Tarikh-eAhmadiyyat V27

Tarikh-eAhmadiyyat V27

تاریخ احمدیت (جلد 27)

1971ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے  جلد نمبر 19 نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد نمبر 27 $1971

Page 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم عرض ناشر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے تاریخ احمدیت کے سلسلہ میں انگلی اشاعت یعنی تاریخ احمدیت جلد ۲۷ شائع ہو کر دستیاب ہوگئی ہے.الحمد للہ.اس کی تیاری و تالیف میں شعبہ تاریخ احمدیت نے بڑی محنت اور توجہ سے کام کرنے کی توفیق پائی.کارکنان شعبہ کی یہ بھر پور خدمت لائق تحسین ہے اور یہ کاوش یقینا قابل شکر گزاری ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا کرے بالخصوص ئن کے شوق اور محنت سے تاریخ نویسی کے اس کام میں بفضلہ تعالیٰ تیزی آئی ہے اور نمایاں پیشرفت ہو رہی ہے.جزاھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس اشاعت کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور زیادہ سے زیادہ احباب کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق بخشے.

Page 3

پیش لفظ از جماعت احمد یہ عالمگیر کی تاریخ سچائی پر مبنی حقائق و واقعات کو آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر رہی ہے.یہ ہماری اس شاندار مساعی کو بیان کرتی ہے جس پر ہمارے عظیم الشان مستقبل کی بنیادیں استوار کی جارہی ہیں.اس لئے ہر احمدی کو ان ایمان افروز حالات و واقعات کو اپنے زیر مطالعہ رکھنا چاہئے اور ان تاریخی حقائق کو زیر نظر رکھ کر اپنے مستقبل کو روشن و تابناک بنانے کے لئے ہمہ تن مصروف کا ررہنا چاہئے.یہ تاریخ احمدیت کی ستائیسویں جلد ہے جو اے ۱۹ ء کے حالات پر مبنی ہے.اس جلد میں آپ بالخصوص یہ ملاحظہ فرمائیں گے کہ افریقہ کے بظاہر تاریک لیکن انسانی قدروں سے آشنا معاشرہ میں قافله احمدیت کس برق رفتاری سے دلوں کی تسخیر کرتا جارہا ہے.کس طرح 70ء کی دہائی میں امام حمام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ایک اشارے پر احمدی ڈاکٹر ز اور اساتذہ اپنے ملکوں اور شہروں کو چھوڑ کر افریقہ کے جنگلوں، میدانوں اور ریگ زاروں میں انسانیت کی خدمت پر کمر بستہ ہونے کے لئے دیوانہ وار افریقہ کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی جاری کردہ با برکت سکیم نصرت جہاں آگے بڑھو کے شیریں ثمرات سے ایک عالم کو بہرہ مند کرنے لگتے ہیں اور اب اس تحریک کے شیریں ثمرات خلافت خامسہ میں بھی براعظم افریقہ میں چارسو نظر آرہے ہیں.الحمد للہ دینی تعلیمات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کا ظاہر و باہر عقیدہ ہے کہ ہر احمدی اپنے وطن کا وفادار ہے اور اس کا فرض ہے کہ جب بھی اس کے وطن پر مشکل وقت آ پڑے تو وہ اپنی جان ومال کے ساتھ ملک کی حفاظت وسالمیت کے لئے میدان میں نکل آئے.چنانچہ جب ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں فسادات شروع ہوئے اور بعد ازاں پاک بھارت جنگ بھی چھڑ گئی تو ہر احمدی نے انہی تعلیمات کی روشنی میں اپنی بساط سے بڑھ کر ملک و قوم کی خدمت کی.پھر جب پاکستان کا ایک حصہ الگ ہو گیا تو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس موقع پر جس طرح قوم کی ڈھارس بندھائی اور رہنمائی فرمائی نیز ان تمام علل و اسباب کی بھر پور نشاندہی فرمائی جن کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی.یہ تمام حالات اس جلد میں مذکور ہیں.

Page 4

اس کے علاوہ دیگر روزمرہ جماعتی سرگرمیاں ، ترقیات سلسلہ، قبولیت دعا کے واقعات ، نئے ممالک میں احمدیت اور نئے مراکز و مساجد کی تعمیر وغیرہ نیز اس سال عالم فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال کر جانے والے احمدی بزرگان کے حالات زندگی درج کئے گئے ہیں تا آئندہ نسلیں ان کے مطالعہ سے روشنی یا کرا اپنی منزلوں کی راہیں متعین کر سکیں.تاریخ احمدیت نے خصوصی خدمت کی توفیق پائی ہے.نیز دنیا بھر میں کئی احباب جماعت سے رابطے کئے گئے اور مفید معلومات، اہم واقعات اور نادر تصاویر حاصل کر کے شامل اشاعت کی گئی ہیں، اس سلسلہ میں بھی بعض احباب جماعت کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے.اور مکرم عمیر علیم صاحب انچارج مخزن تصاویر لندن بھی بہت شکریہ کے مستحق ہیں کہ یہ سب احباب کرام اس جلد کے مواد کی تیاری کے سلسلہ میں کتب و رسائل ، اخبارات و مجلات اور تصاویر کی فراہمی کے لئے خصوصی تعاون فرماتے رہے ہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء

Page 5

i تاریخ احمدیت جلد 27 سال 1971ء) عنوان فہرست مضامین صفحہ عنوان صفحہ صلح تا فتح ۱۳۵۰ هش / جنوری تا دسمبر ۱۹۷۱ء جامعہ نصرت ربوہ کا جلسہ تقسیم اسناد و انعامات 35 1 فسادات ۱۹۷۱ ء میں تین احمدیوں کی جانی قربانی 36 ۱۹۷۱ ء کا پہلا خطبہ جمعہ وراثتی نظام سے متعلق ایک بیش قیمت علمی تحقیق 2 حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا گھوڑے سے اعزاز میں الوداعیہ گرنے کا واقعہ 5 - خطاب حضرت خلیفة المسیح الثالث علم دین کے حصول کے بعد انڈو نیشین طالب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مجلس انصار الله علم کی واپسی روداد تقریب بر موقع یوم مصلح موعود 37 ww 37 6 حلقہ دار الصدر شرقی سے بصیرت افروز خطاب 38 6 شیخ روشن دین تنویر صاحب کے اعزاز میں 7 جرمنی میں قبولیت دعا کے دو نشانات کا ظہور وزیر اعظم ماریشس سے جماعت احمد یہ مشرقی الوداعی تقریب پاکستان کے وفد کی ملاقات نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت نئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تربیتی کلاس سے ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام 7 | خطاب 44 47 48 پروفیسرڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نیا عزاز 29 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا سفر اسلام آباد ومری 50 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک فلپائنی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم انشان مغربی افریقہ جانے والے ڈاکٹرز کے اعزاز میں فضل عمر درس القرآن کلاس الوداعی تقریب مجلس مشاورت ۱۹۷۱ء 30 کے خلاف احمد یہ مشنوں کا پرزور احتجاج 31 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مسٹر ٹب مین کے 33 انتقال پر تعزیتی پیغام 50 51 52

Page 6

ii عنوان.وزیر خارجہ لائبیریا کے نام صدر الا نبیر یا ولیم ٹالبرٹ کے نام صفحہ عنوان صفحہ 52 - حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اختتامی خطاب | 77 52 کیرالہ ہائیکورٹ بھارت کا فیصلہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے نام صدر بیرونی ممالک میں تحریک وقف عارضی لائبیریا ٹالبرٹ کا جوابی پیغام ملکی دفاع سے متعلق حضرت خلیفہ المسیح الثالث ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا مشرقی پاکستان کے واقعات کا تذکرہ اور نہایت کی خصوصی تحریک قیمتی نصائح 53 ڈاکٹر سعید احمد صاحب کی حسن کارکردگی کا ذکر 55 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پر قاتلانہ حملہ 56 جلسہ سالانہ صوبہ سرحد خلافت لائبریری ربوہ کی جدید عمارت کا مبارک افتتاح حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا خطاب سالانہ اجتماع خدام الاحمد به مرکز یہ 61 61 65 66 2 2 2 2 2 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا افتاحی خطاب | 67 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اختتامی خطاب | 69.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا خطاب لجنہ اماءاللہ مرکز پہ کا سالانہ اجتماع حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا تین ہزار پاؤنڈ کا گرانقدر عطیہ مجلس انصاراللہ مرکز یہ کاسالانہ اجتماع 71 پیغام پاک بھارت جنگ ۱۹۷۱ء.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی نصائح.مغربی پاکستان پر حملہ.صدر مملکت کا خطاب.بنگلہ دیش کا قیام 77 78 79 80 8 20 10 82 85 85 85 89 89 89 86 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا بھارت کو انتباہ 86.دفاعی فنڈ کا قیام ناظر اعلیٰ کی طرف سے دفاعی فنڈ میں سرگرم حصہ لینے کی تحریک 75 - صدر مملکت کی خدمت میں مکرم ناظر صاحب 75 اعلیٰ کا مکتوب - سیکرٹری صدر مملکت عبدالقیوم صاحب کا 76 جوابی تار 76 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی لجنہ اماء حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب 77 اللہ کو دفاعی فنڈ جمع کرنے کی تلقین 87 87 88 89 99 89

Page 7

iii عنوان صفحہ عنوان قومی دفاعی فنڈ میں کینیڈا اور ایران کے لیفٹیننٹ کرنل بشارت احمد صاحب پاکستانی احمدی احباب کا عطیہ 90 | پاک و ہند جنگ اور حالات قادیان ملکی دفاع اور استحکام کے لئے اہل ربوہ کی.ایک جماعتی ابتلاء میں خدائی تائید 90 | " تحدیث نعمت“ کے نام سے ایک معرکۃ الآراء عظیم الشان خدمات سقوط ڈھاکہ 92 | کتاب کی اشاعت حضرت خلیفة المسیح الثالث کی ملک وقوم کو برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو قرآن مجید نصائح مغربی محاذ پر فائر بندی کا حکم 92 کا تحفہ 95 ربوہ میں عید الفطر کی مبارک تقریب حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا جنگ پر حقیقت جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۱ء کے التواء کا اعلان افروز تبصره صفحہ 110 111 111 114 115 115 115 95 قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کی وسیع اشاعت (117) امتیازی خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی افواج کے بعض احمدی افسران چوہدری محمد اکرم صاحب 100 قیمتی نصائح 100 زیمبیا مشن کا قیام کیپٹن مجیب فقر اللہ صاحب شہید ستارہ جرات 101 حوالہ جات (صفحہ 1 تا 128 ) لیفٹینٹ ممتاز انور صاحب شہید ستارہ جرات 104 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر لیفٹیننٹ محمود اختر صاحب زبیری شهید عبدالسلام صاحب شہید 105 صحابہ کرام کا انتقال 105 حضرت بابو خواجہ محمد الدین صاحب ریٹائرڈ عبدالمحسن خالد کٹڑک صاحب شہید 105 پوسٹ ماسٹر سیالکوٹ 118 119 129 136 میجر جنرل افتخار احمد صاحب جنجوعہ شہید کو حضرت صوفی عبد الرحیم صاحب لدھیانوی 138 دوسری بار ہلال جرأت کا اعزاز 106 حضرت مولوی برکت علی صاحب ساکن چھنیاں فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق صاحب ستارہ جرأت 108 تحصیل دسو بہ ضلع ہوشیار پور بریگیڈئیرمحمد ممتاز خان صاحب.ہلال جرأت 109 حضرت جمعدار نعمت اللہ صاحب آف بگول 139 139

Page 8

iv عنوان صفحہ حضرت میاں فتح محمد صاحب عنوان 140 حضرت میاں اللہ دتہ صاحب سیالکوٹی حضرت ٹھیکیدار چوہدری غلام رسول صاحب 141 حضرت چوہدری حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے حضرت مولوی کرم الہی صاحب ڈوگر آف کھارا منگولے ضلع سیالکوٹ متصل قادیان 142 حضرت ڈاکٹر بابو فقیر اللہ صاحب حضرت چوہدری شرف الدین صاحب حضرت ملک رسول بخش صاحب آف ڈیرہ صفحہ 179 179 190 191 غازی خان حضرت شیخ کظیم الرحمن صاحب 142 143 ۱۹۷۱ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت حضرت ڈاکٹر شیخ احمد الدین صاحب 147 رسول بی صاحب حیدرآباد دکن حضرت مرزا محمد حسین صاحب چٹھی مسیح محمودہ بیگم صاحبہ 150 فضل بیگم صاحبه ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ حضرت لعل بی بی صاحبہ 153 رشید احمد صاحب خالد متعلم جامعہ احمدیہ حضرت قریشی نورالحسن صاحب 154 | مرزا محمد یعقوب صاحب حضرت محمد عبداللہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر محمد پریل قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ 154 | صاحب 192 192 192 193 193 194 حضرت چوہدری الہی بخش صاحب 163 ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف کا مٹی حال کراچی 194 حضرت خدیجہ بیگم صاحبہ 164 سلیمہ بیگم صاحبہ حضرت سراج بی بی صاحبہ 164 ہاجرہ بیگم صاحبہ المعروف ” آپوجی“ حضرت حشمت بی بی صاحبہ 171 بشیر احمد چغتائی صاحب حضرت حکیم محمد زاہد صاحب 172 عبدالرشید صاحب حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب گوپانگ بلوچ.رشیدہ بیگم صاحبه کنڈیار وضلع نوابشاہ 173 عارف نعیم صاحب حضرت رحمت بی بی صاحبہ 179 را دن یوسف صاحب انڈونیشیا 195 195 197 197 198 198 199

Page 9

عنوان صفحہ عنوان شیخ ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ 199 منشی محمد الدین صاحب امرتسری صفیہ بانو صاحبہ صفحہ 209 199 مولوی مبارک احمد بھٹی صاحب مربی سلسلہ 210 چوہدری نورالدین جہانگیر صاحب 200 یعقوب شریف صاحب 211 نور بی صاحبہ آف ماریشس 201 کیپٹن سرتاج علی امتیاز ز بیری صاحب شہید 211 ) چوہدری یوسف علی صاحب 201 میجر مصلح الدین احمد سعید صاحب شہید 211 مریم صاحبہ.انڈونیشیا 202 حوالہ جات (صفحہ 136 تا 211) 212 چوہدری محمد عبد اللہ صاحب امیر جماعت کھاریاں 202 | ۱۹۷۱ء کے متفرق اہم واقعات سیدہ طیب النساء صاحبہ مولوی ابوالفضل محمود صاحب سیده کلثوم بانو صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بھٹی 203 خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی 204 تقاریب ولادت 204 - شادی کرنل قاضی محمد انور جان ہوتی مردان 204 | نمایاں اعزازات خان فضل محمد خان صاحب ست بھرائی صاحبہ ملک حبیب اللہ خاں صاحب حاجی عبد العظیم میمن صاحب 205 مشرقی پاکستان کے طوفان زدگان کے لئے 217 217 218 218 205 جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کی امداد 220 205 مولویوں کے رویہ پر ایک غیر احمدی کے تاثرات 222 206 | 1921 ء کے احمدی حجاج 206 - حج بدل حضرت خلیفة المسیح الثالث 223 225 رقیه خاتون صاحبه محمد اسحق انور صاحب 206 موٹر کار کے دوالمناک حادثات اور مخلص احمد یوں چوہدری عبد المومن خاں صاحب کا ٹھ گڑھی 208 کی شہادت قریشی عبد العزیز صاحب شیخ دوست محمد صاحب شمس 208 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلا 208 آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ 227 229 حکیم عبدالعزیز صاحب امرتسری 209 نابیناؤں کے رسم الخط میں قرآن مجید کی اشاعت 230

Page 10

صفحہ 250 253 254 256 259 260 263 265 274 282 288 295 296 302 302 312 313 313 315 316 317 vi عنوان صفحہ عنوان جامعه نصرت ربوہ (برائے خواتین) کی سالانہ.پیغام امام همام بر موقع جلسہ سالانہ کھیلیں اور ڈائریکٹریس سپورٹس پنجاب یونیورسٹی کی آمد جرمنی کے کلیساؤں کی نا گفتہ بہ حالت ڈاکٹر سید صفدر حسین صاحب چیئرمین بورڈ انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا کا خطاب برما 231 تنزانیہ 231 جاپان جرمنی سکنڈے نیویا 234 سوئٹزرلینڈ انگلستان کے تین ہزار بے مصرف کلیسا 235 سیرالیون حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے طلبہ کیلئے زریں ارشادات 236 غانا فنجی تعلیم الاسلام کالج میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تقریر 236 کینیا شادی کی ایک تاریخی تقریب 237 گیمبیا ماریشس پہلا کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلہ مضمون نویسی 238 احمد یہ مشن ہاؤس رحیم یارخان کیلئے عدالتی حکم 239 ملائیشیا نگر پارکر (سندھ) میں پہلے جلسہ سالانہ کا انعقاد 239 پیغام (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی پیغام حضرت خلیفہ المسیح الثالث بر موقع 239 244 نائیجیریا یوگنڈا مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی آمد روانگی نئی مطبوعات جلسه سالانه 244 اردو انڈونیشیا 247 انگریزی انگلستان 248 حوالہ جات (صفحہ 217 تا316)

Page 11

تاریخ احمدیت.جلد 27 1 صلح تافتح ۱۳۵۰ هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۷۱ء سال 1971ء ۱۹۷۱ء کا پہلا خطبہ جمعہ ۱۹۷۱ء کے سال نو میں یکم جنوری کو جمعہ کا دن تھا.سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے مسجد مبارک میں خطبہ جمعہ کے دوران مبارک باد دی کہ سال نو ایک عید سے شروع ہو رہا ہے ازاں بعد پوری جماعت کو نہایت پر حکمت انداز میں تلقین فرمائی کہ حسد و عناد کا بڑا ہتھیار دروغ گوئی ہے.اس کا دفاع یہ ہے کہ ہم عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے رب کی طرف رجوع کریں، کسی کو دکھ نہ پہنچائیں اور ہر ایک کے لئے ہمدردی اور دعا کو اپنا شعار بنا ئیں چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ:.”جو سال گذر چکا ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے اندرونِ پاکستان بھی اور بیرون پاکستان بھی بڑی ہی برکتوں کا موجب تھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت اور پیار کے بڑے حسین نظارے ہم نے گذشتہ سال دیکھے ہمارے دل اس کی حمد سے معمور ہیں.سال نو ایک عید سے شروع ہورہا ہے.نبی اکرم صلی سلیم نے فرمایا کہ جمعہ بھی تمہارے لئے ایک عید ہے.جمعہ کا ایک پہلو اجتماعی زندگی کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور اجتماعی برکات اور رحمتوں کے حصول کا موجب بن جاتا ہے.حسن واحسان کے جو جلوے ہم اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے دیکھتے ہیں اس کے نتیجہ میں حسد و عناد کا پیدا ہونا ضروری ہے اور حسد و عناد کا بڑا ہتھیار دروغ گوئی اور کذب بیانی ہے اس کا دفاع جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے وہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور ماسوا اللہ کسی چیز پر بھروسہ نہ رکھنا اور سب کچھ اور سب خیر و برکت اپنے رب کریم سے حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہے.اسلام کے عظیم دور کے ساتھ ہی حسد کا دور، عنادکا دور مخالفت کا دور اور ظلم کا دور شروع ہوا تھا.قرآن کریم نے ابتدا ہی سے ہمیں تعلیم دی تھی کہ حاسد کے حسد کے شر سے بچنے کے لئے تم اپنے رب کی طرف رجوع کرنا اور اپنی حفاظت اُسی سے چاہنا.انعام جب بے شمار ہوں.انعام جب معمول سے زیادہ ہوں.پیار جب ٹھاٹھیں

Page 12

تاریخ احمدیت.جلد 27 2 سال 1971ء مارتا ہوا سمندر بن جائے تو حسد اور مخالفت اور عناد میں بھی شدت پیدا ہو جاتی ہے لیکن مظلوم ہونے کے باوجود اور حسد کا نشانہ بنے اور ظلم کا ہدف ہونے کے باوجود ہم پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے اور ہمیں یہ کم دیا گیاہے کہ کس کو کھنہیں پہنچانا کسی کی جان پر حملہ نہیں کرنا کسی کا مال غصب نہیں کرنا کسی کو بے عزت نہیں کرنا اور کسی پر حقارت کی نگاہ نہیں ڈالنا بلکہ جب انسان اللہ کی گود میں اس کے فضل سے بیٹھ جائے تو اس کے دست قدرت نے جو پیدا کیا اس سے وہ محبت کرنے لگتا ہے، اس سے پیار کرنے لگتا ہے ، اس کا بہی خواہ بن جاتا ہے اور اس سے ہمدردی و غمخواری کرتا ہے.دنیا اپنی نا سمجھی کی وجہ سے ہمارے ساتھ جو بھی سلوک کرے ہمیں غصہ نہیں آنا چاہیے.ہمیں بدلہ لینے کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے بلکہ ایسوں کے لئے بھی دعائیں کرتے رہنا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تاکیدی حکم فرمایا ہے کہ ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ہر اس شخص کے لئے دعائیں کرتار ہے جو اس احمدی کیلئے دشمنی کے جذبات رکھتا ہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو حقیقی مسلمان کی ایک صفت سے محروم ہوجا تا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا ایک دروازہ اپنے پر کھول لیتا ہے.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور محبت اور اخوت اور ہمدردی و غم خواری کے جس مقام پر اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بٹھایا ہے ، اس مقام پر ہی وہ ہمیں قائم رکھے اور اسی پر استقامت بخشے تا کہ اس کے فضلوں کے ہم زیادہ سے زیادہ وارث بنتے چلے جائیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.وراثتی نظام سے متعلق ایک بیش قیمت علمی تحقیق قرآن مجید نے غرباء کو بڑے بڑے سرمایہ داروں کی یلغار سے بچانے اور دنیا میں ان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ کھلا رکھنے کے لئے جو ذرائع مقرر کئے ہیں ان میں اس کے جامع نظام وراثت کو منفرد مقام حاصل ہے جس کی خوبی اور عظمت کو ڈاکٹر گستاولی بان (Gustave Le Bon) جیسے فرانسیسی محقق نے بھی تسلیم کیا ہے اور نہایت منصفانہ قرار دے کر اسے خراج عقیدت پیش کیا ہے.لیکن اس شاندار نظام سے واقفیت اور استفادہ کی راہ میں دو مشکلات حائل ہیں اول یہ کہ قرآن مجید عربی زبان میں ہے جس سے برصغیر پاک و ہند کے عوام نا آشنا ہیں.دوم ورثا کے حصوں کی تقسیم کا

Page 13

تاریخ احمدیت.جلد 27 3 سال 1971ء پرانا طریق حساب نہایت مشکل اور پیچیدہ نوعیت کا ہے.عرصہ سے یہ ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ اسے بیسویں صدی کے ذہن و مزاج اور جدید علمی تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے عام فہم انداز میں متعارف کرایا جائے.اس نقطہ نگاہ سے ایک احمدی محقق و فاضل عبدالرشید غنی ایم ایس سی لیکچر ارتعلیم الاسلام کالج ربوہ نے محنت شاقہ کر کے قدیم وجدید لٹریچر کا مطالعہ کیا اور اپنی بیش قیمت علمی تحقیق اس سال اسلام کا وراثتی نظام کے نام سے شائع کر دی جو علمی اور قانونی حلقوں میں مقبول ہوئی اور بلند پایہ شخصیات نے اس پر اظہار خوشنودی کیا اور درج ذیل احباب نے مفصل تبصرے کئے.ا.مکرم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ.۲.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد.۳.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.۴.سجاد احمد جان جسٹس سپریم کورٹ.۵- شیخ بشیر احمد صاحب ریٹائرڈ حج ہائیکورٹ.۶.پروفیسر حمید احمد خان صاحب سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی.ان تبصروں میں سے بعض درج ذیل ہیں.ا.ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے تعارف میں لکھا:.اسلام کا نظام وراثت اپنے اعتدال، توازن اور ترتیب حقوق نیز متوفی اور ورثاء دونوں کے جذبات کے احترام کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے.دنیا کا کوئی دوسرا نظام وراثت خواہ وہ مذاہب عالم کا پیش کردہ ہو یا نظریاتی حکومتوں کا مرتب کردہ ، اسلامی نظام وراثت کا مقابلہ نہیں کرسکتا.اسلامی نظام وراثت میں ہر ایک وارث کے حقوق کو ایسے حسین اعتدال کے ساتھ محفوظ کیا گیا ہے کہ روح انسانی وجد میں آجاتی ہے.قرآن پاک اور دین اسلام کی اصل زبان چونکہ عربی ہے اسی لئے جولوگ عربی نہیں جانتے وہ اس نظام وراثت کی بے نظیر خوبیوں سے بھی پوری طرح واقفیت حاصل نہیں کر سکتے.علاوہ ازیں وارثوں کے حصوں کی تعیین کا علم حساب سے گہرا تعلق ہے اور پرانا طریق حساب بڑا مشکل اور پیچیدہ نوعیت کا ہے اس لئے بھی اس نظام کے سمجھنے میں مشکل پیش آجاتی ہے ان ہر دو مشکلات کو ہمارے عزیز بھائی محترم پروفیسر عبدالرشید صاحب غنی ایم.ایس سی نے بڑی خوبی اور قابلیت کے ساتھ حل کیا ہے اس وقت تک اردو میں جتنی بھی کتا بیں اسلامی نظام وراثت پر لکھی گئی ہیں وہ پرانی طرز کی اور بہت ہی پیچیدہ ہیں لیکن محترم غنی صاحب نے بڑے آسان اور حسین انداز

Page 14

تاریخ احمدیت.جلد 27 4 سال 1971ء میں اس مضمون کو واضح کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے آپ کی اس مفید کتاب کو ایک ہزار روپیہ انعام کا مستحق قرار دیا ہے.عزیز مکرم نے نہایت پیچیدہ مسائل کو اپنی حساب دانی کی مدد سے آسان رنگ میں پیش کیا ہے اور ہر مسئلہ کو متعد د مثالوں سے حل کر کے دکھایا ہے.میرے خیال میں یہ یہ مضمون وکلاء اور حج صاحبان کیلئے بڑا مفید اور ان کے روز مرہ کے کاروبار میں مد و معاون ثابت ہوگا.اس مضمون کی ترتیب، اس کے دلائل، جزئیات کی تشریح بے انداز محنت سے کی گئی ہے.میں اس قابل قدر سہل المفہوم اور فائدہ بخش کتاب کا تعارف لکھتے ہوئے دلی مسرت محسوس کرتا ہوں اور اس کتاب اور نادر کوشش پر لائق مصنف کی خدمت میں مخلصانہ مبارکباد پیش کرتا ہوں“.۲.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے حسب ذیل تبصرہ فرمایا :.د فضل عمر فاؤنڈیشن ٹھوس علمی تحقیقات کو فروغ دینے کیلئے ہر سال جو صلائے عام دیتی ہے یہ ایک ایسا سلسلہ ہے جسے خدا کے فضل سے پہلے ہی سال پھل لگنے شروع ہو گئے.ان پھلوں میں ایک خاص طور پر شیر میں اور خوشنما اور معطر پھل وہ تحقیقی مضمون ہے جو برادرم مکرم پروفیسر عبدالرشید فنی صاحب نے بڑی علمی کاوش اور محنت اور کرید کے بعد مرتب فرمایا اور فضل عمر فاؤنڈیشن کی خدمت میں حسن و فتح کے فیصلہ کیلئے پیش کیا.عنوان اس مضمون کا اسلام کا وراثتی نظام ہے جب یہ مضمون مختلف اندرونی اور بیرونی منصفین کی خدمت میں فیصلہ کیلئے پیش کیا گیا تو سب نے اسے بہت سراہا اور بعض نے تو اچھے نمبر دینے کے علاوہ غیر معمولی تعریفی کلمات اس مضمون کے حق میں لکھے.چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے اس مضمون کو ایک نہایت اعلیٰ کوشش قرار دیتے ہوئے انعام کا مستحق قرار دیا اور اس قابل سمجھا کہ اگر مصنف خود اسے طبع نہ کرواسکیں تو طباعت کے سلسلہ میں ان کی ہر ممکن امداد کی جائے.یہ مضمون اب ایک خوشنما کتاب کی صورت میں چھپ کر بام پر آ گیا ہے اور ہر عاشق علم کو دعوت نظارہ دے رہا ہے.اسلامی وراثت کے قوانین اگر چہ معدودے چند قرآنی آیات میں سمیٹ دیئے گئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ وراثت کی سینکڑوں امکانی صورتوں پر پوری طرح حاوی اور ہر پیدا ہونے والی الجھن کا حل اپنے اندر رکھتے ہیں.اس قرآنی معجزہ کا پورا لطف

Page 15

تاریخ احمدیت.جلد 27 5 سال 1971ء اٹھانا ہر کس و ناکس کا کام نہیں اور جب تک محققین کی سالہا سال کی محنتوں کے نتائج سے استفادہ نہ کیا جائے اور اہل علم کی آنکھ سے ان مسائل کو نہ دیکھا جائے اس معجزہ کی پوری شان ایک عامی کو نظر نہیں آسکتی.اس پہلو سے برادرم پروفیسرغنی صاحب کی تحقیق ایک بلند پایہ کوشش ہے اور مختصر قرآنی آیات کی اندرونی وسعتوں میں جھانکنے میں بہت مدد دیتی ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء.اس کے علاوہ یہ ایک عملی ضرورت کی بیش قیمت کتاب ہے جو وراثت کی نہایت مشکل اور پیچیدہ امکانی صورتوں کو بھی بڑے عمدہ اور سہل طریق پر حسابی رنگ میں حل کر دیتی ہے.دینی علوم سے شغف رکھنے والوں نیز قانون دانوں کے پاس تو اس کتاب کا ہونا از بس ضروری ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا گھوڑے سے گرنے کا واقعہ ۲۱ جنوری بروز جمعرات صبح اس وقت ایک افسوس ناک واقعہ پیش آ گیا جب حضور انور گھوڑے پر سواری فرمارہے تھے کہ اچانک گھوڑا بدک کر بھاگ اٹھا اور ایک دم مڑ گیا.جس کی وجہ سے حضور انور گر پڑے اور کمر کے عضلات میں شدید کھنچاؤ پڑ گیا.کمر کی ہڈی پر چوٹ آئی اور کمر کی ہڈی کا دوسرا حصہ بھی چوٹ کے اثر سے دب گیا.اس بیماری کے دوران ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سرجن کو لاہور سے نیز کرنل محمود الحسن صاحب سرجن کو راولپنڈی سے تشریف لا کر حضور انور کے علاج کی سعادت نصیب ہوئی.جبکہ دوران بیماری محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب با قاعدگی سے حضور انور کی صحت سے متعلق احباب جماعت کو مطلع فرماتے رہے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۴ مئی ۱۹۷۱ کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں محلہ دار الصدر شرقی کے انصار کے ایک تربیتی اجلاس سے خطاب کے دوران اپنی اس چوٹ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنوری میں گھوڑے پر سے گرنے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کے دومنکوں میں جو نقص واقعہ ہوا تھا اللہ تعالیٰ نے اپنے غیر معمولی فضل سے اسے پوری طرح دور کر دیا ہے.مگر اس چوٹ کی وجہ سے ڈاکٹری مشورہ کے مطابق مجھے گیارہ ہفتے تک لیٹے رہنا پڑا.اس عرصہ میں میری خواہش اور تمنا یہی ہوتی تھی کہ جتنی جلدی ہو سکے میں نمازوں کے لئے مسجد میں جاؤں اور اپنے دوستوں سے ملوں.مگر میں لیٹے رہنے پر مجبور تھا پھر اس بیماری کے نتیجہ میں بعض اور شکایات بھی پیدا ہوگئیں جن کی وجہ سے میں ابھی تک زیادہ چل پھر نہیں سکتا.التحیات کی حالت میں ابھی بیٹھ بھی نہیں سکتا یہی وجہ ہے کہ میں نماز

Page 16

تاریخ احمدیت.جلد 27 6 سال 1971ء کے لئے مسجد میں نہیں آسکتا پھر سر چکرانے کی تکلیف شروع ہو گئی ہے جو دورہ کی صورت میں ہوتی ہے.حضور نے اپنی بیماری اور اس کے اثرات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ دوست میرے لئے بھی جو کہ خدا تعالیٰ کا ایک عاجز بندہ ہے دعا کریں کہ اس بیماری کے جو چند اثرات ابھی باقی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں بھی دور کر دے اور اپنے فضل سے مجھے کامل صحت عطا فرمائے.کا اس کے بعد جلد ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے حضورانور کو کامل شفا عطا فرما دی.علم دین کے حصول کے بعد انڈونیشین طالب علم کی واپسی ۲۵ جنوری ۱۹۷۱ء بعد نماز عصر جامعہ احمد یہ ربوہ کے ہال میں جامعہ کے فارغ التحصیل انڈونیشی طالب علم مكرم عبد الغنی کریم صاحب شاہد کے اعزاز میں بہت وسیع پیمانے پر ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.اس تقریب میں جامعہ کے پرنسپل محترم سید داؤ داحمد صاحب و دیگر اساتذہ کرام اور طلباء نے بھر پور شرکت فرمائی.عبدالغنی کریم صاحب سماٹرا کے علاقہ پاڈانگ کے رہنے والے تھے.آپ اٹھارہ سال کی عمر میں علم دین حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۶۳ ء میں ربوہ آئے.آپ نے جامعہ احمدیہ میں سات سال تک زیر تعلیم رہ کر شاہد کی ڈگری حاصل کی.اسی دوران آپ نے ۱۹۶۹ء میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان بھی پاس کیا.اس سال آپ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مبلغ اسلام کی حیثیت سے اپنے وطن واپس جانے کو تیار تھے.دوران تقریب مکرم عبدالغنی کریم صاحب نے بھی حاضرین سے اردو میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک حصول تربیت کا تعلق ہے میں سب سے زیادہ اپنے آقا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا ممنون احسان اور مرہون منت ہوں.خلافت ثالثہ کے قیام کے وقت میں پہلا انڈو نیشین تھا جسے حضور کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.اور یہ شرف ہی میرے لئے تربیت کا سب سے اہم اور گراں بہا ذریعہ ثابت ہو کر میری خوش قسمتی کا ضامن ٹھہرا اور میں ہمیشہ ہی حضور کی نظر شفقت کا مور درہا.رود او تقریب بر موقع یوم مصلح موعود ۲۰ فروری ۱۹۷۱ء کو ۴ بجے بعد دو پہر یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب پر لجنہ اماء اللہ ربوہ کا ایک خصوصی اجلاس لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں منعقد ہوا.اس جلسہ میں صدارت کے فرائض حضرت سیدہ مریم صدیقہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے سرانجام دئے.آپ نے اپنی تقریر میں پیشگوئی

Page 17

تاریخ احمدیت.جلد 27 7 سال 1971ء مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی عظمت کو اجا گر کیا اور بتایا کہ مصلح موعود کی شخصیت اتنی اہم تھی کہ خود رسول مقبول صلی سلیم نے اور آپ کے بعد صلحائے امت نے بھی اس کی خبر دی بلکه قبل از زمانہ اسلام میں بھی (جیسا کہ طالمود کی روایت سے ظاہر ہے ) اس کی پیشگوئی موجود تھی.آپ نے بتایا کہ یہ پیشگوئی خدا تعالیٰ کے عالم الغیب ہونے کا زندہ ثبوت ہے.اور اسلام کی صداقت کی ایک اہم دلیل ہے.اس نشان کی جو اغراض بتائی گئی تھیں وہ سب کی سب حضرت مصلح موعود کے وجو د مبارک میں پوری ہوئیں اور ہم سب اس امر کے گواہ ہیں کہ مصلح موعود کی جملہ علامات کا ایک ایک نقطہ اس رنگ میں پورا ہوا ہے کہ اسے دیکھ کر ہماری روح اپنے خدا کے آستانہ پر سر بسجود ہو جاتی ہے.دعا کے ساتھ یہ جلسہ بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.وزیر اعظم ماریشس سے جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان کے وفد کی ملاقات وزیر اعظم ماریشس جناب سرسیو سا گر رام غلام Sir Seewoosagur Ramgoolam ۱۹۷۱ء میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مشرقی پاکستان تشریف لائے.ان سے جماعت کے ایک وفد نے ملاقات کی اور انہیں پاکستان آنے پر خوش آمدید کہا اور انہیں قرآن کریم (انگریزی ترجمہ ) کا تحفہ پیش کیا.وزیر اعظم صاحب نے دوران گفتگو احمد یہ جماعت کی تبلیغی مساعی کو سراہا اور وفد کو بتایا کہ ماریشس میں جماعت احمدیہ نے مختلف الخیال لوگوں کے آپس میں اتحاد اور ایک دوسرے کی بہبود کے سلسلہ میں بھی قابل تعریف کام کیا ہے.نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت نئے ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام اس سال کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس میں نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت مغربی افریقہ کے کئی ممالک میں متعدد ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام ہوا جس سے افریقہ کی تاریخ میں ایک سنہری باب کا آغاز ہوا.نئے ہسپتالوں کی تعداد آٹھ تھی جو غانا، سیرالیون اور گیمبیا کے درج ذیل مقامات آسوکورے، جورو، بواجے بو، بانجل ، ٹیچی مان ،سویڈ رو، گنجور اور روکو پر پر قائم کئے گئے.ان کی بعض تفصیلات درج ذیل ہیں.

Page 18

تاریخ احمدیت.جلد 27 8 سال 1971ء ا.احمد یہ ہسپتال آسوکورے (غانا) آسوکورے (Asokore) کماسی شہر سے ۲۴ میل کے فاصلہ پر واقع ایک گاؤں ہے.یہاں ہسپتال کے لئے ۳۰ کمروں پر مشتمل جدید طرز کی خوبصورت عمارت حاصل کی گئی اور اس کے ۲۰ کمروں کو بستروں اور ضروری اشیاء سے آراستہ کر کے Indoor کے لئے تیار کیا گیا.اس کے پہلے ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب تھے.ہسپتال کا افتتاح ۲۸ فروری ۱۹۷۱ء کو عمل میں آیا.تقریب میں ۴ ہزار کا مجمع تھا.اس موقع پر اکرا اور کماسی کے علاقہ کی احمدی جماعتوں اور مقامی باشندوں کے علاوہ اعلیٰ افسران ہمبران پارلیمنٹ اور گاؤں کے پیرا ماؤنٹ چیف نے بھی شرکت کی.پریس اور ریڈیو کے نمائندگان بھی موجود تھے.پیراماؤنٹ چیف نے اپنی تقریر میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ جماعت نے ان کے علاقہ میں ہسپتال قائم کر کے لوگوں پر احسان عظیم کیا ہے.انہوں نے ہسپتال کی ترقی کیلئے ہر قسم کی مدد اور تعاون کی پیشکش کرتے ہوئے اپنی طرف سے آٹھ صد سیڈیز دینے کا اعلان کیا.بعد ازاں ایک ممبر پارلیمنٹ نے بھی تقریر کی.ہسپتال کے قیام پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور ۵۰ سیڈیز عطیہ دیا.انہوں نے حاضرین کو بھی ہسپتال کے فنڈ میں عطیات دینے کی تلقین کی.چنانچہ دیکھتے دیکھتے حاضرین کی طرف سے چار صد سیڈیز کی رقم جمع ہوگئی.مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر امیر و مشنری انچارج غانا نے اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ آغاز میں مسلمان اطباء کی کوششوں سے علم الطب نے دنیا میں شہرت حاصل کی تھی اور آج جماعت احمدیہ نے پھر بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اسے فروغ دینا شروع کیا ہے.افتتاح کی خبر ریڈیو اور اخبارات نے مؤثر طریق پر نشر اور شائع کی.10 - احمد یہ ہیلتھ سنٹر جورو ( سیرالیون) سیرالیون کے اس پہلے ہیلتھ سنٹر کا افتتاح ۵ جون ۱۹۷۱ ء کو عمل میں آیا.ڈاکٹر محمد اسلم صاحب جہانگیری اس کے انچارج مقرر ہوئے.اس موقع پر ایک شاندار تقریب منعقد کی گئی.تقریب کے مہمان خصوصی آنریبل مسٹر فرینک.ایس انتھونی ریذیڈنٹ منسٹر برائے مشرقی صوبہ تھے.اس موقع پر جماعت احمدیہ سیرالیون کے اکثر مرکزی عہدیداران، علاقائی اور مقامی مبلغین کرام، چاروں احمد یہ سیکنڈری سکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان مختلف علاقوں کے سات پیراماؤنٹ چیفس ، ۲۰ چیفڈ

Page 19

تاریخ احمدیت.جلد 27 9 سال 1971ء سپیکر، ۳۵ سیکشن چیف، ڈسٹرکٹ آفیسر، ریجنل پولیس آفیسر اور مختلف سیاسی راہنماؤں کے علاوہ پانچ ہزار سے زائد افراد نے اس تقریب میں شرکت کی.جو رو کی تاریخ میں اتنے بڑے اجتماع کی یہ پہلی مثال تھی.اس تقریب افتتاح کے سلسلہ میں جو رو کے وسیع و عریض چیفڈم ہال میں جلسہ کا اہتمام کیا گیا.جلسہ کی کارروائی کا آغاز آنریبل پیراماؤنٹ چیف مسٹر این کے گمانگا پریذیڈنٹ جماعتہائے احمدیہ سیرالیون کی صدارت میں ہوا.معززین جماعت اور بعض پیرا ماؤنٹ چیفس کی تقاریر کے بعد آنریبل ایف ایس انتھونی ریذیڈنٹ منسٹر برائے مشرقی صوبہ نے فرمایا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں جور میں آج پہلے احمد یہ ہیلتھ سنٹر کا افتتاح کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں یہ ایک بڑا اور شاندار ہسپتال بن جائے گا جماعت احمدیہ نے پہلے اپنے مبلغ بھجوا کر اور پھر سکول کھول کر ہمیں روحانی اور جسمانی علوم سکھائے اور اب ہسپتال کھول کر ہماری صحتوں کا بندوبست کر رہے ہیں اور یہ ایسی کوشش ہے کہ جس سے انسانوں کو صحیح رنگ میں انسان بنایا جا سکتا ہے کیونکہ انسان کی روح اور جسم کے لئے یہ ہر دو چیزیں انتہائی ضروری ہیں.جماعت احمد یہ ہمیں جہالت اور تاریکی سے نکال کر اور بیماریوں سے بچانے کا سامان کر کے یقیناً ایک حیران کن کام کر رہی ہے اور علم اور صحت کے نتیجہ میں ہی ہم اپنے ملک میں بھوک، افلاس اور غریبی کو بھی دور کر سکتے ہیں.وو ہم اس ملک کے باشندے اور خصوصاً اس علاقہ کے رہنے والے، احمد یہ مشن کے بے حد ممنون اور شکر گذار ہیں کہ آپ لوگ ہر رنگ میں ہمارے ملک کی خدمات بجالا رہے ہیں آپ کی بے لوث خدمات کے عمدہ اور شاندار نمونے ہمارے سامنے ہیں.جلسہ کے اختتام پر تمام مہمانان احمد یہ نصرت کلینک پہنچے جہاں وزیر صاحب موصوف نے سیرالیون کے اس پہلے احمدیہ ہیلتھ سنٹر کا باقاعدہ افتتاح کیا.امیر و مشنری انچارج مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے دعا کروائی اور اس طرح یہ شاندار تقریب افتتاح اختتام پذیر ہوئی.11 اس ہیلتھ سنٹر کے قیام کی خوشی میں علاقہ کے لوگ روایتی انداز میں تین دن تک خوشی مناتے رہے.12.احمد یہ کلینک بواجے بو (سیرالیون) اس ہیلتھ سنٹر کا افتتاح ۳ جولائی ۱۹۷۱ء کو بواجے بو میں وہاں کے وزیر صحت مسٹر سی پی فورے

Page 20

تاریخ احمدیت.جلد 27 10 سال 1971ء نے چار ہزار افراد کی موجودگی میں ایک شاندار تقریب میں کیا.اس تقریب میں مختلف علاقہ جات کے ۶ پیراماؤنٹ چیفس ، ۲۵ چیفڈم سپیکرز اور ۴۰ سیکشن چیفس بھی شامل تھے.حاضرین سے خطاب کے دوران وزیر صحت نے کہا :.ایک ماہر تعلیم اور وزیر صحت ہونے کی حیثیت سے میں اس بات پر خوشی اور مسرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جماعت احمدیہ قومی سطح پر بے لوث رنگ میں ہمارے ملک کی دینی تعلیمی اور طبی لحاظ سے نہایت شاندار خدمات سرانجام دے رہی ہے.روح کی بالیدگی اور انسانی صحت ہی ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو صحیح رنگ میں خدا شناس بنا سکتی ہیں اور جماعت احمد یہ اپنے مقدس راہنما کی ہدایت کے تحت خدا کے فضل سے پورے طور پر اس میں کوشاں ہے...میری وزارت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کی ان کوششوں کے سلسلہ میں احمدیہ مشن کو ہر ممکن امداد دی جائے گی.13 تقریب کی صدارت کے فرائض مشرقی صوبہ کے ریذیڈنٹ منسٹر آنریبل ایف ایس انتھونی صاحب نے انجام دیئے اور دعا مولانا محمد صدیق صاحب مبلغ انچارج نے کروائی.ڈاکٹر امتیاز احمد صاحب چوہدری ایم بی بی ایس.ایف آرسی ایس نے اس ہیلتھ سنٹر میں خدمات کا آغاز ۴ جون ۱۹۷۱ ء سے کر دیا تھا لیکن اس کا باضابطہ افتتاح ۳ جولائی کو عمل میں آیا.14 ۴.احمد یہ ہسپتال با نجل ( گیمبیا) سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے گیمبیا کے دارالحکومت بانجل کے احمد یہ ہسپتال کے لئے ڈاکٹر انوار احمد خان صاحب کا تقرر بطور میڈیکل آفیسر فرمایا.ڈاکٹر صاحب موصوف ۶ را پریل ۱۹۷۱ء کو بانجل پہنچے اور چوہدری محمد شریف صاحب امیر و مبلغ انچارج گیمبیا کے ساتھ مل کر کلینک کھولنے کیلئے ایک دو منزلہ عمارت کرایہ پر حاصل کی.ضروری تیاری کے بعد اگست ۱۹۷۱ء میں نصرت جہاں ٹی بی اینڈ میڈیکل سنٹر جاری ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شہرت دور دور تک پھیل گئی.اس ہسپتال سے شفا پانے والے لوگوں میں صدر مملکت کی فیملی اور بعض وزراء مملکت بھی شامل رہے.15 ۵- احمد یہ ہسپتال نیکی مان (غانا) اس ہسپتال کی افتتاحی تقریب ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء کو عمل میں آئی.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر امیر و مشنری انچارج جماعتہائے احمد یہ غانا مشن نے

Page 21

تاریخ احمدیت.جلد 27 11 سال 1971ء خطبہ استقبالیہ پڑھتے ہوئے اس امر کا ذکر کیا کہ جماعت احمد یہ اپنی روحانی، اخلاقی اور تعلیمی خدمات کی وجہ سے ملک بھر میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اس کی ان خدمات کو بنظر استحسان دیکھا جاتا ہے.اب اس نے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق سے ملک بھر میں نئے ہسپتال قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے.آپ نے کہا ہم اس ملک کے عوام کی فلاح و بہبود کے سلسلہ میں اپنی مساعی میں وسعت پیدا کر کے حتی المقدور ان کی طبی ضروریات کو پورا کرنے کا عزم رکھتے ہیں اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ قابل قدر اسلامی روایات کو از سر نو زندہ کر دکھانا چاہتے ہیں.وزیر سماجی بہبود آنریبل اے.اے.منافی نے استقبالیہ ایڈریس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے تعلیم اور طبی امداد کے میدانوں میں جماعت احمدیہ کی قابل قدر مساعی اور گرانقدر خدمات کا ذکر فرمایا اور شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.آپ نے فرمایا میری وزارت جماعت کے قائم کردہ ہسپتالوں کو خوبی اور عمدگی سے چلانے کے سلسلہ میں ہر ممکن امداد بہم پہنچانے اور پورا پورا تعاون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گی اور ہمیشہ اس کے لئے مستعد رہے گی.بعد ازاں ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے یقین دلایا کہ وہ بلا تمیز رنگ و نسل اور مذہب و عقائد بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھیں گے.انہوں نے مزید بتایا کہ ہر چند کہ اس ہسپتال کا باضابطہ اور رسمی افتتاح آج عمل میں آرہا ہے تاہم یہ گذشتہ پانچ ماہ سے علاقہ کے عوام کی طبی خدمات بجالا رہا ہے.اس مختصر سے عرصہ میں پانچ ہزار سے زائد مریضوں کا علاج کیا گیا اور اللہ کے فضل سے وہ شفایاب ہوئے.اسی طرح متعدد چھوٹے اور بڑے آپریشن بھی کامیابی سے کئے گئے.اس موقع پر چار ہزار حاضرین کی موجودگی میں مولانا بشارت احمد صاحب بشیر نے قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ مع تفسیری نوٹس کا ایک نسخہ وزیر موصوف کو پیش کیا.افتاحی تقریب میں صدارت کے فرائض ٹیچیمان کے پیرا ماؤنٹ چیف نے ادا فرمائے.آپ برونگ اہا فور ریجن کے باؤس آف چیفس کے پریذیڈنٹ ہیں.اپنے خطبہ صدارت میں جماعت راحمدیہ کی رفاہی سرگرمیوں اور خدمات کو سراہا.آپ نے ۱۹۷۰ء میں امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفۃ امسیح الثالث کی ٹیچیمان میں تشریف آوری اور حضور کے ساتھ اپنی ملاقات کا ذکر کرنے کے بعد ٹیچیمان میں احمد یہ ہسپتال کے قیام پر حضور کی خدمت میں دلی جذبات تشکر کا اظہار کیا.آپ نے جملہ حاضرین

Page 22

تاریخ احمدیت.جلد 27 12 سال 1971ء اور علاقہ کے عوام کو تلقین کی کہ وہ ہسپتال اور جماعت احمدیہ کی طبی خدمات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا ئیں.قبل اس کے آنریبل وزیر سماجی بہبود نے فیتہ کاٹ کر ہسپتال کے باضابطہ افتتاح کا اعلان فرمایا.برونگ اہا فو کے ریجنل مشنری مولوی عبدالوہاب بن آدم نے آنریبل وزیر موصوف ،ٹیچیمان کے پیرا ماؤنٹ چیف اور تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا.اس موقعہ پر حاضرین نے از خود بطور چندہ رقوم پیش کیں.چنانچہ چھ صد نیوسیڈیز جمع ہوئے ان میں یک صد نیوسیڈیز کا وزیر موصوف کی طرف سے پیش کردہ عطیہ بھی شامل تھا.افتتاحی تقریب کی روداد کو اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا.غانا ریڈیو نے بھی خاص تفصیلی خبر نشر کی.علاوہ ازیں ٹیلیو یون پر بھی اس کے مناظر دکھائے گئے.16 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۵ راکتو بر ۱۹۷۱ء کو انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے پیرا ماؤنٹ چیف کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ:.دویچیمان میں ایک بہت بڑا عیسائی پیرا ماؤنٹ چیف ہے.یہ اپنے علاقہ کا صدر بھی ہے اور کنگ کہلاتا ہے اور غانا کے پیراماؤنٹ چیفس کی جو مجلس ہے جسے انہوں نے ابھی تک روایتا رکھا ہوا ہے.اس مجلس کا یہ نائب صدر ہے.یعنی چیفس کے لحاظ سے سارے غانا میں یہ دوسرے نمبر پر ہے.غرض یہ اتنا بڑا چیف اور پھر عیسائی ہے.بایں ہمہ اس نے ہمیں اڑھائی سو ایکڑ زمین مفت دی ہے اور جب میں وہاں گیا تھا تو اس نے جو ایڈریس پڑھا وہ اس طرح لگتا تھا کہ گو یا کسی احمدی کا لکھا ہوا ہے.17 اس جگہ یہ تذکرہ ضروری ہے کہ افتتاح سے قبل مقامی میڈیکل آفیسر کو ہسپتال کھولنے کی اجازت دینے کے بعد چند ہفتوں کے لئے بیرونِ ملک جانا پڑا تو ان کے قائمقام نے جو رومن کیتھولک تھا حکومت کو لکھا کہ احمد یہ جماعت کسی اور جگہ ہسپتال کھولے کیونکہ یہاں پہلے ہی دو ہسپتال موجود ہیں.اس رپورٹ کے ایک ہفتہ کے اندر ایک ڈاکٹر چل بسا اور ہسپتال بند کر دینا پڑا.دوسرا ہسپتال رومن کیتھولک کا تھا اس کے انچارج بھی بستر علالت پر پڑ گئے اس دوران ایک خطرناک نوعیت کا کیس آیا رومن کیتھولک ہسپتال کا عملہ رات کو ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب کے پاس آیا.ڈاکٹر صاحب نے مریضہ کا آپریشن کیا اور وہ چند روز تک رو بصحت ہوگئی اس قسم کے کئی اور واقعات بھی رونما ہوئے.دو ڈاکٹروں نے ایک مریض کا معاینہ کرنے کے بعد اس کے پاؤں کاٹنے کا فیصلہ کیا.کسی نے مریض سے کہا کہ اگر اپنی خیر چاہتے ہو تو احمد یہ ہسپتال نیچی مان چلے جاؤ.چنانچہ ڈاکٹر

Page 23

تاریخ احمدیت.جلد 27 13 سال 1971ء صاحب نے اس کا علاج کیا اور پاؤں کاٹے بغیر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے تندرست ہو گیا.18 ۶ - احمد یہ ہسپتال سویڈ رو (غانا) اس ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ۱۸ نومبر ۱۹۷۱ء کو ایک پرشکوہ اور پروقار تقریب میں ہائی کمشنر پاکستان مقیم غانا ہز ایکسی لینسی ایس اے معید صاحب نے فرمایا.یہ نیا ہسپتال غانا کے سنٹرل ریجن میں اگونا سویڈ رو کے مقام پر کھولا گیا.افتتاحی تقریب میں صدارت کے فرائض غانا کے نائب وزیر زراعت آنریبل محاما ثانی صاحب نے ادا فرمائے جو خود بحمد اللہ تعالیٰ مخلص احمدی تھے.اس میں پانچ ہزار مہمانوں نے شرکت کی.علاوہ ازیں علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیفس ، اعلیٰ سرکاری حکام اور ملک کے بعض نامور اشخاص بھی تشریف لائے تھے.جس ہال میں تقریب منعقد ہوئی اسے رنگ برنگ کی جھنڈیوں اور آرائش کے دیگر سامانوں سے سجایا گیا تھا.اس موقع پر شہر میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی تھی اور اہل شہر ہسپتال کے قیام پر از حد مسرور نظر آتے تھے.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو مولوی عبدالشکور صاحب مبلغ غانا نے کی.بعد ازاں مولا نا بشارت احمد بشیر صاحب نے خطبہ استقبالیہ پڑھا.آپ نے ہز ایکسی لینسی ہائی کمشنر پاکستان اور دیگر مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے علاوہ جماعت احمدیہ کی ان تعلیمی ، سماجی اور طبی خدمات کا ذکر کیا جو وہ ملک بھر میں نہایت بے لوث طریق پر انجام دے رہی ہے.آپ نے فرما یا ملک میں ہسپتالوں کا قیام جماعت احمدیہ کی رفاہی سرگرمیوں کے پروگرام کا ایک اہم حصہ ہے.جماعت نے ملک میں مزید ہسپتالوں اور سکولوں کے قیام کے ذریعہ اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت اور اس کے عظیم ورثہ کو بحال کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے.ہسپتال کے آفیسر انچارج ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب نے اس موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ہسپتال کے قیام کے سلسلہ میں کی جانے والی مساعی کا اختصار کے ساتھ ذکر کرنے کے بعد بتایا کہ پانچ ماہ کی قلیل مدت میں آٹھ ہزار مریضوں کا علاج کیا گیا اور ایک سو سے زائد بڑے آپریشن کامیابی کے ساتھ کئے گئے.آپ نے مزید بتایا کہ اگرچہ میں برسر روزگار اپنے طور پر مصروف کار تھا لیکن جب میرے محبوب امام آقا اور مقدس امام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے احمدی ڈاکٹروں کو اپنی خدمات پیش کرنے کے لئے پکارا تو میں نے فوراً اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے تین سال کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں تاکہ میں حضور کی زیر ہدایت اپنے افریقی بھائیوں کی

Page 24

تاریخ احمدیت.جلد 27 14 سال 1971ء خدمت کرنے اور ان کے کام آنے کی سعادت حاصل کر سکوں.تقریر کے دوران انہوں نے اپنے اس عزم اور عہد کو دہرایا کہ میں بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب و عقیدہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کروں گا.ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب کے بعد پاکستانی ہائی کمشنر ہز ایکسی لینسی ایس اے معید صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ہم وطنوں کے اس قابل قدر جذبہ کی تعریف کی کہ وہ اپنی زندگیاں، اپنے اوقات اور اپنی صلاحیتوں کو وقف کر کے بنی نوع انسان کی خدمات بجالا رہے ہیں اور ناموافق حالات اور مشکلات پر قابو پا کر ملکی مفاد کی خا طر حتی المقدور کوشش کر رہے ہیں اور اس طرح اہل غانا کو اعتماد اور یقین سے ہمکنار کرنے کا موجب ثابت ہورہے ہیں.ہرایکسی لینسی نے اس موقع پر حاضرین کو پاکستان کے خلاف بھارت کی کھلی جارحیت سے بھی آگاہ کیا.اس پر سامعین نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور حفاظت کے لئے آئندہ بھی دعائیں جاری رکھیں گے.ہز ایکسی لینسی نے جماعت احمدیہ کو اس امر پر خراج تحسین پیش کیا کہ اس نے اپنی انتھک اور بے لوث خدمات کے ذریعہ غانا اور پاکستان کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور ان کے درمیان بہتر مفاہمت کا جذبہ پیدا کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے.آنریبل محاما ثانی نائب وزیر زراعت حکومت غانا نے اپنی صدارتی تقریر میں اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا کہ غانا میں اسلام کے از سر نو احیاء کا سہرا منفر د طور پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی اور سرگرمیوں کے سر ہے.آپ نے بتایا سویڈ رو کا شہر (جس میں احمد یہ ہسپتال کا قیام عمل میں آیا ہے ) پہلے ایک عیسائی شہر شمار ہوتا تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد آباد ہے اور اسے پہلے کی طرح ایک عیسائی شہر شمار نہیں کیا جاتا.آپ نے فرمایا جماعت احمد یہ نے تعلیم ، طب اور علاج معالجہ کے شعبوں میں گرانقدر خدمات بجالا کر بہت ناموری حاصل کی ہے.اب اسے چاہیے کہ وہ غا نامیں زراعت کو فروغ دینے کے سلسلہ میں بھی ہاتھ بٹائے.صدارتی تقریر کے بعد ہز ایکسی لینسی ایس اے معید صاحب ہائی کمشنر آف پاکستان نے فیتہ کاٹ کر ہسپتال کے باضابطہ افتتاح کا اعلان فرمایا.بعد ازاں ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب کی معیت میں ہز ایکسی لینسی اور دیگر سر بر آوردہ مہمانوں نے ہسپتال کے مختلف شعبوں کا معاینہ کیا.19

Page 25

تاریخ احمدیت.جلد 27 15 سال 1971ء ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب انچارج ہسپتال لکھتے ہیں.جیسے ہی مقامی ریڈیو پر احمد یہ ہسپتال کے کھلنے کی خبر شروع ہوئی قصبہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی.اور بہت سارے لوگ مبارک باد دینے کیلئے گھر تشریف لائے.پہلے دن پندرہ مریض آئے، دوسرے دن پچاس، تیسرے دن پچھتر اور آجکل ۱۸۰ کے قریب مریض روزانہ آرہے ہیں.دو ہفتہ کے اندر ہی دس بستر بھر گئے.دو عیسائی مریض اس عرصہ میں ایسے آئے جو میرے سامنے بیٹھ کر پکار اٹھے کہ واقعی صحت اللہ تعالیٰ دیتا ہے.اب کئی عیسائی مرد اور عورتیں مجھے اور میری بیوی کو Good morning کی بجائے السلام علیکم کہتے ہیں.اس عاجز نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ علی الصبح ۴:۳۰ بجے مریض دوائی حاصل کرنے کے لئے جگہ پر قبضہ کرنے کیلئے اس ہسپتال میں پہنچے.20 فروری ۱۹۷۲ ء میں میڈیکل ڈائریکٹر نے سروے کیا.بعض متعصب عیسائیوں کے کہنے پر ہسپتال کی اکثر چیزوں کو ناقص قرار دیا جس کے باعث ہسپتال کچھ عرصہ کے لئے بند کرنا پڑا لیکن پھر متواتر کوشش اور جدوجہد کے ذریعہ اکتوبر ۱۹۷۲ء میں ہی ہسپتال کھولنے کی اجازت حاصل کر لی گئی اور کام شروع ہو گیا.جب ہسپتال دوبارہ کھلا تو عوام نے پہلے سے بڑھ کر خوشی منائی اور مریضوں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گیا یہاں تک کہ ڈاکٹر صاحب کو کرایہ کے مکان میں بے حد تنگی محسوس ہونے لگی.چنانچہ ایک بڑا وسیع مکان خرید کر اس میں ہسپتال کی ضروریات کے مطابق کچھ نئے حصے بنائے گئے اور ہسپتال اس میں منتقل کر دیا گیا.21 مجلس نصرت جہاں کے غیر مطبوعہ ریکارڈ کا ذکر کرتے ہوئے مکرم وقار احمد بھٹی صاحب اپنے مقالہ میں رقمطراز ہیں کہ:.وو نئے ہسپتال کی عمارت نہایت خوبصورت، صاف ستھری اور ہسپتال کی تمام عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہے.ہسپتال کے آؤٹ ڈور بلاک میں کمرہ انتظار کے علاوہ آٹھ کمرے ہیں.کمروں کے درمیان میں برآمدہ ہے ان کمروں کے علاوہ غسل خانوں اور بیت الخلاء کی سہولت مہیا ہے.ہر ایک کمرے میں الگ الگ شعبے یعنی رجسٹریشن، طبی مشورہ ، انجکشن روم، ڈسپنسری، مرہم پٹی کا کمرہ اور میڈیکل سٹور، لیبارٹری ایکسرے وغیرہ کے لئے مخصوص ہیں.انڈور (Indoor) میں پانچ کمرے ہیں جن میں سے تین بڑے وارڈ دو چھوٹے وارڈ ہیں جو کل

Page 26

تاریخ احمدیت.جلد 27 16 سال 1971ء پچھیں بستروں پر مشتمل ہیں.دو بستروں کے درمیان کشادہ جگہ رکھی گئی ہے.آپریشن تھیٹر تین کمروں پر مشتمل ہے.آپریشن کا کمرہ۱۱ × ۳ فٹ ہے.الغرض ہر ممکن سہولت خدا کے فضل سے مہیا ہے.غانا کے علاوہ آئیوری کوسٹ، بورکینا فاسو، ٹوگو، بین ، نائیجیریا، نائیجر ، زائر ، کیمرون ،لائبیریا، سینیگال، گنی، ماریطانی، مالی اور گیمبیا کے مریض بھی علاج کیلئے آتے ہیں.اس وقت ڈاکٹر طارق احمد صاحب انچارج ہیں جو کہ انڈیا سے تعلق رکھتے ہیں.22 اس ہسپتال میں بھی اللہ تعالیٰ نے کس طرح احمدی ڈاکٹروں کو شفا یابی کے اعجاز کی نشان سے نوازا اس کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو.ڈاکٹر میجر (ر) لئیق احمد فرخ صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں تحریر کیا کہ:.لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ہسپتالوں پر بہت اعتماد ہے اور وہ ہمارے ہسپتالوں میں علاج کرانے اور داخل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں.چند روز ہوئے ایک مریض آیا جس کا ہر نیا Strangulate( ہرنیا میں خون کی گردش کا بند ہونا) ہو گیا تھا اور بیماری پر بہت وقت گذر چکا تھا.جب ایسی حالت ہو تو عموماً آنت کا وہ حصہ جو Strangulate ہو جاتا ہے کاٹنا پڑتا ہے اور جس Suturing Material سے آنت کو دوبارہ سیا جاتا ہے وہ یہاں پر دستیاب نہیں.ان حالات میں میں نے مریض کو اور اس کے رشتہ داروں کو مشورہ دیا کہ وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں چلے جائیں اور ساتھ ہی میں نے انہیں وجہ بھی بتادی.رشتہ داروں نے جانے کی حامی بھر لی اور مریض کو معائنے والے کمرے سے باہر لے گئے.مگر تھوڑی دیر بعد ہی مریض کے رشتہ دار پھر آئے اور کہنے لگے کہ مریض وہاں جانے پر راضی نہیں.وہ کہتا ہے کہ اس کا یہاں پر ہی آپریشن کیا جائے.میں نے مریض کے رشتہ داروں کو کہا کہ وہ اسے سمجھا ئیں.وہ پھر گئے اور آ کر کہا کہ مریض کہتا ہے کہ میں مرجانا پسند کروں گا لیکن اگر آپریشن کرواؤں گا تو یہاں پر ہی کرواؤں گا.بحالت مجبوری میں نے تمام بات مریض کے رشتہ داروں کو بتا دی اور اچھی طرح سمجھا دیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اے اللہ ! تو ہی بہتر جانتا ہے تو شفا دینے والا ہے میں تیرا نام لے کر آپریشن کرتا ہوں ، ہماری مدد کر اور اس مریض پر اپنا فضل اور رحم کر.چنانچہ اس کا آپریشن کیا گیا.اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ آپریشن اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا اور مریض چند دنوں میں ہی ٹھیک ہوکر شکریہ ادا کر تا واپس چلا گیا.23

Page 27

تاریخ احمدیت.جلد 27 17 سال 1971ء جماعت احمدیہ کی عوامی خدمات کا اعتراف صدر مملکت نے بھی کئی بار فر ما یا.ایک موقعہ پر صدر مملکت نے فرمایا:.آپ سب جانتے ہیں کہ ہماری حکومت مختلف مذاہب پر کسی قسم کی پابندی عائد کرنے کے حق میں نہیں ہے ہمارا آئین اس کی اجازت نہیں دیتا.بلاشبہ آپ کے مذہب نے دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں سے اہل غانا کو فیض پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ آئندہ بھی غانا کی تعمیر وترقی میں اسی طرح ہاتھ بٹاتے رہیں گے...ہم آپ کے ازحد ممنون ہیں کہ آپ نے اس ملک کی تعمیر و ترقی میں شریک ہو کر اہم کردار ادا کرنا ضروری سمجھا.24 66 ے.احمد یہ ہیلتھ سنٹر روکو پر (سیرالیون) " خدا تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون میں ہماری ایک اور ڈسپنسری نے روکو پُر کے مقام پر ۲۰ جولائی سے کام شروع کر دیا ہے الحمد للہ.اس کا نام احمد یہ نصرت جہاں کلینک رکھا گیا ہے.یہ کلینک فی الحال عارضی جگہ پر شروع کیا گیا ہے.مستقل جگہ اور فرنیچر کا انتظام پارلیمنٹ کے ممبر آنریبل مسٹر گھا بے کر رہے ہیں.وزیر مالیات انشاء اللہ جلد ہی اس کا باقاعدہ افتتاح فرمائیں گے...اس کلینک کے اجراء کے ساتھ ہی گورنمنٹ سیرالیون نے اپنی ایک سرکاری ڈسپنسری بھی مع ساز وسامان ہمارے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا ہے“.25 ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصرت جہاں آگے بڑھو، سکیم کے تحت سیرالیون میں ہمارے تیسرے احمد یہ نصرت جہاں کلینک رو کو پر کا سرکاری طور پر افتتاح ہو گیا ہے.اس ہیلتھ سنٹر کے انچارج مکرمی ڈاکٹر ایس.ایم حسن صاحب ایم بی بی ایس میدان عمل میں پہنچ کر ۲۰ جولائی ۱۹۷۱ ء سے تسلی بخش کام کر رہے ہیں.اس تقریب افتتاح میں بعض وزراء، ممبران پارلیمنٹ، پیراماؤنٹ چیفس اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام نے بھی شرکت کی.اس موقع پر سیرالیون پارلیمنٹ کے ایک رکن آنریبل ایس.اے کا بانے حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.میں کمبیا (Kambia) کے وسطی حلقہ انتخاب کے باشندگان کی طرف سے احمد یہ مشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں.اس نے ہماری قومی تعمیر نو میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے.مجھے بجاطور پر اس امر پر فخر ہے کہ ہمارا روکو پُر کا شہر رفتہ رفتہ اس قابل ہوتا جارہا ہے کہ یہ ہماری قومی امنگوں کو پورا کر سکے.میں بڑی مسرت کے ساتھ احمد یہ مشن کو یقین دلاتا ہوں کہ صدر سیا کا سٹیونز کی حکومت اس سیکنڈری سکول

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد 27 18 سال 1971ء اور ہسپتال کی ترقی میں حتی المقدور پورا پورا ہاتھ بٹائے گی احمد یہ مشن نے جس شاندار کام کا آغاز کیا ہے میں اس پر صمیم قلب سے ایک دفعہ پھر اس کا شکر یہ ادا کرتا ہوں“.اس ہسپتال کا افتتاح شمالی صوبہ کے ریذیڈنٹ منسٹر آنریبل بانگالے منسارے نے کیا.اس موقع پر انہوں نے بھی ایک نہایت پر جوش تقریر کی اور سیرالیون میں احمد یہ مشن کے قیام اور اس کی کارگزاری کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:.” جماعت احمدیہ کی رفاہی سرگرمیوں اور خدمات کا جو مختصر خاکہ میں نے ابھی پیش کیا ہے اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ سیرالیون میں اس قدر مختصر عرصہ کے دوران احمد یہ مشن کی یہ کامیابی اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ اسلام کی فتح کا دن قریب ہے.روکو پر اور ضلع کمبیا (Kambia) کے باشند و! میں تم سے یہ کہوں گا کہ تمہارے اور تمہاری نسلوں کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہے.تمہیں اپنے بچوں کو زیور علم سے آراستہ کر کے اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے تا کہ تم اس کارنامے کے ثمرات سے بہرہ ور ہو سکو.26 - احمد یہ ہسپتال گنجور ( گیمبیا) گیمبیا کے ویسٹرن ڈویژن کے صدر مقام گنجور میں احمد یہ ہسپتال نے ۲۷ نومبر ۱۹۷۱ء کو کام شروع کیا اور ڈاکٹر محمد اشرف صاحب اس کے انچارج مقرر ہوئے.بعد ازاں ڈاکٹر صاحب اور مولانا محمد شریف صاحب امیر مشنری انچارج کی مشترکہ کوششوں سے اس سینٹر میں ڈینٹل کلینک بھی نصب کیا گیا اور پھر ۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو ایک سادہ مگر پروقار تقریب میں احباب جماعت کی معیت میں پرسوز دعاؤں کے ساتھ اس ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ہوا.27 ان ہسپتالوں کے علاوہ نائیجیریا، غانا، سیرالیون اور گیمبیا میں آٹھ نئے سکول جاری کئے گئے جن کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.ا.احمد یہ سیکنڈری سکول گساؤ(Gusau) سکوٹوسٹیٹ نائیجیریا گساؤ سکول ۱۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو جاری ہوا اور اس کی افتتاحی تقریب ۸ جولائی ۱۹۷۱ء کو منعقد ہوئی جس میں صدارت کے فرائض ایجوکیشن کمشنر جناب الحاج ابراہیم نے ادا فرمائے.اس تقریب میں پانچ سومہمانوں نے شرکت کی.ان میں محکمہ تعلیم کے سیکرٹری، چیف پلاننگ ایجوکیشن آفیسر ،گساؤ

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد 27 19 سال 1971ء کے پیرا ماؤنٹ چیف، علاقہ بھر کے تیس دیگر چیفس اور متعد داعلیٰ سرکاری حکام شامل تھے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس تقریب میں سلطان آف سکوٹو کی نمائندگی ان کے مقرر کردہ ایک خصوصی نمائندہ نے کی.استقبالیہ ایڈریس سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد اسماعیل صاحب وسیم ایم اے نے پڑھا.جوابی تقریر میں ایجوکیشن کمشنر جناب الحاج ابراہیم نے گساؤ میں احمدیہ سیکنڈری سکول کے قیام پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا جماعت احمد یہ وہ پہلی مسلم تنظیم ہے جس نے اعلیٰ تعلیم کے ادارے قائم کرنے میں ہمارے لئے نہایت شاندار مثال قائم کر دکھائی ہے.آپ نے حکومت کی طرف سے پورے پورے تعاون کا یقین دلایا.آخر میں نائیجیریا مشن کے مبلغ انچارج اور جماعتہائے احمد یہ نائیجیریا کے امیر مولانا فضل الہی صاحب انوری نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے جناب ایجوکیشن کمشنر اور دیگر مہمانوں کا شکر یہ ادا کیا.آپ نے اپنی تقریر میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ حقیقی اور کامل علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی ذات ہی سر چشمہ علوم ہے.دنیوی علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ حقیقی علم حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعائیں کی جائیں اور اس سے زندہ تعلق قائم کیا جائے.آپ کی تقریر کے بعد دعا پر یہ بابرکت تقریب اختتام پذیر ہوئی.28 نصرت جہاں سکیم کے تحت کھلنے والے سکولوں میں یہ پہلا سکول تھا اس تاریخی اہمیت کے پیش نظر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے قیام کی ابتدائی تاریخ کی مزید تفصیلات مولا نا فضل الہی صاحب انوری کے الفاظ میں محفوظ کر دی جائیں.مولانا صاحب تحریر فرماتے ہیں:.وو ’ جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث اپنے تاریخی سفر مغربی افریقہ پر نائیجیریا میں ورود پذیر ہوئے تو ریڈیو پر خبریں سنتے ہوئے اچانک حضور کے کانوں میں کچھ اس قسم کے الفاظ پڑے کہ ہماری ریاست اس وقت تعلیمی بحران سے دو چار ہے اور یہ کہ ہم اس بحران کو دور کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں.یہ الفاظ نائیجیریا کی شمال مغربی ریاست کے گورنر جناب عثمان فاروق کے تھے جو انہوں نے لیگوس پہنچ کر اخباری نمائندوں سے کہے تھے.حضرت اقدس نے اس تقریب کو تائید غیبی سمجھ کر برادرم وزیری عبد و صاحب جنہیں چند روز قبل ہی حضور کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا، کو گورنر موصوف کے پاس یہ پیغام دے کر بھجوایا کہ ہماری جماعت اس بحران کو دور کرنے میں آپ کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ آپ ہمیں اس بارے میں ہر ممکن سہولت بہم

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد 27 20 سال 1971ء پہنچائیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ نصرت جہاں سکیم کا آغاز نائیجیریا سے ہی ہوا تھا اور صرف ایک دن قبل حضور نے نائیجیریا جماعت کے نمائندگان کے سامنے سولہ ثانوی سکول کھولنے کا اعلان فرمایا تھا.گورنر نے نہ صرف اس تجویز کا پر جوش خیر مقدم کیا بلکہ ہرممکن امداد بہم پہنچانے کا وعدہ کیا.یہ حسن اتفاق ہے کہ گورنر عثمان فاروق برادرم وزیری عبد و صاحب کے ہم مکتب رہ چکے ہیں اور انہیں اچھی طرح جانتے ہیں چنانچہ حضرت اقدس کی موجودگی میں ہی رسمی طور پر ایک درخواست گورنمنٹ شمال مغربی ریاست کو بھجوا دی گئی جس میں حضرت اقدس کی طرف سے ان کی ریاست میں چار ثانوی سکول کھولنے کی پیشکش کی گئی.یہ آغاز تھا اس عظیم الشان سکیم کا جواب سارے مغربی افریقہ میں تعلیمی وطبی مراکز قائم کرنے کی نمایاں خدمت انجام دے رہی ہے.شمال مغربی ریاست جو قریباً سو فیصدی ہاؤسا اور فلانی مسلمان قبائل پر مشتمل ہے کا صدر مقام سکوٹو ہے جو قدیم اور تاریخی شہر ہونے کے علاوہ حضرت عثمان ڈان فو دیو جو اس علاقہ کے اٹھارہویں صدی کے مجد دگزرے ہیں، کا مدفن ہے.گساؤ (Gusau) لیگوس سے ۷۵۰ میل شمال کی جانب اور سکوٹو سے ۱۳۰ میل جنوب کی جانب اس شاہراہ پر واقع ہے جو سکوٹو کونا یجیریا کے دوسرے بڑے شہروں سے ملاتی ہے.سکوٹو بہت بڑا صنعتی مرکز ہونے کے علاوہ فضائی مستقر بھی ہے.ثانوی سکول کے لئے کساؤ کا انتخاب کئی ایک اعتبار سے کیا گیا.ایک تو یہ کہ سکوٹو جہاں پہلے ہی کافی سکول اور کالج موجود ہیں کے بعد یہ شمالی حصہ ریاست میں دوسرا بڑا قصبہ ہے.دوسرے اب تک یہاں صرف ایک ثانوی سکول قائم تھا جو کیتھولک عیسائی مشن نے دو سال قبل کھولا تھا اور ضرورت تھی کہ مسلمان بچوں کو عیسائیت کے اثر سے پاک رکھنے کے لئے ہم وہاں کوشش کریں.تیسرے مرکزی حکومت کے اقتصادی ترقیات کے کمشنر جناب الحاجی یحیی گساؤ یہیں کے رہنے والے ہیں جو ایک دیندار مسلمان ہونے کے علاوہ ہماری اسلامی خدمات کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.سکول کی تجویز اپنے تمام عبوری مراحل سے گزرنے کے بعد منظوری کی آخری حدود تک پہنچ چکی تھی.حکومت کی طرف سے چالیس ایکڑ کا قطعہ اراضی اس کے لئے مخصوص ہو چکا تھا.حکومت کے افسران نے جس خوش اسلوبی اور خوش دلی سے جملہ کا رروائی سرانجام دی وہ قابل صد ستائش ہے.چونکہ گساؤ میں ہماری کوئی جماعت نہ تھی نہ ہی کوئی اور واقفیت اس لئے سکوٹو میں برادرم عبدالمجید صاحب بھٹی کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے نہ صرف مقامی طور پر کاغذات کی تعمیل کے سلسلے

Page 31

تاریخ احمدیت.جلد 27 21 سال 1971ء میں ہر ممکن کوشش کی بلکہ گساؤ میں ایک ایسے دوست کا پتہ دیا جو سکول کے اجراء کے لئے تمام ابتدائی مراحل طے کرنے میں بہت مفید ثابت ہوئے چنانچہ پہلا داخلے کا امتحان انہی کی وساطت اور انتظام سے انجام پایا.اسی طرح سکول کے لئے عارضی عمارت کے حصول میں کامیابی بھی انہی کی مرہونِ منت ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.داخلے کے پہلے امتحان کے لئے خاکسار نومبر ۱۹۷۰ء میں کا نو سے گساؤ پہنچا.بہت تھوڑے طلباء اس امتحان میں شامل ہوئے اور ان میں سے بہت کم داخلے کے قابل قرار پائے.دوسرے داخلے کے امتحان کے لئے کانو سے برادرم رفیق احمد ثاقب صاحب پر نسپل فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول کا نو اور سکوٹو سے برادرم عبدالمجید بھٹی صاحب پرنسپل احمد بیلواکیڈمی (Ahmadu Bello Academy) کو بھیجوایا گیا.طلباء کے انٹرویو کے دوران ایک عجیب بات یہ دیکھنے میں آئی کہ طالبات کسی سوال کا جواب نہ دیتی تھیں جیسے ان کے مونہوں میں زبان ہی نہ ہو.معلوم ہوا کہ ان کے والدین نے انہیں ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ انٹرویو کے وقت بالکل خاموش رہیں تا وہ سکول میں داخل نہ ہونے پائیں کیونکہ ان کے خیال میں لڑکیوں کا زیادہ تعلیم حاصل کرنا خطرناک ہے.یہ خیال اس تلخ تجربے کی پیداوار ہے جو مسلمان والدین کو عیسائی اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے نتیجہ میں حاصل ہوا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوئے تو یاوہ عیسائی ہو چکے تھے یا عیسائیت سے اتنا متاثر کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے میں عار محسوس کرتے تھے.یہ کیفیت ابھی تک ملک بھر میں بلکہ سارے مغربی افریقہ میں قائم ہے.اگر چہ اب مسلمانوں کی بیداری کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے.ابھی تک ہمیں ایک کلاس کی تعداد کے برابر بمشکل طلباء ملے تھے تا ہم سکول جاری ہوسکتا تھا.حکومت کی منظوری حاصل ہو چکی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ۱۵ مارچ ۱۹۷۱ء کو سکول کھلنے کا اعلان کر دیا گیا.ادھر ایک مشکل یہ پیش آئی کہ منظور شدہ اساتذہ ابھی تک پاکستان سے نہیں پہنچنے پائے تھے.یہ مشکل اللہ تعالیٰ نے یوں حل فرمائی کہ کا نوسیکنڈری سکول کا سٹاف پہلی ٹرم کی تعطیلات میں گساؤ میں آکر کام کرنے کے لئے تیار ہو گیا.چنانچہ پہلے برادرم رفیق احمد ثاقب صاحب وہاں پہنچے اور رہائش ، خوردونوش اور ٹرانسپورٹ کی جملہ مشکلات کو بخوشی برداشت کرتے ہوئے کئی دن وہاں ٹھہرے.اس کے بعد برادرم احتشام النبی صاحب ان کی جگہ پر پہنچ گئے.ایک کلاس یعنی فارم ون (1 Form) جاری ہو چکی تھی.اسی اثناء میں پاکستان سے برادرم محمد اسمعیل صاحب وسیم کے پہنچنے پر

Page 32

تاریخ احمدیت.جلد 27 22 سال 1971ء سٹاف کی ضرورت پوری ہوگئی.خاکسار نے انہیں لکھا کہ دوسرا سیکشن جاری کرنے کے لئے ایک اور داخلے کا امتحان منعقد کیا جائے جس کے نتیجہ میں اب کافی تعداد میں طلباء اور طالبات مل گئیں.ایک سبب یہ بھی تھا کہ ہمارے سکول کی شہرت اب مسلمان والدین اور طلبہ میں اچھی خاصی دلچسپی پیدا کرنے لگی.اور تعلیم کا بھیانک تصور جو عیسائی اداروں کی وجہ سے ان کے دلوں میں موجود تھا اب آہستہ آہستہ دور ہونے لگا.لڑکیوں کا لباس جو پاکستانی لباس کی طرز پر آستینوں والی قمیص ،شلوار اور دوپٹہ پر مشتمل تجویز کیا گیا تھا مسلمان گھرانوں میں اکثر موضوع بحث بن چکا تھا یہاں تک کہ خود عیسائی والدین بھی اسے بنظر تحسین دیکھنے لگے.ایک اخبار نویس نے اس لباس کا فوٹو دیتے وقت اسے ”حیا کا بہترین نمونہ قرار دیا.مغربی تعلیم اور بالخصوص عیسائی سکولوں میں دی جانے والی مغربی تعلیم کا خوفناک تصور دور کرنے کے لئے ابھی کچھ اور کوشش کی ضرورت تھی.اس غرض کے لئے خاکسار نے سکول کی افتتاحی تقریب منعقد کئے جانے کی تجویز کی.برادرم وسیم صاحب نے اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہوئے اس سلسلہ میں کوشش شروع کر دی.طلباء اور طالبات کی یونیفارم تیار کروائی گئیں.قرآن کریم اور حدیث میں سے دعائیں یاد کروائی گئیں بلکہ صبح کی اسمبلی میں سورۃ فاتحہ اور مسنون دعائیں روزانہ باقاعدگی سے دہرائی جاتی ہیں.طلبہ کو تقریروں کی مشق کرائی گئی.ان کے لکھنے پر کہ وہ اب افتتاح کے لئے تیار ہیں خاکسار نے ۸ جولائی کی تاریخ مقرر کر کے انہیں افسرانِ بالا سے رابطہ پیدا کرنے کی ہدایت کی.چنانچہ برادرم وسیم صاحب سکوٹو جا کر سیکرٹری ملٹری گورنمنٹ جناب الحاجی عبد اللہ کورے محمداور کمشنر تعلیم جناب الحاجی ابراہیم گساؤ سے ملے.مؤخر الذکر نے افتتاح کی صدارت کو بخوشی قبول کر لیا.مقامی طور پر گساؤ کے چیف جو سارکن کوڈ وSarkin Kudu (رئیس قطر جنوبی ) کے نام سے مشہور ہیں اور دیگر حکومت کے افسران سے رابطہ پیدا کیا گیا.دعوت نامے چھپوا کر کم و بیش پانچ صد افراد میں تقسیم کئے گئے.افتتاح کے دن سکول کی عارضی عمارت کو جو انصار الدین سوسائٹی کے پرائمری سکول کا حصہ ہے رنگین جھنڈیوں اور قطعات سے مزین کیا گیا.پنڈال میں بارش اور دھوپ کے ڈر سے تر پال لگوا کر ان سے شامیانوں کا کام لیا گیا جو از خود ایک اچھا خاصا کام تھا خصوصاً اس صورت میں کہ یہاں شامیانوں کا رواج نہیں.چونکہ یہ سب چیزیں مقامی لوگوں کے لئے نئی بلکہ عجوہ تھیں اس لئے اکثر کام وسیم صاحب کو خود ہی کرنے پڑے اور حکومت جو کام سینکڑوں پونڈ خرچ کر کے کرتی ہے وہ انہوں نے

Page 33

سال 1971ء تاریخ احمدیت.جلد 27 23 چند پونڈ سے بلکہ بعض صورتوں میں بلا قیمت کروا لئے.مشروبات کا انتظام مقامی طور پر اور اشیاء خوردنی از قسم بسکٹ، کیک وغیرہ کا کانو سے کیا گیا.خاکسار افتتاح میں شمولیت کی غرض سے لیگوس سے کا نو اور وہاں سے برادرم ثاقب صاحب اور مقامی مبلغ معلم ابراہیم بچی کی معیت میں گساؤ پہنچا.نائیجیر یا جماعت کے جنرل سیکرٹری برادرم احمد رفاعی اوٹو لے بھی خاکسار کے ہمراہ تھے.مکرم ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب جو پاکستان جانے کی تیاری میں مصروف تھے خود تو شامل نہ ہو سکے مگر انہوں نے اپنی وین سفر کے لئے پیش کر دی.سکوٹو سے برادرم عبدالمجید صاحب بھٹی اور چوہدری حمید احمد صاحب بھی پہنچ گئے.گساؤ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ کمشنر صاحب تعلیم اپنے مستقل سیکرٹری جناب الحاجی محمد بیلو کے ساتھ رات کو ہی پہنچ چکے ہیں.دوسرے دن ساڑھے دس بجے کا وقت افتتاح کے لئے مقرر تھا.طلباء، طالبات اور ان کے والدین کے علاوہ شہر کا معزز طبقہ اچھی خاصی تعداد میں موجود تھا.سیکنڈری سکولوں کے اساتذہ اور پرنسپل، سرکاری محکموں کے حکام، عیسائی اداروں کے سر براہ سبھی آئے ہوئے تھے.سارکن کوڈ والحاجی سلیمان اپنے تیس سرداروں کے ساتھ آیا ہوا تھا.سلطان آف سکوٹو خود تو نہ آ سکے مگر انہوں نے اپنی کونسل کے ایک ممبر کو جو اتفاق سے ان کا اپنا صاحبزادہ ہی ہے اپنی نمائندگی کرنے کے لئے بھجوایا.اسی طرح مسٹر انگولو پرنسپل سکول آف بیسک سٹڈیز احمد و بیلو یو نیورسٹی زار یہ بھی شامل ہوئے.افتتاح کی تقریب کمشنر صاحب تعلیم جناب الحاجی ابراہیم گساؤ کی صدارت میں تلاوت قرآن پاک سے شروع ہوئی جو سکول کے ایک طالب علم نے کی.اس کے بعد سکول کے ایک ٹیچر نے معزز مہمانوں کا تعارف کرایا.ایک اور طالب علم نے سورۃ فاتحہ اور مسنون دعائیں دہرائیں.چارط نے مختلف موضوعات پر مقالے پڑھے جن میں سے ایک طالبہ مس ذکرت بشیر کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا.اس انعامی مقابلے کے بعد پرنسپل سکول برادرم محمد اسمعیل صاحب وسیم نے آنریبل کمشنر کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں بتایا کہ یہ سکول حضرت امام جماعت احمدیہ کی اعلان فرمودہ نصرت جہاں سکیم کے ماتحت کھلنے والے سکولوں میں سے پہلا سکول ہے.سکول کی غرض و غایت، موجودہ صورتِ حال، مستقبل کا پروگرام اور ابتداء میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے حکومت سے تعاون کی اپیل کی.ایڈریس کے جواب میں آنریبل کمشنر نے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ ایک مسلمان ادارہ تعلیمی میدان میں ان کا ہاتھ بٹانے کے لئے آگے آیا ہے.انہوں نے طلباء

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد 27 24 سال 1971ء ذکر کیا کہ ان کی ریاست میں کل ۲۹ ثانوی سکول ہیں جن میں سے ۱۶ پرائیویٹ اداروں کی طرف سے کھولے گئے ہیں.یہ کہ احمد یہ مشن وہ پہلا مسلمان ادارہ ہے جو ان کی ریاست میں ثانوی سکول کھول رہا ہے.انہوں نے ابتدائی مشکلات پر صبر و استقلال کے ساتھ قابو پانے کی تلقین کرتے ہوئے حکومت کی طرف سے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا.آخر میں خاکسار نے اپنی تقریر میں طلباء کو خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ علم کا سر چشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.سچا اور صحیح علم اسی کی طرف سے آتا اور اسی ہستی کی طرف راہنمائی کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جتنے بڑے بڑے سائنسدان اور ماہرین علوم ہوئے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے.اس امر کی دلیل کہ علم واقعی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتا ہے یہ ہے کہ شروع شروع میں تمام علوم صنعت و حرفت بلکہ اشیاء کے نام اور زبان کے قواعد تک خدا تعالیٰ کی طرف سے براہ راست بذریعہ انبیاء دنیا کو سکھائے گئے.بعد میں جب انسانی دماغ نے ترقی کی تو براہ راست راہنمائی کی ضرورت نہ رہی بلکہ وحی خفی کے ذریعہ انسان کی راہنمائی کی جاتی رہی.جیسا کہ بہت سی اہم ایجادات اور سائنسی انکشافات حادثاتی طور پر انسان پر ظاہر ہوئے جن کے پس پردہ ایک مدبر بالا رادہ ہستی کے وجود کا پتہ چلتا ہے اور آخر میں قرآن کریم کی کامل اور آخری وحی کے ذریعہ انسان کو آئندہ ظاہر ہونے والے علوم بتلائے گئے جن میں سے کچھ تو ظہور میں آچکے ہیں اور کئی ایک ابھی تک سر بستہ راز ہیں جو آئندہ اپنے اپنے وقتوں پر ظاہر ہوں گے.اس لئے علم کے میدان میں صحیح راہنمائی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس سر چشمہ علوم کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کے ساتھ تعلق بڑھایا جائے.اس تقریر کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضرین پر نہایت عمدہ اثر ہوا جس کا پتہ ان تاثرت سے چلتا ہے جو بعد میں کئی ایک دوستوں نے اپنے اپنے رنگ میں بیان کئے.تقریب کے اختتام سے پہلے نائیجیریا کا قومی ترانہ طلباء اور طالبات نے اکٹھے کھڑے ہو کر گایا جس کے بعد صاحب صدر کے ارشاد پر خاکسار نے خاموش دعا کروائی اور اس طرح پر یہ مبارک تقریب نہایت خیر و خوبی کے ساتھ انجام پذیر ہوئی.اس دن کا دو پہر کا کھانا پرنسپل صاحب کی طرف سے آنریبل کمشنر کو پیش کیا گیا تھا.چنانچہ وہ اور ان کے مستقل سیکرٹری وقت معینہ پر تشریف لائے.کھانا ایک پاکستانی دوست نے اپنے گھر پر تیار

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد 27 25 سال 1971ء کر کے بھجوادیا.کھانے کے دوران کمشنر صاحب نے کئی بار اور مختلف پیرایوں میں ہماری کوششوں پر خوشی کا اظہار کیا اور ایسے عناصر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے جو رستے میں حائل ہونے کی کوشش کریں گے قدم آگے بڑھائے جانے کا مشورہ دیا.تقریب کی کارروائی حکومت کے بلیٹن میں تفصیل کے ساتھ شائع ہونے کے علاوہ تین چار بار شمالی علاقہ کے ریڈیو پر نشر ہوئی.نیز ملک کے دو بڑے اخباروں نے تصاویر کے ساتھ اس کا رروائی کو شائع کیا.29 ۲.احمد یہ سیکنڈری سکول منا (Minna) نائیجیریا دوسرے سیکنڈری سکول کی بنیاد ” منا میں ۱۷ مارچ ۱۹۷۱ء کو رکھی گئی اور اسی تاریخ سے اس نے با قاعدہ کام شروع کر دیا.۱۷ مارچ سے ۶ جولائی تک اس سکول کو کانو سیکنڈری سکول کے ٹیچر احتشام النبی صاحب اور شکیل منیر صاحب اور ان کی بیگم چلاتے رہے.شکیل منیر صاحب ان دنوں ایک عیسائی سکول میں ٹیچر تھے اور وقف عارضی کے تحت اپنی رخصت خدمت دین کے لئے وقف کر کے اس احمد یہ درس گاہ کے عارضی انچارج کی حیثیت سے مصروف عمل رہے تا آنکہ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد یعقوب خان صاحب ایم اے ایم کام نے 4 جولائی ۱۹۷۱ء کو اس کا چارج سنبھال لیا اور ۱۸ جولائی کو اس کا رسمی افتتاح عمل میں آیا.اس تقریب میں نائیجیریا کے ایجوکیشن کمشنر نے مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی اور صدارت کے فرائض ”منا“ کے چیف الحاج احمد بلا گو نے ادا فرمائے.سکول کے پرنسپل محمد یعقوب خان صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد مولا نا فضل الہی صاحب انوری امیر جماعتہائے احمدیہ نائیجیریا نے استقبالیہ ایڈریس پڑھا جس میں حکومت کے تعاون کا شکر یہ ادا کرنے کے علاوہ نصرت جہاں سکیم کے آئندہ پروگرام پر تفصیل سے روشنی ڈالی.جوابی تقریر میں جناب ایجوکیشن کمشنر نے حکومت کے تعلیمی منصوبوں کو کامیاب بنانے کے سلسلہ میں احمد یہ مشن کی بے لوث مساعی کو سراہا اور خراج تحسین پیش کیا اور حکومت کی طرف سے پورے پورے تعاون کا یقین دلایا.تقریب کے صدر جناب الحاج احمد بلا گو نے سکولز کھولنے اور انہیں کامیابی سے چلانے کے سلسلہ میں احمد یہ مشن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی تعریف کی.بعد ازاں جناب ایجو کیشن کمشنر نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سکول کے افتتاح کا اعلان فرمایا.افتتاحی تقریب میں پانچ سومہمانوں نے

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد 27 26 سال 1971ء شرکت کی.ان میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ سیکرٹری ایجوکیشن ڈویژنل سیکرٹری منا، دیگر اعلیٰ سرکاری حکام اور چرچ کے سر بر آوردہ نمائندے شامل تھے.30 احمد یہ سیکنڈری سکول پائسن (Potsin) غانا اس سکول کی بنیاد جون ۱۹۷۱ء میں ایک شاندار تقریب کے دوران رکھی گئی جس میں پیراماؤنٹ چیف سمیت ایک ہزار افراد شامل تھے.اس موقع پر مولانا بشارت احمد صاحب بشیر نے مسلمانوں کی تعلیمی خدمات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ مسلمانوں نے بغداد اور سپین میں عظیم الشان یو نیورسٹیاں قائم کیں.ابن رشد اور بوعلی سینا جیسے ممتاز مسلم سائنسدانوں کا فلسفہ اب تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے.حاضرین اس خطاب سے بہت متاثر ہوئے.31 ۴.احمد یہ سیکنڈری سکول سلا گا.غانا نصرت جہاں اسکیم کے تحت غانا میں تیسرے احمد یہ سیکنڈری سکول کا باضابطہ افتتاح سلاگا نامی قصبہ میں ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ کو عمل میں آیا.سکول میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد ۱۱۳ تھی جنہیں ۵ اساتذہ تعلیم دینے پر مقرر تھے.سکول کے ہیڈ ماسٹر مکرم محمد اشرف صاحب چوہدری پاکستان سے یکم را کتوبر کو غانا پہنچے.امیر جماعتہائے احمدیہ غانا و مبلغ انچارج غانا مشن مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے سکول کی شایان شان عمارت کی تعمیر کے لئے ہیں ایکٹر رقبہ کا ایک قطعہ زمین منتخب کیا 32.۵.نصرت سینئر سیکنڈری سکول بانجل.گیمبیا ۴ مئی ۱۹۷۰ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے دست مبارک سے نصرت ہائی سکول بانجل کا سنگ بنیاد رکھا جو نصرت جہاں سکیم کے تحت گیمبیا میں قائم ہونے والا پہلا سکول تھا.اس کی کلاسیں اسی سال شروع ہو گئیں مگر اس کا باضابطہ افتتاح وسط اکتو بر ۱۹۷۱ء میں ہوا جس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۷۱ء کے موقع پر فرمایا کہ:.اب گیمبیا سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں ہمارے سکول کا افتتاح ہو گیا ہے وہاں سے یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ وہاں کا جوسب سے بڑا یعنی لاٹ پادری ہے اس نے

Page 37

تاریخ احمدیت.جلد 27 27 سال 1971ء اپنا بیٹا ہمارے سکول میں داخل کروا دیا ہے.کسی نے اس سے کہا بھی کہ یہاں تو قرآن کریم ضرور پڑھائیں گے.اس نے کہا بیشک پڑھا ئیں میں تو اپنے بچے کو یہیں داخل کرواؤں گا.علاوہ ازیں بعض پیرا ماؤنٹ چیفس کے بچے والدین سے لڑتے ہیں کہ ہم نے ”احمدیہ میں داخل ہونا ہے.افریقہ کی زبان میں ”احمدیہ سے مراد احمد یہ سکول ہے چنانچہ وہ خالی احمد یہ کہتے ہیں کہ ہم نے احمدیہ میں داخل ہونا ہے یعنی ہم احمدیوں کے سکول میں جائیں گئے.33 اس سکول کا افتتاح وزیر تعلیم الحاج ای گار با جمپا (Alhaj E.Garba Jahumpa) نے کیا.سکول کے پہلے پرنسپل جناب نسیم احمد صاحب تھے.ان کے ساتھ پہلے شامل ہونے والے اساتذہ میں سے ان کی بیگم صاحبہ بیگم نگہت نسیم صاحبہ کے علاوہ دو گیمبیا سے مقامی احمدی اسا تذہ جناب ابراہا ایم بو اور عمر کیسے تھے.سکول میں پہلے داخل ہونے والے طلباء کی تعداد ۲ے تھی اور ابتدائی طور پر سکول کی عمارت 3 کمروں پر مشتمل تھی.اگلے دو سالوں میں سکول کے پہلے بلاک کی تعمیر کا کام مکمل ہو گیا.۱۹۷۴ء میں U.S.A ایمبیسی کی مالی مدد سے سکول کا نیا حصہ سائنس بلاک تعمیر ہوا.۱۹۷۵ء تک جب سکول ہر طرح سے اچھی طرح چلنا شروع ہو گیا جو نہی سکول میں ہر قسم کا فرنیچر، سائنسی سامان اور عمارت سب چیزیں مکمل ہو گئیں تو گیمبیا کی حکومت نے اسے حکومت کے تحت چلانے کا ارادہ کیا اور اسی طرح سکول کے ٹیچرز کی تنخواہ وغیرہ حکومت نے دینا شروع کر دی.یہ اعزاز سب سے پہلے ملک میں اس سکول کو حاصل ہوا کہ اس نے پہلی دفعہ اسلامی تعلیمات، معاشیات، شماریات اور عربی کو بطور سکول مضامین متعارف کروایا.34 احمد یہ سیکنڈری سکول آسوکورے.خانا اس سکول کی بنیاد نومبر ۱۹۷۱ء کے اوائل میں رکھی گئی.پاکستانی ہائی کمشنر ایس اے معید صاحب مقیم غانا نے اس سکول کی عمارت کا سنگ بنیا درکھا.آپ نے آسوکورے میں احمد یہ ہسپتال کا بھی معاینہ فرمایا.35 سے تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری ووکیشنل سکول اسار چر.غانا اسار چرغانا کے دارالخلافہ اکرہ سے ۵۵ میل کے فاصلہ پر سینٹرل ریجن میں واقع ہے.یہ وہ

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد 27 28 سال 1971ء جگہ ہے جہاں چیف مہدی آپا نے پہلا احمدی ہونے کا شرف حاصل کر کے اس مقام کو جماعت احمد یہ افریقہ کی تاریخ میں انتہائی اہم مقام دلوایا تھا.یہاں سکول کے قیام کیلئے ۷۰ را یکٹر زمین حاصل کی گئی جو انتہائی خوشنما مقام پر ہے.زمین کے حصول میں علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف کا خصوصی تعاون حاصل رہا.زمین کے حصول اور دیگر مراحل سے گزرنے کے بعد مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر نے ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سکول کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا.اگلے سال ۱/۳ اکتوبر ۱۹۷۲ء کو انہی کے ہاتھوں اس سکول کا افتتاح بھی عمل میں آیا.سکول کے پہلے پرنسپل نصیر احمد صاحب چوہدری تھے..احمد یہ سیکنڈری سکول روکو پر.سیرالیون 36.اس سیکنڈری سکول کا با قاعدہ رسمی افتتاح ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء بمقام روکو پر عمل میں آیا.مکرم سید منصور احمد صاحب بشیر مبلغ سیرالیون تحریر فرماتے ہیں کہ افتتاح کے لئے ہمارے احمد یہ پرائمری سکول کا وسیع میدان تجویز کیا گیا جس میں سیکنڈری اور پرائمری سکول کے اساتذہ اور طلباء نے نہایت محنت اور عرقریزی سے ایک کشادہ اور خوبصورت پنڈال یہاں کے رواج کے مطابق بانس اور پام کے بڑے بڑے پتوں سے تیار کیا.اس طرح سامعین کی ایک بڑی تعداد کے لئے سائے کا انتظام کیا گیا.اس پنڈال کو کپڑے کے مختلف قطعات سے مزین کیا گیا.مہمان خصوصی آنریبل ریذیڈنٹ منسٹر صوبہ شمالی کی تشریف آوری پر سب سے پہلے ملکی ترانہ گایا گیا اور اس کے بعد مکرم جنرل سیکرٹری صاحب نے معزز مہمان کا تعارف کرایا اور آپ کی ملک وقوم کے لئے خدمات جلیلہ کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا.تلاوت اور نظم کے بعد آنریبل ایس اے کیسے ممبر آف پارلیمنٹ نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا.آنریبل کیسے کے بعد مکرم مولانا محمد صدیق صاحب شاہد مبلغ انچارج کا امیر جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون نے مغربی افریقہ میں عمومی طور پر اور سیرالیون میں خصوصی طور پر سکولوں کے اجراء اور ان کی اہمیت کے متعلق ایک مختصر تقریر فرمائی.افتتاحی تقریب میں پیراماؤنٹ چیف، پارلیمنٹ کے ممبر، ڈسٹرکٹ آفیسرز، اس علاقہ کے عیسائی اور گورنمنٹ سیکنڈری اور پرائمری سکولوں کے پرنسپل اور ہیڈ ماسٹر ، اسی طرح سیکشن چیف اور مقامی کورٹ کے پریذیڈنٹ شامل ہوئے.حاضرین کی کل تعداد دو ہزار کے قریب تھی.37

Page 39

تاریخ احمدیت.جلد 27 29 سال 1971ء پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا نیا اعزاز اس سال کے آغاز میں پاکستان کے شہرہ آفاق سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو روس کی اکیڈمی آف سائنسز (Academy of Sciences) نے اپنا غیر ملکی رکن منتخب کیا جو ایک نیا اور قابل فخر عالمی اعزاز تھا.چنانچہ پاکستان کے مشہور اخبار امروز (لاہور) نے اپنی ۲ مارچ ۱۹۷۶ء کی اشاعت میں لکھا:.نامور پاکستانی سائنسدان پروفیسر عبد السلام کو روس کی اکیڈمی آف سائنسز نے اپنا غیر ملکی رکن منتخب کیا ہے.موصوف کو اس سے پہلے کئی دوسرے ملکوں کے سائنسی اداروں کی رکنیت کا اعزاز حاصل ہے.آپ نظری طبیعات کے بین الاقوامی ادارہ (ٹریسٹ.اٹلی ) کے صدر رہ چکے ہیں.امپیریل کالج لنڈن سے ان کی وابستگی خاصی دیرینہ ہے.وہ اس شہرہ آفاق درسگاہ میں نظری طبیعیات کے پروفیسر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے آئے ہیں.ڈاکٹر عبدالسلام پہلے ایشیائی اور دولت مشترکہ کے کسی ملک کے پہلے اور واحد سائنسدان ہیں جنہیں برطانیہ کی کسی یونیورسٹی میں سائنسی فیکلٹی کا صدر مقرر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.پروفیسر رادھا کشن (سابق صدر ہند ) کو ایک زمانہ میں آکسفورڈ یو نیورسٹی میں یہ اعزاز حاصل ہوا تھا.لیکن وہ ہندوستانی فلسفہ کے شعبہ کے صدر تھے.پروفیسر عبد السلام ۱۹۲۶ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے.پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کی ڈگریاں لیں.وہ میٹرک سے لے کر ایم اے تک ہر امتحان میں اول آتے رہے.۱۹۴۴ء میں انہوں نے بی اے کے امتحان میں ریکارڈ قائم کیا جو ابھی تک کسی نے نہیں تو ڑا.۱۹۴۶ء میں ایم اے کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کرنے کے صلے میں انہیں حکومت کی طرف سے وظیفہ ملا اور وہ اعلیٰ م کیلئے کیمبرج (انگلستان) چلے گئے جہاں انہوں نے ۱۹۴۸ء میں ریاضی اور ۱۹۴۹ء میں طبیعات کے امتحانات اعزاز کے ساتھ پاس کئے تعلیمی قابلیت اور ذہانت کے پیش نظر انہیں سینٹ جان کیمبرج اور پریسٹن امریکہ کے تحقیقی ادارے کا فیلو مقرر کر لیا گیا.۱۹۵۱ء میں وہ واپس پاکستان آئے تو انہیں گورنمنٹ کالج کے شعبہ حساب کا صدر اور اس سے اگلے سال پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کا صدر مقرر کیا گیا.۱۹۴۹ء میں جب پروفیسر عبدالسلام کیمبرج سے روانہ ہونے لگے تو امپریل کالج لنڈن کے شعبہ حساب وطبیعات کے صدر پروفیسر لیوی نے پیشگوئی کی تھی کہ اگر پاکستان

Page 40

تاریخ احمدیت.جلد 27 30 سال 1971ء پروفیسر عبد السلام سے کوئی مفید کام نہ لے سکا تو وہ اپنے لئے امپریل کالج کے دروازے ہر وقت کھلے پائیں گے.ان کی پیشگوئی درست ثابت ہوئی.۱۹۵۴ء میں پروفیسر عبدالسلام کو کیمبرج یونیورسٹی میں حساب کے لیکچرر کی حیثیت سے کام کرنے کی پیشکش کی گئی جو انہوں نے قبول کر لی.۱۹۵۷ء میں انہیں پروفیسر لیوی کی جگہ شعبہ علم الحساب کا صدر مقرر کیا گیا.پروفیسر عبد السلام نے ابتدا اپنی پوری توجہ کو اٹم تھیوری آف فیلڈز پر مرکوز رکھی.اس کے بعد وہ ایلی منٹری پارٹیکلز کی طرف متوجہ ہوئے.علم الطبیعات کے ان دونوں میدانوں میں انہوں نے قابل قدر اور گراں مایہ تحقیقی کام کیا.پروفیسر عبد السلام مختلف ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں اور وہاں کے سائنسدانوں کے اجتماعات میں طبیعات کے متعلق بڑے پر مغز لیکچر دے چکے ہیں.ان کا شمار طبیعات کے چند گنے چنے سائنسدانوں میں ہوتا ہے.۱۹۵۸ء کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی نے ان کی قابل قدر خدمات کے اعتراف میں انہیں ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی ڈگری عطا کی.۱۹۵۸ء میں کیمبرج فلاسفیکل سوسائٹی نے انہیں ہاپکنز انعام دیا ( یہ انعام نوبل انعام یافتہ سائنسدان سر فریڈرک با پکنز Sir Frederick Hopkins ولادت ۶۱ ۱۸ ء وفات ۱۹۴۷ء کے نام سے منسوب ہے).یہ انعام ہر تین سال میں علم الحساب اور طبیعات کے میدان میں بہترین نظری کام کرنے کے سلسلہ میں دیا جاتا ہے.اب تک جن ممتاز سائنسدانوں کو یہ انعام ملا ہے ان میں پروفیسر بلیکٹ اور سر جان کاک کرافٹ کے علاوہ چار اور نوبل انعام یافتہ سائنسدان بھی شامل ہیں.اگست ۱۹۶۱ء میں انہیں صدر پاکستان کا مشیر علی برائے سائنسی اور مقرر کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک نشان جماعت احمد یہ عالمگیر کے احباب کو اس بات کا بخوبی تجربہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ خلفاء کی دعاؤں کو بکثرت شرف قبولیت بخشتا ہے اور اس طرح احباب جماعت کے ایمان و عرفان میں ترقی کا سامان کرتا رہتا ہے.امر واقعہ تو یہ ہے کہ خلفاء کرام کی قبولیت دعا کے واقعات سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تک پہنچے ہوئے ہیں.اس لئے ہر ایک کا ذکر کرنا تو ممکن نہیں ہو سکتا لیکن بعض واقعات اپنی اہمیت کے اعتبار سے بیان کر دیئے جاتے ہیں چنانچہ ایک ایسا ہی واقعہ پیش خدمت ہے.یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ اس سال چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ امیر جماعت احمدیہ ضلع

Page 41

تاریخ احمدیت.جلد 27 31 سال 1971ء ساہیوال پر مخالفین احمدیت کی طرف سے ایک جھوٹا مقدمہ قائم کر کے سخت طوفانِ بدتمیزی برپا کیا گیا.یہ ایک سخت ابتلا تھا اور بہت بھاری آزمائش جس کے دوران آپ نے صبر و ثبات اور رضا بالقضاء کا بہترین نمونہ دکھا یا بالآخر خدا کے فضل اور خلیفہ وقت اور بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے آپ اس مقدمہ سے باعزت طور پر بری ہوئے.چوہدری صاحب اس دور ابتلاء کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح کے مجھ پر اس قدر احسانات ہیں کہ میں ان کے شمار سے بھی قاصر ہوں.آپ نے از راہ ذرہ نوازی مجھے محبت بھرا خط لکھا اور فرمایا کہ ” خدائے رحمان سے، خدائے غفار سے دعا کر رہا ہوں رحمت کی امید رکھیں“.اور بالآخر آپ کی دعائیں رنگ لائیں اور خدائے رحمان اور خدائے غفار نے مجھے باعزت بری کیا نہ صرف یہ بلکہ اس قادر و توانا خدا نے اپنے پیارے خلیفہ کو پہلے سے میری بریت سے بھی مطلع فرما دیا.چنانچہ ایک بار جبکہ میرے بھائی عزیز نصیر احمد اور میری اہلیہ محترمہ نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر التجا کی کہ حضور دعا کریں کہ ضمانت ہو جائے تو حضور نے فرمایا ضمانت کا تو ہمیں خیال بھی نہیں آیا مجھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع دی ہے کہ بری کر دیئے گئے.چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.فالحمد للہ علی ذالک اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور خلافت احمدیہ کی حقانیت اور دائمی برکات کی ایک زندہ مثال ہے.چه غم داری داری چه خدا داری 38 مغربی افریقہ جانے والے ڈاکٹرز کے اعزاز میں الوداعی تقریب مجلس نصرت جہاں کی طرف سے ۱۳ مارچ ۱۹۷۱ء بعد نماز عصر اُن تیرہ مشنری ڈاکٹر صاحبان کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جو نصرت جہاں کے پروگرام ” آگے بڑھو کے زیر اہتمام طبی خدمات بجالانے کی غرض سے عنقریب مغربی افریقہ روانہ ہونے والے تھے.وسیع پیمانہ پر منعقد ہونے والی اس تقریب کا اہتمام قصر خلافت کے عقبی صحن میں کیا گیا تھا اس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی ازراہ شفقت شرکت فرمائی.اُس روز حضور کی طبیعت کمر کے نچلے حصہ میں درد اور ہلکے چکروں کی تکلیف کے باعث کسی قدر ناساز تھی.اس کے باوجود حضور کمال درجہ شفقت کا اظہار فرماتے ہوئے اس تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے.

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد 27 32 سال 1971ء حضور کی علالت کے پیش نظر خاصے طویل عرصہ سے احباب جماعت اپنے پیارے آقا کی زیارت اور ارشادات سے مستفیض نہ ہو سکے تھے.محرومی کے اس خاصے طویل عرصہ کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ احباب کو اپنے آقا کی زیارت کا شرف حاصل ہو رہا تھا.اس لئے احباب کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا اور حضور بھی اپنے خدام سے مل کر بے حد مسرور نظر آرہے تھے.یہ ایک عجیب پر نورو پر سرور محفل تھی.شمع کے گرد پروانوں کی طرح سب احباب اپنے آقا کے گرد جمع تھے اور کمال محویت کے عالم میں حضور کے ارشادات سے فیضیاب ہورہے تھے.اس تقریب میں صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے ناظر ووکلاء صاحبان، افسران صیغہ جات، تعلیمی اداروں کے بعض اساتذہ، مبشرین احمدیت اور ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے والے مغربی افریقہ کے طلباء کے علاوہ بیرونی جماعتوں کے امراء کو بھی مدعو کیا گیا تھا چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع لائلپور، چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ ضلع لاہور، شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج ہائیکورٹ لاہور ، چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ ضلع شیخو پورہ ، میاں بشیر احمد صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع جھنگ، حاجی محمد یعقوب صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ، ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹل سرجن لا ہور اور بعض دیگر احباب نے اس موقع پر ربوہ پہنچ کر اس خصوصی تقریب میں شرکت فرمائی.نماز عصر کے بعد جب سب احباب قصر خلافت کے عقبی صحن میں ایک نظام کے ماتحت آ جمع ہوئے تو حضور انور ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے ساتھ قصر خلافت سے باہر تشریف لائے اور صدر جگہ پر رونق افروز ہونے کے بعد مغربی افریقہ جانے والے ڈاکٹر صاحبان اور بیرونجات سے آئے ہوئے احباب کو شرف مصافحہ بخشا.اس کے بعد جملہ مہمانوں کو اردگرد دور تک لگی ہوئی میزوں پر حضور کی معیت میں چائے نوش کرنے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.حضور دیر تک ڈاکٹر صاحبان کو ہدایات سے نوازتے رہے نیز حضور نے تحدیث نعمت کے طور پر مجلس نصرت جہاں کے پروگرام آگے بڑھو‘ کے تحت ہونے والے کام اور اس کے خوشکن نتائج کا بھی ذکر فرمایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ جس کے خاص منشاء اور القاء کے ماتحت یہ پروگرام جاری کیا گیا ہے، اپنے فضل سے اس میں غیر معمولی برکت ڈال رہا ہے اور اپنی تائید و نصرت سے مسلسل نواز رہا ہے.یہ پرنور و پر سرور محفل ایک گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی.حضور طبیعت کی ناسازی کے باوجود بحمد اللہ تعالیٰ بہت ہشاش

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد 27 33 سال 1971ء بشاش تھے اور اپنے خدام سے باتیں کر کے خاص خوشی اور مسرت محسوس فرمارہے تھے اور چہرہ مبارک اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوشی سے تمتما رہا تھا.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی.39 مجلس مشاورت ۱۹۷۱ء اس سال جماعت احمدیہ پاکستان کی مجلس مشاورت ۲۶.۲۷ - ۲۸ مارچ ۱۹۷۱ء کو بمقام ایوان محمود منعقد ہوئی جس میں پانچ صد سے زائد نمائندگان ، کثیر التعداد مقامی زائرین اور بیرونجات سے تشریف لانے والے مہمانوں کو شمولیت کی توفیق ملی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے افتتاحی خطاب میں بتایا کہ اس وقت انسانیت ایک بڑے نازک دور میں سے گذر رہی ہے اور ہمارا ملک بھی.احباب جماعت کو بنی نوع انسان بالخصوص پاکستان کی سالمیت استحکام اور اس کی حفاظت کے لئے خصوصی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ صرف احمدی ہی ہیں جو ہر آن اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھتے اور اس کی قدرتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں اور علی وجہ البصیرت دعا کر سکتے ہیں.افتتاحی خطاب کے بعد حضور نے حسب ذیل کمیٹیوں کی تشکیل فرمائی.ا.سب کمیٹی صدر انجمن احمدیہ (صدر) عبد الجلیل صاحب عشرت لا ہور ۲.سٹینڈنگ سب کمیٹی زراعت (صدر ) چوہدری ادریس نصر اللہ خان صاحب ایڈووکیٹ لاہور ۳.سٹینڈنگ سب کمیٹی صنعتی تعلقات (صدر ) ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ۴.سب کمیٹی تحریک جدید و وقف جدید (لاہور) چوہدری انورحسین صاحب امیر جماعت احمد یہ ضلع شیخو پورہ.حضور کی طبیعت ۲۱ جنوری ۱۹۷۱ء کو گھوڑے سے گرنے کے باعث علیل تھی اور ڈاکٹروں نے آرام کرنے کی تاکید کر رکھی تھی اور درخواست کی کہ ایک وقت میں صرف نصف گھنٹہ سے ایک گھنٹہ تک بیٹھنا مناسب ہوگا.اس صورتحال کے باوجود حضور نے شوری کے چاروں اجلاسوں میں صدارت کے فرائض سرانجام دیئے اور اپنے بصیرت افروز خطابات کے علاوہ نمائندگان کرام کو بیش قیمت نصائح اور روح پرور ارشادات اور کلمات طیبات سے نوازا اور ایجنڈے میں درج شدہ ۹ تربیتی ، اصلاحی اور مالی امور پر فیصلے صادر فرمائے اور مجموعی طور پر ایک کروڑ ۱۳ لاکھ ۶۴ ہزار ۶ سو ۷ ۵ روپے کی آمد اور اتنی ہی

Page 44

تاریخ احمدیت.جلد 27 34 سال 1971ء رقم کے اخراجات پر مشتمل تینوں بجٹ منظور فرمائے جن کی تفصیل یہ ہے.ا.بجٹ صدر انجمن احمدیہ ۰۱،۶۵۷، ۵۳ روپے ۲.بجٹ تحریک جدید انجمن احمد یہ ۵۷،۹۸،۰۰۰ روپے ۳.بجٹ وقف جدید کل میزان ۰۰۰ ،۶۵، ۲ روپے ۶۵۷، ۶۴، ۱۳ ، ۱ روپے حضور نے ایجنڈے کی تجاویز اور سب کمیٹی صدر انجمن احمدیہ کی سفارشات پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جو بیش قیمت نصائح نمائندگان جماعت کو فرما ئیں ان میں سے نمونۂ تین کا ذکر کیا جاتا ہے.فرمایا: اول :.” نہ صرف پشتو اور سندھی میں بلکہ دنیا کی تمام اہم زبانوں میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے تراجم کا انتظام کرنا چاہیے کیونکہ حضور نے اپنی کتب میں قرآن مجید کے جو معارف و حقائق بیان فرمائے ہیں ان میں (۱) موجودہ زمانہ کے مسائل کو سلجھانے کا مواد موجود ہے.(۲) حضور علیہ السلام نے قرآنی آیات کی تفسیر اس نہج سے فرمائی ہے کہ آپ کی تفسیر کو آگے چلا کر آئندہ پیش آنے والے مسائل کو بھی حل کیا جا سکتا ہے“.دوم :.”ہمارے لئے صرف مغرب کی اندھی تقلید ہی مضر نہیں بلکہ مشرق کی اندھی تقلید بھی ضرر رساں ہے.بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو علی وجہ البصیرت ایمان پر قائم کریں.انہیں اسلام کی حسین تعلیم کا علم دیں تا کہ وہ بشاشت کے ساتھ اس پر عمل کریں اور اندھی تقلید نہ مغرب کی کریں نہ مشرق کی.حتی کہ وہ قرآن اور اسلام کی تعلیم کی بھی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ ان کی یہ تقلید علی وجہ البصیرت ہو.اس سلسلہ میں نوجوانوں کے ذہنوں میں جو خیالات اور سوالات پیدا ہوتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کا ایسے رنگ میں جواب دیں جس سے وہ پوری طرح مطمئن ہو جائیں.یاد رکھو کہ سوال کرنا انسان کو کافر نہیں بناتا بلکہ بسا اوقات سوال کا غلط جواب اسے کا فر بنا دیتا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی صحیح راہنمائی کریں تا کہ انہیں علی وجہ البصیرت ایمان ویقین حاصل ہو.

Page 45

تاریخ احمدیت.جلد 27 35 سال 1971ء ہمارا رویہ نو جوانوں کے متعلق منفی نہیں بلکہ مثبت ہونا چاہیے.جب انہیں زندہ ایمان و یقین حاصل ہو جائے گا تو پھر وہ نہ مغرب کی اندھی تقلید کریں گے اور نہ مشرق کی بلکہ وہ اسلام کی تقلید کریں گے اور ان کی تقلید علی وجہ البصیرت ہوگی“.سوم : "رشتہ ناطہ میں مشکلات کی بہت سی وجوہ ہیں مثلاً ایک وجہ یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی زیادہ پڑھ جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کے خاندانوں میں ان کا کفو نظر نہیں آتا.حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت دی ہے کہ رشتہ خاندان کے کفو میں کرو.دوسری وجہ یہ ہے کہ دعا کی نسبت عقل پر زیادہ بھروسہ کیا جاتا ہے حالانکہ رشتہ ناطہ کے سلسلہ میں حقیقی انشراح دعا سے ہی مومن کو حاصل ہو سکتا ہے.پھر بعض لوگ اس معاملہ میں پیسے کو ترجیح دے دیتے ہیں کہ رشتہ ایسی جگہ ہو جو پیسے والے ہوں حالانکہ اگر لڑکے اور لڑکی کے باقی حالات درست نہیں ہیں اور ان کی وجہ سے وہ خوش نہیں رہ سکتے تو محض پیسے کو لے کر کیا کرنا ہے.پس پیسے کا سوال بھی بعض اوقات موزوں رشتہ ڈھونڈنے میں روک بن جاتا ہے اور اس سوال کو درمیان میں لا کر خود کئی ماں باپ اچھے بھلے رشتوں کو خراب کر دیتے ہیں.جماعت کے دوستوں کو ان سب باتوں سے بچنا اور ان سے پر ہیز کرنا چاہیے.40 جامعہ نصرت ربوہ کا جلسہ تقسیم اسناد و انعامات ۱۸ / اپریل ۱۹۷۱ء بروز اتوار لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں جامعہ نصرت ربوہ کا نواں جلسہ تقسیم اسناد و انعامات منعقد ہوا.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے مبارک ہاتھوں سے انعامات تقسیم فرمائے تقسیم انعامات کے بعد حضرت سیدہ موصوفہ نے صدارتی خطبہ ارشادفرمایا.صدارتی خطاب آپ نے فرمایا کہ میں نے جامعہ نصرت ربوہ کی سالانہ رپورٹ دلی امتنان ومسرت کے جذبات کے ساتھ سنی.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس سے ہزار گنا بڑھ کر کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائے اور یہ ادارہ حقیقی معنوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کا واحد اور مثالی ادارہ بن جائے.

