Language: UR
’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے جلد نمبر 19 نہیں ہے۔
تاریخ احمدیت جلد نمبر 25 $ 1969
بسم اللہ الرحمن الرحیم محمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم عرض ناشر خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے شعبہ تاریخ احمدیت کی مرتب کردہ تاریخ احمدیت کے سلسلہ کی جلد ۲۵ طبع ہو کر ہدیہ قارئین ہے.اس جلد میں سال ۱۹۶۹ء کے دوران کے واقعات و حالات مذکور ہیں.نے بڑی محنت اور عرقریزی اور شوق اور توجہ کے ساتھ اس کی تیاری اور تکمیل کی.اس عمل میں ان کے ساتھی مختلف مراحل پر ان کے معین رہے.اللہ تعالیٰ تمام شرکاء کار کو اس خدمت کی احسن جزا دے.ان کی کاوشوں سے ہمیں سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے مزید ایک باب سے متعارف و واقف ہونے کا موقع میسر آیا.حضرت مصلح موعودؓ کا یہ ارشاد ہر احمدی کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو چاہئے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس ارشاد کی تعمیل کی توفیق وسعادت بخشے اور تاریخ کا مطالعہ خلافت سے وابستگی اور محبت واطاعت میں برکت کا موجب بنائے اور پڑھنے والوں کے دل میں خدمت دین کی اُمنگ اور شوق میں مہمیز کا کام دے.
پیش لفظ احباب جماعت کی خدمت میں سال ۱۹۶۹ء کے حالات و واقعات پر مشتمل تاریخ احمدیت کی جلد نمبر ۲۵ پیش کی جارہی ہے.اس جلد میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی کی گوناگوں مصروفیات ، دورہ جات ، ارشادات ، ہدایات اور تحریکات کے علاوہ نہایت پر معارف خطبات و خطابات کے ملخص اور اقتباسات شامل کئے گئے ہیں.اسی طرح جلسہ ہائے سالانہ ربوہ و قادیان مجلس مشاورت ، سالانہ اجتماعات کا روح پرور تذکرہ بھی محفوظ کیا گیا ہے.اس سال نسلِ انسانی کو تسخیر عالم کی ایک اہم مہم میں عظیم کامیابی حاصل ہوئی اور اس نے چاند کی سرزمین پر اپنے قدم رکھ کر بنی نوع انسان کے لئے تسخیر کائنات کے لامتناہی در کھول دیئے.اس محیر العقول واقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت درجہ عمیق حکمتوں سے پُر خطبہ ارشاد فرمایا، جس کا ایک اقتباس بھی قارئین کے ازدیاد علم کے لئے شامل اشاعت ہے.نیز اس جلد میں صحابہ کرام کے دلگداز ایمان افروز واقعات مخلصین سلسلہ کا ذکر خیر اور احمدی نوجوانوں کی مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کامیابیوں کا ذکر وغیرہ محفوظ کیا گیا ہے.اس جلد میں ان اہم واقعات کے تذکرہ کے علاوہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ایسے نابغہ روزگار وجود کے انتقال پر ملال، پاکستان آرمی کے مایہ ناز جرنیل مکرم اختر حسین ملک صاحب اور انکی اہلیہ محترمہ کے سانحہ شہادت اور اٹلی کے پروفیسر ڈاکٹر اطالو کیوسی صاحب کے قبول اسلام کا ذکر بھی موجود ہے، جن کو اسپرانٹو زبان میں ترجمہ قرآن کریم کی عظیم سعادت حاصل ہوئی.اسی طرح بیرونی ممالک میں احمدیہ مشنوں کی مساعی کا ذکر کہ کس طرح احمدی مبلغین اکناف عالم میں دین حق کی سربلندی کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائے ہمہ تن مصروف ہیں.نیز دوران سال شائع ہونے والی نئی مطبوعات کا ذکر بھی شامل مسودہ کیا گیا ہے.
خصوصی خدمت کی توفیق پائی ہے.نیز دنیا بھر میں کئی احباب جماعت سے رابطے کئے گئے اور مفید معلومات، اہم واقعات اور نادر تصاویر حاصل کر کے شامل اشاعت کی گئی ہیں، اس سلسلہ میں بھی بعض احباب جماعت کا خصوصی تعاون حاصل رہا ہے.علاوہ برابر اور مکرم عمیر علیم صاحب انچارج مخزن تصاویر لندن بھی بہت شکریہ کے مستحق ہیں کہ یہ سب احباب کرام اس جلد کے مواد کی تیاری کے سلسلہ میں کتب و رسائل، اخبارات و مجلات اور تصاویر کی فراہمی کے لئے خصوصی تعاون فرماتے رہے ہیں.جزاهم الله احسن الجزاء
i تاریخ احمدیت جلد 25 (سال 1969ء) عنوان فهرست مضامین صفحہ عنوان صلح تا فتح ۱۳۴۸اہش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۹ء صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی سالانہ دینی اور جلسه سالانه قادیان 1 انتظامی سرگرمیاں وصال حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب تحریک جدید کی عالمی خدمات پر ایک نظر 4 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا ایک شاہجہانپوری (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب معلومات افروز انٹرویو کے روح پرور پیغامات پاکستان کے لئے خصوصی دعا کی تحریک 28 پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام صاحب کو شاندار خراج 31 تحسین ایک مضمون ”پنجاب میں تحریک احمدیت 32 تعلیم القرآن کے نئے دور کا آغاز سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا جماعت مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء سیرالیون کے نام روح پرور پیغام 35 - حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا انقلاب انگیز حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تعلیم الاسلام کا لج اختتامی خطاب میں تشریف آوری 36 | تعلیم القرآن کی مؤثر تحریک صفحہ 41 45 48 50 50 51 59 52 65 59 67 ایک قرآنی دعا کے بکثرت پڑھنے کی تلقین 36 حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا خطاب 68 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سوشلزم سے متعلق اسلام کے اقتصادی نظام پر سلسلہ خطبات 38 اہل ربوہ کو نماز با جماعت کی خصوصی تلقین ارشاد ربوہ میں یوم مصلح موعود کی تقریب 40 انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو زیادہ مستعد ہونے 40 | کی تحریک ربوہ میں عیدالاضحی کی تقریب 69 70 71
ii عنوان صفحہ عنوان حضرت خلیفہ اصسیح الثالث کی تعلیم الاسلام کا لج حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا سفر کراچی 72 قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر جماعت میں تشریف آوری فضل عمر فاؤنڈیشن کی پہلی تقریب تقسیم انعامات 72 احمدیہ کا سخت احتجاج سیرت النبی ﷺ پر مشتمل نادر لٹریچر اور قیمتی لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب اور ان مخطوطات کی شاندار نمائش 75 کی بیگم صاحبہ کا حادثہ شہادت صفحہ 103 111 113 ربوہ کے احمدی نونہالوں کی طرف سے خدمت حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا چاند کی تسخیر پر تبصرہ 121 خلق کا شاندار نمونہ 79 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ با برکت تحریک ایران، ترکی دیوگوسلاویہ مجاہدین وقف عارضی کے لئے سر ٹیفکیٹ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا سفرمری 81 86 87 سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر مسلم ممالک کی ایک اہم کا نفرنس (مراکش) حضورانور کی طرف سے دعا کی تحریک صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل ( حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب کا ولولہ انگیز مخالفین احمدیت کی طرف سے اشتعال انگیزی کی مہم 90 التبشیر کا برقی پیغام حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا سولہویں تر بیتی کلاس سے افتتاحی خطاب 93 پیغام ماریشس کے خدام کے نام آل ورلڈ گورونانک کنونشن امرتسر میں احمد یہ وفد 94 حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کا مجاہدین احمدیت پروفیسر ڈاکٹر اطالوکیوسی کا قبول اسلام اور اسپرانٹو تر جمہ قرآن کی اشاعت 95 55 سے خطاب تسخیر قلوب کے لئے اسوہ رسول پر عمل پیرا تعلیم الاسلام کالج کے فزکس بلاک کے پہلے 99 مرحلہ کی تکمیل ہونے کی تحریک حضرت خلیفہ مسح الثالث کی نہایت قیمتی نصائح 99 مجددیت سے متعلق ایک غلہ تخیل کی تردید حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام اہلِ ثروت حضرت عثمان ڈان فو ڈ یو" کا ذکر خیر 102 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفر لا ہور مخلصین سلسلہ کے نام 123 124 125 125 129 132 134 136 139 140
صفحه 168 168 169 169 173 187 194 195 195 196 197 198 202 iii عنوان صفحہ عنوان ٹی آئی کالج ربوہ میں طبیعیات کی نئی تجربہ گاہ کا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی اپنے خدام سے شاندار افتتاح 147 پر معارف گفتگو مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع 149 ربوہ میں عید الفطر کی بابرکت تقریب ا مرکز یہ 152 پروفیسر عبدالسلام صاحب کا گرانقدر عطیہ - حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب - مجلس اطفال الاحمد سیہ کا سالانہ اجتماع حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا خطاب 152 جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۶۹ء جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۹ء مجلس انصار اللہ کا سالانہ اجتماع 153 153 154.افتتاحی خطاب حضرت خلیفتہ امیج الثالث 155 اختتامی خطاب حضرت خلیفہ امسیح الثالث 156 حوالہ جات (صفحہ 1 تا 186) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال مظفر پور کانفرنس میں احمد یہ وفد کی تقاریر (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا مرکزی اجتماعات ير تبصره 156 157 160 حضرت سلطان بی بی صاحبہ حضرت امام بی بی صاحبہ اہلیہ فضل دین صده آف قادیان حضرت حشمت بی بی صاحبہ بنت حضرت چوہدری امام الدین صاحب حضرت بابا نانک کی پانصد سالہ تقریب برسی حضرت مرزا سلام اللہ صاحب آف قادیان 161 حال چنیوٹ میں احمد یہ وفد کی شمولیت جماعت احمدیہ کے شائع کردہ اردو تراجم قرآن حضرت بھائی شیر محمد صاحب قریشی (جہلمی ) و تفاسير 162 آف نیروبی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا ارشاد بابت حضرت استانی سکینۃ النساء صاحبہ اہلیہ حضرت اعتکاف 165 قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب مولانا محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر لائٹ حضرت رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر نور کی بیعت خلافت کی وضاحت 165 الہی صاحب جنجوعہ
iv عنوان صفحه حضرت حافظ عبدالسمیع خان صاحب امروہی 202 حضرت چوہدری مہر خان صاحب آف کریام 208 عنوان ۱۹۶۹ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت صفحہ حضرت مرز ا حسام الدین صاحب لکھنوی ڈاکٹر عبیداللہ صاحب بٹالوی ہو میو پیتھ لاہور 233 مولوی سید فضل کریم صاحب آف کلکته حضرت منشی عبدالحق صاحب خوشنویس 209 209 حضرت ملک نبی محمد صاحب میانی گھوگھیاٹ بھیرہ 211 ) چوہدری عبید اللہ صاحب منہاس سابق امیر بہوڑ و چک نمبر ۱۸ ضلع شیخو پوره حضرت صوفی محمد یعقوب صاحب قندھاری ڈاکٹر عنایت اللہ احمد صاحب سیالکوٹی کمپونڈ رنور ہسپتال قادیان 215 چوہدری عبدالرحمن صاحب آف کریام حال حضرت با ابوعبدالحمید صاحب آؤٹ آفیسر ریلوے 218 | چک نمبر ۸۸ ج ب فیصل آباد حضرت پیرزاده رشید احمد صاحب ارشد آف گولیکی 222 میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ ضلع راولپنڈی حضرت چوہدری علی محمد صاحب امیر حلقہ ریتی حافظ شفیق احمد صاحب چھلہ قادیان 223 حضرت ملک امام الدین صاحب سمبر یا لوی 224 233 234 234 234 234 240 240 الحاج احمد عُکاشی صاحب راجہ محمود امجد خان صاحب جنجوعه (سرگودھا) 241 شمس الدین خان صاحب امیر جماعت پشاور و ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن 241 حضرت امتہ الحمید بیگم صاحبہ 242 فاطمہ بیگم صاحبہ زوجہ حکیم یوسف علی خان صاحب ملک امان خان صاحب آف بالاکوٹ 242 243 243 جناب عبدالقادر صاحب آف ڈیٹن ، اوہایو، امریکہ 225 226 227 227 230 حضرت منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی حضرت سردار بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت قریشی محمد شفیع صاحب حضرت میاں عمر دین صاحب حضرت سید امجد علی شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا متصل قادیان
عنوان صفحہ عنوان صفحہ بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر پریذیڈنٹ بابو نہیم اللہ صاحب کار کن صدر انجمن احمد یہ قادیان 256 244 شیخ اکبر علی صاحب بٹالوی برادر نسبتی حضرت شیخ جماعت احمدیہ ججہ ( یوگنڈا) کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب انچارج احمد یہ فضل احمد صاحب بٹالوی ڈسپنسری لیگوس 244 ملک خیر الدین صاحب در ولیش حضرت چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر چوہدری نواب دین صاحب آف تلونڈی 245 جھنگلاں ضلع گورداسپور 256 257 257 جماعت احمدیہ ملتان ملک غلام ربانی صاحب آف ٹورانٹو کینیڈا 250 سید محمد ہاشم صاحب بخاری مولوی فاضل اور ٹی 258 سید امیر الدین صاحب قاضی ریٹائرڈ ڈپٹی مولوی فضل الدین صاحب آف ملیا نوالہ سیالکوٹ 258 251 ایمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد شریف صاحب لائلپور 259 کلیکٹر دھاروار شیخ محمد صدیق صاحب شملوی چوہدری محمد حسین صاحب مهار نارووال ضلع سیالکوٹ ر منگوله تحصیل سیده ممتاز بیگم صاحبه حضرت مہر النساء صاحبہ اہلیہ حضرت سردار امام خان صاحب آف سیالکوٹ چھاؤنی 251 ابواحمد مرزا جمال احمد صاحب 251 252 252 حاجی اونکو اسماعیل بن عبدالرحمن صاحب 259 260 260 کمال فولمر صاحب سوئٹزرلینڈ ڈاکٹر عبدالکریم صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان 261 الطاف حسین خان صاحب شاہجہانپوری 262 منشی غلام محمد صاحب پنشنر آف موضع مجگہ بھیرہ 262 میجر عزیز احمد صاحب ڈائریکٹر شاہ نواز لیمیٹڈ کراچی 263 شیخ حبیب اللہ صاحب ایڈووکیٹ نا بھ سٹیٹ 263 263 264 264 بویوغ ما لک صاحب آف سنگاپور 252 چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ اسلامیہ پارک لاہور وائی اے صافی آف نائیجیریا حکیم محمد دین صاحب انصاری چوہدری محمد الدین صاحب 252 255 255 255 حال حافظ آباد چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ایجوکیشن آفیسر تنزانیہ یونس الوگوس (OLUGHOSE) میاں محمد یوسف صاحب پشاوری ککے زئی رشیدہ حسین صاحبہ ایم.اے 256 ساکن کوٹلہ فیل بانہ پشاور
vi عنوان صفحہ عنوان مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی سابق مسجد خضر سلطانہ کی تعمیر مجاہد جرمنی برکت علی خاں صاحب برمی 264 قادیان میں یوم جمہوریت 265 مسجد احمد یہ شیموگہ کا افتتاح چوہدری محمد عالم صاحب صدر فتح پور ضلع گجرات 265 وقار عمل کی ایک دلچسپ رپورٹ ربوہ کے ڈاکٹرز کے متعلق ایک خبر رقیه بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد یوسف صاحب 266 199 ء کے احمدی حجاج غوث گڑھی احمد نگر صفحہ 283 283 284 284 285 285 با بافضل احمد صاحب در ویش ولد میر داد صاحب احمد یہ محلہ قادیان میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی آمد 286 268 جامعہ احمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلے 286 ساکن گھٹیالیاں مرزا بشیر احمد صاحب درویش ولد مرزا بہادر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا ایک خصوصی اجلاس 287 بیگ موضع نسو والی سوبل خورد ضلع گجرات 269 سفیر سعودی عرب کو قرآن مجید انگریزی کا بیش مولوی محمد یسین صاحب محر لنگر خانه 270 قیمت تحفہ بھائی شیر محمد صاحب آسٹریلیا والے 270 صدر جمہوریہ ہند کا انتقال اور قادیان میں تعزیتی 270 جلسه سردار سلطان احمد صاحب حکیم محد موبیل صاحب ولد محم لقمان صاحب 272 تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں ماہرین تعلیم کی 272 آمد ماسٹر رانا محمد بخش صاحب چوہدری بقاء اللہ صاحب المعروف بگا صاحب 273 کالی کٹ انڈیا میں تبلیغی نمائش صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب با زید خیل ضلع ایک درویش قادیان کی آل انڈیا ریڈیو جالندھر پیشاور 273 سے تقریر 287 287 288 288 290 حوالہ جات (صفحہ 194 تا 273) 274 ربوہ میں سیرت النبی ﷺ کا عظیم الشان جلسہ 290 ۱۹۶۹ء کے متفرق اہم واقعات تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں سے ڈپٹی کمشنر ضلع خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی سیالکوٹ کا خطاب تقاریب 291 280 ڈاکٹر حمید الدین صاحب کا فکر انگیز خطبه اسناد 291 احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات 280 پنجاب میں جنت.احمد یہ محلہ قادیان 292
عنوان صفحہ 327 328 332 340 344 346 348 351 353 353 357 359 363 367 373 375 377 vii عنوان صفحہ ربوہ میں یوم دفاع 294 سنگا پور پانچواں آل پاکستان کبڈی ٹورنا منٹ 294 سوئٹزرلینڈ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی سکھ نیشنل کالج قادیان میں ایک تقریر سیرالیون 295 غانا امریکن چرچ کے وفد کی قادیان میں آمد 295 فنجی راٹھ (یو.پی ) میں احمد یہ صوبائی کا نفرنس 297 کینیا لائبریری مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا افتتاح 299 گیمبیا مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام وقار عمل 299 گی آنا مجلس ارشاد مرکزیہ کے اجلاسات 300 لائبیریا حضرت اماں جان کی خادمہ کے بچوں کا نکاح 301 ماریشس قابل رشک قربانی کا مظاہرہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی 302 ملائیشیا نائیجیریا آئس لینڈ 303 ہالینڈ امریکہ 303 یوگنڈا انڈونیشیا انگلستان 307 308 مبلغین احمدیت کی آمد وروانگی نئی مطبوعات برما 314 حوالہ جات صفحہ (280 تا 376) تنزانیہ جاپان جرمنی سپین سکنڈے نیویا 315 317 319 325 326
تاریخ احمدیت.جلد 25 1 سال 1969ء سلح تاریخ ۱۳۴۸ بهش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۹ء جلسه سالانه قادیان جماعت احمدیہ کا روحانی اجتماع جس کی بنیاد ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالی تھی سابقہ روایات کے مطابق اپنے مخصوص روحانی ماحول میں قادیان دارالامان میں مورخہ ۶ ، ۷ ، ۸ جنوری ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.ہندوستان کی جماعتوں میں سے جلسہ کی خاطر قادیان کا سفر کرنے والوں میں آندھرا پردیش، میسور سٹیٹ ، جموں و کشمیر، پونچھ ، کیرالہ، مدراس، بہار وغیرہ علاقوں کے کثیر احباب شامل تھے.دراصل یہ جلسہ ۱۹۶۸ء کا تھا جو کہ رمضان المبارک اور ربوہ کے جلسہ سالانہ کی وجہ سے ملتوی کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے جلسہ کے لئے پیغام بھیجا جو جلسہ کے پہلے روز میر داؤداحمد صاحب نے پڑھ کر سنایا.پیغام کا متن درج ذیل ہے.”میرے نہایت ہی عزیز اور محترم بھائیو اور بہنو ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میری روح پکھل کر آستانه رب رحمن پر آپ کے لیے بہہ رہی ہے اس دعا کے ساتھ کہ اس قادر و توانا کی رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ پر رہے.ابدی عید کی لازوال خوشیاں اور مسرتیں آپ کے نصیب میں ہوں ، ہر امتحان کے وقت آسمانی فرشتے قوت و سہارا بنیں.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہم نے اس حقیقت کو پایا کہ محمد ہی سب جہانوں کا نور ہیں، ہر شے کا حسن آپ کے حسن کا ہی انعکاس ہے.اللہ نُوْرُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ کا نور آپ ہی کے طفیل ہر شے تک پہنچا.اور آپ ہی ساری دنیا کے لیے رحمت ہیں جس نے اس عالم موجودات کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 2 سال 1969ء زوال سے بچایا ہوا ہے.آپ ہی کے طفیل اس عالم موجودات کی ہر شے نے رب رحمن کی قدرتوں کے جلوے دیکھے اور انسان نے اپنے محبوب خالق کا پیار پایا اور اس کی بے پایاں رحمت سے حصہ لیا.نیز آپ علﷺ ہی امن اور صلح اور سلامتی کے شہنشاہ ہیں.آپ کی لائی ہوئی تعلیم ، ہدایت اور شریعت ہی بھٹکی ہوئی انسانیت کو ہلاکت اور تباہی اور قہر الہی کی بھڑکتی ہوئی آگ سے واپس لوٹا کر رب مہربان کی پیار بھری نظروں کے ٹھنڈے سایہ میں لاسکتی ہے.ہمارا اس حقیقت پر علی وجہ البصیرت قائم ہونا ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم بھی بنی نوع انسان کے لیے رحمت بنیں، کسی کو دکھ نہ پہنچائیں ، ہر ایک کے ہمدرد اور خیر خواہ ہوں ،مظلوم کی حمایت پر کمر بستہ رہیں، پیار اور محبت سے نیکی کی تعلیم دیتے رہیں اور محمد ﷺ کے حسن اور آپ کے احسان کے جلوے دنیا پر ظاہر کرتے رہیں، دنیا کو سکھ پہنچانے کے لئے ہر دکھ سہنے کو ہمہ وقت تیار رہیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا کرے.درویشان قادیان! آپ مسیح محمدی کی پاک بستی میں محبت کی شمع روشن کیے بیٹھے ہیں، محبت کی یہ گرمی کم نہ ہونے پائے.اکتا نہ جائیں تھکیں نہ، مایوس نہ ہوں تا وقتیکہ انجام بخیر ہو.اللہ آپ کا حافظ، اللہ آپ کا ناصر ، اس کی رحمت ، اس کی نصرت ہمیشہ شامل حال رہے.ملک ہند میں بسنے والے سب احمدی بھائیو! نوع انسان کی نجات اسلام میں ہے.اسلام سراپا محبت ہے، اسلام محافظ عزت و ناموس انسانی ہے، اسلام پاسبان حقوق انسانی ہے، اسلام سلامتی کی راہیں اور امن صلح اور آشتی کی دنیا ہے.امن صلح اور آشتی کے اس پیغام کو گھر گھر پہنچا ئیں.اللہ آپ کو ہمت دے، سب کو ہی پیارومحبت کے اس پیغام کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے.میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں.آپ سے دعا کی درخواست ہے.فقط.خاکسار
تاریخ احمدیت.جلد 25 3 سال 1969ء مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث ] افتتاحی اجلاس کی صدارت کے فرائض حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان نے ادا کئے اور لوائے احمدیت لہرایا.جلسہ سالانہ کے مقدس موقع پر درج ذیل تقاریر ہوئیں.ا.افتتاحی خطاب (حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب) ۲.خدا کی ہستی کا ثبوت ( مولانا محمد حفیظ فاضل بقا پوری صاحب )۳.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات بنی نوع انسان پر ( مولا نا شریف احمد امینی صاحب ) ۴ ملکی اتحاد و یجہتی کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی (بشیر احمد فاضل صاحب )۵.جماعت احمدیہ غیروں کی نظر میں ( مولوی عبدالحق فضل صاحب )۶.حضرت گورونانک جی کی نگاہ میں اسلام کا بلند مقام ( گیانی عبداللطیف صاحب) ۷.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ( محمد کریم الدین شاہد صاحب ) ۸- حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا کی بہتری کے لئے کیا کیا (مولانا شریف احمد فاضل صاحب) ۹.جماعت احمدیہ کی عالمگیر وسعت اور استحکام (چوہدری مبارک علی فاضل صاحب) ۱۰.مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام ( حافظ قدرت اللہ صاحب فاضل ).لنڈن مشن کے حالات (بشیر احمد رفیق صاحب) جلسہ کے دوران ۶ ۷ ۸ جنوری کو تین شبینہ اجلاس بھی مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوئے.ان اجلاسات میں درج ذیل تقاریر ہوئیں.ا.مرکزی تحریکات ) ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے)۲.قبر مسیح کے متعلق نئے انکشافات ( محمد عمر صاحب )۳.سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام(مولانا شریف احمد امینی صاحب (۴.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریکات (مولانا محمد حفیظ بقاپوری صاحب ) ۵.ذکر حبیب ( حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب ) 4.جماعت احمدیہ میں مقام خلافت (صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب) زائرین قادیان کا پاکستانی قافلہ زائرین قادیان کا پاکستانی قافلہ جو ۶۷ زائرین پر مشتمل تھا م جنوری کو پرسوز دعاؤں کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 25 4 سال 1969ء پروفیسر نصیر احمد خان صاحب کی زیر قیادت روانہ ہوا.اس قافلہ میں وہ مجاہدین احمدیت اور علم برداران تو حید بھی تھے جنہیں بیرونی ممالک میں تثلیث و دہریت کے مراکز میں اللہ کا پیغام پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی.ان میں مولوی روشن دین صاحب، مولوی چوہدری عبدالخالق صاحب، مولوی قاضی نعیم الدین صاحب، مولوی رشید احمد سرور صاحب، مولوی منیر احمد عارف صاحب، نورالحق صاحب تنویر، مولوی بشیر احمد صاحب رفیق اور حافظ قدرت اللہ صاحب شامل تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جملہ افراد قافلہ کو شرف مصافحہ بخشا.اس قافلہ نے گنڈا سنگھ بارڈر سے سرحد عبور کی اور فیروز پور سے بذریعہ ٹرین جالندھر اور امرتسر سے ہوتا ہوا ۵ جنوری کو صبح بخیر و عافیت قادیان پہنچ گیا.ریلوے اسٹیشن قادیان میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور محلہ احمدیہ میں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب نے استقبال کیا.وصال حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ولادت : ۱۸۷۷ء بیعت : ۱۸۹۲ء زیارت: ۱۸۹۶ء وفات : ۸جنوری ۱۹۶۹ء حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری سلسلہ احمدیہ کے مستجاب الدعوات بزرگ، نامور عالم و فاضل، زبان اور بیان کے مسلم الثبوت استاد اور بلند پایہ اور قادرالکلام شاعر تھے.تاریخ پیدائش اردو کے مایہ ناز شاعر و ادیب، صحافی اور متعدد علمی وتحقیقی کتابوں کے مصنف مکرم محمد یامین صاحب ( پیام شاہجہانپوری) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اور میرے والد محترم خان محمد امین خان صاحب مرحوم ہم مکتب تھے.حضرت حافظ صاحب سینیئر تھے اور والد صاحب جونیئر.حضرت حافظ صاحب کے والد محترم حضرت سید علی میاں صاحب والد مرحوم کے شفیق بزرگ تھے.خود انہوں نے والد صاحب سے بیان کیا کہ ”میں نے مختار کا نام تاریخی رکھا ہے.“ یعنی ابجد کے قاعدے کے مطابق اگر ان کے نام کے اعداد جمع کئے جائیں تو ان کے حاصل جمع سے حضرت حافظ صاحب کی پیدائش کا سنہ نکل آتا ہے.مختار احمد کے اعداد کا مجموعہ ۱۲۹۴ھ (۱۸۷۷ء) بنتا ہے.ان کی وفات ۸ جنوری ۱۹۶۹ء مطابق ۱۸ اشوال ۱۳۸۸ھ میں ہوئی اور ۹۲ سال کی عمر پائی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 5 سال 1969ء حضرت حافظ صاحب یوپی (بھارت) کے مشہور مردم خیز خطہ علمی شہر شاہجہان پور کے محلہ ترین بہادر گنج میں حضرت حافظ سید علی میاں صاحب جیسے بزرگ عالم کے ہاں پیدا ہوئے.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے بھانجے جناب محمد ہاشم صاحب بخاری مجاہد افریقہ کے بیان کے مطابق آپ سات بھائی تھے اور دو بہنیں تھیں.بڑی بہن جو ہاشم بخاری صاحب کی والدہ تھیں احمدی تھیں.چھوٹی بہن غیر احمدیوں میں تھیں.مگر وفات کے وقت وہ احمدیت قبول کر چکی تھیں.تین بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے چار جوان ہوئے جن میں حضرت حافظ صاحب بڑے تھے.دوسرے نمبر پر سید انوار احمد صاحب تھے جو روضہ شوگر فیکٹری میں سپرنٹنڈنٹ تھے.تیسرے نمبر پر مولوی نوراحمد صاحب فائز تھے ( جو کہ غیر احمدی تھے ).سب سے چھوٹے بھائی کا نام سید احمد تھا.جو یکم اپریل ۱۹۶۶ء کو اکولہ ضلع برار میں فوت ہو گئے تھے.حضرت حافظ صاحب نے ابتدائی تعلیم حافظ فضل احمد صاحب سے حاصل کی اور شعر و شاعری کی ابتداء بھی انہی کی شاگردی سے ہوئی تھی.بعد میں آپ امیر مینائی کے حلقہ ادب میں آگئے.علوم متداولہ آپ نے اپنے والد بزرگوار حضرت سید علی میاں صاحب سے حاصل کئے.ابتدائی حالات حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب اپنے ابتدائی حالات کے بارے میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ:.”میرے مورث اعلیٰ نہایت عابد بزرگ تھے جنہیں نواب پٹھان شاہجہانپور میں لائے اور پھر ان کی خدمت میں بطور نذرانہ وہ مکان، باغات اور زمینیں دیں جو ہمارے خاندان کی جائیداد ہیں.شاہجہانپور کے قریب ہماری زمینیں بعض دیہات میں بھی ہیں.میرے والد بزرگوار حضرت حافظ سید علی صاحب نہایت عالم عابد زاہد تھے جن کی زندگی سے مخلص مسلمان کی زندگی تھی.ان کی نامی شخصیت کی وجہ سے بھی شاہجہانپور میں ہمارے خاندان کو بہت عظمت حاصل ہوئی.نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی آپ کی بہت تعظیم کرتے تھے.میں نے حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب کو بیان کرتے سنا کہ یو.پی کی طرف نظر کرو تو چوٹی کے علماء میں حضرت حافظ سید علی ہیں.میں نے حافظہ کی خوبی میں عمر بھر حضرت والد صاحب جیسا کوئی ایک شخص بھی نہیں دیکھا.ایک دفعہ ہماری املاک کے متعلق تمام رجسٹریاں اور سرکاری کاغذات کہیں گم ہو گئے ان کی ہو بہو نقل والد صاحب نے اپنی زبانی یادداشت کی بناء پر سطر به سطرلکھی.جہاں کوئی لفظ کٹا ہوا تھا نقل میں بھی ویسے ہی کاٹا.اس کے چند دن بعد جب وہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 6 سال 1969ء کا غذات بازیاب ہو گئے تو نقول کو مطابق اصل پا کر ہم حیران رہ گئے.میرے والد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میرے بیعت کرنے کے بعد کی تھی.آپ مجھ سے حضرت اقدس کی کتابیں پڑھوا کر سنتے تھے.اس کے بعد کتاب میں مضمون کا سیاق و سباق خود دیکھ لیتے تھے پھر کبھی کسی حوالہ کی مجھے ضرورت ہوتی تو میں حضرت والد صاحب سے پوچھتا تھا آپ فرماتے فلاں کتاب کے نصف یا ربع کے دائیں یا بائیں حصہ کو دیکھو.میں کتاب کھول کر دیکھتا تو حوالہ وہیں مل جاتا.انہوں نے ازالہ اوہام کا کچھ حصہ اور مولوی محمد بشیر صاحب بھوپالوی سے مباحثہ کا مضمون پڑھ کر بیعت کی تھی.یو.پی کے نامی علماء نے وفات مسیح کے موضوع پر مختلف مجالس میں آپ سے تبادلہ خیالات کیا.نہ صرف وہ دلائل جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیح کے متعلق دیئے سناتے ، بلکہ آیات قرآن سے ایسے دلائل وفات مسیح پر جو ہم نے پہلے کبھی نہ سنے ہوتے ، بیان فرماتے.باوجود یہ که مفتی کفایت اللہ جیسے لوگوں کی مخالفت تھی مگر شہر کے عوام نے آپ کی کبھی مخالفت نہ کی تھی.وہ سب آپ کے سامنے مودب تھے.ان کا یہ خیال تھا کہ ہمارے خاندان کا ہر فر د جنت میں جائے گا.میں نے دینی ماحول میں اپنے گھر میں علم دین سیکھا.صرف ایک ماہ میں روزانہ ایک پارہ قرآن کریم کا حفظ کیا.میرے حفظ قرآن کا طریق یہ تھا کہ پہلے ایک آیت کے معنوں پر غور کرتا دوسری دفعہ آسمان پر اس آیت کو لکھتا تیسری دفعہ اس کی تکرار کرتا بس وہ آیت ہمیشہ کے لئے مجھے یاد ہو جاتی.مجھے بچپن میں یہ شوق رہے ہیں کہ نت نئے پھولوں سے باغ کو سجانا، کتابوں کی دکان میں گھس جانا اور دینی کتابیں خرید نا ، قدیم شعراء کے قلمی نسخے خریدنا.میں نے پھولوں کے گملوں پر اتنا روپیہ خرچ کیا کہ میرے والد صاحب فرماتے کہ اس رقم سے تو ایک باغ خریدا جاسکتا ہے.حضرت حافظ صاحب کے والد حضرت سید علی میاں صاحب ایک جید عالم دین شاہجہانپور میں سابقین اولین میں سے تھے.آپ ۱۲ اکتوبر ۱۹۳۰ء کو دار فانی سے دار البقاء کی طرف رحلت فرما گئے.حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری اپنے والد محترم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرے والد ماجد حضرت مولانا حافظ سید علی میاں صاحب احمدی جو اپنے تبحر علم و وسعت نظر اور بالخصوص محیر العقول قوت حافظہ کے لحاظ سے ایک نمونہ قدرت الہی تھے.آپ حضرت اقدس سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی اور ان پرانے خدام میں سے تھے جن کو ۱۸۹۳ء سے پہلے شرف قبول حاصل ہوا جب کہ مخالفت کا طوفان پورے جوش پر تھا.10-
تاریخ احمدیت.جلد 25 7 سال 1969ء شاہجہانپور کے اولین احمدی احباب یہاں یہ ذکر کیا جانا مناسب ہوگا کہ شاہجہانپور کے اولین احمدی تین بزرگ تھے جن کے نام رجسٹر بیعت اولیٰ میں ۳۳۷ / اور ۳۴۷ تین سو سنتالیس نمبر کے تحت درج ذیل الفاظ میں موجود ہیں :.۳۳۷ ”مولوی غلام امام عزیز الواعظین ابن شاہ محمد بن محمودشاہ ساکن جہان پوری حال منی پور ۳۴۷- امام بخش ساکن شاہ جہان پور حال منی پور معرفت مولوی غلام امام صاحب.نبی بخش ولد مولا بخش ساکن شاہ جہان پور حال مقام نا گا پھل رجسٹر میں ان کی تاریخ بیعت ۲۷ جون ۱۸۹۲ء درج ہے.اس کے بعد ۲۸ نومبر ۱۸۹۲ء تک نومبائعین کے تاریخ وار نام ہیں مگر ان میں حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کا نام نہیں جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کی بیعت اس کے بعد ۲۹ نومبر سے ۳۱ دسمبر ۱۸۹۲ء کے دوران ہوئی.جماعت شاہجہانپور کے قدیم فدائیوں اور مخلصوں میں حضرت شیخ مسیح اللہ صاحب شاہجہانپوری بالخصوص قابل ذکر ہیں جن کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ انجام آتھم میں ۳۱۳ اصحاب کبار کی تاریخی فہرست میں صفحہ ۴۲ پر زیر نمبر ۷۵ رقم فرمایا ہے.آپ کا انتقال۷۰ سال کی عمر میں 4 نومبر ۱۹۰۶ء کو ہوا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کئے گئے.قریباً سوا سال بعد حضرت حاجی فضل حسین صاحب شاہجہانپوری ۲۹ فروری ۱۹۰۸ء کو انتقال کر گئے.آپ بھی بہشتی مقبرہ کی مقدس خاک میں ابدی نیند سورہے ہیں.آپ کا مزار حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے قدموں میں ہے یہ دونوں بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں ہی مستقل ہجرت کر کے قادیان دارالامان میں آگئے تھے اور ان خوش نصیبوں میں سے تھے جن کی نماز جنازہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پڑھائی.ان کے علاوہ قدرت اللہ صاحب شاہجہانپوری ، قاسم علی صاحب معمار، شیخ فرزند علی صاحب ، میاں مولا بخش صاحب اور میاں علی جان صاحب سول سرجن کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل تھا.مگر یہ سب بزرگ حضرت حافظ 14 سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے بعد حضرت امام الزمان کے دامن سے وابستہ ہوئے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 قبول احمدیت 8 سال 1969ء حضرت حافظ صاحب کو ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دامن سے وابستگی کی سعادت نصیب ہوئی چنانچہ آپ قبول احمدیت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: محمد خان صاحب کپورتھلہ کے ایک بھائی پھوپھی زاد رسالدار میجر بہادر عبد الکریم خان شاہجہانپور میں تھے.محمد خان نے ان کو تبلیغ کی اور حضرت صاحب کا تذکرہ ان تک پہنچایا.عبدالکریم خان کی نظر میں اس وقت کوئی عالم حافظ سید علی میاں کے برابر نہیں تھا.انہوں نے نہایت حقارت کے ساتھ محمد خان صاحب کے قول کو رد کیا اور کہا کہ حافظ سید علی میاں صاحب سے مباحثہ ہو تو حقیقت کھل جائے.محمد خان صاحب کو بہت تعجب ہوا کہ اچھا یہ اتنے بڑے عالم ہیں کہ جن پر آپ کو اتنا اطمینان و اعتماد ہے.اچھا میں کچھ کتابیں دیتا ہوں.آپ کسی کتاب کا ان سے رد لکھا ئیں.حسب وعدہ کتابیں انہوں نے شاہجہانپور بھیجیں.یہ ۱۸۹۲ء کی بات ہے.فتح اسلام، توضیح مرام، ازالہ اوہام اور ان کے علاوہ چھوٹے چھوٹے چند رسائل اور بھی تھے.جیسے سچائی کا اظہار.اور یہ کی کئی جلدیں تھیں.بعض کی پیشانی پر حمد خان لکھا تھا اور بعض پر محمد روڑا.ان کتابوں میں آئینہ کمالات اسلام بھی تھی لیکن اس وقت تک وہ شائع نہیں ہوئی تھی اور نہ مکمل تھی.میں اس بیان سے کچھ عرصہ قبل بریلی میں اندر من مراد آبادی کی کتابوں میں چند اعتراضات پڑھ چکا تھا.ان میں سے یہ اعتراض مجھے بہت بے چین کرنے کا موجب ہوا کہ قرآن شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لفظ ضال موجود ہے.میں نے اپنے اس زمانہ کی حالت کے مطابق بہت کوشش کی کہ مجھے اس کا صحیح حل معلوم ہو جائے.کتا میں بھی بحث مباحثات کی جو اندر من مراد آبادی اور مولوی محمد علی ساکن بچھراؤں ضلع مراد آباد کی تصانیف سے تھیں اسی غرض سے میں نے دیکھیں مگر کوئی تسلی بخش بات مجھے معلوم نہ ہوئی.جب محمد خان صاحب کی بھیجی ہوئی کتابیں عبد الکریم خان صاحب رسالدار میجر بہادر کے ہاں پہنچیں تو وہ اس وقت میرے مکان پر تھے اور میرا ایک پاؤں جو کسی عارضہ کی وجہ سے سن ہو گیا تھا، ہل رہے تھے.خادم نے اطلاع دی تو انہوں نے کتابیں منگوائیں جو ایک بورے میں تھیں میں چونکہ ابتدائے عمر سے مذاہب مختلفہ کی کتابیں دیکھنے کی عادت رکھتا تھا.اس لئے میں نے بہت شوق کے ساتھ وہ کتابیں اپنے قریب ایک سٹول پر رکھوائیں اور اپنے ہاتھ سے اس کی متلی کاٹی اور بورا کھولا.سب سے پہلے جن اوراق پر میرا ہاتھ
تاریخ احمدیت.جلد 25 9 سال 1969ء پڑا وہ آئینہ کمالات اسلام کے اجزاء تھے.کتاب بالکل تازہ چھپی ہوئی تھی.جس سے روشنائی کی بو آتی تھی اور ابھی خشک بھی نہیں ہونے پائی تھی.اس کا کاغذ نہایت سفید اور روشنائی نہایت سیاہ چمکدار تھی.سب سے پہلے جو صفحہ میرے سامنے آیا اس پر موٹے قلم سے لکھا تھا وَوَجَدَكَ ضَائًا فَهَدى (الضحی : ۸) اور یہ وہی چیز تھی جس کا میں دنوں سے متلاشی تھا.میں نے وہیں سے پڑھنا شروع کر دیا اور آخر تک پڑھ گیا اور مجھے وہ راحت، فرحت اور سرور حاصل ہوا جو الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتا.جو صاحب اس سے حصہ لینا چاہیں وہ اس موقعہ کو پڑھیں.اس مضمون نے میرے دل میں یہ امر راسخ کر دیا کہ صاحب مضمون نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق کے اس درجہ پر پہنچے ہوئے ہیں جس کی نظیر موجودہ لوگوں میں نہیں مل سکتی.صرف اس ایک بات نے مجھے آپ کے راستباز اور صادق مان لینے پر مجبور کر دیا.میری راہ میں نہ تو حیات و ممات کا مسئلہ حارج ہوا اور نہ ان کے نزول کا.میں اسی وقت سے اپنے آپ کو آپ کے حلقہ بگوشوں میں شمار کرنے لگا اور پھر میں نے آئینہ کمالات اسلام کے وہ باقی اجزاء جن کا میں ذکر کر چکا ہوں از اول تا آخر پڑھے.انہوں نے میرے خیالات کو بہت پختہ کر دیا.کیونکہ وہ ساری کی ساری کتاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد اور اوصاف سے پُر ہے.اس رنگ میں کہ نہ اس سے پہلے میں نے یہ انداز کسی کی تصنیف میں پایا اور نہ ہی 66 اس کے بعد.جناب با بونذیر احمد صاحب امرتسری مقیم لاہور کی روایت کے مطابق حضرت حافظ صاحب نے انہی ایام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ بتایا کہ مجھے علم ہوا کہ والد صاحب بھی بعد مطالعہ کتب وفات مسیح کے قائل ہو چکے ہیں یہی ایک اختلافی مسئلہ اس زمانہ میں بہت بڑی روک تھا.باقی مسائل ابھی پیدا نہ ہوئے تھے.مجھے از حد خوشی ہوئی جب کہ والد صاحب نے شاہجہانپور کے لوگوں کو یہ بتانا شروع کر دیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.انہی دنوں شاہجہانپور کے ایک معزز شخص نے حضرت والد صاحب کی دعوت کی مجلس میں آپ کا تبادلہ خیال وفات مسیح کے موضوع پر ایک اور نامی عالم سے ہوا.دعوت میں جو لوگ شریک تھے ان میں سے تقریباً چھپیں آدمیوں نے اظہار کیا کہ آج سے وفات مسیح کے ہم بھی قائل ہو گئے ہیں.اسی طرح ایک اور مجلس میں بھی حضرت والد صاحب کے بیان کردہ زبر دست دلائل کی وجہ سے ایک درجن لوگ وفات مسیح کے قائل ہو گئے.والد صاحب نے بعدۂ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 10 سال 1969ء دست مبارک پر بیعت کر لی.جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا میں آپ کی چار پائی کے قریب بیٹھا تھا.مجھے کہنے لگے ، مجھے کیا اور لوگوں پر قیاس کرتے ہو؟ میں اپنی موت سے مطمئن ہوں.آپ نے يَايَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (الفجر: ۲۸، ۲۹) کے مطابق بخوشی اپنی جان خدا تعالیٰ کو سونپی.بیعت کر لینے کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام کی کتابوں کے پڑھنے میں مجھے بہت لذت آتی تھی.میں حضور کی کتابوں کو اسی لذت میں بار بار پڑھتا حتی کہ صفحات کے صفحات مجھے زبانی یاد ہو گئے.میرے سامنے کوئی شخص آپ کی عبارت میں سے ایک لفظ بھی آگے پیچھے کرے میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس نے غلطی کی ہے.نہ صرف یہ کہ کتابوں کو میں نے خود بار ہا پڑھا بلکہ دوسروں کو یہ کتا بیں بکثرت پڑھ کر سنا ئیں اور شروع سے آخر تک میرے ذہن کی ساخت ایسی ہو چکی ہے کہ بجز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے خیالات کے اور کوئی خیال نہیں آتا.کوئی بات میرے ذہن میں ایسی آہی نہیں سکتی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم نہ ہو.اب بھی باوجود پیرانہ سالی کے میری یادداشت کا یہ حال ہے کہ شاید اب مجھے کسی کتاب کا صفحہ یاد نہ رہا ہومگر کتاب کا نام مجھے ضرور یاد آ جاتا ہے اور کتاب سامنے آتے ہی فور أحوالہ دکھا دیتا ہوں.جو کوئی بھی کسی حوالہ کے لئے میرے پاس آتا ہے کبھی خالی ہاتھ نہیں جاتا.یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل و کرم ہے کہ وہ مجھ سے اس پیرانہ سالی میں یہ کام لے رہا ہے.یہ خوب یا درکھو کہ سلسلہ پر کوئی بھی اعتراض سنو اس کا جواب حضرت اقدس علیہ السلام کی کتابوں میں ضرور موجود ہوتا ہے.شادی جناب پیام شاہجہانپوری اپنے والد محمد امین صاحب شاہجہانپوری کے حوالہ سے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ مختار احمد صاحب نے سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق شادی کی تھی جس خاتون سے ان کی شادی ہوئی تھی وہ محترم سید محمد میاں صاحب سلیم شاہجہانپوری کی بیوہ والدہ تھیں.حضرت حافظ صاحب کا نکاح ان کے بہت ہی عزیز دوست منشی سراج الدین صاحب کا نپوری نے پڑھایا تھا.حافظ صاحب نے دعوتِ ولیمہ کا اہتمام بھی کیا تھا.حافظ صاحب تین تین چار چار آدمیوں کو بلا لیا کرتے تھے اور انہیں ولیمے کا کھانا کھلایا کرتے تھے.خود محمد امین صاحب شاہجہانپوری نے بھی ان کی دعوت ولیمہ میں شرکت کی تھی.19.
تاریخ احمدیت.جلد 25 11 سال 1969ء زیارت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۸۹۶ء کا آخر اور ۱۸۹۷ء کا آغاز حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کی زندگی میں یاد گار ا ہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس دوران آپ نے پہلی بار قادیان کی زیارت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کے علاوہ جلسہ اعظم مذاہب لاہور میں شرکت کی.آپ کے ایمان افروز تاثرات تاریخ احمدیت جلد دوم طبع اول کے صفحہ ۳۹۹، ۴۰۰ میں آپ ہی کے قلم سے دئے جاچکے ہیں.آپ کا بلند پایہ شعری کلام الحکم میں پہلی بار ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء کو شائع ہوا جو کہ حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں تھا.۱۹۰۵ء میں آپ نے سیکرٹری تبلیغ جماعت شاہجہانپور کی طرف سے 20 الحق کے نام سے تین تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے بعد ازاں آپ نے ایک ٹریکٹ بھی شائع فرمایا.۵امئی ۱۹۰۷ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی معرکہ آراء تصنیف ”حقیقۃ الوحی“ شائع فرمائی جس کے صفحہ ۱۴۸ پر منشی برہان الحق صاحب شاہجہانپوری کے خط کا تذکرہ فرمایا.یہ خط جو کئی سوالات پر مشتمل تھا حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حافظ صاحب ہی نے بھجوایا تھا.آپ بتایا کرتے تھے کہ حضور نے منشی صاحب موصوف کا خط ملتے ہی ان کے ایک سوال کا جواب تو بذریعہ کارڈ دے دیا اور بقیہ استفسارات کے جوابات بعد میں حقیقۃ الوحی میں زیب قرطاس کرنے کا وعدہ فرمایا.سوال یہ تھا کہ قرآن مجید میں کوئی ترتیب نہیں ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کے جواب کا غالبا خلاصہ یہ تھا کہ عوام ستاروں کو دیکھ کر بھی یہی خیال کرتے ہیں لیکن ہیئت دان بتاتے ہیں کہ ان میں ایسا حیرت انگیز نظام ہے کہ اگر کوئی ایک ستارہ بھی اپنی جگہ سے ہل جائے تو ساری کائنات تہ و بالا ہو جائے.خلافت اولی میں خدمات خلافت اولیٰ کے عہد مبارک میں حضرت حافظ صاحب کی پُر جوش علمی و تبلیغی خدمات کا دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع ہو گیا اور جماعت شاہجہانپور کی ایک ممتاز شخصیت کی حیثیت سے آپ کا وجود تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز اور آپ کا گھر احمدی مخلصین بالخصوص مرکزی علماء اور بزرگوں کی قیامگاہ بن گیا.۱۹۱۰ ء میں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الاول کی ہدایت پر جلسہ مونگھیر میں شرکت فرمائی نیز شاہجہانپور کے ایک جلسہ عام سے بھی خطاب فرمایا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے سفر شاہجہانپوراور شاہجہانپور کی جماعت کا ذکر کرتے
تاریخ احمدیت.جلد 25 12 سال 1969ء ہوئے فرمایا کہ وہاں انجمن کا انتظام یا قائد و نہ تھا.چنانچہ اب وہاں انتخاب کروا کر انجمن کے عہدیدار منتخب کرائے گئے ہیں اور حضرت سید مختار احمد صاحب انجمن کے سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں.اس کے علاوہ شاہجہانپور میں دوسرے احمدی احباب کے اسماء بھی تحریر فرمائے جن میں مثلاً حافظ سید علی میاں صاحب کے بارے فرمایا کہ وہ بڑے صالح اور متقی عالم ہیں.اس کے علاوہ منشی انوار احمد صاحب.سید محمد تقی میاں صاحب.سید محمد قاسم میاں صاحب.شرافت اللہ خان صاحب.مرزا ظہور علی بیگ صاحب.شیخ امام بخش صاحب.شیخ سخاوت علی صاحب.شیخ قدرت علی صاحب.محمد علی خان صاحب اطیع اللہ خان صاحب.ڈاکٹر اقبال علی خان صاحب غنی.عبدالعزیز خان صاحب.اکبر علی خان صاحب سوداگر کوئلہ.قدرت خان صاحب معمار - کرم علی خان صاحب قرق امین محمد ولی بیگ صاحب وغیرہ شامل ہیں.اسی ضمن میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے ایک اخبار کے مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں لکھا ہے کہ شاہجہانپور میں کوئی بڑا عالم پیدا نہیں ہوا حالانکہ اس مضمون نگار نے جس نگاہ سے عالم کو تلاش کیا اور نہ پایا اس کے لحاظ سے جو کچھ اس نے لکھا بالکل درست ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جو بصارت ہم کو عطا کی ہے اس کے ذریعہ ہم نے چند منٹوں میں دو بڑے عالم دیکھے.جناب مولوی حافظ سید علی میاں صاحب اور ان کے فرزندار جمند جناب مولوی مختار احمد صاحب.سید محمد میاں صاحب شاہجہانپوری تحریر فرماتے ہیں کہ : حضرت حافظ صاحب کے پاس نادر و نایاب کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی تھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ کتب کے کئی کئی سیٹ شامل تھے.حضرت صاحب کی کتابوں کے پہلے ایڈیشن کو کلکتہ سے مجدّد کرایا تھا اور بڑے اہتمام سے اور عقیدت سے شیشہ کی الماری میں سجا رکھا تھا.بقیہ سیٹ گردش میں رہتے تھے.ان نادر و نایاب کتابوں میں عہد نامہ عتیق اور عہد نامہ جدید کے علاوہ رگ وید ، سام دید، اتھر دید اور بحجر وید کے نسخے بھی موجود تھے.ایک نسخہ قلمی قرآن کریم کا مشہور ایرانی خطاط کے ہاتھ کا لکھا ہوا بھی موجود تھا.ان کتابوں سے تبلیغی میدان میں بڑی مدد لیتے تھے.اتنے بڑے ذخیرے کو ایسی ترتیب سے رکھا ہوا تھا کہ عین وقت پر اپنی مطلوبہ کتاب برآمد کر لینا ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اپریل ۱۹۱۲ء میں ہندوستان کی اسلامی درس
تاریخ احمدیت.جلد 25 13 سال 1969ء گاہوں کے طریقہ تعلیم اور نصاب تعلیم وغیرہ امور کو دیکھنے کی غرض سے ایک طویل سفر اختیار فرمایا جس کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم میں گذر چکی ہے.اس سفر کے دوران آپ اپنے رفقاء کے ساتھ شاہجہانپور بھی تشریف لے گئے اور حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے یہاں قیام فرمایا.چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے الحکم میں اس مشہور سفر کی روداد پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا:.۱۹ را اپریل کو شام کے چار بجے کے قریب لکھنو ہوتے ہوئے پنجاب میل میں شاہجہانپور روانہ ہوئے.لکھنوسٹیشن پر مرزا کبیر الدین احمد صاحب اور منشی نذیر الدین صاحب سپلائی ایجنٹ گاڑی کی روانگی تک ہمارے پاس رہے اور ے بجے کے قریب ہم لوگ شاہجہانپور پہنچے.ریلوے سٹیشن پر کل جماعت موجود تھی جو نہایت محبت اور خلوص سے ملی اور ہم سب کو حافظ مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری کے مکان پر ٹھہرایا گیا.ان کی ہی تحریک پر حافظ روشن علی صاحب نے ایک مختصر سی تقریر اسی وقت قبل نماز عشاء فرمائی اور دوسرے روز صبح کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک دل کو ہلا دینے والی تقریر فرمائی.۱۰ بجے کے قریب ۲۰ / اپریل کو ہم رامپور روانہ ہوئے.شاہجہانپور ہی میں مولوی سراج الدین صاحب خانپوری جو بریلی میں تجارت چرم کرتے ہیں حضرت صاحبزادہ صاحب کی خبر سن کر آپہنچے اور نہایت اخلاص اور درد آفرین لہجہ میں انہوں نے بعض نعتیں اور حضرت صاحب کی نظم پڑھی.وہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی تقریر سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے ہیں روپے اس تقریر کی اشاعت کے لئے دینے کا وعدہ کیا اور مجھے دے بھی دیئے.یہ تقریریں فی الحقیقت عجیب و غریب معارف کا مجموعہ ہیں اور اس قابل ہیں کہ کثرت سے ان کو شائع کیا جاوے.اللہ تعالیٰ دوسرے احباب کو بھی توفیق دے تو اس کارخیر میں شریک ہوجائیں.شاہجہانپور کا ذکر نا مکمل ہوگا اگر میں یہ بیان نہ کروں کہ شاہجہانپور کی جماعت نے اخلاص اور محبت سے ہماری مہمانداری کی اور ہر شخص ان میں سے اپنے صدق و وفا کے رنگ میں ڈوبا ہوا ہے.حافظ مختار احمد صاحب کے والد ماجد ایک قابل قدر وجود ہیں جو علوم عربیہ کی پوری تحصیل کئے ہوئے ہیں.ان کا حافظہ ایک بے نظیر حافظہ ہے جو کسی کتاب کو ایک مرتبہ پڑھ کر اس کے مضامین کو اور صفحوں کے صفحوں کو یاد رکھ سکتے ہیں.عربی زبان میں تحریر کرنے پر قادر ہیں اور اس کے علاوہ آریوں اور دوسرے مذاہب کے اصولوں سے خوب واقف ہیں.نہایت سادہ زندگی بسر کرتے اور زہد و ریاضت کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 14 سال 1969ء ایک نمونہ ہیں.ایسے قابل قدر وجود خدا کی ایک نعمت ہوتے ہیں.ارادہ کیا ہے کہ ان ہزاروں صفحات میں سے جو انہوں نے قلمبند کئے ہیں بعض مستقل مضامین شائع کرسکوں.وباللہ التوفیق خلافت ثانیہ میں خدمات 2.3 ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء کو سید نا حضرت خلیفہ امسح الاول کا قادیان میں وصال ہوا.اُدھر یہ حادثہ ہوا کوسیدنا ادھر شاہجہانپور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت حافظ صاحب پر القاء فرمایا کہ حضرت خلیفہ اول اس دنیا میں موجود نہیں بلکہ اعلیٰ علیین کی طرف رحلت فرما چکے ہیں.اس پر آپ نے نماز جمعہ پڑھانے کے بعد احباب جماعت کے سامنے کاغذ کے پرچوں کی گڈی رکھی اور تجویز پیش کی کہ اس شخص کا نام لکھیں جس کو آپ کا دل ہر لحاظ سے اس منصب عالی کا اہل اور مستحق قرار دیتا ہوں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سبھی نے ایک ہی نام لکھا اور وہ تھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد.اس کے بعد آپ نے بابو محمدعلی خان صاحب شاہجہانپوری کو کاغذ کے یہ پرچے دے کر قام یان بھیج دیا اس طرح بیرونی جماعتوں میں سب سے پہلے جماعت شاہجہانپور کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کا شرف نصیب ہوا.اس واقعہ کی پوری تفصیل حضرت حافظ صاحب ہی کے قلم سے تاریخ احمدیت جلد پنجم میں گذر چکی ہے.خلافت ثانیہ کے دوران ہر سال جلسہ سالانہ پر قادیان دارالامان کی برکات سے مستفید ہونا اور ایک عرصہ تک وہاں رہنا آپ کا معمول تھا.واپسی پر کتابوں کے بنڈل ساتھ ہوتے تھے جن کو آپ زیر تبلیغ اصحاب میں تقسیم کر دیتے.۱۹۲۲ء کی پہلی مجلس مشاورت میں بیرونی جماعتوں سے جو بزرگ نمائندہ کی حیثیت سے شامل ہوئے ان میں آپ بھی تھے اور مشاورت ۱۹۲۲ء کی مطبوعہ رپورٹ کے آغاز میں آپ کا نام نمبر ۱۲ پر درج ہے.مشاورت ۱۹۲۹ء میں سب کمیٹی نظارت علیاء کے آپ بھی ممبر نامزد کئے گئے.۱۹۳۰ء کی مشاورت میں آپ سب کمیٹی بیت المال کے ممبر تھے.۱۹۲۵ء میں آپ بریلی کے مولوی عبد الغفور صاحب تک پیغام حق پہنچانے کے لئے کئی ماہ تک بریلی میں قیام فرما رہے.آپ ان دنوں اس درجہ تبلیغ میں منہمک تھے کہ شاہجہانپور تشریف نہ لا سکے یہاں تک کہ شاہجہانپور کی جماعت کے جلسہ سالانہ کا وقت قریب آگیا اور آپ ۱ ستمبر ۱۹۲۵ء کی شام کو واپس تشریف لائے تو دوسرے ہی روز واپسی کے لئے بریلی سے تقاضا شروع ہو گیا.جس پر آپ انتظام جلسہ کے متعلق ضروری ہدایات دے کر وا پس بریلی چلے گئے اور ۷ استمبر کو جلسہ میں شمولیت کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 15 سال 1969ء لئے 4 بجے صبح کی پہلی ٹرین میں دوبارہ بریلی سے شاہجہانپور پہنچے.یہ جلسہ آپ کی صدارت میں دوروز یعنی ۱۷، ۱۸ ستمبر کو نہایت کامیابی سے منعقد ہوا.جلسہ سے حضرت حافظ صاحب نے ایک پُر جوش خطاب فرمایا چنانچہ عبدالجمیل شاہجہانپوری نے رپورٹ میں لکھا:.,, دوسرے روز بعض اصحاب کے سوالات اور نیز ان مہمانوں کی تسلی و تسکین کے لئے جو ز یر تبلیغ تھے اور بیرونجات سے بغرض شرکت جلسہ آئے تھے قیام گاہ پر استاذی المعظم حضرت حافظ صاحب کی تقریر شروع ہوئی جس کا سلسلہ طعام ونماز کے اوقات نکال کر صبح سے عصر تک جاری رہا.اس تقریر نے علماء سوء کا وہ نقشہ آنکھوں کے سامنے کھینچ دیا.جس سے عام تو کیا اکثر خاص اصحاب بھی واقف نہ تھے.ابتداء سے لے کر آخر تک جن جن علماء نے جری اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی یا اب کر رہے ہیں.یہ تقریران سبھی کے کوائف پر حاوی تھی.سامعین بہت ہی محظوظ ہوئے اور جو لوگ شب کو مخالفین کے جلسہ میں جا کر ان کے اعتراضات سن آئے تھے ان کے لئے تو یہ تریاق ثابت ہوئی اور وہ ساری سمیت جو مخالفانہ تقریروں نے پیدا کی تھی اس تقریر کی رو سے مثل خس و خاشاک بہہ گئی اور اصحاب بیر و نجات میں سے ایک صاحب جو مدت سے جویائے حق تھے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک.اگلے سال یہ جلسہ بارش کے سبب آپ کے وسیع مکان میں ہوا.چنانچہ محمد عقیل قریشی صاحب سیکرٹری جلسہ ہائے ہفتہ وار انجمن احمد یہ شاہجہانپور نے لکھا کہ سالانہ جلسہ جماعت احمد یہ شاہجہانپور ۴،۱۳ استمبر ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا.بارش کے سبب حافظ مختار احمد صاحب کے وسیع مکان واقع محلہ ترین میں جلسہ کا انتظام کیا گیا.اگر چہ بارش کی وجہ سے راستے خراب تھے اور ابر محیط ہورہا تھا اور قریب ہی مخالفین نے بھی اکھاڑا جمارکھا تھا اور آنے والوں کو روکا بھی جاتا تھا.تاہم سامعین آئے اور امید سے بڑھ کر آئے.پیلی بھیت، امرو به ضلع مراد آباد قصبہ تکبر ، قصبہ کٹہرا ، موضع کیا ، موضع خانپور اور موضع بیضہ وغیرہ سے بھی برادران سلسلہ جلسہ کے لئے تشریف لائے تھے..حضرت حافظ صاحب کا مکان (مکان کا پتہ: مکان نمبر ۱۳ /المعروف حافظ مختار میاں والا.تار دین نکلی شاہجہانپور ) دو کمروں ، ایک ہال ، ایک برآمدہ اور باورچی خانہ وغیرہ پر مشتمل تھا اور ہمیشہ جماعتی ضروریات کے لئے وقف رہا.جناب مولوی خورشید احمد صاحب پر بھا کرنے ۸ فروری ۱۹۵۸ء کو اپنے ایک تحریری بیان میں اطلاع دی کہ مکان میں مدت سے نمازیں ادا ہوتی آرہی ہیں اس لئے
تاریخ احمدیت.جلد 25 16 سال 1969ء پریذیڈنٹ صاحب نے جماعتی ضروریات کے لئے اسے کرایہ پر لے رکھا ہے.۵ روپے ماہوار کرا یہ کسٹوڈین کو ادا کیا جاتا ہے اس وقت خاکسار محمد عقیل قریشی اس مکان میں رہ رہا ہے.خاکسار کے پاس جو کاغذات ہیں وہ فسادات کے بعد کے ہیں.حافظ صاحب نے یہ مکان بطور وقف زبانی جماعت احمدیہ کو دے رکھا تھا اور مکان مذکور عملی طور پر جماعتی ضروریات میں ہی استعمال ہوتا چلا آ رہا ہے.کسٹوڈین سے مقدمہ لڑا گیا لیکن آخری فیصلہ کسٹوڈین نے اپنے ہی حق میں کیا.یعنی اراضی افتادہ و مکان جماعت سے لے لیا گیا.اب یہ ملکیت کسٹوڈین کی ہے.۱۹۲۵ ء و ۱۹۲۶ء میں احمدیہ مسجد شاہجہانپور کے مقدمہ کی پیروی کے لئے قادیان سے حضرت وی فضل الدین صاحب وکیل اور کپورتھلہ سے حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر تشریف لے گئے اور خاص اس غرض کے لئے کچھ عرصہ شاہجہانپور مقیم رہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے عدالت میں مدلل بحث کی.حضرت حافظ مختار احمد صاحب نے ان بزرگوں کی بے حد مدد فرمائی.۱۹۳۳ء میں حضرت حافظ صاحب نے مقدمہ بہاولپور کے دوران مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی اور دیگر مبلغین سے گراں قدر تعاون فرمایا، راہنمائی کی اور اپنے قیمتی اور مفید مشوروں سے نوازا.نیز مارچ ۱۹۳۴ء میں بہاولپور بھی تشریف لے گئے.دوسرے شہروں کی طرح ۱۷ جون ۱۹۲۸ء کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا جلسہ ہوا اور یہ جلسہ بھی حضرت حافظ صاحب کے پختہ احاطہ ہی میں ہوا اور حضرت حافظ صاحب کی تائید اور منشی نثار احمد صاحب بی اے ایل ایل بی وکیل شاہجہانپور کی تحریک سے خان محمد محمود الحسن خان صاحب سب حج بہادر سیتاپور و رئیس شاہجہانپور صدر جلسہ قرار پائے.جلسہ میں دیگر مسلم و غیر مسلم مقررین کے علاوہ حضرت حافظ صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدیم المثال احسانات کے موضوع پر خطاب فرمایا.آخر ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز ہوا تو آپ اس کے مالی جہاد میں شامل ہو گئے.آپ کا ذکر تحریک جدید کی پانچ ہزاری مجاہدین کی فہرست کے صفحہ ۰۴ اپر درج ہے.۱۹۴۵ء میں بشیر احمد آرچرڈ صاحب پہلی بار تلاش حق میں قادیان تشریف لائے تو حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے آرچرڈ صاحب کو تبلیغ کرنے کے لئے حضرت حافظ صاحب کا انتخاب کیا جوان دنوں قادیان میں مہان خانہ کے ایک جدید کوارٹر میں قیام فرما تھے.آرچرڈ صاحب بھی مہمان خانہ میں ہی مقیم ہوئے اور ان کے ساتھ محمد ضیاء الحق صاحب (لاہور ) ٹھہرے ہوئے تھے اور انگریزی میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 17 سال 1969ء ترجمانی کے فرائض انہوں نے ہی سرانجام دیئے.جناب محمد ضیاء الحق صاحب ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحب کے کمرہ میں جگہ تنگ تھی اور آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا.نماز صبح کے بعد اور پھر شام کو مستقل تشریف لانے والے بزرگوں میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں.شام کو عموماً حضرت مفتی صاحب آرچرڈ صاحب کو تبلیغ فرمایا کرتے تھے.جو نہی حضرت مفتی صاحب حضرت حافظ صاحب والے کوارٹر کے بیرونی دروازے میں داخل ہوتے حضرت حافظ صاحب عقیدت اور احترام سے اٹھ کر کھڑے ہو جاتے.غالباً وہ حضرت مفتی صاحب کے قدموں کی چاپ پہچانتے تھے اور یہ ایک عملی تلقین ہم ایسے نوجوانوں کے لئے تھی تا کہ ہم بزرگوں کا مقام پہچانیں اور ان کے احترام کو قائم رکھیں.جناب عبد الرحمن صاحب ایم اے الہبی پارک لاہور کا بیان ہے کہ انہیں حضرت حافظ صاحب نے مسٹر بشیر آرچرڈ صاحب سے ملاقات کا یہ واقعہ خود سنایا تھا کہ آرچرڈ صاحب نے حضرت حافظ صاحب سے متعدد بار اس تشویش کا اظہار کیا کہ اگر خدا تعالیٰ فی الواقع ہے اور وہ اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے تو پھر وہ مجھ سے ہمکلام کیوں نہیں ہوتا؟ میں بھی تو اس کا بندہ ہوں اور اس کا کلام سننے کا خواہشمند ہوں.جب میں نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے اپنا سب کچھ تیاگ ( ترک کرنا، چھوڑ نا ) کر دین اسلام کو قبول کر لیا ہے تو پھر میری یہ خواہش کیوں پوری نہیں ہوتی.33 حضرت حافظ صاحب فرماتے تھے یہ ایک بڑا نازک مرحلہ تھا.اس مسئلہ کا دلائل سے حل کرنا اور اس کا ایک یورپین دماغ کے لئے موجب اطمینان ہونا بہت دشوار تھا.خصوصاً اس کا عملی ثبوت بہم پہنچانا کوئی اختیاری معاملہ نہ تھا.ایک روز حضرت حافظ صاحب اس وجہ سے کچھ فکر مند تھے کہ آرچرڈ صاحب آگئے اور آپ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کیا خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ بولتا ہے؟ حافظ صاحب نے فرمایا.ہاں.بولتا ہے کہنے لگے مجھ سے تو نہیں بولتا.میں کس طرح سمجھوں کہ یہ بات درست ہے.اس موقع پر حافظ صاحب کو ایک پر حکمت تجویز سوجھی.آپ نے فرمایا دیکھئے شاہ انگلستان کو چٹھی لکھئے کہ میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں لہذا جلد از جلد تشریف لائیے اور مجھے اپنی ملاقات سے مشرف کیجئے.میں آپ سے ملنے کے لئے بہت بے تاب ہوں.یہ سن کر آرچرڈ صاحب گھبر اسے گئے اور کہنے لگے.نہیں نہیں.یہ کس طرح ہوسکتا ہے وہ تو ایک
تاریخ احمدیت.جلد 25 18 سال 1969ء بہت بڑا بادشاہ ہے اس کے آگے تو بڑے بڑے عالی مرتبہ راجے اور نواب بھی یہ بات کہنے کی جرات نہیں کر سکتے.میری کیا مجال ہے.اس کو بھلا میرے جیسے معمولی آدمی کی خواہش کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے یہ نہیں ہوسکتا وہ تو بادشاہ ہے.اس کی مرضی ہے کسی کو ملاقات کا موقع دے یا نہ دے.اس پر حافظ صاحب نے فرمایا.کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ جارج ششم سے چھوٹا ہے.وہ تو سب بادشاہوں کا بادشاہ بلکہ تمام کائنات کا خالق اور مالک ہے اس کی بھی مرضی ہے کسی کو ملے یا نہ ملے یا جب چاہے ملے.یہ سن کر آرچرڈ صاحب کی کچھ تشفی ہوگئی اور وہ خاموش ہو گئے.پھر اگلے روز جب آئے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.کیونکہ اسی روز سحری کے وقت ان کی آرزو پوری ہوگئی تھی.۱۹۴۷ء میں آپ ہجرت کر کے پاکستان تشریف لے آئے اور لاہور میں جو دھامل بلڈنگ کے ایک بالائی کمرہ میں اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا زور و شور سے آغاز کر دیا.ازاں بعد آپ مستقل طور پر دارالہجرت ربوہ میں تشریف لے آئے اور پہلے سید عبد الباسط صاحب نائب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ ر مرکزیہ کے کوارٹر میں اور پھر صدرانجمن احمدیہ کے ایک کوارٹر میں قیام فرمار ہے اور حسب معمول دیوانہ وارا شاعت حق میں سرگرم عمل رہے اور قلمی جہاد کو بھی جاری رکھا.اور تاریخ احمدیت کی پہلی چھ جلدوں پر لفظ لفظا نظر ثانی فرمائی اور حیات نور مؤلفہ شیخ عبد القادر صاحب فاضل کا مسودہ اوّل سے آخر تک سنا اور قیمتی راہنمائی فرمائی.اپریل ۱۹۶۱ء کے رسالہ ” پیام مشرق“ لاہور میں ابو حماد صاحب رشید کا ایک مضمون ” قادیانی شاعری“ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں جماعت احمدیہ کے بعض شعراء پر اعتراضات کئے گئے کہ انہوں نے اپنی نظموں میں غلط الفاظ اور غلط تراکیب استعمال کی ہیں اور سب سے بڑی غلطی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے قرار دی.چنانچہ انہوں نے لکھا: اس میں بھی شک نہیں کہ مرزا صاحب کے کلام میں زبان و بیان کی بے شمار غلطیاں موجود ہیں اور ان غلطیوں میں کہتا کی وہ غلطی تو شاہکار کا درجہ رکھتی ہے جسے مولانا ظفر علی خان نے حیات جاوید بخشی ہے.اک برہنہ سے نہ ہوگا کہ تا باندھے ازار یہ کہ تا ہے شاہ کار شاعران قادیاں حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نے اپنے یا کسی دیگر شاعر احمدیت پر کئے جانے
تاریخ احمدیت.جلد 25 19 سال 1969ء والے اعتراضات پر تو حلم اور عفو کا نمونہ دکھلایا.لیکن جب آپ کے محبوب اور پیارے مسیح موعود علیہ السلام کے شعر کو مورد اعتراض بنایا گیا تو آپ برداشت نہ کر سکے اور بہت ہی قلیل عرصہ میں انتھک کوشش کے ساتھ اساتذہ سلف کے سینکڑوں اشعار آپ نے حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کی تائید میں تلاش کئے اور اعتراض کے جواب میں شائع کروائے.چنانچہ آپ اس بارہ میں خود فرماتے ہیں کہ : دوستوں کے جانے کے بعد میں دیوان حافظ اور دیگر شعراء کے دیوان لے کر بیٹھ گیا اور مؤذن نے فجر کی اذان دی تو کم و بیش ایک سو شعر ایسے تلاش کر لئے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کی تائید میں پیش کئے جاسکتے تھے.66 36 اور پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ کم و بیش تین صد اردو اور فارسی اشعار آپ نے اس شعر کی تائید میں شائع کروائے اور ایک لمبا مضمون رسالہ الفرقان ۶۲ - ۱۹۶۱ء میں مختلف اقساط میں اس عنوان سے شائع کروایا.” قادیانی شاعری“.رسالہ ” پیام مشرق کے اعتراضوں کا جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے المناک سانحہ وفات پر حضرت حافظ صاحب نے گریہ بے اختیار کے زیر عنوان ایک درد انگیز نظم کہی جو رسالہ الفرقان ربوہ اپریل، مئی ۱۹۶۴ء.قمر الانبیاء نمبر صفہ ۶۲ ۶۳ پر شائع ہوئی.مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ نے حیات بشیر کے صفحه ۴۳۶ تا ۴۳۸ پر یظم درج فرمائی اور اس سے قبل حسب ذیل نوٹ دیا کہ حضرت حافظ صاحب وہ خوش قسمت بزرگ ہیں جن کے بڑھاپے اور کمزوری کی وجہ سے حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد خود چل کر ان کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے.اور حضرت حافظ صاحب بھی آپ کی آمد کی قدر و قیمت کو خوب سمجھتے تھے.اور اس سے حظ بھی اٹھایا کرتے تھے.حضرت میاں صاحب کے وصال کے بعد ایک مرتبہ آپ نے حضرت میاں صاحب کے ایک پرانے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.میں تو حضرت (میاں بشیر احمد صاحب) کی دلفریب مسکراہٹ کا دیوانہ تھا کوشش کر کے ایسی بات کرتا کہ آپ مسکرا دیں اور میں بے خود ہو جاؤں.کیونکہ آپ کی مسکراہٹ میں مجھے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی مسکراہٹ کی جھلک نظر آتی تھی.مجھے خوب یاد ہے.ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب احمد یہ چوک قادیان میں چند خدام کے ساتھ کھڑے تھے.یہ خادم بھی ذرا ہٹ کر کھڑا تھا.میں نے محسوس کیا کہ حضرت نے دو تین بار گوشئہ چشم سے میری طرف دیکھا.میں سمجھ گیا کہ کچھ
