیکن یہ نقصان دوسری طرح خدا تعالیٰ پورا کر دے گا.ان کو سننے والے لوگ آپ تک کھینچے چلے آئیں گے.چھوٹے چھوٹے گاؤں میں غریبوں اور زمینداروں کو اور محنت پیشہ لوگوں کو جا کر تبلیغ کریں.یہ لوگ حق کو جلد قبول کریں گے اور جلد اپنے اندر روحانیت پیدا کریں گے کیونکہ نسبتاً بہت سادہ ہوتے ہیں اور گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں.کسی چھوٹے گاؤں میں کسی سادہ علاقہ میں لنڈن سے دور جا کر ایک دو ماہ رہیں اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے تبلیغ کریں.پھر اس کا اثر دیکھیں.یہ لوگ سختی بھی کریں گے لیکن جب سمجھیں گے خوب سمجھیں گے.ان کی سختی سے گھبرائیں نہیں.بیمار کبھی خوش ہو کر دو انہیں پیتا.ہمیشہ بڑے کام سے پہلے مجھ سے پوچھ کر کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہر ایک شر سے اور وہاں کے بداثر سے محفوظ رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق دے.زبان میں اثر پیدا کر دے.کامیابی کے ساتھ جائیں کامیابی سے رہیں اور کامیابی سے واپس آئیں.ہاں یاد رکھیں کہ اس ملک میں آزادی بہت ہے.بعض خبیث الفطرت لوگ گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف منصوبے کرتے رہتے ہیں ان کے اثر سے خود بچیں اور جہاں تک ہو سکے دوسروں کو بھی بچائیں.وآخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين چوہدری صاحب کو السلام علیکم کہہ دیں اور سب نو مسلموں کو اور سیلون کی جماعت کو بھی اور بھی جو احمدی ملے.کان اللہ معکم این ما کنتم.آمین.65 حضرت قاضی صاحب انگلستان پہنچتے ہی اپنی مخلصانہ تبلیغ ، نیم شبی دعاؤں اور پاک نمونہ سے دیوانہ وار اشاعت اسلام میں سرگرم عمل ہو گئے اور چار سال تک دعوت الی اللہ کا مقدس فریضہ نہایت کامیابی سے انجام دینے کے بعد ۲۸ نومبر ۱۹۱۹ء کو مرکز احمدیت قادیان میں تشریف لائے.اپنے عرصہ قیام میں آپ نے انگلستان کے تثلیث کدوں میں والہانہ شان سے حق کی آواز بلند کی ہلکی سوسائٹیوں ، ممتاز شخصیات اور اونچے طبقوں تک اثر ونفوذ پیدا کیا اورسعید روحوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق صداقت کا شکار کیا.اس کا کسی قدر اندازہ مندرجہ ذیل بعض مطبوعہ خطوں، رپورٹوں اور بیانوں سے بخوبی لگ سکتا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 220 سال 1972ء ا.ایڈیٹر الفضل نے تبلیغ ولایت کے زیر عنوان درج ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا.جناب قاضی صاحب کا اخلاص قابل رشک اور لائق مبارکباد ہے.جس محنت اور جانفشانی سے تبلیغ ایسا مشکل کام کرتے ہوئے انہوں نے اخراجات میں کمی کی ہے وہ انہی کا حصہ ہے.خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں انہیں بڑے بڑے انعامات کا وارث بنائے.جناب مفتی صاحب ان کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے ہر کام ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کرنے کی کوشش کی ہے.سودا بازار سے خود لانا اور وہ بھی کئی دوکانوں سے دیکھ بھال کر.خود کپڑے دھوبی کے پاس پہنچانا.آپ کھانا پکانا.اس میں کبھی تساہل ہوا تو بھوکے ہی سورہنا.خود ٹائپ کرنا وغیرہ.اس سے احباب سمجھ لیں کہ جناب قاضی صاحب کو کس قدر کام کرنا پڑتا ہوگا.یہی وجہ تھی کہ ان کی صحت خراب ہوگئی....برادرم قاضی عبد اللہ صاحب نے پارک میں لیکچر دیا.دو شخص جو وہاں اکثر سوالات کیا کرتے ہیں اسلام کے بہت قریب آ رہے ہیں.66 ۲.ایڈیٹر ” الفضل نے ۲۹ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۲ پر لنڈن کا خط“ کے زیر عنوان حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب کے خط نوشتہ ۱/۵ پریل ۱۹۱۷ کا ذکر کیا ہے جس میں حضرت قاضی صاحب نے اپنی ایک دہر یہ سے ہونے والی گفتگو کا حال بیان کیا ہے.جو کہ ہائیڈ پارک میں ہوئی اور اس کا سامعین پر بہت اچھا اثر ہوا.اس کے علاوہ ۱۲ را پریل ۱۹۱۷ ء کا خط بھی موجود ہے جس میں ایک خاتون کے سلسلہ میں شامل ہونے کی خوشخبری بھی بتائی گئی ہے.67.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے لنڈن سے ایک تبلیغی مکتوب میں تحریر فرمایا:.۲ جون ۱۹۱۷ء کو حضرت قیصر ہند جارج پنجم بمعہ ملکہ معظمہ اور ملکہ الیگزینڈرا اور دیگر ممبران شاہی خاندان ہائیڈ پارک کی سیرگاہ میں تشریف فرما ہوئے اور سپاہیوں کو جو میدان جنگ سے آئے ہوئے تھے تمغے مرحمت فرمائے.عاجز راقم اور مکرم قاضی صاحب بھی بادشاہ کو دیکھنے کے واسطے وہاں گئے.ناظمان جلسہ نے نہایت مہربانی سے ہم ہر دو کو ایک ایسی ممتاز جگہ پر کھڑا کر دیا جہاں سے بادشاہ کی سواری گذرنے والی تھی.ہم ہر دو عمامے پہنے ہوئے تھے اور عاجز تو یہاں عموماً ہر وقت عمامہ ہی رکھتا ہے.وہی سبز عمامہ جو احباب نے ہندوستان میں دیکھا.بادشاہ سلامت نے دور سے ہم کو دیکھا اور برابر ہماری طرف ہی دیکھتے اور مسکراتے رہے جب سواری قریب پہنچی تو ہم نے سلام کیا.بادشاہ سلامت نے ہمارے سلام کا جواب خندہ پیشانی سے دیا اور ملکہ الیگزینڈرا تو گاڑی کے آگے نکل
تاریخ احمدیت.جلد 28 221 سال 1972ء جانے پر بھی پیچھے پھر کر ہماری طرف دیکھتی رہیں.سواری کے گذرجانے پر تمام حاضرین ہماری طرف دوڑے اور ہمیں مبارکباد کہنے لگے کہ بادشاہ اور ملکہ نے ہماری طرف خاص توجہ کی.فالحمد للہ علیٰ ذالک.68 ۴.حضرت قاضی صاحب کا ایک مکتوب اخبار الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۱۷ء میں لنڈن سے خوشخبری کے عنوان سے شائع ہوا جس میں ایک معز ز لیڈی مسز کریز کا ذکر ہے جس نے آپ کے ساتھ گفتگو کرنے کے بعد تصدیق نبوت رسول پاک محمد سلی یتیم کی تحریر آپ کو دی.69 ۵ - الفضل ۲۰ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ اپر حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک چٹھی درج ہے جس میں آپ نے حضرت قاضی صاحب کے ایک لیکچر ۱۶ ستمبر ۱۹۱۷ء کا تذکرہ کیا ہے.اس چٹھی میں ایک بیلجین نوجوان مسٹر موریٹ اسلمین (اسلامی نام عبداللہ ) اور مسٹر جیکسن کے مشرف بااسلام ہونے اور حضور صلی اہم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کرنے کا ذکر ہے.مسٹر جیکسن نے اپنے لئے اسلامی نام سعدی احمد پسند کیا.70 - اخبار الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۱۷ ء صفحہ ۱۲ کالم ۲ میں حضرت قاضی صاحب کی تبلیغی مساعی کا احوال درج ہے.آپ کے ذریعہ ایک انگلش لیڈی مرے پرابستین نے نبوت حضرت سید الرسل محمد مصطفی سال شما پیام وصداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا کر بطیب خاطر تحریر آپ کو دی.ے.ایک معز ز غیر احمدی عبدالرحمن ( مقیم نمبر ۱۳ لور بل فور کیٹ مل لنڈن ) کا حسب ذیل مکتوب اخبار مشرق میں شائع ہوا جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت قاضی صاحب کی عظیم الشان دینی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا.”جناب ایڈیٹر صاحب مشرق گورکھپور.تسلیم.ایک اخبار میں شیخ مشیر حسین صاحب قدوائی کا مضمون لندن میں تبلیغ اسلام کے بارے میں دیکھ کر مجھے بہت ہی تعجب ہوا کہ وہ مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی پرزور مخالفت اس وجہ سے کرتے ہیں کہ یہ صاحبان احمدی ہیں اور پھر ساتھ ہی خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں کی تعریف کرتے ہیں کہ جناب مرزا صاحب نے ان کے اندر اسلامی محبت کا جوش ڈال دیا ہے.ممکن ہے کہ قدوائی صاحب بہ سبب اس کے کہ وہ دو کنگ میں قیام پذیر ہیں اور ہم طعام ہیں خواجہ صاحب کی خاص تعریف کے واسطے معذور ہوں ورنہ کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کہ مفتی صاحب اور قاضی صاحب جو اپنے وطن کو چھوڑ کر اور بالمقابل خواجہ صاحب محض
تاریخ احمدیت.جلد 28 222 سال 1972ء غریبانہ زندگی بسر کر کے تبلیغ اسلام کر رہے ہیں اور باوجود خطرات کے خاص لندن میں قیام پذیر ہیں.ان کی صرف اس وجہ سے مخالفت کی جائے کہ وہ احمدی ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا خواجہ صاحب احمدی نہیں.کیا ان کا خاص کارکن جو پہلے ایک معمولی یہودی تھا مرزا صاحب کو نہیں مانتا ؟ یا ان کا خاص رفیق خانساماں احمدی نہیں ؟ کیا یہاں کے نو مسلم یہ سن کر کہ خواجہ صاحب احمدی ہیں احمدیت سے محبت کرنے والے نہیں بن جاتے.کیا وہ کنگ میں سب سے زیادہ جو کتاب نومسلموں کو دی جاتی ہے وہ مرزا صاحب کی تصنیف ٹیچنگ آف اسلام نہیں.اور پھر کیا خود خواجہ صاحب نے کئی نومسلموں کے سامنے مرزا صاحب کے مسیح موعود ہونے کا اقرار نہیں کیا.میں احمدی جماعت میں داخل نہیں.دوکنگ کے حالات مدت سے دیکھ رہا ہوں.میں از روئے انصاف یہ کہتا ہوں کہ مفتی صاحب اور قاضی صاحب بہت جوش کے ساتھ خدمت اسلام کر رہے ہیں کیا ان کے ہاتھ پر مسلمان ہونے والے کلمہ نہیں پڑھتے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف کے قائل نہیں ہو جاتے ؟ بات تو اصل میں یہ ہے کہ خواجہ صاحب ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی اور بھی کام کرنے والا ہو.قاری سرفراز حسین صاحب کو ہر حیلے بہانے سے انہوں نے یہاں سے رخصت کر دیا.جب کبھی ہندوستان سے کسی مشنری کے آنے کی تجویز ہوئی خواجہ صاحب نے کچھ ایسے شرائط ضرور لگا دیئے کہ وہ نہ آئے اور نہ آسکے.وہ چاہتے ہیں کہ صرف انہی کی شہرت ہو.مفتی صاحب اور قاضی صاحب کچھ مدد نہیں چاہتے اور لوگوں کو مسلمان کر رہے ہیں.ان کی دلداری چاہیے اور رپورٹوں کو خوشی سے چھاپا جائے.باقی اگر وہ احمدی ہیں اور احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں تو اسلام سے کچھ الگ ہو کر نہیں کرتے.ان کے نزدیک جو بات افضل ہے ضروری ہے کہ اپنے دین و ایمان کے مطابق وہ اس کا اظہار کریں.خود ووکنگ کے مسلم ریویو میں اکثر مضامین جناب مرزا صاحب کی کتابوں سے نقل ہوتے ہیں اور آخر پڑھنے والے کو ایک دن معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مضمون مرزا صاحب کا ہے.قاضی صاحب اور مفتی صاحب کسی مسلمان کو یہاں آنے اور تبلیغ کرنے سے روکتے نہیں.ہاں خواجہ صاحب ایسی باتیں لکھا کرتے ہیں کہ ۴۰ سے کم عمر کا کوئی نہ آئے.کوئی ایسا شخص نہ آئے جو انگریزی اور عربی ہر دوزبانوں کا ماہر نہ ہو.یہ صرف اس واسطے ہے کہ نہ ایسا شخص ہوگا اور نہ کوئی آئے گا.حالانکہ خواجہ صاحب ان دونوں زبانوں کے ماہر نہیں مگر جس کو خواجہ صاحب اپنی ڈھب کا اور اپنا راز دار پاتے ہیں اس کو بغیر کسی شرط کے بلا لیتے یا ساتھ لے آتے ہیں.غرض میں نے سچائی کے ساتھ اس امر کا اظہار کر دیا ہے کہ مسلمانوں کو سچ سچ حال معلوم ہو جائے.71
تاریخ احمدیت.جلد 28 223 سال 1972ء.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی مطبوعہ رپورٹ الفضل ۲۱ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۶ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک نوجوان لیڈی مس ہاروے نام نے حضرت قاضی صاحب کی تبلیغ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق کی.۹.عبدائمی عرب صاحب مولوی فاضل نے مسلم مشن نمبر ۴ اسٹار اسٹریٹ لنڈن ڈبلیو ۲ سے ۳۱ / اگست ۱۹۱۸ء کو ایک رپورٹ ارسال کی جس میں حضرت مفتی صاحب اور حضرت قاضی صاحب کی تبلیغی مساعی کی ایک جھلک پیش کی گئی ہے.اور لکھا ہے کہ ان کی تبلیغ سے ۵ مرداور عورتیں مشرف با اسلام ہوئیں جن کے انگریزی نام یہ ہیں.مس روچ.مسٹر کالڈر.مسٹر بیٹی.مس مائز.مس را تہہ بورن.مس داس ہو.مسٹر ڈے.مسٹر میر نگل.مسزا بڈال.مسٹر نکلسن.مس را برٹسن.ہفر نیش.ان کے اسلامی نام یہ رکھے گئے.حبیبہ، عبد الغنی، عبدالحمید ، زینب، مریم ، عزیزه ، دین محمد، عبدالکریم، زینب، محمد اسماعیل، میمونہ اور صدیقہ.ان کے علاوہ کے احباب نے آنحضرت صل السلام کے منجانب اللہ نبی ہونے کی تحریری تصدیق کی.جن کے نام درج ذیل ہیں.مس ڈی واکر.مس حنفہ واکر.مسٹر سٹیڈ من.مسٹر بکس.مسٹر ٹیلنس.میں جلڈھرسٹ.مسٹر کونس.72 ۱۰.اخبار الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۱۸ء میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں حضرت مفتی صاحب اور حضرت قاضی صاحب کے ذریعہ دو معزز لیڈیوں بنام میں جونز و مس ڈی جونز جو ایک عرصہ سے لیکچروں میں شامل ہوتی تھیں، کے مشرف بااسلام ہونے کا ذکر موجود ہے.ان کے اسلامی نام لیلیٰ اور فریدہ رکھے گئے.اسی طرح ایک معزز لیڈی موولیگ نے آنحضرت صلی یا اسلام کے منجانب اللہ نبی ہونے کی تحریری تصدیق کی.اسی رپورٹ میں ایک معزز لیڈی مس پستن کے مشرف بااسلام ہونے کا ذکر ہے ان کا اسلامی نام حسینہ رکھا گیا.73 ا.اخبار الفضل نے ولایت میں تبلیغ کے زیر عنوان لکھا:.مکرمی قاضی عبداللہ صاحب بی.اے اپنے تازہ خط میں تحریر فرماتے ہیں.”نیو کاسل والا لیکچر جو ۱۴ جولائی کو تھا ، خصوصیت سے نہایت کامیاب ہوا.ایک لیڈی نے اسلام قبول کیا.آمنہ نام رکھا گیا اور تین جنٹلمیوں نے تصدیق فارم پر دستخط ثبت کر دیئے.اس کے بعد ساؤتھ شیلڈ.نارتھ شیلڈ.ہیگس وڈین میں بھی لیکچر ہوئے.اوّل الذکر مقام میں تین ہندی اور ایک عرب سلسلہ حقہ میں داخل ہوئے اور ایک لیڈی نے اعلانِ اسلام کیا.الحمد للہ 74
تاریخ احمدیت.جلد 28 224 سال 1972ء ۱۲.حضرت قاضی صاحب نے ایک انگریز دوست کے مدعو کر نے پر لنڈن کے سٹی ٹمپل کے ایک لیکچر ہال میں جہاں لیگ آف ریلیجنس (اتحاد مذاہب) کے قائم ہونے کے بارہ میں کانفرنس ہو رہی تھی ، ایک تقریر کی جس میں اس امر کو پیش کیا گیا کہ ہر مذہب اپنی اپنی خوبیوں کو پیش کرے.اور دوسروں کے بانیوں اور بزرگوں پر دل آزار حملے نہ کرے.اسی سے باہمی اتفاق پیدا ہوسکتا ہے اور اس کا آخری نتیجہ اسلام کی فتح ہے.75 ۱۳.حضرت قاضی صاحب نے وسط 1919 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں حسب ۱۹۱۹ء ذیل مکتوب لکھا :.”میرے پیارے آقا حضرت خلیفہ المسیح السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مطبوعہ رسالہ حقیقۃ الرؤیا جس میں حضور کی تقاریر ۱۹۱۷ ء کے سالانہ جلسہ کی ہیں گو بہت دیر سے موصول ہوا مگر پڑھنے سے دل شاداب ہو گیا.لفظ لفظ تازگی بخش تھا.روح کو نہایت اعلیٰ روحانی غذا ملی.سینہ نور سے بھر گیا اور ایک خاص طاقت اور سرور نے مزید قربانی کے واسطے تیار کیا.اس وقت میرے سامنے کوئی مشکل سے مشکل امرایسا نہیں جو مجھے اس محبت کی راہ میں ڈالنے سے سد راہ ہو.حضور کے معارف نے مجھ پر بجلی کا سا اثر کیا.حال ہی میں ایک زبر دست نشان حضور کی قبولیت دعا کا ظاہر ہوا ہے برادر...نومسلم احمدی کی رہائی کے بظا ہر کوئی آثار نہیں تھے.اس کے مقابلہ میں بعض اور ہندوستانیوں کی رہائی کی بزبان گورنر جیل زیادہ امید ہو سکتی تھی اور گورنر خصوصیت سے...کی رہائی کی کسی صورت سفارش نہیں کر سکتا تھا.ہوم سیکرٹری صاحب سے بھی بار بار درخواستیں ہوئیں جو ہمیشہ نامنظور ہوئیں مگر بایں ہمہ محض خدا کے فضل سے جس کی جاذب حضور کی دعائیں ہوئیں ایسے سامان معجزہ کے طور پر پیدا ہو گئے کہ نومسلم موصوف تو رہائی پا گیا مگر دوسرے جن کی زیادہ امید ہو سکتی تھی ابھی تک جیل کی چاردیواری کے اندر ہیں.ایک چھوٹا سا ٹریکٹ فی الحال دس ہزار کی تعداد میں چھپنے کے واسطے بھیج دیا ہے.اس موسم میں بتوفیقہ تعالیٰ پھر کر تبلیغ کرنے کا ارادہ کر رہا ہوں.رات کو استخارہ کیا تھا.اٹھنے سے قبل ناگاہ یہ الفاظ زبان پر ہلکے رنگ میں جاری ہوئے.وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلَّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ خاکسار حضور کے واسطے دعا کرتا ہے اور نہایت الحاح سے التجا کرتا ہے کہ حضور میرے لئے دعا کریں.والسلام حضور کا غلام.خاکسار قاضی عبداللہ عفی عنہ 76
تاریخ احمدیت.جلد 28 225 سال 1972ء ۱۴.حضرت قاضی صاحب کی تبلیغی مساعی سے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں ایک فاضل یہودی الاصل انگریز مسٹر فیتھ نے اسلام قبول کیا.جس نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں ایک مفصل مکتوب لکھا جس کا اردو ترجمہ ہدیہ قارئین کیا جا تا ہے (ان کا اسلامی نام حمد سلیمان فیتھ رکھا گیا) بحضور حضرت خلیفۃ ا ح و بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت اقدس.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میں نہایت خوشی کے ساتھ حضور کو اطلاع دیتا ہوں کہ عرصہ تین برس کا ہوتا ہے جب میں برادرم قاضی عبداللہ صاحب سے پہلے بل ہائڈ پارک لنڈن میں ملا تھا.گو میں بطور ایک یہودی طالب حق کے لئے ہمیشہ راستی کا متلاشی رہا ہوں مگر مسیح آخر زمان کی صداقت کا انکشاف اس وقت مجھے پر نہ ہو سکا.میں جنگ میں والنٹیئر ہوکر چلا گیا اور پھر بیمار ہوکر واپس گھر آ گیا.واپسی کے بعد متواتر برادران مفتی محمد صادق اور قاضی عبد اللہ صاحب کے ساتھ خط و کتابت اور میل و ملاقات کا سلسلہ جاری رہا.آخرش میں نے حال ہی میں ایک رؤیا دیکھی کہ میں ایک چٹان پر کھڑا ہوں اور ایک پاک صورت انسان مشرقی لباس میں اپنا ہاتھ دوسری چٹان پر سے میری طرف پھیلا کر مجھے ایک رسی پکڑنے کا اشارہ کر رہا ہے اور اس وقت قریب تھا کہ میں غرق ہو جاؤں.اس رؤیا کے بعد سے میرا کھانا اور سونا موقوف رہا.میں نے بائبل کے صفحات کی تلاش کی کہ کوئی صداقت میرے اطمینان کے لئے مل جاوے مگر تمام ورق گردانی بے سود ثابت ہوئی.۱۷ ستمبر ۴ سٹارسٹریٹ پہنچا اور برادران عبداللہ و (مولاناعبدالرحیم ) نیر سے ملا.ہم نے اکٹھے چائے پی اور قرآن مجید کی خوبیوں پر گفتگو ہوتی رہی.دورانِ گفتگو میں میں نے اپنی رؤیا سنائی اور ( عبد اللہ و نیر ) نے قرآن پاک سے مجھے میری مطلوبہ آیت دکھائی.پھر مجھے مقدس حضرت محمود کا فوٹو دکھایا گیا.اس فوٹو کو دیکھ کر میں نے پہچان لیا کہ یہ وہی مقدس وجود ہے جو رویا میں مجھ سے مخاطب ہوا تھا.فرق صرف یہ تھا کہ عالم رؤیا میں آپ کا لباس سفید تھا.ان واقعات کے بعد ایک پاک تحریک میرے اندر ہوئی اور ایک آواز نے مجھے کہا کہ موت آنے سے قبل اس سچائی کو قبول کر لو“.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے خدا کی رسی ( حبل اللہ ) کو پکڑ لیا ہے اور صداقت کو قبول کر لیا ہے.میں نے خداوند واحد سے جو کہ تمام کون و مکان کا ابدالآباد سے اللہ ہے دعا کی ہے کہ وہ میرے گناہ بخشے.77 حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب چار سال تک انگلستان میں اسلام کا نور پھیلانے اور کئی سعید
تاریخ احمدیت.جلد 28 226 سال 1972ء الفطرت قلوب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا والا و شیدا بنانے کے بعد ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو انگلستان سے روانہ ہوئے.آپ پیڈنگٹن ریلوے اسٹیشن سے سوار ہو کر لور پول گئے اور اسی روز جہازسٹی آف کراچی نام پر سوار ہو کر عازم ہند ہوئے.جس کی خبر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ انگلستان کے قلم سے الفضل ۱۱ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۲ پر شائع ہوئی.حضرت قاضی صاحب ۲۸ نومبر ۱۹۱۹ء کو انگلستان سے قادیان پہنچ گئے جس کی خبر دیتے ہوئے اخبار الفضل نے لکھا کہ ۲۸ نومبر ۱۹۱۹ء بروز جمعہ جناب قاضی عبداللہ صاحب بی اے بی ٹی مبلغ اسلام ولایت سے بخیر و عافیت قادیان دارالامان پہنچ گئے ہیں.چونکہ جناب قاضی صاحب کی ولایت سے روانگی کے متعلق کوئی پختہ اطلاع نہیں مل سکی تھی اور نہ ہی بمبئی آ کر انہوں نے جو تار حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو دیا وہ پہنچا اس لئے ان کی آمد بالکل اچانک تھی اور اس کا علم اس وقت ہوا جبکہ جناب قاضی صاحب نے مسجد اقصیٰ میں آکر بآواز بلند مجمع کو السلام علیکم کہا.نماز جمعہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی مسجد میں دیر تک جناب قاضی صاحب سے گفتگو فرماتے رہے.اس خوشی کے موقع پر ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ میں دودن کی تعطیل کی گئی.78 حضرت قاضی صاحب نے ۳۰ نومبر ۱۹۱۹ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں اپنے لندن مشن کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.میں اواخر ۱۹۱۵ء میں یہاں سے روانہ ہوا.وہ زمانہ جنگ کا تھا.بمبئی سے سوار ہونے میں دقتیں تھیں اس لئے میں کولمبو کی راہ سے گیا.اگر چہ جرمنوں نے اس وقت یہ اعلان تو نہیں کیا تھا کہ ہمیں جو جہاز ملے گا اس کو ضرور غرق کر دیں گے مگر ان کی سب میرینز پھیلی ہوئی تھیں اس لئے جہاز راستہ میں چکر کھاتا ہوا جاتا تھا.رات کو تمام روشنیاں گل کر دی جاتی تھیں کہ کہیں دشمن اچانک حملہ نہ کر دے اور ہر ایک شخص کے پاس ایک ایک لائف بیلٹ ہوتا تھا جو سوتے وقت بھی پاس ہی رہتا تھا.جہاز غالباً دو ہفتہ کی مسافت کے بعد مارسیلز میں پہنچا اور و ہاں جنگی قانون سے پالا پڑا.ان دنوں چونکہ جناب چوہدری فتح محمد صاحب کی آنکھیں دکھتی تھیں اس لئے وہ لنڈن سے ۱۲ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ رہتے تھے.مجھے بھی وہاں ہی رہنا پڑا.ہمارا قیام ایک گھر میں تھا.اس وقت ہماری تبلیغ بالکل پرائیویٹ حیثیت کی تھی.وہاں جانے کے چار مہینہ بعد برائٹن میں میرا ایک لیکچر ہوا اور محض خدا کے فضل سے نہایت کامیاب ہوا.کچھ دنوں بعد چوہدری صاحب تو واپس آگئے
تاریخ احمدیت.جلد 28 227 سال 1972ء اور میں اکیلا رہ گیا.میں نے مکان تبدیل کر لیا لیکن جس مکان میں میں گیا اس کی لینڈ لیڈی سخت متعصب نکلی اور وہاں رہنے سے مجھے یہ نقصان ہوا کہ جو کوئی ملنے کے لئے آتا اسے کہتی کہ یہ اینٹی کرائسٹ (دجال) ہے.میں نے اس کو سمجھایا کہ دجال ہم نہیں دجال تو وہ ہیں جن میں دجال کی صفات پائی جاتی ہیں.اس کے بعد میں نے مناسب خیال کیا کہ لنڈن کو اپنا ہیڈ کوارٹر بناؤں.چنانچہ اب میں نے برٹش میوزیم کے پاس رسل سٹریٹ میں ایک مکان لیا.وہیں مسٹر کور یو بھی رہتے تھے جو چوہدری صاحب کے ذریعہ مسلمان ہوئے تھے.وہ ایک قابل شخص ہیں.ان کا کام یہ ہے کہ انگریزی اخباروں کے تراجم اٹلی میں پہنچاتے ہیں اور اٹلی کے اخباروں کے تراجم انگریزی اخباروں میں دیتے ہیں.ان سے مل کر کام شروع کیا.اس طرح میں نے اس جگہ ایک مرکز قائم کر لیا اور مکان پر موٹالکھ کر لگا دیا گیا ”احمدیہ موومنٹ اس کو دیکھ کر بہت لوگ آتے تھے.بعض اخبارات کے قائمقام بھی آتے تھے.بعض تو وہی باتیں شائع کرتے جو ہم انہیں بتاتے اور بعض ہنسی بھی کرتے لیکن ان کی ہنسی بھی ہمارے لئے مفید ہوتی تھی.اس وقت میرا کام یہ تھا کہ خط و کتابت کے ذریعہ تبلیغ کرتا تھا اور جولوگ پہلے مسلمان ہو چکے تھے ان کی تعلیم و تربیت کرتا تھا.وہاں ایک بڑا ذریعہ مشنری کے اشتہار کا یہ ہے کہ وہاں کا پورا لباس اختیار نہ کرے بلکہ ان سے کچھ امتیاز رکھے کیونکہ اگر بالکل ان جیسا ہی لباس پہن لے تو پھر ان کے لئے کوئی توجہ کرنے کی وجہ نہیں ہوتی.میں وہاں پگڑی رکھتا تھا.لیکچروں اور ملاقات کے وقت پگڑی ہی ہوتی تھی البتہ جب کسی دکان میں کچھ خریدنے کے لئے جاتا تو اس وقت ٹوپی پہن لیتا تھا کیونکہ اگر پگڑی رکھے ہوئے دکان میں جائیں تو وہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی راجہ یا مہاراجہ ہے جو اپنے طرز کو نباہ رہا ہے اور اس پر مطلق ہمارے لباس وغیرہ کا اثر نہیں ہوا.اس غلط فہمی میں اندیشہ ہوتا تھا کہ شائد وہ اشیاء کی قیمت معمول سے زیادہ نہ وصول کر لیں.پس میرا یہ طریق تھا که خرید و فروخت کے وقت ٹوپی اور باقی وقتوں میں پگڑی رکھتا تھا.وہاں جو کچھ کام ہوتا تھا اس کی میں با قاعدہ رپورٹ حضرت خلیفہ اسیح کے حضور بھیجتا رہتا تھا.مگر جب ۱۹۱۷ ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب پہنچ گئے تو پھر حالت ہی بدل گئی.کام بڑے پیمانے پر شروع ہو گیا اور خدا کے فضل سے دن بدن کامیابی ہونے لگی اور ہندوستان کے اخبارات میں ہماری رپورٹیں با قاعدہ شائع ہونے لگیں.اب خدا کے فضل سے ہمارا ذاتی مکان وہاں ہو گیا ہے.مکان کے باہر موٹا لکھا ہوا ہے ”المسجد اور پھر لکھا ہے اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ.پھر اس کے نیچے لکھا ہے اشهد ان لا اله
تاریخ احمدیت.جلد 28 228 سال 1972ء الا الله واشهد ان محمدا عبدہ و رسولہ.یہ بھی ہمارے اشتہار کا ذریعہ ہے.بہت سے لوگ ملاقات کے لئے آتے ہیں.کچھ ان میں سے ہدایت پاتے ہیں اور کچھ قریب ہو جاتے ہیں اور کچھ جیسے آتے ہیں ویسے کے ویسے ہی واپس چلے جاتے ہیں.جب میں یہاں تھا تو میرا خیال تھا کہ یہ بات کیسے ہو سکتی ہے کہ جب ہمارے پاس حق ہے اور ہم اسے مدلل طور پر پیش کریں گے تو اس کو لوگ رڈ کردیں گے لیکن وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اللہ جس کو چاہتا ہے اسی کو ہدایت ہوتی ہے.اب ماسٹر عبدالرحیم صاحب اور چوہدری صاحب پہنچ گئے ہیں.کام ہو رہا ہے.یہ خدا کا فضل ہے.اب ضرورت ہے بڑے مضبوط فنڈ کی.مرکز قائم ہو چکا ہے.اب کام کو زیادہ پھیلانے کی ضرورت ہے.حضرت خلیفہ اسیح کا منشاء ہے کہ بہت سے احباب وہاں جائیں جو اپنا گزارہ آپ کریں اور مرکز سے تعلق رکھیں.امید ہے کہ خدا تعالی بڑے بڑے نتائج پیدا کرے گا.79 مارچ ۱۹۲۳ء میں حضرت مصلح موعود نے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اس سلسلہ میں حضرت قاضی صاحب کو نائب امیر وفد مجاہدین کی حیثیت سے اچھنیر ہ (ضلع آگرہ )80 اور و تیرہ (ضلع متھرا ) 11 میں تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق ملی تحصیل ماٹ کے ایک گاؤں میں ایک برہمن 81 خاتون رام پیاری نے آپ کے ذریعہ اسلام قبول کیا 82 جس کا اسلامی نام رحمت بی بی رکھا گیا.آپ کی مجاہدانہ زندگی کا ایک ناقابل فراموش واقعہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم امیر المجاہدین حلقه فرخ آباد کے قلم سے ملاحظہ ہو.فرماتے ہیں:.اگر چہ آریوں نے ظلم وستم سے تمام گاؤں کو شدھ کر لیا مگر پھر بھی اسلام کے پودے کو جڑ سے نہ کاٹ سکے کیونکہ ایک ستر سالہ بڑھیا بڑے استقلال سے اسلام پر قائم رہی اور آریوں کے ہزار ظلموں پر بھی اس نے اپنا پاؤں نہ ڈگمگایا.اس کے بیٹوں نے آریوں کے دھمکانے سے اس بڑھیا کو بہت کہا کہ شدھ ہو جاؤ تمام آریہ اور ریاست کے حاکم کہہ رہے ہیں.جب یہ نیک بخت عورت نہ مانی تو بہت سے دکھ دیئے اپنے گھر سے نکال دیا.روٹی دینا بند کر دی مگر بڑھیا یہی کہتی گئی کہ بیٹا میں اسلام کو نہیں چھوڑ سکتی چاہے گردن کٹ جائے سبحان اللہ ایمان ہو تو ایسا.اس بڑھیا کو احمدی مجاہدین سے بہت محبت تھی.اپنے بچوں سے زیادہ الفت کرتی تھی اور بہت ہمدرد تھی.چونکہ اس کے بیٹوں نے اسے روک رکھا تھا اس لئے اکثر رات کو چھپ کر مبلغین کے پاس آتی اور اپنا دکھ درد سناتی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 229 سال 1972ء ایک بار اس کی فصل پک کر تیار ہوگئی مگر چونکہ سب نے بائیکاٹ کر رکھا تھا اس لئے فصل کاٹنے کو کوئی آدمی نہ ملتا تھا.اس وقت احمدی مجاہدین نے پورا پورا مجاہدہ کیا ہاتھوں میں درانتیاں پکڑ کر بڑھیا کی فصل کاٹنا شروع کی اور ساری کاٹ دی.فصل کاٹنے والوں میں سے ایک نہایت معززشخص قاضی عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی بھی تھے.“.83 ۱۹۲۲ء میں مجلس مشاورت کا آغاز ہوا.آپ ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جو اس پہلی تاریخی مشاورت میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے.84 ۱۳ تا ۱۶ ستمبر ۱۹۲۶ء کے دوران آپ نے قائمقام ناظر امور عامہ و خارجہ کے فرائض سرانجام دیئے.85 نومبر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز ہوا اور آپ نے اس کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شرکت کی سعادت حاصل کی.فروری ۱۹۳۶ء میں آپ دفتر کشمیر ریلیف فنڈ کے انچارج مقرر ہوئے.۱۹۴۴86ء ۱۹۴۵ء اور ۱۹۴۶ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے انتظامات آپ ہی کی نگرانی میں ہوئے کیونکہ آپ ہی ناظر ضیافت تھے.87 ۲۹ اگست ۱۹۴۷ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے جن ۳۱ بزرگوں کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی ان میں آپ بھی شامل تھے.88 ہجرت قادیان ۱۹۴۷ء کے بعد آپ کچھ عرصہ لاہور میں قیام فرمار ہے اور پھر مستقل طور پر ربوہ میں رہائش اختیار کر لی اور اپریل ۱۹۵۱ ء تک ناظر ضیافت کے فرائض انجام دیتے رہے.89 ۱۳ کتوبر ۱۹۴۹ء کو حضرت مصلح موعود نے اپنے دست مبارک سے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیا درکھا.اس مبارک تقریب میں آپ کو بھی شمولیت کا موقع ملا.90 ۲۹ اگست ۱۹۵۵ ء سے لے کر ۱/۳۰ پریل ۱۹۵۶ ء تک آپ نے قائمقام افسر لنگر خانہ کے فرائض سرانجام دیئے.91 حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب نے ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ء کو انتقال فرما یا.اگلے روز سید نا حضرت خليفة أسبح الثالث نے سوا پانچ بجے شام مقبرہ بہشتی ربوہ کے وسیع میدان میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.تابوت کو کندھا دیا اور اسے لحد میں اتارنے میں حصہ لیا اور آپ صحابہ کرام کے قطعہ خاص
تاریخ احمدیت.جلد 28 230 سال 1972ء میں سپردخاک کر دیئے گئے.حضرت خلیفتہ امسیح نے تدفین مکمل ہونے پر دعا کرائی.اس طرح وہ آخری تاریخی وجود بھی ہمیشہ کے لئے نظروں سے اوجھل ہو گیا جسے ۳۱۳ کے ممتاز اصحاب میں شامل ہونے کا خصوصی فخر و امتیاز حاصل تھا.92 تالیفات ا.کشمیر میں ہم کیا کر رہے ہیں؟ ( پمفلٹ ) ۲.جلسہ سالانہ قادیان کے نظام کا ڈھانچہ.93 اولاد : امتہ الوہاب صاحبہ اہلیہ عبد اللطیف خان صاحب اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح ربوہ.( زوجہ اولی سیدہ کلثوم بانو صاحبہ کے بطن سے ) نوٹ.آپ کی دوسری شادی ۱۹۲۷ء میں ڈاکٹر عطاء محمد خاں صاحب آف دسوہہ کی صاحبزادی امۃ الرشید بیگم صاحبہ سے ہوئی.جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.94 حضرت میاں سعد محمد صاحب تاریخ ولادت : ۱۸۸۴ء بیعت : انداز ۱۸۹۶۱ء وفات: ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۲ء بعمر ۸۸ سال آپ میاں نبی بخش صاحب بٹالوی کے فرزند تھے.مرحوم خوش خلق، مرنجان مرنج ، دیانت دار اور سلسلہ کے لئے مالی قربانی کرنے والے متدین بزرگ تھے اور تبلیغ سلسلہ میں نڈر.بٹالہ میں محلہ عبہ میں ان کا پرائیویٹ مدرسہ تھا جس میں مہاجنی طریق پر حساب کتاب رکھنے کی تعلیم دیتے تھے اور اپنے فن میں بہت کامیاب تھے.ہجرت کے بعد چوک سنت نگر لاہور میں دیسی گھی کی دکان کر لی اور قلیل ترین منافع پر فروخت کرتے تھے.ہمیشہ ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.اولاد: میاں فضل حق صاحب انجینئر پی آئی اے ڈرگ روڈ کراچی.میاں جلال الدین صاحب وکیل انکم ٹیکس، نیلا گنبد لاہور.میاں عبد الحق صاحب اکا ؤنٹنٹ.میاں عبدالمالک صاحب بی کام چارٹرڈ اکا ؤنٹنٹ لاہور.95.حفیظہ بیگم صاحبہ اہلیہ منی محمد شفیع صاحب کریم پارک راوی روڈ لاہور ( طلحہ کریم ایڈووکیٹ نائب صدر و قائد مجلس سبزہ زار لاہور آپ کے پوتے ہیں).اللہ رکھی صاحبہ زوجہ محمد اقبال صاحب گلشن راوی لا ہور.حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوٹ ثانی حافظ آباد ولادت: ۱۸۸۹ء دستی بیعت ۱۸۹۹ء وفات: ۷ نومبر ۱۹۷۲ء96
تاریخ احمدیت.جلد 28 231 سال 1972ء آپ کے والد ماجد حضرت میاں امام الدین صاحب بھی صحابہ کرام میں سے تھے.آپ شب بیدار، عبادت گزار، کم گو اور درویش طبع بزرگ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور دیگر مسائل دینیہ پر عبور حاصل تھا.تبلیغ کا خاص شوق رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایسا عشق تھا کہ حضرت اقدس کا نام سن کر آبدیدہ ہو جاتے.حضور کے حالات اکثر سنایا کرتے تھے.انداز گفتگو میں ایک عجیب روحانیت کا رنگ تھا.اپنے گاؤں میں مختلف جماعتی عہدوں پر خدمات سلسلہ بجالاتے رہے.نماز کی پابندی میں ایک مثالی احمدی تھے.97 تحریک جدید کے پانچبزاری مجاہدین میں شمولیت کا شرف بھی حاصل تھا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے اپنی کتاب ”حیات قدسی حصہ اوّل صفحہ ۷۶ پر موضع پیر کوٹ کے دیگر اصحاب کے علاوہ آپ کا بھی ذکر فرمایا ہے.مکرم حمید الدین صاحب خوشنویس تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارے نانا جان حضرت میاں پیر محمد صاحب کا تعلق پیر کوٹ شانی ضلع گوجرانوالہ (موجودہ ضلع حافظ آباد) سے تھا.آپ زراعت پیشہ تھے.سخت مشقت کے عادی تھے.مالی وسائل محدود تھے.سفر کی سہولتیں اور ذرائع آمدورفت بھی عصر حاضر کی طرح میسر نہ تھے مگر آپ ۱۸۹۸ء میں اپنے والد محترم حضرت میاں امام الدین صاحب کے ساتھ اپنے گاؤں اور اردگرد کے دیہات کے ۱۹ / افراد کے ساتھ پیدل چل کر پیر کوٹ ثانی سے قادیان دارالامان گئے اور مہدی دوراں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر شرف بیعت حاصل کیا.نانا جان کی اکلوتی ہمشیرہ مریم بی بی صاحبہ ( مدفون بہشتی مقبرہ قادیان) اور دو بھائی حضرت میاں نور محمد صاحب اور حضرت حافظ محمد الحق صاحب ( مدفون بہشتی مقبرہ ربوہ ) تھے جو سب کے سب صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں شامل ہیں.ہمارے نھیال میں ان بزرگوں کے ذریعہ ہی احمدیت کا پودا لگا ہے اور اس کی سرسبز شاخیں شمالاً جنوباً شرقاً غرباً دنیا کے تقریباً تمام براعظموں تک پھیلی ہوئی ہیں.آپ لمبی تقاریر کرتے ، خطبات جمعہ پڑھتے اور ان میں جو کچھ بیان کرتے وہ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کا خلاصہ ہوتا.ریویو آف ریلیجنز (اردو) اور تشخیذ الاذہان کے با قاعدہ خریدار تھے.قرآن کریم کثرت سے پڑھتے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کرتے.رات کا اکثر حصہ نماز، دعا اور ذکر الہی میں گزار دیتے.آپ مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا کرنے
تاریخ احمدیت.جلد 28 232 سال 1972ء کے پابند تھے.پیر کوٹ ثانی میں مسجد احمد یہ آپ کے گھر کے بالکل سامنے واقع تھی.بڑے متوکل انسان تھے اور بڑے مستجاب الدعوات تھے.آپ صاحب رؤیا اور کشوف تھے.دعوت الی اللہ کا بہت شوق رکھتے تھے بڑے مؤثر رنگ میں یہ فریضہ ادا کرتے اور اس کا کوئی موقع ضائع نہ ہونے دیتے.مخالف علماء اور پادریوں سے بے دھڑک بات کرتے.دعوت الی اللہ کی غرض سے دوسرے دیہات میں جاتے.ایک دفعہ ایک گاؤں کے متعصب افراد نے آپ کو بہت مارا.آپ بے ہوش ہو گئے اور ایک تالاب کے کنارے لمبا وقت پڑے رہے.ہوش آنے پر بجائے واپس آنے کے دوبارہ گاؤں میں گئے اور اچھا خاصا وقت دعوت الی اللہ میں گزار کر واپس آئے.مقامی جماعت کے صدر صاحب بالعموم گاؤں سے باہر رہتے ان کی غیر حاضری میں جماعتی کام آپ ہی سرانجام دیتے.درس و تدریس کا کام کرتے اس کے علاوہ آپ مقامی جماعت میں سیکرٹری دعوت الی اللہ سیکرٹری تربیت اور امام الصلوۃ کے عہدوں پر فائز رہے.اللہ تعالیٰ نے نوجوانی کی عمر میں ہی آپ کو نظام وصیت سے منسلک ہونے کی توفیق بخشی.سالانہ جلسوں اور مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ہر سال با قاعدہ شامل ہوتے اور اس کے لئے بڑے بڑے اہم کام بھی نظر انداز کر دیتے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو لمبی عمر پانے والے تین بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا.آپ کے دو بیٹوں مولوی محمد عبد اللہ صاحب پیر کوئی مرحوم، مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی مرحوم اور تین دامادوں مولوی محمد سعید صاحب مرحوم سابق انسپکٹر مال ، نورالدین صاحب خوشنویس مرحوم، مکرم محمد عبداللہ چیمہ صاحب کارکن وقف جدید کو اللہ تعالیٰ نے لمبا عرصہ خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی اور آپ کی انگلی نسلوں میں بھی بہتیرے سلسلہ کی خدمت میں مصروف رہے اور ہیں.وفات سے تقریباً پندرہ سال قبل آپ پیر کوٹ ثانی کو خیر باد کہہ کر اپنے چھوٹے بیٹے مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی دار الرحمت غربی ربوہ کے ہاں فروکش ہو گئے.آپ بڑے نفاست پسند تھے.ہمیشہ صاف ستھرا اور سفید لباس، پگڑی قمیض اور دھوتی زیب تن کیا.باریش اور نورانی چہرہ تھا.جماعت اور خلافت سے بڑی گہری وابستگی اور والہانہ عشق تھا.آپ نے تین خلفائے احمدیت کا زمانہ پایا.حضرت نانا جان گو کہ کسی دنیوی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہ تھے لیکن خدا داد صلاحیتوں اور ذاتی شوق و لگن سے عربی اردو صحت تلفظ اور روانی کے ساتھ پڑھ لیتے
تاریخ احمدیت.جلد 28 233 سال 1972ء تھے اور یہ اعجاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع اور سلسلہ کے لٹریچر کا تھا.دینی علوم پر آپ کو خاصا عبور حاصل تھا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے صحبت یافتہ تھے.ربوہ میں آپ کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے دار الرحمت غربی اور فیکٹری ایریا میں رہائش پذیر تھے.آخری عمر میں آپ کی کمر میں خم آ گیا تھا اور جھک کر چھڑی کے سہارے چلا کرتے تھے.آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ نماز فجر مسجد ناصر میں ادا کرتے.گھر آ کر تلاوت قرآن کریم کرتے اور ناشتہ کے بعد ربوہ میں مقیم جملہ بچوں کے ہاں تھوڑے تھوڑے وقت کے لئے جاتے.مسواک کا استعمال با قاعدگی سے کرتے اور پھر نہا کر تلاوت قرآن اور مطالعہ الفضل اور دیگر کتب سلسلہ میں مشغول ہو جاتے.ان دنوں ربوہ کی آبادی بھی کوئی زیادہ نہ تھی.زمین بھی شور زدہ تھی.کلر بہت ہوا کرتا تھا.موسم بھی بہت شدید ہوا کرتا تھا.موسم گرما سخت گرم، جھلسا دینے والا اور موسم سرما سخت سرد کپکپا دینے والا.کہا کرتے تھے کہ میں نے ظہر اور عصر کی نمازیں مسجد مبارک میں جا کر خلیفہ وقت کی اقتداء میں ہی ادا کرنی ہیں.ظہر کی نماز کے وقت جاتے اور عصر کی نماز بھی مسجد مبارک میں ادا کر کے واپس دار الرحمت غربی آتے اور مغرب کی نماز مسجد ناصر میں ادا کر کے گھر آتے اور کھانے سے فارغ ہوکر وضو کر کے پھر نماز عشاء کی باجماعت ادا ئیگی کے لئے مسجد ناصر چلے جاتے.آپ ہر کسی سے بڑے پیار سے ملتے اور ہمیشہ مسکراتے چہرے کے ساتھ بات کرتے.بڑے کم گو اور دھیمے مزاج کے مالک تھے.مالی تحریکات میں اول وقت پر اپنی استطاعت سے بڑھ کر حصہ لیتے.قیام پیرکوٹ کے زمانے میں بھی جلسہ سالانہ اور دیگر تقاریب پر ضرور تشریف لاتے اور بڑی دلجمعی سے جلسہ گاہ میں بیٹھ کر جلسہ کی پوری کا رروائی سماعت کرتے.پر جوش داعی الی اللہ تھے اور سلسلہ کے لئے بڑی غیرت رکھتے تھے.چونکہ نماز ظہر و عصر مسجد مبارک میں ادا کرتے تھے لہذا اپنی قمیص کی جیب میں نمک کی ڈلی اس غرض سے رکھتے کہ اگر کبھی راستہ میں روزہ افطار کرنا پڑ جائے تو نمک سے ہی روزہ افطار کر لیں.آخر وقت تک جب تک صحت نے اجازت دی رمضان کے پورے روزے رکھے.عیدالفطر سے ایک روز قبل مورخہ ۷ نومبر ۱۹۷۲ء کو ۸۴ سال کی عمر میں وفات پائی.اگلے روز مورخه ۸ نومبر ۱۹۷۲ء کو مسجد مبارک ربوہ میں حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 234 سال 1972ء حضرت پیر محمد صاحب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی محترمہ سکینہ بی بی صاحبہ کی شادی ۱۹۴۸ء میں مکرم محمد عبد اللہ چیمہ صاحب ابن حضرت مولوی غلام حسین صاحب ڈنگوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوئی.حضرت میاں پیر محمد صاحب پیر کوئی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی دنیوی رکھ رکھاؤ اور ظاہری نمود و نمائش و بد رسوم کے قائل نہ تھے لہذا بڑی سادگی سے یہ شادی عمل میں آئی.98 اولاد: جناب محمد اسماعیل صاحب پیرکوٹ ( آپ کے ایک بیٹے مکرم نصیر احمد شاہد صاحب مربی سلسلہ سابق مبلغ نائیجریا اور آج کل ایڈیشنل نظارت اصلاح وارشاد دعوت الی اللہ میں خدمات بجالا رہے ہیں.اسلام احمد شمس صاحب مربی سلسلہ اصلاح و ارشاد مرکز یہ آپ کے پوتے ہیں.) مولوی محمد عبد اللہ صاحب آف کریم نگر سندھ واقف زندگی ( مکرم ڈاکٹر صفی اللہ صاحب امیر ضلع میانوالی آپ کے بیٹے ہیں.مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی ربوہ واقف زندگی.عائشہ بی بی صاحبہ اہلیہ میاں حسین بخش صاحب.سکینہ بی بی صاحبہ اہلیہ محد عبد اللہ چیمہ صاحب آف ڈنگہ کارکن وقف جدیدر بوہ.فاطمہ بی بی صاحبہ اہلیہ فضل احمد صاحب ( والدہ مکرم سلطان احمد شاہد صاحب نظارت اشاعت ).رابعہ بی بی اہلیہ مولوی محمد سعید فاضل انسپکٹر بیت المال.رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ نورالدین صاحب خوشنویس 99 حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب ولادت : ۱۸۹۰ء تحریری بیعت : ۱۹۰۱ ء دستی بیعت : ۱۹۰۴ ء وفات : ۱۱ نومبر ۱۹۷۲ء 100 آپ کا تعلق قلعہ کالر والا ضلع سیالکوٹ سے تھا.آپ نے ۱۴ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.آپ مڈل جماعت تک پڑھے ہوئے تھے.بہت روشن دماغ کے مالک تھے.اپنے علاقہ میں ”بابا جی آردو خان کے نام سے پہچانے جاتے تھے.آپ پوہلہ مہاراں، گھٹیالیاں، دا تا زید کا وغیرہ کے امیر جماعت بھی رہے.گھٹیا لیاں کالج کی تعمیر بھی آپ نے کروائی اس سلسلہ میں مرکز نے خاص طور پر روپیہ پیسہ اور تمام حساب کتاب کے معاملہ میں آپ پر اعتماد کا اظہار کیا.دوران تعمیر صبح سے شام تک نگرانی کیا کرتے تھے.خلافت احمدیہ سے خاص انس اور تعلق تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سامنے اپنی ایک خواہش کا اظہار اس طرح کیا کہ حضورا گر میرا کوئی بیٹا زندہ ہوتا تو میں دین کی راہ میں وقف کرتا.حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹیاں دے رکھی ہیں کسی کی شادی وقف زندگی سے کردیں آپ کی خواہش پوری ہو جائے گی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 235 سال 1972ء آپ کے چھ بیٹے ۱۴، ۱۵ سال کی عمر تک پہنچ کر وفات پاگئے مگر آپ نے انتہائی صبر کا نمونہ دکھایا.جب آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے فضل الرحمن صاحب کی وفات ہوئی تو اس وقت وہ سکول جانے کی عمر کو تھا تو آپ اپنی تمام بیٹیوں کو گھر کی چھت پر لے گئے اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کی چیز تھی وہ اپنے پاس لے گیا.آپ غیر معمولی طور پر مہمان نواز تھے.ملنے ملانے والوں کا جھمگٹا رہتا تھا.تعلیم سے دلی لگاؤ تھا اس زمانہ میں اپنی بیٹی فاطمہ بیگم صاحبہ کو قادیان بھجوا کر میٹرک کروایا جبکہ ان کے اس کام کی گھر میں بہت مخالفت ہوئی تھی.آپ اپنے علاقے کی ہر دلعزیز شخصیت تھے.رفاہ عامہ کے بے شمار کام کرنے کی توفیق پائی.گاؤں میں ایک عدد مویشی ہسپتال اور ایک دوسرا ہسپتال اپنی زمین دے کر بنوایا.بہت سے یتیم رشتہ داروں اور غیروں کی پرورش کی.آپ ایک دیانتدار پٹواری تھے.آپ کا گاؤں زیادہ تر ہندوؤں اور سکھوں کا تھا اس لئے ۷ ۱۹۴ء کی لوٹ مار میں جو سٹور سامان سے بھرے تھے ان کی چابیاں آپ کے ذمہ تھیں.جب کوئی لٹا ہوا مہاجر خاندان آپ کے گاؤں پہنچتا تو اس کو ساتھ لے کر سٹور سے ان کو ضروریات زندگی کی چیزیں دیتے اور اپنے گھر والوں کو سمجھا رکھا تھا کہ یہ سب مال ہمارے گھر پر حرام ہے.ایک تنکا بھی ہم پر حلال نہیں ہے.اسی خوبی کے ضمن میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ وہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے رفیق اور بہت ہی فدائی اور عاشق انسان تھے.زندگی کا اکثر حصہ دیہی جماعت کے امیر رہے یہ اس دور کے لوگ ہیں پٹواریوں میں ولی پیدا ہونا شاذ کی بات ہوا کرتی تھی.وفات کے وقت آپ بہت کمزور ہوچکے تھے.مگر بیت الحمد جایا کرتے تھے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے اہل خانہ جب آپ کے کمرہ میں گئے تو وہاں لکڑی کے تخت پر چاک سے موٹا موٹا لکھا ہوا تھا.” میں گیارہ نومبر کو ربوہ جاؤں گا.اا نومبر کو آپ کی وفات ہوئی اور اسی روز جنازہ ربوہ لے جایا گیا.بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.آپ کی بیٹی مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم محمود احمد چیمہ صاحب مربی سلسلہ کی غائبانہ نماز جنازہ حضرت خلیفۃ اسیح الرابع نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت آصفہ بیگم صاحبہ کے ساتھ پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں ذکر خیر فرمایا.101
تاریخ احمدیت.جلد 28 236 سال 1972ء اولاد صابرہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری نصیر احمد صاحب باجوہ.فاطمہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ انچارج احمد یہ مشن انڈونیشیا.رشیدہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری بشیر احمد صاحب.زینب بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری سعید احمد صاحب حضرت کرم النساء صاحبہ ولادت : ۱۸۹۲ ء بیعت : پیدائشی احمدی : وفات ۱۱ نومبر ۱۹۷۲ ء 102 آپ حضرت ملک مولا بخش صاحب سابق ناظم جائیداد صدر انجمن احمد یہ قادیان کی اہلیہ تھیں.آپ حضرت میاں اللہ بخش صاحب امرتسری کی اکلوتی بیٹی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ اصحاب کبار میں سے تھے.103 آپ کے بیٹے ملک سعادت احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آپ کی عمر ۸ ۹ برس کی ہوگی جب آپ اپنی والدہ غلام فاطمہ صاحبہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں آیا کرتی تھیں.ان کی والدہ بتاتی تھیں کہ یہ حضور کے بستر پر کھیلا کرتیں اور میں منع کیا کرتی تھی مگر حضور ارشاد فرماتے کہ کوئی حرج نہیں بچے ہیں کھیلنے دیں.۱۹۱۳ء سے ۱۹۲۴ء تک حضرت ملک مولا بخش صاحب بسلسلہ ملازمت گورداسپور میں رہے.اس عرصہ میں آپ کو اکثر قادیان کی زیارت کا اتفاق ہوتا.اسی طرح اکثر بزرگان سلسلہ جب کسی کام کے لئے گورداسپور تشریف لے جاتے تو آپ ہی کے ہاں قیام فرماتے.حضرت اماں جان کئی دفعہ تشریف لے گئیں اور آپ کے ہاں قیام فرمایا.۲، ۳ بار حضرت مصلح موعود مع افراد بیت آپ کے گھر میں رونق افروز ہوئے اور آپ کو خدمت کی سعادت نصیب ہوئی.آپ گوان پڑھ تھیں لیکن نماز روزہ کی پابند تھیں اور احمدیت سے ایک عاشقانہ تعلق تھا.104 اولاد: آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری محمد کرامت اللہ صاحب ایم ایس سی ابن حضرت بابوا کبر علی صاحب.صوبیدار ملک سعید احمد صاحب کراچی.ملک بشارت احمد صاحب واقف زندگی.مینیجر اور مینٹل اینڈ ریجس پبلشنگ کارپوریشن ربوہ.ملک سعادت احمد صاحب ایڈمنسٹریٹر شیزان انٹرنیشنل لمیٹڈ لاہور.صدیقہ بیگم صاحبہ زوجہ قریشی انور سعید صاحب تحصیلدار سیالکوٹ 15 حضرت چوہدری محمد منیر صاحب آف گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ 105 ولادت: قریباً ۱۸۸۲ء بیعت: ۱۹۰۵ء وفات : ۱۴ نومبر ۱۹۷۲ء.106
تاریخ احمدیت.جلد 28 237 سال 1972ء آپ حضرت چوہدری غلام رسول صاحب آف گھٹیالیاں رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے تھے.قرآن مجید کے عاشق تھے.سلسلہ احمدیہ کی خدمت آپ کا شعار رہا.نہایت شریف ، متین، احمدیت کے فدائی منکسر المزاج ، باہمت ، بلند حوصلہ، متقی اور عابد تھے.107 ۱۹۳۲ء سے ۱۹۶۴ء تک مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی.۱۹۶۴ء کے بعد سیکرٹری تحریک جدید و وقف جدید رہے.تحریک وقف عارضی میں بھی حصہ لیتے رہے.آپ نے گھٹیالیاں میں برلب سڑک تین کنال کا پلاٹ مریم مڈل گرلز سکول کے لئے دیا.۱۹۷۳ ء کی مجلس مشاورت میں آپ کو اعزازی ممبر کی حیثیت سے شمولیت کی دعوت دی گئی.لیکن مشاورت کے انعقاد سے پہلے ہی آپ کی وفات ہو گئی.آپ کی اہلیہ محترمہ طالع بی بی صاحبہ بنت مکرم چوہدری احمد علی صاحب آف گھٹیالیاں جو کہ آپ کی چا زاد تھیں گھٹیالیاں کی پہلی صدر لجنہ تھیں جن کو ۳۵ سال تک بطور صدر لجنہ خدمت کی توفیق ملی.اولاد چوہدری محمد اشرف صاحب امریکہ.نصیرہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری ضیاء اللہ صاحب مرحوم چک ۹ پنیار شمالی ضلع سرگودہا.رفیقہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم.میمونہ ریاض صاحبہ زوجہ چوہدری صادق علی صاحب ایس ڈی او.مظفر آباد آزاد کشمیر.چوہدری مسعود احمد صاحب گھٹیالیاں.چوہدری شفاعت محمود صاحب ۶ / ۲۳ دار الرحمت غربی ربوه - 108 حضرت آمنہ بی بی صاحبہ آف گوہد پورضلع سیالکوٹ ولادت : ۱۸۹۶ء سن بیعت و زیارت : ۱۹۰۴ ء وفات: ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء 109 حضرت آمنہ بی بی صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری غلام حسین صاحب مرحوم سابق امیر جماعت ہائے احمد یہ حلقہ ڈھپئی ضلع سیالکوٹ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء کو عمر ۷۶ سال وفات پاگئیں.آپ افضلہ تعالیٰ صحابیہ اور موصیہ تھیں.مورخہ ۱۸ نومبر کو آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.مرحومه صابرہ دعا گو احمدیت کی فدائی، ہمدرد، غریب پرور اور دیگر بے شمار خوبیوں کی مالک تھیں.آپ صاحب ورو یا وکشوف بھی تھیں.110
تاریخ احمدیت.جلد 28 238 سال 1972ء حضرت چوہدری علی احمد خان صاحب ولادت : ۱۸۹۶ء بیعت پیدائشی احمدی زیارت : ۱۹۰۱ء وفات : ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ء۱۱۱ محترم چوہدری علی احمد خان صاحب ٹھیکیدار مورخہ ۱۷، ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ ء کی درمیانی شب انتقال فرما گئے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۷۶ سال تھی.آپ پیدائشی احمدی تھے.آپ کے والد محترم حضرت میاں رحیم بخش صاحب امرتسری کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ٫۳۱۳ اصحاب میں شمولیت کا فخر حاصل تھا.ذاتی طور پر آپ کو ۱۹۰۱ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.آپ منکسر المزاج ، باہمت بلند حوصلہ کے مالک منتقی و عابد اور سلسلہ کے فدائی بزرگ تھے.آپ نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ قادیان اور قیام پاکستان کے بعد مرکز احمدیت ربوہ میں گذارا.مورخہ ۱۸ نومبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس کے بعد تد فین قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی.112 اولاد: احمداللہ صاحب.سعید اللہ صاحب.امتہ القیوم صاحبہ.حامدہ بیگم صاحبہ.رشیدہ بیگم صاحبہ حضرت امیر بخش صاحب پہلوان قلعہ پچھمن سنگھ لاہور عمر انداز ۱۲۵ سال 113 بیعت : اپریل ۱۸۹۷ء114 وفات ۲۹ نومبر ۱۹۷۲ ء115 محمد يحي صاحب سیکرٹری تحریک جدید جماعت احمدیہ لاہور نے آپ کی وفات پر لکھا:.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل تھا.حضرت اقدس کے لاہور تشریف لانے پر حضور کی بگھی کے ساتھ بطور پہرہ دار خدمات سرانجام دینے کی بھی توفیق حاصل ہوئی.وفات کے وقت آپ کی عمر ۱۲۵ برس تھی.اپنی زندگی میں عموماً بچوں اور نوجوانوں کو صحت جسمانی کو برقرار رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی مؤثر رنگ میں تلقین کیا کرتے تھے.۳116 /اکتوبر ۱۹۴۹ء کو مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعود نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھا.اس تاریخی موقعہ پر دیگر اصحاب کے علاوہ آپ بھی موجود تھے.117 حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب سیکھوانی ولادت: قریباً ۱۸۸۴ء بیعت: پیدائشی احمدی 118 وفات کے دسمبر ۱۹۷۲ ء119 آپ مشہور سیکھوانی برادران میں سے حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی کے فرزند
تاریخ احمدیت.جلد 28 239 سال 1972ء تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ / اصحاب کبار میں شمولیت کا فخر حاصل تھا.آپ کی خودنوشت روایات میں لکھا ہے:.میں قریباً بیس برس کا تھا کہ گورداسپور میں کرم الدین جہلمی (در اصل بھیں ضلع جہلم کا تھا) کے مقدمہ کا حکم سنایا جانا تھا.میں ایک دن پہلے اپنے گاؤں سے وہاں پہنچ گیا ( تھا) وہاں پر ایک کوٹھی ( میں ) حضور علیہ السلام بھی اترے ہوئے تھے.گرمی کا موسم تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ادھر کے ایک کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے وہاں پر میرے والد صاحب میاں جمال الدین صاحب، میاں امام الدین صاحب سیکھوائی اور...( یعنی چوہدری عبد العزیز صاحب بھی موجود تھے.میں نے جا کر حضور کو پنکھا جھلنا شروع کر دیا.حضور نے میری طرف دیکھا اور میرے والد میاں جمال الدین صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا کر فرمایا کہ میاں اسماعیل نے بھی آکر ثواب میں سے حصہ لے لیا ہے.حضور کا معمولی اور ادنی خدمت سے خوش ہو جانا اب بھی مجھے یاد آتا ہے تو طبیعت میں سرور پیدا ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک وفد نصیبین بھیجنے کا قصد کیا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حالات دریافت کرنے کے متعلق اس میں مرزا خدا بخش صاحب اور مولوی قطب الدین صاحب تھے اور تیسرے ممبر میرے والد میاں جمال الدین صاحب قرعہ اندازی سے مقرر ہوئے.حضور علیہ السلام نے کپڑوں وغیرہ کی تیاری کے لئے تینوں صاحبوں کو پچاس پچاس روپے دیئے.بعد ازاں حضور نے ایک جلسہ الوداع کیا لیکن اس کے بعد بعض وجوہات کی وجہ سے یہ وفد روک دیا گیا.جب وفد کا جانارک گیا تو میرے والد صاحب نے پچاس روپے حضور کی خدمت میں واپس پیش کئے.حضور نے فرمایا جو ہم کسی کو دے دیا کرتے ہیں واپس نہیں لیتے.جب والد صاحب واپس گھر آئے تو انہوں نے یہ واقعہ مجھے سنایا.ایک دفعہ میں اور میرے چچا میاں امام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لئے آئے حضور ( علیہ الصلوۃ والسلام) نے اندر بلا لیا.میرے چا امام الدین صاحب کا ایک لڑکا بشیر احمد مرحوم بیمار تھا اور حضور کو دکھانا تھا.حضور نے اس کی دوا تجویز کر دی.حضور اس وقت صحن میں بیٹھے تھے.اردگرد کتا بیں رکھی تھیں.سر مبارک سے عمامہ ایک طرف نیچے رکھا ہوا تھا.حضور کے سر مبارک پر پٹے تھے.بال سیدھے تھے جو کانوں کو مس کرتے تھے.چوکڑی مار کر بیٹھے تھے.اس وقت قریباً نصف گھنٹہ تک حضور کے پاس بیٹھ کر ہم واپس آگئے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 240 سال 1972ء میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دو مرتبہ دبایا ہے اور اس وقت بھی میرے دل میں یہ خیال تھا کہ کسی وقت یہ فخر سے ذکر کیا کریں گے کہ اس مبارک اور مقدس وجود کو دبایا ہے.میں جب پڑھا کرتا تھا تو کچھ دن میں روٹی حضور علیہ السلام کے گھر سے کھایا کرتا تھا.چولہے پر پکی ہوئی روٹی ملتی تھی.تنور وغیرہ کا اس وقت کوئی انتظام نہ تھا.120 حضرت حکیم صاحب نے ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد سرگودھا شہر میں سکونت اختیار کر لی تھی.نہایت پارسا، پابند صوم وصلوٰۃ اور تہجد گزار بزرگ تھے.121 اہلیہ اول ( نام معلوم نہیں ہو سکا اولاد: احمد نور صاحب.خورشید بیگم صاحبہ.اہلیہ ثانی حمیدہ بیگم صاحبہ اولاد امتہ المنان صاحبہ اہلیہ فضل الرحمن غازی صاحب آف دھرمپورہ لاہور.بشری اختر صاحبہ حال مقیم سرگودھا.بشیر احمد صاحب حال مقیم سرگودھا.سعیدہ مسعود صاحبہ اہلیہ شیخ مسعود احمد صاحب آف اوکاڑہ حال مقیم برمنگھم یو.کے حضرت ڈاکٹر سراج الحق خان صاحب ولادت: اکتوبر ۱۸۹۷ ءاندازاً بیعت پیدائشی احمدی وفات : ۱۴ دسمبر ۱۹۷۲ء آپ موضع فیض اللہ چک ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے.آپ کے والد محترم کا نام منشی دین محمد خان صاحب تھا، جو آپ کی پیدائش کے چند سال کے بعد ہی وفات پاگئے تھے.اس کے بعد آپ کی پرورش آپ کے چانشی نور محمد خان صاحب نے کی.آپ ۱۹۰۵ء میں ٹی آئی ہائی سکول قادیان کی تیسری کلاس میں داخل ہوئے.اور وہاں سے ۱۹۱۵ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا.اس کے بعد آپ کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا.جنگ عظیم کی وجہ سے میڈیکل کی تعلیم ۱۹۲۳ء میں آگرہ سے مکمل کی.۱۹۴۸ء میں فوجی ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور کوئٹہ میں میڈیکل پریکٹس شروع کی.کئی سال تک میڈیکل ایسوسی ایشن کوئٹہ کے صدر رہے.۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۴ء کے دوران ڈیپوٹیشن پر ملاوی تشریف لے گئے اور وہاں سماجی اور معاشرتی بہبود میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.چند افراد آپ کی کوششوں سے احمدی بھی ہوئے.واپسی پر آپ پشاور میں تعینات ہوئے.کوئٹہ میں سردی زیادہ ہوتی تو کراچی چلے جاتے.۱۹۷۲ء میں کراچی آئے تو شدید بیمار ہو گئے اور ۱۴ دسمبر ۱۹۷۲ء کو وفات پا گئے.جنازہ ربوہ لے جایا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے.122
تاریخ احمدیت.جلد 28 241 سال 1972ء اولاد : ڈاکٹر نورالحق خان صاحب.ڈاکٹر معین الحق خان صاحب.شمس الحق خان صاحب.ڈاکٹر منیر الحق خان صاحب نعیم الحق خان صاحب.ڈاکٹر فہیم الحق خان صاحب.منورہ خانم صاحبہ اہلیہ آغار شید احمد خان صاحب.نیرہ خانم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر داؤ د احمد خان صاحب.