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد 27 36 سال 1971ء یا درکھیں کہ یہ ڈگریاں ہماری زندگیوں کا اصل مقصد نہیں ہیں.اگر ہمارا نقطہ نظر صحیح اور صالح ہو تو یہی ڈگریاں ایک اعلیٰ اور ارفع مقصد کی حامل بھی ہو سکتی ہیں.جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ مکان کی کھڑ کی رکھنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روشنی آئے لیکن اگر روشنی کا حصول ایک ضمنی مقصد ہو اور اصل مقصد یہ ہو کہ اذان کی آواز آئے تو اینٹوں گارے کی بنی ہوئی ایک بے جان کھڑکی ہمارے اعلیٰ مقصد کا حصہ بن جاتی ہے.پس ان ڈگریوں کو اس طرح حاصل کریں اور ان کو اس رنگ میں استعمال کریں کہ کاغذ کے یہ پرزے آپ کی روح کی غذا اور آخرت کی سند بن جائیں.ڈگریاں تو ہزاروں لاکھوں طالبات نے نہ صرف جامعہ پنجاب بلکہ دنیا کی دوسری یو نیورسٹیوں سے بھی حاصل کی ہوں گی مگر حاصل لطف و راحت تو یہ ہے کہ ان ڈگریوں پر رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی کی مہر کے ساتھ ساتھ رضائے الہی کی مہر بھی ثبت ہو.یہ ڈگریاں جبھی مبارک ڈگریاں ہوں گی اگر یہ اپنی ذات میں اپنا مقصد آپ بن کر نہ رہ جائیں.بلکہ یہ ڈگریاں ذریعہ ہوں، ایک وسیلہ ہوں، ایک قدم ہوں، ان منازل کی طرف جن منزلوں کی خاطر اسلام کی غیور بیبیوں اور بزرگ ماؤں نے اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں حج کر پایا تھا.آپ کے ہاتھ میں صداقت، طہارت، سادگی، صفائی، نیکی، عجز اور اخلاص کی تلوار ہو.مغرب زدہ نہ ہوں بلکہ مغرب کے آثار منہدم کرنے والی ہوں.آپ خود میں جب یہ صلاحیت پیدا کریں گی تو آئندہ زندگی میں تربیت دینے کا وصف بھی آپ میں پیدا ہو جائے گا.خود نیک ہوں کل اپنے گھروں میں نیک فضا پیدا کرنے والی اولاد کی صحیح تربیت کرنے والی ہوں اللہ تعالیٰ ہر آن آپ کے ساتھ ہو.آمین 41 فسادات ۱۹۷۱ء میں تین احمدیوں کی جانی قربانی ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان (جو ان قیامت خیز ہنگاموں کے بعد ”بنگلہ دیش کے نام سے معرض وجود میں آیا ) میں قیامت خیز ہنگامے ہوئے جس کے نتیجہ میں کروڑوں کی ملکی جائیدادیں تباہ و برباد ہوئیں وہاں ہزاروں بے گناہ قیمتی انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں.ان قیامت خیز فسادات کے دوران میمن سنگھ میں حسب ذیل تین احمدی بھائی بھی شہید ہوئے: (۱) بدیع الزمان صاحب مولکھیری (۱/۱۸ پریل)

Page 47

تاریخ احمدیت.جلد 27 37 سال 1971ء (۲) عبد الرب صاحب ( مونکھیری صاحب موصوف کے چھوٹے صاحبزادے.۱۸ را پریل) (۳) عرفان علی منشی صاحب ( ۱/۲۴ پریل )42 حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے اعزاز میں الوداعیہ ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء بروز بدھ بعد نماز عصر بمقام ایوان محمود، صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کے اعزاز میں ، جو ربع صدی تک بطور ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ بے لوث اور مخلصانہ خدمات سرانجام دینے کے بعد اپنے عہدہ سے سبکدوش ہوئے تھے، وسیع پیمانے پر الوداعی تقریب کا اہتمام کیا.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خصوصی طور پر شرکت فرمائی اور اپنی زریں اور قیمتی نصائح سے بھی نوازا.اس موقع پر صدر انجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان و کارکنان ، تحریک جدید ، وقف جدید، انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے نمائندگان بھی شامل ہوئے.تقریب کے رسمی آغاز کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا.جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ ربع صدی تک آپ نے بحیثیت ناظر اعلیٰ نہایت اخلاص ، با قاعدگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ سلسلہ کی گراں بہا خدمات سرانجام دیں.ایڈریس کے بعد دعا کی گئی.حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب نے مختصر الفاظ میں شکریہ ادا کیا.بعد ازاں حضور انور نے مہمانان کو اپنے بصیرت افروز خطاب سے نوازا.خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث حضور انور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ جو جماعتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قائم ہوتی ہیں ان کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان میں نسلاً بعد نسل ایسے فدائی کارکن پیدا ہوتے رہیں جو قربانی اور ایثار کے تسلسل کو قائم رکھیں اور اس میں کسی مرحلہ پر بھی کمی نہ آنے دیں.حضور نے فرمایا جماعت احمدیہ کے قیام کی اصل غرض غلبہ اسلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تین صدیوں تک ضرور اسلام دنیا میں غالب آجائے گا.آپ علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ تین صدیوں تک انتظار کرو بلکہ یہ آخری حد بیان فرمائی ہے.اس کے معنی یہ ہیں اور حضور کے بعض الہامات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ اگر افراد جماعت اپنے ایمان واخلاص اور اپنی

Page 48

تاریخ احمدیت.جلد 27 38 سال 1971ء قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھیں تو ۹۰ برس یا زیادہ سے زیادہ ۱۰۰ برس تک اسلام دنیا میں غالب آسکتا ہے.فطرتی طور پر ہم یہی چاہتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں غلبہ اسلام کا دن دیکھ لیں.حضور نے صدر انجمن احمدیہ کے کارکنوں سے خصوصی طور پر خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت فرمائی کہ اگر وہ مرکز میں اخلاص کے ساتھ خدمت دین کرنے کے لئے مقیم ہیں تو ان کے چہروں پر بشاشت کے آثار ظاہر ہونے چاہئیں.انہیں با اخلاق اور اسلامی شعار کا پابند ہونا چاہئیے اور ایسا نمونہ پیش کرنا چاہئیے جو اسلام اور احمدیت کی حقیقی روح کے مطابق ہو.اس ضمن میں حضور نے فرمایا کہ مسلمان مردوں کے لئے داڑھی رکھنا اور عورتوں کے لیے پردہ اسلامی شعار میں شامل ہیں.آخر میں حضور نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مرکز میں ہمیشہ ایسے کارکن عطافرما تارہے جو نیک نمونہ رکھنے والے ہوں اور اخلاص اور قربانی کے تسلسل کو قائم رکھنے والے اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت کرنے والے ہوں.43 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مجلس انصار اللہ حلقہ دار الصدر شرقی سے بصیرت افروز خطاب ۲۴ مئی ۱۹۷۱ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسجد مبارک ربوہ میں مجلس انصار اللہ حلقہ دار الصدر شرقی کے اجلاس سے بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں تین دعاؤں کی تحریک کرنا چاہتا تھا.دیر سے آپ کی ملاقات نہیں ہوئی تھی.میں نے سمجھا یہ موقع ہے، چند منٹ کے لئے چلا جاؤں.پہلی دعا کی تحریک اپنے ملک کے لئے دعا کی تحریک ہے.دوسری دعا کی تحریک اپنی جماعت کے لئے دعا کی تحریک ہے اور تیسرے خاکسار نے خود اپنے لئے دعا کی تحریک کرنی ہے.ہمارا ملک اس وقت پریشانی کے دور میں سے گذر رہا ہے.فروری کے آخر میں جب میں اپنے ملک کے لئے بہت دعائیں کر رہا تھا تو اس وقت مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور دعاؤں ہی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے غصے کو ٹالا جا سکتا ہے اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں...ہمیں اس

Page 49

تاریخ احمدیت.جلد 27 39 سال 1971ء سلسلہ میں بہت محنت کرنی پڑے گی اور دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگنا پڑے گا.ہمارے لئے تو دعا ہی دعا ہے اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تد بیر بھی دعا ہے اور دعا بھی تدبیر ہے.....پس ملک کے لئے دوست بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمارے پیارے ملک، پاکستان کی تمام پریشانیاں دور فرمائے.بیوقوف ملک دشمنوں اور تخریب پسندوں نے ہمیں کمزور کرنے اور ہمیں اقتصادی اور معاشرتی الجھنوں سے دو چار کرنے کے لئے جو منصوبے باندھے تھے وہ تو ناکام ہو چکے ہیں لیکن ان کے جواثرات باقی رہ گئے ہیں وہ بھی پوری طرح دور ہو جائیں.ہمارا دشمن ہر لحاظ سے ناکام ہو.اللہ تعالیٰ حقیقی معنے میں اور صحیح طور پر پاکستان کو پاک لوگوں کا ملک بنادے.دوسری دعا کی تحریک جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے جماعت کے لئے دعا کی تحریک ہے اگر احمدی دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبت کا جو جلوہ ظاہر ہوتا ہے اور جو ہماری روح کو تسکین بخشتا ہے، اس جلوے کے بعد ہمارا مخالف جو جہالت کے نتیجہ میں ہماری مخالفت کرتا رہتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جائے گا تو یہ غلط ہے..امت مسلمہ کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دشمن نے ایک جگہ شکست کھائی تو اس نے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کر لیا مگر خاموش نہیں رہا.ہمیشہ نئے سے نئے منصوبوں سے مسلمانوں کو تنگ کرتا آیا ہے.اب احمدیوں کو بھی ہر جگہ اور ہر ملک میں تنگ کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.مثلاً عیسائی ہیں پہلے ان کی مخالفت کا طریق اور تھا.اب انہوں نے مخالفت کا یہ طریقہ اختیار کر لیا ہے کہ ہم خدمت اسلام کے جو کام کر رہے ہیں وہ ان کے راستے میں روک ڈال رہے ہیں.مغربی افریقہ میں ہمارے بہت سارے ڈاکٹر پہنچ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ لوگوں کو شفا بھی دے رہا ہے.ایک امریکن عیسائی چند دن ہوئے (چند دن کیا پرسوں،ا ترسوں وہ یہاں تھے.دو تین دن وہ یہاں ٹھہرے ہیں ) ربوہ آئے.انہوں نے ایک افریقن

Page 50

تاریخ احمدیت.جلد 27 40 سال 1971ء عورت سے شادی کی ہے.جب میں مغربی افریقہ کے دورے پر گیا تھا تو وہ ٹیچی مان (غانا) میں مجھے ملے تھے.یہ ٹیچی مان وہ جگہ ہے جہاں ہمارے ایک افریقن مشنری عبدالوہاب آدم بڑا اچھا کام کر رہے ہیں.وہاں سے کچھ خبریں آئی ہوئی تھیں میں تو اس طرح اس امریکن دوست کے سامنے بات نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے میں نے اشارہ ہی کیا تو وہ کہنے لگے کہ نہیں! آپ کے پاس پوری خبریں نہیں پہنچیں وہ کیتھولک مشن کا ہسپتال ہے اس پر انہوں نے بڑا پیسہ خرچ کیا ہوا ہے وہاں کے کیتھولک مشنری ڈاکٹر نے ایک حبشی کو ٹھڈے مار کر اپنے ہسپتال سے باہر نکال دیا اور کہا کہ تم سارے حبشی وحشی درندے ہو.غرض ان کا اپنا تو یہ حال ہے مگر اب حال ہی میں وہاں جب ہمارا ڈا کٹر پہنچ گیا تو اندر ہی اندر انہوں نے مخالفت کی کہ یہاں اتنا بڑا مشن ہسپتال تو پہلے سے موجود ہے اب یہاں کسی نئے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے.اس لئے یہاں احمدیوں کو کوئی اور ہسپتال کھولنے کی اجازت نہ دی جائے.مگر اللہ تعالی سامان پیدا کرتا ہے وہاں کے ایک ریذیڈنٹ منسٹر یعنی وہ وزیر جو اس علاقہ میں رہتا ہے کیبنٹ میں شریک ہونے کے لئے بھی چلا جاتا ہے لیکن اپنے علاقے کے حالات اور ضروریات کو دیکھ کر حکومت سے کام کروانا یہ اس وزیر کا کام ہے اس کو ریذیڈنٹ منسٹر کہتے ہیں.یہ وزیر وہ مکان دیکھنے کے لئے پہنچے جس میں ہم اپنا ہسپتال کھولنا چاہتے ہیں.غالباً ان کے پاس رپورٹیں گئی ہوں گی کہ یہاں ہسپتال نہیں کھولنے دینا چاہیے.بہر حال جب انہوں نے مکان دیکھا.ہمارے ڈاکٹر کو دیکھا تو وہ بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے کر میں رپورٹ بھجوائی کہ احمدیوں کو یہاں ہسپتال کھولنے کی اجازت ملنی چاہیے.ویسے وہ زبانی طور پر ہمارے ڈاکٹر کو یہ کہہ گئے کہ میں تمہیں اجازت دیتا ہوں.تم یہاں اپنی پریکٹس کرو.اس میں تمہارے لئے قانونی طور پر کوئی روک نہیں ہے.البتہ جب حکومت کی طرف سے اجازت آ جائے گی تو پھر Opening Ceremony یعنی افتتاح بھی کر لینا.غرض ” ٹیچی مان“ میں ہمارے

Page 51

تاریخ احمدیت.جلد 27 41 سال 1971ء مجوزہ ہیلتھ سنٹر کا ابھی تک افتتاح نہیں ہو سکا.دوست دعا کریں کہ نہ صرف اس ہسپتال کا افتتاح ہو بلکہ دوسری جگہوں پر بھی افتتاح کے بعد افتتاح ہوتا چلا جائے.دراصل میں آپ کو اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت کے ایک جلوہ کے ظہور کے متعلق بتانا چاہتا ہوں.اس مشن ہسپتال کے ڈاکٹروں نے بعض مریضوں کو لا علاج قرار دیا ہوا تھا.ڈاکٹر جس مریض کو لا علاج قرار دے دے اس کو تو کہیں ذرا سا بھی سہارا ملنے کی امید ہو تو وہ فوراً وہاں پہنچ جاتا ہے.چنانچہ جب ہمارا ڈاکٹر وہاں پہنچا تو اسی قسم کا ایک لاعلاج مریض بھی ان کے پاس پہنچ گیا.انہوں نے اس کا علاج کیا تو اس لاعلاج مریض کو افاقہ ہونا شروع ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے اس طرح رحمت فرمائی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابھی ہمارے ہسپتال کا افتتاح عمل میں نہیں آیا مگر پچاس مریض روزانہ ہمارے ڈاکٹر کے پاس آ رہے ہیں.غریبوں کا علاج مفت ہو رہا ہے جولوگ پیسے والے ہیں وہ خود ہی کچھ نہ کچھ بطور چندہ دے جاتے ہیں.ویسے وہ لوگ اس لحاظ سے بڑے اچھے ہیں کہ اگر ڈاکٹر فیس نہ بھی مانگے تب بھی جن کے پاس پیسے ہوتے ہیں وہ خود ہی فیس وغیرہ دے جاتے ہیں یا اگر ڈاکٹر فیس نہیں لے گا تو وہ مناسب رقم چندہ کے طور پر دے جاتے ہیں بہر حال وہ پیسے ضرور دے جاتے ہیں.اس طرح مالی لحاظ سے بھی برکت حاصل ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا بھی رکھ دی ہے.اللہ تعالیٰ ہی شافی ہے یہ دوائیاں جو اس نے بنائی ہیں یہ اس کے حکم سے شفا دیتی ہیں یہ نہیں کہ آپ ہی ان کا خدا پر زور چلتا ہو یعنی خدا چاہے نہ چاہے مگر دوائی آپ کو شفا دے جائے.اس زندگی کی اصل حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ ہم کسی دوا کو اس لئے استعمال کرتے ہیں کہ ہمارے محبوب اللہ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس تو کل پر اسے استعمال کرتے ہیں کہ جس ہستی نے کسی دوا کو اپنے عام حکم یا قانون قدرت کے ماتحت بعض خواص بخشے ہیں وہی ہستی یعنی اللہ یہ حکم بھی جاری کرے گا کہ اس دوا کے خواص ہمارے جسم کی کمزوریوں کو دور کر دیں یعنی کسی دوائی کے خواص کے اثر پذیر ہونے کے لئے بھی الہی اذن کی ضرورت ہے کیونکہ شفا اللہ تعالیٰ دیتا ہے.

Page 52

تاریخ احمدیت.جلد 27 42 سال 1971ء پس مخالفت کا ہر جگہ رنگ بدل جاتا ہے لیکن مخالفت قائم رہتی ہے تا کہ جماعت سو نہ جائے.یہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے اگر ہر طرح سے بالکل امن پیدا ہو جائے تو بہت سی کمزوریاں پیدا ہو جائیں.اسی واسطے جہاں زیادہ امن ہوتا ہے وہاں کمزوریاں زیادہ جلدی نظر آ جاتی ہیں مثلاً ہمارے ربوہ میں اگر کسی آدمی میں ذرا بھی کمزوری ہو تو وہ بڑی نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے کیونکہ یہاں ہر لحاظ سے بڑا امن ہے.دوست یہ بھی دعا کریں کہ سلسلہ احمدیہ کا جو مرکز ہے وہ صحیح معنوں میں مرکز بنار ہے.....تیسرے میں نے اپنے متعلق دعا کی تحریک کرنی ہے.دوستوں کو علم ہے کہ میں گھوڑے سے گرا تھا اور گھوڑے سے آدمی گرا ہی کرتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھوڑے سے گرے A بعض دوستوں نے شبہ ڈال دیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی گھوڑے سے گرے تھے 45 غرض جو شخص بھی گھوڑے پر سوار ہوتا ہے اسے یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ میں گھوڑے سے گروں گا.یہ احساس ساتھ لگا ہوتا ہے.44 گھوڑے سے گرنے کا واقعہ پیش آیا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا.اس عمر میں ڈاکٹروں کے کہنے کے مطابق بالکل جوانی کی حالت میں جس رنگ میں ہڈی کو جڑنا چاہیے اس رنگ میں جڑ گئی ہے.پہلے ۲۱ دن کے بعد ایکسرے لیا گیا تو کیلشیم (Calcium) جس کا ہڈی میں بہت سارا حصہ ہوتا ہے اور وہ صحیح کیلشیم وہاں آ جانا چاہیے اس کو انگریزی میں Calcification کہتے ہیں یعنی ہڈی کو پورا کیلشیم مل گیا.چنانچہ جب یہ ایکسرے ہوا تو ڈاکٹر کہنے لگے کہ جس طرح جوانی کی حالت میں Calcification ہونی چاہیے تھی اس طرح ہو گئی ہے.غرض وہ ایکسرے ه رپورٹ دیکھ کر بڑے خوش ہوئے.الحمد للہ.لیکن انہوں نے یہ رائے دی کہ ابھی آپ لیٹے رہیں.جماعت پیار بھی بہت کرتی ہے.میں نے کہا ڈا کٹر کہتا ہے تو لیٹے رہیں گے.چنانچہ میں لیٹا رہا.پھر جو معالج تھے وہ اپنی ڈیوٹی کی وجہ سے آنہ سکے.دو ہفتے ان کو آنے میں دیر ہو گئی.گیارہ ہفتے مجھے لٹائے رکھا.پھر جب ڈاکٹروں نے

Page 53

تاریخ احمدیت.جلد 27 43 سال 1971ء ایکسرے لیا تو انہوں نے کہا کہ Calcification کے بعد جو دوسری مسیح ہے Consolidation کی یعنی ہڈی کے سخت ہونے کی یہ سٹیج بھی مکمل ہو گئی ہے یعنی بڑی بالکل سخت ہو گئی ہے.الحمد للہ.ڈاکٹر کہنے لگے کہ اب آپ آرام سے چلیں پھر یں اور کام کریں.چنانچہ انہوں نے چلنے پھرنے کی مکمل آزادی دے دی.ثم الحمد للہ.ادھر مجھے چونکہ گھبراہٹ تھی کہ جماعت سے ایک قسم کی دوری ہے.جتنی جلدی کہ ہو سکے میں مسجد بھی جاؤں.وہ جمعہ کا دن تھا.پہلے ڈاکٹروں نے معاینہ کیا پھر مجھے ہسپتال لے گئے ایکسرے لیا.پھر میرے پاس بیٹھے رہے.اتنے میں پلیٹ خشک ہو کر آ گئی جسے دیکھ کر انہوں نے اطمینان ظاہر کیا.جب گیارہ ساڑھے گیارہ بجے وہ رخصت ہوئے تو میں نے اپنے بچے سے کہا ذرا احتیاطاً میرا ہاتھ پکڑنا.میں دیکھوں تو سہی کہ التحیات میں بیٹھ سکتا ہوں؟ ویسے میرے گھٹنوں میں درد نہیں تھا.مجھے کچھ شبہ تھا کہ کچھ تھوڑی سی سٹف نس (Stiffness) یعنی سختی آگئی ہے.پوری طرح ان میں لچک نہیں ہے.چنانچہ بیٹھتے بیٹھتے بالکل ٹھیک حالت رہی کوئی تکلیف نہ ہوئی.لیکن جب التحیات بیٹھنے میں (جس طرح ٹانگیں ہوتی ہیں ) کوئی ایک چپے کے برابر جگہ رہ گئی تو جسم کا وزن پڑنے پر اتنا شدید اور نا قابل برداشت درد ہوا کہ آپ اتنے شدید درد کا تصور بھی نہیں کر سکتے.میں ایک طرف گر گیا کیونکہ اس وقت اٹھنا مشکل تھا.اس لئے ایک طرف گر کر میں اٹھ کھڑا ہوا.پھر میں نے ڈاکٹروں کو پیغام بھیجا کہ یہ تو ایک اور بیماری آگئی ہے.میرے گھٹنے سخت ہو گئے ہیں.انہوں نے کہا گیارہ بارہ ہفتے تک آپ لیٹے رہے ہیں.گھٹنے سخت ہو گئے ہیں.آپ چلیں گے تو ٹھیک ہو جائیں گے.خیر وہ چلنا پھرنا شروع کیا.ساتھ ہی قریباً روزانہ چیک کرتا تھا پھر جب چار انگل کی بجائے قریباً دو انگل کی سختی رہ گئی تو مجھ پر نقرس کا حملہ ہو گیا اس تکلیف نے مجھے پھر لٹا دیا.پھر گھٹنوں کی سختی دوبارہ چار انگل تک پہنچ گئی.مگر اللہ تعالیٰ نے شفا دی اب میرا اندازہ یہ ہے کہ ایک انگل سے کچھ کم تختی رہ گئی ہے.میری بڑی خواہش ہے آپ دعا بھی کریں.اللہ تعالیٰ ہی فضل کرنے والا ہے.اگلے

Page 54

تاریخ احمدیت.جلد 27 44 سال 1971ء جمعہ تک یہ بھی دور ہو جائے تو میں یہاں مسجد میں آکر جمعہ کی نماز پڑھاؤں.کیونکہ میری طبیعت میں یہ حجاب ہے کہ میں کرسی پر بیٹھ کر مسجد میں نماز پڑھوں.اللہ تعالیٰ نے جب یہ اجازت دی ہے کہ بیمار آدمی گھر میں نماز پڑھے تو میں اس اجازت سے فائدہ اٹھاتا ہوں لیکن مسجد میں آنا بھی چاہتا ہوں بڑا بے چین رہتا ہوں“.46 شیخ روشن دین تنویر صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب جماعت احمدیہ کے اس نامور صحافی، اعلیٰ درجہ کے مضمون نویس اور عظیم شاعر (ولادت ۲۰ اپریل ۱۸۹۲ء.بیعت ۱۹۴۰ء.وفات ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء) نے سکاچ مشن ہائی سکول سیالکوٹ سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کا امتحان پاس کیا.آپ کے استادوں میں شمس العلماء مولانا سید میرحسن صاحب بھی تھے.جن سے علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال شاعر مشرق کو شرف تلمذ حاصل تھا.۱۹۲۳ء میں لاء کالج لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۴۶ ء تک وکالت کرتے رہے.آپ کو شروع سے ہی شعر و شاعری سے تعلق تھا اور آپ بلند علمی وادبی ذوق رکھتے تھے.۱۹۲۱ء سے ۱۹۴۵ ء تک آپ کی متعد نظمیں ملک کے مشہور رسائل ( مثلاً نیرنگ خیال، ہمایوں، نگار اور ادبی دنیا وغیرہ ) میں شائع ہوئیں اور بہت پسند کی گئیں.47 آپ پہلی مرتبہ ۱۹۳۹ء کے جلسہ جو بلی کے موقعہ پر قادیان دارالامان تشریف لے گئے اور نظام سلسلہ اور حضرت مصلح موعود کی بے مثال تقاریر سے بہت متاثر ہوئے.بایں ہمہ پکے غیر احمدی رہے.قادیان سے روانگی کے بعد ریل میں اتفاقاً ایک احمدی سے حضرت مصلح موعود کی تقریر انقلاب حقیقی کے مطالعہ کا موقع ملا.اس کتاب نے ایسا فوری اثر دکھایا کہ آپ دل سے احمدی ہو گئے اور سیالکوٹ واپس پہنچ کر بیعت کا فارم پر کر دیا.48 سلسلہ احمدیہ میں منسلک ہونے سے پیشتر بھی بحیثیت شاعر آپ کو شہرت حاصل تھی مگر احمدیت کے نور سے منور ہونے کے بعد آپ کی نظم و نثر میں خاص جوش اور ولولہ آفرینی پیدا ہوگئی اور آپ کی علمی و قلمی صلاحیتیں سلسلہ احمدیہ کے لئے وقف ہو گئیں اور آپ کا شعر وسخن کا فطرتی ذوق خالصتاً احمدیت کے رنگ میں رنگین ہو گیا.جس کے بعد آپ نے متعدد محققانہ مضامین احمدیت کے علم کلام کی تائید میں لکھے جوسلسلہ کے جرائد میں اشاعت پذیر ہوئے.بالآ خرسید نا حضرت مصلح موعود کی جو ہر شناس

Page 55

تاریخ احمدیت.جلد 27 45 سال 1971ء نظر نے آپ کو جماعت احمدیہ کے آرگن روز نامہ الفضل کی ادارت کے لئے چن لیا چنانچہ آپ سیالکوٹ سے ہجرت کر کے قادیان آگئے اور ۱۶ / اکتوبر ۱۹۴۶ء سے بطور رایڈیٹر الفضل کام کرنے لگے.اس اہم اور نازک ذمہ داری کو آپ نے مسلسل ۲۵ برس یعنی اپریل ۱۹۷۱ء کے آخر تک نہایت احسن رنگ میں نبھایا.اس اثناء میں جماعت احمدیہ پر ہجرت قادیان ۱۹۴۷ء اور فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء جیسے نازک وقت آئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر موقع پر جماعت احمدیہ کی بہترین ترجمانی کرنے کی توفیق بخشی.آپ کے قلم سے متعدد ایسے قیمتی اور اہم مضامین اور اشعار نکلے جو خدا کے خاص تائید و نصرت کے مظہر معلوم ہوتے تھے.49 آپ کے اعزاز میں سے جون ۱۹۷۱ء کو دفتر الفضل کی طرف سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کی صدارت میں ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.جناب مسعود احمد خانصاحب دہلوی ایڈیٹر الفضل نے الوداعی ایڈریس پڑھا جس میں آپ کے ۲۵ سالہ قلمی جہاد پر خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا:.محترم تنویر صاحب کی خوش بختی اور خوش نصیبی اس لحاظ سے قابل رشک ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت سلسلہ عالیہ احمدیہ کے آرگن روز نامہ ”الفضل“ کی ادارت کی ذمہ داریاں مسلسل پچیس سال تک نہایت عمدگی اور خوش اسلوبی اور نیک نامی کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق ملی.آپ ۱۹۴۰ء میں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے تھے.اس لحاظ سے گو آپ دیر سے آئے لیکن بتوفیق الہی قریب ربع صدی تک سلسلہ کی گراں بہا خدمات بجالا کر بہتوں سےسبقت لے گئے.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشند خدائے بخشنده ذلك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم.آپ نے اس تمام عرصہ میں اپنے زور قلم ، وسیع علم ، مطالعہ اور تجربہ کی بدولت سلسلہ کی جو نہایت قابل قدر خدمات سرانجام دیں وہ تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یادگار رہیں گی اور آپ کے مسحور کن اداریے اور احمدیت کے عشق میں ڈوبے ہوئے حسین و جمیل منظوم افکار آپ کی یاد کو بھی محونہ ہونے دیں گے اور ہم ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلیں جب آپ کے ان اچھوتے مضامین اور پاکیزہ نظموں سے مستفیض ہوں گی تو وہ بھی آپ کی خوش بختی پر رشک کا اظہار کئے اور آپ کی یاد پر محبت و عقیدت کے پھول نچھاور کئے بغیر نہ رہ سکیں گی.دفتر الفضل کے کارکنان تو چونکہ ایک لمبا عرصہ تک آپ کے اوصاف کریمانہ سے براہ راست

Page 56

تاریخ احمدیت.جلد 27 46 سال 1971ء مستفیض ہوتے رہے ہیں اس لئے ان کے واسطے تو یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ کبھی آپ کی یاد کو بھلا سکیں.ماتحتوں کے ساتھ آپ کا حسن سلوک ، قدم قدم پر پدرانہ شفقت کا مسلسل اظہار اور ہر ایک کی بھلائی اور حوصلہ افزائی کا شعار ایسی چیزیں نہیں ہیں جنہیں بھلایا یا فراموش کیا جاسکے.آج ہم بڑے ہی مغموم دل کے ساتھ اپنے واجب الاحترام اور ماں باپ کی طرح شفیق بزرگ افسر جناب شیخ روشن دین صاحب تنویر کو صمیم قلب سے الوداع کہتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ کا حامی و ناصر ہو.آپ کی خدمات جلیلہ کا آپ کو بہترین اجر دے“.مولا نا روشن دین تنویر صاحب نے ایڈریس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :.”میرے عزیز نے ابھی جن جذبات کا اظہار کیا ہے ان کی میرے دل میں بہت قدر ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے مجھے اتنا طویل عرصہ خدمت کی توفیق عطا کی.اس میں میری کوئی خوبی نہیں اور نہ میں اپنے میں کوئی خوبی پاتا ہوں.یہ تو میرے مولیٰ کا فضل اور احسان ہے جس نے مجھ ناچیز کو خدمت کی سعادت بخشی اور کچھ نہ ہونے کے باوجود کام کی توفیق سے نوازا.جہاں تک اس ایڈریس کا تعلق ہے جو ابھی میرے عزیز نے پڑھا ہے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں اس سے بہت متاثر ہوا ہوں حتی کہ اس وقت میں اپنے جذبات کے اظہار پر بھی قادر نہیں ہوں.میرے اس عزیز نے جس بے لوث جذبہ کے ماتحت جس پر درد انداز میں یہ ایڈریس پڑھا ہے اس نے میرے دل کی کیفیت کو بدل کر رکھ دیا ہے اور آپ لوگوں کے ساتھ طویل رفاقت کے بعد جدائی کے احساس میں اتنی شدت پیدا کر دی ہے کہ میرے لئے اس وقت اپنے جذبات کا اظہار بھی ممکن نہیں رہا.میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میرا دل رو رہا ہے.“ اتنا کہہ کر مولانا تنویر صاحب کی آواز بھتر اگئی اور رقت کا عالم طاری ہو گیا.اس کے بعد آپ کوشش کے باوجود ایک لفظ بھی زبان سے ادا نہ کر سکے اور آنکھوں سے ٹپکنے کے لئے بے چین آنسوؤں کو پینے کی کوشش میں مزید کچھ کہے بغیر بیٹھ گئے.ایک عجب دردانگیز منظر تھا جس کے زیراثر سب کے چہروں پر اداسی چھا گئی.تقریب کے اختتام پر جب مولانا تنویر صاحب سب سے باری باری ہاتھ ملانے کے بعد تشریف لے جانے لگے تو جناب مسعود احمد صاحب کو بہت محبت بھرے انداز میں دیکھتے اور مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.آج تم نے مجھے رونے پر مجبور کر دیا.50

Page 57

تاریخ احمدیت.جلد 27 47 سال 1971ء جرمنی میں قبولیتِ دعا کے دونشانات کا ظہور جون ۱۹۷۱ء میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی دعاؤں کی حیرت انگیز تاثیر اور قبولیت کے پے در پے دو نہایت ایمان افروز نشان جرمنی میں ظاہر ہوئے.دونوں کا تعلق ایک ہی مخلص احمدی خاندان سے تھا.تفصیل اس ایمان افروز واقعہ کی یہ ہے کہ جناب مسعود احمد صاحب جہلمی انچارج فرینکفورٹ مشن کے ہاں نرینہ اولاد نہ تھی اور ان کے بہنوئی محمد شریف صاحب خالد تو پچھلے دس سال سے اولاد سے بالکل ہی محروم تھے.ڈاکٹروں نے تشخیص کی کہ رحم (Uterus) کے منہ پر کینسر کا اثر ہے جس کے لئے آپریشن ضروری ہے.خالد صاحب نے حضور کی خدمت میں دعا اور آپریشن کی اجازت کے لئے لکھا.حضور نے فرمایا آپریشن ہرگز نہ کرائیں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.چوٹی کے چار ڈاکٹروں نے رائے دی کہ بچہ پیدا ہونے کی ۹۹ فیصدی امید نہیں ہے اور جو ایک فیصد امید قائم ہے وہ بھی آپریشن کے بعد ختم ہو جائے گی.لیکن خدا کے فضل اور حضور کی دعا کی برکت سے جلد ہی بچہ کی ولادت کے آثار نمودار ہو گئے جس کے بعد خالد صاحب مئی ۱۹۷۱ء میں پاکستان آئے ، ربوہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ حضور لڑکے اور لڑکی کے نام تجویز فرما دیں تا جب بچہ پیدا ہو اس کا نام فوراً رکھ دیا جائے.حضور کی زبان مبارک سے نکلا کہ ”میں بچی کے لئے خولہ نام اس شرط پر تجویز کرتا ہوں کہ جب یہ بڑی ہو تو آپ اس کو شہسواری سکھائیں گے تا یہ معنا بھی حضرت خولہ کی مثیل ہو“.خالد صاحب نے مسعود احمد صاحب جہلمی کے لئے بھی اولا دنرینہ عطاکئے جانے کی درخواست دعا کی.حضور چند سیکنڈ کے لئے خاموش رہے پھر ارشاد فرمایا: ”مسعود احمد کو اللہ تعالیٰ لڑکا دے گا انشاء اللہ.اس کا نام لقمان احمد تجویز کرتا ہوں“.بشیر احمد خان صاحب رفیق اُن دنوں پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہے تھے وہ اس موقع پر موجود تھے اور انہوں نے یہ آسمانی بشارت انہی دنوں بذریعہ ڈاک بھجوادی اور پیشگی مبارک باد بھی دے دی.خالد صاحب نے جرمنی واپسی پر ۸ جون ۱۹۷۱ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں بذریعہ مکتوب یہ خوشکن اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو لڑکی سے نوازا ہے.چنانچہ لکھا:.

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد 27 48 سال 1971ء حضور کو یہ سن کو انتہائی خوشی ہوگی کہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور اپنے فضل و کرم سے محمودہ کو ایک بہت ہی پیاری بچی عطا فرمائی ہے.میرا ایمان ہے کہ یہ حض حضور پرنور کی دعاؤں کا نتیجہ ہے ورنہ جرمنی کے چار سپیشلسٹ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ محمودہ کے ہاں بچہ ہونا ننانوے فیصد مشکل ہے بلکہ وہ یہ ناممکن سمجھتے ہوئے ذاتی صحت کے لئے ایک آپریشن ضروری قرار دے رہے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ اس آپریشن کے بعد بچہ کی جو ایک فیصد امید ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی.لیکن آپریشن کرنا بھی محمودہ کیلئے ضروری ہے.چنانچہ گذشتہ سال تو ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آپریشن کروا دیا جائے.چنانچہ اس آپریشن کی اجازت کے لئے حضور کی خدمت میں لکھا لیکن حضور نے آپریشن کی اجازت نہ دیتے ہوئے لکھا تھا کہ میں دعا کروں گا اور چھ ماہ تک آپریشن نہ کروایا جائے.چنانچہ آج حضور کی دعاؤں کے نتیجہ میں شادی کے پورے دس سال بعد خدا تعالیٰ نے ہمارے خاندان کو اس خوشی سے نوازا ہے.گزشتہ دنوں میں جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو حضور نے بچی کا نام ”خوله تجویز فرمایا تھا جبکہ ابھی بچی پیدا نہیں ہوئی تھی.قدرتی طور پر لوگوں میں لڑکے کے لئے خواہش ہوتی ہے لیکن اُس روز سے خدا تعالیٰ نے میرے دل میں بچی کی خواہش کو اس قدر زیادہ کر دیا تھا کہ خولہ“ نام رکھنے کے ساتھ حضور نے اس کی تربیت پر جو شرط لگائی تھی ، دلی خواہش تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی دی تو حضور کی اس خواہش کو پورا کرنے کی پوری کوشش کروں گا“.اس مکتوب کے قریباً دو ہفتہ بعد ۲۱ جون کو جناب مسعود احمد صاحب جہلمی انچارج مشن کی طرف سے حضور کی خدمت اقدس میں حسب ذیل تار موصول ہوا."Alhamdolillah fruit of Huzoor's prayers Luqman born Both healthy.Prayers Requested".ترجمہ : الحمد للہ حضور اقدس کی دعاؤں کا ثمر لقمان کی پیدائش کی صورت میں مل گیا ہے.ماں بچہ صحتمند ہیں.درخواست دعا ہے.51 یہ دونوں نشان نہ صرف جماعت جرمنی بلکہ سب احباب جماعت کیلئے از دیاد ایمان و عرفان کا موجب بنے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تربیتی کلاس سے خطا مورخہ ۱۰ جون ۱۹۷۱ء کو بعد نماز عصر ایوان محمو در بوہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے

Page 59

تاریخ احمدیت.جلد 27 49 سال 1971ء مجلس خدام الاحمدیہ کی اٹھارہویں سالانہ تربیتی کلاس کی اختتامی تقریب میں طلباء سے بصیرت افروز خطاب فرمایا.اس تربیتی کلاس میں ۲۶۵ مجالس کے ۴۳۴ خدام شامل ہوئے.کلاس کے اختتام پر طلباء کا امتحان لیا گیا جس میں ۲۴۹ طلباء شامل ہوئے اور ان میں سے ۲۳۶ کامیاب قرار پائے.حضور کی خدمت میں یہ اعداد و شمار رکھے گئے تو حضور نے ان پر خوشنودی کا اظہار فرمایا مگر ساتھ ہی فرمایا کہ جن مجالس کے نمائندے اس کلاس میں شامل نہیں ہوئے انہیں توجہ دلائی جائے تا کہ آئندہ سو فیصد مجالس کی حاضری ہو.اس کلاس کا افتتاح ۲۸ مئی کو مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم سابق رئيس التبليغ غانا نے فرمایا تھا.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے کلاس کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تاریخ اس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اسلام ہر زمانہ میں آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا ہے اس میں شک نہیں کہ درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جبکہ مجاہدینِ اسلام کے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز میں مدہم پڑ گئیں لیکن یہ محض ایک عارضی وقفہ تھا.اور یہ وقفہ بھی بجائے خود صداقت اسلام کی ایک دلیل ہے کیونکہ یہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق ظہور میں آیا.مگر بہر حال بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو تاریخ اسلام یہی بتاتی ہے کہ اسلام ہر زمانہ اور ہر دور میں ترقی کرتا رہا.حتی کہ بظاہر تنزل کے زمانہ میں بھی وہ بہت بڑی تعداد میں لوگوں کے قلوب کو جیتا رہا.حضور نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک انقلابی مذہب ہے وہ دنیا میں رونما ہونے والے لحظہ بہ لحظہ انقلاب اور تغیر کے باوجود ہر زمانہ اور ہر دور میں انسان کی مکمل راہنمائی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا ایک نام کتاب مکنون بھی ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ حالات جو آج ظاہر نہیں ہوئے اور وہ الجھنیں جو آج پردہ میں ہیں اور کل کو ظاہر ہونے والی ہیں ان سب کا علاج اور حل تا قیامت اس کتاب میں موجود ہے اور وہ حل ایسا ہو گا جو قلوب کو مطمئن کرنے والا ہوگا.حضور نے مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ آج جو تحریکیں موجودہ زمانہ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے اٹھی ہیں وہ اپنے مقصد میں ناکام ہو چکی ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی تائید وراہنمائی حاصل نہیں.یہ تائید و نصرت صرف اسلام ہی کو حاصل ہے اس لئے وہی ان مسائل کو حل کر سکتا ہے.آخر میں حضور نے فرما یا احمدیت کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں غلبہ اسلام ہی کے لئے قائم کیا ہے.اس لئے ہر احمدی بچے اور ہر احمدی نو جوان کے دل میں یہ احساس ہمیشہ غالب اور زندہ رہنا چاہیے کہ اسلام نے ہی دنیا پر

Page 60

تاریخ احمدیت.جلد 27 50 سال 1971ء غالب آنا ہے اور اس کے تمام مسائل کو حل کرنا ہے اور ہم نے اپنے عملی نمونہ اور اپنی قربانیوں کے ذریعہ اس غلبہ کے دن کونز د یک سے نزدیک تر لانا ہے.2 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفر اسلام آباد ومری مورخہ ۲۰ جون کو صبح چھ بجے حضرت خلیفہ المسیح الثالث بیگم صاحبہ کے ہمراہ اسلام آباد کے لئے عازم سفر ہوئے اور ۲۲ جون کو مری بلز کی طرف تشریف لے گئے.تقریباً ۲ ہفتہ قیام کے بعد مورخہ ۵ جولائی کو حضور رات ساڑھے آٹھ بجے بذریعہ کار مری ہلز سے واپس ربوہ تشریف لے آئے.حضور کے ہمراہ حضرت بیگم صاحبہ اور دیگر اراکین قافلہ بھی واپس تشریف لے آئے.53 فلپائنی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف احمد یہ مشنوں کا پرزور احتجاج ۱۹۷۱ء میں فلپائن میں مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنا کر ان پر عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی.فلپائنی مسلمانوں پر الزام لگایا گیا کہ وہ عیسائیوں کے خلاف غنڈہ گردی کے مرتکب ہوتے ہیں اور دہشت پھیلاتے ہیں جبکہ حقائق اس کے سراسر برعکس تھے.فلپائنی عیسائیوں کی دہشت پسند تنظیم ”الاگا نے مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کی نہایت منظم کوششیں شروع کیں.فلپائن میں مسلمانوں کا قتل عام تو اگر چہ پہلے ہی ہورہا تھا لیکن 19 جون ۱۹۷۱ء سے مسلمانوں کے قتل عام کا سلسلہ از سر نو شروع کر دیا گیا.19 جون کو صوبہ کا ٹا باٹو کی میونسپل کمیٹی کارمن کے نواحی گاؤں مانیلی میں علی الصبح کرائے کے مسیحی فوجیوں نے فلپائن کے فوجی افسروں کے ہمراہ بستی کے مسلمانوں کو ایک مسجد میں اکٹھا کر لیا.انہیں صرف یہ بتایا گیا کہ علاقہ میں امن و امان قائم کرنے کے لئے کا نفرنس کی جارہی ہے.جب مسجد میں تقریباً ایک سو پچاس مسلمان جمع ہو گئے تو مسجد کی ناکہ بندی کر دی گئی پھر دستی بم پھینکے گئے اور بموں سے ڈر کر باہر آنے والوں پر گولیاں برسائی گئیں.ان دستی بموں اور گولیوں کی بوچھاڑ سے ۶۴ مرد، عورتیں اور بچے مسجد کے اندر ہی تڑپ تڑپ کر مر گئے اسی روز ایک قریبی پبلک سکول پر بھی دستی بم پھینکے گئے.جس کے نتیجہ میں بہت سے بچے ہلاک ہو گئے.اس کے علاوہ لوٹ مار ، آتش زنی اور قتل و غارت گری کے انتہائی اندوہناک واقعات رونما ہوئے.

Page 61

تاریخ احمدیت.جلد 27 51 سال 1971ء ایک بڑی تعداد میں مسلمانوں کو شہید کرنے کے علاوہ متعد د مساجد کو بھی نذر آتش کر دیا گیا.شرق وغرب میں پھیلے ہوئے احمد یہ مسلم مشنوں نے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ان مظالم کے خلاف پر زور احتجاج کرتے ہوئے حکومت فلپائن کو متعدد برقی پیغامات بھیجے جن میں ان مظالم کا سد باب کرنے کا مطالبہ کیا گیا.ان احمد یہ مشنوں میں امریکہ ، انگلستان، مغربی جرمنی ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ ، جزائرنجی ، انڈونیشیا، ملائیشیا،سیرالیون ، تنزانیہ، یوگنڈ اوغیرہ شامل تھے.ان تاروں کے جواب میں صدر فلپائن کی جانب سے بیرونی ممالک کے احمد یہ مشنوں اور جماعتوں کو یقین دلایا گیا کہ حکومت اس سلسلہ میں ضروری اقدامات عمل میں لا رہی ہے اور یہ کہ مجرموں کو قرار واقعی سزادی جائے گی.چنانچہ اس سلسلہ میں انگلستان، سوئٹزرلینڈ ، جزائر فجی ، ملائیشیا، یوگنڈا ، وغیرہ مشنوں کو جوابی تار موصول ہوئے.54 فضل عمر درس القرآن کلاس امسال فضل عمر درس القرآن کلاس مورخه ۵ جولائی تا ۴ راگست ۱۹۷۱ ء مسجد مبارک میں منعقد ہوئی.جس میں باقاعدہ داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد ۴۶۴ اور طالبات کی تعداد ۴۳۲ تھی.امتحان میں ۳۷۷ طالبات اور ۳۲۲ طلباء نے حصہ لیا.کلاس کا افتتاح مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب نے دعا سے کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دو مرتبہ مسجد مبارک میں تشریف لاکر طلباء و طالبات سے خطاب بھی فرمایا.کلاس کے دوران علمی و ورزشی مقابلہ جات بھی ہوئے جس میں سب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.۳ اگست کو مسجد مبارک میں طلباء و طالبات کی ایک خاص اجتماعی تقریب منعقد ہوئی.جس پر حضور نے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل نصیحت ارسال فرمائی.نصیحت یہ ہے کہ میری نصائح پر جو وقتا فوقتا ملتی رہتی ہیں سب عمل کریں.“ ۴ راگست کو طلباء و طالبات کو علیحدہ علیحدہ الوداعی پارٹی دی گئی.طالبات کی تقریب لجنہ اماءاللہ کے وسیع میدان میں حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی اور انعامات تقسیم کئے گئے.55

Page 62

تاریخ احمدیت.جلد 27 52 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مسٹر ٹب مین کے انتقال پر تعزیتی پیغام سال 1971ء لائبیریا کے صدر مسٹر ولیم ٹب مین جو لندن میں بغرض علاج تشریف لے گئے تھے مورخہ ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ء کو ۷۵ سال کی عمر میں وفات پاگئے.ان کی وفات پر حضور نے لائبیریا کے نئے صدر مملکت اور وزیر خارجہ کے نام ہمدردی اور تعزیت کے مندرجہ ذیل پیغامات بذریعہ تار ارسال فرمائے.وزیر خارجہ لائبیریا کے نام بتاریخ ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ء وزیر خارجہ حکومت لائبیریا ، منروویه صدر ٹب مین کے افسوس ناک انتقال کی خبر سن کر دلی صدمہ ہوا.لائبیریا کا ملک ایک عظیم محب وطن اور جدید لائبیریا کے معمار سے محروم ہو گیا.براہ مہربانی بیگم شب مین اور ان کے دیگر افراد خاندان کو میری طرف سے ہمدردی اور تعزیت پہنچادیں.مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح صدر لائبیر یا ولیم ٹالبرٹ کے نام بتاریخ ۲۶ جولائی ۱۹۷۱ء امام جماعت احمدیہ 56 بخدمت پریذیڈنٹ ٹالبرٹ ، منروویہ (لائبیریا) صدر ٹب مین کا انتقال پر ملال میرے لئے گہرے غم والم کا موجب ہوا.ان کی وفات سے اہل لائبیریا ایک عظیم قوم ساز اور جدید لائبیریا کے عظیم معمار سے محروم ہو گئے ہیں صحیح معنوں میں وہ بابائے قوم تھے.مجھے امید ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی قیادت کی شکل میں لائبیریا کو ایک اور نگہبان اور رکھوالا نصیب ہوگا اور اہل لائبیر یا ایک ایسی قوم نہیں رہیں گے جن کا کوئی قائد نہ ہو.براہ مہربانی غمزدہ خاندان اور اہل لائبیریا کو میری طرف سے ہمدردی اور تعزیت کا پیغام پہنچادیں.مرزا ناصر احمد امام جماعت احمدیہ (ربوہ) پاکستان

Page 63

تاریخ احمدیت.جلد 27 53 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے نام صدر لائبیریا ٹالبرٹ کا جوابی پیغام سال 1971ء حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے تعزیت کا جو پیغام لائبیریا کے نئے صدر مسٹر ٹالبرٹ کے نام بذریعہ کیبل گرام ارسال فرمایا تھا اس کے جواب میں صدر موصوف کی طرف سے حسب ذیل برقی پیغام بھیجا گیا.بخدمت ( حضرت ) مرزا ناصر احمد (صاحب ) امام جماعت احمد یہ ربوہ پاکستان صدر ٹب مین کی وفات پر ہمیں جو نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا ہے اس کے ضمن میں آپ کا مرسلہ ہمدردی اور تعزیت کا برقی پیغام ہمارے لئے بہت تسکین خاطر کا موجب ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا ہے کہ ہمیں آپ کی گوناگوں دینی مساعی سے باطنی قوت حاصل کرنے کی توفیق نصیب ہو.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آئندہ بھی آپ کی مشفقانہ دعاؤں پر آپ کے ممنون احسان رہیں گے.آخر میں برادرانہ سلام عرض ہے.ٹالبرٹ“ (صدر جمہوریہ لائبیریا.مغربی افریقہ) 57 مشرقی پاکستان کے واقعات کا تذکرہ اور نہایت قیمتی نصائح سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے کے راگست ۱۹۷۱ کومجلس علم وعرفان کے دوران مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات پر نہایت بصیرت افروز تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں اپنے بنگالی بھائیوں اور ان کے مفادات سے ہمیشہ بڑی ہمدردی اور گہری دلچسپی رہی ہے ہم ان کے جائز حقوق کا تحفظ ضروری سمجھتے ہیں.ہماری یہ دلی خواہش ہے کہ وہ بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں ہمارے دوش بدوش آگے بڑھیں اور اس کے ثمرات سے پورے طور پر بہرہ اندوز ہوں مگر ان میں سے شر پسند عناصر نے خارجی اور داخلی محرکات کی بناء پر اپنے مطالبات کو جو شکل دی اور پھر ان کو منوانے کے لئے جس رنگ میں مظاہرہ کیا اس کا انسانی بصیرت اور شرافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے.انہوں نے ناحق فتنہ و فساد کی آگ بھڑ کا کرقتل و غارت اور لوٹ مار کا جو بازار گرم کیا اسے کوئی نظمند انسان مہذب و متمدن معاشرت کا فطری اور جائز رد عمل نہیں کہہ سکتا.انسان فطرت صحیحہ کا مالک ہے اس کی فطرت کا تو یہ حال ہے کہ اگر کسی کا پاؤں اتفاقاً دوسرے کے ننگے پاؤں پر پڑ جائے تو اس کی تکلیف کے احساس سے اس

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد 27 54 سال 1971ء کے اپنے اعصاب کھنچنے لگتے ہیں لیکن کند چھری کے ساتھ نہتے اور معصوم انسان کی گردن کاٹ دینا اور پھر بھی اعصاب کا متاثر نہ ہونا بلکہ اس بربریت کو بہادری سمجھنا تو سراسر جنون کی علامت ہے.حضور نے فرمایا کہ اس جنون نے مشرقی پاکستان میں جوگل کھلائے ہیں وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا المناک اور خونی باب ہے جو ہماری آئندہ نسلوں کے لئے تازیانہ عبرت کا کام دے گا.ہم اسلام کے اٹوٹ رشتہ اخوت میں منسلک آپس میں سب بھائی بھائی ہیں یہ باہمی اخوت اور خیر سگالی کا جذبہ ہی تھا کہ یہاں خواجہ ناظم الدین صاحب، محمد علی صاحب بوگرہ اور سہروردی صاحب جیسی سر بر آوردہ بنگالی شخصیتوں نے حکومت کی مگر ان کے دور حکومت میں مغربی پاکستان کے کسی آدمی کے ذہن میں سرے سے یہ خیال پیدا ہی نہیں ہوا کہ مشرقی پاکستان ہم پر حکومت کر رہا ہے.سیاست کے نام پرلوگوں کے جذبات سے کھیلنا اور ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کے بیج بونا تو دراصل قومی شیرازہ کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہے.اس قسم کا اندازِ فکر جمہوریت اور پرامن بقائے با ہمی کے بنیادی اصولوں کے بھی منافی ہے.سیاسی زندگی اور اس کی کامیابی کا اختصار جذبات کی حدت سے الگ رہ کر عقل و دانش کی ٹھنڈک میں سوچنے اور بردباری اور ضبط و حمل سے کام لینے پر ہے.وہ لوگ جن سے قوم کی قسمت وابستہ ہو اور جنہیں قوم کی راہنمائی کرنی ہوتی ہے ان کا جذبات سے کھیلنے کا تو کوئی مطلب ہی نہیں ہے.جس طرح جذبات کی گرمی میں شطرنج کی بازی نہیں جیتی جاسکتی اسی طرح سیاست کی بساط کو جذبات کے ساتھ جیتنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پرانے بادشاہ شطرنج کے جواز کی ایک دلیل یہ بھی دیتے تھے کہ اس سے سوچنے کی عادت پڑتی ہے.چنانچہ بعض دفعہ وہ اس کی ایک چال چلنے میں پورا دن سوچنے میں لگا دیتے تھے.اگر شطرنج کی ایک چال چلنے میں دن میں کئی بار سوچا جا سکتا ہے تو جہاں قوم کی قسمت کا فیصلہ مقصود ہو وہاں ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزاروں دفعہ سوچنا پڑتا ہے ویسے جذبات بھی اپنے مقام پر اور اپنے دائرہ میں رہیں تو مؤثر کردار ادا کرتے ہیں.حضور نے مزید فرمایا کہ آجکل غیر ملکی پریس میں ہمارے خلاف جو من گھڑت خبریں شائع ہو رہی ہیں ان کے پیچھے یہود کا سازشی ذہن کام کر رہا ہے.حضور نے تفصیل سے بتایا کہ یہودیوں نے ساری دنیا میں منظم سازشوں کا ایک جال پھیلا رکھا ہے.ان کی خفیہ سرگرمیوں کی دستبرد سے کوئی ملک بھی محفوظ نہیں ہے.دنیا کے اکثر بڑے بڑے ملکوں کی اقتصادیات پر بھی ان کا موثر کنٹرول ہے.وہ جہاں اور جب چاہتے ہیں افراط یا تخفیف زر کا

Page 65

تاریخ احمدیت.جلد 27 55 سال 1971ء بحران کھڑا کر کے اس ملک کی اقتصادیات کو مفلوج کر دیتے ہیں.ان کے ہر شیطانی منصوبے کا توڑ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں پہلے سے بتا دیا ہوا ہے.حضور نے اپنے یورپ اور پھر گذشتہ سال افریقہ کے دورہ میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے کئی نشان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ پریس کانفرنسوں میں اور کئی دوسرے مواقع پر بڑے بڑے عیسائی پادریوں، منجھے ہوئے صحافیوں اور دانشوروں نے الٹے سیدھے سوالات کر کے بات کو الجھانے کی بہت کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہر موقعہ پر ایسا برجستہ جواب سمجھا دیا کہ وہ حیران رہ گئے.سفر کے مختلف مرحلوں پر غیر معمولی طور پر تسلی بخش انتظام ہوتے چلے گئے.حتی کہ خود منتظمین حیران رہ گئے.سیرالیون میں ایک تقریب پر وہاں کے سابق نائب وزیر اعظم اور نہایت جو شیلے مقرر کے سپاسنامے کے جواب میں انگریزی میں گھنٹے بھر کی فی البدیہہ تقریر کا یہ اثر تھا کہ غیر احمدی مسلم زعماء نے اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ خدا کے بڑے شکر گذار ہیں کہ اس نے یہ تقریر سننے کے لئے انہیں زندہ رکھا.حضور نے فرمایا کہ یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے پیار کی مظہر ہیں.ہمارے دل جذبات تشکر سے لبریز اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور رہنے چاہئیں کیونکہ ہم تو بالکل لاھی محض ہیں.ہماری کوششیں بڑی حقیر ہیں بایں ہمہ اللہ تعالیٰ کا اپنے پیار سے ہمیں نواز نا اس بات کی دلیل اور ہمارے لئے لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ دنیا میں کچھ کرنا چاہتا ہے اور کرنا یہ چاہتا ہے کہ اسلام ساری دنیا پر غالب ہو.دنیا اپنے خالق و مالک خدا کو ماننے لگے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آکر امن و آشتی سے سرفراز ہو.58 ڈاکٹر سعید احمد صاحب کی حسن کارکردگی کا ذکر ۲۴ اگست ۱۹۷۱ء کو سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ایک اجتماعی ملاقات کے دوران ڈاکٹر سعید احمد صاحب مشنری ڈاکٹر گیمبیا کی حسن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ڈاکٹر صاحب موصوف نے ہم سے نہ رہائشی سہولتوں کا مطالبہ کیا اور نہ طبی آلات کا.انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں تھوڑے سے سامان کے ساتھ کام شروع کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کے دلی خلوص اور انتھک محنت کو شرف قبولیت بخشا.تھوڑے ہی عرصہ میں ان کا کلینک پھولنے پھلنے اور معقول آمدنی کا ذریعہ بھی بن

Page 66

تاریخ احمدیت.جلد 27 56 سال 1971ء گیا.اب ان کے کلینک کی بچت سے نہ صرف اس سکول کا یہ ایک حصہ تعمیر کیا گیا ہے.بلکہ بعض دوسری ضرورتوں پر بھی خرچ کیا گیا ہے.59 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پر قاتلانہ حملہ ۱۵ ستمبر ۱۹۷۱ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے فرزند اکبر اور صدر پاکستان کے اقتصادی مشیر صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ( آپ خلافت اولی کے مبارک دور میں ۲۸ فروری ۱۹۱۳ء کو پیدا ہوئے) پر اسلام آباد سیکرٹریٹ بلڈنگ کے ایر کنڈیشننگ شعبہ میں سی.ڈی.اے (C.D.A) کے ایک فورمین محمد اسلم قریشی ( یہ شخص بعد ازاں جماعت کے خلاف ایک فتنہ برپا کرنے کا آلہ کار بھی بنا) نے چھری سے قاتلانہ حملہ کر دیا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے تاہم آپ نے نہایت جرات و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً حملہ آور کو پکڑ لیا.حملہ آور مزید وار کرنے کی کوشش کرتا رہا جس سے آپ کے سر، انگلیوں اور بائیں ٹانگ پر بھی زخم آئے اس اثنا میں آپ کا جمعدار ارد لی بھی وہاں پہنچ گیا اور اس نے ملزم کو قابو میں لے کر اسے بے دست و پا کر دیا بعد میں اسے حوالہ پولیس کر دیا گیا.صاحبزادہ صاحب کو پہلے اسلام آباد کے پولی کلینک میں پہنچایا گیا جہاں آپ کو ابتدائی طبی امداد دی گئی بعد میں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں بریگیڈیر شوکت علی سرجن اور کرنل محمود الحسن سرجن نے آپ کا آپریشن کیا.سرکاری اعلامیہ میں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ خطرہ سے باہر ہیں اور آپ کی حالت تسلی بخش ہے.60 ملک وملت کے اس بطل جلیل پر قاتلانہ حملہ کی خبرملکی پریس نے اگلے روز نہایت جلی عنوان کے ساتھ شائع کی مثل لا ہور کے کثیر الاشاعت اخبار نوائے وقت نے یہ اہم خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی.ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ.ملزم گرفتار کرلیا گیا ہسپتال میں مسٹر احمد کی حالت تسلی بخش ہے حملہ آور نے صدر کے اقتصادی مشیر کو پیٹ میں چاقو مار کر زخمی کر دیا.ملزم محمد اسلم قریشی مرکزی سیکرٹریٹ کے ائر کنڈیشنگ پلانٹ کا فورمین ہے.راولپنڈی، ۱۵ ستمبر (پپ (۱) اپ پ) صدر کے اقتصادی مشیر مسٹرایم ایم احمد کو آج یہاں

Page 67

تاریخ احمدیت.جلد 27 57 سال 1971ء چاقو مار کر زخمی کر دیا گیا.ملزم محمد اسلم قریشی جو کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ملازم اور ائر کنڈیشنگ فورمین ہے گرفتار کر لیا گیا ہے.مسٹر احمد پر یہ قاتلانہ حملہ آج صبح سوا آٹھ بجے ان کے دفتر واقع مرکزی سیکرٹریٹ اسلام آباد میں اس وقت کیا گیا جب وہ اپنے کمرے میں جانے کے لئے لفٹ میں سوار ہوئے.مسٹر ایم ایم احمد کو پسلیوں کے نیچے پیٹ میں گہرا زخم آیا اس کے علاوہ ان کی ٹانگ اور سر میں بھی معمولی زخم آئے.انہیں فوری طور پر کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی حالت خطرے سے باہر بیان کی جاتی ہے.ملزم اسلم قریشی ولد روشن دین سیالکوٹ کے محلہ امام صاحب کا رہنے والا ہے.مسٹر احمد پر قاتلانہ حملہ کی خبر سننے کے فوراً بعد اعلیٰ حکام اور مسٹر احمد کے دوست احباب بڑی تعداد میں ہسپتال پہنچ گئے.ان میں صدر کے مرکزی سیکرٹریٹ کے مشیر مسٹر غیاث الدین ، ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور ڈی آئی جی مسٹر عباس مرزا بھی شامل تھے.تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مسٹرایم ایم احمد سیکرٹریٹ کے اندر اپنے دفتر میں جانے کے لئے لفٹ میں سوار ہوئے.اس وقت صبح کے سوا آٹھ بجے تھے.ملزم محمد اسلم قریشی بھی ان کے ساتھ ہی لفٹ میں سوار ہو گیا اور جونہی لفٹ کے دروازے بند ہوئے ملزم اسلم نے دولمبے چاقوؤں میں سے ایک نکالا اور مسٹر احمد کے پیٹ میں بائیں طرف گھونپ دیا.ملزم نے دوسرا وار کرنے کی کوشش کی تو مسٹر احمد نے اسے پکڑنا چاہا.اس اثنا میں لفٹ آپریٹر نے لفٹ کا دروازہ کھول دیا اور مسٹر احمد کے جمعدار نے جو اُن کا سرکاری بیگ اٹھائے ہوئے تھا ملزم سے چاقو چھین لیا.اسلم نے اس موقع پر مزاحمت کی لیکن جمعدار سرفراز نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیا اور چاقو توڑ ڈالا.اس اثنا میں چند ملازمین وہاں جمع ہو گئے اور ملزم کو محافظوں کے سپرد کر دیا گیا.ملزم اسلم نے وہاں پر موجود لوگوں کو گالیاں دیں اور سنگین نتائج کی دھمکی دی.مسٹر احمد کو بعد ازاں ان کی کار میں لایا گیا اتفاقا ان کے ایک قریبی رشتہ دار جو کراچی کے ممتاز ڈاکٹر ہیں اور جو اُن سے ملنے کے لئے وہاں آئے تھے موقع پر پہنچ گئے چنانچہ سب سے پہلے مسٹر احمد کو اسلام آباد پولی کلینک میں لایا گیا جہاں سے انہیں کمبائنڈ ملٹری ہسپتال پہنچا دیا گیا.مسٹر ایم ایم احمد نے راستے میں اپنے ڈرائیور سے حملہ آور کے بارے میں دریافت کیا.مسٹر ایم ایم احمد کے زخموں سے کافی خون نکلا کیونکہ ان کی کار میں بھی بہت سا خون جمع ہو گیا تھا.انہیں سیدھا آپریشن تھیٹر میں پہنچایا گیا.اسلام آباد پولیس تفتیش کر رہی ہے اور ملزم سے پوچھ کچھ جاری ہے.اے پی پی کے مطابق

Page 68

تاریخ احمدیت.جلد 27 58 سال 1971ء ہسپتال کے ذرائع نے اس واقعہ کے تین گھنٹے بعد بتایا کہ مسٹر احمد کی حالت تسلی بخش ہے ان کے پیٹ میں تین انچ لمبا زخم آیا ہے لیکن وہ زیادہ گہرا نہیں.مسٹر احمد کی عمر ۵۸ سال ہے اور وہ پاکستان کے اعلیٰ سرکاری ملازمین میں سے ہیں.متعدد اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے کے علاوہ وہ ۱۹۶۶ء سے ۱۹۷۰ء تک منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئر مین رہے ہیں.ستمبر ۱۹۷۰ء میں انہیں صدر کا اقتصادی مشیر مقرر کیا گیا.سرکاری اعلان:.ایک سرکاری اعلان کے مطابق صدر کے اقتصادی مشیر مسٹر ایم ایم احمد کی حالت مکمل طور پر تسلی بخش ہے.سرکاری ذرائع نے یہ بھی کہا کہ مسٹرایم ایم احمد پر کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک کبیدہ خاطر ملازم نے آج صبح مرکزی سیکرٹریٹ کی عمارت میں حملہ کیا.ذرائع کے مطابق حملہ آور کا نام محمد اسلم قریشی ہے اور وہ سیالکوٹ کا رہنے والا ہے.ملزم اس وقت مرکزی سیکرٹریٹ میں ائر کنڈیشنگ پلانٹ کا فورمین ہے.61 ہفت روزہ لاہور نے اس سلسلہ میں یہ شذرہ سپرد قلم کیا.جناب ایم ایم احمد پر قاتلانہ حملہ آج ریڈیو پاکستان نے صدر پاکستان کے اقتصادی مشیر جناب ایم ایم احمد کو اسلام آباد سیکرٹریٹ میں چھرا گھونپ دینے کی تشویشناک خبر سنائی.شرافت کا دل دہل سا گیا اور حُبّ وطن کی پیشانی پر کر بناک شکنیں نمایاں ہو گئیں.ہر ذہن مشوش اور ہر دل پریشان ہو گیا.کسی نے کہا ”اگر صدر پاکستان کے مشیر خصوصی کے بھی دن دہاڑے چھرا گھونپا جا سکتا ہے تو مجھ ایسے بے سہارا سفید پوش کا انجام معلوم !‘ اور کسی کے ہونٹوں سے بے ساختہ یہ الفاظ ادا ہوئے :.ایم.ایم احمد ایسے دیانتدار، سلیم الفطرت، بے ضرر اور مخلص و نیک نام فرزندِ وطن پر حملہ کا یہ مطلب ہے کہ اب یہاں بدخواہی و خباثت ننگا ناچنے کو ہے.اللہ اپنا رحم فرمائے.ابھی تک اس حملہ کی پس پردہ تفاصیل و وجوہ معلوم نہیں ہوئیں.البتہ ریڈیو نے اطمینان خیز خبر سنا کر محبانِ وطن کی ضرور ڈھارس بندھائی ہے کہ وطن عزیز کے اس جلیل القدر فرزند کی حالت خطرے سے باہر ہے.سی.ایم.ایچ سے رابطہ قائم ہونے پر معلوم ہوا کہ حملہ آور نے جناب احمد پر تین وار کئے.سب سے بڑا زخم تین انچ لمبا ہے اور حملہ آور پر قابو بھی خود میاں صاحب ہی نے پایا.ہمارا خدا انہیں اپنے فضل خاص سے شفائے کاملہ عاجلہ سے نوازے اور انہیں کام کرنے اور خدمت دین و وطن کرنے والی صحتوں اور بشاشتوں بھری لمبی عمر عطا فرمائے.اور یہ ناروا کچو کا بھی خدمت وطن سے متعلق ان کے عزم وشوق کو دہ (۱۰) چند کر دینے

Page 69

تاریخ احمدیت.جلد 27 59 سال 1971ء والا ثابت ہو! اللہ اللہ جاں بازان وطن کو بھی کیسے کیسے سنگین و دشوار گذار مراحل سے گذرنا پڑتا 66 ہے.62 اداریہ صدر مملکت کے اقتصادی مشیر جناب ایم ایم احمد پر قابل صد مذمت قاتلانہ حملہ ماہنامہ الفرقان ربوہ کے مدیر مولانا ابوالعطاء صاحب نے لکھا:.صدر پاکستان کے اقتصادی مشیر محترم جناب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم.ایم.احمد ) پر اس ہفتہ ایک ظالم نے نہایت سفا کا نہ قاتلانہ حملہ کیا.یہ حملہ آپ پر اس وقت کیا گیا جبکہ محترم جناب صدر مملکت آغا محمد یحیی خان صاحب ملک سے باہر دو روز کے لئے ایران تشریف لے گئے تھے اور محترم صاحبزادہ ایم ایم احمد صاحب بطور قائم مقام صدر پاکستان کام کر رہے تھے.اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس نے اس حملہ کو ناکام کر دیا اور ملکی وملتی مفاد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچنے سے بچا لیا.حملہ آور جو اپنا نام محمد اسلم قریشی بتاتا ہے پولیس کی حراست میں ہے.ہمیں یقین ہے کہ حکومت کے ہوشیار کارندے اس اہم ترین ملکی حادثہ کی پوری پوری تحقیق کر کے مجرموں کو ان کے کیفر کردار تک پہنچانے میں کوئی دریغ نہ کریں گے.یہ سانحہ تمام دردمند پاکستانیوں کو اس بات کے لئے دعوت فکر دیتا ہے کہ وہ اس قسم کے ظالمانہ حملوں کے سدِ باب کے لئے مستقل انتظام کریں.صاحبزادہ ایم ایم احمد پاکستان کے بہترین خادموں میں سے ہیں.جنہوں نے اپنی ساری جوانی اور اپنی تمام آسائشیں اہل ملک کی بہبودی کے لئے صرف کر دی ہیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.اگر اس ملک میں ایسے بے لوث خادموں کی زندگی پر بھی دن دہاڑے دارالسلطنت میں قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے تو پھر اس ملک میں باقی کون محفوظ رہے گا.ہم پرزور الفاظ میں قاتلانہ حملہ کی مذمت کرتے ہیں اور در ددل سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت صاحبزادہ مرز امظفر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے ، انہیں لمبی اور فعّال زندگی عطا فرمائے اور ان کو ملک و ملت کی بیش از پیش خدمات سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین یارب العالمین“.63 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے لئے پوری جماعت دعاؤں میں مصروف تھی اللہ تعالیٰ نے

Page 70

تاریخ احمدیت.جلد 27 60 سال 1971ء ان دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور آپ کی حالت تیزی سے بہتر ہونے لگی.جلد ہی آپ کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال کے آبزرویشن روم سے وی آئی پی روم میں منتقل کر دیا گیا اور اکتو بر ۱۹۷۱ء کے پہلے ہفتہ میں آپ ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر تشریف لے گئے.64 جب تک صاحبزادہ صاحب بستر علالت پر رہے آپ کی خیریت دریافت کرنے کے لئے ملک کے اعلیٰ سول اور فوجی حکام اور دیگر سر بر آوردہ حضرات کے برقی پیغامات اور ٹیلیفون کا تانتا بندھا رہا.اسی طرح ملک کی متعدد اعلیٰ سول اور فوجی شخصیات آپ کی عیادت کے لئے تشریف لائیں.علاوہ ازیں چین، ماریشس، نائیجیریا اور پرتگال کے سفیر آپ کی مزاج پرسی کے لئے ہسپتال میں تشریف لائے.اس حادثہ کی اطلاع ملتے ہی یحیی خان صدر پاکستان نے آپ کا حال دریافت کیا اور اس غرض کے لئے اپنے پرنسپل سٹاف آفیسر لیفٹینٹ جنرل ایس جی ایم ایم پیرزادہ کو بغرض عیادت بھجوایا.جن حضرات کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیغامات پہنچے ان میں سے قابل ذکر نام یہ ہیں.سابق فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ( یہ پیغام ان کے داماد میاں گل جہاں زیب لے کر آئے )، گورنر سرحد لیفٹیننٹ جنرل کے ایم مظہر خان، پاک بحریہ کے کمانڈر انچیف وائس ایڈمرل مظفر حسن صاحب، برطانوی ہائی کمشنر مسٹر جان لارنس ہمفرے، ماریشس کے ہائی کمشنر مسٹرامین ،مسٹر گوہر ایوب صاحب سابق صدر پاکستان ایوب خان کے صاحبزادے اور پاکستان اسمبلی کے موجودہ سپیکر)، چوہدری فضل الہی صاحب ( آپ بعد ازاں صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے ) ، یوگوسلاویہ میں پاکستانی سفیر حکیم محمد احسن صاحب، عالمی بینک کے نائب صدر مسٹر محمد شعیب، ہائی کمشنر پاکستان لنڈن مسٹرسلیمان علی، امریکہ کے پاکستانی سفیر مسٹر آغا بلالی مقیم واشنگٹن ، پاک فضائیہ کے کمانڈرانچیف ایئر مارشل عبد الرحیم، کونسل مسلم لیگ کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں ممتاز محمد خان دولتانہ مشہور مسلم لیگی لیڈر سردار شوکت حیات خان ، سابق وزیر اعلی متحدہ پنجاب سردار خضر حیات خان، ڈاکٹر عبدالمطلب مالک گورنر مشرقی پاکستان، امریکہ، مغربی جرمنی، اٹلی، ترکی اور نیپال کے سفارتی نمائندے، عالمی بینک کے پاکستان امدادی کنسورشیم کے صدر مسٹر آئی پی ایم کارگل ، ذوالفقار علی بھٹو چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی (انہوں نے تار دیا کہ اسلام آباد میں آپ پر ہونے والے بزدلانہ حملہ کی اطلاع پر مجھے بہت دکھ پہنچا ہے ، پاکستان مسلم لیگ کے صدر خان عبدالقیوم خاں صاحب ( آپ نے اپنے پیغام میں آپ پر ہونے والے حملہ کی مذمت کی ).

Page 71

تاریخ احمدیت.جلد 27 61 سال 1971ء یہ حادثہ صدر پاکستان کے دورہ ایران کے ایام میں ہوا تھا.صدر پاکستان نوروز کے بعد ۲۰ ستمبر ۱۹۷۱ء کو واپس راولپنڈی پہنچے اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال تشریف لے جا کر آپ کی عیادت کی.65 جلسه سالانه صوبه سرحد ۲۵ ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء بروز ہفتہ اتوار جماعت ہائے احمد یہ صوبہ سرحد کے جلسہ سالانہ کا پشاور میں کامیاب انعقاد عمل میں آیا.جلسہ میں پشاور شہر کے علاوہ صوبہ کے دو درجن کے قریب شہری اور دیہی مقامات کی جماعتوں کے احباب نے سینکڑوں کی تعداد میں شرکت کی سعادت حاصل کی.جلسہ سالانہ کا افتتاح ۲۵ ستمبر ۱۹۷۱ء کو مسجد احمد یہ سول کوارٹرز کو ہاٹ روڈ پشاور میں محترم مولانا عبد المالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے کیا.جلسہ کے دودنوں میں نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے علاوہ مجموعی طور پر ۵ / اجلاس منعقد ہوئے.جن میں مرکز سے تشریف لیجائے گئے علمائے کرام اور ذی علم اصحاب نیز صوبہ سرحد میں متعین مربیان سلسلہ اور مقامی ذی علم اصحاب نے اہم علمی اور تربیتی موضوعات پر اردو اور پشتو میں ٹھوس ، پر مغز اور ایمان افروز تقاریر فرما ئیں.جلسہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا دعائیہ پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جو ان الفاظ پر مشتمل تھا.” میرے پیغام الفضل میں جاتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے جلسہ 66 کو کامیاب فرمائے اور تمام احباب کو اپنے فضلوں سے نوازے.“ جلسہ کا اختتام پر سوز اجتماعی دعا کیساتھ ہوا.66 خلافت لائبریری ربوہ کی جدید عمارت کا مبارک افتتاح ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو بعد نماز عصر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے خلافت لائبریری ربوہ کی جدید طرز کی نو تعمیر شدہ وسیع اور جاذب نظر عمارت کا افتتاح فرمایا.یہ مبارک تقریب خلافت لائبریری کے غربی لان میں منعقد ہوئی اور اس میں جملہ ڈائریکٹر ان فضل عمر فاؤنڈیشن کے علاوہ بعض صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام و افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، صدر انجمن احمد یہ وتحریک جدید کے ناظر اور وکلاء صاحبان، وقف جدید، مجلس انصار اللہ مرکز یہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ، بعض امراء جماعت ہائے احمدیہ اور سیکرٹریان فضل عمر فاؤنڈیشن شامل ہوئے.بعض سرکاری حکام اور غیر از جماعت معززین بھی تشریف لائے.

Page 72

تاریخ احمدیت.جلد 27 62 سال 1971ء تلاوت و نظم کے بعد شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام تعمیر ہونے والی اس شاندار عمارت کی تجویز سے لے کر اس کی تکمیل تک کے تمام مراحل پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ :."حضرت فضل عمر کی یہ بڑی خواہش تھی کہ مرکز میں ایک مکمل اور جامع لائبریری ہو اور اس کے لئے آپ نے اپنی زندگی میں متعدد مرتبہ توجہ دلائی بالخصوص ۱۹۵۲ء کی شوریٰ میں تو بڑے زور اور وضاحت سے لائبریری کی ضرورت، اہمیت اور افادیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:.یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں.تبلیغ اسلام، مخالفوں کے اعتراضات کے جوابات، تربیت یہ سب کام لائبریری سے ہی تعلق رکھتے ہیں.اور پھر فرمایا:.لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کام کے بغیر کام نہیں کرسکتی.ظاہر ہے کہ جامع لائبریری کا قیام جیسا کہ حضرت مصلح موعود کا منشاء مبارک تھا اور حضور کی ۱۹۵۲ء کی شوریٰ والی تقریر سے ظاہر ہے.ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کو فوری طور پر پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے سلسلہ کے جملہ اداروں کا باہمی تعاون از بس ضروری ہے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے اس عظیم منصوبہ میں سے ایک اہم حصہ یعنی مناسب و موزوں، پائیدار اور دیدہ زیب عمارت مہیا کرنے کا اپنے ذمہ لیا.فضل عمر فاؤنڈیشن نے لائبریری کی عمارت کی تعمیر کے لئے ساڑھے تین لاکھ روپیہ کا بجٹ منظور کیا.یہ بجٹ اگر چہ دو سال پہلے منظور کیا گیا تھا اس دوران تعمیری سامان اور متعلقہ اشیاء کے نرخوں میں اضافہ بھی ہوتا رہا.بایں ہمہ یہ وسیع ، دیدہ زیب و پائیدار عمارت جس کا اس وقت آپ نظارہ فرما رہے ہیں مقررہ بجٹ کے اندر ہی تکمیل کو پہنچ گئی.الحمد للہ کل خرج تعمیر ۱۵ / ۳,۶۴٫۳۳۲ روپے آیا.تعمیر مکمل ہونے پر جو سامان بیچ رہا اس کو بذریعہ نیلام عام فروخت کیا گیا جس سے ۱۱/ ۱۴,۵۹۷ کی آمد ہوئی اس رقم کو منہا کرنے کے بعد اصل خرچ ۴ / ۳,۴۹,۷۳۵ روپے ہوا.عمارت کی تعمیر ختم ہونے کے قریب تھی کہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے یہ فیصلہ کیا کہ عمارت کے ساتھ ضروری فرنیچر بھی فاؤنڈیشن مہیا کر دے.چنانچہ اس غرض کے لئے فوری مشورے کئے گئے.فرنیچر

Page 73

تاریخ احمدیت.جلد 27 63 سال 1971ء ہاؤسز میں فرنیچر دیکھا گیا بالآخر محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب محترم (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور محترم چوہدری حمید نصر اللہ خاں صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا.ان حضرات نے متعدد لائبریریوں کے فرنیچر کا جائزہ لیا اور باہمی مشورے سے پسند کیا کہ کتب ورسائل واخبارات رکھنے اور احباب کے مطالعہ کے لئے جدید قسم کا فرنیچر تیار کروایا جائے اس کے لئے گجرات کی مشہور فرم نظام فرنشنگ ہاؤس کو جو بہترین فرنیچر تیار کرنے میں بہت مشہور فرم ہے کو پچاس ہزار روپے کا آرڈر دیا گیا.اس وقت تک ۳۵ ہزار کا فرنیچر آچکا ہے اور لائبریری میں رکھوادیا گیا ہے کچھ مزید تیار ہورہا ہے.مین ہال میں ایک اچھی قسم کا کلاک بھی لگوا دیا گیا ہے.عمارت کے سلسلہ میں چند باتوں کا بیان کرنا ضروری ہے جن کو تعمیر کے وقت مدنظر رکھا گیا تا عمارت کی پائیداری اور مضبوطی کے ساتھ ساتھ اس کی دیدہ زیبی احسن رنگ میں قائم رہے.لائبریری کے لئے زمین کا قطعہ ۲۲۰ × ۱۰۰ ریز رو کیا گیا تھا جس میں سے ۹۲۰۰ مربع فٹ تعمیر شدہ عمارت کا پلنتھ ایریا ہے باقی سارا ایریا کار پارک، سائیکل سٹینڈ ، فٹ پاتھ ، باغیچے اور چار دیواری پر مشتمل ہے.عمارت کی بنیادوں ، ستونوں اور فرش میں Sulphate Resisting سیمنٹ استعمال کیا گیا ہے تاکہ کلر اور شور کے نقصان دہ اثرات سے عمارت محفوظ رہے.اسی طرح اس عمارت کی تعمیر میں دریا کے ٹیوب ویل کا پانی استعمال کیا گیا ہے کیونکہ لوکل پانی سے دریا کا پانی نسبتاً بہتر تھا.پوری عمارت R.C.C فریم سٹرکچر کی ہے.بنیا دیں.R.C.C ہیم کی ہیں عمارت میں R.C.C فریم کے درمیان اینٹ سٹرکچر ہے اور باہر فیسنگ ہے.Facing کے لئے اینٹیں خاص طور پر لاہور سے منگوائی گئیں.پوری عمارت کی بیرونی کھڑکیاں لوہے کی Glazed رکھی گئی ہیں.دروازے ساگوان لکڑی کے ہیں.چھتیں.R.C.C کی ہیں اور فرش ماربل چپس کے تیار کئے گئے ہیں.ان سب باتوں کو مدنظر رکھنے سے عمارت کی پختگی اور خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے.بنیادیں اتنی گہری اور ان میں R.C.C کی ایسی مقدار استعمال کی گئی ہے کہ دوسری منزل اس عمارت پر کسی وقت بھی تعمیر ہو سکتی ہے.موجودہ عمارت میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ پچاس ہزار کتب بآسانی رکھی جاسکیں اور ان کے انتظام کے لئے ضروری عملہ اور متعلقہ افراد اپنے فرائض کو عمدگی سے انجام دے سکیں.عمارت کی مغربی جانب مزید پچاس ہزار کتب کے لئے جگہ ریز رو ہے اور جب لا کھ کتب سے

Page 74

تاریخ احمدیت.جلد 27 64 سال 1971ء زائد کتب لائبریری میں رکھنے کا سوال پیدا ہو گا تو دوسری منزل تعمیر کروائی جا سکے گی جس میں مزید ایک لا کھ کتب رکھی جاسکیں گی.لائبریری کی عمارت تین حصوں میں منقسم ہے یعنی انٹرنس ہال ، ایڈ منسٹریشن بلاک اور مین ہال، انٹرنس ہال، لائبریری کی عمارت میں داخل ہونے کے لئے یہ ہال ۲۰×۳۰ فٹ سائز کا ہے جس کے سامنے ایک انڈور باغیچہ گلاب کے پودوں سے مزین کیا گیا ہے درمیان میں ایک فوارہ بنایا گیا ہے اور روشنی کے لئے ٹیوب لگائی گئی ہیں.اس ہال سے ہی مختلف حصوں میں جانے کے لئے دروازے اور راستے ہیں.یعنی دائیں طرف اخبارات رسائل کے لئے الگ ریڈنگ روم اور ایڈ منسٹریشن بلاک ہے اور بائیں طرف مین ہال برائے کتب، مطالعہ کتب کے لئے ریڈنگ روم ہے.انٹرنس ہال نئی تصنیفات اور چیدہ نقشہ جات اور مسودات کے Display کرنے کے لئے نہایت موزوں ہے.ایڈمنسٹریشن بلاک میں 11 کمرے ہیں.ا.لائبریرین اور ان کے سٹینو کا کمرہ.جس میں ٹیلیفون لگوا دیا گیا ہے.۲.اسسٹنٹ لائبریرین کا کمرہ.۳.سٹاف کا کمرہ.۴.زودنویس کا کمرہ.۵.مؤرخ احمدیت کا کمرہ.۶.مائیکر وفلم اور مائیکر و کارڈ ز کا کمرہ.۷ و ۸.دو غسل خانے مشرقی اور مغربی طرز کے.۹.ریسیونگ اینڈ کیٹلاگنگ کا کمرہ.۱۰.کمرہ جلد سازی.۱۱.کینٹین جس میں ضروری شیلو چپس کے تیار کروائے گئے ہیں اور الیکٹرک کیٹل فٹ ہے.ان کمروں میں جانے کے لئے کا ریڈار بنے ہوئے ہیں.ہر کمرہ پر تختی لگوا دی گئی ہے تا ضرورتمند متعلقہ کا رکنوں سے جلد تعلق پیدا کر سکیں.مین ہال تقریباً ۶۸ × ۶۲ سائز کا ہے اس میں پچاس ہزار کتب رکھنے کی گنجائش مہیا کی گئی ہے اس ہال میں مغربی طرف آٹھ کیوبیکلز بھی بنائے گئے ہیں تا کہ ریسرچ سکالرز ان میں اطمینان سے بیٹھ کر یکسوئی کے ساتھ علمی تحقیق کا کام کر سکیں.عمارت کے مکمل ہونے پر فاؤنڈیشن نے محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب پر مشتمل انسپکشن ٹیم مقرر کی تا ساری عمارت کا جائزہ لیا جائے.انسپکشن ٹیم نے ضروری اصلاحات کی طرف توجہ دلائی اور مجوزہ اصلاحات کے مطابق ضروری اقدامات کئے گئے.خاکسار اس موقع پر یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ مخدوم و محترم چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد 27 65 سال 1971ء کو پاکستان میں رہنے کا بہت کم وقت ملتا ہے لیکن اس عرصہ میں جب بھی آپ ربوہ تشریف لائے بڑی فکرمندی کے ساتھ جلد سے جلد کام کی تکمیل کے لئے تو جہ دلاتے رہے اور فاؤنڈیشن کے نائب صدر محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب نے تو میرے علم اور ذاتی اطلاع کی بناء پر اپنے مکان اور دفاتر کی تعمیر کے لئے ایسا انہماک نہیں دکھایا جس قدر انہماک سلسلہ کی اس عمارت کی تعمیر کے سلسلہ میں دکھایا.ہر کام، ہر تفصیل، ہر چیز جو عمارت کے سلسلہ میں ضروری تھی اس کے متعلق پوری چھان بین کرتے رہے ان کے اس طریق کار سے اس عمارت کی تکمیل میں گرانقدر امداد ملی.فاؤنڈیشن کے دفتر کے کارکنوں نے بھی اس سلسلہ میں اپنے فرائض بڑی مندی سے انجام دیئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب 67- سپاسنامہ کے بعد سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے وقت کی قلت کے باوجود ایک نہایت پر معارف اور ایمان افروز تقریر فرمائی.حضور نے فرمایا جس وقت فضل عمر فاؤنڈیشن نے لائبریری کی اس عمارت کی تجویز سوچی تھی اس وقت ہمیں یہ ایک بڑا منصوبہ نظر آتا تھا.ہم اس وقت بھی خوش تھے اور آج اس منصوبہ کی تکمیل پر بھی خوش ہیں لیکن اس وقت ہماری آنکھ نے جس منصو بہ کو بڑا سمجھا تھا آج ہماری آنکھ اسے چھوٹا پارہی ہے اور ہم یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہمیں تو لائبریری کی ایک ایسی عمارت کی ضرورت ہے جس میں کم و بیش پانچ لاکھ کتب رکھی جاسکیں لیکن بہر حال یہ ضرورت کا احساس ہے اسے پورا کرنے کے سامان انشاء اللہ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ خود فرمائے گا لیکن اس کے لئے ابھی سے ہمیں اس عمارت کے پیچھے جو زمین ہے اسے لائبریری کے لئے وقف رکھنا چاہیے.حضور نے فرما یا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک ماڈل لائبریری کا ذکر کیا ہے اور وہ ماڈل لائبریری خود قرآن ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کتاب (قرآن مجید ) ایک ایسی کتاب ہے کہ فِيْهَا كُتُبُ قَيَّمَةٌ ( البينة : ٤ ) یعنی یہ قائم رہنے والی کتب کا مجموعہ ہے.اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جو کتابیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئیں ان میں جتنی ابدی صداقتیں تھیں وہ سب کی سب قرآن کے ذریعے قائم کر دی گئی ہیں اور قرآن میں تمام دائمی اور ابدی صداقتوں کو محفوظ رکھنے کا انتظام کر دیا گیا ہے.گویا روحانی اور معنوی رنگ میں قرآن ایک بہترین لائبریری ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود خدا نے لی ہے.سینکڑوں ہزاروں کتب بلکہ بڑے سے بڑے کتب خانوں کا نچوڑ اس میں موجود ہے اور فِيهَا كُتُبُ قَيَّمَةٌ کہہ کر

Page 76

تاریخ احمدیت.جلد 27 66 سال 1971ء اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتادیا کہ قرآنی اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے لائبریریوں کے قیام کی غرض مومنوں کے نزدیک صرف یہ ہونی چاہیے کہ دنیا میں قرآن کریم کے علوم پھیلیں اور محفوظ ہوں اور اس طرح ابدی اور دائی صداقتیں دنیا میں ہمیشہ قائم رہیں.قرآن کریم کی تفسیر کیلئے جو کتب بھی لکھی جائیں یا جو کتب تفسیر میں محمد ہوں وہ سب ہماری لائبریری میں موجود ہونی چاہئیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ارشادات ہیں جو احادیث کے رنگ میں موجود ہیں وہ بھی قرآن کی تفسیر پر ہی مشتمل ہیں اسی طرح امت کے دوسرے مقربین الہی نے بھی جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں قرآن کے سیکھنے اور سکھانے میں ہی صرف کیں جو کتب لکھیں وہ بھی قرآن ہی کی تفسیر ہیں.اس لئے وہ بھی فِیهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ میں شامل ہیں اور ہماری لائبریری میں محفوظ ہونی چاہئیں.حضور نے فرما یا لائبریری کی یہ عمارت ہماری اجتماعی قربانی کا نتیجہ ہے اب ہمیں انفرادی طور پر بھی قرآنی اسوہ کی پیروی کرتے ہوئے اس لائبریری کے لئے زیادہ سے زیادہ ایسی کتب مہیا کرنی چاہئیں جو کسی نہ کسی رنگ میں قرآنی علوم کی اشاعت میں مد ومعاون ہوں.حضور نے فرمایا میں افراد سے یہ کہوں گا کہ آپ بہت سی ایسی کتب خریدتے ہیں جنہیں ایک دفعہ پڑھ کر پھر آپ کی اس میں دلچسپی ختم ہو جاتی ہے اور وہ ادھر اُدھر پڑی ضائع ہو جاتی ہیں.آپ کو چاہیے کہ ایسی تمام کتب آپ اپنی اس مرکزی لائبریری کو بھجوا دیا کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اس طریق سے ہر سال ہماری اس لائبریری میں کم و بیش ایک لاکھ کتب کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کا ثواب مفت میں ان لوگوں کو ملتا رہے گا جنہوں نے وہ کتب بھجوائی ہوں گی.آخر میں حضور نے فرمایا کہ یہ عمارت تو ابھی ایک ابتدا ہے ایک درخت ہے جو لگایا گیا ہے اس پر پھل لگنے ابھی باقی ہیں.ابھی بہت سے کام ہیں جو اس کے تعلق میں ہونے باقی ہیں.ہمیں ایسے لوگوں کی بھی شدید ضرورت ہے جو ریسرچ اور تحقیق کی طرف متوجہ ہوں اور اس لائبریری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھی علمی رنگ میں جماعت کی خدمت کریں.68 سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا انتیسواں سالانہ اجتماع تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی جنوبی جانب باسکٹ بال سے متصل میدان میں مورخہ ۸ ،۹، ۱۰ / اکتوبر ۱۹۷۱ء منعقد ہوا.اس اجتماع میں پاکستان بھر کی ۴۲۸ مجالس کے ۳۱۰۲ خدام نے شرکت کی.یہ اجتماع تین دن تک ذکر الہی ، علمی و دینی

Page 77

تاریخ احمدیت.جلد 27 67 سال 1971ء مصروفیات اور مومنانہ نظم وضبط کے پاکیزہ ماحول میں جاری رہا.اس اجتماع میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خدام کو اپنے انتظامی و انتقامی خطابات سے نوازا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب اجتماع کے افتتاحی خطاب میں حضور انور نے سورۃ فاتحہ اور سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن کریم ایک شریعت کی شکل میں انسان کی طرف بھیجا گیا ہے اور یہ ایسے احکام پر مشتمل ہے جن پر عمل کرنا دینی اور دنیوی ترقی کے لئے ضروری تھا.قرآن کریم کی شریعت پر عمل کر کے ہمیں فائدہ ہی فائدہ ہے نقصان کا کوئی پہلوغور کرنے والے کے سامنے نہیں آتا.قرآن کریم کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو ظاہر کرنے کے لئے حکم آنحضرت صلی ہی تم کو ہوتا ہے.بلکہ سارے احکام کے پہلے اور حقیقی مخاطب تو آنحضرت سلایا کہ تم ہیں.ان آیات قرآنی کی جن کی میں نے سورۃ فاتحہ کے بعد ابھی تلاوت کی ہے ان میں آنحضرت صلی یہ تم کو سات حکم دیئے گئے ہیں یا ایک اور طرز پر ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرت صلی یتیم کی سات صفات بیان کی گئی ہیں.ہر نسل کے اندر یہ سات صفات پیدا ہونی چاہئیں اور ان کا خوگر اور عادی ہونا چاہئیے کہ وہ اس قسم کے اعمال بجالائیں.- يَا يُّهَا الْمُدَّثِرُ میں یہ صفت بیان ہوئی ہے کہ ہر کام کے لئے تیاری کرنی پڑتی ہے اسی لئے آنحضرت صلی ای ایم نے فرمایا کہ بچے کو دس سال تک نماز کے لئے ذہنی طور پر تیار کرو اور دس سال کے بعد عملی طور پر اس کی تربیت کرو.(الف) المدثر کے ایک معنی ڈیوٹی کے لباس میں ملبوس کے ہیں اور مومن اور مسلمان کی ڈیوٹی کا لباس تقویٰ ہے.(ب) مدثر کے دوسرے معنی ہیں گھوڑے پر سوار اور حکم کا منتظر، گویا کہ مدثر وہ ہے کہ اس کے حکم سننے اور عمل کرنے کے درمیان کوئی توقف نہ ہو.نبی کریم صلی ایتم کی یہ شان تھی کہ ادھر اللہ تعالیٰ کا حکم نازل ہوا ادھر اس پر عمل شروع ہو جا تا تھا.آپ کے ماننے والے کی بھی یہی شان ہونی چاہیئے.٢ - قُمْ فَانْذِرُ.قام کے معنی کھڑے ہونے کے بھی ہیں، عزم کے بھی ہیں اور حفاظت کے بھی ہیں.تو آیت کے معنی ہوں گئے دنیا کی حفاظت کے لئے پورے عزم کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کو ڈراؤ انذار یہ ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میرا بندہ مدثر بنے اور میرے حکم پر لبیک کہنے والا ہو اور اپنے عمل سے میری محبت ، میرے پیار اور میرے تعلق کا اظہار کرنے والا ہو.سو تم عزم کے

Page 78

تاریخ احمدیت.جلد 27 68 سال 1971ء ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کی حفاظت کی نیت کے ساتھ ملک ملک ، قریہ قریہ اور شہر شہر دنیا کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ تم خدا سے دور ہو گئے ہو تم اپنے لئے ہلاکت اور تباہی کے سامان پیدا کر رہے ہو تم اپنے رب کی طرف واپس آ جاؤ.وَرَبَّكَ فَكَبَّر.اس میں اندار کی ایک بنیادی دلیل بیان کی ہے کہ کس کا انذار کرنا ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے سامنے خدا تعالیٰ کی صفات بیان کرو تم خدا کے نام کی عظمت کو قائم کرو اس کی کبریائی کو قائم کرو یہی اس کی صفات ہیں.وَثِيَابَكَ فَطَرُ میں طھر کے ایک معنی صفائی کے ہیں.وَثِيَابَكَ فَطَرُ کے ایک معنی حضرت مصلح موعود نے کیسے ہیں.اور اسی سے ملتے جلتے بعض دوسروں نے بھی کئے ہیں کہ جماعت کی تربیت کر.تیرے ارد گرد جو لوگ آگئے ہیں ان کی تربیت کر.ه وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ الرُّجْزَ کے معنی ذنب (گناہ) بھی ہیں اور بت پرستی بھی.گویا فرمایا کہ شرک سے بچو.شرک کے اصل معنی خدا سے دوری کے ہیں اور اسی کا نام گناہ ہے.الرجز کے دوسرے معنی الذنب یعنی گناہ کے ہیں دراصل گناہ ہے ہی شرک کا نام اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام گناہ نہیں.حقیقت یہی ہے کہ خدا سے دوری گناہ ہے.- وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ.پھر آنحضرت سالا ہی ہم سے یہ فرمایا کہ جس خدا نے تمہیں اتنا دیا ہے اس کے بدلہ میں تمہیں بھی احسان کرنا پڑے گا.میں کہا کرتا ہوں کہ ساری دنیا کی گالیاں اور ظلم جو اسی سال سے ہم پر ہور ہے ہماری مسکراہٹوں کو بھی نہیں چھین سکے اور نہ ہم سے قوت احسان چھین سکے ہیں.ہمارا بڑے سے بڑا دشمن اگر کسی کام کے لئے ہمارے پاس آتا ہے تو ہم اس کا کام مسکرا کر کر دیتے ہیں کیونکہ ہمیں خدا نے اتنا دیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہمارا یہ احساس ہے کہ ساری دنیا یعنی عالمین ہمارے لئے ہی ہیں.تو فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم پر بڑا احسان کیا ہے تمہارے دماغ میں احسان کا بدلہ لینے کا خیال کبھی پیدا نہ ہو.اور تمہیں جو ہدایتیں دی گئی ہیں ان کے او پر سختی سے قائم رہو، صبر سے کام لو.وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ.صبر کے بہت سے معنی ہیں.ایک معنی شجاعت کے ہیں.یعنی میدان جنگ میں قائم رہنا.صبر کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ اگر کسی کا بچہ مر گیا ہے تو نہ رونا.اسی طرح انسان کی زندگی میں صبر مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتا ہے.تو فرمایا کہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد 27 69 سال 1971ء کرنے کے لئے صبر کی راہوں کو اختیار کرو.سی سات صفات مظلومیت سے کامل محسن بننے تک کے راستے کے نشان ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تمہیں یہ سات گر سمجھاتا ہوں ان پر عمل کرو اور جتنی تمہاری طاقت ہے اس کے مطابق تیاری کرو “ پھر حضور انور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ مجھے اور آپ کو یہ بشارت دیتا ہے کہ جتنی تمہاری طاقت ہے اس کے مطابق جب تم تیاری کر لو گے اسلام کو غالب کرنے کے لئے.اس طاقت کے علاوہ اس سے زیادہ ہزار کروڑ ، ارب بلکہ کھرب گنا جس قدر طاقت کی ضرورت ہوگی وہ میں تمہیں دوں گا.اب پھر آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسلام از سر نو اسی شان و شوکت اور اسی تر و تازگی کے ساتھ دنیا میں دیکھا جائے گا اور پہلے زمانہ کی طرح دنیا پر پھر احسان کرے گا.یہ آسمانوں کا فیصلہ ہے زمینی طاقتیں اسے نہیں روک سکتیں.لیکن آسمان کا یہ فیصلہ مجھ پر اور آپ پر بہت سارے فرائض بھی عائد کر رہا ہے.خدا تعالیٰ نے نشان دے دیئے ہوئے ہیں.Arrows لگے ہوئے ہیں کہ یہ راستہ ہے تمہارے محسنِ کامل کا.یہ سات نشان یا Arrows ہیں جو نشاندہی کر رہے ہیں کہ ان راستوں پر چلو اور یہ صفات اپنے اندر پیدا کرو تو پھر خدا تعالیٰ تمہارے کمزور اور مظلوم ہونے کے باوجود تمہیں ظالم ہونے سے بھی بچائے گا اور محسنِ کامل بھی بنادے گا.تو آج کی نسل پر یعنی خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ.یعنی جو اس وقت سات سال سے لے کر چالیس سال تک کے ہیں اس نسل پر بڑی ذمہ داریاں ہیں.اس وقت افق انسانیت پر غلبہ اسلام کی شعاعیں تیز نگاہیں رکھنے والوں کو نظر آ رہی ہیں اور جن کی نگاہیں کمزور ہیں وہ آج نہیں تو کل دیکھ لیں گے لیکن ہمارے اوپر جو ذمہ داریاں ڈالی گئی ہیں ان کے مطابق ہمیں ہر وقت دینی ، اخلاقی ، ذہنی اور علمی لحاظ سے چوکس رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری حقیر کوششیں کامیاب ہوں اور یہ نسل خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو ہم 66 سے زیادہ حاصل کرے کم حاصل نہ کرے.“ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا اختتامی خطاب حضور انور نے اجتماع کے آخری روز مورخہ ۱۰ / اکتوبر نماز ظہر وعصر کے بعد خدام کو اپنے

Page 80

تاریخ احمدیت.جلد 27 70 سال 1971ء اختتامی خطاب سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ میں جماعت احمدیہ کو عموماً اور نو جوانوں کو خصوصاً اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تمہاری ماں ، مادر وطن آج تمہیں بلا رہی ہے اور تم سے قربانی چاہتی ہے.پاکستان کی سالمیت اور اس کی حفاظت کے لئے ہماری طاقتوں کا آخری جزو بھی خرچ ہو جانا چاہیے.ہمارے ذہن ہر قربانی کیلئے تیار ہیں اور ہمارا عمل ہمارے ذہنی فیصلوں کی ہر وقت تائید کرنے والا ہو.اگر مادر وطن نے ہم سے قربانی مانگی تو خدا کرے کہ سارے پاکستانی ہی اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک کی سالمیت پر قربان ہو جائیں لیکن احمدیوں کو بہر حال کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہیے صرف یہی نہیں کہ نسبتا پیچھے نہیں رہنا بلکہ دوسروں کی طرف دیکھے بغیر قربانیوں میں آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانا ہے انشاء اللہ.حضور نے فرمایا کہ آپ کے سر خدا تعالیٰ کے حضور اس شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ جھک جانے چاہئیں اور دنیا کو خوش ہونا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ آپ کو خدمت کے مقام پر کھڑا کر دیا یہ اللہ کا بڑا احسان ہے.جو لوگ آقا کے مقام پر ہوتے ہیں ان میں سے تو ایک حصہ وہ ہے جو اپنے زور بازو سے جنگ کے نتیجہ میں اثر و اقتدار کے لحاظ سے اور دولت کی وجہ سے خود آقا بن جاتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ آقا بناتا ہے.جنہیں اللہ تعالیٰ آقا بناتا ہے وہ بھی اور جو خود آقا بن جاتے ہیں وہ بھی ، بڑے نازک مقام پر ہیں.جو خدا کے فضل اور اس کی مدد سے بڑے ہو کر نیچے گر جاتے ہیں ان کا تو کچھ باقی نہیں رہتا اور جو اس دنیوی نظام کے تحت بڑے بن جاتے ہیں ان میں لالچ پیدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی نگاہ میں تو وہ دھتکارے ہی جاتے ہیں انسان کی نگاہ بھی حقیقتاً نہیں عزت سے نہیں دیکھتی.سوآقا کا مقام خوف کا مقام ہے ڈرتے رہنے کا مقام ہے خشوع وخضوع کا مقام ہے.بڑے بڑے اونچے جانے والے سر کے بل گرے اور ان کے پر خچے اڑ گئے لیکن وہ خادم جس کا سر اپنے رب کے حضور سجدہ میں زمین پر ہی رہتا ہے وہ کہاں گرے گا.وہ تو بلند ہی نہیں ہوا وہ جب بلند ہوتا ہے تو اس وقت بلند ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اس وقت اسے کوئی خطرہ نہیں ہوتا.خادم کا مقام یہ ہے کہ سر ہر وقت زمین پر سجدہ ریز رہے.اس واسطے اس قوم اور اس نسل پر خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے جسے خدا تعالیٰ نے خادم کا مقام دیا اور خادم کا احساس دیا اور خدمت کا جذبہ

Page 81

تاریخ احمدیت.جلد 27 71 سال 1971ء عطا کیا.یہ مقام آج اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو دیا ہے اور یہ مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ وقت نے نوجوانانِ احمدیت کو دیا ہے.یہ اللہ کا بڑا احسان ہے.حمد کے ترانے گا و سروں کو اونچا نہ کرو اور خدمت کا جو مقام ہے اسے نہ بھولنا.آپ خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں آپ کو خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ تمہیں میں نے (للنَّاسِ ) انسانوں کی خدمت کے لئے پیدا کیا ہے.اگر آپ اپنے اس مقام کو نہ بھولیں تو آپ خیر امت ہوں گے.دنیا میں کوئی ایسی امت پیدانہ ہوئی ہوگی اور نہ پیدا ہوگی.محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام تک پہنچے وہ انتہائی نقطۂ عروج ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھا اس کا مقام بھی انتہائی نقطۂ عروج پر ہے لیکن اس کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں سر رکھنا ضروری ہے اس کے بغیر نہیں.پس ہمارے رب نے ہمیں خدمت کے مقام پر کھڑا کر دیا تو اس نے ہم پر بڑا ہی احسان کیا.آپ اس مقام کو کبھی نہ بھولیں.پس تم خدمت کیلئے تیار ہو جاؤ.ہر انسان جس حیثیت میں بھی ہے اس کی آپ نے خدمت کرنی ہے.حضور انور نے خطاب کے آخر پر فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدمت کے نقطۂ نگاہ سے جو عظیم ذمہ داریاں ہم پر ڈالی گئی ہیں انہیں پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہمیں توفیق ملے اور پھر اس کے بعد محض اپنے فضل سے نہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے ہمیں جو بشارتیں اس نے دی ہیں اس کے مطابق ہمیں انعامات سے نوازے.70 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا خطاب ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اس اجتماع میں اصلاح وارشاد“ کے موضوع پر ایک اہم خطاب فرمایا جس میں اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں خدام احمدیت کو دعوت الی اللہ کی اہمیت اور اس کے زریں قرآنی اصول بتائے چنانچہ فرمایا :.دعوت حق آپ کے لئے ایک فریضہ ہے اور اس کو آپ ٹال نہیں سکتے.اگر ٹالیں گے تو آپ کی ہستی کامل صورت اختیار نہیں کرے گی.ناقص بچے بھی پیدا ہو جاتے ہیں.بظاہر تو وہ انسانوں کے زمرہ میں شمار ہوں گے لیکن حقیقتا وہ مکمل انسان نہیں ہوتے.تو تبلیغ کے بغیر ایک مومن خادم کا تصور نامکمل ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فریضہ کو کیسے سمجھا اور کس طرح ادا کیا.یہ بہت بڑی تفصیل ہے.

Page 82

تاریخ احمدیت.جلد 27 72 سال 1971ء حضور کی زندگی کی ساری تاریخ اس پر شاہد ناطق ہے.ایک چھوٹی سی بات میں عرض کروں گا کہ وہ واقعہ آپ نے سنا ہوا ہے کہ سردارانِ مکہ اکٹھے ہو کر حضرت ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اپنے بھتیجے کو تبلیغ سے باز رکھ لو جو تصورات اس کے ہیں بے شک ہوں ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ تو بہ کر کے ہمارے دین میں داخل ہو جائے.ہمارا مطالبہ صرف یہ ہے کہ یہ دوسروں تک بات پہنچانی بند کر دے اس کے عوض اگر یہ حسین ترین عورت چاہتا ہے تو ہم اسے دنیا کی حسین ترین عورت پیش کر دیتے ہیں.اگر مال و دولت کی خواہش ہے تو جو مال و دولت ممکن ہیں ہم اس کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں اور اگر اسے سرداری کا شوق ہے تو ہم اسے سرداری عطا کرتے ہیں اور سردار تسلیم کر لیتے ہیں لیکن یہ دوسروں کو تبلیغ کرنا چھوڑ دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان چیزوں کی جو اہمیت تھی وہ آپ کے اس جواب سے ظاہر ہوتی ہے.آپ نے فرمایا کہ اے چا! اگر ان کے دباؤ میں آکر آپ مجھے چھوڑ نا چاہتے ہیں اور آپ کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے تو مجھے چھوڑ دیجئے.مجھے آپ کا سہارا نہیں ہے.یہ دنیوی چیزیں کیا ہیں؟ خدا کی قسم! اگر سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر رکھ دیں تب بھی میں تبلیغ سے باز نہیں آسکتا.خدا نے ایک فریضہ مجھ پر عائد فرمایا ہے میں کس طرح اسے ٹال سکتا ہوں....قرآن کریم میں جو انبیاء کے تبلیغ کے حالات ہیں ان کا آپ اگر تجزیہ کریں تو اس آیت (النحل : ۱۲۶ ) میں جو احکامات ہیں ان سب کے مضامین اس میں پیش ہیں.حضرت نوح ، حضرت ابراہیم، حضرت موسی ، حضرت عیسی ، حضرت لوط ، حضرت صالح“ وغیرہ جتنے انبیاء ہیں ان کے واقعات میں اس آیت کے پیش نظر تمام مضامین آجاتے ہیں کہ انہوں نے کس طرح حکمت سے کام لیا اور کس طرح موعظہ حسنہ کیا وغیرہ وغیرہ.موعظہ حسنہ کو حکمت کے بعد رکھا گیا ہے.ابھی تک دلیل کا ذکر نہیں آیا.نصیحت دلیل کو نہیں کہتے.فرمایا تم حکمت سے کام لیتے ہوئے موعظہ حسنہ پیش کرو.موعظہ 71

Page 83

تاریخ احمدیت.جلد 27 73 سال 1971ء حسنہ کی بہترین مثال دیکھنی ہو تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کے مضمون پر جو باتیں بیان فرمائی ہیں ان کا مطالعہ کریں.ایک ایک لفظ دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے اور دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو جاتا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح یہ عبارات سیدھی دل میں جاگزیں ہو گئی ہیں.تو موعظہ حسنہ میں پہلی شرط یہ ہے کہ نصیحت اخلاص اور محبت میں اس طرح ڈوبی ہوئی ہو کہ وہ دل سے نکلے اور دل میں جذب ہو جائے اور درمیان کی ساری روکیں بیچ میں سے غائب ہو جا ئیں.ماں بچے کو جو نصیحت کرتی ہے ہمدردی کے ساتھ ، دکھ کے ساتھ ، پیار کے ساتھ ، وہ موعظہ حسنہ ہے اور ماں سے زیادہ پیار کرنے والے انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں.ماں کی نصیحت سے کئی گنا زیادہ اثر ان کے اندر ہوتا ہے تو عمدہ نصیحت اختیار کرنا اور عمدگی اور محبت کے ساتھ اسے پیش کرنا موعظہ حسنہ کا ایک پہلو ہے.پس جب تک آپ جدال سے قبل محبت کی زبان میں ، ہمدردی کی زبان میں ،خلوص میں ڈوب کر ، ایسے دکھ کے ساتھ بات کرنی نہ سیکھ جائیں کہ دوسرا انسان سمجھے کہ یہ میرے غم میں ہلاک ہوا جارہا ہے.اس وقت تک آپ موعظہ حسنہ پہنچانے کے اہل نہیں ہو سکتے.اس کے بعد دلیل کا مقام آتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں مَوعِظَة حَسَنَة کے بعد فرمایا وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ١٢٦ ) جب حکمت بظاہر کام نہ کر رہی ہو.یا یہ کہنا چاہیے کہ حکمت نے ایک زمین تیار کر لی ہو اور اس کے بعد موعظہ حسنہ نے زمین کو اور نرم کر دیا ہو، گداز کر دیا ہو، طبیعت مائل ہو جائے تو پھر علم کی باری آتی ہے پھر تمہیں دلائل پیش کرنے پڑیں گے اور صرف اسی پر بس نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ حکمت اور موعظہ حسنہ دونوں دلوں کو بھیجتے ہیں اور انسانی فطرت کا دودھ اترنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے پھر یہ نہ سمجھیں کہ بات ختم ہو گئی.پھر اُس دودھ کو دو ہیں.جہاں جدال کا ذکر ہے وہاں سے دلائل شروع ہو جاتے ہیں.ایک وقت آتا ہے جس میں جدال کرنا پڑتا ہے اور یہ جدال جو ہے اس جدال میں سختی اور خشونت کا مفہوم ہرگز نہیں ہے.قرآن کریم نے جدال کے ساتھ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ

Page 84

تاریخ احمدیت.جلد 27 74 سال 1971ء أَحْسَنُ کہہ کر احسن کی شرط لگائی ہے.ہو سکتا ہے مخالف تبلیغ کے دوران میں سختی بھی اختیار کریں، گالیاں بھی دیں، آپ کو جسمانی تکلیفیں دیں ان سب کے نتیجہ میں آپ کو اس حقیقت کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ کو صرف جدال حسنہ کی اجازت ہے.اس طرح دفاع کرنے کی اجازت ہے جس کو قرآن کریم جدال حسنہ فرماتا ہے.یہ جدال حسنہ کیا ہے؟ اس کی تعریف خود قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تبلیغ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے.بیان ہورہا ہے) اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِى حَمِيمٌ ( حم السجدة: ۳۵) کہ جب تمہارا مقابلہ ہو تو جدال حسنہ سے کام لو.اپنا دفاع بہترین رنگ میں کرو.جدال حسنہ ہم اس کو کہیں گے جس کے نتیجہ میں جو تمہارا جان کا دشمن ہو وہ جان فدا کرنے والا دوست بن جائے.....قرآن کریم کا اس پہلو سے مطالعہ ضرور کرتے رہیں.مثال کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ بعض خاص طریقہ ہائے تبلیغ کے متعلق بعض خاص انبیاء کی مثالیں پیش کی گئی ہیں.ہمارے ہاں بے صبری کا ایک یہ بھی مظاہرہ ہوتا ہے کہ تھوڑی سی بات کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ حجت تمام ہو گئی.اور کہتے ہیں کہ بس اب عذاب کا انتظار کرو.چھوٹی چھوٹی ہمتوں والے لوگ مباہلوں کا چیلنج دے بیٹھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بس اب وہ آخری وقت آ گیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آیا تھا اور اس سے پہلے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا تھا اور اب ہم اس مقام پر کھڑے ہو گئے ہیں کہ مباہلہ کریں اور اگلے کو ہلاک کر دیں.حالانکہ حجت تمام کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.سورہ نوح کا مطالعہ کریں یہ دیکھیں کہ حضرت نوح نے اپنی آخری دعا سے پہلے جس میں اس قوم کی ہلاکت کی دعا مانگی ہے کیا کیا با تیں پیش کی ہیں کہ کیا کیا میں اس قوم کے ساتھ کر چکا ہوں.فرماتے ہیں دن رات میں نے ان کو نصیحتیں کیں.میں نے ان کو صبح سے ڈرایا ہے شام سے بھی ڈرایا ہے تمام بدلتے ہوئے موسموں میں تمام بدلتی ہوئی کیفیات میں ان کو انذار کیا.میں نے ہر طریقے سے تیرا پیغام انہیں پہنچایا.میں نے گریہ و

Page 85

تاریخ احمدیت.جلد 27 75 سال 1971ء زاری بھی کی، ان کی منتیں بھی کیں اور اے خدا! تمام دروازے کھٹکھٹائے ہیں اور اب میں ان کی ہلاکت کی دعا کر رہا ہوں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دعا بھی خدا تعالیٰ کی اس اطلاع کے بعد تھی کہ اب یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے.نوح نے کہا کہ اب تو تو مجھے اطلاع دے بیٹھا ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے تو اے خدا! اس آخری اطلاع کے بعد اب میں تیرے حضور گریہ وزاری کرتا ہوں کہ ایسے انسانوں کو جو کافر اور ملحد جنیں، ایسی ماؤں کو جو فجار اور کفار پیدا کریں یہ بہتر ہے کہ ایسے لوگوں کو اس دنیا سے اٹھا لے.یہ ہے حجت تمام کرنا.آپ کو اپنے حوصلے بہت بلند رکھنے پڑیں گے.تبلیغ میں پہلا اور آخری حربہ دعا کا ہے دعا کی مدد کے بغیر کوئی تبلیغ نہیں ہوسکتی، کوئی توفیق نہیں مل سکتی.72 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا چودہواں سالانہ اجتماع ۸ /اکتوبر ۱۹۷۱ء کو شروع ہوا اور ۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۱ء کو نہایت درجہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.بیرون ربوہ سے ۱۳۶ مجالس کی ۸۸۸ ممبرات شامل ہوئیں.جبکہ اجتماع میں مستورات و ناصرات کی مجموعی تعداد پانچ ہزار رہی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے ۹ راکتو بر ۱۹۷۱ کواجتماع کے دوسرے دن خطاب فرمایا.آپ نے سورۃ التغابن کی آیت نمبر ۱۴ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ ہمارے سپر د جو کام کیا گیا ہے وہ بہت اہم ہے.ہم نے ساری دنیا کو حلقہ بگوش اسلام کرنا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت تمام بنی نوع انسان کے دلوں میں قائم کرنی ہے.ان میں خدا تعالیٰ کی شناخت اور معرفت پیدا کرنی ہے.اور یہ کام ہم اپنے زور ہمت اور وسائل سے نہیں کر سکتے.اس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کا سہارا طلب کرنا چاہئیے.اس کی نصرت اور تائید کے طلبگار رہنا چاہیئے.جو شخص خدا تعالیٰ پر توکل رکھتا ہے وہ دنیا کی کسی طاقت سے شکست نہیں کھایا کرتا.کیونکہ سب طاقتوں اور قوتوں کا منبع وہی ہے.دنیا کی ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے.دنیا میں ایک پتا بھی اس کی اجازت اور علم کے بغیر نہیں ہل سکتا.

Page 86

تاریخ احمدیت.جلد 27 76 سال 1971ء حضور نے فرمایا کہ کیا میں آپ میں سے ہر ایک پر یہ حسن ظن رکھوں کہ آج اسلام کی جنگ میں آپ پیٹھ نہیں دکھا ئیں گی اور دنیا کا لالچ اور دنیا کی زینت آپ کو خدا تعالیٰ سے دور نہیں لے جائے گی.اگر میں اپنے اس حسن ظن پر ہوں تو آج بھی ہماری حقیر کو ششوں کے نتائج دنیا اس طرح دیکھے گی جس طرح اس نے اسلام کی ابتداء میں صحابہ کی کوششوں کے دیکھے تھے.73 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا تین ہزار پاؤنڈ کا گرانقدر عطیہ نصیر احمد خاں صاحب صدر شعبہ طبیعات تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے قلم سے روز نامہ الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۷۱ء کے صفحہ ۶ پر یہ خوشکن اطلاع شائع ہوئی کہ:.محترم پروفیسر عبدالسلام صاحب ایف آرایس سائنسی مشیر اعلیٰ صدر پاکستان نے شعبہ فزکس تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی لائبریری کے لئے تین ہزار پاؤنڈ کی گرانقدر رقم کا عطیہ منظور فرمایا ہے اور نہ صرف رقم مہیا کی ہے بلکہ کتب کے انتخاب کے متعلق بھی خصوصی تجاویز اور مشورہ سے ہمیں نوازا ہے قبل ازیں محترم پروفیسر صاحب موصوف اسلامیہ کالج لاہور، گورنمنٹ کالج جھنگ اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی فزکس لیبارٹریز کو سائنسی آلات کے لئے عطیات دے چکے ہیں اس طرح آپ نے پاکستان میں طبعیات کی تعلیم و تدریس کے لئے مقدور بھر کوشش و سعی کر کے علم پروری کی ایک عمدہ مثال پیش کی ہے.مجلس انصار اللہ مرکز سیہ کا سالانہ اجتماع ۱۵ اکتو بر ۱۹۷۱ کو انصار اللہ مرکزیہ کا سولہواں سالانہ اجتماع با وجود ملکی نازک حالات کے وقوع پذیر ہوا.امسال ۵۶۰ مجالس اجتماع میں شریک ہوئیں.ان کے نمائندگان کی تعداد ۶ ۷ ۱۰ راور اراکین کی تعداد ۱۸۴۱ رہی.اس طرح گذشتہ سال کے مقابلے میں مجالس کی تعداد میں ۹۵ اور نمائندگان کی تعداد میں ۱۵۱ کا اضافہ ہوا.یہ اجتماع دفاتر مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے احاطہ میں وقوع پذیر ہوا.اس سال حضرت خلیفہ المسح الثالث نے خدام الاحمدیہ کوخصوصی طور پر ی تحریک فرمائی تھی کہ وہ بھی زیادہ سے زیادہ تعداد میں انصار اللہ کے اجتماع میں شامل ہو کر تقاریر سے مستفیذ ہوں.اس لئے اس دفعہ کثرت کے ساتھ خدام و اطفال بھی اجتماع میں شامل ہوئے.حتی کہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے حضور

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد 27 77 سال 1971ء انو کو پہلے روزی یہ ہدایت دینی پڑی کہ آئندہ سالیہ اجتماع کسی اور وسیع جگہ پر منعقد کیا جائے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سولہویں سالانہ اجتماع کے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ اس وقت خدا کے فضل سے جماعت کی ترقی میں بہت تیزی آچکی ہے.۴ سال قبل میں نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کی تھی جس کے نتیجہ میں اس جماعت نے علاوہ اور ذمہ داریوں کے ۳۳ لاکھ روپے اس تحریک میں پیش کئے.پھر اس تیزی سے بھی زیادہ تیزی اس جماعت نے نصرت جہاں ریز روفنڈ کے لئے دکھائی جو گزشتہ تحریک سے کچھ ہی عرصے بعد کی گئی.چنانچہ نصرت جہاں ریز روفنڈ کے تحت ۴۸لاکھ روپے جمع ہوئے.حضور انور نے فرمایا کہ اس کے بعد افریقہ میں نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے تحت جمع ہونے والے پیسہ سے عظیم ترقیات کا سلسلہ شروع ہوا.حضور انور نے اس کے ابتدائی ثمرات کا ذکر بھی فرمایا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا اختتامی خطاب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے انصار اللہ کے اجتماع سے اختتامی خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے فضل نے باوجود نازک ملکی حالات کے انصار اللہ کو اس بڑے پیمانے پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.حضور نے فرمایا کہ قرآن کریم کی خدمت اور اسکی اشاعت انصار اللہ کا پہلا اور آخری فرض ہے آپ میں سے ہر ایک جب اپنے اپنے مقام پر واپس جائے تو وہ دعائیں کرتے ہوئے قرآن کریم کی اشاعت اور خدمت میں لگا رہے.خود قرآن کریم کا ترجمہ سیکھے اور سکھائے اور پھر اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش بھی کرے.آخر میں حضور نے لمبی اور پر سوز دعا فرمائی اور السلام علیکم کہہ کر تشریف لے گئے.74 کیرالہ ہائیکورٹ بھارت کا فیصلہ ۱۹۶۹ء میں بھارت کی کالی کٹ کیرالہ سٹیٹ میں ایک شخص کے احمدی ہو جانے پر اس کی بیوی کے رشتہ داروں نے بغیر خلع و طلاق حاصل کرنے کے اس کی بیوی کا رشتہ جبراً کسی اور شخص سے کر دیا.معاملہ ماتحت عدالت میں سے ہوتا ہوا بالآخر کیرالہ ہائی کورٹ میں پہنچا.۱۹۷۱ء میں اس کیس کی

Page 88

تاریخ احمدیت.جلد 27 78 سال 1971ء سماعت کیرالہ ہائیکورٹ کے فاضل جج مسٹر جسٹس کرشنا آئیر نے کی اور پھر اپنے قابل قدر تاریخی فیصلہ میں جماعت احمدیہ کے عقائد پر طویل بحث کرتے ہوئے احمدیوں کے بارے میں پٹنہ اور مدراس ہائیکورٹوں کے فیصلہ جات سے اتفاق کرتے ہوئے احمدیوں کو مسلمان قرار دیا اور فیصلہ میں صاف لکھا کہ ”بغیر جذ بہ اور جوش کے اور قانون کی ٹھنڈی روشنی میں مجھے یہ قرار دینے میں قطعاً کوئی تردد نہیں کہ فرقہ احمد یہ اسلام کا ہی ایک فرقہ ہے اس کا غیر نہیں 75 یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پٹنہ ہائیکورٹ نے جنوری ۱۹۱۷ء کو یہ فیصلہ دیا تھا کہ احمدی مسلمان ہیں اگر چہ کٹر مسلمانوں کے بعض عقائد سے ان کو شدید اختلاف ہے اور احمدی مسجد میں داخل ہونے کے حقدار اور مجاز ہیں اگر وہ چاہیں“.76 ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان چیف جسٹس مسٹر اولڈ فیلڈ ( 'Francis Du Pre Oldfield) اور مسٹر جسٹس کرشنن (Mr.Krishnan) نے بھی یہ فیصلہ دیا تھا کہ اگر کوئی مسلمان جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائے تو وہ مرتد نہیں قرار دیا جا سکتا اور نہ اس کی بیوی کا رشتہ ازدواج منقطع ہوجا تا ہے.جسٹس کرشنن نے اپنے فیصلے میں مزید لکھا کہ مستند قانونی و عدالتی حوالہ جات کی روشنی میں جن کو میں قبول کرتا ہوں اگر کوئی شخص جماعت احمدیہ کے عقائد قبول کر لے اسے مرتد نہیں قرار دیا جا سکتا اور میری رائے میں احمدی مسلمانوں کا ایک اصلاح یافتہ فرقہ ہے جو قرآن کریم کو اپنی الہامی کتاب مانتا ہے.77 بیرونی ممالک میں تحریک وقف عارضی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی جاری فرمودہ تحر یک وقف عارضی بیرونی ممالک میں بھی مقبول ہو رہی تھی اور حضور کی ہدایت کے مطابق متعدد واقفین عارضی اپنے اپنے ملک کے انچارج مشنریوں کے تحت خدمت بجالا رہے تھے.چنانچہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ناظر اصلاح و ارشاد کے قلم سے اس سلسلہ میں اخبار الفضل مورخہ ۳۰ اکتو بر ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ پر حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.حال میں جور پورٹیں غیر ممالک سے موصول ہوئی ہیں ان کا خلاصہ بغرض تحریک دعا ذیل میں شائع کیا جاتا ہے.

Page 89

تاریخ احمدیت.جلد 27 79 سال 1971ء لنڈن :.مکرم میاں محمد عالم صاحب ریٹائر ڈ اسٹیشن ماسٹر بطور وقف عارضی جنوری ۱۹۷۰ء سے لنڈن میں مقیم ہیں اور نہایت استقلال کے ساتھ تعلیم و تربیت کا کام کر رہے ہیں.۳۹، افرادان سے استفادہ کرتے ہیں.۲۵ طلباء کو اپنے محلہ کے تین گھروں میں دو بجے سے سات بجے تک روزانہ یتر نا القرآن، قرآن مجید ناظرہ اور اردو پڑھاتے ہیں.اسی طرح ہفتہ میں دو دن، ہفتہ اور اتوار کو لنڈن مسجد میں جا کر سنڈے سکول میں ۱۴ طلباء کو پڑھاتے ہیں.سیرالیون :.مکرم میاں عطاء الرحیم حامد صاحب نے وقف عارضی کے ایام کینما اور باڈو کی جماعتوں میں گزارے.کینما میں ہماری نئی مسجد زیر تعمیر ہے.آپ نے دوران قیام کینما تعمیر کے کام کی نگرانی کی.اس جگہ آنے والے لوگوں کو تبلیغ کی.آپ کو روزانہ اوسطاً دس افراد تک پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا.کینما کے مختلف حلقوں میں جا کر مغرب و عشاء اور فجر کی نمازوں کے بعد تربیتی امور کو مد نظر رکھ کر درس دیتے رہے.ایک حصہ وقف کے ایام کا آپ نے باڈو میں گذارا.اس جگہ جماعت کی اپنی مسجد ہے.مغرب، عشاء اور فجر کی نمازوں کے بعد درس کا سلسلہ شروع کیا.جماعت میں تحریک کر کے نماز تہجد ادا کرنے کا انتظام کیا.ہو: مکرم جناب مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول جورو کو جنہوں نے پندرہ روزہ عرصہ وقف عارضی کے تحت دیا تھا.مکرم مشنری انچارج صاحب سیرالیون نے بو (Bo) میں احمدیہ مسجد کی تعمیر کے کام کی نگرانی کے لئے مقرر کیا.اسی طرح جوروسکول کے تین احمدی طلبہ اسماعیل فوڈے، عبد اللہ نائیکا اور ایڈورڈ سمو کا نے بھی حضور کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے پندرہ پندرہ ایام وقف کئے.محترم حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی فارم وقف عارضی پر کیا ہوا ہے وہ یہ فریضہ ہر سال ا فر ماتے ہیں.جزاهم الله جميعاً خير الجزاء‘.ملکی دفاع سے متعلق حضرت خلیفہ اسح الثالث کی خصوصی تحریک ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ء کوسید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث نے خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرما یا:.جیسا کہ ہمارے پریذیڈنٹ جنرل محمد یحیی خان صاحب نے اپنی ۱۲ تاریخ کی تقریر میں کہا ہے بھارتی فوجیں ہماری سرحدوں پر جمع ہیں اور کسی وقت حملہ ہوسکتا ہے ان حالات میں انہوں نے قوم کو نصیحت کی.انہوں نے قوم سے کچھ امیدیں وابستہ

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد 27 80 سال 1971ء کی ہیں.اس نصیحت پر ہم نے عمل کرنا ہے اس لئے کہ وہ عین اسلام کے مطابق ہے اور انہوں نے جو امیدیں وابستہ کی ہیں امت محمدیہ سے وہی امیدیں وابستہ کرنی چاہئیں.یہ جنگ اگر چہ بظاہر اسلام کو مٹانے کے لئے تو نہیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ جنگ مسلمان کو مٹانے کیلئے ہے اور اگر خدانخواستہ ساری دنیا کے مسلمان مٹ جائیں تو اس سے اسلام پر بہر حال ضرب آتی ہے پس گو یہ جنگ عقیدہ بدلنے کے لئے نہیں ہے.لیکن اسلام دشمنی کے نتیجہ میں مسلمان سے جو بغض اور حسد ان کے دل میں ہے اس کے نتیجہ میں یہ سارے غصے ہیں ورنہ بھارت ہمسایہ ملک تھا.ہمسائیوں کی طرح اسے رہنا چاہیے تھا.پس اس وقت آپ نے اپنے مال سے بھی ، وقت سے بھی اور اپنی ہر قسم کی مادی قربانیوں سے بھی اور اپنی دعاؤں سے بھی اپنے ملک کی خدمت، اپنی حکومت کی خدمت اور اپنے بھائیوں کی خدمت کرنی ہے اور اسی کی طرف میں اس وقت آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.دوست میری صحت کے لئے بھی دعا کریں.اللہ تعالیٰ مجھے پوری صحت دے اور مرتے دم تک پورے کام کی توفیق بخشے.بہت دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پاکستان کو ہر قسم کے نقصان اور ہر قسم کی بے عزتی سے محفوظ رکھے اور پاکستان کو ہر قسم کی کامیابی عطا کرے اور پاکستان کے دشمنوں کے مقدر میں ساری ہی ناکامیاں ہوں.عارضی طور پر بھی اور ہمیشہ کے لئے بھی.بعض دفعہ عارضی طور پر بھی کچھ نقصان اٹھانا پڑتا ہے خدا تعالیٰ پاکستان کو اس عارضی نقصان سے بھی محفوظ رکھے.خدا کرے عارضی نقصان بھی ہمارے دشمن کے حصہ میں آئے اور پھر آخری فتح بھی پاکستان کو ملے اور آخری شکست بھی پاکستان کے دشمن کو نصیب ہو.پس دعائیں کریں اور بہت دعا ئیں کریں.“ 78 (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا پیغام ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید نے وقف جدید کے لئے مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے ایک پیغام شائع کروایا جس میں تحریر فرمایا کہ:

Page 91

تاریخ احمدیت.جلد 27 81 سال 1971ء ” میرے پیارے اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کیا آپ کو یاد ہے کہ آج سے چھ سال قبل ہمارے پیارے امام حضرت اقدس خلیفہ اُسیح الثالث نے احمدی بچوں اور بچیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وقف جدید کی تمام مالی ذمہ داریاں تم سنبھال لو اور ہر ماہ اپنے ماں باپ سے آٹھ آنے مانگ کر وقف جدید کا چندہ ادا کیا کرو یہاں تک کہ وقف جدید کا سارا بار ننھے منے احمدی مجاہد اپنے کندھوں پر اٹھا لیں.دنیا کی نظر میں یقیناً یہ بات بڑی عجیب ہوگی لیکن یہ عجیب بات آپ نے دنیا کو ضرور کر کے دکھانی ہے آپ نے دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ احمدی بچے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنا جانتے ہیں.آپ نے دنیا کو دکھانا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے نازک کندھے دین محمدصلی ما یتیم کی خاطر بڑے عظیم الشان بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں.آپ نے دنیا کو دکھانا ہے کہ آپ کی عمریں چھوٹی لیکن شعور بالغ ہے اور ارادے بلند ہیں اور آپ نے دنیا پر یہ خوب روشن کر دینا ہے کہ آپ خدمت دین کے ڈھنگ جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ جانی اور مالی قربانی کس کو کہتے ہیں.دنیا کو چھوڑیے کہ وہ تو قربانی اور خدمت کے ناموں سے بھی نا آشنا ہوتی جا رہی ہے.دنیا کو بھلا کیا معلوم کہ دین کی خاطر کیسے زندگی وقف کی جاتی ہے.اور کس طرح اسلام کے قدموں پر مال نچھاور ہوتے ہیں.رہنے دیجیئے دنیا کو کہ اسے آپ سے کوئی نسبت نہیں.ہاں نیکی میں اگر مقابلہ کرنا ہے تو اپنے خدام بھائیوں سے کیجئے.اگر آگے قدم بڑھانا ہے تو لجنہ اماءاللہ سے آگے بڑھ کر دکھائیے.حضرت خلیفہ اسیح آپ سے یہ توقع فرماتے ہیں کہ آپ امسال وقف جدید کے لیے تین لاکھ روپے پیش کر دیں گے مگر آپ نے تو ابھی اس کا ایک حصہ بھی پیش نہیں کیا.کیا یا مر آپ کے لیے شرمندگی کا موجب نہیں؟ یقیناً ہو گا لیکن اس شرمندگی کو مٹانا بھی تو آپ ہی کا کام ہے ہمت اور دعا سے کام لیں تو کچھ بھی مشکل نہیں.اگر ایک ماہ بھی آپ دھن لگا کر جوش و خروش سے کام کریں

Page 92

تاریخ احمدیت.جلد 27 82 سال 1971ء تو اب تک کی ساری کمی پوری ہوسکتی ہے.آپ تو مجاہد بچے ہیں خدا تعالیٰ کا فضل آپ کے شامل حال رہے تو آپ کے عزم اور ارادے کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیکی کی توفیق عطاء فرمائے اور ایسا شاندار نمونہ پیش کرنے کی توفیق بخشے کہ رشک کے ساتھ دنیا کی نگا ہیں آپ پر پڑنے لگیں.اور خدا کرے کہ دشمن کی حسد کی آنکھ سے آپ ہمیشہ محفوظ رہیں اور اپنی اپنی توفیق کے مطابق قربانی کی شاندار مثالیں پیش کریں.آمین وقت تھوڑا ہے بہت تھوڑا رہ گیا ہے.ماہ دسمبر کے اختتام سے پہلے پہلے تین لاکھ روپے اکٹھا کرنے ہیں.اے ننھے منے احمدیت کے بچو اور بچیو.چیونٹیوں کی طرح کام کرو اور اپنے امام کی اس توقع کو توقع سے بڑھ کر پورا کرو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین نوٹ.وقف جدید کی طرف سے اس مقابلہ میں اول ، دوم اور سوم آنے والی مجالس اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کے نام حضور انور کی خدمت میں خصوصی دعا کی درخواست کے ساتھ پیش کیے جائیں گے.شہری مجالس کا مقابلہ الگ ہو گا اور دیہاتی مجالس کا مقابلہ الگ.یہ مقابلہ ابتداء ماہ اخاء (اکتوبر) سے شروع ہے.فاستبقوا الخيرات.پاک بھارت جنگ ۱۹۷۱ء والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد ناظم مال وقف جدید 79 ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان نے ملک کے نا گفتہ بہ حالات کے باعث اس وقت کے صدر مملکت میجر جنرل سکندر مرزا کو ہٹا کر ملک کی باگ ڈور سنبھال لی.میجر جنرل سکندر مرزا نے اس سے قبل ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ ء کو اس وقت آئین و جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا تھا جبکہ ملکی سیاست غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار تھی.صدر ایوب کے دور میں جہاں ۱۹۶۲ء کا آئین منظور ہوا اور ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ ہوئی.کیم

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد 27 83 سال 1971ء دسمبر ۱۹۶۷ء کو ایک نئی سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام بھی عمل میں آیا.مغربی پاکستان میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے قیام کے فوراً بعد ہی عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کر لی.پاکستان کے مشرقی حصہ میں عوامی لیگ کے لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے مشرقی پاکستان کی نیم مختاری کے لئے چھ نکات پیش کئے ہوئے تھے جن کو صدر محمد ایوب خان قابل پذیرائی خیال نہیں کرتے تھے لیکن شیخ مجیب الرحمن کے یہ نکات مشرقی پاکستان میں بہت مقبول ہو چکے تھے.پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے صدر ایوب کی کھل کر مخالفت شروع کر دی تھی گویا اب صدر ایوب کو دو محاذوں کا سامنا تھا.صدر ایوب کی گرفت آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی اور دونوں محاذوں پر صدر ایوب کے خلاف تحریک بڑھتی گئی.آخر کار ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو صدر محمد ایوب خان نے دوبارہ مارشل لاءلگا دیا اور ملک کی باگ ڈور بری فوج کے کمانڈر انچیف آغا محمد یحیی خان کے سپر د کر دی.جنرل آغا محمد یحیی خان نے ملک کی سیاسی صورتحال سنبھالنے اور آئینی مسائل حل کرنے کی خاطر ۲۹ مارچ ۱۹۷۰ ء کو ایک آئینی ڈھانچہ کا اعلان کیا.آئینی ڈھانچہ ترتیب دینے کے بعد ے دسمبر ۱۹۷۰ء کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا.ان انتخابات میں مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی.عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ۱۶۹ میں سے ۱۹۷ (قریبا ۱۰۰ فیصد نشستیں جیتیں جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے ۱۴۴ میں سے ۸۶ (۶۰ فیصد) نشستیں حاصل کیں.اس طرح پاکستان بھر میں عوامی لیگ نے قریباً ۵۷ فیصد اور پیپلز پارٹی نے ۲۸ فیصد نشستیں حاصل کیں.اور عوامی لیگ بلحاظ آبادی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بن گئی.چنانچہ یہ بات قریباً طے ہو گئی کہ پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان ہوں گے لیکن دونوں جماعتوں میں اقتدار کے حصول کے لیے ایک طرح کی رسہ کشی شروع ہو گئی.پیپلز پارٹی عوامی لیگ کے ۶ نکات کو ملکی سالمیت کے خلاف سمجھتی تھی.اس لیے اس کی خواہش تھی کہ ملک کے دونوں حصوں کا اقتدار اس کے سپر د کیا جائے.جنرل یحیی خان نے کوشش کی کہ وہ عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان مفاہمت کروا سکیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے چنانچہ اپنے حق کو تسلیم کروانے کے لیے عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں ہنگامہ آرائیاں کرنی شروع کر دیں.اس موقعہ پر ہندوستان نے بھی شیخ مجیب الرحمان اور اس کے ۶ نکات کو خوب سراہا اور عوامی لیگ کی حمایت شروع کر دی.