تاریخ احمدیت.جلد 25 20 سال 1969ء ارشاد فرمانا چاہتے ہیں.میں قریب ہو گیا.فرمایا ' حافظ صاحب! آپ کی عمر کتنی ہوگی میں تو جب سے یاد پڑتا ہے آپ کو ایسا ہی دیکھتا چلا آیا ہوں.میں نے عرض کیا حضور! عمر کا اندازہ تو یوں فرمالیں کہ اس غلام نے اپنے آقا ( مراد حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کو اسی جگہ جہاں آپ کھڑے ہیں تین چار سال کی عمر میں کھیلتے دیکھا ہے کہ اتنے میں حضرت حکیم الامت حضرت مولانا نورالدین تشریف لائے.آپ اکڑوں بیٹھنے کے خلاف تھے مگر فرط محبت سے بے ساختہ زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے اور بازوؤں میں حضرت محمود کو لے لیا اور فرمایا ”میاں ! آپ کام کاج تو کچھ کرتے نہیں.سارا دن بس کھیلتے ہی رہتے ہیں.کس شوکت سے میرے امام نے جواب دیا.” جب ہم بڑے ہوں گے تو ہم وو بھی کام کریں گے.حضرت حکیم الامت تو جیسے یہ سن کر کہیں کھو گئے اور فرمایا: ”خیال تو تمہارے پیو کا بھی یہی ہے اور نورالدین کا بھی واللہ اعلم بالصواب اب ہم سوچ میں ڈوب گئے.باقی تو کچھ پلے پڑ گیا مگر یہ پیڈ سمجھ میں نہ آیا.آخر کسی دوست نے بتایا کہ پنجابی میں پیڈ باپ کو کہتے ہیں.تب ہم تہہ کو پہنچے.حضرت قمر الانبیاء نے یہ سنا تو تبسم فرمایا اور ہم سیر ہو گئے.وفات اور تدفین حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری کی پوری زندگی تبلیغ دین کے مسلسل جہاد میں گزری.آپ بلاشبہ تبلیغ و تربیت کے میدان میں بے نفس خدمت کرنے والے بزرگ تھے.آپ کو نظام الوصیت سے وابستہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.آپ کا وصیت نمبر ۱۴۸۰۲ تھا.آپ ۸ جنوری ۱۹۶۹ء کو رحلت فرما کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.وفات کے بعد سیکرٹری صاحب مجلس کار پرداز ربوہ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ذمہ بقایا حصہ آمد دوسوروپے (۲۰۰) ہے جس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اپنی جیب خاص سے دوسوروپے ادا فرما دئیے.ازاں بعد اگلے روز حضور ہی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں اہل ربوہ کے علاوہ لا ہور ، سرگودھا اور بعض دیگر مقامات کے مخلصین جماعت شریک ہوئے.حضور نے نماز جنازہ کو کندھا دیا اور تابوت کو قبر میں اتارنے میں علماء سلسلہ کے علاوہ حضور نے بھی حصہ لیا اور آپ بہشتی مقبرہ میں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لیے مخصوص قطعہ میں سپردخاک کر دیئے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 21 سال 1969ء حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کا خطبہ جمعہ میں ذکر خیر امسیح اس المناک قومی سانحہ پر امام ہمام حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ء کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت حافظ صاحب کو جماعت کا ایک سردار قرار دیتے ہوئے بتایا: آپ ایک بے نفس خدمت کرنے والے بزرگ تھے جنہوں نے بیماری کی حالت میں بھی بظاہر ایک مختصر سی دنیا میں جو ان کے ایک کمرے پر مشتمل تھی تبلیغ اور تربیت کا ایک وسیع میدان پیدا کر دیا تھا.آخر وقت تک آپ کا ذہن بالکل صاف اور حافظہ پوری طرح کام کرنے والا رہا اور آپ اس قدر تبلیغ کرنے والے اور اس رنگ میں تربیت کرنے والے بزرگ تھے کہ ہماری جماعت میں کم ہی اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.حضرت حافظ مختار احمد صاحب کی وفات پر میں نے بہت دعا کی کہ اے میرے رب ! غلبہ اسلام کی جو مہم تو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ذریعہ جاری کی ہے اس کی سرحدوں میں وسعت پیدا ہو رہی ہے.ہمارے کام بڑھ رہے ہیں اور ہماری ضرورتیں زیادہ ہو رہی ہیں.ہمیں حضرت حافظ صاحب جیسے ایک نہیں، سینکڑوں نہیں ہزاروں فدائی اور اسلام کے جاشار چاہئیں.تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ جہاں جہاں اور جس قدر اسلام کی ضرورت تقاضا کرے تیرے فضل سے اسلام کو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی ملتے رہیں.“ ازاں بعد حضور نے جماعت احمدیہ کے تمام مربیوں کو قرآنی آیات کی روشنی میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ اس طرف متوجہ فرمایا: اللہ کی نگاہ میں صحیح مربی بننے کے لئے دو بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے.ایک نور فراست اور دوسرا گداز دل اپنا دل خدا کے حضور ہر وقت گداز رکھو.تمہاری روح اس کے خوف سے ، اس کی عظمت اور جلال کی خشیت سے پانی ہو کر اور پکھل کر اس کے حضور جھک جائے اور اپنی تمام عاجزی کے ساتھ انتہائی انکساری کے ساتھ تم اپنے بھائیوں کے سامنے ان کی ہمدردی اور غمخواری میں جھکے رہو.تمہارانفس 66
تاریخ احمدیت.جلد 25 22 سال 1969ء بیچ میں سے غائب ہو جائے یا تم ہمیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے خادم نظر آؤ یا تم اسے اپنے خادم نظر آؤ 40 عالی مقام اور شمائل واخلاق صاحبزادہ (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے آپ کے وصال پر تحریر فرمایا:.حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو آپ کا شوق تبلیغ تھا تبلیغ آپ کا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا ہو چکی تھی اور واقعہ نہ کہ محاورۃ آپ تبلیغ سے قوت پاتے تھے.ایک مرتبہ مجھے حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت نصیب ہوئی تو ایک دوست سے پہلے روز کے ایک واقعہ کے متعلق استفسار فرمارہے تھے.چنانچہ میرے حاضر ہونے پر مجھے بھی اس گفتگو میں شامل فرمالیا.واقعہ یہ تھا کہ ایک روز پہلے یہی دوست جن سے حضرت حافظ صاحب کی گفتگو ہورہی تھی ایک ہمارے ضلع جھنگ کے بڑے زمیندار کو حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے لائے تھے.جب پہنچے تو حضرت حافظ صاحب انتہائی ضعف کے نتیجہ میں لب ہلانے میں بھی دقت محسوس کرتے تھے.لیکن جب معلوم ہوا کہ ان کو لانے کا مقصد تبلیغ ہے تو رفتہ رفتہ کوشش کر کے بعض مسائل پر کچھ کہنا شروع کیا.جوں جوں وقت گذرتا گیا حضرت حافظ صاحب کی توانائی بڑھتی گئی.یہاں تک کہ خدا کے فضل سے اٹھ کر بیٹھ گئے اور مختلف کتا بیں نکلوا کر اصل حوالہ جات بھی دکھانا شروع کئے اور تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے تک ان سے ہرمسئلہ پر سیر حاصل بحث کی.اس گفتگو کے بعد جب وہ دوست باہر تشریف لے جا رہے تھے تو دروازہ میں (اس نے ) اونچی آواز میں کہا کہ بلا بدھی ہوئی اے“ جسے حضرت حافظ صاحب نے بھی سن لیا.چنانچہ میرے پہنچنے پر حضرت حافظ صاحب اسی بارہ میں استفسار فرما رہے تھے کہ اس نے مجھے بلا کیوں کہا.میں نے تو ایسی بات نہیں کی.نیز فرمایا کہ 'بدھی“ کا مطلب مجھے سمجھ نہیں آیا.چنانچہ اس پر خاکسار نے عرض
تاریخ احمدیت.جلد 25 ہیں:.23 سال 1969ء کیا کہ اس سے بہتر الفاظ میں پنجابی زبان میں وہ آپ کو خراج تحسین پیش نہیں کر سکتا تھا.صرف بلا کہنے پر بھی اس نے اکتفا نہیں کی.بلکہ بلا بدھی“ کہہ کر بلاغت کی انتہا کر دی کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ بلا با ندھی ہوئی ہے جس کے ساتھ مقابلہ نہیں ہوسکتا.اس قسم کے بے شمار واقعات دوستوں کے علم میں ہوں گے کہ حضرت حافظ صاحب نے نہایت نقاہت وضعف کی حالت میں کسی تبلیغی موضوع پر گفتگو شروع فرمائی.رفتہ رفتہ اس موضوع کی لذت سے توانائی حاصل کرتے ہوئے ایسے صحت مند نظر آنے لگے گویا کبھی بیمار ہی نہ تھے.اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو غریق رحمت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدموں میں جگہ دے.ی پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد پرویز پروازی صاحب سابق پرو فیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ رقمطراز 41 خلافت کے ساتھ انتہا کی وابستگی تھی.پچھلی عید الفطر پر میں حاضر ہوا تو وہاں ایک صاحب بیٹھے تھے.میں گیا تو وہ صاحب اٹھے اور حضرت حافظ صاحب سے اپنے پنجابی کے انداز میں کہا ” میں ذرا حضرت صاحب سے مل آؤں ! اپنی دانست میں ان صاحب نے حافظ صاحب سے اجازتِ رخصت چاہی.لیکن انداز کچھ ایسا تھا کہ فقرہ میں استفہامی رنگ پیدا ہو گیا.آپ نے سمجھا کہ وہ صاحب یہ پوچھ رہے ہیں کیا میں حضرت صاحب سے مل آؤں؟ حضرت حافظ صاحب کے چہرہ پر اتنا غصہ اور انقباض میں نے پہلی اور آخری بار دیکھا.آپ نے بڑے غصہ سے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور حاضرین کی طرف کچھ اس طرح دیکھا جیسے کہ رہے ہوں کہ دیکھو اس شخص کو کیا ہو گیا ہے؟ خلافت کے مقام بلند کے لئے اتنی غیرت ! اب تک مری آنکھوں کے سامنے وہ نقشہ ہے اس وقت مجھے احساس ہوا کہ خلیفہ وقت کا مقام کتنا اعلیٰ وارفع مقام ہے اور زبان کی ذراسی لغزش سے سوئے ادب کی صورت نکلتی ہے.ان صاحب کے چلے جانے کے بعد بھی بہت دیر تک حضرت حافظ صاحب خاموش رہے.اس شخص کی اس نادانستہ لغزش نے انہیں بڑا دکھ پہنچایا.یہ واقعہ حضرت حافظ صاحب کی خلافت سے وابستگی اور خلافت کے مقام ارجمند کے ادراک پر دلالت کرتا ہے.42 مکرم ضیاء الحق صاحب (لاہور) حضرت سید مختار احمد صاحب کے بارے میں بعض واقعات
تاریخ احمدیت.جلد 25 24 سال 1969ء بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں : ’ایک دفعہ ایک واقف زندگی مبلغ ملک سے باہر تبلیغ کے لئے جار ہے تھے.دارالواقفین میں ایک عصرانہ کا اہتمام تھا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت حافظ صاحب بھی شریک تھے.میں نے دیکھا کہ حضرت حافظ صاحب حضرت خلیفہ ایج سے کافی فاصلہ پر ایک کونہ میں نگاہیں جھکائے بیٹھے تھے.دورانِ گفتگو حضرت خلیفہ اُسیح نے آپ سے ایک مرتبہ کسی بات پر استفسار بھی فرمایا جس کا جواب حضرت حافظ صاحب نے اسی طرح نگاہیں جھکائے بے حد احترام سے عرض کر دیا.اسی شام جب حضرت حافظ صاحب کی مجلس میں مجھ ایسے چند نوجوان بیٹھے تھے تو خاکسار نے حضرت حافظ صاحب سے یہ سوال کر دیا کہ آپ کو یہ رعایت حاصل ہے کہ جب چاہیں حضرت خلیفہ المسیح کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں اور جس قدر قریب چاہیں بیٹھ سکتے ہیں مگر آپ اس قدر دور بیٹھے تھے.پہلے تو حضرت خاموش رہے اور پھر آنکھوں میں آنسو بھر کر بولے میں اس جمال کی برداشت کی طاقت کہاں سے لاؤں اور سچ تو یہ ہے کہ میں نے تو جی بھر کر کبھی حضور کو دیکھا ہی نہیں.جودھامل بلڈنگ لاہور میں قیام کے دوران ایک مرتبہ اپنی کچھ رقم میں نے حضرت حافظ صاحب کے پاس امانت رکھ دی.آپ نے نوٹ لے کر گئے اور فرمایا کہ اس امانت میں انہی نوٹوں کی قید تو نہیں.میں بات سمجھ نہ سکا اور وضاحت کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ واپسی کے وقت اگر یہ نوٹ تبدیل ہو چکے ہوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا.میں خاموش ہو گیا.سوچ رہا تھا کہ یہ تقویٰ کی کس قدر باریک راہ ہے.مجھے توقف میں دیکھ کر کر آپ نے فرمایا کہ اگر آپ کو انہی نوٹوں کی واپسی پر اصرار ہو تو میں اس طریق پر اسے رکھ لوں گا.میں نے عرض کیا کہ ایسی کوئی بات نہیں.کوئی سے بھی نوٹ ہوں.حضرت حافظ صاحب نے اس معمولی سی امانت کی تحریر لکھ کر میرے ہاتھ میں دے دی.میں نے لینے سے انکار کیا تو آپ نے فرمایا نہیں یہ ضروری ہے زندگی کا کیا اعتبار.گویا حضرت حافظ صاحب معمولی معاملات میں بھی بڑے محتاط تھے.66 چوہدری عبد الواحد صاحب سابق نائب ناظر اصلاح وارشاد تحریر فرماتے ہیں:.۶۵.۶.۲۹ کی بات ہے.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ ایک دفعہ حضرت بانی سلسلہ کی مجلس میں ایک شخص جس کا نام صوفی علی محمدی محمد علی تھا، نے اجازت چاہی کہ انہیں بھی تقریر کرنے کی اجازت دی جائے.حضور اقدس نے اجازت فرمائی.انہوں نے حضرت بانی سلسلہ کی ایک کتاب
تاریخ احمدیت.جلد 25 25 سال 1969ء 44 766 کے اقتباس پڑھ کر وحدت الوجود پر بڑی برجستہ اور مؤثر تقریر کی.ہم کہتے تھے کہ حضور تو وحدت الوجود کے قائل نہیں ہیں (پھر) یہ کیا بات ہے؟ تقریر ختم ہوئی تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس مسئلہ کا ردتو اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں ہی فرما دیا ہے یہ کہہ کر سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت پڑھی.حضور کا اتنا فرمانا تھا کہ صوفی علی محمد چیخ مار کر حضور اقدس کے قدموں میں گر پڑے اور پکارنے لگے میں مارا گیا.میں برباد ہو گیا.حضور نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر تسلی دی اور فرمایا کہ جو پہلے گزر چکا اس پر کوئی مواخذہ نہیں.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ جب حضرت بانی سلسلہ نے سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت پڑھی تو ہمارے ہاتھ پلے کچھ نہ پڑا.صوفی علی محمد صاحب صوفی تھے.وہ اس امر کو فورا سمجھ گئے.مگر میں کچھ نہ سمجھ سکا.پیر منظور محمد صاحب نے میری طرف دیکھا اور میری حالت کو سمجھ گئے.انہوں نے کہا کہ حضور اقدس نے یہ آیت پڑھ کر مسئلہ وحدت الوجود کار ڈفرمایا ہے کہ رب ، عالمین سے جدا ہے.مجاہد افریقہ سید محمد ہاشم صاحب بخاری کا بیان ہے:.’حافظ صاحب نے قبول احمدیت کے بعد سے اپنی زندگی تبلیغ احمدیت کے لئے وقف کر دی.۱۸۹۵ء سے لے کر اپنی وفات سے ایک دن پہلے تک یہ سلسلہ تبلیغ جاری رہا.تبلیغ ان کی روح کی غذا تھی اور اسی میں ان کی راحت تھی.کیسے ہی بیمار ہوں، تھکے ہوئے ہوں مگر جس وقت تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو جاتا تو آواز میں شوکت اور رعب پیدا ہو جاتا اور پھر آواز بلند سے بلند تر ہوتی چلی جاتی.وقت اپنی پرواز سے اڑا چلا جاتا اور یہ نحیف و نزار اللہ کا بندہ عشق مسیح پاک میں مدہوش دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا.حوالہ جات اور کتابوں کی بھر مار ہو جاتی.کتابیں طالبین حق کے ہاتھوں میں تھما دی جاتیں اور حوالے خود پڑھنا شروع کر دیتا اور جب تک بات ذہن نشین نہ کر الیتا بس نہ کرتا.اس میں چھوٹے بڑے پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی تمیز اور قید نہ تھی.آپ لوگوں سے مل کر بے حد خوش ہوتے تھے.ایک دفعہ میں نے چند ملنے والوں کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ آرام کر رہے ہیں جس پر سخت برہمی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ میرے آرام سے ان لوگوں کا مجھے ملنا زیادہ ضروری تھا.مرحوم محبت کا ایک بحر بیکراں تھے.بہت دعا گو انسان تھے.لوگ بھی یہ جانتے تھے کہ ضرور ہمیں دعاؤں سے نوازیں گے.اس لئے اپنی تکالیف بے حجابانہ لکھ دیتے اور قبولیت دعا کے زندہ نشان دیکھتے.ایک دن مجھے فرمانے لگے کہ میرا بھی عجیب معاملہ ہے.اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ میری حاجات کا خیال رکھتا ہے اور نصرت فرماتا ہے پھر فرمایا کہ آج میرا دل کڑھی کھانے کو چاہتا
تاریخ احمدیت.جلد 25 26 سال 1969ء ہے.میں بازار سے جا کر رہی لایا تو مجھے بلایا.جب میں حاضر ہوا تو ایک ڈھکے ہوئے برتن کی طرف اشارہ کر کے فرمایا.دیکھو کیا ہے میں نے دیکھ کر عرض کیا کہ کڑھی ہے.فرمایا.ابھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ہاں سے آئی ہے.ایک دفعہ ایک طالب علم جو تعلیم الاسلام کالج کے غیر احمدی طلبہ کے امام الصلوۃ تھے، ملنے آئے.آپ نے ان کو تبلیغ کی اور فرمایا کہ مجھے آپ کے ماتھے پر احمدی لکھا نظر آتا ہے.چنانچہ وہ صاحب مرحوم کی تحریک پر الشرکۃ الاسلامیہ پہنچے.قریباً./۱۵۰ کی کتب خرید کر مطالعہ شروع کر دیا اور دوبارہ جب وہ حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کتب کا مطالعہ کر چکے تھے.انہوں نے نہایت دیانتداری سے اپنے مقتدی طلباء کو کہہ دیا کہ اب میں تمہاری امامت کے قابل نہیں رہا.تم اپنا امام مقرر کر لو میں تو بیعت کر کے سلسلہ میں شمولیت کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.یہ صاحب آج کل ہری پور ضلع ہزارہ میں انجینئر ہیں اور لال خاں ان کا نام ہے.( آپ ان دنوں کینیڈا میں نیشنل امیر کے طور پر خدمت سلسلہ کی توفیق پارہے ہیں.) حضرت حافظ صاحب ایک بہت بڑا کتب خانہ رکھتے جس میں ہزار ہا کتب مذہب و ادب سے متعلق جمع تھیں.میں نے کبھی اپنی عمر میں مرحوم کو اکیلی چار پائی پر بستر بچھا کر استراحت کرتے نہیں دیکھا.ہر وقت ان کی چار پائی کا بیشتر حصہ متلاشیان حق کی خدمت کے لئے کتابوں سے بھرارہتا اور وہ ہر حاجت مند کو اس کی ضرورت کا مواد نکال کر دکھاتے اور جب کوئی سعید روح ان کی وساطت سے یا از خود بھی بیعت کر کے انہیں اپنی بیعت کا حال سناتی تو وجد میں آجاتے اور بے حد مسرت اور شادمانی محسوس کرتے.تالیفات 45 766 اظہار الحق نمبرا، احقاق الحق نمبر۲ ، الحق نمبر ۳ ، ٹریکٹ منجانب جماعت احمد یہ شاہجہانپور اظہار الحق پر تینوں پمفلٹ مولوی غلام محی الدین خان صاحب امام جامع مسجد شاہجہانپور کے بیانات سے متعلق ہیں جو انہوں نے پہلے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی عدم تکفیر کے بارے میں دیئے.الحق نمبر ۳ ۲۳ جولائی ۱۹۰۵ء کو اسلامی پریس شاہجہانپور سے شائع ہوا.اثنا عشرہ.( مکرم خواجہ عبدالقیوم صاحب بی اے ربوہ کا بیان ہے ”حضرت حافظ صاحب کا غیر از جماعت علماء سے بھاگلپور میں مناظرہ بھی ہوا اور ازاں بعد آپ نے ایک رسالہ اثنا عشرہ تالیف
تاریخ احمدیت.جلد 25 47 27 سال 1969ء ایک غلطی کا ازالہ کی تشریح قادیانی شاعری.رسالہ ” پیام مشرق کے اعتراضوں کا جواب“.ایک قابل قدر ادبی تحقیق مطبوعہ رسالہ الفرقان ۶۲ - ۱۹۶۱ء خطبہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام کا لج ربوہ.۱۹ را پر میل ۱۹۶۴ء.مطبوعہ منظوم کلام 48 حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری نہایت پر گوشاعر تھے.آپ کا کلام اکثر و بیشتر غیر مطبوعہ ہے تاہم سلسلہ احمدیہ کے جرائد و رسائل اور کتب میں ایک حصہ شائع ہو کر آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ ہو چکا ہے.ذیل میں نمونہ بعض مطبوعہ منظومات کے حوالے درج ہیں.ا.۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰ ۲.اخبار الحکم ( قادیان ) ۲۷ مارچ ۱۸۹۸ء صفحہ ۱.۲۲ دسمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۲۴۵ راگست اخبار الفضل ( قادیان ) ۲۲ / اگست ۱۹۳۵ء صفحه ۴، ۳۱ راگست ۱۹۳۵ء صفحه ۴ ، ۱۰ستمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۴، ۲۴ستمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۴،۴/اکتوبر ۱۹۳۵ء صفحه ۲، ۶ دسمبر ۱۹۳۵ء صفحه ۳، اخبار فاروق ۲۱ جنوری ۱۹۳۷ ء صفحه ۱.مسک العارف صفحه ۶۴ ۶۲ مؤلفہ حضرت محمد احسن امروہی صاحب - مطبع ضیاء الاسلام قادیان.تاریخ اشاعت ۴ مارچ ۱۸۹۸ء ۴.محامد مسیح صفحه ۲۱ تا ۳۱ ، از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اسلام کی دوسری کتاب صفحہ ۴۶.مولفہ چوہدری محمد شریف مجاہد بلاد اسلامیہ.الناشر : احمد یہ کتابستان ربوہ.سن اشاعت ۱۵ جون ۱۹۵۶ء رساله الفرقان ربوہ فروری ۱۹۶۱ ء صفحہ ۹ ۱۰.مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۲ ۱۳.اپریل مئی -Y ۱۹۶۴ء قمر الانبیاء نمبر صفحه ۶۲ ۶۳ مجلہ الجامعہ ربوہ اپریل مئی، جون ۱۹۶۴ء صفحه ۱۲۴ تا ۱۲۵ رساله خالد ربوہ دسمبر ۱۹۵۸ء صفحه ۱۲،۱۱.فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۳۷، ۳۸
تاریخ احمدیت.جلد 25 28 سال 1969ء وو حیات حضرت مختار صفحه ۲۲۵ تا ۳۳۴.مؤلفہ ابو العارف سلیم شاہجہانپوری.اشاعت ۱۹۹۷ء.منظومات ( نعت، قصیدے مخمس اور تضمین ) (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے روح پرور پیغامات اسی سال ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے نوجوانانِ احمدیت کو متعدد پیغامات سے نوازا.یہ پیغامات رسالہ خالد ۱۹۶۹ء میں بالترتیب جنوری، مئی، جون اور جولائی کے شماروں میں شائع ہوئے.(حضرت) صاحبزادہ صاحب نے اپنے روح پرور اور ولولہ انگیز پیغامات سے خدام احمدیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، ان میں زندگی کی زبر دست روح پیدا کر دی اور علم و عمل کے لئے وسیع راہیں کھول دیں.ان پیغامات میں ادب کی لطیف چاشنی بھی تھی اور علم ومعرفت کے قیمتی نکات بھی.بطور نمونہ ان پیغامات کے تین اقتباسات درج ذیل ہیں:.اب رمضان مبارک کی مصروفیات بھی گزر گئیں.اب عمل کی دوڑ کا مزید انتظار نہ فرمائیے.رمضان مبارک کی مصروفیات بھی دراصل ہمارے کام کا ایک حصہ تھیں بلکہ فی ذاتہ وہ مقصود تھیں جس کے حصول کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا.یہ وہ مہینہ ہے جو اسلام کا خلاصہ ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادا ئیگی جس شدت اور کثرت کے ساتھ اس مہینہ میں ہوتی ہے کسی اور مہینہ میں اس کا تصور ممکن نہیں.پس اس پہلو سے ہمارا یہ سال نیک شگون لے کر آیا ہے کہ سال کے آغاز ہی میں ہمیں وہ مہینہ میسر آیا جو ہمیں مقصود کے قریب لے گیا.بغیر ہماری کوشش اور جدوجہد کے بغیر کسی منصوبہ کے بغیر کسی تنظیمی کاوش کے وہ زیر تربیت نوجوان جنہیں ہم سال بھر حتى على الصلوة حتى على الفلاح کے بلاوے دیا کرتے تھے اور کوئی خاص کامیابی حاصل نہ کر سکتے تھے ،خود بخوداس مقدس مہینے کے عظیم اور وسیع دباؤ کے تحت اپنے خلوت خانوں سے نکل کر مسجد کی جماعتی زندگی کی طرف چلے آئے.یہی نہیں بلکہ اس مہینہ میں ہمیں اپنی اپنی بساط کے مطابق دعاؤں کی بھی
تاریخ احمدیت.جلد 25 29 سال 1969ء توفیق ملی اور یقیناً اور دعاؤں کے ساتھ عہدیداران مجالس نے اپنے لئے اور اپنے شریک کار خدام بھائیوں کے لئے پہلے سے بہت بہتر کام کی توفیق اپنے رب سے مانگی ہوگی اور خدام احمدیت کے نظام میں جڑے ہوئے کارکن خدام یقیناً ایک دوسرے کو بھی اپنی دعاؤں سے تقویت دیتے رہے ہوں گے.پس کتنا ہی مبارک ہے یہ سال جس کا آغاز رمضان مبارک کی عظیم برکتوں کی طاقت لئے ہوئے ہے اور سال بھر کے لئے ایک زادِ راہ ہمارے ہاتھ میں دے رہا ہے.49 66 ۲.غالب کا ایک شعر ہے جس میں ظاہری سوال کو ئی نہیں مگر شعر زبانِ حال سے ایک مجسم سوال بنا ہوا ہے اور وہ شعر یہ ہے: ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز گسسته لنگر کشتی و ناخدا خفت است یعنی ہوا تند و تیز ، رات تاریک اور موج طوفانی ہے.کشتی کا لنگر ٹوٹا پڑا ہے اور ناخدا سویا ہوا!!....اس شعر پر غور کرتے ہوئے میں نے سوچا کہ زمانے کے حالات بھی بعض دفعہ بعینہ اس شعر کے مصداق بن جاتے ہیں.نجات کی کشتی کے لنگر ٹوٹ جاتے ہیں اور ناخدا سو جاتا ہے.ایسی ہی ایک ہولناک، پُر آشوب اور تاریک رات دنیا پر آج سے ۱۰۰ برس پہلے طاری تھی جس کا محیط سب دنیا کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئے تھا اور اہل دنیا کی مثال غالب کی اس کشتی کی طرح ہو گئی تھی جس کا ناخدا سوی ہوا ہو.اب جبکہ ایک آسمانی منادی کرنے والے نے اپنی پر شوکت آواز میں بہت سے سونے والوں کو یہ کہہ کر خواب غفلت سے بیدار کر دیا ہے کہ : سونے والو جلد جاگو یہ نہ وقت خواب ہے جو خبر دی وحی حق نے اس سے دل بیتاب ہے اب جبکہ ناخداؤں کے طائفہ میں اکا دکا یہاں اور وہاں خواب غفلت کا طلسم ٹوٹ رہا ہے اور ٹوٹے ہوئے لنر کو از سر نو تعمیر کیا جا چکا ہے.اب جبکہ ایک نئے جوش، نئے عزم اور ایک نئے ولولے کے ساتھ دنیا کی کشتی کو ہلاکت سے بچانے کی
تاریخ احمدیت.جلد 25 30 سال 1969ء جد و جہد کا آغاز ہو چکا ہے.اگر ان نو بیدا ر نا خداؤں میں سے بعض کو پھر نیند آ جائے تو؟ مانا کہ یہ اٹھ کر سو جانیوالے غافل، بیداری کی اس عظیم الشان اور عالمگیر لہر کی راہ میں حائل نہ ہو سکیں گے جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تموج خیز ندائے آسمانی سے ہوا، مانا کہ جو نا خدا اٹھنے لگے ہیں اٹھتے رہیں گے اور نا خداؤں کا طائفہ اپنی جمیعت اور قوت میں بڑھتا ہی رہے گا لیکن خود ان کا کیا بنے گا؟ اور ان کی غفلت نجات کی آخری فتح کی گھڑی کو کس حد تک پیچھے پھینک دے گی؟ جب میں ان مجالس یا خدام کو دیکھتا ہوں جو اسی قسم کی ایک خوابیدہ یا نیم خوابیدہ زندگی بسر کر رہے ہیں تو اسی قسم کے کئی سوال میرے دل و دماغ کو رنجوں اور فکروں کا ایک طلسم پیچ و تاب بنا دیتے ہیں.طلا 66 میں اپنے ان عزیزوں بھائیوں سے جو اپنے اپنے دائرے میں خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں، بمنت عرض کرتا ہوں کہ اس نوبت کو ذرا اور تیزی سے بجائیں اور آسمان کے نیچے ایک ایسا شور اور غلغلہ بپا کردیں کہ سونے والوں کے کان پھٹنے لگیں اور نیند کے چکر اس ارتعاش کی شدت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائیں.پھر ایسا ہو کہ کسی ناخدا کے لئے ممکن نہ رہے کہ ماحول کی ہلاکت سے بے پرواہ ہو کر مجرمانہ نیند کے مزے لوٹ سکے.۳.امتِ موسوی کو اگر اپنے آقا کی پیروی میں زیادہ سے زیادہ کوہ طور کی رفعتوں تک بلندی عطا ہو سکتی تھی اور اپنے رب کی صرف وہی شان ان پر ظاہر ہوسکتی تھی جو موسیٰ علیہ السلام پر ظاہر ہوئی مگر امت محمدیہ کے لئے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ماوراء الطور کی رفعتیں لکھی گئی ہیں جنہیں قرآن کریم فوزاً عظيماً کے الفاظ سے یاد کرتا اور کبھی فاوليْكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ (النساء:۷۰) کی خوشخبری دے کر بیان فرماتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام امت محمدیہ اور گذشتہ تمام امتوں کے درجات کے اس فرق کو اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ :
تاریخ احمدیت.جلد 25 31 سال 1969ء ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے......جب ہمارے آقا و مولیٰ حضور اکرم ﷺ نے اپنے رب کے دیدار کی تمنا کی تو سات آسمانوں کے ابواب آپ پر کھول دیئے گئے اور ان بلندیوں پر آپ نے قدم رکھا جہاں کسی مخلوق کا تصور بھی قبل ازیں نہ پہنچا تھا اور پھر ایک مرتبہ ہی نہیں دومرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رب کی طرف سے وہ رؤیت نصیب ہوئی اور وہ وحی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مصفی پر نازل ہوئی کہ جس کے بیان کی زبانِ انسانی اور جس کی نوعیت ادراک کی فکر انسانی متحمل نہیں ہو سکتی اتنا سمجھ سکتے ہیں کہ: فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (النجم : ۱۲:۱۱) میرے خدام بھائیو! اس آخری مقام سے قبل بھی بڑی رفیع الشان منازل ہیں جن تک پہنچنے کے لئے مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ کا باب آج بھی اسی طرح وا ہے جس طرح اس سے پہلے وا تھا.آج بھی یہ صلائے عام جاری ہے کہ: کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب آؤ نا ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی 52 پاکستان کے لئے خصوصی دعا کی تحریک جنوری ۱۹۶۹ء کو پاکستان کی آٹھ سیاسی جماعتوں نے صدر ایوب کی حکومت کے خلاف متحدہ محاذ قائم کر کے ۱۷ جنوری سے ملک کے دونوں حصوں میں ایجی ٹیشن شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک ہلڑ بازی ، لوٹ مار اور آتشزنی کی لپیٹ میں آگیا.ڈھاکہ اور راولپنڈی میں طلباء اور پولیس کا تصادم ہوا.کراچی کے علاقہ لیاقت آباد میں مشتعل مظاہرین نے کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ڈپو کو آگ لگادی اور خونریز تصادم بھی ہوا.لاہور میں پُر تشدد ہنگامے ہوئے.پشاور میں فوج طلب کر لی گئی اور لائلپور (فیصل آباد ) میں فسادات ہوئے.اس آتشیں ماحول کو دیکھ کر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۳۱ جنوری ۱۹۶۹ء کو پاکستان کی سالمیت کے لئے دعا کی خصوصی تحریک فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو ہر فتنہ اور شر سے محفوظ رکھے نیز فرمایا:
تاریخ احمدیت.جلد 25 32 سال 1969ء ”میرا ذاتی تاثر ہے کہ اس کی براہ راست ذمہ داری کسی بھی سیاسی پارٹی پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ ایک خطر ناک منصوبہ ہمارے ملک کو تباہ کرنے کیلئے کسی اور جگہ بنا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس حد تک تو سیاسی پارٹیوں پر ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اپنے اندر کیوں گھنے دیتے ہیں جن کا ان کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں اور اس طرح ان شر پسندا یجنٹس کو موقعہ مل جاتا ہے کہ لوٹ مار اور توڑ پھوڑ کے کام کریں لیکن میرے نزدیک براہ راست کسی سیاسی پارٹی پر یہ ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی کیونکہ میرے نزدیک وہ اس کے ذمہ وار نہیں ہیں اور نہ اسے پسند کر سکتے ہیں کہ ملک کو اس طرح تباہ کر دیا جائے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہمیں ایک مذہبی اور روحانی جماعت ہونے کے لحاظ سے اس سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں گو ایک شہری کی حیثیت سے ہمارا ہر فرد اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.ہم پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرض عائد کیا ہے کہ ہم اس کی محبت میں فنا ہو کر اس کی مخلوق کی خدمت میں لگے رہیں اور ہمارے نزدیک خدا کی مخلوق کی جو بہترین خدمت کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کے لئے ہر وقت دعاؤں میں لگے رہیں.میرے نزدیک جو منصوبہ کسی شر پسند دماغ نے بنایا ہے اس کا اصل مقصد مسلمان اور اسلام کو ضعف پہنچانا ہے.اللہ تعالی اسلام اور مسلمان کو اس شیطانی منصوبہ کے شر سے محفوظ رکھے اور آسمان سے فرشتوں کو نازل کرے جو ہماری اس قوم کی حفاظت کریں اور ایسے حالات پیدا نہ ہونے دیں جن حالات کے نتیجہ میں اُمت مسلمہ میں ضعف پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.ایک مضمون ” پنجاب میں تحریک احمدیت“ 66 رسالہ اسلامک کلچر“ حیدر آباد دکن جنوری ۱۹۶۹ء میں ایک مضمون شائع ہوا جو ڈاکٹر بختاور سنگھ سانی ایم اے پی ایچ ڈی نے لکھا.آپ ریویزن آف ڈسٹرکٹ گز بیر“ پنجاب کے ایڈیٹر بھی رہے تھے.آپ کے اس مضمون کے بعض حصوں کا ترجمہ درج ذیل ہے.احیائے اسلام میں تحریک احمدیت کا مطالعہ جس کا آغاز ۱۸۸۰ء میں پنجاب سے ہوا بہت
تاریخ احمدیت.جلد 25 33 سال 1969ء دلچسپ ہے.ایک حیثیت سے یہ تحریک ہندؤوں کی آریہ سماج کے خلاف ایک دفاعی تحریک تھی جس کا مقصد ہندوؤں کی پست اقوام کو دوسرے مذاہب اختیار کرنے میں روک بننا تھا.دوسری حیثیت سے یہ تحریک عیسائی مشنریوں کے خلاف ایک ایسا بند تھا جو پنجاب میں اپنی مساعی کے دائرہ کو پھیلا رہے تھے.لیکن مزید سوچا جائے تو تحریک احمدیت بہت وسیع اور جامع ہے.تحریک احمدیت کا مرکز قادیان (ضلع گورداسپور ) تھا جہاں سے اس کا احیاء ہوا اور رفتہ رفتہ انڈیا کے دوسرے علاقوں اور غیر ممالک تک پھیل گئی.لیکن تقسیم ہند کے بعد تحریک کا ہیڈ کوارٹر پاکستان منتقل ہو گیا اور قادیان علاقائی مرکز کی حیثیت سے کام کرنے لگا.تحریک کے بانی مرزا غلام احمد صاحب تھے.آپ بمقام قادیان ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے.تھے.۱۸۸۰ء میں آپ نے اپنی پہلی شاندار کتاب براہین احمدیہ کا پہلا حصہ شائع کیا.اس کتاب میں انہوں نے اپنے آپ کو روحانی مصلح قرار دیا.۱۸۸۸ء میں آپ نے ایک اشتہار شائع کیا اور کہا کہ خدا نے مجھے بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے.۱۸۹۱ء میں اعلان فرمایا کہ میں ہی وہ مہدی اور مسیح ہوں جس کا ذکر قرآن اور بائبل میں آیا ہے.اپنے دعویٰ کی تصدیق میں انہوں نے تین کتابیں فتح اسلام، توضیح مرام اور ازالہ اوہام تصنیف فرما ئیں.اس کے بعد آپ مسلمانوں، عیسائیوں اور آریہ سماج کی بحث و تکرار کا موضوع اور ہدف ملامت بن گئے.مخالفوں کی شدید مخالفت کے باوجود آپ اپنے کام اور عمل میں اور بھی مضبوط اور راسخ ہو گئے.آپ کی تحریک نے دن بدن ترقی کرنا شروع کی اور مئی ۱۹۰۸ء میں آپ کی وفات تک یہ تحریک غیر ممالک میں بھی پھیل گئی.مرزا غلام احمد صاحب کے عروج کا ایک دلچسپ پہلو آپ کی پیشگوئیوں کا ظہور اور صداقت ہے.مثلاً آپ نے ۱۸۹۷ء میں اعلان فرمایا کہ میں نے خواب میں فرشتوں کو اس زمین میں سیاہ پودے لگاتے دیکھا ہے اور فرشتوں سے استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ طاعون کے پودے ہیں.آپ نے تحدی سے اعلان فرمایا کہ پنجاب میں وسیع پیمانے پر طاعون پھیلے گا چنانچہ ہوا بھی یہی اور آپ کی پیشگوئی بعینہ ظہور پذیر ہوئی.مرزا غلام احمد صاحب کی آخری وصیت کے مطابق جماعت کا انتظام وانصرام ایک کمیٹی کے سپرد ہوا جس کا نام صدرانجمن احمد یہ رکھا گیا جو جماعت کے ایک منتخب لیڈر کی زیر نگرانی کام کرے گی جس کا نام خلیفہ اسیح رکھا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 34 سال 1969ء مرزا صاحب کی وفات پر حکیم نورالدین صاحب کو جو آپ کے فرمانبردار اور بچے ساتھی تھے جماعت کا پہلا خلیفہ چنا گیا.باوجود یہ کہ بانی جماعت کی شخصیت کا خلاء موجود تھا...پھر بھی آپ کی قیادت میں جماعت نے کافی ترقی کی.۱۹۱۴ء میں پہلے خلیفہ کی وفات پر مرزا بشیر الدین محمود احمد جو مرزا غلام احمد صاحب کے بیٹے تھے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے....احمدیہ تحریک کے دوسرے خلیفہ کے بقول احمدیت اور اسلام ایک ہی چیز کے دورخ ہیں اور احمدیت کا مطلب حقیقی اسلام ہی ہے جس کا حکم خدا نے اس زمانہ کے موعود مسیح کے ذریعہ اس دنیا کو دیا.جماعت کا قرآن پر پختہ یقین ہے.جماعت کا اعتقاد ہے کہ قرآن میں لامحدود الہامی خزانے ہیں جن سے دنیا کو مالا مال کرنا جماعت کا نصب العین ہے.مرزا غلام احمد صاحب نے فرمایا کہ اگر چہ اسلام آج رو بہ تنزل ہے لیکن اس کا احیاء اس زمانہ کے نذیر کے ذریعہ سے ہوگا.مسیح موعود اس زمانہ کی برائیوں کو اپنے ٹھوس دلائل سے ختم کرے گا.آپ نے مسلمانوں کی کثیر تعداد کو اپنے حلقہ میں داخل کر لیا....انہوں نے سوامی دیانند اور اس کے آریہ سماج کو مہلک قرار دیا اور اس کی شہرت کی قبا کو تار تار کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی.آپ نے کہا کہ ویدوں نے بت پرستی اور اوہام پرستی کی تعلیم دی ہے جو اسلام کے سراسر خلاف ہے.آپ نے ہندومت کے بہت سے عقائد کو قرآن کی رو سے باطل ثابت کیا اور کہا کہ میں پوچھتا ہوں کہ دنیا کے کونسے حصہ میں چاروں ویدوں نے ایک عقیدہ کی تعلیم دی ہے.ہندوؤں کی پوری آبادی اپنے الگ الگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں.مرزا صاحب نے عقیدہ تناسخ کی بھی تردید کی اور فرمایا کہ اس طرح خدا کی پیدا کرنے کی قدرت کی نفی ہوتی ہے.یہ عقیدہ کسی شخص کی قانونی اور غیر قانونی پیدائش کے فرق کو مٹا کر خاندانی زندگی کے آبگینہ کی تقدیس کو ٹھیس پہنچاتا ہے کیونکہ اس عقیدہ کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ کسی شخص کے ہاں اس کی اپنی ہی ماں، بیٹی یا بہن دوبارہ پیدا ہو کر آجائے.مرزا صاحب نے نیوگ کے عقیدہ کی بھی تردید کی اور کہا کہ یہ عورت کی عصمت پر حملہ ہے.ہندوستان میں مرزا غلام احمد صاحب اپنے عہد میں وہ شخص واحد ہیں جنہوں نے عیسائیت کی علی الاعلان بھر پور مخالفت کی.مرزا صاحب نے فرمایا کہ مشنریوں کے ہاتھوں اسلام کو بہت نقصان پہنچا ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ تبدیلی اسلام ایک غیر معروف چیز تھی لیکن اب ہزاروں مسلمان عیسائیت قبول کر چکے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 35 سال 1969ء عیسائیت اور حضرت عیسی سے منسوب ہر غلط عقیدہ کی احمدیت نے تردید کی.عیسائی مشنریوں اور جس عیسائی تہذیب کی وہ نمائندگی کرتے تھے احمد یہ عقائد نے انہیں باطل قرار دیا.مرزا صاحب نے اپنے مانے والوں کو کہا کہ اسلام کی فتح و کامیابی کا دن بہت جلد طلوع کرے گا.اور اب اسلام کو پہلی سی شان و شوکت مسیح موعود کے ذریعہ حاصل ہوگی.جماعت احمدیہ کے بانی نے گرونانک سے بہت عزت اور محبت کا اظہار کیا اور ایک نئی دریافت پیش کی کہ گرونانک فی الحقیقت سچے مسلمان تھے اور وہ ہندوؤں کو اسلامی تعلیمات سکھانے کے لیے بھیجے گئے تھے.54 سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث کا جماعت سیرالیون کے نام روح پرور پیغام اسی سال جماعت احمد یہ سیرالیون کی بیسویں سالانہ کا نفرنس نہایت کامیابی کے ساتھ ۷، ۸ اور ۹ فروری ۱۹۹۹ کواحد یہ سیکنڈری سکول بو میں منعقد ہوئی.حاضری گذشتہ سالوں سے کہیں زیادہ تھی.افتتاحی اجلاس میں ایک ہزار سے زائد افراد موجود تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسی موقع پر درج ذیل مبارک الفاظ میں پیغام ارسال فرمایا: احباب کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ یہ اجتماع آپ کے لئے بابرکت ثابت کرے اور آپ کو یہ دن دعاؤں اور ذکر الہی میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عظیم الشان مقاصد اور فتوحات عظیم الشان قربانیاں چاہتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اسلام کی فتح اور غلبہ کے جو وعدے فرمائے ہیں ان کے مطابق اسلام کی فتح اور غلبہ کے دن قریب ہیں.اس لئے اس راہ میں ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل کرنے کے لئے کثرت سے دعائیں کرو کہ اس کی مدد اور تائید کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا.خلافت اور نظام سلسلہ کا احترام اپنے اور اپنے بچوں کے دلوں میں ہمیشہ قائم رکھو اور متحد اور متفق ہو کر اسلام کی فتح کے دن کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 36 قریب ترلانے کے لئے ہر آن کوشاں رہو.سال 1969ء اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کے اخلاص میں برکت دے اور آپ کو اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کا بلا تمیز مذہب و ملت خادم بنایا ہے.سب سے ہمدردی اور غمخواری سے پیش آئیں اور فتنہ و فساد سے بچیں.حکومت وقت سے پورا تعاون کریں اور ملک کی ترقی کے لئے ہر آن کوشاں رہیں.“ حضور کا یہ خصوصی پیغام کا نفرنس میں مولوی محمد صدیق صاحب شاہد امیر جماعت ہائے احمد یہ سیرالیون نے پڑھ کر سنایا جسے حاضرین نے خاص درجہ ذوق وشوق سے سنا.اس موقع پر اس اہم پیغام کی کا پیاں بھی سامعین میں تقسیم کی گئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تعلیم الاسلام کالج میں تشریف آوری فروری کو ساڑھے پانچ بجے شام حضرت خلیفہ اسیح الثالث مسجد تعلیم الاسلام کالج کی جگہ معین کرنے کی غرض سے کالج میں تشریف لائے.حضور نے مسجد کی جگہ معین کرنے کے لئے کئی مقامات کا معاینہ فرمایا.اور بالآخر ایک مقام کی تخصیص فرمائی.حضور نے اس سلسلہ میں متعلقہ ممبران سٹاف کو زریں ہدایات سے بھی نوازا.بعد ازاں حضور نے ہوسٹل کا معاینہ فرمایا اور کارکنان کو ہدایات سے نوازا.اس کے بعد حضور ہوسٹل کا من روم میں تشریف لائے جہاں حضور نے طلباء کے ساتھ ٹیبل ٹینس کھیلا.آخر میں حضور نے طلباء و مبر ان کالج سٹاف کو شرف مصافحہ بخشا.نماز مغرب سے قبل حضور واپس 56 تشریف لے گئے.ایک قرآنی دعا کے بکثرت پڑھنے کی تلقین خدائی اور آسمانی جماعتوں کی ترقی اور کامیابی کا راز دعاؤں میں مضمر ہوتا ہے.خلفاء احمدیت نے اسی حقیقت کے پیش نظر اسلام کے خلاف تمام ظاہری اور باطنی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیشہ احباب جماعت کو دعا ہی کے موثر ہتھیار کی طرف توجہ دلائی ہے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے وسط مارچ ۱۹۶۸ء میں یہ تحریک فرمائی کہ دوست کثرت سے سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم کا ورد کریں.اس کے بعد جون میں بکثرت استغفار پڑھنے اور بعد
تاریخ احمدیت.جلد 25 37 سال 1969ء ازاں یہ دعا کثرت سے پڑھنے کا ارشاد فرمایا: رَبِّ كُلُّ شَيْ ءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں ان دعاؤں میں درج ذیل قرآنی دعا کو بھی شامل کر کے ہدایت فرمائی کہ دوست اسے بھی بکثرت پڑھیں.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة: 251) ترجمہ: اے ہمارے رب ہم پر قوت برداشت نازل کر اور ( میدان جنگ میں ) ہمارے قدم جمائے رکھ اور (ان) کافروں کے خلاف ہماری مددکر.حضور نے اس پر معارف قرآنی دعا کی تفسیر بیان کرنے کے بعد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ آپ دن میں کم از کم ۳۳ بار یہ دعا کرلیا کریں.اس پر زیادہ وقت نہیں لگے گا اور یہ کام زیادہ قربانی نہیں چاہتا لیکن اگر آپ ان معانی کو ذہن میں رکھ کر یہ دعا کریں تو یہ بات بڑی برکتوں کا موجب ہوگی.اس وقت ایک بڑی وسیع اور گہری سازش اسلام کے خلاف ہو رہی ہے جو دراصل پہلے عیسائیت کے خلاف تھی جو بہت حد تک کامیاب ہوگئی.اب اس نے اپنا رُخ اسلام کی طرف پھیرا ہے اور اس سازش کی تفاصیل جب سامنے آتی ہیں تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انسان کو اپنی کمزوری اور بے بسی کا شدت سے احساس ہونے لگتا ہے اور انسان کا ذہن پریشان ہو جاتا ہے کہ اتنی بڑی بین الاقوامی سازش کا اسلام ہمارے ذریعہ سے ( کیونکہ خدا نے ہمیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے ) کس طرح مقابلہ کرے گا.تب اللہ تعالیٰ ہمت بڑھانے کے لئے اور عزم کو پیدا کرنے کیلئے اور اپنے وعدوں پر پختہ یقین پیدا کرنے کیلئے ان دعاؤں کی طرف توجہ دلا دیتا ہے اور میرا یہ فرض ہے کہ جماعت کو کہوں کہ یہ دعائیں کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان دعاؤں کے نتیجہ ہی میں اگر وہ خلوص نیت سے کی جائیں اور عاجزانہ راہوں کو اختیار کرتے ہوئے کی جائیں.ہمیں ان ذمہ داریوں کو نبھانے کی توفیق عطا کرے گا جو اس نے ہم پر ڈالی ہیں.ہمیں ہر معنی میں، ہر حالت میں، ہر
تاریخ احمدیت.جلد 25 38 سال 1969ء وقت میں صبر کی تو فیق عطا کرے گا ثبات قدم دے گا اور ایسے افعال کی توفیق دے گا کہ جس کے نتیجہ میں اس کی مدد انسان کو مل جاتی ہے.اگر یہ دعائیں نہ ہوتیں.اگر اللہ تعالیٰ کا سہارا نہ ہوتا اگر اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر یقین نہ ہوتا تو انسان ایک لحظہ کے لئے سوچ نہ سکتا کہ اسلام کے خلاف اتنی عظیم سازش ناکام ہوکر رہ جائے گی.مجھے ایک اور سازش کی تفاصیل کا ابھی چند دن ہوئے علم ہوا اور جب میں نے پڑھا میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے.پھر جب میں نے قرآن کریم کو دیکھا تو ہر وہ بات جس کا ذکر سازش میں کیا گیا ہے اس کا رڈ میں نے قرآن کریم میں پالیا اور اس سے دل کو تسلی ہوگئی کہ اس علام الغیوب نے اس سے قبل کہ اسلام کے خلاف اس پُرانی سازش کی تفصیل کا اظہار ہو ہمارے دل کی تسلی کے لئے اس سازش کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کر کے ان کی ناکامی کے متعلق بشارت یا وعدہ دیا ہوا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا سوشلزم سے متعلق ارشاد 66 ۲۰ فروری ۱۹۶۹ء کو بعد نماز مغرب سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثالث مسجد مبارک میں رونق افروز ہوئے اور مختلف امور کا تذکرہ کرنے کے بعد اسلام اور سوشلزم کے بارہ میں ارشادفرمایا:.مذہب کی طرف ایک رو پیدا ہورہی ہے.غالباً وہ کمیونزم کے رد عمل کے طور پر ہے.ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے.کئی سال سے روس نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ اسلام اور سوشلزم ایک ہی ہیں اور وہ مصر اور دوسرے عرب ممالک کے علماء سے مضامین لکھوا کر روس سے شائع کرا تا اور انہیں دنیا میں پھیلاتا ہے.سرمایہ داری میں ذرائع آمد بھی افراد کے پاس ہوتے ہیں یعنی وہ جس طرح چاہیں کمائیں اور خرچ کے ذرائع بھی ان کے پاس ہوتے ہیں.انہیں آزادی حاصل ہے کہ وہ جس طرح چاہیں خرچ کریں.کمیونزم نے ذرائع آمد کو محدود کر دیا ہے.اس نے افراد کو آمد کے ذرائع میں آزادی نہیں دی بلکہ حکومت جو چاہے کسی کو دے.اس کے مقابل پر اس نے خرچ پر کوئی پابندی نہیں لگائی.کوئی فرد جہاں چاہے خرچ کرے.چاہے وہ شراب پی لے،
تاریخ احمدیت.جلد 25 39 سال 1969ء چاہے کوئی اور کام کرے.اسلام نے آمد اور خرچ دونوں پر پابندیاں لگائی ہیں.لیکن ان میں بڑی وسعت ہے.اگر کسی کا دماغ اچھا ہے تو وہ تجارت میں جتنا چاہے کمالے.وہ ایک کروڑ روپیہ بھی کمالے تو اس پر کوئی پابندی نہیں.شرط صرف یہ ہے که حلال ذرائع سے کمائے لیکن جب خرچ کا وقت آتا ہے تو اسلام نے بعض پابندیاں لگائی ہیں.مثلاً اس نے کہا ہے فضول خرچ نہ کرو، سادہ زندگی گزار و اور عیش کی تو اس نے ساری چیزیں ہی ختم کر دی ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ تمہارا مال تمہارا نہیں اس میں دوسروں کا بھی حصہ ہے.لہذا اس میں سے دوسروں کا حصہ نکالو اور حکومت سے کہا ہے کہ تم ان سے دوسروں کا حصہ لو.اس طرح اسلام کمیونزم کے بھی خلاف ہو گیا کیونکہ اسلام نے آمد کے سلسلہ میں کسی فرد پر کوئی پابندی نہیں لگائی.وہ جتنا چاہے کمائے.پھر اسلام سرمایہ داری کے بھی خلاف ہے.کیونکہ اس نے افراد پر خرچ کے بارہ میں بہت سی پابندیاں لگا دی ہیں.جو شخص خالص سرمایہ دار ہے وہ تو ایک لاکھ روپیہ کے ہوتے ہوئے بھی کمی محسوس کرتا ہے.مثلاً وہ کہتا ہے کہ فلاں تصویر پانچ لاکھ روپیہ میں ملتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ وہ خرید لوں لیکن روپیہ پاس نہیں اس لئے اپنی خواہش کو پورا نہیں کر سکتا.لیکن اسلام ایسے اخراجات کی اجازت نہیں دیتا اور نہ صرف اجازت نہیں دیتا بلکہ ایک مسلمان سے دوسروں کے لئے کچھ لے بھی لیتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اس کا تمہیں ثواب ملے گا یعنی خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ تم دوسروں کا حق دو میں تمہیں ثواب دوں گا.اب دیکھو اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی رحمت ہے کہ وہ ایک طرف کہتا ہے اس مال میں جو تمہارے پاس ہے دوسروں کا بھی حق ہے تم ان کا حق دو اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم دوسروں کا حق دو گے تو ہم ثواب دیں گے.جولوگ یہ شور مچاتے ہیں کہ اسلام اور سوشلزم ایک ہی ہیں وہ غلطی پر ہیں.اسلام اسلام ہی ہے.یہ نہیں کہ اسلام کسی خاص شکل اور قسم کے کمیونزم کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلام کسی قسم کے سوشلزم کی بھی اجازت نہیں دیتا.اگر سوشلسٹوں کے نزدیک اسلام اور سوشلزم میں کوئی فرق نہیں تو وہ مسلمان
تاریخ احمدیت.جلد 25 40 سال 1969ء کیوں نہیں ہو جاتے.مسلمان ہونے میں انہیں کون سی روک ہے.اسلامی زندگی میں صرف پیسہ کو حاوی سمجھا جائے اسے نہ عقل مانتی ہے اور نہ یہ مذہب کا حصہ ہے.اگر حکومت سب کچھ چھین لے اور کہے کہ ہم تمہیں اتنا دیں گے کہ تمہیں بھو کا مرنے نہیں دیں گے تمہیں ننگا نہیں رہنے دیں گے تو جہاں تک ظاہری اور جسمانی ضروریات کا سوال ہے وہ کم سے کم تو پوری ہو گئیں لیکن دائرہ استعداد میں کمال تک پہنچنے کا انتظام تو نہ ہوا.پھر اگر انہوں نے جذبات کا گلا گھونٹ دیا اور ثواب سے محروم کر کے انسان کو ابدی نعمتوں سے محروم کر دیا تو کیا فائدہ؟ ربوہ میں یوم مصلح موعود کی تقریب 58 ۲۰ فروری کو یوم مصلح موعود کے موقعہ پر لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں جلسہ ہوا.جس میں اہل ربوہ بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.صدارت کے فرائض ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ادا کئے.محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری، مولانا دوست محمد شاہد صاحب اور ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے پیشگوئی مصلح موعود کے مختلف پہلوؤں پر تقاریر کیں.ربوہ میں عید الاضحیٰ کی تقریب 59 ربوہ میں ۲۷ فروری کو عید الاضحی کی تقریب اسلامی شعار کے مطابق پورے اہتمام سے منائی گئی.احباب نے مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اقتداء میں نماز عید ادا کی.نماز عید پڑھانے کے بعد حضور نے حضرت ابراہیم اور ان کے خاندان کی عظیم الشان قربانی اور پھر آنحضرت اور آپ کے صحابہ کرام کی اعلیٰ ترین قربانیوں اور ان کی کما حقہ اتباع کی اہمیت پر نہایت ایمان صلى الله افروز خطبہ ارشادفرمایا اور دعا کرائی.دعا کے بعد حضور نے اس خیال سے کہ احباب نے قربانیاں دینی ہیں مسجد میں مصافحہ کے لئے قیام فرمانا مناسب خیال نہ فرمایا.تاہم احباب کی خواہش کے پیش نظر ان کی یہ درخواست منظور فرمائی کہ حضور اگلے روز نماز جمعہ کے بعد احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمائیں.چنانچہ اگلے روز نماز جمعہ کے بعد حضور نے مسجد مبارک میں موجود تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا.60
تاریخ احمدیت.جلد 25 41 صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی سالانہ دینی اور انتظامی سرگرمیاں سال 1969ء سال ۶۹ - ۱۹۶۸ صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نمایاں اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سال اس مرکزی ادارہ کی دینی ، انتظامی اور جماعتی سرگرمیوں میں نمایاں ترقی اور اضافہ ہوا.اس کی تفصیل حضرت صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال (خرچ) ربوہ کی ایک مطبوعہ یاد داشت (۲ مارچ ۱۹۶۹ ء) سے درج ذیل کی جاتی ہے:.’جماعت کا قدم روز افزوں ترقی پذیر ہے اور خلافت راشدہ کے زیر سایہ اور اس کی برکت سے دن بدن مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے.سالِ رواں میں جہاں امراء،صدر صاحبان اور دیگر عہدہ داران بڑے اخلاص کے ساتھ سلسلہ کی خدمت بجالانے میں مصروف رہے اور جماعت کی صحیح تربیت کرتے ہوئے اس میں بیداری اور مستعدی پیدا کرتے رہے وہاں احباب جماعت نے بھی اخلاص کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اور مرکز کی ہر آواز پر بشاشت قلب کے ساتھ لبیک کہا ہے اور اس طرح احمدیت کے قیام کے عظیم مقصد کو پورا کرنے کی جدو جہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی رہنمائی ذاتی توجہ اور دعاؤں کے طفیل مرکز جو جماعتی امور سرانجام دیتا رہا ہے اس کا ایک مختصر سا خاکہ پیش خدمت ہے:.نظارت اصلاح و ارشاد مربیان کی وساطت سے مفوضہ فرائض سرانجام دیتی رہی اور امراء وصدر صاحبان کے تعاون سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور دیگر ضروری تربیتی و اصلاحی پمفلٹ و کتب احباب کے ہاتھوں میں پہنچاتی رہی.دورانِ سال شہادت القرآن، برکات الدعاء اور اسلام میں اختلافات کا آغاز کے علاوہ ۲۹ دیگر پمفلٹ اور کتب شائع کروائی گئیں.جن کی مجموعی تعداد ۹۵،۴۰۰ ہے.اس نظارت کے زیر انتظام مختلف جماعتوں میں ۲۰۸ لائبریریاں قائم ہیں جنہیں نصف قیمت پر کتب مہیا کی جاتی ہیں.ان میں سے ۸ لائبریریوں کا اجراء امسال کیا گیا.شعبہ رشتہ ناطہ اپنے فرائض کما حقہ ادا کرتا رہا.اس نظارت کے زیر نگرانی روز نامہ الفضل سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے خطبات اور سلسلہ کی تحریکات احباب جماعت تک پہنچاتا رہا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 42 سال 1969ء مربیان اور معلمین کے ذریعہ تحریک وقف عارضی تعلیم القرآن اور وقف جدید کی کامیابی کے لئے جدو جہد کی جاتی رہی.اصلاح وارشاد مقامی اس نظارت کا حلقہ چھ اضلاع پر مشتمل ہے.مربی اور معلم اصحاب مکرم ناظر صاحب کی ہدایت کے مطابق اپنے مفوضہ فرائض سرانجام دیتے رہے.ناظر صاحب نے خود بھی صدرانجمن احمدیہ کی مہیا کرده سواری پر متعدد مقامات کا دورہ کیا اور جمعہ کے خطبات اور تقاریر کے ذریعہ جماعتوں کو مستفیض کرتے رہے.اس نظارت کے توسط سے ۴۹۷۵ پمفلٹ اور دیگر لٹریچر تقسیم کیا گیا.نظارت تعلیم جس طرح روحانی علوم کا تشنہ روحوں تک پہنچانا ہمارے فرائض میں سے ہے ویسے ہی آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری بھی جماعت پر عائد ہوتی ہے.اس ذمہ داری کو نظارت تعلیم ادا کرتی ہے.چنانچہ صدرانجمن احمد یہ ایک کثیر صرفہ سے مرکزی تعلیمی ادارہ جات چلا رہی ہے.جن میں مروجہ تعلیم کے علاوہ دینی تعلیم کا بہترین انتظام ہے.ارشاد باری كُوْنُوْا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کا صحیح نظارہ ہمارے تعلیمی ادارہ جات میں ملتا ہے.جہاں مختلف علاقوں کے طلباء مرکز میں دینی ماحول میں علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہیں.وہاں ان کی جسمانی نشو و نما کے لئے بھی انتظام کیا جاتا ہے.چنانچہ ٹورنامنٹس میں نمایاں پوزیشن ہمارے طلباء نے حاصل کی.لائبریریوں میں میں ہزار سے زائد کتب طلباءاور سٹاف کے افادہ کے لئے مہیا کی گئی ہیں.مستحق طلباء کو فیس کی مراعات اور بعض کو کتب بھی دی جاتی رہی ہیں.نیز بہت سے وظائف جاری کئے گئے.چنانچہ اس نظارت کے تحت ۳۸ ہزار روپے کے کل وظائف دیئے گئے تعلیمی ادارہ جات نے اپنے فنڈز سے جو وظائف دیئے وہ اس کے علاوہ ہیں.تعلیم الاسلام کالج میں ایم اے عربی کی کلاسز کئی سالوں سے جاری ہیں اس سال بھی نتیجہ سو فیصد رہا.ایم ایس سی فزکس کی کلاس انشاء اللہ تعالیٰ جلد جاری ہونے والی ہے.اس کے لئے جدید آلات مہیا کرنے کے لئے اقدامات کئے جاچکے ہیں اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں جب جملہ انتظامات مکمل ہو جائیں گے تو کلاسیں جاری ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہمارا نظم وضبط کا معیار نہایت اعلیٰ ہے.الحمد للہ کہ ہمارے بچے باہر کی مسموم ہوا سے محفوظ رہے اور صحیح اسلامی ماحول میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 43 سال 1969ء تحصیل علم کی سعادت پاتے رہے اور یہی ہمارے تعلیمی ادارہ جات کا طرہ امتیاز ہے.تعلیم الاسلام کالج ، جامعہ نصرت اور دیگر تعلیمی ادارہ جات کے نتائج اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اعلیٰ رہے.جامعہ احمدیہ تحریک جدید کے زیر انتظام ہے.البتہ اس کا نصف خرچ صدرانجمن احمد یہ برداشت کرتی ہے.سال رواں میں ایک منظور شدہ طبیہ کالج کا اجراء بھی کیا گیا ہے اور اس کا نصف خرچ بھی صدرانجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا.ضیافت سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا لنگر خانہ دورانِ سال خدا کے فضل سے حضور کے مہمانوں کی خدمت میں مصروف رہا.چنانچہ آخر تبلیغ ( فروری) تک ۱۴۳، ۶۷ ، ارکس نے کھانا کھایا.خزانہ چندہ کی وصولی اور امانت کا انتظام اس صیغہ کے ذمہ ہے.چنانچہ روزمرہ کے آمد و خرچ کی اطلاع متعلقہ دفاتر کو مہیا کی جاتی رہی.بیرون سے وصول شدہ رقوم کی رسیدات کا بھجوانا، ترسیل رقوم بذریعہ منی آرڈر، بیمہ یا بنک اور بلوں کی ادائیگی کے فرائض احسن طریق پر سرانجام دیتارہا.امانت کے رقعہ جات ۶۲۸، ۷ پاس کئے گئے اور ۶ ۷ اجدید حساب کھولے گئے.اس صیغہ کے ذمہ صدرانجمن احمدیہ کی کل آمد وخرچ کا مکمل حساب روزانہ رکھنا ہے.بہشتی مقبره سال رواں میں ۲۲۴ نئی وصایا ہو چکی ہیں.جن سے حصہ آمد میں ۱۸،۰۸۴ روپے سالانہ اور حصہ جائداد میں ۱،۴۹،۹۶۲ روپیہ صدرانجمن احمدیہ کو قابل ادا ہو گا.اس سال فیصلہ ہوا کہ موصیوں کی تدفین کے اخراجات ان کے ورثاء سے نہ وصول کئے جائیں بلکہ صدر انجمن ادا کرے.اس غرض کے لئے ایک نئی مد تدفین“ قائم کی گئی ہے.نظارت صنعت و تجارت بے روزگاری دور کرنے کی اہمیت واضح کرنے کے لئے اخبارات میں اعلانات کرائے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 44 سال 1969ء اسی طرح جماعت کے افراد کو ایک سوال نامہ تیار کر کے بھجوایا گیا.نظارت علیاء مقامی جماعتوں کے انتخابات کروانے اور منظور یاں دینے کے علاوہ جملہ نظار توں وصیغہ جات کی عمومی نگرانی کا کام اس نظارت کے فرائض میں سے ہے.جو کما حقہ ادا کئے گئے.امراء ضلع اور مرکزی ادارہ جات سے رپورٹ لے کر صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ مرتب کر کے طبع کروائی گئی.بیت المال (آمد) جماعت ہائے احمدیہ کے بجٹوں کی تشخیص اور زیادہ سے زیادہ وصولی پر نظارت کوشاں رہی.چندہ کی وصولی کی نگرانی اور کھاتہ جات کی تکمیل کی گئی.احباب جماعت نے خدا کے فضل سے نمایاں تعاون کیا اور سال گذشتہ کی نسبت امسال بھی حسب سابق اضافہ ہوا ہے.بیت المال (خرچ) اس نظارت کے ذمہ صدر انجمن احمدیہ کے اخراجات سے متعلق ہر قسم کا کام اور قرضہ جات کی وصولی ہے.صدرا مجمن احمدیہ کے سالانہ بجٹ کی تیاری بھی اس نظارت کے سپرد ہے.چنانچہ جملہ صیغہ جات سے کوائف حاصل کر کے بجٹ مرتب کیا گیا.امداد مقامی وضلع وار نظام کا کام بھی یہ نظارت سرانجام دیتی رہی.جائیداد اس صیغہ کے ذمہ صدر انجمن احمدیہ کی جائیداد کا حصول، فروختگی و نگرانی کا کام ہے.موصی صاحبان کی جائیداد کی تعیین اور حصہ جائیداد کی وصولی کا کام بھی اس صیغہ کے سپرد ہے.سال کے دوران ان تمام فرائض کو سرانجام دیا.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر لنگر خانہ دارالصدر دارالضیافت میں سوئی گیس لگوانے کا انتظام کیا گیا.صدر انجمن احمدیہ کے کوارٹروں میں بھی سوئی گیس مہیا کی جارہی ہے.اس ضمن میں ۷۵ ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.ناظم صاحب جائیداد جو صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی بھی ہیں عدالتی اور قضائی مقدمات کی پیروی کرتے رہے.“ 61
تاریخ احمدیت.جلد 25 45 سال 1969ء تحریک جدید کی عالمی خدمات پر ایک نظر ۷۰.۱۹۶۹ء میں تحریک جدید کا مرکزی ادارہ محدود وسائل اور ذرائع کے باوجود دنیا بھر میں پوری بے جگری اور جان فروشی کے ساتھ اسلام کی اشاعت میں سرگرم عمل تھا.اس کا مختصر سا جائزہ چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب ( سابق وکیل المال ثانی و وکیل التعلیم ) کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے.شعبه تبشیر اس شعبہ کے تحت زیادہ سے زیادہ مبلغ باہر بھجوانے کی کوشش جاری ہے.نئے سکول کھولے جارہے ہیں.مساجد تعمیر کی جارہی ہیں.زائرین و طلباء کو مرکز کی زیارت اور حصول تعلیم کے لئے ترغیب دی جاتی ہے.بعض مقامات پر مشنری ٹریننگ کالج قائم کئے گئے ہیں جو مقامی مبلغین اور معلمین تیار کر رہے ہیں.ڈسپنسریوں کے ذریعہ بھی خدمت خلق کا فریضہ سرانجام دیا جارہا ہے.بیرونی ممالک میں مختلف زبانوں میں اخبارات و رسائل کی اشاعت کے علاوہ قرآن کریم کے تراجم وتفاسیر اور احمد یہ لٹریچر کثرت سے شائع کیا جا رہا ہے.غرض یہ کہ مختلف طریقوں سے تربیت و اصلاح ، تعلیم تبلیغ اور خدمت خلق کا کام باحسن طریق جاری ہے.چنانچہ: ا.اس وقت مندرجہ ذیل ممالک میں احمد یہ جماعتیں قائم ہو چکی ہیں :.ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا،ٹرینیڈاڈ ، سورینام، گی آنا ، انگلینڈ، ہالینڈ ، سوئٹزر لینڈ ، جرمنی، سکنڈے نیویا، سپین، دمشق، لبنان، فلسطین، شام، عدن، مصر، کویت، مسقط، بحرین، دبئی ، نائیجیریا، غانا، سیرالیون ، آئیوری کوسٹ گیمبیا، لائبیریا ، ٹو گولینڈ ، سمالی لینڈ، کینیا، یوگنڈا، تنزانیہ، جنوبی افریقہ، ماریشس، سیلون، برما، ہانگ کانگ، سنگا پور، ملائشیا، انڈونیشیا، فلپائن اور جزائر فجی.۲.سال رواں میں ماریشس میں ایک اور غانا میں دو نئے سیکنڈری سکول جاری کئے جاچکے ہیں.نائیجیریا میں ایک سیکنڈری سکول کھولنے کے انتظامات مکمل ہو چکے ہیں.تنزانیہ میں ایک اور یوگنڈا میں بھی ایک پرائمری سکول کھولا جاچکا ہے.اس طرح بیرونی ممالک میں ہمارے سکولوں کی مجموعی تعداد ۶ ۷ ہوگئی ہے..دوران سال چھ نئی مساجد تعمیر کی گئی ہیں.اس طرح بیرونی ممالک میں احمد یہ مساجد کی مجموعی تعداد ۳۵ ہو گئی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 46 سال 1969ء ۴.غانا میں ایک مشنری ٹریننگ کالج قائم ہے.اسی طرح آئیوری کوسٹ اور یوگنڈا میں معلمین کلاسز جاری ہیں.سال رواں میں کینیا میں بھی ایک معلمین کلاس جاری کی گئی ہے.نائیجیریا میں عرصہ سے دو ڈسپنسریاں کامیابی کے ساتھ خدمت خلق میں مصروف ہیں.اب وہاں احمد یہ ہسپتال کا سنگ بنیا در بھی رکھا جا چکا ہے اور امید ہے کہ عنقریب اس کی عمارت مکمل ہو جائے گی.انشاء اللہ.گیمبیا میں بھی گذشتہ سال ایک ڈسپنسری کھولی جاچکی ہے.اسی طرح غانا میں ایک ڈسپنسری قائم کرنے کے انتظامات تقریباً مکمل ہو چکے ہیں.اس طرح بیرون پاکستان میں ہمارے ۵ میڈیکل مشنز ہوجائیں گے..آفتاب اسلام کی ضیاء پاشی کے لئے بیرونی مشنز کے زیر نگرانی انگریزی ، ڈچ ، جرمن ، ڈینش، فرانسیسی ، سواحیلی ، برمی، اردو اور عربی میں انہیں اخبارات ورسائل شائع ہو رہے ہیں.ے.دورہ مشرقی بعید مکرم جناب وکیل التبشیر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد نے دورانِ سال ملایا، سنگا پور ، انڈونیشیا اور جاپان کا نہایت ہی مفید اور کامیاب دورہ فرمایا.انڈونیشیا کے سالانہ جلسہ میں شرکت فرمائی اور جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی خطاب فرمایا.ملکی ٹیلی ویژن نے جلسہ اور بیعت کے نظارے دکھائے.جاپان میں نیا مشن جاری کرنے کے لئے جائزہ لینا مقصود تھا.چنانچہ محترم وکیل التبشیر نے تفصیلی جائزہ لے کر اور ضروری معلومات حاصل کر کے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں رپورٹ پیش کر دی اور حضور جلسہ سالانہ کے موقع پر اعلان فرما چکے ہیں کہ عنقریب یہ مشن کام شروع کر دے گا.تحریک جدید نے اس غرض کے لئے مجوزہ بجٹ میں ہمیں ہزار روپیہ کی گنجائش رکھ لی ہے.تصنیف واشاعت لٹریچر اس شعبہ کے تحت گزشتہ کئی سال سے مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر اور دیگر لٹریچر کثرت سے شائع ہو رہا ہے.چنانچہ سال رواں میں : (i) خلاصہ تفسیر القرآن انگریزی کی طباعت شروع ہو چکی ہے.دس پاروں کا فرینچ ترجمہ مع تفسیری نوٹس و دیباچہ جلد ہی پریس میں دیا جا رہا ہے.ڈچ ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے.اسی طرح انڈو نیشین زبان میں پہلے دس پارے مع تفسیر تیار ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 47 سال 1969ء (ii) مندرجہ ذیل کتب شائع کی گئیں:.خطبہ الہامیہ ( عربی ) ۳۰۰ - پیغام صلح ( انگریزی) ۳۰۰ - تلخیص دعوۃ الامیر (انگریزی) ۱۰،۰۰۰.اسلام کا اقتصادی نظام ( عربی ) ۳۰۰۰ - نظام نو ( ترکی ) ۳۰۰۰.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں (سپینش ) ۲۰۰۰.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ( اٹالین ) ۵۰۰۰.امن کا پیغام اور ایک حرف انتباه ( ترکی )۵۰۰۰ (iii) مندرجہ ذیل تراجم تیار کروائے گئے:.اسلامی اصول کی فلاسفی ( سواحیلی ) مسیح ہندوستان میں (عربی).ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات (انگریزی).دعوۃ الا میر (ترکی).لائف آف محمد ع ( جرمن ).لائف آف محمد ( ترکی ).? Where Did Jesus Die) سواحیلی ).اسلامی اصول کی فلاسفی ( ترکی ) اور دعوۃ الامیر (عربی) کے تراجم زیر تیاری ہیں.شعبہ تعلیم (i) اس شعبہ کے تحت تحریک جدید سلسلہ کی ضروریات کا بنیادی ادارہ جامعہ احمدیہ چلا رہی ہے.جس میں میٹرک ، بی اے اور ایم اے پاس طلباء دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہرسال طلباء کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے.اس وقت ۶۷ طالب علم تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ سال دس طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر کے فارغ ہو جائیں گے.امسال ۲۴ طلباء جامعہ میں داخل ہوئے ہیں.یہ تعداد گو پہلے سے زیادہ ہے لیکن سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر چنداں خوشکن نہیں.چندہ دہندگان کی تعداد کو ملحوظ رکھا جائے تو ہر سال کم از کم ۷۵ طلباء داخل ہونے چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ اسلام کو کل ادیان پر غالب کیا جائے اور توحید کے پرچم کو ساری دنیا میں لہرایا جائے.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ احباب زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے بچوں کو جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے لئے بھجوائیں.(ii) طبیہ کالج سالِ رواں میں حکومت کا منظور شدہ طبیہ کالج بھی اس شعبہ کے تحت جاری کیا گیا ہے.جس میں مستند اطباء اور ڈاکٹرز کی خدمات سے طلباء فائدہ اٹھا رہے ہیں.62.