تاریخ احمدیت.جلد 28 242 سال 1972ء ۱۹۷۲ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت اس سال سلسلہ احمدیہ کے بہت سے دیگر مخلصین جماعت اور خدام دین داغ مفارقت دے گئے جن میں سے بعض کا تذکرہ کیا جاتا ہے.محمد جان خانصاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ناندی (نجی) (وفات ۲ جنوری ۱۹۷۲ء) جماعت احمد یہ نبی کے قدیم ریکارڈ کے مطابق تحریری بیعت کرنے والوں میں سے اول المبائعین تھے.مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری مبلغ انچارج بھی تحریر فرماتے ہیں:.مرحوم نہایت مخلص ، سلسلہ کے کاموں میں جوش و اخلاص سے حصہ لینے والے تبلیغ کا شوق رکھنے والے اور اسلام اور احمدیت کی خاطر ہر قربانی اور ہر تحریک میں حصہ لینے والے تھے.پنجوقتہ نماز اور دیگر عبادات میں باقاعدگی کے علاوہ اپنے چندہ میں بھی با قاعدہ تھے.اپنے بچوں اور چھوٹے بھائیوں کی دینی تربیت کا بھی خاص خیال رکھتے تھے.باپ کی وفات کے بعد اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پالنے اور انہیں پڑھانے اور کام کے قابل بنانے کی ذمہ داری کو بھی انہوں نے نہایت محنت سے نبھایا اور اپنے اثر و رسوخ اور نمونہ سے اپنے خاندان کے اکثر افراد کو احمدیت میں داخل کرانے کا موجب ہوئے.ناندی میں مسجد اقصیٰ اور مشنری کوارٹرز وغیرہ کا افتتاح اور اس کے بعد دو روز تک تبلیغی اور تربیتی جلسہ ہوا اس کے انتظامات اور مہمانوں کی مہمان نوازی کرنے اور اس تقریب کو ہر لحاظ سے کامیاب بنانے میں بھائی محمد جان خان با وجود بیمار ہونے کے دن رات کام کرتے اور کرواتے رہے....مرحوم مالی قربانیوں میں بھی اکثر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مسجد اقصیٰ ناندی کے اخراجات کے حساب کرنے پر معلوم ہوا کہ مسجد کی عمارت پر ابھی ایک ہزار ڈالر قرض ہے.چنانچہ جلسہ میں تحریک کی گئی تو بھائی صاحب کا وعدہ سب سے زیادہ یعنی ۱۰۰ ڈالر کا تھا.اسی طرح ان کی وفات سے چند گھنٹے پہلے لٹو کا میں ۱۹۷۲ء کے دوران احمد یہ مسجد بنانے کی تحریک پیش کی گئی تو انہوں نے پھر اپنی اور جماعت ناندی کی طرف سے ۵۰۰ ڈالر کا وعدہ لکھوایا.مرحوم کو خاکسار نے وصیت کرنے کی تحریک کی تو فوراً
تاریخ احمدیت.جلد 28 243 سال 1972ء آمادہ ہو گئے اور کہا کہ میں بہت جلد وصیت کر کے اسے قانونی صورت دے کر آپ کو ارسال کر دوں گا.لیکن یہ کام نامکمل ہی رہ گیا.مرحوم بڑے مہمان نواز اور مبلغین کی خدمت کرنے والے بھائی تھے.اپنے شہر ناندی میں بڑے باعزت، پسندیدہ اور ہر دلعزیز تھے.چنانچہ ان کے جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جانے والوں میں ہر مذہب وملت کے لوگ ہندو، سکھ اور عیسائی سب سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھے.123 مولوی محمد منشی خان صاحب آف ڈیریانوالہ وفات ۲۴ جنوری ۱۹۷۲ء) آپ ۱۹۱۸ ء میں مولوی اللہ دتہ صاحب آف خاناں میانوالی تحصیل نارووال کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے جس پر آپ کی تمام برادری کے قریباً سو کے قریب افراد نے بھی بیعت کر لی.۱۹۳۹ء میں مقامی تبلیغ کے معلمین کی کلاس میں داخل ہوئے اور مختصر ٹرینگ کے بعد میدانِ تبلیغ میں نکل پڑے.آپ کے ذریعہ متعدد افراد اور خاندانوں نے ہدایت پائی.اسی دوران آپ نے چندہ نشر و اشاعت کے جمع کرنے کا فریضہ بھی کمال محنت اور تندہی سے انجام دیا.آپ پر جوش مبلغ تھے اور پنجابی میں بلند آواز اور دلنشین پیرائے میں تقریر کیا کرتے تھے.دورانِ تقریر دلچسپ واقعات ولطائف اوراپنی پنجابی نظموں کا حسین امتزاج اہل دیہات کے لئے بہت دلچسپی کا موجب ہوتا تھا اور سامعین کئی کئی گھنٹے بے تکان نہایت ذوق و شوق سے آپ کی تقریر سنتے تھے.آپ جوش تبلیغ کے ساتھ ساتھ بے انتہا دینی غیرت بھی رکھتے تھے بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر اگر کوئی نا پاک حملہ کرتا تو اس کے مقابل نہایت جرات اور جوانمردی کے ساتھ کھڑے ہو جاتے اور ایک غیور مومن کی طرح مدافعت کر کے مجاہدانہ کردار ادا کرتے تھے.124 محمد منشی خان صاحب کا ایک واقعہ بہت قابل قدر ہے جو ۱۹۵۸ء میں انہیں پیش آیا.وہ سیالکوٹ سے نارووال جانیوالی ٹرین میں سوار ہوئے.ڈبہ میں چار مناد پادری جن کے سر پر ٹوپ تھے بیٹھے تھے باقی سب مسلمان تھے.بڑے پادری نے اٹھ کر اس ڈبہ میں تقریر شروع کر دی.مسلمان خاموش ہو کر سننے لگے.پادریوں نے کہا :.اے مسلمان بھائیو! ایک دریا سے لوگوں کو پار جانا ہے پانی گہرا ہے دریا کے پین پر صرف دو
تاریخ احمدیت.جلد 28 244 سال 1972ء کشتیاں ہیں.ایک کشتی کا ملاح مر گیا ہے دوسری کا زندہ ہے بولو کونساملاح پار لے جائے گا.حاضرین نے کہا جو زندہ ملاح ہے وہ پار لے جائے گا جو مر گیا ہے وہ دریا کے پار نہیں لے جا سکتا.پادری صاحب کہنے لگے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ملاح ہے اور تمہارا محمد رسول اللہ فوت ہو چکا.آؤ زندہ ملاح کی بیٹی میں بیٹھ جاؤ.وہ خاموش ہو گئے اور وہ چاروں پادری گانے لگے.آگیا عیسی وید رو گیاں دا.وید رو گیاں دا عیسی وید رو گیاں دا.آؤ مسلمانو! زندہ نبی کے لڑلگ جاؤ گل نبی فوت ہو گئے ہیں.آؤ یسوع مسیح کے لڑلگ جاؤ تب نجات ہوگی.وہ خدا کا بیٹا ہے وہ نجات دے گا.اس پر دو مسلمان نو جوانوں نے اٹھ کر کہا پادری صاحب خدا کا بیٹا نہ کہو.بیشک آسمان پر عیسی علیہ السلام ہیں لیکن خدا کا بیٹا نہ کہو.پادری صاحب نے انہیں جھڑک کر کہا بیٹھ جاؤ ہم وعظ کر رہے ہیں.آپ بھی ان کی باتیں سن رہے تھے.آپ کھڑے ہو گئے اور پادری صاحب سے کہا.بیٹھ جائیے مجھے ایک سوال کرنا ہے.پادری صاحب جوش میں تھے نہ بیٹھے تو آپ نے کہا پادری صاحب میں آپ کو ہرگز بولنے نہ دوں گا.یہ تمام مسلمان بیٹھے ہیں آخر جب پادری صاحب بیٹھ گئے تو آپ نے کہا اے بھائی مسلمانو ! آپ کسی نبی کا کلمہ پڑھتے ہیں؟ سب کہنے لگے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا.آپ نے کہا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ قیامت تک چلے گا یا کہ حضرت عیسی کا کلمہ ؟ سب نے کہا حضرت عیسی کا کوئی کلمہ نہیں پڑھے گا صرف محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ہو گا.بتاؤ کون نبی زندہ ہے کیا وہ جس کا قیامت تک کلمہ رہے گا یا کہ عیسی ؟ سب کہنے لگے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ قیامت تک پڑھا جائے گا اس لئے آپ زندہ نبی ہیں.پھر آپ نے کہا مسلمانو! بتاؤ قرآن مجید قیامت تک رہے گا یا کہ انجیل شریف.سب نے جواب دیا قرآن مجید مکمل کتاب ہے انجیل نہیں.پھر آپ نے کہا پادری صاحب سن لیجئے تمام مسلمان کہہ رہے ہیں کہ قرآن مجید کی تعلیم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ قیامت تک رہیں گے اور حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور ان کی قبر سرینگر کشمیر محلہ خانیار میں ہے.جو پادری وعظ کر رہا تھا وہ دوسرے پادریوں کو کہنے لگا یہ تو احمدی ہے ڈبہ سے نکل چلو.آخر چاروں پادری وہ ڈبہ چھوڑ کر دوسرے ڈبہ میں چلے گئے اور دوسرے لوگ کہنے لگے پادری صاحب ٹھہر و مگر انہوں نے کہا ہم احمدی کے ساتھ بات نہیں کریں گے.125 66
تاریخ احمدیت.جلد 28 245 سال 1972ء شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر "الفضل وفات ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء) آپ جماعت احمدیہ کے نامور صحافی ، اعلیٰ درجہ کے مضمون نویس اور عظیم شاعر تھے.(ولادت ۱/۲۰ پریل ۱۸۹۲ء.بیعت ۱۹۴۰ء).آپ نے سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کا امتحان پاس کیا.آپ کے استادوں میں شمس العلماء مولاناسید میر حسن صاحب بھی تھے جن سے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال کو شرف تلمذ حاصل تھا.۱۹۲۳ء میں لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۴۶ء تک وکالت کرتے رہے.آپ کو شروع سے ہی شعر و شاعری سے تعلق تھا اور آپ بلند علمی وادبی ذوق رکھتے تھے.۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۵ء تک آپ کی متعدد نظمیں ملک کے مشہور رسائل ( مثلاً نیرنگ خیال، ہمایوں، نگار اور ادبی دنیا وغیرہ ) میں شائع ہوئیں اور بہت پسند کی گئیں.126 آپ پہلی مرتبہ ۱۹۳۹ء کے جلسہ جو بلی کے موقعہ پر قادیان دارالامان تشریف لے گئے اور نظام سلسلہ اور حضرت مصلح موعود کی بے مثال تقاریر سے بہت متاثر ہوئے.بایں ہمہ پکے غیر احمدی رہے.قادیان سے روانگی کے بعد ریل میں اتفاقاً ایک احمدی سے حضرت مصلح موعود کی تقریر انقلاب حقیقی کے مطالعہ کا موقع ملا.اس کتاب نے ایسا فوری اثر دکھایا کہ آپ دل سے احمدی ہو گئے اور سیالکوٹ واپس پہنچ کر بیعت کا فارم پر کر دیا (مبائعین کی فہرست میں آپ کا نام الفضل ۱/۴ پریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۲ پر شائع ہوا ).127 سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پیشتر بھی بحیثیت شاعر آپ کو شہرت حاصل تھی مگر احمدیت کے نور سے منور ہونے کے بعد آپ کی نظم و نثر میں خاص جوش اور ولولہ آفرینی پیدا ہوگئی اور آپ کی علمی و قلمی صلاحیتیں سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف ہو گئیں اور آپ کا شعر وسخن کا فطرتی ذوق خالصتاً احمدیت کے رنگ میں رنگین ہو گیا.جس کے بعد آپ نے متعدد محققانہ مضامین احمدیت کے علم کلام کی تائید میں لکھے جو سلسلہ کے جرائد میں اشاعت پذیر ہوئے.بالآخر سید نا حضرت مصلح موعود کی جو ہر شناس نظر نے آپ کو جماعت احمدیہ کے آرگن روز نامہ الفضل کی ادارت کے لئے چن لیا چنانچہ آپ سیالکوٹ سے ہجرت کر کے قادیان آگئے اور ۱۶ / اکتوبر ۱۹۴۶ء سے بطور رایڈیٹر الفضل کام کرنے لگے.اس اہم اور نازک ذمہ داری کو آپ نے مسلسل ۲۵ برس یعنی اپریل ۱۹۷۱ء کے آخر تک نہایت
تاریخ احمدیت.جلد 28 246 سال 1972ء احسن رنگ میں نبھایا.اس اثناء میں جماعت احمدیہ پر ہجرت قادیان ۱۹۴۷ء اور فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء جیسے نازک وقت آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر موقع پر جماعت احمدیہ کی بہترین ترجمانی کرنے کی توفیق بخشی.آپ کے قلم سے متعدد ایسے قیمتی اور اہم مضامین اور اشعار نکلے جو خدا کے خاص تائید و نصرت کے مظہر معلوم ہوتے تھے.128 آپ کے اعزاز میں دفتر الفضل کی طرف سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کی صدارت میں مورخہ ۷ جون ۱۹۷۱ء کو ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.جناب مسعود احمد خانصاحب دہلوی ایڈیٹر الفضل نے الوداعی ایڈریس پڑھا جس میں آپ کے ۲۵ سالہ قلمی جہاد پر خراج تحسین پیش کیا گیا.مولا نا روشن دین صاحب تنویر اپنے دور کے ایک مثالی شاعر وادیب تھے اور ادب اردو میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب ایم اے پی ایچ ڈی سابق صدر شعبہ اردو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ تحریر فرماتے ہیں:.اردو ادب کے عبوری دور میں ادبی دنیا “ اور ” نیرنگ خیال دو ایسے پرچے تھے جن میں چھپنا کسی شاعر کے لئے باعث استناد سمجھا جاتا تھا.ادبی دنیا تاجور نجیب آبادی کی ادارت میں اور بعد میں ادیب شہیر مولانا صلاح الدین احمد کی ادارت میں مدتوں اردو کی خدمت کرتا رہا.اس پرچہ کا معیار گویا زبان وادب کا معیار تھا.اس دور میں اردو نظم نئی جہت سے آشنا ہو رہی تھی انجمن پنجاب کی وساطت سے حالی اور آزاد نے جس جدید شاعری کی بنیاد رکھی تھی ادبی دنیا اور نیرنگ خیال اس پر عمارت اٹھا رہے تھے.نظم کے سلسلہ میں نئے تجربے ہیئت اور خیال کی جدت کے مظہر تھے.نظم معتری نے نظم کے کلاسیکی پیکر کو متزلزل کر دیا تھا لیکن اس دور میں بھی بعض شاعر ایسے تھے جنہوں نے نظم کی کلاسیکی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے بھی خیال کی ندرت اور طرز ادا کی دلر بائی کی وجہ سے اپنے فکر وفن کا لوہا منوالیا.ان میں سے ایک جناب روشن دین تنویر تھے.جناب تنویر مدتوں ہمارے درمیان موجو د رہے اور ہم ان کی زبان سے ان کا کلام سنتے رہے لیکن ہم جونئی نسل کے لوگ تھے ہمیں ان کے ادبی مقام کا صحیح اندازہ نہ تھا.۱۹۵۴ء میں مولانا صلاح الدین احمد ربوہ تشریف لائے تو پہلا سوال مجھ سے یہ فرمایا کہ جناب روشن دین تنویر کو بلایا ہے؟ اور جب ان دو مرحوم بزرگوں کی ملاقات ہوئی تو مولانا نے ان کے بارہ میں ہمیں بتایا کہ ادبی دنیا کے ہر پرچہ میں میں فرمائش کر کے ان سے نظم منگوایا کرتا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 247 سال 1972ء کچھ عرصہ کے بعد قیوم نظر آئے ، قیوم نظر نے تنویر کے بارہ میں کہا یہ وہ لوگ ہیں جن کا کلام پڑھ پڑھ کے ہم شاعر بن گئے ہیں“.ایک مجلس میں جناب تنویر کا کلام سنتے ہوئے کچھ شوریدہ سرلڑکوں نے شور مچایا تو جعفر طاہر آگ بگولا ہو کر اٹھے اور لوگوں سے کہا کہ ”ہم اس شاعر کی زیارت کے لئے آئے ہیں اور آپ ان کا کلام نہیں سنتے.یہ سب باتیں پے بہ پے ہوئیں لیکن ہم نئی نسل کے لوگ جناب تنویر سے پھر بھی آشنا نہ ہوئے اور اب جب جناب تنویر اس دنیا میں نہیں ہیں تو نئی نسل کے لوگوں کو بہت یاد آ رہے ہیں کیونکہ نئے شعری تجربے اور غزل کی موجودہ تجریدی، فنی اور فکری بوقلمونیوں کی اساس عبوری دور کے شعری سرائے پر ہی استوار ہے.اگر جگر ، حسرت، فانی، اصغر اور اقبال کو نکال دیں تو اردو غزل کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں.جناب تنویر اس دور کے شاعر تھے.یہ ہماری خوش بختی تھی کہ وہ ہمارے زمانہ تک زندہ رہے اور انہوں نے فکری صلاحیتوں اور شعری کمال آفرینیوں کو ایک خاص مقصد کے لئے وقف کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ غزل یا نظم محض تخیلاتی پیکروں کے تراشیدن، پرستیدن شکستن کا نام نہیں، واضح مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے بھی غزل کی نزاکت قائم رکھی جاسکتی ہے.اقبال نے غزل میں فلسفہ بیان کیا تھا جناب تنویر نے غزل میں دینیات کا درس دیا.جناب تنویر بنیادی طور پر نظم گو تھے.نظم گو کے ہاں ایک غیر محسوس سی اجتماعیت پسندی کا رجحان نمایاں ہوتا ہے.نظم لفظوں کو رشتہ فکر میں پرونے کا نام ہے.غزل کا ہر شعر از بسکہ اپنی ذات میں مکمل اکائی اور وحدت کا حکم رکھتا ہے.اس کے تمام شعر ایک اساسی مزاج کے رشتے میں منضبط ہوتے ہیں.جناب تنویر نے ۱۹۴۰ء کے بعد اپنی قوت شعر گوئی کو احمدیت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے وقف کر دیا اور اس طرح ایک نظم گو کی مہارت اور غزل گوئی ایمائیت پسندی کا سہارا لے کر پیغام احمدیت کو ہر گوشِ سخن نیوش تک پہنچانے کی سعی کی مسیح وقت کی آواز ہے سنو تو سہی دم مسیح زمان است نعره زن برخیز نئے جہان کا آغاز ہے سنو تو سہی بجان تازه وگر ا ز تن کهن بر خیز اذ ان اٹھی ہے پھر مسجد مبارک سے مثال برگ خزاں دیده تا کجا مانی و ہی بلال کا انداز ہے سنو تو سہی گل بها رشو ا ز سینه چمن بر خیز
تاریخ احمدیت.جلد 28 248 سال 1972ء بسجده سر خمیده بزمین است مخور غم گرتن بے جان داری نماز دل سر عرش برین است مسیحائے زماں جان آفرین است جناب تنویر کا کمال یہ تھا کہ احمدیت سے وابستہ ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پرانے رنگ کو یکسر خیر باد کہہ دیا اور جماعت کے ساتھ ایسا قوی اور زندہ رشتہ قائم کیا کہ پھر ان کے شعر تر جمان احمدیت بن گئے.حقیقت یہ ہے کہ مقصدیت کی شدید ر و فتنی رشتوں کو منقطع کر دیتی ہے لیکن جناب تنویر نے غزل کی زبان میں نظم کے تسلسل و تواتر کو برقرار رکھتے ہوئے خوبصورت شعر تخلیق کئے اور اس طرح جہاد بالقلم کا حق ادا کر دیا.غزل کی علامتیں، غزل کا ایجاز اور غزل کی ایمائیت سب چیزیں ذہن میں رکھئے اور احمدیت کے پس منظر میں جناب تنویر کے یہ شعر دیکھئے:.میں کیا کروں گا آب حیات دوام کو جلووں کا اٹھا ہے طوفان ترے کوچے میں میرا سلام خضر علیہ السلام كو كلّ يوم هو في شان، ترے کوچے میں تفصیل ہم سے پوچھئے پر خدو خال کی ذکر حق ، ذکر نبی، ذکرِ مسیحائے زماں دیکھا ہے ہم نے جلوہ ماہ تمام کو لگتی ہے مجلس عرفان ترے کوچے میں نگہہ کش تو ہے پھول ، دل جو نہیں ہے فلسفے والوں کے سب فلسفے نکلے باطل یہ ہے رنگ ہی رنگ ، خوش بو نہیں ہے فلسفی بن گئے انسان، ترے کوچے میں اذاں کھینچ لیتی ہے جاں کو رگوں سے دنیا میں آج حاملِ قرآن کون ہے؟ یہ اعجاز ہے کوئی جادو نہیں ہے گر ہم نہیں تو اور مسلمان کون ہے؟ یہ امن کا پیغام ہے ، پیغام ہے لوگو اسلام ہے اسلام ہے اسلام ہے لو گو 129.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحه ۳۹۶ شائع کردہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لا ہور (۱۹۸۷ء) میں آپ کی نسبت لکھا ہے کہ ” تنویر روشن دین (۱/۲۰ پریل ۱۸۹۲ ء - جنوری ۱۹۷۲ء) شاعر اور ادیب، آپ نے سیالکوٹ ، ۱۹۱۷ء میں مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کیا.یہاں شمس العلماء علامہ سید
تاریخ احمدیت.جلد 28 249 سال 1972ء میر حسن جیسے بے مثال استاد تھے.یہیں شعر کہنا شروع کیا.کچھ عرصہ اپنے دوسرے اعزہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اندرون ملک اور بیرون ملک تجارت کے سلسلے سے منسلک رہے لیکن ان کی طبع رسا اس طریق زندگی سے جلد اکتا گئی.۱۹۲۱ ء میں لاء کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ۱۹۲۳ء میں ایل ایل بی کیا اور سیالکوٹ میں پریکٹس شروع کی.۱۹۴۰ء میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے اور ۱۶ /اکتوبر ۱۹۴۶ء کو جماعت احمدیہ کے روز نامہ اخبار الفضل کے مدیر مقرر ہوئے.پچیس سال تک اسی اخبار سے منسلک رہے.ان کا کلام ۱۹۲۱ء اور ۱۹۴۵ء کے درمیان اس دور کے ادبی پر چوں نیرنگ خیال، ہمایوں ، نگار اور ادبی دنیا میں اشاعت پذیر ہوتا رہا.وہ شعر وفن میں ایک وسیع تجربہ رکھتے تھے اور حسن انسانی کی طرح حسن فطرت میں بھی اسی مشاہدہ کو کام میں لاتے رہے جو بیان کو صوری اور معنوی جاذبتیں بخشتا ہے.ان کا مجموعہ کلام جناب لطیف قریشی نے زنجیر گل کے نام سے مرتب کر کے شائع کرایا.“ تالیفات: 1- الامام المہدی.۲.اسلام میں ارتداد کی سزا ( جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کے رسالہ مرتد کی سزا اسلامی قانون میں کا جواب ناشر مکتبہ تحریک انار کلی لاہور ) ۳.صُورِ اسرافیل ( شعری کلام کا پہلا مجموعہ ناشر مکتبہ تحریک انار کلی لاہور ).۴ زنجیر گل (شعری کلام کا دوسرا مجموعه ناشر خالد ندیم پبلیکیشنز کشمیری بازار راولپنڈی.تعارف جناب لطیف قریشی صاحب لائل پور ۵ جنوری ۱۹۷۲ء) چوہدری شاہ محمد صاحب.مرالہ ضلع گجرات (وفات ۱۴ فروری ۱۹۷۲ء) آپ قریباً پندرہ سال کی عمر میں احمدی ہوئے.اپنے گاؤں میں آپ پہلے خوش قسمت وجود تھے جنہوں نے قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.آپ کی انتھک کوشش کے نتیجہ میں وہاں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی.۱۹۵۴ء سے تادمِ واپسیں آپ اس جماعت کے پریذیڈنٹ رہے.احمدیت کے نڈر مبلغ تھے.قرآن مجید سے حقیقی عشق تھا.بہت متوکل ، تہجد گزار اور دعا گو بزرگ تھے.آپ کو کچی خوا ہیں آتی تھیں آپ کو قبل از وقت بذریعہ خواب بتادیا گیا کہ سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح ہوں گے.دینی اور دنیوی ہر اعتبار سے آپ کو گاؤں میں بڑا مقام حاصل تھا.گاؤں کے سر براہ تھے.بنیادی جمہوریت کے انتخاب میں کئی بار کھڑے ہوئے اور خدا کے فضل سے کامیاب
تاریخ احمدیت.جلد 28 250 سال 1972ء ہوئے.سب لوگ آپ سے ہی فیصلہ کراتے تھے.آپ کے بیٹے چوہدری بشیر احمد صاحب ٹیچر ہائی سکول ربوہ کا بیان ہے کہ اپنی صداقت شعاری کی وجہ سے آپ اشد مخالفین میں بھی مشہور تھے.ہمیشہ سچی گواہی دیتے.میرے ایک بھائی ایک دفعہ ایک فوجداری جرم کے سلسلہ میں گرفتار ہو گئے.ان کے ساتھ بعض اور افراد بھی تھے جو یونہی اس جرم میں شریک کر لئے گئے.آپ نے عدالت میں اپنے بیٹے کے جرم سے متعلق سچی گواہی دی.وکلا نے منع بھی کیا لیکن آپ باز نہ آئے.اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی سچی گواہی کی لاج رکھ لی اور سیشن جج کی عدالت سے سب کو بری کر دیا گیا اور آپ کو قبل از وقت بتا دیا کہ ”مرالہ والے بری ہو گئے".اللہ بخش صاحب آف جھنگ ( وفات ۱۷.۱۸ فروری ۱۹۷۲ء) 130- جماعت احمد یہ لولے ضلع جھنگ کے ایک نہایت ہی مخلص اور سلسلہ کے فدائی مکرم احمد بخش صاحب کے سولہ سترہ سال کے نوجوان صاحبزادے اللہ بخش صاحب مورخہ ۱۷.۱۸ فروری ۱۹۷۲ء کی درمیانی شب کو محاذ پر سردی لگ جانے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے.یہ موت بھی ایک طرح شہادت کا رنگ رکھتی ہے.اللہ بخش صاحب گو بہت کم عمر تھے مگر احمدیت کے لئے بہت غیرت تھی.131 بابا محمد اسمعیل صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب (وفات ۱۱ مارچ ۱۹۷۲ء) آپ ان کا رکنان میں سے تھے جنہیں قادیان میں رکھے جانے کا فیصلہ تھا.جب ۱۹۵۰ء میں دفاتر کی از سر نو تنظیم عمل میں آئی تو بابا جی کو پھر دفتر بیت المال میں بطور مددگار کارکن مقرر کیا گیا اور آپ ریٹائرمنٹ کی عمر تک دفتر بیت المال میں ہی خدمات بجالاتے رہے.آپ جب دفتر بیت المال میں ۱۹۴۷ء سے قبل ملازم ہوئے تھے تو انہی ایام میں محترم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز نائب ناظر بیت المال مقرر ہوئے تھے.زمانہ درویشی میں مکرم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز ہی زیادہ عرصہ ناظر بیت المال رہے.بابا جی بھی ان کی ماتحتی میں کام کرتے کرتے گویا ان کے فیملی ممبر کی طرح ہو گئے تھے.ریٹائر ہونے کے بعد بھی آپ محترم شیخ عبدالحمید صاحب عاجز کی فیملی کے ساتھ ہی منسلک رہے.آپ فتح گڑھ چوڑیاں کے رہنے والے تھے قادیان میں ملازمت مل جانے کی وجہ سے آپ قادیان میں ہی آبسے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 251 سال 1972ء ریٹائر ہونے کے بعد بابا جی کو تھوڑی تھوڑی کھانسی رہتی تھی جس کا علاج احمد یہ شفاخانہ سے کرواتے رہتے تھے.مگر خاطر خواہ آرام نہ آتا تھا.کچھ عرصہ بعد آپ کو بخار بھی رہنے لگا.جب کچھ ہفتہ دوائی کھانے پر بھی بخار نہ اتر اتو فکر ہوئی کہ کوئی اندرونی انفکشن ہے ورنہ بخار اتنا طول نہ پکڑتا اس لئے امرتسر ہسپتال میں داخل کر کے ان کے پورے چیک اپ کرائے گئے اس پر معلوم ہوا کہ باباجی پر TB کا حملہ ہوا ہے.امرتسر کے نسخہ کے مطابق علاج شروع کر دیا گیا.علاج مسلسل دو سال تک ہونا تھا جو جاری رہا اور وقتاً فوقتاً امرتسر لے جا کر معائینہ بھی کروایا جا تا رہا.جوں جوں علاج کیا فائدہ کی بجائے بیماری اور کمزوری بڑھتی چلی گئی اور آخر بیماری نے غلبہ پالیا اور اامارچ ۱۹۷۲ء کا دن غروب ہوتے ہوتے بابا محمد اسمعیل صاحب وفات پاگئے.آپ نے سارا زمانہ درویشی عملاً تحجر د میں ہی گزارا اہلیہ غالباً وفات پا چکی تھیں اور بچے سب پاکستان جاچکے تھے.اگلے روز بابا جی کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.132 با بو اللہ داد خان صاحب آف کراچی (وفات ۱۴ مارچ ۱۹۷۲ء) چوہدری اللہ داد خانصاحب المعروف بابا اللہ داد راولپنڈی میں پیدا ہوئے ، کراچی آکر آباد ہوئے.محکمہ پوسٹ آفس میں ملازم ہوئے اگر چہ ملازمت اور زندگی کا بیشتر حصہ کراچی میں گزرا مگر جنگ عالمگیر دوم کے دوران پوسٹ آفس میں بھی کام کرنا پڑا.اس لئے کولمبو، کلکتہ اور رنگون بھی گئے.جنگ کے بعد واپس کراچی بھیج دیئے گئے.ریٹائر منٹ تک بقیہ ملازمت کا عرصہ یہیں گزرا.بابو صاحب سادہ یورپین لباس پہنتے اس کے ساتھ سفید پگڑی استعمال کرتے.بڑے علم دوست ، ذہین اور بڑی پختہ یادداشت کے مالک تھے.اسلام سے والہانہ عقیدت اور تبلیغ دین سے عشق تھا.تمام مکاتب فکر کا گہرا مطالعہ کیا تھا.اس لئے مختلف مسالک کے عقائد سے اچھی طرح واقف تھے.غالباً ۱۹۲۸ ء کی بات ہے ان کی جوانی کا زمانہ تھا ان دنوں تمام ہندوستان میں آریہ فرقہ کے ہندو مبلغین نے اسلام کے خلاف یلغار کی ہوئی تھی.لٹریچر، جلسوں اور پبلک مناظروں میں آریہ منا داہل اسلام کوللکار رہے تھے.ان کے عزائم یہ تھے کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جائے چنانچہ آریہ اخبار مسافر“ جو آگرہ سے شائع ہوتا تھا نے ایک لمبا مضمون لکھا اور اپنے اس عزم کا اظہار
تاریخ احمدیت.جلد 28 252 سال 1972ء واشگاف الفاظ میں کیا.اس کے خلاصہ کو ہندوستان کے معروف صحافی اور زمیندار اخبار کے مالک مولوی ظفر علی خان نے مندرجہ ذیل اشعار میں نظم کیا.سنا ہے کہ اک آگرے کا مسافر اٹھائے ہوئے سر پہ ویدوں کے بستے نمستے علیکم علیکم نمستے پہنچ کر عراق و عرب میں للکارا کبھی بھاؤ مہنگا تھا ہندو دھرم کا مگر اب اس جنس کے ہیں دام سستے مسخر کریں گے عرب اور عجم کو مها بیر دل کے گرانڈیل دستے بابو صاحب کا ان دنوں یہ مشغلہ تھا کہ تمام فارغ وقت مناظروں، جلسوں اور علمی مباحثوں میں بیٹھ کر گزارتے اور مسلمان علماء کی بے مائیگی کو دیکھ کر بڑے مایوس ہوتے.اسلام پر جو کتب انہوں نے پڑھی تھیں ان میں بھی اسلام پر ان اعتراضات کا جواب نہ تھا اس لئے یہ ذہنی کشمکش میں رہتے.ایک دن اپنے دکھ کا اظہار اپنے ایک رفیق کار محترم مرزا عبد الحکیم بیگ صاحب سے کیا.مرزا صاحب اگر چہ صاحب علم تھے مگر کم گو تھے اس لئے کسی زبانی گفتگو کی بجائے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتاب مطالعہ کو دی.پہلی کتاب نے ان کا دل موہ لیا اس طرح ان کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور اس واقعہ کے تھوڑا عرصہ بعد بیعت کر لی.آپ ذہین آدمی تھے بات کو سمجھتے اور پھر اس کو دوسروں تک پہنچانے کی اہلیت رکھتے تھے.اسلام سے عشق ، دل میں خلوص اس لئے دعوت الی اللہ کے لئے کمر بستہ ہو گئے چنانچہ تبلیغ دین ان کا محبوب مشغلہ بن گیا.ان کا تمام فارغ وقت علمی مجالس میں گزرتا.بڑے ہمت والے اور جرات مند تھے.ایک دفعہ حکومت پاکستان نے حکم نامہ جاری کیا کہ کوئی شخص سرکاری دفتر میں اپنے ماتحت کو اپنے عقیدے کی تبلیغ نہیں کر سکتا.اس حکم کے بعد آپ اپنے آفیسر میر محمد حسین صاحب پوسٹ اور ٹیلیگراف کے ڈائریکٹر جنرل سے جا کر ملے اور کہنے لگے کہ حکومت نے ماتحت کو تبلیغ کرنے سے منع کیا.آپ نہ صرف میرے آفیسر ہیں بلکہ سارے محکمہ کے آفیسر اعلیٰ ہیں لہذا میری باتیں سن لیں.اس طرح آدھ پون گھنٹہ جماعتی عقائد کے بارے تبلیغ کرتے رہے.تبلیغ میں ان کی ایک اور مثال بھی قابل داد ہے.ایک دفعہ غیر احمدی علماء نے اپنی گرتی ساکھ کو سہارا دینے کے لئے بغیر جماعت سے رابطہ کئے مناظرہ کا اعلان کر دیا.کس طرح ان کو مقررہ وقت سے قبل پتہ چل گیا یہ اپنے ایک ساتھی کو لے کر خاموشی سے
تاریخ احمدیت.جلد 28 253 سال 1972ء اسٹیج کے قریب جا کر بیٹھ گئے.پروگرام کے مطابق جب اس جلسہ کے منتظمین نے احمدیوں کوللکارا اور کہا کہ کہاں ہیں قادیانی تو یہ اسٹیج پر کھڑے ہو گئے.ان کی موجودگی نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا.لہذا غیر احمدی مولوی بڑے برہم ہوئے اور فساد پر اتر آئے ان کو زدوکوب کیا.اس وقت زمانہ اچھا تھا.ڈیوٹی پر پولیس آفیسر ان کی مدد کو پہنچے اور بچا کر ان کو گھر چھوڑ گئے.اس ہاتھا پائی میں ان کو زخم بھی آئے.ایک زخم چہرے پر نشان چھوڑ گیا تھا کبھی کبھار ذکر کر کے یہ داغ دکھایا بھی کرتے تھے.ان کی علمی اور دینی صلاحیت جلد شہرت پا گئی.کراچی کے مذہبی حلقوں میں جلد متعارف ہو گئے.باوجود اختلاف عقیدہ غیر احمدی علماء بھی ان کی عزت کرتے اور بعض اوقات یہ علمی اشکال کے حل کے لئے ان کی استعداد سے فائدہ اٹھاتے.بابو صاحب اپنی چھٹیاں بھی دعوت الی اللہ میں گزارتے.اس کام میں دو مخلصین ان کی معاونت کرتے.پہلے محترم مرزا عبدالحکیم بیگ تھے.دوسرے محترم رفیع الزماں خاں تھے.نیز دونوں بڑے استقلال سے ان کا ساتھ دیتے تھے.بابو صاحب کثیر الا ولا دتھے تین بیٹے اور چھ بیٹیاں تھیں.۱۴ مارچ ۱۹۷۲ء کو حرکت قلب بند ہونے سے آپ کی وفات ہوئی.133 مولوی عبید الرحمن صاحب فانی درویش قادیان (وفات ۱۴ مارچ ۱۹۷۲ء) مرحوم ۱۹۴۶ ء میں احمدی ہوئے تھے اور جلد ہی حضرت مصلح موعود کی تحریک پر دیہاتی مبلغین کلاس میں شامل ہو گئے.درویشی کا صبر آزما زمانہ بڑی خوشدلی اور استقلال سے گزارا.اپنے حلقہ تبلیغ میں اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.134 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۱۹۴۴ء میں تحریک فرمائی تھی کہ کم عرصہ میں ٹریننگ دے کر معلم تیار کئے جائیں جو دیہاتی علاقوں میں بچوں کو قرآن کریم اور ابتدائی دینی مسائل پڑھا سکیں.مدرسہ احمدیہ میں جو مبلغ تعلیم پاتے ہیں وہ آٹھ سال میں میدان عمل میں جانے کے قابل ہوتے ہیں.یہ عرصہ زیادہ ہے ہمیں جلد معلمین کی ضرورت ہے.یہ تربیتی میدان میں کام کریں گے.مدرسہ احمدیہ یہ سے فارغ ہونے والے مرکزی مبلغین کی جگہیں پر کریں گے.اس لئے نوجوان دیہاتی معلمین کیلئے زندگیاں وقف کریں.اس تحریک میں ۱۹۴۴ء میں داخل ہونے والے ایک سال کی ٹریننگ پا کر ۱۹۴۵ء میں میدان عمل میں چلے گئے پھر ۱۹۴۵ء میں داخل ہونے والے ایک سال ٹریننگ پا کر
تاریخ احمدیت.جلد 28 254 سال 1972ء ۱۹۴۶ء میں جماعتوں میں بھجوا دیئے گئے.یہ تیسری کلاس تھی جن کا داخلہ ۱۹۴۶ء میں ہوا اور ستمبر ۱۹۴۷ء میں انہیں ٹریننگ مکمل کر کے جماعتوں میں چلے جانا تھا مگر حالات اپریل ۱۹۴۷ء میں ہی خراب ہونا شروع ہو گئے تھے اور اس تیسری کلاس کا خاصا وقت پہروں اور حفاظتی ڈیوٹیوں میں گزر گیا تھا.ملک تقسیم ہو گیا اور جب قادیان سے آخری کنوائے ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو جارہا تھا تو اس پوری کلاس کو بھی قادیان میں رہنے کی ہدایت ہوئی.یہ کل ۴۰ طلباء تھے اور ان کے ایک اتالیق مولوی عبدالقادر صاحب احسان یہ جملہ افراد بھی درویشان میں شامل کر دیئے گئے.پہلی دونوں کلاسوں کو صرف ایک سال پڑھائی اور ٹریننگ کیلئے ملا تھا مگر اس کلاس کو ۱۹۵۰ء تک مسلسل پڑھنے اور ٹرینگ حاصل کرنے کا موقع مل گیا.اس میں چند طلبہ مولوی فاضل کرکے مرکزی مبلغین میں شمار ہوئے.ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں.(۱).مکرم مولوی عبدالحق صاحب فضل.(۲) مکرم مولوی محمد یوسف صاحب.(۳) مکرم مولوی عمر علی صاحب بنگالی.(۴) مکرم گیانی بشیر احمد صاحب ماہل پوری.گیانی صاحب نے پنجابی میں گیانی کا امتحان دے کر پھر انگریزی کا امتحان دے کر B.A کر لیا اور عرصہ تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر کی خدمت پر مامور رہے.اس کلاس میں پانچ لڑ کے بنگال سے تھے ان میں سے ایک مکرم عبید الرحمن صاحب فانی تھے.آپ بڑے ذہین فہیم اور ہوشیار طالب علم تھے.۱۹۵۰ء میں جب اس کلاس کے فارغ التحصیل طلباء کو ہندوستان کے مختلف مقامات پر بھجوایا گیا تو مکرم عبید الرحمن صاحب فانی کو بنگال بھجوایا گیا تھا جہاں آپ بنگال کے مختلف مقامات پر خدمت بجالاتے رہے.سروس کے دوران جب کبھی بھی قادیان آئے ہشاش بشاش آتے اور یہاں آکر ایک فرحت محسوس کرتے.آخری مرتبہ جب جلسہ سالانہ ۱۹۷۱ء میں شرکت کرنے کے لئے آئے تو جلسہ سالانہ کے چند روز بعد سینہ میں درد کے باعث علیل ہوئے اول اپنے احمد یہ شفاخانہ میں علاج کرایا فائدہ نہ ہونے پر امرتسر لے جایا گیا جہاں بہت سے ٹیسٹ ہونے پر معلوم ہوا کہ ہارٹ اٹیک ہے.امرتسر میں ہی ہسپتال میں داخل کر دیا گیا اور وہاں علاج ہوتا رہا مگر جوں جوں علاج ہوتا آپ کی صحت مائل بہ انحطاط ہی رہی.اڑھائی ماہ علاج ہو جانے پر آخر ایک روز ہسپتال میں ہی ہارٹ اٹیک ہوا اور آپ نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی.آپ موصی تھے اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.135 آپ کے ایک صاحبزادے محفوظ الرحمن فانی صاحب بطور نائب افسر لنگر خانہ قادیان خدمت بجالا رہے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 رضیہ بیگم صاحبہ 255 سال 1972ء وفات ۲۵-۲۶ مارچ ۱۹۷۲ء) رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولانا محمد صادق صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا مورخہ ۲۵-۲۶ مارچ ۱۹۷۲ء کو لاہور میں انتقال فرما گئیں.مرحومہ موصیہ تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت قاری غلام یسین صاحب کی بیٹی تھیں.مرحومہ آٹھ سال تک اپنے خاوند محمد صادق صاحب کے ساتھ انڈونیشیا میں خدمت اسلام میں مصروف رہیں.بعد ازاں پاکستان تشریف لے آئیں.آپ بہت نیک دعا گو عبادت گزار اور احمدیت کی عاشق و فدائی خاتون تھیں.136 حضرت محمد رمضان صاحب آف گھنو کے حجہ (وفات: ۲۹ مارچ ۱۹۷۲ء) آپ نہایت مخلص پابند صوم و صلوۃ ، راست گو اور صابر و شاکر تھے.جماعتی مالی تحریکوں میں اپنی استطاعت کے مطابق ضرور حصہ لیتے.آپ اگر چہ بالکل ناخواندہ تھے لیکن آپ کو تبلیغ احمدیت کا بے حد شوق تھا.آپ پیدائشی احمدی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پندرہ سولہ سال زمانہ مبارک پایا لیکن ناخواندہ اور قادیان سے دور ہونے کی وجہ سے آپ کی صحبت حاصل نہ کر سکے جس کا انہیں از حد قلق تھا.آپ کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عشق تھا.خلافت اور سلسلہ احمدیہ سے دلی وابستگی تھی.آپ نے ۲۹ مارچ ۱۹۷۲ء کو وفات پائی.اگلے روز حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.137 سید حسن محمد ابراہیم صاحب (وفات: مارچ ۱۹۷۲ء) سیرالیون کی جماعت کے ایک نہایت مخلص ، سلسلہ کے فدائی اور سیرالیون میں ابتدائی لبنانی احمدی سید حسن محمد ابراہیم مارچ ۱۹۷۲ء میں لبنان میں وفات پاگئے.مرحوم کو سیرالیون میں احمدیت کا پیغام پہنچنے سے قبل ہی عربی رسائل کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے آگاہی ہو چکی تھی.اور آپ کو اس بات کا شدت سے انتظار تھا کہ کسی کے ذریعہ انہیں حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی آمد و غرض کے بارہ میں تفصیلی حالات کا علم ہو.چنانچہ ۱۹۳۷ء میں الحاج مولوی نذیر احمد صاحب علی
تاریخ احمدیت.جلد 28 256 سال 1972ء مرحوم سیرالیون میں مشن کی بنیادرکھنے کے لئے تشریف لے گئے.تو جب سید حسن صاحب کو آپ کی آمد کا علم ہوا تو آپ نے ان سے فوری طور پر رابطہ پیدا کیا.آپ نے مولوی صاحب کی تبلیغ سے احمدیت قبول کر لی.احمدیت قبول کرنے کے بعد لبنانی لوگوں نے آپ کی سخت مخالفت کی لیکن آپ کے پائے ثبات میں ذرا بھر بھی لغزش نہ آئی بلکہ اخلاص و قربانی میں ترقی کرتے چلے گئے.آپ فلسطین سے شائع ہونے والے رسالہ البشری میں مضامین بھی لکھتے رہے.مکرم محمد طاہر ندیم صاحب مربی سلسله عربک ڈیسک یو کے اپنی کتاب صلحاء العرب وابدال الشام جلد اول کے صفحہ ۱۲۴، ۱۲۵ پر ان کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں کہ مکرم سید حسن محمد ابراہیم الحسینی مرحوم سیرالیون کی جماعت کے ایک نہایت مخلص اور عالم دین رکن تھے.حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں مثالی تعلق محبت و عشق تھا.اور سلسلہ احمدیہ سے والہانہ عقیدت رکھنے والے لبنانی عرب دوست تھے.سیرالیون میں جہاں احمدیت کا پیغام پہنچانے میں الحاج مولانا نذیر احمد علی مرحوم کو خاص توفیق ملی وہاں مقامی طور پر احمدیت کی تبلیغ واشاعت کے سلسلہ میں سید حسن مرحوم کی کوششیں بھی نا قابل فراموش ہیں.سید حسن مرحوم ۱۹۲۷ء میں لبنان سے سیرالیون جا کر تجارت وغیرہ کرنے لگے.سیرالیون میں احمد یہ مشن کھلنے سے بہت پہلے ہی مرحوم کو بعض عربی اور انگریزی رسائل کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا علم ہو چکا تھا.اور وہ اس کوشش میں تھے کہ کسی ذریعہ سے انہیں اس بارہ میں تفصیلی معلومات حاصل ہوں.چنانچہ ۱۹۳۷ء میں جب حضرت مولانا نذیر احمد علی مرحوم سیرالیون میں با قاعدہ احمد یہ مشن کھولنے کے لئے تشریف لے گئے تو اسوقت سید حسن مرحوم سیرالیون کے جنوبی صوبہ کے ایک گاؤں باؤ کا ہون“ میں کاروبار کرتے تھے.یہ گاؤں اسوقت سونے کی کانوں کی وجہ سے تجارت کا مرکز تھا.جب سید حسن صاحب کو الحاج مولانا علی مرحوم کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے فوراً مولانا مرحوم کو باؤ کا ہوں آنے کی دعوت دی جس پر مولانا مرحوم وہاں تشریف لے گئے اور ان کی تبلیغ سے نہ صرف حسن صاحب نے احمدیت قبول کر لی بلکہ کثیر تعداد میں افریقن لوگ بھی بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.قبول احمدیت کے بعد سید حسن مرحوم کی ان کی ہم وطن لبنانی تاجروں کی طرف سے شدید مخالفت شروع ہوگئی.مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی بلکہ آپ ایمان کی مضبوطی اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 257 سال 1972ء اخلاص و قربانی میں ترقی کرتے چلے گئے اور اپنے لبنانی ہموطنوں اور دیگر عرب تاجروں میں شب وروز تبلیغ کرنے لگے جس کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے آپ دو اور لبنانی خاندانوں کو احمد بیت کی آغوش میں لانے میں کامیاب ہو گئے.یعنی سید امین خلیل سکیکی مرحوم اور سید محمد حدرج صاحب کے خاندان.مکرم سید محمد حدرج اور ان کی اولا د خدا تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت احمد یہ سیرالیون کے خاص اور فدائی ممبران میں شمار ہوتے ہیں.سید حسن ابراہیم مرحوم جب تک زندہ رہے نظام سلسلہ کی پابندی ،خلیفہ وقت کی اطاعت اور مبلغین کرام سے تعاون اور ان کی خدمت کرنے کو اپنا فرض سمجھتے رہے.خلیفہ وقت کی زیارت کے لئے مرکز سلسلہ میں آنے کے لئے بے تاب رہتے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سنیں اور سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث ۱۹۷۰ ء میں مغربی افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے اس موقعہ پرسید حسن صاحب نے حضور کی مدح میں ایک عربی قصیدہ کہا اور حضور کی موجودگی میں خود اجلاس عام میں پڑھ کر سنایا.قصیدہ پڑھتے وقت ان پر ایسی رقت کی کیفیت طاری تھی کہ گویا وہ عشق و محبت کی کوئی واردات بیان کر رہے ہیں.جنوری ۱۹۷۱ ء میں کچھ عرصہ کے لئے لبنان چلے گئے کیونکہ آپ کے تین بچے وہاں زیر تعلیم تھے.لبنان سے آپ ربوہ (پاکستان) جانے کا ارادہ رکھتے تھے تا کہ اپنی بقیہ زندگی وقف کر کے اپنے آپ کو حضور کی خدمت میں پیش کر دیں مگر زندگی نے وفا نہ کی اور آپ لبنان میں اپنے گاؤں میں مختصر علالت کے بعد مارچ ۱۹۷۲ء میں وفات پاگئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کی وفات سے دو روز قبل ہی بذریعہ خواب مطلع کر دیا تھا.138 شیخ عبد الغنی صاحب یوگنڈا مشرقی افریقہ ( وفات ۳ مئی ۱۹۷۲ء ) مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ آپ کی نسبت تحریر فرماتے ہیں:.نہایت مخلص، دین کے لئے قربانی کرنے والے اور عبادت گزار تھے.مبلغین سلسلہ کی خدمت اور ان کی مہمان نوازی بڑی دلی بشاشت سے کرتے.جب بھی موقع ملتا اور مقدرت ہوتی بیروز گاروں کو اپنے حلقہ اثر میں ملازمت دلوانے کی بھر پور اور کامیاب کوشش کرتے.نظام جماعت کے پابند اور خلفاء سلسلہ سے بے حد عقیدت رکھتے تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 258 سال 1972ء مرحوم نے مشرقی افریقہ میں ہی احمدیت قبول کی.ان دنوں آپ ٹانگا شہر میں مقیم تھے.خاکسار جب پہلی دفعہ ۱۹۳۴ء کے اواخر میں مشرقی افریقہ پہنچا تو اس وقت مرحوم طبو را ( ٹانگا نیکا) میں ریلوے میں ملازم تھے اور وہاں کی جماعت کے صدر تھے.مرحوم کی دعوت پر خاکسار اپریل ۱۹۳۵ء کے آخری نصف میں طبورا پہنچا.افریقنوں میں تبلیغ کے لئے جو اہتمام دوسرے احمدی افراد کے ساتھ مل کر مرحوم نے کیا اس کے نتیجہ میں سینکڑوں افریقن زیر تبلیغ آنے والے افریقنوں کی مہمان نوازی اور تواضع میں مرحوم شیخ صاحب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.علاوہ ازیں اردگرد کے ایشین احمدی مرحوم شیخ صاحب کے گھر میں مقیم ہوتے اور آپ ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتے.طیبو را میں اپنی صدارت کے زمانہ میں مرحوم شیخ صاحب اور دوسرے چند ایشین احمدی دوستوں نے ایک قطعہ زمین Gongoni کے محلہ میں نیلامی میں خرید کیا.جس پر بعد میں خاکسار نے دومشن ہاؤس جو چار چار کمروں پر مشتمل تھے اور باہر سے ایک مکان کی صورت میں نظر آتے تھے تعمیر کروائے.اسی مکان کے ایک حصہ میں لمبے عرصہ تک خاکسار بطور مبلغ مقیم رہا اور دوسرا حصہ کرایہ پر دیا گیا.شیخ صاحب مرحوم مشن ہاؤس اور مسجد عبورا کی تعمیر کے علاوہ مشرقی افریقہ کی جملہ مساجد کے لئے اور دیگر اشاعت اسلام کے کاموں میں اپنی توفیق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.کشتی نوح کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کیا گیا تو جس قدر رقم خاکسار نے شیخ صاحب مرحوم کے ذمہ لگائی اسی قدر بڑے خلوص سے ادا کر دی.تمام مرکزی تحریکوں میں حصہ لیتے اور اس پر خوش ہوتے.....صاحب کشف ورؤیا تھے.ایک دفعہ مجھے بتانے لگے کہ خواب میں دیکھا ہے کہ لنڈی کے علاقہ سے بیعت فارم پر ہو کر آپ کے پاس آ رہے ہیں.چنانچہ خاکسار نے اس علاقہ میں مزید سواحیلی لٹریچر بھجوایا.مبلغین کی تقرری کی.اس علاقہ کے بعض مخلص افراد کوٹریننگ دے کر بطور معلم تبلیغ کے لئے مقرر کیا.مبلغین اور معلمین کی مساعی کے نتیجہ میں اس علاقہ میں احمدیت کو قبولیت حاصل ہوئی اور خاصی تعداد میں افریقنوں نے احمدیت قبول کی اور ان کی طرف سے بیعت فارم پر ہو کر آئے جو مرکز میں بھجوائے گئے“.139 حکیم نظام جان صاحب کا غانی (وفات ۱۲ مئی ۱۹۷۲ء)
تاریخ احمدیت.جلد 28 259 سال 1972ء قطب شاہی اعوان خاندان کے چشم و چراغ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو آپ کی ہدایت کا موجب بنا، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.اگرچہ میرے کانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام تو پڑ چکا تھا اور یہ مجھے علم تھا کہ پنجاب میں ایک شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن بچہ ہونے کی وجہ سے میں تفصیل سے واقف نہ تھا.یہ ۱۹۰۷ء کی بات ہے.میں اس وقت ۶ سال کا تھا اور تعلیم کے حصول کے لئے موضع دانہ تحصیل مانسہرہ ضلع ہزارہ کی مسجد میں مقیم تھا.وہیں مولوی محمد یامین صاحب ایک پر جوش احمدی رہتے تھے جو ہر وقت احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے لیکن مجھے کبھی بھی ان کی باتیں سنے یا قریب بیٹھنے کا خیال نہیں آیا.ایک روز کسی غیر احمدی سے وہ مسجد کے صحن میں بحث کر رہے تھے وہ غیر احمدی کوئی بہت ہی بد بخت انسان تھا جب وہ دلائل کے ساتھ بات نہ کر سکا تو اس نے محمد یا مین کے دل کو ڈ کھانے کی خاطر کہا ( نقل کفر کفر نہ باشد ) ”مرزا صاحب کو تو کوڑھ ہے (نعوذ باللہ ) اُس کے ہاتھ اور پاؤں گلے ہوئے ہیں اور ان پر ہر وقت لکھیاں بھنبھنا یا کرتی ہیں (نعوذ باللہ من ذالک الخرافات) میں اس وقت تک مرزا صاحب کو مانتا ہی نہ تھا میں تو فقط ان دونوں کی باتیں سنے کو پاس کھڑا ہو گیا تھا لیکن مجھے کیا خبر تھی کہ آج قدرت میرے دل اور روح پر کوئی تیر چھوڑنے والی ہے میرے ہوش و خرد پر کوئی روحانی بجلی کوند نے والی ہے.محمد یا مین نے جب اس ذلیل انسان کی یہ بد زبانی سنی تو انتہائی ضبط وصبر سے وہ اٹھے اور کہنے لگے ”میرے پاس مرزا صاحب کا فوٹو ہے تمہیں میں وہ دکھاتا ہوں دیکھو بھلا انہیں کب کوڑھ ہے یہ کہ کر وہ اندر گئے اور بکس میں سے آپ کا پورا فوٹولا کر اس شخص کے سامنے کر دیا.میں بھی اس شخص کی پشت کی طرف کھڑا تھا وہ فوٹو اس شخص کے سامنے نہیں آیا بلکہ میرے بھی سامنے آ گیا.اس مبارک شکل کا سامنے آنا تھا کہ مجھ پر سکتہ کی سی کیفیت طاری ہو گئی.میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور میں اس تصویر کی وسعتوں میں کھو گیا.وہ مبارک چہرہ وہ پاک شبیہ.میری نظروں نے اسے دیکھا اور دل نے کہا کہ یہ شخص کبھی جھوٹا نہیں ہوسکتا.یہ شکل قریب نہیں کرسکتی.میں نے اگر چہ اظہار تو نہ کیا لیکن دل نے اسی وقت قبول کر لیا کہ جو کچھ یہ شخص کہتا ہے ٹھیک ہے.یہی مہدی ہے یہی وقت کا امام ہے.مجھے احمدیت میں لانے کا باعث حضور علیہ السلام کا فوٹو تھا اور میں نے اس فوٹو کو دیکھ کر کچھ ایسا روحانی اثر محسوس کیا تھا جس نے صداقت کے تسلیم کرنے پر مجھے مجبور کر دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 260 سال 1972ء حکیم صاحب حضرت خلیفہ مسیح الا ول مولانا نورالدین صاحب کے خاص طبی تلامذہ میں سے تھے.جنہوں نے دسمبر ۱۹۰۸ء میں بیعت کی.140 جنہیں پہلے قادیان اور پھر ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد گوجرانوالہ میں ۶۲ سال تک نہایت وسیع پیمانے پر خدمتِ خلق کی توفیق ملی.جیسا کہ خود لکھتے ہیں کہ :.”خاکسار حکیم نظام جان اینڈ سنز دواخانہ معین الصحت نے استاذی المکرم قبلہ نور الدین شاہی طبیب سرکار جموں و کشمیر سے طب سبقاً پڑھی اور حضور کے حکم سے ۱۹۱۰ء سے دواخانہ مذکور قائم ہوا اور اٹھرا کا مجرب ترین علاج حب اٹھرا کا حضور کے ارشاد سے اشتہار دیا تا کہ خلق خدا فائدہ حاصل کرے.قادیان دارالامان کے پہلے تاجر کتب میاں محمد یا مین صاحب کی کتاب قادیان گائیڈ (مطبوعہ ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۳ ) میں دواخانہ نظام جان عبد الرحمن کا غانی قادیان کا ذکر موجود ہے.شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان نے اپنی کتاب ' مرکز احمدیت قادیان (مطبوعہ ۱۹۴۲ء) کے صفحہ ۴۱۶ پر قادیان کے طبی عجائبات میں آپ کے دواخانہ کو بھی شامل کیا ہے.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.آپ کو اپنی زندگی میں کئی ابتلاؤں سے گذرنا پڑا مگر ہمیشہ استقلال اور ثابت قدمی سے اپنے مولا کی رضا پر شا کر وقائع رہے.آپ کے بیٹے حکیم عبدالحمید صاحب ناظم المشہو ر دواخانہ گوجرانوالہ تحریر فرماتے ہیں:.ابا جی نہایت صابر ، متوکل ، کشادہ دل اور شفیق وجود تھے.ہمیشہ غریب پروری اور قربانیوں میں پیش پیش رہتے.صلہ رحمی اور قرابت داروں کی امداد آپ کیا کرتے.غریب مریضوں کا بلا معاوضہ علاج کرتے یا زیادہ غریب مریض جو حسب ضرورت غذا دوا کے ساتھ نہ کھا سکتے انہیں اپنے پاس سے دودھ وغیرہ کے لئے کچھ دے دیتے.یتیموں اور ناداروں کی خبر گیری رکھتے.ان کی حصول تعلیم میں معاونت فرماتے.مقامی مسجد باغبانپورہ میں لاؤڈ سپیکر آپ ہی نے لگوایا.امام وقت کی ہر تحریک میں بشاشت سے حصہ لیتے.فرمایا کرتے تھے یہ سب قدرت ثانیہ کے مظہر اول ( حضرت مولانا نورالدین) کی دعاؤں کا اثر ہے کہ میں نے ان کے نسخہ جات سے اس قدر لبی مدت تک خلق خدا کی خدمت کی توفیق اور جماعت میں شہرت پائی.ورنہ مجھ سے.....لائق آپ کے بے شمار شاگرد تھے.141
تاریخ احمدیت.جلد 28 مهتاب بی بی صاحبہ 261 سال 1972ء (وفات ۱۲ مئی ۱۹۷۲ ء ) مهتاب بی بی صاحبہ حضرت مرزا غلام رسول صاحب پشاوری کی اہلیہ محترمہ تھیں.آپ بہت سادگی پسند، پابند صوم و صلوۃ ، تہجد گزار، متقی، پرہیز گار، مخلص احمدی اور مجسم اخلاق خاتون تھیں.بڑی ہی خوش مزاج صلح کن، کھلے ماتھے والی اور باغ و بہار وجود تھیں.مزاح کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.ایک دفعہ کوئی ان سے مل لیتا تو پھر کبھی نہ بھولتا.مہمان نوازی میں بے مثال تھیں.مہمان کو رحمت اور برکت کا باعث سمجھتیں.پندرہ پندرہ میں ہیں مہمان آجائیں لیکن مجال ہے کہ ماتھے پر شکن لائیں.آپ بہت ہی صدقہ و خیرات کرنے والی بی بی تھیں.کسی کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتی تھیں.کسی غریب کو کپڑا دینا ہوتا تو ہمیشہ نیا یا ایک دو دفعہ کا استعمال شدہ دیتیں.اگر کوئی کہتا کہ اماں ابھی تو آپ نے سے پہنا بھی نہیں ہے تو کہتیں خیر ہے کسی کو ایسی چیز دینی چاہیے جسے وہ کچھ دیر استعمال بھی کر سکے.اپنے گھسے ہوئے کپڑے دوں گی تو اس کو کتنے دن فائدہ ہوگا.مکرم مرزا بشیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے والد صاحب کو ایک دو مہینہ کی تنخواہ نہ ملی.پیسے جو تھے وہ سب خرچ ہو گئے صرف اماں کے پاس چند آنے رہ گئے.اسی وقت ایک سوالی مانگنے آیا تو وہ پیسے بھی اسے دے دیئے.سب نے کہا رہنے دیں کسی کام آجائیں گے.کہنے لگیں خدا اور دے دیگا.ہوسکتا ہے وہ زیادہ ضرورت مند ہو کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر بعد والد صاحب آئے اور بتایا کہ مجھے آج اکٹھی تنخواہ مل گئی ہے.خدا نے بہت فضل کیا ہے.بہت ہی دعا گو اور عبادت گزار تھیں.ساری ساری رات بیٹھ کر دعا ئیں کرتیں اور عبادت کرتیں.آپ نے مورخہ ۱۲ مئی ۱۹۷۲ء کو وفات پائی.اگلے روز مورخہ ۱۳ مئی کو احاطہ مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.142 صوفی عطا محمد صاحب آف را ہوں ضلع جالندھر ( وفات ۱۳ مئی ۱۹۷۲ء بعمر ۸۰ سال) آپ صوفی بشارت الرحمن صاحب مرحوم ( سابق وکیل التعلیم ) کے والد ماجد تھے.آپ اپنے حالات تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جب میں اسلامیہ کالج لاہور میں آغاز مئی ۱۹۰۸ء میں سال اول میں داخل ہوا تو اس وقت مجھے آریوں، ہندوؤں، عام مسلمانوں، عیسائیوں اور احمدیوں کے گرما
تاریخ احمدیت.جلد 28 262 سال 1972ء گرم مباحثے اور مناظرے دیکھنے اور سننے کا اتفاق ہوا.دوسری طرف ڈارون (Darwin) اور دوسرے دنیا کے فلاسفروں کے نظریات (Theories) کو پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا.ان باتوں نے میرے دماغ میں عجیب کشمکش پیدا کر دی اور میرا دل میری روح اور میرے جسم کا ذرہ ذرہ اس طرف مائل ہو گیا کہ میں دریافت کروں کہ حقیقت کہاں پوشیدہ ہے.ایک طرف سائنس کہتی ہے کہ آسمان کا وجود کوئی نہیں یہ تو صرف حد نگاہ ہے.دوسری طرف مولوی لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی کو خدا تعالیٰ نے تکلیفوں سے بچانے کے لئے اس جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب تک بلا خوردو نوش وہاں زندگی بسر کر رہے ہیں.میرا رجحان ڈارون کی تھیوری کی طرف تھا جو یہ کہتی تھی کہ ارتقائی طور پر ترقی کرتے کرتے بندر سے انسان کا وجود ظہور پذیر ہوا ہے مگر دوسری طرف اس وقت کے مولویوں کے پیش کردہ اسلام سے یہ ثابت ہوتا تھا کہ یہ عالم حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے شروع ہوا ہے اور اس سے پہلے خدا تعالیٰ (نعوذ باللہ ) معطل بیٹھا تھا.دوسرے یہی مولوی لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کلام الہی ختم ہے اس کے متعلق میرے دماغ میں یہ خلجان تھا کہ اللہ تعالیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ بیس ہزار پیغمبروں سے کلام کرتا رہا.اب ہمیشہ کے لئے اس نے اپنے پرستار بندوں سے کلام کرنا بند کر دیا.گو یا خدا تعالیٰ کی صفت کلام بھی معطل ہوگئی.میں اِن سوالات کو لے کر اپنے دینیات کے پروفیسر مولوی روحی صاحب کے پاس گیا.پھر لاہور کے بڑے بڑے مولویوں سے بھی ملا لیکن سب نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ یہ سب کافرانہ اور ملحدانہ خیالات فاسدہ ہیں.تین چار دفعہ لاحول پڑھ کر اپنے بائیں طرف تھوک دیا کرو.پھر یہ تمام خیالات فاسدہ دور ہو جائیں گے.میں نے ان کو کہا کہ میں سینکڑوں دفعہ لاحول پڑھ کر تھوکتا ہوں مگر یہ خیالات دور نہیں ہوتے.خلاصہ کلام یہ کہ یہ مولوی میری کچھ بھی تسلی نہ کرا سکے.بلکہ میری پریشانی میں اور اضافہ ہو گیا.پڑھائی سے میرا دل اچاٹ ہو گیا.میں اکثر بیمار رہنے لگا.اس اثناء میں میرے والد صاحب کو ریواز ہوٹل (Rivaz Hostal) کے سپرنٹنڈنٹ نے جالندھر خط لکھا کہ ان کو کچھ مہینوں کی چھٹی دلا کر گھر لے جائیں.ان کے خیالات بڑے عجیب وغریب ہیں.ان کا دل پڑھائی میں نہیں لگتا.پھر چند دن کے بعد میرے والد صاحب مجھے جالندھر واپس لے گئے.وہاں گھر میں آزاد رہ کر میری صحت کچھ بحال ہوئی تو پھر انہوں نے پڑھنے کے لئے مجھے کالج بھیج دیا.لیکن پھر انہی خیالات نے آ قبضہ جمایا.آخر کار سپرنٹنڈنٹ اور لڑکوں کے کہنے پر میرے والد
تاریخ احمدیت.جلد 28 263 سال 1972ء صاحب میری پڑھائی چھڑوانے پر مجبور ہو گئے اور میں پھر گھر پر آ گیا.وہاں میرے والد صاحب مرحوم کے ایک دوست جن کا نام حاجی رحمت اللہ صاحب تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی تھے انہوں نے میرے والد صاحب مرحوم کو کہا کہ ان کو میرے پاس بھیج دیا کریں.میں ان کے ان خیالات کو دور کرنے کی کوشش کروں گا.وہ بزازی کی دکان کرتے تھے.میں سارا دن ان کے پاس بیٹھا رہتا اور وہ مجھے حضور علیہ السلام کا لٹریچر پڑھ کر سنایا کرتے تھے.اس سے مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی شخص کے دردناک زخموں پر کوئی دوسرا شخص کسی مسکن (Soothing) مرہم کا چھا یہ رکھ رہا ہو.جوں جوں میں ان سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر سنتا تھا میرے سوالات خود بخود حل ہوتے چلے جاتے تھے.آخر ایک احمدی صحابی حکیم غلام محمد صاحب مرحوم والد بزرگوارم سے اجازت لے کر مجھے قادیان چھوڑ آئے.اس وقت حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا.۱۹۱۰ء کی بات ہے کہ ہم نے لنگر خانہ میں قیام کیا اور رات دن قرآن شریف اور حدیث شریف کا درس سنتا رہا.مسجد مبارک میں جماعت کے ساتھ نمازیں پڑھتا اور اکثر خلیفہ اول کی صحبت مبارک میں بیٹھا رہتا تھا.حضور خاص طور پر مجھے اپنی نظر شفقت میں رکھتے.پس آہستہ آہستہ انہوں نے میرے دل میں ایسا کوئی سوال باقی نہ رہنے دیا جس کو انہوں نے دلائل کی روشنی میں حل نہ کر دیا ہو.اس طرح پر میں بدنی اور روحانی طور پر بالکل تندرست ہو گیا اور اس سال حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کر لی.صوفی صاحب ۱/۸ حصہ کے موصی تھے اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.آپ کے صاحبزادے محترم پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب نے آپ کے حالات میں تحریر کیا ہے کہ قادیان کے زمانے میں حضرت حافظ احمد اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ مل کر والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” سیرۃ الابدال کا (جو بہت ہی مشکل عربی تصنیف ہے) اردو تر جمہ کیا.جو قادیان میں میرے پاس موجود تھا.143 چوہدری عبد الرحمن صاحب بنگالی (مجاہد امریکہ ) (وفات ۱۶ مئی ۱۹۷۲ء) آپ برہمن بڑی ضلع کمیلا (بنگلہ دیش) کے ایک با اثر زمیندار اور پٹھان خاندان کے چشم و چراغ تھے اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے ۷ ستمبر ۱۹۲۹ء144 کو زمانہ طالب علمی میں قبول حق کی توفیق بخشی جس کے بعد آپ کو شدید تکالیف کا سامنا کرنا پڑا حتی کہ آپ کو گھر سے
تاریخ احمدیت.جلد 28 264 سال 1972ء نکال دیا گیا.مگر آپ کوہ استقلال بنے رہے اور اپنی تعلیم جاری رکھی.۱۹۲۵ء میں آپ کلکتہ یو نیورسٹی سے بی اے کر چکے تھے.۱۹۲۹ء میں آپ نے ڈھاکہ یونیورسٹی سے ایل ایل بی کا امتحان بھی پاس کر لیا.کچھ عرصہ وکالت بھی کی مگر اسے اپنی طبیعت کے خلاف پا کر چھوڑ دیا.آپ کو سب جی کی پیشکش کی گئی لیکن اسے بھی آپ نے ٹھکرا دیا.۱۹۳۱ء میں پہلی بار قادیان دارالامان کی زیارت سے مشرف ہوئے اور خدمت دین کا ولولہ لئے ہوئے واپس وطن پہنچے جہاں آپ کو جماعت احمدیہ کے بنگلہ زبان میں شائع ہونے والے اخبار احمدی کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا اور آپ کامیابی کے ساتھ اس کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے.۱۹۴۰ء میں آپ ہجرت کر کے قادیان آگئے جہاں جامعہ احمدیہ میں استاد رہے.یکم نومبر ۱۹۴۲ء سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ٹیچر مقرر ہوئے.۱۲ مئی ۱۹۴۴ء کو زندگی وقف کی.۲۹ فروری ۱۹۶۳ء کو صدر انجمن احمدیہ سے ریٹائرڈ ہوئے.یکم مارچ ۱۹۶۳ء کو وکالت دیوان تحریک جدیدر بوہ میں رپورٹ کی اور آپ امریکہ میں اشاعت دین کیلئے منتخب کئے گئے.چنانچہ ۶ /اپریل ۱۹۶۳ء کو آپ پہلی مرتبہ ربوہ سے امریکہ تشریف لے گئے.آپ کچھ عرصہ واشنگٹن میں رہے اور پھر پٹس برگ میں متعین ہوئے.اس جگہ بڑی محنت و مستعدی اور اخلاص کے ساتھ تبلیغی فرائض سرانجام دیتے رہے.۷ نومبر ۱۹۶۷ء کو آپ واپس ربوہ آئے.۱۶ / اکتوبر ۱۹۶۹ء کو آپ کو دوبارہ امریکہ بھیجا گیا اور دونوں دفعہ احمدیہ مشن امریکہ کے انچارج ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کرتے رہے.امریکہ میں دیگر تبلیغی، تربیتی اور تنظیمی امور کی سرانجام دہی کے علاوہ آپ رسالہ مسلم سن رائز کی ادارت کے فرائض بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ادا کرتے رہے.تبلیغ دین میں آپ کے انہماک اور آپ کی بے لوث مخلصانہ جد و جہد سے عیسائی معززین بھی بہت متاثر ہوتے تھے.۱۹۶۷ ء میں جب آپ کلیولینڈ سٹی تشریف لے گئے تو وہاں کے مئیر کی طرف سے ایک خاص تقریب میں بطور اعزاز شہر کی چابی آپ کو پیش کی گئی.145 چوہدری صاحب کو تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا.احمد یہ مشن امریکہ کے ترجمان نے رسالہ ” دی مسلم سن رائز (واشنگٹن) کے شمارہ نمبر ۱ ، ۱۹۷۲ء کا ایک خاص ضمیمہ شائع کیا جس میں ایڈیٹر رسالہ اور قائمقام انچارج مشن نے آپ کی علالت ، وفات، تجهیز و تکفین ، جنازہ کے ڈیٹن سے ربوہ منتقل کرنے اور امریکن احمدیوں کے جذبات محبت و تعزیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 28 265 سال 1972ء یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکہ میں آپ نے پہلے پٹس برگ مشن میں اور پھر کلیولینڈ (اوہایو) مشن میں کام کیا.کلیولینڈ کے مئیر نے آپ کو شہر کی چابی پیش کی.اس کے بعد آپ کا تقرر ڈیٹن (اوہایو ) مشن میں ہو گیا.یہ بیان کرنا بڑا مشکل ہے کہ کس درجہ محبت اور پیار محترم عبدالرحمان خان صاحب بنگالی اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کے درمیان پیدا ہو گیا تھا.جن مشنوں میں بھی آپ نے کام کیا ان کے امراء اور ممبران نے آپ کا اور آپ کی ضروریات کا اس طرح خیال رکھا کہ گویا آپ ان کے باپ ہیں آپ کی محبت بھری نگرانی میں کلیولینڈ کی جماعت کی از سرنو تنظیم عمل میں آئی اور وہ آپ کی اور اپنے موجودہ قابل امیر احمد وسیم صاحب کی راہنمائی میں مضبوط اور پائیدار بنیادوں پر قائم ہوگئی.محترم بنگالی صاحب کی کمی ہمیں دردناک طور پر محسوس ہوتی رہے گی.خاص طور پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے خطبات جمعہ کے تراجم کی وجہ سے جو آپ نے بڑی محنت سے کئے اور ہماری راہنمائی کے لئے متواتر شائع کئے.محترم بنگالی صاحب دوسرے خوش نصیب مبلغ ہیں جنہوں نے امریکہ میں احمدیت کی خاطر کام کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا.پہلے شہید محترم مرزا منور احمد صاحب تھے جو پٹس برگ پنسلوانیا میں مدفون ہیں.ان لوگوں سے جو ڈیٹن میں آپ کے قریب رہتے تھے معلوم ہوا کہ وفات سے قبل جمعہ کے روز آپ نے احمدی دوستوں کو بار بار دعا کیلئے کہا کہ ان کا انجام اچھا اور مبارک ہو.معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اور آپ کے امریکی بہنوں اور بھائیوں کی دعاؤں کو قبول کر لیا.“ آپ کی میت واشنگٹن سے نیو یارک اور نیو یارک سے ۱۹ مئی کی شب ربوہ لائی گئی.جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ کے اس قطعہ میں جو مبلغین کے لئے مخصوص ہے، سپردخاک کیا گیا.147 مولوی تاج دین صاحب دھرم کوئی (وفات ۲۸ مئی ۱۹۷۲ء) مولوی تاج دین صاحب دھرم کوئی اپنی علمی قابلیت کی وجہ سے جماعت میں فاضل گرمشہور تھے.آپ بہت نیک دعا گوہ مخلص اور غریب طبع انسان تھے.خود مولوی فاضل نہ تھے لیکن علمی قابلیت اتنی رکھتے تھے کہ ان سے استفادہ کر کے بہت سے نوجوانوں نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 266 سال 1972ء جامعہ احمدیہ میں بھی پڑھاتے رہے.کچھ عرصہ دفتر الفضل میں بھی بطور پروف ریڈر خدمت کا موقع ملا.مورخہ ۲۸ مئی کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.148 سرفراز خان صاحب افغان (وفات ۲۸ مئی ۱۹۷۲ء) مکرم سرفراز خان صاحب افغان مددگار کارکن نظارت بیت المال ( آمد ) مختصر علالت کے بعد مورخہ ۲۸ مئی ۱۹۷۲ء کو بعمر ۵۹ سال وفات پاگئے.مرحوم بہت محنتی ، فرض شناس، زندہ دل اور مخلص کارکن تھے.تیرہ سال کی عمر میں اپنے آبائی گاؤں موضع ممہ خیل نز دنو رنگ ضلع بنوں سے ہجرت کر کے قادیان آگئے.آپ ۱۹۳۹ ء میں صدر انجمن احمدیہ میں بطور مددگار کارکن ملازم ہوئے.پہلے نظارت دعوت و تبلیغ میں اور پھر لمبا عرصہ نظارت بیت المال میں خدمت کا موقع ملا.مرحوم موصی تھے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی.149 مولوی عبد الرحمن صاحب (وفات ۵ جون ۱۹۷۲ء) مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب آف دا تہ ضلع ہزارہ نے مورخہ ۵ جون ۱۹۷۲ء کو وفات پائی.آپ کی عمر ۷۵ سال تھی.آپ دیو بند ضلع سہارنپور سے فارغ التحصیل ہو کر بمقام لگ منگ علاقہ بوئی تحصیل ایبٹ آباد اپنے آبائی گاؤں میں منصب خطابت پر فائز ہوئے.علمی برتری حاصل ہونے کے باعث جملہ علاقہ ہوئی میں آپ کو اونچا مقام حاصل تھا.آپ ذاتی طور پر خاصی جائیداد کے مالک تھے.وہ زمانہ آپ کا بڑا شاندار تھا.قبولیت احمدیت کے بعد مخالفت کی آگ اتنی تیز ہو گئی کہ آخر مولوی صاحب کو وطن عزیز سے مجبوراً ہجرت کرنا پڑی.آپ اپنی جائیداد کوڑیوں کے مول فروخت کر کے دانہ تحصیل مانسہرہ میں آکر آباد ہو گئے.ایک شادی کے موقعہ پر آپ پر مخالفین نے قاتلانہ حملہ بھی کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو محفوظ رکھا.مولوی صاحب کو تبلیغ کا جنون تھا.بڑے نڈر احمدی اور وابستگئی خلافت میں بڑے مخلص اور غیور تھے.آپ باقاعدہ تہجد گزار تھے.آپ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے لئے بستر وغیرہ سامان لے کر گھر سے برائے ربوہ روانہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 267 سال 1972ء ہوئے.ریلوے سٹیشن پر پہنچ کر ٹکٹ لے کر سامان گاڑی میں رکھا اور خود کسی کام کے سلسلہ میں سٹیشن پر ہی تھے کہ گاڑی روانہ ہوگئی.اور آپ کا سارا سامان آپ سے جاتا رہا.اسی بے سروسامانی میں آپ ربوہ پہنچ گئے.اور اس دوران بہت دعائیں کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ یاوری فرمائے اور سامان واپس مل جائے.تھوڑی دیر بعد دیکھا کہ ایک اجنبی بوڑھا شخص آپ کا سامان اٹھائے ان کی تلاش میں ضلع ہزارہ کی قیام گاہ میں داخل ہوا.اس شخص کا کہنا تھا کہ س کوڈ بہ میں اتنا پتہ چل گیا تھا کہ سامان والا شخص ربوہ جارہا ہے اور نام بھی کسی طرح معلوم ہو گیا تھا.150 مولانا تاج الدین صاحب لائلپوری (وفات ۲۴ جون ۱۹۷۲ء) ۱۹۱۴ء میں ۱۲ سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے خاندان (جو چک نمبر ۳۳۲ ج ب لائلپور میں آباد تھا) میں سب سے پہلے قبول احمدیت اور قادیان جانے کی توفیق بخشی.جس کے بعد کی آپ کا قریباً سارا خاندان احمدی ہو گیا.آپ خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے مدرسہ احمدیہ قادیان میں ہم جماعت تھے.مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے یکم مئی ۱۹۲۵ء کو تدریسی میدان میں قدم رکھا اور اینگلوورینکلر مڈل سکول گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں عربی ٹیچر کی حیثیت سے آپ کی تعلیمی خدمات کا آغاز ہوا.۱۴ مئی ۱۹۲۹ء سے ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء تک مدرسه احمد یہ قادیان میں عربی ٹیچر کے فرائض نہایت محنت سے انجام دیتے رہے.چنانچہ شیخ نور احمد صاحب منیر مجاہد بلاد عر بیہ کا بیان ہے:.محترم مولانا مرحوم کو تعلیم و تدریس کا وسیع اور کامیاب تجربہ تھا.مدرسہ احمدیہ قادیان کی ابتدائی جماعتوں کو مولانا عربی ادب پڑھایا کرتے تھے.صرف و نحو کا مضمون بھی ان کے سپر د تھا.ان کی تدریس میں یہ خوبی قابل ذکر ہے کہ کورس بھی مکمل کراتے اور بہت ہی اچھے انداز میں پڑھایا کرتے تھے.پڑھائی کے ساتھ عملی مشق کراتے اور...کا پیاں روزانہ دیکھا کرتے اور ہر کاپی پر نوٹ دیا کرتے جن کی تعمیل کرنی ضروری ہوتی.مدرسہ میں پڑھایا کرتے اور کا پیاں گھر میں دیکھا کرتے.ان کے مضامین کا نتیجہ بہت ہی نمایاں ہوا کرتا تھا.محترم مولانا نہایت ہی محنتی تھے اور قدرتی طور پر ان کا رعب بھی بہت تھا.چونکہ مولا نا مولوی فاضل کے ساتھ اوٹی (O.T) بھی تھے اس لئے آپ
تاریخ احمدیت.جلد 28 268 سال 1972ء طلباء کی نفسیات اور رجحانات کو بہت جلد پہچان لیتے تھے.کمزور طالب علموں کا خاص خیال رکھتے.تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء کی اخلاقی حالت کا بھی آپ خیال رکھتے.بہت ہی دیندار اور سنجیدہ مزاج تھے.اپنے ہی کام سے غرض تھی.اس لئے آپ طلباء میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.جو سبق انہوں نے پڑھانا ہوتا اس کی باقاعدہ تیاری کرتے اور نوٹس لکھ کر لاتے تھے.ایک استاد کی حیثیت سے وہ بہت ہی کامیاب اور ہر دلعزیز تھے ان کے شاگردوں کا سلسلہ بہت ہی وسیع ہے.اپنے شاگردوں سے بڑی تواضع اور مسکراہٹ سے ملتے“.151 ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء سے ۸ فروری ۱۹۴۷ء تک آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے عربی ٹیچر رہے.ازاں بعد آپ ۹ فروری ۱۹۴۷ء کو ناظم دارالقضاء ایسے اہم عہدے پر فائز ہوئے.اسی دوران ۱۰ /اکتوبر ۱۹۶۲ء کو آپ ریٹائر ہوئے اور اسی تاریخ سے دوبارہ اسی منصب پر فائز کئے گئے.ازاں بعد ۵ فروری ۱۹۶۹ء کو انچارج شعبہ رشتہ ناطہ مقرر ہوئے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ تک آپ کو سلسلہ احمدیہ کی بے لوث اور نہایت قابل قدر خدمات انجام دینے کی توفیق بخشی.52 مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے آپ کی وفات پر محترم جناب مولانا تاج الدین صاحب کا ذکر خیر کے زیر عنوان لکھا:.152 مدرسہ احمدیہ قادیان میں محترم مولانا تاج الدین صاحب لائلپوری میرے کلاس فیلو تھے.مدرسہ کی پہلی جماعت سے مولوی فاضل پاس کرنے تک ہم ایک ساتھ پڑھتے رہے.انسان کی فطرت میں یہ امر داخل ہے کہ وہ پاس رہنے والوں سے مانوس ہو جاتا ہے بلکہ تھوڑا عرصہ پاس بیٹھنے سے بھی باہم انس و محبت پیدا ہو جاتی ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سفر میں چند گھنٹے کی معیت پائیدار تعلقات کی بنیاد بن جاتی ہے.کلاس فیلوز تو با ہم خاص موانست رکھتے ہیں.محترم مولانا تاج الدین صاحب مرحوم کو مطالعہ کا بہت شوق تھا.اخبارات اور رسائل بھی پڑھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور سلسلہ کے دیگر لٹریچر کے مطالعہ کی انہیں دھن تھی.میں کہہ سکتا ہوں کہ اس زمانہ کے قریباً سب طلباء میں مطالعہ کتب کا بہت شوق تھا.بریکار وقت ضائع کرنے کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا.پھر یہ بھی شوق تھا کہ سلسلہ کی کتب خود خرید کر پڑھیں اور اپنی اپنی لائبریریاں بنائیں.لائبریری بنانے میں طلبہ کا باہم مقابلہ ہوتا تھا کہ کس کے پاس زیادہ اور نادر کتب ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 269 سال 1972ء کثرت مطالعہ کے سلسلہ میں مجھے یاد آیا کہ ہمارے ہوٹل کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ جناب نعمت اللہ خان صاحب یو پی کے رہنے والے ایک بزرگ تھے.ایک دن میں کتاب ہاتھ میں لئے بہشتی مقبرہ کے باغ کی طرف پڑھنے کے لئے جارہا تھا.جناب نعمت اللہ خان صاحب نے روک کر فرمایا کہ مجھے تمہیں کثرت سے پڑھتے ہوئے دیکھ کر ترس آتا ہے اور میں تمہارے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ تمہیں ترقی دے.آمین.میں ان کی بات سن کر ان کی دعا کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے باغ کی طرف چلا گیا.اس زمانہ میں طلبہ میں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کا بھی مقابلہ ہوا کرتا تھا.بالخصوص ہماری جماعت کے طلبہ اس میدان میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں کوشاں رہتے تھے.محترم مولانا تاج الدین صاحب مرحوم بھی انہی محنتی طلبہ میں سے تھے.ایک دفعہ رات کو دیر تک پڑھتے رہنے کا مقابلہ ہو گیا ان دنوں مٹی کے تیل کے چھوٹے لیمپ یا سرسوں کے تیل کے دئے ہوا کرتے تھے.ہم طلبہ دو کمروں میں تھے.کمرہ نمبر ا کے طلبہ چاہیں کہ کمرہ نمبر ۲ کے طالب علم پہلے سو جائیں اور دوسروں کی خواہش تھی کہ کمرہ نمبرا کے طالب علم پہلے پڑھنا ختم کر دیں.ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور اپنے اپنے مطالعہ میں مگن رہے یہاں تک کہ صبح کی نماز کی اذان ہوگئی.میں نے یہ مثال اس لئے ذکر کی ہے کہ قارئین پرانے طلبہ کے شغف اور محنت کے انداز کو سمجھ سکیں اور نئے طلبہ محنت میں مزید ترقی کریں.محترم مولانا تاج الدین صاحب کے بہت سے مقالات اور شذرے اس زمانہ کے تشخیذ الا ذہان اور ریویو آف ریلیجنز میں شائع شدہ موجود ہیں.تقریر کی مشق کی کمی کے باعث محترم مولانا تاج الدین صاحب نے تبلیغی لائن کی بجائے تدریسی شعبہ کو اختیار کیا.ہم نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل ایک ساتھ پاس کیا تھا.ہم سات طالب علموں نے قادیان سے امتحان دیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سب کامیاب ہو گئے تھے.مولوی فاضل کے بعد میں نے مبلغین کلاس میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس پڑھنا شروع کیا اور محترم مولانا تاج الدین صاحب مدرس مقرر ہو گئے.قادیان کے ہائی سکول اور گھٹیالیاں کے ہائی سکول میں کافی عرصہ تک پڑھاتے رہے گویا اس وقت ہماری خدمتِ سلسلہ کی لائن مختلف ہو گئی تاہم باہم انس و موڈت برقرار رہی.پٹیالہ کے منشی محمد یعقوب صاحب نے عشرہ کاملہ نامی کتاب لکھی.محترم مولانا تاج الدین صاحب نے اپنے طور پر اس کے جواب کے لئے نوٹ تیار کئے.کچھ مسودہ بھی لکھا.آخر حضرت
تاریخ احمدیت.جلد 28 270 سال 1972ء خلیفہ اسیح الثانی کے خاص ارشاد کے ذریعہ مجھے اس کتاب کا جواب لکھنے کا حکم ہوا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے تفہیمات ربانیہ نامی تنظیم کتاب تصنیف کی.اس کتاب کے دیباچہ میں میں نے ذکر کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کی تدوین میں دیگر کتب کے علاوہ محترم مولانا تاج الدین صاحب کے مسودہ سے بھی استفادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ برادرم مولانا صاحب مرحوم کو جزائے خیر بخشے.آمین اللہ تعالیٰ نے مولانا مرحوم کو بات کی تہ تک پہنچنے کا بہت ملکہ عطا فر ما یا تھا.آپ عمر کے آخری حصہ میں خلافت ثانیہ میں سالہا سال تک قضاء کے عہدے پر کام کرتے رہے اور ناظم دار القضاء بھی رہے.آپ کے بہت سے فیصلہ جات پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بہت محنت سے مرتب کئے گئے ہیں.حضرت مولانا صاحب مرحوم عقائد اور ایمان کے بارے میں پوری تحقیق کے بعد بصیرت سے قائم تھے.مخالفین کا لٹریچر پڑھ کر اس کی تردید کرنے کا شوق رکھتے تھے.عیسائیت اور آریہ مت نیز غیر مبائعین کے خیالات کے بارے میں بھی انہیں کافی عبور حاصل تھا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی دینی معاملات میں مشورہ میں آپ کو بھی شامل فرمایا کرتے تھے.153 علمی خدمات: مولانا تاج الدین صاحب نے رسالہ تحیذ الاذہان ، رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو اور الفضل میں بہت سے مضامین سپرد قلم کر کے علمی جہاد میں حصہ لیا.آپ کے بلند پایہ مضامین کی کچھ تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.( تشخيذ الا ذبان ) معصومیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید (جولائی ۱۹۲۰ء).لو كان بعد نبى لكان عمر میں بعدی سے کیا مراد ہے ( ستمبر ۱۹۲۰ء).(ریویو آف ریلیجنز ) حدیث لا نبی بعدی میں بعدی سے کیا مراد ہے ( جون ۱۹۲۰ء).قرآن مجید میں کوئی اختلاف نہیں ( ستمبر ۱۹۳۰ء).الحجۃ البیضا في المعراج والاسراء ( دسمبر ۱۹۳۰ء).توضیح المقال في التصوير والمقال ( مارچ ۱۹۳۱ء).القول الحسن في مرسل الحسن ( ستمبر ۱۹۳۵ء).صداقت خیر البشر ( مئی ۱۹۳۶ء).صداقت خیر البشر ( جون ۱۹۳۶ء).البيان الوفی فی معنی التوفى ( ستمبر و اکتوبر ۱۹۳۶ء).ارشاد اللبيب الى كسر الصليب ( مئی ۱۹۳۸ء).شہادۃ القرآن مصنفہ میر سیالکوٹی صاحب کا جواب (جولائی ، تمبر ، نومبر ۱۹۳۸ء).کتب اہل کتاب اور ان کی روایات ( مارچ ۱۹۴۶ء ).شہادۃ القرآن مصنفہ میر سیالکوٹی کا جواب ( مئی ۱۹۴۶ ء.وجولائی
تاریخ احمدیت.جلد 28 271 سال 1972ء ۱۹۴۶ء) (الفضل) عنوان.ڈاکٹر بشارت احمد صاحب سے استفسار (۳ جنوری ۱۹۳۰ ء صفحه ۱۳).احسن التحرير فى التمثال والتصویر.تصویر کی حلت و حرمت (۲۸ جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۰-۱۳ ).کیا حدیث خسوف و کسوف ضعیف ہے (۱/۱۷ پریل ۱۹۳۲ ، صفحہ ۵.الفضل ۱۵ مئی ۱۹۳۲ء صفحہ ۶).ختم نبوت کے بارے میں احراریوں کا گمراہانہ رویہ.آیات قرآنی کی رکیک تاویلات کی بیجا کوشش (۱۹ جون ۱۹۳۵ ء صفحہ ۵) بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے والوں کا مقام (۲۲ مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۴).صوبیدار میجر عبدالقادر صاحب ( وفات ۵ جولائی ۱۹۷۲ء) آپ نے اپنی ابتدائی زندگی میں بہت سے ممالک کی سیر کی تھی اور آپ ایک روشن خیال اور عالی دماغ انسان تھے.فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے حضرت ملک برکت علی صاحب خالد احمدیت حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم کے والد اور مہر الدین صاحب پٹواری سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر مطالعہ کیا اور فروری ۱۹۴۱ء میں داخلِ احمدیت ہوئے.آپ اپنے گاؤں اور خاندان میں سب سے پہلے احمدی تھے جس کے بعد آپ نے دیوانہ وار تبلیغ شروع کر دی اور آپ کے ذریعہ کئی سعید روحیں احمدیت میں داخل ہوئیں.۱۹۴۷ء میں احمدی مہاجرین کو قادر آباد میں آباد کرنے میں آپ نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.حتی کہ ان کو رہنے کے لئے اپنا گھر پیش کیا.خوراک اور بستروں کا انتظام کیا اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دی.آپ ہی کی مساعی سے قادر آباد میں ایک مخلص جماعت کا قیام عمل میں آیا.۱۶ را کتوبر ۱۹۵۷ء کو آپ نے سخت مخالفت کے باوجود گاؤں میں احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی اور تکمیل کے بعد اسے صدر انجمن احمدیہ کے نام رجسٹرڈ کرادیا.مسجد کےساتھ آپ نے افادہ عام کیلئے ایک خوبصورت لائبریری بھی قائم فرمائی.جس سے احمدی اور غیر احمدی دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں.آپ کی زندگی بہت سادہ تھی لیکن ہر بات میں نفاست جھلکتی تھی.بیعت سے پہلے آپ مذہب سے دور تھے مگر احمدی ہونے کے بعد آپ کی کایا پلٹ گئی.گفتگو دلنشین انداز میں فرماتے.تہجد گزار تھے.نماز اول وقت پر ادا کرتے اور چندہ با قاعدگی سے دیتے تھے.خوش خلقی اور مہمان نوازی آپ کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ قادر آباد ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی رہے.154
تاریخ احمدیت.جلد 28 سید عبدالجلیل شاہ صاحب (وفات ۲ / اگست ۱۹۷۲ء) 272 سال 1972ء آپ حضرت حکیم میر حسام الدین صاحب کے پوتے اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کے صاحبزادے تھے.155 سید عبدالجلیل شاہ صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے ابتدائی تعلیم حاصل کی.بی اے مرے کالج سیالکوٹ سے کیا جس کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی اور چنیوٹ ،لاہور ،سرگودھا اور فیصل آباد میں بطور ہیڈ ماسٹر خدمات بجالاتے رہے.ریٹائر ہونے کے بعد ربوہ میں ایک ٹیوشن سنٹر کھول لیا اور اس طرح آپ تا وفات ملک وقوم کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ ہر وقت پڑھا تا رہوں.ٹیوشن سنٹر میں آپ نے نویں و دسویں کلاسز کے علاوہ ایف اے اور بی اے کے طلباء کو بھی داخل کیا ہوا تھا اور ان کی کھیلوں وغیرہ کا بھی انتظام کیا ہوا تھا.آپ کے پڑھانے کا انداز نرالا تھا.ایک دفعہ کا پڑھا ہوا سبق طلباء بھولتے نہیں تھے.غریب بچوں کی طرف خاص توجہ فرماتے.طلباء کے سوالات کے جوابات نہایت محبت سے دیتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے.آپ ملنسار، مہمان نواز اور دوسروں کے کام کرنے والے انسان تھے.جہاں جاتے اپنی شیریں زبان اور خوش مزاجی کی وجہ سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیتے.ہر وقت مسکراتے رہنا اور اپنی دلچسپ باتوں سے دوسروں کا دل بہلانا ان کی عادت تھی.حافظہ بہت تیز تھا.فرمایا کرتے گو میں بوڑھا ہو گیا ہوں لیکن مجھے ایف اے اور بی اے کا کورس ابھی تک یاد ہے.عبادت گزار اور دعا گو تھے.ہر روز صبح تین بجے اٹھتے.سردی ہو یا گرمی ٹھنڈے پانی سے غسل فرماتے اور نماز تہجد ادا کرتے.صاحب کشوف اور رؤیا تھے.آپ کی کئی خوا میں پوری ہو ئیں اور آپ کے اور دوسرے متعلقین کے ازدیاد ایمان کا موجب ہو میں.ربوہ جس جگہ آباد ہے یہ جگہ بھی کئی سال قبل آپ کو خواب میں دکھائی گئی تھی جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس جگہ کو مرکز تعمیر کرنے کے لئے چنا اور اس کی نشاندہی کی تو آپ نے بتایا یہ وہی جگہ ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی.امتحانات سے قبل اکثر خواب کے ذریعہ بعض سوالات کا علم پاتے اور اپنے شاگردوں کو بتاتے اور امتحان میں وہی سوال آتے.156 سید محمد لطیف شاہ صاحب ( وفات ۴ /اگست ۱۹۷۲ء)
تاریخ احمدیت.جلد 28 273 سال 1972ء چک قاضیاں تحصیل شکر گڑھ کے ایک پیر خاندان کے چشم و چراغ تھے.حضرت قاضی سید حبیب اللہ شاہ صاحب آف شاہدرہ ( بیعت ۱۹۰۰ ء.وفات ۲ مارچ ۱۹۷۴ء) کے ہاں مقیم تھے کہ انہی کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا.پہلی کتاب جو سلسلہ احمدیہ کی آپ نے مطالعہ کی وہ آئینہ کمالات اسلام تھی.ازاں بعد آپ نے مکتوبات احمدیہ حصہ اول اور ازالہ اوہام کو پڑھا جس کے نتیجہ میں آپ پر حق بالکل کھل گیا.چنانچہ خود تحریر فرماتے ہیں:.پہلی کتاب جو میں نے مطالعہ کی وہ آئینہ کمالات اسلام تھی جس میں حضرت اقدس علیہ السلام نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات بیان فرمائے ہیں.چونکہ رسول پاک سے خاندانی طور پر مجھے بہت محبت تھی میرے اندر اس کتاب کے مطالعہ نے ایک عجیب وجدانی کیفیت پیدا کر دی.چنانچہ اسی وجدانی حالت میں ایک دن مغرب کی نماز پڑھ رہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اس قدر غلبہ تھا کہ میں شوق و محبت کی وجہ سے رورہا تھا.وجدانی حالت طاری تھی کہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم پاکیزہ اور نورانی شکل میں میری میز کے سامنے تشریف لائے.یہ کشفی حالت تھی جس سے میرے دل میں نہایت سرور اور اطمینان پیدا ہوا.یہ حالت نماز تھی.نماز ختم کر دی.دوسری کتاب جو میرے مطالعہ میں گزری وہ مکتوبات احمد یہ جو میر عباس علی صاحب لدھیانوی کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کی تصوف کے رنگ میں ہے اس نے بھی مجھ پر بہت اثر پیدا کیا.میری طبیعت کا میلان بھی تصوف کی طرف تھا.تیسری کتاب جو میں نے پڑھی وہ ازالہ اوہام تھی جس نے میرے عقیدہ حیات مسیح کو بالکل دل سے باہر نکال پھینکا.جس میں قرآن کریم اور حدیث کی رو سے زبر دست دلائل وفات مسیح کے متعلق دیئے گئے ہیں.غرضیکہ وفات مسیح کا قائل ہو گیا مگر حضرت قاضی صاحب کو کوئی علم نہیں تھا کہ میں کتابیں مطالعہ کر رہا ہوں.البتہ مہدی کے متعلق میرا یہ عقیدہ ہو گیا تھا.حضرت مرزا صاحب اپنے زمانہ کے مہدی ہیں جو مہدی سادات میں سے ہوگا.وہ اپنے وقت پر الگ آوے گا.ایک دن رات کے ۸ بجے ہوں گے سردیوں کا موسم تھا حضرت قاضی حبیب اللہ صاحب نے مجھے کہا کہ محمد لطیف تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو دیکھا ہے.میں نے کہا کہ نہیں.انہوں نے اس وقت اندرونِ خانہ سے حضرت صاحب کا فوٹو منگوایا.فوٹو میں نے دیکھا تو یکدم میری حالت اس نوری شکل کو دیکھ کر متغیر ہوئی.ایک نور بجلی کی طرح میرے اندر داخل ہوا اور بے اختیار میری زبان سے نکلا کہ یہ عظیم الشان نبی کا فوٹو ہے حالانکہ میں نے حضرت صاحب کے دعوی نبوت کے متعلق کوئی کتاب
تاریخ احمدیت.جلد 28 274 سال 1972ء نہیں پڑھی تھی اور نہ ہی نبوت کے دلائل معلوم تھے.میں نے اسی وقت قاضی صاحب کی خدمت میں عرض کی میرا بیعت کا خط لکھ دیا جاوے.چنانچہ حضرت قاضی صاحب کو بہت خوشی ہوئی.اندر سے کارڈ منگوایا.رات کے ۸ بجے بیعت کا خط لکھ دیا اور ڈاک میں ڈال دیا.یہ (جون ) ۱۹۱۲ ء کا واقعہ ہے.آپ کا بیان ہے کہ حضرت خلیفہ اول نے مجھے سورۃ فاتحہ کا ترجمہ پڑھایا پھر حضرت میر ناصر نواب صاحب کے سپر دفرما دیا کہ وہ قرآن کریم ترجمہ کے ساتھ اور نحو بھی پڑھایا کریں.چنانچہ حضرت میر صاحب نے بڑی شفقت اور محبت سے آپ کو پڑھانا شروع کیا اور حکیم مولوی غلام محمد صاحب کو طب پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا.چنانچہ آپ چھ ماہ تک پڑھتے رہے.۱۹۱۵ء میں آپ قادیان کی مبلغین کلاس میں شامل ہوئے اور دو سال کی تعلیم (الفضل ۴ مارچ ۱۹۱۶ء میں آپ کے نکاح اور مبلغین کالج کے فارغ التحصیل ہونے کا ذکر موجود ہے) کے بعد آپ کو ملتان، ڈیرہ غازیخان اور منٹگمری کے حلقہ تبلیغ میں بھجوایا گیا.ملتان میں بڑے بڑے پیروں تک پیغام حق پہنچایا اور کئی لوگ آپ کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے.157 آپ کو اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کے ساتھ کاروبار کے سلسلہ میں برما جانے کا موقعہ ملا.وہاں کئی سال تک آنریری مبلغ کے طور پر کام کرتے رہے.انہیں تبلیغ کا ایک جنون تھا وہاں تبلیغ کے سلسلہ میں ملک کے وسیع دورے بھی کئے.مناظرے اور مباحثے بھی کئے.چنانچہ میمو (برما) میں آپ نے مولوی غلام علی شاہ صاحب آف مانڈے کے ساتھ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مسئلہ نبوت پر ۲۳ جون ۱۹۲۹ء کو جامع مسجد میں ایک مشہور مناظرہ کیا جو چھ گھنٹے جاری رہا.آپ اکیلے تھے اور مخالف مناظر کی مدد ہندوستان کے قریباً ایک درجن علما کر رہے تھے.اس مناظرہ میں احمدیت کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی.الفضل ۵ جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۱ پر اس مناظرہ کا احوال شائع ہو چکا ہے.برما سے واپسی کے بعد ۱۹۳۴ء میں آپ بطور انسپکٹر بیت المال صدر انجمن احمدیہ سے منسلک ہوئے اور برابر ۲۸ سال نہایت اخلاص اور مستعدی کے ساتھ خدمات بجالاتے رہے.کچھ عرصہ تک چیف انسپکٹر بیت المال بھی رہے.آپ ایک کامیاب طبیب بھی تھے.پنجاب یونیورسٹی کے زبدة الحکماء تھے لیکن طبابت کو آپ نے پیشہ نہیں بنایا بلکہ خدمت سلسلہ کے دوران خدمت خلق کے طور پر علاج معالجہ بھی کرتے.اسی طرح آپ بندگانِ خدا کو جسمانی فائدہ بھی پہنچاتے.کچھ عرصہ تک تحریک جدید انجمن احمد یہ میں بھی بطور انسپکٹر کام کیا.158
تاریخ احمدیت.جلد 28 275 مولا نا ابوبکر ایوب صاحب آف پاڈانگ ( ولادت ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۸ء.وفات ۱۳.۱۴ ستمبر ۱۹۷۲ء) سال 1972ء آپ اپنے دو ساتھیوں مولوی احمد نور الدین صاحب اور مولوی زین العابدین ذینی داہلان صاحب کے ساتھ بغرض تعلیم اگست ۱۹۲۳ء میں قادیان پہنچے اور داخل احمدیت ہو گئے.159 چوہدری عبد الرحمن صاحب شاکر پنشنرز صدر انجمن احمد یہ ربوہ کا بیان ہے کہ پہلے پہل ان تینوں طلباء کو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے مکان میں ٹھہرایا گیا.آپ نہایت خوش اخلاق، بے حد محنتی اور بہت ذہین تھے.لباس آپ کا ہمیشہ اجلی دیکھا.اپنے استادوں کا دل سے احترام کرتے تھے.وقت کے بہت پابند تھے.ان کو خوش دل اور مسکراتے ہوئے پایا.فٹ بال خود کھیلتے تھے جو انڈونیشیا کی قومی کھیل ہے.160 جامعہ احمدیہ قادیان میں آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا کلاس فیلو ہونے کا شرف حاصل تھا.آپ نے ۱۹۲۹ ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.161 آپ قادیان سے انڈونیشیا تشریف لے گئے جہاں آپ نے متعدد کامیاب مناظرے کئے اور احمدیت کی تائید میں کئی کتب و رسائل تحریر کئے.100 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی نصائح 162 آپ جب قریباً چار سال قادیان میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن سماٹرا کوروانہ ہوئے تو انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے درخواست کی کہ حضور اپنے ہاتھ سے کوئی نصیحت لکھ کر مرحمت فرمائیں.اس پر حضور نے حسب ذیل سطور لکھ کر عطا فرمائیں.عزیز مکرم! السلام علیکم ورحمۃ اللہ میں زیادہ تو نہیں لکھ سکتا لیکن چونکہ آپ ایک عرصہ تک قادیان رہنے کے بعد جارہے ہیں.آپ کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ سب سے اول تو اللہ تعالیٰ کی ان تازہ وجیوں کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام پر نازل ہوئی ہیں پڑھتے رہیں اور اس کے تازہ نشانات کو پڑھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے زیادہ قیمتی شئے انسان کے لئے اور کوئی نہیں.یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے.پس ہر ضرورت پر
تاریخ احمدیت.جلد 28 276 سال 1972ء اسی کی طرف جھکیں اور اسی سے دعا کریں کہ اس سے زیادہ خیر خواہ بندہ کا اور کوئی نہیں.نماز کو ایک ایسا فرض سمجھیں کہ جسے کسی صورت میں ترک نہیں کیا جا سکتا.حضر سفر، تندرستی بیماری، کسی حالت میں بھی نماز میں کوتاہی نہ ہو.تبلیغ نہ صرف ایک فرض ہے بلکہ خدمت خلق بھی ہے.جب انسان دوسرے کو ڈوبتے ہوئے دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا وہ اسے خدا تعالیٰ سے دور ہوتے دیکھ کر کب خاموش بیٹھ سکتا ہے.اخلاق فاضلہ ایمان کی علامتوں میں سے ہیں اور اس کا خوشنما پھل ہیں.پس اخلاق فاضلہ کے حصول اور ان پر کار بند ہونے کو ہمیشہ مدنظر رکھیں کہ بے ثمر درخت کی طرح وہ ایمان بھی کام کا نہیں جس کے ساتھ اخلاق فاضلہ نہ ہوں.ہمیشہ مرکز سے تعلق رکھیں کہ جو شاخ جڑ سے کٹ جاتی خشک ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے اہل ملک کو ہدایت عطا فرمائے اور آپ کے ملک کو احمدیت کا ایک اہم مرکز بنائے کہ وہ ملک ہندوستان کے سوا سب دوسرے ملکوں سے اس نور کی طرف زیادہ توجہ کر رہا ہے.والسلام خاکسائی مرزا محمود احمد خلیفۃ السیح الثانی 163 انڈو نیشیا کے بعد آپ کو ہالینڈ میں شاندار تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق ملی اور اپنے اہل وعیال سے ہزاروں میل دور اسی سرزمین میں غریب الوطنی کے عالم میں اپنی جان جان آفرین کے سپر د کر دی اور بالآخر منهم من قضى نحبه“ کے مصداق بن کر رب جلیل و قدیر کے حضور حاضر ہو گئے.مولانا عطاء المجیب صاحب را شد ایم اے امام مسجد فضل لندن ( جنہیں آپ کی وفات کے بعد عارضی طور پر ہالینڈ مشن کا چارج سنبھالنے کی سعادت نصیب ہوئی) نے اپنے ذاتی مشاہدہ کی بناء پر لکھا کہ:.”یہاں آنے کے بعد میں نے یہ بات خاص طور پر محسوس کی ہے کہ نہ صرف احباب جماعت پر بلکہ غیر از جماعت احباب پر بھی محترم مولانا ابوبکر ایوب صاحب کے اخلاق فاضلہ اور بلند پایہ شخصیت کا بہت نمایاں اور پائیدار اثر ہے.ہر ایک کو آپ کا مداح پایا.مختلف مجالس میں آپ کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور احباب جماعت آپ کی نمایاں خوبیوں کو اس محبت اور عقیدت سے بیان کرتے ہیں کہ دل رشک کے جذبات سے بھر جاتا ہے.یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر ایک شخص سے آپ کا ذاتی تعلق
تاریخ احمدیت.جلد 28 277 سال 1972ء تھا.باوجود اس امر کے کہ آپ جب دوبارہ ہالینڈ تشریف لائے تو شروع ہی سے کسی قدر علیل تھے آپ نے تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جس سے زائرین کی تعداد میں اضافہ ہوا.آپ کی سادہ اور شگفتہ طبیعت بھی اسی کشش کا باعث تھی.آپ کاموں میں بہت با قاعدہ، مالی امور میں بہت محتاط، خوش پوش، ظاہری و باطنی صفائی کا خیال رکھنے والے محنتی اور سلسلہ کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھنے والے تھے.نواحمدی ڈچ احباب کی تعلیم و تربیت کا خانگی خیال رکھتے اور انہیں اپنے سیکھے ہوئے علم کو استعمال کرنے کے علمی مواقع بھی مہیا فرماتے تھے.الغرض آپ ان گنت خوبیوں کے مالک تھے “.164 مولانا ابوبکر ایوب صاحب کی دلر با شخصیت اور بلند اخلاق نے جماعت احمدیہ ہالینڈ پر کتنا گہرا اثر ڈالا ہے اس کا کسی قدر اندازہ محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بیگم جمن بخش صاحب مقیم ہالینڈ کے مندرجہ ذیل تاثرات سے بخوبی ہو سکتا ہے:.”ہمارے مولوی صاحب ہالینڈ کی جماعت میں بہت ہر دلعزیز تھے.بڑی ہی سادہ طبیعت کے ، ملنسار، خوش مزاج، زندہ دل اور حساس بزرگ تھے.حضور پرنور کے ساتھ بکمال اخلاص اور عقیدت رکھتے تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کا درد رکھنے والے اور اس سے والہانہ محبت رکھنے والے تھے.ہمیشہ یہ خیال رکھتے تھے کہ خرچ زیادہ نہ ہو کوئی چیز ضائع نہ ہو...وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یکے بعد دیگرے مولوی صاحب کو کئی خوشیاں نصیب ہوئیں.آپ نے جلد ہی اللہ تعالیٰ کے حضور چلے جانا تھا اس لئے شاید اللہ تعالیٰ نے آپ کی اہلیہ صاحبہ کو بچوں کی جلد شادیاں کر دینے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کے سامان بھی میسر کر دیئے.جب آپ کی بچی کی شادی تھی آپ کی اہلیہ نے لکھا اپنی کوئی تقریر ٹیپ کر کے ہمیں بھجوائیں.آپ نے یہ بات ہمیں بتائی تو نجانے کس منشاء الہی کے ماتحت جمن صاحب مولوی صاحب سے اصرار کرنے لگے کہ کب تقریر ٹیپ کرائیں گے.جب شادی میں صرف پانچ دن باقی رہ گئے تو جمن صاحب خود ہی ایک ریل خرید لائے اور کہا مولوی صاحب آئے تقریر کیجئے.مولوی صاحب نے تقریر لکھی اور ہمارے ہی گھر آ کر ٹیپ کروائی.مسلسل ڈیڑھ گھنٹہ کی تقریر جوانوں جیسا لہجہ اور صاف آواز تھی.پھر ساری تقریر دوبارہ خودسنی اور ایک خاص قسم کی خوشی سے فرمانے لگے اب یہ تقریر گھر گھر اور ایک ایک بچے کے پاس جائے گی اور سب ہی اسے سنیں گے.یہ آپ کی آخری آواز تھی جو آپ کے عزیزوں کے پاس پہنچی.آپ نے ہمیں بتایا کہ میں نے اپنے گھر بڑی تاکید سے لکھا ہے کہ بچی کی شادی مسجد میں ہو اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 278 سال 1972ء اس کے لئے جماعت کے ایک ایک فرد کو دعوت دی جائے کوئی احمدی فردایسا نہ ہو جو اس تقریب میں شامل نہ ہو.میں غریب آدمی ہوں.بڑی دعوت کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں اس لئے میں نے لکھا ہے کہ چاہے آدھی آدھی پیالی چائے ہی پلائیں لیکن بلائیں ضرور.شادی کے بعد آپ کے بیٹے نے شادی کی تفصیلات لکھیں اور بتایا کہ آپ کے ارشاد کے ماتحت ہر فر د جماعت کو دعوت دی گئی اور سب دوستوں نے ہمارے ساتھ تعاون فرمایا تو آپ بہت خوش ہوئے اور آپ بار بار فرماتے میری جماعت نے میری غیر موجودگی میں بڑی وفاداری کا ثبوت دیا ہے.مولوی صاحب مرحوم نہایت بلند اخلاق، حساس اور نیک فطرت انسان تھے.دوسروں کے جذبات اور خواہشات کا آپ ہمیشہ احترام کرتے.ایسے نیک اور مخلص انسان ملنے مشکل ہیں.165 مولانا ابوبکر ایوب صاحب پر اظہار خوشنودی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں آپ کی مخلصانہ خدمات دینیہ پر اظہار خوشنودی ادا کرتے ہوئے فرمایا:.”ہمارے محترم بھائی ابوبکر ایوب صاحب وفات پاگئے ہیں.انا للہ و انا اليه راجعون.مرحوم انڈونیشیا کے رہنے والے تھے.انہوں نے ہمارے بچپن میں مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی تھی.ہم اکٹھے ہی پڑھتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو ساری عمر مخلصانہ طور پر خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.وہ اب ہالینڈ میں مبلغ تھے اور و ہیں میدانِ جہاد میں تبلیغ اسلام کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے وفات پاگئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور احسن جزاء دے.ان کا جنازہ یہاں پہنچ چکا ہے میں جمعہ کی نماز کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.اس لئے گو بیماری کی وجہ سے مجھے شدید ضعف تھا مگر اس کے باوجود میرا یہاں آنا ضروری تھا تا کہ میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکوں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو نسل قربانیاں دینے اور ایثار دکھانے کے لئے عطا فرمائی تھیں ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.چند ایک باقی ہیں اس کے بعد دوسری نسل پیدا ہوئی.اس میں سے بھی بہت سے وفات پاگئے.اللہ تعالیٰ نے بہتوں کو یہ توفیق دی اور دے رکھی ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزانہ کوششوں اور عاجزانہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 279 سال 1972ء دعاؤں کو پیش کرتے رہیں.ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بھی انہی میں سے ایک تھے جو ”من قضى نحبہ“ کے مصداق بن گئے.بہت سے زندہ ہیں جو قربانیاں دے رہے ہیں اور اپنے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.ہماری دعا ہے بعد کی نسل، اس کے بعد کی نسل اور پھر اس کے بعد کی نسل اور حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری خواہش اور کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ قیامت تک کی ہر احمدی نسل خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والی اور خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والی ہو.اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والے مربیوں کو بعد میں آنے والی نسلوں کی تربیت کی توفیق عطا فرمائے.تاہم جو ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے ہمیں اس ذمہ داری کو کما حقہ پوری توجہ اور دعاؤں اور کوشش کے ساتھ نباہنا چاہیے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے بھائی ابوبکر ایوب صاحب بڑے مخلص احمدی تھے.خدا کرے کہ جماعت کو اسی قسم کے مخلص دل اور روشن دماغ اور پوری توجہ اور انہماک سے قربانیاں دینے والے سینکڑوں ہزاروں مخلصین ملتے رہیں تا کہ کام کے اندر سہولت اور کام کے اندر وسعت اور کام میں تیزی پیدا ہواور جلد ہی نتیجہ نکلنے کے امکانات پیدا ہو جائیں“.166 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مورخہ ۲۲ ستمبر بعد نماز جمعہ مسجد اقصیٰ ربوہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں احباب جماعت نے شرکت کی.بعد ازاں جنازہ بہشتی مقبرہ لایا گیا جہاں آپ کو قطعہ خاص میں سپردخاک کر دیا گیا.تدفین مکمل ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.167 چوہدری عبد الرحمن صاحب آف لندن وفات ۷ / ۸/اکتوبر ۱۹۷۲ء کی درمیانی رات بمقام لندن.تدفین بہشتی مقبره ر بوه) حضرت چوہدری غلام محمد صاحب سابق مینجر نصرت گرلز ہائی سکول قادیان کے فرزند تھے اور جماعت احمد یہ لندن کے سرگرم کارکن تھے.چوہدری محمد عبد الرشید صاحب ابن حضرت چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ جھنگ مقیم لندن تحریر فرماتے ہیں کہ:.
