Tarikh-eAhmadiyyat V26

Tarikh-eAhmadiyyat V26

تاریخ احمدیت (جلد 26)

1970ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے  جلد نمبر 19 نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد نمبر 26 $1970

Page 2

دیباچه قوموں کی تعلیم و تربیت میں علم تاریخ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.صحیح تاریخ ایک عمدہ معلم ہے.66 ( ملفوظات جلد دوم صفحه ۱۲۶) تاریخ کو محفوظ کرنا اور آئندہ نسلوں تک پہنچانا ایک ایسا امر ہے جو اقوام میں حیات جادواں پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے.اس کے برعکس جو اقوام اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہیں وہ قصہ پارینہ بن جاتی ہیں.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اُسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں.سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو وو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.“ (الفضل ۱۰ر دسمبر ۱۹۶۴ صفحه ۱) اسی طرح حضرت خلیلة اصبح الثاني الصلح الموعود رضی اللہ تعالی عنہ نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.میں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ ہی نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی مشہور لائبریریوں میں رکھوا دیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثبوت قیامت تک ملتا رہے اور وہ اور ان کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.آمین (الفضل ۱۰؍ دسمبر ۱۹۶۳ء صفحه۱) ان ارشادات کی روشنی میں احباب جماعت سے درخواست ہے کہ وہ تاریخ احمدیت سے واقفیت کے لئے اس کا مطالعہ کرتے رہیں اور اسی طرح دیگر احباب جماعت کے اندر بھی یہ جذبہ

Page 3

پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں کہ وہ ہمیشہ تاریخ احمدیت زیر مطالعہ رکھیں اور اپنے گھروں میں سلسلہ کی تاریخ کے واقعات کا تذکرہ کرتے رہا کریں کیونکہ تاریخ کا مطالعہ اقوام کی ترقی اور عظمت کا ذریعہ بنتا ہے.تاریخ احمدیت جلد ۲۶ زیور طبع سے آراستہ ہو کر پیش خدمت ہے فرمائی ہے.مجزاہ اللہ احسن الجزاء نے بڑی عرقریزی اور محنت شاقہ سے اس کی تالیف و تدوین خدا تعالیٰ محض اپنے فضل سے اس محنت اور مساعی کو قبول فرمائے اور ہر لحاظ سے مفید اور مبارک کرے.آمین

Page 4

پیش لفظ جماعت احمد یہ عالمگیر کی روز افزوں ترقی اور غلبہ دین حق کی وسعت پذیر شاندار مہم کے ایمان افروز حالات ( سال ۱۹۷۰ء) پر مشتمل تاریخ احمدیت کی جلد نمبر ۲۶ ا حباب جماعت کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے.اس سال کا ایک بہت اہم اور تاریخی واقعہ ناصر دین حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا پہلا دورہ مغربی افریقہ ہے جس میں حضور انور کئی ممالک میں تشریف لے گئے.یہ دورہ کیا تھا گویا ایک صور اسرافیل تھا جس نے ان اقوام میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی اور ایک ایسا ابر رحمت برسا جس نے اس سرزمین کو سرسبز و شاداب کر دیا.یہ سفر تاریخ احمدیت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی سفر کے نتیجہ میں نصرت جہاں آگے بڑھو کی بابرکت سکیم کا بھی اجراء ہوا جس کے ذریعہ اب تک کئی افریقی ممالک میں سکول، کالجز ، میڈیکل سنٹرز اور ہاسپٹلز کا جال بچھا دیا گیا ہے.اس شاندار پیش رفت کا ایک اجمالی خاکہ احباب جماعت تک پہنچانے کے لئے آغاز سے ۲۰۱۴ ء تک کا ایک گوشوارہ بھی شاملِ اشاعت کیا گیا ہے.مغربی افریقہ کے اس تاریخ ساز سفر کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالی لندن تشریف لے گئے اور مسجد فضل کے احاطہ میں محمود ہال کا افتتاح فرمایا جو ایک ہال اور دفاتر کے علاوہ مبشرین سلسلہ کے تین رہائشی فلیٹس پر مشتمل عمارت ہے.(اسی عمارت کے ایک حصہ میں ۳۰ را پریل ۱۹۸۴ء سے تا دم تحریر (۲۰۱۴ء) حضرت خلیفہ مسیح کی رہائش بھی ہے.) حضرت خلیفتہ امسیح الثالث مورخہ ۲۵ مئی ۱۹۷۰ء کو سپین کے پہلے سفر پر تشریف لے گئے.مسلمانوں کی چھنی ہوئی متاع کو دیکھنے کے لئے یہ کسی بھی خلیفتہ امسیح کا پہلا سفر تھا.اس کی تفصیلی روئداد نہایت دلگداز ہے جسے محترم مولانا بشیر احمد رفیق صاحب نے مرتب کر کے روز نامہ الفضل میں شائع کروایا.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی سفر میں جہاز کے پین میں اتر تے وقت ایک تاریخی فقرہ ارشاد فرمایا جو آنے والی روحانی فتوحات کا اشارہ دے رہا ہے کہ مجھے تو طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں.کیا تم کو بھی سنائی دے رہی ہیں.66

Page 5

اس کے علاوہ اس جلد میں کاسنگ بنیاد، جلسہ ہائے سالانہ قادیان در بوہ مجلس مشاورت ، سالانہ اجتماعات، نمایاں ترقیات حاصل کرنے والے احباب جماعت کے اسماء گرامی، حديقة المبشرین کا قیام اور اس کے مقاصد، پاکستان میں ہونے والے۱۹۷۰ء کے انتخابات کا تذکرہ اور اس کے دلچسپ نتائج کی روئداد شامل ہے.سفر افریقہ سے واپسی پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے بحالی صحت کے لئے پاکستان کے نسبتاً خوشگوار موسم کے حامل شہر ایبٹ آباد میں نسبتاً طویل قیام فرمایا.اس سفر کے حالات و واقعات ، آسمانِ احمدیت کے ایک سفید پرندے ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کے قبول احمدیت کی ایمان افروز داستان نیز صحابہ کرام اور مخلصین سلسلہ کے حالات زندگی بھی درج کئے گئے ہیں.اس جلد کی تیاری میں مبران شعبہ تاریخ احمدیت نے خصوصی خدمت کی توفیق پائی ہے.نیز دنیا بھر میں کئی احباب جماعت سے رابطے کئے گئے اور مفید معلومات، اہم واقعات اور نا در تصاویر حاصل کر کے شامل اشاعت کی گئی ہیں، اس سلسلہ میں بھی بعض احباب جماعت کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے.اسی طرح اور مکرم عمیر علیم صاحب انچارج مخزن تصاویر لندن بھی بہت شکریہ کے مستحق ہیں کہ یہ سب احباب کرام اس جلد کے مواد کی تیاری کے سلسلہ میں کتب ورسائل ، اخبارات و مجلات اور تصاویر کی فراہمی کے لئے خصوصی تعاون فرماتے رہے ہیں.جزاهم الله احسن الجزاء

Page 6

i تاریخ احمدیت جلد 26 سال 1970ء) عنوان فهرست مضامین صفحہ عنوان صلح تا فتح ۱۳۴۹اہش / جنوری تا دسمبر ۱۹۷۰ء چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا انتخاب بطور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام صدر عالمی عدالت صفحہ 19 جماعت احمد یہ غانا کے نام چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تعلیم الاسلام ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا 2 وائی ایم سی اے ہال لاہور میں بلند پایہ لیکچر 1 جامعہ نصرت کی مسجد اور سائنس بلاک کا سنگ بنیاد 19 کالج گھٹیالیاں میں آمد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طرف سے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا طلباء تعلیم الاسلام دو بزرگان سلسلہ کا ذکر خیر جدید پریس اور احمد یہ ریڈیوٹیشن کی تحریک 3 ہائی سکول سے خطاب 6 مقام محمدیت پر ایک نہایت پر معارف خطبہ علمی تقاریر مجلس ارشاد مرکز یہ اور اس کا ملک گیر مجلس مشاورت ۱۹۷۰ء پروگرام.مرکز میں علمی تقاریر حضور انور کا مجلس ارشاد کے اجلاس میں بصیرت افروز خطاب 8.حضور انور کا اختتامی خطاب 9 مبشرین احمدیت کو قیمتی ہدایات English Traced to Arabic 21 23 24 27 30 32 و ایک نہایت عالمانہ تبصرہ 33.اللہ تعالی سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی تحریک 10 حضرت سید نواب بہار کی بیگم صاحب کی اہم تر یک دعا 35 خلافت لائبریری کا سنگ بنیاد 12 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفر مغربی گیارھواں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ 15 افریقہ حضرت اُمّ مظفر احمد کا انتقال 16 - تحریک دعا ربوہ میں عیدالاضحی کی مبارک تقریب 19 - خصوصی دعاؤں کے ساتھ الوداع 37 37 لله الله الله 38

Page 7

ii ====.ربوہ سے روانگی عنوان صفحہ عنوان 38 - مغربی افریقہ کے پریس والیکٹرانک میڈیا.تہران، استنبول اور لنڈن میں مختصر قیام 40 میں غیر معمولی چرچا - زیورک میں تشریف آوری 40 نصرت جہاں ریزروفنڈ کی مبارک تحریک کا ذکر لیگوس ( نائیجیریا) میں ورود مسعود 41 مجلس عرفان میں غانا میں تشریف آوری صفحہ 98 110 47 خطبہ جمعہ میں سفر مغربی افریقہ ویسین کا تذکرہ 117.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی قبولیت دعا کا پاکستانی جماعتوں کی طرف سے مالی قربانی کا ایک درخشنده نشان.آئیوری کوسٹ میں ورود مسعود.لائبیریا میں ورود مسعود گیمبیا میں پُرتپاک استقبال 49 52 55 57 سیرالیون میں تشریف آوری اور شاندار استقبال | 59 ایمسٹرڈیم میں تشریف آوری لنڈن میں اہم دینی و جماعتی مصروفیات.نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی آسمانی سکیم کا پر شوکت اعلان 8 68 71 74 75 75 شاندار مظاہرہ لجنہ اماءاللہ سے خطاب حضور انور کا اظہار خوشنودی بابت مبلغین سلسله مغربی افریقہ حديقة المبشرین کا قیام مجلس نصرت جہاں کا قیام 120 121 122 123 130 ارض بلال میں ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام 130 مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا قبول احمدیت 146 جماعت ہائے ضلع راولپنڈی کا استقبالیہ حضرت خلیفہ المسح الثالث کا سفرایبٹ آباد معروف احمدی شاعر ثاقب زیروی صاحب کا سفر انگلستان محمود ہال لنڈن کا افتتاح حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا دورہ سپین.لنڈن میں ایک مجلس عرفان 84 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کراچی میں مراجعت اور شانداراستقبال 86 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا احمدی ڈاکٹروں.لاہور میں درود اور عزم ربوہ 90 سے ولولہ انگیز خطاب ربوہ میں تشریف آوری اور استقبال کا پُر کیف شہد اور اس کے خواص کے بارے میں حضور انور 158 159 191 194 197 نظاره 91 کے ارشادات 208

Page 8

iii عنوان صفحہ عنوان چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا جاپان کی حضرت محمد عبد اللہ اسیرانی صاحب عالمی کانفرنس سے خطاب 210 حضرت محمد صادق صاحب فاروقی آف بھٹے اجتماع خدام الاحمدیہ مرکز یہ 210 کلاں متصل شہر سیالکوٹ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 215 حضرت مرزا صالح علی صاحب اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ صفحہ 277 278 279 279 223 حضرت عالم بی بی صاحبہ مرکزی تنظیموں کی طرف سے یادگار استقبالیہ تقریب 224 حضرت مولوی سیف اللہ صاحب چندر کے غانا میں پہلے احمد یہ میڈیکل سنٹر کا پُر شکوہ افتتاح 230 منگولے ضلع سیالکوٹ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی انگلستان کی حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب ڈنگوی.231 میڈیکل ہال قادیان مذہبی عالمی کانفرنس میں تقریر احمدی خواتین کی طرف سے شاندار دعوت عصرانہ 232 | حضرت ملک شادے خان صاحب حضرت صابرہ بی بی صاحبہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور جماعت احمدیہ کے حضرت خواجہ عبدالقیوم صاحب بی اے بی ٹی خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ ملکی انتخابات اور اس کے نتائج پر حقیقت افروز تبصره 236 248 سیالکوٹی 280 281 285 285 286 حضرت چوہدری مراد بخش صاحب لدھیانوی 286 ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب کے قادیان سے ضلع گجرات متعلق تاثرات جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۰ء حوالہ جات (صفحہ ۱ تا ۲۶۸) 256 258 269 حضرت مولوی حیات محمد صاحب دھیر کے کلاں حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب آف کا ٹھ گڑھ ہوشیار پور حضرت حافظ مراد بخش صاحب 287 289 291 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر حضرت ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل خانصاحب شاہجہانپوری 292 صحابہ کرام کا انتقال حضرت مولوی نظام الدین صاحب آف چک ۳۵ جنوبی سرگودھا ۱۹۷۰ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت 277 الف دین صاحب آف کوٹلی آزاد کشمیر 295

Page 9

iv عنوان صفحہ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی عنوان صفحہ 295 سلیمہ بانو نجمہ صاحبہ اہلیہ علی محمد صاحب انبالوی 322 سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین چوہدری غلام احمد صاحب آف سعد اللہ پور 296 پیرا ماؤنٹ چیف آنریبل الحاج المامی سوری صاحب عبدالرشید صاحب بنگوی ابن مکرم چوہدری آف سیرالیون عبدالرحمن صاحب 298 مرزا عبدالحمید صاحب چوہدری لئیق احمد صاحب کھو کھر ایم.اے 298 قریشی غلام احمد صاحب ریٹائرڈ مختار عام صدر مرزا اعظم بیگ صاحب کالانوری ٹھیکیدار ریلوے 300 انجمن احمد یہ پاکستان قاری محمد یسین خاں صاحب میاں محمد اسماعیل صاحب سرور محمد بشیر صاحب (امریکہ ) 301 منشی غلام محمد صاحب آف بجکہ 324 326 327 327 328 304 ملک نادر خاں صاحب افسر مال کیمبل پور (اٹک) 329 304 چوہدری اللہ بخش صاحب الحاج مرزا معظم بیگ صاحب آف کوئٹہ 305 حبیب بیگم صاحبہ مولوی فخر الدین صاحب مالا باری در ویش قادیان 306 زینب بی بی صاحبہ خواجہ ظہور الدین صاحب بٹ آف گوجر خاں 307 بابا مستری محمد اسمعیل صاحب در ولیش ( عرف بابا 308 سرپیٹر) 329 330 330 330 مولوی مسیح الدین خاں صاحب عبدالرشید غوری صاحب آف گوکھو وال 308 حکیم سراج دین صاحب بھائی دروازہ لاہور 333 حضرت حکیم سید خلیل احمد صاحب مونگھیری 333 حضرت کیپٹن ڈاکٹر غلام محمد صاحب ساکن چک چہور مغلیاں 310 حوالہ جات (صفحہ ۲۷۷ تا ۳۳۴) حضرت شیخ عبدالغفور صاحب مرحوم آف گجرات 311 ) ۱۹۷۰ء کے متفرق اہم واقعات قریشہ سلطانہ بیگم صاحبہ بیگم الحاج حضرت ڈاکٹر.نکاح اور شادی سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی 312 - ولادت گیانی مرز اواحد حسین صاحب ( سابق شیر سنگھ ) 317 نمایاں اعزازات 322 ایک دعوت عصرانہ میاں رحمت اللہ صاحب 335 339 339 340 342

Page 10

عنوان جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان صفحہ 342 عنوان بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی جماعت احمد یہ بر همن بڑ یہ مشرقی پاکستان کا جلسہ سالانہ 43 امریکہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کا سالانہ جلسہ تقسیم انعامات 343 انڈونیشیا لندن ٹائمنز کی اسلام کے خلاف بہتان طرازی 344 انگلستان ایک احمدی نوجوان کی قابل تقلید خدمت خلق 344 تنزانیہ گورونانک جی کا اسلام اور مسلمانوں سے تعلق 345 سپین نواب بہادر یار جنگ مرحوم پر معلومات افروز مقالہ 347 سوئٹزرلینڈ ربوہ کا ذکر ہفت روزہ ”سنگ میل“ میں 349 سیرالیون خدام الاحمدیہ کی سترھویں سالانہ مرکزی تربیتی کلاس 351 - - پیغام حضرت خلیفہ المسح الثالث احمد یہ دارالمطالعہ کراچی میں نمائش 351 غانا تعلیم الاسلام کالج کی مسجد کا سنگ بنیاد نجی مدیر اہل حدیث کا چیلنج اور پھر خاموشی 353 353 كينيا گی آنا مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد 354 شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کو صدارتی تمغہ 354 ماریشس ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی تبلیغی مجلس کراچی پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب 355 355 ملائیشیا نائیجیریا ہالینڈ.حضرت خلیفہ اسیح الثلث کا پیغام عید مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کے ساتھ دلی مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی 356 ہمدردی کا اظہار The Cambridge History Of آمد روانگی نئی مطبوعات Islam میں جماعت احمدیہ کا ذکر 357 التواء روانگی قافلہ برائے جلسہ سالانہ قادیان 359 حوالہ جات (صفحه ۳۹۹ تا ۳۹۰) صفحہ 360 361 365 367 368 369 369 370 372 374 375 376 377 380 381 383 385 387 387 389 391

Page 11

تاریخ احمدیت.جلد 26 1 سال 1970ء صلح تا فتح ۱۳۴۹ش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۷۰ء سید نا حضرت خلیفہ اسح الثالث کا پیغام جماعت احمد یہ غانا کے نام جماعت احمد یہ غانا کا ۴۵ واں جلسہ سالانہ ۸-۹ - ۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء کو منعقد ہوا.اس موقعہ پر مرکز احمدیت ربوہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خاص طور پر پیغام بھجوایا جوالحاج مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب امیر دمشنری انچارج نے پڑھ کر سنایا.اصل پیغام بزبان انگریزی تھا جس کا اردو ترجمہ "بسم الله الرحمن الرحيم درج ذیل ہے.میرا دل خوشی کے جذبات سے لبریز ہے یہ جان کر کہ آپ کی ۴۵ ویں سالانہ کانفرنس سالٹ پانڈ میں مورخہ ۸-۹-۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء منعقد ہو رہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نفرنس میں برکت ڈالے اور اسے کامیاب بنادے.خدا کرے کہ وہ اپنے بے پایاں رحم اور محبت کے طفیل آپ کونور اور عقل عطا فرما دے تا کہ آپ اپنی تقریروں اور مباحث میں صحیح رنگ میں ہدایت یافتہ ہوں.خدا کرے کہ وہ آپ کو ہمت اور کام کے مواقع عطا فرمائے اور ضرورت پڑنے پر حق اور اسلامی اقدار کے لئے کہ ہم نے پیچھے نہ ہٹنے کی قسم کھائی ہے، تکالیف اٹھانے کی برداشت عطا فرمائے.ہمیں بھولنا نہ چاہیے کہ دین اور اسلام کا مغز ہماری مکمل اطاعت امرالہی اور مکمل آہنگی راہ الہی میں ہے.ساری تعریفیں اسی کے واسطے ہیں.ہمارا فرض اسی (اللہ ) کو اپنانا ہی ہے ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنی اور جذب کرنی چاہئیں.خاص طور پر چاراہم ترین صفات جو قرآن مجید کی پہلی سورۃ میں بیان ہوئی ہیں یعنی رب العالمین.الرحمن الرحیم.مالک یوم الدین یعنی وہ تمام جہانوں کا رب ہے.بے حد کرم کرنے والا ہے.وہی جزا سزا کے وقت کا مالک ہے.ان صفات کا

Page 12

تاریخ احمدیت.جلد 26 2 سال 1970ء عمیق مطالعہ کرنے پر ہماری روح اچانک انتہائی مسرت و انبساط سے چلا اٹھتی ہے کہ اے ہمارے خدا ہم تیری ہی پرستش کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں.اصل عبادت یہ ہے کہ ہم اپنے اندر البہی صفات جذب کر لیں.الہی صفات ہی ہمارا لباس ن جائیں اور انہی صفات کے رنگ میں رنگین ہو جائیں یہاں تک کہ ہم عاجز اور شئے لا محض ہو جائیں.اس (اللہ ) سے الگ ہماری شخصیت ہی باقی نہ رہے اور ایک قسم کی موت ہم پر حاوی ہو جاوے.ہم الہی خصوصیات میں ڈوب جائیں اور اس کی خوبصورتی اور مہربانی کا زندہ نمونہ بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.کمال عبد انسان کا یہی ہے کہ تَخَلَّقُوا بِاَخْلَاقِ الله یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے.اور جب تک اس مرتبہ تک نہ پہنچ جاوے نہ تھکے نہ ہارے.اس کے بعد خود ایک کشش اور جذب پیدا ہو جاتا ہے جو عبادت الہی کی طرف اسے لے جاتا ہے اور وہ حالت اس پر وارد ہو جاتی ہے جو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (انحل:۵۱) کی ہوتی ہے.66 اس ضمن میں آیت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ہمیشہ ہی ہمارے مدنظر ہونی چاہیے.آیت کا مطلب ہے کہ اے خدا ہم تیری ہی پرستش و عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری ہی مدد کے طلبگار ہیں.صحیح اور اصل عبادت کرنے کے قابل بننے کے لئے بھی ہم اللہ تعالیٰ کی مدد کے ہی محتاج ہیں.اسی کی ہدایت ، مدد اور رحمانیت کے ضرورتمند ہیں لہذا ہمیں یہ عادت بنا لینی چاہیے کہ اسی کی طرف جھکیں تا وہ ہمیں اور ہماری اولا دوں کو، کہ سب عاجز بندے ہیں توفیق بخشے کہ اس کی رضا اور محبت کے راستوں پر چلیں.آمین.مرزا ناصر احمد.خلیفہ اسیح الثالث ۱۸ دسمبر ۱۹۶۹ء.ربوہ پاکستان چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں آمد مورخہ ے جنوری ۱۹۷۰ء کو محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت انصاف میجر

Page 13

تاریخ احمدیت.جلد 26 3 سال 1970ء عبداللہ صاحب مہار اور چند دیگر معززین کے ہمراہ لاہور سے گھٹیالیاں بذریعہ کار تشریف لائے.آپ کے خیر مقدم کے لئے کالج وسکول کے طلباء واساتذہ اور علاقہ کے معززین اور سیالکوٹ کے بعض احباب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.محترم چوہدری صاحب کا سب سے پہلے ممبران کالج کمیٹی اور سٹاف سکول و کالج سے تعارف کروایا گیا.پھر آپ نے مینیجر صاحب اور پرنسپل صاحب کی معیت میں کالج، کالج ہوٹل ،سکول و سکول ہوٹل اور کوارٹرز کا معاینہ کیا.اس کے بعد آپ جلسہ کی تقریب میں تشریف لائے.جہاں سامعین کا جم غفیر موجود تھا.جلسہ کی کارروائی تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی جو مولوی عبدالحلیم صاحب نے کی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم کے چند اشعار ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکا یا ہم نے منظور احمد شاکر صاحب نے پڑھے.بعد ازاں پرنسپل عبد السلام اختر صاحب نے محترم چوہدری صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا کہ یہ کالج دیہاتی اور غریب علاقہ میں خدمت خلق کر رہا ہے.اس کالج کے قیام کے بارہ میں حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خاص دلچسپی کا اظہار فرمایا تھا.پرنسپل صاحب کے خطاب کے بعد محترم چوہدری صاحب نے تقریر فرمائی.آپ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس دور افتادہ جگہ پر کالج قائم کرنے کی حقیقی غرض وہ نہیں جسے دنیا والے حقیقی غرض سمجھتے ہیں.ہمارے لئے ضروری ہے کہ تعلیم ہمیں متقی دیندار اور رضائے الہی پر راضی ہونے والا بنا دے.اگر ہم میں تقوی اور خدا سے مضبوط تعلق پیدا نہیں ہوتا تو کچھ بھی نہیں.آپ کے خطاب کے بعد دعا پر جلس ختم ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طرف سے دو بزرگان سلسلہ کا ذکر خیر ۹ جنوری ۱۹۷۰ء کو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے چار نکاحوں کا اعلان فرمایا.خطبہ نکاح میں حضور نے مولانا ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال بانی احمد یہ مشن انگلستان کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:.اس وقت میں جن نکاحوں کا اعلان کروں گا ان میں سے دو نکاحوں کا تعلق ان دوستوں اور بزرگوں سے ہے جو ایک لحاظ سے میرے محسن بھی ہیں.جس وقت میں انگلستان سے تعلیم ختم کر کے واپس آیا تو مجلس عاملہ خدام الاحمد یہ مرکزیہ نے میرے اس احتجاج کے باوجود جو احساس کم مائیگی سے نکلا تھا مجھے مجلس خدام الاحمدیہ کا

Page 14

تاریخ احمدیت.جلد 26 4 سال 1970ء صدر تجویز کر کے میرا نام صدارت کے لئے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوا دیا.مجلس خدام الاحمدیہ میں جو کام کرنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے مجھے عطا کی اس کے نتیجہ میں میں احمدی نوجوان سے اس طرح واقف ہوا کہ جو واقفیت کسی اور ذریعہ سے نہیں ہو سکتی تھی اور جو قدرو قیمت ایک احمدی نوجوان کی میں پہچانتا ہوں شاید ہی کوئی اور ہو جو اس قدرو قیمت کو پہچانتا ہو.میں سمجھتا ہوں کہ اگر چہ میری طبیعت کا کوئی پہلو بھی اس وقت صدارت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن جو کام میرے سپرد کیا گیا اس کے نتیجہ میں مجھے انتظامی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی بہت فائدہ حاصل ہوا.اس وقت کی مجلس عاملہ کے اراکین میں سے ایک رکن ( مکرم مولوی ظہور حسین صاحب) کے بیٹے (نعیم احمد صاحب طاہر ) کے نکاح کا اعلان اس وقت ہو رہا ہے.میرے دوسرے محسن محترم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ہیں.جب میں انگلستان سے واپس آیا تو عمر کے لحاظ سے میں چھوٹا تھا اور گو تبلیغ کا جوش تو تھا لیکن تجربہ کوئی نہ تھا.محترم چوہدری صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ مقامی تبلیغ کے دوروں پر جب بھی فرصت ہو، جایا کرو.چنانچہ میں نے ان کے ساتھ تبلیغی دوروں پر جانا شروع کر دیا.اس سے ایک تجربہ تو مجھے یہ حاصل ہوا کہ ایک عام دیہاتی مسلمان چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو طبیعت کا سادہ اور سعادت مندی کی روح اپنے اندر رکھتا ہے اگر صحیح طریق پر اس کے لیول (Level) اور اس کے مقام پر آکر بات کی جائے تو وہ بہت جلد اسے سمجھ لیتا ہے.دوسرا بڑا فائدہ ان تبلیغی دوروں سے یہ ہوا کہ میری اپنی طبیعت میں فطرتی طور پر دیہات میں رہنے والوں سے جو لگاؤ تھا اس فطری جذبہ کو تجربہ کے ذریعہ ابھرنے کی توفیق ملی اور اپنے احمدی بھائیوں کی فراست اور علم نے باوجود ان کے ان پڑھ ہونے کے میری طبیعت پر بڑا گہرا اثر کیا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سٹھیالی ( نزد قادیان) کے ایک احمدی دوست تھے جو سٹھیالی کے لحاظ سے اچھے زمیندار تھے اور عادتاً سفید پوش تھے اب وہ فوت ہو گئے ہیں.وہ احمدیت اور اسلام کا اتنا گہرا علم رکھتے تھے کہ ایک جلسہ کے موقع پر بعض

Page 15

تاریخ احمدیت.جلد 26 5 سال 1970ء نوجوان طالب علم (یونیورسٹی اور کالجز کے ) قادیان آئے ہوئے تھے اور وہ اپنے بعض غیر احمدی دوستوں کو بھی ساتھ لائے تھے.طلباء کی آپس میں بحث ہوئی تو ہمارا ایک بی اے کا طالب علم ایک سوال کا جواب نہ دے سکا اور اس نے کہا میں اپنا کوئی مولوی لاتا ہوں وہ تمہیں اس سوال کا جواب دے گا.چنانچہ وہ ساتھ والے کمرہ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ ایک سفید پوش آدمی ہیں داڑھی انہوں نے رکھی ہوئی ہے اور شخصیت بڑی بارعب ہے.اس نے سمجھا کہ یہ کوئی عالم ہیں اس لئے اس نے انہیں مخاطب کر کے کہا میں بحث کے دوران لا جواب ہو گیا ہوں میں ایک سوال کا جواب نہیں دے سکا.آپ تشریف لائیں اور اس سوال کا جواب دیں.چنانچہ وہ دوست اس طالب علم کے ساتھ گئے اور اس غیر احمدی دوست کی اس مسئلہ کے متعلق تسلی کر دی.ہماری پنجابی زبان میں ایک مثل مشہور ہے.مچلا جٹ.یہ مشل دنیوی طور پر تو درست ہو سکتی ہے لیکن ایک زمیندار (اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو دیہات میں رہتا ہے اور کاشتکاری کرتا ہے چاہے اس کی زمین ہو یا نہ ہو ) کو اللہ تعالیٰ نے ایسی فراست دی ہے کہ بعض دفعہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور پھر آگے ان میں سے بہت سے فدائی نکلے ہیں.بیسیوں دفعہ میں نے باہمی رنجشیں دور کرنے کے سلسلہ میں کھیت میں جا کر اور زمین پر بیٹھ کر زمینداروں سے باتیں کی ہیں.میں نے دیکھا کہ منٹوں میں جھگڑے ختم ہو جاتے تھے.میری ان باتوں کا ان پر خاصہ اثر ہوتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو بڑی غیرت رکھنے والے حساس دل دئے ہیں اور بڑی پیاری روحیں انہیں ملی ہیں.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ میرے محترم بزرگ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کا مجھ پر بہت احسان تھا کہ انہوں نے مجھے میری اس چھوٹی عمر میں اور نا تجربہ کاری کی عمر میں اپنے ساتھ لے جا کر میرے تجربہ میں بڑی وسعت کے مواقع پیدا کئے اور دیہات میں رہنے والوں کے لئے میرے دل میں جو لگا و پوشیدہ تھا اس لگاؤ کو ظاہر ہونے کا موقع ملا.اب بھی میں ایک سادہ دیہاتی سے جب بھی مجھے اس سے

Page 16

تاریخ احمدیت.جلد 26 6 سال 1970ء ملاقات کا موقع ملتا ہے بے تکلف بات کرنے میں جو خوشی محسوس کرتا ہوں وہ خوشی میں ایک شہری سے ملاقات کے وقت محسوس نہیں کرتا.کیونکہ شہریوں کو تکلف کی عادت پڑی ہوئی ہوتی ہے اور ان کی اس عادت کی وجہ سے ان سے ملاقات کے وقت بغیر جانے بوجھے ہم بھی تکلف کرنا شروع کر دیتے ہیں.بہر حال آج میرے اس محسن بزرگ کے نواسہ (ملک سلطان بارون خاں صاحب ابن کرنل سلطان محمد خاں صاحب) کی شادی ہے اور اس کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کروں گا.دوست دعا کریں کہ جس طرح ہمارے بڑوں نے بے لوث اور بے نفس خدمت خدا کے دین کی کی ہے وہی جذبہ خدمت کا اور وہی جذبہ ایثار اور قربانی کا ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور بڑا نمایاں رہے.جدید پریس اور حد یہ ریڈ یوٹیشن کی تحر یک سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے 9 جنوری ۱۹۷۰ ء کو ایک جدید پریس اور احمد یہ ریڈ یونین کے قیام کی پر زور تحریک فرمائی.چنانچہ اس کا تفصیلی پس منظر بیان کرتے ہوئے اس روز خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا کہ:.”ہمارے پاس بعض اوقات مثلاً افریقہ کے کسی ملک سے مانگ آجاتی ہے کہ ہمیں سادہ قرآن کریم ( بغیر ترجمہ کے) کے ہیں ہزار نسخے اگلے تین ماہ کے اندر دے دو اور کچھ عرصہ پہلے ہمیں ایک ملک سے بارہ یا پندرہ ہزار سادہ قرآن کریم کے نسخوں کا آرڈر ملا اور تحریک جدید کو انکار کرنا پڑا کہ ہمارے پاس موجود نہیں ہیں.اگر ہمارا اپنا پر لیس ہو تو اگر اور جب کوئی آرڈر آئے وہ آرڈر تو شاید پندرہ یا ہیں یا چھپیں ہزار کا ہوگا مگر ایک لاکھ نسخے ہمارے پاس تیار موجود ہوں گے یا ہم اس قابل ہوں گے کہ چند دنوں کے اندر اتنے نسخے شائع کر دیں.غرض ہم بہت سارے کام کر سکتے ہیں اور پریس نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس طرف خیال نہیں کرتے.ہمارے نزدیک ترجیح مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کو ہے.کیونکہ صحیح ترجمہ اور صحیح تفسیری نوٹ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر مسلم دنیا کو حضرت

Page 17

تاریخ احمدیت.جلد 26 7 سال 1970ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علوم سے باہر نہیں مل سکتے اس لئے ہم ان کو ترجیح دیتے ہیں.پس اگر اپنا پریس ہوگا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے.اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق اور جنون ہے.یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں.ہمارا دل تو چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں اللہ تعالیٰ آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم یہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ سیکھیں.پھر اور بھی بہت سارے کام ہیں جو ہم صرف اس وجہ سے نہیں کر سکتے کہ ہمارے پاس پریس نہیں لیکن میرے دل میں جو شوق پیدا کیا گیا ہے اور جو خواہش پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سارے پاکستان میں اس جیسا اچھا پر لیس کوئی نہ ہو.اور پھر اس پریس کو اپنی عمارت کے لحاظ سے اور دوسری چیزوں کا خیال رکھ کر اچھا رکھا جائے.عمارت کو ڈسٹ پروف (Dust proof) بنایا جائے تا ہم ایک دفعہ دنیا میں اپنی کتب کی اشاعت کر جا ئیں.....دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن ( Transmitting Station) دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو.اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہا کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتور روس کا شارٹ ویواسٹیشن (Short wave station) ہے جو ساری دنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کر رہا ہے اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ ہو جو خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو.اس کے متعلق میں نے سوچا کہ امریکہ میں تو ہم آج بھی ایک ایسا اسٹیشن قائم کر سکتے ہیں وہاں کوئی پابندی نہیں ہے جس طرح آپ ریڈیو ریسیونگ سیٹ (Radio Receiving Set) کا لائسنس لیتے ہیں اسی طرح آپ براڈ کاسٹ (Broadcast) کرنے کا لائسنس لے لیں.وہ آپ کو ایک

Page 18

تاریخ احمدیت.جلد 26 8 سال 1970ء فریکوئنسی (Frequency) دیدیں گے اور آپ وہاں سے براڈ کاسٹ کر سکتے ہیں لیکن امریکہ اتنا مہنگا ہے کہ ابتدائی سرمایہ بھی اس کے لئے زیادہ چاہیے اور اس پر روز مرہ کا خرچ بھی بہت زیادہ ہو گا.اور اس وقت ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اس روحانی جماعت کی مالی حالت ایسی اچھی نہیں کہ ہم ایسا کر سکیں.یعنی میدان تو کھلا ہے لیکن ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے.دوسرے نمبر پر افریقہ کے ممالک ہیں.نائیجیریا، غانا اور لائبیریا سے بعض دوست یہاں جلسہ سالانہ پر آئے ہوئے تھے.غانا والوں سے تو میں نے اس کے متعلق بات نہیں کی لیکن باقی دونوں بھائیوں سے میں نے بات کی تو انہوں نے آپس میں یہ بات شروع کر دی کہ ہمارے ملک میں یہ لگنا چاہیے اور وہاں اجازت مل جائے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ گو پتہ تو کوشش کرنے کے بعد ہی لگے گا کہ کہاں اس کی اجازت ملتی ہے لیکن ان ممالک میں سے کسی نہ کسی ملک میں اس کی اجازت مل جائے گی.اور چونکہ ہماری طرح یہ ملک بھی غریب ہیں اس لئے زیادہ خرچ کی ضرورت نہیں ہوگی.شروع میں میرا خیال تھا کہ صرف پروگرام بنا کر اناؤنس کرنے والے ہی ہمیں دس پندرہ چاہئیں.پہلے مرحلہ میں چاہیے کہ یورپ اور مشرق وسطی کی زبانوں میں پروگرام نشر کیا جا سکے.اسی طرح عرب ممالک اور پھر ٹر کی ، ایران، پاکستان اور ہندوستان سب اس کے احاطہ میں آجائیں گے.انشاء الل.علمی نقار بر مجلس ارشاد مرکز یہ اور اس کا ملک گیر پروگرام 66 ۱۹۶۷ء میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے علمی تقاریر کے اجلاسوں کا نام، جومرکز میں حضور کی نگرانی میں منعقد ہورہے تھے "مجلس ارشاد مرکز یہ تجویز فرمایا تھا اور اپریل ۱۹۶۷ء میں ہدایت فرمائی کہ اس مرکزی مجلس کے پروگرام کے مطابق ہر بڑی جماعت کراچی، ملتان، منٹگمری (ساہیوال)، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، سرگودھا، لاسکپور، ڈھا کہ میں یہ اجلاس مرکزی تاریخ پر امیر جماعت کے زیر انتظام منعقد ہوں.نیز ہر جگہ اس مجلس کا نام ”مجلس ارشاد ہوگا.چنانچہ حضور کی اس ہدایت کے مطابق مرکز کے علاوہ ملک کی بڑی بڑی جماعتوں میں بھی علمی

Page 19

تاریخ احمدیت.جلد 26 9 سال 1970 ء تقاریر کا سلسلہ زوروشور سے شروع ہو گیا.اور جماعت کے ہر حلقے میں حصولِ علم کا ایک نیا جذبہ اور ذوق اور شوق دیکھنے میں آنے لگا.دورانِ سال مرکزی طور پر منعقد ہونے والی مجالس ارشاد کی مختصر روداد درج ذیل ہے.مرکز میں علمی تقاریر مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۷۰ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشاد مرکزیہ کا اجلاس منعقد ہوا.اجلاس حسب پروگرام حضور انور کی صدارت میں شروع ہونا تھا لیکن حضور علالت طبع کے باعث تشریف نہیں لا سکے.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں صدارت کے فرائض محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور نے ادا فرمائے.اس اجلاس میں مکرم کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیویا نے کفن مسیح کے موضوع پر ، کرم نسیم سیفی صاحب نائب وكيل التبشیر نے بیت المقدس کی مسجد اقصیٰ اور اس کی تاریخ کے موضوع پر اور مکرم فضل الہی صاحب بشیر سابق مبلغ مشرقی افریقہ و ماریشس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ کے موضوع پر اپنے ٹھوس اور پر مغز مقالے پیش کئے.صاحب صدر کے صدارتی ریمارکس کے بعد اجلاس دعا پر اختتام پذیر ہوا.اجلاس میں اہل ربوہ بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.سرگودہا اور لاہور کے بعض احباب نے بھی اس موقع پر ربوہ تشریف لا کر اجلاس میں شرکت کی.حضور انور کا مجلس ارشاد کے اجلاس میں بصیرت افروز خطاب ۱۳ جون ۱۹۷۰ء کو مجلس ارشاد کا دوسرا اجلاس ہوا جس میں پروفیسر سید محمود احمد صاحب ناصر نے کلیسیا کی طاقت کا نسخہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے موضوع پر اور ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ نے اسلام میں اجتہاد اور اس کی شرائط کے موضوع پر اور مسعود احمد خان صاحب دہلوی اسٹنٹ ایڈیٹر افضل و مدیر رسالہ انصار اللہ نے اسلام کے دور اول میں منافقین کے فتنے از روئے قرآن مجید کے موضوع پر تقاریر کیں.ان تقاریر کے بعد سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے بصیرت افروز خطاب میں پر زور الفاظ میں یہ تحریک فرمائی کہ:.”ہمارے علم کی بنیا د قرآن کریم کی اس تفسیر پر ہونی چاہیے جو حضرت مسیح

Page 20

تاریخ احمدیت.جلد 26 10 سال 1970ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے.ہم اس اعتقاد پر پختگی سے قائم ہیں اور ہمیں اس اعتقاد پر پختگی سے قائم رہنا چاہیے کہ قرآن عظیم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے.بعض دفعہ تفصیلی بات کرتے ہوئے ہم اس حقیقت کے خلاف بات کر جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ السلام نے اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ قرآن عظیم کامل اور مکمل ہدایت اور شریعت ہے اس سے باہر کچھ نہیں.آپ ہم پر واضح کرتے ہیں کہ اگر یہ صحیح ہے اور یہی صحیح اور صداقت ہے کہ قرآن کریم ایک کامل اور مکمل کتاب ہے تو ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری عملی زندگی میں اور اپنے سب اقوال میں قرآن کریم سے زائد کوئی بات نہیں کہی.بلکہ آپ کے تمام ارشادات قرآن کریم کی تفسیر ہیں.آپ نے ایک جگہ فرمایا خواہ ہمیں سمجھ آئے یا نہ آئے کہ کس آیت کی یہ تفسیر ہے لیکن ہے تفسیر.کیونکہ اگر آپ ایک چھوٹی سی بات کے متعلق یہ تسلیم کر لیں کہ یہ قرآن کریم میں نہیں تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد بیان کی تو قرآن کریم کامل و مکمل نہیں رہتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے ہاتھ میں جو علوم کے زبر دست سمندر دیئے ہیں وہ یا قرآن کریم کی تفسیر ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قرآن کریم کی تفسیر کی ہے اس کی تشریح ہے اس سے زائد کچھ نہیں.اور تمام جھگڑوں کا حل آپ نے حکم ہونے کے لحاظ سے کیا ہے.اس اجلاس میں نہ صرف اہل ربوہ بلکہ چنیوٹ، سرگودھا، فیصل آباد اور بعض دیگر مقامات کے احباب بھاری تعداد میں شامل ہوئے.اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کرنے کی تحریک ۳ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو مجلس ارشاد مرکزیہ کا تیسرا اجلاس منعقد ہوا جس میں مولوی عبدالمالک خان صاحب نائب نا ظر اصلاح وارشاد نے اولیائے امت کے الہامات اور مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم سابق مبلغ انچارج غانا مشن نے اسلام میں جماعت کے لئے اصول و ہدایات اور مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر سابق مبلغ ماریشس نے ”جمع احادیث کے لئے محدثین کی کاوشیں“ کے موضوعات پر تقاریر

Page 21

تاریخ احمدیت.جلد 26 11 سال 1970ء کیں.جس کے بعد سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا معرکہ آراء خطاب ہوا جس میں حضور نے واضح فرمایا کہ جماعت احمدیہ میں ہزاروں لاکھوں افراد ایسے موجود ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ سے ذاتی تعلق پیدا کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی قادرانہ تجلیات کے زندہ گواہ ہیں.چنانچہ فرمایا:.بقول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتنا ز خار ( پانی سے بھرا موجیں مارتا ہوا) سمندر ہے کہ جس کے قطروں کو گنا انسانی طاقت میں نہیں ہے.ہر صدی میں اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے امت محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے اور اللہ تعالیٰ کا پیاران پیاروں کو حاصل ہوتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند عظیم کی حیثیت میں ہم میں مبعوث ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے آپ پر ایمان لانے کی توفیق پائی اور آپ کو ہم نے شناخت کیا.وہ زندگی بخش پانی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کر کے ہمیں دیا.اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں اس ملک میں بھی اور دنیا کے سب دوسرے ملکوں میں بھی لاکھوں انسان ایسے پیدا ہوئے جن کا ذاتی تعلق محبت ذاتیہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے پیدا ہوا.اور وہ اللہ تعالیٰ کو ایسے شناخت کرتے ہیں جس طرح اپنے ماں باپ کو یا اپنی اولا دکو شناخت کرنے والے ہیں.جس طرح دن کے وقت سورج کا علم حاصل ہوتا ہے.اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے اسی طرح یہ لوگ اپنے رب کو پہچانتے ہیں اور دنیا کے سارے فلسفی ان کے دماغوں کو یہ جھٹکا نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے رب کو بھول جائیں یا اس سے تعلق کو قطع کر لیں.اس کی دوری میں لذت حاصل کریں وہ تو اپنے رب سے دوری کو موت سمجھتے ہیں.ان میں یورپ کے باشندے بھی ہیں.ان میں افریقہ کے بسنے والے بھی ہیں.امریکہ میں رہائش رکھنے والے بھی ہیں.جزائر کے رہنے والے بھی ہیں.وغیرہ وغیرہ.ہر جگہ احمدیت پہنچی اور ہر جگہ خدا تعالیٰ کی محبوب جماعتیں پیدا ہوئیں.انہوں نے اپنے رب کی قدرتوں کے جلوے اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کئے.وہ اس یقین پر قائم ہیں کہ اللہ تعالیٰ ( ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں نہیں ) اپنے فضل سے اپنے ان

Page 22

تاریخ احمدیت.جلد 26 12 سال 1970ء بندوں کے ساتھ جو پاک اور مطہر ہونا چاہتے ہیں، خلوص نیت رکھتے ہیں اور ان میں ایثار کا جذبہ پایا جاتا ہے اور اعمال صالحہ بجالانے والے ہیں.ذاتی تعلق پیدا کرتا ہے اور یہ مشاہدہ ہے جس کے نتیجہ میں یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ( Personal God) پرسنل گاڈ ہے یعنی ایک ایسا قادر و توانا خدا ہے جو اپنے بندہ کے ساتھ زندہ تعلق رکھنے والا ہے“.حضور نے خطاب کے آخر میں نصیحت فرمائی کہ :.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہاں اِکا دُکا کا سوال نہیں بلکہ مجموعی طور پر ہر سال میں ہزاروں لاکھوں مشاہدات زندہ خدا سے زندہ تعلق کے جماعت دیکھ رہی ہے اس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے.اس بے بہا موتی کو جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں اسے چھوڑ نہیں دینا چاہیے.زندہ خدا کی قدرتوں کا زندہ مشاہدہ ہی تو ہے جس کی اصل قدر اور قیمت ہے.باقی چیزیں ایک دھیلے کی قیمت نہیں رکھتیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا کرے کہ ہم اس کی قیمت کو پہچانیں.اس کی قدر کو پہچانیں اور خدا کرے کہ ہماری اگلی نسل جس نے آہستہ آہستہ ہماری جگہ لینی ہے وہ بھی محض فلسفی بن کر نہ رہ جائے.بلکہ ان کے اندر بھی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ایک بڑی مضبوط جماعت اور گروہ ایسا موجود در ہے جو اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق رکھنے والے ہوں اس وقت تک کہ خدا کا وہ وعدہ پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان جماعت احمدیہ کی مقبول قربانیوں کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں آپ کے اور قرآن کریم کے گرد گھومنے والے ہوں گے.خلافت لائبریری کا سنگ بنیاد سید نا حضرت فضل عمر المصلح الموعود کے محبوب مقاصد کی توسیع اور تکمیل کے سلسلہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو ایک نہایت اہم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کا مبارک آغاز ہوا اور ایک عظیم مرکزی لائبریری کی عمارت کے سنگ بنیاد کی بابرکت تقریب عمل میں آئی.اس روز سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث سوا گیارہ بجے قبل دو پہر دفاتر صدرانجمن احمدیہ سے ملحق

Page 23

تاریخ احمدیت.جلد 26 13 سال 1970ء شرقی میدان میں تشریف لائے.حضور کے ہمراہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (صدر فضل عمر فاؤنڈیشن ) بھی تھے.جو نہی حضور کی موٹر کا احاطہ میں رکی کرنل عطاء اللہ صاحب ( نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن )، جملہ ڈائریکٹرز اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب (سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن) نے حضور کا استقبال کیا.بعد ازاں حضور اس جگہ رونق افروز ہوئے جہاں شرکاء حضرات بیٹھے ہوئے تھے.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو حافظ محمد صدیق قریشی صاحب نے کی.جس کے بعد مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں خلافت لائبریری کی زیر تعمیر عمارت کے منصوبہ کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہوئے عرض کیا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے لائبریری کی عمارت کا منصوبہ اپنے ذمہ لیا ہے اور اس کے لئے ساڑھے تین لاکھ روپے کا بجٹ منظور کیا ہے.صدر انجمن احمدیہ نے اس پیشکش کو شکریہ کے ساتھ قبول کرتے ہوئے زمین کا قطعہ حضور پر نور کی منظوری سے مرحمت فرمایا ہے.گذشتہ ڈیڑھ سال سے عمارت کے سلسلہ میں مختلف زاویوں سے غور کر کے ایک ابتدائی نقشہ تیار کرایا گیا جس کے پیش نظر چوہدری عبدالرشید صاحب (لندن)، عبدالحمید اختر صاحب (اسلام آباد)، خالد ورک صاحب (اسلام آباد ) ، میاں عبد الغنی صاحب رشدی (راولپنڈی ، شیخ مامون احمد صاحب (کراچی) اور محمود حسین صاحب (لاہور) نے ضروری نقشے تیار کئے.فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے محمود حسین صاحب کا نقشہ پسند کیا اور انہیں آخری ہدایات اور لائبریری کی جملہ ضروریات سے آگاہ کرتے ہوئے نیا نقشہ تیار کرنے کیلئے کہا اور حضور کے تازہ ارشادات سے بھی اطلاع دی گئی.چنانچہ منظور شدہ نقشہ میں سب ضروری باتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے.منظور شدہ نقشہ میسرز پر ویز اینڈ محمود ایسوسی ایشن کے محمود حسین صاحب اور پرویز نعیم صاحب ممبر بیچلرز آرکیٹکٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف آرکیٹیکٹس پاکستان ) اور عبدالحمید صاحب بی ایس سی (سول انجینئر ممبر انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرز) کی اجتماعی جد و جہد اور تعاون کا نتیجہ ہے.میسرز پر ویز اینڈ محمود ایسوسی ایشن نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بعض اہم تعمیرات اور پارکس کے ڈیزائن تیار کئے ہیں اور کئی ایک پرا جیکٹ مکمل کئے ہیں.بعض ڈیزائنوں پر انعام بھی حاصل کیا ہے.یکم جنوری ۱۹۷۰ء سے نقشہ کے مطابق عمارت بنوانے اور نگرانی کے کام کے لئے مشتاق احمد خان صاحب انجینئر کی خدمات حاصل کی گئی ہیں.خان صاحب ریٹائر ڈ ایگزیکٹو انجینئر ہیں.انہوں

Page 24

تاریخ احمدیت.جلد 26 14 سال 1970ء نے عرصہ ملازمت میں قبل تقسیم اور بعد تقسیم ملک کے مختلف حصوں میں سرکاری بنگلے، دفاتر اور دیگر ند درہائشی اور صنعتی عمارات اپنی نگرانی میں بنوائی ہیں.سپاسنامے کے بعد حضور نے ایک بصیرت افروز خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.در علم و جہالت کی اس دنیا میں صرف تعصب کی بناء پر ہی اسلام پر اعتراض نہیں کئے جاتے بلکہ رائج الوقت علوم کی بناء پر بھی اعتراض کئے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام کو کسی بھی مروجہ علم سے کوئی اندیشہ اور خطرہ نہیں.یہ علوم ہیں ہی اس لئے کہ اسلام ان سے خادموں کے طور پر کام لے.جب مروّجہ علوم کی اصل حیثیت خادم اسلام کی ہے اور اسلام نے ان سے خادموں کے طور پر کام لینا ہے تو پھر اسلام کے اِن خادموں کو جاننا، انہیں پر کھنا اور ان سے کام لینے کے اسلوب معلوم کرنا ضروری ہے.یہ کام نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایک عمدہ لائبریری نہ ہو.اس سے ایک جامع اور مکمل لائبریری کی ضرورت واضح ہے.لیکن اس ضمن میں یہ یادرکھنا ضروری ہے کہ لائبریری کسی عمارت کا نام نہیں ہے جس میں مختلف علوم وفنون کی کتابیں رکھی گئی ہوں لائبریری نام ہے اُس عمارت کا جس میں کتابیں بھی ہوں اور ساتھ ہی اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کی غرض سے تحقیق کرنے والے دل اور دماغ بھی ہوں.پھر وہ تحقیق ہی کرنے والے نہ ہوں بلکہ ساتھ ہی یہ دعا بھی کرنے والے ہوں جو ہمیں سکھائی گئی ہے یعنی یہ کہ رَبِّ أَرِنِی حَقَائِقَ الأَشْيَاءِ (اے میرے رب! مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا ) اور پھر وہ یہ دعا اس درد اور تڑپ کے ساتھ کرنے والے ہوں کہ اس دعا کو خدا تعالیٰ اپنے فضل سے قبول فرمائے.اس طرح وہ اپنی تحقیق اور اپنی عاجزانہ دعاؤں کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کا نام بلند کرنے والے ہوں.پس احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو اس رنگ میں قبول فرمائے کہ یہ لائبریری دنیا میں حقائق الاشیاء کو پھیلانے کا موجب ہو اور اس سے استفادہ کرنے والے دنیا کے دلوں اور دماغوں کو جیتنے والے ہوں تا دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو اور ہر طرف اسلام غالب آتا چلا جائے.“

Page 25

تاریخ احمدیت.جلد 26 15 سال 1970ء اس بصیرت افروز خطاب کے بعد حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ مجوزہ عمارت کی کھدی ہوئی بنیادوں کی طرف تشریف لے گئے.حضور نے بنیاد میں مقررہ جگہ پر بیٹھ کر پہلے ایک اینٹ ہاتھ میں لی اور دیر تک زیر لب دعا کرتے رہے پھر اس اینٹ کو اپنے دست مبارک سے بنیاد میں نصب فرمایا.حضور نے اس کے علاوہ یکے بعد دیگرے دو اور اینٹیں بھی نصب فرما ئیں.اس کے بعد حضور کی اجازت سے علی الترتیب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، کرنل عطاء اللہ صاحب، صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ انجمن احمدیہ تحریک جدید اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر انجمن احمد یہ وقف جدید نے ایک ایک اینٹ بنیاد میں نصب کی.بعدہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے سابق اور موجودہ ڈائریکٹر صاحبان نے بھی ایک ایک اینٹ بنیاد میں رکھی جن میں مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا، چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ شیخو پورہ ، ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سرجن لا ہور، (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، سید داؤ د احمد صاحب اور میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ شامل تھے.ایک اینٹ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے بھی رکھی.اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ کرام سے بھی اینٹیں رکھوائی گئیں ان میں حضرت حاجی محمد فاضل صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب ایڈیشنل ناظر بیت المال ( آمد)، حضرت چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی اور حضرت بابا دین محمد صاحب شامل تھے.اس کے بعد حضور نے بنیادوں کے پاس کھڑے ہو کر اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ حاضرین شریک ہوئے.اس موقع پر حاضرین میں شیرینی بھی تقسیم کی گئی.نیز مجوزہ عمارت کے احاطہ میں ایک بکر البطور صدقہ ذبح کر کے اس کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا گیا.گیارھواں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ تعلیم الاسلام کالج کا گیارھواں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ مورخہ ۲۹ تا ۳۱ جنوری ۱۹۷۰ء منعقد ہوا.ٹورنامنٹ کا افتتاح پہلے سے قائم شدہ مستحسن روایت کے مطابق دسویں آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ کی چیمپئن ٹیم پاکستان ویسٹرن ریلوے کے کپتان سید جاوید حسن نے تعلیم الاسلام کالج کے باسکٹ بال کورٹس میں کیا.ٹورنامنٹ میں ۲۷ ٹیموں نے شرکت کی.اس ٹورنامنٹ میں درجنوں میچز کھیلے گئے.کلب سیکشن میں چیمپین شپ کا اعزاز پاکستان ویسٹرن ریلوے

Page 26

تاریخ احمدیت.جلد 26 16 سال 1970ء کے حصہ میں آیا.کالج سیکشن میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے میونسپل کا لج لائکپور کو ہرا کر چیمپین شپ کا اعزاز حاصل کیا.اسی طرح سکول سیکشن میں تعلیم الاسلام ہائی سکول نے اعزاز حاصل کیا.فائنل مقابلوں کے اختتام پر مورخہ ۳۱ جنوری ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کامیاب ٹیموں اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم فرمائے اور انہیں ایک مختصر خطاب سے نوازا.حضور انور نے برادرز کلب کو شاندار کھیل کا مظاہرہ کرنے پر اپنی طرف سے ایک سو ایک روپے کا انعام عطا فر مایا.12 حضرت اُمّم مظفر احمد کا انتقال اس سال کا اندوہناک واقعہ حضرت اُمّ مظفر سرور سلطان صاحبہ بیگم حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رحلت ہے.آپ قریباً دس سال سے صاحب فراش تھیں.بیماری کا یہ طویل عرصہ آپ نے بہت خندہ پیشانی سے گزارا اور صبر و شکر کا بہت اعلیٰ نمونہ قائم کیا اور بالآخر یکم فروری ۱۹۷۰ء بروز اتواراس دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف انتقال فرما گئیں.اس جانگد از حادثہ کی خبر سنتے ہی اہل ربوہ کثیر تعداد میں کوٹھی ”البشری پہنچنا شروع ہو گئے.البشرى، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ذاتی مکان واقع محلہ دارالصدرغربی ربوہ.آپ اس میں ۲۰ را پریل ۱۹۶۱ء کو منتقل ہوئے تھے ).اُدھر دو پہر تک بیرو نجات سے بھی ربوہ میں احباب کی آمد کا تانتا بندھ گیا.سرگودھا، لائکپور (فیصل آباد، جھنگ، شیخو پورہ ، لاہور، گجرات، راولپنڈی اور متعدد دوسرے مقامات سے احباب نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کے لئے تشریف لائے.صبح سے بعد دو پہر تک ہزاروں مستورات نے ”البشری میں چہرہ کی آخری زیارت کا شرف حاصل کیا.نماز جنازه اسی روز سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مسجد مبارک میں نماز عصر پڑھائی.بعد ازاں البشری میں تشریف لائے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد جنازہ کو کوٹھی کے اندرونی حصہ سے اٹھا کر بیرونی حصہ میں لائے جہاں تابوت کو ایک چارپائی پر رکھا گیا جس کے ساتھ لمبے لمبے بانس لگے ہوئے تھے تا کہ احباب کو کندھا دینے میں آسانی رہے.کوٹھی کے بیرونی حصہ سے جنازہ سوا چار بجے اٹھایا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث، حضرت مرحومہ کے فرزندان صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ڈپٹی چیئر مین منصوبہ بندی کمیشن، صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب،

Page 27

تاریخ احمدیت.جلد 26 17 سال 1970ء صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب، صاحبزادہ ڈاکٹر کرنل مرزا مبشر احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ایم اے سابق ہیڈ ماسٹر احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی ( گھانا ) و پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ) اور داماد جناب مرزا رشید احمد صاحب نوابزادہ محمود احمد خان صاحب، بریگیڈیر وقیع الزمان صاحب اور ونگ کمانڈ رسید محمد احمد صاحب اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد جنازہ کو کندھوں پر اٹھا کر کوٹھی کے بیرونی حصہ سے سڑک پر لائے جہاں احباب ہزاروں کی تعداد میں دور تک دو رویہ کھڑے ہوئے تھے ربوہ کی مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کے اراکین اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نظم وضبط برقرار رکھنے کے لئے ڈیوٹیوں پر مقرر تھے.حضور انور اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد نے دور تک جنازہ کو کندھا دیا نیز احباب کو بھی راستہ میں ایک خاص نظام کے ماتحت کندھا دینے کا موقع دیا گیا.اس طرح جنازہ ہزاروں احباب کے کندھوں پر دار الصدر کی بڑی سڑک پر دفاتر صدرانجمن احمد یہ کے سامنے سے گذر کر گولبازار سے ہوتا ہوا افضل عمر ہسپتال والی سڑک پر لایا گیا اور پھر وہاں سے بہشتی مقبرہ پہنچا.جنازہ پہلے بہشتی مقبرہ کے میدان میں لا کر رکھا گیا جہاں حضور انور نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ربوہ کے مقامی احباب اور بیرونجات سے تشریف لانے والے احباب شریک ہوئے.تدفین نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جنازہ کو اس چار دیواری میں لایا گیا جہاں حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا اور حضرت مصلح موعود اور دیگر بزرگوں کے مبارک مزار ہیں.نماز جنازہ کے میدان سے چار دیواری تک جنازہ کو لے جاتے وقت حضور ، حضرت مرحومہ کے فرزندان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد نے پھر کندھا دیا.تابوت کو قبر کے اندرا تارنے میں حضور اور حضرت مرحومہ کے سب فرزندوں اور دامادوں اور ان کے بھائی عبدالرحمن خان صاحب نیز خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض دیگر افراد نے حصہ لیا اور آپ کے جسد اطہر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مزار مبارک کے پہلو میں سپرد خاک کر دیا گیا جس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اجتماعی دعا کروائی.13 اوصاف حمیدہ اور امتیازی شرف حضرت اُمّم مظفر احمد سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم صحابی حضرت مولانا غلام حسن

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد 26 18 سال 1970ء خان ( ولادت ۱۸۵۲ ء وفات یکم فروری ۱۹۴۳ء.یکے از ۳۱۳ / اصحاب کبار ) کی صاحبزادی تھیں جن کی ولادت انداز ا۱۸۹۳ء میں بمقام پشاور ہوئی.آپ اپنے بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر پر تھیں جو اپنے بھائی عبدالرحیم خان کے بعد پیدا ہوئیں.آپ کے رشتہ کی تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ مکتوب ۲۴ اپریل ۱۹۰۲ء کو فرمائی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے نکاح ۲ ستمبر ۱۹۰۲ء کو حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ اسیح الاول نے پڑھایا.آپ کی رخصتی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے مئی ۱۹۰۶ء کے دوسرے ہفتے میں ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی برات نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اصلح الموعود، حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب، حضرت سید سرور شاہ صاحب اور دیگر احباب کے ساتھ ، امئی ۱۹۰۶ء کی صبح کو قادیان سے پشاور کیلئے روانہ ہوئی.ایک رات لاہور میں قیام رہا اور اگلے دن پشاور روانہ ہوئی.حضرت صاحبزادہ صاحب آپ کو بیاہ کر ۶ امئی ۱۹۰۶ء کو بعد دو پہر قادیان لائے.اس مبارک موقع پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے اخبار الحکم ۷ امئی ۱۹۰۶ء کے صفحہ ۲ پر مبارک باد کے جلی عنوان سے پورے صفحہ کا ایک تہنیتی نوٹ سپر د قلم فرمایا.حضرت سرور سلطان صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری بہو تھیں جو الدار“ میں داخل ہو کر خدائی وعدہ کے مطابق خواتین مبارکہ کے مقدس زمرہ میں شامل ہوئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہدِ مبارک ہی میں سے اگست ۱۹۰۷ء کو آپ کے بطن سے صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ پیدا ہوئیں اور اس طرح آپ کے مبارک وجود سے بھی تری نسلاً بعيداً “ کی آسمانی بشارت کا عملی ظہور ہوا.14 166 آپ ان خوش نصیب اور بزرگ مستورات میں سے تھیں جنہیں خلافت جو بلی کے موقع پر لوائے احمدیت کے لئے سوت کاتنے کا اعزاز حاصل ہوا.یہ قابل افتخار خدمت آپ نے ۱۹۳۹ء میں حضرت سیّدہ ام طاہر کی نگرانی میں انجام دی.آپ ۲۵ را گست ۱۹۴۷ء کو حضرت اماں جان اور دوسری خواتین مبارکہ کے ساتھ ہجرت کر کے قادیان سے لاہور تشریف لائیں اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ء کو پاکستان پہنچے اور رتن باغ میں قیام فرما ہوئے.اور پھر جنوری ۱۹۵۱ء میں مستقل طور پر دارالہجرت ربوہ میں بود و باش اختیار کر لی.جون ۱۹۶۰ء میں حضرت اُمّم مظفر کی طرف سے ان کے خرچ پر چوہدری شبیر احمد صاحب

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد 26 19 سال 1970ء بی اے واقف زندگی نے حج بدل کیا.۱۹۶۸ء میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے رسالہ مصباح کی توسیع اشاعت کے سلسلہ میں ایک دس سالہ تحریک کا آغاز کیا گیا جس میں آپ نے بھی نمایاں حصہ لیا.آپ بہت تقوی شعار، باوقار اور سلسلہ کے ساتھ خاص اخلاص رکھنے والی بہت دردمند خاتون تھیں.آپ کے جملہ اوصاف حمیدہ میں سے غرباء پروری کا وصف خاص طور پر نمایاں تھا.آپ نے بہت سے غرباء کی پرورش کی اور علی الخصوص اپنے خادموں کے ساتھ ہمیشہ ہی خاص محبت و شفقت کا مثالی سلوک روا رکھا.اور آپ نظام الوصیت میں شامل ہونے کے علاوہ تحریک جدید کی پانچ ہزاری روحانی فوج میں بھی شامل تھیں.ربوہ میں عید الاضحیٰ کی مبارک تقریب مورخہ ۱۰ ذوالحجہ بمطابق ۱۷ فروری ۱۹۷۰ء کو ربوہ میں عیدالاضحی کی مقدس و بابرکت تقریب اسلامی شعار کے مطابق منائی گئی.حضور انور نے باوجود کسی قدر ضعف کے پونے نو بجے صبح مسجد مبارک میں تشریف لا کر نماز عید پڑھائی اور عیدالاضحی کے بنیادی سبق پر ایک مختصر مگر جامع اور پر معارف خطبہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا کہ یہ عید ہمیں ایک بنیادی سبق دیتی ہے.وہ سبق اسلام کی روح سے تعلق رکھتا ہے اور اسلام کی روح یہ ہے کہ انسان اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے ہر دم تیار ہے.بالفاظ دیگر وہ اپنے اوپر ایک قسم کی موت وارد کر کے نئی زندگی اپنے رب سے حاصل کرے.آخر میں حضور نے دعا کرائی جس میں جملہ احباب شریک ہوئے.نماز عید میں اہل ربوہ کے علاوہ احمدنگر، سرگودہا، لائل پور اور لاہور کے احباب بھی کثیر تعداد میں شامل ہوئے.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا انتخاب بطور صدر عالمی عدالت 19 مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۷۰ء کو بین الاقوامی عدالت کا صدر اور لبنان کے محترم جناب فواد آمون کو نائب صدر منتخب کیا گیا.انتخاب متفقہ طور پر عمل میں آیا.محترم چوہدری صاحب کو پیرو کے جوزے ایل بستا مانتے کی جگہ نیا صدر منتخب کیا گیا.20 جامعہ نصرت کی مسجد اور سائنس بلاک کا سنگ بنیاد جامعہ نصرت کی مسجد اور سائنس بلاک کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے حضرت خلیفہ امبیع الثالث

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد 26 20 سال 1970ء بروز اتوار بتاریخ ۸ مارچ ۱۹۷۰ء قریباً ساڑھے چار بجے شام جامعہ نصرت میں تشریف لائے.اس مبارک موقع پر دعا میں شمولیت کی خاطر مندرجہ ذیل احباب بھی مدعو تھے.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پر نسل تعلیم الاسلام کالج و ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید، سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ، سید محمود احمد صاحب ناصر پروفیسر جامعہ احمدیہ، چوہدری فضل احمد صاحب نائب نا ظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ، چوہدری محمدتقی صاحب، ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب پر و فیسر تعلیم الاسلام کالج.ان احباب کے علاوہ الگ پردہ میں حرم محترم سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث ، حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ، حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور جملہ ممبران سٹاف جامعہ نصرت بھی موجود تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تشریف آوری پر تمام موجود احباب نے حضور کا استقبال کیا اور پھر حضور نذیر احمد صاحب افسر تعمیرات صدرانجمن احمدیہ کے ساتھ جامعہ نصرت کی مسجد کا سنگِ بنیاد رکھنے کے لئے گئے.یہ مسجد ہوٹل کے جنوب مغربی کونے میں تعمیر کی جارہی ہے.حضور نے مسجد کے مسقف حصہ کی مغربی دیوار کے دائیں کونے میں دعائیں پڑھتے ہوئے تین اینٹیں رکھیں.مسجد کے قبلہ کے صحیح رخ کے بارے میں استفسار کیا اور اس کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لئے دعا کی.بعد ازاں حضور نے ڈسپنسری کی عمارت کا معاینہ فرمایا اور پھر سائنس بلاک کا سنگ بنیا در کھنے کے لئے تشریف لے گئے.یہ بلاک جامعہ نصرت کی بڑی عمارت اور بارہ دری کے درمیانی پلاٹ میں تعمیر ہو رہا ہے اس بلاک پر انداز اسوالاکھ روپے خرچ ہوں گے جس کا آدھا حصہ اراکین لجنہ اماءاللہ جمع کر رہی ہیں.سائنس بلاک کیمسٹری، فزکس اور بیالوجی کی لیبارٹریز، بیالوجی میوزیم ، دو لیکچر روم، تین پروفیسر ز روم، تین سٹورز ، بیلنس روم اور ڈارک روم پر مشتمل ہے.حضور نے اس بلاک کے شمال مشرقی حصہ کے دائیں کونے پر دعائیں پڑھتے ہوئے تین اینٹیں رکھیں اور پھر ایک اینٹ محترم قاضی محمد اسلم صاحب نے رکھی.بعدہ حضور نے اس بلاک کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کی.دعا کے بعد جامعہ نصرت کی طرف سے حضور اور دیگر مہمانوں کی خدمت میں چائے پیش کی گئی اور تقریباً چھ بجے یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.

Page 31

تاریخ احمدیت.جلد 26 21 سال 1970ء (حضرت) صاحبزادہ مرزاطاہر احمد صاحب کا وائی ایم سی اے ہال لاہور میں بلند پایہ پیکچر ۱۵ مارچ ۱۹۷۰ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وائی ایم سی اے ہال (لاہور) میں مجلس حسن بیان خدام الاحمدیہ لاہور کے زیر انتظام ایک بلند پایہ علمی لیکچر دیا.پاکستان کے مشہور صحافی اور بزرگ مسلم لیگی لیڈر جناب میاں محمد شفیع صاحب (مش) نے اس تقریب کے متعلق اپنی ڈائری میں لکھا:.اتوار کو وائی ایم سی اے ہال میں مسٹر جسٹس سجاد احمد جان جالندھری کی زیر صدارت جناب مرزا طاہر احمد نے قرآن عظیم، احادیث نبوی اور تاریخ اسلام کے حوالوں سے اسلام کے اقتصادی نظام پر ایک اعلی پایہ کی تقریر میں اسلامی اقتصادیات کی پاکیزگی، جامعیت اور برتری کو اجاگر کیا.انہوں نے سوشلزم کا نام لئے بغیر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلامی اقتصادی نظام استحصال پسندی اور طبقاتی نفرت کے خاتمہ کی مؤثر ضمانت ہے.انہوں نے قرآن کریم کی آیات کے حوالے سے اپنے سننے والوں کے دل میں (کم از کم میرے دل میں ) اس امر کے متعلق کسی قسم کے تذبذب یا شک کی گنجائش نہ رہنے دی کہ اسلام سرمایہ داری کو جس میں دولت کی محبت ، ارتکاز ، اکتناز (خزانے کا دولت سے پُر ہونا ) ، سود خوری اور استحصال شامل ہیں، مہیب ترین لعنت تصور کرتا ہے اور ایسے سرمایہ داروں کے لئے دوزخ کے بے پناہ عذاب کی بشارت دیتا ہے.اسلام اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار کی اساس پر ایک ایسا متوازن قدرتی اقتصادی نظام رائج کرنا چاہتا ہے جس میں انفرادی اور قومی دولت میں لوگ خیرات اور مراعات کے طور پر نہیں بلکہ حق کے طور پر دعویدار تسلیم کئے جاتے ہیں.مجھے افسوس ہے کہ اخبارات نے مرزا طاہر احمد کی اس پر مغز تقریرکا کماحقہ نوٹس نہیں لیا.ممکن ہے ان کے نقطۂ نگاہ سے اس میں کاپی نہ ہو کیونکہ انہوں نے نہ تو کسی کو برا بھلا کہا اور نہ کسی کو چیلنج ہی دیا بلکہ نہایت رواں اور سلجھے ہوئے انداز میں اپنے فقروں اور دلیلوں کو دہرائے بغیر اسلامی اقتصادی نظام کی خوبیوں اور عظمتوں کو اجاگر کیا.تاہم اگر اس مجلس کے منتظمین مرزا صاحب کی اس تقریر کے متن کو پمفلٹ کی شکل میں شائع کر سکیں تو بقول حضرت آغا شورش کا شمیری مادر پدر آزاد سیاسی ٹیڈیوں کا اس کے پڑھنے سے بھلا ہو گا.شورش کاشمیری صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ ” چٹان نے ڈائری کی اشاعت پر حسب ذیل الفاظ

Page 32

تاریخ احمدیت.جلد 26 میں تنقید کی کہ:.22 سال 1970ء جسٹس سجاد احمد جان سپریم کورٹ کے انتہائی قابل احترام جوں میں سے ہیں.نیک نفس ہونے کے علاوہ علم وادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں.انہیں علامہ اقبال کے فکر اور مولانا ظفر علی خان کے ادب سے دلی لگاؤ ہے لیکن افسوس کہ انہوں نے لاہور میں ایک ایسے مذاکرہ کی صدارت کی جو میرزا طاہر احمد کی تقریر کے لئے منعقد کیا گیا.جس کا پس منظر قادیانی نبوت کی اولا دکولوگوں میں انٹروڈیوس کرانا ہے.وو 24 ہم نے جناب میش کی ڈائری کو تعجب سے پڑھا.حیرت ہے کہ ایک طرف تو وہ مرکز یہ مجلس اقبال کے ارکان پر ختم نبوت اور اقبال کے موضوع پر مقالہ پڑھانے پر زور دے رہے ہیں دوسری طرف انہیں میرزا طاہر احمد کی تقریر عین اسلام محسوس ہوتی ہے.م.ش صاحب بتا سکتے ہیں کہ وہ کس طرح اس مذاکرہ میں پہنچے، خود گئے؟ بلوائے گئے؟ اور پھر ہضم کیسے ہو گئے؟ افسوس ہے کہ م.ش صاحب نے یہ بالکل نہیں بتایا کہ مرزا طاہر احمد کس ٹہنی کا پھول ہیں“.اس اخلاق سوز اور زہر یلے نوٹ کے جواب میں جناب میاں محمد شفیع صاحب نے تحریر فرمایا کہ:.چند روز ہوئے وائی.ایم سی.اے لاہور میں مسٹر جسٹس سجاد احمد جان حج سپریم کورٹ کی زیر صدارت مرزا طاہر احمد نے اسلام کے اقتصادی نظام کے موضوع پر ایک تقریر کی جس میں انہوں نے قرآن، احادیث اور تاریخ اسلام کی روشنی میں اپنے موضوع پر اظہار خیال کیا.تقریر کے خاتمہ پر صدر مجلس مسٹر سجاد احمد جان نے نہایت دلکش انداز میں اسلام کے اقتصادی نظام کی کامیابی کے لئے اسلام کے اخلاقی اور روحانی نظام کے قیام کو ضروری قرار دیا.میں نے اس جلسہ کی کارروائی پر اس کالم میں تبصرہ کرتے ہوئے مرزا طاہر احمد کو خراج تحسین پیش کیا کہ انہوں نے نہایت سلجھے ہوئے انداز میں اسلام کے اقتصادی نظام کے حسن و جمال کو اجاگر کیا اور اس امر پر اظہار تاسف کیا کہ ایک ایسے موضوع پر جس کے متعلق ملک میں بے حد چر چاہے ایک نہایت اچھی تقریر کا اخبارات نے کماحقہ نوٹس نہیں لیا.اس پر چٹان کے ایڈیٹر حضرت آغا شورش کا شمیری نے تبصرہ کرتے ہوئے ناراضگی کے اظہار کے طور پر مجھ سے استفسار کیا ہے کہ میں اس جلسے میں کیوں اور کیسے گیا؟ اور یہ کہ آیا مجھے معلوم ہے کہ مرزا طاہر احمد کس درخت کی شاخ ہیں وغیرہ وغیرہ.حضرت آغا شورش کاشمیری ملک کے ایک نامور خطیب ہیں.اس لحاظ سے میری حیثیت ان کے مقابلے میں ایک مبتدی کی بھی نہیں.وہ ایک نغز گو

Page 33

تاریخ احمدیت.جلد 26 23 سال 1970ء شاعر اور ادیب طناز ہیں اس میدان میں بھی میں ان کا حریف نہیں ہوں لیکن اگر وہ مجھے اخبار نویسی کے اخلاق بتانا چاہیں یا مجھے عقیدہ کی پاکیزگی کے متعلق کوئی سبق دینا چاہیں تو مجھے ادب کے ساتھ ان سے یہ عرض کرنا ہے کہ ان دونوں امور کے متعلق مجھے ان سے کچھ بھی سیکھنا نہیں.اخبار نویسی اور دھڑے بازی میں ایک بنیادی فرق ہے، ایسا ہی فرق جو ایک عفیفہ بیوی اور داشتہ میں ہوتا ہے.ایک اخبار نویس جو اس اصول پر گامزن ہو کہ ” میرا دوست غلطی نہیں کر سکتا ایک اچھا کر دھڑے باز تو ہوسکتا ہے لیکن ایک اچھا اخبار نویس نہیں کہلا سکتا اور ایسے اخبار نویس کے قلم پر لوگوں کو کبھی اعتماد نہیں ہو سکتا لیکن ایک ایسا اخبار نویس جو اس اصول کا پابند ہو کہ اگر میرا دوست غلطی پر ہے تو میں اسے بھی نگا کروں گا وہ ممکن ہے کہ دنیا کے عام معیار کے مطابق ایک اچھا دوست نہ ہو لیکن وہ ایک قابل اعتماد صحافی ضرور ہے ایک اخبار نویس جس کی صحافتی دیانتداری پر عوام کو اعتماد نہ ہو ایک ٹکے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.میں نے ۱۹۳۷ء میں اخبار نویسی کے میدان میں قدم رکھا تھا اُس وقت سے لے کر آج تک بے شمار جلسوں، جلوسوں ، میٹنگوں ، کانفرنسوں کی روئیداد رپورٹ کرتا رہا ہوں میں نے رپورٹ لکھتے وقت کبھی نہیں سوچا کہ مقرر کس درخت کی کونسی شاخ ہے یا کس قبیلہ سے تعلق رکھتا 25-4 ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا طلبات تعلیم الاسلام ہائی سکول سے خطاب ۱۹ مارچ ۱۹۷۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں جماعت دہم کی الوداعی تقریب تھی.سید نا حضرت خلیفة اصبح الثالث نے کمال شفقت اور مہربانی سے اس میں شرکت کی درخواست قبول فرمالی تھی.چنانچہ حضور اس تقریب میں رونق افروز ہوئے اور اس موقع پر حاضرین سے ایک پُر معارف خطاب فرمایا جس میں آیت اَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان: ۲۱) کی روشنی میں طلباء کو بتلایا کہ قرآن کریم نے ہمیں یہ کہا ہے کہ اپنا عام علم جسے جنرل نالج کہتے ہیں اسے بھی بہت بڑھاؤ.پس یہ قرآن کریم کا حکم ہے کہ جنرل نالج بھی بہت وسیع ہونا چاہیے اور مطالعہ بھی گہرا ہونا چاہیے اور قرآن کریم کا یہ حکم اس آیت میں ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے آسمان اور زمین کی ہر چیز تمہارے لئے مسخر کی ہے ہر چیز تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہے اور ہر چیز سے فائدہ اٹھانے کے لئے کما حقہ علم حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ ہم اس سے کما حقہ فائدہ تبھی اٹھا

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد 26 24 سال 1970ء سکتے ہیں جب کہ ہمیں اس چیز کا علم ہو.حضور نے مزید فرمایا کہ میں اس وقت یہ نہیں کہہ رہا میرا مطالبہ آپ سے یہ نہیں ہے کہ تم ایک مہینے کے اندر اندر خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ تمام اشیاء کا سارا علم حاصل کر لو یہ تو تمہارے لئے ممکن نہیں ہے، کسی بھی انسان کے لئے ممکن نہیں ہے فرد واحد کے لئے ہی نہیں بلکہ نسل انسانی کے لئے بھی یہ مکن نہیں ہے اور یہ اس جلوے کہ جس طرح انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے اثر انداز ہورہے ہیں.اس عالمین پر بھی اللہ تعالیٰ کی صفات کے غیر محدود جلوے اثر ڈال رہے ہیں لیکن میں آج آپ سے یہ مطالبہ ضرور کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے ماحول میں دلچسپی لیں اور زیادہ سے زیادہ اشیاء کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں.مقام محمد یت پر ایک نہایت پر معارف خطبہ سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۲۰مارچ ۱۹۷۰ءکوصفات باری کے مظہر اتم اور انسا نیت کے محسن اعظم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم روحانی تجلیات پر ایک نہایت پر معارف اور ولولہ انگیز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں مقام محمدیت کی عظمت، شان اور جلالت مرتبت کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ اگر بصیرت اور عرفان کی آنکھ سے دیکھا جائے تو خاتم الانبیاء زندہ باد اور انسانیت زندہ باد کے عارفانہ نعرے جماعت احمدیہ کے سوا اور کوئی نہیں لگا سکتا.چنانچہ ارشاد فرمایا:.مقام محمدیہ کی جو معرفت ہمیں حاصل ہے آج وہ ہمارے غیر کو حاصل نہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک کروڑوں، اربوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہیں اپنے اپنے ظرف کے مطابق یہ معرفت ملی.ہم نے اس عرفان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور پہلوں کی طرح جنہیں یہ عرفان اور معرفت عطا ہوئی تھی حقیقی معنی اور عارفانہ رنگ میں آج اگر کوئی ” خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا سکتا ہے تو وہ ہم ہی ہیں.ہم جب ” خاتم الانبیاء زندہ باد ختم المرسلین زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہمارا یہ نعرہ عارفانہ نعرہ ہے.ہم اس حقیقت کو پہچانتے ہیں اور ہمارے دل کی گہرائی ، ہماری روح کی وسعتوں اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز بلند

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد 26.25 سال 1970ء ہوتی ہے کہ ” خاتم الانبیاء زندہ باؤ ختم المرسلین زندہ باد “ لیکن بعض وہ بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی دوریوں اور ماضی کے دھندلکوں میں افق انسانی پر دور سے ایک چمک تو دیکھی اور اس چمک سے وہ ایک حد تک گھائل بھی ہوئے لیکن ابر رحمت ان پر نہیں برسا.ماضی کے دھندلکوں میں وہ جو ایک چمک انہیں نظر آئی اس پر فریفتہ ہو کر اور اس کے عاشق ہو کر وہ بھی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا لیتے ہیں، لیکن ان کا نعرہ عارفانہ نہیں ہے بلکہ مجوبانہ نعرہ ہے.وہ اس مقام کو پہچانتے تو نہیں صرف ایک جھلک کے وہ گھائل ہو چکے ہیں اور ہم خوش ہیں کہ وہ پاک وجود جو ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری روح اور ہمارے جسم پر حکومت کرتا ہے اُس کے حق میں مجو بانہ نعرے بھی لگائے جاتے ہیں، لیکن جب ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ بلند ہو تو ایک احمدی کی روح کی گہرائیوں سے نکلنے والا عارفانہ نعرہ ہی سب سے زیادہ بلند ہونا چاہیے.پس آج میں آپ کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ ” خاتم الانبیاء زندہ باد بحیثیت ایک عارفانہ نعرہ کے ہمارا نعرہ ہے اور علم و عرفان نہ رکھنے والوں کے منہ سے نکلے تو وہ مجو بانہ نعرہ ہے.البتہ یہ مجو بانہ نعرہ سن کر بھی ہمارے دل خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے محبوب کے نور کی ایک جھلک کو تو انہوں نے دیکھ لیا خواہ ماضی کے دھندلکوں ہی میں کیوں نہ دیکھا ہو.پس اگر کہیں یہ نعرہ بلند ہو تو آپ زیادہ شوق سے، زیادہ پیار سے اس کے اندر شامل ہوا کریں.دوسروں کی آواز اگر پہلے آسمان تک پہنچتی ہو تو آپ کی آواز ساتویں آسمان سے بھی بلند ہو کر خدائے عز وجل کے عرش تک پہنچے تا ہمارے آقا، ہمارے محبوب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں کہ میرے کامل متبعین میرے عشق میں مستانہ وار یہ نعرہ لگارہے ہیں ” خاتم الانبیاء زندہ باد.حضور انور نے خطبہ کے آخر میں فرمایا:.ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ بھی عارفانہ طور پر ہمارے سوا اور کوئی نہیں لگا سکتا.جو شخص حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس محسنانہ شان کی معرفت رکھتا ہو، وہی کھڑے ہو کر دوسرے انسان کو مخاطب کر کے یہ

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد 26 26 سال 1970ء کہہ سکتا ہے کہ انسانیت زندہ باد.پس ان دو نعروں کی طرف میں اس وقت جماعت کو متوجہ کرتا ہوں.اشتراکیت کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ لگائے اور نہ کسی اور ازم کا یہ حق ہے.صرف اسلام کا یہ حق ہے، صرف مسلمان کا یہ حق ہے، مسلمانوں میں دو گروہ ہو سکتے ہیں یہ ممکن ہے یعنی ایک وہ جن کے منہ سے عارفانہ طور پر یہ نعرہ نکلے اور ایک وہ جن کے منہ سے مجو بانہ طور پر یہ نعرہ نکلے لیکن یہ نعرہ لگانے کا وہی حقدار ہے جس نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو مضبوطی سے پکڑا اور آپ کی محبت میں فنا ہو گیا.چونکہ آپ انسانیت کے محسن اعظم ہیں اس واسطے اس شخص کا یہ حق ہے کہ وہ دوسرے انسان کو مخاطب ہو کر یہ کہے کہ اے انسان تیری انسانیت ہمیشہ زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں غیر انسانی یلغاروں سے وہ محفوظ رہے.پس یہ دو نعرے ہمارے نعرے ہیں.ختم المرسلین زندہ باد کانعرہ یا خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ یا ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ.یہ احمدیت کا نعرہ ہے اور ہم ہی اسے عارفانہ طور پر بلند کر سکتے ہیں اور اسی طرح انسانیت زندہ باد کا نعرہ ہمارا نعرہ ہے اور ہم جو حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی غلام اور آپ کے مقام کو پہچاننے والے اور اس مقام کے نتیجہ میں اور انسانیت پر آپ نے جو احسان کیا ہے اس کے عرفان کی وجہ سے ہم اس بات کے سزاوار ہیں کہ انسان کو مخاطب کر کے یہ نعرہ لگائیں کہ انسانیت زندہ باد.دوسرے بھی یہ نعرہ لگاتے ہیں ہم اسے سن کر خوش ہوں گے لیکن ہمارے نزدیک ان کے نعرے مجو بانہ نعرے ہوں گے اُن کے نعرے عارفانہ نعرے نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس عرفان پر ہمیشہ قائم رکھے اور اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ یہ تو فیق دے کہ ہم دنیا پر ثابت کرتے رہیں کہ ہم ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگائیں اور ہم ہی اس بات کے حقدار ہیں کہ انسانیت زندہ باد کا نعرہ لگائیں.

Page 37

تاریخ احمدیت.جلد 26 مجلس مشاورت ۱۹۷۰ء 27 سال 1970ء اس سال مجلس مشاورت ۲۷، ۲۸، ۲۹ مارچ ۱۹۷۰ء کو ایوان محمودر بوہ میں منعقد ہوئی جس میں مختلف جماعتوں کے۴۹۳ نمائندگان نے شرکت کی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نہایت ایمان افروز افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ دنیا میں ایک روحانی و جسمانی انقلاب رونما ہونا مقدر تھا.یہ انقلاب آپ کی بعثت کے بعد اول دن سے ہی رونما ہوتا چلا آ رہا ہے ہم اس عظیم انقلاب کے بروئے کار آنے کے سلسلہ میں مختلف ادوار میں سے گذر رہے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب ہم اس انقلاب عظیم کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں جس میں غیر معمولی رنگ میں آسمان سے فرشتوں کا نزول شروع ہو چکا ہے جس طرح پھل پکنے پر درختوں کی ٹہنیوں کو ہلایا جاتا ہے اور ٹہنیوں کو ہلانے کے نتیجہ میں پھل زمین پر گرنے لگتے ہیں.اسی طرح اب یوں محسوس ہورہا ہے کہ آسمان سے فرشتے نازل ہو ہو کر اطراف و جوانب عالم میں لوگوں کے دلوں کو ہلا رہے ہیں پکے ہوئے پھل گر رہے ہیں اور دنیا ان سے فیضیاب ہو رہی ہے.حضور نے اس مرحلہ پر اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے متعد دایمان افروز واقعات بیان فرمائے جو اس امر کے آئینہ دار تھے کہ کس طرح ملائکہ میں غیر معمولی حرکت کی وجہ سے بیرونی ممالک ریا لخصوص عرب علاقوں میں بعض ذی اثر لوگوں کے دل حق کی طرف کھنچے چلے آرہے ہیں.جس کی یک تفصیلی رپورٹ روئداد مجلس مشاورت ۱۹۷۰ء میں موجود ہے.تازہ واقعات کے تذکرہ کے بعد حضور نے احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ملائکہ میں تیز حرکت کے یہ آثار اور ان کے نتیجہ میں مختلف اقوام کی سعید روحوں کا حق کی طرف یہ ایمان افروز میلان علامت ہے اس روحانی پیاس کی ، جو آج ہر طرف لوگوں کو لگی ہوئی ہے.حضور نے فرمایا فرشتوں نے حرکت میں آکر پیاس لگا دی ہے اب اس پیاس کو بجھانا اور حق کی متلاشی روحوں کو سیراب کرنا آپ کا کام ہے.فرشتوں کا کام تھا کہ وہ حرکت پیدا کریں سو انہوں نے وہ حرکت پیدا کر دی ہے اور برابر کر رہے ہیں اب آپ کا کام ہے کہ لوگوں کی اس پیاس کو بجھانے کا سامان کریں.اس ضمن میں حضور نے ایک مضبوط پریس کے قیام اور کسی نہ کسی بیرونی ملک میں ایک

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد 26 28 سال 1970ء براڈ کاسٹنگ سٹیشن کے قیام کی اہمیت پر خاصی تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس سلسلہ میں ابتدائی مساعی اور ان کے نتائج سے نمائندگان کو آگاہ فرمایا.ایوب خان صاحب آف گلاسگو اور مولوی عبد اللطیف صاحب ستکو ہی فاضل لاہور نے بالترتیب پانچ ہزار اور ڈھائی ہزار اور ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور بعض دوسرے مخلصین جماعت نے ایک ایک ہزار روپے کے وعدے پیش کئے.ان کے علاوہ بعض اور احباب کو حسب استطاعت رقوم پیش کرنے کی توفیق ملی.صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے اس سال مشاورت کے سامنے جو میزانیہ پیش کیا اس کے تعارف میں صدر انجمن کے کام کی مختصر رپورٹ پر روشنی ڈالتے ہوئے دیگر امور کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ نظارت اصلاح وارشاد کے زیر انتظام گذشتہ سال تک ۲۰۸لائبریریاں قائم تھیں.امسال ان میں آٹھ کا اضافہ ہوا.علاوہ ازیں ملک کی بعض اہم لائبریریوں کو سلسلہ کا لٹریچر بھجوایا گیا.اس سال وقف عارضی کے ۲۲۴۵ وفود آخر فروری ۱۹۷۰ء تک سرگرم عمل رہے اور مزید ۷۷۰ مخلصین کے فارم مکمل ہو کر پہنچ چکے ہیں.نظارت اصلاح و ارشاد مقامی کی کوششوں کے امید افزا نتائج سامنے آرہے ہیں.یہاں تک کہ بعض غیر از جماعت علماء تحقیقات کی غرض سے مرکز احمدیت میں آنے لگے ہیں.بعض نے حق قبول کیا ہے اور دنیوی اعتبار سے اچھے اچھے خاندان کے افراد داخل سلسلہ ہوئے.اور بعض لوگ بیعت سے قبل ہی اشاعت احمدیت میں منہمک ہو گئے ہیں.سال رواں سے جامعہ نصرت میں سائنس کے مضامین کا آغاز کر دیا گیا ہے موجودہ زمانہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو جو اہمیت حاصل ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.تحریک جدید کے میزانیہ (۷۱-۱۹۷۰ء) میں بھی نہایت تفصیل سے بتایا گیا کہ محدود وسائل و ذرائع کے باوجود ہمارا قدم ترقی پذیر ہے.آخر میں یہ خوشخبری دی گئی کہ گذشتہ سال تحریک جدید کے شعبہ تعلیم کے تحت حکومت پاکستان کا منظور شدہ طبیہ کالج جاری کیا گیا تھا.کالج کے مستند اطباء اور ڈاکٹروں کی تعلیمی مساعی کی بدولت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلی کلاس کے تمام طلباء یونانی بورڈ کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے اور ایک طالب علم نے تو بورڈ میں تیسری پوزیشن بھی حاصل کی.اس ادارہ کی لائبریری اور لیبارٹری خاصی حد تک مکمل کر دی گئی ہے.میزانیہ وقف جدید میں چند گذارشات کے زیر عنوان علاوہ دیگر معلومات کے یہ خوشکن

Page 39

تاریخ احمدیت.جلد 26 29 سال 1970ء تفصیلات بتلائی گئیں کہ دوران سال ۲۱ مقامات پر خدا کے گھر تعمیر کئے گئے.۱۳ مقامات پر لائبریریاں جاری کی گئیں.۱۰۲۴ را فراد قرآن مجید ناظرہ پڑھ رہے ہیں.۱۵۵۶ر افراد تر جمہ قرآن مجید سیکھ چکے ہیں.نگر پارکر میں ۶۰۰ کے قریب ہند و حلقہ بگوش اسلام ہوئے.اس علاقہ میں وقف جدید کے زیر اہتمام مندرجہ ذیل ۲۳ مراکز قائم ہو چکے ہیں:.مٹھی.نگر پارکر.پھولپورہ.اسالڑی.اونٹ کپار یو.دھینگا سرو.ڈھڈ ویرہ.دھنا گام.کو ہاڑا.لاکٹر کھڈیا.سندھیا کا وانڈیا.ہبا سر.واڈا کا وانڈیا.مالدلا.کوہلی ویری کو یا.سا کر ویرو.سانبوسن.اُنڈیر.چنیدہ.قاصبو.الانی جو وانڈیا.چڑانت.دستور ومعمول کے مطابق پہلے سب کمیٹیاں مقرر ہوئیں.بعد ازاں سال گذشتہ سے متعلق رپورٹیں پیش ہوئیں اور پھر درج ذیل سب کمیٹیوں کی رپورٹیں زیر غور آئیں.ا.سب کمیٹی نظارت علیا و اصلاح و ارشاد ( صدر ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب سرگودھا).۲.سب کمیٹی بیت المال (صدر چوہدری عبدالرحمن صاحب گوجرانوالہ).۳.سب کمیٹی تحریک جدید و وقف جدید ( صدر خالد سیف اللہ صاحب).گذشتہ سال کی رپورٹوں کے پیش ہونے کے دوران حضور نے متعدد اہم ہدایات ارشاد فرمائیں مثلاً ا.جماعت میں عربی زبان رائج کرنا بہت ضروری ہے.۲.احمدی ڈاکٹر آگے آئیں اور افریقنوں کی بے لوث طبی خدمت کے لئے اپنے تئیں پیش کر یں.۳.تمام موصوں پر بار بار واضح کر دینا چاہیے کہ محض وصیت کا چندہ دے دینا کافی نہیں بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ ہر موصی میں احمدیت کی اصل روح نظر آ رہی ہو.اگر یہ چیز کسی موصی میں موجود نہیں تو مرکزی نظام کا فرض ہے کہ وہ حسب قاعدہ رپورٹ طلب کر کے اس کی وصیت منسوخ کرنے کی سفارش کرے.ایجنڈا کی تجویز نمبر تھی کہ نظارت اصلاح وارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب شائع کر رہی ہے.جو کتب یا ان کا کچھ حصہ جو عربی یا فارسی زبان میں ہے اس کا ترجمہ اصل متن کے ساتھ ہی اردو میں شائع کیا جائے“.سب کمیٹی نے بعض احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس تجویز کے حق میں رائے دی تھی ،نمائندگان نے بھی متفقہ طور پر اس کے منظور کئے جانے کی سفارش کی جسے حضور نے بھی منظور فرمالیا.احتیاطی تدابیر میں یہ امور شامل تھے:.

Page 40

تاریخ احمدیت.جلد 26 30 سال 1970ء ا.ترجمہ کسی فرد واحد کا نہ ہو بلکہ ایک بورڈ اس پر غور کر کے ترجمہ تجویز کرے.۲.یہ امر واضح طور پر لکھا جانا چاہیے کہ ترجمہ کس نے کیا اور کب کیا..بعض جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی عربی یا فارسی تحریر کا ترجمہ خود فرمایا ہے.اس لئے حضور کے ترجمہ اور دوسرے ترجمہ میں جو امتیاز اور فرق ہے اسے بہر حال واضح اور نمایاں طور پر قائم رکھا جانا چاہیے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے سال کو کے لئے درج ذیل تفصیل کے ساتھ کل ایک کروڑ ۸ لاکھ 94 ہزار ایک سوٹو روپے (۱۰۹، ۱،۰۸،۹۷) کی آمد اور اتنے ہی اخراجات پر مشتمل بجٹ کی منظوری مرحمت فرمائی.ا.بجٹ صدرانجمن احمد یہ.۴۹ لاکھ ۹۵ ہزارنوسونو (۴۹٬۹۵،۹۰۹) ۲.بجٹ تحریک جدید - ۵۶ لاکھ ۳۶ ہزار دوسوروپے (۵۶،۳۶،۲۰۰) ۳.بجٹ وقف جدید - ۲ لاکھ ۶۵ ہزار روپے (۲۶۵،۰۰۰) حضور انور کا اختتامی خطاب حضور نے نمائندگان مشاورت سے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا :.قرآن کریم نے جو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا متوتی ہوتا ہے یہ کوئی فلسفیانہ خیال نہیں.خدا تعالیٰ کے بندے اپنی زندگیوں میں اس کا مشاہدہ کرتے ہیں آپ بھی خدا تعالیٰ کے بندے ہیں.دنیا ہمیں مارنے کی سکیمیں سوچ رہی ہوتی ہے.دنیا ہماری مردم شماری ، خدا معلوم نیک نیتی سے یا بد نیتی سے کر رہی ہوتی ہے مگر وہ جو ہمارا ہے.کہتا ہے تم فکر کیوں کرتے ہو؟ میں جو تمہارے ساتھ ہوں اور پھر ۱۹۴۷ء کی آگ ہو یا ۱۹۵۳ء کی آگ ہو.ہمیں جلانے کے لئے جو عظیم آگ بھی جلائی گئی اس نے یہ ثابت نہیں کیا کہ جماعت احمدیہ کو ایسی آگ میں جلایا جا سکتا ہے بلکہ اس نے یہ ثابت کیا کہ جب ایک احمدی کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے تو یہی بات سچی ہوتی ہے...ہماری فطرت میں ناکامی کا خمیر نہیں ہے ہم تو زندہ رہنے اور زندہ کرنے کے

Page 41

تاریخ احمدیت.جلد 26 31 سال 1970 ء لئے پیدا ہوئے ہیں.ہمیں کون مارسکتا ہے؟ ہمارے افراد جان کی قربانی دے دیں گے لیکن ہماری جماعت زندہ اور زندگی بخش ہے اس کا دوسرا نام ” آب حیات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے خود مشاہدہ کرتی اور دوسروں کو دکھاتی ہے.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کے جلال کا عرفان رکھتی اور یہ عرفان دوسروں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے.قرآن کریم کی عظمت کو بجھتی اور اس کے حسن کو جانتی اور جس رنگ میں اس نے بنی نوع انسان پر احسان کیا ہے اس کی معرفت رکھتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ یہی معرفت دوسروں کے اندر بھی پیدا ہو جائے.ہم تو زندگی کا پانی ہیں ہمیں موت کا گھونٹ کون پلا سکتا ہے.دنیا میں نہ کسی ماں نے ایسا بچہ جنا اور نہ کوئی ماں ایسا بچہ جنے گی جو اس میں کامیاب ہو جائے ہم نے ساری دنیا کو زندہ کرنا ہے ہمیں ظالم اور مفسد تلوار یا توپ یا ایٹم بم سے کوئی خوف نہیں ہے یہ سارے مجبور ہوں گے کہ ہماری طرف آئیں.دوران مشاورت جن احباب کرام کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیر ہدایت، فرائضِ 28 صدارت میں حضور کا ہاتھ بٹانے کا شرف حاصل ہوا ان کے نام یہ ہیں:.مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور، شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت ضلع لائل پور، چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ضلع شیخوپورہ، رانا محمد خاں صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع بہاولنگر.حضور نے پرنٹنگ پریس کی ذمہ داری پاکستان کی احمدی جماعتوں پر اور براڈ کاسٹنگ اسٹیشن کے قیام کی ذمہ داری بیرونی ممالک پر ڈالی اور ان دونوں اہم کاموں کی تکمیل کے لئے خصوصیت سے دعائیں کرنے اور اس ضمن میں عائد ہونے والے فرائض کی بجا آوری کے لئے تیار رہنے کی تلقین فرمائی.پرنٹنگ پریس کے سلسلہ میں اپنے پیارے آقا کی پُر جوش تحریک پر ارکان شوری نے والہانہ طور لبیک کہا اور شوری کے دوران بہت سے وعدہ جات اور رقوم کے چیک حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.سب سے بڑا وعدہ الحاج محمد یعقوب صاحب امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ کا تھا جنہوں نے دس ہزار روپے کا چیک مقدس امام کے حضور میں پیش کیا.

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد 26 32 سال 1970ء مبشرین احمدیت کو قیمتی ہدایات مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی اور مولانامحمد صدیق صاحب امرتسری جزائری کے لئے روانہ ہونے سے قبل ۲ اپریل ۱۹۷۰ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے.اس ملاقات میں مولانا فضل الہی صاحب بشیر اور مولوی صدیق احمد صاحب منور اور بعض دیگر مبلغین بھی موجود تھے.حضور نے اس موقع پر نہایت بیش قیمت ہدایات دیں اور فرمایا کہ ہمیں ایسے آدمیوں کی ضرورت ہے جو دعا گو بھی ہوں اور بے نفس بھی.دین کی خدمت کو وہ ایسے بے لوث رنگ میں انجام دیں کہ ان کا نفس درمیان میں نہ آئے اور وہ ہر لمحہ اپنے کام میں کامیابی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے والے ہوں.حقیقی معنوں میں صرف ایسے ہی مربی کامیابی کا منہ دیکھتے ہیں.ان کے اخلاص اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی بناء پر ان کے کاموں کا رنگ ہی مختلف ہوتا ہے.انہیں نہ نام ونمود سے غرض ہوتی ہے اور نہ اپنی تشہیر سے.اب دنیا کے حالات پہلے کی نسبت بہت مختلف ہیں.پہلے ہمیں تبلیغی میدان میں ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا جو کسی نہ کسی مذہب کو ماننے والے ہوتے تھے اور ان کے لئے مذہبی اقدار کچھ نہ کچھ اہمیت ضرور رکھتی تھیں.انہیں دلائل دے کر منوانا پڑتا تھا کہ اسلام کے عقائد اور ان کے عقائد سے پیدا ہونے والے اعمال ان کے مذہب کے عقائد اور ان سے پیدا ہونے والے اعمال سے بدرجہا بہتر ہیں.لیکن اب ہمارا حقیقی مقابلہ دہریت سے ہے.دہر یہ لوگ تو نہ صرف کسی مذہب کے پیروکار نہیں بلکہ وہ سرے سے خدا ہی کو نہیں مانتے اس لئے منقولی دلائل کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نشانات اور صرف نشانات ہی ان پر اثر انداز ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود نہ تو نشان دکھا سکتے ہیں اور نہ ان کا کسی اور رنگ میں مقابلہ کر سکتے ہیں.اور یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے والی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانات صرف ان لوگوں کو عطا کئے جاتے ہیں جو بے نفس ہوں اور جو ہرلمحہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے والے ہوں.ملاقات کے دوران حضور نے مسئلہ مجددیت و خلافت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ حقیقت خاص طور پر واضح فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ کسی مجدد نے یہ نہیں کہا کہ اس نے صرف اور صرف خدا تعالیٰ ہی سے علم حاصل کیا ہے تمام مجددین نے کسی نہ کسی سے علم سیکھا.درآنحالیکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے علم حاصل کیا.اس کے علاوہ یہ بات بھی

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد 26 33 سال 1970ء قابل ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قبل کسی مجدد نے یہ دعوی نہیں کیا کہ وہ ساری دنیا کے لئے تجدید دین کا کام کر رہا ہے.تجدید دین یا تو علاقائی صورت اختیار کرتی رہی یا کسی خاص وقت کے لئے یا کسی خاص مسئلہ کے لئے یہ کام سرانجام دیا جاتا رہا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ساری دنیا کے لئے تجدید دین کا کام سرانجام دیا اللہ تعالیٰ نے بھی حضور علیہ السلام کو الہاما فرمایا ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا).30 English Traced to Arabic پر ایک نہایت عالمانہ تبصرہ مجلس ترقی ادب لاہور کے سہ ماہی مجلہ صحیفہ زیر ادارت ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کے اپریل ۱۹۷۰ء کے شمارے میں معروف ماہر لسانیات حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ضلع لائلپور کی کتاب "ENGLISH TRACED TO ARABIC" پر نہایت زبر دست عالمانہ تبصرہ کیا گیا.اس تبصرہ کا ملخص پیش ہے.تبصرہ میں تحریر کیا گیا ہے کہ زیر نظر کتاب مصنف کی ۲۰ سال کی محنت شاقہ کا ثمر ہے اس کتاب کی صورت میں مصنف نے لسانیات کے شعبہ میں ایک ایسا صحیح اور محکم نظریہ پیش کیا ہے جس سے السنہ عالم کے اولین ماخذ کے متعلق اختلافات ختم ہو جانے چاہئیں.نی نے بڑی تفصیل اور وضاحت کے ساتھ دنیا کی مشہور زبانوں کے ساتھ مقابلہ کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں کا ماخذ عربی ہے.مصنف مصنف نے دنیا کی ۳۳ مشہور زبانوں کو عربی سے ماخوذ اور متفرع ثابت کرنے کے لئے تالیف و تصنیف کا ایک وسیع منصوبہ تیار کیا ہے.اس سلسلہ کی پہلی کڑی زیر تبصرہ کتاب ہے جس میں بدلائل قاطع ثابت کیا گیا ہے کہ انگریزی زبان عربی سے نکلی ہے.مصنف نے اس مقصد کے حصول کے لئے میں سال تک تحقیق و تفتیش کی ہے.مصنف نے اس کتاب کی تصنیف میں جس جگر کاری ، دقیقہ رسی اور نکتہ نجی سے کام لیا ہے اس کا صحیح اندازہ کتاب کے بالاستیعاب مطالعہ ہی سے ہوسکتا ہے.ایک مفصل تبصرہ بھی اس کا بدل نہیں بن سکتا.کتاب چار حصوں میں تقسیم ہے اور ہر حصہ متعدد ابواب پر مشتمل ہے.اب بطور نمونہ انگریزی کے چند الفاظ اور ان کے عربی ماخذ درج ذیل کئے جاتے ہیں جن سے اندازہ ہو سکے گا کہ مصنف نے ماخذ کی تلاش میں کس قدر کاوش اور نکتہ رسی سے کام لیا ہے.

Page 44

تاریخ احمدیت.جلد 26 rush 34 بالط case bolt رعشہ رہی عرج arrig رضی ماله mill قفوره فرص pierce فرن ارض فلصع نبل قرن race redio coffer furnace flat ard lick ✓ noble cairn رجا عتک باقہ صلیف بر بری قال سال 1970 ء flee region attack boquette slope barbarian call یہ نمونہ مشتے از خروارے ہے.ورنہ کتاب میں ایسے الفاظ کی ایک طویل فہرست دی گئی ہے اور عربی ماخذ کی تلاش کے قواعد بھی بالتفصیل بیان کئے گئے ہیں.زیر نظر کتاب اپنے موضوع پر ایک اہم تصنیف ہے اور لسانیاتی تحقیق کے میدان میں اسے سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے.مصنف کی بعض آراء سے اختلاف کی گنجائش بھی ہے.مثلاً مصنف نے عربی کے ام الالسنہ ہونے کے نظریہ کا موجد مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے جسے مصنف کا جوش عقیدت ہی کہا جا سکتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عربی کے متعلق یہ نظر یہ علمائے اسلام میں شروع ہی سے مقبول و مروج رہا ہے.آج سے سینکڑوں سال پہلے علامہ سیوطی نے اپنی کتاب مزھر میں اس پر مفصل بحث کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ دنیا کی تمام زبانیں عربی سے نکلی ہیں“ کسی بھی واسطہ سے یہ نظریہ مصنف تک پہنچا ہو.حق یہ ہے کہ مصنف نے صحیح نقطہ سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور فراموش کردہ حقیقت کو تلاش کر کے تابندہ درخشندہ صورت میں منظر عام پر پیش کر دیا.مصنف اپنے اس کارنامے کے لئے مبارکباد کا مستحق ہے.اور یہ کتاب اس لائق ہے کہ ہر اہل علم کے زیر مطالعہ آئے.ایسی علمی اور تحقیقی تصانیف کی قدردانی نہایت ضروری ہے.ایک ضروری نوٹ تبصرہ نگار کا یہ لکھنا درست نہیں ہے کہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی اس سے قبل عربی کے ام الالسنہ ہونے کا نظریہ پیش کر چکے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے پہلے کسی محقق نے قطعاً یہ دعوی نہیں کیا کہ دنیا کی تمام زبانیں عربی زبان ہی سے پیدا ہوئی ہیں.علامہ جلال الدین

Page 45

تاریخ احمدیت.جلد 26 35 سال 1970ء سیوطی (ولادت ۸۴۹ هجری ۱۴۴۵ء.وفات ۹۱۱ ھجری ۱۵۰۵ء) کی کتاب المزهر في علوم اللغة وانواعهھا میں بھی اس نظریہ کا نام ونشان نہیں ملتا نہ کوئی ایسی مفصل بحث یہ ثابت کرنے کے لئے موجود ہے کہ دنیا کی تمام زبانیں عربی سے نکلی ہیں، اس کے برعکس انہوں نے بعض ائمہ لغت اور مسلم محققین کے وہ اقوال درج کئے ہیں جو عربی کے ام الالسنہ ہونے کے بالکل برعکس ہیں.البتہ بعض آراء ایسی بھی درج کی ہیں جن سے زبان عربی کے کمالات اس کے سب سے اول سب سے افضل اور سب سے وسیع تر زبان ہونے کا اظہار ہوتا ہے.مگر یہ ہرگز ذکر نہیں کہ عربی زبان ہی دنیا بھر کی تمام زبانوں کا منبع اور ماخذ ہے.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی اہم تحریک دعا حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے قلم مبارک سے الفضل ۴ را پریل ۱۹۷۰ء میں حسب ذیل الفاظ میں ایک نہایت اہم تحریک دعا سپر د اشاعت ہوئی.زمانہ، زمانہ ہے محمود کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کو بہت کم عرصہ گزرا تھا کہ ایک شب میں نے خواب میں دیکھا آپ صحن میں کھڑے ہیں، ہمیں پاس کھڑی ہوں.میں نے منہ اوپر اٹھا کر آپ کے چہرہ کی جانب دیکھا اور سوال کیا کہ اتبا (اسی طرح جیسے بچپن میں مخاطب کرتی تھی ) کونسا لڑکا آپ کا وہ خاص نشان ہے (رحمت کا نشان وغیرہ میرے ذہن میں ہے ) آپ نے میری طرف سر جھکا کر میری نظروں سے اپنی نظریں ملائیں.ان نظروں کی خاص روشنی ، خاص گہرائی، خاص پیار میں کبھی نہیں بھول سکتی.گویا یہ میرا خواب پرانا نہیں بلکہ میں اس وقت بھی وہ سب کچھ دیکھ رہی ہوں اور سن رہی ہوں اور فرمایا بہت ہی شیریں آواز میں ” کہ سارے ہی اپنے اپنے وقت پر میری دعاؤں سے فیض پائیں گے مگر یہ زمانہ محمود کا زمانہ ہے.میرے دل نے یقین رکھا اسی وقت سے کہ وہ خاص بیٹا میرے پیارے بھائی محمود ہی ہیں.اب مجھے خیال آتا ہے اور سوچتی رہتی ہوں کہ کس شان سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی ، کس طرح سیدی و جیبی خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنا عہد پورا کیا اور اپنی تمام قو تیں تمام عمر کے لئے اسلام کا علم ، تو حید کا جھنڈا گل عالم میں بلند کرنے میں وقف کر دیں اور اپنی زندگی میں ہی ثابت کر دیا کہ نور ہی نور ہے ھے

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد 26 36 گویا که خدا خود اتر آیا تھا زمیں پر 66 سال 1970ء دن رات ایک ہی دھن رہی ایک ہی لگن رہی.کس قدر شدید چوٹیں قلب پاک پر پڑیں اور پڑتی رہیں.تہمت و افتراء کا ٹھکانانہ رہا شیطان بھی اپنی ساری طاقت صرف کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا مگر کچھ نہ بگاڑ سکا.چاند چمکتا رہا کتے بھونکتے رہے.اور ادھر ایک چپ رہی.دل پر جو گزرتی ہوگی ہوگی مگر زبان خاموش رہی فریاد کی تو اپنے مولا کے حضور.غرض گریۂ یعقوب راتوں کو خدا کے سامنے صبر ایوبی برائے خلق باخندہ جبیں وہ رخصت ہو گئے اور اس صبر وشکر کے نتیجہ میں نیز دیگر بشارتیں پوری کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو منتخب کیا جو ان کا فرزند اور انہیں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بشارت کے مطابق مبارک بن کر حضرت اماں جان کی گود میں دیا گیا تھا.خلافت ثالثہ کا انتخاب بھی ایک روشن نشان ہے.جن میں فراست ہے اور روحانیت ہے اور جن کے دل حالات گرد و پیش کو یادر کھتے ہوئے ایمانی گواہی دے سکتے ہیں کہ اُس وقت ایک بہت خاص الہی تصرف تھا کہ جس نے سب کے ہاتھ بلا چون و چرا بیعتِ ناصر کے لئے آگے بڑھا دئے، الحمد للہ.میں سمجھتی ہوں میرا ایمان ہے کہ دونوں صورتوں میں کیا ”مبارک کا بدلہ ہونے کے، کیا حضرت مصلح موعود کی عالی شان بے نظیر خدمات کی قبولیت اور ان کے دل کی پکار کے لحاظ سے، یہ خلافت بھی ضمیمہ ہے حضرت مصلح موعود کی خلافت خاص کا.گویا ان کا وجود ہی ہم سب کو خدا تعالیٰ نے ناصر کی صورت میں دوبارہ بخش دیا ہے.خدا تعالیٰ اس دور خلافت کو بیحد با برکت بنائے اور ہمارے موجودہ خلیفہ کے ہاتھوں سے بڑی بڑی فتوحات اسلام حاصل ہوں، بہت روشن نشان ظاہر ہوں، دنیا کے چپہ چپہ پر حقیقی اسلام یعنی احمدیت کا پرچم لہرائے.روز افزوں ترقی ہو اور تمام موجودہ جماعت کے بھی دلوں اور گھروں میں نسلاً بعد نسل نیکی تقویٰ کے بیچ خدائے کریم ڈال دے، کمزوریوں کی ستاری کے پردہ رحمت میں اصلاح فرمائے.اور میرے بہت پیارے بہت پیار کرنے والے بھائی کو جت اعلیٰ میں مقامِ اعلیٰ میں بارش کی طرح بشارتیں پہنچتی رہیں.آمین.سیدی خلیفہ مسیح الموعود فرزند المصلح الموعوداللہ کی راہ میں سفر کو جارہے ہیں.آپ سب پر فرض ہے کہ در ددل سے دعائیں کریں اور کرتے رہیں کہ ہر کام میں ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور نصرت شاملِ حال رہے خدا تعالیٰ صحت دے، طاقت، ہمت دے اور اپنی جناب سے زیادہ سے زیادہ اس خدمت کے شرف سے نوازے.ان کے زبان و قلم میں بہت خاص برکت بخشے علم و عرفان،

Page 47

تاریخ احمدیت.جلد 26 37 سال 1970ء روحانیت اور نور ایمان کے چشمے ان کے زبان و قلم سے اس کے کرم سے خاص عطا کردہ جاری فرمائے اور جاری رہیں.آمین.خیر سے پہنچیں خیر سے آئیں خیر ہی خیر سفر میں رہے اور یہاں بھی جماعت اور ملک میں ہر لحاظ سے دینی و دنیوی ، روحانی و جسمانی خیر رہے.خدا تعالیٰ ان کا اور ہم سب کا حافظ و ناصر ہو.قادر وقد بر مقتدر خدائے کریم رحمان و متان کے حضور دعاؤں میں لگ جائیں.یہ خلافت بھی خاص اور قابلِ شکر ہے قدر کریں اور دعا کریں.غرض مختصراً خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے عطاء الہی ہے فضل خدا ہے یہ مولا کا اک خاص احسان ہے وجود اس کا خود اس کی برہان ہے خلیفہ بھی اور موعود بھی ہے مبارک بھی ہے اور محمود بھی وو لبوں پر ترانہ ہے محمود کا زمانہ، زمانہ ہے محمود کا“ سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا سفرمغربی افریقہ اس سال کا مشہور عالم واقعہ سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کا سفر مغربی افریقہ ہے.اس سفر کے دوران حضور نے نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون جیسے چھ اہم ممالک کو اپنے وجود باجود سے برکت بخشی.سربراہان مملکت تک پیغام حق پہنچایا اور افریقی عوام کے دل اپنے پر اثر ولولہ انگیز اور بصیرت افروز خطابات کے ذریعہ جیت لئے.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ارضِ بلال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ راشد بنفس نفیس تشریف لے گئے اور مدتوں سے جماعت احمدیہ کے امام کی زیارت کی حسرت رکھنے والے مخلص افریقن بھائیوں کو دیدار سے فیضیاب فرمایا اور محبت، پیار اور فراست سے ان کی پیاس کو بجھایا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے لئے سیری کے دائمی سامان پیدا کر دیئے.اس لہی سفر کے نتیجہ میں احمدیت کی تاریخ کا ایک تابناک اور سنہری دور شروع ہوا.تحریک دعا آغاز سفر سے قبل سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۳ اپریل۱۹۷۰ء کو مجد مبارک ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:.

Page 48

تاریخ احمدیت.جلد 26 38 سال 1970ء اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے میں انشاء اللہ تعالیٰ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا.ربوہ اور آپ دوستوں کی اس عارضی جدائی سے طبیعت میں اداسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر خوشی بھی ہے کہ وہ محض اپنی رحمت سے یہ توفیق عطا کر رہا ہے کہ ان اقوام کے پاس جا کر جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں اور جو صدیوں سے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند مہدی معہود کے انتظار میں رہی ہیں اور جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی زیارت نصیب نہیں ہوئی.پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے...اور وہ خلیفة من خلفائہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں....صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہوگا.محبت اور پیار سے اپنے دن گزاریں اور صدقہ اور دعاؤں کے ساتھ میری مددکریں.پھر میں کہتا ہوں کہ صدقہ اور دعا سے میری مدد کریں.اللہ تعالیٰ جس غرض کے لئے اس سفر کے سامان پیدا کر رہا ہے وہ غرض پوری ہو...اسی کے سہارے اور اسی پر توکل کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ میں اس سفر پر جارہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ اسلام کے غلبہ کے دن جلد سے جلد آ جائیں.خصوصی دعاؤں کے ساتھ الوداع 66 32 ۳ اپریل حضور نے نماز مغرب پڑھانے کے بعد مسجد مبارک میں سفر کی کامیابی کے لئے پُرسوز اجتماعی دعا کرائی جس میں اہل ربوہ ( بوڑھے، جوان، بچے ، عورتیں ) بڑی کثرت کے ساتھ شامل ہوئے.یہ اجتماعی دعا ایک خاص شان کی حامل تھی.احباب نے اس قدر خشوع و خضوع اور در دوالحاح کے ساتھ دعائیں مانگیں کہ مسجد مبارک دیر تک ہچکیوں اور سسکیوں سے گونجتی رہی.بیرونی مقامات سے بھی بہت سے احباب اس اجتماعی دعا میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.ربوہ سے روانگی ۴ را پریل بروز ہفتہ سوا چھ بجے صبح حضور قصر خلافت سے باہر تشریف لائے جہاں بزرگان سلسلہ

Page 49

تاریخ احمدیت.جلد 26 39 سال 1970ء اور بہت سے دیگر احباب قطاروں میں کھڑے تھے حضور نے بعض احباب کو مصافحہ اور معانقہ کا شرف بخشا جس کے بعد اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد حضور اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کار میں سوار ہو کر صبح چھ بج کر ۲۵ منٹ پر عازم لاہور ہوئے اس موقع پر اجتماعی اور انفرادی طور پر کثرت سے صدقات دیئے گئے.اس تاریخی سفر پر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر بھی حضور کی معیت میں تشریف لے گئے ( آپ ایک روز قبل ہی انتظامات سفر کی نگرانی کے لئے لاہور روانہ ہو گئے تھے ) جن دیگر احباب کو حضور کی معیت میں جانے کا فخر حاصل ہوا ان میں چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری ، پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم اے اور محمد سلیم ناصر باجوہ صاحب شامل تھے.33 - لاہور سے کراچی تک لاہور کے متعدد احباب نے لاہور سے ۱۶ میل ورے حضور کا خیر مقدم کیا جبکہ دیگر احباب، جن میں لاہور کے علاوہ متعدد دیگر مقامات کے دوست بھی شامل تھے بڑی تعداد میں محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور کی کوٹھی ( واقع ایمکن روڈلاہور چھاؤنی ) میں حضور کے منتظر تھے.حضور و بج کر ۲۵ منٹ پر محترم چوہدری صاحب کی کوٹھی میں پہنچے.جہاں حضور نے احباب کے در میان ۱۵ منٹ رونق افروز ہو کر روح پرور ارشادات سے نوازا اور دعا کرائی.دس بجنے میں دس منٹ پر حضور فضائی مستقر کی طرف روانہ ہوئے وہاں بھی کثرت سے احباب اپنے محبوب آقا کو الوداع کہنے کے لئے موجود تھے.دس بج کر ہمیں منٹ پر حضور مع حضرت بیگم صاحبہ و دیگر ارکان قافلہ ہوائی جہاز کی طرف بڑھے جبکہ دور و یہ کھڑے ہوئے احباب در ددل اور رقت کے ساتھ خدا حافظ و ناصر ، بسلامت روی و باز آئی اور فی امان اللہ کے کلمات دہرا رہے تھے.دس بج کر پچیس منٹ پر حضور ہوائی جہاز پر سوار ہوئے ، اگلے ہی لمحہ ہوائی جہاز حرکت میں آگیا اور کراچی کی جانب روانہ ہو گیا.حضور انو رسم را پریل کو ہی دو پہر کے گیارہ بج کر پچپن منٹ پر کراچی پہنچے جہاں پر مقامی احباب کی بہت بڑی تعداد نے گرمجوشی کے ساتھ حضور کا استقبال کیا.کراچی میں حضور نے انیس گھنٹے قیام فرمایا.34

Page 50

تاریخ احمدیت.جلد 26 40 سال 1970ء ۵ اپریل کی صبح کو جبکہ مقامی احباب بڑی تعداد میں حضور کو دعاؤں کے ساتھ الوداع کہنے کے لئے موجود تھے حضور ہوائی مستقر میں پہنچ گئے اور اجتماعی دعا کے بعد جہاز بوئنگ ۲ کی فلائٹ 271-P.R پر صبح سات بج کر پینتیس منٹ پر مع ارکان قافلہ اس تاریخی سفر پر روانہ ہوئے.تهران ، استنبول اور لنڈن میں مختصر قیام حضور پاکستانی وقت کے مطابق پونے نو بجے تہران پہنچے.یہاں بھی بہت سے مخلص احمدی احباب پھولوں اور دعاؤں کے ہار لئے موجود تھے.تہران سے استنبول کے لئے روانہ ہوئے.دوبج کر دس منٹ پر حضور کا طیارہ استنبول میں رکا.ایک ٹرکش نیوز ایجنسی کا نمائندہ وہاں موجود تھا.اس نے پہلے تصاویر لیں پھر ادب کے ساتھ چند سوالات کے جوابات حاصل کئے.جہاز استنبول سے جنیوا کے لئے روانہ ہوا.اس وقت تین بجے شام (پاکستانی) کا وقت تھا.۵ بج کر ۵۰ منٹ پر جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ چونکہ جنیوا میں برفباری ہو رہی ہے اس لئے جہاز وہاں جانے کی بجائے سیدھالندن جائے گا.سوا سات بجے شام (پاکستانی وقت) حضور لندن پہنچ گئے.وہاں قریباً ایک گھنٹہ تو قف فرمایا.پھر BOAC کی فلائٹ 724-BA پر حضور زیورک (سوئٹزر لینڈ ) روانہ ہو گئے.امام مسجد لندن بشیر احمد صاحب رفیق کو جب حضور کی غیر متوقع تشریف آوری کا علم ہوا تو وہ لندن ائیر پورٹ پر حضور کی خدمت میں روانگی تک حاضر رہے.زیورک میں تشریف آوری 35 پونے دس بجے شب جہاز زیورک پہنچ گیا.حضور کا استقبال کرنے والوں میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر اطالو کی سی صاحب بھی شامل تھے.مشن ہاؤس میں پاکستانی احمدی احباب کے علاوہ یوگوسلاویہ کے مخلص احمدی ڈاکٹر آصف صاحب بھی موجود تھے.را پریل کو حضور نے متعدد احباب سے ملاقاتیں فرمائیں جن میں امام مشتاق احمد صاحب باجوہ ، والدہ ماجدہ ڈاکٹر عزیز الدین حسن صاحب و ڈاکٹر اسماعیل حسن صاحب (البانیہ کے مشہور شاہی خاندان کے چشم و چراغ) ڈاکٹر طا لو کیوسی صاحب، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور شیخ اوی سانو ( نائیجیرین احمدی دوست ) بھی شامل تھے.

Page 51

تاریخ احمدیت.جلد 26 41 سال 1970ء ۷ اپریل کو بھی متعدد اصحاب ملاقات کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور اور حضرت بیگم صاحبہ ایک اسٹور میں بھی تشریف لے گئے.سارا عملہ حضور کی جاذب، دلکش اور نورانی شخصیت کو دیکھ کر آپ کی طرف متوجہ ہو گیا.اس کا مالک بڑے ادب سے پیش آیا.اس کی درخواست پر حضور نے اس کے ایک البم میں جس میں شاہ ایران اور دیگر اکابرین کی تصویر میں اور دستخط تھے اپنے دستخط ثبت فرمائے.آج حضور کے پرائیویٹ سیکرٹری چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ نے بتایا کہ انہوں نے رویا میں دیکھا کہ ہم لوگ کاروں میں بازار سے گذررہے ہیں اور لوگ بلند آواز سے مل کر گا رہے ہیں’ ناصر دین محمد سلامت“ ۱۸ اپریل کو حضور نے نو مسلم احمدی بہن لیلی کو ایک گھنٹہ تربیتی اور تبلیغی ارشادات سے نوازا.یہ بہن بہت مخلص ، صوم وصلوٰۃ کی پابند اور باحیا خاتون ہیں.شام کو حضور زونن برگ سیر کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے دیگر کئی افراد کو بھی ملاقات کا شرف بخشا.۹ را پریل کو حضور زیورک سے بذریعہ ٹرین فرینکفورٹ (مغربی جرمنی) روانہ ہو گئے.سارا راستہ حضور کے خدام حضور کی شفقت اور دلداری کے نظارے دیکھ کر دل ہی دل میں حضور کے لئے دعائیں کرتے رہے.ٹرین مقامی وقت کے مطابق ایک بج کر چودہ منٹ پر روانہ ہوئی اور پانچ بج کر ۴۵ منٹ پر فرینکفورٹ پہنچی.اسٹیشن پر فرینکفورٹ کی جماعت اور دیگر احمدی احباب نے اپنے مقدس آقا کا استقبال کیا.اگلے روز یعنی ، ار اپریل کو حضور نے مسجد نور میں نماز جمعہ ادا فرمائی جس میں مقامی اور بعض دیگر ممالک کے احباب کے علاوہ متعد د عرب اور انڈونیشین احمدی دوست بھی شامل ہوئے.لیگوس ( نائیجیریا) میں ورود مسعود 36 ارا پریل کو حضور سوا دس بجے صبح جر من ائیر سروس کے ایک ہوائی جہاز پر فرینکفورٹ سے لیگوس نائیجیریا) روانہ ہو گئے.مقامی جماعت نے دعاؤں کے ساتھ حضور کو الوداع کیا.جہاز اسی روز شام کو چار بج کر امنٹ ( مقامی وقت پر قریباً ساڑھے چھ گھنٹے کے نان سٹاپ سفر کے بعد لیگوس کے ہوائی اڈے پر اترا.جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی احمد یہ جماعت موجود تھی جس نے فلک شگاف نعروں کے ساتھ حضور کا والہانہ خیر مقدم کیا.قریباً ڈیڑھ ہزار ا حباب فرط مسرت

Page 52

تاریخ احمدیت.جلد 26 42 سال 1970ء سے جھوم رہے تھے.اور اپنے آقا کی زیارت سے مشرف ہو رہے تھے.دیر تک فضا نعروں سے گونجتی رہی.جب حضور کا قافلہ ہوٹل کے قریب پہنچا تو وہاں بھی احباب جماعت اور احمد یہ سکولوں کے بچے اپنی وردیوں میں ملبوس دور و یہ کھڑے اھلا و سهلا و مرحبا کا ہدیہ پیش کر رہے تھے.اس دوران پریس کے نمائندوں نے حضور سے انٹرویو لیا.حضور نے فرمایا کہ انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے نفرت کرے.بحیثیت انسان تمام انسان ایک جیسے ہیں.حضور کے استقبال کا نظارہ شام کوٹیلیویژن پر بھی دکھایا گیا.اگلے روز یہاں کے سب سے بڑے اخبار سنڈے ٹائمز نے انٹرویو کا بہت اچھے الفاظ میں ذکر کیا.نائیجیریا میں حضور کا قیام فیڈرل پیلس ہوٹل میں ہوا.جائے رہائش پر بھی حضور کا نہایت شاندار استقبال کیا گیا.مسلم کونسل آف نائیجیریا کی جانب سے استقبالیہ میں شرکت اسی روز شام کو مسلم کونسل آف نائیجیریا کی طرف سے حضورانور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا.جس میں احباب جماعت کے علاوہ مختلف ممالک کے سفراء،حکومت کے افسران ، عدالت عالیہ کے جج صاحبان، نامور مسلم زعماء، دیگر معززین اور رؤسائے شہر نے شرکت کی.37 جسٹس بکری کی دعوت طعام ۱۲ را پریل کو نائیجیر یا ہائیکورٹ کے جج جسٹس بکری نے جو نیشنل صدر صاحب جماعت احمدیہ نائیجیریاکے صاحبزادے ہیں، حضور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر دعوتِ طعام دی جس میں متعدد غیر از جماعت معززین بھی شامل ہوئے.بواجے بو میں مسجد کا افتتاح اسی روز تین بجے شام اجے بُو اوڈے تشریف لے گئے جہاں ایک بڑی جماعت شاندار مسجد اور مشن ہاؤس موجود ہے.اس جگہ بھی حضور کا گرمجوشی سے استقبال ہوا.حضور نے نو تعمیر اور عالیشان مسجد کا افتتاح فرمایا اور ایک نہایت بصیرت افروز خطاب سے نوازا.آپ نے فرمایا کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ

Page 53

تاریخ احمدیت.جلد 26 43 سال 1970ء علیہ وسلم اور آپ کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی شکر یہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اعلان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب یکساں ہیں.ہمارے کندھوں پر عظیم ذمہ داری ڈالی گئی ہے.آئیے! انسانوں کو محبت اور امن کے ساتھ اکٹھا کر دیں.اس تقریب میں ملک کے طول وعرض سے تین ہزار افراد نے شرکت کی سعادت حاصل کی.نائیجیریا کے صدر مملکت سے ملاقات 38 ۱۳ را پریل کو دس بجے صبح حضور نے نائیجیریا کے صدر مملکت میجر جنرل یعقو بو گوون سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات فرمائی.صدر مملکت نہایت احترام کے ساتھ حضور سے ملے.انہوں نے نائیجیریا میں جماعت احمدیہ کی عظیم کامیابیوں اور تعلیمی، تربیتی اور اخلاقی خدمات کوسراہا اور اس کے لئے حضور کا شکریہ ادا کیا.حضور نے فرمایا کہ اپنی بساط کے مطابق اور اپنے محدود ذرائع کا خیال رکھتے ہوئے ہم نے یہ حقیر سی خدمت کی ہے.اس پر صدر مملکت نے فرمایا لیکن یہ خدمت بے غرض خدمت ہے اور ہمارے دل میں اس کا بہت احترام ہے.اگر کوئی ملک کروڑوں پونڈ بھی ہم پر خرچ کرتا اور اس میں کوئی ذاتی غرض پنہاں ہوتی تو ہرگز ہمارے دلوں میں یہ احترام نہ ہوتا.اس ملاقات کے دوران حضور نے صدر مملکت کو پاکستانی صنعت کاری کا نمونہ بطور تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کیا اور پاکستانی صنعت کی تعریف کی.نصف گھنٹہ کی ملاقات کے بعد رخصت کے وقت صدر مملکت نے حضور سے شرف معانقہ حاصل کیا اور حضور سے دعا کی درخواست کی چنانچہ حضور نے اسی وقت دعا کی.اخبارات نے حضور انور کی صدر مملکت سے ملاقات کو تفصیل سے دیا اور تصاویر بھی شائع کیں.ابادان میں بصیرت افروز تقریر 39 اسی روز حضور ابادان تشریف لے گئے اور ایک وسیع و عریض ہال میں بصیرت افروز تقریر فرمائی.ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.ابادان کے مفتی اعظم اور دیگر تمام اکابرین اور مختلف تنظیموں کے نمائندے موجود تھے.قریباً پانچ ہزار افراد اس تقریر سے مستفید ہوئے.حضور نے فرمایا کہ آپ کا روشن اور درخشندہ تر مستقبل جسے میں اپنی آنکھ سے دیکھ رہا ہوں نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے.حصول علم کی جد و جہد کو بار آور کرنے کے سلسلہ میں اسلام نے جو طریق بتایا ہے وہ دعا کے ذریعہ استمد اد کا طریق

Page 54

تاریخ احمدیت.جلد 26 44 سال 1970ء ہے.لہذا میرا پیغام یہ ہے کہ اپنی پوری ہمت اور پوری طاقت کو مجتمع کر کے علمی تحقیق میں لگ جاؤ.میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارا رحمن و رحیم خدا ایک بہتر زندگی کے لئے ہماری کوششوں کا رخ مناسب سمت کی طرف پھیر دے.تقریر کے بعد مقامی احباب نے ملاقات اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.قبول احمدیت کا ایک اعجازی نشان ۱۳ را پریل کو حضور نے مالم وزیری عبد و صاحب سے ( جو گورنمنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری تھے اور عرصہ سے زیر تبلیغ تھے اور دورہ نائیجیریا میں آپ کے ڈرائیور بھی رہے ) دریافت فرمایا کہ آپ احمدیت کیوں قبول نہیں کرتے.انہوں نے کہا ابھی میری تسلی نہیں ہوئی.حضور نے جیب سے عطر کی شیشی نکال کر انگلی سے خوشبو ان کی گردن پر لگائی اور فرمایا کہ آپ آج سورج غروب ہونے سے قبل احمدیت میں داخل ہوں گے.انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے.میں احمدیت قبول نہیں کروں گا.حضرت صاحب نے جواب نہیں دیا.حضور نے اونچی آواز میں تلاوت شروع کر دی.اور تقریباً ۴۵ منٹ تلاوت فرماتے رہے.نماز عصر کے بعد وزیری عبد و صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ میں احمدیت قبول کرتا ہوں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضور کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا شرف عطا فرمایا بعد میں ان کا سارا خاندان احمدی ہو گیا.کانو کے وفد سے ملاقات ۱۴ را پریل کو حضور کا کا نوشہر روانگی کا پروگرام تھا لیکن موسم کی خرابی کے باعث ہوائی جہاز وہاں نہ جاسکا.اس پر کا نو کے مبلغ مکرم محمد بشیر احمد صاحب شاد اور ہسپتال کے ڈاکٹر مکرم ضیاء الدین صاحب واقف زندگی بذریعہ لوکل فلائٹ حضور کی خدمت اقدس میں لیگوس پہنچ گئے.حضور نے ان سے فرمایا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں اسی کی خاطر گھر سے روانہ ہوئے تھے وہ جہاں چاہے لے جائے.مکرم شاد صاحب نے عرض کی کہ ہم نے حضور کی کا نوتشریف آوری کے موقعہ پر ایک سونئے احمدیوں کا تحفہ حضور کی خدمت میں پیش کرنا تھا.اب خاکسار بیعت فارم لے آیا ہے حضور اس تحفہ کو قبول فرمائیں.حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور دعا فرمائی.42 مقامی جماعتوں کے نمائندگان سے ملاقات ۱۵ر اپریل کو شام پانچ بجے فیڈرل پیلس ہوٹل میں حضور انور نے مقامی جماعتوں کے نمائندگان

Page 55

تاریخ احمدیت.جلد 26 45 سال 1970ء کو چائے پر مدعو فر مایا.اجلاس میں حضور نے جماعت ہائے احمد یہ نائیجیریا سے مشورہ طلب فرمایا کہ آئندہ پانچ سے سات سال تک کے عرصہ پر حاوی ایک با قاعدہ منصوبہ کے ماتحت یہاں سکول اور میڈیکل سنٹر کھولے جائیں.حضور نے سات احباب پر مشتمل کمیٹی منظور فرمائی اور ہدایت فرمائی کہ میرا دورہ افریقہ ختم ہونے سے قبل یہ کمیٹی اپنی رپورٹ میرے سامنے پیش کرے.حضور نے اس منصوبہ کا نام ” Leap Forward“ (یعنی آگے بڑھو ) رکھا.۱۶ را پریل کو حضور نے لیگوس میں جماعت ہائے احمد یہ نائیجیریا کے نمائندگان کرام کو شرف ملاقات بخشا اور ان سے جماعت کے تعلیمی اداروں اور طبی امداد کے مراکز میں مزید وسعت پیدا کرنے سے متعلق تبادلہ خیالات کیا نیز نائیجیریا میں سولہ سیکنڈری سکول اور چار میڈیکل سینٹر قائم کرنے کے فیصلہ کا اعلان فرمایا.اسی روز حضور نے ایک پریس کانفرنس میں اخباری نمائندوں سے گفتگو فرمائی اور دوران گفتگو انسانی شرف اور اقتصادی مسائل پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس بارے میں اسلام کی بے مثال اور لازوال تعلیم کو وضاحت سے پیش فرمایا.44 مسلم ٹیچر ٹریننگ کالج میں خطبہ جمعہ ے اراپریل کو حضور نے خطبہ جمعہ مسلم ٹیچر ٹرینگ کالج میں ارشاد فر مایا.کم و بیش پانچ ہزار افراد شامل ہوئے.غیر از جماعت معززین کی تعداد تین چارسو کے درمیان ہوگی.ہال کے بیرونی گیٹ میں کپڑے پر یہ الفاظ آویزاں تھے کہ اللہ اکبر خلیفہ مسیح آج ہمارے درمیان ہیں الحمد للہ.ایک پرانے احمدی زار و قطار روتے تھے اور کہتے تھے آج وہ سب مخلصین یاد آ رہے ہیں جنہوں نے احمدیت کی خاطر عظیم قربانیاں دیں اور اس انتظار میں فوت ہو گئے کہ حضرت خلیفۃ اسیح خود یہاں تشریف لائیں.خطبہ حضور نے انگریزی میں دیا اور اس کا ترجمہ شنا لو صاحب جیسے فدائی احمدی نے یورو با زبان میں کیا.حضور نے فرمایا کہ احمدیت انسانوں کی بنائی ہوئی تنظیم نہیں ہے.اس کی بنیاد خود اللہ تعالیٰ نے رکھی اور وہی اسکی راہنمائی کرتا ہے.اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ہے اور قرآن کریم کی عظمت و شان کو دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے.خلافت اسلام کی ان برکات کے تسلسل کا نام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ دنیا میں لائے.جمعہ کے بعد حضور نے مقامی یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان اور سینٹر یونیورسٹی کے طلبہ کو شرف

Page 56

تاریخ احمدیت.جلد 26 46 سال 1970ء 66 باریابی بخشا.ڈاکٹر تاج الدین نماڈا موسی (صدر شعبہ تاریخ) نے پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کو بتایا کہ احمدیت جس طرح جدید تقاضوں کی روشنی میں اسلام کی تصویر پیش کرتی ہے وہ نہایت حسین ہے.جب حضور نے جملہ طلبہ کو شرف مصافحہ بخشا تو ایک طالبہ ہاتھ ملتی رہ گئی.اس پر فورا ہی حضرت بیگم صاحبہ نے اندر سے اس کے لئے الیس الله بکاف عبدہ “ کی ایک انگوٹھی بھجوادی جو تمام حاضرین کے سامنے اسے پہنائی گئی.اس وجہ سے تمام طلبہ اسے رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے.اسی روز نائیجیریا میں مقیم پاکستانی ہائی کمشنر جناب ایس ایم قریشی صاحب نے حضور کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ کا اہتمام کیا.حضور اقدس اپنے خدام کے ساتھ ان کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے.اس دعوت میں سوڈان، انڈونیشیا، نائیجر اور سیرالیون کے سفراء بھی موجود تھے.نائیجر کے سفیر نے اس موقعہ پر حضور کو اپنے ملک آنے کی دعوت دی.46 اہل نائیجیریا کے نام الوداعی پیغام ۱۸ را پریل کی صبح کو حضور نایجیریا سے غانا روانہ ہوئے.احباب جوق در جوق اپنے آقا کو الوداع کہنے کے لئے ائیر پورٹ پر تشریف لائے.روانگی سے قبل حضور نے اہل نائیجیریا کے نام حسب ذیل پیغام دیا جو اگلے روز تمام اخبارات نے نمایاں طور پر شائع کیا:.”میرے عزیز بھائیو اور بہنو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.نائیجیریا کی سرزمین سے روانہ ہوتے ہوئے میرا دل آپ سے محبت اور اخوت کے جذبات سے لبریز ہے.نائیجیریا کے دورہ کی یاد ہمیشہ ایک عزیز متاع کی حیثیت سے میرے دل میں محفوظ رہے گی.اب جبکہ یہ دورہ ختم ہورہا ہے.میں غمگین ہوں اور آپ کی پیاری یاد سے دل مغموم ہے.آپ کی محبت نے میرا دل جیت لیا ہے.میں اور سیدہ منصورہ بیگم آپ کی مہمان نوازی کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.یادرکھیں آپ ایک عظیم ملک کے عظیم فرزند ہیں جو طبعی اور انسانی خزائن سے مالا مال ہے.آپ ایک شاندار مستقبل کے مالک ہیں.ایسا مستقبل جو آپ کے تصور سے بھی بڑھ کر شاندار ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ آپ ہم سب کے خالق اور مالک اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک زندہ تعلق قائم کریں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش برسائے، ہر قسم کے شر سے محفوظ رکھے آپ حق و صداقت کی شمع

Page 57

تاریخ احمدیت.جلد 26 47 سال 1970ء لے کر چار دانگ عالم میں پھیل جائیں.یہاں تک کہ دنیا آپ سے اپنی امیدیں وابستہ کرے اور لوگ آپ کی قسمت پر رشک کریں.آمین 48 غانا میں تشریف آوری غانا ائیر لائنز کا جہاز صبح ۱۰ بج کر ۲۰ منٹ پر لیگوس ( نائیجیریا) سے محو پرواز ہوا اور گیارہ بجے اکرا (غانا) پہنچ گیا.اکرا کے ہوائی اڈے کی عظیم الشان عمارت کی چھتوں، بالکنیوں پر اور میدان میں ہر طرف سفید لبادوں میں ملبوس مردوں، عورتوں، جوانوں، بوڑھوں اور بچوں کا ہجوم نظر آ رہا تھا جو اپنے محبوب آقا کے خیر مقدم کے لئے جمع تھے.کم و بیش دس ہزار افریقن احمدیوں کے پُر جوش نعروں سے فضا گونج اٹھی.آج بجا طور پر ان کے لئے عید کا دن تھا.کیونکہ ان کی سالہا سال کی تمنا بر آئی تھی اور حضرت مہدی معہود علیہ السلام کا موعود نافلہ اور تیسرا خلیفہ ان کے درمیان رونق افروز تھا.جب حضور ائیر پورٹ سے باہر تشریف لائے تو جماعت نے جس عقیدت اور خلوص اور جوش و خروش سے حضور کا خیر مقدم کیا اسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے.احباب اور بہنیں تاحد نظر ایئر پورٹ سے باہر بنائے گئے ایک سٹیڈیم کے تینوں طرف کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر حضور کی خدمت میں السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ عرض کر رہے تھے اور فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے.ہمیں ہزار ہا تھ جنبش میں تھے اور دس ہزار افراد کی آواز میں بیک وقت اپنے محبوب آقا کے حضور عقیدت کے پھول نچھاور کر رہی تھیں.یادر ہے کہ ۱۹۶۰ء میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق غانا کے بالغ احمدیوں کی آبادی ایک لاکھ پینتیس ہزار تھی.شام کو مشن ہاؤس کے وسیع احاطہ میں حضور ایک جلوس کی صورت میں تشریف لے گئے.یہاں حاضرین کی تعداد دس ہزار سے بھی تجاوز کر چکی تھی.جس میں علاقہ رؤسا اور غیر مسلم معززین نیز غیر ملکی سفارتی نمائندے بھی موجود تھے.اس موقع پر حضور نے اکرا کی عظیم الشان مسجد کا اپنے دستِ مبارک سے سنگِ بنیاد رکھنے سے قبل اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت اور تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ان کے نہایت اہم کردار پر ایک پر معارف خطاب فرمایا.۱۹ را پریل کو حضور نے احباب جماعت سے فرد افرد ملاقات فرمائی.شام کو ایک استقبالیہ دعوت میں شریک ہوئے جس میں غیر ملکی سفراء، وزرائے مملکت ، اکابرین چرچ اور ریڈیو اور نیوز ایجنسیوں 49.

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد 26 48 سال 1970ء کے نمائندے اور دیگر معززین شہر بھی موجود تھے.اس موقع پر ان سب کو حضور سے ملاقات کا موقع میسر آیا.حضور ہر ایک سے حسب موقع گفتگو فرماتے رہے.شام کو ریڈیو کے نمائندے نے حضور سے انٹرو یولیا جو بعد میں نشر ہوا.حضور نے فرمایا کہ احمدیت کے بنیادی اصول اسلام کے بنیادی اصول ہیں.اسلام چاہتا ہے بندے کا اپنے خالق کے ساتھ براہِ 50 راست تعلق قائم ہو.۱۹ را پریل اشانٹی کی جماعت کے چند اراکین اپنے پریذیڈنٹ الحاج الحسن عطاء کی معیت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.حضور نے ان سے ملاقات فرمائی.پھر مسٹر بی.کے.آدم منسٹر آف سٹیٹ سے بھی ملاقات ہوئی.خانا کے سر براہ مملکت سے ملاقات ۲۰ را پریل کو سر براہ مملکت بریگیڈ میراے.اے.افریفا سے ملاقات ہوئی.سربراہ مملکت حضور سے نہایت ادب واحترام کے ساتھ ملے.رخصت کے وقت حضور نے دعا کی اور پھر گارڈ نے سلامی دی.حضور نے انہیں پاکستانی صنعت کا ایک نمونہ بطور تحفہ دیا.اس کے بعد حضور کماسی روانہ ہوئے جو غانا کا دوسرا بڑا شہر ہے.کماسی سے پندرہ میل دور احمدی دوست حضور کے استقبال کے لئے حاضر تھے.جوں جوں قافلہ شہر کی طرف بڑھتا گیا احباب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا جو حضور کے خیر مقدم کے لئے حاضر تھے اور پُر جوش نعرے لگا رہے تھے.کماسی مشن ہاؤس کا افتتاح ۲۱ را پریل کو حضور تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کماسی میں تشریف لے گئے اور طلباء و اساتذہ کو شرف مصافحہ بخشا اور انگریزی میں خطاب بھی فرمایا جو پچیس منٹ تک جاری رہا.حضور نے ارشاد فرمایا که حقیقی علم حقیقی استاد کامل یعنی اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل ہو سکتا ہے.خوب محنت کر ولیکن محنت کو سہارا نہ بناؤ اصل سہارا خدا تعالیٰ کو سمجھو اور اسی سے مدد مانگو.محنت اور دعا دونوں مل کر صحیح نتائج پیدا کرتے ہیں.تعلیم حاصل کرو اپنے ملک وقوم کی خدمت کے لئے.پھر مقامی مشن ہاؤس کی نئی عظیم الشان عمارت کا دعا کے ساتھ افتتاح فرمایا اور تقریر فرمائی.حضور نے فرمایا حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے آنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کے اس الہام میں درج ہے کہ يقيم الدين ويحي الشر الشريعه - آپ آنحضرت علیہ کے عظیم ترین روحانی فرزند ہیں.

Page 59

تاریخ احمدیت.جلد 26 49 سال 1970ء رے کے لاکھوں کروڑوں فرزند ہیں لیکن آپ ہی کو ان سب میں سے چنا.تقریر کے بعد باری باری سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا.افتتاح کے موقع پر حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے کشف میں دیکھا کہ عین دعا کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بقاش چہرہ بادلوں سے نمودار ہوا جبکہ زمین بھی خوشی سے لبریز تھی اور آسمان بھی خوشی سے معمور تھا.کماسی یو نیورسٹی میں تقریر 51 اسی دن شام کو حضور نے کماسی یو نیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وسیع ہال میں ایک بصیرت افروز تقریر فرمائی.جس میں تدبیر اور دعا دونوں کی اہمیت کو مؤثر انداز میں بتایا اور وضاحت فرمائی کہ حقیقی اور صحیح علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر علم بے مقصد اور بے منزل ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے تحقیق کے میدان میں صحیح طور پر قدم مارنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا گیا علم ہی حقیقی علم ہے.تقریر کے بعد حضور نے سوالوں کے برجستہ اور پُر معارف جواب دئے جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک درخشندہ نشان مکرم محبوب عالم خالد صاحب ناظر بیت المال آمد تحریر کرتے ہیں کہ صدرانجمن احمدیہ کے بجٹ میں گذشتہ سال کی نسبت خاصا اضافہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں بار بار دعا کے لئے عرض کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں.۶ را پریل کو آمد میں ابھی خاصی کمی تھی.اس سلسلہ میں حضور انور کی خدمت میں بذریعہ تار عرض کیا گیا کہ اتنی کمی ابھی باقی ہے.حضور انور نے فورا کماسی (افریقہ) سے تار دیا انشاء اللہ کوئی کمی نہ رہے گی“.حضور انور کی دعاؤں کی برکت سے روپیہ بارش کی طرح آنا شروع ہو گیا.ے مئی لازمی چندہ جات کی رقوم کے مرکز میں پہنچنے کی آخری تاریخ تھی مخلصین جماعت کے جذبہ ایثارکا اس سے اندازہ فرما ئیں کہ صدرانجمن احمدیہ کے لازمی چندہ جات میں یکم اپریل سے لے مئی تک وصولی خدا کے فضل سے سات لاکھ سے زیادہ ہوئی.اس طرح خدا کے فضل سے صدرانجمن احمدیہ کا بجٹ نہ صرف پورا ہوا بلکہ خاصی بیشی کے ساتھ پورا ہوا.53

Page 60

تاریخ احمدیت.جلد 26 50 سال 1970ء ٹیجی مان میں تقریر اور مسجد کا سنگ بنیاد سید نا حضرت خلیفہ مسیح ۲۲ / اپریل کو ٹیچی مان تشریف لے گئے.اس علاقہ میں اُن دنوں استی احمدی جماعتیں موجود تھیں.یہاں کے مخلص احمدی بھائی اور بہنوں نے جس انداز اور جس اخلاص سے حضور کا خیر مقدم کیا اس کا رنگ ہی نرالا تھا.سڑک پر جابجا گیٹ خوشنما کپڑوں سے سجائے گئے تھے.احباب اور بہنیں قطار اندر قطار مسرور دلوں اور عشق و محبت سے سرشار روحوں کے ساتھ والہانہ انداز میں نعرے لگا رہے تھے اور حضور کی خدمت میں السلام علیکم اور اھلاً و سھلاً و مرحبا کا ہدیہ پیش کر رہے تھے.جس جگہ حضور نے تقریر کرنا تھی اسے نہایت خوبصورت شامیانوں اور جھنڈیوں سے سجایا گیا تھا.سامنے میدان میں لوائے احمدیت اور خدام الاحمدیہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا اور ہزاروں کی تعداد میں احباب حضور کے دیدار اور تقریر کے لئے محو انتظار تھے.پہلے حضور کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پیش کیا گیا.اس کے بعد حضور نے محبت اور روحانیت سے لبریز ایک تقریر فرمائی جو گویا روح کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی مجسم دعا تھی.توحید باری ، رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی باطل شکن بعثت، قیامِ دین کی تشریح اور انسانیت کی عظمت کے قیام کے سلسلے میں ایک للکار تھی جس سے دلوں کے زنگ ڈھل گئے اور ایمانوں کی تجدید ہوگئی.اس موقع پر علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف اور دیگر معززین بھی موجود تھے.تقریر کے بعد حضور نے مسجد کا سنگ بنیا د رکھا اور نماز پڑھائی اور پھر مصافحوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.تقریباً تین ہزار مردوں نے حضور سے اور قریباً اتنی ہی احمدی بہنوں نے حضرت بیگم صاحبہ سے مصافحہ کیا.شام کو حضور واپس کماسی تشریف لے آئے.54 شاندار استقبالیہ ۲۲ اپریل کی شب کو کماسی میں وسیع پیمانے پر حضور کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.جس میں احمدی احباب کے علاوہ علاقہ کی اہم شخصیات ، قبائل کے چیفس اور یو نیورسٹی کے پروفیسرز بھی شامل ہوئے.الحاج الحسن عطاء صاحب نے ان سب حضرات کا تعارف کرایا.اشانٹی قبیلہ کے بادشاہ کا تر جمان حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں سومیل پیدل چل کر حاضر ہوا ہوں، بیمار رہتا ہوں حضور کی دعا کی تاثیر کا قائل ہوں، میری صحت کے لئے دعا کریں، چنانچہ حضور نے دعا کی.