Page 94

تاریخ احمدیت.جلد 27 84 سال 1971ء ۴ فروری ۱۹۷۱ ء کو ہندوستان نے اپنی فضائی حدود پر پابندی عائد کر دی.پاکستان کا کوئی مسافر بردار جہاز بھی ہندوستان کے کسی علاقہ سے نہیں گزر سکتا تھا.ہوائی پروازوں پر پابندی کے بعد مشرقی اور مغربی پاکستان عملاً کٹ کر رہ گئے.اسی دوران شیخ مجیب الرحمان نے سول نافرمانی کی تحریک کے ذریعہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے جذبات کو بری طرح مشتعل کر دیا.۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء کو جنرل آغا محمد یحی خان نے ملک بھر میں تمام سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی اور شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا گیا.شیخ مجیب الرحمان کی گرفتاری کے بعد مشرقی پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان نے بھی احتجاج شروع کر دیا.ہندوستان نے فضائی راستے کے ساتھ ساتھ بحری راستے بھی بند کر دیئے اور ہندوستانی پریس مغربی پاکستان کے خلاف بنگالیوں کے جذبات کو ابھارتا رہا.حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائیوں میں بھی شدت آگئی.یہ وہ دور تھا جب مشرقی پاکستان میں بنگالیوں نے ایک نجات دہندہ تنظیم مکتی باہنی بنائی تھی چنانچہ مکتی باہنی ، فوج کے خلاف برسر پیکار ہوگئی جسے بنگالیوں کی مکمل حمایت حاصل تھی.حالات مزید بگڑنے پر جنرل یحیی خان نے نکا خان کو مشرقی پاکستان کا مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بنا کر بھیجا لیکن حالات نہ بدل پائے.بری، فضائی اور بحری راستوں کی بندش کے باعث مشرقی پاکستان ایک محصور جزیرہ سا ہو گیا تھا جہاں کوئی آجا نہ سکتا تھا.مستزاد یہ کہ فوج اور مکتی باہنی آمنے سامنے تھے.جون ۱۹۷۱ء میں ہندوستان نے مشرقی پاکستان کی سرحدوں پر حملے کرنے شروع کر دیے اور ہندوستانی افواج نے مکتی باہنی کے اشتراک سے مشرقی پاکستان کے اندر بھی اپنی کارروائیاں تیز کر دیں.80 ۲۱ نومبر ۱۹۷۱ء کو ہندوستان نے اس کشمکش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) پر مختلف اطراف سے کئی مقامات پر حملہ کر دیا.ان مقامات میں کومیلا، سلہٹ ، چٹا گانگ، جیسور، دینا جپور، رنگ پور، مرزا پور، چاٹ گام میمن سنگھ ، شمشیر نگر وغیرہ سیکٹر ز شامل تھے.۲۴ نومبر ۱۹۷۱ء کوصدر مملکت جنرل آغا محمد یحیی خان نے مشرقی پاکستان پر اعلان جنگ کے بغیر بھارتی فوجوں کے حملہ کے بعد ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا.صدارتی اعلان میں بتایا گیا کہ پاکستان پر بیرونی جارحانہ حملہ کے نتیجہ میں انتہائی سنگین اور ہنگامی حالات پیدا ہو گئے ہیں اس لئے ۲۵ مارچ کے فرمان اور عبوری آئین کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے تحت ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کیا جاتا ہے.81

Page 95

تاریخ احمدیت.جلد 27 85 سال 1971ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی نصائح ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ملک کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں یہ نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی بیان فرمودہ ہدایت اور وعدہ کے مطابق ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اس امر پر یقین رکھیں کہ ہمارا خدا از بر دست قدرتوں والا خدا ہے.وہ کبھی مومنوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا.بظاہر مادی سامان اور ذرائع کی خواہ کتنی ہی کمی ہولیکن اس کا یہ وعدہ ہے کہ بالآخر مومن ہی کامیاب و کامران ہوں گے.بشرطیکہ ہم ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے والے بنیں.امت مسلمہ پر جب بھی ایسے حالات آئے جب کہ دنیا کے سب حیلے جاتے رہے مادی سامان کی کمی نظر آئی اور دشمن نے جمع ہو کر گھیرا ڈالنے کی کوشش کی تو ایسے حالات میں دو چیزیں نمایاں طور پر نظر آئیں.۱.منافق کا نفاق ظاہر ہو گیا.۲.مومن کا ایمان ظاہر ہو گیا.ہمارے ملک کو جنگ احزاب جیسے ہی حالات در پیش ہیں.دشمن کو اپنے ساز وسامان اور مادی ذرائع پر گھمنڈ ہے لیکن ہمیں اپنے خدا پر بھروسہ ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو نبھا ئیں.اور دلیری اور بشاشت کے ساتھ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے بڑھتے چلے جائیں.یاد رکھوموت سے مومن کبھی نہیں ڈرا کرتا کیونکہ یا تو وہ جنگ میں فتح حاصل کرتا ہے اور یا پھر شہید ہو کر اپنے خدا کی رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاتا ہے.خدا کرے ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والے ہوں.آمین 82 مغربی پاکستان پر حملہ مشرقی پاکستان کے مختلف محاذوں پر ابھی جنگ جاری تھی کہ ہندوستان نے ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء کو مغربی پاکستان پر بھی حملہ کر دیا.اور سیالکوٹ، لاہور، قصور، راجستھان ، رحیم یارخان، فاضلکا اور حسینی والا سیکٹر زکونشانہ بنایا.83 صدر مملکت کا خطاب دسمبر ۱۹۷۱ء کوصدر پاکستان جنرل آغا محمد یحیی خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بیان کیا کہ ہمارے دشمن نے ایک بار پھر ہمیں للکارا ہے.بھارت کی مسلح افواج نے کئی محاذوں پر بھر پور حملہ کر دیا ہے.بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو کمزور کر کے تباہ کر دیا جائے.

Page 96

تاریخ احمدیت.جلد 27 86 سال 1971ء بھارت کی تازہ ترین اور سنگین جارحیت ہمارے خلاف سب سے بڑا اور آخری وار ہے.ہم نے بہت برداشت کیا لیکن اب وہ گھڑی آن پہنچی ہے کہ ہم دشمن کو منہ توڑ جواب دیں.پاکستان کے ۱۲ کروڑ مجاہد و تمہیں خدا کی تائید و نصرت حاصل ہے.تمہارے دل رسول کریم سلام کی محبت سے سرشار ہیں.دشمن نے ایک بار پھر ہماری غیرت کو للکارا ہے.ایک جان ہو کر اٹھو اور دشمن کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاؤ.جنگ میں فتح محض سازو سامان اور تعداد کی کثرت سے نہیں بلکہ ایمانی قوت، اعلیٰ مقاصد اور نصرت خداوندی سے ہوتی ہے.میرے عزیز ہم وطنو میرے بری ، بحری اور فضائی افواج کے پیارے مجاہد و آزمائش کی ایسی گھڑی میں تو میں اپنے مقدر کا ستارہ بن کر چمکتی ہیں.قومی اتحادر کھئے.اور اللہ کے وعدہ پر یقین رکھئے.آگے بڑھو اور دشمن پر کاری ضرب لگاؤ.اللہ ہمارے ساتھ ہے.84 بنگلہ دیش کا قیام صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحیی خان کے خطاب کے صرف ایک دن بعد ہی ۶ دسمبر ۱۹۷۱ ء کو بھارت نے مشرقی پاکستان کو بطور بنگلہ دیش تسلیم کر لیا.جس پر حکومت پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیئے.اور سرکاری بیان جاری کیا کہ بھارت کو پاکستان سے اول دن سے ہی جو شدید نفرت ہے یہ اس کی انتہاء ہے کہ اس نے نام نہاد بنگلہ دیش کو تسلیم کر کے ایک آزاد اور خود مختار حکومت کی سالمیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور اسے تباہ کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے.بھارت نے بنگلہ دیش کی نام نہاد حکومت کو تسلیم کر کے پاکستان کو تباہ کرنے کی اپنی گھناؤنی پالیسی کا خود پردہ چاک کر دیا ہے.اس نے ایسا کر کے اقوام متحدہ کے اصولوں اور بانڈ ونگ کا نفرنس کے مقاصد کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے.85 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا بھارت کو انتباہ پاک بھارت جنگ کے دوران جب یہ خدشہ پیدا ہوا کر اب حالات تنگ ہوتے جا رہے ہیں اور قادیان کے درویشوں کو بھی تنگ کیا جائے گا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں بھارت کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا.میں بھارت کو بھی ایک تنبیہ کرنا چاہتا ہوں دیکھو! آج کی فوج کے پاس چھوٹے سے چھوٹا ہتھیار رائفل ہے.لیکن میرے اور میری جماعت کے پاس رانفل

Page 97

تاریخ احمدیت.جلد 27 87 سال 1971ء دو بھی نہیں ہے.اس واسطے میں دنیوی طاقت کے گھمنڈ میں نہیں کہ رہا نیز یہ کوئی سیاسی بیان بھی نہیں کیونکہ میں سیاست دان نہیں ہوں.اور نہ سیاست سے مجھے کچھ سروکار ہے.بلکہ ایک عاجز درویش اور خدا کے ایک ادنی بندے کی حیثیت سے انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تمہارے ملک میں جو مسلمان بستے ہیں اگر تم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا اور ان کے حقوق ادا نہ کئے اور ان پر ظلم کرنے کی کوشش کی تو بندوق اور سیاسی اقتدار نہ رکھتے ہوئے بھی یہ عاجز بندہ تمہیں یہ کہتا ہے کہ جس خدا پر ہم یقین رکھتے ہیں اور ایمان لائے ہیں اور جس کی صفات کے شاندار مظاہرے ہم نے دیکھے ہیں اسی خدا پر توکل رکھتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے اور ان بشارتوں کو جو اس نے ہمیں دی ہیں سچا سمجھتے ہوئے ہم کہتے ہیں کہ اگر تم نے ظلم کیا اور ایذا رسانی کی راہیں تم نے اختیار کیں تو تمہاری گردن کاٹ دی جائے گی اور تم کبھی کامیاب نہیں ہو گے.اس لئے تم اپنے اور اپنے بچوں اور بیویوں اور اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر اپنی رعایا میں سے جو مسلمان ہیں اور بھارت میں جہاں بھی وہ آباد ہیں ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کرو اور ان کے حقوق ادا کرو ورنہ اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا اور یہ قہر الہی اس قہر الہی کے علاوہ ہو گا جس کے تم پاکستان پر سفا کا نہ اور وحشیانہ حملہ کر کے مستحق ٹھہرے ہو.“ 86 دفاعی فنڈ کا قیام صدر پاکستان آغا جنرل محمد یحیی خان نے 9 دسمبر ۱۹۷۱ ء کو قومی دفاعی فنڈ قائم کیا اور تمام پاکستانیوں سے یہ اپیل کی کہ وہ دل کھول کر اس میں حصہ لیں اور اسطرح اپنی بہادر اور جانباز فوج کے ہاتھ مضبوط کریں.87 ناظر اعلیٰ کی طرف سے دفاعی فنڈ میں سرگرم حصہ لینے کی تحریک چنانچہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے پاکستانی احمد یوں کو صدر پاکستان کے دفاعی فنڈ میں سرگرمی سے حصہ لینے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :.خدا کے فضل و کرم سے پاکستان کی جانباز اور مجاہد افواج بھارتی فوجوں پر ضرب کاری لگاتی

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد 27 88 سال 1971ء ہوئی ہر طرف آگے ہی آگے بڑھتی جارہی ہیں فالحمد للہ.خدا تعالیٰ کے ان افضال و برکات اور فتوحات و ترقیات پر ہر پاکستانی اور خصوصاً ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ اسلام کے اس مقدس قلعہ پاکستان کی حفاظت کے لئے نہ صرف دعاؤں میں لگ جائے بلکہ ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے میدان عمل میں آ جائے.یہاں تک کہ اس معرکہ میں باطل اور استبدادیت کا سر ہمیشہ کیلئے مکمل طور پر چل دیا جائے.اس سلسلہ میں تمام احمدی احباب کو فوری ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنی توفیق اور بساط کے مطابق صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحی خان کے حالیہ قائم کردہ قومی دفاعی فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.تحفظ پاکستان کے اس مالی جہاد میں یقین ہے کہ کوئی احمدی دوسرے محبانِ وطن سے ہرگز پیچھے نہیں رہے گا.اللہ تعالیٰ افواج پاکستان کو ہر لمحہ روح القدس کی غیبی اور مسلسل تائیدات سے نوازے اور برصغیر میں جلد از جلد فتح و ظفر کے اسلامی پرچم پوری شان و شوکت سے لہرانے لگیں اور ہر شخص کے حقوق اسے مل جائیں.مرز ا منصور احمد ( ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ )‘ 88 صدر مملکت کی خدمت میں مکرم ناظر صاحب اعلیٰ کا مکتوب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیر ہدایت محترم صاحبزادہ مرزا امنصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے خود حضور انور اور جماعت احمدیہ پاکستان کی طرف سے صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحیی خان صاحب کے قائم کردہ قومی دفاعی فنڈ میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کی رقم بطور چندہ ارسال کی.اس ضمن میں محترم ناظر صاحب اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے صدر مملکت کی خدمت میں مذکورہ رقم کا چیک ارسال کرتے ہوئے جو خط تحریر کیا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے.ربوہ ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء بخدمت گرامی محترم جنرل آغا محمد یحیی خان صاحب صدر مملکت پاکستان.اسلام آباد السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی زیر ہدایت حضرت امام جماعت احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے قومی دفاعی فنڈ میں چندہ کے طور پر ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا چیک

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد 27 89 سال 1971ء نمبر ۳۴۱۷۸۸ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء بنام نیشنل بینک آف پاکستان لائل پور ) لف ہذا ہے.مزید برآں عرض ہے کہ چندہ کی یہ حقیر رقم ان رقوم کے علاوہ ہے جو پاکستان بھر میں احمدی اور دوسرے ممالک کے احمدی قومی دفاعی فنڈ میں اپنے اپنے انفرادی چندوں کے طور پر جمع کرا رہے ہیں.والسلام خاکسار مرزا منصور احمد ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ پاکستان“ سیکرٹری صدر مملکت عبد القیوم صاحب کا جوابی تار منجانب: عبدالقیوم ایس پی کے، ایس کیواے ہی ایس پی سیکرٹری ایوانِ صدر، راولپنڈی ۱۳ دسمبر ۱۹۷۱ء 89 ڈیٹر مرزا منصور احمد یہ خط آپ کے خط بنام صدر مملکت بتاریخ ۱ دسمبر ۱۹۷۱ ء کے حوالہ سے ہے جس کے ساتھ آپ نے ایک چیک بقدر - / ۱۲۵۰۰۰ روپے، چیک نمبر 341788 2/H بتاریخ ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء بنام نیشنل بینک آف پاکستان بطور امداد برائے قومی دفاعی فنڈ لف کیا تھا.مجھے صدر مملکت کی طرف سے اس امداد پر اظہار شکریہ وقدر دانی کا ارشاد ہوا ہے.وہ چیک شاملِ فنڈ کرنے کی غرض سے وزارت خزانہ کو بھیج دیا گیا ہے.آپ کے خط میں مذکور قومی دفاعی فنڈ کی وسعت سے متعلقہ آراء پر غور کیا جارہا ہے اور مناسب اقدام جلد از جلد لیا جائے گا.آپ کا مخلص دستخط ( عبد القیوم ) 90 حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کی لجنہ اماءاللہ کو دفاعی فنڈ جمع کرنے کی تلقین حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ممبرات لجنہ اماءاللہ کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا

Page 100

تاریخ احمدیت.جلد 27 90 سال 1971ء تمام ممبرات لجنہ اماءاللہ کو اپنے وطن عزیز کے لئے ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہنا چاہئے.موجودہ ہنگامی حالات میں دفاعی فنڈ جمع کریں.اپنی افواج کے لئے تحائف جمع کر کے بھجوائیں.دفاعی فنڈ اور تحائف سرکاری طور پر ہر شہر، قصبہ یا گاؤں میں گورنمنٹ کی طرف سے جو مقام مقرر ہو وہیں جمع کرائیں.ممبرات کو ابتدائی طبی امداد اور شہری دفاع کی تعلیم دینے کی تلقین کریں اور جہاں جہاں بھی ان امور کے سکھانے کا انتظام ہو اس سے فائدہ اٹھا ئیں.اور ان سب باتوں کی رپورٹ بھی با قاعدگی سے دیتی رہیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ملک اور ہمارے فوجی بھائیوں کو اپنی حفاظت میں رکھے.آمين اللهم آمين مریم صدیقه 91 قومی دفاعی فنڈ میں کینیڈا اور ایران کے پاکستانی احمدی احباب کا عطیہ صدر پاکستان کے قائم کردہ قومی دفاعی فنڈ میں جہاں پاکستان کی احمدی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہاں بیرون از پاکستان کے احمدی احباب نے بھی ایثار اور قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مالی جہاد میں شرکت کی اس سلسلہ میں ایران کے احمدی دوستوں نے قومی دفاعی فنڈ میں ۵۰،۰۰۰ ریال دیئے.92 اور کینیڈا کے پاکستانی احمدی احباب نے بھی ایک خطیر رقم جمع کر کے بھجوائی.93 ملکی دفاع اور استحکام کے لئے اہل ربوہ کی عظیم الشان خدمات الفضل (۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء) نے ملکی دفاع و استحکام کے لئے اہل ربوہ کی مثالی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:.”جب سے بھارت نے پاکستان کی سرزمین پر اپنے سفاکانہ حملے کا آغاز کیا ہے ربوہ کے جملہ محلہ جات میں خصوصی دعاؤں کے ساتھ ساتھ ملکی دفاع اور وطن عزیز کے استحکام کے لئے پورے جذبہ اور جوش کے ساتھ مختلف خدمات بجالائی جا رہی ہیں.ربوہ میں مقیم نو جوانوں نے اور سابق فوجیوں نے بڑی کثرت کے ساتھ فوجی خدمات کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا ہے.چنانچہ وہ مختلف محاذوں پر دادِ شجاعت دے رہے ہیں.صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحیی خان کی طرف سے جاری کردہ دفاعی فنڈ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا چیک فوری طور پر ارسال کرنے کی خبر قارئین پہلے ملاحظہ فرما چکے

Page 101

تاریخ احمدیت.جلد 27 91 سال 1971ء ہیں.اس کے علاوہ اب محلہ وار کمیٹیاں قائم کر دی گئی ہیں جو انفرادی طور پرزور وشور سے قومی دفاعی فنڈ جمع کرنے اور پاکستان کے جیالے فوجیوں کے لئے تحائف فراہم کرنے میں مصروف ہیں.اس کام میں لجنہ اماءاللہ کی ممبرات بھی حصہ لے رہی ہیں جو گھر گھر جا کر دفاعی فنڈ اور تحائف جمع کر رہی ہیں.ملکی دفاع اور استحکام کی یہ جملہ خدمات نظارت امور عامہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی نگرانی میں سرانجام پاتی ہیں.جو ان دنوں چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے.اسے لوکل انجمن احمد یہ، خدام الاحمدیہ، انصار اللہ ، احمدی مستورات کی تنظیم لجنہ اماءاللہ اور تمام مقامی تعلیمی اداروں کا گہرا اشتراک اور تعاون حاصل ہے.محترم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ناظر امور عامہ اور محترم چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ نے ایک ملاقات کے دوران ہمیں بتایا کہ اس سلسلہ میں افسران ضلع جھنگ کی طرف سے جاری کردہ تمام ہدایات کی پوری پوری تعمیل کی جارہی ہے.مختلف دفاعی خدمات کے لئے مطلوبہ تعداد میں فوراً رضا کار مہیا کئے جاتے ہیں جو رات دن ربوہ اور اس کے گردونواح میں میلوں کے علاقہ میں ڈیوٹی پر متعین ہیں.سرکاری تنصیبات مثلاً ٹیلیفون ایکسچینج، پوسٹ آفس، ریلوے سٹیشن، ریلوے ٹریک، سوئی گیس اور سڑک کے پلوں کی حفاظت کے لئے خاص طور پر چوبیس گھنٹے پہرے کا انتظام ہے.نوجوانوں کو مجلس خدام الاحمدیہ کے زیراہتمام اور مستورات کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے انتظام کے تحت شہری دفاع اور فرسٹ ایڈ کی تربیت دی جارہی ہے.ہوائی حملوں سے بچنے کے لئے ٹاؤن کمیٹی ربوہ نے ابتدائی طبی امداد اور آگ بجھانے کا سامان فراہم کرنے کے علاوہ سائرن کا بھی انتظام کر رکھا ہے.ہوائی حملوں سے بچنے کی تدابیر پمفلٹوں کی صورت میں شائع کر کے گھر گھر تقسیم کر دی گئی ہیں.جگہ جگہ حفاظتی خندقوں کا انتظام ہے.رات کو بلیک آؤٹ کی پابندی کی کڑی نگرانی کی جارہی ہے.مکرم صدر صاحب عمومی نے بتایا کہ ہر محلہ میں ایک ایک دفاعی سینٹر قائم کر دیا گیا ہے جہاں پر آگ بجھانے کا سامان موجود ہے اور ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی زیر ہدایت دس ابتدائی طبی مراکز مختلف مقامات پر قائم ہیں.ہر مرکز میں طبی امداد کا سامان اور ایک ڈاکٹر یا کمپونڈ رموجود ہے.ربوہ کے جملہ محلہ جات میں پہرے کا انتظام بھی موجود ہے جو ۲۴ گھنٹے رہتا ہے.ان تمام دنیوی تدابیر کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریک اور ارشاد کے مطابق

Page 102

تاریخ احمدیت.جلد 27 92 سال 1971ء اہل ربوہ اجتماعی اور انفرادی رنگ میں شب وروز خصوصی دعاؤں میں بھی مصروف ہیں چنانچہ محلہ جات کی مساجد میں پاکستان کی حفاظت و سالمیت کے لئے دردمندانہ اجتماعی دعائیں کی جارہی ہیں.بہت سے احباب التزام کے ساتھ نماز تہجد ادا کرتے ہیں اور قبولیت دعا کے اس خصوصی وقت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کی کامیابی کے لئے دعاؤں میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے.دشمن کے ناپاک ارادوں کو خائب و خاسر کرے اور پاکستان کے لئے اپنی غیر معمولی تائید و نصرت کے نشان ظاہر فرمائے.آمین 94 سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور ہندوستان کے حملے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی.فوج کمک پہنچانے کے تمام راستے بھی مسدود ہو چکے تھے.ان حالات میں ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کو لیفٹینٹ جنرل مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر زون بی اور کمانڈ رایسٹرن کمانڈ (پاکستان) امیر محمد عبد اللہ خان نیازی نے ایک دستاویز پر دستخط کر کے لیفٹیننٹ جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے زیر فرمان ہتھیار ڈال دیے جس کے باعث ۹۳۰۰۰ پاکستانی قیدی بنالئے گئے جن میں بچے ، عورتیں ، عام شہری اور فوجی شامل تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ملک وقوم کو نصائح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کومشرقی پاکستان کی جنگ کا تذکرہ کرتے ہوئے ملک وقوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:.جنگ کے دوران بعض محاذوں پر پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے لوگ گھر بھی جاتے ہیں.علیحدہ بھی ہو جاتے ہیں اور فوجیں پوری طرح احاطے اور نرغے میں بھی آجاتی ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اڑھائی تین سال تک محصور بھی رہے اور بعض دفعه وقتی طور پر بالکل اکیلے بھی رہ گئے اور اکیلے سے یہی مراد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چند ساتھی رہ گئے تھے اور پھر وہ وقت بھی گزر گیا.بعض جگہ غیر کی نظر میں بظاہر بڑا نقصان اٹھا یا اور دشمن کی نظر میں ایک قسم کی وقتی طور پر پسپائی ہی سمجھی گئی مگر اس وقت ہمارا محاذ زمانہ پر پھیلا ہوا تھا اور اس وقت ہمارا پاکستان کا محاذ

Page 103

تاریخ احمدیت.جلد 27 93 سال 1971ء مکان پر پھیلا ہوا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی دشمنی شروع ہو گئی تھی اور دشمنی بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی سخت مخالفت اور دشمنی شروع ہوگئی تھی.شروع میں تو سمجھا یہ گیا تھا کہ جنگ کی ضرورت نہیں ، ہم جنگ سے ورے ورے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور اسلام کو نیست و نابود کر دیں گے.لیکن جب جنگ سے ورے ورے یہ نا کامی اسلام کو نہ ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آسمانی مہم میں کمزوری پیدا ہونے کی بجائے طاقت پیدا ہونی شروع ہوگئی تو پھر ایک وقت آیا کہ دشمنوں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ انہیں مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بغیر تو یہ مٹتے نہیں.چنانچہ پھر جنگوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا.مٹھی بھر مسلمان تھے.ہم اگر تخیل کی نگاہ سے دیکھیں تو ہمیں ایک وہ زمانی محاذ نظر آتا ہے جو پہلی جنگ سے لے کر فتح مکہ کے زمانہ تک پھیلا ہوا ہے اور پھر خلافت راشدہ میں دوسرے محاذ ہیں.زمانے کے لحاظ سے ایک محاذ میں اس لئے کہتا ہوں کہ ایک ہی چھوٹی سی فوج تھی مگر وہ فدائی تھی ، وہ مجاہد تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی جانوں کو قربان کرنے کے لئے ہر لحظہ تیار تھے.تاہم ان کا ایک مختصر سا گروہ تھا، وہی لڑتا رہا، کچھ بعد میں آنے والے اس کے ساتھ ملے لیکن وہی بنیادی گروہ تھا جنہوں نے پہلی جنگ میں بھی حصہ لیا پھر دوسری میں بھی حصہ لیا اور پھر تیسری میں بھی حصہ لیا.بعد میں بھی ہمیں زمانے پر پھیلا ہوا یہی محاذ نظر آتا ہے.مثلاً حضرت خالد بن ولید نے کسری کے خلاف ایران میں جو آٹھ دس جنگیں لڑی ہیں ان کے ساتھ کم و بیش اٹھارہ ہزار مسلمان سپاہی تھے.ان میں سے بھی کچھ زخمی ہو گئے اور کچھ شہید ہو گئے.غرض یہ ایک چھوٹی سی فوج تھی ، ایک چھوٹا سا گروہ تھا.جو آج لڑ اوہی تین دن کے بعد لڑا اور پھر پانچ دن کے بعد بھی وہی لڑا.تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ان کو دشمن کی نئی فوج کے ساتھ جنگ لڑنی پڑی تھی.جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دو دفعہ بتایا ہے ہر دفعہ ایرانیوں کی فوج جو مسلمانوں کے مقابلے پر آئی اس کی تعداد چالیس ہزار پھر ساٹھ ستر ہزار اور بعض دفعہ اسی ہزار اور بعض دفعہ ساٹھ ہزار سے کچھ کم ہوتی تھی.

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد 27 94 سال 1971ء اب یہ بھی ایک فوج کا زمانے پر پھیلا ہوا محاذ ہے ہمارا مکان کے لحاظ سے پھیلا ہوا محاذ ہے.ہمارا محاذ کراچی سے لے کر کارگل سے ہوتا ہوا دینا جپور سے سارے مشرقی پاکستان پر پھیلا ہوا ہے.ہر محاذ پر ہماری مختلف ٹولیاں موجود ہیں پہلے ایک ہی ٹولی تھی جو زمانے میں پھیلی ہوئی نظر آتی ہے.اب ایک فوج کی مختلف ٹولیاں ہیں یا گروہ ہیں یا ڈویژن ہیں یعنی فوج تقسیم ہو کر اس کی مختلف ٹولیاں ہمیں مختلف محاذوں پر نظر آتی ہیں.جس طرح زمانے پر پھیلے ہوئے محاذ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بعض دفعہ دکھ اٹھانا پڑتا تھا اور پریشانی اٹھانی پڑتی تھی آج ہمیں بعض محاذوں پر مکانی لحاظ سے وہ دکھ اور پریشانی اٹھانی پڑی ہے پس یہ خطرہ تو جنگ کے ساتھ لگا ہوا ہے.جنگ کبھی ایک شکل اختیار کرتی ہے کبھی دوسری شکل اختیار کرتی ہے لیکن یہ جو جھڑپیں ہیں ان سے قسمتوں کا فیصلہ نہیں ہوا کرتا.جو جنگ ہے اس کے جیتنے یا ہارنے سے قسمت کا فیصلہ ہوا کرتا ہے اور جنگ جیتنے کے لئے بنگال یعنی مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کے باوجود جس انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے اس میں ایک ذرہ بھر کی نہیں آنی چاہیے اور نہ دلوں میں اداسی اور مایوسی پیدا ہونی چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھی زیادہ بڑھنا چاہیے.غرض جنگ میں تو اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے.لیکن ایسے حالات میں بھی جو ہمارا رد عمل ہے خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے کا اور اپنی جگہ پر اس یقین پر قائم رہنے کا کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے اور یہ عزم کہ ہم اپنا سب کچھ اسلام کی شوکت اور اپنے بھائیوں کی مدد کے لئے قربان کر دیں گے.وہ تو اپنی جگہ پر ہے.ویسے ہمارے دل اس لئے دُکھیا نہیں کہ ایک محاذ کے اوپر ہمیں کچھ پریشانی اٹھانی پڑی ہے ہمارے دل اس لئے دکھیا ہیں اور اس وقت بڑا ہی دکھ محسوس کر رہے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے قریباً 4 کروڑ مسلمانوں کو مصیبت پڑ گئی ہے اس لئے ہمارا دل دُکھتا ہے اور اگر ہمارا دل واقعہ میں دیکھتا ہے تو ہمیں ان کی خاطر اور بھی زیادہ قربانی دینی چاہیے.آپ اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کس خطر ناک مصیبت میں مبتلا ہو گئے

Page 105

تاریخ احمدیت.جلد 27 95 سال 1971ء ہیں.آج صبح بی بی سی کی ایک چھوٹی سی خبر یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں دشمنوں نے قتل عام شروع کر دیا ہے وہ غلط فہمیوں میں مبتلا بنگالی مسلمان جو یہ سمجھتا تھا کہ اسے آزاد نہ حکومت کرنے کے لئے موقع دیا جائے وہ ہندو کی تلوار کے نیچے آ گیا ہے.۱۹۴۷ء میں تو ہم نے چند لاکھ کی قربانی دی تھی اب کہیں چند ملین (Million) کی یعنی ستر اسی لاکھ یا ایک کروڑ کی قربانی نہ دینی پڑے.پس وہاں اس قسم کے حالات ہیں.اس لئے ہمارا دل دکھ محسوس کر رہا ہے اور ہمارا ذہن پریشان ہے اور اس پریشانی کو دور کرنا سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی طاقت نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے سوا اس کے فضلوں کو جذب کرنے کا کوئی راستہ نہیں.پس ہم خدا تعالیٰ کی نازل ہونے والی ہر خیر کو پسند کرتے اور مانگتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں کہا ہے کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ محمد صلی اللہ علیہ وسلم 95.اس لئے ان دنوں میں دوست خصوصی طور پر بہت زیادہ درود بھیجیں اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کریں.پہلے تو میں نے سینکڑوں میں کہا تھا کہ سبحان له وبحمده سبحان الله العظيم اللهم صل على محمدٍ وَ آلِ محمد پڑھا کریں.اب عدد کی حدود سے پھلانگ کر آگے نکل جائیں اور ہر وقت یہ تسبیح وتحمید اور درود پڑھیں تاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کے نتیجہ میں ہمیں وہ مل جائے جس کے لینے کے ہم خواہش مند ہیں“.96 مغربی محاذ پر فائر بندی کا حکم ۱۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو صدر پاکستان نے مغربی محاذ پر فائر بندی کا حکم دے دیا اور ایک بیان جاری کیا کہ آج رات ساڑھے سات بجے مغربی محاذ پر پاکستان کی طرف سے فائر بندی ہوگی.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا جنگ پر حقیقت افروز تبصرہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۱۸ فروری ۱۹۷۲ء کو خطبہ جمعہ میں ہندوستان سے لڑی جانے والی ۱۹۷۱ ء کی جنگ پر نہایت حقیقت افروز تبصرہ کیا اور غزوہ بدر، جنگ یرموک اور مسلم سپین کے معرکہ یوسف بن تاشفین کے واقعات پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ:.

Page 106

تاریخ احمدیت.جلد 27 96 سال 1971ء اگر ہم اسلامی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات بڑی واضح ہو جاتی ہے کہ میں نے تمثیلی رنگ میں جس عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے، اسی وقت بالعموم اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوتی رہی ہے.چنانچہ کی زندگی کے بعد بدر کی جنگ تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت لڑی گئی ہے کیونکہ اس سے پہلے مکی زندگی میں مسلمانوں کو ہر قسم کے دکھ پہنچائے گئے.یہاں تک کہ اڑھائی سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو شعب ابی طالب میں بند رکھا گیا اور آپ کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا حتی کہ کفار مکہ کھانے پینے کی چیزوں تک کو اندر نہیں جانے دیتے تھے.گو اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو زندہ رکھنے کے سامان تو پیدا کر رہا تھا مگر آزمائش تھی امتحان تھا ( جو خدا ان کو زندہ رکھنے کے لئے کھانے کا انتظام کر سکتا تھا وہ ان کو صحت مند اور طاقتور رکھنے کا انتظام بھی کر سکتا تھا لیکن چونکہ مسلمانوں کی آزمائش تھی ) اس لئے ان کی تکلیف کی یہ حالت تھی کہ ایک بزرگ صحابی" کہتے ہیں ایک دفعہ رات کے وقت میرا پاؤں ایک ایسی چیز کے اوپر پڑا جسے میرے پاؤں نے نرم محسوس کیا چنانچہ میں نے اسے اٹھایا اور کھا لیا لیکن مجھے آج تک پتہ نہیں لگا کہ وہ تھی کیا چیز.غرض اس تکلیف دہ حالت تک وہ پہنچے ہوئے تھے گواڑھائی سال تک انسان بھوکا نہیں رہ سکتا.ظاہر ہے محض زندہ رہنے کے لئے ان کو جتنی غذا کی ضرورت تھی وہ ان کو مل گئی.لیکن بھوک کی آزمائش بڑی سخت تھی علاوہ دوسری آزمائشوں کے جن کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاسکتا.پھر جب ہجرت کی اجازت ملی تو انہی کفار نے مسلمانوں کا پیچھا کیا اور کہا کہ یہ با ہر نکل کر کیسے جا سکتے ہیں ہم ان کو مٹا دیں گے.چنانچہ یہ وہ وقت تھا جب دکھ اور تکلیف، کرب اور ایذاء، آزمائش اور امتحان اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا.چنانچہ پھر دنیا نے بدر کے میدان میں یہ نظارہ دیکھا کہ تین سو اور کچھ مسلمانوں کے مقابلے میں جو اسلام کو مٹانے اور مسلمانوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں آئے تھے وہ اپنے قریباً سب بڑے بڑے سرداروں کے سر چھوڑ کر واپس بھاگے.غرض "أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيْب“ کا ایک عجیب نظارہ تھا جو دنیا نے بدر کے میدان میں دیکھا اور پھر یہی

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد 27 97 سال 1971ء نظارہ ہم بعد کی لڑائیوں میں بھی دیکھتے ہیں...کیسے ہی حالات احزاب کے موقع پر پیدا ہو گئے قریباً سارا عرب اکٹھا ہو کر ان غریبوں اور مفلسوں اور نہتوں کو قتل کرنے کے لئے وہاں جمع ہو گیا اور انہوں نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ بھوک کے مارے وہ پیٹ پر پتھر باندھ کر چلتے تھے.دوسری طرف مسلمان عورتوں کی یہ حالت تھی کہ جس جگہ وہ اکٹھی کی گئیں وہاں ان کی عزت اور عصمت کی حفاظت کے لئے بھی مسلمان سپاہی میسر نہیں تھا کیونکہ دوسری جگہ اس کی زیادہ ضرورت تھی.مسلمان عورت سے فرمایا کہ اگر آج تیری عزت کی آزمائش ہے اور خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ ایک مسلمان عورت میرے راستے میں اپنی عزتوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں تو وہ اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے تیار ہو جائیں.چنانچہ وہ تیار ہوگئیں.پھر جس وقت یہ سارا جم غفیر اور یہ سارا مجمع جو اسلام کو مٹانے کے لئے جمع ہوا تھا اور ان کفار کی امید اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ بس اب وہ غالب آئے اور مسلمان مغلوب ہوئے ادھر مسلمانوں کے حالات کرب عظیم کو پہنچ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ اگر اس وقت خدا تعالیٰ کی مدد نہ آئی تو وہ مارے جائیں گے، اس وقت خدا کی مدد آئی اور فرشتے اس مدد کو آسمان سے لے کر آئے..یرموک کی جنگ کو لیں یہ پانچ دن تک جنگ ہوئی ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ حضرت خالد بن ولید کو طفیل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتادیا گیا تھا کہ چار دن تک آزمائشوں کا دور ہوگا یعنی ان کے ذہن میں پہلے سے یہ تصور موجود تھا کہ چار دن دشمن کے اور پانچواں دن ہمارا ہوگا.یعنی تین پہر دشمنوں کے ہوں گے اور چوتھا پہر ہمارا ہو گا چنانچہ دشمن اپنے وزن ، اپنی تعداد اور اپنے ہتھیاروں کے زور کے ساتھ مسلمانوں کو دھکیلتے ہوئے ان کے خیموں تک لے جاتا تھا مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر ایثار پیشہ فدائی مسلمان عورتیں خیموں کے ڈنڈے لے کر مسلمانوں کے سر پر مارتی تھیں کہ واپس جاؤ یہاں کیا لینے آئے ہو.چنانچہ اگلے دن اور پھر اس سے اگلے دو دن بھی یہی حال ہوا اس معرکہ میں کئی مسلمان شہید ہو گئے جن میں عکرمہ اور اس کے ساتھی بھی شامل تھے مگر کسی مسلمان نے پیٹھ نہیں

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد 27 98 سال 1971ء دکھائی حتی کہ مکرمہ جیسے شخص نے پیٹھ نہیں دکھائی جو فتح مکہ تک اسلام کا دشمن رہا تھا.کیونکہ عکرمہ اور اس جیسے دوسرے مسلمانوں کے دل بدل گئے ، حالات مختلف ہو گئے ، اندھیروں کی جگہ نور نے لے لی.وہ جو اسلام کے دشمن تھے ان کے دل میں محبت پیدا ہو چکی تھی.عکرمہ اور اس کے ساتھی اس خیال سے جلتے تھے کہ انہوں نے اپنے چہروں پر اسلام دشمنی کے داغ لگارکھے ہیں.ان داغوں کو دھونے کے لئے خدا جانے ہمیں کوئی موقع ملتا ہے یا نہیں.پس یہ لوگ بھی جو بعد میں آنے والے تھے دشمن کے مقابلے میں بھاگے نہیں کسی نے بزدلی نہیں دکھائی وہ خدا تعالیٰ سے نا امید نہیں ہوئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بدظنی نہیں کی بلکہ کئی ایک نے اپنی جان دے کر مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ خدا تعالیٰ سے اپنا عہد پورا کر دیا اور اس طرح انہوں نے اپنے لئے جنتوں کے سامان پیدا کئے اور پیچھے رہنے والوں کے لئے فتح کے سامان پیدا کر دیئے.غرض اس جنگ میں جب مسلمانوں کا کرب اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تمثیلی زبان میں وہ آخری وقت یعنی عصر کا وقت آگیا تو کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت یرموک کے میدان میں رومی اپنے پیچھے شاید ڈیڑھ لاکھ لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلے تھے.حالانکہ پہلے چار دنوں میں رومی یہ سمجھتے تھے کہ مسلمان تو مٹھی بھر ہیں یہ بیچ کر کیسے جائیں گے.وہ سمجھتے تھے کہ ہم اڑھائی لاکھ ہیں اور مسلمان صرف چالیس ہزار.اس لئے وہ مسلمانوں کو مٹا دیں گے.غرض اس نیت کے ساتھ رومی آئے تھے کہ اس میدان میں سارے مسلمانوں کو قتل کر دیں گے اور اس فتنے کو ( جو اُن کے نزدیک فتنہ تھا ) ہمیشہ کے لئے مٹادیں گے مگر جسے وہ فتنہ سمجھتے تھے اور جس کے مٹانے کے درپے تھے اس نے ان کے خون کو کھاد بنا کر انہی کے علاقوں میں اسلام کے درختوں کو بویا جنہوں نے بڑے اچھے پھل دیئے.....یوسف بن تاشفین کا واقعہ ہے جو سپین میں رونما ہوا وہ افریقہ کے رہنے والے تھے میں نے تمثیلی رنگ میں عصر کے وقت کا ذکر کیا ہے مگر ان کے اس واقعہ میں عملاً عصر کا وقت ہی تھا جب انہیں اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوئی.

Page 109

تاریخ احمدیت.جلد 27 99 سال 1971ء یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ جب سپین کے حالات خراب ہو گئے تو مسلمانوں نے یوسف بن تاشفین سے درخواست کی کہ ہماری مدد کریں.چنانچہ وہ قریباً بارہ ہزار گھوڑ سوار فوج لے کر وہاں پہنچ گئے.عیسائی بادشاہ ساٹھ ستر ہزار کی فوج لے کر حملہ آور ہوا.بڑی زبردست جنگ ہوئی جس میں بظاہر دشمن کا پلہ بھاری تھا.تاریخ بتاتی ہے کہ اس موقع پر یوسف بن تاشفین نے یہ سمجھا کہ آج مجھے اپنی عمر میں شاید پہلی شکست نہ ہو جائے کیونکہ دشمن کا دباؤ بڑا شدید تھا.عیسائی مسلمانوں کو مار رہے تھے انہیں قتل کر رہے تھے اور پیچھے ہٹا رہے تھے مگر اس سارے دباؤ اوران تیزیوں کے باوجود جو دشمن مسلمانوں کے خلاف دکھا رہا تھا اس پر انہوں نے پیٹھ نہیں دکھائی.عیسائی سمجھتے تھے کہ آج وہ غالب آگئے اور سپین سے مسلمان کو گو یا مٹا دیا.یوسف بن تاشفین کا یہ واقعہ مسلمان کی سپین میں ہلاکت سے کئی صدی پہلے کا ہے گو اس وقت بھی یہی حالات پیدا ہو گئے تھے جو بعد کی صدی میں زیادہ بگڑ گئے اور مسلمانوں کو ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں اور گناہوں کے نتیجہ میں ایک عذاب کا اور اللہ تعالیٰ کے غضب کا سامنا کرنا پڑا.بہر حال یوسف بن تاشفین سمجھتے تھے کہ عمر میں پہلی شکست ہورہی ہے اور ادھر عیسائی بادشاہ یہ سمجھتا تھا کہ آج (بزعم خویش ) عیسائیت اور اسلام کا فیصلہ ہو گیا ہے ہم نے مسلمانوں کو مٹا دیا ہے.یہ باہر سے مدد دینے آئے تھے اپنے مسلمان بھائیوں کو ہم نے ان کو بھی شکست دے دی ہے.چنانچہ عصر تک یہی حال رہا.پھر اللہ تعالیٰ کے فرشتے ایک نئی شان میں آئے کیونکہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ( الرحمن :۳۰).اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہر جلوہ نئی شان رکھتا ہے چنانچہ عصر کے وقت عیسائی فوج بھاگ نکلی.حالانکہ اس سے پہلے وہ سارا دن مسلمانوں کو مارتے اور دباتے رہے تھے لیکن مسلمانوں کی تکلیف جب اپنی انتہا کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا اور کامل قدرتوں والا ہے وہ مسلمانوں کی مدد کو آیا.اس نے ان کا امتحان لے لیا تھا اس لئے فرمایا تم کامیاب ہو گئے.اب لو میرا انعام.چنانچہ رومی (عیسائی ) بھاگے اور یوسف بن تاشفین اور اس

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد 27 100 سال 1971ء کے آدمی ( باوجود اس کے کہ کچھ تو شہید ہو گئے تھے اور کچھ ویسے بھی تعداد میں کم تھے مگر چونکہ وہ ایمان پر قائم تھے اس لئے ) ساری رات دشمن کو مارتے مارتے ان کا پیچھا کیا اور قریباً پچاس میل کے فاصلہ پر ایک دریا تھا ان کا خیال تھا کہ ہم وہاں تک ان کا پیچھا کریں گے چنانچہ دشمن کا ساٹھ ستر ہزار فوج میں سے کل پانچ سو عیسائی دریا پار کر سکے.شاید کچھ دائیں بائیں سے بھی نکلے ہوں گے لیکن ان کی اکثریت ماری گئی.چنانچہ وہ دشمن جو عصر کے وقت تک اپنے خیال میں غالب تھا وہ مغلوب ہی نہیں ہوا بلکہ ہلاک ہو گیا.اس لئے کہ صبح سے لے کر عصر تک جو ظلم انہوں نے مسلمانوں پر کیا تھا وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا تھا.جو جنگ اس وقت ہندوستان کے خلاف لڑی گئی ہے میرا اندازہ ہے کہ صبح سات بجے ہمارے فوجیوں سے ظالم حکومت نے جنگ بند کرا دی.ہمارا سپاہی بڑی بے جگری سے لڑا ہے اس نے اپنے خون سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس پر بزدلی یا نا اہلی کا دھبہ نہیں آتا اس لئے میں ان کی بات نہیں کر رہا.لیکن جن کا بھی قصور تھا اور جہاں بھی وہ فتنہ تھا اس کی وجہ سے ہتھیار ڈالے گئے تو عصر کا وقت نہیں تھا ظہر کا وقت بھی نہیں تھا.بارہ بھی نہیں بجے تھے.دس بجے کا بھی وقت نہیں تھا صبح سات بجے ہتھیار ڈال دیئے اور پھر یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کیوں نہیں آئی ؟ قرآن کریم کی واضح تعلیم کے خلاف ہے.97 امتیازی خدمات سرانجام دینے والے پاکستانی افواج کے بعض احمدی افسران چوہدری محمد اکرم صاحب شہادت: ۲۶ نومبر ۱۹۷۱ء آپ مکرم چوہدری عبد العزیز صاحب صدر جماعت احمد یہ چک E.B-245 ضلع ساہیوال کے صاحبزادے تھے.آپ نے دفاع وطن میں دلیرانہ خدمات سرانجام دیتے ہوئے اپنی جان قربان کر دی.شہادت کے وقت آپ کی عمر ۲۶ سال تھی.اسی سال ۲۱ فروری ۱۹۷۱ء کو آپ کی شادی ہوئی تھی.آپ بہت دیندار اور خوش اخلاق نوجوان تھے.98

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد 27 101 سال 1971ء کیپٹن مجیب فقر اللہ صاحب شہید ستارہ جرات تاریخ شہادت: ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء مجیب فقر اللہ صاحب ۱۸ نومبر ۱۹۴۶ء کو لاہور میں پیدا ہوئے.تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاک فوج میں کمیشن حاصل کیا.بچپن سے ہی قومی خدمت کا جذبہ دل میں موجزن تھا.۱۹ مئی ۱۹۶۵ء کوکا کول میں ٹریننگ کے لئے داخل ہوئے اور ۱۹ نومبر ۱۹۶۵ء کوٹریننگ مکمل کر کے کھاریاں چھاؤنی میں تعینات ہوئے.والد کی وفات کے بعد والدہ اور بھائی بہنوں کو والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی.آپ کی والدہ صاحبہ محترمہ ممتاز فقر اللہ صاحبہ لا ہور رقمطراز ہیں:.۲۰ مئی ۱۹۷۱ ء کو اس کا نکاح کیا اس نے کہا کہ امی ملک کے حالات بہت خراب ہو رہے ہیں آپ ابھی نکاح نہ کریں.میں نے کہا بیٹے میری خواہش ہے تیری خوشی دیکھوں.کوئی بات نہیں.غازی بن کے آؤ گے تو شادی کریں گے.ہنس کر جواب دیا.امی شہید کو چھوڑ دیا ہے اگر میں شہید ہو گیا تو پھر؟ میں نے کہا یہ سب خدا کو معلوم ہے اس طرح تو دنیا میں کوئی کام نہ ہوں.واقعی ملک کے حالات دن بدن خراب سے خراب تر ہوتے گئے.پھر ایک دن میرا چاند بھی پورا لیس ہو کر اپنے مورچہ میں چلا گیا.میں نے لکھا کہ بیٹے ملک پر سخت وقت آن پڑا ہے.دودھ کی لاج رکھنا.آپ کے بعد مجیب تو پیدا ہوتے رہیں گے آج اس گھر میں کل اُس گھر میں مگر میرے لال ملک ایک دفعہ جا کر پھر واپس نہیں آتے.میری دعا ہے میرے تمام مجیب اور تمام چراغ ( داماد ) جس جس محاذ پر ہیں سب کے سب غازی اور فاتح ہو کر آئیں.مکار دشمن پر ضرب کاری لگے کہ دوبارہ اٹھ نہ سکے.خط ملتے ہی فون پر کہا امی جان ایسا ہی ہو گا.یہ بزدل دشمن بھی کیا یادر کھے گا کہ مجیب خاں آیا ہے.امی دعا کریں شہادت نصیب ہو.خدا تعالیٰ قید سے نجات دے.سو میرے مہربان خدا نے میرے بیٹے کی یہ خواہش بھی پوری کر دی.دشمن کو کاری ضرب لگائی کہ اس نے اقرار کیا کہ اس نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے.دشمن کی تین تو ہیں اپنے ہاتھ سے ٹھنڈی کیں.خود اپنے آپ کو پیش کیا اور یہ پوسٹ بھی خود پسند کی کہ میں اسے فتح کروں گا.۱۹ نومبر ۱۹۷۱ء کو (اپنی ڈائری میں ) لکھا ہے کہ آج کے دن میں نے قسم لی تھی اور مجھے کمیشن ملا تھا یہ قسم مجھے اُسی طرح یاد ہے جیسے میں ابھی لے رہا ہوں انشاء اللہ جس وقت میرے ملک اور مذہب کو

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد 27 102 سال 1971ء میری ضرورت پڑی میں ہر قربانی کیلئے تیار رہوں گا.خواہ مجھے جان دینی پڑے.سو پورے پندرہ دن بعد یہ تمام وعدے پورے کر کے ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گیا.جرنیل ٹکا خاں نے ستارہ جرات ملنے پر مبارک میں لکھا:.میں اس کی ماں کو سلام کرتا ہوں جس نے یہ بیٹا جنا.پوری قوم کو اس ماں پر فخر ہے جب تک پاک آرمی ہے اس وقت تک مجیب زندہ ہے.۶ جون ۱۹۷۲ ء پورے چھ ماہ بعد انڈیا نے میرے شہید کی باڈی دی تھی.کرنل سکھ تھا.اس نے بہت تعریف کی کہ یہ اپنی قوم کا سرمایہ تھا.بہت بہادر اور نڈر افسر تھا.بیشک اس نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے مگر اپنے ملک کیلئے اس نے بہت کچھ کیا اس کی جیب میں اس کی ماں کا ایک خط رکھا تھا وہ ہم نے اپنے جی.ایچ.کیو میں جمع کروا دیا.جب ہم بہادروں کی کہانی دیتے ہیں ان کی ماں بہن کے خط بھی ساتھ دیتے ہیں.ایسے بہادر خواہ دشمن کے ہوں یا اپنے.ہم حالات ضرور لکھیں گے.جس قوم کی ایسی مائیں ہوں ان کے بیٹے کبھی شکست نہیں کھاتے میرا اس کی ماں کو سلام دینا.ساتھ قرآن شریف دیا جو انہوں نے ساتھ بکس میں بند کر دیا.مجیب کا باپ بڑا مردمومن تھا.احمدیت کا شیدائی تھا.الفضل اس کی جان تھا.مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے اس کو عشق تھا.وہ نڈر احمدی تھا.سپریم کورٹ میں ہر ایک کو تبلیغ کرتا.اس کی وفات پر ایک عیسائی حج کار میلیس (سابق چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آف پاکستان.ناقل ) نے لکھا ” میں نے اپنی زندگی میں ایسا پکا مسلمان نہیں دیکھا“.99 اسی طرح شہید کے ماموں محترم میجر (ر) محمود احمد صاحب افسر حفاظت لندن اس معرکہ آرائی اور شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :.وہ ایک نہایت نڈر، جوشیلا اور خوبصورت دل اور خوش مزاج افسر تھا.وہ ایک ہر دلعزیز یونٹ افسر تھا.ہر کام محنت اور خوش اسلوبی سے کرتا تھا.۱۹۷۱ء کے سال اس کی پوسٹنگ بلوچستان ملیشیا میں Ist Masud Bn میں ہوئی جو کہ اس وقت چمن بارڈر کے اوپر لگی ہوئی تھی.دسمبر ۱۹۷۱ء میں اس کی بٹالین کو چھمب جوڑیاں سیکٹر میں جنگ میں حصہ لینے کیلئے بھیج دیا گیا.اس کی بٹالین کو مندر پوسٹ اور ایک اور دوسری پوسٹ قبضہ کرنے کا حکم ملا.چونکہ مندر پوسٹ ایک انتہائی مضبوط مورچہ تھا اور تقریباً ۸۰ ڈگری اونچائی پر واقع تھا اس کا دفاع انتہائی مضبوط تھا اور پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کو کسی طرف سے بھی پہنچنا بے حد مشکل تھا.

Page 113

تاریخ احمدیت.جلد 27 103 سال 1971ء اس کے کرنل نے مندر پوسٹ دوسرے افسر کو الاٹ کر دی کہ وہ حملہ کرے گا مگر کیپٹن مجیب شہید نے کہا کہ سر اس پر حملہ میں کروں گا.کرنل نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ سر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں کوئی پاکستانی فوجی اس پوسٹ کو فتح نہیں کر سکا مگر میں مجیب خان اس دفعہ اس پوسٹ کو Capture کروں گا.چنانچہ مجیب شہید کے اصرار پر کرنل صاحب نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مندر پوسٹ پر.کی ذمہ داری کیپٹن مجیب شہید نے حاصل کر لی.چنانچہ رات کے پچھلے پہر مجیب شہید نے مندر پوسٹ کی طرف چڑھائی شروع کر دی.اوپر سے شدید فائرنگ ہوئی تو ان کو پتھروں کے پیچھے پناہ لینی پڑی.اس وقت سب سے آگے کیپٹن مجیب شہید تھا اور اس کے پیچھے اس کا صوبیدار تھا.مجیب شہید نے پوچھا کہ باقی جو ان کہاں ہیں تو صو بیدار صاحب نے جواب دیا کہ شدید فائرنگ کی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں.کیپٹن مجیب شہید نے نعرہ لگایا کہ جوانو! آگے بڑھو.مگر فائرنگ کی شدت سے اوپر چڑھنا بے حد مشکل ہو گیا.صوبیدار صاحب نے کہا کہ سر شدید فائرنگ کی وجہ سے اوپر چڑھنا مشکل ہے لہذا واپس اتر جاتے ہیں مگر کیپٹن شہید نے صو بیدار صاحب کو کالر سے پکڑا اور کہا کہ اس وقت میرا خون اُبل رہا ہے میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا.تم میرے ساتھ اوپر چڑھو.باقی بھی ہمارے پیچھے آہی جائیں گے.چنانچہ صوبیدار کے بقول کیپٹن شہید نے اس کو گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ اوپر کی طرف بھاگنا شروع کر دیا.صو بیدار صاحب کا بیان ہے کہ نجانے مجیب شہید میں کتنی طاقت تھی کہ وہ نہ صرف خود اوپر کی طرف بھاگ کر چڑھ رہا تھا بلکہ مجھے بھی ساتھ ساتھ کھینچ رہا تھا.چنانچہ یہ دونوں بھاگتے ہوئے او پر پہنچ گئے اور شدید فائرنگ کے بعد دست به دست لڑائی سے مندر پوسٹ کے چند مورچے خالی کروالئے.اس دوران باقی جوان بھی اوپر پہنچ گئے اور باقی پوسٹوں کو بھی قبضہ میں کر لیا.کیپٹن مجیب شہید نے کرنل صاحب کو فتح کی کامیابی کی خوشخبری دی اور ساتھ ہی کہا کہ مزید اسلحہ بھیج دیں تا کہ جوابی حملہ کی صورت میں ہم پوسٹ کا دفاع کر سکیں.فوری طور پر جوابی حملہ آیا جو کہ انہوں نے پسپا کر دیا اور پھر دوبارہ اپنی پوزیشن ٹھیک کرنے لگے ساتھ ہی نیچے پیغام دیا کہ اسلحہ فوری بھیجیں ورنہ یہاں ٹھہر نا مشکل ہو جائے گا.ابھی تک اندھیرا تھا چنا نچہ کیپٹن مجیب صاحب نے اپنی پوزیشن میں مزید تبدیلیاں کیں.انہیں اپنے ایک حوالدار کی تلاش تھی جو کہ انہیں ابھی تک نہیں ملا تھا.اس کو تلاش کرتے ہوئے ایک جگہ پہنچے تو وہاں ایک مورچے میں دشمن چھپے بیٹھے تھے.جو نہی کیپٹن مجیب اس مورچے کے پاس پہنچے تو انہوں نے دوبارہ حوالدار کو

Page 114

تاریخ احمدیت.جلد 27 104 سال 1971ء پکارا کہ اتنے میں دشمن نے مشین گن سے برسٹ مارا جو کہ سیدھا ان کے سینے پر لگا اور وہ وہیں گر گئے.صوبیدار صاحب نے جب یہ صورتحال دیکھی کہ کیپٹن صاحب شہید ہو گئے ہیں اور دشمن کی طرف سے جوابی حملہ شروع ہو چکا ہے اور ان کے پاس اب اسلحہ بھی نہیں رہا تو اس نے واپسی کا حکم سنا دیا اور یوں وہ مندر پوسٹ پھر ایک دفعہ دشمن کے قبضہ میں چلی گئی.اس کے بعد فوج نے ۲.۳ بار دوبارہ حملہ کر کے مندر پوسٹ پر قبضہ کرنا چاہا مگر وہ پوسٹ دوبارہ قبضہ میں نہیں آئی.دشمنوں نے کیپٹن مجیب شہید کو بہترین خراج تحسین پیش کیا اور اس کی وہیں پر تدفین کر دی.ان کے اس اعتراف پر کہ یہ ایک انتہائی بہادر افسر تھا اُس کو پاکستان آرمی نے ستارہ جرات سے نوازا.اس کی میت چھ ماہ کے بعد انڈین آرمی نے پاکستان آرمی کے حوالے کی.کیپٹن مجیب فقر اللہ کی تدفین فوجی اعزاز کے ساتھ قبرستان میانی صاحب لاہور میں ہوئی.لیفٹینٹ ممتاز انور صاحب شہید ستارہ جرات تاریخ شہادت: ۵،۴ دسمبر ۱۹۷۱ء 100.ممتاز انور شہید پاک بحریہ کے تباہ کن جہاز خیبر کے چیف انجینئر تھے.ایک بار جب بدر جہاز سمندری طوفان کی لپیٹ میں آگیا تو لیفٹینٹ انور نے خود انجن روم کا انتظام سنبھال لیا اور مسلسل تین دن رات ڈیوٹی پر موجود رہے اور جہاز کو بچانے میں کامیاب ہو گئے.پھر ۱۹۷۱ء کی جنگ میں آپ کا جہاز دشمن کے میزائلوں کی زد میں آ گیا لیکن آپ آخری سانس تک ڈیوٹی پر موجودر ہے اور اپنی جان بچانے کی بجائے اپنے ساتھیوں کی جان بچاتے ہوئے شہید ہو گئے.اپنے فرائض کو بہادرانہ رنگ میں سرانجام دینے کے اعتراف میں آپ کو ستارہ جرات دیا گیا.مارچ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان میں بغاوت شروع ہو چکی تھی.آپ چھٹی پر گھر آئے ہوئے تھے.وطن کی سرحدوں نے دفاع کے لئے پکارا تو آپ اپنی رخصت ختم کر کے ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے.آپ کی اہلیہ کہتی ہیں کہ گھر سے رخصت ہوتے وقت مجھے یاد دلایا کہ میں ایک سپاہی کی بیوی ہوں.ان پر مجھ سے زیادہ حق مادر وطن کا ہے.وہ کہنے لگے آج وقت آگیا ہے.میری ماں میری دھرتی اور میرے فرض نے مجھے پکارا ہے اور میں اس پکار پر لبیک کہنے جا رہا ہوں.سمندری سرحدیں میری منتظر ہیں.وہ مجھے بلا رہی ہیں کہ دشمن نے سمندر کے سینہ پر اپنا تسلط جمانے کی ناکام کوششیں شروع کر دی ہیں.جب تک میں زندہ ہوں دشمن کا ہر ڈ ر سینہ پر سہوں گا.‘ 101 66

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد 27 105 سال 1971ء لیفٹیننٹ محمود اختر صاحب زبیری شهید تاریخ شہادت: ۵ دسمبر ۱۹۷۱ء آپ احتیاج علی زبیری صاحب آف راولپنڈی کے صاحبزادے تھے.جنگ میں چھمب کے میدان میں انہوں نے آنا فانا دشمن کے آٹھ ٹینک تباہ کر دیے.اس کے بعد دشمن کے علاقہ میں سب سے پہلے اپنا ٹینک داخل کیا تو انہوں نے اس ٹینک کو تباہ کر دیا جس سے آپ شہید ہو گئے.۳۰ دسمبر کو احباب جماعت نے شہید کی نماز جنازہ ادا کی اور پنڈی ملٹری قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.102 عبد السلام صاحب شہید تاریخ شہادت: ۷ دسمبر ۱۹۷۱ ء 103 آپ ۱۹۴۲ء میں چہار کوٹ مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام ماسٹر محمد حسین صاحب تھا.۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے مانسر کیمپ آگئے.وہاں سے کچھ عرصہ کے لئے آپ کی فیملی سندھ چلی گئی.اس کے بعد آپ کے والد اپنے بچوں کو لے کر بھمبھر آگئے اور وہاں ملوٹ گاؤں میں بطور معلم ملازمت اختیار کر لی.عبدالسلام صاحب نے کھوئی رٹہ ضلع کوٹلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا.اس کے کچھ عرصہ بعد آپ نے فوج میں ملازمت اختیار کرلی.۱۹۷۱ء کی جنگ میں آپ چھمب سیکٹر کے اگلے مورچوں پر بطور سپاہی سگنل کور میں ڈیوٹی دے رہے تھے کہ دشمن کی طرف سے ایک گولہ آکر لگا جس میں پانچ ساتھیوں سمیت آپ بھی شہید ہو گئے.مکرم نعیم الدین بھٹی صاحب کا رکن دفتر صدرانجمن احمد یہ ربوہ آپ کے داماد ہیں.عبد محسن خالد کڑک صاحب شهید تاریخ شہادت : ۹ دسمبر ۱۹۷۱ء آپ ڈاکٹر عبدالغفور کڑک صاحب کے چھوٹے بیٹے اور حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.۱۹۷۱ ء کی جنگ میں ڈھا کہ مشرقی پاکستان میں جام شہادت نوش کیا.حکومت پاکستان نے آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو ستارہ جرات سے نوازا.آپ ہی کے نام پر ۲۹ کیولری میں کڑک بٹالین ہے.اسی طرح آپ کے ہی نام پر لاہور کینٹ میں کڑک سٹریٹ ہے.104

Page 116

تاریخ احمدیت.جلد 27 106 سال 1971ء میجر جنرل افتخار احمد صاحب جنجوعہ شہید کو دوسری بار ہلال جرأت کا اعزاز تاریخ شہادت : ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء اس جنگ میں ایک احمدی سپوت میجر جنرل افتخار احمد جنجوعہ صاحب ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو شہید ہو گئے.صدر مملکت پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اس نامور احمدی جرنیل میجر جنرل افتخار احمد شہید کو دسمبر ۱۹۷۱ء کے آخر میں چھمب سیکٹر میں سرفروشانہ کارنامے سرانجام دینے پر دوسری بار ہلال جرأت کا اعزاز عطا کیا.اس سلسلہ میں ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا کہ میجر جنرل افتخار احمد پنجاب یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے.۱۹۴۲ء میں انہیں فوج میں کمیشن ملا.انہوں نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ اور کمانڈ اینڈ سٹاف کالج فورٹ لیون ورتھ (امریکہ) سے بھی گریجوایشن کیا.فوج میں آپ نے بہت نام پیدا کیا اور ان کا فوجی کیرئیر بہت ممتاز اور نمایاں رہا.میجر جنرل افتخار رن کچھ میں ہونے والی ۱۹۶۵ء کی جنگ کے ہیرو تھے.رن کچھ کے معرکوں میں انہوں نے بریگیڈیر کمانڈر کی حیثیت سے بھارتی فوجوں کے بہت مضبوط گڑھ بیار بیٹ پر حملہ کیا.معرکہ بیار بیٹ کی منصوبہ بندی، غیر معمولی بہادری اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کے مظاہرہ پر انہیں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا.شہادت کا مرتبہ پانے سے قبل میجر جنرل افتخار نے چھمب سیکٹر میں بھارتیوں کے خلاف اپنے ڈویژن کی بڑی فتح مندی کے ساتھ قیادت کی تھی جہاں غیر ملکی صحافیوں کے بیان کے بموجب بھارتیوں نے مضبوط ترین دفاعی مورچے قائم کر رکھے تھے ،ٹینکوں کے جال بچھا رکھے تھے اور توپ خانہ کی نہایت ہی مضبوط چوکیاں بنائی ہوئی تھیں.کنکریٹ سے تعمیر کی ہوئی رکاوٹوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے میجر جنرل افتخار نے مقدمتہ الجیش میں شامل ہو کر بڑی بے خوفی سے اپنی فوجوں کی کمان کی اور اس معرکہ میں انہوں نے اپنی حفاظت سے قطعاً بے پروا ہوتے ہوئے بے مثال عزم اور جرات کا مظاہرہ کیا.فضائی دیکھ بھال کی ایک مہم کے دوران ۱۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو میجر جنرل افتخار کا ہیلی کا پر تباہ ہو کر زمین پر آرہا اور وہ شہید ہوگئے.105 میجر جنرل افتخار احمد صاحب جنجوعہ شہید محترم محمود امجد صاحب ایم اے (آکسن) بارایٹ لاء مرحوم ( مدفون مقبرہ بہشتی ربوہ) کے صاحبزادے تھے.

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد 27 107 سال 1971ء میجر جنرل افتخار احمد صاحب جنجوعہ کا ایک خاص کارنامہ لیفٹینٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان صاحب پاک افواج کے ماہنامہ ہلال ستمبر ۲۰۱۰ء میں پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء (لا ہور محاذ ) کے ذکر میں لکھتے ہیں.پاکستان چونکہ روز اول ہی سے بھارت کے ارادوں کو جانتا تھا اس لئے تقسیم کے فوراًبعد پاک فوج کے ایک افسر نے لاہور کے اہم ترین علاقہ میں ایک آبی رکاوٹ تعمیر کرنے کی تجویز پیش کی.اس افسر کا نام بریگیڈئیر افتخار جنجوعہ تھا جو اس وقت لاہور میں 10 ڈویژن کے ایک بریگیڈ کا کمانڈر تھا.اس آبی رکاوٹ کا نام بی آربی کینال رکھا گیا جبکہ بھارت اسے اچھو گل کینال کا نام دیتا ہے.یہ نہر لاہور کے مشرق میں بین الاقوامی سرحد کے متوازی تعمیر کی گئی اور سرحد سے اس کا فاصلہ کم سے کم 3 کلومیٹر اور زیادہ سے زیادہ ۱۵ کلو میٹر تھا.اس کی چوڑائی پچاس فٹ اور گہرائی ۱۵ فٹ رکھی گئی.جنرل گل حسن صاحب (آخری کمانڈر ان چیف پاک افواج) اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ لاہور کے سویلین حکام نے اصرار کیا تھا کہ نہر کو لاہور شہر کے عین بیچوں بیچ تعمیر کیا جائے تاکہ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ ہو، جبکہ بریگیڈئیر افتخار احمد جنجوعہ نے دفاعی ضروریات کو ترجیح دینے پر زور دیا.۱۹۶۵ ء کی پاک بھارت جنگ میں داتا ( حضرت شیخ علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ) کی نگری.لاہور کو اگر کسی چیز نے بھارتی حملہ کے وقت تحفظ دیا تو وہ خدا کے بعد بی آر بی نہر تھی.۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بھارت کی وار مشین اس نہر کے دائیں ( مشرقی) کناروں پر آکر رک گئی تھی.16 میجر جنرل افتخار جنجوعہ کو خراج تحسین حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت نے پورے برصغیر کے ہر حلقہ میں کھلبلی مچا رکھی تھی.اس ضمن میں اخبار دن“ نے ۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کا سپلیمینٹ اسی رپورٹ کے موضوع سے مخصوص کیا اور اس میں اپنے خصوصی نامہ نگاروں کے انٹرویو اور سپیشل رپورٹیں شائع کیں.مشرقی پاکستان میں فوج کے سر براہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) اے اے کے نیازی (جنہوں نے بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالے اور مسلمانان عالم کو اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں بدترین شکست ہوئی) کی اخبار دن“ کے نمائندوں (محمد ندیم چوہدری اور میاں حبیب) سے تفصیلی نشست میں گفتگو ہوئی جس کے دوران انہوں نے دسمبر ۱۹۷۱ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کی محاذ کشمیر پر کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے مایہ ناز احمدی جرنیل میجر جنرل افتخار جنجوعہ کو درج ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا:.66 106.

Page 118

تاریخ احمدیت.جلد 27 108 سال 1971ء انفینٹری ڈویژن ۲۳ نے بہت بہادری سے جنگ کر کے آزاد کشمیر میں کافی علاقہ حاصل کر لیا.ڈویژن کے سر براہ میجر جنرل افتخار جنجوعہ ایچ جے تھے جو ایک بہت دلیر جرنیل تھے ان کی وفات کے بعد ان کی جگہ ڈویژنل بریگیڈیر کمال متین الدین نے لی جس میں اپنے پیش رو جیسی شخصیت، تجربے اور مجاہدانہ عزم کا فقدان تھا.107 یادر ہے آزاد کشمیر کے مشہور قصبہ چھمب کا نام میجر جنرل افتخار جنجوعہ کی عظیم الشان جنگی خدمات کے اعتراف کے طور پر ۲۰ مارچ ۱۹۷۲ء کو افتخار آباد رکھا گیا.فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق صاحب ستارہ جرات فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو پشاور میں پیدا ہوئے.ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک ہائی اسکول ماڑی پور کراچی میں حاصل کر کے پی اے ایف پبلک اسکول سرگودھا میں داخلہ لیا.بعد ازاں پی اے ایف اکیڈیمی رسالپور میں تربیت حاصل کی اور 11 جنوری ۱۹۶۹ء کو بطور جی ڈی (پی ) فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا اور پاکستانی فضائیہ کے مختلف مراکز میں خدمات انجام دیں.سابق مشرقی پاکستان اور حال بنگلہ دیش ڈھاکہ کے ہوائی مرکز میں تعیناتی کے دوران دسمبر ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ میں اپنے سکواڈرن کے سب سے کم عمر اور کم تجربہ رکھنے والے ہوا باز ہونے کے باوجود بے مثال مہارت اور جرات کا مظاہرہ کیا.پاک فضائیہ کی تاریخ ۷ ۱۹۴ء تا ۱۹۸۴ء میں آپ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے.اپنے سکواڈرن کے سب سے نوخیز اور کم تجربہ کار ہوا باز ہونے کے باوجود فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق نے دورانِ جنگ مثالی جرات اور مہارت پرواز کا مظاہرہ کیا.۴ دسمبر ۱۹۷۱ء کو انہیں ڈھا کہ مستقر پر حملہ آور چارا لیس یو.ے طیاروں کے خلاف مزاحمتی کارروائی کے احکامات ملے.جونہی وہ فضا میں بلند ہوئے بھارتی طیاروں نے ان کی فارمیشن پر میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی مگر وہ انتہائی تحمل کے ساتھ کم رفتاری سے حملہ آور طیاروں پر جالپکے اور اپنے ونگ مین کو دوبارہ میزائل چھوڑنے کے لئے کہا بعد میں ایک جھڑپ کے دوران انہوں نے ایک ایس یوے کو مار گرایا.اسی اثنا میں چار ہنٹر بھی لڑائی میں شریک ہو گئے.فلائنگ آفیسر شمس الحق بلا تامل ہنٹر طیاروں پر پل پڑے اور ان میں سے دو کا کام تمام کر دیا.اس کے بعد دشمن کے چار مگ طیاروں نے ان پر ہلہ بول دیا تاہم اپنی مستعد منصوبہ

Page 119

تاریخ احمدیت.جلد 27 109 سال 1971ء 66 بندی اور طیارے کے بہتر استعمال کے ذریعے انہوں نے دشمن کے اس حملے کو بھی ناکام بنادیا.چنانچہ انتہائی نامساعد حالات میں مثالی جرأت اور شاندار مہارت کے مظاہرے پر فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق کوستارہ جرأت عطا کیا جاتا ہے.108 اسی طرح پاک فضائیہ کے میگزین ”شاہین نے مئی.اگست ۱۹۷۲ء کی اشاعت میں صفحہ ۱۶ پر آپ کا مضمون "My War Experience" ایڈیٹر کے اس تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا:.( ترجمہ ) فضا میں ایک بے نظیر کارنامہ دسمبر ۱۹۷۱ء میں جب انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ چھڑی تو نو خیز فلائنگ آفیسر محمد شمس الحق (جن کی عمر میں سال سے کچھ زائد ہوگی ) کو سکواڈرن ۱۴ بمقام ڈھا کہ میں متعین کیا گیا تھا.وہاں پاکستان فضائیہ کی صرف ایک ہی سکواڈرن موجود تھی جس کا مقابلہ آٹھ سے دس سکواڈرنز سے تھا.تعداد اور طاقت کے لحاظ سے بھی پاکستان کے پرانے سیر طیاروں کا دشمن کے پوری طرح مسلح جدیدترین طیاروں سے کوئی جوڑ نہ تھا.مگر تعداد اور استعدادوں کی یہ عدم مساوات ہمارے ہوا بازوں کے آگے دشمن سے مقابلہ میں ہرگز روک نہ بنی.اسی طرح کے ایک محاربہ میں جو کہ ۴ دسمبر کی صبح ہوا، فلائنگ آفیسر شمس نے پانچ دشمن طیاروں کا تن تنہا مقابلہ کیا اور تین کو مار گرایا.ان میں سے دو ہنٹر طیارے اور ایک ایس یو ے طیارہ تھا.اس دلیرانہ کارنامہ اور ہنرمندی کا شاندار نتیجہ ۱۹۶۵ء میں ونگ کمانڈر محمدمحمود عالم کے تاریخ ساز کارنامہ کے برا بر ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر ممتاز ہے کیونکہ فلائنگ آفیسر شمس نے ہر ایک جہاز کا ایک ایک کر کے مقابلہ کیا اور بڑی مہارت اور تجربہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سے تین کو زمین پر مار گرایا.اڑ ان کے دوران اس غیر معمولی اور شاندار کارکردگی کے اعتراف میں شمس کو ستارہ جرأت کا اعزاز دیا گیا ہے.109 بریگیڈئیر محمد ممتاز خان صاحب.ہلال جرات ۱۹۷۱ء کی دوسری بڑی لڑائی حسینی والا سیکٹر پر لڑی گئی.ہندوستان نے ۲ دسمبر ۱۹۷۱ء کو لاہور کے محاذ پر حملہ کر دیا.دشمن تعداد اور اسلحہ میں کئی گنا تھا مگر پاکستان کی بہادر افواج نے دشمن کو پرے دھکیل کر پاکستان کے دل لاہور کو دشمن کے حملے سے محفوظ کر لیا.اس سیکٹر کی کمان بر یگیڈ ئیر ممتاز کے ہاتھوں میں تھی جنہوں نے بہادری، جرأت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے پاؤں اکھاڑ

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد 27 110 سال 1971ء دیئے اور وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گیا.حکومت کی طرف سے بریگیڈئیر ممتاز کی شاندار عسکری خدمات کے صلہ میں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا.حسینی والا سیکٹر کے محاذ جنگ پر پاکستانی افواج کی بہادری اور دشمن کی ہزیمت کے متعلق روز نامہ امروز لا ہور لکھتا ہے.د حسینی والا فیروز پور سیکٹر میں بھارتی سینا بھاری نقصان اٹھا کر پسپا ہو گئی.نئی دہلی ۴ دسمبر.بھارت نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی فوجیں ہر محاذ پر پسپا ہو رہی ہیں.بھارتی وزیر جنگ جگ جیون رام نے آج پارلیمنٹ میں بتایا کہ گھمسان کی جنگ کے بعد حسینی والا فیروز پور سیکٹر پر بھارتی فوجیں پسپا ہوگئیں.اس محاذ پر بھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا.110 جماعت احمدیہ کے اس دلیر مجاہد نے ہندوستان کے قلعہ قیصر ہند کو فتح کیا اور اس قلعے کو سر کر کے ہندوستان کے ایک عظیم دفاعی مورچہ پر قبضہ کر لیا جس میں بہت سا اسلحہ اور گولہ بارود کا ذخیرہ تھا جو پاکستانی افواج کے ہاتھ لگا.بریگیڈئیر ممتاز نے اپنی تمام صلاحیتیں وطن کے دفاع میں صرف کر دیں اور ہندوستانی افواج کو نہ صرف پرے دھکیل دیا بلکہ آگے بڑھ کر دشمن کے علاقہ پر قبضہ کر لیا.بریگیڈئیر موصوف نے بہادری اور جرات اور شجاعت کا مظاہرہ کیا جس پر پاکستانی افواج اور عوام نے ان کی خدمت میں زبر دست خراج تحسین پیش کیا.111 لیفٹینٹ کرنل بشارت احمد صاحب ۱۹۷۱ء کی جنگ میں آپ ۱۳ آزاد کشمیر بٹالین کی کمانڈ کر رہے تھے.چھمب کے محاذ پر آپ اپنے طوفانی دستوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھے کہ ان کا اپنے ہیڈ کوارٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا.اور آپ ساتھیوں سمیت دشمن کے نرغہ میں آگئے.دشمن نے گولیوں کی بوچھاڑ شروع کر دی جس سے اکثر ساتھی شہید ہو گئے.اور کچھ زخمی ہوئے.آپ بھی زخمی تھے.دشمن نے زخمیوں کو قیدی بنالیا.زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے آپ میں خون کی کمی ہوگئی.آپ کو علاج کے لئے ہسپتال بھجوادیا گیا.بعد میں ۲۲ فروری ۱۹۷۲ ء کو زخمی قیدیوں کے تبادلہ میں آپ پاکستان آگئے.ہندوستانی فوج سے مقابلہ میں جس جرات اور بہادری کا آپ نے مظاہرہ کیا اس کے صلہ میں آپ کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا.دورانِ قید جب آپ ہسپتال میں زیر علاج تھے تو ہندوستانی افواج کا کمانڈر انچیف جنرل مانک شا خود آپ کے کمرہ میں آیا اور آپ سے اس نے کئی سوالات کئے.جن کے آپ نے نہایت دلیرانہ

Page 121

تاریخ احمدیت.جلد 27 111 سال 1971ء انداز میں جوابات دیئے.آپ کی جرات اور دلیری پر جنرل مانک شا حیران ہو گیا.اس گفتگو کا ذکر آپ نے اپنی کتاب "The Soldiers with mission" میں بھی کیا ہے.112 پاک و ہند جنگ اور حالات قادیان اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ صراط مستقیم پر قائم ہے اور اسی وجہ سے اس کا یہ بڑا پختہ عقیدہ ہے کہ ہر احمدی گو وہ کسی بھی ملک میں رہتا ہوا اپنے ملک کا مکمل وفادار ہے اور اسے اپنے ملک کی بہبود اور بہتری، وفاداری اور حفاظت کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہنا چاہیے اور جماعت احمدیہ کے افراد اس پر سختی سے کاربند ہیں.اس کے باوجود بعض شر پسند عناصر احمدیوں کیلئے شرانگیزی کرتے رہتے ہیں لیکن جب بھی انصاف کی رو سے کسی معاملہ کی تحقیقات ہوئی ہیں تو ہمیشہ احمدیوں کا دامن ایسی آلائشوں سے پاک نظر آیا ہے.۱۹۶۵ء کی جنگ میں ہندوستان کے احمدیوں بالخصوص قادیان کے رہائشی احباب جماعت کے خلاف شرارت کرتے ہوئے خلاف واقعہ خبر میں حکام بالا تک پہنچائیں لیکن جب تحقیقات ہوئیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی باعزت بر بیت ہوئی.۱۹۷۱ء میں ہونے والے ایک ایسے ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے شیخ عبدالحمید عا جز صاحب رقمطراز ہیں :.ایک جماعتی ابتلاء میں خدائی تائید بد قسمتی سے ہندو پاک کی دوسری لڑائی شروع ہو گئی.ایسے مواقع پر شرارت پسند عنصر کو جماعت احمدیہ کے خلاف غلط افواہیں پھیلانے کا موقع مل جاتا ہے.اس مرتبہ نا معلوم کسی شکایت کی بناء پر احمد یہ ایر یا خالی کر کے ہمیں باہر کسی غیر معلوم مقام پر لے جانے کی تکلیف دہ اسکیم بنائی گئی.چنانچه مورخه ۷۱-۱۲-۵ کو ہمارے پاس بٹالہ تھانہ کے ایس.ایچ.او اور سب انسپکٹر سی.آئی.اے سردار کرتار سنگھ صاحب آئے اور ڈی.ایس.پی بٹالہ کی طرف سے یہ پیغام دیا کہ حکومت کی طرف سے ہمیں پولیس کی نگرانی اور حفاظت میں کالج کے ہوٹل میں لے جانے کا پروگرام ہے چونکہ ہمارے لئے اچانک ایسی اسکیم کسی صورت میں بھی قابل قبول نہ تھی اس لئے حضرت امیر صاحب ( مراد حضرت عبد الرحمن جٹ صاحب) مکرم چوہدری سعید احمد صاحب اور مولوی برکت علی صاحب نے ان کو بتا یا کہ دنیا میں سب سے زیادہ محفوظ جگہ ہم اپنے لئے قادیان کا یہ ایر یا سمجھتے ہیں جہاں رہ رہے ہیں اور ہم ایسی کسی تجویز کو اپنے لئے قابل عمل نہیں پاتے.اس شرارت کو بھانپ کر ہم نے

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد 27 112 سال 1971ء صوبائی اور مرکزی حکومت اور ہندوستان کی بڑی بڑی جماعتوں کو بذریعہ تار اطلاع دیتے ہوئے اپنی پریشانی کا اظہار کیا.اگلے روز مورخہ ۷۱ - ۱۲-۶ کو ہمارا ایک وفد جو مکرم چوہدری سعید احمد صاحب، مکرم چوہدری منظور احمد صاحب چیمہ مرحوم اور خاکسار پر مشتمل تھا بٹالہ کے ڈی.ایس.پی صاحب سے ملنے گیا.مسٹر شر ماڈی.ایس.پی بٹالہ کا رویہ کافی سخت تھا انہوں نے ہمیں خبر دار کیا کہ ہمیں نقل مکانی کے لئے چند گھنٹوں کے اندر تیار ہو جانا چاہیے.حکومت کی پالیسی کے مطابق عمل کرنے میں دنوں کا سوال نہیں ہے.ہم نے اپنے موقف کی وضاحت کی اور ان کو بتایا کہ ہم اوپر کے افسران کو مل لیتے ہیں.اسی روز ہم بٹالہ کے ایس.ڈی.ایم صاحب شری مگر صاحب سے بھی ملے تھے.وہ ایک شریف الطبع افسر تھے اور جماعت کے ساتھ ہمدردانہ رویہ رکھتے تھے.اس خطرناک صورتحال کی اطلاع پر درویشان میں ایک گہری تشویش کی لہر دوڑ گئی اور دعاؤں اور خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کا سلسلہ شروع ہو گیا.مورخہ ۷۱-۱۲-۷ کو ہمارا ایک وفد جو مکرم چوہدری سعید احمد صاحب، مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب، مکرم منظور احمد صاحب چیمہ مرحوم اور خاکسار پر مشتمل تھا اور ہمارے ساتھ سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ بھی تھے گورداسپور جا کر ڈی سی اور ایس.پی صاحب سے ملا وہاں ایک میٹنگ میں پنڈت موہن لال صاحب بھی موجود تھے.سپرنٹنڈنٹ پولیس نے بہت تحکم کے انداز میں ہمیں مخاطب ہو کر کہا کہ We are already late in implementing the scheme of"."the government یعنی حکومت کی اسکیم کو ہمارے متعلق نافذ کرنے میں ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں.انہوں نے اگلے روز از خود قادیان آنے کو کہا چنانچہ اگلے روز مورخہ ۷۱-۱۲-۸ کو گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، ایس.پی صاحب اور ڈی.ایس.پی صاحب اپنے ہمراہ پولیس کی ایک پوری گارڈ لے کر ہمارے ایریا میں تشریف لائے.ان کے ہمراہ سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ، اجیت سنگھ صاحب چیمہ ایڈووکیٹ اور جن سنگھ کے مقامی صدر شری رام پرکاش پر بھا کر بھی تھے.انہوں نے مسجد اقصیٰ اور اس کے نیچے اسٹور روم دیکھے.مسجد مبارک ، مقبرہ بہشتی تعلیم الاسلام اسکول وغیرہ دیکھے.انکی باتوں سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم سب کو احمد یہ ایریا سے نکالنے پر تلے ہوئے ہیں اور پولیس کی فورس جوان کے ساتھ لڑکوں وغیرہ پر ہے وہ ہم کو لے جانے کا پروگرام بنا کر آئی ہے.ہم اپنی طرف سے یہ جماعتی فیصلہ کر چکے تھے کوئی ایک آدمی بھی اپنی مرضی سے احمد یہ ایریا

Page 123

تاریخ احمدیت.جلد 27 113 سال 1971ء سے باہر نہیں جائے گا خواہ ہم کو مار دیا جائے.ہاں اگر جبراً پولیس ہمیں نکالے گی تب بھی ہم اپنے پاؤں سے چل کر نہیں جائیں گے.محترم صاحبزادہ ( مراد مرز ا وسیم احمد ) صاحب سلمہ نے اپنے ایک خطبہ میں احباب کو بتا دیا تھا کہ اگر احمد یہ ایر یا خالی کرانے کی خاطر حکومت ان کو اور حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب اور دیگر ذمہ دار افراد کو گرفتار بھی کرلے تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ اب ان کو محلہ احمد یہ خالی کر دینا ہے.ہر ایک کا رویہ ایسا ہو کہ ایک ایک بچے کو جب تک گھسیٹ کر باہر نہ نکالا جائے نہ نکلے.اس موقعہ پر سر دارستنام سنگھ صاحب اور شری رام پر کاش پر بھا کرنے ڈی سی اور ایس.پی کے سامنے ہماری تائید میں باتیں کیں جن کے لئے ہم ہر دو دوستوں کے بے حد ممنون ہیں.محترم باجوہ صاحب نے بیان کیا کہ ان کے متعد د عزیز ملٹری میں ہیں اور فرنٹ میں مقرر ہیں اگر ان کو ذرہ برابر بھی شک ہو کہ قادیان کی احمد یہ جماعت کے لوگ پرو پاکستانی ہیں یا کسی لحاظ سے حکومت کے خلاف کسی قسم کی کارروائی میں ملوث ہیں تو سب سے پہلے وہ ان کے خلاف ہوں گے.لیکن ہمارا سالہا سال کا ان کے متعلق تجر بہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ جماعت احمدیہ حکومت وقت کی وفادار ہے.اس کے باوجود اگر ان کی نگرانی کی جاتی ہے تو ان کے ایریا کے قریب پولیس یا ملٹری کی گارڈ رکھ کر کی جاسکتی ہے.شری پر بھا کر صاحب نے واشگاف الفاظ میں بیان کیا کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں ان کو بھی شک تھا اور وہ اس کی بناء پر ان کے چاروں طرف نگرانی کرتے رہے ہیں.بہشتی مقبرہ کی دیواروں کے پیچھے سے رات کو پہرہ دیتے رہے ہیں مگر ہم نے کچھ نہیں پایا.یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ پولیس چوکی سے ایس.پی صاحب کو وائرلیس پر پیغام آیا جسے وہ سننے کے لئے چوکی تشریف لے گئے اور جب چند منٹوں کے بعد واپس آئے تو ان کا رویہ یکسر بدلا ہوا تھا.چند منٹوں کے لئے انہوں نے ڈی.سی صاحب کے ساتھ الگ بات کی پھر یہ فرمایا کہ ہم کو تو آپ کی حفاظت کرنی مدنظر ہے وہ ہمارے ایریا میں جلسہ گاہ میں ایک پولیس پوسٹ قائم کر دیں گے اور ایک سویلین ویلفیئر افسر مقرر کر دیا جائے گا اور قادیان سے باہر جانے کی صورت میں وہ ہمارے ساتھ جائے گا.ہم نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اور پورے تعاون کا یقین دلایا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے محض اپنے فضل سے ایک بڑے خطرہ کو ٹال دیا.ان ایام میں احتیاط کے طور پر کوٹھی دار السلام میں مقیم افراد کو بھی شہر میں بلالیا گیا.بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ مرکزی حکومت کی ہدایت کے مطابق ایس.پی صاحب گورداسپور کو بذریعہ وائرلیس اطلاع ملی تھی جس کی وجہ سے ان کو ہمیں احمدیہ ایریا سے باہر لے جانے کا فیصلہ تبدیل کرنا پڑا.

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد 27 114 سال 1971ء خدا تعالیٰ کی عجیب حکمت ہے اور تصرف خداوندی ہے کہ عین اس وقت جبکہ خطرہ کی حالت اپنی انتہا کو پہنچ رہی تھی اللہ تعالیٰ نے ہماری مخلصی کا سامان پیدا کر دیا.ورنہ یقینی اطلاعات کے مطابق ہمیں احمدیہ ایریا سے نکالنے کا معاملہ ظاہری طور پر اس مرحلہ تک پہنچ چکا تھا کہ محلہ دارالصحت کے خاکروب ۱۹۴۷ء کی طرح اس بات کے لئے تیار تھے کہ ہمارا ایر یا خالی ہونے کے بعد وہ مکانوں کو لوٹیں گے.یہ واقعہ گذر جانے اور مورخہ ۷۱ - ۱۲-۱۷ کولڑائی بند ہو جانے کے بعد جماعت کی طرف سے پرزور الفاظ میں مرکزی حکومت کے سامنے احتجاج کیا گیا کہ امن پسند اور پابند قانون جماعت احمدیہ کے متعلق کسی خلاف واقعہ اور غلط شکایت کی بناء پر ہتک آمیز سلوک کا جو پلان بنایا گیا تھا جماعت اس پر گہری تشویش اور غم وغصہ کا اظہار کرنے پر مجبور ہے.ہمارے اس محضر نامہ کے جواب میں حکومت کی طرف سے ہمیں یقین دہانی کی چٹھی موصول ہوئی کہ آئندہ ایسی بات نہیں دہرائی جائے گی.مورخہ ۷۱ - ۱۲-۲۰ کو پنچایت ہاؤس گورداسپور میں ، آئی.جی پولیس شری اشونی کمار اور مسٹر سا ہنی مشیر گورنر پنجاب تشریف لائے تو ان کو ملنے کیلئے قادیان سے ایک وفد گیا جس میں خاکسار کے ہمراہ مکرم چوہدری سعید احمد صاحب، مکرم چوہدری فیض احمد صاحب مرحوم اور مکرم چوہدری عبد القدیر صاحب تھے.اس موقعہ پر صدر انجمن احمد یہ قادیان کے فیصلہ کے مطابق جماعت احمدیہ کی طرف سے ڈیفنس فنڈ میں دس ہزار روپے کی رقم دی گئی.113 تحدیث نعمت“ کے نام سے ایک معرکۃ الآراء کتاب کی اشاعت حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بعض احباب کے اصرار پر اپنے روح پرور حالات زندگی صرف اپنی یادداشت سے قلم برداشتہ تحریر فرمائے جو عدیم المثال حافظہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے.اشاعت کے لئے حضرت چوہدری صاحب نے یہ شرط عائد فرمائی تھی کہ کتاب ایک جلد تک محدود رہے جس کی وجہ سے قیمتی مسودہ کا معتد بہ حصہ حذف کرنا پڑا تاہم حضرت چوہدری صاحب کے منفرد اسلوب بیان اور روانی میں شاید ہی کہیں فرق محسوس ہوتا ہو.ناشر کتاب کے فرائض شیخ اعجاز احمد صاحب اور چوہدری بشیر احمد صاحب نے انجام دیئے.حضرت چوہدری صاحب نے کتاب کے جملہ حقوق تصنیف، ڈھاکہ کے فلاحی ادارہ ڈھاکہ بے نیو ولینٹ ایسوسی ایشن (Dacca Benevolent Association) کو عطا فرمائے.کتاب

Page 125

تاریخ احمدیت.جلد 27 115 سال 1971ء کا پہلا ایڈیشن دسمبر ۱۹۷۱ ء میں اور تمہ کے اضافہ کے ساتھ دسمبر ۱۹۸۲ء میں اشاعت پذیر ہوا.ہر ایڈیشن تین تین ہزار کی تعداد میں چھپا.دوسرے ایڈیشن میں ۱۸۹۳ء سے ۱۹۸۱ء تک کے واقعات محفوظ ہو گئے.برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو قرآن مجید کا تحفہ ۹ نومبر ۱۹۷۱ء کو احمد یہ مشن لنڈن کے ایک نمائندہ وفد نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر ہر ایکسی لینسی (ر) جنرل محمد یوسف خان صاحب سے ملاقات کی.وفد کی قیادت مکرم عطاء المجیب را شد نائب امام مسجد لنڈن نے کی.آپ کے علاوہ مکرم عزیز دین صاحب ، مکرم خواجہ نذیر احمد صاحب اور مکرم خالد اختر صاحب وفد میں شامل تھے.ملاقات کے آخر میں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نے آپ کی خدمت میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور لنڈن مشن کی مطبوعات کا ایک سیٹ پیش کیا جو آپ نے شکریہ کے ساتھ وصول کیا.114 ربوہ میں عید الفطر کی مبارک تقریب یکم شوال ۱۳۹۱ ھ بمطابق ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ء بروز ہفتہ ربوہ میں عید الفطر اسلامی طریق کے مطابق سادگی اور پر وقار طریق پر اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ منائی گئی.اہل ربوہ نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے نیز دور و نزدیک سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں اصحاب نے مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی زیر اقتداء نماز عید ادا کی.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ رمضان میں مومن کی عبادتوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انہیں قبولیت دعا کی خوشی دکھاتا ہے جس کا ظاہری نشان عید ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے خدا کے شکر گزار بنیں اور دعاؤں پر بہت زور دیں اور بشاشت کے ساتھ قربانیاں کرتے چلے جائیں تا کہ عید کا سورج جو ہمارے لئے طلوع کیا گیا ہے وہ کبھی غروب نہ ہو.115 جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۱ء کے التواء کا اعلان ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ربوہ کے التواء کا اعلان کیا اور اس سلسلہ میں خطبہ جمعہ میں فرمایا :.

Page 126

تاریخ احمدیت.جلد 27 116 سال 1971ء اس وقت حالات نے انتہائی شدت تو اختیار نہیں کی لیکن یہ ایسے بھی نہیں کہ ہم لا پرواہ ہو جائیں.اس لئے ہر پاکستانی خصوصاً ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی پوری توجہ اپنی دعاؤں اور اپنی محنت کے ساتھ اور اپنی جدو جہد کے ذریعہ اور اپنے کام میں زیادہ مہارت کا مظاہرہ کر کے استحکام پاکستان کے لئے کوشاں رہے اور وہ ملک کی سلامتی اور ملک کے استحکام اور ملک کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنی زندگی کی ہر گھڑی خرچ کر رہا ہو.اگر حکومت کو کاروں اور موٹر گاڑیوں کی ضرورت پڑے تو خوشی سے دے دینی چاہئیں.ابھی کاریں تو شاید لینی نہیں شروع کیں.سنا ہے خاص قسم کی گاڑیاں لے رہے ہیں.پس قوم اور ملک کو جن کی ضرورت ہے وہ گاڑیاں وہ لے جائیں گے اور ہمیں بشاشت کے ساتھ دے دینی چاہئیں.ہمیں جو گاڑیاں ملیں یا جو کپڑے ملے یا جو مال و دولت ملا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے.جس خدا نے پہلے دیا وہ آج بھی دے گا اور کل بھی دے گا.پھر ہمیں خوف کس بات کا ہے اور گھبراہٹ کس بات کی ہے.چونکہ یہ ہنگامی حالات ہیں.ہر فرد واحد کو قوم کے استحکام اور قوم کی عزت اور وقار اور احترام کی خاطر اپنا سب کچھ اپنی استعدادوں اور دعاؤں سمیت قوم کو پیش کر دینا چاہیے اور حکومت سے پورا تعاون کرنا چاہیے.اس لئے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جلسہ سالانہ ملتوی کر دیا جائے.پھر جیسا کہ ہماری دعا ہے جب یہ ہنگامی حالات ختم ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ ہمارے لئے غیر معمولی خوشیوں کے سامان پیدا کر دے تو پھر ہم خوشی کے ساتھ اور بشاشت کے ساتھ پہلے سے کہیں زیادہ چھلانگیں لگاتے ہوئے اپنے جلسہ میں شامل ہو جائیں گئے.116 التواء جلسہ سالانہ ۱۹۷۱ء کے بعد متبادل کے طور پر مرکزی عہدیداران کے پاکستان بھر کی احمدی جماعتوں کے دورہ جات ہوئے.اس حوالہ سے بغرض معلومات مورخہ ۱۷ جنوری ۲۰۱۵ء کو محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے ناظر دیوان صدر انجمن احمدیہ سے رابطہ کیا گیا.آپ نے بتایا کہ ” خاکسار بھی اس پروگرام کے مطابق سندھ کی جماعتوں کے دورہ پر گیا تھا اور صاحبزادہ

Page 127

تاریخ احمدیت.جلد 27 117 سال 1971ء مرز امنصور احمد صاحب بھی دورہ پر تشریف لے گئے تھے.اور ہدایت یہ تھی کہ صرف جماعتوں کا دورہ نہیں کرنا بلکہ جہاں بھی کوئی احمدی رہائش پذیر ہے اسے وہاں جا کر ملنا ہے.“ اس پروگرام کی رپورٹ کے حصول کے لئے نظارت علیاء صدرانجمن احمدیہ پاکستان کو بھی لکھا گیا جس کے جواب میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے اپنی مرسلہ چٹھی میں تحریر فرمایا کہ:." مجھے یاد ہے کہ اس سلسلہ میں صدرانجمن احمدیہ کے ناظران، تحریک جدید کے وکلاء اور وقف 66 جدید کے ناظم وغیرہ مرکزی عہدیداروں نے پاکستان کی جماعتوں کا دورہ کیا.117 قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کی وسیع اشاعت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء میں یہ خوشخبری سنائی کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ دو سائزوں میں بیس بیس ہزار کی تعداد میں عنقریب شائع ہو رہا ہے چنانچہ فرمایا:.اس وقت پاکستان کے باہر بھی اور پاکستان کے اندر ایک حصہ میں قرآن کریم اور اس کے انگریزی ترجمے کی بڑی ضرورت محسوس ہو رہی تھی.اس لئے ہم نے دو سائزوں میں قرآن کریم انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کرنے کا ارادہ کیا.ایک تو بالکل چھوٹا سائز ہے جو نو جوانوں اور طالبعلموں کے لئے ہے.انگریزی ترجمے والا قرآن کریم زیادہ تر مغربی افریقہ اور مشرقی افریقہ اور یورپ وغیرہ میں بھیجا جائے گا.یہاں بھی یونیورسٹی کے طلبہ وغیرہ کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس کو پسند کرتا ہے.چنانچہ ان کے لئے متن اور انگریزی ترجمہ چھوٹی حمائل کی شکل میں تیار کیا گیا تھا.وہ اب چھپ چکا ہے.الحمد للہ.اور اس کی قیمت بھی یہاں صرف چار روپے رکھی گئی ہے.پس چار روپے میں قرآن کریم کا متن اور ترجمہ مل جائے گا اور باہر کے ممالک میں اس کی قیمت صرف پانچ شلنگ رکھی گئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں قریباً اڑھائی یا پونے تین روپے قیمت ہوگی.جب ہم نے نمونے نکالے تو باہر کے ملکوں سے بھی مشورہ کیا تھا.چنانچہ ایک ملک نے کہا کہ دس ہزار کے قریب وہاں کھپت ہو جائے گی.

Page 128

تاریخ احمدیت.جلد 27 118 سال 1971ء دوسر احمائل کے سائز کا ہے اور یہ پہلے سائز سے دگنا ہے ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ کل سے چھپنا شروع ہو جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ سب خیر رکھے تو پندرہ بیس دن کے اندر اندر وہ بھی انشاء اللہ چھپ جائے گا.ہم قرآن کریم مع انگریزی ترجمہ کے یہ دونوں سائز ہیں بیس ہزار کی تعداد میں چھپوا ر ہے ہیں.ان کے علاوہ قرآن کریم کا متن بچوں کے لئے بھی اور بڑوں کے لئے بھی ضروری ہے.یہ بھی اس وقت قریباً نایاب تھا اور انشاء اللہ عنقریب چھپ جائے گا اور جماعت اس سے فائدہ اٹھا سکے 66 گی.‘ 118 حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی قیمتی نصائح ۳۰ دسمبر ۱۹۷۱ء کو مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کا ماہانہ اجلاس منعقد ہوا.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خانصاحب صدر عالمی عدالت نے اس موقع پر احمدی نوجوانوں کو بیش قیمت نصائح سے نوازتے ہوئے خاص طور پر یہ حقیقت نمایاں فرمائی کہ مومن کا ہر لحظہ، اس کا ہر پیسہ اور اس کی ہر سوچ اور فکر وتد بر نہایت قیمتی ہے.مومن ہونے کی حیثیت میں نوجوانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے اوقات ، اپنے اموال اور اپنی غور وفکر کی صلاحیت کی حقیقی قدر کرنا سکھیں اور وہ قدر یہی ہے کہ آپ کا ہرلحہ، آپ کا ہر پیسہ اور آپ کی ہر سوچ بر موقع اور برمحل استعمال میں آئے.اس رنگ میں صرف ہو کہ وہ حصول رضائے الہی پر منتج ہو نہ کہ اس کی ناراضگی مول لینے کا موجب بنے.اس کے لئے قرآنی تعلیم پر عمل پیرا ہونا اور اسلامی اقدار کو اپنا نا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو استعداد میں اور قوتیں عطا فرمائی ہیں ان کی حقیقی قدردانی اور شکر گذاری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کو صحیح رنگ میں بر موقع استعمال کیا جائے.ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کو اس رنگ میں استعمال کریں کہ اس صحیح اور برمحل استعمال کے نتیجہ میں شکر گذاری کا حق ادا ہو سکے اور یہ نہ ہو کہ ہم کفرانِ نعمت کے مرتکب قرار پا کر مستحق عذاب ٹھہریں.آپ نے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے خاص طور پر تین نعمتوں کا ذکر فرمایا.۱.انسانی زندگی اور وقت.۲.قوت فکروتد تبر.۳.مال و دولت.حضرت چوہدری صاحب نے خدام کو تحریک جدید کے اصولوں کے مطابق سادہ زندگی اختیار

Page 129

تاریخ احمدیت.جلد 27 119 سال 1971ء کرنے کی پرزور تاکید فرمائی اور آخر میں ربوہ کے خدام کو خاص طور پر اسلامی اقدار اپنانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میں اجاگر کرنے پر زور دیا اور فرمایا کہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ اور ہر لحظہ اور ہماری ہر سوچ و فکر اور ہمارا ہر خرج اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہونا چاہیے تا کہ ہم اپنے دعاوی کا عملی ثبوت دنیا کو فراہم کرسکیں.119 زیمبیا مشن کا قیام اس سال کے آخر میں تحریک جدید کے بیرونی مشنوں میں زیمبیا مشن کا اضافہ ہوا.زیمبیا کا مختصر تعارف زیمبیا (Zambia): انگریزوں کی محکومی کے زمانے میں اس کا نام شمالی رہوڈ یشیا تھا.اب یہ جمہوریہ زیمبیا ہے.جنوب میں دریائے زیمبری اسے زمبابوے ( جنوبی رہوڈ یشیا) سے الگ کرتی ہے.اس کے جنوب میں بوتسوانا، زمبابوے اور نامیبیا، مشرق میں موزمبیق اور ملاوی، شمال میں تنزانیہ اور زائر اور مغرب میں انگولا واقع ہیں.اس کا رقبہ ۶۱۸، ۷،۵۲ مربع کلومیٹر ہے.۱۹۹۱ء کے تخمینہ کے مطابق آبادی ۸۷،۸۰،۰۰۰ ہے.سب سے بڑا شہر اور صدر مقام کو ساکا (Lusaka) ہے.عام زبان بنٹو Bantu ہے.پڑھے لکھے لوگوں میں انگریزی بھی رائج ہے.آبادی کی بڑی اکثریت قدیم افریقی عقائد کی پیرو ہے.کئی بڑے بڑے دریا مثلاً زیمبزی، کافوے، لوانگوا، چیمبشی وغیرہ یہاں سے گزرتے ہیں.کئی جھیلیں بھی واقع ہیں.اکثر علاقے بلند ہیں جہاں جنگلات پائے جاتے ہیں.کاشت کے قابل کافی وسیع علاقے ہیں لیکن ایک قسم کی مکھی کی وجہ سے بڑے علاقے پر کاشت ممکن نہیں ہے.بقیہ رقبہ میں مکئی ، گیہوں ، تمباکو، کافی ، روئی اور تیل کے بیجوں کی کاشت ہوتی ہے.نارنگیوں کے باغات بھی ہیں.مویشی اور سور بڑی تعداد میں پالے جاتے ہیں.رانج سکہ کو اچا(Kwacha) ہے.درآمدات زیادہ تر برطانیہ، جاپان، ایران، جنوبی افریقہ، مغربی جرمنی، اٹلی اور فرانس سے آتی ہیں اور برآمدات برطانیہ، جاپان، اٹلی ، مغربی جرمنی اور فرانس کو جاتی ہیں.برآمدات کا ۹۳ فیصدی تانبہ ہے.۲۱۹۷ کلومیٹر لمبی ریلوے لائنیں ہیں.ان کے علاوہ ۲۵ ہزار کلومیٹر لمبی سڑکیں ہیں.صنعتوں میں سب سے اہم تانبہ کی صنعت ہے.کوئلہ بھی نکالا جاتا ہے.تھوڑی سی مقدار میں شیشہ اور جست بھی نکالا جاتا ہے.

Page 130

تاریخ احمدیت.جلد 27 120 سال 1971ء ۱۹۹۰ء میں یہاں ابتدائی مدرسوں میں ۶۱،۲۰۶، ۱۴ طالب علم اور ۳۰۲، ۲۷ / استاد تھے.ثانوی مدرسوں میں ۷۴۳، ۴۰، ۱ طالب علم اور اعلی تعلیمی اداروں میں ۷۳۶۱ طالب علم تھے.تاریخ: زیمبیا کی پرانی تاریخ کے بارے میں بہت کم علم ہے.اٹھارہویں اور شروع انیسویں صدی میں چند پرتگالی مہم جو ( کھوج کار ) اس علاقے تک گئے تھے اور ان کے روز نامچوں سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں افریقیوں کی ایک بہت بڑی سلطنت قائم تھی.بعد میں جو مہم جو ۱۸۵۱ء میں یہاں پہنچے انہوں نے آبشار وکٹوریہ کا پتہ لگایا.زیمبیا کی آبادی کا بڑا حصہ بنٹو قبیلے کے لوگوں پر مشتمل ہے.یہ ۱۷۰۰ء میں اس علاقے میں داخل ہو کر قابض ہو گئے لیکن اس کے بارے میں تاریخی معلومات بہت کم ملتی ہیں.شروع انیسویں صدی میں عربوں نے بھی شمال سے اس علاقے پر حملہ کیا تھا.دوسرے حملہ آور قبیلوں میں سے لوزی بہت کامیاب رہا.ان کے سردار لیوانکا نے ۱۸۹۱ء میں انگریزوں سے مدد مانگی اور اس کے عوض انگریز تاجروں کو تجارت اور کان کنی کی مراعات دیدی گئیں.۱۸۹۹ء میں برٹش ساؤتھ افریقہ کمپنی نے مغربی اور شمال مغربی علاقے کا نظم و نسق سنبھال لیا.1911ء میں ان دونوں علاقوں کو ملا کر شمالی رہوڈ یشیا ( موجودہ زیمبیا ) کا نام دے دیا گیا.۱۹۲۴ء میں برطانوی حکومت نے شمالی رھوڈ یشیا کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں لے لیا.۱۹۵۳ء میں شمالی اور جنوبی رھوڈیشیا (زمبابوے) اور نیا سالینڈ (ملاوی) کا ایک وفاق قائم کر دیا گیا.اس وفاق سے اس علاقے نے بڑی ترقی کی.لیکن اس ترقی کے حقدار صرف سفید فام لوگ تھے.تمام زمینیں اور کا نیں انہیں کی تھیں.نظم ونسق کی ہر منزل پر باگ ڈور انہیں کے ہاتھ میں تھی.دوسرے مقبوضات کی طرح افریقی باشندوں کی حیثیت غلاموں سے بہتر نہ تھی.چنانچہ افریقی باشندوں میں اس کے خلاف سخت ہیجان رہا.دوسری عالمگیر جنگ کے بعد آزادی کی تحریک اپنے عروج پر پہنچی اور برطانیہ کو وسطی افریقہ کے اس وفاق کو توڑنے پر مجبور ہونا پڑا.۱۹۶۴ء میں نیا سالینڈ، ملاوی کے نام سے اور شمالی رہوڈ یشیا، زیمبیا کے نام سے آزاد مملکتیں بن گئیں.کینتھ کا ؤنڈا (Kenneth Kaunda)، زیمبیا کے پہلا صدر منتخب ہوئے.کاؤنڈا ۱۹۶۸ء اور ۱۹۷۳ء میں دوبارہ صدر منتخب ہوئے.جنوبی رہو ڈ یشیا پر سفید فام اقلیت کی حکومت مسلط رہی جس کے خلاف طویل جنگ جاری رہی.اب جنوبی رہوڈ یشیا زمبابوے کے نام کی آزاد حکومت ہے.

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد 27 121 سال 1971ء آزادی کے بعد زیمبیا، دولت مشترکہ، مجلس اقوام متحدہ اور افریقی اتحاد کی تنظیم کا ممبر بن گیا اور غیر جانبدار ملکوں کی برادری میں شریک ہو گیا.انگولا اور موزمبیق کی جنگ آزادی اور زمبابوے (جنوبی رہوڈیشیا) کی سفید فام حکومت کے خاتمے کی جدو جہد میں زیمبیا نے اہم رول ادا کیا.یوروپی اثر کو کم کرنے کی کوششیں جاری رہیں.بنکوں، کانوں اور صنعتوں میں سرکاری حصہ ۵۱ فیصدی سے زیادہ کر دیا گیا ہے.زیمبیا نے بھی برطانیہ کے ساتھ رہوڈ یشیا کے خلاف پابندیوں میں شرکت کی.اس عمل سے زیمبیا کو کافی نقصان پہنچے.120 زیمبیا میں احمدیت اگست ۱۹۵۸ء میں محترم مولانا محمد منور صاحب زیمبیا میں مشن کے قیام کا جائزہ لینے کے لئے گئے اور دو ماہ تک وہاں قیام کیا.121 زیمبیا میں بعض ایشیائی احمدی موجود تھے جنکی خواہش تھی کہ وہاں کسی مبلغ کا تقرر کیا جائے.۱۹۷۰ء میں مغربی افریقہ کے دورہ سے واپسی پر حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کی ملاقات زیمبیا کے وزیر صحت Mr.W.P.Ayinenda اور برطانیہ میں زیمبیا کے سفیر Mr.P.W.Matoka سے ہوئی.حضور نے اس موقعہ پر زیمبیا میں مشن کھولنے کی خواہش کا اظہار فرمایا.122 چنانچہ زیمبیا کے پہلے مبلغ مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب مقرر ہوئے.جو ۴ را کتوبر ۱۹۷۱ کور بوہ سے روانہ ہوئے اور تنزانیہ سے ہوتے ہوئے ۱۴ ۱۷اکتوبرکو زیمبیا کے دارالحکومت پہنچے.اگر چہ ویزا کے سلسلہ میں ابتداء میں بہت سی مشکلات پیش آئیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے وزٹ ویزا (Visit Visa) مل گیا.123 پہلے افریقن احمدی مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب کے زیمبیا پہنچنے کے تین دن بعد پہلے افریقن دوست محمد ادر میں صاحب ملومبا کا سا کا سا احمدیت میں داخل ہوئے.محترم محمد ادریس صاحب مسلمان تھے لیکن ان کی اہلیہ عیسائی تھیں.چنانچہ ان کے احمدی ہوتے ہی مخالفت شروع ہو گئی.ان کی اہلیہ عیسائی مشن کے اکسانے پر انہیں چھوڑ کر چلی گئی.اس پر اور میں صاحب نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی سے شادی کر لی جو ان کی تبلیغ سے احمدی ہو گئیں.124 بعد ازاں یہ احمدیت پر قائم نہ رہ سکے.

Page 132

تاریخ احمدیت.جلد 27 122 سال 1971ء مکرم شیخ نصیر الدین صاحب کو اللہ تعالیٰ نے باوجود بے حد مشکلات کے استقلال کے ساتھ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور آپ کو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث کے درج ذیل ارشاد پر پورا اترنے اور عملی مظاہرہ کرنے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور توفیق دے کہ جس رنگ میں اور جس شکل میں ایک احمدی مجاہد دکو یکھنا چاہتا ہے اس رنگ اور شکل میں وہ آپ کو ہمیشہ پائے.125 مکرم شیخ صاحب نے ابتدائی ایام محمد ادریس صاحب کے مکان جو Lusaka کے باہر ایک کچی آبادی Chibolya Compound میں واقع تھا گزارے.ہر چند کہ وہاں بجلی اور پانی کی سہولت میسر نہ تھی اور کھانے کی بھی تکلیف تھی مگر دور میں صاحب کیساتھ رہنے کی وجہ سے مقامی باشندوں کو تبلیغ کرنے کا خوب موقع ملا.126 احمدیہ مشن کی رجسٹریشن مشن کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لئے مشن کی رجسٹریشن ضروری ہے اور یہ کارروائی بڑی طویل اور صبر آزما ہوتی ہے اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے غیر معمولی نصرت فرمائی اور مکرم شیخ صاحب ، مکرم کبیر احمد بھٹی صاحب اور مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کی کوششوں سے چند ہفتوں میں مشن کی رجسٹریشن ہو گئی اور ۶ جنوری ۱۹۷۲ء کو متعلقہ محکمہ کی طرف سے اجازت نامہ مل گیا.127 چونکہ شیخ صاحب کا ویز اعارضی تھا اس لئے اس کے ختم ہونے پر یکم فروری ۱۹۷۲ء کو آپ کو زیمبیا چھوڑ کر تنزانیہ آنا پڑا اور ورک پرمٹ Work permit ملنے پر دوبارہ ۲۱ راگست ۱۹۷۲ء کو Lusaka پہنچے.128 ابتدائی افریقن احمدی ۶ جنوری ۱۹۷۲ء تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۶ / افریقن دوست احمدیت میں داخل ہو چکے تھے ان میں سے سوائے محمد اور میں صاحب کے جو پہلے مسلمان تھے سب دوست عیسائیت سے حلقہ بگوش اسلام ہوئے.ان دوستوں کے نام درج ذیل ہیں.ا محمد ادر میں صاحب.۲.خلیل احمد کلالہ صاحب.۳.بشری کلالہ صاحبہ.- عبد العزیز مو با نگاہ.۵.احمد منو تا صاحب.۶.ابوبکریزی صاحب.129

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد 27 123 سال 1971ء زیمبیا مشن کی انتظامیہ جماعت احمد یہ زیمبیا کے پہلے قائمقام صد ر مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اور سیکرٹری جنرل مکرم کبیر احمد صاحب بھٹی مقرر ہوئے.عارضی طور پر چوہدری صاحب کا مکان ہی جماعت کا ہیڈ کورارٹر بنایا گیا.مکرم چو ہدری صاحب موصوف تنزانیہ سے زیمبیا گئے تھے اور Kabwe کے مقام پر ریلوے میں ایک اہم عہدے پر فائز رہنے کے بعد ۱۹۷۰ ء میں ریٹائر ہوئے اور Evelyn Hone College Lusaka میں کامرس کے مضامین پڑھانے پر مقرر ہوئے.آپ طلباء میں اتنے ہر دلعزیز تھے کہ طلباء آپ کو Father کہہ کر پکارتے تھے.آپ ۱۹۷۳ء میں وفات تک اسی کالج سے منسلک رہے اور اس عرصہ میں احمدیت کی اشاعت اور ترقی کے لئے بدل و جان کوشاں رہے.130 جماعتی انتظامیہ کے لحاظ سے ابتداء زیمبیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا.ا.لوسا کا سرکٹ.۲.باقی سارا زیمبیا دوسراسرکٹ لوسا کا سرکٹ میں Chibolya با قاعدہ جماعت قائم ہوئی اور اس کے صدر محمد اور لیس صاحب، جنرل سیکرٹری خلیل کلالہ صاحب اور اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری عبدالعزیز مو با نگاه صاحب مقرر ہوئے.131 مکرم شیخ نصیر الدین صاحب ۳۰ ستمبر ۱۹۷۲ تک مکرم ادریس صاحب کے پاس مقیم رہے لیکن شہر سے دور ہونے کی وجہ سے جماعت سے رابطہ میں دقت پیش آتی رہی.چنانچہ اکتو بر ۱۹۷۲ء میں شہر کے اندر ایک Polish لیڈی ڈاکٹر کی ملکیت عمارت کا ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا گیا.یہاں Chibolya کی نسبت کافی سہولتیں تھیں.رابطہ کیلئے پوسٹ بکس اور ٹیلی فون بھی موجود تھے.132 اس عمارت میں واقع کلینک میں جمعہ کے روز وقفہ کے دوران احباب جماعت نماز جمعہ ادا کرتے.باجماعت نماز جمعہ کے بعد کھانا بھی اکٹھے مل کر کھاتے.عید کی نماز مکرم چوہدری شریف صاحب کے گھر ہوتی رہی جو ان کی وفات کے بعد مکرم ملک جلیل الرحمن صاحب کے گھر پر ادا کی جاتی تھی.133 احمد یہ بک شاپ ۱۹۷۳ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ مشن کو بک شاپ کھولنے کی اجازت مل گئی اس طرح

Page 134

تاریخ احمدیت.جلد 27 124 سال 1971ء مشن کیلئے آمد کا ذریعہ پیدا ہو گیا.مزید برآں مشن کی کتب کی آمد ٹیکس سے مستثنی قرار دے دی گئی.134 فرداً فردا تبلیغی رابطہ کے علاوہ فری مذہبی کلاسز جاری کی گئیں اور کارسپانڈنس کورسز کے ذریعہ بھی لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا گیا.دور دراز علاقوں سے بذریعہ خطوط سوالات کرنے والوں کے جوابات دیئے جاتے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے وسیع پیمانے پر احمدیت متعارف ہوئی.35 زیمبیا کے جشن آزادی میں احمدیہ مشن کا حصہ ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۴ ء کو زیمبیا کا جشن آزادی بڑی شان و شوکت سے منایا گیا زیمبیا کے صدر کا ونڈا نے اپنے ملک کو جو نیشنل فلاسفی دی اسے Humanism یعنی انسانیت کا نام دیا گیا چنانچہ اس فلسفہ پر مبنی پوسٹر اور اشتہارات نمایاں طور پر لگائے گئے.جماعت احمدیہ نے یہ جشن شایان شان طریق سے منانے کا فیصلہ کیا چنانچہ جماعت نے ۱/۲۴ اکتوبر کو ایک سمپوزیم کا اہتمام کیا اور مختلف مذاہب کے علاوہ مختلف طبقات فکر کے لوگوں کو بھی دعوت دی گئی.سمپوزیم کے انعقاد کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی اور صدر مملکت سے شمولیت کی درخواست کی گئی گو صد ر صاحب اپنی مصروفیات کے باعث تشریف نہ لائے تاہم انہوں نے اس سمپوزیم کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کیا اور نیک تمناؤں اور دلی دعاؤں سے نوازا.چنانچه ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۴ء کو Evelyn Hone College Lusaka کے وسیع ہال میں سمپوزیم منعقد ہوا جس میں صدر مملکت کے فلسفہ انسانیت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی.ہندو مسلم عیسائی غرضیکہ ہر مکتب فکر کے لوگ کثرت کیساتھ شریک ہوئے آخر میں تمام حاضرین کی مشروبات کے ساتھ تواضح کی گئی.سمپوزیم کے انعقاد کو ٹیلی ویژن ، ریڈیو اور پریس نے بڑی کوریج دی اور نمایاں طور پر خبروں میں ذکر کیا.136 مبلغین اب تک زیمبیا میں مندرجہ ذیل مبلغین کو خدمت دین متین کی سعادت نصیب ہوئی.مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب.۱۹۷۱ تا ۱۹۷۵ مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب ۱۹۷۵ تا ۱۹۷۹

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد 27.۴.125 مکرم مولوی عبدالباسط صاحب شاہد ۱۹۷۹ تا ۱۹۸۷ مکرم مولوی مقبول احمد ذبیح صاحب ۱۹۸۷ تا ۱۹۸۹ مکرم مولوی سمیع اللہ قمر صاحب ۱۹۸۸ تا ۱۹۹۰ مکرم محموداحمد منیب صاحب نومبر ۱۹۹۰ تا اکتوبر ۱۹۹۵ سال 1971ء ے.مکرم محمد رئیس طاہر صاحب جون ۱۹۹۴ ء تا جون ۲۰۰۰ء.مکرم طاہر محمود چوہدری صاحب مارچ ۲۰۰۰ ء تا مئی ۲۰۰۷ء مکرم محمد جاوید صاحب اپریل ۲۰۰۷ء سے تاحال (۲۰۱۵ء) ۱۰.مکرم طاہر محمود سیفی صاحب اکتوبر ۲۰۰۸ء سے تاحال (۲۰۱۵ء) و.ہمسایہ ممالک میں تبلیغ ملاوی میں ۱۹۷۳ء میں ایک دوست Mr.Ashim Chida احمدی ہوئے تھے ان کی تبلیغ سے بفضلہ تعالیٰ وہاں جماعت قائم ہو چکی ہے.صدر زیمبیا کو قرآن کریم کا تحفہ یکم اپریل ۱۹۷۶ء کو درج ذیل احباب جماعت پر مشتمل وفد نے صدر مملکت سے ملاقات کی.ا.مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب.۲.مکرم ڈاکٹر کرنل محمد رمضان صاحب.۳.مکرم ڈاکٹر افضل احمد صاحب.۴.مکرم ڈاکٹر منصور احمد صاحب ۵ مکرم محمد اور میں ملومبا صاحب ۶.مکرم چوہدری صادق نسیم صاحب.اس موقعہ پر صدر صاحب موصوف کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا جس کے جواب میں صدر محترم نے احمدیہ مشن کی مساعی کو سراہا.موصوف کو قرآن مجید، اسلامی اصول کی فلاسفی ، لائف آف محمد لالا السلام اور افریقہ سیکس کا تحفہ پیش کیا گیا.اس ملاقات کا پریس میں خوب چرچا ہوا.ریڈیو اور ٹی وی نے بھی کوریج دی.137 لجنہ اماءاللہ کا قیام ۲۰ جنوری ۱۹۷۶ء کو لجنہ اماءاللہ کا قیام عمل میں آیا اور درج ذیل عہد یدراوں کا تقرر ہوا.