تاریخ احمدیت.جلد 28 وو رو 280 سال 1972ء چوہدری صاحب مرحوم اپریل ۱۹۶۱ء میں یوگنڈا سے انگلستان تشریف لائے تھے.ان دنوں میرے والد چوہدری محمد حسین صاحب مرحوم و مغفور امیر جماعت احمد یہ ملتان بھی لندن تشریف رکھتے تھے.مکرمی چوہدری صاحب سے چند ملاقاتوں میں ہی مکرمی ابا جان کی بڑی دوستی ہو گئی.ابا جان بار بار فرما یا کرتے تھے کہ چوہدری صاحب بڑی تندہی سے جماعت کا کام کرنے والے ہیں“.اس کے کچھ عرصہ بعد ان کو جماعت کا جنرل سیکرٹری چنا گیا.پچھلے گیارہ سال کے عرصہ میں مکرمی چوہدری صاحب جماعت انگلستان کی مختلف طریق سے مدد کرتے رہے.چنانچہ آپ جماعت کے ماہوار رسالہ مسلم ہیرلڈ کے ایڈیٹر بھی تھے.اس کے علاوہ آپ جماعت کے حساب بھی آؤٹ کرتے تھے.پھر نصرت جہاں ریز روفنڈ“ کا سارا کام بھی ان کے سپر د تھا.جب بھی مسجد جانے کا اتفاق ہوتا مکرم چوہدری صاحب مسکراتے ہوئے چہرے سے اپنے کام میں مشغول ملتے.سکول سے فارغ ہو کر سیدھے مسجد آتے اور کئی کئی گھنٹے روزانہ سلسلہ کا کام کرتے تھے.اکثر اوقات گھر سے اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان بھی لے آتے تا کہ کافی دیر تک مسجد کا کام کر سکیں.فرمایا کرتے تھے کہ ”مجھے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا کام کر کے بڑا لطف آتا ہے.آپ کو کئی مرتبہ مسجد میں کھانا وغیرہ تیار کرنے کا موقع ملا.آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے نہایت ہی عمدہ اور لذیذ کھانا پکا یا جس کی بڑی تعریف ہوئی.تقریباً ۴ سال کی بات ہے کہ مکرمی بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے جماعت کی پرانی کار فروخت کی جو کہ چوہدری صاحب نے خرید لی.اس دن سے انہوں نے یہ کار مسجد کی خدمت کے لئے وقف کر دی تھی اور جب بھی کسی کو ضرورت ہوتی بڑی خوشی سے دیتے اور کئی بار احباب جماعت کے گھر فون کر کے کہتے کہ میری کار کیوں نہیں لے جاتے.مختلف سکولوں میں پڑھانے اور مذہب میں غیر معمولی طور پر دلچسپی لینے کی وجہ سے ان کا قرآن پاک اور بائیبل کا علم بہت وسیع تھا جس سے ان کو تبلیغ کے کاموں میں بڑی مددملتی تھی.انہوں نے قرآن پاک کا بائیبل سے مقابلہ کر کے کئی بار مسلم ہیرلڈ میں مختلف مضامین لکھے جو بہت پسند کئے گئے اور غیر از جماعت نے بھی بڑی تعریف کی.جماعتی کاموں میں محترم چوہدری صاحب مرحوم کا بہت بڑا حصہ ہوتا تھا.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کئی تازہ چھپی ہوئی کتب کی پروف ریڈنگ بھی انہی کی کی ہوئی ہے.اپنے بچوں کو
تاریخ احمدیت.جلد 28 281 سال 1972ء جماعت کے کام کرنے کی اکثر تلقین کیا کرتے تھے اور بڑی خوشی محسوس کیا کرتے تھے کہ ان کے بچے جماعتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں.بڑے مخلص انسان تھے.آپ ہر سوسائٹی کے آدمی سے مل کر اس کو اسلام کی تعلیم کا سبق دے دیتے تھے کسی سے ڈرتے نہ تھے.نہایت ہی خوبصورت شخص تھے.چہرہ 66 بڑا منور تھا.168 با بوعبد العزیز صاحب ( وفات ۸/اکتوبر ۱۹۷۲ء) حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے برادر صغیر، بابو عبد الحمید صاحب مزنگ لاہور انچارج دفتر جماعت احمدیہ لاہور ) کے برادر اکبر اور شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے ناظر بیت المال آمد کے سگے چچا تھے.نہایت مخلص اور بے نفس بزرگ تھے.۱۹۳۵ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ایک لمبے عرصہ تک پہلے قادیان پھر ربوہ میں سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجالاتے رہے.آپ سابق سیکرٹری مجلس کار پرداز ربوہ بھی تھے.مقبول شاہ صاحب خلیل ( وفات ۸ /اکتوبر ۱۹۷۲ء) بچپن سے ہی نیک کاموں کی طرف لگاؤ رہتا تھا.۱۹۳۰ء میں بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے.اپنے خاندان میں واحد احمدی تھے.بیعت کرنے کے بعد نامساعد حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا اور احمدیت کی خاطر بڑی بڑی تکالیف بھی آئیں جنہیں آپ نے بڑی جانفشانی سے برداشت کیا اور ہر موقع پر ثابت قدم رہے.مرحوم شروع سے ہی تہجد گزار اور دعا گو اور صاحب رؤیا اور صاحب کشوف تھے.گفتگو میں ایسی لذت اور شیرینی تھی کہ دوست اور دشمن سب ان کے گرویدہ ہو جاتے تھے.۱۹۳۸ء میں صدرانجمن احمدیہ کے کارکن بھی رہے.میٹرک کے بعد پرائیویٹ طور پر ایف اے، بی اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کئے.اس کے علاوہ اردو، پشتو میں شعر بھی کہتے تھے.170 مولا ناشیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی (وفات ۱۲ /اکتوبر ۱۹۷۲ء)
تاریخ احمدیت.جلد 28 282 سال 1972ء سلسلہ احمدیہ اور برصغیر کے ممتاز اہل قلم اور نامور ادیب و مصنف ۱/۴ پریل ۱۸۹۳ء کو پیدا ہوئے.۱۹۱۴ء میں آل انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس علیگڑھ کے انعامی مقابلہ میں سب سے پہلی کتاب بچوں کے لئے لوریاں اور پہیلیاں لکھی جو سب سے بہتر قرار دی گئی.آپ کے قلم سے ملک کے مشہور جرائد ورسائل میں ہزار ہا مضامین مختلف موضوعات پر شائع ہوئے.آپ کی مرتبہ اور مصنفہ کتابوں میں سے بعض کا تذکرہ آپ کے الفاظ میں کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.جواہرات حالی مولانا حالی کی غیر مطبوعہ نظمیں سرسید ( میری چالیس سالہ محنت کا نتیجہ ) سرسید کا سفر نامہ لندن.مقالات سرسید (۱۹ حصے ).سیرت ابن ہشام اردو ایڈ یشن اور تاریخ اشاعت اسلام جو میری سب سے زیادہ اہم اور سب سے بہتر تصنیف ہے.جو کتابیں زیر ترتیب یا زیر تالیف ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں.مولانا حالی کی مفصل سوانح عمری جس کا مواد میں ۱۹۱۴ ء سے جمع کر رہا ہوں.مشاہیر پانی پت.طبقات ابن سعد.ترجمہ کتاب الاسلام از ہشام کلبی.مفصل تاریخ اسلام جس کے مختلف حصے بنی عباس تک لکھ چکا ہوں.تاریخ تمدن اسلام.تاریخ مشاہیر اسلام.جغرافیہ تاریخ اسلام.سرسید کا سفر نامہ پنجاب.کلیات نثر حالی.کلیات نظم حالی اور تاریخ اخبارات و رسائل جس کا مواد ۱۹۲۶ء سے جمع کر رہا ہوں.171 سید مبین الدین احمد صاحب نے آپ کی وفات پر آپ کے اسلامی و دینی تصانیف پر ایک مفصل مضمون سپرد قلم کرتے ہوئے لکھا:.ادیب العصر، یگانہ روزگار ، فدائے اردو، نازشِ اہل صحافت، فرزانہ پانی پت ، شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے جو ۱۴۸ کتابوں کے مصنف ، ۶۹ کتب و رسائل کے مولف ،۸ اخبارات ورسائل کے ایڈیٹر اور ۳ لائبریریوں کے مؤسس تھے.۱۲ / اکتوبر ۱۹۷۲ء کو لاہور میوہسپتال میں ۷۹ سال کی عمر پا کر رحلت فرمائی.شیخ صاحب مرحوم سے میری پوری ایک چوتھائی صدی کے مراسم تھے ان کی المناک موت نے میرے ذہن و فکر کو بے حد متاثر کیا.میں شیخ صاحب مرحوم کے ایک نہایت ہی عزیز اور فاضل دوست محمد طفیل صاحب کی فرمائش پر نقوش کے لئے شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کی شخصیت ،سوانح اور ان کے علمی وادبی کاموں پر ایک طویل مضمون لکھنے میں مصروف تھا کہ اسی دوران میں میرے ایک محترم ہم قلم دوست مجھ سے ملنے تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ ” آجکل کیا لکھا جا رہا ہے.جواباً عرض کیا کہ اپنے مرحوم دوست شیخ محمد اسماعیل پانی پتی کی علمی وادبی خدمات کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 283 سال 1972ء اعتراف میں ان کی روح کی جناب میں نذرانہ عقیدت پیش کر رہا ہوں“ یہ سن کر وہ فرمانے لگے کہ وہ تو احمدی تھے.میں نے ان سے عرض کی کہ ہمیں اس سے کیا غرض.یہ معاملہ ان کا اور ان کے پروردگار کا ہے.اگر وہ احمدی تھے تو ہم کیوں پریشان ہوں.میں تو یہ جانتا ہوں کہ جو کچھ مذہب کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے اور جس طرح لکھا ہے آئندہ نسلیں اس سے ضرور متاثر ہوں گی.جب میں نے ان کو شیخ صاحب کی مذہبی، دینی، تاریخی اور اسلامی کتب کی تفصیل سے آگاہ کیا تو وہ انگشت بدنداں رہ گئے.شیخ محمد اسماعیل پانی پتی ان بزرگ اور نیک نفس ادیبوں میں سے تھے جنہوں نے اردو زبان و ادب کے ذریعہ دنیا کی اخلاقی طہارت کا کام سرانجام دیا.ان کی تحریروں، تنقیدوں ، مکتوبات اور سوانحی خاکوں ،غرضیکہ ان کی ہر تحریر سے ایک شریف ، سادہ مزاج مخلص اور ہمدرددل کا اظہار ہوتا ہے.انہوں نے راقم الحروف سے ایک مرتبہ دوران گفتگو میں فرمایا تھا کہ شمس العلماء خان بہادر مولوی ذکاء اللہ دہلوی کے صاحبزادے مولوی عنایت اللہ دہلوی نے ان کو مشورہ دیا تھا کہ ایسی کوئی چیز نہ لکھنا جو عورتوں اور بچوں کے ہاتھ میں نہ دی جاسکے اور بقول ان کے اللہ پاک کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے مجھے اس قابل قدر نصیحت پر سختی سے عمل کرنے کی توفیق دی.میں نے ناول بھی لکھے اور افسانے بھی اور بکثرت مضامین بھی لیکن کبھی اپنے قلم، اپنے دماغ اور اپنے خیالات کو عریانی اور فحاشی سے آلودہ نہیں کیا.اس طرح ہم ان کے قلم کی عفت کی قسم کھا سکتے ہیں اور یہ کوئی معمولی سعادت نہیں.شیخ صاحب مرحوم نے اس دنیا میں ایک صالح زندگی گزاری اور ادب و زندگی میں صالح قدروں کی تبلیغ و ترویج سے ایک ایسی شمع جلائی جو ان کے بعد بھی ہماری علمی اور اخلاقی گذرگاہوں کو منور کرتی رہے گی“.172 مسعود احمد خاں صاحب دہلوی آپ کی شاندار علمی و ادبی خدامت کا مفصل تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.محترم شیخ صاحب کی تصانیف اور تالیفات اور عربی کتب کے اردو تراجم کی مجموعی تعداد یکصد سے بھی اوپر ہے.مزید برآں آپ نے بہت سی نایاب کتب کو ایڈٹ کر کے اور ان میں جگہ جگہ حواشی تحریر کر کے ان کے نئے ایڈیشن مرتب کئے.آپ کے تحریر کردہ حواشی کی وجہ سے ان کتب کی افادیت میں گرانقد را ضافہ ہوا.ان کتب کے یہ نئے ایڈیشن ملک کے مختلف نامور اشاعتی اداروں کی طرف سے خاص اہتمام سے شائع ہو کر ان اداروں کے لئے بے حد مالی منفعت کا موجب ہوئے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 284 سال 1972ء آپ کی اکثر و بیشتر تصانیف علمی، تاریخی اور سوانحی موضوعات پر مشتمل ہیں.ان میں ایک بڑی تعداد ایسی کتب کی بھی ہے جو آپ نے نہایت آسان و سلیس زبان اور بہت عام فہم و دلکش انداز میں خاص طور پر بچوں کے لئے تصنیف فرما ئیں اور جنہیں آپ نے خود اپنے زیر انتظام اپنے ہی اشاعتی اداروں حالی بک ڈپو اور محمد احمد اکیڈمی کی طرف سے شائع کیا.یہ سب کتابیں بہت مقبول ہو ئیں اور ان کے کئی کئی ایڈیشن شائع ہوئے.آپ کی تصنیف کردہ تاریخی کتب میں سے (۱) تاریخ اسلام (۲) تاریخ خلفائے راشدین خاص طور پر قابل ذکر ہیں.اسلامی علمی کتب میں (۱) اساس اسلام (۲) اسلام کا نظریہ آزادی (۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیم (۴) دس بڑے مسلمان کو بڑی شہرت حاصل ہوئی.آپ کے عربی کتب کے اردو تراجم میں سیرۃ ابن ہشام اور طبقات ابن سعد کے تراجم اور ان پر آپ کے تحریر کردہ مقدمات کو ملک بھر میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا.بچوں اور طالب علموں کے لئے اسلامی تعلیم اور دینیات پر مشتمل کتا میں بھی آپ نے شائع کیں جنہیں خاص پذیرائی حاصل ہوئی.الغرض تالیفات و تصنیف کا کام آپ زندگی بھر کرتے رہے.ضعیف العمری میں جب کہ آپ کی عمر ساٹھ کی دہائی میں داخل ہو چکی تھی حکومت کے کہنے پر آپ نے ایک بہت محنت طلب کام سرانجام دے کر علمی اور ادبی حلقوں کو حیرت زدہ کر دیا.صدر ایوب خان نے اپنے دور حکومت میں اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ سرسید احمد خان کی تصنیف کردہ کتب کے علاوہ ان کے مختلف علمی، تربیتی اور اصلاحی موضوعات پر جو بیشمار مضامین اور مقالے اس زمانے کے رسائل و اخبارات میں شائع ہوتے رہے تھے ان سب کو جمع کر کے ایک سلسلہ کتب کی شکل میں شائع کیا جائے.یہ دقت طلب اور خارا اشکاف کام لاہور کی مجلس ترقی ادب کے سپر د ہوا.اس کام کے لئے مجلس کی نگاہ انتخاب محترم شیخ محمد اسمعیل پانی پتی پر پڑی.جملہ اراکین مجلس جنہیں اردو ادب میں مشاہیر کا درجہ حاصل تھا اس بات پر متفق تھے کہ یہ رطل گراں اگر کوئی اٹھا سکتا ہے تو وہ یہی ضعیف العمر مرد میدان ہے کیونکہ سرسید احمد خان اور مولانا الطاف حسین حالی کی تصانیف و تحریرات اور ان کے اصلاحی کاموں کے بارہ میں اس نحیف و نزار کہنہ مشق قلمکار کو ہی سند کا درجہ حاصل ہے.چنانچہ مجلس ترقی ادب کے اراکین کے اصرار پر آپ نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور تن تنہا سر سید احمد خان کے بکھرے ہوئے مقالات کو پرانے زمانہ کے رسائل و اخبارات سے جمع کر کے اور بعض ایسے مقالوں کو جو بظاہر نا پید ہو چکے تھے پرانے علم دوست اور ادب نواز مشاہیر کے ورثاء کے ذاتی کتب خانوں
تاریخ احمدیت.جلد 28 285 سال 1972ء سے اخذ کر کے سولہ ضخیم جلدوں میں مرتب کر دکھایا.پھر ایک بڑا کارنامہ یہ سرانجام دیا کہ شمالی ہندوستان کے بے شمار علمی گھرانوں میں سرسید احمد خان کے تحریر کردہ جو مکتوب محفوظ چلے آ رہے تھے انہیں ڈھونڈ نکالا.آپ یہ کام چالیس سال سے کر رہے تھے.تلاش بسیار کی ان مسلسل کاوشوں کے دوران جو خط بھی آپ کو دستیاب ہوتا اسے آپ نقل کر کے اپنے پاس محفوظ کر لیتے اور اصل خط اس کے مالک کو واپس کر دیتے.اس طرح آپ کے پاس سرسید احمد خان کے خطوط کا ایک بہت ضخیم مسودہ جمع ہو گیا تھا.اس مسودہ کے کاغذ بوجہ امتداد زمانہ بوسیدہ ہو چکے تھے اور ان پر تحریر کردہ خطوط کی روشنائی بھی پھیکی پڑ چکی تھی.اس بات کا خطرہ تھا کہ اصل خطوط کی طرح ان کی نقول کا یہ بوسیدہ مسودہ بھی کہیں ضائع نہ ہو جائے.آپ نے وہ مسودہ بھی مجلس ترقی ادب کے حوالہ کر دیا.اس طرح ” مکتوبات سرسید کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب ہو گئی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے.مزید برآں بہت سی نایاب قدیمی کتابوں کو آپ نے از سر نو ایڈٹ کر کے اور جگہ جگہ توضیحی و تشریحی حواشی درج کر کے ان کی افادیت میں اضافہ کیا اور اس طرح انہیں بہتر نقش ثانی کے طور پر شائع کرنے کے قابل بنایا.سرسید احمد خان کی آپ کی ایڈٹ کردہ ایسی کتابیں مختلف اشاعتی اداروں کی طرف سے شائع ہوئیں اور محترم شیخ صاحب کے اس کام کو بہت قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا.حسن کارکردگی کا صدارتی ایوارڈ محترم شیخ صاحب کے گرانقدر ادبی کارناموں کا ملک بھر میں ایسا ڈنکہ بجا اور ہر طرف سے ایسا تحسین و آفرین کا غلغلہ بلند ہوا کہ بالآخر حکومت پاکستان نے بھی ۱۹۷۰ء میں آپ کی عمر بھر جاری رہنے والی ادبی خدمات کی اس رنگ میں قدر افزائی کی کہ آپ کو حسن کارکردگی کے صدارتی ایوارڈ کا حقدار قرار دے کر حسن کارکردگی کا تمغہ اور سند آپ کی خدمت میں پیش کی گئی.اس اعزاز کے ملنے پر ملک بھر سے کثیر تعداد میں تہنیتی خطوط آپ کو موصول ہوئے.خطوط ارسال کرنے والوں میں غیر ملکی سفیروں، پاکستانی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں، پروفیسروں، ادیبوں اور دیگر نامور دانشوروں کے خطوط بھی شامل تھے لیکن سب سے زیادہ خوشی آپ کو اپنے آقا سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے (آکسن) خلیفہ اسیح الثالث کے دعاؤں سے پر تہنیتی والہ نامہ سے ہوئی.الغرض بڑے بڑے نامی گرامی ادیبوں اور دیگر اہم شخصیتوں نے محترم شیخ صاحب کو ایسے ایسے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جو آب زر سے لکھنے کے قابل تھے.لیکن افسوس وہ سب تہنیتی خطوط
تاریخ احمدیت.جلد 28 286 سال 1972ء محفوظ نہ رہ سکے.آپ کے نہایت علم دوست اور عالم و فاضل فرزند برادر مکرم شیخ محمد احمد پانی پتی تو آپ کی زندگی میں ہی فوت ہو گئے تھے.آپ کے دوسرے فرزند برادرم شیخ مبارک محمود پانی پتی آپ کے بعد طویل عرصہ زندہ رہے لیکن جماعتی سرگرمیوں اور دیگر کاموں میں منہمک رہنے کی وجہ سے وہ آپ کے علمی خزانہ کی خاطر خواہ حفاظت نہ کر سکے.آپ کے کتب خانہ کے ساتھ یہ تہنیتی خطوط بھی ضائع ہو گئے“.173 زندگی بھر اردو ادب کے شعبہ میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے ، اپنے نام اور کام کا ڈنکا بجوانے اور جماعتی خدمات کا نہایت شاندار ریکارڈ قائم کرنے والا یہ درویش صفت صاحب منزلت احمدی ادیب و قلم کار دینی و دنیوی ہر دو لحاظ سے کامیاب زندگی گزارنے کے بعد بالآخر ۱۲/اکتوبر ۱۹۷۲ء کو عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف رحلت کر گیا.آپ کی وفات کی وجہ ایک حادثہ بنی جس میں آپ کی ایک ہڈی فریکچر ہوگئی.مورخہ ۱/۵ کتو بر کو آپریشن کے ذریعہ ہڈی درست کی گئی لیکن ساتھ ہی دل کی تکلیف شروع ہو گئی جو جان لیوا ثابت ہوئی.جماعت احمدیہ کے بلند پایہ نہایت مخلص خادم، ملک کے نامور ماہر تعلیم اور دانشور محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے (کینٹب) نے اپنے تعزیتی مکتوب محرره ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء میں رقم فرمایا: حضرت شیخ صاحب مرحوم کی زندگی اور ان کا کردار اور ان کا کام یہ سب زمانہ کے لئے نشان تھے.میں اگر چہ ان کی صحبت اور معیت میں کبھی نہیں رہا لیکن میری خوش قسمتی یہ ہے کہ کافی عرصہ سے انہیں دیکھنا شروع کیا.مجھے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی مجلس میں بیٹھنے کے بے شمار مواقع ملے.ان سے مل کر کام کرنے کی توفیق بھی ملتی رہی.انہی کی مجالس میں حضرت شیخ صاحب مرحوم کا ذکر سنا.کیا ہی بھر پور، با برکت، مفید ملت اور قائم رہنے والی زندگی آپ کو نصیب ہوئی.ایک طرف تاریخ ادب میں اتنا بڑا مقام حاصل کیا دوسری طرف سلسلہ کی خدمت کے میدان میں وہ وہ کام کئے جو اگر وہ نہ کرتے تو بالکل نہ ہوتے اور ہم ان سے محروم رہتے.حضرت میر صاحب کا علمی فیض جماعت کو آپ ہی کے ذریعہ پہنچا.در ثمین فارسی کا اردو ترجمہ، رسالہ مقطعات، آپ ( یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب) کا مجموعہ کلام نیز آپ بیتی وغیرہ وغیرہ سب کچھ آپ کے ذریعہ شائع ہوا اور آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ.آپ نے کتابوں کے ریویو کرنے کا اسلوب سکھلایا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک خاندان کو اخلاص اور اعلیٰ تربیت کے حسن سے آراستہ کر کے اپنی یادگار چھوڑا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 287 سال 1972ء ۱۹۴۷ء کی تقسیم کے وقت کئی کام اللہ تعالیٰ نے آپ سے کروائے.غالباً سب سے بڑا کام اس وقت کی نزاکت کے لحاظ سے انگریزی تفسیر کے طبع شدہ فرموں کو بحفاظت قادیان سے لا ہورا اپنی نگرانی میں لانا تھا.مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے جب شیخ صاحب مرحوم یہ قیمتی سرمایہ لے کر ٹیمپل روڈ پہنچے تھے.وہ ایام خدا تعالیٰ کی نصرت کے ایام تھے.حضرت مصلح موعود ہنوز ٹیمپل روڈ میں مقیم تھے اور قادیان سے جماعت احمدیہ کے قیمتی سامان اور ریکارڈ کے انخلاء کی نگرانی فرما رہے تھے.انہی دنوں کی بات ہے کہ ہمارے انگریزی ترجمہ و تفسیر کے چھپے ہوئے فرمے لاہور پہنچے اور سب نے دیکھ کر اطمینان کا سانس لیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے کاموں میں ان کا ساتھ دیا اور یہی ان کے کارناموں کے مفید اور بابرکت ہونے کا سرٹیفکیٹ ہے.ذاتی کردار بھی ان کا ایک مشعل راہ ہے.اپنے جوان اور ہونہار بیٹے کی جدائی کو کس صبر اور رضا سے قبول کیا سبحان اللہ.“ سلسلہ احمدیہ کے ممتاز بزرگ، نامور قانون دان، ماہر لسانیات حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب 66 نے تحریر فرمایا کہ آخر میرے دوست بزرگ اور قدردان اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.انا للہ و انا الیه راجعون.کوئی ایک ماہ ہوا کہ انہوں نے میرے عیادت نامہ کا جواب اپنے قلم سے لکھا تھا اور اپنا آخری وقت ظاہر کیا تھا.حادثہ کی موت ہے بدرجہ شہادت.اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے.مرحوم احمدیت میں مستقیم الحال اور بہادر تھے.خاکسار کے بڑے مہربان تھے.درثمین فارسی کے ترجمہ کی تصحیح خاکسار سے کروائی اور یہ ان کی مہربانی تھی اور قدرشناسی.ہجرت کے بعد پاکستان میں اپنے قلم سے جو مقام انہوں نے بے سروسامانی کے باوجود پیدا کیا وہ انہی کا کام تھا.علم کے بحر ز خار لیکن مجسم انکسار.میں نے جتنے بھی بے بدل عالم دیکھے انہیں منکسر المزاج ہی دیکھا.یہی خُو بو مرحوم کو بفضل خدا حاصل تھی.پانی پت میں بڑے بڑے نامی ادیب پیدا ہوئے.حالی ، وحید الدین سلیم وغیرہ ، مرحوم انہی چندلوگوں کے ہم پلہ تھے.174 مولوی عبد العلی صاحب آف درگئی (وفات اکتوبر ۱۹۷۲ء) مولوی عبدالعلی صاحب مرحوم علاقه خوست،افغانستان کے رہنے والے تھے.آپ پیدائشی
تاریخ احمدیت.جلد 28 288 سال 1972ء احمدی تھے ان کے والد بزرگوار بھی قدیمی احمدی بزرگوں میں سے تھے.والد صاحب کی وفات کے بعد ساری عمر جماعت احمدیہ کے امام الصلوۃ کے فرائض سرانجام دیتے رہے.اور جماعت کی تعلیم و تربیت کرتے رہے.آپ کو مالی مشکلات کیوجہ سے کچھ عرصہ ترک وطن بھی کرنا پڑا.آپ مالی مشکلات کے پیش نظر حضور انور کی خدمت میں ربوہ میں حاضر ہوئے.حضور انور نے کمال شفقت اور ہمدردی مخلوق کے ماتحت مبلغ پانچ صد روپے کی امداد فرمائی.آپ بوجہ ضعیف العمری اور کمزوری اکتوبر ۱۹۷۲ء میں اپنے گاؤں درگئی میں وفات پاگئے.مرحوم تقسیم ملک سے قبل کئی بار قادیان دارالامان بھی آئے تھے.اسی طرح ربوہ میں بھی کئی بار جلسہ سالانہ پر تشریف لاتے رہے.مرحوم بہت نیک فطرت متقی ، پر ہیز گار اور مخلص احمدی تھے.175 ملک عبد المغنی صاحب (وفات ۳ نومبر ۱۹۷۲ء) آپ انگریزی عہد حکومت میں ایک کلرک کے طور پر ملازم ہوئے اور اپنی محنت و قابلیت کی بناء پر افسر خزانہ کے مرتبہ تک جا پہنچے.دوران ملازمت جہاں جہاں رہے کوئی نہ کوئی جماعتی عہدہ آپ کے پاس رہا محمود آباد ضلع جہلم کے ۸ سال تک صدر رہے.بعد ازاں عرصہ تک جماعت راولپنڈی کے نائب امیر اور سیکرٹری مال مرکزی کے فرائض نہایت فرض شناسی اور بصیرت و فراست سے سرانجام دیتے رہے.76 176 چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی نے ان کی رحلت پر تحریر فرمایا کہ:.محترم ملک صاحب موصوف راولپنڈی کی کچہری میں افسر خزانہ تھے اور اپنے عملہ کے ضلعی حکام کے نزدیک بڑی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.مخلوق خدا کے ہمدرد اور ان کی جائز ضرورت کے وقت ممد و معاون اور مددگار ثابت ہوئے تھے.مرحوم نہایت نیک سیرت اور اپنے اندر رفق کا پہلو غالب رکھتے تھے.ہر ایک سے ملاطفت سے پیش آنا ان کا طرہ امتیاز تھا.مومنانہ فراست کے مالک مخلص محنتی اور شعائر اسلام کے پابند تھے اور خوش قسمتی سے رویائے صادقہ کی نعمت سے بھی نوازے گئے تھے.‘“.177
تاریخ احمدیت.جلد 28 289 سال 1972ء جناب شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے ناظر بیت المال آمدر بوہ نے لکھا:.ملک عبد المغنی صاحب مرحوم ریٹائرڈ افسر خزانہ جماعت احمد یہ راولپنڈی کے نہایت سرگرم کارکن تھے.نائب امیر اور مرکزی سیکرٹری مال کے فرائض ایک عرصہ تک باحسن طریق نہایت شوق کے ساتھ سرانجام دیتے رہے.دعا گو، خاموش طبع ، منکسر المزاج ، سلسلہ کے فدائی ، خدمت دین میں رات دن ایک کر دینے والے اور انتھک کوشش کرنے والے بزرگ تھے.مشکلات سے گھبراتے نہیں تھے.ہزاروں دقتوں کے باوجود دعاؤں کے ساتھ کام جاری رکھتے.ایک دفعہ خاکسار سے ذکر فرما رہے تھے کہ فلاں دوست کے پاس محصل ۱۲ دفعہ اور میں 9 دفعہ وصولی کے لئے گیا مگر کامیابی نہ ہوئی.میں نے ہمت نہ ہاری آخر اللہ تعالیٰ نے کامیاب کرد یا اور اس دوست نے رقم ادا کر دی.ایک بار انہوں نے یہ بھی ذکر فر مایا کہ ایک سال وصولی بہت کم تھی ان کی کمر ہمت ٹوٹ چکی تھی.۱/۲۰ پریل کی رات کو مایوسی کی حالت میں سوئے.رات کو خواب میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث تشریف لائے اور فرمایا اٹھو اور کام کرو.یہی تو کام کرنے کا وقت ہے.اگلی صبح اٹھے اور کمر ہمت کس بی.دوبارہ کام شروع کر دیا اور اسی میں رات دن ایک کر دیا.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو اپنے فضل سے نو انرا.خاصی رقم وصول ہو گئی.الحمد للہ.صاحب رؤیا اور کشوف تھے.ایک بار انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے متعلق بھی ایک مبشر خواب دیکھا تھا جس کا حضور انور نے مجلس عرفان 166 میں بھی ذکر فرمایا تھا.“ 178 ملک گل محمد صاحب (وفات ۱۲ نومبر ۱۹۷۲ء) سلسلہ کے قدیم خادم مکرم ملک گل محمد صاحب مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۷۲ء کو بعمر ۹۴ سال وفات پا گئے.مرحوم نے ۱۹۳۶ء میں گورنمنٹ سروس سے ریٹائر ہو کر اپنی خدمات سلسلہ کے لئے پیش کیں جنہیں حضرت مصلح موعود نے منظور فرمایا.پہلے آپ محمد آباد سندھ میں اسسٹنٹ مینیجر مقرر ہوئے.بعد ازاں قادیان اور پھر ربوہ میں دارالقضاء کے محکمہ میں کام کرتے رہے.آپ نے ۱/۷ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.مرحوم بہت نیک اور متقی بزرگ تھے.مورخه ۱۳ نومبر کو بعد نماز عصر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.179
تاریخ احمدیت.جلد 28 ماسٹر چراغ الدین صاحب (وفات ۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء) 290 سال 1972ء آبائی وطن کھیوا باجوہ ضلع سیالکوٹ.ملازمت کے چھ سال بعد عارف والا ضلع ساہیوال میں مستقل رہائش اختیار کر لی.جہاں ۲۸ سال تک سیکرٹری مال رہے اور ۳۰ سال تک امام الصلوۃ کے فرائض انجام دیتے رہے.پنشن کے بعد چک ۱۱/۳۰/ ایل ضلع ساہیوال میں رہائش پذیر ہوئے اور تقریباً ۱۰ سال تک امام الصلوۃ رہے.دعا گو اور صاحب رؤ یا بزرگ تھے.چنانچہ ان کے بیٹے ماسٹر بشارت احمد صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کا بیان ہے کہ:.’۱۹۵۳ء میں جب احمدیت کی مخالفت عروج پر تھی اور احمد یوں کو گھر سے باہر نکنے کا حکم نہیں تھا والد صاحب عارف والا میں اپنے گھر میں ہم سب بچوں کے ساتھ محصور تھے.دشمن گھر کو جلانے کا ارادہ کر چکے تھے.ایک رات آپ نے ہم سب بچوں کو اکٹھا کیا آپ نے عشاء کی نماز پڑھانی شروع کی اور بچوں کو تاکید کی کہ وہ رو رو کر خدا تعالیٰ کے آگے دعا کریں.کچھ دیر بعد ہم سو گئے.جب صبح اٹھے تو والد صاحب نے سب کو بلا کر بتلایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسلح سپاہی ہماری مدد کے لئے آسمان سے اتر رہے ہیں اور احمدیوں کے مکانوں کی حفاظت کر رہے ہیں.اگلے دن آپ کا خواب بالکل پورا ہوا.ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر نے سپاہیوں کی خاص گارڈ احمدیوں کے مکانوں اور جانوں کی حفاظت کے لئے بھجوائی.وہ سپاہی ابا جان کو ملے تو آپ نے فرمایا کہ یہ سپاہی وہی ہیں جن کو 66 میں خواب میں دیکھ چکا ہوں.180 منشی فیروز الدین صاحب (وفات ۲ دسمبر ۱۹۷۲ء) آپ کو ٹلی کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور حاجی امیر عالم صاحب صدر جماعت احمد یہ کوٹلی کے بھائی اور پر جوش احمدی تھے.آپ انسپکٹر پولیس تھے.ملا زمت میں دینداری کا عمدہ نمونہ پیش کیا اور ریٹائر ہونے کے بعد جماعت احمدیہ اور احمدی بچوں کی خدمت کیلئے وقف ہو گئے.181 مؤرخ کشمیر جناب محمد اسد اللہ صاحب قریشی مربی سلسلہ مرحوم نے اپنی تالیف ” تاریخ احمدیت جموں و کشمیر کے صفحہ ۱۶۳ پر آپ کا حسب ذیل واقعہ قلمبند کیا ہے جس سے آپ کے جوش ایمانی کا پتہ لگتا
تاریخ احمدیت.جلد 28 291 سال 1972ء ہے.فرماتے ہیں کہ آپ نے ۱۹۳۴ء میں بیعت کی تھی.حاجی امیر عالم صاحب مرحوم کے بھائی تھے.محکمہ پولیس میں سب انسپکٹر رہے.پر جوش احمدی تھے.جب آپ ڈوگرہ حکومت کے عہد میں ۱۹۳۷ء سے قبل بھمبر میں ملازم تھے تو بھمبر کی جامع مسجد میں خطیب مقامی کی عدم موجودگی میں لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھائی.خطیب کو واپس آنے پر جب معلوم ہوا تو بڑا مشتعل ہوا اور عدالت میں آپ پر توہین مذہب کا دعوی دائر کر دیا اور لکھا کہ ایسے شخص کو ملازمت سے برطرف کر دیا جائے.آپ کی طرف سے جو وکلاء پیش ہوئے انہوں نے جواباً یہ نکتہ پیش کیا کہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر توہین مذہب کا دعوی نہیں چل سکتا.اس لئے کہ دونوں مذہب اسلام کو ماننے والے ہیں بالآخر آپ باعزت بری کر دیئے گئے.آپ کو معطلی کے ایام کی تنخواہ بھی ملی اور مخالف فریق آپ کو ملازمت سے برطرف کرا نیکی کوششوں میں ناکام رہا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں خوش الحانی سے پڑھتے اور اونچی اذان دیا کرتے تھے.مقامی جماعت کے صدر بھی رہے.“ محمد عبد اللہ خان صاحب (وفات ۶ دسمبر ۱۹۷۲ء) انیسویں صدی کے ربع آخر میں اور بیسویں صدی کے ربع اول میں ہندوستان کی سیاست کے افق پر علی برادران مولانا محمد علی شوکت علی کا نام گونجتا تھا.انہی برادران کے ایک بھائی جن کا رجحان سیاست کی بجائے دین کی طرف تھا.یعنی حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہر صاحب جو کہ قادیان میں مامور زمانہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ کی غلامی میں آکر قادیان آ کر بس گئے تھے.جس طرح علی برادران نے سیاست میں نمایاں کام کیا.آپ نے خدمت دین اسلام میں اپنی تمام تر اعلیٰ صلاحیتیں صرف کر دیں.حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوہر کے پانچ فرزند تھے.ایک سرکاری ملازم تھے.سب کو سلسلہ حقہ احمدیہ حقیقی اسلام کی شاندار خدمات کی توفیق ملی.محمد عبد اللہ خان صاحب آپ کے تیسرے بیٹے تھے ان سے بڑے مکرم حاجی ممتاز علی خان صاحب کو بھی ہجرت کے بعد قادیان میں بطور درویش خدمت بجالانے کی توفیق ملی.محمد عبد اللہ خان صاحب بچپن سے ذہین تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کیا.اور پھر کاروبار زندگی میں مصروف ہو گئے.انگریزی اچھی طرح بول لیتے تھے.ان کے ان ایام کی رپورٹوں میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 292 سال 1972ء انگریزی زبان میں تقریر کرنا ثابت ہے.ابتداء جوانی میں بعض حوادث کا شکار ہو کر ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے.اور ان کی حالت مجذوبوں جیسی ہو گئی تھی.احمد یہ بازار میں خاموش کسی نہ کسی کو نہ میں کھڑے رہتے.نہ کسی کو دکھ دیتے اور نہ کسی سے کچھ مانگتے.جس وقت بھوک محسوس ہوتی گھر جا کر کھانا کھا آتے.اگر کوئی چائے کی پیش کش کرتا تو قبول کر لیتے تھے.قادیان میں بطور درویش جن افراد کو ٹھہرانا تھا.ان کا اا نومبر ۱۹۴۷ء کو انٹر ویولیا گیا تھا.اور ان کو کارڈ ایشو کر دیئے گئے تھے.۱۶ نومبر کو جب تمام جانے والے افرا درخصت ہو گئے تو معلوم ہوا کہ چند افراد ایسے بھی یہاں مقیم رہ گئے ہیں جنہیں با قاعدہ طور پر یہاں ٹھہرنے کے لئے انتخاب نہیں کیا گیا.بلکہ ان کا قیام محض اتفاقی ہے.ان میں سے ایک عبداللہ خان بھی تھے جو اپنی مجذوبیت کے باعث کسی کو نہ میں پڑے رہے.اور جانے والے قافلہ میں شریک نہیں ہوئے.چند افراد اور بھی ایسے ہی تھے.ان کو بھی ۱۳۱۳ درویشوں کی فہرست میں شامل کر لیا گیا.اور یوں ۳۱۳ کی تعداد بڑھ کر ۳۲۶ ہو گئی.محمد عبداللہ خان صاحب کے دماغ پر حملہ ہوا تو وہ ان ایام میں اپنے آپ کو عبد اللہ خان کہلانے کی بجائے میجر عبداللہ کہلانا پسند کرنے لگے تھے.اور آخر میں یہ ان کی پہچان بن گئی.اور وہ میجر عبداللہ کے نام سے ہی جانے جانے لگے.درویشی کا ۲۵ سال کا عرصہ اس طرح خاموشی سے گزار دیا.چند روز کی علالت کے بعد ۶ دسمبر ۱۹۷۲ء کو اپنے مولا حقیقی کے حضور حاضر ہو گئے.چونکہ موصی نہیں تھے.بچہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.مولانا محمد یعقوب خان صاحب وفات : ۷ دسمبر ۱۹۷۲ء 182.مولانا محمد یعقوب خان صاحب سابق ایڈیٹر لائٹ“ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مردان کے ذریعہ دسمبر ۱۹۱۲ء میں دامن احمدیت سے وابستہ ہوئے.183 بعد ازاں خلافت ثانیہ کے قیام پر غیر مبائعین میں شامل ہو گئے اور بالآخر اپنی فطری رشد و سعادت کی بدولت ۱۹۲۹ء میں نہایت عقیدت سے حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی بیعت کا شرف حاصل کیا اور پھر اسی سال سالانہ جلسہ میں شامل ہو کر ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ء کو وصیت کرنے کی سعادت پائی.آپ کے دسمبر ۱۹۷۲ء کو انتقال فرما گئے.184 آپ مولوی محمد علی صاحب ( سابق امیر غیر مبائعین ) کے ہم زلف تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 293 سال 1972ء سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء کونماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور دوران خطبہ ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.” ہمارے بزرگ دوست مولوی یعقوب خان صاحب کل لاہور میں وفات پاگئے ہیں انا اللہ و انا الیہ راجعون.ان کی بیعت خلافت اولیٰ کی ہے لیکن خلافت اولیٰ کی بیعت کرنے کے باوجود (ویسے تو یہ ایک موٹی بات ہے بچے بھی سمجھ جائیں گے کہ جب ایک خلافت کی بیعت کر لی تو ) پھر خلافت کا انکار دوسری خلافت کے وقت کیسے ہو گیا.مگر ہو گیا.بعض لوگ دنیا کے ابتلاء میں پھنس جاتے ہیں.غرض انہوں نے خلافت اولیٰ میں بیعت کی اور خلافت ثانیہ کا انکار کر دیا اور اس طرح غیر مبائعین میں شامل ہو گئے.جنہوں نے خلافت کی بیعت نہیں کی.اور اس گروہ میں شامل نہیں ہوئے جو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے اس وقت ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے.اس انکار پر ایک لمبا عرصہ گذر گیا.میں سمجھتا ہوں خلافت اولیٰ میں ان سے کوئی ایسی نیکی ہوئی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کا انجام بدنہیں ہو گا.چنانچہ انہوں نے خلافت ثالثہ کی بیعت کر لی اور اس کے بعد انہوں نے ۲۹ دسمبر ۱۹۶۹ء کو وصیت بھی کر دی.گویا یہ آج سے تین سال پہلے کی بات ہے انہوں نے بیعت بھی وصیت سے کچھ عرصہ شاید ایک دو مہینے پہلے کی تھی اور پوری بشاشت کے ساتھ اور بڑے دھڑلے کے ساتھ بیعت کی.ان کے ایک بڑے بیٹے تو پہلے سے مبائع تھے.ان سے چھوٹے بیٹے نہ صرف یہ کہ مبائع نہیں تھے بلکہ بڑا شدید اختلاف رکھنے والے تھے.اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کیا انہوں نے بھی بیعت کر لی.پھر ان کی بیوی نے بھی بیعت کر لی.اس پر مولوی صاحب مرحوم کے پرانے ساتھیوں کو بڑا غصہ آیا اور اپنے اس غصہ کا اظہار پیغام صلح میں بھی کرتے رہے اور مولوی صاحب بڑے پیار کے ساتھ ان کا جواب بھی دیتے رہے اور ان کو یہ نصیحت بھی کرتے رہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مشن کامیاب کرنے کے لئے جو ہم اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے اس میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہو تو پھر تم بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ.
تاریخ احمدیت.جلد 28 294 سال 1972ء پس خلافت سے دوری بھی رہی اور بڑے لمبے عرصے تک رہی.پھر ایک وقت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور وہ شمع خلافت کے پروانہ بن گئے اور اس طرح ان کا اچھا انجام ہوا.خیر کے ساتھ ان کا خاتمہ ہوا.اللہ تعالیٰ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے اور بہت پیار کرے اور اپنے فدائی اور محبوب بندوں کے ساتھ ان کو بھی شامل کرے.جو لوگ ان کی مبائع ہونے کی حیثیت میں تین سالہ زندگی میں غصے کا اظہار کرتے رہے تھے.وفات کے بعد ان کو بھی خیال پیدا ہوا اور یہ تو قابل اعتراض بات بھی نہیں.خدا کرے کہ یہ پیار بڑھتے بڑھتے مرحوم کی اس خواہش کو بھی پورا کر دے اور وہ بھی خلافت کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں، بہر حال لاہور میں ان کے کچھ عزیزوں نے کہا کہ وصیت کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ لاہور ہی میں ان کو دفنا دیا جائے.اگر چہ ان کی وصیت تھی مگر یہ تو عزیزوں کا کام تھا کہ کسی کا جنازہ زبر دستی تو دوسری جگہ نہیں لے جایا جاسکتا اور نہ لے جانا چاہیے.چنانچہ ان کا جنازہ ہسپتال سے ہماری مسجد دار الذکر میں لے جایا گیا اور غالباً وہیں ان کی تجہیز و تکفین ہوئی اور پھر مبائعین نے ان کی نماز جنازہ پڑھی.ان کا جنازہ عزیزوں کو دکھانے کے لئے ان کے گھر لے گئے وہاں انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں چاہتے کہ ان کا جنازہ ربوہ لے جایا جائے.چنانچہ انہوں نے مجھے فون پر اطلاع دی میں نے کہا اگر ان کے عزیز نہیں چاہتے تو پھر اس طرح بھی ہو سکتا ہے کہ ان کو مانتا فن کر دیا جائے.وقتی طور پر ایسے جذبات ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے اور وہ ان کا جنازہ یہاں لے آئیں.لیکن ان کی جو روح ہے ان کے اوپر تو عزیزوں کا اختیار نہیں ہے روح کو خدا تعالیٰ نے جہاں پہنچانا تھا وہاں پہنچ گئی.اللہ تعالیٰ سے ہم امید رکھتے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں کہ ان پر اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو فدائی جماعت جن سے خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم راضی اور جو اپنے رب پر راضی ہیں اور جو اس گروہ میں ہیں جو ہم سے آگے جاچکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ان میں شامل کرے اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 295 سال 1972ء بے شمار نعمتوں کا وارث بنائے.پس روح پر تو نہ میرا اختیار ہے اور نہ ان کے کسی عزیز کا اختیار اور نہ آپ کا اختیار ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے.ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیار سے غیر مبائعین پر ایک حجت بنا دیا اور ایک لمبا عرصہ ان میں رہے اور ایک لمبا عرصہ ان کے سوچے سمجھے منصوبوں کے مطابق (جو بھی وہ سمجھتے تھے ) احمدیت کی ترقی کے لئے کوشاں رہے.لمبے عرصہ کے مشاہدہ اور ایک لمبے عرصے کے جائزہ نے انہیں حقیقی کامیابیوں سے محرومی کا احساس بھی دلا دیا اور پھر وہ علی وجہ البصیرت اس نتیجہ پر پہنچے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد پورا ہونا ہے تو پھر جو شخص بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پیار کرنے والا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس نیک دل پر اپنے پیار کا جلوہ نازل فرمایا اور جو غلطی تھی وہ اس شخص نے اسی دنیا میں معاف کرالی.اب ہمارا یہ بھائی خدا تعالیٰ کے پیار کو لے کر اُخروی دنیا میں چلا گیا.ان کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد میں پڑھاؤں گا.سب دوست اس میں شامل ہوں اور ان کے لئے اور اپنے لئے اور جانے والوں کے لئے اور رہنے والوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا پیار ہمیشہ ہمارے نصیب میں رہے اور کبھی عارضی طور پر بھی اس کی ناراضگی کی راہیں ہم پر نہ کھلیں اور ہمارے قدم نا پسندیدہ راہوں کی طرف نہ بھٹکیں.“ اس ضمن میں مزید فرمایا :.”خدا کرے کہ آٹھ نو مہینوں کے بعد جب جذبات ٹھنڈے پڑ جائیں اور عقل ان کے تابع نہ رہے تو ان کا تابوت ( جو خدا کرے عارضی طور پر وہاں دفن ہوا ہو) یہاں بہشتی مقبرہ میں آجائے.بہر حال ان کی روح کا جو مقبرہ ہے وہ تو وہی ہے جو خدا نے ان کے لئے پسند کیا.ہماری دعائیں ان کے ساتھ بھی ہیں اور ہماری دعائیں ہر وقت پہلے جانے والوں کے ساتھ بھی ہیں.یہاں جو رہ گئے ہیں ان کے ساتھ بھی ہیں.“ نماز جمعہ کے بعد حضور کی اقتداء میں احباب نے خانصاحب مرحوم کی نماز جنازہ غائب ادا کی.186
تاریخ احمدیت.جلد 28 296 سال 1972ء مولا نا محمد یعقوب خان صاحب کے خود نوشت حالات جو مولا نا عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل کی تحریک پر آپ نے قلمبند فرمائے ، اس میں آپ نے لکھا:.”میری پیدائش ۱۸۹۱ء میں ضلع پشاور کے ایک گاؤں پیر پیائی میں ہوئی.پرائمری کی پانچ جماعتیں اسی گاؤں کے مدرسہ میں پاس کیں.اس کے بعد مڈل کلاسوں کے لئے قریب کے قصبہ نوشہرہ نامی میں داخلہ لیا وہاں سے آٹھ جماعتیں پاس کرنے کے بعد پشاور سنٹر میں انگریزی تعلیم کے لئے گیا اور ایم.بی ہائی سکول میں داخل ہوا وہاں سے ۱۹۰۷ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اعلیٰ پوزیشن لے کر وظیفہ حاصل کیا.اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور اسلامیہ کالج میں داخل ہوا.1911ء میں بی.اے کا امتحان پاس کیا.اسی اثناء میں میرا پشاور کے مولانا غلام حسن خان صاحب نیازی مرحوم کے مکان پر آنا جانا ہوا جہاں احمدی دوستوں سے ملاقات کی تقریب پیدا ہوئی.ان میں سے کسی دوست (غالباً قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم) نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام پڑھنے کے لئے دی.اس کے پہلے صفحہ پر جب میں نے وہ نظم پڑھی جس میں حضور علیہ السلام نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے.بکوشید اے جواناں تا بہ دیں قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا تو میرے دل پر فوراً یہ اثر ہوا کہ یہ کلام جو اتنا پرتاثیر ہے کسی کا ذب کا نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایسے شخص کا ہو سکتا ہے جو دل میں اسلام کا سچا در درکھتا ہو.اسی سے متاثر ہوکر میں حضرت خلیفہ اول کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.بی اے کرنے کے بعد میں نے بی.ٹی کا امتحان دیا اور ۱۹۱۴ء میں تعلیمی سلسلہ سے منسلک ہو گیا.۱۹۱۴ء میں جب حضرت خلیفہ اول کی وفات کی خبرسنی تو میں اور ایک اور احمدی دوست ( قاضی عبدالحق صاحب مرحوم ) لاہور سے قادیان پہنچے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ خلیفہ کے انتقال پر یہی معمول ہے کہ فوت شدہ خلیفہ کے دفن کرنے سے پہلے دوسرے خلیفہ کا انتخاب کیا جانا ضروری ہے.چنانچہ اس مقصد کے لئے مسجد نور میں بڑا بھاری اجتماع ہوا جس میں دور دراز سے احباب شمولیت کے لئے آئے ہوئے تھے میں بھی اس مجمع میں موجود تھا.اس وقت کی جو کیفیت میرے ذہن میں محفوظ رہی وہ یہ ہے کہ مجمع میں بڑا جوش و خروش تھا کہ جلد نئے خلیفہ کا انتخاب کیا جائے.میں نے مسجد نور میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 297 سال 1972ء بیٹھے ہوئے باہر کی طرف دیکھا تو مولانا محمد علی صاحب مرحوم اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے مجمع سے کہہ رہے تھے کہ خلافت کے معاملہ میں ابھی کوئی ایسی جلدی نہیں کرنی چاہیئے.اس پر مجمع کی طرف سے پرزور مطالبہ ہوا کہ اس وقت نئے خلیفہ کا انتخاب ہونا چاہیے.چنانچہ اس وقت مولا نا محمد احسن صاحب مرحوم امروہی نے جو اس مجمع میں تشریف رکھتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر حضرت میاں محمود احمد صاحب کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا کہ حضور ہماری بیعت لیں.آپ ہی ذریت طیبہ ہیں اور جماعت کی اس استدعا کو قبول فرمائیں.چنانچہ اس پر سب نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی طرف ہاتھ بڑھائے اور کہا کہ ہماری بیعت لیجئے چنانچہ اس طرح خلیفہ ثانی کا انتخاب تائید ایزدی سے عمل میں آیا.میں نے اور میرے ساتھی قاضی عبدالحق صاحب نے ایک دوسرے سے کہا کہ ہمیں ابھی تو قف کرنا چاہیے تا کہ دوسرے فریق کی بات سن لیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں چنانچہ ہم مولوی محمد علی صاحب کی کوٹھی پر گئے جو مسجد کے قریب تھی.وہاں مولوی صاحب اور ان کے چند رفقاء جمع تھے اور وہ خلافت کے خلاف تلقین کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ یہ تو پیر پرستی ہے اور یہ خلیفہ کل کا بچہ ہے اس لئے انہوں نے اس قومی اجتماع کے برخلاف ایک اور تحریک چلائی کہ اپنا علیحدہ نظام انجمن کے نام سے قائم کر کے جماعت کو اپنی طرف شامل ہونے کی دعوت دی اور قادیان چھوڑ کر لاہور میں اپنا صدر مقام بنالیا اور ایک علیحدہ انجمن کی بنیاد ڈال دی.میں اور قاضی مرحوم بھی بیعت کئے بغیر واپس گئے اور لاہور میں آکر تمام حالات کا جائزہ لینے کے چند ماہ بعد حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کا شرف حاصل کیا.( بیعت تو کی تھی لیکن بعد ازاں نظام جماعت سے تعلق نہ رکھا.) بیعت خلافت کرنے کے بعد حضرت خلیفۂ ثانی کی شخصیت کا مجھ پر گہرا اثر اس وقت ہوا جب میں نے زیادہ قریب سے ان کو دیکھا.یہ اس وقت کی بات ہے جب حضور نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کی قیادت ہاتھ میں لی اور مسلمانانِ ہند کے اصرار پر جن میں مرحوم علامہ ڈاکٹر اقبال صاحب بھی شامل تھے یہ بہت بڑی قومی خدمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر بخوشی اٹھا لینا منظور کیا اور اس تحریک کو چلانے کے لئے کشمیر کمیٹی کے نام سے ایک مجلس قائم کی.مجھے بھی حضور نے اس کمیٹی کا ایک ممبر نامزد فرمایا.حضور کی شخصیت کا ایک مجزا نہ کرشمہ میرے دیکھنے میں اس وقت آیا جب اس کشمیر کمیٹی کی ایک میٹنگ لاہور کے ایک بڑے ہوٹل میں ہو رہی تھی اور لاہور کے سرکردہ مسلمان لیڈر بھی اس میں شامل
تاریخ احمدیت.جلد 28 298 سال 1972ء تھے.جن میں بعض مخالفت پر نکلے ہوئے بھی تھے چنانچہ ایک موقعہ پر دورانِ گفتگو میں کسی ایک سوال پر ان سب نے حضرت خلیفہ ثانی کی مخالفت شروع کی اور اس طرح گفتگو کو جھگڑا ڈال کر ختم کرنے کی کوشش کی اس وقت میں نے دیکھا حضور کا چہرہ بڑا پر جلال تھا اور پر شوکت آواز میں مجمع کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ :.میں جو کہہ رہا ہوں وہ جماعت احمدیہ کے امام کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں“.اس پر تمام مخالفت دب گئی اور ایک سناٹا چھا گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اتنا رعب دیا تھا کہ ایک ہی آواز میں وہ تمام آوازیں دب گئیں اور مخالفت کا فور ہوگئی.اس مجلس میں خلیفہ شجاع الدین صاحب مخالفت کرنے میں پیش پیش تھے اور اپنی حمایت کے لئے چند مقامی وکلاء کو بھی ساتھ لائے تھے اس تحریک کشمیر کے سلسلہ میں ایک وفد سری نگر بھی حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا.میں بھی اس وفد کا ایک ممبر تھا اس وفد کے امیر جناب مولا نا عبدالرحیم صاحب در د سابق امام مسجد لنڈن تھے اور اس وفد میں روز نامہ سیاست کے ایڈیٹر سید حبیب مرحوم اور ایک دہلی کے روز نامہ الامان کے ایڈیٹر مولانا مظہر الحق صاحب بھی شامل تھے.حضور نے روانگی سے پیشتر ہمیں چند ایسی ہدایات دیں جن سے حضور کی گہری سیاسی دانشمندی اور علومِ ظاہری اور باطنی میں پر ہونا ثابت ہوتا تھا.ان ہی ہدایات کی روشنی میں ہم نے سری نگر کا سفر اختیار کیا، سرینگر میں کشمیری مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت مسلم کانفرنس کا اجتماع ہوا.اس اجتماع میں ہم نے کانفرنس کے سامنے اس موقف کی وضاحت کی جو حضرت خلیفہ ثانی نے تحریک آزادی کشمیر کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ہمارے ذہن نشین کی تھی.مجلس احرار کے نمائندے بھی اس کا نفرنس میں شریک تھے مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت کا نفرنس نے اس موقف کی تائید کی جو حضرت صاحب کی طرف سے ہم نے پیش کی تھی.احرار نے زک اٹھانے کے بعد ریاست کے حکام سے سودا بازی شروع کی اور جب حکام کشمیر سے ان کی تو قعات پوری نہ ہو ئیں تو وہاں سے نا کام واپس لوٹے.مجھے یاد ہے کہ واپسی پر جب اُوڑی کے ڈاک بنگلہ میں میرا اور احراری لیڈروں کا ایک ہی جگہ قیام ہوا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ خان صاحب اب ہم واپس جارہے ہیں وہاں جا کر احمدیت کے خلاف تحریک چلائیں گے.آپ لوگ یعنی جماعت لاہور کے لوگ صرف اتنا کریں کہ ہماری اس تحریک میں دخل نہ دیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 299 سال 1972ء چنا نچہ لاہور پہنچنے پر انہوں نے احمدیت کی مخالفت شروع کی اور ساتھ ہی آزادی کشمیر کے لئے وہ پروگرام شروع کیا جس کو وہ راست اقدام کا نام دیتے تھے اور اس راست اقدام کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریاست کشمیر نے اس تحریک کو آسانی کے ساتھ کچل کر رکھ دیا.اس سے بھی اس دانشمندانہ پروگرام کی اہمیت ہمارے سامنے واضح ہوگئی کہ جو حضرت نے تجویز فرمایا تھا اور جسے مسلم کا نفرنس نے منظور کر لیا تھا چند سال جماعت لاہور کے سکولوں سے منسلک رہنے کے بعد مرحوم خواجہ کمال الدین صاحب کی نظر انتخاب مجھ پر پڑی کہ مجھے ووکنگ مشن چلانے کے لئے بھیج دیا جائے.چنانچہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہ سامان پیدا کیا جس سے مجھے یورپ میں اپنے قلمی جہاد کا موقع ملا اور دو کنگ مشن کے انگریزی رسالہ اسلامک ریویو کی ادارت کا کام بھی مجھے کرنا پڑا.میں کبھی اپنی طالب علمی کے زمانہ میں بھی اہل قلم ہونے کی شہرت نہیں رکھتا تھا لیکن یہ محض حضرت مسیح موعود کی اس رویا میں آکر خنجر دینے کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری تحریروں میں خاص اثر ڈالا اور انگریز سامعین بھی جن کی مادری زبان انگریزی تھی میری انگلش دانی پر متعجب ہوتے تھے اور مجھ سے اکثر پوچھتے تھے کہ آپ نے ہماری اتنی اچھی زبان کہاں سے سیکھی ہے.میں ان کے اس سوال پر دل ہی دل میں یہ کہتا تھا کہ تمہیں کیا پتہ کہ میرے پیچھے کون سی عظیم طاقت کام کر رہی ہے.ایک سابق گورنر نے جو سرحد میں رہ چکا تھا.اپنے انگریز دوستوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک میں اسلام کی نمائندگی ایک پیر پیائی جیسے چھوٹے سے گاؤں کے آدمی کے حصہ میں آئی ہے.در حقیقت یہ ایسی عظیم طاقت کا ہی کرشمہ تھا جو میری مدد کر رہی تھی اور مخالفین کو ورطۂ حیرت میں ڈال رہی تھی.ایک اور واقعہ جو میرے لئے بڑا عبرت انگیز ثابت ہوا وہ یہ تھا کہ اس زمانہ میں جب خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم انگلستان تشریف لائے ہندوستان سے ایک معمولی سا آدمی جو کسی ریاست میں موسیقار تھا اس نے تبلیغ اسلام کی تحریک ہالینڈ میں چلائی اور کئی سال بعد جب میں ہالینڈ گیا تو وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور بھی بڑے احترام سے اس کا نام حضرت عنایت خاں کہہ کر لیتے تھے لیکن دو کنگ میں خواجہ صاحب مرحوم کا نام و نشان تک مٹ گیا اس سے مجھے یہ عبرت حاصل ہوئی کہ جس شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کا ذکر کرنا بھی اپنے مشن کے لئے سم قاتل قرار دیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کا اپنا نام اسی سرزمین سے مٹادیا.حضرت خلیفہ ثانی کی وفات پر میں نے جو تعزیتی نوٹ اخبار لائٹ میں شائع کیا اس پر انجمن
تاریخ احمدیت.جلد 28 300 سال 1972ء احمد یہ لا ہور نے مجھ پر بڑی خفگی کا اظہار کیا.اس کے متعلق میں نے اسی انجمن کے ایک سرکردہ ممبر سے دریافت کیا کہ یہ تو ایک معمولی سی اخلاقی بات ہے کہ کسی جماعت کے محبوب رہنما کے گذر جانے پر اظہار افسوس کیا جائے تو اتنی معمولی سی بات پر انجمن کا سیخ پا ہونا کونسی بات تھی.تو اس دوست نے بتایا کہ انجمن اس بات سے بگڑی ہے کہ آپ کی اس تحریر میں اتنا زور ہے کہ اگر ان کی اپنی جماعت کا کوئی آدمی نوٹ لکھتا تو اتنا زور دار نہ لکھ سکتا.در حقیقت اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ میرے دل پر حضرت خلیفہ ثانی کی عظمت کا گہرا نقش ہو چکا تھا اور میں ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اولاد کو آیات اللہ میں سے سمجھتا تھا اور ان کا احترام کرتا تھا.اس میں انسانی کوشش کا کوئی دخل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب اولاد کو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضلوں سے نوازا ہے چنانچہ یہی کیفیت میں نے اس وقت محسوس کی جب میں دورانِ قیام ایبٹ آباد کوہ مری جا کر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا اس وقت حضور کوہ مری سے چند میل کے فاصلہ پر بھور بن نامی ایک ڈاک بنگلے میں قیام فرما تھے.(یہ جولائی ۱۹۷۰ء کا واقعہ ہے).میں اپنے بیٹے کیپٹن عبد السلام خان کی کار میں گیا.کار جب حضور کے ڈاک بنگلہ میں جا کر ٹھہری اور ہم نے اندر اطلاع کرائی تو حضور اپنی رہائش گاہ سے نکل کر باہر تشریف لائے.اس وقت جب میں نے نظر اٹھا کر حضور کے چہرے کی طرف دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے چاند طلوع ہو رہا ہے اور جس چیز نے مجھے مزید متاثر کیا وہ حضور کی سادگی تھی کہ اپنے معمولی لباس میں باہر تشریف لے آئے.شیروانی اور شلوار پہن رکھی تھی اور نہ کوئی ٹائی تھی نہ کوئی کالر میں نے دل میں کہا کہ آکسفورڈ کا فارغ التحصیل نوجوان ہر قسم کے تصنع سے اس قدر بالا تر ہے کہ اس نے لباس کے معاملہ میں بھی ان لوگوں کی تقلید نہیں کی.اس کے برعکس میرا ذہن جماعت لاہور کے اس وقت کے امیر کی طرف منتقل ہوا جو اُس وقت تک کسی سے ملاقات نہیں کرتے جب تک بڑے تکلف سے اپنے کالر اور ٹائی کے لوازمات کو پورا نہ کر لیں.حضور میرے ساتھ ویسے ہی کار میں آکر بیٹھ گئے اور مجھے اپنے سفر یورپ کے حالات سناتے رہے اور وہیں چائے وغیرہ سے ہماری تو اضع بھی کی.یورپ میں ان کے ساتھ جو سوال و جواب ہوئے تھے ان کا بھی ذکر کیا تو میں نے حضور سے کہا کہ وہاں صرف ان لوگوں کا آپ کا چہرہ دیکھنا ہی کافی تھا کیونکہ وہ لوگ قیافہ شناس ہیں اور وہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس چہرہ پر اس قدر طمانیت اور نور برس رہا ہو وہی اس زمانہ کی روحانی پیاس کو بجھا سکتا ہے کیونکہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 301 سال 1972ء موجودہ تہذیب نے تمام دنیا کے انسانوں کو اطمینانِ قلب کی نعمت سے محروم کر رکھا ہے.اس کے بعد میں وہاں سے رخصت ہوا تو یہ تاثر لے کر لوٹا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو برکات سماوی لے کر آئے تھے وہ ان کی اولاد میں منتقل ہو چکے ہیں اور جو اس طرف سے کٹ گئے ہیں ان کی مثال اس خشک ٹہنی کی سی ہے جو اپنے تنے سے علیحدہ ہو کر سوکھ جاتی ہے یہی حالت مجھے اپنی جماعت لاہور کے دوستوں کی نظر آئی کہ جہاں بڑے بڑے علمی کارنامے ہیں وہاں آسمانی نصرت اور برکت سے محرومیت بھی ساتھ لگی ہوئی ہے.میرا بیٹا کیپٹن عبد السلام تو حضور کی محبت میں مجھ سے بھی چند قدم آگے تھا.میں نے اپنے اس تاثر کو اخبار الفضل میں شائع کر دیا اور جماعت ربوہ کو مبارک باد دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسا روحانی اور نورانی امام بخشا ہے.اس پر جماعت لاہور میں بہت ہلچل مچی اور میرے خلاف ایک مہم چلائی گئی.اسی تاثر کی بناء پر میں جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء ( کتاب میں یہاں سہواً ۱۹۶۵ ء چھپ گیا ہے ) میں شامل ہوا اور ہزار ہا مخلصین کا مجمع دیکھ کر جبکہ تا بحد نگاہ انسان ہی انسان نظر آتے تھے اور سب کے سب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار تھے اور خلیفہ وقت پر اس طرح نثار ہو رہے تھے جس طرح پروانے شمع پر گرتے ہیں تو میں نے بھی یہ فیصلہ کر لیا کہ اب جبکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا کوئی گوشہ مخفی نہیں رہا جو میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہ کر لیا ہو.اس مجمع میں میں بھی دیر تک یہ روح افزا نظارہ دیکھتا رہا.ایک موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث پلیٹ فارم سے اتر کر میرے پاس تشریف لائے.میں نے عرض کیا کہ میں باغ احمد کا یہ نظارہ کر رہا ہوں اور جیسے یہ ہزاروں پروانے حضور کے گرد بیٹھے ہیں ان میں سے میں بھی ایک پروانہ ہوں مگر پر شکستہ تو حضور نے اس وقت ہاتھ اٹھا کر میرے لئے دعا فرمائی.میرے لڑکے عبد السلام خاں نے بھی اسی سالانہ جلسہ پر بیعت کر لی.عبدالسلام سے بھی بہت پہلے میرے بڑے لڑکے کرنل اسلم خاں نے حضور کی بیعت کا شرف حاصل کر لیا تھا.میں نے یہی فیصلہ کیا کہ خلافت کی برکات سے متمتع ہونے کے لئے ضروری ہے کہ میں بھی بیعت کرلوں چنانچہ میں نے بھی بیعت فارم پر کر کے اپنی کوٹھی واقع احمد پارک سے بھجوادیا.اس کے بعد جنوری میں میری اہلیہ محترمہ نے جو مرحوم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی صاحبزادی اور مولانامحمد علی صاحب مرحوم کی سالی ہیں بیعت فارم پر کر کے بھجوایا اور ان کی بیعت ایک خواب کی بناء پر ہوئی.وہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گھر حضرت خلیفہ ثالث تشریف
تاریخ احمدیت.جلد 28 302 سال 1972ء لائے ہیں مجھ سے فرمایا کہ اٹھو کیوں بیٹھی ہو.چنانچہ میں اٹھ کھڑی ہوئی اور اگلے دن میں نے اپنے بیٹے کیپٹن عبد السلام کو کہا کہ میری بیعت کا خط لکھ دو.یہ ایک ایسا فطرتی اقدام تھا کہ جس کے پیچھے ایک ہی جذ بہ کارفرما تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت جو دین اسلام کا آخری حصار ہے اس سے موجودہ انتشار مٹ جانا چاہیے اور اس کو مٹانے کا سب سے موثر طریقہ یہی نظر آیا کہ اس جماعت میں سے اگر افتراق مٹ سکتا ہے تو اس طرح مٹ سکتا ہے کہ سب لوگ دامن خلافت سے وابستہ ہو جائیں جو مشیت الہی کے ماتحت قائم شدہ نظام ہے.یہ ایک ایسی مثال ہے جو میں نے اس غرض سے قائم کی ہے کہ اور سعید روحیں بھی اس طرف متوجہ ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری وصیت کا احترام قائم کریں جس میں آپ نے جماعت کو ہدایت فرمائی تھی کہ میرے تو جانے کا اب وقت آ گیا ہے میرے بعد سب مل کر کام کرو.مجھ سے بہت بڑی شخصیت نے جو ہر لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چوٹی کے صحابہ میں سے تھے حضرت صاحب کی اس وصیت کے احترام میں خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی تھی.میری مراد حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب پشاوری سے ہے.مولا نا مرحوم کی اپنی زبانی جو روایت مجھ تک پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ میں قادیان میں اپنی لڑکی یعنی بیگم صاحبہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے یہاں مقیم تھا اور ہرقسم کا آرام میسر تھا لیکن اس کے باوجود حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اخلاق کا یہ نمونہ تھا کہ وہ ہر روز مجھ سے خود آ کر پوچھتے تھے کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں اور گھنٹوں میرے پاس بیٹھ کر بھی کبھی کوئی اختلافی بات نہیں فرماتے تھے.میں نے ان کے چہرہ پر غیر معمولی ذہانت اور نورانیت دیکھی اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ آخری حکم یاد آیا کہ سب مل کر کام کرو.چنانچہ میں نے اس وقت فیصلہ کیا کہ مل کر کام کرنے کی ایک ہی صورت ہو سکتی ہے کہ دامنِ خلافت سے وابستہ ہو جائیں اور باقی جماعت کے لئے میں نے اقدام بیعت کر کے ایک عملی نمونہ قائم کیا ہے.جائے تعجب ہے کہ اس قدر سیدھی بات کو بھی ہمارے دوستوں نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی.یہ ایک ایسا اقدام ہے جو ہر ایک سعید الفطرت احمدی کو دعوت فکر دیتا ہے.آخر پر میں اسی کا اعادہ کرتا ہوں کہ میں اسے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے خلافت سے وابستہ ہونے کی توفیق بخشی اور اس طرح خلیفہ اول سے لے کر خلیفہ ثالث تک تینوں خلافتوں کے ساتھ مجھے وابستگی کی توفیق ملی
تاریخ احمدیت.جلد 28 303 سال 1972ء چوہدری عصمت اللہ صاحب بہلولپوری ایڈووکیٹ (وفات ۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء) بہت ہی مخلص اور متعدد خوبیوں کے مالک تھے.سلسلہ کی خدمت کو اپنے لئے بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے.آپ نے جولائی ۱۹۳۱ء سے دسمبر ۱۹۷۲ء تک سرینگر، بھمبر ، نوشہرہ اور کوٹلی کے مظلوم کشمیری مسلمانوں کے مقدمات کی پیروی میں ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں جن کا ذکر تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۵۷۵و۵۷۶ میں گزر چکا ہے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۷۲ سال تھی.آپ کا جنازہ مورخہ ۱۴ دسمبر کور بوہ لایا گیا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.187 كل النساء لطیف صاحبه فجی (وفات: ۱۳ دسمبر ۱۹۷۲ء) آپ حاجی عبداللطیف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ صوا (نجی) کی اہلیہ تھیں.نجی کے ابتدائی مبائعین میں سے تھیں.لجنہ اماء اللہ نبی کی سرگرم کارکن ہونے کے علاوہ نجی کے عام رفاہی کاموں میں دلچسپی سے حصہ لیتی تھیں.احمدیہ مسجد صوا اور احمد یہ مشن کی صفائی اور دیگر ضروریات پورا کرنے کرانے کا اکثر خود بخو دا نتظام کرتیں.دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے نیز مہمان خانہ کے لئے چادریں وغیرہ اپنی طرف سے اور بعض دفعہ لجنہ کی طرف سے پیش کرتی تھیں.اسی طرح درس اور دیگر عام جلسوں، دعوتوں کے موقع پر لجنہ کی دوسری بہنوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے خدمت میں مصروف رہتیں.۱۹۶۲ء میں ربوہ اور قادیان کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی اور حضرت خلیفۃ امسیح الثانی کی زیارت اور ملاقات سے مشرف ہوئیں.اسی طرح ۱۹۶۸ء میں بھی قادیان اور ربوہ کے جلسوں میں شرکت کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی زیارت اور ملاقات کا شرف حاصل کیا.۱۹۶۲ء میں آپ نے اپنے خاوند کے ساتھ حج بیت اللہ شریف اور زیارت روضہ نبوی کی سعادت بھی حاصل کی.88 مولوی مهدی شاہ صاحب (وفات: ۱۸ دسمبر ۱۹۷۲ء)
تاریخ احمدیت.جلد 28 304 سال 1972ء آپ نے خلافت اولی کے زمانہ میں بیعت کی تھی.جنگ عظیم (اول ) میں فوج میں چلے گئے.وہاں سے فارغ ہو کر قریباً سولہ سال تک مڈھ رانجھا ضلع سرگودھا میں مدرس رہے.۱۹۴۳ء میں دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کر دی اور ریٹائر منٹ یعنی مئی ۱۹۷۱ ء تک ضلع شیخو پورہ کی دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کے لئے بطور معلم اصلاح وارشاد مامور رہے.آپ کو تبلیغ کا بے حد شوق تھا.اپنی نیک طبیعت کی وجہ سے دنیا سے دلبرداشتہ رہتے.آپ ایک قانع، صابر اور شاکر انسان تھے.189 خورشید بیگم صاحبه (وفات: ۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ء) آپ ڈاکٹر طفیل احمد ڈار صاحب ستیانہ روڈ لائل پور کی اہلیہ تھیں.مرحومہ بہت خوبیوں کی مالک تھیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند، غرباء کی ہمدرد، پڑوسیوں سے نہایت اعلیٰ سلوک کرنے والی خاتون تھیں.۲۸ سال تک اپنے خاوند کے ساتھ تنزانیہ میں جماعت کی خدمت کرتی رہیں.جماعتی مہمانوں کا بہت خیال رکھتی تھیں.ان کے کپڑے اپنے ہاتھ سے دھو کر خوشی محسوس کرتی تھیں.آپ موصیہ تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.190 قاضی محمد عمر جان صاحب آف قاضی نخیل ہوتی ضلع مردان (وفات: ۳۱ دسمبر ۱۹۷۲ء) ۱۹۱۱ء میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد کے ذریعہ داخل احمدیت ہوئے 191 اور زندگی بھر نہایت پُر جوش رنگ میں پیغام احمدیت کا فریضہ بجالاتے رہے اور مخالف علماء کو ساکت کر دیا چنانچہ جناب آدم خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ مردان تحریر فرماتے ہیں:.ا.قاضی محمد یوسف صاحب مرحوم سابق امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد اور قاضی عمر جان صاحب دونوں ہم جد تھے.قاضی محمد یوسف صاحب پہلے احمدی ہوئے.انہوں نے آپ کو تبلیغ کرنی چاہی تو آپ نے انہیں بڑی سختی سے روک دیا لیکن فطرت نیک تھی اس لئے بالآخر احمدیت کی آغوش میں آگئے.آپ کی احمدیت قبول کرنے کا واقعہ بڑا عجیب ہے.آپ ایک اور دوست صفدر خان کے ساتھ پشاور گئے.قیام پشاور کے دوران رہائش گاہ سے آپ کو احمدیت کی دو کتابیں ملیں جن کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 305 سال 1972ء سر ورق غائب تھے.آپ نے وہ کتابیں پڑھیں اور ان سے متاثر ہوئے پھر قاضی محمد یوسف صاحب سے بعض اور کتابیں حاصل کیں اور ان کا مطالعہ کیا اور اس طرح آپ کو اور آپ کے دوست صفدرخان کو احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.“ ۲.مرحوم نے ۱۹۱۱ء میں بیعت کی اور پھر ساری عمر احمدیت کی ترقی اور فروغ میں کوشاں رہے.تبلیغ بہترین طریق سے کرتے.بڑے حاضر جواب تھے.ایک دفعہ آپ کو بامر مجبوری ایک مناظرہ کرنا پڑا.یہ مناظرہ خواجہ گنج ہوتی کی ایک سرائے میں ہوا.اس کے لئے شہر میں خوب منادی کی گئی اور اس میں غیر از جماعت احباب بڑی کثرت سے شامل ہوئے.موضوع امکانِ نبوت تھا.خاکسار بھی اس مناظرہ میں موجود تھا اور ابھی احمدی نہیں ہوا تھا.مرحوم نے اس مناظرہ میں انتہائی خود اعتمادی کے ساتھ اپنے موقف کو قرآن کریم کی روشنی میں پیش کیا.دلائل ایسے ٹھوس اور مضبوط تھے کہ مخالف مناظر ان کا کوئی معقول جواب نہ دے سکا.“ ۳.قاضی صاحب مرحوم کے مناظرہ کے بعد مجھے بھی احمدیت کا لٹریچر پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.ابتدائی تحریک تو سید زمان شاہ صاحب نے کی پھر بابو خواص خان صاحب اور مولوی معین الدین صاحب مرحوم سے تبادلہ خیالات ہوا اور ۱۹۳۶ء میں مجھے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.الحمد للہ علی ذالک.میری بیعت کے وقت مرحوم قاضی صاحب مقامی جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تھے.مردان کے گردو نواح میں تبلیغ کرنے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے جاتے.ان دنوں ہوتی مردان میں ایک بڑے عالم مولوی عبدالمنان صاحب تھے.ان کے علم کا بڑا شہرہ تھا.ایک موقع پر ایک تعزیتی مجلس میں مولوی عبد المنان صاحب اور ان کے ساتھیوں کے علاوہ قاضی محمد عمر جان صاحب مرحوم بھی موجود تھے.احمدیت کے متعلق باتیں شروع ہوئیں تو مولوی عبدالمنان صاحب نے کہا احمدی لوگ چند معمولی اور سطحی باتیں جانتے ہیں اور بس.قاضی صاحب سے رہا نہ گیا آپ نے فرمایا.مولوی صاحب آج مقابلہ ہو جائے تا حاضرین جان لیں کہ قرآن کریم کون جانتا ہے اور کون نہیں جانتا.آپ قرآن کریم کا کوئی حصہ اپنی مرضی سے منتخب کر لیں اور پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر بیان کریں اس کے بعد اسی حصہ قرآن کی تفسیر میں بیان کروں گا اور سننے والے خود فیصلہ کر لیں گے کہ کس کی تفسیر معقول اور بہتر ہے.مولوی عبدالمنان صاحب پر ایسا رُعب طاری ہوا کہ انہوں نے اس سلسلہ میں کوئی بات نہ کی اور مجلس سے اٹھ کر چلے گئے.192 66
تاریخ احمدیت.جلد 28 306 سال 1972ء ٹھیکیدار عبدالعزیز صاحب (وفات : ۱۹۷۲ء) آپ ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے.دنیال ضلع میر پور آزاد کشمیر کے رہنے والے تھے.مڈل تک تعلیم تھی.محکمہ انہار میں ملازمت کرتے رہے.ہائی کورٹ آزاد کشمیر نے آپ کو اپنا عدالتی معاون یعنی (Assessor) بھی بنایا.اور اچھی کارکردگی پر آپ کو سرٹیفیکیٹ بھی دیئے.۱۹۱۴ء میں بیعت کی.۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے وکلاء کے ساتھ مل کر ریاست کے مسلمانوں کے لئے کام کرتے رہے.بھٹہ بھی پہلے پہلے جموں میں لگایا.پھر دتیال کے قریب کلری میں لگایا.نہایت دیانتداری سے یہ کاروبار کیا.۱۹۴۷ء کے فسادات میں ڈپٹی کمشنر خان عبد الحمید خان صاحب نے آپ کو علاقہ کھڑی شریف میں ہندوؤں کی جان ومال کا نگران مقرر کیا.آپ نے اس ذمہ داری کو احسن طریق سے ادا کیا.ہندولڑکیوں کی حفاظت اور پرورش کی.جنوری ۱۹۴۹ء تک آپ نے کیمپ کی نگرانی کی.حکومت آزاد کشمیر نے اس خدمت کے صلہ میں آپ کو ” خادم دین کے خطاب سے نوازا.بھارت، پاکستان اور آزاد کشمیر کی تینوں حکومتوں نے آپ کو ان خدمات کے صلہ میں خوشنودی کے سرٹیفیکیٹ دیئے.بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی طرف سے بھی خوشنودی کی چٹھی موصول ہوئی تھی.اسی طرح بعض اور تنظیموں نے بھی آپ کی خدمت کے اعتراف میں سرٹیفیکیٹ دیئے.سردار ابراہیم صاحب صدر آزاد کشمیر نے آپ کی دیانت داری کی وجہ سے آپ کو نائب تحصیل دار مقرر کر دیا.اور خان عبدالحمید صاحب جو پہلے ڈپٹی کمشنر تھے پھر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بنے انہوں نے آپ کو آزاد کشمیر ہائی کورٹ کا عدالتی معاون مقرر کیا.آپ ایک عرصہ تک جماعت احمدیہ نگیال کے صدر بھی رہے.193
تاریخ احمدیت.جلد 28 1 2 3 4 6 7 8 9 الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۵،۴ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۵،۴ الحکم ۱۰ مارچ ۱۹۰۷ ء 307 حوالہ جات (صفحہ 189 تا306) سال 1972ء حقیقة الوحی تقمه صفحه ۵۸ طبع اول اشاعت ۱۵ مئی ۷ ۱۹۰ ء روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۹۲ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۳۶ ۱۹۳۵ء صفحه ۴۴، ۳۷-۱۹۳۶ء صفحہ ۵۸.۸۷-۱۱۲.رپورٹ سالا نہ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۳۸-۱۹۳۷ء صفحہ ۶۸ - ۷۰ ۸۰ ۸۱ - ۹۴.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۳۹ - ۱۹۳۸، صفحه ۱۱۵ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۷۲، صفحه ۴ الفضل ۸ جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۱۰ ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ 10 فہرست اصحاب قادیان مرتبہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع اوّل صفحہ ۳۸.رجسٹر روایات صحا بہ جلد ۵ صفحه ۱۲۵- کتاب ” قادیان صفحه ۳۳۶ مولفه شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان 11 الفضل ۱۳ فروری ۱۹۷۲، صفحه ۶ 12 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۵ صفحه ۱۲۵-۱۳۰ 13 " بھیرہ کی تاریخ احمدیت ، صفحہ ۱۰۸ 14 15 16 17 18 19 مکتوب بنام شعبه تاریخ احمدیت مؤرخہ ۱۱ نومبر ۱۹۹۴ء الفضل ۱۳ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۶ مکتوب قریشی منیر احمد صاحب بنام شعبه تاریخ احمدیت مورخه ۱۱ نومبر ۱۹۹۴ء ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ رجسٹر اصحاب احمد قادیان مرتبہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی.تاریخ احمدیت جلد ہشتم طبع اول ضمیمہ صفحه ۴۰ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۷۲ صفحه ۶
تاریخ احمدیت.جلد 28 20 الفضل ۲۲ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 21 لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۳۶۳ 22 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 23 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 24 الفضل ۱۰ مئی ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 25 الفضل ۱۸ مئی ۱۹۷۲، صفحه ۵ 26 الفضل نے جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۵ 27 الفضل یکم جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 28 رجسٹر بیعت اولی 29 الفضل یکم جون ۱۹۷۲، صفحہ ۶ 30 الفضل یکم جون ۱۹۷۲ صفحہ ۶ 31 ریکارڈ بہشتی مقبرور بوه 32 الفضل ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 33 الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 308 سال 1972ء 34 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ 35 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 36 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۲، صفحه ۶ 37 ” بشارات رحمانیہ جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ تا ۱۲۴ مؤلفہ مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر.ناشر مکتبہ ترجمة القرآن بطرز جدید بلاک نمبر ۶ ڈیرہ غازیخاں طبع اول دسمبر ۱۹۵۶ء 38 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ 39 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 40 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحہ ۱۶۴ نمبر شمار ۳۲۵۲ کمپیوٹر کوڈ ۳۱۰۳ 41 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ 42 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 43 راجہ غالب احمد صاحب کے مکتوب ۲۷ نومبر ۱۹۹۴ء سے ماخوذ 44 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 45 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۷۲ صفحه ۴
تاریخ احمدیت.جلد 28 46 47 لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۷۸ الفضل نے راکتوبر ۱۹۷۲ صفحہ ۴ 48 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 309 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۳۷ از مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسله 50 الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 51 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۳۳۷ تا ۳۳۹ 52 الفضل ۴ جون ۱۹۲۳ء صفحه ۱۱ 53 الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 54 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۳۴۰ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۸۵ مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان اشاعت جنوری ۱۹۵۹ء 55 56 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 57 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ 58 الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۶ صفحه ۴ 59 سال 1972ء بیان حضرت مولوی محمد الدین صاحب بحوالہ سیرت حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب،صفحہ ۲۸ غیر مطبوعہ مقالہ مرتبہ جناب لئیق احمد صاحب طاہر حال مبلغ انگلستان 60 اصحاب احمد جلد ششم صفحه ۱۲۱ 61 الحکم ۱۴ فروری ۱۹۳۶ صفحه ۵ و الحکام ۲۱ فروری ۱۹۳۶ صفحه ۳ 2 ذکر حبیب صفحه ۱۱۹-۱۲۰ مؤلفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ.تاریخ احمدیت جلد سوم طبع اول صفحه ۵۱۱.اشاعت دسمبر ۱۹۶۲ء 63 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۱۵ ء صفحه ا 64 الفضل و ستمبر ۱۹۱۵ صفحه ۱ 65 الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۱۵ صفحه ۴-۵ 66 الفضل ۲۳ جون ۱۹۱۷ صفحه ۵-۶ 67 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۱۷ صفحه ۲ 68 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۵-۶ 69 الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۱۷ صفحه ۸ 70 الفضل ۲۰ /اکتوبر ۱۹۱۷، صفحه ۱ 71 | فضل ۱۶ مارچ ۱۹۱۸ صفحه ۱۲
تاریخ احمدیت.جلد 28 72 الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۱۸ صفحه ۴ 73 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۱۸ ء صفحه ۱-۲ الفضل ۹ نومبر ۱۹۱۸ صفحه ۲ 74 75 الفضل ۱۰ جون ۱۹۱۹ صفحه ۱-۲ 76 الفضل ۲۱ جون ۱۹۱۹ء صفحہ او۲ 310 سال 1972ء 77 الفضل ۴ نومبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱-۲ 78 الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ 1 79 الفضل ۴ دسمبر ۱۹۱۹ ء صفحه ۲ 80 الحکم ۷.۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۲۳ صفحه ۹ 81 الحکم ۷.۱۴ ۱۷ پریل ۱۹۲۳ء صفحه ۱۰ 82 الفضل ۲۶ را پریل ۱۹۲۳ صفحه ۷ 83 کارزار شدھی ، صفحہ ۷۷.۷۸.مصنفہ ماسٹرمحمد شفیع صاحب السلم.ناشر حکیم مرزا محمد شفیع عمدة الحكماء مطبع کریمی سٹیم پریس لاہور دسمبر ۱۹۲۴ء 84 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۵-۱۶ را پریل ۱۹۲۲ء صفحه ۲ 85 احمدیہ گزٹ قادیان ۲۶ ستمبر ۱۹۲۶ صفحه ۳ 86 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ششم طبع اوّل صفحہ ۴۷۵ 87 الفضل یکم جنوری ۱۹۴۶ء صفحہ ۳.الفضل یکم جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۳ 88 تاریخ احمدیت جلد ۱۰ صفحه ۷۳۳ حاشیہ طبع اوّل 89 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۵۱-۱۹۵۰ صفحه ۸۱ 90 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۹ صفحه ۲ 91 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یه پاکستان ۵۶ - ۱۹۵۵ صفحه ۵۲ 92 الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ 93 " واذا الصحف نشرت صفحه ۴۰ مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب درویش پروپرائیٹر احمد یہ بکڈ پو قادیان دارالامان 94 الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۶ 95 الفضل ربوہ ۳ نومبر ۱۹۷۲ صفحہ ۶ نوٹ جناب عبدالرحمن صاحب شاکر پنشن صدرانجمن احمدیہ پاکستان 96 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 97 الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۷۲ صفحہ ۶.الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۴ 98 الفضل ۲ فروری ۲۰۰۷ صفحه ۵-۶
تاریخ احمدیت.جلد 28 99 الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۷۲، صفحہ ۶ 311 100 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ 101 الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۹۲ء - الفضل ۱۹ ر اگست ۱۹۹۲ صفحه ۶ 102 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۷ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 103 ضمیمه انجام آتھم صفحه ۴۳ نمبر ۱۹۸ سال 1972ء 104 اصحاب احمد جلد اوّل صفحه ۱۵۵ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے درویش قادیان 105 اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۱۵۶.الفضل ۷ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 106 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 107 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 108 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 109 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 110 الفضل ۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۵ 111 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 112 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۶ 113 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 114 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.احکام ۲۴ اپریل ۱۹۰۳ء میں مبائعین کی فہرست میں نمبر ۲ے پر درج ہے ”امیر بخش صاحب محلہ چابک سواراں لا ہور 115 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 116 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۲، صفحہ ۶ 117 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۴۹ صفحه ۲.تاریخ احمدیت جلد ۱۴ صفحه ۲۹ 118 رجسٹر روایات صحابه جلد ۴ صفحه ۱۵۰ 119 الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 120 رجسٹر روایات صحابه جلد ۴ صفحه ۱۵۰ تا ۱۵۲ 121 الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 122 الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱.۵ جولائی ۱۹۷۳ ء صفحہ ۴ 123 الفضل ۹ فروری ۱۹۷۲ صفحه ۴ 124 الفضل ۱۵۴ فروری ۱۹۷۲ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 312 سال 1972ء 125 جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ ۲ صفحہ ۵۲ - ۵۴ - تقریر مولانا جلال الدین صاحب شمس ناشر مہتم نشر و اشاعت نظارت اصلاح وارشادر بوہ اپریل ۱۹۶۴ء 126 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحہ اوہ تعارف زنجیر گل مرتبه لطیف قریشی صاحب 127 الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۴۰ صفحه ۴-۵ 128 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ 129 الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۴ 130 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ والفضل ۲۱ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 131 الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۵ 132 الفضل ا ا پریل ۱۹۷۲ صفحہ ۶.وہ پھول جو مرجھاگئے حصہ دوم صفحہ ۲۶۹ تا ۲۷۱ از بدر الد ین عامل بھٹہ صاحب 133 تحریر: شیخ رحمت اللہ صاحب کراچی اصلح.کراچی یکم جولائی تا ۳۱ جولائی ۱۹۹۷ء، الفضل ۵ مئی ۱۹۷۲ صفحہ ۶ 134 الفضل ۱۵ را پریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 135 بدر قادیان ۸ جون ۲۰۰۴ صفحه ۱۲ 136 الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۶ 137 الفضل 9 مئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ 138 الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ ، صفحہ ۴ ، روح پرور یادیں صفحہ ۵۲۲، ۵۲۳ 139 الفضل ۱۴ جون ۱۹۷۲ ء صفحه ۴ 140 الفضل ۱۸ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۶ 141 بشارات رحمانیہ جلد دوم صفحہ ۱۵۷ - ۱۵۸ مولفہ مولا نا عبد الرحمن صاحب مبشر ناشر ترجمۃ القرآن بلاک ۶ ڈیرہ غازیخان ۱۹۵۶ ء - الفضل ۱۸ مئی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ - احمد یہ جنتری ۱۹۳۱ء صفحہ ۴۱، احمد یہ جنتری ۱۹۳۷ صفحه ۴۹ - تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین، صفحہ ۱۲۶ کمپیوٹرکوڈ ۲۳۸۲ نمبر شمار ۲۵۰۶.عالمگیر برکات مامور زمانہ حصہ دوم صفحه ۳۲۲ تا ۳۳۱ مولفہ مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر آف ڈیرہ غازیخان 142 رسالہ مصباح اگست ۱۹۷۲ صفحه ۲۳-۲۵ 143 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت.الفضل ۱۴، ۱۶ مئی ۱۹۷۲ء.الفضل ۳ جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ 144 ریکارڈ بہشتی مقبره ر بوه 145 الفضل ۶ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۴-۵ تلخیص از مضمون شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل 146 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۴-۶ 147 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۷۲، صفحہ ۱ 148 الفضل ۳۱ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۶
تاریخ احمدیت.جلد 28 149 الفضل ۲ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶ 150 الفضل ۶ جولائی ۱۹۷۲ صفحہ ۴ 151 الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۴ 152 الفضل ۲۷ جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 313 153 الفضل ۸ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ 154 الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۷۲ ، صفحہ ۴ 155 ذکر اقبال صفحه ۲۸۷ از مولانا عبدالمجید سالک ناشر بزم اقبال کلب روڈلاہور طبع دوم مئی ۱۹۸۳ء 156 الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 157 مکتوب ۳ فروری ۱۹۶۰ء غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 158 الفضل ۱۰ اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۶ 159 الفضل ۲۱ / اگست ۱۹۲۳ء صفحه ۱ 160 الفضل ۲۰/اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 161 الفضل 9 جولائی ۱۹۲۹ء صفحہ ۱ 162 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ 163 الفضل ۱۷ جون ۱۹۳۴ صفحه ۵ 164 الفضل ۲ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 165 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۷۳ صفحه ۵ 166 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲-۳ 167 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۱ 168 الفضل ۴ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ 169 الفضل ۱۱ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 170 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ 171 الفضل ۱/۲۹ پریل ۱۹۷۳ ء صفحه ۳ 172 پندرہ روزہ’انقلاب نو لاہور فروری ۱۹۷۳ء صفحہ ۱۱-۱۳ ایڈیٹر عبد الرشید صاحب تبسم ایم اے 173 الفضل انٹر نیشنل ۲ جولائی ۱۹۹۹ء صفحہ ۸-۹ 174 الفضل انٹر نیشنل ۹ جولائی ۱۹۹۹ ء صفحہ ۳ تا ۴ و ۱۰.الفضل ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ 175 الفضل ۱۱ نومبر ۱۹۷۲، صفحہ ۴ 176 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶ - الفضل ۱/۸اپریل ۱۹۷۳ء صفحه ۴ سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 177 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ 178 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ 179 الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶ 180 الفضل ۱۱ / اگست ۱۹۷۳ء صفحه ۴ 181 الفضل ۶ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۴ 314 سال 1972ء 182 وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ دوم صفحہ ۸۶-۸۸ 183 تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۱۰۶ از حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سر حد اشاعت ۱۳۷۸ھ / ۱۹۵۹ء 184 الفضل 9 دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱ 185 الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۷-۸ و ۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۸، خطبات ناصر جلد چهارم صفحه ۵۵۲ تا ۵۵۶ 186 بشارات رحمانیہ جلد اوّل ستمبر ۱۹۷۰ طبع دوم صفحه ۴۸۱ تا ۴۹۰- مؤلفہ مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر - الفضل ۱۴.۲۴ دسمبر ۱۹۷۲ء.الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۷۳ء صفحہ ۳ 187 الفضل ۷ ۱ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ 188 تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ ۱۰۶ - ۱۰۷، افضل ۴ مارچ ۱۹۷۳ ، صفحہ ۶ 189 الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۵ 190 الفضل ۶ جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۶ 191 تاریخ احمد یہ سرحد صفحہ ۱۰۶ مولفہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب مطبوعہ ۱۹۵۹ء 192 الفضل ۷ مارچ ۱۹۷۳ ء صفحہ ۴ 193 مقاله تاریخ احمدیت ضلع میر پور آزادکشمیر صفحه ۶۹ تا ۷۵
تاریخ احمدیت.جلد 28 315 سال 1972ء ۱۹۷۲ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں مبارک تقاریب ولادت ا.مرزا تو قیر احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزار فیق احمد صاحب (ولادت : ۸ مارچ ۱۹۷۲ء) محی الدین احمد صاحب ابن پیر وحید احمد صاحب (ولادت : ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء) ۳.سید مجیب احمد صاحب ابن سید محمد امین صاحب (ولادت : ۲ مئی ۱۹۷۲ء) -۴ امتہ الاعلی مبشرہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب (ولادت : ۳۱ مئی ۱۹۷۲ء) ۵ فیصل شفاعت احمد خان صاحب ابن نوابزادہ محمود احمد خان صاحب ( ولادت : ۱۱ / ۱۲ جون ۱۹۷۲ء ) -۶ امته العلی در ثمین صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا اور لیس احمد صاحب (ولادت:۲۹/ ۳۰ جون ۱۹۷۲ء) ۷.امتہ المجیب زونا صاحبہ بنت ڈاکٹر عبدالمالک شمیم احمد صاحب (ولادت : ۲۱ /اگست ۱۹۷۲ء) امتہ الولی زیدہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے ( ولادت ۳۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء) شادی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۶ اکتو بر ۱۹۷۲ء کومسجد اقصیٰ ربوہ میں صاحبزادی امتہ المی در شمین صاحبہ بنت ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب آف لندن ابن عبد السلام خان صاحب پشاور کے ساتھ قرار پایا.حضور نے اس موقع پر فرمایا کہ:.اس وقت میں اپنی نہایت پیاری بچی یعنی جو میرے لئے اپنی بچیوں کی طرح پیاری ہے اور میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی صاحبزادی ہے جس کا نام امتہ الحی ہے، اس کے نکاح کا اعلاج کروں گا.بڑی دعاؤں کے بعد 66 اس نکاح کا اعلان ہو رہا ہے.ازاں بعد حضور نے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کی خصوصی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ ذمہ داریاں بڑی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنا ضروری ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 316 سال 1972ء وو دوست دعا کریں ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس عزیزہ کو اپنی ذمہ داریاں سمجھنے اور نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے دولہا ( جو پشاور کے ایک احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ) کو بھی اپنی نئی ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں بہتر رنگ میں ادا کرنے کی توفیق بخشے.ان دعاؤں کے ساتھ اور اس عزم کے ساتھ کہ میں انشاء اللہ آئندہ بھی ان کے لئے دعائیں کرتا رہوں گا اور اس توقع کے ساتھ کہ سبھی احباب اپنی دعاؤں میں ان کو نہیں بھولیں گے، میں اب اس نکاح کا اعلان کرتا ہوں.‘و 66 اگلے روز سے راکتو بر کو پونے چار بجے شام صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی کوٹھی پر تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث سمیت افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت اقدس علیہ السلام کے صحابہ کرام، بزرگان سلسلہ اور بیرونی جماعتوں کے متعد مخلصین نے بھی شرکت فرمائی.10 احمدی طلباء کی شاندار کامیابیاں پاکستان کے درج ذیل طلباء کو اس سال تعلیمی میدان میں ملکی سطح پر نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.ا.نبیہہ داؤ د صاحبہ بنت داؤ د احمد بٹ صاحب نے ۷۴۰ نمبر لے کر میٹرک کے امتحان میں سنٹرل ماڈل گرلز ہائی سکول گلبرگ لاہور میں پہلی اور لاہور بورڈ میں ساتویں پوزیشن حاصل کی.11 ۲.امۃ الرفیق طاہرہ صاحبہ بنت خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ۷۱۲ نمبر حاصل کر کے سر گودھا بورڈ کے آرٹس گروپ میں سوم آئیں.12 ۳.امتہ المجیب صاحبہ بنت چوہدری اکرام اللہ خان صاحب آف ملتان نے ملتان بورڈ آف سیکنڈری ایجو کیشن کے ایف ایس سی پری انجینئر نگ کے امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی.انہوں نے ایک ہزار میں سے ۸۲۰ نمبر لئے جو بورڈ بھر کے سب لڑکوں اور لڑکیوں سے زیادہ تھے.13 ۴.امینہ صفدر صاحبہ بنت میجر محمد صفدر صاحب پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول پشاور بورڈ کے ایف ایس سی کے امتحان میں لڑکیوں میں اول رہیں.14 مکرم قریشی نعیم احمد صاحب ابن مکرم منیر احمد قریشی صاحب سٹور کیپرجیل لاہور نے ۱۹۷۲ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 317 سال 1972ء میں پنجاب سیکنڈری بورڈ کے ایف ایس سی میڈیکل میں ۷۵۳ نمبر لے کر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں اول پوزیشن اور بورڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.15 ۶ - نصیرہ بیگم صاحبہ بنت عبد السلام خان صاحب ( ہمشیرہ ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب) نے امسال 1972ء میں ایم ایس سی کیمسٹری Previous یو نیورسٹی میں تمام لڑکوں اور لڑکیوں کے مقابلہ پراوّل پوزیشن حاصل کی.16 احمدی حجاج کے اسمائے گرامی حضرت مرزا عبدالحق صاحب کو اس سال حج کی توفیق ملی.آپ کے سفر حج کے روح پرور حالات الفرقان اپریل ۱۹۷۲ء میں شائع ہو چکے ہیں.امسال درج ذیل احباب کو بھی حج بیت اللہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.محترم پیر صلاح الدین صاحب مع اہلیہ سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب.چوہدری عبدالحمید خان صاحب ( ریٹائرڈ چیف انجینئر ).مکرمہ خولہ صاحبہ بنت پروفیسر عبدالقادر صاحب.محترم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی آف کلکتہ مع اہلیہ مکرم شریف احمد صاحب ابن سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی آف کلکتہ مکرم ڈاکٹر عطاء اللہ خان صاحب مع اہلیہ و دختر - مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب (جو سفینہ حجاج میں افسر تھے.).صاحبزادی مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری.میر محمد صدیق صاحب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان، حضرت خلیفہ المسیح الثالث ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا وسیم احمد صاحب ، حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ کی طرف سے عمرے کئے گئے.17 مغربی افریقہ میں تائید الہی کے نشانات مکرم ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب ایم بی بی ایس ” نصرت جہاں آگے بڑھو“ پروگرام کے تحت احمد یہ نصرت جہاں کلینک نمبر ۳ رو کو پور (Rokupr) میں خدمت خلق کے کام میں مصروف عمل تھے.اس میڈیکل کلینک کا افتتاح مورخہ ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو عمل میں آیا تھا.آپ نے اپنے ایک خط میں مریضوں کی معجزانہ شفا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر مریضوں کو شفا عطا فرما رہا ہے.میں نے ایک مریضہ کے لئے حضور کو دو بار دعا کے لئے لکھا تھا.حقیقت یہ ہے کہ میں خود
تاریخ احمدیت.جلد 28 318 سال 1972ء بھی مایوس ہو گیا تھا.کیونکہ ایسے مریض عموماً پانچ فیصدی ہی ٹھیک ہوتے ہیں.مریضہ کے لواحقین مجھے بار بار پوچھتے کہ آیا ٹھیک ہونے کی امید ہے یا نہیں.میں نے صاف صاف تمام حقیقت سے انہیں آگاہ کیا اور انہیں ایک دوائی لکھ کر دی کہ بازار سے خرید کر اسے استعمال کرائیں اس کے گھر والے حالت سن کر دوائی خریدنے کے لئے تیار نہ تھے.مگر مریضہ کے اصرار پر وہ لے آئے اور استعمال کراتے رہے.اچانک چند روز قبل وہ میرے پاس آئی اور میں پہچان بھی نہ سکا وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی.الحمد للہ اس نے اتنے مریضوں کے سامنے مجھے اس قدر اپنی زبان میں دعائیں دیں کہ اللہ تعالیٰ کے خاص احسان پر میری آنکھوں سے آنسو ( شکرانے کے) نکل آئے.اللہ تعالیٰ کس قدر مہربان ہے خود ہی راہنمائی فرما یا کرتا ہے اور خود ہی برکت ڈالتا ہے.18 مغربی افریقہ میں احمدی ڈاکٹروں کے لئے کس طرح آسمان سے تائیدات ربانی کے نشانات کا ظہور ہورہا تھا اس کا اندازہ ڈاکٹر چوہدری امتیاز احمد صاحب ایم بی بی ایس انچارج احمد یہ میڈیکل کلینک بواجے سیرالیون کے مندرجہ ذیل مکتوب سے ہوتا ہے جو انہوں نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں لکھا:.یکم مئی ۱۹۷۲ء کو خدا کے فضل و کرم سے ۸۶ مریض دیکھے اور دو آپریشن بھی گئے.چھ بجے شام بمشکل فراغت ہوئی.اللہ تعالیٰ کا محض فضل و احسان ہی شامل حال ہے کل ہی مالی“ سے آئے پیر صاحب (جن کے یہاں پر بہت مرید ہیں ) دو ہفتے کے علاج کے بعد واپس اپنے ملک روانہ ہوئے.وہ بہت ہی ممنون احسان ہیں کہ میرے ہاتھوں انہیں مکمل صحت نصیب ہوئی ہے.میں نے مختصراً یہی عرض کی کہ یہ محض سلسلہ عالیہ احمدیہ ، خلافت برحق اور خدائے بلند و برتر کے موعودہ احسانات وانعامات کا نتیجہ ہے.پچھلے ماہ میں نے کان کا آپریشن کیا ہے (Plastic Surgery) جو کہ خدا کے فضل وکرم سے بہت ہی کامیاب ہوا ہے.19 مسیحی دعوت مناظرہ کا بھر پور جواب اس سال کے شروع میں لاہور کے ایک عیسائی گریجویٹ مسٹر حبیب مسیح صاحب بی اے نے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیٹر ماہنامہ ”الفرقان“ کے نام لکھا کہ ”بلاشبہ اس وقت احمد یوں
تاریخ احمدیت.جلد 28 319 سال 1972ء میں آپ چوٹی کے عالم اور مناظر ہیں.غیر احمدی مسلمانوں کے چوٹی کے علماء سے آپ کے بہت مناظرے ہوئے ہیں.مثلاً مولوی ثناء اللہ صاحب (مرحوم) ، مولانا میر ابراہیم صاحب سیالکوٹی ( مرحوم ) ، مولا نا محمد عمر صاحب اچھروی (مرحوم ) و مولا نا لال حسین صاحب اختر و غیر ہم.اسی طرح ہم مسیحیوں کے چوٹی کے پادریوں سے بھی آپ کے خوب مناظرے ہوئے مثلاً پادری ایس.ایم.پال (مرحوم)، پادری برکت اللہ صاحب ایم.اے اور مشہور پادری عبد الحق صاحب (چندی گڑھ ) بھارت....میں آپ کی توجہ پاکستانی مسیحیوں میں ایک بڑی عالم و فاضل شخصیت کی طرف دلا نا چاہتا ہوں ان کا نام ہے ” پروفیسر یوسف جلیل“.مذکورہ شخصیت گارڈن کالج راولپنڈی میں عربی کے پروفیسر ہیں.متعدد مذاہب اور زبانوں کے فاضل ہیں.ان کی تعلیم ہے ایم.اے (عربی)، ایم.اے (اسلامیات) ، ایم.اے (فارسی)، ایم.اے (اردو) ، ایم.او.ایل ( پنجاب ).علاوہ ازیں مای ناز علمی وتحقیقی ماہنامہ مسیحی رسالہ ”المشیر کے ایڈیٹر بھی ہیں.مولوی صاحب اگر آپ میں ہمت و حوصلہ ہو اور آپ کو اپنی علمی قابلیت اجازت دے تو جناب یوسف جلیل صاحب سے مذکورہ مضامین پر مناظرہ کریں.مثلاً خداوند مسیح کی صلیبی موت.تحریف بائیبل یا صحت بائیبل.الوہیت مسیح.کفارہ مسیح یعنی نجات العالمین.عقیدہ تثلیث.جناب من ناراض نہ ہونا اور دیکھ بھال کر ہاتھ ڈالنا کہیں احمدیت کے ڈھول کا پول نہ کھل جائے اور یوسف جلیل صاحب کے علم کی ڈگریاں بھی زیر نظر رکھیں ان کا پتہ حسب ذیل ہے.پروفیسر یوسف جلیل ایڈیٹر ماہنامہ ”المشیر کرسچین سٹڈی سنٹر ۱۲۸ سیف اللہ لودھی روڈ راولپنڈی خداوند مسیح کا ادنی خادم حبیب مسیح بی.اے ماڈل ٹاؤن لاہور.20 مولانا ابوالعطاء صاحب نے محض تحقیق حق اور خالص اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر یہ دعوت قبول فرمالی اور ”الفرقان، فروری ۱۹۷۲ء صفحہ ۸ ج میں حبیب مسیح صاحب کا مکمل مکتوب دے کر مناظرہ کو منظور کرتے ہوئے اس کی حسب ذیل شرائط افادہ عام کے لئے شائع کر دیں.(۱) دعوت میں مندرجہ پانچوں مضامین پر علی الترتیب مناظرات ہوں گے.یعنی سب سے پہلے حضرت مسیح کی صلیبی موت پر مناظرہ ہوگا پھر دوسرے مضامین پر.(۲) مناظرات تحریری ہوں گے تاکہ بعد ازاں طبع ہوسکیں.(۳) آغاز مناظرہ کی تاریخ کا تعین با ہمی سمجھوتہ سے ہو سکے گا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 320 سال 1972ء (۴) ہر مناظر تہذیب و اخلاق کا پابند ہو گا.اپنے مدعا کے اثبات کے لئے دلائل و براہین ( منقولی و معقولی ) پیش کرے گا.(۵) فریقین کی مسلمہ کتب بطور حجت پیش ہو سکیں گی.ان شرائط کے بعد آپ نے لکھا ”ہم منتظر ہیں کہ پروفیسر یوسف جلیل صاحب اپنی منظوری سے اطلاع دیں.ہاں وہ اپنی طرف سے بھی شرائط پیش کرنے کے مجاز ہیں.مولا نا ابوالعطاء صاحب نے پادری یوسف جلیل صاحب کو الفرقان کا یہ پرچہ بھی بھجوا دیا.ازاں بعد یاد دہانی بھی کرائی کہ ہماری غرض محض احقاق حق ہے کسی ذاتی قابلیت یا انانیت کا اظہار ہرگز مقصود نہیں.مقصد صرف یہ ہے کہ اسلام اور عیسائیت کے عقائد کا از روئے دلائل موازنہ عامۃ الناس کے سامنے پیش ہو سکے اور سب لوگوں پر اسلام کی حقانیت واضح ہو جائے لیکن پادری یوسف جلیل صاحب کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا.21 اور مسر حبیب مسیح نے بھی چپ سادھ لی.ایک غیر از جماعت محقق جناب محمد اسلم را نا صاحب جنرل سیکرٹری مرکز تحقیق مسیحیت ملک پارک شاہدرہ لاہور نے مولانا ابوالعطاء صاحب کی خدمت میں لکھا: عیسائیوں کی دعوت مناظرات کا حشر وہی ہوا جو نا چیز کے ذہن میں تھا.22 مجلس صحت کے تحت سیر کا پہلا مقابلہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۳مارچ ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ایسا انتظام کیا جائے کہ ربوہ کا ہر شہری روزانہ ورزش کیا کرے اور شہر کی کھلی جگہیں باغات کی شکل میں تبدیل کر دی جائیں.اس مقصد کے لئے حضور نے ایک مجلس صحت“ کے قیام کا اعلان کیا.جس کا کنوینر حضور نے چوہدری بشیر احمد خان صاحب کو مقرر فرمایا.اس خطبہ میں حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا:.کچھ عرصہ کے بعد یہاں کسی نہ کسی کھیل کا ٹورنامنٹ کروایا جائے تاکہ کھیلوں کی طرف دلچسپی پیدا ہو.سیر کا بھی ٹورنامنٹ ہوسکتا ہے.اس کے لئے انعام مقرر کر دیتا ہوں.مثلاً پانچ میل سیر کا مقابلہ ہو اور دوست آکر یہ بتائیں کہ انہوں نے سیر میں خدا تعالیٰ کی قدرت کے کیا کیا جلوے دیکھے.جب وہ یہ لکھ کر دیں گے یا جسے لکھنا نہیں آتا وہ زبانی بتا ئیں گے تو اس مقابلہ میں جو اول آئے گا اس کو پچاس
تاریخ احمدیت.جلد 28 321 سال 1972ء روپے کا انعام میری طرف سے دیا جائے گا.آخر خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اسی لئے ہیں کہ ہم ان کو دیکھیں اور ان پر غور کریں.اسی طرح خدا تعالیٰ کے ساتھ پیار بڑھتا ہے.بعض دفعہ ایک چھوٹی سی چیز ہوتی ہے لیکن اس میں بھی بڑا حسن نظر آتا ہے.مثلاً یہ چھوٹی سی تلی جو ادھر سے اُدھراڑ رہی ہوتی ہے اس کے اوپر رنگ اس قدر خوبصورت اور خدا تعالیٰ کے فرشتوں نے مختلف رنگ کے بیل بوٹے اس ہوشیاری کے ساتھ بنائے ہوتے ہیں کہ اگر انسان بنائے تو وہ کہے کہ میں اس کو شاید دس ہزار روپے میں بیچوں گا.کیونکہ اس پر میرا بڑا وقت لگا ہے.اس پر میں نے بڑا خرچ کیا ہے اور بڑی دماغ سوزی کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں اور اس مادہ کو حکم دیا تو وہ خوبصورت تتلی کی شکل میں ہمارے سامنے آجاتی ہے لیکن آپ گذر جاتے ہیں اور اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ یہ اتفاق سے آپ کے سامنے نہیں آگئی ( دنیا میں اتفاق کا لفظ غلط طور پر استعمال ہوتا ہے ) اُسے تو متصرف بالا رادہ ہستی نے پیدا کیا ہے.یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے ہیں جو تمہارے سامنے آتے ہیں تاکہ تم ان پر غور کرو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ.23 اس ہدایت کی تعمیل میں حضور کی اجازت سے سیر کے پہلے مقابلہ کے لئے ۱۲ مئی ۱۹۷۲ء کا دن اور صبح ساڑھے پانچ بجے سے ساڑھے سات بجے کا وقت مقرر کیا گیا اور اس کے حسب ذیل قواعد و ضوابط مقرر کئے گئے.ا.سیر میں دو گھنٹے صرف کئے جائیں.۲.سیر سے واپسی پر احباب اپنے مشاہدات و تاثرات احاطہ تحریر میں لائیں گے.یہ مضامین کنوینر مجلس صحت کو ۱۳ مئی ۱۹۷۲ء بروز ہفتہ شام چھ بجے تک پہنچ جائیں.خدام و انصار کے زعماء کی طرف سے رپورٹ کا آنا بھی ضروری ہے کہ ان کے حلقہ سے کتنے احباب نے سیر میں حصہ لیا اور کتنے مضامین بھجوائے گئے.۳.جو دوست خود نہ لکھ سکتے ہوں وہ اپنے زعیم صاحب کو مضمون لکھوا دیں.۴.مضامین کا حضور کی مقرر کردہ کمیٹی جائزہ لے گی.۵.مقامی احباب یہ اچھی طرح نوٹ کر لیں کہ مضمون کا معیار انتخاب زبان اور زور تحریر نہیں ہے بلکہ مشاہدہ کی وسعت اور گہرائی ہے.اس لئے کم تعلیم یافتہ احباب بھی ایسی ہی سہولت سے مقابلہ میں حصہ لے سکتے ہیں جیسے زیادہ تعلیم یافتہ.24
تاریخ احمدیت.جلد 28 322 سال 1972ء اس پہلے مقابلہ میں مجلس صحت کے فیصلہ کے مطابق محترم سید محمود احمد صاحب ناصر پروفیسر جامعه احمد یہ اوّل.مرز امحمد الدین صاحب ناز پروفیسر جامعہ احمدیہ دوم اور انعام الحق صاحب کوثر تعلم جامعہ احمدیہ (حال امیر جماعت آسٹریلیا ) سوم رہے اور اطفال میں سے رشید احمد صاحب دارالصدر جنوبی اول قرار پائے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک تقریب میں اپنے دست مبارک سے انہیں انعامات عطا فرمائے.سید محموداحمد صاحب ناصر کے تاثرات "سیر میں خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کے زیر عنوان رساله خالد ر بوه جون ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۷ تا ۲۳ میں شائع ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس پہلے مقابلہ سیر پر تبصرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.سیر کے مقابلے میں حقیقتاً سب سے اچھا پر چہ ایک طفل نے کیا ہے اس نے جو کچھ دیکھا وہ لکھ دیا اور بہت کچھ دیکھا.البتہ تخیل کا حصہ جسے انگریزی میں Flight of Imagination ( فلائٹ آف امیجی نیشن) کہتے ہیں اس کا حصہ بہت کم تھا.تا ہم اس بچے کا جو پرچہ ہے یا اس نے اپنے جو تاثرات بیان کئے ہیں ان میں تنزل یا کمزوری پیدا ہونے کا بظاہر کوئی خطرہ نہیں لیکن جو بڑوں نے پرچے لکھے ہیں ان میں بہت کچھ لکھا ہوا ہے.یعنی تاثرات کے علاوہ پھر آگے اس سے نتائج نکالنے یا ان رستوں کی ذیلی راہیں نکلتی ہیں ان کے اوپر ان کا جو تخیل کیا ہے وہ بہت زیادہ ہے.ایسے دوست دو تین پر چوں تک بمشکل نباہ سکیں گے.اس کے بعد ان کے لئے بہت مشکل ہو جائے گی لیکن اس بچے کے پرچے میں مجھے ایسی کوئی الجھن نظر نہیں آئی.جیسا کہ آپ نے سن لیا ہے سیر کے مقابلے سال میں دو دفعہ ہوا کریں گے.مارچ اور اکتوبر میں کوئی مناسب تاریخ رکھی جائے گی.انعامات کا بھی اعلان ہو گیا ہے.دوست یہ نوٹ کر لیں کہ آئندہ اس مقصد کے لئے سیر اس وقت شروع ہوگی جب کوئی شخص حدو در بوہ کو چھوڑے گا.یعنی ربوہ میں جو کچھ دیکھا ہے اس پر کچھ نہیں لکھنا.جب آدمی حدو در بوہ سے باہر نکلے گا اور جو کچھ وہاں دیکھے گا اس پر لکھنا ہے.کئی پر چوں میں مشاہدہ کے لحاظ سے وسعت تھی.مشاہدہ کا مطلب یہ بھی تھا (اور میں نہیں سمجھتا کہ اس کے متعلق کسی نے لکھا ہو) کہ اس نے کیا محسوس کیا.اگر اس نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 323 سال 1972ء اندرونی طور پر کچھ محسوس کیا مثلاً وہ کہتا ہے کہ میں آدھے گھنٹے سے زیادہ ٹھیک طرح چل نہیں سکا.اس نے سیر میں یہ محسوس کیا تو یہ بھی اسے لکھ دینا چاہیے تھا.انسان کی بہت سی جستیں ہوتی ہیں.حواس خمسہ کو تو آپ جانتے ہیں ان کے علاوہ بھی بعض جستیں ہوتی ہیں.آدمی ایک چیز کا مشاہدہ کرتا ہے مثلاً آنکھ کا جو مشاہدہ ہے اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی بعض دیگر حستیں بھی ہوتی ہیں اور اسی طرح دوسرے حواس کے ساتھ کچھ اندرونی حواس بھی کام کر رہے ہوتے ہیں.یہ فلائٹ آف امیجی نیشن یعنی تخیل کی پرواز تو نہیں ہوتی تاہم یہ ایک احساس ہوتا ہے جسے ذکر کر دینا چاہیے تھا.ویسے سیر کے مقابلے کے قواعد بننے والے ہیں.مجلس صحت کو متعلقہ قواعد بنانے چاہیں.انعامات میں تو میں نے وسعت پیدا کر دی ہے.میں چاہتا ہوں کہ ہمارے اطفال سیر میں زیادہ حصہ لیں.ان کے لئے انعام تھوڑا رکھا ہے.شاید ایک روپیہ ہے جس کی وہ گولیاں خریدیں گے یا کوئی اور چیز لیکن ایک تہائی بچوں کو بشرطیکہ محض کھیل نہ ہو.درمیانے درجے کا ان کا معیار ہو وہ ان کو دیں گے.انشاء اللہ 25 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی علمی برتری جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی تعلیمی ادارہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے اس سال بھی ملک کے دوسرے کالجوں پر کئی اعتبار سے برتری حاصل کر کے متعدد قابل فخر اعزاز حاصل کئے.مثلاً اس کے شعبہ فزکس کی پہلی ایم ایس سی کلاس کا نتیجہ سو فیصدی رہا.اسی فیصد طلباء نے فرسٹ کلاس حاصل کی.کالج کا نتیجہ صوبے کے دیگر تمام تعلیمی اداروں سے بشمول پنجاب یو نیورسٹی کے بہت بہتر رہا.اخبار الفضل نے اس نتیجہ کی تفصیلی خبر یوں دی :.یہ خبر انتہائی مسرت سے سنی جائے گی کہ شعبہ طبیعات تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے جو دس طلباء امسال ایم ایس سی کے امتحان میں بیٹھے تھے.سب کے سب عمدہ نمبر حاصل کر کے پاس ہو گئے ہیں.اس طرح محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نتیجہ سو فیصد رہا ہے.مزید براں دس میں سے آٹھ طلباء نے فرسٹ کلاس حاصل کی ہے.نیز ۱۴۵ طلباء میں سے جنہوں نے امسال صوبے کے مختلف تعلیمی اداروں سے ایم ایس سی کا امتحان دیا تھا تیسری، پانچویں اور چھٹی پوزیشن ہمارے کالج کے طلباء نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 324 سال 1972ء حاصل کی ہے.دوسری اور تیسری پوزیشن کا صرف ایک نمبر کا فرق ہے یعنی دوم آنے والے کے ۸۲۳ اور ہمارے طالب علم محمد علی صاحب تاؤنی کے ۸۲۲ نمبر ہیں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں ایم ایس سی فزکس کے لئے جو نئے وظائف مقرر ہیں ان میں سے محمد علی صاحب تاؤنی نے چوہدری محمد حسین سکالرشپ حاصل کیا تھا جو مکرم پروفیسر عبد السلام صاحب نے اپنے والد مرحوم کی یاد میں جاری کیا ہے.اسی طرح آصف علی صاحب پرویز اور حبیب الرحمن صاحب نے علی الترتیب ۷۰ - ۱۹۶۹ ء اور ۱۹۷۰-۷۱ء کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا جاری کردہ لقمان سکالرشپ حاصل کیا تھا.الحمد للہ کہ ہر سہ طلباء نے یونیورسٹی میں بھی نمایاں اعزاز حال کیا ہے.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں جہاں قریباً نصف صدی سے ایم ایس سی کی کلاسز جاری ہیں چوٹی کے طلباء داخل کئے جاتے ہیں جبکہ ہماری اس کلاس میں سوائے ایک طالب علم کے باقی سب طلباء کے بی ایس سی میں سیکنڈ کلاس نمبر تھے.26 علاوہ ازیں امسال تعلیم الاسلام کالج نے پنجاب یونیورسٹی باسکٹ بال چیمپئن شپ بھی جیت لی.جس کی تفصیل جناب محمد احمد صاحب انور انچارج باسکٹ بال ٹیم تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے.فرماتے ہیں:.پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام لاہور میں انٹر کالجیٹ باسکٹ بال چیمپیئن شپ کا مقابلہ ۱٫۱۱ پریل تا ۱۵ را پریل منعقد ہوا جس میں ۲۴ مختلف کالجوں کی ٹیموں نے حصہ لیا تعلیم الاسلام کا لج نے فائنل جیتنے کے لئے چار میچ کھیلے.پہلا میچ مرے کالج سیالکوٹ کے ساتھ تھا.جس میں ٹی آئی کالج کو واک اور مل گیا.دوسرا میچ گورنمنٹ کالج ملتان سے کھیلا جو ۷ ۳ کے مقابل ۸۰ پوائنٹ بنا کر جیت لیا.تیسرا میچ گورنمنٹ کالج لاہور سے ہوا جس میں ۴۸ کے مقابل ۷۵ پوائنٹ بنا کر جیت لیا.چوتھا اور آخری میچ اسلامیہ کالج لاہور سے ہوا اس میں ٹی آئی کالج نے ۵۷ کے مقابل ۷۸ پوائنٹ بنا کر یو نیورسٹی چیمپئن شپ جیت لی.الحمدللہ تمام میچوں میں کالج کے طلباء نے بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا اور داد حاصل کی.ہماری یہ کامیابی محض حضور انور اور احباب جماعت کی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عطا کی.ثم الحمد للہ.ٹورنامنٹ کے اختتام پر محترم چوہدری محمد علی صاحب پر نسپل ٹی آئی کالج نے بحیثیت مہمان خصوصی ٹیموں میں سر ٹیفکیٹ تقسیم کئے.مندرجہ ذیل طلباء اس ٹیم کے ممبر تھے.ا.نیاز احمد صاحب ( کیپٹن).۲.عبدالرحمن مبشر صاحب.۳.مرزاعبدالرشید صاحب.۴.