Page 61

تاریخ احمدیت.جلد 26 51 سال 1970ء واسے مخلصین جماعت کی ملاقات نماز مغرب و عشاء کی ادائیگی کے بعد وا کی جماعت کے ڈیڑھ سو مخلصین سینکڑوں میل کے فاصلہ سے کشاں کشاں حضور کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.سفید لبادوں میں ملبوس سروں پر کلاہ اور سفید شملے اور طرے دار پاکستانی پگڑیاں پہنے ہوئے یہ خلصین حضور کے تشریف لانے پر تعظیماً کھڑے ہو گئے.سب نے بیک آواز اھلاً و سھلاً و مرحبا کہا اور عربی قصیدہ اس انداز اور درد کے ساتھ پڑھا کہ آنکھیں نمناک ہو گئیں.ان کی اپنی آواز گلو گیر ہوگئی ان کے چہروں پر محبت اور ایمان کا نور جھلک رہا تھا اور ایک ایسی ربودگی ان پر طاری تھی جسے الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں.حضور نے ان سے عربی میں خطاب فرمایا اور ان میں سے ہر ایک کو مصافحہ اور معانقہ کی سعادت بخشی.۲۲ اپریل کو حضور کماسی سے واپس اکر ا تشریف لے آئے.اور الحاج الحسن عطاء صاحب کے مکان میں رونق افروز ہوئے.بعد ازاں کلچرل سنٹر کو ملاحظہ فرمایا اور رجسٹر پر اردو زبان میں دستخط کئے.راستے میں حضور نے ”بیت نیر میں پُر سوز لمبی دعا کی.سالٹ پانڈ میں ۲۴ را پریل کو سالٹ پانڈ تشریف لے گئے.یہ وہ تاریخی مقام ہے جہاں ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء کو افریقہ کے پہلے مبلغ احمدیت حضرت مولا نا عبدالرحیم صاحب نیر نے افریقہ کی سرزمین میں پہلا قدم رکھا تھا اور یہیں سے تبلیغ کا آغاز فرمایا تھا.یہاں بھی حضور کا بڑی گرمجوشی کے ساتھ استقبال ہوا.حضور نے مسجد اور مشن ہاؤس کو ملاحظہ فرمایا.یہاں سے وہ مکان بھی نظر آتا ہے جہاں حضرت غیر صاحب نے قیام فرمایا تھا.یہاں سے حضور پنڈال میں تشریف لے گئے جو عین سمندر کے کنارے پر فضا جگہ پر واقع ہے.اس جگہ کم از کم بارہ ہزار احمدی مرد اور عورتیں جمع تھیں.جن کے چہروں پر ایمان اور یقین کی روشنی جھلک رہی تھی.علاقہ کے تمام اعلیٰ حکام، پیرا ماؤنٹ چیفس اور دیگرا کا برین بھی حاضر تھے.مشن ہاؤس کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھائی.نماز سے قبل حضور نے صداقت اسلام پر ایک روح پرور اور بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا آج کا یہ عظیم اجتماع خود اپنی ذات میں آنحضرت ﷺ کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کا ایک تابندہ و درخشندہ ثبوت ہے.حضور نے غلبہ اسلام کی آسمانی پیشگوئیوں کا ذکر فرما کر اور ان کے پورا ہونے کے روز افزوں آثار پر روشنی ڈال کر اس الله

Page 62

تاریخ احمدیت.جلد 26 52 سال 1970ء امر کا نہایت پر شوکت الفاظ میں اعلان فرمایا کہ اسلام کی فیصلہ کن فتح اور اس کے کامل غلبہ کے دن قریب ہیں.اس روح پرور خطبہ کے بعد حضور نے نماز پڑھائی.اس کے بعد دو گھنٹہ تک ملاقات اور مصافحوں کا سلسلہ جاری رہا.احباب تنظیم کے ساتھ آتے ، مصافحہ کرتے اور پھر اپنے دونوں ہاتھ اپنے چہرے پر برکت حاصل کرنے کے لئے پھیرتے اور درود شریف پڑھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے تھے.شام کو واپس اکر آتے ہوئے حضور نے گونو امنگو اسی کے مقام پر مسجد کا سنگ بنیا درکھا.۲۵ را پریل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.حضور نے فرمایا اسلام اس ملک اور دیگر ممالک کے لئے بنی نوع انسان کی بحیثیت انسان کے ہمسری اور برابری کا پیغام لایا ہے اور ہم اس پیغام کے نقیب اور علمبردار ہیں کہ دنیا کا عظیم ترین انسان تمام انسانوں کو اٹھا کر اپنے زمرے میں شامل فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ.ہم بنی نوع انسان کے خادم ہیں.اور قرآن کریم کا یہ عظیم پیغام ہے.ایک اخباری نمائندے نے حضور سے سوال کیا کہ آپ کا ہم لوگوں کے نام پیغام کیا ہے.فرمایا.Let humans learn to love humans انسان کو چاہیئے کہ انسان سے محبت کرنا سیکھے.بعد ازاں جماعت کی انتظامیہ کمیٹی کی میٹنگ میں شمولیت فرمائی اور جماعت کی آئندہ ترقی کے متعلق اہم فیصلے فرمائے.۲۶ اپریل کو حضور نے قریباً اسی خدام کو شرف مصافحہ بخشا.پھر الحاج محمد آرتھر صاحب کی فیکٹری کا معاینہ فرمایا.ازاں بعد ا کرا کی جماعت کو 9 بجے شب سے گیارہ بجے تک شرف ملاقات بخشا.اسی اثناء میں حضرت بیگم صاحبہ نے مستورات سے مصافحہ فرمایا.۲۷ اپریل کی صبح کو حضور نانا سے آئیوری کوسٹ کے لئے روانہ ہوئے.اکرا کے ہوائی اڈہ پر غانا کے احباب نے پُر خلوص دعاؤں سے حضور کو الوداع کہا.اس موقع پر مبلغین اور عہد یدارنِ جماعت کے علاوہ متعدد دیگر معززین بھی موجود تھے جن میں کئی وزرائے مملکت بھی شامل تھے.گیارہ بج کر سات منٹ پر حضور کا جہاز روانہ ہوا.آئیوری کوسٹ میں ورود مسعود ۲۷ را پر پل کو بارہ بج کر پانچ منٹ پر آئیوری کوسٹ کے شہر آبی جان کے ہوائی اڈہ پر جہاز اترا.مکرم قریشی محمد افضل صاحب مشنری انچا رج آئیوری کوسٹ احباب کے ہمراہ استقبال کے لئے موجود

Page 63

تاریخ احمدیت.جلد 26 53 سال 1970ء تھے.حضور نے احباب سے ملاقات فرمائی اور بچوں نے حضور کی خدمت میں گلدستے پیش کئے.پریس اور ٹیلیویژن کے نمائندے بھی موجود تھے.حضور نے پریس کے لئے انٹرویو دیا اور پھر جائے قیام پر تشریف لے گئے.نماز مغرب مسجد احمدیہ میں ادا فرمائی جس کے بعد احباب سے خطاب فرمایا.اس کے بعد حضور انور وی.آئی.پی لاؤنج میں تشریف لے گئے جہاں پر لیس اور ٹیلی ویژن کے نمائندے موجود تھے.پریس کے نمائندے نے حضور سے انٹر ویولیا.حضور نے فرمایا کہ ہماری اصل غرض تو روحانی ہے اور خدائے واحد کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے.ثانوی غرض اوّل یہ ہے کہ جماعت کے دوستوں سے ملاقات کریں نیز معلوم کریں کہ اس ملک کی کیا خدمت کر سکتے ہیں اور آپ لوگوں سے بھی ملنے کا شوق تھا.اگر آپ لوگ اپنی روحانی، اخلاقی اور جسمانی صلاحیتوں کا پورا اور صحیح استعمال کریں تو ممکن ہے کہ آپ ساری دنیا کے معلم بن جائیں.ایسے صحیح استعمال کی تو فیق صرف دعا سے ہی ملتی ہے.اصل توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیئے.فرمایا ہم دو روز یہاں قیام کریں گے اس لئے یہ آپ کا کام ہے کہ آپ اپنے متعلق مجھے بہت سی معلومات بہم پہنچائیں.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ نائیجیریا اور غانا دونوں ملکوں میں ہماری بڑی بڑی جماعتیں ہیں.غانا میں ہمارے دو احمدی بھائی وزیر ہیں.اسی طرح لیگوس ( نائیجیریا) میں دو احمدی حج ہیں.58 بعد ازاں حضور ہوائی مستقر کے ہال میں تشریف لے گئے جہاں احباب و خواتین اور معززین شہر صف بستہ کھڑے تھے.بچیوں نے خوش الحانی سے اھلا و سھلا مرحبا یا امیر المؤمنین پڑھا.اس کے بعد حضور انور نے مردوں سے اور حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے مستورات سے مصافحہ فرمایا.یہاں سے فارغ ہو کر حضور آئیوری کوسٹ انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں تشریف لے گئے.احباب جماعت سے پہلا خطاب مورخہ ۲۷ / اپریل کو بعد از نماز مغرب حضور انور نے احمد یہ مسجد آبی جان میں احباب جماعت سے ایک روح پر ور خطاب فرمایا جس کا ترجمہ فرانسیسی اور مقامی زبان ”جیولا‘ میں ساتھ ساتھ کیا گیا.اس خطاب میں حضور انور نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں سے مل کر بہت خوش ہوا.قرآنِ کریم کتاب مبین ہے اور کتاب مکنون بھی.کتاب مکنون کے راز وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر محمد رسول اللہ ﷺ کے فرزندوں پر کھولے جاتے ہیں اور اس طرح کتاب مبین بن جاتے ہیں.قرآن کریم ہر زمانے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے.اس زمانے کے مسائل کو حل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ علی

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد 26 54 سال 1970ء کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ قرآنی معارف سکھائے گئے جن کی زمانے کو ضرورت تھی.اسلام پر موجودہ فلسفے اور سائنس کی طرف سے جتنے اعتراض بھی کئے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سارے اعتراض شافی جواب دیکر دور فرمائے.حضور نے تمام معترضین کو چیلنج کیا.کسی ایک کو بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے چیلنج کو قبول کرنے کی توفیق نہ ملی.اس دعویٰ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دعوئی میں بچے ہیں.اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ کے نور سے باہر اندھیرا ہے اس لئے ہمیں بہت کثرت سے درود شریف پڑھنا چاہئے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِک وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ 59 مورخہ ۲۸ / اپریل کو دوپہر کے وقت حضور انور نے احباب سے ملاقات فرمائی.حضور انور نے دریافت فرمایا کہ آپ کو کس قسم کی امداد کی ضرورت ہے.جواب ملا کہ ہم لوگ بڑے خوش قسمت ہیں کہ حضرت خلیفہ امسیح کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.ہم عرض کرتے ہیں کہ سکول کے لئے ہمیں کوئی مناسب عمارت خرید دی جائے جس پر حضور نے خرچ کا اندازہ دریافت فرمایا.احباب جماعت سے دوسرا خطاب مورخہ ۲۸ ر اپریل کو نماز مغرب اور عشاء کے بعد حضور انور نے مسجد احمد یہ آبی جان میں تمام احباب جماعت سے مصافحہ فرمایا.اس کے بعد حضور انور نے ایک نہایت پر معارف اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا.جس کا ترجمہ فرانسیسی اور جیولا زبانوں میں ساتھ ساتھ کیا گیا.حضور نے فرمایا کہ نائیجیریا، گھانا، سیرالیون میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت بہت بڑھ گئی ہے.یہاں آئیوری کوسٹ میں مشرکین بہت زیادہ ہیں.اسلام کے پہلے مخاطب مشرکین عرب ہی تھے.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مشرکین کو پہلے پیغام پہنچانا چاہیئے.اگر ہم آپ ﷺ کے اسوہ پر عمل کریں اور اسلام کی حسین تعلیم مشرکوں تک پہنچائیں اور دعا کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ریں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس طرح اسلام کی تعلیم نے مشرکین مکہ کے دل میں گھر کیا تھا.یہاں کے مشرکین (pagans) بھی مسلمان نہ ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور جلال اور نبی اکرم علی کی عزت اور وقار کے قیام کے لئے آپ کو بھیجا گیا ہے آپ ضرور کامیاب ہوں گے.اللہ تعالیٰ نے نبی

Page 65

تاریخ احمدیت.جلد 26 55 سال 1970ء اکرم ﷺ کے اس عظیم روحانی فرزند سے جو وعدہ کیا ہے اس کے پورا ہونے کے آثار ہمیں نظر آنے لگ گئے ہیں.اگلے بیس پچیس سال اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور کامیابی کے لئے بڑے اہم ہیں.مشرکوں، بد مذہبوں، مخالفوں نے حضور کی آواز کو جو ایک تنہا آواز تھی دبانے کے لئے ساری طاقت ایک جگہ جمع کر دی.اس کی ساری کوششیں ناکام ہو چکی ہیں.اسلام کا حسین چہرہ ساری دنیا میں اب ہمیں نظر آرہا ہے.ہر نیا دن جو احمدیت پر طلوع ہوتا ہے احمدیت کو پہلے دن کی نسبت زیادہ طاقت ور پاتا ہے.اشتراکیت نے دعوی کیا تھا کہ وہ دنیا سے اسلام کو مٹا دیں گے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کشفی نظارہ دکھایا کہ روس میں کثرت سے اسلام پھیل جائے گا.ساری دنیا میں جہاں لوگ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے تھے اور دہر یہ بن گئے تھے احمدیت انہیں کھینچ کھینچ کر واپس لا رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر رہی ہے.عربک سکول کے بچوں کی دعوت ۲۹ شہادت کی صبح کو حضور نے احمد یہ عربک سکول کے بچوں کی دعوت کی.بچوں کی تعداد ۴۸ تھی.بچوں اور بچیوں نے اهلاً و سهلاً و مرحباً يا امیر المؤمنین “ بیک آواز خوش الحانی سے بار بار پڑھا.پھر طلع البدر علینا “ قصیدہ سنایا اور قرآن کریم کی سورتیں خوش الحانی سے تلاوت کیں.حضور نے بچوں کے ساتھ فوٹوز بھی کھنچوائے.جس وقت حضور بچوں کو رخصت فرمانے لگے تو پھر سب نے مل کر فرانسیسی زبان میں اللہ تعالیٰ کی حمد خوش الحانی سے پڑھی.حضور نے فرمایا ریکارڈ کر لی جائے.دو پہر کے وقت لائبیریا کو روانگی کا پروگرام تھا.چنانچہ حضور فضائی متعقر پر تشریف لے گئے.جہاں مکرم قریشی محمد افضل صاحب کی معیت میں احباب جماعت اپنے پیارے امام کو الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے تھے.حضور آئیوری کوسٹ کو دوروز تک اپنے وجو د باجود سے فیضیاب کرنے کے بعد احباب کی دعاؤں کے درمیان لائبیریا کے لئے روانہ ہوئے.لائبیریا میں ورود مسعود حضور کا جہاز ایک گھنٹہ پانچ منٹ کی پرواز کے بعد لائبیریا کے ائیر پورٹ پر رکا.احباب جماعت کے علاوہ صدر مملکت کا ذاتی نمائندہ بھی کار لے کر حاضر تھا.مسلم گورنر ناناں کمار اور ان کے

Page 66

تاریخ احمدیت.جلد 26 56 سال 1970ء نائب بھی موجود تھے.ریڈیو اور ٹیلیویژن کے نمائندے بھی حاضر تھے.حضور نے اخباری نمائندوں کو انٹرویو دیا.حضور نے فرمایا کہ مذہب دل کا معاملہ ہے.جب تک دل نہ جیتے جائیں مذہب قبول نہیں کیا جاسکتا.یہ کام وحشیانہ طاقت کے استعمال سے نہیں ہو سکتا.حضور نے فرمایا کہ میرا پیغام وہی ہے جو اسلام کا پیغام ہے.جس کا ہمارے سید و مولی آنحضرت ﷺ نے بدیں الفاظ اعلان فرمایا کہ میں بھی تمہارے جیسا انسان ہوں.پس سب انسان پیدائش کے لحاظ سے بطور انسان برابر ہیں.ان سب کا حق ہے کہ صحیح مذہب ان تک پہنچایا جائے.حضور نے مسلم گورنر صاحب سے گفتگو فرمائی.ہوٹل ڈیوکارانٹر کانٹی نینٹل میں تشریف لے گئے جہاں صدر مملکت کی طرف سے آٹھ کمرے حضور کے لئے ریز رو تھے.صدر مملکت سے ملاقات اسی دن شام کو صدر مملکت مسٹر ولیم ٹب مین سے حضور کی ملاقات ہوئی اور انہیں پاکستانی صنعت کا ایک تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے بہت پسند کیا.پھر جماعت کی طرف سے دیئے گئے عشائیہ میں شامل ہوئے جس میں لائبیریا کے وائس پریذیڈنٹ، چیف جسٹس ، پیکر پارلیمنٹ اور مختلف ممالک کے سفیر بھی شامل ہوئے.رات کو ٹیلیویژن پر حضور کی تشریف آوری کے مناظر دکھائے گئے.۳۰ را پریل کی صبح کو انفرادی ملاقاتیں ہوتی رہیں.پھر سمندر کے کنارے سیر کے لئے تشریف لے گئے.تیسرے پہر ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور بعض سوالات کے جواب دیئے.آپ نے فرمایا کہ ہمارا مغربی افریقہ کے ممالک میں جماعتیں قائم کرنے سے کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا مقصود نہیں.جو آمد ہوتی ہے انہی ممالک کی بہبود پر خرچ ہوتی ہے.ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ہماری جماعت کا بحیثیت جماعت سیاست سے کوئی تعلق نہیں.ہماری جماعت کا اصول ہے کہ حکومت وقت کی اور قانون کی اطاعت کی جائے ہم تو مذہبی جماعت ہیں.پر یس کا نفرنس کے معا بعد اسی کمرے میں حضور انور نے جماعت کے عہدیداران کو بلایا ہوا تھا.اس اجلاس میں حضور نے عہدیداران کو لائبیریا میں تبلیغی تعلیمی اور طبی کام کی توسیع وترقی کے بارہ میں ہدایات دیں اور فرمایا کہ اصل مقصد تو خدمت ہونا چاہیئے.عہد یداران نے اپنی بعض مشکلات حضور کے سامنے پیش کیں.اس پر حضور نے امداد کا وعدہ فرمایا اور فرمایا کہ انشاء اللہ ہمارا قدم آگے ہی بڑھتا

Page 67

تاریخ احمدیت.جلد 26 رہے گا.57 سال 1970ء صدر مملکت کا اظہار عقیدت رات کو صدرمملکت نے وسیع پیمانے پر حضور کے اعزاز میں سرکاری دعوت کا اہتمام کیا جس میں وزراء، سفراء، سپیکر، بجز اور دیگر تمام اعلیٰ حکام شامل ہوئے.اس موقع پر صدر مملکت نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا ”آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس زمانہ کے روحانی بادشاہ ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں.آپ کی تشریف آوری ہمارے لئے باعث عزت ہے.آپ ایک عظیم روحانی شخصیت ہیں آپ کو قرب الہی حاصل ہے میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں“.اس موقع پر حضور نے بھی مختصر تقریر فرمائی جس میں آپ نے فرمایا کہ اصل شکریہ کی مستحق تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.اس لئے سب سے پہلے میں رب کریم کا شکر یہ بجالاتا ہوں جس نے مجھے اور میری بیگم اور میرے ساتھیوں کو اس عظیم ملک میں آنے کی توفیق دی.اللہ تعالیٰ ہی تمام روشنی، نور اور معرفت کا منبع ہے.آپ نے معزز میزبان کا بھی شکریہ ادا کیا.یکم مئی کو حضور گیمبیا تشریف لے گئے.64 گیمبیا میں پرتپاک استقبال آئیوری کوسٹ سے ۲ بج کر سات منٹ پر روانہ ہونے کے بعد پانچ بج کر چھ منٹ شام حضورانور ہا تھرسٹ ( گیمبیا) کے ہوائی اڈے پر رونق افروز ہوئے.احباب جماعت کے علاوہ گیمبیا کے سابق گورنر جنرل اور مخلص احمدی الحاج سرایف.ایم.سنگھاٹے بھی حضور کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے.احباب جماعت سے ملاقات و مصافحہ کے بعد حضور انور لاؤنج میں تشریف لے گئے جہاں خبر رساں ایجنسی کے انچارج نے حضور کا انٹرویو لیا.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ میرے یہاں آنے کا مقصد آپ لوگوں سے ملاقات کرنا ہے.میں یہاں آکر محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنے ہی گھر میں ہوں.اس سوال کے جواب میں کہ آپ کس چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں حضور نے فرمایا کہ مجھے عام انسان کی ترقی اور بہتری میں بہت دلچسپی ہے.فرمایا مغربی افریقہ کے ممالک میں پچاس سال پہلے احمدیت آئی تھی اور یہاں کے لوگوں کی خدمت کے لئے آئی تھی.اس پچاس سال کے عرصے میں ہم ایک پینی بھی کسی ملک سے باہر لے کر نہیں گئے.ہم یہاں خدمت کے لئے آئے ہیں.ایکسپلائٹ

Page 68

تاریخ احمدیت.جلد 26 58 سال 1970ء (exploit) کرنے کے لئے نہیں آئے.گیمبیا کا مشن ایک نیا مشن ہے.پھر بھی یہاں کافی بڑی جماعت ہے.ہمیں یقین ہے کہ چند سال تک بہت لوگ احمدی ہو جائیں گے.حضور خبر رساں ایجنسی کو انٹر ویو دینے کے بعد الحاج سنگھاٹے صاحب کی کوٹھی پر تشریف لے گئے.65 66 گیمبیا کے صدر سے ملاقات اور تقریب عشائیہ ۲ مئی کو حضور نے صدرمملکت سر داؤ د اخیرا با جاوارا سے ملاقات فرمائی.حضور نے انہیں انگریزی ترجمہ مع تفسیر دیا جسے انہوں نے پورے احترام سے قبول کرنے کی سعادت پائی.شام کو دعوت استقبالیہ میں شرکت فرمائی جو حضور کے اعزاز میں سرایف ایم سنگھاٹے صاحب نے دیا تھا.اس موقع پر متعدد وزرائے مملکت ممبران پارلیمنٹ ، چرچ کے اعلیٰ نمائندے اور غیر ملکی سفراء موجود تھے.دعوت کے بعد حضور نے مقامی احباب کی ایک میٹنگ میں شرکت فرمائی.احباب جماعت گیمبیا سے خطاب مئی کو صبح ساڑھے دس بجے کے قریب حضور انور نے گیمبیا گورنمنٹ سیکنڈری سکول میں جماعت کے احباب اور بہنوں سے ایک نہایت روح پرور اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا.حضور کا خطاب انگریزی زبان میں تھا.ساتھ ساتھ وولف اور میڈینگا زبانوں میں ترجمہ کیا گیا.خطاب کے بعد حضور نے دعا فرمائی اور سب احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا.مستورات سے حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے ملاقات فرمائی.حضور نے فرمایا کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا دعوی ہے کہ آپ امت مسلمہ میں اس زمانے کا نور ہیں.نور محمدی ﷺ کے روشن عکس ہونے کی وجہ سے آپ اس زمانے کے لئے مشعلِ صلى الله ہدایت ہیں.ہم اس یقین پر قائم ہیں کہ محمد رسول اللہ یہ سب سے بڑے انسان، سب سے بڑے استاد اور سب سے بڑے محسنِ انسانیت ہیں.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله.یہ کتنا عظیم اعلان ہے.محمد رسول اللہ ہے تو کہتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں لیکن دنیا میں ایسے انسان بھی موجود ہیں جو دوسرے انسانوں سے حقارت اور نفرت سے پیش آتے ہیں.اس برابری کی سطح سے ہر انسان کے لئے راستہ کھلا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اونچا اڑ سکے.حضرت مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعے ہمیں یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ہم اسلام کی آخری فتح کا دن دیکھنے والے ہیں.67

Page 69

تاریخ احمدیت.جلد 26 59 سال 1970ء نصرت سیکنڈری سکول اور مسجد کا سنگ بنیاد مئی کی شام کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مضافات باتھرسٹ میں’بونکا گنڈا کے مقام پر مسجد اور احمد یہ سیکنڈری سکول کی بنیاد رکھی.حضور نے سکول کی بنیا د ر کھنے سے قبل سائیٹ پلین بھی ملاحظہ فرمایا.اجتماعی دعا کے بعد حضور نے فرمایا کہ اس سکول کی عمارت کی تعمیل پر جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اٹھارہ ماہ لگیں گے.اگر اٹھارہ مہینے میں آپ سکول بنالیں تو اس کا افتتاح اور ایک اور سکول کا سنگِ بنیا دایک ہی وقت میں رکھا جائے گا.اور اگر میں زندہ رہا تو اس دوسرے سکول کا افتتاح میں کروں گا.انشاء اللہ تعالی.رات کو اٹلانٹک ہوٹل میں جماعت کی طرف سے عشائیہ میں حضور نے شرکت فرمائی.68 ہم مئی کی صبح کو سیر کے لئے تشریف لے گئے.شام کو مقامی پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ کے مکان پر چائے نوش فرمائی.مغرب کے بعد وزیر تعلیم وصحت کے ساتھ ملاقات کی اور رات کا کھانا کھایا.ہ مئی کو حضور باتھرسٹ سے سیرالیون روانہ ہو گئے.احباب جماعت نے پر خلوص طریق سے حضور کو الوداع کہا.ائیر پورٹ پر الوداع کہنے والوں میں وزیر اعظم صاحب کی طرف سے نائب وزیر دفاع بھی موجود تھے.سیرالیون میں تشریف آوری اور شاندار استقبال جس وقت حضور کا جہاز لنگی ائیر پورٹ (سیرالیون) پہنچا تو مقامی احمدی احباب ائیر پورٹ کی چھت پر بے تابانہ رنگ میں ہاتھ ، رومال اور کپڑے ہلا ہلا کر حضور کا خیر مقدم کر رہے تھے.حضور کا قافلہ ائیر پورٹ سے روانہ ہوا تو فضا نعروں سے گونج اٹھی.جگہ جگہ عربی زبان میں منظوم دعائیہ اور استقبالیہ ترانے گائے جارہے تھے.احمد یہ سکولوں کے طلباء اپنی اپنی وردیوں میں ملبوس خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے.اهلاً و سهلاً و مــــــرحبــــــاً بارک خليفتنا خليفة المسيح

Page 70

تاریخ احمدیت.جلد 26 60 سال 1970ء ریڈیو نے حضور کی تشریف آوری کا آنکھوں دیکھا حال نشر کیا اور ٹیلیویژن پر تصاویر دکھائیں.حضور ہوائی اڈہ سے قریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد سٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں پہنچے.حضور کی قیامگاہ پر کچھ احباب پہنچ گئے ان کی خواہش تھی کہ حضور اوپر سے ہی کھڑے کھڑے اپنے دیدار سے شادکام فرمائیں لیکن حضور کو جب اپنے احباب کی آمد کا علم ہوا تو حضور علت طبع اور شدید گرمی اور دھوپ کے باوجود نیچے تشریف لائے اور سب احباب سے جو تعداد میں ڈیڑھ سو سے زائد تھے فرداً فرداً مصافحہ فرمایا.اور ہر ایک سے نام دریافت فرمایا.ایک دوست نے اپنے نام کا مفہوم بتایا ” یہ جنگ اور وہ جنگ‘.حضور نے فرمایا اب آپ احمدی ہیں اس لئے آپ کا نام عبد السلام ہے یعنی ” نہ یہ جنگ اور نہ وہ جنگ.پریس کانفرنس سے خطاب ۵ مئی کو ساڑھے پانچ بجے شام لاج کی زیریں منزل پر پریس کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پریس، ریڈیو، ٹیلیویژن اور نیوز ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہوئے.حضور نے فرمایا مجھے اہل افریقہ بہت پسند آئے ہیں ان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے اور دلوں میں سادگی اور محبت ہے.میں نے اس دورہ کو نہایت خوش کن اور آرام دہ پایا ہے.اس سوال کے جواب میں کہ حضور کی تشریف آوری کا مقصد کیا ہے؟ حضور نے مسکرا کر فرمایا آپ لوگوں سے ملاقات نیز مختلف ممالک کے سربراہوں سے مشورہ کہ جماعت احمد یہ ان ممالک کے باشندوں کی کس رنگ میں بہتر خدمت کر سکتی ہے.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ ہماری جماعت نے یورپین ممالک میں بھی کافی ترقی کی ہے.صرف انگلستان میں پندرہ ہزار احمدی رہتے ہیں.ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں پہلے دوسروں سے مشورہ کرتا ہوں ،خودسوچتا ہوں پھر اللہ تعالیٰ کے حضور انشراح صدر اور راہنمائی کے لئے دعا کرتا ہوں تب کسی نتیجہ پر پہنچتا ہوں.اس کے بعد ریڈیو سیرالیون کے نمائندہ خصوصی کی درخواست پر حضور نے انٹرویو کے لئے اسے الگ موقع دیا.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت تقریباً دنیا کے ہر ملک میں قائم ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ ہماری جماعت پر سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہماری محبت ساری دنیا کی نفرت پر غالب آکر رہے گی.

Page 71

تاریخ احمدیت.جلد 26 61 سال 1970ء پر یس کا نفرنس کے اختتام پر حضور انور اپنی رہائش گاہ کے صدر دروازہ پر تشریف لے گئے جہاں خوبصورت وردیوں میں ملبوس پینتیس کے قریب نو نہلان احمدیت نے اپنے پیارے آقا کا استقبال کیا.حضور نے ان بچوں سے نہایت شفقت و پیار سے مصافحہ کیا.شام کے وقت حضور مجلس عرفان میں تشریف فرمارہے اور رات گئے تک مخلصین تک اپنے ایمان افروز اور روح پر ورارشادات سے نوازتے رہے.سیرالیون کے سر براہ مملکت اور وزیر اعظم سے ملاقات ہ مئی کو حضور نے سیرالیون کے سر براہ اور قائم مقام گورنر جنرل ہز ایکسی لینسی مسٹر بانجا تیجان سی سے ملاقات فرمائی.گورنر جنرل صاحب نے بڑے احترام کے ساتھ حضور کا خیر مقدم کیا اور حضور کی تشریف آوری کو سیرالیون کے لئے ایک نیک فال اور رحمت کا نشان قرار دیا.دورانِ گفتگو گورنر جنرل نے سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی گراں قدر خدمات کی بہت تعریف کی.انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے جاری کردہ سکولوں میں بہت عمدہ کام ہورہا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ حکومت قوم کے لئے بمنزلہ باپ ہوتی ہے اس کا فرض ہے کہ بچوں کے مفاد کا خیال رکھے.نئی نسل کا حق ہے کہ اسے اچھی تعلیم دی جائے اور اس کی ذہنی صلاحیتیں اجاگر کی جائیں.گورنر جنرل نے حضور سے پوچھا کہ اب تو آپ پر کام کا بہت بوجھ ہوگا ؟ حضور نے فرمایا کہ دیگر مصروفیات کے علاوہ صرف خطوط کی اوسط جن کو میں روزانہ پڑھتا ہوں تین سو سے ایک ہزار تک ہے.بعض دفعہ ساری ساری رات احباب کے لئے دعائیں کرتا ہوں.پہلے آٹھ گھنٹے روزانہ سوتا تھا اب صرف اڑھائی گھنٹے نیند کی اوسط ہے.اللہ تعالیٰ طاقت دے دیتا ہے.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ بحیثیت جماعت ہم کسی سیاسی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے.گورنر جنرل نے دریافت کیا کہ آپ کا اسلامک سوشلزم کے متعلق کیا خیال ہے؟ آپ نے فرمایا سماجی لحاظ سے اسلام سب انسانوں کو انسان سمجھتا اور انہیں انسان ہونے کے لئے یکساں فضیلت اور برتری کے مقام پر فائز کرتا ہے.بلا امتیاز رنگ ونسل، غربت و امارت، مذہب وملت سب کی عزتِ نفس کی حفاظت فرماتا ہے.آپ نے اقتصادی نظام اسلام کا کمیونسٹ نظام سے مقابلہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کمیونزم تو صرف ہر شخص کو اس کی ضروریات مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے.لیکن ضروریات کی

Page 72

تاریخ احمدیت.جلد 26 62 سال 1970ء تعریف نہیں کرتا.اسلام کہتا ہے کہ ہر شخص کو اس کی تمام جسمانی، ذہنی، اخلاقی ، روحانی صلاحیتوں کا پورا حق حاصل ہے.ملاقات کے اختتام پر حضور نے گورنر جنرل کو پاکستانی گھریلو صنعت کا ایک خوبصورت نمونہ بطور تحفہ عطا فرمایا جب کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے قرآن مجید انگریزی مع تفسیری نوٹس پیش کئے.13 گورنر جنرل سے ملاقات کے بعد حضور کی وزیر اعظم سیرالیون محترم سیا کا پی سٹیونس سے ملاقات ہوئی.انہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ تحریک احمدیت سیرالیون کے لئے بہت قابلِ تعریف کام کر رہی ہے.حضور نے فرمایا ہم تو بحیثیت مسلمان یہ خدمت خالصۂ خدمت خلق کے جذ بہ سے کر رہے ہیں.ہم اپنے آپ کو شکریہ کا ہر گز حقدار نہیں سمجھتے اور نہ ہی ہم کوئی دنیوی معاوضہ مانگتے ہیں.رخصت ہوتے وقت حضور نے وزیر اعظم صاحب کو بھی پاکستانی دست کاری کا ایک خوبصورت نمونہ تحفہ کے طور پر عطا فرمایا جسے انہوں نے بے حد پسند کیا.دونوں ملاقاتوں کے دوران پریس کے نمائندے موجود رہے.احباب سے ملاقات، دعوت استقبالیہ اور مجلس عرفان پونے بارہ بجے جب حضور واپس قیام گاہ پہنچے تو لبنانی احمدی السید حسن محمد ابراہیم صاحب نے ایک عربی قصیده ( مکمل قصیدہ الفضل ۹ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۱۰ پر شائع ہوا) حضور کی خدمت میں ایسے دلگداز انداز میں سنایا کہ سنے والوں پر وجد طاری ہو گیا.پھر حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی کلام خود پڑھ کر سنایا اور حضور علیہ السلام کے بعض عربی اشعار مولوی عزیز الرحمن صاحب خالد مبلغ سلسلہ سے خوش الحانی کے ساتھ پڑھوا کر سنے.شام کو پانچ بجے حضور نے ایک دعوت استقبالیہ میں شرکت فرمائی.اس موقع پر متعدد وزرائے مملکت ممبران پارلیمنٹ اور پرنسپل اور پروفیسر صاحبان بھی موجود تھے.کئی ایک غیر ملکی سفارتی نمائندے بھی دعوت میں شامل ہوئے.حضور رات کو نماز مغرب و عشاء کی ادائیگی کے بعد مجلس علم و عرفان میں رونق افروز ہوئے اور احباب کو اپنے قیمتی ارشادات سے نوازا.

Page 73

تاریخ احمدیت.جلد 26 63 سال 1970ء سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کا معاینہ اور عشائیہ میں شرکت ے مئی کو حضور نے احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کا معاینہ فرمایا اور بچوں سے محبت و شفقت سے لبریز خطاب فرمایا.حضور نے نہایت سادہ اور دلنشیں انداز میں اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ صیح معنوں میں شرف انسانی کا قیام صرف اسلام نے فرمایا ہے.اس سلسلہ میں حضور نے اسلامی مساوات کی بھی وضاحت فرمائی اور اہلِ افریقہ کو یہ نوید سنائی کہ وہ وقت آنے والا ہے جب آپ کو عزت کے ساتھ برابری کے مقام پر فائز کیا جائے گا.حضور کے خطاب سے قبل سکول کے پرنسپل محمد نذیر احمد صاحب نے استقبالیہ ایڈریس پڑھا.اس موقع پر فائنل ائیر کے چھپیں طلباء نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.شام کو حضور نے سرکاری عشائیہ میں شرکت فرمائی جس کا اہتمام قائم مقام گورنر جنرل صاحب نے حضور کے اعزاز میں کیا تھا.مسجد نذیر احمد علی کا افتتاح مئی کو حضور نے فری ٹاؤن کے مضافات میں کیسٹر نامی مقام پر ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کا نام حضور نے احمدیت کے جانباز مجاہد حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب مرحوم کے نام پر مسجد نذیر احمد علی رکھا.مسجد کے افتتاح اور دعا کے بعد حضور نے بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ کریول (Creole) اور منی زبانوں میں ساتھ ساتھ کیا گیا.حضور انور نے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ میں آپ میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نشان سمجھتا ہوں.آپ اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فرمایا: I SHALL GIVE YOU A LARGE PARTY OF ISLAM میں تجھے مسلمانوں کا بہت بڑا گر وہ عطا کروں گا.آپ نے مزید فرمایا کہ ہمارے قادر و توانا خدا نے یہ جماعت ایک خاص مقصد کے لئے قائم فرمائی ہے اور سیدنا حضرت مہدی علیہ السلام کو ایک خاص مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے.وہ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان مضبوط ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کا عرفان حاصل ہو.اس کے بعد حضور نے مساجد کے فلسفہ و حکمت پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے اس حقیقت کو واضح

Page 74

تاریخ احمدیت.جلد 26 64 سال 1970ء فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ خود ہے یہ خدائے واحد کا گھر ہے.جو شخص خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہے وہ مسلمان ہو یا نہ ہوا سے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طریق پر فریضہ عبادت ادا کر سکے.اس لحاظ سے مسجد تمام عبادت گاہوں ، گرجوں اور صومعوں کی پناہ گاہ اور محافظ بن جاتی ہے.مسلم کانگریس سیرالیون کی طرف سے استقبالیہ 75 اسی روز حضور اس دعوت استقبالیہ میں بھی شامل ہوئے جو سیرالیون مسلم کانگرس کی طرف سے وسیع پیمانے پر حضور کے اعزاز میں دی گئی تھی.اس موقع پر مسلم کانگرس کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا گیا اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا.حضور نے اس موقع پر ایک نہایت مؤثر اور قلوب کو گرمادینے والی تقریر فرمائی.تقریر کیا تھی زندہ خدا کی تائید و نصرت کی زندہ مثال تھی.فصاحت و بلاغت اور روانی کا ایک سیلاب تھی جو سامعین کے شکوک و شبہات کوخس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا.حضور انور نے دوران تقریر بڑے جلال اور نہایت بلند آواز کے ساتھ اعلان فرمایا کہ:.میں آپ سب کو پوری قوت سے یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کے غلبہ کا عظیم دن طلوع ہو چکا ہے.دنیا کی کوئی طاقت اس حقیقت کو ٹال نہیں سکتی.احمدیت فتح مند ہوکر رہے گی.انشاء اللہ آئندہ پچیس سال کے اندر اندر اسلام کا غلبہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے میں بوڑھوں اور جوانوں ، مردوں اور عورتوں سے پکار کر کہتا ہوں کہ اللہ کے دین کی خاطر قربانی کے لئے آگے آؤ.اسلام کی فتح کا دن اٹل ہے.اگر چہ بادی النظر میں یہ چیز ناممکن نظر آتی ہے لیکن اللہ نے مجھے بتایا ہے کہ اسلام کے غلبے کا دن طلوع ہو چکا ہے.اس کا فضل شامل حال رہا تو یہ بظاہر ناممکن ممکن ہو کر رہے گا.حضور کے معرکۃ الآراء خطاب کے بعد کئی احباب ایک دوسرے سے فرط جذبات سے چمٹ گئے.کوئی آنکھ نہ تھی جو نم نہ ہوئی ہو.تمام حاضرین پر سحر کا عالم طاری تھا.لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے.ایک غیر از جماعت امام صاحب نے تسلیم کیا کہ ان کے سارے شکوک رفع ہو گئے ہیں.بعض نے کہا اس تقریر کے بعد سیرالیون سارے مغربی افریقہ کے ممالک سے بازی لے گیا ہے.حضور کی اس جلالی تقریر کا ٹیلیویژن ، ریڈیو اور پریس میں بہت چرچا ہوا.76

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد 26 65 سال 1970ء بو میں مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد اور استقبالیہ تقریب و مئی کو حضور ”بو تشریف لے گئے جو سیرالیون کے جنوبی صوبہ بو کا اہم شہر ہے.راستہ میں دو مقامات پر مقامی احمدیوں نے حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا.بو کے ہزاروں مخلصین نے گرمجوشی سے حضور کا خیر مقدم کیا.شام کے وقت حضور احباب کے حلقہ کے درمیان تشریف فرما ہوئے اور رات گئے تک مجلس علم وعرفان جاری رہی.امتی کی صبح کو حضور نے بو میں مرکزی احمد یہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.سنگ بنیاد کی تقریب میں احباب جماعت کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر از جماعت مسلمان اور غیر مسلم معززین موجود تھے.حضور نے اپنے خطاب میں اَنَّ الْمَسْجِدَ لِله کی پر معارف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مسجد کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.کوئی انسان مسجد کی ملکیت کا حق نہیں رکھتا خواہ اس نے مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ کیوں نہ برداشت کیا ہو.مسجد کی یہی وہ قسم ہے جس کا حق ہے کہ اس میں عبادت کی جائے.اس کی بنیاد تقوی اللہ پر رکھی جاتی ہے.دیواریں نیکی سے چونا گچ کی جاتی ہیں اور چھت اس کی نصرت الہی سے بنائی جاتی ہے.بعد ازاں حضور احمد یہ مشن ہاؤس تشریف لے گئے اور نذیر احمد یہ پرنٹنگ پریس“ کا معاینہ فرمایا.اسی روز شام کو جماعت احمد یہ بونے حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا جس میں اڑھائی صد احباب نے شرکت کی.حضور تقریب کے دوران مدعوین کے درمیان گھل مل کر ان سے گفتگو فرماتے رہے.اس موقع پر حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حضور کا جانشین ہونے کی حیثیت سے حضور نے جو انعامی چیلنج دئے ہیں ان کے انعامات کی ادائیگی کا ذمہ دار میں ہوں لیکن کوئی مرد میدان ان انعامی دعوتوں کو قبول کرنے کی جرات نہیں پاتا.احمد یہ سیکنڈری سکول کا معاینہ اور استقبالیہ میں شرکت امئی کو ریذیڈنٹ منسٹر پرنس جے ولیمز نے حضور سے ملاقات کی اور اسی روز ہی حضور نے احمد یہ سیکنڈری سکول کا معاینہ فرمایا ، جسے بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا.احمد یہ سکول کے احاطہ میں اس

Page 76

تاریخ احمدیت.جلد 26 66 سال 1970ء علاقہ کی احمدی جماعتوں نے حضور کی زیارت کی.حضور نے اپنے دستِ مبارک سے طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے.اس موقعہ پر ایک سکول کے ۵۶ طلباء اور دو اساتذہ نے حضور کے دست مبارک پر بیعت بھی کی.پرنسپل صاحب نے حضور کی خدمت میں سکول کی رپورٹ اور استقبالیہ ایڈریس پیش کیا.پرنسپل صاحب نے حضور کی اجازت سے ہجرت کو حضور کی تشریف آوری کا دن قرار دیا.آئیندہ ہر سال اسی تاریخ ، اسی ماہ کو ”یوم ناصر“ منایا جایا کرے گا.استقبالیہ ایڈریس کے جواب میں حضور نے ایک بصیرت افروز اور پر معارف تقریر ارشاد فرمائی.جس میں حضور نے موجودہ زمانہ کی معاشرتی برائیوں اور ان میں سے بھی علی الخصوص انسان انسان کے مابین عدم مساوات ، سماجی نا انصافی اور تعلق باللہ سے عدم توجہی پر تفصیل سے روشنی ڈالی.پرتی حضور نے واضح فرمایا اسلام اور احمدیت کو چھوڑ کر دنیا کا کوئی دوسرا مذ ہب یا ازم بنی نوع انسان کو ان برائیوں سے نجات نہیں دے سکتا.ان کا علاج حقیقی اسلام کی بے مثال ولا زوال تعلیم پر عمل پیرا ہونے میں ہی مضمر ہے.احمد یہ سیکنڈری سکول کے معاینہ اور تقریب سے فارغ ہو کر حضور جماعت احمد یہ سیرالیون کی طرف سے منعقدہ استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے.تلاوت وقصیدہ کے بعد جماعت احمد یہ سیرالیون کے صدر پیراماؤنٹ چیف گمانگا صاحب نے سیرالیون کے احمدیوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.ایڈریس کے بعد حضور نے نہایت روح پرور خطاب فرمایا.حضور نے فرمایا کہ آج ہر چہرہ پر جو میرے سامنے ہے مجھے حضرت مہدی معہود علیہ السلام کی سچائی کا نور نظر آ رہا ہے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت بیان فرمائی اور فرمایا کہ دنیا آپ کو شناخت نہ کر سکی.ہر قسم کے حیلے اور حربے آپ پر آزمائے گئے لیکن یہ آسمانی آواز خاموش نہ کی جاسکی.حضور نے فرمایا کہ آج انسانیت کو تین اہم مسائل درپیش ہیں.پہلا مسئلہ انسانی مساوات کا مسئلہ ہے.دوسرا مسئلہ دولت کی منصفانہ اور دانشمندانہ تقسیم سے تعلق رکھتا ہے.تیسرا مسئلہ تعلق باللہ کا ہے.79 سیرالیون میں دیگر مصروفیات اس کے بعد حضور حضرت مولانا نذیر احمد علی صاحب کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی.آر.

Page 77

تاریخ احمدیت.جلد 26 67 سال 1970ء سیرالیون کے ابتدائی مبلغ تھے.آپ نے خدمت دین کی راہ میں یہیں جان دی اور افریقہ کی سرزمین کو اپنے وجود سے ہمیشہ کے لئے برکت بخشی.ان کا مزار بو سے باہر ایک پر فضا مقام پر ہے.۲ مئی کو حضور بو سے واپس فری ٹاؤن تشریف لے آئے اسی روز سیرالیون کے قائم مقام گورنر جنرل صاحب نے حضور کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر سر کاری ضیافت کا اہتمام کیا.جس میں خود گورنر جنرل صاحب کے علاوہ حکومت کے وزراء، اعلیٰ حکام اور متعدد ممالک کے سفارتی نمائندے نامور مسلمان لیڈر اور کلیسیائے سیرالیون کے نمائندے شامل ہوئے.۱۳ مئی کو حضور نے پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس کا نفرنس میں خاندانی منصوبہ بندی سے لے کر اسلام اور احمدیت کے درخشندہ مستقبل تک بہت سے مسائل زیر بحث آئے.حضور نے ان سب مسائل کے بارہ میں اخبار نویسوں کے متعد د سوالوں کے جواب دے کر اسلام کی بے مثال و لا زوال تعلیم کی برتری اور فوقیت کو ان پر واضح فرمایا.پر یس کا نفرنس کے بعد حضور نے احباب جماعت سے ملاقات فرمائی.شام کو آنریبل ایم ایس مصطفی ممبر پارلیمنٹ اور سابق نائب وزیر اعظم اور ڈاکٹرسنگھ پروفیسر سیرالیون یو نیورسٹی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.80 مکرم ظفر اللہ الیاس صاحب لیگوس ( نائیجیریا) سے بذریعہ ہوائی جہاز اس سب کمیٹی کی رپورٹ لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے جو حضور نے منصوبہ " Leap Forward ( یعنی آگے بڑھو) کے سلسلہ میں مقرر فرمائی تھی اور ارشاد فرمایا کہ مغربی افریقہ سے روانہ ہونے سے پہلے پہلے رپورٹ ملنی چاہیئے.ظفر اللہ الیاس صاحب یہ خوشخبری بھی لائے کہ گورنمنٹ آف نائیجیریا نے چار احمدیہ مسلم سیکنڈری سکولز کی منظوری دے دی ہے.۱۴مئی کو حضور کی سیرالیون سے ہالینڈ روانگی کا پروگرام تھا اس لئے اس روز احباب جماعت اداس نظر آتے تھے.فضائی مستقر کی طرف روانگی سے قبل حضور نے دعا فرمائی.ہوائی اڈے پر احباب جماعت اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لئے دیوانہ وار جمع تھے.حضور انور کو ایک معمر خاتون نے اپنے ہاتھ سے گھاس کی ایک ٹوکری بنا کر اپنی بچی کے ہاتھ بطور تحفے کے بھجوائی تھی.یہ ٹوکری انہوں نے اس امید پر بنائی تھی کہ خود حضور انور کی خدمت میں پیش کریں گی.لیکن ضعیفی اور بیماری کی وجہ سے خود حاضر نہ ہو سکیں.اور یہ تحفہ جو اخلاص اور محبت کی منہ بولتی تصویر

Page 78

تاریخ احمدیت.جلد 26 68 سال 1970ء تھا اپنی بیٹی کے ذریعہ بھجوایا.جسے حضور انور نے بہت خوشی اور مسرت کے ساتھ قبول فرمایا.ائیر پورٹ پر حضور انور نے یہ تاکید فرمائی تھی کہ یہ ٹوکری سامان کے ساتھ ہی جائے گی لیکن غلط فہمی سے پیغام کی شکل یہ بن گئی کہ ٹوکری ساتھ نہیں جائے گی اور مکرم مستری فضل دین صاحب کو دیدی جائے.چنانچہ ٹوکری مکرم مستری صاحب کو دے دی گئی.جب حضور انور سیرالیون سے ایمسٹر ڈیم کے لئے روانہ ہوئے تو جہاز راستے میں لاس پالماس Las Palmas کے ائیر پورٹ پر اترا.( لاس پالماس ایک صحت افزاء مقام ہے اور پین کا ایک جزیرہ ہے) حضور انور جب لاؤنج میں تشریف لے گئے تو حضور کو پتہ چلا کہ ٹوکری ساتھ نہیں لائی گئی.اس پر حضور نے بہت ناراضگی اور سخت تکلیف کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قیمتی تحفے صرف وہی ہوتے ہیں جن کی قیمت سگوں میں زیادہ ہو.میں تو اس محبت اور اخلاص کو دیکھتا ہوں جس سے ایک بوڑھی احمدی خاتون نے یہ تحفہ پیش کیا.فرمایا کہ وہ ٹوکری فوراوا پس منگوائی جائے.اس کے بعد جب بھی حضور کو یاد آجاتا حضور افسوس کا اظہار فرماتے.سیرالیون سے ہالینڈ روانگی ۱۴ مئی کو مغربی افریقہ کا یہ تاریخ ساز دورہ انتہائی کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا اور حضور اسی روز بذریعہ ہوائی جہاز ہالینڈ کے شہر ایمسٹر ڈیم روانہ ہو گئے.ہوائی اڈہ پر سیرالیون کے مبلغین ( مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری (امیر و انچارج مشنری)، مولوی عزیز الرحمن صاحب خالد، مولوی منصور احمد صاحب، مولانا مقبول احمد صاحب ذبیح) ، عہدیداران جماعت، دیگر احباب اور ملک کے اعلیٰ سرکاری حکام نے حضور کو الوداع کہا.روانگی سے قبل حضور نے ائیر پورٹ کے اندر آتے ہوئے جملہ احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور ہاتھ اٹھا کر لمبی پُر سوز دعا کی.جہاز سرزمین بلال سے ساڑھے بارہ بجے دوپہر روانہ ہوا تو حضور نے بے تابانہ جہاز کی کھڑکی میں سے تمام احباب کو السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کر الوداع کہا.یہ منظر بھی بہت دردناک تھا دل غمگین اور آنکھیں نمناک تھیں لیکن روھیں جذبات تشکر سے لبریز.ایمسٹرڈیم میں تشریف آوری حضور سوانو بجے شب ایمسٹر ڈیم پہنچ گئے.ایئر پورٹ پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (صدر عالمی عدالت ہیگ)، مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل ( انچارج مشن ہالینڈ )، چوہدری مشتاق احمد

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد 26 69 سال 1970ء صاحب باجوہ ( امام مسجد محمود زیورک) مسعود احمد صاحب جہلمی (امام مسجد نور فرینکفرٹ ) دیگر مخلصین اور فدائی احباب نیز مجمو دربانی صاحب کو نسلر کویت نے حضور کا نہایت پر خلوص استقبال کیا.۵ امئی کا خطبہ جمعہ حضور نے مسجد مبارک ہیگ میں انگریزی اور اردو میں ارشاد فرمایا جس میں دورہ مغربی افریقہ اور نصرت جہاں ریزروفنڈ کا تذکرہ کر کے نئی جماعتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور انور نے عصر کی نماز بھی جمعہ کے بعد پڑھائی اور تمام احباب سے مصافحہ بھی کیا.موحد عیسائیوں کا ایک وفد جس میں مرد اور عورتیں سبھی شامل تھے.ملاقات کے لئے حاضر ہوا.حضور انور نے بہت پیار سے ان سے مختلف سوالات پوچھے.اور فرمایا کہ Unitarians یعنی موحد عیسائیوں کا صلى الله.ایک وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو حضور نے ان کو ان کے طریق عبادت کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت دی تھی.کوپن ہیگن کی مسجد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ۱۹۶۷ء میں میں نے جب مسجد کا افتتاح کیا تو میں نے اعلان کر دیا کہ مسجد کے دروازے ہر اس شخص پر کھلے ہیں جو خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہتا ہے.اس دن سے آج تک ہزاروں غیر مسلم مسجد میں نماز ادا کر چکے ہیں جب ہم عبادت کرتے ہیں تو وہ ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں.حضور نے ایک کتاب منگوائی اور بتایا کہ پوپ کا تازہ ترین موقف یہ ہے کہ اگر مسیح علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہ بھی پائی ہو تو بھی عیسائیت پر اس کا چنداں اثر نہیں پڑتا.وفد کے نمائندے نے عرض کی کہ اسلام کے یہ عقائد تو ہمارے عقائد کے بالکل مشابہ ہیں.حضور نے فرمایا کہ موحد عیسائی اسلام کے بہت قریب ہیں.فرمایا مذہب دل کا معاملہ ہے.دل سختی سے نہیں بدلے جا سکتے.فرمایا انسان گھوڑ انہیں انسان ہے اور اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کر سکتا ہے.رخصت کے وقت حضور نے تمام مردوں سے مصافحہ فرمایا.جاتے وقت وفد کے قائد نے حضور کی شخصیت اور حضور کے نورانی چہرے کی کشش کا خاص طور پر ذکر کیا.اسی روز حضور معہ افراد قافله قصر امن (Peace Palace) عالمی عدالت انصاف کی عمارت دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے.صدر عالمی عدالت انصاف حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے قصر امن میں ہی چائے کی دعوت کا اہتمام فرمایا.اس موقع پر درج ذیل جج صاحبان اور متعلقہ افسران عدالت نے بھی حضور کی زیارت کا شرف حاصل کیا:.جسٹس لانس (Lachs) پولینڈ جسٹس اونی آما (Onyeama) نائیجیریا.جسٹس مورزوف (Morozov) روس.جسٹس ارے کا گا (Arechaga) اور دگنارے.رجسٹرار القوارون (.Dr

Page 80

تاریخ احمدیت.جلد 26 70 سال 1970ء Aquarone)، پرائیویٹ سیکرٹری مسز فال برخت (Mrs Volbrecht) عشائیہ محمود ربانی صاحب کو نسلر کویت کی طرف سے دیا گیا جس میں ارکان قافلہ کے علاوہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، عبد الحکیم صاحب اکمل (امام مسجد مبارک ہالینڈ ) اور بعض احباب نے شرکت کی.مئی کو حضور انور ہالینڈ کے مشہور پھول Tulip کے باغات کی سیر کے لئے تشریف لے گئے.۶ امئی کو ہی حضور ہالینڈ کی ایک مشہور بستی مارکن (Marken) میں تشریف لے گئے.یہ بستی اپنی قدیم روایات مخصوص لباس اور پرانی طرز کی عمارات کے باعث ساری دنیا میں مشہور ہے.اس جزیرے میں حضور پینتیس سال قبل بھی تشریف لائے تھے جب حضور آکسفورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اُن دنوں سیر کے دوران جس مشہور خاندان سے تعارف ہوا اس کے بعض افراد سے اب بھی ملے.حضور جب اس جگہ پہنچے تو ایک خاتون سے جو اپنے مکان کے سامنے بیٹھی تھی دریافت فرمایا کہ کیا آپ ہی وہ خاتون ہیں جس کو میں ۳۵ سال قبل ملا تھا.نشانی کے طور پر حضور نے بتایا کہ اس خاتون کے سات بچے تھے.اس پر اس نے بلا تامل جواب دیا کہ وہ میری بہن تھی.اس تعارف کے بعد وہ پھولی نہیں سماتی تھی.اس نے حضور کو اور حضرت سیدہ بیگم صاحبہ کو اپنے ہمراہ لے جا کر اپنا گھر دکھلایا.مغربی افریقہ کے لمبے اور مسلسل دورے کے بعد حضور کو آرام کا بالکل موقع نہیں ملا تھا آج پہلا موقع تھا کہ حضور تفریح کے لئے تشریف لے گئے.حضور اپنے قافلہ کے ساتھ جس طرف تشریف لے جاتے لوگ ہاتھ ہلا ہلا کر خیر مقدم کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے.رات کو ایک سفارتخانہ نے حضور کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا.ے امئی کو پونے پانچ بجے شام حضور ہالینڈ سے لنڈن میں ورود فرما ہوئے.فضائی مستعقر پر حضرت چوہدری صاحب، امام مسجد فضل بشیر احمد خان صاحب رفیق نیز انگلستان، امریکہ، ڈنمارک اور مغربی جرمنی کے مخلصین جماعت جو کثیر تعداد میں جمع تھے، نے حضور کا پُر تپاک استقبال کیا.لنڈن میں اہم دینی و جماعتی مصروفیات ۱۸ مئی کو حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا جس میں مختلف مسائل کے بارے میں اخبار نویسوں کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے اہل برطانیہ کو ایک بار پھر شدید انتباہ کیا کہ اگر

Page 81

تاریخ احمدیت.جلد 26 71 سال 1970ء انسان نے خدائے واحد کی طرف رجوع نہ کیا تو دنیا ایک ہولناک تباہی سے دوچار ہو جائے گی.برطانیہ کے مشہور قومی اور کثیر الاشاعت اخبار لنڈن ٹائمنر (London Times) نے 19مئی ۱۹۷۰ء صفحہ یہ کی اشاعت میں حسب ذیل رپورٹ شائع کی :.ایک بزرگ.جو اپنے پیروؤں کے بیان کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے.چالیس لاکھ مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہیں.اور جن کا خدا تعالیٰ سے براہِ راست تعلق ہے.کل لندن میں ور و دفرما ہوئے انہوں نے ایڈورڈ سکین (Edwardian)انداز اور رکھ رکھاؤ کے آئینہ دار کیفے رائل“ نامی ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس منعقد کی.بلیول(Balliol) کالج آکسفورڈ کے فارغ التحصیل حضرت حافظ میرزا ناصر احمد صاحب اسلام کے اندر قائم ہونے والی جماعت احمدیہ کے امام ہیں.یہ جماعت جسے آپ کے دادا نے آج سے اسی سال پہلے قائم کیا تھا.دوسری قوموں کے افراد کو حلقہ بگوش اسلام بنانے میں مصروف ہے.” حافظ ہونے کی حیثیت میں آپ ان قلیل التعدادلوگوں میں سے ہیں جنہوں نے قرآن کو زبانی یاد کیا ہوا ہے.آپ کا جماعت میں انتخاب کے ذریعہ منصب خلافت پر فائز ہونا طالمود کی اس پیشگوئی کے وو 66 ظہور پر دلالت کرتا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ مسیح کا تخت اس کے پوتے کو ورثے میں ملے گا“.خلیفہ اسیح کی عمر ۶۱ سال ہے آپ شادی شدہ ہیں اور پانچ بچوں کے باپ ہیں.آپ بہت شریف النفس اور خاموش طبع ہونے کے علاوہ بہت پر اثر شخصیت کے مالک ہیں.آپ سر پر سفید براق پگڑی پہنتے ہیں.اور آپ کا چہرہ سفید داڑھی سے مزین ہے.مزید برآں تفتن طبع سے بھی آپ کو وافر حصہ ملا ہے.آپ نے تمام مرد اخبار نویسوں سے تو بڑی مسرت اور گرم جوشی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا لیکن اخبار نو میں خواتین سے ہاتھ نہیں ملایا.اس موقع پر آپ نے انگریزی محاورہ کی رعایت سے فرمایا.میں اجنبیت کی بیخ بستگی کو توڑنا چاہتا ہوں.آبگینے نہیں“.کمرہ میں ہر طرف جناح کیپس (پاکستانی ٹوپیاں) نظر آ رہی تھیں.ان میں ایک وہ جناح کیپ بھی تھی جو ایک برطانوی نژاد امام نے اپنے سر پر پہنی ہوئی تھی.وہ برطانوی نژاد امام تھے مسٹر بشیر آرچرڈ.وہ جماعت احمدیہ کی طرف سے گلاسگو میں تبلیغی مشن کے انچارج ہیں.انہوں نے گزشتہ عالمی جنگ کے دوران مشرق بعید میں فوجی خدمات بجالانے کے بعد ۱۹۴۵ء میں اسلام قبول کیا تھا.

Page 82

تاریخ احمدیت.جلد 26 72 سال 1970ء برطانیہ میں جماعت احمدیہ کے افراد کی تعداد چار ہزار ہے.ملک بھر میں اس کی اکیس شاخیں ہیں اور اس کی اپنی ایک مسجد ہے.ہیگ کی عالمی عدالت کے صدر سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب بھی وہاں تشریف فرما تھے.خلیفہ مسیح نے وثوق کے ساتھ یہ کہہ کر کہ برطانیہ والوں کو اس امر کا پورا حق حاصل ہے کہ غیر ملکیوں کو برطانیہ میں آباد ہونے کی اجازت نہ دیں، افریقی اور ایشیائی اخبار نویسوں کو چونکا دیا.آپ نے فرمایا.ا نہیں تو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ ان غیر ملکیوں سے جو یہاں پہلے سے آباد ہیں واپس اپنے وطن جانے کے لئے کہیں لیکن اہلِ برطانیہ کو اس امر کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوست کی حیثیت سے واپس جائیں نہ کہ دشمن بن کر.“ آپ نے مزید فرمایا.نیز فرمایا.اگر لاکھوں یورپی باشندے پاکستان آنا شروع کر دیں اور وہاں آباد ہونا چاہیں تو میں اسے بھی نا پسند کروں گا“ اگر ہم اہل برطانیہ کے دل جیتنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر ہمیں ان کے درمیان رہنے کا کوئی حق نہیں رہتا.برخلاف اس کے اگر ہم ان کے دل جیت لیتے ہیں تو پھر وہ ہمیں نہیں نکالیں گے“.جب جنوبی افریقہ اور رہوڈیشیا کے بارے میں آپ سے اپنے نظریات بیان کرنے کے لئے کہا گیا تو آپ نے مروجہ طریق کے برخلاف اپنے سامعین میں حیرت کی ایک اور لہر دوڑا دی.آپ نے فرمایا:.” جب نام نہاد سیاہ فام لوگ ( نام نہاد اس لئے کہ میری نگاہ میں تو سیاہ رنگ بڑا خوبصورت رنگ ہے ) جنوبی افریقہ میں برسراقتدار آئیں گے تو مجھے امید ہے کہ وہ وہاں کے سفید فام باشندوں کے ساتھ مساویانہ درجہ کے پورے پورے شہریوں کی حیثیت سے بہت اچھا سلوک کریں گے.چنانچہ حضور انور کی پیشگوئی کے عین مطابق جنوبی افریقہ کا بد نام The Black

Page 83

تاریخ احمدیت.جلد 26 73 سال 1970ء 1970 Homeland Citizenship Act of ۲۷ / اپریل ۱۹۹۴ء کو منسوخ کر دیا گیا اور الیکشن کے بعد نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے جنہوں نے سفید فام باشندوں کو بھی مساویانہ حقوق دیے.) خلیفہ مسیح نے پہلے سے کہیں بڑھ کر سقراط کے سے لب و لہجے میں برطانیہ کے نو جوانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.اس ملک کے نوجوان انسانوں کی سی زندگی بسر نہیں کر رہے ہیں.میرے نزدیک ان کی زندگی بہائم کی سی زندگی ہے.ہوسکتا ہے کہ ایسا سمجھنے میں میں غلطی پر ہوں.لیکن میں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میرے ایسا سمجھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں انہیں گیا گزرا اور قابل نفرین سمجھتا ہوں.مجھے اُن سے ہمدردی ہے کیونکہ وہ اس قسم کی زندگی گزارنے کی وجہ سے سراسر خسارے میں ہیں.انہیں بحیثیت انسان خود نگری اور خود شناسی کے وصف سے متصف ہونا چاہیے.آپ نے قرآن سے استنباط کرتے ہوئے ایک پیشگوئی بھی فرمائی اور وہ یہ کہ :.آئندہ تئیس (۲۳) سال کے اندر اندر دنیا میں ایک انقلاب رونما ہو گا جس کے نتیجہ میں یہ دنیا بالکل بدل جائے گی.اس وقت یہ دنیا انسان کے لئے پہلے کی نیز فرمایا کہ پھر فرمایا کہ نسبت بہت بہتر مستقر ہوگی.“ اگر دنیا نے خدا کی طرف رجوع نہ کیا اور وہ اس کی طرف نہ لوٹی تو دنیا میں ایک عظیم تباہی آئے گی اور ہر کوئی صفحہ ہستی سے نابود ہو جائے گا.دو نسلی امتیاز اور تمام دوسرے مسائل کا ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ کہ اسلامی تعلیم اور اسلامی اصولوں کے مطابق دلوں کی تبدیلی“.آپ کی پیشگوئی ، آپ کے محبت و امن کے پیغام اور آپ کی خندہ پیشانی کا نتیجہ وہی ہوا جو فی زمانہ بالعموم ایسی صاف اور سیدھی باتوں کا ہوا کرتا ہے.اخبار نویسوں نے آپ کی ان باتوں کا کچھ اس

Page 84

تاریخ احمدیت.جلد 26 74 سال 1970ء انداز سے استقبال کیا کہ بعض کے چہروں پر تو گھٹی گھٹی رازدارانہ مسکراہٹ تھی اور بعض کے چہروں پر کھسیانی ہنسی اور بعض مروّت کے طور پر مسکرا رہے تھے.کیا عجب کہ ایک پیشگوئی کرنے والا ایک نہ ایک دن پیشگوئی کے پورا ہونے پر ان سب کو چونکا کر رکھ دے اور یہ سب ورطہ حیرت میں پڑے بغیر نہ رہیں.نصرت جہاں ریز روفنڈ کی آسمانی سکیم کا پُر شوکت اعلان ۲۲ مئی کا خطبہ جمعہ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس میں حضور نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی آسمانی سکیم کا اعلان فرمایا اور احباب جماعت کے سامنے پہلی بار یہ انکشاف فرمایا کہ گیمبیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اشارہ ہوا ہے کہ اُس کا منشا مبارک ہے کہ علاوہ دوسری سکیم کے ) جماعت احمد یہ مغربی افریقہ میں کم از کم ایک لاکھ پاؤنڈ ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے خرچ کرنے کا انتظام کرے اور میں اپنے بھائیوں سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ انگلستان کے احمدیوں میں سے دوسو احمدی ایسے آگے بڑھیں جو فی کس دو سو پونڈ اس مد میں دیں.نیز فرمایا کہ مجھے پاکستان کے کم از کم دوسو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ ہزار روپے فی کس دیں جس میں سے ہر وعدہ کنندہ دو ہزار روپے فوری طور پر ادا کر دے.نیز فرمایا کہ اس سے کم دینے والے علی الترتیب صف دوم، صف سوم میں شمار ہوں گے.پھر فرمایا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ مال کیسے آئے گا مال تو انشاء اللہ ضرور آئے گا کیونکہ خدا کہتا ہے خرچ کرو.دورانِ خطبہ حضور نے انگلستان میں مقیم احمدی ڈاکٹروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.”دیکھو مجھے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے تم اخلاص سے اور محبت سے اور ہمدردی سے میری آواز پر لبیک کہو.ڈاکٹر تو ویسے انشاء اللہ مجھے ضرور ملنے ہیں لیکن تم رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کرو اگر خود نہیں کرو گے تو میں تمہیں حکم دوں گا اور میرا حکم تمہیں بہر حال ماننا پڑے گا کیونکہ حکم عدولی تو وہی کرے گا جو احمدیت کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوگا اور جو احمدیت سے نکل جائے اس کی نہ مجھے ضرورت ہے نہ میرے اللہ کو.حضور کے اس جلالی خطبہ کا ایسا حیرت انگیز اثر ہوا کہ ایثار پیشہ احمدی ڈاکٹروں نے نہایت خوشی اور

Page 85

تاریخ احمدیت.جلد 26 75 سال 1970ء بشاشت سے اپنی رضا کارانہ خدمات اپنے آقا کے حضور پیش کر دیں اور دو گھنٹوں کے اندر اندر مخلصین جماعت نے ۲۷-۲۸ ہزار پونڈ کے وعدے کئے اور تین چار ہزار پونڈ کے قریب نقد رقم اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دی.حضور کے حکم سے فورا لندن میں نصرت جہاں ریزرو فنڈ“ کے نام سے نیا اکاؤنٹ کھول دیا گیا اور اس میں یہ ابتدائی رقم جمع کرا دی گئی.اس طرح آسمانی سکیم کا سرزمین انگلستان سے پوری قوت و شوکت کے ساتھ آغاز ہوا.محمود ہال لنڈن کا افتتاح ۲۳ مئی کو حضور نے لنڈن مشن کے احاطہ میں نو تعمیر شدہ محمود ہال کا افتتاح فرمایا.یہ عالیشان عمارت ہال اور دفاتر کے علاوہ مبشرین کے تین رہائشی فلیٹس پر مشتمل تھی.اس عمارت کا سنگ بنیاد حضور نے گزشتہ سفر یورپ کے دوران ۳۰ جولائی ۱۹۶۷ء کو اپنے دست مبارک سے نصب فرمایا تھا اور اس کے جملہ اخراجات حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے برداشت کئے تھے جیسا کہ جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق سابق امام مسجد فضل لندن نے اپنی کتاب ” چند خوشگوار یادیں“ میں بالتفصیل ذکر کیا ہے.اخبار الفضل (۲۶ مئی ۱۹۷۰ صفحہ۱) کی رپورٹ میں بھی لکھا ہے اس کی تعمیر محترم جناب چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے قائم کردہ ساؤتھ فیلڈ ٹرسٹ کے ذریعہ عمل میں آئی ہے.نیز تاریخ احمدیت جلد ۲۴ صفحہ ۱۴۸ تا ۱۵۰ میں اس کا ذکر موجود ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا دورہ سپین کسی بھی خلیفہ امسیح کے پہلے دورہ سپین کی تفصیل بیان کرنے سے قبل سپین کی ایک مختصر تاریخ بیان کرنا ضروری ہے.چھٹی ساتویں صدی عیسوی میں بادشاہانِ یورپ کی اخلاقی حالت درندوں سے بدتر تھی.ظلم، نا انصافی ، بدمعاشی عروج پر تھی.ایک عرصہ کے بعد جب مسلمانوں کی توجہ پین کی طرف پھری تو اس وقت بھی سپین پر لذریق نامی ایک ظالم شخص حکمران تھا.لوگ اس کے مظالم اور بد اخلاقیوں سے بہت تنگ آچکے تھے اور اندر ہی اندر اس کے خلاف لا وا پک رہا تھا.سبطہ کے گورنر کا ؤنٹ جولین جو ایک با اثر جرنیل تھا.اس نے لذریق کے مظالم سے تنگ آکر موسیٰ بن نصیر حاکم مراکش کو تمام حالات لکھ ڈالے اور مدد کی درخواست کی.موسیٰ بن نصیر نے کاؤنٹ جولین کے بیان کردہ حالات کی اپنے ایک خصوصی وفد کے ذریعہ تصدیق کرا لینے کے بعد اپنے آزاد

Page 86

تاریخ احمدیت.جلد 26 76 سال 1970ء کردہ غلام طارق ابن زیاد کو سپین پر حملہ کرنے کا حکم دے دیا.طارق ۷۱۱ یعنی ۹۲ ہجری کے جولائی میں ساحل سپین پر اترا اور ایک خونریز جنگ کے بعد دشمن کو شکست فاش دینے میں کامیاب ہوا.بادشاہ لذریق ایسا لا پتہ ہوا کہ آج تک پتہ نہ چل سکا کہ اس کو زمین کھا گئی یا سمندر میں غرق ہوا.ی تھی ابتداء ہسپانیہ میں اسلام کے داخل ہونے کی.مسلمانوں نے نہ صرف ہسپانیہ کو بلکہ پورے یورپ کو قر آنی علوم کے انوار سے منور کر دیا تھا.وہ سرزمین جو چٹیل اور ریتلے میدانوں کا ایک وسیع خطہ تھی اور جہاں زیتون کے سوا کوئی پھل دار درخت نہ تھا.جہاں جہالت پس ماندگی اور درندگی کا دور دورہ تھا اور جہاں کے عوام کو اپنے حقوق کا علم و احساس تک نہ تھا.وہ سرزمین مسلمانوں نے چند صدیوں کے اندر اندر علوم وفنون ، سائنس و ٹیکنالوجی اور شعر و ادب کے خزانوں سے بھر دی.سپین کی زرخیزی اسلامی دور حکومت میں تمام یورپ سے بڑھ کر تھی جو نتیجہ تھی مسلمان انجینئر ز کے جاری کردہ اعلی نظام آبپاشی کا.غلہ کی افراط اور اقتصادی استحکام کی وجہ سے سارا یورپ ان کا محتاج تھا.سپین میں مسلمانوں کا زوال لیکن مسلمانوں نے قرآن کو پس پشت ڈال دیا.علمائے سوء نے اسلام کے خوبصورت چہرے کو رسوم و رواج اور شرک و بدعت کے بدنما داغوں سے مسخ کر دیا.اسلام کا سورج ہسپانیہ پر آہستہ آہستہ غروب ہونے لگا.آپس کی خانہ جنگیوں ، شاہی محلات میں عیاشی کے دور دورہ ، علماء کے لالچ اور دین سے بے زاری نے آٹھ سو سالہ مستحکم حکومت کی صف چند ماہ میں لپیٹ کر رکھ دی اور مسلمان اس سرزمین سے بے یارو مددگار رخصت ہو گئے اس کے بعد وہاں عیسائیت نے بربریت اور درندگی کا وہ مظاہرہ کیا کہ تاریخ عالم کے جابر ترین حکمرانوں کے واقعات اس کے سامنے ماند پڑ گئے.سپین کی خوبصورت اور عالی شان مساجد کو یا تو مسمار کر دیا گیا یا ان کو کلیسیاؤں میں تبدیل کر دیا گیا.وہ باغات اور انہار جو مسلمانوں نے سالہا سال کی محنت شاقہ سے بنائی تھیں عیسائیوں کی بربریت نے ان کا بھی نام ونشان تک مٹا دیا ایک ایک دن میں کئی کئی لاکھ مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا.ننھے منے مسلمان بچوں کو نیزوں پر چڑھا کر دشمن اپنی بہیمیت پر اتر ایا اور اس کی نمائش کی گئی اور اس طرح مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا.

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد 26 77 سال 1970 ء وہ سنہرا اور عظیم الشان دور بلاشبہ ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش پیدا کرتا ہے کہ جب بھی موقع لے دو ہسپانیہ میں مسلمانوں کی سطوت وعظمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا ورود مسعود مئی ۱۹۷۰ء میں سرزمین ہسپانیہ کی قسمت ایک بار پھر جاگ اٹھی اور پہلے سے کہیں بڑھ کر شان سے جا گی جب سرزمین ہسپانیہ کو خدا تعالیٰ کے قائم کردہ خلیفہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے برکت بخشی اور کئی صدیوں کے بعد سپین کی روحانی طور پر بے آب و گیاہ سرزمین نے ایک بار پھر بہار کی آمد آمد کا مشاہدہ کیا.۲۵ مئی ۱۹۷۰ء کو حضور پر نور بمع خدام لندن ائر پورٹ سے سپین کے لئے روانہ ہوئے اس تاریخی سفر میں حضور کی معیت میں حضرت بیگم صاحبہ کے علاوہ مندرجہ ذیل افراد تھے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، چوہدری محمد علی صاحب، محمد سلیم صاحب ناصر اور بشیر احمد رفیق صاحب.اس سفر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے مکرم بشیر احمد رفیق صاحب نے تحریر کیا کہ ہوائی جہاز میں یہ سفر قریب دو گھنٹے میں طے ہوا.جوں جوں میڈرڈ قریب آتا گیا.حضور کی طبیعت میں ایک اضطراب کی سی کیفیت نظر آنے لگی میڈرڈ کا ہوائی اڈہ نظروں کے سامنے آیا تو حضور نے پیچھے مڑکر فرمایا.و مجھے تو طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز میں سنائی دے رہی ہیں.کیا تم کو بھی سنائی دے رہی ہیں.“ حضور نے یہ فقرہ دو تین مرتبہ بیقراری اور درد سے دہرایا.اتنے میں اعلان ہوا کہ جہاز میڈرڈ کے ہوائی اڈہ پر اترنے کو ہے روحانی آنکھوں نے سینکڑوں فرشتوں کو میرے پیارے آقا کے استقبال کے لئے صف بستہ دیکھا اور یوں محسوس ہونے لگا گویا عالم روحانیت میں اس مبارک دن کی خوشی میں فتح وشادمانی کا جشن منایا جا رہا ہے.حضور جہاز سے اترے تو مکرم مولوی کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین بمع اہل و عیال استقبال کے لئے موجود تھے.جلد ہی حضور اپنے ہوٹل کے لئے روانہ ہو گئے.میڈرڈ میں قیام دو روز کے لئے تھا.اس دوران اسلامی تہذیب کے گہوارہ صوبہ اندلس میں جانے کے لئے کاروں کا انتظام کیا گیا اور حضور

Page 88

تاریخ احمدیت.جلد 26 78 سال 1970ء ۲۷ مئی کو قرطبہ کے لئے روانہ ہوئے.قرطبہ میں آمد قرطبہ اسلامی دور حکومت میں سپین کے شہروں میں گویا لعل کی حیثیت رکھتا تھا اور صحیح معنوں میں عروس البلاؤ کہلانے کا مستحق تھا.اس کے ارد گرد مضبوط فصیل تھی.سارا شہر پختہ اور فراخ شاہراہوں پر مشتمل تھا.اس کے شہری زیور علم سے آراستہ تھے.قرطبہ کی اسلامی یو نیورسٹی میں ہزاروں طلباء زیر تعلیم تھے.تمام یورپ اور ایشیاء کے طالب علم قرطبہ کے کسی جامعہ میں داخلہ اپنے لئے بہت بڑا اعزاز سمجھتے تھے.علماء کی کثرت تھی.ابن رشد جیسے عظیم انسان قرطبہ ہی میں رہتے تھے.اسلامی فن تعمیر سے مزین شاہی محلات کی خوبصورتی نے شہر کی رونق کو دوبالا کر دیا تھا.شہر کی لمبائی امیل کے قریب تھی مسلمان خلفاء نے دنیا بھر سے نادر و نایاب درخت اور بیل بوٹے منگوا کر قرطبہ کی زینت کو چار چاند لگائے.باغات کو پانی مہیا کرنے کے لئے قرطبہ کے اردگرد سے ) سلسلہ کوہ کو بڑی محنت سے کاٹ کر کر نہریں نکالی گئی تھیں جو شفاف پانی مہیا کرتی تھیں اور اسی پانی کی بدولت قرطبہ ایک گلستان کی صورت اختیار کر گیا تھا.قرطبہ خوبصورت مساجد کا گھر بھی تھا.ان میں سے سب سے عظیم اور ظاہری حسن سے مالا مال قرطبہ کی جامع مسجد تھی.اس مسجد کی تعمیر کا کام ۷۸۴ عیسوی میں امیر عبدالرحمن نے شروع کیا.اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے ہشام نے ۷۹۳ عیسوی میں اس کام کو مکمل کیا.یہ مسجد اسلامی فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے ان دونوں کے بعد ہر مسلمان بادشاہ نے مسجد کی خوبصورتی اور وسعت میں اضافہ کی کوشش کی کسی نے سارے کا سارا فرش سنگ مرمر کا لگوایا تو کسی نے اس کے ستونوں پر سونے کا پانی چڑھوا دیا.کسی نے نئے اونچے مینار کا اضافہ کیا تو کسی نے وضو کے لئے کشادہ نسل خانوں کا اہتمام کیا.اس مسجد کی وسعت کا اندازہ اس ایک بات ہی سے لگا لیجئے کہ یہ ۱۲۹۳ ستونوں پر قائم ہے اسے روشن کرنے کے لئے ۴۰۰ فانوس جلائے جاتے.محراب اور منبر ہاتھی دانت اور بہترین لکڑی کے ٹکڑوں سے بنائے گئے تھے اور اس کی تکمیل پر ۳۶۰۰۰ ہاتھی دانت اور قیمتی لکڑی کے ٹکڑے استعمال ہوئے تھے.میڈرڈ سے قرطبہ حضور مع خدام مورخہ ۲۷ مئی کو صبح سویرے میڈرڈ سے قرطبہ کے لئے روانہ ہوئے.محترم بشیر

Page 89

تاریخ احمدیت.جلد 26 79 سال 1970ء احمد رفیق صاحب تحریر کرتے ہیں کہ یہ سارا راستہ خشک اور چٹیل میدانوں پر مشتمل تھا.کہیں کہیں زیتون اور انگور کے باغات نظر آتے ہیں.راستہ میں دیہات اور مکانات کی تعمیر کی طرز اور برلب سڑک واقع ہوٹلوں کو دیکھ کر یہی اندازہ ہوتا تھا کہ غربت بہت زیادہ ہے.گرمی بھی خاصی تھی.راستہ میں دو تین جگہ ٹھہر تے ہوئے شام کے وقت قرطبہ میں داخل ہوئے.آج کا قرطبہ اسلامی دور کے قرطبہ کا ہزارواں حصہ بھی نہیں.کہاں وہ حال کہ سارے یورپ میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا اور کہاں آج کا شکستہ عمارتوں سے اٹا ہوا شہر.حضور کا قیام ہوٹل میلیا (Melia) میں تھا.شام کو حضور ہوٹل سے باہر سیر کو نکلے تو تمام شہر رنگارنگ کے برقی قمقموں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ کوئی عیسائی تہوار منایا جا رہا ہے.میرے دل نے بے ساختہ کہا.نہیں عالم روحانیت میں آج شہزادہ امن حضرت ناصر دین کی آمد کی خوشی میں چراغاں کا اہتمام کیا گیا ہے.حضور ہوٹل کے باہر سڑک کے کنارے چہل قدمی فرما رہے تھے اور آگے جاتے لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ یہ کون بزرگ ہیں جن کے چہرے پر نور پھر یریاں لے رہا ہے.ایک شخص نے ہوٹل کے دروازہ پر مجھ سے پوچھا کہ یہ کہاں کے ”سلطان“ ہیں.میری روح کی گہرائیوں سے جواب ابھر امملکت روحانیت کے.شام ہی کو حضور قرطبہ کی جامع مسجد دیکھنے تشریف لے گئے.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کسی عیسائی تقریب کی وجہ سے پادریوں کا جلوس نکالا جارہا ہے.یہ جلوس مسجد ہی میں ترتیب دیا گیا تھا.حضور کے پہنچنے تک جلوس کا بیشتر حصہ مسجد سے نکل چکا تھا.بس اس کی دم باقی تھی اس حسن اتفاق پر میرا دل مچل مچل اٹھا کہ ایک طرف حضرت ناصر دیں مسجد میں داخل ہورہے تھے اور دوسری طرف عیسائیت کا قافلہ وہاں سے نکل رہا تھا ذ ہنوں نے اس نظارے کو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور عیسائیت کے آثار کے مٹ جانے سے تشبیہہ دی اور پھر جس طرح آنکھوں نے عیسائی جلوس کو مسجد سے باہر نکلتے دیکھا تھا اسی طرح آنکھوں نے انہیں تصور روحانی میں مسجد کو خالی کرتے دیکھا اور دل نے گواہی دی کہ اب عنقریب پھر اس مسجد کی قسمت جاگ اٹھنے والی ہے.اب پھر وہ زمانہ آنے والا ہے کہ یہ مسجد نمازیوں اور اذانوں سے آباد ہو جائے گی.اور لوگ بڑے فخر سے کہا کریں گے کہ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ راشد ہزاروں میل کی مسافت طے کر کے یہاں آئے تھے.حضرت عمر جب یروشلم تشریف لے گئے تھے تو جہاں آج مسجد اقصی کی خوبصورت عمارت کھڑی

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد 26 80 سال 1970ء ہے وہاں کچھ نہ تھا.یہ جگہ کوڑا کرکٹ اور غلاظت سے بھری ہوئی تھی لیکن عمر خطاب کے مبارک قدم پڑنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کو اتنی عزت دی کہ مسجد اقصیٰ کی مقدس مسجد عین اس جگہ تعمیر ہوئی یقیناً آج کا واقعہ بھی کوئی معمولی واقعہ نہ تھا.حضور مسجد کے اندر تشریف لے گئے.ایک پروفیسر صاحب (جو قرطبہ کے ایک کالج میں پڑھاتے ہیں ) حضور کے منور چہرہ سے اتنے متاثر ہوئے کہ بڑے ادب سے آکر مصافحہ کرنے کے بعد حضور کو از خود مسجد دکھانے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں.حضور اس (پروفیسر ) کی معیت میں مسجد کے اندر تشریف لے گئے محراب پر آج بھی (با وجود مرور زمانہ کے ) قرآنی آیات آب زر میں منقش ہیں.آیت الکرسی تو آسانی سے پڑھی جاسکتی ہے.محراب کے ارد گر دلو ہے کا جنگلہ لگایا گیا ہے اور کسی کو محراب کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے لیکن مسجد کی حفاظت پر مامور ایک شخص نے بغیر کسی درخواست کے خود ہی حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور جنگلہ کے اندر محراب میں تشریف لے چلیں اور آہنی جنگلہ کا دروازہ کھول دیا.قافلہ کے تمام افراد حضور کی معیت میں محراب کے اندر داخل ہوئے تو سب پر رقت طاری تھی.حضور نے محراب میں کھڑے ہو کر دعا فرمائی.اس تاریخی موقع کی تصاویر بھی لی گئیں.مسجد کے ایک حصہ کو چرچ میں تبدیل کیا گیا ہے.لیکن ایسے بھدے طریق سے جیسے کسی حسین چہرے پر کوئی بد نما خال ہو.ایک عجیب روحانی نکتہ حضور نے بیان کیا.فرمایا: د آخر کیا وجہ تھی کہ عیسائیوں نے پوری مسجد کو کلیساء میں تبدیل نہیں کیا اگر وہ چاہتے تو ایسا کرنے میں ان کے لئے کوئی روک نہیں تھی.“ حضور نے فرمایا اس کی وجہ در حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ عیسائیوں کو اس بات کا خدشہ تھا.اگر اتنی بڑی مسجد کو چرچ میں تبدیل کر دیا گیا تو اس میں عبادت کے لئے اتنے لوگ کہاں سے آئیں گے.یہ گویا خود چرچ کا اپنے ماننے والوں پر عدم اعتماد کا اظہار تھا.آخر مسلمانوں نے اس مسجد کو اس لئے وسیع کیا تھا کہ انہیں یہ احساس تھا کہ یہ مسجد نمازیوں سے بھر جایا کرے گی، مسجد میں بیک وقت ۳۰،۰۰۰ نمازیوں کی جگہ ہے.یہ مسجد تمام کی تمام مستقف ہے اور غالباً دنیا بھر میں سب سے بڑی مسقف مسجد یہی ہے.

Page 91

تاریخ احمدیت.جلد 26 غرناطہ کو روانگی 81 سال 1970ء اگلے دن صبح غرناطہ کے لئے روانگی تھی چنانچہ حضور نے فیصلہ فرمایا کہ ہوٹل سے تیار ہو کر نکلا جائے اور راستہ میں مسجد اور ”القصر “ نامی عمارت کو دوبارہ دیکھا جائے.القصر مسلمان گورنر قرطبہ کا محل ہوا کرتا تھا.اس کے اندر خوبصورت فوارے، باغات اور سایہ دار درخت اور روشیں وغیرہ بالکل وہی ہیں جو مسلمانوں نے لگائی تھیں.پھول اور درخت تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن طرز وہی ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ پھول بھی وہی لگائے جائیں جو مسلمانوں نے آب و ہوا اور خاصیت زمین کا تجزیہ کر کے شروع میں لگائے تھے.بعد دو پہر غرناطہ کے لئے روانہ ہوئے سڑک اچھی ہے لیکن سایہ دار درختوں کی کمی کی وجہ سے دو پہر کو تمازت آفتاب نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.غرناطہ نسبتاً پہاڑیوں کے دامن میں ہے.غرناطہ کا سفر اس لحاظ سے خوشگوار رہا کہ سارا راستہ زرخیز پہاڑیوں پر مشتمل ہے.زیتون کے باغات کی کثرت ہے.انگور کے باغ بھی جگہ جگہ نظر آتے ہیں.سڑک نشیب و فراز اور پہاڑی پیچ وخم کی وجہ سے بعض جگہ خطرناک ہو جاتی ہیں.اس حصہ میں ایک نمایاں چیز یہ نظر آتی ہے کہ جگہ جگہ گاؤں کے ناموں کے بورڈ نظر آتے ہیں.ہر گاؤں Al سے شروع ہوتا ہے مثلاً Al Kaza, Al Kala وغیرہ.یہ لفظ Al عربی ال ہی ہے.دوسرا نمایاں فرق یہ نظر آیا کہ سپین کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کے مقابلہ میں یہ لوگ دراز قد صحت مند اور ان کے بال اور آنکھیں کالی ہیں.یہ بھی درحقیقت عرب خون کی آمیزش کی وجہ سے ہے.شام کو غرناطہ پہنچے.حضور کا قیام یہاں قصر الحمراء کے ایک حصہ یعنی غرناطہ پیلس ہوٹل میں تھا.یہ ہوٹل اونچی پہاڑی پر واقع ہونے کی وجہ سے غرناطہ کا نہایت دلکش منظر پیش کرتا ہے.یہ شہر اسلامی تہذیب و تمدن کا ایک نادر خوبصورت نمونہ ہوا کرتا تھا.علماء اور شعراء کی کثرت نے تمام شہر کو ایک ادبی مرغزار بنا دیا تھا.خوبصورت عمارات مساجد اور حمام ہزاروں کی تعداد میں تھے.آخری مسلمان تاجدار ابوعبداللہ کو غرناطہ سے ہی دیس نکالا ملا تھا.غرناطہ کا دل الحمراء کا محل ہے.اس محل کی ایک خصوصیت بہ ہے کہ اس میں جگہ جگہ لاَ غَالِبَ إِلَّا اللہ خوبصورت طرز تعمیر میں کندہ کیا گیا ہے.جہاں بھی نظر پڑتی ب لا غَالِبَ إِلَّا الله ہی نظر آتا ہے.کہا جاتا ہے کہ جب الحمراء کی تکمیل ہوگئی تو امیر عبدالرحمن اس کو دیکھنے چلے.جب وہ دروازہ پر پہنچے تو چند منٹ کے سکوت کے بعد یک دم واپس مڑ کر اپنے محل کو چلے

Page 92

تاریخ احمدیت.جلد 26 82 سال 1970ء گئے.درباریوں میں سے بعض بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور الحمراء میں داخل نہ ہونے کی وجہ دریافت کی.بادشاہ نے فرمایا کہ جب میں محل کے دروازہ پر پہنچا اور میں نے وسعت ، خوبصورتی ، اعلیٰ طرز تعمیر اور دلکش باغات کی ایک جھلک دروازہ میں سے دیکھی تو میرے دل میں ایک لحظہ کے لئے اپنی بڑائی اور عظمت کا خیال پیدا ہو گیا.اس خیال کے ساتھ ہی دوسرا خیال یہ آیا کہ اے عبدالرحمن اپنی بڑائی کا یہ اظہار تو شرک ہے.اس پر میرا دل دہل گیا اور میں محل کو دیکھے بغیر واپس چلا آیا.اب میں صرف اس صورت میں ہی محل میں جاؤں گا کہ اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کے غالب ہونے کا اظہار ہو.تا کہ غرور و تکبر میرے ذہن میں داخل نہ ہو سکے اور جب بھی میرے دل میں غرور و تکبر کے خیالات پیدا ہوں میری نظر اللہ تعالیٰ کے غلبہ پر مشتمل الفاظ پر پڑ جایا کرے تاکہ میں تو بہ واستغفار کرسکوں.چنانچہ تمام محل میں جگہ جگہ لا غَالِبَ إِلَّا اللہ کا کلمہ خوبصورتی سے کندہ کرا دیا گیا.تب جا کر بادشاہ اس میں رہائش پذیر ہوا.الحمراء کی خوبصورتی اور فن تعمیر پر اتنا کچھ لکھا جا چکا کہ دنیا میں شاید ہی کسی عمارت کے متعلق اتنا لکھا گیا ہو.محل کا ہر حصہ قابل دید ہے لیکن Court of the Lions تو مسلمانوں کے ذوق حسن کا نادر نمونہ ہے.الحمراء کی سیر اگلے دن صبح حضور الحمراء کی سیر کو تشریف لے گئے محل کی دیواروں پر منقش آیات قرآنی اور دیگر عربی کلمات کو مکرم چوہدری محمد علی صاحب نے بڑی محنت کے ساتھ نوٹ کیا.حضور نے محل کی متعدد تصاویر بھی اتاریں.غرناطہ میں حضور کا قیام دو دن کے لئے تھا.ایک صبح حضور نے فرمایا کہ رات کو بڑی رقت کے ساتھ سپین میں اسلام کے دوبارہ عروج کے لئے دعائیں کرنے کا موقع ملا.تو صبح کے وقت مندرجہ ذیل کلمات الہام ہوئے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ترجمہ: اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے.یقینا اللہ اپنے فیصلہ کو مکمل کر کے رہتا ہے.اللہ نے ہر چیز کا ایک منصوبہ بنا رکھا ہے.

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد 26 83 سال 1970ء اس سے اس بات کی طرف اشارہ ہوا کہ سپین میں اسلام کی عظمت کے قیام کا ایک خاص وقت مقرر ہے اور یہ انشاء اللہ اب احمدیت کے ذریعہ قائم ہوگی.طلیطلہ ومیڈرڈ کے لئے روانگی غرناطہ میں دو دن کے قیام کے بعد حضور براستہ طلیطلہ میڈرڈ کے لئے روانہ ہوئے.طلیطلہ طارق کے حملہ کے وقت سپین کا صدر مقام تھا.طارق کی فتح کے بعد بھی ایک عرصہ تک یہی دارالحکومت رہا.بعد میں مسلمانوں نے قرطبہ اور پھر غرناطہ کو دارالحکومت بنایا.طلیطلہ ایک بے آب و گیاہ چٹیل پہاڑی پر واقع ہے.شہر کے اردگر دنشیب میں ایک دریا بہتا ہے.یہ دریا شہر کی حفاظت کے لئے قدرتی خندق کا کام بھی دیتا ہے.طلیطلہ میں آج بھی باوجود مرور زمانہ کے چار مساجد باقی ہیں.اس میں سے ایک چھوٹی سی مسجد کو یہ فخر حاصل ہے ( اور تاریخی لحاظ سے اس کی اہمیت ظاہر و باہر ہے ) کہ یہاں طارق ابن زیاد نے پہلی نماز پڑھی تھی.اور پھر خدائی تقدیر کے مطابق حضرت ناصر دین خلیفہ امسیح الثالث نے بھی اس میں دعا فرمائی.مسجد کے باہر شہر کی فصیل ہے جہاں مسجد کے بالکل قریب ایک بہت بڑا دروازہ ہے حضور اس دروازہ سے باہر تشریف لائے.باہر نکلے تو یو نیورسٹی کے ایک پروفیسر ملے.انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دروازہ ہے جو اسلامی دور حکومت میں خلیفہ کے شہر سے باہر نکلنے کے لئے مخصوص تھا اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت نے حضور کو بھی اس دروازہ سے گزار کر گویا سپین میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی بنیا درکھ دی ہے.طلیطلہ چھوٹا سا شہر ہے لیکن سیاح یہاں کثرت سے مساجد کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں.یہ مساجد اب حکومت نے نیشنل ٹرسٹ کی تحویل میں دے رکھی ہیں.جو ان کی صفائی اور نگہداشت کا انتظام کرتا ہے.طلیطلہ سے شام کو حضور میڈرڈ پہنچ گئے.جہاں سے اگلے دن یعنی یکم جون ۱۹۷۰ء کو حضور لندن کے لئے روانہ ہوئے اور یہ تاریخی سفر اختتام پذیر ہوا.ایک اخباری نمائندہ کو انٹرویو پین میں پو بلو (Pueblo) اخبار کے ایک نمائندے نے حضرت خلیفہ المسح الثالث سے انٹرویو کر کے اپنے اخبار میں جو کچھ شائع کیا اس کا ایک حصہ قارئین کی دلچسپی کے لئے درج ذیل ہے.

Page 94

تاریخ احمدیت.جلد 26 84 سال 1970ء اپنے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ”میں اس حقیقت کا دلی طور پر اظہار کرتا ہوں کہ حضور اقدس کا وجود حقانیت کا زندہ ثبوت ہے.اسکے بعد حضور کے بیان کو اس نے اپنے الفاظ میں یوں تحریر کیا ہے ” ہم سب برابر ہیں.جماعت احمدیہ اور باقی مسلمانوں میں بنیادی عقائد کا کوئی فرق نہیں.ان کے لئے قرآن کریم کامل کتاب اور اللہ تعالیٰ کا کلام پاک ہے جس سے عقائد صحیحہ.اعلیٰ کامل اصول اور احکامات کا روحانی چشمہ بہتا ہے جس کی تعلیم سب مسلمانوں پر فرض ہے.اسلام کی تعلیم غیر متبدل ہے خدا تعالیٰ کو واحد مانتے ہیں ہم عیسائیوں کے تثلیث کے عقیدہ کو نہیں مانتے.اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بندے کے درمیان براہ راست تعلق قائم کرتا ہے.اسلام میں خدا تعالیٰ کو اللہ کہتے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ کے خیالات اور افکار میں انسانیت کے لئے گہری ہمدردی اور محبت کے جذبہ کا نمایاں اثر پایا جاتا ہے.بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی اور سچی محبت.اس امر میں اسلام اور عیسائیت کا پیغام محبت کا پیغام ہے.فرمایا ہم نے اپنے مبلغوں کے ذریعہ اس محبت کا پیغام اہل افریقہ کو پہنچایا ہے.ہم نے کئی لاکھ دلوں کو فتح کر لیا ہے.لنڈن میں ایک مجلس عرفان 88 حضرت خلیفہ المسح الثالث نے دورہ سپین سے واپسی پرلندن میں مجلس علم وعرفان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں خدا تعالیٰ کے حضور بہت دعائیں کر رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں بہت سے طارق اور خالد پیدا فرمائے.جب ہم اسلام کے ابتدائی جرنیلوں کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں علم ہوتا ہے کہ نہ صرف جنگی اعتبار سے وہ نہایت قابل اور نمایاں صفات کے حامل تھے بلکہ دین میں بھی انہیں خاص مقام حاصل تھا.بڑی بڑی جنگوں کے مواقع پر ان جرنیلوں نے جو تقاریر کی ہیں.ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں خاص معرفت حاصل تھی اور دین پر عبور حاصل تھا ان لوگوں کا خدا سے زندہ تعلق تھا.ان کی تقاریر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نو جوانی کی عمر میں ایسے علم اور ایسی روحانیت سے لبریز تھے کہ آج ہماری جماعت کے بڑے بڑے عالم ہی ان کی مثال پیدا کر سکیں گے.

Page 95

تاریخ احمدیت.جلد 26 85 سال 1970ء جب فرقان فورس کشمیر میں مصروف جہاد تھی ہم نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے سینکڑوں نظارے دیکھے.اپنے تو اپنے غیر بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے.ایک دفعہ گدھوں اور خچروں پر خوراک اور دیگر چیزیں لا دکر فرقان فورس کے مورچوں کی طرف لے جائی جارہی تھیں.فریق مخالف کی نظر ان پر پڑ گئی.دیکھتے ہی دیکھتے ہوائی جہاز بمباری کے لئے سروں پر آ پہنچے.سپاہی گدھوں کو چھوڑ کر پناہ گاہوں میں پہنچ گئے اور دشمن نے شست باندھ باندھ کر گدھوں پر شدید بمباری کی.ایک ایک کا خیال تھا کہ ان گدھوں کی لاشیں بھی نظر نہ آئیں گی.لیکن جب گرد اور دھواں چھٹا تو دیکھا تمام گدھے اور سارا سامان محفوظ تھا.جب غیروں کو اس بات کا علم ہوا تو یہ بات مشہور ہوگئی کہ احمدیوں کے گدھے بھی کرامات دکھاتے ہیں“.قرآن مجید کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کھلی کھلی کتاب ہے.دوسری جگہ فرمایا یہ خفی در مخفی بھیدوں والی کتاب ہے.ہر زمانہ کی ضروریات کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے لیکن ان علوم کی اطلاع محض پاکباز اور متقی انسانوں کو ہوتی ہے.لَّا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے یہ معنی ہیں کہ اس اعتبار سے قرآن مجید مخفی کتاب ہے اس زمانہ سے متعلق مخفی بھیدوں کا علم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.قرآن مجید میں بہت سی بنیادی صداقتیں موجود ہیں جن کا علم ہر شخص کو ہوسکتا ہے اس اعتبار سے قرآن مجید کتاب مبین یعنی کھلی کھلی کتاب ہے.“.متعد دا حباب حضور کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کی کہ وہ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں.حضور بڑے جلال اور یقین سے فرماتے رہے کہ مایوس مت ہو.خدا تعالیٰ پر نظر رکھو.خدا تعالیٰ برکت دے گا.اب تو سینکڑوں بچے ایسے ہیں جو میری دعاؤں کی قبولیت کے سبب پیدا ہوئے ہیں.افریقہ میں ایسا ہی ایک بچہ پیدا ہوا میں نے اس کے لئے بہت دعا کی تھی.جب میں افریقہ پہنچا اور اس بچہ کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ اچھل کر میری گود میں آگیا شائد اسے احساس ہو کہ میری دعاؤں کا نتیجہ ہے.دعا کے لئے مجھے بار بار لکھتے رہو خود بھی دعا کرو اور خدا تعالیٰ سے مایوس نہ ہو خدا تعالیٰ ضرور فضل فرمائے گا.بہت سے ایسے احباب جن کے ہاں اولاد نہیں حضور نے انہیں ”رائل جیلی“ کے استعمال

Page 96

تاریخ احمدیت.جلد 26 کی تاکید فرمائی.86 سال 1970ء فرمایا کہ افریقہ میں خدا تعالیٰ نے جماعت کو جو ترقی اور فتح و نصرت عطا فرمائی ہے.اس پر انسان کا دل خوشی سے معمور ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے.دل تو چاہتا تھا کہ سر خدا کے حضور سجدہ کرتے ہوئے زمین سے بھی نیچے نکل جائے لیکن زمین اس کے راستہ میں روک بن جاتی تھی.89 مجلس خدام الاحمد پی لندن کے اراکین سے خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے سپین کے دورے سے لندن واپس تشریف لانے کے بعد محمود ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے اراکین سے روح پرور خطاب فرمایا جس میں خدام کو بنی نوع انسان کا خادم بنے کی تلقین فرمائی تا کہ دنیا کے دل ان کی طرف متوجہ ہوں.فرمایا ہم نے جو احمدی ہیں ساری دنیا سے آگے بڑھ جاتا ہے.دنیا اس وقت محبت، پیار، ہمدردی غمخواری اور مساوات کے پیغام کی پیاسی ہے صرف ہم ہی ان کی پیاس بجھا سکتے ہیں.دنیا نے بظاہر بڑی ترقی کی لیکن دنیا نے دنیاوی ترقیات میں جو قدم بھی آگے بڑھایا اس نے ثابت کیا کہ ان اقوام کے دل میں انسانیت کی محبت یا پیار نہیں ہے.آج دنیا کو بچانے کے لئے صرف ایک جماعت موجود ہے اور وہ جماعت احمد یہ ہے.یہ بڑی اہم ذمہ داری ہے جو ہم پر عائد ہوتی ہے.نوجوان طبقے کو یہ سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہیے.اللہ تعالیٰ توفیق دے.کراچی میں مراجعت اور شاندار استقبال 90 ۶ جون کو حضور معہ قافلہ عظیم الشان کامیابیوں اور کامرانیوں کے جلو میں بذریعہ ہوائی جہاز لندن سے پاکستان کے لئے روانہ ہوئے اور ے جون کو ا ا ج کر ۴۰ منٹ پر کراچی میں ورود فر ما ہوئے.کراچی کے فضائی مستقر پر نہ صرف جماعت احمدیہ کراچی کے احباب نے بلکہ حیدر آباد، میر پور خاص، نوابشاہ اور سندھ کے دوسرے مقامات کے احباب نے ہزاروں کی تعداد میں حضور کا بہت والہانہ طور پر استقبال کیا.علاوہ ازیں جماعت احمدیہ کوئٹہ کے بہت سے احباب نے بھی مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ کی سرکردگی میں کوئٹہ سے کراچی پہنچ کر حضور کے استقبال میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی.نیز جماعت احمد یہ لاہور اور جماعت احمد یہ جھنگ کے نمائندہ وفود نے بھی اپنے

Page 97

تاریخ احمدیت.جلد 26 87 سال 1970ء اپنے امراء جماعت مکرم چوہدری اسد اللہ خان صاحب اور مکرم میاں بشیر احمد صاحب کی قیادت میں لا ہور اور جھنگ سے کراچی پہنچ کر حضور کو اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے خوش آمدید کہا.احمدیہ ہال کراچی میں بصیرت افروز خطاب سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اسی روز احمد یہ ہال کراچی میں سفر مغربی افریقہ کے حالات پر بصیرت افروز خطاب کیا.جس میں اس تاریخی سفر کے متعدد روح پرور واقعات اور رب جلیل کی قادرانہ تجلیات کے غیر معمولی نشانات پر ولولہ انگیز انداز میں روشنی ڈالی.نیز سرزمین بلال میں نئے سکول اور نئے طبی مراکز کھولنے کے لئے نصرت جہاں ریزروفنڈ“ کے قیام کا بھی ذکر کیا.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آج میں اپنے ربّ کریم کے فضلوں کا منادی بن کر آپ کے سامنے کھڑا ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے جو جلوے مجھے اور میرے ساتھیوں کو مغربی افریقہ میں دکھائے ان کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے.جب ہم وہاں پہنچے تو تصور میں بھی نہیں تھا کہ کس قسم کے وہ پیارے انسان ہیں اور اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عظیم روحانی فرزند کی محبت کس رنگ میں ان کے دلوں اور سینوں میں موجزن ہے.وہاں جا کر پہلا تاثر اور مشاہدہ یہ تھا کہ ان کی محبت جنون کا رنگ لئے ہے.وہ مجھے دیکھتے تھے اور دیکھتے ہی رہ جاتے تھے.زبان پر الفاظ نہیں آتے تھے.ساری محبت سمٹ کر ان کی آنکھوں میں سما جاتی تھی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم روحانی فرزند کا چونکہ نائب آج تمہارے درمیان ہے اس لئے تمہاری خوشی جائز اور تم حقدار ہو اس بات کے کہ تم جس قدر چاہو آج خوش ہو اور میں بھی خوش ہوں.میں اس لئے خوش ہوں کہ آج سے قریباً اسی سال قبل ایک گمنام گاؤں میں اللہ کے حکم اور اس کے جلال اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے قیام کے لئے ایک آواز بلند کی گئی تھی.وہ آواز اپنے ابتدائی دور میں یکہ و تنہا آواز تھی اور جب اس ایک آواز کو دنیا نے سنا تو دنیا کی ساری طاقتیں اس کو خاموش کرنے کے لئے جمع ہو گئیں مگر دنیا کی ساری طاقت اس اکیلی آواز کو خاموش نہیں کرسکی.چونکہ فنا کے مقام پر وہ شخص کھڑا تھا اور اس کی آواز اللہ کی آواز اور اس کی آواز محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز تھی اور دنیا کی سب طاقتیں جمع ہو کر بھی اللہ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز کو خاموش کرنے کی

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد 26 اہلیت نہیں رکھتیں.88 سال 1970ء حضور انور نے فرمایا کہ گیمبیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ اشارہ ہوا کہ اب وقت ہے کہ علاوہ ایک دوسری سکیم کے جو مغربی افریقہ میں براڈ کاسٹنگ سٹیشن لگانے کی ہے کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں پر خرچ کر دینا چاہیے تا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو یہی موجودہ نسل پالے.جب ہم واپس لندن آئے چند دن لندن ٹھہرے.پھر میں سپین گیا.سپین سے پھر واپس لندن آیا اور لندن میں چند دن ٹھہرا.پہلے میں نے خطبہ میں اپنے پیارے بھائیوں کو یہ بتایا کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ منشاء ظاہر کیا ہے کہ جماعت احمدیہ مغربی افریقہ میں مالی قربانیوں کے میدان میں کم سے کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرنے کا انتظام کرے اور میں اپنے بھائیوں سے یہ خواہش رکھتا ہوں کہ انگلستان کے احمدیوں میں سے دو سو احمدی ایسے آگے بڑھیں جو فی کس دو سو پونڈ اس مد میں دیں جس کا نام میں نے ” نصرت جہاں ریز روفنڈ رکھا ہے اور اس کی امانت وہاں کھول دی گئی اور دوسو آدمی ایسے ہونے چاہئیں جو ایک سو پونڈ فی کس دیں اور باقی جو دے سکیں وہ دیں.لنڈن میں میں نے اپنے خطبہ میں کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ روپیہ کیسے آئے گا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ یہ آئے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ خرچ ہو اور خرچ تو تبھی ہو گا جب خدا تعالیٰ روپیہ کا انتظام کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسی کی عطا ہے، گھر سے تو کچھ نہ لائے.جو میرے اور آپ کے پاس ہے وہ ہمارا اپنا کب ہے وہ اس نے دیا ہے اس لئے ہمارے پاس ہے.جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ محض قربانی خدا کے حضور پیش کر دینا ثمر آور نہیں ہوا کرتا جب تک وہ قربانی اللہ کے حضور قبول نہ ہو جائے.اور بہت سی قربانیاں کسی اندرونی خباثت کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہیں.پس دعا کرو اور میں بھی یہ دعا کرتا ہوں کہ اے ہمارے رب! تیرا مال تیرے حضور ہم نے پیش کیا.تجھ پر ہمارا کوئی احسان نہیں.تیرا ہم پر احسان ہے کہ تُو ایک عظیم بدلے کا ہم سے وعدہ کرتا ہے.ایسا نہ ہو کہ ہماری کسی اندرونی بیماری یا کمزوری یا غفلت یا تکبر وغیرہ جو ہیں ان کی وجہ سے ہماری یہ پیشکش قبول نہ ہو اور رڈ کر دی جائے.اے ہمارے رب ! ہماری اس حقیر پیشکش کو قبول کر اور اپنے وعدوں کے مطابق اپنے فضلوں اور اپنی رضا کا اور اپنے پیار کا ہم کو وارث بنا.-

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد 26 89 سال 1970ء پاکستان کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سکیم میرے ذہن میں ڈالی ہے وہ یہ ہے کہ میں پاکستان کے احمدیوں سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ ان میں سے دوسو ایسے مخلصین نکلیں گے جو کم از کم پانچ ہزار روپیہ فی کس نصرت جہاں ریز روفنڈ کے لئے پیش کریں گے اور اس میں سے دو ہزار کی رقم ایک دو ماہ کے اندر اندر وہ داخل کرا دیں گے خزانہ کی مد میں اور باقی تین ہزار روپیہ اگر چاہیں تو تین قسطوں میں اور اگر چاہیں تو دوسرے اور تیسرے سال یعنی تین سال کے اندر اندر وہ جمع کر دیں گے.اس کے علاوہ دو سوایسے مخلصین چاہئیں جو دو ہزار روپیہ دیں جن میں سے وہ ایک ہزار روپیہ دوماہ کے اندراندر داخل کر دیں اور بقیہ ایک ہزار تین سال کے اندر مناسب قسطوں میں ادا کر دیں.یہ چودہ لاکھ روپے کی رقم بن جاتی ہے.میں افریقہ کے ان ممالک سے جو فوری وعدہ کر کے آیا ہوں وہ قریباً ۲۵-۳۰ ہسپتال کھولنے کا ہے جس کو ہم میڈیکل سنٹر یا ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں اور قریب ستر استی ہائی سکول ان ممالک میں بنانے ہیں.لائبیریا میں پریذیڈنٹ ٹب میں نے سو ایکٹر زمین دینے کا وعدہ کیا ہے وہاں دو دفعہ وہ اپنے محکموں کو میری اطلاع کے مطابق کہہ چکے ہیں کہ جلدی ان کے لئے انتظام کیا جائے.وہاں تو سوا یکر میں سکول اور میڈیکل سنٹر وغیرہ بن جائیں گے.گیمبیا والوں کو میں نے کہا تھا کہ سپیشلسٹس سنٹر باتھرسٹ کے علاوہ چار نئے طبی مراکز بھی انشاء اللہ کھول دوں گا.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی توفیق دے اور یہ کہ آپ ہمارے ساتھ تعاون کریں.انشاء اللہ وہ تعاون کریں گے.پس وہ اس قسم کے لوگ ہیں.اگر آج ہم جائیں اور صداقت ان کے سامنے رکھیں.وہ صداقت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن صداقت ان کے سامنے رکھنا اور یہ کوشش کرنا کہ وہ اس نور سے منور ہوں یہ کام ان کا نہیں اور نہ وہ کر سکتے ہیں یہ ہمارا کام ہے ہمیں کرنا چاہیے.اس کے لئے جتنا پیسہ خرچ ہو وہ ہمیں مہیا کرنا چاہیے.جتنے آدمیوں کی ضرورت ہو وہ ہمیں مہیا کرنے چاہئیں.پس بہت صاف ستھرے لوگ ہیں لیکن وہ پیاس جو ہے ان کے دل میں وہ سوائے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی اور بجھا نہیں سکتا اور ہم آپ کے غلام بلکہ غلاموں کے بھی غلام ہیں یہ فرض خدا تعالیٰ نے ہمیں سونپا ہے کہ ہم ان کو پیار دیں اور ان کی پیاس کو بجھائیں.عیسائی اور بد مذہب اس بات کا اظہار کرتے تھے.وہاں میرے پاس سینکڑوں میلوں سے بڑے بڑے وجاہت والے اور پیسے والے افریقن بھی آئے ہیں کہ دعا کریں.دعا ان کو کہیں نہیں ملتی.دعا بھی پیاس کا نتیجہ ہے ان کو

Page 100

تاریخ احمدیت.جلد 26 90 سال 1970ء یہ احساس ہے کہ یہاں سے ہمیں پیار بھی ملے گا اور دعا بھی اور پھر یہ کہ یہ ہمدرد ہیں.ہماری زندگی کا حقیقی مقصد حضرت نبی کریم ع کی عظمت اور شان اور جلال کا قیام ہے.خدا کرے کہ ہم اپنی آنکھوں سے ساری دنیا میں اس عظمت کو قائم شدہ دیکھیں اور خوشیوں کے دن پائیں.تقریر کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کروائی.دعا کے بعد تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا.یہ 92 سلسلہ گیارہ بجے رات تک جاری رہا.یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے.چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے حضور کی تحریک نو نصرت جہاں ریزرو فنڈ پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے جماعت کراچی کی طرف سے تین لاکھ روپے کا گرانقدر وعدہ حضور کے پر معارف خطاب کے معاً بعد حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی اور پھر اسی روز جناب عبدالرحیم صاحب مد ہوش کو اس کام پر مقررفرمایا جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پوری مستعدی سے انفرادی وعدوں کے حصول کی خصوصی مہم شروع کر دی اور چند روز کے اندر اندر کراچی کے مخلصین سے ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ کے انفرادی وعدہ جات حاصل کر کے مرکز میں ارسال کر دئے.کراچی سے روانگی کراچی میں ایک روز قیام فرمانے کے بعد ۸ جون بروز دوشنبه صبح سوا آٹھ بجے کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز عازم لاہور ہوئے.کراچی، کوئٹہ اور سندھ کے مختلف علاقوں کے احباب نے فضائی مستقر پر حاضر ہوکر حضور کو دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.لاہور میں ورود اور عزم ربوہ حضور اسی روز صبح 9 بج کر ۳۵ منٹ پر لاہور کے فضائی مستقر پر ورود فرما ہوئے جہاں نہ صرف جماعت احمدیہ لاہور کے احباب (مردہ مستورات اور بچے ) مکرم چوہدری فتح محمد صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور کی قیادت میں حضور کے استقبال کے لئے حاضر تھے بلکہ راولپنڈی، اسلام آباد، گجرات، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور متعدد دوسرے مقامات کے احباب بھی بہت بڑی تعداد میں آئے ہوئے تھے.مزید برآں صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد

Page 101

تاریخ احمدیت.جلد 26 91 سال 1970ء صاحب، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اور پروفیسر چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے بذریعہ موٹر کاربوہ سے لاہور پہنچ کر حضور انور کو اهلا وسهلا و مرحبا کہنے کی سعادت حاصل کی.حضور لا ہورائیر پورٹ پر قریباً چالیس منٹ قیام فرمانے کے بعد دیگر اہلِ قافلہ کے ہمراہ اسی روز سوا دس بجے صبح موٹر کاروں کے ذریعہ ربوہ کے لئے روانہ ہوئے.لاہور سے جماعت احمدیہ لاہور کے بہت سے احباب بھی اپنی کاروں میں مشایعت کی غرض سے دس میل تک آئے.علاوہ ازیں مجلس خدام الاحمدیہ لا ہور کے ہیں سکوٹر سوار خدام بھی مشایعت کے لئے ساتھ ساتھ تھے.یہ سب خدام بھی لاہور سے دس میل تک قافلہ کے ساتھ رہے اور پھر لاہور واپس چلے گئے.لاہور سے شیخو پورہ تک راستہ میں لاہور، ماڈل ٹاؤن اور گنج مغلپورہ کے خدام جگہ جگہ حاضر رہ کر مشایعت کے فرائض انجام دیتے رہے.شیخوپورہ سے سے سکھیکی تک ضلع و شہر شیخو پورہ کے خدام نے یہ فرائض سرانجام دئے اور سکھیکی سے ربوہ تک کے راستہ میں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے اراکین نے جگہ جگہ موجودرہ کر حضور کا راستہ میں ہی استقبال کرنے اور حضور کو خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی.لاہور سے ربوہ تک راستہ میں جگہ جگہ دیہی جماعتوں کے احباب نے سڑک کے کنارے جمع ہو ہو کر حضور کو اھلا و سهلا و مرحبا کہنے کی سعادت حاصل کی.حضور لاہور سے روانہ ہونے اور شیخوپورہ میں مکرم چوہدری مقبول احمد صاحب چیف انجینئر بلدیہ ( داماد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ) کی کوٹھی پر قریبا نصف گھنٹہ قیام فرمانے کے بعد ٹھیک پونے دو بجے ربوہ میں وارد ہوئے.ربوہ میں تشریف آوری اور استقبال کا پُر کیف نظارہ ربوہ میں اہل ربوہ اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے آنے والے کثیر التعداد مخلصین جماعت نے کس والہانہ شان اور زبر دست جوش و خروش کے ساتھ اپنے مظفر ومنصور امام عالی مقام کا استقبال کیا.اس کی تفصیل جناب مسعود احمد خاں صاحب دہلوی کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر کرتے ہیں کہ بسوں کے اڈہ سے شہر کے اندر ہی اندر قصر خلافت تک کے تمام راستہ پر اہلِ ربوہ شامیانوں اور سایہ دار درختوں کے نیچے ایک خاص ترتیب کے ساتھ جمع تھے.بسوں کے اڈہ پر خدام الاحمدیہ کی آرائشی محراب سے گولبازار کے سرے پر انصار اللہ کی آرائشی محراب تک کا راستہ

Page 102

تاریخ احمدیت.جلد 26 92 سال 1970ء دارالیمن، دار النصر شرقی و غربی اور باب الابواب کے احباب کے لئے مخصوص تھا.انصار اللہ کی آرائشی محراب سے گولبازار کے وسط میں وقف جدید کی آرائشی محراب تک دار البرکات، دار العلوم اور احمد نگر کے احباب جمع تھے.وقف جدید کی آرائشی محراب سے دفاتر تحریک جدید کے سامنے تحریک جدید کی آرائشی محراب تک دارالصدر شرقی اور دار الصدر جنوبی کے احباب ایستادہ تھے.تحریک جدید کی آرائشی محراب سے صدر انجمن احمدیہ کی آرائشی محراب اور گیسٹ ہاؤس تحریک جدید تک کے راستہ کے دونوں طرف بیرونی مقامات سے تشریف لانے والے احباب نیز دارالرحمت شرقی اور دارالرحمت وسطی کے احباب کو جگہ دی گئی تھی.گیسٹ ہاؤس تحریک جدید سے ہال لجنہ اماءاللہ کے موڑ پر فضل عمر فاؤنڈیشن کی آرائشی محراب تک کا درمیانی پلاٹ مستورات کے لئے مختص تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن کی آرائشی محراب سے احاطہ مسجد مبارک کے دروازہ پر لوکل انجمن احمدیہ کی آرائشی محراب تک دارالرحمت غربی و فیکٹری امیریا نیز دارالصدر غربی کے احباب کھڑے تھے.یہ سب احباب اپنے اپنے محلہ کا پرچم (جس پر جلی حروف میں ان کے محلہ کا نام لکھا ہوا تھا ) اٹھائے انتہائی ذوق و شوق کے عالم میں سراپا انتظار بنے حضور انور کی تشریف آوری کے منتظر تھے.جہاں سڑکوں کے دونوں جانب ہزاروں ہزار احباب جمع تھے اور تمام راستوں کے کنارے سراپا شوق مخلص و فدائی احباب سے اٹے پڑے تھے وہاں مسجد مبارک کے عقب میں قصر خلافت کے ساتھ شامیانے لگا کر مدعووبین خاص کو جگہ دی گئی تھی.ان میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، ممبران صدر انجمن احمد یہ ممبران تحریک جدید مهران وقف جدید، ممبران مجلس انصار الله مرکز یہ ہمبر ان مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ، صدر صاحبان محلہ جات ربوہ اور امراء اضلاع شامل تھے.اس موقع پر جن امراء اضلاع یا ان کے نمائندوں کو ربوہ پہنچ کر حضور انور کے استقبال میں شریک ہونے کی سعادت ملی ان میں حسب ذیل امراء کرام شامل ہیں:.محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور وامیر ضلع سرگودہا محترم مولوی محمد عرفان صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ صوبہ سرحد و امیر ضلع مانسہرہ محترم میاں محمود احمد صاحب امیر ضلع پشاور محترم مولوی چراغ دین صاحب امیر ایبٹ آباد.محترم صوفی غلام محمد صاحب امیر ضلع ڈیرہ اسمعیل خان.محترم سردار فیض اللہ صاحب قیصرانی امیر ضلع ڈیرہ غازی خاں.محترم میجر مقبول احمد صاحب نائب امیر را ولپنڈی.محترم شریف احمد صاحب سیکرٹری مال اسلام

Page 103

تاریخ احمدیت.جلد 26 93 سال 1970ء آباد- محترم شیخ قدرت اللہ صاحب امیر ضلع جہلم محترم خواجہ محمد امین صاحب امیر ضلع سیالکوٹ محترم حاجی محمد یعقوب صاحب امیر سیالکوٹ شہر محترم میاں محمد اقبال صاحب نمائندہ ضلع گوجرانوالہ محترم چوہدری فتح محمد صاحب نائب امیر لاہور محترم چوہدری انور حسین صاحب امیر ضلع شیخو پورہ محترم چوہدری رشید احمد صاحب امیر ضلع ملتان محترم چوہدری عزیز احمد صاحب امیر ضلع حیدرآباد.صدق وصفا اور عشق و وفا کے یہ ہزاروں ہزار پیکر استقبال کے راستہ پر فاصلہ فاصلہ سے لگے ہوئے شامیانوں اور سایہ دار درختوں کے نیچے جمع ہو کر حضور انور کی تشریف آوری کا بڑی شدت اور بیتابی سے انتظار کر رہے تھے.بارہ بجے دوپہر کے بعد سے ان کا اضطراب ملا ذوق و شوق اور ولولہ عشق لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جارہا تھا.ایک بجے کے بعد تو یوں محسوس ہونے لگا کہ اب پیمانہ صبر لبریز ہوا چاہتا ہے.بہت سے احباب جن کے پاس اپنی موٹر کاریں اور سکوٹر وغیرہ تھے وہ انتظار کے لمحوں کی شدت کم کرنے کے لئے انتہائی ذوق و شوق کے عالم میں اپنی موٹر کاروں میں سوار ہوکر ربوہ سے پنڈی بھٹیاں کی طرف روانہ ہو گئے تا کہ راستہ میں ہی حضور انور کے استقبال کی سعادت حاصل کر کے اور پھر حضور کے قافلہ میں شامل ہو کر حضور کی معیت میں ربوہ واپس کو ٹیں.انتظار کی گھڑیاں انتہائی سست رفتاری سے گزر رہی تھیں کہ اچانک ایک بج کر بیس منٹ پر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر تحریک جدید اپنی علالت طبع کے باعث ایک علیحدہ کار میں پہلے ہی ربوہ تشریف لے آئے.اگر چہ آپ کی کار استقبال کے مقررہ راستہ سے ربوہ میں داخل نہ ہوئی تھی تاہم آپ کی تشریف آوری کی خبر آن کی آن میں سارے ربوہ میں پھیل گئی.ہزاروں ہزار احباب کو سڑکوں کے کنارے دھوپ میں کھڑے قریباً نصف گھنٹہ ہوا تھا کہ آخر وہ معین گھڑی اور ساعت سعد جس کا سب کو انتظار تھا آ پہنچی.پونے دو بجے بعد دو پہر چینوٹ سے آنے والی پختہ سڑک پر دور سے حضور انور کی موٹر کار دوسری بے شمار موٹر کاروں کے جلو میں آتی ہوئی نظر آئی.جو نہی احباب کی نظر کار پر پڑی احباب میں خوشی و مسرت کی ایک نئی لہر دوڑ گئی.اسی لمحہ بسوں کے اڈہ پر ا لگے ہوئے لاؤڈ سپیکر سے مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب کی دلکش آواز میں خود انہی کے کہے ہوئے یہ اشعار نشر ہونے شروع ہوئے.دل حمد سے لبریز ہے سر سجدہ کناں ہے ہر سانس میں جذبات کا اک سیلِ رواں ہے

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد 26 صد 94 شکر کہ پھر آمد محبوب زماں ہے سرشار مسرت سے ہراک پیر و جواں ہے اے نافلہ مہدی دوراں خوش آمدید سال 1970ء یہ اشعار ہی نہیں بلکہ یہ پوری نظم احباب نے اس روز کئی بارسنی تھی کیونکہ لاؤڈ سپیکر سے یہ نظم وقفہ وقفہ سے بار بار نشر ہو رہی تھی لیکن اس بار سراپا انتظار احباب پر ان اشعار کا عجب اثر ظاہر ہوا.ان پر وجد کی سی حالت طاری ہونے سے عجب سماں بندھا.واقعی اُس وقت ہر دل حمد سے لبریز اور ہر سر سجدہ کناں تھا.اور واقعی جذبات کا ایک سیل ہر سانس میں رواں تھا اور ہر پیر وجواں مسرت سے سرشار ہوکر جھوم رہا تھا.جو نہی حضور کی کار دوسری بے شمار کاروں کے جلو میں پختہ سڑک سے مڑ کر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی تعمیر کردہ آرائشی محراب میں سے گزر کر فضل عمر ہسپتال کے قریب شہر کی حدود میں داخل ہوئی تمام فضا پُر جوش و فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی.حضور کی کار دوسری کاروں کے جلو میں خیر مقدم کے آراستہ و پیراستہ راستہ پر سے آہستہ آہستہ گزر رہی تھی اور دونوں طرف کھڑے ہوئے ہزاروں ہزا ر ا حباب اضطراب ملے کمال درجہ ذوق و شوق کے عالم میں ہاتھ ہلا ہلا کر اور بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہہ کہ کر حضور کا خیر مقدم کر رہے تھے.ذوق و شوق کی فراوانی اس لئے تھی کہ انہیں مغربی افریقہ کے کامیاب تبلیغی سفر سے حضور کی مراجعت پر حضور کا استقبال کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی تھی اور کسی قدر اضطراب کا اظہار اس لئے تھا کہ کہیں وہ حضور کے رخ انور کی ایک جھلک دیکھنے سے محروم نہ رہ جائیں.یہ ایک عجیب دلکش منظر تھا کہ احباب اس حال میں کہ ان کے روئیں روئیں سے محبت ٹپک رہی تھی کسی قدر جھک جھک کر کار کے اندر دیکھتے اور حضور کی زیارت سے مشرف ہوتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر سلام عرض کر رہے تھے اور حضور تبسم فرماتے اور راستہ کے دونوں طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے کمال محبت و شفقت کے ساتھ ان کے سلاموں کا جواب دے رہے تھے اور زیر لب انہیں دعاؤں سے نواز رہے تھے.ہزاروں ہزار احباب کے ہاتھوں کا بیک وقت فضا میں بلند ہونا اور کمال درجہ ذوق و شوق کے عالم میں لوگوں کا جھوم جھوم کر سلام عرض کرنا ایک ایسا دلکش منظر تھا کہ جس کی کیف آور یاد کبھی محو نہیں ہو سکتی.احباب جس خلوص جس محبت اور جس فدائیت کے جذبہ کے ماتحت سلام عرض کرتے اور خوش آمدید کہتے تھے اس سے صاف عیاں تھا کہ صدق وصفا اور اخلاص و وفا کے یہ پیکر خیر مقدم ہی نہیں کر رہے بلکہ جان و دل سے عزیز آقا پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں.

Page 105

تاریخ احمدیت.جلد 26 95 سال 1970ء حضور کی کار آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی اور جب بھی کسی آرائشی محراب کے نیچے سے گزرتی تھی تو وہاں کھڑے ہوئے احباب گلاب کی پتیاں اس کثرت سے حضور کی کار پر نچھاور کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ آسمان سے پھولوں کی بارش ہو ہو کر فضا کو عطر بیز بنارہی ہے.بالخصوص جب حضور کی کارتحریک جدید کی آرائشی محراب کے نیچے آئی تو محراب کی بلندی میں سے از خود پھول اس کثرت سے نچھاور ہوئے کہ فی الواقعہ بارش کا سماں آنکھوں کے سامنے آ گیا.جب موٹر کار تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس سے آگے اُس قطعہ کے سامنے سے گزری جہاں ہزاروں ہزار خواتین حضور انور اور حضرت سیدہ بیگم صاحبہ مدظلہا کو خوش آمدید کہنے کے لئے جمع تھیں تو حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا نے بھی موٹر کار میں سے ہاتھ ہلا کر خواتین کے سلام کا جواب دیا.حضور کی کار استقبال کے مقررہ راستہ پر ہزاروں ہزار مخلص و فدائی احباب کے خیر مقدمی نعروں کی فلک شگاف گونج میں سے گزرتی ہوئی بالآخر لوکل انجمن احمدیہ کی طرف سے بنائے ہوئے آراستہ و پیراستہ چوک میں سے ہو کر احاطہ مسجد مبارک میں داخل ہوئی اس مسجد مبارک کے عقب میں اس جگہ جا کر ر کی جہاں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، ناظر و وکلاء صاحبان نیز وقف جدید مجلس انصار اللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ممبران، فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائر یکٹر ان اور امراء اضلاع حضور کی تشریف آوری کے انتظار میں ایستادہ تھے.جو نہی حضور موٹر کار سے باہر تشریف لائے سب سے پہلے محترم جناب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (جن کو حضور انور نے اپنی عدم موجودگی میں امیر مقامی مقرر فرمایا تھا) نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا.آپ نے حضور کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.آپ کے بعد حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر ، صدر انجمن احمد یہ پاکستان ، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدرانجمن احمد یہ محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر قائمقام وکیل اعلی تحریک جدید، محترم مولانا ابوالعطاء صاحب قائمقام نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ محترم پروفیسر چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ محترم مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ محترم مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ سابق صوبہ پنجاب و بهاولپور، محترم شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن، محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( آف قادیان) اور محترم عبد السلام صاحب اختر ناظم مال وقف جدید نے باری باری حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر حضور کو ہار پہنائے اور مصافحہ کا شرف حاصل کر کے حضور کا

Page 106

تاریخ احمدیت.جلد 26 96 سال 1970ء استقبال کرنے کی سعادت حاصل کی.حضور نے حضرت مولوی محمد دین صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو معانقہ کا شرف بھی عطا فرمایا.بعدہ حضور نے جملہ حاضر احباب کو جن میں امراء اضلاع بھی شامل تھے، مصافحہ کا شرف بخشا.پھر حضور ۲ بج کر دس منٹ پر قصر خلافت کے اندر تشریف لے گئے.دریں اثناء احباب نماز ظہر ادا کرنے کے لئے جوق در جوق مسجد مبارک میں آجمع ہوئے.اڑھائی بجے حضور نے مسجد مبارک میں تشریف لا کر اس خیال کے ماتحت کہ بہت سے احباب بیر ونجات سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہیں واپس جانا ہے ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.حضور انور کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کے بعد اہل ربوہ حضور کی کامیاب و کامران بخیر و عافیت مراجعت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالاتے ہوئے خوشی خوشی اپنے گھروں کو واپس لوٹے.۸ جون کا دن ان کے لئے ایک نئی عید کا دن تھا، بر اعظم افریقہ میں اسلام کی فتح اور اس کے غلبہ کی عید کا دن اور ان کے مظفر ومنصور امام ہمام سیدنا حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس تشریف لانے کی عید کا دن.حضور انور کی افریقہ کے نہایت کامیاب تبلیغی سفر سے فتح وظفر کی آئینہ دار مراجعت کی خوشی میں اس رات ربوہ کی تمام اہم مرکزی عمارتوں، مساجد اور بازاروں میں بجلی کے رنگ برنگ کے قمقموں سے چراغاں کا خصوصی اہتمام کیا گیا.چونکہ استقبال کے راستہ پر بنی ہوئی آٹھ آرائشی محرابوں پر بھی چراغاں کا اہتمام تھا.اس لئے قصر خلافت سے شہر کے اندر ہی اندر بسوں کے اڈہ تک تمام راستہ رنگ برنگے قمقموں کی دل آویز روشنیوں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا.اس راستہ پر ہی کیا جملہ مساجد پر چراغاں کے خصوصی اہتمام کی وجہ سے سارا شہر ہی بقعہ نور بنا ہوا تھا.جملہ محلہ جات کی مساجد کے علاوہ جن عمارتوں پر چراغاں کا اہتمام تھا ان میں قصر خلافت ، خلافت لائبریری ، مسجد مبارک، ہال لجنہ اماءاللہ، دفاتر صدر انجمن احمدیہ، دفاتر تحریک جدید ، دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن، دفتر جلسہ سالانہ ٹاؤن کمیٹی ، دفتر وقف جدید، ایوان محمود، دفتر مجلس انصار الله مرکز یہ، جامعہ نصرت ، نصرت گرلز ہائی سکول، جامعہ احمدیہ، تعلیم الاسلام ہائی سکول مع بورڈنگ و مسجد نور تعلیم الاسلام کالج اور فضل عمر ہوٹل کی عمارات شامل تھیں.علاوہ ازیں گولبازار کے میدان پانی کی بلند و بالا ٹینکی پر بھی رنگ برنگے قمقموں کی لڑیاں لٹکائی گئی تھیں جو دور دور سے نظر آنے کے باعث بہت بہار دے رہی تھیں.یوں تو ہر ادارہ نے اپنی اپنی

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد 26 97 سال 1970ء عمارت پر چراغاں کا اہتمام کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی لیکن چراغاں کے اہتمام کے اعتبار سے جامعہ احمد یہ سب پر سبقت لے گیا.نہ صرف جامعہ کی ساری عمارت رنگ برنگ کے قمقموں کی دل آویز روشنی سے جگمگ جگمگ کر رہی تھی بلکہ اونچے اونچے درختوں اور زمین کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے پودوں تک میں چراغاں کے اہتمام نے پوری عمارت کی سجاوٹ میں ایک ایسی دلکشی پیدا کر دی تھی جس نے اسے تمام دوسری عمارتوں سے ممیز کر دکھایا تھا.مزید برآں ایک خاص جدت یہ کی گئی تھی کہ جامعہ کے ہال کی چوڑائی کے رخ ایک پوری دیوار پر بجلی کے لا تعداد سرخ اور سبز قمقموں کو ملا کر نہایت جلی اور نمایاں حروف میں سرزمین بلال ( یعنی افریقہ ) کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام درج کیا گیا تھا.چنانچہ حسب ذیل عبارت آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی اپنی سرخ اور سبز روشنی کی وجہ سے دور دور سے بآسانی پڑھی جاسکتی تھی.جس کے الفاظ یہ تھے:.”اے سرزمین بلال بخرام که وقت تو نزدیک رسید و پائے محمد یاں بر منار بلند تر محکم افتاد.بجلی کے قمقموں سے بنی ہوئی اس نہایت جلی روشن اور جاذب توجہ عبارت نے جامعہ احمدیہ کی عمارت پر چراغاں کے اہتمام کو چار چاند لگا دئے.اسی طرح ربوہ کی جملہ مساجد میں سے مسجد مبارک اور مسجد ناصر ( جو دارالرحمت غربی میں رحمت بازار کے قریب واقع ہے) کی روشنی خاص شان کی حامل تھی.علاوہ ازیں محلہ جات میں بہت سے لوگوں نے بھی اپنے اپنے مکانات پر چراغاں کا اہتمام کیا.25 اس تاریخی اور یادگار سفر نے براعظم افریقہ کی مذہبی اور سماجی تاریخ پر بہت گہرے اثرات ڈالے ہیں جس کا ذکر آئندہ اپنے اپنے موقع پر آئے گا.پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم اے کی قلم کی لکھی ہوئی اس اہم سفر کی حقیقت افروز تفصیلی رپورٹیں اور تصاویر خاص اہتمام اور باقاعدگی کے ساتھ اخبار الفضل ربوہ نے آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر دیں.”الفضل نے شاندار خیر مقدم نمبر بھی شائع کیا.علاوہ ازیں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے رسالہ ”خالد (اکتوبر ۱۹۷۰ء) کا اور مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے اپنے سالانہ انگریزی سود بینیئر کا خصوصی نمبر خاص اسی موضوع پر شائع کیا.اسی طرح مجلس نصرت جہاں تحریک جدید ربوہ کی طرف سے افریقہ سیکس (Africa Speaks) کے نام سے ایک نہایت دیدہ زیب اور معلومات افروز رسالہ منظر عام پر آیا جو سفرا فریقہ کے کوائف و

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد 26 98 سال 1970ء احوال، مضامین اور افریقن پریس کے نوٹس اور خبروں اور تصویروں کا دلکش مرقع تھا.مغربی افریقہ کے پریس والیکٹرانک میڈیا میں غیر معمولی چہ چا اس تاریخی سفر مغربی افریقہ کا ایک خاص اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ ملکی اخبارات میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی تشریف آوری، حضور کی اہم دینی و جماعتی مصروفیات اور جماعت احمدیہ کی دینی تعلیمی اور رفاہی خدمات کا غیر معمولی چرچا ہوا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی.دوران سفر شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو کہ وہاں کے اخبارات میں حضور کی مصروفیات کی باتصویر اور مفصل خبریں نمایاں شان سے شائع نہ ہوئی ہوں.ان ممالک کے ڈیڑھ درجن کے قریب اخبارات قریب روزانہ ہی فضائی مستقروں پر حضور کے استقبال کے مناظر، سربراہان مملکت سے ملاقاتوں اور حضور کے اعزاز میں منعقد کی جانے والی استقبالیہ تقریبوں، سرکاری عشائیوں ، حضور کی پریس کانفرنسوں، تقریروں، احمد یہ مشنوں اور احمد یہ سکولوں کے معامیوں ، نئی مساجد کے سنگ بنیاد، نیز نو تعمیر شدہ مساجد اور مشن ہاؤسوں کی افتتاحی تقریبوں کی خبریں اور فوٹو وغیرہ اہتمام سے شائع کرتے رہے.ان اخباروں میں نائیجیریا کے مارنگ پوسٹ، ڈیلی ٹائمز، سنڈے پوسٹ، ڈیلی ایکسپریس، ڈیلی سیچ ، دی نائیجیرین آبزرور اور نیو نائیجیرین.گھانا کے ڈیلی گرافک، گھا نین ٹائمنز ، دی ایکو اور دی پائنیر.آئیوری کوسٹ کا فرنٹیر نئے ماتیں.لائبیریا کالائبیرین سٹار اور سیرالیون کے ڈیلی میل اور یونٹی وغیرہ اخبارات شامل ہیں.اسی طرح ان ممالک کے ریڈیو اور ٹیلیویژن اسٹیشنز بھی حضور کے استقبال اور مصروفیات کی خبریں نشر کرتے اور ان کے دلکش مناظر دکھاتے رہے.ٹیلیویژن نے تو کئی باران مناظر کی نمائش کی اور سیرالیون ریڈیو نے فری ٹاؤن کے ہوائی اڈہ پر حضور کے والہانہ استقبال کا آنکھوں دیکھا حال رواں تبصرہ کی صورت میں بھی نشر کیا جسے مغربی افریقہ کے ممالک میں بہت دلچسپی سے سنا گیا حتی کہ ملک کے لاکھوں باشندوں نے اسے سنا اور اس کا بہت وسیع پیمانہ پر چرچا ہوا.ذیل میں بعض اخباروں میں شائع ہونے والی خبروں کے اقتباسات کے ترجمے درج کئے جاتے ہیں.حمرار اپریل ۱۹۷۰ء کو جب حضور لیگوس کے فضائی مستنعقر پر ورود فرما ہوئے اور فضائی متعقر پر ہی پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا تو نائیجیریا کے اخبار ”سنڈے ٹائمن“ نے اپنی ۱۲ اپریل کی اشاعت میں حضور کی تشریف آوری کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.نیز خبر کے دائیں طرف ساتھ ہی

Page 109

تاریخ احمدیت.جلد 26 99 سال 1970ء حضور انور کا ایک بہت نمایاں فوٹو بھی درج کیا جس میں حضور کو پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا.خبر میں اخبار مذکور نے لکھا:.عالمی شہرت کے حامل مسلمان لیڈر کا لیگوس میں ورود تمام دنیا میں پھیلی ہوئی احمد یہ مسلم آرگنا ئزیشن کے سربراہ اعلیٰ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد نے کل لیگوس میں فرمایا کسی انسان کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسرے انسانوں سے نفرت کرے.آپ خیر سگالی کے دورہ پر جو ایک ہفتہ جاری رہے گا نائیجیریا پہنچنے کے بعد ا کیجا ائر پورٹ پر اخبارنویسوں سے خطاب فرمارہے تھے.یہ مسلم رہنما آجکل مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ فرمارہے ہیں.آپ نے اخبار نویسوں سے خطاب کرتے ہوئے اعلان فرمایا.تمام انسان برابر ہیں.انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.نیز آپ نے اس امر پر خاص زور دیا کہ اگر دنیا اس حقیقت سے آگاہ ہو جائے اور اس کی اہمیت کو سمجھ لے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو باہمی جھگڑوں اور مخاصمتوں میں بے انتہا کمی واقع ہو سکتی ہے.حضرت مرزا ناصر احمد نے مسلمانوں، غیر مسلموں اور مشرکوں الغرض تمام لوگوں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئیں.آپ نے بتایا کہ نائیجیریا میں اپنے قیام کے دوران آپ ابادان اور کا نو بھی تشریف لے جائیں گے.96 ۱۲ را پریل ۱۹۷۰ء کو حضور نے نائیجیریا کے سر براہ مملکت میجر جنرل یعقو بوگوون سے ان کی رہائشگاہ واقع ” دوڈن بیرکس (Dodan Barracks) میں ملاقات فرمائی.نائیجیریا کے تمام نامور اخبارات نے جن میں سے ڈیلی ٹائمز ، ڈیلی ایکسپریس، ڈیلی سکیچ ، دی نائیجیرین آبزرور، نیو نائیجیرین اور مارننگ پوسٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اس ملاقات کا حال متعدد فوٹوز اور شہ سرخیوں کے ساتھ بہت تفصیل کے ساتھ شائع کیا.مثال کے طور پر ”ڈیلی ٹائمن نے اپنے ۱۴ اپریل کے شمارہ میں صفحہ اول کے بالائی حصہ میں اخبار کی پیشانی کے عین نیچے ایک بہت نمایاں فوٹو شائع کیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ حضور کی تشریف آوری پر سر براہ مملکت بڑی گرمجوشی اور تپاک کے ساتھ حضور سے مصافحہ کرتے

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد 26 100 سال 1970ء ہوئے حضور کا خیر مقدم کر رہے ہیں.اس روز کے اس اہم ترین فوٹو کے نیچے اخبار مذکور نے لکھا:.جنرل گوون نے کل ورلڈ احمد یہ مسلم آرگنائزیشن کے سربراہ اعلیٰ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة امسیح الثالث کو خوش آمدید کہا.جو اُن سے ملاقات کرنے کی غرض سے ان کی رہائشگاہ واقعہ دو ڈن 97 بیر کس میں تشریف لائے تھے.و پھر اخبار مذکور نے اسی شمارے کے صفحہ۲ پر شہ سرخیوں کے ساتھ ملاقات کی تفصیلی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا:.ر میجر جنرل یعقوبو گوون نے کل لیگوس میں کہا کہ انہوں نے امیکا اجوکو Chukwuemeka) (Ojukwu جب وہ مشرقی صوبے کو نائیجیریا سے الگ کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا متنبہ کیا تھا کہ اس کے نام نہاد ”بیا فرا‘ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوگا.انہوں نے مزید کہا ”میں نے غیر ملکیوں کو بھی متنبہ کیا تھا کہ وہ اجو کو کی خیالی سلطنت کو بیافرا کا نام نہ دیں ورنہ بیا فرا کا لفظ جدا ہو جانے یا بغاوت یا علیحدگی پسندی کے رجحان کے مترادف سمجھا جانے لگے گا.جنرل گوون نے ان خیالات کا اظہار احمد یہ مسلم عالم آرگنائزیشن کے سر براہ اعلیٰ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ ملاقات کے دوران کیا جو ان کی دوڈن بیر کس کی رہائشگاہ میں ملاقات کے لئے تشریف لائے تھے.سر براہ مملکت نے کہا کہ جنگ کے خاتمہ کے بعد حالات نے جو رخ اختیار کیا اس سے بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ اگر اجو کومنظر عام پر نہ آتا تویہ قضیہ بھی کا طے ہو چکا ہوتا.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے صدر مملکت نے کہا.بغاوت کو کچل دینے کے بعد ہمارے سامنے جو سب سے اہم کام ہے وہ دلوں کو جیتنا ہے.یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ نائیجیریا میں مختلف مذہبی تنظیموں کے مابین مفاہمت کی فضا قائم ہے.ورنہ اگر ہم سمندر پار سے کئے جانے والے مذہبی پروپیگینڈ پر کان دھرتے تو ہمارے لئے بہت زیادہ مشکلات پیدا ہو جاتیں.خدا کا شکر ہے کہ نائیجیریا کے عوام اس پروپیگنڈا سے گمراہ نہیں ہوئے اور انہوں نے مذہبی تفریق سے بالا ہو کر باہمی تعاون کا بہت اچھا نمونہ دکھایا.نائیجیریا میں جماعت احمدیہ کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے جنرل گوون نے ان کی بہت تعریف کی اور اہلِ نائیجیریا کی اخلاقی، جسمانی اور ذہنی و فکری ترقی کے ضمن میں جماعت نے جو کردار

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد 26 101 سال 1970ء ادا کیا ہے اور جو خدمات سرانجام دی ہیں جنرل موصوف نے ان کو بہت سراہا.انہوں نے فرمایا روحانی میدان میں خدمات بجالانے کے علاوہ آپ نے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے کر تعلیمی میدان میں بھی خدمات سرانجام دی ہیں.آپ کی جماعت سکولز اور طبی مراکز قائم کر کے اہل نائیجیریا کی امنگوں کا ساتھ دیتے ہوئے ان کی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم عمل ہے.سر براہ مملکت نے گزشتہ واقعات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بحران کے دوران فیڈ رل حکومت کو ان بے گناہ اور بے قصور لوگوں کے مصائب کا بہت شدید احساس تھا جن بے چاروں کو گمراہ کر دیا گیا تھا.انہوں نے کہا ہم نے اپنے اقتدار کے نقطۂ نگاہ سے نہ کبھی سوچا اور نہ کبھی کوئی اقدام کیا کیونکہ ہمیں شدت سے احساس تھا اور ہے کہ ایک ہستی ایسی ہے جو بے انتہا طاقتور اور قادر و مقتدر ہے اور وہ ہے ہمارا خالق و مالک یعنی ہمارا خدا.ہم امید رکھتے ہیں کہ بعد میں آنے والے لیڈر بھی انہی خطوط پر سوچیں گے اور پوری وفاداری کے ساتھ عوام کی خدمت بجالانے کو اپنا طمح نظر بنائیں گے.اور اپنے دل و دماغ میں اس خیال کو کبھی نہ آنے دیں گے کہ عوام ان کی خدمت کریں.حضرت مرزا ناصر احمد نے گفتگو کے آغاز میں صورتحال پر قابو پانے اور حالات کو سدھارنے میں - صدر مملکت کے صبر و تحمل اور دانشمندی و تدبر کو سراہا تھا آپ نے فرمایا:.نائیجیریا میں بحران کے دوران ہم حالات و واقعات کا بہت دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کرتے رہے ہیں.آپ نے اپنی قوم کی بہت بر وقت اور مناسب راہنمائی کی ہے...66 حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے مزید فرمایا:.میں دیکھتا ہوں جنگ کے ختم ہونے کے بعد ہر شخص خوش ہے.اس کا واضح ثبوت وہ مسکراہٹ ہے جو مجھے یہاں ہر چہرہ پر کھیلتی ہوئی نظر آئی ہے اور جنگ کے بعد رونما ہونے والی تلخی کا کوئی نشان میں نے نہیں دیکھا.حالانکہ دوسری جنگوں میں کوئی نہ کوئی تلخی بعد میں بھی باقی رہتی اور اپنا اثر دکھاتی رہتی ہے.یہی وجہ ہے کہ اس عظیم قوم کے قائد کی حیثیت سے ہم آپ کی مساعی کے مداح ہیں.98 ۱۳ اپریل ۱۹۷۰ء کو حضور نے نائیجیریا کے شہر ابادان میں ملک کے نامور

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد 26 102 سال 1970ء دانشوروں، دیگر اہل علم حضرات ، یونیورسٹی کے پروفیسروں، طلباء اور دیگر معززین شہر سے انگریزی میں خطاب فرما کر حصول علم کی جدو جہد کو نتیجہ خیز اور مشمر بنانے کے اسلامی طریق پر تفصیل سے روشنی ڈالی.حضور کے اس بصیرت افروز اور معرکۃ الآراء خطاب کی چار کالمی خبر شائع کرتے ہوئے مارنگ پوسٹ نے ۱۸ را پریل کے شمارہ میں لکھا:.عالمی احمد یہ مسلم آرگنائز یشن کے سربراہ اعلی حضرت حافظ مرزا ناصر احمدخلیفہ المسح الثالث کے نزدیک نائیجیریا کا مستقبل بہت روشن اور تابندہ تر ہے.آپ ابھی سے اس روشن اور شاندار مستقبل کو اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں.آپ نے فرمایا ہے افریقہ میں بادصبا کی مانند ایک خوشگوار ہوا چلنی شروع ہو چکی ہے.یہ ہوا ایک نئی تبدیلی کے آثار نئی امیدوں اور نئی امنگوں سے بھر پور و معمور ہے.یہ اہل افریقہ کو ایک نئی بیداری اور نئے عزائم سے ہمکنار کرنے والی ہے.اور ساتھ ہی ایسے شواہد کی آئینہ دار ہے جن سے اہلِ افریقہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کے خوش آئند مقدرات کی نشاندہی ہوتی ہے“.حضرت حافظ مرزا ناصر احمد نے ان خیالات کا اظہار ابادان میں جماعت احمدیہ کے افراد سے خطاب کرتے ہوئے کیا.آپ نے اس امر پر زور دیا کہ یہ روشن مستقبل جسے آپ اپنی بصیرت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں نو جوانوں کے ہاتھ میں ہے.لہذا آپ نے نائیجیریا کے نو جوانوں کو توجہ دلائی کہ وہ ایسے طریق پر حصول علم کی جدو جہد جاری رکھیں کہ حاصل کردہ علم کو انسانی زندگی کی بہتری اور اللہ کے مقرر کردہ مقاصد کی تکمیل میں استعمال کیا جا سکے.حضرت احمد نے طلباء کو توجہ دلائی کہ اچنبہ اور استعجاب علم کی کنجی ہے.آپ نے نائیجیریا کے نو جوانوں کو پُر زور الفاظ میں یہ نصیحت بھی فرمائی کہ وہ تمام بنی نوع انسان کے مفادات اور امنگوں سے کبھی بے رخی نہ برتیں.آپ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں ، انسانی برادری کے تعلق میں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ہمیں ان سے ہمیشہ باخبر اور آگاہ رہنا چاہیے اور انہیں ادا کرنے میں کوشاں رہنا چاہیے.آپ نے مزید فرمایا کہ اگر ہم اس صاف اور سیدھی بات کا خیال رکھیں اور اس بارہ میں پوری احتیاط سے کام لیں.تو ہم ان تمام خطرات سے بآسانی بیچ نکلیں گے جو آج تہذیب جدید کے سر پر منڈلا رہے ہیں.99

Page 113

تاریخ احمدیت.جلد 26 103 سال 1970ء حضور کے اس معرکۃ الآراء خطاب کا ذکر کرتے ہوئے نائیجیریا کے ایک اور اخبار ڈیلی ٹائمنز نے اپنی ۱۵ را پریل کی اشاعت میں ”سب کو مذہبی تعلیم دو“ کے چار کالمی عنوان کے تحت لکھا:.عالمی احمد یہ مسلم آرگنا ئزیشن کے سربراہ اعلیٰ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد نے نائیجیرین سکولوں میں ہر سطح پر مذہبی تعلیم کے سلسلہ وار نصاب کی تدریس رائج کرنے پر زور دیا ہے.اس ہفتہ ابادان میں ایک تقریر ارشاد فرماتے ہوئے حضرت احمد نے فرمایا مذہبی تعلیم کے نتیجہ میں نئی دریافتوں کی رفتار تیز ہو جائے گی اور نئے علم کی تلاش ایسے خطوط پر اور ایسی سمت میں آگے بڑھنی شروع ہو جائے گی جس کا انسان کی بہتری اور خوشحالی سے براہ راست تعلق ہو.آپ نے فرمایا مذ ہبی تعلیم ہمیں اس قابل بنادے گی کہ ہم باہم ایک دوسرے کو اور بیک وقت دنیا کے تمام لوگوں کو اس نظریہ سے دیکھنا شروع کر دیں گے کہ گویا یہ ایسے جاندار ہیں جنہیں زندہ رہنے اور ترقی کرنے کا یکساں حق حاصل ہے.اور جن پر خود اپنے بارہ میں اور اپنے جیسے تمام دوسرے انسانوں کے بارہ میں اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا ایسا نقطہ نظر اور ایسا طرز عمل حصول علم کی جدو جہد کو اس کا صحیح مقام عطا کرنے کا موجب ہوگا.آپ نے طلباء کو توجہ دلائی کہ وہ دوسرے علوم کو نظر انداز کر کے کسی ایک علم میں خصوصی مہارت پیدا کرنے کی خاطر اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ مرکوز کرنے کے نامناسب طریق اور اس کے غیر صحتمندانہ اثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ اس قسم کی مہارت جدید علم اور جدید تعلیم کی ایک ناگزیر و ناگوار خصوصیت بن کر رہ گئی ہے.آپ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ وہ اپنے مخصوص شعبہ ہائے علم کے علاوہ علم کے دوسرے میدانوں سے بے رخی نہ برتیں بلکہ تحیر اور تجس سے کام لیتے ہوئے ان میں بھی دلچسپی لیں.حضرت احمد نے فرمایا.”ہماری مخصوص دلچسپیاں اور مطالعہ وتحقیق کی لائنیں خواہ کچھ ہوں ہمیں اپنے ماحول کے باقی حصوں سے بے رخی نہیں برتنی چاہیے؟ 100 66 ۱۶ / اپریل کو نائیجیریا سے گھانا روانہ ہونے سے قبل حضور نے لیگوس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.اس سے اگلے روز اخبارات میں اس پریس کانفرنس کی خبر بہت نمایاں طور

Page 114

تاریخ احمدیت.جلد 26 104 سال 1970ء پر شائع ہوئی چنانچہ ڈیلی ٹائمز نے اپنی سے امئی کی اشاعت میں 4 اسکول تعمیر کرنے کا پروگرام.پانچ سالہ منصوبہ کے چار کالمی دوہرے عنوان کے تحت لکھا:.عالمی احمد یہ مسلم آرگنائز یشن کے سربراہ اعلی حضرت حافظ مرزا ناصراحمد خلیفۃ المسح الثالث نے کل لیگوس میں فرمایا کہ یہ صرف اسلام ہی ہے کہ جس نے بنی نوع انسان کے اقتصادی مسائل کو خاطر خواہ طریق پر حل کیا ہے.آپ نے بتایا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام رواداری، محبت اور دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے کی تعلیم دیتا ہے.حضرت احمد کل فیڈرل پیلس ہوٹل وکٹوریہ آئی لینڈ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمارہے تھے.آپ نے فرمایا ہر فرد کو مادی وسائل کے ذریعہ اپنی صلاحیتوں کو اس طور پر ترقی دینے کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ ان صلاحیتوں سے دوسروں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکے.آپ نے یہ بھی بتایا کہ آپ نے ایک کمیٹی بنائی ہے جو آئندہ پانچ سال کے اندر ملک میں ۱۶ 101 سیکنڈری سکول اور چارطبی امداد کے مراکز قائم کرنے کا منصوبہ بنائے گی.مسلم راہنما نے اس تجویز کا بھی ذکر فرمایا کہ نائیجیریا میں اسلامی تعلیم کی اشاعت کی غرض سے ایک علیحدہ براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ہونا چاہیے“.ہے سنڈے پوسٹ“ نے اس پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے ” جماعت احمد یہ طبی امداد کے مراکز قائم کرے گی“ کے زیر عنوان لکھا:.”جنگ کے بعد کے زمانہ میں تعمیر وترقی کے نئے پروگرام میں حصہ لینے کی غرض سے احمد یہ مسلم مشن نے ملک کے مختلف حصوں میں طبی امداد کے مراکز قائم کرنے کا پروگرام مرتب کیا ہے.کل گھانا روانہ ہونے سے کچھ دیر قبل عالمی احمد یہ مسلم آرگنائزیشن کے سربراہ اعلیٰ نے اخباری نمائندوں کے ساتھ گفتگو کے دوران اس امر کا انکشاف کرتے ہوئے فرمایا کہ مجوزہ ہسپتالوں کو چلانے کے لئے سند یافتہ ڈاکٹر سرجیکل سپیشلسٹ پاکستان سے بھجوائے جائیں گے.عالمی شہرت کے حامل یہ نامور مسلم راہنما مغربی افریقہ کے خیر سگالی کے دورہ کے سلسلہ میں ایک ہفتہ سے نائیجیریا میں قیام فرما تھے.حضرت مرزا ناصر احمد نے یہ بھی بتایا کہ ملک کے شمال مغربی علاقہ میں چار سیکنڈری سکول تعمیر کرنے کے سلسلہ میں ملٹری گورنر اور سٹیٹ کمشنر عثمان فاروق اور ان کے درمیان بعض انتظامات طے پا

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد 26 رہے ہیں.105 102 سال 1970ء ان ہزاروں احمدیوں کو جو آپ کو الوداع کہنے کی غرض سے فضائی مستقر پر جمع ہوئے تھے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے الوداعی خطاب سے نوازتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ ہمیشہ اس بات کو یا درکھیں کہ وہ ایک عظیم سرزمین کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں جو قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہے.آپ نے فرمایا تمہارا مستقبل بہت شاندار ہے.اتنا شاندار کہ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن شرط یہ ہے کہ تم ہم سب کے خالق و مالک یعنی اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرو.غانا میں ورود مسعود اور مصروفیات کا ذکر غانا کے اخبارات نے سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث کے وہاں پہنچنے سے دس گیارہ روز قبل ہی جبکہ ابھی آپ نایجیریا بھی نہیں پہنچے تھے ) حضور کے بڑے بڑے نمایاں فوٹو شائع کر کے اہل گھانا تک یہ اطلاع پہنچانی شروع کر دی تھی کہ دنیائے اسلام کی ایک عظیم شخصیت عنقریب ان کے ہاں تشریف لا رہی ہے.حمد چنانچہ وہاں کے سب سے اہم اور نامور ومشہور اخبار ”ڈیلی گرافک“ نے اپنی ے اپریل کی اشاعت میں حضور کا ایک بڑے سائز کا فوٹو نمایاں طور پر شائع کر کے اس کے نیچے لکھا:.یہ ہیں ساری دنیا میں پھیلی ہوئی اسلامی تحریک ( جو جماعت احمدیہ کے نام سے موسوم ہے) کے ۶۱ سالہ سر براہ اعلیٰ ہز ہولی نس مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسیح الثالث.آپ اپنے دورہ مغربی افریقہ کے سلسلہ میں ۱۸ را پریل کو گھانا تشریف لا رہے ہیں.آج سے ۴۹ سال قبل گھانا میں جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد سے یہ پہلا موقعہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے سر براہ اعلیٰ حضرت امام جماعت احمدیہ ) مغربی افریقہ میں احمدیہ مشنوں کا معاینہ فرمانے بنفس نفیس تشریف لا رہے ہیں.اکرامیں کل ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت امام جماعت احمد یہ گھانا میں اپنے قیام کے دوران میں صدارتی کمیشن کے چیئر مین بریگیڈ مراے.اے افریفا Brigadier) (Akwasi Amankwaa Afrifa.24 April 1936.26 June1979 سے بھی ملاقات فرمائیں گے.آپ سالٹ پانڈ بھی تشریف لے جائیں گے.جہاں گھانا میں جماعت احمدیہ کا مرکزی مشن قائم ہے.نیز آپ کماسی اور ٹیچی مان وغیرہ مقامات کا دورہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں.