Page 136

تاریخ احمدیت.جلد 27 126 سال 1971ء ا.مسز ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد شریف صاحب صدر ۲.مسز محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد افضل صاحب جنرل سیکرٹری ۳.نعیمہ صادق صاحبہ قرآن کریم ترجمه سیکرٹری مال 138 دولوکل زبانوں Chigo اور Chichewa قرآن کریم کا ترجمہ کیا جا چکا ہے.اشاعت لٹریچر زیمبیا مشن نے مندرجہ ذیل لٹریچر شائع اور تقسیم کیا جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ جماعت کو مختلف حلقوں میں متعارف کروانے کا باعث بنا.ا.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں.۲.احمدیت کیا ہے..حضرت عیسی خدا یا خدا کے بیٹے نہ تھے.۴.احمدیت کا پیغام اور منتخب آیات قرآن کا ترجمہ.اخبار مکرم میر غلام احمد نسیم صاحب نے ایک دو ماہی رسالہ Zambia Crescent کے نام سے جاری کیا.جو بفضل تعالیٰ با قاعدگی سے جاری ہے مکرم میر صاحب اس کے پہلے ایڈیٹر تھے یہ اخبار غیر احمدی اداروں اور افراد کو بھیجا جاتا ہے.اس کی اشاعت تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ تبلیغ میں بھی بڑی ممد ثابت ہوئی ہے.139 جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۲۶ فروری ۱۹۷۸ء کولوسا کا ٹاؤن کونسل کے ہال میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جلسہ منعقد کیا گیا.اخبارات اور ریڈیو میں اعلانات کروائے گئے.جلسہ میں سیرۃ النبی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی اس جلسہ کے چند دن بعد خواتین کے جلسہ سیرت النبی کا انتظام کیا گیا جس میں کثرت کے ساتھ غیر احمدی خواتین شامل ہوئیں.140

Page 137

تاریخ احمدیت.جلد 27 مخالفت 127 سال 1971ء مشن کے با قاعدہ قیام سے احمدیت کا حلقہ تعارف ملک میں وسیع ہوا اور جماعت کی ترقی اور مقبولیت دیکھ کر زیمبیا کی مسلم ایسوسی ایشن نے معاندانہ اور حاسدانہ رویہ اختیار کیا.چنانچہ ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء کو اس نے وزارت داخلہ سے یہ شکایت کی کہ احمدی اپنے ملک ( پاکستان) میں غیر مسلم ہیں اور رسول اللہ پر ایمان نہیں لاتے.اس شکایت پر سیکرٹری وزرات داخلہ نے اپنے خط محررہ ۱۹ نومبر کے ذریعہ جماعت کے مبلغ مولانا عبدالباسط شاہد صاحب کو مسلم ایسوسی ایشن کے الزامات کے جوابات دینے کے لئے ۲۶ نومبر ۱۹۸۰ء کو اپنے دفتر بلایا.مقررہ تاریخ پر مسلم ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کو بھی حاضر ہونے کو کہا.مکرم مولوی باسط صاحب تو مقررہ تاریخ پر وزارت داخلہ تشریف لے گئے لیکن مد مقابل مسلم ایسوسی ایشن کا سیکرٹری حاضر نہ ہوا.اس غیر حاضری کا وزارت داخلہ نے سختی سے نوٹس لیا اور ۲۸ نومبر کو مسلم ایسوسی ایشن کو لکھا کہ تم نے الزام تراشی کی لیکن جواب سنے کیلئے وقت مقررہ پر نہ آئے.اپنے احمدی بھائیوں کیساتھ اسلامی بھائی چارے کے مطابق مل کر رہو اور امن کیساتھ زندگی بسر کرو.اس طرح انکی تدبیر ان پر ہی الٹی پڑی اور خدا تعالیٰ نے’انی مهین من اراد اهانتک‘ کا ایک اور نظارہ جماعت احمدیہ زیمبیا کو دکھایا جو ان کے ایمانوں کو بڑھانے کا موجب ہوا.مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر کے لئے جماعت احمدیہ زیمبیا کے خرید کردہ پلاٹ پر مئی ۱۹۸۷ء میں بعض حاسدوں نے از راہ شرارت قبضہ کرنے کی کوشش کی.مکرم مولا نا مقبول احمد ذبیح صاحب نے متعلقہ حکام سے ملکر پلاٹ سے ناجائز قبضہ ختم کروایا اور چار دیواری بنوادی تا مزید شرارت کا امکان نہ رہے.141 زیمبیا کے بعض تعلیم یافتہ مسلمانوں نے جن میں پاکستان.ہندوستان اور بعض دیگر اسلامی ممالک کے افراد شامل تھے اسلامی اتحاد کی غرض سے ایک اسلامک سنٹر قائم کیا اور ملک جلیل الرحمان صاحب کو اس کا چیئر مین بنایا.ایک دفعہ جنرل اجلاس میں کسی نے ایسے کارڈز تقسیم کئے جن پر عربی عبارت کا عکس تھا.اور لکھا ہوا تھا کہ احمدیوں نے قرآن کریم تبدیل کر دیا ہے.اور یہ عبارت اس کا ثبوت ہے یہ عبارت حضرت مصلح موعود کی کتاب ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی تھی.اس عربی عبارت میں ایاہ نعبد و ایاہ نستعین کے الفاظ بھی تھے اس کا رڈ میں یہ لکھا گیا تھا کہ گویا سورۃ فاتحہ میں تبدیلی

Page 138

تاریخ احمدیت.جلد 27 128 سال 1971ء کی گئی ہے.(حالانکہ یہاں پر سورۃ فاتحہ نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے الفاظ لے کر مختلف دعا میں حمدیہ عبارت لکھی گئی ہے.) اس پر ملک صاحب موصوف نے مرکز میں چھپے ہوئے قرآن کریم کے پہلے دو صفحات کے بہت سے عکس اگلے اجلاس میں تقسیم کر دیئے کہ احمدیوں کا قرآن شریف تو یہ ہے ان کے کسی قرآن میں وہ عبارت نہیں ہے جسے غلط طور پر قرآن کریم کی آیات ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے.مکرم محمد اور میں صاحب سے بھی مسلمانوں کے ایک اجتماع میں کسی مسلمان عالم نے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس گروہ سے ہے انہوں نے کہا کہ میں بفضلہ تعالیٰ احمدی ہوں اس پر عالم نے کہا کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ احمدیوں نے قرآن کریم تبدیل کر دیا ہے اس پر انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا معلوم ہوتا ہے کہ احمد یہ مشن نے یہ بات مجھ سے چھپائے رکھی ہے اگر یہ بات درست ہے تو میں اس مشن کو خیر باد کہ دونگا.آپ ابھی میرے ساتھ چلیں احمدیہ مشن جاکر ان کا قرآن دیکھتے ہیں.آپ مجھے اس میں تبدیل شدہ عبارت دکھا دیں.وہ کہنے لگے اس وقت میں آپ کے ساتھ نہیں جاسکتا اور راہ فرار اختیار کر گئے.142 وزیر اعظم زیمبیا سے ملاقات ۱۹ را پریل ۱۹۸۹ ء کو جماعت احمدیہ زیمبیا کا مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل وفد زیمبیا کے وزیر اعظم سے ملا.ا.مکرم مقبول احمد ذبیح صاحب.۲.مکرم سمیع اللہ قمر صاحب ۳.مکرم ابوبکر بوا بوا صاحب ۴.مکرم بیجی فضلی صاحب اس موقعہ پروزیر اعظم کی خدمت میں سیلاب زدگان کی امداد کیلئے ۴ ہزار کو اچے کا چیک پیش کیا گیا اس ملاقات کا ذکر ریڈیو اور ٹی وی کے علاوہ ملکی اخبارات نے بھی کیا.143 جماعت احمدیہ زیمبیا کی ترقی اور پھیلاؤ زیمبیا میں اس وقت ۱۵۰ ۱۷افراد پر مشتمل جماعت موجود تھی.با قاعدہ طور پر صرف لوسا کا شہر ہی میں جماعت تھی اس کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات پر چند ایک افراد جماعت موجود تھے.Luanshya, Kabwe, Ndola, Kitwe, Mufulira, Kalulushi, Chingola, Choma, Chililabombwe.144

Page 139

تاریخ احمدیت.جلد 27 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 129 حوالہ جات (صفحه 1 تا 128) سال 1971ء الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۲، ۳ دیکھئے ان کی مشہور تالیف ” تمدن عرب صفحه ۵۲۸ تا ۵۳۳ - مترجم سید علی بلگرامی.مطبع زاہد علی شیخ پرنٹرز لا ہور مقدمہ کتاب " اسلام کا وراثتی نظام صفحہ ۱۱ الفرقان اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحه ۴۵ الفضل ۲۳، ۲۶ جنوری، ۲ فروری اور ۱۰ مارچ ۱۹۷۱ الفضل ۲۹ مئی ۱۹۷۱ صفحه ۶ تحریک جدیدر بوہ اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۱ ماہنامہ مصباح اپریل ۱۹۷۱ صفحه ۴۳ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۳ الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۳، ۴ رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۱۵ رسالہ تحریک جدید اگست ۱۹۷۱ء صفحه ۱۵ ریکارڈ مجلس نصرت جہاں غیر مطبوعہ صفحہ ۲۳ ریکارڈ مجلس نصرت جہاں غیر مطبوعہ صفحہ ۴۰ الفضل ۱۳ /اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۱۱ فروری ۱۹۷۲ء صفحه ۳ 18 19 الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۳ الفضل ۷ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۵ 20 دی گائیڈنس نومبر ۱۹۷۱ء 20

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد 27 21 الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ صفحه ۴ 22 130 مقالہ بعنوان نصرت جہاں سکیم تاریخ و خدمات صفحہ ۴۸ 23 الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۵ صفحه ۶ 24 دی گائیڈنس نومبر ۱۹۷۱ء 25 ۱ الفضل ۱۹ راگست ۱۹۷۱ء صفحه ۱ 26 الفضل 9 دسمبر ۱۹۷۱ء و اخبار دی نیشن فری ٹاؤن بابت کے دسمبر ۱۹۷۱، بحوالہ افضل ۴ مئی ۱۹۷۲، صفحہ ۲ 27 رسالہ تحریک جدید مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۱۷ 28 الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 29 الفضل ۱۸ ستمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۴٫۳.رسالہ تحریک جدید اکتو بر ۱۹۷۱ صفحه ۸-۱۳ 30 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱.ریکارڈ مجلس نصرت جہاں غیر مطبوع صفحه ۱۲۳ 31 الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۱ صفحه ۱ 32 الفضل ۲ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه 1 ۱ 33 الفضل ۱۳ فروری ۱۹۷۲ ء صفحه ۳ 34 ریکارڈ مجلس نصرت جہاں غیر مطبوعہ صفحہ ۱۴۶-۱۴۷ 35 الفضل، ۳ نومبر ۱۹۷۱ ء صفحه ا 36 ریکارڈ مجلس نصرت جہاں غیر مطبوع صفحه ۹۳، ۹۴ 37 تحریک جدید مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۱۴.۱۵.۲ فروری ۱۹۷۲ صفحه ۴ سال 1971ء 38 الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۲، صفحه ۴ 39 الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ و ۸ 40 الفضل ۲۸ و ۳۰ مارچ و ۳ - ۴ / اپریل ۱۹۷۱ ء ایضاً صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور وقف جدید کے مطبوعہ بجٹ ۷۲-۱۹۷۱ء ماہنامہ مصباح جون ۱۹۷۱ ء صفحه ۴ تا ۶ ، صفحہ ۱۸،۱۷ 41 42 43 غیر مطبوعہ تحریری ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت الفضل ۱۶ مئی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۶۰۱

Page 141

تاریخ احمدیت.جلد 27 44 45 46 47 48 131 صحیح بخاری کتاب الصلوة باب الصلوة في السطوح المنبر والخشب سیرت المہدی جلد اول صفحه ۱۹۸ ۱۹۹ روایت نمبر ۱۸۸ الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳-۵ الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۱و۶ - تعارف زنجیر گل“ مرتبہ لطیف قریشی صاحب مبائعین کی فہرست میں آپ کا نام الفضل ۴ را پریل ۱۹۴۰ء صفحہ ۲ پر شائع ہوا.49 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۶ 50 الفضل ۲۴ فروری ۱۹۷۲ صفحه ۴ 51 الفضل ۲۵ جون ۱۹۷۱ صفحہ ۲.۳ جولائی ۱۹۷۱ صفحہ ۳ 52 الفضل ۱۵ جون ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 53 الفضل ۲۲ جون ، ۲۳ جون ، ۲۵ جون، ۷ جولائی ۱۹۷۱ سال 1971ء 54 الفضل ۲۳ تا ۲۷ ،۳۰ جولائی ۱۹۷۱ء.یکم، ۴، ۱۱،۸، ۱۳، ۲۲ تا ۲۷، ۳۱ / اگست ۱۹۷۱ء.یکم، ۱۹ ستمبر ۱۹۷۱ء 55 الفضل ۱۲ را گست ۱۹۷۱ء 56 الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ 1 57 الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ 58 الفضل ۲۱ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۳-۴ 59 الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ 60 61 الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ء صفحہ اور کالم کے ایضاً.مساوات لاہور ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ او آخری صفحہ کالم ۵.مساوات لاہور ۷ استمبر ۱۹۷۱ صفحہ ا کالم ۶، ۷ وصفحہ ۸ کالم ۶.دی پاکستان ٹائمز لاہور ۱۶ ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ا کالم ۱ و صفحہ آخر کالم ۶ 62 63 64 ہفت روز و لا ہور ۲۰ ستمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۴ ماہنامہ الفرقان ربوہ تمبر ۱۹۷۱ صفحه ۲ الفضل۱۰ /اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ ۱ 65 الفضل ۱۸ تا ۲۳ ستمبر ۱۹۷۱ء

Page 142

تاریخ احمدیت.جلد 27 66 الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۴ 67 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۳-۴ برا۱۹۷ء 68 الفضل ۹ / اکتوبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۶ 69 70 ماہنامہ خالد ربوہ نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳ تا ۱۶ ماہنامہ خالد نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۷ تا ۲۴ 132 سال 1971ء 71 ابن ہشام.طبری.زرقانی بحوالہ سیرت خاتم النبین صفحہ ۱۳۷- ۱۳۸ مؤلّفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 72 73 74 75 ماہنامہ خالد جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۴ و ۷ تا ۱۰ تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم طبع اول صفحہ ۶۹۷ تا صفحہ ۶۹۹ - الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ الفضل ۱۷ اکتوبر تا ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۱ ملاحظہ ہو 68.۱۹۷۱K.L.Tء مقدمہ شہاب الدین ایچی کو یا بنام احمد کو یا.بحوالہ ہفت روزه بدر قادیان ۲ جولائی ۱۹۸۱ء صفحه ۵ 76 ملاحظہ ہو پٹنہ لاء جرنل جلد ۲ صفحہ ۱۰۳ متقدمه حکیم خلیل احمد بنام ملک اسرافیل 77 ملاحظہ ہو مدراس لاء جرنل نمبر XX صفحہ ۶۶۳ اے آئی آر مدراس ۱۹۲۳ صفحہ اے ابدر قادیان ۲ جولائی ۱۹۸۱ ء صفحه ۵.اس تاریخی مقدمہ میں حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے وکالت کی جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۳۱۲ پر ذکر آچکا ہے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تحدیث نعمت صفحہ ۲۱۸ تا ۲۲۳.(ایڈیشن ۲۰۰۹ء) یہ کتاب حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تصنیف ہے.78 الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۳-۴ ماہنامہ تشحید الا زبان نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۸،۷ 79 80 81 تاریخ پاکستان از محمد علی چراغ صفحه ۵۱۴ تا ۵۸۷ الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۷۱ء 82 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء 83 84 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۷۱ء الفضل سے دسمبر ۱۹۷۱ء 85 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۷۱ء

Page 143

تاریخ احمدیت.جلد 27 98 86 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ 87 ۱۰ الفضل ادسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۶ 88 الفضل 11 دسمبر ۱۹۷۱ ، صفحہ 1 ۱ 89 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ۱ 90 91 92 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت الفضل الدسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ا الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 93 اخبار احمد یہ کینیڈا دسمبر ۱۹۷۱ ء احمدیہ 94 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ 1 95 133 سال 1971ء الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام مارچ ۱۸۸۲ء براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۳۹ حاشیه مطبوعه سفیر ہند پریس امرتسر سال ۱۸۸۲ء 96 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۱-۳ 97 98 99 الفضل ۱۱ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۲ تا ۴ الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۵ ماہنامہ مصباح ربوہ دسمبر ۱۹۷۳ء جنوری ۱۹۷۴ ء صفحہ ۶۸ تا ۷۰ 100 غیر مطبوعہ تحریر شعبہ تاریخ احمدیت.خط بنام مؤرخ احمدیت موصوله ۲ دسمبر ۲۰۱۱ء 101 روز نامه امروز ۲۳ دسمبر ۱۹۷۱ء بحواله الفضل ۵ ستمبر ۱۹۹۰ صفحه ۵ 102 روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء.الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۷۲، صفحہ ۶ 103 الفضل یکم جنوری ۱۹۷۲ ، صفحہ ۶ 104 الفضل ۲۸ دسمبر ۲۰۱۳ صفحه ۶ 105 ترجمہ پاکستان ٹائمز لاہور ۲۲ دسمبر ۱۹۷۱ ء بحواله الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۶ 106 ماہنامہ ہلال تمبر ۲۰۱۰ بحوالہ ماہنامہ خالد اگست ۲۰۱۰ صفحه ۳۴ 107 روزنامه دن ۳ ستمبر ۲۰۰۳ صفحہ ۱۵ زیر عنوان جنرل افتخار جنجوعہ نے غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا.108 پاک فضائیہ کی تاریخ صفحہ ۳۰۶

Page 144

تاریخ احمدیت.جلد 27 134 109 پاک فضائیہ کا ترجمان رسالہ شاہین - مئی تا اگست ۱۹۷۲ء 110 روزنامه امروز لاہور ۵ دسمبر ۱۹۷۱ء 111 الفضل و ستمبر ۱۹۸۴ صفحه ۳ 112 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۹۰ صفحه ۶ 113 کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں مؤلفه شیخ عبدالحمید عاجز صفحه ۱۳۶ تا ۱۴۱ 114 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ 115 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۷۱ صفحه ۱ 116 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۲.۳ 117 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت سال 1971ء 118 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۲ 119 ماہنامہ خالد ر بوه جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۲۹ 120 تاریخ - جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد آنا شر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان.وزارت ترقی انسانی وسائل حکومت ہند.ویسٹ بلاک.۱.آر.کے پورم نئی دہلی ۱۱۰۰۶۶ طبع اول ۲۰۰۰ء 121 الفضل 29 نومبر 1981ء 122 الفضل 29 نومبر 1981ء 123 الفضل یکم نومبر 1981 صفحہ 5 124 الفضل 8 دسمبر 1981 صفحہ 4 125 الفضل یکم نومبر 1981ء 126 الفضل 3 نومبر 1981 127 الفضل 2 نومبر 1981ء صفحہ 5 128 الفضل 14 نومبر 1981ء صفحہ 5 129 الفضل 9 نومبر 1981 ء صفحہ 5 130 الفضل 29 نومبر 1981 ء صفحہ 5 131 الفضل 9 نومبر 1981 ، صفحہ 5

Page 145

تاریخ احمدیت.جلد 27 132 الفضل 30 نومبر 1981 ء صفحہ 4-5 133 الفضل یکم دسمبر 1981 ، صفحہ 4 134 الفضل 30 نومبر 1981 ، صفحہ 5 35 الفضل یکم دسمبر 1981 صفحہ 5 136 الفضل 5 نومبر 1981 ، صفحہ 4-5 137 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 138 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد نمبر 4 صفحہ 443 139 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 140 الفضل 11 اگست 1978 ء صفحه 4 141 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 142 الفضل 2 دسمبر 1981ء 143 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 144 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 135 سال 1971ء

Page 146

تاریخ احمدیت.جلد 27 136 سال 1971ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدرصحابہ کرام کا انتقال اس باب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے صحابہ کرام کا مختصر ذکر خیر کیا جارہا ہے جو اس سال رحلت فرما گئے.اس کے علاوہ ایسے مرحومین کا تذکرہ بھی ہوگا جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت کی سعادت تو نصیب ہوئی لیکن زیارت سے مشرف نہ ہو سکے.حضرت با بو خواجہ محمد الدین صاحب ریٹائر ڈ پوسٹ ماسٹر سیالکوٹ ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت: قریباً ۱۹۰۳ء وفات : ۱۳ جنوری ۱۹۷۱ء 1 حضرت خواجہ محمد الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:.میں ابھی چھوٹا ہی تھا کہ والد صاحب (حضرت خواجہ احمد الدین صاحب ) بوجہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب خالو عبد العزیز صاحب والد ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب علیگڑھی اور سید حامد شاہ صاحب کی رفاقت میں رہنے کے ۹۶-۱۸۹۵ء میں ہی بیعت کر چکے تھے.وہ غالباً ۹۸-۱۸۹۷ء میں جموں میں ایک ٹھیکیدار کے پاس حساب کتاب لکھنے پر ملازم رہے.میں بھی جموں ان کے پاس جایا کرتا اور کچھ دیر رہ کر واپس سیالکوٹ آ جاتا.اس کے بعد وہ ۱۸۹۹ء میں تین سال کے لئے مشرقی افریقہ چلے گئے اور غالباً ۱۹۰۲ ء کے شروع میں وہاں سے لوٹے.میر اوہ طالبعلمی کا زمانہ تھا چونکہ مذہب کی طرف میری رغبت تھی میرا خیال ہے میں نے بھی بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی تھی مگر تاریخ اور سن یاد نہیں.والد صاحب مرحوم کے افریقہ چلے جانے کے بعد میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے درس میں جایا کرتا تھا.مولوی صدرالدین صاحب بھی ان کے درس میں حاضر ہوتے تھے اور انہوں نے بھی انہی دنوں تازہ تازہ بیعت کی تھی.اسی اثناء میں میں نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے گھر جا کر قرآن کریم با معنی پڑھنا شروع کیا.جب حضرت مولوی صاحب نے درس میں قرآن کریم ختم کر لیا تو انہوں نے بطور شکرانہ ختم قرآن پر دوستوں کو ایک وسیع پیمانہ پر دعوت دی اور اس کے بعد حضرت مولوی صاحب قادیان ہجرت فرما کر چلے گئے اور مجھے سید حامد شاہ کے سپرد کر دیا کہ آپ ان کو قرآن مجید پڑھاتے رہنا اور میں شاہ صاحب کے مکان پر جا کر ان سے سبق لیتا رہا اور ساتھ ہی بخاری شریف مولوی قائم دین صاحب ایم اے عربک سے پڑھتا تھا.یہ مولوی

Page 147

تاریخ احمدیت.جلد 27 137 سال 1971ء صاحب نوجوان تھے اور بڑے پایہ کے عالم تھے مگر افسوس ان کی عمر نے وفا نہ کی اور وہ جلدی اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.وہ بھی بڑی تبلیغ کیا کرتے تھے اور مرے کالج میں عربی کے پروفیسر تھے.میں نے ابھی شاہ صاحب سے گیارہ سپارے ہی پڑھے تھے کہ مجھے لاہور سے ملازمت کا حکم مل گیا اور میں شاید ۱۹۰۲ ء جون جولائی کے قریب لاہور چلا گیا.پھر وہاں سے پنڈی اور پنڈی سے کو ہاٹ گیا.وہاں پر میرا عارضی انتظام ختم ہو گیا اور میں رخصت لے کر سیالکوٹ پہنچ گیا.جنوری ۱۹۰۳ء میں میں ابھی گھر پر ہی تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مولوی کرم دین بھیں کے مقدمہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم جارہے ہیں.چنانچہ میں بھی بمعہ چند دیگر دوستوں کے جہلم کے لئے روانہ ہو پڑا اور جس گاڑی میں حضرت اقدس آ رہے تھے وہ ہمیں وزیر آبا دملی اور ہم بھی اس میں سوار ہو گئے پر بڑی مشکل سے.کیونکہ حضرت اقدس کے سفر کرنے کی وجہ سے گاڑی اس قدر پر تھی کہ کسی کمزور آدمی کا چڑھنا بڑا محال تھا.جس طرح پچھلے بٹوارے کے دنوں میں گاڑی کے پائدانوں پر بھی لوگ چڑھا کرتے تھے اس دن بھی سماں ایسا ہی تھا اور وزیر آباد کے بعد اسٹیشن والے ٹکٹ کسی کو نہ دیتے تھے کیونکہ رش اس قدر تھا کہ گاڑی میں جگہ ہی نہ تھی.وزیر آباد سے لے کر جہلم تک میں نے دیکھا کہ راستہ میں چھوٹے سے چھوٹا اسٹیشن بھی ہوتا تو اس کے گاؤں کے لوگ اس قدر تعداد میں پلیٹ فارم پر آ جاتے کہ ہر چھوٹا اسٹیشن بھی لاہور جیسا معلوم ہوتا.بھیٹر کے لحاظ سے.اور جہلم تک اکثر دوست دیکھنے کی خاطر حضرت اقدس کے ڈبہ میں چلے جاتے مگر حضرت اقدس فرماتے کہ جن دوستوں کے پاس سیکنڈ کا ٹکٹ نہیں وہ مہربانی کر کے اس ڈبہ میں نہ بیٹھیں اور اس طرح دوست ان کا ڈبہ خود بخود چھوڑ جاتے.راستہ میں جب گاڑی گجرات کے سٹیشن پر پہنچی تو منشی نواب خان صاحب تحصیلدار گجرات نے کئی دیگیں پلاؤ کی گاڑی پر لدوا دیں جو جہلم تک ساتھ دے دی گئیں اور لوگوں نے خوب سیر ہو کر کھایا.ہم تقریباً اول عصر کے وقت جہلم پہنچے اور جب گاڑی جہلم کے اسٹیشن پر کھڑی ہوئی تو گاڑی سے کوئی دس بارہ انگریز اور تین چارلیڈیاں نکل آئیں اور خواجہ کمال الدین صاحب سے پوچھنے لگیں کہ یہ کون شخص آج گاڑی میں سفر کر رہا ہے جس کی وجہ سے ہم دیکھتے آئے ہیں گاڑی میں بہت بھیڑ تھی.خواجہ صاحب نے انہیں بتایا کہ یہ Promised Messiah ہے.تو انہوں نے کہا کیا ہم ان کی فوٹو لے سکتے ہیں.چنانچہ خواجہ صاحب نے حضرت اقدس سے یہی بیان کر دیا تو حضرت اقدس نے انہیں تصویر لینے کی اجازت دے دی.چنانچہ انہوں نے تصویر لے لی اور اس کے بعد گاڑی

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد 27 138 سال 1971ء پنڈی کے لئے چل دی اور ہم شہر جانے کے لئے اسٹیشن سے روانہ ہو پڑے.وہاں پر ایک منشی غلام حیدر صاحب تحصیلدار جہلم تھے وہ حضرت کو فٹن گاڑی میں لینے آئے.وہ احمدی تو نہیں تھے مگر معتقد حضرت اقدس کے بہت تھے.حضرت اقدس فٹن پر سوار ہو گئے اور منشی غلام حیدر صاحب فٹن کے پائیدان پر کھڑے ہو گئے.اگر چہ وہاں کے لوگوں نے اپنی عادت کے موافق خوب گوہر پھینکا مگر گاڑی کے نزدیک جو آ تا منشی غلام حیدر صاحب چھانٹا رسید کر کے اسے پیچھے ہٹا دیتے.شام کے وقت ہم اپنی قیام گاہ پر پہنچے جو ایک کوٹھی میں تھی جو ایک ہندو رئیس نے حضرت اقدس کے ٹھہرنے کے لئے پہلے سے دی ہوئی تھی.اس سفر میں حضرت مولوی عبداللطیف صاحب شہید اور دیگر بہت سے بزرگانِ دین حضرت اقدس کے ہمرکاب تھے.چنانچہ اسی رات بمعہ ایک کثیر تعداد کے میں نے بھی حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کی اور کافی وقت دباتے رہے.دوسرے دن سارا دن کچہری میں رہے.حضرت اقدس کچہری میں حاضر ہونے کے بعد قادیان تشریف لے گئے اور ہم بھی سیالکوٹ لوٹ آئے.یہ بیان میرا چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے گذشتہ جلسہ سالانہ پر ریکارڈ کیا تھا جو ان کے پاس اب بھی موجود ہے.قیام جہلم میں میں نے حضرت سید عبد اللطیف صاحب کو دیکھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اس قدر محبت رکھتے تھے کہ جب بھی آپ کی صحبت میں بیٹھتے تو آنکھوں سے آنسو رواں رہتے تھے کیا ہی مبارک وجود تھے.اللہ تعالیٰ ان پر اپنی برکتیں بے شمار نازل فرما دے.آمین اولاد ۱.عبدالسلام صاحب ( مرحوم ) - ۲ - امتہ السلام صاحبہ (مرحومہ) زوجہ ڈاکٹر میجر عبد الحق ملک صاحب.۳.عبدالمنان ناہید صاحب (معروف شاعر ).۴.خورشید مسرت صاحبہ ( مرحومه ) زوجه میجر محی الدین ملک صاحب ۵ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ میجر میرمحمد عاصم صاحب حضرت صوفی عبد الرحیم صاحب لدھیانوی ولادت: ۱۹۰۰ء بیعت: پیدائشی احمدی وفات: ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء حضرت صوفی عبدالرحیم صاحب ، حضرت سید میر عنایت علی صاحب لدھیانوی کے فرزند تھے.بچپن میں اپنے والد ماجد کے ہمراہ اکثر قادیان جانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوا.بہت پر جوش احمدی اور دعاؤں سے بے حد شغف رکھنے والے ملنسار اور اور حدشہ مہمان نواز بزرگ تھے.3

Page 149

تاریخ احمدیت.جلد 27 139 سال 1971ء اولاد: آپ نے تین شادیاں کی تھیں.پہلی بیوی سیدہ خاتون بانو صاحبہ سے آپ کی ایک ہی بیٹی سیدہ طاہرہ بانو صاحبہ تھیں.آپ کی دوسری شادی مبارکہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سید مبارک علی صاحب باہری سے ہوئی.ان سے کوئی اولاد نہیں تھی.تیسری شادی سے ایک بیٹے سید خالد محمود صاحب گورو نانک بازار لاہور کا ذکر وصیت فائل میں ملتا ہے.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.آپ کی وفات دار الضیافت ربوہ میں ہوئی.حضرت مولوی برکت علی صاحب ساکن چھنیاں تحصیل دسو بہ ضلع ہوشیار پور ولادت: ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۷ء وفات : ۲۸ جنوری ۱۹۷۱ء مولوی فاضل تک دینی تعلیم مرکز احمدیت قادیان میں حاصل کی.ازاں بعد پہلے اکھنور ( کشمیر ) پھر ۱۹۴۰ء تک مرالہ ہیڈ ورکس ضلع گجرات میں ملازم رہے.اس کے بعد محلہ دارالفضل قادیان میں مع اہل و عیال رہائش پذیر ہو گئے.جہاں ہوزری اور لنگر خانہ میں سٹور کیپر کی حیثیت سے خدمت سلسلہ کا موقع میسر آیا.قیام پاکستان کے بعد سیالکوٹ میں مقیم ہوئے.دعا گو اور تہجد گزار بزرگ تھے.خندہ پیشانی اور ملنساری آپ کے نمایاں وصف تھے.تبلیغ کا بے حد شوق تھا.تحریک جدید کے دفتر اول کے مجاہدوں میں سے تھے.5 اولاد رحمت اللہ صاحب واٹر ورکس سیالکوٹ.کرامت اللہ صاحب.سمیع اللہ صاحب جرمنی.حفیظہ بیگم صاحبہ زوجہ آفتاب احمد صاحب مغلپورہ لاہور حضرت جمعدار نعمت اللہ صاحب آف بگول ولادت : ۱۸۹۴ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۱۰ فروری ۱۹۷۱ء قادیان کے سکول میں عرصہ تک ڈرل ماسٹر رہے.عرب میں بسلسلہ ملازمت رہنے کے باعث عربی زبان پر بھی عبور حاصل تھا.تقسیم ملک کے بعد داتی تحصیل مانسہرہ میں آگئے اور مانسہرہ میں مستقل سکونت اختیار کر لی.بہت ہی مخلص اور بڑے جو شیلے، نڈر اور بہادر داعی الی اللہ تھے.تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی.اولاد را نا کرامت اللہ خاں صاحب.( آپ ایک عرصہ تک ہزارہ ڈویثرن کے امیر رہے)

Page 150

تاریخ احمدیت.جلد 27 140 سال 1971ء را نا سلامت اللہ خاں صاحب امتہ الرحمان صاحبه زوجه را نا خلیل احمد صاحب فیکٹری ایریار بوہ.امیتہ اللہ صاحبه زوجه نور الاسلام صاحب ( مکرم را ناو دود احمد صاحب مربی سلسلہ آپ کی نسل سے ہیں.) حضرت میاں فتح محمد صاحب ولادت: ۱۸۸۲ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۶ فروری ۱۹۷۱ء حضرت میاں فتح محمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا.آپ اپنے آبائی گاؤں تلونڈی چھنگلاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے آپ کے والد ماجد کا نام شہاب الدین صاحب تھا.آپ کو اوائل عمر سے ہی عبادت الہی میں خاص شغف تھا.نماز با قاعدگی سے پانچوں وقت مسجد میں باجماعت ادا کرتے اور اپنے والدین کے ساتھ بہت ہی حسن سلوک کے ساتھ پیش آتے اور کبھی ان کی موجودگی میں بلند آواز سے نہ بولتے.اپنے رشتہ داروں میں شرافت، دیانت ، راستبازی اور مہمان نواز ہونے کی وجہ سے مقبول تھے.باوجود ان پڑھ ہونے کے نہایت ذہین اور سمجھ دار تھے.جو ایک مرتبہ سن لیتے بڑی اچھی طرح یا درکھتے.قرآن مجید کی اکثر سورتیں آپ کو حفظ تھیں.۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.رشتہ داروں نے آپ کی شدید مخالفت کی.مگر آپ کے پائے استقلال میں ذرہ بھر بھی لغزش نہ آئی.جمعہ کی نماز آپ قادیان جا کر ادا کیا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شرف حاصل کرتے.خلافت اولیٰ اور خلافت ثانیہ میں بھی اکثر قادیان میں جا کر نماز جمعہ ادا کیا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب سیر کے لئے باہر جاتے تو حضور تو اپنی معمول کی رفتار سے چلتے لیکن ہم دوڑ دوڑ کر آپ کے ساتھ ملتے تھے.ایک دفعہ حضور نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے میدان میں بیٹھنا چاہا تو میں نے ایک کھدر کا کپڑا جو کہ میرے ساتھی کے پاس تھا زمین پر بچھا دیا.حضور علیہ السلام اس پر بیٹھ گئے.حضور علیہ السلام نے ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس وقت تو یہ جگہ ویران نظر آتی ہے مگر ایک زمانہ آئے گا کہ یہاں پر بہت لوگ اکٹھے ہوا کریں گے اور بڑی رونق ہو گی.بڑی بڑی شاندار عمارتیں بنیں گی.چنانچہ ہم نے وہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس جگہ پر جماعت احمدیہ کا جلسہ سالا نہ ہوتا اور تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بورڈنگ ہاؤس وغیرہ وہاں پر بنے اور اس طرح جنگل میں منگل کا نظارہ بن گیا.

Page 151

تاریخ احمدیت.جلد 27 141 سال 1971ء آپ چندہ جات میں اپنی حیثیت کے مطابق با قاعدگی سے حصہ لیتے.فضول اور لغو باتوں اور بری مجلس سے اجتناب کرتے.اپنا فارغ وقت تسبیح وتحمید اور عبادت میں گزارتے.۷ ۱۹۴ء میں آپ اپنے گاؤں سے ہجرت کر کے ملتان چلے آئے.۱۹۵۳ء میں فسادات کے وقت آپ سرگودھا کے نواحی گاؤں چک نمبر ۹۹ شمالی میں چلے گئے اور وہاں اپنی عمر کا کافی عرصہ گذارا.اس کے بعد آپ ربوہ تشریف لے آئے اور اپنی عمر کا باقی حصہ یہاں پر ہی گزارا.وفات سے دس بارہ روز قبل ہی آپ نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب تو میں آپ کے پاس چند روز کا مہمان ہوں.آپ کی نماز جنازہ مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۷۱ء دفا تر صدر انجمن احمدیہ کے غربی احاطہ میں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے پڑھائی اور تدفین بہشتی مقبرہ میں قطعہ صحابہ میں عمل میں آئی.اولاد: شیر محمد صاحب.سردار محمد صاحب.سردار بی بی صاحبہ زوجہ محمد اسماعیل صاحب.محمد جمیل صاحب حضرت ٹھیکیدار چوہدری غلام رسول صاحب ولادت : ۱۸۸۹ء تحریری بیعت : ۱۹۰۶ء وفات : ۲۱/۲۰ فروری ۱۹۷۱ء آپ کے والد ماجد کا نام چوہدری عبد الرزاق صاحب تھا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت ۱۹۰۶ء میں کی.آپ دنیا پور ضلع ملتان میں مقیم تھے وہاں سے ۱۹۰۹ء میں ہجرت کر کے قادیان آگئے.۱۹۱۹ ء تک دارا مسیح میں تعمیر کے علاوہ متعدد دیگر تعمیرات آپ کی زیر نگرانی انجام پاتی رہیں.اسی طرح منارة امسیح کی تعمیر میں اس کی تکمیل تک حصہ لیا.۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر فضل عمر انسٹی ٹیوٹ کی عمارت اپنی نگرانی میں تعمیر کرائی.۱۹۵۰ء میں آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے ربوہ میں اینٹوں کا بھٹہ چلانے کا کام سپر د کیا.بعد ازاں آپ نے ۱۹۵۷ء میں اپنا بھٹہ جاری کیا.نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے.غرباء پروری آپ کا نمایاں وصف تھا.ربوہ کی بہت سی مساجد کے لئے آپ نے مفت اینٹیں مہیا فرما ئیں.حصہ جائیداد اپنی زندگی میں ہی ادا کر دیا.تحریک جدید کے پانچ ہزاری فوج کے سپاہی تھے.اولاد: عبداللہ صاحب.عبدالمجید صاحب.عبدالسمیع صاحب.غلام فاطمہ صاحبہ اہلیہ صالح

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد 27 142 سال 1971ء محمد صاحب.عائشہ سلطانہ صاحبہ سلمی صدیقہ صاحبہ اہلیہ چوہدری علیم الدین صاحب سابق امیر جماعت اسلام آباد حضرت مولوی کرم الہی صاحب ڈوگر آف کھارا مفصل قادیان ولادت: بیعت ۱۹۰۶ء وفات ۲۳ فروری ۱۹۷۱ء آپ کی خود نوشت روایات میں لکھا ہے کہ:.میں ۱۸۹۸ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل ہوا تھا مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے طبعی طور پر محبت تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معمول تھا کہ حضور صبح کے وقت عموماً ہر روز سیر کے لئے باہر تشریف لے جایا کرتے تھے اور حضور کے بہت سے اصحاب حضور کے ہمراہ ہوتے تھے اور اکثر اوقات موضع بھر کی طرف تشریف لے جاتے تھے اور کبھی کبھی موضع بسر اواں کی طرف بھی تشریف لے جایا کرتے تھے.۱۸۹۹ء میں جب مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم حضور کے چوتھے لڑکے پیدا ہوئے تھے تو اس وقت میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی دوسری جماعت میں تعلیم پاتا تھا.حضور نے ان کی پیدائش پر بہت خوشی کی.یہاں تک کہ اس خوشی کے اظہار کے لئے سکول میں استادوں اور طالب علموں کو بوندی کے لڈ و تقسیم کئے تھے اور ان میں سے دو بوندی کے لڈو مجھے بھی ملے تھے جو کہ بہت صاف ستھرے اور لذیذ تھے اور گھی کے بنے ہوئے تھے.۱۹۰۰ ء یا ۱۹۰۱ ء کا ذکر ہے کہ طالب علموں میں اس بات پر مباحثہ ہوا کہ علم افضل ہے یا دولت.اس مباحثہ کے بعد یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ خدا کا فضل افضل ہے“.10 تقسیم ملک کے بعد شاہدرہ میں سکونت پذیر ہو گئے.دعوت الی اللہ میں خاص شغف تھا.اپنے تین بیٹیوں کو مولوی فاضل تک تعلیم دلائی.اولاد رحمت اللہ صاحب.مولوی نعمت اللہ صاحب مبلغ سلسلہ.عبد الرحمن صاحب.رحمت بی بی صاحبہ 11 حضرت ملک رسول بخش صاحب آف ڈیرہ غازی خان ولادت: ۱۸۸۹ء.بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۸ مارچ ۱۹۷۱ء 12

Page 153

تاریخ احمدیت.جلد 27 143 سال 1971ء ایک درویش مزاج بزرگ تھے.نہر کے محکمہ میں اوور سیئری کی.۱۹۴۴ء میں ریٹائر ہوئے.اس دور میں بھی نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے.حالانکہ دوسرے اوورسیئر بڑے اعلیٰ معیار زندگی کے حامل تھے.نہ ہی ملازمت کے دوران اور نہ ہی بعد میں کوئی مکان بنایا.نہ زمین لی.صرف تنخواہ پر ہی گزارہ تھا.اس ظاہری بے سروسامانی کے باوجود بے حد مطمئن اور صابر و شاکر انسان تھے.۱۹۴۴ء میں نہر کی ملازمت ختم ہونے کے بعد ڈیرہ غازی خان آباد ہونے کی بجائے بچوں سمیت قادیان چلے گئے.نظارت امور عامہ میں ملازمت اختیار کی اور فسادات ۱۹۴۷ء تک انچارج شعبہ تنفیذ اور محتسب کے فرائض سر انجام دیتے رہے.13 ہجرت کے بعد چار سال تک ڈیرہ غازی خان میں مقیم رہے.مگر مرکز کی کشش پھر ربوہ کھینچ لائی.یہاں محکمہ آبادی سے منسلک ہو گئے.کام بڑی محنت ، لگاؤ اور خلوص سے کرتے.اگر کوئی صاحب زمین کا نشان لینے آجاتے تو ساتھ چل پڑتے.خواہ دریا کے کنارہ تک ہی کیوں نہ چلنا پڑتا.بہت ہر دلعزیز تھے.چھوٹے بچوں سے بڑا پیار کرتے.حق بات بے دھڑک کہہ دیا کرتے.لین دین کے کھرے تھے.نماز با جماعت کا التزام بڑے اہتمام سے کرتے.نماز کی با قاعدگی بفضلہ تعالی آخری دم تک قائم رکھنے کی توفیق ملی.فرض روزوں کے علاوہ ہفتہ میں دو بار یعنی ہر سوموار اور ہر جمعرات کو نفلی روزے ایک لمبے عرصہ تک رکھتے رہے.بیواؤں اور یتیموں کا بڑا خیال رکھتے.مستحق لوگوں کے گھر صبح کے اندھیرے میں جا کر پیسے دے آتے تاکہ کسی دوسرے کو اس کا علم نہ ہو اور لینے والے کا بھی بھرم قائم رہے.آخری دم تک صحت اچھی رہی.پیدل چلنے ، دودھ پینے اور کچی سبزیاں کھانے کا بڑا شوق تھا.اپنی ضروریات بہت محدود رکھی ہوئی تھیں.ذکر الہی میں شغف تھا.اس لئے دل بہت مطمئن رہتا تھا.اللہ تعالیٰ نے کسی کا محتاج نہیں کیا.ساری عمر دعا کرتے رہے کہ الہی لمبی بیماری سے بچانا اور جانکنی کے عذاب سے نجات دینا.الحمدللہ دونوں دعا ئیں احسن طور پر پوری ہوئیں.14 اولاد: لیفٹینٹ کرنل ملک بشارت احمد صاحب.ملک محمد اکبر صاحب حضرت شیخ تنظیم الرحمن صاحب ولادت: یکم مارچ ۱۸۹۳ء ۱ پیدائشی احمدی - زیارت : ۱۹۰۴ء وفات: ۲۵/ ۲۴ مارچ ۱۶۶۱۹۷۱

Page 154

تاریخ احمدیت.جلد 27 144 سال 1971ء حضرت شیخ کظیم الرحمن صاحب، حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ ( یکے از ۱۳ ۳ اصحاب) کے صاحبزادے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے داماد تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے پیدائشی احمدی ہوں.میری پیدائش ابتداء ۱۸۹۳ ء کی ہے جب میں چھوٹی عمر کا تھا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تذکرہ اکثر مرزا صاحب کے نام سے ہمارے گھر میں رہتا تھا.قادیان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب، شیخ یعقوب علی صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب اکثر حاجی پورہ جایا کرتے تھے.اس وقت میں یہ سمجھا کرتا تھا کہ قادیان میں چار ہی آدمی ہیں.ایک مرزا صاحب اور باقی تین آدمی مذکورہ بالا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عقیدت اور محبت بچپن سے ہی میرے دل میں ہے.میں ۱۹۰۴ء میں پہلی بار حضرت والد صاحب مرحوم کے ہمراہ قادیان آیا تھا اور حضور علیہ السلام کی زیارت اور صحبت سے فیضیاب ہوا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ والد صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دروازہ پر وہ دروازہ اب زنانہ مکان میں شامل ہو گیا ہے ) آکر دستک دے کر دادی ( حضور علیہ السلام کی خادمہ تھی جس کو سب دادی کہتے تھے ) کو آواز دی کہ حضرت صاحب کو اطلاع کر دو اور ہم دونوں مسجد مبارک میں جو اس وقت بہت چھوٹی تھی اور چھوٹی مسجد کے نام سے موسوم کی جاتی تھی انتظار کیلئے آ بیٹھے.جو نہی کہ حضور علیہ السلام کو اطلاع ملی.آپ فوراً براستہ کھڑ کی ( جو مسجد مبارک میں اندر سے آتی ہے اور پردہ پڑا رہتا ہے ) تشریف لائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریف آوری سے قبل والد صاحب مرحوم نے مجھے دوروپے دیئے کہ جب حضور تشریف لائیں تو یہ نذرانہ پیش کر دینا اور اس کے پیش کرنے کا طریقہ یہ سمجھایا کہ بائیں ہاتھ پر داہنا ہاتھ رکھ کر اس پر یہ روپے رکھ کر نذر پیش کرنا.چنانچہ جب حضور تشریف لائے تو میں نے اسی طرح نذر پیش کی جس کو حضور علیہ السلام نے اپنے داہنے دست مبارک سے اٹھا کر اپنی واسکٹ کی دائیں جیب مبارک میں ڈال لیا.والد صاحب مرحوم سے بہت باتیں ہوتی رہیں اور میں خاموش پاس بیٹھا رہا......میں اور میرے چھوٹے بھائی مسعود الرحمن صاحب ۱۹۰۶ ء میں بغرض حصول تعلیم یہاں آئے.ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم سب بورڈران مسجد اقصیٰ سے قطار میں واپس آرہے تھے کہ حضور علیہ

Page 155

تاریخ احمدیت.جلد 27 145 سال 1971ء السلام نے اپنی کھڑکی میں سے اپنا چہرہ مبارک باہر نکال کر دریافت فرمایا کہ منشی حبیب الرحمن کے لڑکے نظیم الرحمن اور مسعود الرحمن ہیں، ہم نے عرض کیا کہ حضور ہیں.فرما یا ٹھہر جاؤ“.ہم قطار سے علیحدہ ہو کر کھڑے ہو گئے اور قطار چلی گئی.تھوڑی دیر میں حضور علیہ السلام نے اپنا چہرہ مبارک پھر اُسی کھڑکی سے نکال کر فرمایا ”جھولی کرو“.ہم نے جھولی کی تو حضور علیہ السلام نے اوپر سے مٹھائی پھینکی.زعفرانی رنگ کے بڑی قسم کے بڑے لڈو نہایت ہی لذیذ تھے جن کو ہم اپنی جھولیوں میں لے کر خوشی خوشی بورڈنگ میں چلے گئے اور وہاں جا کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر خوب پیٹ بھر کر کھائے.ان کا ذائقہ نہایت عمدہ اور ان کی رنگت نہایت دلفریب تھی.ان کا ذائقہ اور رنگت اب تک جب بھی یاد آتا ہے اپنے مزے سے منہ تازہ ہو جاتا ہے.گویا ابھی کھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب آخری دفعہ لاہور تشریف لے جا رہے تھے تو سکول کے تمام طلباء سکول کی دیوار کے ساتھ باہر کی طرف بغرض شرف مصافحہ قطار باندھ کر کھڑے ہو گئے.چنانچہ حضور علیہ السلام سے مصافحہ کرتے ہوئے چلے گئے.جب مصافحہ ختم ہو گیا اور حضور آگے بڑھے تو میں بھی حضور علیہ السلام کے پیچھے چل پڑا.آپ تیز چلتے تھے اور خدام بھی حضور علیہ السلام کے ہمراہ تھے میں بھی پیچھے پیچھے بھاگا جاتا تھا اور یہ ارادہ تھا کہ جب حضور یکہ پر سوار ہو جاویں گے واپس آؤں گا.چنانچہ میں بھاگا ہوا پیچھے پیچھے چلا گیا.آپ جب چوہڑوں کے مکانوں کے قریب پہنچے تو راستہ چھوڑ کر دوسری طرف رخ فرمایا اور قریب ہی آموں کے درخت تھے ان کے نیچے ٹھہر گئے.خدام سب ارد گرد کھڑے ہو گئے مگر حضور سب سے آگے کھڑے تھے.میں بھی بھاگتا ہوا حضور کے پاس پہنچ گیا.جب میں پہنچا تو حضور نے محبت اور پیار سے فرمایا کہ بس اب تم واپس چلے جاؤ ہم یہاں سے یکہ پرسوار ہو جائیں گے.چنانچہ میں بعد مصافحہ حضور کے اس حکم کی تعمیل میں واپس لوٹ پڑا.اگر چہ دل تو یہی چاہتا تھا کہ جب تک حضور سوار نہ ہو جاویں ٹھہروں مگر حضور کے فرمان کی فوری تعمیل دل میں تھی.اس لئے واپس چلا آیا.جب واپس لوٹا تو وہ دو یا تین اور لڑ کے بھی بھاگے ہوئے چلے آرہے تھے میں نے ان کو کہا کہ حضرت صاحب نے یہ فرمایا ہے اس لئے میں تو آ گیا ہوں اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ وہ میرے ساتھ ہی واپس آگئے تھے یا آگے چلے گئے تھے لیکن میں تو واپس آ گیا.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مجھے حضور کے ساتھ لدھیانہ (جانے) کا موقعہ ملا.لدھیانہ میں بھی حضور کی صحبت سے فیضیاب ہونے کا موقعہ ملا اور قادیان میں بھی حضور کی صحبت میں اکثر بیٹھنے کا موقعہ

Page 156

تاریخ احمدیت.جلد 27 146 سال 1971ء ملتا رہا ہے.جب حضور کا وصال ہوا اور بٹالہ سے جنازہ لایا گیا اس وقت بھی میں یہاں ہی ( قادیان میں ) موجود تھا اور مجھے بھی حضور کے جنازہ مبارک کو کندھا دینے کا موقع ملا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ والے مکان میں جب آخری زیارت کروائی گئی مجھے بھی اس وقت زیارت کا موقع ملا.18 اپنے خود نوشت حالات میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال مبارک ہوا تو وہ ان دنوں قادیان میں زیر تعلیم تھے.خبر وصال مبارک آنے کے بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مولوی محمد علی صاحب نے پڑھائی.لوگ رور ہے تھے اور مسجد میں رونے کا شور تھا.اس پر مولوی محمد علی صاحب بہت ناراض ہوئے اور کہا اتنا شور کیوں مچایا ہے.جو ہونا تھا ہو گیا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ اوروں کا تو معلوم نہیں مگر مجھے ان کا اس طرز پر اظہار ناراضگی بہت برالگا.اپنی زندگی کے بعض دیگر اہم حالات لکھتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ ۱۹۱۷ء سے ۱۹۱۹ ء تک آپ نے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک روڈ سروے پارٹی میں بطور اوورسیئر کام کیا.بعد ازاں کچھ عرصہ قادیان میں ٹی آئی بورڈنگ میں اسسٹنٹ سپر نٹنڈنٹ کے طور پر کام کیا.۱۹۲۲ء میں سول انجینئر نگ کالج پشاور میں اوورسیئر کلاس میں داخلہ لیا اور تعلیم مکمل کر کے سر ٹیفکیٹ حاصل کیا.تعلیم مکمل کرنے پر پھر کچھ عرصہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے دفتر میں بطور ہیڈ کلرک کام کیا.پھر روہڑی کینال کنسٹرکشن میں ملازمت اختیار کر لی.19 ۱۹۳۴ء میں آپ دوبارہ صدر انجمن احمدیہ میں ملا زم ہوئے اور بیت المال، امور عامہ اور اصلاح وارشاد کی نظارتوں میں بیش قیمت خدمات بجالانے کے بعد ۱۹۶۳ء میں سبکدوش ہوئے.ہر محکمہ میں فرض شناسی اور اخلاص کا نہایت عمدہ نمونہ قائم کیا.چنانچہ حضرت خان صاحب فرزند علی صاحب ناظر بیت المال قادیان نے ۵ جولائی ۱۹۳۹ء کو آپ کو یہ سر ٹیفکیٹ دیا کہ شیخ عظیم الرحمن صاحب قریباً پانچ سال سے بیت المال میں کام کرتے رہے ہیں.جب تک ان کا کام میرے نوٹس میں دیا ہے، وہ نہایت تسلی بخش رہا ہے اور میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ وہ کام کو نہایت محنت اور شوق سے سرانجام دیتے رہے ہیں.ان کا کام تشخیص آمد جماعتہائے و بجٹ صیغہ جات کا نہایت ہی اہم اور ذمہ داری کا کام تھا لیکن انہوں نے اس کام کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا ہے.میں ان کے کام سے ہمیشہ خوش رہا ہوں.

Page 157

تاریخ احمدیت.جلد 27 147 سال 1971ء (مهر) ناظر بیت المال قادیان (۵) جولائی ۱۹۳۹ء) اسی طرح حضرت مولا نا عبد الرحیم صاحب درد ناظر امور عامہ نے تحریر فرمایا کہ شعبہ ب کا کام وسیع ہو رہا ہے منشی نظیم الرحمن صاحب اور چوہدری عبدالقدیر صاحب نے اس سلسلہ میں بہت اچھا کام کیا ہے.اپنے فرائض کے علاوہ وہ اس میں بہت مدد دیتے رہے ہیں.نہ چھٹی کا خیال کیا ہے نہ دن رات کا.جزاھم اللہ.اس شعبہ کا کام ابھی بہت باقی ہے دوسرے شعبہ کے کارکنوں سے بھی توقع ہے کہ وہ اپنے فرائض کو مستعدی سے ادا کر کے اس شعبہ کے لئے وقت نکالیں گے.عبد الرحیم درد ناظر امور عامه (۷ فروری ۱۹۵۳ء)‘ آپ کو تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.20 اولاد: شیخ لطیف الرحمن صاحب بی اے.شیخ عزیز الرحمن صاحب وفات بعمر اڑھائی سال.شیخ عزیز الرحمن وفات بعمر ۳ سال.شیخ نعیم الرحمن وفات بعمر 4 ماہ.شیخ لطف الرحمن صاحب بی اے.امتہ الاعلی بیگم صاحبہ اہلیہ لطف المنان صاحب حضرت ڈاکٹر شیخ احمد الدین صاحب ولادت : ۱۷ جنوری ۱۸۹۶ء بیعت : ۱۹۰۷ ء وفات : ۱۶ / اپریل ۱۹۷۱ ء 21 آپ کے فرزند شیخ ناصر احمد صاحب مجاہد سوئٹزرلینڈ تحریر فرماتے ہیں:.خاندانی حالات: ”ہمارا خاندان دائی والہ ضلع سیالکوٹ سے تعلق رکھتا ہے.جب یہ خاندان ضلع گورداسپور کی طرف منتقل ہوا تو وڈالہ بانگر اور رحیم آباد بطور گڑھ کے قرار پائے.یہ دونوں مقامات مغل شہنشاہ اکبر اعظم کی تاج پوشی کے پرانے شہر کلانور سے صرف چند میل کے فاصلہ پر ہیں.احمدیت اس خاندان میں بہت شروع سے چلی آرہی ہے.چنانچہ حضرت شیخ عبداللہ صاحب (جو خاکسار کے ماموں حضرت شیخ عبدالحق صاحب کے والد یعنی میرے نانا تھے ) اور حضرت شیخ نور الدین صاحب ( خاکسار کے دادا ) ان دونوں بزرگوں کا شمار صحابہ کرام میں ہوتا ہے.ابا جان مورخہ ۱۷ جنوری ۱۸۹۶ء کو وڈالہ بانگر ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے.گیارہ برس کی عمر

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد 27 148 سال 1971ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.زمانہ تعلیم میں تبلیغ احمدیت کا جوش اس قدر تھا کہ سکول و کالج کے غیر مسلم اساتذہ ان کی مخالفت کرتے.جس کا اثر ان کی تعلیم پر بھی پڑا.ڈاکٹری کی تعلیم امرتسر اور لاہور میں پائی اور پھر شیخو پورہ کے شہر میں پریکٹس شروع کی.کچھ عرصہ کے بعد آپ اپنے آبائی گاؤں و ڈالہ بانگر میں واپس آگئے اور وہاں کام شروع کیا.اباجان جماعت کے ایک مشہور گروہ کے فرد تھے.جن کا تعلق حضرت خلیفتہ امسیح الثانی سے بہت قربت کا تھا.اس گروہ کے بعض بزرگ اراکین کے نام یہ ہیں.محترم ملک غلام فرید صاحب - محترم شیخ بشیر احمد صاحب.محترم نوابزادہ میاں عبداللہ خاں صاحب.محترم صوفی محمد ابراہیم صاحب.محترم صوفی غلام محمد صاحب.محترم مرزا عبدالحق صاحب.شیخ محمد احد مظہر صاحب.محترم چوہدری عصمت اللہ صاحب.محترم ملک کرم الہی صاحب.یہ ان بزرگان کا گروہ ہے جن کا تعلق احمد یہ ہاسٹل لا ہور سے اوائل زمانہ سے تھا.مختصر حالات زندگی: ان کی شادی ماموں محترم حضرت شیخ عبدالحق صاحب کی چھوٹی بہن ، ہماری والدہ محترمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ کے ساتھ غالباً ۱۹۱۸ء میں ہوئی.وڈالہ بانگر سے ۳۲-۱۹۳۱ء میں علاقہ بار کی طرف رجوع کیا.اور مختلف مقامات جن میں لائلپور کا شہر بھی شامل ہے، میں پریکٹس کے سلسلہ میں قیام کے بعد غالباً ۱۹۳۳ء میں محترم نوابزادہ میاں عبداللہ خاں صاحب کی خواہش اور تحریک پر محمود آباد ضلع نوابشاہ سندھ ان کی اراضیات پر چلے گئے اور کئی سال تک وہاں پر رہے.اس علاقہ میں ان کے علاج کی شہرت بہت پھیل گئی اور مریض دور دور کے علاقوں سے علاج کروانے کی غرض سے آتے.چونکہ اس علاقہ میں سانپ کثرت سے پائے جاتے تھے اس لئے آپ بالخصوص سانپ کے زہر کے علاج کے لئے بھی بہت مشہور ہو گئے.محمود آباد ضلع نوابشاہ کی زمین کا تبادلہ تھر پارکر کے علاقہ میں ایک زمین کے ساتھ ہو گیا.جسے حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب نے حضرت اماں جان کے نام کی مناسبت سے نصرت آباد کا نام دیا.ابا جان بھی اس علاقہ میں منتقل ہو گئے.چند سال نصرت آباد میں قیام کے بعد آپ کنری تشریف لے گئے.یہ تقسیم ملک سے پہلے کی بات ہے.کنری میں قیام کم و بیش بیس سال تک رہا.جس کے بعد آپ کراچی چلے گئے.سلسلہ کی خدمات گوشروع سے ہی اور ہر علاقے میں جہاں قیام کا موقع ملا سلسلہ کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے.ملکانہ میں شدھی کی تحریک کے دوران بھی ایک عرصہ تک وہاں کام کیا.لیکن

Page 159

تاریخ احمدیت.جلد 27 149 سال 1971ء قیام سندھ کے دوران آپ کو زیادہ نمایاں طور پر خدمت دین کے مواقع ملے.سندھ پراونشل انجمن احمدیہ کے قیام سے ہی آپ اس میں شامل رہے.ایک عرصہ تک سیکرٹری تعلیم و تربیت اور پھر سیکرٹری تبلیغ کے طور پر کام کیا.پراونشل نائب امیر بھی رہے.ڈویژنل امارت قائم ہوئی تو ایک عرصہ تک حیدر آباد ڈویژن کے امیر رہے.ڈویژنل قاضی کے طور پر بھی کام کیا.تبلیغ احمدیت اور خدمت دین کا شوق اس قدر تھا کہ مجھے فرمایا کہ دنیوی تعلیم مکمل کر کے اگر تم اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کر دو تو میں اپنے سارے حقوق تمہیں معاف کر دوں گا.ان کی اس خواہش کی تکمیل میں خاکسار کو قریباً ربع صدی تک مختلف ممالک یورپ میں خدمت دین کے مواقع ملے.جن میں انگلستان، سوئٹزرلینڈ ، جرمنی اور آسٹریا بھی شامل ہیں.محمود آباد میں قیام کے دوران حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تحریک پر سال میں ایک مہینہ اعلیٰ حکام کو تبلیغ کرنے کی غرض سے وقف کرتے تھے.اس دوران میں اپنی پریکٹس بند کر دیا کرتے تھے.گوان کی ڈاکٹری پریکٹس تھی لیکن دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ ان کی ڈسپنسری گو یا دار التبلیغ ہوتی تھی.غیر احمدی اور غیر مسلم مریض جب شہر میں آتے تو ” قادیانی ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں بہت شفار بھی تھی.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مریض کو نہ صرف دوا دیتے بلکہ اس کے لئے دعا بھی فرماتے اور خاص مواقع پر ہمیں بھی مریض کی صحت کے لئے دعا کی تحریک فرماتے.علاج روپیہ کی غرض سے نہ کرتے بلکہ بسا اوقات مفت علاج کرتے.اخلاق و شمائل : آپ نہایت ذکی اور تیز فہم شخصیت تھے.احمدیت کے شیدائی تھے اور خلافت کے پروانے.۱۹۲۶ ء سے آپ کی وصیت تھی.جو ۱/۷ کی تھی.آپ کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا.مہمان نوازی اور اکرام ضیف گویا فطرت کا حصہ بنا ہوا تھا.اپنی اولا د اور اولاد در اولاد میں نیکی اور خدمت دین کا جذبہ دیکھنے کی بہت خواہش رکھتے.اور اس غرض کے لئے ہمیشہ دعا ئیں بھی کرتے.جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت میں شمولیت ہر حالت میں کرتے.گوزندگی کے آخری دو سالوں میں صحت نے اجازت نہ دی.۱۹۶۹ء میں تو لاہور تک گئے لیکن وہاں صحت خراب ہو گئی اور جلسہ میں شمولیت نہ کر سکے.خاکسار نے حضرت صاحب کی تقاریر ٹیپ ریکارڈ کر کے انہیں سنائیں.آپ بہت دعا گو تھے اور دعاؤں میں بالخصوص اپنی سب اولا دکو شامل کرتے.آپ نے اپنے پیچھے پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں اور اولاد در اولاد کی مجموعی تعداد

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد 27 150 سال 1971ء ۳۵ افراد تک پہنچتی ہے آپ نے ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھا.ہر ایک کی بے لوث مدد کی اور اپنی عملی زندگی سے اخوت انسانی کا سبق دیا.“ 22 حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حضرت ڈاکٹر شیخ احمد الدین صاحب کی وفات پر آپ کے صاحبزادہ شیخ ناصر احمد صاحب سے ان الفاظ میں تعزیت کی : " آپ کے والد محترم کی وفات سے مجھے بہت صدمہ پہنچا.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں.اسی میں بہتری ہے.اللہ تعالیٰ آپ سے کو صبر جمیل کی توفیق دے اور ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے.آمین“ 23 اولاد : شیخ ناصر احمد صاحب مرحوم سابق مجاہد سوئٹزرلینڈ.شیخ منصور احمد صاحب حال مقیم لندن.شیخ نصیر احمد صاحب مرحوم شیخ رشید احمد صاحب حال مقیم ناروے.شیخ مبشر احمد صاحب مرحوم ( اسلام آباد ) - صالح بیگم صاحبہ زوجہ شیخ محمود احمد صاحب کراچی.ناصرہ بیگم صاحبہ زوجہ مشتاق احمد صاحب مرحوم ( کینیڈا).صادقہ بیگم صاحبہ زوجہ محمود احمد صاحب کراچی.آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ شیخ رشید احمد صاحب آف لندن.24 حضرت مرز امحمد حسین صاحب ” چٹھی مسیح ، ساکن تر گڑی ضلع گوجرانوالہ ولادت : ۱۸۸۱ ء اندازاً بیعت وزیارت : ۱۹۰۲ء وفات : ۵ مئی ۱۹۷۱ء 25 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور مشہور پنجابی شاعر حضرت مولوی مرزا محمد اسمعیل صاحب مصنف ” چٹھی مسیح کے فرزند تھے.آپ کی خودنوشت روایت میں ہے کہ:.” میرے پاس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط جو والد صاحب کے نام تھا اس خط کی نقل درج ہے.جواب لکھ دیں کہ تو بہ استغفار عمدہ چیز ہے مگر ان لوگوں کی خوابوں کا ہرگز اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ لوگ تقویٰ سے بعید ہیں اور شیطان کے مس سے خالی نہیں.ابھی تک تو میں تمہارے درمیان زندہ ہوں اورصد بانشان ابھی ظاہر ہورہے ہیں.چاہیے کہ ایک ماہ کے بعد میری کتاب حقیقۃ الوحی منگوا کر دیکھو کہ اس وقت تک وہ انشاء اللہ چھپ جائے گی.جس شخص کو تزکیہ نفس نہیں وہ جس قدر شیطان کے قریب ہے اس قدر خدا کے قریب نہیں ہے.والسلام.۱۹۰۲ء کا خط ہے.دومسائل بھی درج ہیں.دوسری جماعت بھی جائز ہے.قربانی کا گوشت غیر مسلم کو دیا جا سکتا ہے.دونوں مسائل اسی خط پر حضرت مفتی صاحب کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں.

Page 161

تاریخ احمدیت.جلد 27 151 سال 1971ء جب میں ۱۹۰۵ء میں ہائی سکول میں داخل ہوا.گھر سے خرچ دیر سے آیا.میاں نجم الدین صاحب مرحوم نے کھانا بند کر دیا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں خرچ کے نہ آنے کی اور لنگر سے روٹی بند ہونے کی درخواست پیش کی تو حضرت صاحب نے ایک ماہ کی اجازت دے دی.پھر زلزلہ اور طاعون پڑی تو سکول باغ میں گھلا.حضور بھی تشریف لے گئے.دو چور باغ میں آ گھسے.ایک چور بھاگ گیا.دوسرا پکڑا گیا.تو حضور نے فرمایا کہ چور کو مارنا نہیں پکڑ لو.چنانچہ پٹھانوں نے پکڑ کر رسہ سے باندھ دیا.پھر قاضی امیر حسین صاحب کا لڑ کا شاہ محمد باغ میں فوت ہو گیا.اس کے جنازہ کے ساتھ ساتھ عاجز، محمد عارف صاحب، برکت علی صاحب، قاضی صاحب اور ان کا ایک رشتہ دار تھا.قاضی صاحب نے حضرت صاحب سے شکایت کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو باغ میں جمع کر کے ہمدردی اور حسن سلوک کا وعظ کر کے میر صاحب کے غم کو غلط کیا.موتا موتی لگ رہی ہے.یہ اشتہار شائع ہوا ( تو ) میں نے پر تھی چند آریہ، دھرت رام، او ناتھ (جو) میرے ساتھ پڑھتے تھے، ان کو مطالعہ کے لئے دیا.سیالکوٹ کا لیکچر سرائے میں سنا جس میں کرشن ہونے کا دعویٰ کیا.پھر لاہور کا لیکچر سنا.جب مولوی عبد الکریم صاحب نے لیکچر ختم کیا تو کسی انگریز نے درخواست کی کہ حضور بھی اپنی زبان مبارک سے تبر کا کچھ باتیں سنا دیں.جب حضرت اقدس اُٹھے تو مخالفوں نے شور ڈال دیا.یہ شور بہت دیر تک ہوتا رہا.ڈپٹی کمشنر کی ٹوپی بھی گر کر خراب ہو گئی.پولیس نے بھی بہتیر از ور مارا.خلقت خاموش نہ ہوسکی.پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اُٹھے اور قرآن کریم پڑھنا شروع کیا.مولوی صاحب کی آواز کا پہنچنا تھا کہ لوگ بالکل خاموش ہو گئے اور بیٹھ گئے.بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کچھ باتیں سنائیں میں نے اس لیکچر کوخود سنا.جمعہ کی فجر کی نماز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھائی.حضرت صاحب بھی شامل تھے.فجر کی پہلی رکعت میں سورۃ مریم کا کچھ حصہ پڑھا.دوسری میں سورت دہر پڑھی.جس وقت يَتِيما و اسیر پڑھا تو مقتدیوں کی چھینیں نکل گئیں.زار زار رونے لگے.میں دوسری صف میں حضرت صاحب کے پیچھے مسجد میں اور حضرت صاحب مولوی صاحب کے ہمراہ حجرے میں کھڑے تھے.یہ ،، واقعہ ۱۹۰۵ ء کا ہے.26

Page 162

تاریخ احمدیت.جلد 27 152 سال 1971ء آپ نے ابتدائی دینی تعلیم حضرت خلیفہ اول سے حاصل کی.جنگ عظیم اوّل میں فوج میں بھرتی ہو گئے اور فوجی خدمات کے سلسلہ میں رنگون، برما، بصرہ اور بغداد وغیرہ میں رہنے کا موقعہ ملا.جہاں جہاں تشریف لے گئے احمدی احباب سے خصوصی رابطہ رکھا.کئی جماعتوں کو منظم کیا اور تبلیغ حق کا سلسلہ جاری رکھا اور بسا اوقات اپنے افسران کی ناراضگی مول لی.آپ خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور میں ہی قادیان ہجرت کر کے آگئے تھے.قیام پاکستان کے بعد قریباً ساڑھے تین سال تک اپنے وطن موضع تر گڑی میں فروکش رہے اور ۳۱ مئی ۱۹۵۱ء کو مستقل طور پر ربوہ منتقل ہو گئے.یہاں آ کر آپ چند ماہ تک سکول میں استاد کے فرائض انجام دیتے رہے بعد ازاں ملازمت چھوڑ کر جماعتی کاموں کے لئے وقف ہو گئے اور احمدی بچوں کو قرآن مجید پڑھانے یا چندوں کی وصولی میں مصروف ہو گئے.بچوں کی تربیت کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ آپ ہمیشہ اس بات کی نگرانی فرماتے کہ نماز کے وقت کوئی بچہ سڑک پر کھیلتا ہوا نظر نہ آئے.خط بہت عمدہ تھا.فارغ اوقات میں الفضل اور دوسری کتابوں اور رسالوں کی جلد میں بنانا آپ کا محبوب مشغلہ تھا.بڑھاپے کے باوجود آپ کے عزم، ہمت اور استقلال میں کوئی فرق نہ آیا.آپ مستجاب الدعوات اور صاحب رو یا بزرگ تھے.۴۲-۱۹۴۱ء میں آپ کو ڈبل نمونیہ ہو گیا اور بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی.آپ کی اہلیہ سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ نے دعا کی اور صدقہ دیا انہیں رویا میں بتایا گیا کہ آپ تیس سال مزید زندہ رہیں گے.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.27 آپ بہت نیک ، عابد اور متواضع طبیعت کے مالک تھے اور مخلوق خدا کی خدمت کا خاص شوق اور جذبہ رکھتے تھے اور تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہدین میں سے تھے.28 اولاد: آپ نے یکے بعد دیگرے چار شادیاں کیں.زوجه اول: فاطمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت منشی میراں بخش صاحب آف گوجرانوالہ.ان سے آپ کے پانچ بچے ہوئے جو سب کے سب وفات پاگئے.زوجہ ثانی: طاہرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میاں نظام الدین صاحب جہلمی ان سے ایک بیٹا تو بچپن میں فوت ہو گیا.دوسرے بیٹے مرزا طاہر احمد صاحب ۶۱ سال کی عمر میں گوجرانوالہ میں فوت ہوئے.زوجہ ثالث: عنایت بیگم صاحبہ جو کہ محمدی بیگم صاحبہ کے خاوند مرزا سلطان محمد صاحب کی عزیزہ

Page 163

تاریخ احمدیت.جلد 27 153 سال 1971ء تھیں.ان سے کوئی اولا د نہیں تھی.زوجہ رابع : امتہ الحفیظ صاحبہ بنت حضرت مولوی غلام محمد صاحب افغان.ان سے آپ کے چار بچے ہوئے.دو چھوٹی عمر میں وفات پاگئے.جبکہ ایک بیٹے مرزا ظفر احمد صاحب ۶۸ سال کی عمر میں ۲۰۱۲ء میں ربوہ میں وفات پاگئے.دوسرے بیٹے مرزا نصیر احمد صاحب جامعہ احمدیہ یو.کے میں بطور استاد خدمت سلسلہ کی توفیق پارہے ہیں.29 حضرت لعل بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸۸۹ ء تحریری بیعت : ۱۹۰۵ ء وفات: اا مئی ۱۹۷۱ ء 30 آپ حضرت محمد خان صاحب آف افغانستان کی اہلیہ محترمہ تھیں.آپ نے ۱۹۰۵ء میں علاقہ خوست ملک افغانستان سے ایک خط کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.پابند صوم وصلوٰۃ اور موصیہ تھیں.۲ جنوری ۱۹۴۴ء کو آپ نے قادیان سے وصیت کی.۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے پشاور آگئی تھیں.وہیں آپ کی وفات ہوئی.بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ ۹الف میں مدفون ہیں.آپ کے بیٹے محترم حبیب احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے وفات سے چند یوم قبل خواب دیکھا کہ میرے والد صاحب مرحوم ایک باغ کے باہر کھڑے ہیں اور ان کو کچھ کہہ رہے ہیں کہ میرے باغ میں آ جاؤ.یہاں پر تم کو سب کچھ ملے گا.اس خواب سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا کہ اب شاید والدہ صاحبہ کے یہ آخری ایام ہیں.ان کے لئے تابوت پہلے سے تیار کیا گیا.بیماری کے ایام میں وہ حضرت سید صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل کے چشم دیدہ حالات شہادت اکثر بیان کرتی رہتی تھیں.جب وفات سے چند یوم قبل میں نے ان سے کہا کہ آپ کو تابوت میں دفن کریں گے تو بڑی خوش ہوئیں.اور جب میں نے یہ کہا کہ آپ کی وصیت کے کاغذات مجھے مل گئے ہیں جو آپ قادیان سے ہجرت کے وقت ساتھ لائی تھیں تو بے انتہاء خوش ہو ئیں اور چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا.میں نے عرض کیا کہ آپ کے تابوت کو ربوہ مقبرہ بہشتی تک پہنچانے کا ذمہ میرے محترم دوست ڈاکٹر منظور احمد امیر جماعت احمدیہ بازید خیل ضلع پشاور نے لیا ہے تو ان کے لئے اور ان کے بال بچوں کے لئے بڑی دعائیں کیں.میرے والد صاحب مرحوم بھی موصی تھے.اولاد: آپ نے دولڑ کے اور تین لڑکیاں یادگار چھوڑ ہیں.31

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد 27 حضرت قریشی نورالحسن صاحب 154 سال 1971ء وفات : ۱۵ مئی ۱۹۷۱ء ولادت: تقریباً ۱۸۷۱ء بیعت : ۱۹۰۴ حضرت قریشی نور الحسن صاحب قریشی محمد عبد اللہ صاحب کے صاحبزادے تھے.آپ کی رہائش کو ٹلی ہر نرائن تحصیل و ضلع سیالکوٹ میں تھی.آپ نے ۱۹۰۴ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر اس وقت جب حضور اقدس سیالکوٹ تشریف لائے تھے بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی.۱۹۱۳ ء سے اپنی جماعت کو ٹلی ہر نرائن کے پہلے سیکرٹری اصلاح وارشاد اور صدر ا رہے.اور ۱۹۷۰ ء تک مقامی جماعت کے کاموں کو انتہائی اخلاص و دیانت سے انجام دیا.خاموش مستعد کارکن اور پابند صوم صلوۃ تھے.باقاعدگی سے چندے ادا فرماتے.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.۱۹۱۷ء میں وصیت کی اور وفات تک پابندی کے ساتھ حصہ آمد ادا فرماتے رہے.سلسلہ کے خادموں سے خاص لگاؤ تھا.ان کی مہمان نوازی وغیرہ میں لذت محسوس فرماتے.آپ نے ۱۵ مئی ۱۹۷۱ء کوقریباً ۱۰۰ سال کی عمر میں وفات پائی.32 آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.مکرم نصیر احمد قریشی صاحب مربی سلسله سابق مجاہد تنزانیدو اسیر راہ مولیٰ آپ کے نواسے ہیں.اولاد قریشی منظور احمد صاحب قریشی نوراحمد صاحب.زینب بیگم صاحبہ زوجہ قریشی عبدالرحمن صاحب آف فیصل آباد محمد بی بی صاحبہ زوجہ صوفی محمد عبد اللہ صاحب اقصیٰ روڈ ر بوہ.احمد بی بی صاحبہ زوجہ بشیر احمد صاحب آف نائی والا ضلع سیالکوٹ.ممتاز بیگم صاحبہ زوجہ قاضی عبد الحمید صاحب مزنگ لاہور محمودہ بیگم صاحبہ زوجہ قریشی عطاء اللہ صاحب آف چانگریاں تحصیل پسر ورضلع سیالکوٹ.33 حضرت محمد عبد اللہ صاحب میڈیکل پریکٹیشنر قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت ستمبر اکتوبر ۱۹۰۷ ء وفات : ۱۳ ، ۱۴ جون ۱۹۷۱ء34 حضرت ڈاکٹر صاحب کے خود نوشت حالات ( محرره ۶ فروری ۱۹۶۰ء) میں تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۳ء میں جبکہ میں محکمہ نہر میں ملازم تھا.رمضان شریف کی ایک رات خواب میں سحری سے قبل میں نے ایک بزرگ کی زیارت کی جس نے مجھ سے کہا کہ آپ کس سے بیعت ہیں.میں نے عرض کیا

Page 165

تاریخ احمدیت.جلد 27 155 سال 1971ء کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے.اس بزرگ نے مجھے شاباش کے طور پر میری پیٹھ پر تین دفعہ تھپکی دی.اس خواب کے بعد مجھے ڈیرہ غازی خان کے ایک سکول کے ایک احمدی مدرس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک کتاب (غالباً نشانِ آسمانی) پڑھنے کے لئے دی.اس کتاب میں اپنے دعویٰ کے متعلق ایک طریق استخارہ تحریر فرمایا تھا.یہ ارشاد عالی پڑھ کر میں لرز گیا اور میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس ملا زمت سے مستعفی ہو کر میں ضرور استخارہ کروں گا.کیونکہ ملازمت سے مجھے ناجائز آمد ہوتی تھی.چنانچہ میں موقعہ کا منتظر رہا اور ۱۹۰۷ء کی ابتدائی سہ ماہی میں مستعفی ہو گیا اور اپنے تایا صاحب مرحوم کے پاس گوجرہ ضلع لائلپور چلا گیا.یہیں میں نے استخارہ کیا.دعائے استخارہ کے چوتھے روز نماز فجر کے بعد مجھے کشف میں سیڑھیاں نظر آئیں ہر سیڑھی پر ایک بورڈ نصب تھا.آخری سیڑھی کے درمیان جو وسیع و عریض بورڈ آویزاں تھا جس کی زمین سرخ تھی اور اس پر جلی رنگ میں لکھا تھا مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی مسعود.میرے تایا صاحب مرحوم اہل حدیث تھے جب ان سے میں نے یہ بیان کیا تو کہنے لگے کہ یہ شیطانی وساوس ہیں.میں نے عرض کیا کہ میں دعا تو اللہ تعالیٰ سے کر رہا تھا.شیطان کا بارگاہ عالی میں کیا دخل.غرضیکہ وہ اس نعمت سے محروم رہے اور مجھے یہ سعادت حاصل ہوگئی.میری بیوی میرے سسرال میں رعیہ ضلع سیالکوٹ میں تھی.جہاں میرے محسن حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاه صاحب سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر تھے.میں رعیہ پہنچ گیا.احمدیت تو دل میں گھر کر چکی تھی ان سے ملاقات ہوئی.ان کے ساتھ نمازیں پڑھتے رہے وہ نماز کے بعد مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے اور قرآن شریف کے معارف بھی بیان فرمایا کرتے تھے.میں درس میں شامل رہا ان کی صحبت میں رہ کر احمدیت سے متعلق وسیع علم حاصل ہوا.اور ستمبر ۱۹۰۷ ء میں ان کے ہمراہ قادیان پہنچا.اس وقت عصر کی نماز ہو رہی تھی.۱۹۰۳ء میں ملازمت نہر کے دوران میں نے جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا کیونکہ وہی حلیہ اور لباس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کا شرف حاصل کیا.ہم قریباً پندرہ روز قادیان میں رہے اس کے بعد جنوری ۱۹۰۸ ء میں بھی نیاز حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اس کے بعد لاہور میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے محترم بزرگ حضرت میاں معراج الدین صاحب عمر کے ہاں رہ کر ایمان اور عرفان میں اور ترقی ہوگئی.۱۹۰۹ء میں مجھے پھر رعیہ آنا پڑا گویا حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی کشش کھینچ لائی.حضرت شاہ صاحب نے اپنی ڈسپنسری میں مجھے کمپونڈ منظور کروالیا اور باقاعدہ

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد 27 156 سال 1971ء ملازمت کا سلسلہ بن گیا.حضرت شاہ صاحب کے جس قدر احسانات مجھ پر ہیں ان کا میں شمار نہیں کر سکتا.میرے ایمان اور ایقان کی ترقی ان کے طفیل ہوئی.اور آپ کی تحریک سے میری بیوی نے بھی بیعت کر لی.۱۹۱۱ ء تک میں حضرت ڈاکٹر صاحب کے پاس رہا اس کے بعد مجھے سیالکوٹ تبدیل کر دیا گیا جہاں میں نے بہت سے فیوض حضرت میر حامد شاہ صاحب کی برکت سے حاصل کئے.سیالکوٹ سول ہسپتال سے مجھے پلیک ڈیوٹی پر لگایا گیا جس پر میں نے استعفی دے دیا.ازاں بعد مجھے سیالکوٹ کے ایک احمدی تاجر چرم اور مولوی مبارک علی صاحب مرحوم کے داماد کی ملازمت میں رہنے کا موقع ملا.اس کے بعد ۱۹۱۳ ء کی آخری ششماہی میں میں کپڑا بیچنے والی ایک کمپنی میں ملازم ہو گیا اور پٹیالہ شہر میں رہائش کر لی.جمعہ کی نماز کے لئے احمدیہ مسجد ڈھک بازار میں گیا جہاں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے ملاقات ہوئی آپ راجند ہسپتال میں کام کرتے تھے.حضرت ڈاکٹر صاحب کی تحریک پر میں فروختگی پارچہ سے فارغ ہو گیا اور ڈھائی سوروپے کی ادویہ لاہور پہنچ کر بیلی رام کی دکان سے خرید لا یا اور پٹیالہ میں میڈیکل ہال کھول کر کام شروع کر دیا.مجھے جماعت میں اسسٹنٹ سیکرٹری بنا دیا گیا.۱۳ مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی وفات ہو گئی.جماعت احمد یہ پٹیالہ نے متفقہ طور پر حضرت مولوی محمود الحسن خاں صاحب مدرس ( حضرت ماسٹر محمد حسن احسان صاحب دہلوی کے والد ماجد اور مسعود احمد خاں صاحب دہلوی سابق ایڈیٹر الفضل ربوہ وانصار اللہ ربوہ کے دادا) اور خاکسار کو قادیان دار الامان بھیجا کہ جس بزرگ کا انتخاب ہو تمام جماعت کی طرف سے بیعت کر آئیں چنانچہ ہم دونوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دست مبارک پر جماعت کی طرف سے بیعت کی اور چند یوم قادیان میں رہ کر واپس پٹیالہ پہنچ گئے.اس کے بعد حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کہیں تبدیل ہو گئے اور خاکسار سیالکوٹ آکر مستری نظام الدین صاحب مرحوم کی سپورٹس کی فرم میں ملازم ہو گیا.مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ خصوصاً چھاؤنیوں میں ، گورہ فوجوں میں یہ کاروبار کس طرح چلایا جاتا ہے؟ میں نے بہت دعائیں کیں.تھوڑے دنوں میں مجھے اس کاروبار پر کافی عبور حاصل ہو گیا اور مکرم مستری صاحب نے میرا امتحان لے کر اپنی دکان ڈینی گرے واقع نوشہرہ چھاؤنی صوبہ سرحد بھیج دیا.میں نے تین ماہ میں وہ منافع دیا جو وہ ایک سال میں بھی حاصل نہیں کر سکتے تھے.میں فروختگی کی رقم بنک میں جمع کراتارہا اور مئی، جون، جولائی ۱۹۱۴ ء کی سہ ماہی رپورٹ انہیں سیالکوٹ ارسال کر دی.وہ بہت خوش ہوئے.میں جب شروع مئی میں نوشہرہ چھاؤنی

Page 167

تاریخ احمدیت.جلد 27 157 سال 1971ء پہنچا تو اپنے آپ کو اکیلا پایا.کہاں سیالکوٹ کی جماعت اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کی صحبت اور کہاں نوشہرہ چھاؤنی؟ میں نے دعا کی کہ الہی مومن تو اکیلا نہیں رہتا یا تو میرے ایمان میں نقص ہے یا اس جگہ افراد جماعت ہوں گے مگر مجھے علم نہیں.الہی تو مجھے اکیلا نہ رکھ.اگر یہاں افراد جماعت ہیں تو مجھے علم دے تاکہ یہاں جماعت پیدا ہو جائے.اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول فرمالی اور مجھے توفیق دی کہ نوشہرہ چھاؤنی کے متفرق احمدی احباب معلوم کر کے ایک جماعت قائم کروں.سو جو بندہ یا بندہ کے بقول میں نے چل پھر کر پندرہ کس احمدی احباب معلوم کر کے ایک جمعہ پر سب احباب کو اکٹھا کیا اور جماعت احمد یہ نوشہرہ چھاؤنی کی بنیاد ڈالی.نوشہرہ چھاؤنی کے ڈاک بنگلہ کے خانساماں صاحب شیخ عبدالرحمن صاحب جماعت کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے اور خاکسار کو سیکرٹری اور محصل مقرر کیا گیا.ڈاک بنگلہ میں ہی نماز جمعہ کا انتظام کیا گیا.باقاعدہ مرکز سے خط و کتابت کر کے رسید بکیں اور دیگر لٹریچر وغیرہ حاصل کر لیا گیا.چونکہ صرف خاکسار ہی ایک آزاد پیشہ تھا اس لئے ہفتہ میں ایک دو دفعہ احباب سے ملاقات ہو جاتی چندہ کی وصولی بھی ہو جاتی اور کام جاری ہو گیا.اس سے پہلے مکرم محترم قاضی محمد یوسف صاحب پشاور سے آکر معلوم احمدی احباب سے چندہ لے جایا کرتے تھے.اب ہمارا چندہ پشاور جانا بند ہو گیا اور براہ راست مرکز کے ساتھ وابستہ ہو گئے.پہلی گریٹ وار شروع ہو چکی تھی.رجمنٹس کے ادل بدل سے احمدی احباب کی مزید آمد سے جماعت میں اضافہ ہو گیا اور متفقہ طور پر حضرت شیخ احمد اللہ صاحب مرحوم و مغفور جماعت کے پریذیڈنٹ منتخب ہوئے اور انجمن کے لئے ایک بالا خانہ کرایہ پر لے لیا گیا.(حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت احمدیہ سرحد کی کتاب تاریخ احمد یہ سرحد مطبوعہ ۱۹۵۹ء صفحہ ۲۶۵-۲۶۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ (حضرت شیخ احمداللہ ) تبلیغ احمدیت کے دلدادہ تھے نوشہرہ کے بعد آپ بمبئی جا کر ایک کمیٹی کے ایجنٹ مقرر ہوئے اور کمپنی کے خرچ سے لندن پہنچ گئے.اپنی انگریزی ٹائپ مشین بھی ساتھ لے گئے اور اشاعت دین کا کام زور وشور سے شروع کر دیا.ہائیڈ پارک میں بھی حق کی آواز بلند کرتے رہے کئی افراد ان کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوئے) شیخ صاحب مرحوم و مغفور نے مجھے مستری صاحب کی ملازمت میں لکھنؤ جانے سے روک لیا اور کنٹونمنٹ کمیٹی کے دفتر میں ٹیکس کلکٹر کی آسامی پر مجھے تعینات کروا دیا جہاں وہ خود ہیڈ کلرک تھے.چنانچہ تمبر ۱۹۱۴ ء سے میں وہاں کام کرنے لگ گیا اور مستری صاحب مرحوم و مغفور کی ملازمت سے

Page 168

تاریخ احمدیت.جلد 27 158 سال 1971ء فارغ ہو گیا.گومحمد مستری صاحب کی ملازمت میں علاوہ تنخواہ کے معقول رقم کمیشن کی بھی ملتی تھی.مگر میں نے نوشہرہ میں رہ کر سلسلہ کی خدمت کو ترجیح دی اور تھوڑی نوکری کی قلیل تنخواہ قبول کر لی.اس آسامی پر رہ کر مجھے عام پبلک اور ملٹری افسروں سے بھی واسطہ پڑتا تھا.اس لئے مجھے تبلیغ کے لئے اچھا موقع میسر آ گیا.وار (War) کے زمانہ میں مجھے حضرت شیخ مشتاق حسین صاحب مرحوم و مغفور فٹنگ کنٹر کٹر (والد ماجد شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ لا ہور و حج ہائیکورٹ لاہور ) اور مولوی فخر الدین صاحب ( مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کے والد بزرگوار ) مرحوم و مغفور یہ دو بابرکت وجو مل گئے.جن کی آمد پر درس تدریس کا سلسلہ جاری ہو گیا اور نماز با جماعت با قاعدگی سے ادا ہونے لگی.اس کے بعد مکرم محترم مرزا غلام حیدر صاحب پلیڈر تشریف لے آئے جن کے آنے پر جماعت کا وقار بڑھ گیا.تھوڑے عرصہ کے بعد خان بہا در دلاور خان صاحب اسسٹنٹ کمشنر ہو کر یہاں تعینات ہوئے.کئی ایک ڈاکٹر صاحبان بھی تشریف لے آئے.خصوصاً ڈاکٹر فیروز دین صاحب مرحوم و مغفور، ڈاکٹر محمد رمضان صاحب، صوبیدار میجر ڈاکٹر ظہور حسین صاحب گجرات کے رہنے والے، غرضیکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ایک خاصی رونق پیدا ہوگئی.ہمارا مرکزی بجٹ ہزاروں تک جا پہنچا.مقامی اخراجات کے لئے بھی ہم ایک پیسہ فی روپیہ وصول کرتے تھے جو مقامی خرچ کے علاوہ ٹریکٹ وغیرہ منگوانے کے بھی کام آتا تھا.ہماری انجمن کے قیام سے قبل صوبہ سرحد میں کبھی کسی جماعت کا پبلک طور پر جلسہ نہیں ہوا تھا.چنانچہ ۱۹۲۰ء میں لندن مسجد کے چندہ کی وصولی کے لئے ایک وفد بہ سر براہی سید بشارت احمد صاحب وکیل آف حیدر آباد دکن اور ان کے بڑے بھائی سید سعادت احمد صاحب تشریف لائے.ان کی آمد پر ہم نے ایک جلسہ تجویز کیا اور عام منادی کرا دی.یہ صوبہ سرحد میں پہلا جلسہ تھا جو ہم نے کیا.لوگ کثرت سے جمع ہو گئے.مرکز سے بھی کئی علماء اس وفد کے ساتھ شامل تھے.تقاریر کا بہت اچھا اثر ہوا.لوگ احمد یہ جماعت کے مداح ہو گئے اور چند ایک نے بیعت بھی کی.اس پر مخالفت کا جوش پیدا ہو گیا اور چند غیر احمدیوں کی طرف سے ہمیں مباحثہ اور مناظرہ کا چیلنج دیا گیا.ہماری طرف سے مولوی ظہور حسین فاضل اکیلے تھے اور فریق مخالف کے پاس کئی مولوی اور سجادہ نشین تھے.ختم نبوت موضوع مباحثہ تھا.غیر احمدی مولوی صاحب کے مقابل عاجز آگئے اور لوگوں پر کافی اثر ہوا.اگلے دن نوشہرہ کے چند طلباء نے ہمیں دعوت دی کہ مولوی صاحب کو ساتھ لے

Page 169

تاریخ احمدیت.جلد 27 159 سال 1971ء کر ہمارے بورڈنگ میں آئیں.دعوت رات کے وقت تھی.کئی لوگوں نے ہمیں منع کیا کہ رات کے وقت نہیں جانا چاہیے کیونکہ پٹھانوں کی قوم اعتبار کے لائق نہیں.ممکن ہے کہ اپنے مولویوں کی خفت مٹانے کے لئے کوئی نقصان پہنچا ئیں چنانچہ میں ایک اور دوست مولوی صاحب کو ہمراہ لے کر رات کے وقت چھاؤنی سے ایک میل باہر دعوت پر چلا گیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے سپرد کرتے ہوئے روانگی سے قبل خوب دعا کر لی.ہم دعوت سے فارغ ہو کر بازار میں پھرتے رہے.چند مولوی صاحبان بھی ملے اور بخیریت رات کے گیارہ بجے کے قریب واپس آگئے.اسی نوشہرہ شہر کے ایک دوست سید ایوب شاہ صاحب بی اے نے بیعت کی.جو نہایت مخلص تھے اور تھوڑے عرصہ میں انہوں نے اخلاص میں نہایت ترقی کی.ایک ان کے پھوپھی زاد بھائی محمد علی تھے جن کو انہوں نے بڑی تبلیغ کی تھی مگر وہ احمدی سلسلہ میں ان کی تبلیغ سے داخل نہ ہوئے.یہ وہی محمد علی ( نوشہروی ) ہیں جو مستریوں کے مقدمہ میں گورداسپور میں پھانسی پاگئے تھے 85.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو اپنے قرب و جوار میں جگہ دے.ایک رات دسمبر کے دنوں میں رات کے ایک بجے جبکہ بجلی چمک رہی تھی اور سخت اندھیری رات تھی بوندا باندی بھی ہو رہی تھی محمد علی صاحب مرحوم و مغفور میرے مکان پر تشریف لائے.فرمانے لگے کہ میاں ایوب شاہ صاحب نے بھیجا ہے ان کی بیوی سخت بیمار ہے اس کا آپ نے علاج کرنا ہے.میں نے بیماری کا پوچھا مگر وہ نہ بتلا سکے.میں نے کہا کہ آپ دریائے کابل کے کنارے پل کے پاس فلاں جگہ بیٹھ کر میرا انتظار کریں میں کپڑے پہن کر ابھی آتا ہوں.چنانچہ جب میں وہاں پہنچا تو محمد علی صاحب با وجود تلاش کرنے کے نہ ملے.راستہ خطر ناک تھا.پٹھانوں کے ملک میں چھاؤنی سے باہر ایک قدم رکھنا بھی خطر ناک تھا.چنانچہ طبیعت نے پس و پیش کیا مگر اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہو کر دعا کر کے میں نے پل پار کر لیا اور اصل راستہ چھوڑ کر کھیتوں میں سے ہوتا ہوا، بھیگتا ہوا میاں ایوب شاہ صاحب کے گھر پہنچ گیا.معلوم ہوا کہ ابارشن ہو گیا تھا اور بلیڈنگ بند نہیں ہوتی.میرے پاس اس وقت تو کوئی دوا نہیں تھی میں نے کہا کہ کہیں سے افیم پیدا کریں.انہوں نے کہا کہ چرس تو عام مل جاتا ہے مگر افیم کا ملنا آسان نہیں.تلاش کرنے پر تھوڑی مقدار افیم کی مل گئی.ایک گرین افیم دینے سے بلیڈنگ میں کچھ کمی واقع ہوگئی.ایک گرین صبح دینے میں بلیڈنگ سٹاپ ہو گئی.محمد علی صاحب مرحوم و مغفور بھی آگئے.معذرت کی کہ میں ایک جگہ سو گیا تھا اس لئے مل نہ سکا.اس کے دوسرے دن انہوں نے بیعت کا خط بھیج دیا.میاں ایوب شاہ صاحب نے پوچھا کہ میری تبلیغ

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد 27 160 سال 1971ء کا تو کوئی اثر نہ ہوا اب کیا بات سمجھ میں آگئی.محمد علی صاحب مرحوم و مغفور نے بتلایا کہ ڈاکٹر صاحب کا ایک بجے رات آنا.اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا اور پھر ان کے آنے پر معجزانہ طور پر بیماری کا صحت یاب ہو جانا ان باتوں نے میرے دل پر اثر کیا کہ یہ جماعت کوئی دنیا وی رنگ نہیں رکھتی ضرور اس جماعت کے ساتھ خدا کا ہاتھ ہے.اس لئے ڈاکٹر صاحب کے ایثار کو دیکھ کر میں نے بیعت کر لی.پھر وہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے جماعت کے ایسے شہیدوں میں شامل ہو گئے جو احمدیت کی تاریخ میں ایک درخشاں مقام رکھتے ہیں.سال ۱۹۲۳ء میں ہجرت موومنٹ جاری تھی لوگ عدم تعاون پر کار بند تھے اور قافلہ در قافلہ کابل کو جارہے تھے.خصوصاً پٹھان آبادی میں ہجرت کا زیادہ زور تھا.نوشہرہ میں ایک اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن فشر تھے جو ایک پادری کے لڑکے تھے.ان کی ڈیوٹی تحریک ہجرت پر لگی ہوئی تھی وہ نوشہرہ سے باہر چراٹ کے مقام پر تھے.میرے پاس کچھ انگلش لٹریچر تھا.میں نے ایک فارورڈ نگ لیٹر ٹائپ کیا اور انگلش لٹریچر کی ایک ایک کاپی اسٹیشن کے بڑے بڑے ملٹری افسروں کو بھیج دی.ایک کاپی میں نے کیپٹن فشر اسسٹنٹ کمشنر کو بھی بھیجی.ملٹری افسروں میں سے تو کسی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.کیپٹن فشر صاحب نے چراٹ سے خط بھیجا کہ میں اس وقت ہجرت موومنٹ کی وجہ سے سخت مشغول ہوں.آپ کا لٹریچر پہنچا.شکریہ.میں جب نوشہرہ آؤں تو آپ مجھے ضرور ملیں.آخر وہ ایک دن نوشہرہ آگئے اور مجھے بلا بھیجا.مجھ سے کسی کتاب کا مطالبہ کیا.میں نے قرآن کریم کا پہلا پارہ جو حضرت مفتی صاحب نے مدراس رہ کر طبع کروایا تھا وہ اور حضرت خلیفۃ المسیح کی ایک کتاب ٹیچنگ آف اسلام پڑھنے کے لئے دے دی.انہوں نے پہلے پارہ اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام“ کا خوب مطالعہ کیا.مجھے بلایا کہ آؤ میرے ساتھ آ کر بیٹھو.میں ان کے بنگلہ پر پہنچا.مجھے اپنے ڈرائنگ روم میں لے گئے.پہلا سوال انہوں نے یہ کیا کہ میں نے آپ کی کتب اور قرآن شریف کا خوب مطالعہ کیا ہے آپ کا دعوی ہے کہ سب مذاہب کے لیڈر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ان کی تعلیم اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہاما تھی اور سب مذاہب راستی پر ہیں.اب جبکہ سب مذاہب راستی پر ہیں مانا کہ اسلام کا راستہ نہایت قریب کا راستہ ہے اور باقی دوری پر واقع ہیں.ایک مسلمان اسلام پر عمل کر کے جلد خدا تعالیٰ کے قریب پہنچ جاتا ہے ایک عیسائی کے لئے دور کا راستہ ہے ایسا ہی ہندو مذہب کے رشی ایک بہت دور کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں.ایسے ہی یہودی اور پارسی ہیں.آپ مجھے کیوں اسلام کی دعوت دیتے ہیں جبکہ میں ایک بچے مذہب کا پیرو ہوں.مانا کہ آپ اپنا راستہ

Page 171

تاریخ احمدیت.جلد 27 161 سال 1971ء جلدی طے کرلیں گے مگر میں بھی آخر آج نہیں کل یا بدیر اپنا راستہ طے کر کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرلوں گا.میں نے جواب دیا کہ جو چل رہا ہو اس کے کبھی پہنچنے کی امید ہوسکتی ہے مگر جو چلنے سے رہ گیا اور بیٹھ گیا وہ کس طرح منزل مقصود پر پہنچ سکتا ہے.میں نے ہندو مذہب جو قدامت میں سب مذاہب سے آگے ہے پیش کیا کہ اس کے خاص و عام دنیا پر گر گئے اور منزل مقصود کو چھوڑ بیٹھے.ایسے ہی یہودی، پارسی وغیرہ وغیرہ اپنی اعلی تعلیم کو چھوڑ چکے اور منزل مقصود سے دور ہو گئے.اب عیسائی مذہب کو لیں کیا وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی راہ کی پیروی کر رہے ہیں.لوتھر (اصل پولوس) نے کہا ہے کہ شریعت لعنت ہے.اب شریعت تو ایک راستہ ہے اور اس کو لعنت سمجھ کر انسان اپنی منزل مقصود سے بہت دور جا پڑتا ہے.غرضیکہ بہت بحث کے بعد اس کو تسلیم کرنا پڑا کہ اسلام سچا مذہب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے گئے ہیں.اس نے کہا کہ میں صدق دل سے کلمہ پڑھتا ہوں.حضرت محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت مسیح علیہ السلام پر ایمان لاتا ہوں آج کے دن میرے ایمان پر آپ گواہ بنیں.مگر ابھی میرے متعلق کسی کے پاس اظہار نہ کرنا یہ تاکید ہے.الحمد للہ کہ میری ناچیز محنت کا مجھے پھل مل گیا.ثم الحمد للہ اس کے بعد میں کرنیل ریگھ اے سی.آر.ای (اسسٹنٹ کمانڈنگ رائل انجینئر ) نوشہرہ ایریا کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ میں نے آپ کو لٹریچر بھیجا تھا آپ نے غالباً پڑھا ہوگا.اس نے کہا کہ میں پڑھ رہا ہوں.کچھ پمفلٹ لا کر مجھے دیئے.فرمایا کہ میں نے پونا میں طبع کروائے تھے آپ مطالعہ کریں.میں نے پمفلٹ لے لئے.میری اور کرنل صاحب کی خط و کتابت ان کے لنڈن پہنچنے تک جاری رہی وہ میری تنقید میں بڑی دلچسپی لیتے تھے.ایک دن ہمارے کنٹونمنٹ بورڈ کے ایگزیکٹو آفیسر کپتان واریٹ صاحب مجھے ملے اور فرمانے لگے کہ آپ جی.اوسی نوشہرہ برگیڈ کے پاس گئے ہیں انہوں نے مجھے ہدایت کی ہے کہ احمد یہ جماعت کو مسجد بنانے کے لئے زمین دی جائے.معاملہ یوں ہوا کہ عید الفطر کے دن میں کپتان فشر صاحب کے پاس گیا انہوں نے عید مبارک دی اور فرمایا کہ نماز کہاں پڑھی ہے.میں نے کہا کہ کمپنی باغ میں نماز پڑھی ہے.کہنے لگے کہ کیا آپ کی کوئی مسجد یا کلب نہیں ہے.میں نے کہا کہ غیر احمدی ہمیں اپنی مساجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے.ہم خدا کی زمین پر جہاں جگہ ملے نماز پڑھ لیتے ہیں.انہوں نے جنرل آفیسر کمانڈنگ نوشہرہ برگیڈ سے ملاقات کی اور کہا کہ نوشہرہ چھاؤنی میں احمد یہ جماعت ہے جو پرامن جماعت ہے انہیں مسجد بنانے

Page 172

تاریخ احمدیت.جلد 27 162 سال 1971ء کے لئے کوئی پلاٹ دیا جائے.چنانچہ فشر صاحب نے سلسلہ احمدیہ کی تعلیم بھی جی.اویسی کے پاس بیان کی.جی.اور سی نے ایگزیکٹو آفیسر کو حکم دیا کہ محمد عبد اللہ کو ہمراہ لے کر جہاں وہ پسند کریں انہیں زمین دی جائے.چنانچہ میں نے ایگزیکٹو آفیسر کے ہمراہ ہو کر جی ٹی روڈ پر مسلم ہائی سکول اور مسلم کلب کے برابر سڑک کے جنوبی جانب ایک پلاٹ پسند کیا.مگر ایگزیکٹو آفیسر نے کہا میں اسے پسند نہیں کرتا.کوئی دوسری جگہ دیکھیں.پھر ہم مارکیٹ کے پاس گئے وہاں ایک جگہ دیکھی مگر ایگزیکٹو آفیسر صاحب نے پسند نہ کی.کہا کہ یہاں تو دن رات شور وغو غار ہتا ہے آپ کو عبادت میں سکون کیسے حاصل ہوگا.اس کے بعد میں نے کہا کہ اب جہاں آپ پسند کریں گے ہم منظور کر لیں گے.چنانچہ اڈہ تانگہ کے پاس ہمیں لے گئے جو صدر بازار سے شرقی جانب تھا.وہاں ۲۰۰ فٹ لمبی اور ۶۹ فٹ چوڑی جگہ ہمیں دے دی اور نقشہ بنانے کا حکم دیا کہ وہ نقشہ جی.اویسی کے پاس منظوری کے لئے بھیجا جائے.بعد مشورہ ہم نے ایک نقشہ تیار کروایا.جس میں ریڈنگ روم، لیکچر ہال، مسجد ، مہمان خانہ وغیرہ ظاہر کیا گیا.جی.اویسی نے اس نقشہ کو پسند کیا اور فرمایا کہ جب تم اس بلڈنگ کی بنیا درکھو تو مجھے اطلاع دینا.یہ نقشہ منظور ہو گیا.اب اے سی.آر.ای (اسسٹنٹ کمانڈنگ رائل انجینئر ) کی رپورٹ باقی تھی.کرنیل ریگھ جو میرے دوست بن چکے تھے تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ میں اس جگہ کو پسند نہیں کرتا.کیونکہ بارش کے دنوں میں پانی آجایا کرتا ہے اگر آپ زیادہ سے زیادہ بھی کرسی اونچی رکھیں تو بھی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.اس نے ایک نشان بتلایا کہ پانی کا لیول یہاں تک پہنچ جایا کرتا ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کا نقشہ منظور ہے مگر سائیٹ (Site) تبدیل کر لیں.چنانچہ ان کے ایما پر ایک اونچی جگہ تجویز کی گئی اور کنٹونمنٹ بورڈ کی منظوری کے لئے آئندہ آنے والے اجلاس کے لئے رکھ دی گئی.اس اثنا میں میں نے چندہ کے لئے مختلف جگہ خط لکھے.چنانچہ ایک چیک ۲۵۰ روپے کا ہمیں موصول ہو گیا جو ایک نیک فال تھا.مسجد کا اکاؤنٹ امپریل بنگ میں کھول دیا گیا.اس اثنا میں میرے والد صاحب کا تار ملا کہ سخت بیمار ہیں مجھے نوشہرہ ککے زئیاں جلد پہنچنا چاہیے چنانچہ میں نے متعلقہ کا غذات نقشہ وغیرہ شیخ احمد اللہ صاحب کے حوالے کئے.میرے والد صاحب فوت ہو گئے کچھ عرصہ بعد گھر سے واپس آیا یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ میرے جانے کے بعد پہلے سب آفیسر تبدیل ہو گئے اور مخالف ممبروں کی مخالفت کے باعث جماعت کو منظور شدہ جگہ سے دستبردار ہو کر نئی جگہ کے لئے درخواست دینا پڑی جو نا منظور ہو گئی.

Page 173

تاریخ احمدیت.جلد 27 163 سال 1971ء دسمبر ۱۹۲۹ء میں میں کنٹونمنٹ بورڈ کی ملازمت سے فارغ ہوا.ستمبر ۱۹۳۰ء میں سرگودھا آگیا جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری پریکٹس چھ ماہ کے عرصہ میں اچھی چل نکلی.سرگودھا میں ساڑھے چارسال قیام رہا.۱۹۳۴ء میں کئی وجوہات کے باعث مجھے سرگودھا چھوڑنا پڑا اور سیالکوٹ کی طرف ہجرت کر لی اور رنگپورہ میں پریکٹس شروع کر دی ان دنوں احرار موومنٹ کا زور تھا اور سیالکوٹ ان کا مرکز تھا.لوگ میرے مخالف ہو گئے اور بیماروں کو آنے سے روک دیا.ناچار میں نے ستمبر ۱۹۳۵ء میں قلعہ صو با سنگھ نز دگھٹیالیاں میں بود و باش اختیار کر لی جہاں میں اب تک رہ رہا ہوں.36 حضرت ڈاکٹر صاحب بڑی حسین و جمیل طبیعت کے مالک، تہجد گزار اور صابر و شاکر بزرگ تھے.ایک عرصہ تک جماعت احمدیہ قلعہ صو با سنگھ ضلع سیالکوٹ کے پریذیڈنٹ رہے.37 اولاد: آپ کا ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں تھیں.ڈاکٹر رحمت اللہ صاحب.مریم بیگم صاحبہ زوجہ رحمت اللہ شاکر صاحب سیالکوٹ.اقبال بیگم صاحبہ زوجہ خان بشیر احمد خاں صاحب سمن آباد لاہور آپ مکرم زرتشت منیر صاحب نیشنل امیر جماعت ناروے کی والدہ تھیں ).رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک حبیب اللہ صاحب کیپیٹل پارک اردو بازار لاہور.صفیہ بیگم صاحبہ زوجہ مولوی عبد الکریم صاحب کنری سندھ.رفیعیہ بیگم صاحبہ زوجہ میاں عبدالمجید صاحب فیصل آباد.حضرت چوہدری الہی بخش صاحب ولادت: تقریباً ۱۸۷۰ء تحریری بیعت : انداز ا۱۹۰۷ء وفات: ۲۴ جون ۱۹۷۱ء چوہدری الہی بخش صاحب آف ملسیاں تحصیل زیرہ ضلع فیروز پور ساکن چک R-170/10 تحصیل خانیوال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے اور تا زندگی اس پر قائم رہے.صوم وصلوٰۃ کے پورے پابند اور تقویٰ شعار تھے، تلاوت قرآن کے با قاعدہ عادی تھے.38 تقسیم ہند کے دوران آپ کی اہلیہ بھاگ بی بی صاحبہ، دو بیٹے حبیب اللہ صاحب ، محمد سلطان صاحب، ایک بہو زینب صاحبہ اہلیہ حبیب اللہ صاحب ، دو پوتے برکت علی صاحب ابن کفایت اللہ صاحب، شفیع محمد صاحب ابن محمد سلطان صاحب اور ایک پوتی بشیراں بی بی صاحبہ بنت محمد سلطان صاحب کو نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا تھا.دو شہید بیٹوں کے علاوہ آپ کی باقی اولا د درج ذیل ہے: کفایت اللہ صاحب.ہدایت اللہ صاحب.عائشہ صاحبہ زوجہ شیر علی صاحب.خاتون بیگم صاحبہ زوجہ خلیل احمد صاحب.زینب بی بی صاحبہ زوجہ عبداللہ صاحب

Page 174

تاریخ احمدیت.جلد 27 حضرت خدیجہ بیگم صاحبہ 164 ولادت: ۱۸۷۳ء بیعت : ۱۸۹۸ ء وفات : ۱۱ جولائی ۱۹۷۱ء سال 1971ء آپ حضرت خان بہادر غلام محمد خان صاحب لگتی کی اہلیہ تھیں.احمدیت سے والہانہ اخلاص رکھتی تھیں.آپ کا تعلق بھیرہ سے تھا.آپ بہت نیک علیم المزاج اور دلیر خاتون تھیں تقسیم ہند کے موقع پر اپنی بیٹیوں کے ساتھ احمدی عورتوں کو بندوق چلانے کی تربیت دیتی رہیں.قادیان کے قرب وجوار میں سکھ لٹیروں کو مار بھگانے میں آپ نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا.سید نا حضرت مصلح موعود نے ایک بار انہیں اپنی ایک تقریر میں اپنے زمانہ کی ایک بہادر عورت قرار دیا تھا.سلور جوبلی ۱۹۳۹ ء کے ضمن میں ” لوائے احمدیت کے لئے جن خوش نصیب خواتین احمدیت کو دار مسیح میں سوت کاتنے کی سعادت حاصل ہوئی ان میں آپ بھی شامل تھیں.39 آپ نے اپنے بچوں کی بہت اعلیٰ نمونے سے تربیت کی اور انہیں نیکیوں کی ترغیب دی.تقسیم ہند کے بعد آپ ملتان میں رہیں، آخری عمر میں بھیرہ میں سکونت پذیر ہوگئیں.لیکن وفات ربوہ میں ہوئی.40 اولاد آپ کو خدا تعالیٰ نے کثرت نفوس کی نعمت سے بھی نوازا تھا.آپ کے تین بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھیں جن کے اسماء درج ذیل ہیں.محمد یوسف خاں صاحب ایڈووکیٹ محمد بشیر خاں صاحب.محمد ابراہیم خاں صاحب لاہور.رسول بی بی صاحبہ زوجہ ماسٹر مبارک اسماعیل صاحب.صغراں بی بی صاحبہ زوجہ ڈاکٹر عنایت اللہ شاہ صاحب لاہور.حمیدہ بیگم صاحبہ زوجہ مسعود احمد رشید صاحب لاہور.آمنہ بیگم صاحبہ زوجہ ہادی علی خاں صاحب ابن حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر.اقبال بیگم صاحبہ زوجہ محمد اکبر خاں صاحب ( یہ اخوند فیاض احمد صاحب کے والد تھے ).خورشید بیگم صاحبه زوجه سراب احمد خاں صاحب دہلی.عقیلہ بیگم صاحبہ زوجہ میاں فضل کریم صاحب وہرہ چنیوٹ.رضیہ بیگم صاحبہ زوجہ میاں عبدالقیوم صاحب وہرہ چنیوٹ.حضرت سراج بی بی صاحبہ ولادت : ۱۹۰۱ء بیعت پیدائشی احمدی وفات : ۲۷ جولائی ۱۹۷۱ء

Page 175

تاریخ احمدیت.جلد 27 165 سال 1971ء حضرت سراج بی بی صاحبہ، صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام و درویش قادیان حضرت سید فقیر محمد صاحب آف خوست (ولادت ۱۸۸۰ ء.بیعت ۹۸ - ۱۸۹۷ء.وفات ۶ نومبر ۱۹۶۲ء) 41 کی صاحبزادی، حضرت ڈاکٹر بدرالدین صاحب مجاہد بور نیو کی اہلیہ اور محترم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم اے سابق مبلغ نائیجیر یا واستاذ جامعہ احمد یہ ربوہ کی والدہ ماجدہ تھیں.آپ کو اوائل عمر میں اپنے والد بزرگوار کے ہمراہ افغانستان سے قادیان جانے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے کا شرف حاصل ہوا.بہت نیک مخلص اور عبادت گزار خاتون تھیں.اپنے محترم خاوند حضرت ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب مرحوم کے ہمراہ جن کی زندگی عملاً سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف تھی مشرقی افریقہ اور پھر بور نیو میں تبلیغ دین اور خدمت سلسلہ میں ہمیشہ پیش پیش رہیں.۱/۸ کی وصیت کی ہوئی تھی اور ابتدائی موصیات میں سے تھیں.سلسلہ کی قریباً ہر مالی تحریک میں ذوق وشوق سے حصہ لیتی تھیں.دعاؤں میں گہرا شغف تھا اور اللہ تعالیٰ نے رؤیا و کشوف کی نعمت سے بھی نوازا تھا.حضرت سراج بی بی صاحبہ نے ۱۰ مارچ ۱۹۳۸ء کو اپنے میاں حضرت ڈاکٹر بدرالدین صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے چشم دید واقعات لکھوا دیئے تھے جو ان کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں." بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم عاجز کی اہلیہ بنام سراج بی بی ( دختر سید فقیر محمد صاحب افغان یکے از شاگردانِ حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم علیہ الرحمہ ) صحابیہ ہیں.ان معنوں میں کہ بچپن میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنا اور حضور کا زمانہ یاد ہے.مندرجہ ذیل باتیں حضور کے زمانہ کی انہیں یاد ہیں.ان کی عمر اس وقت چھ سات برس کی ہوگی.یہ بیان انہوں نے مجھے لکھوایا ہے.(۱) ''ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تنہا باغ میں اس راستہ پر چہل قدمی فرما رہے تھے جو آموں کے درختوں کے نیچے جنوباً شمالاً واقع ہے.اور ایک کنویں کے متصل (جواب متروک ہے ) ایک دروازہ کے ذریعہ جناب مرزا سلطان احمد صاحب کے باغ میں کھلتا ہے.میں بھی حضور کے پیچھے پیچھے چلتی تھی اور جہاں جہاں حضور کا قدم پڑتا تھا بوجہ محبت کے انہی نقشوں پر میں بھی

Page 176

تاریخ احمدیت.جلد 27 166 سال 1971ء قدم رکھتی جاتی تھی.مجھے یہ پتہ تھا کہ ایسا کرنے میں برکت حاصل ہوتی ہے.میری آہٹ کی وجہ سے حضور نے مڑ کر دیکھا اور میری طرف رخ کر کے ایک نظر سے مجھے بغور دیکھا اور پھر حضور ٹہلنے لگ گئے.(۲) ایک مرتبہ میری والدہ صاحبہ مجھے لے کر حضرت صاحب کے گھر میں گئیں.حضور علیہ السلام لیٹے ہوئے تھے میں حضور کے سر کی طرف بیٹھ کر حضور کے باز و دباتی رہی.حضور کے بازو پر سے کپڑا ہٹا ہوا تھا.(۳) ایک مرتبہ مجھے یاد ہے کہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف کی سڑک پر سیر کے لئے جارہے تھے جدھر اب دارالا نوار ہے.حضور کے ساتھ کافی مجمع تھا.حضور بڑی تیزی سے چلتے تھے.پیچھے پیچھے غبار اٹھ رہا تھا.میں بھی محبت و اخلاص کے ساتھ اس راستہ پر کچھ دور تک پیچھے پیچھے (۴) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے متعلق مجھے اتنا احساس یاد ہے کہ ہم بڑے چھوٹے سب خوش خوش رہا کرتے تھے.نمازوں اور تلاوت وغیرہ میں مشغول ہوتے تھے اور حضرت صاحب کے گھر آیا جایا کرتے تھے.خوشی غالب رہتی تھی اور کوئی فکر نہ ہوتا تھا“.(۵) ”مجھے وہ نظارہ بھی یاد ہے جب میرے والد بزرگوار ہم سب کو لے کر امیر کابل کے ظلم سے بچنے کے لئے راتوں رات ہجرت کیلئے روانہ ہوئے تھے.ہمارا وہاں کافی سامان ہوتا تھا.گائے بکریاں اور غلہ مجھے یاد ہے.با فراغت تھا مگر ڈر کی وجہ سے سب سامان و ہیں چھوڑ دیا تھا.صرف بستر ساتھ تھے.میری نانی اماں صاحبہ مرحومہ نے میرے سر پر کپڑا باندھا اور جیب میں کچھ پھل ڈالے.ساری رات جنگل کا سفر کیا صبح کے وقت طلوع شمس کے بعد ہم سرحد پر پہنچے.جہاں افغانی اور انگریزی حدود کے نشان نصب ہیں.وہاں میرے ابا جان ٹھہر گئے اور ہاتھ اٹھا کر سب نے بطور شکرانہ دعا کی کہ ظالم بادشاہ کی حدود سے اللہ تعالیٰ نے نجات دی.مندرجہ ذیل دو واقعات حضرت خلیفہ اول کے زمانہ سے متعلق ہیں مذکورہ بالا ہجرت کے بعد یہ خاندان پھر واپس چلا گیا تھا اور مندرجہ ذیل واقعات دوبارہ آنے کے بعد کے ہیں.(۱) ہم حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے گھر میں کثرت سے آیا جایا کرتے تھے اور میں فرط اخلاص سے حضور کے گھر میں جھاڑو دیتی تھی.وضو کے لئے لوٹے میں پانی ڈال کر دیتی اور پاؤں دبایا

Page 177

تاریخ احمدیت.جلد 27 167 سال 1971ء کرتی.حضور ہم بچوں کے ساتھ باپ سے بھی بڑھ کر محبت کرتے.ایک دفعہ اماں جی ( یعنی حرم حضرت خلیفہ اول نے ناراضگی سے مجھے کچھ کہا.تو میں نے کہا اب میں ابا جی ( یعنی حضرت مولوی صاحب) کے گھر نہیں آؤں گی.چنانچہ دو دن میں نہ گئی تیسرے روز گئی اور حضور نگے سر تکیہ لگائے ہوئے لکھ رہے تھے.میں پاس کھڑی تھی تو آنکھ اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ اچھا اب تم ہمارے گھر نہیں آؤ گی.یہ فقرہ بہت ہی محبت سے فرمایا.مجھے ان کی محبت پر تعجب ہوا.کہ اتنی عورتوں اور بچوں کے اثر دہام میں مجھ بچی کو کس محبت سے یا د فرمایا“.(۲) ''ایک مرتبہ میں حضور کے پاس کھڑی تھی.حضور نے مجھے چند اخباروں میں سے بدر اور نور الگ الگ کرنے کا ارشاد فرمایا.یہ کام کرنے کے بعد حضور کے ایک رومال پر میری نظر پڑی میں نے چاہا کہ اسے صاف کر دوں.اُسے اٹھانے کے لئے میں نے بہت سوچا کہ حضور کے علم کے بغیر اٹھایا جاسکتا.مگر ایسا نہ ہو سکا.تو میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے رومال پکڑا دیجئے.حضور نے رومال پکڑا دیا اور پھر میں نے صابن سے اچھی طرح دھویا اور جلدی جلدی ہلا کر سکھایا اور سکھانے کے بعد عمدہ تہ لگا کر حضور کو دیدیا.تب حضور نے اپنا کام چھوڑ کر ہاتھ اٹھا کر مجھ ناچیز بچی کیلئے دعا کی.میں نے بہت خوشی کے ساتھ گھر میں اپنی والدہ صاحبہ سے یہ واقعہ سنایا.تب وہ بھی حضرت کے گھر میں آئے اور بہت سے رومال وغیرہ صاف کئے اور حضور نے انہیں جزاک اللہ فرمایا“.یہ بیان عاجز نے رقم کیا.خاکسار ڈاکٹر بدرالدین احمد عفی اللہ عنہ ۳۸-۳-۱۰ یہ بیان میں نے لکھوایا.سراج بی بی ۳۸-۳-۱۰ 42 آپ کی بیٹی محترمہ امتہ العزیز ادریس صاحبہ ربوہ تحریر فرماتی ہیں:.” میری والدہ مکرمہ سراج بی بی صاحبہ بیگم حافظ ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب مرحوم کو سات آٹھ سال کی عمر میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زیارت نصیب ہوئی تھی.اپنے والدین کے ساتھ قادیان میں انہیں متعدد بار حضور کی زیارت یاد تھی.حضور کی زیارت کے واقعات آپ کے سرمایۂ زندگی تھے اور ہمیں بچپن سے ہی اکثر یہ واقعات سناتیں اور اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر کر کے چشم پرنم ہو جاتیں کہ جس نے ایک دُور دراز کے ملک سے اٹھا کر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زیارت کی سعادت نصیب فرمائی.میری والدہ ۱۸۹۹ ء یا ۱۹۰۰ ء میں افغانستان کے ایک گاؤں اریوب“ کے ایک سید گھرانہ میں

Page 178

تاریخ احمدیت.جلد 27 168 سال 1971ء پیدا ہوئیں.جہالت کے اس زمانہ میں والدہ صاحبہ کا خاندان پڑھا لکھا اور سیّد ہونے کی وجہ سے علاقے بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا.والدہ صاحبہ کے دادا کے ذریعہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق اطلاع ملی کہ آپ بہت دور ہندوستان میں آئے ہیں.چنانچہ دادا نے فیصلہ کیا کہ ہندوستان جا کر حضرت بانی سلسلہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دستی بیعت کرنی چاہیے.لیکن شہزادہ سید عبداللطیف صاحب کی شہادت کی وجہ سے مخالفت بہت تھی اور دن کے وقت گھر سے نکلنا خطرہ سے خالی نہیں تھا.چنانچہ ایک رات والدہ صاحبہ کا خاندان عازمِ ہندوستان ہوا.بتاتی تھیں کہ میں چھوٹی سی تھی دادی اماں نے میری قمیض کی جیبوں کو خشک میووں سے بھرا.چند انڈے ابال کر وہ بھی ڈالے.اپنے آبائی وطن سے پیدل پہاڑوں اور گھنے جنگلات کو عبور کرتے ہوئے ساری رات چلتے رہے.بار بار پتھروں سے ٹھوکر لگتی اور گر پڑتیں.صبح ہونے تک کافی دور نکل آئے.پھر دن کی روشنی میں ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوئے اور قادیان پہنچے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.کچھ عرصہ قادیان میں حضرت اقدس کی بابرکت صحبت سے فیضیاب ہونے کے بعد اپنے وطن واپس چلے گئے.اس کے بعد جب دوبارہ وہاں سے مکمل ہجرت کر کے مستقل رہائش کی غرض سے قادیان آئے تو حضرت اقدس کا وصال ہو چکا تھا.حضرت مولوی نورالدین صاحب منصب امامت پر فائز تھے.چھوٹی عمر تھی.سارا سارا دن حضرت مولوی صاحب کے گھر آپ کی صاحبزادی حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ کے ساتھ کھیلتی رہتیں اور جب بھی موقع ملتا اپنی عمر کے لحاظ سے حضور کی خدمت کرتی رہیں...۱۹۱۲ ء یا ۱۹۱۳ء کو حضرت فضل عمر کے ایماء پر خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے اپنے بیٹے ڈاکٹر حافظ بدرالدین احمد صاحب کا نکاح میری والدہ سے کر دیا.والد صاحب کی عمر ۱۷ سال تھی اور میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوئے تھے.والدہ چودہ سال کی تھیں.والدہ افغانستان کے ملک سے تعلق رکھتی تھیں.پنجابی زبان بھی پشتو لہجہ میں ہی بولتی تھیں.پنجابی سسرال میں رہنا جبکہ والد میڈیکل کی تعلیم کے سلسلہ میں اکثر و بیشتر لا ہورہی میں قیام پذیر ہوتے.ماحول میں زمین و آسمان کا فرق.بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن اپنے شو ہر محترم سے کبھی کسی قسم کی تکلیف کا اظہار نہ کیا اور یہ شادی اللہ کے فضل سے بہت کامیاب رہی.دونوں بہت دیندار، در دوالحاح سے اللہ کے حضور دعائیں کرنے والے، تہجد کی نماز کے لئے ایک دوسرے کو اٹھانے والے، خدمت دین اور داعی الی

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد 27 169 سال 1971ء اللہ کے جذبہ سے سرشار تھے.میں نے اکثر دیکھا کہ اگر والد صاحب کبھی علیل ہوتے تو والدہ کی طبیعت بھی مضمحل ہو جاتی اور باقاعدہ بیمار ہو جاتیں.ایک بار۱۹۳۷ء میں جب والد صاحب جماعت کراچی کے پریذیڈنٹ تھے، جلسہ پر قادیان آئے اور شدید بیمار ہو گئے.دونوں پھیپھڑے نمونیا سے سخت متاثر ہوئے.والدہ صاحبہ اور بچے کراچی میں تھے.فوری طور پر ہمیں قادیان بلوایا گیا.والدہ صاحبہ کوکوئی ہوش نہیں تھی.دن رات روتیں اور سجدوں میں بیقراری سے دعائیں کرتیں.دن رات تیمار داری کرتیں.اور جب کمرے سے باہر آتیں تو انتہائی بیقراری کے ساتھ سجدے میں گر کر دعائیں کرتیں.قریباً ایک ماہ بعد والد صاحب شفا یاب ہوئے.سب یہی کہتے تھے کہ بیوی نے اللہ تعالیٰ سے انہیں دوبارہ مانگ لیا ہے.اسی طرح افریقہ میں ایک بار والدہ صاحبہ بیمار ہوئیں.انتہائی خطر ناک بیماری تھی اور اس بیماری سے ایک خاتون انہی دنوں فوت بھی ہو گئیں.والد صاحب نے اتنی توجہ سے علاج کے ساتھ والدہ صاحبہ کی دن رات خدمت کی.حضرت فضل عمر کو دعا کے لئے ٹیلیگرام بھجوائے.تین ماہ بستر پر رہیں.الغرض دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے.اپنی شادی کے بارے میں ہمیں بتاتیں کہ بچپن سے ہی یہی دعا کرتیں کہ یا اللہ ایسے گھرانہ میں شادی ہو جہاں ہر وقت اللہ رسول کا ذکر ہوتا رہے.چنانچہ شادی کی پہلی رات کو ہی جب اپنے محترم سر کو دیکھا کہ وہ تہجد کی نماز کے لئے بیدار ہوئے ہیں اور گھر میں روزانہ قرآن مجید کا درس بھی ہوتا ہے تو اللہ کا بہت شکر ادا کرتیں کہ کتنا نیک گھرانہ ہے.حضرت سیدہ امتہ الھی بیگم صاحبہ حرم حضرت فضل عمر سے بہت دوستی اور پیار تھا.گھر کے کاموں سے فارغ ہوکر اکثر حضور کے گھر آئمکر مہ کے پاس چلی جاتیں.اسی طرح ان کی نیک صحبت کے علاوہ حضور اقدس سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہتا.حضرت اماں جان کے ساتھ انتہائی عقیدت اور احترام کے ساتھ عشق کی حد تک پیار تھا.جب تک آئٹمکرمہ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں مل نہ لیتیں قرار نہ پاتیں.حضرت اماں جان بھی والدہ صاحبہ سے بہت شفقت فرماتیں.بیٹیوں کی طرح سمجھتیں اور ہر بات کا خیال رکھتیں.والدہ صاحبہ بتاتی ہیں کہ شادی سے پہلے حضرت اماں جان کی والدہ صاحبہ کے پاس بھی بہت جاتی تھیں.ان کے سر میں تیل ڈال کر کنگھی کرتیں جس پر وہ خوش ہو کر والدہ کو بہت دعائیں دیتیں.والدہ صاحبہ بتاتی تھیں کہ اپنی سب سے بڑی بیٹی کی پیدائش سے قبل دعا کی کہ یا اللہ اگر تو مجھے

Page 180

تاریخ احمدیت.جلد 27 170 سال 1971ء بیٹا دے گا تو اسے دین کی خدمت کے لئے وقف کروں گی اور امریکہ کا داعی الی اللہ بناؤں گی.لیکن جب بیٹی پیدا ہوئی تو اپنی اس دعا کو بھول گئیں.بعد میں حضرت فضل عمر نے خود اپنی مرضی سے امریکہ کے داعی الی اللہ صوفی مطیع الرحمن صاحب سے اس بیٹی کی شادی طے کر دی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو سنا اور بیس سال کے بعد اس کی قبولیت ظاہر فرما دی.چنانچہ ہمشیرہ صاحبہ کو ایک لمبا عرصہ امریکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ رہ کر خدمت دین کی توفیق ملی.بعد میں بڑے بیٹے شیخ نصیر الدین احمد صاحب نے مولوی فاضل اور شاہد کی ڈگری لینے کے بعد BSC، ایم اے عربی اور صحافت میں ڈگری لے کر ایک لمبا عرصہ مغربی افریقہ میں خدمات سرانجام دیں.بڑی بیٹی نے امریکہ میں اپنے شوہر کے ساتھ اور خاکسارہ نے نارتھ بور نیو میں پہلے والد صاحب کے ساتھ پھر شوہر کے ساتھ خدمت دین کی سعادت حاصل کی.والد صاحب میڈیکل کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مع اہل و عیال افریقہ تشریف لے گئے.چھ سات سال وہاں رہیں.ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش تھی لیکن والدین دونوں ہی باقاعدگی سے دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف رہے.جہاں بھی رہتیں ہمسایوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات رکھتیں اور غیر از جماعت خواتین کو اپنی جماعت سے متعارف کراتی رہتیں.کراچی سے والد صاحب یورپ اور افریقہ چلے گئے والدہ کئی سال بچوں کی نیک تربیت اور تعلیم کی خاطر قادیان میں ہی رہتیں.قادیان کے محلہ دارالشکر میں ایک لمبا عرصہ لجنہ کی سیکرٹری رہیں اور کچھ عرصہ بطور صدر کے بھی خدمت کی توفیق انہیں ملی.انہیں حضرت بانی سلسلہ حضرت اماں جان اور خاندان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے والہانہ عشق تھا.خاندان کے چھوٹے بچوں کا بھی بہت احترام کرتیں اور عقیدت رکھتیں.حضرت فضل عمر کی خدمت میں بہت کثرت سے حاضر ہوتیں.آخری عمر میں اکثر یہ دعا کرتیں کہ اے خدا کسی کا محتاج نہ کرنا.ایک روز بڑی حسرت سے مجھے کہنے لگیں کہ معلوم نہیں ملاقات کب ہوتی ہے.میں نے پوچھا کیسی ملاقات.کہنے لگیں خدا تعالیٰ سے.چند روز بعد ہلکا سا دل کا حملہ (Heart Attack) ہوا....چند روز کے بعد دوسری بار ہوا تو ڈاکٹر نے فوری طور پر ہسپتال داخل کر لیا.چار روز بعد دو پہر کو پھر حملہ (Attack ) ہوا ہم دیکھتے ہی رہ گئے اور وہ تھوڑی ہی دیر میں اللہ کے حضور حاضر ہو گئیں اور سکون سے ابدی نیند سوگئیں“.43 اولاد: ۱- محترمہ امتہ الرحیم عطیہ صاحبہ اہلیہ محترم صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم انچارج

Page 181

تاریخ احمدیت.جلد 27 171 سال 1971ء احمدیہ مشن امریکہ.۲.محترمہ امتہ العزیز صاحبہ اہلیہ مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ انڈونیشیا آفس سیکرٹری لجنہ اماءاللہ مرکزیہ.۳.محترمہ امتہ الکریم صاحبہ لندن.۴.شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم اے واقف زندگی.۵.محترم منیر الدین احمد صاحب سکھر.44 حضرت حشمت بی بی صاحبہ ولادت : ۱۸۹۴ بیعت : ۱۹۰۵ء وفات : ۶ را گست ۱۹۷۱ء آپ مولوی رحمت اللہ منصرم سنگر ور ریاست جیند مشرقی پنجاب کی اہلیہ تھیں.آپ نے ۶ راگست بروز جمعتہ المبارک وفات پائی.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۹۰۵ء میں ان دنوں میں کی جب حضور سفر دہلی سے واپسی پر بمقام لدھیانہ قیام فرما ہوئے.آپ بیان فرماتی تھیں کہ حضرت اقدس دو پہر کے وقت بذریعہ ریل گاڑی لدھیانہ پہنچے تھے.اسی شام مغرب کی نماز سے کچھ دیر بعد عاجزہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام اس وقت پلنگ پر تشریف فرما تھے.سر پر رومی ٹوپی اور سفید لباس زیب تن تھا.بیعت کے لئے دس بارہ کے قریب عورتیں موجود تھیں.حضور اقدس نے بیعت کرنے والی عورتوں سے دریافت فرمایا کہ بیعت کے الفاظ اردو میں کہلائے جاویں یا پنجابی زبان میں.اس پر چند عورتوں نے پنجابی زبان کی درخواست کی.چنانچہ حضور الفاظ بیعت بولتے جاتے تھے اور ہم عورتیں انہیں اونچی آواز میں دو ہراتی جاتی تھیں.بیعت کے دوران بہت سی عورتیں حضرت اقدس کی زیارت کی غرض سے کمرے کی کھڑکیوں اور دروازوں میں کھڑی تھیں.بیعت اور دعا کے اختتام پر حضور نے عورتوں کی کثرت اور ان کے اشتیاق زیارت کو دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ آپ گھبرائیں نہیں میں باہر آجاتا ہوں.چنانچہ حضور باہر تشریف لا کر وسط صحن میں کھڑے ہو گئے.اور پانچ سات منٹ وہاں کھڑے رہے.اس کے بعد حضور اسی کمرہ میں جس میں بیعت ہوئی تھی واپس تشریف لے گئے.اگلے روز صبح کو حضور کی تقریر لدھیانہ میں مجمع عام میں ہوئی.یہ تقریر ایک مکان کے آگے کھلی جگہ میں ہوئی.ہم عورتوں نے حضور کی تقریر پاس کے ایک مکان کی چھت پر جھرنوں کے پیچھے بیٹھ کر سنی.حشمت بی بی صاحبہ صوم وصلوٰۃ کی سختی سے پابند تھیں.جب تک صحت نے اجازت دی نفلی روزوں کا اہتمام رکھا.کثیر تعداد میں بچوں کو قرآن کریم پڑھایا.سادہ زندگی اور مسلسل محنت آپ کا شعار تھا.اپنا کام خود اپنے ہاتھ سے کرنے کی عادی تھیں.فقیروں اور سائلوں کو خالی ہاتھ واپس بھیجنا

Page 182

تاریخ احمدیت.جلد 27 172 سال 1971ء نا پسند کرتی تھیں.آپ کی تدفین مقبرہ بہشتی ربوہ میں ہوئی.15 اولاد: غلام احمد قریشی صاحب بہاولپور.اعجاز الحق قریشی صاحب اسلام آباد حضرت حکیم محمد زاہد صاحب ولادت : ۱۸۹۸ء بیعت تحریری: 1901ء 46 دستی بیعت : ۱۹۰۴ ء وفات ۸ /اگست ۱۹۷۱ ء 47 آپ حضرت بدر الدین صاحب ساکن شورکوٹ ضلع جھنگ کے بیٹے تھے.آپ کا بیان ہے کہ میں نے پہلی دفعہ قادیان جانے پر وہاں ڈیڑھ ماہ قیام کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ جبکہ حضور مسقف گلی سے گذر کر سیر کو جاتے تھے سیر کا موقعہ ملا.اسی گلی میں بابا پیغمبر اسنگھ بیٹھا ہوا تھا.ایک دفعہ جبکہ گرمی کا موسم تھا اور بارش نہ ہوتی تھی.لوگوں نے صلوٰۃ استسقاء کے لئے حضور سے کہا.حضور علیہ السلام نے مان لیا.آخر دو پہر سے کچھ پہلے مرد حضرت صاحب کے ساتھ باہر گئے اور ہم حضرت اماں جان والے گروپ میں باغ میں گئے.باغ میں ایک حویلی تھی.باہر سے حضرت صاحب نے حویلی کے اندر حضرت اماں جان کے پاس کچھ ٹوکرے بھجوائے جن میں آم اور آڑو تھے کہ بچوں میں تقسیم کر دئیے جائیں.چنانچہ حضرت اماں جان نے ہم سب بچوں میں ان چیزوں کو تقسیم کیا.بالآ خر حضرت اماں جان کے پاس حضور کا رقعہ آیا کہ بچوں کو لے کر فوراً شہر چلے جائیں.امید ہے سخت بارش ہو گی.چنانچہ ابھی ہم شہر پہنچے ہی تھے کہ سخت بارش شروع ہو گئی اور ہمارے کپڑے بھی بھیگ گئے.جب میں نے بیعت کی اس وقت مجلس میں میرے والد صاحب بھی موجود تھے اور ہم دونوں یعنی میں اور میرے دوسرے بھائی حضرت مولوی نور الدین صاحب کے ساتھ ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے.جب بیعت کا موقعہ بنتا نظر آیا تو میرے والد صاحب نے اونچی آواز سے فرمایا کہ محمد عابد اور محمد زاہد تم دونوں بھی بیعت کر لو.میرے والد صاحب کے اس طرح آواز دینے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہنس پڑے.میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضور فرماویں تو بچوں کے نام تبدیل کر دوں.آپ (حضور) نے فرمایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے طفیل یہ عابد اور زاہد ہو جائیں گے.جب میں رخصت ہونے کے لئے اندر گیا تاکہ حضور سے اجازت حاصل کروں تو دیکھا کہ

Page 183

تاریخ احمدیت.جلد 27 173 سال 1971ء حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے.میری آواز سن کر حضور اٹھ بیٹھے اور حضرت اماں جان سے فرمایا کہ ان کو روٹیاں دو انہوں نے سفر پر جانا ہے.چنانچہ انہوں نے کچھ روٹیاں دیں.ہم ان روٹیوں کو لے کر ملتان آئے اور ان کو تبر کا اپنے احباب میں تقسیم کیا.جب حضور سیر کے لئے تشریف لے جاتے تو ہم بھی حضور علیہ السلام کے تیز چلنے کی وجہ سے ساتھ دوڑتے جاتے تھے.ایک دفعہ سیر کے دوران حضور کی سوٹی پر کسی کا پاؤں آ گیا اور سوئی زمین پر گر گئی لیکن آپ نے اس وقت مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ کس کا پیر حضور کی سوٹی پر آیا تھا.بالآخر کسی دوسرے آدمی نے لپک کر حضور کو سوئی پکڑا دی.حضور نے اس لئے پیچھے مڑکر بھی نہ دیکھا کہ وہ شخص شرمندہ نہ ہو.48 اولاد: محمد اقبال صاحب.حکیم محمود احمد صاحب حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب کو پانگ بلوچ.کنڈ یار و ضلع نوابشاہ ولادت : ۱۸۸۶ء 19 بیعت : ۱۹۰۶ ء 50 وفات : ۱۳ را گست ۱۹۷۱ ء - 51 (بلوچی قوم گوپانگ : رائے بہادر لالہ ہتو رام سی آئی اے ریٹائر ڈاکٹرا اسسٹنٹ کمشنر چیف اسسٹنٹ بلوچستان کی تحقیق کے مطابق بلوچ زبان حلبی میں بادیہ نشین کو کہتے ہیں.جو لوگ ہمیشہ صحرا اور دامن کو ہستان میں خانہ بدوش رہنے والے ہوں ان کو بلوچ کہا جاتا ہے.بلوچ لوگ امامین کے مرید تھے.حادثہ کربلا میں بلوچی امام حسین علیہ السلام کے طرفدار تھے اور یزید کے خوف سے حلب سے کوچ کر کے ہندوستان آگئے.ایک اور روایت کے مطابق سب بلوچ حلب سے نکل کر پہلے کرمان میں آئے.اس وقت سب کا بڑا سر دار العلمش رومی تھا.جو قبیلہ قریش سے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اولاد میں سے تھا).52 کنڈیارو ضلع نوابشاہ میں اصل جائے سکونت ماہی جو بھان گاؤں تھی جو قصبہ کمال کے قریب واقع ہے.حضرت مولوی صاحب کی خود نوشت روایات میں ہے کہ انہوں نے جولائی ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دستی بیعت کا شرف پایا تھا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں اس زمانہ میں مسجد مبارک بہت چھوٹی تھی.یہ عاجز ۱۵ دن صحبت میں رہا.ہر ایک دن میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا نورانی چہرہ روشن دیکھنے میں آتا تھا.اس عاجز کو یہ ہی معلوم ہوتا کہ

Page 184

تاریخ احمدیت.جلد 27 174 سال 1971ء اب حمام خانہ سے غسل کر کے آگئے ہیں اور سر مبارک کے بالوں (جو کند ھے برابر تھے ) سے گویا موتیوں کے قطرے گر رہے ہیں.اس عاجز نے پندرہ روز میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرہ مبارک میں غم نہیں دیکھا.جب بھی مجلس میں آتے ، خوش خندہ پیشانی ہوتے.دیگر یہ بات دیکھنے میں آئی کہ مولوی محمد احسن صاحب امروہی اور دیگر علماء بڑی بڑی (حدیث) کی کتابیں لے آتے اور عرض کرتے کہ حضور اس کتاب میں یہ حدیث ہے.اس کا کیا مطلب ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے کبھی بھی نہیں کہا کہ اچھا کتاب دیکھوں تو جواب دیتا ہوں.مگر فورا فرماتے کہ یہ مطلب ہے.بس مولوی وہ بات نوٹ کر کے چلے جاتے.اس سے عاجز پر یہ اثر ہوا کہ آیا نبیوں کا یہ ہی شان ہے.الحمد للہ علی فضله واحسانه آپ نے دو سال بعد مزید لکھا:.عاجز محمد پریل ولد قائم الدین سندھی احمدی از کمال ڈیر وضلع نواب شاہ سندھ 66 534-11-2 ”میری بیعت ایک رؤیا کی بناء پر تھی جو درج ذیل ہے.ایک دن حکیم محمد رمضان صاحب احمدی آپ کا نام اخبار الحکم ۱۷ / اپریل ۱۹۰۰ ء صفحہ 11 پر مبائعین میں درج ہے ) اور علی مرادشاہ صاحب غیر احمدی میں احمدیت کے متعلق بحث شروع ہوئی.ان دونوں نے اس عاجز کو ثالث مقرر کیا.حکیم صاحب نے قرآن کریم سے استدلال کیا اور غیر احمدی سید صاحب نے اس کے جواب میں کسی اور کتاب کا حوالہ پیش کیا جسے میں نے رڈ کر دیا کیونکہ قرآن کریم کی دلیل کے مقابل قرآن کریم ہی پیش ہوسکتا ہے.اس پر وہ سید مجھے برا بھلا کہہ کر چلا گیا اور اسی دن وہ میرے والد بزرگوار کے پاس پہنچا اور انہیں کہا کہ تمہارا لڑکا تو قادیانی ہو گیا ہے.جب میں گھر پہنچا تو والدین نے مجھے سرزنش کی.اس پر مجھے بہت رنج ہوا.رات کو نماز تہجد میں رو رو کر دعائیں کیں اس کے بعد میں سو گیا.خواب میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میرے گھر میں داخل ہو گئے ہیں اور آپ کے پیچھے ایک بہت بڑی جماعت ہے.میں نے ایک نورانی تجلی دیکھی جس پر مفتون ہو گیا.دوڑ کر حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں پر گر پڑا اور کہا کہ حضور اس زمانہ کے امام ہیں.مجھ کو بچالیں.اس پر حضور نے کچھ مسکرا کر فرمایا جسے میں سمجھ نہ سکا.اس کے بعد میں بیدار ہوا.