تاریخ احمدیت.جلد 25 48 سال 1969ء صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کا ایک معلومات افروز انٹرویو ہفت روزہ اخبار ”لاہور کی ۲۴ مارچ ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کا ایک معلومات افروز اور ولولہ انگیز انٹر ویو شائع ہوا.اس انٹرویو میں آپ نے جماعت احمدیہ کی اس عالمگیر اور مثالی جد و جہد پر تفصیلی روشنی ڈالی جو مجاہدین احمد بیت اعلائے کلمتہ الحق کے لئے کر رہے تھے.آپ نے بتایا کہ تحریک جدید کا آغاز ۱۹۳۵ء میں ایک مختصر سے کمرہ میں ہوا.اس کا پہلا بجٹ ستائیس ہزار روپیہ تھا اور اب ترپن لاکھ ہے.تحریک جدید کے زیر انتظام اس وقت نو کالج ، چار سیرالیون میں ، تین، غانا میں ، ایک یوگنڈا میں اور ایک ماریشس میں.دو درجن سے زائد ہائی سکول سات زبانوں میں تحریک جدید تراجم قرآن کریم شائع کرا چکی ہے.کوئی چار صد کے لگ بھگ مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.آزاد مملکت گیمبیا کے گورنر جنرل احمدی ہیں اور بڑے مخلص اور پابند صوم وصلوٰۃ ہیں.آپ سے دریافت کیا گیا کہ کیا کسی بیرونی ملک میں آپ کا کوئی مبلغ بیعت لے سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یہ حق یا وظیفہ صرف امام جماعت احمدیہ کا ہے یا اس کا جسے بطورِ خاص یہ عزت تفویض کر دی جائے.معمول یہ ہے کہ جب کوئی شخص پوری تحقیق کے بعد اسلام قبول کر کے جماعت میں داخل ہونے کی خواہش کرتا ہے تو اس سے بیعت فارم پُر کرا کے مرکز میں بھجوا دیا جاتا ہے اور یہاں سے منظوری چلی جاتی ہے.کیا گیمبیا کے علاوہ بھی کچھ ملکوں کی وزارتوں یا اعلیٰ سروسز میں آپ کے لوگ ہیں؟ اس کے جواب میں صاحبزادہ صاحب نے بتایا کیوں نہیں؟ مثلا گھانا اور سیرالیون کی وزارتی کونسلوں میں اور اعلی سروسز میں تو ہر جگہ جماعت کا باوقار حصہ ہے اس لئے کہ بیرونی ملکوں میں ہمارے ملک جیسا گھٹیا قسم کا فرقہ وارانہ تعصب نہیں ہے.ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے بتایا کہ عراق، لبنان ، شام، مصر اور شرق اردن میں جماعت احمدیہ کے دینی مراکز موجود ہیں جن کا اصل کام ہی ہے: اول.اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ دوئم مسلمان را مسلمان باز کردن کی مہم.دلوں اور روحوں سے فرنگی تہذیب کا رنگ وروغن دھونا.آپ نے ایک سوال کے جواب میں جماعت احمدیہ کے کہا بیر مشن کے متعلق بتایا: ما شاء اللہ بے حد کامیاب ہے.خود کفیل ہے.وہاں بہت بڑی جماعت ہے.جبل الكرمل نامی
تاریخ احمدیت.جلد 25 49 سال 1969ء پہاڑی کی مالک، جہاں جماعت کا اپنا ایک ہائی اسٹینڈرڈ سکول ہے.رہا حال تو جو دوسرے مسلمانوں کا ہے ان جبر و تشدد کے ایام میں وہی ان کا ہے.وہ بھی بری طرح اسرائیلیوں کے غیض وغضب کا مورد ہیں.انہیں طرح طرح سے زچ کیا جاتا ہے.ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جاتا ہے.بنیادی حقوق کے مطالبہ پر طرح طرح کی سزائیں دی جاتی ہیں.کبھی کبھار کوئی مصری یا شامی اخبار ان کی داستان درد چھاپ دیتا ہے تو ان کے دکھوں اور مصیبتوں کا علم ہو جاتا ہے اور پھر یہ علم ہوتے ہی اس بات کا قلق اور کرب شدید ہو جاتا ہے کہ ہمارے ہاتھ اتنے بندھے ہوئے ہیں کہ ہم اپنے تمام بھائیوں کے لئے سوائے دعا کے کچھ نہیں کر سکتے “ سب سے آخر پر آپ سے استفسار کیا گیا کہ کیا ان جاں سپار ( مبلغین ) کی جماعت کے لئے جو اپنے آبائی وطن اور اعزہ واقارب سے ہزاروں کوس دور میدانِ جہاد میں اپنے پیارے رب کو پیارے ہو گئے کیا جماعت کی طرف سے ان کی کوئی یاد گار قائم کی گئی ہے؟ ضرور.یہ ذکر تو بجائے خود ایمان افروز ہے.اسلام کے ان جانثاروں کے نام تو بلا شبہ تاریخ اعلائے کلمۃ الحق کے روشن ابواب ہیں.حافظ جمال احمد صاحب، مولوی نذیر احمد علی صاحب، مولوی محمد دین صاحب، مولوی غلام حسین ایاز صاحب اور مرزا منور احمد صاحب.اللہ تعالیٰ انہیں اپنی خصوصی قربت سے نوازے.ان کے مرقد آج بھی اپنے جانشینوں کو دین محمدی پر اپنا سب کچھ نچھاور کر دینے کی تلقین کرتے رہتے ہیں.مولوی نذیر احمد صاحب سارے مغربی افریقہ کے پہلے رئیس التبلیغ تھے.غانا اور سیرالیون کے بھی مبلغ انچارج رہے.۱۹۲۹ء سے ۱۹۵۵ء تک تبلیغ ہی آپ کا اوڑھنا اور بچھونا رہی.۱۹۵۵ء میں ابد تک کے لئے وہیں کے ہور ہے.اسی طرح حافظ جمال احمد صاحب ۱۹۲۸ء سے ۱۹۴۹ ء تک ماریشس میں رسول اللہ کے دین کا پرچم بلند کئے رہے اور وہیں جان جان آفریں کے سپرد کر دی.میں ان لوگوں کی خدمات کے ذکر کا کس طرح حق ادا کروں؟ ان کا ایثار نفس کشی اور سرفروشی تو ہم سب کے لئے قندیل راہ ہے.رہیں ان کی مادی یادگاریں تو ان سے حاصل؟ ان کے اسماء گرامی تو تاریخ کے ماتھے پر جلی حروف میں کندہ ہیں بعینہ جس طرح ہمارے دلوں پر نقش ہیں.مرورِ زمانہ سے ڈھے جانے اور تباہ و برباد ہو جانے والی اینٹوں گارے اور پتھروں کی یادگاریں قلب و روح پر کندہ نقوش کا بھلا کیا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ 63
تاریخ احمدیت.جلد 25 50 پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو شاندار خراج تحسین سال 1969ء جیسا کہ ۱۹۶۸ء کے حالات میں ذکر آچکا ہے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ایٹمی تحقیقات کے سلسلہ میں آپ کے گرانقدر کارناموں اور عظیم الشان خدمات کے اعتراف کے طور پر تمیں ہزار ڈالر برائے امن ایوارڈ کا مستحق قرار دیا گیا.آپ نے اسی وقت اس رقم کو پاکستان کے نظری طبیعیات دانوں کی تحقیق و تدقیق کے لئے وقف کرنے کا اعلان کر دیا.آپ کے اس جذبہ ایثار اور حب الوطنی کی دنیا بھر میں بہت تعریف کی گئی.اس سال پریس میں یہ خبر شائع ہوئی کہ پروفیسر صاحب موصوف نے اس غرض کے پیش نظر ایک ٹرسٹ بھی قائم فرما دیا ہے.جس پر پاکستان کے مشہور روز نامہ امروز (لاہور) نے اپنی ۲۶ مارچ ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں لائق تقلید مثال کے زیر عنوان ایک ادار یہ سپرد قلم کیا.جس میں آپ کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.چنانچہ لکھا:.لائق تقلید مثال نظری طبیعیات کے بین الاقوامی مرکز (ٹریسٹ) کے ڈائریکٹر پروفیسر عبدالسلام نے پاکستانی طبیعیات دانوں کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا ہے جس کی آمدنی ترقی پذیر ممالک بالخصوص پاکستان کے نظری طبیعات دانوں کو ٹریسٹ میں تحقیق سے متعلق سہولتیں مہیا کرنے پر صرف ہوگی.ٹرسٹ کے لئے ابتدائی سرمایہ کے طور پر پروفیسر موصوف نے تیس ہزار ڈالر کی وہ رقم مختص کی ہے جو ۱۹۶۸ء میں انہیں ”ایٹم برائے امن کے انعام میں ملی تھی.اس کے ٹرسٹیوں میں عالمی شہرت کے سائنس دان شامل ہیں.اس ٹرسٹ کے بانی اور داعی پروفیسر عبدالسلام طبیعیات میں اپنی نظری مہارت کے اعتبار سے نہ صرف دنیا کے چند گنے چنے سائنسدانوں میں شمار ہوتے ہیں بلکہ اپنی تحقیق اور سائنسی نظریات میں قابل قدر اضافوں کے سلسلے میں بے حد قدر و تکریم کی نگاہ سے بھی دیکھے جاتے ہیں.غرض پروفیسر صاحب نے جہاں سائنس کے فروغ اور ترویج اور توسیع کے باب میں قابل قدر کردار ادا کر کے سائنسی حلقوں میں ایک منفرد اور بلند مقام حاصل کر لیا ہے، وہاں وہ پاکستان کی سرفرازی کا بھی موجب ہوئے ہیں.وہ طبیعیات میں اپنے ذاتی جوہر کے بلیغ اظہار پر ہی اکتفا کرتے جب بھی ان کی تحریم و تکریم میں کمی نہ آتی.لیکن انہوں نے ایثار پیشگی کے باب میں بھی ایک روشن مثال قائم کی ہے.وہ رقم جو انہیں انعام میں ملی.انہوں نے اپنی آسودگی پر صرف کرنے کی بجائے ترقی پذیر ملکوں
تاریخ احمدیت.جلد 25 51 سال 1969ء کے ذہین اور طباع طبیعیات دانوں کو اپنی صلاحیتوں کے نکھارنے میں مدد دینے کی غرض سے وقف کر دی.دیکھا جائے تو اجتماعیت کا یہی شعور اور اس کا مؤثر اظہار ہی زندگی کے مختلف شعبوں کو سنوار نے اور انہیں نئی وسعتوں اور عظمتوں سے ہم کنار کرنے کا وسیلہ بنتا ہے.پروفیسر عبدالسلام خود سائنس کے فاضل ہیں.ان کا ایثار اور رہنمائی نظری طبیعیات کی ترقی میں یقیناً قوت محرکہ ثابت ہوگی ہی اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے جو مثال قائم کی وہ ہمارے یہاں کے اہل ثروت کو دعوت فکر عمل بھی دے گی.ہم سائنسی علوم و فنون میں ابھی کتنے پیچھے ہیں اور ہمیں اپنی پس ماندگی کو ختم کرنے کے لئے کیا کچھ کرنا ہے اس کی وضاحت کی چنداں ضرورت نہیں.دیکھنا چاہیے کہ پروفیسر عبد السلام کی تقلید میں کون میدان عمل میں اترتا ہے اور کیا مثبت نتائج مرتب ہو پاتے ہیں.تعلیم القرآن کے نئے دور کا آغاز 166 فروری ۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفتہ المسح الثالث نے جماعت کو قرآن کریم کی طرف خاص اور بھر پور توجہ دینے کی تحریک فرمائی جس کے بڑے خوشکن نتائج نکلے تھے.حضور نے ۲۸ مارچ ۱۹۶۹ء کو اعلان فرمایا کہ تحریک تعلیم القرآن کا پہلا دور ختم ہو گیا اور اب ہمیں ایک نیا دور شروع کرنا چاہیے.اس ضمن میں جماعت میں ایک مستقل نظام بھی تجویز فرمایا جس کی تفصیل حضور کی زبانِ مبارک سے درج ذیل کی جاتی ہے.”میری تجویز یہ ہے کہ اصلاح وارشاد میں ایک ایڈیشنل ناظر مقرر ہو جو تعلیم قرآنی اور جو اس کے دیگر لوازم ہیں ان کا انچارج ہو.مثلاً وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے کہ دوست رضا کارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں اور وہاں قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منظم طریق پر وہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جواً بشاشت سے اپنی گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں.وقف عارضی کا نظام بھی اسی ناظر اصلاح وارشاد کے سپرد ہونا چاہئے اور بہت سی تفاصیل ہیں ان کو تو انشاء اللہ مشاورت میں مشورہ کے ساتھ طے کر لیا جائے گا اور ایک نگران کمیٹی ہوگی جو مشتمل ہونا ظر اصلاح وارشاد، ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد اور ایک تیسرے
تاریخ احمدیت.جلد 25 52 سال 1969ء ہمارے ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد ہیں ان پر، نیز انصار اللہ کے صدر اور خدام الاحمدیہ کے صدر پر.یہ پانچ عہدیدار ایک کمیٹی کی حیثیت سے اس بات کی نگرانی کریں کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ قرآن کریم کی محبت پیدا کی جائے.اس کے حقائق اور اس کے معارف سیکھنے کے سامان پیدا کئے جائیں.تاوہ مقصد جلد تر پورا ہو جس مقصد کے حصول کے لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام اقوام عالم کو قرآن کریم کے نور سے منور کیا جائے.مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء 166 65 اس سال مجلس مشاورت کا انعقاد ایوان محمود میں ۲۹،۲۸ اور ۳۰ مارچ کو ہوا.مختلف جماعتوں کے ۵۰۵ نمائندگان نے شرکت فرمائی.مجلس مشاورت سے تین روز قبل ۲۵ مارچ کو پاکستان میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا.اس لئے اخبار الفضل میں اس کی کوئی رپورٹ شائع نہیں کی گئی تھی.لیکن اس کی با قاعدہ رپورٹ اب شائع ہو چکی ہے.ایجنڈا کے مطابق اس مشاورت میں جماعت احمدیہ کوئٹہ ، جماعت احمد یہ مشرقی پاکستان، جماعت احمد یہ کراچی، نظارت بہشتی مقبرہ اور جماعت احمد یہ خوشاب ضلع سرگودھا اور نائب ناظر صاحب اصلاح وارشاد شعبہ تربیت کی تجاویز زیر غور آئیں.نائب ناظر صاحب اصلاح وارشاد کی یہ تجویر تھی کہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی تحریک تعلیم قرآن مجید کے مطابق ہر احمدی فرد کا کم از کم ناظرہ قرآن مجید پڑھنا ضروری ہے.پھر بعد ازاں ترجمہ وتفسیر کا پڑھنا بھی اس تحریک کا حصہ ہے.مجلس شوریٰ اس تحریک کے سو فیصد کامیاب بنانے کے لئے تجاویز کرے.“ ا.مشاورت میں مندرجہ ذیل اداروں کے بجٹ آمد و خرچ پیش کئے گئے :.صدرانجمن احمد یہ پاکستان تخمینہ خرچ ۳۴٬۴۶،۲۷۰ روپے ) تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان (تخمینہ خرچ.۲،۶۷،۷۲۵ ۵ روپے ).مجلس وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان (تخمینہ خرچ ۲۵۸،۰۰۰ روپے ) ۲.خدمت خلق کی اثر انگیز تحریک حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے مجلس مشاورت کے اپنے اختتامی خطاب میں احباب جماعت کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 53 سال 1969ء خدمت خلق کی نہایت اثر انگیز تحریک کی.چنانچہ ارشاد فرمایا:.جہاں تک یہ ضرورتیں پوری کرنے کا سوال ہے اگر ہماری جماعت (دیہاتی جماعتوں سے اس کا زیادہ تعلق ہے) کے زمیندار یہ دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی آمدنیوں کے اضافہ کے بڑے سامان کر دیئے ہیں اس بات کا خیال رکھیں کہ وہ ان لوگوں کی غلہ کی ضرورتیں پوری کر دیں جو غربت کی وجہ سے سال کی گندم یا چاول (اگر چاول کھانے والا علاقہ ہے ) نہیں خرید سکتے اور ایسے آدمی گاؤں میں زیادہ نہیں ہوتے.کیونکہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جوا کثر حصہ گندم کا یا کچھ حصہ گندم کا خود خرید لیتے ہیں صرف چار پانچ افراد ایسے ہوں گے جو اس قابل نہیں ہوں گے کہ گندم کا کچھ حصہ بھی نہ خرید سکیں.اگر انسان خدا کی رضا کی راہ کو سمجھے اور اس بات پر خدا کا شکر کرے کہ اس نے اس کی زمین کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے تو کوئی بوجھ محسوس کئے بغیر گاؤں کی جماعت اپنے نادار افراد کی غلہ کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے ہمارے رزق میں فراخی پیدا کی ہے اور جہاں دس ہیں من دانے ہوتے تھے وہاں ۲۵ - ۳۰ من دانے ہونے لگ گئے ہیں اور جہاں ۲۰ - ۲۵ من دانے ہوتے تھے وہاں ۵۰ - ۶۰ من دانے ہونے لگ گئے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے رب کے شکر گزار بندے ہوتے ہوئے اپنے بھائیوں کا خیال رکھیں.شہروں میں بھی غور کرنے کے بعد ایسے کام کئے جاسکتے ہیں کہ کوئی احمدی بھوکا نہ رہے.احمدی میں اس لئے نہیں کہتا کہ جو احمدی نہیں ان کی تکلیف کا مجھے یا آپ کو احساس نہیں بلکہ میں احمدی صرف اس لئے کہتا ہوں کہ دوسرے دوست اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے ہماری طرف رجوع کرنا پسند نہیں کرتے لیکن اگر ان میں سے کوئی اپنی تکلیف دور کرنے کے لئے ہماری طرف رجوع کرے تو ہم اس کی تکلیف بھی دور کریں گے آخر تو وہ ہمارے بھائی ہیں.نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے تو ہمیں بہت پیارے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا ہے کہ کآخر کنند دعوی حب پیمبرم - نبی کریم ﷺ کی محبت کا جو بھی دعوی کرتا ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کا خیال رکھیں بلکہ یہ تو ایک ایسا معاملہ ہے جس کا صرف
تاریخ احمدیت.جلد 25 54 سال 1969ء مسلمان سے ہی تعلق نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان سے اس کا تعلق ہے جہاں تک ہمارا اختیار ہے اگر کوئی ہمارے ذریعہ اپنی ضرورت پوری کرنا چاہتا ہے تو ہم اپنی طاقت کے مطابق اس کی ضرورت پوری کرنے کے لئے تیار ہیں جو چیز ہماری طاقت میں نہیں اس کی وجہ سے ہم پر کوئی الزام نہیں آسکتا.ایک غیر از جماعت ہونہار طالب علم جب لاہور میں ہمارا کالج تھا اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک بیچارہ اور غریب طالب علم یونیورسٹی کے امتحان میں اول آیا لیکن اس کی غربت کا یہ حال تھا کہ وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتا تھا.کسی اخبار نے اعلان کیا کہ اس طرح فلاں لڑکا جو یونیورسٹی کے امتحان میں اول آیا ہے بڑے غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے اس لئے وہ اپنی پڑھائی جاری نہیں رکھ سکتا.میں نے اسی اخبار کے ذریعہ ( یا براہ راست اس وقت پوری تفصیل مجھے یاد نہیں ) اس کو لکھا کہ تم ہمارے پاس آجاؤ ہم تمہاری وہ تمام ضرورتیں پوری کر دیں گے جو تعلیم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں.تمہیں فیس دینے کی ضرورت نہیں.کتا بیں ہم خرید کر دیں گے.اگر کبھی بیمار ہوئے تو علاج بھی ہم کروائیں گے.ان کے علاوہ دوسری ضروریات بھی پوری کرنے کی کوشش کریں گے.جب ہماری طرف سے خدمت کا اظہار کیا گیا تو بعض اور لوگ بھی اس کی مدد کے لئے تیار ہو گئے انہوں نے یہ خیال کیا کہ احمدیوں کے ذریعہ اسے امداد نہیں ملنی چاہیے.لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ اسے کس کے ذریعہ امداد ملتی ہے.ہم تو صرف یہ چاہتے تھے کہ اس کو مد دل جائے.چنانچہ اس کی پڑھائی کا بڑا اچھا انتظام ہو گیا اور وہ انتظام ہماری وجہ سے ہی ہوا اور ہمیں اس سے بڑی خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اس بچہ کو بڑا سعید بنایا تھا اس نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے مجھ سے میری تعلیمی ضروریات پورا کرنے کا وعدہ کیا اور پیش کش کی کہ ہم تمہارا سارا خرچ برداشت کرتے ہیں اس کے نتیجے میں بعض اور لوگوں نے جو آپ کو پسند نہیں کرتے میری امداد کا ارادہ کر لیا ہے.مرا تو دل چاہتا ہے کہ ان کی امداد قبول نہ کروں اور آپ کے پاس ہی آجاؤں لیکن چونکہ میرے والد اس بات پر راضی نہیں اس لئے میں مجبور ہوں
تاریخ احمدیت.جلد 25 55 سال 1969ء بہر حال میں آپ کا بڑا ممنون ہوں کہ آپ نے میرے اخراجات پورے کرنے کی پیش کش کی.67 اس مشاورت میں درج ذیل دو اداروں کی طرف سے حضرت امام ہمام کی خدمت اقدس میں خصوصی رپورٹیں پیش کی گئیں.رپورٹ وکالت تبشیر ( تحریک جدید ) ۲.رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن رپورٹ وکالت تبشیر وکالت تبشیر برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام ملکوں میں اسلامی مشن قائم کرنے اور ان سے متعلقہ جملہ امور کی نگرانی کی ذمہ وار ہے.بیرونی ممالک میں مشنوں کے اجراء کے علاوہ سکولوں کا جاری کرنا، ڈسپنسریوں کا کھولنا، مناسب لٹریچر تیار کروانا اور اخبارات ورسائل کی اشاعت بھی وکالت تبشیر ہی کی ذمہ واری ہے.اس وقت ۲۶ مشنوں میں ۶۰ مرکزی مبلغین کام کر رہے ہیں.ان کے علاوہ ۶۸ مقامی مبلغین بھی مرکزی مبلغین کے دوش بدوش خدمت اسلام میں مصروف ہیں.افریقہ کے پسماندہ علاقوں میں تعلیم کے لئے باقاعدہ سکولوں کے اجراء کا سہرا احمد یہ جماعت کے ہی سر ہے.اس وقت نو سیکنڈری سکول ( چار سیرالیون میں ، تین غانا میں، ایک کمپالہ میں اور ایک ماریشس میں ) کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں.۸۰ پرائمری سکول ہیں.ایک مشنری ٹریننگ سنٹر ہے جو تین سال قبل غانا میں کھولا گیا تھا.اس سکول سے فارغ التحصیل نو جوانوں کو تبلیغ اسلام کی ذمہ داریاں سپرد کی جائیں گی.انشاء اللہ.اس بات کا ذکر کر دینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سکول میں مغربی افریقہ کے مختلف ممالک کے طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں.روحانی امور کی طرف توجہ کے ساتھ ساتھ ہمارے مشن جسمانی بہبود کا بھی خیال رکھتے ہیں.چنانچہ اس ضمن میں ٹھوس کام شروع کیا جا چکا ہے.نائیجیریا میں دوڈسپنسریاں کھولی جا چکی ہیں.ایک ہسپتال کی بنیا درکھی جا چکی ہے.امید ہے کہ دو چار ماہ تک عمارت مکمل ہو جائے گی.گیمبیا میں بھی ایک ڈسپنسری کھولی جا چکی ہے.غانا میں ڈسپنسری کھولنے کے تمام انتظامات مکمل ہو چکے ہیں.ایک ڈاکٹر کی تقرری ہو چکی ہے.ان تمام ڈسپنسریوں میں پاکستانی ڈاکٹر کام کرتے ہیں.نرسنگ کا عملہ مقامی لوگ ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 56 سال 1969ء یورپ میں انگلستان ، جرمنی، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ، ڈنمارک اور سپین میں ہمارے مشن موجود ہیں.ان مشنوں کے ذریعہ سے باقاعدہ تبلیغ اسلام کا کام جاری ہے.ہمارے مبلغین کو انفرادی ملاقاتوں اور تقاریر کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ بھی ان ممالک میں تبلیغ کا موقع ملتا رہتا ہے اور اس طرح لاکھوں افراد تک اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچ رہا ہے.حال ہی میں انگلستان کے ہیں اخبارات نے پورے صفحہ پر احمدیت کے متعلق مضامین شائع کئے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تصاویر شائع کی ہیں.انگلستان میں گذشتہ سال خاص طور پر تبلیغ کی طرف توجہ دی گئی.اس غرض کے لئے سارے انگلستان میں چار مرتبہ یوم تبلیغ منایا گیا.ان موقعوں پر جماعت کے احباب نے بڑے بڑے کتبے اٹھا کر مختلف شہروں میں گھوم پھر کر تبلیغ کی.ہزاروں افراد کولٹریچر دیا.چنانچہ مختلف اخبارات نے یوم تبلیغ کا ذکر کیا.انگلستان کے مشہور اخبار ٹائمز نے بھی پہلے یوم التبلیغ کی خبر نشر کی.اس کا ایک فوری نتیجہ یہ نکلا کہ ایک انگریز نے بیعت کی.مکرم عبد السلام صاحب میڈسن جو کہ ڈینش احمدی ہیں انہوں نے اس سال عرب ممالک کا دورہ کیا اور وہاں احمدی جماعتوں سے رابطہ قائم کیا.ان کا یہ دورہ عرب جماعتوں کے لئے بہت مفید رہا.گذشته سال وکیل اعلیٰ نے سنگا پور، ملیشیا، انڈونیشیا اور جاپان کا دورہ کیا.ان ممالک میں جماعت کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا.یہ دورہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب ثابت ہوا.انڈونیشیا میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ احمدیت کو متعارف کرانے کا موقع ملا.یہ پہلا موقع تھا کہ ہماری جماعت کو انڈونیشیا میں ٹیلی ویژن پر آنے کا موقع ملا اور اس طرح لاکھوں افراد تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچا.جماعتوں میں متعدد مقامات پر تربیتی تقاریر کی گئیں اور انڈونیشیا کے جلسہ سالانہ میں بھی شرکت کا موقع ملا.متعددافراد نے اس دورہ کے دوران بیعت کی.الحمد للہ انڈونیشیا میں مزید مبلغین بھجوانے میں بعض رکاوٹیں تھیں اس دورہ کے دوران انڈونیشیا میں متعلقہ افسران سے مل کر اس معاملہ پر بات چیت کی گئی جو خدا کے فضل سے نتیجہ خیز ثابت ہوئی.چنانچہ اب وہاں مزید مبلغین بھجوانے کا انتظام کیا جا رہا ہے.اس دورہ میں جاپان میں نئے تبلیغی مشن کھولنے کا جائزہ لیا گیا.اب جلد ہی وہاں پر مشن کھولا جا رہا ہے.اور ایک مبلغ کے بھجوانے کا انتظام کیا جارہا ہے.دو روز ہوئے جاپان ایمبیسی کی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 57 سال 1969ء ویزا کی منظوری کی اطلاع ملی ہے.گذشتہ سال خدا کے فضل سے ہزاروں بیعتی بیرونی ممالک میں ہوئیں.لٹریچر سال رواں میں بیرونی مشنوں کو تقسیم کے لئے بھاری تعداد میں کتب ارسال کی گئیں.یہ کتا بیں لائبریریوں میں رکھنے کے علاوہ سرکردہ احباب اور طالبان حق کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں.یہ کتب جماعتی تعارف اور اسلامی تعلیم کو وسیع سے وسیع تر حلقہ میں پھیلانے کا بہت اچھا ذریعہ ہے.لٹریچر کی اشاعت کے ضمن میں جو کام ہوا ہے.اس کی تفصیل یہ ہے.ا تفسیر القرآن انگریزی کا خلاصہ طبع ہونا شروع ہو گیا ہے.یہ جلد تقریباً ۱۳۰۰ صفحات پر مشتمل ہوگی اور تفسیر انگریزی کی تلخیص ہے جو کہ تقریباً ۳۰۰۰ صفحات پر مشتمل ہے ۲.فریج ترجمہ قرآن پر نظر ثانی ہو چکی ہے.تفسیری نوٹس کا ترجمہ ساڑھے سات پارے تک ہو چکا ہے اور اس کی نظر ثانی کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے..ڈچ ترجمہ قرآن کے دوسرے ایڈیشن کی طباعت کا انتظام کیا جا رہا ہے.چنانچہ مسودہ بلاک سازی کے لئے دیا جا چکا ہے.۴.انڈو نیشین زبان میں پہلے دس (۱۰) پارے مع ترجمہ وتفسیر تیار ہیں اور نظر ثانی کے بعد پریس میں دیئے جائیں گے.اس سال کے دوران مندرجہ ذیل کتب شائع کی گئیں.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ا.خطبہ الہامیہ ( عربی )۳۰۰۰ ۲ میسیج ہندوستان میں ( عربی ) ۳۰۰۰ ( زیر طبع ) ۳.پیغام صلح (انگریزی) ۳۰۰۰ کتب حضرت مصلح موعود ات تلخیص دعوۃ الامیر (انگریزی) ۱۰،۰۰۰ ۲.اسلام کا اقتصادی نظام ( عربی )۳۰۰۰ ۳.نظام نو ( ترکی زبان ) ۴۳۰۰۰ ۴.میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں (سپینش ) ۲۰۰۰.میں اسلام کو کیوں مانتاہوں (اٹالین ) ۵۰۰۰ (ز مرطبع ) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا لیکچر امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ترکی زبان میں ۵۰۰۰ کی تعداد
تاریخ احمدیت.جلد 25 58 سال 1969ء میں شائع کروایا جارہا ہے.اور پریس میں زیر طبع ہے.مندرجہ ذیل تراجم تیار کروائے.ا.اسلامی اصول کی فلاسفی (سواحیلی) ۲ مسیح ہندوستان میں (عربی)۳.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات (انگریزی) ۴- اسلامی اصول کی فلاسفی ( ترکی ) ۵.دعوۃ الامیر (ترکی) صلى الله لائف آف محمد (جرمن) - - لائف آف محمد ( ترکی ).دعوۃ الا میر ( عربی ) 9 - ?Where Did Jesus Die ) سواحیلی ) رپورٹ کارگزاری فضل عمر فاؤنڈیشن فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا آغاز جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء کے مبارک اجتماع پر ہوا.۱۹۶۶ء کے وسط تک بنیادی نوعیت کے کام، دفتری نظم ونسق ، رجسٹریشن، ائم ٹیکس کی رعایت کے حصول کا کام اور تحریک کو کامیاب بنانے کے موثر اور پر زور حقائق پر مشتمل مضامین حضرت فضل عمر المصلح الموعود کی شخصیت اور آپ کے کار ہائے نمایاں کو اجاگر کرنے کے لئے سلسلہ کے اخبارات میں شائع کروائے اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشادات اور پیغامات کو جن میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی غرض و غایت کا تذکرہ تھا اکناف عالم میں پھیلے ہوئے احباب جماعت تک پہنچایا گیا اور حضور کی اس اپیل کی وسیع اشاعت کی گئی کہ دوست بشاشت قلب کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں.مقاصد فضل عمر فاؤنڈیشن کے متعلق کارروائی (1) فاؤنڈیشن نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ حضرت فضل عمر کے جملہ خطبات اور تقاریر اور ملفوظات کو جمع کیا جائے اور ان کو شائع کیا جائے.پروگرام کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے عیدین کے خطبات شائع کئے جائیں.الشرکۃ الاسلامیہ کے ساتھ گزشتہ سال ضروری معاہدہ بھی فروختگی کے متعلق کر لیا گیا اور کتابت کا کام شروع کروا دیا گیا.خطبات عیدین کے مسودہ کا حجم اندازاً آٹھ سو صفحات ہے.چنانچہ عید الفطر کے خطبات کی کتابت ہو چکی ہے جو تین سو ستر صفحات پر مشتمل ہے.پروگرام کے مطابق انتظام یہ تھا کہ جلسہ سالانہ ۱۹۶۸ء کے موقع پر خطبات کی یہ جلد شائع کر دی جائے گی.اس بارہ میں مختلف پر یسوں سے بات چیت کی گئی لیکن موجودہ ملکی حالات اور بعض دوسری وجوہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 59 سال 1969ء کی بناء پر کوئی پر لیس چھاپنے کے لئے تیار نہ ہوا.اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے فضل عمر فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے یہ فیصلہ کیا کہ حالات کے سازگار ہونے تک انتظار کیا جائے اور کتابت شدہ کا پیوں کو محفوظ کر لیا جائے.چنانچہ یہ کاپیاں محفوظ کر لی گئی ہیں.جونہی حالات رو بہ اصلاح ہوئے اور پریس طباعت کے لئے تیار ہو گئے انشاء اللہ تعالیٰ خطبات کی یہ جلد شائع کر والی جائے گی.عید الاضحیٰ کے خطبات اور خطبات نکاح کا مسودہ بھی کتابت کے لئے بہت حد تک تیار ہو چکا ہے.ان خطبات کی طباعت اور کتابت سے پہلے ضروری خیال کیا گیا ہے کہ خطبات میں جو امور حدیث ، قرآن کریم اور دیگر تاریخی کتب سے بیان ہوئے ہیں ان کے حوالہ جات درج کر دیے جائیں تا مطالعہ اور تحقیق کے شائقین کے لئے زیادہ افادیت کی صورت پیدا ہو جائے.یہ کام مکرم مرزا غلام احمد صاحب ایم اے ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کی نگرانی میں ہو رہا ہے.(۲) دوسرا کام جو فاؤنڈیشن نے شروع کر رکھا ہے وہ حضرت فضل عمر کی سوانح حیات مرتب کرنے کا ہے.مکرم ملک سیف الرحمن صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ کے سپر داس کی تالیف کا کام کیا گیا.گذشتہ سے پیوستہ سال جون ۱۹۶۷ء میں جامعہ احمدیہ سے ان کی خدمات فضل عمر فاؤنڈیشن میں منتقل ہوئیں.ایک سال تک وہ ہمہ وقت اس کام میں مصروف رہے.جون ۱۹۶۸ء میں مکرم ملک صاحب جامعہ احمدیہ میں واپس چلے گئے.جناب پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ نے از راہ مہربانی اس بات کا انتظام کر دیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت تالیف کے کام میں دے سکیں.اس وقت تک کتاب کا ۱/۳ حصہ مکمل طور پر لکھا جا چکا ہے اور مسودہ صاف بھی ہو گیا ہے.اس مسودہ کو از اول تا آخر دسمبر و جنوری کے ابتدائی ہفتوں میں مخدوم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب صدر فاؤنڈیشن و ممبر ایڈیٹوریل بورڈ برائے تالیف سوانح حیات نے ملاحظہ فرمایا.آپ نے ضروری اصلاحات اور مؤلف کے ساتھ مل کر بعض امور کی وضاحت اور درستی فرمائی.محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ممبر ایڈیٹوریل بورڈ کی خدمت میں بھی یہ حصہ بغرض نظر ثانی بھجوایا گیا ہے.اسی طرح مخدومہ محترمہ سیدہ ام متین صاحبہ کی خدمت میں بھی نظر ثانی کے لئے مسودہ کا یہ حصہ بھجوایا گیا.اس صاف شدہ حصہ کے علاوہ مزید کام بھی دوران سال میں سوانح حیات کی تالیف کا ہوا ہے اور منظور شدہ مقررہ عناوین پر سوا تین سوفل سکیپ صفحات کا مضمون لکھا جا چکا ہے.مئی ۱۹ ء تک محترم ملک
تاریخ احمدیت.جلد 25 60 سال 1969ء سیف الرحمن صاحب اس حصہ کو ہر طرح مکمل اور صاف کروا کے نظر ثانی اور مزید چھان بین کے لئے انشاء اللہ فاؤنڈیشن کے دفتر میں بھجوا دیں گے.(۳) تیسرا اہم کام جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی زیر نگرانی انجام دیا جارہا ہے وہ تحقیقی اور علمی دینی مضامین پر مشتمل عمدہ رسائل و کتب کی تصنیف ہے.اس غرض کے لئے فاؤنڈیشن نے ضروری شرائط و قواعد کے ساتھ ایک اعلامیہ شائع کر رکھا ہے.جس میں حضرت فضل عمر کی اس خواہش کی تکمیل کا انتظام ہے جو علمی تصانیف کے بارہ میں تھی.پہلے سال کے اعلامیہ کے شائع ہونے پر ۳۷ مقالے موصول ہوئے جن کی فہرست گزشتہ سال آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی.ان مقالوں کا حسب قواعد جائزہ لیا گیا ان میں سے اکیس مقالوں کے متعلق منصفین کی رائے تھی کہ یہ انعامی مقابلہ میں رکھے جانے کے قابل نہیں ہیں چنانچہ اس ابتدائی جائزہ کے مطابق یہ مقالے انعامی مقابلہ سے خارج قرار دیئے گئے.باقی سولہ مقالوں کے ابتدائی جائزہ میں ۱۶ منصفین نے یہ رائے دی کہ یہ مضامین عمدہ ہیں اور مقابلہ میں رکھے جانے کے قابل ہیں.ان مقالوں میں سے ہر ایک مقالہ کے لئے پہلے منصفین کے علاوہ دو دو اور منصف مقرر کئے گئے اس طرح ان تمام مقالہ جات کے تفصیلی جائزہ کی غرض سے ۴۸ منصف مقرر ہوئے جن سے استحقاقی نمبروں کی تعیین کروانے کے علاوہ سیہ رائے طلب کی گئی کہ مقالہ جات کا معیار ان کی افادیت جماعت کی نمائندہ تصنیف ہونے کے لحاظ سے اور زبان اور تحقیق کے لحاظ سے کیسا ہے.ہر ایک پہلو کو مدنظر رکھ کر منصفین حضرات نے استحقاقی نمبر معین کئے اور تفصیلی آراء بھی پیش کیں.ان سولہ مضامین کا نتیجہ مرتب کیا گیا.ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے انعام کے استحقاق کے متعلق سفارش کرنے کے لئے ایک کمیٹی محترم قاضی محمد اسلم صاحب کی صدارت میں مقرر کی.اس کمیٹی نے محمد عطاء اللہ صاحب اور سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن کی موجودگی میں مورخہ ۲۳ فروری کو لاہور میں محترم قاضی صاحب کے مکان پر ان مقالوں ، ان کے منصفین کی آراء اور نتائج پر مشتمل کا غذات کا تفصیلی جائزہ لیا.مقالہ جات کی تقسیم اعلامیہ میں مقرر شدہ شقوں کے لحاظ سے معین گی.یعنی یہ کہ کوئی مقالہ انعامات کی کون سی شق میں آتا ہے.اس تقسیم میں مقررہ پانچ شقوں میں سے چارشقوں میں مقالہ جات تقسیم ہوئے.ایک شق کے لئے کوئی مقالہ نہ پایا گیا.اس لئے کمیٹی نے مندرجہ ذیل شقوں میں ہر شق کے مقابل درج شدہ مقالوں کو انعام کے مستحق قرار دینے کی سفارش کی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 61 سال 1969ء (1) انعامی شق نمبرا میں مکرم شیخ عبد القادر صاحب محقق لاہور کا مقالہ ”اسماء الانبیاء فی القرآن (۲) انعامی شق نمبر ۲ میں مکرم محمد اسحاق صاحب خلیل کا مقالہ بعنوان ”مسلم سلاطین ہند کے متعلق جبری اشاعت اسلام کی روایات کا تنقیدی جائزہ (۳) انعامی شق نمبر ۳ میں مکرم قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری مربی سلسلہ احمدیہ کا مقالہ بعنوان عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ (۴) انعامی شق نمبر ۵ میں مکرم پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب ربوہ کا مقالہ بعنوان سمندر اور اس کے عجائبات کمیٹی کی یہ سفارش فضل عمر فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش ہوئی.بورڈ نے اس سفارش کو منظور کرتے ہوئے مندرجہ بالا چار اصحاب کو ان کے مقالوں پر ایک ایک ہزار روپیہ انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے اور تقسیم انعام کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی ہے.حضور نے اپنے دست مبارک سے ان چاروں دوستوں کو ان کی اعلی علمی تصانیف پر انعام دینا منظور فرمایا ہے.۱۹۶۸ء کے لئے بھی اعلامیہ کی اشاعت کی گئی تھی.پروگرام یہ ہے کہ ہر سال پانچ انعامات اعلیٰ تصنیفات پر دئے جائیں.۱۹۶۸ء کے اعلامیہ پر دو درجن کے قریب احباب نے مقالے بھجوانے کی اطلاع دی تھی.لیکن بعض نے اپنے اس ارادے کو اگلے سال پر ملتوی کر دیا ہے.۱۹۶۹ء کا اعلامیہ بھی شروع سال میں شائع ہو چکا ہے.جماعت کے اہل قلم ، سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ اور پروفیسر صاحبان، علماء سلسلہ اور مبلغین کرام کو بالخصوص اس طرف توجہ کرنی چاہیے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۸ء کے اجتماع پر اس طرف توجہ دلائی اور فرمایا تھا کہ یہ مقابلہ ہر سال ہونا چاہیے.۱۹۶۸ء کے جو مقالے موصول ہوئے ہیں ان کے جائزہ کی کارروائی شروع کی جارہی ہے.میں اس موقع پر ان تمام منصفین کرام کا فاؤنڈیشن کی طرف سے شکر گزار ہوں جنہوں نے باوجود گونا گوں مصروفیات کے فاؤنڈیشن کے اس پروگرام میں دلی محبت سے تعاون فرمایا.جزاھم اللہ احسن الجزاء چہارم.مقاصد کے سلسلہ میں طویل المیعاد منصوبہ میں لائبریری کو خاص طور ترجیح دی گئی.حضرت فضل عمر کی یہ شدید خواہش تھی اور آپ نے لائبریری کی اہمیت ، ضرورت اور افادیت پر ایک زبر دست تقریر ۱۹۵۳ء کی شوریٰ میں فرمائی تھی اور جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ ایک مکمل لائبریری کا ہونا
تاریخ احمدیت.جلد 25 62 سال 1969ء تبلیغی جماعت کے لئے از بس ضروری ہے.لائبریری کے لئے گزشتہ سال ابتدائی ضروری کام انجام دیئے گئے تھے زمین حاصل کی گئی.ضروریات لائبریری کے لئے جائزہ لیا گیا اور اس کے لئے رقبہ کا فیصلہ کیا گیا.سال زیر رپورٹ میں تمام ضروری معلومات، ہدایات اور Site Plan کی کاپیاں آرکیٹیکٹوں یعنی مکرم میاں عبد الغنی صاحب رشدی ، مکرم میاں حمید اختر صاحب، مکرم خالد ورک صاحب، مکرم شیخ مامون احمد صاحب اور مکرم محمود حسین صاحب کو بھجوائی گئیں.ان سب بھائیوں نے نہایت محبت اور اخلاص کے ساتھ اپنا قیمتی وقت خرچ کر کے فاؤنڈیشن کی بہت بڑی امداد کی اور ضروری نقشے تیار کر کے بھجوائے.فضل عمر فاؤنڈیشن کی انتظامیہ کمیٹی مشتمل بر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم سید داؤ د احمد صاحب، مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اور خاکسار نے لاہور میں اجلاس کیا اور ان نقشوں پر غور کیا.تین آرکیٹیکٹ بھی اس میں شامل ہوئے.ہر ایک نقشہ کے متعلق غور کرنے کے بعد اور بعض مزید امور کی روشنی میں ان نقشوں کے متعلق رپورٹ تیار کر کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں پیش کی گئی.بورڈ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان تمام نقشوں اور دیگر معین شدہ امور کو مدنظر رکھ کر مکرم میاں عبد الغنی صاحب رشدی اور مکرم محمود حسین صاحب لائبریری کی عمارت کے نئے نقشے پوری تفصیلات کے ساتھ تیار کریں.ہر دو آرکیٹیکٹ کی طرف سے نقشے مل چکے ہیں اب جلد ہی انتخاب کر کے تعمیر کی ضروری کارروائی شروع کی جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.بورڈ آف ڈائریکٹرز نے ۱۹۶۹ء کے بجٹ میں لائبریری کی عمارت کے لئے ایک لاکھ روپیہ منظور فرمایا ہے.جوں جوں منافع کی رقم وصول ہوتی جائے گی اس میں سے لائبریری کی عمارت تعمیر کروائی جائے گی.اس وقت تعمیر کے خرچ کا اندازہ اڑھائی لاکھ روپیہ ہے.اللہ تعالیٰ بہتر رنگ میں اس کام کے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین بعض دیگر امور ا.گزشتہ سال سے فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنے بجٹ اور آڈٹ کے لحاظ سے جنوری سے دسمبر تک کے لئے سال کی تعیین کی ہے چنانچہ اس کے مطابق گزشتہ سے پیوستہ سال کے اکاؤنٹس حسب قواعد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ سے آڈٹ کروا کر ۱۹۶۸ء میں پہلی سہ ماہی میں ضروری کاغذات مع بیلنس شیٹ حکومت کے سینٹرل بورڈ آف ریونیو کو بھجوا دئیے گئے.سال ۱۹۶۸ء کے حسابات آڈٹ ہورہے ہیں.امید ہے دو ایک ماہ تک حسابات کی ضروری تفصیل اور بیلنس شیٹ تیار ہو کر حکومت کو بھجوائے
تاریخ احمدیت.جلد 25 جاسکیں گے.63 سال 1969ء ۲.اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ وعدوں اور وصولی کے لحاظ سے فاؤنڈیشن کا سال جون کے آخر تک رہے گا.۳.فاؤنڈیشن کے نظم و نسق اور ضروری امور کی انجام دہی کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے تین اجلاس ۱۹۶۸ء میں اور سال رواں میں ایک اجلاس شوری سے قبل منعقد ہوا اور بعض امور پر مزید غور اور مشورہ کے لئے فاؤنڈیشن کی انتظامیہ کمیٹی کے بھی تین اجلاس عرصہ زیر رپورٹ میں منعقد ہوئے.ان اجلاسوں میں فاؤنڈیشن کا سالانہ بجٹ، لائبریری کی عمارت، انوسٹمنٹ اور مقاصد فاؤنڈیشن کے سلسلہ میں غور کیا گیا اور بورڈ کے ڈائریکٹر صاحبان کے مخلصانہ تعاون سے ضروری فیصلے ہوئے.۴.1949ء کے لئے فاؤنڈیشن کے نظم و نسق اور سائر وغیرہ کے خراجات کے لئے -/۲۵،۹۵۰ روپے کا بجٹ منظور کیا گیا اور مقاصد کے لئے جن میں لائبریری کی عمارت، انعامات علمی مقابلہ جات اور سوانح حیات حضرت فضل عمر اور خطبات کی تدوین شامل ہیں.۱۵،۱۱۵، روپے کا بجٹ منظور کیا گیا.۵.مقامی جماعتوں میں سیکرٹریان فضل عمر فاؤنڈیشن کے تقرر کے سلسلہ میں انتخابات کی رپورٹیں ۸۳ کی تعداد میں موصول ہوئیں.ان انتخابات کی منظوری ریکارڈ کر کے مقامی جماعتوں کو اس کی اطلاع بھجوائی گئی اور الفضل میں ان تقرریوں کو شائع کیا گیا.اس وقت تک ان تقرریوں کی کل تعداد ۱۴۸ ہو چکی ہے.۶ فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک میں وعدہ کرنے والے احباب کو ادائیگی کے لئے یاددہانی کی غرض سے اور وصولی کی مہم کو زیادہ کامیاب بنانے کے لئے سلسلہ کے اخبارات ورسائل میں امسال مختلف پیرایوں میں ۱۸۵ نوٹ لکھے گئے اور شائع کرائے گئے.ان میں سے متعدد یادداشتیں حضور کے ارشادات پر مشتمل تھیں.اور محترم صدر صاحب فضل عمر فاؤنڈیشن کے مکتوبات بھی تھے.اس وقت تک شائع شدہ مضامین اور نوٹوں کی تعداد چھ صد سے بڑھ چکی ہے.امسال دوستوں کو اپنے وعدوں کے پورا کرنے کے لئے تحریص اور ترغیب کی غرض سے ایسے اصحاب کے اسماء گرامی دعا کی تحریک کے لئے الفضل میں شائع کرانے کا اہتمام کیا گیا ہے جنہوں نے اپنے وعدہ کی سو فیصدی ادائیگی کر دی ہے یا وعدہ سے بڑھ کر ادا ئیگی کی ہے.ے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی خواتین نے فاؤنڈیشن کے وعدہ جات کی ادائیگی میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 64 سال 1969ء بہت اخلاص سے کام لیا ہے.متعدد خواتین نے اپنے زیورات اس غرض کے لئے پیش کئے ہیں.بعض خواتین نے اپنا نام ظاہر کرنا بھی پسند نہیں کیا.اس موقع پر ایک نو مسلمہ خاتون کا جو بیرون پاکستان سے تشریف لائیں ذکر کرنا ضروری ہے.انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں تین انگوٹھیاں پیش کیں.ایک انگوٹھی فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے اور دو انگوٹھیاں دوسرے دو اداروں کے لئے.حضور نے ایک انگوٹھی ادارہ فاؤنڈیشن کو بھجوا دی اگر چہ اس انگوٹھی کی قیمت چالیس پچاس روپے تھی.لیکن اس پر لفظ اللہ نہایت خوبصورت طور پر کندہ تھا.مختلف زرگروں سے دریافت کیا گیا سب چالیس پچاس روپے قیمت بتاتے رہے.حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا حضور نے فرمایا چند دن اور انتظار کریں.ماہ ڈیڑھ ماہ کے بعد حضور نے فرمایا.آکشن کر دیں اور بتادیں کہ ایک نومسلمہ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے یہ انگوٹھی بھجوائی ہے چنانچہ اس کے بعد جب اسے آکشن کیا گیا تو ایک دوست نے - 101 روپے میں اس انگوٹھی کو خرید کر قیمت فاؤنڈیشن کو ادا کر دی.اپنے وعدوں کی ادائیگی میں خواتین نے بہت مستعدی دکھائی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے اور اپنی برکتوں سے نوازے.آمین منظور شدہ قواعد وضوابط کے مطابق محترم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ و بلوچستان ۳۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر شپ سے ریٹائر ہو گئے.محترم شیخ صاحب موصوف نے مرکز سلسلہ سے دور رہائش ہونے کے باوجود تین سال تک نہایت اخلاص کے ساتھ فاؤنڈیشن کے کاموں میں امداد فرمائی.فجزاہ اللہ احسن الجزاء محترم شیخ صاحب کے ریٹائر ہونے پر محترم مرزا عبدالحق صاحب امیر صوبائی مغربی پاکستان کو یکم جنوری ۱۹۶۹ء سے تین سال کے لئے فاؤنڈیشن کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے.گذشتہ سال بھی ایک نئے ڈائریکٹر کا تقرر ہوا تھا.یعنی مکرم چوہدری احمد جان صاحب کی ریٹائر منٹ پر مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب ایڈووکیٹ شیخو پورہ ان کی جگہ یکم جنوری ۱۹۶۸ء سے تین سال کے لئے ڈائریکٹر مقرر ہوئے.خاکسار محمد عطاء اللہ حسب قواعد وضوابط ۳۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کو ڈائر یکٹر شپ سے ریٹائر ہو گیا.فاؤنڈیشن نے یکم جنوری ۱۹۶۹ء سے تین سال کے لئے ڈائریکٹر مقرر فرما کر مزید خدمت کی سعادت کا موقع عطا فر مایا.فالحمد للہ.68.
تاریخ احمدیت.جلد 25 65 سال 1969ء حضرت خلیفة اسبح الثالث کا انقلاب انگیز انتقامی خطاب حضرت خلیفہ المسح الثالث نے مجلس مشاورت سے اپنے اختتامی خطاب میں فرمایا:.میں نے ایک خطبہ میں بتایا تھا کہ ہم وہ جماعت ہیں جو ظلم کے تسلسل کو کاٹ دیتی ہے.جب ہم پر ظلم ہوتا ہے اور ہم جواب میں ظلم نہیں کرتے.ایک بند ہے جہاں ظلم ٹکراتا ہے اور پسپا ہو جاتا ہے.آگے نہیں ہم جانے دیتے اور ہم نے کیا سمجھنا اور کیا سوچنا اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ جماعت نے نہایت وفا کا نمونہ اپنے رب سے دکھایا بڑے مشکل حالات میں.ہماری زندگی اس بات میں ہے کہ ہم خود کو زندہ نہ سمجھیں ، ہماری بقا اور حیات کا راز اس بات میں مضمر ہے کہ ہم نہ زندہ ہیں نہ باقی ہیں جب تک اللہ تعالیٰ جو حی و قیوم ہے اپنی حیات سے ہمیں سہارا نہ دے اپنی قومیت سے ہمیں سہارا نہ دے.کچھ تھوڑے تھوڑے وقتی طور پر آج کل صبح و شام خدا کے فضل ہمیں نظر آتے ہیں کچھ مستقل فضل اور نعمتیں ہیں جو ہمیں حاصل ہیں وہ بھی ہماری سامنے آنی چاہئیں اور جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ فرمایا قرآن کریم میں کہ میں نے اپنی نعمتیں پانی کی طرح تمہارے لئے بہا دی ہیں تو اسی لئے کہا کہ میرے شکر گزار بندے بنو.ان نعمتوں کا احساس ہونا چاہیے اور اس احساس کو زندہ اور بیدار رہنا چاہیے.میں نے پچھلے ۲۰ سال کا جائزہ لیا.مختلف ادوار سے ہم گذرے ہیں ان میں سالوں میں یعنی ۵۰ ء سے لے کر ۶۹ ء تک قریباً ۲۰ سال میں بحیثیت جماعت اللہ تعالیٰ نے ایثار اور قربانی کے جذبات پر اپنی نعمتوں کی بارش کس رنگ اور کس طور پر کی ہے تو میں بھی حیران ہوا اور آپ بھی حیران ہوں گے کہ ہمارے ایثار اور قربانی میں معجزانہ طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل نے ترقی دی اور اسے بڑھایا.بعض چیزیں تو روحانی اور مذہبی دنیا میں ایسی ہیں جن کو مادی پیمانوں سے ناپا نہیں جاسکتا نہ تولا جاسکتا ہے.لیکن بعض مادی پیمانے بھی ہیں جن سے غیر مادی روحانی اور اخلاقی تبدیلیوں کا تنزل کی طرف ہوں یا ترقی کی طرف ہوں اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اس قسم کے پیمانوں
تاریخ احمدیت.جلد 25 66 سال 1969ء سے جب میں نے اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور نعمتوں کو جانچا جو ہماری ایثار اور قربانی اور تقویٰ دیکھ کر اس نے کیا تو میں نے یہ دیکھا کہ۵۰ء کو اگر سوتصور کیا جائے جو ہے یہ ۴۷ ء کے پارٹیشن اور وہ بھی ایک دور تھا قیامت کا جس میں سے ہم گزرے تھے بڑا زلزلہ اور دھکا تھا جو جماعت کو پہنچا تھا.غرض ۵۰ ء کو اگر سو سمجھا جائے تو ۶۰ء میں ہمارے ایثار اور قربانی کی برکات میں اتنی زیادتی ہو چکی تھی کہ وہ کم و بیش ۱۴۰.۱۵۰ کے درمیان بن گئے یعنی پچاس فیصدی اضافہ اللہ کے فضل نے ہمارے ایثار میں کیا تھا اور اگر ۵۰ء کا ۶۹ ء سے مقابلہ کیا جائے تو سو کے مقابلہ میں ۳۴۸ کا فرق ہے یعنی ۳۵۰ زیادہ.ان نعمتوں کے نتیجہ میں ترقی اور بڑھوتی اور نشو ونما اور حسن کا نکھرنا کوئی نام آپ دے دیں وہ ایثار کے ، قربانی کے اور محبت کے جذبات میں ہمیں نظر آتا ہے.کتنا بڑا افضل ہے بیس سال میں ۱۰۰ سے قریباً ساڑھے تین سو تک پہنچا دیا.اس جائزہ سے ایک یہ بھی پتہ لگتا ہے جیسا کہ آپ میں سے جو Statistics اور حساب سے تعلق رکھتے ہیں فوراً ان کا ذہن اس طرف منتقل ہوا ہو گا کہ جس رفتار سے ہماری ترقی ۶۰ ء اور ۶۹ ء کے درمیان ہوئی کیونکہ ۵۰ ء سے ۶۰ ء تک ہم ۱۱۰ سے ۱۴۵ تک سمجھو پہنچے تھے.اللہ تعالیٰ کا اتنابڑا فضل اور احسان ہمیں نظر آتا ہے.میں نے بتایا ہے کہ یہ مادی پیمانہ ہے لیکن جب ایثار کے مادی مظاہرے ہمیں نظر آتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کے پیچھے جو روح ہے اس میں بھی ایک جوانی اور قوت اور حسن اور احسان پیدا ہوا ہے قریباً اسی نسبت کے ساتھ.باقی یہ صحیح ہے کہ تقویٰ اور تزکیہ کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں اور اس نے ہمیں یہ کہا ہے کہ نہ اپنے کو نہ اپنوں کو متقی اور پر ہیز گار سمجھونہ اس کا اعلان کرو.اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کون متقی ہے اور کون اپنے انجام تک متقی رہے گا.دنیا میں ابتلا بھی آتے ہیں.پس ایک تو ہمیں اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور نعمتوں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کا بے حد، بے انتہاء شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس کے فضل کے بغیر ایک سانس لینا بھی مشکل ہے.کتنا فضل تھا کہ جس نے ہمیں سانس لینے کی اجازت دی اور ہمیں سو سے بڑھا کر ۳۵۰ تک پہنچا دیا اور شکر کے ان جذبات کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اور بھی زیادہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 67 سال 1969ء خدا تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کریں.ہم اور بھی زیادہ قرآن کریم سے محبت اور پیار کریں.ہم اور بھی زیادہ نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجیں کہ آپ ہی کے طفیل سب کچھ ہم نے پایا ہے اپنے گھر سے تو کچھ نہ لائے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذاتی محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس محبت کے شعلوں کو زیادہ سے زیادہ بھڑکاتے رہنے کی کوشش کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر جو اطاعت کے رنگ میں ہے جو خدا کہے گا ہم مانیں گے یہی شکر ہے.کتنا بڑا احسان اس نے کیا ہے شکر تو ادا ہی نہیں ہوسکتا.ایک کوشش ہے شکر کے ادا کرنے کی اور اس کی اصولی بھی شکل بنتی ہے اطاعت کی کہ جو خدا کہے گا ہم مانیں گے.خدا یہ کہتا ہے کہ فساد نہیں کرنا بدامنی نہیں پیدا کرنی.کسی کو ستانا نہیں.حکومت کے لئے اس قسم کے حالات نہیں پیدا کرنے کہ وہ پریشان ہو جائے.پریشانی کے حالات نہیں پیدا کرنے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ کو بار بار جماعت کے سامنے رکھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ایک بلند معیار پر قائم ہے.قانون کی پابندی اور معروف میں حکومت وقت کی اطاعت اور ملک میں اس ملک میں نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی احمدی ہیں تمام ممالک میں ) احمدی یہ کوشش کرتے ہیں کہ فتنہ و فساد نہ پیدا ہو.امن کا ماحول رہے اور اگر کسی وجہ سے پیدا ہو جائے تو احمدیوں کا حصہ اس فتنے میں کوئی نہیں ہوتا.احمدیوں کا حصہ اس ظلم میں کو ئی نہیں ہوتا“.69 تعلیم القرآن کی مؤثر تحریک سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۴ ر اپریل ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں مجالس موصیان، انصار اللہ اور لجنات اماءاللہ کو خصوصی ہدایت فرمائی کہ وہ پوری جماعت میں قرآن کریم کی تعلیم کو تر ویج دیں اور اس سلسلہ میں پورے اخلاص، جوش اور ہمت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کریں کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ ہم پوری طاقت کے ساتھ اور انتہائی کوشش کے ساتھ تعلیم القرآن کے اس دوسرے دور میں داخل ہوں.یہ سلسلہ جاری رہے گا کیونکہ نئے بچے ، نئے افراد، نئی جماعتیں اور نئی قومیں اسلام میں داخل ہوں گی اور اسلام ساری دنیا میں غالب آئے گا.تو ساری دنیا کا معلم بنے کی تربیت آپ ہی کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 68 سال 1969ء حاصل کرنی چاہیے.خدا جانے آپ میں سے کس کو یہ توفیق ملے کہ وہ ساری دنیا میں تعلیم القرآن کی 70.کلاسیں کھولنے کا کام کرے.۲۰ جون ۱۹۶۹ء کو حضور نے فرمایا کہ احباب ڈیڑھ سال کے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ محنت اور توجہ سے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی کوشش کریں اور جو قرآن کریم ناظرہ پڑھ چکے ہیں وہ ترجمہ سیکھ لیں.حضرت سید ہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا خطاب جامعه نصرت ربوہ کا جلسہ تقسیم اسناد و انعامات مورخہ ۴ مئی ۱۹۶۹ء کو لجنہ ہال میں منعقد ہوا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے صدارت کے فرائض سرانجام دیے.تقسیم انعامات کے بعد حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے طالبات سے ایک روح پرور خطاب فرمایا جس کا متن درج ذیل ہے:.”خدا حافظ و ناصر ہو.جہاں جاؤ جہاں رہو نیک نمونہ بن کر رہو.کبھی آپ اکیلی غیر ماحول میں بھی ہوں گی مگر ایک نیک صداقت شعار، روحانیت اور ایمان سے معمور فرد کی شخصیت بھی اپنی ذات میں ایک ماحول بن سکتی ہے.انسان جہاں اور جس ماحول میں جاتا ہے اس پہ اس ماحول کا اثر ضرور ہوتا ہے لیکن جو شخصیتیں اپنے اندر آہنی عزم رکھتی ہیں وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہوتی ہیں وہ ماحول کے سانچہ میں نہیں ڈھلتیں بلکہ ماحول کو اپنے سانچہ میں ڈھال لیتی ہیں اور اسے اپنے لئے ساز گار بنا لیتی ہیں.تم بھی جہاں رہو اپنی جاذب شخصیت کے ذریعہ اپناما حول خود پیدا کرو.میری نصیحت یہی ہے کہ کسی غلط ماحول سے کبھی متاثر نہ ہونا بلکہ ماحول کو اپنے زیر اثر لاؤ.اپنے کردار اور عمل میں مطابقت پیدا کریں.آپ اپنے الفاظ واقوال سے ہی تبلیغ نہ کریں بلکہ اپنے عمل سے بھی تبلیغ کریں.آپ نے صرف غیر از جماعت لوگوں کو ہی اپنے نمونہ سے کھینچنا نہیں ہے بلکہ اپنی کمزور احمدی بہنوں کی کمزوری کو بھی اخلاق سے، پیار سے، اپنے دل موہ لینے والے پاکیزہ عمل سے دور کرنے میں ہمیشہ کوشاں رہنا ہے.کسی کے پاس کسی کی برائی یا شکایت کبھی نہ کریں.خود ہی محبت سے موقع مناسب دیکھ کر ان کی غلطی کی طرف ان کو بہت اپنائیت سے متوجہ کریں.یہ بھی ہم سب کا فرض ہے یعنی اپنوں اور اپنے گھروں کی اصلاح.
تاریخ احمدیت.جلد 25 69 سال 1969ء جو خزانہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بخشا ہے اس کی حفاظت کریں، کبھی ضائع نہ ہونے دیں آپ کے روحانی الدار میں داخل ہونے والی بنہیں تا کہ ابلیس کے زہر یلے طاعونی کیڑے آپ پر کبھی اثر انداز نہ ہوں.جب جماعتیں بڑھتی ہیں تو ان میں کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں، نئے لوگوں، کم تربیت یافتہ افراد کی وجہ سے اکثر.آپ کا یہ فرض ہے کہ آپ اپنے آپ کو ان کمزوریوں سے بچائے رکھیں.ایسا نیک نمونه احمدیت حقیقی اسلام کا بنیں کہ آپ کے ہمسایوں کے ، آپ کے ملنے والوں کے دل پکار اٹھیں کہ احمدیت سچی ہے کیونکہ درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.اپنے دلوں کو پاک رکھیں.زبانوں کو قابو میں رکھیں.اپنی بیش قیمت عفت و عصمت کی محافظ رہیں.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور اپنی امان میں رکھے.آپ نے اس کالج میں تعلیم پائی ہے جس کا نام جامعہ نصرت حضرت اماں جان کے نام پر رکھا گیا ہے.آپ ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رشتہ سے روحانی بیٹیاں ہیں.وہ مقدس و محترم ماں جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا أَشْكُرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي آپ نے اس نام کی لاج رکھنی ہے ربوہ کی تربیت کی لاج رکھنی ہے.باہر والی احمدی بہنوں کے مقابلہ میں آپ نے زیادہ اچھا نمونہ دکھانا ہے.اس کو کبھی نہ بھولیں.یہ بار امانت ہے آپ کو ہمیشہ اس کا امین بن کر رہنا ہوگا.خدا تعالیٰ آپ کو نیک بنائے.نیک نصیب رہیں.نیک مبارک جوڑے ملیں اور نیک اولاد، نیک نسلوں کی مائیں بہنیں.اپنے والدین کے لئے قرۃ العین اور ہمیشہ ذکر خیر اور ان کے بعد ان کے درجات کی بلندی کا موجب بنیں.آمین.اللهم آمین اسلام کے اقتصادی نظام پر سلسلہ خطبات سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ پر 9مئی ۱۹۶۹ء کو خطبات کا ایک پر معارف اور معلومات افروز سلسله شروع فرمایا جو۳ راکتو بر ۱۹۲۹ ء تک جاری رہا.ان خطبات میں حضور نے واضح حقائق اور ٹھوس دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ دنیا کا کوئی اقتصادی
تاریخ احمدیت.جلد 25 70 سال 1969ء نظام اسلام کے نظام اقتصاد کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اسلام ہی ہے جس نے تمام انسانوں اور اقوامِ عالم کے حقوق کی مکمل اور پر زور حفاظت کی ہے.یہ خطبات نظارت اصلاح و ارشادر بوہ نے نہایت دیدہ زیب سرورق اور عمدہ کتابت اور آفسٹ طباعت کے ساتھ شائع کرادیئے تھے.اہل ربوہ کونماز با جماعت کی خصوصی تلقین حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو اطلاع ملی کہ ربوہ کے ایک محلہ کے دکاندارنماز با جماعت میں ست ہو گئے ہیں.اس پر حضور نے انہیں بلا کر نصیحت فرمائی جس کا فوری اثر ہوا اور پورٹیں آنے لگیں کہ نماز کے وقت فوراً دکانیں بند ہو جاتی ہیں اور دکاندار نماز کے لئے چلے جاتے ہیں.خدا کے فضل سے جماعت کا بڑا حصہ ہمیشہ ہی روح اخلاص کے مثالی نمونے پیش کرتا آرہا تھا لیکن بشری کمزوریوں کی وجہ سے ضرورت تھی کہ اس امر کی طرف بار بار یاد دہانی کرائی جائے اور بتایا جائے کہ ایک زندہ جماعت کی حیثیت سے اس سستی کو برداشت نہیں کیا جاسکتا.اسی اہمیت کے پیش نظر حضور نے ۶ امئی ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں اہل ربوہ کو خصوصاً اور دیگر تمام بیرونی جماعتوں کو عموماً ہدایت فرمائی کہ اگر انہیں نماز باجماعت ادا کرنے میں ذرا بھی سستی نظر آئے تو چوکس اور بیدار ہوکر اسے دور کرنے کی کوشش کریں.اس تعلق میں صدر عمومی ربوہ کا یہ فرض قرار دیا کہ وہ ہر دو ہفتہ کے بعد صدر صاحبان کے مشورہ سے رپورٹ دیا کریں کہ کہاں سنتی اور کہاں چستی ہے.اور یہ اطلاع بہر حال ملنی چاہیے کہ ربوہ کے مکین دینی کاموں میں کس رفتار کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں کہ اس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے.نیز ہدایت فرمائی کہ اس رپورٹ کے علاوہ نظارت امور عامہ اور نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے بھی الگ الگ رپورٹیں آنی چاہیں.نظارت امور عامہ کی طرف سے یہ رپورٹ آنی چاہیے کہ اس مہینہ کتنے لوگ ربوہ میں رہائش پذیر ہوئے ہیں جن کا تعلق جماعت احمدیہ سے نہیں.ایسے لوگ اگر پہلے سے یہاں رہائش پذیر ہیں تو ان کا کوئی کام ایسا تو نہیں جو ہماری روحانی و اخلاقی فضا کو خراب کرنے والا ہو.یہ رپورٹ مستقل حیثیت میں آنی چاہیے اور آپس میں مشورہ کر کے نہیں آنی چاہیے تا کہ میں کسی نتیجہ پر پہنچ سکوں.نظارت اصلاح وارشاد کے سپرد چونکہ جماعتی تربیت کا کام ہے اس لئے ان کی طرف سے یہ رپورٹ آنی چاہیے کہ اہل ربوہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 71 سال 1969ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ تفسیر اور دوسرا اسلامی لٹریچر پڑھنے اور خطبات سننے کی طرف متوجہ ہیں.24 انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کو زیادہ مستعد ہونے کی تحریک حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اس خطبہ جمعہ (۱۶ مئی ۱۹۶۹ء) میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی خدمات پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا: ہر دو مجالس کا ایک حصہ بڑا ہی اچھا کام کر رہا ہے اور قابلِ رشک ہے.اگر خدام الاحمدیہ ہیں تو وہ انصار اللہ کے لئے قابل رشک ہیں اور انصار اللہ ہیں تو جماعت کے لئے قابل رشک ہیں.خدا کے لئے فدا ہونے والی اور اپنے نفسوں اور اموال کو فدا کرنے والی زندگیاں ہیں جو وہ گزار رہے ہیں لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو دنیا کے غلط اصول کے مطابق تینتیس فیصد کام کر کے کامیاب ہونے کی امید رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے جو قانون قرآن کریم میں وضع کیا ہے وہ یہ ہے کہ پاس ہونے کے لئے کم از کم پچپن فیصد نمبروں کی ضرورت ہے استثنائی صورت اس کے علاوہ ہے.اگر ہم انسانی اقدار کو قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خدمت کی روح کو زندہ کرنا پڑے گا.اور اس خدمت کی زندہ روح کو لیکر کام کے میدان میں سرگرم عمل رہنا خدام الاحمدیہ کا ضروری پروگرام ہے.خدام الاحمدیہ اس نقطہ کو سمجھتے ہوئے اس کام میں لگ جائیں کیونکہ خدمت اسلام واحمد بیت تقاضا کرتی ہے خدمت انسان کا.جو شخص انسان کی خدمت نہیں کرتا وہ احمدیت کی خدمت نہیں کرتا.پس خدام الاحمد یہ روح خدمت کے ماتحت اپنے پروگراموں پر عمل کریں اور انصار اللہ روح تربیت کو زندہ رکھتے ہوئے اپنے پروگرام پر عمل کریں.روح تربیت بھی روح خدمت ہی ہے صرف اس کی شکل بدلی ہوئی ہے.اس لئے ہر دو تنظیمیں اس طرح بنی نوع انسان کی خدمت میں لگ جائیں اور لگی رہیں کہ اپنے نفسوں کا بھی خیال رکھیں ، اپنے رشتہ داروں اور عزیز واقارب کا بھی خیال رکھیں، پھر یہ دائرہ وسیع ہوتا چلا جائے یہاں تک کہ وہ تمام بنی نوع انسان کو اپنے اندر
تاریخ احمدیت.جلد 25 72 سال 1969ء سمیٹ لے اور خدا کے نام پر اسلام کی اشاعت میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہر وقت تیار ہیں.75 166 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تعلیم الاسلام کالج میں تشریف آوری تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی سائنسی تعلیم کا معیار بلند کرنے کا منصوبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی ذاتی توجہ، دلچسپی اور راہنمائی کی بدولت تکمیل کے مراحل کامیابی سے طے کر رہا تھا.اس سلسلہ میں پنجاب یونیورسٹی کی مقرر کردہ ایک خاص کمیٹی نے آلات فزکس کی ایک فہرست تیار کی تھی اور الحاق سے قبل ان کی فراہمی کو ضروری قرار دیا تھا جس پر ۱۹۶۸ء میں امریکہ ، انگلستان ، مغربی جرمنی اور یوگوسلاویہ سے سامان در آمد کرنے کا انتظام کیا گیا.سامان کی پہلی کھیپ اس سال اامئی ۱۹۶۹ء کور بوہ میں پہنچی.ان آلات کی درآمد کے لئے صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے مئی ۱۹۶۹ء تک پچاس ہزار روپیہ کی منظوری دی تھی.شعبہ فزکس کے تمام کارکنان نے سامان کی چیکنگ اور ترتیب دن رات ایک کر کے مکمل کی اور بڑے قرینہ سے شعبہ کی بڑی لیبارٹری میں ان کو نصب کر دیا.جس کے بعد شعبہ فزکس کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں انہیں ملاحظہ فرمانے کی درخواست کی گئی جسے حضور نے ازراہِ شفقت شرف قبولیت بخشا اور ے امئی ۱۹۶۹ء کو ساڑھے پانچ بجے شام شعبہ فزکس کی لیبارٹریز کا معاینہ کرنے کی غرض سے وہاں تشریف لے گئے.قائمقام پرنسپل پروفیسر بشارت الرحمن صاحب کی زیر سر کردگی کالج کے صدر دروازہ پر حضور کا استقبال کیا.ازاں بعد قائمقام پرنسپل صاحب اور صدر شعبہ فزکس کی معیت میں نو درآمد شدہ آلات فزکس اور دیگر تنصیبات کا معاینہ فرمایا نیز ان کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ بھی دیکھا.ان نئے آلات میں اسلوسکوپ، الیکٹرک اوسی لیٹرز، الیکٹروسکوپ، ریڈیو ایکٹو سورسز ، ریٹ میٹر، الیکٹرانکس اور پریسین (Precision) انسٹرومنٹس جیسا بیش قیمت سامان بھی شامل تھا.معاینہ اور کار کردگی کا عملی مظاہرہ دیکھنے کا یہ سلسلہ قریباً پون گھنٹہ تک جاری رہا.فضل عمر فاؤنڈیشن کی پہلی تقریب تقسیم انعامات 76 ۲۵ مئی ۱۹۶۹ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کی تقریب تقسیم انعامات منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 73 سال 1969ء المسیح الثالث نے بھی شمولیت فرمائی.تلاوت اور نظم کے بعد مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے مقابلہ تصانیف برائے ہش ۱۹۶۷/۱۳۴۶ء کے کوائف پر مشتمل رپورٹ سنائی.رپورٹ کے آغاز میں آپ نے بتایا کہ صوفی عبد القدیر صاحب نیاز بی.اے نے وہ تمام متبرک خطوط حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی خدمت میں پیش کر دیئے ہیں جو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صوفی صاحب کے والد ماجد حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کو اپنے دستِ مبارک سے تحریر فرمائے تھے.ادارہ نے ان مبارک خطوط کو ایک نہایت مضبوط اور خوبصورت البم میں محفوظ کر دیا ہے.اس ذکر کے معا بعد کرنل محمد عطاء اللہ صاحب نائب صدر فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کی خدمت میں یہ البم پیش کیا.حضور نے احباب کو بھی اس کی زیارت کرائی اور ہدایت فرمائی کہ یہ الہم فی الحال خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں محفوظ کر دیا جائے.جب فضل عمر فاؤنڈیشن کی لائبریری میں اس قسم کے نوادرات کے لئے مناسب انتظام کیا جائے تو اسے وہاں رکھ دیا جائے.(اس ہدایت کی تعمیل میں یہ متبرک البم خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ کر دیا گیا.) ازاں بعد شیخ مبارک احمد صاحب نے رپورٹ جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ مقابلہ تصانیف برائے ہش ۱۳۴۶ء میں کل سینتیس مقالے موصول ہوئے جن میں سے صرف سولہ مقالے ابتدائی جائزہ کے بعد منصفین کی رو سے لئے جانے قرار پائے.ان سولہ مقالوں کے متعلق تین منصفین کے تفصیلی جائزہ کی روشنی میں بورڈ آف ڈائریکٹرز نے حسب ذیل چار اصحاب کو انعام کا مستحق قرار دیا: اول - شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت (اسماء الانبياء في القرآن) دوم - قریشی محمد اسد اللہ صاحب مربی سلسلہ (عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ) سوم.حافظ محمد احق صاحب خلیل مقیم سوئٹزر لینڈ ( مسلمان سلاطین ہند کے متعلق جبری اشاعتِ اسلام کی روایات کا تنقیدی مطالعہ ) چہارم.پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب ربوہ (سمندر اور اس کے عجائبات ) رپورٹ کے اختتام پر شیخ صاحب نے حضور کی خدمت میں ان اصحاب کو اپنے دستِ مبارک سے انعامات کی رقوم عطا فرمانے کی درخواست کی.چنانچہ حضور نے ان خوش قسمت اہلِ قلم اور مقالہ نگاروں کو اپنے دست مبارک سے ایک ایک ہزار روپے کے نقد انعامات عطا فرمائے اور پھر ایک بصیرت افروز خطاب سے نوازا.حضور نے فرمایا کہ آج کے دن اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہمارے دل معمور
تاریخ احمدیت.جلد 25 74 سال 1969ء ہیں.قریباً تین سال قبل ایک پر خلوص تخیل دماغ میں پیدا ہوا.اس تخیل کو جماعت نے اللہ تعالیٰ کی تحریک سے اپنایا اور یہ فیصلہ ہوا کہ اس روحانی درخت کی بلوغت پر تین سال کا عرصہ خرچ ہوگا.وہ تین سال گذررہے ہیں اور درخت پھل دینے کے قابل ہو گیا ہے.خیال تھا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے جماعت پچیس لاکھ روپیہ جمع کرے.اس وقت اٹھائیس لاکھ ترپن ہزار روپیہ کی رقم جمع ہو چکی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ مزید کئی لاکھ روپیہ بھی اس عرصہ کے اندر اور جمع ہو جائے گا.درخت ،جیسا کہ درختوں کو جاننے والے جانتے ہیں پھل دینے پر آتا ہے تو شروع میں تھوڑی تعداد میں پھل اسے لگتے ہیں اسی طرح اس درخت کو چار پھل تو آج لگے ہیں اور آپ نے ان کی خوشبو کو تھوڑا سا سونگھا ہے یعنی چار مقالے فضل عمر فاؤنڈیشن کی سکیم اور ہدایت کے مطابق لکھے جاچکے ہیں جن کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو اسلامی نقطہ نگاہ سے فائدہ پہنچانے والے ہوں گے.اس وقت تک دو میدانوں میں ہمارا غیر سے مقابلہ ہے.ایک علمی میدان ہے اور ایک تائیدات سماوی کا میدان ہے.تائیدات سماوی کے لئے کچھ اور قسم کے مجاہدات کرنے پڑتے ہیں اور اس مادی دنیا میں مادی وسائل سے کام لے کر علمی میدانوں میں جو کام کیا جاتا ہے اس کے لئے ایک اور قسم کا مجاہدہ درکار ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں، تقریروں اور ملفوظات میں علم کے اس قدر وسیع سمندر ہیں کہ اگر ہم ان سمندروں کے حسن اور افادیت کو سمجھیں اور انہیں مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھیں اور اس طرح پر دنیا کے سامنے علمی تحقیق پیش کریں تو ساری دنیا مل کر بھی جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اس کام کی طرف جماعت کو ایک عرصہ سے اتنی توجہ نہیں ہو رہی تھی جتنی توجہ ہونی چاہیے تھی.فضل عمر فاؤنڈیشن نے جماعت کو توجہ دلائی ہے.کام ابھی ابتدائی مراحل میں ہے ورنہ چار مقالے تو کیا چارسومقالے بھی میں سمجھتا ہوں ہماری علمی ضروریات کے لئے کافی نہیں ہیں یعنی اس ضرورت کے لئے کافی نہیں ہیں کہ ہم دنیا پر یہ ثابت کریں کہ جو علوم اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں رکھے ہیں ان علوم کا ساری دنیا بھی مل کر مقابلہ نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب تحریروں اور ملفوظات میں قرآن کریم کی تفسیر ہی ہے.حضور نے یہ انقلابی نقطہ بیان فرمانے کے بعد خاصی تفصیل سے علمی تحقیق کے اسلامی معیار اور اصولوں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ بالخصوص مغربی دنیا میں تحقیق کے بہت سے غلط اصول راہ پاچکے ہیں.جو صحیح اقدار پیش کئی گئی ہیں انہیں اپنانے اور ان سے استفادہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں.ان سے بھی
تاریخ احمدیت.جلد 25 75 سال 1969ء ضرور فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن ہمیں اسلام کی پیش کردہ اعلیٰ وارفع روحانی اقدار پر اپنی تحقیق کی بنیا د رکھنی چاہیے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب و تحریرات میں علمی تحقیق اور تفسیر قرآن کے جو اصول بیان فرمائے ہیں ہمیں ان کو مدنظر رکھ کر اپنی علمی تحقیق کو آگے بڑھانا ہے.خطاب کے آخر میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ میں نے آج کی گفتگو کو اس فقرہ سے شروع کیا تھا کہ ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں کہ ایک اور درخت ہماری محبت اور خلوص نے اللہ تعالیٰ کی اس دنیا کی جنتوں میں لگانے کی کوشش کی ہے.درخت کی زندگی پر سینکڑوں بلکہ ہزاروں حوادث آتے ہیں.بعض حوادث کا انسان کو علم ہوتا ہے اور بعض کا اسے علم بھی نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے ان حوادث میں سے فضل عمر فاؤنڈیشن کے درخت کو بڑی حفاظت سے نکال لیا اور اب وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا ہے اور وقت آ گیا ہے کہ وہ پھل دینے لگے.بالفاظ دیگر فضل عمر فاؤنڈیشن کا ایک دور جو زیادہ تر عطا یا جمع کرنے کا تھا ختم ہو چکا ہے اور ایک دور شروع ہوا ہے جس میں اس درخت کی اس رنگ میں حفاظت اور اس کی نشو و نما کے لئے کوشش اور جدو جہد کرنی ہے کہ یہ زیادہ سے زیادہ اور لذیذ سے لذیذ تر پھل دینے لگے اور زیادہ سے زیادہ انسان اس کے پھلوں کی لذت سے حصہ پانے لگیں.سیرت النبی پر مشتمل نادر لٹریچر اور قیمتی مخطوطات کی شاندار نمائش صلى الله اس سال جماعت احمدیہ کراچی نے ۲۹ مئی سے ۱۵ جون ۱۹۶۹ء تک آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ سے متعلق نہایت بیش قیمت کتب اور قلمی مسودات کی نمائش کا وسیع پیمانے پر انتظام کیا جس میں قریب پانچ سو نادر کتب ، قلمی مسودات ، نقشے اور چارٹس زیارت کے لئے پیش کئے گئے.نمائش کا افتتاح مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جسٹس قدیر الدین احمد صاحب نے فرمایا اور اپنے افتتاحی ایڈریس میں ایسی عظیم الشان نمائش کا اہتمام کرنے پر منتظمین کی کوششوں کو سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا.پریس، ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے افتتاحی تقریب کی کارگذاری کونشر اور ٹیلی وائز کرنے کی غرض سے ریکارڈ کیا.یہ نمائش کراچی کے تمام حلقوں میں بیحد مقبول ہوئی اور عوام وخواص نے بھاری تعداد میں اس کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور گہری دلچسپی اور عقیدت کا اظہار کیا.مولوی محمد اجمل صاحب شاہد ایم اے مربی سلسلہ احمدیہ کراچی کے قلم سے اس شاندار علمی نمائش کی تفصیلات درج ذیل کی جاتی ہیں:.78-
تاریخ احمدیت.جلد 25 76 سال 1969ء امسال ربیع الاول کے مہینہ میں جو ہمارے پیارے آقا عدہ کا ماہ میلا د ہے سیرت کونسل کراچی کے زیر اہتمام ہیں روزہ نمائش کتب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کی گئی.یہ نمائش پاکستان میں اپنی نوعیت کی منفرد نمائش تھی جو لوگوں میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا شغف پیدا کرنے اور ان کو حضور کی حیات مطہرہ اور سیرت مبارکہ سے روشناس کرانے کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوئی.جائے نمائش ریڈیو پاکستان کراچی کے نزدیک احمدیہ دارالمطالعہ تھی جسے ایک خوبصورت اور دل آویز محراب سے مزین کیا گیا تھا.جس کے اوپر سنہری حروف میں کلمہ طیبہ منقش تھا اور اندرونی حصہ روشنیوں سے نُورٌ عَلَی نُور کا منظر پیش کر رہا تھا.نمائش کا افتتاح ۲۹ مئی کو چھ بجے شام ایک سادہ اور پُر وقار تقریب کے ذریعہ عمل میں آیا.مہمان خصوصی جسٹس قدیر الدین احمد سینئر حج ہائیکورٹ کراچی تھے.تلاوت ونظم کے بعد مکرم چوہدری احمد مختار صاحب چیئر مین سیرت کونسل نے افتتاحی خطاب فرمایا جس میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی نمائش کو گزشتہ سال کی نمائش تراجم قرآن کریم کا لازمی جزو قرار دیا.کیونکہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لئے صاحب قرآن کریم کی زندگی کا مطالعہ نہایت ضروری ہے.اس ضمن میں آپ نے اس منفر د نمائش کی اہمیت اور اس کی خصوصیات کو بیان فرمایا.( مکمل متن الفضل یکم جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۳ پر شائع ہوا) اس کے بعد مکرم جسٹس قدیر الدین صاحب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدیم المثال مقام کا ذکر فرمایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بعض واقعات بیان فرمائے.اس مختصر تقریب کے بعد مہمان خصوصی نے نمائش کا افتتاح فرمایا اور سب سے پہلے آپ نے دیگر معزز مہمانوں کے ساتھ نمائش کو ملاحظہ فرمایا.آپ نمائش میں دنیا کی مختلف اور اہم زبانوں میں پانچ صد سے زائد ذخیرہ کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے.اس کے بعد گیارہ بجے رات تک زائرین کا تانتا بندھا رہا.نمائش اور افتتاحی تقریب کو ٹیلی ویژن کے ذریعہ شب و روز کے پروگرام میں پیش کیا گیا.جسے اہالیانِ کراچی نے دیکھا.ریڈیو سے نمائش کے متعلق خاکسار کا انٹرویو بھی نشر کیا گیا.اخبارات میں نمائش کی خبریں اور فوٹو شائع ہوئے.اس طرح نمائش کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی اور سینکڑوں افراد روزانہ اس نمائش کو دیکھنے کے لئے آتے رہے.نمائش میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پانچصد سے زائد کتب موجود تھیں.زائرین کی
تاریخ احمدیت.جلد 25 77 سال 1969ء سہولت کے لئے نمائش کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا تا کہ دیکھنے میں آسانی ہو.ا.کتب علماء سلف اس حصہ میں تیرہویں صدی تک کے علماء کی کتابیں رکھی گئی تھیں.ان میں سے بیشتر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں.ان میں سے بعض کے تراجم اردو زبان میں ہو چکے ہیں.۲.کتب علماء مستشرقین و غیر مسلم اصحاب اس حصہ میں مستشرقین و غیر مسلم اصحاب کی کتب تھیں جن میں سے بعض معاندانہ اور اکثر حقیقت پسندانہ انداز میں لکھی گئی ہیں.۳.کتب علماء عصر حاضر یہ ذخیرہ بڑی کثرت سے تھا.اردو زبان میں ہی تقریباً چار صد کتب موجود ہیں.اس کے علاوہ انگریزی ، عربی اور فارسی زبانوں کی کتب ہیں.اکناف عالم کی زبانوں میں سیرت النبی اے کی کتب اس حصہ میں فرینچ، ڈینش ، انگریزی ، ڈچ ، سواحیلی ، لوڈ، اکان، انڈو نیشین ، چینی ، ہندی اور گورمکھی وغیرہ کی کتب تھیں.پاکستان کی علاقائی زبانوں مثلاً سندھی، پنجابی، پشتو اور بنگالی میں بھی کتب رکھی گئی تھیں.۵.نمائش کا پانچواں حصہ معلوماتی چارٹس، غزوات النبی ﷺ کے متعلق نقشوں، غلاف کعبہ کا ٹکڑا اور دیگر قرآنی آیات پر مشتمل تھا.اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غیر مسلم حضرات کے اقوال بھی دیئے گئے تھے.غرض نمائش کی ترتیب ایسے انداز میں کی گئی تھی کہ زائرین کی انتہائی دلچسپی اور از دیاد علم وایمان کا باعث ہوئی.چنانچہ تقریباً ایک ہزار افراد نے اپنے تاثرات قلمبند فرمائے.جن میں سے چند کی آراء درج ذیل ہیں :.لرم ظفر حسین صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان نے تحریر فرمایا :.