Page 116

تاریخ احمدیت.جلد 26 106 سال 1970ء آپ اس عرصہ میں بعض نئی تعمیر ہونے والی مسجدوں کا سنگ بنیا درکھیں گے.لوگوں کو فردا فردا شرف ملاقات سے نوازیں گے اور ایک پریس کانفرنس میں اخبار نویسوں سے بھی خطاب فرمائیں گے.اسی طرح گھا تین ٹائمز نے بھی اپنے اپریل کے شمارہ میں حضور انور کا فوٹو 103- شائع کر کے کسی قدر مختلف الفاظ میں حضور کی متوقع تشریف آوری کا ذکر کر کے اہل گھانا کوعنقریب رونما ہونے والے اس اہم واقعہ سے مطلع کیا.گھانا ہی کے ایک اور اخبار دی ایکو (The Echo) نے تو اپنے ۱۲ را پریل ۱۹۷۰ء کے شمارہ میں حضور کا اور بھی زیادہ بڑا اور نمایاں فوٹو شائع کر کے اس کے نیچے جلی حروف میں لکھا:.”ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کے امام ہنر ہولی نس مرزا ناصر احمد سے ملئے.اکرامیں آپ کی تشریف آوری اگلے ہفتہ کے روز ۱۸ اپریل کو متوقع ہے.آپ یہاں دینی مقصد کے پیش نظر 104- تشریف لا رہے ہیں.اور جب حضور ۱/۱۸اپریل کولیگوس سے بذریعہ ہوائی جہازا کرا کے فضائی مستقر پر ورود فرما ہوئے تو ڈیلی گرافک“ نے احمد یہ لیڈر کا اکرا میں ورود کے زیر عنوان حسب ذیل خبر شائع کی:.جماعت احمدیہ کے سربراہ اعلیٰ ہر ہولی نس مرزا ناصر احمد اپنے مغربی افریقہ کے دورہ کے سلسلہ میں ہفتہ کے روز نایجیریا کے دارالحکومت لیگوس سے بذریعہ ہوائی جہاز کرا میں ورود فر ما ہوئے.خلیفہ اسیح جو پہلی مرتبہ گھانا تشریف لائے ہیں کے ساتھ آٹھ افراد اور بھی ہیں.ان میں آپ کی حرم سیدہ منصورہ بیگم اور احمد یہ فارن مشنز کے ڈائریکٹر جناب مرزا مبارک احمد بھی شامل ہیں.سر براہ اعلیٰ نے اکرا پہنچنے پر فرمایا کہ آپ اپنے سات روزہ قیام کے دوران جماعت احمدیہ کے نمائندوں کے ساتھ مل کر اس امر کا جائزہ لیں گے کہ ملک کی روحانی اور معاشرتی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لئے احمد یہ ہیڈ کوارٹر کس طرح مؤثر امداد دے سکتا ہے.اخبار مذکور نے مندرجہ بالا خبر کے ساتھ ہی بڑے سائز کا ایک بہت نمایاں فوٹو بھی شائع کیا.اس میں حضور انور کو زینہ کی مدد سے ہوائی جہاز سے اترتے ہوئے دکھایا گیا تھا.حمد اسی طرح ایک اور اخبار ” گھا نہین ٹائمنز نے بھی اپنے ۲۰ را پریل ۱۹۷۰ء کے شمارہ 105

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد 26 107 سال 1970ء میں بڑے سائز کا ایک تین کالمی فوٹو شائع کیا.جس میں حضور کوا کرا کے فضائی متعقر پر موٹر میں سوار ہونے سے قبل ہاتھ ہلا کر ہزاروں مخلص فدائی احباب کے استقبالیہ نعروں کا جواب دیتے ہوئے دکھایا گیا.فوٹو میں حضور کے قریب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مولانا عطاء اللہ کلیم امیر جماعتہائے احمد یہ گھانا اور بہت سے دوسرے احباب بھی کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں.اخبار مذکور نے اوپر ایک چوکھٹہ کے اندر جلی حروف میں لکھا:.ساری دنیا میں پھیلی ہوئی احمد یہ جماعت کے سربراہ اعلیٰ حضرت مرزا ناصر احمد جو گزشتہ ہفتہ کے آخری روز گھانا کا دورہ شروع کرنے کے سلسلہ میں لیگوس سے اکر اپہنچے ہیں.آپ ہاتھ ہلا کر اپنے پیروؤں کے استقبالیہ نعروں کا جواب دے رہے ہیں.تصویر میں وزیر مواصلات مسٹر ہارونا اسیکواور جماعت کے عہدہ دار بھی کھڑے نظر آرہے ہیں.106, ۲۰ را پریل کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے گھانا کے سر براہ مملکت بریگیڈیر اے.اے افریفا Brigadier Akwasi Amankwaa Afrifa.24 April) (1979 June 1936.26 جو صدارتی کمیشن کے چیئر مین ہیں سے ملاقات فرمائی.اخبارات میں یہ خبر بھی فوٹو کے ساتھ بہت نمایاں طور پر شائع ہوئی.ڈیلی گرافک نے ۲۲ اپریل کے پرچہ میں اس ملاقات کا تین کالمی فوٹو بہت نمایاں طور پر شائع کیا.جس میں حضور انور اور بریگیڈ میرا فریفا کو ایک ہی صوفہ پر بیٹھے گفتگو کرتے دکھایا گیا.اس پر اخبار نے یہ عنوان جمایا.’ ”امام جماعت احمدیہ سے افریفا کی ملاقات.نیز فوٹو کے نیچے یہ عبارت شائع کی:.صدارتی کمیشن کے چیئر مین بریگیڈ میراے.اے افریفا صدارتی محل میں جماعت احمدیہ کے سربراہ اعلیٰ ، ہز ہولی نس مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث سے خوشگوار ماحول میں گفتگو فرمارہے ہیں.امام جماعت احمد یہ صدارتی کمیشن کے ممبران سے ملاقات کے لئے صدارتی محل (Osu Castle) میں تشریف لائے تھے.یہ مذہبی رہنما جو آجکل گھانا اور مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک کے دورہ پر تشریف لائے ہوئے ہیں.اب اس دورہ کے سلسلہ میں اکر اسے کماسی تشریف لے گئے ہیں.۲۱ اپریل کی صبح کو حضور نے گھانا کے شہر کماسی میں احمد یہ سیکنڈری سکول کا معاینہ فرمایا.اس موقعہ پر حضور نے طلباء کو ایک بصیرت افروز خطاب سے سرفراز فرمایا.اخبارات میں اس

Page 118

تاریخ احمدیت.جلد 26 108 سال 1970ء تقریب کی خبر بھی بہت نمایاں طور پر شائع ہوئی.مثال کے طور پر دی پائینز نے اپنی ۲۲ اپریل کی اشاعت میں جلی عنوانات کے تحت حضور کی تقریر کا ملخص درج کرتے ہوئے لکھا:.طلباء کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ حاصل کردہ علم کو بنی نوع انسان کی خدمت بجالانے اور انہیں رستگاری دلانے میں استعمال کریں.ان کا علم دوسروں کو اسیر کرنے اور ان پر غلامی مسلط کرنے میں استعمال نہیں ہونا چاہیے.یہ نصیحت جماعت احمدیہ کے سربراہ اعلیٰ ہر ہولی نس مرز اناصر احمد نے کل تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری سکول کے طلباء کو ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمائی.آپ نے ان پر زور دیا کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پورے خلوص سے ادا کریں.آپ نے فرمایا یہ دنیا قائم نہیں رہ سکتی جب تک کہ بنی نوع انسان صحیح معنوں میں دیانتداری کی راہ اختیار نہیں کرتے اور اپنے خالق کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کی طرف مائل نہیں ہوتے.ہنر ہولی نس مرزا ناصر احمد نے جو گھانا کے ایک ہفتہ کے دورہ کے سلسلہ میں دو روز کے لئے کماسی تشریف لائے ہوئے ہیں.طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر انسان کسی کام میں بھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتا.آپ نے طلباء کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے مذہبی فرائض اور ذمہ واریوں سے ہمیشہ باخبر رہیں اور پوری تندہی سے انہیں ادا کرنے میں کمی نہ آنے دیں.ہر ہولی نس نے فرمایا اگر کوئی انسان اپنی چالا کی اور ہوشیاری پر بھروسہ کر کے یہ سمجھتا ہے کہ وہ محض اپنی چالا کی کی وجہ سے کامیاب ہو جائے گا تو یہ اس کی بہت بڑی غلطی ہے.جو عاقبت نااندیشانہ جسارت پر دلالت کرتی ہے.ہر شخص اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کے فضل کا تاج ہے.آپ نے طلباء کو محض مادی دولت اور مادی آسائشوں کے حصول کو اپنا مطمح نظر بنانے کے خطرات سے خبر دار کرتے ہوئے فرمایا یہ بات نہایت ضروری اور بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ تم مادی اشیاء اور مادی آسائشوں کے پیچھے پڑنے کی بجائے روحانی کمال حاصل کرنے کی کوشش کرو.آپ نے طلباء کو نصیحت فرمائی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں اور اس کے فضلوں پر ایمان لاتے ہوئے اس کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ پوری وفاداری کا ثبوت دیں اور اپنے مطمح نظر کو کبھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں.آپ نے انہیں یہ تلقین بھی فرمائی کہ وہ اسلامی نظریات اور تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اسے ایک زندہ اور عملی حقیقت ثابت کر دکھائیں اور ہمیشہ عاجزانہ راہیں اختیار

Page 119

تاریخ احمدیت.جلد 26 108 109 سال 1970ء اسی روز (۲۱ / اپریل کو ) بعد میں حضور نے احمد یہ مشن ہاؤس کماسی کی نئی عمارت کا افتتاح فرمایا تھا.اخبار دی پائیر نے اپنی ۲۲ / اپریل کی اشاعت میں مشن ہاؤس کے افتتاح کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.بعد میں یہاں احمدیہ مسلم مشن کی نئی عمارت کا (جس پر ۲۴ ہزار این سی خرچ ہوئے ہیں ) افتتاح کرتے ہوئے ہر ہولی نس مرزا ناصر احمد نے اس موقعہ پر موجود آٹھ ہزار مسلمانوں سے خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا.گھانا پر اور گھانا کے ساتھ یقیناً پورے افریقہ پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نزول کا وقت آپہنچا ہے.آپ نے حاضرین سے اپیل کی کہ وہ اپنے دینی اور دنیوی فرائض کا پورا پورا احساس کرتے ہوئے انہیں بجالانے کی کماحقہ کوشش کریں.آپ نے فرمایا جب تک لوگ اپنی ذات میں خود دیانتدار نہیں بنیں گے اور صداقت شعاری اختیار نہیں کریں گے وہ اس دنیا میں حقیقی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیں گے.مشن ہاؤس کی افتتاحی تقریب میں ( ہزاروں مسلمانوں کے علاوہ) نانا اوسیئی آسپے دوم، کوکو فو مہینے ، احمد یہ مشن گھانا کے نامزد امیر بشارت احمد بشیر اور اشانٹی مشن کے ریجنل مشنری انچارج ایم.ملک بھی موجود تھے.100 دی پائنیر نے احمد یہ مشن ہاؤس کماسی کے افتتاح کے متعلق مندرجہ بالاخر شائع کرنے کے علاوہ اس تقریب کے تین تین کالمی دو نمایاں فوٹو بھی شائع کئے.ایک فوٹو میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو مشن ہاؤس کا دروازہ کھولتے اور اس طرح اس کا افتتاح کرتے ہوئے دکھایا گیا.فوٹو میں حضور کے قریب بعض دیگر احباب کے علاوہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید بھی کھڑے ہوئے نظر آ رہے تھے.اس فوٹو کے نیچے جو صفحہ اول کے اوپر کے حصہ میں شائع ہوا اخبار مذکور نے لکھا:.” جماعت احمدیہ کے سر براہ اعلیٰ حضرت مرزا ناصر احم خلیفہ المسیح الثالث کماسی میں ۲۴ ہزار این سی کی مالیت سے تیار ہونے والے نئے مشن کا افتتاح فرمانے کے لئے تالا میں چابی گھما رہے ہیں.بائیں جانب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر سیکرٹری برائے فارن مشن کھڑے

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد 26 افتتاحی رسم ادا ہوتے دیکھ رہے ہیں.110 نصرت جہاں ریز روفنڈ کی مبارک تحریک کا ذکر مجلس عرفان میں سال 1970ء افریقہ کے نہایت تاریخی اور کامیاب دورے سے واپسی کے بعد 9 جون ۱۹۷۰ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں حضور انور نے مجلس عرفان میں نصرت جہاں ریز روفنڈ کی نئی مبارک اور عظیم الشان تحریک پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.اس وقت میں سب سے پہلے اس کمیٹی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو میں نے نائیجیریا میں بنائی تھی اور جس کے ذمہ یہ کام تھا کہ وہ سکیم تیار کرے ۱۶ نئے ہائی سکول اور ہم طبی امداد کے مراکز کھولنے کے لئے طبی امداد کے مراکز کو وہاں ہیلتھ کلینک یا ہیلتھ سنٹر کہتے ہیں ان کو میں نے کہا کہ افریقہ چھوڑنے سے قبل اس کمیٹی کی پہلی رپورٹ مجھے ملنی چاہیے یعنی افریقہ کے بر اعظم میں مجھے پہلی رپورٹ ملنی چاہیے.سر جوڑو، نقشہ دیکھو، جگہوں کا انتخاب کرو.کہاں کہاں یہ اسکول اور طبی مراکز کھولنے ہیں اور آگے پھر تیاری.کتنے پیسے چاہئیں؟ وغیرہ.جس دن میں نے یہ کمیٹی بنائی اس سے اگلے روز دوپہر کے وقت اتفاقاً میری عادت نہیں) ٹرانسسٹر on ( آن ) کیا خبروں کا وقت تھا میں نے سمجھا شاید کوئی خبر میری دلچسپی کا باعث ہو.نائیجیریا کی نئے دستور کے مطابق ۱۲ / اسٹیٹس ہیں.ہر سٹیٹ کے گورنر ہیں.شمالی نائیجیر یا مسلمانوں کا علاقہ ہے جہاں پچھلی صدی کے مجدد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے جو صدی کے سر پر بہت سے مجدد پیدا ہوئے ان میں سے ایک نائیجیریا کے شمال میں عثمان بن فودیو (جن کا ذکر میں پہلے بھی کر چکا ہوں ) پیدا ہوئے تھے.کا نو بھی ان کا علاقہ ہے.ان کو اپنے مخالفین سے جنگ لڑنی پڑی تھی.جب وہ فاتح ہوئے تو کانو کا علاقہ ان کے ایک لڑکے سلیمان کو ملا تھا.انہی کی نسل اب وہاں آباد ہے اور سکو تو کا علاقہ یا سٹیٹ جو نارتھ ویسٹ ( شمال مغرب ) میں ہے وہ ان کے اس بیٹے کو ملا تھا جو بعد میں ان کے خلیفہ بنے اور جن کا نام محمد بن عثمان بن فود یو تھا.سکو تو میں ان کی نسل آباد ہے وہ سلطان آف سکو تو کہلاتے ہیں اور یہ امیر آف کا نو کہلاتے ہیں.کیونکہ یہ سارا علاقہ

Page 121

تاریخ احمدیت.جلد 26 111 سال 1970 ء مسلمانوں کا ہے انہوں نے احمدیت کا کافی مقابلہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا کا نو میں خدا کے فضل سے اچھی خاصی جماعت قائم ہو گئی ہے وہاں ہمارا ایک ہیلتھ سنٹر بھی ہے جہاں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کام کر رہے ہیں اور یہ ہیلتھ سنٹر وہاں اتنا مقبول ہے کہ انہوں نے بتایا کہ وہاں کے وزیر کو اگر طبی امداد کی ضرورت ہو تو وہ گورنمنٹ کے ہسپتال میں جانے کی بجائے (جہاں اسے ہزار قسم کی سہولتیں مل سکتی ہیں کیونکہ وزیر ہے ) ہمارے کلینک میں آتا ہے.بعض لوگوں نے اسے کہا بھی کہ تم یہ کیا کرتے ہواس نے کہا کہ مجھے یہاں زیادہ سہولت ملتی ہے، یہاں زیادہ اچھی طرح سے مریض کا علاج کیا جاتا ہے.غرض وہاں بڑا اثر و رسوخ پیدا ہو گیا ہے.لیکن سکو تو اسٹیٹ ابھی تک احمدیت کا مقابلہ کر رہی ہے.سکو تو کے گورنر کیبنٹ کی میٹنگ میں شمولیت کیلئے لیگوس آئے تھے.لیگوس سے سکو تو کی سٹیٹ قریباً آٹھ سو میل کے فاصلے پر واقع ہے.انہوں نے ائیر پورٹ پر صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ میری سٹیسٹ میں تعلیمی محاذ پر ایمر جنسی ہے اور میں نے یہ ایمر جنسی declare(ڈیکلیر ) کردی ہے اور اپنے تمام resources (ری سورسز ( اکٹھے کر رہا ہوں مجھے امید ہے کہ عوام میرے ساتھ تعاون کریں گے.یہ خبر جب میں نے سنی اس سے ایک دن پہلے میں نے کمیٹی مقرر کی تھی.چنانچہ میں نے ایک نائیجیرین احمدی کو جن کے متعلق آپ پڑھ چکے ہیں کہا کہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر تم جماعت میں شامل ہو گے.اس نے چوبیس گھنٹے کا انتظار بھی نہیں کیا بلکہ اسی وقت فارم کی تلاش کی اور ایک دو گھنٹے کے اندر ہی بیعت فارم پر کیا.ان کا قصہ یہ ہے کہ وہ چار سال سے احمدیت کا مطالعہ کر رہے تھے لیکن بیعت فارم پُر کرنے کے لئے تیار نہیں تھے.وہ اچھے عہد یدار ہیں.کیبنٹ سیکریٹریٹ میں ڈپٹی سیکرٹری ہیں.قریب دو ہزار روپے ماہوار تنخواہ لے رہے ہیں.غرض احمدیت کا مطالعہ بھی کیا اور جاتے ہی میرے ساتھ پیار کا بڑا اظہار کیا.ہر وقت اپنی کار لے کر آتے تھے اور مجھے کچھ حجاب بھی محسوس ہوا کہ احمدی نہیں ہیں.احمدی ہوتے بھی نہیں اور کار لے کر آ جاتے ہیں اور کاروں کی ہمارے پاس کمی بھی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.مجھے حجاب تھا کہ ان کی کار میں کیوں بیٹھیں.لیکن وہ

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد 26 112 سال 1970ء کہنے لگے کہ بات یہ ہے کہ دوسری کاریں ڈرائیور چلاتے ہیں اور مجھے ڈرائیوروں پر اعتبار نہیں میں اس لئے آجاتا ہوں کہ آپ کا قابلِ اعتبار ڈرائیور ہونا چاہیے.خیر وہ چونکہ کار چلاتے تھے.دو تین دن تک میں اپنی عادت کے مطابق ادھر ادھر کی باتیں کرتا پھر ایک بات احمدیت کے متعلق ان کے کان میں ڈال دیتا کبھی کوئی نظارہ ایسا دیکھوں جہاں اللہ تعالیٰ کی شان نظر آئے تو وہ ان کو کہوں.چنانچہ تین دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اب یہ تیار ہیں.وزیری ان کا نام ہے میں نے کہا وزیری تم سورج غروب ہونے سے قبل احمدیت میں داخل ہو گے.چنانچہ وہ احمدی ہو گئے.دو دن کے بعد ان کی بیوی ملیں تو میں نے ان سے کہا 'سورج غروب ہونے سے قبل احمدیت میں داخل ہو جاؤ میں تمہیں اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ سورج غروب ہونے میں نصف گھنٹہ باقی ہے اور نصف گھنٹے میں تمہیں بیعت فارم نہیں مل سکتا اس لئے میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ before the sun sets یعنی سورج کے غروب ہونے سے پہلے تم احمدیت میں داخل ہو بلکہ تمہیں میں یہ کہتا ہوں کہ چوبیس گھنٹے کے اندر داخل ہو چنانچہ اگلے دن صبح اس نے بیعت کر لی اور اس طرح سارا خاندان احمدی ہو گیا.انہی وزیری صاحب کو میں نے بھیجا کہ جا کر گورنر سے ملو اور میری طرف سے اسے یہ پیشکش کرو کہ ہم فوری طور پر تمہاری سٹیٹ میں چار سکول کھولنے کے لئے تیار ہیں دولڑکیوں کے اور دولڑکوں کے لیکن تمہارے تعاون کے بغیر یہ ہو نہیں سکتا اور تم سے ہم صرف دو چیزوں کا تعاون چاہتے ہیں ایک ہمیں زمین دو کیونکہ ہم باہر سے زمین نہیں لا سکتے تم ہی زمین دو گے تو سکول قائم ہوگا.اور دوسرے تم ہمارے اساتذہ کو entry permit (انٹری پرمٹ ) دو اس کے بغیر وہ تمہاری سٹیٹ میں آنہیں سکتے.چنانچہ اس پیشکش کو سن کر وہ بہت خوش ہوا.معلوم ہوتا ہے اس کے دل میں اس بات کا بڑا احساس ہے کہ اس کے علاقے کے مسلمان تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ نارتھ جو احمد بیت کا مقابلہ کر رہا ہے اس کے اندر عیسائی گھس گئے ہیں.گوا بھی ابتداء ہے.بہر حال وہ کہنے لگا کہ میں آپ سے ہر قسم کا تعاون

Page 123

تاریخ احمدیت.جلد 26 113 سال 1970ء کروں گا اور میں آپ کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے سکوتو کے لوگوں کا دل جیت لیا تو سارا مسلم نارتھ آپ کے ساتھ ہو جائے گا کیونکہ یہ عثمان بن فود یو کے بچوں کا مرکز ہے.پھر اس نے کہا کہ بہر حال قانونی کارروائی ضروری ہے اس لئے آپ لکھ کر مجھے بھجوا دیں.میں وہاں یہ کرتا رہا ہوں کہ کام ان پر نہیں چھوڑا بلکہ جو کام کرنا ہوتا تھا وہ اپنے سامنے کرواتا تھا.اسی رات کو میں نے خط ڈرافٹ کروایا.اپنی تسلی کر لی.دیکھ لیا اور جو تبدیلیاں کرنی تھیں وہ کروا دیں اور پھر ان کو دے دیا کہ یہ خط بھیج دو.جب وہ خط گیا تو بڑا اچھا جواب آیا اس کی نقل بھی مجھے وہیں پہنچ گئی تھی.دوسرے اس نے ان کو بعد میں یہ اطلاع دی کہ اس نے اپنے land deptt (لینڈ ڈیپارٹمنٹ) کو جس کا تعلق زمین کے دینے دلانے سے ہے یہ حکم دیا ہے کہ ان کی جتنی ضرورت ہے جہاں ان کو ضرورت ہے ان کے لئے زمین کا فوری انتظام کرو اور تعلیمی محکمہ کو کہا کہ یہ انتظار نہ کرو کہ یہ خط لکھ کر فارم منگوائیں گے بلکہ جو فارم پُر کرنے ضروری ہیں وہ خود ہی ان کو بھیج دو.پس ( انشاء اللہ ) جلد کام ہورہا ہے.نائیجیریا میں دورہ کی ابتدا تھی.اتنے ہی وسائل تھے جو دل میں خیال آیا وہ کر دیا.اسی طرح ہم دورہ کرتے چلے گئے پانچواں ملک گیمبیا تھا.ہم لائبیریا سے سیرالیون جو اس کے ساتھ ملتا ہے اس لئے نہیں ٹھہرے تھے کہ وہاں سے ہم نے ہوائی جہاز لینا تھا واپس ہیگ آنے کے لئے.پس اگر وہاں ٹھہر تے پھر گیمبیا جاتے پھر واپس یہاں آتے تو تکلیف ہوئی تھی ہمیں بھی اور دوستوں کو بھی ،اس لئے پروگرام یہ بنایا کہ لائبیریا سے ہم سیدھے گیمبیا چلے جائیں گے.جہاز ویسے وہاں ٹھہرتا ہے، کچھ دوست ائیر پورٹ پر آئے ہوئے تھے چیف گمانگا صاحب ہمارے پریذیڈنٹ جماعت بھی آئے ہوئے تھے.۳۰-۴۰ منٹ امروڈ رام پر مل جاتے ہیں.ان سے ملاقات ہوئی پھر ہم گیمبیا چلے گئے.جب میں گیمبیا میں تھا تو اللہ کی طرف سے بڑے زور سے یہ تحریک ہوئی کہ یہ وقت ہے کہ کم سے کم ایک لاکھ پونڈ فوری طور پر یہاں Invest کیا جائے.پھر سیرالیون میں اپنے کام کئے اور جب

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد 26 114 سال 1970ء میں لندن واپس آیا تو میں نے جمعہ میں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ فضل عمر فاؤنڈیشن میں انگلستان کی جماعتوں نے تین سال میں ۲۱ ہزار پونڈ چندہ دیا تھا.یہ بڑی رقم ہے چھوٹی سی جماعت ہے اور اس کے لئے مکرم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی تحریک کرتے رہے اور امام رفیق صاحب نے بھی بڑا زور لگایا اور شیخ مبارک احمد صاحب بھی وہاں مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر آئے اور پھر تین سال میں ۲۱ ہزار پونڈ جمع ہوئے ) دوستوں کو بتایا کہ گیمبیا میں مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء معلوم ہوا ہے کہ کم سے کم ایک لاکھ پونڈ یہاں خرچ کرو یہ وقت ہے.پس میں اپیل کرتا ہوں کہ دوسومخلصین مجھے ایسے چاہئیں جو دوسو پونڈ فی کس دیں اور دوسو مخلصین مجھے ایسے چاہئیں جو ایک سو پونڈ فی کس دیں اور اس کے علاوہ میں نے بچوں کے لئے ایک مہینہ میں ایک پونڈ اور ۳ سال میں ۳۶ پونڈ مقرر کئے لیکن پہلے بارہ پونڈ فوری طور پر ادا کرنے کو کہا.میں نے انہیں یہ بھی کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ انگلستان چھوڑنے سے قبل اس مد میں دس ہزار پونڈ کیش ہوتا کہ مجھے تسلی ہو جائے.میں نے انہیں یہ کہا کہ یہ تو اب نہیں ہوسکتا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کا بھی یہ منشاء ہے.میں لوگوں سے وعدے بھی کر کے آیا ہوں) دو ہفتے بعد اگر نائیجیر یا کہے کہ ہمیں دو ہزار پونڈ چاہئیں کیونکہ کام شروع کرنا ہے اور میں یہ کہوں کہ انا الغنی و اموالی المواعید کہ میں بڑا امیر ہوں اور وعدے جو ہیں وہ میری امارت اور دولت ہیں.پس یہ تو نہیں ہو سکتا اس لئے مجھے تسلی ہوئی چاہیے کہ فوری طور پر کام شروع کرنے کے لئے دس ہزار پونڈ موجود ہے اور یہ رقم ان بارہ تیرہ دنوں کے اندر جمع ہو جانی چاہیے.امام رفیق وغیرہ کا خیال تھا کہ یہ بالکل ناممکن بات میں نے کر دی ہے.میں نے ان کو ایک اور بات کہی اور وہ آپ کو بھی بڑے زور سے کہنا چاہتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ خرچ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور دے گا.یہ رقم بہر حال مجھے ملے گی.مجھے کوئی فکر نہیں.وہاں مجھے اب فوری طور پر تھیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور اساتذہ اس کے علاوہ ہیں.میں نے کہا کہ یہ بھی مجھے فکر نہیں کہ یہ رضا کا رواقف ملیں گے یا نہیں ملیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے یہاں کام کیا جائے.جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی ہونی چاہیے وہ یہ ہے کہ محض خدا

Page 125

تاریخ احمدیت.جلد 26 115 سال 1970ء کے حضور مال کی قربانی پیش کر دینا کوئی چیز نہیں جب تک وہ مقبول نہ ہو.اس واسطے آپ بھی دعائیں کریں اور میں بھی دعا کروں گا کہ یہ سعی مشکور ہو.اللہ تعالیٰ اس حقیر سی قربانی کو قبول فرمائے.....اس کے بعد میں بیٹھ گیا تو مسجد ( فضل ) میں ہی سترہ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے.پھر چوہدری ( ظفر اللہ خاں) صاحب نے مجھے کہا کہ بہت سے دوست جو باہر سے آنے والے ہیں وہ جمعہ میں نہیں پہنچ سکے کیونکہ کام کا دن ہے اتوار کو ان میں سے بہت سے نئے آدمی ہونگے اس لئے آپ ان کو اتوار کے دن خطاب کریں.چنانچہ وہاں بھی میں نے آدھے گھنٹے کی مختصر تقریر کی اور دس ہزار پونڈ کے وعدے وہاں ہو گئے اور جس وقت میں سپین گیا ہوں تو ڈھائی ہزار پونڈ ان کے پاس کیش جمع ہو گیا تھا.لیکن ابھی وہ امانت نہیں کھلی تھی.وہ مسجد کے فنڈ میں جمع ہو رہا تھا.ان سے میں نے کہا کہ میں نے اس طرح نہیں جانا اس کا "نصرت جہاں ریز روفنڈ“ نام رکھا ہے ایک ایک پیسہ اس فنڈ میں ہونا چاہیے.امانت کھولیں اور وہاں ساری رقم ٹرانسفر کروائیں.پھر ہم پین چلے گئے.وہاں سے بھی پوچھتے رہے.جب واپس آئے تو چھ ساڑھے چھ ہزار پونڈ کیش جمع ہو گیا تھا.کچھ اور وعدے ہو گئے تھے شاید یہ رقم ۳۲ ہزار پونڈ تک پہنچ گئی تھی.پھر میں نے انہیں کہا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے کم سے کم ڈبل مجھے چاہیے کیونکہ مسلمان احمدی کا قدم ایک جگہ کھڑا نہیں ہوسکتا ترقی کرتا ہے.امام رفیق مجھے کہنے لگے کہ یہ دس ہزار پونڈ دو چار دن میں کیسے جمع ہوں گے.آپ مجھے ایک مہینے کی مہلت دیں میں خود دورہ کروں گا اور اس طرح یہ دس ہزار پونڈ کی رقم جمع کروں گا.میں نے ان سے کہا کہ میں ایک دن کی مہلت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں اور میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب میں یہاں سے جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ دس ہزار پونڈ کا بھی انتظام کر چھوڑے گا.شاید اس سے بھی زیادہ ہو جائے.جس دن میں چلا ہوں ( یہ وہ رقم ہے جو ہمارے اکاؤنٹ میں جا چکی تھی.بعض رقموں کا ہمیں پتہ تھا مثلاً گلاسگو، ایڈنبر اوغیرہ میں جمع ہوگئیں لیکن ابھی پہنچی نہیں تھی ان کو میں نے شامل نہیں کیا تھا) چالیس ہزار کے وعدے ہو چکے تھے اور دس ہزار پانچ سو پونڈ نقد اس امانت میں جمع ہو چکا تھا.گو یا فضل عمر فاؤنڈیشن سے ڈبل سے بھی زیادہ.انشاء اللہ

Page 126

تاریخ احمدیت.جلد 26 116 سال 1970ء پچاس ہزار کے اوپر وعدے ہو جائیں گے.پس انہوں نے بڑا اچھا نمونہ دکھایا ہے.الحمد لله رب العالمین.پہلے میرا خیال تھا کہ یہاں کی سکیم کے بارے میں خطبہ میں بیان کروں گا لیکن پھر مجھے خیال آیا خطبہ ہوگا پھر خطبہ کی میں نظر ثانی کرتا ہوں دیر ہو جائے گی.پاکستان کے لئے جو سکیم ہے اس کا کراچی میں اعلان کر دوں..پاکستان میں مجھے دو سوایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ ہزار روپے کا وعدہ کریں جس میں سے دو ہزار روپیہ فوری طور پر ادا کر دیں.فوری سے میری مراد چند مہینوں کے اندر ادا کرنا ہے کیونکہ یہ اعلان شائع ہونا، آواز پہنچنی اور پھر رقموں کا آنا، اس میں وقت لگے گا اس لئے فوری سے میری مراد کل نہیں.سندھ سے کچھ دوستوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے علاقے کے زمینداروں کے حالات کے لحاظ سے نومبر کا مہینہ آسانی سے ادا کرنے کا ہے اس لئے فوری کی حد نومبر تک بڑھا دیں تو اور دوست شامل ہو جائیں گے اور دوسو ایسےمخلصین کی ضرورت ہے جو دو ہزار کا وعدہ کریں اور ایک ہزار فوری ادا کر دیں اور فوری اس معنی میں جو میں نے ابھی بیان کیا ہے اور باقی کی رقم تین سال پر پھیلا کر سہولت کے ساتھ ادا کریں.نیز ایک ہزار ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچصد روپیہ فی کس ادا کریں یہ تینوں گروہ صف اوّل صف دوم صف سوم کے ہونگے.غرض یہ سکیم ہے جس کے مطابق عمل کرنا ہے.تقریر کے بعد دوستوں نے عرض کیا حضور یہ رقم کہاں جمع کروانی ہے اس پر حضور نے فرمایا:.اس کے لئے میں ایک کمیٹی بناؤں گا.خزانہ میں ایک مد کھلے گی ”نصرت جہاں ریز روفنڈ کی.پھر فرمایا:.لندن والوں سے مجھے امید ہے کہ وہ پچاس ہزار پونڈ تک پہنچ جائیں گے اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی رقم کے روپے پاکستان دے دے گا.اس اثناء میں وعدے اور نقد روپے آنے لگے جس پر فرمایا:.

Page 127

تاریخ احمدیت.جلد 26 117 سال 1970ء اس وقت وعدے نہ لکھوائیں کیونکہ میں نے یہاں زیادہ دیر بیٹھنا نہیں.اور اگر میں نے یہ کام شروع کر دیا تو باقیوں کو شکوہ پیدا ہوگا کہ کیوں ہمارا وعدہ نہیں لیا.ابھی دفتر بھی نہیں.کمیٹی بنانی ہے.مدکھولنی ہے.پرسوں کی بجائے کل کھولنی پڑے گی.انشاء الل...مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کیلئے بھی دوست دعا کریں ایک نئے علم کا دروازہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے کھولا ہے.انہوں نے دو ہزار ڈالر دئے ہیں 111 لندن کی مد میں.یہاں انشاء اللہ مجھے امید ہے کہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی رقم جمع ہو جائے گی.ابھی امریکہ ہے بعض اور جگہیں ہیں.پس کم از کم ایک لاکھ پونڈ کا مجھے کہا گیا تھا باقی جتنی ہے وہ تو اللہ میاں کو پتہ ہے.ویسے سب سے پہلا وعدہ تو وہیں انگلستان میں ایک پاکستانی کا ہے اس نے کہا تھا کہ سب سے پہلے مجھ سے پانچ ہزار روپے کا وعدہ لیں.بہر حال نمبر ایک وہی ہیں.وہ اگر چہ پاکستان سے باہر ہیں لیکن ہیں پاکستانی ] خطبہ جمعہ میں سفر مغربی افریقہ وسیبین کا تذکرہ سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے کراچی کے بعد ۱۲ جون ۱۹۷۰ءکو خطبہ جمعہ ربوہ میں بھی سفر مغربی افریقہ کی مزید تفصیلات بیان فرمائیں.علاوہ ازیں سفر سپین کے اہم واقعہ پر بھی روشنی ڈالی.چنانچہ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ سپین کے متعلق میں نے ابھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا کیونکہ اگر میں صحیح سمجھا ہوں اللہ تعالیٰ کا منشاء بھی یہی ہے.میں بہت پریشان تھا.سات سو سال تک وہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے.اس وقت کے بعض غلط کار علماء کی سازشوں کے نتیجہ میں وہ حکومت مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی.وہاں کوئی مسلمان نہیں رہا.ہم نے نئے سرے سے تبلیغ شروع کی.چنانچہ اس ملک کے چند باشندے احمدی مسلمان ہوئے وہاں جا کر شدید ذہنی تکلیف میں غرناطہ جو بڑے لمبے عرصہ تک دارالخلافہ رہا.جہاں کئی لائبریریاں تھیں یونیورسٹی تھی ، جس میں بڑے بڑے پادری اور بشپ مسلمان استادوں کی شاگردی اختیار کرتے تھے.مسلمان وہاں سے مٹا دیئے گئے.غرض اسلام کی ساری شان و شوکت مادی بھی اور روحانی بھی اور اخلاقی بھی مٹادی گئی ہے.

Page 128

تاریخ احمدیت.جلد 26 118 سال 1970ء طبیعت میں اس قدر پریشانی تھی کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے.غرناطہ جاتے وقت میرے دل میں آیا کہ ایک وقت وہ تھا یہاں کے درودیوار سے درود کی آواز میں اٹھتی تھیں آج یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں.طبیعت میں بڑا تکدر پیدا ہوا.چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ جس حد تک کثرت سے درود پڑھ سکوں گا پڑھوں گا تا کہ کچھ تو کفارہ ہو جائے.لیکن اللہ تعالیٰ کی حکمت نے مجھے بتائے بغیر میری زبان کے الفاظ بدل دیئے.گھنٹے دو گھنٹے کے بعد اچانک جب میں نے اپنے الفاظ پر غور کیا تو میں اس وقت درود نہیں پڑھ رہا بلکہ اس کی جگہ لا الہ الا انت اور لا الہ الا ھو پڑھ رہا تھا.یعنی توحید کے کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے.تب میں نے سوچا کہ اصل تو تو حید ہی ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت بھی قیام تو حید کے لئے تھی.میں نے فیصلہ تو درست کیا تھا یعنی یہ کہ مجھے کثرت سے دعائیں کرنی چاہئیں لیکن الفاظ خود منتخب کر لئے تھے.درود سے یہ کلمہ کہ اللہ ایک ہے زیادہ مقدم ہے.چنانچہ میں بڑا خوش ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی میری زبان کے رخ کو بدل دیا.ہم غرناطہ میں دورا نہیں رہے.دوسری رات تو میری یہ حالت تھی کہ دس منٹ تک میری آنکھ لگ جاتی پھر کھل جاتی اور میں دعا میں مشغول ہو جاتا.ساری رات میں سونہیں سکا.ساری رات اسی سوچ میں گزرگئی کہ ہمارے پاس مال نہیں.یہ بڑی طاقتور قو میں ہیں.مادی لحاظ سے بہت آگے نکل چکی ہیں.ہمارے پاس ذرائع نہیں ہیں، وسائل نہیں ہیں ، ہم انہیں کس طرح مسلمان کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو یہ مقصد ہے کہ تمام اقوام عالم حلقہ بگوش اسلام ہو کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خادم بن جائیں گی، یہ بھی اقوام عالم میں سے ہیں یہ کس طرح اسلام لائیں گی اور یہ کیسے ہوگا.غرض اس قسم کی دعائیں ذہن میں آتی تھیں اور ساری رات میرا یہی حال رہا.چند منٹ کے لئے سوتا تھا پھر جاگتا تھا پھر چند منٹ کے لئے سوتا تھا.ایک کرب کی حالت میں میں نے رات گزاری وہاں دن بڑی جلدی چڑھ جاتا ہے.میرے خیال میں تین یا ساڑھے تین بجے کا وقت ہوگا میں صبح کی نماز پڑھ کر لیٹا تو یکدم میرے پر غنودگی کی کیفیت طاری ہوئی اور قرآن کریم کی یہ آیت میری زبان پر جاری ہوگئی.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

Page 129

تاریخ احمدیت.جلد 26 119 سال 1970ء اس بات کا بھی جواب آ گیا کہ ذرائع نہیں کام کیسے ہوگا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ پر توکل رکھو اور جو شخص اللہ پر توکل رکھتا ہے اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی.وہ اس کے لئے کافی ہے.اِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِم - اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بنا تا ہے اسے ضرور پورا کر کے چھوڑتا ہے اس لئے تمہیں یہ خیال نہیں آنا چاہئیے ، یہ خوف نہیں پیدا ہونا چاہئیے کہ یہ نہیں ہوسکتا.یہ ہوگا اور ضرور ہوگا کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض ہی یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو وحدت اسلامی کے اندر جکڑ دیا جائے.اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں لا کر کھڑا کر دیا جائے.دوسرا خیال یہ تھا اور اس کے لئے میں دعا بھی کرتا تھا کہ خدایا یہ ہوگا کب اس کا جواب بھی مجھے مل گیا.قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا.اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا ہے جس وقت وہ وقت آئے گا ہو جائے گا تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں.مادی ذرائع اگر نہیں ہیں تو تم فکر نہ کرو اللہ کافی ہے.وہ ہو کر رہے گا.چنانچہ میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہو اس کے متعلق میں نے آپ کے سامنے کوئی سکیم نہیں رکھی کیونکہ ابھی وہاں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کا منشاء معلوم نہیں ہوا.البتہ سپین کے متعلق میں ایک اور کوشش کر رہا ہوں جس کو ظاہر کرنا اس وقت مناسب نہیں لیکن جس کے لئے دعا کرنا آج ہی ضروری ہے.اس لئے بڑی کثرت سے یہ دعا کریں کہ جس مقصد کے لئے میں سپین گیا تھا اور جس کے پورا ہونے کے بظاہر آثار پیدا ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے ہمارا کام کر دے کیونکہ ہم کمزور اور عاجز بندے ہیں.پھر وہ دن ساری امت مسلمہ کیلئے بڑی خوشی کا دن ہوگا.بعض اس کو پہچانیں گے اور خوش ہوں گے.بعض نہیں پہچانیں گے اور خوش نہیں ہوں گے.یہ ان کی بدقسمتی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ دن ساری امت مسلمہ کے لئے خوشی کا دن ہوگا.میں نے مغربی افریقہ کے ممالک جہاں مسلمانوں کی بڑی بھاری اکثریت ہے ان میں سے بعض کے سفراء سے یہ کہہ دیا تھا کہ میرا ایک مشن ہے جس کے لئے میں سپین جا رہا ہوں اور تم دعا کرو.اور اس سے اصل مقصد میرا یہ تھا کہ میں دعا کے لئے کہونگا ان کے دل میں بھی احمدیت کی کوششوں کے بارہ میں ایک دلچسپی اور پیار پیدا ہو گا چنانچہ وہ اتنے خوش ہوئے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے اور انہوں نے بڑی دعائیں دیں بلکہ ان میں سے ایک نے مجھے کہا کہ مسٹر فرینکو کو کہہ دینا کہ

Page 130

تاریخ احمدیت.جلد 26 120 سال 1970ء میرے چانے سپین کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ انہیں مد کی ضرورت تھی.اگر وہ آپ کا یہ کام کر دیں تو میرا چچا بھی بہت خوش ہوگا.غرض انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا لیکن میں نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ پر میرا تو کل ہے وہ پورا کرے گا انشاء اللہ.خدا کرے کہ وہ وقت مقدر جلد آ جائے اور ہمارے لئے آج ہی وہ خوشیوں کے دن کی ابتداء بن جائے.پھر فرمایا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے بہت ساری تبدیلیاں کر رہے ہیں.ان تبدیلیوں کے آخری نتائج کو سنبھالنا انسان کا کام ہوتا ہے اور یہ جماعت احمدیہ کا کام ہے.اس دورہ میں آپ نے نائیجیریا میں ۶ اسکول کھولنے کے لئے احباب جماعت کو ہدایات دیں کہ وہ اس سلسلہ میں پانچ سالہ منصوبہ تیار کریں.آپ نے بتایا کہ غانا میں صدر ٹب میں نے جماعت احمد یہ غانا کے لئے سوا یکٹر زمین دینے کی منظوری دی ہے.اس دورہ میں آپ کے دل میں شدت سے اللہ تعالیٰ نے یہ ڈالا کہ ان ملکوں میں کم سے کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کیا جائے جس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا.حضور نے بتایا کہ اس رقم سے ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے ڈاکٹر ز اور ٹیچر ز جتنے چاہئیں مہیا کئے جائیں گے.اسی طرح آپ نے اس دورہ کے دوران خدا تعالیٰ کے جن فضلوں کو مشاہدہ کیا اور جو ایمان افروز حالات و واقعات پیش آئے ان کا تفصیل سے اپنے اس خطبہ جمعہ میں ذکر فرمایا.پاکستانی جماعتوں کی طرف سے مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۲ جون ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں "نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے لئے مالی قربانیاں پیش کرنے کی تحریک فرمائی تھی.یہ تحریک اس کے دو روز بعد الفضل میں اشاعت پذیر ہوکر جماعتوں میں پہنچنی شروع ہوئی.جوں جوں حضور کی آواز احباب جماعت تک پہنچتی گئی مخلصین جماعت اس پر والہانہ لبیک کہتے ہوئے مالی جہاد میں شامل ہوتے چلے گئے اور ایثار، 113 قربانی اور اطاعت امام کی سابقہ تمام روایات سے بڑھ کر انفاق فی سبیل اللہ کا ایک نیا اور درخشندہ ریکارڈ قائم کر دکھایا.چنانچہ ۷ اجون تک نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے وعدہ جات قریباً پانچ لاکھ تک ہوئے اور پچاس ہزار روپے سے زائد رقم موصول ہو گئی.اس کے بعد اس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ سیکرٹری نصرت جہاں سمیع اللہ صاحب سیال کے ایک اعلامیہ کے مطابق ۲۵ نومبر

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد 26 121 سال 1970ء ۱۹۷۰ء تک وعدوں کی رقم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے چھبیس لاکھ نوسوستائیس تک پہنچ گئی اور قریب سات لاکھ روپے مرکز کو وصول ہو گئے.114- لجنہ اماءاللہ سے خطاب مورخه ۱۳ جون ۱۹۷۰ء کو حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے مکان پر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے سفر مغربی افریقہ سے واپسی پر ربوہ کی مستورات سے پہلا خطاب فرمایا.جس میں حضور نے سفر کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اہم نصائح فرمائیں.اس اجتماع میں ربوہ کی خواتین کثرت کے ساتھ شامل ہوئیں.حضور نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا.میں نے دو ماہ تک مغربی افریقہ کے مختلف ممالک کا جو دورہ کیا ہے اس میں میں نے دیکھا ہے کہ وہاں پر مائیں اپنے بچوں کی بہت اچھی طرح تربیت کرتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا وہ اجتماعوں کے مواقع پر شور نہیں کرتے بلکہ غور سے تقاریر کو سنتے ہیں.کپڑے صاف ستھرے ،نہانے کا التزام ، اپنے گھروں کے آگے صفائی وغیرہ کا وہ لوگ خاص طور پر خیال رکھتے ہیں.وہاں کی عورتوں کا تجارت کی طرف بھی دماغ بہت چلتا ہے.چنانچہ بہت سی عورتیں کامیابی کے ساتھ تجارت اور کاروبار کرتی ہیں.اس وقت تک وہاں کی دو مخیر احمدی عورتیں لاکھوں روپیہ اپنی جیب سے خرچ کر کے دو شاندار مساجد تعمیر کروا چکی ہیں جبکہ وہاں کے مردوں میں ایسی مثال نہیں ملتی.وہ دین کی خاطر مالی قربانیوں میں پیش پیش ہیں.مردوں سے زیادہ شوق کے ساتھ جلسوں میں شامل ہوتی رہیں اور شور کرنے اور باتیں کرنے کی بجائے خاموشی اور دلجمعی سے تقاریر سنتی رہیں.میں نے کسی جگہ بھی انہیں آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا.حضور نے فرمایا.خلیفہ وقت سے ملاقات کا انہیں پہلی مرتبہ موقع ملا تھا.ان کی یہ خوشی نا قابل بیان تھی.ان کی خوشی و مسرت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی تھی.ان میں احمدیت کی بدولت ایک عظیم روحانی انقلاب آچکا ہے.ہمیں چاہیے کہ ہم چل کر نہیں بلکہ دوڑ کر ان کی ہر ممکن خدمت کرنے کی کوشش کریں.وہ لوگ پیار اور محبت کے بھوکے ہیں اور حقیقی پیار اور محبت سوائے اسلام اور احمدیت کے اور کہیں سے انہیں نہیں مل سکتا.حضور نے بتایا کہ ان کی خدمت کے لئے میں نے نصرت جہاں ریز روفنڈ قائم کیا ہے.جس سے ان ممالک میں نئے سکول اور طبی مراکز قائم کئے جائیں گے.آخر میں حضور انور نے فرمایا.اے احمدی ماؤں ! تم کوشش کرو اور ایسے رنگ میں اپنی

Page 132

تاریخ احمدیت.جلد 26 122 سال 1970ء 115 اولاد کی تربیت کرو کہ وہ بڑے ہو کر اسلام اور احمدیت کے بچے خدمت گزار ثابت ہوں.اور لوگوں کو حق کی طرف کھینچنے والے ہوں.آمین.حضور انور کا یہ خطاب کم و بیش ایک گھنٹہ تک جاری رہا.حضور انور کا اظہار خوشنودی بابت مبلغین سلسله مغربی افریقہ سید نا حضرت طریقہ اصبع الثالث نے مغربی افریقہ کے چھ ممالک کا دورہ فرمایا.حضور کواپنے اس سفر کے دوران ان ممالک کے مبلغین کا بہت قریب سے جائزہ لینے کا موقعہ ملا.ان کی دینی سرگرمیوں پر گہری اور ناقدانہ نظر ڈالی.حضور نے ۱۹ جون ۱۹۷۰ ء کے خطبہ جمعہ میں اپنے تاثرات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:.افریقہ کے دورہ میں واقفین مبشرین کے حالات میں نے دیکھے ان سے ملا.جو عزت اللہ تعالیٰ نے ان کی اس مقام نعیم کی وجہ سے قائم کی ہے وہ میرے مشاہدہ میں آئی.لیکن کچھ وہ بھی تھے کہ جو مقام نعیم کو حاصل نہیں کر سکے تھے ان کو بھی میں نے دیکھا اور ان کی زندگیوں کا مطالعہ کیا اور ان کے کاموں پر تنقیدی نگاہ ڈالی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان چھ ممالک کے تمام مبشر انچارج جو ہیں وہ ظاہری طور پر جو مجھے نظر آیا ( دلوں کا حال تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور مستقبل اور غیب کی خبر صرف اسی کو ہے لیکن جو میں نے محسوس کیا اور جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا ان پر بڑا فضل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی اس مقام نعیم میں رہنے والے ہیں.بے نفس، اللہ کی محبت میں مست ، اس کی مخلوق کی خدمت کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس دنیا میں بھی عزت کو پانے والے ہیں.نائیجیریا میں فضل الہی صاحب انوری ہیں.غانا میں کلیم صاحب ہیں.آئیوری کوسٹ میں قریشی ( محمد افضل ) صاحب ہیں جن کو پنجابی میں ”یبا مبشر بھی کہا جا سکتا ہے.بہت سادہ اور پیاری ان کی طبیعت ہے.بڑی پیار کرنے والی اور آرام سے سمجھانے والی اور اپنے آرام کو اور بہت سی ضرورتوں کو دوسروں کے لئے قربان کر دینے والی ہے طبیعت ان کی.لائبیریا میں نے مبلغ گئے ہیں امین اللہ سالک.ابھی ان کے متعلق پوری طرح تو کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس وقت تک جو کام انہوں نے کیا اس سے یہی پتہ لگا وہاں کے

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد 26 123 سال 1970ء پریذیڈنٹ ٹب مین بھی ان کو بڑی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.سیرالیون میں ہمارے صدیق صاحب ہیں.گیمبیا میں مولوی محمد شریف صاحب ہیں.میں نے محسوس کیا کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مقام نعیم عطا کیا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں میں نے ان کے لئے عزت کا مقام دیکھا.اسی طرح دنیا کی نگاہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک عزت اور احترام کا مقام عطا کیا ہے.ہمارے سفراء ان کی تعریف کرتے تھکتے نہیں.دوسرے ملکوں کے سفراء ان سے بڑے پیار سے ملتے ہیں اور پیار کے تعلقات ان کے ساتھ قائم ہیں.حکومت ان سے راضی ہے عوام ان پر خوش ہیں.غرض ہر لحاظ سے ان کے چہروں پر اللہ تعالیٰ کی نعمت کی شادابی ہمیں نظر آتی ہے اور ہماری جماعت کو ان کے لئے بہت دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں ابرار ہی میں رکھے اور ہمیشہ اپنی نعمتوں کا وارث انہیں بناتا رہے وہ ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا سے رخصت ہوں اور ابرار کے گروہ میں ہی اس دنیا میں وہ اٹھائے جائیں“.116- حديقة المبشرین کا قیام سفرافریقہ سے واپسی پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ایک انقلابی قدم یہ اٹھایا کہ سلسلہ احمدیہ کے تمام واقفین کو ایک جدید نظام عمل سے وابستہ کر کے حدیقہ المبشرین“ کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم فرمایا.اب تک یہ دستور تھا کہ جامعہ احمدیہ سے کامیاب ہونے والے شاہدین کو مستقل طور پر تحریک جدید اور صدر انجمن احمد یہ پاکستان میں مساوی طور پر تقسیم کر دیا جاتا تھا.صدر انجمن احمدیہ کے حصہ میں آنے والے شاہدین کو پاکستان میں دینی خدمت کے لئے مخصوص کر دیا جاتا اور تحریک جدید کے واقفین اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے بیرونی ممالک میں بھجوا دئے جاتے.لیکن حضور انور نے ۱۹ جون ۱۹۷۰ء کو یہ طریق یکسر بدل دیا اور اس روز خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.”اب میں ایک نئی تنظیم کا اعلان کرنے لگا ہوں.میں نے بہت سوچا بہت دعائیں کیں.میں اللہ تعالیٰ کی طرف عاجزانہ جھکا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ

Page 134

تاریخ احمدیت.جلد 26 124 سال 1970ء ہمیں اپنا پرانا طریق بدل دینا چاہیے اور یہ چیز پہلے مبلغین پر بھی حاوی ہو جائے گی اور نئے آنے والوں پر بھی کہ نہ کوئی تحریک کا ہوگا نہ کوئی انجمن کا ہوگا.تمام واقفین کا ایک خاص گروہ بن جائے گا.ایک جماعت، ایک pool (پول) ہوگا.ایک Reservoir ( ریز روائیر ) ہوگا ایک تالاب ہو گا جس میں یہ روحانی مچھلیاں اجتماعی زندگی گزاریں گی اور تربیت حاصل کریں گی اور نشو ونما پائیں گی.نئے اور پرانے اس پول میں چلے جائیں گے.جو پرانے ہیں ایک سال کے اندر ہم ان کی screen (سکرین) کریں گے یعنی بصیغہ راز ان کے تمام حالات ، ان کی ذہنیت وغیرہ وغیرہ معلوم کریں گے.یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی میں کوئی نقص ہو اس کی وجہ سے اس کو باہر نہ بھیجا جائے.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے حالات یا اس کی ذہنیت ایسی ہو کہ وہ یہاں بہت اچھا کام کر سکتا ہو باہر نہ کر سکتا ہو.یہ سارے کوائف ہم اکٹھے کریں گے اور اسی طرح مثلاً آٹھ جو میں نے پہلے مثال دی تھی کہ جامعہ سے جو نئے فارغ ہوئے ہیں ان نئے فارغ ہونے والوں کو اس پول میں بھیج دیا جائے گا.نہ کوئی تحریک کے پاس جائے گا نہ انجمن کے پاس.لیکن تعداد دونوں کی مقرر ہو جائے گی.مثلاً پہلے ساٹھ مبلغ ہیں اس سال آٹھ نئے مبلغ پیدا ہوئے ہیں تو چاران کے حصہ میں آئیں گے تو یہ ہو جائے گا کہ پہلے تحریک جدید کے ساٹھ تھے اب چونسٹھ ہو گئے.اور اگر پہلے اسی مبلغ ہیں صدر انجمن احمدیہ کے اب ان کو چار ملے تو چوراسی ہو گئے.لیکن وہ کون کون ہوں گے اس کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا.وہ پول کے ہوں گے اور وہیں سے وہ باہر جائیں گے اور کوئی شخص باہر نہیں جائے گا جب تک کم از کم تین سال تک اس نے پاکستان میں کام نہ کیا ہو اور اس کے حالات اور اس کی ذہنیت کا ہمیں علم نہ ہو.اور پہلوں کی Screening (سکریننگ ) تو اسی سال ہو گی اور نئے آنے والوں کی سکریننگ تین سال کے بعد ہوگی.اور پھر ان میں سے ( car mark) (اسر مارک ) معین کر دئیے جائیں گے یعنی نشاندہی ہو جائے گی کہ یہ یہ مبلغ ایسے ہیں جو بیرونی ممالک میں کام کرنے کے قابل ہیں.پھر جتنے ان کے حصہ کے ہیں اتنے ان میں سے باہر بھیج دیئے جائیں گئے.

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد 26 125 سال 1970ء حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ابتداء میں اس ادارے کا نام پول مخلصین رکھا تھا مگر بعد میں اسی سال ماہ دسمبر ۱۹۷۰ ء کے آخر میں بعض احباب کی تجویز پر نام بدل کر حدیقہ المبشرین رکھ دیا.دفتر کے ریکارڈ کے مطابق ۸ دسمبر ۱۹۷۰ء کو حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ پول مبلغین میں ایک لفظ انگریزی کا ہے اور ایک عربی کا ہے اس لئے زیادہ موزوں ہوگا کہ اگر دونوں عربی کے الفاظ ہوں.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے دائرۃ المبشرین“ کا لفظ تجویز کیا.حضرت خلیفہ اُسیح نے یہ معاملہ جامعہ احمدیہ کے سپرد کر دیا.جامعہ احمدیہ کے پرنسپل محترم سید داؤ داحمد صاحب مرحوم نے اپنے ادارے کے فاضل عربی اساتذہ (ملک مبارک احمد صاحب، محترم قریشی نور الحق تنویر صاحب) سے مشورہ کے بعد عرض کیا کہ ان کی رائے میں حدیقۃ المبشرین' کا نام مناسب رہے گا.حضور نے اس تجویز کو پسند فرمایا اور اس ادارے کا نام حدیقہ المبشرین رکھ دیا گیا.دفتر کا قیام حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے اگر چہ 19 جون ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں مبلغین کے پول کے قیام کا اعلان فرمایا تھا لیکن عملاً یہ ادارہ ۲۰ اگست ۱۹۷۰ء کو جاری ہوا.ابتداء میں اس کا دفتر پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح کے دفتر کے ایک کمرہ میں قائم کیا گیا.بعد ازاں اسے قصر خلافت مسجد مبارک کے ساتھ خلافت لائبریری کی پرانی عمارت کے ایک حصہ میں منتقل کر دیا گیا.سیدنا حضرت خلیفتہ استیج الثالث نے مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب کو ادارہ کا پہلا سیکرٹری مقرر فرمایا.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایات کے مطابق شبانہ روز کوشش سے اس ادارہ کے ابتدائی انتظامات کو عملی شکل دی اور اسے مضبوط بنیادوں پر مستحکم کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.آپ کے بعد جو حضرات سیکرٹری حدیقہ المبشرین کے عہدہ پر ممتاز ہوئے ان کے نام یہ ہیں:.(۱) مولا نا عطاءاللہ کلیم صاحب ۲۰ / اگست ۱۹۷۰ء تا ۱۸/اکتوبرا۱۹۷ء (۲) مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ۱۹ راکتو بر ۱۹۷۱ء تا ۳۰ را پریل ۱۹۷۹ء (۳) مولانا فضل الہی انوری صاحب یکم مئی ۱۹۷۹ ء تا ۷ امارچ ۱۹۸۲ء (۴) مولانا محمد شفیع اشرف صاحب ۱۸ مارچ ۱۹۸۲ء تا۲۹ مارچ۱۹۸۹ء (۵) مولانا سلطان محمود انور صاحب ( قائمقام سیکرٹری) ۳۰ مارچ ۱۹۸۹ ء تا ۷ جون ۱۹۸۹ء

Page 136

تاریخ احمدیت.جلد 26 126 سال 1970ء (۶) مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب ۸ جون ۱۹۸۹ء تا ۲۶ / اگست ۱۹۹۵ء (۷) مولانا جمیل الرحمن رفیق صاحب ۲۷ را گست ۱۹۹۵ء تا ۳۰ ستمبر ۱۹۹۸ء نوٹ : یکم اکتوبر ۱۹۹۸ء سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ارشاد کی تعمیل میں دفتر حدیق المبشرین کے فرائض وکالت دیوان تحریک جدیدا دا کر رہی ہے.119 دفتر کے ریکارڈ کے مطابق مولانا کلیم صاحب سیکرٹری حدیقتر المبشرین نے اخراجات کی منظوری کے لئے سب سے پہلی درخواست ۶ اکتوبر۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے حضور پیش کی جس میں فرنیچر اور سٹیشنری کے لئے کل ۹۸۰ روپے مرحمت کئے جانے کی عرضداشت تھی.حضور نے فیصلہ فرمایا کہ حدیقہ کے اخراجات صدر انجمن اور تحریک جدید نصف نصف برداشت کیا کریں گے.نیز حضور نے دونوں مرکزی اداروں کو فوری ہدایت جاری فرمائی کہ فی الحال وہ ایک ایک ہزار روپے کا بجٹ حدیقہ کے لئے منظور کریں.۱/۸ کتوبر ۱۹۷۰ء کو حضور نے حدیقۃ المبشرین کو اپنا اکاؤنٹ امانت تحریک جدیدر بوہ میں کھولنے کی اجازت مرحمت فرمائی.ابتداء میں چونکہ کوئی باقاعدہ عملہ نہیں تھا اس لئے حضور نے ۷ اکتوبر کو فی الحال نئے شاہدین میں سے ایک یعنی صالح محمد خان صاحب سے بطور کلرک کام لینے کی اجازت عنایت فرمائی.اانومبر ۱۹۷۰ء کو حضور نے حدیقہ المبشرین کے لئے ایک اکاؤنٹ کلرک کا تقرر منظور فرمایا.چوہدری محمد ادر میں صاحب عابد ( سابق صدر حلقہ سٹیل ٹاؤن کراچی ).آپ کے بعد محمد شفیق صاحب اکا ؤنٹنٹ رہے اور پھر ولی الرحمن صاحب سنوری اور سعید اللہ ملہی صاحب یہ خدمت بجالائے ہیں.اس نئے ادارہ کی بنیاد کے وقت مرکز احمدیت ربوہ کے زیرانتظام ۶۷ امربیان سلسلہ سرگرم عمل تھے جن میں سے ۷ تحریک جدید کے ماتحت بیرونی ممالک میں اور ۷ صدر انجمن احمد یہ کے ماتحت پاکستان میں خدمات بجالا رہے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ہدایات کی روشنی میں ان تمام خدام دین کے الاؤنس اور جملہ مالی امور کا حساب بدستور تحریک جدید اور صدرانجمن احمدیہ کے پاس رہا لیکن اُن کے دیگر امور کا مفصل ریکارڈ حدیقہ المبشرین کے سپرد کر دیا گیا اور آئندہ تقرریاں بھی اسی کی وساطت سے ہونے لگیں.۱۹۷۰ء میں جامعہ احمد یہ ربوہ کے پندرہ فارغ التحصیل شاہدین حدیقۃ المبشرین کے زیرانتظام آئے.۱۹۸۸ء اور ۱۹۸۹ء کے سال اس اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان سالوں میں

Page 137

تاریخ احمدیت.جلد 26 127 سال 1970ء بالترتیب ۵۱ اور ۵۵ نئے مربیان کرام حدیقہ سے وابستہ ہوئے.حديقة المبشرین نے حضرت خلیفہ امسیح کے ارشاد مبارک پر نہایت محنت و جانفشانی کے ساتھ سلسلہ احمدیہ کے جملہ مربیان کرام کے کارڈ تیار کئے جن پر ان کی تصویر کے ساتھ ضروری کوائف بھی درج کئے.نیز دفتر میں آویزاں کرنے کے لئے ان کی تصاویر شیشے کے چھ بڑے بڑے فریموں میں محفوظ کر دیں.جن میں مندرجہ ذیل ترتیب کے ساتھ تصاویر لگائی گئیں.وو ا منهم من قضى نحبه‘ میں شامل مبلغین کرام ۲.بر اعظم افریقہ کے مبلغین کرام ۳.براعظم ایشیا کے مبلغین کرام ۴.بر اعظم یورپ و امریکہ کے مبلغین کرام ۵.پاکستان کے مربیان کرام ۶.انتظامیہ میں شامل اور ریز رو مبلغین کرام طریق کار اور لائحہ عمل سید نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی حدیقہ المبشرین کے طریق کار اور لائحہ عمل کے بارے میں استفسار فرمایا.اس پر اس وقت کے سیکرٹری حدیقۃ المبشرین محترم مولانا محمد شفیع اشرف صاحب نے حضور کی خدمت میں اس کے متعلق ایک عریضہ ارسال کیا جس پر حضور نے یہ نوٹ لکھا کہ حدیقہ امیر مین اپنے اسی طریق کے مطابق کام جاری رکھے.اس خط کا متن اور سید نا حضرت خلیفتہ اسیح کا رقم فرمودہ نوٹ درج ذیل ہے:."حديقة المبشرين - لائحہ عمل اور طریق کار سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس ادارہ کے قیام کا اعلان ۱۹ جون ۱۹۷۰ کو فرمایا تھا.عملاً ۲۰ را گست ۱۹۷۰ء کو حدیقہ المبشرین نے کام شروع کیا.اس وقت اس کا نام پول مبلغین “ تھا.(۱) جملہ شاہدین جو جامعہ احمدیہ پاس کر لیتے ہیں وہ وکالت دیوان تحریک جدید کے توسط سے تمام کے تمام حدیقہ المبشرین میں رپورٹ کرتے ہیں.(اب یکم جولائی ۱۹۸۲ء کو انشاء اللہ نئے شاہدین جامعہ احمدیہ سے آئیں گے ) (۲) ان کے بارے میں حضور سے ہدایات لے کر انہیں کم از کم ایک سال کے لئے اصلاح و -

Page 138

تاریخ احمدیت.جلد 26 ارشاد مقامی میں بھیجوایا جاتا ہے.128 سال 1970ء (۳) ایک سال وہاں کام کرنے کے بعد پھر حضور سے ہدایت حاصل کر کے انہیں اصلاح و ارشاد مرکز یہ میں بھجوایا جا سکتا ہے.(۴) مجموعی طور پر کم از کم پانچ سال کے تجربہ کے بعد ان کے نام حضور کی خدمت میں بیرون ملک کے لئے تجویز کئے جا سکتے ہیں.اور اگر حضور منظور فرما لیں تو انہیں وکالت تبشیر میں بھجوا دیا جاتا ہے.(۵) بیرونی ممالک کے لئے کوئی نام تجویز کرنے سے پہلے اس مبلغ کے بارے میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ( حضور نے اس پر دائرہ لگا کر تحریر فرمایا ” وکیل التبشیر ) سے زبانی مشورہ کرنا ضروری ہے.ان کے مشورہ کے بعد حسب ضرورت لکھ کر ان سے توثیق بھی کروائی جاتی ہے.پھر جہاں جہاں اس مربی نے کام کیا ہوتا ہے وہاں کے امراء یا کسی اور مناسب عہد یدار سے نیز نظارت اصلاح وارشاد، وکالت تبشیر اور جامعہ احمدیہ وغیرہ سے اس کے کام کے بارے میں رپورٹیں منگوائی جاتی ہیں.خود سیکرٹری حدیقہ المبشرین کا اپنا ریکارڈ اور تاثر بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے.ان سب کو مرتب کر کے مبلغ کے کارڈ کے ساتھ جس پر اس کے ضروری کوائف اور تصویر بھی ہوتی ہے حضور کی خدمت میں ان کا معاملہ پیش کیا جاتا ہے.(۶) جو مبلغ باہر جاتا ہے کم از کم تین سال کے لئے ان کا قیام بیرون ملک ضروری ہے.اگر سلسلہ کی ضرورت ہو تو یہ عرصہ پانچ سال کا بھی ہوسکتا ہے، اگر فیملی ساتھ ہو تو بھی.(۷) جو مبلغ بیرون ملک اپنا عرصہ پورا کر لیتے ہیں خواہ کسی دوسری جگہ ان کو تبدیل کر دیا جائے تو بھی ضروری ہے کہ پہلے وہ مرکز میں آئے.(۸) بعض مبلغین کے کارڈوں پر حضور کے ارشاد کے ماتحت یا از خود حضور نے سرخ نشان (x) لگوایا ہوا ہے.اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے مبلغین کے اسماء بیرونی ملکوں کے لئے تجویز نہیں کئے جاسکتے.اس طرح حضور کی طرف سے جن مبلغین کے بارے میں کوئی خاص ہدایت اس کے علاوہ ہو وہ نام بنام نوٹ کر لی جاتی ہے اور ان کے بارہ میں کوئی بھی کارروائی کرتے ہوئے حضور کی اُن ہدایات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے.(۹) جو مبلغین بیرون ملک سے آتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ مرکز میں اپنا عرصہ

Page 139

تاریخ احمدیت.جلد 26 129 سال 1970ء رخصت گذار کر پھر حدیقہ المبشرین میں رپورٹ کریں.حدیقہ ان کے بارہ میں حضور سے نئی ہدایات لے کر جہاں ان کو بھجوانا ہو متعلقہ ادارہ کو اس کی اطلاع کرتا ہے.(۱۰) حدیقۃ المبشرین کے بجٹ میں اس وقت (۱۹۸۲ء میں )۱۵۵ مبلغین اور ۲ را فراد عملہ کے شامل ہیں.ان سب کی فائلیں، سروس بکیں اور ضروری ریکارڈ حدیقہ میں ہوتا ہے.حدیقہ ہی ان سب کو الاؤنس اور دوسرے بل ادا کرتا ہے.مثلاً امداد سرما، امداد گندم وغیرہ.(۱۱) حدیقہ کے بجٹ کا نصف حصہ تحریک جدید اور نصف انجمن ادا کرتی ہے.دونوں اداروں کی طرف سے ہر سہ ماہی کے لئے اخراجات پیشگی مل جاتے ہیں.حدیقہ کے بلوں کی پڑتال کے لئے مکرم ناظر صاحب دیوان آڈیٹر مقرر ہیں.(۱۲) ہمارا اکاؤنٹ امانت تحریک جدید میں ہے جسے سیکرٹری حدیقہ المبشرین اور مکرم ناظر صاحب اصلاح وارشاد آپریٹ کرتے ہیں.(۱۳) علاوہ دوسرے فرائض کے حدیقہ المبشرین سال میں ایک بار مربیان کرام کے لئے ریفریشر کورس منعقد کرتا ہے.جس کے لئے جملہ نصاب، پروگرام اور دوسری تمام تفصیلات حضور منظور فرماتے رہے ہیں.گذشتہ سالوں میں آخری تین سالوں کے مربیان ایک ماہ کے لئے اس کورس میں شامل ہوتے تھے.اس دفعہ حضور نے صرف دو سالوں کے مربیان کو شامل ہونے کے لئے فرمایا تھا.گل ۲۸ مربیان تھے جن کو چار گروپوں میں تقسیم کر لیا گیا تھا.کورس کی مدت بھی ایک ایک ہفتہ کر دی گئی اس طرح ۲۸ مربیان کے چار گروپ مجموعی طور پر ۵ امئی سے اجون تک ریفریشر کورس میں شریک ہوئے.(۱۴) اس وقت حدیقہ المبشرین کا عملہ ایک سیکرٹری، ایک محرر درجہ دوم اور ایک مددگار کارکن پر مشتمل ہے.دستخط محمد شفیع اشرف ۲۳/۶/۸۲ اس خط پر حضرت خلیلة امسیح الرابع نے مندرجہ ذیل نوٹ رقم فرمایا:.واپس.ٹھیک ہے.اسی طریق پر کام جاری رہے.ہاں اگر کسی بارہ میں دقت پیش آئے اور طریق بدلنا مناسب معلوم ہو تو ایسی صورت میں تحریری رپورٹ کریں.( حضورانور) ۲۶/۶/۸۲ 0

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد 26 مجلس نصرت جہاں کا قیام ہے.130 سال 1970ء حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے مجلس نصرت جہاں کی جواؤلین کمیٹی ترتیب دی وہ درج ذیل ا.مكرم وكيل التبشیر صاحب مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب (نائب صدر ) مکرم مولانا نذیر احمد مبشر صاحب مکرم محمد اسمعیل منیر صاحب (سیکرٹری) مکرم مولا نا مقبول احمد قریشی صاحب ۶ - مکرم مرزا خورشید احمد صاحب ۷.مکرم مرزا انس احمد صاحب مجلس نصرت جہاں کے قیام پر سید نا حضرت ملا یہ اسی انالٹ نے اس کمیٹی کو۲ جون ۱۹۷۰ء کو حسب ذیل ارشاد فرمایا: پروگرام لیپ فارورڈ جواب چھ ملکوں پر مشتمل ہے اس کام کو تیزی اور تندہی سے کرنے کے لئے مندرجہ بالا کمیٹی بنائی گئی ہے.اور جب تک یہ کام مضبوطی سے اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو جاتے وکالت تبشیر تحریک جدید کے ساتھ براہ راست 66 اس کا تعلق نہیں ہوگا.یہ کمیٹی براہ راست میری نگرانی میں کام کرے گی.“ 121 ارض بلال میں ہسپتالوں اور سکولوں کا قیام سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے دورہ افریقہ سے واپسی کے بعد چند سالوں کے اندراندر ارض بلال افریقہ میں کس طرح نئے ہسپتالوں اور سکولوں کا جال بچھا دیا وہ ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے جو قیامت تک ستاروں کی طرح چمکتا دمکتا رہے گا جس کی ایمان افروز تفصیلات اپنے اپنے مقام پر آئیں گی مگر ۱۹۷۰ء کے واقعات میں بھی وقت تحریر ہذا ۲۰۱۴ ء تک کا ایک مختصر خاکہ پیش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.

Page 141

تاریخ احمدیت.جلد 26 نئے ہسپتال 131 سال 1970ء نمبر نام ہسپتال مقام سن اجراء ابتدائی ڈاکٹر صاحبان شمار و گھانا کے 1 احمدیہ ہسپتال كوكوفو یکم نومبر ۱۹۷۰ء بریگیڈیر (ریٹائرڈ) ڈاکٹر غلام احمد صاحب.(نصرت جہاں سکیم کے تحت قائم ہونے والا پہلا میڈیکل سنٹر.۱۹۸۰ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث دوسری مرتبہ غانا تشریف لے گئے تو ۲۶ راگست کو حضور انور نے اپنے دست مبارک سے نئی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا) 2 احمد یہ ہسپتال اسکورے ۱۹۷۱ء ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب.(۹) مارچ ۱۹۷۴ء | کو ہسپتال کی نئی عمارت کا افتتاح ہوا ) 3 4 احمد یہ ہسپتال سویڈرو ۱۸ نومبر ۱۹۷۱ ء | ڈاکٹر آفتاب احمد چوہدری صاحب احمد یہ ہسپتال ٹیچی مان ۲۶ ستمبر ۱۹۷۱ء ڈاکٹر بشیر احمد خان صاحب یکم اکتوبر ڈاکٹر آئی.بی.محمد صاحب.( یہ کلینک بند ہو 5 احمد یہ میڈیکل سنٹر ایکروفوم ١٩٨٣ء چکا ہے) 6 احمد یہ ہسپتال ڈبو آسی ١٩٩٤ء ڈاکٹر عبد الحفیظ بھروانہ صاحب.نئی عمارت کا افتتاح نومبر ۱۹۹۷ء میں کیا گیا ) 7 احمد یہ ہسپتال کالیو ۷ را پریل ۱۹۹۶ء ڈاکٹر نصیر احمد شیخ صاحب احمد یہ میڈیکل سنٹر وا 0 احمدیہ ہسپتال MIM ۲۰۰۰ء ڈاکٹر نصر اللہ حمید صاحب ۱۹ نومبر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب ۲۰۰۷ء

Page 142

تاریخ احمدیت.جلد 26 10 احمد یہ ہربل کلینک اشانٹی ریجن 132 ۲۰۰۷ء 11 احمد یہ ہومیو کلینک بواڈی ١٩٩١ء سال 1970ء ڈاکٹر اسدالزماں صاحب آف انڈیا.یہ کلینک اب بند ہو چکا ہے.ڈاکٹر محمد ظفر اللہ صاحب و محترمہ مبشر نسیم صاحبہ.اس کلینک کا آغاز اکرا میں ہوا.۱۹۹۴ء میں اسے مستقل طور پر بواڈی ( کماسی) میں منتقل کر دیا جہاں اس کا باقاعدہ افتتاح ۹ را پریل ۱۹۹۴ء | کو کیا گیا) 12 طاہر ہومیوکمپلیکس بواڈی ۱۹۹۵ء ڈاکٹر محمد ظفر اللہ صاحب و محترمہ مبشرہ نسیم صاحبہ.یہ ادارہ ہو میو ادویات کا غانا میں پہلا کارخانہ ہے) 13 احمد یہ ہو میو کلینک ساچرے ١٩٩٦ء ڈاکٹر شبیر حسین صاحب و اہلیہ ڈاکٹر عظمی خلیل صاحبہ (دسمبر ۲۰۰۵ میں یہ ہسپتال بند ہو گیا ) ڈاکٹر شبیر حسین صاحب و اہلیہ ڈاکٹر عظمی خلیل اڈو ماسی 14 احمدیہ ہو میو کلینک کو فوریڈوا ١٩٩٨ء 15 احمد یہ ہو میو کلینک ماکسیم | 1 احمد یہ میڈیکل سنٹر جورو صاحبه ۵ ستمبر ۲۰۰۰ ء ڈاکٹر محمد مصطفیٰ صاحب آف گھانا.اب یہ کلینک بند ہو چکا ہے.سیرالیون که ے جون ۱۹۷۱ ء ڈاکٹر محمد اسلم جہانگیری صاحب.(سیرا لیون میں نصرت جہاں سکیم کا پہلا ہسپتال.یہ ہسپتال بند ہو چکا ہے) 2 احمد یہ میڈیکل سنٹر بواجے بو ۳ جولائی ۱۹۷۱ ء ڈاکٹر امتیاز احمد چوہدری صاحب.(ستمبر ۱۹۷۵ء کو ہسپتال کی نئی عمارت تعمیر ہوئی.یہ ہسپتال بوجہ خانہ جنگی بند ہو چکا ہے )

Page 143

تاریخ احمدیت.جلد 26 133 سال 1970ء 3 احمد یہ ہسپتال روکو پر ۴ دسمبر ۱۹۷۱ء ڈاکٹر سردار محمد حسن صاحب.( یہ ہسپتال خانه جنگی کی وجہ سے مجبور 9 سال بند رہا.مکرم ڈاکٹر 4 احمد یہ میڈیکل سنٹر مسنگی ۱۹۷۲ء شمس الاسلام صاحب نے ۲۰۰۳ء میں اسے دوبارہ جاری کیا ) ڈاکٹر طاہر محمود احمد صاحب و اہلیہ ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ ( ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ۱۹ جنوری ۱۹۷۶ء کو ہوا.یہ ہسپتال بند ہو چکا ہے).ڈاکٹر کوثر تسنیم صاحبہ مجلس نصرت جہاں کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں.5 احمدیہ ڈسپنسری بو ١٩٦٠ء ڈاکٹر میجر شاہ نواز خان صاحب.( یہ کلینک O احمد یہ ہسپتال مائل ۹۱ ۱۹۸۲ء | (Mile-91) 7 احمدیہ ہسپتال فری ٹاؤن ۱۹۹۵ء بوجوہ بند کرنا پڑا) ڈاکٹر عبد الرحیم ظفر صاحب - اکتوبر ۲۰۰۹ ء ) میں یہ ہسپتال بند کر دیا گیا اور کینیا کے مقام پر Relocate کیا گیا) ڈاکٹر رشید احمد بھٹی صاحب.(۱۹۹۷ء میں یہ 8 احمد یہ ہسپتال کنما 1 احمدیہ میڈیکل سنٹر کاعور ہسپتال حالات کی خرابی کے باعث بند کر دیا گیا.۱۴ را کتوبر ۲۰۰۱ء کو دوبارہ اجراء ہوا) ے مارچ ڈاکٹر جاوید اکرم صاحب اور ان کی اہلیہ ۲۰۰۹ء ڈاکٹر تنزیلہ جاوید صاحبہ.Mile91 سے ان کا طور گیمبیا کے یہاں تبادلہ کیا گیا تھا.۱۵ نومبر ڈاکٹر سعید احمد صاحب ( یہ ہسپتال بوجوہ بند کرنا ١٩٦٨ء پڑا)

Page 144

3 تاریخ احمدیت.جلد 26 134 3 احمد یہ میڈیکل سنٹر گنجور 2 احمد یہ ڈینٹل سرجری بانجل ۱۹۷۱ء سال 1970ء ڈاکٹر احتشام الحق صاحب ۲۹ نومبرا ۱۹۷ء ڈاکٹر محمد اشرف صاحب.( یہ کلینک ۱۹۷۳ء میں بوجوہ بند کر دیا گیا ) 4 احمد یہ میڈیکل سنٹر بریکامه ۱۹۷۴ء ڈاکٹر الحاج محمد خان صاحب.(یہ ہسپتال بوجوه بند کرنا پڑا) 5 احمد یہ میڈیکل سنٹر فیرا فینی ۱۹۷۲ء ڈاکٹر سعید احمد صاحب.(یہ) ہسپتال بوجوه 6 احمد یہ میڈیکل سنٹر بانجل ۱۹۹۷ء میں بند کر دیا گیا ) اگست ۱۹۷۱ ء ڈاکٹر انوار احمد خان صاحب (۳ اکتوبر ۱۹۸۰ء | کو نئے ہسپتال کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور ۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء کو اس کا افتتاح ہوا ) 7 احمد یہ میڈیکل سنٹر انجوارا ۱۹۷۱ء ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب یہ ہسپتال 00 احمدیہ کلینک بقے ستمبر ۱۹۸۴ء میں بند ہوا ) مارچ ۱۹۷۴ء ڈاکٹر کیپٹن طاہر احمد صاحب (۱۹۹۷ ء میں ہسپتال کو بوجوہ بند کرنا پڑا.۱۳ مارچ ۲۰۰۹ ء میں اس کا دوبارہ افتتاح ہوا.ڈاکٹر تنویر احمد صاحب کا تقرر ہوا ) هو نائیجیریا کے 1 احمد یہ ہسپتال اپاپا ١٩٦١ء ڈاکٹر ( کرنل) محمد یوسف شاہ صاحب 2 احمد یہ میڈیکل سنٹر بكورو ۵ فروری ڈاکٹر قاضی منور احمد صاحب.(۷ اپریل ۱۹۷۲ء ۱۹۷۴ء کو ہسپتال کی نئی عمارت کا سنگ بنیا د رکھا گیا.عیسائی مسلم فسادات کی وجہ سے یہ ہسپتال فروخت کر دیا گیا) احمد یہ ہسپتال اجیبواڈے ۱۳ را کتوبر۱۹۷۳ء ڈاکٹر عبدالرؤف غنی صاحب

Page 145

تاریخ احمدیت.جلد 26 135 سال 1970ء 4 احمدیہ کلینک اموسان 5 احمد یہ میڈیکل سنٹر اوری ۱۷ جون ۱۹۷۹ء ڈاکٹر سید مبشر احمد صاحب واہلیہ امتہ الحفیظ صاحبہ ( یہ ہسپتال بند ہو چکا ہے ) جولائی ۱۹۸۱ء ڈاکٹر سید مبشر احمد صاحب اور ایک ماہ بعد ڈاکٹر مبشر سلیم صاحب ( یہ ہسپتال ۲۰۰۱ ء میں بند ہوا ) CO احمدیہ ہسپتال اجوکورو ١٩٨٣ء ڈاکٹر منور احمد صاحب.(اس کا سنگ بنیاد ۱۹۷۹ء میں رکھا گیا.ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ۲۰ مارچ ۷ ۱۹۸ء کو ہوا ) 7 احمدیہ کلینک اکارے اکوکو.۱۹۷۱ء ڈاکٹر عبدالرحمن بھٹہ صاحب (۱۹۷۵ء کے آغاز اونڈ وسٹیٹ 8 احمد یہ کلینک کا با ۱۹۷۱ء میں بند کرنا پڑا) ڈاکٹر عزیز احمد صاحب (۱۹۷۴ء میں بند کر دیا گیا) و احمد یہ میڈیکل سنٹر ابادان ۱۹۷۵ء ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب (۱۹۸۳ء میں بند کرنا پڑا) 10 احمد یہ میڈیکل سنٹر کانو ١٩٦١ء ڈاکٹر ضیاءالدین صاحب 11 احمدیہ ڈینٹل کانو ۱۹۸۱ء ڈاکٹر حمید اللہ صاحب ( شہید کراچی ).(مئی سرجری ۱۹۸۲ء میں اس کی نئی عمارت کا کام شروع ہوا) 12 احمدیہ ہسپتال اوچی ۱۹۸۲ء ڈاکٹر سید مبشر احمد صاحب و اہلیہ ڈاکٹر امتہ الحفیظ صاحبہ.( یہ ہسپتال بوجوہ بند کرنا پڑا) 13 احمد یہ ہسپتال نیو بصا ١٩٩٧ء ڈاکٹر ملک مدثر احمد صاحب و اہلیہ ڈاکٹر لئیقہ 1 فوزیہ صاحبہ.( یکم دسمبر ۱۹۹۸ء کو اس ہسپتال کا افتتاح ہوا ) آئیوری کوسٹ کے احمد یہ کلینک آبی جان ۲۲ نومبر ۱۹۸۴ ء ڈاکٹر نظام الدین بدھن صاحب آف ماریشس

Page 146

تاریخ احمدیت.جلد 26 136 و لائبیریا کی سال 1970ء 1 احمد یہ ہسپتال منروویا ۲۹ نومبر ۱۹۸۳ء ڈاکٹر نصیر احمد مبشر صاحب | 2 احمد یہ ہسپتال ٹب مین برگ ۲۰۰۷ء ڈاکٹر طاہراحمد مرزا صاحب 3 احمد یہ ڈینٹل منروویا ۲۰۱۲ء ڈاکٹر نصرت قریشی صاحبہ سرجری کلینک 4 احمدیہ کلینک 1 منروویا ۲۰۱۲ء ڈاکٹر سید کامران احمد صاحب - Seyon 5 1 Town میں یہ کلینک واقع ہے.احمدیہ منروویا ٢٠١٣ء ڈاکٹر ممتاز احمد عمر صاحب ENT کلینک احمد یہ ہسپتال موروگورو تنزانیہ کی ۲۱ را پریل ڈاکٹر مبارک احمد صاحب شریف.(۱۲ستمبر ۱۹۸۸ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے با قاعدہ خلیفتہ ۱۹۸۸ء افتتاح فرمایا ) ڈاکٹر مبارک احمد شریف و اہلیہ فوزیہ شریف صاحبہ 2 احمد یہ ہسپتال کہونڈہ ١٩٩٢ء 1 احمد یہ میڈیکل سنٹر چوتیرہ و یوگنڈا کے ۱۲ ستمبر ۱۹۸۸ء کو حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے سنگ بنیاد رکھا.دسمبر ۱۹۹۱ء میں تعمیر مکمل ہوئی.یہ ہسپتال مارچ ۲۰۰۶ ء میں بند ہوا ) ے مئی ۱۹۸۴ ء ڈاکٹر محمد عباس صاحب باجوہ اور لیڈی ڈاکٹر آصفہ باجوہ صاحبہ (۲۷ مئی ۱۹۸۴ء کو با قاعدہ افتتاح ہوا.یہ ہسپتال بوجوہ بند کرنا پڑا)

Page 147

تاریخ احمدیت.جلد 26 137 سال 1970ء 2 احمد یہ ہسپتال امبالے ١٩٩٠ء ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب.(۱۷ فروری ۱۹۹۶ء کو ہسپتال کا باقاعدہ افتتاح ہوا ) بورکینا فاسو دیکھے احمد یہ ہسپتال وا گاڈوگو کے جولائی ۱۹۹۷ء ڈاکٹر فضل محمود بھنوں صاحب 2 احمد یہ ہسپتال بو بو جلا سو ۲۰۰۲ء ۲۰۰۷ء ڈاکٹر ذوالفقاراحمد فضل صاحب ڈاکٹر مبشر حمید صاحب.( بند ہو چکا ہے) ڈاکٹر انس احمد صاحب.( بند ہو چکا ہے) احمد یہ ہومیو کلینک وایو گیا 4 احمد یہ ہومیو کلینک تنکو ڈوگو 1 ۲۰۰۵ء بین احمد یہ ہسپتال پورٹونو و ۱۶ اگست ڈاکٹر عبدالوحید صاحب خادم ١٩٩٩ء 2 احمد یہ ہسپتال کوٹونو ڈاکٹر مبارک احمد آغا صاحب ( بعض نا مساعد حالات کی وجہ سے احمد یہ میڈیکل سنٹر کوٹو نو کو دا سا منتقل کر دیا گیا.جس کا افتتاح ۷ جنوری ۲۰۰۹ء کو ہوا ) 3 احمدیہ ہسپتال پارا کو ۲۰۰۵ء ڈاکٹر خاورمنصور صاحب.(۳۱ / جولائی ۲۰۰۸ ء | کو ہسپتال کا افتتاح ہوا ) 4 احمد یہ ہو میو کلینک پورٹونو و 8t+1+ ڈاکٹرلقمان نصیر ناصر صاحب گنی بساؤ : 1 احمد یہ میڈیکل سنٹر گنی بساؤ جولائی ۲۰۰۱ء ڈاکٹر مبارک احمد صاحب ( یہ ہسپتال بوجوہ بند لو کانگو کچھ کرنا پڑا) احمد یہ ہسپتال مسینہ کنشا سه ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ ء ڈاکٹر ریاض احمد امیر الدین صاحب آف ماریشس

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد 26 138 و کینیا کے سال 1970ء احمد یہ ہسپتال شیانڈا ١٩٨٨ء ڈاکٹر خواجہ عطاء الرحمن صاحب 2 احمد یہ کلینک نیروبی ۳ نومبر ۱۹۹۸ء ڈاکٹر اقبال حسین اختر صاحب.( یہ کلینک بند ہو چکا ہے) 3 احمد یہ کلینک ممباسه ۲۰۰۰ء ڈاکٹر اقبال حسین اختر صاحب.( یہ کلینک عارضی طور پر بند ہے ) 4 احمد یہ کلینک کسوموں ۲۰۰۱ء ڈاکٹر ریاض الحسن صاحب LO 5 احمد یہ کلینک نگورو ۲۰۰۲ء ڈاکٹر محمود الحسن صاحب ( یہ ہسپتال بند ہو چکا احمدیہ ہو میو ہسپتال نیروبی ہے) اکتوبر ۲۰۱۰ء ڈاکٹر اسد احمد صاحب نئے سکول نمبر نام اداره مقام سن اجراء ابتدائی اساتذہ شمار 1 تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول 2 تعلیم الاسلام احمد یہ کمرشل سیکنڈری سکول احمد یہ سیکنڈری سکول (بعد میں اور کھانا کیا ہے احمد یہ ٹیچرز ٹریننگ کالج) کماسی ۱۹۵۰ء ڈاکٹر سفیر الدین بشیر احمد فومینه ١٩٦٨ء کمال الدین صاحب 81920 شکیل احمد منیر صاحب اور خلیل الرحمن فردوسی صاحب

Page 149

تاریخ احمدیت.جلد 26 139 سال 1970ء 4 تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری سلاگا ۱۹۷۱ء چوہدری محمد اشرف صاحب.سکول اس سکول کو یہ شرف حاصل ہے کہ (حضرت ) صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے اس میں تدریس فرمائی ہے.5 تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری اسکورے نومبر ۱۹۷۲ء مبارک احمد صاحب سکول 6 تعلیم الاسلام احمد یہ ایگریکلچرل گوموا پوسٹن ۱۹۷۲ء چوہدری محمد شریف صاحب سیکنڈری سکول 7 احمد یہ سیکنڈری سکول ایسار چر ۱۹۷۲ء چوہدری نصیر احمد صاحب.اس سکول کو یہ شرف حاصل ہے کہ (حضرت) صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب نے اس میں تدریس فرمائی ہے.نائیجیریا 1 احمد یہ کالج کانو ۱۹۷۰ ء رفیق احمد ثاقب صاحب 2 ناصر الدین سیکنڈری سکول منا ۱۹۷۱ء محمد یعقوب خان صاحب 3 فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول 4 احمد یہ سیکنڈری سکول ا گیا گی.اکوکو سٹیٹ گساؤ ۱۹۷۱ء محمد اسماعیل و سیم صاحب ۱۹۷۵ء عبد القدير كوكب صاحب عبد الرشید بھٹی صاحب اور زکریا انوری صاحب احمدیہ کالج عمائشہ 1924 ء منیر احمد بسمل صاحب اور قریشی سعید احمد اظہر صاحب

Page 150

سال 1970ء تاریخ احمدیت.جلد 26 140 6 احمد یہ سیکنڈری سکول آئیکنلے کوارا ۱۹۷۹ء مظفر احمد منصور صاحب سٹیٹ 7 احمد یہ سیکنڈری سکول اونڈا احمد یہ کمیونٹی گرامر سکول آگووائی.اوگون ۱۹۸۰ء عبدالحئی طاہر صاحب 81910 نصیر احمد خالد صاحب سٹیٹ 9 احمد یہ سیکنڈری سکول اونی ١٩٨٠ء طارق محمود ظہور صاحب 10 احمد یہ سیکنڈری سکول آرا ۱۹۸۱ء مبارک علی طاہر صاحب سیرالیون کے 1 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول بو همئی ۱۹۶۰ء شیخ نصیر الدین احمد صاحب 2 احمد یہ جو نیئر سیکنڈری سکول فری ٹاؤن ستمبر ۱۹۶۴ء بشارت احمد بشیر صاحب 3 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول بواجے بو ١٩٦٦ء منور احمد صاحب 4 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول جورو ١٩٦٧ء مبارک احمد نذیر صاحب 5 جاوی احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول دارو ۱۹۷۲ء عبد السلام ظافر صاحب 6 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 7 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 8 احمد یہ جو نیئر نصرت جہاں سیکنڈری سکول 9 احمد یہ ایگریکلچرل جونیئر سیکنڈری سکول 10 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 11 | ناصر احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول روکو پر ۱۹۷۲ء منصور احمد بشیر صاحب مسنگمی ٹموڈو ۲۶ جولائی سید عبد الماجد صاحب ١٩٧٣ء ۲۲ فروری نذیر احمد مبشر صاحب ۱۹۷۵ء کبالا ۱۹۷۵ء محمد امین چیمہ صاحب بلاما کلیما ١٩٧٦ء لطیف احمد جھمٹ صاحب ۲ ستمبر ۱۹۷۶ ء لطف الرحمن محمود صاحب

Page 151

تاریخ احمدیت.جلد 26 12 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 141 Gbangbatoke 13 احمد ید ایگریکلچرل سیکنڈری سکول نیوٹن 14 بلوم احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول لنگی 15 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 16 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Fairo Timbowala ۱۹۷۷ء سال 1970ء Mr.J.B.B.Saffa ۱۹۷۷ء اوزان دین صاحب (Mr.Ozane Deen) ۲۱ ستمبر ۱۹۸۰ء جمیل احمد طارق صاحب ۱۹۸۱ء ۱۹۸۲ء Mr.A.A.Lamin Mr.S.M.Sapatteh Mr.F.M.Bayoh 17 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول روٹی فنک ۲۷ اکتوبر 18 احمد یہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل سیکنڈری سکول مینی ١٩٨٣ء ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء مبارک احمد طاہر صاحب 19 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول کوری بانڈ و ستمبر ۱۹۸۴ء | Mr.Hassan Iftone 20 طاہر احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Kailahun ستمبر ۱۹۸۵ ء | Mr.Evans F.Sinneh اور محمد ادریس صاحب 21 Bagruwa احمد یہ جو نیکر سیکنڈری سکول Sembehun ١٩٩٠ء 22 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Pepel ۱۹۹۴ء 23 | ناصر سینئر احمد یہ سیکنڈری سکول كينيما ١٩٩٦ء (Kenema) 24 بلوم احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول لنگی ۲۰۰۰ء 25 احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول بو ۲۰۰۰ء 26 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول فری ٹاؤن ۲۰۰۰ء 27 | طاہر جونیئر سیکنڈری سکول بو | Mr.Mustapha N.Kallon Mr.A.S.Bayoh Mr.Sandy Moijueh جمیل احمد طارق صاحب Mr.A.T.Jalloh Mr.Abdul K.Sesay Mr.K.M.Lamin

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد 26 142 28 | جاوی سینئر سیکنڈری سکول دارو ۲۰۰۳ء 29 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول 30 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Bomie Tongo Mogbwemo ۲۰۰۳ء 31 نصرت جہاں گرلز جونیئر سیکنڈری سکول 32 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Rosinor ۲۰۰۵ء 33 احمد یہ سینئر ایگریکلچرل سیکنڈری کیا لا ۲۰۰۵ء سکول 34 | احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول مانڈو.بو ٢٠٠٦ء 35 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Targrin-Lungi ٢٠٠٦ء 36 | مسرور احمد یہ جونیئر سیکنڈری Pendembu | ستمبر ۲۰۰۶ء سکول 37 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Bandajuma ٢٠٠٦ء 38 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Masiaka ستمبر ۲۰۰۶ء 39 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Gbonkobana ٢٠٠٦ء 40 | احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Gbendembu 41 نصرت جہاں سینئر سیکنڈری سکول مسنگھی ۲۰۰۷/۰۸ء سال 1970ء Mr.Sylvester Keifala Moiforay Mr.Francis Farmer Mr.Morisa Foday در زریں نعیم صاحبہ Mr.K.M.Bangura Mr.Balla Sesay Mr.E.J.Massaquoi Mr.U.P.Bangura Mr.Momodu Momoh Mr.Joseph Lavally Mr.Unisa Deen Kargbo Mr.Alimamy M.Kamara Mr.Alah Lamin Mr.A.Sesay

Page 153

تاریخ احمدیت.جلد 26 143 42 | احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول نیوٹن ۲۰۰۸ء 43 احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول روکو پر ۲۰۰۸ء 44 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Port Loko ۲۰۰۸ء 45 مسرور احمد یہ جونیئر سیکنڈری Segbewema | ۲۰۰۹/۱۰ء سکول 46 احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول 47 | احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Masiaka Goderich ۲۰۰۹/۱۰ء ۲۰۰۹/۱۰ء 48 | احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Ngegbema | ۲۰۰۹/۱۰ء 49 احمد یہ جو نیئر سیکنڈری سکول Magburaka | ۲۰۰۹/۱۰ء 50 | Bagruwa احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول Sembehun ۲۰۰۹/۱۰ء سال 1970ء Mr.S.I.Fofana Mr.M.K.Mahmood Mr.A.Kabba Mr.Shiaka Lahai Mr.M.H.Rogers Mr.Lilian Songo Mr.F.Kallon Mr.Hassan Kamara Mr.S.T.Laboh 51 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Mile-91 ۲۰۱۰/۱۱ء Mr.Yousuf Turay 52 Tinkonko احمد یہ سیکنڈری بو ۲۰۱۰/۱۱ء محمد شریف صاحب سکول 53 احمد یہ سیکنڈری سکول 54 احمد یہ جونیئر سیکنڈری سکول Dar-e-salam Taiama ۲۰۱۱/۱۲ء ۲۰۱۱/۱۲ء Mr.Abdulai Bayo Mr.Michael N.Ndoinge و گیمبیا رکھے 1 نصرت ہائی سکول مانجل ۱۹۷۱ء 2 ناصر احمد یہ ہائی سکول بھے ١٩٨٣ء نسیم احمد صاحب سعید احمد چٹھہ صاحب طاہر احمد یہ سینئر سیکنڈری سکول ما نسا کونکو ١٩٨٨ء سید جلید احمد صاحب 4 مسرور سینئر سیکنڈری سکول ما نجل اکتوبر ۲۰۰۵ء Mr.Ebrima Bayo

Page 154

تاریخ احمدیت.جلد 26 144 و لائبیریا کے سانوے سال 1970ء ۱۹۷۴ء سردار رفیق احمد صاحب سرداررفیق 1 احمد یہ ہائی سکول شاہ تاج احمد یہ ہائی سکول منروویا ١٩٩٦ء منصور احمد ناصر صاحب و یوگنڈا کی 1 بشیر احمد یہ ہائی سکول کمپالا ۱۹۶۵ء مختاراحمد ایاز صاحب اور محموداحمد بیٹی صاحب مندرجہ بالا سب ہسپتال اور سکول نصرت جہاں سکیم کے تحت کھولے گئے.علاوہ ازیں حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک سے جو ہسپتال اور سکول جاری تھے وہ بھی اسی سکیم کے زیر انتظام آگئے.جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے ارشاد کے موافق تحریک جدید اور نصرت جہاں کے ہسپتالوں اور سکولوں کا انتظام یکجا کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اس بارہ میں تفصیلی سفارشات پیش کیں.حضور انور نے ان ادارہ جات کے ادغام کی منظوری مرحمت فرمائی اور تحریک جدید کی مجلس میں ایک ممبر اس حصہ کی نگرانی کے لئے مقرر کرنے کا ارشاد فرمایا جو انتظامی پیجہتی پیدا کرے اور معمول کی نگرانی کرے.چنانچہ حضور انور کے ارشاد کے مطابق ۳۰ جون ۱۹۸۵ء کو تحریک جدید اور نصرت جہاں کے تحت قائم ادارہ جات کا ادغام عمل میں آیا.نیز نصرت جہاں سکیم کی نگرانی کے لئے سیکرٹری کا تقرر ہوا.چنانچہ مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب اس کے پہلے سیکرٹری مقرر ہوئے.122 خلافت ثالثہ کے بعد خلافت رابعہ میں اور خلافت خامسہ میں ان خدمات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید بڑھتا گیا اور بڑھ رہا ہے.اسماء سیکرٹریان ۱۹۷۹ء تا۲۰۱۴ء مجلس نصرت جہاں کے اب تک جو سیکرٹریان مقرر ہوئے ہیں ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں.ا.مکرم مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب ۱۹۷۰ء تا ۱۹۷۴ء-۱۹۷۶ء تا ۱۹۷۷ء مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب ۱۹۷۴ء تا ۱۹۷۵ء

Page 155

تاریخ احمدیت.جلد 26 145 سال 1970ء مکرم مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب ۱۹۷۵ء تا ۱۹۷۷ء -۴ مکرم چوہدری محمد شریف صاحب ۱۹۷۷ء تا ۱۹۸۲ء ۵.مکرم چوہدری اللہ بخش صادق صاحب ۱۹۸۲ء تا ۲۰۰۳ء مکرم مبارک احمد طاہر صاحب بطور ایڈیشنل سیکرٹری مئی ۱۹۹۲ء تا اکتو بر ۱۹۹۹ء.بطور سیکرٹری ۲۰۰۳ء سے تا حال.تعداد طبی تعلیمی ادارہ جات اس وقت سن ۲۰۱۴ تک نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم کے تحت جوطبی و تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں ان کا ملک وار گوشوارہ درج ذیل ہے: طبی ادارے تعلیمی ادارے نام ملک تعداد تعد ا د ڈاکٹرز پرائمری و مڈل سیکنڈری تعداد شمار ادارے مرکزی + لوکل سکوتر سکولز | مرکزی اساتذہ 1 غانا 2 سیرالیون 3 گیمبیا 4 لائبیریا نائیجیریا 6 آئیوری کوسٹ کانگو 8 | بورکینا فاسو و بینن 10 کینیا 2 7 400 0+15 10 3 58 187 0+4 3 9 5 4 0+4 3 2 0+5 5 1 5 2+4 6 7 0+1 1 1 2+0 I I 5 1+1 3 I 2 0+4 4 1 0+3 3

Page 156

تاریخ احمدیت.جلد 26 11 تنزانیہ 12 یوگنڈا میزان 146 سال 1970ء 3+1 1 1 1 3 3+1 1 18 77 610 11+43 41 123 مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کا قبول احمدیت ۱۹۷۰ء میں ایک نہایت سعید روح مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب نے قبول احمدیت کی توفیق پائی.ہدایت اللہ ہیو بش صاحب جو بعد میں جماعت کے ایک نہایت قیمتی وجود بنے ، نے نظم و نثر اور دیگر کئی ذرائع سے بے انتہا خدمت دین کی توفیق پائی اور مسیح محمدی ﷺ کے روحانی طیور میں شامل ہو کر آسمان روحانیت کے بلند پرواز طائر بنے.مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں جو اپریل ۱۹۹۳ء کے دی ریویو آف ریلیجنز لندن میں شائع ہوا ، اپنے قبول احمدیت کے واقعہ کی ایمان افروز تفصیل بیان کی.اس کا اردو ترجمہ مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی سابق مدیر روز نامہ ”الفضل ربوہ کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے:.۱۹۶۹ ء کے موسم بہار کی بات ہے کہ میں مراکش کے صحرا میں عجب وارفتگی کے عالم میں مارا مارا پھر رہا تھا.حالت میری یہ تھی کہ تن پر کپڑا نہ تھا البتہ مسیح مصلوب کی حالت کا ایک چھوٹا سا دھات کا مجسمہ منکوں کی ایک مالا کے ساتھ میری گردن میں پڑا ہوا تھا.اس زمانہ کی اپنی ذہنی کیفیت کے لحاظ سے میں ایک ایسے شخص کی طرح تھا جس پر مغربی ثقافت سے بے رغبتی اور اکتا ہٹ کے باعث ایک طرح کی قنوطیت چھائی ہوئی تھی.اس کیفیت نے مجھے کسی حد تک مخبوط الحواس بنا چھوڑا تھا.میرا ماضی باغیانہ رجحانات کا حامل تھا.میرا دل و دماغ وہ سب کچھ قبول کرنے کو تیار نہ تھا جو سکولوں میں پڑھایا جاتا اور سکھایا جاتا تھا.اُس کے خلاف میرے اندر بغاوت کے جذبات بھڑک اٹھتے تھے.مغربی انداز سیاست سے جنم لینے والے مظالم سے نفرت کرنا اور غصہ میں مٹھیاں بھینچ بھینچ کر ان کے خلاف جذبات کا اظہار کرنا میرا معمول بن چکا تھا.اپنے اس باغیانہ طرز عمل کے زیر اثر ۱۹۶۸ء میں میں نے طلباء کے درمیان ابھرنے اور پنپنے والی انقلابی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا

Page 157

تاریخ احمدیت.جلد 26 147 سال 1970ء لیکن ان کے قول وفعل میں تضاد دیکھ کر بعد ازاں میں نے اس تحریک سے کنارہ کشی اختیار کر لی لیکن ہوا یہ کہ اس سے منہ موڑنے کے بعد میں بہتی تحریک کے چنگل میں جا پھنسا.یہ تحریک اندھی محبت اور بے لگام قسم کے ذہنی تجربات کے ذریعہ امن و سکینت کے حصول کی داعی تھی.لیکن فی الاصل یہ ایک مکروہ تحریک تھی جس نے نوجوانوں کو منشیات کی لعنت میں مبتلا کر کے جائز روابط کو منضبط کرنے والی حدود و قیود کو پامال کر کے رکھ دیا.مجھ میں شعر گوئی کا ملکہ شروع ہی سے موجود تھا.میں اکثر نظمیں کہا کرتا تھا جو بہت پسند کی جاتی تھیں.میرا مجموعہ کلام جر منی کے ایک مشہور پبلشنگ ادارہ نے شائع کیا.اس مجموعہ کلام کی اشاعت پر بالعموم اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ ہیوبش ایک ایسا اُبھرتا ہوا شاعر ہے جس سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں.اس طرح نوجوان نسل کا ایک نام نہاد لیڈر بننے کے باوجود جرمن نو جوانوں کے مشاغل میرے لئے اطمینان و سکینت کا موجب نہ بن سکے اور اردگرد کی مادی سوسائٹی میں مجھے کہیں تسکین نہ مل سکی.منشیات کی لعنت کے تباہ کن تجربہ میں سے گذرنے اور دنیا کو اپنے مزعومہ طریق کے مطابق تبدیل کرنے کے خواب دیکھنے والے نوجوانوں کے حشر کو دیکھنے کے لئے میں ”زین بدھ مت“ کی طرف بھی مائل ہوا.زین بدھ ازم بدھ مت کی وہ شکل ہے جو جاپان میں مروج ہے.لیکن حقیقی امن وہاں بھی نہ ملا.میں اُس زمانہ میں مایوسیوں اور ناکامیوں کی ایک ایسی حوصلہ شکن حالت میں سے گزررہا تھا کہ کسی سمت میں بھی امید کی کوئی کرن یا جھلک دکھائی نہ دیتی تھی.اس حالت نے ہی مجھے گردو پیش سے متنفر کر کے نیم مخبوط الحواس بنادیا تھا.انہی خیالات میں غلطاں و پیچاں اور تلاش امن میں سرگرداں میں اپنی ایک گرل فرینڈ کے ہمراہ مراکش کے مذکورہ بالا صحرا میں جا نکلا تھا.ہم دونوں موٹر میں بیٹھے اُس لق و دق صحرا میں سے گزر رہے تھے.دل میں پیدا ہونے والے اوہام کے اثر دہام اور ان کے نتیجہ میں رونما ہونے والی گونا گوں کیفیات کے ناگوار طلسم کو توڑنے کی باطنی کشمکش کے دوران میں نے بدحواس ہو کر عجب لاشعوری کے عالم میں اپنی گرل فرینڈ کو موٹر روکنے کے لئے کہا.جو نہی موٹرر کی میں دیوانہ وار باہر نکلا اور جدھر منہ اٹھا صحرا میں اکیلا دور تک بے تحاشا بھاگتا چلا گیا.اُس وقت چاہتا میں یہ تھا کہ اگر ممکن ہو تو دنیا و مافیہا کو پیچھے چھوڑ کر زمان و مکان کی حدود کو پھلانگ جاؤں.میں نے اپنے جسم پر سے اس دنیا کی سب ظاہری نشانیوں حتی کہ کپڑوں کو بھی اتار پھینکا.میں سمجھتا ہوں کہ اس وراء الوراء ہستی کو پانے کی خواہش جسے

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد 26 148 سال 1970ء ”خدا“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میری بیقرار روح کے اندر پوشیدہ تھی.غالباً اسی لئے میں نے اپنے جسم کو کپڑوں سے مبرا کرتے وقت گلے میں پڑی ہوئی مالا کوا تار نہیں پھینکا.اُس وقت مجھ پر ایک عجیب کیفیت وارد ہوئی.دوڑتے دوڑتے میں یکدم رک گیا.میں خود نہیں رکا بلکہ یوں لگا جیسے بجلی کے ایک جھٹکے نے مجھے رکنے پر مجبور کر دیا.میں بے حس و حرکت بالکل ساکت کھڑا تھا.اسی حالت میں میں نے ایکا ایکی آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور بے اختیار ایک فقرہ پکار کر کہا.وہ جسم کی نہیں بلکہ روح کی پکار تھی.کہا میں نے یہ کہ اے اللہ ! تو فضل فرما اور مجھے آلائشوں سے پاک کر دے“.اس وقت تک اللہ کا لفظ میرے لئے ایک اجنبی لفظ تھا.میں نہیں جانتا تھا کہ اللہ سے کیا مراد ہے اور نہ اسلام کے بارہ میں مجھے کچھ پتہ تھا الا یہ کہ سکول کے اساتذہ نے کسی زمانہ میں بعض لا یعنی سی باتیں اسلام کے متعلق بتائی تھیں اور ان میں سے بھی اکثر میرے ذہن سے نکل چکی تھیں.کسی مسلمان کو میں جانتا تک نہ تھا اور نہ میں نے اُس وقت تک اپنی باطنی حالت اور کشمکش کا کسی سے ذکر کیا تھا.اس کے باوجود میرے ساتھ یہ عجیب وغریب واقعہ پیش آیا کہ اچانک میرے منہ سے ایک ایسا کلمہ نکلا جس کا پورا مفہوم میں نہیں جانتا تھا.عجیب نامعلوم سی کیفیت تھی میری.اس وقت یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں نہیں بول رہا بلکہ میری زبان سے کوئی اور بول رہا ہے.احساس کچھ یہ تھا کہ یہ الفاظ کہ اے اللہ ! فضل فرما اور مجھے آلائشوں سے پاک کر دے الہام کی طرز کے الفاظ ہیں جو فقرہ میری زبان سے ادا ہوا وہ جر من الفاظ پر مشتمل تھا.جب میری زبان سے حالت اضطراری میں یہ دعائیہ الفاظ ادا ہوئے تو اس کے معا بعد مجھے بانسری کی بہت ہی ملائم، خوش گن اور سرور آگیں نغمگی سنائی دی.محسوس یوں ہوا جیسے یه سریلی آواز قرب و جوار میں واقع پہاڑوں کی سمت سے آ رہی ہے.اس وقت مجھے دلجوئی کے انداز کی حامل تسلی اور اطمینان کی ایک عجیب کیفیت محسوس ہوئی.اس طرح پُرسکون ہونے کے بعد میں راستہ میں چھوڑے ہوئے کپڑے پہن کر موٹر کی طرف واپس لوٹ آیا.اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ فی الحقیقت میرے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا آئینہ دار تھا.یہ صحیح ہے کہ ظاہری اعتبار سے فوری طور پر تو میں اسلام میں داخل نہیں ہوا کیونکہ اس وقت تک میں اسلام کے بارہ میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ اسلام قبول کرنے کا طریق کیا ہے اور یہ کہ اس کے لئے کن شرائط کو پورا کرنا ضروری ہے تاہم میرے قبولِ اسلام کی ابتداء اس عجیب و غریب واقعہ سے ہو چکی تھی.اس کے بعد مجھے کئی ماہ تک خوف و خطر کے حالات میں سے گزرنا اور مصائب

Page 159

تاریخ احمدیت.جلد 26 149 سال 1970ء وو سے دو چار ہونا پڑا.ایک لمبے اور تھکا دینے والے سفر کے بعد بالآخر میں جرمنی میں اپنے آبائی شہر فرینکفرٹ واپس پہنچا.واپس آکر میں پتیوں سے جن کا ایک ساتھی مجھے سمجھا جاتا تھا کوئی راہ و رسم رکھنا نہیں چاہتا تھا.چنانچہ میں ان سے دور ہی رہا گو ظاہری حالت میری پتیوں والی ہی تھی.انہی ایام میں مجھے ایک دوست کے فلیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں مجھے یوگا پر ایک کتاب ملی.ذہنی تربیت کے اس مسلک کے متعلق میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اسے اختیار کرنا مناسب رہے گا.چنانچہ چند ہفتے میں اس مسلک کے طریقوں کو آزمانے کی کوشش کرتا رہا.مجھے توجہ مرکوز کرنے اور توجہ کو پُرکشش قوت سے ہمکنار کرنے کی مشق کے لئے ایک ایسا تصویری فریم دیا گیا جس کے اندر ایک گول دائرہ بنا ہوا تھا اور دائرے میں مختلف تصاویر سی بنی ہوئی تھیں.یہ تصویری فریم منڈالا (Mandala) کہلاتا تھا.میں نے توجہ مرکوز کرنے کی مشق کے علاوہ بعض دوسرے مسلکوں کے طور طریق بھی آزمائے.اسی ضمن میں ایک دن میں اپنے بستر پر بیٹھا ایک خاص انداز سے سانس لینے کی مشق کر رہا تھا اور اس عمل کے دوران موسیقی کا ایک کیسٹ بھی سن رہا تھا.یہی وہ واحد موسیقی تھی جس سے محظوظ ہونا ان دنوں مجھے بے حد مرغوب تھا اس سارے عمل کو ایک پاکستانی موسیقار نے جو کچھ عرصہ قبل لندن آیا تھا پاکستانی محفلِ روحانیہ“ کا ایک حصہ قرار دیا تھا.ایک خاص انداز سے سانس لینے کی مشق کے دوران اچانک میری نظر دیوار کے ساتھ لٹکے ہوئے خطاطی کے ایک فریم پر پڑی، اس پر ”اوم“ کا لفظ لکھا ہوا تھا.یہ ہندی کا ایک لفظ ہے جو مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ایک معنی اس کا ہے "احد".نیز یہ لفظ ہمہ گیر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور خدا کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے.اس پر نظر پڑتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے روشنی کی ایک دھار اس میں سے پھوٹ نکلی ہے اور وہ میری لائبریری کی الماری کی سمت میں جارہی ہے جو میری پشت کی جانب دیوار سے لگی ہوئی تھی.اُسی لمحہ تفہیم کے طور پر دل میں یہ بات آئی کہ روشنی کی جو لکیر نمودار ہوئی ہے وہ راہنمائی کے رنگ میں میری توجہ کسی خاص چیز کی طرف مبذول کرانا چاہتی ہے.میں فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور میری نگاہیں نور کی اس لکیر کا تعاقب کرنے لگیں.میں نے دیکھا کہ نور کی اس لکیر سے نکلنے والی شعائیں الماری میں رکھی ہوئی کسی ایک کتاب پر مرکوز ہو کر اسی میں مدغم ہو گئی ہیں.کتا بیں بڑی بے ترتیبی سے الماری کے ایک خانہ میں لگی ہوئی تھیں.میں لپک کر الماری کی طرف بڑھا اور ایک ایک کتاب کے نام پر نظر ڈالی.اسی تلاش کے دوران میری نظر جرمن ترجمہ قرآن کے ایک نسخہ پر پڑی.یہ نسخہ میرے ایک چانے بہت پہلے کرسمس کے موقع پر

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد 26 150 سال 1970ء بطور تحفہ مجھے دیا تھا.اس نسخہ پر نظر پڑتے ہی میرا ہاتھ وہیں رک گیا.دل نے گواہی دی یہی وہ کتاب ہے جس میں نور کی لکیر اور اس سے نکلنے والی شعائیں مدغم ہوئی ہیں.میں نے اس کتاب کو کھول کر پڑھنا شروع کیا.ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں کہ یہ بات میرے دل میں شیخ کی طرح گڑ گئی کہ یہ کتاب آسمانی صداقتوں سے پر ہے.میرے لئے دل ہی دل میں اس امر کے اقرار کے سوا چارہ نہ رہا کہ اس کتاب کی صداقت پر ایمان لانے کے بعد اب میں ایک مسلمان ہوں.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب میرے چچانے مجھے یہ تحفہ دیا تھا تو میں نے ایک نگاہ اسے دیکھا ضرور تھا.اس کے بعد یہ بات میرے ذہن سے کلیہ نکل گئی تھی کہ میری کتابوں میں یہ کتاب بھی موجود ہے.ہر چند کہ اسلام کے متعلق میرا علم نہ ہونے کے برابر تھا تا ہم قرآن مجید کی جو چند سطریں اس وقت میں نے پڑھیں انہوں نے میرے دل پر ایسا زبردست اثر کیا کہ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اب میرے لئے اس کے سوا کوئی راہ باقی نہیں ہے کہ میں اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دوں.حالت میری یہ تھی کہ میں برملا یہ اعلان کرنے پر آمادہ تھا اور اس امر کے باوجود آمادہ تھا کہ میں اس اعلان کے مالہ وما علیہ سے قطع نا آشنا تھا اور یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے مجھے کیا مذہبی فرائض بجالانے ہوں گے اور یہ کہ مجھے اب کیا کرنا چاہیے کہ میں اس سمت میں قدم بڑھا سکوں.اُس زمانہ میں میں ذہنی طور پر بہت پریشان تھا اور اپنی والدہ کے ہاں بہت خاموشی سے زندگی بسر کر رہا تھا.والدہ کے اس مکان کے ایک کمرے میں ہی قرآن مجید کے ساتھ میرا ربط قائم ہوا تھا.ایک دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ مسلمانوں کا روزوں کا مہینہ یعنی ماہ رمضان شروع ہو گیا ہے.اس خبر کو پڑھتے ہی مجھے خیال آیا کہ جب میں اپنے طور پر مسلمان ہو چکا ہوں تو پھر مجھے روزے رکھنے چاہئیں.چونکہ مجھے علم نہ تھا کہ روزہ رکھنے کا طریق کیا ہے اور یہ کہ رمضان میں کن باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے اس لئے اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ میں کسی مسجد سے رابطہ قائم کروں.اس کی خاطر میں نے ٹیلیفون ڈائریکٹری کی ورق گردانی کر کے متعدد اسلامی ملکوں کے قونصل خانوں کے ٹیلیفون نمبر ز نکالے اور پھر باری باری ان سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کیا فرینکفرٹ میں کوئی مسجد ہے اور اگر ہے تو کہاں واقع ہے.آخر کار قسمت نے یاوری کی اور وہ اس طرح کہ لبنانی قونصل نے مجھے فرینکفرٹ میں احمدی مسلمانوں کی مسجد یعنی مسجد نور کی موجودگی سے آگاہ کیا.میں نے فوراً ہی امام مسجد نور کو فون کیا.وہ بہت شفقت سے پیش آئے انہوں نے میرا پتہ نوٹ کرنے کے بعد وعدہ

Page 161

تاریخ احمدیت.جلد 26 151 سال 1970ء کیا کہ وہ سحر و افطار کا نظام الاوقات اور رمضان سے متعلقہ جملہ معلومات فوری طور پر ارسال کر دیں گے.چنانچہ میں نے ان کی فراہم کردہ ہدایات کے مطابق روزے رکھنے شروع کر دئے.کچھ دنوں کے بعد میں مسجد گیا.امام مسجد مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی نے مجھے صمیم قلب سے خوش آمدید کہا.انہوں نے دوران گفتگو اسلامی تعلیم کے محاسن بیان کرنے کے علاوہ مجھے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تصنیف کشتی نوح کا جرمن ترجمہ مطالعہ کے لئے عنایت فرمایا نیز انہوں نے اس امر کی بھی ترغیب دلائی کہ میں جماعت کے شائع کردہ جرمن ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ خریدلوں اور اس کا مطالعہ کروں.انہوں نے مجھے بتایا کہ جو ترجمہ قرآن پہلے سے میرے پاس موجود ہے وہ مفاہیم اور مطالب کے اعتبار سے درست نہیں ہے.میں نے جرمن ترجمہ قرآن کے علاوہ نماز کی کتاب بھی خرید لی اور پھر نماز کے عربی الفاظ یاد کرنے اور صحیح طریق پر نماز ادا کرنے میں مصروف ہو گیا.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس زمانہ میں میں ان گناہوں کی وجہ سے جو مجھ سے سرزد ہو چکے تھے ذہنی طور پر بہت پریشان تھا اور عجب خلجان اور بے چینی و اضطراب کی حالت میں سے گزر رہا تھا.سو جب رمضان کا مہینہ ختم ہوا تو میں نے سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ میں مکہ جا کر حج کا فریضہ ادا کروں، اس خیال اور ارادہ کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ بات میرے دل میں جاگزیں ہوگئی تھی کہ میرا آخری وقت اب قریب ہے.اس لئے میں گناہوں کی جواب طلبی کے خوف سے ہر وقت لرزاں وتر ساں رہتا تھا.حج کرنے کا خیال مجھ پر کچھ ایسا غالب آیا کہ ایک روز میں نے روانہ ہونے کی ٹھان ہی لی.کیا میں نے یہ کہ جو معمولی سی رقم میرے پاس تھی وہ گرہ میں باندھی ، کھانے پینے کی کچھ اشیاء ساتھ لیں اور مختصر سا بستر (Sleeping Bag) رکھا کندھے پر اور والدہ کو بتائے بغیر گھر سے نکل کھڑا ہوا.میں بیگانی موٹر کاروں میں لفٹ لیتا یعنی خیراتی سفر کی سہولت سے فائدہ اٹھاتا ہوا دمڑی خرچ کئے بغیر سپین جا پہنچا.دماغ میں منصوبہ یہ تھا کہ پین پہنچنے کے بعد درمیان میں حائل انتہائی تنگ سمندری پٹی عبور کر کے پہلے مراکش جاؤں گا اور پھر افریقہ کے شمالی ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا کبھی نہ کبھی عرب کی سرزمین میں جاوارد ہوں گا.منصوبہ کیا تھا خیالی پلاؤ کے طور پر ایک بچگانہ خیال تھا جو دل میں سمایا ہوا تھا.مراکش کے ساحلی شہر سیوطہ (Ceuta) میں تو کسی خاص رکاوٹ کے بغیر جاداخل ہوا.یہ شہر اگر چہ واقع تو مراکش کے ساحل پر ہے لیکن قبضہ اس پر سپین کا ہے اور یہ پین ہی کا شہر شمار ہوتا ہے.افریقہ کے شمال مغربی کونہ کے جس حصہ میں یہ شہر واقع ہے وہاں مراکش کی سرحد شہر ختم ہونے کے بعد شروع

Page 162

تاریخ احمدیت.جلد 26 152 سال 1970ء ہوتی ہے.اس شہر میں مسلمان بھی رہتے ہیں.جب میں مراکش کی سرحد پر پہنچا تو مراکشی حکام نے مجھے سرحد عبور کرنے کی اجازت ہی نہ دی.اپنے حلیہ اور وضع قطع سے میں انہیں ایک بہتی نظر آیا اس لئے انہوں نے مجھے دھتکار دیا.میں نے انہیں قرآن مجید کا نسخہ دکھایا جس میں عربی آیات کے بالمقابل ان کا جرمن ترجمہ درج تھا.نیز انہیں یہ بھی بتایا کہ میں راستہ بھر سورۃ الفاتحہ کا ورد کرتا آیا ہوں اور خدا کے فضل سے مسلمان ہوں.لیکن انہوں نے سب کچھ سننے کے باوجود میری ایک نہ سنی اور مجھے مسلمانوں کی سرزمین میں قدم نہ رکھنے دیا.اپنی اس ناکامی پر مجھے بے حد افسوس ہوا.میں نے اپنی گناہ آلود زندگی پر پھر ایک نظر ڈالی.اپنے گناہوں کو یاد کر کر کے میں یہی سوچتا رہا کہ میں اس قابل نہیں ہوں کہ ایک اسلامی ملک میں داخل ہو سکوں.میں نے شہر میں واپس آکر کوئی مسجد تلاش کرنے کی کوشش کی تاکہ میں وہاں خدا کی عبادت کر کے خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرسکوں.ایک بچہ نے مجھے مسجد کا راستہ بتایا.جب میں وہاں پہنچاتو دیکھا کہ مسجد کی دیوار پر ایک بورڈ آویزاں ہے اور اس پر لکھا ہوا ہے کہ ”غیر مسلموں کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں“.میں نے سوچا کہ میں تو مسلمان ہوں اس لئے اس ممانعت کا مجھ پر اطلاق نہیں ہوتا.چنانچہ میں بے دھڑک مسجد کے اندر چلا گیا.وہاں اور کوئی شخص موجود نہ تھا.میں نے تسلی سے وضو کیا اور مسجد کے مسقف حصہ میں جا پہنچا.یہ سہ پہر کا وقت تھا.میں نے چار رکعت نماز کی نیت باندھی اور عبادت میں محو ہو گیا.نماز کے دوران مجھ پر کچھ ایسی رقت طاری ہوئی کہ میں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا اور اس قدر رویا کہ اتنا میں پہلے کبھی نہیں رویا تھا.سیل رواں کی طرح بہنے والے آنسوؤں سے میرے رخسار بھیگ گئے.میں اسی حالت میں پوری محویت سے نماز پڑھتا رہا.میں سجدہ میں پڑا آہ وزاری کر رہا تھا کہ اچانک ایک شخص نے جو اس دوران مسجد میں آ موجود ہوا تھا میرا مونڈھا پکڑ کر بری طرح جھنجھوڑا.اس نے کوشش کی کہ میں نماز درمیان میں چھوڑ کر وہاں سے چلا جاؤں.یہ امر میری سمجھ سے بالا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے.میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی اور نماز جاری رکھی اور اس وقت تک جاری رکھی جب تک کہ میں نے چار رکعتیں پوری کر کے باقاعدہ سلام نہ پھیر لیا.سلام پھیرنے کے بعد میں اس آدمی کی طرف متوجہ ہوا.اس نے مجھے پیچھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا.دروازہ پر پہنچ کر اس نے مجھے دھکیلتے ہوئے باہر نکال دیا.مغرب کی نماز کا وقت قریب آرہا تھا اور کچھ مسلمان وہاں آنے شروع ہو گئے تھے.میں نے انہیں جرمن ترجمہ قرآن کا اپنا نسخہ دکھایا اور انہیں یہ بتانے کی کوشش کی کہ میں مسلمان ہوں اور ان کے

Page 163

تاریخ احمدیت.جلد 26 153 سال 1970ء ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا چاہتا ہوں لیکن ان سب کا رویہ بھی معاندانہ اور منتشد دانہ تھا.اور وہ اس بات پر مصر رہے کہ میں وہاں سے فوراً چلا جاؤں.چارونا چار بہت بوجھل قدموں کے ساتھ میں وہاں سے چل پڑا.میں یہ بات ایک دفعہ پھر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان ایام میں میری ذہنی صلاحیتیں پوری بحالی کی حالت میں نہ تھیں.میں نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کتاب ”کشتی نوح پڑھی تو تھی لیکن اس کے اکثر حصوں کو میں سمجھ نہیں پایا تھا تاہم اتنا احساس مجھے ضرور تھا کہ یہ کسی بہت ہی مقدس اور برگزیدہ انسان کی لکھی ہوئی کتاب ہے جب میں کرسی پر بیٹھا اسے پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ جیسے فرشتوں نے کرسی کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے.ویسے میں اس روحانی تجربہ کی ماہیت اور کتاب کی اہمیت کے صحیح ادراک سے قاصر تھا.اُس وقت تک میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم سے بھی واقف نہ تھا.بس ایک ہی شدید خواہش میرے اندر موجزن تھی کہ کسی طرح میرے گناہ دھل جائیں اور میں ہر قسم کی آلودگیوں سے پاک ہو جاؤں.جب مراکش کی سرحد کے قریب بعض ہٹ دھرم لوگوں نے مجھے مسجد سے نکال باہر کیا اور میں ذرا آگے گیا تو مجھے دس بارہ بچے نظر آئے ، وہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ میں لگے ہوئے تھے اور با ہم کھیل کو درہے تھے.میں کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگا.وہ میرے گرد آ جمع ہوئے.وہ مسلمان بچے تھے اور عربی بول رہے تھے.میں عربی نہ جاننے کی وجہ سے ان کے ساتھ باتیں تو نہ کر سکتا تھا البتہ میں نے بلند آواز میں سورۃ الفاتحہ پڑھنی شروع کر دی انہوں نے بھی جواباً سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کی.ان میں ایک بچہ اس قدر خوش الحان تھا کہ اس کی تلاوت کا میرے دل پر بہت اثر ہوا اور میں گہری سوچ میں پڑ گیا.اسی دوران مجھے خیال آیا کہ یہ میری بہت بڑی غلطی تھی کہ میں اپنی والدہ کو بتائے بغیر چپکے سے گھر سے کھسک آیا ہوں.میرے دل نے کہا کہ خدا مجھے حج کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کی توفیق اس وقت تک نہیں دے گا جب تک کہ میں اپنی اس غلطی کی تلافی کے رنگ میں واپس جا کر ان معاملات کو حل نہیں کرلوں گا جنہیں میں اپنے پیچھے جرمنی میں معلق چھوڑ آیا ہوں.سپین سے جرمنی واپس آنے کے لئے میں نے کیا پاپڑ بیلے اور مجھے کن مشکلات میں سے گزرنا پڑا ان کی تفصیل تو بہت لمبی ہے اور ان کا بیان کرنا ہے بھی لاحاصل، اس لئے میں صرف یہ بتانے پر ہی اکتفا کروں گا کہ میں کسی نہ کسی طرح سفر کی منزلیں طے کرتا ہوا بد قت تمام سپین کے شہر غرناطہ جا پہنچا

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد 26 154 سال 1970ء اور قریباً ایک ہفتہ کا عرصہ الحمرا نامی تاریخی محلات کے سایہ میں بسر کیا.اس کے قرب وجوار میں ایک دن میں نے ایک چراگاہ میں کھلے عام نمازیں ادا کیں.قریبی علاقہ کے بچے مجھ اجنبی کے گرد جمع ہوتے تھے.وہ میری حرکات و سکنات کو دلچسپی سے دیکھتے رہتے.میرے لئے وہ اپنے والدین سے کھانے پینے کی اشیاء مانگ لاتے تھے پیسے وغیرہ میرے پاس نہ تھے.میں بچوں کی لائی ہوئی چیزیں کھا کر اپنی بھوک مٹالیا کرتا تھا.اسی کسمپرسی کے عالم میں جوں توں سفر کرتا اور راستہ میں ٹھہرتا ٹھہرا تا آخر میں ایک دن سپین سے فرینکفرٹ واپس پہنچ گیا، پہنچنے کے بعد فوری طور پر میں نے مسجد نور کا رخ کیا.اس وقت میری فقیروں سے بھی بدتر حالت تھی.مجھے اپنی ہیئت کذائی کا کوئی احساس نہ تھا.بس ایک ہی دھن سوار تھی اور وہ یہ کہ کسی طرح خدا مجھے اپنی قبولیت کے شرف سے نواز دے.سیوطہ(Ceuta) شہر میں مسجد سے نکالے جانے کو میں نے ایک خدائی اشارے پر محمول کیا.میرے نزدیک یہ واقعہ علامت تھا اس امر کی کہ خدا نہیں چاہتا کہ مجھے ایسا ناپاک انسان اس کے گھر میں داخل ہو.اب مجھے فکر یہ لاحق تھی کہ کہیں مسجد نور میں بھی نمازیں ادا کرنے سے نہ روک دیا جاؤں.میں سمجھتا تھا کہ میرے گناہ اس قدر زیادہ ہیں کہ خدا مجھے اپنے پاک اور مقدس مقامات میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا.جب میں اپنی نیم مخبوط الحواسی اور پرا گندگی کی حالت میں مسجد نور پہنچا تو مسجد کے اندر داخل ہونے والے بڑے دروازہ پر مجھے روک لیا گیا.دروازے کے قریب ایک شخص پہریدار کے طور پر کھڑا تھا اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا تم اندر نہیں جاسکتے.یہ سن کر میں اپنی جگہ ہل کر رہ گیا.جس بات سے ڈر رہا تھا وہ سامنے آئے بغیر نہ رہی.میرا یہ یقین اور پختہ ہو گیا کہ خدا نہیں چاہتا کہ مجھ ایسا انسان مسجد میں قدم رکھے.مجھے اس بات سے شدید صدمہ پہنچا.میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیونکر خدا کو راضی کروں.میرے پاس کچھ بھی تو نہ تھا جو میں خدا کے حضور پیش کر کے اسے راضی کرنے کی کوشش کرتا.دنیا سے میں نے منہ موڑ لیا تھا.اپنی شہرت ، اپنی جمع پونجی ، اپنی صلاحیتوں ، اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے میں تہی دست ہو بیٹھا تھا.مستقبل سے اپنے آپ کو بے نیاز میں نے کر لیا تھا.میرے پاس رہا ہی کیا تھا جو خدا کے حضور پیش کر سکتا.بس ایک خواہش لئے پھر رہا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے اور دعا کرنے کی اجازت مل جائے تا کہ اس ذریعہ سے ہی خدا کو راضی کرنے کی کوشش کر سکوں، اور وہ پوری ہوتی نظر نہ آتی تھی.جس شخص نے مجھے روکا تھا میں نے اس سے ایک بار پھر التجا کی کہ وہ دوسروں کی طرح مجھے بھی مسجد کے

Page 165

تاریخ احمدیت.جلد 26 155 سال 1970ء اندر جانے دے لیکن میری اس التجا کا اس پر خاک اثر نہ ہوا اور وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہا.اُسی لمحہ میرے دل میں بجلی کے کوندے کی طرح خیال آیا.میں نے سوچا کہ میں اندھا ہونے سے بہت خوف کھاتا ہوں اور نہیں چاہتا کہ میری بینائی جاتی رہے اور دنیا میرے لئے اندھیر ہو جائے.اندھے ہو جانے کے خوف پر مجھے دل ہی دل میں بہت ندامت محسوس ہوئی اور میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے دل میں ایک بچہ کی طرح قسم کھا کر خدا کے حضور یہ عہد کیا کہ اے خدا! میں تیری خاطر اپنی یہ آنکھیں جو مجھے بہت عزیز ہیں قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.تو میری بینائی لے لے پر مجھے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت دیدے.دل ہی دل میں میں نے خدا کے حضور یہ عہد کیا ہی تھا کہ میری نظر وہاں آویزاں ایک بورڈ پر پڑی.اس پر یہ نشاندہی کی گئی تھی کہ مسجد کا دفتر کس سمت میں واقع ہے.اس سے مجھے یاد آیا کہ دفتر کا دروازہ مسجد کے دروازہ سے الگ ہے.میں اپنی جگہ سے ہلا اور مسجد کے عقبی جانب دفتر کے دروازہ کی طرف چل پڑا.وہاں بھی ایک شخص پہرہ پر کھڑا تھا.اس نے میری عجیب و غریب حالت دیکھ کر مجھے دفتر میں بھی داخل ہونے سے روک دیا.میں نے ایک دفعہ پھر اپنا عہد دل ہی دل میں دہرایا.اچانک ایک آدمی نمودار ہوا اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور مجھ سے پوچھا یہاں کیوں کھڑے ہو اور کیا چاہتے ہو؟ میں نے اس سے اپنی خواہش کا اظہار کیا.خدا نے اس کے دل میں رحم ڈالا اور وہ مجھے مسجد کے اندر لے گیا.سوالحمد للہ میں بالآخر مسجد میں داخل ہو گیا.داخل ہوتے ہی میں نے اپنے طور پر نماز شروع کر دی.سلام پھیر کر میں اسی حالت میں اپنی جگہ بیٹھا رہا.مسجد لوگوں سے بھری ہوئی تھی اور ایک عظیم انسان جس نے سر پر بڑی سی سفید پگڑی پہنی ہوئی تھی اور جس کا چہرہ بھری ہوئی بہت خوبصورت سفید ریش سے مزین تھا، محراب کے قریب کھڑا ایک ایسی زبان میں تقریر کر رہا تھا جسے میں نہیں سمجھتا تھا.میں خاموش بیٹھا اس عظیم انسان کو تکتا رہا.اُس وقت میرا دل ایک عجیب قسم کے خوف سے بھرا ہوا تھا.میں دل ہی دل میں حیران تھا کہ یہ عظیم شخص کون ہے جو بالکل ایک اجنبی زبان میں تقریر کر رہا ہے.تقریر کرتے کرتے وہ شخص فرش پر اپنے پیروں کے بل یکدم بیٹھ گیا.تقریر کرتے کرتے کسی کو فرش پر اس طرح بیٹھتے ہوئے دیکھنا میرے لئے بالکل ایک نیا تجربہ تھا.اس کے معابعد چشم زدن میں ایک عجیب وغریب واقعہ رونما ہوا.خفیف سے وقفہ کے بعد جونہی وہ شخص دوبارہ کھڑا ہوا تو اس کی دونوں آنکھوں سے نور کی دو لمبی لمبی شعائیں نکلیں اور سیدھی میری آنکھوں سے آٹکرائیں.ان شعاعوں کی خیرہ کر دینے والی چمک سے لمحہ بھر کے

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد 26 156 سال 1970ء لئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں تو واقعی اندھا ہو گیا ہوں.اگلے ہی لمحہ نظارہ بدلنے سے یہ کیفیت دور ہو گئی اور میری بینائی لوٹ آئی.اس کے معاً بعد با جماعت نماز شروع ہوگئی.فہم و ادراک سے بالا یہ ایک عجیب و غریب روحانی تجربہ تھا جس نے آن کی آن میں میری کایا پلٹ دی.وہ جمعہ کا دن تھا اور وہ مقرر یا خطیب تھے امام جماعت احمدیہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث.وہ انہی دنوں میں سپین کا دورہ کرنے کے بعد جبکہ میں بھی وہیں کہیں مارا مارا پھر رہا تھا اپنی جماعت کے اراکین سے ملنے کے لئے کچھ ہی عرصہ قبل جرمنی تشریف لائے تھے.وہ آدمی جس نے مجھے مسجد میں داخل ہونے سے روکا تھا مقامی جماعت احمدیہ کا ایک رضا کا تھا اور جو شخص دفتر کے دروازہ پر ایستادہ تھا وہ حضرت خلیفہ اسیح کا ذاتی پہریدار گارڈ تھا.اُس زمانہ میں میں جس حال میں تھا اور جس نا گفتہ بہ کیفیت میں سے گزر رہا تھا اُس جیسے بے حال انسان کو دیکھ کر منتظمین کے دلوں میں شکوک وشبہات کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر تھا مگر اس موقع پر خدائے بزرگ و برتر نے محض اپنے فضل و رحم سے مجھ جیسے بے حیثیت انسان کے لئے اپنے عظیم الشان نشانوں میں سے ایک نشان ظاہر فرمایا اور مجھے اس سے مستفیض ہونے کی غیر معمولی سعادت بخشی.فالحمد للہ علی ذالک.بعد ازاں جون ۱۹۷۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوائی ماموریت پر ایمان لا کر جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح نے میرا نام ہدایت اللہ رکھا جس کے معنے ہیں خدا سے ہدایت یافتہ.حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اور آپ کے بتائے ہوئے راستہ کی طرف کسی انسان نے میری راہنمائی نہیں کی بلکہ یہ دعاؤں کی معجزانہ تاخیرات ہی تھیں جو مجھے ہدایت کی راہ دکھانے کا موجب بنیں.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت احمدیہ میں بہت سے ہدایت اللہ کھینچ بلائے اور اس طرح روئے زمین کے انسانوں کو اندھیرے سے روشنی میں آنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین.12 124- مکرم مسعوداحمد جہلمی صاحب سابق مربی سلسلہ جرمنی محترم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب کے قبول احمدیت کے متعلق لکھتے ہیں:.۱۹۷۰ء کے اوائل کا ذکر ہے کہ ایک روز فرینکفرٹ مسجد کے دروازے پر دستک ہوئی.خاکسار دروازہ پر گیا تو سامنے ایک بد حال اور پراگندہ بال نوجوان کھڑا تھا جو اُس زمانہ میں ایک بیتی کی ہیئت

Page 167

تاریخ احمدیت.جلد 26 157 سال 1970ء کذائی کا پورا مرقع تھا.اس کی پتھرائی سی آنکھیں اور یہ حالت دیکھ کر قدرے تر ڈد کے ساتھ اندر آنے کی دعوت دی.اس نوجوان نے بتایا کہ اس پر جنات کا قبضہ ہے.خاکسار نے سمجھانے کی کوشش کی کہ جنات ایسی کوئی مخلوق نہیں جو انسان پر قبضہ کر لے.یہ کب مانتا تھا، منشیات کے زیر اثر کبھی رود یتا کبھی ہنس دیتا.کچھ دیر کے بعد جب میں نے یہ تاثر دیا کہ صاحب اب اپنی راہ لیں اور مجھے کچھ دیر اور کام کرنے دیں تو اس نوجوان نے معاملہ کو بھانپ لیا اور مجھ سے کہا کہ گویا تم مجھ سے چھٹکارا چاہتے ہو.اس پر میں سخت کھسیانا ہوا اور کہا نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں.چائے پیش کی تقریباً دو گھنٹے کے بعد یہ نو جوان رخصت ہوا.چند روز کے بعد ایک پوسٹ کارڈ ملا جو اسی نو جوان کی طرف سے تھا.فرینکفرٹ سے کوئی چالیس میل کے فاصلے پر ایک شہر Hadamar کے ہسپتال برائے امراض دماغی سے آیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ مسجد سے واپسی پر فرینکفرٹ شہر کے وسط میں واقع دریائے مائن میں چھلانگ لگانے کی ناکام کوشش پر پولیس نے اسے پکڑ کر یہاں بھیج دیا ہے.خاکسار نے اس خط کا جواب دیا اور بعد ازاں ہسپتال میں جا کر ملاقات کی.چند ہفتے زیر علاج رہ کر یہ وہاں سے پھر فرینکفرٹ آگئے جہاں اپنی والدہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے.والد بچپن میں فوت ہو چکا تھا.اس نو جوان کے نصیب جاگے.حضرت امام جماعت احمدیہ (الثالث ) ۱۹۷۰ء میں افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے.حسب پروگرام آپ نے زیورک سے لیگوس کے لئے روانہ ہونا تھا لیکن جو فلائٹ زیورک سے لیگوس پہنچتی تھی وہ وہاں پر شام کو پہنچتی تھی جس وقت ان دنوں میں اغلبا کر فیولگتا تھا.لہذا اچانک پروگرام میں تبدیلی کی گئی اور حضور زیورک سے بذریعہ ٹرین فرینکفرٹ تشریف لائے جہاں سے لیگوس کے لئے فلائٹ لی.فرینکفرٹ میں آپ کا قیام تین روز رہا جس کے دوران جمعہ بھی تھا.جرمنی میں اس وقت احمدیوں کی بہت تھوڑی تعداد تھی.اطلاع ملنے پر اکثر فرینکفرٹ حاضر ہو گئے.یہ مہی نوجوان جسے حضور کی تشریف آوری کا کوئی علم نہ تھا مسجد پہنچ گیا.اس کی ہیئت کذائی دیکھ کر باہر ڈیوٹی پر کھڑے خدام نے اسے اندر جانے سے روکا اس نے اندر جانے پر اصرار کیا.بالآخر بات خاکسار تک پہنچی.خاکسار مسجد میں بیٹھا تھا.خطبہ جمعہ شروع ہونے والا تھا.خاکسار نے باہر جا کر دیکھا تو وہی صاحب تھے.خدام سے کہا کہ انہیں اندر آنے دیں یہ آ کر دوسرے نمازیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھ گئے.نماز کی ادائیگی کے بعد تسبیحات سے فارغ ہو کر حضور نے خدام کی طرف رخ فرمایا اور متبسم چہرہ کے ساتھ احباب سے محو گفتگو ہوئے.یہ نوجوان کچھ فاصلے پر دوزانوسر جھکائے بیٹھا تھا.