Page 185

تاریخ احمدیت.جلد 27 175 سال 1971ء اس کے بعد خداوند کریم پر توکل کر کے میں دارلامان کی طرف چل پڑا جب وہاں پہنچا تو ظہر کا وقت تھا.مسجد مبارک جو اس زمانہ میں بالکل چھوٹی سی تھی اس میں چلا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نورانی چہرہ دیکھ کر از حد خوش ہوا.السلام علیکم ورحمۃ اللہ یا بی اللہ کہ کر مصافحہ کیا.اس وقت حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاوّل ایک خط حضور کی خدمت میں پیش کر رہے تھے جو معلوم ہوا کہ مولوی عبدالحکیم پٹیالوی کا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت کیا کہ کہاں سے آئے ہو.میں نے عرض کیا حضور حیدر آباد سندھ سے.حضور نے سندھ کا حال پوچھا.بعدہ فرمایا کہ کل آپ کی بیعت لیں گے.دوسرے دن میں نے ایک چٹھی لکھی جس میں بیعت کی درخواست کی.عصر کے وقت جب حضور تشریف لائے تو مجھے یاد فرمایا.میں حاضرِ خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ ان کو اردو تو آتی نہیں بیعت کس طرح لیں.میں نے عرض کیا کہ حضور میں اردو جانتا ہوں کیونکہ میں نے آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں.اس کے بعد حضور نے میری بیعت لی.حضور نے میرے لئے دعا بھی فرمائی.میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے کچھ کتابیں عطا فرمائیں.اس پر حضور نے اپنے خادم میر مہدی حسین صاحب کو فرمایا کہ انہیں میری طرف سے تین کتابیں دیدو.پندرہ روز دارالامان رہ کر واپس چلا آیا.54 ازاں بعد آپ نے اپنی وفات سے دس سال قبل ذکر حبیب“ کے موضوع پر باندھی (ضلع نواب شاہ) کے ایک اجتماع میں قادیان دارالامان کے اپنے پندرہ روزہ قیام کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.میں کم و بیش پندرہ بیس روز مہمان خانہ میں مقیم رہا.مولوی نجم الدین صاحب مرحوم نے میری بہت خدمت کی.اگلے روز میں پھر نماز ظہر کیلئے مسجد میں گیا.حضور اذان کے معا بعد مسجد میں تشریف لے آئے.تھوڑی بہت گفتگو جاری رہی.پھر نماز شروع ہو گئی.نماز کے بعد حضور حسب معمول اندر تشریف لے گئے.مکرم مولوی محمد علی صاحب مرحوم ایم.اے کا دفتر مسجد مبارک میں ہی تھا.میں نے ان سے قلم دوات اور کاغذ لے کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں خط لکھا.چونکہ زبان پر عبور حاصل نہ تھا اس لئے نصف اردو اور نصف سندھی میں اپنا مفہوم ادا کیا.یہ خط حضرت نانا جان مرحوم میر ناصر نواب صاحب کے ذریعہ حضور کی خدمت میں پہنچا دیا.حضرت میر صاحب مرحوم میرا خط پڑھ کر فرمانے لگے

Page 186

تاریخ احمدیت.جلد 27 176 سال 1971ء کہ کیا آپ سے ابھی تک بیعت نہیں لی گئی؟ میرا یہ خط لے کر آپ حضور کی خدمت میں تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور عصر کی نماز میں تشریف لائیں گے تو اس وقت آپ سے بیعت لیں گے.ظہر اور عصر کا درمیانی وقفہ میں نے مسجد مبارک میں ہی گزارا.عصر کی اذان ہوئی تو حضور تشریف لے آئے اور دروازہ سے قدم باہر رکھتے ہی ارشاد فرمایا ”وہ دوست جو سندھ سے تشریف لائے ہیں کہاں ہیں.میں احتراماً کھڑا ہو گیا.حضور نے مسکرا کر ارشاد فرمایا کہ انہیں تو اردو نہیں آتی.میں بیعت کس طرح لوں؟“.میں نے عرض کی حضور میں تھوڑی بہت اردو جانتا ہوں.اس پر آپ نے فرمایا ” کیا آپ کچھ عرصہ پنجاب میں بھی رہے ہیں؟“.میں نے بیان کیا کہ حضور پنجاب میں تو نہیں رہا البتہ حضور کی کتب کا مطالعہ کیا ہے.حضور نے از راہ شفقت فرمایا ”بیٹھ جائے“.حضور نے میری بیعت لی.میرے ساتھ کشمیر کے ایک عمر رسیدہ بزرگ عالم بھی بیعت میں شریک ہوئے.اس وقت مجھے ان کا نام یاد نہیں.بیعت کے بعد حضور نے دونوں ہاتھ اٹھا کر ہماری استقامت کیلئے دعا فرمائی.دعا کے بعد میں نے دوبارہ عرض کیا کہ ”حضور میرے لئے ایک بار پھر دعا فرمائی جائے“.حضور نے فرمایا کیسی دعا ؟.عرض کی کہ ایسی دعا کہ حضور کا مجھے علم حاصل ہو جائے“.حضور نے ازراہ ترحیم دوبارہ دعا فرمائی.55 ماسٹر محمد پریل صاحب تقریباً ۲۳ سال ملازمت میں رہے.ملازمت کے دوران آپ کی تبدیلی متعدد مقامات پر ہوئی.جہاں جہاں بھی قیام کیا، آپ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ساٹھ کے قریب جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.آپ نے متعدد چھوٹے چھوٹے پمفلٹ اور کتب سندھی میں ترجمہ کر کے اور طبع کروا کر لوگوں میں تقسیم کیں.ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گاؤں ڈیرہ کمال میں سکونت اختیار کی.یہاں بطور صدر جماعت اور سیکرٹری تبلیغ خدمات انجام دیتے رہے.اشاعت احمدیت کے سلسلہ میں آپ نے متعدد مناظروں اور جلسوں کا بھی اہتمام کیا.ان کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مناظروں میں ڈیرہ کمال ، سکرنڈ، گریلو لاڑکانہ ، بابور، خیر وڈیرو، با گوڈیرہ، تمبر ، تعلقہ شہزادکوٹ اور مناظرہ سعد و خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان مناظروں میں خیر وڈیرو اور با گوڈیرہ میں آریوں کے ساتھ مناظرے ہوئے اور باقی غیر احمدی علماء کے ساتھ.56

Page 187

تاریخ احمدیت.جلد 27 177 سال 1971ء سکرنڈ کے مناظرہ میں احمدیوں کی طرف سے مناظر حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری امیر التبلیغ سندھ ) اور پریذیڈنٹ مولوی محمد پریل صاحب تھے.57 آپ نے بابور، خیر وڈیرو تمبر اور تعلقہ شہزاد کوٹ میں خود بھی مناظرے کئے 58 نیز مرکز احمدیت قادیان سے مولانا ابو العطاء صاحب اور مولانا قمر الدین صاحب سیکھوانی فاضل کو بلا کر جلسے کرائے.ایک بار آپ کی کوشش سے احمد یہ مشن امریکہ کے بانی حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی حیدر آباد میں کامیاب تقریر ہوئی جس میں ستر اٹی ماسٹر صاحبان نے شرکت کی.یہ تقریر ماسٹر محمد صدیق ناز صاحب پرنسپل Practising School کے مکان پر ہوئی.59 ۱۹ دسمبر ۱۹۳۷ء کو آپ کا مخالفین سے مباہلہ بھی ہوا جیسا کہ آپ خود تحریر فرماتے ہیں:.کمال ڈیرہ احمدیت کا گڑھ تھا.مخالفین نے بالآخر مباہلہ کے ذریعہ نشان نمائی کا مطالبہ کیا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی منظوری کے بعد یہ مطالبہ شرح صدر سے قبول کر لیا گیا.طرفین سے دس دس افراد مباہلہ میں شامل ہوئے.ایک سال کی مدت مقرر ہوئی.مباہلہ کے بعد ابھی تین ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ غیر احمدیوں کی طرف سے مباہلہ میں شامل ہونے والا ایک آدمی عطا محمد زرگرتپ محرقہ سے وفات پا گیا.اس سے غیر احمدیوں میں ہر اس پھیل گیا.بعض نے تو بہ کر لی اور دعا کیلئے بھی درخواست کی.مباہلہ میں شامل ہونے والے سب احمدی محفوظ رہے.اس سال جماعت احمدیہ کو خاصی ترقی ہوئی.مباہلہ کے بعد ہمارے رئیس اللہ وسا یو صاحب نے بھی بیعت کر لی.(سندھی سے اردو تر جمه) 60 مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ احمدیہ نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا:.”خاکسار کو سب سے پہلے ۱۹۳۹ء میں مرحوم سے تعارف حاصل ہوا.جب میں تبلیغی فرائض کے سلسلہ میں ان کے گاؤں گیا اس وقت آپ جماعت کے صدر تھے اور وہاں کی جماعت فعال جماعتوں میں سے تھی.۱۹۴۷ء میں آپ اپنے گاؤں سے ہجرت کر کے کنڈیارو میں رہائش پذیر ہو گئے جو ضلع نواب شاہ کی ایک تحصیل کا ہیڈ کوارٹر ہے.ماسٹر صاحب مرحوم کے ایمان کی عاشقانہ کیفیت تھی کہ ہر وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور سلسلہ کے بزرگان کا ذکر آپ اپنی مجلس میں کرتے رہتے تھے.آپ کی مجلس میں بیٹھ کر ایمان تازہ ہوتا تھا.ملازمت کے سلسلہ میں آپ مختلف مقامات پر متعین رہے.ہر جگہ آپ نے تبلیغ کا سلسلہ

Page 188

تاریخ احمدیت.جلد 27 178 سال 1971ء جاری رکھا.آپ نہایت نرمی اور حکمت سے تبلیغ کرتے تھے.آپ نے متعدد مناظرے بھی کئے.بذریعہ خطوط بھی اپنے غیر از جماعت دوستوں کو تبلیغ کرتے رہتے تھے تبلیغ کا آپ کو شغف تھا.کمال ڈیرہ کے رئیس اعظم اللہ وسا یو خان تھے وہ گوپانگ قوم کے سردار بھی تھے.ماسٹر صاحب مرحوم کا وہ بہت احترام کرتے تھے.غیر احمدی ہونے کی حالت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑی ہی عزت سے نام لیتے.ماسٹر صاحب مرحوم کا ان کے ہاں روزانہ کا آنا جانا تھا ان کی مجلس میں ہمیشہ احمدیت کے عقائد پر بحث و مباحثہ ہوتا رہتا تھا اور اللہ وسایو خان صاحب اہل علم لوگوں کو بلا کر ماسٹر صاحب سے گفتگو کرواتے رہتے تھے.آخر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اور رئیس اللہ وسایو خان مرحوم بھی احمدیت میں شامل ہو گئے.محترم ماسٹر صاحب مرحوم کی ان مجالس اور ان میں تبلیغ کے واقعات کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے.خاکسار نے جب سندھی میں سلسلہ کا لٹریچر لکھنا شروع کیا تو بڑی حد تک میری مدد کرنے والے آپ ہی تھے.خصوصاً ”سیرت مسیح موعود جب سندھی میں لکھی تو محترم ماسٹر صاحب نے میری بہت مدد کی اور بڑے شوق اور محبت سے اس کام میں میرا ساتھ دیا.آپ پورے اہتمام اور التزام سے تہجد پڑھتے تھے.عموماً نصف شب کے بعد بیدار ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے.آپ مستجاب الدعوات بزرگ تھے.اکثر سچی رؤیا دیکھتے اور صاحب الہام بھی تھے.حضرت مصلح موعود کے ساتھ آپ کو والہانہ محبت تھی.حضور کے ارشاد کے مطابق اپنے لڑ کے بشارت احمد صاحب بشیر کو خدمت دین کے لئے وقف کیا.ماسٹر صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے جمالی صفات و اخلاق کا حامل بنایا تھا.نہایت شدید غصہ دلانے والے حالات میں بھی آپ نرمی، رفق، حلم، بردباری اور نظم غیظ کا نمونہ تھے.خندہ رو تھے اور مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھے.مہمان نواز تھے.سختی کا جواب نرمی سے دیتے اور اگلے شخص کا دل موہ لیتے.ایک موقعہ پر ایک شخص نے میری موجودگی میں مغلوب الغضب ہوکر مکرم ماسٹر صاحب کے سر پر اتنے زور سے لٹھ مار دی کہ سر سے خون بہنے لگا.مگر آپ کی طبیعت میں کوئی پیچ وتاب پیدا نہ ہوا اور جب تھوڑی دیر بعد وہ شخص نادم ہو کر آپ سے معافی کا خواستگار ہوا تو آپ نے اس کو خندہ پیشانی سے

Page 189

تاریخ احمدیت.جلد 27 179 سال 1971ء معاف کر دیا.آپ کی ظاہری تعلیم معمولی تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیض صحبت اور حضور کی کتب اور سلسلہ کے لٹریچر کے مطالعہ سے آپ دینی علوم اور تبلیغی مسائل سے کافی واقف تھے اور تبلیغی میدان میں ان سے خوب فائدہ اٹھاتے تھے.61 حضرت مولوی صاحب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے تھے.62 پابند صوم و صلوۃ ، دعا گو اور صاحب رؤیا والہام بزرگ تھے جو ۶۵ سال تک سرزمین سندھ کو منور کرتے رہے.اولاد ۱.ماسٹر شمس الدین صاحب بلوچ کراچی.۲.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ سیرالیون و سابق نائب وکیل التبشیر تحریک جدید ر بوه ( وفات ۲۰ جنوری ۱۹۹۲ء).۳.منور احمد صاحب بلوچ (مرحوم) حضرت رحمت بی بی صاحبہ ولادت : تقریباً ۱۸۷۱ء وفات : ۲۲ اگست ۱۹۷۱ء حضرت رحمت بی بی صاحبہ چوہدری غلام رسول صاحب ساکن تلونڈی جھنگلاں مقیم چک ۵۵.رب برج ضلع فیصل آباد کی والدہ ماجدہ تھیں.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں.اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کیا کرتی تھیں.تحریکات میں اکثر حصہ لیتیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند، بہت دعا گواور غریب پرور خاتون تھیں.آپ نے ۲۲ اگست ۱۹۷۱ء کو قریباً ۱۰۰ سال کی عمر میں وفات پائی.63 حضرت میاں اللہ دتہ صاحب سیالکوٹی ولادت: تقریباً ۱۸۸۱ء تحریری بیعت : ۱۹۰۷ ء وفات: ۲۲ ستمبر ۱۹۷۱ء حضرت میاں اللہ دتہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں ۷ ۱۹۰ء میں بذریعہ خط بیعت کا شرف حاصل کیا.اور ۱۹۱۰ ء میں حضرت خلیفہ اسی الاول کے دست مبارک پر بیعت کی.آپ احمدیت کے فدائی اور قرآن کریم سے عشق رکھتے تھے.دن کا زیادہ حصہ تلاوت قرآن کریم میں گزارتے تھے.آپ نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۱ء کو بعمر ۹۰ سال وفات پائی.64 حضرت چوہدری حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ بیعت : ۱۹۰۵ء وفات ۳/اکتوبر ۱۹۷۱ء 65 ولادت: اندازاً۱۸۸۷ء

Page 190

تاریخ احمدیت.جلد 27 180 سال 1971ء حضرت چوہدری اللہ بخش صاحب بیان فرماتے ہیں کہ:.۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے یہ عاجز تلونڈی بھنڈراں تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ کے سکول میں تعلیم حاصل کرتا تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا روح پرور اور زندگی بخش پیغام شہروں سے نکل کر دیہات میں پہنچ رہا تھا.علاقے میں جو لوگ نور احمدیت سے منور ہو چکے تھے ان میں سے ایک بزرگ حضرت چوہدری اللہ دتہ صاحب نمبر دار ساکن خانو والی بھی تھے.حضرت مسیح پاک کی پاک صحبت نے ان کے علم ، ایمان اور اعمال میں وہ جلا بخش دی تھی ، وہ عاشقانہ اور دیوانہ وار تبلیغ احمدیت میں مصروف و مشغول رہتے تھے.ان کا گاؤں تلونڈی بھنڈراں سے تین میل کے فاصلہ پر تھا.لیکن وہ ایک با قاعدہ پروگرام کے ماتحت میرے اساتذہ کرام کو تبلیغ کے لئے تشریف لاتے رہتے تھے.میرا گاؤں چندر کے منگولے تلونڈی بھنڈراں سے ۴ میل کے فاصلہ پر حضرت چوہدری صاحب کے گاؤں کے رخ پر ہی ہے اور ان کے اور میرے گاؤں کا درمیانی فاصلہ ایک میل ہے.ان کی مومنانہ فراست نے بھانپ لیا تھا کہ جب وہ میرے اساتذہ کو تبلیغ کرتے ہیں تو میں ہمہ تن توجہ بن کر اسے سنتا ہوں.سکول بند ہونے پر وہ میرے ساتھ گاؤں کی جانب چل پڑتے اور سارا راستہ پیغام احمدیت سے روشناس کراتے اور وقتاً فوقتاً سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب مطالعہ کے لئے دیتے.انہی کی زبانی تبلیغ اور کتب کے مطالعہ کے بعد میرا سینہ احمدیت کو قبول کرنے کے لئے کھل گیا اور باوجود علاقہ میں انتہائی مخالفت ہونے کے میں سید نا حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے مشرف ہو گیا.الحمد لله علی احسانه و اکرامہ.میری بیعت کا علم جب میرے والد ماجد کو ہوا تو وہ بہت برہم ہوئے ان کی ناراضگی کی کوئی انتہا نہ رہی وہ ایک متمول اور بے حد محنتی زمیندار تھے.لیکن عام مسلمانوں کی طرح دین اسلام سے بالکل بے بہرہ تھے.ناراضگی کے وقت بار بار کہتے کہ مرزائی تو پانچ وقت مسجدوں میں جا کر وقت ضائع کرتے ہیں.۵۰-۶۰ میل دور پیر ماننے کا کیا فائدہ ہے.ہمارے پیر تین چار کوس دور بدوملہی میں ہیں.ہم سارے دن کا کام سرانجام دے کر سال میں ایک آدھ دفعہ انہیں سلام کر آتے ہیں.قادیان جا کر واپس آنے کے لئے کم از کم آٹھ دس دن ضائع ہوتے ہیں.ان کی ان باتوں کی وجہ سے میرا ایمان اور مضبوط ہوتا کہ اس زمانہ میں جبکہ مسلمانوں کی حالت اس حد تک گر گئی ہے کہ نمازوں کی ادائیگی کو تضیع اوقات سمجھی جاتی ہے.ضرور کسی مصلح ربانی کی

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد 27 181 سال 1971ء ضرورت ہے.اس ناراضگی کی حالت میں مجھے والد صاحب نے حکم دیا کہ اگر تم احمدیت کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں تو میرے گھر سے ابھی نکل جاؤ.مغرب اور عشاء کا درمیانی وقت تھا.میں نے اپنی خیر اسی میں سمجھی کہ گھر سے چلا جاؤں.جب میں گھر سے روانہ ہورہا تھا تو فرمانے لگے کہ ٹھہر جاؤ.کچھ آٹا لیتے جاؤ تا کہ بھوکے تو نہ مرو.میں نے آٹا باندھ لیا اور اس ارادہ کے ساتھ کہ حضرت چوہدری اللہ دتہ صاحب کے ذریعہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان چلا جاؤں ان کے گاؤں کی طرف چل پڑا.اپنے گاؤں میں سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلہ پر تھا کہ والد صاحب کو دوڑتے ہوئے اپنے پیچھے آتے دیکھا.حقیقتاً اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے شفقت پدری نے جوش مارا تھا لیکن میں انہیں آتاد یکھ کر سہم گیا کہ کہیں بدنی سزا نہ دیں اور اسی ڈر سے میں گندم کے کھیت میں چھپ گیا.وہ سیدھے خانو والی کی طرف نکل گئے اور میں واپس گھر بیچ بستر میں دبک رہا.آدھی رات کے قریب تلاش کے بعد واپس آئے اور فرمانے لگے کہ تم نے مجھے بہت پریشان کیا ہے اور بہت کو ستے رہے.صبح ہوتے ہی مجھے ساتھ لے کر اپنے پیر صاحب کے پاس بدوملہی گئے اور جاتے ہی پیر صاحب کے سامنے سجدہ کیا اور نذرانہ پیش کیا اور زار و قطار رو کر عرض کیا کہ میرے دو بیٹے تھے ایک لاہور میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے فوت ہو گیا دوسرا یہ ہے جو مرزائی ہو گیا ہے.گویا میں اس دنیا سے یونہی ابتر چلا جاؤں گا.پیر صاحب نے انہیں بہت تسلی اور تشفی دی اور مجھے مخاطب ہو کر نہایت نرمی اور محبت سے کہنے لگے کہ دیکھو بیٹا ہم آسمانی لوگ ہیں ہم نے اپنی روحانی آنکھ سے زمین و آسمان میں غور کیا ہے.ہمیں مرزا صاحب کی سچائی کا علم نہیں ہوا.اگر وہ سچے ہوتے تو ہمیں ان سے کیا عداوت ہے ہم بھی مان لیتے تم غور کرو کہ مرزا صاحب (نعوذ باللہ ) کیسی الٹی بات کرتے ہیں.تیرہ سو سال سے ساری امت حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمان پر زندہ مانتی چلی آئی ہے اور مرزا صاحب کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو چکے ہیں ان کی یہ بات قرآن مجید کے خلاف ہے.انہیں ایام میں میں نے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کا کئی بار مطالعہ کیا تھا اور مجھے وفات حضرت مسیح ناصری کے متعلق اکثر آیات از برتھیں.میں نے پیر صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ مجھے قرآن مجید سے ایک آیت ایسی دکھا دیں جس سے حضرت مسیح ناصری کا بجسد عنصری آسمان پر جانا ثابت ہو تو میں آپ کی ہر بات مان لوں گا.اس پر پیر صاحب نے قرآن مجید کھول کر دو تین بار ورق گردانی کی اور مجھے کہنے لگے کہ قرآن مجید ایک اتھاہ سمندر کے مشابہ ہے بعض اوقات سمندر میں غوطہ زنی کے باوجود موتی نہیں ملتے.اسی طرح با وجود

Page 192

تاریخ احمدیت.جلد 27 182 سال 1971ء تلاش کے مجھے حیات مسیح کے متعلق حوالہ نہیں مل سکا.میں نے دریافت کیا کہ آپ کونسی آیت تلاش کرنا چاہتے ہیں.کہنے لگے جس میں عیسی کے رفع کا ذکر ہے.میں نے آیت وَ مَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِنْ شُبّهَ لَهُمْ...بَلْ رَّفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ (النساء: ۱۵۹-۱۵۸)....نکال کر پیش کر دی لیکن وہ اس سے کوئی استدلال نہ کر سکے.مجھے یقین ہو گیا کہ پیر صاحب قرآن نہیں جانتے.میں نے اس آیت کی تفسیر پیش کی.یہودی مصلوب اور مقتول کو عنتی سمجھتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان دو قسم کی موتوں کی حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق نفی کی ہے اور واضح فرمایا ہے کہ ہم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو باعزت موت دی اور لفظ رفع کے معنی قرآن مجید کی دیگر آیات سے بتائے اور وفات مسیح کے متعلق بہت سی قرآنی آیات پیش کر کے استدلال کیا.اس پر پیر صاحب نے میرے والد صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ اس کی اصلاح ناممکن ہے.میرے والد صاحب بادل نخواستہ مجھے واپس لے آئے اور آہستہ آہستہ اس علاقہ میں احمدیت کی ترقی ہوتی چلی گئی.اس علاقہ میں جن بزرگوں کے ذریعہ تبلیغ ہوئی ان میں سے مندرجہ ذیل حضرات جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا صحابی ہونے کا شرف اور عزت حاصل ہے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ا.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب ( آپ سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے نانا تھے ( ناقل ) جو رعیہ میں متعین تھے.۲.حضرت چوہدری اللہ دتہ صاحب جن کا ذکر اوپر آچکا ہے.۳.حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب آف کھیوہ باجوہ.۴.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب آف پوہلہ مہاراں سیالکوٹ.۵.حضرت سید نذیر حسین صاحب آف گھٹیالیاں.۶.حضرت چوہدری عبداللہ خان صاحب آف دانہ زید کا.۷.حضرت مولوی فضل کریم صاحب و عبدالکریم صاحبان آف قلعه صو با سنگھ.اللہ تعالیٰ کی بیشمار رحمتیں اور فضل ان لوگوں پر ہوں“.66 چو ہدری صاحب ساری عمر سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں سرگرم عمل رہے.سیکرٹری مال اور سیکرٹری اصلاح وارشاد کی حیثیت سے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں.آپ کے فرزند چوہدری محمد اسحاق صاحب مبلغ ہانگ کانگ تحریر فرماتے ہیں:.”میرے دادا جان میرے والد ماجد کی قبول احمدیت کے تیرہ سال بعد ۱۹۱۸ء میں نو راحمدیت سے منور ہوئے اور اپنی وفات ۱۹۲۲ ء تک بڑے مؤثر انداز میں احمدیت کی صداقت کے متعلق دعوت الی اللہ کرتے رہے.

Page 193

تاریخ احمدیت.جلد 27 183 سال 1971ء حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں جب جماعتی نظام مربوط ہوا تو والد صاحب جماعت احمد یہ چندر کے منگولے کے سیکرٹری مال اور سیکرٹری اصلاح وارشاد منتخب ہوئے اور یہ دونوں عہدے آپ کی وفات جو ا ۱۹۷ء میں ہوئی تک ان کے پاس رہے اور سارے عرصہ میں آپ اپنے فرائض حد درجہ اخلاص، لگن، محنت سے سرانجام دیتے رہے.ہمیشہ جماعت کا بجٹ پورا ہوتا رہا اور اصلاح و ارشاد کا کام بخوبی کرتے رہے.ہمارے گاؤں کے قرب و جوار میں کئی نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور ہماری جماعت میں دو درجن کے قریب افراد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں احمدیت قبول کی.۱۹۲۷ء میں والد صاحب نے فریضہ حج ادا کیا.ایک درجن احمدیوں کو تحریک کر کے حج پر لے گئے.اپنی بڑی ہمشیرہ کو بھی اپنے خرچ پر ساتھ لے کر گئے.ہماری یہ پھوپھی وفات کے بعد بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہے.چھ ماہ بعد جب میرے والد ماجد فریضہ حج ادا کر کے واپس تشریف لائے تو مجھے بتایا کہ ایک شب نماز عشاء سے نماز فجر تک ساری رات خانہ کعبہ کے سامنے بیٹھ کر اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتا رہا.یہ حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں سنیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ صرف ان کی اولاد بلکہ اولاد کی اولا د کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیوی نعمتوں سے سرفراز فرمایا.والد صاحب عبادات نماز و روزہ، تہجد بڑے اخلاص اور تواتر سے ادا کرتے.ہر سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھتے.لوکل جماعت کے ممبران ہر سال انہیں مجلس مشاورت کا نمائندہ منتخب کرتے.لازمی اور طوعی چندہ جات کی ادائیگی اخلاص اور فیاضی سے کرتے.جب آپ نے ۱۹۰۵ء میں بیعت کی تو جماعت کو ایک چھوٹی سی کچھی مسجد ملی.آپ نے بڑی مسجد اپنے خرچ پر تعمیر کی اور اس سے ملحق دو کمرے بھی تعمیر کرائے.مربی صاحب کے لئے 9 مرلے زمین خرید کر بہت اچھا مکان اپنے مکان کے قریب تعمیر کرایا.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب جو ضلع سیالکوٹ کی احمد یہ جماعتوں کے چوتھے حصہ کے علاقہ امیر تھے.۲۸ دسمبر ۱۹۶۰ء کو فوت ہوئے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے مسجد مبارک میں جنازہ کے معا بعد بڑی محبت اور شفقت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر میری دلجوئی فرماتے ہوئے فرمایا ” اب آپ کے والد صاحب کی زندگی ذرا مشکل ہو جائے گی.میں نے ان دونوں بزرگوں (والد صاحب اور چوہدری صاحب کو لمبے عرصہ سے اب تک سالانہ جلسوں،

Page 194

تاریخ احمدیت.جلد 27 184 سال 1971ء مشاورت اور دیگر جماعتی اجتماعات پر اکٹھے دیکھا ہے.ایک دفعہ میرے والد صاحب گھوڑی سے گر کر زخمی ہو گئے.میں نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا تو آپ نے جواباً تحریر فرمایا میں آپ کے والد صاحب کو خوب اچھی طرح جانتا ہوں بڑے مخلص اور محبت کرنے والے بزرگ ہیں.اور آپ کی صحت کے لئے دعا بھی کی.اس تحریر کی بناء پر والد صاحب کی قبر کے کتبے پر دفتر بہشتی مقبرہ کی اجازت سے یہ کندہ ہے.حاجی صاحب بہت مخلص اور محبت کرنے والے بزرگ تھے.تقسیم ہند کے وقت ایک یادگار خط تاریخ احمدیت جلد یاز دہم صفحہ ۱۳۹ کے ایک خط کی نقل درج ذیل ہے.چوہدری حاجی اللہ بخش صاحب چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ نے اپنے بیٹوں مکرم چوہدری محمد اسحاق صاحب مربی چین اور مکرم بشیر احمد صاحب کو حسب ذیل خط لکھا.”میرے پیارے لخت جگر محمد اسحاق و بشیر احمد اللہ تعالیٰ ہر آن تم دونوں کا حافظ و ناصر ہو.آمین السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مدت سے تمہارا کوئی خط نہیں ملا.آج ۲۴ اکتوبر ۷ ۱۹۴ء کوعزیز محمد عبداللہ صاحب کیپٹن ٹرک لے کر یہاں اپنی بیوی کو لینے آئے ان سے دارالامان کے حالات معلوم ہوئے.انہوں نے بتایا کہ پولیس نے تلاشیاں لے کر پہلے اہل قادیان کو نہتا کیا اور پھر سکھوں نے حملہ کیا اور پولیس اور ملٹری نے ہمارے احمدیوں کا قتل عام کیا اور دوسو سے اوپر احمدی شہید ہو کر جنت میں جا پہنچے.سنا ہے حملہ دار الرحمت پر ہوا اور تم دونوں بھی دارالرحمت میں تھے.اگر تم شہید ہو گئے ہو تو اپنی مراد کو پہنچ گئے ہو.اس صورت میں میں عثمان غنی ( تیسرے بیٹے.ناقل ) کو بھی جلدی قادیان بھیج دوں گا.اگر تم زندہ ہو تو مجھے یقین ہے کہ تم نے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا ہوگا.تم نے احمدی باپ سے پرورش پائی ہے اور احمدی ماں کا دودھ پیا ہوا ہے.دارالامان سے پیارا ہمیں اور کچھ نہیں.شعائر اللہ ہمارے پاس ہیں اور میری تمہیں نصیحت ہے کہ تمہارے جیتے جی شعائر اللہ تک دشمن نہ آئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہت کچھ دے رکھا ہے اور تم قطعاً پرواہ نہ کرو کہ تمہارے بعد ہمارا کیا بنے گا.جب سے دارالامان پر حملہ کا سنا ہے سخت بیقراری اور بے چینی ہے اور میرا تو پیشہ ہی رونا ہو گیا ہے“.67

Page 195

تاریخ احمدیت.جلد 27 185 سال 1971ء خدا گواہ ہے کہ ہم دونوں بھائیوں نے جان بچانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور خطرناک سے خطرناک ڈیوٹی ادا کی جو ہمارے سپرد کی گئی.ہم نے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اپنے والد صاحب کی نصیحت اور خواہش کی تعمیل میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.میرے سپر د جو فرائض تھے ہرلحہ گرفتاری اور موت کا امکان تھا لیکن افسوس کہ شہادت جیسی شاندار نعمت نہ مل سکی.شہادت کی خواہش اور والہانہ رنگ میں حفاظت مرکز سے متعلق فرائض کی بجا آوری کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے جو انعامات ہمیں دیئے ان کا مختصر ذکر ذیل میں درج ہے.ا.اچھی صحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ہمیں لمبی عمر میں عطا فرمائیں.۲.لاتعداد دینی و دنیوی نعمتوں سے اللہ تعالیٰ نے سرفراز فرمایا.۳.تینوں بھائیوں کو خدمت دین کی توفیق ملی.خاکسار محمد اسحاق ساڑھے تین سال ہانگ کانگ اور چین میں بطور مربی رہا.زبانی اور اشاعت لٹریچر کے ذریعہ خدمت کے مواقع ملے.جنگ عظیم کی ہولنا کی اور انگریز حکومت کی کوتاہ نظری کی وجہ سے ہانگ کانگ سے گرفتار ہو کر ہندوستان لا کر جیل میں قید اور بعد میں اپنے گاؤں میں عرصہ جنگ تک نظر بند رکھا گیا.عثمان غنی جماعت احمد یہ چندر کے منگولے میں صدر اور سیکرٹری مال کے طور پر خدمت دین کرتا رہا.بشیر احمد نے مع اپنی بیگم بشری بشیر ملا زمت سے پنشن کے بعد مغربی افریقہ میں آنریری مربی کے طور پر خدمت دین کی اور وہاں ایک شاندار مسجد بھی تعمیر کرائی جس میں خود بھی ایک لاکھ روپیہ بڑی خوشی سے ادا کئے.حضرت والد صاحب میں خدمت خلق اور غرباء کی مدد کا جذ بہ بہت زیادہ تھا.دور دور سے زمیندارہ الجھنوں سے متعلق لوگ آپ کے مشورہ اور مدد کے لئے آتے اور ان کے مسائل کا حل اور مہمان نوازی کر کے بہت خوش ہوتے.عرصہ ۲۸ سال تک سیشن جج سیالکوٹ کی عدالت میں اسیسر رہے اور نہایت دیانتداری سے قتل کے مقدمات میں رائے دیتے.سیشن جج آپ کے مشوروں کی بہت تعریف اور قدر کرتے.۲۸ سال بعد آپ کی شنوائی کم ہوگئی اور آپ نے فراغت حاصل کر لی.غریب پروری اور مہمان نوازی ہماری مسجد بڑی سڑک سے ملحق ہے.پیدل مسافر عموم رات اس مسجد میں گزارتے تھے.آپ سب مسافروں کی فراخدلی سے مہمان نوازی کرتے.

Page 196

تاریخ احمدیت.جلد 27 186 سال 1971ء بیاہ شادی کے موقع پر غرباء کی مالی مدد بھی کرتے اور اپنی ضمانت پر زیور اور شادی کا دیگر سامان بھی لے کر دیتے.ہماری ۱٫۹ یکڑ اراضی پر کیکر کے درخت اکھاڑنے کے لئے مجھے حکم دیا کہ ٹھٹھی ، عیسائیوں کی آبادی میں جاؤ اور میرا پیغام دے آؤ کہ کل صبح سب عیسائی جو کام کر سکیں ہمارے چاہ پر پہنچ جائیں.میں نے عرض کی کہ دھان کی کٹائی کے دن ہیں.اگر وہ اپنے زمینداروں کی فصل کی برداشت یعنی کٹائی پر نہ گئے تو وہ مقررہ اجرت سے محروم ہو جائیں گے.تو آپ نے فرمایا کہ پیغام دے آئیں اگر کوئی مجبور نہ آسکا تو میں اس سے ناراض نہیں ہوں گا.میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کی.اگلے دن نماز فجر کے بعد فرمایا کہ گھوڑی پر سوار ہو کر دیکھ آؤ کتنے آدمی کیکر اکھاڑنے کیلئے گئے ہیں تا کہ ان کے کھانے کا انتظام کیا جائے.میں نے جا کر دیکھا کہ ٹھیٹھی کے جتنے آدمی کام کرنے کے قابل تھے سب کیکر اکھاڑ رہے تھے.میرے قریب ترین نوجوان رحمت مسیح اور سندر مسیح تھا.میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا تمہاری دوسرے زمینداروں کی سیپ نہیں ؟ اس نے جواب دیا کہ ہم تین بھائی ہیں آٹھ زمینداروں کی سیپ کرتے ہیں لیکن اگر حاجی صاحب ( میرے والد صاحب) کا کام ہوگا تو ہم پہلے وہ کریں گے اور دوسرے لوگوں کا بعد میں.میں نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ حاجی صاحب ساری ٹھیٹھی کے مکینوں کی اتنی مدد کرتے ہیں کہ پورے گاؤں کے زمیندار بھی نہیں کرتے.غلہ کی، مال کے لئے چارہ کی لکڑی کی ، پیسے کی ضرورت ہو تو حاجی صاحب ضروریات پوری کرتے ہیں.اس نے اپنی ذات سے متعلق دو واقعات بیان کئے.ا.ایک نیم حکیم نے مجھے ٹیکا لگا دیا اور مجھے جان کے لالے پڑ گئے.حاجی صاحب کو میری حالت کا علم ہوا تو اپنے ایک نوکر کے ہاتھ ایک سو روپے اور اپنی گھوڑی بدوملہی ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے بھیج دی.دوسرے دن وہ خود بھی میری بیمار پرسی کے لئے آئے اور ڈاکٹر کو میرے علاج کے متعلق تاکید کی.قرب و جوار کے افسروں سے حاجی صاحب کے بہت اچھے تعلقات تھے.ہفتہ عشرہ میں میں صحت یاب ہو کر واپس آیا.حاجی صاحب نے مجھ سے سورو پی کا بھی مطالبہ نہیں کیا.۲.میرے پاس جوتی نہیں تھی میں حاجی صاحب کے پاس گیا اور عرض کی کہ مجھے کوئی پرانی جوتی دیں.حاجی صاحب حویلی میں چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے.فرمایا کہ یہ جوتی جو چار پائی کے پاس پڑی ہے پہن کر دیکھو.میں نے کہا یہ تو نئی جوتی ہے آپ نے مجھے سختی سے کہا کہ پہن لو اور میں

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد 27 وه و.187 سال 1971ء نے وہ نئی جوتی پہن لی.اسی دن حاجی صاحب نے قریبی شہر قلعہ کالر والا سے گھوڑی پر سوار ہو کر ننگے پاؤں جا کر نئی جوتی خرید کی.رحمت مسیح نے بتایا کہ جب ہمارے پاس کھانے کے لئے غلہ نہیں ہوتا تو ے دیتے ہیں اگر کوئی غلہ کی قیمت وعدہ کے مطابق ادا نہ کر سکے اس پر سختی بھی نہیں کرتے.جو شخص غرباء کا اس حد تک مددگار ہو اس کا کام ہم غریب لوگ پہلے کریں گے اور حاجی صاحب جیسا غریب پرور اس گاؤں میں اور کوئی نہیں.اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ بھی ہے کہ گندم کی کاشت کا موسم تھا.اس دن اپنے بیلوں کے علاوہ دس جوڑے بیلوں کے گندم کی کاشت کے لئے کچھ اپنے مزار عین کے اور کچھ دوستوں کے منگوائے ہوئے تھے.اس وقت تک مشینی کاشت شروع نہیں ہوئی تھی.بیلوں سے ہی کاشت ہوتی تھی.ایک غریب احمدی ہمارے گھر آیا ( اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم احسان سے اس احمدی کی اولاد بڑے اچھے کام کر رہی ہے اور غربت کا ان کے ہاں اب نام و نشان نہیں ) اور مجھ سے جھونا ( چاول کی قسم) کی قیمت دریافت کی.میرے بتانے پر وہ رو پڑا.اس کی آواز جب والد صاحب نے سنی تو وہ آگئے اور اس سائل سے دریافت کیا کہ تم کیوں رور ہے ہو.اس نے جواب دیا کہ میں نے چھوٹے چوہدری ( یعنی مجھ سے جھونے کے دھان کی قیمت دریافت کی انہوں نے قیمت بتائی.میرے پاس قیمت ادا کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں اور میرے بچے پرسوں سے بھوکے ہیں.والد صاحب اسی وقت اندر گئے.میری والدہ ماجدہ نے گندم کاشت کرنے والوں کے لئے اس وقت تک دس بارہ پر اٹھے پکائے ہوئے تھے.والد صاحب وہ کپڑے میں لپیٹ کر لے آئے اور اس سائل کو دے کر کہا کہ فوراً دوڑ کر یہ پراٹھے اپنے بچوں کو دے کر واپس آؤ تو محمد اسحق تمہیں دھان بھی دے دے گا.اس کے جانے کے بعد مجھے حکم دیا کہ اس سائل کے آنے پر اسے ایک من دھان مفت دے دینا میں نے حکم کی تعمیل کی.ایک اور واقعہ یاد آیا.ایک عادی چور ہماری حویلی میں آکر اس چار پائی کی پائنتی پر بیٹھ گیا جہاں والد صاحب لیٹے ہوئے تھے.والد صاحب نے اس سے دریافت کیا کہ مجھ سے کیا کام ہے اس نے جواب دیا کوئی کام نہیں سلام کرنے آیا ہوں.والد صاحب نے اسے کہا.سلام ہو چکا ہے اب تم چلے جاؤ.چند ماہ بعد اسی چور نے عشاء کے بعد ہمارے گھر کے بیرونی گیٹ پر دستک دی.میں نے دروازہ پر آکر اس وقت آنے کی وجہ دریافت کی.تو اس نے کہا حاجی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں.میں نے اسے کہا کہ انہیں بخار ہے وہ سردی میں باہر نہیں آسکتے.تم مجھے اپنے آنے کا مقصد بتادو میں

Page 198

تاریخ احمدیت.جلد 27 188 سال 1971ء اندر جا کر بتا دوں گا.اس نے بتایا کہ ایک پنڈ ( اڑھائی من ) گندم کا سوال ہے ہمارے گھر آٹا بھی نہیں.میں نے اندر جا کر والد صاحب کو بتایا تو آپ نے حکم دیا کہ اسے اندر نہیں آنے دینا خود باہر دو تین دفعہ اٹھا کر اسے گندم دے دو.میں نے ڈرتے ڈرتے والد صاحب سے کہا یہ وہی چور ہے جسے آپ نے حویلی سے نکال دیا تھا.والد صاحب نے فرمایا یہ دو مضمون ہیں.اگر میں اسے اپنے پاس بیٹھنے دیتا تو گاؤں کے لوگ دیکھ کر کہتے کہ میں چور کی مدد کرتا ہوں.اور اب اگر گندم نہ دیتا ، تو بھوکا خاندان جو ہمارے محلہ میں رہتا ہے تو اللہ جو رب العلمین ہے کی ناراضگی کا خوف تھا.اگر ہم غریبوں کا خیال نہ رکھیں تو اللہ تعالیٰ ہماری خوشحالی ختم بھی کر سکتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غرباء کی بے لوث مدد کے صلے میں ہمیں دینی اور دنیوی نعمتوں سے بہت کچھ عطا فرمایا ہے.احمدیت کی نعمت دنیا کی بڑی سے بڑی جائیداد سے افضل و اعلیٰ ہے.دنیاوی لحاظ سے ہم گاؤں کے امیر ترین زمیندار مشہور ہیں.ایک اور واقعہ یاد آیا.مجھے لاہور میں ایک دوست کی ملاقات کے لئے بدوملہی ریلوے سٹیشن تک سفر در پیش تھا.میں گاؤں کے ایک شخص محبوب علی کو اسٹیشن سے گھوڑا واپس لانے کے لئے ساتھ لے گیا.گاؤں سے نصف میل کے قریب دس ڈاکو گھوڑوں پر سوار سامنے آتے دیکھے جن کے چہروں پرس پر سیاہ رنگ کے پردے اور ہاتھوں میں بندوقیں تھیں.محبوب علی نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ سڑک سے دور گھوڑے کو لے جائیں.ممکن ہے کہ یہ آپ سے گھوڑا چھین لیں.میں نے اسے جواب دیا کہ اس علاقہ میں میرے باپ دادا کی بہت عزت ہے.اگر میں نے ڈر کر گھوڑا سڑک سے دور کر لیا تو جگ ہنسائی ہوگی.جب یہ ڈاکو ہمارے قریب پہنچے تو ان کے لیڈر نے جو سب سے آگے تھا مجھے بڑے ادب سے سلام کیا.میں نے اسے کہا تم کون ہو.اس نے جواب میں اپنا نام بتا یا اور کہا آپ کا خادم.میں نے کہا کہ چہرہ پر سے نقاب ہٹاؤ.جب اس نے نقاب او پر کیا تو میں نے اسے پہچان لیا وہ اسی چور کا بیٹا تھا جس کا تذکرہ اوپر آچکا ہے.غالباً اسے علم ہو گا کہ اس کے باپ کی میرے باپ نے مشکل وقت میں مدد کی تھی.وفات آپ کی وفات چوراسی سال کی عمر میں ہوئی.وفات کے دن بھی تین دیہات میں اپنی زرعی اراضی کا گھوڑی پر سوار ہو کر چکر لگا کر آئے.آتے ہی دو پہر کا کھانا کھا کر اور نماز ظہر پڑھ کر لیٹ

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد 27 189 سال 1971ء گئے.تھوڑی دیر بعد مسواک منگوا کر دانت صاف کئے.عصر کی نماز کیلئے وضو کر رہے تھے کلمہ طیبہ پڑھ رہے تھے کہ دل پر حملہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.آپ موصی تھے.بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.وفات کے وقت امانت صدر انجمن احمد یہ میں ان کی معمولی سی رقم سات سو روپیہ جمع تھی.وہ میں نے مساجد بیرون میں ادا کرا دی اور افسر امانت کو ان کے مطالبہ پر لکھ دیا کہ اگر ورثاء میں سے کوئی اپنا حصہ طلب کرے تو میں ادا کروں گا.میری والدہ محترمہ بھی ۱/۸ حصہ کی موصیبہ تھیں.۱۰۴ سال کی عمر میں فوت ہو ئیں وہ بھی بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہیں.اللہ تعالیٰ ہر دو کے درجات بلند فرمائے اور ان کی اولا دکو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ہم تین بھائی ہیں.ہمارے گاؤں اور گاؤں کے قرب وجوار میں کئی ہائی سکول تھے اور اب بھی ہیں لیکن ہمیں آپ نے قادیان دارالامان میں تعلیم دلوائی اور وجہ یہ بتائی کہ یہاں تم زمیندارہ کام کی طرف راغب ہو سکتے ہو اور اس صورت میں تم تعلیم مکمل نہ کرسکو گے.۱۹۵۷ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثالث ) صدر مجلس انصار الله مرکز یہ ضلع سیالکوٹ کے دورہ پر تشریف لے گئے.ہماری جماعت چندر کے منگولے میں بھی تشریف لائے.میں ان ایام میں رخصت پر اپنے گاؤں گیا ہوا تھا اور میں نے ہی احباب جماعت کا تعارف کرایا.دو پہر کے کھانے کا انتظام ہمارے گھر میں تھا.عین اس وقت جب کھانے کا وقت قریب تھا تو آپ نے ضمناً فرمایا کہ مجھے مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ بہت پسند ہیں.ہم نے نصف گھنٹہ کے اندر آپ کی فرمائش پوری کر دی.کھانے کے بعد آپ نے مرکزی دفتر اور ہال انصار اللہ کے لئے چندہ کی تحریک کی.ہماری جماعت کے افراد نے حسب استطاعت چندہ دیا لیکن جو دوست قریبی جماعتوں سے آئے تھے انہوں نے عذر کیا کہ ہمیں معلوم نہ تھا کہ چندہ کی تحریک ہو گی.اس پر والد صاحب نے اعلان کیا کہ جو دوست اس ثواب میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ مجھے بتائیں میں چندہ ادا کر دیتا ہوں.ڈیڑھ ہزار روپیدان دوستوں کے حساب میں والد صاحب نے ادا کر دیا جو بعد میں ان دوستوں نے والد صاحب کو ادا کر دیا.سیالکوٹ سے ہمارے گاؤں آتے ہوئے راستہ میں ایک نالہ ڈیک ہے.جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب اس نالہ پر پہنچے تو کچھ مرغابیاں اڑتے ہوئے دکھائی دیں.آپ نے فلائنگ شاٹ کر کے ایک مرغابی گرالی جب ہماری جماعت میں پہنچے تو مجھے فرمایا کہ میں ایک مرغابی لایا ہوں.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب امیر حلقہ کو دوں یا آپ کے والد صاحب

Page 200

تاریخ احمدیت.جلد 27 190 سال 1971ء کو؟ میں نے جواب دیا کہ چوہدری غلام محمد صاحب کو جس کی دو وجوہات ہیں.حضرت چوہدری غلام محمد صاحب نے میرے والد صاحب سے ایک سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت ۱۹۰۴ء میں کی اور میرے والد صاحب نے ۱۹۰۵ء میں.دوسرے چوہدری غلام محمد صاحب ضلع سیالکوٹ کی ۱/۴ حصہ جماعتوں کے امیر ہیں اور والد صاحب سیکرٹری.میرا جواب سن کر حضرت صاحبزادہ صاحب خوش ہوئے اور مجھے وہ مرغابی دے کر حضرت چوہدری غلام محمد صاحب کے گھر دینے کی ہدایت کی جس کی میں نے تعمیل کی.میں اپنے والد صاحب کو فضل عمر ہسپتال علاج کے لئے ۱۹۷۱ء میں ربوہ لے آیا.اس بیماری کے دوران ایک دن مجھے فرمایا کہ میں خلیفہ المسیح الثالث سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.میں آپ کو گھوڑی پر سوار کرا کر اور گھوڑی کو آہستہ آہستہ چلا کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں لے گیا.جب والد صاحب مشکل سے سیڑھیوں کے اوپر چڑھ کر حضور انور کے پاس اوپر کے کمرہ میں پہنچے تو حضور نے دریافت فرمایا آپ اس کمزوری کی حالت میں یہاں کیسے پہنچے ؟ تو والد صاحب نے جواب دیا کہ محمد الحق اپنی گھوڑی پر آہستہ آہستہ لے آیا ہے اس پر حضور نے مجھے بھی بلا لیا اور والد صاحب سے بہت ہمدردی کا اظہار کیا اور ہومیو پیتھی کی کچھ ادویات بھی عطا فرما ئیں.اس کے قریباً ایک مہینہ بعد والد صاحب نے گاؤں واپس جانے کا ارادہ کیا اور مجھے فرمایا کہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں.زندگی کا اب کوئی اعتبار نہیں.میں پہلے کی طرح آپ کو حضور کے دفتر لے گیا.جب حضور نے ملاقاتیوں میں آپ کا نام پڑھا تو آپ اوپر کے کمرہ سے نیچے تشریف لے آئے اور فرمایا کہ گزشتہ ملاقات کے وقت میں نے آپ کو کمزوری کی حالت میں دیکھا تھا.اس لئے اب میں نیچے آ گیا ہوں تا کہ آپ کو اوپر آنے کی تکلیف گوارا نہ کرنی پڑے.68 چوہدری صاحب تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے مجاہدین میں سے تھے.69 اولاد : عائشہ بی بی صاحبہ.چوہدری محمد اسحاق صاحب سابق مجاہد چین.حفیظہ بیگم صاحبہ.عثمان غنی صاحب.چوہدری بشیر احمد صاحب 70 حضرت ڈاکٹر بابو فقیر اللہ صاحب ولادت : ۱۸۹۸ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء

Page 201

تاریخ احمدیت.جلد 27 191 سال 1971ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں غلام محمد صاحب آف قادیان کے صاحبزادے تھے.آپ نے ۵/اکتوبر کی رات ۷۵ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ مخلص، غمگسار، نیک متقی ، شگفتہ مزاج اور بلند اخلاق انسان تھے.آپ نے ہومیو پیتھک کا امتحان کافی مطالعہ اور محنت سے نمایاں حیثیت کے ساتھ پاس کیا تھا.آپ کی قابلیت کی وجہ سے کافی مریض آپ کے پاس علاج کی غرض سے آتے تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی.جماعتی کاموں میں غفلت اور ستی کو برا مناتے تھے.عام طور پر کہا کرتے تھے کہ احمدیت خدا تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدروہی کرتے ہیں جو اس کی حقیقت سے واقف ہیں.تبلیغ کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ آپ نے اپنا ایک واقعہ سنایا کہ کافی عرصہ کی بات ہے میں صبح سویرے نماز کے بعد لاہور کے گرجوں میں عیسائیت کے متعلق لٹریچر تقسیم کرنے گھر سے روانہ ہو گیا.ایک گرجا میں ایک پادری صاحب موجود تھے میں نے ان کو لٹریچر دیا اور آگے چل پڑا.ابھی میں تھوڑی ہی دور پہنچا کہ اس نے وہ لٹریچر پھاڑ کر میری طرف پھینکا.میں نے پھر دوبارہ نیا لٹریچر دیا اس نے پھر وہی حرکت کی.میں نے تیسری دفعہ پھر نیا لٹریچر پیش کیا.پھر اس نے رکھ لیا اور پڑھنے کا وعدہ کیا میں نے کہا یہ آپ کو پڑھنا چاہئیے.اس میں غلط بات کوئی نہیں ہے.اسی طرح اور کئی واقعات ہیں جن سے ان کے تبلیغی شوق کا پتہ لگتا ہے.آپ نے تین بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑیں.71 اولاد: حمید اللہ صاحب کلیم اللہ صاحب سمیع اللہ صاحب.امتہ اللہ بیگم صاحبہ زوجہ فضل دین صاحب آف لاہور.امتہ اللطیف صاحبہ زوجہ حمید احد ڈوگر صاحب آف لاہور حضرت چوہدری شرف الدین صاحب وفات: ۳۰ نومبر ۱۹۷۱ء ولادت: تقریباً ۱۸۸۱ء بیعت : ۱۹۰۷ء حضرت چوہدری شرف الدین صاحب نے ۱۹۰۷ء میں تحریری طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ ایک متقی ، پرہیز گار اور مخلص خادم سلسلہ تھے.آپ کی رہائش چاہ احمدیاں والا ضلع ملتان میں تھی.آپ کی دینی مساعی سے اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس علاقہ میں احمدیت کو ترقی دی.آپ نے ۳۰ نومبر ۱۹۷۱ء کو عمر ۹۰ سال وفات پائی.72

Page 202

تاریخ احمدیت.جلد 27 192 ۱۹۷۱ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت رسول بی صاحبہ حیدر آباد دکن وفات: ۲۴ جنوری ۱۹۷۱ء سال 1971ء رسول بی صاحبہ، الحاج حضرت سیٹھ حسن صاحب امیر جماعت احمد یہ یاد گیر حیدر آباد دکن کی اہلیہ تھیں.شیخ محی الدین صاحب ساکن چنتہ کنٹہ ضلع محبوب نگر دکن کی صاحبزادی، حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب کی نسبتی بہن اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل یاد گیر کی خوشدامن.ریاست حیدر آباد دکن کی نہایت مخلص اور نیک نمونہ خواتین میں سے تھیں.بلا تفریق مذہب وملت مہمان نوازی آپ کا امتیاز ، شب بیداری اور سلسلہ احمدیہ کی تحریکات میں بشاشت سے حصہ لینا آپ کا شعار تھا.۱۶ را کتوبر ۱۹۴۵ء کو اپنے واجب الاحترام شوہر کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کے لئے حجاز مقدس تشریف لے گئیں.حج کے بعد مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا جہاں حضرت سیٹھ صاحب ۱۲ محرم ۱۳۶۵ھ بمطابق ۱۷ دسمبر ۱۹۴۵ء کو انتقال کر گئے اور جنت البقیع میں دفن کئے گئے.آپ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.73 محمودہ بیگم صاحبہ وفات : ۲۸،۲۷ جنوری ۱۹۷۱ء محمودہ بیگم صاحبہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی ( یکے از ۳۱۳ اصحاب ) کی بڑی صاحبزادی، حضرت میاں حبیب الرحمن صاحب ( یکے از ۱۳ ٫۳اصحاب ) کی بہو اور حضرت شیخ کظیم الرحمن صاحب کی اہلیہ تھیں.مرکز سلسلہ عالیہ احمد یہ قادیان اور ربوہ میں ۵۰ سال سے زائد عرصہ رہائش پذیر ہیں.آپ نے ۲۸،۲۷ جنوری ۱۹۷۱ء کی درمیانی شب وفات پائی.سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق محترم مولانا ابوالعطا ءصاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.74 فضل بیگم صاحبہ وفات : ۸ فروری ۱۹۷۱ ء 75

Page 203

تاریخ احمدیت.جلد 27 193 سال 1971ء محترمہ فضل بیگم صاحبہ، مکرم با بوعبدالکریم صاحب بٹ کی اہلیہ محترمہ تھیں.آپ کو اپنے شوہر کے ہمراہ ۱۹۷۱ء میں حج بیت اللہ کی توفیق ملی.حج کے دوران ہی بیمار ہو گئیں.واپسی پر منی میں دو دن تک علاج کروایا لیکن بیاری بڑھ گئی.کہ کر ملا کر ہسپتال میں داخل کروایا گیا.مگر چند گھنٹوں بعد ہسپتال میں فوت ہو گئیں.آپ کو جنت المعلیٰ میں دفن کیا گیا.مرحومہ نے اپنے خاوند کے ہمراہ لمبا عرصہ مشرقی افریقہ میں گزارا.آپ لمبا عرصہ دار السلام تنزانیہ کی لجنہ اماء اللہ کی عہد یدار اور بعد میں صدر رہیں.دار السلام میں مسجد کا کام جب شروع ہوا تو شہر کی عورتوں سے چندہ وصول کر کے خاص رقم اس مد میں جمع کروائی.سواحیلی ترجمۃ القرآن کی اشاعت میں بھی بڑی دلچسپی دکھائی.مرحومہ بہت دیندار اور عابدہ تھیں.نماز کی بڑی پابند تھیں.اپنی سب بچیوں اور بچوں کو نماز کی پابندی کی خاص تلقین کرتیں.جب کبھی مرکز سلسلہ میں آتیں تو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین سے ضرور ملتیں اور روحانی حظ اٹھاتیں.76 رشید احمد صاحب خالد متعلم جامعہ احمدیہ وفات : ۱۵ فروری ۱۹۷۱ء رشید احمد صاحب چوہدری اللہ رکھا واقف زندگی اسسٹنٹ مینیجر بشیر آباد فارم کے صاحبزادہ تھے.آپ واقف زندگی اور طالب علم جامعہ احمدیہ تھے.آپ والدین کے بے حد فرمانبردار اور جماعت احمد یہ بشیر آباد میں ہر دلعزیز تھے.آپ میں یہ خوبی تھی کہ کسی کام کو عار نہ سمجھتے تھے.آپ نے ۱۵ فروری ۱۹۷۱ء کو وفات پائی.وفات کے وقت آپ کی عمر محض ۲۴ سال تھی.77 مرز امحمد یعقوب صاحب وفات : ۲۶ فروری ۱۹۷۱ء مرزا محمد یعقوب صاحب حضرت مرزا محمد اشرف صاحب سابق محاسب و ناظم جائیداد صدر انجمن احمد یہ قادیان ساکن بلانی ضلع گجرات کے بیٹے تھے.تحریک جدید کے اولین واقفین زندگی تھے.آپ کو تحریک جدید کے مختلف شعبوں میں قریباً ۳۲ سال تک خدمات بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج کے بھی مجاہد تھے.78

Page 204

تاریخ احمدیت.جلد 27 194 سال 1971ء رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب وفات : ۲۶ فروری ۱۹۷۱ء آپ حضرت ماسٹر محمد پریل صاحب کی اہلیہ اور مولوی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ نانا کی والدہ ماجدہ تھیں.بہت مخلص اور نیک خاتون تھیں تبلیغ کا شوق رکھنے والی نیز قرآن مجید کی تلاوت با قاعدگی سے کرنے والی تھیں.بہت مہمان نواز اور ملنسار تھیں.آپ کی بہو محتر مہ رشیدہ باسمہ صاحبہ اہلیہ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر تحریر فرماتی ہیں کہ میرے خاوند جب غانا کے لئے روانہ ہونے لگے تو کسی پریشانی یا گھبراہٹ کا اظہار نہ کیا بس اتنا کہا جاؤ خدا حافظ.اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہو اور کامیاب واپس آؤ.آپ نے ۲۶ فروری ۱۹۷۱ء کو کنڈیارو ضلع نواب شاہ میں وفات پائی.79 ڈاکٹر عبد الرحمن صاحب آف کا مٹی حال کراچی وفات : ۳۰/۲۹ مارچ ۱۹۷۱ء پہلا نام منگل سنگھ تھا.خلافتِ اولیٰ کے عہد مبارک میں ۲۸ مئی ۱۹۱۱ ء کو قبول اسلام کیا.والد نے مقدمہ کھڑا کر دیا.مگر سپر نٹنڈنٹ پولیس لاہور نے یہ کہہ کر اسے خارج کر دیا کہ لڑکا بالغ ہے وہ برضاء ورغبت مسلمان ہوا ہے.باپ نے نمبر داری اور ز مین کا لالچ دیا مگر آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی ہدایت پر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کے سامنے اپنے حقوق نمبر داری اور زمین سے دستبرداری کا بیان دے دیا.حضور نے فرمایا تھا کہ میں خدا سے دعا کروں گا کہ وہ آپ کو اس نمبر داری اور جائیداد کے عوض اس سے اعلیٰ نمبر داریاں اور بہت بڑی جائیداد عطا فرمائے.آپ نے قادیان واپس آ کر جب حضرت صاحب کی خدمت میں یہ رپورٹ پیش کی کہ حضور کے حکم کی تعمیل کر دی ہے تو آپ بہت خوش ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ عبدالرحمن! یہ مت سمجھو کہ اب دنیا میں تمہارا کوئی باپ نہیں ہے.نہیں.نورالدین خود تمہارا باپ ہے.اس کے بعد آپ نے قادیان میں حضرت خلیفہ اول کے زیر سایہ میٹرک کا امتحان پاس کیا دوران تعلیم حضور کی سفارش پر جلسہ سالانہ ۱۹۱۳ء کے موقعہ پر حضرت حافظ مولوی محمد فیض الدین صاحب سیالکوٹی کی صاحبزادی غلام فاطمہ بیگم سے آپ کا نکاح ہو گیا اور آپ کے تمام اخراجات کی ذمہ داری بڑی حد تک حضرت مولوی محمد فیض الدین صاحب نے اٹھالی.میٹرک کے بعد انہوں نے

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد 27 195 سال 1971ء آپ کو مرے کالج سیالکوٹ میں داخل کرا دیا جس سے فارغ ہونے کے بعد میڈیکل کالج لاہور سے آپ نے ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کی.۱۹۲۲ء میں آپ کو فوج میں کمیشن ملا اور دورانِ ملازمت آپ کو افریقہ میں شاندار طبی خدمات انجام دینے کی توفیق ملی.۱۹۲۸ء میں آپ نے فوج سے علیحدگی اختیار کی اور کا نپٹی شہر ( ناگپور بھارت) میں عرصہ دراز تک سرکاری ملازم رہے.بارہ سال تک وہاں آپ بھی میونسپل کمشنر رہے اور آپ کی بیوی بھی.خدا تعالیٰ نے آپ کو حضرت خلیفہ اول کی دعاؤں کی برکت سے اعلیٰ عہدوں، فراخی رزق اور صالح اولاد سے نوازا.ہجرت کے بعد کراچی آباد ہو گئے.اپنے مطب کے بورڈ پر نمایاں طور پر اپنے نام کے ساتھ احمدی لکھوایا ہوا تھا.۱۹۵۳ء میں جبکہ شر پسند عناصر سرگرم عمل تھے آپ کو بورڈ سے ”احمدی“ کا لفظ مٹا دینے کا پرزور مشورہ دیا گیا لیکن اس مرد مومن نے کسی خطرہ کی پرواہ کئے بغیر یہ نام قائم رکھا.لوگ آپ کے حسن اخلاق سے بہت متاثر تھے اور علاج کے لئے کھنچے چلے آتے تھے.آپ کی خوبی تھی کہ علاج کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی جاری رکھتے تھے.بہت نافع الناس وجود تھے کئی سعید روحوں کی ہدایت کا باعث بنے.آپ نے پوری زندگی ایک فدائی اور غیور احمدی کی طرح بسر کی اور ہر جگہ اپنے احمدی ہونے کا برملا اظہار کیا.80 سلیمہ بیگم صاحبہ وفات : ۳/اپریل ۱۹۷۱ء سلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا ارشد بیگ صاحب آف سرگودھا نے دل کا دورہ پڑنے سے ۱/۳ پریل ۱۹ کو وفات پائی.آپ حضرت مرزا احسن بیگ صاحب کی بیٹی تھیں جو کہ محدی بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا سلطان محمد صاحب کے خالہ زاد اور بہنوئی بھی تھے.آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بہت قریبی دوستوں میں سے تھے.آپ کے تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں تھیں.81 ہاجرہ بیگم صاحبہ المعروف ” آپوجی وفات : ۲۹ را پریل ۱۹۷۱ء محترمہ باجرہ بیگم صاحبه خواجہ غلام احمد صاحب امرتسری کی اہلیہ تھیں.آپ ۱۸۹۴ء میں سکھو چک میں پیدا ہوئیں.آپ اپنے والدین کی سب سے آخری اور نویں لڑکی تھیں.اس زمانہ کے رواج کے مطابق آپ کی پیدائش پر افسوس کا اظہار کیا گیا.لیکن یہ خدا کی قدرت تھی کہ احمدیت کے نور سے

Page 206

تاریخ احمدیت.جلد 27 196 سال 1971ء خدا نے صرف انہیں ہی سرفراز کیا.آپ اپنی شادی کے چند سال بعد اپنے شوہر کی تبلیغ سے احمدیت میں داخل ہوئیں اور پھر نہایت مضبوطی سے عہد بیعت پر قائم رہیں.خلیفہ وقت کے ہر حکم اور ہر ارشاد پر جاں نثار کرنے کیلئے ہر دم آمادہ اور تیار رہتیں.مسجد فضل لندن کے لئے حضرت مصلح موعود نے جب چندہ کی تحریک کی تو آپ نے فوراً اپنے کانوں سے کانٹے اتار کر چندہ میں دے دئے.اسی طرح حتی الا مکان ہر چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں.نیز چندہ وصول کرنے کا بھی خاص ملکہ تھا.اگر کوئی سخت بات بھی کہ دیتا تو صبر سے سنتیں اور تحمل سے جواب دیتیں.جماعت کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر اور دلی لگاؤ سے حصہ لیتیں اور بچوں کو بار بار اس کی تاکید فرماتیں.نمازوں کی پابندی کی سختی سے تلقین فرمائیں.آپ کے بیٹے مکرم خواجہ محمد امین صاحب امرتسری تحریر فرماتے ہیں کہ ابھی ہم چھوٹے ہی تھے کہ والد صاحب ( خواجہ غلام احمد صاحب) کے سائے سے رضائے الہی سے مرحوم کر دئے گئے.میں بھائیوں میں سب سے بڑا تھا میری عمر اس وقت صرف دس سال تھی.بڑے مصائب کا وقت تھا لیکن والدہ صاحبہ مرحومہ نے بڑے ہی صبر سے یہ وقت گزارا اور ہمیں اپنے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی.جب تقسیم ملک کا وقت آیا اور حفاظت قادیان کا سوال پیدا ہوا تو ہم دو بھائیوں (خواجہ محمد امین اور خواجہ محمد اکرم ) نے حفاظت قادیان کے لئے نام پیش کر دئے.حالات سخت خطر ناک تھے.لیکن والدہ صاحبہ نے اف تک نہ کی اور خوشی سے جانے کی اجازت دے دی.اس کے کچھ عرصہ بعد کشمیر کے محاذ پر مجھے جانا پڑا اس کے لئے جب والدہ مرحومہ سے اجازت چاہی تو انہوں نے بخوشی جواب دیا کہ جاؤ بیٹا ضرور جاؤ.والدہ مرحومہ کو خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی.حضرت ام ناصر اور حضرت مصلح موعود جب اپنی زمینوں پر یا پہاڑ پر تشریف لے جاتے تو ہماری والدہ صاحبہ کو لاہور سے یاد فرماتے.حضرت مصلح موعود نے کئی بار تعریفی کلمات ہماری والدہ صاحبہ کے متعلق فرمائے.ہماری والدہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں رشید کی اماں“ کے نام سے مشہور تھیں.ہجرت کے بعد قیام لاہور کے دوران کافی عرصہ تک لجنہ اماء اللہ حلقہ محمد نگر کی سیکرٹری مال رہیں بعد میں اسی حلقہ کی صدر منتخب ہوئیں.اور زندگی کے آخری وقت تک آپ اس ذمہ داری کو نہایت احسن طریق پر انجام دیتی رہیں.آپ نے ۲۹ / اپریل ۱۹۷۱ء کو وفات پائی.82

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد 27 بشیر احمد چغتائی صاحب وفات: ۱/۳۰،۲۹ پریل ۱۹۷۱ء 197 سال 1971ء مکرم بشیر احمد صاحب چغتائی نے مورخہ ۱/۳۰،۲۹ پریل ۱۹۷۱ ء کی درمیانی شب کو بعمر ۶۱ سال وفات پائی.آپ موصی تھے.یکم مئی ۱۹۷۱ ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے باوجود علالت طبع کے از راہ شفقت نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب کثیر تعداد میں شریک ہوئے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں عمل میں آئی.آپ ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے.کالج کے زمانہ میں احمد یہ ہوٹل لاہور سے تعلق رہا.محترم ملک عبد الرحمن خادم صاحب کے عزیز دوستوں میں سے تھے اور انہی کی وساطت سے قبول احمدیت کی توفیق ملی.آپ نے ۱۹۳۵ء میں بیعت کی اور آخر دم تک سلسلہ اور خلافت سے اپنی گہری وابستگی کو قائم رکھا.آپ ایک طویل عرصہ تک جماعت احمد یہ جمشید پور ( ٹاٹانگر ) کے صدر رہے.عرصہ دس سال تک واہ کینٹ کی جماعت کے پریذیڈنٹ رہے.آپ نے واہ کینٹ مسجد احمدیہ کی تعمیر کے سلسلہ میں نمایاں خدمات سرانجام دیں.83 عبدالرشید صاحب وفات : ۱۶ مئی ۱۹۷۱ء عبدالرشید صاحب ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب کے برادر اصغر تھے.آپ ۱۹۲۰ء میں قادیان تشریف لاۓ.اور قادیان کی روحانی فضا سے متاثر ہو کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دور میں بیعت کی سعادت حاصل کی.جب شدھی کی تحریک شروع ہوئی تو آپ بھی میدان ارتداد میں تبلیغ کے لئے گئے اور دوسال مسلسل بڑی تکلیفیں اٹھا کر کام کرتے رہے.ایک سالم گاؤروں کو اپنی کوششوں سے شدھ ہونے سے بچا لیا.باقی مجاہدین کے ساتھ آپ نے بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے خوشنودی کا سرٹیفیکیٹ حاصل کیا.آپ نے قریباً ساری عمر غربت میں بسر کی.اور بڑے صبر اور دینداری سے زندگی کے دن گزارے.تقسیم ملک کے بعد کچھ عرصہ گوجرانوالہ میں اور اس کے بعد قریبا ۲۰ برس گوکھو وال متصل لائلپور (فیصل آباد) میں مقیم رہے.آپ نے ۱۶ مئی ۱۹۷۱ء کو ۷۲ سال کی عمر میں وفات پائی.84

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد 27 198 سال 1971ء رشیدہ بیگم صاحبه وفات : ۱۸ مئی ۱۹۷۱ء رشیدہ بیگم صاحبہ مولانا چراغ الدین صاحب مربی سلسلہ کی اہلیہ محترمہ تھیں.آپ نے ۱۸ مئی ۱۹ ءکو وفات پائی.مرحومہ نیک اور عبادت گزار خاتون تھیں.آپ کے خاوند چونکہ اکثر تبلیغی دورے پر رہتے اس دوران مرحومہ ہی گھر کے کاموں کا بوجھ اٹھا تیں.آپ نے اپنے پیچھے ۳ بیٹے اور ۵ بیٹیاں چھوڑیں.85 عارف نعیم صاحب وفات : ۳ جون ۱۹۷۱ء عارف نعیم صاحب سائپرس کے رہنے والے ترک تھے.نوجوانی میں سیر و سیاحت کرتے ہوئے انگلستان آئے اور پھر انگلستان کے ہی ہو کر رہ گئے.یورپ میں رہنے کے باوجود یورپ کی لغویات سے محفوظ رہے.آپ پہلے پہل جناب جمالی (ایک ترک احمدی) کے ساتھ مسجد تشریف لائے.یہ سلسلہ جاری رہا.احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آخر محترم چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد فضل لندن کی تبلیغ اور حسن سلوک کے نتیجہ میں احمدیت قبول کی.آپ کی پرکشش طبیعت اور ایثار و قربانی سے متاثر ہو کر عارف صاحب کے دل میں بھی تڑپ پیدا ہوئی اور یہ عزم اور ارادہ لے کر آپ کچھ عرصہ کے لئے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ تشریف لائے.آپ کی دلی خواہش تھی کہ دینی تعلیم حاصل کر کے اپنی قوم تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا ئیں.اس غرض کے لئے مرکز سلسلہ میں تقریباً تین سال تک رہے.آپ کی شادی پاکستان میں سیدنا حضرت خلیفہ اُسیح الثانی کی تحریک پر ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی آپ سے بڑی محبت فرماتے تھے.شادی کے کچھ عرصے بعد ا پنی اہلیہ اور بچے کو ساتھ لیکر انگلستان واپس چلے گئے.آپ کا تعلق جماعت سے ہمیشہ مضبوط رہا اور اپنے عزیزوں اور ہم وطنوں کو جب بھی موقع ملا اسلامی احکامات اور اسلام کی خوبیوں اور ممنوعات کے بارہ میں پر جوش طریق پر اپنی زبان میں تبلیغ کرتے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ مجھ میں اور میری

Page 209

تاریخ احمدیت.جلد 27 199 سال 1971ء قوم میں یہ نمایاں فرق اس لئے ہے کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کی.آپ کچھ عرصہ ہائی بلڈ پریشر کے باعث علیل رہے اور ۳ جون ۱۹۷۱ء کو وفات پائی.86 را دن یوسف صاحب انڈونیشیا وفات : ۱۴ جون ۱۹۷۱ء را دن یوسف صاحب انڈونیشیا کی سرزمین میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے ابتدائی ایام خلافت میں حضرت مولانا رحمت علی صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ احمدیت کی غلامی میں شامل ہوئے.آپ انڈونیشیا کی جماعت کے ایک فعال رکن ، نامور خادم اور جماعت احمد یہ بوگور کے صدر تھے.آپ کی آنریری تبلیغی مساعی سے اس خطہ ارض کے کئی مقامات پر جماعت ہائے احمدیہ کا قیام ہوا.آپ ایک تہجد گزار اور متدین انسان تھے.آپ جون ۱۹۷۱ء کو ۶۱ سال کی عمر میں دل کی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے.87 شیخ ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ وفات : ۱۵ جون ۱۹۷۱ء شیخ ارشد علی صاحب صحابی ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ حمد علی صاحب ( موضع دھرم کوٹ بگہ تحصیل بٹالہ) کے صاحبزادے اور صاحب کشف ورڈ یا بزرگ تھے تقسیم ملک تک بٹالہ میں پریکٹس کرتے رہے.آپ کا معمول تھا کہ سارا ہفتہ پریکٹس کرتے اور اتوار کو حضرت مرزا عبدالحق پلیڈر گورداسپور اور میاں عطاء اللہ صاحب وکیل امرتسر کے ہمراہ قادیان پہنچ جایا کرتے.نومبر ۱۹۳۷ء میں حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب کے خلاف پمفلٹ بابا نانک رحمتہ اللہ کا دین دھرم کی بناء پر مجسٹریٹ بٹالہ کی عدالت میں مقدمہ ہوا جس کی آپ نے مفت پیروی کی.ہجرت کے بعد آپ نے وفات تک سیالکوٹ میں قیام رکھا اور جماعت میں قاضی ،سیکرٹری اصلاح و ارشاد اور مشیر قانونی کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.آپ کی وفات پر سیالکوٹ بارایسوسی ایشن نے تعزیتی قرار داد منظور کی اور ۱۹ جون ۱۹۷۱ ء کو مقامی عدالتیں بند رہیں.88 صفیہ بانو صاحبہ وفات : ۲۰ جون ۱۹۷۱ء

Page 210

تاریخ احمدیت.جلد 27 200 سال 1971ء صفیہ بانو صاحبہ حضرت منشی محمد رحیم الدین صاحب متوطن سوباره ضلع بجنور ( یکی از ۳۱۳ اصحاب ) کی صاحبزادی اور حضرت محمد یامین صاحب تاجر کتب آف قادیان کی دوسری اہلیہ تھیں.آپ پیدائشی احمدی تھیں.فرشتہ صفت مخلص صحابی کی بیٹی ہونے کے باعث اپنے والد محترم کے رنگ میں ہی رنگین ہو گئیں.آپ صوم وصلوٰۃ کی خود بھی بہت پابند تھیں اور بچوں کو بھی ہمیشہ تلقین فرماتی رہتی تھیں.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ خاص انس اور محبت رکھتی تھیں.بڑی عابدہ زاہدہ اور مخلص خاتون تھیں.چندے وغیرہ بھی پابندی سے ادا فرماتی تھیں.۱۹۲۳ء میں آپ نے وصیت کی اور جو حصہ جائیداد بنتا تھا وہ تمام کا تمام ادا کر دیا.مکرم حافظ مبین الحق شمس صاحب یا مین بکڈ پور بوہ تحریر فرماتے ہیں کہ بچوں کی تربیت کا خاص طور سے خیال رکھتی تھیں.میرے ساتھ ان کا ایسا برتاؤ تھا کہ مجھے اتنا احساس بھی پیدا نہیں ہونے دیا کہ وہ میری دوسری والدہ ہیں.شفقت محبت اور ہمدردی سے ان کا ہمیشہ برتاؤ رہا.اور تمام بہن بھائیوں میں کسی قسم کی تفریق پیدا ہونے نہیں دی.میں ہمیشہ ان کو اپنی حقیقی والدہ خیال کرتا رہا.محترمہ والدہ صاحبہ کو حضرت اماں جان سے خاص محبت اور انس تھا.حضرت اماں جان قادیان میں جب مقبرہ بہشتی تشریف لے جاتیں تو آپ کو گھر سے اپنے ہمراہ لے لیا کرتیں.ہمارا مکان عقب انگر خانه مسیح موعود مقبرہ بہشتی روڈ پر واقع تھا.واپسی پر ہمارے ہاں کچھ دیر قیام فرماتیں.اور پانی وغیرہ پی کر پھر اپنے گھر تشریف لے جاتیں.حضرت اماں جان کا عموماً یہ معمول رہا.کسی وقت اگر حضرت اماں جان کو جانے کی جلدی ہوتی تو اپنی سوٹی سے دروازہ کھٹکھٹا کر چلی جاتیں جس سے محترمہ والدہ صاحبہ مرحومہ یہ سمجھ لیتیں کہ اماں جان مقبرہ بہشتی جا رہی ہیں تو وہ بھی فوراً برقع پہن کر اور تیزی سے چل کر ان سے راستہ میں ہی مل جاتیں.بہر حال حضرت اماں جان سے محبت انتہاء تک پہنچی ہوئی تھی.کئی مرتبہ حضرت اماں جان نے اپنے رنگین دو پٹے و دیگر پار چات بطور تبرک عطا فرمائے.آپ نے ۲۰ جون ۱۹۷۱ء کو وفات پائی.89 چوہدری نورالدین جہانگیر صاحب وفات: ۱۵ جولائی ۱۹۷۱ء محترم چوہدری نورالدین جہانگیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چوہدری غلام حسین صاحب (انسپکٹر آف سکولز) کے صاحبزادے اور صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اور مایہ ناز

Page 211

تاریخ احمدیت.جلد 27 201 سال 1971ء سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے پھوپھی زاد بھائی تھے.سرکاری حلقے نہ صرف ان کی دیانتداری کے معترف تھے بلکہ اس اعلیٰ خوبی کی وجہ سے بے حد مداح تھے.آپ اسسٹنٹ ڈائیریکٹر فوڈ ڈیپارٹمنٹ بھی رہے تھے.عرصہ ملازمت میں خدمت خلق کا آپ نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.۱۹۵۳ء کے ہنگاموں کے دوران آپ اپنی ملازمت کے دوران ملتان میں مقیم تھے اور اپنے محلہ میں اکیلے احمدی تھے.متعددعزیزوں اور دوستوں نے وہاں سے چلے آنے کا مشورہ دیا مگر آپ وہیں ڈٹے رہے اور روزانہ اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو کر حسب معمول سب لوگوں حتی کہ مخالفوں کے کام بھی خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے.انہی دنوں ایک رات انتہائی مخالفت کے باعث خطرہ کی رات سمجھی جاتی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبہ خدمت خلق کو قبول کرتے ہوئے غیر احمدی ہمسائیوں کو اس بات پر آمادہ کر دیا کہ وہ آپ کی حفاظت کے لئے نکل کھڑے ہوں.چنانچہ وہ اپنی بندوقیں لے کر ساری رات آپ کے گھر کا پہرہ دیتے رہے.آپ سلسلہ کے فدائی اور شیدائی تھے.سلسلہ کے کارکنوں خصوصاً مربیان کرام کی خاطر و مدارت اور ان کی تواضع میں ہمیشہ کوشاں رہے اور یہی روح اپنی اولاد میں بھی اجاگر کی.ہر ایک سے بشاشت کے ساتھ پیش آنا اور محض رضاء الہی کی خاطرحتی المقدور ان کے کام کرنا آپ کی زندگی کا واضح اصول تھا جس پر آپ پوری عمر سختی سے کاربند رہے.آپ نے ۱۵ جولائی کو ساہیوال میں بھمر ۷ ۵ سال وفات پائی.آپ کا جنازہ ربوہ لا یا گیا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.بعد ازاں حضور کی منظوری سے قبرستان شہداء میں تدفین عمل میں آئی.90 نور بی صاحبہ آف ماریشس وفات : ۳/ اگست ۱۹۷۱ء نور بی صاحبہ، عبدالستار صاحب ماریشس کی اہلیہ اور احمد شمشیر سوکیہ صاحب مربی سلسلہ کی والدہ تھیں.آپ بہت مخلص، دیندار اور قربانی کرنے والی خاتون تھیں.حج بیت اللہ سے بھی مشرف تھیں اور قادیان ور بوہ کی زیارت سے بھی مشرف ہو چکی تھیں.91 چوہدری یوسف علی صاحب وفات: ۲۳ /اگست ۱۹۷۱ء

Page 212

تاریخ احمدیت.جلد 27 202 سال 1971ء ۱۹۳۲ء میں احمدی ہوئے جس پر آپ کی زبر دست مخالفت ہوئی.متواتر پانچ سال تک آپ کی زرعی اراضی کولوگوں نے کاشت کرنا چھوڑ دیا.جو کاشت کر تا روک دیا جاتا.گاؤں کے ہر کنوئیں بلکہ باہر سے بھی پانی لانے پر پابندی لگا دی گئی.ان ایام میں ایک پڑوسن رات اندھیرے میں چپکے سے ایک گھڑا پانی کا ان کے گھر پہنچا دیتی تھی.اہلیہ محترمہ روٹھ کر میکے چلی گئیں مگر جلد ہی آپ کا نمونہ دیکھ کر بیعت کر لی اور ساری زندگی کمال استقامت سے احمدیت کے ساتھ وابستہ رہیں.بالکل ان پڑھ تھے لیکن ساری عمر جہاں کہیں رہے الفضل ضرور منگواتے رہے.پورا اخبار غیر احمدی دوستوں سے سننا آپ کا معمول تھا.آپ برج انسپکٹر کنگ آرائیاں ضلع جالندھر رہے.اپنے محکمہ میں بوجہ دیانتداری خصوصی شہرت رکھتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک غیر ملکی فرم نے آپ کو سکھر کا نیا پل بنانے کے لئے بلالیا اور کام ختم ہونے پر آپ کو دیانتداری اور فرض شناسی کے اعتراف کے طور پر پانچ سور و پیا انعام اور اعلیٰ کارکردگی کی سند دی.غریبوں کے ہمدرد اور بلا امتیاز مذہب وملت سبھی کے غمخوار تھے.دورانِ گفتگو جب حضرت مصلح موعود کا ذکر مبارک آتا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے.دعوت الی اللہ ان کا شعار تھا.آپ کی وفات چک نمبر 30 جنوبی سرگودہا میں ہوئی.92 مریم صاحبہ.انڈونیشیا وفات:۷ ستمبر ۱۹۷۱ء مولا نا ذینی دہلان صاحب کی زوجہ محترمہ تھیں جو انڈونیشیا کے اولین احمدیوں میں سے تھے.آپ کے شوہر سات سال تک علوم دینیہ کی تحصیل کے لئے قادیان میں قیام فرمار ہے.اس لمبے عرصہ کو آپ نے نہایت صبر و شکر اور قربانی کی روح کے ساتھ گزارا.آپ تہجد گزار تھیں.فریضہ حج کی بجا آوری کی بھی توفیق پائی.لجنہ اماءاللہ انڈونیشیا کی سرگرم ممبر تھیں.قرآن کریم کی تلاوت کا خاص شغف تھا.ابتدائی عمر میں جماعتی اجتماعات کے مواقع پر مختلف مقابلہ جات میں خصوصی انعامات حاصل کئے.سفنی ظفر احمد صاحب واقف زندگی مربی انڈو نیشیا آپ ہی کے فرزند اور دین کے سپاہی ہیں.93 چوہدری محمد عبد اللہ صاحب امیر جماعت کھاریاں وفات : ۱۰ ستمبر ۱۹۷۱ء

Page 213

تاریخ احمدیت.جلد 27 203 سال 1971ء چوہدری محمد عبداللہ صاحب ایک محبت کرنے والے دوست اور سلسلہ احمدیہ کے مخلص خادم تھے.خاموش طبع اور محنتی کارکن تھے.فوجی تربیت یافتہ تھے.بعد میں عرصہ دراز تک مدرس رہے.ڈسٹرکٹ بورڈ میں بھی اور پھر جماعتی مقامی سکول میں بھی ان کے پڑھائے ہوئے بچے بالعموم خوش خط سلجھے ہوئے اور مقابلوں میں امتیازی کیفیت کے حامل ہوتے تھے.کھاریاں کے تعلیم الاسلام پرائمری سکول کو مڈل میں اور پھر باوجود نامساعد حالات کے ہائی سکول میں ترقی آپ کی یادگار رہے گی.آپ نے ۱۰ ستمبر ۱۹۷۱ء کو وفات پائی.94 سیدہ طیب النساء صاحبه وفات : ۲۲ ستمبر ۱۹۷۱ء سیدہ طیب النساء صاحبہ، سید نصیر الدین صاحب مہاجر قادیان کی دختر اور خواجہ معین الدین صاحب باہمن ضلع لاہور کی اہلیہ تھیں.خواجہ معین الدین صاحب کی والدہ حبیب النساء صاحبہ نے اپنے آپ کو حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا.حضرت اماں جان ہی کی تحریک پر سید نصیر الدین صاحب نے یہ رشتہ کیا جو ان دنوں مدراس کے قریب رہتے تھے لیکن قادیان آنے کیلئے کرایہ تک کی استطاعت نہیں رکھتے تھے.حضرت اماں جان نے اخراجات سفر کے لئے مبلغ پانچ صد روپے عنایت فرمائے اور سید نصیر الدین صاحب مع اہل وعیال ہجرت کر کے قادیان آگئے.دوسرے دن حضرت اماں جان کچھ پار چات اور زیورات لے کر ان کے گھر تشریف لے گئیں اور دلہن کو اپنے گھر دار اسی میں لے آئیں.اس طرح طیب النساء صاحبہ کی تقریب شادی عمل میں آئی.چار ماہ تک حضرت ممدوحہ اپنے مطبخ سے اس جوڑے کا کھانا بھجواتی رہیں.بستر اور چار پائی کا انتظام بھی انہوں نے کیا.خواجہ معین الدین صاحب کا بیان ہے کہ بڑی شفقت و محبت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کہ طیب النساء کو بیاہ کر میں لائی ہوں وہ میری بہو ہے.شادی کے چار ماہ بعد حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب نے دار الضعفاء میں ایک پختہ مکان بنوا دیا.حضرت اماں جان مقبرہ بہشتی کی طرف تشریف لاتیں تو اس مکان میں بھی قدم رنجہ فرمایا کرتیں اور اظہار شفقت کے لئے کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا کام اپنی منہ بولی بہو سے لے لیا کرتی تھیں.سیدہ طیب النساء صاحبہ پابند صوم وصلوٰۃ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے غایت درجہ اخلاص و محبت رکھنے والی خاتون تھیں.95

Page 214

تاریخ احمدیت.جلد 27 مولوی ابوالفضل محمود صاحب وفات: ۲۹ ستمبر ۱۹۷۱ء 204 سال 1971ء دعوت الی اللہ کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.قادیان میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب و اشتہارات اور ٹریکٹوں کی اشاعت کی سکیم تیار کی.جس کے تحت جماعتی لٹریچر مفت یا برائے نام قیمت میں شائع کر کے اسے ملک بھر میں پھیلا دیا.ان کی ایک مطبوعہ تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ تین لاکھ سے زائد ٹریکٹ اور کتابیں شائع کرنے کی آپ کو توفیق ملی.کئی مخلص اور مخیر احمدی اس سکیم کے لائف ممبر تھے.آپ کو تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہونے کی سعادت بھی حاصل تھی.96 سیدہ کلثوم بانو صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی وفات: ۷ اکتوبر ۱۹۷۱ء سیده کلثوم بانو صاحبہ، حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی اور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری عبداللطیف خان صاحب کی خوشدامن اور لجنہ اماءاللہ کی ابتدائی ممبرات میں سے تھیں.97 کرنل قاضی محمد انور جان ہوتی مردان وفات : ۱۶ راکتو برا ۱۹۷ء قاضی محمد عمر صاحب آف ہوتی کے خلف الرشید اور قاضی عبد الحق صاحب کے پوتے تھے 98 جو حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کے ذریعہ حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.کمانڈر انچیف افواج ہند نے دوسری جنگ عظیم کے دوران اعلیٰ خدمات کے صلہ میں سند خوشنودی عطا کی.۱۹۴۷ء ( تقسیم ہند ) کے دوران مشرقی پنجاب کے مظلوم مسلمانوں کے قافلوں کو سکھوں کے خونی جتھوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی.قیام پاکستان کے بعد عرصہ تک گورنر مشرقی پاکستان کے ملٹری سیکرٹری کے عہدہ پر فائز رہے اور احسن کارکردگی پر حکومت پاکستان سے تمغہ قائد اعظم کا قابل فخر اعزاز عطا ہوا.سلسلہ کے فدائی تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے آپ کی جماعتی خدمات پر اپنی دستخطی سند خوشنودی مرحمت فرمائی.نڈر اور جانباز جوانمرد تھے.مرض الموت کے دوران جب سی ایم ایچ ہسپتال راولپنڈی میں

Page 215

تاریخ احمدیت.جلد 27 205 سال 1971ء داخل تھے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے عرصہ قیام اسلام آباد میں دو مرتبہ اپنے مخلص خادم کی عیادت فرمائی اور اپنی شفقت اور ذرہ نوازی سے عزت افزائی کی.99 خان فضل محمد خان صاحب وفات: ۲۸/اکتوبر ۱۹۷۱ء ۱۹۱۴ ء میں جبکہ آپ کی عمر ۲۱ سال تھی داخل احمدیت ہوئے.آپ کا شمار جماعت احمد یہ شملہ کے اولین معماروں میں ہوتا ہے.اپنی سرکاری ملازمت کے دوران شملہ، دہلی اور کانپور میں مقیم رہے اور ایک فدائی اور غیور احمدی کی حیثیت سے سلسلہ احمدیہ کی نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں.آپ کی پوری زندگی تبلیغ سے عبارت تھی.پیغام احمدیت ہر قریہ اور ہر گھر تک پہنچانا آپ کی زندگی کا مقدس مشن تھا.حتی کہ سفر آخرت پر روانگی سے قبل جس آخری شخص سے بات کی اس کا موضوع بھی تبلیغ احمدیت ہی تھا.زبان شیریں، پاکیزہ ، شستہ اور انداز گفتگو بہت دلنشین تھا.مدلل ، پر جوش اور فصیح و بلیغ کلام میں اپنی نظیر آپ تھے.آپ کے ذریعہ بہتوں کو قبول حق کی سعادت نصیب ہوئی.100 ست بھرائی صاحبہ وفات:۲۹/اکتوبر ۱۹۷۱ء ست بھرائی صاحبہ میاں غازی احمد صاحب آف پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد کی اہلیہ تھیں.آپ اوائل شباب میں احمدیت کے نور سے منور ہوئیں.آپ نے اپنی ساری عمر تقویٰ اور پر ہیز گاری میں گزاری.ایک موقع پر مقامی مسجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک ہوئی تو آپ نے اپنا سارا زیوراس نیک کام میں دے دیا.ذکر الہی آپ کا بہترین مشغلہ تھا.بہت ہی متوکل خاتون تھیں.آپ نے ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو بعمر ۹۰ سال وفات پائی.101 ملک حبیب اللہ خاں صاحب وفات : ۲ نومبر ۱۹۷۱ء ملک حبیب اللہ خاں صاحب، ملک نصر اللہ خاں صاحب نیلا گنبد لاہور کے بیٹے اور عبدالستار خادم صاحب گوجرانوالہ کے داماد تھے.آپ ڈھا کہ میں بحیثیت لائن سپرنٹنڈنٹ الیکٹریسٹی واپڈا متعین تھے.بعمر ۳۰ سال اپنے فرائض کی سرانجام دہی کے دوران شہید ہوئے.۲ نومبر ۱۹۷۱ء کو

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد 27 206 سال 1971ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور شہداء کے قبرستان میں تدفین عمل میں آئی.102 حاجی عبد العظیم میمن صاحب وفات : ۶ نومبر ۱۹۷۱ء حاجی عبد العظیم صاحب میمن ، نے 4 نومبر ۱۹۷۱ء کو بعمر ۶۱ سال بمقام ڈھا کہ وفات پائی.آپ ۱۹۱۰ء میں کچھ میں پیدا ہوئے.آپ کو اپنے سسر مکرم سیٹھ عبدالستار صاحب میمن اور اپنی رفیقہ حیات مکرمہ عائشہ بیگم صاحبہ کی معرفت احمدیت کی روشنی پہنچی.طبیعت نیک تھی بالآخر ۱۹۵۶ء میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ربوہ پہنچے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کر کے حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.میمن خاندان کے زیادہ لوگ دین کے بارہ میں بڑے ہی کٹر اور تقلید پسند ہیں لیکن حاجی عبد العظیم صاحب نے خاندانی روایات ، رسومات اور تقلید پسندانہ خیالات کی پرواہ کئے بغیر جواں مردی کے ساتھ حق و صداقت پر قدم مارا اور آخر دم تک نہایت ثابت قدمی کے ساتھ حق و صداقت پر قائم رہے.آپ نے ایک بیٹا اور ایک بیٹی بطور یادگار چھوڑے.103 رقیه خاتون صاحبه وفات: ۹ نومبر ۱۹۷۱ء حضرت صوفی مولا بخش صاحب کی بہو اور شیخ محمد اسحاق صاحب آف لاہور کی اہلیہ تھیں.صاحب رؤیا تھیں.لجنہ اماءاللہ کے ابتدائی زمانہ میں بہت کام کیا.درس قرآن بھی دیتی تھیں.104 محمد اسحق انور صاحب وفات: ۱۲ نومبر ۱۹۷۱ء محمد اسحق انور صاحب حضرت سیٹھ فضل کریم صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے اور مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کے بھائی تھے.آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طالب علم تھے.اور پاکستان بننے سے قبل اس سکول سے میٹرک پاس کرنے والے آخری گروپ میں سے ایک تھے.آپ کو بچپن سے ہی خدمت سلسلہ کا شوق تھا.آپ نے اپنی زندگی وقف کرنے کی درخواست حضرت مصلح موعود کو مارچ ۱۹۴۷ء میں بھجوائی.میٹرک کا نتیجہ نکلنے پر حضور نے آپ کو

Page 217

تاریخ احمدیت.جلد 27 207 سال 1971ء فوراً تعلیم الاسلام کالج قادیان میں کام کرنے کا ارشاد فرمایا.پھر جلد ہی ہجرت کا دور دورہ ہوا.پاکستان ہجرت کے بعد آپ کو حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دفتر امانت صدر انجمن احمد یہ میں کام کرنے کا موقع ملا.قیام ربوہ کے دوران جب حضرت مصلح موعود کچے مکانوں میں تشریف لے آئے تو آپ کو حضور کا امانت ذاتی کا حساب پیش کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.اور اس طرح آپ کو حضور کی صحبت میں بھی دیر تک حاضر رہنے کا موقع ملتا رہا.ان خوش قسمت ایام کا ذکر کر کے آپ کا چہرہ خوشی سے روشن ہو جایا کرتا.اس دوران تحریک جدید کی زمینوں پر نور نگر فارم میں ایک اکاؤنٹنٹ کی فوری ضرورت پیش آئی.حضرت مصلح موعود چونکہ آپ کے کام سے خوب واقف تھے.اس لئے آپ کا انتخاب کیا اور پھر حکم دیا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر روانہ ہو جائیں.چنانچہ اس ارشاد کی تعمیل میں آپ ۲۹ نومبر ۱۹۵۴ء کو سندھ جا پہنچے.جہاں آپ کو مفوضہ فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ جماعت کا سیکرٹری مال اور مجلس خدام الاحمدیہ کی قیادت کرنے کی توفیق ملی.نیز وہاں کی جماعت کی نمائندگی مجلس مشاورت کے موقع پر کئی بار کرنے کی سعادت ملی.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر برادر محمد الحق انور صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ محمد اسحق صاحب انور کا خلیفہ وقت سے محبت کا جذبہ عشق کے درجہ تک پہنچا ہوا تھا.صحت کے ایام میں تو اس کا اظہار مختلف ذرائع سے کیا ہی کرتے تھے مگر جب بیمار ہوئے تو حضرت مصلح موعود کی صحت کے لئے دوائیں بنانا اور دعائیں کرنے کا انہیں جنون سا ہو گیا تھا.عام نمازوں کے علاوہ تہجد میں بعض دوستوں کو بھی شامل کر لیتے.اور اتنی لمبی دعائیں کرتے کہ بعض دفعہ ساتھی برداشت نہ کر سکتے.اکثر کوئی نہ کوئی دوائی تیار کرتے اور میرے سپرد کرتے کہ اسے حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دوں.اور ساتھ ہی اس یقین کا اظہار کرتے کہ اس دوائی سے ضرور حضور کو صحت کاملہ ہو جائے گی.۱۹۶۳ء کی گرمیوں میں کوئٹہ گئے وہاں سے لوہے کا ہاون دستہ خرید لائے تا حضور کے لئے دوائی تیار کرنے میں آسانی رہے.آپ فالج کے مریض تھے.آخری چند سالوں میں چلنا پھرنا بھی مشکل تھا مگر پھر بھی خلیفہ وقت کی ملاقات کا بے حد شوق تھا.جون ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث مغربی افریقہ کے کامیاب دورہ سے واپس تشریف لائے تو حضور سے ملنے کے لئے کئی بار کوشش کرتے.مگر لڑ کھڑا کر گر جاتے.آخر ایک دن پروگرام بنا کر خاکسار سائیکل پر بٹھا کر لایا اور قصر خلافت اور مسجد کے درمیان کرسی پر بٹھایا.حضور انور نماز کے لئے تشریف لائے تو ملاقات ہو گئی.جس سے بے حد خوش

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد 27 208 سال 1971ء ہوئے.آپ کو تبلیغ کا بھی بہت شوق تھا.بیماری کے باوجود بھی کتابیں خریدتے اور بڑے لمبے لمبے تبلیغی خطوط بڑے بڑے آفیسروں کو لکھتے رہتے.لاہور کے ہسپتالوں میں زیر علاج رہے وہاں بھی مریضوں کے علاوہ ڈاکٹروں کو بھی تبلیغ جاری رکھتے.آپ نے ۱۲ نومبر ۱۹۷۱ء کو ایک لمبی بیماری کے بعد وفات پائی.105 چوہدری عبدالمومن خاں صاحب کا ٹھر گڑھی وفات : ۱۲ نومبر ۱۹۷۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چوہدری عبدالسلام خاں صاحب کا ٹھگر بھی کے فرزند تھے.۱۹۳۵ ء سے ۱۹۵۴ء تک حضرت مصلح موعود کی اراضیات ناصر آباد (سندھ) میں نہایت فرض شناسی سے اکاؤنٹنٹ کے فرائض بجالاتے رہے.بہت نیک اور عابد وزاہد انسان تھے.106 قریشی عبدالعزیز صاحب وفات: ۱۵،۱۴ نومبر ۱۹۷۱ء قریشی عبد العزیز صاحب، قریشی عبدالرشید صاحب ایڈووکیٹ سابق وکیل المال تحریک جدید کے والد ماجد تھے.۱۹۳۳ء میں بذریعہ خواب صداقت احمدیت کا انکشاف ہوا جس پر فی الفور حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی.۱۹۵۰ء میں مقیم ربوہ ہوئے.ربوہ کے سب سے پہلے پرائیویٹ میڈیکل پریکٹیشنر تھے حتی الامکان سستا علاج کرتے اور مریض کو تسلی دیتے.ربوہ اور اس کے ماحول کے غرباء میں خاص طور پر بہت مقبول تھے.107 شیخ دوست محمد صاحب شمس وفات :۱۶ / ۱۷ نومبر ۱۹۷۱ء ۱۹۲۴ ء میں احمدیت قبول کی.بغرض کا روبار عرصہ دراز تک کلکتہ میں رہے اور مخلصانہ خدماتِ سلسلہ بجالانے میں سرگرم عمل رہے.۱۹۴۴ء میں مسجد احمدیہ کلکتہ کی تعمیر کی تجویز ہوئی تو آپ نے اس پر پر جوش لبیک کہا اور پانچ ہزار روپے پیش کئے.تقسیم ملک (۱۹۴۷ء) پر جب چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں امیر جماعت کلکتہ مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے تو آپ امیر جماعت احمد یہ مقرر ہوئے

Page 219

تاریخ احمدیت.جلد 27 209 سال 1971ء اور ۱۹۵۱ء تک اس منصب پر فائز رہے.عمر کے آخر میں پاکستان تشریف لے آئے.فیصل آباد میں وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک کئے گئے.108 حکیم عبد العزیز صاحب امرتسری وفات: ۲۵ نومبر ۱۹۷۱ء ملکانہ تحریک تبلیغ کے فعال مجاہد تھے اور قرآنی معارف میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کے شاگرد تھے.آپ کا اوڑھنا بچھونا ہی دعوت الی اللہ تھا.آریوں، عیسائیوں اور بہائیوں کے لئے شمشیر برہنہ تھے.گفتگو نہایت مدلل کرتے تھے.109 منشی محمد الدین صاحب امرتسری وفات : ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء بعمر تقریباً ۹۰ سال منشی محمد الدین صاحب امرتسری، محمد عبد الحق صاحب مجاہد امرتسری سیکرٹری اصلاح و ارشاد گنج مغلپورہ کے والد ماجد تھے.آپ لوگوں کا اصل وطن ریاست جموں تھا.آپ کے مورث اعلیٰ کا نام دھنیت رائے تھا جو راجپوت خاندان کے ایک معزز فرد اور مہاراجہ کشمیر کے دربار میں کرسی نشین تھے مگر اسلام قبول کرنے کی پاداش میں آپ کو ریاستی قانون کے تحت ریاست بدر کر دیا گیا اور آپ پنجاب آگئے ان کی اولا د گوجرانوالہ، گورداسپور اور ہوشیار پور میں پھیل گئی.منشی محمد الدین صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شوق لئے اپنے چاچوہدری اللہ رکھا صاحب کے ساتھ ۱۶ فروری ۱۹۰۵ء کو عید الاضحیہ کے موقع پر قادیان پہنچے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رومی ٹوپی پر دستار مبارک باندھی ہوئی تھی.انہوں نے بیعت کی درخواست کی لیکن اعلان کیا گیا کہ حضرت اقدس کی طبیعت ناساز ہے آج بیعت نہیں ہوگی جس پر آپ بغیر بیعت کے ہی واپس آگئے لیکن پھر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کر لی.۱۹۰۹ ء سے ۱۹۴۵ ء تک امرتسر میں ملازم رہے اور یہیں ریٹائرڈ ہوئے.۱۹۳۲ء میں آپ کے ذریعہ بھو ماں وڈالہ ضلع امرتسر میں جماعت قائم ہوئی اور تقسیم ہند تک آپ اس کے پریذیڈنٹ رہے.آپ ہر جمعہ قادیان میں پڑھتے تھے.پاکستان میں آکر آپ کا معمول ہو گیا کہ سال کا چندہ پیشگی ادا کر دیا کرتے تھے.سالہا سال تک جماعت احمد یہ گنج مغلپورہ کے سیکرٹری وصایا

Page 220

تاریخ احمدیت.جلد 27 210 سال 1971ء اور مجلس انصار اللہ کے ناظم مال کے فرائض سر انجام دیتے رہے.آپ تہجد گزار اور دعا گو بزرگ تھے اور تسبیح وتحمید اور درود شریف کا ورد خاص التزام کے ساتھ کیا کرتے تھے اور پر جوش داعی الی اللہ تھے.110 مولوی مبارک احمد بھٹی صاحب مربی سلسلہ وفات: ۷ دسمبر ۱۹۷۱ء آپ چوہدری محمد علی صاحب کا رکن اراضی حضرت مصلح موعود سندھ کے صاحبزادے تھے.۱۹۶۲ء میں ڈی سی ہائی سکول کنری سے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا.جس کے بعد زندگی وقف کر کے جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لیا.شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ضلع گوجرانوالہ میں مربی مقرر کئے گئے.مرکز کی ہدایت پر مجاہد فورس کی ٹرینگ کے لئے ربوہ تشریف لائے.آپ ایک سال تک حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد مبارک کے تحت مجاہد فورس ربوہ کمپنی میں شامل رہے.قیام ربوہ کے دوران آپ کے دسمبر ۱۹۷۱ء کو دن کے ایک بجے دریائے چناب کے قریب ریلوے لائن عبور کر رہے تھے کہ ریل کار کے حادثہ میں شہید ہو گئے.آپ اس وقت مجاہد کی وردی زیب تن کئے ہوئے تھے.نہایت ہی دیانتدار، مخلص اور نیک سیرت نوجوان تھے اور خدمت دین کے علاوہ خدمت خلق اور ہمدردی خلق کے جذبہ سے سرشار تھے.مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.نظام سلسلہ کا بہت احترام کرتے تھے.۶۹-۱۹۶۸ء میں ہوٹل جامعہ احمدیہ کے زعیم منتخب ہوئے اور مجلس کی شاندار خدمات انجام دیں.آپ کا شمار مجلس ربوہ کے بہترین زعماء میں ہوتا تھا.مرحوم کو حق تعالیٰ نے خوش الحانی کے وصف سے بھی نوازا تھا.عمدہ مقرر تھے اور آپ کی اکثر تربیتی تقاریر کا نقطه مرکز یہ عشق رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم تھا جس کی طرف آپ حاضرین کو خصوصی توجہ دلا یا کرتے تھے.شب بیدار تھے اور زمانہ طالب علمی میں خصوصاً فجر کی نماز مسجد مبارک میں ادا کرنے کی کوشش کرتے تا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی اقتدا میں نماز ادا کر سکیں.حضور سے ایسا والہانہ تعلق تھا کہ ایک بار انہوں نے جامعہ کے ایک ساتھی سے پوچھا کہ کیا آپ نے انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے آخری دن حضور کا اختتامی خطاب سنا ہے؟ جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ کسی وجہ سے تقریر نہیں سن سکے.ان سے کئی روز تک سخت ناراض رہے اور بہت غصہ کا اظہار کیا اور کہا مجھے افسوس ہے کہ تم حضور کی باتیں سننے سے محروم رہے ہو.111

Page 221

تاریخ احمدیت.جلد 27 یعقوب شریف صاحب وفات : دسمبر ۱۹۷۱ء 211 سال 1971ء آپ جماعت احمدیہ سیرالیون کے ایک مخلص اور پرانے احمدی تھے.آپ نے دسمبر ۱۹۷۱ء میں وفات پائی.آپ اولین احمدیوں میں سے تھے ، نہایت مخلص اور دین کا درد رکھنے والے بزرگ تھے.آپ باوجود کمزور مالی حالات کے ہر ماہ با قاعدہ چندہ کی ادائیگی کے لئے مستعد رہتے تھے.سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی طرف سے نصرت جہاں اسکیم کا اعلان ہو چکا تھا لیکن آپ کی کمزور مالی حالت کے باعث آپ کو اطلاع نہ کی گئی.جب آپ کو اس بارہ میں معلوم ہوا تو کہنے لگے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضور انور ایک تحریک جاری فرمائیں اور میں اس میں حصہ نہ لوں.میں اس تحریک میں ضرور شامل ہوں گا.زندگی کا کیا اعتبار ہے اگر میں کل مرجاؤں تو خدا کو کیا جواب دوں گا.112 کیپٹن سرتاج علی امتیا ز ز بیری صاحب شہید آپ محمود اختر ز بیری صاحب شہید کے بڑے بھائی اور احتیاج علی زبیری صاحب آف راولپنڈی کے صاحبزادے تھے.آپ نے ۱۹۶۵ء کی جنگ لڑی اور غازی بن کر واپس لوٹے.۶۸.۱۹۶۷ ء میں آپ کی تعیناتی کیڈٹ کالج چٹا گانگ مشرقی پاکستان میں ہوئی.مارچ اپریل ۱۹۷۱ء میں مکتی باہنی نے کیڈٹ کالج پر حملہ کیا تو آپ نے قریبی آرمی کیمپ میں جانے کی کوشش کی.اس دوران لا پتہ ہو گئے.جب ایک عرصہ گذر جانے تک بھی آپ کا کچھ پتہ نہ چلا تو سرکاری طور پر آپ کی شہادت کا اعلان کر دیا گیا.113 میجر مصلح الدین احمد سعید صاحب شہید آپ مکرم مولوی مسیح الدین صاحب ساکن کو ٹھہ ضلع مردان کے بڑے صاحبزادے اور مکرم خان شمس الدین خان صاحب کے بھتیجے تھے.آپ کے والد صاحب ۱۹۱۰ ء میں جبکہ آپ فیروز پور میں تھے مکرم مولوی فرزند علی خاں صاحب کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے.آپ ۱۹۷۱ء کی پاک بھارت جنگ میں ۱۵ دسمبر کو لاپتہ ہو گئے.خیال کیا گیا کہ اُن کو قید کر لیا گیا ہے لیکن آپ کا نام قیدیوں کی فہرست میں بھی شامل نہ تھا.تلاش بسیار کے باوجود جب آپ کا کچھ پتہ نہ چل سکا تو آپ کی شہادت کا سرکاری طور پر اعلان کر دیا گیا.114

Page 222

تاریخ احمدیت.جلد 27 212 سال 1971ء 1 2 2 3 4 5 6 9 ریکارڈ بہشتی مقبره ربوه حوالہ جات (صفحہ 136 تا211) ماخوذ از مکتوب عبد المنان ناہید صاحب بنام مؤلف محرره ۲۴ جنوری ۱۹۹۳ء.ایضا راولپنڈی تاریخ احمدیت صفحه ۱۲۶ تا ۱۳۳ الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۸ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۷۱ ، صفحہ ۷ و ۳ را پریل ۱۹۷۱ صفحہ ۵.فہرست پانچ ہزاری مجاہدین نمبر شمار ۶ ۱۴۷، کمپیوٹر کوڈ ۱۳۹۳ صفحہ نمبر ۳ ۷۳ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل سے مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۵.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین، نمبر شمار ۳۹۱۵، کمپیوٹرکوڈ ۷۳۹ ۳ صفحہ نمبر۱۹۷ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۵ الفضل ۲۴ فروری صفحه ۸ و ۲ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحه ۵ الفضل ۵ مارچ ۱۹۷۱ صفحہ ۷ 10 رجسٹر روایات نمبر ۸.صفحہ ۲۵۷-۲۵۹ 11 الفضل ۵ مارچ ۱۹۷۱ ء صفحہ ۷ 12 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره ربوه 13 رپورٹ سالانہ.صیغہ جات صدر انجمن احمد یه قادیان ۴۵- ۱۹۴۴ صفحه ۱۰۵ اور پورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان بابت سال ۴۸- ۱۹۴۷ء صفحہ ۳۷ 14 الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ صفحه ۵ 15 سروس بک صدر انجمن احمد یہ.اصحاب احمد جلد دہم ۳۵۱ 16 تاریخ احمدیت جلد ہشتم ضمیمه صفحه ۳۶ نمبر ۹ 17 الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۸ 18 رجسٹر روایات نمبر ۷.صفحہ ۲۵۳-۲۵۶ 19 ایک غیر مطبوعہ خود نوشت تحریر سے ماخوذ 20 ” تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین نمبر شمار ۲۴۶، کمپیوٹرکوڈ ۲۳۴ صفحه ۱۲