تاریخ احمدیت.جلد 25 78 سال 1969ء مسلمانوں کا یہ جذبہ بیحد قابل قدر ہے کہ وہ اپنے مذہبی لٹریچر کی اہمیت کا خیال رکھتے ہیں اور اسے بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں.موجودہ نمائش جو جناب صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر لکھی ہوئی کتابوں پر مشتمل ہے ایسے ہی جذبہ کا اظہار ہے.مجھے اتنا عمدہ ذخیرہ دیکھنے کا پہلی بار اتفاق ہوا اور میں بانیان نمائش کی خدمت میں مبارکباد پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.“ ڈاکٹر بشارت علی صاحب ہیڈ آف سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کراچی یو نیورسٹی نے تحریر فرمایا:.مجھے نمائش دیکھنے کا موقع ملا.مجھے بے حد مسرت ہوئی کہ سیرت پاک کی اشاعت کے سلسلہ میں یہ اقدام حکمیاتی بھی ہے اور نفسی عوامل کا حامل بھی.آپ نے دورِ جدید کے مقتضیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت ممارست ( مشق ، تجربہ ) اور تحریص دی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو برکت اور رحمت ارزائی فرمائے.یہ سلسلہ پیہم جاری رہے.کیونکہ ذہنی تسلسل کی ضرورت ہے.“ الحاج ڈاکٹر قاری میر اسد علی صاحب نے تحریر فرمایا:.’ماشاء اللہ سیرت النبی ﷺ کی کتابوں کی نمائش بڑے اچھے پیمانے پر کئی گئی ہے.مختلف زبانوں میں سیرت پیش کر کے عمدہ طریقے پر ثابت کیا گیا ہے کہ آنحضرت تم یہ سارے عالم کے لئے مبعوث ہوئے تھے.منتظمین نمائش کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے اور سیرت رسول ﷺ کو متعارف کرنے کی کوشش کو ترقی دے.“ مکرم اسلم بیگ صاحب نے اپنے تاثر میں بڑی دلچسپ اور معنی خیز بات تحریر فرمائی:.یہ نمائش اپنی نوعیت کی انتہائی مکمل اور تجبل نمائش ہے.حیرت ہے کہ ختم نبوت کے سلسلہ میں مدعی بننے والے تو ایسی نمائش منعقد نہ کر سکے اور وہ جن پر الزام ہے کہ ختم نبوت کے قائل نہیں انہوں نے یہ گراں بہا کام کر دکھایا.اس نمائش کے آخری روز ۱۵ جون ۱۹۶۹ء کو نمائش گاہ کے سامنے ایک بین الاقوامی سیرت کانفرس منعقد کی گئی جس میں دنیا کی بارہ زبانوں میں پیغمبر خدا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا.فاضل مقررین کے نام یہ ہیں:.عبدالجبار صاحب آف سکاٹ لینڈ، جناب جی.ایم پٹیل ( گجراتی ) ، موسیوبی مونیٹر کونسل جنرل فرانس (فرانسیسی)، احمد بخش صاحب (سندھی)، حافظ مولوی عبدالغفور صاحب سابق مجاہد
تاریخ احمدیت.جلد 25 79 سال 1969ء جاپان (جاپانی)، ڈاکٹر بشارت علی صاحب سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کراچی یونیورسٹی (جرمن ) ، احسان زمرانی صاحب اور جناب فکری صاحب (ترکی) ، ڈاکٹر محمد علی وانگ صاحب (چینی)، مسٹر احمد المنصور (سینیگالی)، عبیدالرحمن بھیاں صاحب (بنگالی) ،عبدالہادی صاحب فلسطینی (عربی).ان تقاریر کے درمیان مولانا عبد المالک خان صاحب مربی کراچی نے مقام قاب قوسین کے موضوع پر اردو زبان میں تقریر کی.آخری خطاب مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد کا تھا.آپ نے اپنی پون گھنٹہ کی جامع تقریر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی اور خاص طور پر تو حید خالص کے قیام کے لئے حضور علیہ السلام کی بے مثال قربانیوں کا تذکرہ فرمایا اور دیگر انبیاء پر آپ کی بلندشان اور فضیلت کو واضح کیا.آخر میں چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی نے مقررین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا.اہل کراچی نے اس منفرد اور شاندار جلسہ میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا.حاضرین کی نشست کا انتظام کرسیوں پر تھا جو بالکل ناکافی ثابت ہوئیں اور سینکڑوں افراد نے کھڑے ہو کر جلسہ کی کارروائی سنی.جلسہ کا اعلان ریڈیو اور اخبارات کے ذریعہ کیا گیا اور اس کی خبریں پریس نے شائع کیں اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کی تقریر ریڈیو سے پیش کی گئی.80 ربوہ کے احمدی نونہالوں کی طرف سے خدمت خلق کا شاندار نمونہ ے جون ۱۹۶۹ء کو ایک حادثہ کے باعث فیصل آباد، چنیوٹ اور سرگودھا سے آنے والی گاڑیاں لالیاں اور ربوہ میں روک لی گئیں.شدید گرمی میں پیاس اور بھوک کے باعث ہزاروں مسافر جن میں بہت سے بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں بڑی تکلیف دہ صورتحال سے دو چار ہو گئے.اس موقع پر ربوہ کے احمدی بچوں اور نوجوانوں نے خدمت خلق کا مثالی نمونہ دکھاتے ہوئے ایک ہزار سے زائد مسافروں کے لئے ٹھنڈے پانی اور کھانے کا نہایت وسیع پیمانہ پر انتظام کیا.یہ انتظام فوری طور پر ایسے شاندار طریق پر کیا گیا کہ مسافر دنگ رہ گئے اور انہوں نے نوجوانان احمدیت کے جذ بہ خدمت خلق کی بہت تعریف کی اور اہل ربوہ کو دعائیں دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ اہلِ ربوہ نے تو ہمارے لئے گھر کا ماحول پیدا کر دیا ہے.یہ اہم واقعہ احمدی بچوں اور جوانوں کے مثالی کارنامہ کی حیثیت سے بڑا یا دگا ر ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 80 سال 1969ء ملک محمد اعظم صاحب ( اُس وقت ناظم اطفال ربوہ) رقمطراز ہیں کہ:.یہ مثال کہیں نظر نہیں آتی کہ بچوں کو انعام کے طور پر پیسے دیئے جائیں تو بچے نہ لیں.بچوں کو پیسوں سے بڑی الفت ہوتی ہے لیکن اس روز خدمت خلق کا ایسا جذبہ تھا کہ مسافر خوش ہوکر بچوں کو انعام دیتے لیکن بچے پیسے لینے سے انکار کر دیتے کہ ہم پیسوں کی خاطر یہ کام نہیں کر رہے ہیں بلکہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے کر رہے ہیں حالانکہ بچوں کو روکا ہوایا سمجھایا ہوا نہیں تھا کیونکہ یہ تو خیال بھی نہیں تھا کہ کوئی انہیں پیسے بھی دے گا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسافروں کی ہر نوع کی ضرورت پوری کی گئی.ایک دوست کراچی سے آئے اور لائل پور جانا چاہتے تھے میرے پاس آئے کہ بیوی بیمار ہوگئی ہے لائل پور پہنچنے کا ذریعہ بتا ئیں میں نے فوری طور پر چار بچوں کو ان کا سامان اٹھوایا کہ انہیں بس پر سوار کرا دیا جائے.بچوں نے آکر بتایا کہ وہ اسٹیشن سے لے کر اڈا تک ہمیں دعائیں دیتے گئے.اس روز عجیب سماں تھا اور عجیب ہی کیفیت.کوئی روٹیاں اٹھائے آرہا ہے تو کسی کے ہاتھ میں سالن کی بالٹی.کہیں سے برف آ رہی ہے.بچے بالٹیاں اٹھائے گشت کر رہے ہیں.کہیں معصوم بچوں کو دودھ پلایا جارہا ہے.کہیں انہیں ہاتھ سے ہلانے والے سیکھے دئے جارہے ہیں.صبح ساڑھے دس بجے سے لے کر دو پہر ۲ بجے تک مسلسل یہ کام جاری رہا.جب گاڑیوں سے انداز اچھ ہزار مسافروں میں کھانا اور پانی تقسیم ہو چکا تو دو بچوں کے دو گروپ بنادیئے گئے تا کہ کچھ آرام بھی ہو سکے لیکن مسیح محمدی کی جماعت کے نونہالوں کی روح خدمت بار بار انہیں خدمت کے لئے ابھارتی تھی.وہ بار بار میرے پاس آکر کہتے کہ ہماری باری کب آئے گی.ہمیں بھی دوبارہ کام کرنے کا موقع دیں.جب گاڑیاں روانہ ہوئیں تو مسافر متبسم چہروں کے ساتھ ہاتھوں کو ہلا ہلا کر ہمیں مبارک باد دیتے اور شکریہ ادا کرتے تھے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ حقیقی بھائی ، بھائیوں سے جدا ہورہے ہیں.سب مسلمان بھائی بھائی ہیں کا عملی نظارہ نظر آرہا تھا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت اقدس میں جب احمدی نونہالوں کی اس کارنامہ خدمت کی اطلاع پہنچی تو حضور نے رپورٹ پر فرمایا: 81 جزاکم اللہ الحمد للہ سب بچوں کو اللہ تعالیٰ بہترین جزا دے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 پریس میں ذکر 81 سال 1969ء ربوہ کے احمدی نو جوانوں اور بچوں کی اس بے لوث خدمت خلق کو نہ صرف مسافروں نے سراہا بلکہ پاکستان پریس نے اسے ایک قابل تقلید مثال سمجھتے ہوئے اس کی مختصر رپورٹیں شائع کیں.چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی ۱۷ جون ۱۹۶۹ء صفحہ ۵ کی اشاعت میں لکھا:.خدمت خلق کا شاندار مظاہرہ ربوہ (نامہ نگار ) گذشتہ روز ربوہ اور چنیوٹ کے درمیان ایک ریل گاڑی کا انجمن پٹڑی سے اتر گیا جس سے ریلوے لائن بھی متاثر ہوئی.بہت سی گاڑیوں کو مجبورار بوہ کے سٹیشن پر رکنا پڑا.دو پہر کی شدید گرمی میں ربوہ کے چھوٹے چھوٹے بچوں اور نوجوانوں نے ایک تنظیم کے ساتھ سب مسافروں کو ٹھنڈا پانی اور کھانا گاڑیوں میں مہیا کیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ خدمت خلق کا یہ شاندار نمونہ پیش کرنے والے بچے اور نوجوان خود بھو کے اور پیاسے تھے اور انہوں نے اس خدمت کا کوئی معاوضہ نہیں لیا اور نہ قبول کیا.ایک اندازہ کے مطابق کل چھ ہزار لوگوں کو ٹھنڈا پانی اور کھانا مہیا کیا گیا.“ روز نامه مشرق لاہور (۲۸ جون ۱۹۶۹ ء صفحه ۲) نے خبر دی کہ: طلباء نے مسافروں کو کھانا اور پانی فراہم کیا.ربوه ۲۷ جون ( نامہ نگار ) ربوہ کے سکولوں اور کالجوں کے بچوں ( سکولوں اور کالجوں کے بچوں نے نہیں مجلس اطفال الاحمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ نے.ناقل ) نے پچھلے دنوں قابل تقلید کا رنامہ سر انجام دیا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ گذشتہ دنوں ایک مال گاڑی چنیوٹ اور ربوہ کے درمیان پٹری سے اتر گئی.اس کی وجہ سے ریلوے ٹریفک کئی گھنٹے معطل رہی.اس عرصہ میں متعدد گاڑیاں (ربوہ) ریلوے اسٹیشن پر آکر رکی رہیں.ربوہ کے طلباء نے اس پوری مدت میں ہزاروں مسافروں کو کھانا کھلایا اور ٹھنڈے پانی سے ان کی تواضع کی.ان کی اس خدمت خلق سے ہزاروں مسافروں کی سفری مشکلات دور ہوئیں.اس کے لئے وہ تمام طلباء کے ممنون ہوئے.“ صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب کا دورہ ایران ، ترکی و یوگوسلاویہ اس سال کے وسط میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر و وکیل اعلیٰ نے ایران، ترکی اور یوگوسلاویہ کا ایک کامیاب تبلیغی دورہ فرمایا.روانگی سے قبل ان ممالک کے بعض دوستوں سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 82 سال 1969ء رابطہ پیدا کر لیا گیا تا ان کے ذریعہ ان علاقوں کے حالات بہتر طور پر معلوم ہوسکیں اور اشاعت دین اور مسلمانوں کی بہبود اور ترقی کے مفید طریق پر پروگرام بنانے میں مددل سکے.چنانچہ ان تمام اصحاب نے جنہیں خطوط لکھے گئے تھے صاحبزادہ صاحب کے دینی مشن کو کامیاب بنانے میں بھر پور مدد کی.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے ۱۵ جون ۱۹۶۹ء کو مسجد مبارک میں دورہ کی کامیابی کے لئے پُر سوز اجتماعی دعا کرائی جس میں ربوہ کے ہزاروں مخلصین نے شرکت کی اور صاحبزادہ صاحب کو دلی دعاؤں کے ساتھ الوداع کیا.آپ اگلے روز ۱۶ جون صبح پانچ بجے ربوہ سے روانہ ہوئے اور ان تینوں ممالک کا ایک ماہ تک دورہ مکمل کرنے کے بعد ۱۵ جولائی ۱۹۶۹ء کو بخیریت ربوہ پہنچ گئے.امیر مقامی مولانا ابوالعطاء صاحب کی سرکردگی میں اہل ربوہ نے آپ کا پر جوش استقبال کیا.آپ نے اس تبلیغی دورہ میں اسلام کی توسیع اور اشاعت کے امکانات کا وسیع جائزہ لیا.ان ممالک کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کی تجاویز سوچیں.ان ممالک کے مخلص احمدیوں اور بعض دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور متعدد تقاریب میں نہایت خوش اسلوبی سے پیغام حق پہنچایا.ترکی اور یوگوسلاویہ میں بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے اور الہی سفر کی مفصل رپورٹیں مرکز کو بھجوائیں جو اخبار الفضل“ اور رسالہ تحریک جدید میں شائع ہوئیں.ایران آپ اپنے دورہ کے آغاز میں ۷ اجون کو تہران پہنچے اور ۲۰ جون تک ایران میں قیام فرمایا.آپ جب تہران پہنچے تو تہران ہوائی اڈے پر محمد افضل صاحب صابر ( مولوی محمد بشیر صاحب شاد مبلغ افریقہ کے بھائی اور جماعت احمد یہ ایران کے امیر ) اور ملک مشتاق احمد صاحب استقبال کے لئے موجود تھے.محترم صابر صاحب نے تہران پہنچتے ہی احباب جماعت سے دورہ کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لئے مشورے لئے تبلیغی مساعی، نظام جماعت کا استحکام اور احباب جماعت وغیرہ کئی موضوع زیر بحث آئے.صاحبزادہ صاحب نے جماعت ایران کی خدمات کی تعریف کی اور اسے وسعت دینے کے سلسلہ میں مفید ہدایات سے نوازا.یہ جماعتی اجلاس دو، تین گھنٹے تک جاری رہا.اس کے بعد ایک مقامی صنعت کار کے مذہبی ذوق رکھنے والے صاحبزادے جناب تقی صاحب کے ساتھ صاحبزادہ صاحب نے ایران سے متعلق مختلف موضوعات پر گفتگو کی اور نہایت مفید معلومات حاصل کیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 83 سال 1969ء ایران میں قیام کے دوران کئی ایک مواقع پر غیر از جماعت دوست بھی موجود ہوتے تھے اور ان کے ساتھ بھی عمومی طور پر اسلام کی تبلیغ واشاعت کے متعلق مفید گفتگو ہوتی رہی.اکثر احباب نے بے ساختہ اس بات کا اظہار کیا کہ احمدیہ جماعت ساری دنیا میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دینے کی وجہ سے نہایت قابل قدر کام کر رہی ہے.جن احباب سے خصوصی ملاقاتیں ہوئیں ان میں ایک دوست محمد خالق عالم فاروقی صاحب تھے جوڈیز فل (Dezful) میں ایئر فورس میں ملازم تھے.ایک روز محمد افضل صاحب کے ہاں جماعت احمد یہ ایران کے تمام احباب ( مردوزن اور بچے ) مدعو تھے.اس تقریب پر لجنہ اماءاللہ کی تنظیم کے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی بہنیں ایران میں بہت اچھا کام کر رہی تھیں.ترکی آپ ۲۰ جون کو تر کی تشریف لے گئے.انقرہ ائیر پورٹ پر لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب تشریف لائے ہوئے تھے.صاحبزادہ صاحب کا قیام بھی انہی کے ہاں تھا.ترکی میں صاحبزادہ صاحب کی یادگار ملاقات نہایت مخلص ترک احمدی اور فاضل و محقق جناب پروفیسر شناسی سبر سے ہوئی.انہیں صاحبزادہ صاحب سے مل کر بڑی خوشی ہوئی.وہ بے حد خوش تھے اور جب انہیں معلوم ہوا کہ صاحبزادہ صاحب حضرت مصلح موعود کے لخت جگر ہیں تو اٹھ کر گلے ملے اور زار و قطار رونے لگے اور بار بار کہتے تھے کہ میں کتنا خوش نصیب ہوں کہ مرکز سے صاحبزادہ صاحب مجھے ملنے کے لئے تشریف لائے ہیں.ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں.انہوں نے صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں بعض نایاب کتابیں بھی پیش کیں.یہ ملاقاتیں ترکی کے شہر از میر کے ایک ہوٹل میں.ہوئیں.پروفیسر شناسی سبر صاحب کے علاوہ انقرہ میں جن متعدد ترک شخصیات سے رابطہ ہوا ان میں ماجد باسط صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ماجد صاحب ترک حکومت میں ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اور کو پن ہیگن اور ناروے میں سید کمال یوسف صاحب، جناب نور احمد بولستاد صاحب.Mr) (Bolstad اور سیف الاسلام محمود اریکسن صاحب کے ذریعہ احمدیت سے متعلق خاصی معلومات حاصل کر چکے تھے اور ان کے دل میں سلسلہ احمدیہ کی دینی خدمات کے لئے محبت کا جذبہ موجزن ہو چکا تھا.انہوں نے صاحبزادہ صاحب کو کھانے پر بلایا اور رات گیارہ بجے تک سوال و جواب کا سلسلہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 84 سال 1969ء جاری رہا اس کے بعد پہلی ہی ملاقات میں محترم صاحبزادہ صاحب کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ ماجد صاحب کوتر کی واپسی پر ان کے دوستوں نے احمدیت سے بدظن کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی.الیاس برنی صاحب اور دیگر معاندین سلسلہ کا لٹریچر بکثرت انہیں مہیا کیا گیا.چنانچہ محترم صاحبزادہ صاحب سے گفتگو کے دوران وہ ان کتابوں سے پوری پوری مدد لیتے رہے.طویل گفتگوؤں کا صرف اتنا اثر ہوا کہ وہ کہنے لگے کہ شکوک و شبہات تو دور ہو گئے ہیں اور اعتراض بھی اب کوئی نہیں لیکن جماعت میں شمولیت کے لئے شرح صدر نہیں ہے.اس کے بعد ان سے ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور خاصی لمبی گفتگو کے بعد انہوں نے صاحبزادہ صاحب کی تحریک خاص پر بیعت فارم پُر کر دیا جو دورہ ترکی کا پہلا شیریں پھل تھا.ماجد صاحب احمدیت کے نور سے منور ہونے کے بعد اگلے روز اپنے ساتھ ترک یونیورسٹی کے پانچ پروفیسر لائے جن میں سے ایک فلسفہ و تاریخ کے استاد اور متعدد کتابوں کے مؤلف تھے.انہوں نے احمدیت میں گہری دلچسپی لی اور کئی باتوں میں صاحبزادہ صاحب سے اتفاق کیا.ایک روز جنرل ملک اختر حسین صاحب نے صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں دعوت طعام دی جس میں سینٹو (Cento) کے پاکستانی افسر اور پاکستانی سفارت خانہ کے افسر بھی شامل ہوئے.علاوہ ازیں آرسی ڈی کے ایک بڑے عہدہ دار ترک افسر نے بھی آپ کو چائے پر مدعو کیا.آپ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض پیشگوئیوں سے روشناس کرایا اور مرکز احمدیت ربوہ کے تفصیلی حالات بتلائے.وہ آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور ر بوہ آنے کا بھی وعدہ فرمایا.یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ بارہ سال قبل ۱۹۵۷ء میں جب صاحبزادہ صاحب ایک تبلیغی دورہ پر جانے لگے تو سیدنا حضرت مصلح موعود نے دیگر نہایت اہم اور مفید ہدایات دینے کے علاوہ یہ بھی ارشاد فر مایا کہ ترکوں کا ہم پر حق ہے ان کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس زمانہ کے مامور کے ماننے کی توفیق دے کر ان سے ایک دفعہ پھر ایسی خدمت اسلام لے کہ ان کی زندگیوں میں قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہونے لگے.خلیفہ موعود کے اس ارشاد مبارک نے صاحبزادہ صاحب کے دل میں ایک زبر دست ولولہ ترکی میں احمدیت کے نفوذ کے لئے پیدا کر دیا جس کی جھلک آپ کے دورہ ترکی کے ہر مرحلہ پر نمایاں ہوگئی اور ماجد صاحب کی قبول احمدیت اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی.قیام ترکی کے دوران آپ نے استنبول کا تاریخی میوزیم بھی دیکھا جس میں آنحضرت خاتم
تاریخ احمدیت.جلد 25 85 سال 1969ء الانبیاءمحمد مصطفی ہے کے مقدس تبرکات محفوظ ہیں.کہا جاتا ہے کہ مصر کے آخری عباسی خلیفہ المتوکل علی اللہ ثالث نے یہ تبرکات نیز حرمین شریفین کی کنجیاں بطور سند خلافت آل عثمان کے فرمانروا سلطان سلیم اول کے سپرد کر دیں اور سلطان سلیم یہ تبرکات مصر سے استنبول لے آئے.یوگوسلاویہ آپ مورخہ ۲ جولائی کو ترکی سے یوگوسلاویہ کے دارلحکومت بلغراد پہنچے.پاکستان سے روانگی سے قبل یوگوسلاویہ کے ایک سابق سفیر پاکستان مسٹر ولا دوشستن (Vlado Shustan) کو اطلاع دی جا چکی تھی.چنانچہ انہوں نے فارن سروس کے ایک اعلیٰ افسر کو صاحبزادہ صاحب کی پیشوائی اور دیگر تمام ضروری انتظامات کے لئے مقرر کیا ہوا تھا.خود وہ بلغراد سے ایک طویل فاصلہ پر صدر مملکت کے ہمراہ گئے ہوئے تھے.یہ اعلیٰ افسر بذریعہ کار آپ کو ایک ہوٹل میں لے گئے اور یوگوسلاویہ کی مسلم آبادی کے بارے میں تفصیلی معلومات بہم پہنچائیں.معلوم ہوا کہ ملک میں ۳۱ لاکھ مسلمان آباد ہیں اور ان کی سب سے بڑی آبادی سورا یا و ( Sarajevo) میں ہے.بلغراد میں سلطان سلیمان اعظم قانونی کی ۹۲۷ بهش /۱۵۲۱ء کی تعمیر شدہ مسجد آج تک موجود ہے.(شاہ ہنگری نے سلطان سلیمان کا سفیر قتل کر دیا تھا جس پر سلطان پیچیس رمضان ۹۲۷ ھ مطابق ۲۹ / اگست ۱۵۲۱ء کو چڑھائی کر کے بلغراد پر قبضہ کر لیا.یہ مسجد جو اس فتح کی یادگار ہے اسی سال تعمیر کی گئی.) یوگوسلاویہ کے اعلیٰ افسر کے ذریعہ صاحبزادہ صاحب کی ملاقات اس مسجد کے امام جناب حسین ہوزک صاحب (Husein Hodzic) سے ہوئی.امام صاحب الا زہر کے تعلیم یافتہ تھے اور عربی، فارسی اور انگریزی بھی جانتے تھے.وہ اور ان کی مصری اہلیہ نبیلہ نہایت تپاک سے ملے اور اسلامی اخوت کا نہایت عمدہ مظاہرہ کیا.کہنے لگے کہ وہ احمد یہ جماعت کی خدمات سے خوب واقف ہیں اور انہیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جماعت احمدیہ نے دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغی مراکز کھول رکھے ہیں اور احمدی عیسائیت کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں.زغریب (Zagreb) میں ڈاکٹر سلیمان میسووک (Soleman Masovic) اور ان کے ذریعہ آصف صاحب اور مسٹر مرزا اور ان کے والد مسٹر مراد سے ملاقاتیں ہوئیں.ڈاکٹر سلیمان صاحب بھی ترکی کے ماجد صاحب کی طرح احمدیت سے متعارف تھے اور مسجد
تاریخ احمدیت.جلد 25 86 سال 1969ء فضل لندن میں لیکچر بھی دے چکے تھے.مسٹر مراد کے ہاں ۱۹۶۸ء میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ مبلغ سوئزرلینڈ اپنے دورہ یوگوسلاویہ کے دوران فروکش ہوئے تھے.مسٹر مراد کے ہاں دعوت چائے پر صاحبزادہ صاحب کو متعدد مسلمانوں سے ملاقات کرنے اور ان کے سوالوں کے جواب دینے کا سنہری موقع میسر آیا.یہ دوست جماعت احمدیہ کے کام سے متاثر تھے اور صاحبزادہ صاحب کے دورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.یہ محفل قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور آپ کے کارنامے زیر بحث آئے.صاحبزادہ صاحب نے حضرت اقدس کی پیشگوئیوں پر روشنی ڈالی اور تفصیل کے ساتھ بتایا کہ حضور کا الہام ” میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا کس شان سے پورا ہو رہا ہے.مسلمانان زغریب نے صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں قریباً ۵۰ ممتاز مسلمانوں نے شرکت کی.کھانے کے بعد صاحبزادہ صاحب نے گیارہ بجے شب تک سوال و جواب کی محفل سے پر اثر خطاب فرمایا اور اسلام کی موجودہ حالت ، احمدیت کا اثر ونفوذ اور مغرب میں اسلام کے مستقبل جیسے اہم موضوعات پر روشنی ڈالی.آخر میں زغریب مسلم کمیونٹی کے پریذیڈنٹ صاحب نے آپ کا شکریہ ادا کیا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء کے موقع پر اس کامیاب دورہ کا خصوصی ذکر فر مایا.83 مجاہدین وقف عارضی کے لئے سر ٹیفکیٹ سید نا حضرت خلیفہ امیج الثالث کے ارشاد مبارک کے مطابق تحریک وقف عارضی کا پہلا سہ ساله دور اس سال ۳۰ ر ا پریل ۱۹۶۹ء کو ختم ہوا اور یکم مئی ۱۹۶۹ء سے دوسرے پنج سالہ دور کا آغاز ہوا.حضور کے دستخطوں سے ان تمام مخلصین کو خوشنما مطبوعہ سر ٹیفکیٹ بھجوائے گئے جنہوں نے تینوں سال با قاعدہ اس تحریک میں حصہ لیا اور ہر سال کم از کم دو ہفتے وقف کئے.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جملہ واقفین میں بیرونی جماعتوں میں جا کر قرآن مجید پڑھانے اور تربیت و اصلاح کرنے میں سب سے زیادہ وقت حضرت حاجی عبد الکریم صاحب مرحوم کراچی نے دیا.انہوں نے اس تحریک پر نہایت والہانہ طور پر لبیک کہتے ہوئے قریباً اڑھائی سال کے عرصہ میں چوبیس ہفتے لگہی وقف میں گزارے اور نہایت محنت اور خلوص سے فریضہ تربیت ادا فرمایا اور جماعتوں کی
تاریخ احمدیت.جلد 25 87 سال 1969ء طرف سے بھی نہایت خوش کن رپورٹیں ان کے کام کے بارے میں موصول ہوتی رہیں.حضرت حاجی صاحب کے علاوہ اس تحریک کے اولین وفد میں جانے والے قریشی فضل حق صاحب دکاندار گول بازار ر بوہ کا نمونہ بھی قابل تقلید ہے.انہوں نے نہایت خلوص سے ہر موقعہ پر لبیک کہا.ان کا عرصہ 86- وقف میں 1 وقف ہیں ہفتے تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفرمری اسلام امام همام حضرت استح الثامنة اس سال امام ہمام حضرت خلیفہ امسیح الثالث مری، کراچی اور لاہور تشریف لے گئے اور اپنے مبارک انفاس قدسیہ اور پر معارف خطابات سے نہ صرف مخلصین جماعت بلکه غیر از جماعت معزز دوستوں کو بھی سرفراز فرمایا اور حضور کی روحانی توجہ کے طفیل خدا تعالیٰ نے ان تینوں مقامات کے احمدیوں میں زندگی کی نئی روح پھونک دی.حضور ۲۳ جون سے ۵/اگست تک مری میں رونق افروز رہے.حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ۲۳ جون کو صبح سات بجے بذریعہ موٹر کار مری کے لیے روانہ ہوئے اور ساڑھے تین بجے بعد دو پہر مری پہنچ گئے.کثیر احباب نے دفتر پرائیوٹ سیکرٹری کے احاطہ میں جمع ہو کر حضور کو الوداع کہنے کی سعادت حاصل کی.روانگی سے قبل حضور نے از راہ شفقت جملہ حاضر احباب کو شرف مصافحہ عطا کیا اور اجتماعی دعا فرمائی.اس دوران ۹ جولائی کو ایک بجے بعد دو پہر بذریعہ موٹر کار بوہ تشریف لائے اور ۱۴ جولائی کو صبح پونے چھ بجے واپس تشریف لے گئے.) حضور کے ہمراہ چوہدری محمد علی صاحب مضطر ایم اے ( پرائیویٹ سیکرٹری ) اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بھی تھے.ان ایام میں حضور نے ابتداء مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور بعد میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو امیر مقامی مقررفرمایا.حضور پر نور اپنی دوسری دینی اور علمی مصروفیات کے علاوہ ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد اپنے روح پرور ملفوظات اور مواعظہ حسنہ سے متمتع فرماتے رہے.۲۵ جون کو مولانا محمد یعقوب خان صاحب ( غیر مبائع.ایڈیٹر رسالہ لائٹ.آپ بعد ازاں بیعت کر کے جماعت مبائعین میں شامل ہو گئے تھے ) اپنے صاحبزادہ کیپٹن عبدالسلام صاحب اوران
تاریخ احمدیت.جلد 25 88 سال 1969ء کے چھوٹے بچوں کے ساتھ ایبٹ آباد سے بذریعہ کا ر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.اپنی بیماری کی وجہ سے وہ کار سے اتر نہیں سکتے تھے لہذا حضور پر نور از راہ شفقت کرسی پر ان کے پاس تشریف فرما رہے اور ان کی مزاج پرسی فرمائی.دوران گفتگو کشمیر کے مسئلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا ذکر بھی آیا.مولا نا محمد یعقوب خان صاحب نے اظہار فرمایا کہ کشمیر کی کہانی“ (مؤلفہ چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان ، ناشر مکتبہ لاہور بیڈن روڈ لاہور.اشاعت مارچ ۱۹۶۹ طبع اول ) پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی واقعی کس قدر عظیم شخصیت کے حامل تھے.۲۷ جون کو جمعہ کی نماز حضور نے احمد یہ مسجد کلڈ نہ میں پڑھائی اور گزشتہ خطبات کے تسلسل میں ایک روح پرور اور ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا.اس خطبہ میں حضور نے اسلام کے اقتصادی نظام کے بعض پہلوؤں کو بیان کرنے کے علاوہ تو حید باری تعالیٰ کے علمی اور عملی حصوں پر بھی بہت لطیف اور پر معارف انداز میں روشنی ڈالی.۲۹ جون کو صبح ۹ بجے سے ایک بجے تک حضور انور نے انفرادی طور پر دوستوں کو ملاقات کا شرف بخشا.اس روز راولپنڈی، اسلام آباد ، مری اور بعض دوسرے مقامات کے دوست کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.۴ جولائی کو ناسازی طبع کے باوجود مسجد احمد یہ کلڈ نہ میں نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ جمعہ میں حضور انور نے عام اخلاقی امور کے بارہ میں احباب جماعت سے خطاب فرمایا.اور اس تعلق میں اسلام کے بعض اصولی احکام پر روشنی ڈالی.نماز جمعہ کے بعد حضور تھوڑی دیر مسجد میں تشریف فرما ر ہے.اور احباب جماعت سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے.مسجد سے تشریف لے جاتے ہوئے حضور انور نے بیرونجات سے آئے ہوئے احباب کو شرف مصافحہ بخشا.۶ جولائی کو حضور انور نے بیرونجات سے آئے ہوئے کثیر احباب سے انفرادی اور اجتماعی طور پر ملاقات کی جن میں بعض غیر از جماعت روؤسا اور غیر ملکی شخصیات بھی شامل تھیں.۱۹ جولائی کو حضور انور نے مسجد احد یہ کلڈ نہ میں نماز جمعہ پڑھائی.حضور انور نے اسلام کے اقتصادی نظام پر اپنے گذشتہ خطبات کے تسلسل میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے مخلصین لہ الدین کی رو سے حقیقی عبادت الہی کے چھٹے اور ساتویں تقاضہ پر بصیرت افروز پیرایہ میں روشنی ڈالی.نماز جمعہ کے بعد حضور انور کچھ عرصہ مسجد میں تشریف فرمارہ کر احباب سے گفتگو فرماتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 89 سال 1969ء ۲۰ جولائی کو حضور انور سے ملاقات کی سعادت حاصل کرنے کے لئے احباب جماعت دور ونزدیک سے صبح آٹھ بجے سے بہت پہلے جمع ہونے شروع ہو گئے تھے.اس موقع پر مری اور اس کے مضافات کے علاوہ پشاور، کیمبلپور، ٹیکسلا، اسلام آباد، راولپنڈی، گوجرخان، لائکپور، لاہور، گلگت، ایبٹ آباد، مظفر آباد اور بعض دوسری جماعتوں سے بھی دوست کثیر تعداد میں تشریف لائے.حضور انور نے از راہ شفقت ۱۰ بجے سے اڑھائی بجے دوپہر تک انفرادی اور اجتماعی طور پر احباب کو ملاقات کا شرف عطا فرمایا.اس ہفتہ کے دوران میں حضور انور نماز ظہر و عصر اور مغرب وعشاء پڑھانے کے بعد اکثر دوستوں میں تشریف فرمارہ کر دیر تک انہیں اپنے ملفوظات اور مواعظ حسنہ سے سرفراز فرماتے رہے.اس عرصہ میں بعض غیر از جماعت دوست بھی حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے.حضوران سے مختلف دینی علمی اور قومی بہبود کے موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے.۲۵ جولائی کو حضور انور نے نماز جمعہ مسجد نور راولپنڈی میں پڑھائی.اور اپنے گزشتہ خطبات جمعہ کے تسلسل میں خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حقیقی عبادت کے آٹھویں تقاضہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اس سے قبل حضور انور پونے بارہ بجے مری سے راولپنڈی پہنچے.دوپہر کے کھانے کا انتظام جماعت احمد یہ راولپنڈی کی طرف سے میجر سید مقبول احمد صاحب کی قیام گاہ بیت السلام پر تھا.جمعہ اور عصر کی نمازیں پڑھانے کے بعد حضور مع قافلہ ساڑھے پانچ بجے راولپنڈی سے روانہ ہوئے.راستہ میں تھوڑی دیر کے لئے اسلام آباد ٹھہرے.اور پھر آٹھ بجے شام بخیریت واپس مری تشریف لے آئے.۲۷ جولائی کو حضور انور کی ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی غرض سے متعدد مقامات سے احباب جماعت بہت کثیر تعداد میں تشریف لائے.حضور نے از راہ شفقت تمام احباب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر ملاقات کا موقع عطا فر مایا.ظہر اور عصر کی نمازوں کے بعد حضور احباب میں تشریف فرمار ہے اور پشاور کے احباب سے خصوصی طور پر ملاقات فرمائی.ساڑھے چار بجے حضور انور نے اندر تشریف لے جانے سے قبل اجتماعی دعا کرائی.اور احباب کو واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.یکم اگست کو حضور انور نے نماز جمعہ مسجد احمد یہ کلڈ نہ میں پڑھائی.حضور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلق عظیم اور آپ کے رحمتہ للعالمین ہونے پر ایک بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا.جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھانے کے بعد حضور تھوڑی دیر کے لئے مسجد میں تشریف فرما رہے اور احباب
تاریخ احمدیت.جلد 25 90 سال 1969ء سے مختلف موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے.مسجد سے واپس تشریف لاتے وقت حضور نے احباب کو از راہ شفقت مصافحہ کا شرف بھی بخشا.۳ اگست کو کثیر تعداد میں احباب جماعت نے حضور کی ملاقات کی سعادت حاصل کی.اس روز ملاقاتوں کے بعد حضور خاصی دیر تک مختلف دینی اور علمی امور پر گفتگو فرماتے رہے اور تلقین فرمائی کہ احباب جماعت کو اسلام کی فتح کے دن کو قریب تر لانے کے لئے دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق کا ایسا مظاہرہ کرنا چاہیے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور پیروی میں اخلاقی معجزہ کا رنگ رکھتا ہو.حضور مری میں قریباً 4 ہفتہ قیام فرمانے کے بعد ۵ اگست کو بوقت دو پہر بارہ بج کر پینتالیس منٹ پر بذریعہ موٹر کار واپس تشریف لے آئے.بہت سے احباب نے دفتر احاطہ پرائیوٹ سیکرٹری میں جمع ہو کر امیر مقامی محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی زیر سر کردگی استقبال کی سعادت حاصل کی.حضور نے شدید گرمی کے باوجود احاطہ دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں موجود جملہ احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا.حضور کے ہمراہ خاندان کے بعض دیگر افراد نیز چوہدری محمد علی صاحب ایم اے پرائیوٹ سیکرٹری اور عملہ کے دیگر ارکان بھی ربوہ واپس آگئے.مخالفین احمدیت کی طرف سے اشتعال انگیزی کی مہم گذشته سال ۱۹۶۸ء کے وسط آخر میں احرار اور جمیعۃ العلماء نے ایک سازش کے تحت ملک میں احمدیت کے خلاف نہایت زہریلی اور اشتعال انگیز مہم جاری کی جس میں آئندہ انتخاب صدارت پاکستان کے سلسلہ میں ٹرمپ کارڈ کے کے طور پر اپنی ہر تقریر کے آخر میں پراپیگنڈا کیا کہ صدر ایوب بھی قادیانی ہو گئے ہیں.اس سال کے شروع میں صدر ایوب کے مشیر نے اس پراپیگنڈا کی تردید کی جس پر مدیر لاہور جناب ثاقب زیروی صاحب نے ” بے وقت.بے ضرورت کے زیر عنوان حسب ذیل اداریہ سپرد اشاعت فرمایا:.اگلے دن صدر ایوب کے مشیر سید فدا حسن نے سر براہ مملکت کی طرف سے ایک مکتوب میں ان کے مذہبی عقائد کے بارے میں وضاحت کی ہے.( جیسا کہ اس خبر میں بتایا گیا ہے ) مشیر صدرمملکت نے اپنے مکتوب میں لاہور کے اس ممتاز شہری کو (جس نے بواسطہ ملٹری سیکرٹری ایک خط کے ذریعہ صدر مملکت کے عقائد کی وضاحت چاہی تھی ) بتایا ہے کہ :.
تاریخ احمدیت.جلد 25 91 سال 1969ء صدر ایوب سنی گھرانے میں پیدا ہوئے.وہ ہنوزسنی ہیں.انہوں نے کبھی اپنے سنی عقیدے کوترک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی.یہ کہنا غلط ہے کہ وہ قادیانی (احمدی) ہو گئے ہیں.قرآن حکیم پر ان کے عقائد میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی.وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرتے ہیں.“ ہم حتمیت کے ساتھ یہ کہنے کی پوزیشن میں تو نہیں کہ لاہور کے وہ ممتاز شہری کون ہیں؟ ان کے اپنے عقائد کیا ہیں؟ اور انہوں نے پورے دس سال کے بعد کن ہفوات سے متاثر ہوکر صد رایوب سے ان کے دینی عقائد کے بارے میں وضاحت طلبی کی ضرورت محسوس کی.اور کیا وہ اس وضاحت سے مطمئن بھی ہو گئے ہیں یا نہیں.غالب قیاس یہی ہے کہ وہ غیر مسلم ہوں گے جو اپنے گردو پیش میں علماء سیاست کی بھڑ کائی ہوئی تشنت وافتراق کی آگ سے متاثر ہوئے اور ان کے دل میں صدر مملکت کے دینی عقائد جاننے کا خیال پیدا ہوا.کیونکہ ایک مسلمان کو تو (خواہ وہ سنی ہو، اہلحدیث ہو، شیعہ ہو یا احمدی) یہ خوب معلوم ہے کہ سید ولد آدم وجہ تخلیق کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم نہ کرنے والے کا ایمان اور اسلام دونوں مکمل نہیں کہلا سکتے.بلکہ ہم پورے وثوق اور تحدی کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ فرقہ (جس کی طرف افواہا منسوب ہونے کی صدر مملکت کی طرف سے تردید کی گئی ہے ) اور جسے حکمران و غیر حکمران ( یعنی حصول اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف بھی اور ہر قیمت پر اقتدار سے چپکے رہنے پر بضد بھی) دونوں طبقے آئندہ عام انتخابات میں ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کرنے کے داؤں پر ہیں.اس کا ہر رکن بھی حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم تسلیم کرتا اور اسی میں اپنی سعادت، خوش بختی اور نجات سمجھتا ہے یہ دوڑ دراصل ہے محبت و اظہار محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مسابقت کی اور اختلاف ہے تو وفور محبت و عقیدت کے باعث انوار و فیضان نبوت کی تشریحات و تاویلات میں ! کاش متذکرہ فرقہ کی اپنے محبوب و مطاع ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے عشق و محبت کو سیاسی کور ذوقی کی کسوٹی پر پرکھنے والوں کی نگاہ کبھی اس کے بانی کے اس نعرہ مستانہ کی طرف بھی اٹھتی.بعد از خدا بعشق محمد محمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم خدائے واحد ویگانہ کے بعد میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نشہ عشق میں چور ہوں اور اگر یہ کفر
تاریخ احمدیت.جلد 25 92 سال 1969ء ہے تو یہ اعتراف اور اس اعتراف پر ہزار فخر کہ ) مجھ سے بڑا کا فراور کوئی نہیں.جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے.صدر ایوب کے دینی عقائد کے بارے میں کسی بھی مذہب دوست پاکستانی کوکوئی بھی غلط نبی نہیں تھی اور نہ ہے اور جس گروہ کو ہے اس کی بدلنی کی اساس چونکہ بد نیتی اور سیاسی فتنہ آرائی پر ہے لہذا یہ غیر ضروری وضاحت جہاں اول الذکر طبقے کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ثانی الذکر طبقے کے دل کے گند بھی نہیں دھو سکتی.بلکہ کوئی عجب نہیں.اب اسی ٹولے کی طرف سے اس وضاحت کے بعد متعلقہ افواہ کو یہ رنگ بھی دے دیا جائے کہ معلوم ہوا صرف احمدی ہی نہیں.صدر مملکت ایک حد تک شیعہ عقائد بھی رکھتے ہیں اور تقیہ کرتے ہوئے اظہار حقیقت سے پہلو تہی فرما گئے ہیں.سچ پوچھئے تو ہمارے خیال میں یہ وضاحت صرف غیر ضروری ہی نہیں بے وقت بھی ہے کیونکہ اس کا اصل وقت تو آج سے سات آٹھ ماہ قبل وہ تھا جب احرار اور جمیعۃ العلماء نے با قاعدہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مغربی پاکستان میں شہر بہ شہر، قصبہ بہ قصبہ، محلہ بہ محلہ اور مسجد بہ مسجد پھر کر احمدی اور شیعہ فرقوں کو کافر، مرتد اور علی الاعلان واجب القتل قرار دینے کی مہم شروع کی تھی.اور جب ہر تقریر کے آخر میں ٹیپ کے مصرع کے طور پر یہ کہ کر کہ صدر ایوب بھی قادیانی ہو گئے ہیں عوام کے ذہنوں اور دلوں میں تنظر اور سمیت کا لاوا بھرا جارہا تھا.یہ تقریریں کونوں کھدروں میں نہیں لاؤڈ سپیکروں پر ہوتی تھیں.رات کے دو دو بجے تک ہوتی رہتی تھیں.مغربی پاکستان کے صدر مقام لاہور تک میں یہ سیاسی مولوی صبح کاذب تک چنگھاڑتے دھاڑتے رہتے تھے.بیسیوں دفعہ ان تقریروں کے بارے میں متعلقہ پولیس اور اعلیٰ افسروں کو مطلع کیا گیا.لاہور نے تو صوبائی حکومت کی (اس طرف توجہ مبذول کرانے کے لئے اس موضوع سے متعلق محض امن پسندوں کی مراسلتیں بھی شائع کیں اور ادارتی نوٹ بھی لکھے (جن میں سے ایک اسی اشاعت میں کسی دوسری جگہ شریک ہے ) لیکن کیا مجال جوانتظامیہ کے کانوں میں جوں تک رینگی ہو.بس سب یہی سمجھ کر مگن رہے کہ ایک تھوڑی نفری والے فرقے ہی کو لتاڑا جارہا ہے.حالانکہ ملک کا آئین اس موضوع پر خوب واضح ہے کہ اس میں کسی بڑے سے بڑے کے لئے بھی وطن عزیز کے کسی بھی دوسرے شہری کے خلاف ( خواہ وہ کسی بھی مذہبی یا سیاسی عقیدہ کا نقیب و داعی ہو ) قتل و غارت گری کی تلقین کی کوئی گنجائش نہیں ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 93 سال 1969ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سولہویں تربیتی کلاس سے افتتاحی خطاب را مسال مجلس خدام الاحمدیہ کی تربیتی کلاس 1 جولائی سے ۲۵ جولائی کو منعقد ہوئی.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس سال مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے فرمایا کہ اگر ان کی سولہویں تربیتی کلاس میں سومجالس کے نمائندے شامل نہ ہوئے تو اس کا میں افتتاح نہیں کروں گا.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے دعاؤں کے ساتھ پوری جدو جہد کی جس کا یہ خوشکن نتیجہ ہوا کہ اس کلاس میں شرکت کے لئے ا جولائی ۱۹۶۹ء کو ۱۳۲/ مجالس کے نمائندے پہنچ گئے جو پچھلے سال سے قریباً دگنی تعداد تھی.اضافہ کی یہی نسبت شامل ہونے والے خدام کی تعداد کی تھی.حضور نے اسی تاریخ کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں اس کلاس کا افتتاح کرتے ہوئے پوری جماعت کو نہایت قیمتی نصائح سے نوازا اور اس حقیقت کی طرف نہایت دلکش اور روح پرور انداز میں روشنی ڈالی کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا ہی فضل فرمایا کہ اس نے ہمیں اپنا خادم بنالیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہم صرف انسان ہی کے خادم نہیں، ہم ان کے بھی خادم ہیں جو انسان نہیں بلکہ جو جاندار بھی نہیں.خدا تعالیٰ نے ساری زمین اور اس کی ساری اشیاء آسمان اور اس کے سارے ستارے انسان کے لئے مسخر کئے ہیں.اور اس نے اپنے خادموں اور اپنی طرف منسوب ہونے والوں کو خدمت کے جو احکام دئے ان میں مسلم اور غیر مسلم میں کوئی امتیاز نہیں برتا.چنانچہ فرمایا کسی پر بہتان نہیں تراشنا، کسی سے سود نہیں لینا.نہ ظلم کرنا ہے اور کوئی بھی بھوکا ہوا سے کھانا کھلانا ہے خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ، لا مذہب ہو یا بت پرست.تم نے کسی کو بھی دکھ نہیں پہنچانا.اگر ہم خدمت کے تقاضوں کو پورا کریں تو جو اجرت ، انعام، فضل اور محبت کا سلوک اللہ تعالیٰ ہم سے کرے گا وہ اتنا بڑا اجر، اتنا بڑا انعام ہے کہ اگر ہم اس کو پالیں تو اس دنیا کی ساری نعمتوں کو ہم نے پالیا کیونکہ ساری مخلوق مل کر بھی عزت کی اس نگاہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی جوانسان اپنے رب کی نگاہ میں پاتا ہے.حضور نے اس روح پرور خطاب کے آخر میں ارشاد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنا خادم ( اگر ہم واقعی اس کی نگاہ میں خادم بن جائیں تو اس سے بڑا احسان اور کیا ہوسکتا ہے ) بنا کر اپنی ہر مخلوق کی خدمت پر لگا دیا.اور اس کے مقابلہ میں ہم سے اس جزاء کا ، ان انعامات کا وعدہ کیا
تاریخ احمدیت.جلد 25 94 سال 1969ء کہ بڑے سے بڑا امیر بلکہ دنیا کے سارے امراء اور دولتمند ا کٹھے ہو کر بھی اس جزا کا کروڑواں حصہ بلکہ اربواں حصہ جزا یا بدلہ یا اجرت یا تنخواہ ( جو نام بھی آپ رکھ لیں) 90 نہیں دے سکتے.یہ نہایت کامیاب تربیتی کلاس تھی جس میں مجموعی طور پر ۶۵ امجالس کی طرف سے ۳۵۰ خدام اور ۲۸ اطفال نے شرکت کی.اس سال مجالس کی تعداد پچھلے سال سے دگنی سے بھی زیادہ تھی.مجالس کی نمائندگی کے اعتبار سے ضلع ساہیوال اول اور ضلع سرگودھا اور ضلع پشاور بالترتیب دوم اور سوم رہے.آل ورلڈ گورونانک کنونشن امرتسر میں احمد یہ وفد 91 شرومنی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی امرتسر کی طرف سے ۲۶ جولائی ۱۹۶۹ء کو قادیان میں تارملا کہ امرتسر میں حضرت بابا نانک کی پانچصد سالہ برسی کی تقریبات کے سلسلہ میں کل تیجا سنگھ سمندری ہال میں کنونشن ہورہا ہے.اس میں جماعت احمدیہ کے نمائندہ کو شمولیت کی دعوت دی جاتی ہے.جماعت کی طرف سے اس کنونشن میں محترم صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب ناظر دعوت وتبلیغ صدرانجمن احمد یہ قادیان، چوہدری عبد القدیر صاحب نائب ناظر امور عامہ اور گیانی عبد اللطیف صاحب نے شرکت کی.کنونشن کو سنت فتح سنگھ صاحب صدرا کالی دَل ، سنت چنن سنگھ صاحب صدر شر و منی گوردوارہ پر بندھک کمیٹی ، سردار حکم سنگھ صاحب گورنر راجستھان ، سردار گورنام سنگھ صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب اور سردار گیان سنگھ صاحب راڑ یوالہ سابق وزیراعلیٰ پیسو کے علاوہ بہت سے سکھ اکا برین نے خطاب کیا.مسلمانوں کی طرف سے کنونشن کو خطاب کرنے والے جماعت احمدیہ کے واحد نمائندے محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب تھے.آپ نے بتایا کہ حضرت بابا نانک صاحب کو جماعت احمد یہ ولی اللہ مانتی ہے اور آپ کی تعلیم کو باہمی پیار و محبت اور امن کے لئے ضروری اور مفید بجھتی ہے.حضرت بابانا تک صاحب کی تعریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا ہے اس میں سے چند اقتباسات پڑھ کر آپ نے سنائے اور اس کی تشریح کی.اور حاضرین کو تحریک کی کہ جس مشن کو آپ نے شروع فرمایا اور جس پر آپ نے عمل کیا اس پر سب عمل پیرا ہوں تا کہ امنِ عالم کے قیام میں ہمارا حصہ ہو سکے.جماعت احمد یہ اس مشن کی تکمیل کے لئے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں ٹریکٹ اور کتب شائع کر رہی ہے.گورونانک
تاریخ احمدیت.جلد 25 95 سال 1969ء صاحب کی پانچصد سالہ برسی کی تقریبات کے سلسلہ میں جماعت احمد یہ جو حصہ ڈال رہی ہے اس کی تفصیل صاحبزادہ صاحب نے بیان فرمائی.آپ کا یہ خطاب اردو میں تھا.ساری تقریر کے دوران حاضرین ہمہ تن گوش رہے.پروگرام کو ریکارڈ کرنے کا بھی انتظام تھا اور جلسہ کی کارروائی کو فلمانے کا بھی.خاص طور پر جماعت احمدیہ کے نمائندگان کی تصویریں لی گئیں.مختلف اصحاب اور اخباری نمائندوں نے پتہ نوٹ کر کے خط و کتابت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا.تقریر کے بعد بہت سے احباب نے تقریر کے برمحل اور مناسب ہونے کا ذکر کر کے خطاب فرمانے کا شکریہ ادا کیا.اس کے بعد مختلف قسم کا لٹریچر جس کی تعداد قریباً ڈیڑھ ہزار تھی حاضرین کے ہر طبقہ کے نمائندگان میں تقسیم کیا گیا اور سب نے بڑی خوشی سے لیا.پروفیسر ڈاکٹر اطالوکیوی کا قبول اسلام اور اسپرانٹو تر جمہ قرآن کی اشاعت اس سال کا ایک نہایت اہم واقعہ جسے صدیوں تک یاد رکھا جائے گا مشہور مستشرق پروفیسر ڈاکٹر اطالوکیوسی (Dr.Italo Chiussi) کا قبول اسلام اور ان کے اسپرانٹو ترجمہ قرآن کی اشاعت ہے.ڈاکٹر اطالو کیوسی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ احمدیت کی تاریخ میں پہلے مستشرق ہیں جنہیں نہ صرف مشرف بہ اسلام ہونے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ قبول اسلام سے قبل انہوں نے اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا پہلا اور مستند ترجمہ کرنے کا عظیم الشان علمی جہاد بھی سرانجام دیا.(اسپرانٹو Esperanto) کسی ملک کی زبان نہیں بلکہ باہمی مفاہمت کی آسانی کے لئے ڈاکٹر ایل ایل زامنهوف (۱۸۵۹.۱۹۱۷) ساکن وارسا ( پولینڈ) نے اسے ایجاد کیا اور اس کے متعلق پہلی کتاب ۱۸۸۷ء میں لکھی.یہ زبان انیسویں صدی کے آخر سے ہی بہت مقبول اور کامیاب ہے.اس کی صرف ونحولا طینی طرز پر ہے مگر ذخیرہ الفاظ متعدد یورپی زبانوں سے ماخوذ ہے.دنیا کی اہم زبانوں کے شاہکار اس میں ترجمہ ہو چکے ہیں.کچھ کتابیں طبع زاد بھی ہیں.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ڈاکٹر صاحب موصوف سے بہت محبت و شفقت رکھتے تھے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : ڈاکٹر محمد عبد الہادی اطالو کیو سی اپنے حد درجہ اخلاص ، تقویٰ اور استقامت کے باعث مجھے بھائیوں سے بڑھ کر عزیز تھے اور انہیں بھی میرے ساتھ گہری محبت تھی.اگر چہ محض اللہ تعالیٰ کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 96 سال 1969ء فضل سے نسبتا دیر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن سے وابستہ ہو کر عشاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمرے میں شامل ہوئے لیکن راستی ، پاکبازی اور تقویٰ کی راہوں پر بڑی تیزی سے گامزن ہو کر پہلے آنے والوں سے بہتوں پر سبقت لے گئے.ذلک فضل الله يؤتيه من يشاء و ڈاکٹر صاحب نو زبانوں کے عالم تھے اور وہ چھ سال کی گہری تحقیق ، دعاؤں اور استخارہ کے بعد جولائی ۱۹۶۹ء میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی بیعت سے مشرف ہو کر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے.حضور نے آپ کا اسلامی نام محمد عبدالہادی تجویز فرمایا.حضور کے دورہ یورپ ۱۹۶۷ء کے دوران بھی آپ کو حضور کی ملاقات کا شرف حاصل ہوا.اس کے بعد سے حضور کے ساتھ ان کی خط و کتابت متواتر جاری رہی.حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۷ء کے موقع پر آپ کے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ میں ابھی تک چرچ میں جاتا ہوں لیکن وہاں میرا دل لا الہ الا الله حمد رسول اللہ پکار رہا ہوتا ہے.انہی دنوں ہلسنکی (فن لینڈ ) میں آپ کو اسپرانٹو کی عالمی کانگرس میں اسلامی مندوب کی حیثیت سے شرکت کی دعوت ملی جہاں دنیا کے اڑ میں ممالک کے نمائندوں کے سامنے آپ نے اسلام کی خوبیوں پر خطاب فرمایا.کانگرس کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرنے کے لئے یورپ کے مختلف ممالک کے اخباری نمائندے بھی موجود تھے.چنانچہ فرانس کے سب سے بڑے اخبار لی فگارو ( Le Figaro) نے اپنی اشاعت مورخہ ۳ را گست ۱۹۶۹ء میں کانگرس کی روداد سپر داشاعت کرتے ہوئے لکھا کہ کانگریس میں جو مند و بین شامل ہوئے ان میں غیر معمولی قابلیتوں اور صلاحیتوں کے مالک جناب ڈاکٹر کیوی کی شخصیت سب سے نمایاں اور ممتاز تھی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح نے اس عظیم الشان شخصیت کے داخلِ اسلام ہونے پر انتہائی مسرت کا اظہار فرمایا.اوپر ڈاکٹر پروفیسر عبدالہادی کیوسی کے شہرہ آفاق اسپرانٹو زبان میں ترجمہ قرآن کا ذکر کیا گیا ہے.یہ ترجمہ جولائی ۱۹۲۹ء میں ہی منظر عام پر آ گیا تھا.کوپن ہیگن (ڈنمارک) کے اسپرانٹو لٹریچر شائع کرنے والے ایک پبلشر جناب ٹور بن کیلٹ (Torben Kehlet) نے اسے غیر معمولی دلچسپی اور ذوق وشوق کے ساتھ شائع کرنے کا اہتمام کیا.جماعت احمدیہ کی طرف سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید نے ایک خطیر رقم بطور عطیہ کے اس اشاعتی ادارہ کو دی جس کے باعث اصل لاگت سے بھی کم قیمت کتاب کے ہدیہ کے طور پر مقرر کی گئی اور اس کا پہلا
تاریخ احمدیت.جلد 25 97 سال 1969ء ایڈیشن شائع ہوتے ہی چند دنوں کے اندر اندر تقریباً ختم ہو گیا.اس ترجمہ پر قاہرہ کے ڈاکٹر ناصف اسحاق نے جو اسپرانٹو کے مسلمہ عالم اور اسپرانٹو عربی لغت کے مصنف تھے اس ترجمہ پر نظر ثانی کی اور اسپرانٹو کی عالمی تنظیم کے صدر پروفیسر ڈاکٹر Lapenna نے اسپرانٹو زبان کے معیاری ہونے کی پڑتال کی اور اس کا دیباچہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رقم فرمایا جس میں قرآنی آیات کی روشنی میں خدا کے اس مقدس کلام کا نہایت دلکش اور روح پرور انداز میں تعارف کرایا.یورپ کے علمی حلقوں نے اس ترجمہ قرآن کو ۱۹۶۹ء کی مقبول ترین کتاب قرار دیا.چنانچہ اسپرانٹو موومنٹ ان دی ورلڈ (Esperanto Movement in the World) کے سرکاری رسالہ اسپرانٹو (The Esperanto) نے ۱۹۶۹ء کی مقبول ترین کتاب“ کے زیر عنوان لکھا:."La Nobla Korano نامی کتاب (یعنی قرآن مجید ) جسے ڈاکٹر اطالوکیوسی نے براہ راست قرآن کے عربی متن سے ترجمہ کیا ہے.یونیورسل اسپرانٹو ایسوسی ایشن کے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۱۹۶۹ء کی کامیاب ترین کتاب کہلانے کی مستحق ہے.یہ اعداد و شمار فروخت ہونے والی کتب کی تعداد سے متعلق یونیورسل اسپرانٹو ایسوسی ایشن کی بک سروس کی طرف سے فراہم کردہ اطلاع پر مبنی ہیں.بک سروس مذکور کے جاری کردہ اعداد و شمار ہی اس بین الاقوامی زبان کی بک مارکیٹ کے متعلق سب سے زیادہ قابل اعتماد پیمانہ متصور ہوتے ہیں.پبلشنگ کمپنی 'ٹی کئے کی شائع کردہ یہ پہلی کتاب جس طرح ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئی ہے اس سے سلسلہ کتب بعنوان ” مشرق و مغرب کے اعلیٰ معیار کی نشان دہی ہوتی ہے.یادر ہے اسپرانٹو زبان میں قرآن مجید کا یہ ترجمہ صرف چند مہینوں کے اندراندر سارا کا سارا فروخت ہو گیا تھا اور اب دوسری بار شائع کیا جا رہا ہے.“ ازاں بعد ڈاکٹرمحمد عبد الہادی کیوی صاحب کو تر جمہ کی اشاعت پر اکیڈمی آف اسپرانٹو کارکن بھی منتخب کر لیا گیا.انہوں نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں ۲۱ مارچ ۱۹۷۰ء کو لکھا:.کل ہی اکیڈمی آف اسپرانٹو کے صدر صاحب کی طرف سے مجھے یہ اطلاع موصول ہوئی کہ اکیڈمی مذکور کے اجلاس منعقدہ ۱۴ مارچ میں مجھے اکیڈمی کا رکن منتخب کیا گیا ہے.۳۸ میں سے ۳۳ ممبران نے خاکسارکومبر منتخب کئے جانے کے حق میں رائے دی.اس بین الاقوامی زبان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی مسلمان کو اس اکیڈمی کارکن منتخب کیا گیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 98 سال 1969ء برصغیر کے بعض چوٹی کے علمی اور دینی حلقوں کی طرف سے اس ترجمہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا گیا.ہفت روزہ ” صدق جدید لکھنو ( مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۶۹ء) میں ایک یورپی ترجمہ قرآن“ کے عنوان سے حسب ذیل مراسلہ شائع ہوا: قرآن کریم کے ترجموں کا ذکر چونکہ صدقِ جدید میں ہوتا رہتا ہے اس لئے مناسب سمجھا کہ جناب اور جناب کے واسطے سے قارئین صدق جدید کا تعارف ایک نئے ترجمہ قرآن اور ایک نومسلم مستشرق سے کرا دیا جائے.نیا ترجمہ اسپرانٹو (Esperanto) زبان میں جہاں تک کتب مقدسہ کا تعلق ہے صرف بائیبل کا ترجمہ ہوا ہے.مترجم اطالوی نژاد ڈاکٹر اطالو کیوسی ہیں.ان کا اسلامی نام عبدالہادی ہے.اگر چہ ان کی ڈاکٹریٹ ریاضی میں ہے مگر ماہر لسانیات ہیں.اسپرانٹو اور مادری زبان اطالوی کے علاوہ جرمن، فرنچ اور انگریزی میں بھی پوری قدرت ہے.آج کل فرینکفرٹ ، جرمنی میں ایک اطالوی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں.قرآن کریم کے ترجمہ سے پہلے انہوں نے با قاعدہ عربی کی تعلیم حاصل کی اور ترجمہ کے دوران ہی اسلام قبول کر لیا اور مسلمانوں کے بدنام' فرقے جماعت احمدیہ سے منسلک ہو گئے.طباعت سے پہلے ایک مصری ڈاکٹر ناصف نے جو اسپرانٹو کے بھی ماہر ہیں اور خود احمدی نہیں ہیں ترجمہ پر نظر ثانی کی.پہلا ایڈیشن جو اس سال عربی متن اور اسپرانٹو ترجمہ کے ساتھ نہایت عمدہ کاغذ پر طبع ہوا تھا شائع ہوتے ہی ختم ہو گیا.میرے پاس مترجم کا دستخط شدہ نسخہ ہے ورنہ ہدیہ کرتا.اب نمونے کا ایک ورق حاصل ہے.ضخامت ۶۷۰ صفحات جلد نفیس مطبوعہ کو پن ہیگن ( ڈنمارک).مترجم سے میری ملاقات سوئٹزرلینڈ اور جرمنی میں ہوئی...روزے نماز کے پابند ہیں.آج کل حدیث شریف کا انتخاب اطالوی میں ترجمہ کر رہے ہیں.ڈاکٹر کیوسی نے اپنے ترجمہ میں ایک خاص جدت کی ہے.اپنے ترجمہ پر Holy Quran یعنی قرآن مقدس کے ہم معنی الفاظ نہیں لکھے.کہتے ہیں قرآن کریم ہے، مجید ہے، عظیم ہے عزیز ہے، کبیر ہے، حکیم ہے.یہ ہولی یعنی مقدس کا لفظ بائبل کی تقلید میں آگیا ہے.چنانچہ ان کا ترجمہ La Nobla Korano یعنی قرآن کریم کے نام سے طبع ہوا.ترجمہ کی خوبی کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسپرانٹو کے ایک مشہور دہر یہ عالم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے سورۃ النبا کی شروع کی آیات آلَم نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهْدًا وَجَنْتِ الْفَافًا کے ترجمہ کا حوالہ دیتے
تاریخ احمدیت.جلد 25 99 سال 1969ء ہوئے کہا ہے کہ اگر چہ وہ عربی نہیں جانتے لیکن اس ترجمہ سے ہی وہ قرآن کریم کی فصاحت اور لحن کا اندازہ لگا سکتے ہیں.تسخیر قلوب کے لئے اسوۂ رسول پر عمل پیرا ہونے کی تحریک کیم اگست ۱۹۶۹ءکو حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مسجد احد یہ کلڈ نہ مری میں ایک اہم خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضور نے القاء ربانی کے تحت پوری جماعت کو اس مضمون کی طرف بالوضاحت توجہ دلائی کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے قلوب جیتنے کے لئے حسنِ اخلاق اور حسنِ سلوک کی دو عظیم طاقتیں دی گئیں.وہ عظیم انقلاب جو اسلام کے حق میں مقدر ہے اس کا وقت آچکا ہے.اس عظیم روحانی انقلاب کو بر پا کرنے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان دو عظیم طاقتوں کے جلوے ہماری زندگیوں میں بھی نظر آئیں تا کہ ہم انسانیت کے دل عملاً جیت میں اوران کو مصلیاللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لارکھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی نہایت قیمتی نصائح 98 اس سال ربوہ میں فضل عمر درس القرآن کلاس ۲ اگست سے ۲۱ اگست ۱۹۶۹ء تک منعقد ہوئی.جس میں ایک سو بانوے طلباء اور دوسوسات طالبات نے شرکت کی.کلاس کا مقررہ نصاب کامیابی سے ختم ہوا.سید نا حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے قیام ربوہ کے دوران طلباء اور طالبات نیز منتظمین کو متعدد بار بیش قیمت ہدایات اور نصائح سے نوازا.۷/اگست کو حضور نے مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب سے کلاس کے بعض ضروری کوائف دریافت فرمائے.حضور نے کلاس میں شرکت کرنے والے طلباء کی تعداد، جماعتوں کی نمائندگی، طلباء کی بلحاظ عمر درجہ بندی ، ان کی تعلیم و تدریس کے پروگرام نیز ان کے قیام وطعام کے انتظامات سے متعلق ضروری امور دریافت فرمائے اور اس سلسلہ میں ضروری ہدایات سے نوازا.حضور نے بعد نماز مغرب ایک پر معارف تقریر میں یہ حقیقت واضح فرمائی کہ : 99.قرآن کریم در اصل پوری اور مکمل کتاب ہے.دیگر مذہبی کتابیں جو ہیں وہ تو اس کی تفسیر ہیں نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر ہے.آپ کی زندگی
تاریخ احمدیت.جلد 25 100 سال 1969ء کا ہر لمحہ قرآن کریم کی تفسیر تھا کیونکہ آپ نے قرآن کریم کے مطابق اپنی زندگی گزاری تھی اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو قرآن کریم کی تعلیم کا ایک پہلو ہے.ہم قرآن کریم کو اس لئے پڑھتے ہیں کہ یہ ایک مکمل ہدایت نامہ ہے، مکمل شریعت ہے اور عمل کرنے والی کتاب ہے.خالی پڑھنے اور پھر سو جانے والی کتاب نہیں.اس کو اس نیت اور عزم سے سیکھنا چاہیے کہ ہمیں اس کے مطابق اپنی زندگی گذارنا ہے....پس قرآن کریم کو اس نیت کے ساتھ سیکھنا چاہیے کہ اس پر عمل کرنا ہے.جو شخص قرآن کریم کو اس نیت کے ساتھ اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق نہیں سیکھتا وہ حقیقتاً احمدی نہیں.اگر وہ باغیانہ خیالات رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے قرآن کریم سیکھنے کی ضرورت نہیں تو وہ یقیناً احمدی نہیں لیکن اگر وہ باغیانہ خیالات نہیں رکھتا.ہاں اس کا اس طرف رجوع نہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے اس طرف توجہ دلائیں.۹ راگست کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.ہے کہ 100 اس وقت میں یہ بات بچوں کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہ ایمان جو ضروری تھا وہ سب اس میں مہیا نکلا تو ہمیں اپنے ہر مسئلہ کے حل کے لئے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہیے.ادھر ادھر نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ قرآن کریم ہی سے ہمیں سب کچھ مل جاتا ہے.قرآن کریم اقتصادیات کی کتاب نہیں لیکن یہ انسانی حقوق کو قائم کرنے والی کتاب ہے.اس لئے اس میں اقتصادیات کے اصول بھی پائے جاتے ہیں.سیاست کے اصول بھی پائے جاتے ہیں.زراعت کے اصول بھی پائے جاتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے دیتا ہے وہ انہیں سمجھ لیتے ہیں.ضرورتوں کے ساتھ ساتھ علوم کھلتے جاتے ہیں.پس قرآن کریم سے اس رنگ میں پیار کرنا چاہیے کہ اس کے بعد کسی چیز کی ضرورت محسوس نہ ہو.حضور نے سفر کراچی کے پیش نظر ۱۵اگست کو بعد نماز جمعہ سب طلباء کو شرف مصافحہ بخشا اور بعد نماز مغرب الوداعی خطاب میں فرمایا کہ ہمارا چاند تو قرآن مجید ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 101
تاریخ احمدیت.جلد 25 نے فرمایا ہے: 101 قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے سال 1969ء ہمیں چاہیے کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں.قرآن کریم نور مجسم ہے.اس نور سے فائدہ اٹھانا ہر احمدی کا فرض ہے.آخر میں حضور نے فرمایا کیونکہ میں ربوہ سے باہر جارہا ہوں اور کلاس کے اختتام پر ربوہ میں موجود نہیں ہونگا.اس لئے میں آج ہی اجتماعی دعا کرا دیتا ہوں.اس کے بعد حضور نے لمبی اور پُر سوز اجتماعی دعا کرائی.مولانا ابوالعطاء صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح وارشاد اس کلاس کی رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ قریبی نہر یکو والہ بنگلہ تک لا راگست کو سب طلباء پیر و جواں پیدل گئے.حضور بھی از راہ شفقت نصرت آباد (ڈیرہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نزدکوٹ قاضی.ربوہ ) جاتے ہوئے اور وہاں سے واپسی پر طلباء سے ملنے کے لئے اس جگہ تشریف فرما ہوئے اور موجود اساتذہ وطلباء سے محبت بھری باتیں کرتے رہے.فوٹو بھی ہوا.وہاں پر طلباء نے اپنے اجلاس میں آئندہ کے لئے مفید تجاویز بھی پیش کیں.طلباء کو ناشتہ وہاں پر ہی پیش کیا گیا.حضور نے ایک دن مسجد مبارک میں دریافت فرمایا کہ کون کون سے طلباء ایسے ہیں جن کے پاس تفسیر صغیر موجود نہیں؟ حضور نے دس طلباء اور دس طالبات کو تفسیر صغیر خریدنے کے لئے نصف قیمت دو صد روپے اپنی جیب سے عطا فرمائی.طلباء وطالبات کو تفسیر خرید کر دیں گئی.102 ایک اور دوست مکرم مبارک احمد صاحب نذیر آف سیرالیون (ابن حضرت مولانا نذیر احمد صاحب على رئيس التبلیغ مغربی افریقہ نے بھی اس سلسلہ میں ہیں روپے عطیہ پیش کیا....حضور انور کی اس محبت و شفقت سے طلباء پر روحانی اثر کے علاوہ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ قرآن مجید کی تعلیم اور اشاعت کے لئے آپ کی روح میں کس قدر جوش اور ولولہ ہے.کلاس کی اختتامی تقریب ۲۱ /اگست کو بعد نماز عصر دارالضیافت کے صحن میں مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ کی زیر صدارت منعقد ہوئی.صاحب صدر نے طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے.طالبات کی اختتامی تقریب ۲۱ را گست کو پانچ بجے شام لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کی زیر صدارت منعقد ہوئی.آپ نے کامیاب طالبات میں انعامات تقسیم فرمائے اور زریں نصائح سے نوازا.108
تاریخ احمدیت.جلد 25 102 سال 1969ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام اہلِ ثروت مخلصین سلسلہ کے نام سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۱۳ اگست ۱۹۶۹ءکو جماعت احمدیہ کے اہلِ ثروت مخلصین کے نام حسب ذیل روح پرور پیغام دیا:.اہل ثروت مخلصین جماعت! آپ اپنے لئے ذریعہ معاش کے انتخاب میں آزاد ہیں.خدا کے فضل سے ہر طرف وسیع میدانِ عمل موجود ہیں.خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں اور اس کی دی ہوئی توفیق سے آپ اپنے اور اپنے اہل وعیال کے گذر اوقات کے لئے ہر ممکن ذریعہ استعمال کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے اموال میں برکت دیتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو اپنی اور اپنے اہل وعیال کی ضروریات پورا کرنے میں خدا کے فضل سے بالعموم کوئی دقت نہیں ہوتی.مگر کچھ ایسے دوست بھی ہیں جنہوں نے ایک مقدس فریضہ کی ادائیگی کے لئے دنیا سے منہ موڑ لیا ہے.درویشان قادیان جو اپنے ذریعہ معاش کے انتخاب میں آپ کی طرح آزاد نہیں.جن کا میدانِ عمل قادیان کی مختصر سی بستی تک محدود ہے.وہ وہاں صرف اپنی نہیں ساری جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں.ہمارے دل ان کے لئے محبت اور احترام کے جذبات سے مملو ہیں.ہم ان کے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہم سب کی نمائندگی کرتے ہوئے اس مقدس فریضہ کی ادائیگی میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہے اور دنیا سے منہ موڑ لیا ہے.دنیا باوجود اپنی وسعتوں کے ان کے لئے محدود ہو کر رہ گئی ہے.ان کے ذرائع معاش محدود ہیں.مگر ضروریات انسانی ہم جیسی ہی ہیں.پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ ہم ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدم رکھیں اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے لئے خیرات کے طور پر نہیں بلکہ قدردانی اور محبت کے جذبات کے ساتھ ان کی ہر طرح امداد کریں.تا وہ فارغ البالی اور بے فکری کے ساتھ مرکز سلسلہ اور شعائر اللہ کی حفاظت کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں دن رات مصروف رہیں.اللہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 103 سال 1969ء تعالیٰ آپ کے اموال میں اور زیادہ برکت دے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.۱۳ ظهور ۱۳۴۸ هش مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث 104 یہ پیغام جو نبی احباب جماعت تک پہنچا.ہر طرف سے لبیک کی آوازیں آنی شروع ہو گئیں اور صرف دو ماہ میں تحریک درویش فنڈ کے لئے نہ صرف پچاس ہزار روپے کے وعدے آ گئے بلکہ چونتیس ہزار ۳۴۰۰۰ روپے سے زائد نقد وصولی بھی ہوگئی.اس سلسلہ میں چوہدری مبارک علی صاحب فاضل ناظر بیت المال آمد نے بدر کے جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۹ء میں مختلف ممالک کے ان ۲۶۲ خوش نصیب دوستوں کے ناموں کی پہلی فہرست شائع کی جنہوں نے اپنے مقدس امام کی آواز پر لبیک کہنے کی سعادت پائی.نیز بعض مخلصین جماعت کے ایثار و قربانی کا ولولہ انگیز لہجہ میں ذکر کرتے ہوئے لکھا:.حضور انور کا پیغام ملتے ہی ہمارے مخلص اور بزرگ محترم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب کلکتہ نے اپنے خاندان کی طرف سے ایک خطیر رقم پیش فرمائی.محترم سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کو اپنے درویش بھائیوں سے جس رنگ میں محبت ہے وہ الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی گویا وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کماتے ہی صرف درویشوں کے لئے ہیں.اسی طرح کلکتہ کے ایک اور مخلص دوست محترم سیٹھ محمد حسین صاحب اور مکرم شہزادہ پرویز صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنے کی توفیق بخشی ہے.جنوبی ہند میں خدا تعالیٰ نے حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب یاد گیر اور حضرت سیٹھ محمدحسین صاحب مرحوم چنتہ کنٹہ کے خاندانوں کو نمایاں رنگ میں درویش فنڈ کی سعادت میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.چنانچہ محترم الحاج سیٹھ معین الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ حیدر آباد اور محترم سیٹھ محمد الیاس صاحب امیر جماعت احمد یہ یاد گیر نے نہ صرف درویش فنڈ میں نمایاں حصہ لیا ہے بلکہ جنوبی ہند کی جماعتوں میں دورہ کر کے مرکز کے ساتھ مخلصانہ تعاون کا علی نمونہ بھی پیش کیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفر کراچی 105 حضرت خلیفہ امسح الثالث اس سال کراچی بھی تشریف لے گئے.اس سفر میں چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، میر داؤد احمد
تاریخ احمدیت.جلد 25 104 سال 1969ء صاحب، صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اور چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان بھی کراچی تشریف لے گئے.حضور نے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو امیر مقامی اور مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.کراچی میں حضور کا قیام الامتیاز P.E.C.H.S43/10-C میں تھا.حضور ۶اراگست کو بذریعہ موٹر کا ر لا ہور تشریف لے گئے اور اسی روز بذریعہ ہوائی جہاز کراچی پہنچ گئے.اور ایک ماہ تک کراچی کی سرزمین کو انوار قرآنی سے منور کرنے اور تشنہ روحوں کو آب بقا سے سیراب کرنے اور اپنی زیارت سے مشرف کرنے کے بعد ۵ استمبر کو مرکز احمدیت ربوہ میں مراجعت فرما ہوئے.جماعت احمدیہ کراچی نے اپنے محبوب و مقدس امام کے وجود مبارک سے اپنی گذشتہ روایات سے بڑھ کر فیض حاصل کیا خصوصاً جماعت کراچی کی سب ذیلی تنظیموں کو خاص تقاریب میں خلیفہ راشد کی زبان مبارک سے پُر معارف اور بابرکت ارشاد سننے کی سعادت نصیب ہوئی.۱۷ اگست کو حضور نے گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک علی الترتیب مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کراچی، مجلس عاملہ انصار اللہ اور مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کو الگ الگ طور پر اجتماعی ملاقات کا موقع عطا فرمایا.جماعت کراچی کی مجلس عاملہ کو ہدایت فرمائی کہ انہیں جماعتی امور کی انجام دہی کے لئے بڑی نرمی اور حسن سلوک سے کام لینا چاہیے.اصلاح احوال کے مختلف اور مناسب طریقوں میں سے دوستانہ تعلقات کو اولیت دینی چاہیے.قرآن کریم کا سیکھنا اور سکھانا جماعتی تربیت کا ایک بہت بڑا اور مؤثر ذریعہ ہے اس لئے قرآن پاک کے درس و تدریس کا خاطر خواہ انتظام ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم ہمارا چاند ہے اس میں اترنے والا خاک سمیٹنے کی بجائے قرآنی انوار سے منور اور ابدی صداقتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے.نیز فرمایا ہمارا ملک اس وقت بڑے نازک دور سے گذر رہا ہے اور خطرہ ہے کہ وطن عزیز کا غریب اور کمزور حصہ اس کی لپیٹ میں نہ آجائے.اس لئے وقت کا سب سے بڑا تقاضا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو اس سے ہرگز متاثر اور مغلوب نہ ہونے دیں انہیں یہ ذہن نشین کرا دیں کہ اقتصادی مسائل کا بہترین اور حقیقی حل صرف اسلام کا اقتصادی نظام ہی پیش کرتا ہے.لیکن ہماری کوششیں اسی صورت میں بار آور ہو سکتی ہیں جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی کچی اتباع کے نتیجہ میں ہمارے اندر آپ کے حسن اخلاق کی جھلک نمایاں ہو اور آپ کے حسن سلوک کا پر تو صاف نظر آنے لگے.-