Page 168

تاریخ احمدیت.جلد 26 158 سال 1970ء تھوڑی دیر بعد خاکسار نے حضور کی خدمت میں اس نوجوان کا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ یہ صاحب شاعر ہیں اور یہی خیالات کے ہیں بلکہ ایک ہی گروپ کے بانی ہیں.اس پر حضور نے اس نوجوان کو مخاطب ہو کر جو فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ دنیا بے ثبات ہے اور اصل زندگی تو حیاتِ آخرت ہے اس دنیا کے علائق میں محو ہو کر اُخروی زندگی کو بھولنا نہیں چاہیے اور حیات آخرت کی بہتری کے لئے اس دنیا میں کوشاں رہنا چاہیے.یہ نو جوان مسلسل سر جھکائے بیٹھا ر ہا.خدا تعالیٰ کے پیارے بندے کی نگاہوں نے اس مُشت خاک کی کایا پلٹ دی.یہ مجلس تو برخاست ہوئی بندہ خدا کی نگاہیں اپنا کام کر گئیں.یہ نوجوان جلد ہی دنیاوی علائق کو پس پشت ڈال کر حیات اُخروی کا اندوختہ تیار کرنے کے لئے کمر بستہ ہو گیا.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے والہانہ عشق نصیب ہوا جو اب اس کی نظم و نثر سے ظاہر ہے.سلطان القلم کے اس خادم کو خدا تعالیٰ غیر معمولی قلمی خدمات کی توفیق عطا فرمائے.مکرم ہدایت اللہ ہیوبش صاحب ان خوش قسمت روحوں میں سے ایک روح تھے جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عظیم الشان حقیقت پیشگوئی کے رنگ میں بیان فرمائی کہ:.جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار 125 قبول احمدیت کے بعد انہوں نے کما حقہ دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور خدمات دینیہ میں ہر لحاظ سے مثالی وجود بن گئے.ان کی قبول احمدیت کے واقعات اہل ایمان کے لئے نہایت ایمان افروز اور نیک فطرت لوگوں کے لئے یقیناً باعث ایمان ہیں.آپ نے ایک نہایت کامیاب زندگی گزار کریم جنوری ۲۰۱۱ء کو وفات پائی.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷ جنوری ۲۰۱۱ء میں ذکر خیر فرمایا اور نماز جنازہ غائب پڑھائی.آپ کی خدمات کی تفصیلات تاریخ احمدیت کی متعلقہ جلد میں آئے گی.انشاء اللہ جماعت ہائے ضلع راولپنڈی کا استقبالیہ مورخہ ۲۷ جون ۱۹۷۰ء کو جماعتہائے احد یہ راولپنڈی ضلع کی طرف سے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ربوہ سے ایبٹ آباد کے سفر کے دوران راولپنڈی میں مختصر قیام پر استقبالیہ دیا گیا.راولپنڈی سے بارہ میل دور ترنول کے مقام سے تین فرلانگ آگے کو ہاٹ روڈ پر احباب صبح آٹھ بجے سے ہی پہنچنے شروع ہو گئے.جناب ملک عبدالمغنی صاحب نائب امیر ثانی کی زیر قیادت دو کاروں پر

Page 169

تاریخ احمدیت.جلد 26 159 سال 1970ء ایک قافلہ فتح جنگ سے دو میل آگے تلہ گنگ روڈ پر صبح 9 بجے حضورانور کے انتظار میں پہنچا.جو نہی حضور انور کی کا ر نظر آئی ایک کارواپس احباب کی اطلاع کیلئے پہنچی اور ایک حضور کے قافلے کے آگے بطور ہراول کے روانہ ہوئی.حضور انور کا قافلہ ایک بجے کے قریب منزل مقصود پر پہنچا.امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی ضلع مکرم چوہدری احمد جان صاحب اور امیر جماعت اسلام آبا دمکرم چوہدری عبدالحق ورک صاحب نے آگے بڑھ کر استقبال کیا.ساتھ ہی صف بستہ احباب نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا اور فضا اسلام زنده باده، احمدیت زنده باد ختم المرسلین زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.مصافحہ شروع ہونے سے قبل مکرم چوہدری احمد جان صاحب نے نصرت جہاں ریزروفنڈ کی دوسری قسط ۳۸۵۰۳ روپے کی حضور انور کی خدمت میں پیش کی.حضور نے کرسی پر رونق افروز ہونے کے بعد مکرم سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ممبران مجلس عاملہ راولپنڈی اور اسلام آباد کو شرف مصافحہ بخشا.اس کے بعد جملہ احباب نے شرف مصافحہ حاصل کیا.حضور بچوں کو پیار بھی فرماتے رہے.اسی دوران حضرت سیدہ بیگم صاحبہ سے لجنہ اماء اللہ کی قریبا ۵۰ ممبرات نے شرف ملاقات حاصل کیا اور افریقہ کے حالات سنے.حضور انور بعد از مصافحہ دوستوں کے ساتھ ہی دریوں کے فرش جلوہ افروز ہوئے اور افریقہ کے مختلف واقعات بیان فرمائے.یہ مجلس آدھ گھنٹہ تک جاری پر رہی.جو نہی حضور انور مع قافلہ ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہونے لگے تو جملہ احباب سڑک پر دورویہ کھڑے ہو گئے اور فضا پھر نعروں سے گونج اٹھی.حضور انور گذرتے ہوئے کار میں سے ہاتھ ہلا ہلا کر احباب کے السلام علیکم کا جواب دیتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفرا ایبٹ آباد ایبٹ آباد پاکستان کے صوبہ سرحد میں ہزارہ ڈویژن کا مشہور شہر اور ملک کا خوبصورت اور صحت افزا مقام ہے جسے سیاحوں کی جنت کے صدر دروازے کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے.وادی کاغان میں داخلے کے لئے اس شہر کو دروازہ کی حیثیت حاصل ہے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے گرمی کے موسم میں مغربی افریقہ کے چھ ممالک کا وسیع دورہ فرمایا اور اپنی تمام تر توانائیاں ارضِ بلال کے مکینوں کو پیار دینے اور اپنی دعاؤں، ملاقاتوں، تقریروں اور دیگر دینی و سماجی مصروفیات کے ذریعہ ان کی راہنمائی کے لئے صرف کر دیں.اس زبر دست مجاہدہ

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد 26 160 سال 1970ء نے آپ کی صحت پر بے حد اثر ڈالا اور شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ حضور بحالی صحت کے لئے کسی صحت افزا مقام پر تشریف لے جائیں.اس غرض کے لئے حضور نے ایبٹ آباد کا انتخاب فرمایا اور ۲۷ جون سے ۳۰ ستمبر ۱۹۷۰ ء تک یعنی قریباً تین ماہ تک یہیں سعید ہاؤس میں قیام فرمار ہے.اس عرصہ میں وقفہ وقفہ سے مختصر قیام کے لئے اسلام آباد، راولپنڈی اور ر بوہ بھی تشریف لاتے رہے.یہ سفر بظاہر تبدیلی آب و ہوا کے لئے تھا مگر حضور کی شبانہ روز دینی، تربیتی اور انتظامی مصروفیات اور اپنے وسیع اثرات کے باعث ہمیشہ یاد رکھا جائے گا.(قیام ایبٹ آباد کے عرصہ میں حضور نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو امیر مقامی اور مسجد مبارک کا امام الصلوۃ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کو مقرر فرمایا ) ۲۷ جون کو حضور موٹر کار کے ذریعہ ربوہ سے صبح چھ بجے روانہ ہو کر بخیر و عافیت ایبٹ آباد میں بعد دو پہر رونق افروز ہوئے.اور اگلے روز سے ہی حضور کی دینی سرگرمیوں کا آغاز ہو گیا چنانچہ اس روز مقامی جماعت کے دوستوں کے علاوہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے بعض احباب کو حضور نے شرف زیارت بخشا اور اپنے قیام گاہ پر ظہر و عصر کی نمازیں پڑھانے کے بعد ایک گھنٹہ تک احباب میں تشریف فرمار ہے اور اپنے کلمات طیبات اور مواعظ حسنہ سے مستفیض فرمایا.محمد یعقوب خانصاحب سابق ایڈیٹر لائٹ کا خط حضور کی علم و معرفت سے لبریز مجلس سے مولانا محمد یعقوب خان صاحب سابق ایڈیٹر اخبار دی لائٹ لاہور بے حد متاثر ہوئے.چنانچہ انہوں نے اگلے ہی روز حسب ذیل مکتوب ایڈیٹر صاحب الفضل کے نام تحریر فر مایا:.ایبٹ آباده ۲۹/۶/۷ مکرم محترم مدیر صاحب الفضل السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حسنِ اتفاق ہے کہ حضرت خلیفتہ امیج الثالث جس کو ٹھی (سعید ہاؤس) میں ٹھہرے ہیں وہ میری رہائش گاہ سے قریب ہے.آج میں نے ارادہ کیا کہ اپنی پہیہ والی کرسی (wheel chair) پر بیٹھ کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل کروں.میرے ملازم جو میری کرسی دھکیل رہے تھے راستہ کے نشیب وفراز سے گھبرا جاتے تھے میں انہیں ہمت دلاتا تھا کہ اصل راحت اور ثواب اسی تکلیف میں ہے جو ہم اٹھارہے ہیں.

Page 171

تاریخ احمدیت.جلد 26 161 سال 1970ء ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام سے میں بے حد افسردہ خاطر تھا اور سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیا ہو گا.اللہ ہی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوؤں کے مظالم سے بچائے.قریب نصف صدی قبل میں نے انگریزی اخبار لائٹ میں ایک اداریہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ”ہندوستان میں چین ( Spain in India).جو نقشہ میں نے اس اداریہ میں کھینچا تھا وہ اب ہندوستان میں ظاہر ہے اور در مستقبل کی تاریکی سے دل بیٹھتا جاتا ہے.اس ذہنی کوفت کے اندر بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامی الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے : ” غلام احمد کی جے“.سپین کے حالات حضرت صاحب نے سنائے جہاں وہ اپنے حالیہ دورہ میں گئے تھے.وہاں مسلمانوں پر جو گزری وہ ایک دردناک داستان ہے.حضرت صاحب نے غرناطہ میں بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں کہ اے اللہ سپین کا کیا بنے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت آئی کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور وقت مقررہ پر وہاں کے حالات بہتر ہو جائیں گے.وہی حال ہندوستانی مسلمانوں کا معلوم ہوتا ہے.اور حضرت صاحب نے میرے دل کو تقویت دلائی مجھے یہ یاد دلا کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اور الہام بھی ہے جس میں کہا ہے کہ ہند و کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے.الغرض میں مایوس اور غمزدہ دل لے کر گیا تھا اور چند منٹ حضرت صاحب کی صحبت میں بیٹھنے کی بدولت ایک پُر امید دل لے کر واپس آیا.یہ عریضہ میں اس غرض سے ارسال خدمت کر رہا ہوں کہ احباب تک یہ بات پہنچا دوں کہ ایک باخدا انسان کی صحبت اور معیت کس قدر عظیم نعمت ہے.میرے لڑکے کیپٹن عبد السلام نے حضرت کی روانگی اور واپسی پر چند اشعار ہدیۂ خدمت کئے تھے.جب ان اشعار کا ذکر آیا تو ایک غیبی طاقت نے میرے لبوں پر بھی یہ مصرعہ جاری کیا جو عرض خدمت کر دیا گیا:.اے ناخدائے کشتی اسلام.السلام میرا جماعت لاہور سے کٹ کر جماعت ربوہ میں شمولیت کا مسئلہ ابھی تک لا ہوری حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے اور طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں.میں اپنے سابقہ اعلانات میں کافی وضاحت کر چکا ہوں کہ کن وجوہات نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر مائل کیا.اس موقعہ پر میں پھر مختصر الفاظ میں اُن وجوہات کا اعادہ کر دیتا ہوں.ایک وجہ جو بڑی اہم اور فیصلہ کن ہے وہ یہ ہے کہ حضرت

Page 172

تاریخ احمدیت.جلد 26 162 سال 1970ء مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ تھیں.اہل لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام اور مشن کوگر اکران ساری توقعات کو خاک میں ملا دیا.غیر مبایعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس تاریخی مشن کو لا یعنی بحثوں میں الجھ کر ختم کر دیا.انسانی ہمدردی کا یہ تقاضا تھا کہ میں دنیا کی خوشی اور نا خوشی سے بے نیاز ہو کر اس حقیقت کا اعلان کروں جسے میں حق سمجھتا ہوں.خدا کرے ہمارے غیر مبایعین احباب کو اب بھی سمجھ آ جائے کہ اس وقت دنیائے اسلام کی قیادت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جس انسان کو چنا ہے وہ جماعت ربوہ کے امام ہیں اور ساری برکتیں اور نصر تیں اب دامنِ خلافت سے وابستہ ہیں.دنیا بھر میں اسلام کی کشتی ایک خطرناک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے.مشیت ایزدی نے یہی پسند فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے نافلہ کو اس تاریخی مشن پر مامور کیا جائے کہ اس خطرناک مرحلے پر اسلام کی کشتی کی ناخدائی کے فرائض انجام دے.اس ملاقات کے دوران حضرت صاحب نے مسلمانانِ عالم کی زبوں حالی کی وجوہات کا جو بلند پایہ تجزیہ کیا وہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.سپین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”ہم مسلمان سپین میں تلوار کے ذریعہ داخل ہوئے اور اس کا جو حشر ہوا وہ ظاہر ہے.اب ہم وہاں قرآن لے کر داخل ہوئے ہیں اور قرآن کی فتوحات کو کوئی طاقت زائل نہیں کر سکتی“.والسلام محمد یعقوب خان 127 سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۳ جولائی ۱۹۷۰ء کوسعید ہاؤس ایبٹ آباد میں خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا:.فکر اور تدبر کرنے والے عیسائی پادری میرے نزدیک اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کا اسلام کے ساتھ آخری معرکہ افریقہ میں ہے اور اب وہاں بڑا زور دے رہے ہیں.انگلستان میں گرجے برائے فروخت اور افریقہ میں نئے گرجے بنوار ہے ہیں.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی توجہ کا مرکز اس وقت انگلستان یا یورپی ممالک نہیں بلکہ افریقہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت مختلف

Page 173

تاریخ احمدیت.جلد 26 163 سال 1970ء عیسائی پادریوں کی جو بین الاقوامی کانفرنسیں ہوا کرتی تھیں ان میں وہ بیان دیا کرتے تھے ( اور وہ چھپے ہوئے ہیں ہمارے پاس ان کے حوالے موجود ہیں ) کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت افریقہ عیسائیوں کے خیال میں ان کی جیب میں تھا.پھر اس کے بعد حالات بدلے.اللہ تعالیٰ نے فضل اور رحم کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہوئے اور وہ افریقہ جو عیسائیت کی جیب میں تھا (ذمہ دار پادریوں اور بشپس کے حوالے موجود ہیں کہ افریقہ ان کی جیب میں ہے ) اس کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بات مشتبہ ہے پتہ نہیں یہ بر اعظم عیسائیت کی جیب میں آتا ہے یا محمد رسول اللہ عے کے علم کے نیچے جمع ہو جاتا ہے.چنانچہ وہ ۵۰-۵۰ چانس کی باتیں کرنے لگے.پھر جب ہماری تبلیغی مہم اور تیز ہوئی تو انہوں نے بین الاقوامی کانفرنسوں میں یہ بیان دیئے ہیں کہ اگر وہ ایک افریقن کو عیسائی بناتے ہیں تو احمدی دس افریقنوں کو مسلمان بنا لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے ایک اور دس کی نسبت سے اسلام کی فتح اور عیسائیت کی شکست تسلیم کر لی.پھر جنہیں وہ عیسائی بناتے ہیں ان کی حالت یہ ہے کہ بیلجیئم کے ایک پادری افریقہ کے ایک ملک میں ۵۲ سالہ تبلیغ کرنے کے بعد بوڑھے ہوکر واپس جا رہے تھے ہمارے ایک مبلغ بھی Courtesy call ( کرٹسی کال) کے طور پر اس سے ملنے گئے اور اتفاق کی بات تھی کہ وہاں اُس وقت اور کوئی نہیں تھا.صرف وہ تھا یا ہمارا مبلغ تھا.بے تکلفانہ باتیں شروع ہو گئیں.وہ عیسائی پادری کہنے لگا کہ سچی بات یہ ہے کہ میرے۵۲ سالہ تجربہ اور کوشش کا نچوڑ یہ ہے کہ اس عرصہ میں میں نے صرف ایک آدمی کو عیسائی بنایا ہے ویسے ہزاروں پر میں نے عیسائیت کے لیبل لگائے ہیں.لیکن مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہیں.کوئی ہم سے دودھ لینے کی خاطر عیسائی ہوا ہے.کوئی ہم سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے عیسائی بنا ہے.کوئی نوکری کی خاطر عیسائی ہو گیا ہے.کوئی گندم اور دوسری غذائی ضرورتوں کی خاطر عیسائی بنا ہے.مجھے پتہ ہے کہ وہ عیسائی نہیں ہے ہمارے مال اور دولت میں انہیں دلچسپی ہے عیسائیت

Page 174

تاریخ احمدیت.جلد 26 164 سال 1970ء میں انہیں دلچسپی نہیں ہے.لیکن ایک آدمی کے متعلق مجھے علم ہے کہ وہ دل سے عیسائی ہوا ہے.ہمارے مبلغ نے اس سے کہا کہ ہم تو ہزاروں تم میں سے کھینچ کر مسلمان بنا چکے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق ہے اور ان کے متعلق ہم علی وجہ البصیرت کہہ سکتے ہیں کہ وہ پختہ مسلمان ہیں.اللہ تعالیٰ سے پیار کرنے والے ہیں.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کا ذاتی مشاہدہ کر کے آپ سے انتہائی محبت کرنے والے ہیں.اور یہ ایک حقیقت ہے.ہم نے بھی وہاں اس قسم کے بہت نظارے دیکھے ہیں.بہر حال مذہبی نقطہ نگاہ سے دنیا کا جو نقشہ اس وقت ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ بعض علاقوں میں تو ان اقوام نے اعلان کر دیا کہ وہ عیسائی نہیں وہاں تو دہریت اور الحاد کا زور ہے.یہ ہمارے لئے ایک علیحدہ محاذ ہے.اس کے متعلق میں کسی اور خطبہ میں بیان کروں گا.دنیا کا ایک علاقہ اور یہ بہت بڑا علاقہ ہے اس میں ہمیں یا تو نام کے عیسائی نظر آتے ہیں یاد ہر یہ ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم عیسائی نہیں ہیں.لیکن عیسائیت کا نام ان ملکوں میں ہے.اور جہاں عیسائیت کا کافی Hold (ہولڈ ) ہے وہ سپین اور جنوبی امریکہ کے علاوہ افریقہ کا بر اعظم ہے جہاں اسلام اور عیسائیت کے درمیان جنگ لڑی جارہی ہے.اگر دنیا کا یہ نقشہ صحیح ہو اور میرے نزدیک صحیح ہے تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ پر یہ زبر دست ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس محاذ پر عیسائیوں کو شکست دے.وہاں افریقہ میں بھی عیسائیوں کا یہ حال ہے کہ ہمارے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ پہلے شہروں اور قصبوں میں پڑھے لکھے لوگوں میں ان کی تبلیغ کا بڑا زور تھا.لیکن جب سے ہم آئے ہیں یہ اب Bush (بش ) میں چلے گئے ہیں.وہ دوست اپنی طرف سے تو یہ کہہ رہے تھے کہ اب ہم کیا کریں؟ میں نے انہیں فوراً کہا follow them to the bush تم بھی Bush میں جا کر ان کا پیچھا کرو.انہیں یہاں بھی ٹکنے نہیں دینا“.حضور نے یہ حقائق بیان کرنے کے بعد احمدی ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو تحریک فرمائی کہ وہ میدان

Page 175

تاریخ احمدیت.جلد 26 165 سال 1970ء عمل میں آئیں کیونکہ جنگ جیتنے کیلئے سلسلہ احمدیہ کو ان کی ضرورت ہے چنانچہ فرمایا:.افریقہ میں لڑی جانے والی جنگ کو جیتنے کے لئے ہم پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں میں پہلے بیان کر چکا ہوں ثلاً نصرت جہاں ریز روفنڈ قائم کیا گیا ہے ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے ہمیں ٹیچرز کی ضرورت ہے.ڈاکٹروں اور ٹیچروں کو رضا کارانہ طور پر خدمات پیش کرنے کی جو میں نے تحریک کی تھی اس سلسلہ میں شاید ایک بات رہ گئی تھی وہ یہ ہے کہ ہمیں ایسے ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی ڈاکٹر ہوں اور ایسے ٹیچر ز کی بھی ضرورت ہے جن کی بیویاں بھی وہاں کام کر سکیں یعنی وہ بھی بی اے، بی ایڈ یا بی ایس سی، بی ایڈ ہوں کیونکہ وہاں بعض جگہیں ایسی بھی ہیں جہاں مسلمان لڑکی تعلیم میں بہت پیچھے ہے اور پردے میں غلو کر رہی ہے اس لحاظ سے تو اچھا ہے کہ وہاں بے پردگی نہیں اور بے پردگی سے پردہ میں غلو اچھا ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہاں کی مستورات علم سے ( اور علم دراصل اللہ تعالیٰ کی صفات کے جلوے ہیں اور ان سے وہ ) محروم ہیں.ہماری طرف سے یہ کوشش ہو رہی ہے کہ ایسے علاقوں میں باپردہ پڑھائی کا انتظام کیا جائے تا کہ اگلی نسل کی بچیوں کو ہم علم کے نور سے منور کر سکیں.ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کچھ ہونہیں سکتا.جب اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے پیار کا جلوہ دکھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی.128 جولائی کو حضور نے چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان اور عبدالغنی صاحب رشدی (راولپنڈی) کو جماعتی امور کے سلسلہ میں ضروری ہدایات دیں اور مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرانے کے بعد احباب کو اپنے اہم ارشادات سے فیضیاب کیا.اس موقع پر مقامی جماعت کے علاوہ بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت سیالکوٹ بھی موجود تھے.حضور نے نائیجیریا اور سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یوں لگتا ہے کہ دنیا بدل گئی ہے اور ایک عظیم انقلاب رونما ہو رہا ہے.افریقن ممالک میں حکومتی سطح پر جماعتی خدمات کی قدر دانی اور ان کا کھلم کھلا اعتراف کیا جاتا ہے اور وہاں کی حکومتیں اب نئے ہسپتال اور سکول کھولنے کے سلسلہ میں

Page 176

تاریخ احمدیت.جلد 26 166 سال 1970ء ضروری سہولتیں بہم پہنچا کر عملاً تعاون کر رہی ہیں.پھر فرمایا کہ انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محبت اور پیار کا یہ پیغام نہ پہلے بھی نا کام ہوا ہے اور نہ آئندہ انشاء اللہ نا کام ہوگا.اس لئے ہم بہر حال جیتیں گے البتہ ہماری دعا ہمیشہ وہی ہونی چاہیے جو قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے کہلوائی گئی ہے کہ رَبِّ إِنِّي لِمَا اَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرِ فَقِيرٌ ، (القصص:۲۵) یہ بڑی پیاری دعا ہے اس میں خیر یعنی بھلائی کو کسی خاص رنگ میں یا کسی معین مطالبہ کی صورت میں پیش نہیں کیا گیا.اس لئے ہماری بھی یہی دعا ہونی چاہیے کہ جس چیز میں ہمارے لئے خیر ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ ہمیں عطا فرمائے.دنیا کی مخالفت کی پروا نہیں کرنی چاہیے ان کی مخالفت ہمارا راستہ نہیں روک سکتی.کیونکہ دلوں کو جیتنے کے لئے دلائل ان کے پاس نہیں.آسمانی نشانوں کے نزول کے دروازے انہوں نے خود اپنے اوپر بند کر رکھے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی اتباع میں انسانیت کی خدمت اور پیار و محبت سے ان کے دل جیتنے کی انہیں تو فیق نہیں.یہ شرف اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو عطا فرمایا ہے.اس لحاظ سے ہم پر بہت بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.۹ جولائی.نماز مغرب کے بعد حضور نے مغربی افریقہ میں احمدی سکولوں کی مثالی کیفیت اور افریقن حکومتوں کی ان کی طرف خصوصی توجہ پر روشنی ڈالی اور اس سلسلہ میں جماعتی سکیموں کا خیر مقدم کرنے اور عملی تعاون کی متعدد مثالیں دے کر فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ وہاں اسلام کے غلبہ کے آثار روز بروز نمایاں تر ہو رہے ہیں اس ضمن میں یہ حقیقت بھی واضح فرمائی کہ اسلام نے جس حکیمانہ رنگ میں ہر فرد کی ضروریات کی حقیقی تعریف اور اس کے حقوق کی صحیح تعیین فرمائی ہے وہاں سوشلزم کا تخیل بھی نہیں پہنچتا.۱۰ جولائی.حضور نے اس روز اسلام آباد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں مغربی افریقہ کے باشندوں کی سماجی ، معاشرتی اور مذہبی خصوصیات بیان کرتے ہوئے ان کی ذاتی شرافت اور فطری سعادت اور سادہ مزاجی پر نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی اور فرمایا یہ اقوام صدیوں سے استعماری ظلم کا شکار اور یوروپین اقوام کی لوٹ کھسوٹ کا نشانہ بن رہی ہیں اب وہ وقت انشاء اللہ دور نہیں جب انہیں پتہ لگے گا کہ افریقن دین و دنیا کے ہر میدان میں ان کے استاد بننے کے اہل ہیں اور اس طرح دنیا میں پھر وہی حسین معاشرہ قائم ہوگا جس کی بنیاد آج سے چودہ سو سال پہلے ہادی اکمل حضرت

Page 177

تاریخ احمدیت.جلد 26 167 سال 1970ء رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھی اور جس کی ایک جھلک فتح مکہ کے موقعہ پر حضرت بلال کے جھنڈے تلے نظر آئی تھی.فرمایا.یہ عظیم انقلاب ہم سے عظیم قربانیاں بھی چاہتا ہے.ہمیں اس راہ میں مالی اور جانی قربانیاں پیش کرنے میں دریغ نہیں کرنا چاہیے اور پھر ساتھ ہی یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ان قربانیوں کو قبول بھی فرمائے اور انہیں ہمارے لئے مثمر بثمرات حسنہ بنائے.129 ۱۲ جولائی.آج ملاقاتوں کا دن تھا مقامی دوستوں کے علاوہ پشاور، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور، گوجرانوالہ، مظفر آباد اور مانسہرہ کے دوستوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور نماز مغرب کے بعد حضور مجلس عرفان میں تشریف فرما ر ہے اور مغربی افریقہ کے حالیہ دورہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ خدا تعالیٰ کی بشارتیں پوری ہونے کے دن قریب آرہے ہیں.۱۴ جولائی.قیام ایبٹ آباد کے دوران دید و ملاقات کے شوق میں احباب دیوانہ وار کھنچے چلے آ رہے تھے اور ہر روز شمع خلافت کے عشاق کا تانتا بندھا رہتا تھا لیکن ملاقاتوں کے دن کی شان ہی اور تھی.۱۴ جولائی بھی ملاقاتوں کے لئے مخصوص تھا.اس روز ربوہ اور کئی دوسری جماعتوں کے بہت سے احباب تشریف لائے.ان کے علاوہ ڈاکٹر مرزا عبدالرؤف صاحب امیر جماعت احمد به ت احمد یہ کیملپور اور مولوی عطاء الکریم شاہد صاحب مربی سلسلہ بھی ساٹھ ، ستر احباب کے ساتھ جن میں چند مستورات اور بچے بھی شامل تھے قافلے کی صورت میں ایک پیشل بس کے ذریعہ پہنچے.حضور نے دس سے سوا گیارہ بجے تک انفرادی ملاقات کا موقع عطا فرمایا.اس کے بعد کوٹھی سے باہر تشریف لائے جہاں ایک ملحقہ گراسی پلاٹ میں ایک شامیانے کے نیچے کیملپور کے مخلص احباب اپنے پیارے آقا سے ملاقات کے لئے سراپا انتظار بیٹھے تھے.سب نے باری باری حضور سے مصافحہ کیا حضور نے پانچ سات سال کے ننھے منے بچوں کو پیار کیا.ایبٹ آباد میں حضور سے اجتماعی ملاقات کا اولین شرف جماعت کیملپور نے حاصل کیا.اپنے ان عشاق کے دید و قلب کی مزید سیری کے لئے حضور قریباً ایک گھنٹہ تک تشریف فرما رہے اور اپنے سفر مغربی افریقہ کے متعدد واقعات اور تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ منصورہ بیگم نے اس دورہ میں بڑا کام کیا ہے ورنہ وہاں کی عورتیں تشنہ رہ جاتیں کیونکہ وہاں کی عورتوں کو مردوں سے مصافحہ کرنے کی عادت پڑی ہوئی ہے اور ابھی ان کی اتنی تربیت نہیں ہو سکی کہ وہ مردوں ނ مصافحہ نہ کریں میں تو صرف مردوں سے مصافحہ کرتا تھا عورتوں سے مصافحہ منصورہ بیگم کرتی تھیں.میں

Page 178

تاریخ احمدیت.جلد 26 168 سال 1970ء نے ان سے کہا ہے کہ جو کام وہاں کرتی تھیں وہ یہاں بھی کریں چنانچہ اس وقت جو مستورات آپ کے ساتھ آئی ہوئی ہیں ان سے وہی ملاقات کر رہی ہیں.فرمایا کہ اگرچہ مجھے ڈاکٹری مشورہ تو یہ تھا کہ میری صحت سفر کرنے کے قابل نہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ پانچ چھ ہفتہ کے اس دورہ میں میری صحت ٹھیک رہی.ایک دن بھی ڈاکٹر کی ضرورت نہیں پڑی.ویسے پہلے چار ملکوں میں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب اور پھر ڈاکٹر سعید احمد صاحب آن ڈیوٹی رہے اور بڑے اخلاص سے خدمت کرتے رہے.آخر میں حضور نے سب احباب کو پُر زور تحریک فرمائی کہ جماعتی ضرورتوں کے پیش نظر مالی اور جانی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.۱۵ جولائی.نماز مغرب کے بعد حضور احباب میں رونق افروز ہوئے اور فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی بڑی عجیب اور زمانہ کی ضروریات کے مطابق تفسیر کی ہے مثلاً یہ کہ ہر مخلوق جو ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات کے بے شمار جلوے کارفرما ہیں اور پھر ہر خلق میں نئے جلوے جذب کرنے کی تاثیر پائی جاتی ہے.فرمایا یہ سارا کارخانہ عالم اللہ تعالیٰ کی قدرت کے سہارے رواں دواں ہے مگر پھر بھی لوگ اس عظیم ہستی کو بھول جاتے ہیں.فرمایا.دو تین سال ہوئے ہمارے ایک مبلغ (مولوی عبدالکریم صاحب شاہد کا ٹھگڑ ی مربی سلسلہ احمدیہ مراد ہیں) کو دماغ کے کینسر کا عارضہ لاحق ہوا.تکلیف شدت اختیار کر گئی تو آپریشن کروانے کے لئے انہیں لاہور لے گئے.میں نے ہدایت کی کہ ان کے علاج پر جتنا خرچ ہوتا ہے کریں مگر آپریشن نہ کرائیں بعد میں ڈاکٹروں نے کہا کہ مرض سارے دماغ میں پھیل چکا ہے اس لئے آپریشن ناممکن ہے.اس اثنا میں ان پر بے ہوشی کی حالت طاری ہو چکی تھی.بینائی ، شنوائی حتی کہ گویائی تک سلب ہو چکی تھی.مگر خدا کی قدرت کہ ساتویں دن انہوں نے آنکھیں کھولیں.نظر بھی آ رہا تھا، شنوائی بھی عود کر آئی، زبان بھی چلنے لگی.جسے ڈاکٹر آٹھ دس دن کا مہمان سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ کا یہ معجزہ ہے کہ وہ پھر سے تبلیغی اور تربیتی میدان میں سرگرم عمل ہے.فرمایا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ ایک انفرادی حکم علیحدہ طور پر بھی آسمان سے نازل ہوتا ہے کیونکہ وہ ساری قدرتوں کا مالک ہے.۱۶ جولائی.چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت راولپنڈی اور چوہدری عبدالحق صاحب ورک امیر جماعت احمد یہ اسلام آباد چند دیگر احباب کے ساتھ تشریف لائے.نماز مغرب وعشاء کے

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد 26 169 سال 1970ء بعد حضور نے انہیں شرف مصافحہ بخشا.ے جولائی.کو حضور نے نماز جمعہ اپنی قیامگاہ پر پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت کو نہایت بصیرت افروز پیرایہ میں بیان کرتے ہوئے وقف زندگی کے مختلف شعبوں کی اہمیت وضرورت پر تفصیل سے روشنی ڈالی.نیز نظام وقف کی دائی ضرورتوں کے پیش نظر جماعت کو خاص طور پر متوجہ کیا کہ غریب، متوسط اور امیر گھرانوں کے ذہین مخلص اور سعید الفطرت طلباء جامعہ احمدیہ میں آنے چاہئیں اسی سے جماعت کی بڑھتی ہوئی تبلیغی اور تربیتی اغراض کما حقہ پوری کی جاسکتی ہیں.۱۸ جولائی.نماز ظہر کے بعد ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ مغربی افریقہ کے تاریخی اور نہایت درجہ کامیاب تبلیغی دورہ کی رپورٹ کتابی صورت میں جلد شائع ہونی چاہیے.حضور اس کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کے بعض عملی پہلوؤں پر اظہار خیال فرماتے رہے.اس روز چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیداد، ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ اور سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ راولپنڈی نے بھی حضور کی زیارت کی.سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ چند دن پہلے سے یہاں موجود تھے.علاوہ ازیں ۱۷ جولائی کی شام کو مجلس انصار الله ومجلس خدام الاحمدیہ فیصل آباد کے سرکردہ ارکان (میاں غلام احمد صاحب، چوہدری احمد دین صاحب، سعید احمد صاحب ناصر، شیخ خالد مسعود صاحب اور مقصود احمد صاحب) نے نماز مغرب وعشاء کے بعد شرف ملاقات حاصل کیا.اور صبح کو حضور کی خدمت میں واپسی کی اجازت کے لئے حاضر ہوئے.حضور نے از راہ شفقت اور ذرہ نوازی فرمایا آپ یہاں مہمان ہیں دو ایک دن اور ٹھہریں.حضور کی اس درجہ شفقت سے ان خدام کے دل باغ باغ ہو گئے.اس روز حضور دیر تک نماز مغرب وعشاء کے بعد احباب میں تشریف فرما ر ہے.دوران گفتگو حضور نے تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور کے ایک بزرگ کا تذکرہ فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ان کی حالت یہ تھی کہ جب کسی سانپ کو دیکھ لیتے تو اس کا خوف ہر وقت ان کے ذہن پر سوار رہتا تھا.ایک دفعہ انہیں ان کے رشتہ داروں نے اپنے کسی جھگڑے کا تصفیہ کروانے کے لئے سندھ کے ایک ایسے علاقے میں بلایا جہاں سانپ بڑی کثرت سے ہوتے ہیں اس پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی یہ کیفیت بیان کی.حضور نے دعا کی اور فرمایا اب سانپ آپ کو کچھ نہیں کہے

Page 180

تاریخ احمدیت.جلد 26 170 سال 1970ء گا.چنانچہ وہ بتایا کرتے کہ اس کے بعد نہ صرف یہ کہ سانپ کے خوف کا احساس جاتا رہا بلکہ جب کبھی کوئی سانپ انہیں نظر آتا وہ انہیں دیکھ کر بھاگ جاتا.حضور نے یہ ایمان افروز واقعہ بیان کرنے کے بعد فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فدائیوں اور آپ سے محبت رکھنے والے متبعین کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی یہ بشارت ہے کہ نہ صرف ان کے نفوس میں برکت ڈالی جائے گی بلکہ جس چیز کو وہ چھوئیں گے وہ بھی بابرکت ہو جائے گی.اسی برکت کی ہمیں بھی تلاش کرنی چاہیے.۱۹ جولائی.آج حضور سے انفرادی اور اجتماعی ملاقات کی سعادت پانے کے لئے دور و نزدیک سے کثیر تعداد میں احباب جماعت تشریف لائے.حضور نے پہلے پشاور، لاہور، راولپنڈی، ہری پور، ٹیکسلا اور دوسری جماعتوں کے بہت سے احباب کو انفرادی ملاقات کا موقع عطا فر مایا اور اس کے بعد مردان اور ٹیکسلا کے قریباً ۸۰ مخلصین جماعت کو اجتماعی ملاقات اور اپنے بیش قیمت ارشادات سے نوازا.مردان کے دوست اپنے امیر آدم خان صاحب کی قیادت میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک سپیشل بس کے ذریعہ ایبٹ آباد پہنچے تھے.حضور انفرادی ملاقاتوں کے بعد باہر تشریف لائے تو اپنے پیارے آقا کی عقیدت اور محبت میں سرشار تمام احباب احتراماً کھڑے ہو گئے.آدم خان صاحب امیر جماعت احمد یہ مردان نے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کیا.اس کے بعد حضور قریباً ایک گھنٹے تک تشریف فرما رہے.حضور نے بعض دوستوں کے حالات دریافت فرمائے.چند دوستوں نے اپنی مشکلات بیان کیں.حضور نے ان کے لئے دعا کی.بعض بیمار تھے ان کے لئے آپ نے علاج تجویز فرمایا اور یہ نصیحت فرمائی کہ صرف علاج پر تکیہ نہیں کرنا بلکہ اس یقین کے ساتھ دوا کو استعمال کرنا ہے کہ شفا تو دراصل اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے جب تک شافی مطلق کا حکم نازل نہیں ہوتا کوئی دوا کارگر نہیں ہوتی.اس لئے دوا کے ساتھ دعا کو نہیں بھولنا چاہیے.مردان سے دو تین غیر از جماعت دوست بھی تشریف لائے ہوئے تھے جو کئی سال سے سلسلہ کا لٹریچر پڑھ رہے تھے مگر ابھی تک انہیں انشراح صدر نہیں ہوا تھا.فرمایا.انشراح تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا دل مثالی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے جدھر چاہے اور جس طرح چاہے اسے پھیر دے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ انشراح صدر اور حق کو قبول کرنے کی توفیق بخشے.کیونکہ اس کا انحصار

Page 181

تاریخ احمدیت.جلد 26 171 سال 1970ء دراصل اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق پر ہے بعض دفعہ دنیوی لحاظ سے سر تا پا گند میں ملوث لوگ احمد بیت کی بدولت بچی تو بہ کر کے حقیقی مومن بن گئے.فرمایا ویسے یہ ضروری ہے کہ جب تک احمدیت کے متعلق پوری طرح انشراح نہ ہو اسے قبول نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ دل کا معاملہ ہے اور بڑی ذمہ داری کا کام ہے.انشراح صدر ہونے کی صورت ہی میں انسان ہمارے لئے بھی اور اللہ تعالیٰ نے غلبہ دین کے لئے جو مہم چلائی ہے اس کے لئے بھی مفید وجود بن سکتا ہے.حضور نے مغربی افریقہ میں قبولیت دعا کے نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یہ سارے نشان دراصل اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کے مظہر ہیں.ہم تو کوئی چیز ہی نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ادنی ترین خادم ہیں.البتہ اس بات پر خوش ہیں کہ آپ کے محبوب ترین روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے ہمیں خدمت دین کا موقع عطا فرمایا ہے اور احمدیت کے ذریعہ عیسائیت کی زبر دست دجالی کاروائیوں کے مقابلہ میں دنیا میں سچی تو حید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم اور اسلام کی صداقت ثابت ہو رہی ہے.افریقہ میں اسلام کے حق میں بپا ہونے والا یہ عظیم انقلاب اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ ہم یہاں بھی اپنے نقطۂ نظر کی وسیع پیمانے پر اشاعت کریں اور اس سلسلہ میں وہی جوش و خروش دکھا ئیں جس کا میں نے افریقہ میں مشاہدہ کیا ہے اور اس راہ میں اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی گریز نہ کریں.کیونکہ یہ ایک سعادت عظمی ہے.فرمایا.ہمارے بعض پاکستانی بھائیوں کی طرف سے پچھلے دو چار مہینوں میں عرب ممالک میں ہمارے دوستوں کے خلاف بعض شاخسانے کھڑے کئے گئے.دیارِ حرم اور دیگر مقامات مقدسہ کی زیارت کرنے والے احمدی احباب کو قید و بند کی صعوبتوں سے دو چار کرایا گیا اور پھر یہاں آکر اپنے اس شاندار کارنامے پر داد تحسین بھی حاصل کی جاتی رہی مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر موقعہ پر فضل کیا اور تائید و نصرت فرمائی.ہمارے دوستوں کی باعزت بریت ہوئی.فرمایا.ہم بڑے دھڑتے سے یہ کہتے ہیں کہ ہم غالب آئیں گے یہ ہم اس لئے نہیں کہتے کہ ہمارے اندر کوئی طاقت ہے یا ہمارے اندر کوئی خوبی ہے بلکہ اس لئے کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو حق و صداقت پر ہوگا وہی غالب آئے گا.پس ہمارے مقابلے میں جھوٹ بولنے کو جزو ایمان بنانے والے غالب نہیں آ سکتے.سب دوست پیکر اخلاص بنے اس نہایت درجہ

Page 182

تاریخ احمدیت.جلد 26 172 سال 1970ء ایمان افروز مجلس سے مستفید ہوئے.اس کے بعد حضور نے باری باری ہر ایک دوست کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر مردان کی جماعت کے دوستوں کے ساتھ حضور کا گروپ فوٹو لیا گیا.حضور نے ارشاد فرمایا که دوست پہلے کھانا کھا لیں پھر نماز پڑھیں گے.یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ حضور کی زیارت اور ملاقات کے لئے باہر سے تشریف لانے والے دوستوں کے لئے چائے اور پھر دو پہر کے کھانے کا تسلی بخش انتظام کیا جاتا تھا.۲۱ جولائی کو مولانا ابوالعطاء صاحب، مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب اور شیخ محبوب عالم صاحب خالد ناظر بیت المال بھی حاضر تھے.حضور دیر تک سوات کے بعض قابل دید اور صحت افزاء مقامات کی سیر و سیاحت اور اس سلسلہ میں بعض ضروری سہولتوں نیز وہاں کے بڑے ہی دلچسپ تمدنی ، معاشرتی ، سیاسی اور انتظامی حالات پر بھی اظہار خیال فرماتے رہے.۲۲ جولائی.پانچ بجے شام مولانا محمد یعقوب خان صاحب حضور سے ملاقات کے لئے تشریف لائے.حضور انہیں مغربی افریقہ اور یورپ کے بعض دوسرے ملکوں کے حالیہ دورہ کے بارے میں غیر ملکی پر لیس کے تاثرات پر مشتمل اخباری تراشے دکھاتے رہے.نماز مغرب کے بعد حضور تھوڑی دیر احباب میں تشریف فرمار ہے.اس موقعہ پر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیدا کردہ لٹریچر سے اسلامی مسائل کے متعلق پیدا ہونے والی غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں کیونکہ آپ نے ہر قسم کی پیچیدگیوں اور الجھنوں کو نہایت حسین پیرایہ میں سلجھا کر رکھ دیا ہے آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے متعلق اولیاء اللہ کے بعض رؤیا اور کشوف کا بھی ذکر فرمایا.۲۳ جولائی.بعد نماز مغرب مجلس علم و عرفان میں حضور نے جانوروں مثلاً ہرن اور گھوڑے وغیرہ کی سمجھ اور خود حفاظتی کی بعض مثالیں بیان فرمائیں.فرقان فورس کے ذکر پر آپ نے تفصیل سے بتایا کہ بے سروسامانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے وہاں کس طرح کام لیا اور پھر قدم قدم پر ہمیں اپنی حفظ و امان کے سایہ میں رکھا.۲۴ جولائی.حضور صبح پونے بارہ بجے ایبٹ آباد سے راولپنڈی پہنچے اور میجر سید مقبول احمد صاحب کے مکان بیت السلام میں قیام فرمایا.بعد ازاں احمدیہ بیت نور تشریف لے گئے اور خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تمام انسانوں کو وحدت میں منسلک کرنے اور انہیں زندہ خدا سے روشناس کرانے کا

Page 183

تاریخ احمدیت.جلد 26 173 سال 1970ء انتظام فرمایا ہے یہی وہ عظیم الشان کام ہے جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے اس کام کی سرانجام دہی کے لئے ہر طرح کی مالی اور جانی قربانیوں کے علاوہ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ہم ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں.نماز جمعہ پڑھانے کے بعد حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر ایبٹ آباد تشریف لے آئے.۲۹ جولائی تا ۵ اگست.ان ایام میں حضور دارالہجرت ربوہ میں قیام فرما ر ہے اور اس جولائی کو مسجد مبارک ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تمام اقوام عالم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع کر کے ایک وحدت میں منسلک کرنے کے لئے جو مہم جاری ہے اس کا ایک اہم محاذ مغربی افریقہ ہے جہاں خلافت حقہ کے ذریعہ آسمانی اور الہی تائید و نصرت کے بہت سے نشانات ظاہر ہورہے ہیں اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہم مالی اور جانی میدان میں انتہائی قربانیاں پیش کریں.یکم اگست کو حضور نے بعد نماز مغرب مجلس ارشاد مرکزیہ کی صدارت فرمائی اور آخر میں اپنے مختصر خطاب میں احباب جماعت کو تلقین فرمائی کہ ہمیں قرآن عظیم کے انوار و برکات کو دعاؤں اور تدابیر کے ذریعہ حاصل کرنا چاہیئے.ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن عظیم کے مطابق بنائیں.اسی روز حضور نے ۸ بجے صبح فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا افتتاح فرمایا اور طلباء اور طالبات کو زریں نصائح فرمائیں کہ خلیفہ وقت کے ساتھ مل کر اور یکجان ہو کر دین کے عالمگیر غلبہ کی عظیم جدوجہد میں حصہ لیں ، دعاؤں پر زور دیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا ذاتی اور زندہ تعلق قائم کرنے کی کوشش کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو بار بار اور التزام کے ساتھ پڑھتے رہیں.یہ کتب قرآن کریم کی الہامی تفسیر کا رنگ رکھتی ہیں اور اس زمانہ میں ان کا مطالعہ از حد ضروری ہے.۱۴ را گست - حضور نے نماز جمعہ ایبٹ آباد میں اپنی قیام گاہ پر پڑھائی اور اپنے گذشتہ خطبہ جمعہ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی حقیقت اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ کی حقیقی معرفت اور اس کے وعدوں پر کامل یقین پیدا کرنے کی ضرورت و اہمیت پر بصیرت افروز پیرایہ میں تفصیل سے روشنی ڈالی.حضور نے قرآن کریم کی رُو سے ایمان کے مختلف معانی بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ جہاں بھی مطلق ایمان کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اس صورت میں ایمان سبھی فائدہ دے سکتا

Page 184

تاریخ احمدیت.جلد 26 174 سال 1970ء ہے اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا باعث بن سکتا ہے جب انسان اس کے تمام تقاضوں کو پورا کرے اور یہ تقاضے پورے نہیں ہو سکتے جب تک اللہ تعالیٰ کی صفات کی حقیقی معرفت حاصل نہ ہو.مثلاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے انتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ ( آل عمران : ۱۴۰).یہاں مومن کے لفظ میں پختہ ایمان کے علاوہ اس کے تمام تقاضوں سے عہدہ برآ ہونا مراد ہے.جس سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی رحمت اور نصرت ملتی ہے.صحابہ کرام جو ایمان پر پختگی سے قائم تھے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور اس کے وعدوں پر پوری طرح یقین رکھتے تھے.وہ صحرائے عرب سے ایک سیل رواں بن کر نکلے جس کے سامنے کسریٰ اور قیصر کی زبر دست بادشاہتیں خس و خاشاک کی طرح بہہ گئیں.ایمان کے تقاضوں میں سے سرفہرست اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان ہے.ہمیں اللہ تعالیٰ پر حقیقی ایمان لانا چاہیے اس کی صفات حسنہ کی کامل معرفت حاصل کرنی چاہیے اور ہر حال میں راضی بالقضاء اور اس کی حمد کرتے رہنا چاہیے.یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ اگر کبھی ایک فصل ژالہ باری کی نذر ہو جاتی ہے تو اگلی فصل میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکت رکھ دیتا ہے.اس لئے انسان کو اپنی محنت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے.کھیتی وہی اُگتی اور پھل لاتی ہے جسے اللہ تعالیٰ اُگا تا اور ثمر دار بناتا ہے.اس روز بھی نماز مغرب کے بعد حضور تھوڑی دیر تک اپنے ارشادات سے احباب کو مستفید فرماتے رہے.فرمایا.اسلام نے اقتصادیات کا اصل الاصول یہ بیان فرمایا ہے کہ جس کے پاس کچھ نہیں ہے اسے وہ سب کچھ دیا جائے جو اس کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی قوتوں کی نشو و نما کے لئے ضروری ہے اور جس کے پاس کچھ ہے اس سے زبردستی چھینا نہ جائے اگر اس پر عمل ہونے لگے تو نہ معاشرتی اونچ نیچ کا چر چار ہے اور نہ قابل ذہنوں کا ضیاع ہو.۱۵/ اگست.مغرب کی نماز کے بعد حضور انور تھوڑی دیر ا حباب میں تشریف فرما ر ہے.اس موقعہ پر حضور نے بیرونی مشنوں کی طرف سے بعض اطلاعات پر خوشی اور اطمینان کا اظہار فرمایا نیز 130 حضور انور نے افریقن ممالک میں زیادہ سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کی تحریک فرمائی.۱۶ اگست - آج مقامی جماعت کے علاوہ مانسہرہ ، واہ ، ہری پور، کراچی، ربوہ ، باندھی سندھ، راولپنڈی، اسلام آباد اور پشاور کے کثیر احباب ملاقات کے لئے تشریف لائے.نیز دو بجے پشاور کی جماعتوں کے قریباً پونے چار سو احباب کو جو اپنے امیر جماعت مکرم محمود احمد خان صاحب کی سرکردگی میں چھ پیشل بسوں پر تشریف لائے تھے انہیں حضور نے اجتماعی ملاقات کا موقعہ دیا.

Page 185

تاریخ احمدیت.جلد 26 175 سال 1970ء بعد از نماز ظہر و عصر حضور نے احباب جماعت کو اپنے بیش بہا ارشادات اور مواعظہ حسنہ سے مستفید فرمایا.حضور نے اس موقعہ پر مکرم محمد صدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ پشاور کو یاد فر مایا اور ان سے تبلیغی اور تربیتی امور کے متعلق دریافت فرمایا.حضور انور نے فرمایا یہ عجیب بات ہے کہ ہم اپنے دنیوی کام کاج میں تو پوری دلچسپی کے ساتھ ہمہ تن مصروف اور ان میں پورے جوش و خروش کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں.مگر احمدیت کی تبلیغ کا حق ہم پوری طرح ادا نہیں کرتے.اس سلسلہ میں نہ تو ہم وہ قربانی دیتے ہیں اور نہ وہ سرگرمی دکھاتے ہیں جو تبلیغ کے لئے ضروری ہے.اور پھر جہاں تھوڑا بہت تبلیغ کا کام ہو رہا ہے اسے بعض مصلحتوں کے پیش نظر کما حقہ موثر بنانے میں پس و پیش رہتا ہے.فرمایا ایسا نہیں ہونا چاہیئے.دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے تبلیغ سے کسی دم غافل نہیں ہونا چاہیئے.البتہ تبلیغ کے لئے قربانی، جرات، ہوشمندی اور سب سے بڑھ کر اچھے نمونے یعنی باہمی پیارو محبت، ایثار و قربانی اور ہمدردی و غمخواری کی ضرورت ہے.اگر یہ جذبہ اور تبلیغ کی ایک لگن اور جنون ہمارے اندر پیدا ہو جائے اور دوسروں کے لئے اپنے دل میں درد اور ان کے لئے اضطرار اور ابتہال کے ساتھ دعائیں کی جائیں تو ہماری یہ کوششیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور ہماری یہ دردمندانہ دعا ئیں کبھی رائیگاں نہیں جاسکتیں.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ افریقہ کے بعض ملک قربانی اور اخلاص میں ہم سے بہت زیادہ آگے نکل گئے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ کوئی سیاہ فام ہے یا سفید فام.وہ تو بلا امتیاز رنگ و نسل اس قوم یا فرد کو اپنے قرب سے نوازتا ہے جو اس کے حضور سچے دل سے قربانی پیش کرتا اور اس کی رضا کے لئے دکھ اٹھاتا ہے.افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سازگار حالات اور اسلام کی ترقی کے غیر معمولی سامان پیدا ہونے کا تفصیل سے ذکر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا مجھے اب اِدھر کی فکر پڑی ہوئی ہے کیونکہ توازن قائم رکھنا ضروری ہے.اس لئے ہمیں یہاں بھی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر پوری سرگرمی اور جوش و خروش کے ساتھ تبلیغ کرنی چاہئے.فرمایا دنیا اسی سال سے اس بات پر خوش ہے کہ اس نے احمدیوں کو کافر کہہ لیا اور ہم اسی سال سے اس بات پر خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی عطا ہو رہی ہے.اور اس کی نگاہ میں ہم کا فرنہیں مسلمان ہیں اور وہ جو دلوں کے بھید جانتا ہے وہ ہمارے دل اپنی محبت سے لبریز دیکھتا اور اپنا محبوب بنالیا ہے.پھر غیر کی ہمیں پر واہ کیا ہے.

Page 186

تاریخ احمدیت.جلد 26 176 سال 1970ء حضور نے فرمایا کہ تبلیغ و تربیت کے لئے ہر جگہ مسجد کا ہونا ضروری ہے البتہ یہ خیال درست نہیں ہے کہ جب تک دو چار لاکھ روپیہ نہ ہو جائے مسجد تعمیر نہیں ہو سکتی.مسجد نبوی ﷺ جیسی با برکت اور مقدس مسجد کی ابتداء کھجور کے پتوں کی چھت سے ہوئی تھی.ہمیں بھی سر دست کھجور کے پتوں کی چھت سے مسجدیں بنا دینی چاہئیں.کیونکہ دراصل اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا مقصود ہے نمائش کرنا تو مقصود نہیں.آپ نے فرمایا اسی طرح تبلیغ کے لئے قرآن کریم کا سیکھنا سکھانا اور سمجھنا اور اس پر عمل کرنا بڑا ضروری ہے.فرمایا مجلس مشاورت کے موقعہ پر نمائندگان کی بڑی دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں کہ قرآن کریم پڑھانے کا انتظام نہیں کیا جاتا لیکن اس مہینہ ربوہ میں جاری ہونے والی فضل عمر تعلیم القرآن کلاس میں پاکستان کی کم و بیش ایک ہزار جماعتوں کے صرف ۴۰ نمائندے شامل ہوئے ہیں.اگر ہر ایک جماعت سے ایک نمائندہ بھی جاتا تو ان کی تعداد ایک ہزار ہو جاتی.فرمایا یہ خوشی کی بات ہے کہ اس کلاس میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ عورتوں میں دین سیکھنے کا زیادہ شوق ہے.مگر ان میں کہیں کہیں بے پردگی بھی پیدا ہوگئی ہے.ویسے یہ چند استثناء ہیں.لیکن بعض دفعہ بڑے نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں.اگر چہ ہزاروں میں سے ایک کے خراب ہونے سے اعتراض کی گنجائش تو نہیں تاہم فکر کی ضرورت تو ہے.ایسی عورت کسی نیکی کی وجہ سے شاید اللہ تعالیٰ کے غضب سے تو بچ جائے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو حاصل نہیں کر سکتی جس کا ہمیں وعدہ ملا ہے.والدین کو چاہیے کہ وہ شروع سے اپنی بچیوں پر کڑی نظر رکھیں اور ان کی تربیت سے کبھی غافل نہ ہوں ورنہ بعد میں رونے دھونے اور پریشانیوں کے خط لکھنے سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے.حضور نے فرمایا ہماری اگلی نسل بڑی اچھی ہے اس کو سنبھالنا اور اس کی کما حقہ تربیت کرنا ہمارا فرض ہے.ہمارے گھروں میں ہر وقت خدا اور اس کے رسول ﷺ ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ان کے زریں کارنامے ، غرض دین کی باتیں ہوتی رہنی چاہئیں تا کہ ہر وقت دین کی باتیں بچوں کے کانوں میں پڑتی رہیں جس سے ان میں دینداری کی روح پیدا ہو اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے لئے مالی اور جانی قربانیوں کی اہمیت ان پر واضح ہوتی رہے.کیونکہ الہی وعدوں کے مطابق تین صدیوں سے بھی پہلے احمدیت کی نسلاً بعد نسل قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں اسلام کے مکمل غلبہ کی صبح طلوع ہونی ہے.

Page 187

تاریخ احمدیت.جلد 26 177 سال 1970ء سید نا حضور انور نے صحابہ حضرت نبی اکرم ﷺ کے ایمان اور ایمان میں پختگی اور اسلام کی خاطر جرات اور دلیری ، ایثار، قربانی اور ہمدردی و جانثاری کی چند مثالیں دیکر فرمایا ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم بھی اللہ تعالیٰ پر ایسا ہی پختہ ایمان، قربانی کی یہی روح، ہمدردی کا یہی جذبہ اور اخلاق کا یہی رنگ اپنے اندر پیدا کریں.اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اسی رنگ میں رنگین کرتے چلے جائیں.وباللہ التوفیق بالآخر حضور کی یہ انتہائی روح پرور مجلس حضور کی اجتماعی دعا پر اختتام پذیر ہوئی اور اس طرح سبھی احباب اپنے پیارے آقا کی ملاقات اور آپ کے روح پرور کلمات اور زریں ہدایات سے شاد کام خوشی خوشی واپس تشریف لے گئے.۱۷اراگست - حضور انور مع بیگم صاحبه و دیگر افراد خاندان ایبٹ آباد کے قریب ہی ایک پرسکون اور صحت افزاء مقام پر تشریف لے گئے اور دن بھر وہیں قیام فرمار ہے.پونے آٹھ بجے رات وہاں سے واپس تشریف لائے.۱۸ را گست.مغرب کی نماز کے بعد حضور انور تھوڑی دیر تک احباب میں رونق افروز رہے اس اس موقعہ پر حضور انور نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے افریقی ممالک میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے حق میں ایک رو چلا دی ہے بعض ملکوں اور پیرا ماؤنٹ چیفس کی طرف سے مہیا کی جانے والی سہولتوں کے علاوہ بعض سرکردہ غیر از جماعت دوستوں نے بھی کثیر رقم جمع کر کے یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ ان کے علاقے میں بھی میڈیکل سنٹر کھولے جائیں.حضور انور نے بنکوں کے عام لین دین کے ذکر پر انگلستان کے طریق کاربالخصوص ادا ئیگی میں غیر معمولی سہولتوں پر اظہار پسندیدگی فرمایا.آپ نے فرمایا کہ وہ اپنی ساکھ کو قائم رکھنے کے لئے اعتماد بھی کر لیتے ہیں.اسی طرح انہیں بعض دفعہ نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.لیکن جتنی فیصدی نقصان ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ وہ نفع کما لیتے ہیں.۱۹ اگست کو نماز مغرب کے بعد حضور احباب میں تشریف فرما ر ہے اور ملکی سیاست کے حوالہ سے فرمایا کہ یہ سیاست دانوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے ان کی صحیح راہنمائی کریں تا کہ وہ ملک وملت کے لئے مفید وجود بنیں.۲۰ را گست - محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مع بیگم صاحبه و صاحبز دگان چند دن تک قیام کرنے کے لئے تشریف لائے.اس طرح مکرم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب سیکرٹری مجلس نصرت جہاں اور مکرم مولوی عبد الشکور صاحب سابق مبلغ سیرالیون بھی حضور انور کے ارشاد پر آج صبح یہاں پہنچے.

Page 188

تاریخ احمدیت.جلد 26 178 سال 1970ء بعد از نماز ظہر حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بحیثیت امتی نبی ہونے کے نیز آپ کے دعوی کی صداقت پر ارشادات بیان فرمائے.اسی طرح محترم یوسف یا سن آف غانا (متعلم جامعه احمدیہ ) اور محترم بانوحمید صاحب دار السلام (مشرقی افریقہ متعلم ٹی آئی کا لج ربوہ ) بھی موجود تھے نماز کے بعد حضور ان سے بھی وہاں ان کی زبان اور ملکی حالات پر گفتگو فرماتے رہے.اسی طرح غانا مغربی افریقہ کے تین طلبہ محمد بن صالح صاحب، ابراہیم بن یعقوب صاحب اور احمد جبرائیل سعید صاحب کو بھی حضور انور نے از راہ شفقت اپنے پاس ٹھہرایا ہوا تھا.اسی طرح حضور نے پچھلے پہر مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب قائمقام امیر جماعت احمدیہ سرگودھا، محترم میاں عبدالسمیع خان صاحب نون، شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ اور قریشی محمودالحسن صاحب کو بھی شرف ملاقات بخشا.بعد از مغرب حضور نے احباب کو نصیحت فرمائی کہ وہ آنحضرت ﷺ کی آغوش تربیت میں پروان چڑھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ ھم کی زندگیوں کو مشعل راہ بنائیں.حضور انور نے تبلیغ کے حوالے سے فرمایا کہ ہم تبلیغ اس لئے نہیں کرتے کہ جماعت احمدیہ مضبوط ہو اور اسلام کو کامل غلبہ نصیب ہو بلکہ ہماری تبلیغ کا مقصد ہے کہ دنیا غضب الہی سے بچ جاوے،اسلام کے نور سے منور ہو.اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں اور وعدوں کے مطابق الہی فضلوں اور نعمتوں سے حصہ پاوے.۲۷ اگست.حضور انور چار بجے سہ پہر ربوہ تشریف لے آئے.اس موقعہ پر جو احباب امیر مقامی محترم چوہدری ظہور احمد صاحب کی سرکردگی میں حضور کے خیر مقدم کے لئے موجود تھے.حضور نے انہیں مصافحہ کا شرف بخشا.۲ ستمبر.حضور انور ربوہ میں ایک ہفتہ قیام فرمانے کے بعد دوبارہ ایبٹ آباد تشریف لے گئے.حضور انور کی حرم محترمہ حضرت بیگم صاحبہ اور محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف لے گئے.روانگی سے قبل حضور انور نے احباب جماعت کو شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دعا کروائی.آج کی مجلسِ علم و عرفان میں سید حسنات احمد صاحب دہلوی ( حال ایڈیٹر نیوکینیڈا ٹورانٹو ) کو دورہ مغربی افریقہ سے متعلق زیر ترتیب کتاب کی تدوین کے سلسلہ میں ضروری ہدایات سے نوازا اور انگلستان، ڈنمارک، سوئٹزر لینڈ کے بعض اخبارات میں چھپنے والے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے ان کی صحافتی دیانتداری کوسراہا اور فرمایا بعض دوستوں نے مجھ سے یہ کہا ہے کہ دورہ افریقہ کے بارے میں

Page 189

تاریخ احمدیت.جلد 26 179 سال 1970ء غیر ملکی پریس نے تو بڑی وسیع القلمی کا ثبوت دیا ہے مگر ملکی پریس نے کوئی خبر شائع نہیں کی.فرمایا.ان کے سینما کے کسی اشتہار کے پہلو میں چند سطری ایک غلط سی خبر کے لئے ان کا زیر بار احسان ہونے کی ہمیں ضرورت ہی کیا ہے؟ کمیونسٹ ممالک کے بعض سعید الفطرت لوگوں کے حلقہ بگوش اسلام ہونے کو حضور نے بڑا ہی خوش آئند قرار دیا اور فرمایا اب وہ وقت دور نہیں جب یوگوسلاوین احمدیوں کے ذریعہ انشاءاللہ کمیونسٹ ممالک میں بھی اسلام کو فروغ حاصل ہوگا ویسے بھی عالمی دباؤ کے نتیجہ میں روس میں مذہب پر مختلف قیود کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے اور مذہبی آزادی کی ایک خوشگوار رو چل پڑی ہے.اس موقع پر ملک محمد عبداللہ صاحب ریذیڈنٹ انجینئر (راولپنڈی الیکٹریکل پاور کمپنی) ایبٹ آباد حضور کے دست مبارک پر بیعت خلافت سے مشرف ہوئے.محترم جناب سید حسنات احمد صاحب دہلوی ایڈیٹر نیوکینیڈا (New Canada) کا بیان ہے کہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث جب اپنے افریقہ کے تاریخی دورے سے جون ۱۹۷۰ء میں واپس ہوئے تو پہلا جمعہ جور بوہ میں حضور نے پڑھایا اور جس میں کم و بیش دس ہزار افراد نے حصہ لیا اس میں میری والدہ مرحومہ بیگم شفیع کا نماز جنازہ بھی پڑھایا.حضور فوری بعد ایبٹ آباد گرمیاں گزارنے کے لئے تشریف لے گئے خاکسار نے بھی ایبٹ آباد کا رخ کیا اور حضور کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا.حضور نے نماز مغرب کے بعد مجلس عرفان میں اپنے دورے کے بعض واقعات سنائے جس پر خاکسار نے عرض کیا کہ حضور یہ دورہ تاریخی دورہ ہے اور اس تاریخی دورے کو قلم بند کرنا ضروری ہے.حضور نے مجھ سے فرمایا کہ پھر کریں.دوسرے دن حضور نے اپنی ملاقات میں کوئی دوسو تصاویر دکھائیں جو حضور کے افریقہ کے دورے کے بارہ میں تھیں.میں نے عرض کیا کہ ان تصاویر پر مبنی ایک مجلہ شائع کرنا ضروری ہے اور پھر عرض کیا کہ خاکسار کو ان بہت سے افریقی ممالک کے شہروں سے اچھی طرح واقفیت نہیں اس پر حضور نے اس وقت کے وکیل التبشیر (مولا نانسیم سیفی صاحب) کو ایبٹ آبادطلب کیا اور انہوں نے ایک باتصویر مجلہ بنانے میں میری مدد کی.حضور نے اس مجلہ کا نام ”افریقہ اسپیکس (Africa Speaks ) رکھا.یہ پہلا با تصویر نگین مجلہ ہے جو جماعت نے ایک خلیفہ کے بارہ میں شائع کیا.تمبر.اس روز جماعت احمد یہ ایبٹ آباد کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوت عصرانہ دی 131.

Page 190

تاریخ احمدیت.جلد 26 180 سال 1970ء گئی.حضور نے ماحضر تناول فرمانے کے بعد معزز شہریوں سے گفتگو کے دوران فرمایا.ہمارے پاکستانی بھائیوں کو اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ قرآن کریم کی پیشگوئیوں اور حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے مطابق دنیا میں اسلام کے حق میں ایک عظیم انقلاب بپا ہو رہا ہے.آپ نے فرمایا کمیونزم کے گھٹا ٹوپ بادل اب آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں.دہریت والحاد میں ڈوبی ہوئی فضا میں جہاں کل تک مذہب کا نام لینا جرم تھا اب وہاں مسجدیں آباد ہورہی ہیں.اسلامیات پر درس و تدریس کے سلسلے بحال ہورہے ہیں اور مسلمان حلقوں میں اسلامی اخلاقیات پر بڑا زور دیا جا رہا ہے.دوسری طرف یورپ و امریکہ میں عیسائیت کی مذہبی حیثیت ختم ہو چکی ہے.عیسائیت اب بر اعظم افریقہ میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور جماعت احمدیہ کے ساتھ اسے زبر دست مقابلہ در پیش ہے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہماری تبلیغی جد و جہد کے نتیجہ میں وہ لرزہ براندام ہے اور قریباً ہر میدان میں پسپا ہو رہی ہے.حضور نے کمیونزم اور سرمایہ داری کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی بعض خصوصیات پر روشنی ڈالی اور اسلام کے اقتصادی اصول کی برتری ثابت کرتے ہوئے انہیں بنی نوع انسان کی سچی خوشی اور خوشحالی کا ضامن قرار دیا.آپ نے فرمایا.اسلام مذہبی رواداری کا علمبر دار اور ہر قسم کے تعصب کو مٹاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں اپنی عبادت بجالانے کی اجازت مرحمت فرما نا اس کا عملی ثبوت ہے.یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنی قیام گاہ پر تشریف لائے اور مغرب کی نماز پڑھائی اور اس کے بعد احباب میں تشریف فرما ہونے پر سب سے پہلے افریقن احمدی ابراہیم بن یعقوب صاحب کا ایک غیر از جماعت دوست کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے پر اظہار خوشنودی فرمایا.بات یہ ہوئی کہ یہ اور ایک دوسرے افریقی بھائی احمد جبرائیل سعید بھی اس دعوت میں شریک تھے ایک معزز غیر از جماعت ایڈووکیٹ نے ابراہیم صاحب سے باتوں باتوں میں پوچھا کہ احمدی اور غیر احمدی میں فرق کیا ہے؟ ان کا جواب کئی لحاظ سے بڑا دلچسپ تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ احمدی اور غیر احمدی ایک باپ کے دو بیٹوں کی طرح اپنے سید و مولیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور آپ کے فرمودات کو ماننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ احمدیوں نے ایک فرمانبردار بیٹے کی حیثیت میں اپنے آقائے دو عالم کے مبارک ارشاد پر لبیک کہتے ہوئے آپ

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد 26 181 سال 1970ء کے اس مہدی اور مسیح کو مان لیا ہے جس کے لئے آپ نے سلامتی کی دعا کی اور امت کو اس پر سلام بھیجنے کی تاکید فرمائی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک کامل متبع کی حیثیت میں امت مسلمہ کی اصلاح اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کے عظیم الشان کام پر مامور فرمایا ہے.اس جواب سے وہ بڑے متاثر ہوئے اور ایک احمدی بزرگ سے کہنے لگے کہ وہ بات جو آپ مجھے پندرہ سال میں نہیں سمجھا سکے انہوں نے پانچ منٹ میں سمجھا دی ہے.اسی مجلس میں حضور نے میجر محمد صفدر صاحب کا کول کی صاحبزادی بشری صفدر صاحبہ کے نکاح کا اعلان فرمایا جو کیپٹن نذیر احمد صاحب ( پسر محمد فریدون خان صاحب شیخ البانڈی ایبٹ آباد ) سے قرار پایا تھا.حضور نے خطبہ نکاح میں ازدواجی سلسلہ کے حقوق و فرائض پر لطیف پیرایہ میں روشنی ڈالی نیز بتایا کہ یہ کہنا کہ عورت اگر پردہ کرے گی تو وہ معاشرہ کا عضو معطل بن کر رہ جائے گی سراسر بے معنی بات ہے.عورت پردہ کرتے ہوئے اپنے خاوند کا ہاتھ بٹا سکتی ہے اور اس کے کام میں ممد و معاون بن سکتی ہے.فرمایا.منصورہ بیگم مغربی افریقہ کے دورہ میں میرے ساتھ تھیں اور ہزاروں میل کے سفر میں یہ برابر پردہ کرتی رہیں.میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں تو صرف مردوں سے مصافحے کرتا تھا افریقن عورتوں سے انہوں نے مصافحے کئے ، ان سے باتیں کیں.ان کی دلجوئی کی.انہیں نصائح کیں.ان سے محبت و پیار کا اظہار کیا اور اس طرح جماعت کے اس حصے کی تسلی و تشفی کا موجب بنیں.ورنہ یہ حصہ تشنہ رہ جاتا.ستمبر.آج حضور نے گذشتہ خطبہ جمعہ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور بشارتوں پر پختہ ایمان اور رضائے الہی کی خاطر جانی اور مالی قربانیاں پیش کرنے کی ضرورت واہمیت بیان فرمائی.۵ ستمبر.نماز مغرب کے بعد حضور نے مولا ناسیم سیفی صاحب وکیل التعلیم کو دورہ مغربی افریقہ کے بارے میں مجوزہ کتاب کی ترتیب و تدوین کے سلسلہ میں ضروری ہدایات دیں انہیں سید حسنات احمد صاحب کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا تھا.نیز احباب جماعت بالخصوص نئی نسل کو یہ نصیحت فرمائی کہ معاندین احمدیت کے انتہا پسندانہ رویہ کے باوجود ایسے لوگوں کے لئے اپنے دل میں کمال شفقت اور ہمدردی پیدا کریں اور پریشان ہرگز نہ ہوں کیونکہ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ مخالفین کی گالیاں ہمیشہ بے اثر اور ان کی دشمنی پر ہر بار صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے.ستمبر.نماز ظہر کے بعد حضور نے ایک دوست کی اس تجویز کا ذکر فرمایا کہ افریقہ میں وکیل بھی

Page 192

تاریخ احمدیت.جلد 26 182 سال 1970ء بھیجوانے چاہئیں.حضور نے اسے بڑا اچھا مشورہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہاں ابھی تک مسلمان وکیل کوئی نہیں اپنے افریقن بھائیوں کی قانونی راہنمائی کا ثواب بھی ہے اور اس میں دنیوی فائدہ بھی ہے.نماز مغرب کے بعد حضور نے مولانا چراغ الدین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کو تبلیغی اور تربیتی امور کے بارے میں اہم ارشادات فرمائے اور فرمایا کہ جماعت میں ایسے افراد کی بھی ضرورت ہے جنہیں اصلاح وارشاد کے کام میں غیر معمولی جنون اور لگن ہو.9 ستمبر - مشہور عالم سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے شرف ملاقات حاصل کیا.استمبر.حضور نے اپنے مختصر خطبہ جمعہ میں احمدیت پر اللہ تعالیٰ کے روز افزوں افضال اور حاسدین کی مخالفانہ کا رروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے سائے میں ہے اور اس کے امام کی حیات و وفات اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے جس میں کسی انسان کو دخل نہیں.نہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی چھینے جا سکتے ہیں اور نہ ان الہی فضلوں کے اصل مورد اور جماعت کے روح رواں کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کوئی گزند پہنچانے کے منصوبے کامیاب ہو سکتے ہیں.آخر میں فرمایا.یہ ٹھیک ہے ہم دنیوی لحاظ سے بیکس و بے بس ہیں مگر ہمارا سہارا تو صرف اللہ تعالیٰ کی قادر وتوانا ہستی پر ہے.اس لئے احباب جماعت کو میری یہ نصیحت ہے کہ وہ اس سہارے کو مضبوطی سے پکڑتے ہوئے نہایت ضبط و تحمل کا نمونہ دکھا ئیں اور ہمیشہ عاجزانہ دعاؤں اور پیہم قربانیوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتوں کو جذب کرنے کی کوشش کرتے رہیں.۱۸ ستمبر.اس روز حضور اسلام آباد تشریف لائے اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی کوٹھی پر رونق افروز ہوئے.نماز مغرب کے بعد حضور نے دورہ مغربی افریقہ کے متعلق AFRICA SPEAKS کے نام سے زیر طباعت با تصویر کتاب کا ذکر فرمایا ( یہ دیدہ زیب کتاب جلد ہی مجلس نصرت جہاں تحریک جدید ربوہ کے زیر انتظام شائع ہو گئی اور بہت مقبول ہوئی) حضور نے کتا بچہ عدالت کا فیصلہ کیا احمدی مسلمان ہیں“ کی تقسیم کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور مجلس خدام الاحمدیہ کی اس خدمت پر اظہار خوشنودی فرمایا کہ اس نے ایک رات میں دس ہزار کی تعداد میں یہ کتا بچہ تقسیم کیا ہے.حضور نے تقسیم ملک کے وقت خونی فسادات میں جماعت احمدیہ کا قادیان سے معجزانہ طور پر بیچ نکلنے کا ذکر کرتے ہوئے متعدد ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.قادیان کے گردونواح میں دیہات کے سادہ لوح غیر از جماعت دوستوں کو سکھوں کے خطرناک عزائم سے بروقت آگاہ کرنے ، ان کی صحیح

Page 193

تاریخ احمدیت.جلد 26 183 سال 1970ء راہنمائی اور حتی الوسع مدد کرنے کی بھی چند مثالیں بیان فرمائیں.۹ استمبر.حضور اسلام آباد میں تشریف فرما ر ہے.ڈاکٹر سید غلام مجتبی صاحب حضور کی تحریک وقف پر لبیک کہتے ہوئے طبی خدمات بجالانے کے لئے جلد مغربی افریقہ جانے والے تھے.آج ان کے صاحبزادہ سید تنویر مجتبی صاحب اور سیدہ خالدہ بنت میجر سید مقبول احمد صاحب نائب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کی شادی تھی.تقریب رخصتانہ میجر صاحب کی کوٹھی بیت السلام پر عمل میں آئی جس میں حضور نے بھی شمولیت فرمائی نیز اس موقع پر ان کے چھوٹے صاحبزادے لیفٹیننٹ سید تو قیر مجتبی کے نکاح کا اعلان فرمایا جو سیدہ نزہت سیدین بنت سید غلام السیدین راولپنڈی کے ساتھ قرار پایا تھا حضور نے اپنے مختصر خطبہ نکاح میں یہ اہم نکتہ بیان فرمایا کہ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات سے نہ صرف خاندان بلکه مجموعی طور پر معاشرہ پر بھی خوشکن اثرات مرتب ہوتے ہیں اس لئے اپنے ازدواجی تعلقات کو انتہائی خوشگوار بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے.ایجاب وقبول کے بعد حضور نے فرمایا اب ہم آج کے دلہا دلہن کے لئے بھی اور کل کے دلہا دلہن کے لئے بھی دعا کر لیتے ہیں چنانچہ حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی اور پھر اسلام آباد تشریف لائے اور احباب کو اپنے روح پرور کلمات سے مستفید و محظوظ فرمایا اور چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمد یہ راولپنڈی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر مسجد نور کافی نہیں.کسی وسیع جگہ پر مسجد تعمیر کرائیں.انہوں نے عرض کیا کہ ایک پلاٹ حاصل کیا جا چکا ہے.فرمایا دراصل شاندار عمارت بنانے کا تصور روک بنا ہوا ہے حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہمارے سامنے ہے.آپ نے ابتدائی ایام میں مدینہ میں جب مسجد نبوی کی بنیا درکھی تو اسے کھجور کے تنے اور پتوں سے کھڑا کیا تھا بعد میں آہستہ آہستہ اس میں اضافے اور تزئین بھی ہوتی رہی.آج ہم تاریخ کے جس دور سے گزر رہے ہیں ہمیں بھی سر دست کھجوروں کے پتوں کی چھت ڈال کر مساجد بنا لینی چاہئیں پھر اللہ تعالیٰ جب توفیق دے تو ان کی زیبائش و آرائش میں دل کھول کر خرچ کیا جاسکتا ہے.مساجد تو دراصل عبادت اور ذکر الہی کے لئے بنائی جاتی ہیں اور ایسی جگہ پر ہونی چاہئیں جہاں شور وشغب نہ ہو انسان کامل یکسوئی کے ساتھ عبادت کر سکے اس لحاظ سے میں تو مسجدوں کے ساتھ دکانوں وغیرہ کے بنوانے کا قائل نہیں ہوں.مسجد مسجد ہی ہونی چاہیے.لوگ بالعموم اپنے مکانوں کے ساتھ دکانیں وغیرہ نہیں بننے دیتے تاکہ ان کے گھروں کا ماحول پر سکون رہے تو اللہ تعالیٰ کے گھر کو

Page 194

تاریخ احمدیت.جلد 26 184 سال 1970ء پُرسکون رکھنا تو بدرجہ اولی ضروری ہے اسی ضمن میں حضور نے مسلمانوں کے فن تعمیر کی عمدگی اور مضبوطی پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلمانوں کے ثقافتی ورثے کے طور پر سپین میں قرطبہ کی نہایت وسیع اور خوبصورت مسجد کا خاص طور پر ذکر فر مایا.حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ہم نہ سیاست میں حصہ لیتے ہیں نہ ہمیں بادشاہ بننے کی خواہش ہے کیونکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں.مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار البتہ ہم ملک وملت کے بچے خیر خواہ اور اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے ہمیشہ دعا گو رہتے ہیں.ہماری دلی تمنا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان سرمایہ داری کی لعنت اور سوشلزم کی وباء سے محفوظ و مامون رہے.یہاں اسلام کا بول بالا ہو.اسلامی مساوات قائم ہو غریب کو اس کا حق ملے.امیروں کی اس سے نفرت پیارو محبت میں بدل جائے.آزادی کی فضا میں وہ بھی عزت و آبرو کا سانس لے.میں نے یہ دیکھا ہے کہ عموماً غریب آدمی کے حق میں محبت و پیار کا ایک میٹھا بول ہی اس کی پچاس فیصد دلی حسرتوں کو بجھاتا اور اس کے دل میں خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑا دیتا ہے یہ ہماراس پر کوئی احسان نہیں بلکہ ہمارا فرض ہے.اگر سید الانبیاء حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غریب سے غریب آدمی کو بھی اپنے سینے سے لگا لیتے تھے تو ہم جو آپ کے خاک پا ہیں.ہمیں غریبوں سے پیار کرنے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے سے بھی کبھی عار محسوس نہیں کرنا چاہیے.۲۰ ستمبر.حضور نے ایک بجے تک احباب کو انفرادی ملاقات کا موقع بخشا اور پھر سید تنویر مجتبی صاحب کی دعوت ولیمہ میں شرکت فرمائی.بعد ازاں سی ایم ایچ میں کرنل ڈاکٹر محمود الحسن صاحب کے والد ماجد کی عیادت کر کے چوہدری بشیر احمد صاحب ماڈرن موٹرز کی کوٹھی واقع پشاور روڈ پر تشریف لے گئے اور چھ بجے شام واپس ایبٹ آباد پہنچ گئے.۲۱ ستمبر.نماز ظہر کے بعد حضور مجلس میں رونق افروز ہوئے اور چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ سے گفتگو کے دوران فرمایا افریقہ میں بھجوانے کے لئے ۲۰ وکلاء کی ضرورت ہے جو بار ایٹ لاء بھی ہوں.وہاں وکیل کی ماہانہ آمدہ سے اہزار پونڈ تک جاپہنچتی ہے.دنیوی فائدہ بھی اور مالی قربانی کے ذریعہ خدمت دین بھی ہے.افریقی اقوام پیار کی بھوکی ہیں غیر ملکیوں کے خلاف ان کی نفرت ایک طبعی

Page 195

تاریخ احمدیت.جلد 26 185 سال 1970ء چیز ہے کیونکہ وہ صدیوں تک ان کے ظلم و ستم کا نشانہ رہ چکے ہیں.ہندوؤں سے بھی انہیں بڑی نفرت ہے کیونکہ یہ جائز اور نا جائز ذرائع سے جو کماتے ہیں وہ فوراً ہندوستان بھجوا دیتے ہیں.لبنانی اور شامی عرب بھی وہاں کام کرتے ہیں لیکن وہ جو کچھ کماتے ہیں وہیں لگا دیتے ہیں اس لئے ان سے افریقیوں کو کوئی پر خاش نہیں.۲۵ ستمبر.حضور نے گذشتہ سلسلہ خطبات کے تعلق میں خطبہ جمعہ کے دوران نہایت بصیرت افروز پیرا یہ میں ایمان بالآخرت پر روشنی ڈالی.نماز جمعہ کے بعد حضور نے چوہدری محمد شریف صاحب کو شرف ملاقات بخشا.آپ گیمبیا میں کامیابی کے ساتھ فریضہ تبلیغ بجالانے کے بعد حال ہی میں واپس تشریف لائے تھے.۲۶ ستمبر.اس روز پچھلے پہر ضلع ہزارہ کی مجالس کا دو روزہ تربیتی اجتماع شروع ہوا.نماز ظہر کے بعد حضور نے پروفیسر ناصر احمد صاحب ( برادر مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم مجاہد افریقہ ) قائد علاقائی مجلس خدام الاحمدیہ صوبہ سرحد سے اس اجتماع کے بارے میں گفتگو فرمائی اور نماز مغرب کے بعد احباب میں رونق افروز ہوئے جس میں 9 مجالس کے قریباً ۵۰ اطفال اور خدام اپنے قائد علاقائی کے ساتھ حاضر تھے.حضرت اقدس نے اس موقع پر نہایت مؤثر اور دلنشیں انداز میں نونہالان جماعت کو اپنے روح پرور ارشادات اور بیش قیمت نصائح سے نوازا.اور ان پر یہ حقیقت خاص طور پر واضح فرمائی کہ ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے سپر دفرمایا ہے یہ بہت بڑا کام ہے جسے ہم نے نسلاً بعد نسل انجام دینا ہے اور اس میں ہم اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں که مخالفین اسلام جن ہتھیاروں کے ساتھ حملہ آور ہیں ان سے کہیں زیادہ مضبوط ہتھیار ہمارے پاس ہوں اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایسے دلائل عطا فرمائے ہیں جن کا بڑے سے بڑا عالم یا فلسفی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ دلائل ہمیں یاد ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کثرت سے آسمانی نشانات اور معجزات عطا کئے ہیں جن کے مقابلے میں دوسرے تمام مذاہب عاجز اور بے بس ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہمیں تیسرا ہتھیار دعا کا عطا فرمایا ہے یہ ایسا گر ہے جس کے مقابلے میں مخالفت ہمیں کوئی نقصان پہنچا ہی نہیں سکتی بلکہ ہمارے لئے کھا د کا کام دیتی ہے اور ہماری ترقی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے.احمدی نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علم کو ان دلائل کے ساتھ پختہ بنائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بالخصوص

Page 196

تاریخ احمدیت.جلد 26 186 سال 1970ء در مشین کو کثرت سے پڑھیں ، دعا کرنے کی عادت ڈالیں اور پکے اور بچے احمدی بن کر ہمیشہ رضائے الہی کے طالب رہیں.آخر میں حضور نے جملہ اطفال وخدام سے مصافحہ فرمایا اور دانہ (صوبہ سرحد کے ضلع ہزارہ کی بستی جہاں حضرت مولانا سرور شاہ صاحب اپنے زمانہ طالبعلمی میں پڑھتے رہے ) کی مجلس کی نمائندگی نہ ہونے پر ہدایت فرمائی کہ دانہ کے سارے خدام سالانہ اجتماع پر ربوہ ضرور پہنچیں ، میں انہیں علیحدہ ملاقات کا موقع دوں گا.۲۷ ستمبر.حضرت اقدس نماز مغرب کے بعد احباب میں رونق افروز ہوئے.چوہدری احمد جان صاحب اور ماسٹر عبدالرحمن صاحب خا کی چند دیگر مخلصین کے ساتھ حاضر تھے.ماسٹر صاحب نے حضور کی خدمت بابرکت میں اپنی ایک فارسی نظم فریم کروا کر پیش کی جسے حضور نے قبول فرمایا نیز ان کی بیماری کے پیش نظر سویا بین مرحمت فرمائی اور بتایا کہ یہ گنٹھیا اور امراض قلب میں بڑی مفید ہے.سونف کے متعلق اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر بتایا کہ سونف اور چینی ہم وزن لے کر خوب کھرل کر کے رات کو کھانے کے بعد استعمال کی جائے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امراض چشم میں فائدہ بخش ہے.۲۸ ستمبر.نماز ظہر کے بعد حضور نے حضرت مسیح موعود کے صحابی حضرت میاں مولا بخش صاحب آف گوجرانوالہ کو شرف ملاقات بخشا اور نماز مغرب کے بعد بھی احباب میں رونق افروز رہے جس میں مقامی جماعت کے اکثر مخلص دوست حسب معمول موجود تھے.حضور نے دورانِ گفتگو فرمایا ہمارے اکثر مخالفین سنی سنائی باتوں کی بناء پر اعتراض کر دیتے ہیں ہمارا فرض ہے کہ ہم انہیں اصل کتا بیں پڑھائیں اور ان پر حقیقت حال واضح کریں.۲۹ ستمبر.حضور کے اس بابرکت سفر کا آج آخری دن تھا.ربوہ کے لئے واپسی کی تیاری ہو رہی تھی.فضا اداس اور مقامی احباب کے چہرے اپنے پیارے آقا کی جدائی کے احساس میں مغموم تھے.حضور نے احباب سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے ہوئے اپنے انمول ارشادات اور مواعظ حسنہ سے سرفراز فرمایا.اس موقعہ پر مقامی جماعت کے علاوہ مانسہرہ ، پھگلہ اور کئی دوسری جماعتوں سے بھی احباب کثرت سے آئے ہوئے تھے.حضور نے فرمایا شاید صبح احباب کے لئے آنا دشوار ہو اس لئے اسی وقت میں دعا کر وا دیتا ہوں.چنانچہ حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور احباب کو شرف مصافحہ بخشا.۳۰ ستمبر - صبح سوا سات بجے حضور کا مبارک قافلہ اجتماعی دعا کے بعد ربوہ کے لئے روانہ ہوا.ایبٹ آباد، مانسہرہ، پھگلہ اور کئی دوسری جماعتوں کے احباب نے اپنے مقدس آقا کو دعاؤں کے

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد 26 187 سال 1970ء ساتھ الوداع کہا.حضور مع قافلہ سوا نو بجے راولپنڈی پہنچے اور میجر سید مقبول احمد صاحب کی کوٹھی پر تشریف فرما ہوئے.سوا گیارہ بجے راولپنڈی کے احباب نے امیر صاحب راولپنڈی کی سرکردگی میں شہر سے باہر حضور کو الوداع کہنے کی سعادت حاصل کی.ڈیڑھ بجے حضور کلر کہار کے ایک ریسٹ ہاؤس میں چند گھنٹے کے لئے ٹھہرے.اس کا انتظام راجہ محمد نواز صاحب نے کر رکھا تھا یہاں سے ساڑھے تین بجے روانگی ہوئی.سرگودھا سے دو میل باہر جماعت احمد یہ سرگودھا کے مخلص احباب نے حضور انور کا پر تپاک استقبال کیا اور کینال ریسٹ ہاؤس میں عصرانہ پیش کیا جس کے بعد ساڑھے چھ بجے روانہ ہو کر ساڑھے سات بجے شام بخیر و عافیت مرکز احمدیت میں رونق افروز ہوئے جہاں مقامی احباب مسجد مبارک میں نماز مغرب ادا کرنے کے بعد کثیر تعداد میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے احاطہ میں موجود تھے جو نہی حضور کی کا راحاطہ میں آکر رکی تو سب احباب نے بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہا.سب سے پہلے امیر مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے شرف مصافحہ حاصل کر کے پیارے امام کے پُر خلوص استقبال کی سعادت حاصل کی.بعد ازاں حضور نے جملہ احباب سے مصافحہ فرمایا اور اس کے بعد قصر خلافت میں تشریف لے گئے.133 مولانا محمد یعقوب خاں صاحب کے خطبہ جمعہ سے متعلق تاثرات حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ایبٹ آباد میں ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء کو جو ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا اس کا ذکر آچکا ہے.مولانا محمد یعقوب خاں صاحب سابق ایڈیٹر لائٹ اس خطبہ سے از حد متاثر ہوئے اور آپ نے درج ذیل نوٹ سپر د قلم فرمایا:.میں نے ایسا ایمان افروز اور دل کو سکون اور ٹھنڈک بخشنے والا خطبہ جمعہ ساری عمر میں آج (۱۴ اگست ۱۹۷۰ء) کو پہلی دفعہ سنا.یہ وہ الفاظ ہیں جن کا میں نے حضور کا خطبہ جمعہ سننے کے بعد گھر واپسی پر اپنی اہلیہ صاحبہ سے ذکر کیا.جمعہ کے خطبے قوم کی روحانی تربیت اور پرورش کے لئے تھے لیکن بدقسمتی سے ان خطبوں میں بھی اب وہ چیز آگئی ہے جس کو فنکاری یا اداکاری کہتے ہیں اور خطیب قوم کو روحانی غذا دینے کی بجائے زیادہ تر اپنی علمیت اور فن خطابت کی نمائش کرتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خطابت اور تقاریر کی روحانی تاثیر کی اصلی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک بناوٹ اور تصنع سے پاک ہوتی ہیں.فطرت کی گہرائیوں سے جیسے ایک چشمہ صافی ابل کر نکلتا ہے اسی طرح حضور کی گفتگو اور

Page 198

تاریخ احمدیت.جلد 26 188 سال 1970ء تقریریں اپنے بے ساختہ پن اور فطریت Naturalness کی وجہ سے قوم کو ایک روحانی غذا مہیا کرتی ہیں.میں جب جمعہ پڑھنے گیا تو بڑا آزردہ خاطر بھی تھا اس لئے کہ معاصر پیغام صلح نے میرے متعلق ایک نہایت دل آزار نوٹ اپنے تازہ پرچے میں شائع کیا تھا.جس میں مجھے یہ طعنہ بھی دیا تھا کہ میں فالج زدہ ہوں.لیکن حضرت صاحب کا خطبہ جمعہ سننے کے بعد فالج زدگی میں بھی مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ بات سمجھا دی کہ خدا کی طرف سے جو چیز آتی ہے اس پر شکر گزار ہونا چاہیے.یہ وہ دولت ہے جو مجھے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی صحبت سے ملتی ہے نہ کہ وہ سیم وزر کی دولت جس کا طعنہ پیغام صلح نے مجھے دیا ہے کہ میں اس کے لالچ میں کبھی کبھی حضرت صاحب کی مدح سرائی میں مضامین لکھتا ہوں.اس تجربے کا ذکر بھی میں تحدیث بالنعمت کے طور پر کرتا ہوں.اور میری دلی خواہش اور دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے جماعت لاہور کے دوسرے بھائیوں کو بھی اس نعمت سے مالا مال ہونے کی توفیق دے.خدا کا شکر ہے کہ اب ایک ایسی رو چل پڑی ہے کہ اُس جماعت کے سمجھدار اور مخلص دوست آہستہ آہستہ اس جماعت میں شمولیت اختیار کرتے جا رہے ہیں.حال ہی میں ایک ممتاز انجینئر ملک عبداللہ صاحب نے بیعت خلافت کی سعادت حاصل کی ہے.درحقیقت یہی وہ راز ہے جو انسانی تنظیموں اور الہبی تنظیم جو خلافت کی شکل میں قائم ہوئی ہے میں فرق پیدا کرتا ہے.میں نے کہیں پڑھا ہے کہ حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نے جماعت لاہور کے سامنے ان کو ایک تقریر میں یہ راز سمجھانے کی کوشش بھی کی تھی کہ خلافت کوئی انسانی منصوبہ نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی براہ راست مشیت سے انسانی فلاح اور بہبود کے لئے قائم ہوتی ہے.حضرت موصوف نے جو الفاظ استعمال کئے تھے وہ میرے حافظے کے مطابق یہ تھے کہ دیکھو! خلافت کیسری کے سوڈا واٹر کی کوئی دکان نہیں ہے کہ جا کر خرید لو.اُس زمانہ میں انار کلی میں کیسری کے سوڈا واٹر کی دکان بڑی مشہور تھی اور پچھلے پہر اس پر خریداروں کا بڑا ہجوم رہتا تھا.پس حضرت خلیفہ اول نے ایک نہایت موزوں تخیل سے یہ ذہن نشین کرایا کہ انسانی انجمنوں کی قائم کردہ تنظیمیں انسانوں کی اخلاقی اور روحانی تربیت نہیں کر سکیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خلافت کی تنظیم اپنی براہِ راست مشیت کے ماتحت قائم کی تاکہ بنی نوع انسان اس نعمت عظمی سے محروم نہ ہو

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد 26 189 سال 1970ء جائیں.یہ بڑی محرومی اور بدنصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے ہاتھ کی جلائی ہوئی شمع تو ہمارے اندر موجود ہو اور ہم اس کی طرف آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں.لاہوری جماعت میں مخلص اور سمجھدار لوگ بھی ہیں ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت دامنِ خلافت سے وابستہ ہے.نصرت الہی کی ایک اور تازہ ترین مثال جسے میں احباب لاہور کی توجہ کے لائق سمجھتا ہوں وہ رسالہ الفرقان کا تازہ نمبر ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت و ناموس پر جو بڑے بدنما داغ مخالفین لگاتے تھے ایسے خوش اسلوبی سے صاف کر دیے ہیں جس کے بعد کسی مخالفت سے مخالف کو بھی چون و چرا کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی.میں یہ کہنے میں اپنے آپ کو بالکل حق بجانب سمجھتا ہوں کہ جماعت لاہور کی طرف سے لٹریچر کا جو انبار گزشتہ ساٹھ ستر سال میں شائع ہوا ہے اس تمام لٹریچر میں اس مدافعت کا عشر عشیر بھی نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت و ناموس کی الفرقان کے اس نمبر میں کی گئی ہے.سوچنے والی بات یہ ہے کہ الفرقان کے ایڈیٹ کو جوسید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث کا ایک معمولی سپاہی ہے یہ توفیق کیسے مل گئی کہ صف دشمن کو محبت سے پامال کر کے رکھ دیا.یہ توفیق بلا شبہ خلافت کے دامین سے وابستگی کی برکات ہی سے ہے.محترم مولانا ابوالعطاء صاحب تمام جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے ہمارے روحانی باپ کی عزت کا نہایت خوبصورتی کے ساتھ تحفظ کیا ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ اس نمبر کو احباب لاہور توجہ کے ساتھ مطالعہ کریں اور وہ بھی اس عظیم الشان کارنامے پر فخر اور خوشی محسوس کریں.تنسیخ جہاد اور گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی یہ دو نہایت شدید الزامات تھے جنہیں ہمارے مخالف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف پیش کر کے عوام کے قلوب کو زہر آلود کرتے تھے.مولانا موصوف کے محققانہ مضمون نے جو ان ہر دو الزامات کی تردید میں شائع کیا گیا ہے ان الزامات کو بالکل بے اثر کر دیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس دعوی کا وارث بنایا ہے.جہاں آپ نے فرمایا ے صف دشمن کو کیا ہم نے بجت پامال اللہ تعالیٰ ان کے قلم میں اور زور بخشے اور انہیں مامور زمانہ کے خلاف ہرزہ سرائی کو مٹانے کے لئے بیش از پیش کوشش کرتے رہنے کی توفیق ملے.

Page 200

تاریخ احمدیت.جلد 26 190 سال 1970ء احباب لاہور کے لئے لمحہ فکریہ یہ ہے کہ فجر احمدیت جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اس سے وہ بالکل کٹتے جارہے ہیں اور اس ناشکری کی وجہ سے جو انہوں نے مامور وقت جیسی عظیم الشان نعمت کے استخفاف میں کی ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا ہاتھ ان سے بھی کھینچ لیا ہے.ان میں سے جو دوست علم وفضل کے دعویدار ہیں ان کے قلم سے بھی گزشتہ ساٹھ ستر سال میں کوئی تحریر اس پالیہ کی پیدا نہیں ہوسکی جس سے مامورِ زمانہ کی عزت دنیا میں بحال رہ سکے.خدا شاہد ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا وجود بڑا بابرکت ہے اور اس وقت کشتی اسلام کی ناخدائی کے لئے آپ ہی ایک مؤثر ذریعہ ہیں جس سے یہ کشتی ڈوبنے سے بچ سکتی ہے.ہر ایک مخلص احمدی جو احمدیت کو اسلام کا آخری سہارا سمجھتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ وہ خلافت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے اور اس سے اکتساب نور کرے اور پھر اس نور کو دنیا میں پھیلائے.احباب لا ہور کو چاہیے کہ جماعتی تنگ دلی اور تعصب سے بالا تر ہو کر ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کا ہاتھ کس کے ساتھ ہے.مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ معاصر عزیز پیغام صلح مجھے پھر اپنی زہر چکانی کا مورد بنائے.حق بات حق ہے.اور اگر ہم نے حق بات کہنی بھی نہیں سیکھی تو اپنے آپ کو احمدی کہنا محض خود فریبی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ میری یہ مخلصانہ معروضات جماعتِ لاہور کے فہمیدہ اور غیر متعصب حضرات کے لئے مشعل راہ بن جائیں.حقیقت یہ ہے کہ اگر ایسا ادارہ جیسے دو کنگ مسلم مشن ہے خلافت کے زیر اہتمام کام کرتا تو اب تک آدھا انگلستان مسلمان ہو گیا ہوتا.وہ موقعہ تو خیر ہاتھ سے جاتا رہا اب اللہ تعالیٰ کی مشیت نے یہی پسند فرمایا ہے کہ سفید پرندوں کی بجائے کالے پرندے غول در غول احمدیت میں داخل ہوں اور افریقہ کا نوعمر اور تنومند بر اعظم احمدیت کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جائے.اس کے آثار بھی حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے حالیہ دورہ افریقہ کے بعد کھلے طور پر نظر آنے لگے ہیں.احباب لا ہور کو بھی چاہیے کہ فتح افریقہ کی اس مہم میں بھی خلافت کے ہاتھ مضبوط کریں اور اس سعادت میں بھی حصہ دار بہنیں.یہ وہ دلی تڑپ ہے جو ہمارے دلوں میں ہونی چاہیے.اگر ہم نے واقعی فتح اسلام کو اپنے تمام مفادات پر مقدم کیا ہوا ہے.واخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العلمين.محمد یعقوب خان ۷۰-۹- 134

Page 201

تاریخ احمدیت.جلد 26 191 سال 1970ء معروف احمدی شاعر ثاقب زیروی صاحب کا سفر انگلستان اخبار لاہور کے ایڈیٹر اور مشہور احمدی شاعر جناب ثاقب صاحب زیروی مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کی دعوت پر یکم اگست ۱۹۷۰ء کو انگلستان تشریف لے گئے اور ۲۳ راگست ۱۹۷۰ء کو واپس اپنے وطن عزیز پاکستان میں پہنچے.جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق سابق امام مسجد فضل لندن کا بیان ہے کہ حضرت بھائی ثاقب مجھے سگے بھائیوں کی طرح عز میز تھے.قادیان طالب علمی کے زمانہ میں اور پھر لاہور کالج کے دور میں ثاقب صاحب کو مشاعروں میں اپنا کلام پڑھتے ہوئے بارہا سنا اور اس سے لطف اندوز ہوتا رہا.قادیان اور ربوہ کے سالانہ جلسوں میں ان سے حضرت خلیفہ ثانی کا کلام اور پھر خلافت ثالثہ کے دور میں ان کا کلام سننے کے مواقع ملتے رہے.اور دل میں ان کی عظمت کا مینار بلند تر ہوتا چلا گیا.لیکن اس دور میں ان سے ذاتی تعلقات قائم نہ کر سکا.۱۹۷۰ء میں جب میں امام مسجد فضل لندن تھا میں نے انہیں انگلستان کے دورہ کی دعوت دی.جو انہوں نے از راہ شفقت قبول کر لی.میں نے ان کے سفر اور قیام انگلستان کے تمام انتظامات مکمل کئے.ثاقب صاحب تشریف لائے.میں نے ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کیا.اور انہیں مشن ہاؤس لے آیا.ایک کمرہ ان کیلئے آراستہ کیا ہوا تھا.اس میں قیام پذیر ہوئے.لندن میں دس بارہ روز قیام رہا.ہم صبح نکل جاتے اور میں انہیں لندن کی سیاحت کرا تا.لندن کا ہر تاریخی مقام ہم نے دیکھا ثاقب صاحب تاریخی مقامات کو دیکھ کر نوٹس بھی لیتے رہے.اور انہیں دیکھ کر خوشی کا بھی اظہار کرتے تھے.شام کو عشاء کی نماز کے بعد احباب لندن، غیر از جماعت شعراء اور کچھ نامور ادیب مشن ہاؤس میں جمع ہو جاتے.اکثر اپنے ساتھ ٹیپ ریکارڈر لے آتے.ثاقب غزل سرا ہوتے مجمع پر جادو کا اثر ہوتا.ہمہ تن گوش ہو کر کلام سنتے ، داد دیتے اور ریکارڈنگ بھی کرتے.یہ روزانہ کا معمول بن گیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو اُن دنوں بیگ ہالینڈ میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے جج تھے کو جب علم ہوا تو ایک ویک اینڈ پر وہ بھی تشریف لائے اور مشن ہاؤس میں میرے ہی فلیٹ پر قیام پذیر ہوئے.ثاقب صاحب کے کلام سے وہ بھی محفوظ ہوئے.حضرت ثاقب صاحب کے آئندہ پروگرام کا ذکر چلا تو میں نے عرض کیا کہ اگلے ہفتے سے ہم علاقہ یارک شائر کے دورے پر جانے والے ہیں.اس علاقے میں بریڈ فورڈ ، ویک فیلڈ وغیرہ کے علاقے شامل ہیں.حضرت چوہدری صاحب

Page 202

تاریخ احمدیت.جلد 26 192 سال 1970ء نے فرمایا کہ وہ بھی اس دورہ میں ہمارے ساتھ شامل ہوں گے.ہمارے لئے اس سے بڑھ کر خوشی اور کیا ہو سکتی تھی.پروگرام طے ہو گیا تو ہم تینوں اور میرا بیٹا منیر احمد یارک شائر روانہ ہوئے.وہاں بریڈ فورڈ، ویک فیلڈ، لیڈز، ڈیوز بری وغیرہ میں ہماری بڑی جماعتیں ہیں وہاں حضرت ثاقب کے کلام کو سننے کے لئے احمدیوں نے تو آنا ہی تھا کثرت سے غیر از جماعت شعراء اور معززین بھی تشریف لاتے رہے.غیر از جماعت شعراء نے بھی اپنا کلام سنایا.یہ پُر لطف سفر ایک ہفتہ سے زائد عرصہ تک جاری رہا.لندن واپسی پر بی بی سی اردو سروس والوں کا فون آیا کہ ہمیں اخبارات سے معلوم ہوا ہے کہ حضرت ثاقب زیروی لندن آئے ہوئے ہیں.ہم انہیں انٹرویو کرنا چاہتے ہیں ان کا کلام خود ان کی زبانی ریکارڈ کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ ان سے وقت طے ہو گیا.پروگرام ریکارڈ ہوا اور اگلے ہفتے نشر ہوا.غرض ان دنوں انگلستان کے پاکستانی اور بعض ہندوستانی حلقوں میں حضرت ثاقب صاحب کی شاعری کی دھوم مچ گئی.ان دنوں دن رات میں ثاقب کی معیت کا شرف حاصل کرتا رہا.ہم دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہو گئے اور محبتیں بڑھتی گئیں.۱۹۶۴ء میں میں نے لندن میں ایک ”بزم شعر و ادب قائم کی تھی میں اس کا بانی صدر تھا.اس کے زیر اہتمام چند نہایت کامیاب مشاعرے ہو چکے تھے.جن میں لندن کے نامور شعراء نے اپنا کلام پیش کیا تھا.محترم ثاقب صاحب کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے ایک شام ثاقب کے ساتھ“ کے عنوان سے ایک محفل مشاعرہ منعقد کرائی.جس میں لندن کے اکثر مشہور معروف شعراء نے شرکت کی.بعض شعراء برمنگھم سے بھی آئے.اس محفل کے لئے میں نے مشن ہاؤس کے قریب ایک خوبصورت ہال بک کروا لیا تھا.جو وقت مشاعرہ پر کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.بہت سارے ہندوؤں اور سکھوں نے بھی شرکت کی.ایک سکھ شاعر نے اپنا کلام بھی پیش کیا.مشاعرہ کی صدارت تو میں نے کی لیکن مہمان خصوصی اور حاضرین کی توجہ کا مرکز ثاقب صاحب تھے.آخر میں ثاقب صاحب نے اپنا کلام پیش کیا اور ہر شعر پر حاضرین سے داد لی.آخر میں حاضرین کے پر زور اصرار پر حضرت ثاقب نے اپنی مشہور نظم جو آپ نے خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل پاکستان کی موجودگی میں بار بار پڑھی تھی سنائی.یہ پُر لطف دورہ بالآخر اختتام پذیر ہوا ثاقب صاحب نے واپس جا کر لاہور میں اس دورہ کی روداد ” گورے دیس میں“ کے عنوان سے انہیں اقساط میں شائع کی.(ہفت روزہ لاہور۱۳ را پریل

Page 203

تاریخ احمدیت.جلد 26 193 سال 1970 ء ۲۰۰۲ صفحہ ۷.اصل مضمون میں سال سفر ۱۹۶۹ء چھپ گیا ہے جو سہو ہے.” گورے دیس میں جناب ثاقب صاحب کے قلم کا لکھا ہوا نہایت معلومات افروز سفر نامہ انگلستان ہے جو اخبار لاہور کی انیس اقساط میں ۴ استمبر ۱۹۷۰ء سے ۲۵ جنوری ۱۹۷۱ ء تک کے شماروں میں منظر عام پر آیا اور نہایت درجہ ذوق و شوق اور دلچسپی سے پڑھا گیا) قیام انگلستان کے دوران آپ کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جیسی عظیم شخصیت ۵ دن ہم سفر ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی جسے آپ کی زندگی کا ایک بہترین سرمایہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا.آپ خود تحریر فرماتے ہیں: ” پاکستان کے اس جلیل و ذہین فرزند کے ہمراہ شب و روز پورے پانچ دن ہمسفر رہنے کی سعادت مجھے زندگی میں پہلی مرتبہ نصیب ہوئی تھی.اور شاید یہ آخری بھی ہو کہ وقت ایک مور بے مایہ کو ہمدوش سلیمان ہونے کی دریا دلی کا مظاہرہ کہاں روز روز کرتا ہے.مجھے اس سفر پر روانہ ہونے سے قبل اس لئے بھی گھبراہٹ تھی کہ یاروں سے سن رکھا تھا چودھری صاحب محترم بڑے کم گو ہیں وہ ہمیشہ اپنی سطح سے بات کرتے ہیں اس لئے یہ اندازہ کرنا سخت مشکل ہوتا ہے کہ کون سی بات کس وقت ان کی ناگواری طبع کا باعث بن جائے گی اور اس کے بعد گفتگو کا ذائقہ جھنجلا ہٹ کے باعث کسیلا ہو جائے گا لیکن اپنے اس ذاتی خوشگوار تجربہ معیت سفر کے بعد میں علی وجہ البصیرت کہ سکتا ہوں کہ یہ چودھری صاحب محترم کی طبیعت و افتاد کا بڑا غلط اور اوچھا مطالعہ ہے.ان سا خوش اخلاق و خوش گفتار بے تکلف رفیق سفر اللہ ہر ایک کو عطا فرمائے جو اپنے ساتھی کی (خواہ وہ کسی طبقے یا درجے کا مجھ ایسا خاک نشین ہی کیوں نہ ہو) ہر جائز خواہش کا دل و جان سے احترام کرتا اور اس پر اپنے جذبات قربان کر دیتا ہے ان کے تعلق کی بنا ایثار طبی پر نہیں ایثار پیشگی“ پر ہے وہ اپنے رفیق سفر کو ہر رنگ میں خوش و خرم رکھنے کے لئے مضطرب رہتے ہیں اور اس کی معمولی سے معمولی خواہش کا بھی (اسے بہت اہم قرار دے کر ) احترام کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ پاکستان میں ان کے عزیزوں رشتہ داروں، حواریوں، شناساؤں اور مداحوں کی ایک تعداد لاکھوں بلکہ کروڑوں تک پہنچتی ہے.گویا ایک انارا ایک کروڑ بیمار والا معاملہ ہوتا ہے.اس لئے ان کا التفات کریمانہ اتنے حصوں میں بٹ جاتا ہے کہ احباب کو شنگی کا احساس رہتا ہے اور ان کی دلدار طبیعت کو یہ منظور نہیں ہوتا کہ اس محبانہ سرمایہ کو سارا کسی ایک پر صرف کر کے باقیوں کو

Page 204

تاریخ احمدیت.جلد 26 194 سال 1970ء محروم کر دیں.اس کے برعکس بیرونی ممالک میں چونکہ اس کے اتنے حصے بخرے نہیں ہوتے اس لئے ہر ایک ان کی خوشگوار معیت و صحبت سے جی بھر کر سیراب و فیض یاب ہوتا ہے.66 135- ایک تقریب عشائیہ بلیک برن کے ٹاؤن ہال میں آپ کے اعزاز میں ایک عشائیہ دیا گیا جس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے اخبار ”بلیک برن ٹائمنز اپنی اشاعت ۱۴ را گست۱۹۷۰ء میں لکھتا ہے:.ترجمہ.ہم ہمیشہ سے مانتے آئے ہیں کہ بلیک برن ٹائمنر زمین کے کناروں تک اپنی راہ بنالیتا ہے.اس ہفتہ ہمیں معلوم ہورہا ہے کہ اسے عالمی دوستی کے قیام میں اپنا حصہ بھی ڈالنا ہے.پاکستان کے ایک مشہور شاعر جناب ثاقب زیروی صاحب اس ہفتہ ایک میونسپل عشائیہ میں بطور مہمان مدعو تھے جو بلیک برن ٹاؤن ہال میں منعقد کیا گیا تھا جبکہ آپ جناب سر محمد ظفر اللہ خاں صدر عالمی مجلس Friendship کے ہمراہ تھے.جناب زیروی صاحب قومی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک صحافی بھی ہیں اور ہفت روزہ لاہور نامی رسالہ خود شائع کرتے ہیں.جب وہ واپس لاہور جائیں گے تو اپنے ہمراہ ٹائمنز کے کچھ شمارے بھی لے جائیں گے تا کہ وہاں کے لوگوں کو بلیک برن شہر کے بارہ میں نیز اس اچھے باہمی رشتہ کے بارہ میں کچھ بتا سکیں جو بلیک برن کے شہریوں اور یہاں مقیم ایشیائی طبقہ کے مابین قائم ہے.جب سر محمد ظفر اللہ خاں صدر بین الاقوامی عدالت انصاف ( ہیگ) منگل کے روز بلیک برن تشریف لائے تو انہیں میونسپل عشائیہ دیا گیا.وہ دو پہر کے وقت پہنچے تو ان کو جناب اے ایچ پراچہ صاحب جو بلیک برن عالمی مجلس Friendship تحصیل ہذا کے جنرل سیکرٹری ہیں کے گھر لے جایا گیا جہاں وہ اپنے قیام کے دوران رہے.ان کے اعزاز میں ایک عشائیہ بعد ازاں منعقد ہوا جس میں جناب میر اور ان کی اہلیہ شامل ہوئے 136 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس مورخہ یکم اگست ۱۹۷۰ء سے مورخه ۳۱ راگست ۱۹۷۰ ء ربوہ میں فضل عمر تعلیم القرآن کلاس منعقد

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد 26 195 سال 1970ء ہوئی.کلاس میں کل ہیں اضلاع کی تہتر جماعتوں کی طرف سے طلباء شامل ہوئے.کلاس میں ۲۲۶ طلباء اور ۲۸۷ طالبات نے حصہ لیا.کلاس کا افتتاح حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مورخہ یکم اگست ۱۹۷۰ء کو مسجد مبارک میں فرمایا.137 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب حضور انور نے اس موقع پر طلباء وطالبات کو ایک نہایت روح پرور اور بصیرت افروز افتتاحی خطاب سے نوازا.حضور انور نے طلباء وطالبات کو یہ زریں نصیحت فرمائی کہ وہ خلیفہ وقت کے ساتھ مل کر اور یک جان ہو کر غلبہ اسلام کی عظیم جدوجہد میں حصہ لیں اس جدوجہد کی تیاری کے دوز بر دست ذریعے ہیں.ایک دلائل و براہین اور دوسرے آسمانی نشانات.یہی دو ذریعے ہیں جن سے اس زمانہ میں اسلام کا غلبہ مقدر ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اس زمانہ میں اسلام کو غالب کرے گا.لیکن اس وعدہ کو پورا کرنے کی خاطر اور ہمیں ثواب پہنچانے اور اپنی رضا کی جنتوں میں ہمارے لئے محل تیار کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے ہم سے قربانیوں کا مطالبہ کیا ہے.حضور انور نے فرمایا کہ ربوہ ہمار ا مرکز ہے یہاں پر بڑی کثرت سے مخلص اور فدائی احمدی ہیں.لیکن جہاں مخلصین آباد ہوں وہاں بعض منافق بھی ہوتے ہیں.آپ کو چاہئیے کہ ان سے ہوشیار رہیں کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے بظاہر ان کا نعرہ یہ ہوتا ہے کہ ہم منافق نہیں بلکہ مصلح ہیں.لیکن مومن کی فراست بڑی تیز ہوتی ہے وہ فوراً انہیں پہچان لیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نفاق کا شیطان انہیں دھوکہ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکتا.حضور انور نے اپنے سفر مغربی افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں کے حالات کا مشاہدہ کر کے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسلام اور عیسائیت کی آخری جنگ افریقہ کی سرزمین میں لڑی جائے گی.یہ جنگ ظاہری تلوار سے نہیں بلکہ دلائل کی تلوار سے اور آسمانی نشانات کی مدد سے لڑی جائے گی.حضورانور نے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بار باراور التزام کے ساتھ پڑھنے کی بھی نصیحت فرمائی.حضور انور نے فرمایا ہمیشہ یاد رکھو کہ اسلام کا غلبہ ایسے ہی وجودوں کے ذریعہ مقدر ہے جو دعائیں کرنے والے اپنے تئیں لاشی محض سمجھنے والے اور زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم کرنے والے ہوں گے.تب ان کے علم و عمل میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکت پیدا کر دے گا.

Page 206

تاریخ احمدیت.جلد 26 196 سال 1970ء ایک نہایت پر محبت تقریب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت فضل عمر تعلیم القرآن کلاس میں شامل تمام طلباء اور طالبات کو مورخه ۳ را گست۱۹۷۰ء بروز منگل کو ایک خصوصی دعوت دی.حضور انور نے تمام طلباء کو شرف مصافحہ سے بھی نوازا.طالبات کا انتظام صدر صاحبہ لجنہ مرکز یہ سیدہ ام امہ المتین صاحبہ کی زیر نگرانی تھا.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی طالبات کی دعوت میں شمولیت فرمائی.اس دعوت کا حضور کی رہائش گاہ کے وسیع باغیچہ میں مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری اور دوسرے کارکنوں کے ذریعہ اہتمام کیا گیا.طلبہ کے علاوہ مردانہ دعوت میں مرکزی جماعتی عہد یداران بعض امرائے اضلاع اور بعض بیرونی ممالک کے مبلغین نیز کلاس کے تمام اساتذہ ومنتظمین بھی مدعو تھے.کل حاضری سات سو سے کچھ اوپر تھی.حضور طلباء کی حوصلہ افزائی کیلئے کئی بار ان کے درمیان تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ سے ان میں مٹھائی وغیرہ تقسیم کی.حضور انور نے طلباء سے یہ بھی دریافت فرمایا کہ ان میں سے کس کس کو گھوڑے کی سواری آتی ہے اس پر متعدد طلباء نے ہاتھ کھڑے کئے ان کی ایک فہرست مرتب کر کے حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی.10 139 اختتامی تقریب مورخه ۳۰ راگست ۱۹۷۰ء کو بعد از نماز عصر قصر خلافت سے ملحقہ باغیچہ میں فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی اختتامی تقریب کے موقع پر وسیع پیمانے پر ایک دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.اس تقریب میں کلاس کے اساتذہ کے علاوہ محترم مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر اور محترم چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع شیخو پورہ نے بھی شرکت فرمائی.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اس کے بعد مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے کلاس کی رپورٹ پڑھ کر سنائی.رپورٹ پڑھے جانے کے بعد سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نمایاں کامیابی حاصل کرنے والوں کو انعامات عطا فرمائے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا خطاب بعد ازاں حضور انور نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس 140

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد 26 197 سال 1970ء طرف متوجہ کیا کہ ” الخير كله في القرآن“ کہ ہر وہ چیز جو خیر و برکت کا موجب بنتی ہے.فرد یا خاندان یا قوم یا دنیا کی کوئی زینت ہو وہ ساری کی ساری صحیح معنی میں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.اس خیر و برکت کے حصول کا ذریعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو اللہ تعالیٰ کے الہام میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا قرار دیا گیا كلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ محمد صلى الله عليه وسلم “ قرآن کریم میں جو بھی خیر پائی جاتی ہے اس کے حصول کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کی پیروی کرنی ضروری ہے.یہ بنیادی باتیں آپ اپنے ذہن کے صندوق میں محفوظ کر لیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کی کوشش کریں.اگر ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں آپ کے اوپر نازل ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں آپ عزت کا مقام پائیں گے“.141 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا احمدی ڈاکٹروں سے ولولہ انگیز خطاب سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۳۰ اگست ۱۹۷۰ء کوکمیٹی روم فض عمر فاؤ نڈیشن ربوہ میں احمدی ڈاکٹروں سے ایک ولولہ انگیز اور پُر اثر خطاب فرمایا جس میں حضور نے ارضِ بلال میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ رونما ہونے والے شاندار انقلاب اور نصرت جہاں آگے بڑھو پروگرام کی دلچسپ تفصیلات پیش فرمائیں اور احمدی ڈاکٹروں کو افریقہ میں خدمت خلق کے لئے میدان عمل میں آنے کی پر زور تحریک فرمائی.اس اہم خطاب کے بعض ضروری اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں :.ا.ہمارا Latest طبی مشن گیمبیا میں کھلا ہے ڈاکٹر سعید صاحب وہاں گئے ہیں ، ان کو وہاں کام شروع کئے ہوئے دو سال ہو گئے ہیں.شروع میں انہیں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا.کچھ تعصب بھی تھا کچھ ہم نے انہیں دیہات میں پھینک دیا تھا.بایں ہمہ دو سال میں ان کی جو Net Saving ہے یعنی اپنا چوتھائی حصہ نکال کر باقی تین چوتھائی ۵ اور ۶ ہزار پونڈ کے درمیان ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اڑھائی اور تین ہزار پونڈ سالانہ آمد ہے جس سے ان کے حصہ میں ۱/۴ کے لحاظ سے قریب ڈیڑھ دو ہزار پونڈ آتا ہے اور اس طرح ان کا ۴۰ پونڈ ماہانہ سے بھی زیادہ بن جاتا ہے.

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد 26 198 سال 1970ء لیکن ہمارا جو مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ ڈاکٹر بڑا مخلص ہونا چاہیے اور بڑا دعا گو ہونا چاہیے کیونکہ وہاں اس وقت ہمارا عیسائیوں سے سخت مقابلہ ہے وہ بہت پیسہ خرچ کرتے ہیں.انہوں نے بڑے اچھے ہسپتال بنا رکھے ہیں جن میں کوالیفائیڈ ڈاکٹر ز کام کرتے ہیں.لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان کے مقابلے میں جہاں بھی ہمارا کلینک کھلا ہے زیادہ مقبول ہو گیا ہے.ہمارے کلینک کی اس حد تک مقبولیت ہو چکی ہے کہ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کا نو میں ہیں یہ علاقہ نائیجیریا کا مسلم نارتھ کہلاتا ہے انہوں نے مجھے بتایا کہ بعض وزراء تک گورنمنٹ ہسپتال میں جانے کی بجائے ان کے پاس آتے ہیں.حالانکہ ایک وزیر کو ان کے کسی دوست نے کہا کہ گورنمنٹ ہسپتال موجود ہے آپ وہاں نہیں جاتے اور ان کے کلینک میں چلے جاتے ہیں (اُس وقت یہ کلینک تھا اب تو اچھی خوبصورت عمارت پر مشتمل ہسپتال بن چکا ہے ) اس نے کہا مجھے وہاں زیادہ فائدہ ہوتا ہے.چنانچہ وہ اپنا اور اپنے رشتہ داروں کا علاج ہمارے ہسپتال میں آ کر کراتا ہے.شاید ظاہری علمیت کے لحاظ سے عیسائی زیادہ اچھے ہوں گے لیکن وہ دعا کرنے والے نہیں یا کم از کم ہمارے ڈاکٹروں کے مقابلے میں ان کی دعا قبول نہیں ہوتی.ویسے تو اللہ تعالیٰ سب کی دعائیں قبول کرتا ہے لیکن جب مقابلہ ہو جائے تو احمدی ڈاکٹر کے ہاتھ میں بفضلہ تعالی زیادہ شفاء ہے.دوسرے ہمیں وہاں ایسا ڈاکٹر چاہیے جو ہمیں حساب کے جھمیلوں میں نہ پھنسائے.اس وقت تک اِن تین ڈاکٹروں یعنی کا نو میں ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب، لیگوس میں ڈاکٹر عمر الدین صاحب سدھو اور یہاں گیمبیا میں ڈاکٹر سعید صاحب نے اس سلسلہ میں بھی بہت ہی اچھا نمونہ دکھایا ہے.“ گیمبیا میں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا ہے کہ جہاں ڈاکٹر سعید احمد صاحب کام کر رہے ہیں وہاں بھی ہمیں زمین نہیں مل رہی تھی کیونکہ ایک چیف نے زمین دی اور گورنمنٹ کے ایک آفیسر نے کہا کہ اس چیف کو زمین دینے کا کوئی اختیار ہی نہیں چنانچہ جھگڑا پڑ گیا.بالآخر انہوں نے زمین تو دیدی مگر ۲۰ پونڈ سالا نہ Rent بطور لیز لگا دیا.کوشش ہوتی رہی ،اب میرے آنے کے بعد اس کا کرایہ ۲۰ پونڈ کی بجائے ایک

Page 209

تاریخ احمدیت.جلد 26 199 سال 1970ء شلنگ سالانہ مقرر ہو گیا ہے اور یہ لیز ۲۱ سال کے لئے ملی ہے.دنیا میں عام طور پر ۹۹ سال یا ۵۰ سال کی لیز ہوتی ہے میں نے اپنے مشن کو کہا تھا کہ ۲۰ سال سے اوپر کا Period ( پیریڈ ) ملے تو لے لو.مجھے کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ۲۰ سال میں انشاء اللہ ان ملکوں میں ایک انقلاب عظیم رونما ہو چکا ہوگا.پھر ہمارے لئے لیز پر لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو گا اور ہمیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی.چنانچہ اس کے علاوہ ہمیں گیمبیا میں ہیلتھ سنٹر کے لئے مزید تین جگہ زمین مل گئی ہے ایک جگہ تو ایک سیٹلائٹ ٹاؤن بن رہا ہے، جہاں ہمارے سابق گورنر جنرل سنگھاٹے نے بھی کوٹھی بنوائی ہے اس کے قریب ہی برلب سڑک سپیشلسٹ سنٹر کے لئے گورنمنٹ نے جگہ دے دی ہے.جب میری اس وزیر صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ مجھے کہنے لگے کہ بالکل باتھرسٹ کے اندر تو آپ زمین کا مطالبہ نہیں کر رہے؟ میں نے کہا نہیں، میرا مطالبہ یہ ہے کہ یہ جگہ باتھرسٹ سے دس میل کے اندر اندر ہو اور پختہ سڑک پر ہو.وہاں سڑکیں بہت کم ہیں.سارے ملک میں ایک دوسر کیں ہیں ویسے یہ ملک بھی بہت چھوٹا ہے لیکن آب و ہوا کے لحاظ سے بڑا اچھا ہے.غرض یہاں بھی ہیلتھ سنٹر کھولنے کے لئے حسب منشاء زمین مل گئی ہے.لیکن اب وہ وزیر صاحب پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ کہاں ہیں تمہارے ڈاکٹر ؟ ان کے کا غذات آنے چاہئیں.ان کے ساتھ میں نے وعدہ کیا تھا تین سپیشلسٹس کا یعنی ایک Eye Specialist کا، ایک اچھے ڈینٹسٹ کا اور ایک ٹی بی سپیشلسٹ کا.آپ یہ ، یہ سن کر حیران ہوں گے کہ گیمبیا کے سارے ملک میں ایک بھی Eye Specialist نہیں ہے اگر وہاں کسی آدمی کی نظر کمزور ہورہی ہو تو بیچارے کو اپنی آنکھ دکھانے کے لئے سینیگال کے دارالخلافہ ڈا کار جانا پڑتا ہے اور پھر جو نمبر بنتا ہے اسے وہ لندن بھجواتا ہے اور وہاں سے عینک بنواتا ہے چنانچہ جو عینک ہمارے ہاں دس بارہ روپے میں بن جاتی ہے اس پر اسے کم و بیش پانچ پونڈ خرچ کرنے پڑتے ہیں اور دوسرے اخراجات مثلاً دوسرے ملک میں جانا وغیرہ اس کے علاوہ ہیں.پھر اسی طرح سارے ملک میں کوئی اچھا ڈینٹسٹ بھی نہیں ہے.ان کے

Page 210

تاریخ احمدیت.جلد 26 200 سال 1970ء بڑے ہسپتال میں ایک ٹی بی سنٹر تو ہے جس میں نارتھ یا شاید ساؤتھ کوریا کے دو ڈاکٹر کام کرتے ہیں مگر وہ بھی سال میں چھ مہینے چھٹی پر رہتے ہیں اور اس چھ ماہ کے عرصہ میں وہاں ٹی بی کا علاج کرنے والا کوئی ماہر ڈاکٹر نہیں ہوتا.میں نے ان سے کہا تھا کہ ہمیں کافی زمین دو کیونکہ ہمیں ٹی بی والا حصہ بہر حال الگ رکھنا پڑے گا.چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے بڑی اچھی زمین دے دی ہے.آنکھوں کے ماہر کی ضرورت میں چاہتا ہوں کہ ہمیں ایک ایسا آئی سپیشلسٹ مل جائے جو وہاں دکان بھی کر سکے کیونکہ عینک کے لئے لندن بھیجوانے والا قصہ تو نہیں رہنے دینا.ایسا ڈاکٹر ہونا چاہیے جو نظر ٹیسٹ بھی کرے، عینک بنا بھی دے اور لگا بھی دے.ڈینٹسٹ تو ہمارے پاس دو اچھے آگئے ہیں.لندن میں ڈاکٹر ولی شاہ صاحب جو مشرقی افریقہ کے اقبال شاہ صاحب کے بیٹے ہیں اور بڑے اچھے ڈینٹسٹ ہیں انہوں نے وہاں کئی ہزار پونڈ خرچ کر کے اپنا ایک کلینک بنارکھا ہے جس میں دو ڈاکٹر ملازم رکھے ہوئے ہیں اور ان کا بڑا اچھا کام چل رہا ہے.میرے خیال میں وہ چار پانچ سو پونڈ ماہانہ کمارہے ہیں وہ بڑے مخلص احمدی ہیں.ان کا مجھے خط آیا تھا کہ میرے لیے کیا ہدایت ہے؟ کیا میں اپنا کلینک بیچ دوں؟ میں نے ان سے کہا ہے کہ ابھی نہ بیچو.ان کے علاوہ دانتوں کے ایک اور ڈاکٹر نے بھی وقف کر دیا ہے.بہر حال ڈینٹسٹ تو ہمیں مل گئے ہیں.ٹی بی کے ڈاکٹر بھی مل گئے ہیں، البتہ آئی سپیشلسٹ کی فوری ضرورت ہے.میری ایک اور تجویز ہے اور وہ سرجری والے حصے کے متعلق ہے کہ جب ہمارے بہت سے سنٹر بن جائیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ڈاکٹر یہ جو چار مہینے انگلستان میں جا کر ضائع کرتے ہیں اس میں سے دو مہینے وہاں جا کر کام کریں ویسے بھی مشورہ ہوتا ہے طبی آلات ہیں.مثلاً ٹی بی کے لئے میں نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ ایکسرے پلانٹ بھجوائیں گے یعنی مکمل لیبارٹری ہوگی اور ایسا کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے مگر ہمارا پیسہ ضائع نہیں ہونا چاہیے.پیسے ضائع

Page 211

تاریخ احمدیت.جلد 26 201 سال 1970ء کرنے کے لئے اللہ میاں ہمیں دیتا ہی نہیں ، یعنی ہمیں ایک دھیلا بھی ضائع کرنے کے لئے نہیں ملتا لیکن ہماری ضرورت کو پورا کرتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے.ڈاکٹر سعید صاحب جنہوں نے پانچ اور چھ ہزار کے درمیان سالانہ آمد پیدا کی ہے ان کو ہم نے یہاں سے جاتے وقت دوائیاں وغیرہ خریدنے کے لئے صرف پانچ سو پونڈ دیا تھا اور انہوں نے سارے اخراجات نکالنے کے بعد دوسالوں میں پانچ چھ ہزار پونڈ Save کر لیا اور یہ معین اس لئے نہیں کہ میرے دورے کے وقت پانچ ہزار سے رقم بڑھ چکی تھی لیکن وہ کہتے تھے کہ ابھی آخری Balance Sheet نہیں بنی اس لئے میں صحیح طور پر نہیں کہہ سکتا، اغلباً چھ ہزار پونڈ سے زیادہ ہے اور یہ بڑی رقم ہے.دنیا کے حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں ہو سکتا ہے کسی ملک میں ہمیں اپنے مشن چلانے کے لئے روپے کی ضرورت ہو، مگر ہم باہر سے نہ بھجواسکیں تو اس صورت میں اگر ہمارے یہ سنٹر ز ہونگے تو ہمیں کوئی فکر نہیں ہوگی یہی میڈیکل سنٹرز رقم مہیا کریں گے.کانو میں ہمارے کلینک نے پندرہ ہزار پونڈ سے زیادہ بچایا ہوا تھا جسے اسی کلینک پر خرچ کر کے ایک بہت اچھی خوبصورت بلڈنگ بنادی گئی ہے.ایبٹ آباد میں اس کی تصویر پڑی ہوئی ہے آپ دیکھتے تو بہت خوش ہوتے اور ابھی ایک چوتھائی کام رہتا ہے.چند دن ہوئے مجھے خط آیا ہے کہ اس حصے پر بھی لنٹل پڑ گئے ہیں اور اب وہ اچھا بڑا ہسپتال بن گیا ہے.یہاں بہت سے ڈینٹسٹ نے وقف کیا تھا لیکن وہاں اس وقت تک Demand نہیں تھی اب وہاں سے اطلاع آئی ہے کہ اگر کوئی ڈینٹسٹ آئیں گے تو وہ بھی اچھا کام کرسکیں گے لیکن جو چیز بڑی ضروری ہے وہ اخلاص ہے اور عادت دعا ہے اس کے بغیر تو ہمارا ڈاکٹر وہاں کام نہیں کر سکتا.اگر ڈاکٹر میں اخلاص نہیں ہوگا تو وہ ہمارے لئے پرابلم بن جائے گا اگر وہ دعا گو نہیں ہو گا تو وہ اپنے مریض کے لئے پرابلم بن جائے گا.