تاریخ احمدیت.جلد 28 325 سال 1972ء حفیظ الرحمن انور صاحب.۵.ذبیح اللہ صاحب.۶.منور احمد چوہدری صاحب.۷.سعید اللہ خان صاحب.۸.کریم احمد نذیر صاحب.۹.نعیم احمد صاحب.۱۰.محمد اسلم خالد صاحب.۱۱.عابد ریاض صاحب.۱۲.طاہر احمد خان صاحب.27 ساتواں آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ اس سال ربوہ میں ساتواں آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ اپنی روایتی شان کے ساتھ ۱۴.۱۵ ۱۶ ۱۷ پریل ۱۹۷۲ء کو منعقد ہوا جس کا افتتاح سرگودھا ڈویژن کے کمشنر جناب محمد محسن صاحب نے کیا.اس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی مشہور و معروف ٹیمیں اور ملک گیر شہرت رکھنے والے کبڈی کے نامور کھلاڑیوں نے گذشتہ سال کی نسبت قریباً دو گنی تعداد میں شرکت کی.امسال ٹورنامنٹ میں ربوہ کے علاوہ گجرات ، حیدر آباد ڈویژن ، واہ کینٹ، سرگودھا، ملتان، شیخوپورہ ، لائل پور سمندری، گوجرہ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کی ٹیمیں آئیں.کلب سیکشن میں دس اور کالج سیکشن میں چار ٹیمیں شامل ہوئیں.ان میں ملک گیر شہرت کے حامل متعدد مایہ ناز کھلاڑی بھی موجود تھے.جنہوں نے قوت و طاقت، چیستی و توانائی اور فنکارانہ داؤ پیچ کے ساتھ نہایت بلند پایہ کھیل کا مظاہرہ کر کے شائقین سے خوب داد وصول کی.کلب سیکشن میں فائنل مقابلہ ۱۶ ۱۷ پریل کی صبح کو نو بجے شروع ہوا جبکہ کھیل کا میدان ربوہ کے علاوہ دور ونزدیک سے آئے ہوئے ہزاروں شائقین سے پر ہو چکا تھا.مہمان خصوصی صاحبزادہ ( حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب کے علاوہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، سید داؤ د احمد صاحب، چوہدری حمید اللہ صاحب اور صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید کے متعدد ناظر و وکلاء صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے.علاوہ ازیں سرگودھا، لائل پور، جھنگ اور بعض دیگر مقامات سے بہت سے غیر از جماعت معززین اور اعلیٰ سرکاری حکام نے بھی شرکت کی جن میں ڈویژنل سپورٹس آفیسر بھی شامل تھے.فائنل میچ شروع ہونے سے پہلے دونوں ٹیموں یعنی ربوہ بی اور ریلوے کے کھلاڑیوں کا تعارف مہمان خصوصی (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے کروایا گیا.کلب سیکشن کے اس مقابلے میں دونوں طرف سے ملک کے نامور اور مشہور کھلاڑی حصہ لے رہے تھے اور انہوں نے اوّل سے آخر تک فنی مہارت، چابکدستی اور طاقت وقوت کے نہایت شاندار جو ہر دکھائے.ذوق وشوق اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 326 سال 1972ء جوش وخروش کے لحاظ سے یہ میچ بہت ہی دلچسپ رہا.میچ کے دوران لاؤڈ سپیکر پر جو کومنٹری ہو رہی تھی اس نے اس دلچسپی میں اور اضافہ کر دیا تھا.بالآخر میدان ربوہ بی کے ہاتھ رہا.اس نے ۳۲ کے مقابلہ میں ۴۸ پوائنٹس لے کر یہ میچ جیت لیا اور چیمپئن شپ کا اعزاز حاصل کیا.اگر چہ ریلوے کی ٹیم بازی تو نہ لے جاسکی لیکن اس کا کھیل بھی ہر لحاظ سے معیاری تھا اور اس کے کھلاڑی آخر تک خوب ڈٹ کر مقابلہ کرتے رہے.ربوہ کے میاں ریاض، توحید پٹھان، شفیع چیمہ، رفیق چیمہ اور محمد اسحق نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کیا.جبکہ ریلوے کے مشتاق ، غلام محمد محمد نواز اور بشیر کا کھیل بھی بہت پسند کیا گیا.ان سب نامور کھلاڑیوں نے جی بھر کر شائقین سے دادوصول کی اور انعامات حاصل کئے.فائنل مقابلہ کے اختتام پر تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی جس میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ٹیموں اور کھلاڑیوں کو انعامات عطا فرمائے.اس موقعہ پر آپ نے اپنے مختصر مگر برجستہ خطاب میں فرمایا کہ ربوہ کے سبھی افراد کبڈی کے کھیل میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ ہر سال بے چینی سے اس ٹورنامنٹ کا انتظار کرتے ہیں اور ہر سال باہر سے آنے والے اور یہاں کے رہنے والے بڑی محبت کے ساتھ بھائیوں کی طرح آپس میں ملتے ہیں اور خدا کے فضل سے یہ ٹورنامنٹ بڑے ہی اچھے ماحول میں منعقد ہوتا ہے.آپ نے فرما یا ہار جیت تو ہوتی ہی ہے اس کے مختلف عوامل ہوتے ہیں مگر اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جیتنے کی صورت میں اپنے اندر عجز و انکساری پیدا کرو تا کہ تکبر اور غرور پیدا نہ ہو اور یہ احساس قائم رہے کہ طاقت وقوت کا اصل سرچشمہ خدا تعالیٰ ہے اور ہارنے کی صورت میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اپنے حوصلہ اور جرات کو قائم رکھو.آپ نے فرمایا.کامیابی کی صورت میں تالی بجانے کی بجائے اسلام ہمیں سبحان اللہ، الحمد للہ ، اللہ اکبر ایسے کلمات دہرانے کی ہدایت کرتا ہے تا کہ یہ حقیقت ہمارے سامنے رہے کہ ہم تو بے حیثیت ہیں اصل طاقت خدا ہی میں ہے.پس جیتنے والی ٹیمیں اپنے اندر انکساری پیدا کریں اور ہارنے والے کھلاڑی اپنے حوصلوں کو بلند رکھیں کہ یہی کھیل کی حقیقی روح ہے.آخر میں آپ نے فرمایا پاکستان کو بھی گذشتہ دنوں ایک عارضی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے.ہمیں یہ دعا کرنی چاہیے کہ اس کے نتیجہ میں بھی مایوسی اور بددلی پیدا نہ ہو بلکہ قوم کے حوصلے بلند ر ہیں وہ پہلے سے زیادہ تیاری کرے تا کہ اس شکست کا بدلہ لیا جا سکے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کے تکبر وغرور کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں اور ہمیں ہر لحاظ سے اس پر غلبہ اور برتری حاصل ہو.
تاریخ احمدیت.جلد 28 327 سال 1972ء اس کے بعد آپ نے اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح یہ ٹورنامنٹ بڑی کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.28 ناظر صاحب بیت المال قادیان کے اہم سفر اس سال چوہدری عبدالحمید صاحب عاجز ناظر بیت المال قادیان نے جماعتی عمارتوں کے سلسلہ میں حیدر آباد، بمبئی ، لدھیانہ اور ڈلہوزی کے کامیاب سفر کئے.جن کی تفصیل ان کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۷۲ء کو احمد یہ جو بلی ہال کی دوبارہ تعمیر کے سلسلہ میں حیدر آباد کا سفر اختیار کیا گیا.حیدر آباد میں محترم سیٹھ محمد معین الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ حیدر آباد کے مکان پر قیام کیا گیا.سکندر آباد میں محترم سیٹھ یوسف احمد الہ دین صاحب اور عثمانیہ یونیورسٹی میں محترم صالح محمد الہ دین صاحب سے ملاقات ہوئی.پانچ چھ روز حیدر آباد میں قیام کے بعد خاکسار واپسی پر بمبئی آگیا.جہاں الحق بلڈ نگ کو ازسر نو پانچ چھ منزلہ تعمیر کرانے کے متعلق حالات کا جائزہ لیا گیا اور مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۷۲ء کو واپس قادیان آیا.دار البیعت لدھیانہ کی جائیداد غیر مسلوں کے قبضہ میں تھی اور محکمہ پنجاب وقف نے وہاں کے مقیم دو افراد شری راجہ رام اور اوم پرکاش سے برائے نام کرایہ نامہ لکھوایا ہوا تھا.چونکہ یہ جائیداد بھی انجمن کو واگزار ہو چکی تھی اس لئے محکمہ وقف بورڈ سے ان کا تصرف اور قبضہ چھڑانے کے لئے جون ۱۹۷۲ء میں خاکسار اور مکرم فضل الہی خان صاحب مختار عام لدھیانہ گئے اور وہاں کے مکینوں سے کرایہ نامہ اور لائسنس ڈیڈ صدر انجمن احمدیہ کے نام لکھوا کر اس جگہ قانونی حق ملکیت قائم کیا گیا.غالباً یہ سب سے آخری جائیداد ہے جو واگذاری کے احکامات کے بعد قبضہ میں آئی.جون ۱۹۷۲ ء کے تیسرے ہفتہ میں کوٹھی پیس واقع ڈلہوزی کی فروخت کے لئے مکرم فضل الہی خان صاحب کے ہمراہ ڈلہوزی کا سفر اختیار کیا گیا.صدر انجمن احمد یہ قادیان کا اصولی فیصلہ تھا جس کی منظوری حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے فرمائی تھی کہ پنجاب میں واقع ایسی جائیداد جو قادیان سے دور فاصلہ پر ہوں اور جن کا انتظام کرنا مشکل ہو اور کوئی آمد نہ ہو رہی ہو بلکہ غیروں کی طرف سے قبضہ مخالفانہ کا خطرہ ہو تو فروخت کر کے اس رقم سے قادیان میں ایسی زرعی اراضی یا سکنی جائیداد خریدی یا تعمیر کرائی جائے جس سے معقول مستقل آمد ہوتی رہے.اس تجویز کے ماتحت قادیان میں بنک کی
تاریخ احمدیت.جلد 28 328 سال 1972ء بلڈنگز ، گودام اور ایک سو کے قریب دکانیں تعمیر کرائی گئیں.ڈلہوزی کی کوٹھی بھی تبت کے لا ماؤں کے ناجائز قبضہ کی وجہ سے خراب ہو رہی تھی.ایک سال قبل ان کے قبضہ سے یہ کوٹھی خالی کروائی گئی تھی اور اب جون ۱۹۷۲ء میں اس کی فروخت کا انتظام کیا گیا.29 پشاور میں ایک اہم اجتماعی تقریب ۱۳ مئی ۱۹۷۲ء کو جماعت احمد یہ پشاور نے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور عبدالوہاب آدم صاحب مجاہد افریقہ کے اعزاز میں پارک ہوٹل میں عصرانے کا انتظام کیا جس میں دوسو سے زائد معززین نے شرکت فرمائی.اس موقع پر مولانا ابوالعطاء صاحب کی صدارت میں عبدالوہاب صاحب نے انگریزی زبان میں نہایت فصاحت سے غانا کے ملکی اور مذہبی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے عیسائی مشنریوں کی تبلیغی جد و جہد اور مسلمان باشندوں کی بے بسی کا تفصیل سے ذکر کیا اور پھر احمدیت کے ذریعہ سے غانا میں عیسائیت کی کامیاب اور شاندار مدافعت کا تذکرہ فرمایا.یہ تقریر پوری روانی سے نصف گھنٹہ تک جاری رہی.سامعین کی بھاری اکثریت انگریزی دان تھی جو بہت محظوظ ہوئی.ازاں بعد مولانا ابوالعطاء صاحب نے خطاب فرمایا جس میں حاضرین کو قرآن مجید کی طرف حقیقی رجوع کی طرف توجہ دلائی کیونکہ مسلمانوں کی ساری عزت اور غلبہ خدا تعالیٰ کی اس زندہ کتاب کی پیروی سے وابستہ ہے نیز قرآن مجید پڑھنے، اس پر عمل پیرا ہونے اور اس کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کی ترغیب دی.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ہم مشرقی پاکستان کے المیہ کے باعث رنجیدہ ہیں مگر اشاعت دین کے ذریعہ اس آخری زمانہ میں ساری دنیا کا پاکستان بننا مقدر ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سچے مسلمان بن جائیں اور خدمت دین پر کمر بستہ ہوں.آخر میں سب حاضرین کی تواضع چائے اور ماکولات سے کی گئی.اس دوران بالخصوص تعلیم یافته غیر از جماعت دوست جماعت احمدیہ کی دینی مساعی پر بہت خوشی کا اظہار کرتے اور داد تحسین دیتے رہے.متعددفوٹو بھی لئے گئے.دوسرے روز میاں محمود احمد صاحب دہلوی امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع پشاور کے وسیع مکان پر ایک مجلس سوال وجواب کا انعقاد عمل میں آیا.غانا سے متعلق سوالوں کے جواب عبدالوہاب آدم صاحب نے اور سلسلہ احمدیہ کے عقائد و مسائل سے متعلق سوالات کے جوابات مولانا ابوالعطاء صاحب نے دیئے جو بہت تسلی بخش تھے.سرحد کے مشہور شاعر جناب ابوالکیف کیفی صاحب (حمد باری
تاریخ احمدیت.جلد 28 329 سال 1972ء تعالیٰ اور نعت رسول میں ان کا اردو اور فارسی کلام بہت مقبول ہوا.آپ نے تحریک آزادی ہند اور قیام پاکستان میں نمایاں کردار ادا کیا اس سلسلہ میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں مگر حق و صداقت کا دامن نہ چھوڑا.پشاور کی ادبی محفلوں اور ریڈیائی مشاعروں کی زینت تھے 30 ) نے عبدالوہاب صاحب کی گذشتہ روز کی تقریر سے متاثر ہو کر چار شعر کہے تھے جو انہوں نے اس پر کیف مجلس میں بڑی محبت سے سنائے جو یہ تھے دینِ خدائے پاک کی خدمت تر اشعار تجھ پر مدام رحمت خالق کا ہونز ول تو حضرت بلال کی زندہ ہے یادگار عبدالوہاب دل سے ہے تو عاشق رسول کردار نیک پر ترے ہر احمدی کو ناز آمد نے تیری ، روح کو مسرور کر دیا دارین میں رہے تو بہر حال سرفراز ذروں کو نور علم سے پرنور کر د یا 21 ایک چرچ کو موسیقی کے مرکز میں تبدیل کرنے کا فیصلہ سیہ ایک نا قابل تردید حقیقت ہے کہ عیسائیت مغرب میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے اور عوام اس سے اس درجہ بد دل اور بیزار ہو چکے ہیں کہ انہوں نے گر جاؤں میں عبادت کے لئے آنا ہی ترک کرد یا ہے.چنانچہ انگلستان اور بعض دوسرے مغربی ممالک میں لا تعداد گر جے بند کرنے پڑے ہیں.انگلستان کے مشہور اخبار دی گارڈین میں ۱۹ مئی ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں ” چرچ کا نیا مصرف“ کے زیر عنوان ایک خبر شائع ہوئی کہ ساؤتھ وارک لندن کا ہولی چرچ ۱۹۵۹ ء سے بے کار پڑا ہے اور اسے بطور چرچ استعمال نہیں کیا جا رہا ہے.اس لئے ریہرسل ہال ( جو موسیقی وغیرہ کے مشق کے لئے مخصوص ہال ) اور ریکارڈنگ سٹوڈیو ( فن کاروں کی آواز میں ریکارڈ کرنے کے مرکز میں تبدیل کر دیا جائے گا.“ اسی طرح موسیقی کو فروغ دینے والی دو تنظیموں نے چرچ کی عمارت کو موسیقی کے مرکز میں تبدیل کرنے پر کم و بیش اڑھائی لاکھ پونڈ خرچ کرنے کا اعلان بھی کیا.گر جاؤں اور چرچ کو موسیقی سنٹر میں تبدیل کرنے کے یہ واقعات مغرب میں عیسائیت کی ناکامی اور اس سے عوام کی بیزاری کا ایک اور تازہ ثبوت ہے.32
تاریخ احمدیت.جلد 28 صحت کے تحت والی بال ٹورنامنٹ 330 سال 1972ء حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے زیر ہدایت مجلس صحت کے پروگرام کے تحت پہلا آل ربوہ والی بال شوٹنگ ٹورنامنٹ مورخہ ۱۱ ، ۱۲ ، ۱۳ جون ۱۹۷۲ ء منعقد ہوا.اس ٹورنامنٹ کے جملہ انتظامات تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے سرانجام دیئے.ٹورنامنٹ میں کل چودہ ٹیموں نے حصہ لیا.اس پروگرام کی اختتامی تقریب محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کے زیر صدارت ہوئی.اہل ربوہ کثرت کے ساتھ میچ دیکھنے کے لئے آتے رہے.یہ ٹورنامنٹ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہا.33 سلائیڈز کے ذریعہ پیغام حق وکالت مال اول تحریک جدید کے زیر انتظام اس سال ننکانہ صاحب ضلع شیخو پورہ، ترگڑی (ضلع گوجرانوالہ)، مردان 34 ، چک چٹھہ، علی پور چٹھہ اور گھر ( ضلع گوجرانوالہ ) اور بعض دوسرے مقامات میں سلائیڈز کے ذریعہ بیرونی ممالک میں اسلام کی تبلیغ کے حسین ، دلکش اور روح پرور مناظر دکھائے گئے جن سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے اور اپنوں اور بیگانوں کی دلچسپی اور معلومات میں قابل قدر اضافہ ہوا.35 مسجد حسن اقبال کا سنگ بنیاد یکم جولائی ۱۹۷۲ ء کو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (امیر مقامی ) نے ربوہ میں جامعہ احمدیہ کی مسجد حسن اقبال کا سنگ بنیاد رکھا.آپ کے بعد حسب ذیل احباب کرام کو بھی بنیادی اینٹیں لگانے کی سعادت حاصل ہوئی.ا.مولوی عطاء محمد صاحب استاذ الجامعه ۲.مولوی نور محمد صاحب نیم سیفی قائم مقام وکیل اعلیٰ ۳.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ناظر اصلاح وارشاد ۴.مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر تصنیف و اشاعت ۵.ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ ۶.سید داؤ داحمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 331 سال 1972ء اس تقریب میں شمولیت کے لئے کثیر تعداد میں ناظران، وکلاء صاحبان ، مربیان کرام اور تعلیمی اداروں کے سر براہ موجود تھے.سنگ بنیادرکھنے کے بعد امیر صاحب مقامی نے دعا کرائی.اس موقع پر دو بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے اور تشریف لانے والے احباب کی مٹھائی اور مشروبات سے تواضع کی گئی.جامعہ احمدیہ میں خدا کے گھر کا ہونا نا گزیر ضرورت تھی.خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ سلسلہ کے ایک مخلص بزرگ با ابو اقبال محمد خان صاحب آف گوجرانوالہ نے اس کی تعمیر کا خرچ اپنے ذمہ لے لیا.ان دنوں ہوسٹل جامعہ احمدیہ کی تعمیر بھی شروع تھی.جس کے لئے محمد امجد صاحب پسر ڈاکٹر محمد انور صاحب مرحوم پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ جڑانوالہ نے اپنا وقت بلا معاوضہ وقف کر رکھا تھا.36 مسجد حسن اقبال سید داؤ د احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمد یہ ربوہ کی خاص توجہ اور محنت سے تعمیر ہوئی مگر اس کی تکمیل آپ کی وفات (۲۴/ ۱۲۵ پریل ۱۹۷۳ء) کے بعد ہوئی.27 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک نشان اللہ تعالیٰ اپنے مقدس خلفاء کو خاص طور پر قبولیت دعا کا نشان عطا فرماتا ہے تا کہ اس ذریعہ سے لوگ اللہ تعالیٰ کے حیبی و قیوم اور مستجاب الدعوات ہونے پر ایمان لاتے رہیں اور مومنین اپنے ایمان کو مزید مضبوط کرتے رہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ہر خلیفہ کے زمانہ میں قبولیت دعا کے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں نشان ظاہر ہوتے رہتے ہیں.ایک ایسا ہی نشان مشتے از خروارے پیش ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد اسلم صاحب جاوید کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کے ایک نشان کے طور پر ۱۳ جولائی ۱۹۷۲ء پہلا فرزند عطا فرمایا.جنوری ۱۹۷۲ ء کو جاوید صاحب نے حضور کی خدمت میں نرینہ اولا د عطا ہونے کے لئے بذریعہ خط دعا کی درخواست کی تھی.اس کے جواب میں حضور نے از راہ شفقت انہیں بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں فرزند عطا فرمائے گا.نیز پیدا ہونے والے فرزند کا پہلے ہی سے نام بھی تجویز فرما دیا.چنانچہ رقم فرمایا کہ جب لڑکا پیدا ہو تو اس کا نام عبدالمومن رکھا جائے.چنانچہ مولود کا یہی نام رکھا گیا.فالحمد للہ علی ذالک.نومولود محترم مولانا ابوالعطاء صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد کا نواسہ اور محترم با بومحمد عالم صاحب کا پوتا ہے.38 افریقہ میں اسلام کی روز افزوں ترقیات حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دورہ افریقہ کے بعد مبلغین احمدیت نے اپنی دینی مساعی اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 332 سال 1972ء رفاہی کوشش تیز تر کر دی تھیں.جس کے نتیجہ میں اس سال اسلام کی روز افزوں ترقیات نے عیسائیت کے اونچے حلقوں میں زبر دست سراسیمگی طاری کر دی اور اس کا ذکر خوب کھل کر پریس میں بھی آنے لگا.چنانچہ روز نامہ جنگ کراچی کے نامہ نگار خصوصی مقیم لندن جناب آصف جیلانی نے افریقہ میں اسلام کی تبلیغ وترویج میں نئی زندگی کے زیر عنوان لکھا:.لندن ۱۶ جولائی.افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے رومن کیتھولک اور دیگر مکتب خیال کے عیسائی ادارے افریقہ میں اسلام قبول کرنے کے نئے رجحان سے سخت پریشان ہیں.ان عیسائی مذہبی اداروں کا خیال ہے کہ اسلام بتدریج پھیلتا جارہا ہے اور افریقہ کے مختلف علاقوں میں لوگوں کے قبول عیسائیت میں رکاوٹ بن رہا ہے.افریقہ میں مجموعی طور پر ۱۴ کروڑ ۵۰لاکھ مسلمان ہیں جبکہ عیسائیوں کی تعداد مجموعی طور پر دس کروڑ ہے اور دس کروڑ سے زائد افریقی ایسے ہیں جن کا کوئی مذہب نہیں اور جنہیں تبلیغ کی جاسکتی ہے.سابق بیلیچین کانگو کے شہر زائر اور افریقہ کے دیگر علاقوں میں تبلیغی کام کرنے والے عیسائی مشنریوں نے پوپ پال کو اس صورت حال سے آگاہ کیا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ پوپ پال اس سلسلہ میں اہم اقدامات کر رہے ہیں تاکہ عیسائی تبلیغی مہموں کی ناکامی کا ازالہ کیا جا سکے.اس سلسلہ میں اہم عوامل میں ایک یہ ہے کہ کانگو کے صدر مو بوتو اور زائر میں مقیم عیسائی مشنری کے سربراہ جوزف مالولا کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے جوزف مالولا کو زائر سے روم واپس جانے پر مجبور ہونا پڑا ہے.معلوم ہوا ہے کہ صدر مو بوتو نے عیسائی مشنریوں سے مطالبہ کیا ہے کہ افریقی عیسائیوں کے ناموں کے اس حصہ کو ختم کر دیا جائے جس سے عیسائیت کی نشاندہی ہوتی ہے اور ان کی جگہ قبائلی نام اختیار کئے جائیں تا کہ ملک کے قبائل نو آبادیاتی دور کے رجحانات کو فراموش کر سکیں.چنانچہ خود مو بوتو نے اپنے نام سے جوزف کا عیسائی نام حذف کر کے قبائلی لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے...اس کے علاوہ صدر مو بوتو نے عیسائیوں سے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ زائر میں کانگو کی برسراقتدار جماعت کی ایک شاخ قائم کی جائے.یہ شہر برطانوی عیسائی تبلیغی اداروں کا صدر مقام سمجھا جاتا ہے.ان عیسائی اداروں نے اطلاع دی ہے کہ افریقہ میں عیسائیت کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اسلام کی تبلیغ و ترویج میں نئی زندگی پیدا ہو گئی ہے.خصوصاً گھانا اور نائیجیریا اور مشرقی ساحلی علاقوں میں اسلام کا اثر بڑھ رہا ہے.یہاں عیسائیوں کو احمدی فرقہ کے تبلیغی اداروں کا زبردست مقابلہ کرنا پڑتا ہے.احمدی فرقے کی تبلیغی کارروائیاں
تاریخ احمدیت.جلد 28 333 سال 1972ء عیسائیت کی سخت مخالف ہیں.نائیجیریا میں خانہ جنگی کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ میں بڑی مدد ملی کیونکہ رومن کیتھولک عیسائی اداروں نے بیافرا کے باغیوں کی بھر پور مد کی تھی.39 مجاہدین وقف عارضی کے تاثرات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی آسمانی تحر یک وقف عارضی پر اس سال بھی مخلص احمدی مرد و خواتین نے لبیک کہا اور اس جہاد میں شمولیت اختیار کر کے اس کی برکات سے مالا مال ہوئے جس کا ذکر ہمیں اس دور کی ان رپورٹوں سے بکثرت ملتا ہے جو وقف عارضی میں شامل احباب نے خلیفہ وقت کے حضور ارسال کیں 40.وسط ۱۹۷۲ء کی رپورٹوں سے چند تاثرات درج ذیل کئے جاتے ہیں.عبدالقدیر صاحب شاہین لاہور نے تحریر فرمایا :.محکمانہ ایک کام ایسا تھا جس کی وجہ سے عرصہ دراز سے میں پریشان تھا اور آپ کی خدمت میں دعاؤں کے لئے درخواست بھی کرتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ میری محکمانہ پریشانی سب کی سب دور ہو گئی ہے لیکن ابھی ترقی کے آرڈر نہیں ہوئے.وہ انشاءاللہ جلد ہوجائیں گے.فی الحال مجھے کم از کم ۲۵ روپے ماہانہ فائدہ بھی ہوا ہے.یہ سب کچھ اس بابرکت تحریک کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ ہمارا یہ ایمان ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے خلیفہ ہیں اور خدا تعالیٰ نے بھی آپ کو بتایا تھا وقف عارضی سکیم میں برکتیں ہی برکتیں ہیں.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کسی کا کوئی کام بگڑا ہوا ہو یا کوئی پریشانی ہو تو وقف عارضی میں شرکت کرنے سے تمام مشکلات دور ہو سکتی ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں باطنی کتنی برکات دے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی برکات کا اندازہ نہیں ہوسکتا.ظاہر طور پر جو کچھ ہوا وہ آپ کی خدمت میں دعا کی غرض سے لکھ دیا ہے“.سردار حفاظت احمد صاحب اور فضل الرحمن سعید صاحب اسلام آباد نے پہلے ہفتہ کی رپورٹ میں لکھا:.اس ایک ہفتہ نے ذاتی طور پر ہماری کایا پلٹ کر رکھ دی.رخصت ہوتے وقت دل میں بڑی حسرت تھی کہ کاش ہمیں چھٹی اور مل سکتی اور ہم کچھ دن اس طرح گزار سکتے.ہم لوگ اب مستقل طور پر زندگی وقف کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں.امة الحفیظ صاحبہ کوئٹہ نے حضور کی خدمت میں لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 28 334 سال 1972ء غیر از جماعت بہنوں کو ملنے پر تبلیغ کی جاتی ہے اور ان کی غلط فہمیاں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.ایک بہن جو کہ پڑھی لکھی تو نہیں سندھ کی رہنے والی ہیں.خاکسارہ نے انہیں کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے دعا کریں اور درود شریف اور نوافل پڑھ کر سو جا ئیں تو جو خواب آپ کو آئے وہ مجھے بتا ئیں.چنانچہ تیسرے چوتھے دن وہ میرے ہاں آئیں اور خواب بیان کرنے لگیں اور کہنے لگیں کہ میں نے خواب میں ایک بزرگ دیکھے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں سید ہوں اور میرا نام نادرشاہ ہے اور میں ربوہ میں رہتا ہوں نیز ان کے دونوں ہاتھوں میں شہد ہے ایک میں زیادہ اور ایک میں کم.زیادہ شہد انہوں نے کسی اور کو دے دیا اور جو کم تھا وہ مجھے دے دیا.خواب سنانے کے بعد وہ کہنے لگی ( کیونکہ میں نے اسے کہا تھا کہ خواب کے بعد میں تمہیں حضرت صاحب کی تصویر دکھاؤں گی ) کہ بھلا تصویر دکھاؤ.چنانچہ میں نے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی پھر حضرت مصلح موعود کی لیکن وہ ہر بار یہی کہتی رہی کہ نہیں خواب میں میں نے جو بزرگ دیکھے تھے وہ یہ نہیں تھے.چنانچہ میں نے جب آپ حضور کی تصویر دکھائی بے ساختہ چلانے لگی کہ ہاں یہی ہیں.یہی ہیں وہ بزرگ جن کو میں نے خواب میں دیکھا تھا آپ انہیں خط لکھ دیں اور ان سے میری خواب کی تعبیر بھی پوچھیں.میں انشاء اللہ ضرور جلسہ سالانہ پر ربوہ جاؤں گی اور ان کی مرید بنوں گی.11 محمد ممتاز خان دولتانہ سفیر پاکستان مسجد فضل لنڈن میں 41 میاں محمد ممتاز خان صاحب دولتانہ کے والد ماجد میاں احمد یار خان صاحب دولتانہ کو حضرت مصلح موعود سے گہری عقیدت تھی.خود میاں محمدممتاز خان صاحب جن دنوں کارپس کرسٹی کالج آکسفورڈ میں پڑھتے تھے، مسجد فضل لنڈن سے خصوصی روابط رکھتے تھے لیکن جب آپ ۱۹۵۳ء میں وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو جماعت کے خلاف مجلس احرار نے جو تحریک چلائی تھی اسے حکومت پنجاب کی آشیر باد حاصل تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اس تحریک کو نا کام کر دیا اور اس کے پس پردہ تمام کردار اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام رہے.بہر حال ۱۹۷۲ء میں جب مسٹر ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے تو ممتاز دولتانہ صاحب برطانیہ میں پاکستانی سفیر مقرر ہوئے.آپ سفیر مقرر ہونے کے بعد ۱۳؎ اگست ۱۹۷۲ء کو مسجد فضل لندن بھی تشریف لائے اور خطاب بھی کیا جس کی روداد روز نامہ جنگ لندن ۱۷ اگست ۱۹۷۲ء پر درج ذیل الفاظ میں شائع ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 335 سال 1972ء جمہوریت میں ہی پاکستان کی کامیابی ہے.مسجد فضل میں ممتاز دولتانہ کی تقریر لندن ۱۶ اگست (جنگ نیوز ) قیام پاکستان کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر مسجد فضل لندن میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی جس میں پاکستان کے سفیر میاں ممتاز محمد خان دولتانہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا قیام نظریہ جمہوریت کی بناء پر ہوا ہے اور اس میں ہماری کامیابی اور ترقی کا راز ہے.انہوں نے زور دیا کہ آج اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو نظریہ پاکستان اور اس کے بنیادی اصولوں سے آگاہ کیا جائے.تقریر کی ابتداء میں انہوں نے کہا کہ میں لندن مسجد میں تجدید وفا کے سلسلہ میں حاضر ہوا ہوں کیونکہ آج سے ۳۹ برس قبل جب میں پہلی بار یورپ آیا تو میری مغربی زندگی کے ابتدائی ایام اسی مسجد کے زیر سایہ گزرے.یوم پاکستان کی اس تقریب میں سینکڑوں پاکستانیوں نے شرکت کی.مسجد فضل لندن کی طرف سے اس موقعہ پر ایک دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا گیا“.42 فضل عمر کلب ربوہ کی کامیابی ۱۵ اگست ۱۹۷۲ ء کو ربوہ میں یوم استقلال کی تقریبات کے سلسلہ میں ملک کی چیمپئن ٹیم پاکستان ویسٹرن ریلوے کلب اور فضل عمر باسکٹ کلب کا نمائشی میچ ہوا جو فضل عمر کلب ربوہ نے پچاس کے مقابلہ میں اے پوائنٹس سے جیت لیا.ویسٹ پاکستان ریلوے کی باسکٹ بال ٹیم ملک کی بہترین ٹیم تھی اور بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی تھی.میچ کے اختتام پر محترم چوہدری محمد علی صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے مہمان ٹیم کا شکر یہ ادا کیا.آخر میں محترم چوہدری حمید اللہ صاحب امیر مقامی نے دونوں ٹیموں میں انعامات تقسیم کئے.43 جماعت احمدیہ کراچی کا مذاکرہ علمیہ ۲۰ ستمبر ۱۹۷۲ء کو جماعت احمدیہ کراچی کے زیر اہتمام ایک مذاکرہ علمیہ کا انعقاد ہوا جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے احیاء دین کے موضوع پر تقریر بھی فرمائی اور سوالوں کے جوابات بھی دیئے.آپ نے اپنی تقریر میں مدل طور پر ثابت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ مذہب لے کر ظہور فرما ہوئے ہیں جس کی حفاظت اور عالمی غلبہ کے لئے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے.مولا نا صاحب نے زندہ مذہب کے علمبرداروں
تاریخ احمدیت.جلد 28 336 سال 1972ء کی علامات پر روشنی ڈالنے کے بعد حاضرین کی توجہ اس بنیادی نکتہ کی طرف مبذول کرائی کہ جماعت احمدیہ کی مثال سب کے سامنے ہے کہ ایک چھوٹی سی جماعت اپنے قلیل وسائل کے باوجود ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہے اور چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ہے اس لئے اسے ہر جگہ غیر معمولی کامیابی ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کے ذریعہ اسلام کو غلبہ دے گا.14 صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ کا دورہ 44 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اس سال ۲۶،۲۵ نومبر کوضلع ساہیوال کا اور ۲۸،۲۷ نومبر ۱۹۷۲ء کو ضلع شیخو پورہ کا نہایت کامیاب دورہ کیا.مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب قائد تربیت ، مولوی عبد القادر صاحب ضیغم قائد تجنید اور چوہدری محمد ابراہیم صاحب بی اے سیکرٹری برائے صدر مجلس ) بھی اس دورہ میں صاحبزادہ صاحب کے ہمرکاب تھے.۲۵ نومبر ۱۹۷۲ء کو پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ساڑھے سات بجے صبح صدر محترم مع مرکزی وفد مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ناظم ضلع ساہیوال اور جماعت احمدیہ کے بعض دیگر دوستوں کے ہمراہ پاک پتن تشریف لے گئے جہاں سب سے پہلے حضرت بابا فرید الدین شکر گنج کے مزار پر دوستوں کے ساتھ دعا کی صدر مجلس مسجد احمدیہ میں تشریف لے گئے اور دوستوں سے ان کی خیریت دریافت فرمائی.مکرم مربی صاحب سے پاکپتن میں جماعت احمدیہ کے پیغام کو پہنچانے کے سلسلہ میں گفتگو فرماتے رہے اور ان کو نصیحت فرمائی کہ وہ زیادہ دعاؤں پر زور دیں تاکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم سے لوگوں کے ذہن کھلیں اور ان کے اندروہ سعادت پیدا ہو جس کے نتیجہ میں وہ احمدیت کی طرف مائل ہوں.سوا نو بجے پاک پتن سے براستہ ساہیوال چک L-6/11 تشریف لے گئے.جہاں چوہدری محمد خان صاحب زعیم انصار اللہ کی سرکردگی میں احباب جماعت نے آپ کا استقبال کیا.یہاں آپ نے دوستوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.اڑھائی بجے واپس ساہیوال تشریف لے آئے.ساڑھے تین بجے ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ناظم انصار اللہ نے اپنی کوٹھی پر شہر کے معززین کو چائے پر بلایا ہوا تھا.مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مثلاً وکلاء، ڈاکٹر ز ، تاجر ،سول و بنک آفیسرز ، پروفیسرز اور زمیندار ایک سو سے اوپر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 337 سال 1972ء اگلے روز یعنی ۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء کو ساہیوال کی مسجد احمدیہ میں دوستوں سے ملاقات کی آپ سے ملنے کے لئے حضرت مرزا احمد بیگ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.تشریف لائے نیز انہوں نے کئی ایمان افروز واقعات سنائے.بعد ازاں پروگرام کے مطابق آپ اوکاڑہ تشریف لے گئے.جہاں مسجد میں ایک پروگرام میں شرکت کی.اگلے روز یعنی ۲۷ نومبر ۱۹۷۲ء کو سانگلہ ہل پہنچے.یہاں صدر صاحب مجلس نے صحابہ کرام حضرت ڈاکٹر عبداللہ صاحب ، حضرت ماسٹر سید علی صاحب چک چہور سے روایات سنیں اور اس کے بعد آپ نے دوستوں کو توجہ دلائی کہ وہ ان بزرگوں کی صحبت سے فائدہ اٹھا ئیں کیونکہ یہ مقدس گروہ اب روز بروز کم ہوتا جارہا ہے.بعد ازاں آپ چک بہوڑو کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کی.اگلے دن یعنی ۲۸ نومبر ۱۹۷۲ء کو گیارہ بجے صدر مجلس جھنگڑ حا کم والا پہنچے.یہاں سات مجالس کے پچاس سے اوپر نمائندگان اجلاس میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے.پچاس کے قریب مقامی حاضری تھی.اس کے علاوہ بیشتر تعداد میں غیر احمدی دوست تشریف لائے ہوئے تھے.جن میں اس علاقہ کے چیدہ چیدہ زمینداروں کے علاوہ مکرم را نا محمود صاحب ایم پی اے بھی آئے ہوئے تھے.مورخہ ۲۹ نومبر کو چوہڑ کا نہ (فاروق آباد) کے لئے روانہ ہوئے.پروگرام میں اس جگہ دوستوں سے ملاقات کے علاوہ چوہڑ کا نہ کی مسجد کا افتتاح بھی شامل تھا.یہاں آپ نے دوستوں سے خطاب فرما کر مسجد کا افتتاح فرمایا.دو بجے مکرم چوہدری انور حسین صاحب نے اپنی کوٹھی پر آپ کے اعزاز میں ظہرانہ کا انتظام کیا ہوا تھا جس میں چالیس کے قریب شہر کے معززین نے شرکت کی.ان میں مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب ممبر صوبائی اسمبلی کے علاوہ دو مزید ممبر مکرم رانا کے اے محمود صاحب اور مکرم غلام احمد خان صاحب بھی شامل تھے.دیگر حاضرین میں چیدہ چیدہ حکام ، وکلاء، تاجر اور علاقہ کے زمیندار شامل تھے...قریباً سوا گھنٹہ تک سوال وجواب کا سلسلہ جاری رہا.اس دورہ کا یہ آخری پروگرام تھا.اس کے بعد آپ ربوہ تشریف لے آئے.45
تاریخ احمدیت.جلد 28 خطبہ نکاح 338 سال 1972ء ۷ دسمبر ۱۹۷۲ء کو مسجد مبارک ربوہ میں نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے دو نکاحوں کا اعلان کرتے ہوئے جو روح پرور اور سبق آموز خطاب فرمایا تھا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.حضور انور نے فرمایا کہ زندگی اور موت انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے.آگے زندگی اور پیچھے موت ہے.اس لحاظ سے یہ دنیا ایسے ہی ہے جیسے ایک ہی سواری پر ہر دو تیار بیٹھے ہوں.میاں بیوی کا رشتہ نکاح کے ذریعہ قائم کیا جاتا ہے.اور اسی شادی کے نتیجہ میں بہت سے بچوں کی پیدائش کا امکان پیدا ہوجاتا ہے.پس عقلمند انسان وہ ہے جو زندگی کی حالت میں حیات کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ادا کرنے والا ہو اور اسی طرح وہ بھی عقلمند انسان ہے جو ممات کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان کو ادا کرنے والا ہو.پس جہاں حیات کی ذمہ داریاں ہیں وہاں ممات کی بھی ذمہ داریاں ہیں.جو شخص ان ہے ہر دو دینے ذمہ داریوں کو سمجھتا ہے وہ گویا کامیاب ہو گیا اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی.ممات کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وفات یافتہ کا ذکر خیر کیا جائے.اس کے لئے مغفرت کی دعائیں کی جائیں.اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی جائے.مرنے والوں کے پیچھے وہ نسل آنی چاہئے جو مرحومین کی تربیت یافتہ اور ان کے رنگ میں رنگیں ہو.ان کی خوبیوں کی مالک اور ان کے نور سے حصہ لینے والی ہو.ان سے اپنے حالات میں زیادہ وسعت نظر رکھنے اور زیادہ قربانیاں دے والی ہو.لیکن اگر کوئی شخص زندگی کی تو ذمہ داری کو ایک حد تک سمجھے لیکن وہ ذمہ داری جو کسی اور کی وفات سے تعلق رکھتی ہے اسے نہ سمجھے تو وہ بھی ترقی کی طرف قدم نہیں بڑھار ہا.بلکہ تنزل کی طرف بڑھا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور انہیں نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.46 ایک سرکردہ افریقی مسلمان کی وصیت اس سال سیرالیون کے ایک سرکردہ مسلمان ابوبکر صاحب رنگل نے جماعت احمد یہ سیرالیون کی عظیم الشان دینی خدمات سے متاثر ہو کر اپنی وفات سے قبل یہ وصیت کی کہ فری ٹاؤن میں واقع ان کی زمین اور دو مکان جماعت احمدیہ سیرالیون کو دے دیئے جائیں.چنانچہ انہوں نے اپنی وصیت میں لکھا کہ ”میں بطور وصیت اپنے دو مکانوں اور زمین جو کہ ماؤنٹین کٹ (Mountain Cut) نمبر 23 اور نمبر 4-3 پر واقع ہیں اپنے تین لڑکوں خواجہ، حکیم اور قدوائی نگل کے لئے صرف دو سال کے A
تاریخ احمدیت.جلد 28 339 سال 1972ء لئے چھوڑ رہا ہوں.اس متذکرہ بالا مدت کے اختتام کے بعد یہ مکان اور زمین احمدیہ مسلم مشن کو جس کا مرکز ربوہ مغربی پاکستان میں ہے قطعی طور پر اور ہمیشہ کے لئے دیتا ہوں.یہ تحفہ احمد یہ مشن کی ان خدمات کی انتہائی قدردانی کی بناء پر دیا جارہا ہے جو وہ سیرالیون میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر انجام دے رہا ہے.اگر احمد یہ مشن گوری سٹریٹ ( Gore Street) فری ٹاؤن کی بجائے میرے مکان کو فری ٹاؤن میں اپنے مرکز کے طور پر استعمال کرے تو یہ بات میری روح کے لئے انتہائی سکون کا موجب ہوگی.“ 47
تاریخ احمدیت.جلد 28 340 سال 1972ء بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی اس سال دنیا بھر کے احمدی مشنوں کی سرگرمیوں میں غیر معمولی تیزی پیدا ہوئی.خصوصاً افریقہ کی احمدی جماعتیں ایک نئے عزم اور جوش عمل کے ساتھ مصروف جہادر ہیں جو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مبارک دورہ افریقہ اور حضور انور کی جاری فرمودہ نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کا اعجاز تھا.انڈونیشیا تا دنگ مانگو انڈونیشیا میں جماعت کا باقاعدہ قیام جو گجا کرتا ( انڈونیشیا) کے مشرق میں یکصد کلومیٹر کے فاصلہ پر اونچے پہاڑی علاقہ میں ایک جگہ تادنگ مانگو ہے.اس جگہ قبل ازیں صرف ایک گھرانہ تھا اور کوئی باقاعدہ جماعت نہ تھی.مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب مبلغ جو گجا کرتا کو رمضان المبارک سے قبل وہاں جانے کا موقع ملا اور آپ کے قیام کے دوران وہاں بعض بڑی عمر کے طلباء کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.الحمد للہ اب یہاں با قاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آگیا ہے.48 اس سال کی اجتماعی دینی سرگرمیوں میں انڈونیشیا کے احمدی نوجوانوں کا سالانہ اجتماع، جماعت احمدیہ کا سالا نہ تئیسواں جلسہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کے سالانہ اجلاس، مجلس خدام الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاسوں کا انعقا د خاص طور پر قابل ذکر ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کا اجتماع ۲۰ تا ۲۳ اگست ۱۹۷۲ء کو وسطی جاوا کے شہر پورووکر تو (Purwokerto) سے سات آٹھ میل دور پہاڑ کے دامن میں منعقد ہوا جس میں ۱۵۰ کے قریب خدام نے شرکت کی.نوجوانوں کی اخلاقی و روحانی تربیت اور نگرانی کے فرائض مرزا محمد ادریس صاحب نے انجام دیئے.شوری میں نعیم احمد صاحب نائب صدر منتخب کئے گئے.جماعت احمدیہ کا تنیسواں سالانہ جلسہ ۲۵ سے ۲۷ /اگست ۱۹۷۲ء تک پولیس کے شاندار اور وسیع ہوٹل میں منعقد ہوا.یہ ہوٹل ایک مخلص احمدی دوست بریگیڈیر پولیس جناب احمد سور یا با منیاٹا کی ذاتی کوشش اور نیک شہرت کے باعث حاصل ہوا تھا.اس جلسہ سے مولا نا محمد صادق صاحب، صالح الشبيبي صاحب، حافظ قدرت اللہ صاحب، میاں عبدالحی صاحب، مولوی محی الدین شاہ صاحب ، شافعی
تاریخ احمدیت.جلد 28 341 سال 1972ء صاحب، سیکرٹری تبلیغ عبدالرحمن صاحب، مولوی محمد ایوب صاحب ( برادر اصغر مولانا ابوبکر ایوب صاحب سابق انچارج ہالینڈ مشن ) ، مولوی احمد نور الدین صاحب اور مرتو لو صاحب بارایٹ لاء صدر اعلیٰ جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے خطاب فرمایا.اس جلسہ عام کے بعد حسب سابق اس دفعہ بھی وسط شہر کے ایک ہال میں ۲۶.۲۷ /اگست کو ایک تبلیغی کا نفرنس بھی منعقد ہوئی.فاضل مقررین کے نام حسب ذیل ہیں.صالح الشبيبي صاحب (تصوف)، مولانا محمد صادق صاحب ( معجزات اور اسراء و معراج)، را ڈین احمد انور صاحب (جماعت احمدیہ کی امتیازی خصوصیات) ، مرزا محمد ادریس صاحب (خلافت فی الاسلام ) ،میاں عبدالحی صاحب ( تعلق باللہ ) آخر میں مولا نا محمد صادق صاحب نے اقوال صوفیاء اور تاریخ انبیاء کی روشنی میں بعض حقائق نہایت پر جوش اور پر اثر انداز میں بیان فرمائے.میاں عبدالحی صاحب مبلغ سلسلہ اس جلسہ کی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ :.”ہر روز نماز تہجد اور فجر کی نماز کے بعد درس کا سلسلہ بھی جاری رہا.اس میں پہلے روز Tasikmalaya کے نائب مبلغ حسبان صاحب نے اپنی قبول احمدیت کی داستان بڑے جوش سے بیان کی.یہ پہلے انڈونیشیا کے ایک مشہور عالم کے خاص مریدوں میں شامل تھے.بعد میں اللہ تعالیٰ نے انہیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.اسی طرح جو گجا کی الجامعۃ الحکومیۃ الاسلامیہ کے قریباً فارغ التحصیل عرب نژاد نو جوان علی ابوبکر بسلا مہ اور شمالی سماٹرا کے نوجوان خیر الدین نے بھی اپنی قبول اسلام اور قبول احمدیت کی داستان سنائی.“ نیز میاں عبدالحی صاحب نے تحریر کیا کہ لجنہ اماء اللہ نے اپنے اجلاس میں اس امر کی تحریک کی کہ مرکز میں ہونے والی جو بلی میں یہاں سے دو نمائندگان جائیں اور ہر جگہ کی لجنہ مالی لحاظ سے امداد کرے.لجنہ کے اجلاس میں تقریر کرنے کیلئے مکرم جناب رئیس التبلیغ نے مکرم صالح الشبیبی صاحب اور مکرم مولانا احمد نورالدین صاحب کو مقرر کیا جنہوں نے وہاں اہم دینی امور پر مستورات سے خطاب کیا.49 انڈونیشیا کی مجلس خدام الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاس دسمبر ۱۹۷۲ء کے آخری دو ہفتوں میں مانس اور کے احمدی گاؤں میں منعقد ہوئی.۱۷ دسمبر کی شب کو مولانامحمد صادق صاحب نے افتتاحی خطاب میں خدام و ناصرات کو قیمتی نصائح سے نوازا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 342 سال 1972ء اس تربیتی کلاس میں مندرجہ ذیل مبلغین نے مضامین پڑھائے.ا.الحاج مرزا محمد ادریس صاحب مولوی فاضل و شاہد.تاریخ اسلام و تاریخ احمدیت.۲- محمود احمد صاحب چیمہ مولوی فاضل و شاہد.الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.۳ محی الدین صاحب.طریق تبلیغ ، ارکان اسلام وارکان ایمان.۴- الحاج بصری حسن صاحب.علامات آخر زمانہ.۵- محمد عبد اللہ حسن صاحب.موازنہ مذاہب.۶ محمد حسبان صاحب.جماعت احمدیہ کے اعتقادات.ان کے علاوہ مکرم مرتو لو صاحب پریذیڈنٹ جماعتہائے انڈونیشیا نے دو دن جماعت کے ڈسپلن پر بچوں کی راہنمائی فرمائی اور ایک دن مکرم مکی احمد صاحب سیکرٹری تعلیم و تربیت جماعت انڈونیشیا نے تربیت کے موضوع پر نصائح فرمائیں.اس تربیتی کلاس کے انتظامات مجلس خدام الاحمدیہ انڈونیشیا کے مندرجہ ذیل اراکین نے ادا کئے.اوشادی لقمان صاحب منتظم اعلیٰ.۲.شہو صاحب.۳.محمود احمد صاحب.۴.نور ہدایت صاحب.۵.توحید صاحب.۶.منور صاحب.۷.عثمان صاحب.۸.عبد الغنی صاحب.ناصرات کی نگرانی کے فرائض محترمہ اینورسلی صاحبہ پریذیڈنٹ لجنہ اماءاللہ تاسک ملا یا و نمائندہ لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا نے ادا کئے.جملہ مبلغین کرام ، خدام اور ناصرات کی رہائش اور کھانے کا انتظام مکرم احمد سکر ونو صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ مانس اور نے احباب جماعت کے تعاون سے نہایت احسن طور پر سر انجام دیا.اس تربیتی کلاس کے آخر میں خدام و ناصرات کا تحریری امتحان لیا گیا جس میں اوّل، دوم، سوم آنے والوں کو مکرم مولوی محمد صادق صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے انعامات تقسیم کئے.50 انگلستان یوم مصلح موعود کی با برکت تقاریب مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۷۲ء کو جماعت ہائے انگلستان نے اپنی اپنی جگہوں پر پیشگوئی مصلح موعود کے سلسلہ میں جلسے منعقد کئے.جن کی کچھ تفصیل حسب ذیل ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 343 سال 1972ء لندن میں یہ جلسہ محمود ہال میں منعقد ہوا.یہ جلسہ شریف احمد باجوہ صاحب امام مسجد فضل لندن کی زیر صدارت ہوا.اس جلسہ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی خطاب فرمایا.اس جلسہ میں پانچ صد کے قریب احباب وخواتین اور بچوں نے شمولیت اختیار کی.ہڈرزفیلڈ میں یہ جلسہ مکرم انوارالدین صاحب امینی کی زیر صدارت ہوا.اس جلسہ میں مختلف احباب نے تقاریر کیں.اس جلسہ میں حاضری خدا تعالیٰ کے فضل سے خوشکن رہی.پریسٹن میں یہ جلسہ مکرم شیخ صالح محمد صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں متعدد افراد نے تقاریر کیں.برمنگھم میں یہ جلسہ مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب کے مکان پر منعقد ہوا جس میں ایک غیر احمدی اور ۸ /احمدی احباب نے شرکت فرمائی.51 ۱۹۷۲ء میں مسجد فضل لندن میں عید الفطر کی بابرکت تقریب نہایت عقیدت و احترام سے منائی گئی.اس عید میں غیر از جماعت احباب کے لئے دعوتی کارڈ دو ہزار کی تعداد میں چھپوائے گئے.جنہیں اسلامی ممالک کے سفیر، سفارتی نمائندگان میئر ، سابق میئر، ٹیلی ویژن کے نمائندگان، پادریوں ،سکول و کالج کے اساتذہ.پولیس افسران زیر تبلیغ انگریز دوستوں کو تقسیم کئے گئے.نماز عید الفطر سے قبل مثالی وقار عمل بھی کیا گیا.اس عید الفطر کے موقع پر دو ہزار احباب نے شرکت کی جن میں سے پانچ سوانگریز مہمان شامل تھے.ان سب احباب کی کھانے سے تواضع کی گئی.اس ساری تقریب کی تصاویر ملکی اخبارات میں شائع ہوئیں.اس کے علاوہ سوئٹزر لینڈ کے اخباروں نے بھی عید کی تصاویر وخبریں شائع کیں.52 رسالہ اخبار احمدیہ ( لندن ) ماہ مارچ واپریل ۱۹۷۲ء کی اہم تقاریب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے.۲ مارچ ۱۹۷۲ ء کو Hereford College of Education سے سترہ طلباء و طالبات کا ایک گروپ مسجد دیکھنے کے لئے آیا.اسی طرح مورخہ ۲۱ مارچ کو Battersea College of Education سے ایک دوسرا گروپ آیا جو قریباً ۴۰ طالبات اور اساتذہ پر مشتمل تھا.ہر دو وفود کی آمد کے موقع پر مکرم عطاء المجیب صاحب راشد نائب امام نے ان کا استقبال کیا، مسجد اور مشن ہاؤس دکھایا اسلام کے بنیادی عقائد سے آگاہ کیا نیز ان کے سوالات کے جوابات دیئے.مؤخر الذکر وفد کی آمد کے موقع پر سوال و جواب کا سلسلہ قریباً دو گھنٹے تک جاری رہا.دونوں وفود کے سب ممبران کو Teachings of Islam کتاب کی ایک ایک کا پی دی گئی.