Page 223

تاریخ احمدیت.جلد 27 21 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 22 الفضل ۳ نومبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ 23 الفضل ۳ نومبر ۱۹۷۱ صفحه ۵ 213 24 یہ معلومات آپ کے بیٹے مکرم شیخ منصور احمد صاحب آف لندن سے ملی ہیں.25 تاریخ احمدیت جلد ہشتم ضمیمه صفحه ۴۳ نمبر ۱۶۳ - الفضل ۱۱ مئی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۸ 26 رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۱۳۷ - ۱۳۸ سال 1971ء 27 مکتوب مرزا انصیر احمد صاحب سابق مبلغ انگلستان بنام مؤلف مورخه ۱۷ اگست ۱۹۹۳ء،الفضل ۶ و ۷ را کتوبر ۱۹۷۱ء 28 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین نمبر شمار ۵۰۴ کمپیوٹرکوڈ ۴۸۴ صفحہ نمبر ۲۵ 29 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 30 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 31 الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ 32 الفضل ۴ جون ۱۹۷۱ء صفحہ ۵ 33 یہ معلومات آپ کے نواسے مکرم محمد اشرف صاحب سے ملی ہیں جو اس وقت سیالکوٹ کینٹ میں رہائش پذیر ہیں.34 الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ 35 یہ دردناک واقعہ ۱۶ مئی ۱۹۳۱ء کا ہے تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ششم صفحه ۳۱۱-۳۱۵ کا 36 خلاصه خود نوشت حالات محرره ۶ فروری ۱۹۶۰ء 37 الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۴.تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین صفحہ نمبر ۷ ۸ نمبر شمار ۱۷۴۸.کمپیوٹرکوڈ ۱۶۴۳ 38 الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ ۵ 39 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۶-۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ 40 صحابیات احمد جلد اول صفحه ۲۶۴، ۲۶۵ مؤلفه غلام مصباح بلوچ ( غیر مطبوعہ ) 41 42 3 2 2 2 4 4 2 43 ریکارڈ بہشتی مقبرہ رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۶ صفحه ۳۱۶ تا ۳۲۰ ماہنامہ مصباح اگست ستمبر ۱۹۸۹ء صفحہ ۷۳ تا ۶ ۷ و ۹۱ 44 الفضل.۳ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۶ 45 الفضل ۲۹ را گست ۱۹۷۱ صفحه ۴ 46 الحکم ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحہ ۸ کالم ۲ 47 الفضل ۱۴ را گست ۱۹۷۱ صفحه ۶

Page 224

تاریخ احمدیت.جلد 27 214 سال 1971ء 48 ماہنامہ انصار اللہ ربوہ اپریل ۱۹۷۴ء صفحہ ۳۸-۳۹.یہ حالات حکیم صاحب نے ۹ نومبر ۱۹۳۳ء کو مولوی عبد الرحمن صاحب انور سے بیان فرمائے جب مولوی صاحب موصوف شورکوٹ تشریف لے گئے تھے.49 ریکار ڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ 50 اخبار بدر یکم نومبر ۱۹۰۶ء 51 الفضل ۲۰ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۶ 52 تاریخ بلوچستان صفحه ۲۴ تا ۲۶ طبع اول ۱۹۰۷ء اور طبع دوم ۱۹۸۵ ء ناشر سنگ میل پبلیکیشنز چوک اردو بازار لاہور رائے بہادر صاحب نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۴۲ پر بلوچوں کی بارہ اقوام میں سے نویں نمبر پر گوپانگ کا بھی ذکر کیا ہے 53 رجسٹر روایات جلد ۳ صفحه ۹۲ - ۹۳ ( غیر مطبوعہ ) 54 بشارات رحمانیہ بعنوان نورانی تجلی، حصہ اوّل صفحه ۵۵ - ۵۶ - مرتبہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر بار اول دسمبر ۱۹۳۹ء 55 مطبوعہ قادیان رسالہ ”الفرقان ربوہ نومبر ۱۹۶۱ء صفحه ۲۳- ۲۴ 56 مقالہ غیر مطبوعہ ”سندھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے رفقاء کی سیرت و سوانح مرتبہ مولوی محمد صالح زاہد صاحب مربی سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶، ۴۰ تا ۶۰.موجود لائبریری جامعہ احمد بدر بوه 57 حیات بقا پوری حصہ اوّل صفحہ ۷۲ طبع سوم مؤلفہ حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری.ناشر مولوی عبد اللطیف صاحب بہاولپوری.مطبوعہ ربوہ 58 1816100 مقالہ غیر مطبوعہ ”سندھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے رفقاء کی سیرت و سوانح 59 مقالہ غیر مطبوعہ ”سندھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے رفقاء کی سیرت و سوانح، صفحہ ۵۱ مقالہ غیر مطبوعہ ”سندھ میں حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام کے رفقاء کی سیرت وسوانح صفحہ ۵۸.الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۳۸ صفحه ۵ پر اس مباہلہ کی مفصل رو داد شائع شدہ ہے.61 الفضل ۲ ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ 62 " تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین نمبر شمار ۴۵۸۷، کمپیوٹرکوڈ ۴۳۷۸،صفحہ ۲۳۱ 63 الفضل ۲۵ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۶ 64 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۵ 65 الفضل ۷ /اکتوبر.۲ نومبر ۱۹۷۱ء 66 حاجی اللہ بخش چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ بقلم چوہدری محمد اسحاق صاحب معاون وکیل المال تحریک جدید ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 67 تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۱ صفحه ۱۳۹ ،۱۴۰ 68 الفضل ۷ جون ۲۰۰۲ صفحہ ۳-۴-۶

Page 225

تاریخ احمدیت.جلد 27 215 69 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین" نمبر شمار ۱۸۴۹، کمپیوٹر کوڈ ۱۷۴۳ صفحه ۹۲ 70 از مکتوب چوہدری محمد اسحاق صاحب ربوہ ۶ فروری ۱۹۹۳ء 71 الفضل ۳۰/اکتوبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۴ سال 1971ء 72 الفضل ۴ فروری ۱۹۷۲ صفحه ۴ 73 الفضل ۱۶ فروری ۱۹۷۱ء صفحہ ۸، حیات حسن صفحه ۸۱-۸۲ مؤلفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی الکبیر مطبوعہ اسلامی پریس بازار نور الامراء حیدر آباد دکن.اشاعت ۱۹۵۱ء، فہرست تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین کمپیوٹرکوڈ ۵۲۹۲ صفحه ۲۶۶ 74 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۸ 75 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ 76 الفضل ۱۷ فروری ۱۹۷۱ ء صفحه ۵ 77 الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۱ ء صفحہ ۷ 78 الفضل امارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۸ 79 الفضل ۳ مارچ ۱۹۷۱ صفحه ۸ 80 برہان ہدایت صفحه ۲۸۱ - ۳۰۴ مؤلفه مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر.رحمانیہ منزل ڈیرہ غازی خان نومبر ۱۹۶۷ء.الفضل کیکم اپریل.۸، ۱۳ مئی.۲۲ جولائی.۲۹ دسمبر ۱۹۷۱ء 81 الفضل ۱۰ / اپریل ۱۹۷۱ صفحه ۸ 82 الفضل 4 مئی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۴ ، الفضل 9 جولائی ۱۹۷۱ء 83 الفضل ۱۳ مئی ۱۹۷۱ء صفحہ ۶ 84 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۷۱ صفحه ۴ ء 85 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۶ 86 الفضل ۳ جولائی ۱۹۷۱ صفحہ ۴ 87 الفضل 11 جولائی ۱۹۷۱ ، صفحہ 4 88 الفضل ۷ ، ۲۰ جولائی ۱۹۷۱ء.اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۶۰، ۶۲ - تابعین اصحاب احمد جلد ہشتم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان 89 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ 90 الفضل ۲۰۱۷ جولائی ۲۰ / اگست ۱۹۷۱ ء.اخبار لاہور ۲۶ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ 91 الفضل ۲۷ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۸ 92 الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۴

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد 27 93 الفضل ۱۰ / اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ 94 الفضل ۱/۸ کتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۶ 95 الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ 216 سال 1971ء 96 الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۴.عقائد احمد یہ سرورق مؤلفہ سید بشارت احمد صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن ناشر ابوالفضل محمود قادیان 97 الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۶ 98 تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۱۰۶ 99 الفضل ۲۶ اکتو برا ۱۹۷ صفحه ۴ 100 الفضل ۳۱ اکتوبر - ۲۵،۱۸ نومبر ۱۹۷۱ء 101 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۵ 102 الفضل ۴ نومبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۶ 103 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ 104 الفضل ۴ جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۴ 105 الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۴ 106 الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۶ 107 الفضل ۲۸،۲۰ نومبر ۱۹۷۱ء 108 الفضل ۹، ۱۴ دسمبر ۱۹۷۱ء.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ تابعین اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۰۰.۱۰۲.۱۸۶ 109 الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ 110 الفضل ۴، ۱۲ جنوری ۱۹۷۲ء 111 الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۷۱ء.۱، ۱۲ جنوری ۱۹۷۲ء 112 الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۷۲ صفحه ۴ 113 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 114 احمدیت کا نفوذ صوبہ خیبر پختونخواہ میں صفحہ ۲۷۹.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت

Page 227

تاریخ احمدیت.جلد 27 217 سال 1971ء ۱۹۷۱ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے پاک وعدوں کے مطابق خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں ۸ وجودوں کا اضافہ ہوا.ا.صاحبزادہ مرز اسلمان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب.ولادت ۱۶ مارچ ۱۹۷۱ء.1 ۲.صاحبزادہ مرزا کریم احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب.ولادت ۱۴ ۱٫ پریل 2-1921 ۳.صاحبزادہ مرزا فاتح الدین احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا ادریس احمد صاحب.ولادت و مئی 1921ء.3 ۴.صاحبزادی امتہ الکبیر ماریہ صاحبہ بنت نوابزادہ شاہد احمد خان صاحب.ولادت ۱۰ جون ۱۹۷۱ء.4 ۵.صاحبزادہ مرزا ثمر احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب.ولادت ۲۹ جون 5-81921 ۶.صاحبزادی بنت مهدی فرحت صاحبہ بنت مکرم میر محمود احمد صاحب اہلیہ صاحبزادی نصرت جہاں صاحبہ بنت نوابزادہ مسعود احمد خان صاحب.ولادت ۴ ستمبر ۱۹۷۱ء.۷.صاحبزادی یاسمین رحمن عرف مونا صاحبہ بنت (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.ولادت ۲۸ ستمبر ۱۹۷۱ء.7.صاحبزادی ثمرہ خان صاحبہ بنت بریگیڈیئر ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب.ولادت ۴/اکتوبر 1921ء.8

Page 228

تاریخ احمدیت.جلد 27 شادی 218 سال 1971ء ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ ء کو محترم میاں عبد الرحیم احمد صاحب اور محترمہ صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کی صاحبزادی امتہ النور صاحبہ اور مکرم ڈاکٹر عبدالمالک شمیم صاحب ابن مکرم مولوی عبدالباقی صاحب بھاگلپوری کی تقریب شادی عمل میں آئی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دس ہزار روپے حق مہر پر نکاح کا اعلان فرمایا اور دعا کی.نمایاں اعزازات ا.اس سال ادبی مقابلوں میں تعلیم الاسلام ہائی سکول نے سب سے زیادہ انعامات حاصل کئے.سکول کے طلباء انگریزی تقریر میں اوّل.اردو اور حسن قرآت میں دوم رہے.10 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ہاکی ٹیم کے تین ممتاز کھلاڑی (مرزا افتخار الدین صاحب نعیم احمد صاحب اور وسیم احمد صاحب) سرگودھا ڈویژن با کی ٹیم کے ممبر منتخب ہوئے.11 ۳.نجمہ آفتاب صاحبہ بنت آفتاب احمد صاحب بسمل کراچی نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی بائیو کیمسٹری ) میں اول پوزیشن حاصل کی.12 ۴.امۃ الحفیظ عابدہ زیروی بنت صوفی خدا بخش صاحب عبد زیروی ربوہ ایم ایس سی ریاضی فائنل پنجاب یونیورسٹی سے ۶۰۷ نمبر حاصل کر کے اعلیٰ فرسٹ ڈویژن میں کامیاب ہوئیں اور لڑکیوں میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی.13 ۵.جامعہ نصرت ربوہ کی مقررات نے اس سال گورنمنٹ کالج سرگودھا میں منعقد ہونے والے بین الجامعی مباحثہ میں نمایاں کامیابی حاصل کر کے ٹرافی جیت لی.مکرمہ عفت افتخار خالق صاحبہ نے اول اور مکرمہ عائشہ نصیر صاحبہ نے سوم انعام حاصل کیا.نیز گورنمنٹ کالج گجرات کے بین الجامعی انگریزی مباحثہ میں مکرمہ عفت افتخار خالق صاحبہ سوم انعام کی حقدار قرار پائیں.14.جماعت احمد یہ گیمبیا کے ایک مخلص رکن جناب ایم اے سونکو گیمبیا پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے.15 ے.جماعت احمد یہ نائیجیریا کے ایک سرگرم رکن ڈاکٹر فتائی گیوا صاحب کو عالمی ادارہ موسمیات نے ریسرچ کے اوّل انعام کا مستحق قرار دیا.یہ انعام ایک خاص سند اور ۳۳۳ پونڈ کے عطیہ پر مشتمل

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد 27 219 سال 1971ء تھا.اس ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے سلسلہ انعامات کا یہ سب سے پہلا انعام تھا.یہ انعامات ہر چار سال کے بعد اس سائنسدان کو دیئے جاتے ہیں جس نے موسمیات کی سائنس میں تحقیق پر خاص امتیاز حاصل کیا ہو.ڈاکٹر گیوا صاحب، جو ابادان یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات میں لیکچرار تھے اور جماعت احمدیہ کے ممتاز رکن الفا ایس بی گیوا کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے.16.جامعہ نصرت ربوہ کی دو طالبات عفت خالق صاحبہ اور رفعت خالق صاحبہ نے سرگودھا بورڈ کی طرف سے منعقدہ انگریزی تقریری مقابلہ میں بالترتیب اول و دوم پوزیشن حاصل کی.جبکہ راولپنڈی مشاعرہ میں مبشرہ غنی صاحبہ نے سوم انعام حاصل کیا.ملتان کی بین الجامعی تقریبات میں مشاعرے میں جامعہ نصرت کی طالبات نے ٹرافی حاصل کی اور امیۃ الشکور صاحبہ کو غزل میں اول اور منصورہ فرزانہ صاحبہ کو نظم میں دوم قرار دیا گیا.نیز لبنی سعید صاحبہ نے انگریزی مباحثہ میں اوّل انعام حاصل کیا.17 و تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ملک گیر شہرت یافتہ باسکٹ بال ٹیم نے زونل چیمپئن شپ جیتنے کے بعد انٹر زونل چیمپئن شپ کا اعزاز بھی حاصل کیا.18 ۱۰.انجمن حمایت اسلام لاء کالج لاہور کے زیر اہتمام ۲۸ مئی ۱۹۷۱ء کو آل پاکستان انٹر کالجیٹ سیرت النبی سلیم کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ پر تقاریر ہوئیں ) تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیم اول قرار پائی اور ٹرافی حاصل کی.ٹیم میں کالج کے دو ہونہار طالب علم لئیق احمد صاحب عابد اور عبدالکریم صاحب خالد شامل تھے.19 ا.ڈسٹرکٹ ہائی سکول ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی باسکٹ بال، کرکٹ اور با کی کی ٹیمیں اول رہیں اور آل راؤنڈر چیمپیئن کا اعزاز حاصل کیا.انٹروڈسٹرکٹ ہائی سکولز باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے ٹرافی حاصل کی.یہ ٹورنامنٹ بورڈ آف سیکنڈری ایجو کیشن سرگودھا کے زیر اہتمام ۶ تا ۹ جون ۱۹۷۱ ءر بوہ میں منعقد ہوئے.20 ۱۲.سیدہ نزہت الماس صاحبہ بنت ڈاکٹر سید بشیر احمد صاحب ساکن راجگڑھ لاہور نے ایم.اے اردو کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں دوم اور لڑکیوں میں اول پوزیشن حاصل کی.21 ۱۳ - محمد جلال شمس صاحب شاہد مربی سلسلہ احمدیہ سرگودھا بورڈ میں عربی فاضل کے امتحان میں

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد 27 220 سال 1971ء سیکنڈ پوزیشن کے مستحق قرار پائے.22 ۱۴.پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم اے پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سرگودھا ڈویژن باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے دوبارہ متفقہ طور پر جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے.23 ۱۵.میاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کو کمشنر سرگودھا ڈویژن نے دوبارہ دو سال کے لئے باسکٹ بال ایسوسی ایشن سرگودھا ڈویژن کا نائب صدر نامزد کیا.24 ۱۶ محمود احمد صاحب مبارک طالب علم تعلیم الاسلام ہائی سکول محمود آبا دسٹیٹ نے ۷۵۲/۹۰۰ نمبر حاصل کر کے بورڈ بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا.پہلا ریکارڈ ۷۳٨/٩٠٠ کا تھا.25 ۱۷.خالد محمود صاحب چیمہ ابن محمود احمد صاحب چیمہ ڈائر یکٹر سپر گرڈ واپڈالا ہور عالمی ہفتہ اطفال کے سلسلہ میں فرینڈز آف یونیسیف کے تحت منعقد ہونے والی پینٹنگ کی قومی نمائش میں دوسرے انعام کے مستحق قرار پائے.گورنر پنجاب جناب لیفٹینٹ جنرل عتیق الرحمن صاحب نے انعامات تقسیم کئے.26 27- ۱۸.اسامہ سعید صاحب ابن لیفٹیننٹ کرنل محمد سعید صاحب لاہور نے ایف ایس سی (پری انجینئر نگ گروپ ) میں ۷۹۰ نمبر لے کر لاہور بورڈ میں چوتھی پوزیشن حاصل کی.۱۹.عبدالسمیع صاحب ابن چوہدری عبدالرحمن صاحب (سابق امیر جماعت احمدیہ ملتان) B.D.S کے فسٹ پروفیشنل امتحان میں اول آئے.28 ۲۰ - صلاح الدین سلیم احمد صاحب ابن ڈاکٹر کرنل محمد رمضان صاحب (غانا) نے ایف ایس سی (پری میڈیکل گروپ ) سرگودھا بورڈ میں ۱۰۰۰ / ۷۸۳ نمبر حاصل کر کے تیسری پوزیشن حاصل کی اور کیڈٹ کالج حسن ابدال میں جہاں وہ زیر تعلیم تھے، اوّل پوزیشن حاصل کی.29 طوفان زدگان کے لئے جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کی امداد مشرقی پاکستان کے ، سال ۱۹۷۰ ء کے ہلاکت خیز اور ہولناک سمندری طوفان کی زد میں آکر جانی اور مالی نقصان اٹھانے والے، پاکستانی بھائیوں کے ساتھ ہمدردی اور مالی امداد کے سلسلہ میں جماعت احمد یہ عالمگیر نے بھی خدا کے فضل سے نمایاں کردار ادا کیا اور نہایت درد دل اور خاص ہمدردی

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد 27 221 سال 1971ء سے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی فوری امداد کے لئے بڑھ چڑھ کر مالی قربانی کی.ان قربانیوں کا کچھ تذکرہ ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے.ڈنمارک ڈنمارک مشن کی طرف سے، احمدی احباب سے سات سو کرونے کی رقم جمع کر کے گورنر صاحب مشرقی پاکستان کو بھجوائی گئی.30 سیرالیون جماعت احمد یہ سیرالیون کی طرف سے مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کی امداد کے لئے ساٹھ پونڈ کی رقم جمع کر کے پاکستانی ہائی کمشنر مقیم غانا کو پیش کی گئی.21 ماریشس 31 مشرقی پاکستان میں طوفان کی خبر سنتے ہی جماعت کے دوستوں نے سیکرٹری ریلیف کمیٹی کو اس سلسلہ میں ایک ہزار روپے کا چیک پیش کیا.32 انڈونیشیا جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے ایک وفد نے محترم رئیس التبلیغ صاحب کے زیر قیادت پاکستان ایمبیسی جا کر مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کے لئے پچاس ہزار کا چیک پیش کیا.33 نجی کونسل فار پاکستان ریلیف فنڈ کے ذریعہ جماعت احمد یہ نفی کی طرف سے بارہ سو پچاس فجین ڈالر (1250-F) جو تقریباً ۱۳۰۰۰ / ہزار پاکستانی روپیہ بنا تھا پاکستانی گورنمنٹ کو پیش کیا گیا.34 لندن لندن مشن کے احمدی احباب نے طوفان زدگان کی آمد کے لئے ۲۵۰ پاؤنڈ کی رقم ریلیف فنڈ میں جمع کروائی گئی.اس سے قبل پار چات کے ۴۲ بیگ بھی مشرقی پاکستان بھجوائے گئے.35 سویڈن جماعت احمد یہ سویڈن نے مشرقی پاکستان کے طوفان زدہ بھائیوں کے لئے مبلغ تین صد سویڈیش کرو نے بطور چندہ دئے.یہ رقم سفیر پاکستان مقیم سویڈن کی خدمت میں پیش کی گئی.36

Page 232

تاریخ احمدیت.جلد 27 جرمنی 222 سال 1971ء جماعت احمدیہ جرمنی کی طرف سے ۱۰۰ مارک کی رقم بطور امداد برائے سیلاب زدگان مشرقی پاکستان پاکستانی سفارت خانے کو بذریعہ چیک بھجوائی گئی.37 نا پیجیریا جماعت احمد یہ نائیجیریا کی طرف سے مشرقی پاکستان کے مصیبت زدگان کے لئے ۱۱۰ پاؤنڈ کا 38 عطیہ پیش کیا گیا جود و اقساط میں پاکستانی ہائی کمشن مقیم نائیجیر یا میں جمع کروایا گیا.28 مولویوں کے رویہ پر ایک غیر احمدی کے تاثرات روز نامہ مساوات لاہور کی ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ ء کی اشاعت میں سید ریاض حسین صاحب کوٹ احمد یار تحصیل و تھا نہ چنیوٹ کا ایک مراسلہ شائع ہوا.جو من وعن ذیل میں درج کیا جاتا ہے.” میرا سر ندامت سے جھکا جا رہا تھا مکرمی ان دنوں اخبارات میں مفتی محمود صاحب کے خلاف مرزائی سازش کے متعلق خوب قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں.مجھے مفتی صاحب سے بڑی عقیدت ہے.قادیانی جماعت کے سالانہ جلسہ کے مقابل ہماری کانفرنس چنیوٹ میں ہوئی اور میں شرکت کے لئے خاص طور پر چنیوٹ آیا.میں شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہوں.۲۸ دسمبر کی رات کو مفتی صاحب کی چنیوٹ کا نفرنس میں تقریر تھی.ان کے استقبال کے لئے میں بھی چوک کچہری گیا ہوا تھا.میرا سر ندامت سے جھکا جا رہا تھا جب میں نے مشاہدہ کیا کہ مولوی صاحبان اور مدرسہ کے طلباء جو علم دین حاصل کرنے آئے ہوئے ہیں.ربوہ کی طرف سے ہر آنے والی موٹر کار پر پتھر پھینکتے اور نعرے لگاتے رہے.یہ کاریں غالباً مرزائیوں کی تھیں جو جلسہ ختم ہونے کے بعد واپس جا رہے تھے.مجھے اس وقت مسلمان علماء پر رونا آرہا تھا.دیکھتے دیکھتے انہوں نے ایک کار پر سخت پتھراؤ کیا اور اسے گھیرے میں لے لیا.میں نے دیکھا کہ اس کار میں بچے عورتیں اور بوڑھے بھی تھے.ان حملہ آور علماء نے کار میں سے ڈرائیور کو باہر کھینچنے کی کوشش کی.کار پر کلہاڑیاں اور ڈنڈے بھی خوب چلائے.پولیس افسر اپنے ماتحتوں کے ہمراہ موقع پر موجود تھا.جس نے کار کو گھیرے میں لے کر ان محصورین کی حفاظت کی.اس ہنگامہ کے بعد جب رات کو ہماری کانفرنس شروع ہوئی.مجھے یقین تھا کہ مفتی محمود صاحب اس ہنگامہ آرائی کی سختی سے

Page 233

تاریخ احمدیت.جلد 27 223 سال 1971ء مذمت کریں گے اور حاضرین کو اس طرح کے ہنگاموں سے روکنے کی کوشش کریں گے مگر افسوس صد افسوس مفتی صاحب نے اس المناک واقعہ کا ذرا بھی ذکر نہ کیا.اور نہ ہی کسی دوسرے عالم دین نے اس کا تذکرہ کیا.میری حیرت کی اس وقت کوئی انتہا نہ رہی جب دوسرے دن اخبارات میں پڑھا کہ مرزائیوں نے مفتی محمود کو قتل کرنے کی سازش کی تھی.۱۹۷۱ء کے احمدی حجاج سید ریاض حسین کوٹ احمد یار تحصیل و تھانہ چنیوٹ ضلع جھنگ 39 اس سال فروری ۱۹۷۱ء میں مندرجہ ذیل احمد یوں نے حج بیت اللہ کا مبارک فریضہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کی.ا.اقبال احمد صاحب شمیم بریگیڈیر ۲.اہلیہ صاحبہ اقبال احمد صاحب شمیم.ملک حبیب اللہ خان صاحب ۴ جمیل احمد صاحب ملک ۵- رفیق احمد صاحب چانن ۶.شیخ محمد حنیف صاحب کوئٹہ پاکستان پاکستان پاکستان پاکستان سوئیٹزرلینڈ پاکستان ے.خلیفہ عبدالرحمن صاحب.پاکستان (انہوں نے اس سال حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی طرف سے حج بدل بھی کیا جس کی تفصیل اگلے صفحات پر دی جارہی ہے ) ۸.اہلیہ صاحبہ خلیفہ عبدالرحمن صاحب ۹.خلیفہ طاہر احمد صاحب کوئٹہ ۱۰.اہلیہ صاحبہ خلیفہ طاہر احمد صاحب پاکستان پاکستان پاکستان 40 ۱۱.عبدالکریم صاحب پاکستان ۱۲.اہلیہ صاحبہ عبدالکریم صاحب پاکستان ۱۳.راجہ عبدالمجید صاحب پاکستان ۱۴.اہلیہ صاحبہ راجہ عبدالمجید صاحب پاکستان ۱۵.چوہدری سلیم احمد صاحب پاکستان

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد 27 ۱۶.علیم الدین صاحب ۱۷.افتخار احمد صاحب سہروردی ۱۸.اہلیہ صاحبہ افتخار احمد صاحب سہروردی ۱۹.عبدالکریم خان صاحب 224 پاکستان پاکستان پاکستان پاکستان ۲۰.اہلیہ صاحبہ عبدالکریم خان صاحب پاکستان 41 ۲۱.مظفر احمد صاحب بھٹی کینیا مشرقی افریقہ ۲۲ -مصطفی باشم صاحب ۲۳.ضیاء الحق خان صاحب ۲۴.اہلیہ صاحبہ ضیاء الحق خان صاحب ۲۵- محمد عارف صاحب ۲۶.اہلیہ صاحبہ محمد عارف صاحب ۲۷.مسٹر بیا (Bea) ۲۸.مسٹر بیا (Bea) ۲۹.ڈاکٹر جمیل احمد صاحب ۳۰.اہلیہ صاحبہ ڈاکٹر جمیل احمد صاحب ۳۱.فاطمہ حنیفہ صاحبہ ۳۲.نند صاحبہ سیدہ لطیف صاحبه ۳۳ فضل الدین صاحب ۳۴.عزیز احمد صاحب ۳۵ نسیم فرحت صاحبه ۳۶.ناصرہ صاحبہ بنت فضل الہی صاحب ۳۷.نفیسہ صاحبہ بنت فضل الہی صاحب یو.ایس.اے پاکستان پاکستان کینیا مشرقی افریقہ کینیا مشرقی افریقہ انڈونیشیا انڈونیشیا برما برما 42 یو.ایس.اے یو.ایس.اے گیمبیا مغربی جرمنی مغربی جرمنی کینیا کینیا ۳۸.بشری مبارکه صاحبہ بنت عبدالحمید صاحب بٹ کینیا ۳۹.عابدہ خانم صاحبہ بنت عبد الحمید صاحب بٹ کینیا سال 1971ء

Page 235

تاریخ احمدیت.جلد 27 225 ۴۰ کلثوم اختر صاحبہ بنت عبد الخالق بٹ صاحب کینیا 43 سال 1971ء ۴۱.عبدالرحیم کھوکھر صاحب گوجرانوالہ ۴۲.اہلیہ صاحبہ عبدالرحیم کھوکھر صاحب گوجرانوالہ گوجرانوالہ ۴۳.امان اللہ صاحب ۴۴.مستری محمد شریف صاحب ۴۵.منیر احمد صاحب ۴۶.بیگم منیر احمد صاحب مع دو چھوٹے بچے ۴۷.پروین طاہرہ صاحبہ بنت ڈاکٹر غفور الحق صاحب کوئٹہ ۴۸.اسلم بیگ صاحب کوئٹہ ۴۹.اہلیہ صاحبہ ملک ریاض احمد صاحب ۵۰.ڈاکٹر سعیدہ اختر صاحبہ انگلینڈ پاکستان 44 حج بدل حضرت خلیفہ المسیح الثالث مکرم خلیفہ عبدالرحمن صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے حج بدل کے واقعات کو قلمبند کرتے ہوئے حضور انور کی خدمت اقدس میں تحریر کیا :.مدینه منوره ۲۷ ذوالج ۱۳۹۰ھ بمطابق ۲۳ فروری ۱۹۷۱ء حضرت محترم المقام سیدنا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ میں حضور کی خدمت میں حضور کا حج بدل ادا ہونے پر حضور کی خدمت میں بہت بہت مبارکباد عرض کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ حضور کو یہ حج بدل مبارک فرمائے.اور میں اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس عاجز کو حضور کی طرف سے حج بدل ادا کر نے اور تمام مناسک حج کو اپنے اپنے وقت پر سنت نبوی کے مطابق ادا کرنے کی توفیق بخشی اور پھر جمعہ کے روز حج ہونے کی وجہ سے حج اکبر میسر آیا.فالحمد للہ علی ذالک.ہم ۱۰ جنوری ۱۹۷۱ ء روانہ ہو کر ۲۰ جنوری مکہ مکرمہ پہنچے تھے.طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان ذوالحلیفہ میقات ہے.ظہر کے وقت وہاں پہنچے.غسل کیا.احرام باندھا اور مسجد میں دو رکعت نفل ادا کر کے حضور کی طرف سے بآواز بلند حج تمتع کی نیت کی اور دعا کی کہ خاکسار کو اللہ تعالیٰ عمدگی سے حج

Page 236

تاریخ احمدیت.جلد 27 226 سال 1971ء کے مناسک ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.نماز ظہر و عصر جمع کر کے مسجد ذوالحلیفہ میں ہی ادا کی اور لبیک اللھم لبیک کہتے ہوئے ہم مکہ مکرمہ پہنچے.میں نے یہاں مکان پہلے ہی کرایہ پر لے رکھا تھا.ہم چاروں یعنی خاکسار اور میری اہلیہ، میرالڑ کا طاہر احمد اور اس کی اہلیہ پہلے گھر گئے ، سامان رکھ کر پھر بیت اللہ حاضر ہوئے.چونکہ حضور کا یہ پیغام مجھے مل چکا تھا کہ غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کی جائیں.اس لئے بیت اللہ پر پہلی نظر پڑتے ہی سب سے پہلے غلبہ اسلام کے لئے اور حضور کی تائید و نصرت اور کامیابی کے لئے دعائیں کی گئیں.اس کے بعد خانہ کعبہ کا طواف کیا.باب ملتزم پر دعا کی.مقام ابراہیم پر دو نفل ادا کئے.آب زمزم پیا.صفا کی طرف گئے.صفا سے سعی شروع کی.۷ چکر مروہ پر ختم کر کے پھر حضور کے لئے اور غلبہ اسلام کے لئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور کے خاندان کے تمام افراد کے لئے اور واقفین سلسلہ کے لئے دعا کی گئی.سرمنڈا کر احرام کھولا گیا.یہ حضور کی طرف سے عمرہ ادا ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.اس کے بعد ۴ فروری ۱۹۷۱ء بمطابق ۸ ذوالحج کا مبارک دن طلوع ہوا.غسل کر کے احترام باندھا.نماز فجر ادا کر کے اور خانہ کعبہ کا طواف کر کے منی کی طرف روانہ ہوئے اور جلد ہی وہاں پہنچ گئے.وہاں ہمارے مرد ایک ٹینٹ میں مقیم ہوئے اور عورتیں دوسرے ٹینٹ میں.ظہر، عصر، مغرب، عشاء کی نمازیں مٹی میں ادا کیں.رات مٹی میں بسر کی.۵ فروری ۹ ذوالج جمعہ کا دن تھا اور یوم الحج.صبح کی نماز مٹی میں ادا کر کے عرفات کے لئے روانہ ہوئے.وہاں عورتوں اور مردوں کی رہائش کے لئے علیحدہ ٹینٹوں کا انتظام تھا.کسی نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حج کیا تھا تو اس روز بھی جمعہ کا دن تھا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے اور قصر کر کے ادا فرمائی تھی.اس لئے ہم نے بھی جمعہ نہیں پڑھا بلکہ نماز ظہر عصر قصر کر کے ادا کی.جمعہ کے حج کو حج اکبر کہتے ہیں.اس دفعہ حج اکبر تھا.اس لئے حضور کا حج بدل بھی حج اکبر تھا.فالحمد للہ.مغرب کے وقت عرفات سے روانگی ہوئی اور مزدلفہ پہنچے.رات کھلے میدان میں مسجد مشعل الحرام کے پاس قیام کیا.عجیب حشر کا سماں تھا اور عجیب ہی منظر تھا.۶ فروری ۱۹۷۱ ء ۱۰ ذوالحج بروز ہفتہ مزدلفہ میں صبح کی نماز پڑھ کر مٹی روانہ ہوئے.اگر چہ فاصلہ پانچ چھ میل کا تھا مگر ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے چار پانچ گھنٹوں میں مٹی پہنچے.جمرة العقبی کو سات کنکر مار کر قربان گاہ گئے اور حضور کی

Page 237

تاریخ احمدیت.جلد 27 227 سال 1971ء طرف سے قربانی دی.سرمنڈوایا اور احرام کھولا.میں نے اپنی طرف سے قربانی تیسرے روز ۱۲ ذوالحج کو دی.فروری ۱۹۷۱ء ۱ از والج طواف زیارت کے لئے مکہ مکرمہ آئے.طواف کعبہ اور صفا مروہ کی سعی کی گئی اور واپس منی آئے.ظہر کے بعد تینوں جمروں کو ے.ے کنکر مارے.رات مٹی میں بسر کی.۸ فروری ۱۹۷۱ء ۱۲ ذوالحج آج ظہر کے بعد تینوں جمروں کو ے.ے کنکر مار کر واپس مکہ مکرمہ آئے.الحمد للہ.حج کے تمام مناسک اپنے اپنے وقت پر ادا ہوئے.حضور سے دعا کی درخواست ہے کہ اگر میری کسی کمزوری اور غفلت کی وجہ سے مناسک کی ادائیگی میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما کر حضور کے حج بدل کو قبول فرمائے.۸-۲-۷۱ سے ۷۱-۲-۱۴ تک مکہ مکرمہ میں قیام کیا.طواف اور عمرے کرتا رہا.ایک عمرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا.جس میں اسلام کے دوبارہ احیاء اور غلبہ کے لئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضور (انور ) کے ہاتھوں غلبہ اسلام کے لئے دعا کی گئی.45 موٹر کار کے دو ایک المناک حادثات اور مخلص احمدیوں کی شہادت ۱۶ فروری ۱۹۷۱ء بروز منگل پنڈی بھٹیاں سے قریباً گیارہ میل کے فاصلہ پر موٹر کار کے ایک حادثہ میں چار نہایت مخلص احمدی یعنی چوہدری بشیر احمد صاحب ڈائریکٹر ماڈرن موٹر زلمیٹڈ راولپنڈی، ان کی اہلیہ رفیقہ بیگم صاحبہ، سردار بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ اور کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم آف ریاض سعودی عرب شہید ہو گئے.انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.موٹرکار میں سوار دیگر تین افرادنذیر بیگم صاحبہ اہلیہ چو ہدری محمد اشرف صاحب آف گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ نیز چوہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ کی صاحبزادی فہمیدہ بیگم صاحبہ اور پوتی عزیزہ عائشہ بعمر ساڑھے تین سال کو شدید چوٹیں آئیں.یہ تینوں مجروحین ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال سرگودھا میں بغرض علاج بھجوا دیئے گئے.اس المیہ کا ایک اور دردناک پہلو یہ تھا کہ یہ سب افراد ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم ابن چو ہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ گکھڑ کے جنازہ کے ہمراہ گھڑ سے ربوہ آ رہے تھے.چوہدری منور احمد صاحب مرحوم ۵ فروری ۱۹۷۱ء کو سعودی عرب میں حج بیت اللہ کی غرض سے

Page 238

تاریخ احمدیت.جلد 27 228 سال 1971ء مکہ معظمہ جاتے ہوئے موٹر کار کے حادثہ میں اپنے دو صاحبزادوں سمیت شہید ہو گئے تھے اور ان کا جناز ۱۵۰ فروری کی رات کو وہاں سے گکھڑ پہنچا تھا.اس نہایت دردناک المیہ (جس میں ایک ہی خاندان کے سات افرا د وفات پاگئے ) کی تفصیل یہ ہے کہ چوہدری ظفر علی صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ لکھ ضلع گوجرانوالہ کے نہایت لائق اور ہونہار فرزند الحاج ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب ایم بی بی ایس ( پنجاب ) ڈی او ( لندن ) ایف آرسی ایس (انگلستان) کچھ عرصہ سے ملٹری ہسپتال وزارت دفاع ریاض (سعودی عرب) میں بطور ماہر امراض چشم خدمات بجالا رہے تھے.ہر چند کہ وہ پہلے بھی حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کر چکے تھے تاہم اس سال پھر انہوں نے حج کرنے کا ارادہ کیا.چنانچہ وہ ۵ فروری کو اپنی اہلیہ کلثوم بیگم صاحبہ، اپنی صاحبزادی عزیزہ عائشہ بعمر ساڑھے تین سال نیز دو فرزندان (جن کی عمریں اس وقت علی الترتیب ۲ سال اور ڈیڑھ ماہ تھیں) ریاض سے بذریعہ موٹر کار مکہ معظمہ روانہ ہوئے.راستہ میں موٹر کارکو حادثہ پیش آیا جس میں ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب اور ان کے دونوں فرزند شہید ہو گئے.ان کی اہلیہ کلثوم بیگم صاحبہ دونوں مرحوم بچوں کو وہیں دفن کرانے کے بعد اپنی بچی عزیزہ عائشہ کے ہمراہ اپنے شوہر ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم کا جنازہ لے کر ۱۵ اور ۱۶ فروری کی درمیانی شب بارہ بجے کے قریب گکھڑ پہنچیں.۱۶ فروری کو صبح سات بجے کلثوم بیگم صاحبہ دیگر اعزہ کے ہمراہ جنازہ کو لے کر ربوہ روانہ ہوئیں تا کہ وہاں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آسکے.جنازہ ایمبولینس کار میں تھا اور جملہ اعزہ دوموٹر کاروں میں اس کے ہمراہ تھے.چوہدری بشیر احمد صاحب ڈائریکٹر ماڈرن موٹرز لمیٹڈ راولپنڈی کی کار میں جسے وہ خود چلا رہے تھے ان کے علاوہ حسب ذیل افراد سوار تھے:.رفیقہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب.سردار بیگم صاحبہ والدہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم.کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم.عائشہ بنت ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم.نذیر بیگم صاحبہ خوشدامن ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم.فہمیدہ بیگم صاحبہ ہمشیرہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم.جب یہ قافلہ پنڈی بھٹیاں سے جانب چنیوٹ قریباً گیارہ میل کے فاصلہ پر پہنچا تو چوہدری بشیر احمد صاحب کی کا رسامنے سے آنے والی ایک بس کے ساتھ تصادم کے باعث حادثہ کا شکار ہو گئی.تصادم کے نتیجہ میں موٹر کار کو آگ لگ گئی.چوہدری بشیر احمد صاحب اور ان کی بیگم رفیقہ بیگم صاحبہ نیز

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد 27 229 سال 1971ء سردار بیگم صاحبہ والدہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم اور کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری ڈاکٹر منور احمد صاحب جاں بحق ہو گئے.جلتی ہوئی موٹر کار میں سے صرف ڈاکٹر صاحب مرحوم کی خوشدامن نذیر بیگم صاحبہ ان کی ہمشیرہ محترمہ فہمیدہ بیگم صاحبہ اور ان کی بچی عزیزہ عائشہ کو بچایا جاسکا.اللہ تعالیٰ نے عزیزہ عائشہ کو سعودی عرب میں بھی حادثہ کے وقت معجزانہ طور پر بچایا اور اس حادثہ میں بھی اپنے فضل سے معجزانہ طور پر محفوظ رکھا.ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم کے جنازہ اور حادثہ میں شہید ہونے والے چاروں افراد کی نعشوں کو اسی روز ربوہ لایا گیا.ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم، ان کی والدہ سردار بیگم صاحبہ مرحومہ اور ان کی اہلیہ کلثوم بیگم صاحبہ مرحومہ کی نماز جنازہ ۱۶ فروری کی رات کو بعد نماز عشاء سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق مولانا ابو العطاء صاحب صدر مجلس کار پرداز نے پڑھائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اور مقامی احباب بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.بعدہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب اور ان کی والدہ سردار بیگم صاحبہ مرحومہ کے جنازے بہشتی مقبرہ لے جا کر وہاں حسب وصیت ان کی نعشوں کو دفن کیا گیا اور کلثوم بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ ڈاکٹر چوہدری منور احمد صاحب مرحوم چونکہ موصیہ نہ تھیں اس لئے ان کی تدفین قبرستان شہداء میں عمل میں آئی.ہر سہ قبریں تیار ہونے پر دعا مولانا ابوالعطاء صاحب نے کرائی.چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم اور ان کی اہلیہ رفیقہ بیگم صاحبہ مرحومہ کے بہت سے اعزہ کی دیگر شہروں سے آمد متوقع تھی اس لئے ان دونوں کی نماز جنازہ اگلے روز ۱۷ فروری کو صبح 9 بجے ادا کی گئی.نماز جنازہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے پڑھائی جس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید اور دیگر ادارہ جات کے افسران اور کارکنان نیز دیگر مقامی احباب بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.بعد ازاں دونوں جنازوں کو بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کیا گیا.بعد تدفین مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.46 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلا آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ مورخه ۱۸ تا ۲۰ فروری کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیراہتمام ایوان محمودر بوہ میں پہلا آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ منعقد ہوا.ٹورنامنٹ کا افتتاح ۱۸ فروری شام چار بجے مکرم چوہدری سمیع اللہ

Page 240

تاریخ احمدیت.جلد 27 230 سال 1971ء صاحب سیال مہتم صحت جسمانی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے فرمایا.ٹورنامنٹ لیگ سسٹم پر کھیلا گیا.اس ٹورنامنٹ میں سنگل وڈبل مقابلہ جات کے علاوہ اس کھیل کی مقبولیت بڑھانے کی غرض سے جونیئر سیکشن میں بھی مقابلے کروائے گئے مجموعی طور پر اس ٹورنامنٹ میں ربوہ کی ۵۰ ٹیموں نے شرکت کی.فائنل مقابلے ۲۰ فروری شام چار بجے شروع ہوئے.مقابلے شروع ہونے سے پہلے مہمان خصوصی محترم ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سابق صدر خدام الاحمدیہ سے فائنل ٹیموں کے کھلاڑیوں کا تعارف کروایا گیا.انعامات تقسیم فرمانے کے بعد آپ نے اپنے خطاب میں اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے ان ڈور گیموں کا اجراء کیا ہے.آپ نے فرمایا کہ جب اس ہال (ایوان محمود ) کے بنانے کی سکیم زیر غور تھی تو اس وقت یہ پروگرام بھی تھا کہ تعمیر ہال کے بعد اس میں ان ڈور گیمز شروع کرائی جائیں گی.لیکن ہال کے بننے کے بعد کئی سال تک ان ڈور گیمز شروع نہ ہوسکیں.محترم چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی یہ کوشش قابل تحسین ہے کہ اس ہال میں ان دو گیموں بیڈ منٹن اور ٹیبل ٹینس کا اجراء ہو چکا ہے.مہمان خصوصی کے اس مختصر خطاب کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا پہلا آل ربوہ ٹیبل ٹینس ٹورنامنٹ بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.47 نابیناؤں کے رسم الخط میں قرآن مجید کی اشاعت ہالینڈ میں نابیناؤں کی ایک انجمن کے ڈائیریکٹر نے نابیناؤں کے رسم الخط میں قرآن مجید شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی اس غرض کے لئے انہیں ہالینڈ مشن کی طرف سے ڈچ قرآن مجید کا ایک نسخہ پیش کیا گیا، ڈائیریکٹر سے ہالینڈ مشن کے انچارج صلاح الدین خان صاحب نے اپنی خط و کتابت میں یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر زیادہ مہنگا نہ ہو تو ایک نسخہ مشن کی لائبریری کے لئے بنایا جائے.قیمت ادا کر دی جائے گی.اس پر ڈائیریکٹر نے لکھا یہ کام ایک سال کا ہے اور بہت مہنگا ہے اس پر انہیں لکھا گیا کہ مشن متحمل نہیں ہو سکے گا.ان کا جواب ملا کہ اگر چہ اس میں ایک سال کا عرصہ لگے گا اور یہ خاصا خرچ طلب ہے تا ہم ہم دو نسخے تیار کریں گے.ایک نسخہ آپ کے مشن کی لائبریری کو تحفہ پیش کیا جائے گا.48 ( چوہدری اللہ بخش صادق صاحب سابق مبلغ ہالینڈ حال وکیل التعلیم تحریک جدید ربوہ کا بیان ہے کہ یہ نسخہ ہالینڈ مشن ہاؤس کی لائبریری میں موجود ہے.)

Page 241

تاریخ احمدیت.جلد 27 231 سال 1971ء جامعہ نصرت ربوہ ( برائے خواتین ) کی سالانہ کھیلیں اور ڈائریکٹریس سپورٹس پنجاب یونیورسٹی کی آمد اس سال جامعہ نصرت ربوہ کی سالانہ کھیلیں ۲۷ فروری بروز ہفتہ انعقاد پذیر ہوئیں.محترمہ رضیہ اعظم علی بیگ صاحبہ ڈائریکٹریس سپورٹس پنجاب نے کھیلوں کے افتتاح کا اعلان فرمایا.اور کھیلوں کے اختتام پر محترمہ نے جیتنے والی کھلاڑی طالبات میں انعامات تقسیم فرمائے تقسیم انعامات کے بعد آپ نے طالبات سے خطاب فرمایا اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں مبارک باد دی.نیز اس امید کا اظہار فرمایا کہ یہ ادارہ محترمہ ڈائریکٹریس صاحبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی زیر نگرانی آئندہ بھی بہترین نتائج اور نمایاں ترقیات کا حامل رہے گا.آپ کا کہنا تھا کہ ہر تعلیمی ادارے میں دوران سال دو تقریبات زیادہ دلچسپ ہوتی ہیں ایک کانووکیشن اور دوسری سپورٹس.سپورٹس کی تقریب بہت ہلکی پھلکی اور پر لطف تقریب ہوتی ہے.تمام طالبات بڑے جوش وخروش سے حصہ لیتیں.آپ نے طالبات کو نبوٹ (مارشل آرٹ کی ایک قسم ) اور شہری دفاع کی تربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ نے فرمایا نبوٹ خاص طور پر مشرقی فن ہے.اس کے سیکھنے سے اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کر سکتی ہے.اور شہری دفاع کی تربیت ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بے حد لازمی ہے.49 جرمنی کے کلیساؤں کی نا گفتہ بہ حالت لنڈن کے مشہور رسالہ Awake نے اپنی ۲۲ مارچ ۱۹۷۱ء کی اشاعت میں جرمنی کے کلیساؤں کی حالت زار سے متعلق تحریر کیا کہ جرمنی میں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں عیسائی عوام رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کلیساؤں کو خیر باد کہہ رہے ہیں.برلن کے بشپ کرٹ شارف صاحب ( Kurt Scharf) نے کہا ہے کہ : برلن اور جرمنی میں کلیساء کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی ہے.ان لوگوں کی تعداد جو کلیساء سے ہر 66 سال بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ہمارے اندازوں سے بے حد زیادہ ہے.چرچ سے بیزاری کے موجودہ رجحان کے متعلق ۱۹۷۰ء میں پادریوں کی ایک میٹنگ نے اظہار افسوس کیا ہے.مثلاً فرینکفورٹ کے پروفیسرھین روز نبر برگر نے کہا:.

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد 27 232 سال 1971ء 66 موجودہ زمانہ میں اس ملک میں پادریوں کے خطبات سنے کا کسی کو بھی کوئی شوق نہیں رہا ہے.“ یہ ایک حقیقت ہے کہ اتوار کی صبح کو کلیساؤں میں کوئی بھی عبادت کے لئے نہیں جاتا اور گر جا گھر بالکل خالی ہوتے ہیں.“ اس بات کے ثبوت میں کہ گرجے اتوار کی عبادت کے وقت خالی ہوتے ہیں.جرمن رسالہ Stern نے فلیز برگ کے رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے چرچوں کی ایتوار کی صبح کے عبادت کے وقت کی تصاویر شائع کی ہیں ان تصاویر کے اوپر جو عنوان لگایا گیا ہے، وہ یہ ہے.د فلینز برگ شہر کے چرچوں میں پادری صاحبان خالی نشست گاہوں کو وعظ کر رہے ہیں، ایک اور اخبار ڈسل ڈورف ھینڈلس بلاٹ (Handelsblatt) نے اپنے ۲۰ جنوری ۱۹۷۰ء کے شمارہ میں لکھا ہے.”جب سے کلیسیا نے دنیوی انداز اختیار کیا ہے.اس کی اخلاقی اور روحانی حیثیت ختم ہو گئی ہے اسی وجہ سے اب زیادہ سے زیادہ لوگ چرچ کو خیر باد کہہ رہے ہیں.“ برلن کے دینیات کے پروفیسر Guenther Harder نے تو چرچ کے دور خاتمہ کی پیشگوئی ان الفاظ میں کی کہ ایک عظیم طوفان آ رہا ہے جو ہم سے سب کچھ چھین کر لے جائے گا“ جرمنی کے کلیساؤں کے خلاف موجودہ رو کی ایک وجہ چرچ کے لئے چندہ جمع کرنے کا سسٹم بھی ہے.جرمنی میں حکومت ٹیکس کے طور چرچ کے لئے چندہ جمع کرتی ہے.اور آجکل ۱۰۰۰ ملین ڈالرز ہر سال بطور ٹیکس چرچ کے لئے عوام سے وصول کئے جاتے ہیں.چونکہ چرچوں کو حکومت سے روپییل جاتا ہے اس لئے وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ عوام سے مضبوط تعلق قائم کریں.چرچ میں با قاعدہ جانیوالوں میں سے ٪ ۳۲ آدم و حوا سے انکاری ہیں اور ٪ ۶۴ حضرت مسیح کے کنواری کے بطن سے پیدا ہونے سے منکر ہیں.اور باوجود ان سب باتوں کے یہ لوگ چرچ کے باقاعدہ ممبر شمار ہوتے ہیں.روپیہ پیسہ جمع کرنے کے شوق نے اس بات کی تحقیق کی ضرورت بھی ختم کر دی ہے کہ روپیہ کہاں سے آتا ہے اور تو اور کسی عورتیں اور اسی قماش کے لوگوں کو بھی چرچ میں خوش آمدید کہا جاتا ہے.یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے اعمال نہایت گندے ہیں.چرچ کے خلاف ایک محاذ اس وجہ سے بھی کھولا جا چکا ہے کہ چرچ کی پوری توجہ عوام کی دولت کو لوٹنے کی طرف ہے اخبار Frankfurter Rundschau نے لکھا ہے کہ عوام اس بات کو سخت

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد 27 233 سال 1971ء نا پسند کرتے ہیں کہ کروڑوں ڈالر کی رقم اس بات کے لئے خرچ کی جائے کہ چرچ کی عمارت باہر سے تو خدا کی عزت کے نام پر چمکتی ہولیکن اندر خدا کو یاد کرنے والا کوئی بھی نہ ہو.ایک اور اخبار ڈسلڈورف ھینڈلس بلاٹ نے لکھا ہے.کیا چرچ آخرت کے نام پر جوسرمایہ جمع کر رہا ہے وہ جائز ہے؟ چرچ اپنی عظیم عمارات اور دنیا دارا نہ ٹھاٹھ کی وجہ سے اب ایک دنیاوی تنظیم کی شکل اختیار کر چکا ہے.“ ہمبرگ کے ایک پادری صاحب Edgar Spir نے موجودہ حالات پر حال ہی میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” غالباً ہم اس وجہ سے چرچ سے دور ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم دنیوی آرام و آسائش کی تو قدر کرتے ہیں لیکن یسوع مسیح کو بھول چکے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت اب شیطان کے لاڈلے بچے کی شکل اختیار کر چکی ہے.“ بہت لوگ اب چرچ کو چھوڑتے جارہے ہیں.کیونکہ وہ کسی ایسے ادارے کو خراج ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں جس سے ان کو اتفاق نہیں ہے.لیکن چرچ کی بالا دستی سے بچنے کی صرف ایک ہی راہ ہے کہ وہ با قاعدہ حکومتی کا غذات میں اپنے آپ کو عیسائی مذہب سے خارج کروائیں.یہ بات یادرکھنے کے قابل ہے کہ چرچ سے بھاگنے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ چرچ کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ چرچ روحانیت سے خالی ہو چکے ہیں.مثال کے طور پر ایک مشہور دینیات کی استانی ڈور تھی زوئل نے دعویٰ کیا ہے کہ ” خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی ماضی میں کیا ہے.اس کو یا درکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے.اور حقیقت تو یہ ہے کہ جس کو ہم خدا کہتے ہیں وہ فوت ہو چکا ہے.“ کیا اس قسم کی تعلیمات اور دعوؤں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی عقلمند انسان عوام کو چرچ چھوڑنے کی وجہ سے مطعون کر سکتا ہے؟ نوجوانوں میں بالخصوص اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ چرچ کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے.ایک اندازے کے مطابق Essen شہر کے ۲۵۰۰ طلباء میں سے ٪۷۰ نے کہا کہ ان کی زندگیوں میں اتوار کی عبادت اور خطبہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے.ایک ۱۷ سالہ نوجوان نے کہا 66 یوں محسوس ہوتا ہے گویا ہر اتوار کو ہم جنازہ میں شمولیت کے لئے جارہے ہیں.50

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد 27 234 سال 1971ء ڈاکٹر سید صفدر حسین صاحب چیئرمین بورڈ انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا کا خطاب ۲۹ مئی ۱۹۷۱ء کو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں تقسیم اسناد و انعامات کی ایک پروقار تقریب منعقد ہوئی جس میں چوہدری محمد علی صاحب ایم اے پر نسل تعلیم الاسلام کالج نے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے تفویض کردہ اختیارات کی بناء پر بی ایس سی اور بی اے کے فارغ التحصیل طلباء کو اسناد عطا فرما ئیں جبکہ طالبات نے پردہ میں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دستِ مبارک سے انعامات حاصل کئے.اس تقریب میں ملک کے نامور دانشور، ماہر تعلیم ، شاعر اور نقاد جناب ڈاکٹر سید صفدرحسین صاحب نے ایک مختصر جامع اور خیال انگیز خطاب میں کالج اور سر بر اہان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا:.” مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آپ کا ادارہ ان برگزیدہ درسگاہوں میں سے ایک ہے جن میں قومی وملی جذبے سے سرشار ہو کر اہم خدمات سرانجام دی جارہی ہیں.میری دانست میں اس تعلیم گاہ کی امتیازی حیثیت کا سہرا آپ کے مذہبی جوش و خلوص کے سر جاتا ہے.یہ والہانہ خلوص آپ کے شہر کے در و دیوار، کوچہ و بازار اور مساجد و معابد کی تنظیم میں بھی رونما ہے لیکن آپ کے تعلیمی ادارے اس کے اظہار کا بہت اچھا نمونہ ہیں.خصوصیت کے ساتھ یہ دانشکدہ جس میں آج مجھے آپ کے تخاطب کا شرف حاصل ہوا ہے آپ کی فکر بلند، روشن دماغی اور حسن تنظیم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے.مستحکم عمارتوں کی تعمیر ، پائیدار فرنیچر کی فراہمی ، سائنسی لیبارٹریز کے لئے اعلیٰ سامان کا حصول، لائبریری کے واسطے مفید کتابوں کی تلاش وغیرہ ایسے مراحل ہیں جن میں اگر تساہل برتا جائے یا طمع کو دخل دیا جائے تو ان سے تربیتی ادارے تعمیر کی بجائے تخریب کی طرف بڑھ جاتے ہیں.ایسی صورت میں منتظمین اور اساتذہ طلباء کے لئے مثالی اخلاق کا نمونہ نہیں بن سکتے.آپ کے طلباء خوش نصیب ہیں کہ ان کی نفسیات کو ان مشکلات کا سامنا نہیں.قدم قدم پر آپ کے ادارہ میں پائیداری، کفایت شعاری اور فراوانی آسائش کا احساس ہوتا ہے جس سے دل مطمئن اور دماغ آسودہ ہو جاتا ہے.بجا کہ ملک کی

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد 27 235 سال 1971ء اجتماعی زندگی میں ہم سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے ایک ہی رنگ و روغن اور ایک ہی سے محاسن و معائب سے متصف نظر آتے ہیں لیکن اپنی دسترس کے مطابق ایک مخصوص سطح پر آپ نے جو نمونه تعمیر و ترقی پیش کیا ہے وہ ہم سب کے لئے مقام بصیرت ہے اور ترغیب تقلید دیتا ہے.51 انگلستان کے تین ہزار بے مصرف کلیسا انگلستان کے اخبار ڈیلی ٹیلی گراف نے مورخہ ۲ جولائی ۱۹۷۱ء کے شمارہ میں ” تین ہزار متروک کلیسا‘“ کے عنوان سے مندرجہ ذیل رپورٹ شائع کی.وہ لکھتا ہے : وو 66 ” بے مصرف و بیکار کلیساؤں کے متعلق مشاورتی بورڈ نے اپنی دوسری رپورٹ میں کہا ہے کہ انگلستان میں اٹھارہ ہزار انگلیکن کلیساؤں میں سے تین ہزار کلیسا یکسر فالتو ہیں.لارڈ فلیچر نے جو اس بورڈ کے صدر ہیں اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ طریق کارجس کی رو سے گر جوں کو بریکار قرار دیا جاتا ہے قطعاً غیر تسلی بخش ہیں.ہمارے قصباتی گرجوں کے بیش قیمت ورثہ کی تباہی سے ہونے والے نقصان سے بچنے کے لئے مزید روپیہ اور سرکاری امداد کی ضرورت ہے.جن گرجوں کے متعلق بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ دیگر ضروریات کے لئے ان کو استعمال میں لایا جائے.ان میں سے بعض گرجے شکسپیر تھیٹر ، ریستوران، لائبریری، عجائب گھر ، ناچ گھر اور کا نفرنس ہال میں تبدیل کئے جارہے ہیں.“ انگلستان کے اخبار ٹائمز نے یکم جولائی ۱۹۷۱ ء کے شمارہ میں ”نئی کلیساؤں کی تعمیر کفر ہے“ کے عنوان سے درج کیا کہ میتھوڈسٹ کانفرنس کے آج کے اجلاس میں ڈاکٹر جے جے ونسنٹ آف شیفیلڈ نے اعلان کیا کہ کلیساؤں کے لئے نئی عمارات کی تعمیر کفر کے مترادف ہے.انہوں نے کہا کہ اسے کفر کا نام اس لئے دیا جارہا ہے کہ ہم مسیح کے غلام ہیں اس مسیح کے جسے سر چھپانے کے لئے بھی جگہ میسر نہ تھی.پھر یہ اس لئے بھی کفر ثابت ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ خدا کی اس دنیا میں ان عمارتوں سے باہر جنہیں ہمارے آباؤ اجداد نے محبت اور پیار کے جذبہ کے ماتحت تعمیر کیا تھا بہت سے ناروا اور مکروہ واقعات رونما ہورہے ہیں.ڈاکٹر ونسنٹ نے تجویز کیا کہ غیر ضروری گرجوں کی فروخت سے حاصل کیے ہوئے روپے سے اب کمیونٹی ہاؤس خرید نے چاہئیں.52

Page 246

تاریخ احمدیت.جلد 27 236 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے طلبہ کیلئے زریں ارشادات سال 1971ء صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب تکمیل تعلیم کے سلسلہ میں انگلستان روانہ ہونے والے تھے.اس موقعہ پر ۲۸ ستمبر کی شام کثیر احمدی احباب احاطہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں تشریف لا کر اجتماعی دعا میں شامل ہوئے.دعا سے قبل حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے بیرونِ ملک اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جانے والے طلبہ کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا:.وو عزیزم مرزا انس احمد صاحب.مزید تعلیم کے لئے آکسفورڈ جارہے ہیں.آپ کو اس لئے تکلیف دی ہے کہ ہم مل کر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے رکھے اور جو مقصد ایک احمدی متعلم کا ہے اس مقصد میں یہ کامیاب ہوں ( اللهم آمین) ہم باہر جا کر اس لئے تعلیم حاصل نہیں کرتے کہ وہاں کچھ صداقتیں ہیں جو ہمیں اسلام میں نہیں مل سکتیں ،صرف باہر جا کر ملتی ہیں.بلکہ ہم اس لئے تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں کہ جن غلط باتوں کو وہ صداقتیں سمجھتے ہیں ان کا جواب کس طرح دیا جائے.ان کے دماغوں سے گند اور جھوٹی اور خلاف حقیقت باتوں کو کس طرح دور کیا جائے اور ان سے ان کی کس طرح حفاظت کی جائے.پس ایک احمدی منتعلم یعنی علم سیکھنے والے کا مقصد مذکورہ بالا ہے اور ہر احمدی مرتے دم تک متعلم ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا اور اگر انسان چاہے تو ہر دم اور ہر آن اپنے علم میں اضافہ کر سکتا ہے اور اسے کرنا چاہیے.پس آؤمل کر دعا کر لیتے ہیں“.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.53 تعلیم الاسلام کالج میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تقریر ۱۳ اکتوبر ۱۹۷۱ء کو پاکستان کے نامور ادیب و نقاد ڈاکٹر وزیر آغا نے بزم اردو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاحی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.دم انجمنیں تو اور بھی ہیں اور قریب قریب ہر کالج نے اپنی نجی قسم کی بزم اردو قائم کر رکھی ہے جس کا کام زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اپنے سابقہ پر نسپل کے تبادلہ کے موقع پر خوشی کا اظہار کریں یا نٹے پرنسپل کی آمد کے موقع پر خوشی کا اظہار کریں اور بس لیکن آپ کی اس بزم نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد 27 237 سال 1971ء ہیں ان سے اس علاقہ کے بہت سے لوگ واقف ہیں.آپ نے جو یہاں اردو کا نفرنسیں کروائیں اور جواد بی مذاکرے کروائے یا خاص ایام منعقد کئے ان کی شہرت دیوار ربوہ پار کر کے بہت دور دور تک پہنچی ہے اور ہمارے وطن کے بیشتر اہل نظر اس بزم کے نام اور کام سے واقف ہیں.حضرات ! ماضی میں آپ کی انجمن نے جو عمدہ کام کئے ان کا سہرا ز یادہ تر ڈاکٹر پرویز پروازی کے سر ہے انہوں نے اس سلسلہ میں بے حد کام کیا اور آپ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ چوہدری محمد علی صاحب جیسے صاحب نظر شاعر اور ادیب آپ کے پرنسپل ہیں.مجھے یقین ہے کہ ان کی سر پرستی کے باعث یہ انجمن اور بھی ترقی کرے گی اور یہ سال اس کی زندگی میں بہت نیک سال ثابت ہوگا“.54 شادی کی ایک تاریخی تقریب برمنگھم کے ایک نوجوان انگریز Mr.Neville Ward ایک سکول میں بطور استاد کام کرتے رہے.مطیع اللہ درد صاحب بھی بطور استاد اسی سکول میں مدرس تھے.مطیع اللہ درد صاحب سے ان کا مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا اور آنا جانا شروع ہوا Mr.Ward صاحب کی سالگرہ کے موقع پر مطیع اللہ صاحب نے آپ کو حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی کتب کا تحفہ لا کر دیا جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی.اس وقت تک Mr.Ward صاحب کی منگنی آپ ہی کی کزن سے ہو چکی تھی.آپ کی منگیتر بھی ان کتب سے کافی متاثر ہوئیں.ان موضوعات پر غور کرنے کے بعد آپ دونوں نے مسجد فضل لندن جانے کا ارادہ کیا جہاں آپ کی ملاقات مکرم عطاء المجیب راشد صاحب سے ہوئی.مکرم امام صاحب انتہائی تپاک اور گرم جوشی کے ساتھ ملے.مشن ہاؤس کا دورہ کرنے کے بعد دل کو انتہائی سکون محسوس ہوا.واپس آکر اس نیک بخت جوڑے نے خدا تعالیٰ کے حضور تسلی اور اطمینان کے حصول کے لئے دعا کی.جولائی ۱۹۷۱ ء کو اس جوڑے نے بیعت فارم پر کر کے ارسال کر دیا.بیعت کے بعد حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں ان کے نام رکھنے کی درخواست کی گئی.حضور نے علی الترتیب ناصر وسیم اور ولیہ قدسیہ تجویز فرمائے.مورخه ۲۳ اکتو بر ۱۹۷۱ کو بیت فضل لندن میں محترم امام صاحب نے آپ دونوں کے نکاح کا اعلان فرمایا.اور اسی روز شادی کی تقریب عمل میں آئی.اگلے روز وسیع پیمانے پر دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں احباب جماعت کثرت کے ساتھ شامل ہوئے.

Page 248

تاریخ احمدیت.جلد 27 238 سال 1971ء لندن مشن کی تاریخ میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی انگریز احمدی نوجوان اور انگریز احمدی خاتون کی شادی کی تقریب منعقد کی گئی ہو.قدسیہ اور ناصر صاحب کے چار بچے ہیں.وہ مشرق وسطی میں کئی سال رہنے کے بعد فرانس میں رہائش رکھتے ہیں.ایک بیٹی سارہ خان لندن میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ رہتی ہیں.۲۰۱۲ء میں ناصر و سیم وارڈ صاحب کی وفات ہو گئی تھی.53 پہلا کل پاکستان بین الکلیاتی مقابلہ مضمون نویسی اکتو برا ۱۹۷ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے زیر اہتمام ایک بین الکلیاتی مقابلہ مضمون نویسی کروایا گیا.یہ ا پنی طرز کا پہلا مقابلہ تھا.جس میں اول اور دوم آنے والے مضمون نگاروں کے لئے گولڈ میڈل اور سلور میڈل بھی بطور انعام رکھے گئے.اس مقابلہ کے لئے پاکستان کے تمام کالجوں کے طلباء کو شرکت کی دعوت دی گئی.ملک کے مختلف حصوں سے طلباء کی ایک کثیر تعداد نے بڑے ذوق وشوق سے اس مقابلہ میں حصہ لیا.مقابلہ کے عناوین درج ذیل تھے.ا.مسئلہ ارتقاء اور اسلام ۲.جدید سائنسی ایجادات اور قرآن کریم نفسیاتی الجھنیں اور ان کا علاج از روئے قرآن کریم ۴.اسلام اور انسان کی فطری صلاحیتوں کی تکمیل مقالہ جات انگریزی یا اردو میں تحریر کرنے کی اجازت تھی.مضمون نگاروں نے اپنے مقالے بڑی محنت اور عرقریزی سے تیار کئے جیسا کہ منصف اعلیٰ جناب پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے( کینٹب) کے ان ریمارکس سے واضح ہوتا ہے.مقالہ جات واقعی بہت دلچسپ تھے.آپ کا یہ مقابلہ کامیاب رہا.ہر مقالہ میں کچھ نہ کچھ بات مفید، پر معانی یا چینج کی قسم کی تھی.زیادہ توجہ سے پڑھنے کے لائق تھے.جو انعام میں نہیں آئے وہ بھی گونہایت اچھے تھے“.یہ مقابلہ مضمون نویسی ہر سال منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا تا کہ طلباء میں قرآن کریم اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں انسانی زندگی کے مسائل کو سلجھانے کی صلاحیت اور رجحان پیدا کرنے میں مدد مل سکے.56

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد 27 احمد ب 239 یہ مشن ہاؤس رحیم یار خان کیلئے عدالتی حکم سال 1971ء رحیم یارخان محله قاضیاں والا کی مسجد شیخاں کے قریب احمدیوں نے اس سال ایک مشن ہاؤس بر کیا.احمدی اس میں نمازیں ادا کرتے اور دوسرے جماعتی اور مذہبی امور انجام دیتے تھے.جامع مسجد شیخاں والی کے پیش امام اور خطیب اور دیگر مدعیان کی درخواست پر چوہدری محمد نسیم ایڈمنسٹریٹر سول جج نے مشن ہاؤس میں احمدیوں کو نماز پڑھنے اور دیگر مذہبی امور سر انجام دینے کی ممانعت کر دی اور عدالتی حکم میں لکھا کہ مدعیان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ان کے اور دوسرے مسلمانوں کے بچوں کے جذبات اور مذہبی احساسات مجروح ہو رہے ہیں اور نقص امن اور بلووں کا خطرہ ہے اور اگر درخواست منظور نہ کی گئی تو انہیں نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا.57 نگر پارکر (سندھ) میں پہلے جلسہ سالانہ کا انعقاد مورخه ۲۷، ۲۸ نومبر ۱۹۷۱ء بروز ہفتہ اتوار نگر پارکر شہر میں پہلے جلسہ سالانہ کا انعقاد کیا گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چاروں اطراف سے بیس بیس میل کا فاصلہ پیدل طے کر کے احباب جماعت اس میں شامل ہوئے.اس جلسہ میں شمولیت کے لئے مولوی غلام احمد صاحب فرخ حیدر آباد سے اور مکرم شرافت احمد صاحب ربوہ سے تشریف لائے.اس جلسہ میں احمدی احباب کے علاوہ نومسلم احباب نے بھی شرکت فرمائی.58 اس موقع پر ( حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا.پیغام (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب المصلح و بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت اصلح الموعود کی دیرینہ خواہش تھی کہ ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کی طرف خاص توجہ دی جائے.چنانچہ اس عاجز کو بھی حضور نے بار ہا توجہ دلائی کہ وقف جدید کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیئے.ان ہدایات کی روشنی میں ایسے علاقوں کے لئے معلمین کو جہاں ہندو اقوام پائی جاتی ہیں بار بار اس طرف توجہ دلائی جاتی رہی ہے لیکن ابتداء میں کوئی خاطر خواہ اور امید افزاء نتیجہ برآمد نہیں ہوا.چنانچہ ۱۹۶۰ء میں

Page 250

تاریخ احمدیت.جلد 27 240 سال 1971ء یہ تجویز کی گئی کہ احمدی تربیت یافتہ کمپیوٹروں میں تحریک کی جائے کہ وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے وقف کریں.اور اپنے خرچ پر ہندو علاقوں میں جا کر رہائش اختیار کریں.جہاں طبی پریکٹس کے ذریعہ گزراوقات کا سامان کرنے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کا کام بھی کرتے رہیں.اس تحریک کے نتیجہ میں مکرم سعید احمد صاحب ابن مکرم چوہدری فیروز الدین صاحب انسپکٹر تحریک جدید نے اپنے آپ کو پیش کیا اور ضلع تھر پارکر سندھ کے ریگستانی علاقہ میں نہایت ہی مشکل اور نامساعد حالات میں کئی سال تک آنریری طور پر فریضہ تبلیغ ادا کیا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے ان کی اس قربانی کو مثمر با شمرات حسنہ فرمایا.اور ۱۹۶۱ء میں پہلی مرتبہ اس علاقہ کی اچھوت اقوام جن کو ہندوؤں نے ظلم وستم کا نشانہ بنایا ہوا تھا.اور ان کو ذلیل کرنے کے لئے اچھوت اقوام کا نام دیا ہوا تھا، چار دوستوں کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی.اس کامیابی کے نتیجہ میں وقف جدید کو وہاں ایک مرکزی بستی میں با قاعدہ مرکز کھولنے کی توفیق ملی.جہاں ایک نو مسلم ہومیوڈاکٹر نثار احمد راٹھور کو بطور معلم مقرر کیا گیا.اگرچہ اس مشن کے قیام کے بعد چند سال تک تو نہایت مایوس کن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور مذکورہ نومسلمین کے ساتھ ان کے اعزاء واقارب کے انتہائی سخت اور نفرت آمیز سلوک سے ڈر کر مزید بیعتیں ہونا بند ہو گئیں.تاہم وقف جدید نے نصرت الہی پر بھروسہ کرتے ہوئے وہاں کام بند کرنے کی بجائے اسے مزید تقویت دینی شروع کر دی.اور مکرم مولوی محمد شریف صاحب کھو کھر معلم حلقہ نو کوٹ کو بھی وہاں نثار احمد کے ساتھ تمام علاقہ کے دورہ پر بھجوا دیا.اس دورہ کی رپورٹ نہایت امید افزا تھی.چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح کی ہدایت کے مطابق حالات کا بذات خود جائزہ لینے کیلئے اس عاجز نے بھی اس علاقہ کا دورہ کیا اور شدت سے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعض اچھوت اقوام اسلام کے بہت قریب آچکی ہیں.اور بعید نہیں کہ ہم اس علاقہ میں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ بچشم خود دیکھ لیں.چنانچہ اس دورہ کے بعد اس مشن کو اور آگے بڑھا کر دیہاتی علاقوں کو منتقل کر دیا گیا اور متعلمین کی تعداد بھی مستقل طور پر ایک کی بجائے تین کر دی

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد 27 241 سال 1971ء گئی.الحمد للہ کہ اس کے بہت ہی خوش کن نتائج پیدا ہوئے اور آج تک وہاں ۹۲۵ ہند و اسلام قبول کر چکے ہیں اور دن بدن اسلام کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے.اس وقت ہمارے سامنے فوری مسئلہ نومسلمین کی فوری تربیت کا ہے جس کی طرف معلمین کو غیر معمولی توجہ دینی چاہیئے.اس کے علاوہ اسلام کی طرف دیہات اور برادریوں کا بڑھتا ہوا رجحان یہ تقاضا بھی کرتا ہے کہ جلد از جلد صدیوں کی پیاسی روحوں کو اسلام کے میٹھے پانی سے سیراب کیا جائے اور شرک کے اندھیرے میں بھٹکنے والوں کو توحید کا نور عطا کیا جائے.پس اگر ان دونوں پہلوؤں سے صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو معلمین کیلئے اتنازیادہ کام ہے کہ اگر وہ خلوص کے ساتھ وقف کی روح کوملحوظ رکھتے ہوئے کام کریں تو فی الحقیقت انہیں سر کھجانے کی بھی فرصت نہ ملے اس کے علاوہ دعاؤں کی ضرورت ہے اور خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت ہے اس بات کی کہ جن مظلوم قوموں کو معلمین وقف جدید کی وساطت سے از سر نو شرف انسانیت عطا ہو رہا ہے ان کو صرف انسان ہی نہیں بلکہ باخدا انسان بنایا جائے اور ان کا براہ راست تعلق ان کے رب سے دعا اور مناجات کا رشتہ قائم کر کے خود انہیں میں سے زندہ خدا کی ہستی کے زندہ گواہ بنائے جائیں جو مقصود تخلیق کا ئنات حضرت محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے سرشار اور اس پر ہر دم درود و سلام بھیجنے والے ہوں.اس علاقہ میں قبل ازیں عیسائیوں نے امریکن امداد کی آڑ میں اپنے پاؤں جمانے کی کوشش کی.خوراک اور دوسری اشیاء کا لالچ دے کر ان کو عیسائی بنانا چاہا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ ان کا یہ فعل ان لوگوں کو مادی امداد دے کر ان کی روحانیت کو خریدنا تھا.لیکن اسلام اس کے برعکس انسان سے مادی قربانی لے کر اسے روحانی دولتوں سے مالا مال کرتا ہے اور شرف انسانی عطا کرتا ہے.اسلام میں کسی کالے گورے امیر اور غریب کا امتیاز نہیں.خدا تعالیٰ کے نزدیک وہی زیادہ مقرب ہے جو زیادہ متقی ہے اور وہی خدا کی محبت کا زیادہ حقدار ہے.میٹھی میں قبول اسلام کی ابتدا سابق معلم مکرم نثار احمد مورانی نو مسلم کے زمانہ میں شروع ہوئی اور مکرم رشید احمد صاحب بھٹی نے بعد ازاں اس کام کو مزید آگے بڑھایا....

Page 252

تاریخ احمدیت.جلد 27 242 سال 1971ء علاقہ مٹھی کے متعلق ایک اظہار افسوس بھی بے محل نہ ہو گا کہ اس علاقہ کے نو مسلمین نے الا ماشاء اللہ ایسی ایمانی جرات اور بے خوفی کا اظہار نہیں کیا جیسی علاقہ نگر پارکر کے نو مسلمین نے شروع ہی میں دکھائی.جبکہ نگر پارکر کی طرف آغاز تبلیغ ہی سے ایمانی جرات کے شاندار مظاہرے ہوتے رہے.میٹھی میں بہت دیر تک نئے اسلام لانے والے ماحول کے خوف سے دبے چھپے رہے اور آج تک بھی بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو ماحول کے ڈر سے مخفی رہنا پسند کرتے ہیں.لہذا اس غرض سے ان کی ٹھوس تربیت کی جائے اور اللہ تعالیٰ پر توکل پیدا کیا جائے اور غیر اللہ کے خوف کو دل سے حرف غلط کی طرح مٹادیا جائے.وہاں ایک نئے معلم مکرم گل محمد صاحب کو مقرر کیا گیا ہے جن سے دفتر کو بھاری توقع ہے کہ وہ انشاء اللہ مٹھی کی جماعت میں ایک نئی روح پھونک دیں گے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے دفتر کی اس توقع کو امید سے بھی پہلے پورا فرما دیا اور مکرم گل محمد صاحب کو توفیق بخشی کہ جماعت مٹھی کی صحت مندانہ خطوط پر تربیت کر سکیں.چنانچہ تازہ ترین رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں با قاعدہ جماعت قائم کر کے پاکستان کی دیگر جماعتوں کی طرح چندہ کا بجٹ بھی بنالیا گیا ہے اور نومسلم انشاء اللہ اپنے دیگر بھائیوں کے دوش بدوش اسلام کی راہ میں مالی قربانی کیلئے تیار ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا معجزہ ہے کہ وہ لوگ جو دنیاوی اموال کے لالچ سے عیسائیت کی جانب مائل نہ ہوئے با وجود غربت کے اسلام کو اس طرح قبول کر رہے ہیں کہ اموال لینے کی بجائے اس صداقت کی راہ میں اپنے اموال لٹانے لگے ہیں.اللهم زدفرد.آج وہی مٹھی جس کے بارہ میں ہم تربیتی لحاظ سے فکر مند تھے اس علاقہ کی دیگر جماعتوں کے لئے نمونہ بن رہی ہے.الحمد للہ علی ذلک آخر پر میں معلمین کرام کو ایک بار پھر متوجہ کرتا ہوں کہ آپ کا کام نہایت عظیم اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے.اگر آپ نے خلوص قربانی اور محنت سے کام لیتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس فریضہ کو سر انجام دیا اور نیک نمو نے قائم کئے اور نیک یادیں اپنے پیچھے چھوڑیں تو آنے والی نسلیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 253

تاریخ احمدیت.جلد 27 243 سال 1971ء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ پر بھی درود بھیجیں گی اور آپ اس علاقہ کی تاریخ میں نجات دہندہ کے طور پر یاد کئے جائیں گے.لیکن اگر خدانخواستہ آپ کی کوتاہیوں اور غفلت سے اس علاقہ میں تبلیغ اسلام کو کوئی نقصان پہنچایا تربیتی خامیاں ان لوگوں میں رہ گئیں تو آپ کے لئے خوف کا بھی ویسا ہی مقام دعا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی روح القدس کے ذریعہ مددفرمائے اور صراط مستقیم عطا فرمائے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی اور دوسروں کو چلانے کی توفیق بخشے اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی یہ توقع بڑی شان سے پوری ہو کہ اسلام کو قریہ قریہ میں نئے جیلانی ، چشتی، سهروردی اور نقشبندی عطا ہوں اور گاؤں گاؤں کو نئے رازی ملیں.آمین والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد 166 ناظم ارشاد وقف جدید 59

Page 254

تاریخ احمدیت.جلد 27 244 سال 1971ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی امریکہ مشن کے مشنری انچارج چوہدری عبدالرحمن خان صاحب بنگالی تھے.اخبار الفضل میں مشن کی دینی و تربیتی سرگرمیوں کی تفصیلات میں سے صرف جماعت احمدیہ امریکہ کے چوبیسویں کامیاب سالانہ جلسہ کا ذکر ملتا ہے جو واشنگٹن میں ۳ سے ۵ ستمبر ۱۹۷۱ ء تک جاری رہا.اس جلسہ میں سینکڑوں کی تعداد میں احباب جماعت شریک ہو کر اس کی برکات سے مستفیض ہوئے.تشریف لانے والوں میں علاوہ امریکہ کی مختلف جہات کے بیسیوں مشنوں اور کینیڈا کے بھی احباب جماعت شامل تھے.رہائش کے لئے اس دفعہ علاوہ مشن ہاؤس کے ، جہاں قلیل تعداد ٹھہر سکی، واشنگٹن کے ڈاؤن ٹاؤن ایمبیسڈرہوٹل (Ambassador Hotel) میں انتظام کیا گیا تھا.جلسہ کا پہلا اجلاس زیر صدارت ڈاکٹر بشیر الدین اسامہ صاحب منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے سوشل مسائل اور ان کا حل کے موضوع پر احباب نے انفرادی طور پر تبصرہ کیا اور خصوصاً رشتہ ناطہ میں پیش آمدہ مشکلات کے حل کے بارے میں اپنی آراء پیش کیں.شام کو چھ بجے سے آٹھ بجے تک امراء کی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں متعدد فیصلے کئے گئے جن میں سے اہم قابل ذکر امور یہ تھے کہ :.ا.آئندہ سال کا سالانہ جلسہ شکا گوشہر میں منعقد ہو گا.۲.نیشنل تبلیغی دن ۲۸ مئی کو نیو یارک میں منا یا جائے.۳.تمام سرکلر اپنے اپنے علیحدہ تبلیغی دن جولائی میں منائیں.۴.اسی طرح تمام سرکلر اپنے اپنے حلقہ میں مناسب وقت پر تعلیمی اور تربیتی کلاس ایک ایک ہفتہ کے لئے منعقد کریں.اس کنونشن کا دوسرا اجلاس زیر صدارت مکرم بشیر افضل صاحب ( نیو یارک) شروع ہوا.تلاوت قرآن مجید بلال عبد السلام ( فلاڈلفیا ) نے کی.مشنری انچارج چوہدری عبدالرحمن خان صاحب نے افتتاحی تقریر فرمائی جس میں سیدنا حضرت خلیفتہ اُسیح الثالث کی طرف سے آمدہ پیغام پڑھ کر سنایا گیا.جن سے احباب جماعت کے دلوں میں ایک نیا ولولہ اور جوش ایمان پیدا ہوا.پیغام حضرت خلیفہ اسیح الثالث برموقع جلسہ سالانہ حضور نے احباب جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ

Page 255

تاریخ احمدیت.جلد 27 245 سال 1971ء میرے پیارے بھائیو جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں.السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ آپ چند دن اکٹھے گزارنے کے لئے اور اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر خصوصی فضل فرمائے اور جب آپ لوگ یہاں سے واپس اپنے گھروں کو لوٹیں تو آپ کی روحانی حالت مزید ترقی کر چکی ہو.اپنا وقت ذکر الہی اور دعاؤں میں گزاریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد اسلام کا احیائے نو تھا تا کہ دنیا خدائے واحد کو پہچان سکے اور مشرق و مغرب سچائی کے نور سے منور ہوسکیں.اللہ نے آپ لوگوں کو اس نور سے منور کیا ہے.شکر کا تقاضا ہے کہ اسلام کی فتح کے دن کو قریب لانے کے لئے ہم سر توڑ کوششیں کریں.لیکن یہ کوششیں خلافت کے تابع ہونی چاہئیں.ہم اور ہماری کوششیں کچھ نہیں بلکہ یہ سب خلافت کی ہی برکات کے تابع ہیں.خلافت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرو.اور خلافت کے مقرر کردہ نمائندوں سے تعاون کرو.تا کہ اس اتحاد کی برکت سے اللہ کا خاص فضل ہم پر نازل ہو.ہمیشہ متحد رہو کیونکہ اتحاد سے ہی ہم اپنے عظیم مقاصد کو پا سکتے ہیں.اللہ کے فضل کے بغیر ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اور اللہ کا فضل تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.ہمیشہ اللہ کی ناراضگی سے ڈرو اور اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلی لانے کی کوشش کرو.60 حضور کے پیغام کے بعد وکیل التبشیر صاحب کی طرف سے آمدہ پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا.ازاں بعد رشید احمد صاحب امریکن نے سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض پہلو بیان کر کے احباب کے ایمان کو تازہ کیا.پھر منیر احمد صاحب امیر سینٹ لوئس نے مسیح ہندوستان میں“ کے موضوع پر تقریر کی.پھر ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر نے اسلام موجودہ زمانہ میں“ کے موضوع پر عمدگی سے روشنی ڈالی اور بتلایا کہ اسلام ہی موجودہ زمانہ کے مسائل حل کر سکتا ہے اور اس وقت کی مشکلات کا مداوا ہے.اس کے بعد ملک عبد المنان صاحب نے دعاؤں کی قبولیت کے گر“ پر تقریر فرمائی اور بالآخر چوہدری عبدالرحمن خان صاحب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمتہ للعالمین ہونے پر روشنی ڈالی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال کر واضح

Page 256

تاریخ احمدیت.جلد 27 246 سال 1971ء فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام زمانوں اور تمام اقوام کے لئے رحمت بن کر مبعوث ہوئے.اس جلسہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ بڑے پیمانہ پر واشنگٹن کے باشندوں تک پیغام حق پہنچانے کا اہتمام کیا گیا تھا.چنانچہ تین بجے تک کا وقت تقسیم لٹریچر کے لئے مخصوص کیا گیا.مخلصین جماعت کے مختلف گروپ بنائے گئے اور ہر گروپ اپنے اپنے امیر کے ماتحت اپنے اپنے علاقہ میں کار میں جا کر اشتہار تقسیم کرتا رہا.بفضلہ تعالیٰ اس تین گھنٹہ کے عرصہ کے دوران تقریباً ۴۰ ہزار اشتہارات تقسیم کئے گئے اور اس طرح دین حق ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام لوگوں تک پہنچایا گیا جس کا نتیجہ بہت اچھا رہا.بعد میں ٹیلیفون پر اور پھر خط و کتابت کے ذریعہ مزید دلچسپی کا اظہار کیا گیا.اسی دوران ۳ بجے سے بجے شام تک لجنہ اماءاللہ کی مبرات نے اپنا اجلاس منعقد کیا جس میں گذشتہ سال کی کارروائی پیش کی گئی اور آئندہ سال کا پروگرام بنایا گیا.مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے ممبران نے الگ الگ اپنی میٹنگز منعقد کیں اور نئے سال کے پروگرام طے کئے.۵ ستمبر بروز اتوار بھی صبح احباب نماز تہجد کے لئے اٹھے اور پھر نماز فجر ادا کی اور پھر ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہو کر دس بجے اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.آخری اجلاس کی کا رروائی زیر صدارت ڈاکٹر برکات احمد صاحب منعقد ہوئی جس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مبارک احمد صاحب جمیل نے کی اور پھر ایک نظم پڑھی گئی.اس کے بعد محمد صادق صاحب امیر نیو یارک نے زندہ خدا کے زندہ نشانات“ کے موضوع پر تقریر فرمائی اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلائل پیش فرمائے.اس کے بعد قریشی مقبول احمد صاحب ایم اے سیکرٹری امریکہ مشن نے اللہ تعالیٰ کے قول اور فعل کے موضوع پر روشنی ڈالی اور بتلایا کہ اللہ تعالیٰ کے قول پر عمل کر کے مسلمانوں نے کس طرح سائنس کے علوم میں از منہ ماضیہ میں ترقی کی اور کس طرح فی زمانہ مغربی اقوام کی سائنس کی ترقیات اللہ تعالیٰ کے قول و فعل کی تصدیق کر رہی ہیں اور دراصل قرآن مجید کی پیشگوئیوں کے مطابق ان کا ظہور ہو رہا ہے اور اس کے خلاف ہرگز نہیں ہیں.یہ سائنسی ترقیات اسلام کی حقانیت کا ثبوت ہیں.اس کے بعد عبد الرحیم صاحب ظفر آف ڈیٹن نے پیغام امن“ کے موضوع پر تقریر کی اور واضح

Page 257

تاریخ احمدیت.جلد 27 247 سال 1971ء کیا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے.ازاں بعد چوہدری عبدالرحمن خان صاحب نے اختصار کے ساتھ گذشتہ سال کی مالی اور تبلیغی مساعی کا تذکرہ کیا اور احباب کو مزید قربانیوں کے لئے تیار رہنے کی ترغیب دی.61 انڈونیشیا حافظ قدرت اللہ صاحب یکم تا ۱۵ مارچ ۱۹۷۱ ء کے دوران سنگلانگ (Sanglang) تشریف لے گئے جہاں پہلے صرف تین احمدی افراد تھے مگر اب ان کے پہنچنے پر ایک ہی فیملی کے سات افراد نے احمدیت قبول کی.یہاں آپ نے ایک تقریب میں ۳۵-۴۰ کے قریب غیر از جماعت افراد تک پیغام احمدیت پہنچایا.اس سے پہلے بھی آپ کو اس جگہ یورپ کی تبلیغی سلائیڈ ز دکھانے اور لیکچر دینے کا موقع مل چکا تھا.سلائیڈز کے ذریعہ احمدیت سے متعارف کرانے کا یہ طریق ہر جگہ بہت مفید اور دلچسپ ثابت ہوا.امارچ کو محمدیہ تنظیم کے تحت آپ نے ایک کامیاب لیکچر دیا جس میں دوسو سے زائد طلباء موجود تھے.بعد میں سوال و جواب بھی ہوئے.62 ۱۹۷۱ء کی جماعتی مجلس شوری آخر اپریل میں مغربی جاوا کی مشہور بندرگاہ چر بون میں منعقد ہوئی.گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی اگست ۱۹۷۱ء میں پہلے مجلس خدام الاحمدیہ انڈونیشیا کا اجتماع ہوا.پھر جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا سالانہ جلسہ انعقاد پذیر ہوا.خدام الاحمدیہ کا اجتماع ۲۳ - ۲۴ - ۲۵/اگست کو تا سک ملا یا شہر سے تین میل دور ایک پرفضا مقام پر تھا.اجتماع میں علاقہ کے مبلغین نے حصہ لیا اور تقاریر کیں اور درس دیا.حکومت کے ایک نمائندہ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا اور علاقہ کی بعض ممتاز شخصیات نے شرکت کی.اس موقع پر خدام کی سالانہ میٹنگ ہوئی اور پہلی بار تقریری مقابلہ کرایا گیا.جماعت کا سالانہ جلسہ ۲۶-۲۷.۲۸ /اگست کو تا سک ملایا میں منعقد ہوا جس میں انڈونیشیا کے طول و عرض سے دو ہزار کے قریب مخلص احمدیوں نے شمولیت فرمائی.جا کرتا اور بنڈ ونگ پریس میں اس جلسہ کی خبریں شائع ہوئیں اور ریڈیو سے اس کا بار بار اعلان نشر ہوا.ہینڈ بل تقسیم کے علاوہ موزوں مقامات پر پوسٹر بھی آویزاں کئے گئے.جلسہ کے کل پانچ اجلاس ہوئے.مولانا محمد صدیق صاحب نے افتتاحی خطاب میں سب سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا روح پرور دعائیہ پیغام پڑھ کر سنایا اور احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.جلسہ کے دیگر مقررین میں

Page 258

تاریخ احمدیت.جلد 27 248 سال 1971ء سے مولوی عبد الواحد صاحب، میاں عبدالحی صاحب ، مولوی محی الدین صاحب، چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ، مولوی ذینی دہلان صاحب جي پونتو صاحب، مولوی احمد نور الدین صاحب، راڈین احمد انور صاحب، مرزا محمد ادریس صاحب ، ڈاکٹر محی الدین صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.آخری اجلاس کی صدارت جناب مکوی بر مادی صاحب نے کی جس میں متعدد اصحاب نے اپنے مخلصانہ جذبات کا اظہار فرمایا.شافعی صاحب سیکرٹری تبلیغ نے انڈونیشیا مشن کی مختصر رپورٹ پیش کی.میاں عبدالحی صاحب نے اپنے سفر ربوہ کے تاثرات بیان کئے.مولوی احمد نورا لدین صاحب نے جزیرہ لومبک (Lombok) میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی اور ان کے خوشکن نتائج کا ذکر کیا.مولانا محمد صادق صاحب نے محبت و اخلاص پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ کے بعد صالح الشبیبی صاحب اور مر تو لو صاحب صدر جماعت ہائے احمد یہ انڈونیشیا کی تقاریر ہوئیں.جلسہ سالانہ کے ایام میں لجنہ اماءاللہ اور انصار اللہ کے تنظیمی اجلاس منعقد ہوئے.جلسہ کے بعد تا سک ملایا میں ایک پبلک تبلیغی جلسہ ہوا یہ جلسہ ایک ہال میں منعقد ہوا جو بہت کامیاب رہا.حاضرین جلسہ کی تعداد قریباً دو ہزار تھی جس میں نصف کے قریب غیر از جماعت معززین تھے.صدارت کے فرائض جناب شافعی صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعتہائے انڈونیشیا نے ادا کئے.جناب صالح الشبیبی صاحب نے اسلام کا اقتصادی نظام، مولانا محمد صادق صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے رحمۃ للعالمین صلالم “ کے موضوع پر خطاب فرمایا.اختتام جلسہ کے بعد میاں عبدالحی صاحب نے سوالوں کے جوابات دیئے.جلسہ کی کارروائی بنڈونگ کے اخبار Pikiran Rakyat میں شائع ہوئی.63 انگلستان 66 اس سال جماعت ہائے احمد یہ انگلستان کے زیر اہتمام عید الاضحیہ کی تقریب ۶ فروری ۱۹۷۱ء کو پورے تزک واحتشام سے منعقد ہوئی.اس موقع پر ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے صدر ڈاکٹر ولی احمد شاہ صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ لندن تھے.کمیٹی کے ممبران اور ان کے رفقاء کار نے نہایت شوق سے جملہ انتظامات کئے اور مسجد فضل اور مشن ہاؤس کے احاطہ کو رنگ برنگ کی جھنڈیوں سے سجایا گیا.مردوں کے لئے محمود ہال کے سٹیج ، لائبریری اور اس کے ملحقہ کمروں میں بھی انتظام تھا.مستورات کے لئے محمود ہال مخصوص تھا.اس بابرکت تقریب میں قریباً دو ہزار افراد نے شرکت کی.

Page 259

تاریخ احمدیت.جلد 27 249 سال 1971ء جلنظیم سے چالیس احباب اپنے پریذیڈنٹ فضل کریم صاحب لون کی سرکردگی میں تشریف لائے.علاوہ ازیں آکسفورڈ، ہنسلو، ہائی ویکمب ، کرائیڈن، برمنگھم، ساؤتھ آل، ایلنگ اور دوسرے مقامات سے بھی مخلصین احمدیت بھاری تعداد میں شامل ہوئے.نماز عید چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ امام مسجد فضل لندن نے پڑھائی اور خطبہ عید میں عیدالاضحیہ کے پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالی.بعد ازاں احباب جماعت کو باہمی محبت و خلوص اور حسن سلوک کی تلقین فرمائی.آپ عید سے دو روز قبل لندن پہنچے تھے اور احباب انگلستان سے آپ کے خطاب عام کا یہ پہلا موقع تھا اس لئے آپ نے قدرے تفصیل سے اپنا تعارف بھی کرایا نیز اس امر پر زور دیا کہ ہماری کامیابی کا دارو مدار باہمی اخوت اور مخلصانہ تعلقات پر ہے.آپ نے احباب جماعت کو اپنی دینی مساعی تیز تر کرنے اور نیک نمونہ دکھانے کی بھی تحریک فرمائی.گلاسگو میں نماز عید مبلغ احمدیت بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے پڑھائی اور خطبہ عید دیا اس جگہ بھی حاضری اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوشکن تھی.64 چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ نے مشن کا چارج سنبھالنے کے بعد اس سال تبلیغی کاموں میں وسعت اور انتظامی امور میں استحکام کے لئے پہلے لنگھم ، برمنگھم اور لیسٹر کی جماعتوں کا دورہ کیا.ازاں بعد نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی جلد از جلد ادائیگی کی تحریک کرنے کے لیے لنگھم ہنسلو اور ساؤتھ آل تشریف لے گئے.ماہ ستمبر میں آپ نے اپنے نائب عطاء المجیب صاحب را شد ایم اے کے ہمراہ سکاٹ لینڈ کی جماعتوں کا دورہ کیا جس کے دوران گلاسگو میں جماعتی جلسہ ہوا جس میں آپ کے علاوہ عطاء المجیب صاحب را شد، بشیر احمد صاحب آرچرڈ اور منور احمد صاحب (ابن حضرت ماسٹر محمد علی صاحب بی اے بی ٹی) نے بھی خطاب کیا.سب تقاریر نصرت جہاں ریز روفنڈ کے موضوع پر تھیں.اس جلسہ کے بعد آپ ایڈنبرا پہنچے جہاں ایڈنبرا یونیورسٹی کے شعبہ عربی ( Islamic Studies) کے صدر پروفیسر منٹگمری واٹ سے ملاقات کا وقت مقررتھا.پروفیسر موصوف سے خاصی دیر تک تبادلہ خیالات ہو تا رہا.پروفیسر موصوف نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کا عمدہ رنگ میں ذکر کیا خصوصاً افریقہ میں جماعتی مساعی کو سراہا اور احمدیت کو اسلام کے اندر ایک اصلاحی تحریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کے صحیح نتائج کا علم تو مستقبل میں ہو سکے گا.ملاقات میں برطانیہ کے تینوں مجاہدین کے علاوہ محمد اسلم صاحب جاوید سیکرٹری تحریک جدید بھی تھے.دورۂ سکاٹ لینڈ سے

Page 260

تاریخ احمدیت.جلد 27 250 سال 1971ء واپسی پر پریسٹن (Preston)، ہڈرزفیلڈ(Huddersfield)، و یک فیلڈ (Wakefield) اور شیفیلڈ (Sheffield) میں بھی احباب جماعت سے ملاقات کی گئی ، ہڈرزفیلڈ میں تو اچھے خاصے جلسے کی صورت پیدا ہو گئی.65 9 جولائی کو چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور مولانا عطاء المجیب صاحب راشد نے کانوسٹیٹ (مغربی افریقہ) کے گورنر ہز ایکسی لینسی الحاج آڈوبا کو (H, E.Alhaj Audu Bako) سے ملاقات کی.آپ ان دنوں چند روزہ سرکاری دورہ پر لنڈن تشریف لائے ہوئے تھے.گورنر موصوف بڑے تپاک سے ملے اور جماعت کی تبلیغی مساعی کا بڑے اچھے پیرا یہ میں ذکر کیا خاص طور پر نصرت جہاں سکیم کے تحت تعلیمی اور طبی میدان میں کی جانے والی خدمات کو بہت سراہا.اس موقعہ پر چوہدری شریف احمد صاحب نے قرآن مجید کے ترجمہ انگریزی کا آسمانی تحفہ پیش کیا جو انہوں نے نہایت خوشی سے قبول کیا.66 اس سال جماعت احمد یہ برطانیہ کا آٹھواں جلسہ سالانہ ۲۸، ۲۹/ اگست ۱۹۷۱ء کو مسجد فضل لندن میں منعقد ہوا جس میں دو ہزار فرزندانِ احمدیت نے شمولیت فرمائی.اس جلسہ کے چند نمایاں پہلو یہ تھے کہ اس کے اجلاسوں کی کارروائی زیادہ تر انگریزی میں ہوئی صرف چند نقار پر اردو میں تھیں.دوسرے : اس سال پہلی بار مستورات کے لئے دو خصوصی اجلاس منعقد ہوئے.تیسرے: جلسہ کے دوران ایک علمی نمائش کا اہتمام کیا گیا جس میں کتب تصاویر اور اخبارات کے تراشے بڑی عمدگی سے سجائے گئے تھے.چوتھے : وقت کی پابندی کا خاص اہتمام کیا گیا.پانچویں: کویت، ٹرنیڈاڈ ، افریقہ، جرمنی اور بعض دیگر ممالک سے آئے ہوئے احمدی احباب نے بھی شرکت کی.علاوہ از میں متعدد غیر از جماعت احباب اور زیر تبلیغ عیسائی معززین نے بھی جلسہ کی کارروائی سنی.پیغام امام همام بر موقع جلسه سالانه اس جلسہ کو عظیم امتیاز اور برکت یہ بھی حاصل ہوئی کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت جلسہ کے موقع پر حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا:.آج اسلام افریقہ میں ایک روحانی معرکہ سر کر رہا ہے.یہ بات ہم سے قربانیوں کا مطالبہ کرتی ہے.لیپ فارورڈ پروگرام کے ذریعہ عظیم الشان فتوحات

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد 27 251 سال 1971ء حاصل ہوئی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرنے کے لئے نصرت جہاں فنڈ کے لئے اپنے وعدہ جات جلد پورا کریں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.جلسے کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا جس کے بعد مستورات کے دو اجلاس منعقد ہوئے.پہلے اجلاس میں ڈچ احمدی خاتون مسر ڈاکٹر عبدالحمید صاحبہ، سلمہ نذیر صاحبہ اور منگھ صادقہ بنگوی صاحبہ اور دوسرے اجلاس میں سلمہ مبارکہ خان صاحبه، مسز خدیجہ نذیر صاحبه برهم آمنہ کریم صاحبہ لندن، ذکیہ جسوال صاحبہ اور ناصرہ ندیم صاحبہ قائمقام صدر لجنہ اماء اللہ لندن کی تقاریر ہوئیں.بعد ازاں تیسرے اجلاس سے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے تربیت جماعت کے موضوع پر ایک نہایت مؤثر خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا اپنی تبلیغ کو مؤثر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم سب بہترین نمونہ پیش کرنے والے ہوں.چوتھے اجلاس میں صدر پاکستان کے سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے نہایت پر مغز اور معلومات افروز تقریر فرمائی جس میں گذشتہ زمانے کے مسلمان علماء اور محققین کی شاندار خدمات کا ذکر کرنے کے بعد اس بات پر زور دیا کہ موجودہ زمانے میں جماعت احمدیہ کو علمی اور تحقیقی میدان میں نمایاں امتیاز حاصل کرنا چاہیے.اسی اجلاس میں مولانا عطاء المجیب صاحب را شد اور بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا.پانچویں اجلاس میں دیگر مقررین کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحمید خان صاحب اور مولا نا مبارک احمد صاحب ساقی سابق مجاہد لائبیریا نے بالترتیب صحت کا جدید تصور اور اسلام اور افریقہ میں احمدیت کا مستقبل کے موضوع پر تقریر کی.آخر میں صدر اجلاس حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں یہ خوشخبری سنائی کہ حال ہی میں دو انگریز میاں بیوی اور ایک ترک نو جوان سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے ہیں.یہ تینوں برمنگھم میں رہائش رکھتے تھے ان کا تعارف بھی کروایا گیا اور احباب جماعت نے ان کو مبارک باد پیش کی.چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جن مقررین نے تقاریر فرمائیں ان میں خاص طور پر ناصر احمد صاحب سکرونر، عبد العزیز صاحب دین، سید ناصر احمد صاحب دہلوی، شیخ نور احمد صاحب ایڈووکیٹ، ڈاکٹر نذیر احمد صاحب ( برمنگھم ) اور ڈاکٹر سعید احمد خاں صاحب ویکفیلڈ خاص طور پر قابل ذکر تھے.آخری اجلاس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اسوہ حسنہ کے موضوع پر ایک بصیرت افروز لیکچر دیا جس میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے صحابہ سے محبت اور

Page 262

تاریخ احمدیت.جلد 27 252 سال 1971ء شفقت اور دشمنوں سے عفو اور حسن سلوک کو تفصیل سے بیان کیا اور اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے واقعات اس درجہ مؤثر انداز میں پیش فرمائے کہ سامعین نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجا.آپ کی تقریر کے بعد بشیر احمد صاحب شیدا ( گرین فورڈ) نے احباب کو سید نا حضرت مصلح موعود کی معرکہ آراء تقریر سیر روحانی کا آخری حصہ ٹیپ ریکارڈ کے ذریعہ سنایا.حضور کی پر شوکت آواز سن کر بے اختیار آنکھیں اشکبار ہوگئیں.اجلاس کی آخری تقریر مولانا عطاء المجیب صاحب راشد کی تھی اور موضوع تھا تبلیغ اسلام دنیا کے کناروں تک.آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت زمانہ میں اشاعت اسلام اور پھر دور ثانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے تکمیل اشاعت کا تفصیلی تذکرہ کیا اور نہایت مؤثر رنگ میں جماعتی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلائی.جلسہ کے پہلے اور آخری اجلاس کی صدارت چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ نے کی.آپ نے برکات خلافت کا ذکر کرتے ہوئے خلیفہ وقت سے دلی وابستگی اختیار کرنے کی تحریک فرمائی.اس جلسہ کے انتظامات ایک کمیٹی کے سپر د تھے.مختلف انتظامات کے سلسلے میں ۱۵۸/ احباب نے اپنی ڈیوٹی بہت خوش اسلوبی سے ادا کی.مختلف شعبہ جات کے انچارج صاحبان اور ان کے جملہ رفقاء کا رنے ایک دوسرے سے بڑھ کر محنت اور جانفشانی سے کام کیا اور بعض کارکنان تو ساری ساری رات جاگتے رہے.احمدی مستورات نے بھی جلسہ کو کامیاب بنانے میں بھر پور حصہ لیا.جلسہ کا ڈیوٹی چارٹ شائع کیا گیا.جلسہ کا پروگرام اخبار احمدیہ کے ذریعہ جملہ احباب جماعت اور دلچسپی رکھنے والے دوستوں تک پہنچایا گیا.جلسہ کے انعقاد کا اعلان دو انگریزی اور تین اردو اخبارات میں چھپا.67 ۹ نومبر ۱۹۷۱ ء کو احمدیہ مسلم مشن لنڈن کے ایک نمائندہ وفد نے برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر محترم جنرل محمد یوسف خان صاحب سے ملاقات کی.وفد کی قیادت مکرم عطاء المجیب صاحب را شد نائب امام مسجد لنڈن نے کی.آپ کے علاوہ مکرم عزیز دین صاحب ، مکرم خواجہ نذیر احمد صاحب اور مکرم خالد اختر صاحب وفد میں شامل تھے.محترم ہائی کمشنر صاحب کو لنڈن مشن کی مختصر تاریخ اور مساعی سے آگاہ کیا گیا.نیز وطن عزیز کی سلامتی اور حفاظت کے لئے کی جانے والی کوششوں کا ذکر بھی کیا گیا.آپ کی خدمت میں قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور لنڈن مشن کی مطبوعات کا ایک سیٹ پیش کیا گیا.جو آپ نے شکریہ کے ساتھ وصول کیا.68

Page 263

تاریخ احمدیت.جلد 27 253 سال 1971ء ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ء کو مسجد فضل لندن میں عید الفطر کی تقریب دینی روایات کے مطابق خاص اہتمام سے منائی گئی جس میں برطانیہ کے طول و عرض سے تین ہزار احباب نے شرکت فرمائی جن میں پانچسو کے قریب برطانوی مہمان تھے.خطبہ عید حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ارشاد فرمایا.مقامی پریس کے نمائندے بھی بھاری تعداد میں شامل ہوئے.تقریب کی خبر اخبارات میں بہت وسیع پیمانہ پر شائع ہوئی.69 برما برما میں خواجہ بشیر احمد صاحب مقیم رنگون کی سرکردگی میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی مہم جاری رہی.فروری ۱۹۷۱ء میں انہوں نے ایک عید کارڈ پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا جس میں سورۃ فاتحہ کے عربی متن کے علاوہ ۱۲ زبانوں یعنی اردو، برمی ، تامل، مالا باری ، سواحیلی ، یوروبا، انگریزی، ڈچ، جرمن ، ڈینش، اسپرانٹو اور فرنچ میں ترجمہ پیش کیا گیا تھا.یہ پمفلٹ سینکڑوں معززین کو بذریعہ پوسٹ بطور تحفہ عید بھیجا گیا جس پر شکریہ کے بعض خطوط بھی موصول ہوئے.علاوہ ازیں برمی زبان میں ۱۶ صفحات پر مشتمل ایک رسالہ دو ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا جو جماعت احمدیہ برما کے رجسٹر ڈ میگزین البشری کا چھتیسواں رسالہ تھا اس کے سرورق پر بیت محمود زیورچ کا فوٹو تھا اور اس کے اندر ہفتے کے ہر دن کے لئے آیات قرآنی دے کر بعض اہم نصائح درج تھیں.۱۶ مئی ۱۹۷۱ء کو رنگون میں ایک کامیاب جلسہ سیرت النبی صلی یا نیلم منعقد ہوا.جلسہ کی صدارت ڈاکٹر ایم جمیل صاحب نے فرمائی اور سیکرٹری کے فرائض جناب موں بوسکی صاحب نے سرانجام دیئے اور محمود مونگو صاحب، مریم مریکار صاحبہ، عبدالرحمن صاحب، عبد القادر صاحب، ورسا اسماعیل صاحب، خواجہ بشیر احمد صاحب اور صدر مجلس نے حاضرین سے خطاب کیا اور سیرت مطہرہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.مردانہ اور زنانہ جلسہ گاہ بھری ہوئی تھیں اور متعدد غیر از جماعت معززین بھی شریک جلسه ہوئے.جلسہ کے بعد حج بیت اللہ کی فلم دکھلائی گئی.یہ فلم ایم جمیل صاحب نے ایک سال قبل حرمین شریفین کی زیارت اور حج بیت اللہ کے دوران تیار کی تھی.ایک اور فلم بھی دکھائی گئی جو جلسہ سالا نہ ربوہ اور دارالذکر لاہور کے مناظر پر مشتمل تھی.اس فلم میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی دید کا شرف حاضرین کو حاصل ہوا.اس کے علاوہ حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب، صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب اور حاضرین جلسہ نیز دارالذکر میں شیخ بشیر احمد صاحب اور حضرت چوہدری اسد اللہ خان

Page 264

تاریخ احمدیت.جلد 27 254 سال 1971ء صاحب اور دیگر احباب بھی نظر آتے رہے.حج بیت اللہ شریف کا نظارہ اور خلیفہ المسیح الثالث کی دید نے دیکھنے والوں پر مجیب طلسمی اثر کیا.ناظرین میں سے اکثر کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.اس سال جماعت احمدیہ برما نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطبہ جمعہ برمی زبان میں سائیکلو سٹائل کر کے دوستوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات نیز اہم جماعتی خبروں کے پہنچانے کا بھی اہتمام کیا گیا.70 تنزانیہ تنزانیہ مشن کے انچارج ان دنوں مولانامحمد منور صاحب تھے.اس سال کے وسط میں آپ نے ایک مفید اور دور رس نتائج کی حامل سکیم جاری فرمائی یعنی چھ ماہ کے مختصر عرصہ کے لئے تنزانیہ بھر کے منتخب احمدی نو جوانوں کو مورو گورو میں تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی ان کی عملی تربیت بھی کی جائے تا وہ ملک بھر میں تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے کام کو وسیع کرنے کا باعث ہوں.اس سکیم کے مطابق ماہ جون کے آخر سے طلباء آنے شروع ہوئے وسط جولائی تک ان کی تعداد ۱۸ تک پہنچ گئی.۷ را گست ۱۹۷۱ ء کو مولانا محمد منور صاحب نے اس کلاس کا باقاعدہ افتتاح کیا اور درس قرآن مجید میں بڑے مؤثر انداز میں متعدد تربیتی امور بیان فرمائے.یہ کلاس بہت کامیاب رہی.ہفتہ میں ایک دن تبلیغ اور فروخت لٹریچر کے لئے ، ایک تقاریر کی مشق کے لئے اور ایک مضمون نویسی کی مشق کے لئے مخصوص تھا.روزانہ دو وقت قرآن مجید کی تعلیم دی جاتی تھی اور دیگر دینی اسباق بھی جاری رہتے تھے.ایک بار ایک کیتھولک پادری صاحب تقریر کے لئے مدعو کئے گئے.انہوں نے پیدائش عالم کے موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا.تقریر کے بعد طلبہ نے سوالات کئے.پادری صاحب نے بعض سوالات کے جوابات میں کہا کہ وہ ان کا کسی اور وقت جواب دیں گے اور آخر میں یہ بھی فرمایا کہ میں جرمنی اور انگلینڈ وغیرہ بھی گھوم آیا ہوں مجھ سے آج تک کسی نے ایسے سوال نہیں پوچھے تھے.۷ /اگست ۱۹۷۱ء کو یعنی کلاس کے افتتاح ہی کے روز مبلغ تنزانیہ مولوی رشید احمد صاحب سرور کے اعزاز میں پارٹی دی گئی جنہوں نے اپنے مختصر قیام میں بہت عمدہ نمونہ پیش کیا اور قیمتی خدمات انجام دیں.

Page 265

تاریخ احمدیت.جلد 27 255 سال 1971ء اگلے روز ۸ /اگست کو مورو گورو میں ریجن کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.صدارت کے فرائض مولانا محمد منور صاحب نے انجام دیئے اور آپ کے علاوہ چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز ، مولوی رشید احمد صاحب سرور ، مصطفی سفیدی پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کلوسا اور مولا نا عبدالباسط صاحب شاہد نے خطاب کیا.71 وسط ۱۹۷۱ ء میں تنزانیہ پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا جس کے مطابق صدر مملکت عیدی امین کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ ایک لاکھ شلنگ یا اس سے زیادہ مالیت کی کوئی بھی عمارت قومی ملکیت میں لے سکتے ہیں.اس قانون کے مطابق حکومت نے ایک ماہ میں دو ہزار سے زیادہ بڑی بڑی عمارتیں اپنی تحویل میں لے لیں نیز مورو گورو اور ٹبو را میں جماعت احمدیہ کی جائیداد بھی اس قانون کی زد میں آگئی.ان عمارتوں کا کرایہ جماعتی آمد کے محدود ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ تھا اس جائیداد پر سرکاری قبضہ کی خبر سن کر افریقن احمد یوں میں غم والم کی زبردست لہر دوڑ گئی اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں میں لگ گئے.کئی مخلصین نے روزے بھی رکھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں مولا نا محمد منور صاحب کی طرف سے صورت حال کی اطلاع دی گئی اور دعا کی عاجزانہ درخواست بھی کی گئی.حضور نے خصوصی دعا فرمائی کہ جماعت کو اس نئے قانون سے کوئی گزند نہ پہنچے.بے بس احمدیوں کا اصل سہارا اور امیدوں کا مرکز تو خدا تعالیٰ ہی ہے وہ اُسی پر توکل کرتے اور اسی کی جناب میں اپنی مشکلات کو پیش کرتے ہیں لیکن ظاہری اسباب کو کام میں لاتے ہوئے مولا نا محمد منور صاحب نے صدر مملکت، متعلقہ وزیر اور کئی دوسرے افسروں کو جماعت کے خاص دینی کام کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ان عمارتوں کو واگزار کرنے کی درخواست کی.بعض مقامی جماعتوں کی طرف سے بھی ایسی درخواستیں ارباب حکومت کو بھجوائی گئیں.ملکی حالات اور عام رجحان کو دیکھتے ہوئے بظاہر بالکل امید نہ تھی کہ یہ درخواستیں منظور ہو جائیں گی بلکہ بعض دوستوں کا خیال تھا کہ ان سے فائدہ کی بجائے الٹا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے کہ کہیں باقی ماندہ جائیداد بھی جماعت سے لے لی جائے.اس عام تاثر ہلکی حالات، سیاسی رحجان کے بالکل بر عکس محض خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے احمدیوں کے ایمانوں میں اضافہ و مضبوطی کی خاطر یہ نشان ظاہر ہوا کہ چند ہی دنوں میں حکومت کی طرف سے ان عمارتوں کو واگزار کرنے کی اطلاع آگئی.الحمد للہ.ساری جماعت کے لئے یہ ایک غیر معمولی خوشی کی خبر تھی ایک احمدی بہن نے یہ خبر سنتے ہی کہا کہ آج تو ہمارے لئے عید کا دن ہے“.دوسرے

Page 266

تاریخ احمدیت.جلد 27 256 سال 1971ء مسلمانوں اور غیر مسلموں نے بھی اس پر جماعت کو مبارکباددی اور خوشی کا اظہار کیا.یہ غیر معمولی بات تھی کیونکہ اب تک حکومت کی طرف سے کسی کی جائیداد واپس نہیں کی گئی تھی.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت نے اس درخواست کے جواب میں یہ بھی لکھا کہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ان عمارتوں کا کرایہ محض دینی اغراض کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے یہ عمارتیں جماعت کو واپس کی جاتی ہیں.گویا نہ صرف یہ کہ جماعت احمدیہ کے نقصان کی تلافی ہو گئی بلکہ ارباب حکومت پر احمد یوں کی بے لوث خدمات بھی واضح ہو گئیں.72 جاپان میجر عبدالحمید صاحب انچارج احمد یہ مشن جاپان نے وسط ۱۹۷۱ء میں ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ کے زیر عنوان ایک دیدہ زیب پمفلٹ جاپانی زبان میں چھپوا یا اور ملک بھر میں وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت کی.اس ضمن میں میجر صاحب کے قلم سے الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ پر حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ کے عنوان سے قیمتی اور اعلیٰ کاغذ پر جاپانی زبان میں ۱۲ ہزار کی تعداد میں ایک دیدہ زیب پمفلٹ شائع کیا گیا ہے.دو ہزار کالجوں، یو نیورسٹیوں، پارکوں، گاؤں اور گھروں میں تقسیم کئے جاچکے ہیں.اکثر جاپانی اس پمفلٹ کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھتے ہیں پڑھنے کے بعد تہ کر کے جیب یا بیگ میں ڈال لیتے ہیں.بعض شکریہ کے طور پر سر جھکاتے ہیں.بعض نے کہا ” بہت اچھا پمفلٹ ہے.بعض پڑھ کر سوالات بھی کرتے ہیں.بعض جاپانیوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ کی یہاں کوئی عبادت گاہ ہے.میں انہیں کہتا ہوں کہ ابھی تو ہماری ابتدا ہے اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو عبادت گاہ بھی بن جائے گی.البتہ آپ میرے مکان پر تشریف لاویں میں آپ کو مزید معلومات بہم پہنچاؤں گا.یہ ایک خوشکن بات ہے کہ دو ہزار پمفلٹ میں نے تقسیم کئے ایک بھی کسی نے زمین پر نہیں پھینکا.حالانکہ دوسرے پمفلٹ ایک ہاتھ سے لیتے ہیں دوسرے ہاتھ سے پھینک دیتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس پمفلٹ کے پہلے صفحہ پر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک ہے اور اس کے آخری صفحہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الاول ، حضرت خلیفہ امسیح الثانی اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی شبیہ مبارک چھپی ہوئی ہے.

Page 267

تاریخ احمدیت.جلد 27 257 سال 1971ء بالعموم اس پمفلٹ کو غور سے پڑھتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا خلفاء کرام کا ذکر پمفلٹ میں آتا ہے تو فوراً الٹا کر ان کی شبیہ کو دیکھتے ہیں.ہمارے محلہ میں ایک تنظیم کی میٹنگ ہوئی مجھے دعوت دی گئی میں نے وہاں کھڑے ہو کر اپنا تعارف کرایا اور پمفلٹ تقسیم کئے.پریذیڈنٹ سے سوالات کئے.اس نے کہا میں جوابات بعد میں دوں گا.میں نے کہا ٹھیک ہے آپ ضرور ایسا کریں.دوسرے دن اس نے ٹیلیفون کیا اور اپنے وعدہ کے مطابق کہا کہ میں آپ کو انگریزی میں لٹریچر بہم پہنچاؤں گا مگر بعد میں ٹیلیفون کروں گا.میں نے کہا بہت اچھا بعد میں کریں.پھر ایک دوروز کے بعد ٹیلیفون آیا اس کے بعد کہنے لگا آپ کی فلاسفی کچھ عمیق لگتی ہے میں احمد یہ موومنٹ کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں.معلوم ہوتا ہے اس نے پمفلٹ بار بار پڑھا اور اس وجہ سے اس پر یہ اثر ہوا میں نے کچھ معلومات تو ٹیلیفون پر ہی اسے بتلا دیں اور باقی بعد میں ملاقات کے وقت بہم پہنچا ئیں.گو ہمیں یقین ہے کہ کسی وقت ہماری یہ حقیر کوششیں انشاء اللہ ضرور بار آور ہوں گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے لوگ اس طرف ضرور متوجہ ہوں گے.مگر ابتدا میں بڑی مشکلات ہیں اس لئے احباب سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی غیب سے ایسے سامان پیدا کرے کہ اسلام کی قبولیت کے اس ملک میں سامان پیدا ہوں.یہاں دہریت ہی دہریت ہے.شراب نوشی اور عیاشی اور جوا وغیرہ کو گناہ نہیں سمجھا جاتا.اللہ تعالیٰ کے آگے کوئی بات ناممکن نہیں.اسلام کے باغ کی آبیاری انشاء اللہ خدائی ہاتھوں سے ہی ہوگی وہی ہماری حقیر کوششوں میں برکت ڈال سکتا ہے.73 اس پمفلٹ کے وسیع اثرات کا ذکر میجر صاحب کی کتاب تبلیغی واقعات حصہ دوم صفحه ۱۳۸ تا ۱۴۷ میں بھی ملتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں :.”میرے پمفلٹ پر میرا نام ایڈریس اور ٹیلیفون نمبر لکھا ہوا تھا بعض جاپانی تو پمفلٹ پڑھنے کے بعد ٹیلیفون پر وقت مقرر کر کے آجاتے اس طرح ان کے شکوک رفع کرنے کے مواقع پیدا ہو جاتے بعض خطوط لکھ کر رابطہ قائم کرتے.ایک دفعہ ایک جاپانی کا خط ملا اس میں لکھا تھا کہ میں نے آپ کا پمفلٹ پڑھا ہے مجھے اسلام کے متعلق تفاصیل بتائیں.میں نے اسے یہ جواب دیا کہ بہتر ہو گا کہ آپ میرے مشن ہاؤس میں تشریف لاویں.آپ کے حسب منشاء تفاصیل بتلائی جاویں گی.اسی طرح ایک جاپانی کا ٹیلیفون آیا اس نے کہا کہ آپ کا پمفلٹ تو ٹھیک ہے مگر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ

Page 268

تاریخ احمدیت.جلد 27 258 سال 1971ء جاپانیوں کا خدا آپ کے اللہ سے مختلف ہے.جاپانیوں کا خدا ہے محنت کرنا اور پیسے کمانا.میں نے اسے ٹیلیفون پر انسان کی پیدائش کی غرض و غایت پر تفصیلی گفتگو کی اور مشن ہاؤس میں آنے کی دعوت دی.کچھ عرصہ کے بعد پھر اس کا ٹیلیفون آیا اور اس نے مجھے یاد دلایا اور کہا کہ ایک بار آپ نے پمفلٹ تقسیم کرنے والی جگہ پر میری درخواست پر قرآن شریف کی تلاوت فرمائی تھی نیز کہا مجھے مطلب تو سمجھ نہیں آیا مگر آپ کی آواز سے پتہ چلتا تھا کہ یہ کوئی اچھا کلام ہے.اسی طرح ایک اور لڑکے نے ٹیلیفون کیا اور ٹیلیفون پر عیسائیت کے بارے میں کچھ سوالات کئے.بعد میں میرے گھر آیا اور پاکٹ بک نکال کر اس میں سے اس نے کئی سوالات کئے.ایک انڈو نیشین اخبار کے رپورٹر نے مجھے بتلا یا کہ وہ مجھ سے جاپانی زبان میں بہت سے پمفلٹ لے کر گئے تھے وہ سب انہوں نے اپنے واقف کاروں میں بانٹ دیئے.اب کی دفعہ اور بیشمار پمفلٹ وہ لے کر گئے.الغرض پمفلٹ پڑھنے سے جاپانیوں میں کافی ہلچل پیدا ہو جاتی اور کوئی دن خالی نہ ہوتا جبکہ ٹیلیفون کے ذریعہ سے سوالات جوابات نہ پوچھے جاتے.یا جاپانی مشن ہاؤس میں آکر سوال و جواب نہ کرتے..ایک دن ایک نو جوان کا ٹیلیفون آیا کہ میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں میں نے کہا ! آئیے.وہ اپنی کار پر آ گیا اور کہا کہ میں (Story Writer) کہانی نویس ہوں.میں آپ کے مذہب کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں.انہوں نے بتایا کہ میری اس دلچپسی کا محترک آپ کا پمفلٹ ہے جو آپ کے ذریعہ مجھے ملا تھا تو میں نے انہیں اسلام اور احمدیت کے متعلق جاپانی زبان میں تفاصیل بتلائیں.انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ بازار سے جاپانی زبان میں قرآن شریف خرید کر مطالعہ فرمائیں گے پھر وہ میرے پاس دوبارہ تشریف لائیں گے.ایک دن پمفلٹ تقسیم کر رہا تھا.ایک جاپانی نوجوان سے گفتگو شروع ہوئی کہنے لگا میں یہ تو مانتا ہوں کہ اس دنیا کا کارخانہ خود بخود نہیں مگر یہ پتہ نہیں چلتا کہ کونسا مذ ہب سچا ہے لہذا میں نے خود بخود ریسرچ ( جستجو ) شروع کر دی ہے اس کے ہاتھ میں جاپانی زبان میں بائبل تھی.کہنے لگا میں نے پرانا عہد نامہ نصف کے قریب پڑھ لیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ نئے عہد نامہ کا مطالعہ کر رہا ہوں.ایک ریسٹورنٹ میں ہم بیٹھ گئے اور بڑی تفصیل سے اسلام کا دیگر ادیان سے مقابلہ کر کے بتلایا کہ اب قابل عمل کتاب صرف قرآن شریف ہے جو کامل اور مکمل ہے باقی کتا بیں محترف ومبدل ہوگئی ہیں لہذا قابل عمل نہیں.میں نے کہا! میرے پاس آتے رہا کریں اور جب آپ کی تسلی ہو جائے اسلام قبول

Page 269

تاریخ احمدیت.جلد 27 259 سال 1971ء کریں.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور بعد میں بیعت کر کے مسلمان ہو گیا.میں نے ان کا نام ” ظہور احمد رکھا اس کے بعد وہ نماز سیکھنے آیا کرتے.Unification Church متحدہ گرجا کی تحریک کے لوگ میرے پمفلٹ مجھ سے لے جاتے اور آپس میں گفتگو کرتے.ایک دفعہ میں نے انہیں دیکھا کہ وہ نہ صرف میرا پمفلٹ ہاتھوں میں لئے ہوئے گفتگو کر رہے تھے بلکہ ان کے ہاتھوں میں جاپانی زبان میں قرآن شریف بھی تھا.بعد میں مجھے پتہ چلا کہ قرآن شریف کا وہ نسخہ ہمارے نو مسلم بھائی مکرم تکے گوچی بشیر صاحب نے بازار سے خرید کر انہیں دیا تھا.جرمنی مسجد فضل عمر ہمبرگ میں عیدالاضحیہ کی تقریب مسجد فضل عمر ہمبرگ میں عید الاضحیہ کی تقریب مورخہ 4 فروری کو منعقد ہوئی.جس کے لئے دعوت نامے بھی چھپوائے گئے.نیز اخبارات کو بھی خطوط لکھے گئے.چنانچہ یہاں کے مشہور اخبار دی ویلٹ (Die Welt) نے نمایاں طور پر اعلان شائع کیا.عید الاضحیہ کی اس تقریب میں احمدی احباب کے علاوہ کئی غیر مسلم جرمن بھی شامل ہوئے.نماز عید مکرم قاضی نعیم الدین احمد صاحب مبلغ ہمبرگ نے پڑھائی.بعد ازاں چائے کا انتظام خدام اور ایک معمر جرمن خاتون نے کیا.روز نامہ دی ویلٹ (Die Welt) جو کہ جرمنی کا سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار ہے اس نے اپنی اشاعت ۸ فروری ۱۹۷۱ء میں اس تقریب کی ایک بڑی تصویر شائع کی اور جلی الفاظ میں نوٹ شائع کیا.اس کے علاوہ بلڈ (Bild) اخبار جو کہ یورپ میں سب سے زیادہ چھپنے والا اخبار ہے، نے بھی تصویر کے ساتھ عید کی خبر شائع کی.74 مسجد نور فرانکفورٹ میں عیدالاضحیہ کی تقریب مورخه ۶ فروری ۱۹۷۱ء کو مسجد نور فرانکفورٹ میں عید الاضحیہ منائی گئی جس میں شمولیت کے لئے بہت سے احباب مسجد تشریف لائے.عید کی نماز مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی امام مسجد فرانکفورٹ نے

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد 27 پڑھائی اور خطبہ دیا.260 سال 1971ء خطبہ عید کے بعد سب حاضرین نے ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کی اور انڈونیشیا سے مرا کو تک کے مختلف اسلامی ممالک کے باشندوں نے اخوت و محبت کے جذبات سے لبریز ہوکر ایک دوسرے کو گلے مل کر عید کی مبارک باد پیش کی.بعد ازاں مقامی مذبح خانہ میں جا کر سنت ابراہیمی کے مطابق قربانی کے دو بکرے ذبح کئے گئے.اس کے علاوہ مسجد میں سب احباب کو خانہ کعبہ اور حج کی رنگین سلائیڈ بھی دکھائی گئیں.اس موقع پر کئی احباب نے مسجد کے لئے چندہ پیش کیا.75 مئی ۱۹۷۱ ء کو مسجد نور فرینکفورٹ میں یوم سیرت النبی صلی سیستم منایا گیا.اجلاس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر مقررین نے روشنی ڈالی.اس اجلاس میں مختلف ممالک کے مسلمانوں کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر مسلم جرمن خواتین و احباب بھی شریک ہوئے.76 سکنڈے نیویا اس سال سکنڈے نیویا مشن کی دینی مساعی شروع سال سے ہی تیز سے تیز تر ہو گئی اور اخبارت، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ دین حق کے چرچے ہونے لگے جیسا کہ سید مسعود احمد صاحب مبلغ انچارج مقیم کوپن ہیگن کی حسب ذیل رپورٹ بابت جنوری ۱۹۷۱ء سے عیاں ہے..مشن ہاؤس میں پانچ تبلیغی جلسے منعقد کئے گئے.ان میں احباب جماعت کے علاوہ بعض غیر از جماعت مسلمان اور غیر مسلم حضرات شامل ہوئے.اسلام کے مختلف پہلوؤں پر احمدی نقطہ نگاہ سے تقاریر کی گئیں.حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے گئے آخر میں سب کی تواضع چائے سے کی جاتی رہی.برادرم عبد السلام میڈسن نے اس پروگرام میں سرگرم حصہ لیا ۲.نماز جمعہ باقاعدگی سے ادا کی گئی.خطبات میں سید نا حضرت مصلح موعود کی تفسیر کے مطابق قرآنی آیات کی تشریح بیان کی گئی.بعض احمدی اور غیر از جماعت مسلمان شریک ہوتے رہے..پاکستانی احمدی احباب کے لئے مجلس ارشاد کے چارا جلاس کئے گئے.نوجوانوں نے تقاریر کیں اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات کا درس دیا گیا.۴.چار افراد کو عربی زبان اور قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی رہی.