Page 212

تاریخ احمدیت.جلد 26 طبیب کو دعا گو ہونا چاہیے 202 سال 1970ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ بڑا ظالم ہے وہ طبیب جو اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا اور حقیقت یہی ہے.اب ڈاکٹر عمر الدین صاحب نے لیگوس میں دو کلینک کھول لئے ہیں یعنی ایک تو انہوں نے کرنل یوسف والا کلینک سنبھالا تھا ان کی وفات کے بعد اور اب بالکل شہر کے سنٹر میں غریبوں کے محلے میں ایک اور کلینک کھولا ہے.جہاں ساتھ ہی دو اور کلینک کھل گئے ہیں ایک تو کسی افریقن نے کھولا ہے اور دوسرا کسی غیر ملکی غالباً لبنانی نے کھولا ہے یہ ہفتے میں دو دفعہ اس کلینک میں جاتے ہیں ان کی رپورٹ تھی کہ دوسروں کے مقابلے میں ہمارا کلینک اللہ تعالیٰ کے فضل سے مقبول ہو رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ اتنا فضل کر رہا ہے اور اتنا پیار کرتا ہے جماعت سے کہ ہمیں انفرادی طور پر بھی ناشکرا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جماعت تو شکر گزار ہے لیکن کسی ایک فرد کو بھی ناشکرا بندہ نہیں بننا چاہیے ہمارے مالوں میں اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ۳.” جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گنتی کے چند آدمی بھی نہیں تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ایک جگہ یہ تحریر فرمایا ہے کہ اس وقت جبکہ کسی ایک آدمی نے بھی میری بیعت نہیں کی تھی (البتہ میرے چند دوست تھے ) اس وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی نے دو سو چوٹی کے مولویوں کو اپنے ساتھ ملا کر کفر کا فتویٰ دیا اور آپ کو واجب القتل ٹھہرایا اور لکھا کہ جو آپ کو قتل کر دے گا وہ ثواب کمائے گا.اس فتویٰ نے ہندوستان میں ایک ہنگامہ بپا کر دیا اور لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا دیا.اس وقت ان کے کفر کے فتووں نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تو اب کیا پہنچا لیں گے.ہم تو کفر کے فتووں کی بوچھاڑ میں کہیں سے کہیں پہنچ گئے.ساری دنیا میں اب احمدیت پھیل گئی.یہ حماقت ہی ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ پاکستان میں احمدیوں کو قتل کر کے لوگ احمدیت کو مٹا سکتے ہیں.یہ سمجھنا سراسر حماقت ہے کیونکہ احمدیت صرف پاکستان ہی

Page 213

تاریخ احمدیت.جلد 26 203 سال 1970ء میں نہیں.ایک لاکھ پینسٹھ ہزار بالغ احمدی تو صرف غانا میں ان کی حکومت کی مردم شماری کے لحاظ سے ۱۹۶۰ء میں تھے غانا ویسٹ افریقہ کا ایک ملک ہے اس کے علاوہ کئی دوسرے ملکوں میں بھی بڑی بڑی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.پس جب بھی لوگوں نے ہمارے خلاف شور مچایا، ہماری جماعت مضبوط ہوئی.چنانچہ ۱۹۵۳ء کے بعد کئی سونئی جماعتیں بنی ہیں.ہمارے اس علاقے میں بھی ایسی بیسیوں جماعتیں ہیں جو ۱۹۵۳ء کے بعد بنی ہیں.ایک ایک وقت میں مجھے ایسے ۳ ،۳.۴۰۴ آدمی یا بعض دفعہ اکٹھی جماعتیں ملتی ہیں جو کہتی ہیں کہ وہ ۱۹۵۳ء کے احمدی ہیں.احمدیوں کے گھروں کو آگ لگایا کرتے تھے اور Mob میں جا کر شامل ہوتے تھے.لیکن ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ کو جھنجھوڑا اور ان کو خیال پیدا ہوا کہ جس جماعت کی ہم مخالفت کر رہے ہیں.آؤ پتہ تو کریں یہ جماعت ہے کیسی؟ اس کے عقاید کیا ہیں؟ چنانچہ پہلے اندھیرے میں مخالفت کر رہے تھے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل میں احمدیت کی کتابیں پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی تو انہیں حق نظر آ گیا اور پھر وہ احمدی ہو گئے پس ڈرنے کی کوئی بات نہیں.پختہ ایمان کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بڑی کھلی شاہراہ کھولی ہے.البتہ انفرادی قربانی ضرور دینی پڑے گی کیونکہ یہ کبھی ہوا ہی نہیں کہ کوئی قوم قربانی دیئے بغیر ترقی کر سکی ہو.غرض ضبط و نظم کو ضرور قائم کرنا پڑے گا احمدیت کے اندر رہتے ہوئے اطاعت ضرور کرنی پڑے گی اگر تو کوئی ڈکٹیٹر آپ کے اوپر حکم چلا رہا ہو تو پھر تو آپ کے دل میں یہ وسوسہ پیدا ہو سکتا ہے کہ ہم اس کی کیوں اطاعت کریں؟ لیکن اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ایسا خلیفہ دے جو آپ سے پیار کرنے والا ہو تو اگر آپ اس کی اطاعت سے گھبرائیں تو یہ علاوہ اور بہت سی برائیوں کے جہالت بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بہت بڑے وعدے دیئے ہیں جنہیں ہم ساری دنیا میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.انگریزوں نے ایک وقت میں یہ کہا تھا کہ ان کی وسیع و عریض برٹش کامن ویلتھ پر سورج غروب نہیں ہوتا.وہ زمانہ ختم ہو گیا.اب برٹش کامن ویلتھ پر تو سورج غروب ہوتا ہے لیکن جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا

Page 214

تاریخ احمدیت.جلد 26 204 سال 1970 ء لیکن خالی یہ چیز نہیں ایک اور چیز بھی ہے جس کا انگریز دعوی نہیں کر سکتے تھے لیکن جس کا جماعت احمد یہ دعویٰ کر سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر صبح کو جب سورج طلوع ہوتا ہے تو جماعت کو پہلے سے زیادہ کثیر اور پہلے سے زیادہ مضبوط دیکھتا ہے اگر سورج کو زبان دی جائے تو وہ گواہی دے گا کہ ہر صبح کو میں یہ دیکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے اور پہلے سے زیادہ کثیر ہو چکی ہے.مثلاً افریقہ سے روزانہ بیعتیں آتی رہتی ہیں.ہمارے غیر مبایعین کے سالانہ جلسہ میں پچھلے سال جتنے آدمی اکٹھے ہوئے تھے ان سے زیادہ میں ایک ایک دن میں بیعت فارموں پر دستخط کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کا اتنا فضل ہے.لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کا فخر یہ ہماری کسی خوبی کی وجہ سے نہیں ہم تو بڑے ہی کمزور اور عاجز ہیں.ہمارے پاس دنیا کا سہارا نہیں ہے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمارا کام کر رہے ہیں اور ثواب ہمیں مل رہا ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے ورنہ آپ کیا قربانی دیتے ہیں.جب تحریک جدید شروع ہوئی تو شاید لاکھ ڈیڑھ لاکھ کا سارا بجٹ تھا، جس میں سے اکثر حصہ یہاں خرچ ہوتا تھا مثلاً دفتر کے اخراجات ہیں، مبلغوں کی ٹرینینگ ہے، کتابوں کی اشاعت کا کام ہے.میرے خیال میں اتنے بجٹ میں سے غیر ممالک میں خرچ کرنے کے لئے بمشکل ۲۵ ۳۰ ہزار روپیہ ہوگا اور یہ بھی حضرت مصلح موعود کے ذریعہ اللہ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہم نے دیکھا ہے کہ اس کے باوجود احمدیت کوشاندار ترقیات عطا ہوتی رہی ہیں ۱۹۴۵ء تک اگر چہ غیر ممالک میں جماعتیں تو قائم ہو چکی تھیں لیکن انہیں ابھی چندہ دینے کی عادت نہیں پڑی تھی اس لئے یہیں سے خرچ ہوتا رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہمارے بعض بڑے بزرگ لوگوں نے چار آنے چندہ دیا آپ نے ان کا نام اپنی کتابوں میں لکھ دیا، جس کے نتیجہ میں ان کو قیامت تک جماعت کی دعاؤں کی وجہ سے بھی ثواب ملتا رہے گا مگر چندہ ان میں سے کسی کا چارہ کسی کا آٹھ آنے اور کسی کا ایک روپیہ ماہوار تھا اور ان کا نام لکھ کر انہیں اس لئے اہمیت دی گئی کہ اس وقت امت مسلمہ اسلام کی راہ میں ایک دھیلہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں تھی.چنانچہ ان کی اس پہلی عادت کے

Page 215

تاریخ احمدیت.جلد 26 205 سال 1970ء ، مقابلہ میں ۴ آنے دینا واقعی بڑی قربانی تھی ، پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے خدا کی راہ میں اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی ہر چیز قربان کر دی.مجھے پتہ ہے اور میں آپ کو علی وجہ البصیرت بتا رہا ہوں کہ ایک شخص جو قادیان میں شروع زمانے میں بڑے اخلاص سے کام کرتا تھا اور جسے پانچ روپے ماہوار گزارہ ملتا تھا اور اس کے چھ سات لڑکے تھے اب ایک ایک لڑکے کو ۳ ،۳.۴ ۴۰ ہزار روپے ماہوار آمد ہوتی رہی ہے پس اللہ تعالیٰ تو اس دنیا میں بھی کسی کا قرض نہیں چھوڑتا.البتہ قربانی ضرور لیتا ہے تا کہ وہ آزمائش کرے کہ کون اپنے عہد میں پکا ہے اور کون کمزور اور ٹوٹنے والا ہے، لیکن یہ کہ وہ ہمیں اس دنیا میں چھوڑ دے یہ نہیں ہوسکتا.شروع میں تحریک جدید کا شاید لاکھ یا ڈیڑھ لاکھ روپیہ جمع ہوا تھا، لیکن اب میں نے انگلستان میں جب نصرت جہاں ریز روفنڈ کی تحریک کی تو پونے گھنٹے کے قریب میں پہلے دن اپنے بھائیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوں اور اس وقت میرے خیال میں انگلستان کی ساری احمدی آبادی کا پانچواں یا ساتواں حصہ جمع تھا.سارے احباب تو ویسے بھی آ نہیں سکتے کیونکہ دور دراز علاقوں میں یا شہروں میں رہتے ہیں، کسی کو چھٹی نہیں ملتی ، اس پونے گھٹنے میں ستر ہزار روپے) سے زیادہ کے وعدے ہو گئے تھے اور پھر دوبارہ اتوار کے روز ایک گھنٹے کے قریب میں ان میں بیٹھا ہوں جس کے نتیجہ میں یہ وعدے ۳۲ ہزار پونڈ تک پہنچ گئے اور جب میں وہاں سے روانہ ہوا ہوں تو ۴۰ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے تھے.پس کجاوہ زمانہ کہ بار بار تحریک کی گئی اور سارے سال میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے اور کجا یہ کہ ڈیڑھ دو گھنٹے میں ۴۰ ہزار پونڈ یعنی نو لاکھ روپے کے قریب وعدے ہو گئے.میں انگلستان میں قیام کے دوران چند دنوں کے لئے سپین چلا گیا ، یہ بھی ایک برکت ہے میرے پیچھے لوگوں نے وعدے کئے اور نہ نقد پیسے دیئے.میں جب سپین سے واپس آیا تو امام رفیق کو خیال آیا کہ دس ہزار پونڈ نقد میری واپسی تک جمع نہیں ہو سکیں گے مجھے کہنے لگے کہ یہ جو آپ نے ٹارگٹ مقرر کیا ہے دس ہزار پونڈ نقد جمع کرنے کا (اُس وقت تک 4 ہزار پونڈ نقد رقم جمع ہو چکی تھی) وہ پورا نہیں ہوگا آپ

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد 26 206 سال 1970ء مجھے ایک ماہ کی مہلت دیں.میں نے کہا کیسے نہیں جمع ہوں گے جب اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے نکلوایا ہےتو اللہ تعالی ضرور اپنے فضل سے میری بات پوری کرے گا.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب میں وہاں سے روانہ ہوا تو دس ساڑھے دس ہزار پونڈ نقد جمع ہو گیا تھا.الحمد للہ علی ذالک.میرا خیال تھا کہ بہت سے ایسے دوست ہیں کہ جو انتظار کر رہے ہیں کہ میں سپین سے واپس آؤں اور وہ میرے ہاتھ میں چیک دیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح شاید انہیں زیادہ ثواب مل جائے گا.چنانچہ بہتوں نے بڑی قربانی کر کے دیئے بھی تھے.اب بھی میں یہاں سے ایک خط کے ذریعہ سے تحریک کر رہا ہوں میرا خیال ہے کہ اب تک جو گیارہ ہزار سے اوپر نقد جمع ہو چکے ہیں وہ جلد از جلد میں ہزار پونڈ تک پہنچ جائیں تا کہ کسی سیج پر روک پیدا نہ ہو، یہاں سے تو ہم ایک پیسہ بھی باہر نہیں بھیج سکتے.ہمیں حکومت فارن ایکسچینج نہیں دے رہی لیکن یہاں بھی بہت سارے کام ہیں مثلاً یہاں سے جو آدمی جائیں گے ان کے کرایہ وغیرہ پر خرچ ہوگا.میرے خیال میں اگر سارے استاد اور ڈاکٹر چلے جائیں تو اس پر دواڑ ہائی لاکھ روپیہ خرچ ہو جائے گا.بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ یہ رقم Invest کر کے اس کی آمد سے خرچ کیا جائے.یہ میری سکیم نہیں ہے.یہ میرا وہ سرمایہ نہیں ہے جس کی آگے آمد سے افریقہ میں خرچ کرنا ہے بلکہ اس سارے سرمایہ کو لگا دینا ہے اور اگر میں ۴۰ ہیلتھ سنٹر کھولنے میں کامیاب ہو جاؤں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے میرے ساتھ تعاون کرنے کی تو جو ہیلتھ سنٹرز کا تجربہ ہوا ہے اس کے مطابق ایک لاکھ پونڈ سالانہ کی Net Saving بھی ہو سکتی ہے اور اگر ہم اس سرمایہ کو Invest کر دیں گے تو ہمیں دس ہزار پونڈ سالانہ آمد ہوگی لیکن اگر ہم اس سرمایہ کے ذریعہ ہیلتھ سنٹر کھول لیتے ہیں تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے اللہ تعالیٰ اس میں دنیوی لحاظ سے بھی برکت ڈالے گا.آپ اپنے پتے یہاں دے جائیں.آپ میری ان باتوں سے سمجھ گئے ہوں گے کہ جس حد تک ممکن ہوسکتا ہے میں ڈاکٹروں پر کم سے کم بوجھ ڈالنے کی کوشش کروں گا مثلاً اگر کسی کے حالات ایسے ہیں کہ وہ باہر نہیں جاسکتا اور اس نے ہمارے

Page 217

تاریخ احمدیت.جلد 26 207 سال 1970 ء ساتھ پانچ سال کا معاہدہ کر رکھا ہے تو اگر مجھے اس کی ضرورت نہ پڑی تو نہیں بھیجوں گا اور اگر مجھے اس کی ضرورت پڑ گئی تو میں اس کو کہوں گا کہ معاہدے کی شق سے فائدہ اٹھاؤ کہ اگر بیچ میں چھوڑنا ہے تو اتنا ہر جانہ دیدو اور آزاد ہو جاؤ لیکن ایک حصہ بہر حال قربانی کا ہے اگر وہ قربانی نہ ہو تو آپ کو ثواب نہیں ملے گا.میری یہ دعا ہے کہ آپ کو بھی دوسروں کے ساتھ بیحد ثواب ملے لیکن جو باتیں میں نے اخلاص اور دعا وغیرہ کے متعلق کہی ہیں آپ ان کا ضرور خیال رکھیں.ہمارے میڈیکل ہیلتھ سنٹر کا جو ڈاکٹر ہے لوگ اس کو مبلغ بھی سمجھتے ہیں اور آپ کو وہاں جانے سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں اچھی طرح سے پڑھنی پڑیں گی.مثلاً وہاں عیسائیت کے ساتھ مقابلہ ہے یا دہریت کے ساتھ مقابلہ ہے.بعض ملکوں میں تو بڑی بھاری اکثریت مشرکوں کی ہے مثلاً لائبیریا ہے یہاں بہت سے مشرک پائے جاتے ہیں.یہاں کے پریذیڈنٹ ٹب مین تھے، انہوں نے ہمیں سوا یکڑ زمین دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے ڈیڑھ سوا یکٹر زمین دینے کا حکم دیدیا ہے یعنی ڈیڑھ گنا زیادہ ، لائبیریا میں حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ۱۳ فیصدی عیسائی ہیں اور ۲۵ فیصدی مسلمان ہیں اور باقی ۶۲ فیصدی پیکن یعنی مشرک ہیں جو مختلف علاقوں میں مختلف قسم کی رسوم کے پابند ہیں.وہاں کے مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ یہ اعلان غلط ہے ان کے خیال میں ۵۰ فیصد مسلمان ہیں اور ۱۳ فیصدی عیسائی اور باقی مشرک ہیں.میں نے کہا کہ تمہیں حکومت کے خلاف کہنے کی کیا ضرورت ہے، تم کوشش کر کے ۲۵ فیصدی پیکن یعنی مشرکوں میں سے مسلمان بنا لو تو وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے کہ مسلمان اکثریت میں ہو گئے ہیں اور احمدی اگر اتنے ہو جائیں تو غیر احمدی تو آپس کے جھگڑوں میں مبتلا ہیں وہ اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے لیکن اللہ تعالیٰ احمدی کو یہ توفیق دیتا ہے وہ دلیری کے ساتھ اپنے حقوق منوا لیتا ہے.اور لوگ ان کے حقوق دیتے ہیں.انہیں یہ سمجھ ہے کہ اگر احمدیوں کے حقوق مارے گئے تو ہمارے لئے مشکل پڑ جائے گی.اگر ہم ایسے ملکوں میں مثلاً مشرکوں میں سے ۲۵ فیصدی احمدی کر لیتے ہیں تو پھر وہ ملک کی اکثریت ہونے کی وجہ سے حکومت میں اسی نسبت سے

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد 26 208 سال 1970ء اثر ورسوخ بڑھے گا اور ہماری تبلیغ اسلام کا کام بڑا تیز ہو جائے گا.میں نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بھی کہا تھا کہ اسلام کی عیسائیت کے خلاف اصل جنگ اس وقت ویسٹ افریقہ میں لڑی جارہی ہے کیونکہ اسلام کو چھوڑ کر باقی دنیا اس وقت مذہبی لحاظ سے دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک حصے پر دہریت کا لیبل ہے اور دوسرے حصے پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.دہریت والے حصے کو تو چھوڑ دیں کیونکہ انہوں نے مذہب کو خیر باد کہنے کا اعلان کر دیا ہے لیکن جہاں تک عیسائیت کے لیبل کا تعلق ہے یورپ جو کسی زمانے میں عیسائی ہوا کرتا تھا اب عیسائی نہیں رہا.جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں ایک انگریز صحافی کے ایک سوال کے جواب میں میں نے اسے بتایا تھا کہ تمہارے گرجے کے سامنے For Sale کا بورڈ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری نئی پودعیسائیت سے کوئی دلچسپی نہیں لے رہی لیکن ان پر عیسائیت کا لیبل لگا ہوا ہے.اب ویسٹ افریقہ میں عیسائی بڑا زور لگا رہے ہیں کہ وہاں وہ کامیاب ہو جائیں کیونکہ ان کو یہ نظر آرہا ہے کہ یہ تو میں جب مذہب میں چلی گئیں دنیا میں اس کا بڑا اثر ہوگا اور یورپ سے وہ مایوس ہو ہی چکے ہیں.انگلستان سے وہ مایوس ہو چکے ہیں.امریکہ سے وہ مایوس ہو چکے ہیں.صرف لیبل ہے الا ماشاء اللہ.بعض لوگ دیانتداری سے عیسائیت پر ایمان رکھنے والے بھی ہوں گے لیکن ان کی تعداد نسبتاً بہت کم ہے.لیبل والا حصہ بہت زیادہ ہے.اس لئے اب افریقہ میں عیسائیت کیساتھ ہماری جنگ ہو رہی ہے اگر ہم یہ جنگ جیت جائیں تو دوسرے ممالک میں جو عیسائیت کے لیبل والے ہیں ان میں بھی جیت جائیں گے“.142- شہد اور اس کے خواص کے بارے میں حضور انور کے ارشادات مورخه ۵/اکتوبر ۱۹۷۰ء کو حضور انور مسجد مبارک میں نماز مغرب پڑھانے کے بعد قریباً نصف گھنٹہ تشریف فرمار ہے اور احباب کو پر معارف ارشادات سے نوازا.ابتداء حضور نے فصلوں پر جراثیم کش ادویات چھڑ کنے کے بعض مضر اثرات کے متعلق جدید تحقیق پر روشنی ڈالی اور یورپ میں اس

Page 219

تاریخ احمدیت.جلد 26 209 سال 1970ء طریق کے اب متروک ہونے کا ذکر فرمانے کے علاوہ بیماریوں کے علاج کے سلسلہ میں دواؤں کے استعمال میں خاص احتیاط برتنے پر زور دیا اور اس ضمن میں فرمایا کہ خود دواؤں کے ضرورت سے زیادہ استعمال کا صحت پر بہت برا اثر پڑتا ہے.اسی تعلق میں حضور نے شہد کی مختلف اقسام اور ان کی جدا گانہ خاصیتوں کا بہت لطیف پیرائے میں ذکر فرمایا اور اس بارہ میں جدید تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ہر درخت کا نیکٹر (Nectar) اس درخت کا نچوڑ ہوتا ہے اور لکھی جب اس نیکٹر سے شہد تیار کرتی ہے تو اس شہد میں اس درخت کے خواص موجود ہوتے ہیں.مثال کے طور پر نیم کے پھولوں سے حاصل کئے ہوئے نیکٹر (رس) سے جو شہر بنتا ہے وہ بیک وقت میٹھا بھی ہوتا ہے اور نیم کی کڑواہٹ بھی اس میں ہوتی ہے.یہ شہر بہت مصفی خون ہوتا ہے.حضور نے فرمایا کہ کہ مکھیاں پال کر سچی بوٹی کا شہد تیار کرنے کا تجربہ کرنا چاہیئے.ہوسکتا ہے کہ یہ شہد کینسر کے علاج کے سلسلہ میں سچی بوٹی کی نسبت زیادہ مفید ثابت ہو کیونکہ نیکٹر میں جزو بدن بننے کی قدرت نے بہت صلاحیت رکھی ہے.شہد کی صحت بخش تاثیرات کے تعلق میں حضور نے فرمایا کہ جب گزشتہ سالوں میں مجھے اصل بیماری کے طور پر نہیں بلکہ نظام ہضم کی خرابی کی وجہ سے ذیا بیطیس کی شکایت پیدا ہوئی تو ڈاکٹروں نے شہد کے استعمال سے بھی منع کیا لیکن میں برابر شہد استعمال کرتا رہا.ڈاکٹروں سے میں نے کہا میں بدظنی نہیں کر سکتا جب خدا کہتا ہے کہ شہر میں لوگوں کے لئے شفاء رکھی گئی ہے تو میں کیوں اس کے خلاف عمل کروں.چنانچہ میں نے شہد کا استعمال ترک نہ کیا.دس پندرہ روز کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے شوگر کنٹرول میں آگئی اور مرض جاتا رہا.حضور نے انسانوں پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ شہد کی ایک مکھی سات سات آٹھ آٹھ دفعہ ایک پھول پر جا کر بیٹھتی ہے تب کہیں جا کر وہ خشخاش کے ایک دانہ کے برابر نیکٹر حاصل کرتی ہے.اگر مکھی کی اس انتہائی محنت اور مشقت کے پیش نظر اسے ہم ایک مزدور تصور کریں تو ہمیں یہ باور کرنا پڑیگا کہ کم از کم دو ہزار مزدوروں کی محنت شاقہ کے نتیجہ میں ایک چمچہ شہد تیار ہوتا ہے.یہ دو ہزار مزدور اس لئے محنت کرتے اور اس میں لگے رہتے ہیں کہ خدا کا ایک بندہ ایک چمچہ شہد پی کر اس سے فائدہ اٹھائے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل پر جتنی بھی اس کی حمد کی جائے کم ہے.حق یہ ہے کہ اگر ہم دن رات بھی اس کی حمد کرتے رہیں تو کہاں حق ادا ہو سکتا ہے اس کی حمد کا.اس لئے میں تو جب بھی شہد استعمال کرتا ہوں تو نہ صرف بکثرت الحمد للہ پڑھتا ہوں بلکہ ساتھ ہی استغفار بھی کرتا ہوں.143

Page 220

تاریخ احمدیت.جلد 26 210 چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا جاپان کی عالمی کانفرنس سے خطاب سال 1970ء ۱۶ اکتوبر ۱۹۷۰ ء کو حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کیوٹو (Kyoto) جاپان میں منعقدہ مذہب اور امن کے موضوع پر منعقدہ عالمی کانفرنس سے ایک حقیقت افروز خطاب فرمایا جس میں قرآن کریم کی روشنی میں اسلام اور امن کے موضوع پر نہایت بلیغ روشنی ڈالی آپ کے اس خطاب کا مکمل متن رسالہ دی مسلم ہیرلڈ لندن کی اشاعت نومبر و دسمبر ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا.اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ اس سال خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ۱۶ ۱۷ ۱۸ اکتو بر ۱۹۷۰ء کو اپنی مخصوص روایات کے ساتھ منعقد ہوا.مقام اجتماع تعلیم الاسلام کالج کے جنوبی جانب باسکٹ بال گراؤنڈ سے متصل میدان تھا.اس اجتماع کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں شامل ہونے والی مجالس اور خدام کی تعداد گذشتہ تمام اجتماعات سے بہت زیادہ تھی جو خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید ونصرت کا آئینہ دار تھی.اس سال ۴۱۵ مجالس کے ۳۱۸۲ خدام نے حاضر ہونے کی سعادت حاصل کی جس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اظہار خوشنودی فرمایا.اطفال الاحمدیہ کی ۱۲۹ مجالس کے ۲۱۹۹ / اطفال شامل اجتماع ہوئے.مجالس کی یہ تعداد گذشتہ سال سے دوگنی سے بھی زیادہ تھی.اس سال مشرقی پاکستان کے دو اطفال بھی شریک ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نہایت وجد آفرین اور روح پرور افتتاحی خطاب میں فرمایا:.ہمارے محبوب آقا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نسل سے بڑا ہی پیار کیا ہے.اس وقت میں آپ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار اور محبت کا ایک جلوہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ یعنی تیرے نفس کا تیرے پر حق ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ انسان خود ہی اپنے نفس کے حقوق قائم کرے اور پھر ان کے مطالبات شروع کر دے.اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 221

تاریخ احمدیت.جلد 26 211 سال 1970ء اسلام اور قرآن کے ذریعہ نفس کے جو حقوق مقرر کئے ہیں ہر فرد واحد کو ان کا خیال رکھنا چاہیے.اصولی طور پر ہر نفس کا جو حق مقرر کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ رب کریم نے انسان کو جو قوتیں اور طاقتیں عطا کی ہیں ان کی نشو ونما کو کمال تک پہنچایا جائے یعنی اپنے دائرہ استعداد میں کامل و مکمل عبد بن جائے.ان حقوق میں سے فی الوقت میں صرف ایک حق کا ذکر کروں گا اور وہ یہ کہ آپ کا یہ حق ہے کہ آپ بچے اور پکے اور حقیقی خادم بن جائیں.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ خادم بنے کی قوت کو کمال تک پہنچائیں اور اس امر کا پورا خیال رکھیں کہ جذبہ خدمت کی نشو ونما ادھوری نہ رہ جائے.حسب استعداد یہ جذبہ جہاں تک ترقی کر سکتا ہو اس حد تک اسے پہنچانا چاہیے ورنہ نفس پر ظلم ہوگا.جہاں تک اس جذبہ کے نشو وارتقاء کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں بارہ ایسے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے جن سے ایک سچے اور حقیقی خادم کو متصف ہونا چاہیے.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو زندگی کے ایک دور میں حکومت کے بعض افسران اور کارندوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.آپ نے اُس وقت اس امر کا جائزہ لیا کہ ان افسران میں ایک اچھے خادم کے اوصاف پائے جاتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ حضور علیہ السلام یہ دیکھ کر کہ افسر الا ماشاء اللہ ایک اچھے خادم کے اوصاف سے عاری ہیں فرمایا:.میں نے ملازمت پیشہ لوگوں کی جماعت میں بہت کم ایسے لوگ پائے کہ جو محض خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے اخلاق فاضلہ، حلم اور کرم اور عفت اور تواضع اور انکسار اور خاکساری اور ہمدردی مخلوق اور پاک باطنی اور اکل حلال اور صدق مقال اور پر ہیز گاری کی صفت اپنے اندر رکھتے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ارشاد میں جذبہ خدمت کی نشو و نما کے لئے بارہ ایسے اوصاف کا ذکر فرمایا ہے جن سے ایک بچے اور حقیقی خادم کا متصف ہونا ضروری ہے.وہ اوصاف جیسا کہ حضور علیہ السلام کے اس ارشاد سے واضح ہے یہ 144- یہ

Page 222

تاریخ احمدیت.جلد 26 212 سال 1970ء ہیں (۱) خوش خلقی اور خندہ پیشانی (۲) حلم (۳) کرم (۴) عفت (۵) تواضع (۶) انکسار (۷) خاکساری (۸) ہمدردی مخلوق (۹) پاک باطنی (۱۰) اکل حلال (11) سچی بات کہنا (۱۲) پر ہیز گاری.حضور نے اپنی تقریر میں ان بارہ اوصاف پر تفصیل سے روشنی ڈال کر ان میں سے ہر ایک کے حقیقی مفہوم اور اس کے عملی تقاضوں کو بالوضاحت بیان فرمایا اور خدام الاحمدیہ کو اس بارہ میں نہایت زریں ہدایات سے نوازا اور انہیں تلقین فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو ان اوصاف جمیل سے متصف کر کے حقیقی خادم بنیں.بعد ازاں حضور کی یہ انقلاب انگیز تقریر شعبہ تربیت مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے ایک بچے اور حقیقی خادم کے بارہ اوصاف“ کے نام سے شائع کر دی.مجلس اطفال الاحمدیہ سے خطاب حضور نے اجتماع کے دوسرے روز احمدی بچوں ( مجلس اطفال الاحمدیہ مرکز یہ کا اجتماع ” ایوان محمود میں انعقاد پذیر ہوا) سے ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اب وہ زمانہ گذر گیا جب برصغیر کے احمدی بچے سمجھتے تھے کہ دینی روح اور قربانی میں کوئی ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں ایسے بچے پیدا ہو گئے ہیں جو تمہیں زبان حال سے چیلنج دے رہے ہیں کہ ہمارا مقابلہ کرلو.حضور نے بچوں کو متنبہ کیا کہ کہیں ایسانہ ہو کہ اپنی عمدہ تربیت اور قربانیوں کی وجہ سے افریقہ کے بچے تم سے آگے بڑھ جائیں اور تم پیچھے رہ جاؤ.پس اب تمہارے ہوشیار اور بیدار ہونے کا وقت ہے.حضور نے کئی واقعات بیان کر کے واضح فرمایا کہ اب افریقن بچے اپنی تربیت اور سنجیدگی واخلاص میں کسی طرح تم سے کم نہیں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی بچے نیکیوں میں تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں.خدام سے اختتامی خطاب حضور انور کا خدام احمدیت سے اختتامی معرکہ آراء خطاب ایک خاص عظمت و شوکت کا حامل تھا جس کے آغاز میں حضور نے فرمایا کہ میں اپنے عزیز بچوں کو آج زندگی کی بنیادی حقیقت کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں.وہ یہ کہ ہم جو احمدیت کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہم جو خود کو مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کا فرد سمجھتے ہیں، ہم جو اس کی اطاعت کا جو اپنی گردن پر رکھنے والے ہیں جو

Page 223

تاریخ احمدیت.جلد 26 213 سال 1970ء ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین روحانی فرزند تھا جس اکیلے کو آپ نے اپنی امت میں سے کروڑوں اولیاء اللہ میں سے اپنے سلام کے لئے منتخب کیا.ہم اس حقیقت پر قائم ہیں کہ ہم کچھ بھی نہیں.ہمارے مال، ہماری دولت ہماری نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.ہماری جانیں ، ہمارے نفوس ، ہماری قوتیں، ہماری استعدادیں، ہمارے ذہن، ہماری عزتیں غرضیکہ جو کچھ بھی کسی کی طرف منسوب ہوسکتا ہے وہ ہماری طرف منسوب نہیں ہوتا بلکہ ہمارے آقا ﷺ کی ملکیت اور اس کی طرف منسوب ہوتا ہے.فرمایا کہ اس عارضی زندگی میں ہماری حیات اور بقا کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت، عظمت اور جلال دنیا میں قائم ہو.اسی کے لئے ہم زندہ ہیں اور اسی کے لئے اور اسی جدو جہد میں ہم اس دنیا سے گزر جائیں گے اور ہمارے بعد ہماری نسلیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا ہاتھ میں لے کر دنیا میں بلند سے بلند تر کرتی چلی جائیں گے.اس کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی غرض سے ہوا کہ آنے والی نسلوں کی تربیت اس رنگ میں کی جائے کہ وہ بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کے اظہار کے لئے قربانیاں دیتی چلی جائیں لیکن جس طرح انسان کے جسم کو بیماری لگ جاتی ہے اسی طرح بعض اوقات جماعتی جسم کو بھی بیماریاں لگ جایا کرتی ہیں.خدام الاحمدیہ کا بھی ایک جسم ہے اور ایک روح ہے اس کی تنظیم کو بھی بیماریوں کا خطرہ لاحق ہے اور کبھی کبھی اس کی تنظیم بیمار بھی ہوتی رہی ہے حضور نے خدام الاحمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.تین سال (۶۴ تا ۶۶ء) کا عرصہ سخت بیماری کا آپ پر گذرا ہے بیماری کے اس تین سالہ دور کا اگر ہم جائزہ لیں اور اجتماع میں سال بہ سال شمولیت کرنے والی مجالس کے اعداد وشمار پر نگاہ ڈالیں تو پوزیشن یہ بنتی ہے.سال شرکت کرنے والی مجالس کی تعداد سال شرکت کرنے والی مجالس کی تعداد ١٩٦٣ء ۲۱۰ ۱۹۶۷ء ١٩٦٤ء ۲۰۱ ١٩٦٨ء ۱۹۶۵ء (اس سال اجتماع منعقد نہیں ہوا) ١٩٦٩ء ١٩٦٦ء 1+1 ۱۹۷۰ء ۲۲۶ ۲۳۵ ۲۴۷ ۴۰۱

Page 224

تاریخ احمدیت.جلد 26 214 سال 1970ء اس گراف سے عیاں ہے کہ ۱۹۶۶ ء تک اجتماع میں شامل ہونے والی مجالس کی تعداد گرتی رہی تھی حتی کہ ۲۱۰ سے گر کر ۱۹۶۶ء میں یہ تعدادا ارہ گئی تھی.اس کے بعد تین سال تک آپ کو گو یا ہسپتال میں رکھا گیا اور خدا کے فضل سے یہ تعداد بڑھنی شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ ۱۹۶۹ ء تک یہ ۲۴۷ تک جا پہنچی.یہ بتدریج ترقی واضح طور پر صحت کی علامت تھی اس کے بعد میں نے ایک مخلص بچہ کو جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق تو نہ تھا لیکن روحانی تعلق بہت پختہ تھا خدام الاحمدیہ کی صدارت سونپی ( مراد مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب حال وکیل اعلیٰ تحریک جدید ).اللہ تعالیٰ نے اسے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی، اس کی کوششوں میں برکت ڈالی اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمایا.۱۹۷۰ء میں یہ تعداد یکدم ۲۴۷ سے ۴۰۱ تک جا پہنچی ہے.اس لحاظ سے آپ کا یہ اجتماع آپ کے حق میں غسل صحت کا درجہ رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور احسان کو دیکھ کر میرا دل اپنے رب کی حمد سے معمور ہے اور میری روح سے خوشیوں کے دھارے بہہ رہے ہیں.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا.یہ خوشی کا مقام ہے کہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا جسم صحت یاب ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ خلوص نیت کی وجہ سے ہماری کوششوں کو قبول فرمائے گا اور ان کا وہ نتیجہ نکالے گا جو ہم چاہتے ہیں کہ ہماری حقیر کوششوں کا اس کے فضل خاص کے ماتحت نتیجہ نکلے.حضور نے فرمایا لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ جو نتیجہ ہم چاہتے ہیں کہ نکلے وہ تو حید پر پختگی سے قائم ہونے سے نکل سکتا ہے.ضروری ہے کہ ہم تو حید پر اس قدر پختگی سے قائم ہوں کہ شرک کی کوئی ملونی اس میں نہ پائی جائے.سب سے خطر ناک شرک خود اپنے نفس کا شرک ہے.عاجزی کی راہیں اختیار کر کے اور نیستی کا جامہ پہن کر ہم نفس کے شرک اور اس کی ہلاکت آفرینی سے محفوظ رہ سکتے ہیں.جب ہم عاجزی کی راہیں اختیار کریں گے تب ہی غلبہ اسلام کے وہ وعدے ہمارے حق میں پورے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم سے کئے ہیں.غلبہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلال کے قیام سے متعلق خدائی وعدوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے واضح فرمایا کہ غلبہ اسلام کے لئے جس پاک جماعت کی ضرورت تھی اور اس جماعت کے کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لئے جس خدائی تائید و نصرت اور نزولِ برکات کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان سب ضرورتوں کو پورا کرنے کا بھی وعدہ فرمایا.اس ضمن میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات وارشادات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کو قیامت تک غلبہ عطا ہونے اور اس غلبہ کے

Page 225

تاریخ احمدیت.جلد 26 215 سال 1970ء زمین کے کناروں تک وسیع ہونے اور خالص دلی محبتوں کے نفوس واموال میں برکت عطا ہونے سے متعلق خدائی وعدے پڑھ کر سنائے حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ:.یقیناً یا درکھو اور کان کھول کر سنو کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے 145- آگے پہاڑ بیچ ہیں.غرضیکہ حضور نے اپنے خدام اور اپنی پیاری جماعت کو امید و یقین کا پیغام دیتے ہوئے خدائی وعدوں پر پختہ یقین اور زندہ ایمان دلوں میں پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.حضور نے اپنے سفر مغربی افریقہ کے ایمان افروز واقعات بیان کر کے اور اس کے نتیجہ میں نازل ہونے والی غیر معمولی برکات پر روشنی ڈال کر ان وعدوں کے پورا ہونے کو بہت ہی جلالی انداز میں واضح فرمایا.خدائی وعدوں کے پورا ہونے اور ان کے مہتم بالشان عملی ظہور کا یہ تذکرہ جمیل اس قدر ایمان افروز اور روح پرور تھا کہ ہزاروں ہزار سامعین فرط مسرت سے جھوم اٹھے اور وہ خدا تعالیٰ کے ہر نئے فضل اور انعام کا روح پرور ذکر سن کر وقفہ وقفہ سے بار بار پُر جوش نعرے بلند کرتے رہے.اس ولولہ انگیز و پر اثر خطاب کے بعد حضور نے خدام سے عہد دُہر وایا.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس اجتماعی دعا کا منظر بھی ایک عجیب روحانی کیفیت سے معمور تھا.کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اسلام کی سر بلندی و غلبہ کے لئے اشکبار نہ ہو اور کوئی دل ایسا نہ تھا جو خدا تعالیٰ کی توحید اور عظمت و جلال کے قیام کے لئے مرغ بسمل کی طرح تڑپ نہ رہا ہو.دعا کے بعد حضور نے خدام کو بلند آواز سے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہتے ہوئے نہایت محبت و شفقت کے ساتھ رخصت فرمایا.اس طرح یہ خدائی تائید و نصرت پر مشتمل خدام الاحمدیہ کا اٹھائیسواں سالانہ اجتماع اختتام پذیر ہوا.فالحمد للہ علی ذالک.اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 146 انہی تاریخوں میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا کامیاب سالانہ اجتماع ہوا.امسال لجنات اور ناصرات کی تعداد میں نمایاں اضافہ تھا.مجموعی تعداد دوران اجتماع قریباً ۴۰۰۰ رہی.۱۴۷ بیرونی مقامات سے ۱۰۶۵ مستورات تشریف لائیں.نائیجیریا، غانا، ابوظہبی ، عدن اور قطر کی لجنات کی ممبر خواتین کو بھی شامل اجتماع ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.اس اجتماع کی امتیازی خصوصیت یہ تھی کہ اس کے دوسرے

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد 26 216 سال 1970ء روز (۱۷ اکتوبر ) کوسیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں حضرت سیّدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے دنیا بھر کی احمدی مستورات کی ترجمانی کرتے ہوئے حضور پُر نور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش فرمایا جس میں سفرا افریقہ سے کامیاب مراجعت پر مبارکباد پیش کی.اور پھر رب کریم کے ان غیر معمولی افضا کا تذکرہ کیا جواس کے دوران اور اس کے بعد ظاہر ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب.سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے سپاسنامہ کے بعد ایک نہایت روح پرور تقریر فرمائی جس کے شروع میں اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ آپ بہنوں کی طرح میرا دل اور سینہ اور روح بھی اپنے رب کی حمد سے معمور ہیں.ایک مختصر سے وقفہ میں افریقہ کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے جن بے شمار رحمتوں اور فضلوں کے جلوے دکھائے ان کا شمار نہیں اور جس پیار کے ساتھ راہنمائی فرمائی اس کی حد ممکن نہیں.ہم سب اللہ تعالیٰ کے عاجز بندے ہیں اور اسی کی حمدوثنا میں اپنی زندگی کے اوقات گزارتے ہیں.خدا کرے کہ ہم ہمیشہ ہی اس کی محبت اور پیار کے حقدار اور وارث بنے رہیں.حضور نے ان تمہیدی کلمات کے بعد ارشاد فرمایا کہ قرون اولیٰ کی مسلم مستورات نے اللہ تعالیٰ کے اس پیار کو اس لئے حاصل کیا کہ وہ اپنے رب و دود کی محبت اور اس کے عشق میں فنا تھیں.دنیا کی طرف انہیں نہ کوئی توجہ تھی اور نہ کوئی رغبت تھی.کئی دنوں کی بچھڑی ہوئی بیوی اپنے خاوند کو گھر میں گھنے نہیں دیتی تھی اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے.وہ کہتی تھی جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لئے تشریف لے جاچکے ہیں.تمہیں میری محبت سے زیادہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے.چنانچہ اپنے اس خاوند کو جس سے ملے ہوئے اسے کئی دن گذر گئے ہوتے تھے اسے جنگ کی آگ میں دھکیل دیتی تھی اور نہیں جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کے خاوند کو شہادت کی خلعت عطا کرے گا یا زندگی کی مسرتیں.وہ ایسا کیوں کرتی تھی؟ اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت پر کسی اور کی محبت کو ترجیح نہیں دینا چاہتی تھی.اس کے دل میں اللہ ہی اللہ تھا اور اللہ تعالیٰ تو بڑا قدردان ہے.وہ ایسی روح اور ایسے دل سے بڑا پیار کرتا تھا.انہوں نے اپنے رب کی محبت کو اس لئے پایا کہ وہ ہمیں اس دنیا کی مخلوق نہیں نظر آتی تھیں وہ تو آسمانی حوریں تھیں جو اس زندگی کے دن گن گن کر گزار رہی ہوتی تھیں اس انتظار میں کہ وہ زیادہ ظاہری طور پر زیادہ کھلے طور پر اخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے پیار کے جلوے دیکھیں.

Page 227

تاریخ احمدیت.جلد 26 217 سال 1970ء 147 اس کے بعد حضور نے قرنِ اوّل کی مسلمان خواتین کی شجاعت اور بسالت کے بعض حیرت انگیز واقعات کا تذکرہ کیا اور اس ضمن میں خاص طور پر حضرت عمر فاروق کے عہد مبارک کے معرکہ دمشق کے دوران ضرار کی بہن خولہ بنت ازور کی بے مثال مردانگی اور جرات کو خراج تحسین ادا کیا چنانچہ بڑی تفصیل کے ساتھ بتایا کہ دمشق (دمشق کی فتح جو پورے ملک شام کی فتح کا پیش خیمہ تھی ۴ انجری ۶۳۵ء میں ہوئی ) کا محاصرہ تھا.رومی بادشاہ نے اہل دمشق کو مدد پہنچانے کے لئے ( تعداد صحیح صحیح یاد نہیں ) ۱۵ سے ۳۰ ہزار کی فوج بھجوائی.یہ کافی بڑی فوج تھی.حضرت خالد بن ولید اسلامی فوجی کے سپہ سالار تھے.انہوں نے اس فوج کا راستہ روکنے کے لئے ضرار کی سرکردگی میں ایک مختصر سا مسلمانوں کا دستہ بھیجا انہوں نے بجائے راستہ روکنے کے اور حضرت خالد بن ولید کو اطلاع دینے کے کہ اس طرح دشمن کی ایک بڑی فوج آ رہی ہے خود ان سے لڑنے لگ پڑے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا کافی نقصان ہوا اور خود ضرار دشمن کی قید میں آگئے.ان کی گرفتاری پر رومیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہمارے لئے دور استے کھلے ہیں یا تو ہم انہیں قتل کر دیں اور ان کا سر اپنے بادشاہ کے پاس بھیج دیں.وہ بڑا خوش ہوگا یا پھر اسے زندہ ہی بادشاہ کے پاس بھیج دیں.اگر ہم انہیں زندہ بادشاہ کے پاس بھیج دیں گے تو وہ زیادہ خوش ہوگا کہ ضرار جیسے بہادر اور نڈر انسان کو زندہ پکڑ کر میرے پاس بھیجا ہے.جب حضرت خالد بن ولید کو اس واقعہ کا پتہ لگا تو وہ مزید کمک لے کر وہاں پہنچے.یہ جگہ دمشق سے کوئی دس بارہ میل کے فاصلے پر تھی.وہ صف آراء ہو کر لڑائی کی تیاری کر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک گھڑ سوار سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا مسلمانوں کی صفوں میں سے نکلا ہے اور ان کے قریب سے اپناگھوڑا تیز دوڑاتے ہوئے نکل گیا ہے.اس نے زرہ پہن رکھی تھی اس کے سر پر پگڑی تھی اور اس نے ایک بڑی شال اپنے منہ پر اس طرح لپیٹی ہوئی تھی کہ اس کی صرف دو آنکھیں نظر آتی تھیں اس کے سر پر خود نہیں تھی.اس کے ہاتھ میں ایک لمبا سا نیزہ تھا اور پہلو میں ایک تلوار لٹکی ہوئی تھی اس سوار کے پاس یہی دو ہتھیار تھے.وہ بجلی کی طرح حضرت خالد بن ولید کے پاس سے گذر گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں کی ایک صف میں گھس گیا اور نیزے کے وار کے ساتھ ایک رومی کو مار گرایا پھر وہ سوار وہاں ٹھہرا نہیں اپنا گھوڑا دوڑا تا ہوا دوسری طرف نکل گیا اور وہاں بھی اپنے نیزے سے ایک رومی کو گرا دیا.ادھر خالد اپنی فوج کی صف آرائی میں مصروف تھے انہوں نے زیادہ توجہ نہیں دی.لیکن ان کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ کیسا سوار ہے جس نے میرے حکم کا انتظار نہیں کیا اور دشمن پر حملہ آور ہو گیا ہے.اتنے

Page 228

تاریخ احمدیت.جلد 26 218 سال 1970ء میں جب وہ صف آرائی سے فارغ ہوئے تو اس عرصہ میں یہ سوار خدا جانے کتنے رومیوں کو مار چکا تھا.بالآخر حضرت خالد بن ولید نے اس سوار کو آواز دی کہ ٹھہر جاؤ لیکن یہ نہیں رکا.چند آدمی اس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ تمہیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے.سپہ سالار تمہیں ٹھہرنے کا حکم دے رہا ہے اور تم اس کی طرف توجہ نہیں کر رہے لیکن اس نے سنا آن سنا کر دیا اور گھوڑے کو ایڑی لگائی اور ایک اور رومی کو قتل کر دیا اور پھر جیسا کہ اس نے قاعدہ بنایا ہوا تھا کہ پہلے ایک حصے پر حملہ آور ہوتا تھا اور پھر دوسرے حصہ پر.چنانچہ جب وہ پھر حضرت خالد بن ولید کے پاس سے گذرتا ہوا دوسرے حصے کی طرف بڑھ رہا تھا تو انہوں نے کہا کہ اے سوار ٹھہرو! میرا حکم ہے.اس نے بڑی مشکل سے گھوڑے کی لگا میں کھینچیں اور گھوڑا کھڑا کیا اور واپس آیا.حضرت خالد بن ولید نے کہا کہ اس وقت تم نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اور ایثار اور فدائیت کا جو شاندار نمونہ دکھایا ہے ہمارے دل تمہاری قدر سے معمور ہو چکے ہیں ہم نے دیکھ لیا ہے کہ تم بڑے بہادر ہو، تم بڑے نڈر ہو، تم بڑے فدائی ہو اور تم اسلام کے لئے اپنی جان قربان کرنے کیلئے تیار ہو.ابھی فوج تیار نہیں ہوئی تھی کہ تم نے جا کر حملہ کر دیا لیکن اب کافی ہو چکا ہے تم ہمارے ساتھ آملو.اور اپنا چہرہ تو ذرا دکھاؤ.تم ہو کون؟ حضرت خالد بن ولید اس کا جواب سن کر حیران رہ گئے.اس سوار نے یہ جواب دیا کہ میں اپنا منہ نگا نہیں کر سکتی کیونکہ میں ایک مسلمان عورت ہوں.میرے اوپر حیا کی نقاب بھی پڑی ہوئی ہے.میں نے اپنا سر اسی لئے باندھا ہوا ہے اور میں ضرار کی بہن ہوں دنیا نے اس دل کی قدر کو نہیں پہچانا اور یہ سمجھا کہ اپنے بھائی کی محبت میں اس نے اس طرح مردانہ وار حملہ کیا.لیکن حقیقت اس کے برعکس تھی.اس کے دل میں تو یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میرا بھائی تو قربان تھا اسلام پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر.اور اس کا ایک خوف طاری تھا رومیوں پر.وہ اس کو پکڑ کر لے گئے ہیں اور انہیں یہ ٹرافی یعنی یہ انعام کے طور پر مل گیا ہے یہ اُن کے پاس نہیں رہنا چاہیے.یہ ہمیں واپس لینا چاہیے.پس یہ تھی مسلمان عورت جو اللہ تعالیٰ کا بے پناہ پیار لیتی تھی.اسی تسلسل میں حضور نے جنگ دمشق میں ایک اور مسلم خاتون کی جانثاری اور فدا کاری کا واقعہ اپنی زبان مبارک سے درج ذیل الفاظ میں بیان فرمایا :.اسی جنگ میں ایک نوجوان کی شادی ہوئی.ابھی اس نو بیاہتا جوڑے کی خوشیوں کے دو تین دن گزرے تھے کہ خاوند جنگ میں شہید ہو گیا.بیوی نے اپنے خاوند کا سوگ منانے کے لئے اپنی آہوں کو بلند نہیں کیا بلکہ اپنے خاوند کی جگہ لینے

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد 26 219 سال 1970 ء کیلئے کھڑی ہوئی.کیونکہ اسے پتہ تھا کہ مسلمان تعداد میں تھوڑے ہیں اور دشمن تعداد میں کہیں تین گنا، کہیں چار گنا کہیں پانچ گنا بلکہ کہیں تو چھ گنا زیادہ تھا اس نے سوچا کہ اگر اسی طرح مسلمان مارے گئے اور ان کی جگہ لینے والا کوئی نہ ہوا تو کمزوری پیدا ہو جائے گی.چنانچہ اس نے اپنے خاوند کی شہادت پر نوحہ کرنے کی بجائے اور آہ وفغاں کی آواز بلند کرنے کی بجائے تیر کمان اپنے ہاتھ میں پکڑا اور میدان جنگ میں اتر گئی.تین دن کی بیا ہتا کم عمر بچی تھی وہ مگر اس کے دل میں ایک جذبہ اور ایک جوش تھا، خدا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک محبت تھی وہ وہاں جا کر دعائیں کرتی ہوگی کہ اے خدا! میں کمزور اور ابھی کل کی دلہن ہوں.عمر کے لحاظ سے کم اور جنگ کا مجھے کوئی تجربہ نہیں.میں نے تیرے لئے تیر اور کمان کو اٹھایا ہے تو میرے نشانے میں برکت ڈال.یہ تھیں اس وقت کی دعا ئیں.جس وقت وہ تیر کمان لے کر تیراندازوں کی صفوں میں شامل ہوئی ( تیر اندازوں کی صفیں اور ہوتی تھیں.ان کا کام ہی اور تھا.جب یہ تیر اندازوں کی صفوں میں شامل ہوئی) تو کسی کو کوئی پتہ ہی نہیں تھا کہ ایک عورت ہمارے اندر آ کر شامل ہو گئی ہے کیونکہ اس وقت جنگ ہورہی تھی.اس چند دن کی بیاہتا بیوہ کی دلی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے سنا اور اس کے پیار کو دیکھا تو اس پر بڑا فضل کیا چنانچہ پہلا تیر جو اس نے چلایا وہ اس پادری پر چلایا جو دمشق کی فصیل کے اوپر بڑی لمبی صلیب لے کر کھڑا تھا اور مسلمانوں کے خلاف رومی سپاہیوں کو جوش دلا رہا تھا.چنانچہ اس عورت کا تیر نشانے پر بیٹھا اور وہ پادری صلیب سمیت فصیل پر سے مسلمانوں کی طرف آ گرا.جس سے رومیوں کے دل بیٹھ گئے.کیونکہ صلیب ان کی گرگئی پادری ان کا مارا گیا.پھر ان کا جو سپہ سالا رتھا ٹامس وہ ایک دن با ہر نکلا اور قریب تھا کہ اس دروازے پر جو مسلمان جرنیل تھا وہ اس پر حملہ کر دے کہ اچانک ایک تیر اس کی آنکھوں میں آکر لگا اور وہ گر گیا.یہ اسی چند دن کی بیاہتا بیوہ کا تیر تھا.اسی طرح اس نے اپنی دعاؤں کے زور سے، اپنی محبت کے جوش میں، جو اس کے دل میں سمندر کی طرح موجزن تھی یا اس آگ کے احساس کے نتیجہ میں جو غیر کی محبت کو جھلس دیتا اور صرف اللہ کی محبت سے انسان کا دل معمور ہو جاتا ہے وہ

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد 26 220 سال 1970ء دعائیں کرتی تھی اللہ تعالیٰ اس کی دعاؤں کو قبول کرتا تھا اور اس سے پیار کرتا تھا.ی تھی مسلمان عورت.دو تین دن کی بیاہتا ہے.میدان جنگ میں شادی ہوتی ہے خاوند جنگ میں مصروف ہے اور پھر شہید ہو جاتا ہے دنیا کہہ سکتی ہے کہ اس نے دنیا میں اپنی امنگوں کو پورا ہوتے نہیں دیکھا مگر اس نے تو یہ نہیں کہا.اس نے تو یہ کہا کہ میں نے اپنے بہشت کو پا لیا.میرا خاوند خدا کے قول کے مطابق ابدی حیات کی آغوش میں چلا گیا اور میں اس کے پیچھے پیچھے جاؤں گی.خاوند بھی خدا اور رسول کی محبت میں مست اور بیوی بھی خدا کی محبت میں مست اور عشق رسول کی آگ میں جل رہی تھی یہ تھی اس زمانے کی مسلمان عورت جس نے خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کیا ایسے ہی تو نہیں اللہ تعالیٰ اپنی محبت دیتا کہ جو مرضی کرتے رہو اور پھر بھی تمہیں اس کی محبت حاصل ہو.بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان جس طرح مردوں پر تھا اسی طرح عورتوں پر بھی تھا اور جس طرح مردوں نے اس حقیقت کو پہچانا کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران : ۳۲) کہ اگر اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو اتباع محمد صلی اللہ علیہ وسلم ضروری ہے.اسی طرح اس وقت کی عورت نے بھی یہی سمجھا کہ خدا تعالیٰ کا پیار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ انہوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کیا اور آپ کے اسوہ کو اپنایا اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق آپ نے جن چیزوں سے روکا ان سے وہ رکیں اور جن چیزوں کے لینے کی تاکید کی انہیں لے لیا اور پھر انہیں اتنی مضبوطی سے پکڑا کہ دنیا کی ساری سیمپٹیشن (Temptation) یعنی دنیا کی طرف جو میلان تھا وہ سب کچھ جل کر خاک ہو گیا.وہ خدا کی بندیاں بن گئیں وہ آپس میں پیار کرنے والیاں اور راتوں کو اپنے رب کے ذکر میں مشغول رہنے والیاں تھیں.ان کی زبان بھی پاک تھی.ان کی زبان پر کوئی لڑائی جھگڑا یا گالی گلوچ نہیں تھی.ان کی نگاہیں بھی پاک تھیں، ان کے جسم بھی پاک تھے، ان کے دل بھی پاک اور مطہر تھے.اس تظہیر کے نتیجہ میں اس پاکیزگی کی وجہ

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد 26 221 سال 1970ء سے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیار کو کچھ اس طرح حاصل کیا کہ جس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا.اللہ تعالیٰ انہیں اسی طرح بشارتیں دیتا تھا جس طرح مر دوں کو دیتا تھا.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر اسی طرح نازل ہوتے تھے جس طرح مردوں پر نازل ہوتے تھے.جس طرح مرد اور عورت کے دل میں خدا اور رسول کے لئے محبت میں کوئی فرق نہیں تھا اسی طرح اللہ کے پیار میں بھی مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں تھا سارے ہی اس کے عاشق بندے اور بندیاں تھیں.سارے ہی اس کی محبت اور رضا کے مستحق اور اس کی رضا کو پانے اور اس کی رحمتوں کے جلوے دیکھنے والے تھے.جس طرح مردوں کی دعائیں قبول ہوتی تھیں اسی طرح عورتوں کی دعائیں بھی قبول ہوتی تھیں.کیا مخلوق تھی یہ ؟ انسان سوچتا ہے اور حیران ہوتا ہے.مرد بھی ایسے عورتیں بھی ایسی کہ دنیا نے ہزار کوشش کی مگر ان کی توجہ کو اپنی طرف نہیں پھیر سکی.اس لئے کہ جس محبت میں وہ مست تھے اس کو چھوڑنے کے لئے وہ تیار نہیں تھے.پس قرون اولیٰ کی مسلمان مستورات نے اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار اور عشق کے جو نمونے دکھائے ہیں پہلی امتوں میں سے کسی گروہ نے وہ نمونے نہیں دکھائے“.حضور نے اپنے اس پر اثر اور ولولہ انگیز تقریر کے دوسرے حصہ میں خواتین احمدیت کو ایک زبر دست اختباہ بھی کیا.چنانچہ فرمایا:.اس وقت میں آپ کو ایک تنبیہ بھی کرنا چاہتا ہوں.آج سے کچھ عرصہ پہلے مثلاً ۱۹۴۵ء کا زمانہ لو اور اس وقت امت محمدیہ کے غلبہ کے لئے اور ایک مضبوط جماعت کو قائم کرنے کے لئے اور دلوں کے یقین کو پختہ اور مستحکم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے پیار کے جو جلوے جماعت احمدیہ کو دکھا رہا تھا وہ زیادہ تر صرف برصغیر پاک و ہند تک محدود تھے.شاذ کوئی بیرونی جماعتیں تھیں ان کو بھی دکھا تا تھا لیکن زیادہ تر برصغیر کی جماعتیں تھیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضا کے جلوے دیکھتی تھیں.اس لئے آپ کا مقابلہ کسی سے نہیں تھا اور اگر آپ کو اللہ تعالیٰ کا تھوڑا فضل بھی مل جاتا تھا تو آپ نہ یہ اندازہ کر سکتی تھیں کہ ہمیں جو ملنا تھا وہ ملا یا نہیں ملا اور بڑی خوش ہو جاتی تھیں.آپ غیر کو دیکھتی تھیں اور اس کے مقابلے میں خود کو زیادہ خوش

Page 232

تاریخ احمدیت.جلد 26 222 سال 1970 ء قسمت پاتی تھیں اور جو آپ کو اللہ کا پیار اس سے غیر کو محروم پاتی تھیں تو ایک قسم کا اطمینان ہو جاتا تھا.ایک قسم کی سستی واقع ہو جاتی تھی.آپ سمجھتیں کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس سے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس میں شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کا تھوڑا پیار بھی بہت ہے جسے اللہ تعالیٰ کا تھوڑا سا پیار بھی مل گیا گویا اسے ساری دنیا مل گئی.بہر حال شروع میں آپ کا کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں تھا یعنی پہلی نسل میں کوئی آپ کے مقابلے پر نہیں تھا.دوسری نسل میں کمزوری پیدا ہو گئی.اب آپ کو جھنجھوڑنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے رقیب بڑی کثرت سے پیدا کر دئے ہیں یہ افریقہ کی جماعتوں کی عورتیں پیچھے سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے آئی ہیں ابھی آپ تک نہیں پہنچیں لیکن اگر آپ نے سستی دور نہ کی اور اپنے گھوڑوں کو ایڑی نہ لگائی اور انہیں وہپ (Whip) (چابک) سے تیز نہ کیا تو وہ آپ سے آگے نکل جائیں گی.پہلے آپ کے ساتھ آملیں گی اور پھر آپ سے آگے نکل جائیں گی.میں اس افریقی بہن کا پہلے ذکر کر چکا ہوں جس نے ۳۵/ ۳۰ ہزار پونڈ جس کا مطلب یہ ہے کہ چھ سات لاکھ روپیہ خرچ کر کے اجے بوادڈے میں جامع مسجد تعمیر کروائی ہے.ہماری یہ احمدی بہن دیگر چندے بھی دیتی ہے ان کے علاوہ ایک مسجد کے لئے چھ سات لاکھ روپیہ خرچ کر دیا.میں ذاتی طور پر یہاں ایسی احمدی مستورات کو جانتا ہوں البتہ وہ تھوڑی ہیں گنتی کی چند ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ اگر وہ چاہیں تو ان میں ایک ایک عورت چھ چھ سات سات لاکھ روپے چندہ دے سکتی ہے مگر وہ نہیں دے رہیں افریقہ میں عورتوں نے اتنی رقم چندہ میں دینا شروع کر دی ہے.اس میں شک نہیں ہے کہ مجموعی طور پر ابھی ان کی تربیت ایسی نہیں ہوئی کہ جتنی مجموعی طور پر آپ کی ہو چکی ہے لیکن ان کی تربیت ہو رہی ہے اور وہ تربیت قبول کرنے کے لئے آپ سے زیادہ سنجیدہ ہیں.یہ ایک حقیقت ہے میں اس سے انکار نہیں کرتا.ساڑھے تین سال کی ایک بچی اس کو پوری عقل نہیں ہے دو تین گھنٹے جلسے میں اس طرح بیٹھی رہی کہ اس نے اپنی ٹانگ تک نہیں ہلائی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن اس کے دل کے اندرفرشتے نے کہا آرام سے سنجیدگی سے بیٹھو اور برکت حاصل

Page 233

تاریخ احمدیت.جلد 26 223 سال 1970ء کرو.آپ کے دس سال کے بچے بچیاں کیا اس طرح سنجیدگی کے ساتھ عام طور پر بیٹھتے یا بیٹھ سکتے ہیں؟ میرے نزدیک جواب نفی میں ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آپ سے آگے نکل گئیں بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ انتہائی سنجیدگی سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آپ سے آگے نکل جائیں جس وقت اللہ کی محبت کے جوش میں ایثار اور قربانی میں خدا کی راہ میں زندگیوں کو فنا کر کے وہ خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول میں اپنے نفوس کے گھوڑوں کو ایڑیاں لگاتے ہوئے خولہ کی طرح بجلی کی مانند آپ سے آگے نکل گئیں تو خدا تعالیٰ انہیں آپ سے زیادہ پیار دے گا.آپ کی خدا تعالیٰ سے نہ کوئی رشتہ داری ہے اور نہ اجارہ داری تم جتنی اپنے رب سے محبت کرو گی اتنے فضل اس سے حاصل کر لو گی.جتنی اس کی راہ میں قربانیاں دو گی اتنے اس سے انعام حاصل کر لو گی.150 لوگی“.اجتماع مجلس انصاراللہ مرکزیہ انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ۲۳، ۲۴، ۲۵ اکتوبر کو دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے وسیع احاطہ میں ذکر الہی اور انابت الی اللہ کے روح پرور ماحول میں منعقد ہوا.خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے مرکزی اجتماعات کی طرح اس اجتماع کی حاضری میں بھی گذشتہ سال کی نسبت غیر معمولی اضافہ ہوا.چنانچہ مشرقی اور مغربی پاکستان کی ۴۶۵ مجالس کے ۹۲۵ نمائندگان، ۱۷۷۵ راراکین اور ۶ ۲۱۵ زائرین نے شرکت کی.اس موقع پر مبنی سے محمد رمضان صاحب اور مشرقی پاکستان سے مولوی محمد صاحب (امیر جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان ) بھی موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے ولولہ انگیز افتتاحی خطاب میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معرفت اور بصیرت سے لبریز ارشادات کی روشنی میں بتایا کہ آئندہ نسلوں کی تربیت ہماری عظیم ذمہ داری ہے اور اس کو ادا کرنے کے لئے ایمان کے درج ذیل چار بنیادی تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے.ا.خالص ایمان جس میں دنیا کی کسی قسم کی ملونی نہ ہو.۲.جو ہر قسم کے نفاق سے پاک ہو.۳.کسی قسم کی بزدلی سے آلودہ نہ ہو.۴.اس میں کامل اطاعت کا رنگ پایا جا تا ہو.

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد 26 224 سال 1970ء حضرت اقدس نے احباب جماعت کو اس نہایت اہم امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ غلبہ دین کے سلسلہ میں اپنی کوششوں کو ہر لمحہ اور ہر آن تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں.ہمارا ہر قدم ہمیشہ آگے کی طرف ہی اٹھے نہ کہ پیچھے کی طرف.ہمیں قیامت تک یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہر سال خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے اجتماعات میں شریک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے نیز فرمایا کہ خدام کی تربیت اس اعتبار سے انصار کے ذمہ ہے کہ اکثر و بیشتر خدام انصار کے اپنے بیٹے ہیں اور اسلام نے ہر باپ کو اپنے بیٹے یا بیٹوں کی تربیت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے بعض باپ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ اولاد کی تربیت کے وہ خود ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ یہ ذمہ داری خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی ہے کہ وہ نو جوانوں کی تربیت اور اصلاح کا فریضہ انجام دے.حضور نے انصار کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا یہ خیال ہرگز درست نہیں ہے پہلی اور اصل ذمہ داری تو باپ کی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی تربیت کا ہر طرح خیال رکھے.اس لئے انصار اللہ کے رکن ہونے کی حیثیت میں بطور باپ اپنے بیٹوں کی تربیت آپ کی ذمہ داری ہے.تربیت اولاد کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے حضور نے مزید فرمایا کہ جو لوگ لمبا عرصہ احمدیت میں رہے ہیں اور انہیں براہ راست تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا ہے آئندہ نسلوں کی تربیت کرنے کا بوجھ زیادہ تر ان پر ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد کے زمانہ میں اسلام کا جو غلبہ انقلاب عظیم کی صورت میں ظاہر ہوا اس کی جان وہ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست تربیت یافتہ تھے بعد میں وہ نئی نسلوں کی اس رنگ میں تربیت کرتے چلے گئے کہ نئی نسلیں بھی غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں دیتی چلی گئیں اس کے ثبوت میں حضور نے جنگ یرموک کے موقع پر صحابہ کرام اور ان کے زیر اثر نئی نسلوں کے تربیت یافتہ نو جوانوں کی قربانیوں اور ان کے سنہری کارناموں کا بہت ہی مسحور کن انداز میں ذکر فرمایا اور انصار اللہ کونئی نسلوں کی تربیت کے ضمن میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف بہت پر اثر انداز میں توجہ دلائی.حضور کی اس روح پرور اور بصیرت افروز تقریر نے جو قریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہی احباب پر وجد کی کیفیت طاری کر دی.مرکزی تنظیموں کی طرف سے یادگار استقبالیہ تقریب ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۰ء کو جماعت احمدیہ پاکستان کی مرکزی تنظیموں ( صدرانجمن احمدیہ، انجمن احمدیہ تحریک جدید ، انجمن احمد یہ وقف جدید فضل عمر فاؤنڈیشن مجلس انصار اللہ مرکز بیاورمجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ) کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے لہی سفر مغربی افریقہ سے کامیاب اور 151

Page 235

تاریخ احمدیت.جلد 26 225 سال 1970ء غیر معمولی برکتوں اور فضلوں سے معمور مراجعت پر ایک نہایت وسیع پیمانہ پر استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.اس تاریخی اور یادگار تقریب کا انعقاد جامعہ احمدیہ کے وسیع وعریض میدان میں ہوا اور اس میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، جماعت ہائے احمدیہ کے جملہ صوبائی ، علاقائی اور تمام ڈویژنوں اور اضلاع کے امراء صاحبان ،انصار اللہ کے ناظمین اعلیٰ و زعماء اعلیٰ اور خدام الاحمدیہ کے جملہ قائدین اضلاع خاص طور پر مدعو تھے.ربوہ کے محلہ جات کی مجالس اطفال الاحمدیہ کے ایک ایک نمائندہ کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقع دیا گیا نیز مجلس انصار اللہ ربوہ اور مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے جملہ اراکین نے بطور میز بان شرکت کی.حضور کی حرم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں تہنیت اور مبارکباد پیش کرنے اور خیر مقدم کرنے کے لئے اسٹیج کے پہلو میں ایک علیحدہ باپردہ شامیانہ نصب کیا گیا تھا.مستورات کی اس محفل میں حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ، ام متین حضرت سیّده مریم صدیقہ بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دیگر خواتین مبار کہ نیز لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی عہدیدار اور نمائندہ خواتین تشریف رکھتی تھیں.مہمانوں کی نشست کا اہتمام ہزاروں مہمانوں کو بٹھانے اور انہیں حضور کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر شریک طعام ہونے کی سعادت سے بہرہ ور کرنے کے لئے خصوصی انتظامات کئے گئے تھے.جامعہ احمدیہ کے وسیع وعریض میدان میں سے ایک لاکھ بیس ہزار (۴۰۰×۳۰۰) مربع فٹ کے ایک قطعہ کو صاف کرنے اور ٹینکر کی مدد سے اس پر چھڑکاؤ کرنے کے بعد خوبصورت قناتوں ، دروازوں، جھنڈیوں، بجلی کی ٹیوبوں اور رنگ برنگ قمقموں سے اسے آراستہ کیا گیا تھا اس وسیع و عریض قطعہ کے مغربی جانب ۳۶ فٹ لمبا اور ۱۸ فٹ چوڑا بہت اونچا اسٹیج تعمیر کیا گیا تا کہ جب حضرت امام عالی مقام اس پر رونق افروز ہوں تو دور بیٹھے ہوئے احباب بھی حضور کی زیارت سے شرفیاب اور شاد کام ہوسکیں.اس پورے احاطہ میں مہمانوں کو صاف ستھری در یوں پر لمبی لمبی قطاروں میں اس طرح بٹھایا گیا کہ سب کا رخ اسٹیج کی جانب تھا.ان قطاروں کے درمیان وسیع راستے بنائے گئے تھے تاکہ منتظمین اور معاونین آسانی اور سہولت کے ساتھ آجا سکیں.اسٹیج کے عین سامنے احاطہ کے مشرقی سرے پر منارة ا مسیح کا ایک خوشنما ماڈل تیار کیا گیا تھا.جو زمین سے ۳۰ فٹ بلند تھا.سارا منارہ بجلی کے رنگ برنگ

Page 236

تاریخ احمدیت.جلد 26 226 سال 1970ء قمقموں سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا.علاوہ ازیں جامعہ احمدیہ کی پوری عمارت ، درختوں اور روشوں کے ساتھ ساتھ باڑ کی شکل میں اُگے ہوئے پودوں پر بھی چراغاں کا خصوصی اہتمام تھا اور یہ سارا علاقہ سلیقہ اور نظافت کے ساتھ سجا ہوا تھا.اس احاطہ کی بڑی آرائشی محراب پر مغربی افریقہ کے ان چھ ممالک نائیجیریا.گھانا.آئیوری کوسٹ.لائبیریا.گیمبیا.سیرالیون ) کے نام علیحدہ علیحدہ تختیوں پر لکھ کر آویزاں کئے گئے تھے.حضور کی معیت میں اسٹیج پر حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر، صدر انجمن احمدیہ، حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ علالت طبع کے باعث آپ تشریف نہ لا سکے)، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید وصدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ، شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر مجلس وقف جدید، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن ، چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ، مولوی محمد صاحب امیر مشرقی پاکستان، مرزا عبدالحق صاحب امیر صوبہ پنجاب اور مولوی محمد عرفان صاحب امیر صوبہ سرحد کے لئے نشستیں مخصوص کی گئی تھیں.اسٹیج کے نیچے وسیع احاطہ کی ۳۵ قطاروں میں سے پہلی دو قطار میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمبران صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید، وقف جدید ، فضل عمر فاؤنڈیشن نیز اراکین مجلس عاملہ انصار اللہ مرکزیہ ومجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے لئے مخصوص تھیں.باقی تمام دوست ان جگہوں کے علاوہ جہاں چاہیں بیٹھ سکتے تھے.حضور کی تشریف آوری اس روز اہل ربوہ مغرب اور عشاء کی نمازیں باجماعت ادا کرنے کے بعد جوق در جوق جامعہ احمدیہ پہنچنا شروع ہو گئے.اس وقت سڑکوں پر بے حد رونق تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورا شہر امڈ آیا ہے.جملہ احباب اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے وسیع و عریض احاطہ بقعہ نور بن کر ایک دلآویز منظر پیش کرنے لگا.اسی اثناء میں ٹھیک سات بجے شب حضور قصر خلافت سے بذریعہ موٹر کار رونق افروز ہوئے.جو نہی حضور کی کار اسٹیج کے عقبی دروازہ پر آکر رکی.سید داؤ داحمد صاحب صدر مجلس استقبالیہ نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا.حضور ان کی معیت میں اسٹیج پر تشریف لائے جب حضور اسٹیج کی طرف تشریف لا رہے تھے تو ہزاروں ہزار حاضرین نے پُر جوش نعرے لگا کر حضور کا والہانہ استقبال کیا.حضور نے اسٹیج پر موجود مرکزی تنظیموں کے نمائندوں اور صوبائی امراء کو شرف مصافحہ بخشا.پھر احباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہ کر انہیں بیٹھنے کی ہدایت فرمائی.

Page 237

تاریخ احمدیت.جلد 26 227 سال 1970ء استقبالیہ تقریب کا آغاز اسٹیج کے فرش پر حضور کے صدر جگہ پر رونق افروز ہونے کے بعد استقبالیہ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید سے ہوا جو جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم گھانا کے یوسف یاسن صاحب نے کی.بعدۂ جامعہ کے ایک اور طالب علم عبد الحفیظ کھو کھر صاحب نے رشین“ کی نظم ”محمود کی آمین“ کے بعض دعائیہ اشعار خوش الحانی سے پڑھ کر سنائے.پہلا شعر یہ تھا.بہار آئی 152 ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں نظم کے بعد سید داؤد احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں و پرنسپل جامعہ احمدیہ نے قادیان اور ہندوستان کی دیگر احمدی جماعتوں کا وہ سپاسنامہ سنایا جس میں انہوں نے حضور کی خدمت میں سفر مغربی افریقہ کی نہایت کامیاب و با مراد مراجعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے دلی جذبات محبت و عقیدت کا اظہار کیا تھا.اس کے بعد مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے مرکز سلسلہ پاکستان کی مرکزی تنظیموں یعنی صد را مجمن احمدیہ انجمن احمدیہ تحریک جدید، انجمن احمد یہ وقف جدید فضل عمر فاؤنڈیشن، جلس انصارالله مرکز یا در جلسخدام الاحمدیہ مرکزی کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا روح پرور اور ولولہ انگیز خطاب حضور نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں افریقہ میں احمدیہ مشنوں کے قیام اور انتہائی مخلص اور فدائی جماعتوں کے معرض وجود میں آنے اور پھر مغربی افریقہ کے چھ ممالک میں اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ماتحت رونما ہونے والے غلبہ حق کے نمایاں آثار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ افریقہ میں اب غلبہ اسلام کی صبح صادق نمودار ہو چکی ہے اور سورج افق سماء پر طلوع ہو چکا ہے یہ سورج اس زمانہ میں ہی نصف النہار پر پہنچ کر پوری شان سے چمکے گا اور دنیا کے گوشہ گوشہ کو منور کر دکھائے گا.یہ سورج ہمیں گرمی دے رہا ہے اور ہماری زندگیوں میں حرارت پیدا کر رہا ہے چنانچہ ہم غلبہ دین کی شاہراہ پر آگے ہی آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بڑھتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ دنیا کی ساری اقوام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجمع ہوں گی.حضور نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا جن لوگوں کو دنیا نے حبشی کہہ کر ان سے نفرت کی تھی خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز ان تک پہنچادی ہے کہ اب دنیا تم سے نفرت نہیں کرے گی

Page 238

تاریخ احمدیت.جلد 26 228 سال 1970ء بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے طفیل عزت اور احترام کا مقام تم کو ملے گا.یہی ہے وہ منادی جو میں نے وہاں کی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت وہ اس سے متاثر ہوئے.حضور نے گھانا اور نائیجیریا میں Leap Forward Programme کے بروئے کار آنے اور راہ میں پیدا ہونے والی بعض آسانیوں اور سہولتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.میں تو یہ سوچتا ہوں کہ میں وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑے ڈیم یا بند کی اختتامی تقریب کے لئے لے جایا گیا تھا.اس بند کا افتتاح عمل میں آچکا ہے اور دریاؤں میں پانی آگیا ہے.یہ پانی اب آگے ہی آگے بڑھتا اور پھیلتا چلا جائے گا یعنی میرے افریقی بھائی خدا کی راہ میں قربانیاں دیتے ہوئے دنیا کے خطوں میں پھیل جائیں گے.وہ ہمارے پہلو بہ پہلو اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن واحسان کے جلوے قریہ قریہ، محلہ محلہ اور گھر گھر لے جائیں گے.وہ ہمارے پہلو بہ پہلو آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور اس وقت تک دم نہ لیں گے جب تک کہ دینِ حق ساری دنیا میں غالب نہ آجائے.تقریر کے آخر میں حضور نے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ الہی سلسلے سدا بہار پودوں کی مانند ہوتے ہیں جن پر کبھی خزاں نہیں آتی.فرمایا کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اس پر کبھی خزاں نہیں آسکتی.تاہم غلبہ دین کے ضمن میں ہم پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں پورا کرنا بہر حال ضروری ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان کی بجا آوری کی توفیق عطا فرمائے اور پھر خود ہی ہماری کوششوں میں برکت ڈالے تا کہ ہم اپنی زندگیوں میں یہ خوشکن نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اسلام ساری دنیا میں غالب آ گیا ہے.اپنے محبوب آقا کے ساتھ شریک طعام ہونے کا شرف حضور کے اس بصیرت افروز خطاب کے بعد جو قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا دعوت طعام کا آغاز ہوا.اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ ایک منفردشان کی پرشکوہ دعوت تھی جو نفاست و نظافت کے پہلو بہ پہلو انتہا درجہ کی سادگی اور دینی اخوت و مساوات کی آئینہ دار تھی.ایک عجیب کیف اور منظر تھا.ہزاروں احباب اپنے آقا کی معیت میں کسی قسم کی تفریق یا امتیاز کے بغیر مٹی کے برتنوں میں ایک ہی قسم کا کھانا کھا رہے تھے حتی کہ پانی پینے کے لئے بھی مٹی ہی کے آبخورے مہیا کئے گئے تھے.وہ بیک وقت جسمانی اور روحانی دونوں غذاؤں سے بہرہ ور ہورہے تھے.جسمانی غذا وہ کھانا تھا جو اس تاریخی موقع پر سب احباب کی خدمت میں پیش کیا گیا.اور روحانی غذا اسلامی اخوت و مساوات کا وہ روح پرور عملی

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد 26 229 سال 1970ء مظاہرہ تھا جو اس موقع پر دیکھنے میں آیا اور جو ایمانوں کو ایک نئی تازگی ، قلوب کو ایک نئی جلاء اور روحوں کو ایک نئی بالیدگی سے ہمکنار کرنے کا موجب بنا.ایک اندازہ کے مطابق اس وقت کم و بیش چار ہزار افراد کو ایک ہی دستر خوان پر اپنے آقا کے ساتھ شریک طعام ہونے کا خصوصی اعزاز حاصل ہوا.کھانے کا انتظام اس درجہ مثالی تھا کہ کثیر التعداد ا حباب کو کمال خاموشی ، وقار اور سہولت کے ساتھ بر وقت اور حسب ضرورت کھانا پہنچتا رہا.آخر میں سیدنا حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ حاضرین شریک ہوئے.استقبالیہ کمیٹی اور اس کے انتظامات اس تاریخی اور یادگار تقریب کا انتظام مرکزی تنظیموں کی ایک نمائندہ استقبالیہ کمیٹی کے سپرد تھا جس کے صدر اور نگران سید میر داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ونمائندہ صدرانجمن احمد یہ تھے.کمیٹی کے دیگر ممبران کے نام یہ ہیں.مولوی عبد القادر صاحب ضیغم نائب وکیل التبشیر نمائندہ تحریک جدید - مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نمائندہ وقف جدید.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نمائنده فضل عمر فاؤنڈیشن.شیخ محبوب عالم صاحب خالد نمائندہ مجلس انصار اللہ مرکز یہ مرزا خورشید احمد صاحب نمائندہ مجلس خدام الاحمد یہ مرکز یہ.سید داؤ د احمد صاحب نے اس تقریب کے جملہ انتظامات کو پانچ شعبوں میں تقسیم فرمایا اوران کے حسب ذیل انچارج مقرر کئے.ا.مقامِ تقریب جگہ کی تیاری اور آرائش (انچارج پروفیسر چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ) ۲.کھانا پکوانے کا انتظام.(انچارج صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ) ۳.کھانا کھلانے اور میز بانی کے فرائض.( انچارج سید محمود احمد صاحب ناصر پروفیسر جامعہ احمدیہ ) ۴.انتظام آب رسانی.انچارج چوہدری منیر احمد صاحب عارف پروفیسر جامعہ احمدیہ ) ۵.انتظام روشنی.(انچارج محمد احمد صاحب انور ایم اے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ).ان حضرات نے قریباً چھ صد معاونین کی مدد سے جملہ انتظامات کو نہایت سلیقہ اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.ان کے معاونین میں تعلیم الاسلام کالج ، جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے پروفیسر صاحبان، اساتذہ کرام ہر سہ ادارہ جات کے طلبہ، مجالس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے اراکین اور دفاتر کے کارکنان شامل تھے.ان سب احباب نے اپنے فرائض منصبی اس ذوق و شوق اور جذبہ

Page 240

تاریخ احمدیت.جلد 26 230 سال 1970ء محبت و فدائیت سے سرشار ہو کر انجام دیئے کہ سب لوگ عش عش کر اٹھے.11 غانا میں پہلے احمد یہ میڈیکل سنٹر کا پُر شکوہ افتتاح 153 نصرت جہاں ریز رو فنڈ سکیم کے تحت غانا کے اندرونی علاقہ کماسی میں یکم نومبر ۱۹۷۰ء کو پہلے احمد یہ میڈیکل سنٹر کا پُر شکوہ افتتاح ہوا.اس افتتاحی تقریب کی روداد بذریعہ کیبل گرام مرکز احمدیت میں پہنچی جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.اکرا.نومبر.اللہ تعالیٰ کے فضل سے نصرت جہاں سکیم کے ماتحت یکم نومبر کو کماسی کے علاقہ میں پہلے احمدیہ میڈیکل سنٹر کا افتتاح عمل میں آیا.علاقہ کے پیرا ماؤنٹ چیف نے اس موقع پر ایک خصوصی در بار منعقد کیا جس میں تین مختلف اسٹیٹس کے تین پیراماؤنٹ چیفس ، اعلیٰ سرکاری حکام، علاقہ کی دیگر نامور اور سر بر آوردہ شخصیتوں اور قریباً تین ہزار افراد نے شرکت کی.اس موقع پر صدارت کے فرائض بی کوائے اسٹیٹ کے پیرا ماؤنٹ چیف نے ادا فرمائے.کوکوفو کے پیراماؤنٹ چیف نے جماعت احمد یہ گھانا کے امیر اور مشنری انچارج مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نیز گھانا میں جماعت احمدیہ کے پہلے میڈیکل مشنری بریگیڈیر احمد کو مخاطب کر کے استقبالیہ ایڈریس پڑھا جس میں انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ گہری عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے میڈیکل سنٹر کے قیام پر دلی جذبات تشکر کا اظہار فرمایا.انہوں نے اپنی اسٹیسٹ کی تاریخ بیان کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ نانا او سیئے دوم مرحوم جنہیں انگریزوں نے شاہ اشانٹی کے ساتھ ملک بدر کر دیا تھا وہ اور ان کے افراد خاندان احمدی تھے.انہوں نے اس امر پر گہرے جذبات تشکر کا اظہار فرمایا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ نوازش ڈاکٹر بھجوانے کے سلسلہ میں ان کی درخواست کو شرف قبول سے نوازا.انہوں نے اس امر کا خاص طور پر ذکر کیا کہ جب پچھلے دنوں حضرت امام جماعت احمد یہ اپنے دورہ مغربی افریقہ کے سلسلہ میں گھانا تشریف لائے تھے تو آپ نے انہیں از راہ شفقت معانقہ کے شرف سے نواز کر ان کی بے حد عزت افزائی فرمائی تھی.انہوں نے کہا کہ ”جب لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے مجھے معانقہ کا شرف بخشا ہے تو لوگ میرے جسم اور کپڑوں کو چھو چھو کر مجھ سے ہی برکت حاصل کرتے رہے.سپاسنامہ کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے مکرم ڈاکٹر غلام احمد صاحب نے پیراماؤنٹ چیف

Page 241

تاریخ احمدیت.جلد 26 231 سال 1970 ء اور ان کی رعایا کا شکر یہ ادا کیا اور یقین دلایا کہ وہ انسانیت کی خدمت کو ہر دوسری چیز پر مقدم رکھنے اور اس طرح ہر ممکن تعاون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے.اس کے بعد پیراماؤنٹ چیف نے ہسپتال کی خوبصورت اور شاندار عمارت کی چابی امیر جماعت احمد یہ گھانا مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کی خدمت میں پیش کی اور انہوں نے تالے میں چابی گھما کر میڈیکل سنٹر کا افتتاح فرمایا.افتتاح عمل میں آنے کے بعد مہمانوں نے گھوم پھر کر میڈیکل سنٹر کی عمارت اندر سے دیکھی اور علاج معالجہ کے انتظامات کا جائزہ لیا.اس تاریخی موقع پر شہر میں بہت خوشی منائی گئی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑی ہوئی ہے.عوام نے بہت جوش و خروش اور مسرت کا اظہار کیا.وہاں کے روایتی طریق کے مطابق ڈھول پیٹ کر خوشی کے شادیانے بجائے گئے.پیرا ماؤنٹ چیفس نے جو مرصع طلائی زیورات اور تاج پہنے ہوئے تھے اپنے مصاحبوں اور خدام کے جلو میں شریک ہو کر شان و شوکت اور جاہ وحشم کا عجب رنگارنگ انداز میں مظاہرہ کیا.اس پر شکوہ تقریب میں کو کوفو کی روایتی کونسل کے سیکرٹری نے ہزاروں افراد کے رُوبرو اپنے قبول احمدیت کا اعلان کیا.ان کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کرنے پر ان کا اسلامی نام ”عبداللہ رکھا گیا.154 چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی انگلستان کی مذہبی عالمی کانفرس میں تقریر امسال جنوبی انگلستان میں ایک عالمی مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں تقریر کے لئے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر بین الاقوامی عدالت کو بھی مدعو کیا گیا.برٹش انفارمیشن سروسز کے رسالہ ” آئینہ برطانیہ کراچی نے اپنے نومبر ۱۹۷۰ء کے شمارہ میں حضرت چوہدری صاحب کا فوٹو درج کر کے مذہبی عالمی کانفرنس کے ممتاز مقرر کے زیر عنوان حسب ذیل مختصر نوٹ شائع کیا:.مذہبوں کی عالمی کانگریس کی سالانہ کا نفرنس میں جو اس سال (۱۹۷۰ء) جنوبی انگلستان میں منعقد ہوئی تھی پاکستان کے سر ظفر اللہ خاں، صدر بین الاقوامی عدالت بھی ایک ممتاز مقرر تھے انہوں نے کا نفرنس میں اس ضرورت پر زور دیا کہ افراد خدا سے صحیح رابطہ قائم کریں نیز واضح فرمایا کہ مساوات کو اسلامی فلسفہ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے.66

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد 26 232 سال 1970ء احمدی خواتین کی طرف سے شاندار دعوت عصرانہ احمدی خواتین کی مرکزی تنظیموں (لجنہ اماء اللہ مرکزیہ.لجنہ اماء اللہ ربوہ.ناصرات الاحمدیہ ربوہ ) اور تعلیمی اداروں (جامعہ نصرت برائے خواتین.نصرت گرلز ہائی سکول.نصرت انڈسٹریل سکول برائے خواتین فضل عمر جو نیئر ماڈل سکول ) کی طرف سے ۲ دسمبر ۱۹۷۰ء کوسیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث اور حضور کی حرم محترم حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے اعزاز میں نہایت وسیع پیمانہ پر دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا گیا.اس پُر مسرت تقریب کا انعقاد دفتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے وسیع احاطہ میں ہوا.جامعہ احمدیہ کی طرح دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی عمارت اور اس کے احاطہ کو اس موقع پر دلہن کی طرح سجایا گیا.دفتر کے صدر دروازہ پر ایک دلکش اور خوبصورت آرائشی گیٹ تھا جس پر سنہری رنگ سے اھلا و سھلا دو مرحبا کے حروف عجب بہار دکھلا رہے تھے.روشوں پر سرخ بجری بچھائی گئی تھی اور حضرت خلیفہ اسیح اور حضرت بیگم صاحبہ کی موٹر کار کیلئے لجنہ ہال تک کا راستہ خوشنما جھنڈیوں اور خیر مقدمی قطعات سے آراستہ تھا.ہال اور اس سے ملحق شامیانوں سے تیار شدہ پنڈال بھی قابل دید تھا.چراغاں کے لئے ہر طرف بجلی کے رنگا رنگ قمقمے آویزاں تھے.لجنہ ہال کے دونوں احاطے اور ان کے باغیچوں کے درخت اور پودے ساری رات مختلف رنگین بلبوں اور ٹیوبوں کی روشنی سے جگمگ جگمگ کرتے رہے.مدعوئین اور ان کی نشستوں کا اہتمام دعوت عصرانہ میں احمدی خواتین کی مرکزی تنظیموں کی عہدیداران تعلیمی اداروں کے سٹاف کی ممبرات بطور میز بان شریک ہوئیں.ان کے علاوہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکه، مرکز احمدیت ربوہ کے ہر محلہ کی لجنہ کی عہدیداران نیز تعلیمی اداروں کی ہر کلاس کی نمائندہ طالبات اور علی الخصوص مغربی افریقہ کے مجاہدین احمدیت کی بیگمات کو مدعو کیا گیا تھا.الغرض مستورات کے ہر طبقہ کی نمائندگی کا خاص اہتمام تھا.اس طرح مجموعی طور پر سوا چار سو مستورات کو اس تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی.استقبالیہ تقریب میں شرکت کے لئے ستر اصحاب کو دعوت دی گئی تھی.جن کی نشست کا قد آدم قناتوں سے گھرے ہوئے ایک علیحدہ قطعہ میں انتظام تھا.مدعوئین میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد 26 233 سال 1970ء السلام کے بعض افراد، صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ناظر وکلاء صاحبان، وقف جدید کے ناظمین صاحبان، فضل عمر فاؤنڈیشن کے سیکرٹری صاحب، چیئر مین صاحب ٹاؤن کمیٹی ربوہ ،مجالس انصار الله و خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدرانِ کرام ، مردوں کے تعلیمی ادارہ جات کے سربراہان اور مغربی افریقہ کے مجاہدین احمدیت شامل تھے.جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ صوبہ پنجاب بھی خصوصی دعوت پر سر گودھا سے اس تقریب میں شریک ہوئے.ان سب حضرات کی نشست اور ضیافت کا اہتمام میزبان تنظیموں اور اداروں کی طرف سے سید محمود احمد صاحب ناصر پروفیسر جامعہ احمدیہ نے کیا اور اس کام میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض نو عمر نو نہالوں نے ان کا ہاتھ بٹایا.لاؤڈ سپیکر کے انتظام کو مردوں کے احاطہ تک وسیع کر کے اس امر کا اہتمام کیا گیا تھا کہ پیارے آقا کی تقریر سے وہ بھی مستفید ہوسکیں.حضور انور ٹھیک چار بجے لجنہ ہال کے عقبی دروازہ سے سرخ گلاب کے پھولوں کے ہار پہنے ہوئے مع حضرت بیگم صاحبہ سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے.تمام خواتین احتراماً کھڑی ہو گئیں.تقریب کا آغاز اس مقدس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید (سورۃ افتح کے آخری رکوع) سے ہوا جو امتیاز بیگم صاحبہ بی اے نے کی.تلاوت کے بعد امتہ الکریم کو کب صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے ایک استقبالیہ نظم پڑھ کر سنائی جس کا پہلا شعر تھا ے شکر صد شکر جماعت کا امام آتا ہے اللہ الحمد کہ بانیل مرام آتا ہے بعدۂ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سیکرٹری ناصرات لجنہ اماءاللہ مر کز ی نے احمدی خواتین کی مذکورہ بالا مرکزی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کی طرف سے حضرت خلیفہ امسیح اور حضرت بیگم صاحبہ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا جس میں حضور کے نہایت کامیاب دورہ مغربی افریقہ، غلبہ حق کے ضمن میں اس کی بے انتہا اہمیت اور اس تعلق میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت اور عظیم الشان فتوحات کے ظہور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے انتہائی گہرے جذبات عقیدت ، غلبہ دین کے لئے جذبہ خدمت و فدائیت اور دلی مسرت کا اظہار کیا گیا تھا.سپاسنامہ کے جواب میں حضور نے ایک معرکۃ الآراء تقریر ارشاد فرمائی.

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد 26 234 سال 1970ء حضرت خلیفہ ایسیح کی ایمان افروز تقریر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے بصیرت افروز خطاب کے آغاز میں بتایا کہ دنیا میں بہت کم ادوار ایسے آئے ہیں کہ جن میں مردوں اور عورتوں کو کسی مطمح نظر کے حصول کے لئے بلا تفریق و امتیاز ایک جیسے اعمال بجالانے اور ایک جیسی قربانیاں کرنے کی توفیق ملی ہو.تاریخ انسانیت میں اسلام کی نشاۃ اولیٰ اور نشاۃ ثانیہ کے دور کے سوا کہیں یہ نظر نہیں آئے گا کہ مردوں کے پہلو بہ پہلوا نہی جیسی قربانی کرنے والی عورتیں بھی پیدا ہوئی ہوں اور وہ قربانیوں کے میدان میں مردوں سے پیچھے نہ رہی ہوں.اس تمہید کے بعد حضور نے اسلام کی نشاۃ اولیٰ کے دور میں مخلص اور فدائی مردوں کے پہلو بہ پہلو مخلص اور فدائی عورتوں کی عدیم النظیر قربانیوں کا کسی قدر تفصیل سے ذکر فر مایا اور اس ضمن میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک کے دو واقعات کے علاوہ جنگ یرموک (ارض شام کا ایک مقام جہاں مجاہدین اسلام نے حضرت خالد بن ولید سیف اللہ کی سرکردگی میں ۱۵ھ/ ۶۳۶ء میں ایک فیصلہ کن جنگ لڑی اور رومیوں کو شکست فاش ہوئی اور ان کے قدم اکھڑ گئے ) کے موقع پر مسلمان مجاہدین کے پہلو بہ پہلو مسلم خواتین کی بہادری اور شجاعت کے بے مثال کارناموں پر مفصل روشنی ڈالی اور پھر بتایا کہ تین صدیوں تک نشاۃ اولیٰ کا یہ دور ممتد رہا بعد ازاں دنیا ایک طویل زمانہ کے لئے عورتوں کی قربانیوں کے ان عدیم النظر نمونوں سے خالی ہوگئی.اللہ تعالیٰ کے فضل اور بے پایاں احسان کے نتیجہ میں اب پھر وہی زمانہ عود کر آیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں احمدی مستورات کو مردوں کے دوش بدوش ایک جیسی قربانی کرنے کی توفیق مل رہی ہے.یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جماعت کی جس کی نظیر آج کی دنیا میں نہیں ملتی.آدم سے لے کر موجودہ زمانہ تک ( امت مسلمہ کی پہلی تین صدیوں کے سوا ) دنیا کی کوئی دوسری قوم اس کا ہر گز مقابلہ نہیں کر سکتی.اس مرحلہ پر حضور نے پاکستان کی احمدی خواتین کو اپنی قربانیوں کے معیار کو مزید بلند کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے افریقہ کی احمدی خواتین کے جذبہ قربانی وایثار کی بہت تعریف فرمائی.حضور نے اپنے دورہ مغربی افریقہ کا ذکر کرتے ہوئے پہلے تو اس دورہ میں وہاں کی ہزاروں ہزار احمدی خواتین اور ہزاروں ہزار بچوں کے ساتھ ملنے ، ان کے ساتھ کمال درجہ شفقت اور محبت و پیار کا سلوک فرما کر ان کی روحانی اسیری اور سیرابی کا سامان کرنے کے سلسلہ میں حضرت بیگم صاحبہ کی نہایت درجہ قابل

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد 26 235 سال 1970ء قدر خدمات کا ذکر فرمایا اور پھر وہاں کی احمدی خواتین کے جذبہ قربانی و ایثار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وہاں کی احمدی عورت اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلحاظ قربانی وہاں کے احمدی مرد سے پیچھے نہیں ہے بلکہ شاید مالی قربانی کے لحاظ سے مردوں سے آگے ہی ہو.حضور نے فرمایا میرے علم میں افریقی ممالک کا کوئی اکیلا احمدی مرد ایسا نہیں ہے کہ جس نے بیک وقت پچپیں تمہیں ہزار پونڈ چندہ دیا ہو.ہاں افریقہ کی ایک احمدی بہن ایسی ضرور ہے جس نے میرے دورہ افریقہ کے دوران اتنی خطیر رقم بطور چندہ پیش کی اور بڑی بشاشت کے ساتھ پیش کی.نائیجیریا میں میں نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے ایک ریڈیو سٹیشن قائم کیا جائے.اس کے لئے میں عورتوں سے اپیل کروں گا کہ وہ مالی قربانیاں پیش کریں.چنانچہ وہاں کی ایک احمدی بہن نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کیا اس احمدی بہن نے چھپیس تمیں ہزار پونڈ بطور چندہ دینے کا وعدہ کیا اور کیا بھی بہت بشاشت کے ساتھ.وہاں کی احمدی خواتین میں دین کی خاطر قربانی کرنے کا اتنا شوق اور جذبہ پایا جاتا ہے کہ شاید آپ ( یعنی پاکستان کی احمدی خواتین ) بھی ان کا مقابلہ نہ کرسکیں.اسی لئے میں نے مغربی افریقہ کے دورہ سے واپس آنے کے بعد ایک خطرہ کا اظہار کیا تھا.میں نے کہا تھا کہ آپ کو یہاں تربیت کے مواقع حاصل ہیں برخلاف اس کے افریقہ کی احمدی خواتین کو تربیت کے یہ مواقع حاصل نہیں اور اس لحاظ سے وہ یہاں کی احمدی مستورات سے پیچھے ہیں لیکن اگر انہیں بھی تربیت کا یہ موقع مل گیا تو وہ یقیناً آپ سے آگے نکل جائیں گی.خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے کہ وہ اس سے خواہ وہ قربانی کرے یا نہ کرے ضرور محبت کرے گا.اس کی نگاہ میں وہی معزز اور پیار کے لائق ہے جو اس کے منشاء کے مطابق عمل کرتا اور اس کی راہ میں بڑھ چڑھ کر قربانیاں کرتا ہے.جس مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے وہ ایسا نہیں کہ آپ خواتین میں سے قربانیوں کے میدان میں جو پیچھے رہ جائیں میں اپنی اس بچی کو زیادہ عزیز رکھوں.قربانی دینے والا ہی میری توجہ کو زیادہ کھینچے گا اور میری دعاؤں کا مستحق ہوگا.حضور نے احمدی خواتین کو اس فرض کی طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنی اس بے مثال خصوصیت پر کسی قسم کا فخر کرنے کی بجائے عاجزانہ راہیں اختیار کریں اور اپنے عمل سے ثابت کریں کہ آپ فی الواقع اپنے بے حد کرم کرنے والے رب کے شکر گزار ہیں اور شکر گزاری کا ایک نہایت اہم عملی تقاضا یہ ہے کہ آپ نئی نسلوں کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ غلبہ دین کی ان ذمہ داریوں کو جو آگے چل کران

Page 246

تاریخ احمدیت.جلد 26 236 سال 1970ء پر پڑنے والی ہیں کما حقہ ادا کر سکیں.اس میں شک نہیں کہ آگے چل کر خدمت دین کا بار آئندہ آنے والوں نے ہی اٹھانا ہے ان کے وقت میں جس قسم کی قربانیوں کی ضرورت ہوگی وہ انہوں نے ہی کرنی ہے لیکن خود قربانی کرنے کے ساتھ ساتھ نئی نسلوں کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کرنا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے لگ جائیں اور آئندہ ان کے کندھوں پر جو بوجھ پڑنے والا ہے اسے اٹھانے کے قابل ہو جا ئیں یہ آپ خواتین کی ذمہ داری ہے.اس معرکہ آراء اور بصیرت افروز خطاب کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ خواتین اور مہمان اصحاب شریک ہوئے.بعد ازاں حضور نے مہمان اصحاب کے درمیان رونق افروز ہو کر انہیں اپنے ساتھ چائے نوش کرنے کا شرف بخشا.خواتین نے حضرت بیگم صاحبہ کے ساتھ چائے نوش کرنے کی سعادت حاصل کی.جس کے بعد یہ برکتوں سے معمور تقریب مغرب کے وقت بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی.157 ۱۹۷۰ء کے انتخابات اور جماعت احمدیہ کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ محمد ایوب خان صدر پاکستان نے ایک ملک گیر ایجی ٹیشن کے نتیجہ میں ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو ملک کی باگ ڈور جنرل آغا محمد یحییٰ خان کے حوالے کر دی.جنہوں نے مارچ ۱۹۷۰ء کے آخر میں ملک بھر میں عام انتخابات اور اس کے قانونی ڈھانچے (Legal Work Order) کا اعلان کر دیا جس سے ملک کے دونوں حصوں میں انتخاب کی زبر دست تیاریاں شروع ہو گئیں.انتخابات کے دسمبر ۱۹۷۰ء کو منعقد ہوئے جن کی بنیاد ایک آدمی ایک ووٹ کے اصول پر تھی.الیکشن کے دوران جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفانہ بیانات، جھوٹی خبروں اور بے بنیاد پراپیگنڈہ کا گویا سیلاب آ گیا.اس سلسلہ میں شورش کا شمیری صاحب ایڈیٹر چٹان نے جماعت احمدیہ اور اس کے مقدس امام کے خلاف افترا پردازی کی ایک خاص مہم چلائی اور اپنے جھوٹے پراپیگنڈا میں گوئبلز (Goebbels Jozeph) کے کان کاٹ ڈالے مثلاً ایک بار لکھا کہ ” خلیفہ ناصر محمود اپنے مسلک کی رُو سے مسلمانوں کی اجتماعی وحدت کے خلاف ہیں.وہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی ، مولانا احتشام الحق تھانوی ، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع صاحب کی جمعیۃ العلماء اور اس کے رسوخ کو مجروح کرنے کے لئے بھٹو کی خفیہ یقین دہانی پر پیپلز پارٹی کے ہمنوا ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے بعض پیروؤں کو

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد 26 237 سال 1970ء 158 پیپلز پارٹی کے لنگر خانہ میں بھیج دیا ہے اور وہ غیر قادیانی اسلام اور اس کے نمائندہ علماء کا زور توڑنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہے ہیں.قارئین لحظہ بھر جمعیتہ العلماء ہزاروی کی اس روش پر غور کریں جس پر شاید انہوں نے ابھی تک غور نہیں کیا کہ اس جمعیتہ کے ارکان قادیانی مسئلہ کو چنداں اہمیت نہیں دیتے.یونہی لوگوں کو خوش رکھنے کے لئے کبھی کبھار پکا راگ چھیڑ دیتے ہیں.ان کی تمام سرگرمیاں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور نوابزادہ نصر اللہ خان کے خلاف ہیں.مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے خلاف ژاثر خائی کا فائدہ بھٹو ہی کو نہیں پہنچتا قادیانی امت کو بھی پہنچتا ہے ربوہ والے خوش ہیں کہ ان کے قوی حریف جمعیۃ العلماء ہزاروی کے ہاتھوں زخم اٹھا رہے ہیں.جہاں تک ہزاروی گروپ کی ربوہ پر تنقید کا تعلق ہے وہ ایک وسیع سیلاب کے مقابلہ میں دم توڑتی ہوئی موج بھی نہیں ہے.شورش صاحب اپنے محولہ بالا اس پراپیگنڈہ کے نتیجہ میں اپنوں کے شدید عتاب کا نشانہ بنے جس پر ایک احمدی نوجوان پرویز اختر نے شیخو پورہ سول لائنز سے انہیں خط لکھا کہ :.آپ کے خلاف کسی قادیانی نے کبھی وہ کلمات استعمال نہیں کئے جو ہزاروی گروپ ملک بھر میں استعمال کر رہا ہے جو کچھ ترجمانِ اسلام نے لکھا ہے جس طرح غلام نبی جانباز نے زبان کھولی، جو کچھ ضیاء القاسمی کہ رہا ہے.مفتی محمود نے جگہ بہ جگہ آپ کے متعلق جس طرح بیان کیا.مولانا غلام غوث بالکل مسخروں کی طرح بولتے اور ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ خود ہمیں شرم محسوس ہوتی ہے.آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ زبردست نقصان جو آپ نے احمدیوں کو پہنچانا چاہا اور جس طرح آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کہا یا لکھا.کسی احمدی نے کبھی جواب میں مذکورہ بالا اشخاص کی زبان استعمال کی؟ وہ گندی نظمیں لکھیں جو ترجمان اسلام میں چھپتی رہتیں اور چھپ رہی ہیں.الفضل“ اور ”الفرقان ربوہ نے کبھی آپ کے متعلق کچھ لکھا؟ اور لکھا تو اس قسم کی زبان استعمال کی جو آپ کے یہ سابق رفقاء استعمال کر رہے ہیں اور اس فن میں استاد ہیں؟ اس کے باوجود آپ احمد یوں کے خلاف ہیں اور حضرت مسیح موعود کے خلاف اپنے دل سے بغض نہیں نکالتے.آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اب آپ کو اعتراض ہے کہ ہم بھٹو کی ہمنوائی کیوں کر رہے ہیں یا ہمارے لوگ پیپلز پارٹی میں جا رہے ہیں؟ کیا پاکستان کے شہری کی حیثیت سے ہمیں کسی پارٹی میں شامل ہونے کا حق نہیں؟ جب بھٹو

Page 248

تاریخ احمدیت.جلد 26 238 سال 1970ء اس نفرت کو نہیں مانتے جو آپ لوگ پیدا کرتے اور احمدی اور غیر احمدی کے سوال پر وہ اعتقاد نہیں رکھتے تو آپ ہمارا یہ حق کیوں چھینتے ہیں کہ ہم پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں؟ آخر ہم نے پاکستان بنانے میں حصہ لیا.ریڈ کلف کے سامنے چوہدری ظفر اللہ خاں پیش ہوئے.کشمیر کا مقدمہ چوہدری ظفر اللہ خاں نے یو.این.او میں سالہا سال لڑا.اس ملک کی اقتصادیات کو مستحکم کرنے میں ہمارا بہت بڑا حصہ ہے.آج بھی حضرت مسیح موعود کے لخت جگر پوتے حضرت ایم ایم احمد صاحب منصوبہ بندی کمیشن کے چیئر مین ہیں.پاکستان کی اکانومی کو بڑھانے اور اٹھانے میں ہم نے اپنی تعداد سے کئی سو گنا زیادہ حصہ لیا ہے.آپ کو یاد ہوگا کہ جوڑیاں کے مورچے پر کون گیا تھا.جہاد کشمیر کا آغاز کس نے کیا تھا ؟ وہ ہستی آج ربوہ کے ( قبرستان شہدا ) میں آسودہ خواب نہیں؟ کیا اس کا نام جنرل اختر ملک نہیں اور وہ ستمبر کی جنگ کا ہیرو نہیں تھا؟ (جی ہاں! اُن کے برادر نسبتی غالبا سالے ملک محمد جعفر ایڈووکیٹ ۲۷ جولائی کو پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں ( چٹان ) کیا ملکی سیاست ہی ایسی چیز ہے کہ ہمارے لئے آپ کے نزدیک شجر ممنوعہ ہے؟ ہم بھٹو سے نہ ملیں تو ابوالاعلیٰ مودودی سے مل جائیں، جو ہمیں دیکھنا ہی نہیں چاہتا ؟ نصر اللہ خان سے مل جائیں جو ہر جلسے میں ہمارےخلاف ٹھونگا مار جاتا اور عطاء اللہ شاہ بخاری کا پروردہ ہے؟ جنرل سرفراز خان کا ساتھ دیں جس نے احمدیت سے اپنی لا تعلقی کو بکمال کت وفر پیش کیا ؟ حالانکہ احمدیت سے اس کا تعلق ہی نہیں تھا کیا ممتاز دولتانہ پر بھروسہ کریں؟ کیا آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مصلح موعود کا معجزہ نہیں سمجھتے کہ احمدیت کے ان مخالفوں کو وہی غلام غوث اور مفتی محمود لتاڑ اور چتھاڑ رہے ہیں جنہوں نے ۱۹۶۸ء میں ختم نبوت کے مسئلے پر اپنا اسٹیج آپ کی نذر کر دیا؟ پھر آپ رہا ہوئے تو آپ کو اسلام کا ہیرو بنا کر پیش کیا تھا.اقبال کا مصرعہ ہے کہ.پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے خدا نے احمدیت پر میرے یقین کو اور پکا کر دیا ہے کہ جولوگ احمدیت کے خلاف ہیں وہ غلام غوث کے لاؤ لشکر سے پٹ رہے ہیں.ہمارے کعبے کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اس صنم خانے کے برہمنوں سے کرائی ہے“.150 اس طرح بہت سے مخالفانہ بیانات بھی شائع ہوتے رہے.مثلاً میاں ممتاز دولتانہ نے مسلم لیگ کی طرف سے بیان دیا کہ :

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد 26 239 سال 1970ء وہاڑی ،۲۲ جون (نمائندہ جسارت) قادیانیوں کو مسلم لیگ میں شامل نہیں کیا جائے گا.کیونکہ کوئی غیر مسلم پارٹی کا رکن بننے کی اہلیت نہیں رکھتا.وہاڑی کی الہلال سوسائٹی کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے کونسل مسلم لیگ کے صدر میاں ممتاز دولتانہ نے یہ اعلان کیا...قادیانیوں کے لئے مسلم لیگ کی رکنیت کے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کونسل مسلم لیگ کے سربراہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ قادیانیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور پارٹی کے دستور کے مطابق کوئی غیر مسلم پارٹی کارکن نہیں بن سکتا.لائل پور کے اخبار ” پاکستانی“ (مورخہ ۲۰ تا ۲۷/اکتوبر ۱۹۷۰ء) نے درج ذیل سراسر جعلی اور فرضی خبر صفحہ اول پر نمایاں اور جلی الفاظ میں اور تین شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کی :.غلام احمد قادیانی کی پیشگوئی کے مطابق پیپلز پارٹی ضرور کامیاب ہوگی 160 پیپلز پارٹی کے کل امیدواروں میں سے ۲۵ فیصد امید وار قادیانی ہیں.“ نصرت جہاں فنڈ کا بتیس لاکھ روپیہ پیپلز پارٹی کو دینے کا اعلان ر بوه ۱۴ اکتوبر (نمائندہ خصوصی) پاکستان کے مشرقی اور مغربی بازوؤں کے سرکردہ قادیانی حضرات ہوائی جہازوں، کاروں اور بسوں کے ذریعے اپنے کعبہ ربوہ پہنچے.جہاں ان کے خلیفہ ناصر نے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کروانے کے لئے ایک خصوصی اجلاس بلا رکھا تھا.اس اجلاس میں قادیانی مرزائیوں کے خلیفہ نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مسیح موعود جناب غلام احمدقادیانی کی پیشنگوئی کے پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے کہ دنیا پر صرف اور صرف قادیانی حکومت ہوگی.آپ نے فرمایا کہ مجھے حضرت مسیح موعود کی مذکورہ پیشن گوئی فخر ایشیا اور قائد عوام جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں پوری ہوتی دکھائی دے رہی ہے.آپ نے کہا کہ اکیلے جناب بھٹو نے احمدیت کو فروغ دینے کے لئے دو سالوں میں وہ کام کیا ہے جو ہماری ساری جماعت نصف صدی میں بھی سرانجام نہیں دے سکی.آپ نے اپنی ساری تقریر میں بار بار جناب بھٹو کا ذکر کر کے انہیں خراج تحسین ادا کیا اور اپنے حواریوں کو تاکید کی کہ وہ حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی کے مشن کو مکمل کرنے کی خاطر پیپلز پارٹی کے امید واروں کو کامیاب کروائیں اور جان تک کی بازی لگا دیں خلیفہ صاحب نے غیر ممالک کے دورہ سے واپس آتے ہی اپنے امریکی اور برطانوی سر پرستوں کی ہدایت کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو کی بیگم نصرت بھٹو کے نام پر جو نصرت جہاں فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا.ہمارے

Page 250

تاریخ احمدیت.جلد 26 240 سال 1970ء 9966 نمائندہ کی اطلاع کے مطابق اس کا سارے کا سارا جمع شدہ بتیس لاکھ روپیہ پیپلز پارٹی کے حوالے کر دینے کا اعلان کیا گیا ہے جو پیپلز پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں پر خرچ کیا جائے گا.اس روپیہ میں سے چند لاکھ روپیہ الفضل ” مساوات ”شہاب“ اور ”پاکستان ٹائمز کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے تا کہ وہ اس انتخابی مہم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں پیپلز پارٹی کی مدد کر سکیں.مرزائیوں کے اس خصوصی اجلاس میں خلیفہ جماعت نے حاضرین کو یہ بھی بتایا کہ پیپلز پارٹی کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کل امیدواروں میں سے ۲۵ فیصد امیدواروں کا تعلق جماعت احمدیہ سے ہے.“ ضلع جھنگ میں صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا منشور" ا.صوبائی اسمبلی حلقہ چنیوٹ کے امیدوار سید الطاف حسین شاہ نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا منشور اسلام ختم نبوت اور جمہوریت ہے.-۲ شیخ محمد اقبال صاحب امیدوار صوبائی اسمبلی جھنگ نے انٹرویو دیا کہ:.161 میں قادیانیوں کو کافر سمجھتا ہوں.میں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دئیے جانے کے حق میں ہوں.اسمبلی میں اسی مقصد کا بل بھی پیش کرنے کی کوشش کروں گا.مولوی منظور احمد چنیوٹی نے بیان دیا کہ:.162 ”میری تو ساری زندگی کا نچوڑ ہی مرزائیت اور مرزائیوں کی مخالفت ہے.میں انہیں کا فرسمجھتا ہوں کہ دستور میں انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اگر میں منتخب ہو گیا تو اس مقصد کا بل ضرور پیش کروں گا.نیز کہا:.قادیانی کسی صورت میں بھی یہ نہیں چاہتے کہ انتخاب میں راقم کامیاب ہو جائے.میری کامیابی ان کے لئے پیغام موت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری کامیابی یقینی ہے“.مولوی صاحب اس الیکشن میں بری طرح سے ہار گئے تھے.) یہ درست ہے کہ میرے مد مقابل کوئی مرزائی امیدوار نہیں ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرے مد مقابل پوری امت مرزائیت ہے میری فتح امت مرزائیت کی شکست اور خدانخواستہ میری شکست مرزائیت کی فتح ہے.میری فتح و شکست ختم نبوت کے وقار کا مسئلہ ہے.۴.مہر غلام عباس لالی نے کہا :.

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد 26 241 سال 1970ء ”مرزائیوں کو اسلام دشمن اور خارج از اسلام سمجھتا ہوں.میری خواہش ہے کہ مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے.میں اسمبلی میں جا کر اسی مقصد کا بل بھی پیش کروں گا.اگر خداوند تعالیٰ نے میری کوششوں کو بار آور کیا تو میرے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی سعادت نہ ہوگی اور میں اسی کو اپنی بخشش کا وسیلہ سمجھوں گا“.نیز کہا.165 میں حق و باطل کا معرکہ لڑ رہا ہوں.میں انتخاب میں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ محمد عربی میوے کے اعزاز خاتمیت کا تحفظ کروں“.166- جماعت اسلامی پاکستان کے عزائم ، فتاوی ، جوش و خروش اور بلند بانگ دعاوی ۱.مولوی گلزار احمد صاحب مظاہری ناظم اعلیٰ جمیعت اتحاد العلماء نے کہا:.167 جماعت اسلامی برسراقتدار آنے پر احمد یہ فرقہ کو اقلیت قرار دے گی.۲.جماعت اسلامی کے رسالہ ترجمان القرآن نے انتخابات کے ایام میں جھوٹ کے وجوب کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے لکھا:.اگر سچ بولنے سے کوئی بڑی خرابی رونما ہو جاتی ہو تو فقہاء نے اس موقع پر جھوٹ بولنے کی آزادی دی ہے.عمومی نے الا شباہ والنظائر کی شرح میں اس مسئلہ پر تفصیلی کلام کیا ہے کموی کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا تین مواقع پر جائز ہے.لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے.جنگ کے اندر.بیوی کے سامنے اس کی اصلاح کے پیش نظر.اس جھوٹ سے مراد کذب صریح نہیں ہے بلکہ تو ریہ اور کنایہ سے کام لیا جانا چاہیے.یہ قول بھی منقول ہے کہ کسی حق کو زندہ کرنے کے لئے یا کسی ظلم کو رفع کرنے کے لئے بھی کذب مباح ہے بلکہ اگر کسی شخص کو یہ یقین ہو جائے کہ ظلم سے اس کی نجات صرف جھوٹ بولنے ہی سے ہو سکتی ہے تو اس کے لئے کھلا کھلا جھوٹ بول دینا بھی جائز ہے حتی کہ بعض صورتوں میں تو اس کے لئے جھوٹ بولنا واجب ہوگا“..رسالہ ایشیاء اور انتخاب.۵ را کتوبر ۱۹۷۰ء خالص جہاد اسلامی کا دن ہے یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت اسلام کے لئے جہاد ووٹ میں مضمر ہے.آج تیر و تفنگ اور توپ و ایٹم بم سے زیادہ مؤثر اور نتیجہ خیز ہتھیار ووٹ کا استعمال ہے.کیا ایک ادنیٰ سے ادنی مسلمان یہ پسند کرے گا کہ اسلام اور کفر کے درمیان جنگ

Page 252

تاریخ احمدیت.جلد 26 242 سال 1970ء جاری ہو اور اس کے ہاتھ میں بھری ہوئی بندوق ہو اور وہ مع بندوق ایک طرف ہو کر نوافل میں مشغول ہو جائے.169 170- ۴.سید اسعد گیلانی امیر جماعت اسلامی صوبہ پنجاب و بهاولپور امیدوار قومی اسمبلی حلقه سرگودها نے کہا کہ ” ہم ان انتخابات کو جہاد سمجھ کر لڑ رہے ہیں.کہ اگر جماعت اسلامی برسر اقتدار آ گئی تو وہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے گی.اور ملک میں غیر اسلامی قوانین کا خاتمہ کر دے گی.سید اسعد گیلانی یہاں گلزار صادق میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے.آپ نے تقریر کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جماعت اسلامی قادیانیوں کو غیر مسلم فرقہ بجھتی ہے اور ان کی جماعت برسراقتدار آئی تو قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے گئی.۵.امیر جماعت اسلامی شہر سیالکوٹ مولوی عبدالحمید خان نے کہا:.اب جماعت اسلامی کو برسراقتدار آنے سے کوئی بھی طاقت نہیں روک سکتی“.۶.مودودی اخبار ”کوہستان نے احمدیوں کے خلاف افتراء پردازی کی پر زور مہم چلاتے ہوئے ایک خبر یہ اختراع کی کہ:.172 قادیانیوں کی حکومت پیپلز پارٹی کے ذریعہ قائم ہوگی.احد یہ جماعت کے رہنما نے مرزا غلام 66 احمد کی پیشگوئی کا اعلان کر دیا...گذشتہ دنوں جماعت احمدیہ کے ایک رہنما نے یہ کہہ کر اپنے حامیوں کو پیپلز پارٹی کے ساتھ تعاون کا حکم دیا تھا کہ مرزا غلام احمد کی پیشگوئی کے مطابق قادیانیوں کی حکومت پیپلز پارٹی کے ذریعہ قائم ہوگی....جماعت احمدیہ اور پیپلز پارٹی کے درمیان کسی سمجھوتے کے شبہ کو اس سے بھی تقویت پہنچتی ہے کہ پیپلز پارٹی کے ترجمان ایک ہفت روزہ نے ایک با قاعدہ منصوبے کے تحت بعض دوسری جماعتوں پر یہ الزام عائد کرنے کی کوشش کی کہ ان کا قادیانیوں سے معاہدہ طے پا چکا ہے.اس پروپیگنڈے کا مقصد غالباً یہ تھا کہ خود ان کی جماعت کے ساتھ معاہدے کو خفیہ رکھا جا سکے.ادھر یہ خبر شائع ہوئی اُدھر جماعت اسلامی کی پراپیگنڈہ مشینری نے کوہستان کے حوالے اسے اشتہار کی شکل میں ملک میں پھیلا دیا.یہ اشتہار ” جماعت مجاہدین اسلام پاکستان لائل پور کے فرضی نام سے شائع کیا گیا.

Page 253

تاریخ احمدیت.جلد 26 243 سال 1970ء ے.میاں طفیل محمد صاحب نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا:.کانگریسی مولوی ہوں یا اشترا کی عناصر.قادیانی ہوں یا علیحدگی پسند عناصر سب نے مل کر جماعت اسلامی کے خلاف ایک مشترکہ محاذ بنا رکھا ہے جو بالآخر عبرتناک طریقہ پر نا کام ہو جائے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ ان لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اس کی بنائی ہوئی زمین اور مخلوق پر صرف اسی کی فرمانروائی چاہتے ہوں“..امیر جماعت اسلامی پاکستان مولوی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قوم کے نام ایک خاص اپیل کی کہ:.جو شخص بھی پاکستان کو متحد رکھنا اور یہاں اسلام کو کارفرما دیکھنا چاہتا ہے اس کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ وہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے نمائندوں کو ووٹ دے.یہ اپیل آج ہی مغربی پاکستان کے ۱۲۲ ہم شہروں کے باشندوں تک فلائنگ کلب کے کرایہ پر حاصل شدہ طیارہ کے 66 175 ذریعے پہنچائی جارہی ہے.۹.اخبار ”ندائے ملت لاہور میں پبلسٹی کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو: کاروان رواں دواں وہ مقدس مقصد جس کے لئے حضرت مجدد ( حضرت شیخ احمد سر ہندی ) نے اسیری میں دعائیں کیں.وہ نصب العین جس کے لئے تحریک مجاہدین کے شہداء نے خون دیا.وہ تمنائے بیتاب جس کے لئے تحریک خلافت موجزن رہی.وہ مدعائے ملت جس نے اقبال کو سوز و ساز رومی اور ذکر وفکرِ رازی دیا.وہ آرزوئے مسلم جس کے لئے قائد اعظم کی سرکردگی میں تشکیل پاکستان ہوئی اُسی کے حصول کے لئے آج جماعت اسلامی جد و جہد کر رہی ہے.یہ ایک ہی کاروان نظام اسلامی ہے جو برسوں سے مرحلہ بہ مرحلہ اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا ہے!.آپ بھی اس کاروان رواں دواں میں شامل ہو جائیے.(اور ) اپنا ووٹ جماعت اسلامی کے حق میں استعمال کیجئے.(شعبہ نشر واشاعت جماعت اسلامی پاکستان ) جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو.۱۰.لاہور 4 دسمبر.مولوی ابوالاعلیٰ مودودی امیر جماعت اسلامی پاکستان نے ایک پریس انٹرویو میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ:.اللہ نے چاہا تو جماعت کے نمائندے انتخابات میں بڑی تعداد میں کامیاب ہوں گے اور جہاں تک ہار کا سوال ہے وہ سوشلسٹ جماعتوں ہی کا مقدر ہے.مولانا نے کہا کہ ماضی قریب میں

Page 254

تاریخ احمدیت.جلد 26 244 سال 1970ء اللہ تعالیٰ کی تائید سے جماعت اسلامی کی اہمیت اور مرکزیت میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہوا ہے.اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ان حالات میں جماعت کے ہارنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.۱۱.انگریزی اخبار ڈان نے مودودی صاحب کی اپنی جماعت کی کامیابی کے متعلق پُر امیدی کی خبر یوں دی: مودودی صاحب جماعت اسلامی کی واضح کامیابی کے متعلق پرامید ہیں 177- لاہور ، ۶ ، دسمبر.مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، جماعت اسلامی کے راہنما، نے آج اس اعتماد کا اظہار کیا کہ جماعت (اسلامی) کے نامزدگان رائے شماری میں واضح کامیابی حاصل کریں گے جبکہ سوشلسٹ نظریہ رکھنے والوں کی قسمت میں مکمل نا کامی لکھی جا چکی ہے.178 ملک میں عام انتخابات سے ایک رات قبل پریس کو دیئے گئے بیان میں مولانا مودودی نے کہا کہ خدا کے فضل سے (اس کی) جماعت طاقت پکڑ رہی ہے اور اس کا اثر روز بروز بڑھ رہا ہے.موجودہ صورتحال میں اس کی ہار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جماعت اسلامی کے راہنما نے اپنی پارٹی کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے منشور پر کلیپ عمل درآمد کرے گی.انہوں نے کہا کہ جماعت (اسلامی) اگر واضح اکثریت حاصل نہ بھی کرے تب بھی اس کا ہر ایک منتخب نمائندہ منشور کے ایک ایک لفظ پر سنجیدگی سے عمل درآمد کی بھر پور کوشش کرے گا.اس وقت جماعت کی موجودگی باقی بہت سے گروہوں اور پارٹیوں کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہوگی جب وہ ذاتی مقاصد کے حصول کی خاطر قومی مسائل کو پس پشت ڈال رہے ہوں گے.پیپلز پارٹی کے خلاف کفر کے فتوے پیپلز پارٹی کی مقبولیت کو دیکھ کر روایتی سیاستدان اور رجعت پسند مولوی خوفزدہ ہو گئے.سرمایہ دار اور جاگیر دار بھی پی پی پی کے منشور سے خوفزدہ تھے.سیاست کا انداز بدل رہا تھا.چنانچہ ان قوتوں نے آخری حربے کے طور پر پی پی پی کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرا دیئے.تین سو سے زائد علماء نے فتویٰ جاری کیا کہ جو شخص پی پی پی کو ووٹ دے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا.۱۹۷۰ء کے انتخابات میں اسلام اور سوشلزم کی نظریاتی کشمکش میں عوام نے اسلامی سوشلزم کے حق میں فیصلہ دیا.پاکستان کے ترقی پسند دانشوروں، ادیبوں ،صحافیوں اور شاعروں نے بھی پی پی پی کا ساتھ دیا.پی پی پی نے نظریاتی معرکہ جیت لیا.مذہبی جماعتوں خاص طور پر جماعت اسلامی کو بڑا

Page 255

تاریخ احمدیت.جلد 26 245 سال 1970ء سیٹ بیک ہوا جو قو می اسمبلی کی صرف چار نشستیں اور کل ووٹوں کا ۵۶۹۷ فیصد حاصل کرسکی جبکہ پی پی پی نے کفر کے فتووں کے باوجود قومی اسمبلی کی ۸۱ نشستیں اور ۳۸۶۸۹ فیصد ووٹ حاصل کئے.170 انتخابات میں عبرتناک شکست جناب مودودی صاحب کی ”جماعت اسلامی“ کو اپنی تمام تر کوششوں اور حربوں کے غیر اسلامی، غیر اخلاقی بلکہ غیر انسانی ہتھکنڈوں کے استعمال کے باوجود ایسی عبرتناک شکست ہوئی کہ اس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ( انتخابی نتائج الیکشن ۱۹۷۰ء.قومی اسمبلی میں نمائندوں کی کل تعداد ۳۱۳.کل نشستیں جن کے لئے انتخاب ہوا ۲۹۰.کامیاب امیدوار.عوامی لیگ ۱۵۱.پیپلز پارٹی ۸۱.جماعت اسلامی ۴.مسلم لیگ قیوم گروپ ۹.کونسل مسلم لیگے.جمعیۃ العلماء پاکستان ے.آزاد ۱۶.جمعیۃ العلماء اسلام ہزاروی گروپ کے.نیشنل عوامی پارٹی ولی گروپ ۶.کنوینشن مسلم لیگ ۲.جمہوری پارٹی ۱.مرکزی جمعیتہ علماء اسلام ×.جماعت اسلامی کے کامیاب ۴ نمائندوں میں سے دو کا تعلق سندھ سے تھا اور باقی دو پنجاب اور سرحد سے تعلق رکھتے تھے ).180 مودودی صاحب پاکستان میں صرف اس لئے آئے تھے کہ وہ اپنی پارٹی کی سلطنت قائم کر سکیں.اسی نصب العین کے لئے انکی ساری جدو جہد ہے.۵۳ ء کے فسادات پنجاب میں انہوں نے جو کر دار ادا کیا تھا اس کا مقصد بھی یہی تھا اسی لئے انہوں نے اُن دنوں نہایت اشتعال انگیز کتا بچہ قادیانی مسئلہ شائع کیا تھا.مودودی صاحب کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے’ قادیانی مسئلہ کا جواب“ شائع ہوا تھا جس میں مودودی صاحب کی خطر ناک سکیم کو طشت از بام کرتے ہوئے حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ اسیح الثانی نے نہایت واضح الفاظ میں اعلان فرما دیا تھا کہ خواہ کچھ ہو جائے مودودی صاحب کی پارٹی اپنے اس مقصد میں ہرگز کامیاب نہ ہو سکے گی.حضور کے الفاظ یہ ہیں : مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقینا نہیں بنے گی.جماعت اسلامی کی شکست پر شورش کا شمیری کا تبصرہ 181 ”جماعت اسلامی کے نقیب خصوصی شورش کا شمیری ایڈیٹر چٹان نے جناب مودودی صاحب کے نام ایک کھلے مکتوب میں لکھا:.مخدومی مولانا، سلام مسنون.نتائج کے بعد دماغ میں سوالات کا ایک ہجوم ہے ابھی خود انہیں

Page 256

تاریخ احمدیت.جلد 26 246 سال 1970 ء 182 چھانٹ رہا ہوں جو بیچ رہے عرض کروں گا.ہم نئی پود سے غافل تھے نتیجہ اس نے ہمیں مسترد کر دیا ہے اور اگر صورت حال کا ہم ٹھیک ٹھیک اندازہ نہ کر سکے تو اس ویرانے میں کہاں تک اذان دے سکتے ہیں؟ فی الحال ایک ہی خلش ہے اور یہ خلش میرے دماغ میں بہت دنوں سے ہے شاید میں نے ایک رقعہ پہلے بھی آپ کو لکھا تھا کہ جس چیز کا نام حق ہے تاریخ میں کب اور کہاں کامیاب ہوا؟ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اس پر مصائب بیت گئے اور اس کے داعی باقی نہ رہے تو ان کی سرگذشت قلم نے محفوظ کر لی اور ہم نے اس تذکرہ کو تاریخ بنا دیا.کیا ہم لوگ اندھیروں میں چراغ جلانے کے لئے رہ گئے ہیں اور روشنیاں صرف ان کے لئے ہیں جو اندھیروں میں پیدا ہوئے اور اندھیروں میں پروان چڑھے اور جن کا حسب ونسب اندھیروں میں ملتا ہے.والسلام.امخلص.شورش کا شمیری جناب شورش کا شمیری صاحب نے اپنے رسالہ چٹان کے ادارتی نوٹوں میں عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کی بے نظیر کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:.ا.پیپلز پارٹی کو جو کامیابی ہوئی ہے وہ اس کی توقع سے کہیں بڑھ کر ہوئی ہے ہم اس کے خوبصورت وعدوں کی شدت کا اندازہ کرتے ہوئے بھی یہ نہیں سمجھتے تھے کہ اتنی نشستیں لے جائیں گے.بہر حال ہمیں اعتراف کرنا چاہیے اور اس میں کسی ایچ بیچ کی ضرورت نہیں کہ عوام کی بہت بڑی اکثریت نے ہمارے خلاف فیصلہ دیا ہے ہم ہار گئے اور وہ لوگ جیت گئے جو ہمارے نزدیک کسی لحاظ سے بھی اس جیت کا استحقاق نہیں رکھتے تھے.ہم ہار گئے بلاشبہ بھٹو جیت گئے لاریب یہ کہنا غلط ہوگا کہ دھاندلیاں ہوئی ہیں اس قسم کے معمولی واقعات ہر الیکشن میں ہوتے رہے ہیں اور کسی جگہ کبھی ان سے خلاصی نہیں ہوئی لیکن صورت حال اس سے مختلف نہیں جو ہم نے بیان کی کہ بھٹو کو عوام نے پورے اعتماد سے جتوایا ہے اور وہ عوام کی معرفت جیتے ہیں.ہم اپنے دل کی اس حقیقت کو چھپا نہیں سکتے کہ پنجابی عوام کے اس فیصلہ سے ہمیں سخت قلق ہوا ہے.بہر حال ہم بھٹوکو نہیں پنجاب کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اس نے ایک اور فاتح کا خیر مقدم کیا ہے.ابوالاعلیٰ مودودی نصر اللہ خان، جاویداقبال، طفیل محمد ، اصغر خان، محمد حسین چٹھہ شاید اسی سزا کے مستحق تھے جو انہیں دی گئی ہے ! زندہ دلانِ پنجاب پائنده باد!! اسلام کے نام پر کتنی جماعتیں تھیں؟ ہم جماعت اسلامی میں شامل نہیں.لیکن حق کسی جماعت میں شامل نہ ہونے کے باعث ناحق نہیں ہو جاتا.اندھوں کے سوا کوئی باضمیر انسان انکار نہیں

Page 257

تاریخ احمدیت.جلد 26 247 سال 1970ء کرسکتا کہ جماعت اسلامی ہی ایک ایسی جماعت ہے جس نے خلاف اسلام طاقتوں کا فکری محاذ پر سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا اور لگا تار کیا.اس کی قیمت بھی ادا کی.بہت بڑی قیمت ! لیکن جب درخت پک کر تیار ہو گیا تو اس کا پھل کھانے کے لئے کئی اسلام پسند پیدا ہو گئے.جمعیت العلماء اسلام ( ہزاروی) کی بات دوسری ہے وہ جماعت اسلامی کے مقابلے میں دو یا تین نشستیں زیادہ لے گئی.یعنی جماعت اسلامی کی چار نشستیں ہیں، اس کی سات.لیکن ہزاروی جمعیت نئی پود کو فکر نہیں دے سکتی اور نہ ان طاقتوں کے فہم ہی کا ملکہ رکھتی ہے جو پاکستان میں اشتراکیت کی نیور کھنے میں کل تک اسے استعمال کرتی رہی ہیں.یہ لوگ زیادہ سے زیادہ مجاہد ہیں مفکر نہیں اور فکر ان کے بس کا روگ بھی نہیں.ماضی میں زندگی بسر کرنے والوں کا ایک گروہ ہے اور بس! د 183 اسلام پسندوں کے متعلق مختصر جو بات کہی جاسکتی ہے، صرف اتنی ہے کہ اسلام پسند آپس میں لڑتے رہے، اسلام ( مراد جماعت اسلامی کے امیدوار.ناقل ) ہار گیا.ان کی اس اسلام دوستی پر ہم اسلام پسندوں کو ہدیہ تبریک پیش کرتے اور اس دن کے منتظر ہیں کہ ان علماء میں سے کون ، کب اور کہاں جبین نیاز کا سجدہ ارادت لے کر جاتا ہے؟ مہ تعلیم القرآن راولپنڈی کے فاضل مدیر شیخ القرآن مولوی غلام اللہ خان نے لکھا:.جماعت کے سادہ لوح افراد جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے اس قدر دھوکے میں تھے کہ وہ اس جماعت کو ملک کی سب سے قومی سیاسی جماعت سمجھے بیٹھے تھے.امیر جماعت مودودی صاحب بھی اپنے مداحوں اور درباری ادیبوں کے لٹریچر سے اس قدر متاثر تھے کہ وہ بھی ابوالاعلیٰ کنیت کے پورے غرور کا شکار ہو چکے تھے.اسی لئے عین کے دسمبر انتخاب کے دن انہوں نے اخبارات میں یہ بیان دیا سوشلسٹوں کو ہم عبرتناک شکست دیں گے.سوشلسٹوں کا قبرستان پاکستان ہوگا.میری جماعت ملک میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہو گی وغیرہ وغیرہ (دیکھئے ۷ دسمبر کے اخبارات) اتنے میں سوشلزم کا ایک سیلاب آیا کہ وقت کا یہ فرعون جو کبھی کسی حق بات کی طرف نہ جھکتا تھا فرعون بنی اسرائیل کی طرح اس سیلاب میں بہہ گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.پورے ملک میں صرف چارا میدوار کامیاب ہوئے.184 امیر صوبہ پنجاب و بہاولپور کا عجیب و غریب تجزیہ جماعت اسلامی صوبہ پنجاب و بہاولپور کے امیر جناب سید اسعد گیلانی نے انتخابات کا یہ دلچسپ

Page 258

تاریخ احمدیت.جلد 26 248 سال 1970ء مگر عجیب و غریب تجزیہ کیا کہ :.۲۳ سال میں پہلے عام انتخابات کے دسمبر ۱۹۷۰ء کو ہو گئے اور ان کے خلاف توقع نتائج پر جیتنے اور ہارنے والے دونوں حیرانی کا شکار ہیں نہ جیتنے والوں کو یہ توقع تھی کہ وہ یوں جیتیں گے اور نہ ہارنے والوں کو یہ توقع تھی کہ وہ اس طرح ہاریں گے دونوں کے نزدیک یہ ایک ایسا حادثہ ہے جس کی توجیہہ مختلف انداز میں کی جارہی ہے......یہ بات جو بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ ۲۳ سال تک بحران میں مبتلا قوم کے پہلے انتخابات میں دونوں بازوؤں میں در حقیقت دو منظم ترین اقلیتوں نے انتخاب جیتا ہے.مغربی حصے میں قادیانی اقلیت نے اور مشرقی حصے میں ہندو اقلیت نے.اور دونوں بازوؤں میں ان کا رول یکساں رہا ہے.یہ دونوں اقلیتیں ان انتخابات میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت شریک ہوئیں اور اپنے وسیع ذرائع اور وسائل، اپنی پختہ منصوبہ بندی اور اپنی انتھک محنت سے منتشر اسلام پسند جماعتوں کو فرداً فردا شکست دینے میں کامیاب ہوئیں مسلمانوں کی ان مخصوص طرز کی جماعتوں کے ذریعہ انہوں نے اپنے کام کے بے شمار آدمی اسمبلیوں میں پہنچالئے ہیں.مغربی حصے میں ۲۲ لاکھ سے زائد قادیانی اقلیت اپنے سارے وسائل کے ساتھ پیپلز پارٹی کی رضا کار تنظیم بن گئی اور اس اقلیت نے جس جانفشانی، محنت، ایثار و قربانی والہانہ انہاک، سازش، جوڑ توڑ اور شرافت و اخلاق کے ہر معیار کو پھاند کر پیپلز پارٹی کے لئے کام کیا اس پر مغربی حصے کا ہر شہری چشم دید گواہ ہے.185 ملکی انتخابات اور اس کے نتائج پر حقیقت افروز تبصرہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء کے خطبہ جمعہ میں پاکستان کے انتخابات اور اس کے حیرت انگیز نتائج پر حقیقت افروز تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:."وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا ( آل عمران: ۱۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی ہی حسین اور وسیع تعلیم دی ہے اور اگر امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور یہی خدا اور اس کا رسول چاہتے ہیں تو پھر ایک ایسی حسین فضا اور معاشرہ پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اختلاف اُمَّتِی رَحْمَةٌ ، بھائی بھائی میں اختلاف ہوتا ہے.میاں بیوی میں اختلاف ہوتا ہے.ماں بیٹی میں اختلاف ہوتا ہے.باپ بیٹے میں اختلاف ہوتا

Page 259

تاریخ احمدیت.جلد 26 249 سال 1970ء ہے.خدا تعالیٰ نے اپنی ہر خلق میں اپنی ایک شان ظاہر کی ہے.کثرت اختلاف انسانی وحدت خالقِ انسانی ثابت کرتی ہے..پس حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عادتوں کے لحاظ سے بھی اختلاف پیدا ہوگا اور بعض لوگوں کو میرے بعض احکام اور حدیثیں ملیں گی اور بعض کو دوسری ملیں گی.یہ جو فقہی اختلافات ہیں یہ زیادہ تر اسی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں.لیکن اس اختلاف کے نتیجہ میں امت میں زحمت نہیں ظاہر ہونی چاہیے بلکہ رحمت ظاہر ہونی چاہیے اور وہ رحمت تبھی ظاہر ہو سکتی ہے کہ سارے مسلمان متحد اور ایک جان ہو جائیں اور خدا اور اس کے رسول کے عاشق ، فدائی اور جاں نثار بن جائیں.یہ ایک بڑا عجیب سبق ہے جو امت محمدیہ کو اختلافات کے بدنتائج سے بچنے کے لئے دیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایک دوسرے کی گردنیں کا شانہ شروع کر دینا، ایک دوسرے کے اموال کو اپنے اوپر جائز نہ قرار دے دینا.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہارے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے.تم ایک فتویٰ دے کرنا جائز کو جائز قرار نہیں دے سکتے کیونکہ خدا تعالی نے فرمایا ہے کہ میں اور میرا رسول ان کی عزتوں کے محافظ ہیں.تم اپنے ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی بے عزتی نہ کرنا.اب پچھلے الیکشن کے دنوں میں بدزبانی نے کسی کو نہیں چھوڑا اُن لوگوں پر بھی حملے کئے گئے جو بطور امیدوار کھڑے ہوئے تھے اور ان کی بیویوں اور بچوں کو بھی بد زبانی کا نشانہ بنایا گیا.ہم دکھ میں پڑے رہتے تھے اور دعائیں کرتے رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سمجھ عطا کرے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرف انسانی کا حسین پیغام لائے تھے.آپ نے عزت نفس انسانی کو قائم کیا تھا.لیکن لوگ اس کو بھول گئے اور ایک دوسرے کو گالیاں دینی شروع کر دیں، اتہام لگانے شروع کر دیئے ، وہ باتیں کہنی شروع کیں کہ ایک مسلمان کے منہ سے تو کیا ایک شریف غیر مسلم انسان کے منہ سے بھی نہیں نکل سکتیں ، ہمارے پاس سوائے دعا کے اور کوئی چارہ نہ تھا اللہ تعالیٰ سے جتنی توفیق ملی دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.

Page 260

تاریخ احمدیت.جلد 26 250 سال 1970ء اس وقت انتخابات کا جو نتیجہ نکلا ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ قوم ایک حد تک سیاست کے آخری مقصد کے حصول کے لئے قدم اٹھا چکی ہے.الیکشن ہوئے ، پھر مارشل لاء کے قانونی فریم ورک کے مطابق کانسٹی ٹیوشن یعنی دستور بنے گا.پھر ہمارے صدر صاحب اگر دیکھیں گے کہ قوم میں فساد نہیں پیدا ہوتا یا قوم کی یک جہتی اور اتحاد کے خلاف نہیں تو وہ اس کو منظور کریں گے پھر سیاسی حقوق کا انتقال ہوگا.پھر اسمبلیاں بنیں گی جنہیں بجبیلیچر کہتے ہیں اور پھر یہ اسمبلیاں قوانین وضع کریں گی اور مختلف پارٹیاں جو حکومت بنائیں گی وہ اپنے اپنے پروگرام کے مطابق سکیمیں سوچیں گی اور قوانین بنائیں گی.بہر حال یہ تو ایک لمبا عمل ہے البتہ ایک قدم عوام کے سیاسی حقوق کو قائم کرنے کی طرف اٹھایا گیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جو چیز پرانے تجربہ کار سیاستدانوں کی نظر سے اوجھل تھی اور جس کے نتیجہ میں انہیں شکست اٹھانی پڑی وہ یہ تھی کہ پچھلے ۲۳ سال میں (جو پارٹیشن یعنی تقسیم ملک کے بعد ہماری قوم نے گزارے ہیں ) ہر سال ووٹروں کا ایک نیا گروہ ووٹروں کی لسٹ میں شامل ہوتا تھا.ہر سال ۲۰ سال سے ۲۱ سال کی عمر کو پانے والا ووٹروں کی لسٹ میں آجا تا تھا.اس قسم کے ۲۳ نئے گروہ ووٹروں کی فہرست میں شامل ہوئے لیکن اس ۲۳ سال کے عرصہ میں ایک دفعہ بھی ان کو اپنے خیالات کے اظہار کرنے کا موقعہ نہیں ملا کیونکہ عام رائے دہی کے اصول پر اس سے پہلے انتخاب نہیں ہوئے.اب یہ ۲۳ سال کا جو مجموعی گروہ ووٹروں کے حقوق حاصل کرنے والا اور ووٹروں کی فہرست میں داخل ہونے والا ہے یہ تھوڑا نہیں ہے میرے عام اندازے کے مطابق ووٹروں کا ۴۰ فیصد ایسا ہے جو اس ۲۳ سال میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ کر ووٹر بنا اور جس نے اپنی زندگی میں پہلی دفعہ اپنی رائے کا اظہار کیا ہے.یہ ایک بڑی طاقت ہے جیسا کہ پہلے سیاستدانوں نے ان کو حقوق کی ادائیگی میں چھوڑ دیا تھا.اور ان کی طرف توجہ نہیں کی گئی تھی اسی طرح اب بھی انہوں نے ان کی نبض پر اپنی انگلیاں نہیں رکھیں.ان کو پتہ نہیں تھا یہ اس بات کو بھولے ہوئے تھے کہ اس ۲۳ سال کے عرصہ میں سیاست کے اندر ایک ایسا گروہ آ گیا ہے( جو میرے اندازے کے مطابق

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد 26 251 سال 1970ء ۴۰ فیصد ہے) جسے ووٹ دینے کا پہلی دفعہ موقعہ ملا.چنانچہ سیاستدان پرانی ڈگر پر چل رہے تھے مگر اس نئے گروہ نے جسے میرے نزدیک Young Pakistan ( ینگ پاکستان ) یعنی نوجوان پاکستان کہنا چاہیے، اس نوجوان پاکستان نے یہ فیصلہ دیا کہ وہ مذہبی اختلافات کے نتیجہ میں کسی کو لڑنے نہیں دیں گے.یہ ایک بڑا ہی عظیم فیصلہ ہے جو نو جوان پاکستان نے دیا ہے کوئی پندرہ ہیں قومی اسمبلی کے امیدواروں کو احمدی کہہ کر ان کی مخالفت کی گئی.مگر ان میں سے ایک نے بھی شکست نہیں کھائی.یہ فیصلہ تھا اس نو جوان پاکستان کا کہ تم مذہب میں الجھا کر ہمارے جائز حقوق سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہو.ہم یہ نہیں ہونے دیں گے.اسلام نے ہمارے جو حقوق قائم کئے ہیں وہ ہمیں ملنے چاہئیں اور اب پہلے کی طرح کوئی مذہبی اختلاف اس راستے میں حائل نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں پانچ احمدی کامیاب ہوئے ہیں.الحمد للہ.جو ہمارے سب سے زیادہ مخالف تھے.میں ان کا نام نہیں لیتا.انہوں نے ہماری مخالفت میں بڑا زور لگایا تھا.انہوں نے مذہب کے نام پر، اسلام کے نام پر فتنہ وفساد کی ایک آگ بھڑکا دی تھی.انہوں نے دکان بڑی سجائی تھی.بہت سارے لوگ اس دکان کو،اس Show window(شو ونڈو ) کو دیکھ کر سمجھتے تھے کہ اب پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.کئی احمدی دوست میرے پاس بڑے گھبرائے ہوئے آتے تھے مگر میں ان کو سمجھا تا تھا کہ کیا ہو جائے گا ؟ ہو گا وہی جو خدا چاہے گا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو.پنجاب میں ان سارے لوگوں میں سے ہارے ہوئے اور ایک جیتے ہوئے کے ووٹ ملا کر چورانوے ہزار بنتے ہیں.اس کے مقابلے میں ہمارے پانچ جیتنے والے دوستوں میں سے تین نے ایک لاکھ سے زائد ووٹ لئے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کیونکہ جماعت احمدیہ کسی سیاسی پارٹی کے ساتھ تو تعلق اتحاد نہیں رکھتی.کسی ایک پارٹی کے ساتھ ہمارا الحاق نہیں ہوسکتا تھا.ہمارے خلاف جھوٹ بھی بولے گئے.یہ سب کچھ کہا گیا لیکن واقعہ یہ ہے کہ بعض جگہ احمدیوں نے کہا کہ ہمارا کنونشن لیگ کے ساتھ تعلق ہے.ہم نے کہا ٹھیک ہے تم ان کو

Page 262

تاریخ احمدیت.جلد 26 252 سال 1970 ء ووٹ دو.خواہ یہ ہاریں یا جیتیں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.بعض قیوم لیگ سے تعلق رکھنے والے آئے.وہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتے تھے ہماری جماعت کا خیال رکھتے تھے.شریف آدمیوں سے یہ دنیا بسی ہوئی ہے وہاں مقامی جماعت احمدیہ نے کہا کہ ہم ان کو ووٹ دینا چاہتے ہیں.ہم نے کہا ٹھیک ہے سیاست میں تو کوئی حکم نہیں چلے گا.تمہارے ساتھ تعلق رکھتے تھے، تم اگر ان کو ووٹ دینا چاہتے ہوتو ان کو ووٹ دے دو اسی طرح بہت سارے آزاد ممبر آئے ، ان کا ہمارے ساتھ تعلق تھا نہ پیپلز پارٹی نے ان کو ٹکٹ دیا تھا اور نہ کسی اور پارٹی نے ان کو ٹکٹ دیا تھا.چنانچہ وہ بھی آئے.ہم نے کہا ٹھیک ہے مقامی جماعتیں اگر تمہارے ساتھ ہیں تو وہ تمہیں ووٹ دیں گی.پس احمدیوں کے ووٹ مختلف سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہو گئے.یہ بھی ایک حقیقت ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو پارٹی زیادہ صاحب فراست نکلی ، اس نے اپنے تدبر سے احمدیوں سے زیادہ خدمت لے لی.یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے لیکن یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارا کسی ایک پارٹی کے ساتھ الحاق ہے.غرض جو پارٹی اس وقت سب سے زیادہ کامیاب ہوئی ہے اور جس نے ہم سے سب سے زیادہ خدمت کی ہے اور ووٹ لئے ہیں اس کے متعلق دوسروں کا خیال ہے (میرا جو خیال ہے وہ اس سے زیادہ ہے.مجھے بعض رپورٹیں لاہور سے آئی ہیں که اب) وہ کہتے ہیں کہ یہ ( پیپلز پارٹی والے ) اس واسطے جیت گئے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر ان کے ساتھ شامل ہو گیا تھا.ہم نے کہیں مردم شماری نہیں کرائی اس واسطے کہ نہیں سکتے کہ پندرہ لاکھ احمدی ووٹر تھے.لیکن احمدی اور احمدیوں کے دوست اور تعلق رکھنے والے ووٹر جو اس پارٹی کو ملے وہ میرے اندازے کے مطابق پندرہ لاکھ نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ہیں.ان مہینوں میں جو پیچھے گزرے ہیں لوگوں میں جوش بھی تھا غلط باتیں بھی ہو رہی تھیں اور اس عہد کو تو ڑا بھی جار ہا تھا جو خدا نے اپنے بندوں یا امت مسلمہ سے لیا تھا کہ دیکھو! معمولی معمولی اختلافات کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے سیاسی ، معاشرتی اور اقتصادی حقوق سے محروم نہ کرنا.ورنہ اس کے نتیجہ میں رحمت نہیں پیدا ہوگی.میرے

Page 263

تاریخ احمدیت.جلد 26 253 سال 1970ء پاس جو لوگ آتے تھے میں ان کو سمجھاتا تھا کہ دیکھو! ہم ایک غریب جماعت ہیں.دنیوی لحاظ سے ایک بے سہارا جماعت، ایک ایسی جماعت کہ جو ہزار کے مقابلے میں اگر ایک پتھر پھینکنے کی طاقت رکھتی ہے تو وہ بھی نہیں پھینک سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ پتھر کا جواب پتھر سے نہیں دینا.اگر کروڑ گالیاں بھی ہمیں دی جاتی ہیں تو اگر کوئی نوجوان جوش میں آکر ایک گالی اس کروڑ کے مقابلہ میں دینا چاہتا ہے تو اس کے دماغ میں یہ بات مسلط ہو جاتی ہے کہ ہمارے امام اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا تھا گالیاں سن کر دعا دو.اس کی زبان پر ایک بات آتی ہے.وہیں رک جاتی ہے وہ اسے مونہہ سے نہیں نکالتا.ان تمام حالات کے باوجود ۸۰ سالہ گالیوں اور ۸۰ سالہ کفر کے فتووں نے نہ ہمارے چہروں سے مسکراہٹیں چھینیں اور نہ ہم سے قوت احسان کو چھینا.ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے اور مسکراتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں.کوئی شخص خواہ وہ ساری عمر گالیاں دیتا رہا.جب بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دروازے پر آیا تو خالی ہاتھ واپس نہیں گیا.یہ قوت احسان ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے.یہ اس کا بڑا فضل ہے انسان خود اس قوت کو پیدا نہیں کرسکتا.میں سمجھتا ہوں کہ بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ نے قوتِ احسان کو پیدا کیا ہے.غرض جو آدمی آتا ہے اگر اس کا کام جائز ہو تو کر دیا جاتا ہے.یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دو دن پہلے اس نے ہمیں نہایت گندی گالیاں دی تھیں اور اسی طرح اس نے ساری عمر گالیاں دینے میں گزار دی اور ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی.نا جائز طور پر احمدیوں کو نقصان پہنچانے میں اگر کامیاب بھی ہو گیا تو کوئی بات نہیں دنیوی لحاظ سے ابتلاء بھی آتا ہے ہم یہ نہیں دیکھتے صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کا مطالبہ جائز ہے یا نہیں.اگر جائز ہے تو وہ ہم سے تعلق رکھنے والا ہے یا ہماری مخالفت کرنے والا ہے اس کو ہم خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے.ہم اس کی مدد کرتے ہیں.پس اس قسم کی ۸۰ سالہ مخالفت جو اللہ تعالیٰ اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیاری نہیں تھی اس کے نتیجہ میں بھی نہ ہماری مسکراہٹیں چھینی گئیں اور نہ ہم سے قوت احسان

Page 264

تاریخ احمدیت.جلد 26 254 سال 1970ء چھینی گئی.اب جس آدمی کے ساتھ آپ پیار کا اور محبت کا تعلق رکھتے ہیں یا جس کے ساتھ آپ ہمدردی اور غمخواری کرتے ہیں ، وقت پر اس کے کام آتے ہیں.مصیبت کے وقت اس کی مصیبت دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں.تو وہ سمجھتا ہے کہ اعتقاد اہم ایک نہیں لیکن ہمارے دل ایک ہی قسم کی حرکت کر رہے ہیں.اس طرح وہ دو نہیں، ایک ہو جاتے ہیں.جس وقت ایسے وقت آتے ہیں تو اگر وہ دلیر ہیں اور اگر ان کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں.جدھر تم جاؤ گے اُدھر ہم جائیں گے.لیکن اگر ان کے حالات اجازت نہ دیں تو وہ ہمارے کان میں آکر کہتے ہیں تم فکر نہ کرو.ہم جائیں گے تو اس راستے سے مگر ووٹ تمہیں دیں گے.پس ہماری قوت احسان اور ہمارے پیار اور ہماری محبت کے نتیجہ میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہمارا ساتھ دیتے ہیں.اس لئے صرف احمدی ووٹ نہیں بلکہ جس حلقے میں بھی جدھر احمدی گیا وہ اپنے ساتھ دُگنے لگنے ووٹ لے کر گیا.بعض عقلمندوں کو الیکشن سے پہلے یہ نکتہ سمجھ آ گیا تھا.چنانچہ گجرات سے ہمارے ایک دوست آئے.وہ احمدی نہیں تھے.کہنے لگے کہ آپ میری مدد کریں.وہ خود ہی کہنے لگے کہ میرے حلقہ انتخاب میں سات ہزار احمدی ووٹ ہے اور میں نے اندازہ لگایا ہے کہ ۲۵.۳۰ ہزار ووٹ آپ کے ہیں.جدھر یہ سات ہزار ووٹ جائے گا اُدھر ہی یہ ۲۵.۳۰ ہزار ووٹ بھی ساتھ جائے گا.اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ آپ میری مدد کریں.میں بہت خوش ہوا.میں نے اس سے کہا میں اس لئے خوش ہوں کہ جو چیز بہت سے لوگوں کے سامنے نہیں آئی اور وہ سوچتے نہیں، وہ تمہارے دماغ میں آگئی ہے.خیر اللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کو اس کے لئے کام کرنے کی توفیق دی اور وہ انتخاب میں کامیاب ہو گیا حالانکہ اس کا بڑا سخت مقابلہ تھا.ایک بڑا ہی ظالم قسم کا آدمی اس کے خلاف کھڑا تھا جولوگوں کے حقوق مارنے والا تھا اور اس نے بڑی دھمکیاں دیں (احمد یوں کو نہیں.احمدی تو دھمکی کی پرواہ ہی نہیں کرتے ) اور دوسرے ووٹروں کو اس نے بہت ستایا ، بہت کچھ کیا لیکن کامیاب نہیں ہوسکا.غرض احمدیوں کے شامل ہونے سے اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہو جاتا ہے.

Page 265

تاریخ احمدیت.جلد 26 255 سال 1970ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جو طبیب اپنے مریض کے لئے دعا نہیں کرتا وہ بڑا ظالم ہے تو جو ووٹر احمدی ہے، جس کے حق میں اس نے ووٹ ڈالنا ہے اگر وہ اس کے حق میں دعا نہیں کر رہا تو وہ بھی ظالم ہے کیونکہ اصل چیز تو دعا ہے.اس کے فضل کے بغیر تو کچھ نہیں ہوسکتا.کئی ناسمجھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو دعا کا فلسفہ ہی نہیں آتا.ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ میری مدد کریں.میرے آپ کے ساتھ بہت تعلقات ہیں.میں نے کہا بحث میں پڑنے کی ضرورت نہیں.ٹھیک ہے تم نے جماعت سے تعلقات بھی رکھے ہوں گے لیکن اب ہم وعدہ کر چکے ہیں.تم دیر بعد آئے ہو.ورنہ اگر تم پہلے آ جاتے تو تمہاری مدد کر دیتے.وہ کہنے لگا کہ اچھا اگر اس سے مدد کا وعدہ کر دیا ہے تو میرے لئے دعا کریں.میں نے کہا دعا اور عمل اکٹھے چلیں گے.آپس میں ان کا تصادم کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن چونکہ وہ دعا کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے ، اسلام کی روح سے واقف نہیں ہوتے اس لئے اس قسم کے خیالات دماغ میں آتے ہیں اور ان کا اظہار کر جاتے ہیں.پس جہاں احمدی کا ووٹ جائے گا وہاں احمدی کی دعائیں بھی اسی راستے پر چل رہی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو جذب کریں گی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایسی ناممکن باتیں ممکن بنادی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.جو لوگ ہماری مخالفت کرتے رہے، ناجائز طور پر ہمیں تنگ کرتے رہے، ڈراتے دھمکاتے رہے.ان کے متعلق میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ان کو شکست ہو اور میں ان کی شکست کے لئے دعائیں بھی کرتا تھا.چنانچہ جب ان کے خلاف کھڑے ہونے والوں سے جماعتوں نے وعدہ بھی کر لیا لیکن جب میں کہوں تم زور لگاؤ کہ اس قسم کے کسی شخص کو کامیاب نہیں ہونا چاہیے تو دوست کہیں کہ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.یہ تو بڑا مضبوط ہے.یہ تو بڑے اثر و رسوخ والا ہے اس نے تو بڑے بڑے قاتل اور خونخوار قسم کے ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں.انہوں نے فلاں جگہ تو اعلان کر دیا ہے کہ جو انہیں ووٹ نہیں دے گا اسے وہ شوٹ کر دیں گے.وغیرہ وغیرہ.