تاریخ احمدیت.جلد 28 وو 344 سال 1972ء گلاسگو میں مبلغ سلسلہ بشیر احمد صاحب آرچرڈ بڑی محنت سے کام کر رہے ہیں اس عرصہ میں علاوہ اور کاموں کے آپ نے دو سکولوں میں اسلام کے بارہ میں تقاریر کیں.ایک سکول میں تو آپ کی تقریر کے وقت ۵۰۰ طالب علم موجود تھے.گلاسگو کے مشن ہاؤس میں مختلف تقاریب پر جلسے منعقد ہوئے.۵ مارچ ۱۹۷۲ء کو مجلس خدام الاحمدیہ لندن کا ماہانہ اجلاس منعقد ہوا.محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جو اُن دنوں لندن میں تھے اجلاس میں تشریف لائے اور پاکستان کے موجودہ حالات پر مختصر خطاب کیا نیز ملکی حالات کے بارہ میں حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے.اسی اجلاس میں مولانا عطاء المجیب صاحب راشد نائب امام نے خدام کے دینی اور مذہبی سوالات کے جوابات دیئے.یہ مفید سلسلہ کافی دیر تک جاری رہا.19 مارچ ۱۹۷۲ ء کولندن مشن کی ہدایت پر برطانیہ کی احمدی جماعتوں نے یوم مسیح موعود علیہ السلام کا اہتمام کیا اس موقع پر لندن میں وسیع پیمانہ پر جلسہ منعقد ہوا.اجلاس کی صدارت محترم جناب حافظ بشیر الدین صاحب عبید اللہ نے فرمائی جو بلا دعر بیہ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سر انجام دینے کے بعد پاکستان تشریف لے جاتے ہوئے لندن میں مقیم تھے.تلاوت و نظم کے بعد مختلف تقاریر ہوئیں جن میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، مولانا عطاء المجیب راشد صاحب اور چوہدری شریف احمد باجوہ صاحب کی تقاریر بھی شامل تھیں.آخر میں محترم جناب شیخ صالح محمد صاحب صدر جماعت کی صدارت میں جلسہ ہوا.مکرم کرم دین صاحب، میاں محمد عبد الوہاب صاحب، صالح محمد صاحب نے مختلف عناوین پر تقاریر کیں.احباب جماعت اور مستورات کے علاوہ بعض غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی.حاضرین کی تعداد میں بائیس افراد پر مشتمل تھی.جلسہ کی تقریب اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہی.و, ۱۵ را پریل کو منظم جماعت نے یوم پیشوایان مذاہب کی تقریب کے سلسلہ میں وسیع پیمانہ پر جلسہ منعقد کیا.جماعت کے صدر مکرم جناب فضل کریم صاحب لون کی نگرانی میں جملہ انتظامات پایۂ تکمیل کو پہنچے.ایک مقامی ہال کرایہ پر لیا گیا جماعت کی دعوت پر بہت سے انگریز معززین نے اجلاس میں شرکت کی.اجلاس مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سکاٹ لینڈ کی صدارت میں منعقد ہوا.اجلاس میں ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی اور مسلمان نمائندگان نے اپنے اپنے مذہب کے نقطہ نظر سے
تاریخ احمدیت.جلد 28 345 سال 1972ء Place of My Religion in Modern Society کے موضوع پر تقاریر کیں.اسلام کی طرف سے نمائندگی محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہا.آخر میں حاضرین کو اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا.کئی اخبارات نے اس جلسہ کی رپورٹ شائع کی.وو ” جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق ۱۵ را پریل کی شام کو لندن تشریف لائے.جو نہی آپ باہر تشریف لائے تو چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ امام مسجد فضل لندن نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر آپ کا استقبال کیا.بعد ازاں مکرم نائب امام صاحب اور دیگر احباب نے باری باری آپ سے ملاقات کی اور لندن واپس مراجعت پر خوش آمدید کہا....مورخہ ۱۶ / ا پریل بروز اتوار شام چار بجے محمود ہال میں آپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے صدارت فرمائی.تلاوت اور نظم کے بعد محترم جناب چوہدری شریف احمد صاحب با جوہ امام مسجد فضل لندن نے اپنی تقریر میں محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق کو خوش آمدید کہا.بعد ازاں محترم خان صاحب نے اپنی تقریر میں حضور انور کا محبت بھرا سلام اور تحریک دعا احباب جماعت انگلستان تک پہنچائی.نیز حضور انور کی مصروفیات سے احباب کو متعارف کروایا.آخر میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے دعا کروائی جس پر یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.محترم چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ جو گذشته سال ۴ فروری ۱۹۷۱ء کو بطور امام تشریف لائے تھے قریباً سوا سال تک یہ خدمت عمدگی اور خوش اسلوبی سے ادا فرمانے کے بعد ۱٫۲۴ پریل کو پاکستان واپس جانے کے لئے روانہ ہو گئے.آپ کی واپسی سے قبل لندن مشن کی طرف سے مورخہ ۲۳ /۱ پریل بروز اتوار ساڑھے چار بجے شام محمود ہال میں وسیع پیمانہ پر الوداعیہ تقریب منعقد کی گئی.لندن اور بعض دیگر علاقوں کے احباب جماعت نے بہت کثیر تعداد میں شرکت کی.چائے اور ماکولات کی تواضع کے بعد پروگرام کا آغاز محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن کی صدارت میں قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا.بعد ازاں مکرم چوہدری منصور احمد صاحب، مکرم ملک خلیل احمد صاحب، مکرم نذیر احمد صاحب ڈار، مکرم ملک عبدالعزیز صاحب اور مکرم عطاء الجيب صاحب را شد نائب امام مسجد لندن نے تقاریر کیں اور محترم باجوہ صاحب کی پرلطف، ہمدرد اور مقبول
تاریخ احمدیت.جلد 28 346 سال 1972ء شخصیت اور آپ کی خدمات دینیہ کا تفصیلی تذکرہ کیا.بعد ازاں محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نے خطاب کرتے ہوئے محترم باجوہ صاحب کو پر خلوص طریق پر دعاؤں کے ساتھ الوداع کہا.آخر میں محترم جناب چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ نے حاضرین سے خطاب فرمایا.آپ نے ان حالات کا ذکر فرمایا جن میں حضور انور نے انہیں اس خدمت کے لئے ارشاد فرمایا تھا.دعا پر یہ بابرکت تقریب اختتام پذیر ہوئی.احباب نے الوداعی تقریب کے بعد آپ سے ملاقات کی اور اس موقع پر متعد د تصاویر لی گئیں.اگلے روز مورخہ ۱/۲۴ پریل ۱۹۷۲ء کو محترم باجوہ صاحب پاکستان واپس تشریف لے جانے کے لئے بارہ بجے دوپہر کے قریب مشن ہاؤس سے روانہ ہوئے.اس موقع پر بہت سے احباب بطور خاص رخصت لے کر تشریف لائے.روانگی سے قبل محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نے اجتماعی دعا کروائی.بہت سے احباب جماعت ہوائی اڈہ پر بھی تشریف لے گئے جہاں ایک بار پھر دعا کی گئی.اس طرح محترم جناب چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ کو احباب جماعت کی دعاؤں کے جلو میں نہایت پر خلوص طور پر رخصت کیا گیا“.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ارشاد فرمایا تھا کہ جماعت کی دینی اور علمی ترقی کے لئے فوری طور پر انگلستان کی سب جماعتوں میں سٹڈی سرکل قائم کئے جائیں جن میں اہم دینی اور علمی موضوعات پر گفتگو، تقریر اور تبادلہ خیالات کا موقع مہیا کیا جائے.اس ارشاد کی تعمیل میں لندن میں فوری طور پر سٹڈی سرکل قائم کیا گیا.مولانا عطاء المجیب صاحب راشد نائب امام اس کے صدر مقرر ہوئے اور اعلان کیا گیا کہ جو دوست اور خاص طور پر نوجوان اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں وہ فوری طور پر اپنے نام لکھوا دیں.اس سٹڈی سرکل کی پہلی میٹنگ مورخه ۱/۲۹ پریل بروز ہفتہ سات بجے شام مشن کی لائبریری میں منعقد ہوئی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ مغربی افریقہ کے بعد نہایت مختصر سے عرصہ میں اس کے چھ ممالک میں تعلیمی اور طبی مراکز سر گرم عمل ہوئے تھے جس کے نتیجہ میں ان ممالک کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوا.جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے جماعت احمدیہ کی اس عظیم الشان خدمت سے متعارف کرانے کے لئے اس سال غانا اور گیمبیا کے سفیروں سے ملاقاتیں کیں جو بہت مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوئیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 347 سال 1972ء اس سلسلہ میں آپ نے سب سے پہلے ۲۳ مئی ۱۹۷۲ء کو جماعت احمدیہ انگلستان کے ایک سہ رکنی وفد کے ساتھ غانا کے ہائی کمشنر صاحب سے ملاقات کی جس کی تفصیل خواجہ نذیر احمد صاحب ڈار پریس سیکر ٹری مسجد فضل لندن کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:.مکرم و محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے سہ رکنی وفد کی قیادت فرماتے ہوئے جس میں مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی سیکنڈ سیکرٹری سفارتخانہ پاکستان اور خاکسار خواجہ نذیر احمد پریس سیکرٹری مسجد فضل لندن ہز ایکسی لینسی ایچ.وی.ایچ سیکئی H.V.H.Sekyiہائی کمشنر غانا متعینہ لندن سے ملاقات کی.ملاقات کا دن ۲۳ مئی ۱۹۷۲ء ۱۱ بجے صبح تھا.وفد مکرم امام صاحب کی معیت میں ہائی کمشنر صاحب کے دفتر پہنچا.افسر استقبال سے تعارف کے بعد وفد ہزا ایکسی لینسی کے پرسنل سٹاف کے ساتھ ان کے کمرہ میں پہنچا.مکرم امام صاحب نے اراکین وفد کا تعارف کرانے کے بعد جماعتی سرگرمیوں خصوصاً غانا میں جماعت کے کار ہائے نمایاں کا تفصیل سے ذکر فرمایا.نصرت جہاں سکیم کے بارے میں تفصیلاً معلومات بہم پہنچائیں اور بتایا کہ جماعت کس طرح اہل غانا کی خدمت تعلیمی ، ثقافتی بلیتی اور مذہبی طور پر کر رہی ہے.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ کا بھی تفصیل سے ذکر کیا.ہائی کمشنر صاحب بڑی توجہ سے باتیں سنتے رہے.اس ضمن میں محترم امام صاحب نے غانا میں جماعت کے جاری کردہ ہسپتالوں کے لئے دواؤں کی ترسیل کے بارے میں مشکلات کا ذکر کیا.ہز ایکسی لینسی نے وعدہ فرمایا کہ اس سلسلہ میں وہ اپنی حکومت کی توجہ مبذول کرائیں گے.محترم امام صاحب نے ہائی کمشنر صاحب کو مشن آنے کی دعوت دی جسے انہوں نے بخوشی قبول فرمایا.اس کے بعد محترم امام صاحب نے ہائی کمشنر صاحب کو قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پیش کیا.ہز ایکسی لینسی نے قرآن مجید بڑے احترام اور خوشی کے ساتھ لیا اور کہا کہ میں نے اس سے قبل بھی قرآن پڑھا ہے اور کہا کہ سچائی دوسرے مذاہب کی الہامی کتابوں میں بھی ہے مگر میں نے سب سے بڑھ کر سچائی قرآن میں پائی.محترم امام صاحب نے لندن مشن کی مطبوعات کا ایک سیٹ اور Africa Speaks کی ایک کا پی بھی ہائی کمشنر صاحب کو پیش کی جسے انہوں نے بڑی دلچسپی سے دیکھا اور سالٹ پانڈ کی تصاویر دیکھ کر بہت خوش ہوئے.ہزا ایکسی لینسی خودسالٹ پانڈ کے رہنے والے ہیں.ہز ایکسی لینسی نے ارکان وفد اور اپنے ذاتی عملے کے ساتھ متعددفوٹو اتروائے.یہ ملاقات
تاریخ احمدیت.جلد 28 348 سال 1972ء تقریباً آدھ گھنٹہ رہی.اس کے بعد محترم امام صاحب سفیر پاکستان جنرل محمد یوسف صاحب سے بھی ملے اور ان سے بھی لندن مشن کی سرگرمیوں کا تذکرہ کیا.نیز مشن ہاؤس آنے کی دعوت دی.53 مورخہ 4 جون کو محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن کی سرکردگی میں جماعت احمد یہ برطانیہ کے ایک وفد نے برطانیہ میں گیمبیا کے ہائی کمشنر صاحب مسٹر بوکر عثمان سمیگا ).H.E Bocar Ousman Semega- Janneh M.B.E) سے ملاقات کی.وفد میں آپ کے علاوہ مکرم عبد العزیز دین صاحب، مکرم چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی اور مولانا عطاءالمجیب راشد شامل تھے.ہائی کمشنر صاحب موصوف نے وفد کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور قریباً پون گھنٹہ تک بڑے ہی بے تکلفانہ انداز میں بات چیت ہوئی.آپ نے بتایا کہ وہ جماعت احمدیہ سے بخوبی واقف ہیں اور چند سال قبل جبکہ گیمبیا کے دارالحکومت باتھرسٹ کے میر تھے وہاں پر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک شورش پیدا کی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے کام میں روک پیدا کی جائے.آپ نے بتایا کہ اس شورش کی مخالفت میں جو لوگ پیش پیش تھے ان میں وہ خود بھی شامل تھے اور آپ نے اس موقع پر بڑی دلیری سے یہ کہا تھا کہ جماعت احمدیہ جیسی پر امن اور خادم خلق جماعت پر کسی قسم کی پابندی ہرگز مناسب نہیں ہے.محترم امام صاحب نے آپ کو جماعت احمدیہ کی مساعی سے آگاہ کیا اور خاص طور پر نصرت جہاں سکیم کا ذکر کیا جس کے ماتحت گیمبیا میں متعد دسکول اور ہسپتال قائم ہو چکے ہیں.محترم امام صاحب نے اس موقع پر محترم جناب ہائی کمشنر صاحب موصوف کی خدمت میں قرآن مجید اور لندن مشن کی مطبوعات کا ایک سیٹ پیش کیا جو آپ نے شکریہ کے ساتھ وصول کیا اور بتایا کہ وہ اس سے قبل بھی جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ متعدد کتب کا مطالعہ کر چکے ہیں.54 نائیجیریا کے ہائی کمشنر کو قرآن کریم کا تحفہ مورخه ۱۵ جون ۱۹۷۲ء کو مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے لندن مشن کے ایک نمائندہ وفد کی قیادت کرتے ہوئے برطانیہ میں نائیجیریا کے ہائی کمشنر ہز ایکسی لینسی مسٹرایس ڈی کولو صاحب سے ملاقات کی.وفد میں آپ کے علاوہ مکرم مولوی مبارک احمد ساقی صاحب سابق مبلغ لائبیریا، نائیجیریا سے آئے ہوئے امریکن احمدی دوست مکرم خلیل محمود صاحب ،مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب بنکوی اور مکرم عطاء المجیب راشد صاحب بھی شامل تھے.محترم جناب ہائی کمشنر صاحب نے وفد کا پر جوش استقبال کیا.کمشنر صاحب موصوف نے بتایا کہ میں جماعت احمدیہ کو ایک عرصے
تاریخ احمدیت.جلد 28 349 سال 1972ء سے جانتا ہوں اور میں نے ہمیشہ ہی جماعت کی تبلیغی اور اصلاحی مساعی کو سراہا ہے.مکرم امام صاحب نے ہائی کمشنر صاحب کی خدمت میں قرآن مجید، افریقہ سپیکس (Africa Speaks) نیز مشن کی مطبوعات بطور تحفہ پیش کیں.55 ترکی کے سفیر کو قرآن کریم کا تحفہ مورخه ۲۸ جون ۱۹۷۲ء کو مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن اور مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے برطانیہ میں ترکی کے سفیر ہز ایکسی لینسی جناب زکی کونے رالپ.H.E.Mr Zeki Kuneralp GCVO سے ملاقات کی.یہ ملاقات ترکی کے سفارت خانہ میں ہوئی.محترم امام صاحب نے سفیر موصوف کی خدمت میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ پیش کیا جو آپ نے بہت محبت اور عقیدت سے وصول کیا.اس کے علاوہ آپ کی خدمت میں مشن کی دیگر مطبوعات بھی پیش کی گئیں.قرآن کریم اور مطبوعات وصول کرنے کے بعد آپ نے کہا کہ آپ میرے لئے بہت قیمتی تحفہ لیکر آئے ہیں میں ان کتب کا بڑے شوق سے مطالعہ کروں گا.اس ملاقات کے چند روز بعد ملکہ برطانیہ کی طرف سے بکنگھم پیلس کے وسیع وعریض میدان میں Royal Garden Party دی گئی.اس میں بھی مبلغین کرام کو شرکت کا موقعہ ملا.اس موقع پر ترکی کے سفیر بھی تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے مکرم امام صاحب اور مکرم نائب امام صاحب کو دیکھ کر بڑے تپاک سے مصافحہ کیا اور کہا کہ حال ہی میں آپ نے مجھے جو کتابیں بطور تحفہ دی ہیں ان کا مطالعہ کر رہا ہوں.56 پاکستانی سفیر کے اعزاز میں الوداعی تقریب جولائی ۱۹۷۲ء کے شروع میں جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے سفیر پاکستان لیفٹیننٹ جنرل محمد یوسف خان صاحب کے اعزاز میں ایک الوداعی دعوت دی گئی جس میں وانڈ زورتھ کے مئیر، متعددممالک کے ہائی کمشنر اور دیگر کئی اہم شخصیتوں نے شرکت فرمائی.اخبار الفضل ۵ جولائی ۱۹۷۲ء نے اس تقریب کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ :.لندن سے بذریعہ تار اطلاع موصول ہوئی ہے کہ پچھلے دنوں جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف
تاریخ احمدیت.جلد 28 350 سال 1972ء سے مسجد لندن کے محمود ہال میں لیفٹینٹ جنرل محمد یوسف خان صاحب سفیر پاکستان مقیم برطانیہ کے اعزاز میں الوداعی دعوت کا اہتمام کیا گیا.اس میں وانڈ زورتھ کے مئیر نیز گھانا، نائیجیریا اور گیمبیا کے ہائی کمشنر صاحبان، پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور برطانیہ میں پی آئی اے کے جنرل مینیجر قاضی افضال حسین صاحب نے بھی شرکت کی.مہمانوں کی پاکستانی کھانوں سے تواضع کی گئی.دعوت طعام کے اختتام پروانڈ زورتھ کے مئیر صاحب اور امام مسجد فضل لندن محترم بی اے رفیق صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے سفیر موصوف لیفٹیننٹ جنرل محمد یوسف خان صاحب کو الوداع کہا.آپ کو اب سوئٹزرلینڈ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا ہے اور آپ پاکستانی سفارتخانہ کا چارج لینے کی غرض سے وہاں تشریف لے جا رہے ہیں.سفیر موصوف نے اپنی جوابی تقریر میں جماعت احمدیہ کی خدمات اور رفاہی سرگرمیوں کو بہت سراہا اور اس طرح بہت اچھے الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.آپ نے وعدہ کیا کہ آپ زیورک میں جماعت احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد الموسوم بہ مسجد محمود بھی جائیں گے.تقریب کے اختتام پر جملہ سر برآوردہ مہمانان کرام کو اندر سے مسجد دکھائی گئی.امام مسجد لندن مکرم بی اے رفیق صاحب کی بیگم صاحبہ محترمہ نے اس موقع پر احمد یہ مشن ہاؤس کی عمارت میں مہمان خواتین کے لئے دعوت طعام کا علیحدہ طور پر انتظام کیا.57 دد مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان کا سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ انگلستان کا پانچواں سالانہ اجتماع مورخہ ۲۲، ۲۳ جولائی ۱۹۷۲ء کولندن میں منعقد ہوا.افتتاحی اجلاس جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ برطانیہ کی صدارت میں ساڑھے چار بجے شام منعقد ہوا.تلاوت قرآن پاک اور عہد دہرانے کے بعد صدر اجلاس نے خدام سے خطاب فرماتے ہوئے سب خدام کو خوش آمدید کہا.انگلستان کے مختلف حصوں کے علاوہ امسال ملک ڈنمارک سے بھی ۹ خدام نے اپنے قائد مکرم عبدالہادی صاحب کی قیادت میں اجتماع میں بطور خاص شرکت کی.علاوہ ازیں گیمبیا جماعت کے صدر Mr.Sohna اور وہاں کے ایک اور احمدی دوست Mr.Tawara نے بھی شرکت کی.محترم امام صاحب نے مختصر خطاب اور اجتماعی دعا کے ساتھ افتتاح فرمایا.بعدہ تلاوت قرآن پاک نظم خوانی اور دینی معلومات کا مقابلہ بھی ہوا.پروگرام کے مطابق خدام اور اطفال نے رات مشن ہاؤس میں بسر کی.مسجد و محمود ہال میں قیام وطعام کا انتظام تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 351 سال 1972ء ۲۳ جولائی بروز اتوار علی الصبح خدام اور اطفال نے باجماعت نماز تہجد ادا کی.نماز فجر کے بعد عطاء المجیب صاحب را شد نائب امام و معتمد مجلس برطانیہ نے قرآن پاک کا درس دیا.اس روز اجتماع کا پروگرام ایک مقام بنام Roehampton Pavillion میں منعقد ہوا.پیویلین کو بڑے سلیقہ سے سجایا گیا تھا.متعدد انصار حضرات نے بھی شرکت کی اور اس طرح خدام کی حوصلہ افزائی ہوئی.میدان عمل میں خدام و اطفال کے ورزشی مقابلہ جات ہوئے.میدان عمل میں ساتھ ساتھ تربیتی پروگرام بھی جاری رہا.دو پہر کو گیمبیا کے جناب سوہانا صاحب نے پون گھنٹہ تک ایک دلچسپ تقریر کی.آخری اجلاس میں مولانا عطاء المجیب صاحب راشد نے تربیتی موضوع پر خدام سے خطاب فرمایا.آخر میں جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا.مولانا بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد لندن و نائب صدر مجلس انگلستان نے امتیاز حاصل کرنے والے خدام میں انعامات تقسیم کئے اور دعا کے ساتھ اجتماع بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.58 مجلس انصاراللہ برطانیہ کا پہلا اجتماع ۱۰ ستمبر ۱۹۷۲ء کو محمود ہال لندن میں انصار اللہ برطانیہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.تقریب کا آغاز تلاوت اور نظم سے ہوا جس کے بعد بشیر احمد خان صاحب رفیق نائب صدر انصار اللہ برطانیہ نے صدارتی تقریر فرمائی اور اجتماعی دعا کروائی.بعد ازاں مکرم فضل کریم لون صاحب نے ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پڑھ کر سنائے.اس کے علاوہ ایک علمی مذاکرہ بر موضوع تربیت اولا د ہوا.مذاکرہ کے دوران سردار بشارت احمد صاحب نے ایک مضمون حضرت سردار عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ ) کے حالات زندگی پر پڑھا جس میں آپ کے قبول احمدیت کے حالات ، آپ کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور بچوں کے ساتھ محبت و شفقت ان کو نمازوں میں با قاعدگی کی تلقین اور دیگر تربیتی امور کا ذکر تھا.مذاکرہ کے بعد جناب کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ نے ”سادہ زندگی“ کے موضوع پر تقریر کی.چوہدری ہدایت اللہ صاحب بنگوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا.آخر میں مکرم شیر احمد خان صاحب نے پندرہ منٹ تک نہایت دلچسپ تقریر کی.دوسرا اجلاس نماز ظہر و عصر اور دوپہر کے کھانے کے وقفہ کے بعد زیر صدارت جناب بشیر احمد
تاریخ احمدیت.جلد 28 352 سال 1972ء خان صاحب رفیق شروع ہوا.تلاوت قرآن کریم نظم اور ملفوظات کے درس کے بعد مولانا عطاء المجیب صاحب راشد نائب امام نے ”سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریر فرمائی.شیخ مبارک احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات کا ایک اقتباس پڑھ کر سنایا.ڈاکٹر عبدالحمید صاحب زعیم انصار اللہ لندن نے ذکر الہی کے موضوع پر تقریر کی.آخر میں محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر چہ انصار اللہ کی تنظیم کو عام طور پر معمر لوگوں کی تنظیم کہا جاتا ہے لیکن یہ تنظیم اس لحاظ سے جوان ہے کہ اس کا قیام خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے بعد ہوا.آپ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محسن انصار اللہ کہا انہوں نے بہت قربانیاں دیں.انصار اللہ کا دعویٰ ہم سے عظیم قربانیوں کا طالب ہے اور انصار اللہ کا نام اپنی جان کی بازی لگانے کے مترادف ہے.آپ نے انصار اللہ برطانیہ سے اپیل کی کہ وہ کوئی ایسا کام شروع کریں جو جماعت کی دیگر تنظیمیں نہ کر رہی ہوں اور اس طرح اپنے وجود کو جماعت کے لئے مزید فائدہ مند ثابت کریں.تقریر کے اختتام پر آپ نے احباب کو سوال کرنے کی دعوت دی.چنانچہ مختلف احباب نے مختلف مسائل دریافت کئے.جن کے جواب احباب کے ازدیاد علم کا باعث ہوئے.اس کے بعد اجتماعی دعا کے ساتھ مجلس انصاراللہ برطانیہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع نہایت کامیابی کے ساتھ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.59 انگلستان مشن کے زیر انتظام اس سال ۱۸ جون اور دسمبر ۱۹۷۲ء کو انگلستان کے مخلص احمدیوں نے کامیاب یوم التبلیغ منایا.جس کے دوران لٹریچر تقسیم کیا گیا.انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں کی گئیں اور تبلیغی جلسوں کا انعقاد کیا گیا جس سے انگلستان کے طول و عرض تک پیغام حق پہنچا اور سعید روحوں میں تحقیق حق کے لئے ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہو گئے.چنانچہ مولانا عطاء المجیب صاحب را شد یوم التبلیغ ( ۳دسمبر ۱۹۷۲ء) کی رپورٹ تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.لنڈن میں احباب جماعت صبح ساڑھے نو بجے محمود ہال میں جمع ہونے شروع ہو گئے.آنے والے دوستوں کو مختلف وفود کی صورت میں ترتیب دیا گیا.ہر وفد کا ایک قائد مقرر کیا گیا اور ان کے لئے لندن کا ایک علاقہ بھی مقرر کر دیا گیا.ہر وفد کو لکڑی کے بنے ہوئے چند کتبات بھی دیئے گئے جن پر اسلام کے بارہ میں مختلف فقرات مثلاً
تاریخ احمدیت.جلد 28 353 سال 1972ء Islam means peace.Islam is a living religion.Promised Messiah has come.وغیرہ نمایاں طور پر لکھے ہوئے تھے.ان کتبات کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والوں کی توجہ فوراً ان لوگوں کی طرف ہو جاتی ہے اور جولٹریچر ان کو دیا جائے اس کا بھی فوری تعارف ہو جاتا ہے.یومِ تبلیغ پر تقسیم کی غرض سے ?What is Islam کے عنوان سے ایک دو ورقہ خصوصی طور پر کثیر تعداد میں شائع کیا گیا تھا.گروپ بندی نیز کتبات اور لٹریچر کی تقسیم کے بعد محترم جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد لندن نے احباب جماعت سے خطاب فرمایا.ضروری ہدایات دیں اور بعد ازاں اجتماعی دعا کے ساتھ سب کو مشن ہاؤس سے رخصت کیا.احباب جماعت مختلف وفود کی صورت میں روانہ ہوئے.اس مبارک کام میں حصہ لینے والے انصار، خدام اور اطفال سبھی ایک خاص جوش اور جذبہ سے شامل تھے.وفودلندن کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور شام تک لندن کے غیر مسلم احباب میں اسلام کا لٹریچر تقسیم کرتے رہے.اس دوران مختلف لوگوں سے بات چیت بھی ہوئی اور ان کے سوالات کے جوابات دئے گئے.مکرم عبد العزیز دین صاحب، مکرم خواجہ بشیر احمد صاحب، مکرم داؤ د احمد صاحب گلز از مکرم سید الیاس ناصر صاحب، مکرم سید طاہر احمد سفیر صاحب، مکرم کیپٹن محمد حسین صاحب چیمہ، مکرم مرزا احمد منان صاحب، مکرم چوہدری رشید احمد صاحب، مکرم منصور احمد صاحب ندیم اور مکرم غلام احمد صاحب چغتائی نے مختلف وفود کی قیادت کی.یوم تبلیغ کے موقعہ پر خاکسار عطاء المجیب راشد کو لندن کے مشہور ہائیڈ پارک میں تقریر کرنے کا بھی موقع ملا.میں چند اور احمدی دوستوں کے ہمراہ اس پارک میں پہنچا اور سپیکرز کارنر ( گوشئہ مقررین) میں اسلام کے موضوع پر تقریر کرنی شروع کی.لکڑی کے ایک بکس کو سٹیج کے طور پر استعمال کیا.اس پر کھڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں نے توجہ کرنی شروع کر دی.چنانچہ آہستہ آہستہ لوگ ہماری طرف آنے لگے اور تقریر دلچسپی سے سنی جانے لگی.ایک گھنٹہ کی تقریر میں خاکسار نے اسلام کا تعارف بیان کیا.عیسائیت کے بعض مسائل کا ذکر کیا اور خاص طور پر مامور زمانہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور پیغام کو بیان کیا.دورانِ تقریر بعض لوگوں نے سوالات بھی کئے جن کے جوابات دئے گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریر بہت کامیاب رہی اور سینکڑوں لوگوں نے احمدیت
تاریخ احمدیت.جلد 28 354 سال 1972ء کے پیغام کو سنا.تقریر کے بعد بہت سے مسلمان احباب سے ملاقات ہوئی جو حاضرین میں شامل تھے انہوں نے ان تبلیغی کوششوں کو بہت سراہا.شام سے آئے ہوئے ایک مسلمان ڈاکٹر نے کہا کہ مجھے یہاں آئے ہوئے کئی ماہ ہو گئے ہیں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسلمان کو اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آج یہ تقریر سن کر مجھے اس بات سے بے حد خوشی و مسرت ہوئی ہے کہ اس ملک میں بھی تبلیغ اسلام کی مساعی جاری ہے.انہوں نے اظہار جذبات کے طور پر ایک کتا بچہ جوانہیں بہت عزیز تھا خاکسار کو پیش کیا.لٹریچر کی تقسیم کے بارہ میں احباب کو یہ ہدایت دی گئی کہ تقسیم میں بہت احتیاط کریں تا کہ ضیاع نہ ہو اور مفید نتائج برآمد ہوں.اس ہدایت کی روشنی میں احباب نے صرف دلچسپی کا اظہار کر نیوالے لوگوں کولٹر پچر دیا.اعداد و شمار کے مطابق صرف لندن کے مختلف حلقوں میں سوا چار ہزار سے زائد پمفلٹ، کتب اور اشتہارات تقسیم کئے.برطانیہ کے دیگر علاقوں میں بھی احمدی جماعتوں نے یوم تبلیغ پورے اہتمام سے منایا.گلاسگو سے مبلغ بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے لکھا ہے کہ سکاٹ لینڈ کے احمدی احباب نے اس دن کو تبلیغ کے کاموں میں صرف کیا.آرچرڈ صاحب کی قیادت میں ایک وفد نے گلاسگو میں کمیونٹی ریلیشن آفیسر سے ملاقات کی.شام کو ایڈنبرا میں تھیو سافیکل سوسائٹی کے اجلاس میں شمولیت کی اور وقفہ سوالات اور اجلاس کے کو جا کر بعد حاضرین کو اسلام سے روشناس کرایا.لجنہ کی مبرات نے مختلف گھروں میں جا کر لٹریچر تقسیم کیا.جلنکھم میں احباب جماعت نے تین حلقوں میں کام کیا.چند احباب نے کتبات (Placards) اٹھا کر شہر کی مختلف سڑکوں کا چکر لگایا جبکہ ان کے ساتھیوں نے لٹریچر تقسیم کیا.ہسپتالوں، گرجا گھروں اور لائبریریوں میں خاص طور پر لٹریچر تقسیم کیا گیا.بعض کو لٹریچر ڈاک کے ذریعہ بھی ارسال کیا گیا.لیڈز میں احباب جماعت نے لٹریچر تقسیم کیا اور ایک احمدی دوست نے ایک انگریز پادری سے تفصیلی طور پر تبلیغی گفتگو کی.برمنگھم جماعت کے احباب نے شہر میں لٹریچر کثرت سے تقسیم کیا.شہر کے نواحی علاقوں میں جا کر بھی تبلیغ کی گئی.بعد دو پہر جماعت کا ماہوار اجلاس ہوا جس میں دوستوں نے اپنی مساعی کی رپورٹ دی.بار کنگ جماعت نے یوم تبلیغ کا خاص اہتمام کیا.احباب جماعت کے تین گروپ بنائے گئے.تینیوں وفود نے علاقہ میں مجموعی طور پر قریباً ۴۰۰ پمفلٹ اور اشتہار تقسیم کئے.شام کے وقت جماعت
تاریخ احمدیت.جلد 28 355 سال 1972ء نے ایک تبلیغی جلسہ کا اہتمام کیا.علاقہ میں ایک موزوں ہال کرایہ پر لیا گیا اور غیر از جماعت احباب کو شمولیت کی دعوت تحریری طور پر بھجوائی گئی.غیر از جماعت احباب کے علاوہ چند انگریز مہمانوں نے بھی اجلاس میں شرکت کی.خاکسار عطاء المجیب راشد نے تعارف اسلام کے موضوع پر پون گھنٹہ تقریر کی جس کے آخر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کی صداقت کے دلائل کا تفصیل سے ذکر کیا.تقریر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے بارہ میں حاضرین نے متعد دسوالات کئے جن کے جوابات دیئے گئے.ساؤتھ آل میں جماعت نے یوم تبلیغ کے سلسلہ میں نمایاں کام کیا.جماعت کے ۲۰ را فراد کو پانچ وفود میں تقسیم کیا گیا.ہر وفد کے ممبران نے جن میں بچے بھی شامل تھے علاقہ کی سڑکوں اور گلیوں میں چکر لگا کر لٹریچر تقسیم کیا.ایک دن میں ۱۷۰۰ سے زیادہ اشتہارات اور کتب دلچسپی رکھنے والے لوگوں میں تقسیم کی گئیں.زبانی گفتگو کے ذریعہ بھی تبلیغ کی گئی.ان جماعتوں کے علاوہ پریسٹن اور لیمنگٹن سپا Leamington Spa) کی جماعتوں میں بھی یوم تبلیغ کے سلسلہ میں نمایاں کام ہوا.لندن اور بیرونی جماعتوں کی ان مساعی کا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے بہت مفید نتیجہ پیدا ہوا.اس امر کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ یوم تبلیغ کے بعد لندن مشن میں متعد د خطوط موصول ہوئے جن پر مزید معلومات مہیا کرنے کی درخواست تھی.اسی طرح بہت سے لوگوں نے ٹیلیفون پر سوالات دریافت کئے اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے.اسلام سے دلچسپی ظاہر کرنے والے ان سب لوگوں کو ضروری لٹریچر مہیا کیا جاتا ہے اور مشن آکر زبانی تبادلۂ خیالات کی دعوت دی جاتی ہے“.60 مولانا عطاء المجیب صاحب را شد ایم اے کے قلم سے انگلستان مشن کے بعض دلچسپ اور ایمان افروز واقعات کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں:.چنددنوں کی بات ہے کہ شام کے وقت ایک دوست مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لائے.معلوم ہوا کہ یہ خود تو مسلمان ہیں اور ایران کی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں.ان کی فیملی ایک عرصہ سے لندن میں قیام پذیر ہے.جب انہیں ملنے کے لئے وہ یہاں آئے تو انہوں نے اپنے احباب سے دریافت کیا کہ کیا لندن میں کوئی مسجد ہے؟ اس پر ان کے ایک پڑوسی نے جوخود رومن کیتھولک ہے انہیں بتایا کہ ہاں مسجد ہے اور زیادہ دور بھی نہیں.چنانچہ اسی روز وہ رومن کیتھولک عیسائی دوست انہیں مسجد لے وو
تاریخ احمدیت.جلد 28 356 سال 1972ء آئے.ان سے کافی دیر تک بات چیت ہوتی رہی.وہ انگریزی میں بآسانی بات چیت کر لیتے تھے لیکن ان کی زیادہ دلچسپی فارسی میں تھی جس میں انہیں خوب مہارت حاصل تھی.چنانچہ میں نے ان کی اس مناسبت کی وجہ سے انہیں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فارسی کلام میں سے چند اشعار جو مجھے زبانی یاد تھے سنائے.اتفاق سے یہا شعار وہ تھے جن میں حضور علیہ السلام نے اسلام، قرآن مجید اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور راہ خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عزم بیان فرمایا ہے.کچھ تو شعروں کا مضمون ایسا تھا اور پھر الفاظ کی بناوٹ اور طرز بیان ایسا دلکش تھا کہ وہ بے حد متاثر ہوئے اور جتنا وقت میں یہ اشعار سنا تا رہا وہ ہمہ تن گوش ہو کر سنتے رہے.واقعی حضرت سلطان القلم علیہ السلام کی تحریرات کی برکت اور تاثیر لا جواب ہے..لندن شہر میں یوں تو کئی اسلامی مراکز ہیں لیکن مسجد کی معروف طرز میں صرف ایک ہی مسجد ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری جماعت کی ہے.مسجدا اپنی شکل وصورت کے لحاظ سے ارد گرد کی دیگر عمارتوں سے ممتاز ہے اور اس کا سبز رنگ کا بلند و بالا گنبد ہر دیکھنے والے کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے.بہر حال لوگ کافی تعداد میں مسجد دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں.ان میں بڑی عمر کے مرد، مستورات، نوجوان لڑکے، لڑکیاں، طلبہ وطالبات غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگ ہوتے ہیں.یہ مسجد کو ہر پہلو سے بہت دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور بڑے دلچسپ اور عمدہ سوالات کرتے ہیں.پچھلے دنوں ایک سکول کا گروپ آیا ہوا تھا.اس گروپ میں سب بچے ایسے تھے جو جسمانی یا ذہنی طور پر معذور تھے.بعض تو چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے اور سارا وقت پہیوں والی کرسی پر بیٹھے رہے لیکن شروع سے آخر تک ہر بات میں بہت دلچسپی لیتے رہے.مسجد کے اندر ایک بچے نے سوال کیا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے؟ میں نے بتایا کہ اس کا نام مسجد فضل ہے.مسجد خدا کا گھر ہے جہاں اس کے افضال کی بارش ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور برکتیں حاصل ہوتی ہیں.میرا یہ فقرہ سن کر کہ This is a place of Divine Blessings اس بچے کے چہرے پر خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی.شاید یہ اس امید اور تمنا کی جھلک ہو کہ اس برکت والی جگہ پر آنے کی بدولت خدا مجھے صحت و عافیت عطا کرے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.ایک اور موقعہ پر کالج کے طلبہ وطالبات کا ایک گروپ مسجد دیکھنے کے لئے آیا ہوا تھا.انہوں نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 357 سال 1972ء طر ز عبادت اور مسجد کے بارہ میں مختلف سوالات پوچھے جن کے تسلی بخش جوابات دئے گئے.ہماری مسجد میں محراب کے اوپر نہایت خوبصورت الفاظ میں اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور زائرین اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور اس کا مطلب کیا ہے؟ اس روز بھی اس گروپ کے ایک ممبر نے یہی سوال پوچھا کہ یہ کیا الفاظ ہیں؟ میں نے بتایا کہ یہ قرآن مجید کی ایک آیت کا حصہ ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا نور ہے.شاید میری سابقہ بات کا اثر تھا یا کوئی اور وجہ کہ ایک دوسرے طالبعلم نے فوراً یہ پوچھ لیا کہ آپ نے آیت کے اس حصہ کو ہی کیوں انتخاب کیا ہے اور اس کو محراب پر لکھنے کی کیا وجہ ہے؟ ظاہر ہے کہ یہ تو لکھنے والوں کے انتخاب کی بات تھی اور ایک ازلی ابدی حقیقت کے طور پر اس کا انتخاب بہت ہی موزوں بھی ہے لیکن اس اچانک سوال پر میں کچھ پریشان سا ہو گیا کہ اس کا جواب کیا دیا جائے.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر اور احسان ہے کہ اس نے فوراً دستگیری فرمائی اور ایک اور جواب سمجھا دیا.میں نے بتایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اس کائنات کو پیدا کرنے والا اور اس کو قائم رکھنے والا ہے.اس میں خدا تعالیٰ کی توحید اور قدرت دونوں کا بیان ہے جس کو نور کے ایک لفظ سے بیان کیا گیا ہے.اس حصہ آیت کو یہاں لکھنے کی ایک ذوقی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس آیت کے عین نیچے ایک خوشنما قندیل لگی ہوئی ہے جو اپنی مختلف روشنیوں کی وجہ سے بہت خوبصورت دکھائی دیتی ہے.جو نہی کوئی انسان اس خوشنما قندیل کو دیکھتا ہے تو یہ قرآنی آیت اس کو اس حقیقت سے آگاہ کرتی ہے کہ یہ ایک قندیل کیا، زمین و آسمان میں نظر آنے والی ہر روشنی خدائے واحد و یگانہ کی پیدا کردہ ہے اور وہی بابرکت ذات ہے جو ہر نور، ہر خیر اور ہر برکت کا مبدا و منبع ہے.ایک انگریز خاتون چند روز ہوئے مشن ہاؤس میں آئیں.آپ عیسائی ہیں لیکن عیسائیوں کے عمل کو دیکھ کر مذہب سے متنفر ہیں.اسی دوران ایک مسلمان ڈاکٹر کے نیک نمونہ نے ان کو اسلام سے قریب کر دیا اور وہ مزید تحقیق کے لئے لمبا سفر کر کے آئی تھیں.اس روز اتفاق سے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی لندن میں ہی تھے.چنانچہ آپ نے بھی بات چیت میں شرکت فرمائی.کافی دیر تک تفصیل سے بات چیت ہوئی.چند کتب بھی مطالعہ کے لئے انہیں دیں.انہوں نے ایک خط بھی ارسال کیا جس میں انہوں نے لکھا:."Why I am so interested in Islam.Because I not only want proof of the existence of God, but I also want to know Him
تاریخ احمدیت.جلد 28 358 سال 1972ء personally, and I hope you may be able to help me." دہریت والحاد کے ماحول میں دن رات بسر کرنے والی ایک انگریز خاتون کے قلم سے نکلے ہوئے یہ الفاظ اس بات کا منہ بولتا ہوا ثبوت ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گمراہی اور ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں نور اور امید کی کرنیں پیدا ہورہی ہیں.میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ خوش آئند اور حوصلہ افزاء تبدیلی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیر سے پیدا ہو رہی ہے جو ان مغربی اقوام کے دلوں پر اسلام کی حکومت کے قیام پر منتج ہوگی“.61 برما یوم مسیح موعود علیہ السلام (۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء) کی تقریب پر خواجہ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ کی ایک تقریر ملک کے طول و عرض میں شائع کی گئی.خواجہ صاحب اپریل میں ایک دن کے لئے ٹانگو ( Toungoo) تشریف لے گئے جہاں ایک احمدی دوست کھبن ماؤں پیر خانصاحب کا ایک مقدمہ زیر سماعت تھا.یہاں آپ کو ایک ہوٹل میں شام ۸ بجے سے ساڑھے دس بجے تک ۲۵-۲۰ نو جوانوں تک پیغام حق پہنچانے کی توفیق ملی.ے مئی ۱۹۷۲ء کو احمد یہ ہال میں ملک بشارت احمد صاحب اسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ کی زیر صدارت جلسه سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد ہوا جس میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت معززین بھی بکثرت شامل ہوئے.صدر جلسہ، ڈاکٹر ایم جمیل صاحب، ورسا ظفر اللہ صاحب، مونکر محمود صاحب اور خواجہ بشیر احمد صاحب نے اردو، انگریزی اور برمی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت پر روشنی ڈالی.بعد ازاں ڈاکٹر جمیل احمد صاحب نے حج کی فلم دکھائی جسے مہمانوں نے بہت پسند کیا.بعض حضرات نے اظہار افسوس کیا کہ وہ عرصہ تک اس پراپیگینڈہ کا شکار رہے کہ احمدی حج نہیں کرتے.انہوں نے اعتراف کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے متعلق جس رنگ میں تقاریر یہاں سنی گئی ہیں بہت کم سنے میں آئی ہیں.اس سال برما کے مسلم حلقوں میں مستورات کے مساجد میں جانے یا نہ جانے کا موضوع زیر بحث تھا.اس سلسلہ میں خواجہ صاحب کو بعض احادیث نبوی پیش کرنے کا موقع ملا.بر مامشن کی طرف سے اپر برما کی ایک بستی کٹکائی کے ۲۸ چھن، برمی ، لا ہو اور چینی مسلمان گھرانوں کے لئے اردو، انگریزی ، چینی اور برمی لٹریچر بھجوایا گیا.جس میں قاعدہ یسرنا القرآن اور قرآن شریف کا پارہ اول مع
تاریخ احمدیت.جلد 28 ترجمہ بھی شامل تھا.359 سال 1972ء ملک میں حضرت نعمت اللہ ولی کے قصائد کا تذکرہ زوروں پر رہا.خواجہ صاحب نے اصل قصیدہ کے منتخب اشعار اور ان کی تشریح ایک پمفلٹ کی شکل میں طبع کرائی اور برما کے اردو دان طبقے تک پہنچادی.اس سال متعدد زائرین جماعت کے برمامشن میں تشریف لائے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کیں.مانڈے اور رنگون کے دوافراد داخل احمدیت ہوئے.62 تنزانیہ اس مشن کے انچارج مولوی محمد منور صاحب مہمات دینیہ میں سرگرم عمل رہنے کے بعد اس سال ۴ فروری ۱۹۷۲ء کو نیروبی تشریف لے گئے اور مشن کے مبلغ انچارج مولا نا عبدالباسط صاحب شاہد مقرر ہوئے جو تین سال سے اس ملک میں دینی خدمات بجالا رہے تھے.مولانا عبد الباسط صاحب شاہد کی مرسلہ پہلی ششماہی کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ مولانا محمد منور صاحب کی جاری کردہ دینی کلاس اس سال بھی ان کی نگرانی میں کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی.کلاس کے دو طالب علم اور ایک احمدی نوجوان مور و گورو ٹیچر ٹریننگ کالج میں داخلہ کے لئے چن لئے گئے جس میں چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز کی راہنمائی اور مدد کا دخل تھا.کلاس کے طلباء نے تلاوت قرآن پاک، فن تقریر اور فروخت لٹریچر کی ٹرینگ لی اور تعلیم و تربیت کے میدان میں خاص ترقی کی اور متعد دسعید روحوں تک احمدیت کی آواز پہنچائی.کلاس میں بعض اہل علم حضرات کی تقاریر کے علاوہ سید نا حضرت مصلح موعود کے ایک ایمان افروز خطاب کا سواحیلی زبان میں ترجمہ شدہ ٹیپ بھی سنایا گیا جو طلباء کے علم و عرفان میں اضافہ کا موجب ہوا.دار السلام کے مرکزی جماعتی دفاتر میں مختلف زائرین معلومات کی غرض سے آئے جنہیں مولانا عبدالباسط صاحب نے دینی لٹریچر پیش کیا.ان معززین میں تنزانیہ اسمبلی کے سپیکر جناب آدم ساپی بھی شامل تھے.جنہیں آپ نے ضروری معلومات بہم پہنچائیں اور قادیان سے شائع شدہ دیدہ زیب احمدیہ مسلم کیلنڈر ۱۹۷۲ تحفہ دیا.وہ ہجری شمسی تقویم سے بہت متاثر ہوئے.چوہدری عنایت اللہ صاحب نے کئی بااثر افراد سے ملاقات کر کے پیغام احمدیت پہنچایا.طبورا (Tabora) مشن ہاؤس میں شہر اور مضافات سے بہت سے زائرین آئے جنہیں مولانا عبدالرشید صاحب رازی نے اسلامی مسائل اور ان کے فلسفہ سے آگاہ کیا اور خاص اہتمام کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 28 360 سال 1972ء شہر میں سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر تقسیم کیا.انہوں نے تعلیم بالغاں سے متعلق ایک سیمینار میں شرکت کی.وہ برونڈی کے پناہ گزینوں کے کیمپ میں گئے اور ان سے اظہار ہمدردی کیا اور نہ صرف خود انہیں اسلام سے متعلق واقفیت بہم پہنچائی بلکہ مزید معلومات کے لئے ایک معلم کو مقرر کر دیا.بکو به Bukoba کے علاقہ میں شیخ یوسف عثمان صاحب مصروف عمل رہے.انہوں نے کیا کا (Kyaka)، مے با(Muleba) ، کنازی Kanazi اور مرد کو Maruku کا تبلیغی دورہ کیا.ایک مجمع میں جہاں ایک سیاسی لیڈر بھی تھے آپ کو تبلیغی گفتگو کا موقعہ ملا.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں تقریر کی.دو علماء سے تبادلہ خیالات کیا اور یوگنڈا یو نیورسٹی اور سیکنڈری سکول کے بعض طلباء اور ایک ہیڈ ماسٹر سے تبلیغی ملاقات کی.مورو گورو (Morogoro) ریجن میں چوہدری رشید احمد صاحب سرور حسب دستور با قاعدگی کے ساتھ طالب علموں اور بچوں کو تعلیم دیتے رہے.حلقہ کے دو مقامی معلمین نے کلوسہ Kilosa، کی ماسبا، چالینزے (Chinunje)، مڈا اولا اور ابنیا کا دورہ کر کے سینکڑوں افراد کو احمدیت سے روشناس کرایا اور پانچ سو سے زیادہ لٹریچر فروخت کیا.الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے سواحیلی ترجمہ قرآن سے درس دیئے اور اخبارات کے کٹنگ وکیل التبشیر صاحب کی خدمت میں بھجوائے.آپ نے اگست ۱۹۷۲ء کے آخر میں زیمبیا مشن کا چارج سنبھال لیا.عرصہ رپورٹ کے دوران اروشا (Arusha) میں اور ایک ماہ بعد گو ہے (Gombe) میں دو نئے مشن جاری کئے گئے اور ان کی خدمت بالترتیب لوکل مبلغ محمد عبدی صاحب اور نورالدین صاحب کو سپرد کی گئی اور دونوں نے ابتداء ہی میں اپنے مفوضہ کام کی طرف پوری توجہ دینا شروع کر دی.چنانچہ محمد عبداللہ صاحب نے متعدد افسران اور معززین سے ملاقات کی اور ایک مقامی سکول میں دینیات پڑھانے کا آغاز کر دیا.63 مولا نا عبدالباسط صاحب کے قیام تنزانیہ کے آخری ایام میں مشن نے جماعتی سرگرمیوں کے متعلق جو بلیٹن شائع کیا اس کے اقتباسات درج ذیل ہیں.چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی نے کئی بااثر افراد سے ملاقات کی.ٹانگانیکا افریقن نیشنل یونین کی نیشنل ایگزیکٹو کے جنرل سیکرٹری میجر ہاشم Mbita صاحب سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور احمد یہ مسلم مشن کے کام کے بارہ میں تبادلہ خیالات کیا Arush ( اروشا ).محمد عبدی صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 28 361 سال 1972ء نے وہاں کے علاقہ کے متعدد اکابرین سے ملاقاتیں کیں.تبلیغ کے سلسلہ میں مختلف کیمپوں (Tengeru اور West Meru) کا دورہ بھی کیا.نیز فروخت کتب و اخبارات میں مصروف رہے.Morogoro (موروگورو ).مکرم چوہدری رشید احمد صاحب سرور کلاس کے طالب علموں کو قرآن کریم ناظرہ، تفسیر قرآن اور قاعدہ میسر نا القرآن پڑھانے کے ساتھ ساتھ روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن کریم اور نماز مغرب کے بعد حدیث کا درس بدستور دیتے رہے.بیسیوں معززین تک پیغام حق پہنچایا.جس میں سے بعض خاص طور پر مدعو کئے گئے تھے.آپ نے اپنے شہر کے بعض معززین سے انفرادی طور پر بھی ملاقاتیں کیں.الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب بغرض ملاقات انچارج مبلغین تین دن کے لئے دارالسلام تشریف لائے.یہاں آپ نے سواحیلی زبان میں خطبہ جمعہ بھی دیا.Tabora (بورا).مولا نا عبدالرشید صاحب رازی حسب سابق سر گرم عمل رہے.ریلوے سکول کے پرنسپل کے بچوں کو بھی پڑھاتے رہے.آپ کے علاقہ میں ٹیچرز کا ایک کورس تھا جس میں بہت سے مسلمان ٹیچر بھی شامل تھے.ان میں سے کئی ٹیچر نر سے آپ نے ملاقات کر کے تبادلہ خیال کیا اور لٹریچر بھی دیا.احباب جماعت کو خطبات حضرت خلیفہ اسیح الثالث پڑھ کر سناتے رہے.Bukoba ( بکوبہ ).شیخ یوسف عثمان صاحب کمبا الا یا نے اسلام کی تبلیغ کے سلسلہ میں زبانی اور بذریعہ لٹریچر سو سے زیادہ افراد تک پیغام حق پہنچایا جس میں دکاندار، تجار، یوگنڈا اور دار السلام یونیورسٹی کے طلباء بھی شامل ہیں.Busimbe کا دورہ کیا.مختلف مذاہب کے علماء سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا.ضلع Karagwe کے مکینوں کو کافی تبلیغ کی.ان کے علاوہ ہمارے افریقن مبلغین مکرم معلم محمود صاحب، مکرم معلم داؤدی علی صاحب، مکرم معلم نور الدین صاحب، مکرم معلم یوسف صاحب، مکرم معلم عبداللہ صاحب، مکرم معلم عبداللہ علی صاحب، مکرم معلم جملہ محمد صاحب اور مکرم معلم محمود عبداللہ صاحب تنزانیہ کے مختلف ریجنز میں فریضہ 66 دعوت الی اللہ بجالاتے رہے.64 چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی سابق مبلغ انچارج تنزانیہ مشرقی افریقہ تحریر فرماتے ہیں:.جولائی ۱۹۷۲ ء میں ہمارے اثر و رسوخ کو کم کر کے دکھانے کی خاطر مخالفین سلسلہ نے مدینہ یونیورسٹی کے ایک جرمن نومسلم طالب علم مسٹر خالد نو ٹارڈی کو تنز انسیہ بلایا اور انہیں شہر بہ شہر لے کر گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 362 سال 1972ء جرمن نو مسلم مسٹر خالد نے اپنے میزبان منتظمین سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے ملک میں احمدیہ مسلم مشن بھی موجود ہے اس سوال پر وہ انہیں ٹالتے رہتے اور کہتے رہتے ہاں موجود تو ہے لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں.لہذا ان کا ذکر نہ کریں.معزز مہمان نے انہیں بار بار کہا کہ میں احمدی مبلغین کو ملنا چاہتا ہوں.آخر مجبور ہو کر وہ انہیں ہمارے مشن کے ہیڈ کوارٹر دار السلام تنزانیہ لے آئے.۱۹ جولائی ۱۹۷۲ء کو میں دفتر میں بیٹھا تھا کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے گیٹ سے مسٹر خالد نو ٹار ڈی اور ان کے ساتھ سرگرم مسلمان جماعت کے پنجابی رکن مسٹر ایم ایچ ملک ایم.اے جو وہاں سکول میں ٹیچر ہیں اور افریقن دوست مکرم نصیب صاحب میری طرف آ رہے ہیں.اس لاھی محض کی دلی تمنا تھی کہ اس جرمن نوجوان سے ملاقات ہو جائے چنانچہ خداوند کریم خود اپنے فضل سے انہیں میرے پاس لے آیا الحمد للہ علی ذالک.دفتر میں داخل ہوتے ہی جرمن نو مسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خلفاء کے فوٹو دیوار پر آویزاں دیکھے تو دریافت کیا یہ کون صاحب ہیں.جس پر انہیں آرام سے بٹھا کر بتایا گیا کہ یہ فوٹو کن کن بزرگوں کے ہیں.ان کی مشروبات سے تواضع کی گئی اور گفتگو شروع ہو گئی.موصوف نے دریافت کیا کہ احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں کیا فرق ہے؟ میں نے انہیں محبت سے بتایا کہ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منتظر ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام ہی وہ مسیح موعود ہیں کہ جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے مسیح مہدی اور نبی بنے.اس پر مسئلہ ختم نبوت کے بارہ میں موصوف نے نہایت دیانتداری اور شرافت سے سوال وجواب کا سلسلہ شروع کیا.میں دیکھتا اور دعا کرتا رہا اور وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے.میں نے نوٹ کیا کہ ہماری پیار اور محبت کی گفتگو سے ان کے ساتھی مسٹر ملک بہت زیادہ پریشان تھے.جب میں نے قرآن پاک کی بعض آیات سے امکان اجرائے نبوت امتی اور غیر تشریعی نبوت پر دلائل دیئے اور احادیث نبویہ سے ثابت کیا کہ آنے والا مسیح تو بتصدیق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بہر صورت نبی ہوگا تو بے اختیار اس شریف دلیر باوقار جرمن کے منہ سے نکلا کہ ایسے نبی کے ماننے سے تو ختم نبوت کا کوئی نقصان نہیں ہوتا.یعنی ختم نبوت پر کوئی اثر نہیں پڑتا.اس پر پریشان ہو کر مسٹر ملک نے کہا مسٹر خالد آپ مسٹر احمدی ( یعنی اس عاجز ) کی بات نہیں سمجھ رہے.اس ریمارک پر جرمن نوجوان کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار نمایاں ہو گئے.چند منٹ بعد جب مسٹر ملک نے دیکھا کہ احمدیت کا اثر جرمن نو مسلم پر پڑ رہا ہے تو پھر بے اختیار ان کے منہ سے وہی فقرہ نکل گیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 363 سال 1972ء کہ آپ مسٹر احمدی کی بات سمجھ نہیں رہے.جب اس ناچیز کا سلسلہ کلام نہایت دوستی اور پیار کے ماحول میں جاری رہا تو مسٹر ملک نے تیسری بار کہنے کی جرات کی کہ مسٹر خالد آپ مسٹر احمدی کی بات سمجھ نہیں رہے.اس پر میں نے اللہ تعالیٰ کی شان دیکھی اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا کہ انی مهین من اراد اهانتک چنا نچہ جرمن نو مسلم نے بڑے غصے سے جھلا کر کہا ?Mr.Malik Do you think I am an idiot ( مسٹر ملک آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں ) اس پر مسٹر ملک اور ان کے ساتھی مبہوت ہو گئے اور ہمارے مہمان نے سلسلہ کا لٹریچر طلب کیا جو ہمارے مفت پیش کرنے کے باوجود انہوں نے یہ کہتے ہوئے ہمیں مجبور کر کے قیمتالیا کہ آپ لوگ خدمت اسلام کا بڑا قیمتی کام کر رہے ہیں.جب میں کتب کی قیمت ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہوں تو میں کیوں قیمت ادا نہ کروں؟ یہ کہہ کر وہ تشریف لے گئے.اس طرح سے ہم نے اس روز خدا تعالیٰ کی زبر دست قوتوں کا مظاہرہ دیکھا کہ کس طرح اس مولا نے ہمارے مخالفوں کے ذریعہ سے ایک روح کو حق کی تائید کرنے کی توفیق بخشی اور جماعت احمدیہ کے اعجازی علم کلام کا بول بالا کیا.65 مولا نا عبد الباسط صاحب شاہد چند ماہ تک مصروف عمل رہے اور پھر چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی کو چارج دے کر ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء کو مرکز احمدیت ربوہ میں تشریف لے آئے.ان ایام میں تنزانیہ کے ہیں ریجنز میں سے ۱۸ میں جماعتیں قائم تھیں.سونگوے (Songwe) کا دور افتادہ علاقہ ایسا تھا جہاں کوئی مبلغ اب تک نہیں جاسکا تھا.چوہدری صاحب کے چارج سنبھالنے کے معاً بعد اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کے ایک خوش نصیب نوجوان شعبانی سی کٹیلا کو سب سے پہلے قبول احمدیت کی سعادت عطا فرمائی اور پھر آپ کی کوشش سے گیارہ افراد پر مشتمل نئی جماعت قائم ہو گئی.علاوہ ازیں چار ماہ میں تنزانیہ کے دوسرے مختلف علاقوں میں چھبیس نفوس نے اسلام میں شمولیت اختیار کی.چوہدری عنایت اللہ صاحب اپنی ایک رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں:.مور و گورو (Morogoro) مشن میں مکرم چوہدری رشید احمد صاحب سرور کے ساتھ کچھ عرصہ تک مکرم الحاج شیخ نصیر الدین صاحب ایم اے بھی بڑی مستعدی اور تندہی سے کام کرتے رہے.....تنزانیہ کے قومی تہوار ( سبع سبع ) کے موقعہ پر احمد یہ بک سٹال کے لئے عربی، انگریزی اور سواحیلی
تاریخ احمدیت.جلد 28 364 سال 1972ء زبان میں قطعات تیار کر کے آویزاں کئے جن کی وجہ سے ہمارا بک سٹال بہت ہی مقبول رہا.بک سٹال پر تشریف لانے والے احباب کے سوالات کے جوابات بھی دیتے رہے.چوہدری رشید احمد صاحب سرور نے مشن ہاؤس میں تشریف لانے والے سینکڑوں احباب کو احمدیت اور اسلام کی تعلیم سے روشناس کرایا.سبع سبع یوم آزادی کے موقعہ پر بیس سے زیادہ مقامات کا دورہ کیا.اپنے علاقہ کے کئی علماء شیوخ اور معززین سے ملاقات کر کے انہیں احمدیت اور اسلام کے متعلق مفید معلومات بہم پہنچا ئیں.آپ نے سبع سبع کے چند گنتی کے دنوں میں کئی ہزار افراد کو تبلیغ کی.۸۰۰ پرانے سواحیلی اور سو پرانے انگریزی اخبارات مفت تقسیم کئے.ایک طالب علم کے ساتھ مل کر ۲۰ شلنگ سے زائد رقم کا لٹریچر فروخت کیا.عیسائی صاحبان کی مجالس میں جا کر ان سے الوہیت مسیح ، کفارہ ، بائیبل میں تحریف و تبدل اور دیگر کئی مذہبی موضوعات پر گھنٹوں گفتگو کرتے رہے.گفتگو کے دوران بعض اوقات عیسائی پادریوں کو علانیہا اپنی شکست کا اقرار کرنا پڑا.جس کی وجہ سے عوام نے خوب جوش و خروش سے ہمارا لٹریچر خرید کیا.آپ نے اپنے علاقہ کے کئی سو طلباء تک بھی پیغام احمدیت پہنچایا.چارافراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت پائی.جن میں ایک دوست غیر معمولی سرکاری عہدہ پر فائز ہیں.66 جماعت احمدیہ تنزانیہ کی سالانہ مجلس مشاورت اس سال ۲۵-۲۶ - ۲۷ اگست ۱۹۷۲ء کو دار السلام میں منعقد ہوئی.جس میں ملک بھر سے ۲۷ نمائندگان نے شرکت کی.مشاورت کی تیاری چند روز پہلے شروع کر دی گئی اور بالخصوص مولوی محمد اسماعیل صاحب نے مسجد دار السلام اور اس کے ماحول کی صفائی ،مہمانوں کے استقبال، قیام و طعام، لاؤڈ سپیکر کی تنصیب کے انتظامات میں بھاری مدد کی.نیز تنزانیہ مشن کا میزانیہ آمد و خرچ ۷۲-۱۹۷۱ء تیار کیا جو ٹائپ کر کے نمائندگان کے سامنے پیش کیا گیا.آپ نے مشاورت کے ایام میں ایک بک سٹال بھی کھولا جس میں ۸۰ شلنگ سے زیادہ رقم کی کتب فروخت ہوئیں.انچارج مبلغ چوہدری عنایت اللہ صاحب نے افتتاحی اجلاس میں سیدنا حضرت خلیفۃ ا فة المسيح الثالث کا دعائیہ مراسلہ پڑھ کر سنایا جس سے حاضرین کی زبانیں خدا کی حمد اور دعا سے لبریز ہو گئیں.بعد ازاں چوہدری عنایت اللہ صاحب نے اراکین کو تحریک کی کہ انہیں ان دنوں میں کثرت سے استغفار اور دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہیے.اس کامیاب مشاورت کی مختصر کارروائی کا تذکرہ چوہدری عنایت اللہ صاحب کے قلم سے درج
تاریخ احمدیت.جلد 28 ذیل کیا جاتا ہے.365 سال 1972ء پروگرام کے مطابق نمائندگان شوری نے نہایت ہی آزادانہ رنگ میں ایجنڈا پر غور و تدبر کرنے کے بعد اس پر بحث و جرح کی مختلف جماعتی امور کی ترقی پر غور و خوض کرنے کے بعد کثرتِ رائے سے جو فیصلہ جات ہوئے ان کا کسی قدر خلاصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.اطفال اور خدام الاحمدیہ کی تعلیمی ترقی کے سلسلہ میں خاکسار کی زیر ہدایت ایک کمیٹی نے چار کورس اور ان کا نصاب مرتب کیا.اس کورس کی تدریس کا انتظام مقامی جماعتوں میں ہی ہو گا مگر اس کا امتحان ہیڈ کوارٹر میں لیا جائے گا.اس امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے طلباء تیسر اچھ ماہ کا کورس ہیڈ کوارٹرز میں ہی پڑھیں گے.پھر یہاں سے کامیاب ہونے والے طلباء کو چوتھے اور آخری کورس کی پڑھائی کے لئے مختلف مبلغین کرام کے پاس بھیجا جائے گا جہاں انہیں پڑھائی کے ساتھ ساتھ فروخت لٹریچر تبلیغی مشق اور جماعت کے ضروری امور سے واقفیت کرائی جائے گی.نیز ان کی اخلاقی ، تربیتی اور دینی اصلاح بھی کی جائے گی.پھر یہاں سے کامیاب ہونے والے طلباء ربوہ میں اعلیٰ دینی تعلیم کے حصول کی سفارش کے مستحق قرار دیئے جائیں گے وغیرہ وغیرہ.سالا نہ مجلس مشاورت میں مختلف شعراء اور اہل علم حضرات نے بھی حصہ لے کر اس رونق کو دوبالا کیا.مقررین حضرات نے زیادہ تر دعا اور اس کی اہمیت، اسلام کے محاسن، خلافت کی اہمیت و برکات ، خلافت ثالثہ کی تحریکات اور خلافت سے ہمیشہ وابستہ رہنے کی تلقین وغیرہ کے موضوعات پر تقاریر کیں.جنہیں حاضرین نے بہت ہی پسند کیا اور بہت ہی توجہ اور انہماک سے نقار پر کوسنا.“ مشاورت ہی کے دنوں میں چوہدری عنایت اللہ صاحب نے مسلم کونسل آف تنزانیہ کے علماء سے روابط بڑھانے اور صحافیوں کو احمدیت سے متعارف کرانے کے لئے دو وفد بھیجے جو افریقن مبلغین اور نمائندگان شوری پر مشتمل تھے.علماء سے ملاقات کیلئے جانے والے وفد کی قیادت معلم عبد و عمران صاحب نے کی اور صحافیوں سے جو وفد ملا اس کی نگرانی کے فرائض شیخ یوسف عثمان صاحب کمبا الایا (Kambalaya) نے انجام دیئے.دونوں وفد اپنے مقصد میں کامیاب رہے.67 تنزانیہ کے مبلغین کرام کا اجتماع مجلس مشاورت کے اختتام کے اگلے روز مورخہ ۲۸ اگست کو مسجد دار السلام میں ہی تنزانیہ کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 366 سال 1972ء گیارہ مبلغین کرام کا اجتماع ہوا جو تنزانیہ مشن کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا اجتماع تھا.یہ مبلغین نہایت ذوق و شوق سے اپنی جیب سے کرایہ خرچ کر کے شامل ہوئے تھے.اس اجتماع کی غرض یہ تھی کہ مشاورت کے فیصلہ جات پر عملدرآمد کن اصولی ذرائع سے کماحقہ ممکن اور آسان ہے اور تبلیغی میدان میں اپنی مساعی کو تیز تر کرنے تبلیغی مشکلات کو دور کرنے اور ہر مشن کی آمد بڑھانے کے ذرائع کیا ہیں.ان سب اہم امور پر جملہ مبلغین نے اپنی آراء انچارج مبلغ صاحب کی خدمت میں پیش کیں.اس سلسلہ میں متعدد فیصلے کئے گئے مثلاً تمام مبلغ ہر فرد کو مالی جہاد میں شامل کریں.نئی وصیتیں کرائیں اور سبع سبع کے قومی تہوار پر دارالسلام کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی بک سٹال لگائے جائیں.تنزانیہ کے احمدی بچوں اور نوجوانوں کے لئے مبلغین پر مشتمل ایک کمیٹی نے چار کورسوں کا نصاب مرتب کیا.اس نصاب کی تفصیل چوہدری عنایت اللہ صاحب نے الفضل ۴ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۳- ۴ پر شائع کرا دی تھی.68 اس سال رمضان المبارک (۱/۱۰ اکتوبر تا ۸ نومبر ۱۹۷۲ء) کے دوران تنزانیہ کے تمام مبلغین نے تنزانیہ کے احمدیوں کی علمی، اخلاقی اور روحانی تربیت کا خصوصی اہتمام کیا.علاوہ ازیں دعوت الی اللہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی.چوہدری عنایت اللہ صاحب نے کئی سرکاری و غیر سرکاری افسران سے ملاقاتیں کر کے ان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.ان میں کرنل امین اللہ صاحب، کیپٹن ایوب صاحب، ڈاکٹر ادریس صاحب، ڈاکٹر شفیق صاحب، بنک مینیجر مسٹر سندھو صاحب،افواج تنزانیہ کے کمانڈرانچیف جناب سرآ کیکیا صاحب اور دو وکیل مسٹر شکلا صاحب اور مسٹر رائے تھا تھا صاحب شامل تھے.مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر بدوملہوی نے موروگورو ( Moro go ro) اور میکومی (Mikumi) کا دورہ کیا.صرف دورہ کے دوران آپ نے ۳۰ را فراد تک زبانی پیغام حق پہنچایا.ایک سکھ دوست سے آپ کی گفتگو بہت ہی مؤثر رہی.چنانچہ گفتگو کے دوران ہی انہوں نے مبلغ ۲۰۰ شلنگ تبلیغ دین کی خاطر دے دیئے.مورو گورو ( Morogoro) میں شیخ محمد عبدی صاحب مشن ہاؤس میں آنے والے احباب کے علاوہ کئی دوسرے احباب سے ان کی دکانوں اور قیامگاہوں پر ملاقات کر کے انہیں تبلیغ کرتے رہے.آپ نے ایک دفعہ حکمران سیاسی پارٹی (ٹانو Tanu) کے ایک تعلیمی سیمینار میں شرکت کی.جس میں آپ کو کئی سرکاری و غیر سرکاری افسران سے ملاقات کا موقعہ ملا.آپ نے زبانی تبلیغ کے علاوہ کئی آفیسر
تاریخ احمدیت.جلد 28 367 سال 1972ء صاحبان کی خدمت میں لٹریچر بھی پیش کیا.جسے انہوں نے دلی شکریہ کے ساتھ قبول کیا.دینی کلاس کے طلباء نے پروگرام کے مطابق اپنی پڑھائی کو جاری رکھا اور آپ کی زیر نگرانی طلباء ہر ہفتے تبلیغی مشن اور فروخت لٹریچر کی خاطر باہر بھی جاتے رہے.ایک دفعہ ہسپتال میں جا کر بیماریاں کی تیمارداری کی.ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں جا کر وہاں کے آفیسر صاحبان کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا.Kimamba کا سفر اختیار کر کے صرف ایک دن میں 94.30 شلنگ کی کتب فروخت کیں.ٹانگا(Tanga) میں شیخ ابو طالب عبدی ساندی صاحب اپنے مفوّضہ فرائض کی انجام دہی میں مصروف رہے.آپ نے اپنے علاقہ کے کئی پولیس اور حکمران سیاسی پارٹی (ٹانو ) کے کئی آفیسر صاحبان سے ملاقاتیں کر کے انہیں لٹریچر دیا.کچھ عرصہ آپ کو شیخ یوسف عثمان صاحب کمبا الا یا کے ساتھ کام کرنے کا بھی موقعہ ملا.(اس لئے کہ شیخ یوسف عثمان صاحب اپنی تبدیلی کی وجہ سے کبویہ سے ٹانگا آگئے تھے چنانچہ کئی دفعہ آپ کو غیر از جماعت مسلمان دوستوں کی مجالس میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں پر اسلام اور احمدیت کے بارہ میں کافی دیر تک دلچسپ گفتگو ہوتی رہی.ایک دفعہ ہو میرا (Humera) کا دورہ کر کے وہاں کے لوگوں کو تبلیغ کی.معلم عبد اللہ علی صاحب نے حکمران سیاسی پارٹی (ٹانو ) کے مختلف افسروں سے ملاقاتیں کر کے ان سے اسلام اور احمدیت کے بارہ میں تبادلۂ خیالات کیا.کئی سنی علماء سے ملنے کا اتفاق ہوا جن سے مذہبی مسائل پر گفتگو خاصی حد تک دلچسپ رہی.ایک دفعہ ایک تعلیمی سیمینار میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا.اپنے علاقہ کے ریجنل ایجو کیشن آفیسر صاحب سے بھی ملاقات کی.ایک دفعہ آپ کو مٹورا (Mtwara) کے بازار میں جا کر تبلیغ کرنے کا بھی موقعہ ملا.وہاں جب آپ نے اپنا لٹریچر غیر از جماعت حضرات کے سامنے پیش کیا تو بہت سارے لوگ آپ کے ارد گرد جمع ہو گئے.چنانچہ آپ نے ان کو خوب تبلیغ کی اور ان کی طرف سے ہونے والے کئی سوالات کے جوابات بھی دیئے.مختلف اوقات میں آپ سنی حضرات کی مساجد میں تشریف لے جا کر ان لوگوں سے وفات مسیح علیہ السلام ، ظہور مسیح علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوعات پر گفتگو کرتے رہے.بوانا میں حسن عثمانی سعیدی صاحب نے رمضان المبارک کی مصروفیات کے باوجود ماہوٹا (Mahuta)، نامیکو پا، یہا مبو کے، ماسی، لالنڈی کا سفر اختیار کیا.دورہ کے دوران آپ کو کئی پادریوں اور سنی علماء سے ملنے کا اتفاق ہوا.چنانچہ آپ حسب موقعہ ان سے دینی مسائل پر گفتگو کر کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 368 سال 1972ء ان کی خدمت میں مناسب حال لٹریچر بھی پیش کرتے رہے.جہاں بھی آپ کسی مذہب کے بڑے آدمی سے بات کرتے وہیں آپ کے اردگرد بہت سارے لوگ جمع ہو جاتے جس کی وجہ سے تبلیغ کا موقعہ مل جاتا اور لوگ بھی آپ کی باتوں کو بڑی توجہ اور دلجمعی سے سنتے.کئی احباب نے آپ سے نیوالا (Newala) میں دوبارہ ملاقات کا بھی وعدہ کیا.ان کے علاوہ یہاں مقامی طور پر تربیت مقدس فریضہ کی انجام دہی میں مصروف رہے.69 جاپان معلمین کرام اپنے اپنے علاقہ میں تبلیغ حق کے میجر عبدالحمید صاحب انچارج احمد یہ مشن جاپان نے امسال جاپانیوں میں پیغام حق پہنچانے کا دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع کر دیا.یورپ اور امریکہ کے سیاحوں سے ملاقاتیں کر کے انہیں لٹریچر پیش کیا.امریکہ کے اخبار ” بوسٹن ہیرلڈ نے (جون ۱۹۰۷ ء ) میں ڈاکٹر ڈوئی کی ہلاکت پر ایک ایمان افروز نوٹ شائع کیا تھا یہ تاریخی نوٹ آپ نے فوٹواسٹیٹ کی صورت میں تقسیم کیا جو عوام کی گہری دلچسپی کا موجب بنا.ایک یونیورسٹی کے تین عیسائی طلبہ کو آپ نے بائیبل سے عیسائیت کے مروجہ غلط اعتقادات اور اسلام کی صداقت سے متعلق معلومات بہم پہنچا ئیں.تینوں نے آپ کے پیش کردہ حوالہ جات نہایت دلچسپی مگر حیرت کے ساتھ نوٹ کئے.ان نوجوانوں میں سے ایک Baptist،ایک Episcopal Church سے وابستہ اور ایک کسی اور گروپ کا نمائندہ تھا.یہ سب عیسائیوں کی ایک عالمی کانفرنس کے سلسلے میں اسلام سے متعارف ہونا چاہتے تھے.جون ۱۹۷۲ء میں آپ کو عزت مآب سفیر پاکستان نے دو دفعہ اپنے ہاں مدعو کیا جہاں آپ کو سعودی عرب کے کونسلر صاحب سے بھی تبادلہ خیالات کا موقع ملا.آپ نے احمد یہ جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں اور مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت کا تذکرہ کیا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے.بعد ازاں ایک جاپانی اخبار کے ایڈیٹر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے اسلام پر متعد داعتراضات کئے.جن کا مؤثر جواب دینے کی توفیق آپ کو ملی.جاپان میں محترم سفیر پاکستان نے ” پاکستان ایسوسی ایشن قائم کر رکھی تھی جس کے آپ ممبر تھے.اس کے اجلاسوں میں شامل ہوتے تھے.70 جاپان ٹائمز (۱/۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء) میں میجر عبدالحمید صاحب کا ایک تبلیغی خط چھپا جس کا ترجمہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 حسب ذیل ہے.369 سال 1972ء میں تین سال سے زیادہ عرصہ سے اس ملک میں اسلام کی ایک عالمگیر تبلیغی تنظیم ” احمد یہ موومنٹ ان اسلام کی جانب سے مبلغ کی حیثیت سے کام کر رہا ہوں.اس تنظیم کا ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان ہے.مجھے یہاں تبلیغ کرتے ہوئے اکثر ایسے عیسائیوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیغام کو جاپانیوں اور غیر جاپانیوں تک بڑے جوش و خروش سے پہنچاتے ہیں میں ان کے جوش کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں میرے دل میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ یہ لوگ نیک نیتی سے تبلیغ کر رہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے ” کیا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا پیغام تمام بنی نوع انسان کے لئے تھا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے ”نہیں“.یہ پیغام سب انسانوں کے لئے نہیں تھا بلکہ صرف ہے یہودیوں تک محدود تھا.حضرت عیسی علیہ السلام فرماتے ہیں ” میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.( متی باب ۱۵ آیت ۲۴) ہم بائیبل میں یہ بھی پڑھتے ہیں ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور ان کو حکم دے کر کہا غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا (متی باب ۱۰ آیت ۵-۶) ان واضح ہدایات کے ہوتے ہوئے عیسائیت کی تبلیغ غیر اسرائیلوں میں کرنا خواہ وہ ایشیا کے رہنے والے ہوں یا یورپ کے رہنے والے ہوں یا امریکہ کے رہنے والے ہوں یا دوسری قو میں ہوں، وقت ، رو پیدا اور طاقت کا ضیاع نہیں تو کیا ہے؟ یہ درست ہے کہ بائبل میں کچھ متضاد آیتیں بھی ملتی ہیں مثلاً ا.اس نے ان سے کہا کہ تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو“ ( مرقس باب ۱۶ آیت ۱۵) ۲ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو“.( متی باب ۲۸ آیت ۱۹) اگر ان متضاد باتوں کو صحیح تسلیم کیا جائے تو تمام بائبل کا مصدقہ کتاب ہونا مشکوک ہو جاتا ہے ماسوا اس کے کہ عیسائی علماء تسلیم کرتے ہیں کہ مرقس باب نمبر ۱۶ کی آیات ۹ تا ۲۰ مصدقہ آیتیں نہیں ہیں.ان آیات کو مرقس نے نہیں لکھا تھا (انٹر پر یٹر ز بائبل جلدے صفحہ ۹۱۵ تا۹۱۷)
تاریخ احمدیت.جلد 28 370 سال 1972ء کتاب مقدس نے جو ریوائز ڈسٹینڈرڈ ورژن (Revised Standard Version) کے طور پر شائع ہوئی ہے مرقس متی کی مندرجہ بالا آیات کو متن سے ہی نکال دیا ہے.جہاں تک متی باب ۲۸ آیت ۱۹ کا تعلق ہے یہ آیت بھی مسلمہ طور پر بعد میں ایزاد کی گئی ( ملاحظہ ہوفلاسفی آف دی چرچ فادرز جلد نمبر ۱ مصنفہ ہیری آسٹرین و فسن صفحه ۱۴۳ ( The Philosophy of the Church 143.Fathers Vol.1 By Harry Austryn Wolfson P) اگر کوئی عیسائی عالم میرے خط میں بیان کردہ اعتراض کا تسلی بخش جواب تحریر فرمادے تو ممنون ہوں گا“.71 اس خط کے جواب میں متعدد خطوط موصول ہوئے جن میں سے بعض کا خلاصہ اردو میں درج ذیل کیا جاتا ہے.ا.جوڈی ریڈ باف (مسزرے (Judy Radebaugh(Mrs.Ray میں بائبل کی عالمہ نہیں ہوں میں جاپان میں بغیر ٹائپ رائٹر کے ہوں.میں امید کرتی ہوں کہ آپ میرے خط کو پڑھ سکیں گے میں حتی المقدور آپ کے سوال کا جواب دوں گی.آپ کا سوال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا پیغام تمام دنیا کے لئے نہیں ہے مگر میں نیک نیتی سے یقین رکھتی ہوں کہ یہ پیغام ہر فرد بشر کے لئے ہے.میں یہ بھی یقین رکھتی ہوں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آپ سے محبت کرتے ہیں اور آپ کا بھی انہیں خیال ہے اگر آپ کا میری بات پر اعتبار نہیں تو آپ ان سے پوچھ دیکھئے.یہ خط لکھتے وقت میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ بائبل کے حوالہ جات تحریر کر دوں مگر ان میں مذکور آیتیں نہ تحریر کروں.آپ نئے عہد نامہ میں سے اعمال کے تمام ابواب کا مطالعہ کریں بالخصوص باب ۹ تا ۱۳ اور سینٹ پال کی سوانح کا مطالعہ کریں.میں سالویشن آرمی (Salvation Army) کے فرقہ سے تعلق رکھتی ہوں.میں بخوشی کسی دن آپ کے ساتھ متعلقہ امور کے بارے میں گفتگو کروں گی.میں مبلغہ نہیں ہوں.آہ ! صرف خانہ داری والی عورت ہوں.۲.پروفیسر روئی جی ارومی.(Professor Ruiji Izumi) حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو دو طرح سے بھیجا تھا.ایک وہ وقت تھا جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی میں انہیں بھیجا گیا تھا کہ وہ اعلان کریں کہ خدا کی بادشاہت قریب ہے دوسرا وہ وقت تھا جبکہ حضرت عیسی علیہ السلام کا کام زمین پر ختم ہو چکا تھا (یعنی اسرائیل کی زمین
تاریخ احمدیت.جلد 28 371 سال 1972ء میں براہ راست پیغام پہنچانا ) تب حضرت عیسی علیہ السلام اپنے حواریوں کو بھیجتے ہیں (یونانی زبان میں جن کو بھیجا جاتا ہے انہیں اپوستو لائے Opostoloi کہتے ہیں ) کہ وہ دنیا کی تمام بادشاہتوں میں جائیں اور تمام قبیلوں میں جائیں اور تمام قوموں میں جائیں اور جا کر حضرت عیسی علیہ السلام کا پیغام دیں کہ یہودیوں کی شریعت اور نبیوں کی شریعت کامل ہو گئی ہے.۳.چارلس جنٹری نا گویا جاپان (Charles Gentry) میں نے مسٹر عبدالحمید صاحب ( احمد یہ موومنٹ ان اسلام کے مبلغ ) کا خط جو جاپان ٹائمز کے ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء کے پرچہ میں شائع ہوا تھا بڑی دلچسپی سے پڑھا.جاپانی عیسائیوں کے جوش اور 66 اخلاص کو سراہنے پر آپ کی تحریر قابل ستائش ہے.۴ فلانین والش (Flanian Walsh) مسٹر عبدالحمید کا ۱۵ اکتوبر کا خط پڑھنے کا اتفاق ہوا.میں مذہبی عالم تو نہیں ہوں مگر ایک دو باتیں باہمی مفاہمت کے طور پر عرض کرتا ہوں.میں یہ بات ہرگز ماننے کے لئے تیار نہیں کہ مرقس باب ۱۶ کی آیات ۹ تا ۲۰ غیر مصدقہ ہیں یا یہ کہ مرقس نے ان آیات کو خود نہیں لکھا.میں یہ تو مان سکتا ہوں کہ مرقس نے ان آیات کو خود نہیں لکھا مگر یہ نہیں مان سکتا کہ یہ آیات غیر مصدقہ ہیں.آیات ۹ تا ۲۰ اس بات کا ثبوت ضرور بہم پہنچاتی ہیں کہ سینٹ مرقس کی بجائے کسی اور شخص نے انہیں لکھا تھا مگر چرچ نے تو کبھی بھی یہ نہیں سمجھا کہ یہ غیر قانونی یا غیر الہامی یا غیر مصدقہ ہیں.نہ ہی میں ان کے (مسٹر عبدالحمید کے ) اس بیان کو قبول کر سکتا ہوں کہ متی باب ۲۸ آیت ۱۹ کے بعد میں ایزاد کئے جانے پر سب کا اتفاق ہے ہاں بعض علماء اس امر کو سچا سمجھتے ہیں لیکن بہت سے عالموں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ الفاظ تمام مسودات میں اور تمام بائبلوں میں موجود ہیں.۵.جی ہومر میملن (G Homer Hamlin) مبلغ ڈیوائن پلان فاؤنڈیشن ٹوکیو Divine Plan Foundation Tokyo) نے لکھا کہ ” حضرت عیسی علیہ السلام نے ایسا ہی فرمایا تھا جیسا کہ آپ نے بائبل کا حوالہ دے کر فرمایا ہے کہ آپ اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے تشریف لائے تھے مگر یوحنا باب نمبر 1 آیت نمبر 1 میں لکھا ہے کہ وہ اپنوں کی جانب آیا مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا “.72 یہ خط و کتابت ظاہر کرتی ہے کہ عہد نامہ جدید کس قدر متضاد تعلیمات کا حامل ہے اور عیسائیت
تاریخ احمدیت.جلد 28 372 سال 1972ء کو عالمگیر مذہب منوانے کے دلائل کس قدر بودے ہیں.سیرالیون جماعت احمد یہ سیرالیون کی مرکزی مسجد کی بنیاد سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۰ مئی ۱۹۷۰ء کو اپنے دست مبارک سے ”بو میں رکھی تھی.وسط جولائی ۱۹۷۱ء میں اس کی تعمیر کا آغاز ہوا اور فروری ۱۹۷۲ء میں یہ اپنی تعمیر کے مختلف مراحل طے کرتے ہوئے چھتوں تک پہنچی تو مسٹر بائی ٹورے (Mr.Bai Turay) نے دو ہفتہ کی شبانہ روز محنت و توجہ سے اس کی چھتوں پر لکڑی کے تختے لگوا کر ان کو لوہے سے باندھ دیا.جس کے بعد سیرالیون کے مخلص احمدیوں نے اس پر کنٹل ڈالنے کے لئے ۵ - ۶ مارچ ۱۹۷۲ء کو پورے جوش و خروش سے وقار عمل کیا جس کی تفصیل الحاج سردار مولا نا مقبول احمد صاحب ذبیح مربی سلسلہ مقیم بو کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.وا فٹ بلند اور ۵۲×۴۵ فٹ طول عرض والی اس عظیم مسجد پر ایک دن میں پانچ انچ موٹا کنکریٹ ڈالنے کے لئے مضبوط اور بلند ہمت لوگوں کی کثیر تعداد میں ضرورت تھی تا کہ اس آخری مرحلہ کو آسانی سے طے کیا جا سکے.محترم امیر صاحب ( مکرم مولوی محمد صدیق صاحب شاہد امیر جماعتہائے احمد یہ سیرالیون) پہلے سے ہی یہ خیال ظاہر کر چکے تھے کہ علاوہ ” بو جماعت کے لوگوں کے اردگرد کی نزد یکی جماعتوں اور پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کے طلباء کو بھی کہا جائے کہ وہ اس مبارک کام میں شمولیت اختیار کریں.کام شروع ہونے سے دو دن قبل مکرم پا سعید و بنگو را صاحب نے طلباء سیکنڈری سکول کو مؤثر رنگ میں اس کام کی اہمیت بتائی جس کے نتیجہ میں یکصد طلباء نے برضاء ورغبت اور بصد شوق اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.نیز پرائمری سکول کی سینئر کلاسوں کے طلباء اور طالبات نے بھی نہایت خندہ پیشانی سے اس کام میں حصہ لیا.اڑھائی صد سے زائد کے اجتماع کی موجودگی میں مکرم امیر صاحب نے صبح چھ بجے دعا کے ساتھ وقار عمل کا افتتاح کروایا.اس کے بعد تمام احباب جماعت اور ہر دو سکولوں کے طلباء اور طالبات کام میں ہمہ تن مشغول ہو گئے.سکول کی طالبات اور جماعت کی بعض مستورات کا کام پانی مہیا کرنا تھا انہوں نے ہمت اور شوق سے آخر تک پانی میں کمی واقع نہ ہونے دی.جذ بہ وشوق اور ہمت وعزم سے پر یہ مثالی وقار عمل
تاریخ احمدیت.جلد 28 373 سال 1972ء مسلسل تین بجے رات یعنی پورے اکیس گھنٹے تک جاری رہا.دوسرے دن مورخہ 4 مارچ کو صبح چھ بجے تمام احباب پھر اسی جذ بہ وشوق کے ساتھ کام کے لئے تیار ہو کر پہنچ گئے اور دوبارہ پہلے سے جوش کے ساتھ کام شروع ہو گیا اور ٹھیک دو بجے دو پہر کو پوری چھت پر کنکریٹ ڈال کر خدا تعالیٰ کے فضل سے اس مہم کو سر کر لیا تھا.جماعت کے بعض بزرگ یعنی الحاج علی روجرز، پاسعید و بنگورا با وجود پیرانہ سالی کےسارا وقت وقارعمل پر موجودرہ کر کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے.اس عظیم الشان وقار عمل کے اختتام پر مکرم امیر صاحب نے تمام احباب کی اس بے لوث خدمت کا خصوصی رنگ میں شکر یہ ادا کیا اور کام کے کامیابی کے ساتھ ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ کی حمد کی.بعد ازاں تمام حاضرین سمیت آپ نے لمبی دعا کروائی.“ پیغام حضرت امام حمام بر موقع تنیسویں سالانہ کانفرنس 73 اس سال ۱۱.۱۲ - ۱۳ فروری ۱۹۷۲ء کو بو مقام پر جماعت احمد یہ سیرالیون کی تئیسویں سالانہ کانفرنس اپنی شاندار روایات کے ساتھ منعقد ہوئی جس کے افتتاحی اجلاس میں مولوی محمد صدیق صاحب شاہد امیر جماعت احمد یہ سیرالیون نے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا حسب ذیل بصیرت افروز پیغام پڑھ کر سنایا.برادران عزیز! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ.مجھے یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی کہ آپ تئیسویں سالانہ کا نفرنس کا انعقاد کر رہے ہیں.میری دعا ہے کہ خداوند کریم اس اجتماع کو آپ سب کے لئے روحانی ارتقاء کا باعث بنائے.آمین اسلام و احمدیت بفضلہ تعالیٰ ہر مقام اور ہر میدان میں راہ ترقی پر گامزن ہیں.تغیر و انقلاب کی ہوائیں ہمارے حق میں چل رہی ہیں.اسلام کے آخری اور دائگی غلبہ کی مسحور کن مہک اب محسوس کی جاسکتی ہے.یہ شیریں انتثماراب دامن مراد میں گرا چاہتے ہیں.آپ کا فرض ہے کہ کمریں کس لیں اور اسلام واحمدیت کی خاطرتن من دھن قربان کرنے کے لئے اپنے تئیں تیار کر لیں.یادر کھئے ایثار اور قربانی کامیابی کی کلید ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 28 374 سال 1972ء ۱۹۷۰ ء میں میں نے اپنے دورہ سیرالیون کے دوران وعدہ کیا تھا کہ تین سال کی مدت میں آپ کے ملک میں چار طبی مراکز کیلئے عملہ اور سہولتیں مہیا کروں گا.مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں پہلے ہی سال میں اس وعدے کے پچھتر فیصد حصے کو عملی جامہ پہنا چکا ہوں.میرا ارادہ ہے کہ آپ کے ملک میں مزید ثانوی سکول جاری کروں اور تعلیم عام کر کے جہالت اور تعصب کی تاریکی کو معدوم کیا جائے تا تفہیم و ادراک کی شمعیں آپ کے قلوب کو منور کر سکیں.مجھے خوشی ہے روکو پر کے مقام پر سیکنڈری سکول کا اجراءایک خوشکن آغاز کا غماز ہے.الحمد للہ اس عظیم الشان مقصد میں کامیابی کے لئے آپ کے سر گرم تعاون کی ضرورت ہے.میری آرزو ہے کہ آپ محنت اور ایثار کی روح سے سرشار ہو کر ہمیشہ اپنے تئیں پر چم خلافت کے نیچے متحد رکھیں، فتح ہمارا مقدر ہے پس اسلام اور احمدیت کی بے لوث خدمت کے لئے سر بکف ہو کر میدان عمل میں آ جانا چاہیے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ وناصر اور معین و مددگار ہو.والسلام (مرزا ناصر احمد ) خلیفہ اسیح الثالث 74 حضور انور کا یہ پیغام سامعین کے لئے از دیادِ ایمان و عرفان اور بے حد مسرت کا موجب ہوا.اس پیغام کے بعد الحاج ایم کے بونگے جنرل سیکرٹری نے احمد یہ مشن سیرالیون کے سال گذشتہ کی مفصل رپورٹ پیش کی.اس موقعہ پر ریذیڈنٹ منسٹر گو بیولا مین صاحب، نظام الدین مہمان صاحب ،منصور احمد بشیر صاحب اور چوہدری امتیاز احمد صاحب نے مختلف عناوین پر تقاریر کیں.شعبہ اطلاعات حکومت سیرالیون کے تعاون سے حاضرین کو دو دستاویزی فلمیں بھی دکھائی گئیں.پہلی فلم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ کے سفر سیرالیون (۱۹۶۵ء) سے متعلق تھی.دوسری فلم سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے دورۂ سیرالیون (۱۹۷۰ء) پر مشتمل تھی.ان فلموں کو دیکھنے کے لئے احمدی مردوزن اور بچوں کے علاوہ ہزار ہا غیر از جماعت اصحاب، خواتین اور
تاریخ احمدیت.جلد 28 375 سال 1972ء بچے بھی موجود تھے اور سارا وسیع میدان شائقین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.کانفرنس کے موقعہ پر سیرالیون کی مشہور سیاسی شخصیت آنریبل پرنس ولیمز نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ سے اپنے روابط اور جماعت احمدیہ کی خصوصیات کا ذکر کیا.حضرت امام جماعت احمدیہ سے اپنی ملاقات کے تاثرات بیان کرتے ہوئے جناب ولیمز نے حاضرین کو بتایا کہ ” مجھے ۱۹۷۰ء میں حضور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی میں آن گنت عظیم شخصیات سے ملنے کے مواقع ملے ہیں لیکن حضرت امام جماعت احمد یہ ایسا روحانیت اور جلال و جمال کی لطافت کا آئینہ دار چہرہ میں نے آج تک نہیں دیکھا.اس عظیم روحانی شخصیت سے ملاقات کے بعد ایک ایسا احساس ہوا جس کا دل آویز نقش زندگی بھر محو نہ ہو سکے گا.75 سیرالیون کے مشہور مسلم رہنما آنریبل مصطفیٰ السنوسی نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ حق و صداقت کی تائید میر امشن ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں تمام مصلحتوں اور تعصبات سے بالا تر ہوکر تحریک احمدیت کا مداح اور معترف ہوں.احمد یہ سکولوں کی تعریف کرتے ہوئے آپ نے والدین سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو حمد یہ سکولوں میں حصول تعلیم کے لئے بھیجیں تا ئی نسل تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار اور علوم سے بہرہ ور ہوتی رہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دورہ افریقہ ۱۹۷۰ ء کا ذکر کرتے ہوئے جناب مصطفیٰ نے بتایا کہ حضرت صاحب کے دورے سے مغربی افریقہ میں اسلام کا وقار بلند ہوا ہے.عیسائیوں کے بڑے بڑے لیڈر یہاں آتے رہے ہیں.مسلمانوں کے عظیم راہنما کی تشریف آوری سے اس ملک میں مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور حضور کے ولولہ انگیز پیغامات سے نوجوانوں میں نئی امنگیں بیدار ہوئی ہیں.76 جلسہ سالانہ کے اختتامی خطاب میں مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے سامعین سے اپیل کی کہ وہ جلسہ کی تقاریر سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اندر پاکیزہ روحانی انقلاب پیدا کریں.انہوں نے ”بو“ کی زیر تعمیر مسجد کے عظیم منصوبے کی شایان شان تکمیل کے لئے قربانیوں کی طرف بھی توجہ دلائی.77 ایک ریسرچ سکالر مسٹر بے ساز (جو اُن دنوں فورا بے کالج یونیورسٹی آف سیرالیون میں تحقیق کا کام کر رہے تھے ) جلسہ کی کارروائی سننے کے لئے حاضر ہوئے.آپ نے جلسہ کی تقریباً تمام کارروائی ٹیپ کی اور ضروری نوٹ لئے.جلسہ کی کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی لیکن ساتھ ساتھ مینڈے اور منی زبانوں میں ترجمہ نشر کیا جاتارہا.78
تاریخ احمدیت.جلد 28 376 سال 1972ء اس جلسہ سالانہ کے بعد مولوی محمد صدیق صاحب اور مولوی نظام الدین صاحب مہمان مبلغ کبالہ نے ۶ سے ۱۸ مارچ ۱۹۷۲ء میں مکینی سے لے کر رو کانتیا (Rokantia) تک ایک کامیاب تبلیغی دورہ کیا جس کے دوران ۹۱ نفوس حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.چنانچہ مولوی نظام الدین صاحب مہمان ایک رپورٹ میں رقمطراز ہیں کہ خاکسار نے کبالہ سے روانہ ہوکر مورخہ ۶ مارچ ۱۹۷۲ء سے مکینی سے اس تبلیغی دورہ کی ابتدا کی.دو دن اس شہر میں اکیلے ہی انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ پیغام حق پہنچانے کے بعد ایک گاؤں مدینہ پہنچ کر مقامی مبلغ کو بھی شامل کر لیا.اس گاؤں میں سات گھر احمدیت کے حلقہ میں پہلے سے آچکے تھے.ایک روز قیام کے دوران اس گاؤں میں پیغام احمدیت پہنچایا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ۱۶ نئے گھروں کے مکینوں نے احمدیت کو قبول کیا.الحمد لل...جمعه مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۷۲ ء اس گاؤں سے پیدل قریباً پانچ میل دور ایک دوسرے بڑے گاؤں میں جہاں عیسائیوں کا ایک پرائمری سکول بھی ہے مدینہ کے تین چار دوستوں کو ہمراہ لے کر گیا جہاں امام الصلوۃ کے علاوہ بعض دوسرے ذی اثر لوگوں سے ملاقات کی اور اپنے آنے کی غرض بیان کی جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے جمعہ کی نماز کے بعد کا وقت مقرر کیا.اس قصبہ میں ایک خاصی بڑی مسجد ہے جہاں قرب و جوار کے لوگ جمعہ ادا کرنے آتے ہیں.اس قصبہ میں کوئی احمدی نہ تھا.خاکسارا اپنے احمدی دوستوں کے ہمراہ نماز کے وقت سے پہلے مسجد میں پہنچا.جمعہ کا وقت ہونے پر امام الصلوۃ اور دو تین شرفاء نے خاکسار کو نماز جمعہ پڑھانے کو کہا.نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد مسجد میں قریباً دو گھنٹہ تک پیغام احمدیت پہنچایا گیا.چند ایک سوالات کے جواب دیئے لیکن کوئی احمدیت میں شامل ہونے کے لئے آگے نہ بڑھا.نماز عصر، مغرب اور عشاء بھی خاکسار نے پڑھائی اور ہر نماز کے بعد قریباً آدھ پون گھنٹہ سوالات کے جوابات دیئے گئے.نماز عشاء کے بعد کورٹ باری میں رات گئے تک پھر پیغام احمدیت پہنچایا گیا اور پھر سوالات کا موقع دیا گیا.خود امام نے اٹھ کر کہا میں صرف شکریہ ادا کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں سوال کوئی نہیں ہے.جو کچھ امام مہدی کی آمد وغیرہ کے بارے میں کہا گیا ہے درست ہے.اگلے روز صبح کی نماز کے بعد چند منٹ درس دیا اور اس کے بعد کچھ لوگ جائے رہائش پر ساتھ آئے جہاں آ کر خدا تعالیٰ کے فضل سے دس افراد نے فارم بیعت پر کر کے احمدیت میں داخل ہونے کا اعلان کیا.ان میں چار ایسے دوست ہیں جو مقرر ( غالباً اصل لفظ مخیر ہے ) اور صاحب اثر و رسوخ ہیں.مدینہ کے دوستوں نے بتایا کہ ان دوستوں کا شامل ہونا بہت خوشی کی بات ہے.اس جگہ ایک
تاریخ احمدیت.جلد 28 377 سال 1972ء نئی جماعت قائم ہوئی اس قصبہ کا نام Matebio ہے.مورخہ ۱۵ مارچ ۱۹۷۲ ء کو اس گاؤں (Makarankay) سے پیدل دوسرے گاؤں کے لئے جس کا نام Rokantia ہے اور جو دس بارہ میل دور ہے روانہ ہوئے.رستہ میں جہاں بھی کوئی گاؤں پڑا اس میں موجود لوگوں تک پیغام احمدیت و اسلام پہنچایا اور آرام بھی کیا.اسی دوران میں ایک سات آٹھ گھروں پر مشتمل گاؤں میں پہنچے اور تبلیغ کی جہاں ایک دوست نے جو ایک دوسرے گاؤں Robart کا رہنے والا تھا ، فارم بیعت پر کر کے جماعت میں شامل ہوا.عصر کے بعد Rokantia.یہ ایک چھوٹا سا غریب زمینداروں کا گاؤں ہے.اس گاؤں میں دوراتیں اور ایک دن قیام کر کے تبلیغی جلسہ اور نمازوں کے بعد تبلیغی پروگرام سرانجام دیا.گاؤں میں تین غریب دوستوں کے متعلق علم ہوا کہ احمدی ہیں.اس جگہ پر عیسائیوں کا پرائمری سکول ہے.سکول کے دونوں عیسائی ٹیچروں کو بھی تبلیغ کی گئی.خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس گاؤں میں ۴۹ آدمیوں نے جن میں سیکشن چیف بھی شامل ہے فارم بیعت پر کر کے احمدیت میں شامل ہونے کا اعلان کیا....بارہ دن کے اس مختصر سے دورے میں اور افراد کا حلقہ بگوش احمدیت ہو جانا احمدیت کی سچائی اور خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت کی ایک بین اور واضح دلیل ہے“.79 افریقہ میں احمدی ڈاکٹروں کی طبی خدمات جناب الہی میں مقبول ہو رہی تھیں.ہر جگہ شفایابی کے نشانات کا ظہور ہو رہا تھا جن کا ثبوت احمدی ڈاکٹروں کے ان خطوط سے ملتا ہے جو اُن دنوں مرکز احمدیت میں پہنچ رہے تھے مثلاً ڈاکٹر امتیاز احمد چوہدری صاحب انچارج احمد یہ نصرت جہاں کلینک نمبر ۲ بواجے بوسیرالیون نے لکھا.پاکستان میں بھی میرے مریض اکثر صحت یاب ہو جاتے تھے لیکن یہاں آ کر تائید الہی کے بے شمار مواقع ظاہر ہوئے مثلاً ایک نہایت لاغر بیکس مریض جسے Strangulated Hernia لاحق ہو گیا تھا اور جس کا آپریشن بغیر توکل علی اللہ کے کرنا محال تھا خاکسار نے نہایت جانفشانی سے عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ آپریشن کیا.اگلے ہی روز یہ مریض خود اٹھ کر بیٹھنے لگا.تیسرے دن چلنا شروع کیا اور کل نویں دن اس کا زخم مندمل ہو جانے پر ٹانکے نکال دیئے گئے اب وہ نہایت مستعدی سے چل پھر سکتا ہے.یہاں سے ملحقہ علاقہ کا ایک چیف جو کہ دل کے عارضہ سے قریب المرگ تھا اب تقریباً مکمل صحت یاب ہو چکا ہے.وہ کہنے لگا کہ اگر میں (خاکسار) یہاں نہ ہوتا تو وہ ضرور مر جاتا.میں نے
تاریخ احمدیت.جلد 28 378 سال 1972ء اسے بتایا کہ شا تو اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور وہ ہی دے گا.ہم تو اس کے عاجز بندے ہیں.پچھلے دنوں ایک چھ ماہ کا بچہ دمِ واپسیں لیتا ہوا میرے پاس لایا گیا.ظاہراً کچھ امید نہ تھی مگر اللہ کا نام لے کر اسے چند ایک ادویات دیں اور شام کو بچہ پھر دکھانے کو کہا.بچہ شام کو نہ لا یا گیا.میں نے سمجھا کہ بچہ ختم ہو چکا ہوگا.مگر اگلی صبح بچہ کا باپ اور اس کے بعد اس کی والدہ مع بچہ آئے.بچہ بقائمی ہوش و حواس بلکہ خاصا تندرست نظر آیا.اس کے بعد مزید دو ایک دن میں علاج کے بعد بچہ تندرست ہو گیا.لوگوں کا یقین ہے کہ اگر جیتے جی مریض ہمارے کلینک میں پہنچ جائے تو یقینا صحت یاب ہو جاتا ہے.سخت سے سخت مریض کو ہمارا مہربان خدا دنوں میں شفایابی عطا کر دیتا ہے.“ ڈاکٹر اسلم جہانگیری صاحب انچارج نصرت جہاں کلینک نمبر 1 جور و سیرالیون نے بذریعہ مکتوب اطلاع دی.جس جگہ میں برانچ کلینک کرتا ہوں وہاں اکثر ایک مریض میرے پاس آتا مگر ہمیشہ یہی کہتا کہ میں نے بہت علاج کرایا ہے مگر شفا نہیں ہوئی.اس لئے اب زندگی سے مایوس ہو چکا ہوں.ایک مرتبہ میں نے اس کا معاینہ کر کے اس کو تسلی دی اور کہا کہ اب انشاء اللہ خدا تعالیٰ تمہیں شفادے گا.یہ الفاظ میں نے کچھ ایسے وثوق سے کہے کہ اس نے یقین کر لیا اور میری ہدایت کے مطابق جو رو میں آکر رہائش اختیار کر لی.میں نے خصوصی طور پر اس کے لئے دعا بھی شروع کر دی اور ساتھ ہی علاج بھی.میں حیران ہو گیا کہ ایک ہفتہ کے اندر اندر اس میں اتنی امپروومنٹ ہوئی کہ مجھے اس کے صحت یاب ہونے کا پورا یقین ہو گیا.علاج ایک ماہ تک جاری رہا.جس کے بعد وہ بالکل صحت یاب ہو چکا تھا.جب وہ مجھ سے رخصت لینے آیا تو فرط مسرت سے میری آنکھیں بھیگ گئیں اور اس کے چہرے پر اتنے شکر کے جذبات تھے جو مجھے اس سے قبل دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا.یہ ساری برکات اس جذ بہ خدمت کی ہیں جو ہم ساتھ لے کر وطن سے آتے ہیں.اب بھی وہ مریض جب میرے پاس محض شکریہ ادا کرنے آتا ہے تو اس کے جذبات کی کیفیت قابل دید ہوتی ہے.میں اسے کہا کرتا ہوں کہ جاؤ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر وجس نے تمہیں شفادی میں تو اس کا ایک عاجز بندہ ہوں.80 66 ۳۰/اکتوبر سے ۷ نومبر ۱۹۷۲ ء تک یعنی رمضان المبارک ۱۳۹۲ ہجری کے آخری عشرہ میں جماعت احمد یہ سیرالیون نے ایک خاص منصوبہ کے تحت قرآن عظیم کے انگریزی ترجمہ کی وسیع پیمانے پر اشاعت کا فریضہ انجام دیا جس کے ملک پر گہرے اثرات مرتب ہوئے.اس عظیم الشان دینی خدمت کی تفصیلات سید منصور احمد صاحب بشیر مربی سیرالیون کی درج ذیل رپورٹ سے ملتی ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 فرماتے ہیں:.379 سال 1972ء حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثالث نے نصرت جہاں سکیم کے تحت قرآن عظیم کی دنیا میں وسیع اشاعت کے لئے جو منصوبہ بنایا ہے اسے سیرالیون میں کامیاب بنانے کے لئے کافی دیر سے پروگرام زیر غور تھا جس کے لئے تیاری کی جارہی تھی.جماعتی اخبار ”دی افریقن کریسنٹ میں متواتر اس کے اعلانات کئے گئے.پوسٹرز اور اشتہارات چھپوا کر مناسب مقامات پر چسپاں اور تقسیم کئے گئے.پاکستانی اور لوکل مبلغین کو ہدایت کی گئی کہ اپنے اپنے مقامات پر مختلف ذرائع سے قرآن کریم کی وسیع اشاعت کا انتظام کریں.قرآن کریم کی رمضان المبارک کے ساتھ گہری وابستگی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ رمضان المبارک میں اس کی مزید وسیع اشاعت کی جائے جس کے لئے خاص طور پر رمضان المبارک کا آخری عشرہ منتخب کیا گیا.اس پروگرام کو عوام میں متعارف کرانے کے لئے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں اخبارات، ریڈیو اور محکمہ اطلاعات عامہ کے نمائندوں کو شمولیت کے لئے دعوت دی گئی.اس پریس کا نفرنس کو محترم امیر صاحب نے اپنے دفتر میں خطاب کیا.اس کا نفرنس کی غرض و غایت سمجھانے کے بعد آپ نے شریک کا نفرنس نمائندگان کے سوالات کے جوابات دیئے اور آخر میں ریڈیو سیرالیون کے لئے ایک انٹرویو بھی ریکارڈ کروایا.محکمہ اطلاعات عامہ نے فوٹوگرافرز کا بھی اہتمام کیا ہوا تھا چنانچہ اس موقع پر فوٹو بھی لئے گئے جن میں نئے مترجم قرآن مجید کو دکھایا گیا تھا.اگلے دن یہاں کے دو بڑے اخبارات ”ڈیلی میل (Daily Mail) اور دی نیشن (The Nation) نے اس خبر کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا.اگلے دن پھر صبح سات بجے اس کا خلاصہ دیا گیا.تقریباً چار منٹوں کی اس لمبی خبر سے جہاں اہلِ ملک کو اشاعت قرآن کریم کی اس مقدس سکیم سے بخوبی علم ہو گیا وہاں اپنوں کے لئے یہ خبر انتہائی خوشی اور اطمینان کا باعث ہوئی.حضور کے مبارک دورہ کے بعد ریڈیو سیرالیون نے اتنی اہمیت ابھی تک ہماری کسی خبر کو نہیں دی تھی.الحمد للہ کہ اس طرح اس مبارک تحریک کا آغاز اس ملک میں نہایت اچھی طرح ہو گیا.اخبارات نے جن الفاظ میں اس خبر کو شائع کیا اور ریڈیو نے اسے نشر کیا اس کا ترجمہ افادہ احباب کے لئے دیا جارہا ہے.اس ملک کے سب سے کثیر الاشاعت روزنامہ ”ڈیلی میل نے اپنی اشاعت ۴ نومبر ۱۹۷۲ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 میں لکھا:.380 سال 1972ء احمد یہ مشن سیرالیون عوام کے لئے ارزاں نرخوں پر قرآن مجید عربی مع انگریزی ترجمہ مہیا کر رہا ہے.یہ بات امیر اور مشنری انچارج صاحب نے کل فری ٹاؤن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی.یہ قرآن مجید جس کا ترجمہ علماء کی ایک جماعت نے مشن کے ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان میں کیا ہے اب مختلف سائزوں میں موجود ہے اور احمد یہ بک شاپ اور تمام ملک میں احمدیہ مشنوں سے خریدا جا سکتا ہے.مولانا بشیر احمد شمس صاحب نے بتایا کہ یہ مشن کی پانچ سالہ ترقیاتی سکیم کا حصہ ہے.اسلامی لٹریچر کی دوسری کتب بھی مرکزی پریس سے موصول ہونے کے بعد مہیا کی جا سکیں گی.آپ نے امام جماعت احمدیہ مرزا ناصر احمد صاحب کے دو سال قبل دورہ کا بھی تذکرہ کیا جو کہ یہاں کے لوگوں کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرنے اور یہاں اسلام کی ترقی کا جائزہ لینے کے لئے کیا گیا تھا.مولوی شمس صاحب نے بتایا کہ امام جماعت احمدیہ نے تعلیمی اور طبی پروگرام گورنمنٹ کے سامنے پیش کیا تھا.آپ نے بتایا کہ جورو، بواجے بو، روکو پر اور مسنگبی کے چار ہسپتالوں میں مشن طبی عملہ، ادویات اور سامان مہیا کر رہا ہے.اسی طرح روکو پر میں ایک سیکنڈری سکول مشن کی طرف سے کھولا گیا ہے.سوالات کے جواب دیتے ہوئے مولانا بشیر احمد شمس صاحب نے فرمایا کہ یہ ترجمہ اس غرض کے لئے کیا گیا ہے کہ لوگوں کو قرآن مجید کا اصل مفہوم سمجھ آ جائے.آپ نے مزید کہا کہ احمد یہ شن مزید سکول اور ہسپتال کھولنے کے علاوہ پہلے سے موجود ہسپتالوں کو پورے ساز وسامان سے لیس کرنا چاہتا ہے.“ ریڈیو سٹیشن سیرالیون نے مندرجہ ذیل تفصیلی خبر نشر کی :.امیر و مشنری انچارج احمد یہ مسلم مشن سیرالیون نے آج اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا مشن سیرالیون میں تعلیمی بلیتی اور مذہبی سہولتوں کو مزید پھیلانا چاہتا ہے.مولا نائٹس صاحب نے ہمارے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے آج صبح کہا کہ احمد یہ مشن ملک میں طبی سہولتیں مہیا کرنے کی خاطر پہلے ہی چار بتی مراکز جورو، بواجے بون مسنگی اور روکو پر میں کھول چکا ہے.آپ نے مزید کہا کہ اسی طرح تعلیمی میدان میں بھی مشن نے سیکنڈری سکولز جاری کئے ہیں.آپ نے امید ظاہر کی کہ مزید ماہرین تعلیم وطب جلد ہی پاکستان سے ملک کی خدمت کے لئے بھجوائے جائیں گے.مذہبی سرگرمیوں کے ضمن میں مولا نائٹس صاحب نے کہا کہ قرآن مجید کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 381 سال 1972ء ترجمہ کی اشاعت اب ان کا نیا پروگرام ہے تا کہ اس ملک کے باشندے قرآن مجید کو بہتر طریق پر پڑھ اور سمجھ سکیں.آپ نے نائب صدر مملکت سے اپنی چند روز قبل کی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مشن کے کام پر پسندیدگی کا اظہار کیا تھا.مولا نائٹس صاحب نے مزید فرمایا کہ ان کے مشن کا مقصد اس ملک میں اسلام کی اشاعت ہے چنانچہ قرآن مجید ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے ملک کے ہر حصہ میں بھجوایا جائے گا.اس سے لوگوں کو اپنے مذہب کے سمجھنے میں مدد ملے گی.آپ نے تمام مسلمانوں کو ترغیب دی کہ وہ اسلامی تعلیم رمضان کے بعد بھی اپناتے رہیں.آپ نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کے سیرالیون کے دورہ جس کا مقصد یہاں کے لوگوں کے متعلق معلومات حاصل کرنا اور سیرالیون میں اسلام کی ترقی کا جائزہ لینا تھا، کا بھی ذکر کیا.آپ نے کہا کہ اس دورہ کے بعد جو پروگرام تعلیمی اور طبی ترقی کے لئے حکومت کو پیش کیا گیا تھا اس نے اب پھل لا نا شروع کر دیا ہے“.حضور انور کی طرف سے اس اشاعت قرآن عظیم کے وسیع کام کو یہاں کے پڑھے لکھے اسلامی طبقہ میں بہت سراہا جا رہا ہے.(۱) نائب صدر و وزیر اعظم صاحب نے اس پر جس خوشنودی کا اظہار کیا اس کا ذکر مذکورہ بالا ریڈیو سیرالیون کی خبر میں احباب نے پڑھ لیا ہوگا.ان کے علاوہ اس سلسلہ میں بعض اور شخصیتوں کا یہاں ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے.(۲) وائس پریذیڈنٹ اسلامک کونسل سیرالیون مکرم الحاج سیرے دوری ( Seray Wurie) نے امیر صاحب سے مشن ہاؤس میں اپنی ایک خصوصی ملاقات کے دوران اس خیال کا اظہار کیا کہ اشاعتِ قرآن عظیم کے سلسلہ میں اس قدر وسیع منصوبہ جماعت احمدیہ کا ایک نمایاں کارنامہ ہے.(۳) اسلامک کونسل کی ایک میٹنگ کے دوران ایک عرب نے جب احمدیت پر اعتراض کیا تو سابق نائب وزیر اعظم آنریبل مصطفیٰ سنوسی نے اسے سختی کے ساتھ جواب دیا کہ تم محض جماعت احمدیہ پر اعتراض کرتے ہو یہ قرآن کریم جماعت احمدیہ کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو اشاعت اسلام کے 66 لئے وہ سرانجام دے رہی ہے.81