Page 271

تاریخ احمدیت.جلد 27 261 سال 1971ء ۵.خدام الاحمدیہ کا ایک اجلاس ہوا..لجنہ اماءاللہ کی ایک میٹنگ ہوئی.ے.مورخہ 4 جنوری کو ریڈیو ناروے کا ایک نمائندہ اسلام پر انٹرویو لینے آیا.کافی دیر تک اسلام واحمدیت کے مختلف پہلوؤں پر سوال کرتا رہا.بعد میں ان معلومات پر مشتمل پروگرام نشر کیا گیا..جنوری کو ڈینش ٹیلیویژن کا نمائندہ خاکسار کا انٹرویو لینے آیا.یہ انٹرویو مسجد کی تصاویر کے ساتھ دومرتبہ نشر کیا گیا.نماز با جماعت اور دیگر مناظر دکھائے گئے.اس انٹرویو کا ذکر پندرہ سے زیادہ اخبارات نے کیا.۹.9 جنوری کو برادرم عبد السلام میڈسن نے کوپن ہیگن کے ایک ٹیچر ز کالج میں اسلام پر تقریر کی اور طلبہ کے سوالات کے جوابات دیئے.۱۰.۱۵ جنوری کو ایک سکول اور ایک کلب کا گروپ آیا.اسلام پر تقریر کی گئی.حاضرین کے سوالات کے جواب دیئے گئے اور لٹریچر تقسیم کیا گیا.۲۱-۱۱ جنوری کو کوپن ہیگن کے ایک سکول Klev Skolen کا گروپ آیا.اسلام پر تقریر کی گئی ، طلبہ کے سوالات کے جواب دیئے اور لٹریچر دیا گیا.۱۲ - ۲۶ جنوری کو کوپن ہیگن کے ایک سکول Sonderkor Skolen کا ایک گروپ آیا.اسلام پر تقریر کی گئی ، سوالات کے جوابات دیئے گئے اور لٹریچر دیا گیا.۱۳ - ۲۹ جنوری کو سویڈن کے ایک اخبار Helsingborg Dagbladet کا نمائندہ انٹرویو لینے کے لئے آیا.خاکسار سے لمبا انٹرویو لیا.پھر دوبارہ خاکسار کی تحریک پر مسجد آیا اور عبد السلام صاحب میڈسن اور دیگر ڈینش مسلمانوں سے ملاقات کی.چند روز بعد اخبار میں انٹرویو کی رپورٹ بہت نمایاں طور پر تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی.۱۴.سویڈن کی ایک طالبہ اپنا تحقیقی مقالہ احمدیت“ کے عنوان پر لکھ رہی ہے وہ امداد کے لئے آئی اور اس کو علاوہ زبانی معلومات کے بہم پہنچانے کے سلسلہ کا بہت سالٹریچر دیا گیا.۱۵.نوجوانوں کی ایک سوسائٹی کا گروپ مورخہ ۷۱-۱-۳۱ کو مسجد آیا.ان کے سامنے اسلام پر تقریر کی گئی ، سوالات کے جواب دیئے گئے اور سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے کو دیا گیا.۱۶.مشن ہاؤس کے قابل تعمیر حصہ کی اجازت کا کیس میونسپلٹی میں چل رہا ہے اسی ماہ میں

Page 272

تاریخ احمدیت.جلد 27 262 سال 1971ء آرکیٹکٹ کے ساتھ میونسپلٹی کے افسروں سے ملاقات کی.امید ہے انشاء اللہ جلد اجازت مل جائے گی.زبانی تو انہوں نے کہہ دیا ہے لیکن تحریر ابھی نہیں ملی.۱۷.کثرت سے لوگ مسجد دیکھنے اور اسلام پر معلومات حاصل کرنے کے لئے آتے رہے جن کو علاوہ زبانی تبلیغ کرنے کے سلسلہ کا لٹریچر دیا گیا.۱۸.بہت سے افراد اور لائبریریوں کو سلسلہ کا لٹریچر بذریعہ ڈاک بھجوایا گیا اور خطوط کے جواب دیئے گئے.۱۹.ناروے میں برادرم نور احمد بولستا د نے بہت سے لوگوں کو زبانی تبلیغ کی اور لٹریچر تقسیم کیا نیز Finmark زبان میں جو ناروے کے انتہائی شمال میں بولی جاتی ہے اسلام کے متعلق ایک تعارفی تبلیغی پمفلٹ تیار کیا جو انشاء اللہ جلد طبع کروایا جائے گا.۲۰.خدام الاحمدیہ کوپن ہیگن نے ایک اتوار کو نصف روز یوم التبلیغ منایا اور ہزاروں اشتہارات تمام شہر کے مختلف مقامات پر گلیوں اور پبلک مقامات پر تقسیم کئے.۲۱.عید الاضحی کے انتظامات مکمل کئے گئے.ایک ہزار اشتہار طبع کروا کے مسلمانوں میں تقسیم کئے گئے.دعوت کے سلسلہ میں ڈیوٹیاں لگائی گئیں اور پریس سے رابطہ قائم کیا.77 کویت کے ہفت روزہ رسالہ المجتمع نے اپنی اشاعت ۹ مارچ ۱۹۷۱ء میں’المسلمون فی الدنمارک کے زیر عنوان الاستاذ عرفات کامل العشی کا ایک معلوماتی مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف لکھا لیکن اس کے باوجود ان کو چارو ناچار جماعت احمد یہ ڈنمارک کی دینی خدمات کا تذکرہ بھی کرنا پڑا چنا نچہ وہ لکھتے ہیں:.مما يؤسف له ان طائفة الاحمدية هى التى تقوم بالتبشير بالدين الاسلامي منذ عدة سنوات ولا يخفى ان هذه طائفة منحرفة ولكنها تملك مكافات مادية كبيرة فلقد قامت ببناء مسجد حديث الطراز في كوبنهاجن و باصداد نشرات عن الاسلام و نشرت ترجمة للقرآن الكريم باللغة الدنماركية و امام المسجد رجل باكستانى والناطق الرسمي للاحمدية في الدنمارک یدعی عبدالسلام مادسون مترجم معانی القرآن وهو رجل دنمارکی مستیز ،، د یعنی یہ امر افسوسناک ہے کہ صرف جماعت احمد یہ ہی کئی سالوں سے تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے یہ امر پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ جماعت منحرف ہے لیکن مالی لحاظ سے اسے بڑی

Page 273

تاریخ احمدیت.جلد 27 263 سال 1971ء طاقت حاصل ہے چنانچہ اس جماعت نے کوپن ہیگن میں نئے طرز کی مسجد تعمیر کی ہے اور اسلام کے متعلق کئی ٹریکٹ بھی تحریر کئے ہیں اور قرآن کریم کا ترجمہ ڈنمارک کی زبان میں شائع کیا ہے.اس مسجد کے امام پاکستانی ہیں ڈنمارک میں جماعت احمدیہ کے باقاعدہ نمائندے مترجم قرآن کریم مسٹر عبدالسلام میڈسن ہیں.آپ روشن دماغ ڈنمار کی ہیں.78 سوئٹزرلینڈ عید الاضحیہ کی تقریب سعید پر ۶ فروری ۱۹۷۱ء کو مسجد محمود میں مختلف رنگ ونسل اور ممالک کے مسلمانوں کا پُرشکوہ اجتماع ہوا.مسجد محمود کے فرش پر تین منزلوں میں سینکڑوں جبینیں بارگاہ ایزدی میں سجدہ کناہ تھیں.خطبہ عید میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ایل ایل بی انچارج مشن نے قربانی کے فلسفہ پر روشنی ڈالی جس کا مختصر خلاصہ ترکی زبان میں ڈاکٹر نو نا بلو اس نے بیان کیا.شام کو ٹیلیویژن نے اس تقریب کا روح پرور نظارہ دکھایا جو جرمن علاقہ بلکہ فرنچ سوئٹزرلینڈ میں بھی دیکھا گیا.عید کے بعد ظہرانہ کا انتظام کیا گیا.ایک صاحب نے جو سوئٹزرلینڈ کی صنعتی فرم کے نمائندے تھے مہمان نوازی پر جذبات تشکر پیش کرتے ہوئے خاص طور پر اس امر پر اظہار مسرت کیا کہ اتنی بڑی شخصیات سے ملاقات ہو گئی.ماہ مئی میں مشن کی دینی اور اشاعتی سرگرمیوں میں خصوصی اضافہ ہوا چنانچہ یکم مئی کو جرمنی میں مقیم ۴۷ معزز ترک دوست مسجد محمود میں تشریف لائے جنہیں چوہدری مشتاق احمد صاحب نے احمدیت سے متعارف کرایا اور ترک لٹریچر پیش کیا.خود انہوں نے مسجد محمود کے تصویری کارڈ بڑی تعداد میں خریدے.قافلہ کے قائد نے ایک بڑا قالین نما دیوار گیر جس پر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی تصاویر تھیں احترام و محبت سے مسجد محمود کے لئے تحفہ پیش کیا.9 مئی کو ڈاکٹر محمد عز الدین حسن صاحب کی زیر صدارت سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک نہایت کامیاب جلسہ منعقد ہوا جس سے برن کے مشہور وکیل اور سوئٹزرلینڈ کی سوئس عرب سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر بانس این برگر (Dr.Hans Ellenberger) نے خطاب کیا.آپ نے آنحضرت صلی ایام کے جستہ جستہ واقعات سنائے اور آنحضور صلی شما اسلام کو بحیثیت نبی خراج عقیدت پیش کیا.۲۰ مئی کو سارے ملک میں حضرت مسیح علیہ السلام کے آسمان پر جانے کی تعطیل عام تھی.چوہدری مشتاق احمد صاحب سوئٹزرلینڈ میں مقیم غیر احمدی مسلمانوں کو اصل حقیقت بتانے کے لئے

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد 27 264 سال 1971ء سولوتھرن (Solothurn) کی کاؤنٹی میں تشریف لے گئے جہاں آپ کے ایک یوگوسلاوین دوست نے بہت سے مسلمان بھائیوں کو مدعو کر رکھا تھا جن میں زیادہ ترک تھے.جناب باجوہ صاحب کی تقریر کا ترکی ترجمہ ایک دوست نے کیا.تقریر کے بعد سوال و جواب ہوئے.ایک ترکی عالم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع جسمانی کی خوب وکالت کی مگر بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوا.آپ نے انہیں مسجد محمود میں آنے کی دعوت دی اور ترجمان دوست کو ان کی سوئس بیگم کے لئے جرمن ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.ماہ مئی کا اہم ترین واقعہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی زیورک میں تشریف آوری اور اہم تقاریب میں شمولیت ہے.آپ ۲۳ مئی کو قبل دو پہر ائیر پورٹ پر رونق افروز ہوئے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ، روسی احمدی علاء الدین مصطفی (مع بیگم ) ، شاہ دل یوسف آف ملیشیا، آسٹرین احمدی خاتون اور زیورک کے مخلص احمدیوں نے آپ کا استقبال کیا.تین بجے سہ پہر آپ کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت چوہدری صاحب نے معلومات افروز تقریر فرمائی.آپ نے مثالوں اور مسیحی عمائدین اور مغربی پارلیمانی قوانین کے حوالوں سے ثابت فرمایا کہ آج معاشرہ تیزی سے انحطاط کی طرف جا رہا ہے اور چونکہ پارلیمنٹ اور گر جا دونوں کا انحصار عوام کے ووٹوں پر ہے اس لئے وہ ان کے خلاف آواز بلند کرنے سے ڈرتے ہیں اور مغرب بلکہ ساری دنیا کوصرف اسلام ہی اخلاقی بربادی سے بچا سکتا ہے.آپ کا یہ خطاب قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا لیکن آپ کے حسنِ خطابت کا کمال یہ تھا کہ حاضرین کو نہ صرف طوالت کا کوئی احساس نہ ہوا بلکہ بعض نے کہا کہ جی چاہتا تھا کہ یہ ختم نہ ہو.شیخ ناصر احمد صاحب نے جرمن زبان میں وقفہ وقفہ سے اس کا نہایت خوبی کے ساتھ ترجمہ پیش کیا.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے صدارتی ریمارکس کے ساتھ یہ مجلس برخواست ہوئی.ڈاکٹر حافظ محمد الحق صاحب خلیل اور ان کی سوئس بیگم نے حضرت چوہدری صاحب کے اعزاز میں ایک ریستوران میں عشائیہ کا اہتمام کیا.گو یہ مجلس مختلف تھی مگر بڑی پرلطف رہی.حضرت چوہدری صاحب مختلف مسائل پر گفتگو سے محظوظ فرماتے رہے.مجلس میں زیورک یونیورسٹی کے بین الاقوامی قانون کے دو پروفیسر بھی تھے جنہوں نے خوب استفادہ کیا.۲۴ مئی کی شام کو آپ اپنے ایک میزبان کے ہمراہ کار پر برن (Bern) تشریف لے گئے.۲۵ مئی کو چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ڈاکٹر محمد عزیز الدین صاحب اور ان کے ماموں پروفیسر نجم

Page 275

تاریخ احمدیت.جلد 27 265 سال 1971ء الدین مظہر کو رالی کو ظہرانہ پر مدعو کیا.پروفیسر کو رالی صاحب البانیہ کے رہنے والے تھے اور اشتراکیت سے قبل اعلیٰ افراد میں شمار ہوتے تھے.آپ کو نعمت احمدیت میسر آگئی اور اب آپ البانوی بولنے والے یوگوسلاوین تک احمدیت کی آواز پہنچانے کا مؤثر ذریعہ ثابت ہو رہے تھے مگر ڈاکٹر محمد عزیز الدین صاحب احمدیت سے وابستہ نہیں ہوئے تھے اس لئے حضرت چوہدری صاحب نے تقریباً دو گھنٹہ تک انہیں احمدیت کا پیغام پہنچایا.اسی روز آپ نے فرائی بورگ (Fribourg) یو نیورسٹی میں بھی تقریر فرمائی جس میں کارڈینلز کے علاوہ دیگر عمائدین نے بھی شرکت کی.اجلاس کی پورے دو صفحہ کی رپورٹ کی تمہید میں تحریر تھا کہ فاضل مقرر کی شخصیت سے یہ توقع تھی کہ خطاب میں قانونی امور بیان کئے جائیں گے مگر آپ نے اخلاقی پہلو کی وضاحت فرمائی.حضرت چوہدری صاحب بلا شبہ بین الاقوامی قانون کے ماہر تھے لیکن رپورٹر کو غالباً اس کا پہلی بار تجربہ ہوا کہ آپ کی دلی وابستگی قرآن کریم سے ہے اور آپ کی گفتگو اور تقریر کا حقیقی نکتہ مرکزی مذہب و اخلاق رہے ہیں.حضرت چوہدری صاحب تین روز تک دعوت الی اللہ کے جہاد میں دن رات مصروف رہنے کے بعد ۲۶ مئی کو واپس ہالینڈ تشریف لے گئے.اس ماہ کی آخری تقریب ۳۰ مئی کو منعقد ہوئی جس میں ۸۰ کے قریب البانوی بولنے والے یوگوسلاوین شامل ہوئے.پروفیسر نجم الدین صاحب نے حاضرین کو پر حکمت انداز میں احمدیت کی دعوت دی.مشن نے سال کے آخر میں یوگوسلاوین باشندوں تک پیغام حق پہنچانے کی کوششیں تیز تر کر دیں اور اس سلسلہ میں ۱۸ ستمبر سے ۲۵ ستمبر تک ہفتہ تبلیغ بھی منایا.ہفتہ کو کامیاب بنانے کے لئے سید کمال یوسف صاحب اور شعیب موسیٰ صاحب سویڈن سے تشریف لائے اور جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کا مقدور بھر ہاتھ بٹایا جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے چالیس یوگوسلاوین باشندوں کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی.79 امسال سوئٹزرلینڈ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل ۶۷ /افراد نے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کا شرف حاصل کیا.ان میں سے ایک دوست سوئٹزرلینڈ کے ہیں اور باقی یوگوسلاویہ کے.80 سیرالیون ۲۹ جنوری ۱۹۷۱ء بروز جمعہ فری ٹاؤن سے قریباً ۳۰ میل دور ایک گاؤں ماٹے ہوئے

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد 27 266 سال 1971ء (Mateboyi) میں ایک تبلیغی میٹنگ کی گئی.چنانچہ اللہ کے فضل سے ۱۵ / احباب نے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.اس سال مشن نے اپنے امیر مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری کی قیادت میں علمی ، عملی، دینی اور تبلیغی غرضیکہ ہر اعتبار سے نمایاں ترقی کی اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے سال گذشتہ کے انقلاب انگیز دورہ مغربی افریقہ کے نتیجہ میں ملک کے نقشے جلد جلد بدلنے شروع ہو گئے.اس سال جماعت احمدیہ سیرالیون کا بائیسواں جلسہ سالانہ شہر ” بو کے احمد یہ سیکنڈری سکول کے خوبصورت اور کشادہ ہال میں ۱۲.۱۳.۱۴ فروری ۱۹۷۱ء کو منعقد ہوا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے پانچ صد سے زائد ا حباب نے شرکت کی.شرکت کرنے والوں میں سیرالیون کے دو وزراء، تین ممبران پارلیمنٹ، پیرا ماؤنٹ چیفس اور بعض اعلیٰ حکام بھی شامل تھے.مولا نا محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے افتتاحی تقریر میں فرمایا کہ گذشتہ سال جماعت احمد یہ سیرالیون کے لئے ایک انقلاب انگیز سال تھا جبکہ ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفہ اسیح الثالث ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے اپنے روحانی فرزندوں کے درمیان تشریف فرما ہوئے تا اس ملک میں رہنے والے حضور کے روحانی فرزند اپنے روحانی باپ کی شفقت اور پیار سے حصہ پا سکیں.حضور کے اس سفر کا یہ نتیجہ ہے کہ آپ لوگ اب حضور کی خصوصی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں اور حضور نے آپ سے باپ سے بھی بڑھ کر شفقت و محبت کا سلوک کیا ہے.آپ لوگ حق کے سپاہی ہیں اب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اندر روحانی انقلاب پیدا کریں اور دوسروں میں نفخ روح کا موجب بنیں.وزیر خارجه آنریبل سی پی فور Hon...For) نے افتتاحی اجلاس میں صدارت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے جماعت احمد یہ سیرالیون کا شکر یہ ادا کیا اور حکومت کی طرف سے پوری حمایت کا یقین دلایا.آپ نے سیر الیون کے ہزاروں باشندوں کو زیور علم سے آراستہ کر کے قومی تعمیر کے سلسلہ میں احمدیہ مشن کے کردار اور اس کی خدمات نیز اس کے محبت، امید اور باہمی رواداری کے پیغام کو بہت سراہا.ریذیڈنٹ منسٹر آنریبل کو سوکو نے (Kawusu Conteh) نے احمد یہ مشن کی معاشرتی تعلیمی اور مذہبی سرگرمیوں کا ذکر کر کے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.گیمبیا کے ہائی کمشنر نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد 27 267 سال 1971ء کے ہر پہلو اور اس کی حکمت سے دوسروں کو آگاہ کرنے میں اتنی جد و جہد اور دوڑ دھوپ سے کام لیتے ہیں جتنا کہ کسی انسان کے لئے ممکن ہو سکتا ہے.ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسلام کا پیغام اپنی پوری جامعیت کے ساتھ دوسروں تک پہنچ جائے تاکہ وہ اس کی پوری معرفت حاصل کر کے اس سے بہرطور فیضیاب ہوسکیں.محمد سنوسی مصطفی نائب وزیر اعظم وممبر آف پارلیمنٹ نے اپنی تقریر میں کہا’احمدیت سے قبل یہاں اسلام کا نام بھی مستور تھا.ذمہ دار مسلمان اپنے آپ کو مسلمان کہلانے میں بھی حجاب محسوس کرتے ہیں اور چھپ کر رہتے تھے.دوسری طرف عیسائیت ببانگ دہل اپنا پر چار کرتی تھی اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابل پر نہ آ سکتا تھا.احمدی مبلغین پاکستان سے صرف خدمت اسلام کا عظیم مقصد لے کر آئے جس کی وجہ سے آج ہماری نظر میں ان کی بہت عزت ہے.جماعت احمدیہ نے نہ صرف اسلام کا احیاء کیا ہے بلکہ تبلیغی ، تربیتی اور اخلاقی خدمات کے لئے مبلغین کا انتظام کیا.آج جو شخص احمد یہ جماعت کے خلاف بات کرتا ہے وہ اسلام سے دشمنی کرتا ہے.امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفتہ اسیح کا چہرہ نور کی طرح چمکتا تھا وہ حقیقت میں ایک نور تھا جو افریقہ کی سیاہ فام اقوام کو منور کرنے کے لئے آیا تھا.حضور کی شخصیت معمولی نہیں ہے آپ کا وجود نہایت قیمتی وجود ہے جس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ آپ کی دعاؤں کو سنتا ہے اور جو آپ نے یہاں فرمایا تھا اس کو پورا ہوتے آج میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں“.آنریبل وی سی بونگے اور مسلم کانگریس سیرالیون کے جنرل سیکرٹری جناب اے کے زبیر نے بھی اجلاس سے خطاب کیا.انہوں نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یہ جماعت اسلام کو دنیا بھر میں غالب کرنے کے سلسلہ میں جو گرانقدر مساعی بروئے کار لا رہی ہے اس کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بالعموم اور مسلمانانِ افریقہ کو بالخصوص اس جماعت کا شکر گذار ہونا چاہیے.یہ جماعت سب کی طرف سے شکریہ کی مستحق ہے.انہوں نے گذشتہ سال سیرالیون میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تشریف آوری کو مسلمانانِ سیرالیون کے لئے غیر معمولی طور پر رحمت اور برکت کا باعث قرار دیا.جناب اے کے زبیر نے فرمایا کہ حضرت امام جماعت احمد یہ وہ عظیم ہستی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہے.جلسہ کے انعقاد اور اس کی کارروائی پر مشتمل خبریں ریڈیو سیرالیون سے نشر ہوئیں.نیز اخبارات

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد 27 268 سال 1971ء نے بھی جلسہ کی خبروں کو خاص اہتمام سے شائع کیا.ریڈیو سیرالیون نے حضور کی ایک ریکارڈ کی ہوئی تقریر بھی نشر کی.81 سیرالیون ۱/۲۷ پریل ۱۹۶۱ء کو آزاد ہوا تھا.اس سال ۱۹۷۱ ء کے یوم آزادی کے موقع پر جو سرکاری تقریبات منعقد ہو ئیں ان میں مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری نہ صرف شامل ہوئے بلکہ مسلمانوں کی نمائندگی میں حاضرین سے خطاب بھی فرمایا اور اسلامی نظریہ آزادی پر روشنی ڈالی.اسی ماہ ملک کے ریپبلک (Republic) ہونے کا اعلان کیا گیا.اس یادگار موقع پر صدر سیرالیون، وزراء اور سفراء کی ایک خاص تقریب ہوئی جس میں مسلمانوں کی طرف سے بھی آپ کو مدعو کیا گیا.آپ نے اپنی تقریر میں باشندگان ملک کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اگر دنیا امن وسکون کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے اسلامی تعلیمات کو دستور العمل قرار دیئے بغیر کوئی چارہ کار نہیں.آپ نے اس موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود کے اس ولولہ انگیز پیغام کوبھی دہرایا جو حضور نے ۱۹۵۵ء میں الحاج جے سی الحسن العطاء پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ اشانٹی ریجن غانا کے توسط سے افریقن احمدیوں کے نام دیا تھا اور جس میں نہایت پرشوکت انداز میں یہ پیشگوئی فرمائی میں یہ نوشتہ دیوار پڑھ رہا ہوں کہ آپ کی (افریقن ) نسل کے لئے ایک عظیم مستقبل مقدر ہے اس کا شاندار زمانہ قریب آ رہا ہے.خدا نے ماضی میں بھی کسی قوم کو نہیں چھوڑا نہ آئندہ نظر انداز کرے گا وہ بعض اوقات کسی ایک قوم اور بڑ اعظم کو موقع دیتا ہے اور پھر ایک دوسری قوم اور دوسرے بڑاعظم کو - منتخب فرماتا ہے.ایک لمبے عرصہ تک آپ لوگوں پر ظلم کیا گیا اب آپ کا وقت ہے“.82 مولوی صاحب موصوف نے حاضرین کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروائی کہ اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے کہ جس کی تعلیم ہر قسم کے فساد اور ہر قسم کے جھگڑے کو مٹاسکتی ہے اور جس پر عمل کرنے سے دین اور دنیا دونوں سنور جاتے ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی تعلیم پر پوری طرح اور یقین محکم کے ساتھ عمل کیا جائے.کیونکہ تعلیم چاہے کتنی ہی اچھی ہو اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو کسی اچھے نتیجہ کی امید نہیں رکھی جاسکتی.دنیا کوفتنہ و فساد سے بچانے کے لئے جناب مولوی صاحب موصوف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک کا خصوصی تذکرہ کیا کہ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِهِ وَ يَدِهِ ( بخاری کتاب الایمان ) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں.

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد 27 269 سال 1971ء ایک سال قبل ۱۱ مئی ۱۹۷۰ء کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث مغربی افریقہ کے تاریخی دورہ کے دوران احمد یہ سیکنڈری سکول بو (Bo) میں تشریف لائے تھے اور اس سکول کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے برکت بخش کر اس کی خاک کو ہمدوش ثریا بنا دیا.حضور نے یہاں جماعتہائے احمد یہ سیرالیون کے صدر پیرا ماؤنٹ چیف کنیوا مانگا (Kenewa Gamanga) کے سپاسنامہ کے جواب میں ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی اسی موقعہ پر سکول کے پرنسپل چوہدری انور حسن صاحب نے اپنے سپاسنامہ میں حضور کے ورود مسعود کی یاد کو تازہ رکھنے کے لئے ہر سال ۱۱ مئی کا دن شایان شان طریقے سے منانے کی درخواست کی تھی جسے حضور نے منظور فرما لیا تھا.چنانچہ اس سال حضور کی تشریف آوری کی پہلی سالگرہ نہایت جوش و خروش سے منائی گئی.سکول کے آڈیٹوریم میں مولا نا محمد صدیق صاحب شاہد امیر جماعت ہائے احمدیہ سیرالیون کی زیر صدارت وسیع پیمانے پر ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں سیرالیون کے جملہ احمد یہ سکولوں کے پرنسپل صاحبان بھی شامل ہوئے.اسی طرح ڈاکٹرمحمد اسلم جہانگیری صاحب بھی شامل ہوئے جو سیرالیون میں لیپ فاروڈ پروگرام کے تحت پہنچنے والے پہلے ڈاکٹر تھے.چوہدری انور حسن صاحب نے اپنی استقبالیہ تقریر میں اس تقریب کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے حاضرین کو بتایا کہ جماعت احمدیہ کے تعلیمی ادارے اس لئے سرگرم عمل ہیں کہ بنی نوع انسان کو مثالی مسلم شہریوں کے سانچے میں ڈھال کر ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنے اور اپنے فرائض منصبی کو احسن رنگ میں ادا کرنے کے قابل بنایا جائے.روح کی تسکین اور ذہن کی جلا کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے قلع قمع اور جسمانی صحت کے لئے اب حضرت امام جماعت احمدیہ نے طبی مراکز کے قیام کی طرف خاص توجہ مبذول فرمائی ہے اور اس کا پہلا شمر ڈاکٹرمحمد اسلم جہانگیری صاحب ہیں.ازاں بعد طلباء کا تقریری مقابلہ ہوا.منصفی کے فرائض محمد نذیر احمد صاحب پرنسپل احمد یہ سکول فری ٹاؤن الحاج مقبول احمد صاحب ذبیح انچارج بواجے بومشن اور الحاج محمد کمانڈا بونگے جنرل سیکرٹری نے ادا کئے.مقابلہ میں سیکنڈری سکول بو (Bo) کے طالب علم موسیٰ با بوکو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا اور کتاب تفسیر القرآن انگریزی بطور انعام دی گئی.تقریری مقابلہ کے بعد الحاج علی روجرز، پاسعید و بنگورا، پاالفاشریف، الحاج ماہنا سا قوے اور الحاج ایم کے بونگے کی مختلف اہم موضوعات پر تقاریر ہوئیں اور پھر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی اس معرکۃ الآراء تقریر کا ریکارڈ سنایا گیا جو حضور نے ا مئی ۱۹۷۰ء کو اس آڈیٹوریم کے باہر ہزار ہا احباب کے عظیم الشان اجتماع میں ارشاد فرمائی تھی.

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد 27 270 سال 1971ء سامعین نے ہمہ تن گوش ہو کر یہ ریکارڈ سنا.مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں احمد یہ سکول بو (Bo) کے پرنسپل صاحب، سٹاف اور طلباء کو اس اہم یادگاری دن کو شایان شان طریقے سے منانے پر مبارکباد دی.حضور کے جاری فرمودہ لیپ فارورڈ پروگرام پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ حضور کے قلب مطہر میں یہ تڑپ پائی جاتی ہے کہ سیرالیون جلد از جلد احمدیت کے ذریعہ خدائے واحد کی محبت سے آشنا ہو کر رسول عربی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی خدام میں شامل ہو.اس ضمن میں انہوں نے حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مکتوبات کا بھی ذکر کیا جن میں خلفاء عظام نے سیرالیون میں اشاعت احمدیت پر خاص زور دیا ہے.شام ساڑھے چار بجے احمد یہ سکول اور شمالی صوبہ کے چیمپیئن گورنمنٹ سیکنڈری سکول مگبور کا کی ٹیم کے ساتھ دوستانہ نمائشی میچ ہوا.احمد یہ سکول کی ٹیم نے مہمان سکول کی ٹیم کو ایک کے مقابلہ میں دو گول سے شکست دی.مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں معززین شہر، علماء، آئمہ، حجاج ، سرکاری حکام، تجار اور ماہرین تعلیم مدعو تھے.سکول کی عمارات اور آڈیٹوریم پر چراغاں کا اہتمام کیا گیا.اس استقبالیہ میں ملک کی مشہور سیاسی شخصیت سابق ریذیڈنٹ منسٹر پرنس جے ولیمز نے بھی شرکت کی.83 سیرالیون میں ان دنوں بچیں پاکستانی اساتذہ جماعت کے مختلف سیکنڈری سکولوں میں پڑھا رہے تھے جن میں سے سات اساتذہ نے اس سال وقف عارضی کی بابرکت تحریک میں حصہ لیا.اسی طرح جوروسکول کے تین افریقن طلباء نے بھی دو دو ہفتے وقف کئے.ان سب واقفین کو مختلف جماعتوں میں متعین کیا گیا جہاں انہوں نے نہ صرف جماعتوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کیا بلکہ ان کے ذریعہ ۵۵ نئے افراد بھی داخل احمدیت ہوئے اور ایک شہر لنسار (Lunsar) میں تیس افراد پر مشتمل ایک نئی جماعت قائم ہو گئی.یہ جماعت محمد کریم قمر صاحب اور مختار احمد صاحب قمر ( ٹیچرز کانگریس سیکنڈری سکول فری ٹاؤن) کی مساعی کا نتیجہ تھا.دیگر واقفین جنہوں نے اپنے ایام وقف میں پوری محنت اور جانفشانی سے مفوضہ دینی خدمات انجام دیں ان کے نام یہ ہیں.مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول جو رو.مولوی عبدالسلام صاحب ظافر ٹیچر احمد یہ سیکنڈری سکول جور ومع اہلیہ صاحبہ.عطاء الرحیم صاحب حامد ٹیچر احمد یہ سیکنڈری سکول بواجے بو، جناب لطف الرحمن صاحب محمود، جناب منیر احمد صاحب ( ٹیچر سیکنڈری سکول بو (Bo)

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد 27 271 سال 1971ء عطاء الرحیم صاحب حامد، کینما (Kenema) اور باڈو (Gbado) تشریف لے گئے تھے ان کا بیان ہے.ایک شخص فوڈے تا ڈز کو جب میں نے تبلیغ کی تو بعد میں کہنے لگا مجھے احمدیت کے قبول کرنے میں انقباض ہے.جس پر میں نے وجہ دریافت کی.تو اس نے کہا کہ خواب میں مجھے مہدی علیہ السلام کو دو مرتبہ دکھایا گیا ہے اب مجھے معلوم نہیں کہ تم کس مہدی علیہ السلام کے متعلق بتا رہے ہو اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مجھے مہدی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر تم نے نماز نہ پڑھی تو میں تمہیں مار دوں گا.عطاء الرحیم صاحب نے اس سے پوچھا کہ تمہیں مہدی علیہ السلام کی شبیہ یاد ہے اور کہا کہ اگر تمہیں مہدی علیہ السلام کی تصویر دکھائی جائے تو تم پہچان لو گے؟ اس نے کہا کہ دکھاؤ.چنانچہ عطاء الرحیم صاحب نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک دکھائی تو اس نے فوراً کہا کہ واقعی یہی وہ شکل ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی.بعد میں کہنے لگے کہ اب میں احمدیت کے بارہ میں ہر طرح سے مطمئن ہوں اور اس کی سچائی واضح ہو چکی ہے.جور وسکول کے تین طلباء ایام وقف کے دوران کورے بونڈو (Koribondo) اور لیوما (Leuoma) میں بھجوائے گئے جنہوں نے پورے جوش اور جذ بہ تبلیغ کے ساتھ پیغام حق پہنچایا جس کے نتیجہ میں چودہ نفوس حلقہ بگوش اسلام ہوئے.وقف عارضی کی بابرکت تحریک کے طفیل مجموعی طور پر پچپن افراد کو قبول اسلام کی سعادت نصیب ہوئی.84 احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول بو میں صدر جمہوریہ سیرالیون کی آمد صدر جمہور یہ سیرالیون ڈاکٹر سیا کا پی سٹیونز (Siaka P.Stevens) دسمبر ۱۹۷۱ء کو بو کے سرکاری دورے کے دوران احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول بھی تشریف لائے.آپ کی آمد کے پیش نظر سکول کی سڑک کے دونوں اطراف میں جھنڈیاں اور پر چم لگائے گئے اور راستہ میں خوبصورت محراب اور دروازے نصب کئے گئے.صدر جمہوریہ نے اس موقع پر طلباء سے خطاب کیا.اپنے خطاب میں انہوں نے جماعت احمدیہ کی ان تعلیمی اور طبی خدمات کو فراخ دلی سے سراہا جو جماعت کا مشن اس ملک میں سر انجام دے رہا ہے.صدر سیرالیون نے بالخصوص پاکستانی اساتذہ کا بھی شکریہ ادا کیا جو اپنے وطن سے ہزاروں میل دور فرزندان افریقہ کی تربیت و تعلیم اور تہذیب اخلاق کا خوشگوار فریضہ ادا کر رہے ہیں.روانگی سے قبل صدر نے سکول کی لاگ بک پر دستخط ثبت کئے اور وعدہ کیا کہ اس مرتبہ مصروفیت

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد 27 272 سال 1971ء کیوجہ سے وہ سکول کی تجربہ گاہیں نہیں دیکھ سکتے جب کبھی آئندہ آئیں گے تو ان کا معاینہ کریں گے.اس تقریب کے موقع پر ریڈیو پریس ٹیلی ویژن کے نمائندے موجود تھے.چنانچہ اس تقریب کی کارروائی کی احسن رنگ میں تشہیر ہوئی اور جماعت احمدیہ کی تعلیمی اور طبی خدمات کا خوب چرچا ہوا.85 اس سال بو میں مقامی مبلغین اور اساتذہ کے لئے ۲۰ سے ۲۹ /اگست تک پہلے ریفریشر کورس کا انتظام کیا گیا جس کا افتتاح مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری امیر جماعتہائے احمدیہ سیرالیون نے کیا اور اس میں شامل ہونے والوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے اندر ایک کامیاب مبلغ کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کریں.خود علم سیکھیں تا دوسروں کو سکھا سکیں.سب سے بڑے مبلغ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ ہی کی زندگی سے ہم بطور مبلغ صحیح نمونہ حاصل کر سکتے ہیں.کلاس کے افتتاح کی خبر ریڈیو اور پریس دونوں نے دی.کلاس کا پہلا اجلاس صبح نو بجے سے ۱۲ بجے تک جاری رہتا تھا جس میں سید منصور احمد صاحب بشیر ، مولوی عزیز الرحمن صاحب خالد ، مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح اور مولوی نظام الدین صاحب مهمان بالترتیب قرآن مجید، حدیث اور نماز کے اسباق پڑھاتے تھے.دوسرا اجلاس (ڈھائی بجے تا ساڑھے چار بجے تک) صداقت مسیح موعود علیہ السلام، وفات مسیح “ اور ختم نبوت پر نوٹس لکھوانے کے علاوہ دیگر اہم موضوعات پر تقریروں کے لئے مخصوص تھا.مقررین میں ایم بی ابراہیم صاحب سیکرٹری تعلیم ، انورحسن صاحب پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول بو اور مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول جو رو شامل تھے.۲۸ اگست کو امتحان لیا گیا اور اگلے روز مبلغین اور اساتذہ میں سے اول اور دوم آنے والوں میں انعامات تقسیم کئے گئے.تقسیم انعامات کی تقریب کے معابعد جماعت احمد یہ ہو نے ریفریشر کورس میں شامل ہونے والے مبلغین و اساتذہ کے اعزاز میں دعوت عصرانہ دی.اسی روز ہو“ کی مرکزی احمد یہ مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں وقار عمل تھا جس میں دیگر احمدیوں کے علاوہ کلاس میں شامل مبلغین اور پرائمری سکول کے اساتذہ نے پر جوش حصہ لیا.یہ وقار عمل تین گھنٹہ تک جاری رہا جس کے اختتام پر ”کلوا جمیعا “ کا پروگرام تھا جو بہت مفید اور دلچسپ رہا.اپنی نوعیت کی اس پہلی کلاس کے اختتام کی خبر ریڈیو سیرالیون نے نشر کی اور اخبار ڈیلی میل (Daily Mail) میں شائع ہوئی.86

Page 283

تاریخ احمدیت.جلد 27 273 سال 1971ء بو کی مرکزی مسجد جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے اس کی بنیاد گذشتہ سال مئی ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے مبارک ہاتھوں سے رکھی تھی اور اس کی تعمیر کا آغاز اس سال ہوا اور اس کی نگرانی مولوی منصور احمد صاحب بشیر انچارج مبلغ ہو اور مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول جو رونے کی اور سال کے آخر تک دیوار میں چھت تک پہنچ گئیں.دو بار اجتماعی وقار عمل کئے گئے ایک میں مستورات کے لئے اوپر گیلری میں کنکریٹ ڈالی گئی.یہ وقار عمل صبح سے رات دس بجے تک جاری رہا.دوسرے میں برآمدہ کی چھت ڈالی گئی اور وقار عمل صبح سے شام تک کیا گیا.خدا کے گھر کی تعمیر میں انور حسن صاحب پرنسپل بوسیکنڈری سکول اور سکول کے اساتذہ، مولوی بشیر احمد صاحب اختر پرنسپل بواجے بوسیکنڈری سکول ،مبلغین احمدیت ،احباب جماعت اور سکول کے طلباء نے اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مشرقی صوبہ کا مرکزی شہر کینما (Kenema) تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل اور ہیروں کی خرید و فروخت کا مرکز ہے.اس شہر میں عرصہ سے جماعت احمد یہ قائم تھی لیکن بوجہ مخالفت کوئی مسجد تعمیر نہ ہوسکی اور نہ زمین ہی مل سکی مگر حضور کے دورہ سیرالیون کے بعد خدا تعالیٰ نے غیب سے سامان پیدا فرما دیا کہ اس موقع پر اس شہر کا ایک چیف احمدی ہو گیا.اس چیف کی حضور اقدس سے بو میں ملاقات ہوئی جس کے بعد اس نے کینما میں ایک قطعہ زمین احمدیہ مشن کے نام ہبہ کر دیا جسے مخالفین نے بعض قانونی وجو ہات پیش کر کے واپس لینے پر مجبور کر دیا.ازاں بعد ایک اور قطعہ زمین پیش کیا جو برلب سڑک تھا اور جس میں کسی اور کا دخل نہیں تھا.مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح انچارج حلقہ کینما نے نقشہ بنوا کر کھدائی کا کام شروع کروادیا.مخالفین نے پیرا ماؤنٹ چیف اور ڈسٹرکٹ آفیسرز کے ذریعہ تعمیر کو رکوانے کی کوشش کی مگر خدا تعالیٰ نے جماعت کی غیر معمولی تائید ونصرت فرمائی اور ڈسٹرکٹ آفیسر نے فیصلہ دیا کہ احمدیہ مشن کو اس قطعہ زمین پر مسجد بنانے کا پورا پوراحق ہے اور کوئی شخص اس ملک میں کسی کی آزادی مذہب کو چیلنج نہیں کر سکتا.چنانچہ ۲۰ /اگست ۱۹۷۱ء کو مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے ایک تقریب میں دعاؤں کے ساتھ اس مسجد کی بنیا د رکھی.اس تقریب میں ارد گرد کی احمدی جماعتوں کے احباب کثرت سے شریک ہوئے اور پیراماؤنٹ چیف جو پہلے مخالفین احمدیت کے ڈر سے مخالفت کر رہا تھا خود شامل ہوا اور ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا اور مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح کی نگرانی میں اس خانہ خدا کی تکمیل ہوئی.87

Page 284

تاریخ احمدیت.جلد 27 274 سال 1971ء اسی سال پہلے (Yele) میں شام کے ایک مخلص احمدی سید محمد ہدرج نے اپنے خرچ پر خدا کے گھر کی تعمیر شروع کی.اس سال اس کی دیوار میں بھی مکمل ہو گئیں اور پھر جلد ہی اس پر چھت ڈال دی گئی.دوران سال خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور پاکستانی اور مقامی مبلغین اور احباب جماعت کی کوششوں سے ۴۸۰ نفوس داخلِ احمدیت ہوئے اور دس مقامات پر نئی جماعتیں قائم ہوئیں.88 غانا ۱۹۷۰ء کے آخر میں ملک ہیضہ کی لپیٹ میں آگیا.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر جماعت ہائے احمد یہ غانا و انچارج مشن نے جماعت احمدیہ کو تحریک کی کہ وہ ہیضہ کے ٹیکے لگوائیں اور ماہ جنوری ۱۹۷۱ ء میں ہر سوموار اور جمعرات کو روزے رکھیں اور ان ایام میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے رہیں کہ وہ قادر وتوا نا خدا اپنے رحم کے جلوے دکھائے اور غانا کو اس مصیبت اور متعدی بیماری سے نجات دے.انہوں نے مزید کہا کہ وہ ان ایام میں مساجد میں اکٹھے ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں.89 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ہیضہ کی خبر سنتے ہی غانا کو دس ہزار افراد کے لئے ہیضہ سے بچانے والی دوا بھجوانے کا ارشاد فرمایا.جملہ انتظامات ابھی تکمیل کے مراحل میں تھے کہ مولوی بشارت احمد صاحب کا تار آیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے و با پر کنٹرول پالیا گیا ہے.غانا کی احمدی جماعتوں کی سالانہ کانفرنس ۶ تا ۸ جنوری کو سالٹ پانڈ میں منعقد ہوئی.کانفرنس میں کم و بیش آٹھ ہزار اشخاص شامل ہوئے جن میں ملک کی متعدد نامور اور ممتاز شخصیات شامل تھیں.جن میں پیرا ما فرنٹ چیفس ، متعددممبران پارلیمنٹ اور پاکستانی ہائی کمشنر غانا بھی شامل تھے.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا وہ خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا گیا جو حضور نے اس موقع کے لئے از راہ شفقت ارسال فرمایا.اس پیغام میں حضور نے جماعت احمد یہ غانا کی کارکردگی کی تعریف کرتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ وہ اپنی مساعی کو تیز سے تیز تر کر دیں تا کہ ہم اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہو سکیں.کانفرنس کی روداد اخبارات میں شائع ہوئی نیز ریڈیو سے بھی اس کی خبر نشر ہوئی.جنرل اے اے افریفا (Akwasi Amankwaa Afrifa)۱۹۶۶ء کے انقلاب میں برسر اقتدار آئے تھے اور اگست ۱۹۶۹ ء تک غانا کے صدرر ہے.انہوں نے کرو بو(Krobo) کے نام سے ایک جدید طرز کا شہر آباد کیا.وہ ان دنوں لیفٹینٹ جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے تاہم

Page 285

تاریخ احمدیت.جلد 27 275 سال 1971ء سٹیٹ کونسل کے ممبر تھے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ایک وفد کی صورت میں ان کی ملاقات کیلئے جنوری ۱۹۷۱ ء کے دوسرے ہفتے میں کرو بو تشریف لے گئے.فوجی بینڈ کے ساتھ وفد کا استقبال کیا گیا اس موقعہ پر ایک سادہ اور پر وقار تقریب ہوئی جس میں جنرل نے کھڑے ہو کر تقریر کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ جب حضرت امام جماعت احمدیہ غانا تشریف لائے تھے تو میں نے ملاقات کے دوران حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی تھی اور اگر اب بھی میں زندگی میں اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہو سکا تو یہ سراسر میر اقصور ہوگا.تقریر کے دوران انہوں نے قائد وفد مولوی بشارت احمد صاحب بشیر سے درخواست کی کہ وہ جب بھی حضور اقدس کی خدمت میں خط لکھیں تو ان کی طرف سے السلام علیکم پہنچا دیں اور دعا کی درخواست کریں.اس تقریب کی پریس میں اشاعت کے علاوہ ریڈ یو غانا سے بھی خبر نشر ہوئی.اس سلسلہ میں غانا کے اخبار The Pioneer کی اشاعت بابت ۱۵ جنوری ۱۹۷۱ء میں حسب ذیل خبر شائع ہوئی.( ترجمہ ) لیفٹیننٹ جنرل اے اے افریفا کی خدمت میں مولوی بشارت احمد صاحب بشیرا میرو مشنری انچارج احمد یہ جماعت غانا نے قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا.یہ پیشکش اس وقت کی گئی جب جماعت احمدیہ کے وفد کے قائد اور جماعت کے امیر غیر رسمی ملاقات کے لئے Okatakyie ( جنرل کا لقب ) کے ہاں کرو بوشہر پہنچے.قرآن مجید کا تحفہ پیش کرتے ہوئے امیر جماعت احمد یہ غانا نے کہا قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے جو اس نے ایک نہایت بیش قیمت تحفہ کے طور پر بنی نوع انسان کو ر عطا فرمایا ہے.تحفہ قبول کرتے ہوئے جنرل افریفا نے اپنے جذبات تشکر کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اس عزت افزائی کے لئے ممنون ہوں.انہوں نے کہا کہ وہ نہ صرف یہ کہ اس تحفہ کو بے نظیر خزانہ یقین کرتے ہیں بلکہ وعدہ کرتے ہیں کہ وہ نہایت اشتیاق سے اس کا مطالعہ بھی کریں گے.اس تقریب کے اختتام پر جنرل افریفا امیر جماعت احمدیہ غانا اور ان کے وفد کے اراکین کو شہر کے مختلف حصوں کی سیر کرانے کیلئے ہمراہ لے کر گئے.ان کے وفد میں حسب ذیل افراد شامل تھے.مولوی ناصر احمد صاحب انچارج شمالی ریجن - الحاج عطاء ریجنل چیئر مین احمدیہ موومنٹ اور مسٹر آئی کے گیاسی (.I.K Gyasi ) اسسٹنٹ ہیڈ ماسٹر احمد یہ سیکنڈری سکول.90 ۴ مارچ سے ۶ مارچ تک شمالی ریجن کی جماعتہائے احمدیہ کی سالانہ کا نفرنس نہایت جوش و خروش کے ساتھ منعقد ہوئی.نہ صرف ریجن کے مخلصین جماعت کثرت سے شامل ہوئے بلکہ مولوی بشارت

Page 286

تاریخ احمدیت.جلد 27 276 سال 1971ء احمد صاحب بشیر اور دیگر مجاہدین احمدیت جو ایک قافلہ کی صورت میں ملک کے تبلیغی دورہ پر تھے اس کا نفرنس کی رونق کو دوبالا کرنے کا موجب بنے.کل حاضری قریباً ڈیڑھ ہزار تھی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے اپنے افتتاحی خطاب میں حاضرین کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین بجالانے اور فریضہ تبلیغ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور نصرت تبشیر سکیم سے آگاہ کیا.کانفرنس میں مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب اور مولوی نصیر احمد خان صاحب نے بھی تقاریر کیں.کانفرنس کے آخر میں مالی جہاد کی تحریک کی گئی جس پر تقریبا چار ہزارسیڈیز رقم جمع ہوئی.91 غانا کے شمالی اور بالائی ریجنوں میں مخالفین اسلام کی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں اور چرچ کی طرف سے غریب لوگوں میں خوراک اور زراعت اور دیگر عوامی بہبود میں امداد کے پردے میں مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کیا جا رہا تھا.غانا پریس بھی اس سازش کو تقویت دے رہا تھا چنانچہ ایک اخبار نے یہ مضمون شائع کیا کہ ٹمالے(Tamale) جسے پہلے مسلمانوں کا شہر سمجھا جاتا تھا اب یہ عیسائی شہر ہے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں اس نازک صورتحال کی اطلاع دی اور ان علاقوں میں اسلام کی اشاعت کے لئے ایک خاص پروگرام پیش کر کے خصوصی دعا کی تحریک کی.حضور نے دعا کی اور اس پروگرام کی منظوری دیتے ہوئے اس سکیم کا نام نصرت تبشیر سکیم تجویز فرمایا ( جس کا ذکر اوپر آچکا ہے).اس انقلابی سکیم کے مطابق مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے شمالی ریجن کے ہر گاؤں اور ہر قصبہ میں حق کی آواز پہنچانے کے لئے مسلسل ایک ماہ تک ایک وفد کی صورت میں بھر پور دورہ کیا.وفد میں مقامی اور مرکزی چالیس مبلغین شامل تھے.جملہ مبلغین یکم مارچ کو کماسی مشن میں اپنے ضروری سامان کے ساتھ پہنچ گئے جنہیں دیکھ کر کماسی کی جماعت میں حد درجہ جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا.احمدیوں نے مجاہدین کے لئے چندہ دیا اور جو احباب جماعت شامل نہ ہو سکتے تھے انہوں نے بغرض ثواب مالی قربانی کا شرف حاصل کیا.تمام مبلغین کو مختلف حلقوں میں تقسیم کر کے ان کے امراء مقرر کر دیئے گئے اور پورے ایک ماہ کے لئے خوراک کا مکمل سامان اور لٹریچر ان کے حوالے کر دیا گیا اور ان کو طریق تبلیغ اور پروگرام بتا دیا گیا.مبلغین کو وا (Wa) تک پہنچانے کے لئے احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی کے ہیڈ ماسٹر مسٹر عبد اللہ ناصر صاحب نے سکول کی ایک بس پیش کی.اس کے علاوہ ایک جیپ کا بھی انتظام کیا گیا.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر اور بعض مبلغین کے لئے ایک کار مخصوص

Page 287

277 سال 1971ء تاریخ احمدیت.جلد 27 تھی.مجاہدین احمدیت کا یہ قافلہ ایک ماہ کے تبلیغی جہاد کے لئے ۳ مارچ کو نماز فجر کی ادائیگی اور اجتماعی دعا کے بعد نعروں کی گونج میں کماسی مشن ہاؤس سے روانہ ہوا اور سب سے پہلے ریجن کے پہلے بڑے شہر بولے (Bole) کے امام مسجد اور دیگر معزز مسلمانوں سے تبلیغی کیمپ لگانے کے متعلق گفتگو کی.سبھی نے نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہر طرح تعاون کا وعدہ کیا.ایک معزز مسلمان نے اپنا ایک ہونہار چھوٹا بچہ احمدیہ مشن کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تا کہ صحیح اسلامی تعلیم و تربیت دلوائی جائے اور یہ بچہ اس علاقہ میں اشاعت اسلام کا موجب بن سکے.ازاں بعد قافلہ دوسرے اہم مقام ساولہ (Sawla) پہنچا.یہاں بھی معزز مسلمانوں اور ان کے امام نے تبلیغی پروگرام کو بہت سراہا اور ہر ممکن مدد اور تعاون کا وعدہ کیا.بعد ازاں اس قافلہ نے وا (Wa) کی احمد یہ سالانہ کا نفرنس میں شرکت کی.مولا نا بشارت احمد صاحب بشیر نے وا (Wa) کے عہدیداران جماعت کے مشورہ سے تمام مجاہدین کو سات دستوں میں تقسیم کیا اور شمالی ریجن میں سات اہم مقامات کو تبلیغی کیمپ کے لئے منتخب کیا.یہ سات مقامات حسب ذیل تھے.ا.وا (Wa ).۲.گورپسی (Gorpisi).۳ فیلیمو (Felimu).۴.بولے(Bole).۵- سالا گا (Salaga).۶.ڈامونگو (Damongo).۷.والے والے(Walewale).وا (Wa) کیمپ کے نگران خود مولوی بشارت احمد صاحب بشیر تھے اور نائب نگران مولوی نصیر احمد خاں صاحب مبلغ کماسی.دوسرے کیمپوں میں مولوی ناصر احمد صاحب، مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب اور بعض دیگر مجاہدین مقرر کئے گئے.سبھی مبلغین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے متعینہ مقامات اور اس کے ماحول میں جم کر پورا عرصہ کام کریں تا کہ مفید نتائج برآمد ہو سکیں اور نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آسکے.مولوی عبد الشکور صاحب اکر ا میں متعین کئے گئے تا مشن کے دیگر ضروری امور کی نگرانی کر سمیں.جس شام کو یہ تبلیغی قافلہ کماسی سے وا پہنچا اس سے اگلے روز صبح کے وقت بذریعہ تاریہ افسوسناک خبر ملی کہ مولوی بشارت احمد صاحب کی والدہ محترمہ پاکستان میں انتقال کر گئی ہیں انا للہ وانا الیہ راجعون.مولوی صاحب فرماتے ہیں اگر خدا تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال نہ ہوتا تو شاید میرے لئے یہ صدمہ ایسے وقت میں برداشت کرنا مشکل ہو جاتا مگر یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تصرف تھا کہ دعاؤں کی برکت سے یہ صدمہ سہنا میرے لئے ممکن ہو گیا“.

Page 288

تاریخ احمدیت.جلد 27 278 سال 1971ء و‘ کیمپ کو اس تبلیغی جہاد میں مرکزی حیثیت حاصل تھی کیونکہ اسی کے ذمہ تمام کیمپوں کی نگرانی و راہنمائی کرنا تھا اور اس ذمہ داری کو اس نے نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیا.چنانچہ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر اور مولوی نصیر احمد خان صاحب نے ایک ماہ میں قریباً بارہ سو میل سے زائد سفر کیا.نصرت تبشیر سکیم کے تحت یہ تبلیغی جہاد ہر اعتبار سے کامیاب رہا اور تبلیغی کیمپوں کے ذریعہ دس نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور ڈیڑھ سو بالغ افراد مع افراد خاندان کے جن کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی داخلِ سلسلہ عالیہ احمد یہ ہوئے.یہ اعدادو شمار مولوی نصیر احمد خان صاحب کی الفضل میں مطبوعہ رپورٹ سے لئے گئے ہیں اس طرح الفضل میں بھی پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے یہ نوٹ شائع ہوا کہ غانا سے مکرم بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ انچارج نے یہ خوشکن اطلاع بھجوائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصرت تبشیر سکیم کے ماتحت غانا میں دس نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا ہے.یہ دس نئی جماعتیں ایک ہزار پچاس بالغ افراد پر مشتمل ہیں.۲۹ مارچ کی شام کو مجاہدین کا قافلہ کماسی پہنچا.اشانٹی ریجن کی جماعت نے قافلہ کی کامیاب مراجعت پرشاندار دعوتِ طعام کا اہتمام کیا نیز مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے اس بابرکت سکیم کو جاری رکھنے کیلئے نصرت تبشیر فنڈ کے قیام کا اعلان کیا جس میں مخلصین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.مجاہدین احمدیت کا دوسرا قافلہ انہی علاقوں میں ایک ماہ تک مصروف تبلیغ رہا اور اس کی شبانہ روز مساعی کے بھی نہایت شیریں ثمر پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پانچ مزید نئی جماعتیں معرض وجود میں آگئیں جو دو سو بالغ افراد پر مشتمل تھیں (نئے بیعت کنندگان کے اہل وعیال کو شامل کر کے یہ تعداد ایک ہزار سے زائد بن گئی ) مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کی رپورٹ کے مطابق احمدی مجاہدین کی سہ ماہی کوششوں سے بفضلہ تعالیٰ قریباً ڈھائی ہزار افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور ۱۶ نئی جماعتیں قائم ہوئیں.نومبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے مقامی مبلغین مقرر کر دیئے گئے تا وہ ان کی ضروریات کا خیال رکھیں اور اسلام کی تعلیم اور اس کے اصولوں سے پوری طرح واقف کرائیں.اس علاقہ کے ایک مخلص دوست مسٹر جاویدی جنہیں سات زبانوں پر عبور حاصل تھا کماسی میں بلائے گئے تاوہ دو ایک ماہ کی ٹرینگ کے بعد تربیت یافتہ مقامی مبلغین کے ساتھ مل کرغانا میں فریضہ تبلیغ بجالائیں.اس تبلیغی جہاد کے دوران کئی ایمان افروز واقعات مشاہدہ میں آئے.ڈا مونگو کے مقام پر عیسائیوں نے گرجا میں دعائے خاص مانگی کہ اس شہر میں احمدی مبلغین قدم نہ

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد 27 279 سال 1971ء رکھ سکیں.مگر الہی تصرف کے تحت اسی روز مجاہدین احمدیت شہر میں داخل ہوئے اور تیس افراد پر مشتمل جماعت قائم ہو گئی.اس شہر میں ایک بت پرست خاندان مشرف بہ اسلام ہوا اور اپنے گھر سے تین بت لایا جس کی پوجا کرتے تھے ان بتوں کو منظر عام پر لا کر آگ میں ڈالا گیا اور موقع کی تصاویر لی گئیں.نو مبائعین میں اکثر بت پرست ، شراب کے عادی چار سے زائد بیویاں رکھنے والے تھے اور ان میں سے اکثر نیم برہنہ تھے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے ان کی اس خستہ حالی کو دیکھ کر احباب جماعت کو تحریک کی کہ وہ ان کے لئے لباس مہیا کریں.دیکھتے ہی دیکھتے تین سو افراد کے لئے لباس اور نقدی جمع ہو گئی.ایک مقامی مبلغ نے جن کی مشکل سے بسر اوقات ہوتی تھی اپنا لباس اتار کر ضرورت مند کو پہنا دیا.مولوی بشارت احمد صاحب خود ہر گاؤں میں پہنچے اور اپنی نگرانی میں ملبوسات تقسیم کئے.ان لوگوں نے کپڑوں وغیرہ کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا.اخوت اسلامی کے جذبہ کے تحت ہی یہ تحریک تھی جو ہمدردی خلائق پر منتج ہوئی.92 اشانی (Ashanti) مغربی افریقہ کی ایک بہادر اور جنگجو قوم ہے جس کی سلطنت ۱۹۹۷ء میں قائم ہوئی جو ۱۸۹۶ء کے بعد برطانیہ کے زیرنگیں ہوئی اور ۱۹۰۱ء میں برطانوی نو آبادیات میں شامل کی گئی اور ۱۹۵۷ء میں غانا کا حصہ بنی.وسط ۱۹۷۱ ء میں اس قوم کے شاہ اشانی دوم فوت ہو گئے اور ملکی روایات کے مطابق دس جون سے رسومات جنازہ شروع ہو رہی تھیں اس لئے تمام شاہی تقریبات منسوخ کر دی گئیں.اس ماحول میں جب نئے شاہ اشانٹی کو اطلاع دی گئی کہ جماعت احمد یہ غانا کے امیر وفد لے کر سات جون کو ملنے آرہے ہیں تو انہوں نے اپنے سیکرٹری کو ہدایات دیں کہ جماعت احمدیہ کے وفد کو انکار نہیں کیا جا سکتا چنانچہ مولانا بشارت احمد صاحب بشیر تحریر فرماتے ہیں:.وقت مقررہ پر وفد لے کر خاکسار شاہ اشانٹی کے ذاتی محل ( منہیا محل Manhyia Palace) پہنچا.شاہ اشانٹی نے وفد کا خود استقبال کیا.ایک سادہ مگر پُر وقار تقریب میں ابتدائی تعارف اور تمہید کے بعد خاکسار نے مختصراً قرآن مجید کے فضائل اور سورۃ فاتحہ میں سے اللہ تعالیٰ کی چار امہات الصفات پر روشنی ڈالی جسے انہوں نے ہمہ تن گوش سنا.قرآن مجید کا تحفہ قبول کرتے ہوئے انہوں نے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ” میرے پاس وقت ہو یا نہ ہولیکن خدا تعالیٰ کے کلام پاک کے مطالعہ کے لئے ضرور وقت نکالوں گا.موجودہ شاہ اشانٹی ایک قابل بیرسٹر رہ چکے ہیں.تخت نشینی سے قبل انہیں ڈنمارک کا سفیر بھی

Page 290

تاریخ احمدیت.جلد 27 280 سال 1971ء منتخب کیا گیا.اب اپنی قوم کے ہر دلعزیز اور محبوب سر براہ ہیں.تقریب کے دوران شاہی روایات کے مطابق ترجمان کے ذریعہ گفتگو کرتا رہا.لیکن بعد میں مروجہ دستور کے برعکس ہم براہ راست گفتگو کرتے رہے.زائرین کے رجسٹر پر دستخط کئے اور موقع کی تصاویر لی گئیں.اس تقریب کی خبر یہاں کے ملکی اخبارات خصوصا دی پائیر (The Pioneer) کے پہلے صفحہ پر نمایاں طور پر مع تصویر شائع ہوئی.الحمد للہ.93 اس سال مشن کی تاریخ کا ایک ایسا منفرد واقعہ رونما ہوا جو ملکی قانون میں تبدیلی کا موجب بنا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ غانا کے مروجہ دستور کی رو سے میت کے ترکہ کا وارث بھتیجا قرار پاتا تھا اور میت کے قریبی ورثاء مثلاً والدین، بیوی، اولا دمحروم رہتے تھے.اس ملکی دستور کے باعث میت کے قریبی رشتہ داروں سے جو نا انصافی برتی جاتی تھی وہ ظاہر و باہر ہے.جماعت احمدیہ کے افراد حتی الوسع وصیت پر عمل پیرا ہوتے ہیں تاکہ ان کے بعد ان کی اولا دغیروں کی محتاج اور دست نگر نہ بنے.وصیت کا نافذ بالعموم امیر جماعتہائے احمد یہ غانا کو مقرر کیا جاتا ہے بوقت نفاذ میت کے غیر مسلم ورثاء عموماً جھگڑا کھڑا کر دیتے تھے کہ جو جائیداد بطور ترکہ میت نے چھوڑی ہے وہ سب کی مشترکہ محنت اور سرمایہ سے بنی ہے لہذا ترکہ میں ان کا بھی حق بنتا ہے.عدالت کے ذریعہ ایسے معاملات طے ہوتے تھے.ایک ایسا مقدمہ غانا کے ایک احمدی دوست الحاج داؤ د مرحوم کے ترکہ کا بھی تھا جو ۱۹۶۹ء سے عدالت کے زیر سماعت رہا ہے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے عدالت کو توجہ دلائی کہ جلد کوئی نہ کوئی فیصلہ ہونا چاہیے.چنانچہ عدالت کی طرف سے تاریخ مقرر ہوئی جو آپ کی دوسری مصروفیات کے پیش نظر چنداں موزوں نہ تھی.آپ نے اپنے خیالات تحریری طور پر بھجوا دیئے.حاکم عدالت نے آپ کے خط ( جو تین فل سکیپ صفحات پر مشتمل تھا) کی نقل تمام وکلاء میں تقسیم کرا دی اور آپ کو اطلاع بھجوائی کہ اسلامی نظام وراثت کے موضوع پر عدالت سے خطاب کریں چنانچہ مقررہ تاریخ کو مولوی صاحب نے پندرہ وکلاء اور جج صاحبان سے خطاب کیا.اس کے بعد سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہا جو دلچسپ رہا.اس کے بعد صدر صاحب نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ عدالت کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ اسلامی نظام وراثت سے متعلق معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں.چنانچہ فیصلہ وصیت کے مندرجات کے مطابق ہوا.اس موقع پر مولانا صاحب نے قرآن مجید مع تفسیری نوٹ کے تین نسخے عدالت کو پیش کئے.94

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد 27 281 سال 1971ء ماہ ستمبر میں تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں مغربی غانا کے سنٹرل ریجن Ekumfi سرکٹ میں Sampa کے مقام پر ۱۵ افراد نے حق کو قبول کیا اور ایک نئی جماعت قائم ہوئی.اس علاقہ میں قائم ہونے والی یہ پہلی جماعت تھی.95 پاکستان کے ہائی کمشنر مقیم غانا ہز ایکسی لینسی ایس اے معید نومبر کے اوائل میں جماعت احمد یہ کماسی کی دعوت پر ا کر اسے کماسی تشریف لائے.ان دنوں کماسی مشن میں آپ کے تین روزہ قیام کے دوران جماعت کی طرف سے ”سٹی ہوٹل میں ہائی کمشنر صاحب موصوف کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ایک استقبالیہ دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں علاقہ کے سر برآوردہ حضرات اور معززین شہر نے کثیر تعداد میں شرکت کی.اس موقعہ پر آپ نے تقریر کرتے ہوئے بہت ہی عام فہم اور دلنشیں انداز میں مشرقی پاکستان کی اصل صورتحال پر روشنی ڈالی.کماسی میں اپنے قیام کے دوران ہز ایکسی لینسی ہائی کمشنر صاحب نے اسوکورے میں احمدیہ ہسپتال کا بھی معاینہ فرمایا.نیز آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول کی عمارت کا سنگ بنیا درکھا.اسوکورے کے پیرا ماؤنٹ چیف نے آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں روایتی طریق پر ایک پرشکوه در بار منعقد کیا جس میں غانا کا قومی لباس کے کلاتھ (Kente Cloth) اور وہاں کی مخصوص چپل کا ایک جوڑا بطور تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.آپ احمد یہ ہائر سیکنڈری سکول کماسی بھی تشریف لے گئے جہاں آپ نے طلباء اور ممبر ان اسٹاف سے خطاب فرمایا.اس موقع پر آپ نے ایک ہزار نیوسیڈیز کی مالیت کا کھیلوں کا سامان سکول کو بطور تحفہ عطا کرنے کا اعلان فرمایا.96 " جماعت احمد یہ غانا کے وفد کی صدر جمہوریہ غانا سے ملاقات سال ۱۹۷۱ء کے آخر میں جماعت احمدیہ کے دس افراد پر مشتمل ایک وفد نے امیر جماعت ہائے احمد یہ غانا و مبلغ انچارج غانا مشن مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کی زیر قیادت ایک سادہ لیکن پر وقار تقریب میں جمہوریہ غانا کے صدر ہز ایکسی لینسی Edward Akufo-Addo سے ملاقات کر کے انہیں قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ بطور ہدیہ پیش کیا.اس موقع پر مولوی بشارت احمد صاحب نے ایک مختصر تقریر کی جس کے بعد اپنی جوابی تقریر میں صدر جمہوریہ غانا نے فرما یا بلا شبہ آپ کا مذہب دنیا کے عظیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے پھر یہ امر بھی میرے لئے موجب اطمینان ہے

Page 292

تاریخ احمدیت.جلد 27 282 سال 1971ء کہ جماعت احمد یہ اس ملک کی بہت خدمت کر رہی ہے.قرآن مجید کا تحفہ پیش کرنے کی خبر اخبارات میں وسیع پیمانے پر شائع ہوئی.نیز ریڈیو اور ٹیلی وژن نے بھی اس کو خوب پذیرائی دی.97 فنجی اس سال منجی مشن نے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی قیادت میں اشاعت اسلام کا کام نہایت کامیابی سے جاری رکھا اور ترقی کی.جنوری ۱۹۷۱ء میں مولوی محمد صدیق صاحب نے لمباسہ شہر کے ایک مخلص احمدی مولوی محمد لال ٹوپی صاحب سابق صدر جماعت احمد یہ لمباسہ کے ہمراہ نجی کے مشہور جزیرہ تاویونی (Taveuni) کا دس روز تک کامیاب تبلیغی دورہ کیا اور ہر طبقہ اور ہر مذہب کے لوگوں تک پیغام حق پہنچایا اور بہت سالٹر پچر تقسیم اور فروخت کیا جو زیادہ تر کا ویتی زبان میں تھا.اسی دوران آپ کو سمندر کے کنارے ایک جنگل میں ایک مسلمان بھائی اور غریب کسان محمد حسین کے ہاں پانچ راتیں گزارنے کا موقع ملا.اس مخلص دوست نے نہ صرف آپ کی خدمت اور آرام میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی بلکہ آپ کے تبلیغی پروگراموں کو کامیاب بنانے میں دن رات ایک کر دیا.کئی تبلیغی اجتماعات ہوئے اور ایک مرتبہ دور دور سے ہندو اور سکھ کسانوں کو بلا کر ایک کامیاب جلسہ بھی کرایا.آپ کی واپسی سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے اکثر اہل خانہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے.مبلغ احمدیت کو جنگل کے اس دور افتادہ ماحول میں اس کے مکینوں سے شناسائی کیسے ہوئی؟ یہ بھی خدائے عز وجل کی قدرت کا ایک کرشمہ تھا جس کی تفصیل مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے:.اس جزیرہ پر ہمارے اترنے سے کئی سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے اس غریب میزبان کا ایک آٹھ نو سالہ لڑکا کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہو گیا.جب لوکل علاج کارگر نہ ہوا تو وہ اسے بذریعہ سمندری کشتی علاج کے لئے نجی کے دارالحکومت سووا (Suva) لے آئے.شووا میں ان کی کسی سے جان پہچان نہ تھی بندرگاہ سے باہر نکل کر بازار میں اچانک بقول ان کے ایک پگڑی اور اچکن زیب تن کئے ہوئے فرشتہ رو مسلمان پر ان کی نظر پڑ گئی.یہ تھے نجی کے احمد یہ مشن کے پہلے مبلغ انچارج مولانا شیخ عبدالواحد صاحب فاضل.چنانچہ انہوں نے مولانا صاحب سے اپنے بچے کی شدید بیماری اور اپنی کسمپرسی کا ذکر کر کے بصد منت امداد اور راہنمائی کی درخواست کی.مولانا صاحب

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد 27 283 سال 1971ء انہیں شووا (Suva) میں احمد یہ دار التبلیغ میں لے آئے.بچہ کو ہسپتال میں داخل کرا دیا اور اس کے علاج کے اخراجات کے علاوہ ان کی مہمان نوازی بھی تقریباً ایک ماہ تک کرتے رہے اور جماعتی طور پر دعائیں بھی کی گئیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بچہ مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا اور وہ لوگ جماعت کو اور مولانا صاحب کو دعائیں دیتے ہوئے خوشی خوشی اپنے جزیرہ کو لوٹ گئے.وقت گزرتا گیا.۱۹۷۱ء میں اتفاق ایسا ہوا کہ انہیں کے جزیرہ تاو یونی میں اس بیمارلڑکے کی معمر والدہ نے خاکسار اور مولوی محمد صاحب کو اپنے مکان کے قریب سے گذرتے ہوئے دیکھا تو اس نے مجھے مکرم شیخ عبدالواحد صاحب سمجھ کر اپنے گھر بلالیا اور پھر مندرجہ بالا سارا واقعہ سنا کر اصرار کیا کہ ہم ان کے ہاں ٹھہر کر انہیں مہمان نوازی کا موقع دیں اور تبلیغ بھی کریں اور اس طرح اس جزیرہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک نئی جماعت پیدا فرما دی.98 کرہ ارض کو نصف میں تقسیم کرنے والی ڈیٹ لائن اسی جزیرہ سے گذرتی ہے جہاں دونوں طرف تاریخیں مختلف ہوتی ہیں.دوسری دنیا کا دن روزانہ سب سے پہلے اسی جزیرہ میں چڑھتا ہے.اس اعتبار سے یہاں جماعت کا قیام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کی حقانیت کا ایک زبر دست اور ایمان افروز نشان ہے.مارچ میں مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی ”بنی نوع انسان کی موجودہ بے راہ روی اور اس کے علاج کے موضوع پر نجی ریڈیو سے ایک فاضلانہ تقریر نر کی گئی جونی کے طول وعرض میں سنی گئی اور پسند کی گئی.آپ نے جیئن بھائیوں اور بہنوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.,, انگلینڈ کے مسٹر چرچل (Churchill) نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لکھا تھا کہ اگر نسل انسانی اب زمین پر باعزت طور پر باقی رہنا اور تباہی سے بچنا چاہتی ہے تو اس کا صرف اور صرف یہی طریق ہے کہ ہر طاقتور ملک اپنے آپ کو سب سے بڑا اور طاقتور بنانے کے خواب چھوڑ دے اور اس کے لئے تمام کوششیں، ذرائع اور اپنی خود غرضی اور خود پسندی کے جذبات سے خالی ہو کر ہر دوسرے ملک سے تعاون کرے اور تمام دنیا میں ایک مرکزی فیڈرل گورنمنٹ ورلڈ سپر گورنمنٹ کی صورت میں قائم ہو جائے جس کا ہر ملک تابع ہو مگر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی دنیوی نہیں بلکہ کوئی بیرونی ( یعنی خدائی ) مضبوط ہاتھ اس گورنمنٹ کو قائم کرنے اور قائم رکھنے کا بیڑا اٹھائے.کم و بیش یہی الفاظ امریکہ کے سابق پریذیڈنٹ آئزن ہاور (Eisenhower) نے کہے تھے کہ اب نسل انسانی کے

Page 294

تاریخ احمدیت.جلد 27 284 سال 1971ء بچاؤ کی کوئی ممکن صورت سوائے کسی غیر دنیوی بیرونی Super اور Strong ہاتھ کی دخل اندازی کے ہرگز ممکن نہیں“.99 ”ظاہر ہے کہ چرچل اور آئزن ہاور کا مذکورہ بالا بیرونی طاقتور ہاتھ سوائے خدا تعالیٰ کے ہاتھ کے اور کوئی نہیں ہو سکتا.پس اگر ہم چاہتے ہیں کہ بچائے جائیں تو آیئے اپنے خدا اپنے خالق و مالک اور اس وحدہ لا شریک رحیم و کریم ہستی کو راضی کر لیں اور اس کے احکامات کے پابند ہو کر مذہبی زندگی بسر کریں.جب تک انسان اپنے خدا کو راضی نہیں کرے گا اور اس کے حضور توبہ و استغفار سے نہیں جھکے گا خدا تعالیٰ کی خفگی اور اس کا غضب اور قہر دھیما نہیں ہوگا اور عالمگیر تباہی سے دنیا کا بچاؤ ممکن نہیں ہوگا بلکہ الہی نوشتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق تیسری عالمگیر جنگ انسان اور اس کی بھونڈی مادی اور روحانیت سے عاری نئی تہذیب و تمدن کو یکسر تباہ کر کے دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دے گی اور اس تباہی اور ہلاکت سے وہی بچائے جائیں گے جو خدا اور اس کے رسولوں اور ان کی لائی ہوئی صداقتوں کو قبول کر کے اور اس کے ہو کر آپس میں امن و شانتی اور اخلاق سے رہیں گئے.100 دو سال قبل ناندی شہر میں ایک وسیع مسجد ، مشن ہاؤس اور لائبریری کے قیام کے لئے مولوی نور الحق صاحب انور اور بعض دیگر مخلصین جماعت کی کوششوں سے ایک نہایت موزوں قطعہ زمین حاصل کر لی گئی تھی جس پر بعد میں ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب نے مشن ہاؤس کی بنیاد رکھی اور عمارت کا نچلا حصہ یعنی مشنری کوارٹرز کا کام اکتوبر ۱۹۷۰ ء تک ہوتا رہا لیکن چھت چڑھانے کے بعد عمارت کی تعمیر کچھ عرصہ تک معرض التوا میں رہی.اپریل ۱۹۷۱ء میں جماعت احمد یہ نبی کے سالانہ جلسہ کے موقع پر مشن ہاؤس کی تکمیل اور اس پر شاندار مسجد بنانے کے لئے خصوصی مالی تحریک کی گئی جس پر تمام جماعتوں نے والہانہ طور پر قربانی کی.یہی نہیں بلکہ مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری کی تحریک پر نجی کے اولین مبائع احمدی اور ناندی کے لینڈ لارڈ حاجی محمد رمضان صاحب نے جلسہ میں اعلان کر دیا کہ منظور شدہ نقشہ کے مطابق خدا کے گھر کی تعمیر و تکمیل کی سب ذمہ داری وہ اٹھاتے ہیں جس پر ہر طرف سے شکریہ، آفرین اور دعاؤں کی صدائیں بلند ہوئیں اور پھر مئی ۱۹۷۱ء میں بیک وقت نچلی عمارت کی تکمیل اور دوسری منزل پر بیت کا کام پورے جوش و خروش سے شروع ہو گیا اور سال کے آخر تک پوری عمارت ہر طرح سے پایہ تکمیل تک پہنچ گئی.خدا کے گھر کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا اس شاندار عمارت کے جملہ کاموں کی نگرانی اور سب ضروریات مہیا کرنے کی خدمت محبوب یوسف خانصاحب جنرل سیکرٹری

Page 295

تاریخ احمدیت.جلد 27 285 سال 1971ء جماعت نبی نے نہایت احسن رنگ میں انجام دی اور بعض دفعہ اپنے ذاتی کاموں کو ملتوی کر کے بھی بڑی دلچپسی اور محنت سے یہ خدمت بجالاتے رہے.ناندی ،لٹوکا اور مارو کی مخلص جماعتوں کے دیگر مخلصین نے بھی کئی بار اس عمارت کے وقار عمل میں حصہ لیا.محمد جان صاحب پریذیڈنٹ جماعت ناندی اور ان کے افراد خاندان محبوب یوسف خان صاحب کے ساتھ برابر مصروف عمل رہے.محمد جان صاحب نے ساری عمارت کی الیکٹرک وائرنگ اور مشنری کواٹرز کے لئے فرنیچر ، بستر ، چار پائی اور دیگر ضروری اشیاء اپنی فیکٹری سے مفت پیش کیں اور ناندی شہر کی مخلص لجنات نے بیت کے فرش کے لئے لائو کارپٹس اور کچن کا تمام سامان اور لائبریری کے فرش کے لئے خوبصورت ٹائلیں اپنے فنڈ سے مہیا کیں.بیت اقصیٰ چونکہ ایک خوشنما صحت افزاء علاقہ اور ٹیلہ پر واقع ہے اس لئے وہ دور دور سے نظر آتی ہے اور اپنے تین سفید گنبدوں اور چار سفید اور پرشکوہ میناروں کے ساتھ ایسی خوبصورت اور بھلی معلوم ہوتی ہے کہ گو یا مغلیہ دور کی کسی شاہی مسجد کا نمونہ ہے.مسجد اقصیٰ کے علاوہ اس سال اللہ تعالیٰ نے جماعت نبی کو قصبہ مارو کی جماعت کے زیر تعمیر خدا کے گھر کی تکمیل کی توفیق بھی عطا فرمائی.اس کام کا اکثر حصہ جماعت احمد یہ مارو اور دیگر احباب کے وقار عمل سے مکمل ہوا.101 مولوی محمد صدیق صاحب نجی مشن کی سالانہ رپورٹ ۱۹۷۱ء میں اشاعت لٹریچر اور پچاس مقامی پادریوں کی کانفرنس میں پیغام حق پہنچانے کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:.دوران سال پاکستان، انگلستان اور انڈیا سے اسلامی لٹریچر منگوا کر ملک کے طول و عرض میں مختلف ذرائع سے پھیلایا گیا.مرکز کی طرف سے نیا شائع شدہ انگریزی قرآن کریم ، اسلامی اصول کی فلاسفی اور لائف آف محمد صلا ستم اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تیار کردہ قرآن کریم انگریزی ، نجی کی سب بڑی بڑی لائبریریوں میں رکھوایا گیا.اس کے علاوہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی اہم لائبریریوں کو بھی یہ کتب ارسال کی گئیں جو کہ سب لائبریریوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کر کے انہیں اپنی لائبریریوں کی زینت بنایا.رسالہ تحریک جدید ہر ماہ پچاس کی تعداد میں منگوا کر احمدی، غیر احمدی اور لاہوری احباب میں تقسیم کیا جاتا ہے.اسی طرح رسالہ ریویو آف ریلیجز انگریزی یہاں کی تین بڑی لائبریریوں کو ہر ماہ با قاعدہ سپلائی کیا جاتا ہے.رسالہ انصار اللہ بھی زیر تبلیغ دوستوں کو دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد 27 286 سال 1971ء علیہ السلام کی طرف سے ہندوؤں کے نام اسلام کا پیغام لیکچر سیالکوٹ“ کا ہندی میں ترجمہ کر کے ہزاروں کی تعداد میں ہندوؤں میں تقسیم کیا گیا.سووا ، با لٹو کا کے کتب خانوں اور بک شاپوں میں بھی ہم نے اپنا اسلامی لٹریچر انگریزی اور مجمین زبان میں رکھا ہوا ہے جو کہ فروخت ہوتا رہتا ہے.نجی میں تمام دنیا سے ٹورسٹ آتے ہیں اور ہر ہفتہ دو چار بحری جہاز سیاحوں سے بھرے یہاں آتے رہتے ہیں.بعض دفعہ فوجی جہاز بھی آتے ہیں ایسے لوگوں کو پیغام حق پہنچانے کے لئے اپنا انگریزی اور فرنچ لٹریچر بعض جہازوں کے اندر جا کر اور بعض دفعہ باہر کھڑے ہو کر بعد گفتگو تقسیم کیا جاتا رہا ہے.محترم شیخ عبدالواحد صاحب سابق انچارج نجی مشن کا چھپوایا ہوا لوکل نجبین زبان میں اسلامی لٹریچر کافی تعداد میں یہاں موجود ہے.اسلامی اصول کی فلاسفی بھی نجین زبان میں مترجم ہے ایسے پمفلٹ اور کتب لے کر بعض دفعہ وفود کی صورت میں لوکل مجمین آبادی اور ان کے دیہات میں دورے کئے گئے اور ان میں لٹریچر تقسیم کرنے کے علاوہ گھنٹوں ان سے زبانی گفتگو اور تبلیغ کی جاتی رہی ہے.اس کے علاوہ نبی کے یوم آزادی کے موقع پر نجی گورنمنٹ اور پولیٹیکل پارٹیوں کے سرکردہ لیڈروں کو مبارک باد کے ساتھ قرآن کریم اور اسلام پر مختلف کتب تحفہ پیش کر کے انہیں تبلیغ کی گئی.جولائی ۱۹۷۱ء میں ساؤتھ پیسیفک کے سب جزائر کے میتھوڈسٹ لوکل اور سفید پادریوں کی ایک اہم کا نفرنس سووا میں ہوئی.اس موقع پر خاکسار ( مراد مولوی محمد صدیق صاحب ) اور مکرم مولوی محمد لال ٹوپی صاحب نے لوکل پادریوں کی رہائش گاہ پر جا کر انہیں اسلام کے متعلق زبانی ضروری معلومات بہم پہنچا ئیں اور گفتگو شروع ہونے پر پچاس ساٹھ پادریوں کی موجودگی میں اسلام اور عیسائیت کی تعلیم کا موازنہ کر کے ان پر اسلامی تعلیم کی برتری ثابت کی گئی.ان میں سے اکثر کو اسلام کے نام کے سوا ہمارے دین کے متعلق کچھ علم نہ تھا.چنانچہ انہی کی درخواست پر ان سب میں محبین اور انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر بھی تقسیم کیا اور اپنے مرکز کا پتہ بھی اکثر کو دیا گیا.102 نومبر ۱۹۷۱ء میں جزائر ٹونگا کے بادشاہ جونجی میں قائم شدہ جنوبی بحر اوقیانوس کے جزائر کی واحد یونیورسٹی کے اعزازی چانسلر تھے یونیورسٹی کی تقریب تقسیم اسناد میں تشریف لائے ان کے چچا سر ایڈورڈ کا کو باؤ(Edward Cakobau) نائب وزیر اعظم نجی ، جماعت احمدیہ کے ایک مخلص اور مخیر دوست محمد شمس الدین صاحب کے سکول فیلو اور کرکٹ فیلو تھے، جن کے ذریعہ شاہ ٹونگانے جماعت احمد یہ نبی سے ملاقات منظور کی جس پر اسی روز مولا نا محمد صدیق صاحب امرتسری نے وفد کے

Page 297

تاریخ احمدیت.جلد 27 287 سال 1971ء دوسرے ارکان کے ساتھ شام پانچ بجے ملاقات کی.ان کی خدمت میں جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا جس میں انہیں خوش آمدید کہنے کے علاوہ اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا اور آخر میں قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی کتابیں بطور تحفہ پیش کی گئیں.شاہ ٹونگا نے کھڑے ہو کر قرآن کریم وصول کرنے کے بعد ایڈریس کے جواب میں شکریہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ:.”میرا ملک صد فیصد عیسائی ہے میں بھی پیدائشی عیسائی ہوں میں نے اس سے پہلے کبھی قرآن کریم دیکھا تک نہیں تھا نہ اسلام سے مجھے تعارف تھا.آپ نے یہ تقریب پیدا کر کے مجھے اس مذہب سے متعارف کرایا ہے جو میری والدہ کی قوم کا صدیوں سے مذہب چلا آتا ہے.میری والدہ انڈو نیشین نسل سے ہیں.آپ کی طرف سے پیش کردہ قرآن کریم اور کتب کا ضرور مطالعہ کروں گا.آپ نے ایک عظیم روحانی خزانہ مجھے عطا کیا ہے آپ لوگ بڑے شکریہ کے مستحق ہیں“.دوسرے روز لوکل اخباروں میں اس تقریب کی تصاویر کے علاوہ تمام روداد بھی شائع ہوئی اور ریڈیو پر بھی یہ خبر نشر کی گئی.اس کے ایک ہفتہ بعد احمد یہ وفد نے شاہ ٹونگا کے چچا سر ایڈورڈ کا کو باؤ کا دوباره شکر یہ ادا کر کے انہیں بھی قرآن کریم پیش کیا.108 اس ملاقات کی رپورٹ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں پہنچی تو حضور نے اظہار خوشنودی فرمایا ، دعا دی اور یہ ہدایت بھی فرمائی کہ بادشاہ سے لے کر ادنیٰ سے ادنی انسان تک دن رات اسلام کا پیغام پہنچا ئیں.حضور کے اس ارشاد کے بعد مولوی محمد صدیق صاحب نے ملک میں ایک خاص تبلیغی مہم جاری کی اور مارکیٹ میں تین چار احمدی سٹالوں کے علاوہ ٹیکسیوں اور بسوں میں بھی جماعتی لٹریچر بغرض تقسیم رکھوا دیا حتی کہ مسجد اور مشن ہاوس کے فلش پٹ اور کمپاؤنڈ کی صفائی کرنے والے مزدوروں کی بھی چائے سے تواضع کر کے انہیں پیغام حق پہنچایا گیا.یہاں تک کہ بعد میں وہ غریب بجمین باشندے نجبین زبان میں شائع شدہ لٹریچر خود طلب کرنے لگے.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستانی مبلغین اور مخلصین جماعت کی کوششوں سے ۱۳۰ را حباب داخل احمدیت ہوئے جن میں سے ۱۳ / ا حباب عیسائیت اور ہندومت کو چھوڑ کر اسلام کے نور سے منور ہوئے.104 سال ۱۹۷۱ء میں جماعت احمد یہ نبی کو اللہ تعالیٰ نے ایک پرنٹنگ مشین اور اس کے دیگر لوازمات

Page 298

تاریخ احمدیت.جلد 27 288 سال 1971ء خرید کرا پنا پر لیس قائم کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائی جس پر انگریزی اور ہندی زبان میں قریباً تین چار ہزار پمفلٹ چھاپے گئے.كينيا کینیا یونائیٹڈ کلب نیروبی کے اونچے طبقہ سے تعلق رکھتی ہے.پہلے اس کے ممبر صرف انگریز ہی ہو سکتے تھے مگر ۱۲ دسمبر ۱۹۶۳ء کو کینیا نے آزادی حاصل کر لی جس کے بعد اس کے دروازے دوسرے لوگوں کے لئے بھی کھول دیئے گئے گو اب بھی ممبروں کی اکثریت یورپین ہی کی رہی.۱۷ فروری ۱۹۷۱ء کو اس کلب کی طرف سے کینیا کے امیر ومشنری انچارج مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق کو اسلام میں فرقہ پرستی (Sectarianism in Islam) کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے مدعو کیا گیا.کلب کی طرف سے اس موقع پر دیئے جانے والے لنچ کے بعد یہ تقریر شروع ہوئی جو کہ نصف گھنٹہ تک جاری رہی.تقریر کے دوران تین سو کے اجتماع میں مکمل خاموشی اور سکوت کا عالم تھا.تقریر کے آخری حصہ میں احمدیت کا ذکر تھا.بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے دعاوی وغیرہ کا تذکرہ بھی شامل تھا نیز خلافت احمدیہ کے بارے میں بھی مختصراً کہا گیا.تقریر کے اختتام پر دوسروں کو تقریر کے بارے میں کچھ کہنے کا موقع دیا گیا جس پر ایک نے کہا کہ اس تقریر سے ہمیں بہت سی نئی باتیں معلوم ہوئی ہیں.سامعین میں یہاں کے تمام انگریزی و سواحیلی زبان کے اخباروں اور رسالوں کے مدیر یا نمائندگان شامل تھے.بعد میں ایک صاحب نے تعدد ازدواج اور حرمت لحم خنزیر کے بارہ میں استفسارات کئے جن کے تسلی بخش جوابات آپ نے دیئے.سامعین میں ایک بہائی انگریز خاتون بھی تھیں جنہوں نے کہا کہ ”میں نے نہایت غور سے ساری تقریر سنی ہے پر از معلومات ہے اور مجھے بہت پسند آئی ہے.66 کینیا میں مسجد کا افتتاح کینیا کے مغربی صوبہ میں مارا گولی کے مقام پر جماعت احمدیہ کو ایک مسجد بنانے کی توفیق ملی.اس کا افتتاح ۱/۲۵ پریل ۱۹۷۱ء کو مکرم جمیل الرحمان صاحب رفیق مشنری انچارج کینیا نے کیا.۲۰۰ کے قریب غیر مسلم اور ۵۰ کی تعداد میں احمدی احباب حاضر ہوئے.اس موقعہ پر جماعت کے مختلف مشنوں کے کاموں کی تصاویر کی نمائش بھی کی گئی.

Page 299

تاریخ احمدیت.جلد 27 289 سال 1971ء مئی کو ٹیچرز ٹرینگ کالج نیروبی کی ریلیچن سوسائٹی کے زیر اہتمام مولانا جمیل الرحمن رفیق صاحب نے تہذیب اسلامی (Islamic Culture) کے موضوع پر لیکچر دیا.سبھی حاضرین افریقن تھے.لیکچر کے بعد آپ نے عورت کی اسلام میں حیثیت ، تعد دازدواج وغیرہ اہم سوالات کے جوابات دیئے.یہ تقریب بھی بہت مفید رہی.106 اگست کے آخری ہفتہ میں آپ ممباسہ میں ساحلی علاقہ کے دورہ کے لئے تشریف لے گئے.یہ دورہ تقریباً دو ہفتے تک جاری رہا.سب سے پہلے آپ نے ممباسہ شو کے احمد یہ سٹال میں شرکت کی اس کا افتتاح کینیا کے صدر مملکت مسٹر جو مو کنیا ٹا (Jomo Kenyatta) نے کیا تھا.احمد یہ سٹال میں قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کے علاوہ سلسلہ کا لٹریچر نہایت عمدہ ترتیب اور قرینے سے رکھا گیا تھا.احمدی رسائل خاص بورڈ پر آویزاں تھے اور مختلف مشنوں کی دینی مساعی کو تصویر کے ذریعہ دکھایا گیا تھا.کفن مسیح سے متعلق ریسرچ کی یادگار تصاویر ایک الگ بورڈ پر چسپاں تھیں جن کے اوپر جلی الفاظ میں انگریزی زبان میں لکھا تھا حضرت عیسی علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ کشمیر میں طبعی وفات پائی.درمیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک آویزاں تھی اور اس کے نیچے درج تھا مسیح بعثت ثانیہ میں.احمد یہ سٹال کے ذریعہ زبانی تبلیغ کے علاوہ انگریزی اور سواحیلی زبانوں کے پمفلٹ ہزاروں کی تعداد میں تقسیم کئے گئے.اسی طرح انگریزی اور سواحیلی ماہوار اخبار بھی سینکڑوں کی تعداد میں مطالعہ کے لئے دیئے گئے.سات سو شلنگ کے قریب کتب فروخت ہوئیں.احمد یہ سٹال کے بعد ممباسہ ٹاؤن اور اس کے ماحول میں رئیسی (Ramisi)، کوالے (Kwale) میں نہایت کامیاب جلسے منعقد ہوئے.رمیسی (Ramisi) میں ابھی جماعت قائم نہیں ہوئی تھی.مولوی محمد عیسی صاحب نے نہایت محنت اور تندہی سے یہاں کی شوگر مل کے مینیجر صاحب سے اجازت حاصل کر کے پرائمری سکول کے احاطہ میں جلسہ کا انتظام کیا اور ایک مقامی دوست سے مل کر جلسہ کی اطلاع عوام تک پہنچائی.مولوی محمد عیسی صاحب اپنے ہمراہ سائیکلوسٹائل کر کے اشتہارات بھی لے گئے تھے جو اس موقع پر انہوں نے تقسیم کئے.جلسہ کی صدارت کے لئے مینیجر صاحب سے ہی درخواست کی جو انہوں نے منظور کر لی.خدا کے فضل سے حاضری توقع سے بڑھ کر تھی.مولانا جمیل الرحمن رفیق صاحب نے ایک گھنٹہ تک تقریر کی.بعد ازاں سوالوں کے جوابات دیئے.

Page 300

تاریخ احمدیت.جلد 27 290 سال 1971ء کوالے(Kwale) میں مقامی احمدی معلم صاحب نے مولوی محمد عیسی صاحب کی ہدایت اور نگرانی میں جلسے کا انتظام کیا اور ڈسٹرکٹ ویلفیئر آفیسر کی صدارت میں مولوی صاحب موصوف نے سواحیلی زبان میں تقریر کی جسے سامعین نے نہایت توجہ سے سنا.بعد میں سوال و جواب کا سلسلہ بھی نہایت دلچسپ رہا.صاحب صدر نے فرمایا کہ اس نوع کی تقریر سے غیر مذاہب والوں کو دوسروں کے خیالات سنے کا موقع ملتا ہے اور غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں.مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق اس تقریب کی مزید تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.نیروبی سے پندرہ میل کے فاصلہ پر (Sisal Estate) بنام Ruwai ہے جہاں اکثر اوقات جا کر تبلیغ کا موقعہ ملتا رہا.اس جگہ دو چرچ ہیں خدا کے فضل سے دونوں ہی میں خاکسار کو سواحیلی میں اسلام کی حقانیت کے موضوع پر تقاریر کا موقع ملا.خاکسار کے ساتھ مکرم کا کو ایا صاحب نے بھی تقاریر کیں.یہ دوست مخلص احمدی ہیں جو کہ Digo قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں.وزارت تعلیم میں ایجو کیشن آفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں.ہماری تقاریر کے بعد پادری صاحب نے درخواست کی کہ حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیئے جائیں.یہ تو ہمارے لئے سنہری موقع تھا ہم نے کہا کہ ضرور سوالات پوچھئے.چنانچہ پادری صاحب اور حاضرین نے متعدد سوالات دریافت کئے جن کے جواب بالعموم بائبل ہی سے دیئے گئے.آخر میں پادری صاحب کی اجازت سے ہم نے تمام حاضرین کو مع پادری صاحب اپنے سواحیلی اخبارات دیئے جو انہوں نے خوشی سے قبول کئے.آخر میں پادری صاحب نے کہا کہ آج ہم نے اسلام کے بارہ میں بہت کچھ سنا ہے ہمارے ذہنوں میں اسلام کے بارہ میں بالکل مختلف نقشہ تھا“.107 ممباسہ ٹاؤن میں جلسہ کا انعقاد میونسپل ہال میں کیا گیا.اس جلسہ کی اطلاع مولوی محمد عیسی صاحب نے بذریعہ ملاقات زیر تبلیغ احباب کو قبل از وقت کر دی تھی.علاوہ ازیں بکثرت اشتہارات بھی تقسیم کئے.مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے قرآن کریم کی پیشگوئیاں کے زیر عنوان ایک گھنٹہ تک نہایت مؤثر خطاب کیا.صاحب صدر مسٹر محمد شیلو ویلفیئر آفیسر پورٹ ٹرسٹ نے اپنی صدارتی تقریر میں اس خطاب کو سراہا.مولا نا جمیل الرحمن صاحب رفیق کینیا کے ساحلی علاقہ کا کامیاب دورہ کرنے کے بعد ے ستمبر کو

Page 301

تاریخ احمدیت.جلد 27 291 سال 1971ء صوبہ کے دوسرے علاقہ ٹاویٹا میں پہنچے جہاں ان دنوں مولانا بشیر احمد صاحب اختر بطور مبلغ متعین تھے.108 اگلے روز ۸ ستمبر کو اور 9 ستمبر کو ماہو ( Mahoo) کے پرائمری سکولوں میں آپ کی تقاریر ہوئیں.۱۲ ستمبر کا دن اس علاقہ کی جماعتوں کے لئے عید کا دن تھا کیونکہ اس دن ایلڈورو (Eldoro) کی سب سے پہلی مسجد کا افتتاح تھا.یہاں عرصہ دراز سے کیتھولک مشن قائم تھا مولوی بشیر احمد صاحب اختر کی تحریک اور سکیم کے مطابق مئی ۱۹۷۰ء میں تعمیر شروع ہوئی اور دسمبر کے آخر میں ایک اچھی عمارت بن کر تیار ہو گئی.اتنی تھوڑی مدت میں اور پھر وافر ذرائع نہ ہونے کے باوجود خدا کے گھر کا بن جانا نصرت الہی کا ایک نشان تھا.بعض مخالفین نے کھلم کھلا مخالفت کی اور رکاوٹیں ڈالیں مگر اس کے با وجود خدا کا گھر بن گیا اور اس کی تعمیر کے لئے نیروبی، ممباسہ اور ایلڈوریٹ (Eldoret) کے مخیر احمدی احباب نے اس کی تعمیر میں دل کھول کر حصہ لیا.کینیا میں جماعت کی یہ دوسری مسجد تھی جس کا افتتاح ۱۹۷۱ء میں ہوا.قبل ازیں اسی سال ماہ اپریل میں مسجد مارا گولی کا افتتاح عمل میں آیا تھا.ایلڈورو میں خدا کے گھر کے افتتاح کی تقریب میں تلاوت و نظم کے بعد مولانا محمد منور صاحب انچارج مشن تنزانیہ کا پیغام عثمانی گا گور یا صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ نیروبی نے پڑھ کر سنایا.بعد ازاں مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے نہایت مؤثر اور دلنشین پیرایہ میں سواحیلی زبان میں افتتاحی تقریر کی جس کا سامعین پر بہت اچھا اثر ہوا.آخر میں مولانا بشیر احمد صاحب نے شکریہ ادا کیا.پھر مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے مسجد کے دروازہ کے قریب جا کر اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ ایلڈورو جمعہ رمضانی صاحب نے مولانا صاحب کی خدمت میں مسجد کی چابی پیش کی اور آپ نے تالا کھولا.اس طرح خدا کے حضور دعاؤں کے ساتھ اس مسجد کا افتتاح عمل میں آیا.سارا پروگرام سواحیلی زبان میں تھا جور ریکارڈ کیا گیا.پروگرام شروع سے لے کر آخر تک بڑی توجہ اور انہماک سے سنا گیا.خصوصاً مولانا صاحب کی تقریر.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ مقرر کے علاوہ اور کوئی جلسہ گاہ میں موجود ہی نہیں.حاضرین کی تعداد قریباً ۱۷۰ تھی.شامل ہونے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے.چیف، سب چیف ایگریکلچرل آفیسرز، پوسٹ آفس کا عملہ سکول کے اساتذہ اور دیگر معززین شہر.ظہر وعصر کی نمازوں کی ادائیگی کے بعد تمام حاضرین کو دو پہر کا کھانا پیش کیا گیا.حاضرین اس تقریب سے

Page 302

تاریخ احمدیت.جلد 27 292 سال 1971ء بہت خوش اور متاثر ہوئے.اس تقریب کی تصاویر اس ملک کے کثیر الاشاعت اخبار ڈیلی نیشن (Daily Nation) میں شائع ہوئیں.109 ۵ اکتوبر کو نیروبی کے ایک بہت ہی مشہور و معروف لونگٹن (Lavington) چرچ کے انگریز پادری Rev.John Myer صاحب نے ٹیلیفون کے ذریعے اسلام پر تقریر کرنے کی دعوت دی.انہوں نے کہا کہ تیس چالیس افراد کی ہماری ایک سوسائٹی ہے جس کے ممبران اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر تاحال ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو کہ انگریزی میں اس موضوع پر تقریر کرے.مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے دعوت کو قبول کر لیا چنانچہ ڈنر کے بعد پادری صاحب کے گھر کے بڑے کمرے میں رات کے سوا آٹھ بجے آپ نے اسلام کے موضوع پر تقریر کی.حاضرین تیس کے قریب تھے جن میں سے صرف تین افریقن اور باقی سب یوروپین تھے.حاضرین میں ڈاکٹر ز ، پروفیسر ز اور مجسٹریٹ بھی شامل تھے.خدا کے فضل سے گھنٹہ بھر حاضرین نے نہایت توجہ سے آپ کے لیکچر کو نا بعد میں سوا گھنٹہ تک طرح طرح کے سوالات دریافت کئے جن کے جوابات آپ نے دیئے.ایک موقع پر جب آپ نے مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے بارہ میں کہا کہ آجکل میڈیکل سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ بعض عورتیں جن میں مذکر و مؤنث دونوں خاصیتیں ہوتی ہیں خاص حالات میں بغیر مرد کے بچہ جن سکتی ہیں تو اس پر سامنے بیٹھے ہوئے انگریز ڈاکٹر کی بیوی نے آہستگی سے اپنے خاوند سے پوچھا کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟ تو ڈاکٹر صاحب نے اسے جواب دیا کہ ”ہاں“.یہ تقریب خدا کے فضل سے نہایت درجہ کامیاب رہی.ایسے لگتا تھا کہ مجلس پر اسلام کا رعب چھایا ہوا ہے.آخر میں پادری صاحب نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں آپ کے حوصلے کی داد دیتا ہوں کہ آپ باوجود اس کے کہ اپنے مخالف عقیدہ رکھنے والوں میں گھرے ہوئے تھے پھر بھی روانی کے ساتھ بلا جھجک گفتگو کرتے چلے گئے.مولوی صاحب نے شکریہ ادا کیا اور فرمایا کہ جب حق ہی کہنا ہے تو اس میں جھجنے کی کیا بات ہے اور یہ کہ ایسی مجالس میں ہم اکثر جاتے ہیں یہ کوئی نئی بات ہمارے لئے 110.اس سال کے آخر میں کینیا مشن کی مساعی عروج پر پہنچ گئیں جب مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق نے صوبہ نیا نزا کا دس روزہ تبلیغی و تربیتی دورہ کیا جس کے دوران چار نہایت کامیاب پبلک لیکچر

Page 303

تاریخ احمدیت.جلد 27 293 سال 1971ء دیئے.دونئی مساجد کا افتتاح کیا.آپ ۳۰ دسمبر ۱۹۷۱ ء کو نیروبی سے کسوموں تشریف لے گئے.۳۱ دسمبر کو آپ مٹاوا (Matawa) میں پہنچے یہاں ایک سال قبل مولوی منیر الدین احمد صاحب کے ذریعہ ایک نئی مخلص جماعت قائم ہوئی تھی اور جماعت کی اپنی ایک مسجد بھی ان دنوں زیر تعمیر تھی.احباب جماعت نے مولوی صاحب کا پر جوش اور پر خلوص خیر مقدم کیا.بہت سے عیسائی دوست بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے قبائلی طریق پر بگل بجا کر آپ کو خوش آمدید کہا.مولوی صاحب نے پہلے پونے دو گھنٹے تک سواحیلی میں خطبہ جمعہ دیا جس میں اسلامی مساجد کی غرض و غایت ، موازنہ اسلام و عیسائیت اور اسلامی تعلیم کی برتری پر عمدہ رنگ میں روشنی ڈالی نیز مخصوص عیسائی عقائد کا از روئے بائبل ابطال کیا.نماز جمعہ و عصر کے بعد سوا گھنٹے تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.آپ نے اچھوتے اور مؤثر انداز میں جوابات دیئے.بعض پادری صاحبان اور سکولوں کے معزز اساتذہ نے آپ کا شکر یہ ادا کیا کہ انہیں اسلام کے بارے میں نہایت عمدہ معلومات پہنچائی گئی ہیں.اس کامیاب تقریب میں حاضرین کی تعداد چار سو سے زیادہ تھی.دس دوستوں نے سلسلہ احمدیت میں شمولیت اختیار کی.اگلے روز ۲ جنوری (۱۹۷۲ء) کو آپ نے جبروک (Jabruk) کی مسجد احمدیہ کا افتتاح کیا اور اپنی پر مغز اور پُر از معلومات تقریر کے پہلے حصہ میں آپ نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں ان کے مذہب کے طریق کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت عطا فرمائی.اس تاریخی واقعہ کو بیان کرنے کے بعد آپ نے بائبل سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا اور نہایت لطیف اور دلکش پیرائے میں ثابت کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن اور تعلیم صرف بنی اسرائیل تک محدود تھی اب صرف اسلامی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو سکتا ہے اور جامع اور کامل ہونے کے لحاظ سے اس کا دائرہ قیامت تک ممتد ہے.آپ کی تقریر نہایت دلچسپی اور انہماک سے سنی گئی.سامعین کی تعداد ساڑھے چارسو سے زائد تھی جن میں اس علاقہ کے چیف، سب چیف اور کینیا کی برسر اقتدار پارٹی کا نو (KANU) کا ایریا چیئر مین خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ان سب معززین نے اپنی مختصر تقاریر میں اسلام کے بارے میں احسن اور دلکش پیرایہ میں معلومات بہم پہنچانے پر مولوی صاحب کا شکر یہ ادا کیا.چیف نے اپنی تقریر میں احمدیہ جماعت کی تبلیغی مساعی اور خانہ خدا کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بیان کیا کہ احمدی

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد 27 294 سال 1971ء مبلغ کی تقریر سن کر زندگی میں پہلی دفعہ مجھے علم ہوا کہ اسلام امن و صلح کا مذہب ہے اور تمام انبیاء پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیتا ہے نیز کہا کہ معزز مہمان نے اسلام کے خلاف پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا بڑی عمدگی سے ازالہ کیا ہے اور میں جماعت احمدیہ کے مبلغین سے درخواست کروں گا کہ وہ ایسے جلسے بار بار کریں اور صرف ایک مسجد نہیں بلکہ اس علاقہ میں کئی مساجد بنائیں.جلسہ کی کارروائی ختم ہونے پر تمام حاضرین مسجد کے دروازہ کے پاس جمع ہوئے.مولوی صاحب نے لمبی دعا کے بعد تالا کھول کر مسجد کا افتتاح کیا.اذان کے بعد ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھا ئیں بعد میں تمام مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا.مسجد کی افتتاحی تقریب میں کسوموں مشن کی تمام احمدی جماعتوں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی.۴ جنوری (۱۹۷۲ء) کو کسوموں سے چالیس میل کے فاصلہ پر اسیمبو بے(Asembo Bay) کے علاقہ میں کہا نجو ( Kahunje) کی جماعت میں جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے سواحیلی زبان میں خطاب کیا جس کا ترجمہ مقامی معلم حسن رشیدی صاحب نے ( جولو د قبیلے سے تعلق رکھتے تھے اور بہت محنت اور اخلاص سے تبلیغی جہاد میں مصروف تھے ) لوکل قبیلہ (Luo) کی زبان Kiluo میں ساتھ ساتھ کیا.بعد میں نہایت مؤثر انداز میں عیسائی دوستوں کے سوالوں کے جوابات دیئے.یہ سارا پروگرام اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا.نماز ظہر و عصر ادا کرنے کے بعد مقامی جماعت کی طرف سے تمام مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا.ایک احمدی خاتون نے مہمان نوازی کے لئے اپنی طرف سے ایک گائے ذبح کی تھی اس موقع پر ایک نوجوان عیسائی نے قبول اسلام کیا.ے جنوری کو کسوموں سے ۱۲۰ میل کے فاصلے پر مٹاوا (Matawa) میں خطبہ جمعہ اور خدا کے گھر کی افتتاحی تقریب کا اکٹھا ہی پروگرام تھا اس موقع پر بھی آپ نے خطبہ جمعہ کے بعد خدا کے گھر کا افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہاں بلا تمیز رنگ ونسل اور مذہب ہر شخص کو داخل ہونے کی اجازت ہے اور اس وقت بھی جو عیسائی دوست اندر آنا چاہیں وہ آسکتے ہیں.اس پر چند عیسائی دوست کرسیوں سے اٹھ کر اندر تقریر سننے کے لئے چلے آئے اس کے بعد آپ نے پہلے احمدیت کے خلاف پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا جواب دے کر بتایا کہ احمد یہ جماعت ہی کے عقائد اس وقت صحیح اسلامی عقائد ہیں جن کی بنیاد قرآن مجید، سنت اور حدیث پر مبنی ہے.پھر آپ نے عیسائیت کے بارے میں بائبل سے الوہیت مسیح، کفارہ معجزات مسیح اور ابن اللہ کہلانے کا تنقیدی جائزہ لے کر بتایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح خدا کے ایک

Page 305

تاریخ احمدیت.جلد 27 295 سال 1971ء برگزیدہ رسول تھے جو صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.جمعہ و عصر کی نماز میں ادا کرنے کے بعد ایک گھنٹہ تک سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہا.مولوی صاحب نے خدا کے فضل سے بڑے شافی و وافی جواب دے کر ہر سوال کرنے والے کو مطمئن کر دیا.خدا کے فضل سے یہ تقریب بھی نہایت کامیاب ہوئی جس کے بعد آپ ایلڈوریٹ آگئے اور بخیریت ۸ جنوری کو نیروبی پہنچ گئے.گیمبیا 111.مولا نا محمد شریف صاحب امیر و مبلغ انچارج گیمبیا کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۱ء کا سال جماعت احمد یہ گیمبیا کے لئے خدا کے فضل و کرم سے حسب سابق ترقی اور کامیابی کا سال تھا.112 اس سال کے آغاز میں جماعت گیمبیا کے ایک مخلص رکن جناب ایم اے سونکو ملکی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوئے.113 ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ء کو جماعت احمد یہ گیمبیا کے ایک وفد نے مولا نا محمد شریف صاحب کی سرکردگی میں سرداؤدا جوارا صدر گیمبیا سے ملاقات کی.وفد میں مسٹر ایم اے سوہن پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گیمبیا، مسٹر ٹی بی خون جنرل سیکرٹری اور ڈاکٹر انوار احمد صاحب شامل تھے.مولانا صاحب نے ڈاکٹر صاحب موصوف کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کے وعدہ کے مطابق جو حضور نے ۱۹۷۰ء کے دورہ کے دوران فرمایا تھا دوسپیشلسٹ ڈاکٹر گیمبیا پہنچ گئے ہیں اور مصروف عمل ہیں.دوران ملاقات نصرت ہائی سکول بانجل کے قیام کا بھی ذکر ہوا.صدر مملکت نے جماعت احمدیہ کی تعلیمی اور طبی مساعی پر خوشی کا اظہار کیا اور ان خدمات کو سراہا جو احمد یہ مشن ارض بلال کے مظلوم باشندوں کی خدمت کے لئے انجام دے رہا ہے.مولانا صاحب نے آخر میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طرف سے پاکستانی قراقلی ٹوپی کا ایک تحفہ صدرمملکت کی خدمت میں پیش کیا جس کو انہوں نے بخوشی قبول فرما یا اور شکر یہ ادا کیا.114 ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ء کوعید الفطر کی مبارک تقریب تھی اس روز مولانا صاحب نے صدر مملکت گیمبیا سے ملاقات کی جس کا ذکر ۲۷ نومبر کو ریڈیو گیمبیا نے نشر کیا.۶ دسمبر ۱۹۷۱ ء کو مولانا صاحب نے احباب جماعت کے ساتھ احمد یہ ڈینٹل یونٹ کا با قاعدہ افتتاح کیا.۳۰ نومبر کوڈکار (سینیگال) سے سائمن کمپنی کا نمائندہ الیکٹریشن اسے نصب کرنے کے لئے آیا تھا اور ۴ دسمبر کو اس کی تکمیل ہوئی تھی.