Page 266

تاریخ احمدیت.جلد 26 256 سال 1970ء یہ باتیں صحیح تھیں یا غلط ، بہر حال لوگ مجھے اگر ایسی باتیں سناتے رہتے تھے.لیکن ان کا پتہ ہی نہیں لگا کہاں گئے؟ اس واسطے کہ اصل کامیابی کا سر چشمہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کسی کو ابتلاء اور امتحان میں ڈالتا ہے اور اسے دنیوی کامیابی دے دیتا ہے یعنی دنیا کی ہر کامیابی اللہ تعالیٰ کا فضل اور برکت اور رحمت شمار نہیں ہو سکتی.قرآن کریم نے اس کا ذکر فرمایا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی اس کا ذکر موجود ہے.یعنی بھی انعام اور اصطفاء کے طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے.کبھی ابتلاء کے طور پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا نزول ہوتا ہے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے، ہمیں بھی اللہ تعالیٰ آزماتا ہے.لیکن اس میں بھی ہمارے لئے رحمت پوشیدہ ہوتی ہے البتہ جو انعام اصطفی کے طور پر یعنی اپنی محبت اور قرب کے اظہار کے طور پر وہ جماعت احمد یہ پر نازل کرتا اور ان سے پیار کرتا ہے اس کا تو شمار ہی کوئی نہیں ! اس لئے بہت الحمدللہ پڑھو.اور اپنے رب کے حضور گرو اور اس سے کہو کہ ہم تیرے ناچیز بندے ہیں.تیرے فضلوں کا شمار نہیں ہے.ہماری زبانیں ، ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ شکر ادا کرنا چاہے تو شکر ادا نہیں کرسکتا اور یہ دعا بھی کرو کہ اے اللہ! تو نے اپنے بندوں کے لئے بہتری کے کچھ سامان پیدا کرنے شروع کئے ہیں.وہ مظلوم اور محروم جو ہر طرف سے دھتکارے ہوئے اور ذلیل سمجھے جانے والے اور حقیر کہلانے والے جنہیں لوگ عوام کہتے ہیں.یہ تیرے بندے اب اپنی عزت کے راستے پر قدم اٹھانے لگ گئے ہیں.تو ایسی تدبیر کر آسمانوں سے اور ایسا حکم نازل کر کہ یہ اپنی منزل مقصود کو پہنچ جائیں اور وہ حسین معاشرہ جو اسلام کا معاشرہ ہے، جو دنیا کی کسی اور قوم کے دماغ میں بھی نہیں آسکتا تھا وہ معاشرہ قائم ہو جائے اور ہر مظلوم ظلم سے نجات اور چھٹکارا حاصل کرے اور ہر محروم کو خواہ وہ مانگے یا مانگنے سے بھی محروم ہو اس کے حقوق اسے مل جائیں، اقتصادی بھی اور عزت نفس کے لحاظ سے بھی“.ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب کے قادیان سے متعلق تاثرات جرمنی کے نامور نومسلم احمدی محقق و فاضل ڈاکٹر محمد عبدالہادی کیوسی صاحب نے اس سال

Page 267

تاریخ احمدیت.جلد 26 257 سال 1970ء زیارت قادیان کا شرف حاصل کیا ( زیارت قادیان دارالامان کے بعد آپ نے جلسہ سالانہ ربوہ میں شرکت کی اور پھر حرمین شریفین کی زیارت اور عمرہ بجالانے کا شرف حاصل کیا) واپسی پر آپ نے جماعت احمدیہ جرمنی کے ماہوار رسالہ دی اسلام (Der Islam) میں ایک اداریہ بعنوان ” قادیان“ سپر داشاعت فرمایا جس میں مرکز احمدیت سے متعلق اپنے ایمان افروز تاثرات قلمبند فرمائے.اس اداریہ کے ضروری حصے کا ترجمہ جناب مسعود احمد صاحب جہلمی مبلغ جرمنی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے:.قادیان پہنچنے کے فورا بعد ہی میں نے وضو کیا اور مجھے بیت الدعا میں جانے کا موقع دیا گیا.وہاں پر کچھ اور ہی کیفیت پیدا ہو گئی.ایک عجیب غیر متوقع کیفیت.ہاں اس چھوٹے سے کمرے میں.جس میں حضرت بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد علیہ السلام نے اپنی زندگی کے کتنے ہی گھنٹے ، کتنے ہی دن اور کتنے ہی مہینے دعاؤں، ذکر الہی اور خدائے قادر وتوانا اور واحد و یگانہ کی دلی عبادت میں گزارے تھے.یکا یک نهایت امن وسکون اور خاموشی کے ساتھ.میری بیقراری زائل ہو گئی.آنِ واحد میں میری ہیجانی کیفیات تھم گئیں.اور میری روح سکون ، طمانیت اور نا قابل بیان خوشی سے بھر گئی.کسی قسم کا نہ غصہ نہ اشتعال بلکہ خاموشی اور محبت بھر اسکون.میں نہیں جانتا کہ میں کتنی دیر اس کمرے میں رہا.کیونکہ غالبا دیر تک مجھے نہ کسی نے آواز دی اور نہ ہی مجھے ہٹایا.تھوڑی دیر کے لئے وقت کی رفتار کے اندازے کا مجھے قطعاً احساس نہ رہا اور اپنے گردو پیش کی مادی دنیا کو میں پوری طرح بھول گیا.مجھے یہاں پر اپنے قیام کے بقیہ ایام میں یہ معلوم ہوا کہ یہ لمحات جو مجھے یہاں گزارنے کی فرصت ملی در حقیقت تمام جماعت کا اپنے دور دراز سے آنے والے بھائی کے لئے محبت اور پیار کا ایک حسین تحفہ تھا ورنہ در حقیقت یہ کمرہ دن اور رات کے تمام لمحات میں دو دو بلکہ تین تین دعا کرنے والے افراد سے پُر رہتا ہے جو باری باری یہاں آکر دعا میں روحانی تسکین اور ایمانی تر و تازگی تلاش کرتے اور پاتے ہیں.قادیان میں میرے ( تین روزہ ) قیام کے دوران ایک اور مقام جس کی طرف میرے قدم بار بار بے اختیار چل پڑتے تھے.وہ بہشتی مقبرہ تھا.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اولین صحابہ مدفون ہیں.میں نے یہاں پر کئی گھنٹے گزارے.۲۲ دسمبر ۱۹۷۰ء کو بعد دو پہر میں ایک مرتبہ پھر اس پُر سکون مقام پر گیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ اگلے روز کی صبح کو میری یہاں سے واپسی ہے.

Page 268

تاریخ احمدیت.جلد 26 258 سال 1970ء اب یہاں پر مجھے ایک اور واقعہ در پیش آیا جس نے مجھے پاتال تک ہلا دیا.حضرت بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام اور اولین اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک مزاروں پر دعا کے بعد میں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے والدین کو جو وہاں سے قریب ہی آرام کی ابدی نیند سور ہے ہیں.ان کے فرزند کا آخری سلام پہنچانے اور اپنی طرف سے الوداع کہنے کے لئے ان کے مزار پر حاضر ہوا.میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں پر رکھے.محترم چوہدری صاحب موصوف کی والدہ کی قبر کے سامنے کھڑے ہوئے ابھی مجھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ یکا یک میں نے اپنے دل میں شدید ہیجان خیز رقت کے جذبات کو محسوس کیا.ایک ایسی کیفیت جس سے اب تک میں نا آشنا تھا.میری آنکھوں سے ایک نہ تھمنے والا آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا اسی لمحہ میں نے اپنی بند آنکھوں سے دیکھا.( آپ اسے خواب کہہ لیجئے.اس کا نام واہمہ یا تصور رکھ لیجئے.آپ جو چاہیں اس کا نام رکھیں لیکن میرے لئے ایسا ہی حقیقی تھا جیسے یہ کا غذ جس پر اس وقت میرا قلم چل رہا ہے ) کہ قبر کے سامنے زمین پر ایک دھبہ سا نمودار ہوا ہے جیسے گیلی جگہ ہو.زمین کا یہ چھوٹا سا گول ٹکڑا پلیٹ کے برابر دھنستا ہوا معلوم اور محسوس ہوا.اس سوراخ میں سے پانی نکلا جو پہلے کیچڑ سا تھا پھر چند لمحوں میں ہی یہ صاف،شفاف ٹھنڈے اور شیریں پانی کا چشمہ بن کر ابل پڑا.اس نادر چشمے کے پانی کے کھولنے کا زیر و ہم ایسے ہی تھا جیسے قلب انسانی کی حرکت.میں نے جو کچھ اس لمحہ میں پایا اسے حیطہ تحریر میں نہیں لا سکتا.میری ہستی کو ہلا کے رکھ دیا گیا.میرے دل میں اضطراب اور خوشی کے ملے جلے جذبات تھے.میری آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک نہ تھمنے والا سیلاب رواں تھا.تب میں نے جان لیا.ہاں میں نے پورے یقین کے ساتھ جان لیا کہ یہ سرزمین بے پناہ 66 طاقت اور لازوال قوت کا عظیم سرچشمہ ہے.جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۰ء 187 اس سال ربوہ میں سالانہ جلسه ۲۶، ۲۷، ۲۸ دسمبر ۱۹۷۰ء کو منعقد ہوا.یہ جلسہ نہایت پُرشکوہ اور خدائی افضال و انعامات کا آئینہ دار تھا جس میں شمع احمدیت کے کم و بیش ایک لاکھ پروانے شامل ہوئے.خدائی وعدوں کے بموجب اللہ تعالیٰ کی تیار کی ہوئی اقوام شرق و غرب میں سے جو احباب تشریف لائے ان میں امریکہ، انگلستان، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ ، مغربی جرمنی ، زیمبیا ، کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ،

Page 269

تاریخ احمدیت.جلد 26 259 سال 1970ء نائیجیریا، عدن، سعودی عرب، ابوظہبی، ایران، جزائر فجی، بھارت اور متعدد دوسرے ممالک شامل تھے.شامل جلسہ ہونے والوں میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ہالینڈ) ، ڈاکٹر محمد عبد الہادی صاحب کیوسی (اٹلی) اور الحاج ابوبکر ایڈو گہے کو کوئی رکن مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ( نائیجیریا)، عبد الخالق صاحب مہتہ ( یوگنڈا)، میجر ڈاکٹر محمد خان صاحب ( عدن) ، دلاور خان صاحب ( ابوظہبی ) اور اے.ایس خان صاحب ( منجی ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.قادیان دارالامان سے ۱۵۹ درویش چوہدری سعید احمد صاحب کی سرکردگی میں بصورت قافلہ تشریف لائے.علاوہ ازیں ۵۰ کے قریب احباب بھارت کے مختلف حصوں سے شامل جلسہ ہوئے.یہ عظیم الشان جلسہ مسجد اقصیٰ سے متصل میدان میں ہوا.یہ پہلا موقع تھا جس میں سامعین کے لئے سٹیڈیم کی طرز پر گیلریاں بھی بنائی گئی تھیں.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ کے تینوں مرکزی لنگروں میں ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانا تیار ہونے اور مہدی معہود کے معززمہمانوں میں بسہولت تقسیم ہونے کا نیا ریکارڈ قائم ہوا.چنانچہ اس دفعہ لنگر خانوں کے تیار کردہ کھانا کھانے والوں کی ایک وقت کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۶۸۰۹۵ تھی.جبکہ گذشتہ سال یہ تعداد ۴۰۶۹ تھی اور خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے روزانہ ہی بر وقت کھانا تیار ہونے اور تقسیم کرنے کا نہایت وسیع اور تسلی بخش انتظام تھا.اس سال پہلی بار دار الرحمت ربی کے نگر خانہ میں روٹی پکانے والی مائی مشینیں نصب کی گئیں جن کی وجہ سے بہت سہولت رہی.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا کارکنان سے اہم خطاب سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے مورخہ ۲۲ دسمبر ۱۹۷۰ء کو سوا چار بجے شام جلسہ سالانہ کے دفتر میں تشریف لا کر مختلف شعبہ جات کے ناظمین کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر جلسہ کے ڈیڑھ ہزار کارکنان کو نہایت اہم خطاب سے نوازا.حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا جلسہ سالانہ بھی ایک بے مثال جلسہ ہے.دنیا میں کہیں بھی اس قسم کا جلسہ منعقد نہیں ہوتا اور نہ اس قسم کا اجتماع ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس حسین اور بابرکت اجتماع کی بنیاد رکھی ہے اور وہ محض اپنے فضل سے بے شمار اور بے حساب فضل ، رحمت ، نعمت اور برکت جلسہ کے ایام میں جماعت پر کرتا ہے.حضور انور نے کارکنان کو ان ایام میں دعا کی طرف توجہ دلائی.نیز فرمایا کہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کبھی غفلت نہ کریں اور پوری طرح چوکس اور بیدار ر ہیں.حضور نے فرمایا کہ جلسہ کی برکات سے

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد 26 260 سال 1970ء متمتع ہونے کے لئے تدبیر اور دعا دونوں کو ان کے کمال تک پہنچانا ضروری ہے.اس کے علاوہ حضور انور نے تمام کارکنان کو نصیحت فرمائی کہ اس جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے احباب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہوتے ہیں اسلئے ان کی ہر لحاظ سے خدمت کی جائے اور ان کی.188 ضروریات کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس مبارک اجتماع سے چار بار خطاب فرمایا.حضور کے زندگی بخش اور روح پرور کلمات پوری جماعت کے ایمانوں کو ایک نئی قوت ، ان کے قلوب واذہان کو ایک نئی جلا ، ان کی روحوں کو ایک نئی بالیدگی اور خدمت دین کے عزائم اور حوصلوں کونئی بلندیوں سے ہمکنار کرنے کا باعث بنا اور جلسہ سالانہ کے روحانی فوائد سے متمتع ہونے کے بیش بہا مواقع میسر آئے.کوئی ساعت بھی تو ایسی نہ تھی جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے تہی ہو.ہر طرف آسمانی برکتوں اور فضلوں کی گویا بارش ہو رہی تھی اور اس مبارک جلسہ میں شامل ہر احمدی سجدات شکر بجالاتے ہوئے زبان حال سے پکار رہا تھا.بنائی تو نے پیارے میری ہر بات دکھائے تو نے احساں اپنے دن رات ہر اک میداں میں دیں تو نے فتوحات بد اندیشوں کو تو نے کر دیا مات ہر اک بگڑی ہوئی تو نے بنا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي حضور انور کا افتتاحی خطاب خلیفہ راشد، نافله موعود سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے اپنے بصیرت افروز افتتاحی خطاب کے شروع میں فرمایا کہ عزیز از جان بھائیو! بہنوں اور بچو! ہمارے محبوب و مقصود رب کریم کے آپ پر ہزاروں سلام ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آنے کی غرض بھی اور اس جلسہ کی غرض بھی یہ بتائی ہے کہ ایسا سامان پیدا ہو کہ دلوں سے دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو جائے اور خدائے واحد و یگانہ سے ذاتی محبت اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک والہانہ عشق دلوں میں پیدا ہو جائے.اس تمہید کے بعد حضور نے اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ ہر نعمت و برکت اور رحمت جو ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان ہی کے جلوے ہیں یہ اللہ ہے جس پر ہر احمدی کو ایمان لانا چاہیے.۸۰ سال سے ساری دنیا اکٹھی ہو کر ہماری مخالفت پر ٹکی ہوئی ہے.۸۰ سال ہوئے خدا تعالیٰ کے حکم سے اکیلی آواز ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں سے بلند ہوئی تو اس کو خاموش کرنے

Page 271

تاریخ احمدیت.جلد 26 261 سال 1970ء کے لئے ساری دنیا اکٹھی ہو گئی مگر ساری دنیا کی طاقتیں اکٹھی ہو کر بھی اس آواز کو خاموش نہیں کر سکیں.ازاں بعد فر مایا کہ میرے جیسا عاجز انسان جب افریقہ کے دورے پر گیا اور واپس آیا تو وہاں کے ایک پیرا ماؤنٹ چیف نے مجھے لکھا کہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا تھا جب لوگوں کو پتہ لگا کہ آپ نے مجھ سے معانقہ کیا ہے تو وہ میرے پاس آئے اور انہوں نے میرے جسم کے ساتھ اپنے جسم ملے اور میرے جسم کو چوما اور اس طرح انہوں نے برکت لینے کی کوشش کی.لیکن میں تو جانتا ہوں کہ مجھ میں کوئی خوبی نہیں البتہ میں اس یقین پر بھی قائم ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل لائے ہیں ان کی کوئی مثال نہیں.آپ کو جو بشارتیں اور وعدے دیئے گئے کہ جہاں تیرے کامل متبع رہیں گے ان کے درودیوار میں بھی برکت ڈال دی جائے گی یہاں تک کہ جس چیز کو وہ ہاتھ لگائیں گے اس کو بھی بابرکت بنادیا جائے گا.وہ سچ ہیں.یہ وعدے اور یہ بشارتیں ہمیں ملی ہیں ان وعدوں اور بشارتوں پر اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات پر کامل یقین پیدا کرنے کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک طرف حسن کے اور دوسری طرف احسان کے جلوے دیکھنے کے لئے آپ لوگ یہاں جمع ہوئے ہیں.آخر میں حضور نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ عاجزانہ راہوں کو مضبوطی سے پکڑو.صراط مستقیم پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤ.عاجزانہ طور پر اس کے حضور جھکو اور اس سے دعائیں کرتے رہو.ہر ایک کی بھلائی چاہوں.کسی سے دشمنی نہ کرو خواہ وہ ساری عمر تم سے دشمنی کرتا رہا ہو.معاف کرنے کی عادت ڈالو.خدا کے بندوں سے پیار کرو جو مظلوم ہیں ان کے ظلم دور کرنے کی جہاں تک تمہیں طاقت ہے کوشش کرو.جو حقوق سے محروم ہیں ان کے حقوق دلانے کی سعی کرو.خدا کے ہو جاؤ.اس کی اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر رکھ کر اپنی زندگی کے دن گزارو.اللہ تعالیٰ تمہیں وہ کچھ دے گا کہ قیامت تک تمہاری نسلیں تم پر فخر کریں گی.189 مستورات سے خطاب ۲۷ دسمبر کو حضور نے احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا:.ایک تصویر تو عورت کی وہ تھی کہ مرد کی دھتکاری ہوئی انسانیت اس امر کی طرف جھکتی بھی تھی اور اس سے بیزار بھی تھی.مذہب اس کی حفاظت کے لئے عملاً تیار نہ تھا.بتوں پر اکثر اس کی قربانی کی جاتی تھی.پھر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عورت

Page 272

تاریخ احمدیت.جلد 26 262 سال 1970ء کے ایک محسن کی حیثیت سے اس دنیا میں مبعوث ہوئے اور حضور نے اس بدصورت اور بھیانک تصویر کو بدل کر رکھ دیا اور اس کی جگہ خدا کی پیدا کردہ عورت کو اس شکل میں جس شکل میں خدا نے اس کو پیدا کیا تھا ظاہر فرمایا.عورت کے دل میں اور اس کی فطرت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو پیدا کیا ہے.مال و دولت سے دنیا محبت کرتی ہے.لیکن خدا نے عورت کو جس فطرت صحیحہ پر مرد کے پہلو بہ پہلو پیدا کیا اور کھڑا کیا ہے وہ فطرت جب روشن ہوگی اور منور ہو گی تو اس مال و دولت کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے پرے کر دے گی اور خدا اور رسول کے مقابلہ میں مال کی کچھ پرواہ نہ کرے گی.یہ وہ تصویر ہے جو عورت کے محسن اعظم نے دنیا کے سامنے عورت کی پیش کی ہے وہ اپنے فرائض کو تو ادا کرتی ہے لیکن باپ سے بھی زیادہ ، بھائی سے بھی زیادہ، بیٹے سے بھی زیادہ، اپنے خاوند سے بھی زیادہ وہ اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کرنے والی ہے.اس ضمن میں حضور نے خدا اور اس کے رسول سے پیار کرنے والی مسلمان عورتوں کی چند مثالیں بیان فرمائیں.بعد ازاں ارشاد فرمایا:.وو دنیا کی عارضی محبتوں اور جھوٹے پیاروں اور ان بیوفا دولتوں کی طرف نہ دیکھو بلکہ جیسا کہ خدا اور اس کے رسول نے کہا ہے ایک آگ اپنے دل میں لگاؤ.محبت کا ایک شعلہ فروزاں کرو وہ شعلہ جو تمہارے جسم اور تمہارے دل اور تمہارے 190 سینے اور تمہاری روح کو منور کر دئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا دوسرے روز کا خطاب اسی روز حضور نے مردوں کے جلسہ گاہ میں ایک بصیرت افروز اور معرکۃ الآراء تقریر فرمائی.جس میں سال کے دوران نازل ہونے والی نعمتوں اور فضلوں کا ایمان افروز انداز میں تذکرہ فرمایا.جس کے شروع میں ۱۹۷۰ء میں شائع ہونے والے جماعتی لٹریچر کی تفصیل بیان فرمائی اور اسے خریدنے کی تحریک کی.اور پھر فرمایا کہ اسلام نے غرباء کے جو حقوق قائم کئے ہیں انہیں اجتماعی رنگ میں ادا کرنے کے لئے امسال مرکز سلسلہ ربوہ میں صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور وقف جدید کی طرف سے۱۱۹۳ خاندانوں کے ۵۲۲۵ افراد کی بصورت گندم و غیر ہ ۶۸۹ ۴۰ ۱۵ روپیہ کی امداد کی گئی.غرباء کی

Page 273

تاریخ احمدیت.جلد 26 263 سال 1970ء مدد کرنے کی یہ ایک مثال ہے جو ہم نے قائم کی ہے.یہ تو تھی غرباء کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی ایک کوشش.جہاں تک غرباء کے بچوں کی تعلیم کا سوال ہے میں تمام غریب احمدی والدین کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ اگر ان کے بچے واقعی ذہین ہیں اور اعلی تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہیں تو وہ مجھے اطلاع دیں میں ان کی پڑھائی کا ذمہ لیتا ہوں.انشاء اللہ ان کے تمام اخراجات کا انتظام کروں گا اور کسی بچے کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا.لیکن ساتھ ہی میں یہ امر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جن غرباء کے بچے ذہین نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں تعلیم میں ترقی کرنے والا دماغ نہیں دیا انہیں اپنے اور جماعت کے پیسوں کو ان کی تعلیم پر ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ جس لائن کے لئے وہ موزوں ہوں اس میں انہیں ڈال دینا چاہیے.حضور نے فرمایا کہ ایک تحریک میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خواہش کو پورا کرنے کے لئے جماعت کے سامنے یہ رکھی تھی کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے.مجھے خوشی ہے کہ ۸۰-۹۰ فیصدی جماعتوں نے اس پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے حال ہی میں ملک میں جو انتخابات ہوئے ہیں ان میں پاکستان کی نوجوان نسل نے بھی میری اس سکیم کو جو میں نے کئی برس پہلے جاری کی تھی پورا کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اپنی اس خواہش کا اظہار کر دیا ہے کہ پاکستان کا نظام حکومت ایسا ہونا چاہیے جس میں کوئی شخص بھوکا نہ رہے.حضور نے فرمایا کہ ہم تو اپنے ملک میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو عملی صورت میں رائج کرنا چاہتے ہیں.اگر بعض مخالفین کے قول کے مطابق ہم میں اتنی طاقت ہے کہ پیپلز پارٹی کو ہم نے کامیاب کرا دیا ہے تو پھر انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یقیناً ہم میں اتنی طاقت بھی ہوگی کہ ہم اس ملک میں اسلام کی تعلیم کو رائج کرنے اور قرآن کریم اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں.حضور نے فرمایا کہ جو لوگ غلط الزام لگا کر اور مذہب کا نعرہ لگا کر غریبوں کو ان کے جائز اسلامی حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں وہ ہر گز اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوں گے.اسلام نے آج سے۱۴ سو سال پہلے غریب کے جو حقوق قائم کئے تھے انہیں اپنے عمل سے قائم کرنا چاہیے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلام خطرے میں ہے ہم کہتے ہیں کہ نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے کسی ملک میں بھی اسلام خطرے میں نہیں ہے البتہ اسلام کے علاوہ باقی ہر مذہب ضرور خطرے میں ہے.

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد 26 264 سال 1970ء عیسائیت خطرے میں ہے، یہودیت خطرے میں ہے، بدھ مت خطرے میں ہے، ہندو مذہب خطرے میں ہے کیونکہ اسلام کو اخوت و محبت اور مساوات کا جو ہتھیار دیا ہے وہ قلوب کو گھائل کرنے والا ہے اس لئے اس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں ٹھہر سکتا.انسانی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ نفرت محبت کے مقابلہ میں کبھی جیت نہیں سکتی.ہمارے ہاتھوں میں اسلام کا یہی پیغام ہے اس لئے بالآخر اسلام ہی کامیاب ہوگا یہ خدا کی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہوکر رہے گی.اس کے بعد حضور نے اللہ تعالیٰ کے ان افضال کا ذکر فرمایا جوتحریک جدید، وقف جدید اور فضل عمر فاؤنڈیشن کے ذریعہ اس سال خدا کی پاک جماعت پر ہوئے.آخر میں حضور نے مختلف اہم جماعتی تحریکات مثلاً وقف عارضی، تعلیم القرآن، وقف بعد ریٹائرمنٹ اور تعلیم القرآن کی مرکزی کلاس کی طرف مخلصین جماعت کو مؤثر رنگ میں توجہ دلائی.حضور انور کا اختتامی خطاب ۲۸ دسمبر کو حضور کی ایک نہایت پُر شوکت اور ولولہ انگیز تقریر ملت واحدہ کے موضوع پر ہوئی.حضور نے رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وسلم کی عالمگیر غیر محدود اور ازلی ابدی فیض رسانی کا نہایت دلنشین انداز میں تذکرہ کرنے کے بعد قرآنی آیت لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ (الصف: ١٠) اور أُخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم (الجمعۃ : ۴) کی روشنی میں نہایت تفصیل سے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت ملی کہ آپ کے ذریعہ تمام بنی نوع انسان وحدت اجتماعی کی شکل اختیار کریں گے اور ایک قوم بن جائیں گے اس عظیم الشان وعدہ کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی نشاۃ ثانیہ میں مہدی موعود کے ذریعہ مقدر ہے جیسا کہ بزرگانِ سلف نے بھی اپنی کتابوں میں بصراحت لکھا ہے تکمیل اشاعت دین آخری زمانہ میں مقدر تھی جو اس امر کا ثبوت ہے کہ قیامت تک فیوض محمدی کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض جاریہ ہے جو اس آخری زمانہ میں آنحضور کے فرزند جلیل کے ذریعہ مشرق و مغرب کی قوموں تک اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے اور سعید الفطرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور اطاعت کا جوا اپنی گردن پر رکھ رہے ہیں اور اس طرح ملت واحدہ کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھیں.حضور انور نے خطاب جاری رکھتے ہوئے قلوب انسانی کی تسخیر اور ملتِ واحدہ کے قیام کے

Page 275

تاریخ احمدیت.جلد 26 265 سال 1970ء درج ذیل تین عظیم الشان وسائل پر دلنشیں انداز میں روشنی ڈالی.۱.شرف انسانی.۲.مساوات انسانی.۳.تحفظ حقوق انسانی.حضور نے قرآن مجید، احادیث نبویہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور تاریخ اسلام کی روشنی میں ان تینوں وسائل کی انقلاب انگیز تا ثیرات کو شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا.اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ واضح فرمایا کہ ساری دنیا کے دل ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتنے ہیں اور جیتنے بھی ہیں روحانی ہتھیاروں سے، اخلاقی ہتھیاروں سے، احسان کے ہتھیاروں سے، کیونکہ انہی ہتھیاروں سے دل جیتے جا سکتے ہیں اور ملتِ واحدہ کا قیام عمل میں آ سکتا ہے.اس ضمن میں حضور نے اپنے دورہ مغربی افریقہ کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تسخیر قلوب کے انہی وسائل کا پیغام لے کر مغربی افریقہ گیا تھا.ان وسائل کے بروئے کار آنے کے نتیجہ میں وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انسانوں کے دل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جیتے جارہے ہیں اور ایک بڑا خوشکن انقلاب رونما ہو رہا ہے جن لوگوں کے دل جیتے جاچکے ہیں اتنا عشق ہے ان کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے فرزند جلیل سے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.پھر حق کی اشاعت اور اعلان میں وہ اتنے دلیر ہیں کہ شہروں کی گلیوں میں لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ خدا کا مسیح جس کے آنے کی خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی وہ آگیا ہے.پھر حضرت مصلح موعود سے بھی انہیں بڑا پیار ہے وہ حضرت مصلح موعود سے اس وجہ سے پیار کرتے ہیں کہ آپ ہی کے ذریعہ اسلام کا پیغام ان تک پہنچا اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کو احسان کو انہوں نے پہچانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت شان کا عرفان حاصل کیا اور آنحضور ع.حسن و احسان کے جلوے انہیں دیکھنے نصیب ہوئے.اس کے بعد حضور نے مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ظاہر ہونے والے نشانوں کا ذکر کرتے ہوئے نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے ماتحت جاری آگے بڑھو (Leap Forward) پروگرام اور اس کی کامیابیوں کی تفصیلات بیان فرمائیں اور پھر سامعین کو یہ عظیم الشان خوشخبری سنائی کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے گیمبیا کے سابق گورنر جنرل سر مارا محمد سنگھاٹے کے ذریعہ اس عظیم بشارت کے ابتدائی ظہور سے ہمیں شاد کام فرمایا تھا کہ "بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈمیں گئے جبکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور لمبا عرصہ دعائیں کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کی غرض سے حضور کے مستعملہ کپڑے کا ایک ٹکڑا عطا کئے جانے کی درخواست کی تھی.چنانچہ وہ

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد 26 266 سال 1970ء کپڑا انہیں بھجوایا گیا اور انہوں نے بحمد اللہ تعالیٰ اس سے برکت حاصل کرنے کی سعادت پائی.اب اللہ تعالیٰ نے ایک اور نشان ظاہر فرمایا ہے ایک موجودہ سربراہ مملکت جو اپنے ملک میں بے حد مقبول ہیں اور ان کی قوم انہیں باپ کہہ کر پکارتی ہے ان کے بیٹے نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کی ہے.اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی فضلوں اور احسانوں کی آئینہ دار اس خوشخبری کوسن کر سامعین میں زبر دست خوشی اور مسرت کی لہر دوڑ گئی اور جلسہ گاہ پر جوش نعروں سے گونج اٹھا.اپنے بصیرت افروز اور معرکہ آراء خطاب کے آخر میں حضور نے نہایت ولولہ انگیز پیرا یہ میں فرمایا کہ آسمانوں پر یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور خدائی تقدیر حرکت میں آچکی ہے کہ بادشاہ بھی اور امراء بھی ، متوسط طبقہ کے لوگ بھی اور غریب ومسکین اور یتیم بھی جماعت میں داخل ہو کر اخوت کی برادری میں شامل ہوتے اور محبت کی رسی میں بندھ کر ایک ہوتے چلے جائیں گے.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو امت واحدہ کے قیام کا جو وعدہ دیا گیا تھاوہ پورا ہوگا.امراء اور مملکتوں کے سربراہ بادشاہ کی حیثیت سے داخل ہوں گے اور غریب بھائی کو بھائی کی حیثیت سے گلے لگا لیں گے.نہ کوئی بادشاہ رہے گا اور نہ کوئی فقیر، سارے ہی اپنے آقا و مطاع محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں غلام بن کر رہیں گے اور ایک حسین معاشرہ پیدا کر کے ایسی زندگی گزاریں گے کہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنتیں انہیں حاصل ہوں گی.فتنہ و فساد مٹ جائے گا.بھائی بھائی پر ظلم نہیں کرے گا بلکہ اس کی خاطر قربانی دے رہا ہوگا.الغرض وہ ایک حسین معاشرہ ہوگا جس میں سب ہی اللہ کی رضا کو مقدم رکھتے ہوئے اس کے شکر گزار بندوں کی حیثیت سے ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہوں گے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب آسمانی فیصلہ میں سالانہ جلسہ کے روحانی فوائد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ ایک عارضی فائدہ ان جلسوں میں یہ بھی ہوگا کہ ہر ایک نئے سال میں جس قدر نئے بھائی اس جماعت میں داخل ہوں گے وہ تاریخ مقررہ پر حاضر ہو کر اپنے پہلے بھائیوں کے منہ دیکھ لیں گے اور روشناسی ہو کر آپس میں رشتہ تو ڈ دو تعارف ترقی پذیر ہوتا رہے گا.اور جو بھائی اس عرصہ میں اس سرائے فانی سے انتقال کر جائے گا اس جلسہ میں اس کے لئے دعائے مغفرت کی جائے گی.حضرت اقدس علیہ السلام کے اس ارشاد مبارک کی تعمیل میں مولانا ابوالعطاء صاحب صدر مجلس

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد 26 267 سال 1970ء کار پرداز نے ۲۷ دسمبر کے پہلے اجلاس عام میں ان مخلصین احمدیت کے نام پڑھ کر سنائے جنہوں نے ۱۹۷۰ء کے دوران انتقال کیا اور قادیان یار بوہ کے بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے اور تحریک فرمائی کہ وہ اپنے ان مرحوم بھائیوں اور بزرگوں کے لئے مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرتے رہیں.اس بابرکت جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی عالمگیر زبانوں کا عظیم الشان جلسہ مسجد مبارک میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں احباب نے اوّل تا آخر مختلف ممالک کے احمدی بھائیوں کی پُر جوش تقاریر سنیں اور فضا بار بار تکبیر کے نعروں سے گونجتی رہی.فاضل مقررین میں ڈاکٹر محمد عبدالہادی کیوسی اور الحاج ابوبکر کوکوئی صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جناب کیوسی صاحب نے اپنی پر کیف تقریر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کا ترجمہ جرمن، اٹالین اور ا سپرنٹو زبان میں سنایا.اس یادگار اور عالمی نمائندگی کے حامل اجلاس کی صدارت کے فرائض ابتداء میں چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اور پھر چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ نے ادا کئے.یہ ایمان افروز اجلاس دو گھنٹے تک جاری رہا.193 جلسہ سالانہ ۱۹۷۰ ء اور رسالہ ایشیاء اس کامیاب مبارک اجتماع پر جماعت اسلامی پاکستان کے ترجمان ہفت روزہ ایشیا (لاہور) نے حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا :.ر بوہ میں قادیانی کا نفرنس تمام ہو گئی اور اخبارات میں اس کی ایک مختصر سی خبر بھی آگئی لیکن روز نامہ ندائے ملت کے نمائندہ خصوصی نے اطلاع دی ہے کہ خبر رساں ایجنسیوں نے اس کا نفرنس کی جو خبریں اخبارات کو مہیا کی ہیں ان میں قادیانی سربراہ کی یہ بات بالکل گول کر گئی ہیں کہ قادیانی جماعت نے پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں پیپلز پارٹی کی بھر پور حمایت کی ہے اور سرحد ومشرقی پاکستان میں دوسری دو جماعتوں پر اپنا ہاتھ رکھا ہے.اس اطلاع سے معلوم ہوتا ہے کہ قادیانی جماعت نے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں ملک گیر پیمانے پر کتنی سرگرم دکھائی ہے اور اس سرگرمی کی حیران کن کامیابی پر اس کے اکابرین کتنے مسرور نظر آ رہے ہیں.در حقیقت حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس جلسہ کے موقع پر جو ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ الفضل کے رپورٹر کے الفاظ میں یہ تھا د بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ احمدیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دے کر گویا کمیونزم کی تائید کی ہے 194

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد 26 268 سال 1970ء حالانکہ ہمارا تو سارا لٹریچر ہی کمیونزم کے خلاف بھرا پڑا ہے نہ جانے کس احمق نے انہیں بتایا ہے کہ ہم نے اشتراکیت کے حق میں ووٹ دیئے ہیں یا یہ کہ ہم نے جن لوگوں کو ووٹ دیئے ہیں وہ کمیونسٹ ہیں.احمدیوں نے پیپلز پارٹی کو بھی ووٹ دیئے ہیں اور بعض دیگر پارٹیوں کو بھی ووٹ دیئے ہیں.(اس کا مفصل تذکرہ حضور انور کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء کے متن میں آچکا ہے).

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد 26 269 حوالہ جات (صفحه ا تا ۲۶۸) 1 2 ملفوظات جلد اول صفحه ۳۹۳، الحکم ۲۴ مئی ۱۹۰۱ء صفحه ۴ کالم ۳ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 3 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۶ 4 5 6 الفضل ۴ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۳-۴ الفضل استمبر ۱۹۷۰ ، صفحہ ۷ الفضل ۳ اپریل ۱۹۶۷ صفحه ۸ ۲۴۰ نومبر ۱۹۶۷ صفحه ا الفضل ۲۱ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ا 8 9 الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۳ الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ء صفحها 10 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ تا ۷ 11 الفضل ۲۰ و ۲۸ جنوری ۱۹۷۰ء 12 الفضل ۴ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۱۲ 13 الفضل ۳ فروری۱۹۷۰ء صفحه او۸ سال 1970ء 14 15 16 17 18 الهام ۱۸۹۱ ء، ازالہ اوہام صفحہ ۶۳۵ حصہ دوم مطبوعہ ذوالحج ۱۳۰۸.جولائی ۱۸۹۱ء مطبع ریاض ہندا مرتسر تاریخ بجنہ اماءاللہ جلد اصفحه ۲۸۸ مرتبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ایڈ یشن دوم ۲۰۰۹ء ماہنامہ مصباح ربوہ جنوری ۱۹۶۹ء صفحه ۲۸ تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۲۱-۲۹ مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی امیر جماعت احمد یہ سرحد.منظور عام پر لیس پشاور ۱۹۵۹ء.تاریخ احمدیت جلد سوم طبع دوم صفحه ۲۲۹ تا ۲۳۱ اشاعت دسمبر ۱۹۶۰ء.حیات بشیر صفحه ۵۲٬۵۱.مرتبہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ اشاعت اگست ۱۹۶۴ء - الفضل ۳ فروری ۱۹۷۰ صفحه او ۸ - تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین.کمپیوٹر کو ۳۶ صفحہ ۲ 19 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۱، ۲۵ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۱۲ 20 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۰ ء صفحها 21 الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۸

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد 26 22 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۷۰ صفحه ا 23 24 25 270 روزنامہ ندائے ملت لا ہورے امارچ ۱۹۷۰ء بحوالہ الفرقان ۱۹۷۰ء ہفتہ وار چٹان لاہور ۲۳ مارچ ۱۹۷۰ء صفحہ ۶ روزنامہ ندائے ملت لاہور ۲۶ مارچ ۱۹۷۰ء بحوالہ الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۷۰ء 26 الفضل نے مئی ۱۹۷۰ء صفحه م 27 الفضل مورخه ۲۹ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۶۰۴ 28 الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ سال 1970ء الفضل ۲۹، ۳۱ مارچ و یکم نام راپریل ۲۲ اپریل ۱۹۷۰ء نیز ا۷-۱۹۷۰ء کے میزائیے صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید.وقف جدید 30 رسالہ تحریک جدیدر بوه اگست ۱۹۷۰ صفحه ۱۷ تا ۱۹ 31 ملاحظہ ہو کتاب المزهر صفحه ۱۵ جز اول مطبوعه مصر جمادی الآخره ۱۲۸۲ هجری ۱۸۶۵ء بحواله الفضل ۲۸ / اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ تا ۵ 32 الفضل و رابریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳-۴ 33 الفضل ۷ اپریل ۱۹۷۰ ء صفحه ۱-۸ 34 الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۷۰ صفحه ۸ 35 الفضل ۱۴ / اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۱-۸ 36 الفضل ۱۵،۱۲۸، ۱۶، ۷ اراپریل۱۹۷۰ء 37 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۳۹ 38 الفضل ۱۵-۱۶.۲۶ اپریل ۱۹۷۰ء 39 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دوره مغربی افریقہ نمبر صفحه ۲۱ 40 الفضل ۱۷ار اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.الفضل ۲ مئی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۱.الفضل ۹ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۳ تاسے تقریر کا اردوترجمہ 41 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۳۲ 42 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۳۳ 43 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۳۳ 44 الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ.الفضل ممئی ۱۹۷۰ء صفحہ۳.الفضل سے مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ 45 مفصل متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۴ امئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۳-۴ 46 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دوره مغربی افریقہ نمبر صفحه ۴۰ 47 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۴۰

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد 26 48 الفضل ۶ مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۲ 271 49 الفضل ۲۱-۲۲ اپریل ۱۹۷۰ صفحه ۱ ۳۰/اپریل ۱۹۷۰ء صفحه امتن تقریر.۱۳ مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۳-۴ 50 الفضل ۱۴مئی ۱۹۷۰ صفحه ۲ 51 الفضل ۱۵مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۳-۵ 52 الفضل ۲۵ / اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ.الفضل یکم مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.الفضل ۶ امئی ۱۹۷۰ء صفہ ۳ 53 الفضل ۱۳مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 54 الفضل ۲۶ / اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.الفضل ۷ امئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۳-۴ 55 الفضل ۱۹مئی ۱۹۷۰ صفحه ۳-۴ 56 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۶۰ تا ۶۶ 57 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۶۹ 58 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۶۹ 59 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۷۰ 60 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۷۰ 61 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۷۲ 62 الفضل ۲۶ مئی ۱۹۷۰ء صفحریم 63 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۷۷ الفضل ۳ ، ۵ مئی ۱۹۷۰ء صفحہ.الفضل ۲۶ مئی ۱۹۷۰ صفحه ۳-۵ 65 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دوره مغربی افریقہ نمبر صفحه ۸۳ 66 الفضل ۶ مئی ۱۹۷۰ء صفحہ 1 ا 67 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۸۶ تا ۸۸ 68 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دوره مغربی افریقہ نمبر صفحه ۸۹ 69 الفضل ۲۷ مئی ۱۹۷۰ صفحه ۲-۵ 70 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۹۳٬۸۹.الفضل ۸ مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۱ 71 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۹۴ ۹۵ - الفضل ۲۸ مئی ۱۹۷۰ صفحه ۶۰۵ 72 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۹۶ 73 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۹۷، ۹۸ 74 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۹۹ 75 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۱۰۴ تا ۱۰۶ سال 1970ء

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد 26 76 272 الفضل ۱۳ مئی ۱۹۷۰ صفحها الفضل ۲ جون ۱۹۷۰ صفحه ۳-۴ 77 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۱۱۳ ۱۱۴۰ 78 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحه ۱۱۴ 79 ماہنامہ خالد اکتوبر ۱۹۷۰ ء دورہ مغربی افریقہ نمبر صفحہ ۱۱۶ تا ۱۲۰ 80 الفضل ۱۵مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.الفضل ۱۶مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.الفضل ۴.۵.۱۳ جون ۱۹۷۰ء 81 الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۷۰ ء صفحریه 82 الفضل ۷ امئی ۱۹۷۰ ، صفحہ ۱-۸ سال 1970ء 83 الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۳-۶ 84 الفضل ۲۷ مئی ۱۹۷۰ ، صفحہ ۱.رسالہ لاہور ۸ جون ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 85 الفضل 9 اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 86 الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۷-۸.جماعت احمدیہ انگلستان کے وعدوں کی فہرستیں الفضل ۶.۱۰.۱۳.۱۶ تا ۱۸ستمبر ۱۹۷۰ء میں شائع شدہ ہیں 87 الفضل ۶،۵ مئی ۱۹۷۱ء 88 رساله تحریک جدید ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲۷ 89 اخبار احمد یہ لندن ستمبر ۱۹۷۰ ، صفحہ ۷، ۸ 90 اس خطاب کا مکمل متن مشعل راہ جلد دوم صفحہ ۲۳۰ تا ۲۳۷ پر شائع شدہ ہے 91 الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۰ صفحہ ۸ - الفضل ۱۸ جون ۱۹۷۰ صفحه ۵ 92 الفضل ۹ / اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ تا ۱۰ 93 الفضل ۱۹جون۱۹۷۰ء صفحها 94 الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۰ صفحه ۸ 95 الفضل ۱۱و۱۲ جون ۱۹۷۰ء 96 سنڈے ٹائمنر ( نائیجیریا ) ۱۲ اپریل ۱۹۷۰ء 97 ڈیلی ٹائمنر لیگوس ( نائیجیر یا ) ۱۴ راپریل۱۹۷۰ء صفحہ اول 98 ڈیلی ٹائمز الیگوس ( نائیجیر یا ) ۱۴ راپریل ۱۹۷۰ صفحه ۲ 99 مارننگ پوسٹ لیگوس ( نائیجیر یا ۱۸ را پریل۱۹۷۰ء 100 ڈیلی ٹائمنر لیگوس ( نائیجیریا ) ۱۵ اپریل۱۹۷۰ء 101 ڈیلی ٹائمنرلیگوس ( نائیجیریا ) ۱۷ارا پریل۱۹۷۰ء 102 سنڈے پوسٹ لیگوس ( نائیجیریا )۱۹ را پریل ۱۹۷۰ء

Page 283

تاریخ احمدیت.جلد 26 103 ڈیلی گرافک اکرا ( غانا ) کے راپریل ۱۹۷۰ء 273 104 دی ایکو ( غانا ) ۱۲ راپریل ۱۹۷۰ء 105 ڈیلی گرافک اکرا ( غانا ) ۲۰ را پریل ۱۹۷۰ء 106 دی گھاٹین ٹائمنر ( غانا ) ۲۰ اپریل ۱۹۷۰ صفحہ اول 107 ڈیلی گرافک اکرا ( غانا ) ۲۲ اپریل۱۹۷۰ء 108 دی پائنیر ( غانا )۲۲ / اپریل ۱۹۷۰ء 109 دی پائنیر (غانا) ۲۲ / اپریل ۱۹۷۰ء سال 1970ء 110 چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیل مسیح الثالث کے دوران سفر بھجوائے ہوئے تراشوں سے مرتبہ نوٹ مشمولہ ماہنامہ انصار الله ربوه جون ۱۹۷۰ء صفحه ۳۵ - ۴۷ 111 الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ ء صفحه ۲ تا ۵ 112 الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۱۳ ۱۴.اس خطبہ کا مکمل متن خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۱۰۹ تا ۴۵ پر شائع شدہ ہے.113 الفضل ۱۸ جون تا ۱۳ نومبر ۱۹۷۰ء میں اُن احباب کی فہرستیں شائع ہوئیں جن کو السابقون الاولون میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا 114 الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ا 115 الفضل ۷ ا جون ۱۹۷۰ء صفحیم 116 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۲-۳.ایضاً خطبات ناصر جلد سوم صفحه ۱۴۷ تا ۱۶۸ 117 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۷۰ صفحه ۵ 118 تعارف و تاریخ حدیقہ المبشرین مرتبہ جناب عبدالمغنی زاہد صاحب محمود احمد صاحب اشرف 119 ریکارڈ وکالت دیوان تحریک جدید 120 ریکارڈ شعبه تاریخ احمدیت 121 ریکارڈ مجلس نصرت جہاں ۱۹۷۰ء 122 ریکارڈ مجلس نصرت جہاں ۱۹۸۵ء 123 ریکارڈ مجلس نصرت جہاں ۲۰۱۴ء 124 الفضل انٹر نیشنل ۱۵ تا ۲۱ / اپریل ۱۹۹۴ صفحه ۳ ۴۰ 125 الفضل کے جنوری ۱۹۹۰ ، صفحہ ۶ 126 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۶ 127 الفضل سے جولائی ۱۹۷۰ ، صفحہ ۳ ء 128 الفضل ۲۰ اگست ۱۹۷۰ء صفحه ۴ وے

Page 284

تاریخ احمدیت.جلد 26 274 129 خطبہ کا مکمل متن خطبات ناصر جلد سوم صفحہ ۱۹۷ تا ۲۲۲ پر شائع شدہ ہے 130 الفضل ۱۹ اگست ۱۹۷۰ء صفحرم 131 مکتوب بنام مؤلف 132 اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اوّل صفحہ ۱۳ موقہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے سال 1970ء 133 الفضل ۳۰ جون ۴ ، ۱۹،۱۶،۵ ،۲۳، ۳۱ جولائی.۲۹،۲۳،۷ راگست ۳۰،۲۰،۱۰،۴،۳ ستمبر.۱۳،۱۱،۲،۱ را کتوبر ۱۹۷۰ء 134 الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۷۰ صفر ۳-۴ 135 ہفت روزہ اخبار لا ہور۴ جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۶ 136 بلیک برن ٹائمنر ( انگلستان ) ۱۴ اگست ۱۹۷۰ء بحوالہ رسالہ " لا ہور سالنامہ نمبرہ ۱۹۷ ، صفحہ 11 137 الفضل ۱۸ستمبر۱۹۷۰ء صفحه ۴، ۲ ستمبر۱۹۷۰ء صفحه ۸ 138 الفضل ۴ راگست ۱۹۷۰ ء صفحه ۸ 139 الفضل ۷ راگست ۱۹۷۰ صفحه ۵ 140 الفضل ۲ ستمبر ۱۹۷۰ ء صفحہ ۸ 141 الفضل ۱۵ ستمبر ۱۹۷۰ صفحه ۳ هم 142 احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب صفحه ۲ تا ۳۲ نا شر محمد اسماعیل صاحب منیر واقف زندگی سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ 143 الفضل ۸/اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه۸،۱ 144 کتاب البریہ صفحه ۱۵۴ حاشیه 145 انوار الاسلام صفحه ۲۱ 146 الفضل ۲۰۱۸، ۲۱ /اکتوبره ۱۹۷ ء - رساله خالد نومبر ۱۹۷۰ ، صفحه ۲۲ تا ۳۷-۴۶ 147 الفاروق صفحه ۱۰۵ مؤلفہ علامہ شبلی نعمانی، ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور تالیف ۲۰۰۱ء 148 فتوح الشام مترجم حکیم شبیر احمد انصاری صفحه ۸۵ تا ۸۷ 149 الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ۳ ۴.ماہنامہ مصباح دسمبر ۱۹۷۰ء جنوری ۱۹۷۱ ء سالنامہ صفحہ ۷ تا ۱۴ 150 ماہنامہ مصباح دسمبر ۱۹۷۰ ء وجنوری ۱۹۷۱ ء سالنامه صفحه ۱۸ تا ۲۰ 151 الفضل ۲۵ و ۲۷/اکتوبر ۱۹۷۰ء 152 متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ نومبر ۱۹۷۰ ، صفحہ ۳ ہم 153 | فضل ۳ و۴ نومبر ۱۹۷۰ء 154 الفضل کے نومبر ۱۹۷۰ ، صفحہ 1 155 الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه

Page 285

تاریخ احمدیت.جلد 26 275 156 متن کیلئے ملاحظہ ہو ماہنامہ مصباح دسمبر ۱۹۷۰ ء وجنوری ۱۹۷۱ ء سالنامه صفحه ۳۴ تا ۳۶ 157 الفضل ۲۳ ۲۴ دسمبر ۱۹۷۰ء 158 ہفت روزہ چٹان لاہور ۳۰ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 159 ہفت روزہ چٹان لاہور ۳ راگست ۱۹۷۰ ، صفحه ۶-۲۰ 160 روزنامہ جسارت لا ہور ۲۳ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۷ 161 ہفت روزہ ”اداکار لاہور ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 162 ہفت روزہ ”اداکار لاہور ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ 163 ہفت روزہ اداکار لاہور ۲۷ نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۱ 164 لولاک ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ ، صفحہ ۲ بحوالہ " الفرقان“ جنوری ۱۹۷۱ ، صفحہ ۵ 165 ہفت روزہ ” بے لاگ چنیوٹ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحریم 166 ہفت روزہ ” بے لاگ چنیوٹ ۱۵ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ 167 روزنامہ ”ندائے ملت لا ہور ، افروری ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 168 رساله " ترجمان القرآن لاہور جولائی ۱۹۷۰ء صفحه ۵۲ 169 ہفت روزہ ایشیاء لاہور.۲ / اگست ۱۹۷۰ء صفحہ ۱۱.زیر عنوان ۵/اکتوبر کے انتخابات 170 روز نامہ کو ہستان مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۶ 171 روزنامہ کو ہستان مورخه ۱۶ را کتوبر ۱۹۷۰ صفحیم 172 اخبار ” مشرق لا ہورا انو مبر ۱۹۷۰ء صفحه ۲ 173 اخبار کوہستان لا ہور ۱۵ نومبر ۱۹۷۰ صفحریم -۵ 174 روزنامہ ” کوہستان مورخہ یکم دسمبر ۱۹۷۰ صفحه ۸ 175 مشرق یکم دسمبر ۱۹۷۰ صفحه ا 176 177 روزنامہ ندائے ملت مورخہ ۴ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۸ روزنامہ ندائے ملت لا ہورے دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۱ 178 روزنامہ ڈان، ۷ دسمبر ۱۹۷۰ صفحه ۱۲ 179 روزنامہ نوائے وقت ۱۸ مارچ ۲۰۱۳ صفحه ۱۴ 180 ہفت روزہ چٹان لاہور ۱۴دسمبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 181 قادیانی مسئلہ کا جواب صفحہ ۱۲۳ مطبوعہ تمبر ۱۹۵۳ء 182 ہفت روزہ ایشیاء لاہور ۳ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه یم 183 ہفت روزہ چٹان لاہور ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه یم سال 1970ء

Page 286

تاریخ احمدیت.جلد 26 276 184 ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی جنوری ۱۹۷۱ صفحہ ۷ بحوالہ الفرقان فروری مارچ ۱۹۷۱ ، صفحہ ۸۷ 185 ہفت روزہ ” چٹان لاہور ۲۲ فروری ۱۹۷۱ ، صفحہ ۹ 186 الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۴ تا ۶ 187 الفضل نے فروری ۱۹۷۱ء صفحہ ۳-۴ 188 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۱.۸ سال 1970ء 189 الفضل ۵ جنوری ۱۹۷۱ء صفحه ۱ تا ۸ 190 الفضل سے جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ۵ 191 الفضل سے جنوری ۱۹۷۱ ، صفحہ ۸،۱ 192 آسمانی فیصله صفحه ۴۲ تالیف دسمبر ۱۸۹۱، مطبع ریاض ہند امرتسر بحوالہ روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۵۲ الفضل ۸ تا ۱۲ جنوری ۱۹۷۱ء 193 افضل یکم تا ۱۴ جنوری ۱۹۷۱ء.کتاب جلسہ سالانہ کی دعائیں صفحہ ۴۳ تا ۵۸ ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ تاریخ طبع ۵ جون ۱۹۷۶ء 194 رسالہ ایشیا لاہور ۳ جنوری ۱۹۷۱ ء صفحہ ۶ 195 الفضل ۷ جنوری ۱۹۷۱ ء صفحہ ۸

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد 26 277 سال 1970ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال مهدی دوراں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو جلیل القدرصحابہ اس سال اس عالم فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے، ان کا تذکرہ درج ذیل کیا جاتا ہے.حضرت مولوی نظام الدین صاحب آف چک ۳۵ جنوبی سرگودھا پیدائش: ۱۸۸۰ء بیعت: یکم دسمبر ۱۹۰۴ء وفات: ۴،۳ جنوری ۱۹۷۰ء آپ ۱۹۰۴ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.وفات کے وقت آپ کی عمر تقریبا ۹۰ سال تھی.آپ صحابہ کا پورانمونہ اور رنگ اپنے اندر رکھتے تھے.تلاوت قرآن کریم کرتے ہوئے جھوم اٹھتے تھے اور سننے والوں میں وجد کی کیفیت پیدا کرتے تھے.عاشق قرآن کریم ، عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، عاشق مسیح موعود علیہ السلام اور عاشق احمدیت تھے.آپ صدق وثبات عزم واستقامت اور تبتل و انقطاع کا پیکر تھے.مورخہ ۴ جنوری ۱۹۷۰ء کو بعد از نماز عصر حضرت خلیفة اسم الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں دفن کیا گیا اور قبر تیار ہونے پر محترم چوہدری فضل احمد صاحب نائب ناظر تعلیم نے دعا کرائی.آپ نے اپنے پیچھے ایک بیٹا ( پروفیسر عطاء اللہ صاحب ) اور دولڑکیاں یادگار چھوڑیں.حضرت محمد عبد اللہ ایرانی صاحب وفات : ۵ فروری ۱۹۷۰ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آپ مورخہ ۵ فروری ۱۹۷۰ء کو بوقت نماز مغرب وفات پا گئے.آپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہم جماعت تھے.مورخہ ۶ فروری بعد نماز جمعہ آپ کو سپرد خاک کیا گیا.اولاد حمید اللہ صاحب، برکت اللہ بھٹی صاحب، صابرہ حمیدہ صاحبه زوجه اشتیاق احمد صاحب، امۃ الرشید صاحبه زوجہ گلزار احمد صاحب، بشارت با نو صاحبہ زوجہ چوہدری سلیم احمد انجم صاحب.

Page 288

تاریخ احمدیت.جلد 26 278 سال 1970ء حضرت محمد صادق صاحب فاروقی آف بھٹے کلاں متصل شہر سیالکوٹ ولادت مئی ۱۸۹۵ ء پیدائشی احمدی وفات : ۷/۸ مارچ ۱۹۷۰ء آپ حضرت منشی نیاز علی فاروقی صاحب کے بیٹے تھے.بہت نیک مخلص ،سلسلہ کے فدائی اور خاموش طبع بزرگ تھے.ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی آپ کا خاص وصف تھا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکتوبر ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لائے تو آپ اس وقت پرائمری میں پڑھتے تھے اس موقع پر دیگر افراد خاندان کے ساتھ سیالکوٹ حاضر ہوئے اور پہلی بار زیارت سے مشرف ہوئے.ایک عرصہ دراز تک پولیس کے محکمہ میں تفتیش کے کام پر متعین رہے.آپ اپنے ہمعصروں میں بہترین کارکن تسلیم کئے جاتے تھے.ان کی محکمانہ قابلیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امتحان دیے بغیر پہلے ہیڈ کانسٹیبل اور پھر اسسٹنٹ انسپکٹر بنادیئے گئے اور بے شمار تعریفی سرٹیفکیٹ مختلف النوع مقدمات میں انہوں نے حاصل کئے.آپ کو مذہب سے گہرا شغف اور لگاؤ تھا جہاں جہاں رہے اس علاقہ کے احمدی احباب سے رابطہ قائم رکھا.کئی مواقع پر مخالف احمدیت افسران سے واسطہ پڑا مگر انہوں نے ہمیشہ احمدیت کے وقار اور عزت کو برقرار رکھا.جماعت کے سالانہ جلسوں میں ذوق و شوق سے شامل ہونا ان کی خصوصیات میں سے تھا.قادیان کی محبت کا جذبہ اس حد تک تھا کہ جب تھا نہ امرتسر میں متعین ہوئے تو فرمانے لگے کہ اب تو میں سمجھتا ہوں کہ قادیان میں ہوں.چنانچہ مکان کرائے پر لے کر اہل و عیال کو قادیان رکھا اور پھر دارالبرکات شرقی میں اپنا مکان بنوا لیا.سالہا سال تک جماعت احمدیہ قصور کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری مال رہے اور اپنے فرائض کو نہایت شوق ، دلچسپی اور خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۸ مارچ کو بعد از نماز عصر آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی.بعد میں بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.قبر تیار ہونے پر محترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ نے دعا کرائی.اولاد: حکیم محمد اسلم فاروقی صاحب.سابق پروفیسر جامعہ احمد یہ وطبیہ کالج ربوہ ، ناصرہ جمال صاحبہ اہلیہ چوہدری جمال احمد صاحب بہاولنگر، محمد ہادی نسیم فاروقی صاحب آفس سپر نٹنڈنٹ آرڈینینس ڈپوواہ

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد 26 حضرت مرز اصالح علی صاحب 279 سال 1970ء ولادت: ۱۸۹۷ء پیدائشی احمدی وفات: ۱۰ مارچ ۱۹۷۰ء آپ حضرت مرزا صفدر علی بیگ صاحب (مالیر کوٹلہ ) کے صاحبزادے تھے جن کا نام ۱۸۹۲ء کے تاریخی جلسہ سالانہ کی فہرست میں نمبر ۳۰۵ کے تحت آئینہ کمالات اسلام کے ضمیمہ صفحہ ۱۶ پر درج ہے.نیز آپ کو خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.آپ کا جنازہ آپ کے فرزندان ۱۱ مارچ ۱۹۷۰ء کی شام کو کراچی سے ربوہ لائے.سیدنا حضرت خلیفہ ایح الثالث کے ارشاد کی تعمیل میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے مغرب کے بعد نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب نے شرکت کی.بعد میں بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.قبر تیار ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.اولاد خورشید عطا صاحبہ اہلیہ مرزا عبدالحق صاحب کراچی، مرزا صادق علی صاحب، مرزا لیاقت علی صاحب، مرزا ارشاد علی صاحب، مرزا سعید احمد صاحب، مرزا ہارون علی صاحب.حضرت عالم بی بی صاحبہ ولادت : ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۷ء وفات: یکم مئی ۱۹۷۰ء حضرت عالم بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت شیخ نیاز محمد صاحب بڑی ملنسار نہایت نیک دل خاتون تھیں.غریب پروری آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.اکثر صدقہ وخیرات کرتی رہتی تھیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند اور تہجد گزار تھیں.مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک نشان تھیں.مرحومہ کے خسر میاں محمد بخش صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ڈپٹی انسپکٹر پولیس بٹالہ تھے.پنڈت لیکھرام کے مقدمہ کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر کی تلاشی لی گئی تو میاں محمد بخش صاحب اس موقع پر موجود تھے.اس موقع پر حضور نے فرمایا ”میاں صاحب! آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولا د میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی.“ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میاں محمد بخش صاحب کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے حضرت میاں نیاز محمد خاں صاحب ۱۹۰۷ء میں قادیان آئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گئے.عالم بی بی صاحبہ حضرت میاں

Page 290

تاریخ احمدیت.جلد 26 280 سال 1970ء نیاز محمد صاحب کی اہلیہ تھیں.محترمہ عالم بی بی صاحبہ کے نھیال اور ددھیال کے بزرگ مہاراجہ کشمیر کے مظالم سے تنگ آکر پنجاب آگئے تھے اور تلونڈی راہ والی ضلع گوجرانوالہ میں رہائش اختیار کی.انہوں نے تلونڈی میں ایک مسجد بھی تعمیر کرائی تھی.حضرت محترمہ عالم بی بی صاحبہ نے حضرت اماں جان اور حضرت ام ناصر صاحبہ اور حضرت امتہ اکئی صاحبہ کی زیر نگرانی قرآن شریف کا ترجمہ سیکھا اور ان سے دینی تعلیم حاصل کی.آپ کو قادیان کے محلہ دار البرکات میں لجنہ کی صدر رہنے کی توفیق ملی.آپ نے ۱/۵ کی وصیت کی ہوئی تھی.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.اولاد مرحومہ نے اپنے پسماندگان میں چار بیٹے بریگیڈیئر ڈاکٹر غلام احمد صاحب، مکرم حافظ بشیر احمد صاحب، مکرم منیر احمد صاحب اور مکرم خلیل احمد صاحب اور چار بیٹیاں یادگار چھوڑیں.آپ کی ایک بیٹی سیده فرخندہ اختر شاہ صاحبہ (پرنسپل نصرت جہاں کالج ) حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی اہلیہ تھیں.حضرت مولوی سیف اللہ صاحب چندر کے منگولے ضلع سیالکوٹ ولادت: قریباً ۱۸۷۰ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۷ اجون ۱۹۷۰ء دعوت الی اللہ، عبادت، شب بیداری، غرباء کی ہمدردی اور عوام الناس کی خیر خواہی آپ کے خاص اوصاف تھے.چالیس سال کی عمر میں چوہدری اللہ دتہ صاحب مرحوم کے پاس جن کا کنواں گاؤں سے ایک میل کے فاصلے پر تھا.روزانہ جا کر قرآن مجید با تر جمہ پڑھا اور پھر ساری عمر نہایت شوق و محبت سے درس دیتے رہے.قیام بالعموم خدا کے گھر میں ہی رکھتے.عبادت ان کی غذا تھی.رات نفل پڑھتے گزارتے جب نیند غلبہ کرتی سو جاتے پھر اُٹھ کر نماز میں کھڑے ہو جاتے.دین کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے جب بھی کسی نے ظلم کیا مظلوم کی مدد کرتے.گو ظالم مولوی صاحب مرحوم کا بھی دشمن ہو جاتا.لیکن آپ کا تو کل اللہ تعالیٰ پر تھا.بالآخر ظالم نامراد رہتا تھا.تعلق باللہ اتنا تھا کہ بعض دفعہ آئندہ حالات کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ آپ کو اطلاع دے دیتا.ایک دفعہ دو احمدی دوست یونین کونسل کے دو حلقوں میں کھڑے ہوئے.مولوی صاحب مرحوم سے کامیابی کے لئے دعا کی درخواست کی گئی.دعا کے بعد فرمانے لگے انشاء اللہ دونوں کامیاب ہو جاویں گے.مگر ایک ممبر کامیاب ہوا اور دوسرا نا کام ہو گیا.مولوی صاحب مرحوم پریشان ہو کر کہنے لگے.کوئی دھو کہ ہوا ہے.

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد 26 281 سال 1970ء رٹ کی درخواست دائر کی گئی.فریق مخالف کا انتخاب ناجائز قرار پایا اور دوبارہ الیکشن ہوا اور خدا کے فضل سے وہی احمدی جو پہلے نا کام ہوا تھا ممبر ہو گیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب مرحوم کی رؤیا کو سچا کر دکھایا.مرحوم اسلام اور احمدیت کا چلتا پھرتا نمونہ تھے.حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب ڈنگوی.میڈیکل ہال قادیان ولادت: قریباً ۱۸۸۷ء بیعت: جون ۱۹۰۲ء 1 وفات : ۲۹ جون ۱۹۷۰ء آپ بچپن ہی میں ڈنگہ ضلع گجرات سے قادیان آگئے تھے یہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں تعلیم پائی.پہلے نور ہسپتال میں ایک لمبا عرصہ خدمات سرانجام دیں پھر قادیان میں عرصہ دراز تک خود اپنا مطلب کیا اور ایک کامیاب معالج کی حیثیت سے بہت نام پیدا کیا اور اس حیثیت میں مخلوق خدا کو بہت فیض پہنچایا.قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں رہائش اختیار کی اور یہاں بھی مخلوق خدا کی خدمت سرانجام دینے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفار بھی تھی اور لوگ علاج کی غرض سے دور دور سے آپ کے پاس کھنچے چلے آتے تھے.آپ نہایت مخلص و فدائی احمدی ، عبادت گذار اور دعا گو بزرگ تھے.ذکر الہی آپ کی روح کی غذا تھی.زبان ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہتی.آپ کو نظام الوصیت سے وابستگی اور تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں شمولیت کا شرف بھی حاصل تھا.10 حضرت بھائی محمود احمد صاحب کے قلم سے زمانہ مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق بعض روایات درج ذیل کی جاتی ہیں.ایک دفعہ امساک باراں سے لوگ بہت پریشان ہوئے.کئی دوست چاہتے تھے کہ حضور کی خدمت میں نماز استسقاء کے واسطے عرض کی جائے.چنانچہ ایک دوست نے نماز استسقاء کے واسطے عرض کی.حضور نے ارشاد فرمایا.اچھا کل ، جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا.چنانچہ دوسرے روز بارش کا سلسلہ شروع ہوا جو متواتر سات دن لگا تار رہا حتی کہ لوگ تنگ آگئے کہ الہی بارش کو بند کر.کرم دین بھیں کے مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ حضور بوقت سحری قادیان دارالامان سے گورداسپور تاریخ کے واسطے روانہ ہوئے.تین یکے تھے.ایک یکہ پر حکیم فضل دین صاحب مرحوم.پ کے ہمراہ جو دوست سوار تھے ان کا نام مجھے یاد نہیں.دوسرے یکہ میں حضور اور آپ کے ہمراہ

Page 292

تاریخ احمدیت.جلد 26 282 سال 1970ء حافظ حامد علی صاحب اور تیسرے یکہ میں خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اور مولوی محمد علی صاحب تھے.حضور کے یکہ کے ہمراہ ہم چار پانچ کس تھے جب کلو سوہل اور بھڑ کے درمیان پہنچے تو نماز کا وقت ہو گیا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ نماز پڑھ لیں چنانچہ سب نے وضو کیا اور سنتیں ادا کیں.بعد از فراغت سنت حضور نے ارشاد فرمایا کہ حکیم فضل دین صاحب مرحوم کو کہیں کہ نماز پڑھائیں.عرض کی گئی کہ حضور ان کا یکہ آگے نکل گیا ہے حضور خاموش ہور ہے.ہمراہی کسی دوست نے عرض کی کہ حضور خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب کا یکہ پیچھے آرہا ہے ان میں سے کوئی نماز پڑھا دے گا.چنانچہ پھر حضور خاموش رہے.خاکسار کے پاس چادر تھی میں نے چادر آگے بچھادی.چنانچہ حضور نے نماز پڑھائی.جب حضور نے سلام پھیرا تو مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب کا یکہ بھی آ پہنچا.مجھے صرف ایک ہمرا ہی دوست مسیح اللہ صاحب مرحوم محلہ دارالرحمت کا نام یاد ہے باقی دوستوں کے نام یاد نہیں ہیں.حضور کے رکوع و سجود اور تشہد قدرے لمبے تھے.آواز آپ کی دھیمی رقت و گداز سے پر تھی.لیکچر سیالکوٹ کے موقع پر خاکسار اور میرے جماعتی محمد الدین جہلمی نے مشورہ کیا کہ چند یوم کی رخصت لے کر سیالکوٹ پیدل چلیں.چنانچہ ہم دونوں قادیان دارالامان سے پہلے روانہ ہوئے.بٹالہ پہنچ کر میرے ہمراہی نے کہا میں تو حضور علیہ السلام کی گاڑی پر جو کہ حضور کے واسطے ریز رو کی ہوئی ہے سیالکوٹ چلا جاؤں گا.خاکسار نے عرض کی یہ ناممکن ہے چنانچہ وہ خاکسار سے الگ ہو کر سٹیشن پر چلا گیا اور خاکسار پا پیادہ ڈیرہ بابا نانک کو روانہ ہو گیا.بوقت ظہر ڈیرہ بابا نانک نماز پڑھ کر بیٹھا ہی تھا میں نے دیکھا کہ میرا ہمراہی بھی یکہ پر بیٹھا ہوا آرہا ہے میں جلدی سے شہر کے بازار سے ہو کر راستہ کا پتہ کر کے آگے نکل گیا.چنانچہ دریا پر پہنچ کر ہم اکٹھے ہو گئے.دریا سے چار پانچ چھ میل کے فاصلہ پر ایک بڑا گاؤں تھا.جو عین سیالکوٹ کی سڑک پر واقع ہے.شام کا وقت ہو گیا.ایک مسجد میں گئے.چنانچہ نمازی جمع ہو گئے.جب تکبیر ہونے لگی تو میرے ہمراہی نے کہا نماز پڑھ لیں.میں نے کہا کہ ہماری نماز ان کے پیچھے نہیں ہوتی.یہ پڑھ لیں تو بعد میں ہم پڑھ لیں گے.چنانچہ ایک آدمی سن رہا تھا اس نے کہا کہ نماز پڑھ کر تمہاری خبر لیں گے.اس پر پھر میرے ہمراہی نے اصرار کیا میں نے کہا کہ فساد کی جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ رات بسر کر لیں گے.چنانچہ اس گاؤں سے دوسری طرف قبرستان تھا جو فاصلہ پر تھا اور اس میں مسجد بھی تھی وہاں رات بسر کی اور رات کے دو بجے وہاں سے روانہ ہوکر گیارہ بجے سیالکوٹ پہنچے.

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد 26 283 سال 1970ء جب لیکچر ختم ہوا تو سید حامد شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ چار پٹھان ہیں جو کہ سوائے پشتو کے کوئی اور زبان نہیں جانتے.رستے کا واقف ان کے ساتھ جائے تو بہتر ہو گا.خاکسار نے عرض کی کہ بندہ حاضر ہے.چنانچہ ہم پانچوں عصر کے وقت چل کر رات پسر ور آ گئے.چونکہ حضرت اقدس علیہ السلام نے سیالکوٹ سے دوسرے یوم چل کر رات بٹالہ قیام فرمانا تھا اس لئے میں نے موقعہ غنیمت سمجھ کر یہ نیت کر لی کہ جس طرح ہو سکے دوستوں کی رفاقت کا فائدہ اٹھا کر حضرت اقدس علیہ السلام کو بٹالہ جاملیں گے.چنانچہ رات کے دو بجے پسرور سے چل کر ہم سب رات کے وقت ڈیرہ بابا نانک پہنچے.میں نے دوستوں کو کھانا کھلا کر تیار کر لیا کہ چلو حضرت اقدس علیہ السلام بٹالہ میں ہیں چنانچہ پھر رات کو چل کر قریب نہر کے تھوڑا قیام کیا مگر مجھے نیند نہ آتی تھی کیونکہ حضور کا اشتیاق دل میں جوش ماررہا تھا کہ جس طرح ہو سکے حضور کو بٹالہ میں ملیں.چنانچہ بار بار اصرار کر کے میں نے ہمرا ہی دوستوں کو اٹھا دیا.جب بٹالہ پہنچ کر سرائے میں گئے تو معلوم ہوا کہ حضور قادیان تشریف لے گئے ہیں.چنانچہ اس وقت مجھے نہایت صدمہ ہوا.ہم سب شہر کو گئے اور ہمراہی دوستوں کو کھانا کھلایا.جب شہر سے نکل کر قادیان کا رخ کیا جہاں سے قادیان کی سڑک رخ کرتی ہے تو حضور علیہ السلام کے یکے کھڑے تھے...اس وقت ہماری خوشی کا جو حال تھا وہ محتاج بیان نہیں.چنانچہ ہم سب پا پیادہ حضور کے ہمراہ قادیان پہنچے.میرے ہمراہی دوستوں کے نام یہ تھے.غلام رسول صاحب ( دکان کرتے ہیں )، محمد الیاس، عبدالغفار خاں ، عبداللہ خاں.یہ دوست ایک ہاتھ سے معذور تھے.انہوں نے ہی باغ میں.11 چور کو پکڑا تھا“.مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے آپ کی وفات پر ایک مضمون میں لکھا کہ مجھے اپنے قادیان کے ابتدائی ایام سے حضرت بھائی صاحب موصوف کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے ہم مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے تھے بیمار ہونے پر دوا لینے کے لئے ہسپتال جاتے تو اکثر حضرت بھائی صاحب کے ذریعہ دوا ملتی.زخموں کی مرہم پٹی آپ کرتے.آپ ہر چھوٹے بڑے سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ہنستے ہنساتے زخم اور پھوڑے پھنسیوں پر پٹی لگا دیا کرتے تھے اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتے.دوا بناتے وقت نسخہ لکھتے وقت ، زخم کو چیرتے وقت اللہ شافی“ کا ورد آپ کی زبان پر ہوتا تھا.جب انہوں نے اپنا علیحدہ شفاخانہ کھولا تو وہ بھی مرجع خلائق بن گیا.وہاں سے قیمتی دوائیں بھی رعائتی قیمت پر ملتی تھیں اس پر بھائی صاحب کی مرنجان مرنج طبیعت اور نہایت شگفته گفتگومزید براں

Page 294

تاریخ احمدیت.جلد 26 284 سال 1970ء تھیں.نتیجہ یہ تھا کہ قادیان کے اکثر لوگ اسی شفاخانہ کی طرف رجوع کرتے تھے.ہندو اور سکھ بھی بکثرت آتے تھے.دیہات سے آنے والے مردوں اور عورتوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.ان کی دکان بڑے بازار کے شمال میں ریتی چھلہ کے پاس آخری دکان تھی.جب ادھر سے گذر ہوتا تو متعد دلوگ انتظار میں بیٹھے نظر آتے.اور یہ بھی دکھائی دیتا کہ حضرت بھائی صاحب اور ان کے متعدد کارکن نہایت مستعدی سے نسخے لکھنے اور دوائیں تیار کرنے میں منہمک ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفاء بھی رکھی تھی.حضرت بھائی صاحب امیروں اور غریبوں کی طرف یکساں توجہ دیتے تھے بلکہ میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ ان کی توجہ غریبوں اور بالخصوص بوڑھی اور دیہاتی عورتوں کے علاج کی طرف خاص طور پر زیادہ ہوتی تھی.دیہات میں جا کر بھی مریضوں کو دیکھتے تھے.سارے علاقہ میں ان کی نیک شہرت تھی.ہمارے مشاہدہ میں حکیموں میں سے حضرت مولوی قطب الدین صاحب مرحوم اور ایلو پیتھی علاج کرنے والوں میں حضرت بھائی محمود احمد صاحب کا ذکر کر رہا ہوں ان کا خاص طریق یہ تھا کہ ان کی زبان پر تسبیح و تحمید کا ورد جاری رہتا تھا وہ کام بھی کرتے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں بھی مشغول رہتے تھے.نماز با جماعت کے بڑے پابند تھے.گھڑی جیب میں ہوتی تھی.جو نہی نماز کا وقت ہوا سب کام کاج چھوڑ کر مسجد کا رخ کرتے تھے.اپنی دکان میں ہوتے تو وہاں کی قریبی مسجد میں نماز با جماعت ادا فرماتے اور اپنے محلہ یعنی دار الرحمت میں ہوتے تو محلہ کی مسجد میں نماز پڑھتے.جمعہ کے لئے عام طور پر ان کی جگہ جامع مسجد کی صف اول میں ہوتی تھی.عبادت کا پورا التزام کرنے کے باوجودطبیعت میں نہایت تواضع اور انکساری تھی.سوائے دینی غیرت کے مواقع کے ان کی طبیعت میں تیزی نہیں آتی تھی.بچوں سے بہت انس تھا.راہ گذرتے ہوئے بھی کھیلنے والے بچوں اور بچیوں سے پیار کے ساتھ گفتگو کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں مالی فراخی بھی عطا فرمائی تھی اور طبیعت میں جود وسخا بھی رکھی تھی.سلسلہ کے علانیہ چندوں میں بھی شریک ہوتے تھے اور غرباء ومستحقین کی مخفی امداد بھی ان کا شعار تھا.تقسیم ملک کے بعد حضرت بھائی صاحب کا مطلب سرگودھا میں منتقل ہو گیا.شروع میں قادیان کی جدائی سے بہت زیادہ غمگین رہا کرتے تھے تاہم اپنے کام اور بنی نوع انسان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف تھے.چند ہی دنوں میں ان کے شفا خانہ میں وہی صورت حال پیدا ہوگئی جو قادیان میں تھی.خلاصہ یہ ہے کہ حضرت بھائی محمود احمد صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے.احمدیت کا ایک

Page 295

تاریخ احمدیت.جلد 26 285 سال 1970 ء صحیح نمونہ تھے.دست در کار و دل بایار کی ایک بہترین مثال تھے.12 اولاد: ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب (سرگودها)، و دو داحمد صاحب ( مقیم لندن ) ، آمنه خاتون صاحبہ، فاطمہ خاتون صاحبہ ، صالحہ خاتون صاحبه، صفیه خاتون صاحبه، سعیده خاتون صاحبه آپ کی اہلیہ اور آپ کی سب اولاد تحریک جدید کے پانچہزاری مجاہدین میں شامل ہے.حضرت ملک شادے خان صاحب پیدائش: ۱۸۸۰ء دستی بیعت : ۱۹۰۴ء 13 وفات : اا جولائی ۱۹۷۰ء آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور ہجرت سے قبل محلہ دارالرحمت قادیان میں رہائش پذیر تھے.آپ اپنی بیعت کا واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں: میں ایک دفعہ میاں جمال الدین مرحوم کے ساتھ قادیان میں آیا.اور مسجد مبارک میں جب ہم آئے تو نماز ظہر کا وقت تھا.تو حضرت صاحب نماز کے لئے جب تشریف لائے تو میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا.میرے کانوں میں مرکیاں پڑی ہوئی تھیں.تو حضور نے فرمایا کہ یہ مرکیاں کیسی ہیں.مسلمان تو نہیں ڈالتے.میاں جمال الدین نے کہا حضور دیہاتی لوگ ایسے ہوتے ہیں.کیونکہ ایسے مسائل سے کچھ خبر نہیں ہوتی.فرمایا.ان کو کانوں سے اتار دو.تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے بھی کہا کہ جلدی اتار دو.کیونکہ حضرت صاحب نے حکم فرمایا ہے.میں نے اُسی وقت اتار دیں.جب نماز عصر کے وقت نماز پڑھنے کے لئے آیا تو حضور نے فرمایا کہ اب مسلمان معلوم ہوتا ہے.اُس کے بعد میں نے بیعت کر لی.آپ ا جولائی ۱۹۷۰ ء کو سیالکوٹ شہر میں وفات پاگئے.اسی دن شام کو بذریعہ ٹرک نعش کو ربوہ پہنچایا گیا.مورخہ ۱۲ جولائی کو بعد از نماز فجر مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے نماز جنازہ پڑھائی اور قطعہ صحابہ میں آپ کو سپردخاک کیا گیا.قبر تیار ہونے پر مکرم مولانا نے ہی دعا کروائی.اولاد: عبد الحمید صابر بھٹی صاحب، عبد الرشید بھٹی صاحب،عبد العزیز بھٹی صاحب، عبد 14 اللطیف بھٹی صاحب، صفیه بی بی صاحبہ، شریابی بی صاحبہ نسیم اختر صاحبه حضرت صابرہ بی بی صاحبہ پیدائش: ۱۸۸۶ء بیعت : ۱۹۰۵ء16 وفات: ۱۷ جولائی ۱۹۷۰ء 15

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد 26 286 سال 1970ء مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں سے تھیں.خدا، اس کے رسول عمل ہے اور اس ﷺ اس کی کتاب قرآن کریم سے خاص محبت تھی.خدمت خلق کا بہت شوق رکھتی تھیں.مورخہ ۷ جولائی ۱۹۷۰ء کو عمر ۸۵ سال وفات پاگئیں.مورخہ ۱۸ جولائی ۱۹۷۰ء کو بعد از نماز عصر مسجد مبارک سے ملحقہ میدان میں مکرم مولوی عبد الرحمن صاحب انور نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.اس کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.اولاد قریشی محمد عبد اللہ صاحب، قریشی عطاء اللہ صاحب حضرت خواجہ عبدالقیوم صاحب بی اے بی ٹی سیالکوٹی ولادت: قریباً ۱۸۹۴ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۲۲ جولائی ۱۹۷۰ء آپ ایک لمبا عرصہ تک بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول کے فرائض انجام دیتے رہے.ریٹائر ہونے کے بعد ہجرت کر کے ربوہ میں رہائش پذیر ہوئے.آپ کے ایک فرزند میجر منیر احمد صاحب ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ پاک و ہند میں شہید ہو گئے.قبل ازیں ایک فرزند جمیل احمد صاحب عین جوانی افریقہ میں وفات پاگئے لیکن آپ نے مومنانہ شان سے صبر و ثبات کا بہترین نمونہ دکھلایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بالخصوص در شین فارسی کا مطالعہ آپ کو بہت مرغوب تھا.آپ بہت خوش رو و بلند قامت، بلند حوصله، زندہ دل اور علم دوست بزرگ تھے.گو آپ شاعر نہ تھے مگر سخن شناس ضرور تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعارا کثر ور دزبان رہتے.آپ گھر سے نکلتے تو بڑے وقار سے اور پورے لباس میں ہی نکلتے.راہ میں ملنے والے احباب سے بڑے خلوص اور محبت سے ملتے.اولاد: مرحوم نے تین لڑکے ( سلیم احمد صاحب، میجر محمد طیب صاحب اور عبدالسلام صاحب) اور چارلڑکیاں اور کثیر تعداد میں آگے ان کی اولا دا پنی یادگار چھوڑی ہیں.حضرت چوہدری مراد بخش صاحب لدھیانوی 19 ولادت : ۱۸۹۰ء قریباً بیعت: ۱۹۰۵ء وفات: یکم اگست ۱۹۷۰ء نہایت ہی سادہ مزاج ، کم گو اور گوشہ نشین تھے.آپ کے سب غیر احمدی رشتہ داروں نے جو قریباً

Page 297

تاریخ احمدیت.جلد 26 287 سال 1970ء ایک ہزار تھے آپ کی مخالفت اور بائیکاٹ میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر آپ ایک مضبوط چٹان کی طرح احمدیت پر ڈٹے رہے اور اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دی.آپ حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب کے سمدھی تھے.حضرت مولوی حیات محمد صاحب دھیر کے کلاں ضلع گجرات ولادت: قریباً ۱۸۸۵ء بیعت: ۱۹۰۴ء وفات : ۲۳ /اگست ۱۹۷۰ء نہایت درجہ فدائی، دعا گو اور صاحب رؤیا بزرگ تھے.تقریباً ۳۵ سال تک مسجد احمد یہ دہلی دروازہ لاہور کے نقیب کے فرائض نہایت کامیابی سے بجالانے کی سعادت حاصل ہوئی.ریٹائر ہوکر اپنے آبائی گاؤں میں آگئے اور تقریباً ۲۰ سال تک جماعت کی تربیت و خدمت میں مصروف رہے.پانچوں نمازیں نہایت با قاعدگی کے ساتھ پڑھاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء احمدیت کے چشمد ید واقعات سنا سنا کر احباب جماعت کے ایمان تازہ کرتے.آپ کے داماد مکرم نذر محمد نذیر صاحب گولیکی رقمطراز ہیں کہ:.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی جو سلسلہ کے نامور عالم اور بزرگ تھے ان کی نیک صحبت اور تبلیغ سے آپ احمدیت میں داخل ہوئے.احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے حقیقی بھائیوں کی طرف سے بہت تکالیف اٹھانا پڑیں لیکن مرحوم بہت صابر اور شاکر انسان تھے.شروع سے ہی عبادت گزار اور دعا گو تھے.شدت کی گرمی میں پورے روزے رکھ کر گندم کی کٹائی اور گہائی کا کام نہایت خوش اسلوبی سے ادا کرتے حتی الامکان نماز با جماعت ادا کرتے.نماز تہجد اور نماز اشراق کی بھی پابندی کرتے اور یہ سلسلہ جب تک صحت رہی جاری رہا.مرحوم نے تقریباً ۳۵ سال مسجد احمد یہ دہلی دروازہ لاہور میں بطور نقیب اور خادم کے گزارے اور مسجد دہلی دروازہ لا ہور ایک لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتی تھی.ملک کے گوشہ گوشہ سے احمدی احباب وہاں آکر ٹھہرتے.ان کے طعام قیام کے انتظام میں مرحوم نہایت مخلصانہ طریقہ سے حصہ لیتے تھے.احباب کی امانتیں ، چندوں کی وصولی ، اجلاس کی اطلاع، عیدین کے موقع پر انتظام، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی آمد کے موقع پر انتظام، دعوتوں کی اطلاع وغیرہ ان سب کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.مرحوم کو حضرت قریشی محمد حسین صاحب مرحوم مفرح عنبری والے، حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب ، حضرت چوہدری اسد

Page 298

تاریخ احمدیت.جلد 26 288 سال 1970ء اللہ خان صاحب، محترم شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج ہائی کورٹ اور دیگر نائب امراء کے ساتھ ان کے اپنے دور میں بڑی دیانتداری اور وفاداری کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا...دلی دروازہ لاہور کے محلہ کے غیر احمدی بھی مرحوم کی نیک عادات اور حسن سلوک سے متاثر تھے.جماعتی کاموں کے سلسلے میں لاہور کے تمام دور دور کے حلقہ جات مثلاً مغلپورہ، ماڈل ٹاؤن، اچھرہ، مسلم ٹاؤن لاہور چھاؤنی، بادامی باغ وغیرہ تک جانا پڑتا تھا.اکثر پیدل چل کر شام کو اپنے کام کو سر انجام دے کر واپس مسجد میں پہنچ جایا کرتے تھے.عیدین کے موقعہ پر منٹو پارک میں رات ہی رات میں خوش اسلوبی سے انتظام فرماتے اور عیدین کے دن بھی شام تک سامان وغیرہ واپس لانے اور کرایہ کے سامان کو جمع کرانے میں مشغول رہتے.کھانے وغیرہ کی ہرگز پروانہ کرتے.مرحوم کی یہ کوشش ہوتی کہ پیٹ زیادہ کبھی نہ بھرے اور یہ عاجز ذاتی طور پر گواہ ہے کہ مرحوم نے ساری زندگی میں شاید ہی پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہو.فرماتے زیادہ کھانے سے رات کو تہجد میں نیند آتی ہے اور نفس سوار ہو جاتا ہے...لاہور میں ملازمت کے دوران ایک دفعہ مرحوم قادیان تشریف لے گئے واپسی پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ مولوی صاحب جاتے ہوئے کچھ کا غذات جو اشتہار یا پمفلٹ کی صورت میں تھے لاہور لیتے جائیں.مرحوم نے دیکھا کہ گاڑی کا وقت قریب ہے اور کاغذات ابھی تیار نہیں ہوئے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.عرض کیا ”حضور گاڑی ملنی مشکل ہے کام بہت باقی ہے اور وقت ہو گیا ہے.حضور فرمانے لگے ”مولوی صاحب گاڑی پر بٹھانا ہمارا کام ہے آپ فکر نہ کریں.جب کا غذات تیار ہوئے تو گاڑی کا وقت گذر چکا تھا اور دیر ہوگئی تھی.لیکن مرحوم فرماتے کہ میں اسٹیشن کی طرف چل پڑا.جب اسٹیشن پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ گاڑی ابھی آئی ہی نہیں انجمن راستے میں فیل ہو گیا ہے.سبحان اللہ پیارے آقا کے منہ سے نکلنے والے الفاظ اللہ تعالیٰ نے کیسے پورے کئے“.اولاد: فاطمہ بیگم صاحبہ (اہلیہ مبارک احمد صاحب مرحوم ابن شیخ احمد صاحب در ولیش قادیان)، عائشہ بی بی صاحبہ مرحومہ (اہلیہ چوہدری غلام حیدر صاحب چندر کے منگولےضلع سیالکوٹ )، رسول بیگم صاحبہ (اہلیہ چوہدری نذر محمد صاحب نذیر گولیکی ، مبارک احمد صاحب (وفات بعمر ۴ اسال).22

Page 299

تاریخ احمدیت.جلد 26 289 سال 1970ء حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب آف کا ٹھ گڑھ ہوشیار پور پیدائش: ۱۸۸۷ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۲۶ اکتوبر ۱۹۷۰ء حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور کے معروف گاؤں کا ٹھ گڑھ میں مکرم چوہدری رحمت خاں صاحب کے ہاں ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوئے.آپ اپنے والد کی پہلی اولاد تھے.آپ کے علاوہ تین اور بیٹے بھی تھے.دوسرے بیٹے کا نام غلام رسول خاں اور تیسرے کا نام عبدالحمید خاں تھا.آخری بیٹا جس کا نام معلوم نہیں ہو سکا.وہ کسی وجہ سے گھر سے چلا گیا اور بعد میں کوئی رابطہ نہ رہا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا چرچا پنجاب کے دیہات میں عام ہونے لگا تو کا ٹھ گڑھ کے حضرت سید محمد علی شاہ صاحب حضور کی زیارت کے لئے قادیان تشریف لے گئے.اور بیعت کر کے کاٹھ گڑھ کے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا.جب یہ بیعت کر کے اپنے گاؤں واپس لوٹے تو انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور جب گاؤں کے رئیس چوہدری غلام احمد صاحب کو ان کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے حضرت سید محمد علی شاہ صاحب کو حکم دیا کہ یا تو احمدیت سے انکار کر دیں ورنہ گاؤں چھوڑ کر چلے جائیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس نیک بندہ نے محض خدا تعالیٰ کی خاطر گاؤں چھوڑنے کو ترجیح دی اور اپنا ایمان سلامت رکھا.بعد میں جب گاؤں کے رئیس چوہدری غلام احمد صاحب پر احمدیت کی صداقت ظاہر ہوگئی تو حضرت سید محمد علی شاہ صاحب کو ڈھونڈ کر عزت کے ساتھ گاؤں لائے اور وہ کاٹھ گڑھ میں مقیم ہوئے اور ان کے ذریعہ احمد بیت گاؤں میں پھیلنے لگی.حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب کو بھی ۱۹۰۴ء میں قادیان جا کرے اسال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت کی توفیق ملی.آپ کا ٹھ گڑھ کے ابتدائی احمدیوں میں شمار ہوتے ہیں.کچھ دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہونے کے بعد جانے کی اجازت حضور سے چاہی تو حضور نے ارشاد فرمایا کہ آپ ابھی چھوٹے ہیں کچھ عرصہ مزید قادیان میں ٹھہریں تا کہ آپ کو ہمارے دعاوی اور عقائد کا بخوبی علم ہو جائے.اس پر آپ مزید اڑھائی تین ماہ تک قادیان میں مقیم رہ کر حضور کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے.اس کے بعد حضور نے آپ کو جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.اس طرح آپ کو صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.اپنے خاندان میں سے اکیلے احمدی ہوئے.بعد میں آپ کے دو بھائی مکرم غلام رسول خاں

Page 300

تاریخ احمدیت.جلد 26 290 سال 1970ء صاحب اور مکرم عبدالحمید خاں صاحب کو احمدیت کی نعمت ملی.تاہم ان کے والد مکرم چوہدری رحمت خاں صاحب کو بیعت کی توفیق نہ ملی.آپ کے اکلوتے بیٹے مکرم چوہدری غلام اللہ خاں صاحب ( پیدائش ۱۹۰۹ء) کی روایت ہے کہ محترم والد صاحب نے بتایا کہ جب مکرم عبدالکریم صاحب آف حیدر آباد دکن کو ۱۹۰۷ء میں قادیان میں کتے نے کاٹ لیا تھا اور انہیں علاج کے لئے بورڈنگ ہاؤس سے الگ ایک کمرہ میں رکھا گیا.اس موقع پر مجھے بھی چند دن ڈیوٹی دینے کا موقع ملا.حضرت چوہدری غلام محمد خاں صاحب بعد میں بسلسلہ ملازمت لا ہور تشریف لے گئے اور ایک لمبا عرصہ سنٹرل ماڈل سکول لاہور میں کام کیا.قیام پاکستان سے قبل بہت سے احمدی احباب روزگار کے سلسلہ میں لاہور آتے رہے آپ ان کو روزگار حاصل کرنے میں حتی المقدور تعاون کرتے رہے.قیام پاکستان کے وقت آپ نے سکول کے پرنسپل صاحب سے خصوصی اجازت حاصل کر لی کہ ہندوستان سے آنے والے مہاجرین چھٹیوں کے ایام میں سکول میں رہ سکیں.اس سہولت سے بہت سے احمدی احباب نے استفادہ کیا.آپ کو طب کے شعبہ سے بھی شغف تھا.اس لئے عام ضرورت کی دیسی جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ ادویات اپنے پاس رکھتے تھے اور غرباء کو مفت تقسیم کرتے تھے.آپ جوانی سے ہی عبادت گزار اور سلسلہ کی کوئی نہ کوئی کتاب اپنے پاس رکھتے اور اس کا مطالعہ کرتے تھے بلکہ بعض کتب آپ کے سرہانے کی طرف الماری میں ہوتی تھیں جو ہاتھ کی پہنچ میں ہوتی تھیں.قیام پاکستان کے بعد آپ کو زرعی زمین ہر پر ضلع ساہیوال میں الاٹ ہوئی.وہاں کچھ عرصہ مقیم رہنے کے بعد ر بوہ تشریف لے آئے اور اپنے بیٹے مکرم چوہدری غلام اللہ خاں صاحب کے پاس مقیم ہوئے.ان کا گھر مسجد ناصر محلہ دار الرحمت غربی کے سامنے محراب کی طرف تھا.آپ خود بھی بروقت نماز کے لئے تشریف لے جاتے اور اپنے پوتوں کو بھی تلقین فرماتے.قیام ربوہ کے دوران اپنے عزیز واقارب کی خیر خیریت معلوم کرنے کے لئے جاتے اور خاص طور پر بیمار کی عیادت اپنے پر فرض کر لیتے اور باوجود بڑی عمر کے دور دراز محلوں میں بھی جاتے رہتے.جلسہ سالانہ اور اجتماعات میں شرکت فرماتے اور تمام دن انہماک سے پروگرام سنتے.آخری تقریب جس میں آپ کو شرکت کا موقع ملاوہ انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ۱۹۷۰ء تھا.آپ درمیانے دن ہونے والی دعوت میں بھی شریک

Page 301

تاریخ احمدیت.جلد 26 291 سال 1970ء ہوئے.اسی رات نماز تہجد کے وقت آپ دماغ کی شریان پھٹ جانے سے بیہوش ہو گئے.اس موقع پر مکرم رانا کرامت احمد خاں صاحب کمپوڈر فضل عمر ہسپتال ابن حضرت منشی برکت علی خاں صاحب سابق وکیل المال تحریک جدید نے بیماری کے دوران خدمت کی توفیق پائی.آپ اسی بیماری میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے.ر آپ کی وفات ۲۶ اکتوبر۱۹۷۰ء کو ہوئی.وفات کے وقت عمر ۸۳ سال تھی.اگلے روز حضرت خليفة أسبح الثالث نے مسجد مبارک میں بعد نماز عصر نماز جنازہ پڑھائی اور تمام عزیزوں سے تعزیت کی.آپ کی تدفین امائنا قبرستان عام میں ہوئی.بعد میں وصیت کی تکمیل کے بعد تد فین بہشتی مقبرہ قطعہ نمبر ، اصحابہ میں ہوئی.آپ مجلس انتخاب خلافت کمیٹی کے ممبر تھے.تاریخ احمدیت جلد نمبر 19 میں صفحہ نمبر ۱۹ پر سیریل نمبر ۶ ۱۹ پر اس طرح درج ہے.غلام محمد صاحب کا ٹھ گڑھی ہر پہ منٹگمری.اولاد آپ کی اولاد آپ کے اکلوتے بیٹے مکرم چوہدری غلام اللہ خاں صاحب تھے وہ ۱۹۰۹ء میں کا ٹھ گڑھ میں پیدا ہوئے.آپ روزگار کے سلسلہ میں لاہور اور لالہ موسی ضلع گجرات میں رہائش پذیر ر ہے بعد میں ربوہ شفٹ ہوئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے انہیں اپنا ذاتی ٹریکٹر ڈرائیور رکھ لیا.انہیں حضرت خلیفہ اسیح الثالث پیار سے بابا جی کہہ کر بلاتے تھے اور ان پر حضور نے بہت شفقتیں فرمائیں.انہیں ذاتی ٹریکٹر ڈرائیور کے طور پر ایک لمبا عرصہ خدمت کا موقع ملا.ان دنوں حضور کی زرعی اراضی احمد نگر نز در بودہ اور نصرت آباد چک نمبر ۵۴ جنوبی ضلع سرگودہا میں تھی.وہاں سے فارغ ہوئے تو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے انہیں اپنے ہاں ٹریکٹر ڈرائیور رکھ لیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی بہت شفقتیں فرمائیں.آپ کی وفات ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو ہوئی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.حضرت حافظ مراد بخش صاحب 24 ولادت : ۱۸۸۴ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات :۳ نومبر ۱۹۷۰ء آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر ۱۹۰۳ء میں بیعت کی اور پھر اس عہد کو ایسا نبھایا جیسا اس کا حق تھا.نماز روزہ کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو بزرگ تھے.اطاعت اور

Page 302

تاریخ احمدیت.جلد 26 292 سال 1970ء خدمت دین کے جذبہ سے سرشار تھے.رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے عاشق تھے.کلام اللہ کا پڑھنا اور اور پڑھانا آپ کی روحانی غذا تھی.آپ ۱۹۵۴ء میں واہ کینٹ تشریف لائے اور پھر تا دم آخر واہ کینٹ میں ہی مقیم رہے.آپ جماعت احمد یہ واہ کینٹ کے صدر بھی رہے.آپ کی کوششوں سے واہ کینٹ میں احمد یہ لائبریری کا قیام عمل میں آیا.حضرت ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل خانصاحب شاہجہانپوری ولادت: قریباً ۱۸۹۱ ء بیعت ۱۹۰۴ء وفات: یکم دسمبر ۱۹۷۰ء 2 26 25 آپ ایک لمبا عرصہ اندرون موچی دروازہ لاہور میں میڈیکل پریکٹس کرتے رہے اور اس پیشہ میں خدمت خلق اور غرباء سے خاص ہمدردی آپ کا طرہ امتیاز رہا.آپ نے خود نوشت حالات میں لکھا ہیکہ میرے والد صاحب کا نام حافظ قدرت اللہ خان تھا.پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدہ پر متعین تھے مگر چونکہ بہت نیک طبیعت تھے اس لئے رشوت کے قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے.ادھر افسران بالا چاہتے تھے کہ ان کی نقدی وغیرہ سے خدمت کی جائے.یہ حالات دیکھ کر انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیا تھا.شاہجہانپور میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب کے ساتھ ان کے بہت تعلقات تھے.حافظ صاحب انہیں زبانی بھی تبلیغ کرتے تھے اور کتابوں کے ذریعہ بھی.ہماری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ تمہارے والد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھتے تھے تو اکثر آبدیدہ ہو کر فرمایا کرتے تھے کہ میں غریب آدمی ہوں.روپیہ پیسہ سے سلسلہ کی خدمت نہیں کر سکتا.دل چاہتا ہے کہ اگر کوئی میرے بچوں کو خرید لے تو میں وہ روپیہ حضرت صاحب کی خدمت میں بھیج دوں اور حضور اشاعت دین میں خرچ کرلیں.۱۹۰۰ ء میں وہ معہ اہل وعیال ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے اور بیعت کر کے سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے.حضور نے انہیں لنگر خانہ کے لئے ارد گرد کے دیہات سے ایندھن خرید کر لانے کے لئے مقررفرمایا تھا.میں حضرت صاحب کے گھر میں ہی رہتا تھا.جب حضرت صاحب کا وصال ہوا تو میری عمر اس وقت پندرہ سال کی تھی اور آٹھویں کلاس کا طالب علم تھا.نویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب فوت ہو گئے اور میں تعلیم چھوڑنے پر مجبور ہو گیا.محترم ڈاکٹر عبداللہ صاحب نو مسلم سے میں نے بہت حد تک کمپوڈری کا کام سیکھ لیا تھا.کچھ عرصہ کے بعد حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین

Page 303

تاریخ احمدیت.جلد 26 293 سال 1970ء صاحب مجھے اپنے ساتھ لاہور لائے اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے پاس چھوڑ گئے.چند دن میں نے ڈاکٹر صاحب موصوف کے مکان پر گزارے اور پھر ریلوے میں ملازمت اختیار کر لی.فارغ اوقات میں ڈاکٹر صاحب کی ڈسپنسری پر کام بھی کرتا رہا.یہ عرصہ کوئی آٹھ دس ماہ کا ہی ہوگا اس کے بعد میں نے ۱۹۱۸ء میں یہیں موچی دروازہ کے اندر ہی اپنی الگ ڈسپنسری کھول لی تھی مگر پہلے چند سال لال کھوہ کے پاس دکان تھی.بعد ازاں ۱۹۲ء سے موجودہ دکان میں کام کر رہا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل جب ۱۹۱۲ء میں لاہور تشریف لائے تو آپ نے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب سے دریافت کیا کہ یہاں کوئی حافظ قرآن بھی ہیں.انہوں نے عرض کی کہ حضور ! ایک چھوٹا سا حافظ ہے.فرمایا.اسے بلاؤ.جب میں حاضر ہوا تو حضور مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا.خدا تمہیں برکت دے گا.پھر فرمایا.نماز پڑھاؤ.چنانچہ تین دن حضور نے میرے پیچھے نمازیں پڑھیں.ان ایام میں مجھے میں پارے یاد تھے.بعد ازاں میں نے سارا قرآن یاد کر لیا ( حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل جب واپس قادیان تشریف لے گئے تو آپ کی والدہ کو بلا کر فرمایا کہ مجھے لاہور میں جا کر یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ تمہارے لڑکے نے قرآن یاد کر لیا ہے ) اور غالباً ایک مرتبہ اختلاف سے قبل احمد یہ بلڈنگکس میں اور پھر دہلی دروازہ میں حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کی بیٹھک میں اور پھر مسجد کی تعمیل کے بعد اس میں کئی سال تک نماز تراویح پڑھاتا رہا.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی یہاں مبلغ تھے.ان کی غیر حاضری میں نمازیں بھی میں ہی پڑھاتا تھا.میں نے حضرت مولوی صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ بھی پڑھا تھا.حضرت حافظ صاحب کی تین روایات درج ذیل ہیں.آپ نے فرمایا کہ:.ا.جب میں حضرت صاحب کے گھر میں رہتا تھا تو کئی مرتبہ میں نے دیکھا.حضرت پلنگ پر لیٹے ہوئے ہیں.موم بتی ، قلم دوات کا غذ بھی ساتھ پڑے ہیں.حضرت اٹھتے اور کاغذ پر کچھ لکھ کر پھر لیٹ جاتے.اس وقت تو پتہ نہیں لگتا تھا کہ کیا لکھتے ہیں مگر بعد میں پتہ لگا کہ تازہ الہامات لکھتے تھے.۲.مجھے متعدد مرتبہ اندرونِ خانہ سے مہمانوں کے لئے حضرت صاحب کے کھانے میں سے تبرک لانے کا موقعہ ملا.مجھے یاد ہے لاہور میں ایک دوست منشی تاج الدین صاحب ریلوے اکاؤنٹنٹ تھے.محلہ کوٹھید اراں لاہور میں ان کی رہائش تھی.انہوں نے بھی کئی مرتبہ قادیان میں مجھ سے فرمائش کی کہ میں انہیں حضور کے کھانے کا تبرک لا کر دوں.چنانچہ میں نے انہیں اور ان کے ساتھیوں

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد 26 کو پس خوردہ لا کر دیا.294 سال 1970ء ۱۹۰۳۳ء میں جب حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب قادیان تشریف لائے تو میں بھی ان کی ملاقات کے لئے مہمان خانہ گیا.اس وقت تیسری یا چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا.وہ تسبیح پڑھ رہے تھے.مجھے ہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا.دو چارمنٹ کے بعد فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا کہ صاحبزادے کیا کام کرتے ہو.میں نے عرض کیا پڑھتا ہوں.فرمایا.کتنے بھائی ہو؟ والد کیا کام کرتے ہیں؟ وغیرہ.اس قسم کے چند سوالات کئے پھر میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر فرمایا کہ جاؤ! خدا تمہیں برکت دے گا.اولاد: عبدالکریم صاحب، آمنہ صاحبہ ، صادقہ صاحبہ، مبارکه صاحبه، خورشیده صاحبه، نفیسه صاحبه 27

Page 305

تاریخ احمدیت.جلد 26 295 ۱۹۷۰ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت سال 1970ء اس سال صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کے متعددممتاز مخلصین جماعت نے وفات پائی جن کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے:.الف دین صاحب آف کوٹلی آزاد کشمیر وفات: یکم جنوری ۱۹۷۰ء کوٹلی آزادکشمیر کی مشہور کھوکھر فیملی سے تعلق رکھتے تھے.آپ کا نام فہرست نو مبایعین میں الفضل ( قادیان ) ۴ فروری ۱۹۲۷ء کے صفحہ ۱۰ پر درج ہے.نرم دل اور صائب الرائے تھے.کوٹلی میں مخالفین سے بڑے معر کے ہوتے رہے آپ ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے.آپ کے دوسرے بھائی علم الدین عرائض نولیس نے بھی آپ کے زیر اثر احمد بیت قبول کر لی.قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی وفات: ۲ جنوری ۱۹۷۰ء 29 سلسلہ کے ممتاز عالم ، فدائی اور مناظر مکرم قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی مربی سلسلہ احمدیہ مورخہ یکم جولائی ۱۹۱۰ء کو پیدا ہوئے.آپ کے آباء نے موضع علی پور تحصیل کبیر والا ضلع ملتان میں مزروعہ اراضی حاصل کی تھی.جسے بعد میں فروخت کر دیا گیا.مکرم قریشی صاحب مرحوم اور آپ کے آباء ضلع ملتان میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے ملتانی کہلائے.بچپن ہی میں آپ کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ گیا.اس لئے آپ اپنے ماموں مکرم حکیم فیروز دین صاحب مرحوم کی سرپرستی میں آگئے.محترم قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی پرائمری پاس کر کے مدرسہ احمدیہ میں ۱۹۱۹ء میں داخل ہوئے.آپ محلہ دارالرحمت قادیان میں مکرم حکیم فیروز دین صاحب کے ہاں قیام رکھتے تھے.طالب علمی کے زمانہ میں بھی آپ خوب حاضر جواب واقع ہوئے تھے.اس لئے بعض آپ کے کلاس فیلو فلاسفر کے نام سے پکارتے.۱۹۲۹ء میں آپ نے مولوی فاضل پاس کیا اور مرکز قادیان کی طرف سے ہندوستان کے مختلف علاقوں آگرہ، لکھنو، دہلی اور احمد آباد میں بطور مربی جماعت احمدیہ تربیتی و دینی اور اصلاحی خدمات جلیلہ

Page 306

تاریخ احمدیت.جلد 26 296 سال 1970ء سرانجام دیں.جہاں آپ نے مختلف کامیاب مناظرے بھی کئے.۱۵ نومبر ۱۹۳۹ء کو کاٹھیا واڑ عین جوانی کی عمر میں آپ ایک ہوٹل میں تبلیغ ہی کے سلسلے میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے مخالف نے آپ کے پیٹ میں چاقو سے وار کیا جس سے گہرا زخم آیا.آپ نے اسی حالت میں پولیس تھانہ میں پہنچ کر ( جو اتفاقاً پاس ہی تھا) رپورٹ درج کروائی.گو آپ اس زخم سے صحت یاب تو ہو گئے مگر زیادہ خون خارج ہونے کی وجہ سے آخر دم تک کمزوری رہی اور سردی کے ایام میں بعض دفعہ پٹھوں میں شدید قسم کی کمزوری لاحق ہو جاتی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑی ہمت اور عزم عطا فرمایا تھا.کئی دفعہ دیکھا کہ آپ بیماری کی حالت ہی میں مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے تشریف لے آتے تھے اور مسجد میں کافی دیر تک دوستوں سے مختلف دینی مسائل کے بارہ میں گفتگو فرماتے تھے.اپنے تبلیغی حالات سنا کر دوستوں کو قیمتی نصائح فرماتے.آپ کی دو نصیحتیں بہت انمول ہیں.اول:.آپ فرمایا کرتے تھے کہ تبلیغی گفتگو میں سوائے اشد ضرورت کے مناظرانہ پہلو اختیار نہیں کرنا چاہیے.دوٹوک بات کرنے سے وقتی طور پر آپ مخالف کا منہ تو بند کر دیں گے مگر اس کے ساتھ تبلیغ کا سلسلہ بھی بند ہو جائے گا.اس لئے ہمیشہ دلکش رنگ میں نصیحت اور ہمدردی کے طور پر تبلیغ کرنی چاہیے.اور گفتگو کے آخر میں مسئلہ کا کچھ حصہ باقی رکھ لیں اور نہایت ادب سے کہیں کہ مسئلہ کے اس حصہ پر دوسرے وقت میں بات کریں گے تا کہ تبلیغ کا سلسلہ جاری رہ سکے اور مخالف سوچ کر مسئلہ کی تہ تک پہنچ جائے.اور آپ کو بھی مزید مطالعہ کا موقع مل جائے گا.دوم :.آپ فرمایا کرتے تھے کہ مبلغ کے پاس ہر وقت ایک نوٹ بک ہونی چاہیے اور اسے مطالعہ کثرت سے کرنا چاہیے.مطالعہ کے وقت جو مناسب حوالہ پڑھے نوٹ بک میں اس وقت درج کرے اور بوقت تبلیغ اور تقریرا سے استعمال کرے.اس طرح اس کا علم بھی بڑھے گا اور لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکے گا.30- سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب وفات : ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء آپ کی عمر قریباً ۸۷ سال تھی.آپ ایک راسخ العقیدہ اسماعیلی خاندان میں پیدا ہوئیں جو کہ عام

Page 307

تاریخ احمدیت.جلد 26 297 سال 1970ء اسلامی نماز کو ایک بدعت خیال کرتے ہیں اور اس کی بجائے اپنی مخصوص قسم کی عبادت پر عامل ہوتے ہیں.مگر بچپن میں آپ کو ایک ایسی نماز اور دیگر اسلامی ارکان کی دلدادہ خاتون کی صحبت حاصل ہوئی کہ وہ باوجود ماں باپ کی مخالفت کے خود نماز پنجوقتہ کی گرویدہ ہو گئیں.آپ کی اس عادت کو چھڑانے کے لئے آپ کے والد صاحب نے ایک ایسے خاندان میں نہایت کم عمری میں ہی آپ کی شادی کر دی جس کے بارہ میں ان کو یہ امید تھی کہ نماز کی محبت کو ان کے دل سے نکال سکیں گے.مگر تقدیر الہی کا یہ انو کھا کرشمہ ہوا کہ آپ کے شوہر محترم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب بھی بعد میں نماز پنجوقتہ کے علاوہ نماز تسبیح اور کثرت نوافل و تجد میں پوری طرح مستغرق ہو گئے.اپنے محترم شوہر کی طرح آپ کو بھی تبلیغ احمدیت کی ہر وقت دھن لگی رہتی تھی.بلا تکلف ہر قسم کی مجالس اور صحبتوں میں احمدیت کا ذکر و چرچا کرتیں.آپ کی شخصیت میں اتنا جذب اور انداز گفتگو میں اتنا اخلاص تھا کہ جو کوئی ایک دفعہ مختصرسی مدت کے لئے بھی آپ سے ملتا آپ کا گرویدہ ہو جاتا.نہایت خلیق و شفیق اور ہمدردو فیاض اور حاجت مندوں کی حسب مقدرت امداد کرنے والی اور دین کی خدمت اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر دم جستجو کرنے والی تھیں.آپ اپنے خاندان میں مٹھی ماں کے نام سے پکاری جاتی تھیں.آپ کی ایک ممتاز خصوصیت مهمان نوازی تھی.محترم سیٹھ صاحب کے دوستوں کی بڑے انہماک سے مہمان نوازی کرتیں.جمعہ کے دن تو یہ معمول تھا کہ مہمانوں کے کھانا کھانے کے بعد ہی گھر والے خود کھاتے.چائے کا وقت ہوتا تو چائے بھیجوا نہیں.آپ ہر ایک کے دکھ درد میں شامل ہونا فرض عین سمجھتیں.دوسروں کی خوشی کو اپنی خوشی اور دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتیں.ہر ایک سے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے ملتیں.طبیعت میں بڑی خاکساری تھی.خدا تعالیٰ نے ظاہری دولت سے بھی نوازا تھا لیکن اس کی وجہ سے دل میں کبر و غرور نام کو نہ تھا.خدا نے جو کچھ دیا تھا اس کو دین کی اشاعت اور بنی نوع انسان کی بہبود پر صرف کرنا میاں بیوی دونوں کو بہت مرغوب تھا.آپ کے شوہر مکرم سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب عبادت گزار اور خدا کی یاد میں محور ہنے والے تھے اسی طرح آپ بھی بڑی عبادت گزار خاتون تھیں.ہمیشہ دست با کار دل با یار والا معاملہ تھا.ہر کام میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی پیش نظر رہتی.خدا نے بڑا پاکیزہ دل دیا ہوا تھا.بدظنی نام کو نہ تھی.دعاؤں میں شغف تھا.ہر ایک کے لئے توجہ اور ذوق شوق سے دعائیں کرتیں.آپ نے اپنے بہنوئی مکرم حبیب اللہ خان صاحب کی شادی خود ہی کروائی کیونکہ آپ

Page 308

تاریخ احمدیت.جلد 26 298 سال 1970ء کا کوئی عزیز اس وقت حیدر آباد میں نہ تھا.خود ہی آپ کی طرف سے سامان تیار کروایا اور ہر طرح آپ کے آرام کا خیال رکھا.31 عبدالرشید صاحب جنگوی ابن مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب وفات : ۲۳ جنوری ۱۹۷۰ء آپ ۳۳ سال کی عین جوانی کی عمر میں لاہور میں وفات پاگئے.آپ نہایت ہونہار اور خدمت دین کا جذبہ رکھنے والے نوجوان تھے.لاہور کی جماعت میں مختلف حیثیتوں سے جماعت اور خدام الاحمدیہ میں کام کرنے کا موقع ملا.آپ مجلہ " فاروق خدام الاحمدیہ کے مینیجر بھی رہے.مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۷۰ء بروز ہفتہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راه شفقت بعد نماز ظہر نماز جنازه پڑھائی.عام قبرستان میں تدفین کے بعد مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کروائی.چوہدری لیق احمد صاحب کھو کھر ایم.اے وفات: ۵ فروری ۱۹۷۰ء جماعت احمد یہ انگلستان کے مخلص احمدی نوجوان مکرم چوہدری لئیق احمد کھوکھر ایم اے ابن مکرم میجر چوہدری غلام محمد صاحب کھوکھر مورخہ ۵ فروری ۱۹۷۰ء کو انگلستان میں وفات پاگئے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۳۸ سال تھی.مرحوم محترم قاضی عبدالسلام صاحب بھٹی کے بھانجے اور داماد تھے.بہت نیک مخلص اور سلسلہ کے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے.طبیعت بہت ہنس مکھ پائی تھی.ہر ایک سے بہت خندہ پیشانی سے ملتے اور سب ہی ان سے ملکر مسرور ہوتے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری خالد احمدیت آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:.محترم چوہدری لئیق احمد صاحب کھوکھر ایم.اے مرحوم سلسلہ احمدیہ کے لئے فدائی تھے.انہیں پاکستان کے علاوہ زیادہ تر وقت مشرقی افریقہ میں گزارنے کا موقعہ ملا ہے.اب گذشتہ تھوڑے عرصہ سے وہ انگلستان چلے گئے تھے.کتب دینیہ قرآن مجید اور تصنیفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھنے کا خاص شوق تھا.بہت عمدہ اور سلجھی ہوئی بات کرتے تھے.صوفی مشرب نوجوان تھے.اپنے بچوں کی انہوں نے عمدہ تربیت کی تھی.ان میں تبلیغی روح پیدا کر دی تھی وہ میرے بیٹے عزیزم عطاء الکریم صاحب شاہد کے ہم زلف تھے.جماعتی تعارف کے علاوہ رشتہ داری کے لحاظ سے بھی میں ان کو جانتا

Page 309

تاریخ احمدیت.جلد 26 299 سال 1970ء ہوں.انہیں جماعت اور خلافت کے نظام سے والہانہ وابستگی تھی.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث سے عاشقانہ انداز میں تعلق تھا.حضور کی ہر تحریک پر پوری طرح عمل پیرا ہونا اپنی سعادت یقین کرتے 33 تھے.نہایت دعا گو اور صاحب رؤیا نوجوان تھے.آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.کتب فروخت کرنے لٹریچر تقسیم کرنے اور کسی نہ کسی رنگ میں دینی ماحول پیدا کر لینے کا آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا.آپ کی عادت تھی کہ تبلیغ کی نیت سے اپنے ساتھی یورپین اور دوسرے غیر مسلم اسا تذہ اور اپنے افسروں کے لئے کوئی نہ کوئی تقریب یا دعوت کی صورت پیدا کر لیتے.پھر کبھی قرآن کریم کا تحفہ دیا جا رہا ہے اور کبھی کوئی اور مناسب لٹریچر پیش کر رہے ہیں.۱۹۶۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر رخصت لے کر پاکستان کا بحری سفر اختیار کیا راستے میں جہاز کے یورپین کمانڈر سے رابطہ پیدا کر کے ایک چائے پارٹی کا انتظام کیا اسے قرآن کریم کا انگریزی نسخہ پیش کیا اور ایک برجستہ تقریر انگریزی زبان میں اسلام کی خوبیوں پر کی.کمانڈر بہت متاثر ہوا اور اپنی جوابی تقریرہ میں کہا کہ سالہا سال سے میں اپنی بحری سروس میں اکثر اسلامی ممالک کے کناروں تک گھوما ہوں.یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلمان نے مجھے اسلام کے مذہب سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے اور ایسا قیمتی تحفہ مجھے دیا ہے.مرحوم با جماعت نماز ادا کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.مکرم بشیر احمد رفیق امام مسجد لندن ان کے بارہ میں تحریر کرتے ہیں کہ ایک دن خاکسار سارا دن ان کے ساتھ رہا.شام کو اجازت لیکر ہوٹل آیا.تھوڑی دیر بعد لئیق احمد صاحب مرحوم بمع اپنے صاحبزادہ کے آگئے اور فرمانے لگے کہ میں نے سوچا با جماعت نماز پڑھ لی جائے.اس غرض سے یہاں آیا ہوں.گویا پانچ چھ میل کا سفر شام کی سردی میں محض اس غرض کے لئے طے کیا.مرحوم کی وفات سے دوماہ قبل رمضان میں نوافل اور دعاؤں پر غیر معمولی توجہ تھی.غالباً انہی ایام میں اپنی وفات اور نیک انجام سے بھی آگاہ ہو گئے تھے.کیونکہ بعد میں ان کی نوٹ بک میں سرخ روشنائی سے لکھا ہوا یہ فقرہ درج پایا گیا.I am happy to go but i feel i am not worthy of as glorious an end.کہ میں تو جانے پر خوش ہوں مگر سوچتا ہوں کہ اتنے پر شوکت انجام کے میں کہاں لائق

Page 310

تاریخ احمدیت.جلد 26 300 سال 1970ء ہوں.مرحوم کی میت کو ربوہ لایا گیا.مورخہا ا فروری ۱۹۷۰ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے جنازہ مسجد مبارک کے باہر پڑھایا اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.مرزا اعظم بیگ صاحب کلانوری ٹھیکیدار ریلوے وفات: ۱۸ فروری ۱۹۷۰ء کلانور ( ضلع گورداسپور ) جہاں شہنشاہ جلال الدین اکبر ۶ ۱۵۵ء میں تخت نشین ہوا آپ کا مولد ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مرزا رسول بیگ صاحب (وفات ستمبر ۱۹۱۷ء) کے فرزند حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب (وفات ۲۸ را پریل ۱۹۰۰ء) اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ( غیر مبائع ) کے بھتیجے اور حضرت سید ناصرشاہ صاحب کے داماد تھے.بڑی پُر وقار اور وجیہ شخصیت کے مالک تھے.کردار میں مضبوطی اور پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی ہستی پر زبر دست ایمان تھا.نہایت متوازن جسامت چہرے سے رعب ٹپکتا لیکن طبیعت میں اتنی ہی نرمی ، ملائمت اور انکساری تھی.آپ کی گفتگو زیادہ تر قرآن پاک اور دنیاوی علوم کے موضوع پر ہوتی.زراعت اور اس کے سائنسی پہلوؤں سے آپ کو خاص دلچپسی تھی گو آپ نے کالج کی تعلیم حاصل تو نہ کی تھی لیکن بلا کی ذہانت پائی تھی اور مطالعہ کا بہت شوق تھا اس لئے دنیاوی علوم میں بھی بہت ملکہ رکھتے تھے.مختلف رسالوں اور کتابوں سے سائنس کے مضامین پڑھتے اور پھر فرماتے اس اصول (یا ایجاد ) کو تو قرآن شریف نے سینکڑوں سال پہلے پیش کر دیا تھا.حیاتیات، نفسیات، معاشیات وغیرہ پر ان کے متعدد مضامین الفضل میں شائع ہو چکے ہیں.قرآن کریم کو تمام جدید علوم کا سر چشمہ ثابت کرنے سے کبھی نہ تھکتے تھے.آواز بہت اچھی پائی تھی دنیا کی چمک دمک یا کسی کے بڑے سے بڑے عہدے سے ذرا بھر بھی مرعوب ہونے کا ان کے خمیر میں مادہ نہ تھا.ایک بار جماعت کی سندھ میں زمینوں کے مینیجر رہے.اس سلسلہ میں کئی اعلیٰ افسران کو ملنا پڑتا بے دھڑک ان کے پاس پہنچ جاتے.ادب کو لوظ رکھتے نیز معاملات سلجھانے اور کام کروانے کے اسلوب سے بہت واقف تھے لیکن حق بات کے خلاف گورنز تک سے بھی دینا انہیں آتا نہ تھا اور انہی اوصاف کی بنا پر کامیاب رہے.بزرگوں اور دین کے بچے خادموں کا ادب اور احترام ان کی گھٹی میں

Page 311

تاریخ احمدیت.جلد 26 301 سال 1970ء پڑا ہوا تھا.قادیان سے ہجرت کرتے وقت اپنے بیٹے مرزا اقبال احمد صاحب کو درویشی کے لئے پیش کر دیا.مہمان نوازی ان کا طرہ امتیاز تھا.دعاؤں میں غیر معمولی شغف تھا.بلا ناغہ تہجد پڑھتے.خشوع و خضوع سے دعائیں کرتے تھے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کی آخری دعا میں اتنا روئے کہ دعا ختم ہونے کے بعد بھی آنکھوں پر رومال رکھے دیر تک بیٹھے رہے.جلسہ گاہ تقریباً خالی ہو گیا تو خاموشی سے اٹھے اور نظر جھکائے ہوئے باہر آگئے.آخری دنوں میں آپ حیدر آباد (سندھ) میں مقیم تھے.قاری محمد یسین خاں صاحب وفات: ۱۸ مارچ ۱۹۷۰ء 35 آپ سلسلہ احمدیہ کے ایک مخلص بزرگ تھے جو ۱۹۳۱ء میں تحریری بیعت کر کے شامل احمدیت ہوئے اور شیو را، ٹانگا اور بالآخر انگلستان میں تادم واپسیں جماعتی خدمات بجالانے میں سرگرم عمل رہے اور اپنی اولاد میں بھی خدمت دین کے گہرے نقوش قائم کر کے نئی نسل کے لئے بھی مشعل راہ بن گئے.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کے قلم سے آپ جیسے نیک خصلت اور فرشتہ سیرت خادم دین کے مفصل حالات الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۹۰ء صفحه ۴-۵ پر شائع شده ہیں جس کے جستہ جستہ اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں:.محترم قاری صاحب بال (Bal) ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے.دس مئی ۱۹۱۰ء کو پیدا ہوئے.مجھ سے پانچ ماہ عمر میں بڑے تھے.۱۹۲۶ء میں میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد لائل پور اب فیصل آباد ) زرعی کالج میں داخل ہوئے اور گریجویٹ ہوئے اور فیصل آباد میں ہی اسلامیہ سکول میں بطور ٹیچر ایک سال تک ملازمت کی.اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد ۱۹۳۰ء میں ایسٹ افریقہ چلے آئے ان دنوں امیگریشن کی کوئی خاص پابندیاں نہ تھیں آسانی سے آنا جانا تھا.ایک احمدی وٹرنری ڈاکٹر غالبا ڈاکٹر محمد رمضان صاحب تھے جو بعد میں لمبا عرصہ زنجبار ملا زمت کے سلسلہ میں مقیم رہے دورانِ سفر ایسٹ افریقہ آئے ہوئے تھے ان سے محترم قاری صاحب کی ملاقات ہوئی.جوانی کے عالم میں دورانِ سفر محترم ڈاکٹر صاحب نے ان کی پرہیز گاری، نیکی اور دینی قدروں کو دیکھا تو انہوں نے ان کا احمدیت سے تعارف کرایا.اور مطالعہ کے لئے کوئی کتاب بھی دی.جوانی میں ہی تہجد کے بھی رسیا تھے.ابتدائی تعارف اور دعوت الی اللہ اور مطالعہ کے ساتھ ساتھ استخارہ

Page 312

تاریخ احمدیت.جلد 26 302 سال 1970ء بھی شروع کیا اور احمدیت کے بارے میں دعا کرتے رہے.اس دوران خواب میں ایک رات انہوں نے ایک آیت قرآنی کسی کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اور بیعت کر لی.یہ ۱۹۳۱ء کی بات ہے یہ تحریری بیعت تھی.خاکسار ۱۹۳۵ء میں ٹبو را میں تھا.ٹورا میں ان دنوں کچھ اور احمدی بھی تھے ان سے ملنا جلنا ان کا رہا اور مزید تقویت انہیں ملی.دعوت الی اللہ کی جدو جہد اور ابتداء میں سواحیلی زبان سیکھنے میں خاکساران سے مدد لیتا رہا.ٹبورا میں ان دنوں ایک عرب نوجوان ناجم بن سالم نے بھی بیعت کر لی تھی.یہ دونوں دوست خاکسار کی تقریروں، خطبات کے ترجمان کے طور پر مدد کرتے رہے.اردو میں درس، تقریر، خطبہ کا ترجمہ محترم قاری صاحب کرتے اور جب عربی میں درس یا خطبہ دیتا تو ناجم بن سالم سواحیلی میں ترجمہ کرتے.کئی ماہ یہ سلسلہ جاری رہا.۱۹۳۶ء میں محترم قاری صاحب واپس انڈیا گئے اور اپنے عزیزوں میں عزیزہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے شادی کر کے پہلے قادیان گئے اور خاکسار سے واقفیت اور تعلق کی بناء پر قادیان میں ہمارے ہی گھر ٹھہرے.خاکسار کی والدہ اور بہنوں نے اس شریف زادی جونئی نئی بیاہی گئی تھیں کا خاص خیال رکھا.اور پھر امام جماعت احمدیہ (الثانی) کی ملاقات وزیارت سے مشرف ہو کر دستی بیعت بھی کر لی.اور پھر سیدھے مشرقی افریقہ واپس ٹو را پہنچ گئے.خاکساران دنوں ٹبو را میں اکیلا تھا.خاکسار کی اہلیہ مبار کہ بیگم بھی ان دنوں قادیان تھیں.ان سے بھی تعارف ہوا.اور مشرقی افریقہ جانے والی خاتون کا خاص خیال رکھا.مشرقی افریقہ میں خاکسار کی اہلیہ چار سال بعد آئیں.ٹبورا کے قیام کے عرصہ میں محترم قاری صاحب اور ان کی اہلیہ رشیدہ بیگم صاحبہ نے خاکسار کے کھانے کا خاص اہتمام رکھا.اور لگا تار لمبا عرصہ رکھا.ان کے اس احسان اور مدارات کا خاکسار پر ہمیشہ گہرا اثر رہا.(بعدازاں ۱۹۴۰ء میں محترم قاری صاحب کی اہلیہ فوت ہوگئی تھیں اب ان کی شادی کی فکر تھی.جوان تھے.صحت مند تھے.دو چھوٹے چھوٹے بچے تھے.مکرم بابو غلام احمد صاحب نیروبی میں وہ خود اور ان کے بیٹے نے حال ہی میں احمدیت قبول کی اور جلد جلد اپنے اخلاص میں ترقی کی.ان کی ایک بیٹی عزیزہ حفیظ بیگم کے بارہ میں خاکسار نے بابو صاحب کو تحریک کی.خدا تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.رضامند ہو گئے.اور ہمارے عزیز بھائی قاری محمد یسین صاحب کی اس نیک بخت بیٹی سے شادی ہوگئی.ہر لحاظ سے بہت ہی برکت والی شادی ثابت ہوئی.محترم قاری صاحب کی

Page 313

تاریخ احمدیت.جلد 26 303 سال 1970ء کایا ہی پلٹ گئی.خوشحالی سے اللہ تعالیٰ نے ہر طرح نوازا.ملازمت میں ترقی پر ترقی ہوتی گئی.پھر بعد میں نیروبی ریلوے کے محکمہ میں ان کی تبدیلی ہوگئی.ان دنوں سارے ایسٹ افریقہ کی ریلوے کا محکمہ ایک ہی تھا.اس بیوی سے اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب کو سات بیٹے دیئے.ساتوں ہی خدمت دین میں ہمہ تن اپنے اپنے انداز میں مصروف ہیں اور فدائی ہیں دو بیٹیاں دیں جو بفضل خدا شادی شدہ ہیں.سب بچوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے خوشحالی کی نعمت سے حصہ وافر دیا ہے.کوئی بیرسٹر ہے کوئی انجینئر ہے کوئی ڈاکٹر ہے.ایک بیٹا جنھم (UK) کا آجکل پریذیڈنٹ جماعت ہے.دوسرا بیٹا برمنگھم جماعت کا پریذیڈنٹ ہے.عزیز الیاس خاں بیرسٹر ہیں وہ کینیا میں بیرسٹری کے بعد مجسٹریٹ بھی رہے ہیں.کئی رنگوں میں قانونی خدمت کا موقع انہیں جماعت کے لئے ملتارہتا ہے.مشرقی افریقہ کے ملکوں کی آزادی کے بعد ۱۹۶۴ء میں قاری صاحب انگلستان چلے گئے اور جلنگھم ( کینٹ کے علاقے ) انگلستان میں آکر آباد ہو گئے.قرآن کریم سے قاری صاحب کو خاص عشق تھا.اپنی طرف سے بہت ترتیل سے اور خاص کے سے پڑھتے.دراصل ان کی قرآت اور لگا تار تلاوت اور مختلف اوقات میں قرآن کریم کی آیتوں کا تذکرہ کرنے کے باعث ہی انہیں ٹانگائی جماعت نے قاری کہنا شروع کر دیا تھا.پھر تو یہ مستقل طور پر قاری ہی بن گئے اور ہمیشہ قاری صاحب.قاری محمد یسین صاحب کے خطابات سے ہی یاد کئے جاتے اگر چه با قاعدہ قاریوں کی طرح قاری نہ تھے.جب تک قاری صاحب زندہ رہے اور صحت سے رہے بالخصوص جلسناھم میں ان کا دستور رہا کہ صبح کی نماز کے بعد باری باری بچوں سے تلاوت کراتے اور پھر اس حصہ کا ترجمہ و تشریح اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق کرتے.اور یہ چھوٹا سا گھر جو باجماعت نماز اور درس قرآن کے لئے وقف تھا خدا تعالیٰ نے پھر وہ وقت بھی دکھایا کہ جنگھم میں ایک بڑا مشن ہاؤس خریدا گیا جس کا نام ناصر ہال ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے اس کا افتتاح فرمایا.جن عزیزوں، دوستوں کی کوشش سے یہ ہال حاصل کیا گیا ان میں ایک محترم قاری صاحب بھی تھے.یہ ناصر ہال جماعت کی غیر معمولی تقویت کا باعث ہوا.بہت سی برکتوں کا موجب ہوا.اور جلنا ھم میں مشرقی افریقہ سے آنے والوں کا ایک مرکز بن گیا.آپ جماعت جلنکھم کے ۱۹۲۵ء میں پریذیڈنٹ منتخب ہوئے.غالباً سب سے پہلے اس جماعت کے پریذیڈنٹ تھے اپنے گھر میں اور عزیزوں میں قرآن کریم کی ہدایات و احکام کی تلقین ان

Page 314

تاریخ احمدیت.جلد 26 304 سال 1970ء کا خصوصی موقف تھا.حتی المقدور بچوں اور اہل کو سنت پر عمل کرنے کی ترغیب ہر وقت جاری رکھتے.موصی تھے.۱/۸ کی وصیت کی ہوئی تھی.ہر تحریک میں حصہ لیتے تنگی و فراخی میں کبھی بھی مالی قربانی کے فریضہ سے غفلت نہیں کی.36- میاں محمد اسماعیل صاحب وفات: ۲۳ مارچ ۱۹۷۰ء محترم میاں محمد اسماعیل مورخه ۲۳ مارچ ۱۹۷۰ء کو بعمر ۸۰ سال وفات پاگئے.آپ موضع دھرگ میانہ ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.آپ کا شمار گاؤں کے اولین احمدیوں میں سے تھا.آپ گاؤں کے پڑھے لکھے اور معزز گھرانے کے فرد تھے.آپ چوہدری نصر اللہ خاں صاحب بھٹی آف فتوکے کی دعوت پر ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ پر قادیان تشریف لے گئے اور وہاں ۲۹ دسمبر ۱۹۳۴ء کو حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آغوش احمدیت میں آنے کے بعد آپ کو ایک ہی لگن تھی یعنی تبلیغ اسلام.اللہ تعالیٰ نے آپ کی مساعی کو نوازتے ہوئے بیشتر مقامات پر جماعتیں قائم فرمائیں اور متعدد افراد نے قبول احمدیت کی توفیق پائی.آپ کے استقلال اور استقامت کو دیکھ کر گھر کے دیگر افراد بھی شجر احمدیت سے لا تعلق نہ رہ سکے.اواخر عمر میں گاؤں کے احمدی بچوں کو قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھانے کی توفیق ملی.آپ جب نماز با جماعت کی غرض سے گھر سے نکلتے تو گھر سے مسجد تک تمام احباب اور بچوں کوفردا فردا پکارتے جاتے کہ آؤ نماز کے لئے چلیں.آپ کو طب یونانی میں بھی خاصی دلچسپی تھی.اس لئے اپنے گاؤں اور گردونواح میں بحیثیت طبیب خاصے مقبول تھے.اس طرح آپ کو تبلیغ کا موقع بھی فراہم ہو جاتا.مرحوم ایک متقی دعا گو صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.آپ بہت ملنسار متواضع اور منکسر المزاج بزرگ تھے.آپ تادم زیست جماعت احمد یہ دھرگ میانہ کے سیکرٹری مال اور امام الصلوۃ رہے.سرور محمد بشیر صاحب (امریکہ) وفات: ۹راپریل۱۹۷۰ء سرور محمد بشیر صاحب امریکہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ۱۹۷۰ء میں ربوہ تشریف لائے اور ۹ راپریل ۱۹۷۰ء کو دریائے چناب میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے.آپ کی نماز جنازہ قاضی

Page 315

تاریخ احمدیت.جلد 26 305 سال 1970ء محمد نذیر صاحب لائلپوری نے پڑھائی.مرحوم پچاس کی دہائی میں مشرف بہ اسلام ہوئے تھے.انتہائی ناموافق حالات میں بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں صراط مستقیم پر قائم رکھا.امریکہ میں اپنے مذہبی جوش کی وجہ سے اپنوں اور غیروں کے حلقوں میں کافی معروف تھے.اپنی جیب سے اخبارات میں احمدیت کے متعلق اعلان چھپوائے.انفرادی تبلیغ کا آپ کو بے حد شوق تھا.بڑے بڑے گتوں پر تبلیغی امور تحریر کر کے بازاروں اور پارکوں میں گھومتے اور لوگوں کی توجہ اسلام کی حسین تعلیم کی طرف مبذول کرواتے.جب آپ ربوہ تشریف لائے تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشادات کی روشنی میں ان کاسلیپس تیار کیا گیا اور تین مبلغین کو مختلف مضامین پڑھانے پر متعین کر دیا گیا.آپ یوں تو ہر شخص سے نہایت محبت اور اخلاص سے ملتے تھے لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے تو انہیں عشق تھا.آپ اس چیز کا اظہار فرماتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ بار بار حضور سے ملاقات کروں اس کے بغیر میری تشنگی دور نہیں ہوتی.جب حضور سے اس بات کا ذکر کیا گیا تو حضور نے فرمایا کہ آج کل تو طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں دو چار روز بعد انہیں بلاؤں گا وہ انشاء اللہ خوش ہو جائیں گے.چنانچہ اس کے بعد حضور نے آپ کو یا دفرمایا اور جب وہ حضور سے ملاقات کر کے دفتر میں آئے تو بہت خوش تھے.الحاج مرزا معظم بیگ صاحب آف کوئٹہ وفات: ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ء اصل وطن دھرم سالہ ضلع کانگڑہ تھا.۱۹۱۲ء میں آپ بغرض تعلیم قادیان آگئے.بطور کلرک ۱۹۱۴ء میں ترقی اسلام دفتر میں جس کے انچارج حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب تھے، کام کیا.ازاں بعد حضرت مصلح موعود کی تحریک پر فوج میں بھرتی ہوئے.۱۹۱۷ء سے ۱۹۲۰ء تک دوسری جنگ عظیم میں شامل ہو کر عراق، بغداد، عرب میں رہے.۱۹۲۱ء میں واپس قادیان آ کر دفتر امور عامہ اور دفتر ناظر اعلیٰ میں خدمت انجام دی.۱۹۲۲ء میں بسلسلہ ملازمت گلگت چلے گئے اور ۲۵ سال تک وہاں ملازمت کی.پارٹیشن کے بعد آپ کوئٹہ آگئے.قیام کوئٹہ کے دوران بطور سیکرٹری ضیافت خدمت انجام دی.ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو اپنے آپ کو سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.۱۴ جنوری ۱۹۵۶ء کو نائب افسر لنگر خانہ ربوہ مقرر ہوئے اور ۳۰ را پریل ۱۹۵۶ء سے ۳۰ ستمبر ۱۹۶۰ء تک افسر لنگر خانہ کے فرائض انجام دیئے.آپ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا.39

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد 26 306 سال 1970ء مولوی فخر الدین صاحب مالا باری در ویش قادیان وفات: یکم مئی ۱۹۷۰ء آپ علاقہ مالا بار کے ایک متمول تاجر گھرانہ کے چشم و چراغ تھے.عالم جوانی میں احمدیت قبول کی.آپ صوبہ کیرالہ کے سب سے پہلے موصی تھے.۱۹۴۷ء میں جولوگ اپنا سب کچھ گنوا کر قادیان آئے تھے انہیں جو مکان احمدی بھائیوں کے الاٹ ہوئے تھے ہر ایک مکان میں کتابوں اور اخباروں کا خاصہ سٹاک موجود تھا.چند ایک لوگوں نے تو یہ خیال کر کے کہ یہ ان کی مذہبی کتا ہیں ہیں بے ادبی نہ ہو.نظارت امور عامہ سے رابطہ کر کے سارا اسٹاک جماعت احمدیہ کے حوالہ کر دیا.مگر بعض مجبور افراد نے اپنی ضروریات کے لئے اس سٹاک کو جو ان کے گھروں میں موجود تھا ردی میں بیچنا شروع کر دیا.اس صورت حال میں باہمی مشورہ سے یہ امر اس طرح حل پذیر ہوا کہ جماعت کی طرف سے بھی اور چند ایک وہ درویش جو کتابوں کی تجارت کا کاروبار کرتے تھے وہ غیر مسلم افراد سے سلسلہ کی کتابوں کا سٹاک بازار میں ردی کاغذ کی قیمت سے کچھ زیادہ دے کر خریدنا شروع کر دیں.اس طرح کتابوں کا سٹاک ضائع ہونے سے بچ جائے.اس سکیم کے تحت جن بھائیوں کو کتابیں ردی میں خریدنے کی اجازت دی گئی ان میں فخر الدین صاحب مالا باری بھی تھے.آپ نے ایک بڑا ذخیرہ علم کا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محفوظ کر لیا.۱۹۵۰ء میں ہندوستان سے کچھ خاندان قادیان بلوائے گئے تھے اور پاکستان سے بھی درویشان کے اہل وعیال منگوانے کا کام جاری تھا اور مزید درویشان کی شادیاں بھی ہندوستان کی جماعتوں میں ہو گئی تھیں.اور صدر انجمن احمدیہ پر اخراجات کا بار بڑھ گیا تھا.اور اس وقت کا بجٹ آمد ان سب اخراجات کا متحمل نہیں رہا تھا.اس لئے حضور انور کی اجازت سے درویشان میں یہ تحریک کی گئی تھی کہ جوا فرا داپنا گزارہ خود کوئی کام کر کے چلا سکتے ہوں وہ اپنے گزارہ کا بار انجمن کے بجٹ سے ہلکا کر دیں.اس پر ۵۰-۲۰ درویش اس قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے.ان میں مکرم فخر الدین صاحب بھی تھے.آپ ایک عرصہ تک خود محنت کر کے اپنا گزارہ چلاتے رہے تا آنکہ ایک حادثہ میں آپ کے کو لہے کی ہڈی میں فریکچر ہو گیا اور چلنے پھرنے سے آپ ایک حد تک معذور ہو گئے.آپ صدرانجمن احمدیہ کے مختلف دفاتر میں مفوضہ فرائض نہایت محنت اور خوش دلی سے سرانجام 41

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد 26 307 سال 1970ء 42 دیتے رہے.آپ نے درویشی کا ابتدائی زمانہ بڑے صبر و استقلال اور خندہ پیشانی سے گزارا.آپ نے ۱۹۷۰ء میں بعمر ۸۰ سال وفات پائی.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قادیان میں ہوئی.خواجہ ظہور الدین صاحب بٹ آف گوجر خاں (راولپنڈی) تاریخ وفات : ۲ مئی ۱۹۷۰ء آپ مکرم میجر منیر احمد شہید (۱۹۶۵ء) کے سر تھے.محترم خواجہ صاحب خدام سلسلہ کے لئے خصوصاً بہت مہمان نواز شخصیت تھے.کتب سلسلہ احمدیہ کے عالم اور اپنے حلقہ اثر میں پیغام حق پہنچانے میں مصروف رہتے تھے.مرکز سے کتب اور رسالے منگوا کر صدہا کی تعداد میں تقسیم کرواتے.محترم خواجہ صاحب با وجود ضعف اور عوارض کے مغرب اور صبح کی نمازوں میں مع اپنے عزیز پوتوں اور نواسوں کے مسجد میں آکر باجماعت نماز پڑھتے تھے.وقف عارضی کے سلسلہ میں جو احباب تشریف لاتے رہے ان سے خدام کے علاوہ خواتین کو بھی ترجمہ قرآن مجید پڑھانے کا انتظام کیا.اپنی جماعت کے مردوں اور خواتین کی طرف چندوں کا بقایا نہ رہنے دیتے تھے.اپنی بیگم صاحبہ کو بھی تربیت دی ہوئی تھی.جو کہ باقاعدگی سے ہفتہ وار خواتین کا اجلاس کرتیں اور چندے جمع کر کے مرکز میں بھجوا تیں.ایک بار قریبی گاؤں سے ایک مخلص احمدی نوجوان جس کو والدین نے گھر سے نکالا ہوا تھا اپنی شادی کے سلسلہ میں امداد کے لئے آیا تو خواجہ صاحب نے خود بھی اس کی امداد کی اور جماعت سے بھی کافی امداد کروائی.اس کے علاوہ اور بھی کئی احباب امداد حاصل کرنے کے لئے آتے مگر آپ کسی کو خالی واپس نہ کرتے.محتر می خواجہ صاحب کی طبیعت بہت نرم اور حلیم تھی.جماعت کے احباب آپ کی ہر ایک تحریک اور حکم کو خوشی سے مانتے تھے.وکلاء آپ کو دیوانی کا قابل وکیل جانتے تھے.ہر جمعہ کو تمام جماعت کو بٹھا کر نماز کا ترجمہ باری باری سنتے اور غلطیوں کی اصلاح کرتے پھر کسی ایک تربیتی مضمون پر تقریر بھی کرتے.آپ کی ان سرگرمیوں سے آپ کے تبلیغی جوش کا بھی پتہ چلتا ہے.خدام اور اطفال کی دینی تعلیم کا امتحان لیتے قابل اطفال کو انعام دلاتے تا کہ حوصلہ افزائی ہو.ان امتحانوں میں اپنے پوتوں اور نواسوں کو بھی برابر شامل رکھتے.اپنے عزیز داماد میجر منیر صاحب کی شہادت پر خود بھی صبر کا عمدہ نمونہ دکھایا اور اپنی بیٹی کو بھی ہمت دلاتے رہے.وفات سے دو سال قبل آپ کو وصیت کرنے کی بھی توفیق ملی.