تاریخ احمدیت.جلد 28 382 سال 1972ء سید منصور احمد صاحب بشیر مبلغ سیرالیون کی ایک اور مطبوعہ رپورٹ میں ہے کہ :.امسال رمضان المبارک میں امیر و مشنری انچارج احمد یہ مسلم مشن سیرالیون محترم بشیر احمد صاحب شمس نے عظیم اسلامی اخوت کے عملی مظاہرہ اور باہمی جذ بہ خیر سگالی کو فروغ دینے کے لئے اس ملک کے وزیر اعظم اور بعض دوسری اہم مسلمان شخصیتوں کو ملنے کا پروگرام بنایا.یہ پروگرام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انتہائی کامیاب اور بابرکت ثابت ہوا.اس سلسلہ کی اہم ترین ملاقات وزیر اعظم اور نائب صدر سیرالیون جناب ایس آئی کروما صاحب (S.I.Koroma) سے ان کے دفتر میں ہوئی.اس وفد میں مکرم امیر صاحب کے علاوہ پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سیرالیون، پیرا ماؤنٹ چیف مکرم ناصر الدین گمانگا صاحب (.P.C.N.K Gamanga)، جنرل سیکرٹری الحاج محمد کمانڈا بونگے صاحب (M.K.Bongay)، سوشل سیکرٹری پا بائی ٹورے (Pa Bai Turay) اور خاکسار (منصور احمد بشیر ) شامل تھے.سب سے پہلے وزیر اعظم صاحب نے سلسلہ گفتگو شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں خود پیدائش اور اعتقاد کے لحاظ سے مسلمان ہوں.احمد یہ مسلم مشن کی جس بات نے مجھے خاص طور پر متاثر کیا ہے وہ ان کی بے لوث خدمت ہے جو وہ اسلامی تعلیم کی ترویج کے لئے سرانجام دے رہے ہیں.انہوں نے مزید فرمایا کہ مسلمان بچوں کوطوطے کی طرح قرآن مجید پڑھا دیا جاتا تھا.درآنحالیکہ وہ اس کے معنے قطعاً نہیں جانتے تھے.اب آپ نے موزوں مذہبی کتب چھپوا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے.اس سلسلہ میں انہوں نے ترجمہ قرآن مجید کا خاص طور پر ذکر کیا اور اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ یہ انگریزی مترجم قرآن مجید انہیں مہیا کیا جائے.امیر صاحب محترم نے فرمایا کہ ہم تو پہلے ہی آپ کے لئے بعض کتب کا ایک سیٹ لے کر آئے ہیں جن میں یہ انگریزی مترجم قرآن مجید بھی شامل ہے چنانچہ یہ سیٹ انہوں نے قبول کرتے ہوئے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا.اس کے بعد مکرم امیر صاحب اور الحاج بونگے صاحب جنرل سیکرٹری نے مشن کی کارکردگی پر روشنی ڈالی اور تعلیمی ، بتی نیز مذہبی میدان میں مشن ملک کے لئے جو کام کر رہا ہے اسے اختصاراً بیان کیا.وزیر اعظم صاحب نے اسے سراہتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو چاہیے کہ ان امور کو اہل ملک کے سامنے لائیں...پریس ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے.چنانچہ اخبارات، ریڈیو اور ٹیلیویژن نے اس خبر کو نمایاں اہمیت دی.82
تاریخ احمدیت.جلد 28 383 سال 1972ء ۱۳ سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ ء تک کینما شہر میں روائتی شان کے ساتھ قومی میلہ منعقد ہوا جہاں جماعت احمد یہ سیرالیون نے شاندار احمد یہ بک سٹال قائم کر کے نہایت خوش اسلوبی سے ہزاروں باشندوں تک پیغام حق پہنچانے کی سعادت حاصل کی.مولوی عزیز الرحمن صاحب خالد مبلغ سیرالیون تحریر فرماتے ہیں :.سیرالیون میں حسب دستور ماہ دسمبر میں میلہ منعقد ہوا.یہ میلہ ۱۳ دسمبر سے ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ء تک لگاتار چار دن کی نما شہر میں جاری رہا.اس میلہ کا افتتاح بالعموم صدر مملکت یا نائب صدر رسمی طور پر کرتے ہیں جس کے لئے وسیع اور کشادہ جگہ مزین کی جاتی ہے.اس عظیم اور اہم تقریب کے انعقاد کے سلسلہ میں احمدیہ مشن کینما کی طرف سے محترم امیر صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں دو ماہ قبل ہی احمد یہ بک سٹال کی تیاری خاکسار نے شروع کر رکھی تھی.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اس سلسلہ میں خاکسار کے ساتھ مکرم الحاج مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح انچارج بومشن اور مکرم صفی الرحمن صاحب خورشید انچارج روکو پر مشن نے نہایت محنت سے کام سرانجام دیا.اس میلہ کی اہمیت کے پیش نظر مکرم امیر صاحب مولانا بشیر احمد صاحب شمس بھی ایک دن قبل بذریعہ طیارہ فری ٹاؤن سے کینما تشریف لے آئے.خاکسار نے مکرم مولوی صفی الرحمن صاحب خورشید کی معیت میں ہوائی مستقر پر ان کا استقبال کیا.افتتاح کے روز مکرم امیر صاحب نے بعض ضروری ہدایات دیں اور سارا دن بک سٹال میں تشریف فرما ر ہے.باقاعدہ افتتاح کے بعد ہمارے سٹال کو دیکھنے کے لئے سیرالیون کے نائب صدر مسٹر ایس.آئی.کروما جو کہ وزیر اعظم کے عہدہ پر بھی فائز ہیں دیگر سرکاری حکام کے ساتھ تشریف لائے.اس موقع پر محترم امیر صاحب نے احمد یہ مشن کی طرف سے انہیں اسلامی کیلنڈر ۱۹۷۳ء کے علاوہ چند کتب بھی تحفہ پیش کیں جو کہ بخوشی قبول کر لی گئیں.ان کے علاوہ سٹیٹ منسٹر اینڈ لیڈر آف دی ہاؤس مسٹر الیں.بی.جانے (.Mr.S.B Janeh) ،صوبائی وزراء، ہائی کمشنر ز اور بشپ آف دی رومن کیتھولک مشن مسٹر گنڈا ، پادری اور مسلم زعماء و علماء بھی تشریف لائے.رومن کیتھولک فرقہ کے بشپ مسٹر Ganda اور اس کے ایک ساتھی کو خاکسار نے تفصیل سے احمد یہ جماعت کے نظام کا تعارف کروایا اور دیواروں پر آویزاں تصاویر اور بائیبل کی پیشگوئیوں، قرآنی ارشادات کی روشنی میں مسیح کی آمد ثانی اور اس کی اہمیت بیان کی گئی.حضرت مسیح پاک علیہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 384 سال 1972ء السلام کی شبیہ مبارک دکھاتے ہوئے بتایا کہ اب یہ پیشگوئیاں اس مامور من اللہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعوئی کے مطابق پوری ہو چکی ہیں اب کوئی مسیح آسمان سے نہیں آئے گا وغیرہ وغیرہ.تقریباً پندرہ منٹ کی اس دلچسپ گفتگو کے بعد محترم امیر صاحب سے بھی ملاقات کرائی گئی.چنانچہ مولا ناشس صاحب امیر جماعت سیرالیون مشن نے دوستانہ ماحول میں جماعتی ترقی اور مشن کی مصروفیات اور کارکردگی سے آگاہ کیا.اجتماعی طور پر جبکہ لوگ گروپس کی شکل میں ہمارا سٹال دیکھنے آتے تھے تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی لاؤڈ سپیکر پر کسی ایک اہم اور دلچسپ موضوع پر لیکچر دیتا اور لوگ ہمہ تن گوش سنتے رہتے.یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض مسیحی مناد اور مذہبی لوگ باقاعدہ ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ ہماری تقاریر بھی ریکارڈ کر کے لے جاتے رہے.میلہ کے ان مصروف دنوں میں اخبارات، ریڈیو، ٹیلیویژن اور انفرمیشن کے نمائندگان کو بھی انٹرویو دیئے گئے اور باقاعدہ ریڈیو، اخبارات اور ٹیلیویژن پر ہمارے سٹال کو خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا.اس طرح یہ سلسلہ سارا دن جاری رہتا.چاروں دن یہی پروگرام دو ہرایا جاتا اور ہر ممکن اسلام و احمدیت کی تبلیغ کا کام جاری رہا جسے بالخصوص مسلمانوں نے نہایت پسند کیا کیونکہ صرف ہمارا ہی ایک بک سٹال تھا جو کہ یہاں تمام مسلمانوں کی نمائندگی دیگر عیسائی سٹالوں کے ساتھ کر رہا تھا.نیز اسلام و احمدیت کی تبلیغ نہ صرف زبانی یا لاؤڈ سپیکر کی مدد سے کی گئی بلکہ سینکڑوں افراد نے اسلام کے متعلق اپنی پسند کا لٹریچر خرید کیا بالخصوص مرکز سے آمدہ نئے قرآن مجید بہت پسند کئے گئے اور بیسیوں قرآن مجید فروخت ہوئے.اس کے علاوہ ہزاروں افراد کو مفت لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.تبلیغ کے علاوہ تربیتی طور پر اس بات کا بھی اہتمام کیا گیا کہ سٹال میں ہی نماز باجماعت ہو چنانچہ ہر نماز کے وقت لاؤڈ سپیکر سے خوش الحانی سے جب اذان دی جاتی تو کثیر تعداد میں لوگ سٹال کی طرف بڑھتے اور اذان سنتے.بعض لوگ نماز میں بھی شامل ہو جاتے اس طرح قولاً وفعلاً خصوصاً مسلمان طبقہ پر کافی اچھا اثر ہوا.83 جماعت احمد یہ سیرالیون کی چوبیسویں سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ سیرالیون کی چوبیسویں سالانہ کانفرنس بھی احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے وسیع و عریض ناصر ہال میں ۲۰.۲۱-۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ ء کو منعقد ہوئی جس میں ملک کے کونے کونے میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 385 سال 1972ء پھیلی ہوئی مخلص جماعتوں نے شرکت کی اور مالی ایثار اور قربانیوں کا ایمان افروز مظاہرہ کیا.(۲۰ دسمبر ) کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مولوی بشیر احمد صاحب شمس انچارج مشن و امیر جماعت سیرالیون نے کانفرنس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی.بعد ازاں جنرل سیکرٹری الحاج محمد کمانڈ ا بونگے نے مشن کی رپورٹ سالانہ ۱۹۷۲ء پیش فرمائی.دوسری نشست کی صدارت کے فرائض جماعت احمد یہ سیرالیون کے نیشنل پریذیڈنٹ آنریبل پیراماؤنٹ چیف ناصر الدین گمانگا ممبر پارلیمنٹ نے ادا کئے اور جناب عبد السلام صاحب ظافر ( ٹیچر عربی و دینیات سیکنڈری سکول جورو) نے اسلام میں خلافت کے موضوع پر اور مولوی سید منصور احمد صاحب بشیر مربی سلسلہ فری ٹاؤن نے اخلاقی اور معاشرتی اقدار اسلامی نقطہ نظر سے“ کے موضوع پر معلومات افروز تقریریں کیں.(۲۱ دسمبر ) اس روز پہلے اجلاس میں سردار مقبول احمد صاحب ذبیح ، ڈاکٹر امتیاز احمد صاحب چوہدری اور مولوی نظام الدین صاحب مہمان نے مختلف اہم موضوعات پر روشنی ڈالی جس کے بعد جناب ایس اے معید سفیر پاکستان نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ انہیں جماعت احمدیہ کے اس منظم اجتماع میں شرکت کر کے بہت خوشی ہوئی ہے اور وہ افراد جماعت کے نظم وضبط اور جوش و خروش سے بہت متاثر ہوئے ہیں.آپ نے بتایا کہ انہیں یہ معلوم کر کے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ان کے ہم وطن پاکستانی سیرالیون میں گرانقدر تعلیمی اور طبی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.بر عظیم جنوب مغربی ایشیا میں امن کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب ایس اے معید نے تفصیل کے ساتھ پاکستان کے حالات پر روشنی ڈالی.آپ نے مشن کے لئے اپنی جیب سے یکصد ڈالر کا عطیہ بھی دیا.سفیر پاکستان کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے مشن کے جنرل سیکرٹری الحاج بونگے نے سفیر موصوف کو یقین دلایا کہ پاکستان کے بیج ، جائز اور منصفانہ موقف کی آپ نے جس رنگ میں وضاحت کی ہے حاضرین نے اسے بخوبی سمجھ لیا ہے اور کانفرنس کے اختتام پر یہ اصحاب اپنے اپنے مقام پر اس موقف کی ترجمانی کریں گے.چونکہ حاضرین ملک کے کونے کونے سے آئے ہیں اس لئے یقین واثق ہے کہ مظلوم کی آواز ملک کے کونے کونے میں نشر ہوگی.سفیر پاکستان نے اس موقعہ پر احمد یہ مسلم سیکنڈری سکول ”بو بھی دیکھا اور بیالوجی ، کیمسٹری اور فزکس کی تجربہ گاہیں ساز و سامان اور تدریس سے متعلق امور سے آگاہی حاصل کی.وقت رخصت آپ نے سکول کے لاگ بک پر انتہائی تعریفی کلمات رقم فرمائے.84
تاریخ احمدیت.جلد 28 386 سال 1972ء دوسری نشست میں شیخ امام سیسے پرنسپل گورنمنٹ سکول بو کی زیر صدارت مولوی صفی الرحمن صاحب خورشید نے سیرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر اور مولوی مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول جو رونے حضرت مسیح علیہ السلام از روئے قرآن کے موضوع پر خطاب فرمایا.(۲۲ دسمبر ) آخری اجلاس مولوی بشیر احمد صاحب شمس کی صدارت میں ہوا جس میں سب سے پہلے جماعت احمد یہ سیرالیون کے نائب صدر پیرا ماؤنٹ چیف وی وی کالون (Kallon..) نے تربیت اولا د اور والدین کی ذمہ داریاں" کے عنوان پر تقریر کی.بعد ازاں سیرالیون کی دو معزز شخصیتوں مسٹر سلیمان باہ ( فولانی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عرب نژاد اور کینما کے مشہور مسلمان تاجر جو متعدد اسلامی مدارس کی تعمیر اور اجراء کے لئے فراخدلی سے مسلم تنظیموں کی مدد کرتے رہے ) اور جناب یوسف مصطفیٰ (انہی دنوں بوشہر میں ” جمال عبد الناصر سکول‘ مقامی مسلم برادر ہڈ مصری علماء اور مصری سفارتخانے کے تعاون سے جاری ہوا تھا.یوسف مصطفی صاحب اس سکول کے پرنسپل تھے ) نے نہ صرف اپنے قلبی تاثرات کا اظہار کیا بلکہ جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات سے متاثر ہو کر جماعت احمدیہ میں شمولیت کا اعلان فرمایا.مولانا بشیر احمد صاحب شمس نے الوداعی خطاب فرمایا.اس کا نفرنس کے موقع پر جماعت احمدیہ کی مجلس شوریٰ بھی منعقد ہوئی اور نصرت جہاں سکیم سے وابستہ احمدی ڈاکٹروں نیز مقامی اور پاکستانی مبلغین کے خصوصی اجلاس بھی ہوئے جن میں اہم فیصلے کئے گئے.ان بابرکت ایام میں لجنہ اماءاللہ سیرالیون کے سالانہ اجتماع کا انعقاد بھی ہوا.85 غانا جماعت غانا کی چھیالیسویں سالانہ کانفرنس غانا کی احمدی جماعتوں کی چھیالیسویں سالانہ کا نفرنس مورخہ ۶ جنوری تا ۸ جنوری ۱۹۷۲ء سالٹ پانڈ میں منعقد ہوئی.اس کا نفرنس میں کم و بیش آٹھ ہزار اشخاص شامل ہوئے.جن میں ملک کی متعدد نامور اور ممتاز شخصیتیں شامل ہوئیں.جن میں تین پیراماؤنٹ چیفس متعددممبران پارلیمنٹ اور پاکستانی ہائی کمشنر بھی شریک ہوئے.اس کا نفرنس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا وہ خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جو حضور نے اس موقع کے لئے از راہ شفقت ارسال فرمایا تھا.اس پیغام میں حضور نے جماعت احمد یہ غانا کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ وہ اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کر دیں تا کہ ہم
تاریخ احمدیت.جلد 28 387 سال 1972ء اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوسکیں.کا نفرنس سے متعدد مقررین نے خطاب فرمایا جن میں تین پیرا ماؤنٹ چیف اور پاکستان کے ہائی کمشنر برائے غانا بھی شامل تھے.ہائی کمشنر صاحب نے اپنی تقریر میں پاکستان سے آنے والے مبلغین ، ڈاکٹروں اور استادوں کی تعریف فرمائی جو اہل غانا کی بے لوث خدمات سرانجام دے رہے ہیں.آپ جماعتی نظم و ضبط سے بھی بہت متاثر ہوئے.اس کانفرنس کی روداد اخبارات میں شائع ہوئی نیز ریڈیو سے اس کی خبر نشر ہوئی.86 یہ سال مشن کے لئے ایک ابتلا کا دور بھی تھا اور نصرت الہی کا چمکتا ہوا نشان بھی جس کی ایمان افروز تفصیل مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعت احمدیہ غانا کے قلم سے سپر د قر طاس کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.یہ واقعہ نصرت جہاں آگے بڑھو اسکیم کے ماتحت غانا میں جاری شدہ چار ہسپتالوں میں سے وسطی ریجن کے قصبہ اگونا سویڈ رو کے ہسپتال سے تعلق رکھتا ہے.اس کے پہلے ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب ایم بی بی ایس تھے.جو ۱۹۷۱ ء میں وہاں پہنچے اور اخلاص سے خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دینا شروع کیا.ہسپتال ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں تھا اور چونکہ اصل مقصد جلد از جلد علاج کی سہولتیں مہیا کرنا تھا.مکرم ڈاکٹر صاحب نے عام لکڑی کے میز پر ہی آپریشن کرنے شروع کر دیئے.اللہ تعالیٰ شافی مطلق اُن کے مریضوں کو شفا عطا فرما دیتا اور آپریشن کامیاب ہوتے رہے.وسطی ریجن کے ریجنل میڈیکل آفیسر ایک بنگالی ہندو تھے.جب وہ ہسپتال کے معاینہ کے لئے آئے تو وزارت صحت کے معیاری آپریشن میز کو نہ پاکر آگ بگولہ ہو گئے.مکرم ڈاکٹر صاحب نے حقیقت حال کا ذکر کر کے بتایا کہ معیاری آپریشن میز مارکیٹ میں مہیا نہیں ہے مگر ریجنل میڈیکل آفیسر نے کسی معذرت کو قبول نہ کیا.پہلے تو آپریشن بند کرنے کا حکم دیا گیا بعد میں مرکزی وزارت صحت میں رپورٹ کر کے فروری ۱۹۷۲ ء میں ہسپتال بند کروا دیا اور اس طرح علاقہ کے لوگوں کو جماعت کی طرف سے مہیا کردہ طبی سہولتوں سے محروم کر دیا.خاکسار جب مارچ ۱۹۷۲ء میں آخری مرتبہ غانا پہنچا تو ہسپتال کے اجراء کے لئے ریجنل میڈیکل آفیسر، ریجنل کمشنر وسطی ریجن اور مرکزی وزارت صحت نے متعدد افسران سے ملاقاتیں کیں مگر بے سود ثابت ہوئیں.معیاری آپریشن میز مارکیٹ میں آنے پر چھ ہزار چارصد روپے کا خریدا
تاریخ احمدیت.جلد 28 388 سال 1972ء گیا.مگر پھر بھی ریجن میں ہندو آفیسر اور مرکز میں کیتھولک افسر کے تعصب کی وجہ سے ہسپتال کئی ماہ بند رہا.چنانچہ جماعت کا ایک وفد خاکسار کی سرکردگی میں وزیر صحت جو فوجی حکومت کی وجہ سے کمشنر برائے وزارت صحت کہلاتے تھے، ملنے کے لئے گیا.یہ کمشنر ڈینٹل سرجن تھے اور کرنل کے عہدہ پر فائز تھے.اس وفد میں خاکسار کے علاوہ مکرم الحاج ممتاز بیگ آرتھر صاحب صدر جماعت غانا، مکرم الحاج الحسن عطا صاحب ایم بی ای Member of the Distinguished Order of the) (British Empire ریجنل صدر جماعت اشانٹی ریجن، بریگیڈئر (ریٹائرڈ) مکرم ڈاکٹر غلام احمد صاحب ایم بی بی ایس ایف آرسی میڈیکل آفیسر احمد یہ ہسپتال کوکو فو انشانٹی ،مکرم ڈاکٹر سید غلام مجتبی شاہ صاحب ایم بی بی ایس میڈیکل آفیسر احمد یہ ہسپتال آسو کورے اشانٹی ،مکرم ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب ایم بی بی ایس میڈکل آفیسر احمد یہ ہسپتال اگو نہ سویڈ رو وسطی ریجن نیز جماعت کے مشیر قانون الحاج بشیر کوسوانتری بارایٹ لا ( جو ڈاکٹر نکروما کی حکومت میں اٹارنی جنرل اور وزیر انصاف بھی رہ چکے تھے ) شامل تھے.ڈاکٹر غلام مجتبی شاہ صاحب بہت تجربہ کار تھے وہ پاکستان میں سندھ پراونس میڈیکل سنٹر کے ڈائریکٹر رہ چکے تھے.غانین آرمی افسران بھی آرمی ہسپتال کی بجائے ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب کے ہسپتال جا نا مناسب سمجھتے تھے.اس طرح خدا کے فضل سے ڈاکٹر غلام مجتبی صاحب کا نا نا میں بھی بہت اثر و رسوخ تھا.دوران گفتگو مکرم سید غلام مجتبی شاہ صاحب نے ایک بات کی وضاحت کرنی چاہی تو کمشنر صاحب جو موقع کی تلاش میں ہی تھے برافروختہ ہو گئے اور کہنے لگے کیا تم اپنے ملک (یعنی پاکستان میں اس طرح کسی وزیر سے مخاطب ہو سکتے ہو.مکرم ڈاکٹر شاہ صاحب نے صاف کہا کہ ہاں میں اپنے ملک میں اس مہذب طریق سے وزراء کے ساتھ بات کرتا رہا ہوں.ان کا اتنا کہنا تھا کہ کمشنر صاحب غصہ سے لال پیلے ہو گئے اور آپے سے باہر ہو کر جوش سے کہا:.میں دیکھوں گا کہ تم اس ملک میں کس طرح رہ سکتے ہو.یا میں اس کرسی ( وزارت صحت) پر رہوں گا اور تم اس ملک سے نکال دیئے جاؤ گے.یا میں کرسی چھوڑ دوں گا اور تم اس ملک میں رہو گے.چونکہ کمشنر صاحب غصہ میں انگریزی میں جلدی جلدی بول رہے تھے اس لئے الفاظ بہت ممکن ہے کچھ اور ہوں تا ہم مفہوم یہی تھا.اس چیلنج کے ساتھ وہ میٹنگ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس طرح
تاریخ احمدیت.جلد 28 389 سال 1972ء ہمیں لینے کے دینے پڑ گئے.ہمارا وفد تو گیا تھا سات آٹھ ماہ سے بند سویڈ رو ہسپتال کھلوانے مگر اس کے برعکس ہمارا دوسرا بہت کامیاب ہسپتال واقع آسو کورے بھی اپنے بہت ہی ماہر ڈاکٹر سے محروم ہونے کے خطرے سے دو چار ہوتا نظر آرہا تھا.خاکسار نے وزارت صحت کے دفتر سے نکل کر سیکٹریٹ پوسٹ آفس سے ہی فوری طور پر ایک تار حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت اقدس میں دعا کے لئے ارسال کیا.اور بعد میں تفصیلی رجسٹر ڈ خط میں خاص دعا کی درخواست کی.جماعت غانا کے افراد کو بھی دعاؤں کی تاکید کی گئی نیز دعاؤں کے ساتھ جو ظاہری ذرائع میسر تھے ان کو بھی بروئے کارلا یا گیا.ہمارے واقفین ڈاکٹر ز صاحبان تو خدمت دین کے جذبہ سے سرشار خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی ملازمتوں سے رخصت بلا تنخواہ لیکر ارض بلال کے باشندوں کو طبی سہولتیں مہیا کرنے گئے تھے وہ ہر قیمت پر اپنا کام جاری رکھنا چاہتے تھے.بہر حال معاملہ صدر حکومت تک پہنچا اور مکرم ڈاکٹر صاحب کی تحریری معذرت پر ختم ہوا.مگر وہ متعصب کمشنر صاحب جو ڈاکٹر بھی تھے وزارت صحت سے فوری تبدیلی کر کے وزارت صنعت میں بھیجے گئے اور بعد میں وہاں سے بھی جلد ریٹائر کر دیئے گئے مگر ہمارے ڈاکٹر صاحب اللہ تعالیٰ کے فضل سے آسوکورے ہسپتال کو کامیابی سے مزید دو سال تک چلاتے رہے.اور ہسپتال کی مستقل عمارت کی تعمیر اور جدید سامان سے آراستہ کرنے کے بعد کامیاب و کامران اپنی رخصت کے اختتام پر غانا سے واپس پاکستان ہوئے بلکہ اس کے بعد تا حال مغربی افریقہ کے دیگر نصرت جہاں سکیم کے ماتحت جاری شدہ ہسپتالوں میں خدمت سلسلہ اور خدمت خلق سرانجام دے رہے ہیں.87 ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب نے اپنے ذاتی خرچ پر آسوکورے میں ایک مسجد تعمیر کی جس کا افتتاح مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر غانا نے ۸ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو فر ما یا.88 سال کے آخر میں اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل خاص ہوا کہ غانا میں جماعت احمدیہ کے جاری کردہ چاروں نئے ہسپتال با قاعدہ رجسٹر ڈ ہو گئے.مجھی 89 66 یہ سال مشن کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اس میں مسجد اقصی اور مسجد محمود کے افتتاح عمل میں آئے.اس سال کی دینی سرگرمیوں کا آغاز یکم و دو جنوری ۱۹۷۲ء ہی سے ہو گیا تھا
تاریخ احمدیت.جلد 28 390 سال 1972ء جب ناندی میں مسجد اقصیٰ اور مشنری کوارٹر کا مولانا محمد صدیق صاحب منگلی انچارج مشن جزائر فجی نے افتتاح فرمایا.جس کے بعد جماعت ہائے احمد یہ جزائری کی دوروزہ سالانہ تبلیغی کانفرنس نہایت تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوئی.مسجد اقصیٰ کے شاندار افتتاح کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا تھا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.میری طرف سے آپ سب کو مسجد اقصیٰ ناندی کا افتتاح کرنا بہت مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور اشاعت کا کامیاب مرکز بنائے.خلافت سے وابستگی اور نظام جماعت کی پابندی اپنا شعار بناؤ.اس پیغام سے حاضرین میں مسرت اور انبساط کی ایک لہر دوڑ گئی جس کے بعد ناندی جماعت کے پریذیڈنٹ بھائی محمد جان خان صاحب نے مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے حالات بیان کر کے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا.(افسوس احمدیت کے یہ شیدائی بقضائے الہی دوسرے روز شب کو اچانک وفات پاگئے.) بھائی محمد جان خان صاحب کے بعد مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی انچارج مغربی اضلاع نے آیت کریمہ إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (التوبہ:۱۹) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے مومن مسجد میں ایسا مطمئن اور ایسے طور پر مسجد سے وابستہ رہتا ہے جیسے کہ مچھلی پانی میں اور بتایا کہ مسجد میں با قاعدہ فریضہ نماز کی ادائیگی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کی ہستی پر یقین زیادہ مضبوط ہوتا اور اعمال صالحہ کی توفیق ملتی ہے.مولا نا محمد صدیق صاحب نے بطور مشنری انچارج اس تقریب میں شامل ہونے والے احمدی، غیر احمدی اور غیر مسلم سب بھائیوں کو خوش آمدید کہا اور بتایا کہ اس مسجد اور مشنری کوارٹرز کی تعمیر و تکمیل اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اسلام کی صداقت کا نشان ہے کیونکہ جب اس عمارت کی بنیاد محترم ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب سابق انچارج نبی احمد یہ مشن نے رکھی تھی تو جماعت کی مالی پوزیشن ہرگز ایسی نہ تھی کہ ہزاروں ڈالر کی یہ عمارت اور اس کے اوپر یہ اتنی وسیع اور شاندار مسجد تیار کر سکتی.لیکن آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہماری نیک نیت ، توکل اور اخلاص سے کی ہوئی قربانیوں کا پھل
تاریخ احمدیت.جلد 28 391 سال 1972ء دے دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے غیب سے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ ہم اس ذمہ داری کو نبھا کر خدا کے اس گھر کی شاندار طور پر تکمیل کر سکے اور آج ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر خوشی اور شکر یہ اور اس کی حمد وثنا کے جذبات سے لبریز ہیں.اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے بدلہ اور شکریہ کا عملی طریق اب یہی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک یہ عہد کرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو آبادرکھنا ہے.ازاں بعد اجتماعی دعا کی گئی اور قرآنی مسنون دعاؤں کی تلاوت کرتے ہوئے مولا نا محمد صدیق صاحب نے مسجد کا افتتاح کیا.مسجد میں داخل ہوتے ہوئے سب نے اونچی آواز سے مسجد میں داخل ہونے کی مسنون دعا پڑھی اور پھر تمام احمدی بھائیوں اور بہنوں نے علیحدہ علیحدہ دو دو رکعت نماز تحیة المسجد کے طور پر ادا کی.پھر اذان دی گئی اور سب نے مل کر باجماعت ظہر کی نماز ادا کی.اس کے بعد سب احمدی، غیر احمدی اور غیر مسلم تمام مہمانوں نے مل کر کھانا کھایا.جس کا انتظام ناندی جماعت کی طرف سے نہایت منظم، عمدہ اور وسیع پیمانہ پر کیا گیا تھا.افتتاحی تقریب کے بعد اسی روز قریباً اڑھائی بجے تبلیغی سالانہ کا نفرنس کا آغاز ہوا.پہلے اجلاس میں مولانا غلام احمد صاحب فاضل بدو ملہوی نے امام آخر الزمان کے ظہور پر مدلل تقریر کی.دوسرے اجلاس میں ماسٹر محمد حسین صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ لٹو کا اور مولوی محمد صدیق صاحب نے نئی زمین اور نیا آسمان کے موضوع پر خطاب فرمایا.اگلے روز آخری اجلاس میں حاجی محمد حنیف صاحب امام الصلوۃ لٹو کا جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام يحى الدين ويقيم الشريعة ، 90 پر روشنی ڈالی.ازاں بعد مولانا غلام احمد صاحب نے اسلامی پردہ کی اہمیت اور سود کی حرمت وغیرہ مسائل از روئے قرآن بیان فرمائے.تقریروں کے بعد جماعتہائے احمد یہ نجی کے عہد یداران کا خاص مشاورتی اجلاس مولوی محمد صدیق صاحب کی زیر صدارت ہوا.جنرل سیکرٹری بھائی محبوب یوسف محمد صاحب نے سال گذشتہ کی کارروائی پڑھ کر سنائی اور تمام جماعتی کاموں کی تفصیل پیش کی.ان کے بعد کمال الدین صاحب سیکرٹری مال نے سال بھر کی مالی رپورٹ پیش کی.پھر جماعت ناندی کے عہدہ داران نے بتایا کہ مسجد اقصیٰ کے اخراجات کے ضمن میں ابھی ایک ہزار ڈالر کے بل قابل ادا ہیں.مسجد فنڈ ختم ہے.مولوی محمد صدیق صاحب نے تمام حاضرین کو جس میں جماعت کے عام احباب بھی شامل کر لئے گئے اس قرض کی فوری ادائیگی کے لئے چندہ کی اپیل کی.چنانچہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسی وقت نقدی اور وعدوں کی صورت میں کم و بیش ایک ہزار ڈالر مہیا ہو گیا.فالحمد للہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 392 سال 1972ء علی ذالک.اس کے بعد لٹو کا احمدیہ سکول میں طلباء کی کثرت کے پیش نظر مزید دو منزلہ عمارت بنانے کا معاملہ پیش ہوا اور لٹو کا اور ناندی کے سب احباب نے یہ ذمہ داری قبول کی اور مالی اور وقت کی قربانی کر کے مجوزہ عمارت کی جلد از جلد تکمیل کا وعدہ کیا.دوسری جماعتوں نے بھی اس میں لٹو کا جماعت کی مدد کا وعدہ کیا.۱۹۷۱ء میں سب نے یہ عہد کیا تھا کہ انشاء اللہ ہر سال نبی میں کم از کم ایک مسجد بنائی جایا کرے گی اور جہاں مسجد بنے وہیں سالانہ جلسہ بھی کیا جائے.چنانچہ اسی بناء پر ناندی میں سالانہ جلسہ کیا گیا.اس سال کے لئے مولوی محمد صدیق صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ سال کے آخر میں سالانہ جلسہ لٹو کا شہر میں کیا جائے بشرطیکہ لٹو کا جماعت وعدہ کرے کہ وہ ناندی کی طرح اس سال شاندار طور پر اپنی مسجد بنالیں گے.ظہر وعصر کی نماز کے بعد مولوی محمد صدیق صاحب نے کوئی آدھ گھنٹہ مختلف ضروری تربیتی امور اور چندوں کی با قاعدہ ادا ئیگی تبلیغ اور نمازوں کی پابندی وغیرہ کی طرف احباب کو خاص تو جہ دلائی اور آخر میں اسلام کی ترقی ، حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور وکیل التبشیر صاحب اور دیگر تمام مسلمان قوموں کی مشکلات کے لئے دعاؤں کی تحریک کی الوداعی دعا کے بعد اجلاس ختم ہوا.91 مسجد محمود مارو کا افتتاح سال کے وسط میں ہوا.مسجد محمود کی تحریک اور اس کے لئے زمین کا حصول اور دیگر سب ابتدائی مراحل شیخ عبدالواحد صاحب فاضل سابق انچارج نجی مشن اور جماعت مارو کی انتھک اور مخلصانہ کوششوں سے انجام پائے.نومبر ۱۹۶۵ء میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا.مارو اور ناندی کے مخلص احمدی بھائیوں اور بہنوں اور بچوں نے بار بار اس کے لئے وقار عمل کیا اور نہ صرف نبی کے مخیر احمدی اور غیر احمدی حضرات نے اس کے لئے مالی قربانیاں کیں بلکہ غیر مسلم معززین نے اس کے لئے چندہ دیا.عمارتی سامان پیش کیا اور اپنی لاریاں اور ٹرک مفت دیئے اس طرح خدا کا یہ گھر ا پریل ۱۹۷۲ء کے آخر میں پایہ تکمیل کو پہنچا اور اس کا افتتاح ۶ مئی ۱۹۷۲ء کو عمل میں آیا جس میں جماعت ہائے احمد یہ نبی کے علاوہ خاصی تعداد میں غیر از جماعت معز مین اور غیر مسلم منجمین اور انڈین احباب نے بھی شرکت فرمائی.افتتاحی تقریب کے لئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا تھا.مسجد محمود مارو کا افتتاح اور تبلیغی جلسہ مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس تقریب کو
تاریخ احمدیت.جلد 28 393 سال 1972ء کامیاب اور سب کے لئے بابرکت کرے اور اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی اشاعت کا موجب بنائے.آپ سب کی کوششوں کو خاص قبولیت اور کامیابی سے نوازے اور اس راہ میں زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے.“ مولوی محمد صدیق صاحب نے یہ ایمان افروز پیغام سنانے کے بعد قرآن کریم کی انہی آیات کی تلاوت کی جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ربوہ میں مسجد اقصیٰ کے افتتاح کے وقت تلاوت فرمائی تھیں.ازاں بعد ان کا ترجمہ اور حسب موقعہ تفسیر بیان کی اور پھر سب حاضرین کے ساتھ اجتماعی دعا کرائی.جس کے بعد سب احباب نے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کئے اور باجماعت نماز ظہر پڑھی.اس کے بعد سب حاضرین نے کھانا کھایا.بعد ازاں مولوی محمد صدیق صاحب کی زیر صدارت افتتاح سے متعلق مسجد محمود میں ایک جلسہ عام ہوا.محبوب یوسف خان صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ نفی نے جماعت کی طرف سے سب دور ونزدیک سے آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور نئی تعمیر شدہ مسجد کے متعلق بعض معلومات بہم پہنچاتے ہوئے بتایا کہ باوجود ظاہری سامان نہ ہونے کے اور بعض بڑی بڑی ہستیوں اور جماعتوں کی طرف سے مخالفت ہونے کے باوجود جماعت احمد یہ مارو کا یہ شاندار عظیم عمارت مکمل کر لینا بلا شک خدا کی قدرت کا زندہ نشان اور احمدیت کے حق میں اس کی تائید و نصرت کی ناقابل انکار دلیل ہے.جنرل سیکرٹری صاحب کی تقریر کے بعد جماعت احمدیہ مارو کے سیکرٹری اعظم خلیل صاحب نے تفصیل سے مسجد محمود کی بنیا د ر کھنے سے اس کی تعمیل تک کے سارے حالات کا جائزہ لیا اور سب مشکلات اور مخالفتوں کے طوفان اور مالی رکاوٹوں وغیرہ کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ غیب سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو خانہ خدا کی بنیا د ر کھنے کے لئے یہاں لے آیا اور انہوں نے نجی کے بعض چوٹی کے لوگوں کے سامنے اس کی بنیاد رکھی اور خاص دعائیں کیں.انہوں نے آخر میں نام بنام کئی ہندو اور غیر مسلم بھائیوں اور غیر از جماعت احباب اور بعض مخیر احمدی احباب کا تذکرہ کیا جنہوں نے محض خدا تعالیٰ کی خاطر اس مسجد کی تعمیر میں بذریعہ مال اور سامان مدد بہم پہنچائی اور ان سب کا شکریہ ادا کر کے ان کے لئے دعا کی درخواست کی.اس سلسلہ میں خلیل صاحب نے جماعت احمد یہ ناندی کے سابق پریذیڈنٹ محمد جان خان صاحب مرحوم کا خاص طور پر ذکر فرمایا کہ وہ اس مسجد کی بنیاد سے لے کر اپنی وفات تک اپنے شہر ناندی سے
تاریخ احمدیت.جلد 28 394 سال 1972ء آکر ہماری مدد فرماتے رہے اور اپنے وقت اور مال کی قربانی کرنے کی انہیں تو فیق ملتی رہی.آخر میں مولوی محمد صدیق صاحب نے آیت کریمہ ان المساجد الله...الخ اور وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ منع مساجد الله..الخ کی تلاوت کر کے اسلام میں مسجد کا مقام اور حکمت وافادیت واضح کی اور سب احباب اور حاضرین اور کارکنوں کا شکریہ ادا کیا.نیز مسجد کی بعض ضروریات کے لئے چندہ کی اپیل کی جس کے نتیجہ میں تقریباً دوسو پچاس ڈالر خدا کے فضل سے اسی وقت جمع ہو گئے.92 مولوی محمد صدیق صاحب انچارج مشن نجی نے مارچ ۱۹۷۲ء میں صووا کے میئر جناسی آرمیکو سلائو (CR) Macu Salato) کو انگریزی ترجمہ قرآن اور دوسرا اسلامی لٹریچر تحفتہ پیش کیا.اس تقریب کی نمایاں تصویر اخبار نجی ٹائمز“ نے امارچ ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں دی.جزائر ٹونگا کے بادشاہ کو تبلیغ اسلام امسال ۱۹۷۲ء میں ٹونگا کے بادشاہ اور ملکہ نبی میں پہلی مرتبہ اپنے آفیشل خیر سگالی دورے پر تشریف لائے.جس پر مبلغ انچارج نجی نے مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری نے شاہ ٹونگا کولکھا کہ آپ کی نجی میں آمد پر ہم ممبران احمدیہ مسلم جماعت نبی آپ کو خوش آمدید کہنے کے لیے آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں.موصوف اس ملاقات کے بارہ میں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلے سے طے کردہ پروگرام کے مطابق شاہ ٹونگا کی نجی میں آمد پر وزیر اعظم موصوف کے بنگلہ پر جماعت احمدیہ نبی کے وفد کی ان سے ملاقات ہوئی.شاہ ٹونگا بالقابہ نے خود دروازے پر تشریف لا کر وفد کا استقبال کیا اور اندر لے جا کر بٹھایا.موصوف نے اس موقع پر بادشاہ اور ملکہ محترمہ کو مخاطب کرتے ہوئے ایڈریس انگریزی زبان میں پڑھا جس میں انہیں احمدیت کا تعارف کروایا گیا اور ترجمہ قرآن کریم کے دو مختلف مگر تازہ ایڈیشن اور چند دیگر اسلامی کتب پیش کیں نیز انہیں عالمگیر مصلح کے ظہور ، قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بائیبل کی پیشگوئیاں سنائیں.اس موقع پر موصوف نے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا ذکر کیا.آپ کے اس ایڈریس کے بعد قرآن کریم و دیگر کتب احتراماً کھڑے ہو کر وصول کرنے کے بعد فرمایا میں آپ کے اس دلچسپ ایڈریس اور قرآن کریم اور دیگر مقدس تحائف مجھے پیش کرنے پر
تاریخ احمدیت.جلد 28 395 سال 1972ء آپ کی جماعت کے ممبران کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کرتا ہوں.93 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے حکم سے جزائر فجی میں تبلیغی سرگرمیوں کو وسیع تر کرنے کے لئے مولوی غلام احمد صاحب فرخ ۲۲ جون ۱۹۷۲ء کو بذریعہ ہوائی جہاز پاکستان سے ناندی پہنچے.فضائی مستقر پر مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے نجی کے دوسرے مخلصین جماعت کی معیت میں ان کا استقبال کیا.ناندی (Nandi) لٹو کا (Lautoka) اورصووا (Suva) ( دار الحکومت نجی) کی جماعتوں نے آپ کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب اور اجتماعات کا انتظام کیا جس سے مولوی محمد صدیق صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب فرخ نے خطاب فرمایا اور سوالوں کے جوابات بھی دیئے.ے جولائی کو دونوں مرکزی مبلغین تعارفی دورے کے سلسلہ میں جزائر فجی کے دوسرے بڑے جزیرہ و مینولیو (Vanua Levu ) تشریف لے گئے اور اس کے دارالحکومت لمباسہ (Labasa) اور جزیرہ کے طول وعرض میں پھیلی ہوئی دوسری جماعتوں میں جلسہ عام منعقد کئے اور لٹریچر تقسیم اور فروخت کرنے کا موقع ملا.دورے کے بعد یہ دونوں حضرات صووا (Suva) آگئے.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری یہیں رہے اور مولوی غلام احمد صاحب فرخ کو مغربی حلقہ کی احمدی جماعتوں کی نگرانی سپرد ہوئی اور مرکز ناندی (Nandi) تجویز ہوا.آپ نے اولین فرصت میں ناندی (Nandi) کے علاوہ لٹو کا (Lautoka)، مارو اور با کی جماعتوں کے متعدد دورے کئے اور ہندو، سکھ، عیسائی اور فجنین معززین سے انفرادی ملاقاتیں کر کے پیغام حق پہنچایا اور ہر جماعت میں متعدد اجتماعات اور جلسے کئے اور اسلام کے فضائل، ہستی باری تعالیٰ کے دلائل، فضائل قرآن، صداقت مسیح موعود علیہ السلام، برکات خلافت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارفع مقام اور سیرت طیبہ اور اسلام کا عالمگیر غلبہ کے موضوعات پر روشنی ڈالی.۲۸ جون ۱۹۷۲ء کو دونوں مرکزی مبلغین نے مصری سفیر متعینہ کیمبرا ( Canberra) آسٹریلیا سے تبلیغی ملاقات کی اور جماعت احمدیہ کی عالمگیر دینی خدمات سے متعارف کرانے کے علاوہ سفارت خانے کی لائبریری کے لئے جماعتی لٹریچر بھی پیش کیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.موصوف اپنے سرکاری دورہ پر منبی آئے ہوئے تھے اور صووا (Suva) کے ایک بڑے ہوٹل میں فروکش تھے.مولوی غلام احمد صاحب فرخ اپنی پندرہ روزہ رپورٹ (از ۱۶ تا ۳۱ / اگست ۱۹۷۲ء) میں تحریر فرماتے ہیں:.ا.اس دوران حسب ذیل جماعتوں اور مقامات کا دورہ کیا.صودا، مارو، ناندی اور لٹو کا کے دورہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 396 سال 1972ء میں مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور خاکسارا کٹھے تھے.۲.اس دوران مختلف اجتماعات اور مواقع پر ۹ تقاریر کیں.صووا میں دو جلسے کئے گئے جن میں خاکسار نے خطاب کیا اور تبلیغی و تربیتی امور کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی.لٹوکا میں جماعتی اجتماع کیا جس میں خاکسار نے ختم نبوت کی حقیقت بیان کی اور ایک دوست کے سوالات کے جوابات دیئے.احمد یہ سکول لٹو کا کی اسمبلی میں طلباء کو خطاب کیا اور اسلام کے اخلاق کے بارے میں تعلیم پر روشنی ڈالی.مارو میں دو اجتماع کئے گئے.ایک جلسہ خاص اہتمام سے کیا گیا جس میں احمدی مرد وزن دو کے علاوہ ہندو اور عیسائی اور نجسین یعنی اصلی ملکی باشندے بھی موجود تھے.خاکسار نے جملہ مذاہب کے مقابلہ میں اسلام کی امتیازی شان کو بیان کیا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے موعود اقوام عالم ہونے پر خاص طور پر روشنی ڈالی.اس موقعہ پر ۸۰ کے قریب معززین شامل ہوئے.جلسہ کے بعد بعض نے بہت اچھے تاثرات کا اظہار کیا.غرض مختلف جلسوں اور اجتماعات کی صورت میں خطاب کر کے تین صد سے زائد افراد کو پیغام حق پہنچایا._Travelodge Hotel صودا میں رومانیہ سے ایک پادری آیا.اس نے ہوٹل سے فون کیا کہ وہ احمدی مبلغین سے ملنا چاہتا ہے چنانچہ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب اور خاکسار رات کو ۹ بجے اس کو ملنے کے لئے ہوٹل پہنچے.اس نے بتایا کہ وہ ۱۴ سال رومانیہ کی کمیونسٹ حکومت میں قید میں رہا ہے اس نے بتایا کہ میں نے احمدیت کا ذکر سنا ہے.اس سے دو گھنٹے گفتگو ہوئی.اس کو بتایا کہ مسیح کی اہنیت ، صلیب پر مرکز کفارہ ہونا، مسیح کا عالمگیر مشن سب باطل ہے اور مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوا بلکہ خدا نے اسے سچے نبیوں کی طرح بچایا اور وہ ہجرت کر کے کشمیر پہنچا جہاں اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیں تھیں اور کشمیر میں فوت ہوا.پادری صاحب کو سلسلہ کا لٹریچر دیا گیا.مارو میں گورنمنٹ ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر مسٹر رفاعی سے ملا.یہ عیسائی ہیں اور نجی کے قریب کے دوسرے جزیرہ کے رہنے والے ہیں.مسٹر شمشیر خاں صورا انسائیکلو پیڈیا برٹین کا کے سیل ایجنٹ ہیں ان کو لٹریچر دیا گیا اور سلسلہ کا تعارف کرایا گیا اور تبلیغی مساعی ان کو بتائی گئیں.94 ۲۰ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو جزائر نجی کے اصلی باشندوں ( یہ لوگ کا ویتی کہلاتے ہیں عام روایت کے مطابق مشرقی افریقہ سے نجی میں آباد ہوئے جہاں انگریزوں کے آنے کے ساتھ ہی عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے ) کو دعوت حق دینے کے لئے ایک خاص تقریب منعقد ہوئی جس میں مولوی غلام
تاریخ احمدیت.جلد 28 397 سال 1972ء احمد صاحب فرخ نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح علیہ السلام کی ہجرت کشمیر اور بائبل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور پیشگوئیوں کے بارے میں لیکچر دیا.مقامی جماعت نے مہمان نوازی کا حق ادا کیا اور ان کے چیف کو اسلامی لٹریچر پیش کیا جس پر ان لوگوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا.ازاں بعد ایک روز جناب فرخ صاحب احباب جماعت کے ساتھ ان کی بستی میں بھی تشریف لے گئے اور ان میں کا ویتی اور انگریزی لٹریچر تقسیم کیا.۲۴ نومبر کو نجی ایک خطرناک سمندری طوفان کی زد میں آگیا.کروڑوں روپے کا نقصان ہوا کئی جانیں ضائع ہوئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے احباب بڑی حد تک محفوظ رہے.احمد یوں نے مصیبت زدہ لوگوں کی ہر طرح مدد کی.کھانا کھلایا اور سامان دیا.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۴۰۰ بجین ڈالر مصیبت زدگان کے لئے نجی امریکن ریلیف فنڈ میں ارسال فرمائے.علاوہ ازیں مقامی احمد یہ جماعت نے مالی قربانی پیش کی.سال کے آخر میں مشن کی دینی سرگرمیاں عروج پر پہنچ گئیں.ریڈیو پر تقاریر ہوئیں.لمباسہ (Labasa) شہر میں مسجد ناصر الدین کی بنیاد رکھی گئی.ملک کے طول وعرض میں کثرت سے دینی لٹریچر تقسیم کیا گیا.۴۰۰ کے قریب تبلیغی خطوط لکھے گئے.اس مساعی کے نتیجہ میں ۲۲/افراد داخل احمدیت ہوئے.چنانچہ مولوی غلام احمد صاحب فرخ اپنی ایک مطبوعہ رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ فجی میں لٹو کا (Lautoka) دوسرا بڑا شہر ہے.اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے دو سکول جاری ہیں.تحریک جدید انجمن احمد یہ فارن مشنز سکول اور کنڈرگارٹن سکول.مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری اور خاکسار معاینہ کے لئے دو مرتبہ وہاں گئے.سکول کے انتظامات کی دیکھ بھال کے علاوہ سکول کے اساتذہ و طلباء کو خطاب بھی کیا اور انہیں نصائح کیں.دومرتبہ سٹاف میٹنگز ہوئیں.طوفان کی وجہ سے ہمارے سکول کے اکثر کمروں کی چھت بھی اڑ گئی تھی جس کو اب دوبارہ تعمیر کیا جارہا ہے.ان دونوں سکولوں کے تعلیمی نتائج اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی اچھے ہیں اور اس علاقہ کے لوگوں پر اس کا اتنا اثر ہے کہ وہ جماعت کی تعلیمی اور اسلامی خدمات کے معترف ہیں.علاقہ کے سینکڑوں لوگوں کو جن کے مکانات تباہ ہو گئے تھے عرصہ تک احمد یہ سکول کی ایک عمارت میں جو بیچ رہی تھی رہائش کے لئے جگہ دی گئی اور ہر ممکن خدمت ان کی کی گئی.ان میں سے کئی لوگ اب ہمارے سکول کی عمارت کی تکمیل
تاریخ احمدیت.جلد 28 398 سال 1972ء میں مدد کر رہے ہیں.جزاھم اللہ تعالیٰ.مولانا محمد صدیق صاحب کو ریڈیو نجی کے ریلیجیس پروگرام میں شمولیت کا موقع ملتا رہا اور اس دوران انہوں نے دو تقاریر کیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا.جزائر فجی کا دوسرا بڑا کا دوسرا بڑا جزیرہ وینوالیوو (Vanua Levu) ہے.اس کا ہیڈ کوارٹر لمباسہ (Labasa) شہر ہے.نومبر کے آخر میں وہاں تبلیغی و تربیتی جلسے منعقد کئے گئے.دو مبلغین نے ان میں تقاریر کیں.۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء کو اتوار کے روز لمباسہ شہر میں مسجد کا سنگ بنیا درکھا گیا.اس مسجد کا نام ”مسجد ناصر الدین رکھا گیا ہے.اس روز جزیرہ میں واقع تمام جماعتوں کے احباب لمباسہ میں جمع ہوئے اور خدام اور اطفال نے مل کر مسجد کی بنیاد کا کام پر جوش رنگ میں وقار عمل منا کر کیا.لجنہ اماء اللہ کی ممبرات نے کھانا تیار کر کے اس کارخیر میں حصہ لیا.جملہ احباب نے صبح 9 بجے سے ۵ بجے شام تک نہایت جوش اور تندہی سے کام کیا.اسی روز ۴ بجے شام اجتماعی دعا کے ساتھ سنگ بنیا درکھنے کی تقریب عمل میں لائی گئی اور اجتماعی دعا کے بعد پہلی اینٹ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے رکھی اور دوسری اینٹ غلام احمد فرخ صاحب نے رکھی.علاوہ ازیں پریذیڈنٹ جماعت ولوکا (Voloca) حاجی رحیم بخش صاحب، پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ لمباسہ مکرم ممتاز علی منقبول صاحب بیرسٹر لمباسہ نمائندہ جماعت احمد یہ ناسر وانگا (Nasara waqa) عبدالرحمن صاحب اور سیکرٹری صاحب جماعت لمبا سه مولوی محمد صاحب نے بھی ایک ایک اینٹ بنیاد میں نصب کی.اجتماعی وقار عمل کا یہ نظارہ ملکی شاہراہ پر آنے جانے والے ہر شخص کو متاثر کرتا تھا.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کا لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.پچاس سے زائد کا پیاں قرآن کریم انگریزی کی فروخت کی گئیں.رسالہ تحریک جدید بھی کثرت سے تقسیم کیا گیا.دیگر لٹریچر بھی حسب موقعہ موزوں لوگوں کو دیا گیا.بذریعہ ڈاک بھی کافی تعداد میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، ٹونگا (Tonga) اور گلبرٹ آئی لینڈز کے لوگوں کو ارسال کیا گیا.اس دوران تبلیغ و تربیت کے سلسلہ میں تقریباً ۴۰۰ خطوط اندرونِ ملک اور ممالک بیرون میں لکھ کر روانہ کئے گئے.بعض لوگوں کے سوالات کا جواب لکھ کر ارسال کیا گیا اور اس رنگ میں بھی تبلیغی
تاریخ احمدیت.جلد 28 399 سال 1972ء اور تربیتی سلسلہ جاری رہا.عرصہ زیر رپورٹ میں ہر جگہ جماعتوں میں قیام کے دوران درس تفسیر صغیر، درس احادیث اور درس کتب و ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام دیا جاتا رہا اور حسب موقعہ ضروری مسائل بیان کئے گئے جو احباب کے لئے ازدیاد علم و ایمان کا باعث ہوئے.بعض احباب کو سبقاً سبقاً بھی اسلامی کتب پڑھانے کا موقعہ ملا.مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے اسی رپورٹ میں یہ بھی تحریر فرمایا کہ نفی میں ہر جماعت میں لجنہ اماءاللہ کا نظام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہے اور لجنہ کی اراکین نے اپنے فرائض انجام دیئے.ان کے الگ اجلاس ہوئے.جن میں دو مبلغین نے حسب موقع تقاریر کیں اور احمدی مستورات کے فرائض، نماز کی پابندی اور تربیت اولا دوغیرہ مضامین بیان کئے.نیز مرکزی لجنہ سے آمدہ ہدایات پر عمل کروایا گیا.اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۲۲ /افراد نے بیعت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے.95 کینیا اس مشن کے انچارج مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق تھے جن کا ہیڈ کوارٹر نیروبی تھا.علاوہ ازیں کسوموں میں مولوی محمد عیسی صاحب اور ممباسہ میں مولوی منیر الدین احمد صاحب اور (دسمبر ۱۹۷۲ء سے ) مولوی عبدالحفیظ صاحب کھوکھر دینی خدمات بجالاتے رہے.مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے اخبار احمد یہ نیروبی مورخہ اپریل ۱۹۷۲ء میں مشن کی دینی سرگرمیوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.”خاکسار کو متعدد بار کنیاٹا کالج جا کر اخبارات کی تقسیم اور طلبہ سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا.اس کالج کے سیکنڈری سیکشن میں بھی اس بار جانے کا موقع ملا.طلبہ سے گفتگو ہوئی.ایک یورپین ٹیچر نے دلچسپی سے مسیح کے واقعہ صلیب کے بارہ میں گفتگوسنی اور کہا کہ بالکل ممکن ہے اسی طرح ہی ہوا ہو جیسے آپ نے بیان کیا ہے.پاور اینڈ لائٹنگ سکول میں بھی چند بار جانے کا موقع میسر آیا.یہاں بھی طلبہ دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں.چنانچہ ۷ رشہادت کو رات کے سوا آٹھ بجے اس سکول میں خاکسار کو اسلام کا تعارف کرانے
تاریخ احمدیت.جلد 28 کیلئے مدعو کیا گیا.400 سال 1972ء متعدد افراد نے اخبار ٹائمز کے بارہ میں کہا کہ اس میں عیسائیت کے خلاف جارحیت کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے.یہ اعتراض ایک کیتھولک پادری نے بھی کیا.اس پر ایسے لوگوں کو ماہ امان (مارچ ) کے اداریے کا حصہ مکمل "OPEN TO ALL" دکھایا اور کہا کہ آپ عیسائیت کے حق میں یا اسلام پر اعتراض کے رنگ میں مضامین لکھیں.ہم ٹائمز میں شائع کریں گے.ہاں تحریر میں گالی گلوچ نہ ہو.اس پر مذکورہ عیسائی پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور اخبار کا سال کا چندہ ادا کیا.ان پادری صاحب اور بعض دیگر لوگوں کا خیال ٹائمز میں مضامین لکھنے کا ہے.بے شک لکھیں.اس طرح ہمیں جوابات دے کر ان کے شکوک دور کرنے کا موقع میسر آئے گا.فرسٹ آل افریقہ ٹریڈ فئیر میں خاکسار ایک دن گیا اور سینکڑوں پمفلٹ تقسیم کئے.پہلے عربی و فرنچ بولنے والے ممالک کے سٹالوں پر گیا.ان سے گفتگو کی اور عربی و فرنچ لٹریچر پیش کیا.اسلامی افریقی ممالک کے سٹالوں پر خاص طور پر ہمارے لٹریچر کا خیر مقدم کیا گیا.سٹالوں پر چکر لگانے کے بعد پبلک میں انگریزی اشتہارات بکثرت تقسیم کئے.اس نمائش میں دو احمدی نوجوان مکرم حسین صالح صاحب اور مکرم سعید جمان صاحب بطو ر تر جمان ( برائے عربی ) کام کرتے رہے.Starehe Boys Centre میں خاکسار حسب سابق با قاعدگی سے ہفتہ میں دو بار مسلم طلبہ کو دینیات پڑھانے کیلئے جاتا رہا.پڑھانے کے علاوہ لٹریچر بھی تقسیم کیا.ایک ٹیچر اسلام میں دلچسپی لیتا رہا.نیز Pumwani اور Kariakoo مارکیٹ میں بھی سواحیلی اخبارات تقسیم کئے گئے.بیرونی کام کے علاوہ مشن ہاؤس میں آنے والے زائرین سے تبادلہ خیالات کیا گیا.انہیں لٹریچر دیا گیا.نیز بعد نماز مغرب درس ملفوظات اردو و سواحیلی میں دیا جا تا رہا.ایک اثنا عشری نوجوان ہفتہ میں دو بار عربی پڑھنے کے لئے آتا رہا.اس سے مختلف مواضیع پر گفتگو بھی ہوئی اس نے لٹریچر خریدا.اخبار احمد یہ نیروبی اسی پرچہ میں کسوموں اور ممباسہ مشن کی نسبت لکھا ہے :.مکرم مولوی محمد عیسی صاحب نے مارا گولی، یالا ، مٹاوا، جبروک، کیسا، اسیمبو اور Ugenya کی جماعتوں کے متعدد بار دورے کئے.مورخہ ۱۲ مارچ کو تمام جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس مٹاوا جماعت میں ہوا.دس جماعتوں کے نمائندوں نے شرکت کی مختلف موضوع زیر بحث آئے تبلیغی وفود بھجوانے کا پروگرام طے پایا جس کے مطابق مکرم عبد الرحمن صاحب جنرل سیکرٹری جماعت بٹیرے
تاریخ احمدیت.جلد 28 401 سال 1972ء (Butere) اور سلیمان صاحب تین روز تک Ugenya کے علاقے میں مقیم رہے اور تبلیغ و تقسیم لٹریچر کا کام کیا.۶ عیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے.کا کا میگا میں فاضل رشیدی صاحب آف مارا گولی اور مسٹر عثمان آف مٹا واہ معلم یوسف صاحب کے ہمراہ گئے اور سارا دن ٹاؤن اور نواح میں تبلیغ کرتے رہے.مٹاوا جماعت نے تعمیر مسجد کے سلسلے میں دوسر او قادر عمل منایا جس میں تمام جماعت شریک ہوئی.معلمین اپنے اپنے علاقوں میں مصروف عمل رہے.معلم حسن رشیدی صاحب مٹاوا میں بچوں کی کلاس کو روزانہ پڑھاتے رہے.معلم یوسف صاحب مارا گولی ، جبروک اور دیگر علاقوں میں کام کرتے رہے.معلم رجب علی صاحب کو سنی مسلمانوں کی دعوت پر Busia کے علاقہ Teso میں بھجوایا گیا جہاں آپ نے دو روز قیام کر کے تبلیغ کی.مکرم مولوی منیر الدین صاحب کو الے اور Matuga سکولوں میں ہفتے میں ایک ایک بار اور Kinango سکول میں ہفتہ میں تین بار دینیات پڑھانے کے لئے جاتے رہے.اس ماہ سے Waa سیکنڈری سکول میں ہفتہ میں ایک بار پڑھانا شروع کیا ہے.پڑھانے کے علاوہ آپ طلبہ سے زبانی گفتگو بھی کرتے رہے.نیز لٹریچر تقسیم کیا اور کچھ فروخت بھی ہوا.Kwale میں غیر از جماعت لوگوں سے ملاقات کر کے انہیں تبلیغ کی اور لٹریچر فروخت کیا.Kinango مارکیٹ میں آپ نے لٹریچر تقسیم کیا اور بیچا.پرائمری سکول میں اساتذہ سے ملاقات کر کے انہیں اخبارات دیئے نیز لٹریچر مطالعہ کے لئے دیا.Waa سنٹر میں چیف نے بھی کتب خریدیں.Tiwi، Kaloleni،Milalani ، Ramisi اور Likoni کا آپ نے دورہ کیا.Tiwi سے ایک دوست جو کہ مکرم مولوی صاحب سے گفتگو کے بعد جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے.مکرم مولوی صاحب ان کے علاقہ میں گئے اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی.امریکن جہاز SS Universe Campus ممباسہ آیا تو مکرم مولوی صاحب نے مکرم حسین صالح صاحب کی معیت میں Campus کے ڈین سے ملاقات کر کے انہیں لائبریری کے لئے کتب پیش کیں.نیز فرنچ نیوی کے تین جہازوں میں بھی آپ نے جا کر فریج زبان کی کتب تحفہ دیں.کونسلر شیخ حیدر الکندی مشن میں تین بار آئے اور لٹریچر حاصل کیا.آپ جماعتی مساعی کو بہت سراہتے ہیں.“ مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق مشن کے انگریزی ماہنامہ East African Times اور سواحیلی ماہنامہ Mapenzi Ya Mungu (محبت الہی کی ادارت کے فرائض باقاعدگی سے ادا کرتے تھے اور بعض سکولوں میں دینیات بھی پڑھاتے تھے.نیروبی کے اخبار East African
تاریخ احمدیت.جلد 28 402 سال 1972ء Standard, Nairobi میں کوالے ایسٹ (Kwale East) کے نمائندے اور ممبر آف پارلیمنٹ مسٹر کے موامزاندی Mr.K.Mwamzandi کا یہ بیان شائع ہوا کہ اسلام میں غیر مسلم عورت سے شادی کی اجازت نہیں مگر داشتہ (بے نکاحی عورت ) رکھنے کی اجازت ہے.مسٹر موامزاندی.Mr.K Mwamzandi ڈپٹی سپیکر بھی تھے.ملک کے ایک ذمہ دار اور مقتدر شخص کے اس بیان پر مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے نیروبی کے اخبار East African Standard مورخہ ۱۰ مئی ۱۹۷۲ء میں لکھا کہ کو الے کے نمائندہ کی یہ دونوں باتیں غلط ہیں اور اس تعلق میں آیات قرآنیہ درج کرتے ہوئے نهایت مبسوط اور مسکت جواب تحریر فرمایا.96 اس پر ایک عیسائی عورت نے لکھا کہ عرب اور دیگر ممالک مسلمان عملاً داشتہ رکھتے رہے ہیں.اس کے جواب میں مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق اور ان کی اہلیہ کی طرف سے اسی اخبار میں ۱۹ اور ۲۲ مئی کو نہایت زبردست جواب شائع کرایا گیا.97 ماہ جون میں نیروبی کے سواحیلی اخبار میں سواحیلی زبان کے بارے میں ایک علمی بحث چلی جس میں سواحیلی زبان کے ایک ماہر نے گرائمر کے ایک نکتہ کو موضوع بنا کر اپنا موقف پیش کیا.مولانا جمیل الرحمن صاحب نے اس پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جو فوٹو کے ساتھ نمایاں طور پر شائع ہوا.جس میں آپ نے مضمون نگار کے موقف کو غلط ثابت کیا.مضمون نگار نے جواب میں دو مثالیں پیش کیں کہ ان کا کیا حل ہے؟ مولانا جمیل الرحمن صاحب نے جواب الجواب میں دونوں مثالوں بلکہ بعض اور مثالوں کا بھی مدتل حل پیش کیا.یہ جواب الجواب بھی اخبار نے نمایاں رنگ میں شائع کیا جس کے بعد سواحیلی زبان کے اس فاضل نے بالکل خاموشی اختیار کر لی.ممباسہ کے قومی تہوار اور سالانہ ایگریکلچرل شو میں حسب معمول احمد یہ مشن کا سٹال بھی لگایا گیا.مولانا جمیل الرحمن صاحب اور مولوی محمد عیسی صاحب مولوی منیر الدین احمد صاحب کی امداد کے لئے ممباسہ تشریف لے گئے.افتتاح صدر مملکت مسٹر جوموں کینیا ٹا نے کیا.ہزار ہا افراد سٹال پر آئے.لٹریچر دیکھا اور خریدا.کل ۸۳۹ شلنگ کا لٹریچر فروخت ہوا.نہایت کثرت سے مفت لٹریچر بھی دیا گیا اور لوگوں کے استفسارات کے جوابات بھی دیئے گئے.اس طرح کثیر التعداد افراد تک پیغام حق پہنچا.شوگراؤنڈ ہی سے اس کا آنکھوں دیکھا حال ریڈیو کینیا سے ریلے کیا جاتا تھا.دس منٹ کے لئے مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق کا ایک انٹرویو بھی نشر کیا گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ مشن کے سٹال میں ہم کیا لٹریچر پیش
تاریخ احمدیت.جلد 28 403 سال 1972ء کر رہے ہیں اور ہماری جماعت کی کہاں کہاں شاخیں ہیں اور کتنے مبلغ ہیں.مبلغین کے علاوہ بعض احمدی احباب نے اس موقعہ پر ہاتھ بٹایا اور سٹال پر باری باری حاضر رہے.شو میں شیعہ حضرات کا سٹال بھی تھا جنہوں نے بچوں کے لئے ایک سوالنامہ جاری کیا.جس کے حل پر ایک احمدی بچے خرم بیگ صاحب ابن اکرم بیگ صاحب نے پہلا انعام ۱۰۰ روپے کا حاصل کیا جس میں سے ہیں مسجد کو دے دیئے.ممباسہ کے علاوہ نیروبی شو میں بھی احمد یہ سٹال موجود تھا.مولانا جمیل الرحمن صاحب کا ہاتھ بٹانے کے لئے مولوی منیر الدین احمد صاحب اور مولوی محمد عیسی صاحب نیروبی پہنچ گئے.اس سٹال کے ذریعہ سے بھی بھاری خلقت تک احمدیت کا پیغام پہنچا جس میں ہر مذہب وملت اور ہر رنگ ونسل کے لوگ شامل تھے.سٹال پروزیر رسل و رسائل مسٹر نگالہ MR.NGALA اور مسٹر جہازی بھی تشریف لائے.مؤخر الذکر نے متعدد کتب خریدیں.۷۵ / ۷۷۵ شلنگ کا لٹریچر فروخت ہوا.مولانا جمیل الرحمن صاحب نے اس سال متعدد اہم شخصیات تک پیغام حق پہنچایا اور لٹریچر دیا.مثلاً کینیا نیوز ایجنسی کے انفارمیشن آفیسر ، پی آئی اے کے افریقن نمائندے مسٹر الکندی.ہر اتوار کو عبدالعزیز صاحب بٹ ایسٹلے میں اور مزے عنبر اور محمود وصاحب پوموانی لٹریچر تقسیم کرنے میں کوشاں رہے.۱۳ مئی ۱۹۷۲ء کو انہوں نے جماعتی نمائندوں کا ماہانہ اجلاس کسوموں مشن میں بلایا.۳۰ نمائندوں نے شرکت کی.اجلاس کی کارروائی بعد نماز مغرب شروع ہو کر صبح کے تین بجے تک جاری رہی.درمیان میں صرف نماز عشاء اور کھانے کا وقفہ دیا گیا.بعدہ نماز تہجد ادا کی گئی.بعد نماز فجر درس القرآن اور پھر ناشتہ کے بعد دوست اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوئے.Butere کے نزدیک ایک دوست کے گھر جلسہ ہوا.مولوی محمد عیسی صاحب معلم حسن کے ہمراہ اس تقریب میں شامل ہوئے.۵ افراد نے بیعت کی معلمین اپنے اپنے علاقوں میں تبلیغی و تربیتی کاموں میں مصروف رہے.مولوی محمد عیسی صاحب نے مندرجہ ذیل مقامات کا دورہ کیا.Kisa_Butere_Ugenya.Maragoli_Matawa اور Mautuma.ایک دوست نے Shibinga کی نئی جماعت کے لئے مسجد کی خاطر پلاٹ دیا.آپ نے اس پلاٹ کی پیمائش کی اور نشانات لگائے.آپ کے ساتھ معلم حمیسی صاحب اور معلم حسن رشیدی صاحب بھی تھے.رپورٹ کے مطابق اگلے ماہ خدا کے اس گھر کی تعمیر شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا.مولوی محمد عیسی صاحب کسوموں کے علاوہ اس سال کے آخر میں چند ماہ کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 404 سال 1972ء لئے ممباسہ مشن کے انچارج کے فرائض بھی انجام دیتے رہے.مبلغ ممباسه مولوی منیر الدین احمد صاحب کو الے ( K wale) ، وا ( Waa)، کنانگو (Kinango) اور ماٹو گا (Matuga) کے سیکنڈری سکولوں میں دینیات پڑھاتے رہے اور طلباء کی سہولت کے لئے نوٹس سائیکلوسٹائل کر کے دیتے تھے.اسباق کے علاوہ طلبہ و طالبات میں دینی لٹریچر تقسیم کیا اور ان کے سوالات کے بھی جواب دیئے.مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق کے قلم سے اخبار احمد یہ نیروبی جون ۱۹۷۲ء میں کینیا مشن کی رپورٹ درج ذیل ہے:.گزشتہ ماہ انگریزی روز نامہ میں خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا.کینیا نیوز ایجنسی کا ایک انفارمیشن آفیسر دفتر میں آیا اور مختلف استفسارات کئے.کچھ کتب اسے بطور تحفہ دی گئیں جو اس نے خوشی کے اظہار کے ساتھ قبول کیں.ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ دو دن مشن ہاؤس میں رہے ان سے بھی مختلف مواضیع پر گفتگو ہوتی رہی.بفضلہ تعالیٰ کینیاٹا (Kenyatta) کالج میں جانے کا موقع بھی ملا جہاں حسب سابق طلبہ سے گفتگو کرنے اور ان میں لٹریچر تقسیم کرنے کا موقع ملا.ایک اثناعشری نوجوان حسب دستور ہفتہ میں دو بار عربی پڑھتا رہا.اس سے مذہبی گفتگو بھی ہوتی رہی.ایک افریقن جو کئی بار ہمارے ساتھ نماز جمعہ ادا کر چکا ہے اس نے بیعت کی.اس کی بیوی نے بھی جو کہ عیسائی تھی اسلام قبول کر لیا.ایک سنی دوست جو کہ گھر پر آیا سٹینڈرڈ اخبار میں خط و کتابت پر گفتگو ہوئی.اسے لٹریچر دیا.لجنہ اماءاللہ نیروبی نے ۲۰ تاریخ کو مسجد میں جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کیا جس میں بہت سی غیر احمدی خواتین بھی شامل ہوئیں جن میں تنزانیہ کے پاکستانی سفیر کی اہلیہ بھی شامل ہیں.جلسہ بفضلہ بہت کامیاب رہا.علاوہ ازیں ۲۷ تاریخ کو جلسہ یوم خلافت کا انعقاد بھی کیا.کسوموں مشن کے مبلغ مکرم محمد عیسی صاحب لکھتے ہیں کہ ممیاس (Mumias) سے ۵ میل کے فاصلے پر بمقام Shianda کے امام مسجد کی دعوت پر خاکسار ہمراہ معلم حسن رشیدی، طالب علم رجب شعبان وہاں گیا.احمدیت پر تفصیلی گفتگو کا موقعہ ملا.حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے گئے.خدا کے فضل سے چالیس افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.مارا گولی کے احمدی دوست فاضل رشیدی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا.عقیقہ کی تقریب میں شرکت کی.معلم یوسف اور معلم رجب و معلم حسن بھی ساتھ تھے.خاکسار نے اس موقعہ پر عقیقہ کے بارہ میں اسلامی
تاریخ احمدیت.جلد 28 405 سال 1972ء 66 مسائل بیان کئے اور رسومات سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.“ مولا نا جمیل الرحمن رفیق صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں کہ کنیا ٹا کالج میں جا کر طلبہ سے گفتگو اور انہیں انگریزی اخبارات دینے کا موقع ملا.اسی طرح Pumwani میں سواحیلی زبان کے اخبارات تقسیم کرنے اور گفتگو کرنے کا موقع میسر آیا.علاوہ ازیں Kariakoo میں بھی سواحیلی اخبارات تقسیم کئے.ایک شخص نے بہت دلچسپی کا اظہار کیا.پاور اینڈ لائٹنگ سکول میں بھی حسب سابق جانے کا موقع ملا اورطلبہ کوانگریزی اخبارات دیئے.دو ستی ایشین متعدد بار تبادلہ خیالات کرنے کے لئے آتے رہے.ان میں سے ایک کو سلسلہ کی چند کتب دیں جو کہ اس نے پڑھ کر واپس کیں اور کہا کہ ان کے مطالعہ سے میرے علم میں اضافہ ہوا ہے.دوسرے دوست نے ختم نبوت پر بحث کی چنانچہ اسے جماعت کا موقف مع دلائل بتایا گیا.اس پر اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر اعتراضات کئے کہ نبی کسی سے علم نہیں سیکھتا وغیرہ.جن کے مناسب جوابات سن کر اس نے خاموشی اختیار کی.پی آئی اے کے افریقن نمائندے مسٹر الکندی آفس میں تشریف لائے اور گفتگو کی.انہوں نے بتایا کہ وہ ہمارے انگریزی و سواحیلی اخبارات ہر ماہ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں اور پھر انہیں اپنی خاص فائل میں محفوظ کر لیتے ہیں.سواحیلی اخبار پر اسلامی مہینوں کے نام لکھنے پر انہوں نے خوشی کا اظہار کیا.نیز کہا کہ ایک (مذہبی ) آفس میں اس قدر صفائی دیکھ کر وہ بہت مسرور ہوئے ہیں.پاکستانی سفارتخانہ کا ایک کارکن آفس میں آیا اور گفتگو کی.پوموانی کے ایک سنی نوجوان نے جو چند بار آفس میں آیا تھا بیعت کر لی.ایک اثناعشری سے ( جو ہفتہ میں دو بار عربی پڑھتا ہے ) وفات مسیح پر طویل گفتگو ہوئی.اس نے اشارہ کہا کہ جماعت احمدیہ کا موقف معقول ہے.اسی تعلق میں اس نے بتایا کہ وہ اپنے علماء سے بھی جا کر پوچھتا ہے مگر وہ مختصر سا جواب دے کر بات ختم کر دیتے ہیں.علاوہ ازیں اس نوجوان سے خلفاء ثلاثہ کے بارہ میں بھی کافی گفتگو ہوئی.ایک پاکستانی سنی سے چند بار گفتگو ہوئی اور اسے دعوۃ الامیر مطالعہ کے لئے دی.دو اسماعیلی نو جوان آئے اور دیر تک گفتگو کی اور انگریزی ترجمہ القرآن خریدا.نیز دیباچہ تفسیر القرآن بھی.کچھ لٹریچر انہیں مفت بھی دیا گیا.لجنہ اماء اللہ کے اجلاس ہوتے رہے.نیز درس القرآن بھی خاکسار دیتا رہا.لجنہ کے اجلاس میں خاکسار نے تقریر کی جس میں خواتین کو وفات کے موقع پر ختم القرآن اور دیگر بدعات سے رکنے کی تلقین
تاریخ احمدیت.جلد 28 406 سال 1972ء کی.ایک نکاح کے موقع پر خطبہ میں نوجوانوں کو سینما بینی کی لعنت سے بچنے کی طرف توجہ دلائی.ایک خطبہ جمعہ میں نو جوانوں کو نماز با جماعت کی طرف توجہ دلائی جس کا اچھا نتیجہ نکلا اور نو جوان مسجد میں نظر آنے لگے.ممباسه مشن : مبلغ ممباسہ مکرم منیر الدین احمد صاحب لکھتے ہیں کہ Matuga سکول میں دو امریکن میاں بیوی بائیبل پڑھاتے ہیں انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) پڑھنے کے لئے دی تعطیلات کے دوران مسجد میں ٹھہرنے والے نوجوان نے بیعت کر لی.اس کے علاوہ ۴۸ بیعتیں کروائی گئیں.کسوموں مشن کے انچارج مکرم مولوی محمد عیسی صاحب نے بفضلہ تعالیٰ مندرجہ ذیل مقامات کا دورہ کیا.Maragoli، Butere، Kisa، Matawa،Ugenya اور Mautuma.ایک دوست نے Shibinga کی نئی جماعت کیلئے مسجد کی خاطر پلاٹ دیا ہے.آپ نے اس پلاٹ کی پیمائش کی اور نشانات لگائے.آپ کے ساتھ معلم میسی صاحب اور معلم حسن رشیدی صاحب بھی تھے.طالبعلم رجب شعبان کو Butere، Shianda، Matawa کی جماعتوں کے دورہ پر آپ نے بھجوایا.مورخہ ۲۵ جون کو Jebrok (خیر وک) میں تمام جماعتوں کے نمائندوں کا ماہانہ اجلاس ہوا.جس میں دیگر امور کے علاوہ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ یکم ظہور/ اگست سے ۱۵ ظہور تک Matawa جماعت میں ایک تربیتی کلاس منعقد کی جائے.جس میں تمام جماعتوں کے دوست شامل ہوں اس کلاس میں شامل احباب کو ابتدائی دینی معلومات بہم پہنچائی جائیں گی.98 گیمبیا سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۴ مئی ۱۹۷۰ء کو باتھرسٹ (Bathurst) میں جماعت احمد یہ گیمبیا کی پہلی درسگاہ احمد یہ نصرت ہائی سکول کا سنگ بنیا درکھا تھا.۲۰ ستمبر ۱۹۷۱ ء کو اس میں با قاعدہ کلاسیں جاری کر دی گئیں.سکول کے پہلے پر نسپل جناب نسیم احمد صاحب ایم.ایس ہی.بی.ایڈ مقرر ہوئے اور طالبات کی نگرانی کے فرائض ان کی بیگم محترمہ نگہت ناصر صاحبہ ایم ایس سی انجام دینے لگیں.سکول کی شاندار عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی تو اس سال ۱۷ مارچ ۱۹۷۲ (الفضل مورخہ ۹ مئی
تاریخ احمدیت.جلد 28 407 سال 1972ء ۱۹۷۲ء صفحہ ا میں افتتاح کی تاریخ ۱۲ مارچ اور ریڈیو اعلان کی تاریخ ۱۰ مارچ چھپ گئی تھی جو کہ سہو ہے ) کوسکول کے باضابطہ افتتاح کی تقریب عمل میں آئی.مہمان خصوصی گیمبیا کے وزیر تعلیم وصحت و سماجی بہبود الحاج ابراہیم جاہمپا (Ibrahim Johumpa) تھے جنہوں نے سکول کا افتتاح کرتے ہوئے افریقن ممالک کی بے لوث مخلصانہ خدمات کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.احمدی احباب کے علاوہ اس موقع پر چارسو کے قریب معززین نے شرکت فرمائی.اس شاندار افتتاحی تقریب کی تفصیلی رپورٹ نسیم احمد صاحب پر نسپل احمد یہ نصرت ہائی سکول کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.۱۵ مارچ ۱۹۷۲ ء کی شام کو ریڈیو گیمبیا سے اس تقریب کے منعقد ہونے کا اعلان ہوا.محترم امیر صاحب چوہدری محمد شریف صاحب فاضل کی طرف سے بڑی تعداد میں دعوت نامے مختلف ممالک کے سفراء، حکومت کے افسران، سیاسی راہنماؤں اور دیگر معززین کو بھجوائے گئے.تقریب میں چارصد کے قریب اصحاب نے شرکت کی.انتظامات کے لئے مکرم امیر صاحب، ٹیجان فون صاحب، علی با صاحب، ہارون الرشید صاحب اور ابراہیم امبو خاص طور پر قابل ذکر ہیں.طلباء نے سکول کو روایتی انداز میں بڑی محنت سے آراستہ کیا.افتتاح کی کارروائی تقریباً چھ بجے شروع ہوئی.اس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے ہوا جو سکول کے ریاضی اور انگریزی کے استاد ابراہیم امبو نے کی.پھر سکول کے گیارہ طلباء نے مل کر قومی ترانہ گایا.اس کے بعد خاکسار نے سکول کا مختصر تعارف کرایا.اس وقت سکول کی واحد کلاس Form One میں ۸۰ طلباء ہیں اور دو سیکشن ہیں.ان میں ۲۰ طالبات ہیں.عام مضامین ،ریاضی، انگریزی ، جنرل سائنس، تاریخ، جغرافیہ کے علاوہ اسلامک ریجیس نالج اور عربی بھی لازمی مضامین کی حیثیت سے پڑھا رہے ہیں.طلباء کو.G.C.E اولیول کے لئے تیار کیا جائے گا.سکول کی عمارت چھ سال میں مکمل ہو گی.اس میں طلباء کے لئے ہوٹل، سٹاف کوارٹرز، جونیئر کوارٹرز کے علاوہ ایک ٹیکنیکل سیکشن بھی ہو گا جس میں طلباء کولکڑی، لوہے اور بجلی کا کام سکھانے کیلئے ورکشاپ ہوں گے.سکول کے مختصر تعارف کے بعد امیر محترم چوہدری محمد شریف صاحب نے وزیر تعلیم و صحت الحاج جاہمپا صاحب اور دیگر سامعین کا شکریہ ادا کیا اور سکول کے قیام کی تاریخ اور جماعت احمدیہ سے سامعین کو متعارف کرایا.آپ نے فرمایا.میں یہاں ۱۰ مارچ ۱۹۶۱ء میں آیا تھا گویا مجھے یہاں آئے
تاریخ احمدیت.جلد 28 408 سال 1972ء ہوئے گیارہ سال ہو چکے ہیں.گیمبیا میں احمد یہ سکول قائم کرنے کے لئے میں اور میرے رفقاء اس وقت سے کوشش کر رہے تھے اور یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہم نصرت ہائی سکول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے اور آج اس کا افتتاح ہو رہا ہے.باتھرسٹ ( جو کہ دارالحکومت ہے ) میں سکول کے لئے پلاٹ حاصل کرنے کی خاطر ہم نے بہت کوشش کی بلکہ ایک دفعہ تو کرائے کی عمارت میں بھی سکول قائم کرنا چاہا مگر افسوس کہ ہماری کوششیں بارآور نہ ہوسکیں.بالآخر ۱۹۶۷ء میں کومبو ایر یا ( مضافات باتھرسٹ) میں جو باتھرسٹ سے تقریباً 9 میل دور ہے زمین تلاش کرنے کا مشورہ دیا گیا چنانچه محترم هیجان فون صاحب علی با صاحب، عمر جوف صاحب اور میں نے مختلف علاقے دیکھنے کے بعد آخر کا رسکول کی موجودہ زمین کے لئے درخواست دی جو بعد میں منظور کر لی گئی.محترم امیر صاحب کی تقریر کے بعد آنریبل جاہم پا صاحب تشریف لائے آپ نے سورہ فاتحہ کی تلاوت سے اپنے خطاب کا آغاز فرمایا.آپ نے جماعت احمدیہ کے ناقابل فراموش کارناموں کو سراہتے ہوئے پانچ میڈیکل سنٹرز اور ایک سیکنڈری سکول قائم کرنے پر جماعت احمدیہ کا نہایت فراخدلی سے عمدہ الفاظ میں شکریہ ادا کیا.آپ نے کہا کہ گیمبیا میں ثانوی تعلیمی اداروں کی بہت قلت ہے اور ہر سال مجھے اور میرے رفقاء کے لئے یہ امر بے حد پریشانی کا باعث بنتا ہے کہ گیمبیا کامن انٹرنس ایگزامنیشن (G....Exam) پاس کرنے والے بے شمار طلباء کو کہاں جگہ دی جائے.جماعت احمدیہ کے اس سکول کے قیام سے اب ہر سال تقریباً ۸۰ مزید طلباء کو ہائی سکول میں داخلہ ل سکے گا.آپ نے فرمایا میں حکومت کے سماجی بہبود ہبی اور تعلیمی پروگراموں کو پورا کرنے میں جماعت احمدیہ کے تعاون کا شکر گزار ہوں.بے شک میں احمدی نہیں ہوں مگر میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ افریقن ممالک میں بالخصوص جس طرح دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اور عالمی سطح پر مانی ہوئی عظیم جماعت ” جماعت احمدیہ عوام کی بے لوث خدمت کرنے میں مصروف ہے وہ نہایت قابل تعریف ہے.میرے نزدیک یہ جماعت نہایت مخلصانہ خدمات سرانجام دے رہی ہے.اپنی تقریر کے اختتام پر آپ نے فیتہ کاٹتے ہوئے سکول کے باضابطہ افتتاح کا اعلان فرمایا.الحمد للہ.اس کے بعد آپ، امیر صاحب اور دیگر معززین کے ہمراہ خاکسار کے کمرہ میں تشریف لائے اور سکول لاگ بک پر اپنے دستخط کے ساتھ لکھا کہ میں خدا تعالیٰ کے نام سے اس سکول کا افتتاح کرتا ہوں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 409 سال 1972ء ان کے بعد دیگر ۲۱ معززین نے لاگ بک پر دستخط کئے.بعد ازاں مہمان خصوصی نے خاکسار، امیر صاحب، الحاج سنگھاٹے صاحب سابق گورنر جنرل، ڈاکٹر احتشام الحق صاحب اور محمود انجم صاحب، محترم عمر تال صاحب کے ہمراہ سکول کے زیر تعمیر حصہ کو دیکھا اور تشریف لے گئے.افتتاح کے اختتام پر تمام مہمانوں کی مشروبات وغیرہ سے تواضع کی گئی.99 افریقہ کے احمد یہ مشنوں کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالنے کے بعد ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مولانا بشارت احمد صاحب بشیر کے ایک انٹرویو کے بعض اقتباسات سپر دقر طاس کر دیئے جائیں جو انہوں نے ۱۹۷۲ء کے آخر میں ابو طاہر فارانی صاحب ( ثاقب زیروی ) کو دیا اور جو صلیب و ہلال میں فیصلہ کن جنگ کے زیر عنوان ”لاہور کے سالنامہ ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا.ا.اس وقت افریقہ میں ہلال و صلیب میں ایک فیصلہ کن جنگ جاری ہے.عیسائیت کے منصوبوں کے مقابلہ میں مبشرین اسلام کی حیثیت وہی ہے جو دور اولیٰ میں بدری صحابہ کی تھی.عیسائیت اقتدار اور دولت کے نشہ میں چور ہے اس کی وہاں کم و بیش ۳۰ تنظیمیں مصروف کار ہیں جن کے مراکز امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ اور روم میں ہیں.ان کے جابجا تعلیمی ادارے، خیراتی ادارے، شفاخانے اور چھاپے خانے قائم ہیں.ان کے پاس ایک منظم اور تربیت یافتہ عملہ ہے مثلاً کلیسا کی ایک شاخ ”سوڈان انٹیرئیر مشن کہلاتی ہے اس کا اپنا ہوائی محکمہ ہے تربیت یافتہ ہوا باز ہیں جو بوقت ضرورت پادریوں کی عبائیں بھی پہن لیتے ہیں اس مشن کا اپنا ایک ریڈیو ریکارڈنگ سٹوڈیو ہے جس میں عیسائیت کی تبلیغ پر مشتمل ریکارڈ ہاؤسا، ابوا اور یورو با زبانوں میں تیار کئے جاتے ہیں اور انہیں اریٹیریا کے صدر مقام منرو و یا سے نشر کیا جاتا ہے.اسی طرح لوتھرن مشن کا ایک اپنا سٹوڈیو ہے جو کر چیکن ریڈیوسٹوڈیو کہلاتا ہے.ایک اور مور یا بشارة “ نامی ہے جس میں ہاؤسا اور فلانی زبان کے ریکارڈ تیار کئے جاتے ہیں اور افریقہ کے کونے کونے میں سنے جاتے ہیں.مدارس اور شفا خانوں کا جال اس کے علاوہ ہے جن میں اُنہی طلباء اور مریضوں کو داخل کیا جاتا ہے جو آئندہ کلیسا کے کام آ سکیں.ایسے طلباء سے فیس بھی نہیں لی جاتی.ان تبلیغی تنظیموں کے پادری افریقن عوام کے افلاس اور مفلوک الحالی کو خوب اکسپلائٹ کرتے ہیں.بین الاقوامی تنظیموں کی تمام امداد عیسائیت ہی کے پر چار پر صرف ہوتی ہے اور صرف عیسائیوں ہی کو دی جاتی ہے جس سے مرعوب ہو کر بعض اوقات مفلوک الحال مسلمان بھی صلیب پہن کر دریوزہ گری پر مجبور ہو جاتے ہیں.مجھے یاد آیا کہ ایک اچھے خاصے
تاریخ احمدیت.جلد 28 410 سال 1972ء عبادت گذار مسلمان کی تجہیز وتکفین کے وقت اس کی جیب سے ایک صلیب برآمد ہوئی تھی.بادی دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد كَادَ الْفَقرُ اَنْ يَكُونَ كَفْراً کہ افلاس کفر وارتداد کا باعث بن جاتا ہے کس قدر برحق ہے.اب تو چند سالوں سے ان عیسائی مشنوں نے اپنے انتظامات میں اور بھی وسعت پیدا کر لی ہے.ان کا عملہ کئی گنا بڑھ گیا ہے.رومن کیتھولک کی تنظیم نے اپنا نصف عملہ اور پروٹسٹنٹ نے ۳۵ فیصد عملہ افریقہ میں متعین کر دیا ہے.حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاک پا اس غلام کو وہاں ۱۵ سال خدمت اسلام کی سعادت نصیب ہوئی ہے.میرے آنے تک ان کے پھیلاؤ کی صورت حال یہ تھی.ملک غانا نائیجیریا سیرالیون آبادی کیتھولک کی تعداد کیتھولک پادریوں کی تعداد ۱۱۰۰۷۸۴۰ ۱۱۳۹ ۲۶,۵۰,۰۰۰ ۶,۳۸,۷۰,۰۰۰ ۸۲ ۴۲۵۵ ۲۵,۱۲,۰۰۰ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ اس وقت بیرون پاکستان مسلم احمدی جماعتیں سب سے زیادہ انڈونیشیا اور غانا میں ہیں.غانا میں احمدی مسلمانوں کی تعداد دو سے اڑھائی لاکھ تک ہے لیکن اگر غا نا کا مقامی اور پاکستانی تبلیغی عملہ، سیرالیون اور نائیجیریا کا عملہ ملادیا جائے جب بھی وہ سیرالیون میں عیسائیوں کے کیتھولک پادری فرقے کے عملہ کے برابر نہیں بنتا.۲.عیسائی مشنری در اصل وہاں تبلیغ مذہب سے زیادہ دوسرے سیاسی اور اقتصادی مقاصد کے لئے آتے ہیں جبکہ احمدی مبشرین اسلام صرف انہیں خدائے قادر و توانا کی توحید اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سکھاتے ہیں.ان ملکوں کے عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کرتے ہیں.وہاں سے ایک پائی بھی لے جانے کے روادار نہیں.ان کے سکولوں میں دوسرے مضامین کے علاوہ مکمل دینی تعلیم دی جاتی ہے.ہسپتالوں میں نشتر سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کے تیروں سے کام لیا جاتا ہے.مبشرین اسلام کے ٹھوس دلائل نے عیسائیت کے مشرکانہ دلائل کی کلائی مروڑ کر رکھ دی ہے.بیا فرا کی بغاوت کے بعد تو خود وہاں کے عیسائی حکمرانوں میں بھی عیسائی مشنریوں کے خلاف بیزاری پھیل گئی ہے.ان کے سیاسی عزائم بے نقاب ہو گئے ہیں.ہمارے سکولوں اور طبی اداروں کی شہرت و عزت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے روز بروز بڑھ رہی ہے.پچھلے دنوں جماعت
تاریخ احمدیت.جلد 28 411 سال 1972ء احمدیہ کے امام حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے ان ملکوں کا طوفانی دورہ فرمایا تھا.اس دورہ میں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے افریقی عوام نے جس والہیت سے ہر جگہ آپ کا خیر مقدم کیا اور جس طور حکومتوں کی طرف سے آپ کی پذیرائی ہوئی.پریس اور ریڈیو نے جس اہتمام سے لحظہ بہ لحظہ اس دورہ کی تفاصیل نشر کیں.اس سے عوام کے آئندہ ذہنی رجحان کا اندازہ بخوبی لگ سکتا ہے.آپ کی تشریف آوری کے بعد سے اب تک ایک درجن نئے شفا خانے اور آٹھ سیکنڈری سکول کھل چکے ہیں.قرآن کریم کی اشاعت میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا ہے.اب وہاں ایک طاقتور براڈ کاسٹنگ سٹیشن“ قائم کرنے کی جدو جہد بھی کی جارہی ہے تاکہ کم از کم وقت میں خدائے واحد کے پاکیزہ دین اسلام کی آواز ہر متنفس کے کانوں تک پہنچائی جا سکے.دین مبین کی روز افزوں مقبولیت کی رفتار ( کا اندازہ ) اس ایک امر ہی سے لگا لیجئے کہ ۷۲-۱۹۷۱ء میں صرف غانا ہی میں پانچ ہزار مشرکوں اور عیسائیوں نے اپنے بتوں پر تین حرف بھیج کر اور یسوع مسیح علیہ السلام کی خدائی سے دستبرداری کا اعلان کر کے کلمہ طیبہ پڑھا“.۳.سیدنا بلال حبشی کے یہ روحانی فرزند غیرت ایمانی کے نشہ میں سرشار ہیں.اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ میرے وہاں قیام کے دوران امتحان میں باعزاز کامیابی پر انعام کے طور پر ایک احمدی مسلم طالب علم کو ایک خوبصورت ڈبیہ دی گئی.اس ڈبیہ میں صلیب تھی.جب اس طالب علم نے ڈبہ کھولی اور اس میں صلیب دیکھی تو اس نے بلند آواز سے یہ کہہ کر تمام عیسائی منتظمین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ میں مسلمان ہوں اور مجھے اس صلیب کی کوئی ضرورت نہیں“.یہ سن کر سارے مجمع پر سناٹا چھا گیا.اس واقعہ سے آپ کو یہ بھی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ عیسائی پادری اپنے دین کے فروغ کے لئے وہاں کیسے کیسے عیارانہ ہتھکنڈے اور حربے استعمال کرتے ہیں.اپنے اس بابرکت دورہ میں جماعت احمدیہ کے امام نے جس طرح حبشی بچوں سے پیار کیا.کالے اور گورے کی تمیز سے نفرت کا عملی مظاہرہ فرمایا.عوام و خواص سے اپنے فراخ سینے سے معانقے کئے.اس سے تو سارے افریقہ میں اہل پاکستان کی انسانیت دوستی کے بارے میں ایک نہایت خوشگوار رائے قائم ہوئی ہے اور جو ابھی تک حلقہ بگوش اسلام نہیں ہوئے وہ بھی اس حقیقت کو ضرور تسلیم کرنے لگے ہیں کہ شرف انسانیت کا حقیقی نقیب و داعی صرف اور صرف اسلام ہے نہ کہ عیسائیت !.“.اسلام کی اشاعت اور فروغ میں وہاں ایک بڑی رکاوٹ مسلمانوں کا ذاتی کردار نمونہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 412 سال 1972ء اور نومسلموں کے ساتھ سلوک ہے.مثلاً اگر کوئی غیر مسلم (اس پر حق کھل جانے کے بعد ) اسلام قبول کرنا چاہے تو اسے سب سے پہلے معلم صاحب کے لئے ایک سفید عمامہ، ایک سفید چونہ اور ایک سفید مینڈھا بطور نذرانہ پیش کرنا پڑتا ہے.ورنہ وہ اخوت اسلامی کے انعام سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو جاتا ہے.پھر ان نام نہاد مسلمین کے نومسلموں سے سلوک کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ ایک شخص نے اسلام قبول کیا.قرآن مجید پڑھنا سیکھا.نمازوں کی پابندی اختیار کی.اتفاقاً ایک دن مجلس میں کسی مذہبی مسئلہ پر گفتگو شروع تھی.بدوران گفتگو اس نومسلم نے بھی اپنے خیالات کے اظہار کی اجازت چاہی اس پر معلم صاحب کا پارہ چڑھ گیا اور فوراً تحقیر سے بولے ”چپ رہ تو تو خود کافر ہے.یہ فقرہ ایک خنجر تھا جو سیدھا اس کے سینہ میں لگا اور وہ اسی وقت اسلام کو خیر باد کہ کر ارتداد کے گھاٹ اتر گیا.“ ان سے سوال کیا گیا کہ بعض مسلم ممالک ( مثلاً مصر نے ) بھی تو تبلیغ کا ایک پروگرام بنایا تھا.اس کے جواب میں فرمایا ”سنا ہے کہ بنایا تھا "صوت القاہرہ سے یہ خبر بھی میں نے سنی تھی لیکن ان کئی ہزارمبلغوں میں سے وہاں تو صرف چند ہی پہنچے جن کا کام امامت کرانا تھا یا رمضان میں خوش الحانی سے قرآن کریم سنانا اور بس.جس کا مشاہرہ انہیں اپنے سفارتخانوں سے ملتا تھا.100 ماریشس ملکہ برطانیہ الزبتھ ثانی کو کتب کا تحفہ ملکہ برطانیہ الزبتھ ثانی اپنے خاوند شہزادہ فلپ ڈیوک آف ایڈنبرا کے ہمراہ فروری ۱۹۷۲ء سے جنوب مشرقی ایشیاء اور بحر ہند کے ممالک کے سرکاری دورے پر تھیں.ملکہ کے اس تاریخی دورہ میں جزیرہ ماریشس بھی شامل تھا.ماریشس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی برطانوی حکمران اس کا سرکاری دورہ کر رہا تھا.چنانچہ اس موقع کے لئے حسب معمول شاہی مہمان کے لئے قرآن کریم اسلامی کتب اور خوش آمدید کا ایڈریس پیش کرنے کا پروگرام بنایا گیا.لہذا ملکہ برطانیہ کے استقبال کے موقع پر مکرم محمد سلیم صاحب قریشی شاہد انچارج احمد یہ مشن ماریشس نے ملکہ معظمہ کو اپنا اور جماعت کا تعارف کروایا.نیز جماعت احمد یہ ماریشس کی طرف سے موصوفہ کو پر خلوص خوش آمدید کہا.اسی طرح جب ۲۴ مئی ۱۹۷۲ء کو ملکہ نے اپنے دورہ کے دوران
تاریخ احمدیت.جلد 28 413 سال 1972ء یو نیورسٹی آف ماریشس کا افتتاح فرمایا تو اس موقع پر بھی انچارج صاحب مشن کو شامل ہونے کا موقع ملا.اس موقع پر مڈغاسکر میں جرمنی کے سفیر کو بھی جماعت کا تعارف کروایا اور اسلام میں عورت سے مصافحہ نہ کرنے پر بھی بات چیت ہوئی.اسی طرح مورخہ ۲۵ مارچ کو ملکہ الزبتھ ثانی کے اعزاز میں جو سرکاری ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا اس موقع پر بھی انچارج صاحب مشن کو ویلکن کے سفیر بشپ Sechmie کو جماعت کی سرگرمیوں سے آگاہ کرنے کا موقع ملا.ملکہ کے دورہ کے دوران انہیں جماعت کی طرف سے قرآن کریم انگریزی ترجمہ مع مختصر تفسیر، اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی)Le Systeme Economique de l'islam اسلام کا اقتصادی نظام.فرنچ) افریقہ سپیکس (Africa Speaks) ، سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام (انگریزی) کا لٹریچر پیش کیا گیا.مکرم محمد اسلم صاحب قریشی شاہد انچارج احمد یہ مشن ماریشس نے ملکہ الزبتھ سے اس دورہ کے دوران مصافحہ نہ کیا تھا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر کرتے ہیں:.وو ملکہ برطانیہ کا استقبال کرتے وقت خاکسار نے ملکہ محترمہ سے مصافحہ نہ کیا تھا.اس امر کی سوائے اس کے کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسلام اس سے منع کرتا ہے.چنانچہ اس امر کے متعلق خاکسار نے مختلف دعوت نامے ملنے پر چار پانچ روز قبل متعلقہ آفس کو مطلع کیا کہ خاکسار ہر میجسٹی ملکہ برطانیہ سے ملاقات کرتے وقت ان سے مصافحہ نہیں کرے گا.براہ کرم یہ امر نوٹ کر لیا جائے ،مگر شاید مصروفیات کی وجہ سے متعلقہ افسران اس اطلاع کا مناسب نوٹس نہیں لے سکے.چنانچہ استقبال کے وقت ملکہ نے میری طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا.مگر خاکسار نے سر کے اشارے سے ملکہ کو صباح الخیر (Good Morning) کہا اور مصافحہ نہیں کیا.وہاں جب ڈیوک آف ایڈنبرا ملے تو ان سے پر تپاک مصافحہ کیا.ملکہ کے میری طرف ہاتھ بڑھانے میں ایک یہ چیز بھی ممد ہوئی کہ میرے ساتھ جامع مسجد پورٹ لوئس کے امام صاحب کھڑے تھے.استقبال سے قبل میں نے انہیں کہا کہ عورتوں سے مصافحہ اسلام میں منع ہے لہذا امید ہے کہ آپ نہیں کریں گے اور میں تو بہر حال نہیں کروں گا اس پر انہوں نے کہا مگر کیا کریں.یہاں تو صورت حال کے پیش نظر کرنا ہی پڑے گا.چنانچہ وقت آنے پر امام صاحب نے ملکہ سے بھی پہلے اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھا دیا ورنہ شاید ملکہ مذہبی آدمی سمجھ کر اپنا
تاریخ احمدیت.جلد 28 414 سال 1972ء ہاتھ نہ بڑھاتیں.اب جب وہ میرے سامنے آئیں تو انہوں نے یہی سمجھا ہوگا کہ جب ایک امام نے ہاتھ ملایا ہے تو دوسرا بھی ایسا ہی کرے گا.لہذا کچھ ایسی صورت حال پیدا ہوگئی کہ ملکہ کا ہاتھ بڑھ گیا.مگر خاکسارا سے وصول کرنے سے معذور رہا.یہ نظارہ اس وقت سارے ملک میں ٹی وی پر نظر آیا اور وہاں موقع پر بھی لوگوں نے دیکھا اور اسے بہت محسوس کیا.غیر مسلم تو بہر حال اسلام سے ناواقفیت کی وجہ سے محسوس کر رہے تھے مگر مسلمانوں میں اس امر کا خوب چرچا ہوا کہ دیکھو احمدی مولانا نے تو ملکہ سے مصافحہ نہیں کیا مگر سنی مولانا نے جھٹ کر لیا اور چند دنوں تک وزراء کے حلقوں سے لے کر ہر سطح کے آدمی کا یہ امر دلچسپ موضوع بن گیا اور جماعت کے دوستوں کے لئے تبلیغ کا ایک نیا باب کھل گیا.اور انہیں خوب دھڑلے سے سر اونچا کر کے مسلمان دوستوں اور دوسرے دوستوں کو تبلیغ کرنے کا موقع ملا.خود خاکسار کو ملکہ کے دورہ کے دوران وزیر صحت ماریشس، متعدد ممبران پارلیمنٹ، چیف جسٹس ماریشس اور جرمن سفیر کو اس سلسلہ میں اسلامی نقطہ نظر اور احکام سے متعارف کرانے کا موقع ملا.ایک مسلمان ممبر پارلیمنٹ نے مجھے بعد میں بتایا کہ آج کل تو بس ہر جگہ آپ کا تذکرہ ہے کہ آپ نے کیوں ملکہ سے مصافحہ نہیں کیا اور میں نے ہر جگہ آپ کا دفاع کیا ہے کہ آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں.آپ نے اپنے مذہبی اصول پر عمل کر کے کوئی جرم نہیں کیا جب کہ آپ پہلے سے متعلقہ محکمہ کو مطلع بھی کر چکے تھے.“ 101 ۲ ۱٫ پریل ۱۹۷۲ء کو جماعت نے جزیرہ کے طول و عرض میں پر جوش یوم التبلیغ منا یا.جس سے وسیع پیمانہ پر پیغام احمدیت کی اشاعت ہوئی.چنانچہ مولوی صدیق احمد صاحب منور مبلغ ماریشس تحریر فرماتے ہیں:.شروع میں 19 مارچ کو یوم تبلیغ منانے کا پروگرام تھا مگر بعض مجبوریوں اور ملک میں ہنگامی حالت ہونے کی وجہ سے تاریخ میں تبدیلی کر دی گئی.بعد ازیں کمشنر پولیس کی اجازت سے ۱/۲ پریل کا دن رکھا گیا.چنانچہ اس تبدیلی کی بھی جماعتوں کو فوری اطلاع دے دی گئی.دو روز قبل مکرم مشنری انچارج صاحب نے Reminder ارسال کر کے سب جماعتوں کو مستعدی اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی تلقین کی نیز کاروں والے دوستوں سے انفرادی رابطہ قائم کیا.چنانچہ اس کارخیر میں احمدی دوستوں نے رضا کارانہ طور پر گیارہ کاریں مہیا کیں.ایک مخلص احمدی نے سارے دن کیلئے ٹیکسی کرایہ پر لے کر جماعت کو دے دی.ان کاروں کی بدولت کام میں کافی سہولت پیدا ہوئی اور ماریشس
تاریخ احمدیت.جلد 28 415 سال 1972ء کے دور دراز علاقوں تک ہمارے مجاہد بھائیوں نے احمدیت کا پیغام پہنچایا اور صبح سے لے کر شام تک نہایت تندہی اور اخلاص کے ساتھ سب چھوٹے بڑے مصروف عمل رہے.۱/۲ پریل کو صبح آٹھ بجے روز ہل کے دوست جن میں بچے ، نوجوان اور بوڑھے شامل تھے سبھی مشن ہاؤس پہنچ گئے اور ہر وفد کے انچارج کو اندراج کے ساتھ مختلف رسائل اور پمفلٹ دیئے جانے لگے اور ساتھ ہی مکرم مشنری انچارج صاحب ان کے علاقہ کی نشاندہی کر دیتے تا کہ سب احزاب مختلف علاقوں میں جا کر احسن رنگ میں کام کر سکیں.اس کے بعد اجتماعی فوٹو اور دعا ہوئی.اس دن سینکڑوں اشخاص سے زبانی گفتگو اور ان کے اعتراضات کے جوابات دینے کے علاوہ مختلف قسم کا لٹریچر مفت بھی تقسیم کیا گیا اور فروخت بھی کیا گیا.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے علم کلام سے متعلق کتب کے علاوہ بہائیت، عیسائیت اور ہندو ازم کا لٹریچر بھی اغیار کی دلچسپی کا موجب بنا اور بہت سا لٹریچر فروخت ہوا.مفت لٹریچر میں ”امن کا پیغام ( فرنچ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم بائیبل میں (فرنج) اور مجلس انصار اللہ ماریشس کی طرف سے شائع شدہ دو ہینڈبل شامل ہیں.امسال پہلے سے موجودہ لٹریچر کے علاوہ ہمارے پاس مرکز سے آنے والی نئی کتب اور دعوت الامیر کا فرینچ ترجمہ بھی تھا...جماعتوں کی اجتماعی کوشش کے نتیجہ میں تقریباً ۵۰۰ روپے کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر فروخت ہوا.مکرم مشنری انچارج صاحب بھی ایک وفد کے ہمراہ سینئر، موکا اور ڈا گوچٹے کے علاقہ میں تشریف لے گئے اور انہوں نے دیگر لوگوں کے علاوہ بعض پولیس آفیسر ز کو احمدیت سے روشناس کرایا.خاکسار ایک وفد لے کر ماریشس کے جنوب کی طرف بریطانیہ، کا نجاب، سر نیام اور Chemin - Grenier کے دیہات میں گیا.ان علاقوں میں کثیر تعداد میں مسلمان رہتے ہیں.چنانچہ بہت سے لوگوں سے زبانی گفتگو کی گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی غرض بیان کی گئی.ایک بہائی اور دہریہ سے بھی دلچسپ گفتگو ہوئی جس سے حاضرین متاثر ہوئے.ہمارے تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل پروفیسر رشید حسین صاحب بھی ایک احمدی پولیس آفیسر کے ساتھ جزیرہ کے مغرب میں بامبو کے علاقہ میں تبلیغ کرنے گئے نیز مقامی مبلغین بھی مختلف گرویوں کے ساتھ تبلیغ کے کام میں مصروف رہے.اطفال نے سڑکوں ، گلیوں، مارکیٹوں اور بسوں کے اڈوں پر قریباً ۵۰ روپے کی کتب فروخت کیں.اس دوران بعض مخالفین سلسلہ نے ہمارے معصوم اطفال کو برا بھلا کہا اور دھتکارا بھی مگر انہوں نے نہایت خندہ پیشانی سے اس غیر مناسب سلوک کو برداشت کیا اور شکر یہ ادا کر.