تاریخ احمدیت.جلد 25 105 سال 1969ء حضور نے مجلس عاملہ انصار اللہ کو تربیت کا ٹھوس پروگرام مرتب کرنے اور پھر اس کو بروئے کار لانے کے لئے صحیح طریق کار اختیار کرنے کا ارشاد فرمایا.مجلس خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ پر حضور نے یہ حقیقت واضح فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے ایسی حکیمانہ تعلیم دی ہے اور ایسا اعلیٰ و ارفع طریق کار پیش کیا ہے جس کے نتیجہ میں مزدور کو ہڑتال کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.دنیا سے غربت کو مٹانے کے لئے قرآن کریم نے سائل اور محروم کا جو تصور پیش کیا ہے.حضور نے اس کی پر حکمت تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل یہ ساری خرابی اور بدامنی اس لئے پیدا ہو رہی ہے کہ غریب کو اس کے وہ حقوق نہیں مل رہے جو اسلام نے قائم کئے.دنیا اس وقت حیرانی و پریشانی میں سرگرداں ہے کیونکہ اسے اپنے اقتصادی مسائل کے صحیح حل کا علم نہیں اس لئے تاریکیوں میں بھٹکنے والی روحوں کے لئے آپ کو مشعل راہ بنا چاہیئے.دکھ درد کی ماری ہوئی انسانیت کا مداوا آپ کو بہترین اخلاق کی صورت میں پیش کرنا چاہیے.۱۸ اگست کو حضور نے بیرونی ممالک کے بعض نئے احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان میں قرآن کریم کو سیکھنے اور سکھانے کا انتہائی قابل قدر جذبہ پایا جاتا ہے.قرآن پاک سے ان کا پیار اور لگاؤ اور قرآنی علوم سے بہرہ ور ہونے کا ذوق و شوق اپنے اندر ایک مثالی رنگ رکھتا ہے.پاکستانی جماعتوں بالخصوص نو جوانوں کو قرآن مجید سیکھنے اور اس کے علوم پر حتی المقدور عبور حاصل کرنے کے لئے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھنی چاہیے.۱۹ را گست کو حضور نے نہایت لطیف پیرایہ میں تو کل علی اللہ کے مضمون پر روشنی ڈالی اور قرآنی آیات سے اس کی بنیادی اہمیت واضح فرمانے کے بعد احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ وہ تو حید خالص پر قائم رہتے ہوئے شرک کے ہر پہلو سے بچیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارا واحد سہارا اور حقیقی پناہ گاہ ہے.۲۰ راگست کو بہت سے مقامی احباب کے علاوہ لاہور ، حیدر آباد اور کرونڈی (سندھ) کے دوستوں کو حضور سے ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی.ازاں بعد حضور نے سیرت کونسل کراچی کے ارکان کو ملاقات کا شرف بخشا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مقدسہ کے لٹریچر کی نمائش کے مقدس کام کو مزید عمدہ اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے ضروری ہدایات دیں.مغرب وعشاء کے بعد حضور حسب دستور مجلس عرفان میں رونق افروز ہوئے اور خاندانی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں قرآنی احکام پر بڑے روح پرورانداز میں روشنی ڈالنے کے بعد تربیت اولاد کی اہمیت بیان فرمائی اور اس بات پر خاص
تاریخ احمدیت.جلد 25 106 سال 1969ء زور دیا کہ والدین کو اپنے بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا کام خود اپنی نگرانی میں سرانجام دینا چاہیے اور اسی طرح احمدیت کے لئے اپنے اخلاص اور قربانیوں کے رنگ میں اپنی اولاد کو بھی رنگین کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.حضور نے فرمایا اس سلسلہ میں اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ ہمارے گھر ہمیشہ یادخدا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مقدسہ کے ذکر خیر سے معمور و معطر رہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت طیبہ اور تاریخ احمدیت کے ایمان افروز حالات و واقعات پر مشتمل کتابوں کے پڑھنے کی بھی تلقین کرتے رہنا چاہیے تا کہ احمدیت کی نئی پودا اپنی تاریخ کے آئینہ میں اپنے اسلاف کی قربانیوں اور ایثار کو دیکھ کر اپنے اندر بھی اخلاص اور وفا شعاری کا احساس پیدا کرے اور تبلیغ و اشاعت دین کی وسیع ذمہ داریوں کو کما حقہ نباہنے کے لئے اپنے باپ دادا کے نقش قدم پر چل کر قر بانیوں کا اعلیٰ نمونہ دکھائے.وو ۲۲ اگست کی مجلس عرفان میں حضور نے پوری جماعت کو بالعموم اور اطفال وخدام کو بالخصوص ارشاد فرمایا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و سوال پر مختلف کتابوں میں سے سب سے پہلے حیات طیبہ ( مصنفہ شیخ عبد القادر صاحب مرحوم ) کا گہرا مطالعہ کریں.۲۴ را گست کو احباب جماعت حضور کی ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے جن میں کراچی اور بعض دوسری جماعتوں کے علاوہ بعض غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.حضور دوران ملاقات دیر تک دینی اور علمی موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے.شام کو حضور نے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک مرحوم اور ان کی اہلیہ صاحبہ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جو ترکی میں کار کے ایک المناک حادثہ میں شہید ہو گئے تھے.حضور کی خدمت بابرکت میں مکرم نعیم احمد خاں صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی نے درخواست کی تھی کہ حضور مجلس کی طرف سے دعوت عصرانہ قبول فرمائیں.حضور نے اس درخواست کو شرف قبولیت بخشا اور ۳۰ / اگست کو عصر کی نماز سے فارغ ہو کر حضور مع مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، مکرم سید میر داؤ د احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم اے، صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب ، صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم اے اور چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب پرائیویٹ سیکرٹری پونے چھ بجے احمدیہ ہال تشریف لے گئے.جہاں مجلس کی طرف سے دعوت عصرانہ کا وسیع پیمانہ پر انتظام کیا گیا تھا.اس دعوت میں مجالس خدام الاحمدیہ کراچی ، ڈرگ روڈ، ملیر اور کورنگی کریک
تاریخ احمدیت.جلد 25 107 سال 1969ء کے قریباً ساڑھے چھ سو خدام کے علاوہ چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی اور دیگر عہد یداران جماعت احمدیہ کراچی نے بھی شمولیت کی.چائے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور کے ارشاد پر ثاقب زیروی صاحب مدیر رسالہ لاہور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام نہایت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنایا.اس کے بعد حضور نے تمام خدام کو باری باری مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.ے ستمبر کو کراچی، ربوہ، میر پور خاص، ٹنڈو محمد خان، کرونڈی، کوٹری ، حیدر آباد اور نوابشاہ کی جماعتوں کے کثیر التعداد احباب اپنے محبوب آقا کی زیارت سے مشرف ہوئے.بعض غیر از جماعت دوستوں نے بھی حضور سے ملاقات کی حضور ان سے دیر تک مختلف دینی اور علمی موضوعات پر گفتگو فرماتے رہے.اسی روز چھ بجے شام حضور نے احمدیہ ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے اجلاس عام سے خطاب فرمایا اور نو جوانان احمدیت کو نصیحت کی کہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں توحید حقیقی کو قائم کریں اُسی کو حقیقی کارساز سمجھیں اسی پر توکل اور بھروسہ رکھیں اور اسلام کی عالمگیر فتح کے لئے یکجان ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں اور ہر آن مصروف دعار ہیں.9 ستمبر کو کراچی کی احمدی مستورات کے ایک غیر معمولی اجلاس سے حضور نے خطاب فرمایا.یہ اجلاس بھی احمد یہ ہال میں منعقد ہوا.حضور نے فرمایا احمدی مائیں اپنے بچوں کی صرف جسمانی یا مادی ضروریات کے مہیا کرنے پر ہی اکتفا نہ کریں بلکہ اپنی اولاد کو بھی الہی صفات کے رنگ میں رنگین بنانے کی کوشش کریں.سید نا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی روشنی میں ان کے اندر بھی نیک اطوار پیدا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھانہ رکھیں.ان کا یہ اولین فرض اور اہم ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی طرف سے کبھی غافل نہ ہوں.ماحول کے ہر قسم کے گندے اور بداثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے اپنے بچوں کی ایسے رنگ میں تربیت کریں کہ وہ نہ صرف خوش اطوار اور با اخلاق ہی ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کے متوالے، اسلام کے فدائی، دین کے حقیقی خادم اور احمدیت کے بچے جاں نثار بھی ثابت ہوں.اگر احمدی خواتین اس طریق پر اپنے بچوں کی تربیت کریں گی تو قوم کو ان کے بچوں پر بجاطور پر فخر ہوگا بلکہ وہ قیامت تک سرمایہ افتخار بن جائیں گے.استمبر بوقت پانچ بجے شام مجلس انصاراللہ کراچی کی طرف سے اپنے پیارے آقا اور محبوب امام کے اعزاز میں دعوت عصرانہ کا انتظام تھا جس میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صدر مجلس انصار
تاریخ احمدیت.جلد 25 108 سال 1969ء اللہ مرکزیہ، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر، چوہدری ظہور احمد صاحب قائد مال اور چو ہدری ظہور احمد صاحب باجوہ پرائیویٹ سیکرٹری نے بھی شمولیت کی.اس موقع پر سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے دوسو سے زائد انصار کو ایک نہایت روح پرور خطاب سے نوازا.فرمایا کہ انصار اللہ کی اصل اور بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ جماعت کے ماحول کو پاکیزہ رکھنے اور مطہر بنانے کے لئے اندرونی اور بیرونی فتنوں سے ہمیشہ چوکس اور بیدار ر ہیں.اُن کا سد باب کرنے میں وہ کوئی کسر اٹھانہ رکھیں.وہ شیطان کا کوئی وار کامیاب نہ ہونے دیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اخلاقی اور روحانی رفعتوں کے جس بلند مقام پر سرفراز ہے اس پر برقرارر ہے.جماعتی اتحاد اور شیرازہ میں نفاق کا کوئی رخنہ واقع نہ ہو اور یہ مبارک قافلہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ منزل مراد کی طرف رواں دواں رہے.حضور نے بعض بیرونی دباؤ اور ان کے مہلک اثرات اور گمراہ کن نتائج کا ذکر کرتے ہوئے انصار اللہ کو متوجہ کیا کہ وہ اپنے حسن عمل اور حسن اخلاق سے ثابت کریں کہ اسلام ایک حسین مذہب ہے جو بنی نوع انسان کی دینی و دنیوی فلاح و بہبود کا ضامن ہے.حضور نے اندرونی فتنوں کے بعض موجبات اور محرکات کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا جماعت میں ایک کمزوری عدم علم اور جہالت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور حقیقت حال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بسا اوقات ناشائستہ باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جس کے تدارک کی بہتر صورت یہ ہے کہ مناسب طریق پر ایسے عنصر کو سمجھا دیا جائے.البتہ اس میں بھی فراست سے کام لینا چاہیے اور اس بات کو ذہن میں رکھا جائے کہ نظام کو جہالت کے سامنے دینا نہیں چاہیے تا کہ بدخصلت کو نا جائز شہ نہ ملنے پائے.حضور نے فرمایا ایک اور کمزوری روحانی مرض سے تعبیر کی جاتی ہے جو بڑھتے بڑھتے بالآخر نفاق پر منتج ہوتی ہے.منافقت در اصل روحانی امراض کی بگڑی ہوئی شکل ہے جو بظاہر مصلحانہ لباس میں مگر بباطن مفسدانہ عزائم کی حامل ہوتی ہے.اس مرض اور اس کے اثرات کا تدارک بڑا ضروری ہے اور اس کی ذمہ داری صرف مجلس انصار اللہ تک محدود نہیں بلکہ جماعت کا نظام جس جس شکل میں موجود ہے سب کا یہ فرض ہے کہ حسن ظن مگر ساتھ ہی مومنانہ فراست سے کام لیتے ہوئے ہر ممکن تدابیر عمل میں لائیں اور اصلاح کی مقدور بھر کوشش کریں.اگر اصلاحی کوششیں کارگر نہ ہوں اور مرض بڑھتا چلا جائے جس سے جماعت کے شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر آخری اور انتہائی قدم خلیفہ وقت کی صوابدید
تاریخ احمدیت.جلد 25 109 سال 1969ء پر منحصر ہے ہر ایک کا یہ کام نہیں.اس نشتر و اللہ تعالیٰ کی راہنمائی میں امام وقت کے محتاط ہاتھ ہی استعمال کر سکتے ہیں ایسے روحانی بیمار اور نفاق زدہ انسان کے ساتھ نرمی ، شفقت اور ڈھیل دیئے جانے کو امام وقت کی کمزوری پر محمول کرنا بڑی نادانی ہے.دراصل ان کی مفسدانہ کاروائیوں سے چشم پوشی کرنا اور صبر سے برداشت کرنے کے پیچھے امام وقت کا انتہائی رحم دلانہ اور ہمدردانہ جذ بہ کارفرما ہوتا ہے تا شاید یہ شخص سنبھل جائے اور ہلاکت سے بچ جائے.اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد نہ بنے اس لئے ہزار دواؤں اور ہزار دعاؤں کے بعد جماعت کے وسیع تر مفاد کے پیش نظر انتہائی قدم ناگزیر ہوتا ہے.یہ در اصل شیطانی دباؤ اور فتنے ہیں جن کا ہر وقت چوکس اور بیدار رہ کر سد باب کرنے میں کوشاں رہنا چاہیے.ہمارے شفا خانے کے دروازے ہر وقت کھلے رہنے چاہئیں.حضور نے ہدایت فرمائی کہ جہاں بھی کوئی اس قسم کا مرض نمودار ہو.جہاں بھی کوئی اس قسم کا فتنہ سراٹھائے کوئی ایسا نا خوشگوار واقعہ دیکھے یا سنے.اس کے متعلق بے کم و کاست بے دھڑک بلاخوف تحقیق مرکز میں اطلاع بھجوا دینی چاہیے.استمبر کو میجر چوہدری عزیز احمد صاحب ڈائریکٹر شاہنواز لیمیٹڈ کراچی 4 بجے شام حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پاگئے.حضور مرحوم کی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے اور قریباً ۱۲ بجے شب نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیر تک دعا کی.بعد ازاں ۲ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں مرحوم کے اخلاص کے پیش نظر نا گہانی وفات پر رنج والم کا اظہار فرمایا اور نماز کے بعد غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھائی.مرحوم کی نعش ۲ ستمبر کی صبح کو بذریعہ ہوائی جہاز ربوہ لائی گئی جہاں نماز جمعہ کے بعد مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے نماز جنازہ پڑھائی اور انہیں بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کر دیا گیا.اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احمد یہ ہال کراچی میں جمعہ کے تین پُر معارف خطبات ارشاد فرمائے.۲۲ اگست کے خطبہ جمعہ میں حضور نے انسانی تخلیق اور اس کے مقصد، انسانی شرف اور اس کے احترام اور انسانی معاشرہ میں مساوات سے متعلق اسلام کی حکیمانہ تعلیم پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا انسانی تاریخ میں پہلی بار اللہ تعالیٰ نے محسن انسانیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ عظیم الشان اعلان کروایا کہ تمام بنی نوع انسان بلا امتیاز رنگ و نسل ، مذہب و ملت ، قوم و ملک اور امیر وغریب انسانی شرف اور مرتبہ کے لحاظ.
تاریخ احمدیت.جلد 25 110 سال 1969ء سے برابر اور مساوی ہیں.ہر انسان احسن تقویم کے شرف سے مشرف ہے.صرف مال و دولت وجہ امتیاز نہیں بلکہ حقیقی اکرام اور دائمی اعزاز کا دارو مدار طہارت قلب اور تقوی اللہ پر ہے.اسلام نے ہر فرد بشر پر قرب الہی کی راہ کھول دی ہے.البتہ اس راہ پر چل کر حقیقی کامیابی کا حصول دراصل خدا کی راہ میں انسان کی مخلصانہ کوششوں، بچی قربانیوں حقیقی مجاہدہ، جذ به فدائیت اور عاشقانہ ایثار کا مرہون منت ہے جنہیں اللہ کی رحمت قبول کرتی ہے.حضور نے بشریت کے کمال یعنی رضائے الہی کے حصول کے لئے انسان کی فطری خواہش کو سیر روحانی سے تعبیر فرمانے کے بعد اس امر کو قرآن کریم کی متعدد آیات سے واضح کیا کہ اسلام نے بلند سے بلند روحانی درجات کے حصول کے لئے استقلال اور استقامت سے اعمال صالحہ بجالانے کو ضروری قرار دیا ہے.دوسرے خطبہ جمعہ (مورخہ ۵ ستمبر ) کو حضور نے تسخیر عالم کی عظیم جدوجہد میں انسان کی چاند تک رسائی کے کارنامے سے پیدا ہونے والے اعتراضات کا ذکر کر کے الارض کے حقیقی مفہوم پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور واضح فرمایا کہ اسی ارضی لباس میں سرتا پا ملبوس اسی زمینی ہوا میں سانس لے کر اور اسی دنیا کے کھانے پینے کی چیزوں کے سہارے چاند پر چند گھنٹے گزار کر واپس آجانے سے قرآن کریم کی ابدی صداقتوں اور حق و حکمت پر مشتمل تعلیم پر قطعاً کوئی حرف نہیں آتا.البتہ اس میں اللہ تعالیٰ کی یہ شان نظر آتی ہے کہ اس نے انسان کو کتنی ذہنی اور دماغی طاقتیں عطا فرمائی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کو صحیح رنگ میں استعمال کر کے چاند تک پہنچنے کے عظیم تاریخی کارنامے سے سرفراز ہوا.۲ ستمبر کے خطبہ جمعہ میں حضور نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات کی روشنی میں مومنوں، کافروں اور منافقوں کی خصوصیات، کیفیات اور علامات نہایت شرح وبسط سے بیان فرما ئیں اور بتایا کہ مومنین اور منکرین کے درمیان ایک گروہ منافقین کا ہوتا ہے جو دونوں گروہوں سے اپنی محبت و وفا کا دم بھرتا ہے اور مصلح کے لباس میں فتنہ گر کی حیثیت میں جماعت میں انتشار پھیلاتا ہے اور خدائے علام الغیوب اور اس کے مومن بندوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ مومنوں کا ذکر کر کے اپنے مومن بندوں پر بہت بڑے اعتماد کا اظہار فرمایا ہے اس لئے ہماری کوشش اور دعا یہی ہونی چاہیے کہ ہم انشاء اللہ اس اعتماد پر پورا اتریں گے.حضور نے جماعت کو یہ ہدایت بھی فرمائی کہ سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور اُن کی تفسیر بھی جس حد تک ممکن ہو.نیز ان آیات کی تفسیر سے متعلق ایک مختصر کتا بچہ بھی شائع کرنے کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 111 سال 1969ء 106 ارشاد فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفہ اول اور حضرت مصلح موعود کی تفاسیر کے اقتباسات پر مشتمل ہو.قیام کراچی کے دوران بعض سعید روحیں حضرت خلیفتہ اسیح کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئیں.ربوہ واپسی سے قبل ایڈ مرل ایس ایم احسن کی آپ سے ملاقات ہوئی.اس ملاقات میں حضور انور نے آپ کو مشرقی پاکستان کا گورنر بنے پر نہایت قیمتی نصائح سے نوازا جن کو ایڈ مرل احسن صاحب کی طرف سے بہت سراہا گیا.نیز آپ نے ان کو امیر تیمور کے متعلق ایک کتاب عطا فرمائی جس کی حکمرانی کے متعلق حضور بہت اچھی رائے رکھتے تھے.بعد ازاں ایڈ مرل صاحب نے مکرم انور احمد کاہلوں صاحب کو بتایا کہ میں نے اس کتاب سے بہت کچھ سیکھا ہے.ایک ماہ قیام فرمانے کے بعد ۱۵ ستمبر ۱۹۶۹ء کو آپ واپس تشریف لائے.حضور کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز لاہور پہنچے چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے.ہوائی اڈہ پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد اور بعض مقامی احباب نے حضور کا استقبال کیا.ہوائی اڈہ پر ہی قیام فرمانے کے بعد حضور ساڑھے دس بجے ربوہ کے لئے موٹر کار پر روانہ ہوئے.ربوہ میں بہت سے احباب صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی سرکردگی میں حضور کو خوش آمدید کہنے کی غرض سے احاطہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں جمع تھے.حضور نے جملہ حاضر احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا.108 100 قبلہ اول مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر جماعت احمدیہ کا سخت احتجاج ۲۱ راگست ۱۹۶۹ء کو یہ المناک خبر منظر عام پر آئی کہ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذرآتش کرنے کی ناپاک سازش کی ہے جس سے مسلمانان عالم میں رنج و غم کی زبر دست لہر دوڑ گئی اور دنیا بھر کے احمدی تڑپ اٹھے.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اُن دنوں کراچی میں قیام فرما تھے.حضور نے ۲۹ راگست ۱۹۶۹ء کو مسجد اقصیٰ کی آتش زنی اور بے حرمتی کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اس المناک واقعہ کا اولین تقاضا یہ ہے کہ تمام عالم اسلام متحد ہو کر یہود نامسعود کے اس خطرناک چینج کا جواب دے کیونکہ اس مذموم حرکت سے یہود نے مسلمانوں کی غیرت و حمیت کو للکارا ہے.حکومت پاکستان کو اس غرض کے لئے مؤثر قدم اٹھانا چاہیے اور جماعت احمد یہ اپنی حکومت کے اقدام کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 112 سال 1969ء ساتھ بھر پور عملی تعاون کرے گی.اسی روز جماعت احمدیہ کراچی کی متعدد شاخوں نے اپنے خصوصی اجلاسوں میں قراردادیں منظور کیں جن میں یہود کی طرف سے مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور آتش زنی کے واقعہ کی پُر زور مذمت کی گئی اور عالم اسلام کے لئے یہود کے خلاف عملی اقدام کو نا گزیر قرار دیا گیا تا کہ یہود کے خطرناک عزائم کا سد باب ہو سکے.نیز حکومت پاکستان سے عظیم اسلامی سلطنت ہونے کے لحاظ سے اس کے جواب میں مؤثر اور نمایاں کردار ادا کرنے کی درخواست کی گئی اور یہ کہ جماعت احمدیہ کے افراد مسجد اقصی کی تقدیس و تحریم کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.110 109 احمد یہ مشن انگلستان کے انچارج اور امام مسجد فضل لندن بشیر احمد خان صاحب رفیق نے بذریعہ تارلندن میں متعین اسرائیلی سفیر کی معرفت حکومت اسرائیل سے احتجاج کیا اور کہا کہ اس سانحہ سے جماعت احمدیہ کے تمام افراد کو سخت صدمہ پہنچا ہے.ہمیں اس واقعہ پر شدید تشویش ہے اور ہم حکومت اسرائیل سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بیت المقدس میں واقع تمام مقدس اسلامی مقامات کی حفاظت کے لئے مضبوط اور موثر اقدامات کرے.جماعت احمدیہ کے ترجمان اخبار الفضل نے اس حادثہ روح فرسا پر احتجاجی ادار یہ سپرد قلم کیا اور مرکز احمدیت ربوہ کے ایک غیر معمولی اجلاس عام میں حسب ذیل قرار داد متفقہ طور پر پاس کی گئی:.جماعت احمد یہ ربوہ کا یہ غیر معمولی اجتماع قبلہ اول مسجد اقصیٰ کے نذرآتش کرنے کی شرمناک، نا پاک اور مکارانہ صیہونی جسارت پر انتہائی رنج و غم کا اظہار کرتا، اسے شدید نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ، اس کی پر زور مذمت کرتا اور اس تاریخی اور مقدس یاد گار کی بے حرمتی کو تمام عالم اسلام کے لئے ایک چیلنج تصور کرتا ہے.یہودی عزائم اس سے بھی خطرناک ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ قبلہ اول کو ہیکل سلیمانی میں تبدیل کر کے مکہ اور مدینہ پر تغلب حاصل کریں.پس ہمارے سامنے سوال اب صرف مسجد اقصیٰ کا نہیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا بھی ہے.اس لحاظ سے مسجد اقصیٰ کی آتش زنی کو ہم یہود کی پُر فریب اور عیارانہ چالوں کا ابتدائی قدم سمجھتے ہیں.ان حالات میں اسرائیلی جارحیت کے ہر اقدام کو ناکام بنانے اور بیت المقدس کو اس کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے عالمی سطح پر ایک مضبوط اور متحدہ اسلامی محاذ کا قیام ناگزیر ہو چکا ہے.ہم جناب صدر مملکت پاکستان کو یقین دلاتے ہیں کہ جماعت احمد یہ ربوہ کا ہر فرد اس مقدس راہ میں اپنی جان و مال و آبرو حاضر کرنا موجب فخر و
تاریخ احمدیت.جلد 25 113 سعادت سمجھتا ہے اور وقت آنے پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.سال 1969ء اجلاس میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ اس قرارداد کی نقول صدر مملکت پاکستان جناب آغا محمد يحي 166 خان، شاہ فیصل ، شاه حسین صدر ناصر ، حضرت امام جماعت احمدیہ اور پریس کو بھجوائی جائیں.ایسی ہی پُر زور قراردادیں پاکستان کی دیگر مشہور احمدی جماعتوں مثلاً لا ہور، شیخوپورہ، فیصل آباد، جہلم، کوئٹہ، پشاور، بہاولپور اور پسرور وغیرہ نے بھی پاس کیس جو ان کے جوش ملی، جذبہ ایثار اور 112 جانفروشی کی آئینہ دار تھیں.بھارت کی احمدی جماعتوں کا رد عمل بھی نہایت شدید تھا چنانچہ اخبار بدر قادیان نے ۴ ستمبر ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں قبلہ اوّل.مسجد اقصیٰ کی ناقابل برداشت بے حرمتی“ کے عنوان سے ایک پر زور ادار یہ سپرد قلم کیا نیز ا استمبر ۱۹۶۹ء کے پرچہ میں اس کے پہلے صفحہ پر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ کا ایک خصوصی مضمون شائع کیا جس میں صاحبزادہ صاحب نے واضح کیا کہ مسجد اقصیٰ کی آتش زنی اسرائیل کے سوچے سمجھے منصوبہ کی ایک تخریبی کڑی ہے.نیز لکھا جہاں مسلمانوں کے ہر فرقے نے اسرائیل کے اس وحشیانہ اور گھناؤنے فعل پر نفرت کا اظہار کیا ہے جماعت احمدیہ کا ہر فرد بھی انتہائی دُکھے ہوئے دل کے ساتھ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور آتش زنی کے المناک واقعہ پر دکھ، تکلیف اور غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے.اگر چہ ہم ہڑتالوں، نظم ونسق برہم کر دینے والی کارروائیوں سے دور رہتے ہیں.لیکن کسی صورت میں بیت المقدس اور عربوں کے کھوئے ہوئے علاقوں کے پھر حاصل کرنے اور فلسطین کی واپسی کے معاملہ میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں.ہم عربوں اور مسلمانوں کی ایسے حوادث اور مصائب کے وقت میں مدد اس طرح سے کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں کہ وہ ملائک کی فوج سے ہمارے عرب بھائیوں اور عالم اسلام کی مددفرمائے.لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کا حادثہ شہادت اس سال کا نہایت اہم اور المناک واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے نامور جرنیل اور جنگ ۱۹۶۵ء کے ہیرو اور معروف احمدی لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ ۲۲ را گست ۱۹۶۹ء کو ڈیڑھ بجے کا ر کے ایک حادثہ میں شہید ہو گئے.یہ حادثہ انقرہ (ترکی) سے پچاس میل کے فاصلہ پر پیش آیا جہاں آپ سینٹو میں پاکستان کے مستقل نمائندہ کی حیثیت سے مقیم
تاریخ احمدیت.جلد 25 114 سال 1969ء تھے.ترکی سے ان کی نعشوں کے تابوت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ۲۵ /اگست کو ترک فضائیہ کے ایک خاص طیارہ میں پاکستان روانہ کر دیئے گئے.ترک فوج کی ایک گارڈ طیارہ کے ہمراہ پاکستان آئی.یہ طیارہ ۲۶ کی صبح کو کراچی پہنچا، جہاں پاکستانی فوج کے ایک دستہ نے تابوت کو سلامی دی اور پھر بذریعہ طیارہ نو بجے انہیں راولپنڈی پہنچا دیا گیا.تابوت جب چکلالہ کے ہوائی اڈہ پر اتارے گئے تو اس وقت بڑی فوج کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ جنرل عبد الحمید خان، صدر پاکستان کے ملٹری سیکرٹری، بحریہ کے سربراہ وائس ایڈمرل ایس ایم احسن، ہوائی فوج کے نامز دسر براہ ائر وائس مارشل اے رحیم اور ترکی کے فوجی نمائندے ہوائی اڈے پر موجود تھے.تابوتوں پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں اور فوج کے ایک دستہ نے انہیں سلامی پیش کی.ترکی اور پاکستان کے فوجی نمائندوں نے اس موقع پر تقاریر کرتے ہوئے لیفٹینٹ جنرل ملک اختر حسین صاحب مرحوم کو نہایت شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور ان کی غیر معمولی صلاحیتوں اور عظیم کارناموں کو سراہا.فوجی رسوم ادا کرنے کے بعد نو بجے دونوں تابوت تدفین کے لئے ایک خاص ہیلی کاپٹر کے ذریعہ چکلالہ سے ربوہ روانہ کر دئے گئے.حضرت خلیفة اصبح الثالث نے کراچی سے بذریعہ فون اس سلسلے میں امیر مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو ایک دن قبل ضروری ہدایات صادر فرما دی تھیں.جن کی روشنی میں آپ نے اپنے رفقاء کار کی سرکردگی اور نگرانی میں وسیع پیمانے پر جملہ انتظامات شروع کر دئے تھے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہے.ان ہدایات میں نماز جنازہ اور تدفین کے علاوہ نظم وضبط برقرار رکھنے اور باہر سے آنے والے ہزار ہا فوجی اور غیر فوجی معززین کے قیام وطعام کے اہم کام بھی شامل تھے.پروگرام کے مطابق دس بج کر پچپن منٹ پر پہیلی کا پٹرر بوہ کی فضا میں پہنچا اور قصر خلافت سے ملحق میدان میں اترا جہاں فوج کے ایک دستہ نے عقیدت کے ساتھ سلامی دی.دونوں تابوت پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لیٹے ہوئے تھے.اس موقعہ پر امیر صاحب مقامی کی سرکردگی میں صدر انجمن احمدیہ کے ناظران تحریک جدید کے وکلاء، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد افراد اور دیگر بہت سے احباب موجود تھے.متعدد اعلیٰ فوجی حکام کے علاوہ ضلع جھنگ کے ایڈیشنل کمشنر راجہ ظفر علی صاحب اور ڈی ایس پی شیخ خلیل حسن بھی آئے ہوئے تھے.تابوت فوجی اعزاز کے ساتھ تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس تک پہنچائے گئے جہاں مرحوم کے اعزہ واقارب اور دیگر معززین کے قیام و طعام کا بھی انتظام تھا.جو اصحاب جنازہ کے ہمراہ تشریف لائے ان میں متعدد اعلی فوجی حکام کے علاوہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 115 سال 1969ء لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک صاحب کے برادر اصغر میجر جنرل عبدالعلی صاحب، میجر عبدالمجید ملک صاحب، مرحوم کے خسر چوہدری عبدالغفور صاحب آف مراڑہ ضلع سیالکوٹ ، مرحوم کی صاحبزادی سلمہ اختر صاحبہ، چاروں بیٹے کیپٹن سعید اختر ملک صاحب، کیپٹن سلیم اختر ملک صاحب، جمیل اختر ملک صاحب اور لطیف اختر ملک صاحب، مرحوم کی ہمشیرگان اور دیگر متعد دعزیز اور رشتہ دار شامل تھے.پونے چار بجے بعد دو پہر دونوں تابوت گیسٹ ہاؤس سے اٹھائے گئے.جبکہ اہل ربوہ کی کثیر تعداد کے علاوہ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، سرگودھا، جھنگ، گوجرانوالہ، شیخو پورہ اور متعدد دیگر مقامات سے بھی ہزاروں کی تعداد میں احمدی اور غیر از جماعت اصحاب تشریف لا چکے تھے.جنازہ کے آگے ایک فوجی دستہ تھا جس کے پیچھے مرحوم کے سوگوار بھائی، بیٹے اور دیگر اعلیٰ فوجی حکام جار ہے تھے اور پھر ہزاروں کی تعداد میں وہ احباب تھے جو ملک وملت کے اس مایہ ناز فرزند اور پاک و ہند کے چھمب جوڑیاں محاذ کے ہیرو کو آخری نذرانہ عقیدت پیش کرنے اور ان کے حق میں دعا کرنے کے لئے جوق در جوق جمع ہوئے تھے.چار بجے امیر صاحب مقامی کی زیر ہدایت خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں کم و بیش بیس ہزار افراد نے شرکت کی جس کے بعد جنازہ کا یہ سوگوار جلوس قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا.پانچ بجے شام قبرستان کے قطعہ شہداء میں تدفین مکمل ہونے پر مولانا صاحب نے اجتماعی دعا کرائی.پھر پاکستان کے فوجی دستہ نے ملک وملت کے اس بہادر جرنیل کو سلامی دی جس کے بعد احمدیت اور پاکستان کا یہ نامور فرزند اور پاک و ہند جنگ میں بہادری، جرأت اور دلیری کے محیر العقول کارنامے دکھلانے والا یہ شہرہ آفاق قومی ہیرور بوہ کی مقدس سرزمین میں سپرد خاک کر دیا گیا.پاکستانی پریس لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کے حادثہ شہادت نے پاکستان کے ہر طبقہ میں ایک زلزلہ برپا کر دیا.پاکستانی پریس نے اس موقع پر تفصیلی خبریں اور نوٹ سپر دا شاعت کئے جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.ا.روزنامہ امروز لا ہور نے ۲۴ را گست ۱۹۶۹ء کو حسب ذیل نوٹ شائع کیا :.
تاریخ احمدیت.جلد 25 116 سال 1969ء پاک فوج کے لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک گذشتہ روز ترکیہ میں ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اس حادثے میں مرحوم کے علاوہ ان کی اہلیہ، انقرہ میں پاکستان کے کمرشل اتاشی مسٹر محمد اسلم کے دولڑ کے اور موٹر کار کا ترک ڈرائیور بھی ہلاک ہوئے.جنرل اختر حسین ملک سینٹو کے ہیڈ کوارٹر (انقرہ) میں پاکستانی نمائندے کی حیثیت سے متعین تھے.موصوف از میر کے میلے میں جس میں پاکستان کا پیولین بھی قائم کیا گیا تھا، شرکت کے لئے انقرہ سے بذریعہ کا راز میر جارہے تھے کہ راستے میں حادثہ پیش آ گیا.لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک ضلع کیمبل پور کے ایک ممتاز اور سر بر آوردہ فوجی خاندان کے چشم و چراغ تھے.انہوں نے کیمبل پور کے گورنمنٹ کالج میں تعلیم پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا.فارغ التحصیل ہونے کے بعد ۱۹۴۱ء میں انڈین ملٹری اکیڈمی ڈیرہ دون میں زیرتر بیت رہے اور وہاں سے کمیشن لے کر نکلے.دوسری جنگ عالمگیر کے دوران انہوں نے برما کے محاذ پر جنگی خدمات انجام دیں.آزادی کے وقت وہ جی ایچ کیو (انڈیا) میں متعین تھے.پاکستان میں انہیں لیفٹینٹ کرنل کے رینک پر ترقی ملی اور ایک انفنٹری بٹالین کی کمان سونپی گئی.۱۹۵۶ء میں آپ بریگیڈیر بنے.اس زمانہ میں آپ سٹاف کالج کوئٹہ میں ڈپٹی کمانڈنٹ کے عہدہ پر مامور تھے بعد میں آپ انفنٹری سکول کوئٹہ کے کمانڈنٹ بنا دیئے گئے.۱۹۵۹ء میں آپ نے ایک انفنٹری بریگیڈ کی کمان سنبھالی اور پھر بحیثیت ڈائریکٹر آف انفنٹری جنرل ہیڈ کوارٹر بھی رہے.۱۹۶۵ء میں کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ کے پار بھارت کی مسلسل جارحانہ کاروائیوں کے جواب میں لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کو ( جواس وقت میجر جنرل کے عہدہ پر فائز تھے.اور ایک پیدل ڈویژن کے آفیسر کمانڈنگ تھے ) بھمبر کے علاقے میں حملہ کرنے کا فرض سونپا گیا.چھمب میں بھارتی مورچے غیر معمولی مضبوط تھے اور وہاں ایک طاقتور فوج متعین تھی.جنرل اختر حسین ملک نے ان مورچوں پر حملہ کیا اور بھارتی گیریژن کو اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے پاس جو فوج تھی وہ عملاً ایسی کاروائی کیلئے ناکافی سمجھی جاتی ہے بالکل نیست و نابود کر دیا.بھارتی قلعہ بندیوں کو تباہ کن ضربیں لگانے اور انہیں برباد کرنے کی کارروائی جنرل آفیسر کمانڈنگ کے بہادرانہ منصوبے بنانے اور کارروائی میں غیر معمولی قیادت کی رہین منت تھی.اس مشکل کام کو دلیرانہ طور پر اور ذاتی جرات کے ساتھ انجام دیا.انہیں اس پر بہادری
تاریخ احمدیت.جلد 25 117 سال 1969ء کا اعزاز ”ہلال جرات دیا گیا.اس سے پہلے انہیں ”ستارہ قائداعظم کے اعزاز سے نوازا گیا تھا.جنگ کے خاتمہ کے بعد انہیں سٹاف کالج کوئٹہ میں بحیثیت کمانڈنگ آفیسر متعین کیا گیا.بعد ازاں انہیں ادارہ میثاق وسطی (سینٹو) کے ہیڈ کوارٹر انقرہ میں پاکستان کا نمائندہ بنا کر بھیجا گیا.مرحوم نے اپنے پیچھے دولڑ کے اور ایک لڑکی چھوڑی ہے.اُن کے دونوں لڑکے فوج میں ہیں.میجر جنرل عبد العلی ملک اُن کے چھوٹے بھائی ہیں.جنہوں نے چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی عظیم جنگ میں پاکستانی فوج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ گئے.اُس وقت موصوف بریگیڈیر تھے.انہیں بھی بڑے بھائی کی طرح ہلال جرات کا اعزاز ملا.۲.اسی تاریخ کو روزنامہ نوائے وقت نے حسب ذیل خبر شائع کی.د لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کی وفات پر صدر یحیی خان کا اظہار تعزیت چھمب جوڑیاں کے ہیرو کی میت بدھ کو بذریعہ طیارہ راولپنڈی پہنچے گی." راولپنڈی ۲۳ / اگست ( رپ، پ پ (۱) صدر جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک کی وفات پر گہرے افسوس کا اظہار کیا ہے.انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ مجھے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک اور بیگم ملک کی افسوسناک اور نا گہانی موت کی خبر سن کر بہت صدمہ ہوا ہے.مرحوم جنرل اختر کی ذات میں پاکستان پاک بری فوج اپنے ایک انتہائی ممتاز افسر سے محروم ہوگئی ہے.اللہ رخصت ہونے والے کی روح کو اپنی رحمتوں سے نوازے اور پسماندگان کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت دے.تازہ ترین اطلاع کے مطابق سینٹو کے فوجی ہیڈ کوارٹر میں پاکستان کے فوجی مندوب لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کی میتیں بذریعہ طیارہ ۲۶ /اگست کو یہاں لائی جارہی ہیں.چکلالہ کے ہوائی اڈے پر اس وقت متعدد اعلی فوجی حکام اور مرحوم کے دوست اور رشتہ دار موجود ہوں گے.لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک کی میت پورے فوجی اعزاز کے ساتھ طیارے سے اتاری جائے گی اور پھر اسی طرح تدفین کے لئے مرحوم کے آبائی گاؤں پنڈوری ضلع اور پہنچائی جائے گی.( تدفین ربوہ میں ہوئی ہے.ناقل ) لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک کو ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں ہلال جرأت کا اعزاز ملا تھا.چھمب جوڑیاں محاذ کے ہیرولیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک گذشتہ روز ترکیہ میں کار کے حادثہ میں جاں بحق ہو گئے وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ از میر جارہے تھے.حادثہ میں ان کی اہلیہ بھی ہلاک ہوگئیں.لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک پاکستان
تاریخ احمدیت.جلد 25 118 سال 1969ء کے مایہ ناز جرنیل تھے.ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں چھمب جوڑیاں کے محاذ پر انہوں نے دشمن کے منہ پھیر دیے تھے.آپ کی کمان میں پاکستان کے جیالے فوجیوں نے اپنے سے پانچ گنا زیادہ تعداد کے دشمنوں کو عبرتناک شکست دی تھی.لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین مرحوم از میر میں صنعتی میلہ دیکھنے جارہے تھے جن میں پاکستانی سٹال بھی لگا ہوا تھا.آپ کے ہمراہ آپ کی اہلیہ بھی تھیں کہ کار حادثہ کا شکار ہوگئی جس سے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین اور ان کی اہلیہ موقع پر ہلاک ہو گئے.اس حادثہ میں ترکی میں پاکستان کے کمرشل اتاشی مسٹر محمد اسلم کے دو بیٹے اور کار ڈرائیور بھی ہلاک ہو گئے..اسی اخبار نے ۲۸ اگست کی اشاعت میں لکھا.66 لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا“ نماز جنازہ میں ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی.“ ربوہ ۲۷ /اگست :.ملک کے نامور فوجی سپوت اور ۱۹۶۵ء کی جنگ کے قابل فخر ہیر ولیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کو گذشتہ شام یہاں پورے فوجی اعزاز کے ساتھ شہداء کے قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا.جنرل مرحوم اور ان کی اہلیہ ۲۲ اگست کو ترکی میں موٹر کار کے ایک حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے.جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کی میت گذشتہ روز چکلالہ کے ہوائی اڈہ سے فوج کے ایک خصوصی ہیلی کا پٹڑ میں ربوہ لائی گئی.میت کو اتارتے وقت پنجاب رجمنٹ کے ایک دستہ نے فوجی طریق کے مطابق سلامی دی.میت کو جو پاکستانی پرچم میں لیٹے ہوئے تابوت میں رکھی تھی پورے اعزاز کے ساتھ اٹھا کر گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا.شام سوا چار بجے صدر انجمن کے وسیع گراؤنڈ میں نماز جنازہ ادا کی گئی جو جماعت کے ممتاز عالم دین مولانا ابوالعطا جالندھری نے پڑھائی.نماز جنازہ میں ہزاروں سوگواروں نے شرکت کی جن میں ملک کے ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے.نماز جنازہ کے بعد جنرل اختر ملک اور ان کی اہلیہ کی میت کو شہداء کے قبرستان میں لاکر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا.اس موقع پر بھی پاکستانی فوج کے ایک دستہ نے فوجی طریق کے مطابق گارڈ آف آنر پیش کیا.جنرل اختر ملک نے گذشتہ پاک بھارت جنگ میں غیر معمولی جرات اور بہادری کا مظاہرہ کیا تھا جس کے اعتراف کے طور پر آپ کو ہلال جرأت کا اعزاز دیا گیا تھا.حادثہ کے وقت آپ سینٹو کے ہیڈ کوارٹر انقرہ میں پاکستان کے فوجی نمائندے کے طور پر مامور تھے.آپ کی وفات پر صدر مملکت کے علاوہ دونوں صوبائی گورنروں اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اور دیگر بیشمار لوگوں کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 119 سال 1969ء تعزیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں.سیالکوٹ : نمائندہ خصوصی کی اطلاع کے مطابق لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کی وفات کی خبر سے پورے سیالکوٹ شہر میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی.سابق رکن قومی اسمبلی سید مرید حسین شاہ نے مرحوم کی اچانک وفات پر دلی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم ایک بہترین جرنیل، بہترین کمانڈر اور جنگی حکمت عملی کے ذہین ترین ماہر تھے.مرحوم کے چھوٹے بھائی میجر جنرل عبدالعلی ملک کے نام ایک تعزیتی پیغام میں آپ نے کہا کہ پاکستان ایک اچھے سپاہی اور جنگ وامن کے لیڈر سے محروم ہو گیا ہے.بلدیہ سیالکوٹ کے وائس چیئر مین ڈاکٹر بشیر احمد خان نے سیالکوٹ کے شہریوں کی جانب سے دلی رنج والم کا اظہار کیا ہے.آپ نے کہا کہ جنرل اختر مرحوم کی وفات سے نہ صرف پاک فوج بلکہ پوری قوم کو عظیم نقصان پہنچا ہے.انجمن محبانِ وطن سیالکوٹ کے ایک ہنگامی اجلاس میں بھی جنرل اختر حسین ملک کی وفات پر تعزیتی قرار داد منظور کی گئی.اجلاس کی صدارت مولوی ظہور الحسن نے کی.ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن لاہور.ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن لاہور کا ایک ہنگامی اجلاس منعقد ہوا جس میں ایک قرارداد کے ذریعے لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک اور ان کی اہلیہ کی اچانک وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا گیا.قرار داد میں کہا گیا کہ مرحوم کی وفات سے ایسوسی ایشن کو شدید صدمہ ہوا ہے وہ اس وقت ہم سے جدا ہوئے ہیں جب ملک کو ان کی خدمات کی اشد ضرورت تھی.ان کی وفات سے ملک ایک مایہ ناز کمانڈر اور بہترین فرزند سے محروم ہو گیا ہے.ایسوسی ایشن کے ارکان نے فاتحہ خوانی بھی کی.۴.ملک کے ممتاز ادیب، نامور شاعر اور روز نامہ امروز کے سابق مدیر جناب احمد ندیم قاسمی نے لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کوز بر دست خراج تحسین پیش کیا.چنانچہ لکھا:.لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک قوم کے ایک ایسے ہیرو تھے جن کا نام پاکستانی بچوں کو بھی یاد ہے.جب ان کی سرکردگی اور نگرانی میں پاکستانی افواج چھمب اور جوڑیاں کے آہنی مورچوں کو مسمار کرتی ہوئی جموں کی طرف بڑھ رہی تھیں تو جنرل اختر حسین ملک پاکستانیوں کی بہادری، استقامت اور اولوالعزمی کی ایک مجسم تصویر بن کر ابھرے اور اہل پاکستان کے ذہنوں پر چھا گئے.بعد میں جب چونڈہ کے میدان میں ان کے بھائی جنرل عبد العلی ملک نے ٹینکوں کی اس جنگ میں غنیم ( دشمن ) کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 120 سال 1969ء عبرتناک شکست دی جس میں بھارت نے اپنی پوری فوجی مشین داؤ پر لگا دی تھی.تو ان دونوں جری بھائیوں کے چرچے گلی گلی میں ہوئے.مجھے بے اندازہ اشتیاق تھا کہ اُن سے ملوں.اس کی ایک وجہ تو او پر درج کر چکا ہوں دوسرے میں نے یہ بھی سنا تھا کہ ان دونوں بھائیوں کو علم وادب سے بھی رغبت ہے اور جنرل عبد العلی ملک تو شعر بھی کہتے ہیں.تیسرے اس لئے بھی کہ یہ بھائی میری ہی بولی بولتے تھے اور ایک لحاظ سے میرے پڑوسی تھے.یوں بالواسطہ طور پر میں ان دونوں بھائیوں کے خاندان سے بھی متعارف تھا اور اس جستجو میں تھا کہ وہ لاہور آئیں تو اُن سے ملاقات کی سبیل پیدا ہو اور آخر مجھے اس میں کامیابی حاصل ہوئی.لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک سینٹو ہیڈ کوارٹرز میں پاکستان کے فوجی نمائندے کے عہدے پر فائز تھے.جب ان کے والد گرامی کا انتقال ہوا اور وہ پاکستان تشریف لائے میں اپنے دوست جناب عزیز ہمدانی کے ہمراہ ملک جعفر صاحب کے دولت کدہ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ جنرل صاحب اپنے والد گرامی کے مزار پر فاتحہ پڑھنے گئے ہیں اور ان کی واپسی کا وقت قریب ہے.شگفتہ مزاج فوجی.آخر شام کے قریب وہ تشریف لے آئے.وہ ایک سادہ سے سوٹ میں ملبوس تھے.ان کے ہمراہ ان کے بڑے صاحبزادے کیپٹن سعید اختر ملک اور چند دوسرے عزیز اور دوست بھی تھے.میرے ساتھ نہایت گرمجوشی سے مصافحہ کیا.مجھے چند ہی لمحوں کی گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ جنرل ملک نہایت شگفتہ مزاج انسان ہیں اور اپنی فوجی چال ڈھال اور غیر معمولی قد و قامت کے با وجود حسن ذوق ، نفاست اور تہذیب کے پیکر ہیں.ہم سب کھانا کھانے کے لئے اٹھے تو لیفٹیننٹ جنرل اختر حسین ملک اپنے بڑے صاحبزادے کیپٹن سعید اختر ملک کے قریب سے گذرتے ہوئے رک گئے.انہیں سر سے پاؤں تک دیکھا اور پوچھا ” کیوں میاں ! کہاں تک پہنچنے کے ارادے ہیں؟“ نکتہ یہ تھا کہ کیپٹن صاحب کا قد اپنے والد گرامی کے قد سے بھی نکلا جارہا تھا.دلر با شخصیت.کھانے کے بعد مجھ سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی جسے میں نے اعزاز سمجھا اور بہت سی نظمیں اور غزلیں سنائیں.شاعر اپنے سامع کی طرف سے داد کے انداز اور موقع ومحل سے فوراً اندازہ لگا لیتا ہے کہ موصوف سخن فہم ہیں یا یونہی تکلف فرمارہے ہیں.میں نے جنرل ملک کی نفاست ذوق کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا تھا.مگر یہ علم نہ تھا کہ وہ فن کے جمالیاتی پہلوؤں پر اتنے حاوی ہیں اور شعر کی انتہائی گہرائی تک جا پہنچتے ہیں.مجھے ان کی شخصیت کے ہر پہلو سے متعارف ہو کر بے حد خوشی ہوئی.بعد کی گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ وہاں ترکی میں اردو کی چیزیں بہت کم پڑھنے کو ملتی ہیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 121 سال 1969ء بس ایک جنگ اخبار پہنچتا ہے.جسے پہلے صفحہ کی پہلی سطر سے آخری صفحے کی آخری سطر تک پڑھا جاتا ہے.میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں اپنی ادارت میں شائع ہونے والا ادبی رسالہ نہایت با قاعدگی سے نذر کرتا رہوں گا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور اب جب ان کا سامان ترکی سے واپس آئے گا تو اس رسالے کی بعض اشاعتیں اس سامان میں یقیناً موجود ہوں گی.جنرل صاحب نے میرے مشاغل کے بارے میں پوچھا اور میں نے بتایا کہ گذر بسر اخباروں میں کالم نویسی پر ہوتی ہے تو انہوں نے لاہور لاہور ہے“ کا بطور خاص ذکر فرمایا اور اس کے بعد جب بات پاکستانی اخبارات کے مزاحیہ کالموں تک پہنچی تو انہوں نے ڈان میں شائع ہونے والے آرٹ بکولڈ“ کے کالموں کی اس لحاظ سے بہت تعریف کی کہ وہ کتنی روانی اور بے ساختگی کے ساتھ اپنے ملک کے صدر تک پر نہایت کڑی مگر نہایت شگفتہ تنقید کر جاتا ہے.یہ چند واقعات میں نے محض اس لئے درج کئے ہیں کہ لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک کی فوجی مہارت اور جرات پر تو بہت کچھ لکھا جائے گا مگر ان کی دلر با شخصیت کے یہ پہلو شاید عوام کی نظروں سے اوجھل رہیں.ترکی میں ٹریفک کے ایک حادثے نے پاکستان سے اس کا ایک سچا اور کھرا ہیرو چھین لیا.اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے.ہماری قومی تاریخ ان کے کارناموں سے ہمیشہ ہمیشہ گونجتی رہے گی.ر.117 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا چاند کی تسخیر پر تبصرہ اس سال ۲۱ جولائی ۱۹۶۹ء کو امریکی خلائی جہاز اپالو گیارہ کی گاڑی خلا باز نیل آرمسٹرانگ (Neil Armstrong) اور خلا باز ایڈون ایلڈرن (Edwin Aldrin) کو لے کر چاند کی سطح پر اتر گئی اور اس طرح چاند پر انسان کے پہنچنے کے صدیوں پرانے خواب کی حیرت انگیز تعبیر منصہ شہود پر آگئی.چاند کی تسخیر انسان کا بہت بڑا تاریخی کارنامہ تھا لیکن اس عظیم الشان کارنامہ کے نتیجہ میں مسلمانان عالم کے بعض طبقے زبر دست دہنی انتشار کا شکار ہو گئے چنانچہ تنزانیہ سے بذریعہ خط حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو یہ اطلاع ملی کہ ایک احمدی مبلغ نے کسی استقبالیہ دعوت میں یہ باتیں سنیں کہ چاند پر جانا قرآن کریم کے خلاف ہے اور اس قسم کی بات کو قبول کر لینا موجب کفر ہے.اسی طرح رنگون کے احمدی مبلغ نے بعض تعلیم یافتہ لوگوں حتی کہ بعض علماء کو یہ کہتے سنا کہ اگر چاند پر انسان پہنچ بھی چکا ہو پھر
تاریخ احمدیت.جلد 25 122 سال 1969ء بھی ہمیں اس پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۵ ستمبر ۱۹۶۹ء کو احمد یہ ہال کراچی میں خاص اسی موضوع پر ایک نہایت بصیرت افروز خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قرآن عظیم کی متعدد آیات کی روشنی میں کمال شرح وبسط سے بتایا کہ:.زمین اللہ تعالیٰ کی صفات کے مخصوص مجموعہ کا نام ہے یا آثار الصفات کے ایک مخصوص مجموعہ کا نام ہے جس کے ساتھ انسانی طاقتیں، قو تیں اور استعدادیں بندھی ہوئی ہیں اور جن کی پیدائش انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور جن کے علاوہ کوئی اور چیز اس کے لئے فائدہ مند نہیں بن سکتی کیونکہ جو کچھ پیدا کیا گیا ہے وہ اسے وَاتُكُمْ مِنْ كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ (ابراہیم : ۳۵) کی رُو سے عطا کیا گیا اور ہر وہ چیز جس کی انسان کو ضرورت تھی وہ اس زمین میں پیدا کر دی گئی.اگر خدا تعالیٰ کی صفات کے ان مخصوص جلووں سے ملتے جلتے جلوے اس عالم کے کسی اور حصہ میں بھی نظر آنے لگیں پھر تو وہ یہی زمین الارض“ ہوئی.اس میں انسان زندہ رہ سکتا ہے لیکن اس الارض کو جن معنوں میں قرآن کریم نے استعمال کیا ہے ان معنوں کی رُو سے اس قسم کی زمین سے باہر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.فِيهَا تَحْيَوْنَ (الاعراف: ۲۶) کی صداقت اٹل ہے.انسانی زندگی کا مدار صفات باری کے اسی زمینی جلووں کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ اس ارض کے باہر یہ زمینی جلوے مفقود ہیں.اس لئے اس الارض سے باہر زندہ رہنا محال ہے.ہم ایک لحظہ کیلئے یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انسان کبھی ایسی دریافت یا اس قسم کی ایجاد کر لے گا جس سے قرآن کریم کی تعلیم یا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی جو تفسیر فرمائی ہے اس پر اعتراض کرنے کے قابل ہو جائے گا...فِيْهَا تَحْيَونَ میں قرآن کریم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انسانی زندگی اور بقاء اسی الارض تک محدود ہے.یعنی آثار صفات باری کے مخصوص جلووں ہی میں وہ زندہ رہ سکتا ہے.انسان اس الارض کے ان جلووں سے باہر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندہ رہنے کا تصور ہی کر سکتا ہے.ہم چاند پر چند گھنٹے کے لئے اترے، نہ اپنے لباس سے باہر آنے کی جرات کی ، نہ اپنے کھانے کو چھوڑ کر کوئی اور کھانے کا خیال آیا، نہ وہاں کوئی ہوا تھی جس میں سانس لے سکتے.پس جس
تاریخ احمدیت.جلد 25 123 سال 1969ء کترہ پر ایک سانس بھی نہیں لیا ، قدم رکھ کر واپس آگئے.اس سے قرآن کریم کی ابدی صداقتوں پر تو کوئی حرف نہیں آتا.بیشک یہ ایک کارنامہ ہے اور بہت بڑا کارنامہ ہے.اس کو معمولی سمجھنا غلطی ہے لیکن اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ شان نظر آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کتنی دینی اور دماغی قوت عطا کی ہے کہ انسان نے اللہ تعالیٰ کے قانون کو صحیح رنگ میں استعمال کر کے یہ کارنامہ انجام دیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.اس پر معارف خطبہ کے آخر میں حضور نے پر شوکت انداز میں فرمایا: " آج ہم تمام سائنسدانوں کو بڑے دھڑتے سے یہ چیلنج دیتے ہیں کہ تم ان زمینی خصوصیات اور ان ارضی لوازمات کے بغیر کسی دوسرے کرہ پر رہ کر تو دکھاؤ.تم تو انسان کا ایک ایسا پھیپھڑا تک نہیں بنا سکتے جو اس زمینی ہوا کا محتاج نہ ہو.تم تو ایسا انتظام بھی نہیں کر سکتے کہ پانی کے بغیر انسانی زندگی ممکن ہو.تم تو ایک ایسا نظام بھی نہیں چلا سکتے کہ جس سے متوازن غذا کے بغیر انسانی صحت کا قائم رکھنا ممکن ہو“.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ تسخیر کائنات کے اس عظیم الشان کارنامہ سے بارہ سال قبل دسمبر ۱۹۵۷ء میں سید نا حضرت مصلح موعود نے آیت وَ إِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ (الانشقاق: آیت۴) کی تفسیر میں لکھا: 118- یعنی اس زمانہ میں یہ ثابت ہو جائے گا کہ بہت سے گرے جو بظاہر آسمان کے ساتھ وابستہ نظر آتے ہیں وہ زمین کا حصہ ہیں جیسے چاند اور مریخ وغیرہ یہ سائنس کا انکشاف اس زمانہ میں ہوا ہے پہلے نہیں ہوا تھا بلکہ مزید بات یہ ہے کہ ان کتوں کو زمین کا حصہ سمجھ کر بعض لوگ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ راکٹ کے ذریعہ سے ان تک پہنچ جائیں یا ان کو بھی رہائش کے لحاظ سے زمین کا ہی ایک حصہ ثابت کر دیں.اگر یہ ہو جائے یا بعض لحاظ سے چاند اور دوسرے کروں سے ایسے فائدے اٹھائے جاسکیں جس سے زمین متمتع ہو تو اس کا مفہوم یہی ہو گا کہ زمین پھیل گئی ہے.سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی بابرکت تحریک 119 جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے۲ ستمبر ۱۹۶۹ء کو احد یہ ہال کراچی میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے
تاریخ احمدیت.جلد 25 124 سال 1969ء ایک پُر معارف خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات کی حقیقت افروز تفسیر فرمائی نیز تحریک کی کہ پوری جماعت ان آیات کو حفظ کرے چنانچہ فرمایا: ”میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہیے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ متحضر بھی رہنی چاہیے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر ، اتنی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت مصلح موعود کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا شائع بھی کر دیں گے.مجھے آپ کی سعادتمندی اور جذبہ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کر رہا ہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے.مرد بھی یاد کریں گے.عورتیں بھی یاد کریں گی.چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو ازبر کر لیں گے.پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عملدرآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گئے.120 اپنے مقدس اور محبوب امام کی اس تحریک پر احمدی مردوں اور خواتین نے والہانہ رنگ میں لبیک کہا.ان کے اسمائے گرامی الفضل میں بغرض دعا شائع کئے گئے تھے.مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی پر مسلم ممالک کی ایک اہم کا نفرنس (مراکش) مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور مقامات مقدسہ کے تحفظ کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے چھپیں اسلامی ملکوں کے سربراہوں کی ایک اہم کانفرنس مراکش کے دارالحکومت رباط میں ۲۲ تا ۲۵ ستمبر کو منعقد ہوئی.یہ پہلا موقعہ تھا کہ اتنی تعداد میں مسلم ممالک کے سر براہ اور حکومتوں کے نمائندے ایک جگہ جمع ہوئے.کانفرنس کے مجھ سعودی عرب کے شاہ فیصل تھے اور عرب لیگ کے وزراء خارجہ کی کانفرنس نے اس کی توثیق کی تھی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 125 سال 1969ء کانفرنس کا افتتاح مراکش کے شاہ حسن ثانی نے کیا.انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ آج ساری دنیا کی نگاہیں اس تاریخی کا نفرنس پر لگی ہوئی ہیں.ہمیں اس وقت نہایت اہم فیصلے کرنے ہیں.اسرائیل کی جارحیت اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعہ حل نہیں ہو سکے ، ہمیں ان کا ایسا تسلی بخش حل نکالنا ہے کہ جس سے مسلمانوں کو دنیا میں سر بلندی حاصل ہو سکے.انہوں نے کہا ہمیں فلسطین کے مہاجر بھائیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے.وہ سالہا سال سے گھروں سے بے گھر مارے مارے پھر رہے ہیں.حضور انور کی طرف سے دعا کی تحریک اسی روز حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے احباب جماعت کو خاص طور پر تحریک دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ مسلمان سربراہوں کی ، جو آج رباط میں اجتماع کر رہے ہیں صحیح رہنمائی فرمائے اور انہیں ایسی توفیق بخشے کہ وہ متحد ہو کر مسئلہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کے معاملہ کو حل کرنے کی توفیق پائیں.122 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کا برقی پیغام اس موقع پر حضور انور کی زیر ہدایت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل انتبشیر نے مراکش کے شاہ حسن ثانی صدر رباط کا نفرنس اور یحییٰ خان صاحب صدر پاکستان کے نام یہ پیغام ارسال کیا:.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنے فضلوں سے نوازے اور غور وفکر کے بعد صحیح فیصلے کرنے میں کامیابی سے ہمکنار فرمائے.میں آپ کی توجہ اس حقیقت کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ فلسطین کا مسئلہ ساری دنیا کے مسلمانوں کے لئے بنیادی اہمیت کا حامل ہے.فلسطین اُس مقام سے جہاں ہمارے آقا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں بہت قریب ہے.یہودحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی ابتداء سے لے کر آخر تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف مسلسل شرارتیں اور ریشہ دوانیاں کرتے رہے تھے.انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی خود بھی سازشیں کیں اور دوسروں کو بھی ایسی سازشوں پر اکساتے رہے لیکن وہ اپنی ان سازشوں میں بری طرح ناکام و نا مرا در ہے.اب وہ اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور آثار سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نگاہیں مدینہ پر ہیں اور وہ مدینہ کی طرف پیش قدمی کے منصوبے باندھ رہے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس وقت عرب متحد ہیں اور یہودیوں کا چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.لیکن کیا عرب
تاریخ احمدیت.جلد 25 126 سال 1969ء اکیلے اس کا جواب دے سکتے ہیں؟ اس کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے اور تمام مسلمانوں کو اس وقت آگے آنا چاہیے.سوال بیت المقدس کا نہیں بلکہ مدینہ منورہ کا اور اس سے بھی بڑھ کر خود مکہ معظمہ کا ہے.سوال زید بکر کا نہیں بلکہ سوال خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کا ہے.دشمن نے اپنی تمام طاقتیں مجتمع کر دی ہیں.کیا مسلمان اب بھی متحد و متفق ہو کر اس خطرہ کا مقابلہ نہیں کریں گے؟ وقت آن پہنچا ہے کہ جب مسلمان مل کر زندگی اور موت کی جنگ لڑیں اور اس میں فتحیاب ہوں.مسلمان بحمد اللہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا.انشاء اللہ العزیز مسلمان ہی فتحیاب ہوں گے.قرار دادوں کا وقت گزر چکا ہے.یہ وقت ہے عملی اقدام کا اور قربانیاں پیش کرنے کا.تمام مسلم ممالک کو اپنی آمدنی کا ایک حصہ اس کام کے لئے وقف کر دینا چاہیے اور متحدہ فوج بنانی چاہیے.خدائی پیشگوئیوں کی رُو سے فلسطین کا مسلمانوں کو واپس ملنا یقینی ہے.لیکن ہمارا فرض ہے کہ ہم انتہائی جہد سے کام لیں اور خدائی پیشگوئیوں پر دل سے ایمان رکھتے ہوئے کسی تاخیر کے بغیر بھر پور اقدام کریں.اللہ تعالیٰ آپ سب کی مدد کرے تا اس کی تائید و نصرت کے نتیجہ میں آپ صحیح اور مؤثر 766 فیصلے کرنے میں کامیاب ہوں.رباط کا نفرنس اور ہفت روزہ ”لاہور رباط کا نفرنس میں بھارت کے مسلمانوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا.اس کے باوجود یہود نواز بھارتی حکومت کے سرکاری وفد جس کے قائد سردار گور بچن سنگھ تھے شریک کانفرنس ہونے کی اجازت دے دی گئی جو سراسر خلاف قاعدہ بات تھی اور یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب احمد آباد اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی.بھارتی وفد پہلے روز جب کانفرنس میں شریک ہوا تو پاکستان نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور صدر پاکستان جنرل آغا محمد یحی خان بھارتی وفد کی موجودگی کے خلاف احتجاج کے طور پر واک آؤٹ کر گئے.انہوں نے کہا کہ میں ایسی حکومت کے نمائندوں کے ساتھ کانفرنس میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں ہوں جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوں.اسی طرح کا نفرنس کا دوسرے روز کا اہم اجلاس معرض التواء میں پڑ گیا.بالآخر طویل ملاقاتوں کے بعد صدر پاکستان کا موقف تسلیم کر لیا گیا جس کے بعد صدر تکی خان نے اعلان کیا کہ حکومت پاکستان مقبوضہ عرب علاقوں سے اسرائیل کی فوجوں کو نکال باہر کرنے
تاریخ احمدیت.جلد 25 127 سال 1969ء اور مقدس مقامات کی آزادی کیلئے بھر پور کوشش کرنے کا تہیہ کر چکی ہے اور اس سلسلہ میں مسلم ممالک جو بھی کارروائی کریں گے پاکستان اس میں پوری طرح ساتھ دے گا.نیز کہا اگر ہم متحد ہو جائیں تو ہم نہ صرف اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں بلکہ دنیا کے ستر کروڑ سے زائد مسلمان ایک ایسی قوت بن سکتے ہیں جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا.رائٹر کے مطابق کانفرنس نے متفقہ طور پر ایک اعلامیہ منظور کیا جس میں فلسطینی عوام کی حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ انہیں فلسطین میں آباد ہونے کا حق ملنا چاہیے.اعلامیہ میں بڑی طاقتوں سے اپیل کی گئی کہ وہ شرق وسطی میں قیام امن کی کوششیں تیز تر کر دیں اور مقبوضہ علاقوں سے اسرائیلی افواج کی واپسی کی ضمانت دیں اور اس کے ساتھ ہی چار روزہ کا نفرنس ختم ہوگئی.جناب ثاقب زیروی صاحب مدیر اخبار لاہور نے رباط کانفرنس کے سلسلہ میں اپنے مؤقر جریدہ لاہور (۲۹ ستمبر تا ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۹ء) میں متعدد شذرات سپر د اشاعت کئے جن میں رباط کانفرنس میں بھارتی وفد کی شرکت پر تنقید کی اور اُن عرب ملکوں کے رویہ پر جنہوں نے کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا اس رائے کا اظہار کیا ”ہمارے ان بھائیوں کو ابھی تک یہودیوں کی مسلمان دشمنی کی وسعت و گہرائی ناپنے کی فرصت نہیں.بالفاظ دیگر بیت المقدس کی تقدیس اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کا کام آج نہیں تو کل غیر عرب مسلمانوں کو ہی اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا“.نیز لکھا ”شرق وسطی کی جنگ کے بعد اور اس کانفرنس کے دوران امریکہ نے جو مخاصمانہ رول ادا کیا اس کے بعد کسی مسلم اکثریت یا اقلیت کا اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جانا کہ مصیبت کے وقت (خواہ وہ راستی اور حق پر ہی کیوں نہ ہو ) امریکہ کبھی اس کے جائز حقوق اور مطالبات کی بھی اعانت کرے گا بدترین قسم کی حماقت سے کم نہیں.آپ نے رباط کا نفرنس کے شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”جہاں تک کانفرنس کی قرار دادوں کا تعلق ہے وہ عبارت آرائی ، لفاظی اور مظاہرہ شدت جذبات کے لحاظ سے بڑی جاندار ہیں لیکن اس تصویر کے کچھ اور رُخ بھی ہیں مثلاً یہ کہ کیا ان لفظی قراردادوں سے بیت المقدس کی بے حرمتی اور مسجد اقصیٰ کی تذلیل کے علاوہ یہودیوں کے جو گھناؤنے ارادے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بارہ میں ہیں ان کا مؤثر انسداد ہو سکے گا.کیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (جس کی تکمیل اُن مغربی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے جن کا رواں روآں یہودی سرمایہ کا شرمندہ احسان ہے ) اس کاج کو سنوارنے میں کوئی مدد دے سکے گی.وہ عرب ملک جو دشمن کے جبڑوں میں ہونے کے باوجود محض
تاریخ احمدیت.جلد 25 128 سال 1969ء عذرات لنگ کی بناء پر مسلم سربراہوں کی اس اہم ترین کا نفرنس میں شریک ہونے کی زحمت بھی گوارا نہ فرماسکے اور اب ایک بہیمت پرست مسلم کش غیر مسلم ملک سے سوشلسٹا نہ مظاہرہ رواداری کی رو میں بہ کر منفی قسم کی بیان بازی میں مصروف ہیں، کیا اُن سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سنگین مہم کو سر کر لیں گے اور کل کلاں کو اگر یہ تمام سہارے اوچھے ، ناکارہ اور ریت کی دیوار ثابت ہوئے تو کیا یہودِ نامسعود کے حوصلے کچھ اور نہیں بڑھ جائیں گے اور یہ کانفرنس نتائج کے اعتبار سے اس کے دل و دماغ سے پانچ چھ عرب ملکوں کی طرح باقی ہیں اکیس مسلم ملکوں کا رعب و دبدبہ بھی کم نہیں کر دے گا اور جو عرب ملک اپنی نام نہاد سوشلزم کے باعث آج بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کا نام لیتے ہوئے بھی انقباض محسوس کرتے ہیں ،صرف اس لئے کہ کہیں اُن سے ان کا اسلحہ دا تاروس ناراض نہ ہو جائے.کیا اس کانفرنس کے بعد بھی وثوق کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر کبھی اسرائیل نے مسلمانوں کے ان دونوں عظیم و مقدس شہروں کو میلی نگاہ سے دیکھا تو اس وقت ان کی یہی سوشلزم اُن کے دینی ولولوں کے آڑے نہیں آئے گی.اور ان سب تو جیہات اور تنقیحات کے بعد سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس جوش و خروش کے پس منظر و پیش منظر کا اپنی آنکھوں سے مظاہرہ کر لینے اور اسرائیل کے نشہ طاقت اور اس کے مکروہ عزائم کو خوب بھانپ جانے کے بعد کیا حساس اور حقیقی اسلام دوست مسلم ممالک پر یہ واجب نہیں ہو جاتا کہ وہ سب سے پہلے دشمن کے آئندہ مکروہ عزائم کا سد باب کرتے ہوئے فوری طور پر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کا کوئی مشترکہ منصوبہ بنائیں کیونکہ (جیسا کہ ایک شہدائے اسلام نے اسرئیل نامی ناسور کا منہ بنتے ہی یہ انتباہ کیا تھا ) کہ اب سوال زید یا بکر کی عزت کا نہیں رہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کا ہے.اور معاملہ صرف فلسطین کے تحفظ کا نہیں.بات مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے تحفظ کی فکر تک آ پہنچی ہے.آخر میں لکھا:.اگر موثر عملی قدم کے طور پر یہ کانفرنس اس فیصلہ پر بھی منتج ہوتی کہ رباط کا نفرنس کے تمام شرکاء ( ملک ) حفظ ماتقدم کے طور پر اپنی پندرہ پندرہ فیصد فوج دونوں متذکرہ بالا شعائر ( مکہ معظمہ و مدینہ منورہ) کے تحفظ کے لئے سعودی عرب بھیج دیں گے تو بیک وقت ہیں بائیس ڈویژن فوج کے عین سر پر آ بیٹھنے سے کم از کم دشمن کے آئندہ مکروہ جارحانہ عزائم کا رُخ تو مڑ جاتا.125