Page 318

تاریخ احمدیت.جلد 26 مولوی مسیح الدین خان صاحب وفات: ۶مئی ۱۹۷۰ء 308 سال 1970ء آپ حافظ نور محمد صاحب مرید حضرت پیر کوٹھہ شریف سید امیر کے فرزند اکبر تھے.۱۹۱۰ء میں حضرت فرزند علی خاں صاحب کے ذریعہ فیروز پور میں احمدیت قبول کی.زندگی کا بیشتر حصہ خیبر ایجنسی اور کرم ایجنسی میں گزارا جہاں آپ ٹیچر اور عرضی نویسی کے فرائض انجام دیتے رہے.عالم باعمل اور دعا گو بزرگ تھے.پیغام حق پہنچانے کا بڑا شوق تھا.آپ کے چھوٹے بھائی خان شمس الدین خان صاحب (امیر جماعت احمدیہ پشاور ) آپ ہی کے زیر اثر سلسلہ کی کتب کا مطالعہ کر کے ۱۹۲۷ء میں داخل احمدیت ہوئے.عبدالرشید غوری صاحب آف گوکھو وال وفات: ۷امئی ۱۹۷۰ء مکرم ناصر رشید فاروقی صاحب اپنے والد صاحب کے متعلق لکھتے ہیں:.آپ نے حضرت مصلح موعود کے دور میں اپنے بڑے بھائی ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم ( مرحوم ) سے دوسال بعد بیعت کی.آپ اپنی والدہ محترمہ رحمت بی بی صاحبہ اور بڑے بھائی سمیت گھر بدر کر دیئے گئے.مگر آپ نے احمدیت کی دولت بے بہا لے کر دنیا میں مفلسی اور تنگدستی کو نہایت خندہ پیشانی سے قبول کر لیا.اُن دنوں میں آپ کی عمر صرف ۷ اسال تھی.اپنی والدہ سے بہت محبت کرتے.والد بچپن میں فوت ہوچکے تھے.تایا جان ان کو تعلیم کی تکمیل کے لئے ترغیب دیتے.لیکن ابا جان بیمار اور متفکر ماں کے دامن سے لیٹے رہتے.ان کی خدمت کو ہی زندگی کا نصب العین جانا.یہاں تک کہ مروجہ دنیاوی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے.میلوں ٹھیلوں کے رسیا ہوئے.ڈھول تماشے دیکھتے اور دوسرے نوجوانوں کی طرح مذہب سے دور ہو گئے مگر جونہی احمدیت کی گھنی چھاؤں میں آئے تو کایا ہی پلٹ گئی.اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ قادیان کی مبارک بستی میں تشریف لے گئے.حضرت مصلح موعود کی صحبت میں رہے اور پارس ہو گئے.ہر قسم کی دنیاوی لذتوں کو خیر باد کہ دیا.پانچ وقت کی نماز شروع کی اور زندگی کے آخری سانسوں تک ادا کرتے رہے.ہر طرح کی دنیاوی مصلحتوں کو ترک کیا اور وہی بات

Page 319

تاریخ احمدیت.جلد 26 309 سال 1970ء کہی جس کو حق جانا اور قرآن وحدیث کی رو سے درست گردانا اور پھر اس پر ڈٹ گئے.قرآن کریم کی تلاوت بلا ناغہ فرماتے رہے.تفسیر صغیر کے شروع میں خاص خاص حوالے نوٹ فرماتے جاتے تھے.جو آج بھی ہمارے پاس ان کے ذکر کا موجب ہیں.آپ ایک تہجد گزار بزرگ تھے.راتوں کو اکثر خدا کے حضور گھنٹوں کھڑے رہتے اور احمدیت کے فروغ اور اولاد کی ترقی و خوشحالی کے لئے دعائیں فرماتے.آپ نہ صرف عبادت گذار بزرگ تھے بلکہ نظام سلسلہ کے سخت پابند تھے.کئی دفعہ سائیکل پر ربوہ جلسہ میں شرکت کیلئے گئے.اپنے امام کے حکم کے منتظر رہتے.جب آپ نے قادیان سے ہجرت کر کے گوجرانوالہ شہر میں عارضی طور پر قیام کیا پھر فیصل آباد تبدیلی ہونے پر وہاں منتقل ہو گئے.آپ کی تبدیلی ایمپلائمنٹ ایکسچینج میں ہوگئی.۱۹۲۳ء میں جب شدھی کا ریلہ آیا اور جس میں بڑے بڑے سورماؤں کے قدم لڑکھڑا گئے تو اس وقت حضرت مصلح موعود نے اس چیلنج کا منہ توڑ جواب دیا.اور آپ کی ایک آواز پر جو ہزاروں مجاہدین احمدیت میدانِ کارزار میں کود پڑے.محترم ابا جان بھی انہی میں سے ایک تھے.حضرت امیر جماعت احمد یہ ضلع فیصل آباد شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں:.45 ایک زمانے میں یعنی ۱۹۲۳ء میں مجھے آپ کے والد صاحب مرحوم کے ساتھ شدھی کے علاقے میں کام کرنے کا اتفاق ہوا.وہ بہت مخلص تھے.محترم محمد شفیع اسلم صاحب مرحوم ( خاکسار کے تایا جان.ناقل ) اور آپ کے والد صاحب اکٹھے شدھی کے علاقے میں کام کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان دونوں کی روایات کے مطابق چلنے کی آپ کو توفیق دے اور آپ کا کارساز ہو.آمین سلسلہ سے والہانہ لگاؤ، امام کی آواز پر لبیک اور اپنا تن من دھن لٹانے کے لئے تیار رہنا.تحریک احمدیت کی جزئیات سب انہوں نے اپنی اولاد میں منتقل کر دیں.آپ ایک صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے.مسجد احمد یہ گوکھووال میں ایک عرصہ تک اعتکاف فرماتے رہے.مقبول الدعا تھے.خواب کی تعبیر خوب فرماتے.آپ کی روحانیت آپ کے کردار سے ہو یدا تھی.باوجود افلاس و مفلسی کے گاؤں میں سب لوگ آپ کی عزت کرتے.خودداری، وضع داری اور شرافت کا پیکر تھے.احمدی غیر احمدی سب آپ سے دعا کی درخواست کرتے اور فیض یاب ہوتے.اکثر گھرانوں کی دائمی رنجشیں آپ کی دعاؤں سے ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئیں.اولاد سے محروم

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد 26 310 سال 1970ء کئی گھرانے محض آپ کی دعاؤں سے ثمر بار ہوئے.الحمد للہ.مگر خود راضی برضا صابر و شاکر تھے.اوائل عمر میں ہی آپ کے چارلٹر کے اور ایک لڑکی قضائے الہی سے فوت ہو گئی تھی.جس کی وجہ سے آپ کی صحت پر کافی اثر پڑا تھا.مگر ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے رہے.والدہ محترمہ اکثر فرما تیں کہ اپنے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں فراخی رزق سے نوازے.تو آپ سن کر مسکرا دیتے اور فرماتے کہ میرا اللہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے.پھر فرمایا اللہ سے تو تو بہ اور بخشش جیسی عظیم نعمتیں حاصل کرنی چاہئیں.تم دیکھنا کہ ہماری اولاد کتنی خوشحال ہوتی ہے عزت اور شہرت پائے گی.میں ان کے لئے دعائیں کرتا ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ناصر اور نثار بہت بڑے آفیسر بنیں گے اللہ تعالیٰ نے آپ کی اولا د کو ہر نعمت سے نوازا.آپ نے تمام باقی زندگی تقریباً ۲۰ سال گوکھو وال چک نمبر ۱۲۱ میں گزار دی.آخری دنوں میں بہت زیادہ کمزور ہو گئے.مگر آپ کے وصال کے لمحات بھی نہایت کیف آگیں تھے ایک ماہ قبل آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائی کو ، سرال والوں کو اور دیگر رشتہ داروں کو خطوط لکھے کہ میں اب جانے والا ہوں اس لئے جو مجھ سے تمہارے ساتھ زیادتیاں ہوئیں مجھے معاف کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو بھی معاف کر دے.حالانکہ آپ اس عرصہ میں شدید بیمار نہ ہوئے تاہم والدہ سمجھ گئیں کہ وقت آخر ہے آپ کی چارپائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئیں اور خدمت کا حق ادا کر دیا اور تب ایک دن اپنے پاس بیٹھی ہوئی ہماری والدہ سے فرمانے لگے کہ مقبول میں نے تمہیں معاف کیا تم بھی معاف کر دینا“ والدہ کی آواز بھتر اگئی.جواب دیا اللہ آپ کو صحت دے ایسی باتیں کیوں کرتے ہیں.آپ نے اشارہ کیا کہ خاموش رہو اور تب آپ نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھا اور آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.گوکھو وال کے قبرستان میں دفن کئے گئے.46 حضرت کیپٹین ڈاکٹر غلام محمد صاحب ساکن چک چھور مغلیاں وفات: ۳ جون ۱۹۷۰ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک میں بذریعہ خط بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.بہت نیک صوم و صلوۃ کے پابند اور دعا گو بزرگ تھے.ایک طویل عرصہ تک مقامی انصار اللہ کے زعیم اور صدر موصیان رہے.کچھ عرصہ سیکرٹری اصلاح وارشاد اور امام الصلوۃ کا فریضہ بھی

Page 321

تاریخ احمدیت.جلد 26 311 سال 1970ء ادا کیا.تمام گاؤں میں ایک پر وقار اور معزز شخصیت تصور کئے جاتے تھے.غرباء پروری اور مسکین نوازی ان کا طرہ امتیاز تھا.اپنی زندگی میں ہی اپنی جائیداد کا حساب کر کے ۹/ا حصہ وصیت ادا کر دیا.تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں بھی شامل تھے.آپ کی تدفین ۴ جون کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.آپ نے اپنے پیچھے چارلڑکیاں اور چار لڑکے چھوڑے.دو بیٹے چوہدری ناصر احمد صاحب سینئر اوور ہالنگ انجینئر کراچی اور منصور احمد صاحب گوجرانوالہ اور ایک بیٹے منور احمد انگلستان میں مقیم ہیں.17 حضرت شیخ عبدالغفور صاحب مرحوم آف گجرات ولادت : کیم جون ۱۹۰۱ء وفات : ۱۲ جون ۱۹۷۰ء آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے پیدائشی احمدی تھے.آپ کے والد صاحب حضرت رحیم بخش صاحب اور دادا حضرت شیخ الہی بخش صاحب مالک فرم قدیمی کتب خانہ آف گجرات دونوں ہی بیک وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی جماعت احمدیہ میں شامل ہو گئے تھے.آپ کی انتھک کوششوں کے طفیل ضلع گجرات کے کئی دیہات میں احمدیت کا نور پہنچا.حضرت شیخ عبدالغفور صاحب اپنے دادا جان کے ہمراہ ۱۹۰۶ء میں قادیان پہنچے.حضور علیہ السلام سے آپ نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور حضور علیہ السلام کی خدمت میں نذرانہ بھی پیش کیا جو آپ نے قبول فرمالیا اور آپ کی پشت پر اپنا دست مبارک بھی پھیرا ۱۹۱۲ء میں حصول تعلیم کی غرض سے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی چھٹی جماعت میں داخل ہوئے اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور کی خدمت میں اس شخص نے جو آپ کو اپنے ہمراہ لے کر گیا تھا ایک رقعہ پیش کیا جو آپ کے والد صاحب نے حضور کی خدمت میں لکھا تھا.حضور نے رقعہ پڑھ کر دریافت فرمایا لڑکا کہاں ہے.ان صاحب نے آپ کی طرف اشارہ کر دیا تو آپ نے کمال محبت سے اپنا دست مبارک لمبا کر کے آپ کو اپنی طرف کھینچا اور دیر تک آپ کی کمر پر دست شفقت پھیرتے رہے.آپ کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے بھی نہایت درجہ محبت تھی.اکثر حضور کو جبکہ حضور نماز سے فارغ ہو کر محراب میں تشریف رکھتے تو آپ پیچھے بیٹھ کر پشت مبارک کو دبایا کرتے تھے.آخر یہاں تک محبت نے ترقی کی کہ آپ نے حضور کی خدمت اقدس میں ایک خط لکھا.جس میں حضرت مسیح موعود

Page 322

تاریخ احمدیت.جلد 26 312 سال 1970ء علیہ السلام اور حضرت خلیفہ مسیح الاول کے آپ کی کمر پر دست شفقت پھیرنے کا ذکر کر کے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور بھی اپنا دست مبارک آپ کی پشت پر پھیریں تا کہ آپ بجا طور پر فخر کر سکیں کہ تین پیشوائوں کا دست شفقت آپ پر پھرا ہوا ہے.چند دنوں کے بعد ایک رات بذریعہ خواب حضرت خلیفہ اسیح الثانی آپ کو ملے اور بڑی دیر تک حضور اپنا دست مبارک آپ کی کمر پر پھیر تے رہے.چنانچہ صبح ہی آپ نے حضور کی خدمت اقدس میں اطلاع دے دی.آپ نہایت دیندار، متقی، پرہیز گار اور ایک متوکل انسان تھے.والد صاحب کا سایہ جلد سر سے اٹھ گیا لیکن آپ نے اپنی والدہ اور بھائیوں کی خوب خدمت کی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور شہدائے سلسلہ کیلئے خاص دعائیں کیا کرتے تھے اور دوسروں کو تلقین بھی کرتے تھے.چندہ کی ادا ئیگی کیلئے خاص طور پر اولا د کو تحریک کیا کرتے تھے.آپ جوانی کے ایام میں سیکرٹری تعلیم تھے.کئی دیہات میں جلسے کرواتے تھے.ایک دفعہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب گجرات تشریف لائے تو آپ کے جوش و ولولہ خدمت کو دیکھ کر فرمایا ” ہمیں ایسے ہی جوانوں کی ضرورت ہے“.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو اپنے گھر پر ٹھہرانے کا شرف حاصل کرتے تھے.خود بھی دعائیں کرتے اور ان سے بھی کرواتے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی آخری سخت علالت کا اعلان جب ریڈیو پر ہوا تو آپ نے عشاء کی نماز میں حضور کی صحت یابی کے لئے کثرت سے دعا فرمائی.صبح اہل خانہ کو فرمانے لگے کہ جب میں رکوع میں گیا تو ایک سیکنڈ کے لئے میرا تعلق اس دنیا سے منقطع ہو گیا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی شبیہہ مبارک میرے سامنے آگئی.میں نے اپنے آپ کو جھنجھوڑا تو دوسرے رکوع میں پھر وہی نظارہ دیکھا اور اپنے گھر والوں کو بتایا کہ اب خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہوں گے.اور اپنے ایک دوست چوہدری علی احمد آف گلانوالہ کو بھی آپ نے اپنی یہ خواب سنادی.آپ دل کی تکلیف میں مبتلا تھے.۱۲ جون ۱۹۷۰ ء کو آپ کی وفات ہوئی.۱۳ جون کو آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں تدفین عمل میں آئی.بعد تد فین مکرم کیپٹن محمد سعید صاحب نے دعا کرائی.48 قریشہ سلطانہ بیگم صاحبہ بیگم الحاج حضرت ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی وفات : ۱۲ جون ۱۹۷۰ء بعمر ۷۲ سال 9

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد 26 313 سال 1970ء 50 خان بہادر ڈپٹی غلام نبی صاحب رئیس میرٹھ ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر کی پوتی تھیں.۱۹۱۴ء میں صحابی حضرت ڈاکٹر سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی سے بیاہی گئیں اور انہی کے پاک نمونہ اور مؤثر تبلیغ کی بدولت نعمت احمدیت نصیب ہوئی جس کے بعد آپ پُر جوش داعیہ الی اللہ بن گئیں.دہلی میں ۱۸ را پریل ۱۹۲۷ء کو لجنہ اماء اللہ کا قیام عمل میں آیا تو آپ کو سیکرٹری مال کا عہدہ سونپا گیا.آپ حضرت مصلح موعود کی ۱۹۲۸ء کی تحریک جلسہ ہائے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ میں ۱۹۴۶ ء تک جلسوں کا دہلی میں خصوصی اہتمام فرماتی رہیں.یہ جلسے سینٹ فرانس گرلز ہائی سکول دریا گنج میں منعقد ہوتے تھے.ان جلسوں کی صدارت مسز آصف علی، مسٹر کھرے اور بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈ و وغیرہ با اثر خواتین نے کی.مکرمہ سیدہ نیم سعید صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ بیگم شفیع کا مسلم لیگ سے ۱۹۳۸ء سے قریبی تعلق تھا کیونکہ ڈاکٹر سید شفیع احمد کے قریبی دوست مسلم لیگ کے آفس سیکرٹری سید شمس الحسن تھے.بیلماراں عابد منزل میں ڈاکٹر سید شفیع احمد کا گھر تیسری منزل پر تھا.دوسری منزل میں مختلف دفاتر تھے وہاں ایک دفتر خالی ہوا تو ڈاکٹر سید شفیع احمد نے اپنے دوست سید شمس الحسن صاحب سے کہا کہ قائد اعظم مسلم لیگ کے لئے ایک دفتر چاہتے ہیں آپ فوراً اس دفتر میں آجائیں (اس سے پہلے مسلم لیگ کا کوئی با قاعدہ دفتر نہیں تھا مختلف بڑے لوگوں کے گھر میٹنگ ہوتی تھی ) چنانچہ یہ دفتر فورا لے لیا گیا.بیگم شفیع صاحبہ چائے اور پان بنا کر نیچے دفتر میں نوکر کے ذریعہ بھجوادیتیں.کئی دفعہ مسلم لیگ کا فنڈ ختم ہو جاتا.دفتر کا کرایہ دینے کے لئے رقم نہ ہوتی اور مالک مکان تقاضا کرتا تو ڈاکٹر سید شفیع احمد گھر میں پیغام بھیجتے کہ اتنی رقم بھیج دیں.سیکرٹری صاحب فنڈ جمع ہونے پر یہ رقم واپس کر دیتے.ایک دفعہ میرے بھائی ، والد صاحب کے ساتھ مسلم لیگ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک ہند و قرقی لے آیا.ہوا یہ کہ مسلم لیگ کے ایک اجلاس عام کے لئے ایک ہندو ٹھیکیدار سے قناتیں ، چھولداریاں اور فرنیچر منگوایا تھا.کچھ عرصہ تقاضے کے باوجود وہ بل کی وصولی نہ کر سکا چنانچہ دہلی کی دیوانی عدالت سے قرقی لے آیا.اس نے سیکرٹری صاحب کو قرقی دکھائی.سید شمس الحسن صاحب کے پاس ادائیگی کے لئے کوئی رقم ب تھی.چنانچہ ٹھیکیدار نے دفتری سامان اٹھانا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر ڈاکٹر سید شفیع احمد نے اسے روکا اور فوراً اپنے گھر پیغام بھجوایا.بیگم شفیع نے مطلوبہ رقم بھیجی جس سے فرنیچر والے کا بل ادا کیا کیا.51

Page 324

تاریخ احمدیت.جلد 26 314 سال 1970 ء اپنے شوہر کی وفات (۳۰ /اکتوبر ۱۹۴۱ء) کے دو سال بعد آپ نے ہفت روزہ اخبار دستکاری 52 از سرنو جاری کر کے مسلم خواتین کے حقوق کے بارے میں پُر زور آواز بلند کرنا شروع کی.۱۰مئی ۱۹۴۲ء کو لجنہ اماءاللہ دہلی کا جلسہ سالانہ آپ کی زیر صدارت ہوا.مارچ ۱۹۵۴ء میں اخبار ” الفضل“ سے مارشل لاء کی پابندی ختم ہوئی تو لاہور کے ہر پریس نے اسے چھاپنے سے انکار کر دیا تو آپ کی غیرت و جرأت ایمانی سے یہ مسئلہ حل ہوا اور جماعت کا یہ ترجمان آپ کے پریس میں طبع ہونے لگا.آپ کو ۱۹۶۷ء تک لاہور کی لجنہ اماءاللہ انارکلی و نیلا گنبد کی صدارت کے فرائض کامیابی سے بجا لانے کی سعادت ملی.سلسلہ احمدیہ اور مسلم انڈیا دونوں کی تاریخ میں منفر دصحافی خاتون تھیں جو متحدہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں مسلم خواتین کی قریباً تمیں سال تک بے لوث خدمات بجالاتی رہیں.آپ سیاسی حلقوں میں بیگم شفیع کے نام سے ایک جانی پہچانی شخصیت تھیں.آل انڈیا مسلم لیگ کے شعبہ خواتین کا اضافہ ہوا تو قائد اعظم محمد علی جناح ( ولادت ۲۵ دسمبر ۱۸۷۶ء وفات استمبر ۱۹۴۸ء) نے مسلم لیگ بیلما راں دہلی کے شعبہ خواتین کا نگران آپ کو مقرر فرمایا.شملہ کانفرنس ( وائسرے گل لاج.۲۵ جون تا ۲۷ جون ۱۹۴۵ء) میں پریس انفارمیشن بیورو کی طرف سے آپ کو خاتون نامہ نگار کے کاغذات اسناد دیئے گئے.برطانوی ہند کی تاریخ میں ۴۶-۱۹۴۵ء کے مرکزی اور صوبائی انتخابات کو فیصلہ کن اور غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں مسلم لیگ کو واضح فتح حاصل ہوئی اور قیام پاکستان کی منزل یقینی نظر آنے لگی.ان انتخابات میں جہاں پورے ملک کی احمدی خواتین نے آل انڈیا مسلم لیگ کو کامیاب کرنے کی بھر پور مساعی کیں وہیں آپ نے بھی اپنے اخبار ” دستکاری اور اپنی مسلم لیگی کارکنات کے ذریعہ اس مہم میں پُر جوش حصہ لیا.قیام پاکستان کے بعد آپ نے کل پاکستان انجمن مہاجر خواتین کے صدر کی حیثیت سے بیش بہا خدمات انجام دیں.آپ مسلمان رضا کا رسوشل خواتین کے ایک وفد کے ساتھ مشرقی پنجاب میں مسلمان لڑکیوں کی بازیابی کے لئے بھی تشریف لے گئیں.سینکڑوں لڑکیاں آپ کی کوشش سے برآمد کی گئیں اور سینکڑوں کی بازیابی میں آپ کا تعاون شامل تھا.اس عظیم کارنامہ پر گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر (۱۸۹۹ - ۱۹۵۸ء) نے آپ کو سند خوشنودی سے نوازا.

Page 325

تاریخ احمدیت.جلد 26 315 سال 1970ء ۱/۸ اپریل ۱۹۵۰ء کو دہلی میں مشہور لیاقت نہر و معاہدہ ہوا.معاہدہ کی تفصیلات طے کرنے کے لئے وزیر اعظم پاکستان ۱/۲ پریل کو دہلی تشریف لے گئے.اس موقع پر مسلم اخبار نویسوں کا جو وفد پاکستان سے دہلی گیا آپ بھی اس کی مبر تھیں.۱۹۶۶ء میں کامن ویلتھ پریس کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوئی جس کی صدارت محمد ایوب خاں صدر پاکستان نے کی.اس کانفرنس کے مندوبین میں آپ بھی شامل تھیں.آپ پنجاب مسلم لیگ شعبہ خواتین کی نائب صدر اور مغربی پاکستان کونسل اور پنجاب ریڈ کراس ایسوسی ایشن کی مجلس قائمہ (Standing Committee) کی رکن تھیں.پاکستان میں حقوق نسواں کی کوئی ابتدائی تاریخ آپ کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں قرار پا سکتی.پاکستان کے نامور محقق وادیب جناب زاہد حسین انجم انسائیکلو پیڈیا قائد اعظم میں شفیع احمد د بیگم کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:.د شفیع احمد بیگم: ہفت روزہ اخبار دستکاری (دہلی) کی مدیرہ، ان کے شوہر ڈاکٹر سید شفیع احمد دہلوی ایک عرصہ تک مولانا ظفر علی خان اور عبدالمجید سالک مرحوم کے ہمعصر اور خواجہ حسن نظامی کے ساتھی رہے.۱۹۴۱ء میں اپنے شوہر کے انتقال پر دستکاری کی ادارت سنبھالی.قائد اعظم جیسے عظیم رہنما کی قیادت میں اس وقت دہلی میں مسلم لیگ کی بڑی سرگرمیاں جاری تھیں اور بیگم شفیع احمد نے بھی اپنے اخبار کی تمام سرگرمیاں مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے وابستہ کر دیں.چنانچہ ہمیشہ دستکاری اخبار کا دفتر اوپر کی منزل اور آل انڈیا مسلم لیگ کا دفتر مچلی منزل میں رہا.وہ زنانہ مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی رکن بھی تھیں اس کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق کی حفاظت کا سوال بھی اٹھاتی رہیں.قومی سطح پر بیگم شاہنواز، بیگم شائستہ اکرام اللہ مسلم لیگ کی طرف سے مسز پنڈت اور مسز سروجنی نائیڈو کانگریس کی طرف سے عورتوں کی نمائندگی کرتی تھیں.۱۹۴۶ء میں جب سراسٹینفورڈ کرپس نے ہندوستان کا دورہ کیا اور شملہ کا نفرنس بلائی تو بیگم شفیع نے عورتوں کی سیاسی نمائندگی کا سوال اٹھایا اور سراسٹیفورڈ کرپس سے کئی سوالات کئے جن کا جواب سرکر پس نے اپنے ہاتھ سے تحریری طور پر ان کے دلائل اور جذبے سے متاثر ہو کر دیا.ان کے سوالات و جوابات کی پوری رپورٹ ڈان میں شائع ہوئی تھی جو اس زمانے میں دہلی سے نکلتا تھا.

Page 326

تاریخ احمدیت.جلد 26 316 سال 1970ء تحریک پاکستان جب اپنے انتہائی اہم دور سے گزر رہی تھی خصوصاً جون ۱۹۴۷ء میں قائد اعظم نے مسلم اخبار والوں کی ایک پریس کانفرنس بلائی جن میں اخبار نویسوں کو کانگریس کے زیر تلے پرا پیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور اس کا پوری طرح جواب دینے کے لئے انتہائی قیمتی ہدایات دیں.اس وقت بیگم شفیع کی کوششوں کو سراہتے ہوئے فرمایا اپنے خیالات کا اظہار اور کوشش کرتی رہئے جب تک کامیابی نہیں ہوتی ، قیام پاکستان کے بعد بے سروسامانی کی حالت میں پاکستان آئیں.ابھی اخبار دوبارہ جاری کر کے اسے محکم کرنے کی جد و جہد ہورہی تھی کہ مدد مدد کی ایک اور صدا بلند ہوئی اور یہ صدا تھی مغویہ عورتوں کی.وہ مسلمان رضا کار سوشل خواتین کا وفد لے کر مشرقی پنجاب کے اندرونی حصوں میں مسلمان لڑکیوں کی بازیابی کے لئے گئیں تو جو روح فرسا اور المناک داستانیں انہوں نے سنیں ان کے بارے میں بھارتی وزیر اعظم کو بتایا، بازیابی کے ساتھ ساتھ مہاجر خواتین کے حقوق کی حفاظت کی اور کل پاکستان انجمن مهاجر خواتین قائم کی، جس کی صدر وہ مقرر ہوئیں.۱۹۵۰ء میں مسلم صحافیوں کے وفد کے ہمراہ بھارت گئیں.صحافی وفد کی پاکستان واپسی پر وفد کے لیڈر پر بعض باتوں کے لئے تنقید کی جس کی بنا پر انہیں نیوز پیپرز ایڈیٹرز کا نفرنس کی اسٹینڈنگ کمیٹی سے نکال دیا گیا.۱۹۵۱ء سے ان کی زیادہ تر کوشش اور تمنا رہی کہ اخبار کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرتی چلی جائیں.بیگم شفیع احمد کی کوششیں آخر کار شمر لے آئیں اور عورتوں کو ملازمتوں میں لیا جانے لگا.۱۹۶۷ء میں دستکاری لاہور سے اسلام آباد لے آئیں اور اسلام آباد دارالحکومت سے پہلا نکلنے والا پر چہ انہی کا تھا.وہ ایک زبر دست مذہبی خاتون تھیں.جون ۱۹۴۷ء میں قائد اعظم نے دہلی میں مسلمان ایڈیٹروں سے خطاب کیا وہ برقع میں تھیں“.آپ کی وفات پر پاکستان کے وقیع اور با اثر پریس نے آپ کی سماجی اور صحافتی خدمات کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا.اخبارات کے طویل شذرات اور مضامین کے نمونۂ صرف چند جلی عنوانات ملاحظہ ہوں:.ا.تحریک نسواں کی صف اول کی بے باک خاتون صحافی بیگم شفیع احمد.55 ۲.وہ زندگی بھر تحریک نسواں کی علمبردارر ہیں ان کی تحریروں نے دوسروں کو تازہ عزم دیا.56 "A fearless journalist who fought for women's rights" 57-

Page 327

317 تاریخ احمدیت.جلد 26 "Begum Shafi A Fearless Journalist" 58- - سال 1970ء 59 ” بیگم شفیع ایک بے باک صحافی خاتون تھیں، ان کی تحر یر عورتوں کے حقوق کی زبان یگم شفیع احمد جنہوں نے تیس سال تک صحافی و سماجی کارکن کی حیثیت سے خواتین اور پاکستان کی خدمت کی.60 بیگم شفیع نے خواتین کے حقوق کے لئے مقدور بھر جد و جہد کی بیگم شفیع بے باک صحافت کی علمبر دار تھیں“.61 بیگم شفیع ایک بے باک خاتون صحافی تھیں“.62 63 ۹.وہ زندگی بھر مسلم خواتین اور مسلم صحافت کی خدمت میں مصروف رہیں.۱۰.”ہمارے یہاں عورتوں کو سفیر اور وزیر بننے کا موقعہ ان کی جدوجہد کے نتیجے میں ملا.بیگم شفیع نے شملہ کا نفرنس میں عورتوں کی سیاسی نمائندگی کا سوال اٹھایا.کارکنان تحریک پاکستان کے ادارے نے 9 دسمبر ۲۰۰۷ء کو ایک خاص تقریب میں بیگم شفیع کی ملتی وقومی خدمات کے اعتراف میں انہیں گولڈ میڈل دیا گیا جو اُن کی بیٹی پروفیسر سیدہ نیم سعید صاحبہ نے 64 وصول کیا.محتر مہ سلطانہ بیگم صاحبہ کے مفصل حالات ، سیاسی زندگی اور اخبارات کے تراشوں کے عکس کے لئے ملاحظہ ہو سوانح بیگم شفیع از سیدہ نیم سعید صاحبہ.ناشر لجنہ اماء اللہ لا ہور.اشاعت جون اولاد سید برکات احمد صاحب، سید حسنات احمد صاحب، سید مبشرات احمد صاحب، سید حمید احمد صاحب، سیده نیم سعید صاحبه، سیدہ رضیہ سمیع صاحبه گیانی مرز اواحد حسین صاحب ( سابق شیر سنگھ ) مربی سلسلہ احمد وفات: ۲ جولائی ۱۹۷۰ء آپ سلسلہ احمدیہ کے نہایت مخلص، فدائی ، دیرینہ خادم اور پنجابی کے مثالی مقرر تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں.”میرا نام مرز اواحد حسین ہے میرے والد صاحب کا نام مرزا حسین بیگ صاحب ہے اصل وطن کلانور ضلع گورداسپور ہے بعض وجوہات کی بناء پر کچھ عرصہ تک میں سکھوں میں رہا اور سکھ

Page 328

تاریخ احمدیت.جلد 26 318 سال 1970ء مذہب کی تعلیم حاصل کی.گرنتھ صاحب اور جنم ساکھیاں اور سکھ تاریخ یعنی سورج پر کاش، پنتھ پر کاش، گور بلاس وغیرہ کتابیں درسا تر نتارن میں پڑھیں.میری عمر قریباً ۱۴ سال تھی اور میں آٹھویں جماعت میں امرتسر مشن ہائی سکول میں پڑھتا تھا کہ سکھوں میں جا کر شامل ہو گیا اور گھر والوں کو اس کی کوئی اطلاع نہیں تھی.اکالی تحریک کے شروع ایام میں جناب ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی اے سابق مہر سنگھ نے مجھے تبلیغ کی اور میں نے احمدیت قبول کر لی.مرزا احمد بیگ صاحب جو اُن دنوں امرتسر میں بنک کے بڑے افسر لگے ہوئے تھے نے میری بیعت کا خط لکھا.غالبا ۱۹۲۸ء کا یہ واقعہ ہے.اس کے بعد میں قادیان آ گیا اور سلسلہ نے میری خدمات سکھوں میں تبلیغ کے لئے حاصل کر لیں.میری طبیعت میں مزاح اور ظرافت کا پہلو نمایاں ہے.اس وجہ سے میری طر ز تبلیغ ہمیشہ منفردانہ رہی ہے یعنی دوران تقریر و تبلیغ ہمیشہ دلائل کو میں نے ایسا رنگ دیا ہے کہ سننے والا اثر قبول کرنے کے ساتھ ساتھ خوش بھی رہے اسی وجہ سے سلسلہ نے میرے طرز تکلم اور میری تبلیغی جدو جہد کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور میرے ساتھ ہمیشہ عمدہ سلوک کیا ہے.میں نے دوران ملا زمت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت سے علاقوں کا دورہ کیا اور کئی معر کے سیر کئے.اور جہاں کہیں بھی گیا ہر مجلس اور ہر جلسہ پر چھا گیا.یہ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی دعاؤں اور ان کے دور خلافت کی برکات ہیں ورنہ من آنم کہ من دانم.(اس نوٹ کے بعد بطور نمونہ بعض تبلیغی واقعات و مشاہدات درج ہیں جو بہت ایمان افروز ہیں) 65 و نظارت دیوان (صدر انجمن احمدیہ پاکستان) کے ریکارڈ کے مطابق آپ ۱۹۰۴ء میں پیدا ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ء میں مبلغ اچھوت قوم کی حیثیت سے میدان دعوت وارشاد میں قدم رکھا.یکم جولائی کو قادیان کے جلسہ عام میں آپ کی پہلی تقریر بعد نماز مغرب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی زیر صدارت ہوئی جس میں آپ نے سکھ لٹریچر کے حوالوں سے حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کے مسلمان ہونے پر تقریر فرمائی.اکتوبر ۱۹۲۹ء میں آپ نے چک نمبر ۶۵ ۵ ضلع لائل پور میں لیکچر دیا.ان ابتدائی سرگرمیوں کے بعد آپ ایک کامیاب مبلغ کی حیثیت سے جلد جلد ترقی کرنے لگے اور ایک صاحب طرز پنجاب مقرر کے طور پر آپ کی دھوم مچ گئی.آپ کو برصغیر پاک و ہند کے کونے

Page 329

تاریخ احمدیت.جلد 26 319 سال 1970ء کونے تک پیغام حق پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی.صدہا کامیاب مناظرے کئے اور بے شمار لیکچر دیئے.مناظرہ اور خطابت دونوں میں آپ کا ایک مخصوص اور منفرد انداز تھا.اور عوام کی نفسیات کے آپ خوب ماہر تھے.اسی لئے اپنوں اور بیگانوں میں آپ کو بے پناہ مقبولیت حاصل تھی اور سبھی آپ کے دلچسپ، پُر لطف اور پر اثر لیکچر سننے کے لئے دور دور سے کھنچے چلے آتے تھے.آپ باغ و بہار شخصیت کے حامل تھے نہایت خوش طبع اور زندہ دل !!.طبیعت بہت شگفتہ پائی تھی اور اپنی حاضر جوابی اور لطیفہ گوئی سے پوری مجلس کو کشت زعفران بنادینے کی قدرتی صلاحیت رکھتے تھے.قیام پاکستان کے بعد آپ کو عیسائیت کے مطالعہ کا شوق ہوا.پوری بائیل کا بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا.چنانچہ اس پر آپ کو بڑا عبور حاصل تھا اور بہت سے حوالہ جات از بر تھے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان نے ۷ انومبر ۱۹۳۶ء کو آپ کی سروس بک میں یہ ریمارکس قلمبند فرمائے.گیانی واحد حسین صاحب اچھے مبلغین میں سے ہیں.سکھوں اور ہندوؤں کے مذہب سے اچھی واقفیت ہے طرز بیان ان کا دل لبھانے والا ہے.احمد یہ جماعتوں میں اور غیروں میں ان کی تقریروں کا خاص اثر اور قبولیت ہے تبلیغ کا شوق رکھتے ہیں مطالعہ کا بھی انہیں خاص شوق ہے.احکام کی اطاعت میں مجھے انہوں نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا اور میں ان کے کام سے ہمیشہ خوش رہا ہوں“.سید نا حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء میں ارشاد فرمایا:.”ہمارے مبلغ جو ہندوؤں اور سکھوں میں کام کرتے ہیں ان کو کتابوں کا شوق ہے معلوم نہیں کہ شوق ان کے دلوں میں کس طرح پیدا ہوا.چنانچہ مہاشہ فضل حسین صاحب کے پاس بڑا کافی لٹریچر موجود ہے مہاشہ محمد عمر صاحب کے پاس بھی کئی کتابیں ہیں.گیانی عباد اللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب کے پاس بھی کتا ہیں ہیں.مگر مولویوں کو اس کا کوئی شوق نہیں.میرے خیال میں اگر ان چاروں کی کتابیں جمع کی جائیں تو اتنی کتابیں سو مولوی کے پاس بھی نہیں نکلیں گی.بلکہ شاید ان سے آدھی بھی نہیں ملیں گی.مولوی محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی مربی سلسلہ احمدیہ کو۱۹۳۴ء سے ۱۹۷۰ء تک یعنی ۳۶ سال کے سفروں میں گیانی صاحب مرحوم سے رفاقت حاصل رہی جو ایک ریکارڈ ہے.آپ نے گیانی

Page 330

تاریخ احمدیت.جلد 26 320 سال 1970ء صاحب کی وفات پر اپنے تاثرات درج ذیل الفاظ میں بیان فرمائے:.و گیانی صاحب مرحوم کے اندر جو خفی جو ہر تھا احمدیت کے نور سے وہ نکھرتا چلا گیا.سکھ مذہب کا بھر پور مطالعہ رکھتے تھے.مشہور سکھ گیانیوں سے آپ نے کئی کامیاب مناظرے کئے اور اپنی قابلیت اور حسن بیان کا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ اسلام اور احمدیت کی صداقت کا پرچم لہراتے رہے.تقریر میں خدا تعالیٰ نے مرحوم کو ایک خاص ملکہ عطا فرمایا تھا.ان کا مخصوص انداز بیان ان کے ساتھ ہی ختم ہو گیا.مکرم مولوی نصیر احمد صاحب مربی سلسلہ کے الفاظ میں مرحوم اپنے فن کے بادشاہ تھے.میٹھی اور رسیلی پنجابی زبان میں تقریر کرتے تھے سلجھا ہوا اور غیر بناوٹی لہجہ.آواز میں ترنم اور موزوں اتار چڑھاؤ موقعہ اور محل کے مطابق ظرافت سے آراستہ وعظ سننے میں لوگ ایسا محو ہوتے تھے کہ گھنٹوں بیٹھے نہیں اکتاتے تھے.ہجرت کے بعد ان کا میلان بدل گیا سکھ اور ہندو جاچکے تھے.گیانی صاحب مرحوم نے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ایساڈھالا کہ سکھوں اور ہندوؤں سے متعلق مضامین پر لیکچر دینے والا شخص صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام، وفات مسیح، سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، اسلامی معاشرہ، حقوق والدین اور تربیت اولا د غرض جملہ مضامین پر ایسے دل آویز طریقہ سے بولنے لگا کہ دوسروں کے مقابلہ میں لوگ اسے سننا زیادہ پسند کرتے تھے.صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر تقریر کرتے ہوئے بڑے مؤثر فطرتی دلائل دینے کے بعد آخر میں اپنے خاص دردانگیز لہجہ میں بالعموم یہ کہا کرتے لوگو میں اس خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جس نے زمین و آسمان بنائے یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ وہی مسیح موعود ہے جس کی ساری دنیا کو انتظار تھی.اس کو مان لینا بڑی سعادت ہے اور نہ ماننا بڑی محرومی ہے..دو تین سال سے مرحوم بڑے راز دارانہ انداز میں فرمایا کرتے تھے یار دیا لگڑھی مینوں جاپدا اے میں ہن چھیتی مرجانا ایں اور خاکسار ان کے خیالات کا رخ موڑنے کی کوشش کرتا.ایک مرتبہ احمد خان صاحب ڈرائیور (اصلاح و ارشاد مقامی ) کو مخاطب کر کے فرمانے لگے میں جب مر گیا تو میری قبر سڑک کے قریب ہی ہو گی.سڑک پر گذرتے آتے جاتے موٹر کا ہارن ضرور بجایا کرنا میں سمجھ جایا کروں گا کہ ہماری پارٹی جا رہی ہے اور آج سچ سچ یہ خوش مزاج اور خوش گفتار مجاہد سڑک کے پاس ہی منوں مٹی کے نیچے سو رہا ہے.موٹر کے ہارن کی آواز سنے یا نہ سنے اسے ہزاروں انسانوں کی دعائیں ضرور پہنچ رہی ہوں گی جن کے دلوں میں وہ جوش ایمان پیدا کیا کرتا تھا.مرحوم نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلانے میں بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے.فرمایا کرتے تھے

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد 26 321 سال 1970ء بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کے لئے مجھے جو کچھ بھی کرنا پڑا کروں گا.ان کے مستقبل کا محل اگر مجھے اپنی ہڈیوں پر بھی بنانا پڑا تو ضرور بناؤں گا.اولا د کو اچھے مقام پر پہنچانے کا ان کا یہ عزم خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا.افسوس وہ خود نہیں رہے مگر ان کی یہ خواہش خدا تعالیٰ نے پوری کر دی کہ ان کی اولا د کا محل تیار ہو چکا ہے قریباً ساری کی ساری اولا داعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور سب کا مستقبل خدا تعالیٰ کے فضل سے درخشاں ہے.70 آپ کے بہت سے قیمتی اور محققانہ مضامین ریویو آف ریلیچنز (اردو)، بدر قادیان اور الفرقان ربوہ کی زینت ہیں.تصانیف:.۱.گلدستۂ مہدی (منظوم پنجابی ) ( پبلشر شیخ محمد عنایت اللہ مینجر نصیر بک ایجنسی قادیان آفتاب برقی پریس امرتسر باہتمام شیخ غلام حیدر پرنٹر چھپا ) ۲ پرگنہ بٹالہ کا گروشری نہہ کلنک اوتار مرزا مہدی ہوگا (سکھ قوم کے پرانے سیوک سردار عبدالرحمن (سابق مہر سنگھ ) بی.اے نے خالصہ قوم کے فائدہ کے لئے پیش کیا اللہ بخش سٹیم پریس قادیان میں باہتمام چوہدری اللہ بخش پرنٹر چھپا ) ۳.گورو گوبند سنگھ کے بچوں کا قتل.۴.سکھوں اور مسلمانوں کے خوشگوار تعلقات ۵.تحریک احمدیت کا سکھوں پر اثر ۶.ست پر چارک ے.سکھ مذہب اور کیس سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( گورمکھی) و کلجگ کا اوتار 71 ان تصانیف کے علاوہ آپ کے قلم سے ریویو آف ریلیجنز اردو قادیان میں متعد تحقیقی مقالہ جات شائع ہوئے.ا.بابا نانک صاحب مسلمان ولی اللہ تھے.-۲ گورو گوبند سنگھ صاحب کے بچوں کا قتل (بعد ازاں کتابی صورت میں شائع ہوا) 73.حضرت بابا نانک صاحب 74

Page 332

تاریخ احمدیت.جلد 26 ۴.سری گور و تیغ بہادر صاحب کا قتل | ۵.دس گور وصاحبان کے نام میاں رحمت اللہ صاحب 76 75 322 سال 1970ء وفات: ۱۹ جولائی ۱۹۷۰ء میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم دہڑھ چک نمبر ۲۹ ضلع شیخو پورہ کے رہنے والے تھے.آپ ۱۹۲۳ء میں نو جوانی کی عمر میں احمدی ہوئے.آپ نے چوہدری علم دین صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی.جو کہ چوہدری احمد مختار صاحب سابق امیر کراچی کے سگے چچا تھے.میاں رحمت اللہ صاحب مرحوم کے والد میاں محمد عبد اللہ صاحب قریباً ۱۹۲۱ء میں عیسائی سے مسلمان ہوئے تھے اور میاں رحمت اللہ صاحب ساتھ ہی مسلمان ہو گئے.آپ نے نیکی میں اتنی ترقی کی کہ سارا گاؤں عزت کرتا تھا اسی وجہ سے آپ کی وفات پر احمدیوں کے علاوہ گاؤں کے اکثر لوگوں نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی.آپ نے جوانی میں قرآن کریم پڑھا.گاؤں کے اکثر لوگوں نے آپ سے قرآن کریم پڑھا.آپ کی آواز بہت سریلی تھی اور قرآن کریم بلند آواز سے پڑھتے تھے.آپ جماعت کے امام الصلوۃ بھی رہے.مالی حالت کچھ کمزور تھی اس کے باوجود تمام جماعتی کاموں میں حصہ لیتے تھے.تہجد گزار اور دعا گو بزرگ تھے.چند سال سیکرٹری مال کا کام بھی کیا.نماز اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے احباب جماعت کو گھروں میں جا کر ان سے ملتے تھے.مرحوم نے مورخہ ۱۹ جولائی ۱۹۷۰ء کو بعمر تقریباً ۷۰ سال 77 وفات پائی.سلیمہ بانو نجمہ صاحبہ اہلیہ علی محمد صاحب انبالوی وفات: ۲۱ جولائی ۱۹۷۰ء آپ حضرت حشمت اللہ خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابن حضرت نعمت اللہ خان صاحب کی صاحبزادی تھیں.آپ کی والدہ حضرت منشی رحیم الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں.مکرمہ سلیمہ بانو صاحبہ کی شادی علی محمد صاحب انبالوی ابن بابو محمد بخش صاحب سابق مینیجر ضیاء الاسلام پریس سے ۱۹۴۳ء میں ہوئی.آپ کا وجود صفات عالیہ کا مرقع تھا.بہت دعائیں کرنے والی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ پر قربان ہو جانے والی روح رکھتی تھیں.نہایت ذہین،

Page 333

تاریخ احمدیت.جلد 26 323 سال 1970ء صائب الرائے تھیں.آپ کو رویائے صالحہ بکثرت ہوتی تھیں.آپ کو ہمیشہ یہ فکر رہتی تھی کہ آپ کی اولا د دیندار اور نیک ہو.آپ کے بیٹے اقبال احمد نجم صاحب نے جب وقف کرنے کے ارادہ کا اظہار اپنے والد صاحب کے سامنے کیا تو انہوں نے کہا کہ سوچ لو کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کمزوری دکھاؤ کیونکہ یہ مشکل کام ہے.اس وقت سلیمہ بانو صاحبہ کو اپنے شوہر کی یہ بات پسند نہ آئی اور اپنے بیٹے کو کہا کہ نیکی کا خیال پیدا ہو تو دیر نہیں کرنی چاہئیے.فور اوقف زندگی کا فارم پُر کر دو.ایسا کہتے ہوئے آپ نے ذرا بھر یہ خیال نہ کیا کہ بڑا لڑکا ہے.مالی پوزیشن مستحکم کرنے کے لئے اس کی مدد کی ضرورت ہوگی.بلکہ آپ کو اپنے مولا پر کامل تو کل اور بھروسہ تھا اور یہ تڑپ تھی کہ آپ کی اولاد بھی دین کے کام آئے.آپ کا سلوک احمدی غیر احمدی اور خصوصاً ہمسائیوں سے بہت اچھا تھا.آپ چھوٹے بچوں کو غریب مستورات کے گھروں میں بھیج کر یہ ہدایت فرماتیں کہ صرف دیکھ آؤ کہ ان کے گھر میں کچھ پکا ہے یا نہیں اور کوئی بات نہ کرنا.چنانچہ بچے خاموشی سے آکر رپورٹ کر دیا کرتے تھے.آپ انہیں کھانا بھجواتیں کسی کے پاس کپڑے نہ ہوتے تو کپڑے بھجواتیں.کوئی اچھی چیز پکا تیں تو ہمسایہ گھر میں ضرور بھجواتیں.آپ کی دولڑ کیاں چھوٹی عمر میں فوت ہو گئیں.آپ نے یہ صدمات بھی بڑے حوصلے سے برداشت کئے اور جب آپ کے لگاتار چارلڑکیاں ہوئیں تو ایک کم تربیت یافتہ عورت نے طنزاً کہہ دیا کہ لڑکیاں ہی لڑکیاں ہوتی ہیں تو آپ کو بہت تکلیف ہوئی اور کہا کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کی دین پر راضی ہیں اور اس سے کوئی شکوہ نہیں کرتے.آپ کی ایک بیٹی نعیمہ فوت ہوگئیں تو اس کی وفات کے بعد خدا نے ایک اور بیٹی سے نوازا تو بعض تو ہم پرست غیر احمدی عورتوں نے کہا کہ نعیمہ نام منحوس ہے اس کا نام نعیمہ نہ رکھنا آپ نے تو ہم پرستی کے خلاف چلتے ہوئے اور ایک خواب کی بناء پر اس بیٹی کا نام نعیمہ بشریٰ ہی رکھا.آپ کے دل میں تبلیغ اسلام واحمدیت کی بہت تڑپ تھی.دعا کرتی تھیں کہ اسلام واحمدیت کا غلبہ جلد ہو اور آپ کی اولاد کا بھی اس میں حصہ ہو.آپ کے دل میں خلافت کی بڑی قدرومنزلت تھی اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر خود چلنے اور اپنی اولا د کو چلانے کی ایک تڑپ تھی.آپ کو سلسلہ کے لٹریچر سے بڑا لگاؤ تھا.تلاوت قرآن کریم بلا ناغہ کرتیں اور کتب اور اخبارات کا مطالعہ بھی کرتیں.آپ کا حافظہ بہت اچھا تھا.ہزاروں اشعار زبانی یاد تھے.ایک دفعہ بیماری کے دوران ہسپتال میں داخل کرنے کے بارہ میں کہا گیا تو نا پسند فرمایا اور کہا وہاں پر رشوت لے کر داخل کرتے ہیں.رشوت لینے اور دینے والا ایک جیسا ہوتا ہے.میں اس ہسپتال میں داخل نہیں

Page 334

تاریخ احمدیت.جلد 26 324 سال 1970ء ہوں گی.گھر میں ہی رہ کر علاج کرواؤں گی.چنانچہ یہ منظور تھا کہ ڈاکٹر کو گھر بلانے کی جتنی فیس ہودی جائے مگر قال اللہ وقال الرسول کے برخلاف یہ برداشت نہیں کر سکتی تھیں کہ رشوت دے کر کوئی کام کروایا جائے.آپ مورخہ ۲۱ جولائی ۱۹۷۰ء کو وفات پا گئیں.مورخہ ۲۲ جولائی کو محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری ناظر اصلاح وارشاد نے بعد از نماز صر نماز جنازہ پڑھائی اور قبر کی تیاری پر حضرت صوفی غلام محمد صاحب ایڈیشنل ناظر بیت المال نے دعا کروائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.چوہدری غلام احمد صاحب آف سعد اللہ پور ولادت: ۱۹۰۸ء وفات: ۲۳ جولائی ۱۹۷۰ء آپ ۱۹۰۸ء میں موضع سعد اللہ پور (ضلع گجرات حال ضلع منڈی بہاؤ الدین) کے ایک معزز زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے.آپ کے آباء واجداد اپنے زہد و تقویٰ کی بدولت اپنے گاؤں میں ممتاز تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر عام علماء کی طرح آپ کے والد حضرت مولوی غوث محمد صاحب نے بھی احمدیت کی مخالفت کی لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے ایک رویاء کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت آپ پر منکشف کی.آپ نے قادیان جا کر حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر لی.واپس گاؤں پہنچے تو وہی لوگ جو آپ کے معتقد وشیدا تھے جانی دشمن بن گئے اور آپ سے قطع تعلق کر لیا.مگر آپ کے صدق و استقلال میں ذرا لغزش نہ آئی.حالانکہ اس علاقہ میں جوا کا دُ کا احمدی ہوتے وہ بعض اوقات مخالفت کے طوفان سے گھبرا کر اور مرکز کی محبت کی خاطر قادیان آباد ہو جاتے.لیکن آپ نے مخالفت کے پہاڑ سے ٹکر لی تا کہ اس علاقہ میں احمدیت کا چشمہ پھوٹے.مصائب اور تکالیف کے اس دور میں مولوی غوث محمد صاحب کے بیوی بچوں نے بھی کمال استقلال کا نمونہ دکھایا.آپ کی پامردی جلد ہی رنگ لائی اور گاؤں کے چند ذی اثر آدمی آپ کے ذریعہ احمدی ہوگئے.چوہدری غلام احمد صاحب مرحوم نے اپنے والد کی روحانی قوت برداشت واستقلال سے وافر حصہ پایا تھا.آپ شروع ہی سے احکام شرعی کے پابند اور احمدیت کے داعی تھے.آپ گونا گوں خوبیوں کے مالک تھے.ان میں سے دو باتیں شروع سے ہی آپ میں منفر د تھیں یعنی گالی گلوچ اور جھوٹ سے پر ہیز.آپ کے بچوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ آپ نے نہ تو کبھی غصہ میں اور نہ ہی کبھی پیار سے کوئی نازیبا لفظ منہ سے نکالا.

Page 335

تاریخ احمدیت.جلد 26 325 سال 1970ء آپ کو اللہ تعالیٰ نے بلا کی ذہنیت عطا فرمائی تھی.پرائمری کا امتحان اپنے گاؤں سے وظیفہ کے ساتھ پاس کیا.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا.میٹرک کے بعد ملازمت کے سلسلہ میں آپ مختلف مقامات پر رہے لیکن عمر کا بیشتر حصہ کراچی میں گزارا.مگر جس طرح آپ کی بے داغ جوانی زہد و تقویٰ کا نادر نمونہ تھی اسی طرح آپ کی ملازمت نیک نیتی ، دیانت داری اور فرض شناسی کی عظیم مثال تھی.اس زمانہ میں جبکہ رشوت کا بازار ہر طرف گرم تھا اور پولیس کچہری ، ریلوے وغیرہ محکمے اس سلسلہ میں بہت بدنام تھے.چوہدری صاحب کی ذات اس لعنت سے کلیۂ مبرا اور پاک تھی.تنگی اور تنگ دستی کے اوقات بھی دیکھے لیکن ہمیشہ رزق حلال پر تکیہ کیا.لوگوں کی ہمیشہ بے لوث خدمت کرتے اگر کوئی شخص کسی کام میں امداد کی خاطر آپ کو ہمراہ لے جاتا تو کوشش کرتے کہ اس پر بوجھ نہ بنیں اور پیشتر اس کا کرایہ وغیرہ بھی اپنی جیب سے دیتے.اس امانت اور بے لوث خدمت کا نتیجہ ہی تھا کہ کراچی ریلوے کے معمولی قلی سے بڑے بڑے افسر تک آپ کو جانتے اور آپ کی قدر کرتے تھے.بڑی خندہ پیشانی سے ملتے اور ہمیشہ مسکرا کر بات کرتے.آپ محکمہ ریلوے سے ریٹائر ہوئے.ریلوے کے نچلے درجہ کے ملازمین آپ کے پاس آتے.آپ ان کی بات سنتے اور ان کے محکمانہ کام بڑی توجہ اور انہماک سے سرانجام دیتے.بغیر کسی معاوضہ یا لالچ کے لوگوں کی درخواستیں لکھتے اور پھر ان کی پیروی بھی خود ہی کرتے.آپ کی وفات پر کئی افراد نے کہا کہ وہ چوہدری صاحب کے احسانات زندگی بھر فراموش نہیں کر سکتے.آپ ہر سال کراچی سے جلسہ سالانہ پر جانے والے احباب کے لئے چناب ایکسپریس میں ایک یا دو بوگیاں زائد لگوانے کا انتظام کرتے.اس دور کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق کارکنوں کو ہڑتال سے باز رکھا.محکمہ ریلوے کی طرف سے آپ کو طویل خدمات کے صلہ میں ایک سند خوشنودی اور ایک نقرئی تمغہ دیا گیا.۱۹۶۱ء کی مردم شماری میں اعلیٰ کارکردگی کی بناء پر آپ کو حکومت کی طرف سے سند خوشنودی عطا کی گئی اور ایک طلائی تمغہ بھی ملا.سال ۱۹۶۹ء میں اپنے گاؤں میں آکر رہے.یہ پورا عرصہ آپ نے تبلیغ دین میں گزارا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریک مبارک پر قرآن مجید پڑھنے اور پڑھانے پر خاص زور دیتے.آپ نماز فجر کے بعد بلا ناغہ درس قرآن کریم دیتے.ناشتہ کے بعد گاؤں کے بچوں اور بچیوں کو قرآن

Page 336

تاریخ احمدیت.جلد 26 326 سال 1970ء کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھاتے.جہاں بھی بیٹھتے احمدی اور غیر احمدی حضرات کا ایک گروہ آپ کے گرد بیٹھا ہوتا.اور آپ علوم دینیہ اور مسائل سلسلہ انہیں بتا رہے ہوتے.آپ نے پانچ ماہ کے قیام میں اپنے گاؤں کے ماحول کو بالکل دینی رنگ دے دیا.آپ حلقہ محمود آباد کراچی کے پریذیڈنٹ بھی رہے.آپ کے بڑے بھائی جماعت احمد یہ سعد اللہ پور کے پریذیڈنٹ بھی رہے.چوہدری غلام احمد صاحب کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.79 پیراماؤنٹ چیف آنریبل الحاج المامی سوری آف سیرالیون وفات: یکم اگست ۱۹۷۰ء بعمر ۱۱۹ سال آپ مدت سے احمدیت کے ہمدرد اور مداح تھے مگر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ۱۹۴۸ء میں عطا فرمائی.دین کی خدمت اور قربانیوں کی وجہ سے آپ سیرالیون میں احمدیہ مشن کے ایک مضبوط ستون بن گئے.مشن کی ابتداء میں اس کی گرانقدر مالی امداد کی توفیق بھی پائی.سیرالیون میں جماعت کے صدر بھی رہے اور دس سال تک اس منصب پر فائز رہ کر احمدیت کی خدمت سرانجام دی.آپ نہایت دیندار منتقی و پرہیز گار بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت بارعب شخصیت اور وجود عطا فرمایا تھا.قد لمبا اور طبیعت پر سکون تھی.بڑے ملنسار ، خوش اخلاق اور مہمان نواز بزرگ تھے جو شخص بھی آپ سے ملتا متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا.تین بار حج بیت اللہ کی سعادت پائی.سلسلہ احمدیہ اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے.ان کا ایک لڑکا محمد کو نئے ربوہ میں ان کے ذاتی خرچ پر لمبا عرصہ تعلیم پاتا رہا.آپ نے ربوہ کی مسجد مبارک کی تعمیر کے لئے بھی پچاس پونڈ چندہ ادا کیا تھا.احمدی مبلغین کو بڑے پیار اور محبت سے ملتے تھے.سیرالیون میں آپ کا بڑا اثر ورسوخ تھا ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت و دانائی اور معاملات سلجھانے کا ملکہ عطا فرمایا تھا چنا نچہ آپ نے اس خداداد ملکہ کو دین کی خدمت میں استعمال کیا.مشن کی بہت مدد کی.احمد یہ مدارس کی تعمیر میں آپ نے اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا اور بڑھ چڑھ کر چندہ بھی پیش کیا.آپ نے بوشہر میں احمد یہ مشن کے قیام اور مسجد کی تعمیر کے لئے ایک بڑا قطعہ زمین وہاں کے پیرا ماؤنٹ چیف سے دلوایا.اس زمین کے حصول میں بے حد مشکلات حائل تھیں.شہر کے عیسائی لوگ اور مشنری اس بات کے سخت مخالف تھے.

Page 337

تاریخ احمدیت.جلد 26 327 سال 1970ء انہوں نے شہر کے پیرا ماؤنٹ چیف کے خوب کان بھرے ہوئے تھے.آپ اس مخالف چیف کو حکمت و دانائی سے سمجھانے اور زمین حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.زمین کے حصول کے بعد جب احمدیہ مسجد کی تعمیر کا مرحلہ آیا تو مخالفوں نے پھر شور مچانا شروع کر دیا اور عیسائی پادریوں نے پھر چیف کو اکسایا کہ احمد یہ مشن والوں کو شہر کے قریب مسجد بنانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے.اس پر پھر آپ مشن کی مدد کے لئے آگے آئے اور دانائی سے فتح یاب ہوئے.آپ جب اس معاملہ کو حل کرنے کے لئے اپنی ریاست سے بوتشریف لائے تو آپ نے ملکی رواج کے مطابق شہر کے مخالف چیف کو تحفہ پیش کیا اور محبت و احترام سے بات کی اور اسے سمجھایا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پھر پانسہ پلٹ گیا اور جماعت کو شہر کے قریب مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے پر پیرا ماؤنٹ چیف راضی ہو گیا اور عیسائیوں کی مخالفت رائیگاں گئی.مرزاعبدالحمید صاحب وفات: ۵/اگست ۱۹۷۰ء آپ قادیان کے مغل برلاس خاندان کے چشم و چراغ تھے.ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کرنے کے بعد ۱۹۱۷ ء میں باقاعدہ ملازمت اختیار کی.آپ کو قادیان کے قدیمی رسائل تفخیذ الا ذہان، ریویو آف ریلجز (اردو)، الفضل اور مصباح کے اولین کارکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا.جہاں آپ نے حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مرحوم کی زیر نگرانی کم و بیش ۲۱ سال تک کام کیا ازاں بعد ۱۹۳۸ء میں نظارت بیت المال میں تبدیل ہوئے جہاں قریباً ۲۸ سال تک مفوضہ فرائض محنت اور خلوص سے سرانجام دینے کے بعد پنشن یاب ہو گئے.چند ماہ بعد آپ کو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں بھی کام کرنے کا موقعہ ملا اس طرح آپ کو پچاس سال تک سلسلہ کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے ۷۰ سال کی عمر میں لندن میں وفات پائی اور تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.قریشی غلام احمد صاحب ریٹائر ڈ مختار عام صدر انجمن احمد یہ پاکستان وفات: ۵/اگست ۱۹۷۰ء آپ حضرت قریشی محمد شفیع صاحب بھیروی کے بیٹے تھے جنہیں ۳۱۳ اصحاب کبار میں شامل

Page 338

تاریخ احمدیت.جلد 26 82 328 سال 1970ء ہونے اور حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے بھانجا ہونے کا شرف حاصل تھا.آپ ۱۹۶۷ء میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیر ہدایت مختار عام صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی حیثیت سے زندگی کے آخری لمحات تک سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجالاتے رہے اور اپنے دفتر میں ہی کام کرتے ہوئے حرکت قلب بند ہونے سے انتقال کیا.منشی غلام محمد صاحب آف ہجکہ تاریخ وفات : ۳ ۴۰ ستمبر ۱۹۷۰ء کی درمیانی شب آپ نہایت دعا گو اور صاحب کشف انسان تھے.سونے سے قبل سورۃ الملک اور دیگر قرآنی سورتیں بڑی خوش الحانی سے تلاوت فرماتے تھے.آپ بڑے پرانے اور مخلص احمدی موصی تھے.آپ نے ۱۹۰۰ء میں ایک جلد ساز کے پاس آئینہ کمالات اسلام پڑی دیکھی.آپ نے کتاب پڑھی تو اس کی عبارت آپ کو بہت اعلیٰ معلوم ہوئی اور دل سے احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کو مان لیا.نیز یہی کتاب ایک امام مسجد حافظ عبدالہادی صاحب کو سنائی تو وہ بھی سن سن کر روتے تھے اور کہتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مرزا صاحب کی قادیان جا کر ضرور زیارت کرنی ہے.چونکہ ان دنوں پیری مریدی پر زور تھا جس کو آپ پسند نہیں کرتے تھے اس لئے آپ نے بیعت نہ کی لیکن نمازیں احمدیوں کے ساتھ ہی ادا کرتے تھے.بعض بزرگوں کے سمجھانے پر خلافت اولی کے زمانہ میں بیعت کی.آپ عربی ، فارسی اور اردو کے بڑے عالم تھے اور اکثر عربی اور فارسی کے مقولے پڑھا کرتے تھے.قرآن کریم سے خاص لگاؤ تھا.جہاں سے بھی قرآن شریف کے پڑھنے کی آواز آتی وہاں جا کر قرآن کریم سننے کے لئے بیٹھ جاتے اور اکثر حفاظ سے قرآن کریم سنتے رہتے.سارا سارا دن مطالعہ میں مصروف رہتے اور آخری چند سالوں میں تفسیر صغیر سارا دن پڑھتے رہتے.نظر کی کمزوری کے باوجود تفسیر صغیر کا مطالعہ آخری دم تک نہ چھوڑا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کی اولاد کے ساتھ دلی لگاؤ اور محبت تھی.ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر ربوہ تشریف لائے تو بس کے اترتے ہی کسی نے بتایا کہ کافی فاصلے پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جا رہے ہیں.ضعیف العمر ہونے کے باوجود وہاں سے دوڑ پڑے اور حضرت میاں صاحب سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.قادیان اور ربوہ میں تقریباً ہر جلسہ پر تشریف لاتے اور علماء سلسلہ کی تقاریرین کر لطف اٹھاتے تقسیم ملک سے قبل رمضان شریف کا مہینہ قادیان جا کر گذارتے چنانچہ تقسیم ملک کے وقت بھی رمضان شریف گذارنے کے لئے قادیان گئے

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد 26 329 سال 1970ء ہوئے تھے.تحریک ملکانہ میں بھی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد کے مطابق شریک ہوئے تھے.وفات کے وقت اپنے گاؤں ہجکہ میں امائناً دفن کیا گیا.اگلے سال وفات کی ہی تاریخوں میں آپ کا تابوت بروز جمعتہ المبارک ربوہ لایا گیا.نماز جمعہ کے بعد مولانا نذیر احمد مبشر صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.83 ملک نا در خاں صاحب افسر مال کیمبل پور (اٹک) وفات: ۶ ستمبر ۱۹۷۰ء آپ کیمبل پور کے معزز احمدی شہری تھے.احمدی اور غیر احمدی دونوں ہی مرحوم کی بہت عزت کرتے تھے.اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ نے مسجد احمدیہ کی تعمیر اپنی نگرانی میں کروائی اور بہت جانی و مالی امداد اور قربانی کی.آپ بیماری کی حالت میں بھی دن بھر مسجد کی تعمیر کی نگرانی کیلئے مسجد میں لیٹے یا بیٹھے رہتے تھے.بہت زندہ دل اور مخیر انسان تھے.سلسلہ کی خدمت و نگہبانی اور ہر فر د جماعت کی سلامتی کا پورا خیال رکھتے.چندوں میں نمایاں حصہ لیتے.احمدیت کے لئے مرحوم کے دل میں خاص جوش اور ولولہ تھا.تن تنہا ہر شر اور فساد کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ سینہ سپر رہتے تھے.آپ کے بیٹوں میں سب سے بڑے بیٹے ملک منیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کیمبل پور ہیں.چوہدری اللہ بخش صاحب وفات: ۲۰ ستمبر ۱۹۷۰ء 84 چوہدری اللہ بخش صاحب کے والد حضرت میاں رحمت اللہ صاحب آرا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.آپ میں شروع سے ہی قرآن شریف سے لگاؤ اور احمدیت سے محبت کا جذ بہ پایا جاتا تھا.خلافت سے والہانہ عشق و محبت رکھتے تھے.آپ موصی تھے.آپ شروع سے ہی ہر مرکزی تحریک میں حسب توفیق حصہ لیتے تھے.تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.آپ اپنے خاندان کے بچوں کی تربیت واصلاح میں کوشاں رہتے تھے.جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے جب کبھی جماعت کی طرف سے کوئی خدمت آپ کے سپرد کی گئی ذاتی کاروبار چھوڑ کر اس خدمت کو سرانجام دیتے.آپ غریبوں اور مسکینوں کی خدمت بھی حسب توفیق کرتے تھے اور مہمان

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد 26 330 سال 1970ء نواز اور ہمدرد دل رکھتے تھے.کوشش کرتے کہ پانچوں نمازیں باجماعت مسجد میں ادا ہوں.اس کے علاوہ مرحوم تہجد گزار اور دعاؤں میں مشغول رہتے تھے.آپ نے مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۹۷۰ء کو وفات 85 حبیب بیگم صاحبہ وفات: ۱۱ را کتوبر ۱۹۷۰ء مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی حضرت ڈاکٹر فیض قادر صاحب آف فیض اللہ چک کی منجھلی صاحبزادی تھیں.آپ پیدائشی احمدی اور موصیہ تھیں.آپ بہت ملنسار خاموش طبع صابر و شاکر اور مخیر خاتون تھیں.سلسلہ احمدیہ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد اخلاص رکھتی تھیں.صوم وصلوٰۃ کی پابند تھیں.زندگی میں جو بھی تکلیف آئی اسے بہت صبر سے برداشت کیا اور رضا بالقضاء کا بہت اعلیٰ نمونہ دکھایا.آپ ملک بشیر الحق صاحب کی والدہ اور حضرت حاجی نصیر الحق صاحب ( آف لاہور ) صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ تھیں.آپ نے اراکتو بر ۱۹۷۰ء کو وفات پائی.آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں 86 آئی.زینب بی بی صاحبہ وفات : ۳۰ /اکتوبر ۱۹۷۰ء محترمہ زینب بی بی صاحبہ حضرت چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ پاک پٹن کی اہلیہ تھیں.آپ نے ۱۹۰۹ء میں بیعت کی.مرحومہ لجنہ پاک پٹن کی ایک لمبے عرصہ تک صدر ر ہیں.دوران بیماری بھی آپ اپنے مکان پر مستورات کو بلا کر ان کو دین کے متعلق ہدایات دیا کرتی تھیں.آپ نے مورخہ ۳۰ /اکتوبر ۱۹۷۰ء کو وفات پائی.آپ موصیہ تھیں اور ۱۹۱۵ء میں نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی تھی.آپ نے ۹۲ سال عمر پائی.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی.87 با با مستری محمد اسمعیل صاحب درویش ( عرف بابا سر پیر ) وفات: ۸ دسمبر ۱۹۷۰ء

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد 26 331 سال 1970ء محترم حکیم چوہدری بدر الدین عامل بھٹہ صاحب بابا مستری محمد اسمعیل صاحب درویش سے متعلق رقمطراز ہیں: " آپ کے بیٹے مستری محمد احمد صاحب ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان میں درویشوں میں ٹھہرے تھے ابتدائی طور پر یہ پروگرام تھا کہ ہر دو ماہ بعد افراد بدل جایا کریں گے مگر بعد میں دونوں حکومتوں کے درمیان بعض قانونی الجھنوں کے باعث ایسا کرنا ممکن نہ رہا اور قادیان میں رہ رہے افراد میں سے اکثریت کو تاحیات قادیان میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی اور اشد مجبور افراد کے متبادل کچھ پاکستان سے تین قافلوں میں آگئے جن کی تعداد تھی اور کچھ ہندوستان کی جماعتوں سے متبادل تعداد میسر آجانے کے باعث قریباً ۱۳۸ /افراد کو واپس بھجوا دینا پڑا.مستری محمد احمد صاحب بھی واپس جانے والوں کی فہرست میں سے تھے.۵ مارچ ۱۹۴۸ء کو آپ کے والد صاحب بابا مستری محمد اسمعیل صاحب آپ کے متبادل کے طور پر قادیان پہنچ گئے اس لئے اسی کنوائے میں انہیں واپس بھجوادیا گیا.با با مستری محمد اسمعیل صاحب کو میں نے پہلی دفعہ ۱۹۴۵ء کے اجتماع خدام الاحمدیہ کے موقعہ پر دیکھا تھا اس اجتماع پر ایک نوجوان جو غالبا ضلع لائل پور ( حال فیصل آباد ) سے آئے ہوئے تھے اس نوجوان نے کلائی پکڑنے میں اوّل انعام حاصل کیا تھا.اس نوجوان سے محترم حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ نے بھی شوقیہ کلائی پکڑا ئی تھی.بابا مستری محمد اسمعیل صاحب بھی اس اجتماع میں آئے ہوئے تھے انہوں نے اس نوجوان کو کہا کہ میں آپ کے ساتھ ڈنڈا پکڑنے کا شوقیہ مقابلہ کرنے کو تیار ہوں ( ڈنڈا پکڑنا اس طرح ہوتا ہے کہ دونوں فریق ایک لاٹھی کو اپنے پاؤں میں دبا کر آمنے سامنے بیٹھ جاتے ہیں.ایک فریق لاٹھی کو دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے اور دوسرا فریق چھڑاتا ہے ) اس نوجوان نے ہاں کر دی مقابلہ شروع ہوا سب دیکھنے والے حیران تھے کہ ایک مضبوط پہلوان نما نو جوان اور دوسری طرف ایک نحیف جسم کا معمر بزرگ بھلا دیکھیں مقابلہ کیسے ہوتا ہے.مقابلہ کی جگہ پر ایک ہجوم ہو گیا.نوجوان نے کہا بزرگو آپ پہلے پکڑیں بابا جی نے لاٹھی کو درمیان سے پکڑ لیا نوجوان نے چھڑانے کی کوشش کی نہ چھڑ ا سکا بابا جی نے کہا پھر کوشش کر دیکھو.جب اس نے دوبارہ بابا جی کی کلائی پکڑی تو بابا جی نے بلند آواز سے کہا کہ یہ کہاں چھوٹے گی اس کو تو تالے لگ گئے ہیں.واقعی کوشش بسیار کے باوجود وہ نو جوان بابا جی کا ہاتھ نہ چھڑ ا سکا.سب حاضرین بڑے محظوظ ہوئے.

Page 342

تاریخ احمدیت.جلد 26 332 سال 1970ء بابا جی ایک ماہر حداد (لوہار ) تھے اور گرم کام کرتے کرتے انہیں دوران سر کا عارضہ لاحق ہو گیا ہوا تھا.سر پر ایک پٹکا ہر وقت مضبوطی سے باندھے رہتے تھے اسی وجہ سے عرف عام میں آپ کو باباسر پیٹر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا.اس عمر کے جو بزرگ قادیان آئے تھے ان کے سپرد کوئی معین ڈیوٹی نہیں تھی.اپنی مرضی سے بعض بزرگ کوئی کام اپنے لئے پسند کر لیتے تھے اور وہ کرتے رہتے تھے.بابا مستری محمد اسمعیل صاحب نے اپنے لئے خود بہشتی مقبرہ میں قبور کی صفائی کا کام پسند کیا تھا اور بڑی با قاعدگی سے اس کام میں لگے رہتے تھے.کچھ عرصہ بعد آپ نے بہشتی مقبرہ میں ہی پہرہ داران والے کمرہ میں رہائش رکھ لی تھی.۱۹۶۵ء میں آپ بہشتی مقبرہ میں ہی رات کو رہتے تھے.صبح شام تھوڑی دیر کیلئے شہر آتے اور لنگر خانہ سے کھانا کھا کر پھر بہشتی مقبرہ چلے جاتے انہی ایام میں مکرم چوہدری محمد احمد صاحب کی ڈیوٹی بہشتی مقبرہ کے پمپ پر لگ گئی اور آپ راتوں کو اکثر پمپ چالو یا بند کرنے بہشتی مقبرہ جاتے رہتے تھے ایک روز مکرم چوہدری محمد احمد صاحب صبح فجر کی نماز کے بعد چائے کی دوکان پر مجھے ملے اور کہنے لگے عامل صاحب آج تو میں بمشکل بچاہوں قریب تھا کہ میرا ہارٹ فیل ہو جائے.میں نے سبب پوچھا تو بتایا کہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ آجکل بابا محمد اسمعیل صاحب بہشتی مقبرہ میں رات کو رہتے ہیں.میں حسب معمول رات ساڑھے تین بجے پمپ چالو کرنے گیا اس وقت چاند غروب کے قریب تھا اور روشنی مدھم پڑ چکی تھی.میں اپنے دھیان سے جارہا تھا کہ اچانک قبروں کے درمیان سے کوئی شخص اٹھ کھڑا ہو گیا بال بکھرے ہوئے.میں ایک دم ڈر اور سہم کر کھڑا ہو گیا میرا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا.قریب تھا کہ میں گر جاؤں میرا جسم پسینہ سے شرابور تھا.( یوں بھی گرمیوں کے دن تھے ) اچانک بابا جی کی آواز آئی محمد احمد ہے؟ یہ مانوس آواز سن کر میری جان میں جان آئی اور میں پمپ پر جا کر نماز پڑھنے والے چبوترہ پر ہی فجر کی اذان تک لیٹا رہا.بابا جی عزم اور ارادہ کے پکے تھے اور اپنے کاموں میں مستعد.بیمار تو آپ شروع ہی سے تھے، دوران سر تھا ، پھر بڑھاپے سے مزید کمزوری ہو گئی اور آپ چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے.اس لئے آپ کو بہشتی مقبرہ سے لا کر حضرت نواب صاحب والے شہر والے مکان کی نچلی منزل میں رکھا گیا جہاں اور بھی تین چار بزرگ رہتے تھے اس جگہ دو درویش بھی ڈیوٹی پر حاضر رہتے تھے ایک دن کو ایک رات کو جو ان بزرگوں کو لنگر سے کھانا اور ہسپتال سے دوائی لا کر دیتے رہتے تھے.علاج ہوتا رہا بیماری اور کمزوری روز بروز بڑھتی چلی گئی اور آخر وہ دن آن پہنچا جس دن بابا جی کا سفر آخرت مقر ر اور طے شدہ

Page 343

تاریخ احمدیت.جلد 26 333 سال 1970ء تھا.آپ ۸ دسمبر ۱۹۷۰ء کو سرائے فانی کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی جنتوں کی طرف پرواز کر گئے.مورخہ ۹ دسمبر کو آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ میں ہوئی.88 حکیم سراج دین صاحب بھائی دروازہ لاہور وفات: ۱۲ دسمبر ۱۹۷۰ء آپ لاہور کے قدیم اور مخلص غیور احمدی بزرگوں میں سے تھے.بہت نیک، دعا گو خیر اور اپنے علاقہ میں دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے بڑے اثر و رسوخ کے مالک تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بہت شفار رکھی تھی.دور دور سے مریض آتے اور شفایاب ہو کر جاتے.حضرت سیّدہ اُمّ طاہر صاحبہ کی آخری علالت میں بالخصوص خدمت کرنے کا موقعہ ملا جس پر حضرت مصلح موعود نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.حضرت مصلح موعود سے آپ کو بے حد عقیدت تھی.بھائی دروازہ لاہور کے سیکرٹری امور عامہ بھی رہے.آپ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا بھی شرف حاصل تھا.لیا 89 حضرت حکیم سید خلیل احمد صاحب مونگھیری وفات: ۱۳ دسمبر ۱۹۷۰ء آپ کے والد مولا نا واعظ علی صاحب مسلسل، غالب کے ہمعصر اور صاحب دیوان شاعر تھے.آپ کی ولادت ۱۸۷۲ء میں ہوئی علم طب لکھنو سے حاصل کیا.۶ - ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں بیعت کا خط لکھا مگر زیارت نہ کر سکے.خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام ہی سے آپ فریضہ دعوت وارشاد میں سرگرم عمل ہو گئے اور اپنی پُر جوش تبلیغی مہمات کے سلسلہ میں بہار، بنگال ہی پی، یوپی، مدراس، میسور، بمبئی اور پنجاب میں پیغام حق پہنچایا.جلسہ سالانہ قادیان کے فاضل مقررین میں سے تھے.۱۹۵۱ء میں حضرت مصلح موعود کے حکم پر آپ ناظر تعلیم و تربیت قادیان کے عہدہ پر فائز ہوئے اور ۱۹۶۲ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے بعد ازاں پاکستان تشریف لے آئے.کراچی میں انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک کئے گئے.آپ کو حضرت خانصاحب ذوالفقار علی خاں صاحب سے دامادی کا شرف حاصل تھا.تصانیف : مباحثہ مونگھیر ( حصہ اول.دوم سوم ).احسانات مسیح موعود میں سے کچھ.اسرار

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد 26 334 سال 1970ء نہانی.ثنائی چکر.برق آسمانی - کلیات خلیل - 20 اولاد 90 سید شکیل احمد صاحب منیر واقف زندگی سابق انچارج آسٹریلیا مشن ، سید جمیل احمد صاحب، نز بہت آراء بیگم صاحبہ اہلیہ ایم اے حفیظ (حال مقیم کینیڈا)، رشید احمد صاحب مرحوم ، سید محمد جمیل صاحب سیکرٹری وقف نو حلقہ النور“ کراچی سید منور احمد صاحب نوری حال مقیم لنڈن ، سعادت آراء بیگم صاحبہ اہلیہ خالد حمیدی صاحب کراچی ، مظفر احمد صاحب ظفر ( حال مقیم امریکہ) ، قدسیه نسرین صاحبہ اہلیہ محمد احمد صاحب حال مقیم لنڈن

Page 345

تاریخ احمدیت.جلد 26 335 حوالہ جات ( صفحه ۲۷۷ تا ۳۳۴) سال 1970ء 1 2 3 الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۸ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۰ ، صفحه ۱۱ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۸ و ۳۱ مارچ ۱۹۷۰ء 4 ریکارڈ بہشتی مقبره ربوه 5 6 7 8 9 11 له الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۷۰ صفحه ۸ ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۵۱ رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۱۳ صفحه ۱۲۲ الفضل ۳ مئی ۱۹۷۰ صفحه ۸-۱۶ جون ۱۹۷۰ صفحه ۵ الفضل ۱۴ را کتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۲ صفحه ۳ الفضل یکم جولائی ۱۹۷۰ صفحہ۸ - کتاب ”تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین، نمبر شمار۳۰۱۱کمپیوٹر کوڈ ۲۸۶۸صفحه ۱۵۲ رجسٹر روایات نمبر ۸ صفحه ۸۰ تا ۸۲ غیر مطبوعه بیان مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۳۹ء الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۵.مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل 1 جولائی ۱۹۷۰ء صفحیم.الفضل یکم و ۱۸ راگست ۱۹۷۰ صفحه ۵ - الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ 13 14 15 تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین.نمبر شمار ۳۰۱۲ تا ۳۰۱۹ کمپیوٹر کو ۲۸۶۹ تا ۲۸۷۶ صفحه ۱۵۲ رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۱۶۹ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۷ 567 16 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 17 18 19 الفضل ربوه ۲۵ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ الفضل ربوه مورخه ۴ راگست ۱۹۷۰ء صفحه ۵ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ 20 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 21 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه 4 22 الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۵

Page 346

تاریخ احمدیت.جلد 26 336 23 فہرست مرتبه نذرمحمد صاحب نذیر گولیکی یکم دسمبر ۱۹۹۲ء 24 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 25 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۷۰ ، صفحه ۶ سال 1970ء 26 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.آپ کے ایک بیان کے مطابق آپ کی ولادت کا سال ۱۸۹۳ء متعین ہوتا ہے 27 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۷۰ تا ۲۷۳ تلخیص مؤلّف شیخ عبد القادر سابق سوداگر مل - طابع و نا شر شیخ عبدالشکورم احمد یہ بیرون دیلی دروازہ لاہور تاریخ اشاعت ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء 28 الفضل قادیان ۴ فروری ۱۹۲۷ صفحه ۱۰ 29 ” تاریخ احمدیت جموں و کشمیر مؤلفہ محمد اسد اللہ قریشی صاحب مربی سلسلہ صفحہ ۱۶۳.اشاعت مارچ ۱۹۷۳ء.الفضل ۲۸ را پریل ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 30 الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۵ 31 الفضل مورخه ۲۸ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۱۲، یکم فروری ۱۹۷۰ صفحه ۵ 32 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 33 الفضل ۱۰ فروری ۱۹۷۰ صفحه ۸ ۱۳ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۸-۴ مارچ ۱۹۷۰ صفحه ۵ 34 الفضل ۱۴ر اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 35 اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۸۲-۸۳ مؤلّفه ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے اشاعت ۱۹۵۱ء.الفضل ۷ اجون 36 ۱۹۷۰ء صفحه ۵ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۹۰ء صفحیم - ۵ 37 الفضل ا جون ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 38 الفضل ۱۵ رابریل ۱۹۷۰ ، صفحه ۵ 39 الفضل ۲۴ اپریل.مئی.۵ ستمبر ۱۹۷۰ء.رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ پاکستان بابت سال ۵۶-۱۹۵۵ء صفحه ۵۲ - ۵۹-۱۹۵۸ء صفحه ۱۶۰-۶۱-۱۹۶۰ء صفحہ ۷۴.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ، نمبر شمار ۴۶۹۴ کمپیوٹر کوڈ ۴۴۷۹ صفحه ۲۳۶ مرتبہ چوہدری برکت علی خاں قادیانی شائع کردہ تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ 40 ہفت روزه بدر قادیان درویشان قادیان نمبر ۲۰۱۱ صفحه ۷۸ 41 وہ پھول جو مرجھا گئے ، حصہ دوئم صفحہ ۲۲۳ ۲۲۴، ۲۲۵ 42 الفرقان درویشان نمبر ۱۹۶۳، صفحه ۹۰ روزنامه الفضل ۹ مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 43 الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۵ 44 تاریخ احمد یہ سرحد صفحه ۱ ۲۱۰ مؤلفہ حضرت قاضی محمد یوسف فاروقی صاحب آف مردان مطبع منظور عام پریس پشاور.ايضا الفضل ۲۲ مئی ۱۹۷۰ ء صفحه ۹

Page 347

تاریخ احمدیت.جلد 26 خط محرر ۱۵۰ نومبر۱۹۷۷ء بنام ناصر رشید فاروقی 46 الفضل اا نومبر ۱۹۸۱ء.صفحیم 337 سال 1970ء 47 الفضل ۷.۲۸ جون ۱۹۷۰ء تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین نمبر شمر ۲۴۱۲ کمپیوٹر کوڈ ۲۲۸۸صفحه ۱۲۱ شائع کرده 48 49 تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان ربوه الفضل ربو ۲۴ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ الفضل ۱۶ جون ۱۹۷۰ صفحه ۸ 50 تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد اول صفحه ۲۲۵ مرتبه حضرت سیده ام متین صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود.ناشر لجنہ اماءاللہ مرکز بیہ اشاعت دسمبر ۱۹۷۰ء 51 اماں کی عظمتوں کو سلام سوانح بیگم شفیع از سیده نیم سعید صاحب صفحه ۲۰،۵۹ 52 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۴۲ صفحه ۶ 53 افضل ۱۶ جون ۱۹۷۰ صفحه ۸ 54 انسائیکلو پیڈیا قائد اعظم صفحہ ۳۹۹-۴۰۰.ناشر مقبول اکیڈیمی طبع اول ۱۹۹۷ء 55 56 57 روز نامه امن کراچی ۱۵ جون ۱۹۷۰ء روز نامہ جنگ کراچی ۱۶ جون ۱۹۷۰ء روزنامه نیوز ۱۸ جون ۱۹۷۰ء 58 روز نامہ ٹائمنز پاکستان ۱۲ جولائی ۱۹۷۰ء 60 روزنامه امروز ۱۳ جولائی ۱۹۷۰ء روزنامہ مشرق ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء 61 روز نامہ کوہستان راولپنڈی سے جولائی ۱۹۷۰ء 62 روزنامہ جنگ راولپنڈی ۱۹ جولائی ۱۹۷۰ء 63 اخبار جہاں کراچی ۲۴-۲۹ جولائی ۱۹۷۰ء 64 اخبار خواتین یکم تا ۷ راگست ۱۹۷۰ء 65 برہان ہدایت جلد اوّل مؤلفہ ابوظفر عبد الرحمن مبشر صفحه ۲۲۵ و ۲۲۶.اشاعت ۲ نومبر ۱۹۶۷ء.ایضا بر ہان ہدایت جلد دوم صفحه ۲۱۷ و ۲۱۸.اشاعت دسمبر ۱۹۷۹ء 66 الفضل ۵ جولائی ۱۹۲۹ ، صفحہ ۱ 67 الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۲۹ ء صفحه ۹ 68 الفضل ۴ جولائی ۱۹۷۰ صفحہ۸ 69 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحه ۱۷

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد 26 70 الفضل ۴ و ۵ ستمبر ۱۹۷۰ء 338 71 رسالہ واذ الصحف نشرت صفحہ ۴۷ مرتبہ میاں عبدالعظیم صاحب در ولیش قادیان مطبوعہ ربوہ 72 ریویو آف ریلیجز مئی ۱۹۳۹ء صفحه ۲۱ 73 ریویو آف ریلیجز جون ۱۹۳۹، صفحه ۵۲ 74 ریویو آف ریلیجنز دسمبر ۱۹۳۹ ء صفحه ۸۹ 75 ریویو آف ریلیجز، فروری ۱۹۴۰ء صفحه ۴۶ ، اپریل ۱۹۴۰ء صفحه ۴۰ 76 ریویو آف ریلیجنز مئی ۱۹۴۴ء صفحہ ۷.جون صفحہ ۲ 77 الفضل یکم نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 78 الفضل ۵ /اگست ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 79 الفضل ۳۰ / اگست ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ - الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۵ و ۱۴ مارچ ۱۹۷۱ء صفحه ۵ 80 الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۷۰ء صفریم 81 الفضل ۸-۱۹ اگست ۱۹۷۰ء 82 ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۳۲۸ فہرست نمبر ۲۵۱ تالیف جنوری ۱۸۹۷ء.الفضل ۷ راگست ۱۹۷۰ صفحه ۸ 83 الفضل ربوہ ۲۷ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 84 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 85 الفضل ۱۴ را کتوبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 86 ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۰ صفحه ۹ 87 الفضل نے نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۶ 88 ہفت روزہ بدر قادیان ۸ جون ۲۰۰۴ صفحه ۱۱ 89 سال 1970ء الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۴.لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۶۰۶ مؤلفه شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل ناشر شیخ عبدالشکور مسجد احمد یه بیرون دہلی دروازہ لاہور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین ،نمبر شمار ۱۹۲۰ کمپیوٹر کوڈ ۱۸۱۳ صفحه ۹۶ 90 الفضل ۲۲ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ - الفضل ۱۲،۱۱ فروری ۱۹۷۱ء.رسالہ واذا الصحف نشرت صفحہ ۱۵ مؤلفہ میاں عبدالعظیم صاحب درویش قادیان

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد 26 339 سال 1970ء نکاح اور شادی ۱۹۷۰ء کے متفرق اہم واقعات ا.۲۲ فروری ۱۹۷۰ء کو امۃ الصبور صاحبہ بنت پیر معین الدین صاحب اور وحید احمد صاحب ابن پیر صلاح الدین صاحب کی شادی ہوئی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسی روز ان کے نکاح کا اعلان فرمایا تھا.۲ ۲۲ مارچ ۱۹۷۰ء کو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی ان کا نکاح حضور انور نے ۲ جنوری ۱۹۷۰ء کو چوہدری خلیل احمد خاں صاحب ابن چوہدری محمد اکرم خاں صاحب آف حیدر آباد سندھ سے پڑھا تھا.۲۷ مارچ ۱۹۷۰ء کو حضور نے مرزا منصور احمد صاحب ( حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کے سگے بھانجے ) ابن میاں شریف احمد صاحب آف راولپنڈی کا نکاح فرحت حفیظ صاحبہ بنت شیخ عبدالقادر صاحب کے ہمراہ پڑھا.۴ ۴ دسمبر ۱۹۷۰ء کو صاحبزادی نصرت جہاں صاحبہ بنت نواب مسعود احمد خاں صاحب اور سید محمود احمد صاحب ابن ڈاکٹر میر مشتاق احمد صاحب کی تقریب شادی عمل میں آئی.حضور انور نے اسی روز خطبہ جمعہ سے قبل نکاح کا اعلان فرمایا تھا.ولادت ا.شازیہ محمود صاحبہ بنت نواب محمود احمد خاں صاحب ( تاریخ ولادت ۱۶ جنوری ۱۹۷۰ء) ۲.مرزا نصیر احسان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے ( تاریخ ولادت ۲۹ مئی ۱۹۷۰ء) ۳.مرزا ناصر انعام احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے ( تاریخ ولادت ۲۹ مئی ۱۹۷۰ء) امتہ النور صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب ( تاریخ ولادت ۲۶ /اکتوبر۱۹۷۰ء)

Page 350

تاریخ احمدیت.جلد 26 340 سال 1970ء ۵.مرزا رضوان احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب ( تاریخ ولادت ۷ نومبر 981920 ۶.ملک طلحہ احمد صاحب ابن ملک فاروق عمر صاحب کھوکھر ( تاریخ ولادت ۷ دسمبر 10 (192 نمایاں اعزازات اس سال پاکستان اور نائیجیریا میں بعض احمدی نوجوانوں اور خواتین کوعلمی عملی اور سائنسی میدان میں متعدد کامیابیاں نصیب ہوئیں جن کی تفصیل یہ ہے.ا.۱۲ جنوری ۱۹۷۰ء کوتعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیم نے پنجاب یو نیورسٹی باسکٹ بال چیمپین شپ کے فائنل مقابلہ میں گارڈن کالج راولپنڈی کے مقابل انتہائی شاندار کھیل کا مظاہرہ کر کے چیمپین شپ کا خصوصی اعزاز حاصل کیا اور ٹرافی جیت لی.اس کے ایک ہفتہ بعد کالج نے سرگودھا بورڈ باسکٹ بال چیمپین شپ بھی جیت لی.اس طرح بورڈ اور یو نیورسٹی دونوں میں اسے خصوصی اعزاز حاصل ہو گیا.۲.ڈائریکٹریٹ جنرل پاکستان پوسٹ آفس کی طرف سے ایک گل پاکستان انعامی مقابلہ انسانی تاریخ میں ڈاکخانے کا کردار کے موضوع پر تین زبانوں میں مقابلہ مضمون نویسی ہوا جس میں تعلیم الاسلام کالج کے طالبعلم منور احمد انیس صاحب کا انگریزی مضمون اول قرار دیا گیا.- گورنمنٹ کالج برائے خواتین ملتان کے مباحثہ انگریزی منعقدہ ۲ مارچ ۱۹۷۰ء میں جامعہ 12 نصرت ربوہ کی دو طالبات عفت خالق صاحبہ اور بنی سعید صاحبہ بالترتیب اول اور دوم قرار دی گئیں.13 - عالیہ عطا صاحبہ ( بنت کیپٹن عطاء اللہ صاحب کھوکھر مردان) نے بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سرگودھا کے تحت ہونے والے امتحان میں پری انجینئر نگ گروپ میں ۷۶۴/۱۰۰۰ نمبر حاصل کر کے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی.- ملک خالد محمود صاحب ( ابن ملک علی محمد صاحب) نشتر کالج ملتان سیکنڈ پروفیشنل ایم بی بی الیس کے امتحان میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے.- انتصار احمد صاحب عباسی ( ابن افتخار احمد صاحب عباسی وحدت کالونی لاہور ) بی فارمیسی

Page 351

تاریخ احمدیت.جلد 26 341 سال 1970ء کے سال آخر کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کر کے گولڈ میڈل ( طلائی تمغہ ) 16 کے مستحق قرار پائے..مرزا ناصر احمد صاحب (ابن مرزا آفتاب احمد صاحب سول کوارٹرز پیشاور ) نے پشاور یونیورسٹی سے ایگریکلچر کا امتحان ۳۲۵/۴۵۰ نمبر لے کر اعلیٰ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے علاوہ نیاریکارڈ قائم کیا.اس سال تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے گذشتہ روایات سے بڑھ کر کھیل کے میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور مدرسہ کی نیک نامی میں چار چاند لگا دیئے.چنانچہ اس کی باسکٹ بال ٹیم نے ضلع بھر میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ڈویژن کا فائنل میچ جیت کر ڈویژنل چیمپین شپ بھی حاصل کر لی.ازاں بعد سرگودھا بورڈ کے زیر انتظام منعقد ہونے والے انٹر ڈویژنل میچوں میں تمام ٹیموں کو شکست دے کر باسکٹ بال میں چیمپین شپ جیت لی اور اسے ڈویژنل انسپکٹر صاحب سرگودھا ڈویژن نے بایں الفاظ خراج تحسین پیش کیا کہ ربوہ کی باسکٹ بال ٹیم تو قومی شہرت حاصل کر 18 چکی ہے“..جماعت احمدیہ نائیجیریا کے سرگرم رکن ڈاکٹر فتاحی گیو لیکچرار ابادان یو نیورسٹی کو عالمی ادارہ موسمیات (World Meteorological Organisation کی طرف سے ریسرچ کے اوّل انعام کا مستحق قرار دیا گیا.یہ انعام جو ایک خاص سند اور ۳۳۳ پونڈ کے نقد عطیہ پر مشتمل تھا.اس ادارے کی طرف سے دیئے جانے والے سلسلہ انعامات کا سب سے پہلا انعام تھا.یہ انعامات ہر چار سال کے بعد اس سائنسدان کو دیئے جاتے ہیں جس نے موسمیات کی سائنس میں تحقیق پر خاص امتیاز 19 20 حاصل کیا ہو.امسال ۱۹۷۰ء میں مکرم سلیم احمد خان صاحب نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بی.ایس.سی انجینئیر نگ یونیورسٹی مغلپورہ (لاہور) کے سول ڈیپارٹمنٹ کے فائنل ائیر میں پانچویں پوزیشن حاصل کر کے دو گولڈ میڈل حاصل کئے.10 ا.ڈاکٹر رشید الدین خان (ابن حضرت نواب اکبر یار جنگ صاحب) پروفیسر صدر شعبہ سیاسیات اور ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنس عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد ( انڈیا ) کو صدر جمہوریہ ہند نے انڈین پارلیمنٹ کی راجیہ سبھا ( ایوان بالا ) کا ممبر نامزد کیا.ڈاکٹر صاحب سابق مملکت حیدرآباد کے

Page 352

تاریخ احمدیت.جلد 26 342 سال 1970ء ایک ممتاز اور معروف احمدی خاندان کے چشم و چراغ ہیں.اس کے علاوہ موصوف ہندوستان کے مختلف علمی اور تحقیقاتی اداروں ،انجمنوں اور یونیورسٹیوں سے مختلف حیثیتوں میں تعلق رکھتے ہیں.ایک اہم اعزاز جو آپ کو حاصل ہوا وہ ان کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوبیسویں اجلاس کے لئے حکومت ہند کے دور میں اسپیشل ایڈوائزر کم ممبر کی حیثیت میں انتخاب تھا.ڈاکٹر رشیدالدین خان کے بڑے بھائی جناب غلام احمد خان صاحب آندھرا ہائی کورٹ کے سینئیر اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایڈووکیٹ رہے ہیں.ایک دعوت عصرانہ ۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء کوم بجے شام قصر خلافت میں سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ظفر اللہ الیاس صاحب آف نائیجیریا نیز جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تمام غیر ملکی طلباء اور غیر ممالک سے انہی دنوں مرکز سلسلہ میں واپس تشریف لانے والے مبلغین کرام کو شرف ملاقات اور دعوت عصرانہ سے نوازا.اس دعوت میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ، سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ، قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد، مولانا ابوالعطاء صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد بھی شریک تھے.تقریب کے اختتام پر حضور نے دعا کرائی ، تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور غیر ملکی طلباء سے فرداًفرد أحالات بھی دریافت فرمائے.جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان کا انچاسواں سالانہ جلسہ ۴ بخشی بازار روڈ ڈھا کہ میں مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۷۰ء بروز جمعۃ المبارک سے یکم مارچ ۱۹۷۰ء بروز اتوار تک منعقد ہوا.یہ سہ روزہ جلسہ نئی زیر تعمیر مسجد کی وسیع و عریض چھت کے نیچے منعقد ہوا.مشرقی پاکستان کے ہر علاقہ سے تقریباً ۷۰ جماعتوں کے ایک ہزار کے قریب نمائندے جلسہ میں شریک ہوئے.ان کے علاوہ مقامی طور پر کثرت سے احباب جماعت اور غیر از جماعت احباب جلسہ کی فیوض و برکات سے مستفید ہوتے رہے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت مرکز سے محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد اور مولانا سلطان محمود صاحب انور کو جلسہ میں شرکت کے لئے بھجوایا.مقامی جماعت نے بڑی گرم جوشی سے مقامی ہوائی اڈے پر ان معزز مہمانوں کا استقبال کیا.جلسہ کے

Page 353

تاریخ احمدیت.جلد 26 343 سال 1970ء دوران ان کے نہایت پر مغز اور ایمان افروز خطبات کے علاوہ مشرقی پاکستان میں مصروف عمل مربیان سلسلہ و دیگر اہل علم حضرات نے مختلف اہم موضوعات پر نہایت مفید و مؤثر تقاریر فرما ئیں.ہرا جلاس بھر پور حاضری و کامیابی سے ہمکنار رہا.دوران جلسہ سات افراد نے بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ کے آسمانی نظام میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کی.23 جماعت احمد یہ برہمن بڑ یہ مشرقی پاکستان کا جلسہ سالانہ مورخہ ۶ ، ۷، ۸ مارچ جماعت احمدیہ بڑیہ کا اکیا و نواں جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس کی صدارت مولوی محمد صاحب امیر جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان نے کی.اس جلسہ میں مکرم راجہ نصیر احمد صاحب مربی سلسله، مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائکپوری اور مولانا سلطان محمود صاحب انور نے تقاریر کیں.جلسہ کے دوسرے روز مستورات کا اجلاس منعقد ہوا جس میں ناصرات نے مقالے پڑھ کر سنائے اور مستورات نے تقاریر کیں.تعلیم الاسلام ہائی سکول کا سالانہ جلسہ تقسیم انعامات ۸ مارچ ۱۹۷۰ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کی تقریب ہوئی.ملک حبیب الرحمن صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے سالانہ رپورٹ میں سکول کی تعلیم د مینیات و تاریخ کی امتیازی خصوصیت اجاگر کرنے کے علاوہ اس کی بعض تعلیمی وتربیتی سرگرمیوں اور ان کے نہایت خوشکن نتائج پر روشنی ڈالی.رپورٹ کے بعد چوہدری اصغر علی صاحب ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز سرگودھا ڈویژن نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ” نصابی اور نیم نصابی سرگرمیوں میں اس سکول کی کامیابیاں فی الحقیقت قابل مبارک باد ہیں مجھے یہ اظہار کرتے ہوئے مسرت ہوتی ہے کہ یہ مدرسہ اس ڈویژن کے ہائی سکولوں میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے قدرتی طور پر اصلاح اور ترقی کی گنجائش ابھی کافی حد تک باقی ہے.مجھے پوری امید ہے کہ صورت حالات مستقبل میں مزید بہتر ہوتی چلی جائے گی اور موجودہ ہیڈ ماسٹر ملک حبیب الرحمن صاحب کی راہنمائی میں یہ سکول خوب سے خوب تر ہوتا جائے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ملک صاحب موصوف جیسے تجربہ کے حامل رئیس مدرسہ کا ہونا اس سکول کے مستقبل کے لئے ایک نیک فال ہے.25

Page 354

تاریخ احمدیت.جلد 26 344 سال 1970ء لندن ٹائمنر کی اسلام کے خلاف بہتان طرازی انگلستان کے مشہور روزنامہ ”ٹائمز“ کی ۱۴ مارچ ۱۹۷۰ ء کی اشاعت میں اسلامی تعلیمات پر ایک نہایت گندا حملہ کیا گیا جس میں لکھا گیا کہ نعوذ باللہ قرآن کی رُو سے انسان کے بطن سے خدا پیدا ہو محترم مرزا مبارک احمد صاحب جو اس وقت وکیل التبشیر تھے، نے اس پر تحریر فر مایا کہ:.اس قسم کی باتوں کو اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں.مسلمان تو بہر حال جانتے ہی ہیں کہ اسلام پر یہ بہتان ہے.بلکہ عیسائی پادری بھی اچھی طرح سے واقف ہیں کہ یہ عقیدہ نہ قرآن میں پایا جاتا ہے اور نہ کسی حدیث میں اس کا نشان ملتا ہے.قرآن شریف نے تو غیر مبہم اور نہایت واضح الفاظ میں اس مکروہ تصور کی تردید فرمائی ہے چنانچہ فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ.اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ یعنی ہم ہر زمانہ کے مسلمان کو حکم دیتے ہیں کہ تو دوسرے لوگوں سے کہتا چلا جا کہ اصل بات یہ ہے کہ اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے.اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں.نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ جنا گیا ہے اور اس کی صفات میں اس کا کوئی بھی شریک کار نہیں.“ امام مسجد لنڈن محترم بشیر احمد صاحب رفیق نے اخبار کے ایڈیٹر سے اس نوٹ کے خلاف احتجاج کیا.نیز انگلستان میں مقیم تمام مسلمان سفراء اور اخباری نمائندگان کو بھی اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اسلام کے خلاف لکھی جانے والی ایسی فضول اور دور از کار باتوں کا نوٹس لیں.لنڈن ٹائمنز جیسے مؤقر اخبار میں ایسے بہتان کی اشاعت نہایت قابل افسوس امر ہے.اس جگہ اس امر کا اظہار بھی ضروری ہے کہ عیسائی پادری اپنی ان کوششوں میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے اور انہیں مونہہ کی کھانی پڑے گی.26 ایک احمدی نوجوان کی قابلِ تقلید خدمت خلق ۱/۲۹اپریل ۱۹۷۰ء کی رات کو شیخو پورہ کے محلہ رسول نگر میں انٹرکالج شیخو پورہ کے لیکچرار محمد اشرف صاحب کے مکان پر ڈکیتی کی ہولناک واردات ہوئی.ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے تمام محلہ میں سنسنی پھیلا دی.لوگ خوف و ہراس کی وجہ سے اپنے اپنے مکانوں میں دبک گئے.

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد 26 345 سال 1970ء ڈاکوؤں نے انتہائی دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محلہ کے جس مکان سے اہل خانہ کی مدد کی گئی ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا جس کی بناء پر پروفیسر بھٹی صاحب کے ہمسایہ محمد لطیف صاحب پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی جس کے نتیجہ میں کافی تعداد میں چھرے ان کے سینے، پیٹ اور بازوؤں میں پیوست ہو گئے.اس کے علاوہ محمد لطیف صاحب کی بیوی مسرت، ان کی چار سالہ بچی ممتاز اختر اور بھاوج زبیدہ بی بی صاحبہ بھی چھرے لگنے سے زخمی ہو گئیں.اس سانحہ کا سب سے دردناک پہلوز بیدہ بی بی صاحبہ کی تین سالہ بچی بشری کی ہلاکت تھی جو فائرنگ کی آواز سے خوفزدہ ہو کر کمرے میں داخل ہو رہی تھی کہ ڈاکوؤں کی گولیوں کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئی.28 اس دردناک حادثہ کی اطلاع جو نہی شیخوپورہ کے ایک احمدی نوجوان چوہدری عبدالرحمن صاحب ثانی (ابن چو ہدری مہتاب دین صاحب.آپ ان دنوں ایل ایل بی کے طالبعلم تھے.) کو ہوئی تو آپ فوراً جائے واردات پر پہنچے اور تمام زخمیوں کو اپنی کار میں ڈال کر سول ہسپتال پہنچا دیا اس بر وقت امداد کی وجہ سے صرف ایک جان ضائع ہوئی ورنہ اندیشہ تھا کہ باقی زخمی بھی کہیں دم نہ تو ڑ دیتے.اس کے بعد چوہدری صاحب پولیس سٹیشن پہنچے اور سپاہیوں کو ساتھ لے کر ڈاکوؤں کا تعاقب کیا.ڈاکو سڑک پار کر رہے تھے کہ ان کی کار پہنچ گئی.پولیس نے ڈاکوؤں کو للکارا تو ڈاکو رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کے ایک ساتھی کو پولیس نے قابو کر لیا.تلاشی لینے پر اس سے پستول اور بندوق برآمد ہوئی اور پھر اس کی نشاندہی پر پولیس نے باقی ڈاکوؤں کا سراغ بھی لگالیا اور گرفتاریاں شروع کر دیں.ایس پی شیخو پورہ اور عوام نے چوہدری عبدالرحمن صاحب کی شجاعت اور جذبہ خدمت خلق پر خراج تحسین پیش کیا اور ایس پی صاحب نے پولیس کے ساتھ تعاون پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا.جو مظلوم خاندان زخمی ہوا اگر چہ احمدی نہیں تھا لیکن جماعت احمدیہ شیخوپورہ نے اس کی مالی امداد کرنے کی سعادت حاصل کی.29 گورو نانک جی کا اسلام اور مسلمانوں سے تعلق نومبر ۱۹۶۹ء میں سکھ دنیا نے گورونانک جی کا پانصد سالہ جنم دنیا بھر میں بڑی دھوم دھام اور شان وشوکت سے منایا.اس موقعہ پر نظارت اصلاح وارشادر بوہ نے ایک کتاب ”گورونانک جی کا فلسفہ

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد 26 346 سال 1970ء توحید کے نام پر شائع کی جو گیانی عباداللہ صاحب کی تصنیف ہے.سرسہ (Sirsa) ضلع حصار (بھارت) کے ایک سکھ و دوان سردار گورمیت سنگھ جی ایڈووکیٹ نے جو خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں اس پر تبصرہ کیا جو انبالہ چھاؤنی کے ماہوار رسالہ گورونانک اولیش کے مئی ۱۹۷۰ء کے پرچہ میں شائع ہوا.آپ لکھتے ہیں: گورو نانک جی کے پانصد سالہ جنم دن منانے کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ ہر ایک مصنف نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق ان کی زندگی کے الگ الگ پہلو پیش کرنے کی کوشش کی ہے.گور وصاحب کا مسلمانوں سے اور اسلام سے ایک خاص تعلق تھا اور یہی وجہ ہے کہ جب گوروجی کی وفات ہوئی تو مسلمانوں نے ان کی نعش پر یہ کہ کر اپنا حق جتلایا کہ گور وصاحب ان کے ایک بزرگ تھے.گور و صاحب اخوت اور مساوات کے اپاسک تھے اور تمام مذاہب کے ماننے والے ان کا احترام کرتے تھے اور انہیں اپنا ایک بزرگ تصور کرتے تھے.ایک شاعر کا بیان ہے کہ گورو نانک شاہ فقیر ہندو کا گورو مسلمان کا پیر سیاسی حالات نے پلٹا کھایا اور سکھ اور مسلمان مذہبی طور پر ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی سما جک اور سیاسی طور پر ایک دوسرے سے بہت دور ہو گئے.لیکن مسلمانوں کے دلوں میں گورونانک جی کی کتنی عزت ہے اس کا ثبوت نومبر ۱۹۶۹ء میں ننکانہ صاحب میں گورو صاحب کے جنم کے دن کے وقت ملا.مسلمانوں نے گوردوارے کے اندر آ کر گورو صاحب کو شردھا نجلی بھینٹ کی اور مسلمانوں نے جنم دن سے متعلق نکالے گئے جلوس میں شامل ہوکر اور اپنے مکانوں کی چھتوں پر بیٹھ کر پھولوں کی بارش کی.اس موقعہ پر نظارت اصلاح و ارشاد (صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ ) نے گیانی عباد اللہ صاحب کی مصنفہ ایک کتاب شائع کی.گیانی جی لا ہور ریڈیو سے پروگرام پنجابی دربار میں گور بانی اور اس کی تفسیر اور سکھ تاریخ پر مضامین پیش کرتے ہیں.آپ کا یہ پروگرام بہت سنا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ تو بلا ناغہ روزانہ ہی سنتے ہیں.گورونانک جی کے زمانہ کے مسلمانوں کی طرح گیانی جی نے بھی اپنی کتاب ”گورونانک جی کا فلسفہ توحید میں گورو جی کو ایک مسلمان پیر اور اسلام کا مبلغ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.کتاب کے

Page 357

تاریخ احمدیت.جلد 26 صفحہ اول پر ہی یہ لکھا ہے کہ 347 بتایا گیا اس کو الہام میں کہ پائے گا تو مجھ کو اسلام میں سال 1970ء میرے خیال میں ہمیں اس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش ہونا چاہیے کہ گورو صاحب کا مشن کسی ایک مذہب یا قوم تک محدود نہ تھا بلکہ سب کے لئے یکساں تھا.گور وصاحب کے پر چار کا یہ خاص ڈھنگ تھا کہ وہ ہر ایک کو اس کے مذہب کے اصول کے مطابق ہی سچائی سمجھاتے تھے جس کی وجہ سے ہر شخص انہیں اپنے مذہب کا ہی مبلغ خیال کرتا تھا.یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر لوبلن اور ڈاکٹر میکلینڈ ایسے عیسائی و دوان بھی انہیں عیسائی دھرم سے تعلق رکھنے والا بزرگ سمجھتے تھے.مختلف مذاہب کے موازنہ کا شوق رکھنے والوں کے لئے گیانی عباداللہ صاحب کی یہ کتاب دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی.اس کے پہلے حصہ میں یہودی ، عیسائی، ویدک دھرم، سناتن دھرم اور آریہ سماج نیز پارسی مذہب میں خدا تعالیٰ کا جو تصور (Conception of God) ہے اسے بیان کر کے گورو جی کے فلسفہ سے اس کا موازنہ کیا گیا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام مذہب ہی تمام مذاہب کے مقابلہ میں گوروجی کے فلسفہ کے قریب ہے.اس کتاب کے باقی دوحصوں میں پوجا، نماز، قیامت، جنت اور شیطان وغیرہ سے متعلق اسلام اور گورونانک جی کے خیالات پیش کئے گئے ہیں.یہ کتاب اردو میں ہے اور مہتمم صاحب نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشادر بوه ضلع جھنگ 30 66 پاکستان نے شائع کی ہے“.نواب بہادر یار جنگ مرحوم پر معلومات افروز مقاله مسلمانان ہند کے ممتاز مسلم لیڈر قائد اعظم کے دست راست اور انجمن اتحادالمسلمین کے صدر نواب بہادر یار جنگ (ولادت ۱۹۰۵ ء وفات ۲۵ جون ۱۹۴۴ء) کے جماعت احمدیہ سے گہرے روابط و مراسم کا تذکرہ تاریخ احمدیت جلد نہم (صفحہ ۴۳ - ۴۹) میں گذر چکا ہے اس ضمن میں نواب صاحب کے سفر قادیان (مارچ ۱۹۴۰ء ) اور ان کے تاثرات بھی بتائے جاچکے ہیں.اس سال مجلس اتحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے قدیم ترین احمدی رکن اور نواب بہادر یار جنگ کے سرگرم رفیق کا رسیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی نے نواب صاحب مرحوم کی زندگی، سیرت نیز ان کی ملتی خدمات اور

Page 358

تاریخ احمدیت.جلد 26 348 سال 1970ء کارناموں پر ایک مبسوط اور معلومات افروز مقاله سپرد قلم فرمایا جو مئی ۱۹۷۰ء کی شام کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے خصوصی اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا جس کی صدارت قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے ( کینٹب) پرنسپل نے کی.سیٹھ صاحب نے اپنے پر مغز مقالہ میں بتایا کہ ان کی زندگی دکن کے مسلمانوں کی قومی تاریخ کا سب سے زیادہ دلکش اور زریں باب ہے.ان کی قومی وملی خدمات ان کے روشن اور درخشندہ کارنامے ہیں.ان کے کارناموں کو اس نظر سے دیکھنا کہ یہ کسی فرد واحد کی ذات سے متعلق تھے شاید صحیح نقطہ نظر نہ ہو.ان میں ایک نیم مردہ قوم کا شعور بیدار ہوتا نظر آتا تھا اور صداقت وخلوص ، جرأت و بیبا کی ، عزم وولولہ، ایثار و قربانی ایسا معلوم ہوتا تھا پھر سے زندہ ہو گئے ہیں.ایک مسلسل تڑپ ، ایک پیہم کوشش ، ایک لگا تار تگ و دو، ایک لگن یا غالب کے الفاظ میں ایک جذبہ بے اختیار تھا جو بہادر یار جنگ کی مختصر زندگی کے ہر پہلو میں جاری وساری دکھائی دیتا تھا اور اسی جذبہ بے اختیار کی جھلکیاں ان کے کارناموں میں نظر آتی ہیں.نواب بہادر یار جنگ کو فن خطابت میں جو ید طولیٰ حاصل تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے صاحب مقالہ نے ان کی تقریروں کے چیدہ چیدہ اقتباسات پیش کر کے ثابت کیا کہ وہ ایک سحر طراز اور جادو بیان مقرر تھے اور سامعین ان کی سحر بیانی سے اس قدر متاثر ہوتے کہ ان کے ایک اشارہ پر قومی وملی مفاد کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہو جاتے.ان کے اس غیر معمولی وصف کے ضمن میں صاحب مقالہ نے فرمایا اس ساحری کا اصل راز در اصل ان کا جذب اندروں تھا، ان کی تڑپتی ہوئی روح تھی، ان کا مچلتا ہوا دل تھا عشق کی بھڑکتی ہوئی آگ تھی اور ان کی نوائے تیز تھی جو محفل کو گرمائے رکھتی تھی.صاحب مقالہ نے نواب صاحب مرحوم کی سیرۃ کے اس پہلو کو بھی بہت عمدہ اور موثر انداز میں پیش کیا کہ نظام دکن میر عثمان علی خان مرحوم کے ساتھ ایک قومی وملی معاملہ میں مخالفت اور ان کی ناراضگی کے پیش نظر نواب صاحب مرحوم نے بلا توقف اپنا خطاب اور چار لاکھ روپے سالانہ آمد کی جا گیر اور دیگر اعزازات یہ کہ کر واپس کر دئیے کہ ”میں اُن (نظام) سے اپنی غیر متزلزل ہر قسم کے شبہ سے پاک عقیدت کے باوجود سمجھتا ہوں کہ ان کی ناراضگی کے بعد وہ رزق میرے لئے جائز نہیں ہے جوخدا نے ان کے ذریعہ مجھے دیا ہو.اور جنسی خوشی پھر عسرت و تنگی کی زندگی اختیار کر لی اور جب نظام دکن نے جاگیر بحال کرنا چاہی تو اس مرد غیور نے اسے واپس لینے سے انکار کر دیا.

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد 26 349 سال 1970ء الغرض مقالہ بہت محنت سے تیار کیا گیا تھا اور اس پر زبان و بیان کی خوبی نے اسے چار چاند لگا دیئے تھے.مقالہ کے بعد بحث کے دوران سیٹھ محمد اعظم صاحب نے افراد جماعت احمدیہ کے ساتھ نواب صاحب مرحوم کے دوستانہ تعلقات اور ان کی طرف سے جماعت احمدیہ کی علمی اور اسلامی خدمات کے اعتراف اور قادیان میں ان کی تشریف آوری پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی.آخر میں صدر مجلس نے کامیاب مقالہ پیش کرنے پر سیٹھ صاحب کو مبارک باد دی.ربوہ کا ذکر ہفت روزہ سنگ میل میں ہفت روزہ سنگ میل (تیہ ) (لیہ پہلے مظفر گڑھ کے ضلع میں تھا اب یہ خود ضلع بن گیا ہے ) نے اس سال ربوہ.پاکستان کا پہلا فلاحی اور مثالی شہر کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا:.مغربی پاکستان کے رومانی دریا چناب کے شمالی کنارے پر ایک ایسا شہر آباد ہے جو پاکستان کے پہلے فلاحی اور مثالی شہر کی حیثیت سے آہستہ آہستہ ابھر رہا ہے.جس خطہ ارضی پر یہ شہر آباد ہے آج سے بیس سال قبل وہاں پر چند خشک پہاڑی ٹیلوں کے دامن میں شور زدہ بے آب و گیاہ چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ تھا.پورے ماحول پر پر ہول فضا میں صدیوں سے گہری خاموشی کی پر اسراریت کا ہیولہ قائم تھا سبزے اور ہرے بھرے درختوں کا دور دور تک کہیں نشان نہ ملتا تھا.زیر زمین پانی کا جو ذخیرہ تھا وہ نا قابل استعمال اور سخت کڑوا تھا.ان تمام عوامل قدرت نے مل کر اس خطہ کو انسانی تصرف کے نا قابل اور غیراہم بنادیا تھا.حکومت کے ریکارڈ میں بھی یہ علاقہ نا قابل کاشت اور بنجر تھا.یہی وجہ ہے کہ کسی کی اس پر نظر نہ اٹھتی تھی لیکن قدرت کی کتاب میں اس خطہ ارضی کے لئے ایک وقت مقرر تھا.ایک موڑ جو صبح ستارے کی طرح طلوع ہوتا اور نئی برکتیں دے جاتا ہے.میں سال پہلے ایک خاموش صبح کے ظہور کے ساتھ ہی اس خطہ زمین نے انقلابی کروٹ لی اور یہاں چند باہمت دیوانوں نے ناممکن کو ممکن بنانے ، نیست کو ہست میں بدلنے کے لئے ڈیرے ڈال دیئے.وہ یہاں کی گھمبیر خاموشی کو عارضی وقفے کے لئے توڑنے ہی نہیں بلکہ ایک رواں دواں شہر آباد کرنے کے لئے جوان ولولے لے کر گھروں سے نکلے تھے.اب یہی مسکرا تا شہر اپنی جواں ہمت دیوانوں کے خواب کی حسین تعبیر بن کر ابھر رہا ہے.یہ شہر

Page 360

تاریخ احمدیت.جلد 26 350 سال 1970ء انسانی شرف عز و جاہ اور ولولہ خیز قیادت کی جیتی جاگتی لا زوال مثال ہے.کسی شہر کی ترقی کا انحصار اس کے باشندوں کے احساس ذمہ داری اور فرائض کی بجا آوری میں مضمر ہوتا ہے کہ وہ کہاں تک مخلص، کس قدر اشتراک با ہمی اور شہری شعور کی دولت سے بہر مند ہیں.یہ عجیب اتفاق ہے یہ تمام اوصاف اس شہر کے شہریوں میں اکٹھے ہو گئے ہیں.چنانچہ اس شہر کی تمام تر فلاحی و معاشرتی ترقیات سو فیصد امداد باہمی کے اصولوں اور اجتماعی خیر سگالی کے جذبے کی رہین منت ہیں.ہر شہری مستقل مزاجی ، پورے اخلاص اور ذمہ داری کے احساس سے بہرہ مند اور فرائض کی بجا آوری میں انتہائی سنجیدگی سے حصہ لیتا آرہا ہے.یہاں کے معاشرے میں ایک خاص قسم کا نظم و ضبط اور شہری شعور کا مکمل احساس بیدار ہے یہی وجہ ہے کہ شہر کے رہنے والوں کی قوت کار اور عملی جدو جہد کے نتائج قیاس آرائی سے بڑھ کرامید افزا ثابت ہوتے رہے ہیں.اس خوش نصیب شہر میں جہاں کی آبادی اگر چہ میں ہزار سے متجاوز نہیں (اب تقریباً ۵۰ ہزار سے زائد ) لڑکوں اور لڑکیوں کے علیحدہ علیحدہ دو ڈگری کالج نیز ایم اے تک کلاسوں کے لئے پانچ مربع اراضی پر مشتمل نہایت دیدہ زیب نہایت پُر سکون و خاموش ماحول میں کم و بیش چالیس لاکھ سے زائد روپیہ کی خطیر رقم سے عظیم درسگاہ قائم کی گئی ہے جو غالباً ملک بھر میں ایم اے تک پرائیویٹ سرمایہ سے چلنے والی پہلی درسگاہ ہے.جیسا کہ امکانات سے ظاہر ہے اس درسگاہ کے وسیع وعریض احاطے میں میڈیکل اور ٹیکنیکل اداروں کے علاوہ لاء کالج اور بی ایڈ کی درسی کلاسز کا بھی آگے چل کر بخوبی اضافہ ہو سکے گا.جیسا کہ ماہرین تعلیم کی رائے ہے.ربوہ میں اسی قسم کے معجزے ہمیشہ ظہور پذیر ہوتے رہیں گے.یہ شہر دنیا کے ان چند منفرد مثالی شہروں میں سے ایک ہے جہاں کے تمام شہری کیا بلحاظ مرد اور کیا خواتین سبھی زیور تعلیم سے یکساں آراستہ اور معاشرے کے اعلیٰ شعور سے بہرہ مند ہیں.علم و ہنر کا یہی شعور نئی منزلوں کے سر کرنے میں مہمیز کا کام دیں گے.تاہم آج بھی یہ شہر اپنی لا تعداد علمی وادبی درسگاہوں اور مخصوص تعلیمی ماحول کے باعث حقیقی معنوں میں گہوارہ علم و عمل کی صورت اختیار کر چکا ہے.جہاں بلا امتیاز مذہب ملک کے کونے کونے سے آکر تشنگانِ علم اپنی پیاس اس چشمہ شیریں سے بجھاتے ہیں.ان درسگاہوں سے ہزاروں گھرانوں کے نو نہال اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ملک کے ہر حصہ میں قوم

Page 361

تاریخ احمدیت.جلد 26 351 سال 1970ء وملت کی اہم ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے میں صف بہ صف قدم بہ قدم شامل ہیں.کردار سازی کے لئے خاموش اور پرسکون ماحول کی اہمیت مسلمہ ہے.حصول تعلیم کے لئے ہر صحت مند فضا اور خاموش ماحول ماہرین تعلیم کی نظر میں انتہائی ناگزیر ہے.ربوہ میں اس ماحول کی فراوانی عام ہے جہاں بڑے شہروں کی طرح ہنگامہ آرائی اور شور وفغاں کا نام کوگز نہیں“.خدام الاحمدیہ کی سترھویں سالانہ مرکزی تربیتی کلاس مورخه ۱۵ مئی ۱۹۷۰ء بروز جمعتہ المبارک چھ بجے شام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام خدام الاحمدیہ کی سترہویں سالانہ مرکزی تربیتی کلاس ایوان محمود میں شروع ہوئی.محترم جناب سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے ایوان محمود میں تشریف لا کر اجتماعی دعا کے ساتھ کلاس کا افتتاح فرمایا.یہ کلاس پندرہ روز تک کامیابی سے جاری رہنے کے بعد مورخہ ۲۹ مئی ۱۹۷۰ء کو خیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی.۲۹ مئی کو ہی مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد کی زیر صدارت اختتامی تقریب منعقد ہوئی.آپ نے پاس ہونے والے طلباء میں سندات وانعامات تقسیم فرمائے.اس کلاس میں پاکستان کے مختلف علاقوں کی ۱۳۹ مجالس خدام الاحمدیہ کے ۲۱۷ نمائندگان نے شرکت کی.احمد یہ دار المطالعہ کراچی میں نمائش 33 سیرت کونسل کراچی کے زیراہتمام احمد یہ دارالمطالعہ بندر روڈ پر پندرہ روزہ نمائش تراجم و تفاسیر القرآن منعقد کی گئی.اس نمائش کا افتتاح محترم جناب میجر جنرل محمد اکبر خان صاحب (ریٹائرڈ) نے فرمایا.نمائش کی افتتاحی تقریب ۶ جون ۱۹۷۰ء کو چھ بجے شام جائے نمائش کے سامنے تلاوت قرآن مجید سے شروع ہوئی.جو مکرم قاری محمد یوسف الدین صاحب نے کی.اس کے بعد ثاقب زیروی صاحب نے قرآن مجید کی شان میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام ”نور فرقاں ہے جوسب نوروں سے اجلی نکلا خوش الحانی سے پڑھا.بعدہ مولوی محمد اجمل صاحب شاہد مربی سلسلہ کراچی نے مختلف سفارتخانوں کی طرف سے نمائش کے انعقاد پر مبارکباد اور اس کی کامیابی کے لئے جو پیغامات موصول ہوئے تھے وہ پڑھ کر سنائے.ازاں بعد چوہدری احمد مختار صاحب چیئر مین سیرت کونسل نے افتتاحیہ پڑھا جس میں اس نمائش کی غرض و غایت اور خصوصیات کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے.اس لئے اس کے معانی و مطالب اپنے اندر بے پناہ وسعت رکھتے ہیں اور ان کا

Page 362

تاریخ احمدیت.جلد 26 352 سال 1970ء احاطہ کسی طرح بھی ممکن نہیں.اس لحاظ سے قرآن مجید کی تفسیر میں اگر چہ بہت زیادہ اور غیر معمولی کام ہوا ہے لیکن اس کے خزائن ختم نہیں ہوئے بلکہ قیامت تک ضروریاتِ زمانہ کے لحاظ سے اس میں سے نت نئے معارف و حقائق نکلتے رہیں گے.اس کے بعد میجر جنرل محمد اکبر خان صاحب نے خطاب فرمایا اور اس قسم کی دینی نمائش کے انعقاد پر منتظمین کو مبارک باد پیش کی اور کہا کہ جماعت احمدیہ کو قرآن مجید سے شغف اور دلی محبت ہے اس کا مظاہرہ اس نمائش سے واضح طور پر ہوتا ہے.آپ نے کہا کہ قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جس کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس میں ہمارے تمام مسائل کا حل موجود ملتا ہے.چنانچہ موجودہ زمانہ کے دفاع اور طریق جنگ کے متعلق اسلام نے جو راہنمائی فرمائی ہے وہ بڑی عظیم اور شاندار ہے اور کئی قو میں اس کی نقل کر رہی ہیں اور کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں اس لئے ہماری کامیابی کا راز بھی اسی میں مضمر ہے کہ ہم قرآن کریم پر تدبر کریں اور اس کی بتلائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں.اس کے بعد جنرل صاحب نے فیتہ کاٹ کر نمائش کا افتتاح فرمایا اور تمام نمائش کو ملاحظہ فرمایا اور تراجم قرآن کریم کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے عظیم الشان کام کو سراہا.نمائش میں دنیا کی مختلف اہم زبانوں میں تراجم قرآن مجید اور عہد اولی سے لے کر زمانہ حاضرہ تک مختلف مکاتیب فکر کی تفاسیر قرآنی اور حضرت عثمان بن عفانؓ کا وہ تاریخی نسخہ جس کے تلاوت کرتے ہوئے آپ شہید ہوئے تھے اور جس کا اصل نسخہ تاشقند میں ہے اس کی فوٹو کاپی بھی رکھی گئی تھی.اسی طرح متعدد نادر قلمی تفاسیر اور قرآن مجید کے نسخے رکھے گئے تھے.ان تمام تبرکات اور قرآن مجید کے متعلق علمی ذخائر کو دیکھ کر دل پر عجیب کیفیت وارد ہوتی تھی.چنانچہ معزز مہمان نے اپنے انہی تاثرات کو یوں قلمبند فرمایا:.مجھے یہ دیکھ کر از حد مسرت ہوئی کہ یہ ادارہ اس قدر عمدہ کام سرانجام دے رہا ہے اللہ تعالیٰ اور بھی ہمت اور کامیابی عطا فرمائے.آمین چوہدری احمد مختار صاحب چیئر مین سیرت کونسل نے آپ کو تفسیر صغیر اور تفسیر سورۃ فاتحہ بطور تحفہ پیش کی اور جنرل صاحب نے اپنی تین تازہ تصنیفات لائبریری میں استفادہ عام کے لئے مرحمت فرما ئیں.نمائش کو دیکھنے کے لئے سینکڑوں افراد باہر منتظر کھڑے تھے.چنانچہ جنرل صاحب کی روانگی کے بعد احباب نے جوق در جوق نمائش کو رات دس بجے تک دیکھا اور ہر طبقہ خیال کے احباب نے اس نادر اور شاندار نمائش پر انتہائی پسندیدگی کا اظہار فرمایا.34

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد 26 353 سال 1970ء تعلیم الاسلام کالج کی مسجد کا سنگ بنیاد ۲۴ جون ۱۹۷۰ء کو سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی مسجد کا سنگ بنیا درکھا.بعد ازاں حضور کے ارشاد پر چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ شیخوپورہ نے امراء اضلاع کی نمائندگی کرتے ہوئے اور میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودھا نے طلباء قدیم کی نمائندگی کرتے ہوئے دو اینٹیں علی الترتیب نصب کیں.بعد ازاں پروفیسر صوفی بشارت الرحمن صاحب قائمقام پر نسپل اور بعض سینئر ممبران اسٹاف نے ایک ایک اینٹ رکھی.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی.اس تقریب پر حاضرین کی شیرینی اور مشروبات سے تواضع کی گئی.مدیر اہل حدیث کا چیلنج اور پھر خاموشی رسالہ اہل حدیث لاہور کے ایڈیٹر حافظ احسان الہی صاحب ظہیر نے اپنے رسالہ کی اشاعت جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ پر مولانا ابوالعطاء صاحب مدیر الفرقان ربوہ کو چیلنج کیا کہ ”ہم آج بھی آپ کو سر عام دعوت دیتے ہیں کہ جس موضوع پر اور جہاں چاہیں ہم سے تقریری یا تحریری گفتگو کر لیں.مولانا نے یہ علمی دعوت بخوشی قبول کر لی اور دوا ایسے موضوع مقرر کر دیے جن میں کوئی اشتعال انگیزی نہ ہو سکے یعنی ا.آیت فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی میں توفی سے مراد قبض روح بمعنی موت ہے.۲.قرآن مجید کی آیات میں نسخ.نیز واضح کیا کہ پہلے موضوع میں ہم مدعی ہوں گے اور دوسرے میں مدیر اہل حدیث.پرچے تحریری ہوں گے.پہلا اور آخری پرچہ ہر مضمون میں مدعی کا ہوگا.ہرمنا ظر تحریری پر چہ فریق ثانی کو بصیغہ رجسٹری بھیجے گا اور اسے لکھنے کے لئے دو ہفتے ملیں گے.تہذیب و متانت کو مدنظر رکھنا لازمی ہوگا.تاریخ آغاز کا تصفیہ فریقین کے اتفاق رائے سے ہوگا.مولانا ابوالعطاء صاحب کی طرف سے منظوری کا اعلان ہونے پر ظہیر صاحب کی طرف سے کوئی جواب موصول نہ ہوا اور انہوں نے عملاً خاموشی اختیار کر لی لیکن ساتھ ہی ایک دوسرے رسالہ ترجمان الحدیث ( نومبر ۱۹۷۰ء) میں ایک طویل اور مغلظات سے پر جواب دیا اور توفی کے معنوں پر بحث سے گریز کے لئے مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کی کتاب کی پناہ لی.حالانکہ یہ واضح بات تھی کہ اگر ان کے مزعومہ عقائد میں کوئی معقول دلیل موجود تھی تو وہ اسے بآسانی اپنے پرچے میں درج کر سکتے 36

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد 26 354 سال 1970ء تھے.مولانا ابوالعطاء صاحب نے رسالہ الفرقان ( دسمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۴۱ ۴۲ ) میں ظہیر صاحب کے نام ایک کھلا مکتوب سپرد قلم کیا اور انہیں اسی امر کی طرف توجہ دلانے کے بعد تحریر فرمایا.میں کہتا ہوں کہ اگر اسی طرح پرانی کتابوں کے حوالوں سے گزارا کرنا تھا تو آپ کو کس حکیم نے کہا تھا کہ ابو العطاء کو ایسا چیلنج دیں کیا آپ کو معلوم نہیں کہ باوجود یکہ ابوالعطاء سلسلہ احمدیہ کا ایک ادنی ترین خادم ہے مگر مخالفین کے جوابات پر مشتمل اس کی مشہور کتاب تفہیمات ربانیہ چالیس برس سے لا جواب پڑی ہے“.مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی امداد اگست کے آغاز میں مشرقی پاکستان کے علاقوں ڈھا کہ، کومیلا اورمنشی گنج وغیرہ کے علاقوں میں بہت بڑا سیلاب آیا جس پر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی زیر ہدایت صدر انجمن احمدیہ پاکستان نے مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے پانچ ہزار روپیہ کا چیک جناب گورنر صاحب پنجاب کی خدمت میں ارسال کیا.چیک کے ہمراہ جناب ناظر صاحب امور خارجه صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے جوخط گورنر صاحب پنجاب کے نام ارسال فرمایا.اس کا متن یہ ہے.عزت مآب جناب گورنر صاحب پنجاب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت حافظ میرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی ہدایت کے ماتحت آپ کی خدمت عالیہ میں چیک نمبر 246753/17.8.70-سی مالیتی پانچ ہزار روپے بر نیشنل اینڈ گرینڈ لیز بنک لمیٹڈ لاہور برائے امداد سیلاب زدگان مشرقی پاکستان ہمراہ ہذا ارسال خدمت ہے.اللہ تعالیٰ اپنے خاص رحم سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بداثرات کو جلد از جلد دور کرے اور ملک کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھے.آمین اللہم آمین.والسلام خاکسار مرزا منصور احمد ناظر امور خارجه شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کو صدارتی تمغہ حکومت پاکستان نے ۱۴ راگست کو یوم استقلال کی تقریب پر ملک کے نامور ادیب اور فاضل و محقق شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی لا ہور کو اردو ادب کی اعلیٰ اور قابل قدر خدمات کی بناء پر صدارتی تمغہ اور دس ہزار روپیہ نقد انعام دیا.38.

Page 365

تاریخ احمدیت.جلد 26 355 سال 1970ء (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی تبلیغی مجلس کراچی مکرم کیپٹن شمیم احمد خالد ستارہ امتیاز پاکستان بحریہ سابق مجاہد بیلجیم کا تحریری بیان ہے کہ:.” ۱۹۷۰ء کے سالوں کی دہائی کے آخر کی بات ہے خاکسار کراچی میں تعینات تھا اور مولوی تمیز الدین خان روڈ پر واقعہ نیول رہائشی علاقہ کے C33 فلیٹ میں رہائش پذیر تھا.ان دنوں صاحبزادہ میاں طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید سندھ کے دورہ پر تشریف لائے ہوئے تھے.خاکسار نے ان سے وقت لے کر اپنے کئی ایک دوستوں کو جن کا تعلق بحریہ سے تھا اپنے ہاں عصرانہ پر مدعوکر لیا تا دعوت الی اللہ ہو.معینہ تاریخ پر یہ دوست جمع ہوئے تو میاں صاحب کی آمد میں کچھ تاخیر ہوگئی.معلوم ہوا کہ وہ اندرونِ سندھ دورہ پر تشریف لے گئے تھے اب آتے ہی ہونگے.چنانچہ جلد ہی میاں صاحب آ گئے.سفری پچست لباس میں ملبوس تھے اور سفر کی گرد چہرہ پر نظر آرہی تھی.معلوم ہوا کہ واپسی پر جائے قیام پر نہیں گئے اور سیدھے اپنی اِس Appointment کے لئے یہاں پہنچ گئے.اوپر تشریف لائے اور گفتگو شروع ہوئی.سب مدعوئین سوال کرنے سے ہچکچا رہے تھے.خاکسار نے خود ہی مذہبی موضوع چھیڑ دیا.بات کا رخ جلد ہی وفات مسیح اور ٹیورن کے کفن کی طرف مڑ گیا.میاں صاحب نے بڑی تفصیل سے کفن کے بارے میں سائنسی تحقیق اور اس سے اخذ ہونے والے نتائج کا ذکر کیا.یہ تبلیغی مجلس کوئی دو گھنٹے جاری رہی اس کے بعد میاں صاحب کو جانا پڑا کیونکہ کسی اور جگہ اگلی Appointment تھی.مصروفیت کا عجیب عالم تھا.میاں صاحب کی روانگی کے بعد افسران نے کچھ تبصرے کرنے شروع کر دیئے.کموڈور فاروق مرزا نے جو بعد ازاں ڈپٹی چیف آف نیول سٹاف ( سپلائی ) بنے کہا کہ یہ بات تو ظاہر ہے کہ میاں صاحب Blue Blooded مغل ہیں.نہ صرف شکل وصورت سے بلکہ بات کا انداز شخصیت وغیرہ سب کچھ مغلوں جیسی ہے.تمام افسران جو اس موقعہ پر موجود تھے میاں صاحب سے متاثر ہوئے اور حضور کے خلیفہ بننے کے بعد اپنی اُس ملاقات اور تعلق کا عمدگی سے ذکر کرتے“.پر و فیسر قاضی محمد اسلم صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب 39 محترم پروفیسر محمد اسلم صاحب ایم اے تقریبا پانچ برس ۱۹۶۶ء تا ۱۹۷۰ ء تک تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے پرنسپل کی حیثیت سے فرائض بجالانے کے بعد ریٹائر ہوئے.محترم قاضی صاحب کی راہنمائی

Page 366

تاریخ احمدیت.جلد 26 356 سال 1970ء میں کالج نے بہت ترقی کی.محترم قاضی صاحب موصوف کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کرنے اور انہیں الوداع کہنے کے لئے کالج کے سٹاف کی طرف سے مورخہ ۳۱ را کتوبر ۱۹۷۰ء کو کالج ہال میں ایک الوداعی عشائیہ ترتیب دیا گیا.مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار مشرقی پاکستان کے جنوب مشرقی ساحلی علاقے اور جزیرے وسط نومبر ۱۹۷۰ء قیامت خیز طوفان کی لپیٹ میں آگئے جس سے زبر دست جانی و مالی نقصان ہوا.جس پر حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفة امسح الثالث نے نے انومبر کو ایک برقی پیغام کے ذریعہ صدر پاکستان کو امدادی کاموں اور سرگرمیوں میں ہر ممکن اعانت کا یقین دلایا نیز حضور کی زیر ہدایت ناظر امور عامہ صاحب نے سیلاب زدہ بھائیوں کی امانت کے طور پر ۱۵ ہزار روپے کا چیک صدرمملکت کی خدمت میں ارسال کیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا برقی پیغام ربوہ - ۱۷ نومبر ۱۹۷۰ء بخدمت صدر پاکستان راولپنڈی مشرقی پاکستان میں انتہائی ہلاکت خیز سمندری طوفان سے جوز بر دست جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس پر دل از حد مغموم ہے.سیلاب زدگان کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے میں امدادی کام میں پورے تعاون اور اعانت کا یقین دلاتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمارے سیلاب زدہ بھائیوں اور ہم سب پر اپنا فضل نازل فرمائے.محترم ناظر صاحب امور عامہ کا خط ربوہ ۱۷ نومبر ۱۹۷۰ء بخدمت صدر مملکت پاکستان.راولپنڈی عزت مآب ! مرزا ناصر احمد امام جماعت احمد به یہ معلوم کر کے از حد صدمہ ہوا کہ مشرقی پاکستان کو ایک اور المیہ سے دوچار ہونا پڑا ہے.گذشتہ

Page 367

تاریخ احمدیت.جلد 26 357 سال 1970ء جمعہ کے روز مشرقی پاکستان کے ساحلی علاقے جس سمندری طوفان کی زد میں آئے ہیں اس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ہلاکت خیزی کے لحاظ سے اس کی اور کوئی مثال موجود نہیں ہے اور اس کے نتیجہ میں جس قدر جانی و مالی نقصان ہوا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ امدادی کام اور امدادی سرگرمیوں کو ذاتی طور پر منظم کرنے اور ان کی براہ راست نگرانی کرنے میں خودعزت مآب نے جو مثال قائم کی ہے اس سے قوم کو موجودہ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مدد ملے گی.امام جماعت احمدیہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کی ہدایت کے ماتحت میں اس المیہ کا شکار ہونے والوں کی مالی اعانت کے طور پر چیک نمبر AAL793623 مورخہ ۷ انومبر ۱۹۷۰ ء مالیتی پندرہ ہزار روپے بنام حبیب بنک لمیٹڈ لف ہذا کر رہا ہوں.میں ہوں جناب کا تابعدار مرزا منصور احمد ناظر امور عامه صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ ضلع جھنگ 41 The Cambridge History Of Islam میں جماعت احمدیہ کا ذکر اس سال The Cambridge History Of Islam کی دوسری جلد شائع ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کا خاص طور پر ذکر کیا گیا.کتاب کے بعض اقتباسات مع ترجمہ درج ذیل ہیں.Early in his career, Mirza Ghulam Ahmad(1839 - 1908) of Qadian in the eastern Punjab, took an active interest in the polemics directed agianst the Arya Samajists and the Christian missionaries.In 1889, he experienced a mystical urge which led him to declare himself to be the promised Mahdi or Messiah.His followers, who are known as the Ahmadiyya or the Qadiyanis, developed an organized and trained community in Qadiyan, which was upset after the partition of 1947.There they tried to restore the pristine purity of Islam, and endeavoured to solve economic and social problems within the framework of their brotherhood.They are keen missionaries, and actively propagate Islam in Europe, Africa and America.

Page 368

تاریخ احمدیت.جلد 26 358 سال 1970ء ترجمہ: اپنے دور کے آغاز میں مشرقی پنجاب کی قادیان نامی بستی سے تعلق رکھنے والے مرزا غلام احمد نے آریہ سماج والوں اور عیسائی پادریوں سے مذہبی مباحثوں میں مصروف عمل رہے.پھر سال ۱۸۸۹ء میں آپ نے (اپنے اندر ) ایک ایسی روحانی قوت محسوس کی جس کی بناء پر آپ نے مہدی اور مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا.آپ کو ماننے والوں نے جو احمدی یا قادیانی کہلاتے ہیں، قادیان میں ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت قائم کی جس کو ۱۹۴۷ء کی تقسیم ہند کے بعد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.وہاں انہوں نے کوشش کی کہ اسلام کی صاف شفاف حقیقی صورت حال بحال کی جائے اور معاشی و معاشرتی مسائل کو اپنے جماعتی دائرہ کار میں رہتے ہوئے بہتر بنانے کی کوشش کی.یہ جماعت سرگرم مبلغین کی جماعت ہے جو اسلام کو یورپ، افریقہ اور امریکہ میں پھیلا رہے ہیں.As Messiah, Ghulam Ahmad drew strength from his positive identification with Jesus.The centralized organization of many Christian missions, with professional missionaries, schools, publishing houses, scripture translations, and other modern features, was copied by the Ahmadiyya.These are to be employed in the struggle against Christianity, for the Ahmadiyya is more anti-Christian than syncretist.The Ahmadiyya first appeared on the West African coast during the First World War, when several young men in Lagos and Freetown joined by mail.In 1921, the first Indian missionary arrived.Too unorthodox to gain a footing in the Muslim interior, the Ahmadiyya remains confined principally to southern Nigeria, southern Gold Coast, and Sierra Leone.Its chief importance, to be discussed in the next section, has been its pioneering contribution to Muslim-Western education in Africa.ترجمہ: مسیح کا دعویدار ہونے کے لحاظ سے مرزا غلام احمد مسیح ناصری سے اپنی مشابہت کی وجہ

Page 369

تاریخ احمدیت.جلد 26 359 سال 1970ء سے تقویت حاصل کی.بہت سے عیسائی مشنوں کے بنیادی تنظیمی ڈھانچہ جس میں پیشہ ور پادریوں کا نظام،سکولوں اور طباعت خانوں کا قیام، مذہبی کتابوں کے ترجمے کا کام وغیرہ شامل ہیں، احمد یہ جماعت نے نقل کی ( یہ بات درست نہ ہے ).ان تمام حربوں کو عیسائیت کے خلاف کوشش میں استعمال میں لایا گیا کیونکہ احمدیہ فرقہ خصوصاً عیسائی مخالف ہے.مغربی افریقہ میں احمدیت کا ظہور جنگ عظیم کے بعد ہوا جب لیگوس اور فری ٹاؤن کے کئی نوجوان بذریعہ خط و کتابت جماعت میں شامل ہوئے.۱۹۲۱ء میں پہلا ہندوستانی مبلغ یہاں پہنچا.غیر رسمی عقائد کی حامل جماعت ہونے کی وجہ سے اسے خالص مسلم آبادی کے علاقوں میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی.یہ جماعت جنوبی نائیجیریا، جنوبی گولڈ کوسٹ اور سیرالیون کے علاقوں تک محمد ودر ہی.اس کا سب سے اہم کام افریقہ میں اسلامی طرز پر مغربی تعلیم کے رجحان کے سلسلہ میں کوشش کرنا ہے.The Ahmadiyya, while still believing that the Quran is essentially untranslatable, has popularized its own English versions, and has encouraged people to think of reading the Quran in their own language, or at least in a language they can readily understand.In East Africa, an Ahmadiyya Swahili translation appeared in 1953, followed in 1962 by an orthodox version as riposte.ترجمہ: احمدیہ فرقہ نے ، جو بنیادی طور پر یہ خیال رکھتے ہیں کہ قرآن کا ترجمہ کرنا اصولاً ناممکن ہے، قرآن کے انگریزی ترجموں کی اشاعت کی ہے اور لوگوں کو اپنی زبان یا کم از کم ایسی زبان میں جسے وہ آسانی سے سمجھ سکیں قرآن پڑھنے کی ترغیب دی ہے.مشرقی افریقہ میں ۱۹۵۳ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے سواحیلی ترجمہ منظر عام پر آیا جس کے جواب میں مقلد مسلمانوں نے ۱۹۶۲ء میں اپنا ترجمہ شائع کیا.التواء روانگی قافلہ برائے جلسہ سالانہ قادیان امسال ۱۹۷۰ء میں منظوری نہ ہونے کی بناء پر پاکستانی احمدیوں کا قافلہ جلسہ سالانہ ۱۹۷۰ء کے موقع پر نہ جاسکا.43

Page 370

تاریخ احمدیت.جلد 26 360 سال 1970ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی درج ذیل معلومات مطبوعہ رپورٹ از یکم جنوری تا ۳۰ جون ۱۹۷۰ء سے تلخیص کی گئی ہیں.مشن کے مبلغ انچارج چوہدری عبدالرحمن خان صاحب بنگالی نے مختلف سکولوں کے علاوہ ایک لوتھرن چرچ میں بھی کامیاب لیکچر دیا جو بہت پسند کیا گیا.سامعین میں سے کئی ایک نے بعد میں لٹریچر خریدا اور بہت سالٹر بچر مفت تقسیم کیا گیا.آپ نے ایک ملاقات میں کلیولینڈ کے میئر کو دینی لٹریچر تفت پیش کیا جسے انہوں نے بڑی خوشی سے قبول کیا اس موقع پر انہوں نے آپ کو ( جماعت کی تبلیغی مساعی کا اعتراف کرتے ہوئے ) کلیولینڈ کی چابی پیش کی جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا.آپ نے کلیولینڈ کے بااثر اخبارات کو انٹرویو بھی دیا اور جماعت کے کام سے ان کو روشناس کرایا.ایک ایڈیٹر کی فرمائش پرسید عبدالرحمن شاہ صاحب نے انہیں ہدیۂ قرآن کریم دیا.اخبار The Plain Dealer Of Cleveland نے کلیولینڈ کی جماعت کے امیر کے ساتھ چوہدری عبدالرحمن صاحب کا ایک انٹرویواور فوٹو شائع کیا.عیدالاضحی کے موقع پر اخبار نے بہت سی تصاویر بھی شائع کیں.کلیولینڈ کے ایک اور اخبار The Dayton Daily News‘ نے بھی ایک نوٹ بھی لکھا.آپ عرصہ زیررپورٹ میں ایتھنز (اوہایو ) تشریف لے گئے جہاں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قائم تھا.آپ کا یہ سفر اسی قومی ادارہ کی ترقی کا جائزہ لینے اور رسالہ سن رائز کی طباعت کے انتظامات کے سلسلہ میں تھا.آپ دو بار ملوا کی مشن اور ایک مرتبہ سینٹ لوئیس مشن کے دورہ پر بھی گئے.سید جواد علی صاحب سیکرٹری امریکہ مشن مقیم واشنگٹن نے بالٹی مور ( میری لینڈ ) ریڈیوٹیشن کے ایک مذہبی پروگرام میں شرکت کی جس میں آپ نے نہایت عمدہ طریق پر خدا تعالیٰ کے اسلامی تصور پر خطاب فرمایا.اس مذہبی پروگرام میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے پہلے پندرہ منٹ میں خدا کے تصور اور اس کی صفات پر روشنی ڈالی اور بعد میں پبلک کی طرف سے بذریعہ ٹیلیفون سوال ہوئے اور پینل (Panel) کی طرف سے ان کے جواب دیئے گئے.یہ سوال بعض اوقات پینل کے ہر ممبر سے

Page 371

تاریخ احمدیت.جلد 26 361 سال 1970ء ذاتی طور پر پوچھے گئے اور بعض دفعہ پینل کے سب ممبروں کو باری باری جواب دینے کے لئے کہا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے دو گھنٹے کا یہ پروگرام نہایت کامیاب رہا اور اس شہر کے لاکھوں لوگوں تک احمدیت کی تعلیم پہنچانے کی تو فیق ملی.آپ کا ایک لیکچر واشنگٹن کی ایک نواحی بستی کے منٹگمری کالج میں ہوا جس کے بعد آپ نے طلباء کے سوالات کے جوابات دیئے نیز لٹریچر تقسیم کیا.کالج کی طرف سے آپ کو شکر یہ کا خط موصول ہوا کہ سامعین کے علم میں اس لیکچر سے بڑا اضافہ ہوا اور طلباء بہت خوش ہوئے.ایک لیکچر آپ نے میتھوڈس چرچ میں بھی دیا اور سوالوں کے تسلی بخش جواب دیئے.آپ کو بالٹی مور، نیو یارک، فلاڈلفیا اور باسٹن کے دورہ کا موقع ملا.یہ دورے انتظامی، تربیتی اور تبلیغی لحاظ سے بہت کامیاب رہے اس دوران جہاں آپ نے ان مشنوں کی ترقی کی رفتار کا جائزہ لیا اور مفید تجاویز پیش کیں وہاں آپ نے نیویارک کی سنٹرل پبلک لائبریری اور Manhattan کی مرکزی لائبریری میں سلسلہ کا لٹریچر رکھوایا اور بعض بک سٹورز میں لٹریچر رکھنے کے بارے میں ان کے ناظمین سے رابطہ قائم کیا نیز کتب خانوں اور سڑکوں پر کتابچے تقسیم کئے.قریشی مقبول احمد صاحب سابق مبلغ انچارج امریکہ کا ایک مضمون اسلام ان افریقہ قسط وار تین مہینوں تک ایک ہفت روزہ اخبار دی ڈیٹن ایکسپریس میں چھپتا رہا.ان کے اعزاز میں الوداعی پارٹی دی گئی.احباب جماعت نے ان کی دینی خدمات کو بہت سراہا.ڈیٹن اور واشنگٹن کی مساجد میں ترکی، پاکستان، مصر، کوپن ہیگن، شرق اوسط اور امریکہ کے مختلف مقامات سے زائرین آئے جنہیں مجاہدینِ احمدیت نے پیغام حق پہنچایا اور مزید مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا.شرق اوسط سے تعلق رکھنے والے زائر ایک عربی اخبار کے ایڈیٹر تھے اور جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کے مداح تھے انہیں امریکہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی سے روشناس کرایا گیا.اس سال کی پہلی ششماہی میں ۲۶ نئے ممبر داخل احمد بیت ہوئے.انڈونیشیا مولا نا محمد صادق صاحب سماٹری انچارج احمد یہ مشن انڈونیشیا کی رپورٹ مطبوعہ الفضل و مئی ۱۹۷۰ء صفحه ۳ ۴ کا ایک اقتباس:.

Page 372

تاریخ احمدیت.جلد 26 362 سال 1970ء چونکہ شمالی اور وسطی سماٹرا میں عرصہ سے کوئی مبلغ نہ گیا تھا اس لئے وہاں کی جماعتوں میں وہ جوش اور تبلیغی ولولہ نہ رہا تھا جو ہماری جماعتوں کا امتیازی نشان ہے.مکرم جناب وکیل التبشیر صہ ر صاحب کی ہدایت کے مطابق وہاں جانے کا پروگرام بنایا گیا.سوخاکسار اور مولوی ابو بکر صاحب دونوں سے صلح (جنوری ) (۱۳۴۹ بهش/ ۱۹۷۰ء) کو شمالی سماٹرا کے لئے بذریعہ بحری جہاز جا کرتا سے روانہ ہو گئے.پہلے ہم میدان پہنچے اور ایک ہفتہ وہاں رہنے کے بعد تا بنگ تنگی ، پہا تو اور تنجو نگ بائے“ کا دورہ کیا.ہمارے اس دورے سے جماعتوں میں اخلاص اور جوش ابھر آیا فَشُكُرُ لِلهِ.ابھی میدان سے خاکسار کو ایک ممبر کا خط ملا ہے جس میں اس نے شکریہ ادا کیا ہے اور لکھا ہے کہ اب جماعت کے مردوں، عورتوں میں درس جاری ہو گئے ہیں اور بچوں نے بھی پڑھائی شروع کر دی ہے وہاں اب مولوی محمد ایوب صاحب کو مقرر کیا گیا ہے.سماٹرا میں جماعت پاڈنگ، جماعت پمپانگن اور جماعت ڈوکو کا دورہ کیا گیا.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑے اخلاص سے کام کر رہی ہیں.افسوس ہے وقت کی تنگی کی وجہ سے ہم جماعت پاکن بار و تک نہ پہنچ سکے.جب ہم میدان شہر میں تھے تو ہم نے وہاں کے بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات کرنے کی کوشش کی.چنانچہ سماٹرا کے سب سے بڑے افسر پولیس ، شمالی سماٹرا کے سب سے بڑے افسر پولیس اور شہر میدان کے میئر سے ملاقات کی گئی اور انہیں انگریزی کتب جن میں انگریزی ترجمۃ القرآن اور اسلامی اصول کی فلاسفی بھی شامل تھیں بطور ہدیہ دی گئیں اور زبانی بھی ان کے سامنے احمدیت کے قیام کی غرض و غایت کو واضح کیا گیا اور یورپ و امریکہ میں جماعت کی جدوجہد کا مختصر ذکر کیا گیا.الحمد للہ یہ تینوں تقاریب خوشگوار ماحول میں ہوئیں.اس عرصہ میں بعض خوشکن واقعات پیش آئے مثلاً سپریم کورٹ انڈونیشیا نے مسجد میدان کا فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا فَشُكُرُ لِلهِ.اس مقدمہ کی کامیابی میں ہمارے نوجوان ایڈووکیٹ مخلص احمدی نسبون محمود کی جدو جہد کا بڑا دخل ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کی جد و جہد کو قبول فرمایا اور اپنے فضل سے ہمیں کامیابی بخشی.ماہ فروری میں ریڈیوسو کا بومی میں ہمیں ہر ہفتہ اور بدھ کی صبح کو درس دینے کا موقع دیا گیا جس میں حضرت مصلح موعود کی لکھی ہوئی سیرت النبی (دیباچہ قرآن کریم انگریزی) سنائی جاتی رہی.ریڈیو تاسیک ملایا میں بھی ہماری ایک خاتون کو بولنے کا موقع دیا جاتا ہے.