تاریخ احمدیت.جلد 28 416 سال 1972ء کے آگے چل دیئے.جماعت احمد یہ روزبل کی طرح دیگر جماعتوں یعنی مونتا میں بلانش، پائی ،فنکس اور جماعت احمد یہ تریولے نے بھی یوم التبلیغ منایا اور مقررہ علاقوں میں تبلیغ کی.نہ یہ بلکہ اکیلے طور پر رہائش رکھنے والے احمدی احباب نے بھی اپنے اپنے علاقے میں اپنے بچوں کے ہمراہ اس پروگرام میں شوق سے حصہ لیا.بعض غیر احمدی نوجوان بھی ہمارے اس تبلیغی جہاد میں شامل ہوئے اور نہایت دلچسپی سے 66 مصروف تبلیغ رہے.102 جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد مورخه ۵ مئی ۱۹۷۲ء کو جماعت احمد یہ ماریشس کا شاندار جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پورے اہتمام کے ساتھ منایا گیا.اس غرض کے لئے روز ہل میونسپلٹی کا پبلک ہال پلازا‘ حاصل کیا گیا.جلسہ کے لئے خوب پبلسٹی کی گئی.چنانچہ اخبارات میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر متعدد مرتبہ جلسہ کی خبر شائع ونشر کی گئی.معززین ملک کے نام دعوتی کارڈ جاری کئے گئے.جلسہ میں شمولیت کے لئے جناب گورنر جنرل صاحب ماریشس سر آرتھر لیوناڈ ولیمز اور جناب انور خان صاحب سفیر پاکستان برائے ماریشس سے رابطہ کر کے درخواست کی گئی جسے انہوں نے بخوشی قبول کر لیا.جلسہ کی کارروائی زیر صدارت جناب بھائی ید اللہ بھنو صاحب شروع ہوئی.اس جلسہ کے موقع پر ہز ایکسی لینسی انور خان صاحب - مکرم محمد اسلم صاحب قریشی انچارج ماریشس مشن ، جناب جے،ایک رائے صاحب ایم اے، ایل ایل بی اور مکرم صدیق احمد صاحب منور نے تقاریر کیں.مئی کو تین مرتبہ اردو، انگریزی اور فریج خبروں کے دوران ٹیلی ویژن پر جلسہ کے مناظر کے ساتھ اس کی تفصیلی خبر نشر کی گئی.ماریشس کے چار موقر اخبارات ماریشس ٹائمز ،ایڈوانس Le Mauricien اور ڈی نیشن نے مفصل رپورٹ عمدہ رنگ میں شائع کی.جلسہ میں جناب گورنر جنرل صاحب ماریشس، جناب سفیر پاکستان.Pere Dereton نمائندہ کیتھولک بشپ آف پورٹ لوئس، یونائٹیڈ نیشنز ڈیولپمنٹ پروگرام ڈیپارٹمنٹ کے مسٹر De Castelet ،سپر نٹنڈنٹ آف پولیس روز ہل، جناب سپرنٹنڈنٹ آف پولیس پورٹ لوئس.راما کرشنا کے مشن کے ہیڈ سوامی تھتو ابودھانندا، کرسچین سائنس سوسائٹی کے مسٹرلک روڈے ،مسٹر گنگا اور بی.ای اور بہت سے دیگر معززین نے شرکت کی.103 ۲ ، ۳ دسمبر ۱۹۷۲ء کو ماریشس کے خدام الاحمدیہ کا کامیاب سالانہ اجتماع دار السلام ہال میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 417 سال 1972ء منعقد ہوا جس سے قریشی محمد اسلم صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس نے پہلے اردو اور پھر انگریزی میں خطاب فرمایا.دوسرے مقررین کے نام یہ ہیں.منصور امیرالدین صاحب ،سعید گلزاری صاحب ، مولوی صدیق احمد صاحب منور، ابوبکر ایوب صاحب مقامی مبلغ ، یداللہ بھٹوصاحب نے اپنے دورہ قادیان ور بوہ کے دلچسپ اور ایمان افروز حالات سنائے اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیارت سے مشرف ہونے کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں فرمایا.ان کی تقریر سامعین کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوئی.اجتماع میں تلاوت نظم اور تقاریر اور کھیلوں کے مقابلے ہوئے جن میں روز ہل کی مجلس مجموعی طور پر اول رہی.آخر میں تقسیم انعامات اور تلقین عمل کے پروگرام ہوئے.قریشی محمد اسلم صاحب، رشید حسین صاحب پر نسل تعلیم الاسلام کالج اور حنیف جواہر صاحب امیر جماعت احمد یہ ماریشس نے انعامات تقسیم کئے.اس اجتماع کے اعلان اور پروگرام کی اشاعت ملک کے دو اخبار Le Mauricien اور Advance میں ہوئی.مقام اجتماع کو نہایت سلیقہ سے سجایا گیا اور اس میں قرآن عظیم کی آیات اور الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مشتمل قطعات آویزاں کئے تھے.سٹیج کے عقب میں جزیرہ ماریشس اور مجلس خدام الاحمدیہ کے جھنڈے نصب تھے.104 تریولے کی مسجد احمد یہ عمر کا سنگ بنیاد اگر چہ مولانا محمد اسماعیل صاحب منیر سابق انچارج مشن کے ہاتھوں رکھا جا چکا تھا مگر اس کی تعمیر قریشی محمد اسلم صاحب کے عہد میں ان کی ذاتی نگرانی میں ہوئی اور اس سال ۳۰ دسمبر ۱۹۷۲ء کو آپ ہی نے اس کا افتتاح کیا.اس مبارک اور یادگار تقریب میں احمدیوں کے علاوہ پاکستان اور فرانس کے سفارتخانوں کے سیکرٹری صاحبان، متعدد سرکاری افسران ، ہندو اور عیسائی مذہبی زعماء اور غیر از جماعت معززین اور اخبار کے نمائندگان نے بھی شرکت فرمائی اور اگلے روز اخبار Advance نے نہایت عمدہ تعارفی نوٹ شائع کیا.قریشی محمد اسلم صاحب مبلغ انچارج کے ایک مفصل مضمون سے اس خانہ خدا کی تعمیر اور افتتاح کی ایمان افروز تفصیلات ملتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی فراہمی کا ایک جامع منصوبہ بنایا گیا جو یہ تھا کہ ہر صاحب استطاعت احمدی دوست تعمیر مسجد تریولے کے فنڈ میں کم از کم پچاس روپے چندہ دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت.جلد 28 418 سال 1972ء کے فضل سے سینکڑوں احمدی مردوں اور عورتوں نے اس تحریک پر لبیک کہا اور بعض دوستوں نے تو سینکڑوں روپے اس مد میں چندہ دیا.بعض غیر از جماعت اور غیر مسلم اداروں نے بھی عطا یا دیئے.رضا کارانہ طور پر تعمیر کے سارے کام کی نگرانی اور کام کروانے کی ذمہ داری ہمارے جواں ہمت اور مخلص دوست بھائی احمد ڈو من صاحب نے اپنے ذمہ لی.شروع میں چند معمار اجرت پر کام کرتے رہے جبکہ مزدوری کا کام مقامی جماعت کے نوجوان مفت کرتے رہے.وقار عمل یوں تو بیسیوں کی تعداد میں منائے گئے اور جان توڑ کام ہوتا رہا مگر دو وقار عمل بڑی نوعیت کے تھے.پہلا وقار عمل مسجد کی چھت کے بیم پر کنکریٹ ڈالنے کے لئے اارا پریل ۱۹۷۱ء کو منایا گیا.اس کے لئے ۳۰ خدام روز بل سے تریو لے گئے اور دوسرا وقار عمل ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو مسجد کی ساری چھت پر نٹل ڈالنے کے لئے منایا گیا.یہ دن احباب جماعت کے لئے ایک جشن کی حیثیت رکھتا تھا.۱۵۰ / احباب جملہ جماعتوں سے ۱۴ موٹر کاروں پر شرکت کے لئے آئے اور مسلسل چھ سات گھنٹے کام کر کے اس کشادہ مسجد کی چھت کو مکمل کر دیا.اس کے بعد بقیہ کام کبھی تیز رفتار سے اور کبھی دھیمی رفتار سے مگر پیہم اور مسلسل طور پر جاری رہا ۲۷۰ دسمبر ۱۹۷۲ ء افتتاح کا دن مقرر کیا گیا اور اس کے لئے مہمان خصوصی کے طور پر جناب گورنر جنرل صاحب ماریشس اور وزیر اعظم صاحب ماریشس کی خدمت میں شرکت کی دعوت دی گئی.گورنر جنرل صاحب موصوف نے تو اس دن ایک دوسری مصروفیت کی بناء پر معذوری ظاہر کردی مگر جناب وزیر اعظم صاحب نے بخوشی اس تقریب سعید میں شرکت کر نا منظور کر لیا.( تقریب کے روز گورنر جنرل صاحب کی اچانک وفات کے باعث وزیر اعظم صاحب بھی تقریب میں تشریف نہ لا سکے.چنانچہ افتاحی تقریب کا پروگرام زیر صدارت حنیف جواہر صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس ہوا.) ڈسٹرکٹ کونسل نما پو کے افسران نے بھی از راه نوازش ہماری درخواست پر چند روز کے اندراندر مین روڈ سے مسجد کو آنے والی برانچ روڈ کو اعلیٰ رنگ میں تارکول سے مرمت کر دیا اور مسجد سے ملحقہ دوسری سڑک کے ضروری حصہ کو بھی پختہ بنا دیا جس سے مہمانوں کی موٹر کاروں کی آمد ورفت میں بہت سہولت اور آرام ہو گیا.افتتاحی تقریب کی تیاری کے ضمن میں خاص دعوتی کارڈ چھپوا کر سرکاری افسران، سفارتی نمائندوں اور معززین ملک کو بھجوائے گئے.اسی طرح ریڈیو اور ٹیلیویژن پر متعدد بار افتتاح کے پروگرام کی خبر نشر ہوئی اور اخبارات میں بھی شائع ہوئی.ایک کشادہ شامیانے اور سٹیج وغیرہ کا انتظام کیا
تاریخ احمدیت.جلد 28 419 سال 1972ء اور جلسہ گاہ کو خوبصورت قطعات وغیرہ سے مزین کیا گیا.افتتاحی تقریب کا پروگرام زیر صدارت برادرم مکرم حنیف جواہر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس ہوا.مطر کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جو برادرم مکرم صدیق احمد صاحب منور مبلغ سلسله نے کی.بعدہ مکرم حنیف جواہر صاحب نے اپنا خوش آمدید کا ایڈریس پڑھا جس میں جماعت کی طرف سے معزز مہمانوں اور جملہ حاضرین کو اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا اور مختصر اس الہی جماعت کے قیام کی غرض و غایت اور اس کے صلح نظر پر روشنی ڈالی نیز تریو لے جماعت کے قیام اور ابتدائی مسجد وغیرہ کی تعمیر کا بھی مختصراً ذکر کیا.جملہ قربانی کرنے والے اور انتھک کام کرنے والے رضا کا رخدام وانصار کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور ان کے لئے بہترین جزائے خیر کی دعا کی.اس خوش آمدید کے ایڈریس کے بعد خاکسار نے اسلامی نظام عبادت کی سادگی ، فوقیت اور اکملیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی.مساجد کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کرنے کے بعد خاکسار نے اپنی مدد آپ کے اصول اور رضا کارانہ جذبہ سے کام کرنے والے مخلصینِ جماعت اطفال، خدام، انصار اور لجنہ اماء اللہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا.ایک معمر مخلص دوست بھائی علی حسین صاحب بھگیلو نے مسجد کے ایک حصہ کے لئے لوہے کے دروازے اور کھڑکیاں بغیر اجرت کے بنا کر دیئے.اسی طرح بعض اور مخلصین نے اپنی طرف سے باہر کی دیوار کے لئے تین پائپ کے دروازے عطیہ کے طور پر دیئے خاکسار کے بعد مکرم حمید پیر بخش صاحب صد ر جماعت احمدیہ تریولے نے مقامی جماعت کی طرف سے جماعت کے احباب اور دیگر سب دوستوں کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے کسی بھی رنگ میں مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا.افتتاحی دعا سے پہلے چار نمایاں کارکردگی کرنے والے دوستوں کی خدمت میں تحائف پیش کئے گئے جو پاکستان اور فرانس کے سفارتی نمائندوں کے ذریعہ دلوائے گئے.اجتماعی دعا کے بعد حاضرین مسجد کے بیرونی دروازہ کے پاس جمع ہوئے.مکرم حنیف جواہر صاحب پریذیڈنٹ جماعت نے روایتی ربن کاٹا اور خاکسار نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے مسجد کا سب سے بڑا دروازہ کھولا اور یوں مسجد احمد یہ عمر تریولے کا افتتاح عمل میں آیا.hos آیا.“ نائیجیر یا 105 پہلے احمد یہ میڈیکل سنٹر کا شاندار افتتاح
تاریخ احمدیت.جلد 28 420 سال 1972ء نا کھیر یا میں مجلس نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کے تحت احمد یہ میڈیکل سنٹر کا سرکاری طور پر افتتاح مورخه ۴ فروری ۱۹۷۲ء کو بکورو کے مقام پر عمل میں آیا.احمد یہ میڈیکل سنٹر بکورو کا افتتاح حکومت نائیجیریا کے ہیلتھ کمشنر صاحب نے فرمایا اور اس موقع پر انہوں نے انسانی ہمدردی کے اس کا رنامہ پر جماعت احمدیہ کی نہایت اچھے الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے فرمایا:.ہمیں احمدیہ مسلم مشن کا ممنون ہونا چاہئے کہ اس نے قربانی کرتے ہوئے یہ کلینک انسانیت کی بہبود کی خاطر مہیا کیا ہے.جس کی ہمیں اشد ضرورت تھی.ہماری سٹیٹ میں ۸ ہسپتال ہیں جو اسی طرح مختلف پرائیویٹ تنظیموں سے منظم کروائے گئے ہیں جہاں تک ممکن ہوسکا ہم اس طبی میدان میں پرائیوٹ اداروں کی کوششوں کو کامیاب کریں گے.ان چند الفاظ کے ساتھ میں اس کلینک کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور یہ امید کرتا ہوں کہ ہم اس سے کما حقہ فائدہ اٹھائیں گے.ایک بار پھر میں احمد یہ مشن کا نہایت شکر گزار ہوں کہ اس نے طبی میدان میں ایک بڑا مفید کام شروع کیا ہے.106 66 اس میڈیکل سنٹر کی افتتاحی تقریب میں ۳۳۰ مہمانوں نے شرکت کی.اس کے علاوہ ممتاز مہمانوں میں حکومت نائیجیریا کے متعدد حکام ، دو مستقل سیکرٹری، ڈاکٹر نائیک وائس چانسلر لیگوس یو نیورسٹی نے شرکت کی.اس افتتاحی تقریب کی خبر ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی نشر ہوئی.107 فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کی تقریب سنگ بنیاد نائیجیریا کی نارتھ ویسٹرن سٹیٹ کے گساؤ شہر میں گذشتہ سال نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کا قیام عمل میں آیا جو اس سکیم کے تحت نائیجیریا میں پہلا سکول تھا.لہذا اس سکول کی مستقل عمارت کے سنگ بنیادرکھنے کی تقریب کی تاریخ ۲۲ مارچ ۱۹۷۲ء مقرر کی گئی.سکول کی عمارت کا سنگ بنیا درکھنے کے لئے حکومت کی طرف سے کمشنر تعلیم الحاج ابراہیم گساؤ کو نمائندہ مقرر کیا گیا.چنانچہ مہمان خصوصی کی آمد سے قبل حکومت کے حکام اور معززین شہر جمع ہو گئے جن میں وزارت تعلیم کے پیرا ماؤنٹ سیکرٹری الحاج محمد بیلو، چیف ایجوکیشن آفیسر، انچارج ٹیچر ٹریننگ سکولز ، انچارج پلاننگ کونسل لوکل اتھارٹی آف سوکوٹو (Sokot0 ) جو سلطان آف سوکوٹو کے صاحبزادے ہیں.ملٹری کمانڈنگ آفیسر گوساؤ (Gusau) سکاؤٹ کمشنر سکولوں کے پرنسپلز اور دیگر
تاریخ احمدیت.جلد 28 421 سال 1972ء اکابرین شامل تھے.استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے محترم مہمان خصوصی نے سکول کا سنگ بنیادرکھنے کی تقریب میں شرکت پر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور اس اسٹیٹ میں تعلیم کی ترقی کے لئے احمدی مشن کی مساعی کو سراہا.آپ نے طلباء کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے زمانہ تعلیم میں اس ادارہ سے پورا استفادہ کریں تا کہ وہ آئندہ چل کر ملک وقوم کے مفید شہری بن سکیں.اس تقریب میں محکمہ اطلاعات کا عملہ بھی شامل ہوا اور متعد دفوٹو لئے.108 نصرت جہاں سکیم کی برکت سے نائیجیریا میں ترقی کے نئے دروازے کھل گئے اور نہ صرف نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آنے لگا بلکہ جماعت کے ایثار و اخلاص میں بے حد ترقی ہوئی چنانچہ مولوی فضل الہی صاحب انوری نے نائیجیریا سے لکھا:.مغربی نائیجیریا میں پانچ اور مشرقی نائیجیریا میں تین اہم مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی سرعت کے ساتھ ترقی کے راستے پر گامزن ہیں.وہاں سے با قاعدہ چندہ آنا شروع ہو گیا ہے اور مزید بیعتوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے.بہت سی جماعتوں نے سکول اور کلینک کھلوانے کی غرض سے اپنی جائیداد میں پیش کیں مثلاً اموسان میں ۱۲۰ /۱ یکٹر زمین کی پیشکش ہوئی.آشو گبو میں ۱/۱۹ یکٹر اور اوگبا گی میں ۱/۳۶ یکٹر زمین کا سروے ہو کر انتقال کی کارروائی مکمل ہو رہی ہے.دو اور مقامات Inisa اور Ikare میں بھی زمینوں کی پیشکش ہوئی ہے.یہ اس اراضی کے علاوہ ہے جو شمال مغربی ریاست میں دو مقامات پر ۱/۵۰،۵۰ یکر گورنمنٹ کی طرف سے معمولی معاوضے پر ملی ہے.حضور کے ارشاد پر اس وقت ایک سو افراد کی طرف سے ۶۰ ۱۱۷ پونڈ اور ۱۷۲/افراد کی طرف سے پونے تین ہزار ، کل ۱۴۶۰۰ پونڈ کے وعدے اب تک وصول ہو چکے ہیں.جن میں سے اس وقت قریباً ۶۰۰۰ پونڈ کی ادائیگی ہو چکی ہے.نائیجیریا کی جماعت کی انفرادی طاقت اور مالی استعداد کے مقابلہ میں یہ قربانی بہت قابل ستائش ہے.جماعت کے کئی افراد ایسے ہیں جن کی آمدنی ۵ سے ۱۰ پونڈ ماہانہ ہے لیکن انہوں نے یکصد پونڈ کے وعدے کئے اور پورے کے پورے ادا کر دیئے.ابادان یو نیورسٹی کے ایک احمدی پروفیسر ڈاکٹر فتائی گیوا صاحب ( ابن الفا گیوا صاحب) کو پچھلے سال میٹر یولاجیکل ریسرچ میں اول آنے کا ۳۰۰
تاریخ احمدیت.جلد 28 422 سال 1972ء پونڈ کا نقد انعام ملا جو انہوں نے سارے کا سارا نصرت جہاں فنڈ میں پیش کر دیا ہے.ایک اور احمدی پروفیسر ڈاکٹر اسماعیل بالوگوں صاحب جو پہلے صرف ۵ پونڈ ماہانہ کے حساب سے چندہ دے رہے تھے نے اپنا بقایا یکمشت ادا کر دیا.ان کا کل وعدہ ۲۵۰ پونڈ کا تھا ان کی بیوی نے بھی یکصد پونڈ کا وعدہ کیا ہے.تین اور دوستوں نے اپنے وعدے ۱۰۰ پونڈ سے بڑھا کر ۱۵۰ پونڈ کر دیئے ہیں.اس سکیم کے اعلان اور نفاذ کے بعد حکومت اور پبلک کی نظروں میں جماعت کا وقار پہلے سے بڑھ گیا ہے.شمال مغربی ریاست جہاں ہمارے دو سکول کھل چکے ہیں گورنر اور ان کے وزراء جماعت کو خاص عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.چنانچہ ہمارے دونوں سکولوں کا افتتاح خود کمشنر تعلیم نے کیا حالانکہ جن عمارتوں میں ہمارے سکول کھلے ہیں وہ معمولی مکانوں کی حیثیت رکھتی ہیں.۱۹۷۲ ء کی سالانہ کانفرنس کی خبر ریڈیو نائیجیریا پر مندرجہ ذیل الفاظ ( ترجمہ ) میں براڈ کاسٹ کی گئی.یہ خبر انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں بھی دہرائی جاتی رہی.خبر کا متن درج ذیل ہے.نائیجیریا کے احمدیہ مسلم مشن کی بائیسویں سالانہ کا نفرنس لیگوس میں دوسرے دن میں داخل ہو چکی ہے یہ تین روزہ کا نفرنس جو کل مسلم ٹیچر ٹریننگ کالج لیگوس میں شروع ہوئی اور جس میں ملک کے طول وعرض سے نمائندگان نے شرکت کی.اس کا افتتاح جماعت احمدیہ کے امام اور خلیفہ کے نمائندے مولوی فضل الہی انوری امیر جماعت احمدیہ نائیجیر یانے اپنے خطاب سے کیا جس میں آپ نے آئندہ سال کے لئے مشن کی سکیموں پر روشنی ڈالی.آپ نے اعلان کیا کہ نائیجیریا کی شمال مغربی ریاست میں اس سال دو گرلز ہائی سکول کھولے جائیں گے.اس کے علاوہ ریاست کوارا (Kwara) ریاست مغربی اور ریاست شمالی میں ہیلتھ سنٹر بھی قائم کئے جائیں گے.اس سے قبل جماعت کی ترقیاتی رپورٹ میں امیر موصوف نے بیان کیا کہ گذشتہ سال ملک کے مختلف حصوں میں بارہ مقامات پر جماعت کے لئے تبلیغی مرکز قائم کئے گئے ہیں.علاوہ ازیں جنگ زدہ علاقوں میں جماعت کے رفاہی ادارہ کی طرف سے بہت ساریلیف کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ہے.منا اور گساؤ میں دو سکول بھی کھولے گئے ہیں.سالانہ کا نفرنس میں زیر بحث آنے والے امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت.حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دعوی نبوت اور ثبوت میں قرآن و احادیث اور اقوال ائمہ اسلام سے دلائل.اسلامی تہذیب کا اثر موجودہ معاشرہ پر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق
تاریخ احمدیت.جلد 28 423 سال 1972ء 66 قرآنی تصویر جیسے مسائل شامل ہیں.یہ کانفرنس کل ختم ہو رہی ہے.109 ے مارچ ۱۹۷۲ء کو احمد یہ نائیجیریا مشن کے نئے انچارج وا میر مولوی محمد اجمل صاحب شاہد لیگوس پہنچے.ہوائی اڈہ پر مولوی فضل الہی صاحب انوری نے مخلصین جماعت کے ساتھ ان کا استقبال کیا.اس موقع پر ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی.اسی روز ریڈیو اور ٹی وی سے مولوی محمد اجمل صاحب کی آمد کی خبر نشر ہوئی اور اخبارات نے آپ کی پریس کانفرنس کی باتصویر رو داد شائع کی.۱۹ را پریل ۱۹۷۲ء کو مولوی فضل الہی صاحب انوری اور مولوی محمد اجمل صاحب شاہد کے اعزاز میں رانڈل ہال میں جماعت احمد یہ نائیجیریا کی طرف سے وسیع پیمانہ پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں مقامی احباب کے علاوہ قرب و جوار کی احمدی جماعتوں کے چیئر مین اور انتظامیہ کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہوئے.علاوہ ازیں مولوی محمد اجمل صاحب کو خوش آمدید کہنے کے لئے لیگوس مشن ، کانو، اوچی، منا، مولو اور دیگر متعدد جماعتوں نے بھی استقبالیہ تقریبات کا انتظام کیا اور ہر موقع پر خلافت سے وابستگی اور امیر جماعت کی اطاعت کے پر خلوص جذبات کا اظہار کیا.110 جماعتہائے احمد یہ نائیجیریا کی تئیسویں مجلس شوری ۲۲ - ۲۳ /اپریل ۱۹۷۲ء کولیگوس کی مسجد میں نائیجیریا مشن کے نئے انچارج و امیر مولوی محمد اجمل صاحب شاہد کی زیر صدارت ہوئی.شوریٰ میں ۵۳ جماعتوں کے ۱۴۳ نمائندگان نیز متعد د زائرین نے شمولیت کی.گذشتہ مجلس شوریٰ میں جو دسمبر ۱۹۷۰ء میں منعقد ہوئی تھی ۵۱ جماعتوں کے کل ۱۲۹ نمائندگان شامل ہوئے تھے.باہر سے آنے والے مہمانوں کے قیام و طعام کا جماعت کی طرف سے مناسب انتظام تھا جسے الحاجی فلاد یو چیئر مین لیگوس سرکٹ کی زیر نگرانی مقامی لجنہ اماءاللہ کی مستعد کارکنوں نے نہایت خوش اسلوبی سے نبھایا.شوریٰ کے اجلاس کے لئے مرکزی مسجد کے ہال میں صفیں لپیٹ کر ترتیب سے بچھائی جاتی رہیں، موزوں قطعات اور آرائشی جھنڈیاں بکثرت آویزاں کر دی گئی تھیں.لاؤڈ سپیکر کا خاطر خواہ انتظام تھا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ برادر الحاج ظفر اللہ الیاس صاحب نے حال ہی میں ایک نہایت عمدہ نیا لاؤڈ سپیکر سیٹ مشن کو بطور عطیہ پیش کیا تھا.جسے اس موقعہ پر پہلی بار استعمال کیا گیا.شوری کی کارروائی عموماً انگریزی میں تھی جس کا ساتھ ساتھ مقامی یورو با زبان میں ترجمہ کیا جاتا رہا.اسی طرح نمائندگان کو یورو با تقاریر کا مفہوم انگریزی میں بیان کیا جاتا تھا.ترجمان کے
تاریخ احمدیت.جلد 28 424 سال 1972ء فرائض باری باری معلم صلاح الدین احمد صاحب اور معلم سلمان صاحب خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.شوری میں الحاج احمد رفاعی اٹوے سیکرٹری جنرل نائیجیریا مشن نے ایجنڈے کی تجاویز اور گذشتہ شورٹی کے فیصلہ جات کی تعمیل کی رپورٹ پڑھ کر سنائی.ایجنڈے پر غور کے لئے تبلیغ تعلیم ، فنانس اور جنرل امور کے لئے تین سب کمیٹیاں تجویز کی گئیں جن پر نمائندگان نے اظہار خیال کیا.طے پایا کہ ہر سال مقامی طور پر دس نئے لوکل مشنری تیار کئے جائیں گے اور ان کا علمی معیار بلند کرنے کے لئے بعض مفید ذرائع اختیار کئے جائیں گے اور ان دس میں سے گھانا مشنری ٹریننگ کالج میں سے ہر سال تین کا انتخاب کیا جائے گا.تمام جماعتوں میں ہفتہ وار دینی تعلیمی کلاسیں جاری رکھنے کا اہتمام کیا جائے گا.مرکز ان کلاسوں کے احباب وغیرہ کے ضمن میں راہنمائی کرے گا اور سرکٹ چیئر مین اپنے اپنے حلقے کی جماعتوں کی اس سلسلے میں نگرانی اور امداد کریں گے.تمام جماعتوں میں حسب حالات مجالس اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ ، لجنہ اماءاللہ اور ناصرات الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور ان ذیلی تنظیموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی.مرکزی سالانہ کا نفرنس کے موقعہ پر مستورات اور انصار کے اپنے علیحدہ اجلاس ہوں گے.جبکہ خدام واطفال علیحدہ ایام میں ملکی سطح پر اپنا اجتماع کریں گے.ایک موزوں انسپکٹر بیت المال مقرر کیا جائے گا جو تمام جماعتوں کے مالی حسابات کی پڑتال کیا کرے گا اور مالی معاملات میں راہنمائی کرے گا.111 نائیجیریا میں ” نصرت جہاں آگے بڑھو کی بابرکت سکیم کے تحت تیسرے احمد یہ کلینک کا غیر رسمی افتتاح مورخه ۱۹ مئی (بروز جمعہ ) ۱۹۷۲ء کو کابا (Kabba) میں ہوا.اس کلینک کے انچارج مکرم ڈاکٹر عزیز احمد چوہدری صاحب ایم بی بی ایس تھے.۱۹ مئی ۱۹۷۲ء بروز جمعہ غیر رسمی افتتاح کے موقعہ پر ایک مختصر مگر پر رونق تقریب منعقد ہوئی جس میں مقامی چیف ہز ہائی نس ابا رو ( ABARO) اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اور چیف امام ایس ایم فاول اور چیف آکا اور علاقے کے دیگر معززین شامل ہوئے.سب سے پہلے انہوں نے کلینک کا معاینہ کیا اور پھر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے چیف امام اور مقامی چیفس نے جماعت احمدیہ کا
تاریخ احمدیت.جلد 28 425 سال 1972ء ان کے علاقہ میں کلینک کھولنے پر شکریہ ادا کیا اور مکرم ڈاکٹر صاحب کو اپنے اور اپنے علاقہ کے لوگوں کے مکمل تعاون کا یقین دلایا.اس تقریب میں برادرم مالم وزیری عبد وصاحب نے مختصر طور پر سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث کے مغربی افریقہ کے تاریخی دورہ اور اس کے نتیجہ میں نصرت جہاں سکیم کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ یہ با برکت سکیم مقامی لوگوں کے فائدہ کے لئے جاری کی گئی ہے اور اس کے نتیجہ میں انشاء اللہ یہاں سیکنڈری سکول بھی قائم کیا جائے گا.آخر میں ڈاکٹر عزیز احمد صاحب چوہدری نے چیفس اور حاضرین کا ان کے تعاون کی پیشکش کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ وہ خدمت خلق کے جذبہ سے لوگوں کی خدمت کریں گے اور اس میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے.بعد میں دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.112 مولوی محمد اجمل صاحب شاہد کے قیام نائیجیریا کی پہلی سہ ماہی رپورٹ کے چند اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں.دو مبلغین کو ایسٹرن ریاستوں میں بھیجا گیا ہے جہاں نئی جماعتیں بڑی سرعت سے قائم ہو رہی ہیں.عرصہ زیر رپورٹ میں تقریباً ۲۲۵ نئے افراد جماعت میں داخل ہوئے ہیں.افریقہ میں نصرت جہاں فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے خاص طور پر کوشش کی گئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عرصہ میں ۳۰۵۰ پونڈ جمع ہوئے اور تقریباً ۵۰۰ پونڈ کے وعدے حاصل کئے گئے.اس سلسلہ میں ایک سرکلر بھی تمام جماعتوں میں بھجوایا گیا.لیپ فارورڈ کمیٹی کا ایک اجلاس طلب کیا گیا اور نئے سکولوں اور ہیلتھ سینٹرز کے قیام کے لئے بعض تجاویز پر غور کیا گیا.نائیجیر یا براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ہر مہینہ میں ایک دفعہ فضل عمر احمد یہ سنٹرل مسجد سے خطبہ جمعہ ریڈیو سے نشر کرتی ہے.اس عرصہ میں تین خطبات نشر ہوئے جن میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و مرتبت اور قرآن کریم کی عظمت کو بیان کیا گیا.اس پروگرام کے ذریعہ جماعت نائیجیریا میں معروف ہے اور علمی طبقوں میں ہمارے خطبات بہت پسند کئے جاتے ہیں لیگوس میں ہفتہ وار بعد نماز عشاء متعددمسائل پر تقاریر ہوتی ہیں اور بعد میں سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے.یہ پروگرام تبلیغ کے لئے نہایت ہی عمدہ ہے.اس کے علاوہ ( محمد اجمل شاہد صاحب) نے لیگوس کے متعدد حلقہ جات کا دورہ کیا جن میں
تاریخ احمدیت.جلد 28 426 سال 1972ء جماعتوں کو تعلیمی و تربیتی مسائل سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے.دورہ جات میں عزیزم مکرم مجید احمد صاحب سیالکوٹی اور کیپٹن ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو بھی شامل رہے.دوروں کا یہ پروگرام کئی لحاظ سے بہت ہی شاندار ثابت ہوا اور جماعتی تبلیغ اور استحکام اور نصرت جہاں فنڈ کے وعدوں اور ان کی وصولی میں بہت محمد ثابت ہوا.اس عرصہ میں مکرم ڈاکٹر عمر الدین صاحب و مکرم ڈاکٹر عزیز احمد صاحب چوہدری اور مکرم مولوی روشن دین صاحب کے ہمراہ ابادان جماعت کا دورہ کیا گیا اور دیگر جماعتی مصروفیات کے علاوہ ایک اہم تقریب ایک غیر از جماعت عورت کی طرف سے جماعت کو ایک پختہ اور نہایت شاندار مسجد پیش کرنے کے سلسلہ میں تھی.اس موقعہ پر ایک جلسہ بھی ہوا.نائیجیریا میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم کو مؤثر طور پر قائم کرنے کے لئے خدام الاحمدیہ کی کانسٹیٹیوشن (دستور اساسی) کی اشاعت کا انتظام کیا گیا اور بڑی بڑی جماعتوں میں انتخابات منعقد کئے گئے تا کہ ایسے عہدیداران منتخب ہوں جو اس تنظیم کو بہتر رنگ میں چلا سکیں.۴ جون کو صدر پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو مختصر دورہ پر لیگوس میں تشریف لائے ان کی آمد پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک نہایت ہی شاندار استقبال ائیر پورٹ پر کیا گیا.لیگوس اور دیگر ملحقہ جماعتوں کے احباب کافی تعداد میں ائیر پورٹ پر رنگ برنگے لباسوں میں بینر اور پلے کارڈ لئے کھڑے تھے.خاکسار نے مکرم صدر بھٹو صاحب کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے اور ان کو جماعت کی طرف سے خوش آمدید کہا.صدر پاکستان کو تحریری استقبالیہ بھی پیش کیا گیا.اسی طرح کا نو اور مثا کی جماعتوں کی طرف سے بھی ان کو بذریعہ ٹیلیگرام اور خطوط خوش آمدید کہا گیا.جماعت کے استقبال کی خبر ٹی وی اور اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی.113 ۱۴ جولائی ۱۹۷۲ء کو مولوی محمد اجمل صاحب شاہد نے لیگوس (LAGOS) میں ایک پریس کا نفرنس منعقد کی جس میں احمدیہ مشن کی پنجاہ سالہ جوبلی منانے کا اعلان کیا اور قرآن مجید کی علمی نمائش، کلام اللہ کی تقسیم اور یورو بازبان میں اس کی اشاعت کا تفصیلی پروگرام پیش کیا.مشن کی طرف سے سب نمائندگان کو قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا گیا.کانفرنس کی خبر ملک کے تمام اخبارات میں جلی طور پر فوٹو کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئی.اسی شب ٹی وی پر اس کا نظارہ دکھایا گیا جس سے پورے ملک کو جماعت احمدیہ کی روز افزوں دینی مساعی اور آئندہ پروگرام کا علم ہوا.ڈھومی (Republic of Benin) میں ایک مختصر جماعت کا قیام عمل میں آچکا تھا.وکالت
تاریخ احمدیت.جلد 28 427 سال 1972ء تبشیر کی ہدایت پر پہلی بار ایک لوکل مشنری الحاجی شیخونی صاحب وہاں تین چار ماہ کے لئے بھجوائے گئے جنہیں ایک ماہ کے مختصر عرصہ میں ۱۶ سعید روحیں عطا ہوئیں.114 جون تا اگست ۱۹۷۲ء کے عرصہ میں نائیجیریا کے تین سو پانچ افراد نے احمدیت قبول کی.115 ۱۹ جولائی ۱۹۷۲ء کو جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے نائیجیریا میں غانا کے ہائی کمشنر جناب کرنل ایس میگل اشانٹے صاحب سے ملاقات کی.وفد کی قیادت مولوی محمد اجمل صاحب شاہد نے کی.مولوی مجید احمد صاحب سیالکوئی مبلغ نائیجیریا ، ڈاکٹر عمر الدین صاحب، وزیری عبدو، الفا الیس بی گیوا صاحب اور معلم حبیب صاحب بھی شامل وفد تھے.مولوی محمد اجمل صاحب شاہد نے ان کو قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا.انہوں نے اسلام کے نظریہ اخلاق، حیات بعد الموت اور انسان کی پیدائش کی غرض و غایت کے متعلق سوالات کئے جن کے جوابات ممبران وفد کی طرف سے دئے گئے.سوال و جواب کا یہ دلچسپ سلسلہ قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا.116 ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء کو نائیجیریا میں سیرالیون کے ہائی کمشنر جناب ڈاکٹر ولیم ایچ فٹکس جان صاحب سے جماعت احمدیہ نائیجیریا کے ایک خصوصی وفد نے ملاقات کی.وفد کے ممبران کے نام یہ ہیں.مولوی محمد اجمل صاحب شاہد (امیر وفد ) ، ایس او بکری صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نائیجیریا، الفا ایس بی گیوا صاحب، مولوی مجید احمد صاحب مبلغ نائیجیریا، وزیری عبد و صاحب،معلم حبیب صاحب.امیر جماعت کی طرف سے ہائی کمشنر صاحب کو قرآن مجید معہ انگریزی ترجمہ اور دیگر کتب پیش کی گئیں.موصوف نے قرآن مجید کا تحفہ قبول کرتے ہوئے یہ کہا کہ یہ میرا پہلا موقعہ ہے کہ مجھے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کا موقعہ ملے گا.اس لئے میں اس کو جماعت کی طرف سے انتہائی قیمتی اور شاندار تحفہ خیال کرتا ہوں.اس کے بعد یہ بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا لمبا عرصہ عیسائی پادری کے طور پر گزارا ہے.اس پر اسلام اور عیسائیت کے باہمی موازنہ اور اسلامی تعلیمات کی برتری و فوقیت کے موضوع پر وفد کے ارکان کی طرف سے تفصیل پیش کی گئی جو موصوف نے نہایت دلچسپی سے سنی اور متعدد سوالات کئے جن کے جوابات امیر وفد نے دئے.سفیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جب دو سال قبل امام جماعت احمد یہ سیرالیون میں تشریف لائے تھے تو یہ ایک نہایت ہی شاندار اور پر رونق موقعہ تھا اور ان کو بھی امام جماعت احمدیہ سے ملنے کا اتفاق ہوا تھا.وفد کی یہ ملاقات
تاریخ احمدیت.جلد 28 428 سال 1972ء تقریباً پون گھنٹہ تک جاری رہی اور ایک گروپ فوٹو پر اختتام پذیر ہوئی.117 مولوی محمد اجمل صاحب کو قیام نائیجیریا کی دوسری سہ ماہی (جون تا اگست ۱۹۷۲ء) میں خدمت دین کے متعدد قیمتی مواقع میسر آئے.اس عرصہ میں آپ نے مرکزی مبلغین کے ساتھ نائیجیریا کے چودہ سرکٹس (CIRCUITS) میں سے دس سرکٹس (CIRCUITS) کا دورہ کر کے قریباً دس ہزار میل کا سفر طے کیا جو جماعتی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوا.جس کے دوران آپ نے جماعتوں کو خلیفہ راشد کی تحریکات اور سکیموں سے روشناس کرایا اور بہت سے جماعتی مسائل کاحل موقع پر تلاش کرنے کی توفیق ملی.مشرقی علاقہ کے دورہ میں آپ نے گورنر نارتھ ویسٹرن سٹیٹ، الحاج عثمان فاروق صاحب سیکرٹری ملٹری گورنر اور کمشنر تعلیم الحاج ابراہیم گساؤ سے ملاقات کی.مولوی منیر احمد صاحب عارف، رفیق احمد صاحب ثاقب پرنسپل فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول گساؤ بھی آپ کے ہمراہ تھے.اس موقع پر گورنر صاحب کو قرآن مجید بطور ہدیہ پیش کیا جسے انہوں نے نہایت احترام سے قبول کیا.آپ نے نائیجیریا میں قرآن مجید کی وسیع اشاعت کے جماعتی پروگرام کی تفصیل بتائیں.گورنر موصوف نے اس پر اظہار خوشنودی کیا اور مولوی صاحب کو حضرت خلیفہ ثالث کی خدمت میں سلام پہنچانے اور دعا کے لئے عرض کرنے کے لئے بھی کہا.مولوی محمد اجمل صاحب نے سیکرٹری ملٹری ، گورنر اور کمشنر تعلیم کو بھی بوقت ملاقات قرآن مجید کے نسخے پیش کئے اور جماعت احمدیہ کی عالمگیر دینی مساعی پر روشنی ڈالی.کمشنر صاحب نے احمد یہ سکولوں کی کارکردگی پر اظہار اطمینان فرمایا.118 اگر چہ نائیجیریا میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم ایک لمبے عرصہ سے سر گرم عمل تھی لیکن اس کا پہلا سالا نہ اجتماع اس سال ۱ - ۲ / اکتوبر ۱۹۷۲ء کو ابادان (IBADAN) میں منعقد ہوا.جس سے مولوی محمد اجمل صاحب شاہد، الحاج ڈاکٹر اسماعیل با لوگوں آف ابادان یونیورسٹی، رفیق احمد صاحب ثاقب پرنسپل فضل عمر حد یہ سیکنڈری سکول کا نو (KANO) ، الحاج اے.جی سکو نائب پریذیڈنٹ نائیجیریا اور منصور احمد خان صاحب مبلغ نائیجیر یانے خطاب فرمایا.ڈاکٹر با لوگوں صاحب نے یہ خصوصی تحریک پیش کی.آپ نے کہا کہ نئے باترجمہ قرآن مجید (انگریزی) کی کاپیاں تمام تعلیمی اداروں اور تمام بڑے بڑے ہوٹلوں کے کمروں میں رکھوائی جائیں تا کہ ہمارے پیارے آقا کی یہ خواہش عملی طور پر پوری ہو کہ قرآن کریم کی حکومت دنیا میں قائم ہو.آپ نے سب سے پہلے اپنی طرف سے ۵۰.
تاریخ احمدیت.جلد 28 429 سال 1972ء کا پیاں مہیا کرنے کا ذمہ لیا.اس اپیل اور آپ کے نمونہ کو دیکھتے ہوئے حاضرین نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے موقعہ پر تقریباً ایک ہزار کا پیوں کے وعدے ہو گئے اور بعض نے اسی وقت رقم بھی جمع کروادی.اجتماع کے دوران قائدین و عہد یداران کا اجلاس ہوا جس میں متعد د تجاویز پاس کی گئیں.خدام کا تقریری مقابلہ بھی ہوا.بچوں کا ایک دلچسپ پروگرام بھی ہوا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے اور نقد انعامات سے بچوں کی حوصلہ افزائی کی کارکردگی کے اعتبار سے نائیجیریا کی مجالس میں سے مجلس خدام الاحمدیہ ابادان ( IBADAN) کو اوّل قرار دیا گیا.مولوی محمد اجمل صاحب نے افتتاحی اجلاس میں انعامات تقسیم کئے اور مجلس ابادان کو شیلڈ دیا اور اختتامی خطاب میں اس کامیاب اجتماع کے انعقاد پر خدام الاحمدیہ نائیجیریا کو مبارک باد پیش کی اور اعلان کیا کہ اس تاریخی اجتماع کے بعد ہر سال مختلف مقامات پر اس کا انعقاد کیا جائے.اجتماع کا انعقاد چونکہ اس روز تھا جبکہ اہل نائیجیر یا یوم آزادی منارہے تھے اس لئے اخبارات اور ریڈیو نے اس کو بہت اہمیت دی اور اس کی خبر نمایاں طور پر اخبارات میں چھپی اور بار بار ریڈیو سے نشر ہوئی.119 اس سال احمد یہ نائیجیریا مشن نے سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث کے ارشاد مبارک پر قرآن مجید کے ترجمہ انگریزی کے دس ہزار نسخوں ( ابادان میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع ۱۹۷۲ء کے دوران نائیجیریا کے مخلص احمدی نوجوانوں اور جماعتوں نے ایک ہزارنسخوں کے اخراجات نقد رقوم اور وعدوں کی صورت میں پیش کر دیئے تھے.( 120 کی اشاعت کا فیصلہ کیا اور کلام اللہ کے انوار آسمانی سے نائیجیر یا کومنور کرنے کے لئے حکام بالا اور سفارتی حلقوں تک پہنچانے اور ملک بھر کے تمام تعلیمی اداروں ، لائبریریوں اور ہوٹلوں میں رکھوانے کا وسیع منصوبہ بنایا.اشاعت قرآن عظیم کی اس مبارک مہم کا آغاز ملک کے ان دو مشہور ہوٹلوں سے کیا گیا جن میں حضور اپنے دورہ افریقہ کے دوران قیام فرما ہوئے تھے یعنی پریمیئر ہوٹل ابادان اور فیڈرل پیلس.اوّل الذکر ہوٹل میں ۱۴ / اکتوبر ۱۹۷۲ء کو اور ثانی الذکر میں اسی سال غالباً ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۲ء (رسالہ تحریک جدید والفضل کی مطبوعہ رپورٹوں سے حتمی تاریخ کی تعیین نہیں ہوسکی ) کو اس ضمن میں خصوصی تقاریب منعقد ہوئیں جن کی تفصیلات منصور احمد خان صاحب مربی سلسلہ مقیم لیگوس (حال وکیل التبشیر ربوہ) کی مندرجہ ذیل دور پورٹوں میں ملتی ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 28 430 سال 1972ء پہلی رپورٹ : پریمیئر ہوٹل کی انتظامیہ سے ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۲ء بروز ہفتہ اس تقریب کے لئے مقرر ہوا.اس تقریب کا انعقاد ہوٹل کے مین ہال میں ہوا.جس میں جنرل مینیجر اور ہوٹل کی انتظامیہ کے ارکان کے علاوہ پریس اور ریڈیو کے نمائندگان نے بھی شرکت کی.ابادان جماعت کے ارکان بھی کثرت سے اس تقریب میں شامل ہوئے.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.اس کے بعد محترم امیر صاحب نے اپنی تعارفی تقریر میں فرمایا کہ اس تقریب میں شمولیت میرے لئے باعث مسرت ہے جو کہ ایک مقدس فرض کی انجام دہی کے لئے منعقد کی گئی ہے.قرآن کریم کی تلاوت کرنا ہر مسلمان کا اہم مذہبی فریضہ ہے نیز یہ امر مزید خوشی کا موجب ہے کہ اس کا انعقاد رمضان کے مہینہ میں کیا گیا ہے جس کا قرآن کریم کی تلاوت سے خاص تعلق ہے اور اس ہوٹل میں ٹھہر نے والے مسلمان اس فریضہ کو بسہولت ادا کر سکیں گے.اس کے بعد محترم امیر صاحب نے جنرل مینیجر کو قرآن کریم کا ایک نسخہ تحفہ پیش کیا اور پھر قرآن کریم کے ۱۰۰ نسخے ہوٹل کے ہر رہائشی کمرہ میں رکھنے کے لئے پیش کئے.ہوٹل کے جنرل مینیجر نے اپنی جوابی تقریر میں اس عطیہ کو ایک تاریخی واقعہ قرار دیا اور کہا کہ میں اس گرانقدر پیشکش پر احمد یہ مشن کا شکر گزار ہوں.انہوں نے کہا کہ ہوٹل میں ٹھہر نے والے عیسائیوں کے لئے بائبل پہلے ہی موجود ہے اور اب اس پیشکش کے نتیجہ میں ہمارے مسلمان مہمان بھی استفادہ کر سکیں گے.اس طرح ہم نہ صرف اپنے مہمانوں کی تواضع کر سکیں گے بلکہ ان کے مذہبی فرائض کی انجام دہی میں بھی ان کا تعاون کرنے کے قابل ہوں گے.اس کے بعد دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.اسی شام کو ریڈیو ابادان نے اس تقریب کی مفصل خبر متعدد بار اپنے مختلف بلیٹن میں نشر کی.اسی طرح اخبارات میں بھی اس خبر کا چرچا ہوا.121 دوسری رپورٹ :.اب تک دو بڑے ہوٹلوں یعنی فیڈرل پیلس ہوٹل لیگوس اور پریمیئر ہوٹل ابادان کو بالترتیب قرآن کریم کے دوصد اور ایک صد نسخے مہیا کئے جاچکے ہیں.یہ کام اس لحاظ سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ ان تمام مقامات پر بائبل کی کا پیاں پہلے ہی موجود ہیں.اس ماہ میں کا نو کے بگوڈا ایک ہوٹل (BAGUDA LAKE HOTEL) کو قرآن کریم کی کا پیاں مہیا کرنے کا پروگرام بنایا گیا.یہ ہوٹل حال ہی میں حکومت نے بگو ڈالیک کے کنارے پر جدید طرز پر تعمیر کیا ہے.پر فضا مقام ہونے کے علاوہ یہ اسٹیٹ کا بہترین ہوٹل ہے اور ملکی وغیر ملکی اہم شخصیات کے ٹھہرنے کی جگہ ہے.ہوٹل کی انتظامیہ کے چیئر مین اسٹیٹ کے کمشنر برائے مالیات
تاریخ احمدیت.جلد 28 431 سال 1972ء جناب الحاجی ٹانکو یا کا سائی ہیں.ایک مختصر اور سادہ تقریب میں مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد امیر جماعت احمدیہ نائیجیریا نے الحاجی ٹانکو یا کا سائی کمشنر برائے مالیات کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی کے ایک سوبارہ نسخے پیش کئے جنہیں ہوٹل کے تمام رہائشی کمروں میں رکھا جائے گا.مکرم امیر صاحب نے اپنے ایڈریس میں جناب کمشنر صاحب کو قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی مساعی سے متعارف کرواتے ہوئے کہا کہ احمد یہ مشن نائیجیریا نے تمام ملک میں قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں تمام تعلیمی اداروں، لائبریریوں اور ہوٹلوں کو جہاں کہ ایک لمبے عرصہ سے صرف بائیبل ہی ایک مستقل فیچر ہے قرآن کریم کی کا پیاں مفت مہیا کی جائیں گی تاکہ ملک کی اکثریتی آبادی یعنی مسلمان اپنی مذہبی کتاب سے کماحقہ فائدہ اٹھا سکیں اور ایک غیر جانبدار شخص بآسانی دونوں کا تقابل کرنے کے قابل ہو.اس مقصد کے لئے آئندہ چند سالوں میں تمام ملک میں قرآن کریم کو پھیلا دیا جائے گا تاکہ ہر ایک خواہش مند کو قرآن کریم بآسانی مہیا ہو سکے.جناب کمشنر صاحب نے اپنی جوابی تقریر میں اس ہدیہ کے لئے احمد یہ مشن نائیجیریا کا شکریہ ادا کیا.انہوں نے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات اور قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں مساعی کی تعریف کی.انہوں نے کہا کہ میں ہوٹل کی انتظامیہ کے چیئر مین کی حیثیت سے یہ یقین دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کی کا پیوں کو بحفاظت ہر کمرہ میں رکھا جائے گا.انہوں نے یہ امید ظاہر کی کہ ہوٹل میں ٹھہرنے والے مہمان خصوصاً مسلمان اس ہدیہ سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکیں گے.اس کے بعد دعا کے ساتھ یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.اس موقع پر جماعت احمدیہ کانو کے منتخب افراد اور مکرم مولوی منیر احمد صاحب عارف انچارج نادرن ریجن نیز پریس کے نمائندگان نے شرکت کی اور اخبارات نے اس خبر کو تصاویر کے ساتھ شائع کیا 122 یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ہوٹل کے لئے قرآن کریم کی کاپیوں کی پیشکش کا نو کے ایک مخیر دوست الحاجی بیلو نے کی.123 ایک قابل تقلید نمونہ سید نا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوائے جانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا.حضور انور کی اس مبارک خواہش کی تعمیل میں جب نائیجیریا کے مقامی احباب کے سامنے یہ
تاریخ احمدیت.جلد 28 432 سال 1972ء تحریک کی گئی کہ ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوائے جائیں تو کانو کے ایک احمدی دوست عبدالغنی بیلوج صاحب اور ظفر اللہ الیاس صاحب نے بالترتیب ۲۰۰ اور ۱۶۸ کمروں والے دو ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھوانے کا وعدہ کیا.124 تقریب تقسیم انعامات تنظر فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول گساؤ ( نائیجیریا) میں دسمبر کے دوسرے ہفتہ میں تقسیم انعامات کی تقریب سکول کی نئی عمارت میں منعقد ہوئی جس کی صدارت شمال مغربی صوبہ کے کمشنر برائے انصاف واٹارنی جنرل جناب احمد وسوکا نے فرمائی.اس تقریب میں شہر کے معززین نے بھی شرکت کی.کانو سے مکرم مولوی منیر احمد عارف صاحب مبلغ سلسلہ شامل ہوئے.مکرم محمد اسماعیل وسیم صاحب پرنسپل سکول نے سالانہ رپورٹ پیش کی.انہوں نے بتایا کہ جماعت احمد یہ وہ واحد تنظیم ہے جس نے اس سٹیٹ میں اسکول کھولے ہیں اور بفضلہ تعالیٰ وہ روز افزوں ترقی پذیر ہیں.ازاں بعد کمشنر صاحب موصوف نے حاضرین سے پراثر خطاب کیا.انہوں نے سکول سٹاف کی مساعی کی تعریف کی نیز انہوں نے احمد یہ مشن نائیجیریا کی سماجی تعلیمی اور مذہبی سرگرمیوں کو سراہا.انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ہر ممکن کوشش سے سکول کے اس تعلیمی اور اخلاقی معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کرے گی جو مشن کی زیر نگرانی سکول نے حاصل کیا ہے.رپورٹ میں بتایا گیا کہ چھ اساتذہ کے علاوہ سکول میں ۱۵۰ طلباء ہیں.چار پوسٹ گریجویٹ اساتذہ بیرون سے مشن نے مہیا کئے ہیں.اس تقریب کی رپورٹ سرکاری بلیٹن میں بھی شائع ہوئی.125 فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کا نو دسمبر ۱۹۷۲ء.۱۹ء کے وسط میں فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کا نو ( نائیجیریا ) میں سالانہ تقریری مقابلہ جات اور تقسیم انعامات کی تقریب منعقد ہوئی.اس میں کا نوسٹیٹ کے فنانس کمشنر صاحب جناب الحاج ٹانکو یا کا سائی صاحب اور دیگر معززین شہر نے شرکت فرمائی.اس تقریب کی رپورٹ کا نواسٹیٹ کے سرکاری بلیٹن میں بعنوان ”فنانس کمشنر کا احمدیہ مسلم مشن کو خراج تحسین“ شائع ہوئی.فنانس کمشنر صاحب نے احمدیہ مشن کی ملک میں تعلیمی معیار کو فروغ دینے کی انتھک مساعی پر دلی طور پر خراج تحسین پیش کیا.اس سے پہلے سکول کے پرنسپل رفیق احمد ثاقب صاحب نے رپورٹ پیش کی.26
تاریخ احمدیت.جلد 28 433 سال 1972ء ہالینڈ جماعت احمدیہ ہالینڈ نے ۸ نومبر ۱۹۷۲ء کو عید الفطر کی تقریب پوری شان اور وقار کے ساتھ منائی.جس میں احمدیوں کے علاوہ ترکی ، مصر، پاکستان، مراکش، لیبیا، شام، تیونس، انڈونیشیا، سورینام اور ہندوستان کے مسلمان بھائیوں نے بھی شرکت فرمائی.کئی غیر مسلم ڈچ معززین بھی تشریف لائے.مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل انچارج احمد یہ مشن ہالینڈ نے خطبہ عید سے قبل سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا حسب ذیل مبارک پیغام پڑھ کر سنایا.دد مگر می السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ سب بھائیوں اور بہنوں کو عید مبارک ہو.ہماری حقیقی عید یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے انتہائی خادم بنیں.بنی نوع انسان کی خدمت کریں.ہمارے وجود، ہماری ہستی اور ہمارے اعمال میں دنیا کو اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے نظر آئیں تا کہ دوسرے لوگ بھی اس طرف متوجہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں.اسلام غالب آئے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت انسان کے دل میں بیٹھ جائے.خدا کرے ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر انتہائی قربانیاں دینے والے ہوں اور ہمیں حقیقی خوشیاں میسر آتی رہیں.127 نومبر ۱۹۷۲ء سے جنوری ۱۹۷۳ء کے دوران مشن کی تبلیغی سرگرمیاں عروج پر رہیں.اس عرصہ میں مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل نے ملک کے طول و عرض کی آٹھ مختلف سوسائٹیوں میں کامیاب تقاریر کیں.کئی وفود تک پیغام حق پہنچایا.مختلف اہم شخصیتوں سے ملاقاتیں کیں.مشن ہاؤس میں جماعتی اجلاس با قاعدگی کے ساتھ منعقد ہوئے.اس ضمن میں مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل کی ایک مفصل سہ ماہی رپورٹ الفضل 9 اور ۱۰ مئی ۱۹۷۳ء میں شائع شدہ ہے.جس کا ایک حصہ انہی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں:.اس عرصہ میں شمالی ہالینڈ کے بعض علاقوں سے آغاز ہوا.چنانچہ سب سے پہلے اس علاقہ کے شہر آمر سفورٹ کی ایک INTER CHURCH SOCIETY میں خاکسار کو تقریر کے لئے مدعو کیا گیا.اس جگہ کیتھولک چرچ اور پرائسٹنٹ چرچ کے ملے جلے لوگ جمع تھے.خاکسار بذریعہ ریل
تاریخ احمدیت.جلد 28 434 سال 1972ء گاڑی رات کے آٹھ بجے جلسہ گاہ میں پہنچا.یہاں ایک گھنٹہ تک پیغام حق پہنچایا گیا.بعد ازاں ڈیڑھ گھنٹہ سوالات اور جوابات کے لئے وقف تھا.جملہ سوالات کا بفضلہ تعالیٰ تسلی بخش جواب دیا گیا.پادری صاحب نے بھی سوالات کئے ان کا بھی جواب دیا گیا.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس حلقہ میں یہ تقریر بہت پسند کی گئی اور بعد میں اس سوسائٹی نے اپنے دوسرے حلقہ جات میں بھی یہ تقاریر کروائیں.۲.دوسری تقریر اس علاقہ کے شہر ASSEN کے ایک کیتھولک سکول میں ہوئی.سکول پہنچنے کے بعد ایک کلاس میں تقریر کی.پون گھنٹہ تقریر کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا اور جملہ سوالات کا جواب دیا گیا.سکول کے دو اساتذہ کے علاوہ سکول کے ڈائریکٹر صاحب نے بھی تقریر سنی اور سوالات کئے اور دلچسپی کا اظہار کیا.تقریر کے بعد خاکسار کو سٹاف روم میں لے جایا گیا جہاں دوسرے اساتذہ سے تعارف حاصل کرنے کا موقعہ ملا.خاکسار نے دینیات کے ماسٹر صاحب اور ڈائریکٹر صاحب سکول کو بعض کتب پیش کیں.۳.تیسری تقریر ایمسٹرڈیم شہر کے ایک مسلم خاندان کے گھر پر ہوئی جہاں انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو اکٹھا کیا ہوا تھا.تقریر کا عنوان تھا ” بعث بعد الموت.خاکسار نے ایک مختصر سی تقریر کی اور قرآن کریم اور احادیث کے ذریعہ اس موضوع پر روشنی ڈالی اور بعد میں سوالات کا جواب دیا.اس موقع پر خوش ہو کر بعض غیر ممبران نے مسجد کے لئے چندہ بھی دیا.۴.شمالی ہالینڈ کے شہر آمر سفورٹ (Amersfoort) میں کام کرنے والے مراکش کے مسلمانوں کی ایک تنظیم نے کرسمس کے موقع پر خاکسار کو اپنے ایک اجتماع میں مدعو کیا تا کہ انہیں کرسمس اور اسلام کے موضوع پر کچھ بتایا جائے.چنانچہ خاکسار نے تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر عربی زبان میں اپنی پہلے سے تیار کی ہوئی تقریر کی.۵.شمالی ہالینڈ کے شہر آمر سفورٹ میں کیتھولک انسٹی ٹیوٹ کے سٹاف نے خاکسار کو اسلامی عبادات اور اس کی حکمت پر تقریر کے لئے بلایا.خاکسار نے حاضر ہو کر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں اس موضوع پر تقریر کی جسے حاضرین نے بہت پسند کیا.پون گھنٹہ تقریر کے بعد سوالات کا وقفہ تھا جو ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.بفضلہ تعالیٰ تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دیا گیا..اس موقع پر بہت سے ڈچ باشندے بھی جمع ہو گئے اور انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار
تاریخ احمدیت.جلد 28 435 سال 1972ء کیا کہ خاکسارانہیں اس موضوع پر ڈچ زبان میں بھی بتائے چنانچہ خاکسار نے نصف گھنٹہ تک انہیں خطاب کیا اور ان کے جملہ سوالات کا جواب دیا.ے.ساتویں تقریر وسطی ہالینڈ کے شہر او تریخت (Utrecht) میں ہوئی جہاں ایک کیتھولک بائبل سوسائٹی نے مسیح ناصری علیہ السلام اور قرآن کریم کے موضوع پر تقریر کروائی.خاکسار تاریخ مقررہ پر بذریعہ ریل گاڑی حاضر ہوا.اس موقع پر ایک کیتھولک اور ایک پروٹسٹنٹ پادری صاحب بھی موجود تھے خاکسار نے پون گھنٹہ تک تقریر کی اور مسیح ناصری کے متعلق اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا اور قرآن کریم میں جس طرح مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر آیا ہے اس سے ان کو مطلع کیا.نیز مسیح کی آمد ثانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی بیان کیا اور حضور کے بعض اقتباسات اس بارہ میں پڑھ کر سنائے.جملہ سوالات کا جوڈیڑھ گھنٹہ تک ہوتے رہے جواب دیا گیا..آٹھویں تقریر آمرسفورٹ شہر کی بائیبل سوسائٹی نے کروائی.تقریر کا موضوع تھا ”ہماری زندگی کا مقصد اور اس بارہ میں اسلامی تعلیم خاکسار نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی سے استفادہ کرتے ہوئے اس موضوع پر ایک گھنٹہ تک خیالات کا اظہار کیا.بفضلہ تعالیٰ یہ مضمون بہت پسند کیا گیا اور ایک ممبر نے کھڑے ہو کر بآواز بلند سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج اسلام کی جوتعلیم بیان ہوئی ہے میں اس سے حرف بحرف متفق ہوں.الحمد للہ کہ بہت اچھا اثر قائم ہوا.بعد ازاں سوالات کا جواب دیا گیا اور اس کے بعد حاضرین نے ہماری کتب خرید کیں.۹.ہالینڈ کے دوسرے بڑے شہر اور مال بردار جہازوں کی دنیا کی سب سے بڑی بندرگاہ روٹرڈیم کے ہسپتال کے لئے عملہ تیار کرنے والے اکیڈیمی سکول کی طرف سے ہمیں اسلام پر تقریر کے لئے دعوت ملی.چنانچہ خاکسار نے وہاں پہنچ کر تقریر کی اور سوالات کا جواب دیا.تقریر کے بعد لٹریچر فروخت ہوا.۱۰.ہالینڈ کے جنوب مشرقی علاقہ شہر مڈل برخ Middelburg کے اکا ڈیمی سکول کی طرف سے خاکسار کو اسلام پر تقریر کے لئے بلایا گیا.پہلے ایک کلاس میں تقریر ہوئی اس کے بعد دینیات کے ماسٹر صاحب نے خاکسار کا اپنے سکول کے ڈائریکٹر صاحب سے تعارف کروایا.خاکسار نے دونوں کو ایک کتاب " مسیح کہاں فوت ہوئے پیش کی.اسی اثنا میں طلبہ کے چند نمائندے وہاں پہنچے اور انہوں نے ڈائریکٹر صاحب سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ سکول کی دوسری تین بڑی کلاسیں
تاریخ احمدیت.جلد 28 436 سال 1972ء بھی چاہتی ہیں کہ اسلام پر تقریر سنیں چنانچہ باہمی مشورہ سے دو پہر کے بعد بھی تقریر کا پروگرام رکھا گیا.تینوں جماعتیں ایک بڑے ہال میں جمع ہو گئیں.خاکسار نے اسلام اور جماعت احمدیہ پر تقریر کی.اس موقع پر سکول کے ڈائریکٹر صاحب بھی موجود رہے اور بعد میں سوالات میں بھی حصہ 66 لیا.تمام سوالات کا مکمل جواب دیا گیا.128 عبد الحکیم اکمل صاحب مزید فرماتے ہیں:.ہالینڈ میں دوسری تنظیموں اور ادارہ جات کی طرف سے ان کے اجتماعات میں شمولیت کی دعوت ملنے پر وہاں حاضر ہو کر نئے لوگوں سے تعارف حاصل کیا جاتا ہے.چنانچہ اس عرصہ میں حسب ذیل پروگراموں میں شامل ہونے کا موقع ملا.جناب کو نسلر صاحب کویت کی طرف سے ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں خاکسار کو بھی مدعوکیا گیا.چنانچہ خاکسار نے حاضر ہو کر بہت سے ملکوں کے سفراء سے تعارف حاصل کیا.کونسلر صاحب نے اپنے خاص مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے امام مسجد ہیگ کو بھی خوش آمدید کہا اس طرح حاضرین سے تعارف ہونے میں آسانی ہوئی جو خبر اخبارات میں شائع ہوئی، اس میں امام مسجد ہیگ کا بھی ذکر تھا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو الوداع کہتے ہوئے سفارتخانہ پاکستان نے ایک دعوت کا اہتمام کیا.اس میں خاکسار کو بھی مدعو کیا گیا چنانچہ خاکسار نے حاضر ہو کر بہت سے چیدہ چیدہ احباب سے ملاقات کرنے کے علاوہ ہالینڈ کے وزیر اعظم سے بھی تعارف حاصل کیا.مشن میں ہفتہ وار مجالس با قاعدگی سے ہوتی رہیں جہاں ممبران جماعت کے علاوہ بھی بعض دوست شرکت کرتے رہے.نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد خاکسار قرآن کریم کا درس دیتا رہا.احباب جماعت جو حاضر ہو سکتے ہیں ہفتہ کے روز مسجد میں آتے رہے اور بہت سے کاموں میں ہاتھ بٹاتے رہے.ان ہفتہ وار مجالس میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب بالقا بہ بھی بعض اوقات تشریف لا کر اپنے ایمان افروز اور قیمتی خیالات سے ہمیں مستفید فرماتے رہے.چنانچہ ایک مجلس میں آپ نے اپنا ایک مضمون پڑھ کر سنایا اور دوسری مجلس میں جبکہ آپ پاکستان سے ہو کر آئے تھے حاضرین کو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی خیر و عافیت اور دینی مصروفیات سے مطلع فرمایا نیز جلسہ سالانہ کے مختصر حالات بیان فرمائے....خاکسار نے جناب سفیر صاحب پاکستان سے وقت حاصل کر کے ان سے سفارتخانہ میں ملاقات کی اور تعارف حاصل کیا.نیز ان کی خدمت میں دیباچہ قرآن کریم انگریزی پیش کیا جو انہوں نے بڑے شوق سے قبول فرمایا اور مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 28 437 سال 1972ء ایک پاکستانی مسلمان نے خاکسار کو روٹرڈم میں اپنے گھر بلایا تا کہ ان کے پاس آنے والے یہوو وٹنس عیسائی فرقہ کے پادریوں سے گفتگو کی جاسکے.چنانچہ خاکسار وقت مقررہ پر حاضر ہوالیکن پادری صاحبان گفتگو کیلئے حاضر نہ ہوئے.اس پر خاکسار نے حاضر پاکستانی مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے تبلیغی پروگرام سے مطلع کیا.ہیگ کے قید خانہ کے ڈائریکٹر کی خواہش پر خاکسار دوبارہ قید خانہ گیا اور قیدیوں سے ملاقات کی.انہیں صبر و شکر کے ساتھ اپنا وقت گزار نے اور اپنے اندر اصلاحی تبدیلی پیدا کرنے کی تلقین کی نیز فارسی، انگریزی اور اردو زبان میں لٹریچر پیش کیا.اس عرصہ میں خاکسار کا ایک مضمون ایک رسالہ میں مسجد کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا نیز رمضان المبارک عید الفطر اور عید الاضحیٰ اور مشن میں الوداعی دعوت کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی رہیں.ایک رسالہ نے ہمارے لٹریچر کی فہرست اور ڈچ ترجمہ قرآن کریم پر ایک نوٹ شائع کیا جس کے نتیجے میں بہت سی کتب فروخت ہوئیں اور اسلام سے دلچسپی کے خطوط موصول ہوئے.129 ارض بلال میں خدمات بجالانے والے ڈاکٹرز نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کے زیر انتظام ۱۹۷۲ ء تک مندرجہ ذیل احمدی ڈاکٹر تشریف لے گئے اور ارضِ بلال کے باشندوں میں مصروف عمل ہو گئے.نمبر شمار اسمائے گرامی نام ملک علاقہ ڈاکٹر سید غلام احمد صاحب ایم بی بی ایس غانا كوكوفو اسکورے هیچیمان ۵ ۶ Z ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر انوار احمد خان صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر سید محمد اجمل صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ایم بی بی ایس گیمبیا || سویڈرو باتھرسٹ انجوارا گنجور
تاریخ احمدیت.جلد 28 ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۵ ۱۶ ۱۸ 438 ڈاکٹر طاہراحمد صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر محمد اسلم جہانگیری صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر امتیاز.اے چوہدری صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر طاہر محمود صاحب ایم بی بی ایس لیڈی ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب بھٹہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر منور احمد صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر عبدالرؤف غنی صاحب ایم بی بی ایس ڈاکٹر عزیز احمد چوہدری صاحب ایم بی بی ایس || سیرالیون سال 1972ء سوما جورو بوا جے بو روکو پر مسنگی مسنگبی نائیجیریا اکارے بكورو لیگوس کاما 130
تاریخ احمدیت.جلد 28 439 سال 1972ء آمد مجاہدین احمدیت کی آمد وروانگی اس سال مندرجہ ذیل مبلغین سلسلہ بیرونی ممالک میں کئی سال تک فریضہ اعلائے کلمتہ اللہ بجا لانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے.ا.۴.._^ و.- 1 + ا.۱۲.اله ۱۵.ا.۱۸.محمود عبد اللہ شبوطی صاحب (۱۲ جنوری از عدن) مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر (۱۴ جنوری از غانا ) مولا نا عبدالوہاب بن آدم صاحب (۱۴ جنوری از غانا ) مولانا بشیر احمد اختر صاحب (۲۳ فروری از کینیا ) مولانا غلام احمد صاحب بد و ملهوی (۳۰ مارچ از منجی) مولا نا بشارت احمد نسیم امروہی صاحب (۱/۸ پریل از بور نیو) چوہدری شریف احمد صاحب (۱/۲۴ پریل از انگلستان) مولانافضل الہی انوری صاحب (۲۹ را پریل از نائیجیریا) حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب (۱/۳۰ پریل از اسرائیل ) مولا نا عبدالحکیم جوز اصاحب (۱/۳۰ پریل از غانا) مولا نا محمد صدیق صاحب گورداسپوری (۲۹ مئی از سیرالیون) مولا نا عبدالباسط شاہد صاحب (۲۰ جولائی از تنزانیہ) مولانا جلال الدین قمر صاحب (۱۲ اکتوبر از یوگنڈا) (۱۲ اکتوبر از یوگنڈا ) مولا نا راجہ نصیر احمد صاحب مولا نا محمد اشرف صاحب الحق (۱۲/اکتوبر از یوگنڈا ) مبارک احمد طاہر صاحب (۱۲ اکتوبر از یوگنڈا ) مولانا مسعود احمد جہلمی صاحب (۲۱/اکتوبر از جرمنی) مولا نا عبدالغفار صاحب بہاولپوری (۳ نومبر از ترکی)
تاریخ احمدیت.جلد 28 -19 ۲۰.۲۱.۲۲.440 سال 1972ء مولا نا قریشی محمد افضل صاحب (۱۴ نومبر از آئیوری کوسٹ ) مولاناعبدالرشید رازی صاحب (۲۹ نومبر از تنزانیہ) مولا نا منیر الدین احمد صاحب (۲۹ نومبر از کینیا) السيد منير الحصنی صاحب (۲۱ دسمبر از شام) بشیر احمد صاحب آرچرڈ (۲۱ دسمبر از انگلستان (131 روانگی اس سال جو مبلغین احمدیت بغرض اعلائے کلمۃ اللہ بیرون پاکستان تشریف لے گئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :..ے._^ و.۱۲.اله ۱۵.مولا نا محمد اجمل صاحب شاہد (۴ مارچ.برائے نائیجیریا) مولا نا عطاء اللہ صاحب کلیم (۴ مارچ.برائے غانا ) مولانا سیوطی عزیز صاحب انڈو نیشین (۲۱ مارچ.برائے انڈونیشیا) مولانا محمد عبدی صاحب (۲۱ مارچ.برائے تنزانیہ) مولا نا عبد الواحد بن داؤ د صاحب (۲۶ مارچ.برائے غانا ) مولانا بشیر احمد خان رفیق صاحب (۱ارا پریل.برائے انگلستان) مولا نا محمود عبد اللہ شبوطی صاحب (۱۸ را پریل.برائے عدن ) مولانا محمد اشرف الحق صاحب (۱۹ را پریل.برائے یوگنڈا ) مولانا راجہ نصیر احمد صاحب (۱۹ را پریل.برائے یوگنڈا ) مولا نا محمد اسماعیل صاحب منیر (۱۹ را پریل.برائے تنزانیہ) مولانا مجید احمد صاحب سیالکوٹی (۲۱ /اپریل.برائے سیرالیون ) مولانا بشیر احمد صاحب شمس (۱/۲۱ پریل.برائے سیرالیون ) چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی (۳ مئی.برائے تنزانیہ) مولا ناصفی الرحمن صاحب خورشید (۵) مئی.برائے سیرالیون) مولا نامیر عبدالرشید صاحب تبسم (۳۰ مئی.برائے غانا )
تاریخ احمدیت.جلد 28 ۱۶.-12 ۱۸.۱۹.۲۰.۲۱.۲۲.441 سال 1972ء مولا نامرز انصیر احمد صاحب (۳۰ مئی.برائے خانا) مولانا غلام احمد صاحب فرخ (۴ جون.برائے نبی ) نواب منصور احمد خان صاحب (1 ستمبر.برائے نائیجیریا) مولا نا فضل الہی صاحب انوری (۱۹ ستمبر.برائے جرمنی ) مولا نا عبدالوہاب بن آدم صاحب (۱۶ را کتوبر.برائے انگلستان) مولا نا عبدالحکیم الکمل صاحب (۲۱ /اکتوبر.برائے ہالینڈ ) مولانا عبدالحفیظ کھوکھر صاحب (۲۲ نومبر.برائے کینیا ) ۲۴ نومبر.برائے غانا ) 132 ۲۳.مولانا یوسف یاسن صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 28 442 سال 1972ء نئی مطبوعات ۱۹۷۲ء میں درج ذیل کتب شائع ہوئیں.ا.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم مرتبہ امۃ اللطیف صاحبہ (سیکرٹری شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ) اشاعت جنوری ۱۹۷۲ء.۲.خطبات محمودجلد اول فضل عم فاؤ نڈیشن 133 ۳ تاریخ احمدیت جلد ۱۲.ادارۃ المصنفین 134 ۴.دینی معلومات کا بنیادی نصاب برائے اراکین مجلس انصار الله ( حبیب اللہ خان صاحب ایم ایس سی ) اشاعت یکم ستمبر ۱۹۷۲ء ۵ - دلچسپ مکالمہ ( را نا عبدالکریم صاحب لاہور ) اشاعت یکم اکتوبر ۱۹۷۲ء.۶.ہمارا نا نک ( قدیم سکھ کتب کی روشنی میں از عباداللہ گیانی صاحب) اشاعت نومبر ۱۹۷۲ء پبلشر گورونانک اکیڈمی پاکستان..برکات درود و سلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارفع مقام از مولا نا عبد المنان صاحب شاہد مربی سلسلہ 135 ۸- تفسیر سورة آل عمران والنساء بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 136 ۹.عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ از مولانامحمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ 137 ۱۰.احمدیت.( کتاب قادیانیت مؤلفہ مولانامحمد حنیف ندوی کا مدلل و مسکت جواب از مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اشاعت لٹریچر و تصنیف ) اشاعت ۱۷ دسمبر ۱۹۷۲ء.۱۱.قواعد الصرف از محترم ملک سیف الرحمن صاحب 138 ۱۲.مضامین مظہر از محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر 139 ۱۳.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم.(مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ.صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ) اشاعت ۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء.
تاریخ احمدیت.جلد 28 443 سال 1972ء ۱۴." حضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی قصیدہ.(مولانا دوست محمد شاہد صاحب) ۱۵.بھیرہ کی تاریخ احمدیت.(میاں فضل الرحمن صاحب بسمل غفاری بی اے بی ٹی امیر جماعت احمد یہ بھیرہ) اشاعت دسمبر ۱۹۷۲ء رسائل ا.خلیفہ خدا بناتا ہے (مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبليغ مشرقی افریقہ) اشاعت ۱۴ مارچ ۱۹۷۲ء.۲.حضرت خواجہ غلام فرید کی شخصیت.( شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مجاہد بلاد عر بیہ ) اشاعت جون ۱۹۷۲ء.-۳ مختصر مسائل نماز ( خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ناظر اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن ربوہ) اشاعت ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء.۴.ولایت در اسلام ( مولا نا صدرالدین صاحب فاضل مبلغ ایران ) اشاعت جولائی ۱۹۷۲ء ۵.وفات مسیح علیہ السلام میں ہی ابطال عیسائیت ہے ( شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مجاہد بلاد عربیہ ) اشاعت ستمبر ۱۹۷۲ء.