تاریخ احمدیت.جلد 25 129 سال 1969ء (حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب کا ولولہ انگیز پیغام ماریشس کے خدام کے نام اس سال مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس نے خالد کا ماریشین ایڈیشن شائع کیا جس کے صفحہ ۶ پر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا حسب ذیل ولولہ انگیز پیغام زیب قرطاس ہوا:.”بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس امسال (رسالہ) ”خالد کا ماریشس ایڈیشن شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.قابل احترام مبلغ انچارج مکرم اسماعیل منیر صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ ماریشس نے اس موقع پر مجھے اپنا پیغام بھجوانے کے لئے کہا ہے.لیکن رسمی پیغام سے قبل میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ماریشس کے لوگ بالخصوص جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں میرے بہت نزدیک اور مجھے بہت پیارے ہیں.احمدیت کی انتہائی مضبوط گرہ اور خدام الاحمدیہ کے بھائی چارے کے اضافی بندھن کے علاوہ بھی ، ماریشس کے لوگوں کے ساتھ میرے اور قسم کے دوستانہ تعلقات ہیں.تقریباً تمام زائرین جو گذشتہ کئی سالوں سے آپ کے ملک سے یہاں زیارت کے لئے تشریف لا رہے ہیں میں انہیں ذاتی طور پر جانتا ہوں اور ہم قریبی دوست ہیں.ان کی بہت سی یادیں ہیں جن سے میں محظوظ ہوتا ہوں.مزا جا ئیں ماریشس کے لوگوں کو پسند کرتا ہوں.وہ بہت ہی مہذب، شگفتہ مزاج محنتی ، بے تکلف اور دوستانہ رویہ کے مالک ہیں.کم از کم جن کو میں جانتا ہوں ان سب کے کرداران خصوصیات کے حامل ہیں.وہ سب آپ کے ملک کے اچھے سفراء ر ہے ہیں.ضمناً اس پیغام کے ذریعہ میں اپنا دلی احترام ان تک پہنچانا چاہوں گا اور انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ان کی یاد مجھے ہمیشہ پیاری رہے گی.اب جہاں تک پیغام کا تعلق ہے تو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اس مشکلات و مصائب کے دور میں جبکہ برائی کی طاقتیں تباہی پھیلا رہی ہیں اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 130 سال 1969ء انسانیت اپنی بیشتر قد رکھورہی ہے.یہ اہم سوال اٹھتا ہے کہ انسانیت کا آخر کیا انجام ہوگا ؟ ہر جگہ تباہ کن قوتیں دندناتی پھر رہی ہیں.ظلم، انتقام، جبر اور بغاوت جدید طرز زندگی کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.معاشرتی امن وسکون قصص پارینہ ہیں یا مستقبل بعید کی خام خیالیاں.ایک اداس کر دینے والی بے چینی دنیا پر چھا چکی ہے جس کے سائے ہر گزرتے گھنٹہ کے ساتھ گہرے ہوتے چلے جارہے ہیں.عنقریب نازل ہونے والے مصائب دھند کی طرح ہوا میں معلق ہیں.مذہبی اور اخلاقی ضابطے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں.بلکہ نہیں.ان کو تو ہنسی اور مذاق کا نشانہ بنایا جا چکا ہے.اچھے اخلاق اور شریفانہ رویوں کی پرانی قدیم روایات پراگندہ کر دی گئی ہیں اور باقی ماندہ صرف انسان کی ہزاروں سالہ ثقافتی ارتقاء کے ملبہ کا ڈھیر ہے.آزادی کو لاقانونیت خیال کیا جانے لگا ہے اور ہر طرف افرا تفری کا عالم ہے.انسانیت سر کے بل اخلاقی انتشار میں گرتی چلی جارہی ہے.مذہبی اور اخلاقی اقدار سے محروم ہونے کے بعد انسان کا معاشرتی ارتقاء جس جگہ اب کھڑا ہے، یہ اب دوبارہ ابتدائی انسانی ایام کی اتھاہ گہرائیوں میں ایک زبر دست چھلانگ لگانے کو ہے.اس لمبی اور افسوس ناک کہانی کا اختصار یہ ہے کہ در حقیقت ہم انسان کے دوبارہ بندر جیسی زندگی کے ابتدائی مراحل میں تبدیل ہو جانے کے مکروہ رجحان کا مشاہدہ کر رہے ہیں.قرآن کریم کی آیت میں مذکور الہی سزا کہ ذلیل بندر بن جاؤ“ (البقرہ: ۶۶) ، پہلے ہی تعمیل کے مراحل سے گذر رہی ہے.میرے اسلامی بھائیو اور وفادار دوستو ! یہ وہ ابتر حالات ہیں جنہیں دوبارہ درست کرنے کی ذمہ داری تمہیں سونپی گئی ہے.برائی کی یہ وہ زبر دست قو تیں ہیں جن کے خلاف تم نے برسر پیکار ہونا ہے، ان پر غلبہ پانا ہے، انہیں شکست دینا ہے اور اپنے پاؤں کے نیچے روند ڈالنا ہے.بھاری مشکلات آپ کے سامنے ہیں.انسانیت تو پہلے ہی ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے لیکن پھر بھی نہ تو صورتحال اتنی گھمبیر ہے اور نہ ہی
تاریخ احمدیت.جلد 25 131 سال 1969ء مصائب اس قدر ہیں جتنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر ایک ناممکن کام کو سر انجام دینے کے لئے قدم بڑھایا اور اسے کر دکھایا.اگر تم ان (ﷺ) کے (اس طور سے ) حقیقی پیروکار ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت، استقامت، ہمت ، جوش و جذ بہ اور دانگی ومسلسل دعاؤں کا عشر عشیر بھی تم میں موجود ہے تو یہ یقین کرلو کہ کبھی بھی رکا وٹیں تمہیں منزل کی طرف قدم بڑھانے سے روک نہیں سکتیں.وہ آسانی کے ساتھ تمہارے سامنے تحلیل ہوتی جائیں گی.اس قسم کے معجزات پہلے بھی وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی رونما ہوں گے لیکن شرط یہ ہے کہ تم نبی اسلام ﷺ کے نقش قدم پر چلو.اسلام اور صرف اسلام ہی انسانیت کو آخری تباہی سے بچا سکتا ہے.وہ مرہم جو زخمی انسانی دلوں کے دردوں کو کم کر سکتا ہے اور شفا دے سکتا ہے،صرف اور صرف اسلام ہے.وہ امن جو قوموں اور نظریاتی جھگڑوں کے بحران کو ہمیشہ کے لئے سکون مہیا کر سکتا ہے، وہ صرف اسلام ہی کا امن ہے.اسلام امن کا علمبر دار ہے، اس کا مطلب امن ہے اور امن کے لئے موزوں فضاء پیدا کرنے کی ہمیشہ کوششیں کرتا رہتا ہے.اگر آپ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے بچے خدام ہیں تو آپ کا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ آپ بھر پور ہمت اور استقامت کے ساتھ امن کے مقاصد کے لئے ، جیسا کہ اسلام کی اصطلاح سے سمجھا گیا ہے، کام کریں.اس (امن ) کا مطلب صرف جنگ یا سیاسی بدظمی کا نہ ہونا ہی نہیں ہے.اس کا مطلب ہے کہ انسان کا اپنے نفس میں مطمئن ہونا، اپنے خاندان، دوستوں اور ماحول میں پُر امن ہونا ، تمام انسانیت کے ساتھ پر امن، اور کائنات کے خالق و مالک کے ساتھ امن میں ہونا.اللہ آپ کو یہ مقدس کام ، جس حد تک کامل ہوسکتا ہو ، پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس جگہ بھی آپ ہوں امن کے پیغامبر بنیں اور امن کے عظیم پیغمبر کے حقیقی خدام ثابت ہوں.انتہائی محبت و تعظیم کے ساتھ“
تاریخ احمدیت.جلد 25 132 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا مجاہدین احمدیت سے خطاب سال 1969ء ۲۰ ستمبر ۱۹۶۹ء کو بعد نماز مغرب دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے احاطہ میں لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے بیرونی ممالک میں پیغام حق پہنچا کر واپس تشریف لانے والے اور اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے بیرونِ پاکستان روانہ ہونے والے بیس کے قریب مجاہدینِ احمدیت کے اعزاز میں ایک عشائیہ ترتیب دیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نہایت عارفانہ خطاب سے سرفراز فرمایا چنا نچہ سب سے پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا رَبِّ أَرِنِى حَقَائِقَ الاشياء ( ترجمہ.اے میرے رب مجھے اشیاء کے حقائق دکھلا ).ہمیشہ ور دزبان رکھنے کی تلقین فرمائی.پھر ارشاد فرمایا کہ مستشرقین میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے ان علوم میں بڑی مہارت حاصل کی ہے.ان میں سے ایک مارگولیتھ بھی گزرے ہیں.جنہوں نے بہت سی کتابیں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف لکھی ہیں.ایک وقت میں اس کا یہ دعویٰ تھا کہ میرا اسلام کا مطالعہ اتنا وسیع ہے کہ اس زمانہ میں کسی مسلمان عالم نے مسند احمد بن حنبل شروع سے آخر تک نہیں پڑھی ہے.لیکن میں نے یہ کتاب شروع سے آخر تک پڑھی ہے.اس دعوی میں وہ سچا تھا یا نہیں.اللہ تعالیٰ جانتا ہے.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے ذہن دیا تھا.اس نے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھا اور بہت سی کتب احادیث کی شرح کی بھی پڑھیں اور اس کے حافظہ نے بہت سی باتوں کو یاد کیا.اور اس شیطانی دل نے اسلام پر حملہ کرنے کا کوئی موقعہ نہ چھوڑا.یہ اس کی فطرت کا ایک حصہ تھا.آکسفورڈ کی پہلی ٹرم میں لاطینی وغیرہ زبانوں کا امتحان بھی پاس کرنا پڑتا ہے اور چونکہ غیر ملکی طلباء لاطینی وغیرہ کا علم نہیں رکھتے اس لئے انہوں نے فارسی ، عربی اور سنسکرت زبانوں میں سے کوئی ایک زبان لینے کی سہولت دی ہے.میں نے سہولت کی وجہ سے عربی زبان لی اور یہ صاحب ( مارگولیتھ ) وہاں عربی پڑھایا کرتے تھے.غالباً دوسرا یا تیسرا دن تھا کہ اسے اسلام پر حملہ کرنے کا پہلا موقعہ ملا اور اس نے اسلام پر اعتراض کیا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب بھی وہ اسلام یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے گا میں اس کا جواب دوں گا.چنانچہ جب اس نے اعتراض کیا تو میں کھڑا ہو گیا اور کہا کہ آپ نے جو استدلال کیا ہے وہ قرآن کریم کی فلاں آیت یا فلاں حدیث کے خلاف ہے.ان لوگوں اور خاص طور پر آکسفورڈ کے استادوں کا یہ طریق ہے کہ انہیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 133 سال 1969ء بحث کی عادت نہیں.اس نے کہا تمہارا یہ خیال ہے اور میرا یہ خیال ہے اور بات ختم کر دی.بہر حال جو تاثر وہ دینا چاہتا تھا وہ نہ دے سکا.دوسرے تیسرے دن اس نے پھر اعتراض کیا تو میں نے پھر اس کا جواب دیا.مصر کے بعض طلباء نے مجھے کہا کہ تم اپنے آپ پر کیوں ظلم کر رہے ہو.یہی پڑھانے والا ہے اور یہی امتحان لینے والا ہے.میں نے کہا یہ مجھے امتحان میں فیل نہیں کرے گا کیونکہ ان لوگوں کی تربیت ہی ایسی ہے کہ اگر میرا پر چہ ٹھیک ہوا تو یہ مجھے فیل نہیں کرے گا.غرض اس شخص کا دماغ گومعاند دماغ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے حافظہ اور ذہن عطا کیا تھا.اور گواس نے اس ذہن اور حافظہ کا غلط استعمال کیا لیکن اسلام کے ظاہری علوم میں اس میں (اور اس جیسے دوسرے مستشرقین ) اور مسلمان علماء میں کوئی فرق نظر نہیں آیا.سوائے دشمنی اور محبت کے فرق کے.پس وہ دل جو اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت سے خالی ہے.ممکن ہے کہ اگر اسے دلچسپی ہو اور وہ ذہن اور حافظہ سے کام لے اور کتابیں پڑھے تو بہت سے حوالے اس کو یاد ہوں گے اور وہ تقاریر لمبی کرے گا لیکن اس بات میں کہ کسی کو بہت سے حوالے یاد ہیں اور وہ تقریر کر سکتا ہے ایک مسلمان میں اور ایک مستشرق میں کوئی فرق نہیں بلکہ ممکن ہے ایک مستشرق ایک مسلمان سے زیادہ اچھا ذہن رکھتا ہو اور اس کو اس سے زیادہ حوالے ازبر ہوں اور اس کے مقابلہ میں وہ سینہ جو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت سے معمور ہو ممکن ہے اس کا حافظہ اور ذہن اتنا اچھا نہ ہو جتنا دوسرے گروہ میں سے کسی کا ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ اسے کسی وقت خدا تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہو اور وہ اُسے نہ ملے.خطاب کے آخر میں فرمایا اگر محض دلائل کام دے سکتے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت کے معجزانہ مشاہدہ کی ضرورت دنیا کو نہ ہوتی تو ہم مارگولیتھ جیسے عیسائی کو حوالے یاد کروا کے باہر بھیج دیتے اور ہمارا کام پورا ہو جاتا لیکن ہمارا یہ مقصد نہیں.ہمارا مقصد یعنی جماعت احمدیہ کے قیام کا یہ مقصد ہے کہ دنیا اللہ تعالیٰ کے حسن و احسان کے جلوے دیکھے.اگر ہمارے اپنے سینے خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی سے خالی ہوں تو دنیا ہمارے ذریعہ خدا تعالیٰ کی محبت ذاتی کے جلوے کس طرح دیکھ سکے گی.آپ ہمیشہ سوچا کریں اور یہ سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ میں آپ میں وقف کی روح پائی جاتی ہے یا نہیں.کیا آپ اللہ تعالیٰ سے اس قسم کی محبت کا تعلق رکھتے ہیں کہ دنیا چاہے آپ کو قیمہ کر دے آپ کے جسم کا ذرہ ذرہ کر دے لیکن خدا تعالیٰ سے محبت میں کوئی فرق نہ آئے.بہر حال یہ سوچنے کی بات ہے اور آپ ہمیشہ اس نہج پر سوچیں اور دعا کریں.میں تو ہمیشہ دعا کرتا رہتا ہوں اور آئندہ بھی کروں گا کہ جس حسین
تاریخ احمدیت.جلد 25 134 سال 1969ء شکل میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو دیکھنا چاہتا ہے اسی شکل میں آپ اسے نظر آئیں......اس کے بغیر ایک واقف زندگی کا کوئی مزہ نہیں.127- تعلیم الاسلام کالج کے فزکس بلاک کے پہلے مرحلہ کی تکمیل سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الثالث کے پیش نظر بر سوں قبل جو عظیم الشان منصور تعلیم الاسلام کا لج کی طبیعیات کی تجربہ گاہوں سے متعلق تھا اور جس کے لئے آپ کم و بیش دس سال سے خصوصی جد و جہد فرمارہے تھے حضور کی سر پرستی ، خاص توجہ اور غیر معمولی دلچسپی کے نتیجہ میں اکتوبر ۱۹۶۹ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا.اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کالج کو جدید ترین آلات سائنس سے آراستہ و پیراستہ ایسی بلند پایہ تجربہ گاہیں قائم کرنے کی توفیق مل گئی جن میں بی ایس سی (آنرز ) اور ایم ایس سی کے طلبہ کو بھی طبیعیات کی اعلیٰ تعلیم دی جا سکتی تھی اور اعلیٰ پیمانہ پر ریسرچ کا کام بھی جاری کیا جاسکتا تھا.کالج کی ان تجر بہ گاہوں اور ان کے ساز و سامان کی مختصر کیفیت ” نامہ نگار‘الفضل کے الفاظ میں سپر دقر طاس کی جاتی ہے:.تعلیم الاسلام کا لب فرس بلاک جوئی لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا ہے در حقیقت ایک عظیم تر منصوبے کا پہلا مرحلہ ہے.یہ منصوبہ کوئی دس سال قبل شروع کیا گیا تھا اس کا احاطہ اسی ایکڑ کے یہ قریب ہے.جب نئے کالج کا یہ جامع منصوبہ مکمل ہو جائے گا تو اپنی ذات میں ایک منفردشان کا حامل ہوگا.اس میں ایک سائنس بلاک، آرٹس بلاک، ایک ہال، ایک لائبریری، چھ ہوٹل، سٹاف کے کوارٹرز اور کیفے ٹیر یا وغیرہ ہوں گے اور یہ عمارت ڈگری اور پوسٹ گریجویٹ کے معیار تک تعلیم دینے کے کام آئے گی.پرانی عمارت میں صرف ایف اے کی کلاسیں رہ جائیں گی.نئے کیمپس میں پانی کی فراہمی کے مناسب انتظامات موجود ہیں اور اس لئے بے شمار درخت اگے ہوئے نظر آتے ہیں.چھپیں ایکڑ کا ایک باغ کیمپس میں داخل ہونے والوں کا استقبال کرتا ہے.اس کے علاوہ کھیل کے میدانوں میں سبزہ اپنی الگ بہار دکھاتا ہے.نیا فرکس بلاک جو مضبوط کنکریٹ سے تیار کیا گیا ہے ہیں ہزار مربع فٹ مسقف رقبے پرمش ہے اور اس میں متعدد تجربہ گاہیں بنائی گئی ہیں جن کا مختصر سا تعارف درج ذیل ہے.مشتمل (1) Low Pressure Physics اس لیبارٹری میں Backing and Diffusion
تاریخ احمدیت.جلد 25 135 سال 1969ء Pumps کے دو مکمل یونٹ موجود ہیں ایک چھوٹا سا Glass Blowing Unit بھی لگایا گیا ہے.(۲) Nuclear Physics Laboratory - ایلفا اور گیما کے تابکار ذرات منگوائے گئے ہیں اس کے علاوہ GM Counters اور Timer/Scaler یونٹ بھی موجود ہیں.اس لیبارٹری میں ایک بہت حساس Electrometer بھی نصب کیا گیا ہے جو 12-Amperes10 تک کی لہروں کو ماپ سکتا ہے.عام کلاسیکل تجربات میں مندرجہ ذیل تجربات شامل ہیں :.(1)E/M الیکٹران کی تعین کی جے جے تھامسن ٹیوب.(۲) الیکٹرانک چارج دریافت کرنے کاMilikan Oil Drop کا تجربہ.(۳) الیکٹرانک لیبارٹری.اس میں اعلیٰ درجہ کا الیکٹرانک سامان موجود ہے.الیکٹرانک کا یہ سامان معیاری غیر ملکی فرموں کا تیار کردہ ہے تاہم کچھ ایسے تجربات بھی ہیں جو ہماری لیبارٹری میں ہی بڑی کامیابی سے تیار کئے گئے ہیں.(Spare Parts) فالتو پرزے بھی وافر تعداد میں منگوائے گئے ہیں تا کہ کام کے دوران دقت پیش نہ آئے.ان پر کوئی ۵۰,۰۰۰ روپے خرچ آیا ہے.ٹرانسسٹر سے تعلق رکھنے والے تجربات کے لئے ایک Mini-lab بھی منگوائی گئی ہے Solderless Joint Assembly اس کی خصوصیت ہے اس طرح اس کے مختلف آلات مختلف تجربوں میں بار بار استعمال کئے جاسکتے ہیں.۴.ورکشاپ "80x50 کی ایک ورکشاپ بنائی گئی ہے جس میں ورکشاپ کے سامان کے علاوہ ایک لیتھ ،ڈرلز اور Coil Winding مشین بھی موجود ہے.ہوائی جہاز کا ایک انجن بھی موجود ہے.خاص آلات کے ذریعے اس کے سسٹم سے طلباء کو آگاہ کیا جاسکتا ہے..آپٹک لیبارٹری Optic Lab میں تین ڈارک روم (Dark Rooms) ہیں جو ہوا خارج کرنے والے پنکھوں سے آراستہ ہیں.ان کمروں میں طبیعیات کے بعض عالمی شہرت کے تجربات نصب کئے گئے ہیں..بی ایس سی آنرز کی لیبارٹری.اس میں وہ تجربات موجود ہیں جو بی ایس سی آنرز کے نصاب میں موجود ہیں.ے.بیٹری روم.ایک علیحدہ بیٹری چار جنگ روم بنایا گیا ہے جس میں چار یونٹ لگائے گئے ہیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 136 سال 1969ء ان میں سے دو تو ایسے ہیں جن کی نظیر سارے پاکستان میں شائد نہیں ملے گی..سٹور.سٹور کا حصہ تین مختلف سٹوروں پر مشتمل ہے جو بیک وقت بی ایس سی اور ایم ایس سی کی کلاسز کے کام آسکتا ہے.لیکچر روم.ایک بڑے تھیٹر کے علاوہ دو چھوٹے لیکچر روم بھی بنائے گئے ہیں.تھیٹر میں سمعی اور بصری تعلیم کی بھی مکمل سہولتیں مہیا کی گئی ہیں.۱۰.دفتر.جنوبی حصے میں " 13 × 18 کے چار کمرے پر وفیسروں کے مطالعہ اور دفتر کے لئے مختص ہیں ان میں سے ایک کمرہ کمیٹی روم کے طور پر استعمال ہوگا.جہاں طلباء اور اساتذہ باہم مل کر گفتگو کرسکیں گے.۱۱.لائبریری.فزکس کی اپنی علیحدہ لائبریری ہے جس میں ایک ہزار سے زیادہ مستند، مفید اور نایاب کتب مہیا کی گئی ہیں.ان میں سے خاص طور پر قابل ذکر وہ چودہ سائنس کی ڈکشنریاں ہیں جو خاص تحقیقی کاموں اور روزمرہ کے تجربات کے لئے انتہائی مفید ہوں گی.یہ سارا منصوبہ حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی ذاتی دلچسپی اور توجہ سے پروان چڑھا ہے.مجددیت سے متعلق ایک نامہ تخیل کی تردید 66 128 ان دنوں اس غلط تخیل کو بڑی کوشش سے جماعت میں پھیلایا جارہا تھا کہ اس وقت کوئی مجدد نہیں.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو اس شیطانی وسوسہ کی پُرزور تردید کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اور امتوں کو تو چھوڑو بنی اسرائیل میں ایک وقت میں سینکڑوں ہزاروں مجدد ہوا کرتے تھے.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ مجدد اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور روحانی سلسلہ جہاں سے بھی شروع ہوا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور مثیل موسیٰ ہونے کی حیثیت سے آیت استخلاف کے ماتحت آپ کے سلسلہ میں بھی ہزاروں لاکھوں مجددین کا آنا ضروری تھا.چنانچہ یہ تجدید دین کرنے والے ہر علاقہ اور ہر ملک میں آئے اور انہوں نے تجدید دین کا کام باحسن طریق ادا کیا.نائیجیریا کے عثمان فودیو
تاریخ احمدیت.جلد 25 137 سال 1969ء بھی مجدد تھے.انہوں نے اپنے زمانہ میں بڑی بے نفسی سے اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش کی ہے.آپ صاحب کشوف ورؤیا اور صاحب الہام تھے.اس زمانہ میں مثلاً ہمارے مبلغ ہیں جو دنیا کے مختلف علاقوں میں کام کر رہے ہیں.ہمارے کئی مبلغین ساری عمر افریقہ میں رہے ہیں اور بعض نے تو وہیں اپنی جان بھی دے دی ہے.یہ مبلغ بھی تو آخر تجدید دین ہی کا کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں سینکڑوں ہزاروں مجدد ہر وقت موجود رہتے ہیں.بہر حال یہ بڑا غلط تخیل ہے جو اس وقت بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہو گیا ہے کہ اس وقت کوئی مجدد نہیں اور اس شیطانی خیال کو بڑی کوشش سے پھیلایا جا رہا ہے حالانکہ بڑی عجیب بات یہ ہے کہ خلافت راشدہ تو موجود ہے جو مجددوں کی سردار ہے مگر مجدد کوئی نہیں.اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپہ سالار موجود ہے لیکن فوج موجود نہیں.صحابہ جنہوں نے اسلام کی اشاعت کی وہ بھی مجدد تھے.دراصل بات یہ ہے کہ کوئی صدی بھی مجددین سے خالی نہیں رہی.ہر صدی کے شروع میں بھی مجد در ہے ہیں ، وسط میں بھی مجد در ہے ہیں اور آخر میں بھی مجدد ر ہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اسلام پر انتہائی تنزل کا زمانہ تھا.اس وقت بھی خدا تعالیٰ کے مقربین اسلام میں بحر ذخار کی طرح موجود رہے ہیں گویا وہ تنزل کا زمانہ بھی نسبتی تنزل کا زمانہ تھا.یہ مقربین اپنی اپنی جگہ چھوٹی چھوٹی شمعیں جلائے بیٹھے تھے.دیکھو خلافتِ راشدہ کے سلسلہ کے خلفاء امام اور مجددین بھی تھے.صدی کے سر پر جو مجد دین آئے ان میں اور خلفائے راشدین میں نمایاں فرق ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حکم ساری امت پر چلتا تھا لیکن صدی کے سر پر آنے والے مجددین میں سے کسی ایک کا حکم بھی ساری امت پر نہیں چلا بلکہ ان کا حکم اپنے اپنے زمانہ اور اپنے اپنے علاقہ کے لوگوں پر چلا.وہ انبیائے بنی اسرائیل کی طرح محدود علاقہ کے لئے تھے.اور پھر وہ محدود زمانہ کے لئے تھے لیکن حضرت ابو بکر
تاریخ احمدیت.جلد 25 138 سال 1969ء کا حکم ساری دنیا پر چلتا تھا.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کئی نئے ممالک فتح ہو چکے تھے اور حضرت عمر کا حکم ان سب ممالک پر چلتا تھا.روحانی اور دینی لحاظ سے بھی.ان سب ممالک کے رہنے والوں کو آپ کا فتویٰ آپ کا حکم اور آپ کا فیصلہ ماننا پڑتا تھا.اور اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے تھے.جو آپ کا حکم ،فتویٰ یا فیصلہ ماننے سے انکار کرتا تھا.وہ باغی سمجھا جاتا تھا لیکن ان کے مقابلہ میں حضرت سید احمد صاحب شہید کولو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجدد تھے.انہوں نے کیا کوشش کی کہ نائیجیریا کے لوگ ان کی بات مانیں.انہوں نے اس کے لئے کوئی کوشش نہیں کی اس لئے کہ صدی کے سر پر آنے والا مجد دساری دنیا کے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے علاقہ اور زمانہ کے لئے ہوتا ہے.پھر عثمان فو د یو کو لے لو وہ نائیجریا کے مجدد تھے.ان کے پیدا ہونے سے پہلے ملک کے اخیار کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ عنقریب مجدد پیدا ہو گا.آپ ان بشارتوں کے مطابق پیدا ہوئے لیکن اس کے باوجود انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی کہ شامیوں یا چینی مسلمانوں سے اپنی بات منوائیں.اگر وہ شامیوں کی طرف سے بھی مجدد تھے تو انہوں نے ان سے اپنی بات نہ منوا کر خود خدا تعالیٰ کی بات کو نہ مانا جو درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف مجدد ہی نہ تھے بلکہ آپ مامورمن اللہ تھے.آپ ظلی نبی تھے اور کمال ظلیت اور فنافی الرسول میں آپ اول نمبر پر تھے.آپ کے نبوت کے دعوی کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت آپ کے پاس ہی رہی.اور کمال ظلیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا مشن بھی ساری دنیا کے لئے ہے جیسا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ساری دنیا کے لئے تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں حالات بھی ایسے پیدا کر دیئے ہیں کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہو رہی ہے.مسلمانوں کو قرآن کریم کے صحیح معنی سے متعارف کرایا جا رہا ہے اور غیر مسلموں کو اسلام کے حسن اور احسان کے ذریعہ اسلام کی طرف لایا جارہا ہے اور اللہ ہی فضل کر رہا ہے کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی انسان کا کام نہیں.یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے.اس لئے ایک احمدی کو تو ہر وقت الحمد للہ رب العالمین کہتے رہنا چاہیے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 حضرت عثمان ڈان فو ڈیو کا ذکر خیر 139 سال 1969ء حضرت خلیفہ المسح الثالث نے سے اکتوبر ۱۹۶۹ء کومجددین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا: نائیجیریا کے عثمان خود یو بھی مجدد تھے.انہوں نے اپنے زمانہ میں بڑی بے نفسی سے اسلام کی اشاعت کے لئے کوشش کی ہے.آپ صاحب کشوف ورؤیا اور صاحب الہام تھے.150 حضرت عثمان ڈان فو ڈیو کا مختصر تعارف درج ذیل ہے.آپ ۱۷۵۴ء میں نائیجیریا کے شمالی علاقہ میں مراٹا Marata کے مقام پر پیدا ہوئے اور ۱۸۱۷ء میں ۶۳ سال کی عمر میں آپ کا وصال ہوا.آپ فلانی قبیلہ کی ایک شاخ سے تعلق رکھتے تھے جسے ٹورونکاواToronkawa کہتے تھے اور جن کے متعلق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ از منہ گزشتہ میں ان کی رگوں میں عرب خون دوڑتا تھا.ان کے قبیلہ کے لوگ زیادہ تر درس و تدریس اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہتے تھے اور لوگوں کی نظروں میں دوسروں سے بہتر مسلمان تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اسلامی شرع کی سختی سے پابندی کرتے تھے.حضرت عثمان ڈان فو ڈیو جوانی ہی میں بہت بڑے عالم باعمل تھے.اس طرح ان کے خاندان کے دیگر بہت سے افراد بھی علمی شغف رکھتے تھے.آپ نے اوائل عمر میں اپنے والد محترم اور چا سے تعلیم حاصل کی تھی اور جبکہ وہ ابھی تعلیم حاصل کر رہے تھے انہوں نے ساتھ ساتھ تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا.اس وقت وہ ڈیگل میں مقیم تھے.اس سے تھوڑا ہی عرصہ بعد انہوں نے ڈیگل سے نکل کر دیگر علاقوں میں بھی لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیم کی طرف توجہ دلانی شروع کر دی.ان تبلیغی دوروں کے دوران حضرت عثمان کو بعض علاقوں کے حاکموں سے ملنے اور انہیں اسلامی عقائد اور سلاطین کے فرائض کی طرف توجہ دلانے کا فریضہ سرانجام دینا پڑا.ان کے اپنے علاقہ کے ساتھ ملحق ایک ریاست جس کا نام گو بیر تھا، کے سلطان باور سے بھی وہ ملے.ان ملاقاتوں نے ان کی عظمت کو بہت بڑھا دیا.تبلیغ کے نتیجہ میں ان کے پیروکاروں کی تعداد سرعت سے بڑھی.چونکہ سلاطین ایسے لوگوں کو ہمیشہ اپنی مٹھی میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور جوان کے ہاتھ نہ آئے اسے طرح طرح کی تکالیف پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.آپ کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا.آپ کو شہید کرنے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اللہ نے آپ کی حفاظت فرمائی.آپ کی تبلیغ کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 140 سال 1969ء نتیجہ میں جن لوگوں نے آپ کی روحانی قیادت کو تسلیم کیا ان سب کو آپ نے ایک جماعت کی لڑی میں پرو دیا اور اس طرح مومنوں کی ایک الگ جماعت بن گئی.آپ کی تبلیغی سرگرمیوں کے نتیجہ میں آپ اور آپ کی جماعت پر پابندیاں بھی لگا دی گئیں.جب ظلم و ستم کی انتہا ہوئی تو آپ نے اپنی جماعت کو ہجرت کرنے کا ارشاد فرمایا چنانچہ سب گوڈو کی طرف ہجرت کر گئے.گوڈو میں بھی دشمنوں نے متعدد حملے کیے اور آخر ۱۸۰۸ء میں گو بیر کا سلطان مارا گیا اور دارالخلافہ حضرت عثمان فوڈیو کی جماعت کے ہاتھ آیا.اس فتح کے بعد حالات سرعت کے ساتھ بدلنے لگے اور لوگوں کو آپ کی جماعت کی طاقت کا اندازہ ہو گیا.کہا جاتا ہے کہ باوجود اشتعال انگیزی کے حضرت عثمان ڈان فوڈیو نے خود جنگ میں کبھی حصہ نہیں لیا تھا البتہ جنگ کے دوران اپنی فوجوں کی راہنمائی ضرور کرتے تھے.ان کے پیروکار انہیں امیر المومنین کے لقب سے یاد کرتے.اپنوں اور غیروں کا بھی ان کے متعلق یہی تاثر تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ تمام مسلمان رسول اکرم ﷺ کے نقش قدم پر چلیں.سوکوٹو کے سلطان کو آج بھی امیر المومنین کہا جاتا ہے اور سلطان ہمیشہ حضرت عثمان ڈان فوڈ یو 131 کے خاندان ہی سے منتخب کیا جاتا ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا سفر لا ہور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اس سال کا تیسرا سفرسفر لاہور تھا.حضور ۸/اکتوبر ۱۹۶۹ء کو لا ہور تشریف لے گئے اور ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو واپس مرکز احمدیت ربوہ میں وارد ہوئے.حضور نے محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو ربوہ میں امیر مقامی مقرر فرمایا.کراچی کی طرح اس سفر میں بھی چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ نے پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے.حضور کا قیام کوٹھی پام ویو ۵ ڈیوس روڈ میں تھا جہاں کوٹھی کے ملحقہ وسیع اور خوبصورت لان میں ایک طرف شامیانے کے نیچے نمازیں ادا کرنے کا انتظام تھا دوسری طرف زائرین کے لئے کرسیاں بچھائی گئی تھیں.حضور کی کار جو نہی کوٹھی کے اندر داخل ہوئی فضا اھلا و سهلا و مرحبا کی دلر با آوازوں سے گونج اٹھی.پیارے امام کے اس والہانہ استقبال کا یہ منظر نہایت ہی پر کیف اور ایمان افروز تھا.عشاق خلافت فرط عقیدت سے تقریباً ایک گھنٹہ سے دو رویہ قطار میں کھڑے اپنے مقدس آقا کی آمد
تاریخ احمدیت.جلد 25 141 سال 1969ء کے بیتابی سے منتظر تھے.حضور کار سے باہر تشریف لائے تو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور اور دوسرے احباب نے حضور کا نہایت گرمجوشی سے خیر مقدم کیا.۹ را کتوبر کو حضور نے اراکین مجلس عاملہ جماعت احمد یہ لا ہور کو اجتماعی ملاقات کا شرف بخشا.اس موقع پر حضور نے شعبہ اصلاح و ارشاد کے سلسلہ میں فرمایا یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں اپنے نقطہ نظر کو مؤثر رنگ میں پیش کرنے کے لئے قرآن کریم اور دیگر کتب اسلامیہ پر مشتمل دلائل و براہین کو ذریعہ بنانا پڑتا ہے لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے نقطۂ نظر کے اظہار کے اس طریق کار میں مزید وسعت پیدا کریں.اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم محسن انسانیت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کی ظلیت میں آپ کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی تعمیل میں غریب عوام سے بالخصوص خادمانہ اور ہمدردانہ تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں.آج کا غریب طبقہ ہر طرف سے دھتکارا ہوا ہے حتی کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کا جو انسانی شرف قائم کیا ہے اس سے بھی وہ محروم ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم بلا لحاظ رنگ و نسل یا مذہب وملت ہر غریب و بیکس کی عزت واحترام کریں اور اس سے نہایت ہمدردی اور پیار کا سلوک روارکھیں.حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا احمدیوں کو اللہ تعالیٰ نے حقائق سے بہرہ ور فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا اور اپنے فضل سے ان کی مشکلیں آسان فرماتا ہے.چنانچہ ہر احمدی بقدر استطاعت اللہ تعالیٰ کے فیوض اور اس کے انوار کو کم و بیش اپنی زندگی میں جلوہ گر پاتا ہے.اس شرف میں اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی شریک کرنا انسانی فرض ہے.یہ بھی دراصل ایک غربت ہی ہے کہ وہ خدائے بزرگ و برتر کی ذات وصفات کے علم و عرفان سے بے بہرہ ہیں.مالدار لوگ تو دنیا کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ویسے ان کو بھی اس سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن اصل مسئلہ اس وقت غریب و بے سہارا لوگوں کی غربت کا علاج اور ان کے دکھ درد کا مداوا اور ان کے حقوق کی حفاظت ہے.پس ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ مجسم اخلاق بن جائیں.انسانی شرف کو قائم کرنے کی غرض سے حسنِ اخلاق اور غریبوں اور بے بسوں کی ضروریات کو حتی المقدور پورا کرنے کے لئے یہ دوہرے جلوے دکھانے میں ہر وقت کوشاں رہے کیونکہ خوش خلقی ، اچھا سلوک اور نیک نمونہ ہی علاج کا بہترین طریق ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 142 سال 1969ء اسی روز حضور مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے مجلس علم و عرفان میں رونق افروز ہوئے اور احباب جماعت کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سیر حاصل مطالعہ اور مسائل کی گہری تحقیق کرنے کی ہدایت فرمائی اور بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب دراصل دینی علوم کا ایک بحر ذخار اور ایک قیمتی خزانہ ہے.ان علوم سے بے بہرہ ہونے اور اس دولت بے بہا سے خود کو بھی اور اپنی نسلوں کو بھی مالا مال کرنے میں کسی دم بھی غافل نہیں رہنا چاہیے.نیز فرمایا کہ کتب سلسلہ کے گہرے اور مسلسل مطالعہ کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جملہ دعاوی پر علی وجہ البصیرت ایمان نصیب ہوتا ہے اور اس میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور اس طرح مخالفین حق کے ہر وار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی توفیق ملتی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تجدید دین اور احیائے اسلام کے شاندار کارناموں کے ذکر پر حضور نے فرمایا کہ امت محمدیہ کو یہ بشارت دی گئی تھی کہ ہر زمانہ میں سینکڑوں ہزاروں اخیار و ابرار احیائے اسلام کے لئے پیدا ہوتے رہیں گے.البتہ اس سلسلہ اولیاء کی کڑی میں سے نمایاں طور پر بالعموم صدی کے سر پر آنے والے مجددین کا وجود ہوگا جو ایک ہی وقت میں کئی ہو سکتے ہیں.حضور نے فرمایا اسلامی لٹریچر اور واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف علاقوں میں کئی کئی مسجد دین ہوتے رہے ہیں.اسی لئے اسلام کے مختلف مکتب فکر کی کتابوں میں ایک ہی صدی کے مختلف مجددین تسلیم کئے گئے ہیں پس امت محمدیہ پر کبھی ایسا زمانہ نہیں آیا کہ وہ اولیاء اللہ کے وجود سے خالی رہی ہوتی کہ فیج اعوج کے گئے گزرے زمانہ میں بھی اولیاء اللہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجود رہے ہیں.پس کسی بھی زمانہ کو مجدد کے وجود سے خالی سمجھنا ایک ایسا شیطانی خیال ہے جس کی زد براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑتی ہے کہ نعوذ باللہ آپ کی یہ بشارت پوری نہیں ہوئی کہ ہر زمانے میں تجدید دین کرنے کے لئے سینکڑوں ہزاروں مجددین آتے رہیں گے.البتہ ان مجددین میں موعود مجدد ایک ہی ہے جو مسیح موعود علیہ السلام ہیں.ان پر آکر ایک سلسلہ مجددین ختم ہو جاتا ہے البتہ دوسرا سلسلہ جس میں ایک وقت میں احیائے دین ، استحکام دین اور اشاعت قرآن کے لئے سینکڑوں ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں اور عملاً سرفروش مجاہدین دین کی شکل میں موجود بھی ہیں.یہ سلسلہ اپنی جگہ پر قائم ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سلسلہ خلافت میں مجددین کی اس روحانی فوج کے سربراہ ہمیشہ خلفائے وقت ہی ہوتے رہیں گے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 143 سال 1969ء ۱۰ اکتوبر کو حضور نے مسجد دارالذکر میں ایک پُر معارف خطبہ ارشاد فرمایا.جس میں خلافت حقہ کی عظیم نعمت پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا اللہ تعالیٰ اپنی خاص مشیت کے ماتحت بظاہر ایک کم مایہ اور نا تجربہ کار شخص کو مسند خلافت پر بٹھاتا ہے اور پھر اس کے فضل سے اس کے وجود میں قدرت ثانیہ کا ظہور اس رنگ میں جلوہ افروز ہوتا ہے کہ اس کے مقابلے میں جولوگ اپنے آپ کو بڑا کرتا دھرتا سمجھتے ہیں یا اپنی تجربہ کاری اور تجر علمی کا دم بھرتے ہیں.وہ اس کے جلال و جمال اور عقل و فراست کے سامنے مات کھا جاتے ہیں.ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں.خلافت اولیٰ اور پھر خلافت ثانیہ کے حالات اور واقعات اس کے شاہد ناطق ہیں.خلافت ثالثہ کا قیام بھی انہی بنیادوں پر عمل میں آیا ہے.اس وقت بھی جماعت میں بڑے عالم، بڑے بزرگ اور بڑے ولی موجود تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب مجھے کم مایہ پر پڑی.میں اپنی ذات میں کچھ نہیں ہوں.میرا پہلا اور آخری سہارا اللہ تعالیٰ ہے.اللہ تعالیٰ مجھ سے جب اپنے پیار کا اظہار فرما تا اور اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش برساتا ہے.تو میرا دل جذبات تشکر سے لبریز ہوکر اس کے حضور اور زیادہ جھک جاتا ہے.اس عاجزی اور کم مائیگی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحمت کے سہارے پر خلیفہ وقت کو ایک غنی کا مقام بھی حاصل ہوتا ہے.اور اس لحاظ سے اسے منافقوں،ست اعتقادوں اور متکبروں کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی.پس خلافت حقہ اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے اس کی قدر کرنے اور اس کی برکات سے متمتع ہونے میں ہر ایک کی اپنی دین ودنیا کی بھلائی اور ہم سب کی خوشی ہے.حضور کی لاہور میں تشریف آوری اور مختصر قیام کے پیش نظر ضلع کی شہری اور دیہاتی جماعتوں کو بھی حضور کی ملاقات اور حضور کے ارشادات سے مستفید ہونے کے لئے ملک منور احمد صاحب جاوید قائد ضلع لاہور ( حال نائب ناظر ضیافت ربوہ) نے احباب کے بسہولت لاہور پہنچنے کے لئے بس کا انتظام کیا.چنانچہ قصور، للیانی، کھیر پڑ، لدے کے نیویں، ہڈ پارہ ، جوڑہ ، ہانڈ و، باٹا پور، کماس ، راجہ جنگ اور شاہدرہ ٹاؤن کے ایک سو سے زائد ا حباب ایک سپیشل بس پر لاہور پہنچے.حضور نے اس روز مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں اور اس کے بعد احباب کو مختلف علمی اور دینی موضوعات پر اپنے ارشادات عالیہ اور بیش قیمت نصائح سے مستفیض فرمایا.چنانچہ فرمایا کہ قانون کی خلاف ورزی کی سزا کے لحاظ سے چھوٹے بڑے کا سوال پیدا نہیں ہونا چاہیے.قانون کی نگاہ میں سب برابر ہیں.ہمیشہ اچھی اور پائیدار حکومت وہی ثابت ہوتی ہے جس میں قانون کا احترام پایا جاتا ہو.حضور نے فرمایا کہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 144 سال 1969ء چنگیز خاں اور اس کے جانشین جن کا کوئی دین و مذہب نہ تھا.آجکل کی مہذب دنیا کی انہیں ہوا تک نہیں لگی تھی مگر ان کی حکومت میں ان کے اپنے انداز کا جو قانون پایا جاتا تھا اس کی سختی سے پابندی کرائی جاتی تھی.چنانچہ ان کی حکومت میں عورتیں سر پر سونے کے گھڑے اٹھائے کھلے بندوں پھرتی تھیں.یہاں تک کہ سونے اور جواہرات کے چھکڑے باہر ہی پڑے رہتے تھے لیکن ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا.لوگ امن و امان سے زندگی گزارتے تھے.مسلمانوں کیلئے یہ لحہ فکر یہ ہے کہ ان کے پاس تو اتنی حسین اور پر حکمت تعلیم ہے.وہ کیوں اس پر عمل نہیں کرتے ؟ حضور نے فرمایا کہ اگر ہمارے ملک میں حکومت اسلامی سزاؤں کو نافذ کر دے تو صرف دس بارہ چوروں کے ہاتھ کاٹنے ہی سے چوری چکاری کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ہے.حضور نے پیدائشی احمدیوں کو بالعموم اور ان کی نوجوان نسل کو بالخصوص یہ نصیحت فرمائی کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر علی وجہ البصیرت ایمان رکھنا چاہیے اور ذہنی طور پر انہیں تسلی ہونی چاہیے کہ حضرت اقدس کی عطا فرمودہ تعلیم ، صداقت پر مشتمل اور حکمت سے پر ہے اور اگر ان کے دل میں کسی وقت کسی وجہ سے کوئی شبہ پیدا ہو تو انہیں اس کا جرات کے ساتھ اظہار کرنا چاہیے.حضور نے احباب جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلبہ اسلام کی بشارتوں اور پیشگوئیوں سے لبریز کتب کو ہمیشہ پڑھنے اور پڑھانے کی ہدایت فرمائی.یہ بابرکت مجلس علم و عرفان بالآخر دو دوستوں کی بیعت پر منتج ہوئی.جن میں سے ایک دوست نے ایک خطیر رقم حضور کی خدمت میں پیش کی جسے حضور نے قبول فرمایا اور اسے جاپان مشن کی مد میں بھجوانے کا ارشاد فرمایا.۱۱ اکتوبر کو حضور نے مجلس علم و عرفان کے دوران اس حقیقت کی نہایت لطیف پیرائے میں وضاحت فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں قیامت تک کے زمانے تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کا دائرہ تمام ملکوں پر حاوی ہے.اس لئے یہ کہنا کہ آپ صرف اس صدی کے مجدد تھے واقعاتی لحاظ سے بھی صحیح نہیں ہے.یہ صرف آپ کا وجود ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر پیشگوئیاں کیں.اسی طرح امت مسلمہ کے کئی بزرگوں نے اس موعود کے متعلق اپنی کتابوں میں ذکر کیا.یہاں تک کہ ان بشارتوں اور پیشگوئیوں سے آپ کے زمانہ بعثت کی تعیین بھی ہو جاتی ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ موعود روحانی فرزند جس نے ایک عظیم انقلاب بپا کرنا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں.آپ ہی کی بعثت پر ایک سلسلہ مجددین
تاریخ احمدیت.جلد 25 145 سال 1969ء ختم ہو جاتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ایک اور وعدہ دیا گیا ہے جو قدرت ثانیہ کا ظہور یعنی خلافت حقہ کا قیام ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے مجددین میں فرق کرنا پڑتا ہے اسی طرح اس موعودہ قدرت ثانیہ کے ظہور یعنی خلیفہ وقت اور دوسرے اخیار وابرار میں بھی فرق کرنا ضروری ہے.اسی روز کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کے اعزاز میں اپنی رہائش گاہ (18 جی گلبرگ) میں ایک دعوت عشائیہ دی.جس میں نامور عالم ، چوٹی کے وکیل ،مشہور دانشور، ماہرین فن اور اعلیٰ کا روباری لوگ بھی شامل تھے.حضور کی جذب و کیف میں ڈوبی ہوئی نہایت بصیرت افروز گفتگو مادی نعماء کے ساتھ ساتھ روحانی مائدہ کا کام بھی دے رہی تھی.جناب یوسف سلیم شاہد صاحب ( انچارج شعبہ زود نویسی ربوہ ) ایم اے کے الفاظ میں حضور کے یہ کلمات کیا تھے بادصبا کے خوشگوار جھونکے تھے جن سے دل کی کلیاں کھل اُٹھیں اور ان میں شگفتگی اور بہار آ گئی.کھانے سے فارغ ہونے کے بعد بھی حضور دیر تک ملک وملت کی فلاح و بہبود، عالم اسلام کے اتحاد و اتفاق ، اسلام کی عظمت وسطوت کے علاوہ کئی دیگر علمی و دینی موضوعات پر نہایت خیال افروز اور معلومات افزا گفتگو فرماتے رہے.۱۲ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو حضور نے مجلس عرفان میں جائزہ لیا کہ کتنے احباب کے پاس تفسیر سورۃ فاتحہ اور تفسیر صغیر ہے.جائزہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ جن کتابوں کا ہر احمدی کے پاس ہونا ضروری ہے ان میں تفسیر صغیر، تفسیر کبیر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے وہ حوالے جنہیں میر داؤد احمد صاحب نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا ہے شامل ہیں.آپ نے فرمایا کہ اگر انسان انہیں ہی پڑھتار ہے تو یہ بات یقینی ہے کہ اس کا علم بڑھ جائے گا اور جہاں تک ان اقتباسات کا تعلق ہے جو مختلف عناوین کے تحت جمع کر دیے گئے ہیں اگر ان سارے اقتباسات کو دیکھ لیا جائے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر بہت حد تک عبور حاصل ہو سکتا ہے.آپ سے کوئی بات کرے تو آپ فورا سے جواب دے سکتے ہیں.اسی روز لجنہ اماءاللہ لاہور سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خدا تعالیٰ کی حسین آواز نے آپ کو یوں مخاطب کیا ہے کہ اے میری بچیو آؤ اوران راہوں پر چل کر میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ.آپ کو ایک طرف اللہ تعالیٰ نے
تاریخ احمدیت.جلد 25 146 سال 1969ء یہ حکم دیا ہے کہ آپ اپنے لیے اللہ تعالیٰ کی جنتوں کو حاصل کریں.اور دوسری طرف آپ کو خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ اے میری بچی! میں جنت کی طرف آواز دیتا ہوں مگر تو اس طرف متوجہ نہیں ہوتی.تیرے دل میں یہ خواہش تو پیدا ہوتی ہے کہ تیرے بچے دنیاوی جنتوں کے وارث بنیں.سب سے بڑا ورثہ اور سب سے زیادہ قیمتی مال جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.وہ حضرت محمد طفی اللہ کا دین ہے.وہ قرآن کریم کے جواہرات ہیں.وہ اسلام کا حسن ہے.تمام احمدی بہنوں کا فرض ہے کہ وہ قرآن کریم پر غور کرتی رہیں اور اس کی جملہ ہدایتوں پر عزم اور ہمت سے عمل کرتی رہیں.جس طرح وہ دنیوی اموال کے متعلق یہ خواہش رکھتی ہیں کہ ورثہ میں ان کی اولا د کو بھی ملیں اسی طرح وہ ان روحانی نعماء کے متعلق بھی یہ خواہش رکھیں اور اسی کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کریں.تا کہ ہماری اگلی نسل ہمارے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کے اس طرح وارث ہوں جس طرح اس کے فضل پیہم اس کی نعمتوں کے وارث ہوئے ہیں.۱۴ اکتوبر کو مجلس عرفان منعقد ہوئی جس میں آپ نے بہت سی نصائح فرما ئیں.آپ نے فرمایا کہ میری عادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی عاجزانہ راہوں پر چلنے کی تو فیق عطاء ہوئی ہے.کئی دفعہ اس طرح ہوتا ہے کہ اگلے روز جمعہ ہوتا ہے لیکن میرے دماغ میں کوئی مضمون نہیں ہوتا چنانچہ کئی دفعہ سوچا کہ میں کھڑا ہوں گا عربی کے الفاظ پڑھوں گا اور یہ اعلان کر دوں گا کہ اس میں میری کوئی بے عزتی نہیں ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے کوئی مضمون نہیں سمجھایا.اس لیے میں کوئی مضمون بیان نہیں کرتا.لہذا نماز پڑھ لیتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کوئی مضمون نہ سکھایا ہو.چنانچہ کئی بار اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک چمک پیدا ہوتی ہے اور مضمون سمجھ میں آجاتا ہے.اسلام کے اقتصادی نظام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر کی روشنی میں آپ نے فرمایا کہ میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ اسلام کا اقتصادی نظام ضرور قائم ہو کر رہے گا انشاء اللہ.پس اسلام نے ہمیں جو بشارتیں دی ہیں ان پر ہمیں پختہ یقین ہے.اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے اور کوئی بھی مخالف طاقت اسلام کی ترقی اور غلبہ کو نا کام نہیں بنا سکتی.یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے جو وقت پر پورا ہو کر رہے گا اس لیے ہمیں ہر وقت دعاؤں میں مشغول رہنا چاہیے اور غرور و تکبر سے بچتے رہنا چاہیے.حضور ۱۵ ۱۷ کتوبر کو سوا بارہ بجے دوپہر بذریعہ موٹر کار ربوہ واپس تشریف لے آئے.روانگی سے قبل حضور نے جماعت احمدیہ لاہور کے احباب کو جو اپنے آقا کو الوداع کہنے کی غرض سے آئے تھے 133
تاریخ احمدیت.جلد 25 147 سال 1969ء از راه شفقت مصافحہ بخشا.محترم چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لا ہور اور مقامی مجلس عاملہ کے متعدد اراکین لاہور سے آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع کوٹ عبد المالک تک بغرض مشایعت علیحدہ موٹر کار میں آئے اور یہاں حضور سے مصافحہ کر کے واپس لوٹے.مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے تین اراکین نے ایک علیحدہ موٹر کار میں حضور کے قافلہ کے ہمراہ مشایعت کی غرض سے ربوہ آنے کی سعادت حاصل کی.ربوہ میں دفتر پرائیوٹ سیکرٹری کے احاطہ میں بہت سے مقامی احباب نے امیر مقامی محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی سرکردگی میں حضور کا پر تپاک استقبال کرنے کی سعادت حاصل کی.حضور نے جملہ حاضر احباب کو شرف مصافحہ بخشا.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء کے موقع پر سفر لاہور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.134- پچھلے دنوں جب ہنگامہ تھا اور سوشلزم وغیرہ کے نعرے بھی لگ رہے تھے مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا.وہاں میں نے بعض ایسے غیر احمدی دوستوں کو بلایا جو اپنے حلقوں میں بڑے اثر و رسوخ والے تھے اور میں نے انہیں کہا کہ تم سوشلزم کا نعرہ کیوں لگاتے ہو جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نعرہ سوشلزم کے نعرہ سے زیادہ حسین اور زیادہ احسان کرنے والا ہے.اس کا حسن اتنا نمایاں ہے کہ تم اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے.جب میں نے ان کو تفصیل بتائی تو بلا استثناء ہر ایک نے یہی کہا جو آپ کہتے ہیں وہ تو درست ہے لیکن اس پر عمل کون کرے.میں نے انہیں کہا کہ کیا قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہونگے بلکہ یہ تو انسان کے لئے ہی بطور ہدایت نامہ بھیجا گیا اور میں نے اور آپ نے ہی اس کی تعلیم اور اس کے ارشادات پر عمل کرنا ہے فرشتوں نے اس پر عمل نہیں کرنا.میں نے انہیں کہا کہ جب میں اپنی بساط اور طاقت کے مطابق کوشش کر رہا ہوں کہ خود بھی اس پر عمل کروں اور اپنے بھائیوں اور بہنوں سے بھی اس پر عمل کراؤں تو آپ بھی اپنے ماحول میں اس پر عمل کرنے اور کرانے کی کوشش کریں.135- ٹی آئی کالج ربوہ میں طبیعیات کی نئی تجربہ گاہ کا شاندار افتتاح ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو تعلیم الاسلام کالج ( نیو کیمپس) ربوہ میں طبیعیات کی نئی پرشکوہ اور عالیشان
سال 1969ء تاریخ احمدیت.جلد 25 148 تجربہ گاہ کا افتتاح عمل میں آیا.اس تقریب کے مہمان خصوصی جناب افضل حسین صاحب سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ورکن پاکستان اکیڈیمی آف سائنس تھے.آپ نے اپنے پر مغز اور اثر انگیز خطاب میں طبیعیات کے میدان میں علمی ارتقاء اور اس کی بے انداز وسعتوں پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالنے کے بعد سائنسی علوم کی تعلیم و تدریس میں بعض اہم بنیادی اور ناگزیر تبدیلیوں پر زور دیا.آپ نے فرمایا کہ میں یہ دیکھ کر خوش ہوں کہ آپ میں جرات، خود اعتمادی، پیش بینی اور منصوبہ بندی کی جن صلاحیتوں کو میں نے چودہ سال قبل سراہا تھا ( ۲۰ جون ۱۹۵۵ء کو آپ نے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب فرمایا تھا یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے.وہ درست ثابت ہوئی ہیں.آپ نے اپنی صلاحیتوں کے بل پر اب ایک قدم اور آگے بڑھایا ہے.میری دعا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس کے غایت درجہ حوصلہ افزا نتائج ظاہر ہوں گے اور مزید ترقی کی راہ ہموار ہوگی.اس ضمن میں آپ نے مزید فرمایا کہ آپ کا کالج لاہور سے باہر پنجاب یونیورسٹی سے الحاق رکھنے والا پہلا کالج ہے جس نے ایم اے کی سطح پر طبیعیات ایسے اہم مضمون کی تعلیم شروع کرنے کا جرأت مندانہ قدم اٹھایا ہے آپ کو بعض معتین اور مخصوص سہولتیں حاصل ہیں.تیزی سے ترقی کرنے والی اس سائنس ( یعنی طبیعیات) کی جدید ضرورتوں کو پورا کرنے والی جدید طرز کی عمارت آپ کو میسر ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ جدید ترین سائنسی آلات اور ساز وسامان آپ نے فراہم کر لیا ہے جس کا انتخاب پروفیسر عبدالسلام ایسے بلند پایہ اور تجربہ کار سائنسدان نے کیا ہے.مجھے یقین ہے کہ سائنسی تحقیق کے معاملے میں ان کا جذبہ اور ان کی لگن آپ لوگوں کے لئے راہنما ثابت ہوگی اور آپ ہمیشہ ہی اس سے خاطر خواہ استفادہ کر سکیں گے اور اس عظیم دارالعلوم کی قائم کردہ مثال جس میں پروفیسر نے تعلیم پائی.آپ لوگوں کی جدو جہد اور سرگرمی کا نقطہ مرکزی ہوگی بلاشبہ عمارتیں اور سائنسی آلات کی فراہمی اپنی جگہ بہت ضروری ہے لیکن کامیابی کا اصل ذریعہ پوری لگن سے کام کرنے والے افراد ہوتے ہیں.مجھے امید ہے کہ ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ کام کرنے کا یہ جذ بہ آپ کے ہاں کارفرمارہے گا.اس افتتاحی تقریب میں کالج کے اساتذہ وطلباء اور صدرانجمن احمد یہ اور تحر یک جدید کے ناظر اور وکلاء صاحبان اور بہت سے دیگر مقامی احباب کے علاوہ پنجاب یونیورسٹی اور لا ہور اور فیصل آباد کے نامور اساتذہ اور ماہرین تعلیم نے بھی شرکت فرمائی.چنانچہ اس موقع پر ڈاکٹر مظفر علی شاہ صاحب ریڈر سلام -
تاریخ احمدیت.جلد 25 149 سال 1969ء ان فرکس پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر یار محمد ظہیر صاحب لیکچرار ان فرکس پنجاب یونیورسٹی، ڈاکٹر منان یین صاحب ہیڈ آف دی فزکس ڈیپارٹمنٹ گورنمنٹ کالج لاہور، جناب آفتاب احمد صاحب الیکٹرانک ایکسپرٹ گورنمنٹ کالج لاہور، جناب یوسف صاحب لیکچرار ان فزکس گورنمنٹ کالج فیصل آباد اور آغا عبداللطیف صاحب ڈپٹی سیکرٹری بھی موجود تھے.مجلس خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع 137- اس سال مجلس خدام الاحمدیہ کا ستائیسواں مرکزی سالانہ اجتماع علمی و دینی مصروفیات نیز دعاؤں اور ذکر الہی کے پاکیزہ ماحول میں مورخہ ۱۷ تا ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ سے ملحقہ وسیع میدان میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں جو (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے عہد صدارت کا آخری اجتماع تھا، ۲۳۵ مجالس کے ۲۵۰۰ خدام نے شرکت کی.اجتماع میں مجلس شوری میں نئے صدر کا انتخاب ہوا چنانچہ چوہدری حمید اللہ صاحب کی بطور صد ر خدام الاحمدیہ منظوری ہوئی.اجتماع ہوئی.اجتماع کے دوران متعد د علمی و ورزشی مقابلہ جات بھی منعقد ہوئے جن میں خدام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.امسال اجتماع کے موقعہ پر شعبہ صنعت و حرفت کی طرف سے ایک صنعتی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا.خدام اور زائرین نے اس نمائش میں گہری دلچسپی لی.افتتاحی خطاب اس اجتماع کا افتتاح سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بصیرت افروز خطاب اور اجتماعی دعا سے فرمایا.حضور نے اپنے پر معارف افتتاحی خطاب میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی نعمتوں کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے طور پر انسان کو چار بنیادی قابلیتیں عطا فرمائی ہیں.(۱) جسمانی قابلیتیں (۲) ذہنی نشوونما کی طاقتیں (۳) اخلاقی طاقتوں کو نشو ونما دینے کی صلاحیتیں (۴) روحانی ارتقاء کی قابلیتیں.حضور نے بتایا کہ جسمانی قابلیتیں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا پر تو ہیں.ذہنی نشو و نما اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے ماتحت ہوتی ہے.اخلاقی نشو ونما کا تعلق اس کی صفت رحیمیت سے ہے اور روحانی ارتقاء کی قابلیتیں اس کی صفت مالکیت کی مظہر ہیں.ان قابلیتوں کے عطا ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کا کس طرح شکر ادا کر سکتے ہیں؟ اس کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے بتایا کہ شکر ادا کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم (1) اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ ان نعمتوں کو صحیح
تاریخ احمدیت.جلد 25 150 سال 1969ء معنوں میں نشو و نما دینے کی کوشش کریں.(۲) انہیں صحیح مصرف پر خرچ کریں یعنی ان راہوں کو حاصل کرنے کیلئے خرچ کریں جو اس کی ہدایت کے مطابق ہوں اور جن سے اس کی رضا اور اس کا قرب ہمیں حاصل ہو سکے.حضور نے بتایا کہ انسان کو یہ جو چار قابلیتیں دی گئی ہیں.خدام الاحمدیہ کے سارے پروگرام انہی کے نشو ونما اور ترقی کے لئے بنائے گئے ہیں.خدام کیلئے ضروری ہے بلکہ ہماری ہر نسل پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی تمام قابلیتوں اور صلاحیتوں کی صحیح نشو و نما کریں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق انہیں کمال تک پہنچانے کی کوشش کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق اور اس کی رضا کے حصول کی خاطر خرچ کریں.اختتامی خطاب اجتماع کا اختتامی اجلاس ۱۹ اکتوبر کو منعقد ہوا.حضرت خلیفتہ المسح الثالث نے بھی اس میں بنفس نفیس شرکت فرمائی.حضور نے مختلف مقابلہ جات میں نمایاں امتیاز حاصل کرنے والے خدام کو شرف مصافحہ بخشا.اور مجالس اور اضلاع میں اول ، دوم اور سوم آنے والی قیادتوں میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے اور اسناد دیں.بعد ازاں خدام کو اپنے بیش قیمت اختتامی خطاب سے نوازا.اپنے ایمان افروز افتتاحی خطاب میں حضور نے نہایت شرح وبسط کے ساتھ بتایا کہ انسان کی قوتوں اور استعدادوں کی حد بسط ہے.برخلاف اس کے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں غیر محدود اور بے شمار ہیں.اور ان سے متمتع ہونے کے لئے اِن استعدادوں کو ترقی دینا اور انہیں کمال نشو و نما تک پہنچانا ضروری ہے اور اس کے لئے اسباب مادیہ سے کام لینا پڑتا ہے.جن کو صحیح رنگ میں استعمال کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور بالآخر اپنے بے پایاں فضل کے نتیجہ میں قیامت تک کے واسطے ہماری راہنمائی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.آپ ﷺ پر وہ شریعت نازل کی جو ہر لحاظ سے کامل مکمل اور اکمل ہے.ایک طرف ہمیشہ ہمیش قائم رہنے والا قانون عطا کیا اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا راہبر عطا کیا جو کمالات کا جامع ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کا کامل عملی نمونہ ہمارے سامنے پیش کر کے ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم اپنی قوتوں کی صحیح رنگ میں نشو ونما کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں اور اس کی رضا کی جنتوں کے وارث قرار پائیں.تعلیم اور عملی نمونہ دو چیزیں ہماری رہنمائی کیلئے خدا نے ہمیں عطا کیں اور اس لئے عطا کیں کہ ہم اپنی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح رنگ میں نشو ونما کرسکیں.لیکن جب مرور زمانہ اور اپنی غفلت سے ہم
تاریخ احمدیت.جلد 25 151 سال 1969ء قرآنی تعلیم کو بھلا بیٹھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو ہم نے اپنی آنکھوں سے اوجھل کر لیا تو پھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا.آپ نے اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر سے گردو غبار ہٹا کے قرآن مجید کے صحیح معانی اور زبر دست اسرار روحانی از سر کو دنیا کے سامنے پیش کئے.آپ نے زبر دست عقلی اور نقلی دلائل اور زبر دست آسمانی تائیدات اور پیہم نازل ہونے والے نشانات کے ذریعہ قرآن عظیم اور اسلام کا چمکتا ہوا چہرہ دنیا کو اس شان سے دکھایا کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں.جو لوگ آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہا انہوں نے آپ کے پیش کردہ قرآن عظیم کے صحیح معانی اور زبردست اسرار روحانی کی مدد سے قوتوں اور استعدادوں کو ترقی دے کر اور ان کی صحیح رنگ میں نشو و نما کر کے محبت و اطاعت، اخلاص و فدائیت اور قربانی وایثار کی ایسی شاندار مثالیں پیش کیں کہ اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر انہیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لیا اور انہیں اپنے قرب خاص سے نوازا.اُس قرب خاص سے جو قوتوں اور استعدادوں کی صحیح نشو و نما کے نتیجہ میں جناب الہی سے عطا ہوتا ہے.اس موقعہ پر حضور نے قرآن عظیم اور اسلام کے اس چمکتے ہوئے نہایت درجہ حسین چہرے کی ایک جھلک دکھانے کی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض نہایت ہی دلکش پر معارف اور مسحور کن تحریر میں پڑھ کر سنا ئیں اور اس طرح ثابت کیا.حضور نے نہایت مہتم بالشان طریق پر پوری قوت سے دنیا پر آشکار کیا کہ صرف اور صرف اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے.اس کا خدا زندہ خدا ہے.اس کا رسول زندہ رسول ہے اور اس کی کتاب زندہ کتاب ہے نیز حضور نے یہ دکھانے کیلئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس عظیم الشان تجدیدی کارنامے کا کیا اثر ظاہر ہوا.حضور علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے والے خوش نصیب انسانوں کی فی زمانہ بے مثال محبت و اطاعت ، اخلاص و فدائیت اور قربانی و ایثار کے متعدد واقعات بیان فرمائے اور فرمایا یہ وہ خزانہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش کیا.اس خزانہ کی قدرومنزلت کو وہ لوگ جانتے تھے جو آپ پر ایمان لائے اور جنہوں نے بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کر کے اپنی قوتوں اور استعدادوں کی صحیح رنگ میں نشو و نما کی اور وہ رضائے الہی کی جنتوں کے وارث بنے.یہ روح اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی جماعت میں مسلسل جاری ہے لیکن پیدائشی احمد یوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اس خزانہ کی قدر و قیمت کو اس طرح نہیں پہچانتا جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے.یہ وہ لوگ ہیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 152 سال 1969ء جنہوں نے اس کا حسن نہیں دیکھایا جو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے قادرانہ تصرفات کا علم حاصل نہیں کیا.ان کے ذہنوں پر ان کے اخلاق پر اور ان کی روحانیت پر گرد جم رہی ہے اور ایک قسم کا زنگ سا لگ رہا ہے.ساری جماعت کو فکر کرنی چاہیے اور اس امر کا عزم کرنا چاہیے کہ ہم نے ایسے پیدائشی احمدیوں کی راہنمائی کر کے انہیں سمجھا کر اور سہارا دے کر نور کے اسی ہالہ میں واپس لے آنا ہے.سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ 138 اسی سال لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا بارہواں سالانہ اجتماع ۱۷، ۱۸، ۱۹ را کتوبر ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.اس اجتماع میں مختلف مقامات کی ۹۰ مجالس کی ۵۹۰ نمائندگان شامل ہوئیں.مجموعی حاضری کم و بیش ۶۰۰۰ رہی.10 اس اجتماع کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کی مجلس شوری نے آئندہ پانچ سال کے لیے لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی صدر کا انتخاب بھی کیا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر بنیں.تینوں دن پروگرام کے مطابق کارروائی جاری رہی.مختلف تعلیمی ، دینی اور علمی مقابلہ جات بھی ہوئے اور اہم 140 موضوعات پر تقاریر بھی ہوئیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے ۱۸ اکتو بر کو اپنے بصیرت افروز خطاب میں احمدی خواتین کو نصیحت فرمائی کہ انہیں اسلام کے غلبہ کے عظیم مجاہدہ میں مردوں کے دوش بدوش قربانیاں پیش کرنی چاہئیں.اس سلسلہ میں حضور نے سورۂ آل عمران آیت ۱۹۶، سوره نساء آیت ۱۲۵ اور سورہ انحل آیت ۹۸ کی لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین بشارتیں دی ہیں.ایک یہ کہ تمہارے اعمال ضائع نہیں ہوں گے.دوسرے یہ کہ تمہیں اس دنیوی جنت اور اس اُخروی جنت دونوں کا وارث بنایا جائے گا.تیسرے یہ کہ تمہیں ایک پاک زندگی عطا ہوگی اور دنیا اُسے حیرت سے دیکھے گی کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس قسم کی پاک زندگی گزار رہے ہیں.یہ تین بشارتیں ہیں ان تین بشارتوں میں مرد کو عورت پر ترجیح نہیں دی گئی بلکہ ہر دو کو ایک مقام دیا گیا ہے.جس طرح مردوں کے اعمال ضائع نہیں ہوں گے اسی طرح عورتوں کے اعمال بھی ضائع نہیں ہوں گے.جس طرح مرد جنت کے وارث بنیں گے، عورتیں بھی جنت کی وارث بنیں گی.جس طرح مردوں کو حیاتِ طیبہ ملے گی عورتوں کو بھی حیات طیبہ ملے گی اور ساتھ یہ کہہ دیا کہ جس طرح مردوں کو اعمالِ صالحہ کرنے
تاریخ احمدیت.جلد 25 153 سال 1969ء پڑیں گے اور دعائیں کرنی پڑیں گی، اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنا پڑے گا.عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا پڑے گا تا کہ اُن کے اعمال خدا تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول ہو جائیں.اسی طرح عورتوں کو بھی اعمال صالحہ بجالا نا پڑیں گے.ان تین آیات میں عورتوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمہیں اپنے مردوں کے دوش بدوش، تمہیں اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ تمہیں اپنے بیٹوں کے پہلو بہ پہلو اسلام کے لئے قربانیاں دینی پڑیں گی اور کامیابی کی اس شاہراہ پر چلنا پڑے گا.حضور نے اس بنیادی نقطہ کی وضاحت کے لئے تاریخ اسلام کے بعض ایمان افروز واقعات بیان فرمائے اور لجنہ اماءاللہ کو اس پہلے اور آخری فرض کی طرف خصوصی توجہ دلائی کہ وہ لجنہ کے کمزور اور ست حصہ کی صحیح تربیت کر کے اسے اُن مستورات کے پہلو میں لاکھڑا کریں جو چست، خدا کی پیاری اور مقرب ہیں.مجلس اطفال الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع لمی اثر مجلس اطفال الاحمدیہ کا ۲۶ واں سالانہ اجتماع ۱۷ تا ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کی گراؤنڈ میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں ۶۳ مجالس کے ۱۵۸۱ار اطفال نے شرکت کی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا خطاب اجتماع کے دوسرے روز حضرت خلیفہ ایسیح الثالث نے مقام اجتماع میں تشریف لا کر احمدی بچوں سے نہایت اہم خطاب فرمایا جس میں حضور نے تمام احمدی بچوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ۲۶ دسمبر تک سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات زبانی یاد کریں.حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ ایک ایسا کتابچہ جلسہ سالانہ تک تیار کر کے شائع کر دے جس میں بنیادی علوم اور مسائل کے متعلق آیات ، احادیث اور ضروری حوالے شامل ہوں.تا کہ تمام اطفال ان کو زبانی یاد کر لیں.اجتماع کے آخری روز ۱۹ اکتوبر کی دو پہر کو اختتامی اجلاس منعقد ہوا جس میں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اطفال سے خطاب فرمایا نیز امتیاز حاصل کرنے والے اطفال سے فرداً فرد املاقات کی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس موقع پر اپنے ایمان افروز خطاب میں بتایا کہ آپ صرف اپنے والدین یا امام جماعت کے بچے نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہیں اور ہمیں یہ فکر رہتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں کی تربیت ایسے