Page 373

تاریخ احمدیت.جلد 26 363 سال 1970ء خدا تعالیٰ کے فضل سے دوست انفرادی طور پر بھی تہجد کی نماز ادا کرتے ہیں مگر جماعت نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ ہر ماہ پہلے ہفتہ اور اتوار کی رات کو ہر جگہ باجماعت نماز تہجد ادا کی جایا کرے.سواس فیصلہ کے مطابق ان دو ماہ میں دو دفعہ باجماعت نماز تہجد ادا کی گئی ایک دفعہ عزیزم حافظ قدرت اللہ صاحب امام ہوئے.سیرت مسیح موعود علیہ السلام پر جولیکچر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے انڈونیشیا میں دیا تھا اس کے ترجمہ پر نظر ثانی کرائی گئی.انشاء اللہ جلد ہی شائع ہو جائے گا.وباللہ التوفیق.خاکسار نے اپنے ایک مضمون ” صداقت امام مہدی“ پر نظر ثانی کی ، کافی لمبا مضمون ہے نصف سے زیادہ باقی ہے کوشش کر رہا ہوں کہ جلد مکمل ہو جائے.ایک مخلص چینی دوست تن.بی.یونگ جو بہت بوڑھے ہو چکے ہیں انہیں مع مولوی ابوبکر صاحب دیکھنے گیا.انہوں نے شہر ” تنجو نگ بائے میں اپنا مکان جماعت کے لئے وقف کر دیا ہوا ہے.فجزاہ اللہ احسن الجزاء...اس اڑھائی ماہ کے عرصہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جا کرتا، گاروت،سورابایا، پواووکرتو ، پڈنگ وغیرہ سے ۱۰ اکس کو بیعت کرنے کی توفیق ملی.الحمد للہ علی ذالک.اکتوبر ۱۹۷۰ء کے آغاز میں بانڈونگ میں پانچ روزہ ایشو افریقن اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی تاریخ انعقاد ۶ تا ۱۰ اکتوبر۱۹۷۰ء).کانفرنس مرد یکا آزادی محل بانڈ ونگ میں ہوئی اور اس میں ہیں سے زائد اسلامی ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے جن میں تنکو عبدالرحمن صاحب سابق وزیر اعظم ملائیشیا خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو ان دنوں اسلامی سیکرٹریٹ کے سیکرٹری بھی تھے تنظیم نے فیصلہ کیا که افریشیائی اسلامی تنظیم کو بین الاقوامی تنظیم کر دیا جائے جس کا صدر پاکستان سے ہو جبکہ نائب صدر انڈونیشیا، نائیجیر یا شام سے لئے جائیں گے.اس کی مجلس انتظامیہ بھی ہوگی جس کا سیکرٹری انڈو نیشیا کا نمائندہ ہو گا.اس موقع پر میاں عبدالحئی صاحب مبلغ انڈونیشیا نے جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے تعاون سے کانفرنس کے مندوبین سے رابطہ کرنے اور ان تک پیغام حق پہنچانے کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا اور حالات کے ناسازگار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے امید سے بڑھ کر کامیابی عطا فرمائی.اس سلسلہ میں انہوں نے درج ذیل اقدامات کئے.ا.میاں عبدالحئی صاحب نے جا کرتا اور مرکز سلسلہ سے بذریعہ ہوائی ڈاک لٹریچر منگوایا اور 45

Page 374

تاریخ احمدیت.جلد 26 364 سال 1970ء پیکٹ کی صورت میں انہیں وفود کے لیڈروں کو پیش کیا.۲.جماعت احمدیہ بانڈ ونگ کی طرف سے کانفرنس ہال کے مشرق اور مغرب میں ایک عربی اور ایک انگریزی میں خیر مقدمی قطعات آویزاں کئے گئے.جماعت نے دو اخبارات میں بھی مبارکباد پر مشتمل اعلان شائع کئے نیز تار کے ذریعہ جملہ مہران کو خوش آمدید کہا..جماعت احمدیہ انڈونیشیا نے ایک خوبصورت انگریزی پمفلٹ ۵۰۰ کی تعداد میں شائع کیا جس میں علاوہ دیگر امور کے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ اسلام کا عالمی غلبہ تبلیغ کے ذریعہ سے ہوگا.نیز یه که مسئله فلسطین سیاسی نہیں دینی مسئلہ ہے جس کا تعلق پورے دنیائے اسلام کے ساتھ ہے.اگر امت مسلمہ دل و جان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم پر عمل کرے تو دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی انہیں مغلوب نہیں کر سکتیں.۴.میاں عبدالحئی صاحب اور جماعت احمد یہ بانڈ ونگ کے بعض ذی اثر احمدی دوست کانفرنس میں مدعو تھے جنہوں نے افتتاحی تقریب میں کئی ممبروں سے ملاقات کی.میاں عبدالحئی صاحب کی انڈونیشیا کی نئی اسلامی پارٹی پار موسی (Parmusi) کے صدر جر ناوی ھادی کسوموصاحب سے بھی ملاقات ہوئی.ان سے آپ پہلے بھی متعارف تھے اور انہوں نے بھی بوقت ملاقات ان کا ذکر بڑے تعریفی رنگ میں کیا.آپ استقبالیہ میں بھی شامل ہوئے.کئی مندوبین نے کہا کہ ہمیں آپ کا پمفلٹ اور لٹریچر مل گیا ہے.فلپائن اور فارموسیٰ کے نمائندگان نے خاص طور پر لٹریچر پر نہایت درجہ مسرت کا اظہار کیا.آپ کو پاکستان، ہندوستان، فلپائن، سنگاپور، ملائیشیا، فارموسا، ہانگ کانگ، جاپان، سعودی عرب، جرمنی، انگلستان، افغانستان، شام، سیلون ، جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ کے ممبرانِ وفود سے ملنے کا موقع ملا.اور بعض تو بڑے تپاک سے ملے.انڈونیشیا کے ممبران وفود کے علاوہ کئی ایک منتظمین سے بھی ملنے کا موقع ملا.اس طرح سے معمولی سی کوشش سے ہمارالٹر پھر مختلف ممالک میں پہنچ گیا.10 انڈونیشیا سے مبلغ انچارج مکرم مولوی محمد صادق صاحب نے اطلاع بھجوائی کہ مشرقی پاکستان میں طوفان زدگان کی مدد کے لئے انڈو نیشیا میں عام تحریک ہوئی اور احباب جماعت اس میں حصہ لے رہے ہیں اور مبلغ ۵۰،۰۰۰ روپیہ کا چیک برائے پاکستان ایمبیسی تیار کیا گیا ہے.47

Page 375

365 سال 1970ء تاریخ احمدیت.جلد 26 انگلستان اس سال بشیر احمد رفیق خانصاحب امام مسجد فضل لندن کے زیر انتظام تین کامیاب تقاریب بناهم، منعقد ہوئیں.ا.۲۲ سے ۲۹ مارچ کے دوران انگلستان کی احمدی جماعتوں مثلاً لندن، آکسفورڈ ہے ساؤتھ آل، کرا ئیڈن اور پریسٹن وغیرہ نے پُر جوش رنگ میں ہفتہ تربیت منایا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب خاص اسی غرض کے لئے ہالینڈ سے لنڈن تشریف لائے اور ۲۷ مارچ کو تربیتی امور پر ایک پر معارف خطبہ ارشاد فرمایا اور احباب جماعت کو مغربیت اور دجالیت کے فتنہ سے آگاہ کیا اور مغرب کی اندھا دھند تقلید کے خطرناک نتائج پر مفصل روشنی ڈالی.ہفتہ تربیت کے آخری روز (۲۹ / مارچ) کو جماعت احمد یہ لندن کا ماہانہ اجلاس ہوا جس میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی مساعی خاص طور پر قابل ذکر ہے.لجنہ اماءاللہ انگلستان نے بھی ہفتہ تربیت منانے میں خاص جد و جہد فرمائی.ان دنوں مسز سلام صدر لجنہ اور مسز نذیر خواجہ سیکر ٹری کے فرائض انجام دے رہی تھیں.انہوں نے لجنہ اماءاللہ لندن کو 19 حلقوں میں تقسیم کر کے ہر حلقہ میں ایک ایک نگران مقرر کر دیا.۲۲ مارچ کو لئیق احمد صاحب طاہر نائب امام نے لجنہ کے ماہانہ اجلاس میں تقریر کی.انہوں نے مانچسٹر، ہڈرزفیلڈ ، لیڈز، پریسٹن کی جماعتوں کا دورہ بھی کیا اور ہر جماعت میں تقریر کرنے کے علاوہ بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں پریذیڈنٹ صاحبان کو مفید مشورے دیئے.دورہ نہایت کامیاب رہا.ہفتہ دعوت الی اللہ : 19 مئی سے ۲۶ مئی ۱۹۷۰ء ہفتہ دعوت الی اللہ منایا گیا.اس دوران پریس کے نمائندگان سے بھی رابطہ کیا گیا.بی بی سی ریڈیو نے چار منٹ کا امام صاحب کا ایک انٹرویو نشر کیا.اسی طرح ویمبلڈن بورو نیوز نے امام صاحب کا ایک انٹرو یولیا جو نمایاں طور پر اخبار نے شائع کیا.(ایضاً جون ۱۹۷۰ء) ۲ - ۲۳ /اگست ۱۹۷۰ء کو خدام الاحمدیہ انگلستان کا سالانہ اجتماع ویمبلڈن کی وسیع گراؤنڈز میں منعقد ہوا.جس میں ورزشی اور علمی مقابلوں کے بعد چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد گیمبیا نے نہایت عمدہ پیرا یہ میں گیمبیا میں اشاعت دین کے موضوع پر بہت ایمان افروز تقریر فرمائی.آخر میں بشیر احمد خان صاحب رفیق نائب صدر خدام الاحمدیہ برطانیہ نے انعامات تقسیم کئے..انگلستان کے احباب خصوصاً نو جوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مؤرخہ ۲۲ تا ۲۹ مارچ ہفتہ

Page 376

تاریخ احمدیت.جلد 26 366 سال 1970ء تربیت منانے کا پروگرام بنایا گیا.چنانچہ اس غرض کے لئے امام مسجد فضل لندن نے حسب ذیل ارکان پر مشتمل تربیت کمیٹی کا اعلان کیا.چوہدری رشید احمد صاحب (صدر)، الحاج داؤ د احمد صاحب گلزار ( سیکرٹری ) ، ڈاکٹر ولی شاہ صاحب، خواجہ بشیر احمد صاحب (ممبران).کمیٹی کی طرف سے تربیت کے سلسلہ میں اہم تجاویز پیش کی گئیں.اجلاس سے حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک نہایت اثر انگیز خطاب کیا جس میں خدا تعالیٰ سے تعلق اور تو کل اور اسلام کی مقدس عملی تعلیم کا تذکرہ کیا.ہفتہ تربیت کے دوران مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے تعاون سے لندن کو ۲ حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا اور آٹھ حلقوں میں نماز با جماعت کے مراکز کا قیام عمل میں آیا.اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احباب نے خاص طور پر تعاون کیا خواجہ رشید الدین صاحب قمر قائد خدام الاحمدیہ، خالد اختر صاحب نائب قائد، چوہدری رشید احمد صاحب صدر تربیت کمیٹی.۴ ۵ ۶ ستمبر ۱۹۷۰ء کو انگلستان کی احمدی جماعتوں کا ساتواں سالانہ جلسہ محمود ہال میں منعقد ہوا اور اس میں ایک ہزار سے زائد احمدی شریک ہوئے.محمد الیاس خان صاحب، بشیر احمد صاحب آرچرڈ ، جناب عطاء المجیب صاحب را شد اور لئیق احمد صاحب طاہر کے علاوہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے دو تقاریر فرمائیں.ایک میں حضرت خلیفہ اول کی سیرت کے بعض ایمان افروز واقعات بیان کرنے کے بعد آپ نے یورپ کے آزاد معاشرہ کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہستی باری تعالیٰ کا حقیقی اور مسکت اور مدثل ثبوت اگر کوئی مذہب آج دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف مذہب اسلام ہے.خدا تعالیٰ آج بھی ویسا ہی ہمکلام ہوتا ہے جیسا کہ ہزاروں سال قبل.اس تقریر سے ایک پادری صاحب (Roud Caombe) بہت متاثر ہوئے اور اعتراف کیا کہ ایسی پر اثر تقریر میرے سننے میں بہت کم آئی ہے.ایک اور پادری صاحب (Roud Jerry) نے بھی بہت تعریف کی.حضرت چوہدری صاحب نے دوسری اور اختتامی تقریر میں احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد احیائے دین اور اقامت شریعت تھا.غیروں کے مقابلہ میں تو اب بھی ہمارا عمل اور ہمارا کردار قابل تحسین و آفرین ہے لیکن سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے لئے جو حقیقی معیار مقرر فرمایا ہے اس تک پہنچنے کے لئے ہمیں بہت فکر کرنی چاہیے.حضرت چوہدری صاحب نے بہت درد اور کرب سے فرمایا کہ والدین کو چاہیے کہ دن رات تربیت کی طرف توجہ دیں اور اپنی اولادوں کو احمدیت کا شیدائی اور فدائی بنا ئیں.

Page 377

تاریخ احمدیت.جلد 26 367 سال 1970ء آپ نے متعدد آیات قرآنیہ اور واقعات کی روشنی میں ساری جماعت کو توجہ دلائی کہ وہ جلد بیدار ہوں اور سستیاں ترک کر کے ترقی کریں.ہمارا مقصدِ حیات مغربی ملکوں میں دولت سمیٹنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس دولت کو بھی دین کی اشاعت اور فروغ کے لئے ایک ذریعہ بنا لینا چاہیے.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر حقیقی ایمان حاصل ہونا چاہیے.حقیقی ایمان کے لئے خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقلید کا ارشاد فرمایا ہے لہذا اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہمارے مدنظر رہنا ضروری ہے.۵.اس سال بشیر احمد رفیق صاحب نے بزمِ ادب کے نام سے ایک مجلس قائم کی.نومبر ۱۹۷۰ء میں مجلس کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس کے پہلے صدر لئیق احمد صاحب طاہر اور سیکرٹری مولوی عطاء المجیب صاحب را شد نائب امام مقرر ہوئے.نیز قرار پایا کہ بزم کا اجلاس ہر ماہ کے پہلے سنیچر کومحمود ہال میں ہو گا.اجلاس کے پہلے حصے میں ادبی، سیاسی ، مذہبی ، اقتصادی اور ثقافتی موضوعات میں سے کسی ایک موضوع پر مقالہ پیش کیا جائے گا اور دوسراحصہ شعر و شاعری کے پروگرام کے لئے وقف ہوگا.تنزانیہ تنزانیہ مشن کی تاریخ میں ۲۳ /اگست ۱۹۷۰ء کا دن ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اس روز تنزانیہ کے شہر مور و گورو میں احمدیہ مسجد کے افتتاح کے مبارک تقریب عمل میں آئی.مولانا محمد منور صاحب مبلغ انچارج تنزانیہ نے فروری ۱۹۷۰ء میں ایک ٹھیکیدار صاحب کو خدا کے اس گھر کی تعمیر کا ٹھیکہ دیا.سامان تعمیر لکڑی، لوہا، سیمنٹ وغیرہ جماعت نے مہیا کیا.افتتاحی تقریب ساڑھے چار بجے بعد نماز عصر منعقد ہوئی.اس موقع پر چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی مبلغ تنزانیہ نے ان تمام حکام اور مختلف مذہب وملت کے معززین کا شکر یہ ادا کیا جنہوں نے اس خانہ خدا کی تعمیر کے سلسلہ میں اخلاقی یا مالی معاونت فرمائی.ازاں بعد مولوی محمد منور صاحب نے مسجد کی اہمیت پر سواحیلی زبان میں اپنا مضمون پڑھا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.شامل تقریب ہونے والوں میں ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے اور ان کی تعداد قریباً اڑھائی سوتھی.حکومت اور سیاسی جماعت کے سب سے بڑے افسر ریجنل ایڈمسٹریٹو ، ایکٹنگ ڈپٹی کمشنر صاحب، ریجنل انفارمیشن افسر صاحب، ایک ایڈ منسٹریٹو آفیسر صاحب،

Page 378

تاریخ احمدیت.جلد 26 368 سال 1970ء ایک پادری صاحب اور ایک سرکاری کارخانہ کے مینیجر بھی موجود تھے.انگریزی اور سواحیلی پریس میں اس تقریب کی خبر شائع ہوئی.سپین 50 انچارج احمد یہ مشن پین چوہدری کرم الہی صاحب ظفر نے اس سال متعدد اہم شخصیات سے ملاقات کر کے پیغام حق پہنچایا اور جماعت احمدیہ کا لٹریچر دیا مثلاً ڈی پیڈ رو روکمو ( D.Pedro Rocamo) سابق ڈائریکٹر جنرل آف پروپیگنڈ اوزارت تعلیم.ڈی گیراڈو شمس ( D.Gerardo Sehamis).امریکن ( جنوبی مشرقی امریکہ ) سٹیٹس آرگنائزیشن کے نمائندہ وسفیر برائے یورپ، ڈی جو آن بنیٹیو (D.Juan Beneyto).پریذیڈنٹ کونسل آف پریس و سابق ڈائریکٹر جنرل آف پرلیں.حسب سابق آپ نے لٹریچر کی ترسیل کا کام بھی پوری توجہ سے جاری رکھا اور اس سلسلہ میں ہسپانوی سفیر واشنگٹن، لیبر یونین کے ایک ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر مختلف شہروں کے سول گورنر وغیرہ کو اسلامی اصول کی فلاسفی ، اسلام کا اقتصادی نظام، مسیح ہندوستان میں فرینچ کتب بھجوائیں.ہز ایکسیلینسی ڈی، ای رامل (D.E.Ramal) نے اپنے ایک خط میں لکھا.” آپ کی بھجوائی ہوئی کتب میں نے غور سے پڑھی ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کتب روحانی معارف کا خزانہ ہیں اور انتہائی طور پر میرے لئے دلچسپ ثابت ہوئی ہیں.یوم پاکستان (۲۳ مارچ) کے موقع پر آپ نے ایک ہسپانوی ایڈ مرل اور پوپ نیز ڈنمارک، جرمنی اور فرانس کے نمائندوں تک اسلام کی آواز پہنچائی.لیبیا اور عراق کے سفیروں سے تعارف حاصل کیا.ہز ایکسی لینسی جنرل فرانس کو فرانکو بہا مونڈے ( Francisco Franco Bahamonde) اور ان کی کونسل کے تمام وزراء کوکمیونزم اینڈ ڈیما کریسی اور سید نا حضرت خلیفۃ امسیح الثالث کا پیغام امن اور ایک حرف انتباہ بھجوایا.لیبر یونین کے وزیر ڈی ایچن گریز رامل (.D Emigne Gareis Ramal) نے ان کتب کے متعلق لکھا.میں خط کا جواب دیر سے دے رہا ہوں کیونکہ نیا چارج لینے کی وجہ سے بے حد مصروفیت رہی ہے لیکن یہ کتب پڑھنے کا بے حد اشتیاق تھا.کچھ دن ہوئے میں نے کتب پڑھ لی ہیں.میں آپ کو دلی یقین دلاتا ہوں کہ یہ کتب علوم روحانی کا خزانہ ہیں اور انتہائی دلچسپ ہیں.آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ کا دلی دوست.(دستخط ) 51

Page 379

تاریخ احمدیت.جلد 26 سوئٹزرلینڈ 369 سال 1970ء ۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء کو مشن کی طرف سے سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی جس میں چین، انڈونیشیا اور نائیجیریا کے سفارتی نمائندوں نے بھی شرکت کی.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ انچارج مشن نے اپنی تقریر میں سفیر جمہور یہ ہز ایکسی لینسی سید توفیق عبدالفتاح کے دینی جذ بہ اور احمدیہ مسجد سے تعلق کو سراہا.ہز ایکسی لینسی نے جوابی تقریر میں مسجد محمود اور اس کے امام چوہدری مشتاق احمد صاحب سے گہرے تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا امام صاحب کی سرگرمی عمل کو شدت سے محسوس کرتا رہا ہوں اور اس مجلس میں اس تاثر کے اظہار سے مجھے خوشی ہے.امام صاحب! میں آپ کے اس پر تپاک خوش آمدید کے لئے شکریہ ادا کرتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ آپ کبھی مجھے بھولے نہیں جب بھی مجھے قاہرہ جانے کا موقع ملا میں آپ کا ذکر کرتا رہا.الا زھر کے امام سے کئی دفعہ آپ کے متعلق بات ہوئی اور میں نے انہیں آپ کے مشن کی کارگذاری سے آگاہ کیا.ابھی گذشتہ رمضان میں میں قاہرہ میں تھا.وہ آپ کا اور آپ کے مشن کا ذکر بڑی دلچسپی سے سنتے رہے.میں نے انہیں بتایا کہ آپ یہاں کس قدر کامیاب ہیں.آپ اور آپ کے سوئٹزرلینڈ میں کا رہائے نمایاں کے لئے اپنے ممنونیت کے جذبات کا اظہار میری ایک حقیر خدمت ہے.سیرالیون جماعت احمد یہ سیرالیون کی اکیسویں سالانہ کانفرنس جماعت احمد یہ سیرالیون کی اکیسویں سالانہ کا نفرنس مورخه ۱۴۱۳ اور ۱۵ فروری ۱۹۷۰ء کو بو کے مقام پر منعقد ہوئی.پانچ صد سے زائد افراد نے کانفرنس میں شرکت کی.اس کا نفرنس میں حکومت سیرالیون کے متعدد وزراء اور دیگر سر بر آوردہ حکام جس میں ممبران پارلیمنٹ پیراماؤنٹ چیفس بھی شامل تھے شرکت کی.افتتاحی اجلاس کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر ایم.ایس فورنا وزیر مالیات نے ادا کئے.ڈاکٹر فورنا سیرالیون کے چوٹی کے سیاسی زعماء میں سے ہیں اور ایک ہمدرد مسلمان ہونے کی وجہ سے جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کے مداح و معترف ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کا نفرنس کے لئے گرانقدر پیغام بھی ارسال فرمایا.

Page 380

تاریخ احمدیت.جلد 26 پیغام حضرت خلیفہ امسح الثالث 370 برادران جماعت! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سال 1970ء جذبات محبت سے لبریز دل کے ساتھ اس کانفرنس کے عظیم الشان موقع پر آپ سب کے لئے ہدیہ سلام و تبریک ارسال ہے.ایک مرتبہ پھر آپ سب ایک خاص روحانی ماحول میں ازدیاد علم ، از دیا ایمان اور خدائے رحیم و کریم کے حضور دعا اور التجا کے لئے ایک جگہ جمع ہوئے ہیں.ہمیں اس موقع پر یا درکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق استوار کرنا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا اصل مقصد ہے.اپنے دلوں کا جائزہ لیجئے کہ اس آسمانی مقصد کے حصول میں ہمیں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے.آئیے اس عظیم مقصد کو پیش نظر رکھ کر مولیٰ کریم سے ہدایت اور نصرت طلب کریں.یہ بھی یادر کھئے کہ اسلام امن اور صلح کا مذہب ہے.مادر وطن کی محبت کے ساتھ پر امن اور سازگار ماحول کے قیام و دوام کے لئے کوشاں رہئیے.خدمت اسلام خدمت وطن اور خدمت انسانیت پہلو بہ پہلو چلتی ہیں.اسلام کی اشاعت اور فروغ کے لئے مقدور بھر کوشش کیجئے.قرآن مجید میں بیان فرمودہ اسلام کو عمل کے اس سانچے میں جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور آپ کے روحانی فرزند مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ظاہر ہوا ہے ڈھال کر دنیا کے سامنے پیش کیجئے.آخر میں میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ سیرالیون کی نئی نسل کا حق ہے کہ اسے ہم تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں.ان بچوں کو اس یقین کے ساتھ تعلیم دیجئے کہ خدا تعالیٰ انہیں مستقبل کی قیادت کا بارگراں سونپنا چاہتا ہے.چاہیئے کہ احباب اپنے بچوں کو ربوہ بھیجیں خود بھی آئیں.مجھے ملیں اور جماعت کی تنظیم کا خود مشاہدہ کریں اور علم وایقان اور تبلیغ واشاعت کی نئی روح کے ساتھ واپس جا کر اعلائے کلمئہ اسلام میں منہمک ہوں.دعا ہے کہ مولیٰ کریم آپ پر بے شمار افضال و برکات نازل فرمائے اور ہمیشہ ہر شر سے محفوظ و مامون رکھے.آمین 66 (مرزا ناصر احمد ) خلیفہ اسیح الثالث “

Page 381

تاریخ احمدیت.جلد 26 371 سال 1970ء اس کانفرنس میں ماہرین تعلیم کے ایک وفد نے مسٹرلنگا کر وما پرنسپل ایجوکیشن آفیسر کی معیت میں شمولیت کی.مسٹر کر وما نے تعلیم کے میدان میں احمد یہ مشن کی گرانقدر خدمات کا خاص طور پر ذکر کیا.پروگرام کی آخری نشست میں معزز مہمانوں کی تقاریر کا پروگرام تھا.اس نشست میں آنریبل مصطفی سنوسی ( ممبر پارلیمنٹ) آنریبل ابراہیم باش تقی وزیر اطلاعات و نشریات اور آنریبل پرنس جے ولیمز ریذیڈنٹ منسٹر اور پیرا ماؤنٹ چیف بونگے ممبر پارلیمنٹ نے حاضرین سے خطاب کیا.اس کانفرنس کے تینوں روز کی کارروائی کا پر لیس اور ریڈیو پر خوب چرچا ہوا.روز نامہ ڈیلی میل نے روزانہ خبروں کے علاوہ کانفرنس پر خصوصی مصور فیچر بھی شائع کیا.ڈاکٹر فورنا کا اثر انگیز خطاب 53 آپ نے سیرالیون میں احمدیت کے آغا ز کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ہم اس پر بجاطور پر نازاں ہیں کہ سیرالیون میں بھی اس عظیم تحریک کے وابستگان پائے جاتے ہیں کہا جاتا ہے کہ عظیم الشان کاموں کا آغاز بہت ہی معمولی ہوتا ہے جب ہم احمدیت کے آغاز کی کہانی پڑھتے ہیں تو یہ مقولہ ہمیں پر صداقت معلوم ہوتا ہے کہ ننھے ننھے قطرے اور ریت کے حقیر ذرّے باہم مل کر بحر بے کراں اور وسیع و عریض سلسلہ ہائے کوہ و دمن اور دشت و صحرا کا روپ دھار لیتے ہیں.ہندوستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں ایک غریب اور تنہا مردِ خدا نے تحریک احمدیت کی بناء ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جماعت پانچ بر اعظموں اور پانچ سمندروں کے جزیروں میں پھیل گئی.جماعت کی مذہبی اور تعلیمی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا :.احمدیت کو اس ملک میں آئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے لیکن اس قلیل عرصے میں تحریک احمدیت نے اسلامی تعلیمات کو عام کرنے اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ہزاروں نو جوانوں کو مروجہ علوم سے آراستہ کرنے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ وابستگان کے جوش و خروش، آہنی عزم اور جذبہ اورد خدمت خلق پر دال ہے.احمدیت نے کسی حد تک ہمارے تعلیمی نظام پر عیسائیت کی گہری چھاپ کے اثر کو کم کرنے کے لئے صحت مندانہ اقدام کیا ہے.ملک کے شمالی حصے میں تعلیم کی طرف توجہ کی کمی کا سبب والدین کا عیسائی سکولوں میں بچوں کو بھجوانے سے انقباض نہیں بلکہ سکول سے ملحق چرچ میں اصطباغ سے انکار ہے.جبری اصطباغ ( بپتسمہ ) کی روایت اب ختم ہوا چاہتی ہے.مشنوں کے سکول خواہ وہ عیسائی ہوں یا مسلم،

Page 382

تاریخ احمدیت.جلد 26 372 سال 1970ء طلبہ کو قبول کرتے وقت عقائد اور فرقہ بندی کی تفریق کو بنیاد نہیں بناتے.یہ ایک صحت مند تغیر ہے جسے ہم سب مسرت اور ممنونیت کے جذبات کے ساتھ قبولتے ہیں.یہ صحتمند انقلاب بر پا کرنے میں احمدیہ مشن نے کتنا کردار ادا کیا ہے اس وقت بتانا آسان نہیں.لیکن اس حقیقت سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کر سکتا کہ تبلیغ کے میدان میں صحتمندانہ مسابقت کا عنصر احمدیت نے آکرا جا گر کیا ہے.اپنے خطاب کے آخر میں آپ نے حضرت بانی جماعت احمدیہ کوخراج عقیدت پیش کیا.اسی طرح ابتدائی مشنریوں کی گرانقدر خدمات کو بھی سراہا اور سیرالیون کے احمدیوں کے اخلاص کی تعریف کی.آخر میں آپ نے کہا :.”میری آرزو ہے کہ احمدیہ مشن سیرالیون میں دن دونی اور رات چوگنی ترقی کرے.اگر ز مینی مدد کی یقین دہانی کی خدائی سلسلہ کو ضرورت ہے (اور مجھے یقین ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ) تو میں یقین دلاتا ہوں کہ حکومت سیرالیون مقدور بھر کوشش کرے گی کہ ہمارے معاشرہ میں احمد یہ مشن کو بھر پور کردار ادا کرنے کا موقع ملے“.مہمان خصوصی کے خطاب کے بعد پہلی نشست ختم ہوئی.وزیر موصوف اور دیگر حکام امیر محترم کی معیت میں احمدیہ سیکنڈری سکول دیکھنے تشریف لے گئے اور بیالوجی ، کیمسٹری اور فزکس کی مزین تجربہ گاہیں دیکھیں اور سکول کی ترقی پر اظہار مسرت کیا ڈاکٹر فورنا نے لاگ بک“ میں مندرجہ ذیل الفاظ رقم فرمائے :.کیسویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر احمد یہ جماعت کے مسلم بھائیوں اور بہنوں کے درمیان اپنے آپ کو پا کر مجھے بیحد مسرت ہوئی.احمد یہ سکول کی روز افزوں ترقی سے مجھے بے حد اطمینان ہوا.مجھے یقین ہے کہ سیرالیون کی مذہبی اور تعلیمی ترقی کی جدوجہد میں جماعت احمد یہ عظیم الشان کردار ادا کرے گی.ایم.ایس.فورنا.وزیر مالیات“.غانا اس سال ۸ ۹ ۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء کو جماعتہائے احمد یہ غانا کا ۴۵ واں سالانہ جلسہ سالٹ پانڈ میں منعقد ہوا جلسہ میں 4 ہزار سے زائد افریقن مخلص احمدیوں کے علاوہ حکومت کے وزراء اور سفارتی نمائندوں نے شرکت کی.غانا کے ایثار پیشہ احمدیوں نے اس موقع پر ۸ ہزارسیڈی سے زائد یعنی قریباً

Page 383

تاریخ احمدیت.جلد 26 373 سال 1970ء کم و بیش ۷۰ ہزار روپے جمع کر کے گذشتہ سال سے بڑھ کر مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ کیا.کانفرنس کے نام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے روح پرور پیغام کا متن جلد ھذا کے صفحہ اپر دیا جا چکا ہے.یہ پیغام جملہ حاضرین کے ایمانوں میں نمایاں اضافہ کا موجب بنا.آنریبل وزیر مواصلات جناب ہارون اسیکو نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ آج سے ۴۸ سال قبل جماعت احمدیہ کے پہلے مبلغ کا ورود غانا کی اسلامی تاریخ میں یادگار رہے گا.آج تک جماعت احمدیہ نے بے لوث خدمت کی ہے.خصوصاً مذ ہبی اقدار کی ترویج اور باشندوں کی علمی ترقی کے لئے وسیع پیمانے پر سکولوں کا قیام بہت ہی قابل قدر ہے.کام شروع کرنے والے پہلے مبلغین نے بہت کی صعوبتیں اٹھا ئیں لیکن ثابت قدمی اور اخلاص کی وجہ سے بالآخر کامیابی حاصل ہوئی.دوران تقریر جب آپ نے فرمایا کہ خود میرے والد جماعت احمدیہ کے ابتدائی معاونوں میں سے ہیں اور میری والدہ اس وقت بھی سامنے حاضرین کے گروہ میں بیٹھی ہوئی ہیں تو خوشی ومسرت سے حاضرین نے نعرہ تکبیر اور جماعت احمدیہ زندہ باد کے نعرے بلند کئے.آنریبل مبارک آدم وزیر برائے پارلیمانی امور نے اپنے صدارتی خطاب میں جماعت احمدیہ غانا کی دو ممتاز اور مرحوم شخصیات جناب ویمہ صاحب (الحاج ابودیمہ صاحب کے والد ماجد ) اور الحاج صالح صاحب ( آپ کی قربانیوں اور خدمات دینی کی بدولت ہی وا کی فعال جماعت قائم ہوئی ) کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا.تیس سال قبل زمانہ طالب علمی کی بات ہے شمالی علاقہ کے سبھی بچے (اکثریت مسلمانوں کی تھی ) ہر روز صبح سکول میں لارڈ کی دعا مانگا کرتے تھے.عیسائی مذہب کے ہی اساتذہ تھے.ان دنوں میں ایک استاد جناب ویمہ نام کے ملے.مسلمان اور قوت اسلام کے پیکر جناب و یمہ مرحوم نے انتھک کام کیا اور اسلام کو شمالی علاقہ میں خوب مضبوط کیا.اگر جناب و یمہ مرحوم جیسے دس آدمی ان کی نسبت ایک چوتھائی کام بھی کریں تو اسلام تیزی سے پھیل جائے.دوسرے صاحب جن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں اور جو میرے اپنے ہی شہر ” و “ سے تعلق رکھتے تھے الحاج صالح مرحوم تھے.میں خوب جانتا ہوں کہ نئی بات کو قبول کرنا اور پھر دوسروں سے منوانا کتنا مشکل کام ہے.لیکن جب الحاج صالح مرحوم نے احمدیت قبول کی تو مخالفتوں اور دشمنوں کے مقابلہ میں بڑی ہمت سے ڈٹ گئے حتی کہ ان کے مخالفین نے بھی حق کی فتح کو محسوس کیا.شمالی غانا کی تاریخ میں یہ حیرت انگیز کام تھا جو الحاج صالح مرحوم نے انجام دیا.ہم سب کو ان سے سبق لینا چاہیے.

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد 26 374 سال 1970ء جلسہ کے اختتامی اجلاس میں یہ ریزولیوشن بھی بالا تفاق منظور کیا گیا.غانا کے مسلمانوں کے لئے تین سرکاری چھٹیاں دی جائیں یعنی عیدین اور میلادالنبی کے موقع پر.یہ بھی پاس ہوا کہ اس کی کاپی وزیراعظم غانا اور متعلقہ افسران کو بھجوائی جائے.الحاج مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر و مشنری انچارج غانا نے اختتامی خطاب میں فرمایا کہ جماعت احمد یہ غانا یکم مارچ ۱۹۷۱ء کو اپنی زندگی کے پچاس سال پورے کرے گی.اس موقع پر کوئی شایانِ شان کام ہونا چاہیے مثلاً جیسا کہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر نے ارشاد فرمایا ہے جماعت غانا کی مکمل تاریخ تیار ہو جانی چاہیے.احباب کو اس امر کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اپنے قبول احمدیت کے حالات تحریری طور پر اپنے مرکز سالٹ پانڈ میں پہنچانے چاہئیں.جلسہ سالانہ کی کارروائی کا ذکر روز نامہ دی غانین ٹائمنر (۹و۱۲ جنوری ۱۹۷۰ء) اور روز نامہ ڈیلی گرافک (۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء) نے نمایاں طور پر شائع کیا.ریڈ یو غانا نے نیوز بلیٹن میں ۸جنوری کو انعقاد جلسہ کی خبر دی اور بعد میں مختلف مواقع کی تقاریر کے اقتباسات نشر کئے.اسی طرح غانا براڈ کاسٹنگ ٹیلیویژن میں جلسہ کے مختلف پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوئے.اس طرح پورے ملک میں اس جلسہ کی کارروائی دیکھی گئی.نجی درج ذیل معلومات مطبوعہ رپورٹ از یکم جنوری تا جون ۱۹۷۰ء سے تلخیص کی گئی ہیں.ڈاکٹر سید ظہور احمد شاہ صاحب نے تقریباً سوا دو ہزار میل کا دورہ کیا اور تبلیغی ، تربیتی اور تعلیمی امور کی طرف احباب کو توجہ دلائی.11 جنوری ۱۹۷۰ء کو ریڈیونی نے آپ کی ایک تقریر نشر کی جس کا متن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات پر مشتمل تھا.یو نیورسٹی آف دی ساؤتھ پیسفک کی تقریب کے موقع پر متعدد لوگوں سے تعارف ہوا اور انہیں احمد یہ سنٹر ساما بولا میں آنے کی دعوت دی.چنانچہ ان میں سے بعض مرکز میں آئے اور لٹریچر حاصل کیا.آپ نے ایگریکلچر سکول کارو نیو پا میں ایک علمی لیکچر دیا اور سوالوں کے جواب دیئے.اس ادارے میں نجی کے علاوہ جنوبی بحرالکاہل کے دیگر جزیروں کے طلباء اور طالبات بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں.زائرین میں سے یو نیورسٹی آف ساؤتھ پیسفک کے ایک آسٹریلین پروفیسر بالخصوص قابل ذکر ہیں جنہیں اسلام سے متعلق معلومات کے علاوہ لٹریچر بھی دیا

Page 385

تاریخ احمدیت.جلد 26 375 سال 1970ء گیا.عرصہ زیر رپورٹ میں ۵۶ افراد داخل احمدیت ہوئے.ان میں ایک کثیر تعداد مولوی محمد صاحب عرف لال ٹوپی آف لمباسا کی کوشش کا نتیجہ تھی.اس سال کی پہلی ششماہی میں تاوا کو بو پرائمری سکول کی عمارت میں اضافہ ہوا اور محکمہ تعلیم نے پانچویں اور چھٹی جماعت کی اجازت دے دی اور دو مزید سرکاری اساتذہ مہیا کئے جس کے نتیجہ میں طلباء کی تعداد ۸۵ سے بڑھ کر ۱۳۸ تک پہنچ گئی.مجھی سے مبلغ انچارج مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری نے اطلاع دی ہے کہ مشرقی پاکستان میں آنے والے ہولناک سیلاب کے لئے جماعت میں ریلیف فنڈ کے لئے پر زور تحریک کی گئی اور جماعت نبی اپنے ان بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرے گی.كينيا 56 اس سال کی دینی سرگرمیوں میں ایک خاص واقعہ کسوموں کی زراعتی نمائش کے دوران احمد یہ مشن کا پُرکشش سٹال اور اس پر چیف جسٹس اور دیگر افسران کی تشریف آوری ہے.یہ تبلیغی سٹال مولانا جمیل الرحمن صاحب رفیق اور مولوی منیر الدین احمد صاحب مبلغ کینیا کی مساعی کا رہین منت تھا.سٹال نمائش سے بھی ایک دن پہلے تیار ہو گیا اور دوسرے دن ساڑھے آٹھ بجے عوام کے لئے کھول دیا گیا اس کا رسمی افتتاح چیف جسٹس صاحب نے کیا ان کے ساتھ کسوموں کے مئیر، کینیا کے وزیر امور تعاون مسٹر مليرو ( Mr.Multiro) اور پولیس اور سول افسران تھے جنہیں مجاہدین احمدیت نے سلسلہ احمدیہ کی ترقی اور مساعی سے بذریعہ چارٹس متعارف کرایا.وہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں کے تراجم دیکھ کر بہت خوش ہوئے.چیف جسٹس صاحب جو مکابا قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے.کیکامبا (Kikamba) زبان کا ترجمہ قرآن دیکھ کر از حد مسرور ہوئے اور میئر صاحب سے کہا کہ وہ پڑھ کر بتائیں کہ ترجمہ کیسا ہے.انہوں نے چند سطور پڑھ کر بے ساختہ کہا کہ بالکل ٹھیک ہے ( Perfectly Right).ازاں بعد چیف جسٹس صاحب اور ان کی اہلیہ اور وزیر موصوف کو سلسلہ کے لٹریچر کاتحفہ پیش کیا جو انہوں نے بخوشی قبول کیا.عوام صبح سے ہی آنے شروع ہو گئے جن میں طلباء، اساتذہ، تاجر، ملازم پیشہ غرضیکہ ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے جو سوال پوچھتے بحث مباحثہ کرتے اور لٹریچر خریدتے تھے.سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ایک چارٹ تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کے کفن اور آپ کی قبر ( واقع محلہ خانیار کشمیر ) اور انسائیکلو پیڈیا

Page 386

تاریخ احمدیت.جلد 26 376 سال 1970ء آف برٹین کا جلد ۱۴ میں شائع شدہ حضرت مسیح کی جوانی اور بڑھاپے کی تصاویر تھیں (ان تصاویر کے ساتھ انسائیکلو پیڈیا میں یہ نوٹ دیا گیا ہے کہ یہ روما کے مقدس پطرس کے گرجا میں قدیم یادگاروں میں رکھی ہیں اور ان کی تاریخ یقینی طور پر دوسری صدی عیسوی تک پہنچتی ہے ).عیسائی حضرات تصاویر دیکھ کر غضبناک ہو جاتے اور ان کا ثبوت مانگتے.اس طرح گفتگو کا ایک مفید سلسلہ شروع ہو جاتا.غیر از جماعت مسلمان دوستوں پر اس کا اچھا اثر ہوا.ملک جمیل الرحمن صاحب رفیق نے مئی ۱۹۷۰ ء کے آخری ہفتہ میں ممباسہ اور ٹاویٹا کے علاقوں کا کامیاب تبلیغی و تربیتی دورہ کیا جس کے دوران آپ نے نیو ائیر سیکنڈری سکول، گورنمنٹ سیکنڈری سکول (کوالے)، گولینی سکول، پرائمری سکول ( زیوانی ) میں آپ نے کامیاب لیکچر دیئے.ممباسہ میں آپ کے اعزاز میں دعوت عصرانہ کا انتظام کیا گیا جس میں ۵۰ غیر از جماعت عرب، افریقن اور ایشین شامل ہوئے.رفیق صاحب نے قرآن مجید کی روشنی میں صداقتِ احمدیت ثابت کی اور حاضرین کے سوالوں کے جواب دیئے.اس دورہ میں آپ نے انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ لنڈی کے سرکاری افسران ، مسلم کسٹم آفیسر اور دیگر کارکنان تک پیغام حق پہنچایا.ممباسہ کی سیف بن سالم لائبریری کے چیف لائبریرین کو انگریزی ترجمۃ القرآن اور بعض دیگر کتب پیش کیں.۶، ۷ جون کو کیٹو بو اور کیٹو گوٹو کی احمدی جماعتوں کا اجتماعی جلسہ ایلڈورو کے مقام پر ہوا جس میں مبلغین اور دیگر احباب کی تقاریر ہوئیں.سامعین میں غیر احمدی اور عیسائی معززین بھی تھے.جلسہ پُر اثر اور پُر کیف روحانی ماحول میں ہوا.اس دورے میں مولوی بشیر احمد صاحب اختر مبلغ ٹاویٹا اور احمد شمشیر صاحب سوکیہ ( مبلغ ممباسہ ) بھی تھے.گی آنا اس سال گی آنا مشن اپنی عمر کے دسویں سال میں داخل ہوا اس قلیل عرصہ میں مشن نے ترقی کی کئی منازل طے کیں.اس مخلص جماعت نے گذشتہ سال ۸ ہزار ڈالر کی لاگت سے ایک شاندار مسجد کی تعمیر مکمل کی اور پھر اس سال کے آغاز میں نئے جوش و خروش اور نئے جذبے کے ساتھ خدا کے دوسرے گھر کی تعمیر کا آغا ز کر دیا.چند سال قبل گی آنا کے ریڈیوسٹیشنوں پر یسوع مسیح کے نعرے بلند ہوتے تھے لیکن احمد یہ مشن کی

Page 387

تاریخ احمدیت.جلد 26 377 سال 1970ء کوشش سے ہفتے میں دوبار اسلامی پروگرام نشر ہونے لگا اور دوسری مسلمان تنظیموں کے علاوہ احمد یہ مشن کو بھی ہر دوسرے ہفتے آدھ گھنٹہ وقت ملنے لگا.یہ پروگرام مسلم حلقوں میں مقبول ہوا.میر غلام احمد صاحب نسیم ایم.اے انچارج گی آنا مشن ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اشاعت حق کے لئے سرگرم عمل رہے.علاوہ ازیں گی آنا کی ہراہم تقریب میں آپ کو مسلمانوں کی نمائندگی کے قیمتی مواقع میسر آتے رہے.آپ نے تین بارسور بینام کا تبلیغی دورہ کیا.اس دوران آپ نے ٹیلی ویژن سے بھی خطاب کیا.آپ نے ایک دردمند دل رکھنے والے نوجوان کو تحریک کی کہ وہ ملک کے ذرائع ابلاغ سے استفادہ کرتے رہیں.ماریشس ۲۹ اپریل سے ۲ مئی ۱۹۷۰ ء تک کے ایام اہل ماریشس بالخصوص مسلمانوں کے لئے نہایت پُر مسرت اور مصروف ایام تھے.کیونکہ ان دنوں میں پاکستان کے تین عظیم جنگی جہازوں (بابر.عالمگیر.ڈھاکہ) کا بحری بیڑا ماریشس میں خیر سگالی دورے پر آیا ہوا تھا.ماریشس کے مسلمانوں بالخصوص جماعت احمدیہ کی طرف سے اس کا پُر جوش استقبال کیا گیا.حکومت ماریشس نے مختلف مقامی انجمنوں اور سوسائٹیوں کے سپر دمعین تعداد میں معزز مہمانوں کی مہمان نوازی کر دی تھی.جماعت احمدیہ کو بھی مہمانوں کی ایک معقول تعداد اس سلسلہ میں سپر د کر دی گئی.پروگرام کے مطابق مولوی محمد اسلم صاحب قریشی شاہد مبلغ ماریشس نے جماعت کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری جنرل مسٹر ناصر احمد سوکیا کے ہمراہ بندرگاہ پر بحریہ کا استقبال کیا.ایڈ مرل جناب ایم شریف ستارہ خدمت کے سٹاف سے بات چیت کے بعد یکم مئی کو نیوی کے چالیس نوجوانوں کی سیروسیاحت کا انتظام جماعت احمدیہ ماریشس کے سپرد کیا گیا.جس کا اعلان لاؤڈ سپیکر پر اسی روز دوسری استقبالیہ دعوتوں اور پروگراموں کے ساتھ تینوں جہازوں پر کر دیا گیا.ان جہازوں پر بہت سے احمدی دوست بھی تھے.حسب پروگرام یکم مئی کو قریشی صاحب روز ہل سے متعد داحمدی دوستوں کے ساتھ ایک کا راور بس لے کر بندرگاہ پر پہنچے اور اپنے پیارے وطن کے معزز مہمانوں جن میں پانچ چھ احمد یوں ( مثلاً

Page 388

تاریخ احمدیت.جلد 26 378 سال 1970ء لیفٹیننٹ بشیر الدین صاحب اور سب لیفٹینٹ مبشر احمد صاحب ابن ڈاکٹر محمد احمد صاحب) کے علاوہ باقی تقریباً سب پنجابی معزز مسلمان بھائی تھے قابل دید مقامات کی سیر کرائی اور ساحل سمندر پر واقع ایک خوبصورت بنگلے میں ظہرانہ پیش کیا جو روز ہل سے پکا کر ساتھ لے گئے تھے.فوجی مہمان احمدی دوستوں کے خلوص، انتظام اور جذبہ مہمان نوازی سے بہت خوش اور متاثر ہوئے.کھانے کے بعد مہمانوں کا یہ مبارک قافلہ وا پس روز ہل پہنچا.مسجد احمد یہ دارالسلام جمعہ پر آنے والوں سے بھری ہوئی تھی.احمدی دوست اتنا بڑا مجمع دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد کے جذبات سے معمور ہو گئے.جماعت کی وسعت ان کے اندازہ سے کہیں بڑھ کر تھی.غیر از جماعت دوستوں کے لئے نماز جمعہ کا انتظام سنی مسجد میں کیا گیا.مسجد احمدیہ میں نماز جمعہ قریشی صاحب نے پڑھائی.نماز جمعہ کے بعد یہ قافلہ اپنے بقیہ اور تاریخی سفر پر روانہ ہوا اور شام کو چھ بجے روز ہل پہنچ گیا.جہاں پاکستان ہائی کمیشن کی طرف سے بحریہ کے ایڈ مرل صاحب اور دیگر افسران کے اعزاز میں دعوت دی گئی تھی.قریشی صاحب کو اس تقریب میں جناب ایڈ مرل صاحب اور جہازوں کے کپتانوں اور دیگر افسروں سے ملاقات کرنے اور جماعت احمدیہ کا تعارف کرانے کا سنہری موقع ملا.اگلے روز ( ۲ مئی ) کو قریشی صاحب کی بابر جہاز پر ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوا.انہوں نے جماعت احمدیہ کے متعلق فرمایا کہ آپ لوگ واقعی بہت کام کر رہے ہیں.جماعت احمدیہ کی طرف سے اس روز تعلیم الاسلام احمد یہ کالج کے ہال میں معزز مہمانوں کے کھانے کا عمدہ انتظام تھا.اس موقع پر قریشی صاحب نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور پاکستان اور ماریشس کے جسمانی اور روحانی رشتوں پر مختصر ا روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ماریشس کی احمد یہ جماعت ہمیشہ پاکستان کی ممنون رہے گی کہ اس سے ماریشس کے لئے روحانیت کا چاند طلوع ہوا جس کی پُر نور شعاعوں سے وہ منور ہور ہے ہیں اور اسلام کی خدمت اور تبلیغ کو اپنا نصب العین قرار دے چکے ہیں.ازاں بعد ید اللہ بنوں صاحب نے ایک مؤثر تقریر کی جس میں میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کے خدائی وعدہ کے پورے ہونے کا ذکر کیا اور احمدیت کے ذریعہ رونما ہونے والے زبر دست روحانی انقلاب پر روشنی ڈالی جس نے احمدیوں کو ایک نئی زندگی عطا کی اور انہیں ایک عالمی اخوت سے منسلک کر کے پوری دنیا اور کل انسانیت سے پیار کرنا سکھلایا.اس کے بعد معزز پاکستانی مہمانوں کی طرف سے لیفٹینٹ بشیر الدین صاحب نے جملہ معزز

Page 389

تاریخ احمدیت.جلد 26 379 سال 1970ء مہمانوں کی جانب سے قریشی محمد اسلم صاحب کی تقریر اور جماعت احمد یہ ماریشس کی مہمان نوازی کا دلی شکر یہ ادا کیا.اس موقع پر قریشی محمد اسلم صاحب نے ایڈ مرل ایم شریف صاحب اور دوسرے معزز مہمانوں کی خدمت میں سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر تحفہ دیا جسے سب نے بخوشی قبول کیا.بعد ازاں رات 9 بے معزز مہمانوں کو بذریعہ بس واپس پورٹ لوئیس میں بابر جہاز پر پہنچا دیا گیا اور یوں یہ استقبالیہ پروگرام بخیر و خوبی انجام پذیر ہوا.۲ دسمبر ۱۹۷۰ء کو ماریشس کے طول و عرض میں یوم التبلیغ منایا گیا.اس روز اخلاص و ایمان کے پیکر احمدیوں نے زبانی اور لٹریچر کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.مولوی صدیق احمد صاحب منور ایک وفد کے ساتھ بونا گئی تشریف لے گئے.یہاں کے لوگ اکثر ہندو ہیں.19 دسمبر کو احمدیہ کالج کی تقریب تقسیم انعامات منعقد ہوئی جس میں وزیر تعلیم مہمان خصوصی تھے.ازاں بعد جماعت احمد یہ ماریشس کی پانچویں سالا نہ تعلیم القرآن کلاس کا مسجد دار السلام میں انعقاد ہوا.جس میں جماعت ماریشس کی مختلف جماعتوں نے نمائندگی کی اور مونتا میں بلانش فنکس ، نیپیر ، پائی اور روزبل کے مخلص احمدیوں نے شرکت فرمائی اور ہر رنگ میں تعاون کیا.کلاس میں مندرجہ ذیل مضامین پڑھائے گئے.قرآن مجید، حدیث ، لائف آف محمد ، تاریخ احمدیت ( عہد مبارک حضرت خلیفہ اوّل)، چشمه مسیحی انگریزی ، اسلام اور حقوق انسانی (Islam and Human Rights از حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.قرآن مجید سے متعلق مختلف موضوعات پر جماعت کے اہل علم حضرات کے چھ لیکچر ہوئے.کلاس ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ ء تک جاری رہی آخری روز حنیف جواہر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ماریشس نے نوجوان قرآن کی روشنی میں کے موضوع پر ایک مؤثر خطاب کیا.60 تعلیم الاسلام احمد یہ کالج روز ہل ( ماریشس ) کا سالانہ جلسہ تقسیم انعامات مورخه ۱۹ دسمبر ۱۹۷۰ء کو تعلیم الاسلام احمد یہ کالج روزبل کا دوسرا سالانہ جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا جس کی صدارت ماریشس کے وزیر تعلیم جناب آر جمعدار صاحب نے فرمائی.اس تقریب کے لئے کالج کی عمارت اور اس کے ماحول کو اچھی طرح سے صاف کیا گیا اور چارٹس کے ذریعہ آراستہ کیا گیا.معزز مہمان خصوصی کی آمد پر انہیں کالج کی لیبارٹریز دکھائی گئیں.کالج کے سٹاف سیکرٹری مسٹر عادل گانتی جی اے نے کالج کی سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں کالج کے اجراء کے بلند نصب العین کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا مقصد ماریشس کے نوجوانوں کو مادی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی

Page 390

تاریخ احمدیت.جلد 26 380 سال 1970ء تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ہے نیز غریب طالب علموں کے لئے خاص سہولتیں مہیا کی جاتی ہیں.چنانچہ اس غرض کے لئے جماعت احمدیہ کثیر رقوم بطور امداد کالج پر خرچ کر رہی ہے.سال کے شروع میں تمام طلباء کو مفت یو نیفارم مہیا کیا گیا.کالج کی سالانہ مفصل رپورٹ پیش ہونے کے بعد جناب وزیر تعلیم صاحب نے اپنی صدارتی تقریر فرمائی.جس میں آپ نے کالج کی سالانہ کارکردگی پر اظہار خوشنودی فرمایا اور کہا کہ جس روح اور مقصد کے ساتھ جماعت احمدیہ یہ تعلیمی ادارہ چلا رہی ہے وہ قابل تحسین ہے.موصوف نے ہر طرح سے اپنی مدد کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ اپنی مدد آپ کے اصول پر کار بند ہونے کی احمد یہ جماعت کی مثال یقینا دوسروں کے لئے قابل تقلید ہے.نیز نو جوانوں کی عملی رنگ میں تربیت کا احمدیہ طرز طریق بھی بہت ہی قابل داد اور پسندیدہ ہے.تقسیم انعامات کے جلسہ کی رپورٹ اخبارات کو بھجوائی گئی اور روزنامہ Advance میں اس کی باقاعدہ خبر شائع ہوئی.ملائیشیا 62 61 مولوی بشارت احمد صاحب امروہی انچارج سبامشن نے یوم میلادالنبی کی تقریب پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے متعلق ایک مضمون لکھا جو روزنامہ سباٹائم میں شائع ہوا.آپ نے جزیرہ لابوان اور مشرقی ساحل کے شہر سنڈا کن کا تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا.آپ کو ملک کے مختلف طبقوں تک پیغام حق پہنچانے کی توفیق ملی جن میں محکمہ پولیس محکم تعلیم ، میڈیکل ڈیپارٹمنٹ ، کالج ، سکول، کمپنیوں کے افسر اور ماتحت، ٹیچرز ، اکاؤنٹنٹ ، مسلم، عیسائی اور فری تھنکر وغیرہ شامل تھے.ملاقاتوں کے علاوہ تقسیم لٹریچر کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے جاری رکھا.مکرم مولوی بشارت احمد صاحب امروہی مبلغ انڈونیشیا ملائیشیا میں تبلیغ اسلام رپورٹ ارسال کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ امسال ۱۹۷۰ء میں تبلیغ اسلام کی غرض سے ملائیشیا کے بعض پادری اور بعض حکومت کے اداروں پرائیویٹ کمپنیوں اور تجارتی اداروں میں کام کرنے والے افراد سے رابطہ کیا گیا.بیر ڈیپارٹمنٹ کے ایک نوجوان کو قرآن اور ادعیہ الصلوۃ وغیرہ سبقأسبقاً پڑھانا شروع کیا.ان کے ہمراہ ایک غیر مسلم خاتون نے بھی اسلام سے دلچسپی لیتے ہوئے ان اسباق کو درساً پڑھنا شروع کیا.رسالہ ریویو آف ریلیجنز کو اس ملک کی لائبریریز میں بھجوایا گیا.تو اؤ کا بھی تبلیغی دورہ کیا گیا اور ایک پادری سے عیسائی عقائد اور تعلیمات پر از روئے بائیبل گفتگو ہوئی.63

Page 391

تاریخ احمدیت.جلد 26 381 سال 1970ء نائیجیریا مولوی محمد بشیر صاحب شاد ۹ سال تک نائیجیریا میں دینی خدمات بجالاتے رہے.اس سال جولائی کے آخر میں آپ نے پاکستان واپس جانے سے قبل کانو کے امیر الحاجی آڈو بیرو ( Alhaji Ado Bayero) سے الوداعی ملاقات کی جس کی تفصیلی خبر اخبار کا نوسٹیٹ ایکسپریس ( Kano State Express) نے یکم اگست ۱۹۷۰ء کو اپنے شمارہ کے صفحہ ہم پر شائع کی جس کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.The Head of the Ahmadiyya Muslim Movement in the Northern State's Maulvi Mohammad Shad, will soon leave Nigeria to Pakistan for "good" after nine years service for the movement in Nigeria.Maulvi Shad yesterday paid a farewell call on the Emir of Kano, Alhaji Ado Bayero, at the Emir's Palace.He told the Emir that the purpose of his farewell call was to express his gratitude to the State Government, Local Government Authority and the entire people of Kano for their hospitality during his long stay in Kano.He said that not very many people were familiar with this movement when he first came to Kano, but today quite a good number of indigenous Ahmadiyya communities have been established due to the cooperation and encouragement of the people.The missionary disclosed to the Emir that some Ahmadiyya missionaries from Pakistan have already been sent to America to convert black Americans to Islam.

Page 392

سال 1970ء 382 تاریخ احمدیت.جلد 26 Replying, the Emir expressed appreciation for the religious work done by the Ahmadiyya mission in Nigeria.He said that it was an epoch in his history of Islam that many black Americans were now showing keen interest in the religion.The Emir revealed that during his recent overseas tour, he met many Muslim ambassadors from Islamic countries like Iraq, Libya, and discussed with them the ways they would follow to convert many Americans to Islam.Maulvi Shad, later presented some religious books including the Holy Quran and a ring to the Emir.When he called on the State's Commissioner for Education, Alhaji Mukhtari Sarkin Bai, later, the outgoing missionary said that the basic principle of Islam like Salat, Fasting, Zakat and Hajj, were the same thing all over the world.He stressed the importance of unity among Muslims all over the world and appealed to them to sink their differences and unite for common good Islam.The Commissioner wished him good luck and happiness wherever he may go.ترجمہ: ایک مبلغ کی نائیجیریا سے واپسی احمد یہ مسلم موومنٹ (جماعت) شمالی نائیجیریا کے انچارج مولوی محمد بشیر شاد صاحب نائیجیریا میں نو سال اپنے سلسلہ کی خدمت بجالانے کے بعد اب عنقریب واپس پاکستان کے لئے روانہ ہونے والے ہیں.مولوی شاد نے کل کانو کے امیر الحاج آڈو بائیرو کے ساتھ ان کے محل میں الوداعی ملاقات کی

Page 393

تاریخ احمدیت.جلد 26 383 سال 1970ء اور بتایا کہ اس الوداعی ملاقات کا مقصد کا نو میں اپنے طویل قیام کے دوران شمالی ریاست، بلدیاتی انتظامیہ اور اہل کانو کے حسن سلوک پر ان کا شکریہ ادا کرنا ہے.انہوں نے کہا کہ جب وہ پہلی بار کا نو آئے تھے.یہاں کے بہت سے لوگ ابھی جماعت احمدیہ سے بکلی باخبر نہ تھے لیکن اب مقامی لوگوں کے تعاون اور ان کی حوصلہ افزائی سے یہاں احمد یہ جماعت کی بہت سی شاخیں قائم ہو چکی ہیں.شاد صاحب نے امیر کا نوکو یہ ھی بتایا کہ پاکستان سے بعض احمدی مبلغین امریکہ بھی بھیجے گئے تا کہ وہ وہاں سیاہ فام امریکیوں کو اسلام میں داخل کر لیں.امیر کا نو نے اپنے جواب میں احمدیہ مشن کی مذہبی خدمات پر اظہار تحسین فرمایا.انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل ہے کہ سیاہ فام امریکن بھی مذاہب میں شوق و جوش دکھلا رہے ہیں.امیر صاحب نے بتایا کہ وہ اپنے سابقہ سمندر پار دوروں میں بہت سے اسلامی ملکوں مثلاً عراق اور لیبیا وغیرہ کے سفراء سے ملے اور ان سے امریکیوں کے اسلام میں داخل ہونے کے بارہ میں تبادلہ خیالات کیا.بعد میں مولوی شاد صاحب نے بہت سی کتابیں امیر صاحب کو بطور تحفہ پیش کیں جن میں قرآن مجید اور ایک انگوٹھی بھی شامل تھی.مولوی صاحب نے سٹیٹ کمشنر برائے تعلیم الحاج مختاری سرکین بائی سے بھی ملاقات کی اور کہا اسلام کے بنیادی ارکان مثلاً صلوۃ (نماز)، رمضان کے روزے، زکوۃ، حج وغیرہ ساری دنیا میں ایک جیسے ہیں.انہوں نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد پر زور دیا اور ان سے اپیل کی کہ اپنے اختلافات کو مٹا کر وہ سب کے مشترکہ مفاد کے حصول کی خاطر متحد ہو جائیں.کمشنر صاحب نے مولوی صاحب کے تابناک مستقبل کے لئے نیک تمناؤں کے ساتھ ان کو رخصت کیا.ہالینڈ ہالینڈ مشن کے زیر انتظام اس سال بھی حسب دستور ملک کی اہم شخصیات نے تقاریر کیں جس کے نتیجہ میں ہر قسم کے طبقہ کے افراد مشن ہاؤس میں آئے.سلسلہ کا لٹریچر خریدا.جناب عبدالحکیم اکمل صاحب انچارج احمد یہ مشن سے گفتگو کا موقع ملا اور مقررین کو جو علمی حلقوں میں امتیازی حیثیت رکھتے تھے سلسلہ کا لٹریچر پیش کرنے کا موقع ملا.جنوری سے اپریل ۱۹۷۰ء تک مشن کے پبلک جلسوں میں حسب ذیل مقررین نے لیکچر دیئے.

Page 394

تاریخ احمدیت.جلد 26 384 سال 1970ء ا.Dr.R.Boeke - پریذیڈنٹ ورلڈ کانگریس آف فیتھس.(عنوان: مذاہب عالم کے مابین مکالمه ) - Prof.Dr.G.W.J.Drewes- صدر شعبہ عربی و اسلامیات لائیڈن یونیورسٹی عنوان : شہادت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) _Prof.Dr.A.A.Kampmout عنوان : ایران کا شہر اصفحان اور صفوی خاندان ۴.ڈیکن ہیگ Pater DRS.TH, J.A.Geraetis عنوان : کیا نوجوان طبقہ اب کے بادشاہ عباس) بھی مذہبی ہے؟) ۵-DS.H.Hofman پر اٹسٹنٹ مناد اور غیر ملکی طلباء کے اتالیق.(عنوان : امن عالم اور مذہب کا کردار ) - Prof.Dr.A.Klasens - پروفیسر یونیورسٹی مشرقی علوم لائیڈن.ماہر مصری عجائبات و ڈائر یکٹرشاہی عجائب خانہ لائیڈن.(عنوان : Nubie ( مصر ) میں آثار قدیمہ کی کھدائی کے نتائج) ے.Mr.Dr.Wysenbeek.ڈائریکٹر عجائب گھر ہیگ.(عنوان: ہالینڈ میں اسلامی آرٹ کے نمونے ) عرصہ زیر رپورٹ میں ہالینڈ کی متعدد تنظیموں ، گرجوں، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی طلباء کے گروپ اسلام پر معلومات حاصل کرنے کے لئے مشن ہاؤس آئے مثلاً بلیک سکاؤٹس مشہور عیسائی تنظیم مکتی فوج.(Salvation Army).شہر ہانکن (Haarlingen) کا ۳۵/ افراد مشتمل گروپ، واسنر (Wassenaar) کے ہسپتالوں میں کام کرنے والے ۴۰ را فراد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ تنظیم کا ایک گروپ.وورس ہوٹن (Woorschoten) اور ماری ھود (Mariahoeve) سے ہائی سکول کے طلباء کے دو گروپ.ہالینڈ کی محکمہ سیاحت کے تحت غیر ملکی سیاحوں کی آمد.سوشل اکیڈمی ہیگ کے ۴۳ را فراد پر مشتمل وفد.ریفارم چرچ سوسائٹی کے ۴۰ را فراد پر مشتمل گروپ.پادری صاحب کی معیت میں برکن وڈ (Berkenwood) سے ایک وفد.

Page 395

تاریخ احمدیت.جلد 26 385 سال 1970ء یہ سب و فود جو تحقیق حق کے لئے مشن ہاؤس میں پہنچے انہیں میٹنگ ہال میں بٹھا کر تقاریر کے ذریعہ ان کی معلومات میں اضافہ کیا گیا.ملک کی تنظیموں، سوسائٹیوں، سکولوں اور کالجوں نے مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کو تقاریر کے لئے مدعو کیا جن میں ایک کے سوا آپ نے دور دراز تک کا سفر کر کے پیغام حق پہنچایا.19 جنوری ۱۹۷۰ء کو بہائیوں کے زیر انتظام ایپل ڈورن (Apeldoorm ) میں بین المذاہب کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں اکمل صاحب نے اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے کامیاب لیکچر دیا اور بہائیوں کے سوالوں کے مدلل جواب دئے جن پر ایک ترک امام نے خراج تحسین ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے نہایت عمدہ رنگ میں اسلام کی نمائندگی کی ہے اور ہمیں بڑی خوشی ہے کہ آپ نے ہماری عزت رکھ لی ہے.اس کا نفرنس کے علاوہ آپ نے مندرجہ ذیل شہروں میں لیکچر دیئے: سلیکر ویر (Slikkerver).روٹرڈم.بیوروجک (Beverwijk) اور گوڑا (Gouda).مشن نے ترک اور مراکش مسلمانوں کے مختلف مسائل اور معلومات میں مدد کی.ایک مسئلہ ہالینڈ میں دیر سے قابل حل تھا.مسلمانوں کو ابھی تک اپنے انتظام کے تحت با قاعدہ اسلامی ذبیحہ کی قانونی اجازت نہ تھی.مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے اس سلسلہ میں متعلقہ سرکاری محکمہ کو بذریعہ خطوط توجہ دلائی جس پر حکومت نے اجازت دے دی.پہلی ششماہی میں ۷ را فراد بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے.طوفان زدگان کے لئے عطیہ 64.ہالینڈ کے احمدی احباب نے مشرقی پاکستان کے طوفان زدگان کے لئے سفارت خانہ پاکستان کے ایسٹ پاکستان ریلیف فنڈ میں ۴۱۷ گلڈز کا عطیہ دیا نیز سوئٹزرلینڈ کے احمدیوں نے ۲ ہزار فرانک کی رقم جمع کرائی.65 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام عید ہالینڈ میں عید الاضحی مورخہ ۷ افروری ۱۹۷۰ء بروز منگل اسلامی شعار کے مطابق منائی گئی.اس

Page 396

تاریخ احمدیت.جلد 26 386 سال 1970ء موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت و محبت احباب جماعت کو بذریعہ تار پیغام تہنیت ارسال فرمایا.حضور نے فرمایا:.جملہ حاضرین اور احباب جماعت کو عید مبارک.اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ سب لوگ عید الاضحی کی حقیقت کو سمجھیں اور ان جملہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی تو فیق پاسکیں جو یہ عید ہم پر عائد کرتی ہے.خامه اصبح التالف حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ان دنوں ہالینڈ میں ہی تشریف رکھتے تھے.چنانچہ خطبہ عید آپ ہی نے ارشاد فرمایا.آپ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے اس عظیم الشان تاریخی واقعہ پر روشنی ڈالی اور فرمایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ کا منشاء اس واقعہ سے یہ ہے کہ ہم سب ان بزرگوں کی طرح اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ہر گھڑی تیار رہیں.نماز عید میں کثیر احباب نے شمولیت اختیار کی.نماز کے بعد ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں یونائیٹڈ مشن کی طرف سے ہالینڈ میں مقرر کردہ ترک افسر، انڈونیشین ٹیچر، پاکستانی سفارت خانہ کے فرسٹ سیکرٹری ،ایک پاکستانی انجینئیر اور دیگر معزز ا حباب شامل ہوئے.اس تقریب کا ذکر ریڈیو ہالینڈ اور اخبارات میں بھی کیا گیا.66

Page 397

تاریخ احمدیت.جلد 26 آمد 387 مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی سال 1970ء اس سال مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد واپس مرکز احمدیت ربوہ تشریف لائے.روانگی محمد شفیق قیصر صاحب ( یوگنڈا سے ) ۱۲ فروری ۱۹۷۰ء قریشی مقبول احمد صاحب (امریکہ سے ) ۱۴ فروری ۱۹۷۰ء محمد عثمان چینی صاحب ( سنگا پور سے ) ۱۶ فروری ۱۹۷۰ ء 69 67 مولوی نظام الدین مہمان صاحب ( سیرالیون سے ) اامارچ ۱۹۷۰ء مولا نا عطاء اللہ حکیم صاحب ( غانا سے ) ۱۸ جولائی ۱۹۷۰ء 72 غلام احمد نسیم صاحب ( گی آنا سے ) ۱۰ راگست ۱۹۷۰ء ملک غلام نبی صاحب ( غانا سے )۲۴ راگست ۱۹۷۰ء چوہدری محمد شریف صاحب ( گیمبیا سے ) ۸ ستمبر ۱۹۷۰ ء 1 71 76 75 محمد بشیر شاد صاحب ( نائیجیریا سے ) ۷ اکتوبر ۱۹۷۰ء قریشی مبارک احمد صاحب ( غانا سے ) ۱۲ را کتوبر ۱۹۷۰ء مولا نا عبد الحکیم اکمل صاحب (ہالینڈ سے ) ۲۰ نومبر ۱۹۷۰ء 77 مولا نا محمد سعید انصاری صاحب (ملائیشیا سے )۲۶ نومبر ۱۹۷۰ء مولا نا لئیق احمد طاہر صاحب (لنڈن سے ) ۱۴ دسمبر ۱۹۷۰ء میاں عبدالحئی صاحب (انڈونیشیا سے ) ۲۵ دسمبر ۱۹۷۰ء 80 جو مبلغین اس سال بیرونی ممالک میں فریضہ اعلائے کلمتہ اللہ کے لئے مرکز سے روانہ ہوئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں :.

Page 398

تاریخ احمدیت.جلد 26 388 پروفیسر رفیق احمد صاحب ثاقب (برائے نائیجریا ۱۲ مارچ ۱۹۷۰ء) مولا نا بشارت احمد بشیر صاحب (برائے غانا ۲۷ مارچ ۱۹۷۰ء) مولا نا عزیز الرحمن خالد صاحب (برائے سیرالیون ۲۸ مارچ ۱۹۷۰ء) مولا نا عبدالمالک صاحب مبلغ غانا برائے خانا • امئی ۱۹۷۰ء) 85 مولانا فضل الہی بشیر صاحب (برائے گی آنا ۱۸ مئی ۱۹۷۰ء) مولا نا غلام احمد صاحب بد و ماهی (برائے جزائر فجی ۱۰ جولائی ۱۹۷۰ مولا نا محمد صدیق امرتسری صاحب (برائے جزائر فجی ۱۰ جولائی ۹۷۰ مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب (برائے لندن ۲ ستمبر ۱۹۷۰ء) (برائے سکنڈے نیو یاس ستمبر ۱۹۷۰ء) سید کمال یوسف صاحب برائے غانا ۳ دسمبر ۱۹۷۰ء) 90 مولا نا عبدالشکور صاحب مولا نا صدیق احمد منور صاحب (برائے ماریشس ۲۲ نومبر ۱۹۷۰ ء ) | 91 87 سال 1970ء

Page 399

تاریخ احمدیت.جلد 26 389 سال 1970ء نئی مطبوعات اس سال جو نیا جماعتی لٹریچر شائع ہوا اس کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.(۱) تفسیر سورة البقره ( شائع کردہ ادارۃ المصنفین ربوہ) (۲) تفسیر سوره لیبین (مولوی عبداللطیف بہاولپوری) (۳) جامع صحیح مسند بخاری بجز گیارہ.بارہ ( ترجمه وشرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب.ناشر ادارۃ المصنفین ربوہ) (۴) خطبات محمود جلد اوّل ( فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ) (۵) مشعل راہ ( شائع کردہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ ) (۶) تاریخ لجنہ اماءاللہ حصہ اول (ام متین حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ) (۷)AFRICA SPEAKS (شائع کردہ مجلس نصرت جہاں تحریک جدیدر بوہ ) (۸) خلافت ثالثہ کی تحریکات اور ہماری ذمہ داریاں ( تقریر مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب شائع کردہ نظارت اصلاح وارشادر بوه) (۹) وحی و الہام کے متعلق اسلامی نظریہ ( تقریر مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب شائع کردہ نظارت اصلاح وارشادر بوه) (۱۰) تاریخ احمدیت جلد یاز دہم ( مولا نا دوست محمد صاحب شاہد ) (۱۱) احمد یتعلیمی پاکٹ بک حصہ دوم ( از قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری) (۱۲) ضرورت نبوت کا ثبوت ( از قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری ) (۱۳) ختم نبوت کی حقیقت ( از قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری) (۱۴) نحن مسلمون ( نظارت اصلاح وارشادر بوه) (۱۵) ہم مسلمان ہیں ( نظارت اصلاح وارشادر بوہ ) (۱۶) مامسلمانیم (وکالت تبشیر تحریک جدیدر بوه) (۱۷) شانِ خاتم الانبیاء ( ناظم ارشاد وقف جدیدر بوه)

Page 400

تاریخ احمدیت.جلد 26 390 سال 1970ء (۱۸) ظہور مہدی آخرالزمان (مؤلفه حکیم عبداللطیف شاہد.شائع کردہ نظارت اصلاح وارشادر بوه) (۱۹) دو مسئلے (مولوی عزیز الرحمان منگلا صاحب) (۲۰) توبہ واستغفار کی حقیقت (مؤلفه مولوی بشیر احمد قمر صاحب) (۲۱) حقیقۃ الصلوة ( مؤلفہ مولوی بشیر احمد قمر صاحب) (۲۲) اسلام کا وراثتی نظام ( پروفیسر عبدالرشید غنی ایم.ایس سی) (۲۳) سلاطین ہند اور اشاعت اسلام ( ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب خلیل ) (۲۴) چشمه اصفی ( عبدالسلام اختر ایم.اے) (۲۵) نقوش جاوداں (عبدالسلام اختر ایم.اے) (۲۶) یا در کھنے کی باتیں ( مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ ) (۲۷) اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کے حقوق وفرائض ( تقریر شیخ مبارک احمد صاحب.شائع کردہ نظارت اصلاح وارشادر بوه) (۲۸) احمدیت کے متعلق عالمی تاثرات ( مولوی بشیر الدین احمد صاحب معلم اصلاح وارشاد ) (۲۹) دعا اور اس کے آداب ( مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ صوبائی امیر پنجاب) (۳۰) تنویر القلوب حصہ دوم ( مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت ہائے پنجاب)

Page 401

تاریخ احمدیت.جلد 26 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۸ الفضل یکم اپریل۱۹۷۰ء صفحها الفضل ۲ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ۸ الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۷۰ صفحها الفضل اسمئی ۱۹۷۰ ء صفحه ا الفضل اسم مئی ۱۹۷۰ صفحه ا الفضل اانومبر ۱۹۷۰ء صفحه ا الفضل ۸ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۸ 391 حوالہ جات (صفحه ۳۳۹ تا ۳۹۰) مصباح سالنامه ۱۹۷۰ء صفحه ۱۲۵ الفضل ۲۴۱۱۵ جنوری ۱۹۷۰ء ۵ جولائی ۱۹۷۰ ء صفحہ ۸ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ا الفضل ۲۴ستمبر ۱۹۷۰ صفحه ا الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۶ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۸ الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۷۰ء صفحها الفضل ۸ و ۲۷ فروری و ۳۰ مئی ۱۹۷۰ء رسالہ تحریک جدیدر بوہ.اپریل ۱۹۷۱ء صفحہ ۱۷ 20 الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۷ 21 الفضل ۱۸ جون ۱۹۷۰ء صفریم 22 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۱ 23 الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۷۰ صفحریم 24 الفضل ۴ را پریل ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ سال 1970ء

Page 402

تاریخ احمدیت.جلد 26 25 الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۰ صفحه ۸ 392 سال 1970ء 26 الفضل ۲ اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 27 روزنامہ مشرق لاہور یکم مئی ۱۹۷۰ء صفحہ ۱۳ کالم ۳-۵ 28 مکتوب امیر صاحب جماعت احمد یہ شیخو پورہ مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۹۲ء نمبر ۹۹۷ 29 الفضل ۱۵مئی ۱۹۷۰ صفحه ۶ نوٹ سید محمد سلیمان صاحب شیخو پوره داماد حضرت سید لال شاه صاحب صدر آنبه 30 ترجمہ ماہنامہ "گورونانک ادلیش انبالہ مئی ۱۹۷۰ء بحواله الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ صفحه ۱۰ 31 الفضل ۶ جون ۱۹۷۰ء صفحیم 32 بحوالہ روزنامه الفضل ۲۲ مئی ۱۹۷۰ صفحه ۷ 33 الفضل ۲ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ 34 الفضل ۱۷ جون ۱۹۷۰ صفحہ ۸ 35 الفضل ۳ جولائی ۱۹۷۰ صفحہ ۸ 36 الفرقان جولائی ۱۹۷۰ء صفحه ۲۳-۲۴ 37 الفضل ۲۲ اگست ۱۹۷۰ء صفحها 38 الفضل ۱۸ اگست ۱۹۷۰ء صفحها 39 میری بحریہ سروس اور احمدی، غیر مطبوعہ صفحہ اکیپٹن شمیم احمدخالدستارہ امتاز ملٹری پاک بحریہ مجاہد کیم 40 الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 41 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ا The Cambridge History Of Islam, VOL:2, The Further Islamic Lands, Islamic Society And Civilization; edited by P.M.Holt, Ann K.S.Lambton, Bernard Lewis, Cambridge - University Press, 1970 42 43 الفضل ۱۲دسمبر ۱۹۷۰ء صفحه ا 44 الفضل ۲۵ جنوری و ۲۳ ستمبر ۱۹۷۰ء.رسالہ تحریک جدید مارچ ۱۹۷۰ صفحه ۱۸ دا کتوبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ 45 اخبار ” نوائے وقت لاہور ۶-۱۴۹ را کتوبر ۱۹۷۰ء 46 رسالہ تحریک جدید اپریل ۱۹۷۱ء صفحه ۱۵ تا ۱۷ 4 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۷۰ء صفحها 48 الفضل ۲۸ مئی، ۲۵ ستمبر و ۵ دسمبر ۱۹۷۰ء 49 اخبار احمد یہ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۹ 50 الفضل ۳ / اکتوبر ۱۹۷۰ صفحهم

Page 403

تاریخ احمدیت.جلد 26 51 الفضل ۲۲ مئی وے جون ۱۹۷۰ء 52 الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 393 53 الفضل ۳۰ را پریل ۱۹۷۰ صفحهیم ، یکم مئی ۱۹۷۰ صفحه ۳ ، ۲ مئی ۱۹۷۰ صفحه م 54 الفضل یکم مئی ۱۹۷۰ ، صفحہ ۳ 55 الفضل ۲۱_۲۲-۲۵ مارچ ۱۹۷۰ء.رسالہ تحریک جدید ربوہ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۲۰-۲۱ 56 الفضل ۲۵ستمبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۴۰۳ 57 الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۷۰ ء صفحها 58 الفضل ۷ را گست و ۲ را کتوبر ۱۹۷۰ء 59 الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ رسالہ تحریک جدیدر بوہ مارچ و اپریل ۱۹۷۱ء.الفضل ۱۷ جون ۱۹۷۰ء صفحہ ۳ و۴ 61 الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۱ ء صفحه ۹ 62 الفضل اار اگست ۱۹۷۰ ء صفحه ۵ 63 الفضل ۲۳ /اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 64 الفضل ۲۹ تا ۳۱ اکتوبر ۱۹۷۰ء 65 الفضل 19 دسمبر ۱۹۷۰ء صفحها الفضل مورخہ ۱۸ مارچ ۱۹۷۰ء صفحہ ۷ 66 67 الفضل ۲۴ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ا 68 69 الفضل ۱۷ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ا الفضل ۷ افروری ۱۹۷۰ ، صفحہ ۱ 70 الفضل ۱۲ مارچ ۱۹۷۰ ء صفحه ا 71 الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ 1 72 الفضل ۱۴ اگست ۱۹۷۰ صفحه ۱ 73 الفضل ۳۰ راگست ۱۹۷۰ء صفحه ا 74 الفضل.استمبر ۱۹۷۰ء صفحه ا 75 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ا 76 الفضل ۲۱ /اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحه ا 77 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ا 78 الفضل یکم دسمبر ۱۹۷۰ ء صفحہ 1 سال 1970ء

Page 404

تاریخ احمدیت.جلد 26 79 الفضل ۷ دسمبر ۱۹۷۰ ، صفحہ ۱ 80 الفضل ۸جنوری ۱۹۷۱ء صفحہ ا 81 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ا 82 الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۷۰ء صفحه ۱ 83 الفضل ۸/ اپریل ۱۹۷۰ء صفحه ا 394 84 تحریک جدید اکتوبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۲۱.ریکارڈ وکالت تبشیر 85 الفضل ۲۶ مئی ۱۹۷۰ء صفحه ا 86 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ 1 87 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ 1 88 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۷۰ ء صفحه ا 89 الفضل م ستمبر ۱۹۷۰ء صفحها 90 الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۷۰ء صفحها 91 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۷۰ ء صفحه ا سال 1970ء

Page 405

اشاریہ مرتبہ مکرم فراست احمد راشد صاحب، مکرم و قاص عمر صاحب مکرم اولیس احمد نوید صاحب، مکرم بلال احمد قمر صاحب اسماء....مقامات کتابیات 3 19 29

Page 406

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 3 اشاریہ اسماء خان 294 آمنہ خاتون بنت ڈاکٹر بھائی محمود آفتاب احمد چوہدری، ڈاکٹر 131 احتشام الحق تھانوی ، مولوی 236 آمنہ بنت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل احتشام الحق ، ڈاکٹر 134 353 318 احسان الہی ظہیر ، حافظ احمد بیگ، مرزا آ.الف آدم خان 170 آڈو بیرو، الحاجی 381382 آر جمعدار اسماء ابوالعطاء جالندھری، مولانا ارشاد علی ، مرزا ,5125,172 | ارے کا گا، جسٹس ,279 ,189196,266 اسٹیفورڈ کرپس سر اسد اللہ خاں، چوہدری 283, 285, 298, 300, 342, 353, 354, 389 379 آصف علی، مسز 312 ابوبکر ایڈو گے کو کوئی ، الحاج آصف، ڈاکٹر.یوگوسلاویہ 40 آصفہ باجوہ، ڈاکٹر 136 ابوبکر ، مولوی آفتاب احمد ، مرزا ابو عبد الله 259, 267 362, 363 81 341 اسد احمد، ڈاکٹر اسدالزماں، ڈاکٹر 39, 87, 287 138 132 اسعد گیلانی ، سید 224247 اسماعیل حسن ، ڈاکٹر اسماعیل علیہ السلام اصغرخان اصغر علی ، چوہدری 40 386 246 343 279 69 315 احمد جان، چوہدری اطالو کیوسی، ڈاکٹر (محمد عبدالہادی) احمد آئی.بی.محمد ، ڈاکٹر 285 131 40, 256, 259, 267 168, 183, 186 احمد جبرائیل سعید 180 178 اظہر احمد ، صاحبزادہ مرزا 339 178,180 ابراہیم بن یعقوب 17880 احمد خان ابراہیم باش تقی ابراہیم علیہ السلام 371 386 احمد دین، چوہدری 320 169 اعجاز احمد، سید اعظم بیگ، مرزا ابن رشد 78 247 246 245 244 | اختر حسین ملک، جنرل 238 اقبال شاہ ابوالاعلیٰ مودودی، مولوی 236 237, 238, 242, 243, احمد سرہندی مجدد)، شیخ 243 افتخار احمد عباسی احمد شمشیر سوکیه 376 | اقبال احمد نجم احمد مختار، چوہدری اقبال احمد، مرزا 352 22,351 190 اقبال حسین اختر ، ڈاکٹر 159, 169 300 340 323 301 138 200

Page 407

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 4 اشاریہ اسماء اکبر یار جنگ، نواب 341 امته الرشید ز وجہ گلزار احمد 277 ایم.ملک الحسن عطاء الحاج 480 امتہ السلام، صاحبزادی 18 ایوب بیگ، مرزا 339 ایوب خان.گلاسگو الطاف حسین شاہ ، سید 240 | امتة الصبور الف دین 295 امتہ القدوس بیگم ، صاحبزادی 233 اے ایچ پراچہ اللہ بخش صادق، چوہدری 145 امتہ الکریم کو کب 233 اے ایس خان اللہ بخش، چوہدری ( پرنٹر ) 321 امتہ النور 339 | اے.اے افریفا 340 109 300 28 194 259 48, 105, 107 137 ام طاہر،سیدہ ( مریم بیگم ) اللہ بخش، چوہدری 329 | انتصار احمد عباسی اللہ دتہ، چوہدری 280 انس احمد ، ڈاکٹر المامی سوری ، الحاج 326 | انس احمد ، مرزا الیاس خاں.بیرسٹر 303 انوار احمد خان، ڈاکٹر 311 انور حسین ایڈووکیٹ، چوہدری الہی بخش ، شیخ 91, 130 134 بابا نانک،گورو 18, 333 15, 31, 93, 196, 353 ام متین ، سیده ( مریم صدیقہ ) 318, 345, 346, 347 61 178 بانجا تیجان سی ، مسٹر بانوحمید - تنزانیہ بدرالدین عامل بھٹہ ،حکیم چوہدری برکات احمد ، سید برکت اللہ بھٹی 331 317 277 برکت علی خاں قادیانی ، چوہدری 141 ,196,216 2010 اوزان دین ( Mr.Ozane (Deen 225, 269, 337, 389 ام ناصر، سیده ( محمودہ بیگم 280 | اونی آما، جسٹس ( Onyeama) 69 40 46 امتیاز احمد چوہدری، ڈاکٹر 132 امتیاز بیگم 233 اوی سانو، شیخ 291, 336 67 بشارت احمد امروہی ، مولوی 380 334 بشارت احمد بشیر ، مولوی 109 140, 230, 231, 388 377 امیر سید ( حضرت پیر کوٹھہ شریف) ایس ایم قریشی 308 | القوارون (Aquarone)69 امی کا اجو کو (Djukwu) 100 ایم.الیس فورنا ، ڈاکٹر امین اللہ سالک 122 369, 371, 372 امة الحفیظ بیگم ، نواب 225 ایم ایس مصطفیٰ امتہ الحفیظ ، ڈاکٹر 135 ایم اے حفیظ امة الحئی ، صاحبزادی 280 ایم شریف ، ایڈمرل

Page 408

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 بشارت الرحمن ، پروفیسر صوفی 353 بکری ، جسٹس 5 اشاریہ.اسماء بشارت با نو زوجہ سلیم احمد انجم 277 بلال رضی اللہ عنہ 42 167 ج، چ، ح، خ، بشری بنت زبیده بی بی 345 بھائی محمود احمد ، ڈاکٹر 285-281 جاوید ا قبال بشری صفدر 181 بی.کے.آدم ، مسٹر 48 جاویدا کرم ، ڈاکٹر بشیر احمد اختر ، مولوی 376 جاوید حسن ، سید بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ 288 پرنس جے ولیمز جر ناوی هادی کسومو بشیر احمد آرچرڈ 71,66 | پرویز اختر بشیر احمد خان رفیق 4070 پرویز نعیم ,78,191 ,75 پنڈٹ ، مسٹر 65, 371 237 13 315 45 246 133 15 364 جلال الدین اکبر، شہنشاہ 300 جلال الدین سیوطی، علامہ 34 جلید احمد، سید 299, 344, 365, 367 131 بشیر احمد خان ، ڈاکٹر بشیر احمد قمر، مولوی 390 تاج الدین بنشی جمال احمد، چوہدری تاج الدین نما ڈا موسی ، ڈاکٹر 46 جمال الدین ، میاں 143 278 285 بشیر احمد، چوہدری 184 | تمیز الدین، مولوی بشیر احمد ، حافظ 280 تنزیلہ جاوید،ڈاکٹر بشیر احمد ، خواجہ 366 | تنکو عبدالرحمن بشیر احمد ، صاحبزادہ مرزا تنویر احمد ،ڈاکٹر 16, 17, 18, 277, 328 تنویر مجتبی ، سید بشیر احمد ، میاں (امیر ضلع جھنگ) تن.بی.یونگ 87 توفیق عبدالفتاح،سید بشیر الحق ، ملک بشیر الدین احمد ، مولوی 330 390 تو قیر مجتبی ، لیفٹیننٹ سید ثاقب زیروی 293 355 133 363 134 183, 184 363 369 183 191, جمیل احمد ابن خواجہ عبد القیوم 286 جمیل احمد طارق جمیل احمد ، سید 141 334 جمیل الرحمن رفیق ، مولانا جواد علی ،سید جوزے ایل بستا مانتے جولین، کاؤنٹ 126, 375, 376 360 19 75 چراغ الدین ، مولانا 92,182 بشیر الدین محمود احمد، حضرت مرزا 1 194 193 1192 چراغ دین ، میاں 351 (خلیفۃ اسیح الثانی) 18311 شریابی بی بنت ملک شادے خان بشیر الدین، لیفٹیننٹ 378 حامد شاہ ،سید 285 حامد علی ، حافظ 293 283 282

Page 409

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 6 اشاریہ.اسماء حبیب الرحمن، ملک 343 خالد حمیدی داماد حکیم سید خلیل احمد داؤ داحمد گلزار، الحاج 334 | داؤدا خیر ابا جاوارا ،سر حبیب اللہ خان 297 مونگیری حبیب بیگم 330 خالد سیف اللہ 29 در زریں نعیم حسن محمد ابراہیم السید 62 خالد محمود، ملک حسن نظامی، خواجه 315 | خالد مسعود، شیخ 340 | دگنارے 169 | دلاور خان خالد ورک حسنات احمد سید 13 دوست محمد شاہد ، مولانا ،خالدہ، سیده ( بنت میجر سید مقبول حسین بیگ، مرزا 178, 179, 181, 317 317 دین محمد ، بابا حشمت اللہ خان ، ڈاکٹر 322 حفیظ بیگم بنت قاری محمد یسین خاں احمد ) خاورمنصور ، ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین، ڈاکٹر 292 183 137 ڈی ایچن گریز رامل ڈی پیڈ روروکمو ڈی جو آن بنیٹو خلیل احمد خاں ، چوہدری 339 302 ڈی گیرا ڈونٹس 366 58 142 69 259 389 15 368 368 368 368 حمید احمد ، سیدا بن ڈاکٹر سید شفیع احمد خلیل احمد مونگھیری ،حکیم سید 333 ذوالفقار احمد فضل ، ڈاکٹر 137 خلیل احمد ابن میاں نیاز محمد 280 ذوالفقار علی بھٹو حمید احمد، صاحبزادہ مرزا 317 16 خلیل الرحمن فردوسی خورشید احمد ، صاحبزادہ مرزا 236, 138 237, 238, 239, 246 333 حمید اللہ ابن محمد عبد اللہ ایرانی 277 ذوالفقار علی خان ، خان 130, 229 حمید اللہ ، چوہدری 1915 روز خورشید عطاء اہلیہ مرزا عبدالحق حمید اللہ ، ڈاکٹر حنیف جواہر حیات محمد ، مولوی حموی خالد اختر خالد بن ولید 214, 226, 229, 267 135 379 287 241 366 رحمت اللہ، میاں 322 279 خورشیدہ بنت ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل رحمت اللہ ، میاں والد چوہدری اللہ بخش خان 294 رحمت بی بی 329 308 خولہ بنت ازور 217223 رحمت خاں، چوہدری د، ڈ، ز داؤ د احمد، سید میر رحیم الدین بنشی 15, 20, 125, 169, 226, 227, 229, 342 217, 218, 234 289, 290 322 311

Page 410

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 7 رسول بیگم اہلیہ چوہدری نذر محمد نذیر 318319339,389 سلطان احمد ، ڈاکٹر مرزا بیگم اہلیہ نذرمحمد رسول بیگ، مرزا 288 300 زینب بی بی س ،ش 330 رشید احمد ابن حکیم سید خلیل احمد سجاد احمد جان جالندھری ،جسٹس مونگھیری 334 133 سراج دین، حکیم رشید احمد بھٹی، ڈاکٹر رشید احمد، چوہدری سرفراز خان، جنرل 366 21,22 333 238 اشاریہ اسماء سلطان محمد خاں ، کرنل 137 6 سلطان محمود انور، مولانا سلطان محمود شاہد، ڈاکٹر سلطان ہارون خاں ، ملک سلیم احمد ابن خواجہ عبدالقیوم 286 125, 342, 343 20 6 سلیم احمد انجم، چوہدری 277 رشید احمد، چوہدری (امیر ضلع ملتان) سروجنی نائیڈو، مسٹر 15 313 93 سرور سلطان (ام مظفر ) رشید احمد، مرزا 17 11 116 سلیم احمد خان رشید الدین خان، ڈاکٹر ابن نواب سرور محمد بشیر 304 سلیمہ بانو نجمه اکبر یار جنگ 342 341 سعادت آراء بیگم 334 سمیع اللہ سیال رشیدالدین قمر ، خواجہ رشیدہ بیگم سعید احمد چٹھہ 366 302 143 142 سیا کاسٹیونس رضوان احمد ، مرزا 340 سعید احمد ، چوہدری سعید احمد ناصر ، 169 | سیف الرحمن، ملک 259 341 322 120 62 317 سعید احمد ، ڈاکٹر رضیہ سمیع ، سیده 168, ,133 سیف اللہ ، مولوی رفیق احمد ثاقب پروفیسر 139 198 1348197 شادے خان، ملک رفیق احمد ، سردار 144 سعید احمد ، مرزا ریاض احمد امیر الدین، ڈاکٹر 137 سعید احمد اظہر، قریشی ریاض الحسن، ڈاکٹر 138 سعید اللہ ملہی 279 139 126 شازیه محمود شائستہ اکرام اللہ، بیگم 9, 169, 278 280 285 339 315 شاہ نواز خان، ڈاکٹر میجر 133 ریڈ کلف زاہد حسین انجم زبیده بی بی زکریا انوری سعیدہ خاتون بنت ڈاکٹر بھائی محمود 238 315 345 139 شاہنواز ،بیگم احمد 285 شبلی نعمانی، علامہ سفیر الدین بشیر احمد ، ڈاکٹر 138 شبیر احمد انصاری حکیم 315 274 274 سقراط 73 شبیر احمد، چوہدری زین العابدین ولی اللہ شاہ ،سید سکینہ بیگم اہلیہ سیٹھ عبداللہ الہ دین 312, 296 18, 93, 267

Page 411

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 8 شبیر حسین، ڈاکٹر 132 صدیق احمد منور ، مولانا 388 | طلحہ احمد ، ملک 92 صفدر علی بیگ، مرزا 279 ظفر احمد عثمانی ، مولوی شریف احمد اشاریہ اسماء 340 236 67, 342 شریف احمد باجوہ، چوہدری 184 صفیہ بی بی بنت ملک شادے خان ظفر اللہ الیاس 285 ظفر علی خان ، مولوی 22315 339 شریف احمد ، میاں شفیع احمد ، الحاج ڈاکٹر سید صفیہ خاتون بنت ڈاکٹر بھائی محمود ظہور احمد باجوہ، چوہدری 39 315 313 312 | احمد 41, 77, 196, 273 285 شکیل احمد منیر، سید 1384 صلاح الدین احمد ، ملک ظہوراحمد شاہ، ڈاکٹر سید 374 سٹمس الاسلام، ڈاکٹر 133 274336 ظہور احمد، چوہدری 165178 339 ظہور الدین بٹ ، خواجہ 307 شمس الحسن ،سید 313 صلاح الدین، پیر شمس الدین خان، خان 308 صلاح الدین، چوہدری 169 ظہور حسین ،مولانا | شمیم احمد خالد، کیپٹن 35592 ضرار شورش کاشمیری، آغا 22 21 ضیاء الدین، ڈاکٹر 217, 218 44, 111, 135, 168, 198 236, 237, 245, 246 | ع عادل گانتی جی اے عالم بی بی 3, 4 379 279, 280 340 ص بض صابرہ بی بی 285 ضیاء القاسمی، مولوی طـظ 237 صابرہ حمیدہ زوجہ اشتیاق احمد 277 طارق ابن زیاد 767883 عالیه عطا عائشہ بی بی اہلیہ چوہدری غلام حیدر صادق علی مرزا 279 طارق محمود ظہور 140 | عباداللہ ، گیانی صادقہ بنت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل طاہر احمد مرزا، ڈاکٹر خان 294 طاہر احمد ، ڈاکٹر کیپٹن 136 288 319, 346, 347 131 134 عبدالجلیل ، ڈاکٹر حافظ 292 | صالح علی، مرزا 279 | طاہر احمد ، صاحبزادہ مرزا ( حضرت عبدالحفیظ بھروانہ، ڈاکٹر صالح محمد خان 126 خلیفہ اسیح الرابع )1521 عبدالحفیظ کھوکھر صالحہ خاتون بنت ڈاکٹر بھائی محمود 169355 1280 عبدالحق ایڈووکیٹ ، مرزا 227 احمد 285 طاہر محمود، ڈاکٹر صالح، الحاج 373 9, 15, 31, 92, 95, 133 طفیل محمد ، میاں 24346 196,226,233,390

Page 412

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 9 اشاریہ.اسماء عبد الحق ، مرزا ابن مرزا صالح علی عبد الرحمن خان 17 عبدالسلام، کیپٹن 279 عبد الرحمن خان بنگالی، چوہدری عبدالسلام، پروفیسر ڈاکٹر 360 198 عبد الرحمن شاہ سید 360 عبدالسمیع نون ، میاں ,68 عبد الرحمن مبشر ، ابوظفر عبد الحق ورک، چوہدری عبد الحکیم الکمل ،مولوی عبدالعلیم ، مولوی عبدالحمید 13 عبدالرحیم خان 337 70,383,385,387 عبدالرحمن ، امیر 7812 عبدالشکور، شیخ 161 117, 182 178, 353 335, 338 عبدالرحمن چوہدری 298 29 عبدالشکور ، مولوی 17788 18 | عبدالعزیز بھٹی عبدالحمید خان ، مولوی 242 عبدالرحیم ظفر ، ڈاکٹر 133 عبدالعظیم ، میاں عبدالحمید خاں 290 289 عبد الرحیم مدہوش 90 | عبدالغفار خاں عبدالحمید صابر بھٹی 285 عبدالرحیم نیر ، مولانا 51 عبد الغفور، شیخ 285 338 283 311 عبدالحمید ،مرزا 327 عبدالرشید بنگوی 298 | عبدالغنی رشدی، میاں 13,165 عبدالحمید اختر 13 عبدالرشید غنی، پروفیسر 390 عبدالقادر ضیغم ،مولوی 229 عبد الحئی طاہر 140 عبدالرشید غوری 308 عبد القادر، شیخ ( سابق سوداگر مل ) عبدالحئی ،میاں عبدالرشید بھٹی 139, 285 269, 335, 338 339 عبد الخالق مبته 139 286 364,387 363 عبدالرشید، چوہدری 13 عبدالقادر، شیخ 259 عبدالرؤف ، ڈاکٹر مرزا 167 عبدالقدير كوكب عبدالرب نشتر ، سردار 314 عبدالرؤف غنی، ڈاکٹر 134 عبد القیوم ، خواجہ عبدالرحمن انور ،مولانا 286 عبد السلام 60 عبدالکریم ابن ڈاکٹر حافظ عبدالجلیل عبدالرحمن بھٹہ،ڈاکٹر 135 عبد السلام ابن خواجہ عبدالقیوم خان عبدالرحمن بی اے، ماسٹر (سابق مہر سنگھ) 294 286 عبدالکریم شاہد کا ٹھگردی 168 31 318 عبد السلام اختر 390 35 عبدالکریم.حیدر آباد عبدالرحمن ثانی ، چوہدری 345 عبد السلام بھٹی ، قاضی 298 عبداللطیف بہاولپوری، مولوی عبدالرحمن خاکی ، ماسٹر 186 عبدالسلام ظافر | 140 290 389

Page 413

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 10 عبداللطیف بھٹی 285 عزیز الرحمان منگلا ، مولوی 390 علم دین، چوہدری عبد اللطیف ستکوہی ، مولوی 28 عزیز احمد، چوہدری 93 علی احمد ، چوہدری عبداللطیف شاہد، حکیم 390 عزیز احمد ، ڈاکٹر 135 علی محمد انبالوی عبد اللطیف، صاحبزادہ سید 294 عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا علی محمد ، ملک اشاریہ.اسماء 322 312 322 340 15 عبد اللہ الہ دین ، سیٹھ عبداللہ خاں عبداللہ مہار، میجر عبداللہ، ملک عبداللہ ، ڈاکٹر عبد الماجد ، سید 296, 297 283 3 188 292 140 عبدالمالک خان ، مولوی 226 11895 علی محمد، چوہدری عزیز الدین حسن، ڈاکٹر 40 عمر الدین سدھو، ڈاکٹر عزیز الرحمن خالد ، مولوی 68,388 ,62 عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ عطاء الرحمن،ڈاکٹر خواجہ 138 عطاء الکریم شاہد ، مولانا عنایت اللہ ، چوہدری 79, 80, 217 367 167, 298 غ عطاء اللہ شاہ بخاری عطاء اللہ کلیم ، مولانا 198, 202 عبدالمجید سالک عبدالمغنی زاہد عبدالمغنی ، ملک 10, 388 1, 10, 107, 127, 315 273 158 عطاء اللہ کھوکھر ،کیپٹن عبدالوحید خادم، ڈاکٹر 137 عطاء اللہ قریشی 238 غالب ( محمد اسد اللہ غالب ) 333 غلام احمد بد و ملهوی ، مولانا 32, 338 185,374,387 ,145 غلام احمد چوہدری.پاکسٹن 330 340 غلام احمد خان 342 عطاءاللہ، پروفیسر 277 غلام احمد قادیانی، مرزا ( حضرت مسیح 286 موعود علیہ السلام) 34161 عبدالہادی، حافظ 328 عطاء اللہ، کرنل 239, 242, 257, 358 13, 15 عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ، حضرت عطاء المجیب را شد ، مولانا غلام احمد نسیم، میر 377387 352 366, 367, 388 عثمان بن فودیو 110113 عظیمی خلیل ، ڈاکٹر عثمان علی خان، میر 348 عفت خالق عثمان فاروق 104 علم الدین غلام احمد ، بابو 302 132 غلام احمد ، بریگیڈیر ڈاکٹر 280 احمد، غلام احمد ، چوہدری.کاٹھ گڑھ 340 295 289

Page 414

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 11 اشاریہ اسماء غلام احمد، چوہدری.سعد اللہ پور غلام محمد ، صوفی (امیر ضلع ڈیرہ فرزند علی خاں، خان 32 324 | اسماعیل خان ) 92 فرینکو مسٹر 308 119 غلام احمد ، ڈاکٹر 1131230 غلام محمد، کیپٹن ڈاکٹر 310 فضل احمد چوہدری 20277 غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا 339 غلام محمد منشی آف ہجگہ 328 فضل الہی انوری 122125 غلام احمد ، قریشی 327 غلام نبی جانباز 237 فضل الہی بشیر ، مولانا غلام احمد ، میاں 169 | غلام نبی ، خان بہادر ڈپٹی 313 غلام السیدین ، سید 183 غلام نبی ، ملک غلام اللہ خان ابن چوہدری غلام محمد غوث محمد ، مولوی 290, 291 ف خاں غلام اللہ خان، مولوی 247 فاروق عمر کھوکھر ، ملک 387 324 غلام حسن خان پشاوری ، مولانا 17 فاروق مرزا، کموڈور غلام حیدر، شیخ غلام رسول 321 فاطمہ بیگم بنت مولوی حیات محمد 283 340 355 288 غلام رسول خاں 289 فاطمہ خاتون بنت ڈاکٹر بھائی محمود غلام رسول را جیکی ،مولا نا 293, 312 احمد فال برخت،مسٹر غلام رسول وزیر آبادی ، حافظ 287 فتاحی گیوا، ڈاکٹر غلام عباس لالی، مہر 240 فتح محمد سیال، چوہدری 285 70 341 3-5, 91, 305 فضل حسین ، مہاشہ 9, 32, 388 319 68 137 فضل دین، حکیم 282 281 فضل دین، مستری فضل محمود بھنوں ، ڈاکٹر نمار محمد سنگھائے ،سر 57, 58, 199, 265 فواد آمون فوزیہ شریف فیروز دین، حکیم فیض اللہ قیصرانی ، سردار فیض قادر، ڈاکٹر 19 136 295 92 330 ق قاسم الدین، بابو 165 غلام غوث ، مولوی 23738 غلام مجتبی ، ڈاکٹر سید 131, 135, 183 غلام محمد خاں ، چوہدری فتح محمد ، چوہدری (نائب امیر لاہور) قدرت اللہ خان، حافظ 292 90,93 فخر الدین مالا باری، مولوی 306 289 فرانس سکو فرانکو بیا مونڈے 368 غلام محمد کھوکھر، میجر چوہدری 298 غلام محمد ،صوفی 15,324 فرحت حفیظ فرخنده اختر شاه، سیده 339 280 قدرت اللہ سنوری ، مولوی 287 قدرت اللہ ، حافظ قدرت اللہ ، شیخ قدسیہ بیگم صاحبزادی 363 93 339

Page 415

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 قدسیہ نسرین اہلیہ محمد احمد 334 لال شاہ ، سید قریشه سلطانہ بیگم ( بیگم شفیع) لبنی سعید 1792-317 | لذريق 12 اشاریہ اسماء 392 مبارک احمد طاہر 1141145 340 مبارک احمد نذیر 7576 مبارک احمد ، ڈاکٹر 140 137 قطب الدین ، مولوی 284 لطف الرحمن محمود 140 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا 15 کامران احمد ، ڈاکٹر سید لطیف احمد محمٹ لقمان نصیر ناصر ، ڈاکٹر 20, 62, 77, 93, 106, 140 کرامت احمد خاں ، رانا 136 291 لنگا کروما کرم الہی ظفر، چوہدری لوبلن ، ڈاکٹر 347 مبارک احمد ، شیخ لیق احمد طاہر، مولانا 107, 109, 128, 226, 137 342, 344, 363, 374 371 13, 15, 95, 114, 125, 226, 77,368 کرم دین، مولوی (بھیں ) 281 227, 229, 301, 390 365-367, 387 کمال الدین کمال الدین خواجہ کمال یوسف، سید کنیوا گمانگا کوثر تسنیم ، ڈاکٹر کو کوفو پینے 138 282 9, 388 66, 113 133 109 لئیق احمد کھوکھر ، چوہدری مبارک احمد قریشی 98299 مبارک احمد ، ملک لیقہ فوزیہ 135 مبارک احمد لیاقت علی ، مرزا 279 | مبارک آدم 387 125 139 373 لیکھرام، پنڈت 279 مبارک علی طاہر 140 لیلی 41 مبارکہ بنت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل گلزار احمد ، مولوی مالم وزیری عبدو 241 گلزار احمد داماد محمد عبداللہ ایرانی مامون احمد، شیخ 277 مبارک احمد آغا ، ڈاکٹر خان 294 مبار کہ بیگم اہلیہ شیخ مبارک احمد 302 مبارکه بیگم، سیده نواب گورمیت سنگھ جی ، سردار 346 مبارک احمد ابن شیخ احمد 289 ل مبارک احمد ابن مولوی حیات محمد مبشر احمد ، ڈاکٹر سید 20, 35, 225 135 مبشر احمد، سب لیفٹیننٹ 378 289 لاخس ، جسٹس (Lachs) 69 مبارک احمد شریف، ڈاکٹر 136 مبشرات احمد ، سید 317 44, 112 13 137

Page 416

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 13 اشاریہ.اسماء مبشر احمد، صاحبزادہ ڈاکٹر کرنل مرزا محمد اسلم جہانگیری ، ڈاکٹر 132 محمد اکبر خان ، میجر جنرل 17 محمد اسلم فاروقی ، حکیم مبشر حمید، ڈاکٹر 137 محمد اسلم قریشی ، مولوی مبشر سلیم، ڈاکٹر مبشر نسیم مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا محبوب عالم خالد ، شیخ محمد آرتھر ، الحاج 135 278 محمد اکرم خاں، چوہدری 37779 محمد الدین جہلمی | 132 محمد اسلم، پروفیسر قاضی محمد الیاس 17 20, 348, 355 محمد اسماعیل پانی پتی، شیخ 354 351, 352 339 282 283 محمد الیاس خان (انگلستان) 49172229 محمد اسمعیل درویش ، بابا مستری محمد امین چیمہ 52 ( عرف بابا سر پیٹ ) 333-330 محمد ابراہیم سیالکوٹی، مولوی 353 محمد اسماعیل دیا گڑھی ، مولوی 319 محمد اجمل شاہد ، مولوی 351 محمد اسماعیل ،منیر، مولوی 10 محمد احمد انور 126, 130, 144, 177 229 محمد احمد داماد خلیل احمد مونگھیری محمد اسماعیل و سیم محمد امین ، خواجہ محمد ایوب خان محمد ایوب، مولوی محمد بخش، بابو محمد بخش، میاں محمد بخش، میر محمد بشیر شاد، مولوی 366 140 93 236, 315 362 322 279 15 334 محمد اسماعیل، میاں محمد احمد مظهر، شیخ 15 محمد اشرف، چوہدری 13,226,309 محمد اشرف ،ڈاکٹر محمد احمد، چوہدری 332 محمد اشرف لیکچرار 139 304 139 134 344 محمد احمد ، ڈاکٹر محمد بشیر ، ڈاکٹر 378 محمد اعظم بیٹھ 347,349 17 محمد افضل قریشی 255122 محمد بن صالح 44, 381, 382, 387 131 178 20 محمد احمد ، سید 178 محمدتقی ، چوہدری 331 محمد اقبال پراچہ ، شیخ محمد احمد ، مستری محمد ادریس 141 محمد اقبال، شیخ 240 محمد جعفر ایڈووکیٹ ، ملک 238 محمد ادریس عابد ، چوہدری 126 محمد اقبال، علامہ ڈاکٹر محمد جمیل ،سید ابن حکیم سید خلیل احمد محمد اسحاق خلیل، ڈاکٹر 390 22, 238, 243 محمد اسد اللہ قریشی 336 محمد اقبال، میاں مونگھیری 93 محمد حسن، ڈاکٹر سردار 334 133

Page 417

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 14 محمد حسین بٹالوی ، مولوی 202 محمد شفیع بھیروی، قریشی 327 محمد ظفر اللہ خاں ، چوہدری | محمد حسین چٹھہ 246 | محمد شفیع ، مفتی 236 اشاریہ اسماء 2, 13, 15, 19, محمد حسین ، قریشی 287 محمد شفیع ، میاں (میش 2 1 ,72 70 69 68 ,40 محمد حفیظ خان ، ڈاکٹر 134 محمد شفیق اکاؤنٹنٹ 75, 114, 115, 191, 126 محمد حنیف، شیخ 86 محمد شفیق قيصر 193, 194, 210, 231, 387 محمد خاں ایڈووکیٹ ، رانا 31 محمد صادق سماٹری ، مولانا محمد خان ، ڈاکٹر الحاج 134 محمد خان ، میجر ڈاکٹر ( عدن) 259 محمد صادق فاروقی 238, 258, 259, 287, 365, 366, 379, 386 361, 364 132 278 محمد ظفر اللہ ، ڈاکٹر محمد دین ، مولوی 95,626 | محمد صدیق امرتسری ، مولوی محمد ظہور الدین اکمل، قاضی 327 محمد رمضان (نجی) 223 275,388 محمد عباس باجوہ ، ڈاکٹر 175 محمد عبد اللہ ایرانی محمد رمضان ، ڈاکٹر 301 | محمد صدیق شاہد 13 محمد عبد اللہ، قریشی 18186 محمد صدیق قریشی ، حافظ محمد سرور شاہ ،سید محمد سعید انصاری ، مولوی 387 محمد صدیق گورداسپوری محمد عبداللہ ، ملک 312 محمد سعید، کیپٹن محمد سلیم ناصر باجوہ محمد سلیمان سید داماد سید لال شاه محمد صفدر، میجر 683 محمد عبد اللہ ، میاں 136 277 286 179 322 397 محمد صدیق، چوہدری 95 | محمد عبدالہادی، ڈاکٹر (اطالوکیوسی) 181 392 محمد صلی اللہ علیہ وسلم 143 40, 256, 259,267 387 7 محمد عثمان چینی ,58,87 123 محمد عرفان، مولوی 226 ,213 ,163 ,111816 محمد علی ، پروفیسر چوہدری 216, 218, 219, 220, 221, 227, 228, 241, 249, 253, 261, 262, 263, 265, 266, 367 139 محمد شریف محمد شریف، چوہدری محمد شریف ، مولانا چوہدری 123 145, 185, 365, 387 308, 309 محمد شفیع اسلم محمد شفیع اشرف ، مولانا 125, 127, 129 39, 46, 77, 82, 97 محمد علی جناح ( قائد اعظم ) 313, 315, 316 محمد علی شاہ ،سید محمد طیب، میجر ابن خواجہ عبدالقیوم 286 289 محمد علی ،مولوی (غیر مبائع) 282

Page 418

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 محمد عمر ، مہاشہ محمد عنایت اللہ ، شیخ 15 اشاریہ.اسماء 319 محمد یعقوب خان ( ایڈیٹر دی لائٹ) مختاری سرکین ہائی ، الحاج 383 321 ,160 مدثر احمد ، ڈاکٹر ملک محمد فاضل، حاجی 1 190 ,162,172,187 مراد بخش لدھیانوی، چوہدری محمد فریدون خان، شیخ 181 محمد یعقوب ، الحاج 3193 محمد کونٹے ابن الحاج المامی سوری محمد یوسف الدین، قاری 351 مراد بخش، حافظ 326 محمد یوسف شاہ ، ڈاکٹر کرنل 134 مریم صدیقہ، سیدہ (ام متین) 135 286 291 محمد لطیف محمد مصطفی ، ڈاکٹر محمد منور، مولانا 345 132 367 محمد یوسف فاروقی، قاضی 269 محمود احمد اشرف 273 مسرت اہلیہ محمد لطیف 121, 216, 225, 389 345 محمود احمد بی ٹی 144 مسرور احمد ، مرزا ( حضرت ) 139 محمود احمد خان ، میاں 2174 مسعود احمد جہلمی محمد، مولوی (مشرقی پاکستان ) محمود احمد خان، نوابزاده 69, 144, 151, 156, 257 17 223, 226, 343 محمود احمد ناصر، سید میر مسعود احمد خاں دہلوی محمد ، مولوی (عرف لال ٹوپی) 9, 20, 229, 233 محمد نذیر احمد 375 63 محمود احمد ،سید 339 | مسعود احمد خان، نواب محمود احمد، نواب 339 مسعود احمد، ڈاکٹر.لاہور 9, 91, 146 339 15 محمد نذیر لائلپوری ، قاضی محمود الحسن ،ڈاکٹر 138 مسعود احمد ، ڈاکٹر حافظ 178 29, 178, 285 ,324 10305 محمود الحسن قریشی 342,343,351,389 محمود الحسن ، کرنل ڈاکٹر 184 مسیح الدین خان، مولوی 308 | محمد نذیر ملتانی، قریشی 295 | محمود اللہ شاہ ، سید 280 | مسیح الله محمد نواز ، راجہ 187 | محمود حسین 282 13 مسیح ناصری علیہ السلام، حضرت محمد ہادی نسیم فاروقی 278 | محمو در تانی 69, 146, 375, 376 69, 70 محمد یسین خاں، قاری 303-301 | محمود، مفتی 238 237 مشتاق احمد باجوہ، چوہدری محمد یحیی خان 236 مختار احمد ایاز محمد یعقوب خان 139 مختار احمد ، حافظ 144 292 | مشتاق احمد خان 40, 68, 369 13

Page 419

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 16 اشاریہ اسماء مشتاق احمد ، ڈاکٹر میر 339 منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا منیر احمد شہید، میجر 286,307 مصطفی سنوی مظفر احمد ظفر 371 ,95,160,177,187 | منیر احمد عارف، چوہدری 229 291,331,354,357334 | منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا مظفر احمد منصور 140 منصور احمد مرزا.راولپنڈی 339 منیر الدین احمد ، مولوی مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا منصور احمد ، مولوی 1182 منصورہ بیگم سیده 68 مورزوف جسٹس 39, موسی بن نصیر 17 375 69 75 186 345 معظم بیگ، الحاج مرزا 305 167 ,106 ,46,49 موسیٰ علیہ السلام ، ( حضرت ) 166 339 | 196,225,232 181 | مولا بخش، میاں معین الدین، پیر مقبول ابن عبدالرشید غوری 310 منظور احمد چنیوٹی، مولوی 240 مہتاب دین ، چوہدری مقبول احمد ذبیح ، مولانا 68 منظور احمد شاکر 3 مهر آپا ،سیدہ (بشری بیگم ) مقبول احمد قریشی ، مولانا منور احمد انیس 340 361,387 ,130 منور احمد نوری ، سید بن حکیم سید خلیل مقبول احمد، چوہدری 91 احمد صاحب مونگھیری مقبول احمد ، میجر سید 92, 172, 183, 187 منور احمد ولد کیپٹین ڈاکٹر غلام محمد 334 311 میکلینڈ ، ڈاکٹر ناجیم بن سالم نادر خاں، ملک 225, 339 347 302 329 ناصر ابن عبدالرشید غوری 310 134, 135 مقصود احمد ( فیصل آباد ) 169 منوراحمد، ڈاکٹر قاضی ملیرو ( Muliro) ممتاز احمد عمر، ڈاکٹر ممتاز اختر 375 136 345 منور احمد، صاحبزادہ مرزا منور احمد ناصر احمد سوکیا ناصر احمد، پروفیسر 377 185 2018 ناصر احمد، چوہدری ولد کیپٹین ڈاکٹر 90, 140 | غلام محمد 311 ممتاز دولتانہ، میاں 239 238 منیر احمد ابن بشیر احمد رفیق خان ناصر احمد ، مرزا ابن مرزا آفتاب احمد منصور احمد بشیر 140 192 341 منصور احمد ناصر 144 | منیر احمد ابن میاں نیاز محمد 280 ناصر احمد ، (حضرت) صاحبزادہ مرزا منصور احمد ولد کیٹین ڈاکٹر غلام محمد منیر احمد ایڈووکیٹ، ملک 329 311 منیر احمد بسمل 79, 107, 312, 331 339 139 ناصر انعام احمد ، مرزا

Page 420

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 17 ناصر رشید فاروقی 30836 نصر اللہ حمید ، ڈاکٹر ناصر شاہ،سید 300 نصر اللہ خان ، نوابزادہ ناصر نواب، میر 1885 اشاریہ اسماء 131 نعیمہ بنت علی محمد انبالوی 323 نفیسہ بنت ڈاکٹر حافظ عبد الجلیل 237, 238, 246 ناصرہ جمال 278 نصر اللہ خاں بھٹی ، چوہدری 304 نور الحق تنویر، قریشی 55 239 نورالحق، مولانا ابوالمنیر نصرت جہاں ،سیدہ (اماں جان ) نانا اوسیئی آسیسے دوم ناناں کمار 109 نصرت بھٹو شار بن عبدالرشید غوری 310 نذرمحمد نذیر گولیکی نذیراحمد،کیپٹن 287, 288, 336 181 294 125 172, 229 نورالدین، (حضرت) مولانا 18 17, 18, 36, 280 188, 287, 311, 328 308 278 279 73 136 339 140 131 136 139 نصرت جہاں ،صاحبزادی 339 نور محمد ، حافظ نصرت قریشی، ڈاکٹر نیازعلی فاروقی منشی نذیر حسین دہلوی ، مولوی 202 نصیر احسان احمد ، مرزا نیاز محمد ، شیخ نذیر احمد علی ، مولانا نذیر احمد مبشر ، مولانا نصیر احمد خالد 63,66 نصیر احمد شیخ، ڈاکٹر نیلسن منڈیلا 95, 130, 140, 329 نصیر احمد مبشر ، ڈاکٹر و نذیر احمد (افسر تعمیرات) 20 نصیر احمد، چوہدری واحد حسین، گیانی مرزا (سابق نزہت آراء بیگم 334 نصیر احمد ، راجہ 343 شیر سنگھ) نز بہت سیدین ، سیده 183 نصیر احمد ، مولوی واعظ علی مسلسل ، مولانا نسبون محمود 362 | نصیرالحق ، حاجی 143 نصیر الدین احمد، شیخ 320 330 140 وحید احمد وحید قریشی، ڈاکٹر 317-322 333 339 33 نسیم احمد ودود احمد ابن ڈاکٹر بھائی محمود احمد نسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 340 نظام الدین بدھن ، ڈاکٹر 135 نسیم اختر بنت ملک شادے خان نظام الدین مہمان، مولوی 387 285 نظام الدین ، مولوی نسیم سعید ، سیده 312, 316, 317, 337 نسیم سیفی ،مولانا 9, 130, 179, 181 277 وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 285 95, 96, 233 نعمت اللہ خان 322 وقیع الزمان، بریگیڈئیر نعیم احمد طاہر ولی الرحمن سنوری 17 126 نعیمه بشری بنت علی محمد انبالوی 323 ولی شاہ، ڈاکٹر ولی شاہ، ڈاکٹر 200366

Page 421

اشاریہ.اسماء 18 Michael N.Ndoinge Abdul K.Sesay 141 56, تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 ولیم ٹب مین 143 A.Kabba 143 89, 120, 123, 207 M.K.Mahmood 143 Alah Lamin 142 373 دیمہ والد الحاج ابودیمہ Momodu Momoh Alimamy M.Kamara 142 142 0 Mustapha N.Kallon Ann K.S.Lambton 279 141 392 Pater DRS.TH.J.107, 373 A.S.Bayoh 141 A.Geraetis P.M.Holt 384 A.Sesay 142 ہارون علی ، مرزا ہارونااسیکو ہدایت اللہ ہیوبش 392 A.T.Jalloh 141 146, 147, 156, 158 Prof.Dr.A.Klasens Balla Sesay 142 78 384 Bernard Lewis 392 Prof.Dr.A.A.Dr.Wysenbeek 384 Kampmout 384 DS.H.Hofman 384 Prof Dr.G.W.J.Ebrima Bayo 143 347, 348 Drewes 384 E.J.Massaquoi 142 378 R.Boeke 384 Sandy Moijueh 141 Evans F.Sinneh 141 F.Kallon 143 Shiaka Lahai 143 293, 300 S.I.Fofana 143 F.M.Bayoh 141 18 S.M.Sapatteh 141 Francis Farmer 142 ہشام ی یار جنگ ، نواب بہادر ید اللہ بھنوں یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا یعقوب علی عرفانی ، شیخ یعقوبو گوون ، میجر جنرل S.T.Laboh 143 Hassan Iftone 141 Sylvester Keifala Hassan Kamara 143 43, 99, 100 Moiforay 142 J.B.B.Saffa 141 178, 227 U.P.Bangura 142 Joseph Lavally 142 202 یوسف یاسن یوسف، کرنل Unisa Deen Kargbo K.M.Bangura 142 ENGLISH 142 K.M.Lamin 141 Yousuf Turay 143 A.A.Lamin 141 Lilian Songo 143 M.H.Rogers 143 Abdulai Bayo 143

Page 422

اشاریہ.مقامات 19 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 آ الف آبی جان ( آئیوری کوسٹ ) آرا ( نائیجیریا) آسٹریلیا آکسفورڈ استنبول مقامات 99, 104, 105, 106, 40 اسکورے ( گھانا ) 121,131,139 119 ,117 ,107 اسلام آباد 122, 159, 166, 167, 169, 171-173, 175, 178, 181-183, 195, 203, 208, 215, 224, 226, 227, 230, 232, 233, 235, 265, 359 364 52-54, 135 13, 90, 92, 159, 160, 166, 167, 168, 174, 182, 183, 316 334 48, 109, 132, 230 140 365 اشانی آگووائی.اوگون سٹیٹ ( نائیجیریا) آئیکنلے.کواراسٹیٹ (نائیجیریا) آئیوری کوسٹ 140 افریقہ (براعظم),6,8,11, افغانستان اکارے اکوکو.اونڈ وسٹیٹ ( نائیجیریا) ,96,97,102,109 | اکرا 135 47, 51, 52, 105-107, 132, 230 99 اکیجا ( نائیجیریا) اگبا گی.اکوکوسٹیٹ ( نائیجیریا) 45, 49, 51, 60, 63,67, 84-86, 89, 110, 123, 127, 130, 140 151, 157, 162-165, 37, 52-55, 57, 98, 171, 178, 179-181, 122, 135, 145, 226 184, 185, 190, 197, 72 139 29 40 137 135 269, 298, 301-303, 359 276, 278, 318, 321 افریقہ (مغربی) 204, 206, 208, 212, 21529 ,227,234 ,216222 الانی جو انڈیا ( سندھ) البانيه 259 افریقہ (جنوبی) امبالے ( یوگنڈا) افریقہ ( مشرقی) 9,178,200 امرتسر 235, 261, 358 134 ابادان 135,341 ,43,99 ابوظہبی ایایا ( نائیجیریا) اٹلی اجوکورو ( نائیجیریا) اجیبوڈے نائیجیریا) امریکہ 7, 8, 11, 70, 117, 127, 180, 208, 258, 37, 38, 56, 57, 134, 135, 222 احمد نگر (ربوہ) 1992,291 اسالڑی (سندھ) 64, 67, 68, 69, 70, 74, 87, 88, 94, 98, 29

Page 423

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 20 اشاریہ مقامات 140 با نجل ( گیمبیا) 134143 ,305,334,358 304 اونڈا ( نائیجیریا) 140 باندھی (سندھ) 360-362,383,387 اونی ( نائیجیریا) امریکہ (مشرقی) 368 174 اوہایو امریکہ (جنوبی) 164,368 اویری ( نائیجیریا) اموسان ( نائیجیریا) 135 360 بانڈ ونگ (انڈونیشیا) 135 363, 364 ایبٹ آباد 160-92,158 | بٹالہ 279, 282,283 346,392 12 162,167,170 | برطانیہ.انگلستان.انگلینڈ - uk انبالہ چھاؤنی انجوارا ( گیمبیا) 173, 177-179, 181, 134 3, 4, 60, 70, 74, 75, 88, 114, 117, 162, 177, 178, 190-193, 200, 205, 208, 231, 258, 272, 274, 298, 301, 303, 184, 186, 187, 201 77 385 360 اندلس ایپل ڈورن انڈونیشیا 364-146361 369,380,387 ایتھنز (اوہایو) 115 ایڈنبرا انڈیا.بھارت.ہندوستان 311, 344, 364-366 8, 41, 259, 384 8, 132, 161, 384 139 | برکن وڈ ,185202,227,259 | ایسار چر ( گھانا) 286, 290, 302, 306, 314, 315, 331, 341, 342, 346, 364, 371 29 انڈیر (سندھ) انگلستان.انگلینڈ.برطانیہ-uk ایشیا 78, 127, 239 برمنگھم 192, 303 131 برہمن بڑیہ ( مشرقی پاکستان ) ایکروفوم ( گھانا) ایلڈورو ( کینیا ) ایمسٹرڈیم 376 68 بریڈ فورڈ 39 | بریکامه ( گیمبیا) ,70 360 ایمکن روڈ ( لاہور) 3, 4, 74, 75, 88, 114, 117, 162, 177, 178, ,205 ,200 ,190-193 | باب الابواب (ربوہ) ,20831258,272 باتھرسٹ 274, 298, 301, 303, 311, 344, 364-366 92 بقے ( گیمبیا) بغداد بكورو ( نائیجیریا) 199 57989 بلاما ( سیرالیون) 135 بالٹی مور اوچی ( نائیجیریا) 361 بلیک برن 360, 361 301 | بنگال 29 | بال(Bal) جالندھر اونٹ کیپاریو ( سندھ) 343 191, 192 134 134, 143 305 134 140 194 333 333

Page 424

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 21 بنونکا گنڈا ( گیمبیا) 59 پاراکو (بین) 137 پواوو کر تو (انڈونیشیا) بواجے بو( سیرالیون ) بواڈی (گھانا) پاک پیٹن 42, 132, 140 72, 89, 116, 124, 132 127, 202, 231, 238 بو بوجلاسو ( بورکینا فاسو ) 137 بونا گئی ( ماریشس ) 379 اشاریہ.مقامات 330 پورٹونو و (بینن ) 7,31 پولینڈ پھولپورہ (سندھ) ت.ٹ پاکستان (مشرقی 1023 342, 343, 354, 356, 363 137 69 186 29 بو ( سیرالیون) 667,133 357,364,375,385 تا بنگ تنگی (انڈونیشیا) 362 143,326,369 -140 | پاکستان (مغربی) 91 تا سیک ملایا ( انڈونیشیا) 362 223,243,314,349333 | تاشقند 931 پاکن بارو (انڈونیشیا) 362 ترکی (لڑکی) 25242,247 پائی (ماریشس) 379 | ترنول بہار بہاولپور بہاولنگر بھارت.انڈیا.ہندوستان 352 8,361 158 178 پیا تو (انڈونیشیا) 362 تلونڈی جھنگلاں ( گورداسپور ) پریسٹن پسرور پیشاور 365 283 تلونڈی را ہوالی 18,92 تجونگ بالے (انڈونیشیا) 169 280 8, 132, 161, 185, 202, 227, 259, 167, 170, 174, 175, 362, 363 184, 269, 308, 341 تنزانیہ 286, 290, 302, 306, 314, 315, 331, 341, 342, 346, 364, 371 362 136, 146, 258, 367 بھٹے کلاں (سیالکوٹ) 278 پمپانکن (انڈونیشیا) 137 40 164 301 تنکوڈوگو ( بورکینافاسو) تهران تھائی لینڈ ,289 | ٹانگا 9,31, پنجاب (پاکستان) 282 92, 95, 226, 233, 230 242, 245, 247, 251, بھڑ (گورداسپور ) نی کوائے اسٹیٹ.غانا.163, 355 267, 280, 354, 390 376 بیور و جک (Beverwijk)385 پنجاب (ہندوستان) 314,316,333,358 ٹاویٹا ( کینیا ) پاڈ نگ (انڈونیشیا) 363 362 پنڈی بھٹیاں 93 ٹب مین برگ (لائبیریا ) 136

Page 425

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 طبورا 22 302 301 چندر کے منگولے 280,288 دار الصدر جنوبی ٹمبو ڈو ( سیرالیون) 140 | چنیدہ (سندھ) 29 دار الصدر شرقی ٹیچی مان 550105 چنیوٹ 100 دار الصدر غربی 131 اشاریہ.مقامات 92 92 له ق له له 92 16,92 ٹیکسلا 170 چوتیرہ ( یوگنڈا) 136 | دار العلوم چین 369 دار النصر شرقی ج - چ ح خ دار النصر غربی 147, 210, 364 !! دار الیمن جا کرتا (انڈونیشیا) 363 362 حصار ( بھارت) حیدرآباد(پاکستان) جرمنی (مغربی) 10147 حیدر آباد دکن (انڈیا) 346 298 92 92 92 دارو ( سیرالیون) 142 140 داسا (بین) 137 149, 153, 156, 157, 256-258, 364, 368 32, 223, جزائر فنی 259,374,375,388 جنوبی کوریا جنیوا 301, 303, 365 200,364 خانیار کشمیر خیبرایجنسی دانه (سرحد) , 290, 341 دمشق 217-219 دہڑھ چک نمبر ۲۹.شیخو پورہ 322 295, 313, 314, Jus 315, 316, 336, 338 375 308 186 دھرگ میانہ (سیالکوٹ) 304 دھرم ساله 40 دار البرکات (ربوہ) 274 دھنا گام (سندھ) جورو ( سیرالیون) 140 132 دار البرکات ( قادیان) جھنگ 132140 93 16,86 دار الرحمت شرقی 87,240,347,357 دار الرحمت غربی چڑانت (سندھ) 29 278, 280 92 دھینگا سر و (سندھ) ڈاکار ڈبو آ سی ( گھانا ) 692, 97, 259, 290 305 29 29 } 199 131 281 ,282 | ڈنمارک 70,178,368 چک چھور مغلیاں 310 دار الرحمت ( قادیان) 282 ڈنمارک | چک نمبر ۵۶۵ - فیصل آباد 289318 285,288 284 ڈوکو( انڈونیشیا) چک ۳۵ جنوبی.سرگودھا 277 دار الرحمت وسطی 92 | ڈھاکہ 362 8, 342, 377

Page 426

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 23 29 زیمبیا ڈھڈ ویرہ (سندھ) اشاریہ.مقامات 258 مرسه (Sirsa) (بھارت) ڈیٹن 361 زیوانی ( کینیا ) 376 ڈیرہ اسمعیل خان 40, 41, 69, 15792 ڈیرہ بابا نانک ڈیرہ غازیخان ڈیوز بری (انگلستان) 282,283 92 192 س ساچرے اڈو ماسی(گھانا) 132 رز سا کر ویرو(سندھ) سالٹ پانڈ راولپنڈی 90 ,16 ,13 ,8 105,372,374 ,1,51 ,165 9218-160 ساما بولا.نبی سانبوسن (سندھ) 167-170, 172, 179, 183, 187, 247, 276, 373, 339, 340, 356 280 195, 349, 350 18 385 را ہوالی ربوه رتن باغ روٹرڈم سانوے(لائبیریا) ساؤتھ آل ساؤتھ کوریا سبطه (سپین) سپین سرگودھا 346 8, 10, 15, 16, 29, 178, 187, 233, 242, 277, 281, 284, 285, 340, 341, 343, 353 29 324, 326 259, 364 9, 388 110, 111, 113 91 139 385 362 362 86, 90, 118, سعد اللہ پور سعودی عرب سکنڈے نیویا سکو تو سکھیکی سلا گا ( گھانا) سلیکر ویه سماٹرا (شمالی) سماٹرا (وسطی) سندھ 374 29 144 365 200 75 68, 169, 174, 245, 267, 75-78, 81-84, 86, 141 روٹی فنک ( سیرالیون) 141 ,86 84-81 ,78-75 روز ہل ( ماریشس ) 379-88,115,117,119,377 301,339,355 300 69,79 ,17,55 1113154 120 سندھیا کا وانڈیا (سندھ) روس ,162,164 161 156 سنڈا کن (ملائیشیا) 184, 205, 206, 368 133, 140, 143 روکو پر ( سیرالیون ) رہوڈ یشیا ریتی چھلہ ( قادیان) زنجبار زونن برگ 4 سنیپر (ماریشس) 72 سٹھیالی ( قادیان) 284 سرحد سوات 186,301 92159185 سوڈان 41 336 ,269 ,226,245 سورابایا ( انڈونیشیا) 29 380 364, 387 379 172 46 363

Page 427

اشاریہ.مقامات 368 ✓ 24 93, 196, 237, 322, 377 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 سورینام 362 | 345,353,392 344 فری ٹاؤن (سیرالیون) سوکا بومی (انڈونیشیا) 63, 67, 98, 133, 140, 141, 359 فرینکفرٹ.فرینکفورٹ 41, 69, 149, 83 ,40 طلیطلہ ع غ عدن عراق 215, 259 150, 154, 156, 157 305, 368, 383 361 364 379 138 134 سوئٹزرلینڈ 178, 258, 369, 385 131 333 سویڈرو( گھانا) سی پی ( بھارت) سیالکوٹ 3 عرب ممالک) 8,741 فلاڈلفیا 54, 81, 151, 171, 8, 31, 90, 93, 165, 178, 185, 302, 305 242, 278, 280, 282, فلپائن فنکس (ماریشس) 285,288,304 283 عمائشہ ( نائیجیریا) 139 فومینہ ( گھانا) غانا ( گھانا) 18,107 فیرافینی ( گیمبیا) 308 46-48, 52, 53, 98, ,103-10920,122 | فیروز پور ,138,145 132 131 | فیصل آباد ( لائلپور ) 8, 10, 16, 19, 31, 33, 169, 239, 242, 301, 309, 318, 331 330 92 37, سیرالیون 46, 54, 59, 60-62, 64-68, 98, 113, 123, 132, 140, 145, 165, 177, 226, 326, 359, 178, 203, 215, 227, 228, 230, 231, 273, 372-374, 387, 388 369-372, 387, 388 غرناطه 81-83 فیض اللہ چک 118,153,161 117 فیکٹری امیر یا (ربوہ) قادیان 364 199 151, 154 سیلون سینیگال شط 182, 257, 278, 284, 364 فق فارموسی (فارموسا) 288, 289, 292, 293, 159 217, 234, 363 شام 294, 324, 327, 328, 304 شیانڈا ( کینیا ) 138 | فتو کے 331, 332, 336, 358 32, 223, 361 | فنجی 29 قاصبو ( سندھ) 15, 16, 31, 91, 259, 374, 375, 388 شرق اوسط شیخوپوره

Page 428

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 قاہرہ 369 کشمیر (انڈیا) 78-81, 83, 184 by 25 85, 238, 285, 375 278 کلانور ( گورداسپور ) 215 اشاریہ.مقامات کیملپور ( کیمبل پور، اٹک ) كينيا 167, 329 138, 145, 258, 303, 375 300, 317 کابا ( نائیجیریا) کا عور ( گیمبیا) کالیو ( گھانا) کانگڑہ کانو ( نائیجیریا) 135 133 131 305 334 کلر کہار 187 | کینیڈا کلیولینڈ 360 کیفیما ( سیرالیون) کلو سویل 282 کماسی ( گھانا) 17 کیوٹو 133, 140, 141 210 کمپالا ( یوگنڈا ) کوالے ( کینیا ) گاروت (انڈونیشیا) گجرات 144 376 363 69 8,16, 137 90, 254, 281, 287, 291, 311, 312, 324 132 139 28, 71, 115 312 گ ,4499,110 کو پر بیگن 111, 135, 139, 198, کوٹونو (بین) 201238381-383 کوری بانڈ و (سیرالیون) 141 کبالا ( سیرالیون ) 2 140 کو فوریڈوا ( گھانا ) کوکوفو ( گھانا) کراچی 13, 39, 86, 87, 90, ,117,126 197116 کوئٹہ 131, 230, 231 86, 90, 305 29 ,154,231,279 کو ہاڑا ( سندھ) ,311,322,325,326 کو ہلی ویری (سندھ) 333,337,351,355 کو یا (سندھ) کرائیڈن 365 کہونڈہ (تنزانیہ) کرم ایجنسی 308 کیٹوبو ( کینیا ) کسوموں ( کینیا) 138375 کیٹو گوٹو ( کینیا ) 222 29 29 136 376 گساؤ ( نائیجیریا) گلاسگو گلانوالہ گلگت گنج مغلپوره گنجور ( گیمبیا) گنی بساؤ گوجرانوالہ 305 91 134 137 15, 29, 90, 93, 166, 376 کشمیر (پاکستان) 295 کیرالہ 186, 280, 309, 311 306

Page 429

اشاریہ.مقامات لندن (لندن) 13, 40, 70, 71, 75, 77, 83, 86, 88, 68 114, 116, 117, 146, 149, 191, 192, 199, 200, 210, 272, 285, 299, 327, 334, 344, 29 291 گوجر خاں گوڈا (Gouda) 26 307 385 لابوان - جزیرہ (ملائیشیا) 380 گورداسپور لاس پالماس 169,281,300,317 لاکر کھڑیا ( سندھ) تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 لالہ موسیٰ گوکھووال چک نمبر ۱۲۱ 308-310 | لائبیریا 365, 366, 387, 388 8, 37, 55, 56, 89, گولبازار (ربوہ) 376 لنڈی ( کیفیا) 98, 113, 122, 136, 17, 91, 92, 96 139 | 114414520726 لنگی ( سیرالیون) 59141 گوموا پوسٹن (گھانا) 52 لائلپور (فیصل آباد ) گونو امنگواسی (غانا) گھانا (غانا)118,103 8, 10, 16, 19, 31, ليبيا لیڈز 368, 383 192, 365 41, 44, 45, 47, 33, 169, 239, 242, 46-48, 52, 53, 98, 301, 309, 318, 331 103-109, 120, 122, 53, 67, 98-100, 103, 104, 106, 107, 111, 157, 198, 202, 359 349 ,138,145 132 131 لاہور 3, 8, 9, 13, 15, 16, 178, 203, 215, 227, 18, 21, 22, 28, 33, 228, 230, 231, 273, لیہ 388 139,687,091,372-374,387 لیسٹر ( فری ٹاؤن) 63 70 384 مارکن ماری ھود 93, 160, 162, 167, 2, 3 168, 170, 188, 189, گھٹیالیاں گی آنا 190, 191, 243, 244, 376, 377, 387, 388 9, 10,135, 137, 377, 378, 379, 388 252, 287-293, 314, 316, 330, 333, 340, 341, 346, 353, 354 37, 57, 58, 74, 88, 89, 113, 114, 123, 133, 143, گیمبیا 306 29 مالا بار مالد لا (سندھ) 19 295, 333 لبنان لکھنو 145, 185, 197-199, 226, 265, 365, 387

Page 430

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 27 279 مکینی (سیرالیون) مالیر کوٹلہ مانچسٹر 365 ملائیشیا مانڈو.بو( سیرالیون) اشاریہ.مقامات 198, 215, 226, 228, 141 235, 259, 272, 340-342, 363, 369, 363, 364, 380, 387 142 381, 382, 387, 388 نگر پارکر مانسا کونکو ( گیمبیا) 143 | ملتان 93,295,340 ,8 ممباسه ( کینیا ) 138376 نواب شاہ مانسہرہ 186 ,174 167 92 منا ( نائیجیریا) ماکسیم ( گھانا) 132 منٹگمری (ساہیوال) 139 29 86 نیرولی ( کینیا ) مائل 91( سیرالیون) 1361 نیو بصا ( نائیجیریا) 138, 302, 303 135 13 133 منڈی بہاؤالدین 324 نیوٹن ( سیرالیون) 143 141 مٹھی 29 موروگورو ( تنزانیہ) محمود آباد (کراچی) 326 136, 367 نیویارک و 361 مدراس 333 مونتائیں بلانش ( ماریشس ( 379 وا ( گھانا) 51,131,138 مراکش 147 146 175 میدان ( انڈونیشیا) 362 | واڈا کا وانڈیا (سندھ) 29 151, 152, 153, 385 384(Wassenaar), 77, 78, 83 مردان 170172,336,340 میر پور خاص مسنگمی (سیرالیون) مسینه کنشاسه (کانگو) 133, 140, 142 137 مشرق وسطی میری لینڈ 360 واشنگٹن 361,368 360 86 وا گاڈوگو ( بورکینا فاسو ) 137 میرٹھ 313 وایو گیا ( بورکینا فاسو ) میسور 333 | دورس ہوٹن نائیجر وہاڑی 46 ویک فیلڈ 137 384 239 191, 192 مظفر آباد مکه 270, 361, 384 167 122, 134, 145, 165, 54, 151, 167 نائیجیریا 473-370 ویمبلڈن 365 54, 67, 69, 98-106, 110, 113, 114, 120, 0 ہانگن(Harlingen) 384

Page 431

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 28 ENGLISH اشاریہ.مقامات ( سیرالیون) Mogbwemo 142 (سپین)Al kala (سپین)Al Kaza ( سیرالیون)Ngegbema ( سیرالیون)Bandajuma 143 ( سیرالیون) Pendembu 67, ہالینڈ 68, 70, 191, 258, 81 259, 365, 383-387 81 364 142 29 384 328, 329 ہانگ کانگ ہباسر (سندھ) ہڈرزفیلڈ ہری پور 142 | Berkenwood ( سیرالیون Pepe 365 (سیرالیون Bomie Tong | 141 142 170, 174 186 185 ( سیرالیون )Dar-e-Salam | 143 ہزارہ سیرالیون) Port Loko ہندوستان انڈیا.بھارت 143 142 ( سیرالیون)Rosinor 141 8, 132, 161, سیرالیون (Fairo (سیرالیون )Segbewema ,1185202,227,259 ( سیرالیون Gbangbatoke | 143 286, 290, 302, 306, 314, 315, 331, 341, 342, 346, 364, 371 142 68, 69, 72, بیگ 113, 191, 194, 384 141 ( سیرالیون) Sembehun ( سیرالیون )Gbendembu 141, 143 Slikkerveer 385 ی ( سیرالیون )Gbonkobana 143 (سیرالیون)Taiama 142 143 ( سیرالیون )Goderich ( سیرالیون )Targrin.Lung 142 192 191 | 157(جرمنی)Hadamar یارک شائر ( سیرالیون)Timbowala 79 141 ( سیرالیون )Kailahun 141 (گھانا )MIM ( سیرالیون )Magburaka 131 333 یروشلم یوپی یورپ 143 361 11, 75, 76, 78, 79, 127, 172, 180, 208, 358, 362, 366, 368 40 142, 143 یوگوسلاویہ Manhattan ( سیرالیون )Masiaka

Page 432

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 29 29 اشاریہ.کتابیات LT کتابیات اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کے انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد ۱۴ 375 آسمانی فیصلہ 266,276 حقوق و فرائض | آئینہ برطانیہ.رسالہ (کراچی) | اصحاب احمد جلد اول 390 انسائیکلو پیڈیا قائد اعظم 336 231 اصحاب احمد جلد پنجم حصہ اول 274 انصار اللہ.رسالہ آئینہ کمالات اسلام 279,328 افریقہ سیکس احسانات مسیح موعود میں سے کچھ 97,179,182,389 انوار الاسلام 315,337 273 274 333 الاشباه والنظائر احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب 274 اہل حدیث.رسالہ لاہور 353 241 ایشیاء.رسالہ 241 18,269 ایک بچے اور حقیقی خادم کے بارہ احمدی تعلیمی پاکٹ بک حصہ دوم اخبار احمد یہ لندن 272,392 الفاروق.مجلہ 274 | اوصاف احمدیت کے متعلق عالمی تاثرات الفرقان.رسالہ 390 189, ,276,321 275 237 بابا نانک صاحب مسلمان ولی اللہ 336, 353, 354, 392 389 الفضل (انٹر نیشنل) 273 | بائبل 321 319 212 الفضل ,97,120 بدر، اخبار ( قادیان) اخبار جہاں.کراچی اخبار خواتین اداکار.ہفت روزہ ازالہ اوہام اسرار نهانی 337 237, 240, 295, 314 337 275 269 333 المنظبر في علوم اللغة وانواعها برق آسمانی 34,35270 برہان ہدایت جلد اول اماں کی عظمتوں کو سلام.سوانح بیگم برہان ہدایت جلد دوم 321,336,338 334 337 337 اسلام کا اقتصادی نظام 22,368 شفیع اسلام کا وراثتی نظام 390 317,337 بلیک برن ٹائمنر - لندن امروز روزنامہ (لاہور) 337 اسلامی اصول کی فلاسفی امن روزنامه (کراچی) 337 بے لاگ ہفت روزہ 362,368 | انتخاب.رسالہ 241 پاکستان ٹائمنر 194,274 275 240

Page 433

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 30 اشاریہ.کتابیات پاکستانی.اخبار لائلپور 239 تحریک جدید کے پانچ ہزاری جنگ.روزنامہ (راولپنڈی) 269, پرگنہ بٹالہ کا گروشری نهه کلنک اوتار مجاہدین مرزا مہدی ہوگا 321 338 337 336 335 جنگ.روزنامہ کراچی پنتھ پر کاش 318 ترجمان الحدیث.رسالہ 353 جنم ساکھیاں پیغام امن اور ایک حرف انتباه ترجمان القرآن.رسالہ 368 241,275 چٹان (ہفت روزه) 337 337 318 21, 22, 236, 238, 245, 246, 270, 275, 276 390 75 پیغام صلح - اخبار 188,190 ترجمانِ اسلام 237 | چشمه اصفی پیو بلو ( Pueblo) اخبار سپین | تشحذ الا ذہان 327 چند خوشگوار یادیں 83 تعارف و تاریخ حديقة المبشرين ت.ٹ.ت تاریخ احمدیت جلد ۳ 269 تعلیم القرآن.ماہنامہ تاریخ احمدیت جلد ۸ 335 273 247,276 ح - خ حضرت بابا نانک صاحب 321 حقيقة الصلوة حیات بشیر 390 269 97, 270, 271, 272, 274 389 تاریخ احمدیت جلد ۹ 347 تفسیر سوره پیشین 389 | خالد، ماہنامہ تاریخ احمدیت جلداا 389 تفسير سورة البقره 389 389 تاریخ احمدیت جلد ۱۹ 291 تفسیر صغیر 309,328,352 ختم نبوت کی حقیقت تاریخ احمدیت جلد ۲۴ 75 تفہیمات ربانیہ 354 | خطبات محمود جلد اول تاریخ احمدیت جموں و کشمیر 336 تنویر القلوب حصہ دوم 390 خطبات ناصر جلد سوم 273,274 تاریخ احمد یہ سرحد 269,336 توبہ و استغفار کی حقیقت 390 خلافت ثالثہ کی تحریکات اور ہماری ٹائمنر روز نامہ (پاکستان) 337 ذمہ داریاں تاریخ احمدیت لاہور 335338 ثائی چکر تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول ج - چ 334 دؤ در مشین 389 227 269,337,389 جامع صحیح مسند بخاری 389 در شین فارسی 286 تحریک احمدیت کا سکھوں پر اثر جسارت.روزنامه 239,275 | دستکاری.ہفت روزہ اخبار 314 321 جلسہ سالانہ کی دعائیں 276 دعا اور اس کے آداب | | 390

Page 434

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 دو مسئلے 31 اشاریہ.کتابیات 390 ڈیلی گرافک ( گھانا) ,98,105 سنڈے ٹائمنر ( نائیجیریا) دی اسلام، ماہنامہ.جرمنی 107,272,374 ,106 | سنگ میل ہفت روزہ 257 | ڈیلی میل ( سیرالیون )871 سورج پر کاش (Der Islam) 98 42 349 318 سیرت النبی ﷺ (دیباچہ قرآن 98 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء کریم انگریزی) دی ایکو ( گھانا ) دی پایینئیر ( گھانا ) دی نیو ڈین ایکسپرس ہفت روزہ اخبار.امریکہ 362 337 سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام 361 360 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۷۰ء 27 ( گورکھی ) دی ریویو آف ریلیجنز (اردو) 321, 327 رجسٹر روایات صحابہ نمبر 335 شان خاتم الانبیاء رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 335 321 389 240 دی گھا نین ٹائمنر ( گھانا ) دس گور و صاحبان کے نام 322 187 160 ست پر چارک دی مسلم ہیرلڈ.لندن 210 سری گور و تیغ بہادر صاحب کا قتل دی ریویو آف ریلیجنز لندن 146 شہاب.اخبار رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ 335 صیض روحانی خزائن جلدم 276 98, 106, 273 صحیفه ( سہ ماہی مجلہ) 33 سیش ضرورت نبوت کا ثبوت 389 دی لائٹ.اخبار لاہور سبا ٹائمنر.روزنامہ 380 321 ضمیمه انجام آتھم طالمود 322 321 ظهور مهدی آخر الزمان 338 b-b 71 390 ڈان.دہلی فرق فاروق.مجلہ (خدام الاحمدیہ ) 321 فتوح الشام 298 274 98,99 390 دی نائیجیرین آبزرور ( نائیجیریا) 98,99 سکھ مذہب اور کیس 315 سکھوں اور مسلمانوں کے خوشگوار ڈان.پاکستان 24475 | تعلقات ڈیلی ایکسپریس ( نائیجیریا) سلاطین ہند اور اشاعت اسلام ڈیلی ٹائمنر ( نائیجیریا) 98 سن رائز.رسالہ (امریکہ) 360 272 ,104 103 99 سنڈے پوسٹ ( نائیجیریا) ڈیلی پکیچ نائیجیریا) 1989 فریٹرننے ماتن ( آئیوری کوسٹ ) 142 قادیانی مسئلہ کتا بچہ 98, 104, 272 98 245

Page 435

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 26 32 قادیانی مسئلہ کا جواب.کتابچہ لم 275 لائیبرین سٹار (لائبیریا) قرآن مجید انگریزی مع تفسیری لا ہور.ہفت روزہ اشاریہ.کتابیات 98 | نحن مسلمون ندائے ملت اخبار لاہور 389 نوٹس قرآن کریم ترجمه انگریزی لنڈن ٹائمنر ک مگ 62 191, 192, 193, 194, 272, 274 362,376 71, 344 243, 267, 270, 275 390 نقوش جاوداں نوائے وقت.لاہور 275, 392 لولاک کا نوسٹیٹ ایکسپریس کتاب البریہ کشتی نوح کلجگ کا اوتار کلیات خلیل 381 274 274 321 333 275 نیو نائیجیرین ( نائیجیریا) 99 98 مارننگ پوسٹ ( نائیجیریا ) نیوز - روز نامہ 337 مامسلمانیم 98, 99, 102, 272 389 مباحثہ مونگھیر ( حصہ اول.دوم.کوہستان.روزنامہ سوم) 242275,337 | مساوات.اخبار و.ہی واذا الصحف نشرت 338 وحی والہام کے متعلق اسلامی نظریہ وہ پھول جو مر جھاگئے ہم مسلمان ہیں 389 336 333 240 389 390 کیا احمدی مسلمان ہیں؟.کتابچہ مسیح ہندوستان میں 368 یادر کھنے کی باتیں 98 یونٹی (سیرالیون) مشرق ، روزنامہ.لاہور ENGLISH 337, 392 Advance, daily 380 389 arabic 33 English traced to The Cambridge | 19, 269, History of Islam, Vol:2 274, 275, 327, 391 357, 392 269 The Dayton Daily 272 346 گرنتھ صاحب گلدسته مهدی 182 318 321 مشعل راه گور بلاس 318 مشعل راه جلد دوم گور و گو بندسنگھ کے بچوں کا قتل مصباح 321 گورونانک اُدلیش.ماہنامہ ملفوظات جلد اول گورو نانک جی کا فلسفہ توحید میری بحریہ سروس اور احمدیت.غیر News 360, 361 392 مطبوعه 345,346

Page 435