Page 306

تاریخ احمدیت.جلد 27 296 سال 1971ء مولانا صاحب کی ایک مطبوعہ رپورٹ کے مطابق سال کے آخر میں احمدی میڈیکل سنٹروں کے لئے متعلقہ اضلاع کے کمشنر صاحبان نے مناسب جگہیں جماعت کو دے دیں اس سلسلہ میں 11 نومبر کو درخواستیں دی گئی تھیں جو منظور ہو گئیں.علاوہ ازیں ویسٹرن ڈویژن کے کمشنر صاحب کی طرف سے گنجور کی زمین (۲۵۰ ۲۵۰ فٹ) کی لیز (Lease) کے کاغذات بھی دستخطوں کے لئے آپ کو مل گئے.سال کے آخر میں (نومبر و دسمبر کے دوران) سابا (Saba) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک نئی جماعت معرضِ وجود میں آئی اور ۱۶ / احباب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.115 ماریشس اس سال عید الاضحیہ کی مبارک تقریب ماریشس کی تمام جماعت ہائے احمدیہ نے پورے اہتمام سے منائی.اگر چہ عید کے دن موسم خراب تھا اور احباب کے لئے بارش کے سبب مرکزی مسجد دار السلام میں آنا مشکل تھا لیکن پھر بھی احباب دور دور کے علاقہ سے بکثرت عید پڑھنے کے لئے تشریف لائے.اس دفعہ عید کے موقع پر جماعت احمد یہ روزہل نے ایک ہزار سے زائد احباب کا کھانا تیار کیا تھا چنانچہ نما زعید کے بعد کثیر احباب اور مستورات نے دو پہر کا کھا نا ہال اور کالج کے کمروں میں کھایا.اس دفعہ مشن ہاؤس میں معززین ملک کے اعزاز میں ظہرانے کا پروگرام بھی تھا.جس میں ماریشس کی اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا.دعوت میں تقریباً ۲۵ مہمانوں نے شرکت کی جن میں ایک ملک کی سفیر، روز ہل کے میر محترم Jean Henry Ythier، قوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے نمائندہ مکرم صالح آف ترکی ، سیکرٹری منسٹری آف لیبر مکرم پانی، گورنمنٹ آف ماریشس کے ویٹرنری ایڈوائزر ڈاکٹر شجاع، سپرنٹنڈنٹ پولیس روز ہل اور انٹر ریجس کمیٹی ماریشس کے سیکرٹری مکرم رو بیارڈ Robillard شامل تھے.116 اس سے قبل عید الفطر ( دسمبر ۱۹۷۰ء) کی تقریب بھی جماعت ہائے احمد یہ ماریشس نے پورے اہتمام اور جوش و خروش کے ساتھ منائی.مسجد دار السلام روز ہل کے علاوہ پانچ دیگر احمد یہ مساجد یعنی مسجد فضل فینکس ،مسجد مبارک مونتا ئمیں بلانش ، مسجد رضوان سینٹ پیری (Saint-Pierre) مسجد نور پائی، اور مسجد احمد یہ تریولے میں بھی باقاعدہ طور پر عید کے اجتماعات ہوئے.تمام مساجد میں وقار

Page 307

تاریخ احمدیت.جلد 27 297 سال 1971ء عمل کے ذریعہ خدام نے صفائی کا خاص ہفتہ منایا.عید کی مناسبت سے تبلیغی عید کارڈ بھی چھپوائے گئے اور تمام اراکین حکومت اور مذہبی شخصیات اور زیر تبلیغ احباب کو بھجوائے گئے.متعدد بڑی شخصیتوں نے اس کے جواب میں تہنیت کے پیغامات بھیجے.جن میں امریکی سفیر مسٹر W.D.Brewer، گورنر بینک آف ماریشس مسٹر بیما دھر اور بشپ آف پورٹ لوئیس شامل تھے.عید کے موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے عید مبارک کا دعائیہ برقی پیغام بھجوایا جسے جماعتوں میں خطبات عید سے قبل سنایا گیا.117 قریشی محمد اسلم صاحب انچارج مشن اور ان کے نائب مولوی صدیق احمد صاحب منور ، جلسوں کے انعقاد لٹریچر کی تقسیم ، دینی کتب کی نمائش ، سرکاری تقاریب میں شرکت اور دیگر ہر ممکن ذرائع سے ملک کے طول و عرض میں حق و صداقت پھیلانے میں سرگرم عمل رہے.ماریشس کے مخلص احمدیوں نے مسجد تریولے کی تعمیر میں پر جوش حصہ لیا چنانچہ ۲ مئی ۱۹۷۱ء کو وقار عمل کے ذریعہ سے اس کا لیٹل ڈالا گیا اور ۲۳ مئی کو وقار عمل کے ذریعہ سے قالب کھولا گیا.یہ منصوبہ جماعت کے حوصلہ اور جذ بہ قربانی و اخلاص میں اضافہ کا موجب بنا.ماہ مئی کی مختلف تاریخوں میں روز ہل (۱۰) مئی) فینیکس Vacoas-Phoenix (۱۴مئی)، پائی پورٹ لوئس Pailles Port Louis (۱۵ مئی) ، سینٹ پیری Saint-Pierre (۱۷مئی)، تریولے Triolet (۲۱ مئی) اور مونتا ئیں بلانش Montagne Blanche (۲۲ مئی) میں سیرت النبی صلی ا ستم کے جلسے منعقد ہوئے.روزہل کے جلسہ سے علاوہ مرکزی مبشرین کے ایک معزز اہل علم ہند و دوست جناب جے نرائن رائے نے بھی تقریر کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور خراج عقیدت پیش کیا.صدارتی تقریر احمد ید اللہ صاحب بھنونے کی.عین دوران جلسہ، ربوہ سے جناب رشید حسین صاحب بی ایس سی ایم ایڈ (پرنسپل احمدیہ سیکنڈری سکول ماریشس ) مشن ہاؤس میں تشریف لائے.اس موقعہ پر انہوں نے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا یہ پیغام مخلصین جماعت تک پہنچایا کہ ”جب میں ماریشس آؤں تو وہاں احمدیوں کی کثرت ہونی چاہیے اور اس کے لئے سب کو کام کام اور کام کرنا چاہیے“

Page 308

تاریخ احمدیت.جلد 27 298 سال 1971ء اس پیغام سے احباب میں نہایت درجہ خوشی اور جوش کی لہر دوڑ گئی اور جلسے کا ماحول پہلے سے زیادہ خوشگوار ہو گیا.جناب رشید حسین صاحب اپنے ساتھ حضور کے دورہ مغربی افریقہ سے متعلق پرکشش، دیدہ زیب اور نفیس کتاب افریقہ سپیکس (Africa Speaks) کی کاپیاں بھی لائے تھے جو قریشی محمد اسلم صاحب نے وزیر اعظم ماریشس، وزیر تعلیم ماریشس مسٹر جمعدار، ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل ماریشس سر آرتھر لیونا روڈ ولیمز، وزیر صحت مسٹر جگت سنگھ، وزیر صحت گیمبیا الحاج گو با جو ہمبا کو تحفہ پیش کیں.سبھی نے اسے بہت سراہا.انہوں نے مسٹر ز وکل ایڈیٹر اخبار ایڈوانس (Advance) کو بھی اس کی پیشکش کی اسی طرح ماریشس کی نیشنل لائبریری اور ماریشس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر یکٹر کو لائبریری کے لئے افریقہ سپیکس کے علاوہ تفسیر القرآن انگریزی، اسلام کا اقتصادی نظام اور نظام نو (انگریزی) پیش کیں.اس تقریب کا فوٹو اخبار میں بھی شائع ہوا.۲۶ / اکتوبر ۱۹۷۱ء کو قریشی صاحب نے روسی سفیر برائے ماریشس کو افریقہ سپیکس، پیش کی جو انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کی اور ارادہ ظاہر کیا کہ وہ اسے روسی مسلمانوں کے پاس بھجوائیں گے تاوہ جماعت احمدیہ کی خدمات سے آگاہ ہوسکیں.اس تقریب کا فوٹو اخبار ایڈوانس میں نمایاں طور پر شائع ہوا.۷ / ۸ / اگست ۱۹۷۱ ء کو جماعت احمدیہ ماریشس کا کامیاب جلسہ سالا نہ ہوا جس میں ملک کے اعلیٰ سول اور پولیس حکام سمیت ایک ہزار سے زائد ا حباب نے شمولیت کی.قریشی محمد اسلم صاحب نے جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا حسب ذیل ایمان افروز برقی پیغام پڑھ کر سنایا :.قرآن مجید تمام علوم کا مخزن ہے.اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اپنی زندگیوں میں اسے اپنا رہنما بناؤ.اللہ تعالیٰ آپ تمام مردوں، عورتوں اور بچوں پر اپنی برکتیں نازل فرمائے.“ جلسہ میں قریشی صاحب کے علاوہ قاسم نور علی صاحب آف مونتا ئیں بلانش، ناصر احمد صاحب سوکیه، رشید حسین صاحب بی ایس سی ایم ایڈ ، ید اللہ بھنو صاحب، مولوی صدیق احمد صاحب منور، مولوی شمشیر سوکیہ صاحب سابق مبلغ کینیا اور محمد حنیف جواہر پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس کی پر مغز اور پر جوش تقاریر ہوئیں.جلسہ کے دوران آٹھ افرا د سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جلسہ کے

Page 309

تاریخ احمدیت.جلد 27 299 سال 1971ء پہلے روز ۳ بجے شام ماریشس میں نئے تشریف لانے والے پاکستانی ہائی کمشنر ہز ایکسی لینسی جناب انور خاں صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس کی صدارت میئر آف روز بل ( Henry Ythier) نے کی.جماعت احمد یہ ماریشس کی طرف سے جناب ید اللہ بھنو صاحب نے ایڈریس پیش کیا جس میں انہیں پر خلوص طور پر خوش آمدید کہا گیا اور پاکستان سے بوجہ ایک عظیم مسلم ملک اور جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کے دلی محبت وانس کے جذبات کا اظہار کیا گیا.اس سال خدام الاحمدیہ ماریشس کا سالانہ تربیتی کیمپ بمقام موشوازی ۱۶ راگست تا ۲۲ / اگست ۱۹۷۱ ء منعقد ہوا.جس میں نوجوانوں کو جسمانی ورزش اور پر مشقت زندگی گزارنے کی مشق کے ساتھ ساتھ اطاعت نظام جماعت ، باہمی اتحاد و اتفاق اور ہاتھ سے کام کرنے کی عادت اور با قاعدہ عبادت کے قیمتی اسباق دیئے گئے.اس تربیتی کیمپ میں زیادہ سے زیادہ نو جوانوں کو شامل کرنے کے لئے ایک ورکنگ کمیٹی بھی بنائی گئی.اس کیمپ کے پروگرام میں ایک مخصوص سپورٹس ڈے بھی منایا گیا.اس روز فرانسیسی سفیر اور پاکستان کے ہائی کمشنر کے نمائندہ بھی کیمپ میں تشریف لائے اور کیمپ کا معاینہ کیا.کیمپ میں شامل ہونے والوں کی تعداد ۶۵ تھی جن میں چار عیسائی نوجوان بھی تھے.118 اس سال ملک کے آٹھ دینی مدارس میں کم و بیش تین سواحمدی بچے زیر تعلیم تھے.سالانہ امتحان کے بعد ان احمدی بچوں کا ایک تفریحی پروگرام ۱/۹ اکتوبر کو فلیکان فلاک (Flic en Flac) ساحل سمندر پر منعقد کیا گیا.بچوں نے سارا دن اپنے اساتذہ کی نگرانی میں کھیلوں اور ذہنی ورزش کے پروگراموں میں خوشی خوشی گزارا اور بسوں میں آتی اور جاتی دفعہ احمدیت کے ترانے بڑی سریلی اور بلند آوازوں میں گاتے رہے.اس دلچسپ پروگرام میں ۱۸۲ بچوں نے شرکت کی.۱۶ - ۱۷ اکتوبر کو مارل شو کے قومی سینٹر میں جماعت احمدیہ ماریشس کی ایک علمی و دینی نمائش ہوئی جس میں مولوی صدیق احمد صاحب ،منور، ابوبکر خاں صاحب (مقامی مبلغ ) اور بعض احمدی رضا کار شامل ہوئے.گاؤں کے بہت سے معززین نے نمائش سے استفادہ کیا اور بہت محظوظ ہوئے.ایک مقامی دوست نے اصرار کے ساتھ پورے وفد کو دو پہر کا کھانا پیش کیا.نمائش کے دوران بہت سا لٹریچر تقسیم کیا گیا اور کچھ قیمت فروخت ہوا.احمد یہ سیکنڈری سکول ماریشس جو اُن دنوں ابتدائی مراحل طے کر رہا تھا اس سال جناب رشید

Page 310

تاریخ احمدیت.جلد 27 300 سال 1971ء حسین صاحب کی نگرانی میں ترقی کی راہوں پر گامزن ہو گیا جیسا کہ درج ذیل ایک رپورٹ سے عیاں ہے.انہوں نے لکھا:.وو یکم اکتوبر ۱۹۷۱ء کو انسپکٹر آف سکولز مسٹر ور ما صاحب سکول ہذا کے معاینہ کے لئے تشریف لائے.انسپکٹر موصوف کا یہ معاینہ سکول ہذا کی منظوری کی سفارش کرنے کیلئے تھا.ان کی سفارش سے سنڈیکیٹ آف ایگزیمینیشن کیمبرج یونیورسٹی لندن سکول ہذا کو منظور شدہ قرار دے گی.انسپکٹر موصوف کالج کی تعلیمی حالت سے انتہائی مطمئن تھے.ان کے خیال کے مطابق بجز کالج میں بچوں کی تعداد کی کمی کے اور کوئی چیز کالج کو منظور شدہ قرار دینے میں مانع نہیں ہو سکتی...یکم اکتوبر سے فارم I میں آئندہ سال کے داخلہ کیلئے فری کلاس کا اعلان کر دیا گیا تھا اور تادم تحریر ۹ بچے کالج میں داخلہ کیلئے آئے ہیں.کلاس روم نہ ہونے اور اساتذہ کی کمی کی وجہ سے ان بچوں کو فی الحال موجودہ فارم 1 کے بچوں کے ساتھ بٹھایا گیا تھا.مگر اب چونکہ فارم V کے بچوں کو امتحان کی تیاری کیلئے رخصت دے دی گئی ہے اس لئے ۲ نومبر سے ان بچوں کو الگ کلاس میں بٹھا دیا جائے گا.سکول سرٹیفکیٹ کے امتحانات 9 نومبر سے شروع ہو رہے ہیں اس امتحان میں ہمارے ۱۸ بچے شریک ہورہے ہیں.ان بچوں کی تمام مضامین میں پڑھائی اور دہرائی مکمل ہو چکی ہے.بچوں کے ساتھ تمام اساتذہ نے انتہائی محنت سے کام کیا ہے.اکتوبر کو کالج ہذا کا سالانہ سپورٹس ڈے منایا گیا.بچے بعد دو پہر روز ہل سٹیڈیم میں جمع ہوئے.خاکسار نے اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ سپورٹس ڈے کا آغاز کیا.تمام بچے اور تمام اساتذہ سٹیڈیم میں حاضر تھے.بچے اس دن کو منانے کیلئے پوری طرح تیار تھے.تمام بچوں کو دو مختلف گروپوں میں یعنی سینئر اور جونیئر میں تقسیم کیا گیا اور تقریباً ۲۵ مختلف قسم کے مقابلوں میں بچوں نے حصہ لیا.بعد ادا ئیگی نماز عصر محترم جناب مشنری انچارج صاحب اور مولانا صدیق احمد صاحب منور بھی سٹیڈیم میں تشریف لائے اور بچوں کی حوصلہ افزائی فرمائی.آخری مقابلہ اساتذہ اور بچوں کے درمیان فٹ بال کا تھا اس میں محترم مشنری انچارج صاحب نے بھی حصہ لیا.پروگرام کے آخر میں تمام طلباء کی ٹھنڈے مشروب سے تواضع کی گئی.دورانِ ماہِ حال لٹریری سوسائٹی کی تین میٹنگز ہوئیں جن میں بچوں نے نہایت دلچسپی سے حصہ لیا.اساتذہ اور طلباء نے مختلف موضوعات پر تقاریر کیں.طلباء کیلئے مختلف تقریری مقابلہ جات کا انتظام کیا گیا.کالج کو عوام میں متعارف کرانے کیلئے احمد یہ اخبار "Le Message" میں باقاعدگی سے اشتہار دیا جارہا ہے.اس کے علاوہ مشہور اخبار Maurician

Page 311

تاریخ احمدیت.جلد 27 301 سال 1971ء میں بھی اشتہار دیا گیا.علاوہ ازیں بڑے سائز کے پوسٹر بھی چھپوائے گئے ہیں.طلباء سے بھی مؤثر طریقہ سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنے کالج کی ترقی میں بھر پور تعاون کا مظاہرہ کریں.دوران ماہ حال فیس کی وصولی کی مد میں بارہ صدرو پی جمع ہوا.119 ۱۷ دسمبر کو تعلیم الاسلام احمدیہ کالج کی سالانہ تقریب انعامات منعقد ہوئی جس میں دیگر مہمانوں کے علاوہ پاکستانی ہائی کمشنر کے تھر ڈسیکرٹری جناب مطیع الرحمن صاحب نے شرکت کی.وزارت تعلیم ماریشس کے سینئر آفیسر مسٹر کلفر ڈبیل نے انعامات تقسیم کئے اور صدارتی خطاب میں کالج کے نصب العین اور اس کی علمی مساعی کو سراہا.اسی دن نیروبی سے بذریعہ ٹیلیگرام یہ تشویشناک اطلاع ملی کہ در ویشان قادیان دار الامان کو دار اسیح سے نکلنے پر مجبور کیا جارہا ہے جس پر جماعت احمد یہ ماریشس نے ایک اجتماعی ریز ولیوشن منظور کر کے بذریعہ تار حکومت ہند کو بھیجا جس میں جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان کے تحفظ اور درویشوں کے حقوق شہریت کے تحفظ کا مطالبہ کیا گیا اور کہا گیا کہ موجودہ اقدام کو جلد سے جلد ختم کیا جائے.علاوہ ازیں جماعت کے ایک وفد نے انڈین ہائی کمشنر سے بھی ملاقات کی انہوں نے اپنی حکومت کو تار بھیج کر معاملے کی وضاحت کرانے کا وعدہ کیا.دو تین روز بعد انہوں نے جماعت کو مطلع کیا کہ قادیان میں سب خیریت ہے کوئی فکر کی بات نہیں بعد ازاں حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ امیر جماعت قادیان کا مکتوب بھی موصول ہو گیا جس میں انہوں نے بتایا کہ گو جنگ کے ایام میں حالات سخت مخدوش ہو گئے تھے مگر پاک بھارت جنگ ختم ہونے کے بعد اب حالات معمول پر آگئے ہیں.۱۸دسمبر سے ۲۳ دسمبر تک تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد ہوا.جس میں مولوی صدیق احمد صاحب منور نے حدیث اور فقہ کے بنیادی مسائل سکھائے.کلاس میں انصار، خدام اور اطفال نے ذوق و شوق سے حصہ لیا.ہفتہ اخوت پروگرام کے سلسلہ میں قریشی محمد اسلم صاحب نے ۲۳ دسمبر کو ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شرکت فرمائی اور ۳۱ دسمبر کو مولوی صدیق احمد صاحب منور کی اردو تقریر ریڈیو ماریشس سے نشر ہوئی.ان کے لئے ریڈیو پر بولنے کا پہلا موقع تھا.بفضلہ تعالیٰ ان کی تقریر بہت کامیاب رہی.120

Page 312

تاریخ احمدیت.جلد 27 302 سال 1971ء ملائیشیا جماعت احمد یہ ملائیشیا کی ساتویں کا نفرنس و شوری سبا میں ۲۵.۲۶.۲۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو منعقد ہوئی جس میں ملک کے تقریباً ہر حصہ اور ہر جماعت کے احباب نے شرکت فرمائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے خورد و نوش کا انتظام احمدی خواتین نے نہایت خیر و خوبی سے انجام دیا.مولوی بشارت احمد صاحب امروہی انچارج مشن نے افتتاح کیا پہلی تقریر بھی آپ ہی نے کی جو فیضان نبوت کے موضوع پر تھی.دوسرے بعض مقررین کے نام یہ ہیں حسین اے عامل صاحب (سنڈوکن) حاجی ڈینٹل مورا یوسف صاحب، محمد بن داؤگ صاحب (سنڈوکن) جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ سبا، عباس احمد صاحب تیلیوک، منصور بن سلیم شاہ صاحب اور محمد شریف تیوسوچنا نگ (برونائی).حاجی ڈینٹل مورا یوسف صاحب نے بذریعہ سلائیڈ حج کے ایمان افروز نظارے دکھائے.ارض حرم، خانہ کعبہ، جبل نور، غار حرا، عرفات، مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی تصاویرکو دیکھ کر ہردل سے ان کی بچشم خود زیارت اور فریضہ حج کی ادائیگی کا ولولہ پیدا ہوا انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ ہالینڈ اور ہالینڈ کے احمدی احباب اور مشن ہاؤس اور ان کی بعض تقریبات کی سلائیڈز بھی دکھا ئیں.احباب جماعت بہت مسرور ہوئے اور ایمانوں میں تازگی پیدا ہوئی.آخری روز مولوی بشارت احمد صاحب امروہی کی زیر صدارت شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں محمد بن داؤ گ صاحب سبا نے گذشتہ سال کی کارروائی پڑھ کر سنائی.نئے سال کے عہد یداروں کا انتخاب عمل میں آیا اور آئندہ سال کے بجٹ کی منظوری دی گئی.121 نائیجیریا ۱۷ جنوری ۱۹۷۱ ء کا دن نائیجیریا مشن کی تاریخ میں نہایت درجہ اہمیت کا حامل تھا جبکہ مختلف احمد یہ جماعتوں کے بہیں نمائندگان مولانا فضل الہی صاحب انوری امیر نائیجیریا کی قیادت میں اموسان (Imosan) ( یہ قصبہ Ijebu Ode کے نزدیک ہے جہاں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے تاریخی دورہ مغربی افریقہ میں ایک شاندار مسجد کا افتتاح فرمایا تھا) پہنچے.جہاں قصبہ کے سارے مرد و زن یہاں تک کہ بچے بھی استقبال کے لئے موجود تھے.وفد نے مقامی احباب کی

Page 313

تاریخ احمدیت.جلد 27 303 سال 1971ء درخواست پر وہ زمین دیکھی جو قصبہ والے احمد یہ مسلم مشن کو سیکنڈری سکول اور کلینک قائم کرنے کے لئے پیش کرنے والے تھے.اس کے بعد خصوصی اجلاس ہوا جس میں حاضرین کی تعداد پانچ ، چھ سو تھی.اس اجلاس کی صدارت شہر کے چیف امام کے بھائی نے کی جو اُن دنوں بیعت کر کے امام مہدی کے لشکر میں شامل ہو چکے تھے.زمین کے کاغذات محترم امیر صاحب کے سپرد کرنے سے پیشتر قصبہ کی ترقیاتی کونسل کے جنرل سیکرٹری Mr.William Olu Osisanlu نے احمد یہ وفد کی خدمت میں ایک سپاسنامہ پڑھا جو مطبوعہ تھا اور اس پر کونسل کے (۱) سرپرست (۲) جنرل پریذیڈنٹ (۳) جنرل سیکرٹری (۴) اور چیئر مین کے دستخط ثبت تھے.اس سپاسنامہ کی چنداہم باتیں درج ذیل ہیں.ا.ہم اموسان کمیونٹی ڈویلپمنٹ کونسل ( Imosan Community Development Council) اور اس علاقہ کے چیفس اور تمام باشندوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس استقبالیہ ایڈریس کے ذریعہ احمدیہ مسلم مشن نائیجیریا کے نمائندگان کو خوش آمدید کہتے ہیں.ہمارے لئے یہ امر باعث مسرت ہے کہ جماعت احمدیہ کے نمائندگان اس قطعہ زمین کا معاینہ کرنے کے لئے تشریف لائے ہیں جو تقریباً ۱/۱۲۰ یکٹر پر مشتمل ہے اور جسے جماعت احمدیہ کے سیکنڈری سکول اور ہیلتھ سنٹر کی تعمیر کے لئے ان کے حوالے کیا جا رہا ہے.۲.ہم اس موقعہ پر احمد یہ مشن نائیجیریا کو اپنی مخلصانہ حمایت کا بھی یقین دلاتے ہیں اور ان کی ان کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو وہ اس علاقہ میں فلاح و بہبود کے مراکز کے قیام کے سلسلہ میں عمل میں لا رہے ہیں.اس میں شک نہیں کہ اس مخلصانہ جد و جہد کا عملی نتیجہ اس علاقہ کے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کی صورت میں ظاہر ہوگا.ان حالات میں اس علاقہ کے لوگوں کی یہ خواہش ہے کہ ان دونوں منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جلد از جلد کام کا آغاز کر دیا جائے.ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اس مجوزہ منصوبہ کی تکمیل کے سلسلہ میں ہم احمد یہ مشن نائیجیریا کی ہر طرح راہنمائی اور معاونت کیلئے تیار ہیں.۳.جماعت احمد یہ نائیجیریا کے نمائندگان کا یہاں ہماری ملاقات اور قطعہ زمین کے معائینہ کے لئے تشریف لانا ہمارے لئے یقینا مسرت کا باعث ہے اور ہم اپنے جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ

Page 314

تاریخ احمدیت.جلد 27 304 سال 1971ء کو کافی نہیں پاتے اور ہم امید کرتے ہیں کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے.ہم اس موقعہ پر نائیجیریا مشن کے اجیبو اوڈے سرکٹ کی مجلس عاملہ کے ارکان کے بھی تہہ دل سے ممنون ہیں کہ وہ اس منصوبہ کے سلسلہ میں اپنی تمام کوششوں کو بروئے کار لا کر احمد یہ مشن کے Imosan میں قیام کا باعث ہوئے.122 جہاں تک نائیجیریا میں تبلیغ و اشاعت کا تعلق ہے اے.۱۹۷۰ء میں متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور دو سو سے زائد افراد نے قبول اسلام کیا جس کی تفصیل مولا نا فضل الہی صاحب انوری مشنری انچارج نائیجیریا کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.گذشتہ ایک سال نائیجیریا کی تاریخ احمدیت میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے.ماہ شہادت ۱۳۴۹ (اپریل ۱۹۷۰ ء ) وہ مبارک مہینہ ہے جس میں مامور زمانہ کے تیسرے خلیفہ حضرت ناصر دین سید نا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے مبارک وجود نے اپنے تاریخی سفر کے سلسلہ میں مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا کی سرزمین میں قدم رکھا.اس وقت سے لے کر اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے آثار نظر آرہے ہیں جن سے خلافت کی برکات کا ایک نمایاں ثبوت ملتا ہے.الا باٹا میں جماعت کا قیام سب سے پہلے ابادان Ibadan کے نواحی علاقہ میں ایک مقام الا باٹاAlabata کے رؤساء کی طرف سے ایک وفد باد ان کی جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کے پاس آیا اور یہ پیغام لایا کہ انہیں بتایا جائے کہ احمدیت کیا چیز ہے.ابادان وہ شہر ہے جہاں ایک بڑے ہال میں حضور انور نے اپنا وہ تاریخی خطاب پڑھا جو A Message of Hope پیغام امید) کے نام سے چھپ چکا ہے.چنانچہ جماعت کے دوستوں نے ایک دن مقرر کر کے ان کے ہاں آنے کا وعدہ کیا.جماعت کا وفد مقررہ دن وہاں پہنچا تو ان کے استقبال کے لئے علاقہ کے چالیس معززین موجود تھے.کئی گھنٹوں کی بحث اور سوال وجواب کے بعد ۴۰ کے قریب افراد جماعت میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے.یہ پہلا شیریں پھل تھا جو ایک بڑی جماعت کی صورت میں نصرت جہاں سکیم کے شجرہ طیبہ کو لگا.اموسان میں ۱۲۰ /۱ یکٹر زمین کا عطیہ اور جماعت کا قیام ابھی اس جماعت کو قائم ہوئے چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ اجیبواوڑےIjebu Ode جہاں

Page 315

تاریخ احمدیت.جلد 27 305 سال 1971ء ایک بہت بڑی جماعت ہے اور جہاں ایک احمدی خاتون الحاجیہ فاطمہ کی اپنے سرمایہ سے تعمیر کی ہوئی عالیشان مسجد کا حضور نے اپنے دورہ کے دوران افتتاح فرمایا تھا، کے ایک ذیلی گاؤں موضع اموسان Imosan کی ترقیاتی کونسل کی طرف سے ایک پیغام پہنچا کہ وہ ایک بہت بڑا قطعہ اراضی دینے کو تیار ہیں.بشرطیکہ وہاں تعلیمی درسگاہ قائم کرے.خاکسار نے یہ پیغام سنتے ہی لیگوس سے دو افراد پر مشتمل ایک وفد بھجوایا کہ اس سلسلے میں ترقیاتی کونسل کے ممبران سے مل کر مزید تفصیلات طے کی جائیں.وفد کی رپورٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت خوشکن تھی.اموسان کے رؤساء ۱٫۱۲۰ یکٹر زمین دینے پر رضامند ہو گئے.جہاں کہ تعلیمی درسگاہ کے علاوہ ایک ہسپتال اور ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا جائے گا.یہ بھی طے پایا کہ مجوزہ قطعہ اراضی، ایک بہت بڑی تقریب منعقد کر کے باقاعدہ طور پر جماعت کے سپر د کیا جائے.یہ تقریب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ۱۷ صلح ۱۳۵۰ ہجری شمسی کو بڑی دھوم دھام سے عمل میں آئی جس میں اموسان قصبہ کا ہر بوڑھا اور بچہ اپنے روائتی جبوں میں ملبوس شامل ہوا.جماعت کے افراد بھی بڑی کثرت سے شامل ہوئے.اس تقریب میں کونسل کے جنرل سیکرٹری نے کونسل کی طرف سے ۱۲۰ ۱۷ یکٹر زمین احمدیہ مشن کو پیش کرنے کا اعلان کیا جسے خاکسار نے جماعت کی طرف سے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.مقامی اخبارات میں اس تقریب کا اچھا خاصا چرچا ہوا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسی دوران اموسان قصبہ کے مسلمان طبقہ میں احمدیت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی جستجو پیدا ہوئی.سب سے پہلے ایک شخص احسن نامی اور اس کے گھر کے سارے افراد تھوڑی سی تحقیق کے بعد جماعت میں شامل ہو گئے پھر اس کی تبلیغ سے جلد ہی شہر کے ایک معزز شخص مسٹر خلیل اور میں اور اس کے اہل وعیال نے احمدیت قبول کر لی.جب مذکورہ بالا تقریب منعقد ہوئی تھی تو اموسان کی جماعت انہی دونوں گھرانوں کے افراد سے عبارت تھی مگر رفتہ رفتہ قصبہ میں احمدیت کے متعلق جستجو بڑھتی گئی اور کئی ایک اور افراد بھی جماعت میں دلچسپی لینے لگے.ادھر ایک تقریب یہ پیدا ہوئی کہ اجیبو اوڈے حلقہ کا سہ ماہی اجلاس اموسان قصبہ میں ہی قرار پایا.اس اجلاس کے آخر پر خاکسار نے اموسان میں مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت اور اس کے لئے چندہ کی تحریک کی جس کے نتیجہ میں ۳۰ پونڈ کی رقم عین موقع پر اکٹھی ہوگئی اس رقم سے مسجد کے لئے زمین خرید لی گئی.دوسری طرف اس مختصرسی جماعت نے مسجد کے سنگ بنیاد کی تقریب منعقد کر کے تبلیغ کا ایک سنہری موقع پیدا کر دیا.اس سے قبل وہاں اس رنگ میں تبلیغ کرنے کا موقع ابھی تک نہیں ملا تھا.چنانچہ جلد ہی ۱۵ کے

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد 27 306 سال 1971ء قریب مزید افراد حلقہ بگوش احمدیت ہو گئے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ۳۰، ۴۰ را فراد پر مشتمل ایک جماعت قائم ہے.قصبہ اکیروں میں جماعت کا قیام حضرت خلیفہ المسیح کے دورے کے نتیجے میں جس آسمانی بارش کا نزول ہوا اس کے چھینٹے ملک کے گوشہ ہائے دور دراز میں بھی پڑے چنانچہ بعض ایسے مقامات پر بڑی بڑی جماعتیں قائم ہوگئیں جہاں پہلے ایک یا دو افراد موجود تھے.اس کی مثال اوسن ڈویژن Osun Division کے ایک قصبہ اکیروں Ikirun میں ملتی ہے.یہاں کچھ عرصہ سے بادان جماعت کا تربیت یافتہ ایک نوجوان مسٹر داؤ دابوری شادے Daud Abori Shade ملازمت کے سلسلے میں تبدیل ہو کر آیا ہوا تھا.جب حضرت صاحب کے دورہ کا چرچا اخبارات، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے ذریعہ ملک بھر میں ہونے لگا تو لوگ احمدیت کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے اس نوجوان کے پاس پہنچے.جب لوگوں کی دلچسپی بڑھی تو اس نے اباد ان کی جماعت کو لکھا کہ آپ یہاں تبلیغی کا نفرنس کا انعقاد کریں.ابادان کی بیدار مغز جماعت نے فورا ہی اسے تائید غیبی سمجھتے ہوئے ایک تبلیغی پارٹی تیار کی ساتھ ہی خاکسارکو بھی اس پروگرام سے مطلع کر دیا.چنانچہ ۲۰ را فراد کا ایک قافلہ پریذیڈنٹ جماعت ابادان مسٹر بساری Mr.Busaari کی سرکردگی میں تبلیغی کیل کانٹے سے لیس ہوکر ا کیروں پہنچا.شہر میں داخل ہوتے ہی موٹر میں دوطرفہ نصب کئے ہوئے لاؤڈ سپیکر صل علی نبینا صل علی محمد کے الفاظ سریلی آواز میں بلند کرنے لگے.غالباً یہ پہلی بارتھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں اس قسم کے عربی الفاظ اہل شہر کے کانوں میں پڑے.دیکھتے ہی دیکھتے ایک بہت بڑا مجمع موٹر کے دونوں طرف ہولیا.موٹر آہستہ آہستہ چل رہی تھی اور یہ جم غفیر صلی علی...کی مسحور کن آواز کے ساتھ خود بھی شامل ہو گیا.یہ دلر با کیفیت اس وقت تک جاری رہی جب تک کہ قافلہ پہلے سے تیار شدہ پنڈال میں نہ پہنچ گیا.آن کی آن میں سارا پنڈال کھچا کھچ بھر گیا.شہر کے رؤساء بھی اچھی خاصی کافی تعداد میں شامل ہوئے.جب تقریر میں شروع ہو ئیں تو حاضرین کی تعداد ۴۰۰ سے کسی طرح کم نہ تھی.کل تین تقریریں ہوئیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کو نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کیا گیا.ختم نبوت کے متعلق جماعت احمدیہ کا موقف اچھی طرح واضح کیا گیا.حاضرین نے

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد 27 307 سال 1971ء جس توجہ اور دلچپسی سے یہ تقریریں سنیں اس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ تقریروں کے خاتمے پر کثرت سے سوالات ہوئے جن کا تسلی بخش جواب دیا گیا.سوالات زیادہ تر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعوی نبوت سے متعلق تھے.چونکہ خاکسار کی تقریر کا موضوع بھی مسئلہ ختم نبوت ہی تھا اس لئے مزید سوالات کے ذریعے اس کی خوب وضاحت ہوئی.یہ جلسہ شام 4 بجے سے شروع ہو کر رات 11 بجے تک جاری رہا.اوشو گبو میں جماعت کا قیام اور کالج کیلئے زمین کا عطیہ دوسرے دن علی الصبح یہ تبلیغی قافلہ اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوا جو ایک بہت بڑا قصبہ اوشو گبو Oshogbo کے نام سے مشہور ہے.یہاں کسی وقت ایک احمدی نے مسجد کے لئے زمین لینے کی کوشش کی تھی اور یہ کوشش ایک حد تک کامیاب بھی ہو گئی اور اس کے نتیجے میں ایک مسجد بھی بن گئی مگر چونکہ اس وقت وہاں کوئی جماعت نہ تھی اس لئے اس میں زیادہ تر نماز پڑھنے والے لوگ غیر از جماعت ہی تھے اس لئے ان لوگوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور وہ اب تک انہیں کے قبضہ میں ہے.اس کے بعد ایک اور احمدی دوست مسٹر محمد معیبی Mr.Mohammad Muibi نے غانا سے آئے ہوئے ایک اور احمدی دوست مسٹر عبد العزیز کے ساتھ مل کر ایک مکان میں نمازیں پڑھنی شروع کر دیں.تھوڑے عرصے کے بعد ایک اور دوست مسٹر بنکو لے Mr.Bankole بھی ان میں شامل ہو گئے.چنانچہ جس وقت ہمارا تبلیغی قافلہ اوشو گبو پہنچا تو جماعت انہیں دو تین شخصوں پر مشتمل تھی.مسٹر معیبی جن کو ہم نے اپنے پہنچنے کی اطلاع پہلے سے دے رکھی تھی ہماری انتظار میں برلپ سڑک موجود تھے.اسی طرح لیگوس کے ایک اور احمدی دوست مسٹر حسن سنمو نو جو دو جڑواں احمدی بھائیوں میں سے ایک ہیں اور اصل اوشو گبو کے رہنے والے ہیں وہ بھی اوشو گبو پہنچے ہوئے تھے.(ان کا ذکر بعد میں آئے گا ) مسٹر معیبی نے ہمیں وہ مکان دکھایا جسے انہوں نے مسجد احمدیہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر رکھا تھا اور وہاں جلد تر مشن قائم کرنے کی درخواست کی.خاکسار نے ایک مبلغ بھیجنے کا وعدہ کیا.اوشو بو سے روانہ ہونے سے قبل مسٹر حسن جن کا ذکر اوپر آچکا ہے.ہمیں اپنے چا جو وہاں کے ایک رئیس ہیں، کے پاس لے گئے ان کے ساتھ مل کر ہم شہر کے چیف امام کے پاس گئے جنہوں نے دیگر مسلمان رؤساء کے مشورے سے ہمیں وہاں ایک سیکنڈری سکول قائم کرنے کی دعوت دی.انہوں نے ہمیں وہ زمین بھی دکھائی جو وہ اس غرض کے لئے بلا معاوضہ دینے پر تیار تھے.مسلمان معززین

Page 318

تاریخ احمدیت.جلد 27 308 سال 1971ء نے جو اس وقت شہر کے تمام مسلمانوں کی نمائندگی کر رہے تھے اس بات کا کھلے بندوں اعتراف کیا کہ ان کی نگاہیں اس وقت جماعت احمدیہ کی طرف لگی ہوئی ہیں اور یہ کہ وہاں مسلمانوں کی ۸۰ فیصد آبادی ہونے کے باوجود مسلمانوں کا ایک بھی سکول نہیں اور وہ سکول کے قیام کے سلسلے میں ہر قسم کی مالی امداد بہم پہنچانے کے لئے تیار ہیں.مسٹر حسن نے بعد میں ہمیں بتایا کہ گذشتہ ایک جمعہ میں اوشو گبو کی مرکزی مسجد میں اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ جماعت احمدیہ کو وہاں سکول بنانے کی دعوت دی جائے.خاکسار نے ان کی درخواست حضرت اقدس تک پہنچانے کا وعدہ کیا ( مجوزہ قطعہ زمین جو ۲۰ /۱ یکٹر کے قریب ہے اب باقاعدہ سروے ہو کر مشن کے نام منتقل کر دیئے جانے کی کوشش ہو رہی ہے ) ایجگہو میں جماعت کا قیام اوشو گبو سے روانہ ہو کر ہم ایک مقام Ede میں اپنی جماعت کے دوستوں اور شہر کے چیف (Timi of Ede) سے ملتے ہوئے ایک اور قصبہ ایگبو (Ejigbo) میں پہنچے.یہاں غانا سے آئے ہوئے ایک احمدی دوست مسٹر Odeuale ہمارے استقبال کے لئے موجود تھے.ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس دور افتادہ قصبہ میں بھی ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہو چکی ہے.چنانچہ اس نواحمدی جماعت سے جو بیس کے قریب مردوں اور عورتوں پر مشتمل تھی تعارف حاصل ہوا.انہوں نے بھی خواہش ظاہر کی کہ یہاں مشن قائم کیا جائے کیونکہ کئی لوگ احمدیت میں دلچسپی لے رہے ہیں.خاکسار نے وہاں حاضر افراد کے سامنے احمدیت کی نمایاں خصوصیات پر ایک تقریر کی اور ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس علاقہ میں جلد ہی ایک مبلغ بھجوانے کا وعدہ کیا.بعد میں شہر کے اوبا (چیف) سے مل کر اپنا تعارف کراتے ہوئے ہم واپس ابادان روانہ ہوئے.لیگوس پہنچنے کے معابعد خاکسار نے پہلا کام یہ کیا کہ مقامی مبلغین میں سے سب سے تجربہ کار مبلغ معلم جمال الدین باڈا کو اپنے علاقہ سے بلا کر ایک ماہ کے لئے Ikirun بھجوایا اور ا کیروں شہر کو ہیڈ کوارٹر بنا کر انہیں اوشو گبو، ایجگہو اور دیگر نواحی علاقوں میں تبلیغ کرنے اور جماعتیں قائم کرنے کی ہدایت دی.اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں میں برکت ڈالی اور تھوڑے عرصہ میں ہی ان تینوں مذکورہ بالا مقامات پر اچھی خاصی جماعتیں بن گئیں.جس کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ اکیروں میں گذشتہ عید الفطر کے موقع پر جماعت کی پہلی نماز عید پڑھی گئی جس میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو ملا کر ۳۲ را فراد شامل ہوئے اس کے بعد سے جماعت وہاں مسلسل ترقی کر رہی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے

Page 319

تاریخ احمدیت.جلد 27 309 سال 1971ء ما سے وہاں ۶۰ سے اوپر تعداد ہو چکی ہے.جماعت نے وہاں ایک پلاٹ مسجد کے لئے اور ایک اور پلاٹ مشن ہاؤس کے لئے خرید لیا ہے.اسی طرح اوشو بو میں بھی گذشتہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ۴۰ کے قریب احمدی دوست موجود تھے اور اس قدر جوش اور اخلاص رکھنے والے ہیں کہ گذشتہ فروری کے مہینہ میں یہ اطلاع ملنے پر کہ خاکسار اور مکرم مولوی روشن الدین صاحب کا نو جا رہے ہیں وہ ریلوے سٹیشن پر ہمیں ملنے کے لئے پہنچے اور باوجود گاڑی کے لیٹ ہو جانے کے وہ دو بجے رات تک سٹیشن پر موجودر ہے.یہ جماعت بھی بفضلِ خدا روز افزوں ترقی پر ہے.تیسرے مقام ایجگبو میں اس وقت تک ۶۰ کے لگ بھگ افراد جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.مسجد کے لئے ایک قطعہ زمین لینے کی کوشش کر رہے ہیں.ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جو بڑے جوش کے ساتھ پیش پیش آنے کی کوشش کر رہے ہیں.انہیں میں سے ایک نوجوان مشنری ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے مشنری کلاس میں داخل ہوا ہے.ایک اور مقام اکوئی lkoyi میں ہمارے ابادان مشن کی کوششوں سے ایک اور جماعت قائم ہونے کی اطلاع آئی ہے.۲۰ کے قریب آدمی جماعت میں شامل ہو چکے ہیں.123 جماعتہائے احمد یہ نائیجیریا کی بائیسویں سالانہ کا نفرنس لیگوس میں ۲۵.۲۶.۲۷ دسمبر ۱۹۷۱ء کو منعقد ہوئی جس میں ملک کے طول و عرض اور ڈھومی (Dahomey) اور غانا سے ۵۰۰ نمائندگان نے شرکت کی.نایجیر یار یڈ یو اورٹیلیویژن نے بھی کا نفرنس سے متعلق خبریں نشر کیں.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کانفرنس میں حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا تھا.اسلام کی نصرت جہاں سکیم کے تحت افریقہ میں ترقی شروع ہو چکی ہے لہذا آپ اپنے آپ کو قربانیوں کے لئے تیار کریں اور نصرت جہاں فنڈ میں اپنے وعدوں کو جلد پورا کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.یه ایمان افروز پیغام امیر و مشنری انچارج نایجیر یا مولوی فضل الہی صاحب انوری نے پڑھ کر سنایا جس سے احباب کے چہرے فرط مسرت سے دمک اٹھے اور انہوں نے پر جوش نعرے لگا کر اپنی خوشی کا اظہار کیا.

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد 27 310 سال 1971ء افتتاحی اجلاس میں الفا ایس بی گیوا نے اور آراے عباسی صاحب چیئر مین احمد یہ مشن ابادان (Ibadan) سرکٹ نے پراثر تقاریر کیں.احمدیہ دوسرا اجلاس جسٹس اے آربکری حج لیگوس ہائیکورٹ کی صدارت میں ہوا.الحاج ظفر اللہ الیاس نے تبلیغ اسلام دنیا کے کناروں تک“ کے موضوع پر اور غانا کے مبلغ عبدالوہاب آدم صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دورہ غانا کے ایمان افروز واقعات پر تقاریر فرما ئیں جو بہت دلچسپی سے سنی گئیں.بعد میں مولوی فضل الہی صاحب انوری نے مالی قربانی کی تحریک کی جس پر مخلصین جماعت نے چند منٹوں میں ایک بڑی رقم ڈھیر کر دی.دوسرے دن کا اجلاس ڈاکٹر سلاؤ کی زیر صدارت اور دوسرا ایس او بکری پریذیڈنٹ جنرل احمد یہ مشن کی صدارت میں انعقاد پذیر ہوا.ان اجلاسوں میں مندرجہ ذیل مقررین نے خطاب کیا.مولوی فضل الہی صاحب انوری (اسلامی پرده)، ابوبکر ارسوٹپر کا.نمائندہ وفد مشرقی نائجیریا (اپنے علاقہ کے حالات ) ، ذکر و داؤ دانمائندہ وفد ( حالات ڈھومی ) ، الحاج مولوی روشن الدین احمد صاحب مبلغ انچارج مغربی نائیجیریا ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں ظہور مہدی ومسیح موعود سے متعلق ) ، مولوی منیر احمد صاحب عارف ( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات)، معلم ابراہیم بیچی صاحب (ختم نبوت) یہ تقریر ہاؤ سا زبان میں تھی اور نہایت عالمانہ اور پر زور دلائل پر مشتمل تھی.الفااے ہے.جے.باڈا.( نائیجیریا کی مشرقی ریاستوں میں احمدیت )، الحاج بی بی بالوگوں صاحب ( قرآن شریف کی پیشگوئیاں ) بزبان یورو با.کا نفرنس کا آخری اجلاس ملک کے مشہور قانون دان جسٹس بنیامین نظیم حج لیگوس ہائیکورٹ کی صدارت میں ہوا.انہوں نے اپنی صدارتی تقریر میں جماعت احمدیہ کا شکر یہ ادا کیا کہ انہیں یہ اعزاز بخشا ہے.انہوں نے جماعت کی اسلامی تبلیغ اور ترقی کی کوششوں کو نہایت عمدہ الفاظ میں سراہا.سب سے پہلے مالم ( معلم ) وزیری عبدو نے قرآن کریم کے الہی مآخذ پر روشنی ڈالی.بعد ازاں ہز ایکسی لینسی ڈاکٹر ایس ایم قریشی ہائی کمشنر پاکستان نے بڑے ہی پر اثر انداز میں قیام پاکستان کے پس منظر اور مشرقی پاکستان کے المیہ کی تفصیلات بیان کیں اور پر جوش الفاظ میں اس یقین کا اظہار کیا کہ ہم اپنے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہو جائیں گے.آپ کی تقریر کے اختتام پر سامعین نے بار بار پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا کر اپنے دلی جذبات محبت و یگانگت کا اظہار کیا.

Page 321

تاریخ احمدیت.جلد 27 311 سال 1971ء آپ کے پر مغز خطاب کے بعد ایم ایم حبیب صاحب نے اسلام تلوار کے ذریعہ نہیں پھیلا“ کے موضوع پر عالمانہ تقریر کی.آخری پُر جوش تقریر عبدالسلام اولا ئنڈے کی تھی جس کا موضوع تھا مسلمانوں کا زوال اور اس کا علاج“.جناب صدر صاحب نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں جماعت کا شکر یہ ادا کیا کہ جماعت نے انہیں یہ اعزاز بخشا ہے اور انہوں نے جماعت کی اسلامی تبلیغ و ترقی کی کوششوں کو نہایت عمدہ الفاظ میں سراہا.کا نفرنس کی اکثر تقاریر انگریزی زبان میں ہوئی تھیں جن کا مقامی یور با زبان میں ساتھ ساتھ ترجمہ کر دیا جاتا رہا یا تقریر کے اختتام پر اس کا مشخص پیش کر دیا جاتا رہا.کا نفرنس کا ریڈیو، ٹیلیویژن اور مقامی اخبارات میں اچھا خاصا چرچا ہوا.ریڈیو اور ٹیلیویژن پر تین دن متواتر اس کے متعلق تفصیلی خبریں نشر ہوتی رہیں.۲۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کی رات کو ۹ بجے مندرجہ ذیل خبر نشر ہوئی.نائیجیریا کے احمدیہ مسلم مشن کی بائیسویں سالانہ کا نفرنس لیگوس میں دوسرے دن میں داخل ہو چکی ہے.یہ تین روزہ کانفرنس جو کل مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج لیگوس میں شروع ہوئی اور جس میں ملک کے طول و عرض سے نمائندگان نے شرکت کی.اس کا افتتاح جماعت احمدیہ کے امام اور خلیفہ کے نمائندے مولوی فضل الہی انوری امیر جماعت احمدیہ نائیجیریا نے اپنے خطاب سے کیا.جس میں آپ نے آئندہ سال کے لئے مشن کی سکیموں پر روشنی ڈالی.آپ نے اعلان کیا کہ نائیجیریا کی شمال مغربی ریاست میں اس سال دو گرلز ہائی سکول کھولے جائیں گے.اس کے علاوہ ریاست کو ارا (Kwara) ریاست مغربی اور ریاست شمالی میں ہیلتھ سنٹر بھی قائم کئے جائیں گے.اس سے قبل جماعت کی ترقیاتی رپورٹ میں امیر موصوف نے بیان کیا کہ گذشتہ سال ملک کے مختلف حصوں میں بارہ مقامات پر جماعت کے لئے تبلیغی مرکز قائم کئے گئے ہیں.علاوہ ازیں جنگ زدہ علاقوں میں جماعت کے رفاہی ادارہ کی طرف سے بہت سا ریلیف کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ہے.منا (Minna) اور گساؤ (Gusau) میں دو سکول بھی کھولے گئے ہیں.سالانہ کانفرنس میں زیر بحث آنے والے امور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام ختم نبوت ، حضرت مرزا غلام احمد کے دعویٰ نبوت اور ثبوت میں قرآن واحادیث اور اقوال ائمہ اسلام سے دلائل، اسلامی تہذیب کا اثر موجودہ معاشرہ پر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق قرآنی تصور

Page 322

تاریخ احمدیت.جلد 27 312 سال 1971ء جیسے مسائل شامل ہیں.یہ کا نفرنس کل ختم ہو رہی ہے.یہ خبر نائیجیریا کی مختلف مقامی زبانوں میں ترجمہ ہو کر مقامی پروگراموں میں بھی براڈ کاسٹ ہوتی رہی.اس کا نفرنس میں ہجری شمسی تقویم کی بھی خاص طور پر تشہیر کی گئی جس کے نتیجہ میں اب جماعت کے بہت سے احباب اپنی نجی خط و کتابت میں ہجری شمسی کیلنڈر کو استعمال کرنے لگے ہیں.124 یوگنڈا صوفی محمد اسحاق صاحب مبلغ انچارج یوگنڈا مشن تحریر فرماتے ہیں کہ انہوں نے مولوی جلال الدین قمر صاحب کی معیت میں چھ روز تک ایک ایسی کا نفرنس میں شرکت کی جو حکومت نے مختلف الخیال لوگوں کے اتحاد واتفاق کے لیے منعقد کی تھی.یہ کانفرنس کمپالہ انٹرنیشنل کانفرنس سینٹر میں منعقد ہوئی اور اس کی صدارت اٹارنی جنرل نے کی.۲۰۰ سے زائد نمائندگان نے کانفرنس میں شرکت کی اور اپنے اپنے خیال کا اظہار کیا کہ مسلمانوں میں اتحاد کیونکر ہوسکتا ہے اور کن ذرائع کو اختیار کرنے سے ان کے مختلف کاموں میں پجہتی پیدا کی جاسکتی ہے.صوفی صاحب نے آنحضرت سیلی سیلم کے اس ارشاد سے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ مَن صَلَّى صَلَوَتَنَا وَاسْتَقبَلَ قِبْلَتَنَا وَاكَلَ ذَبِيحَتَنا فَذَلِكَ المُسلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةً رَسُولِهِ(الصحيح البخارى كتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلة) اور حاضرین کو بتایا کہ آنحضرت صلی ا یہ تم نے مسلمانوں کے اتحاد کے لیے یہ بات بنیاد کے طور پر بیان فرمائی ہے اور جب تک ہم اسے پیش نظر نہ رکھیں گے اور اس کے مطابق اپنے قول و فعل کو نہ ڈھالیں گے اتحاد کی تمام باتیں بے معنی ہوں گی.125

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد 27 آمد 313 مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی سال 1971ء اس سال مندرجہ ذیل مبلغین بیرونی ممالک میں کامیاب خدمات بجالانے کے بعد واپس مرکز احمدیت میں تشریف لائے.روانگی گئے.۱.بشیر احمد خان رفیق صاحب (۱۹ جنوری از رانگلستان )126 ۲.مرز الطف الرحمن صاحب (۲۶ مارچ از غانا مغربی افریقہ (127 ۳.سید جواد علی صاحب (۱/۲ پریل از رامریکہ ) 128 ۴.اقبال احمد غضنفر صاحب (۳۰ مئی از گیمبیا ) 129 ۵.چوہدری عنایت الله احمدی صاحب (۶ جون از مشرقی افریقہ (130 ۶.حافظ محمد سلیمان صاحب (۱۵ جون از مشرقی افریقہ ) 131.چوہدری عبد اللطیف صاحب ( 4 جولائی از مغربی جرمنی ) 132 مولا نا ابوبکرایوب صاحب ( ۸ جولائی از رانڈونیشیا) 133 ۹.صوفی محمد اسحاق صاحب (۱۲اگست از رافریقہ )134 ۱۰.صلاح الدین خان صاحب بنگالی (۲۰ را گست از ہالینڈ (135 ۱۱.چوہدری غلام یسین صاحب (۴ دسمبر از انڈونیشیا ) 136 ۱۹۷۱ ء میں مندرجہ ذیل مبلغین سلسلہ مرکز سے بلا دغیر میں بغرض اعلائے کلمتہ اللہ تشریف لے ا.رشید احمد سرور صاحب (۲۶ جنوری برائے تنزانیہ )137 ۲ - عبد الغنی کریم صاحب (۲۸ جنوری برائے انڈونیشیا) 138 نصیر احمد خان صاحب (۳۱ جنوری برائے غانا ) 139 ۴.چوہدری شریف احمد صاحب با جوه (۳۱ جنوری برائے انگلستان (140

Page 324

تاریخ احمدیت.جلد 27 314 ۵.قریشی مقبول احمد صاحب (۳ فروری برائے امریکہ (141 ۶.مولا نا روشن الدین احمد صاحب (۱۶ فروری برائے نائیجیر یا )142 ۷.منیر احمد عارف صاحب (۲۱ فروری برائے نائیجیریا ) 143 محمد عیسی صاحب (۲۴ فروری برائے کینیا (144 ۹ - نظام الدین مہمان صاحب (۱۱ را پریل برائے سیرالیون ) 145 ۱۰.چوہدری محمد شریف صاحب (۱۳ را پریل برائے گیمبیا ) 146 ۱۱.میاں عبدالحئی صاحب (۱۸ جون برائے انڈونیشیا )147 ۱۲.مولانا ابوبکر ایوب صاحب (۱۳ جولائی برائے ہالینڈ (148 ۱۳ محمود احمد انجم صاحب (۳۰ اگست برائے گیمبیا )149 ۱۴.شیخ نصیر الدین احمد صاحب ( ۴ /اکتوبر برائے زیمبیا ( 50 ۱۵.داؤ داحمد حنیف صاحب (۲۸ نومبر برائے گیمبیا) 151 سال 1971ء

Page 325

تاریخ احمدیت.جلد 27 315 سال 1971ء اردو نئی مطبوعات ا تحدیث نعمت ( مفصل ذکر پہلے آچکا ہے.مؤلفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب) ناشر بے نیو ولینٹ ایسوسی ایشن ڈھا کہ ۲.اصحاب احمد جلد ۱۴ سوانح حضرت مولانا حسن علی صاحب بھاگلپوری ( از ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان) ۳.احمدیت کی نئی نسل کی ذمہ داریاں ( مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا.امیر صوبائی سرگودها) ۴.روشن ستارے جلد اوّل ( مولوی غلام باری سیف صاحب پروفیسر جامعہ احمد یہ ربوہ ) ۵ - الحق المبین فی تفسیر خاتم النبيين صلى لا اسلام از مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) ۶ - تلاش مسلسل ( جناب نسیم سیفی صاحب مدیر تحریک جدید ربوہ) ے.خلافت راشدہ کے متعلق سازشیں شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ افریقہ.سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ) احمدیت.اسلام کی نشاۃ ثانیہ (مولا نا عبد المالک خاں صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد ) و تابعین اصحاب احمد جلد ہفتم.سوانح مرزا عبد الحق صاحب ( ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) ۱۰.احمدیت پر اعتراضات کے جوابات ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد) ۱۱.غلبہ اسلام کے متعلق پیشگوئیاں ( جناب نور محمد نیم سیفی صاحب مدیر تحریک جدید) ۱۲.وحی و الہام کے متعلق اسلامی نظریہ (مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد تعلیم القرآن) ۱۳.ظہور مہدی آخر الزمان علیه السلام ( ناشر حکیم عبداللطیف شاہد صاحب گجراتی) ۱۴.قیام پاکستان کا روحانی پس منظر ( مولا نا دوست محمد شاہد صاحب)

Page 326

تاریخ احمدیت.جلد 27 316 ۱۵ تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ کا کردار ( مولا نا دوست محمد شاہد صاحب) ۱۶.عربی گرائمر میں پہلا قدم ( شیخ نصیر الدین احمد صاحب) ۱۷.رسالہ یادر کھنے کی باتیں.( ناشر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ) ۱۸.حقیقۃ الصلوۃ (نماز مترجم سندھی) ۱۹.جامع صحیح مسند بخاری تیرھواں پارہ (ناشر ادارۃ المصنفین ) ۲۰.میری والدہ (از چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب) ۲۱ - تشنه لب ( از نیم سیفی صاحب) سال 1971ء ۲۲- امام المتقین ، نجات المسلمین، تنبیہ الغافلین ( پنجابی ) (از ڈاکٹر منظور احمد صاحب) ۲۳ - گلدسته لطیف یا نعم الرفیق ( پنجابی ) ۲۴.عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ ( از مولوی محمد اسد اللہ قریشی صاحب) ۲۵.بھارت نامه از راجہ نذیر احمد ظفر صاحب (طویل نظم) ۲۶.نور فطرت ( مجموع نظم از نسیم سیفی صاحب) انگریزی ا.Communism And Democracy (از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) _Ahmadiyya Movement (از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) _Islam in Africa(صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) _The Promised Victory and our duty ( تقریر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب برموقع سالانه اجتماع منعقده ۲۳ تا ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء).( ناشر مجلس انصار اللہ مرکزیہ ) ۵_The tomb of Jesus (از صوفی مطیع الرحمن صاحب) In Defence Of Pakistan_ _Invitation (خلاصہ دعوۃ الامیر )

Page 327

سال 1971ء 317 تاریخ احمدیت.جلد 27 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۱۶ / اپریل ۱۹۷۱ صفحه ا الفضل 11 مئی ۱۹۷۱ صفحہ 1 الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ الفضل ۲ جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ الفضل ۸ ستمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۵/اکتوبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱ الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۱ الفضل یکم دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ 1 الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۱ الفضل ربوه ۳ مارچ ۱۹۷۱ صفحه ۸ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت حوالہ جات (صفحہ 217تا316) روز نامه الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ صفحه ۱۲ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۱ الفضل ۷ ۲ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ارتحریک جدید اپریل ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱۷ الفضل ۱٫۴ پریل ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ربوه ۶ را پریل ۱۹۷۱ صفحه ۸ الفضل اا جون ۱۹۷۱ء صفحہ ۶ الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۸ جولائی ۱۹۷۱ صفحہ ۴ الفضل 9 جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ ء صفحہ ۴ ≈ № 22 21 23

Page 328

تاریخ احمدیت.جلد 27 24 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۴ 25 الفضل ۲۵ / اگست ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۱۳ را کتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۵ 318 26 27 28 29 30 31 34 2223323 ~ الفضل ۲۰ / اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۴ دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۷۱ صفحہ۱ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۷۱ ، صفحہ 1 الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۷۱ صفحه ۵ 35 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۸ 36 37 + w w w w w 38 39 40 41 42 ج ته نن و من 43 44 45 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۱ الفضل ۷ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ تحریک جدیدر بوه اپریل ۱۹۷۱ صفحه ۲۱ روز نامه مساوات لاہور ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ ء بحواله الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۱ ء صفحہ ۸ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱۱ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۹ / اپریل ۱۹۷۱ صفحہ ۸ الفضل ۲۴ / اپریل ۱۹۷۱ صفحه ۶ الفضل ۲ مئی ۱۹۷۱ء صفحہ ۷ اصل خط کی کاپی شعبہ تاریخ احمدیت کے ریکارڈ میں محفوظ ہے 46 47 48 49 50 51 الفضل ۱۹ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۸ ماہنامہ خالد مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۱ الفضل کے مارچ ۱۹۷۱ صفحہ ۵ الفرقان جون ۱۹۷۱ء صفحه ۳۳ تا ۳۶ الفضل ۲ و ۱۱ جون ۱۹۷۱ ء سال 1971ء

Page 329

تاریخ احمدیت.جلد 27 319 52 23 53 54 55 56 57 58 59 60 2 2 2 8 328 5 SG 61 62 الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۶ الفضل ۱۵ / اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۳ الفضل ۲۰ / اکتوبر ۱۹۷۱ ، صفحه ۶ الفضل یکم دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۶ در سالہ النصرت مئی جون جولائی ۲۰۱۳ صفحہ ۳۲ الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۵ روز نامه ایام لائلپور بحوالہ ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور ۵ نومبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱۰ الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۴ پیغام غیر مطبوعہ.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ترجمه انگریزی پیغام از حصہ انگریزی تحریک جدید نومبر ۱۹۷۱ ، صفحه ۱۳، ۱۴ الفضل ۲۱ / اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۴ الفضل ۱۸ / اپریل ۱۹۷۱ء صفحه ۵ 63 الفضل ۸ اکتو برا ۱۹۷ صفحه ۳-۴ 64 65 66 67 68 69 الفضل ۶ مارچ ۱۹۷۱ ء صفحہ ۸ رسالہ تحریک جدید نومبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱۴-۱۵ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱.رسالہ تحریک جد ید ا گست ۱۹۷۱ء صفحه ۲۰-۲۱ الفضل ۲۳، ۲۴ ستمبر ۱۹۷۱ء الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ الفضل ۴ دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۱ 70 الفضل ۶ جولائی ۱۹۷۱ صفحہ ۴ رساله تحریک جدیدر بوه ستمبر ۱۹۷۱ ، صفحه ۱۶،۱۵ 71 72 73 74 76 75 له له 77 78 79 ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۱، ۱۲ الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۴ الفضل ۳ مارچ ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ الفضل سے مارچ ۱۹۷۱ صفحہ ۴ الفضل ۲۹ مئی ۱۹۷۱ صفحه ۴ الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۸ بحواله الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۷۲، صفحه ۴ الفضل ۱۰ جنوری.۱۲ مارچ ۲۱ جولائی ۱۹۷۱ء سال 1971ء

Page 330

تاریخ احمدیت.جلد 27 80 81 88 82 83 84 85 ماہنامہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۹ 40 87 88 86 320 سال 1971ء الفضل ۲۷ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۸ - الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۳-۴- الفضل یکم اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۴ مفصل پیغام تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحہ ۱۱۶ تا ۱۱۹ پر شائع شدہ ہے الفضل ۱۰ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۳- ۴.رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۱۷-۱۸ رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ ء صفحه ۲۴-۲۹ الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۵،۴ 89 80% 88 90 91 رساله تحریک جدید اکتوبر ۱۹۷۱ صفحه ۶ تا ۸.جنوری ۱۹۷۲ ، صفحہ ۱۱-۱۲ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو جناب مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح کا مضمون مطبوعہ رسالہ تحریک جدید اپریل ۱۹۷۸ء صفحه ۹ تا ۱۳ رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ء اخبار دی پائنیر The Pioneer غانا.۴ جنوری ۱۹۷۱ ء بحوالہ الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۱ء صفحه ۸ الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۱ ء صفحه ۸ الفضل ۱۶ را سیریل و ۱۵ جون ۱۹۷۱ صفحه ۳ 96 97 98 1106 52 92 93 94 95 الفضل ۷ را پریل.۲۸ مئی.۱۵ و ۱۶ جون ۱۶ جولائی ۱۹۷۱ء الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۱ ، صفحہ ۳ الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۳ الفضل ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۱ صفحہ ۱ الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۷۱ صفحہ ۶ روح پرور یا دیں صفحہ ۶۵۴ و ۶۵۵ 99 پلین ٹروتھ جلد ۳۳ نمبر ۱۰ مفہوم اور جلد ۳۵ نمبر ۱۰،۹ 100 الفضل ۸ / اپریل ۱۹۷۱ صفحه ۳ 101 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ء صفحه ۳۵ 102 رساله تحریک جدیدر بوہ جنوری ۱۹۷۲ء صفحہ ۳۶-۳۷ 103 روح پرور یادیں صفحہ ۶۶۴-۶۶۵ 104 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۳۸ 105 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲، صفحه ۳۶ 106 الفضل ۵ جون ۱۹۷۱ صفحه ۴، رساله تحریک جدید جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۸

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد 27 321 سال 1971ء 107 رساله تحریک جدیدر بوہ جنوری ۱۹۷۲، صفحہ ۹، الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۷۱ ، صفحہ ۳ 108 الفضل ۱/۲۷ کتوبر ۱۹۷۱ صفحہ ۳ 109 رسالہ تحریک جدیدر بوہ نومبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۶-۱۸ 110 رسالہ تحریک جدیدر بوه جنوری ۱۹۷۲ صفحه ۸-۹ 111 الفضل ۱۶ ، ۱۸ مارچ ۱۹۷۲ء 112 رساله تحریک جدید مارچ ۱۹۷۲ ء صفحہ ۱۷ 113 الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ 114 الفضل ۲۶ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۱ 115 رسالہ تحریک جدیدر بوه مارچ ۱۹۷۲، صفحہ ۱۶ - ۱۷ 116 الفضل ۲۸ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۴ 117 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۷۱ صفحه ۴ 118 الفضل 19 ستمبر ۱۹۷۱ ء صفحہ ۳ 119 الفضل ۱۱.۳۰ جولائی.۳۰ ستمبر.یکم اکتو برا۱۹۷ء.۲۲ جنوری ۱۹۷۲ ء.رسالہ تحریک جدیدر بوہ دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۷-۸ 120 رسالہ تحریک جدید ربوہ فروری ۱۹۷۲ صفحہ ۷ تا ۱۲ 121 الفضل ۲ مارچ ۱۹۷۲ ، صفحه ۴ 122 الفضل ۳ / اپریل ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ 123 الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۳-۴ 124 الفضل ۱۱ ۱۲ را پریل ۱۹۷۲ء 125 ماہنامہ تحریک جدید اگست ۱۹۷۱ صفحه ۱۹۱۸ 126 الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ 127 الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ 1 128 تحریک جدید مئی ۱۹۷۱ ء صفحه ۱۸ 129 الفضل ۳ جون ۱۹۷۱ء صفحہ 1 130 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ صفحہ ۱۲.الفضل ۹ جون ۱۹۷۱ صفحہ ۱ 131 الفضل 19 جون ۱۹۷۱ ء صفحہ 1 132 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۲.الفضل ۱۱ جولائی ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 133 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱۲

Page 332

تاریخ احمدیت.جلد 27 134 الفضل ۱۹ اگست ۱۹۷۱ صفحه ۱ 135 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱۲ 136 رسالہ تحریک جدید فروری ۱۹۷۲ ء صفحه ۱۵ 137 رساله تحریک جدید مئی ۱۹۷۱ء صفحه ۱۸ 138 الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 139 الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۷۱ صفحه ۸ 140 الفضل ۴ فروری ۱۹۷۱ ء صفحہ ۱ 141 الفضل ۵ فروری ۱۹۷۱ء صفحہ ۱ 142 رسالہ تحریک جدید مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۱۹ 143 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۱ صفحه ۸ 144 الفضل ۲۴ فروری ۱۹۷۱ء صفحه ۱ 145 الفضل ۱۴ / اپریل ۱۹۷۱ ، صفحہ ۱ 146 الفضل ۷ ا ر ا پریل ۱۹۷۱ صفحہ ۱ 147 تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ء صفحه ۱۲ 148 تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ صفحه ۱۲ 149 الفضل ۲۹ / اگست ۱۹۷۱ء صفحه ۱ 150 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۷۱ ء صفحه ۱۲ 151 تحریک جدید فروری ۱۹۷۲، صفحه ۱۵ 322 سال 1971ء

Page 333

اشاریہ مرتبہ مکرم فر است احمد راشد صاحب، مکرم و قاص عمر صاحب فراست حمد راشدصاد مکرم اولیس احمد نوید صاحب ، مکرم بلال احمد قمر صاحب اسماء..مقامات کتابیات 3 22 31

Page 334

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 3 اشاریہ.اسماء آ.الف آڈوبا کو، الحاج آرای عباسی 250 310 اسماء ابوالعطاء جالندھری ،مولانا احمد نورالدین ، مولوی 248 51، 59، احمد ید اللہ بھنو 297 298 299 192،177،78 ، 229 ، 315 اور میں احمد ، صاحبزادہ مرزا 217 آرتھر لیوناروڈ ولیمز ہر 298 ابوبکر ا ر سوٹیر کا آفتاب احمد بسمل 218 آفتاب احمد داماد مولوی برکت علی 139 آفتاب احمد ،ڈاکٹر 15،14،13 310 اور لیس نصر اللہ خان، چوہدری 33 ابوبکر ایوب، مولانا 313 314 ارشد بیگ، مرزا 195 ابوبکر بوا بوا 128 ارشد علی ایڈووکیٹ ، شیخ 199 ابوبکر خاں ( معلم ماریشس ) 299 اسامہ سعید 220 122 اسد اللہ خان، چوہدری 32 ، 253 72 اسرافیل ، ملک ابوبکریزی ابوطالب، حضرت آمنه بیگم زوجہ شیخ رشید احمد 150 آمنہ بیگم زوجہ ہادی علی خاں 164 آمنه کریم - لندن آئی پی ایم کارگل 251 60 آئزن ہاور (Eisenhower) آئی.کے.گیاسی ابراہا ایم بو ابراہیم بیچی ابراہیم گساؤ ، الحاج 284.283 275 اجیت سنگھ چیمہ 112 اسلم بیگ.کوئٹہ احتشام النبي 21 ،25 اسماعیل فوڈے احتیاج علی زبیری 211،105 اشونی کمار ، شری احسن.نائیجیریا 305 اعجاز احمد ، شیخ 132 225 79 114 114 195 اعجاز الحق قریشی ابن رحمت اللہ منصرم احسن بیگ، مرزا احمد الدین، ڈاکٹر شیخ احمد الدین، خواجہ 27 احمد اللہ شیخ 147 136 162.157 25 علمش رومی افتخار الدین ، مرزا افتخار احمد ایاز ، چوہدری افتخار احمد جنجوعہ، میجر جنرل 172 173 218 255 310.23 احمد بلاگو، الحاج احمد بی بی زوجہ بشیر احمد 154 18، 19 ، 22، 23 احمد رفاعی اوٹو لے 23 133.108.107.106 224 ابراہیم علیہ السلام، حضرت 72 احمد شمشیر سوکیہ، مولانا 201 ، 298 افتخار احمد سہروردی 26 احمد علی ، شیخ.دھرم کوٹ بگہ 199 افضل احمد ، ڈاکٹر ابن رشد 125

Page 335

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 4 اشاریہ.اسماء 151 اقبال احمد شمیم، بریگیڈئیر 223 امتہ الحفیظ ، حضرت صاحبزادی امیرحسین ، قاضی سید 51 امین (ہائی کمشنر ماریشس) 60 اقبال احمد غضنفر، مولانا 313 اقبال بیگم زوجہ خان بشیر احمد خاں امة الحفیظ، سیدہ زوجہ مرزا محمد حسین انوار احمد خان، ڈاکٹر 10 ،295 163 152 انور احمد کاہلوں اقبال بیگم زوجہ محمد اکبر خاں 164 امتہ الحی ، سیده 168، 169 انور حسن ، چوہدری 147 امتہ الرحمان زوجه را ناخلیل احمد اکبر اعظم.شہنشاہ الفا.اے.جے.جے.باڈا 310 الفا ایس بی گیوا 310،219 اللہ بخش، چوہدری حاجی 214.184.180.179 اللہ بخش صادق، چوہدری 230 اللہ دتہ، چوہدری خانو والی 140 208 273.272.269 انور حسین، چوہدری 33،32 امة الرحیم عطیہ زوجہ صوفی مطیع انورخاں.ہائی کمشنر پاکستان الرحمن بنگالی امۃ الرشید ،صاحبزادی 170 218 امتہ السلام زوجہ ڈاکٹر میجر عبد الحق ملک امة الشكور 138 219 اولڈ فیلڈ ،جسٹس اونا تھ ای گار با جمیا ایڈورڈ سمو کا 299 78 151 27 79 امة العزیز زوجہ مرزا محمد ادریس 182.181.180 171.167 اللہ دتہ سیالکوٹی،میاں 179 امته الكبير ماریہ ایڈورڈ کا کو باؤ 287،286 ایس.اے.معید 217 اللہ رکھا، چوہدری اللہ رکھا، چوہدری اللہ وسایو خان الہی بخش، چوہدری 193 209 178.177 163 امتہ الکریم بنت ڈاکٹر بدرالدین ایس او بکری 171 ایس.ایم.قریشی امتۃ اللطیف زوجہ حمید احمد ڈوگر 191 ایس ایم حسن، ڈاکٹر امان اللہ گوجرانوالہ 225 امتہ اللہ بیگم زوجہ فضل دین 191 ایس اے کا با امتیاز احمد چوہدری، ڈاکٹر 10 امتہ اللہ زوجہ نور الاسلام 140 ایس اے کیسے امتہ الاعلی بیگم زوجہ لطف المنان امتہ النور زوجہ ڈاکٹر عبدالمالک شمیم ایم.اے.سونکو 295،218 ایم.اے.147 218 ایم.ایم.حبیب امتہ الحفیظ عابدہ زیروی 218 ام ناصر ( محمودہ بیگم) 196 | ایم.اے.سوہن 311 295 281.27.14.13 310 310 17 17 28

Page 336

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 5 اشاریہ.اسماء ایم.بی.ابراہیم 272 بشارت احمد بشیر ، مولانا ایم ایم پیرزاده ایم جمیل، ڈاکٹر 60 253 26.13.11.10.8.194.179.178.28.277.276.275.274 بشیر احمد ،ڈاکٹرسید بشیر احمد ، خواجہ.برما 219 253 بشیر احمد آرچرڈ 249 ، 251 197 185 بشیر احمد خان رفیق، مولانا این کنیوا گمانگا 269،9 278 279 280 281 بشیر احمد چغتائی ایوب شاہ، سید 159 بشری بشیر زوجہ بشیر احمد اے آر بکری ، جسٹس 310 بشری کلاله 122 اے.اے.افریفا 274، 275 بشری مبارکہ بنت عبد الحمید بٹ بشیر افضل.نیو یارک 267 313.47 244 224 بشیر الدین محمود احمد ، حضرت مرزا اے.کے.زبیر اے اے منافی 11 بشیر احمد.نائی والا سیالکوٹ 154.68.62.44.7 بشیر احمد، چوہدری ابن حاجی اللہ بخش 127، 141، 164، 178ء بانگالے مارے بدرالدین ،حافظ ڈاکٹر بدرالدین.شورکوٹ 18 بشیر احمد ، میاں 207.206.202.196 190.185.184.252.239.210.208 32 165 ، 167 ، 168 | بشیر احمد، چوہدری.راولپنڈی 172 316.270.268.260 227 228 229 | بشیر الدین اسامہ، ڈاکٹر 244 بدیع الزمان مونگھیری 36 بشیر احمد اختر ، مولوی 273، 291 بشیراں بی بی بنت محمد سلطان 163 برکات احمد ، ڈاکٹر 246 بشیر احمد خان، ڈاکٹر 11، 12 | بلال عبد السلام.فلاڈلفیا 244 برکت علی ، مولوی 151.139.111 بشیر احمد خاں، خان داماد محمد عبد اللہ بلیکٹ ، پروفیسر برکت علی این کفایت الله 163 بشیر احمد شیدا بساری 30 217 163 | بنت مهدی فرحت 252 | بنکولے (Bankole).نائیجیریا 306 | بشیر احمد، حضرت صاحبزادہ مرزا بشارت احمد امروہی ،مولانا 302 | 132،56، 183، 184 ،198 بنیامین کظیم جسٹس بشارت احمد ، سید 158، 216 بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ بوعلی سینا 307 310 26 بشارت احمد ، لیفٹیننٹ کرنل ملک 32،3، 148 ، 158 ، 253 بھاگ بی بی زوجہ چوہدری الہی بخش 110 ، 143 بشیر احمد، چوہدری (ناشر) 114 163

Page 337

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 بیا،مسٹر (Bea) 224 جاویدی.غانا بی.بی.بالوگوں، الحاج 310 جگت سنگھ ، مسٹر 297 | جگجیت سنگھ اروڑا بیمادھر 6 اشاریہ.اسماء 278 حبیب اللہ ، ملک داماد محمد عبد اللہ 298 163 92 حبیب اللہ ا بن چوہدری الہی بخش جلیل الرحمن ، ملک 123 ، 127 163 جمال الدین باڈا، معلم 308 حبیب اللہ خاں، ملک.نیلا گنبد | پاالفاشریف پا سعید و بنگورا پر تھی چند آریہ پرنس جے ولیمز پرویز پروازی ، ڈاکٹر 269 269 151 270 237 جمالی ( ترک احمدی) 198 لاہور 205 جمعه رمضانی 291 حبیب اللہ خان، ملک حاجی 223 جمیل احمد ، ڈاکٹر.برما 224 حبیب النساء جمیل احمد ملک 223 حسن رشیدی.کینیا جمیل الرحمن رفیق ، مولانا 288، حسن سنمونو.لیگوس 203 294 307 پروین طاہرہ بنت ڈاکٹر غفور الحق پولوس پیغمبر اسنگھ، بابا 225 161 172 289 290 291 292 حسن علی بھاگلپوری ، مولانا 315 جنت بی بی زوجہ عبد الله 163 حسین اے عامل جواد علی ،سید جوموکنیاٹا جے جے ونسنٹ 313 حسین ، حضرت امام 289 حسین شہید سہروردی 235 حشمت اللہ خان ، ڈاکٹر 156 302 173 54 تکے گوچی بشیر 259 ہے.سی.الحسن العطاء، الحاج حشمت بی بی زوجہ رحمت اللہ منصرم ٹکا خان، جنرل ٹی.بی.خون ثمر احمد ، مرزا 102.84 295 217 275.268 171 حفیظہ بیگم بنت حاجی اللہ بخش 190 حامد شاہ، سید میر حفیظہ بیگم زوجہ آفتاب احمد 139 ثمرہ خان بنت بریگیڈئیر ڈاکٹر مرزا 136 ، 156 157 | حمزہ ، حضرت مبشر احمد 217 حبیب، میاں 107 حمید احمد، چوہدری ج حبیب احمد ابن محمد خان 153 حمید احمد خان، پروفیسر 173 23 3 جان کاک کرافٹ پسر 30 حبیب الرحمن منشی 144 145 حمید احمد ڈوگر داماد با بوفقیر اللہ 191 جان لارنس بمفرے 60 حبیب الرحمن، میاں 192 حمید اللہ ابن بابو فقیر اللہ 191

Page 338

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 7 حمید اللہ ایم اے، چوہدری 230 خورشید احمد ، صاحبزادہ مرزا ذینی دہلان.انڈونیشیا حمید نصر اللہ خاں، چوہدری 63 217.117 حمیدہ بیگم زوجہ مسعود احمد رشید خورشید بیگم زوجہ سراب احمد خاں 164 حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا 217 139 252.115 97 139 220 164 رادھا کشن، پروفیسر اشاریہ.اسماء 248.202 29 خورشید مسرت زوجہ میجر محی الدین را دن یوسف.انڈونیشیا 199 ملک داؤ دا جوارا ، سر , 138 295 را ڈین احمد انور رام پرکاش پر بھا کر ،شری 248 113.112 314 رحمت اللہ، ڈاکٹر ابن محمد عبد اللہ داؤ داحمد حنیف، مولانا خ خاتون بانو، سیده خالد اختر خالد بن ولید داؤ د احمد ، سید میر خالد محمود،سید داؤد، الحاج غانا خالد محمود چیمہ داؤ دابوری شادی خدا بخش عبد ز یروی ، صوفی 218 دوست محمد شاہد، مولانا خدیجہ بیگم زوجہ خان بہادر غلام محمد خان گلگتی 164 دوست محمد شمس، شیخ خدیجہ نذیر 251 | دھرت رام 6 280 306 316.315 208 151 209 رحمت اللہ ابن مولوی برکت علی 163 139 رحمت اللہ ابن مولوی کرم الہی ڈوگر 142 رحمت اللہ شاکر داماد محمد عبد اللہ رحمت اللہ منصرم 163 171 رحمت بی بی زوجہ ماسٹر محمد پریل خضر حیات خان ، سردار 60 دھنپت رائے خلیل احمد ،حکیم خلیل احمد ، رانا 132 ڈز 194 140 ڈور تھی زول 233 رحمت بی بی بنت مولوی کرم الہی خلیل احمد داماد چوہدری الہی بخش ڈینٹل مورا یوسف ، حاجی 302 ڈوگر 163 ذكرت بشیر خلیل احمد کلالہ 122 123 ذکیہ جسوال | 142 23 | رحمت بی بی والدہ چوہدری غلام 251 | رسول خلیل احمد ناصر ، ڈاکٹر 245 ذوالفقار علی بھٹو 106،83،60 | رحمت علی ،مولانا خلیل ادریس 305 ذوالفقار علی خاں گوہر، مولانا 164 رحمت مسیح 179 199 187.186

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 8 00 اشاریہ.اسماء رسول بخش ، ملک 142 رفیعیہ بیگم زوجہ میاں عبدالمجید رسول بی زوجہ الحاج سیٹھ حسن 192 رفیق احمد ثاقب 163 سارہ خان بنت ناصر وسیم وارڈ 21 223 ساہنی (مشیر ) رسول بی بی زوجہ ماسٹر مبارک رفیق احمد چانن اسماعیل 164 رفیقہ بیگم زوجہ چوہدری بشیر احمد ست بھرائی رشید احمد شیخ ابن ڈاکٹر شیخ احمد 227 228 229 ستنام سنگھ باجوہ ، سردار الدین 150 | رقیه خاتون 206 رشید احمد امریکن 245 | رو بیارڈ (Robillard) 296 193 314.310.309 سجاد احمد جان، جسٹس 238 114 205 113.112 3 سراب احمد خاں داماد غلام محمد خان 164 روشن دین.والد اسلم قریشی 57 سراج بی بی زوجہ ڈاکٹر بدرالدین رشید احمد بھٹی 241 روشن الدین احمد ، مولوی رشید احمد خالد رشید احمد سرور، مولانا رشید حسین.ماریشس 254 255، 313 روشن دین، تنویر، شیخ 44 ، 46 روشن علی ، حافظ 297 298 299 | روم، مولانا 209 167.165.164 سرتاج علی امتیاز ز بیری، کیپٹن 211 155 | سردار بی بی زوجہ محمد اسماعیل 141 رشیده باسمه زوجہ بشارت احمد بشیر ریاض احمد ، ملک 225 سردار بیگم زوجہ چوہدری ظفر علی 194 ریاض حسین ، سید 222 223 229.228.227 رشیدہ بیگم زوجہ مولانا چراغ الدین ریکھے ، کرنل 161 ، 162 سردار محمد ابن میاں فتح محمد 141 198 ز سرفراز.جمعدار رضیہ اعظم علی بیگ 231 | زرتشت منیر داماد محمد عبدالله 163 | سعادت احمد ، سید رضیہ بیگم زوجہ ملک حبیب اللہ ذکر و داؤدا 163 زینب اہلیہ حبیب اللہ 310 سعید احمد، چوہدری 163 رضیہ بیگم زوجہ میاں عبد القیوم وہرہ زینب بیگم زوجہ قریشی عبدالرحمن 164 154 سعید احمد ، ڈاکٹر 57 158 114.112.111 55 سعید احمد ابن چوہدری فیروز الدین رفعت خالق 219 زینب خاتون زوجہ خلیل احمد 163 سعید احمد خاں، ڈاکٹر | 240 251

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 9 اشاریہ.اسماء سعیدہ اختر ، ڈاکٹر 225 سمندر سیح سفنی ظفر احمد 186 | شیر محمد ابن میاں فتح محمد 141 202 | سی.پی.فورے 266،9 شیر محمد داماد چوہدری الہی بخش 163 | پی.فورے سکندر مرزا، میجر جنرل 82 سیا کاپی سٹیونز 271.17 صیض سلامت اللہ خاں ، رانا 140 سیف الرحمن ، مولا نا ملک صادق نسیم ، چوہدری 7 صادقه بنگوی سلاؤ، ڈاکٹر.نائیجیریا 310 سیوسا گر رام غلام ، سر سلطان احمد ، صاحبزادہ مرزا 165 125 251 صادقہ بیگم زوجہ محمود احمد 150 ش 248 صالح.ترکی سلطان احمد ابن چوہدری الہی بخش شافعی، انڈونیشیا 163 195.152 217 251 شاہ دل یوسف.ملائیشیا 264 صالح الشبيبي 296 248 شاہد احمد خان ، نوابزادہ 217 صالح علیہ السلام، حضرت 72 سلطان محمد، مرزا سلمان احمد ، مرزا شاہ محمد 151 صالح محمد داماد چوہدری غلام رسول سلمی مبارکه خاتون شجاع، ڈاکٹر.ماریشس 296 141 سلمی صدیقہ زوجہ چوہدری علیم شرافت احمد 239 صالحہ بیگم زوجہ شیخ محمود احمد 150 الدین سلمی نذیر 142 251 سلیمان، الحاجی (سارکن کوڈو )23 شعیب موسیٰ.سویڈن سلیمان علی ( ہائی کمشنر ) سلیم احمد ، چوہدری 60 223 شفیع محمد ابن محمد سلطان 265 163 25 191 صدرالدین ، مولوی شرف الدین، چوہدری شرما ( ڈی ایس پی بٹالہ ) 112 صدیق احمد منور ، مولوی صغراں بی بی زوجہ ڈاکٹر عنایت اللہ 136 301 297 شاه صفدر حسین ، سید ڈاکٹر 164 234 سلیمہ بیگم زوجہ مرزا ارشد بیگ 195 سمیع اللہ ابن بابو فقیر اللہ 191 سمیع اللہ ابن مولوی برکت علی 139 سمیع اللہ سیال، چوہدری 229 شکیل منیر شمس الدین بلوچ ، ماسٹر 179 صفیه با نوز وجہ محمد یا مین تا جر کتب شمس الدین خان، خان 211 شوکت حیات خان شوکت علی، بریگیڈئیر شہاب الدین والد میاں فتح محمد 60 56 140 سمیع اللہ قمر ، مولوی 125، 128 شہاب الدین انیچی کو یا 132 200.199 صفیہ بیگم زوجہ مولوی عبدالکریم صلاح الدین ایم.اے، ملک 163 315.215

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 10 صلاح الدین خان بنگالی ، مولانا ظفر احمد کپور تھلوی منشی 313.230 صلاح الدین سلیم احمد 220 ظفر اللہ الیاس، الحاج عائشہ نصیر اشاریہ.اسماء 218 144 ، 192 عباس احمد تیلیوگ 310 | عباس مرزا ضیاء الحق خان 224 ظفر علی، چوہدری.گوجرانوالہ عبدالباسط شاہد، مولانا 23 b 16 223 228.227 302 57 225.127.125 ظہور احمد نواحمدی جاپان 259 عبدالباقی بھاگلپوری ،مولوی 218 ضیاءالدین ، ڈاکٹر ظہور احمد باجوہ، چوہدری طارق احمد ، ڈاکٹر 91 عبد الجلیل عشرت طاہر احمد ،خلیفہ.کوئٹہ ظہور احمد شاہ، ڈاکٹرسید 284 عبدالحق ، ڈاکٹر ظہور حسین ، مولانا 158 عبدالحق، ملک میجر طاہر احمد ، حضرت صاحبزادہ مرزا 33 32 138.80.71.64.63.33.4.3 243.239.230.217.82 طاہر احمد ، مرزا ابن مرزا محمد حسین ظہور حسین ،صوبیدار میجر ڈاکٹر عبدالحق ، قاضی 158 عبد الحق، شیخ ع 152 | عابدہ خانم بنت عبدالحمید بٹ 224 طاہر احمد ابن خلیفہ عبد الرحمن 226 عارف نعیم 204 148.147 عبدالحق ایڈووکیٹ ، مرزا 315.199.148 198 عبدالحکیم پٹیالوی ، مولوی 175 طاہر محمود چوہدری طاہر محمود سیفی 125 125 طاہرہ بانو ، سیدہ بنت صوفی عبدالرحیم 139 عبدالحمید ، قاضی عائشہ بی بی بنت حاجی اللہ بخش 190 | عبدالحمید، میجر عائشه بی بی زوجہ شیر محمد 163 عبدالحمید ، ڈاکٹر عائشہ بیگم زوجہ حاجی عبد العزیز میمن عبدالحمید بٹ 206 | عبدالحمید خان ، ڈاکٹر 154 256 251 224 251 طاہرہ بیگم زوجہ مرزا محمد حسین 152 عائشہ ( پوتی چوہدری ظفر علی ) عبدالحمید عاجز، شیخ 134،111 طيب النساء، سیده ظ 203 227 228 229 | عبدالحئی ،میاں عائشہ سلطانہ بنت ٹھیکیدار چوہدری عبدالخالق بٹ 141 عبدالرب مونگھیری غلام رسول ظفر احمد ، مرزا ابن مرز امحمد حسین 153 غلام رسول چوہدری 179 314.248 225 37 عبدالرحمن، خلیفہ 225،223

Page 342

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 11 عبد الرحمن ، قریشی داماد قریشی نور عبدالرحیم لدھیانوی ، صوفی 138 | عبدالشکور ، مولوی 154 عبدالرزاق، چوہدری 141 عبد العزیز.غانا الحسن اشاریہ.اسماء 227.13 307 عبدالرحمن ، ماسٹر 199 عبدالرشید.گوکھو وال 197 عبد العزیز والد ڈاکٹر عطاء اللہ عبدالرحمن ، چوہدری سابق امیر عبدالرشید ایڈووکیٹ، قریشی 208 علیگڑھی جماعت ملتان) 220 عبدالرشید غنی 3، 4 عبد العزیز، قریشی عبدالرحمن ابن مولوی کرم الہی ڈوگر عبدالستار.ماریشس 201 عبدالعزیز ، چوہدری 142 136 208 100 عبدالستار خادم 205 | عبدالعزیز امرتسری، حکیم 209 عبدالرحمن خادم، ملک 197 197 عبدالستار شاہ، ڈاکٹر سید ،ڈاکٹرسید عبدالرحمن خان بنگالی، چوہدری 244 ،245، 247 | عبدالستار میمن ،سیٹھ 182.155 206 عبدالعزیز دین 251 عبد العزیز مو بانگاه 122 123 عبدالعظیم میمن ، حاجی عبد الرحمن کا مٹی ، ڈاکٹر (سابق منگل عبد السلام، پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور کڑک ، ڈاکٹر سنگھ) 194 251.201.76.30.29 عبد الغنی کریم شاہد عبدالرحمن ، شیخ 157 عبدالسلام ابن بابو خواجہ محمد الدین عبد الغنی کڑک ، ڈاکٹر عبدالرحمن.برما 253 138 311 عبدالرحمن انور، مولانا 214 عبدالسلام اولا ئنڈے عبدالرحمن جٹ ،مولانا عبد السلام خاں کا ٹھگر بھی ، چوہدری 206 105 313.6 105 253 عبد الرحمن مبشر ، مولوی عبدالرحمن، مولوی عبدالرحیم ، ایئر مارشل عبدالرحیم احمد، میاں عبدالرحیم درد ، مولانا عبدالرحیم ظفر عبدالرحیم کھوکھر عبد القادر.برما عبدالقدیر، چوہدری 147.114.112 301.111 عبدالسلام شہید 215.214 113 60 218 147 عبد السلام ظافر 208 105 270 عبدالقیوم وہرہ ، میاں داماد غلام محمد خان کلکتی 164 عبدالقیوم (سیکرٹری ایوان صدر ) عبد السلام میڈیسن 263.261.260 عبدالسمیع ابن ٹھیکیدار چوہدری غلام عبدالقیوم خان ، خان 89 60 عبدالکریم ، مولوی داماد محمد عبد اللہ رسول 141 246 | عبدالسمیع ابن چوہدری عبدالرحمن 163 225 220 عبدالکریم.قلعہ صو با سنگھ 182

Page 343

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 12 اشاریہ.اسماء عبدالکریم ، مولوی 136 عبد اللہ نائی کا 79 عثمان فاروق عبدالکریم.( حاجی) 223 عبد المالک خان، مولانا عثمانی گا گوریا عبدالکریم بٹ ، بابو عبد الکریم خالد 193 219 315،61 عرفات کامل العشی عبدالمالک شمیم، ڈاکٹر 218 224 عبدالمجید ، میاں داماد محمد عبداللہ عبدالکریم خان عرفان علی منشی 20.19 291 262 37 عزیز احمد.مغربی جرمنی 224 163 223 عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا عزیز الرحمن ، شیخ 37 147 عبدالکریم سیالکوٹی ، مولانا 151 عبدالمجید ، راجہ عبداللطیف، چوہدری 313 عبداللطیف بہاولپوری، مولوی رسول 141 عبداللطیف خان 214 204 عبدالمجید ابن ٹھیکیدار چوہدری غلام عبدالمجید بھٹی 23،21،20 عزیز الرحمن بریلوی، سید 204 عزیز الرحمن خالد ، مولوی 272 عبداللطیف شاہد گجراتی ،حکیم 315 عبدالمحسن خالد کڑک شہید 105 عزیزدین عصمت اللہ، چوہدری 252.115 148 عبدالمطلب مالک عبد اللطیف شہید، صاحبزادہ سید عبدالمنان، ملک 60 245 عطاءالرحیم حامد 168.165.153.138 عبدالمنان ناہید 212،138 عبداللہ ، شیخ 147 عطاء اللہ قریشی عبدالمومن خاں کا ٹھ گڑھی ، چوہدری عبداللہ ابن ٹھیکیدار چوہدری غلام عطاء اللہ، میاں 271.270.79 154 199 208 رسول عبداللہ خان ،نواب 141 148 عطاء اللہ علیگڑھی، ڈاکٹر 136 عبدالواحد،مولانا شیخ عبداللہ خان، چوہدری.داتہ زید کا عبد الواحد ، مولوی 286.283.282 248 عطاء اللہ کلیم، مولانا عطاءالمجیب راشد ،مولانا 49 عبداللہ خان، چوہدری 182 182 عبد الوہاب بن آدم، مولانا عبد اللہ داماد چوہدری الہی بخش عتیق الرحمن ، جنرل 163 عثمان ڈان فودیو، حضرت عفت افتخار خالق 218 219 220 عقیلہ بیگم زوجہ میاں فضل کریم وہرہ 20 عبد اللہ کورسے محمد ، الحاجی 22 عثمان غنی ابن حاجی اللہ بخش علاء الدین مصطفی عبد اللہ ناصر 276 184، 185، 190 | علی بلگرامی، سید 164 264 129.237.115 252.251.250.249 310.277.276.40.12

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 13 على روجرز، الحاج 269 غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت غلام محمد صوفی علی مرادشاه اشاریہ.اسماء 148 174 | مرزا 42 ،74 ، 137 ، غلام محمد، میاں.قادیان 191 153 علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش 142 ، 145، 151، 155 ، غلام محمد افغان ، مولوی 165، 245، 256، 311 غلام محمد خان گلگتی ، خان بہادر 164 107 علیم الدین، چوہدری 142 غلام احمد قریشی ابن رحمت اللہ منصرم غلام مصباح بلوچ 172 غلام لیسین، چوہدری 213 313 علیم الدین ( حاجی) عمر سے 224 27 غلام احمد نسیم ، میر غیاث الدین 57 126.125.124 عنایت اللہ احمدی، چوہدری 313 ف غلام باری سیف، مولانا 315 عنایت اللہ شاہ، ڈاکٹر 164 فاتح الدین احمد ، مرزا 217 غلام جیلانی خان ، لیفٹیننٹ کرنل عنایت بیگم زوجہ مرزا محمد حسین فاطمہ، الحاجبیہ.نائیجیریا 305 107 152 غلام حسین، چوہدری ( انسپکٹر آف فاطمہ بیگم زوجہ مرزا محمد حسین 152 عنایت علی لدھیانوی ، میر 138 سکولز) عیدی امین 255 غلام حیدر منشی عیسی علیہ السلام، حضرت غلام حیدر پلیڈر، مرزا 200 138 158 فاطمه حنیفہ فقائی گیوا فتح محمد میاں 72، 126 ، 161 ، غلام رسول ، چوہدری ٹھیکیدار 141 فرزندعلی خاں ، مولوی 181، 182، 263، 264، غلام رسول، چوہدری تلونڈی جھنگلاں 294.293.292.289 غازی احمد ، میاں غ 205 غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا 116 179 224 219.218 140 211.168.146 فریڈرک چلو با فریڈرک با پکنز ،سر غلام فاطمہ بیگم بنت محمد فیض الدین فرینک ایس انتھونی سیالکوٹی 194 30 8 فشر ،کیپٹن 160، 162،161 غلام فاطمہ زوجہ صالح محمد 141 فضل الہی ، چوہدری غلام فرید ، ملک 148 فضل الہی انوری، مولانا غلام احمد امرتسری ، خواجہ غلام مجتبی ، ڈاکٹر سید 196.195 غلام احمد فرخ ، مولانا 177، 239 غلام محمد ، چوہدری.سیالکوٹ 8 190.189.183.182 60.302.25.19 311.310.309.304 فضل الدین.گیمبیا 224

Page 345

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 فضل الرحمن ، مفتی 14 144 قائم دین ، مولوی 136 کلثوم بانو، سیده فضل بیگم زوجه با بوعبد الکریم بٹ قدرت اللہ ، حافظ بابوعبدالکریم اشاریہ اسماء 204 249 کلثوم بیگم زوجہ ڈاکٹر چوہدری منور 192 193 قمر الدین سیکھوانی ، مولانا 177 احمد فضل دین داماد با بوفقیر الله 191 229.228.227 کلفرڈ بیل ، مسٹر 301 فضل کریم وہرہ ، میاں داماد غلام محمد کارنیلیس ، جسٹس 102 کلیم اللہ ابن بابو فقیر اللہ 191 164 کبیر احمد بھٹی 122 123 | کمال الدین، خواجہ 206 کرامت الله ابن مولوی برکت علی کمال متین الدین ، بریگیڈئیر 139 182 کرامت اللہ خاں ، رانا 139 کمال یوسف ، سید | خان گلگتی فضل کریم ،سیٹھ فضل کریم ، مولوی.قلعہ صو با سنگھ فضل کریم لون فضل محمد خان ، خان 205 | کرٹ شارف فقیر اللہ ، ڈاکٹر بابو (Kurt Scharf) | 190 فقیر محمد ، سید 165 کرشنا آئیر ، جسٹس 249 | کرتار سنگھ،سردار 111 کنیو المانگا کو سو کونٹے 231 کینتھ کا ؤنڈا 78 گ 137 108 265 269 266 120 فلیچر ، لارڈ 235 کرشنن، جسٹس 78 گا کوایا فوڈے تاڈز 271 کرم الہی ڈوگر، مولوی 142 گستاولی بان ، ڈاکٹر فہمیدہ بیگم بنت چوہدری ظفر علی کرم الہی ، ملک 148 گل حسن، جنرل 227 228 کرم دین بھیں ، مولوی 137 گل محمد ( معلم ) فیاض احمد ، اخوند 164 کریم احمد ، مرزا فیروز الدین، چوہدری 240 تنظیم الرحمن ، شیخ فیروز دین،ڈاکٹر فیض احمد ، چوہدری ق قاسم نور علی قائم الدین سندھی 158 114 298 174 217 گویا جو ہمبا.الحاج 192.147143 کفایت اللہ ابن چوہدری الہی بخش تگر شری 163 112 گوہر ایوب گھا بے لبنی سعید لطف الرحمن ، مرزا کلثوم اختر بنت عبد الخالق بٹ 225 | لطف الرحمن ، شیخ 290 2 107 242 298 60 17 219 313 147

Page 346

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 15 اشاریہ.اسماء لطف الرحمن محمود 270 مبارک اسماعیل، ماسٹر داماد غلام محمد محمد احمد مظہر ، شیخ لطیف، سیدہ.یوایس اے 224 خان گلگتی 164 | محمد ادریس ، مرزا 148.32 248 لطیف الرحمن ، شیخ 147 مبارک علی مولوی 156 محمد ادریس ، مرزا داماد ڈاکٹر بدرالدین لطیف قریشی 131 مبارک علی باہری، سید 139 لعل بی بی زوجہ محمد خان 153 مبارکہ بیگم بنت سید مبارک علی محمد ادریس ملومبا لقمان احمد 47 باہری 139 171.121 128.125.123.122 207.206 لوط علیہ السلام، حضرت 72 | مبشر احمد ، بریگیڈئیر ڈاکٹر مرزا محمد اسحق انور 219 لئیق احمد عابد لئیق احمد فرخ ، ڈاکٹر میجر 16 مبشر غنی | 217 محمد اسحاق ، صوفی 313،312 219 محمد اسحاق ، چوہدری ( مبلغ چین و 120 مبین الحق شمس ، حافظ 200 ہانگ کانگ) لیوانکا لیوی، پروفیسر 29، 30 مجیب الرحمن، شیخ 84.83 مجیب فقر اللہ کیپٹن 101 تا 104.185.184.182 215.214.190.187 مارٹن لوتھر مانک شا، جنرل ماہناسا قوے 161 111.110 269 محاما ثانی محبوب علی 14،13 محمد اسحاق، شیخ 206 188 محمد اسحاق خلیل، ڈاکٹر حافظ 264 محبوب یوسف خان 284 285 محمد اسد اللہ قریشی ، مولوی 316 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا محمد ، مولوی فنجی.141.64 316.253.229.142 محمد ابراہیم ، میاں 283 محمد اسلم، پروفیسر قاضی محمد ابراہیم ،صوفی 148 محمد اسلم جاوید 238 249 220 محمد اسلم جہانگیری، ڈاکٹر 269،8 مبارک احمد ،مولانا شیخ 315،62 محمد ابراہیم بقاپوری ،مولانا محمد اسلم قریشی 214،177 محمد اسلم قریشی.ماریشس 59056 مبارک احمد بھٹی ، مولوی 210 مبارک احمد جمیل محمد ابراہیم خاں ابن غلام محمد خان 301.298.297 246 جهانی 164 محمد اسماعیل، مرزا ( چٹھی مسیح) مبارک احمد ساقی ،مولانا 251 مبارک احمد نذیر محمد احسن ،حکیم 150 60 270،79، 272 273 محمد احسن امروہی ، مولوی 174 محمد اسماعیل دامادمیاں فتح محمد 141

Page 347

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 16 محمد اسماعیل منیر ، مولانا محمد بشیر خاں ابن غلام محمد خان گلگتی محمد رمضان، حکیم محمد اسماعیل وسیم ، ماسٹر 207.206 164 محمد رئیس طاہر اشاریہ.اسماء 174 125 محمد بن داؤگ 302 - محمد زاہد، حکیم ابن بدر الدین 172 19، 23،21 محمد بی بی زوجہ صوفی محمد عبد اللہ محمد سعید، لیفٹیننٹ کرنل 220 محمد اسماعیل یادگیری،مولانا 192 محمد اشرف ، مرزا 193 محمد بیلو، الحاجی محمد اشرف، چوہدری.گھٹیالیاں محمد پریل، ماسٹر 154 محمد سلطان ابن چوہدری الہی بخش 23 173، محمد سلیمان، حافظ 163 313 267 227 | 174 ، 176، 177، 194 | محمد سنوسی مصطفی محمد اشرف.سیالکوٹ کینٹ 213 محمد جان.ناندی 285 محمد شریف، چوہدری.زیمبیا محمد اشرف، ڈاکٹر 18 محمد جاوید محمد اشرف، چوہدری 26 محمد جلال شمس شاہد 125 219 محمد افضل ، ڈاکٹر 126 محمد جمیل ابن میاں فتح محمد 141 محمد اقبال، سر علامہ 44 محمد حسن احسان دہلوی ، ماسٹر 156 محمد اقبال ابن حکیم محمد زاہد 173 محمد حسین، ماسٹر محمد اکبر، ملک 105 143 محمد حسین ، مرزا ( چٹھی مسیح) 150 محمد اکبر خاں والد اخوند فیاض احمد محمد حسین نجی 164 محمد حنیف شیخ محمد اکرم ، خواجہ 196 | محمد حنیف جواہر محمد اکرم، چوہدری 100 | محمد خان افغانستان محمد الدین، با بوخواجہ 136 محمد رحیم الدین، منشی محمد الدین امرتسری منشی 209 محمد رمضان ، ڈاکٹر محمد امین امرتسری، خواجہ 196 محمد رمضان ، ڈاکٹر کرنل محمد انور جان، کرنل قاضی 204 محمد ایوب خان 83،82،60 | محمد رمضان، حاجی 282 223 298 153 200 158 220.125 284 126.123.122 محمد شریف، مولانا چوہدری 314.295.18.10 محمد شریف، مستری 225 محمد شریف تیوسوچنا نگ 302 محمد شریف خالد 47 محمد شریف کھوکھر، مولوی 240 197 محمد شعیب (عالمی بینک) 60 محمد شفیع اسلم ، ماسٹر محمد شمس الحق ( فلائنگ آفیسر ) محمد شمس الدین.فنجی محمد شیلو.کینیا محمد صادق.نیو یارک محمد صادق مفتی 109.108 286 290 246 177.146.144

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 17 اشاریہ.اسماء محمد صادق سماٹری ، مولانا 248 محمد عبد اللہ، قریشی محمد صالح زاہد، مولوی 154 محمد غوث ، سیٹھ 192 214 محمد عبد اللہ.قلعہ صو با سنگھ محمد فیض الدین سیالکوٹی ، مولوی محمد صدیق، چوہدری (صدر عمومی) محمد صدیق امرتسری، مولانا 91 287282.247.243 محمد صدیق شاہد گورداسپوری، مولانا 162.154 محمد عبد اللہ ، چوہدری.کھاریاں محمد عبداللہ، کیپٹن محمد عبد اللہ بھٹی ، قاضی محمد عبد اللہ خاں ، نواب 203.202 184 204 148 194 270 محمد کریم قمر محمد کمانڈا بونگے ، الحاج 269 محمد لال ٹوپی ،مولوی 286،282 محمدمحمود عالم (ایم ایم عالم ) 109.268.266.28.10.9 273.272.270.269 محمد صدیق ناز، ماسٹر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت 177.97.95.81.75.71.55 270.241.172.161 محمد عبداللہ خان نیازی، لیفٹیننٹ جنرل محمد عز الدین حسن، ڈاکٹر 107.92 265.264.263 محمد عطاء اللہ ، کرنل 65،64،63 محمد علی ،مولوی محمد مستری محمد معیبی.نائیجیریا 158 307 محمد ممتاز خان ، بریگیڈئیر 109 محمد منور، مولانا 291.255.254.121 107 146، 175 محمد ندیم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں، چوہدری محمد علی ، چوہدری پروفیسر محمد نذیر احمد.فری ٹاؤن 269 114.79.64.3 220، 234 ، 237 | محمد نذیر لائلپوری ،مولانا قاضی 118، 132، 251، 253، محمد علی ، چوہدری والد مبارک احمد 316.315.285.264 315.45 210 محمدنیم ، چوہدری ( سول جج ) 239 بھٹی محمد عابدا بن بدرالدین 172 محمد علی بوگرہ 54 محمد بدرج ، سید محمد عارف.قادیان 151 محمد علی بی اے بی ٹی ، ماسٹر 249 محمد یامین تاجر کتب محمد عارف.کینیا 224 محمد علی چراغ 132 محمد یحیی خان ، آغا 274 200 محمد عاصم، میر میجر 138 محمد علی نوشهر وی 160.159 محمد عالم ، میاں 79 محمد عمر، قاضی 204 | محمد یعقوب، مرزا محمد عبد الحق مجاہد محمد عبد اللہ ، صوفی 209 154 محمد عیسی ، مولوی محمد یعقوب ، الحاجی 289 290 ، 314 | محمد یعقوب خان 90.88 83.79.59 193 32 25

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 18 محمد یعقوب طاہر، مولانا 158 محمود الحسن خاں مولوی 156 مسعود احمد ، سید محمد یوسف، قاضی 157 204 محمود امجد ایڈووکیٹ 106 مسعود احمد خان، نواب 253 مسعوداحمد جہلمی ، مولانا محمود مونگو 115، 252 محمودہ بیگم زوجہ قریشی عطاء اللہ اشاریہ.اسماء 260 217 259..48.47 محمد یوسف خان، جنرل 154 مسعود احمد رشید داماد غلام محمد خان محمد یوسف خاں ایڈووکیٹ ابن 164 محمودہ بیگم اہلیہ ڈاکٹر محمد افضل 126 گھتی 164 غلام محمد خان گلگلتی محمدی بیگم 152 ، 195 محمودہ بیگم زوجہ شیخ کظیم الرحمن مسعود الرحمن ابن منشی حبیب الرحمن محمود ، مفتی 223.222 192 145.144 محمود، مولوی ابوالفضل محموده زوجه مسعود احمد جبلی 48 مسیح الدین ، مولوی 204 ، 216 | محی الدین، مولوی 248 مشتاق احمد باجوہ، چوہدری 248 211 264.263.198.138 محمود الحسن ، کرنل 5 56 محی الدین ، ڈاکٹر محموداحمد، شیخ داماد شیخ احمد الدین محی الدین، میجر ملک 38 مشتاق احمد داماد شیخ احمد الدین محمود احمد ، میجر 150 محی الدین شیخ 102 مختار احمد قمر 192 270 | مشتاق حسین ، شیخ محمود احمد، حکیم ابن حکیم محمد زاہد مرتولو.انڈونیشیا 248 | مصطفیٰ سفیدی کلوسا محمود احمد، میر.لاہور محمود احمد انجم 173 مریم بیگم زوجہ رحمت اللہ شاکر مصطفی باشم 217 314 مریم زوجہ ذینی دہلان محمود احمد داماد شیخ احمد الدین 150 مریم صدیقه سیده (ام متین) محمود احمد چیمہ، چوہدری 248 150 158 255 224 163 مصلح الدین شہید، میجر 211 202 مطیع الرحمن (سیکرٹری ہائی کمشنر ) 301 89,6 90 231 مطیع الرحمن ، صوفی 170 ،316 محمود احمد چیمہ.(واپڈا) 220 مریم مریکار.برما محمود احمد مبارک محمود احمد مغیب 237 253 مطیع اللہ درد مظفر احمد، صاحبزادہ مرزا 56 تا 59 156،46،45 | مظفر احمد بھٹی 220 مسعود احمد خان دہلوی 125 محمود اختر ز بیری ، لیفٹیننٹ 105 | مسعود احمد ، ڈاکٹر 5 مظفر حسن ،ایڈمرل 224 60

Page 350

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 19 معراج الدین عمر ، میاں 155 منظور احمد چیمہ، چوہدری 112 معین الدین ، خواجہ 203 | منور احمد ، صاحبزادہ مرزا 32،5 مقبول احمد قریشی 314،246 منور احمد ، ڈاکٹر چوہدری.سعودی مقبول احمد ذبیح ، مولوی عرب ن ناصر احمد ، حضرت مرزا اشاریہ.اسماء 304.189.88.53.52 227 228 229 ناصر احمد، شیخ.128.127.125 320.273.272.269 248 104 مکوی بر مادی ممتاز انور، لیفٹیننٹ منور احمد ابن ماسٹر محمد علی 249 147, 150, 264 منور احمد بلوچ 179 | ناصر احمد ،مولوی.غانا منیر احمد.کوئٹہ 225 ممتاز بیگم زوجہ قاضی عبدالحمید 154 منیر احمد.سینٹ لوئس 245 ناصر احمد دہلوی ، سید ممتاز فقر اللہ، بیگم منیر احمد.بو ممتاز محمد خان دولتانہ 101 60 منیر احمد عارف، مولانا 270 ناصر احمد سکروزر ناصر احمد سوکیہ منٹگمری واٹ، پروفیسر 249 277.275 251 251 298 310 ، 314 | ناصر نواب میر 203،175 منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا منیر الدین ابن ڈاکٹر بدرالدین 117.89.88.87.37 171 ناصر وسیم وارڈ 237 238 ناصرہ بنت فضل الہی.کینیا 224 ناصرہ بیگم اہلیہ چوہدری محمد شریف منصور احمد، شیخ ابن ڈاکٹر شیخ احمد منیر الدین احمد ،مولوی الدین 150 ،213 | موسی بابو منصور احمد ، ڈاکٹر 125 | موسیٰ علیہ السلام، حضرت منصور احمد بشیر، سید مولا بخش ، صوفی منصور بن سلیم شاہ 273.272.28 302 موں بوتیکی موہن لال ، پنڈت 293 269 72 206 253 112 126 ناصرہ بیگم زوجہ مشتاق احمد 150 ناصرہ ندیم ناظم الدین ، خواجہ 251 54 نثار احمد مورانی ( راٹھور ) منصورہ بیگم، سیده 234،35 بیگم،سیده منصوره فرزانه 219 منظور احمد ، ڈاکٹر 153 ، 316 منظور احمد ، قریشی این قریشی نور الحسن مهدی آپا 28 نجم الدین بمولوی 241.240 175 151 مهدی حسین ، میر 175 نجم الدین ،میاں میراں بخش منشی 152 نجم الدین مظہر کورالی، پروفیسر 154 میرحسن، سید 44 265.264

Page 351

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 20 20 نجمه آفتاب بنت آفتاب احمد بسمل نصیر الدین، شیخ ابن ڈاکٹر بدر الدین نعیم الرحمن ، شیخ 165 ، 170 ، 171 | نعیمہ صادق 218 اشاریہ.اسماء 147 126 نذیر احمد، ڈاکٹر.برمنگھم 251 نصیر الدین، سید 203 نفیسہ بنت فضل الہی.کینیا 224 نذیر احمد ، خواجہ 252،115 نصیر الدین احمد، شیخ نگہت نسیم نذیر احمد باجوہ، چوہدری نذیر احمد ظفر ، راجہ 30 316 121 تا 124 ، 165 ، نواب خان منشی 316.314.171.170 نذیر بیگم زوجہ چوہدری محمد اشرف نصیر احمد شیخ ابن ڈاکٹر شیخ احمد الدین نوح علیہ السلام، حضرت 27 137 75.74.72 نوراحمد، قریشی این قریشی نور الحسن نذیر حسین ،سید نزہت الماس، سیده نسیم احمد 229.228.227 182 219 27 نسیم اختر زوجه میجر میر محمد عاصم 150 نصیر احمد ، مرزا ابن مرز امحمد حسین نصیر احمد خاں 213.153 76 154 156 138 نصیر احمد قریشی نسیم سیفی ( نور محمد ) 316،315 نظام الدین، مستری 154 نور احمد ایڈووکیٹ ، شیخ 251 نور احمد بولستاد نور الحسن ، قریشی نور الحق انور ، مولانا 262 154 284 نورالدین، حضرت حکیم مولوی نسیم فرحت.مغربی جرمنی 224 نظام الدین جہلمی ، میاں 152 ( خلیفة اصبح الاول) نصر اللہ خاں، ملک 205 نظام الدین مہمان مولوی نعمت اللہ ، جمعدار نصرت جہاں بنت نواب زادہ مسعود احمد خان 217 194.175.172.168 314،272 نورالدین، شیخ 147 139 نورالدین جہانگیر، چوہدری 200 نصرت جہاں بیگم سیدہ (حضرت نعمت اللہ، مولوی ابن مولوی کرم نوری زوجہ عبدالستار اماں جان ) 148، 200، 203 | الہی ڈوگر نصیر احمد نصیر احمد چوہدری 28 نعیم احمد ( کھلاڑی باکی) 218 142 نونا بلواس، ڈاکٹر 31 نعیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 217 و واریئٹ ،کیپٹن نصیر احمد خان ، مولوی نعیم الدین احمد، قاضی 276 277 278، 313 نعیم الدین بھٹی 259 105 ود ود احمد، رانا ورسا اسماعیل 201 263 161 140 253

Page 352

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 ورما ،مسٹر 300 کمیٹی پونتو وزیر آغا، ڈاکٹر 236 سیمی فضلی وزیری عبدو 19 ،310،20 | یزید 21 248 128 173 وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 113 یعقوب شریف - سیرالیون 211 وسیم احمد ( کھلاڑی با کی) 218 یعقوب علی عرفانی ، شیخ ولی احمد شاہ، ڈاکٹر 248 215.144 ولیم ٹالبرٹ 52 يوسف بن تاشفین 98،95، 99 ولیم شب مین 52 یوسف علی، چوہدری ولیه قدسیه نسٹن چرچل وی.سی.بونگے 201 english 237 Ashim Chida 125 284.283 Edgar Spir 233 267 Edward Akufo-Addo ہاجرہ بیگم 281 Guenther Harder 148 ہاجرہ بیگم المعروف آپوجی 195 232 Jean Henry Ythier 296 164 Neville ward 237 263 Odeuale 308 P.W.Matoka 121 Rev.John Myer 292 | 163 ہادی علی خاں ابن ذوالفقار علی خاں ہانس ایلین برگر، ڈاکٹر ہتو رام، رائے بہادر لالہ 173 ہدایت اللہ ہلالی ، آغا ی یاسمین رحمن (عرف مونا) 217 یمی گساؤ ، الحاجی W.D.Brewer 297 60 William Olu Osisanlu 303 W.P.Ayinenda 121 20 اشاریہ.اسماء

Page 353

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 22 اشاریہ.مقامات آ الف آسوکورے (غانا) آسٹریا آسٹریلیا آئیوری کوسٹ آکسفورڈ.195.185.173.168.164.19.7 مقامات افریقہ (مغربی) 301.285.211.209.204.39.32.31.28.21.20 27.8.7 انگلستان (انگلینڈ).170.121.117.53.40 149.213.198.149.51.29.248.236.235.228.225.269.266.250.207.185 285 313.304.302.298.279 16 313.285.283.254.249 120 249.236.29 ابادان 310.309.308.306.304 اٹلی 119.60.29 ا جیبو اوڑے 305.304 اریوب.افغانستان اسار چر (غانا) 167 27 اسلام آباد 205،172،150،142،88 | امرتسر اسیمبو بے 60،58،57،56،50، البانیہ 294 امریکہ افریقہ (وسطی) انگولا افغانستان 168،167،165،153 | اوسن اکرا 281،277،40،27،8 | اوشو گبو اکوئی.نائیجیریا 309 | ایجگہو اکھنور (کشمیر) اکیروں الا باٹا 139 308.306 304 265 209.199.148 ایڈنبرا 121.119 306 309.308.307 309.308 249 ایران 119،93،90،61،59 ایلڈورو ایلڈوریٹ ایلنگ 291 295.291 249 اشانٹی 279.278.268 افریقہ 169،98،77،55،28،27، | اموسان.267.250.249.195.170 315.313.309.271.117 افریقہ (مشرقی) ما فیجی بابور باڈو.سیرالیون انڈیا ( بھارت، ہندوستان ) بازید خیل.177.171.170.60.51 314.313.283.246.244.7 3050302 286 177.176 271.79 153.80.77.16.14.100.95.92.90.87082 بانجل ( گیمبیا)295،26،10،7 باندھی 175.127.112107.102 313.224.193.165.136

Page 354

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 بٹالہ 23 بنگلہ دیش 108،86،84،36 | پاڈانگ (انڈونیشیا) 199،146،140،112،111 بواجے بو ( سیرالیون) بو( بجنور 142 200 بوتسوانا 273.270.269.9.7 بدولی 186،181،180، 188 بورکینا فاسو بر صغیر برطانیہ (یو.کے) 107.88.2.121.120.119.115.29 پاکستان اشاریہ.مقامات 6.29.26.23.21.14.13.1.59.54.39.35.33.30 119.84.80.76.70.65.60 16.109.92.90.88.87.86 170.165.206.204.198.127.115 بور نیو بو ( سیرالیون).238.236.224.223.207 273 270.269.79 299.285.267.252.242 199 برونائی برونگ ابا فو (غانا) بسراواں بشیر آباد بصره بغداد بگول بلانی.گجرات 264.263 302 12.11 142 193 252،250،249،153 ، 253 بوگور (انڈونیشیا) برلن 231 232 | بولے برما 152، 224، 254،253 | بہاولپور برمنگھم برن 172 237 ، 249، 251 | بھارت ( ہندوستان، انڈیا، ہند).80.77.16.14.100.95.92.90.87082 277 پاکستان (مشرقی).60.54.53.36.7 301.285.211.209.204 ما گوڈیرہ 152 بھمبجر (جہلم) بلوچستان بنڈونگ.بانڈ ونگ 152.26 139 193 173.102 بھو ماں وڈالہ بھیرہ 176 105 209 164.104.95.94.92.8683.208.108.107.105 310.281.222.221.220 297 78 102، 112107، 127، پائی پورٹ لوئس 195،185،173،168،164، | پٹنہ 156 50 60 پٹیالہ پرتگال پریسٹن.انگلینڈ پریسٹن.امریکہ 250 29 پیشاور بیار بیٹ ( گجرات انڈیا) 106 157.153.146.108.61 بینن 16 پنڈی بھٹیاں ہونا 248.247.86 پاٹسن (غانا) 26 پوہلہ مہاراں 228.227 161 182

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 24 اشاریہ.مقامات پیرکوٹ ثانی 205 جاکرتا 247 | چربون جالندھر 202 | چک ۵۵ رب برج 247 179 تا سک ملایا 247 248 | جاوا 247 چک E-B-245 (ساہیوال) تاویونی 282، 283 | جبروک 293 100 ترکی 296،264،60 | جرمنی 47 | چک نمبر R-170/10 163 تر گڑی 152،150 48، 139 ، 149، 222، 231، چک نمبر 30 جنوبی سرگودھا 202 تریولی 263.259.254.250.232 297.296 تعلقہ شہزاد کوٹ 176 177 جرمنی (مغربی) تلونڈی بھنڈراں 180 313.224.119.60.51 249 تلونڈی جھنگلاں 179،140 | جلنگهم چک نمبر 99 شمالی سرگودھا 141 چمن بارڈر 102 192 چنتہ کٹنہ چندر کے منگولے 180،179، تنزانیہ 51 ، جمشید پور ( ٹاٹا نگر.بھارت).154.123.122.121.119 313.291.255.254.193 240.148 291 255 250 276 16 287.286 186 تھر پارکر ٹاویٹا طبورا ٹرنیڈاڈ ٹمالے ٹوگو ٹونگا ٹھٹھی 197 209.136 119.8.7 273.272.271.79.9 جموں جنوبی افریقہ جورو ( سیرالیون) جھنگ 223.172.91.76.32.29 جیسور ( بنگلہ دیش) جیند ٹیچی مان 40،12،11،10،7 چانگریاں چاه احمدیاں والا ج - چ جاپان 256.119 چٹا گانگ چراٹ.نوشہرہ 84 214.189.185.184.183 چنیوٹ 222،164، 228،223 چہار کوٹ ( مقبوضہ کشمیر ) 105 چھمب سیکٹر 110.108.106.105.102 چھنیاں.ہوشیار پور 139 چین 190.185.184.60 ح خ 171 | حاجی پوره 154 حافظ آباد 191 حجاز 84 حسینی والا ( بھارت) 160 144 205 192 110.109.85

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 173 ڈنمارک 25 حیدر آباد 279.263.262.221 حیدر آباد دکن 216،215،192،158 | ڈھومی خانو والی 181،180 | ڈیٹن 239،177،175،149 | ڈھاکہ 92، 105، 108، رنگون 205،114،109، 315،206 | روز بل296، 297، 300،299 310.309 روس 246 روکو پر (سیرالیون) 29 اشاریہ.مقامات رنگ پور ( بنگلہ دیش) رنگ پوره 84 163 253.152 خانیوال 163 ڈیرہ اسماعیل خان 146 خوست خیر وڈیرو 165.153 177.176 ڈیرہ غازی خان روہڑی 28.18.17.7 146 ذوالحلیفہ وڈو دانه زید کا 182 رز زائر 215،155،143،142 | رہوڈ یشیا 119، 121،120 225، 226 | ریاض 228.227 119.16 دانه ( مانسہرہ) 139 راجستھان دار الرحمت قادیان 184 راجگڑھ لاہور 85 زمبابوے 121،120،119 219 زیرہ.فیروز پور دار السلام تنزانیہ 193 | راولپنڈی 89،61،57،56،5، | زیمبیا 170 | 219،204،105، 227، 228 | زیورچ 163 314.128119 253 دار الشکر قادیان دار الفضل قادیان 139 ربوه.50.42.39.32 دائی والہ 147 | 119،115،92،91،90،61، | شووا 139 141، 207، 208، 218 تا سابا سیش 141 | 231،230،229،222، 237 | سالا گا (سلاگا ) دنیا پور دہلی 205،171،164 | رحیم آباد 147 سالٹ پانڈ دھرم کوٹ بگہ 199 رحیم یارخان 239،85 | ساؤتھ آل دینا جپور ( بنگلہ دیش) 94،84 رعیه ڈا مونگو 277 278 | رئیسی 180،155 | ساوله 289 | ساہیوال ڈکار.سینیگال 295 رن کچھ ( گجرات انڈیا) 106 سائپرس 286.283.282 296 277.26 274 249 277 201.100.31 198

Page 357

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 سبا.ملائیشیا سپین سرحد 302 | سولوتھرن 99،98،95،26 | سوہارہ.بجنور سوئٹزرلینڈ 26 264 200.51 265.263.150.149.147 158.157.156.61.60 اشاریہ.مقامات ص.ط.ع.غ صفا طائف عرفات غانا 227.226 225 302.226 12.10.8.7 سرگودھا سویڈ رو (غانا) 218،195،163،141،108، سویڈن 220،219، 227، 234، 315 | سیالکوٹ 14.13.7 265.261.221.194.49.40.27.26.18.44.32 274.268.221.220.139136.85.58.57.45 176 سعدو 320.313.310307.281 سعودی عرب 227 228 229 | 147 ، 151، 154 تا 157، 189.185179.163 249 227.213.199.195.190 177.176.18.17.9.8.7 260 | سیرالیون.221.179.79.55.51.28 23 18 سکاٹ لینڈ سکرنڈ سکنڈے نیویا سکوٹوسٹیٹ 314.273.272.270265 |202.171 297.296 245 295.16 142 6 سینیگال شاہدرہ سکھو چک 195 سینٹ پیری سلہٹ (بنگلہ دیش) 84 سینٹ لوئس سماٹرا (انڈونیشیا) سندھ 244 84 205 163،149،148،116،105، | شکاگو 174 تا 177، 179، 207، شمشیر نگر ( بنگلہ دیش) 240،239،214،210،208 | شملہ سنڈوکن 302 شورکوٹ سنگرور 171 | شیخو پوره سنگل انگ 247 | شیفیلڈ 214.172 148.33.32 250.235 فرق فاضل کا (بھارت) 85 فرانس 287282.221.51 238.119 فرائی بورگ 265 فری ٹاؤن 270.269.265.130 فرینکفورٹ 260،231،47 فلاڈلفیا فلپائن فلیکان فلاک فلینز برگ فیروز پور فیلیمو 244 51.50 299 232 211.163.110 277 297.296

Page 358

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 27 اشاریہ.مقامات قادیان 113،111،86،45، کروبو 274 275 | کورے بونڈو 184،164،146،144،138، | کسوموں 293 294 کومیلا (بنگلہ دیش) 271 84 قاضیاں والا قصور 301.197.196.194.192 239 85 کوہاٹ 137.61 289،209،196،176،107 | کوئٹہ کشمیر (مقبوضہ) 139،105 قلعہ صو با سنگھ 182،163،154 | کشمیر (آزاد) 110،108 | کویت قلعہ کالر والا 187 177.176 کلانور 147 کہانجو کلکتہ 208 | کھارا.207.106 225.223 262.250 294 142 مینگ كلوسا 255 کھاریاں چھاؤنی کابل 166،160،159،153 کماسی (غانا) 203.202.201.101 کا ٹا باٹو ( فلپائن ) کارگل 50 276،8 277 281،278 کھوئی رٹہ ( کوٹلی ) 105 182 کالی کٹ (بھارت) 77 کمپالہ کامٹی 94 کمال ڈیرو 174 ، 178،177 | کھیوہ باجوہ کارمن ( فلپائن ) 50 کمبیا ( سیرالیون) 17، 18 کیرالہ (بھارت) 312 کیمرون 194 کنڈیارو 194،177،173 | کینما ( سیرالیون) 78.77 16 کا نپٹی 195 | کنری 210.163.148 کانپور 205 کنگ آرائیاں 202 | کینیا کانو 309،250،25،23،21 | کوارا 273.271.79 <224 314.298.292288.225 311 کراچی 57، کوالے 289 290 | کینیڈا.169.150.148.108.94 کوپن ہیگن 2630260 244.150.133.90.51 223.22 لجرات 218،158،137،63 194،179،170، 218،195 | کوٹ احمد یار کرائیڈن 249 کوٹلی.آزاد کشمیر 105 | گجرات (ضلع) 173 کو ٹلی ہر نرائن 154 گریلو لاڑکانہ کربلا 173 کوٹھ کرمان 211 | گرین فورڈ 193.139 176 252

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 28 گساؤ( نائیجیریا) 18 تا 23 ، 311 لائلپور.فیصل آباد گکھڑ منڈی گلاسگو.155.154.148.89.32 228.227 319.209.197.179.163 گنج مغل پوره گنجور ( گیمبیا) گنی بساؤ گوجره گور پسی گورداسپور 249 209 296.18.7 16 155 277 251.53.52.16 لائیبیریا لٹوکا لدھیانہ لمباسه لندن (لندن) اشاریہ.مقامات ماریشس.60.7 301.299296.221.201 ماریطانیہ مالی 285 286 مانسر کیمپ (اٹک) 171.145 مانسهره 282 مانیلی (فلپائن).29.115.102.79.60.52.171.161.158.157.150.231.228.221.213.198.140.114.113.112 300.253248.238.237 ما ہو ماہی جو بھان مٹاوا مٹھی 16 16 105 139 50 291 173 294.293 242.241 192 196 220.149.148 گوکھو وال 209.199.194.159.147 197 لنسار 270 محبوب نگرد کن لوسا کا (زیمبیا) محمد نگر گھٹیالیاں 227،182،163 128.126.123 محمود آباد لومبک 248 | مدراس 203،160،132،78 لاڑکانہ لاہور 176.5 رنگٹن لیسٹر 292 249 مد بینہ مراکو ليوما 271 | مروه 158،156،155،154،151، ماٹے ہوئے 265 | مری 163، 164،، 168، 181، مارا گولی 291 | مزدلفه 197،196،195،194،191 ، | مار لاشو 220،208،206،205، 253 | مارو 299 مکه 19، | مردان 86،76،63،33،32، 101، لیگوس ( نائیجیریا).110.109.107.105.104.149.148.145.139.137 20، 23، 305، 307 تا 311 | مرزا پور ( بنگلہ دیش) 302.225.192.97 260 211.204 84 227.226 50 226.96.93.72 302.228225.193.98 285

Page 360

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 مگبور کا 270 ناندی 29 285.284 اشاریہ.مقامات وہی ملسیاں ملکانه ملوٹ ( جہلم) ممباسه منا ( نائیجیریا) منروویه (لائیبیریا) منی موروگورو نور پائی نور نگر موزمبیق موشوازی.164.163.141 220.219.201.191.173 163 209.148 105 291.290.289 311 52 193 255.254 121.119 299 ملاوی ( پرانا نام.نیا سالینڈ) نائی والا ( ضلع سیالکوٹ) 154 ملائیشیا ملتان 125،120،119 | نائیجر 302،51 نائیجیریا وا 16 واشنگٹن والے والے 20،19،18،16، 23، 24، | واہ کینٹ 165،60،25، 218، 222، وڈالہ بانگر 304،303،302، 309 تا314 | وزیر آباد نجران 293 | ویکفیلڈ نصرت آباد 148 ہالینڈ نگر پارکر 242.239 نوابشاه 148، ہانگ کانگ 174،173، 194،177،175 | ہائی ویکمب 277 246.244.60 277 197 148.147 137 251 296 | ہڈرزفیلڈ 207 | ہمبرگ 314.313.302.265.230 185.182 249 250 259.233 نوشہرہ چھاؤنی 156 تا 161 | ہندوستان(انڈیا، بھارت) نوشہرہ ککے زئیاں مونتائیں بلانش نوکوٹ 298.297.296 میمن سنگھ ( بنگلہ دیش) 84،36 | نیا نزا نیپال نیروبی ہنسلو ناروے 301.295.293288 ناگپور بھارت نامیبیا 262.261.163.150 195 119 ہوشیار پور نیلا گنبد لا ہور 205 یادگیر.80.77.16.14 162.100.95.92.90.87-82 240 127.112107.102 292.195.185.173.168.164 60 301.285.211.209.204 249 209.139 192 نیو یارک 246،244 | یرموک 98.97.95

Page 361

اشاریہ.مقامات 30 30 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27.117.55.26 یورپ 259.247.198.170.149 312.51 265.60 274 یوگنڈا یوگوسلاویہ ENGLISH NAMES Chibolya Compound (لوسا کا زیمبیا ) 122.123 Chililabombwe 128 Chingola 128 Choma 128 Ede 308 Ekumfi 281 ( جرمنی )Essen 233 Ijebu Ode 302, 304 Kabwe 123, 128 Kalulushi 128 Kitwe 128 Luanshya 128 Mufulira 128 Ndola 128 Ruwai 290 Sampa 281 Sisal(Ruwai) 290

Page 362

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 31 اشاریہ.کتابیات الف کتابیات البشری ، رسالہ.برما 253 | بائبل 258، 290، 294،293 احمدیت.اسلام کی نشاۃ ثانیہ 315 | الحق المبين في تفسير خاتم النبيين بدراخبار احمدیت پر اعتراضات کے جوابات مصلی می ایستیم 315 الحکم اخبار احمدیت کا نفوذ صوبہ خیبر پختونخواہ الصحیح البخاری میں 216 213،174 | برہان ہدایت 214.167.132 133 215 315 | براہین احمدیہ حصہ سوم بشارات رحمانیہ حصہ اول 214 بلڈ Bild(اخبار جرمنی) 259 پاک فضائیہ کی تاریخ 108 ،133 312.268.136.131 احمدیت کی نئی نسل کی ذمہ داریاں الفرقان ( ربوہ ماہنامہ ) بھارت نامه 315 318.214.131.129.59 احمدیت یعنی حقیقی اسلام المجتمع ( کویت.ہفت روزہ ) مینہ لاء جرنل جلد ۲ اخبار احمد یہ کینیڈا 160.127 133 262 النصرت (رسالہ ماہنامہ) 319 اخبار احمد یہ لندن 252 امام المتقين بنجات المسلمين، تنبیه ادبی دنیا (رساله) 44 | الغافلین (پنجابی) 316 پلین ٹروتھ جلد ۳۳ 316 132 320 تابعین اصحاب احمد جلد 315 ازالہ اوہام 181 تابعین اصحاب احمد جلد 8 215 امروز (لاہور- روز نامه ) اسلام کا اقتصادی نظام 248، 298 تابعین اصحاب احمد جلد 10 216 134.133.110.29 اسلام کا وراثتی نظام اسلامی اصول کی فلاسفی 129.3 125 انصار اللہ، ماہنامہ تاریخ احمدیت جلد ۵ 285.214.156 تاریخ احمدیت جلد ۶ 132 213 اسلامی اصول کی فلاسفی (فیجین انقلاب حقیقی 44 تاریخ احمدیت جلد ۸ 212 213 زبان) 286.285 285 286 ایام ( روزنامه - لائلپور) 319 تاریخ احمدیت جلد 214،184 اصحاب احمد جلدے 215 ایڈوانس (اخبار) 298 تاریخ احمدیت جلد ۱۸ 320 اصحاب احمد جلد ۱۰ 212 تاریخ احمد یہ سرحد 216،157 اصحاب احمد جلد ۱۴ 315 بابا نانک رحمتہ اللہ کا دین دھرم تاریخ جامع اردو انسائیکلو پیڈیا جلد ۴ افریقہ سپیکس 298.125 199 134

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 32 اشاریہ.کتابیات س شط 131 تاریخ بلوچستان 214 حمود الرحمن کمیشن رپورٹ 107 زنجیر گل تاریخ پاکستان 132 حیات بقا پوری حصہ اول 214 تاریخ خلجنہ اماءاللہ جلد نمبر ۳ 132 حیات حسن 215 | سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ تاریخی لجنہ اماءاللہ جلد نمبر ۴ 135 خلافت راشدہ کے متعلق سازشیں پاکستان بابت سال ۱۹۴۷۴۸ء تبلیغی واقعات حصہ دوم 257 تحدیث نعمت 315،132،114 و.ڈ 315 212 سالانہ رپورٹ - صیغہ جات صدر تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ ڈسلڈورف ہینڈلس بلاٹ انجمن احمدیہ قادیان بابت سال کا کردار 316 (اخبار - جرمنی) 233.232 ۴۵.۱۹۴۴ء 212 تحریک جدید کے پانچ ہزاری ڈیلی ٹیلی گراف (انگلستان) 235 | سندھ میں حضرت بانی جماعت مجاہدین 212 213 214 215 ڈیلی نیشن (اخبار - کینیا ) 292 احمدیہ علیہ السلام کے رفقاء کی سیرت تحریک جدید (ماہنامہ ) 129 322317.315.285.130 رز وسوانح راولپنڈی تاریخ احمدیت 212 سیرت ابن ہشام 214 132 ترجمان اسلام ( لاہور.ہفت روزه) رجسٹر روایات نمبر ۳ ( غیر مطبوعہ) سیرت خاتم النبین سال ان لم 132 319 214 سیرت مسیح موعود علیہ السلام 178 316 رجسٹر روایات نمبر ۶ ( غیر مطبوعہ شاہین ( پاک فضائیہ کا ترجمان 298.269 تشنه لب تفسیر القرآن انگریزی تلاش مسلسل تمدن عرب ٹیچنگ آف اسلام ج - ح - خ 315 213 رسالہ - ماہنامہ) 134.109 رجسٹر روایات نمبرے ( غیر مطبوعہ ) صحابیات احمد جلد نمبر ا ( غیر مطبوعہ ) 213.212 129 رجسٹر روایات نمبر ۸ ( غیر مطبوعہ ) 160 212 ط ظ ع غ طالمود طبری 213 7 132 روح پرور یادیں جامع صحیح مسند بخاری پارہ نمبر ۱ روشن ستارے جلدا 320 315 ظهور مهدی آخر الزمان علیه السلام 316 | ریویو آف ریلیجنز.انگریزی 285 315 حقيقة الصلوة 316 زرقانی 132 عربی گرائمر میں پہلا قدم 316

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 27 عقائد احمدیہ 33 216 | مساوات (روز نامہ - لاہور ) عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ 316 | میری والدہ 318.222.131 غلبہ اسلام کے متعلق پیشگوئیاں نظام نو (انگریزی) 315 | نگار (رساله) ق یک گ نوائے وقت لاہور ( روزنامہ) قرآن کریم ( انگریزی ترجمہ ) 11،7، نور.اخبار 281،252،118،117،115 | نور فطرت 316 اشاریہ.کتابیات Democracy 259 جرمن اخبار )Die Welt (جرمن اخبار ) Frankfurter Rundschau 316 232 298 Islam in Africa 316 44 In Defence of Pakistan 316 133,131.56 316 167 316 300 44 300 قرآن کریم ( جرمن ترجمہ 264 | نیرنگ خیال (رساله) قرآن کریم ( سواحیلی ترجمه )193 وہی قیام پاکستان کا روحانی پس منظر وحی والہام کے متعلق اسلامی نظریہ 315 315 Invitation (خلاصہ دعوۃ الامیر ) Le Message ( احمد یہ اخبار - کینیا ) (اخبار )Maurician Pikiran Rakyat 248 ( اخبار بنڈ ونگ انڈونیشیا) 232 جرمن رساله) Stern کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں ہلال ( پاک فضائیہ - ماہنامہ ) 134 گلدستہ لطیف یا نعم الرفیق ( پنجابی ) ہمایوں (رسالہ) 316 یادرکھنے کی باتیں (رسالہ) 316 اخبار - غانا )The Pioneer 275.280.320 107 44 The Promised Victory and Our Duty 316 English Names The soldiers with Ahmadiyya ل من لا ہور (ہفت روزہ ) Mission 111 Movement 316 215.131.58 The Tomb Of Jesus 316 | A Message Of Hope 285.125 Zambia Crescent لائف آف محمد لیکچر سیالکوٹ (ہندی ترجمہ ) 286 304 مثنوی مولا ناروم 155 | 231 (رساله-لندن )Awake 126 (رسالہ زیمبیا - دوما ہی) مدراس لاء جرنل نمبر xx 132 XX Communism And

Page 364