تاریخ احمدیت.جلد 25 154 سال 1969ء رنگ میں کی جائے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں اور اس رنگ میں نیکی کی بنیاد قائم ہو کہ انہیں ذریت طیبہ بنے اور نیکی پر قائم رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ بنیاد مضبوط ہو.ایک وقت کے بعد مسلمان اس بنیادی اصل کو بھول گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ باوجود اس کے کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ اثر مسلمانوں ہی کا تھا لیکن اس بنیادی اصل کو بھولنے کے نتیجہ میں بعد کی نسلیں جب پیدا ہوئیں تو آہستہ آہستہ ان کی تربیت میں کمی واقع ہوتی گئی اور جوں جوں ان کی تربیت میں کمی ہوئی نیکی کی بنیادیں کمزور ہوتی گئیں اور جوں جوں نیکی کی بنیادیں کمزور ہوتی گئیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے اس قدر وارث نہ رہے کہ جس قدر ان کے باپ دادا تھے اور غیروں کو اُن پر فوقیت حاصل ہوگئی.اُس دنیا میں ( اُخروی زندگی میں) کسی کو جنت کا نچلا حصہ ملے گا اور کسی کو اوپر کا حصہ ملے گا لیکن ہماری جنت اسی دنیا سے شروع ہو جاتی ہے اور اس دنیا کی جنت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ شرط لگائی ہے کہ دنیا بھی تبھی ملے گی جب تم اس دنیا میں میری جنت میں داخل ہو جاؤ گے.پہلے مسلمانوں کی نسل تو چند صدیوں کے بعد کمزور ہوگئی تھی لیکن ہماری نسل کمزور نہیں ہونی چاہیے.ہم سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پھر اسلام کو اپنے فضل اور رحم سے غالب کرے گا.اور اگر ہم اپنی نسلوں کی صحیح تربیت کرتے چلے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے انعامات ہم پر قیامت تک بارش کے قطروں کی طرح برستے رہیں گے.آپ کے دل میں بھی ہمیشہ یہ احساس زندہ اور بیدار رہنا چاہیے کہ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہیں اور آپ کی نسل میں بھی اور آپ کی زندگی کے اس حصہ میں بھی نیکی کی بنیادیں قائم ہونی چاہئیں اور آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت طیبہ بن جائیں.ایک ایسی پاک اور صاف نسل بن جائیں جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فخر کریر مجلس انصار اللہ کا سالانہ اجتماع 142 انصار اللہ کا چودھواں اجتماع دعاؤں ، ذکر الہی اور انابت الی اللہ کی مخصوص روایات کے ساتھ امسال ۲۴ ۲۵ ۱۲۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو دفتر انصار اللہ مرکزیہ کے احاطہ میں انعقاد پذیر ہوا.اس نہایت کامیاب اور روحانیت سے لبریز اجتماع میں مشرقی اور مغربی پاکستان کی ۳۵۶ مجالس کے ۷۴۰ نمائندگان ، ۱۵۸۰ ارارکان اور ۲۰۶۰ زائرین نے شرکت کی.اجتماع کے دوران مجلس شوری کا انعقاد بھی عمل میں آیا جس میں اصلاحی اور انتظامی امور سے متعلق متعدد تجاویز پر غور کرنے کے علاوہ آئندہ دو سال کے لیے صدر انصار اللہ کا انتخاب بھی عمل میں آیا.اجتماع کے تین دنوں میں سیرة النبی ہے اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 155 سال 1969ء ذکر حبیب علیہ السلام کی دو مجالس سمیت آٹھ اجلاس منعقد ہوئے.جن میں مختلف علمی اور تربیتی عناوین پر تقاریر ہوئیں.ان کے علاوہ انصار کا تقریری مقابلہ ہوا اور سوال و جواب کی مجالس بھی منعقد ہوئیں.اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرح اس مبارک تقریب پر بھی حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نہایت روح پرور اور بصیرت افروز افتتاحی واختتامی خطاب فرمائے.اور افتتاحی خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث افتتاحی تقریر میں حضور نے نہایت لطیف اور دلکش پیرائے میں سید الاولین والآخرین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی بلند مقام پر روشنی ڈالی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے متعدد نہایت ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے تین درخشندہ اور نمایاں پہلوؤں کو اچھوتے رنگ میں واضح فرمایا.(۱) ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اقتدارکو انسانیت کی بے لوث خدمت کیلئے وقف کر دیا.(۲) حضور ﷺ انسانیت کے محسن اعظم تھے.ہر وقت اور ہر آن انسانوں پر احسان فرماتے تھے.بیواؤں اور یتامی کی مدد کرتے اُن سے ماں باپ سے زیادہ محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے.(۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس میں آپ کی تیسری بینظیرشان ایک عدیم المثال اور نہایت و فادار دوست کے رنگ میں نظر آتی ہے.حضور نے احباب جماعت اور بالخصوص انصار کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی اتباع کرنے کا حکم دیا ہے اور اسے ہی اپنی محبت کے حصول کا ذریعہ بتایا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ حضور نے خدمت، احسان، ہمدردی اور شفقت اور دوستی کو نبھانے کے جو عدیم النظیر نمونے اپنی زندگی میں دکھائے ہم بھی ان کی اتباع کرنے اور ان کی پیروی کرنے کی کوشش کریں.ہمیں اپنے حلقہ میں جو اثر ورسوخ حاصل ہوا سے ہم انسانیت کی کچی خدمت کرنے کا ذریعہ بنائیں.ہم ہر شخص کے ساتھ احسان کا سلوک کریں اور مظلوموں اور بے کسوں کے ساتھ ایسے رنگ میں دوستی کا تعلق قائم کریں کہ وہ ہر مشکل وقت میں ہمیں اپنا سا غمخوار پائیں.حضور نے فرمایا کہ آج ہمارے ملک میں سب سے پہلی ضرورت شرف انسانی کے قیام کی ہے.دنیا
تاریخ احمدیت.جلد 25 156 سال 1969ء عزت وشرف کی پیاسی ہے.ہر احمدی کا فرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں غریبوں کا سہارا بنے ، ان کے دکھوں کا مداوا کرے اور بیکسوں کی غم خواری کرے کیونکہ موجودہ زمانہ میں غریب طبقہ ہماری ہمدردی کا بہت محتاج ہے اور امراء کی نسبت اس طبقہ کی اصلاح اور ہدایت کا زیادہ امکان نظر آتا ہے.اگر ہمارے دل میں ان کے لئے سچی ہمدردی اور بے لوث دوستی کا جذبہ نہیں ہے، تو ہم کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس عظیم الشان نبی کی امت ہیں جو صاحب اقتدار بادشاہ تھے لیکن اپنے اقتدار کو آپ نے ہمیشہ غریبوں کی مدد کیلئے وقف رکھا اور احسان اور دوستی کا بے مثال نمونہ قائم کیا.اختتامی خطاب حضرت خلیفہ امسح الثالث.اختتامی خطاب میں حضور نے اس امر پر نہایت والہانہ انداز میں روشنی ڈالی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے.حضور نے اللہ تعالیٰ کی چار امہات الصفات ( رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین) کی باریک در بار یک تفصیلات کو واضح کر کے ثابت فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہ چاروں صفات اس شان سے جلوہ گر ہوئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجو د باجود میں ان کے عظیم الشان جلوے پر ایک دنیا عش عش کر اُٹھی.حضور نے اس امر کے ثبوت کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے متعدد واقعات بیان کرنے کے علاوہ ان صفات کے جلووں کے طفیل آنحضور ﷺ کے صحابہ کرام کی زندگیوں میں رونما ہونے والے عظیم روحانی انقلاب پر بھی روشنی ڈالی اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت ہی پر معارف اور روح پرورارشادسنا کر احباب کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق ان صفات کا مظہر بنے کی مؤثر تلقین فرمائی.مظفر پور کا نفرنس میں احمد یہ وفد کی تقاریر 143 ۲۴ تا ۲۶ اکتو بر گورونانک صاحب کی پانچصد سالہ برسی کے سلسلہ میں مظفر پور (بھارت) میں ایک پُر وقار کا نفرنس منعقد ہوئی جسے ہندو مسلم اتحاد کا مرقع کہنا چاہیے.۲۵ ،۳۰ ہزار سکھ دوستوں کے علاوہ مسلمان اور ہندو بھی بکثرت شامل ہوئے.تقاریر کے پروگرام میں مسلمانوں کی جانب سے جماعت احمدیہ کے ہی مقررین تھے.چنانچہ ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور مینوی ہیڈ آف اردو ڈیپارٹمنٹ پٹنہ یونیورسٹی اور مولوی عبد الحق فضل صاحب مبلغ انچارج صوبہ بہار نے حضرت بابا
تاریخ احمدیت.جلد 25 157 سال 1969ء نانک کی زندگی کے چیدہ چیدہ حالات بیان کرتے ہوئے آپ کی تعلیم وحدانیت اور ہندو مسلم اتحاد کو پیش کیا.اور مسلمانوں کے ساتھ آپ کے گہرے تعلقات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ آپ عارف باللہ اور تو حید پرست اور ولی اللہ تھے.اور ساتھ ہی قرآن کریم کی آیات اور مقدس حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تحریرات سے صلح کل عقیدہ کی وضاحت کی.محترم ڈاکٹر صاحب موصوف کی ایک اور مولوی عبد الحق فضل صاحب کی تین تقاریر اس موقعہ پر ہوئیں.علاوہ ازیں ڈاکٹر سید منصور احمد صاحب صدر جماعت احمد یہ مظفر پور کی ایک تقریر ۱۹ اکتوبر کو بھی سکھوں اور مارواڑیوں کے ایک اجتماع میں اسی موضوع پر ہوئی.جماعت احمدیہ کے مقررین کو از حد پسند کیا گیا.سردار گورنام سنگھ صاحب وزیر اعلی پنجاب اس تقریر کے خصوصی مہمان تھے.مولوی عبدالحق فضل صاحب نے موصوف کی خدمت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تصنیف لطیف اسلامی اصول کی فلاسفی گورمکھی ایڈیشن کا مقدس تحفہ پیش کیا جو موصوف نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.اس اجتماع میں دور دراز علاقوں سے شریک ہونے والے متعدد سکھ معززین کی خدمت میں بھی جماعت احمدیہ کا گورمکھی زبان میں شائع شدہ لٹریچر پیش کیا گیا.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے تین سال تک نہایت گرانقدر اور شاندار خدمات انجام دیں جس کے بعد آپ اس سال کے آخر میں انصار اللہ میں شامل ہو گئے.بعد ازاں حضرت خلیفہ اسیح کے ارشاد پر چوہدری حمید اللہ صاحب ایم.اے نے خدام الاحمد یہ مرکزیہ کی صدارت سنبھالی.۱/۲۹ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ کی طرف سے ایوانِ محمود میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں الوداعی دعوت دی گئی جس میں حضرت خلیفہ اسح الثالث نے بھی شمولیت فرمائی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک نہایت ہی بصیرت افروز تقریر ارشاد فرمائی جس میں حضور نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے کام کو سراہتے ہوئے ان کی خدمات قبول ہونے اور نئے صدر چوہدری حمید اللہ صاحب کو صحیح رنگ میں خدمات بجالانے کی توفیق ملنے کے لئے دعا کی تحریک کی.چنانچہ فرمایا:.قرآن کریم میں خلافت کے دو کام بتائے گئے ہیں، ایک ہے تمکین دین اور دوسرا ہے خوف سے حفاظت.اور قرآن کریم کی رُو سے یہ دونوں کام جب تک
تاریخ احمدیت.جلد 25 158 سال 1969ء خلافت ہے کسی اور کے ذریعہ سے سرانجام نہیں پا سکتے.اس لئے (جس طرح پہلے الہی سلسلوں میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا ہے ) جماعت احمدیہ میں بھی مختلف تنظیمیں تمکین دین اور خوف کو امن سے بدلنے کے سامان پیدا کرنے کے لئے بطور ہتھیار کے ہوتی ہیں اور یہ ہتھیار خلیفہ وقت کے ہاتھ میں ہوتا ہے....جماعت کی کسی تنظیم میں بعض دفعہ عارضی کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اسے دور کیا جاتا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ میں بھی بعض کمزوریاں پیدا ہوئیں.اس ہال پر بھی بعض بد نما داغ لگے لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.یہ داغ صاف کر دیے گئے اور ان پر خوبصورت رنگ و روغن کر دیا گیا اور مجلس خدام الاحمدیہ جو آہستہ آہستہ غیر محسوس طور پر ( آپ کے نقطہ نگاہ سے غیر محسوس طور پر ) تنزل کی طرف جارہی تھی اس میں زندگی کی رو پیدا ہوئی اور اس کے کاموں میں وسعت پیدا ہوئی.کچھ اعداد و شمار آپ کے سامنے ہیں.گو اس وقت زیادہ تفصیل سے تو نہیں بتائے جا سکے لیکن ہر لحاظ سے کمزوریاں جو تھیں وہ دور ہوئیں لیکن ابھی ہم اپنے کام میں سو فیصدی کامیاب نہیں ہو سکے اور میرے خیال میں انسان سو فیصدی کامیاب ہو بھی نہیں سکتا ورنہ اس کی جدو جہد ختم ہو جائے.پس ابھی مزید ترقی بھی کرنی ہے.اس لئے ایک طرف تو ہم سب کو ممنون ہونا چاہیے آپ کے بے نفس صدر کا جن کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی کہ وہ بہت سی غلطیوں اور غفلتوں کو دور کر سکیں نیز بعض بدنما دھبوں کو اس مجلس کے چہرے سے دھو سکیں اور ایک خوبصورت رنگ میں ایک فعال جماعت کی حیثیت میں ایک تیز دھار والے روحانی آلہ کے طور پر اسے خلیفہ وقت کے ہاتھ میں رکھ سکیں کیونکہ بہر حال یہ روحانی تلوار خلیفہ وقت نے چلانی ہے زید یا بکرنے نہیں چلانی.دوسری طرف مجھے خوشی ہوئی ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے بعد اب ایک ایسے مخلص اور بے نفس نوجوان صدر بنے ہیں جن کا جسمانی رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس ذمہ داری کو نباہنے کی اہلیت رکھتے ہیں.بہت سے لوگ ہیں جو جسمانی اولاد سے بھی آگے نکل جاتے ہیں حالانکہ وہ محض روحانی اولاد ہوتے ہیں.جسمانی تعلق تو ایک دنیوی تعلق ہے.مذہب یا روحانیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ ،
تاریخ احمدیت.جلد 25 159 سال 1969ء والسلام کا اپنی اولاد سے اصل تعلق روحانی تعلق ہی ہے.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ انبیاء نہ کسی کے وارث ہوتے ہیں نہ آگے ورثہ میں کسی کو کچھ دیتے ہیں کیونکہ ورثہ کا تعلق جسمانی قرابت سے ہے اس کی نفی کر دی گئی ہے لیکن جہاں تک روحانی فیوض و برکات کا تعلق ہے وہی حقیقت ، وہی صداقت اور وہی حکمت ہے.وہی دراصل صحیح معنی ہیں کسی شخص کی روحانی اولاد ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کو اس کی منشاء اور فرمان کے مطابق قائم کیا اور ہر شخص اپنے اخلاص اور ایثار کے مطابق اپنا اجر پاتا ہے خدام الاحمدیہ نے خاصی ترقی کی ہے لیکن پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کی طرح خدام الاحمدیہ کے لئے کوئی ایک چوٹی مقرر نہیں کہ جہاں جا کر وہ یہ سمجھیں کہ بس اب ہم آخری بلندی پر پہنچ گئے.ہمارا کام ختم ہو گیا.یہ تو ایسے پہاڑ کی چڑھائی ہے کہ جس کی چوٹی کوئی ہے ہی نہیں کیونکہ یہ وہ پہاڑ ہے جس کے اوپر عرش رب کریم ہے اور انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ غیر محدود ہے اور ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے اور اسی میں ہماری زندگی اور حیات ہے کہ ہم کسی جگہ پر تھک کر بیٹھ نہ جائیں یا کسی جگہ ٹھہر کر یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم نے جو حاصل کرنا تھا وہ کرلیا.نہیں.ہمارے لئے غیر محدود ترقیات اور رفعتیں مقدر کی گئی ہیں اور اگر ہم کوشش کریں اور واقعہ میں اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں اخلاص اور ایثار اور محبت ذاتی اپنے لئے محسوس کرے تو وہ ہم پر فضل نازل کرتا چلا جائے گا اور کرتا چلا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان خدا تعالیٰ سے اور زیادہ پیار حاصل کرتا ہے اور اپنے نفس سے وہ اور زیادہ دور اور بیگا نہ ہو جاتا ہے.پس کام ہوا اور بڑا اچھا کام ہوا.انشاء اللہ آگے بھی کام ہوں گے اور بڑے اچھے ہوں گے اور تنظیمی لحاظ سے ہم کچھ اور بلند ہو جائیں گے لیکن چوٹی پر نہیں پہنچ سکتے کہ جس کے بعد ہم سمجھ لیں کہ بس اب ہمارا کام ختم ہو گیا.کیونکہ جہاں بھی ہم کھڑے ہوئے وہاں ہم گرے اور ہلاک ہوئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس لغزش اور اس ہلاکت سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ ہمارے جیسے کمزور بندوں میں سے جس کو بھی کسی تنظیم کی قیادت نصیب ہو وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور مدد سے اس کا اہل ثابت ہو اور اللہ تعالیٰ اس کے ذہن میں چلا پیدا کر دے.اس کے دل میں ایک
تاریخ احمدیت.جلد 25 160 سال 1969ء عزم اور ہمت پیدا کر دے.اور جس طرح خلیفہ وقت کا یہ کام ہے کہ تمکین دین ہو وہ اس کے لئے ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد اور ہمت اور عزم رکھنے والا بازو بن جائے.وہ بھی اور اس کے ماتحت تنظیم بھی اور اس طرح اپنی اپنی جگہ ایک ایسی تنظیم قائم ہو جائے کہ جس کے ذریعہ سے علاوہ اور ذرائع کے خلیفہ وقت جماعت کے خوف کو امن سے بدلنے والا اور دشمنوں کے جھوٹے امن کو حقیقی خوف میں تبدیل کرنے والا ہو.اللہ تعالیٰ کا اب تک یہ فضل رہا ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ ایک لمبے عرصے تک یہ فضل رہے گا اور یہ جماعت سرداروں اور قائدین کی جماعت رہے گی.اس جماعت میں کسی خاندان کی اجارہ داری مقرر نہیں کی گئی.اس میں ایک ہی اصول مقرر کیا گیا ہے جسے قرآن کریم نے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ آتُفيكُمْ (الحجرات: ۱۴) کے الفاظ میں بتایا تھا پس جو تقویٰ کے علاوہ کسی اور عزت کا خواہاں ہے وہ جاہل ہے یاوہ مفسدانہ خیالات رکھنے والا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مرکزی اجتماعات پر تبصرہ 146 سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۳۱ اکتو بر ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.ہمارے یہ اجتماع بھی اللہ تعالیٰ کے پیہم نازل ہونے والے فضلوں اور رحمتوں کے نتیجہ میں گذشتہ اجتماعوں کی نسبت زیادہ با رونق رہے اور پہلے سے زیادہ بابرکت ثابت ہوئے اور ان میں شرکت کرنے والوں کو نئی زندگی سے ہمکنار کرنے کا موجب بنے.لیکن جہاں تک ان اجتماعات کا تعلق ہے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.سب سے زیادہ مجالس کی نمائندگی انصار اللہ کے اجتماع میں رہی.اُس میں ۳۵۶ مجالس کے نمائندگان نے شرکت کی.تاہم شرکت کرنے والی مجالس کی یہ تعداد بہت نا کافی ہے کیونکہ مجالس کی تعداد ایک ہزار ہے ہمارا مقصد صرف اس وقت حاصل ہوسکتا ہے کہ جب ان اجتماعات میں کم از کم ہر مجلس کی نمائندگی ضرور ہو.یہ کم سے کم معیار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ترقی کے مدارج میں سے ہوتے ہوئے ابھی کم سے کم معیار تک بھی نہیں پہنچے ہیں.حضور نے نئی نسلوں کی تربیت پر خاص زور دیتے ہوئے مجالس اطفال الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ اور جماعتی تنظیم کو اس کی نہایت عظیم اور اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی.اس ضمن میں حضور نے ایک
تاریخ احمدیت.جلد 25 161 سال 1969ء کمیٹی بنانے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا.اس کمیٹی کو با قاعدہ منصوبہ بنا کر اجتماعوں کے انعقاد سے تین ماہ قبل کام شروع کر دینا چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اجتماعوں میں ہر مجلس کی نمائندگی سے متعلق کم از کم معیار تک ضرور پہنچ جائیں.نیز فرمایا کہ جماعتی نظام بھی میرے سامنے ذمہ دار ہوگا.اس امر کا کہ ہر جماعت کے نمائندے اجتماعات میں ضرور شریک ہوں.دو حضرت بابا نانک کی پانصد سالہ تقریب برسی میں احمد یہ وفد کی شمولیت ۲۳ نومبر ۱۹۶۹ء کو حضرت بابا نانک کی پانچ صدسالہ برسی کی خصوصی تقریبات امرتسر میں ہوئیں.اس موقع پر ۲۰ نومبر کو اخبار ”بدر" قادیان نے ”حضرت بابا نانک نمبر“ شائع کیا جس کے مضامین کو ہر حلقہ میں دلچسپی سے پڑھا گیا.علاوہ ازیں نظارت دعوت و تبلیغ کا ایک نمائندہ وفدا مرتسر گیا جس میں الحاج مولوی عبد القادر صاحب دانش دہلوی ، مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ایڈیٹر بدر ، مولوی بشیر احمد صاحب کالا افغاناں اور عبدالرشید صاحب بدر شامل تھے.وفد کے پاس اخبار بدر کے خصوصی نمبر کے علاوہ پنجابی ، ہندی اور انگریزی زبان کا کثیر التعداد لٹریچر تھا جسے دربار صاحب کی زیارت کے لئے آنے والے دوستوں میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا گیا.اسی طرح امرتسر کے بازاروں میں گھوم کر سنجیدہ مزاج چیدہ چیدہ افراد تک اس تقریب کا قیمتی روحانی تحفہ پہنچایا گیا.دربار صاحب ( گولڈن ٹیمل ) میں اخبار بدر اور دوسرا لٹریچر حاصل کرنے والوں کا اشتیاق قابل تقلید تھا.بوقت تقسیم ایک انبوہ کثیر جمع ہو جاتا اور ہر شخص یہی خواہش رکھتا کہ اس میں سے اسے ضرور روحانی تحفہ ملے.لٹریچر پاکر مختلف ٹولیوں میں کھڑے اور بیٹھے دوست اس کا دلچسپی سے مطالعہ کرتے رہے.بعض دوستوں نے اسے اپنے پاس محفوظ کر لیا کہ گھر جا کر اطمینان سے پڑھیں گے.اردو میں شائع شدہ پرچہ بدر اور دوسرے لٹریچر کو زیادہ اشتیاق سے وصول کیا گیا اور اس کے مطالعہ کی خواہش کی گئی.۲۳ نومبر کی رات کو بوقت آٹھ بجے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی جالندھر ریڈیو سے ایک تقریرہ بابا نانک اور وحدانیت“ کے عنوان سے نشر ہوئی.جو آپ نے ریڈیو والوں کی خواہش پر بتاریخ ۲۰ نومبر ریکارڈ کرائی تھی.اس تقریر کو بھی سب جگہ بڑی دلچسپی سے سنا گیا اور پسند کیا گیا.اسی روز رات کے وقت گوردوارہ سنگھ سبھا جالندھر میں مکرم گیانی عبداللطیف صاحب درویش قادیان کی تقریر ہوئی.آپ نے اپنی تقریر میں حضرت بابا نانک کی تعلیمات عشق الہی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ حضرت بابا صاحب موصوف انسانی دلوں میں ایکتا اور اتحاد پیدا کرنے آئے تھے اور اسی کا پر چار کرتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 162 سال 1969ء آپ کی اس آدھ گھنٹے کی تقریر کود چیپسی سے سنا گیا.مورخہ ۲۷ نومبر کو گوردوارہ اکال گڑھ قادیان میں بھی مکرم گیانی صاحب کو تقریر کرنے کیلئے دعوت دی گئی.چنانچہ موصوف نے شری گورونانک کے پیغام پر پون گھنٹہ تقریر کی.گیانی صاحب نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ شری گورونانک جی مہاراج کا پیغام دلوں کو موہ لینے والا اور بنی نوع انسان میں باہمی پریم اور محبت کی بنیادوں کو استوار کرنے والا تھا.جس سے سب قسم کے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں.آؤ ہم اس مبارک جنم شتابدی کے موقعہ پر اس پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کی پوری کوشش کریں اور اس پر عمل بھی کریں.مورخه ۲۹ نومبر کو آئی ٹی آئی قادیان کے اساتذہ وطلبہ کی طرف سے بھی اسی قسم کی ایک تقریب منائی گئی اور جلوس نکالا گیا.جس میں جماعت کی طرف سے بھی متعدد احباب نے باوجو د رمضان میں درس القرآن وغیرہ کی مصروفیت کے حصہ لیا.اور اپنے سکھ دوستوں کی اس خوشی میں شریک ہوئے.اسی طرح مقامی طور پر جماعت احمدیہ نے ایسی جملہ تقاریب میں حصہ لیا.جماعت احمدیہ کے شائع کردہ اردو تراجم قرآن و تفاسیر جماعت احمدیہ کی طرف سے اب تک قرآن مجید کے جو اردو تراجم اور تفاسیر شائع ہوئیں لاہور کے ماہنامہ سیارہ ڈائجسٹ نے ماہ نومبر و دسمبر ۱۹۶۹ ء کے شمارہ میں نہایت محنت اور عرقریزی سے اپنی معلومات کی حد تک ایک جامع فہرست پیش کی.یہ فہرست پاکستان کے محقق و فاضل جناب محمد عالم مختار حق صاحب نے مرتب فرمائی تھی اور اس میں جماعت احمدیہ کے علاوہ دیگر اردو تراجم وتفاسیر کا بھی تفصیلی تذکرہ تھا.(فہرست کی تیاری میں مولانا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی نے معاونت فرمائی جس کا شکریہ مرتب نے فہرست کے شروع میں ادا کیا ہے ).ذیل میں فہرست کے نقشہ اور نمبروں کے مطابق مرتب ہی کے الفاظ میں جماعت احمدیہ کے شائع کردہ اردو تراجم قرآن و تفاسیر کی تفصیل بیان کی جاتی ہے:.حصہ الف نام مترجم یا مفتر نام ترجمه ی تفسیر مقام اشاعت مطبع سن طباعت ضخامه
تاریخ احمدیت.جلد 25 163 سال 1969ء ۴۰ بشیر الدین محمود احمد ، مرزا ( خلیفه ترجمه قرآن مع لاہور ثانی جماعت احمدیہ ) «تفسیر صغیر" نقوش بریس ١٩٦٦ء ۹۵۴ کیفیت : ۱۹۶۶ء میں بہترین آرٹ پیپر پر بڑی نفاست سے چھپا.صفحہ دو کالی ہے.ایک میں متن اور دوسرے میں ترجمہ.حاشیہ میں تفسیری نوٹ دیئے گئے ہیں.پہلا ایڈیشن ۱۹۵۶ء میں ربوہ میں شائع ہوا.تفسیر کبیر (۱۱ جلدوں میں شائع ہو چکی ہے ) ۷۸۳ ۷۰ روشن علی.حافظ (احمدی) ترجمه قرآن بین السطور لاہور آفتاب عالم پریس کیفیت: دوسرا ایڈیشن تقسیم ملک کے بعد ظفر بک ڈپو سر گودھا اور کتاب گھر راولپنڈی سے شائع ہوا.۷۴ سرور شاہ ، مولوی (احمدی) تفسیر سروری مع ترجمه کیفیت: رسالہ تعلیم الاسلام ضمیمہ ریویو آف ریچز اور رسالہ تفسیر القرآن میں بالاقساط ۱۹۰۶ء سے ۱۹۱۲ ء تک طبع ہوئی.۱۳۰ عمر میاں معراج دین (احمدی) حمائل شریف مترجم مع حواشی ۱۳۱ غلام احمد ، مولوی ( بدو ملی ، احمدی) ترجمه قرآن ۱۳۲ غلام حسن نیازی پشاوری (احمدی) اردو زبان میں ترجمہ مختصر مطالب لاہور برانچ کیپٹل ۱۹۳۹ء ۲۵۶ قرآن موسوم به حسن بیان کواپریٹو پریس ۱۵۷ محمد الحق.میر (احمدی) ترجمه قرآن مع مختصر حواشی لاہور فوٹو آرٹ پریس ۱۷۳ محمد سعید قادری حنفی.میر (احمدی) قرآن مجید مترجم مع تفسیر اوضح آگرہ مرتضائی ۱۹۱۵ء مجلس احمد به حیدر آباد دکن القرآن مسمی به تفسیر احمدی (۲ جلد) ۱۸۰ محمد علی ، ایم.اے.مولوی تفسیر بیان القرآن (۳ جلد ) (م ۱۳۷۱ھ ) لاہوری، احمدی لاہور کریمی ١٩٤٠ء ١٩٤٣ء ۱۹۵۲۶۵ کیفیت : غرائب القرآن اور ضروری محاورات کا حل بھی کیا ہے اور انگریزی میں بھی قرآن مجید کا ترجمه حامل المتن مع حواشی کے لکھا ہے.احمد یہ انجمن اشاعتِ اسلام لاہور نے ایک جلد میں اس کا اعلی عکسی طباعت کا ایڈیشن مختصر تفسیر کے ساتھ ۱۳۸۲ھ میں خاص اہتمام سے طبع کیا جس کے تفسیری فوائد بیان القرآن کا خلاصہ ہیں اور ترجمہ میں بھی قدرے اصلاح کی گئی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 164 سال 1969ء ۱۹۰ | معین الدین، پیر (احمدی ) مخزنِ معارف ١٩٦٣ء کیفیت : تمام احمدی مترجمین اور مفسرین کی کتابوں اور تفاسیر سے اخذ و انتخاب کر کے پہلی جلد بلاک کے ساتھ شائع کی.۱۹۱ معین الدین، پیر (احمدی) مخزن معارف یعنی خلاصه تفسیر کبیر (۳) جلد) از مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ۲۰۵ نورالدین مولانا حکیم (احمدی) ترجمہ ١٩٦٣ء آگرہ خیر خواہ اسلام پریس ۱۹۱۰ء کیفیت : مولانا کے درسِ قرآن سے اخذ کر کے ترجمہ مذکور میرٹھ کے ایک احمدی نے شائع کیا.۲۰۷ نورالدین، مولانا حکیم (احمدی ) کیفیت : آپ کے درس قرآن کے نوٹس جو اخبار ”بدر میں با قاعدہ شائع ہوتے تھے.۱۹۳۲ء میں قادیان سے کتابی شکل میں شائع ہوئے.۶ ابوالعطاء ،مولانا (احمدی) ماہنامہ الفرقان میں قرآن مجید کا ترجمہ تفسیری نوٹوں کے ساتھ بالاقساط چھپ رہا ہے.۱۹ اسماعیل محمد (احمدی ) ، پارے ۵۰ بشارت احمد ڈاکٹر لاہوری احمدی نور القرآن لاہور احمد یہ انجمن (۲ جلد) اشاعت اسلام ۵۱ بشیر الدین محمود احمد ، مرزا ( احمدی) تفسیر سورۃ کہف قادیان دفتر تحریک جدید غیر مطبوعہ ۱۹۵۵ء آخری پاروں کے کچھ حصے کا ترجمہ وتفسیر ۱۸۷ علی محمد چوہدری بی.اے (احمدی) سلسلہ احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ انگریزی تفسیر القرآن کی پہلی جلد کا غیر مطبوعہ ۲۲۹ اردو تر جمه محمد اسماعیل شیخ پانی پتی (احمدی) عورتوں اور بچوں کیلئے آسان اور سہل زبان میں ترجمہ شروع کر رکھا ہے.۲۴۵ محمد علی ایم.اے مولانا ( احمدی ) نکات القرآن ( ابتدائی پانچ پاروں کی تفسیر ) لاہور احمد یہ انجمن اشاعت اسلام ۲۵۶ مرزا غلام احمد (بانی سلسلہ احمدیہ ) تفسیر سورۃ العصر وفاتحہ مرزا صاحب کی ۸۰ کے قریب تصانیف میں قرآن کریم کی آیات و سور کے ترجمے و تفسیر کا بیشتر
تاریخ احمدیت.جلد 25 165 حصہ خزینۃ العرفان کے نام سے دس جلدوں میں قادیان سے شائع ہو چکا ہے.۲۷۹ نور الدین، حکیم (خلیفہ اول) تفسیر سورۃ جمعہ امرتسر احمدی ۲۹۱ وزیر ہند پریس ۱۹۲۸ء سال 1969ء یعقوب علی عرفانی (احمدی) پاره ۳/۲۱، ۱۰، قادیان احمدیہ پریس ۱۹۰۴ء پارہ نمبر سے ماہوار طبع ہونا شروع ۱۶، ۱۷، ۲۲ تا آخر حضرت خلیفہ لمسیح الثالث کا ارشاد بابت اعتکاف ہوا 149 ۲ دسمبر ۱۹۶۹ء کو مسجد مبارک میں نماز فجر پڑھانے کے بعد حضور کچھ وقت خدام میں تشریف فرما رہے.حضور نے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب سے معلفین کے بارے میں چندا مور دریافت فرمائے.بعد ازاں فرمایا ہر نفلی اور فرضی عبادت کے ساتھ شیطان نے بہت سی رسمیں لگا دی ہیں.اسی طرح اعتکاف کے ساتھ بھی بہت سی زائد باتیں کر دی گئی ہیں.مثال کے طور پر بعض عورتیں اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھ جاتی ہیں.حالانکہ اصل تقویٰ اور عبادت یہ ہے کہ جو کہا جاتا ہے وہ کرو.حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید فرمایا کہ رمضان کا آخری عشرہ شروع ہو گیا ہے.گو دعا ئیں تو ہر وقت کرنی چاہئیں لیکن چونکہ یہ قبولیت دعا کے دن ہیں اس لیے ان دنوں میں زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.پس معتکفین بھی اور دوسرے دوست بھی ان دنوں میں دعاؤں پر خاص زور دیں.حضور نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ ہر ضرورت اور ہر چیز کے لیے خدا ہی سے دعا کرنی چاہیے فرمایا اصل دعا ایک ہی ہے کہ خدا سے خود سے ( یعنی خدا تعالیٰ) کو پانے اور حاصل کرنے کی دعا کی جائے اور پھر اس کے لیے مجاہدہ کیا جائے.150 مولانا محمد یعقوب خان صاحب ایڈیٹر لائٹ“ کی بیعت خلافت کی وضاحت مولا نا محمد یعقوب خان صاحب سابق ایڈیٹر لائٹ لاہور ضلع پشاور کے گاؤں پیر پیائی میں ۱۸۹۱ء میں پیدا ہوئے.آپ نے ۱۹۰۷ ء میں میٹرک اور ۱۹۱۱ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا.دوران تعلیم آپ کا حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کے مکان پر آنا جانا ہوا جہاں احمدی دوستوں سے ملاقات کے باعث دسمبر ۱۹۱۲ء میں خلافت اولیٰ کی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل
تاریخ احمدیت.جلد 25 166 سال 1969ء ہو گئے.لیکن خلافت ثانیہ کے انتخاب کے بعد غیر مبائعین کے گروہ کے ساتھ شامل ہو کر انگلستان کے دو کنگ مشن کے ساتھ منسلک ہو گئے.تاہم خلافت ثالثہ میں سال ۱۹۶۹ء کے اخیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ دوبارہ بیعت کر کے خلافت کے بابرکت سایہ میں آگئے.آپ مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب مولف مجد داعظم کے داماد اور مکرم مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کے ہم زلف تھے.بیعت کے بعد آپ نے ”میری بیعت خلافت کی وضاحت کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ سپرد قلم کیا :.اس سے قبل کہ ”پیغام صلح میری بیعت خلافت کو رنگ آمیزی اور حاشیہ آرائی کا موضوع بنائے میں خود ہی احباب جماعت کی اطلاع کے لئے وضاحت کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں.اولاً میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کن وجوہات نے مجھے یہ قدم اٹھانے پر آمادہ کیا ہے.میں نے یہ قدم اصلاح جماعت کی نیت سے اٹھایا ہے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام موجودہ اختلاف کو جس نے جماعت کے دوٹکڑے کر دیئے ہیں ناراضگی کی نظر سے دیکھتے تھے.جیسے ان کے اس الہام سے ان کی قلبی کیفیت کی وضاحت ہو جاتی ہے."يُصْلِحُ اللہ جَمَاعَتِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى یعنی انشاء الله اللہ تعالیٰ جماعت کے اس اختلاف کو دور کر کے اصلاح کے راستے پر ڈال دے گا اور جماعت میں اتحاد پیدا کرے گا.ظاہر ہے کہ اختلاف کو دور کرنے کا ایک ہی معقول طریق ہے اور وہ یہ کہ تمام کی تمام جماعت خلافت کے دامن سے وابستہ ہو جائے.خود حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اس امت میں نبوت کا اسی لئے خاتمہ ہوا کہ میرے بعد خلفاء ہوں گے جو دینی راہ پر قوم کو چلائیں گے.اس مختصر بیان میں میں مضبوط خلافت کی اہمیت پر زیادہ نہیں لکھ سکتا.حضرت خلیفہ اول نے بار باراس بات پر زور دیا ہے کہ قومی زندگی کا راز مضبوط مرکز میں ہے.تاریخ کی بھی یہی شہادت ہے کہ جوں جوں خلافت کمزور ہوتی گئی اسلامی سلطنت زوال پذیر ہوتی گئی.میرے سابقہ اعلانات سے احباب کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ حضرت مرزا ناصر احمد کی شخصیت نے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور میرا ان کی بیعت کرنا اس تاثر کا منطقی نتیجہ سمجھتا ہوں.کافی غور و خوض کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچنے سے گریز نہ کر سکا کہ ہماری جماعتِ لا ہور وہی کردار ادا کر رہی ہے جو احمدیت کے مخالفین مولوی محمد حسین اور مولوی ثناء اللہ کرتے تھے.وہ بھی پوراز وراس
تاریخ احمدیت.جلد 25 167 سال 1969ء پر لگاتے تھے کہ کسی طرح احمدیت کو دنیا میں فروغ حاصل نہ ہو.ہمارے مسلک کا لب لباب تقریباً اسی کے برابر ہے یعنی یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام و نشان مٹ جائے.ہمارے لٹریچر میں اب یہ ایک کلاسیکی مقولہ بن گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لینا سم قاتل ہے اور یہ مسلک مشیتِ الہی کے بالکل الٹ ہے.اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہے کہ احمدیت دنیا کے دور دراز کناروں تک پہنچے گی اور ایک وقت آئے گا کہ احمدیوں کی اکثریت ہوگی اور باقی مسلمان اقلیت بن جائیں گے.ظاہر ہے کہ ہمارا قدم اس کے بالکل الٹ جا رہا ہے.دوسری شہادت واقعات کی ہے کہ جب سے ہم نے خدا کے مامور کے دامن پر گرفت کمزور کر دی ہے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ہم محروم ہو گئے ہیں.اس کی ایک تین مثال یہ ہے کہ ہمارا بہت مشہور و معروف مشن جو ہمارا سرمایۂ ناز تھا ہم سے چھن گیا ہے.ویسے بھی مشاہدہ یہ ہے کہ جماعت ربوہ اب روز بروز ترقی پذیر ہے.ہمارے اپنے مبلغین کا اعتراف ہے کہ جو بھی آدمی ہمارے زیر تبلیغ ہوتا ہے وہ بالآخر داخل جماعت ربوہ میں ہی ہوتا ہے.ہمارے ایک کارکن جو جماعت کی تنظیم پر مقرر ہیں انہوں نے اپنے دورہ جماعت کے بعد مجھے جتلایا کہ جہاں جہاں میں گیا جماعت میں ایک مُردنی اور جمود پایا.بالفاظ دیگر ہم میں بحیثیت جماعت زندگی کی حرارت بہت کم ہوگئی ہے.بالفاظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہم زندگی کے فیشن سے دور جا ے ہیں.اگر جماعت لاہور کو میرے اس مطالعہ سے اختلاف ہو تو بہترین صورت یہ ہے کہ ایک مجلس مناظرہ منعقد کی جائے جس میں دونوں فریق اپنے اپنے دلائل پیش کریں.اس مجلس کی صدارت کے لئے میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا نام پیش کرتا ہوں.چاہیے کہ اس مجلس میں دونوں جماعتوں کے لیڈر بھی موجود ہوں تا کہ احباب ان کو دیکھ کر ہی اندازہ کر سکیں کہ آسمانی نور اور سکون کس کے چہرہ پر برس رہا ہے.میرے نزدیک اختلاف کی ذمہ داری بھی ان احباب پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے خلیفہ اول کی وفات پر خلیفہ ثانی کے بکثرت آراء سے منتخب ہو جانے کے بعد بھی لاہور میں علیحدہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کا منصوبہ بنایا.حق یہ ہے کہ میں خود اس موقع پر موجود تھا.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر تقریباً تمام کی تمام قوم مسجد نور قادیان میں جمع ہو گئی تھی اور سب نے بالا تفاق رائے حضرت میرزا محمود احمد کو خلیفہ منتخب کیا.اس قومی اجماع کے بعد انجمن سازی کا رستہ اختیار کرنا انتشار کا رستہ تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 168 سال 1969ء میں سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کے پیدا کرنے والے بھی ہم ہی ہیں اور اس لئے اس اختلاف کا ازالہ بھی ہمارا اولین فریضہ ہونا چاہیے.بحیثیت اس جماعت کے ایک ممبر کے میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ جو راستہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دکھایا ہے اس کا اعلان کروں اور وہ یہ ہے کہ ہم سب دامنِ خلافت سے وابستہ ہو جائیں.اسی جذبہ کے تحت سب سے اوّل میں خود یہ قدم اٹھاتا ہوں.محمد یعقوب خان ۴ دسمبر ۱۹۶۹ء ۱۳۹.احمد پارک ، لاہور.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اپنے خدام سے پُر معارف گفتگو حضرت خلیفہ اُسیح الثالث ۶ دسمبر ۱۹۶۹ء کو بعد نماز فجر مسجد مبارک میں اپنے خدام کے ساتھ رونق افروز ہوئے اور ان سے گفتگو فرماتے رہے.مسجد میں مکھیوں کے زیادہ ہو جانے کا ذکر ہوا تو حضور نے فرمایا کبھی گو ایک حقیر کیڑا ہے لیکن اگر ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو انسان سے زیادہ طاقتور ہے.اگر مکھی کھانے میں سے ایک ذرہ اٹھا کر لے جائے تو انسان اس سے وہ ذرہ چھڑا نہیں سکتا.اگر انسان غور کرے تو مکھی انسان کو یہ تنبیہ کرتی ہے کہ میں ذراسی ایک حقیر چیز ہوں مگر تم مجھ سے اتنا گھبراتے ہو لیکن وہ شیطان جو تمہارے نفس کے اندر ہے اس سے تم نہیں گھبراتے حالانکہ نفس کے شیطان سے اگر انسان بچار ہے تو ٹھیک ورنہ وہ جہنم میں جا پڑتا ہے.حضور نے فرمایا نفس کے شیطان سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ نسخہ بتایا ہے کہ وہ رحمان کی رحمانیت کو یادر کھے اور ہمیشہ اس کی اس صفت اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے بے پایاں افضال پر غور کرتا رہے.اس ضمن میں حضور نے سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم کا ورد جاری رکھنے کی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا انسان کے اندر ہر وقت یہ احساس بیدار اور زندہ رہنا چاہیے کہ ہر چیز ہمیں خدائے رحمن نے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت عطا کی ہے وہ ہماری اپنی نہیں تبھی انسان نفس کے شیطان سے محفوظ رہ سکتا.ہے.152 ربوہ میں عید الفطر کی بابرکت تقریبہ ربوہ میں عید الفطر کی بابرکت تقریب ۱۲ دسمبر کو نہایت سادگی اور پروقار طریق پر منائی گئی.اہل ربوہ اور دور ونزدیک سے آئے احباب نے مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اقتداء میں نما ز عید
تاریخ احمدیت.جلد 25 169 سال 1969ء ادا کی.خطبہ عید میں حضور نے عید الفطر کی فلاسفی نیز اس کے تسلسل میں ملنے والی حقیقی اور دائمی عید کے حصول کے قرآنی ذرائع بیان فرمائے.حضور نے فرمایا کہ یہ امر انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ وقفہ وقفہ سے خوشیاں منائے.اللہ تعالیٰ نے اپنے مبعوث کردہ انبیاء کے ذریعہ سے انسان کے اس فطرتی تقاضا کو پورا کرنے کا سامان کیا اور خوشی کے اظہار کے طریق بھی بتائے.اسلام کی رو سے حقیقی خوشی وہی ہے جس کے منانے کا اللہ تعالیٰ حکم دے اور جس کے لیے قلبی کیفیت کا سامان بھی خود پیدا کرے.دعا کے بعد حضور نے سب حاضرین کو بلند آواز سے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کی دعا سے نوازا اور کمال شفقت سے فرمایا آپ سب اور دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے احمدیوں کو عید مبارک ہو.اس روز جمعہ بھی تھا چنا نچہ نماز جمعہ کے بعد حضور نے تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا.پروفیسرعبدالسلام صاحب کا گرانقدر عطیہ 153 پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ایف.آر.ایں سائنسی مشیر اعلیٰ صدر پاکستان نے سائنسی تحقیقات میں کام آنے والے چند عمدہ آلات کی درآمد کی غرض سے شعبہ طبیعیات تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے لئے ہیں لاکھ لیرا (اطالوی سکہ ( یعنی قریباً دو ہزار پاؤنڈ کا گرانقدر عطیہ منظور فرمایا.یہ رقم اُس فنڈ میں سے دی گئی جو پر و فیسر صاحب مذکور نے انہی ایام میں پاکستان میں سائنسی ترقی کے لئے اپنے انعام کی رقم وقف کر کے قائم کیا.پروفیسر نصیر احمد خان صاحب صدر شعبہ طبیعیات تعلیم الاسلام کالج نے روزنامہ الفضل میں یہ خبر دیتے ہوئے لکھا کہ اس طرح شعبہ کی ایک اہم ضرورت پوری ہو سکے گی.مزید لکھا کہ آپ (پروفیسر عبدالسلام صاحب) نے دس لاکھ لیرا کی رقم بطور عطیہ اسلامیہ کالج لاہور کے لئے بھی منظور فرمائی ہے.154 66 جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۶۹ء امسال احمدیت کے دائمی مرکز قادیان دارالامان میں سالانہ جلسہ کا مقدس اجتماع ۲۰،۱۹،۱۸ دسمبر ۱۹۶۹ء کو انعقاد پذیر ہوا.جس میں شمع احمدیت کے پروانے خدا کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے احمدیت کے دائمی مرکز قادیان کی ارضِ مقدس میں جمع ہوئے اور ایک دفعہ پھر انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ زندہ خدا، زندہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور زندہ کتاب پر ایمان رکھنے کے باعث خود بھی زندہ ہیں.مسیح پاک لام کے ان ابرا ہیمی طیور نے جو سرزمین ہندو پاک کے مختلف آشیانوں میں آباد تھے سرزمین السلام
تاریخ احمدیت.جلد 25 170 سال 1969ء قادیان میں آکر اُسے تین دن تک اپنے سجدوں ، عبادات و از کار الہی اور درود شریف سے معمور کیا اور بيت الدعاء بيت الذکر، بیت الفکر، مسجد مبارک ، مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ وغیرہ مقامات مقدسہ سے خوب استفادہ کیا اور حسب استطاعت علم و عرفان کی جھولیاں بھر کر اپنے وطنوں کو واپس ہوئے.اندرونِ ملک سے جلسہ کی خاطر مرکز سلسلہ میں دور دراز علاقوں سے سفر اختیار کر کے آنے والوں میں آندھراپردیش، میسور سٹیٹ، جموں و کشمیر، پونچھ، کیرالہ بمبئی، یوپی، بہار، بنگال، اڑیسہ اور دہلی کے علاقوں سے خاصی تعداد میں مخلص احباب شریک ہوئے.اس اللہی اجتماع سے مستفیض ہونے کے لئے ایک سوئس احمدی مکرم رفیق احمد صاحب چنین (Mr.Rafique Channen) بھی تشریف لائے.آپ ۱۹۶۰ء میں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو کر حضرت مسیح محمدی ﷺ کے شیدائیوں میں شامل ہوئے.اسی طرح جزیرہ سیلون سے بھی ایک بزرگ مختلف سفری صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے شریک جلسہ ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس جلسہ کے لئے جو پیغام ارسال فرمایا اس میں سب سے پہلے درویشان قادیان اور پھر بیرونی جماعتوں سے آنے والے احباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کے گرانقدر تحفہ سے نوازا.اس پیغام کے ذریعہ حضور نے احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ آجکل ساری دنیا کے اندر جو حالات پیدا ہو چکے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان بہت ہی خطرے میں ہے.سب دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب پر اپنا فضل نازل فرمائے.یہ پیغام حضرت صوفی غلام محمد صاحب امیر قافلہ نے پڑھا.حضور نے جلسہ سے قبل ایک برقی پیغام بھی دیا تھا جو مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ بنگال واڑیسہ نے سنایا.جلسہ کے فاضل مقررین جنہوں نے ٹھوس، پُر مغز اور نہایت معلومات افروز تقاریر فرمائیں.مولوی محمد کریم الدین صاحب شاہد استاذ مدرسہ احمدیہ قادیان ( حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدات ) ، حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل امیر مقامی (افتتاحی تقریر نیز تقریر بعنوان ذکر حبیب)، مولوی شریف احمد صاحب امینی ( تبلیغ اور جماعت احمدیہ ) ، رفیق چنن صاحب میں نے احمدیت کو کیوں قبول کیا ) ( یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی جس کا اردو تر جمہ میر احمد صادق صاحب ایم.اے آف حیدر آباد دکن نے سنایا)، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب (اسلام مجھے کیوں پیارا ہے ) ، مولوی محمد عمر صاحب مبلغ بمبئی ( شہری زندگی کو پُر امن بنانے کے لئے حضرت رسول کریم
تاریخ احمدیت.جلد 25 171 سال 1969ء صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات)، گیانی عبداللطیف صاحب (حضرت گورونانک کی عظیم شخصیت اور اسلام ) ، مولانا محمد حفیظ صاحب فاضل بقا پوری ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ وایڈیٹر بدر قادیان ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری و تبشیری پیشگوئیاں ، ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مؤلف اصحاب احمد (ذکر حبیب ) ، مولانا بشیر احمد صاحب فاضل (امام وقت کی ضرورت اور ان کے کام) اور (موجودہ زمانہ کے بارہ میں اسلام کی پیشگوئیاں)، چوہدری مبارک علی صاحب ناظر بیت المال ( آمد ) ( جماعت احمد یہ مالی قربانیوں کے میدان میں)، جناب ڈاکٹر سید اختر احمد صاحب اور بینوی ڈی لٹ پٹنہ ( خالق و مخلوق کا رشتہ ) ، مولانا شریف احمد صاحب امینی ( مسیح ناصری علیہ السلام کی ہجرت اور قبر ہندوستان میں ) ، مولوی عبدالحق صاحب فضل مبلغ مظفر پور (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ، صدر جلسه محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد (صدارتی خطاب ) - 155 " مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ایڈیٹر اخبار بدر کے قلم سے اس مقدس روحانی اجتماع کی مزید تفصیلات درج ذیل کی جاتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.دونوں ملکوں کی منظوری سے امسال ے ے پاکستانی احباب جماعت کا ایک قافلہ بتاریخ ۱۵ دسمبر حسینی والا بارڈر سے بھارت وارد ہوا اور فیروز پور سے بذریعہ ریل روانہ ہوکر اگلے روز ۱۶ دسمبر کو۵ بجے شام قادیان پہنچا.چھ روز قیام کرنے کے بعد ۲۱ دسمبر کو رات آٹھ بجے کی گاڑی سے واپسی کے لئے روانہ ہوا اور ۲۲ دسمبر کو بارڈر عبور کر گیا.ان زائرین میں بیشتر ایسے افراد تھے جنہیں یا تو زندگی میں پہلی بار اور یا تقسیم ملک کے بعد پہلی مرتبہ مرکز سلسلہ قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.چنانچہ گنتی کے ان ایام کو انہوں نے خصوصی دعاؤں اور ذکر الہی میں گزارا.اور اپنے اس سفر کو اپنی غیر معمولی سعادت جانا.اکناف عالم سے آئے ہوئے احباب جماعت مرکز سلسلہ میں اسی طرح گھل مل جاتے ہیں اور قادیان کی محبت سے اپنے تئیں اس طرح محسوس کرتے ہیں کہ گویا اپنے ہی گھروں میں اپنے ہی اعزہ و اقرباء کے پاس ہیں.چنانچہ جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد میں سے احباب کے باہمی تو ڑ دو تعارف کا جو زریں موقعہ میسر آتا ہے اس سے امسال بھی احباب نے خوب فائدہ اٹھایا.باہم مل کر روحانی باتیں کر کے، خدائی نشانات کا مشاہدہ کر کے اپنے ایمانوں میں تازگی حاصل کی اور روحوں کے صیقل
تاریخ احمدیت.جلد 25 172 سال 1969ء ہونے سے مستفید ہوئے.اجتماعی دعائیں ہوں یا انفرادی.ذکر الہی کی مجالس ہوں یا مقامات مقدسہ و بیت الدعا میں انفرادی نوافل کے مواقع ، ہر آنے والے نے اپنی ہمت اور ظرف کے مطابق جی بھر کر روحانی فائدہ اٹھایا بلکہ رمضان شریف کے بعد بابرکت ایام اور پُر نور راتوں کی مثال تو جلسہ سالانہ کے ایام میں ہی نظر آتی رہی ہے.مرکزی مساجد میں پنجگانہ نمازوں کے التزام کے ساتھ جلسہ کے دنوں میں مسجد مبارک میں اجتماعی طور پر نماز تہجد کا التزام رہا.فجر کی نماز کے بعد مسجد مبارک کے اندر حدیث شریف کا درس محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب، مکرم مولوی محمد کریم الدین صاحب اور مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی فاضل نے دیا جبکہ مسجد اقصیٰ میں کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس دینے کی سعادت را قم الحروف ( مولوی محمد حفیظ صاحب ایڈیٹر بدر ) کو حاصل رہی.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اظہر جلسہ سالانہ کی نگرانی میں مہمانان کرام کے قیام و طعام کا انتظام بفضلہ تعالی تسلی بخش طور پر رہا.دار مسیح ، مدرسہ احمدیہ و بورڈ نگ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز سکول کی عمارات میں اجتماعی طور پر مہمانان کرام نے قیام فرمایا.نیز درویشانِ کرام کے گھروں میں بھی انفرادی طور پر مہمان قیام پذیر ہے.اس دفعہ مہمانوں کی اجتماعی فرودگاہوں ( مدرسہ احمدیہ وتعلیم الاسلام سکول ) کے احاطہ ہی میں مہمانوں کی سہولت اور احسن رنگ میں خدمات بجالانے کے لئے طبی انتظام کا دفتر کھلا رہا جہاں ضرورتمند احباب کو طبی امداد بہم پہنچائی جاتی رہی.مکرم چوہدری غلام ربانی صاحب انچارج احمدیہ شفاخانہ اور ان کے مستعد عمله نیز مکرم ملک بشیر احمد صاحب ناصر نے رضا کارانہ پُر خلوص خدمات سرانجام دیں.قادیان اور اس کے مضافات میں ایک عرصہ سے امساک باراں کے سبب خشک سردی پڑ رہی تھی جس سے فلو وغیرہ کے عارضہ کا اندیشہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا خاص فضل شامل حال رہا اور سارا جلسہ خدا تعالیٰ کے فضل سے خیر و عافیت سے گزرا.کوئی غیر معمولی کیس نہیں ہوا اور ہر طرح خیریت رہی.فالحمد للہ علی ذالک نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے جلسہ سالانہ کا جو تقریری پروگرام مرتب کیا گیا تھا خدا کے فضل سے تینوں روز نہایت کامیابی کے ساتھ جملہ اجلاسات ہوئے اور علماء کرام کی ٹھوس عالمانہ تقاریر سے سامعین کرام محظوظ ہوئے اور سب تقاریر کو بڑی دلچسپی اور توجہ سے سنا اور پسند کیا.تینوں روز احمد یہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 173 سال 1969ء جلسہ گاہ میں خاصی رونق ہوتی رہی.اپنے احباب جماعت کے علاوہ غیر مسلم دوست بھی خاصی تعداد میں شریک جلسہ ہوتے اور پوری دلجمعی کے ساتھ تقاریر کو سنتے رہے.جالندھر ریڈیو کے کارندے بھی تشریف لائے اور متعدد تقاریر کے ٹیپ ریکارڈ لیتے رہے.مردانہ جلسہ کے پہلے اور تیسرے روز کی کارروائی بذریعہ لاؤڈ سپیکر (جس کا تمام اجلاسات میں معقول انتظام تھا ) زنانہ جلسہ گاہ میں بھی سنی جاتی رہی جبکہ درمیانے روز مستورات کا اپنا علیحدہ پروگرام تھا وہ بھی بحسن وخوبی پورا ہوا.صدر لجنہ اماء الله مرکز یہ محترمہ بیگم صاحبہ مرزا وسیم احمد صاحب کے پاؤں میں پلستر لگا ہوا تھا جس کے سبب وہ خود تو جلسہ گاہ میں تشریف نہ لاسکیں لیکن نائب صدر صاحبہ کی نگرانی میں یہ اجلاس منعقد ہوا.محترمہ بیگم صاحبہ اسی حالت میں دارا مسیح میں مقیم مہمانانِ کرام کی ضیافت اور خدمت سرانجام دیتی رہیں.محترم سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ وزیر پنجاب نے حسب سابق امسال بھی پاکستانی احباب جماعت کے قافلہ اور چیدہ چیدہ ہندوستانی احباب جماعت کو بتاریخ ۲۱ دسمبر اپنے مکان پر دعوت دی.جہاں چائے اور مٹھائی کے ساتھ تواضع کرنے کے بعد پہلے سردار پریتم سنگھ صاحب نے تعارفی تقریر کی بعدۂ خود جناب سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ نے خطاب فرمایا.جس میں جماعت احمدیہ کے ساتھ اپنے تعلقات اور احباب جماعت کے حسنِ سلوک اور پُر خلوص تعاون کا تذکرہ کیا اور مہمانان کرام کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی شدید مصروفیت کے سبب زیادہ وقت نہ دے سکنے پر معذرت کی اور واضح کیا کہ انسانیت کا مرتبہ سب سے بلند ہے جس کے سامنے ہر قسم کی مذہبی حدود ختم ہو کر ہر شخص ایک ہی اونچے مقام پر نظر آتا ہے.اور ہم انسانیت کی قدر کرنے والے ہیں اور آپس میں محبت والفت کے ساتھ رہتے ہیں.جناب باجوہ صاحب کے ایسے پُر خلوص اظہار خیال کے بعد امیر قافلہ نے احباب قافلہ کی طرف سے اور جناب سید اختر احمد صاحب اور مینوی نے ہندوستانی احباب جماعت کی طرف سے جناب باجوہ صاحب کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب امیر مقامی نے ساری جماعت کی طرف سے شکریہ ادا کیا.جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۹ء 66 156 ربوہ کی مقدس سرزمین میں جماعت احمدیہ کاللہی جلسہ سالانہ اس سال ۲۷،۲۶، ۲۸ دسمبر ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.جس میں شمع احمدیت کے کم و بیش ایک لاکھ پروانے جمع ہوئے.آنے والے
تاریخ احمدیت.جلد 25 174 سال 1969ء مخلصین اور عشاق مشرقی اور مغربی پاکستان کے کونہ کونہ سے ہی نہیں بلکہ بھارت، گھانا، تنزانیہ، زیمبیا، نائیجیریا، کویت، ابوظہبی ، افغانستان، انڈونیشیا، انگلستان، مغربی جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ ، امریکہ اور کینیڈ اوغیرہ ممالک سے دیوانہ وار کھنچے چلے آئے.بیرونی ممالک سے تشریف لانے والوں میں سے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (ہالینڈ)، ظفر اللہ الیاس صاحب ( نائیجیریا ) ، الحاج حسن العطاء صاحب (صدر جماعتہائے احمدیہ اشانٹی ریجن گھانا ) ، مولوی عبد الکریم صاحب (لندن) ، شیخ ناصر احمد صاحب (سوئٹزرلینڈ)، افتخار احمد صاحب ایاز ( تنزانیہ)، ایم عبدالشکور صاحب چوہان ( انڈونیشیا) اور چوہدری نذیر احمد صاحب ( کویت) خاص طور پر قابل ذکر تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا افتتاحی خطاب حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے اپنے وجد آفرین افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جب امت مسلمہ کو اس طرف پکارا کہ غلبہ اسلام کے لئے مجھے مبعوث کیا گیا ہے.میری طرف آؤ اور میرے انصار بنو اور اللہ کی راہ میں اس کی رضا کے حصول کیلئے قربانی دو اور ایثار دکھاؤ...حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے آگے فرمایا: اُن کی زندگی کیلئے موت تک دریغ نہیں کروں گا“.(اشتہار ۴ مارچ ۱۸۸۹ء) 157 اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نائب اور خلیفہ کی حیثیت سے میرے دل میں بھی یہ جوش پیدا کیا ہے کہ میں اپنے رب کریم سے آپ دوستوں کیلئے انہی باتوں کو چاہوں اور طلب کروں.میری جان آپ پر قربان، میں ہمیشہ آپ کیلئے ہر رنگ میں دعائیں کرتا رہتا ہوں.آپ جب اس جلسہ کیلئے سفر شروع کرتے ہیں تو میرے دل میں بڑی فکر پیدا ہوتی ہے.سفر کی تکالیف ہیں.سفر کے حادثات ہیں.سفر کی پریشانیاں ہیں.میں ان کو سوچتا ہوں اور اپنے ربّ کریم کے حضور جھک کر آپ کیلئے اس کی حفاظت اور امان چاہتا ہوں.جب آپ یہاں آ جاتے ہیں.مجھے یہ فکر دامنگیر رہتی ہے کہ کہیں ہمارے مخلص رضا کاروں کی کسی غفلت کے نتیجہ میں آپ میں سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے.پھر مجھے یہ فکر رہتی ہے کہ خود آپ کے نفوس آپ کی پریشانی کا باعث نہ بنیں.جس
تاریخ احمدیت.جلد 25 175 سال 1969ء مقصد کیلئے آپ یہاں آئے ہیں اس کے حصول کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور متضرعانہ دعاؤں کی توفیق پائیں اور اس جلسہ میں شامل ہو کر خدا اور اس کے رسول کی باتیں سنیں.انہیں سمجھیں اور یہ عہد کریں کہ یہ ارشادات، اللہ کا یہ پیغام، قرآن عظیم ہم پر جو ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی توفیق بخشے.کہیں یہ مقصد آپ کی نظر سے اوجھل نہ ہو جائے.اور میں آپ کیلئے ہر وقت ہر آن دعا میں لگا رہتا ہوں.حضور نے مزید فرمایا کہ سارا سال جو دعائیں میں آپ دوستوں کیلئے کرتا رہتا ہوں وہ سورۃ فاتحہ کی دعائیں ہیں جن کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں بیان کی ہے.ان دعاؤں کا خلاصہ اس وقت میں بلند آواز سے پڑھوں گا.آپ آمین کہتے رہیں.اس مختصر مگر انتہائی پر اثر خطاب کے بعد حضور نے سورۂ فاتحہ کے خلاصہ کے طور پر بآواز بلند نہایت جامع دعائیں پڑھیں.جب حضور یہ دعائیں پڑھ رہے تھے تو جلسہ گاہ میں موجود سامعین پر وارفتگی کا عالم طاری تھا.وہ تضرع و ابتہال کے ساتھ ان دعاؤں کو زیر لب دہرا رہے تھے.اور نہایت سوز وگداز اور رقت کے ساتھ آمین اللهم آمین کہتے جاتے تھے.158 پر معارف خطبہ جمعہ ۲۶ دسمبر کو جمعہ کا مبارک دن تھا.اس روز حضور نے اپنے پُر معارف خطبہ جمعہ میں اسلام کی بنیادی اہمیت رکھنے والی دوا ہم ہدایات پر روشنی ڈالی.(۱) حقوق اللہ ادا کرو (۲) حقوق العباد ادا کرو.حضور نے بتایا کہ دراصل تمام حق تو اللہ کیلئے ہی ہیں.اگر غور سے دیکھا جائے تو بندے کا کوئی حق بنتا ہی نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بے پایاں ہے کہ اس نے اپنے بندوں کے حقوق بھی قائم کئے اور انہیں ضروری قرار دیا.دراصل حقوق العباد علامات ہیں حقوق اللہ کی ادائیگی کی.ہم کسی انسان کا حق اس لئے ادا نہیں کرتے کہ یہ اس کا ذاتی حق ہے بلکہ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اسی نے بندے کا یہ حق قائم کر کے ہمیں اس کی ادائیگی کا حکم دیا ہے.گو بندوں کی تمام نیکی اور سعادت اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کریں.اس نے جن مقامات میں اور جن ہستیوں کو اپنا نشان قرار دیا ہے ہمارا فرض ہے کہ ان کی عزت کریں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود باجود اللہ تعالیٰ کا ایک زندہ نشان تھا اور حضور نے جلسہ سالانہ کو بھی شعائر اللہ قرار دیا
تاریخ احمدیت.جلد 25 176 سال 1969ء ہے کیونکہ اس موقع پر ہم کسی ذاتی غرض سے نہیں بلکہ محض خدا اور اس کے رسول ﷺ کی باتیں سننے اور اس کی رضا کے حاصل کرنے کے لئے یہاں جمع ہوتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں اسلام کے جن احکام پر خاص طور پر زور دیا ہے ان میں حقوق العباد کی ادائیگی بھی شامل ہے.حضور علیہ السلام نے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے کمزوروں کی عزت و احترام کو بھی قائم کیا ہے چنانچہ فرمایا ہے کہ جماعت کے جو افراد طاقت اور استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے کمزور بھائیوں کو مدددیں اور ان کا سہارا بنیں.جماعت میں نئے آنے والوں کی کمزوریوں کی پردہ پوشی کی جائے اور ان کے ساتھ ملائمت اور شفقت کا سلوک کیا جائے.احمدی مستورات سے خطاب جلسہ کے دوسرے روز ۱۷ دسمبر کو حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے احمدی مستورات سے روح پرور خطاب فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل ارشاد مبارک کی روحانی اور واقعاتی تفصیل تھا( تقریر کے متن کیلئے ملاحظہ ہو المصابیح صفحہ ۱۷۸ تا ۱۸۹ مرتبہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ).حضرت اقدس علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.پانچ موقعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے نہایت نازک پیش آئے تھے.جن میں جان کا بچنا محالات سے معلوم ہوتا تھا اگر آنجناب درحقیقت خدا کے سچے رسول نہ ہوتے تو ضرور ہلاک کئے جاتے.ایک تو وہ موقعہ تھا جب کفار قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیا اور قسمیں کھالی تھیں کہ آج ہم ضر ورقتل کریں گے.(۲) دوسرا وہ موقعہ تھا جبکہ کا فرلوگ اس غار پر معہ ایک گروہ کثیر کے پہنچ گئے تھے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مع حضرت ابوبکر کے چھپے ہوئے تھے.(۳) تیسر اوہ نازک موقعہ تھا جبکہ اُحد کی لڑائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ کے گرد محاصرہ کر لیا تھا اور آپ پر بہت سی تلوار میں چلائیں مگر کوئی کارگر نہ ہوئی یہ ایک معجزہ تھا.(۴) چوتھا وہ موقعہ تھا جبکہ ایک یہودیہ نے آنجناب کو گوشت میں زہر دیدی تھی اور وہ زہر بہت تیز اور مہلک تھی اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 177 سال 1969ء بہت وزن اس کا دیا گیا تھا.(۵) پانچواں وہ نہایت خطرناک موقعہ تھا جبکہ خسرو پرویز شاہ فارس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کیلئے مصم ارادہ کیا تھا اور گرفتار کرنے کیلئے اپنے سپاہی روانہ کئے تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ان تمام پُر خطر موقعوں سے نجات پانا اور ان تمام دشمنوں پر آخر کار غالب ہو جانا ایک بڑی زبر دست دلیل اس بات پر ہے کہ درحقیقت آپ صادق تھے اور خدا آپ کے ساتھ تھا.150 حضور نے اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں ارشاد فرمایا:.ایک موقع پر ظالمانہ طور پر ہمیں بھی قید میں بھیج دیا گیا.گرمیوں کے دن تھے اور مجھے پہلی رات اُس تنگ کو ٹھڑی میں رکھا گیا جس میں ہوا کا کوئی گزر نہیں تھا اور اس قسم کی کوٹھڑیوں میں اُن لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا ہو.زمین پر سونا تھا اوڑھنے کیلئے ایک بوسیدہ کمبل تھا اور سرہانے رکھنے کے لئے ایک اچکن تھی.بڑی تکلیف تھی.میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے رب میں ظلم کر کے، چوری کر کے، کسی کی کوئی چیز مار کر یا غصب کر کے کوئی اور گناہ کر کے اس کوٹھڑی میں نہیں پہنچا.میں اس جگہ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ جہاں تک میرا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرے نام کو بلند کرنے والا تھا میں اس جماعت میں شامل تھا کہ جو تو نے اس لئے قائم کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں پیدا کی جائے.میرے رب مجھے یہاں آنے کی وجہ سے کوئی تکلیف نہیں مجھے کوئی شکوہ نہیں.میں کوئی گلہ نہیں کرتا.میں خوش ہوں کہ تو نے مجھے قربانی کا ایک موقع دیا ہے اور میری اس تکلیف کی میری اپنی نگاہ میں بھی کوئی حقیقت اور قدرنہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں اس جگہ جہاں ہوا کا گزر نہیں ،سونہیں سکوں گا.میں یہ دعا کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند تھیں.میں بلا مبالغہ آپ کو بتا تا ہوں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایک ائر کنڈیشن لگا ہوا ہے اور اس سے ایک نہایت ٹھنڈی ہوانکل کر مجھ پر پڑنی شروع ہوئی اور میں سو گیا.غرض ہر دکھ کے وقت میں ، ہر مصیبت کے وقت میں جب عظیم منصوبے بنائے گئے ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کا پیار آسمان سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 178 سال 1969ء آیا اور اس نے ہمیں اپنے احاطہ میں لے لیا اور ہمیں تکلیفوں اور دکھوں سے بچایا اور ایسی لذت اور سرور کے سامان پیدا کئے کہ دنیا اس سے ناواقف ہی نہیں اس کی اہل بھی نہیں ہے.پس اپنے ماحول کو دیکھو.جو موقع اللہ تعالیٰ نے آج آپ کو دیا ہے اس کو سمجھو.خدا تعالیٰ نے آپ سے پیار کیا ہے کہ آپ کو احمدیت میں داخل کیا یا پیدا کیا یہ اللہ تعالیٰ کے پیار کا ایک مظاہرہ ہے اور خدا نے کہا ہے کہ اگر تم میرے اس پیار کو شکر کے جذبات کے ساتھ اور شکر کے بولوں کے ساتھ اور شکر کے عملوں کے ساتھ قبول کرو گی تو اس سے کہیں زیادہ پیار تم حاصل کرو گی.خدا کرے کہ میں اور آپ خدا تعالیٰ کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے والی ہوں مجلس خدام الاحمد سی اور مجلس انصاراللہ کے علم انعامی 160- اس سیال مجلس خدام الاحمدیہ ڈرگ روڈ کراچی اور مجلس خدام الاحمدیہ لائل پور (فیصل آباد) کو علم انعامی کا مستحق قرار دیا گیا اور کارگزاری کے اعتبار سے مجلس خدام الاحمد یہ سرگودھا دوم اور مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سوم قرار پائی.چنانچہ ۲۷ دسمبر کے اجلاس دوم کے آغاز میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اپنے دست مبارک سے قائد مجلس ڈرگ روڈ عبدالشکور صاحب اسلم اور قائد مجلس لائل پور (فیصل آباد) سید مشتاق احمد صاحب ہاشمی کو علم انعامی عطا فرمایا اور مجلس سرگودھا اور مجلس کراچی کوسندات خوشنودی عطا فرمائیں.اس کے بعد حضور نے مجلس انصار اللہ لائل پور کے زعیم اعلیٰ قریشی افتخار علی صاحب کو بھی علم انعامی مرحمت فرمایا.کیونکہ مجلس انصاراللہ لائل پور اس سال جملہ مجالس انصاراللہ میں اول قرار پائی تھی.خدائی نصرتوں کا حقیقت افروز تذکرہ مجالس کو علم انعامی عطا فرمانے کے بعد حضرت خلیفہ المسح الثالث نے اپنے نہایت بصیرت افروز خطاب میں خدا تعالیٰ کے ان افضال، تائیدات اور نصرتوں کا تذکرہ فرمایا جن سے اللہ تعالیٰ نے ۱۹۶۹ء میں عالمگیر جماعت احمدیہ کونوازا اور ساتھ ہی یہ بیان فرمایا کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کے جو فضل نازل ہوتے ہیں ہم ان کا اظہار اس لئے نہیں کرتے کہ ہمیں ان پر کوئی فخر ہے کیونکہ دنیا بھی جانتی ہے اور ہم
تاریخ احمدیت.جلد 25 179 سال 1969ء بھی جانتے ہیں کہ ہم کمزور اور لاشے محض ہیں نہ ہم اپنوں کے سامنے ان پر فخر کر سکتے ہیں اور نہ دوسروں کے سامنے.ہم تو محض تحدیث نعمت کے طور پر اس کا ذکر کرتے ہیں کہ باوجود ہر طرح کی کمزوریوں کے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل نازل کئے.اس کے بعد حضور نے فضل عمر فاؤنڈیشن ،تحریک جدید ،تحریک وقف عارضی ، سورۂ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک اور صدر انجمن احمدیہ کی آمد پر جذبات تشکر سے لبریز الفاظ میں نہایت شرح وبسط سے روشنی ڈالی.اور بتایا کہ مخلصین جماعت نے تحدیث نعمت کے طور پر فضل عمر فاؤنڈیشن فنڈ میں معینہ معیاد کے اندر پچیس لاکھ روپے کی بجائے بیتیس لاکھ روپے سے بھی زیادہ رقم پیش کر دی ہے.سویڈن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی جماعت قائم ہوگئی ہے جو یوگوسلاویہ کے مہاجر مسلمانوں پر مشتمل ہے اور انہیں معجزانہ رنگ میں قبولیت احمدیت کی توفیق ملی ہے.یوگوسلاویہ پہلا کمیونسٹ ملک ہے جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک منظم جماعت قائم ہوگئی ہے.مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی بکثرت احمدی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں.جاپان میں احمد یہ مشن کا از سر نو قیام عمل میں آیا ہے.امریکہ مشن نے اپنا پریس جاری کیا.یورپ میں ۵۶ / افراد نے اور امریکہ میں ۸۲/افراد نے قبول حق کیا ہے.نگر پارکر سندھ کے علاقہ میں معلمین وقف جدید کے ذریعہ۵۷۰ ہندو اسلام قبول کر چکے ہیں.چار ہزار سے زائد احمدی بچیاں اور خواتین سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کر چکی ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے چندوں میں گذشتہ سال کی نسبت سوا دو لاکھ روپے کا اضافہ ہوا.جو محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کیونکہ یہ سال جو ہنگاموں اور فسادات کے درمیان شروع ہوا تھا.اللہ تعالیٰ کی نصرتوں، بشارتوں اور کامیابیوں کے درمیان ختم ہو رہا ہے.الحمد للہ آخر میں حضور نے اشتراکیت اور اسلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ کہنا کہ صرف اشتراکیت یا سوشلزم کو غریب سے ہمدردی ہے.غلط ہے.غرباء کا حقیقی معنوں میں ہمدرد اور خیر خواہ سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں.اشتراکیت یا سوشلزم کا نظریہ تو یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی کم از کم ضروریات کے مطابق دیا جائے لیکن اسلام یہ کہتا ہے کہ انسان کو اپنی ضروریات اور اپنی قوتوں کے نشو ونما کے کمال کیلئے زیادہ سے زیادہ جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ اس کا حق ہے جو بہر حال اس کو ملنا چاہیے اور میرے نزدیک اب وقت آگیا ہے کہ ہم اسلام کے اس نظریہ کو جہاں تک ہماری طاقت اور اختیار میں ہو عملی شکل میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 180 سال 1969ء قائم کر کے دکھا ئیں.ہم نے ربوہ میں کسی حد تک اس پر عمل کرنا شروع کر دیا ہے چنانچہ ہم نے ربوہ کے ۴۴۳ خاندانوں کو سستی گندم اور نقدی کی صورت میں امسال مدد دی ہے.احمدی کارخانہ داروں اور زمینداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے مزدوروں اور مزار عین کی اجرت اور ان کے حقوق اسلامی اصولوں کے مطابق ادا کریں.حضور نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی کے تقرر کا بھی اعلان فرمایا جو احمدی کارخانہ داروں اور زمینداروں کے حالات اور دیگر امور پر غور کر کے ایسی معین تجاویز مرتب کرے گی جن سے اسلامی اصولوں کے مطابق غرباء کے حقوق کی ادائیگی کا انتظام ہو سکے.حقیقت محمد به برایمان افروز یکچر سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے جلسہ کے آخری اجلاس میں حقیقت محمدیہ کے موضوع پر وجد آفریں خطاب فرمایا جو قرآنی علوم و معارف اور حقائق و دقائق کے ایک بحر بیکراں کی حیثیت رکھتا ہے.حضور نے سورہ نجم (آیت ۴ تا ۱۱) کی نہایت لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے نہایت مسحور کن اور عارفانہ انداز میں واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود مقصود کائنات ہے یعنی وجہ تخلیق کائنات صرف اور صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات بابرکات ہے.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو پیدا کرنا منشائے الہی نہ ہوتا اور اللہ رب العالمین آپ کو پیدا کرنے کا منصوبہ نہ بناتا تو یہ عالمین ہی معرض وجود میں نہ آتا.اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کو عالم قضا و قدر میں مرکزی نقطہ کے طور پر پیدا کیا اور پھر اس کے گرد عالمین کو بنایا.یہ حقیقت ایک رنگ میں گزشتہ انبیاء پر بھی ظاہر کی گئی تھی اور انہیں بتایا گیا تھا کہ انہوں نے جو بھی فیضانِ الہی پایا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے پایا ہے.یہی وجہ ہے کہ جملہ انبیاء ماسبق میں سے ہر نبی اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا مظہر تھا مگر اللہ کا مظہر نہ تھا.جملہ انبیاء میں سے یہ مقام صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.آپ اللہ تعالیٰ کی کسی ایک یا چند صفات کے نہیں بلکہ ان تمام تشبیہی صفات اور ان کے جلووں کے مظہر اتم ہیں جن کا تعلق اس عالمین سے ہے.حضور نے مزید واضح فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اوپر کی جانب قوس الوہیت یا قوس اعلیٰ اور نیچے کی طرف قوس اسفل یا قوس دنیا کے درمیان ان دونوں قوسوں کے مشتر کہ وتر کے طور پر ہے.حقیقت محمدیہ وہ وتر نہیں بلکہ اس وتر کا مرکزی نقطہ ہے.یہ وتر مرکزی نقطہ سے دائیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 181 سال 1969ء جانب اور بائیں جانب صفات الہیہ یا بالفاظ دیگر انبیاء وصلحاء کے بیشمار نقاط پر مشتمل ہے.دائیں جانب گذشتہ انبیاء ہیں اور بائیں جانب بعد میں آنے والے امتِ مسلمہ کے برگزیدہ وجود.ان کے درمیان یا عین وسط میں حقیقت محمدیہ مرکزی نقطہ کے طور پر ہے.حقیقت محمدیہ کی چار حرکتیں ہیں.ایک حرکت اوپر کی طرف یعنی قوس الوہیت کی طرف ہے.دوسری اور تیسری حرکت خود و تر پر دائیں اور بائیں جانب ہے اور چوتھی حرکت نیچے کی طرف یعنی دنیا کی قوس کی جانب ہے.یہ مرکزی نقطہ (بالفاظ دیگر حقیقت محمدیہ علی ) بحر الوہیت میں غوطہ زن ہو کر اوپر کی طرف بلند ہونا شروع ہوا بلند ہوتے ہوتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے بلند سے بلند تر مقام پر پہنچے کہ وہاں سے خدا نے محبت و شفقت اور پیار کے رنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا اور آپ کو عرش پر بٹھا لیا.اس طرح سب سے اعلیٰ سب سے ارفع اور سب سے افضل آپ کا وجود بن گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عالمین سے تعلق رکھنے والی جملہ صفات الہیہ کے مظہر اتم قرار پائے.دوسری اور تیسری حرکت اس مرکزی نقطے یا حقیقت محمدیہ کی وتر پر دائیں اور بائیں جانب ہے.دائیں طرف حرکت انبیاء ماسبق کی طرف ہے اور بائیں طرف حرکت بعد میں آنے والوں کی طرف.سو گویا آپ کی روحانی تاثیر سارے وتر میں پھیلی ہوئی ہے.اولین کو بھی فیضانِ الہی آپ ہی کی وساطت سے ملا اور آخرین کو بھی تا قیامت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وساطت سے الہی فیضان ملتا چلا جائے گا.اسی لئے آپ کا وجود عالم موجودات پر ازل سے مؤثر ہے اور تا قیامت مؤثر رہے گا.مرکزی نقطے یا حقیقت محمدیہ کی چوتھی حرکت نیچے کی طرف یعنی دنیا اور اس کی مخلوق کی طرف ہے.یہاں بھی آپ کی شان بہت ہی بلند اور ارفع و اعلیٰ نظر آتی ہے.دوسرے انبیاء بنی نوع انسان کے ایسے ہمدرد اور رستگار نہ تھے جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اسفل السافلین تک پہنچے اور جو شخص اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں گرتے گرتے وہاں پہنچا ہوا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ پکڑ کر اسے بھی وہاں سے نکال لائے.اس انتہائی ارفع و اعلیٰ مقام میں کوئی بھی آپ کا شریک نہیں.اسی کا نام حقیقت محمدیہ ہے اور یہی ختم نبوت کی حقیقت ہے.دیگر فاضل مقررین اس یادگار اور نہایت بابرکت جلسہ پر جن نامور علماء اور بزرگوں نے اہم علمی، دینی اور تربیتی موضوعات پر فاضلانہ اور پُر مغز لیکچر دیے، ان کے نام یہ ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 182 سال 1969ء مولوی غلام باری صاحب سیف پروفیسر جامعہ احمدیہ (سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ).مولوی عبدالمالک خانصاحب مربی سلسلہ (ذکر حبیب) - مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد ( مقاصدِ احمدیت ).مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور ( دعا اور اس کے آداب).شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن (اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کے حقوق و فرائض ).( حضرت ) مرزا طاہراحمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید ( اسلام اور سوشلزم ).مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ (اسلام کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین نشانات ).مولانا ابو العطاء صاحب (خلافت ثالثہ کی تحریکات ).کمال یوسف صاحب مبلّغ سکنڈے نیویا ( سکنڈے نیویا میں تبلیغ اسلام ).حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت ہیگ ( نونہالان جماعت کی ذمہ داریاں ).ان کے علاوہ جناب ظفر اللہ الیاس اور جناب الحاج الحسن عطاء نے نائیجیریا اور گھانا کی جماعت احمدیہ کی نمائندگی میں حاضرین جلسہ سے پُر اثر خطاب کیا.روٹی پکانے والی مشینوں کی تنصیب ۱۹۶۹ء کو نہایت اہم اور منفرد خصوصیت یہ حاصل تھی کہ اس سال جلسہ سالانہ کی تاریخ میں پہلی بار روٹی پکانے والی مشینوں کی تنصیب ہوئی.چنانچہ سید داؤد احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ نے نمائندہ الفضل کو جلسہ کے بعض نئے انتظامات اور تجرباتی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ:.اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے عین مطابق اُس کے فضل سے سال بہ سال مہمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اس اضافہ کی نسبت سے مزید نانبائیوں کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے چنانچہ اس دقت اور مشکل پر قابو پانے کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایت اور رہنمائی میں گذشتہ چند سالوں کے دوران روٹیاں پکانے والی مشینیں حاصل کرنے کے سوال پر غور ہوتا رہا ہے.امسال پہلی بار دو مشینیں تیار کروائی گئی ہیں.ان میں سے ایک مشین جو کراچی میں تیار ہوئی ہے لنگر خانہ نمبرا میں نصب کی جاچکی ہے یہ نسبتاً چھوٹی مشین ہے اس پر ایک وقت میں دو نانبائی اور دو پیڑے بنانے والے کام کریں گے اور یہ ۸۰۰ ( آٹھ صد ) روٹیاں فی گھنٹہ تیار کرے گی.اسی طرح ایک اور مشین کے پارٹس بھی ربوہ پہنچ چکے ہیں اور اسے آجکل اسیمبل (Assemble ) کیا جا رہا ہے.مکرم جناب منیر احمد صاحب انجینئر آف کراچی اور مکرم جناب نعیم احمد خان صاحب قائد مجلس