تاریخ احمدیت.جلد 28 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 23 12 13 14 15 16 17 567 18 19 20 21 23 شته به 22 الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۶ فضل ۳۰ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۱ الفضل و مئی ۱۹۷۲ صفحه ۱ الفضل ۳ جون ۱۹۷۲ صفحه ۱ الفضل ۱۴ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۱ الفضل ۶ جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۱ الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۷۲ صفحه ۱ الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ 444 حوالہ جات (صفحہ 315 تا 443) خطبہ نکاح کے متن کے لئے ملاحظہ ہواخبار الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۵ الفضل ۱۷۸ کتوبر ۱۹۷۲، صفحه ۱ الفضل ۳/ اگست ۱۹۷۲ صفحه ۶ الفضل ۱۰ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۱ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۶ الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱ تابعین اصحاب احمد جلد ۱۰ صفحه ۱۰۴ تا ۱۲۵ مؤلّفه ملک صلاح الدین صاحب ایم اے الفضل ۱۸ فروری ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ الفضل ۳۱ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۶ ماہنامہ الفرقان فروری ۱۹۷۲، صفحه ۸ جو ماہنامہ الفرقان ستمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴۳ ماہنامہ الفرقان جون ۱۹۷۲ صفحه ۴۶ الفضل سے مئی ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳ سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 49 الفضل ۱۰ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۶ الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۲ صفحه ۳ الفضل ۱۱ را پریل ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ 445 سال 1972ء الفضل ۱۹ را پریل ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ الفضل ۱۲ و ۱۸ / اپریل ۱۹۷۲ء صفحه ۶ کچھ باتیں، کچھ یاد میں اور ریگ رواں طبع دوم صفحہ ۱۴۱- ۱۴۲ مؤلفہ جناب شیخ عبدالحمید صاحب عاجز درویش قادیان مطبع جے کے آفسٹ پریس دہلی.اشاعت جنوری ۱۹۹۱ء اخبار خیبر ڈیلی“ پشاور ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۹۵ صفحه ۲ الفضل ۳۱ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۴ دی گارڈین ۱۹ مئی ۱۹۷۲ء صفحہ سے بحوالہ الفضل ۱۸ جون ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ الفضل ۱۶ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۶ الفضل ۲۳ مئی ۱۹۷۲ء صفحه ۵ الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ سیرت داؤ د صفحه ۶۱، ۶۲ ناشر جمعیتہ علمیہ جامعہ احمد بدر بوہ اشاعت اول مارچ ۱۹۷۴ء الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ روز نامہ جنگ کراچی ۱۸ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ بحوالہ الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۲ ملاحظہ ہو فہرست مطبوعہ الفضل ۲۹ جولائی تا یکم اگست و ۵ تا ۸ / اگست ۱۹۷۲ء الفضل ۷ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ روزنامہ جنگ لندن ۱۷ را گست ۱۹۷۲ ء، چند خوشگوار یادیں صفحہ ۷۹ سن اشاعت ۲۰۰۹ء رساله تحریک جدید نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۹ الفضل ۷ ۲ / اگست ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ الفضل ۱۴ /اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۲۰ ۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۷۳ صفحه ۳ الفضل ۴ جنوری ۱۹۷۳ صفحه ۶ الفضل ۱۶ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۲۹ ۳۰ نومبر ۱۹۷۲ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 68 69 70 71 72 N2222 8 64 65 66 67 63 74 چه که چه یه 73 75 76 77 الفضل ۱۱؍ر اپریل ۱۹۷۳ صفحه ۳ 446 الفضل ۱/۲ پریل ۱۹۷۲ صفحه ۴، تحریک جدیدر بوہ.اپریل ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۴-۱۵ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۲، صفحه ۴ الفضل یکم جولائی ۱۹۷۲ صفحه ۴ ا فضل ۲۸ جون ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۷۲ صفحہ ۶ الفضل ۱۹ / اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۵ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۶ الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۴ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۳ صفحه ۵ -۶ ماہنامہ الفرقان دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲۵-۲۹ الفضل ۱۷ جون ۱۹۷۲ صفحه ۴ ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ اپریل صفحہ ۱۶، ۷ او جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۱۱، ۱۲ ماہنامہ تحریک جدید اگست ۱۹۷۲ صفحه ۱۲ - ۱۳ الفضل کے را پریل ۱۹۸۴ صفحه ۴ الفضل ۱۹ / اکتوبر ۱۹۷۲ء صفحه ۳ لفضل ۱۱ نومبر ۱۹۷۲، صفحه ۳ الفضل ۴ نومبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۳-۴ ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۳ ء صفحه ۱۸-۲۱ ماہنامہ تحریک جدید مئی ۱۹۷۲ ، صفحه ۵، جولائی ۱۹۷۲ صفحه ۱۲ تا ۱۴ سال 1972ء تبلیغی واقعات حصہ دوم صفحه ۱۴۹-۱۵۱ مرتبہ میجر عبدالحمید صاحب سابق مبلغ انگلینڈ، امریکہ و جاپان.اشاعت ۱۹۸۱ء تبلیغی واقعات حصہ دوم صفحہ ۱۵۱ تا ۱۵۷- مرتبہ میجر عبدالحمید صاحب سابق مبلغ انگلینڈ، امریکہ وجا پان.اشاعت ۱۹۸۱ء ماہنامہ خالد ا پریل ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ اب و ۱۶ ج الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۵٫۳ الفضل ۲۸،۲۶ مارچ ۱۹۷۲ء الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۷۲ ، صفحه ۳ الفضل ۲۳ تا ۲۹ مارچ ۱۹۷۲ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 78 لله له چه 79 80 الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۷۲، صفحه ۶ ماہنامہ تحریک جدید مئی ۱۹۷۲ صفحه ۹-۱۰ الفضل ۴ جولائی ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ 447 ماہنامہ تحریک جدیدر بوه دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱۶ تا ۱۸ و۲۱ الفضل ۷ ۱ دسمبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳ 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 97 110 96 98 99 100 101 102 103 104 ماہنامہ تحریک جدید اپریل ۱۹۷۳ء صفحه ۸-۱۱ الفضل ۱۸ ۱۷ پریل ۱۹۷۳ء صفحه ۴ الفضل ۱۹۱۸ / اپریل ۱۹۷۳ء الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحہ ۶ سرگزشت کلیم صفحه ۹۰ تا۹۲ الفضل ۲۹ / اکتوبر ۱۹۷۲ صفحه ۱ الفضل ۲ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱ برا این احمدیہ حصہ چہارم طبع اوّل صفحہ ۴۹۷.تذکرہ طبع چہارم صفحه ۵۵ مطبوعہ ۱۹۷۷ ء ربوہ الفضل ۶ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳-۴ الفضل ۲ ستمبر ۱۹۷۲، صفحه ۳ الفضل ۲۹ فروری ۱۹۷۲، صفحه ۴، یکم مارچ ۱۹۷۲، صفحه ۴ تحریک جدیدا کتوبر ۱۹۷۲ صفحه ۱۷-۱۸ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۷۳ صفحه ۶،۵.ماہنامہ تحریک جدید اکتوبر ۱۹۷۲ ، صفحه ۱۷ سال 1972ء East African Standard, Nairobi 10.5.1972 East African Standard 19.5.1972 Nairobi_ East African Standard.Nairobi 22.5.1972 ماہنامہ تحریک جدید جولائی ۱۹۷۲ ، صفحہ ۹ تا ۱۱ اگست ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱۰ تا ۱۲ - نومبر ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱۱ الفضل ۱۲ / اپریل.۹ مئی ۱۹۷۲ ء.ماہنامہ تحریک جدید مئی ۱۹۷۲ء صفحہ ۶،۵ ہفت روزہ لاہور سالنامه ۱۸ و ۲۵ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۱۳ - ۱۴-۱۶ الفضل ۱۵ جون ۱۹۷۲ صفحہ ۳.۴ ، الفضل ۱۶ جون ۱۹۷۲ ، صفحہ ۳، ۴ الفضل ۲۵ مئی ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۲۴ جون ۱۹۷۲، صفحہ ۳-۶ الفضل ۱۲ جون ۱۹۷۳ء صفحہ ۶.رسالہ خالد مئی ۱۹۷۳ صفحہ ۳۹-۴۰
تاریخ احمدیت.جلد 28 105 106 107 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 127 128 129 130 131 132 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۳ ، صفحه ۳-۴ الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۷۳ صفحه ۸ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۱ الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۷۲ صفحه ۶ ماہنامہ تحریک جدید مئی ۱۹۷۲ ء صفحه ۶-۸ الفضل ۸ جولائی ۱۹۷۲ء صفحہ ۳ الفضل ۱۸ مئی ۱۹۷۲ صفحه ۳-۴ الفضل ۳۰ جون ۱۹۷۲ء صفحه ۶ الفضل ۸ جولائی ۱۹۷۲، صفحہ ۳-۴ ماہنامہ تحریک جدید نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۱۰ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل ۳۰ /اگست ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۹ ستمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۷۲ء صفحه ۳ الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۲ء صفحہ ۳-۶،۴ ماہنامہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱۱ ماہنامہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۱۱-۱۲ الفضل ۴ فروری ۱۹۷۳ ، صفحه ۱ ماہنامہ تحریک جدیدا پریل ۱۹۷۳ صفحه ۱۲-۱۳ الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۱ الفضل ۲۶ مئی ۱۹۷۳ ء صفحه ۴ الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۷۳ء صفحہ ۶ الفضل یکم دسمبر ۱۹۷۲ صفحه ۴ الفضل و مئی ۱۹۷۳ء صفحه ۳ الفضل ۱۰ مئی ۱۹۷۳ صفحہ ۳-۴ ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۳ء صفحه ۳۶ 448 ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۸ در یکارڈ وکالت تبشیر ربوہ ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۳ء صفحہ ۸-۹ وریکارڈ دفتر وکالت تبشیر ربوہ سال 1972ء
تاریخ احمدیت.جلد 28 133 134 135 136 137 138 139 الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۶ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۷۲ء صفحه ۶ الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۴ فضل ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ ء صفحه ۶ الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۴ الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ صفحه ۲ الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء صفحه ۲ 449 سال 1972ء
اشاریہ مرتبہ مکرم فراست احمد راشد صاحب، مکرم و قاص عمر صاحب، مکرم اولیس احمد نوید صاحب اسماء..مقامات کتابیات 3 23 35
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 3 اشاریہ.اسماء اسماء آ.الف آنسہ بیگم اہلیہ شیخ منیر احمد 207 ابو نعیم ابارو 424 احتشام الحق ، ڈاکٹر 123،6، 124، 262 ابدال، مسز ( زینب) 223 | احمد اللہ ، حافظ آدم علیہ السلام، حضرت آدم خاں آدم خان.مردان آدم ساپی آرتھر لیونا ڈولمیز ،ہر آصف جیلانی آصف علی پرویز 304 51 359 416 71 408 263 ابراہیم علیہ السلام، حضرت 193 احمد اللہ ابن چوہدری علی احمد خان ابراہیم، سردار 306 ابراہیم امبو 407 احمد ڈومن ، بھائی 238 418 407 408 | احمد رفاعی اٹوے، الحاج ابراہیم جاہیمیا 332 ابراہیم سیالکوٹی ،مولوی میر 319 324 ابراہیم گساؤ 428.420 آصفہ بیگم اہلیہ چو ہدری محمد اسلم ابوالاعلیٰ مودودی ، سید 72 ، 249 207 ابوالکلام آزاد، مولانا 157، 246 آصفہ بیگم اہلیہ حضرت صاحبزادہ ابوالکیف کیفی 235 328 احمد وسوکا، جنرل احمد بخش احمد بیگ، مرزا احمد جان ، چوہدری ابوالعطاء جالندھری ، مولانا احمد حسین ، ملک.112.91.83.45.40.14 احمد دین ،ڈاکٹر 130 ، 137، 151، 199 ، | احمد سكر ونو 424.396 432 250 337 288.109.106.9 211 189 342 340 237 109.46 353 مرزا طاہر احمد صاحب ( خلیفہ ایح الرابع) آفتاب احمد ، ڈاکٹر آگا، چیف آکیکیا، سر آمنه ( نومسلم) 437.388.387 424 366 223.316.279.268.267 احمد سور یا با منیاٹا 318، 319، 320 ، 328، احمد علی ، چوہدری 330، 331، 335، 443 | احمد مختار، چوہدری آمنہ بی بی اہلیہ چوہدری غلام حسین 237 ابوبکر رنگل آمنہ بیگم اہلیہ چوہدری محمد کرامت اللہ ابوبکر ایوب مولانا 275 276، احمد منان، مرزا 277 278 417,341,279 احمد نور ابن حکیم محمد اسماعیل سیکھوانی 338 240 236 ابو طالب عبدی ساندی، شیخ 367 | احمد نورالدین ،مولانا341،275
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 4 اشاریہ.اسماء احمد وسیم.کلیولینڈ 265 اقبال محمد خان ، بابو 331 ام طاہر، سیدہ (مریم بیگم ) احمد یار خان دولتانہ ، میاں 334 اکبر علی ، بابو اختر بیگم 236 133.132 143 اکرام اللہ خان، چوہدری 316 ام متین، سیده ( مریم صدیقہ) | ادر میں ، ڈاکٹر 366 | اکرم بیگ 403 315 الحسن عطایم بی ای ، الحاج 388 اور میس احمد ، مرزا ارشاد بیگم اسامہ بن زید ، حضرت اسد اللہ خاں، چوہدری اسلام احمد شمس 199 157.71.70 108 234 الزبتھ ثانی ، ملکہ 413،412 الطاف حسین حالی الفا ایس بی گیو 287.284.282.246 427.4211 405.403 191 الكندى اللہ بخش، چوہدری 139132.110.109.42 182.152.143.142 450.442.187.186 ام ناصر، سیده ( محمودہ بیگم ) امہ الاعلی مبشره امة الالہی 133.132 315 141 اصغر ( شاعر ) اعجاز احمد شاہ، سید اعجاز احمد قمر ، ڈاکٹر اعظم النساء العظم خلیل افتخار احمد، پیر افتخار احمد ایاز ، چوہدری افتخار حسین ، کیپٹن سید افضال حسین ، قاضی 247 | اللہ داد خان، بابو 201 95 143 393 195 359 51 350 200 امة الحفیظ ، صاحبزادی سیده 110 اسلم خاں، کرنل 301 اللہ بخش، شیخ اسماعیل بولوگوں، پر وفیسر ڈاکٹر اللہ بخش ابن احمد بخش 250 امتہ الحفیظ.کوئٹہ 333 428،421 اللہ بخش امرتسری ، میاں 236 امتہ الحفیظ بیگم اہلیہ جمن بخش 277 امتہ العلیم، صاحبزادی 251 252 253 امتہ الحئی ، سیده 9 اللہ دتا ، مولوی اللہ رکھی اہلیہ محمد اقبال الیاس ناصر ، سید الیگزینڈرا، ملکہ 243 230 353 220 196.150.133 امتہ الحی در ثمین ،صاحبزادی 315 امتہ الرحمن اہلیہ ڈاکٹر احمد دین 191 امۃ الرشید بیگم اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ امام الدین سیکھوانی ، میاں 239 امام الدین ، میاں امان اللہ ، قاضی 231 201 امۃ الرفیق طاہرہ امته العلی در ثمین امتیاز احمد ، ڈاکٹر چوہدری 318 اقبال احمد شمیم، بریگیڈئیر 46، 47 374، 377، 437,385 امتہ القدوس بیگم، سیده 230 316 315 143
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 5 امۃ القیوم بنت چوہدری علی احمد خان انعام الحق کوثر 322 ایم جمیل احمد ، ڈاکٹر 238 انوار الدین امینی 343 ایم کے ہونگے ، الحاج امیر اللطیف 132 ، 152 ،442 انور احمد خان، ڈاکٹر 437 امتہ اللہ بیگم سیدہ اہلیہ پیر صلاح انور بیگم بنت چوہدری نور محمد 199 اینورسلی الدین 317 انور حسین، چوہدری ایوب، کیپٹن امتہ المجیب بنت چوہدری کرامت اللہ 45،30،9،8، 337 | ایوب خان 316 انور خان 416 امة المجيب زونا امتہ المنان اہلیہ فضل الرحمٰن غازی 236] اشاریہ.اسماء 358 385.382.374 342 366 284.11 315 انور سعید، قریشی داما دملک مولا بخش باسط احمد ، راجہ ابن راجہ علی محمد 240 انورشاہ دیوبندی مولوی 131 بدرالدین عامل بھٹہ 207 312 امتہ الولی زیدہ 315 | اوشادی لقمان 342 برکت اللہ ایم.اے، پادری 319 امتہ الوہاب اہلیہ عبداللطیف خان اوم پرکاش 230 | اے جی لگو امیر احمد قریشی 327 برکت بی بی 428 برکت علی ، ملک ایچ.وی.ایچ.سیکئی 347 بشارت احمد ، ڈاکٹر 192 ، 193 ، 195 ایس ایم پال، پادری 319 بشارت احمد ، سردار | 199 271 301 351 امیر بخش.محلہ چابک سواراں ایس آئی کروما 382 383 بشارت احمد ، ماسٹر ابن ماسٹر چراغ 311 ایس او بکری 427 | الدین 290 امیر بخش پہلوان 238 | ایس ایم فاول 424 | بشارت احمد ، ملک.برما 358 امیر عالم ، حاجی 290 291 | ایس اے معید 385 بشارت احمد ، ملک ابن ملک مولا بخش امین اللہ، کرنل 366 ایس ڈی کولو، مسٹر امین خلیل ، سید 257 ایس میگل اشانے، کرنل 427 بشارت احمد بشیر، مولانا امین صفدر 316 ایم آر کیانی 348 69 236 439.409.40 انس احمد ، صاحبزادہ مرزا 315 | ایم ایچ ملک ایم.اے مسٹر بشارت احمد نسیم امروہی ،مولانا 439 363.362 95 انفررضا
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 بشارت الرحمن ایم اے، پروفیسر بشیر احمد آرچرڈ 263.261.170.41 6 440.354.344.169 اشاریہ.اسماء.225.174.151.149 327.276.238.228 46 بشیر احمد ابن حکیم محمد اسماعیل سیکھوانی بشیراں بی بی بنت چوہدری نور محمد بشارت اللہ 240 بشری اختر بنت حکیم محمد اسماعیل سیکھوانی بشیر احمد ابن میاں امام الدین بشیر کوسوانتری ، الحاج بشری طیبه 240 143 بشیر احمد اختر ، مولانا بشیر ( کھلاڑی ریلوے) 326 بشیر احمد خان، چوہدری بشیر احمد ، چوہدری 250 بشیر احمد خان ، ڈاکٹر 239 439 320 437 بصری حسن ، الحاج بلال ، سیدنا 199 388 342 411 بو کر عثمان سمیگا ،مسٹر 383،348 بشیر احمد ، چوہدری ممبر صوبائی اسمبلی بیقی بشیر احمد خان رفیق، مولانا 337 بیٹی ،مسٹر ( عبد الحمید ).346.345.280.48 71 223 373.372 372 بشیر احمد، چوہدری ابن چوہدری شاہ 347 348 349 350، پاسعید و بنگورا 250 | 351، 352، 440،353 | پال،سینٹ بشیر احمد ، چوہدری حاجی 317 بشیر احمد شمس، مولانا پاء بائی ٹورے 382،372 بشیر احمد، چوہدری داماد چوہدری عبداللہ 440،386-380 پرویز پروازی، پروفیسر ڈاکٹر خان 236 بشیر احمد کاہلوں، چوہدری 24 بشیر احمد، چوہدری داماد چوہدری محمد بشیر احمد ماہل پوری، گیانی 254 پروین رفیع 237 بشیر الدین ابن حکیم رحمت اللہ پرنس ولیمز بشیر احمد، چوہدری ابن چوہدری نور محمد بشیر احمد ، صاحبزادہ مرزا 197 پستن مس (حسینه) 246 141 375 223 199 بشیر الدین عبید اللہ ، حافظ پیر محمد ، میاں 230، 231، 234 439.344 229.192 بشیر احمد، مرزا ابن مرزا غلام رسول بشیر الدین صاحبزادہ مرزا ( خلیفتہ المسیح الثانی) محمود احمد ، حضرت تابی ، مائی 193.192 پیشاوری 261 تاج الدین لائلپوری ، مولانا 267، بشیر احمد ، خواجہ.امیر جماعت برما 23.2 119.32.31.30.29 317.270.269.268 358،353 | 133 ، 134، 141 ، 144، تاج دین دھرم کوئی ،مولوی 265
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 7 تاجور نجیب آبادی 246 | جمال الدین سیکھوانی ، میاں توحید.انڈونیشیا 342 توحید بیٹھان 326 | جمله محمد ، معلم تو قیر احمد ، مرزا 315 | جمن بخش تھتو ابودھانندا،سوامی 416 جمیل مینگل ح - خ اشاریہ.اسماء 238 239 | حامد اللہ خان،ڈاکٹر 317،315 361 | حامد شاہ، میر 272 277 حامدہ بیگم بنت چوہدری علی احمد خان 190 238 ٹانکو یا کا سائی، الحاج 432،430 | جمیل الرحمن رفیق ، مولانا 399 حبیب،سید (ایڈیٹر سیاست) هیجان فون 404.403.402.401 408.407 ٹیلنس ،مسٹر 223 جناسی آرمیکو سلائو ثاقب زیروی 409 جواہر لال نہرو ثریا اگبانج، الحاجہ 66،65 جوڈی ریڈ باف ثناء اللہ امرتسری ، مولوی جارج پنجم جوزف ما لولا 131، 157 ، 319 جوموں کینیاٹا ، مسٹر ج - چ جونز مس (لیلی) 220 | جہازی ،مسٹر جان الیگزینڈر ڈوئی 368 جی ہومر میملن 394 306 370 332 402 223 403 371 جان پال، پوپ 332 | جیکسن، مسٹر (سعدی احمد ) 221 جان محمد ، مستری 207 جیوے خاں، چوہدری جعفر طاہر 247 | جے ایک رائے جگر مراد آبادی 247 | بے ساز ، مسٹر جلال الدین ، میاں ابن میاں سعد چارلس جنری 230 | چانگ تنگ محمد 209 416 375 371 74 298 427 324 27 442 274.273 حبیب، معلم حبیب الرحمن حبیب الرحمن ، ملک حبیب اللہ خان حبیب اللہ شاہ، قاضی سید حبیب مسیح بی اے ، مسٹر حسام الدین حکیم میر حسرت موہانی حسن رشیدی ، معلم حسن عثمانی سعیدی 320.319.318 272 247 $400 406.404.403.401 367 جلال الدین شمس، مولانا 312 چراغ الدین، ماسٹر 290 حسن محمد ابراہیم، سید جلال الدین قمر ، مولانا 439 چراغ دین قاضی | ، جلڈھرسٹ ، مس 200 257.256.255 74 | حسن محمد خاں عارف 223 | چین سونگ ٹو ،مسٹر 94
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 8 00 اشاریہ.اسماء حسین بخش، میاں داما دمیاں پیر محمد خدا بخش ، مرزا 239 داؤدی علی معلم 234 خرم بیگ حسین صالح 401،400 خلیل احمد ، ملک حفاظت احمد سردار 333 خلیل احمد چوہدری حفیظ الرحمن انور 325 خلیل محمود - امریکہ حفیظہ بیگم الیه نی محمد شفیع 230 خواجہ ابن ابوبکر رنگل منشی | حفیظ بیگم بنت حکیم رحمت اللہ 197 خواص خان ، بابو 403 دوست خاں ، ڈاکٹر 94 361 208 195.194 345 دوست محمد ، مولوی.میانی 348 دوست محمد شاہد، مولانا دین محمد ابن مستری جان محمد 208 338 305 442.163.113.40.37 حکیم ابن ابوبکر رنگل 338 خورشید احمد ، شیخ 312،152 دین محمد خان ،منشی حمایت خاں ، چوہدری 209 | خورشید بیگم اہلیہ ڈاکٹر طفیل احمد ڈار ڈارون حمید احمد دہلوی، سید 207 304 240 262 ڈی جونز میں (فریده) 223 حمید الدین خوشنویس 231 | خورشید بیگم بنت حکیم محمد اسماعیل ڈی واکر مس حمید اللہ ، چوہدری 45، سیکھوانی 240 112، 170، 325، 35 3 خولہ بنت پر وفیسر عبدالقادر 317 حمید پیر بخش 341 208 406.403 223 419 417.77.76.58.48.45 401 331.330.325.169 316 223 223 325 283 46.23.10 426.334.114.78.69 ڈے، مسٹر ( دین محمد ) ذبیح اللہ ذکاءاللہ دہلوی ،مولوی ذکر اللہ ایوب ذوالفقار علی بھٹو ذوالفقار علی خان گوہر، مولانا 291 رز را برٹسن پس میمونه) 223 419 خیر الدین.انڈونیشیا حمیدہ بیگم اہلیہ حکیم محمد اسماعیل سیکھوانی خیر وخاں، چوہدری 240 د.ڈز حمیسی معلم داسہتو ، مس ( عزیزه) 223 حنفہ واکر مس داؤ د احمد ، سید میر حنیف جواہر حیدرالکندی، شیخ خالد بن ولید، حضرت داؤ داحمد بٹ 157.32.16.4 خالد محمود شاه 85 داؤداحمد خان، ڈاکٹر دامادڈاکٹر سراج رابعہ بی بی اہلیہ مولوی محمد سعید 234 خالد نو ٹارڈی، مسٹر الحق خان 241 361 362 363 | داؤ د احمد گلزاز 353 راتبه بورن، مس (مریم) 223
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 راجہ رام، شری 327 رضیہ بیگم 9 اشاریہ.اسماء 143 | زینب بی بی اہلیہ چوہدری سعید احمد راڈین احمد انور 341 رضیہ بیگم اہلیہ مولا نا محمد صادق 255 رام پیاری ( رحمت بی بی) 228 رفیع الزماں خاں 253 رائے تھا تھا ، مسٹر 366 | رفیق احمد ، صاحبزادہ مرزا 315 | 236 زینب قدسیہ اہلیہ مرزا محمد رفیع 196 سیش رجب شعبان 406،404 رفیق احمد ثاقب 432،428 سٹیڈ من مسٹر رجب علی معلم 404،401 رفیق الدین رحمت اللہ حکیم 196 رفیق چیمہ 84 223 سراج الحق خان، ڈاکٹر 240 326 سردار محمد قریشی حکیم 192 ، 195 رحمت اللہ ، حاجی 263 رفیقہ بی بی اہلیہ چوہدری بشیر احمد رحمت اللہ ، شیخ 312.200 رحمت بی بی اہلیہ نورالدین خوشنویس رمضان، کرنل 234 روچ مس (حبیبه ) رحیم بخش، حاجی 398 | روحی، پروفیسر مولوی 237 171 223 262 222 266 سرفراز حسین ، قاری سرفراز خان افغان سعادت احمد ، ملک ابن ملک مولا بخش سعد محمد ، میاں 236 230 رحیم بخش امرتسری ،میاں 238 روشن دین، مولوی 426 | سعید احمد، چوہدری داماد چوہدری رشید احمد.ربوہ 322 روشن دین، تنویر ، شیخ رشید احمد ، چوہدری 353 248.247.246.245 269 رشید احمد خان، آغا داماد ڈاکٹر سراج روشن علی ، حافظ الحق خان رشید احمد سرور، چوہدری 241 روئی جی ارومی، پروفیسر 370 ریاض، میاں 360، 364،363،361 | زکریا خان رشید حسین، پروفیسر 417،415 زکی کونے رالپ 326 91 349 305 199 236 236 عبداللہ خان سعید احمد ،صوبیدار ملک ابن ملک مولا بخش سعید اللہ ابن چوہدری علی احمد خان سعید اللہ خان سعید جمان سعید گلزاری سعیدہ اقبال اہلیہ سید اعجاز احمد شاہ 238 325 400 416 رشیدہ بی بی اہلیہ چوہدری بشیر احمد زمان شاہ، سید 236 زہرہ بیگم رشیدہ بیگم بنت چوہدری علی احمد خان زین العابدین ذینی دہلان ،مولوی 201 سعیده مسعود اہلیہ شیخ مسعود احمد 240 275 238
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 10 سکینہ بی بی اہلیہ محمد عبد اللہ چیمہ سیسے، شیخ امام 385 | شمشیر خاں،مسٹر 234 سیف الرحمن ، ملک شیم بیگم اشاریہ.اسماء 396 143 442.330.170 سلطان احمد ابن قریشی امیر احمد سیوطی عزیز ، مولانا 196 شافعی.انڈونیشیا 440 340 سلطان احمد پیر کوٹی ،مولوی شمیم شریف ایم اے 135 ، 152 شورش کاشمیری، آغا شوکت علی 69 291 شاہ محمد، چوہدری 234.232 249 شوکت علی خان فانی بدایونی 247 شاہد احمد.جرمنی سلطان احمد شاہد ابن فضل احمد شاہد احمد سعدی 96 85 234 سلطان محمود شاہد، پروفیسر ڈاکٹر سید شبیر احمد، چوہدری 84 شیخونی، الحاج شہو.انڈونیشیا شہود الحق ابن ابوالمنیر نور الحق 21 342 شبیر احمد عثمانی سلمان معلم سلیم (ادیب) سلیم اختر فرحان کھوکھر سلیمان سلیمان باہ، مسٹر سلیمان منصور پوری ، قاضی سید 170.41 423 287 94 400 شجاع الدین، خلیفہ شریف احمد، چوہدری شریف احمد ، قاضی 70 298 439 201 شیر احمد خان شیر علی ،مولانا 426 351 189 ص ض صابرہ بی بی اہلیہ چوہدری نصیر احمد شریف احمد ابن سیٹھ محمد صدیق بانی باجوہ 236 317 386 شریف احمد باجوہ صاحب خان نون، ملک 164 343 344 345 346 صادق علی، چوہدری داماد چوہدری شعبانی سی کٹیلا 363 | محمد منير 237 سندھو، مسٹر سنگھاٹے ، الحاج سهیله محبوب 131 366 408 143 شفاعت محمود، چوہدری ابن چوہدری صادقہ بنت ملک عبدالغنی 200 محمد منیر 237 | صادقہ خاتون شفیع چیمه 226 صالح، شیخ شفیق ،ڈاکٹر 266 | صالح الشبيبي 143 191 341.340 سید احمد خان، سر 284 285 شکلا، مسٹر سید علی ،ماسٹر 337 شمس الحق خان ابن ڈاکٹر سراج سیرے دوری ، الحاج 381 | الحق خان 366 صالح محمد، شیخ.انگلستان 241 صالح محمد الہ دین 344.343 327
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 11 اشاریہ.اسماء صبیحہ منان قریشی 140 ضیاء اللہ ، چوہدری داماد چوہدری ظہور احمد، چوہدری 237 ظہور احمد باجوہ، چوہدری صدرالدین ، مولانا 443 | محمد منير ضیاءاللہ، قاضی صدیق احمد منور ، مولوی 419.417.416.414 صدیقہ الہ دین 143 | طارق محمود b-b 200 48 84.78.77.75.74.48 ظہور احمد شاہ،ڈاکٹرسید 390 185 ظہیر الدین ابن ڈاکٹر احمد دین صدیقہ بیگم اہلیہ قریشی انور سعید طالع بی بی اہلیہ چوہدری محمد منیر 192 236 237 ع 437 عابد ریاض 325 304 305 طاہر احمد، صاحبزادہ مرزا خلیفتہ امسیح عارفہ بیگم اہلیہ مرزا منظور احمد 207 ( الرابع) 1 ، 9، 45، 83،48، عائشہ بی بی اہلیہ میاں حسین بخش صغراں بیگم 195 | طاہر احمد ، ڈاکٹر صفدرخان صفی الرحمن خورشید 326.325.235.170 440.385.383 صفی اللہ ، ڈاکٹر ابن مولوی محمد عبد اللہ طاہر احمد خان 234 طاہر احمد سفیر ، سید 234 325 عائشہ بیگم بنت چوہدری غلام قادر 353 210 صلاح الدین، پیر 317 طاہر محمود، ڈاکٹر 438 عائشہ بیگم بنت شیخ فتح محمد 199 صلاح الدین ایم اے، ملک طاہرہ بیگم اہلیہ سیدحمید احمد دہلوی عباداللہ گیانی 444.311.309 442 207 عباس علی لدھیانوی، میر 273 صلاح الدین ابن ڈاکٹر احمد دین طفیل احمد ڈار، ڈاکٹر 304 عبدالباسط شاہد، مولانا 192 طلحہ کریم ایڈووکیٹ 230 439.363.359 صلاح الدین احمد معلم 423 ظفر احمد.انڈونیشیا 46 عبدالجبار خاں ابن چوہدری غلام صلاح الدین احمد (ایڈیٹر ادبی دنیا) ظفر اللہ الیاس، الحاج 246 قادر 210 423 ، 431 عبد الجبار غزنوی ، مولوی 131 ضیاءالحسن، ڈاکٹر 7 ظفر علی خان، مولوی 252 عبد الجلیل شاہ ، سید ضیاءالدین، قاضی 210 ظل محمد ، ملک ابن ملک فضل الہی عبدالحفیظ کھوکھر ،مولوی ضیاء الدین ملک، کرنل 207 202 272 441.399
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 12 عبدالحق، پادری 319 | عبدالحمید خان،خان 306 عبدالرحمن کا غانی عبدالحق، قاضی 296 297 عبدالحمید عاجز ، شیخ اشاریہ.اسماء 260 عبدالرحمن قادیانی ، بھائی 307 عبدالحق ، میاں ابن میاں سعد محمد 250، 327، 445 عبدالرحمن قادیانی ، شیخ 213 230 | عبدالحمید عبدالرحمان 95 عبدالرحمن مبشر ، مولانا 296 عبدالحق ایڈووکیٹ ، مرزا 37 ، عبدالحئی، سید 324.314.312.308 84 212 41، 45، 84، 106 ، 317 عبد الحئی خان، بابو 210 عبدالرحیم ، شیخ عبدالحق رامہ، میاں 48 عبدالحی ،میاں 341،340 | عبدالرحیم اشرف،مولوی عبد الحق فضل ، مولوی 254 | عبدالرحمن.انڈونیشیا عبد الحق ورک ، چوہدری 7 عبدالرحمن.بٹیرے 341 183.131.130 400 عبد الرحیم درد، مولانا 228، 298 عبدالحکیم ،میاں گنجپورہ لاہور عبدالرحمن، چوہدری.لندن 279 عبدالرحیم نیر، مولانا عبدالحکیم اکمل ،مولوی 207 عبدالرحمن ، ماسٹر (سابق مہر سنگھ ) 194، 351 | عبدالرشید، مرزا 226.225.213 324 433،97 ، 436 ، 441 عبد الرحمن (غیر احمدی) 221 عبدالرشید آرکیٹکٹ ، چوہدری 48 (441.436.433.97 عبدالحکیم بیگ، مرزا 252 253 عبدالرحمن - لمباسہ 398 عبدالرشید قسم، میر 440،313 عبدالحکیم جوزا، مولانا 439 عبدالرحمن ، مولوی.داتہ 266 عبدالرشید رازی ، مولانا عبدالحمید ابن حکیم نظام جان 260 عبد الرحمن ابن ملک عبدالغنی 200 عبدالحمید، بابو 440.361.359 281 عبدالرحمن بھٹہ ، ڈاکٹر 438 عبدالرشید غنی، پروفیسر 92 عبدالحمید، صاحبزادہ.ٹوپی 68 عبدالرحمن جٹ ، مولانا 199 عبدالرشید کنجاہی ابن ملک عبدالغنی | عبدالرحمن خادم، ملک 271 عبدالرشید لطیف 368، 371، 446 عبدالرحمن خاں بنگالی ، چوہدری عبدالحمید، میجر عبدالحکیم خاں ابن چوہدری غلام 263 264 265 عبدالرؤف خان، ڈاکٹر قادر 210 عبدالرحمن شاکر، چوہدری عبدالرؤف غنی ،ڈاکٹر عبدالحمید چوہدری 181 275 ، 310 عبدالسلام، پروفیسر ڈاکٹر 200 95 96 438 عبدالحمید خان، چوہدری 317 عبدالرحمن صدیقی ، ڈاکٹر 46،38 350.324.181.11.10
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 عبد السلام خان.پشاور 13 اشاریہ.اسماء عبد القادر سمر 149 عبدالمالک شمیم احمد ، ڈاکٹر 315 315، 317 عبد القادر، شیخ 309 عبدالمجید، شیخ 46 عبدالسلام خان، کیپٹن عبدالقادر،صوبیدار | عبد القادر، صوبیدار میجر 271 عبدالمجید سالک ، مولانا 313 300 301 302 عبد القادر احسان ، مولوی 254 عبدائمی عرب | عبد السلام ظافر 385 عبد القادر جیلانی، سید 8 عبد المغنی ملک 223 289.288 عبد السلام کا ٹھگڑھی 210 عبد القادر ضیغم ، مولوی 336 عبدالمنان ، مولوی.مردان 305 عبدالقدیرشاہین عبدالسمیع خان ابن ملک عبد الغنی عبدالعزیز، خلیفہ 93 عبدالکریم ، رانا 333 عبدالمنان ،شاہد ، مولانا 200 عبد القیوم خاں 157 158 عبد المومن 442 331 392 عبدالعزیز، بابو 281 عبدالکریم سیالکوٹی ،مولوی عبد الواحد بن داؤد، مولانا 440 442 عبد الواحد، شیخ عبدالعزیز ،ٹھیکیدار 306 197، 205 عبدالوکیل ، خلیفہ عبدالعزیز ، چوہدری 239 عبدالکریم یاد گیر، مولوی عبدالوہاب آدم عبدالعزیز ، ملک 345 190.189 441.439.329.328 95.68 عبدالعزیز بٹ 403 عبداللطیف، حاجی 303 عبدالوہاب خاں ابن چوہدری غلام عبدالعزیز دین 348، 353 عبداللطیف خان داماد قاضی محمد عبد اللہ قادر عبدالعظیم درویش، میاں 3101 230 عبدالہادی.ڈنمارک عبدالعلی ،مولوی 287 عبداللہ ، ڈاکٹر 337 | عبدالہادی، سید عبدالغفار بہاولپوری ، مولانا 439 عبداللہ، معلم 361 عبدو عمران ، معلم 210 350 91 365 عبدالغنی.انڈونیشیا 342 عبداللہ خان، چوہدری 234 عبید الرحمن فانی 253 254 | عبدالغنی، شیخ.یوگنڈا 257 258 عبدالله علی معلم 367،361 عثمان.انڈونیشیا عبدالغنی کویت 109 | عبدالمالک، میاں ابن میاں سعد محمد عثمان، مسٹر 230 | عثمان احمد شاہد عبدالغنی، ملک 200.199 عبدالغنی بیلوج 431 | عبدالمالک خان ، مولانا 37 ، عثمان بن فودیو، حضرت عبدالقادر، پروفیسر 317 | 45، 48، 113 ، 138 ، 1 17 عثمان فاروق ، الحاج 342 401 95 61 428
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 14 عزیز احمد ، ڈاکٹر چوہدری علی احمد خان، چوہدری 424 425 438،426 | علی با اشاریہ.اسماء 238 غفور احمد، چوہدری ابن چوہدری نور محمد 408.407 199 عزیز الرحمن خالد ، مولوی 383 علی حسین بھگیلو 419 | غفوراں بی بی بنت چوہدری نور محمد عشرت عثمانی ، ڈاکٹر 10 على روجرز، الحاج عصمت اللہ بہلولپوری ، چوہدری علی محمد ، راجہ عطا محمد ، صوفی عطاءالرحمن،ڈاکٹر 373 202 غلام احمد، چوہدری 303 عمر الدین سدھو، کیپٹن ڈاکٹر غلام احمد ، حاجی 261 عمرتال 23، 181 ،336 | عمر جوف عطاء اللہ، کرنل 171،59 عمر رضا کحاله 199 24 209.208 425 426 427 غلام احمد ، ڈاکٹر بریگیڈئیر 409 437.388 408 | غلام احمد ایم اے، صاحبزادہ مرزا 8 عطاء اللہ بنگوی، چوہدری 348 عمر علی بنگالی ، مولوی 254 غلام احمد بد و ملهوی ، مولانا عطاءاللہ خان ،ڈاکٹر 317 | عنایت اللہ احمدی، چوہدری عطاء اللہ کلیم ، مولانا 315 439.391.390 359 360 361، 363 ، غلام احمد فرخ ، مولوی 440.366.365.364 440.389.387 441.399395 353 337 عطاء المجیب راشد، مولانا 276 عنایت اللہ دہلوی ، مولوی 283 غلام احمد چغتائی 346343، 348 349 ، عنایت اللہ منگلا، ڈاکٹر 351 352 353، 55 3 عنایت خال 299 غلام احمد قادیانی مرزا ( حضرت مسیح 94 | غلام احمد خان عطاء محمد ، مولوی 330 عنبر.کینیا عطاء محمد خاں، ڈاکٹر 230 عیسی علیہ السلام، حضرت 403 موعود علیہ السلام) 100.61.18.12.8 عطر دین 209 عکرمہ،حضرت 213.196.131.113.244.239 273.239.238.219 411.370.369.262 17.16 علی ابوبکر بسلامه 341 علی احمد، چوہدری ابن چوہدری غالب احمد ، راجہ ابن راجہ علی محمد غلام باری سیف نور محمد 199 362.301.295.294 113.85 302 207 308 غلام حسن خاں پیشاوری
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 15 غلام حسن خان نیازی ، مولانا 296 فاطمہ بیگم اہلیہ چوہدری محمود احمد چیمہ فضل الہی خان غلام حسین، چوہدری 237 غلام حسین ڈنگوی ، مولوی 234 فتائی گیوا غلام رسول ، چوہدری 237 فتح محمد شیخ غلام رسول پیشاوری، مرزا فتح محمد سیال، چوہدری 261.205 اشاریہ.اسماء 327 235 236 | فضل حق ، میاں ابن میاں سعد محمد 421 230 199 فضل کریم لون 351،344 | 226.213 غلام رسول را جیکی ،مولانا فخر الدین ملتانی ، مولوی 212 231 ، 233 فرحان احمد نصیر غلام علی شاہ ، مولوی.مانڈے 274 غلام فاطمہ اہلیہ میاں اللہ بخش امرتسری فرخنده اختر شاه ، مسز فرزند علی مولوی 95 43 281 فلاح الدین، خلیفہ فلادیو، الحاج فلا نین والش فلپ،شہزادہ فہمیدہ بیگم 96 423 371 412 195 236 فرید الدین شکر گنج، حضرت بابا فہیم الحق خان ، ڈاکٹر بن ڈاکٹر سراج غلام قادر، چوہدری 210،208 غلام مجتبی شاہ ، ڈاکٹر سید فضل احمد، چوہدری 437.389.388 336 الحق خان 107 فیروز الدین منشی 241 290 فیصل شفاعت احمد خان 315 فضل احمد داماد میاں پیر محمد 234 قانتہ خاں 279 فضل الرحمن ابن چوہدری عبداللہ غلام محمد، چوہدری غلام محمد حکیم مولوی 274,263 خان 141 235 قبیصہ بن ذریب، حضرت 71 قدرت اللہ ، حافظ 326 فضل الرحمن بسمل غفاری ، میاں غلام محمد.ریلوے غلام مرتضیٰ پراچہ غلام غلام یسین ، قاری فق فاطمہ ، الحاجه فاطمه بی بی 76 167 255 65 199 443 | قدوائی نکل فضل الرحمن سعيد 333 قطب الدین، مولوی فضل الرحمن غازی داماد حکیم محمد قمر الدین سیالوی، خواجه اسماعیل سیکھوانی فضل الہی ، ملک 240 201 قیوم نظر ک مگ فضل الہی انوری، مولانا.421.97.96 340 338 239 70 247 کالڈر مسٹر ( عبدالغنی) 223 فاطمہ بی بی اہلیہ فضل احمد 234 422 423، 441،439 کرم الدین مسلمی 239
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 کرم النساء اہلیہ ملک مولا بخش لطیف، سردار 16 اشاریہ.اسماء 96 مبشر احمد ، راجہ ابن راجہ علی محمد 207 236 | لطیف قریشی 312،249 | مبشر احمد خالد کرم دین.انگلستان 344 لقمان احمد ، مرزا کریز، مسز کریم احمد نذیر 221 لک روڈے، مسٹر 97 مبین الدین احمد ، سید 416 | مجیب احمد ، سید 95 282 315 9 325 | لئیق احمد طاہر ، مولانا 89 ، 309 | مجیب احمد ، صاحبزادہ مرزا کریم اللہ فیض اللہ چک 208 لئیقہ طور 191 192 مجید احمد سیالکوٹی کلثوم با نو اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ مائز مس ( زینب) 230 | ماؤزے تنگ 223 9 کمال الدین ،خواجہ 299 مبارک احمد شیخ 37 ، 40 ، | کمال الدین.نجی 191.91.68.58.47 | 391 440.427.425 143 محبوب ظفر محبوب عالم خالد، شیخ 289.281.48 محبوب یوسف، بھائی 393،391 کوثر تسنیم ،لیڈی ڈاکٹر 443.352.336.257 | 438 محفوظ الرحمن فانی 254 کوثر نیازی 69 | مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا محمد صلی الله اینم ، حضرت کوریو،مسٹر 227.77.76.45.41.23 کونس، مسٹر 374.336.325.149 | 223 کھبن ماؤں پیر 358 مبارک احمد ، میاں کے اے محمود، رانا 337 مبارک احمد خاں.15.14.12.9.3 104.72.65.54.33.160.153.123.121 190 173.164.163.162 94 كل النساء لطيف 303 مبارک احمد ساقی ، مولوی 348 | 262، 294، 362، 425 گل محمد ، ملک گنگا، مسٹر گوبیولامین 289 | مبارک احمد طاہر 439 | محمد ، مولوی 416 مبارک احمد نذیر ، مولوی 386 محمد ابراہیم، میاں 398 84 374 مبارک محمود پانی پتی، شیخ 286 محمد ابراہیم بی اے، چوہدری 336 گوہردین ،ڈاکٹر 190 مبارک مصلح الدین ، چوہدری 113 محمد ابراہیم جمونی ، میاں 135 لم لال حسین اختر ، مولوی 319 مبار که بیگم، سیده نواب محمد اجمل، ڈاکٹر لال خاں، ملک 94 مبشر احمد، ڈاکٹر مرزا 437 137 ، 142 | محمد اجمل شاہد، مولانا 66، 422، 440.430425.423 7
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 17 محمد احسن امروہی ، مولانا 297 محمد اسماعیل ابن میاں پیر محمد 234 محمد امین ، سید 324،85،21 محمد اسماعیل پانی پتی ، شیخ محمد انور حسین، چوہدری محمد احمد انور محمد احمد مظهری، شیخ 281تا284، 286 | محمد ایوب ، مولوی 38، 45، 109، 287 ، 442 محمد اسماعیل سیکھوائی، حکیم محمد بخش ، حکیم محمد ادریس، مرزا 340 تا 342 238 تا 240 محمد بشیر احمد علی، شیخ محمد اسحق 326 محمد اسماعیل منیر ، مولانا محمد بیلو، الحاج محمد اسحق ، حافظ برادرمیاں پیر محمد 171 ، 366 ، 417 محمد جان خان فیجی 231 محمد اسماعیل وسیم 432 اشاریہ.اسماء 315 150 341 196 109 400 محمد اسحاق ، میر 196 محمد اشرف، چوہدری ابن چوہدری محمد حدرج ، سید محمد اسد اللہ کا شمیری 442،290 | محمد منیر محمد اسلم ، چوہدری 24 محمد اشرف ، ڈاکٹر محمد اسلم ، قاضی 286 محمد اشرف الحق ، مولانا محمد اسلم جاوید 331 محمد اسلم جہانگیری، ڈاکٹر محمد افضل، میر 237 محمد حسبان 393.390.242 257 342.341 437 محمد حسن، ڈاکٹر سردار 438،317 440.439 محمد حسین، چوہدری.جھنگ 25 محمد حسین، ماسٹر لیٹوکا 378، 437 | محمد افضل قریشی 440 | محمد حسین ، میر محمد اسلم چوہدری ، لیفٹیننٹ کمانڈر محمد اقبال ، علامہ سر 207 297.247.245 324.280.279 391 252 131 محمد حسین بٹالوی ، مولوی محمد حسین چیمہ، کیپٹن 353،351 محمد اسلم خالد 325 محمد اقبال داما دمیاں سعد محمد 230 محمد حفیظ خان، ڈاکٹر محمد اسلم را نا 320 | محمد الدین ، مولوی 309،45 | محمد حنیف (حاجی) 437 391 محمد اسلم قریشی 417،416،413 | محمد الدین ناز ، مرزا 322 محمد حنیف، شیخ 109،46،38 محمد اسمعیل ، بابا 250 تا 252 محمد امجد | 331 | محمد حنیف ندوی ، مولانا محمد اسماعیل ، ڈاکٹر میر محمد امیر خاں 208 | محمد خان، چوہدری 317،286 | محمد امین ،خواجہ 45 محمد رشید، شیخ محمد اسماعیل ، مولوی 364،91 | محمد انور، ڈاکٹر 331 محمد رفیع ابن امیر احمد 442 336 24 196
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 محمد رمضان محمد زکر یا ورک 18 اشاریہ.اسماء 255 | محمد صدیق گورداسپوری ،مولانا محمد عبد اللہ چیمہ دا ما دمیاں پیر محمد 94 محمد سرور شاہ ، سید 189 439.375.373.372 محمد صدیق منگلی ، مولانا 389 محمد عبداللہ حسن | 234.232 342 292.291 316 | محمد عبد اللہ خان محمد سعید، کرنل (ریٹائرڈ) 94 محمد صفدر، میجر محمد سعید ، مولوی داماد میاں پیر محمد محمد طاہر ندیم 256 محمد عبد اللہ خان، نواب 282 محمد عبدالوہاب، میاں 232، 234 | محمد طفیل 66 محمد ظفر اللہ خاں ، حضرت چوہدری 195 344 محمد عبدی، شیخ 440،366،360 محمد سلیم قریشی شاہد 412 | 10 ، 24، 96، 119، 149، محمد عثمان چینی 75 محمد سلیمان فیتھ 225 | 169، 217، 280 ، 343 تا محمد عرفان خان ،مولوی 45،38 محمد شریف، چوہدری محمد شفیع منشی داماد میاں سعد محمد 407 230 محمد شفیع اسلم، ماسٹر 228، 310 436.393.392.357.345 محمد عالم، بابو 331 محمد عالم ابن حکیم رحمت اللہ 197 محمد عطاء اللہ حنیف مولوی 156 محمد علی ، مولوی ( غیر مبائع) 301.297.292 محمد عبدالرشید ا بن چوہدری محمد حسین محمد علی پروفیسر، چوہدری محمد شفیع اشرف محمد شمیم.نجی 84 46 279 محمد عبد اللہ ، بابو 199 محمد علی تاؤنی 360 محمد علی جوہر محمد صادق ، مفتی 220 221 محمد عبد اللہ.برما 335.324.20 324 291 223، 225، 227، 309 محمدعبداللہ قریشی ڈاکٹر ابن قریشی محمد علی خاں، نواب 24، 195 محمد صادق سماٹری ، مولانا امیر احمد 196 محمد عمر اچھروی، مولوی 319 255 ، 340 تا 342 | محمد عبد اللہ.والد با با محمد اسماعیل محمد عمر جان ، قاضی 304 305 محمد صدیق ، میر 317 250 محمد عیسی ، مولوی محمد عبد اللہ بھٹی، قاضی محمد صدیق امرتسری ، مولانا 398390.242.207 $399 406.404402.400 189 ، 210، 211، محمد کرامت اللہ، چوہدری داماد ملک 229224.221.220 محمد صدیق ایم.اے ، چوہدری 38 محمد عبد اللہ پیر کوٹی ،مولوی محمد صدیق بانی ،سیٹھ 317،46 مولا بخش 232، 34 محمد کریم.گومنڈی 234.232 236 199
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 محمد کمانڈا بونگے ، الحاج 385.382.374 19 اشاریہ.اسماء محمد یوسف خان، جنرل مختاراں بیگم بنت شیخ فتح محمد 199 348 تا 350 مرے پرابستین محمد لطیف (اسسٹنٹ پرائیوٹ سیکرٹری محمد یوسف، قاضی 292 | مرتولو 207 | 296، 304 305 ، 314 | مرداس بن نہیک محمد لطیف شاہ ، سید 272 273 | محمد یوسف، مولوی 254 مرقس ، سینٹ 221 342.341 70 371 محمد لکھوی، حافظ مولوی 156 محمد یوسف خاں.کینیڈا 94 | مریم بی بی ہمشیرہ میاں پیر محمد 231 محمد محسن کمشنر 325 محمد یوسف یا سن ، مولانا 46، 441 مریم سوچی باقی محمد معین الدین ،سیٹھ 327 محمود، معلم 361 مریم صدیقہ ، سیده ( ام متعین) 139 محمد ممتاز خان دولتانہ محمود، مفتی 334،78 335 | محمود احمد.109.42 70 134.133.132.110 342.152.143.142.139 محمد منشی خان ،مولوی 243 | محمود احمد چیمہ، چوہدری محمد منور، مولوی محمد منیر، جسٹس 359 442.187.186.182 342.236.235 69 | محمود احمد خان ،نوابزاده 315 | مسعود احمد، چوہدری ابن چوہدری محمد منیر، چوہدری 236 | محمود احمد دہلوی ،میاں 328 | محمد منير 237 محمد ناصر بن بہر دم یوسف 169 محمود احمد عرفانی، شیخ 260، 307 مسعود احمد، شیخ داماد حکیم محمد اسماعیل محمد نذیر لائلپوری ، قاضی 48 محمود احمد ناصر، سید میر 442.330.246.112.83 محمد نواز سیکھوانی 170،85،83،46 ، 322 مسعود احمد جہلمی ، مولانا 326 محمود النجم محمد یا مین ( تاجر کتب ) ،مولوی محمود عبداللہ، معلم محمد یحی 408 240 439.95.84 361 مسعود احمد خان دہلوی 259 260 | محمود عبداللہ شبوطی 440،439 238 | محمود و 283.246 403 مسعود الحسن نوری، ڈاکٹر 103 221 محمد یعقوب منشی 269 | محی الدین ابن عربی 8 مشتاق ( کھلاڑی ریلوے) 326 محمد یعقوب خان ، مولانا محی الدین احمد 315 مشیر حسین قدوائی ، شیخ 292، 293، 295 296 | محی الدین شاہ مولوی 340 342 | مصباح الدین ،سردار 211
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 مصطفى السنوسى 381،375 | منصور احمد خان مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 20 20 اشاریہ.اسماء منیر احمد خان، ڈاکٹر 11،10 428 441،429 | منیر احمد قریشی 107،9،5، 206، 344 | منصور احمد ندیم 416 منیر احمد مبشر ، ڈاکٹر مظہر الحق ،مولانا 298 منصور امیر الدین معراج سلطانہ 353 316.307.195 199 143 منصورہ بیگم سیده ،5 ، 138،97 منیر الحق خان ، ڈاکٹر بن ڈاکٹر سراج معین الحق خان، ڈاکٹر ابن ڈاکٹر منصورہ بیگم اہلیہ کرنل ضیاءالدین الحق خان سراج الحق خان 241 ملک معین الدین ، مولوی 305 | منظور احمد ، مرزا ابن مرزا غلام رسول 241 207 | منیر الدین احمد ابن ڈاکٹر احمد دین 205، 207 منیر الدین شمس منور.انڈونیشیا 342 | منیر احمد عارف، مولانا 192 94.93 372 ، 383 ، 385 منور احمد ، ڈاکٹر.نائیجیریا 438 432.431.428 منور احمد، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منير المحصنى السيد 440،169 281 45 ، 48، | منیر الدین احمد ، مولانا 342 325 316.315.107.97 مقبول احمد ، میجر سید 107 مقبول احمد ذبیح ، مولانا مقبول شاہ خلیل مکی احمد ممتاز بیگ آرتھر ، الحاج 388 ممتاز علی خان ، حاجی ممتاز علی مقبول منصور احمد، چوہدری 291 398 345 منصور احمد ، راجه ابن راجہ علی محمد.401.399 منور احمد ، راجہ ابن راجہ علی محمد 207 | 402، 403، 440،406 منور احمد ، مرزا.پٹسبرگ 265 موبوتو 332 منور احمد چوہدری 325 موریٹ اسلمین ( عبداللہ ) 221 207 منور احمد خالد 24، 181 | موسیٰ علیہ السلام ، حضرت 123 منوره خانم اہلیہ آغار شید احمد خان مولا بخش ، ملک 241 | مونکر محمود منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا 41 منیر احمد شیخ داماد راجہ علی محمد 207 موولیگ 330.163.106.47.45 236 358 223 منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا 5 ، 7 ، 9 مہتاب بی بی اہلیہ مرزا غلام رسول منصور احمد بشیر ، سید 93، 94، منیر احمد قریشی این قریشی امیر احمد پشاوری 261 385.382.381.378.374 196 | مهدی حسین، میر 212
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 21 24 اشاریہ.اسماء مهدی شاہ ، مولوی 303 نذیر احمد، چوہدری ابن چوہدری نصیر احمد خان، پروفیسر ڈاکٹر مہر آپا، سیدہ ( بشری بیگم) 137 نورمحمد مہر الدین پٹواری 271 نذیر احمد ، ڈاکٹر 199.197 83.37 343 نصیر احمد شاہد ابن محمد اسماعیل 234 مہر علی شاہ گولڑوی، پیر نذیر احمد انجینئر ، چوہدری 48 نصیر الدین احمد ، الحاج شیخ 193 ، 203 نذیر احمد باجوہ، چوہدری میرحسن ، سید 39 363.361.360 249،245 نذیر احمد ڈار ، خواجہ 345، 347 نصیرہ بی بی اہلیہ چوہدری ضیاء اللہ میر محمد ، قریشی ابن قریشی امیر احمد نذیر احمد علی، مولانا 255، 256 196 نذیر احمد مبشر ، مولانا میرنگل مسٹر (عبدالکریم) 223 199.58.37 131 میمونہ ریاض اہلیہ چوہدری صادق نذیر حسین دہلوی، سید 237 نسیم احمد ، ڈاکٹر 237 نصیرہ بیگم بنت عبدالسلام خان 317 نظام الدین مہمان 385.376.375.374 7 | نظام جان کا غانی، حکیم 260،258 نسیم احمد گیمبیا 406 407 نظیر بیگم بنت حکیم رحمت اللہ 197 ناصر احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا نسیم احمد باجوہ 83 | نعمت اللہ خان.یوپی (خلیفة المسح الثالث) نیم سعید، سیده.151.134.42.13.3.1 410.386.301.249 نیم مهدی 152.135.133 94 نعمت اللہ ولی، حضرت نعمت خاں ، ڈاکٹر نعیم احمد ناصر الدین گمانگا 385،382 نصرت جہاں سیدہ اماں جان ) نعیم احمد.انڈونیشیا نعیم احمد ، قریشی 269 359 209 325 340 316 ناصر نواب، سید میر نائبک ،ڈاکٹر نبی بخش بٹالوی ،میاں نبیہہ داؤد 274 420 230 316 نجف شاہ حلالپوری، پیرسید 195 ندیم احمد صدیق ، میاں 95،94 نذرمحمد ، صوفی 76 نصیب.تنزانیہ 236.137 362 نصیر احمد ، مولانا راجہ 440،439 نعیم الحق خان ابن ڈاکٹر سراج الحق نصیر احمد ، مولانا مرزا 441 نصیر احمد باجوہ، چوہدری داماد چوہدری عبداللہ خان 236 نصیر احمد برادر چوہدری نذیر احمد باجوہ خان نعیمہ بشری بقا پوری نکروما، ڈاکٹر 241 143 388 نکلسن ہمسٹر (محمد اسماعیل) 223 39 | نگالا، مسٹر 403
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 نگہت ناصر 406 | نیاز احمد 22 اشاریہ.اسماء 324 بفرنیش (صدیقہ) نوح علیہ السلام، حضرت نیرہ خانم اہلیہ ڈاکٹر داؤ د احمد خان ہکس ،مسٹر 124.123 223 223 370 نوراحمد، چوہدری ابن چوہدری نور محمد 241 ہیری آسٹرین و فسن و.ہی ید اللہ بھنو، بھائی 417،416 315 یعقوب علی عرفانی، شیخ 194 199 | وحید احمد ، پیر 287 | يوسف ،معلم 361، 404،401 نور احمد منیر، شیخ 267 ،443 وحید الدین (ادیب) | نور الحق ، مولانا ابوالمنیر 21، 113 درسا ظفر اللہ 358 یوسف احمد الہ دین ، سیٹھ 327 نورالحق خان ،ڈاکٹر بن ڈاکٹر سراج وزیر علی، چوہدری 197 ،198 یوسف بن تاشفین 15 ، 17 241 وزیری عبدو، معلم 424 427 یوسف جلیل، پروفیسر 319 320 نورالدین معلم.برما وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 317 یوسف عثمان کمبا الا یا ، شیخ الحق خان 360 361 | ولی خان، شاہ 202 نورالدین،حضرت حکیم مولانا ولیم ایچ فٹکس ، ڈاکٹر 427 | یوسف مصطفى ( حضرت خلیفہ ایسیح الاول) وی وی کالون 29، 31 ، 33 ، 34 ، ہادی علی چوہدری 192،35 ،194، 195، 260 | ہارون الرشید نورالدین خوشنویس داماد میاں پیر محمد ہاروے ہیں 232، 234 | ہاشم Mbita، میجر نورخان، ملک 211 212 باشم، بابا نور محمد، چوہدری 197 ، 198 ہدایت اللہ بنکوی، چوہدری 367.365.361.360 386 ENGLISH NAMES De Castelet 386 416 94 Ganda, Mr 383 407 K.Mwamzandi, Mr.402 | 223 Pere Dereton 416 | 360 (بشی) Sechmie 413 198 Sohna,Mr.350 351 ' Tawara, Mr.350 351.348.347 94 96 139 189 نور محمد، میاں برادرمیاں پیر محمد 231 نور محمد خان منشی 240 ہدایت اللہ ہادی نور محمد نسیم سیفی ، مولانا ہدایت اللہ ہیویش 330.113.37 ہدایت سوقیہ نور ہدایت 342 ہری سنگھ ، سردار
اشاریہ.مقامات 23 23 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 آیا مقامات اٹھوال ( گورداسپور ) 145 | افریقہ (مغربی) آدم پور دوا به ضلع جالندھر 146 اجنالہ ضلع امرتسر 171.153.152.65 146.318.317.257.177 65 425 389.375.346 228 438 اکارے اگونا سویڈ رو(اگونہ سویڈ رو) 301 12 146 آره اجیبو اوڈے ( نائیجیریا) 143 آزاد کشمیر 306،201،148 اچھنیرو (آگرہ) آسٹریلیا 162 ، 398،395 احمد پارک احمد نگر آسوکورے (اسکورے) اور حمہ 388.387 437.389 $145 360 | امرتسر اروشا ( تنزانیہ) 254.251.213.208 409.50.11.4 369، امریکہ 135.131.107.54 439.396.371.370 142.141.138.136 106.74.95.147.145.144.143 400 170.169.152.148 388.265.264.263.177 446.409.369.368 421 249 146.145 437.54.46 اموسان انار کلی.لاہور انبالہ انجوارا انڈونیشیا 104.100.53.50.17.177.171.169.144 429.428.426.65.332.331.328.178 360 409.377.375.340 429.425.411.410 147 139.138.136.135.191.143.142 آنبه آئیوری کوسٹ ابادان ( نائیجیریا) أبنيا ( تنزانيه) ابو ہی اٹاری 207 افریقہ (مشرقی) اٹک (دیکھئے کیمبل پور ) آسنور ( ناسنور ) 145،143 ار بیٹیریا آشو گیو آکسفورڈ 421 300 اسرائیل آگرہ اسلام آباد 240.228.210.145 اسیمبو آمر سفورٹ 433، 435،434 اشانٹی ریجن 146 440.177 افریقہ.148.144.142.140 443.396.258.257 227
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 169، 236، 255، 275، ایڈنبرا 24 اشاریہ.مقامات 413،412،354 | بریلی 146.143 210 276، 278، 340 341، ایران 61، 443،355 | بصره 342، 410، 432، 440 | ایسٹلے 403 | بغداد 210 انڈیا ( دیکھئے ہندوستان ) ایمسٹرڈیم 434 بکوبه ( تنزانیہ) 360، 361 انگلستان (انگلینڈ، برطانیہ، یوکے) ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ 146 بکورو.89.82.66.48.138.136.135.127 با.غانا 395 بلوچستان بمبو 438.420.419 46.38 191 141، 142، 143 ، 147 ، باتھرسٹ ( گیمبیا) بمبئی 327،226،146،23 191.169.149.148 408،406،348، 437 | بنگلور 211، 13 2، 219، 225، بار کنگ 354 بنگلہ دیش 146.143 263.148.49 226، 280، 299، 329 | بامبو 415 بنگہ ضلع جالندھر 209،146 334، 342 تا 358، 409، بانڈ ونگ (انڈونیشیا) 140 بنگہ نمبر ابکا نہ رکھ برانچ 439 440 441، 446 باؤ کا ہون 145 256 | بنوں 146،145، 266،147 اوتریخت (Utrecht) 434 | بٹالہ 190، 194 ، 213، 230 | بو 383،373،372تا386 اوچی 423 | بٹیرے 400 | بواجے بو اودے پور کٹیا 143 برائٹن 226 اوڑی 298 برطانیہ (دیکھئے انگلستان) بوانا ( تنزانیہ) اوکاڑہ 337،240،198 | برلن 149 بورنیو او گیا گی 421 | برما 148 ،358،274 359 | ہوئی 437.380.377.318 367 439.147 266 اوہایو 265 ایبٹ آباد 354،243،240 بھارت (دیکھئے ہندوستان) 97، برونڈی ( تنزانیہ) 360 بہاولپور 148 ، 162، 197 99، 101، 106، 107، برہان نگر 110، 122، 146، 157 ، بره پور 158، 159، 266 ، 300 برہمن بڑیہ ( بنگال ) 263،145 بہلول پور 24 بہاولنگر 143 بہر اور ریاست پٹیالہ 197.148 146 146.145
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 بھا کا بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ 146 پسرور بھاگلپور 143 ،145 | پشاور 25 اشاریہ.مقامات 200 تا سک ملایا 342 328 106، 145، تبت بھا گووال ضلع سیالکوٹ 146 | 147 ، 158 ، 240، 296، | تربیلا بعد رواه 143 | 304، 16 3، 328، 329 | ترکی بھڈال (سیالکوٹ) 145 | پنجاب 24، 38، 68، ترگڑی بھڑ یار باغبانپورہ 207 | 79،78، 117 ، 167، 191، | تریولے 327.259.246.206 146 106 439.432.349 330.146 419.418.417.416 147 تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ 146 202.148 200 | تنزانیہ.361.360.359.304 416.413.365.364.363.362 340 بھڑ تا نوالہ ضلع سیالکوٹ بھمبر 303،291 | پنجو.لنکا بھوربن 300 پنڈ دادنخان بھیرہ 145،31 ،183، پنڈی بھٹیاں 195، 196، 307، 443 پورٹ لوئس بھیرہ میانی 192 پوروو کر تو (انڈونیشیا) بھیں بیافرا 410.333 239 | پوموانی 440.439.404.366 405.403 بیری ( گورداسپور ) 145 پوہلہ مہاراں ضلع سیالکوٹ تھر پارکر بیگم پورضلع ہوشیار پور پاڈانگ 146 تبال ضلع گجرات 146 146 ، 234 | تیونس 275 | پھگلہ 106 شورا ( تنزانیہ) 146 148.24.23 432 پاک پتن( پاکپتن) 336،23 پھمبیاں پتھورو 23 پیڈنگٹن پٹس برگ 264 265 | پیر پیائی پٹنہ پٹیالہ پٹی ( قصور ) پریسٹن 143 پیر کوٹ ثانی 198.197 361.359.258.147 226 | شبہ.بٹالہ 230 296 | ٹو بہ ٹیک سنگھ 146، 325،271 $230 ٹوپی 145 ، 269،146 | 231 232 233 234 | ٹورانٹو 145 ٹوکیو 355،343 تا دنگ مانگو (انڈونیشیا) 340 ٹونگا ( جزائز ) 145 184.147 371 398.394
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 ٹیچی مان ( ٹیچیمان) 437،147 26 ٹیکسلا ٹیمپل روڈ 106 287 2-2 جھڈور جھنگ.189.147.9.7.5 288.239.208.202 23.147.63 325.250.165.163 جاپان 368 تا 446،371 جھنگڑ حاکم والا جالندھر 262،261،208 چابک سواراں لاہور جاوا جبروک 340.147.145 401.400 چالینزے( تنزانیہ) 337 311 360 جده جرمنی 61.96.95.88.169.148.139.97 441.439.412.201 331 جڑانوالہ 139 354.344 23 145 306.260.145 177 206.23 جھڑ ا ؤ جمشید پور جموں جنوبی افریقہ جودھ پور جورو جوڑ ا ضلع لاہور 437.380.378 146 اشاریہ.مقامات چک بہوڑ و چک چٹھہ چک سکندر ضلع گجرات چک قاضیاں چک منگلا 337 330 146 273 150.134 چک نمبر ۳۳۲ ج ب لائلپور 146 چنتہ کنٹہ حیدرآباد دکن چاه شیخواه ضلع ملتان چک ۹ پنیار شمالی سرگودھا 237 چندی گڑھ چک ۴۶ شمالی سرگودھا 145 چنیوٹ 267 146 319 272.200.12 چک ۷۸/۲ ضلع سرگودہا 146 چوکنا نوالی (گجرات) 117 چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودھا 145 چونڈہ 146 چک ۱۱۶ ضلع سرگودها 146 | چوہڑ کا نہ ( فاروق آباد) 337 چک ۱۴۵ ضلع ملتان 146 چہور چک ۱۷ا مغلیاں چک ۲۷۰ الف ضلع تھر پارکر سندھ 337.145 146 چک ۳۴۶ ضلع ملتان 146 چک ۳۶۱ ضلع ملتان 146 ح.خ.وڈ حاصل پور ضلع ہوشیار پور 146 حافظ آباد 200 231،201 چک ۶۵/۴ ضلع رحیم یارخاں حسن پور ضلع ملتان 146 چک ایل.۶/۱۱ ضلع ساہیوال 336.23 146 حیدر آباد 327.148.38 حیدر آباد دکن (بھارت) 189.145.143 290 خاناں میانوالی جو گجا کرتا ( انڈونیشیا) 340 چک ایل.۱۱ / ۳۰ ضلع ساہیوال جو گووال 196 243
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 27 اشاریہ.مقامات خانیار ( محله) 244 دہلی(دلی) 445،298،145 رز خواجہ گنج ہوتی خوست 305 | دھرمپورہ لاہور 240 رانچی 287 | دھیر کے کلاں ضلع گجرات 146 راولپنڈی 143.104.10.9 خیر پور 148 دیوبند 147.145.107.106 266 دا تازید کا 234 ڈا گوچئے دانه 106 ، 266،259 | ڈچ گیانا 147 را ہوں دار الرحمت غربی ربوه ڈڈومہ 191 رائے پور ضلع سیالکوٹ 232 233 ، 237 ڈرگ روڈ کراچی 230،57 ربوہ | دار السلام (تنزانیہ) ڈسکہ 147 ،359، 361، | ڈلہوزی 362، 364، 365، 366 | ڈنگہ 146.145 328.327 234.146 دارالسلام (ماریشس) 416 | ڈنمارک دار الصدر جنوبی (ربوہ) 322 دارالصدر غربی دارالعلوم قادیان دنیال.136.135.134.96.147.143.142.138|20 350.169.149.148 | 200 69.3 237 426 145 | ڈھومی 306 | ڈھاکہ درسی والا ضلع سیالکوٹ 146 ڈھپئی.سیالکوٹ | 287 288 | ڈیٹن (امریکہ) 265،264 در گانوالی درگئی دولم ضلع سیالکوٹ 146 ڈیرہ اسماعیل خان مشق 8، 169 | ڈیرہ غازی خان دنیا پور ضلع ملتان دوالمیال.146.145.25 146 312.308.274.148 146 289.288.251.249 | 415 261 146.38.22.12.91.85.84.7874.40 335.167.160.128 24 147.146 359.251 رحمان آباد رحیم یارخان رنگون روٹرڈیم ( روٹرڈم ) 436،435 روز بل روس 418.417.415 131.60.51.4 روکا نتیا (Rokantia) 376 روکوپور روم دولت پور ضلع گورداسپور 146 ڈیریانوالہ رومانیہ 147 زائر زنجبار ( مشرقی افریقہ) زیرہ ضلع فیروز پور 243 | زیورک 317 409.332 396 332 147.145 146 350
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 س ش ص.ظ سکاٹ لینڈ سالٹ پانڈ (غانا) سکندر آباد 28 20 اشاریہ.مقامات 354 | سیالکوٹ 134، 144 ، 145، 200.149.147.146 327.245.243.237.234 | 148.146 386.347.147.145 290.272.249.248 | 341.275 145.177.148 337 سماعیلہ ضلع گجرات 146 سید والا ( شیخوپورہ) 325 | سیرالیون.338.257.256.255 230 410.386 339, 372 146 440.439.437.427 23 6 سامانه ریاست پٹیالہ 146 سماٹرا سانگلہ ہل ساؤتھ شیلڈ 223 | سمندری ساؤتھ آل 355 سنت نگر لاہور ساہیوال ( منٹگمری) سندر گڑھ ضلع سیالکوٹ 147،145،23 ، سندھ 274، 290، 336، 337 | 24 ، 57، 145 ، 146 ، 334 ، سیلون (سری لنکا) 219،145 سپین 15 ، 17 | سنگاپور 147 سینئر.ماریشس سٹیالہ سرائے عالمگیر 145 7 سنور 145 شادیوال ضلع گجرات 169 سوڈان سرائے نورنگ بنوں 146 ، 266 سورینام 266،146 432 | شام 420 شاہ پور.24.23 328.299.158.157.12.8.7 سرحد سرگودھا 240.165.163.104 325.316.304.272 415 191 146 145 سر نیام سروٹی سرہند ضلع لدھیانہ سری لنکا سعودی عرب سوکوٹو سوما 437 | شاہجہانپور سونگوے( تنزانیہ) 363 | شاہدرہ 415 146.145.117 53 192 143 320.273.145 24 146 273 145 145.143 423 143 سونگھڑہ 145 | شریف آباد سوہلی خورد ضلع گجرات 146 شکار ضلع گورداسپور سوھا وہ ڈھلواں ضلع گوجرانوالہ 146 شکر گڑھ شملہ سوئٹزرلینڈ 350،343،148 | شموگہ 51، سویڈن 96 | شمولو.نائیجیریا 54، 55، 61، 62، 368 | سہارنپور 145 ،266 | شورت
اشاریہ.مقامات تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 29 29 فتح گڑھ چوڑیاں 250 | قادیان شیخوپوره 145،104،23،9،5 ، 147 ، | بجی.148.147.54.46.150.144.143.85.29 205.200194.189.303.242.207.152 336.330.325.304 226.219.213.207 441.439.399 389 24 صادقپور صووا (صور) 235.231.230.229 228 فرخ آباد.245.240.238.236 303، 394 395 396 | فری ٹاؤن (مغربی افریقہ ) 253.251.250.246.338.147 24.263.260.255.254 385.383.380.339 24.274.272.269-266 146 فرید کوٹ سٹیٹ +287.281.279.275.302.297.296.292 417.359.327.303 146 145 234 303 قتالپور ضلع ملتان قصور قلعہ کالر والا قلعہ گوجر سنگھ ک مرگ کا با 438.424 کاٹھ گڑھ 210،209،145 کا کامیگا کاکول 400 316.158.157 کانپور 146 256 415 146.144 فرینکفورٹ (فرانکفورٹ.فرنکفورٹ) 210،96،95 فلسطین فنکس فیروز پور فیصل آباد ( لائلپور) 290.145 440.439.148 252.61 146 330 146.104.78.74.57.38.12 211.146.145.109.106 325.272.267.147.171.148.147.145 ظفر آبادل بینی ظفر آبا د لوتکا ع_غ_ف_ق عارف والا عدن عراق علم پورضلع ہوشیار پور علی پور چٹھہ علی پور کھیڑہ (یوپی) علی گڑھ غانا ( گھانا) 46، 51، 54، 415 332 177، 328، 332، 346 ، فیض اللہ چک اللہ 386.360.350.347 240.208.199.145 389، 410، 411، 424، فیکٹری ایریار بوہ 427، 437، 439 تا 441 قاضی خیل ہوتی 233 304 فاروق آباد 24 ، 337 قادر آباد ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ 271 کا نجاب فتح پور ضلع گجرات 146 قادر آباد ضلع سیالکوٹ 146 کانگو
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 کانو 30 30 426،423، | کماسی.غانا 147 | کویت 428، 430، 432،431 کملی کبالہ 191 اشاریہ.مقامات 436.169.148.147 146 376 کمیلا (بنگلہ دیش) 263 | کھارا ضلع گورداسپور کبویه ( تنزانیہ) 367 کنازی (تنزانیہ) 360 | کھاریاں (گجرات) کبیر والاضلع ملتان 146 | کنجاه کراچی.10 200 189.145.117 146.106.68.67.66.57.46.196.148.145.109 335.253.251.240 203 کرنال کند را پاڑہ مضلع کٹک اڑیسہ 145 کھر ضلع انبالہ کنری 145،57،24 | کھڑی شریف 306 کوارا 422 کھیوہ باجوہ ضلع سیالکوٹ کوالے 403،402،401 کوپن ہیگن ( ڈنمارک) کی ماسبا ( تنزانیہ) کریام ضلع جالندھر کوٹ راجگان چھمبی 146 ، 209،208 | کوٹ قاضی کریم نگر سندھ 234،24 | کوٹ قیصرانی 149.147.134 202 211 145 کیسا کیمبرا 290.146 360 400 395 کیمبل پور (اٹک) 147،106 کڑیانوالہ گجرات 145 | کوٹ کپورہ (ریاست فرید کوٹ) كيما کینیا 386.383.382 $135 148.140.138.136 146 146 406399.191.169.93.10 200 | کینیڈا 184.169.148.147.94 437 388 | گاروت (جاوا) 147،145 226، 251 | گجرات 115،106، 117 ، 200.147.146.145 325.249.206.202 432.428.422.420 گاؤ 408 147.145 کسولی 190.189 244، 260، کالا گجراں ضلع جہلم کوٹ ہرا لک منگ کلانور کلاری 299.298.297.290 266 196 306 کو کوفو کو کوفو اشانٹی کولمبو کومبوایریا کلکتہ کلوسه (تنزانیہ) 251.145.143 کو ہاٹ 360 کوئٹہ 240.147.145.106 265.264 کلیولینڈ
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 31 لکھنو اشاریہ.مقامات 145 177، 346، 348، 350، | لمباسه 398.397.395 351، 406 تا 408 ، 437 | لندن (لنڈن) 119، 134، 330 گیمبیا گگومنڈی گلاسگو گلبرٹ آئی لینڈز 199 354.344 398 گلبرگ لاہور 316،206 | لاڑکانہ گنج پورہ لاہور 207 لالنڈی (تنزانیہ).279.226.222.221.335.332.329.280 148 356345.344.343 367 258 145 | لنڈی 146 146 210.208 226 12 ، لنگرویہ ( موضع ) ضلع جالندھر 119، 144، 146 ، 147 ، لنگری ضلع جالندھر 191، 192 ، 195 ، 202 ، لنگڑوعہ لالہ موسیٰ لاہور 437 $106.5 گنجور گوجرانوالہ.118.108.106.48.200.147.146.145 330.260.231.211 250 432 $147 لور پول اور ہل فور کیٹ ہال لنڈن 221 لولے جھنگ ليبيا لیگوس ( نائیجیریا) 211.209.207.206 325.146.236.230.229.212.145 گوجره گورداسپور 248.245.240.238.211.208.196.146.262.261.255.249 240.239.236.212 284.282.281.272 221 296.294.293.287.425.423.422.420 324.320316.303 438.430.429.426 348.177 355 107 418 228 404 397.396.395.392 327.146.145 319 گوکھووال ۲۷۶ ضلع لائلپور 146 گولیکی ضلع گجرات لائبیریا گومبے (تنزانیہ) لائل پور ( دیکھئے فیصل آباد ) لیمنگٹن سپا 255 256 257 | لیہ لبنان گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ 117 ، لٹوکا 242، 391، | ماپو ماٹوگا 24 ماڈل ٹاؤن لاہور 146 360 237 234.149.146.134 269.267.237.236 لدھیانہ گھوڑے واہ ضلع گورداسپور 146 - لطیف نگر
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 32 ما را گولی 400 401 404 مڈا اولا ( تنزانیہ) 360 ملے با ( تنزانیہ) مارا مارسیلز 226 مڈغاسکر 412 | ممباسه ماریشس 6 ، 135 ، 136 ، 138 ، مڈل برخ (Middelburg) ممه خیل اشاریہ.مقامات 360 406 399 266 404 426.423.422 ممیاس منا منٹگمری (دیکھئے ساہیوال) منروویا 409 موروگورو 359 تا 366،361 موسیٰ والا ضلع سیالکوٹ موکا مونتا ئیں بلانش پائی مونگ (گجرات) مونگیر 146 415 415 145 146 میادی نانوں تحصیل نارووال 146 435 147 304 434.432 250.249.106.51 مڈل سیکس.برطانیہ مڈھ رانجھا سرگودھا مراکش مرالہ گجرات مردان 330.305.304.147 360 106 189 438.380 432.412 مروكو ( تنزانیہ) مری مساکا ( یوگنڈا) منگي مصر مظفر آباد ( آزاد کشمیر ) 237.106 میانوالی 243.234.198.147 43 میر پور آزاد کشمیر 306،148 146 274 میلسی ضلع ملتان میمو (برما) 147 مظفر پور مظفر گڑھ مکه.144.143.142.139 418412.148.147 367 318 359.274 مالی ( تنزانیہ) مالی مانڈے مانس لور ( انڈونیشیا) 342،341 مانسهره ماؤنٹین کٹ 266.259.106 338 367 401.400 24 367 202.201 145 289.24 288.146 ما ہوٹا ( تنزانیہ) مٹاوا مبارک آباد مٹورا ( تتنزانیہ) ر محبوب نگر دکن محمد آبادسندھ محمود آباد جہلم محمود آبا دسٹیٹ مدراس ن.و.ہی 61.17.15.14.13.12 223 420 243.146 169 376 145 $10 نارتھے شیلڈ نارتھ ویسٹرن اسٹیٹ ملتان نارووال 280، 316، 324، 325 | ناروے يمني 145.24 146.143 مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ 146 مگرا (سیالکوٹ).274.147.146.145 61.16 376 مد بینہ مدینہ ( سیرالیون)
اشاریہ.مقامات 146 343.147.400.399.359.191.148 ہزارہ 404.403.402.401 267.266.259.191 96 ہمبرگ ہندوستان ( بھارت.ہند.انڈیا ) 230 368 223.14 265.131.120.96.61.18 398 206.177.144.143 403.227.226.222.220.274.254.252.251 350.349 297.291.285.276 325.106 نیو کاسل نیویارک نیوزی لینڈ وا ( کینیا ) وانڈز ورتھے (انگلستان) واہ کینٹ ناسر وانگا ناسنور ( دیکھئے آسنور ) تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 398 | نیروبی ( کینیا ) 33 بانڈ و گجر ضلع لاہور 140، 145 ، 147 ، | ہڈرزفیلڈ ناصر آباد سندھ نامیکوپا ( تنزانیہ) ناندی (نجی) 389،243،242 تا 395 نیوالا ( تنزانیہ ) نایجیر یا 145.24 367 نیلا گنبد لاہور 437.329.306.299 146 وتیره ( متھرا) 228 | ہنکل ضلع کٹک 305 146,197 367 وزیر آباد ہوتی مردان ولوكا ہوشیار پور و نجواں ضلع گورداسپور ہو میرا ( تنزانیہ) و و کنگ 299،222،221 ویشکن ہیروغر بی ضلع ڈیرہ غازیخاں 146 413 ہیگس وڈین وینوالیود 398.395 ہیگ (ہالینڈ) ہالینڈ 223.137.119 437.436.169.149.149.148.143.134 299.278 275.169 یادگیر 146.143 200 398 146 400 17.16 144، 341، 409، 432، 433، | پالا 145، 158، 296، 303 434، 435، 436، 441 | پرموک.54.51.148.147.66.65.61.348.333.332.177 +420.419.410.350 441.440.439.433 421 421 نائیجیریا (مشرقی) نائیجیریا (مغربی) 210 نجف 239 306 330 190 148 209 نصيبين نگیال ننکانہ صاحب منگل نوابشاہ نواں شہر نورنگ ( دیکھئے سرائے نورنگ) 24 نور نگر نوشہرہ گلے زئیاں سیالکوٹ 145 نوشہرہ
اشاریہ.مقامات Mautuma 403,406 Gongoni Mikumi) 366 Ikare 34 258 146 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 یوپی یورپ 144،134،81،54، | 421 421 299.218.215.156 401 369.368.335.300 Milalani 401 Inisa Nairobi 401 Kaloleni Pumwani 400,405 Karagwe (1) 361 Ramisi Robart 401 Kariakoo 400,405 148 یوکے(دیکھئے انگلستان) یوگنڈا 377 Kimamba(1) 367 280.257.191.189 Shibinga 403,406 Kinango 401,404 440.439.361.360 Tengeru(1) 361 Kisa یہامبو کے ( تنزانیہ) 403,406 367 Teso 401 Likoni 401 ENGLISH NAMES Tiwi 401 Makarankay 377 Assen 434 Ugenya Matebio 376 Benin 426 400,403,406 Matuga Busia 401 Waa 401,403 401,404,406 Busimbe() 361 تنزانیہ )West Meru 361
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 35 کتابیات آ الف اسلام کا اقتصادی نظام ( فرنچ ) صحیح البخاری آئینہ کمالات اسلام 296.273 413 اشاریہ.کتابیات 183.164.163.72 اسلام کا نظریہ آزادی 284 الفرقان (ماہنامه ) احمدیت احمدیہ جنتری ۱۹۳۱ احمد یہ جنتری ۱۹۳۷ احمد یہ گزٹ ( نیا نام دی نیوز بلیٹن ) آنحضرت علی ایم کی اخلاقی تعلیم اسلام میں ارتداد کی سزا 249 284 442 312 312 310.213.184.93.174.130.14 اسلامک ریویو (انگریزی رساله 181، 186، 317، 318، د و کنگ مشن ) 446.444.320.319 299 اسلامی اصول کی فلاسفی 435 المشیر ( مسیحی رساله ) اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) المصابیح 413،406 المصلح (کراچی) اسلامی اصول کی فلاسفی (سپینش) المنبر (لائلپور اخبار ) 319 186.151 312 احمد یہ مسلم کیلنڈر ۱۹۷۲ ( قادیان) اصحاب احمد جلدا 359 اخبار احمدی (بنگلہ زبان) 264 اصحاب احمد جلد ۶ 177 311 309 186.183.130.78 امروز (لاہور.روزنامہ) اخبار احمد یہ نیروبی 404،399 اصحاب قادیان 307 امن کا پیغام ( فرنچ) 183.143 415 الازهار لذوات الخمار اخبار احمدیہ ( لندن.رسالہ ( 343 151 امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اخبار عام (لاہور) 190 ادبی دنیا 245 246، 249 الازهار لذوات الخمار حصہ دوم ( یوگوسلاوین) اردو جامع انسائیکلو پیڈیا 248 | الاعتصام (لا ہور.ہفت روزہ ) انسائیکلو پیڈیا برٹین کا ازالہ اوہام اساس اسلام 273 14 ،156، 187 | انصار اللہ (ماہنامہ) 284 | الامام المهدی 249 | انقلاب حقیقی الامان (روزنامه) اسلام.غریبوں اور یتیموں کا محافظ 174 298 انقلاب نو (اردور ساله) البشریٰ (فلسطین.رسالہ) 256 396 174 245 313.186.133 187 | انجیل 177 244
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 36 اشاریہ.کتابیات ایڈوانس ( ماریشس - روز نامه) تاریخ احمدیت جلد ۱۲ 442 تبلیغی واقعات حصہ دوم 446 بائیل 416، 417 | تاریخ احمدیت جلد ۱۳ 174 | تتمہ حقیقۃ الوحی $225.369.368.364.280.394.383.371.370 431.430.406.396 تاریخ احمدیت جلد ۱۴ 311 تاریخ احمدیت جلد ۲۱ 200 | تحدیث نعمت 307.192.190 185.119 تاریخ احمدیت جموں و کشمیر 290 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین تاریخ احمد یہ سرحد 314 تاریخ احمدیت ضلع میر پور آزاد کشمیر تحریک جدید (رساله) 312.308 314.429.398.174 448.447.446.445 | 284.282 تاریخ خلفائے راشدین 284 | تربیتی نصاب حصہ دوم تاریخ نجنہ اماءاللہ 132 | تربیتی نصاب حصہ سوم ( مقالہ جامعہ احمدیہ ) براہین احمدیہ حصہ چہارم 447 برکات درود و سلام اور آنحضرت تاریخ اسلام صلی کریم کا ارفع مقام تاریخ اشاعت اسلام 282 | تذکره بشارات رحمانیہ جلدا 442 314 تاریخ انصار الله 133 | تربیتی نصاب حصہ اول بشارات رحمانیہ جلد 312،308۲ بوسٹن ہیرلڈ (امریکہ اخبار ) 368 | تاریخ لجنہ اماءاللہ جلدا بھیرہ کی تاریخ احمدیت 307، 443 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد ۲ پیغام صلح (لاہور.اخبار ) ترمذی 447 151 151 151 184 152 ، 186 | تشخیذ الاذہان (ماہنامہ 174 ، 270.269.231.181 152 ، 442 | تفسیر در منثور جلد ۲ ( مترجم ) 183 39 ، 182، 187 ، 293 | تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد ۳ 152 ، تفسیر سوره آل عمران والنساء ( بیان تابعین اصحاب احمد جلد 10 444 ،174 ، 182 ، 186 ، 442 فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام) تاریخ احمدیت جلد ۳ 309 | تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد ۴ تاریخ احمدیت جلد ۵ 132 314،186 | تفسیر کبیر تاریخ احمدیت جلد 3034، 310 تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلدا تفہیمات ربانیہ تاریخ احمدیت جلد ۸ 307 133 ٹائمز ( کینیا ) تاریخ احمدیت جلد ۱۰ 310 تاریخ مشاہیر اسلام 282 ٹیچنگ آف اسلام 442 174 270 400.399 222
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 ج - چ - ح - خ جاپان ٹائمز 371.368 37 خالد (ماہنامہ) 174 دی مسلم سن رائز 181، 182، 183، 184 ، دی نیشن (سیرالیون) 447.446.322.185 اشاریہ.کتابیات دی نیوز بلیٹن ( کینیڈا) جغرافیہ تاریخ اسلام 282 خطابات ناصر جلدا جلسہ سالانہ قادیان کے نظام کا خطبات محمود جلدا 188 442 دیا چه تفسیر القرآن 264 379 93 405 دیباچه قرآن کریم (انگریزی) ڈھانچہ 230 خطبات ناصر جلد ۴ 181،28، 436 جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں 314.187.185.182 دینی معلومات کا بنیادی نصاب کا ازالہ 312 خطبات ناصر جلد ۱۰ جنگ (کراچی.روزنامہ) جنگ (راولپنڈی.اخبار ) خلیفہ خدا بناتا ہے 157 ، 187 خیبرڈیلی (پشاور.اخبار) 445 ڈیلی میل (سیرالیون) 181 443 442 ڈی نیشن ( ماریشس.اخبار )416 445.332 جنگ (لندن - روزنامه ) 445.335.334 جواہرات حالی چٹان چند خوشگوار یادیں 282 183.69 445 حضرت خواجہ غلام فرید کی شخصیت 443 د ذ ر ز ذکر اقبال در ثمین فارسی 286 287 | ذكر حبيب دس بڑے مسلمان 284 | راه ایمان 379 313 309.137 151 دستوری سفارشات اور ان پر تنقید و راه ایمان (انگریزی ترجمه ) 151 تبصره دعوة الامير 72، 183 | راه ایمان (بنگلہ ترجمه ) 151 405 رپورٹ تحقیقاتی عدالت اردو دعوۃ الامیر ( فرنچ) 415 | المعروف منیر انکوائری رپورٹ دلچسپ مکالمہ 442 دی افریقن کریسنٹ ( سیرالیون.رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ حضرت نعمت اللہ ولی اور ان کا اصلی جماعتی اخبار ) قصیده حقیقة الرؤيا حقیقة الوحی 442 224 379 دی گارڈین ( انگلستان - اخبار رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ 445.329 194 دی مسلم آؤٹ لک ( نیا نام دی نیوز رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۲ حیات قدسی حصہ اول 231 | بلیٹن) 93 183 310 182 183.182
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 38 رجسٹر اصحاب احمد قادیان 307 سیرت حضرت قاضی محمد عبد اللہ قادیان (کتاب) رجسٹر بیعت اولی 308 | صاحب 309 | قادیانیت رجسٹر روایات صحابہ جلد ۴ 311 سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام قاعده بیسر نا القرآن رجسٹر روایات صحابہ جلد ۵ 307 (انگریزی) رسالہ الوصیت 209 | سیرت داؤد 413 445 رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم شرح جامع الصغير الجزء 164 152 شکر نعمت 181 روح پرور یادیں 312 | صدق جدید ( لکھنو.رسالہ ) 73 ریویو آف ریلیجنز 269 | صلحاء العرب و ابدال الشام جلدا ریویو آف ریلیجنز (اردو) 231، 270 صور اسرافیل اشاریہ.کتابیات 307 442 361.358.175 قرآن کریم ( سواحیلی ترجمه ) 360.176 قرآن کریم ( لوگینڈا ترجمہ.پہلے پانچ پارے) 176 قرآن کریم سویڈش ترجمہ.۲۱ 256 پارے) 249 زمیندار (اخبار) 252 ضمیمہ انجام آتھم 311،211 زنجیر گل 312.249 طع_فق س ش ص ض طبقات ابن سعد سرسید سرسید کا سفر نامہ پنجاب 282 177 قرآن کریم (انگریزی ترجمہ) 6،.378.349.177.78.40.405.394.382.380 429.428.427.413 قرآن کریم (اردو تر جمه ) 177 282 طبقات ابن سعد (اردو تر جمه ) قرآن کریم ( ڈچ ترجمه ) 437 282 284 قواعد الصرف 442 سرسید کا سفر نامہ لندن 282 عالمگیر برکات مامور زمانہ حصہ دوم ک گلم _ سرگزشت کلیم 447 سوار الجنہ (انڈونیشیا.ماہنامہ) 312 عالمی شہرت یافتہ سائنسدان.کارزار شدھی 140 عبد السلام سول اینڈ ملٹری گزٹ (لاہور.عشرہ کاملہ اخبار ) 190 | نجی ٹائمز 310 181 کتاب الاسلام (ترجمه) 282 269 394 سیاست (روزنامه) 298 فلاسفی آف دی چرچ فادرز جلد نمبر 1 سیرت ابن ہشام (اردو ایڈیشن) 282 | قادیان گائیڈ 8 کتاب المؤلفين کچھ باتیں، کچھ یادیں اور ریگ رواں 445 370 کشتی نوح ( سپینش ترجمه ) 177 کشتی نوح ( سواحیلی ترجمه ) 258 260
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 28 39 اشاریہ.کتابیات کشمیر میں ہم کیا کر رہے ہیں؟ مسیح ہندوستان میں (سپینش) نیرنگ خیال 249،246،245 ( پمفلٹ) 230 کلیات نثر حالی 282 مشاہیر پانی پت کلیات نظم حالی مشرق (اخبار) 177 282 221 واذ الصحف نشرت 310 وفات مسیح علیہ السلام میں ہی ابطال گر تو برا نہ مانے 282 181 عیسائیت ہے مصباح 132،42 ، 142 ، ولایت در اسلام 443 443 312.186.150.144 لاہور تاریخ احمدیت 309،308 لا ہور ( ہفت روزہ.رسالہ) وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ دوم مضامین مظہر 442 مغربی پاکستان (اخبار) 142 لائٹ (اخبار) ماریشس ٹائمز 447.409 299.292 416 ہمارا دستورالعمل مقالات سرسید مقامات النساء 282 151 ہمارا نانک ہمایوں مجله بتقریب جشن پنجاه ساله 133 ، مکتوبات سرسید مکتوبات احمد یہ حصہ اول 273 186.152.144.135 ملفوظات مجلة الجامعه 182 400.352.351.198 محمد صلی ایلم بائبل میں فرنچ ) میزانی تفصیلی بابت ۷۳ - ۱۹۷۲ 314.312 152 442 249.245 ENGLISH NAMES 285 Africa Speaks 347, 349, 413 East African 182 249.245 مختصر تاریخ احمدیت 415 152 ن.و.ہ مختصر مسائل نماز 443 | نگار مرتد کی سزا اسلامی قانون میں نوائے وقت مرکز احمدیت قادیان 260 ( نیروبی )Standard 401.402.447 East African Times 183 | 401 (انگریزی ماہنامہ.کینیا ) 249 نوائے وقت ( راولپنڈی.روزنامہ) 187.158 Lajna Speaks 133.135,152,186 Le Mauricien مسافر ( آریہ اخبار ) 251 | نوائے وقت (لا ہور.روزنامہ) 417 416 (ماریشس - اخبار ) مسلم ریویو ( دوکنگ) 222 Mapenzi Ya Mungu 142 مسلم ہیرلڈ (لندن.رسالہ ( 280 نورالدین ( سہ ماہی رساله مجلس 401 ( سواحیلی ماہنامہ - کینیا ) مسیح کہاں فوت ہوئے 435 | خدام الاحمدیہ جرمنی ) 184