تاریخ احمدیت.جلد 25 183 سال 1969ء خدام الاحمدیہ کراچی اس مشین کو مکمل کرنے اور اسے خاطر خواہ طریق پر چالو ہونے کے قابل بنانے میں بڑی محنت اور تندہی سے دن رات کام کر رہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مشین بھی جلسہ سے قبل تیار ہوگی تو اس پر انشاء اللہ العزیز نانبائیوں کی مدد کے بغیر ہی دو ہزار روٹیاں فی گھنٹہ تیار ہوسکیں گی.مزید برآں آئندہ کے لئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک تیسری مشین حاصل کرنے کی بھی منظوری مرحمت فرمائی ہے.یہ مشین آجکل مکرم اعجاز احمد صاحب کی زیر نگرانی لندن میں تیار کرائی جارہی ہے (الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ا سے معلوم ہوتا ہے کہ محمود احمد صاحب قمر ایڈووکیٹ فیصل آباد نے ایک مشین کی قیمت عطیہ کے طور پر دینے کی پیشکش فرمائی).محترم جناب افسر صاحب جلسہ سالانہ نے دوران گفتگو مزید بتایا کہ چونکہ امسال مشینوں کے ذریعہ روٹیاں تیار کرنے کا انتظام محض تجربہ کیا جارہا ہے اس لئے جلسہ سالانہ کے تینوں لنگر خانوں میں حسب سابق تنور بھی نصب کرائے گئے ہیں چنانچ لنگر خانہ نمبر میں جو جلسہ سالانہ کا مرکزی لنگر خانہ ہے گزشتہ سال کی طرح ۶۶ تنور اور چالیس چو لہے لگائے جاچکے ہیں.یہ سب تنور اور چو لہے سوئی گیس سے چلیں گے اسی طرح لنگر خانہ دارالرحمت اور لنگر خانہ دار العلوم کو بھی ہر طرح درست اور تیار کر دیا گیا ہے اور ان میں حسب ضرورت اجناس وغیرہ پہنچادی گئی ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۲ دسمبر ۱۹۶۹ء کو ان مشینوں کا معاینہ فرمایا جس کی تفصیل الفضل کے خصوصی نامہ نگار کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے:.161 حضور نماز عصر کے بعد ۴ بجے سہ پہر محترم افسر صاحب جلسہ سالانہ کی معیت میں قصر خلافت سے بذریعہ موٹر کار دارالضیافت میں تشریف لائے اور یہاں روٹیاں پکانے والی دونوں مشینوں کو ملاحظہ فرمایا.ان میں سے چھوٹی مشین جس پر ایک وقت میں دو نانبائی کام کرتے ہیں ہر طرح مکمل ہو چکی ہے چنانچہ جب حضور دار الضیافت میں تشریف لائے تو یہ مشین چل رہی تھی اور فی منٹ بارہ روٹیوں کے حساب سے اس میں سے پکی پکائی روٹیاں از خود نکل رہی تھیں.حضور نے مشین سے نکلنے والی روٹیوں میں سے بعض روٹیاں اٹھا کر انہیں ملاحظہ فرمایا نیز ایک روٹی کو تو ڑ کر اسے چکھا.روٹی کی کوالٹی پر اطمینان کا اظہار فرمانے کے علاوہ حضور نے مشین اور اس کے عملے کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور انہیں بعض قیمتی ہدایات سے نوازا.اس موقع پر حضور نے دوسری مشین بھی ملاحظہ فرمائی جوا بھی پورے طور پر مکمل نہیں ہوئی ہے اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 184 سال 1969ء جسے کراچی کے دو احمدی انجینئر ز اور ان کا عملہ مکمل کرنے اور جلسہ سے پہلے اسے چالو کرنے کی خاطر گزشتہ دو ماہ سے دن رات کام کر رہا ہے.یہ مشین مکمل ہونے پر انشاء اللہ العزیز کسی نانبائی کی مدد کے بغیر از خود دو ہزار روٹیاں فی گھنٹہ تیار کر لے گی.اس پر کام کرنے والے انجینئر ز مکرم منیر احمد خان صاحب اور مکرم نعیم احمد خان صاحب نے حضور کی خدمت میں اس توقع کا اظہار کیا کہ انشاء اللہ تعالیٰ مشین ۲۵ دسمبر کی شام تک چالو ہو جائے گی اور اس میں روٹیاں پکنے لگیں گی.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ چھوٹی مشین تو جو اس وقت چالو حالت میں ہے اور جس میں روٹیاں پکنی شروع ہو گئی ہیں مکرم نعیم احمد خان صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کی زیر نگرانی کراچی میں تیار ہوئی ہے جبکہ دوسری مشین جو اس وقت ربوہ میں مکرم منیر احمد خان صاحب آف کراچی کی زیر نگرانی گزشتہ دو ماہ سے اسیمبل (Assemble) کی جارہی ہے اور اب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اس کا قریباً ہر پرزہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے ورکشاپ میں تیار کیا گیا ہے.اس مشین کی پلاننگ اور اس سے متعلق ریسرچ کرنے نیز مکینیکل پیچیدگیاں اور باریکیاں حل کرنے کا کام مکرم منیر احمد خان صاحب اور مکرم نعیم احمد خان صاحب آف کراچی نیز مکرم مرزا محمد لقمان صاحب طالب علم ایم.ایس.سی (فزکس) تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے کیا نیز ضروری سامان کی خرید ، پرزوں کی تیاری اور فٹنگ وغیرہ میں مکرم عبدالسمیع صاحب انور انسٹرکٹر ورکشاپ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نیز ربوہ کے مکرم عبدالمجید صاحب طاہر، مکرم ملک نذیر احمد صاحب ناصر، مکرم صفی الرحمن صاحب خورشید ، مکرم حمید خالد صاحب، مکرم محمد اسلم صاحب، مکرم محمد افضل صاحب اور مکرم محمود احمد صاحب نے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں.اسی طرح مکرم مبارک مصلح الدین صاحب ایم.اے ناظم سوئی گیس بھی اس سلسلہ میں شروع ہی سے پیش پیش رہے ہیں.ان سب احباب نے اس مشین کو مکمل کرنے میں گزشتہ کئی ماہ سے دن رات ایک کر رکھا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ خدمت و فدائیت کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کر دکھایا ہے.فجز اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.بعض اور کوائف جلسہ جلسہ سالانہ کے چھ اجلاسوں کے علاوہ ۲۶ دسمبر کی شام کو عالمگیر زبانوں کا ایمان افروز جلسہ ہوا اور ۲۷ دسمبر کی شام کو تین اہم موضوعات پر تقاریر ہوئیں.یہ دونوں اجلاس مسجد مبارک میں ہوئے.پہلا تاریخ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیراہتمام.دوسرا شعبہ نظارت اصلاح وارشاد مرکز یہ کی نگرانی میں 163-
تاریخ احمدیت.جلد 25 185 سال 1969ء جلسہ سالانہ اور پاکستانی ذرائع ابلاغ جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء کے بارے میں پاکستانی ذرائع ابلاغ کا طرز عمل افسوسناک رہا.چنانچہ روز نامہ مشرق‘ نے لاہور ایڈیشن کے ۳۱ دسمبر ۱۹۲۹ء کے شمارہ میں ” جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ ختم ہو گیا“ کے زیر عنوان ایک مختصر سی خبر شائع کی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طرف ایسی بات منسوب کی جو آپ نے ہرگز نہیں فرمائی تھی.خبر یہ تھی :.امر پر ر بوه ۳۰ دسمبر ( نامہ نگار ) جماعت احمدیہ کا ۷۸ واں سالانہ جلسہ گزشتہ روز ختم ہو گیا.آخری اجلاس سے جماعت کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے خطاب کیا.انہوں نے انسانی فلاح و بہبود کے لئے جد و جہد کرنے پر زوردیا اور کہا کہ وہ مسٹر بھٹو کے علاوہ دیگر سیاستدانوں سے بھی مل چکے ہیں“.اخبار الفضل ربوہ ۳ جنوری ۱۹۷۰ء نے اس غلط خبر پر احتجاج کرتے ہوئے لکھا کہ:.حضرت امام جماعت احمدیہ نے جلسہ سالانہ کے آخری اجلاس ہی نہیں بلکہ جلسہ کے دوران اپنی کسی بھی تقریر میں اس امر کا قطعاً کوئی ذکر نہیں فرمایا کہ آپ مسٹر بھٹو یا کسی اور سیاستدان سے ملے ہیں.جلسہ میں شریک ایک لاکھ کے قریب افراد خوب جانتے ہیں اور اس امر پر گواہ ہیں کہ آپ نے اپنی کسی تقریر میں سرے سے اس بات کا اشارہ بھی کوئی ذکر نہیں کیا.لہذا ہم اس غلط بیانی کی پُر زور تردید کرتے ہیں اور اخبارات کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ صحافت کو دیانتدارانہ بنیادوں پر چلائیں اور صحافتی آداب کو پوری طرح ملحوظ رکھیں“.جہاں تک ریڈیو پاکستان کا تعلق ہے اس کا رویہ بھی سراسر جانبدارانہ تھا جیسا کہ ایک غیر از جماعت دانشور اور صاحب قلم دوست نے لکھا:.چنددنوں کی بات ہے مجھے اپنے ایک احمدی دوست کے ساتھ ان کے مرکز ربوہ میں ان کا تین روزہ اجتماع سننے کا اتفاق ہوا جس سے چار دفعہ امام جماعت نے خطاب کیا.یہ چاروں خطاب دعائیہ اور فضائل نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے معمور تھے جن کا ہر فقرہ ایمان افروز اور روح آفریں تھا.اس کے علاوہ بیشتر اکابر نے بھی ایسے موضوعات پر تقریریں کیں جو آج وطن عزیز میں زیر بحث ہیں لیکن جب صوتی پروگرام میں ریڈیو لاہور سے اس اجتماع کی رپورٹ سنی تو ریڈیائی کارکنوں کی فنکاری کی داد دینا پڑی.کیونکہ یہ رپورٹ اجتماع سے متعلق بھی تھی اور اس میں اجتماع کا کوئی تذکرہ بھی
تاریخ احمدیت.جلد 25 186 سال 1969ء نہ تھا.ریشماں وفریدہ خانم ایسی گائکوں پر پورا ایک ایک گھنٹہ اپنے سننے والوں کے کان کھانے والے ریڈیو پاکستان لاہور نے حضور پُر نور ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر خیر نظر انداز کر کے چند ان شعراء کے دو دو چار چار شعر سنا کر ہی اپنے سامعین کو ٹرخا دیا تھا جنہیں حضور کے غلاموں کے غلاموں کی خاک پا قرار پا جانے پر بھی فخر محسوس ہو.یہ تو ویسے بھی صحافتی دیانت کے منافی ہے کہ آپ کسی جلسہ، اجتماع، کانفرنس یا مذاکرہ کور پورٹ کریں اور اس کی تقریروں کے اقتباسات سنانے تو رہے ایک طرف یہ بھی نہ بتائیں کہ اس میں کن کن معروف شخصیتوں نے خطاب کیا تھا.164- خانا اور نائیجیریا سے تشریف لانے والے معزز مہمانوں کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب سال ۱۹۶۹ء کے جلسہ سالانہ پر بہت سے غیر ملکی خدام احمدیت نے بھی لمبے سفروں کی صعوبتیں برداشت کیں.ان سعادت مند احباب میں سے اشانٹی ریجن غانا کے صدر جناب الحاج حسن العطاء اور نائیجیریا کے جناب ظفر اللہ الیاس بھی تھے.مغربی افریقہ میں کام کرنے والے بیسیوں مبشرین اسلام میں سے اس وقت پاکستان میں مقیم سولہ مبلغین مغربی افریقہ نے اپنے ان مہمان بھائیوں کے اعزاز میں مورخہ ۳۱ دسمبر ۱۹۶۹ء کو بوقت صبح دس بجے تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں ایک استقبالیہ دعوت کا انتظام کیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی اپنی گوناگوں مصروفیتوں اور جلسہ سالانہ کے بے پناہ کام کے باعث تکان کے باوجود شرکت فرمائی اور تقریباً ایک گھنٹہ معزز مہمانوں سے گفتگو ر ہے.حضور نے اکرام ضیف کے پیش نظر اپنے دست مبارک سے معزز مہمانوں کو چائے بنا کر پیش کی.جناب الحاج حسن العطاء صاحب کی خواہش کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے حضور نے ان کے ساتھ ایک تصویر بھی کھنچوائی جس کے بعد ایک دوسری تصویر لی گئی جس میں حضور کے ساتھ معزز مہمان مکرم وکیل التبشیر صاحب اور جملہ مبلغین کرام بھی شریک ہوئے.حضور ان سے بھی حالات دریافت فرماتے رہے اور انہیں شرف مصافحہ بخشا.چونکہ جناب الحاج حسن العطاء صاحب نے واپسی کا سفر اختیار کرنا تھا اس لئے حضور نے لمبی دعا کے بعد معزز مہمان کو معانقہ اور دست بوسی سے مشرف فرما کر الوداع کہا.اس استقبالیہ کے بعد وکالت تبشیر کی طرف سے دونوں مہمانوں کے اعزاز میں ایک دعوت ظہرانہ ترتیب دی گئی جس میں وكيل التبشير محترم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب اور مبلغین کرام کے علاوہ قادیان کے درولیش مصروف بھائیوں نے بھی شرکت کی.165
تاریخ احمدیت.جلد 25 1 2 3 4 5 6 7 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ ء صفحه ۸ بدر قادیان ۱۶ جنوری ۱۹۶۹ء 187 حوالہ جات (صفحہ 1 تا 186) الفضل ۷، ۸ جنوری ۱۹۶۹ ء و بدر ۱۶ جنوری ۱۹۶۹ء الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۶۹ صفحه ا احمد یہ جنتری ۱۹۲۱ء صفحه ۶۳ مرتبہ چوہدری با بو محمد منظور الہی صاحب خالد فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۲۷ سال 1969ء 8 9 الفضل ۶ مارچ ۱۹۶۹ء صفحه ۵ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحه ۵ الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۳۰ء صفحه ۲ کالم ۳ 10 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ 11 احمد یہ جنتری ۱۹۲۱ء صفحه ۶۳ مرتبہ چوہدری با بومحمد منظور الہی صاحب 12 الحکم ۷ اراپریل ۱۹۰۰، صفحہ 11 13 الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۵ 14 الحکم ۱۴ فروری ۱۹۰۲ء صفحه ۱۶ 15 البدر ۸ مئی ۱۹۰۳ صفحه ۱۲۸ 16 بدر ۲۷ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحه ۱۲ 17 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ صفحه ۲۹۲ ۹۴ - ایضاً تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۳۰۰ 18 الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۶۹ صفحه ۵ 19 غیر مطبوعہ مقالہ سیرت و سوانح حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ص ۲۴ 20 رساله واذا الصحف نُشرت صفحه ۴۱ مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب در ولیش تاجر کتب قادیان دارالامان 21 مفصل رپورٹ کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بدر ۲۲ دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۴۷۳ 22 الفضل ۶ مارچ ۱۹۶۹ ء صفحه ۵ 23 الحکم ۷ تا ۴ امئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۱،۱۰
تاریخ احمدیت.جلد 25 24 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ صفحه ی۲ 25 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحه ۵۱ 26 اخبار الفضل قادیان ۲۲/ ۲۴ اکتوبر ۱۹۲۵، صفحه ۸ 27 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحه ۹ 188 سال 1969ء 28 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ.فائل وصیت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری صفحہ ۱۱ ۱۲.وصیت نمبر مع تاریخ تحریر وصیت ۱۹۵۸.۱.۱۴۸۰۲/۲۱ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷، صفحہ ۹۸ مرتبہ شیخ یوسف علی صاحب بی اے سیکرٹری مجلس مشاورت اشاعت مارچ ۱۹۲۸ء قادیان 30 روایت حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر.غیر مطبوعہ مقالہ.سیرت و سوانح حضرت حافظ سید محمدمختار احمد مختار شاہجہانپوری صفحه ۴۶ مرتبہ مولوی ضیاء اللہ مبشر 31 تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحه ۴۸ 32 الفضل ۳ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۷ 33 الفضل ۴ دسمبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ تلخیص 34 الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۷۰ ء صفحه ۴ 35 رسالہ ” پیام مشرق اپریل ۱۹۶۱ ءلاہور 36 سیرت و سوانح حضرت حافظ سید محم مختار احمد صاحب مختار شاہجہانپوری.مقالہ غیر مطبوعہ از مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب صفحه ۱۰۳ تا ۱۰۴ 37 حیات بشیر صفحه ۴۹۱،۴۹ 38 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ فائل وصیت حضرت حافظ مختار احمد صاحب صفحه ۶۵ 39 الفضل اا جنوری ۱۹۶۹ء صفحه 40 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۲ تا ۵ 41 خالد فروری ۱۹۶۹ ، صفحه ۳۰ 42 خالد فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۳۵ 43 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ 44 الفضل ۷ ۱ جولائی ۱۹۸۹ء صفحه ۶،۵ 45 خالد فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۲۷ تا ۲۸ 46 بحوالہ وَ اذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ صفحہ ۲۱ مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب در ویش تاجر کتب قادیان.47 الفضل یکم فروری ۱۹۶۹ ء - صفحه ۳
تاریخ احمدیت.جلد 25 48 الفضل ۲۱ را پریل ۱۹۶۴ صفحه ۸ 49 خالد دسمبر ۱۹۶۸ ء وجنوری ۱۹۶۹ صفحه ۶، ۷ 189 50 یادگار غالب از مولانا الطاف حسین حالی صفحه ۲۲۰ / اشاعت ۲۰۰۲، مطبع زاہد بشیر پرنٹرز ، لا ہور ناشر محمد نذیر 51 خالد مئی ۱۹۶۹ صفحه ۹ تا ۱۱ 52 خالد جون ۱۹۶۹ ء صفحه م 53 الفضل ۱۸ فروری ۱۹۶۹ صفحه ۳ 54 الفضل ، دسمبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۷ 55 الفضل ۱۵ / اپریل ۱۹۶۹ صفحه م 56 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ 57 الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ ۲ تا صفحہ ۷ 58 الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۶۹ ، صفحه ۳ 59 الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ 60 الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۹ء صفحه۸،۱ 61 میزانیه آمد وخرچ صدر انجمن احمد یہ پاکستان بابت سال ۹ - ۱۳۴۸ هش ۰ ۷.۱۹۶۹ صفحه الف تاد 2 بجٹ ۷۰-۱۹۶۹ء صفحه ج، در ناشر تحریک جدید انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ.۱۹۶۹ء 63 ہفت روزہ اخبار " لاہور ۲۴ مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۰ تا ۱۳ 64 اخبار امروز ، لاہور.۲۶ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحہ ۳ 65 الفضل ۴ امئی ۱۹۶۹ ، صفحه ۴۰۳ 66 رپورٹ مجلس مشاوت ۷۰ - ۱۹۶۹ صفریم ، ۸۷، ۸۸ 67 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء صفحہ ۸-۹ 68 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء صفحه۰ ۵ تا ۸۱ 69 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء صفحه ۲۷۳ تا ۲۷۵ 70 الفضل.ار ا پریل ۱۹۶۹ء صفحه ۲ تا ۵ 71 الفضل ۲۶ جون ۱۹۶۹ء صفحہ ۷ 72 الفضل ۱۳ مئی ۱۹۶۹، صفحریم 73 الفضل ۴ جون ۱۹۶۹ ء صفحه ۳ 74 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۹ ء صفحه ۳ تا ۵ 75 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۷،۶ سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 76 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۹، صفحہ ۸ 77 الفضل ۲۸ مئی.۱۰ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ تا ۵ 78 الفضل ۳ جون ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ 79 الفضل ۶ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۳ 190 80 الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۹، صفحہ ۱۲.رپورٹ مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب سیکرٹری اصلاح و ارشاد کراچی 81 رسالہ " تشحید الا ذبان ربوہ.جولائی ۱۹۶۹ صفحه ۵۳۵۲ 2 رسالہ تفخیذ الاذہان ربوہ.جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۵۱ 83 تذکر طبع چہارم صفحه ۲۶۰ سال 1969ء 84 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو.الفضل ۲۶،۲۵،۱۷ جون ۱۹،۱۷،۱۵،۸ جولائی ۱۹۶۹ء.رسالہ تحریک جدید اگست ۱۹۶۹ ، صفحه ۵ تا ۲۱.صفحہ اتا۶.انگریزی حصہ.85 الفضل سے جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۱۲ 86 الفضل ۱۹ جون ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ 87 الفضل ۲۴ جون ۱۱،۱۰،۸،۶، ۳۰،۲۴،۱۵، ۳۱ جولائی.یکم، ۶، ۷ را گست ۱۹۶۹ء 88 الفضل ۷ راگست ۱۹۶۹، صفحه 89 ہفت وار لاہور ۲۷ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۳ 90 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۹ ، صفحه ۳ تا ۵ 91 الفضل یکم اگست ۱۹۶۹ صفحهیه مختصر روداد 92 اخبار بدر قادیان ۷ راگست ۱۹۶۹، صفحه ۱۲ 93 میراج بیت اللہ از الحاج ڈاکٹر محمد عبد الہادی اطالوکیوی.ترجمہ مولوی فضل الہی انوری سابق امام مسجد نور فرانکفورٹ جرمنی مطبوعه ستمبر ۱۹۸۱ ء صفحه ۳ 94 الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۹ء صفهیم 95 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۹ ، صفحہ ۸ 96 الفضل ۲ اپریل ۱۹۷۰ ء صفحه ا 97 اخبار صدق جدید لکھنو ۱۲ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۵ 98 الفضل ۲۰ / اگست ۱۹۶۹ صفحه ۳ تا ۵ 99 الفضل ۸/اگست ۱۹۶۹ صفحه ا 100 الفضل ۲۲ را گست ۱۹۶۹ ، صفحه ۴۰۳ 101 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحریم
تاریخ احمدیت.جلد 25 102 الفضل ۲۹،۲۰/ اگست ۱۹۶۹ ء صفحه ۳ 103 الفضل ۲۷ / اگست ۱۹۶۹ صفحه ۱۲ 104 اخبار ” بدر قادیان ۲۸ / اگست ۱۹۶۹ صفحه ا 105 اخبار بدر قادیان ۱۸-۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۹.۲۱ 191 106 الفضل ۱۷، ۳۰،۲۸،۲۴،۲۳،۲۲،۲۰،۱۹ / اگست ۱۶،۱۰،۶، ۲۱،۱۸،۱۷ ستمبر ۱۹۶۹ء 107 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 108 الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۹ ء صفحہ ا 109 الفضل م ستمبر ۱۹۶۹، صفحها 110 الفضل ۲۶ اگست ۱۹۶۹ صفحه ۸ 111 الفضل و ستمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ 112 الفضل ۱۹،۱۴،۵، ۲۷ ستمبر ۱۹۶۹ء 113 الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۶۹ ء صفحه ۱.۸ 114 روزنامه امروز ۲۴ را گست ۱۹۶۹ ، صفحه ۳ و ۶ 115 روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۴ / اگست ۱۹۶۹ء صفحه ۸،۱ 116 روزنامہ نوائے وقت ۲۸ / اگست ۱۹۶۹ ء صفحہ ۱۰ 117 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۹ ء صفحہ ۸ بحوالہ روزنامہ جنگ کراچی ۹ ستمبر ۱۹۶۹ء 118 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۳ تا ۲۲ 119 تفسیر صغیر صفحه ۱۰۱۹ 120 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۹ صفریم 121 الفضل ۱۴۶ جنوری ۱۹۷۰ء 122 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ا 123 الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۶۹، صفحہ 1 124 الفضل ۲۵ و ۲۷ ستمبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ 125 لاہور ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ 126 تذکر طبع چہارم صفحه ۶۱۳ ناشر الشرکۃ الاسلامی ربوہ ۱۹۷۷ء 127 الفضل ۱۸ / اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۴۲۳ 128 الفضل ار اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ 129 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳-۴ سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 130 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۹، صفحه ۳-۴ 131 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۴ ۱ تا ۱۹ 132 الفضل۱۶،۱۲،۱۱،۱۰، ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۹ء 192 سال 1969ء 133 مجلہ " امام الزمان علیہ السلام اور خلفائے احمدیت لاہور میں صفحہ ۲۲۷ تا ۲۲۹ شائع کردہ لجنہ اماءاللہ لاہور بر موقع صد سالہ خلافت جو بلی 134 الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۹ صفحها 135 المصابیح مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ.الناشر امۃ اللطیف خورشید مطبوعہ تمبر ۱۹۷۹ء صفحه ۱۸۵ 136 الفضل ۲۱ جون ۱۹۵۵ صفحه ا 137 الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ 138 الفضل ۱۹ ۲۳/۲۱/اکتوبر ۱۹۶۹ ء در ساله مصباح جنوری ۱۹۷۰ ، صفحه ۵ تا ۱۹ 139 الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 140 الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۲ 141 الفضل کے جنوری ۱۹۷۰ء صفحہ ۲ تا ۹ متن کیلئے ملاحظہ ہو’ المصابیح ، صفحہ ۱۵۹ تا ۱۷۷.ناشر شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ ، تمبر ۱۹۶۹ء 142 الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۳ نومبر۱۹۶۹ء تقریر کا متن الفضل ۲۰ فروری ۱۹۷۰ء میں شائع ہو چکا ہے.143 الفضل ۲۹،۲۸،۲۶ اکتوبر و۲ ۴ نومبر ۱۹۶۹ء 144 اخبار بدر قادیان - بابا نانک نمبر ۲۰ نومبر ۱۹۶۹، صفحه ۱۲ 145 خالد ۱۹۶۹ء صفحه ۲۰-۲۲ 146 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۳ تا ۶ 147 الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۸،۱ 148 بدر قادیان ۱۱ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ا 149 رسالہ سیارہ ڈائجسٹ، لاہور، قرآن نمبر جلد دوم صفحہ ۹۰۸ تا ۹۵۰ - الفرقان سالنامه نومبر دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۲ تا۴ 150 الفضل ۴ دسمبر ۱۹۶۹ ء صفحه ا 151 الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۶۹ء صفحها 152 الفضل 9 دسمبر ۱۹۶۹ ء صفحها 153 الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۹۹ ، صفحہ ۱.۸ 154 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ۸
تاریخ احمدیت.جلد 25 193 سال 1969ء 155 بدر قادیان کیم جنوری ۱۹۷۰ صفحہ ۱ -۶ تا ۸ ر پورٹ حکیم محمد دین صاحب مبلغ انچارج میسور و مولوی محمد عمر صاحب فاضل انچارج مبلغ بمبئی الفضل ۱۳ تا۱۶ جنوری ۱۹۷۰ء 156 ہفت روزه بدر قادیان یکم جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۲ ۱۱ روئیداد جلسه الفضل ۱۴۰۱۳ جنوری ۱۹۷۰ء 157 مجموعه اشتہارات جلد اول صفحه ۱۶۵ 158 الفضل 3 جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۸ 159 چشمه معرفت صفحه ۲۵۲ حاشیه 160 المصابیح مرتبہ حضرت مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ.الناشرامۃ اللطیف خورشید صفحه ۱۸۸،۱۸۷ 161 الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۱.۸ 162 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ۱-۸ 163 الفضل یکم تا • اجنوری ۱۹۷۰ ء سے ماخوذ 164 ہفت روزہ لاہور ۱۲ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۱۳ 165 الفضل مورخه ۴ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۸
تاریخ احمدیت.جلد 25 194 سال 1969ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال حضرت سلطان بی بی صاحبہ بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۲۲ جنوری ۱۹۶۹ء آپ نیک سیرت ، دعا گو، تہجد گزار، پابند صوم و صلوۃ ، دینی غیرت رکھنے والی اور صاحب کشفہ رؤیا خاتون تھیں.بیسیوں مستورات نے آپ کی وساطت سے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل کی.مولوی عبد المنان شاہد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ والدہ صاحبہ اکثر فرمایا کرتی تھیں کہ جب میری شادی ۱۹۰۲ء میں ہوئی تو میری خوش دامنہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیعت کے لیے قادیان لے گئیں.ہم نے حضور اقدس کی خدمت میں بتاشے پیش کیے جو حضور نے قبول کرتے ہوئے اپنے پاس رکھ لیے.پھر تمہاری دادی صاحبہ نے عرض کی کہ میں نے اپنے بڑے بیٹے خیر الدین کی شادی کی ہے.اور میری طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ میری بہو ہے.اور میں اسے بیعت کے لیے اپنے ساتھ لائی ہوں.حضور اقدس نے خوشی سے فرمایا کہ مبارک ہو.بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لی اور لمبی دعا کی.پھر جب ہم حضور سے رخصت ہونے لگے تو حضور اقدس نے وہی بتاشے جو ہم نے پیش کیسے تھے ہمیں واپس دے دیے.آپ کا اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر آنا جانا لگا رہتا تھا اور حضور بھی احسانات اور خاطر داری فرماتے.اور شادی غمی میں پورا خیال رکھتے.اسی طرح حضرت خلیفتہ امسیح الاول کا بھی ایسا ہی سلوک رہا.آپ کو حضرت اماں جان سے گہری عقیدت و محبت تھی.اسی محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ مرحومہ نے فرمایا کہ میں کشفی حالت میں حضرت اماں جان کو اپنے پاس ہی دیکھتی ہوں.حضرت اماں جان بھی ہمارے گھر کو اپنا ہی گھر سمجھتی تھیں اور قادیان سے سیر کرتے ہوئے ادھر آتیں تو دروازے پر ہی آواز دیتیں کہ گھر والوالسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اور سب سے پہلے والدہ صاحبہ سے معانقہ فرماتیں اور بچوں کے سر پر ہاتھ پھیر تیں.اور بے تکلفی سے دودھ لسی ،لکھن ہکئی کی روٹی اور ساگ وغیرہ تناول فرماتیں.کئی دفعہ آپ باورچی خانہ میں ہماری والدہ صاحبہ کے پاس ہی پیڑھی پر بیٹھ جاتیں.اللہ تعالیٰ نے والدہ صاحبہ کو مہمان نوازی
تاریخ احمدیت.جلد 25 195 سال 1969ء کے لیے بڑا وسیع حوصلہ دیا تھا.مرکزی مہمانوں کی بہت محبت سے مہمان نوازی کرتیں.ایک دفعہ سیدنا حضرت مصلح موعود کی بھی اپنے گھر میں دعوت کی تھی.آپ نے بیان فرمایا کہ ایک بار میں حضرت اماں جان کی ملاقات کے لیے قادیان جا رہی تھی.راستے میں حضرت اماں جان نے کار میں بیٹھے ہوئے مجھے دیکھ لیا اور کار کھڑی کر کے مجھ سے دریافت کیا کہ کہاں جارہی ہو.بتانے پر مجھے بھی کار میں بٹھالیا اور دارالانوار میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی کوٹھی پر لے گئیں.وہاں حضرت اماں جان نے کئی کمروں کی خود اپنے ہاتھ سے صفائی کی اور میں بھی آپ کے ساتھ کام میں شریک تھی.آپ کا جنازہ قاضی محمد نذیر صاحب نے پڑھایا اور بہشتی مقبرہ میں قطعہ صحابہ میں تدفین ہوئی.اولاد مولوی صدر الدین صاحب فاضل ( مبلغ ایران ) مستری عبد الغنی صاحب.مولوی عبدالمنان شاہد صاحب مربی سلسلہ فخر الدین صاحب.حمیدہ بیگم صاحبہ.حاکم بی بی صاحبہ حضرت امام بی بی صاحبہ اہلیہ فضل دین صاحب آف قادیان بیعت: ۰۷-۱۹۰۶ وفات: ۲۶ جنوری ۱۹۶۹ء آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.بہت مخیر ، ہمدرد اور خدا ترس خاتون تھیں.اگر کبھی کسی سے کوئی رقم قرض لیتیں تو بہت فکر مندی سے ادا کرتی تھیں.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قطعہ صحابہ میں ہوئی.اولاد: رشیدہ بیگم اہلیہ عبد الکریم صاحب دارالرحمت غربی ربوہ.فیض محمد قصاب صاحب.محمد عبداللہ صاحب حضرت حشمت بی بی صاحبہ بنت حضرت چوہدری امام الدین صاحب ولادت: ۱۸۹۵ء بیعت : پیدائشی احمدی وفات :۳ فروری ۱۹۶۹ء آپ کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا.بہت دیندار، بزرگ خاتون تھیں.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھائی.جس کے بعد بہشتی مقبرہ قطعہ صحابہ میں تدفین ہوئی.آپ چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان کی ہمشیرہ تھیں.اولاد چوہدری جلال الدین صاحب مقیم وہاڑی.مسعودہ خاتون صاحبہ اہلیہ چوہدری داؤد گلزار صاحب مقیم لندن
تاریخ احمدیت.جلد 25 196 سال 1969ء حضرت مرز اسلام اللہ صاحب آف قادیان حال چنیوٹ ولادت ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات ۳ را پریل ۱۹۶۹ء آپ کے والد ماجد کا نام مرزا غلام اللہ صاحب تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے.اپریل ۱۹۰۷ء میں قادیان کے آریہ اخبار ” مجھے چشتک“ کا پورا عملہ اپنی بد زبانی ، گند اور افترا کی پاداش میں چند دن کے اندر اندر طاعون کا شکار ہو گیا.خدا کے اس زبر دست قہری نشان کے آپ بھی چشم دید گواہ تھے.اسی لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء کی تقریر ( عنوان در منثور) مرتب کرتے وقت حسب ذیل نوٹ اخبار الفضل ربوہ ۲۷ راکتو بر ۱۹۶۰ء کے صفحہ اوّل پر سپر قلم فرمایا:.(۱) مرز اسلام اللہ صاحب کہاں ہیں؟ مرز ا سلام اللہ صاحب متوطن قادیان جہاں بھی ہوں مجھے اس روایت کی تفصیل سے اطلاع دیں جو وہ اخبار شبھ چنتک قادیان کے آریہ مینیجر یا ایڈیٹر کے متعلق سنایا کرتے ہیں کہ جب وہ طاعون کی مرض میں مبتلا ہوا تو اس نے حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل کو کہلا بھیجا کہ از راہ مہربانی میرا علاج کریں.حضرت بسمل صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لکھ کر حضور سے اجازت چاہی.حضور نے بخوشی اجازت دی مگر ساتھ ہی فرمایا علاج بے شک کریں مگر یہ شخص بچے گا نہیں وغیرہ وغیرہ.(۲) نیز مرزا اسلام اللہ بیگ صاحب مجھے اخبار شبجھ چنتک کے ایڈیٹروں اور مینجروں کے نام سے بھی مطلع فرمائیں.جو غالباً بھگت رام اور اچھر چند تھے اور ان کا ایک تیسر اساتھی بھی تھا.جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا.تیسرے کا نام سومراج تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں.یہ تین آدمی تھے ایک کا نام سوم راج تھا.دوسرے کا نام اچھر چند تھا تیسرے کا نام بھگت رام تھا.پس خدا کے قہری طمانچہ نے تین دن کے اندر ہی ان کا کام تمام کر دیا اور تینوں طاعون کے شکار ہو گئے اور ان کی بلا ان کی اولا داور اہل و عیال پر بھی پڑی.چنانچہ سومراج نہ مراجب تک اس نے اپنی عزیز اولاد کی موت طاعون سے نہ دیکھ لی“.(۳) یہ بھی لکھیں کہ ان میں سے ایڈیٹر کون تھا اور مینجر کون تھا؟ مجھے اس اطلاع کی فوری طور پر ضرورت ہے.جزاہ اللہ احسن الجزاء اہلیہ اور اولاد: آپ کی اہلیہ کا نام محتر مہ رفیعہ بیگم صاحبہ تھا.اولا د درج ذیل ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 197 سال 1969ء مرزا نعمت اللہ صاحب، مرزا عطاء اللہ صاحب، مرزا عنایت اللہ صاحب، مرزا حبیب اللہ صاحب، سلیمہ بیگم صاحبہ، خورشید بیگم صاحبہ، مجیدہ بیگم صاحبہ، سعیدہ بیگم صاحبہ، بشری بیگم صاحبہ حضرت بھائی شیر محمد صاحب قریشی ( جہلمی ) آف نیروبی بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : اپریل ۱۹۶۹ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابہ نیروبی تشریف لے گئے ان میں سے ایک یاد گار آپ بھی تھے.آپ اور آپ کے بڑے بھائی حضرت میاں دوست محمد صاحب نیروبی کے اولین آبادکاروں میں سے تھے اور ان کی دکان انڈین بازار میں” دوست محمد برادرز کے نام سے مشہور تھی.اپنی خاندانی روایات کے مطابق آپ نے مشرقی افریقہ کی سب احمد یہ مساجد اور دیگر دینی کاموں میں مقدور بھر حصہ لیا.ایام مخالفت میں بڑی دلیری اور غیرت کے ساتھ زندگی بسر کی اور ابتلا کی گھڑیوں میں ہمیشہ نظام سلسلہ سے وابستہ رہے.محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے اپنی کتاب ” کیفیات زندگی میں کئی جگہ پر حضرت بھائی شیر محمد صاحب کا ذکر خیر کیا ہے.ایک موقع پر آپ اور آپ کے دوسرے بھائیوں کے بارے میں تحریر کیا ہے کہ یہ جہلم کے رہنے والے تھے اور ٹیلرنگ کا کام کرتے تھے اور اس کے ساتھ آپ کے بھائی حضرت دوست محمد صاحب کی شخصیت اور قبول احمدیت کے واقعہ کے بارہ میں تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محترم بھائی دوست محمد صاحب بزرگ صورت اور سیرت نظر آئے.تخت پوش پر بیٹھے ہوئے ٹیلرنگ کے کام میں مصروف ان کے ساتھ ان کے دو بھائی بھی کام کرتے تھے مکرم بھائی شیر محمد صاحب اور مکرم بھائی عبدالرحمن صاحب.ان کی دکان ٹیلرنگ کی تھی.یہ جہلم کے رہنے والے تھے.بھائی دوست محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.ملنے جلنے والوں میں عزت واحترام سے دیکھے جاتے.پنجاب کے آباد کار بالعموم اور جہلم گجرات وغیرہ کے لوگ جو نیروبی میں مختلف پیشوں اور کاموں میں مصروف تھے ان کا ان سے ملنا جلنا تھا.اکثر ان کی دوکان پر یہ لوگ آتے اور ان سے ملنے میں ایک سکون محسوس کرتے.بھائی دوست محمد صاحب کے متعلق تاریخی نکتہ نگاہ سے یہ لکھ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے احمدیت کیسے قبول کی چنانچہ ایک دفعہ خاکسار نے ان سے دریافت کیا کہ وہ احمدی کس طرح ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی سعادت کس
تاریخ احمدیت.جلد 25 198 سال 1969ء طرح نصیب ہوئی تفصیل سے انہوں نے مندرجہ ذیل واقعہ سنایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شہرت تو پنجاب میں بہت تھی.ان کے دعوی اور امام مہدی ہونے کا تذکرہ بالعموم رہتا.جہلم بھی حضور کسی موقع پر تشریف لے گئے.میں ان دنوں جہلم میں تھا.اپنے کسی کام کے سلسلہ میں لاہور آیا تو ان دنوں مسافر مسجدوں میں جہاں جگہ ملتی سو جاتے اور اپنا کچھ وقت گزار لیتے.جس مسجد میں میرا قیام تھا وہاں کے مولوی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر چھیڑ دیا اور اس ذکر میں اس نے کہا کہ ”مرزا کے ہاتھوں کو کوڑھ ہو گیا ہے اور بھی کچھ بد زبانی کی.اس پر مجھے خیال آیا کہ لاہور تو آئے ہوئے ہیں قادیان بھی ہو آئیں.وہاں چل کر مرزا صاحب کو بھی دیکھ لیں گے کیا ان کے ہاتھوں کو کوڑھ ہو گیا ہے.وغیرہ.آخر قادیان روانہ ہو گئے.وہاں پہنچ کر مسجد میں نماز پڑھنے لگے.حضور بھی مسجد میں تشریف لے آئے اور بعد نما ز مسجد میں آپ تشریف فرما ہوئے اور کچھ تقریر بھی فرمائی.اسی دوران حضور اپنے ہاتھ کو بھی ہلاتے.کبھی اونچا کرتے اور کبھی نیچا جیسا بعض اوقات مقرر ہاتھوں کو ہلاتا ہے.ہماری توجہ ( بھائی صاحب نے بتایا کہ حضور کے ہاتھوں کی طرف رہی جو بہت صاف اور پیارے نظر آئے.بعد میں جب حضور جانے لگے تو حضور سے مصافحہ بھی کیا اور لاہور کا قصہ بھی سنایا جس پر پھر حضور نے ہاتھ دکھائے.ہماری تو تسلی ہوگئی کہ لاہور کا مولوی جھوٹ بولتا تھا.ہر طرح حضور تو صاف ستھرے ہاتھوں والے نظر آئے.حضور کو دیکھ کر اور آپ کی تقریر کو سن کر بالآخر قادیان کے قیام میں ہی بیعت بھی کر لی حضور کو دیکھ کر اور آپ کی باتوں سے متاثر ہوکر “ تینوں بھائی جب تک خاکسار کا نیروبی میں رہنا ہوا بہت محبت، پیار اور احترام سے ملتے رہے.جزاھم اللہ واحسن الجزاء مختلف مواقع پر خدمت و تواضع بھی انہوں نے کی.جنگ کے دنوں میں سپاہیوں کیلئے یونیفارم بنانے کا ٹھیکہ ملا.فراخی ہوگئی اور خوب فراخی ہوئی.حضرت استانی سکینۃ النساء صاحبہ اہلیہ حضرت قاضی محمد ظہور الدین العمل صاحب ولادت ۱۸۸۴ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات : ۲۰ مئی ۱۹۶۹ء 13 پ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی اہلیہ تھیں.آپ کا تعلق گولیکی ضلع گجرات کے ایک ممتاز علمی خاندان سے تھا.آپ نے تعلیم اپنے والد حضرت پیرمحمد رمضان صاحب سے حاصل کی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 199 سال 1969ء آپ اُن نامور خواتین میں سے تھیں جو سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی دور میں تعلیم یافتہ تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں بھی اخبار بدر اور الحکم میں مضامین لکھا کرتی تھیں.۱۹۰۸ء کے جلسہ سالانہ کے بعد آپ نے اپنے میاں کے ساتھ مستقل طور پر قادیان میں سکونت اختیار کی اور حضرت خلیفہ اول کے ارشاد پر جون ۱۹۰۹ء میں مرکز احمدیت میں بچیوں کا پہلا پرائمری سکول قائم کیا اور ایک لمبے عرصہ تک اس کی ہیڈ معلمہ رہیں اور بہت سی بچیوں کو زیور علم سے آراستہ کیا.یہ سکول خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں مڈل سکول تک ایک مشہور ادارہ بن گیا جس سے ملک کے علمی حلقوں میں آپ کی بھی خوب شہرت ہوئی.اور ڈسٹرکٹ اور ڈویژنل عیسائی انسپکٹرس آف سکول نے بیسیوں شاندار ریمارکس سکول کی لاگ بک پر لکھے.حضرت مصلح موعود کے مستورات میں درسِ قرآن اور تقاریر کا خلاصہ اکثر آپ ہی کے قلم سے سلسلہ کے جرائد ورسائل میں شائع ہوتا تھا.آپ لائبریری امتہ الحی کی لائبریرین بھی رہیں نیز رجسر ممبرات برائے حاضری و چندہ جات اور کارگذاری اجلاسات بھی آپ کے سپرد ہوئی.علاوہ ازیں لجنہ اماءاللہ کی طرف سے اعلانات ، مضامین اور سپاسناموں کے مسودہ جات آپ ہی تیار کرتی تھیں.احمد یہ مستورات کے مخصوص رسالہ کا تخیل پیش کرنے والوں میں آپ ایک خاص امتیاز رکھتی تھیں.نہایت اعلیٰ درجہ کی خوشخط تھیں اور نستعلیق خطر آجکل کے کئی کا تہوں سے اچھا تھا.مگر کتابت نہیں کرتی تھیں.آپ نے قرآن کریم از سر نو حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل سے پڑھا تھا.آپ بیان فرماتی تھیں کہ جب گرلز سکول ابھی حضرت کے مکان پر ہی تھا.آپ نے مجھے شاید دیہاتی لہجہ میں تلاوت کرتے سن لیا.اس لئے حکم دیا کہ روزانہ نماز فجر کے معاً بعد جب میں واپس آؤں تو ایک رکوع مجھے سنا کر لڑکیوں کو پڑھایا کرو.چنانچہ پہلے تو میں بطور فرض تعمیل کرتی رہی پھر ا سے خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور موقع سمجھ کر بڑی با قاعدگی سے ترجمہ قرآن کریم پڑھ لیا.اس وقت حضرت نواب مبار کہ بیگم بھی میری و ہیں ہم سبق تھیں.اس لئے ان سے بطور بے تکلف سہیلی کے تعلقات ہو گئے اور پھر حضرت اماں جان کے پاس آنا جانا شروع ہوا.کہا کرتی تھیں کہ میں نے گھنٹوں حضرت اماں جان کے پاس بیٹھ کر اردو ادب کی کتابیں انہیں پڑھ کر سنائی ہیں.اس سے مجھے بے انداز فائدہ ہوا.کیونکہ علامہ راشد الخیری اور ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے اخلاقی ناولوں میں جن عجیب و غریب اشیاء زیورات اور برتنوں کے نام آتے تھے وہ مجھے دیہاتی کو کہاں معلوم.لیکن حضرت اماں جان ان کی شکل
تاریخ احمدیت.جلد 25 200 سال 1969ء اور استعمال واضح فرما دیتی تھیں.بلکہ کئی ایک اشیاء کے لئے حضرت نانی اماں جیسی دتی کی بڑی بوڑھیوں سے دریافت کر کے مجھے سمجھا دیا کرتی تھیں.حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سلمہا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو بھی بچپن میں ابتدائی جماعتوں کی پڑھائی اور لکھائی سکھانے کی سعادت حاصل ہوئی.اسی طرح دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایسے ہی علمی اور ادبی تعلقات تھے.حضرت ام ناصر اور حضرت ام مظفر سلّمہا اللہ سے تو زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق تھا.ان دونوں خواتین مبارکہ کی قیادت میں احمدی مستورات کی تنظیم و تعلیم و تربیت کا بڑا کام ہوا ہے.14 آپ کے صاحبزادہ جنید ہاشمی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے قادیان ہجرت کے بعد اپنی تمام تر صلاحیتیں اور اوقات سلسلہ کی خدمت میں وقف کر دیے.پھر وہ اپنے گاؤں کبھی کبھار ہی جایا کرتی تھی حتی کہ اپنی والدہ ماجدہ کی وفات پر بھی نہیں گئی تھیں چنانچہ ایک مضمون میں جہاں ان کا طرز تحریر اور اسلوب بیان بھی نمایاں ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ انہیں قادیان سے کتنا عشق تھا.اس کا اقتباس درج ذیل ہے : ” آہ کیا مبارک وقت تھا کہ میں اپنی پیاری والدہ مغفورہ سے اجازت لے کر یہاں آئی جس کا میرے دل میں آرزو و شوق اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ اس فکر میں شبانہ روز گزرتا اور رور وکر دعائیں مانتی کہ بارالہی کب تیرے پیاروں کا کلام پاک سنگی اور کب یہ آرزو کروں گی کہ میرا انجام بخیر ہو.آئی صرف چار دن کے لیے تھی مگر حضرت استاذی و مرشد و مولی خلیفہ اسیح کی بیش قیمت نصائح اور پیاری دل میں اثر کر دینے والی باتوں نے خدا کی قسم مجھے یہیں کا کر دیا.آہ! میری والدہ مغفورہ کو میری جدائی کا بے حد صدمہ پہنچا جو مرتے دم تک ان کی زبان پہ جاری تھا مگر میں نے دین کو دنیا پر مقدم کیا.آپ حضور کے حکم کے ماتحت محلوں میں جا کر بڑی عمر کی عورتوں کو نماز پڑھاتیں اور کے میں جاکر بڑی عمرکی عورتوں کونماز دیگر مسائل کا سبق دیتی تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے زمانہ میں مستورات کی تعلیم تنظیم کی جانب جب حضور نے توجہ فرمائی تو آپ کا نام اولین کا رکنوں میں سے تھا.قادیان میں استانی جی کے نام سے مشہور تھیں اور دن رات تعلیم و تدریس اور تربیت ان کا کام تھا.احمدی مستورات سے بڑے گہرے اور وسیع تعلقات تھے.دور و نزدیک احمدی جماعت کی خواندہ مستورات میں سے ہر ایک کو جانتی تھیں اور ان سے تعلق بڑھانے میں کوشاں رہتی تھیں.خصوصاً اردو زبان سے بے انتہا محبت ہونے کی وجہ سے دہلی ، یو.پی کے اطراف کی خواتین کی گفتگو سننے کے لیے ان کے ہاں جا جا کر ملاقات کرتیں اور پھر
تاریخ احمدیت.جلد 25 201 سال 1969ء اپنی کا پی پر محاورے نوٹ کرتیں اور گھر میں بتا تیں.محترمه فیروزہ فائزہ صاحب تحریر فرماتی ہیں کہ میرے ابا محترم جنید ہاشمی صاحب نے اپنا ایک واقعہ بتایا کہ غالبا ۱۹۲۲ء میں ہم موسم گرما کی تعطیلات میں گولیکی جارہے تھے.لالہ موسیٰ کے سٹیشن پر جب گاڑی ٹھہری تو ایک اور گاڑی کے کراسنگ کی وجہ سے پلیٹ فارم پر لوگ ادھر ادھر ٹہل رہے تھے.اتنے میں شور اٹھا کہ بی اماں ( یعنی تحریک خلافت کے لیڈر مولانا محمد علی جو ہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ محترمہ ) ویٹنگ روم کے باہر ایک کرسی پر بیٹھی ہیں.اس زمانہ میں یہ شعر بچے بچے کی زبان پر تھا تو بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت په دیدو چنانچہ ہم نے ( یعنی خاکسار شبلی اور صفیہ سلطانہ بیوہ ڈاکٹر کیپٹن محمد حسین شاہ ) نے والدہ مرحومہ کا دامن کھینچا کہ چلو.ہم بھی بی اماں کو دیکھیں.پہلے تو انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ وہ سیاسی عورت ہے ہم مذہبی لوگ ہیں تا ہم ہمارے اصرار پر ویٹنگ روم کی طرف چل پڑیں.اتنے میں کسی نے تعارف کرا دیا کہ یہ استانی ہیں اور مضمون نگار بھی ہیں.بی اماں بہت خوش ہوئیں.اور خندہ پیشانی سے پیش آئیں.پھر حسب معمول تحریک خلافت پر ایک تقریری کرنے کے بعد والدہ مرحومہ سے کہنے لگیں کہ آپ استانی ہیں، ادیب ہیں.آپ دیہات میں ہمارا پیغام پھیلائیں اور خواتین کی بیداری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.والدہ نے فوراً کہا آپ تو سیاسی اغراض کے ماتحت کام کر رہی ہیں.ہمارا مقصد اس سے بہت بلند ہے.ہمیں اسلامی معاشرہ قائم کرنا ہے.میں نے قرآن وحدیث کا پہلے خود مطالعہ کیا ہے.اب لڑکیوں کے سکول کھول کر اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کی تربیت کر رہی ہوں.اور پھر اس کے لئے ہمیں کوئی لالچ نہیں.محض دین کی خدمت پیش نظر ہے.باقی رہی خلافت تو اپنے بیٹے ذوالفقار علی ( مراد حضرت ذوالفقار علی گوہر صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے پوچھنا.وہ ہم قائم کر چکے ہیں.دنیوی خلافتوں کا دور ختم ہو چکا.اب اسے بحال نہیں کیا جاسکتا.جب والدہ ذرا جوش میں آئیں تو بی اماں نے اپنا سوٹ کیس سنبھالا اور جلدی سے بولیں چلو بھئی چلو.گاڑی آنے والی ہے.لیکن والدہ نے ان کا تعاقب کیا اور کہا مجھ سے لکھوالو خواہ آپ کا بیٹا محمد علی کتنا لائق ہے وہ خلافت بحال نہیں کر سکے گا.خدائی خلافت قائم ہو چکی اب اسی سے دنیا کی نجات وابستہ ہے.لوگوں کا ہجوم تعجب سے ہمیں دیکھتارہا اور بی اماں کی گاڑی امرتسر کی طرف روانہ ہوگئی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 202 سال 1969ء حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات سے پیشتر آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ حضرت مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں اور پھر حضرت مرزا محمود احمد ایک گھوڑے پر نمودار ہوئے اور آواز آئی یہ خلیفہ منتخب ہو گئے ہیں اس لئے خلافت ثانیہ کی بیعت میں آپ لمحہ بھر بھی متزلزل نہ ہوئیں.بلکہ اپنے سارے خاندان کی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیعت اولین فرصت میں کرائی اور پھر خلافت ثانیہ کی تائید میں خود بھی مضمون لکھے اور اپنے خاوند حضرت قاضی اکمل صاحب کو بھی بیشمار مضامین اور اعتراضات کے جوابات لکھنے کے لئے کہتی رہیں.اولاد: خورشید عاقل صاحب.جمشید احسن صاحب.عبدالمنان مبشر صاحب.عبدالرحمن جنید ہاشمی صاحب.عبدالرحیم شبلی صاحب حضرت رحمت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت ماسٹر نورالہی صاحب جنجوعہ ولادت: ۱۸۹۹ء بیعت : پیدائشی احمدی وفات : ۲۱ مئی ۱۹۶۹ء آپ حضرت ماسٹر نور الہی جنجوعہ صاحب ڈرائنگ ماسٹر رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ تھیں جن کو ۱۹۱۳ء سے ۱۹۵۶ء تک پہلے قادیان پھر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں خدمت سلسلہ بجالانے کی توفیق ملی.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصیہ تھیں اور صحابیہ ہونے کا بھی شرف حاصل تھا.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں ہوئی.آپ کو خدا تعالیٰ نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا.آپ کے ایک بیٹے مکرم محمد برکات الہی جنجوعہ صاحب (ڈاکٹریٹ ان کیمسٹری) سینئر سائنسدان تھے اور کینیڈا میں مقیم تھے.حضرت حافظ عبدالسمیع خان صاحب امروہی 18 ولادت : ۱۸۸۹ء بیعت: ۱۸۹۷ء وفات : ۳۰ مئی ۱۹۶۹ء حضرت حافظ صاحب اپنی روایات میں تحریر فرماتے ہیں:.ا.جب کمترین اور میرے والد بزرگوار جناب مولوی الہی بخش صاحب مرحوم و مغفور علیہ الرحمۃ.جناب مولوی محمد احسن صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان تشریف لائے تھے اس وقت آتے ہوئے امرتسر شیخ نور احمد صاحب کے مکان پر اترے.تو جناب شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر ا خبار الحکم
تاریخ احمدیت.جلد 25 203 سال 1969ء اپنا پریس وغیرہ قادیان شریف نہیں لائے تھے.ہم آٹھ دس یوم امرتسر رہے.جلسہ قریب تھا پھر قادیان چلے آئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.اُس وقت حضور انور مسجد مبارک کے پہلو کی جانب جو بیت الفکر ہے اس کے صحن میں تشریف فرما تھے.میرے والد صاحب مرحوم کو فوراً حضور ہی کے ہاتھ پر مصافحہ کرتے ہوئے ہاتھ چوم لیا.والد بزرگوار کے ساتھ کمترین مدح خوانی کیا کرتا تھا.مولوی صاحب موصوف ( مراد مولوی محمد احسن صاحب امروہی ) نے میرے والد صاحب مرحوم و مغفور سے مخاطب ہو کر کہا کہ حضرت کو نظم سنائیں.در مشین کی نظمیں اردو فارسی سنائیں.حضور انور نے فرمایا مکرر.فرمایا اور پڑھو.کمترین بھی پڑھتا رہا.غرض ڈھائی ماہ تک ہم قادیان شریف رہے.برابر وقتا فوقتا حضور کو اور وقتوں میں اور اصحاب کی قیام گاہوں پر دوستوں کی فرمائش پر برابر نظمیں پڑھتے رہے.جلسہ کے بعد ایک ہفتہ حضور سیر کو تشریف لے جانے لگے.ہم سیر میں حضور کے ساتھ حاضر رہتے.والد صاحب مرحوم و مغفور بہت جو شیلے، دین متین کے لئے غیرت مند اور بہت متقی پابند احکام الہی تھے.ہمیشہ سے محقق تھے.اسی باعث نورِ احمدیت سے خدا تعالیٰ نے مستفیض فرمایا.اسی طرح ہمیشہ حضرت اقدس سے اکثر مسائل استصواب فرماتے رہتے تھے....حضور ( روانگی از قادیان ۱۵ جنوری ۱۹۰۳ء) جہلم مقدمہ میں جو تاریخ مقرر کی گئی تھی تشریف لے جارہے تھے.چند روز پیشتر ایک کتاب مواہب الرحمن تصنیف کی جس میں کرم دین کولئیم ، کذاب لکھا ہے.اس کو جب حضور تصنیف فرما رہے تھے اس وقت کمترین حضور کے کمرہ کے برابر بیت الفکر میں سویا کرتا تھا.جو مسجد مبارک کے دائیں پہلو میں ہے.اکثر ایسا ہوتا تھا کہ حضور اندر سے رات کے وقت ۲-۳ بجے کا وقت ہوتا تھا، دروازہ کھول کر تشریف لاتے.آواز دیتے.میاں عبدالسمیع.اس آواز پر میری آنکھ فوراً کھل جاتی گویا کہ جاگ ہی رہا تھا.اور حضور فرماتے یہ کاپی لے جاؤ اور صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب کو دے آؤ.میں لے جاتا اور جا کر دے آتا اکثر ایسا موقعہ ہوتا.چونکہ ایک مدت تک میں وہیں سوتا رہا.حضور مسیح موعود علیہ السلام رات کے وقت تشریف لاتے اور کوئی خدمت اسی قسم کی میرے سپر دفرماتے.۱۹۰۲۲ء کا واقعہ ہے کہ حضرت اقدس جن دنوں دافع البلاء (اپریل ۱۹۰۲ء کی تالیف) تحریر فرمارہے تھے انہی دنوں غالباً میں قادیان میں تھا اور جناب والد صاحب امروہہ میں تھے.امروہہ کی 20
تاریخ احمدیت.جلد 25 204 سال 1969ء جامع مسجد کا امام و مدرس اول مفتی شہر مولوی احمد حسن معاند احمدیت سلسلہ کا سخت مخالف تھا لیکن مقابلہ سے ہمیشہ بھاگتا تھا.اس نے عید گاہ میں مجمع عام کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخانہ الفاظ کہے کہ وہ دجال اکبر ہے.میں مرزا کو دجال کہتا ہوں اور میں مباہلہ کرتا ہوں.یہ خبر والد صاحب مرحوم مغفور نے حضور انور کو بھیج دی.حضرت اقدس نے دافع البلاء میں اسے خاص طور پر مخاطب کر کے تحریر فرمایا کہ مولوی احمد حسن امروہی کو بھی میرے مقابلہ کا اچھا موقع مل گیا ہے وہ بھی اپنے فرضی مسیح کی خاطر جس کو وہ مع جسم خاکی آسمان پر مانتا ہے،خدا سے منوالے کہ امروہہ طاعون سے محفوظ رہے گا اور قادیان ہلاک ہو جائے گا.(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو دافع البلاء صفحہ ۱۵-۲۲.روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ صفحه ۲۳۴ تا ۲۳۸) جب امروہہ میں طاعون پڑی تو مولوی احمد حسن کے یہاں تین موتیں ایک ہی دن میں واقع ہوئیں.ایک ان کا نواسہ ایک نواسی اور ایک ان کی بیوی طاعون سے مریں.جن کے لئے وہ زار زار روتے تھے.اس کے بعد تیسرے سال وہ خود بھی طاعون سے ہلاک ہو گیا.جس پر احقر نے ایک اشتہار بعنوان "اللہ اکبر - نشان عظیم الشان“ شائع کیا جس میں حضرت صاحب کی ” دافع البلاء والی عبارت نقل کی تھی.اور ساتھ ہی مولوی احمد حسن کے واقعہ کا بھی مفصل ذکر کر دیا کہ مولوی احمد حسن نے گو دافع البلاء کا جواب نہیں دیا مگر پھر بھی حضور کی پیشگوئی پوری ہوئی اور حضور کے اعلان کے بعد خاص امروہہ میں ساڑھے تین ہزار اشخاص طاعون سے ہلاک ہوئے اور مخالف مولوی احمد حسن بھی اس کا شکار ہو گیا....والد صاحب مرحوم نے ایک مرتبہ حضور کی خدمت میں تحریری عرض کیا کہ امروہہ میں مخالفت بہت ہے.مگر مکمترین تمام شہر میں پھر کر تبلیغ کرتارہتا ہے.لوگ دیوانہ کہتے ہیں.حضور دعا فرمائیں کہ یہ کمترین احمدیت کا دیوانہ ہی رہے.حضور نے جواباً تحریر فرمایا کہ ہمیں بھی ایسے ہی دیوانوں کی ضرورت ہے.ایک مرتبہ آپ (والد صاحب) اپنی دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہ یکا یک آپ کو خیال آیا کہ میں محلہ قریشی میں جاؤں.وہاں ایک حکیم عبد السلام صاحب رئیس رہتے تھے.ان کے پاس آپ گئے وہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں آپ کو بلانے ہی کو تھا.اچھا ہوا کہ آپ خود تشریف لے آئے اور اندر کمرے میں لے گئے اور علیحدہ بٹھا کر کہنے لگے کہ ایک بات جو بہت اہم ہے آپ کو بتلانا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ آپ کے متعلق عمائدین شہر نے ایک مشورہ کیا ہے کہ یہ شخص ایک معمولی آدمی ہے
تاریخ احمدیت.جلد 25 205 سال 1969ء اس کو کہیں علیحدہ مکان میں بلوا کر قتل کردو ردو.میرے والد صاحب نے بڑی بے پرواہی سے کہا کہ حکیم صاحب! آپ کی محبت کا شکریہ.مگر یہ احقر اسی لئے دنیا میں آیا ہے کہ خدا کی راہ میں کام آئے.حکیم صاحب بہت تعجب سے ان کی طرف دیکھنے لگے اور کہنے لگے کہ عجیب قسم کا انسان ہے کہ جسے اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں.آپ وہاں سے واپس چلے آئے.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب دوسری ( یه ۲۳ راکتو بر ۱۹۰۵ء کا واقعہ تفصیل تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۴۳۶ - ۴۴۱ میں گذر چکی ہے ) مرتبہ دہلی تشریف لائے تو ہم لوگ بھی امروہہ سے چل کر حضور کی خدمت میں دہلی حاضر ہوئے.حضور الف خاں سیاہی والے کے مکان میں فروکش ہوئے تھے.جس وقت ہم وہاں پہنچے تو حضور اندر کے دروازہ کے قریب تشریف فرما تھے جا کر سلام علیکم عرض کی اور دست مبارک کو بوسہ دیا اور حضور نے وعلیکم السلام فرماتے ہوئے فرمایا کہ بڑا افسوس ہے کہ آپ کے والد صاحب کا انتقال ہو گیا.خدا غریق رحمت کرے اس وقت پیر سراج الحق صاحب نعمانی بھی موجود تھے انہوں نے عرض کیا کہ حضور یہ مولوی الہی بخش صاحب کے لڑکے ہیں.حضور نے فرمایا میں خوب جانتا ہوں.چند روز حضور وہاں تشریف فرما ر ہے اس کے بعد وا پس قادیان تشریف لانے کے لئے جب دہلی کے اسٹیشن پر پہنچے (۴ نومبر ۱۹۰۵ء) تو گاڑی سے اتر کر آپ نے حضرت اماں جان کو اتارا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر اندر پلیٹ فارم پر تشریف لے گئے جس پر بعض مخالفوں نے اعتراض کیا اور مضحکہ خیز باتیں کرنی شروع کیں.اس پر حضرت اقدس سے عرض کیا گیا مگر حضور نے اس قسم کی باتوں کی طرف مطلق توجہ نہیں فرمائی اور کوئی پرواہ نہ کی.اس کے بعد حضور قادیان تشریف لے گئے اور میں غازی آباد کے اسٹیشن پر اتر کر حضور سے مصافحہ کیا اور امروہہ جانے کی اجازت حاصل کی.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ امروہہ جائیں گے.اچھا جائے.اللہ حافظ.21- ۳- کمترین جب کبھی حضور کی خدمت میں امروہہ سے حاضر ہوتا تو صورت دیکھ کر ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھاتے اور مسکراتے.کمترین کے حضور کا ہاتھ چومنے پر حضور کے چہرہ مبارک پر بڑی بشاشت ظاہر ہوتی اور فرماتے.آگئے.اچھے رہے.پھر اس کے بعد اگر حضور قیام فرماتے یا بیٹھ جاتے تو برابر بلا کسی بڑے چھوٹے بزرگوں کے ادب ملحوظ رکھتے ہوئے حضور کے قدموں میں بیٹھ جاتا اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 206 سال 1969ء برابر جب تک تشریف فرما ر ہتے آپ کی پنڈلیاں، پاؤں دباتا رہتا یہاں تک کہ بعد نماز مغرب موسم گرما میں حضور مسجد مبارک کے اوپر جو تین رخی فصیل بنی ہوئی تھی ، مشرق رخ آپ تشریف فرما ہوتے تھے.اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اکثر اخبار ڈوئی جھوٹے نبی کا امریکہ کا حضور کو سنایا کرتے اور کمترین سب میں آگے بڑھ کر آپ کے پاؤں دبایا کرتا.موسم سرما میں بھی اسی طرح سے مغرب سے عشاء تک حضور کے قدموں میں بیٹھا رہتا تھا.آپ کے فرزند مولوی بشارت احمد صاحب امروہی مجاہد ملائیشیا کا بیان ہے کہ:.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں بھی اس موقع پر ان کے ہمراہ تھا.عمر اگر چہ چھوٹی تھی لیکن اس زمانہ میں جب حضرت دادا جان نے بیعت کی تو آپ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس موقع پر جب ہم قادیان جانے کے لئے بٹالہ پہنچے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ہمیں مل گئے.ہمارے متعلق یہ معلوم کر کے کہ ہم اتنی دور سے حضرت مرزا صاحب کو ملنے آئے ہیں ہمیں ہر طرح ورغلانے کی کوشش کی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت والد صاحب نے مولوی صاحب موصوف کی ایک نہ سنی اور کہا کہ جب اتنی دور سے روپیہ خرچ کر کے گئے تو اب اتنی دور سے واپس ہو جانا کوئی معقولیت نہیں.ہم نے تو قادیان اب ضرور جانا ہے.چنانچہ ہم قادیان جا پہنچے.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہوا کہ والد صاحب کی خداداد فراست نے انہیں اس وقت اس ابتلاء سے کامیاب گذرنے میں مدد دی اور اللہ تعالیٰ سے توفیق حاصل ہوئی کہ آپ نے احمدیت قبول کر لی.بیعت کا شرف حاصل کرنے کے بعد آپ والد صاحب کے ہمراہ چند روز قادیان میں مقیم رہے.آپ اس ماحول سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بوقت روانگی باوجود صغرسنی کے اپنے والد صاحب کے ہمراہ واپسی پر راضی نہ تھے لیکن احتراماً اصرار بھی نہ کر سکتے تھے.بادل نخواستہ آپ اس موقع پر واپس تو چلے گئے لیکن کچھ عرصہ بعد با وجود شادی ہو جانے کے حضرت دادا جان کی لاعلمی میں قادیان چلے آئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین خلیفہ مسیح الاول کے درس میں پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور نمازوں کے اوقات میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مجلس اور کلمات طیبات سننے کی کوشش کرتا.جب والد صاحب کی طرف سے واپسی کی ہدایت آجاتی تو نا چارواپس جانا پڑتا.لیکن پھر کوشش
تاریخ احمدیت.جلد 25 207 سال 1969ء کر کے واپس قادیان آجاتا تھا.اس آمد ورفت میں کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کر سکا.محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس مجالس اور بزرگوں کی صحبتوں سے جو فائدہ اٹھا سکا وہی میری تعلیم ہے.جن دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بعض مقدمات کے سلسلہ میں گورداسپور قیام فرما تھے.آپ بھی ان دنوں وہیں حضور اقدس کے حضور میں حاضر رہتے.اور جس خدمت کا موقع میسر آ جاتا نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر بجالاتے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ کبھی کبھی حضرت خلیفہ مسیح الثانی کےساتھ کھیلنے کا بھی موقع مل جاتا تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی سے ملاقات کے دوران اس عاجز راقم نے بھی ان ایام کا تذکرہ حضور انور کی زبانِ مبارک سے سنا ہے.وطن میں قیام کے دوران آپ کا مشغلہ احمدیت کی تبلیغ ہوتا تھا.اگر چہ خاندانی شغل کتب فروشی کے لئے اپنی ایک دکان کھول لی تھی.جلد سازی بھی کرتے تھے لیکن شہر میں یا شہر کے باہر کسی حصہ میں بھی کوئی موقع پیدا ہوتا تو آپ احمدیت کی تبلیغ ضرور کرتے تھے.امروہ علمی مدارس کا مرکز ہے.علوم السنہ شرقیہ کے کئی ادارہ جات وہاں تھے.دور دور سے لوگ علم کی تکمیل کے لئے آیا کرتے.ایسے طلباء اکثر آپ کی دکان پر آیا کرتے ، جن سے رات دن بحث جاری رہتی تھی.بہت سی سعید روحوں کو آپ کے ذریعہ احمدیت کے چشمہ سے سیراب ہونے کا موقع ملا کئی جماعتیں قائم ہوئیں.مکرم عبدالرحیم صاحب فانی درویش قادیان ان کا خاندان ، سردار نگر ضلع داد آباد کی جماعت ،اسرا خان صاحب جو شاہجہانپور میں ملازم تھے اور اسی طرح کئی دوسرے افراد اور خاندان ان کی تبلیغ اور تربیت کا شیریں ثمر ہیں.حضرت حافظ صاحب امروہہ سے ہجرت کر کے قادیان میں آگئے تھے اور قیام پاکستان کے بعد ربوہ میں سکونت اختیار کر لی تھی.بہت نیک، صوم وصلوٰۃ کے پابند اور دعا گو بزرگ تھے.قرآن مجید بہت خوش الحانی سے پڑھتے تھے اور نہایت درجہ پُر جوش داعی الی اللہ تھے.عمر بھر لوگوں تک پیغام حق پہنچانے میں سرگرم عمل رہے.اولاد بیٹے: 24 مکرم بشارت احمد امروہی صاحب مجاہد ملائیشیا، مکرم شرافت احمد صاحب، مکرم ریاست احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 25 208 سال 1969ء بیٹیاں مکر مہ جبیبہ بیگم صاحبہ زوجہ لطیف احمد صاحب لاہور، مکرمہ خدیجہ بیگم صاحبہ ، مکرمہ سکینہ بیگم صاحبہ، مکرمه تمیزه خانم صاحبه حضرت چوہدری مہر خان صاحب آف کریام ولادت: ۱۸۸۲ء بیعت : ۱۹۰۳ ء وفات: ۳۰ مئی ۱۹۶۹ء آپ حضرت حاجی غلام احمد خان صاحب آف کریام کے چچا زاد بھائی تھے.آپ کئی بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کئی مجالس علم و معرفت سے فیضیاب ہونے کے مواقع آپ کو ملے.ایک بار قادیان گئے اور حضور کی خدمت اقدس میں عرض کی کہ آجکل ہماری مخالفت بہت ہو رہی ہے.فرمایا اللہ تعالیٰ بہت جلد جماعت قائم کر دے گا.چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں خدا کے مقدس مسیح کی مبارک ہونٹوں سے نکلی ہوئی یہ بات پوری ہوگئی اور کریام میں ایک مخلص جماعت قائم ہوگئی.۱۹۰۵ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے باغ میں قیام فرما تھے حضور نے آپ سے حال پوچھا تو عرض کیا کہ اب ہماری مخالفت ختم ہو گئی ہے.حضور خاموش سے ہو گئے جس سے آپ نے سمجھا کہ حضور مخالفت ختم ہونے کو پسند نہیں فرماتے.مقدمہ کرم دین کے دوران آپ کو ایک بار حضرت اقدس کے ہمراہ گورداسپور جانے کا موقع ملا.ایک دفعہ آپ قادیان آئے اور حکیم الامت حضرت حافظ مولوی نور الدین صاحب بھیروی کی خدمت میں ایک روپیہ نذرانہ پیش کیا مگر آپ نے روپیہ واپس کر کے فرمایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حق ہے میرا نہیں.چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ میں نے غلطی سے نہیں بلکہ آپ کو پہچان کر ہی دیا تھا یہ آپ کے واسطے ہی دیا تھا اس پر آپ نے قبول فرمالیا.حضرت حاجی غلام احمد صاحب نے ۱۹۴۳ء میں وفات سے قبل وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد امیر جماعت کثرت رائے سے مقرر کیا جائے البتہ میری خواہش ہے کہ چوہدری مہر خاں صاحب کو مقرر کیا جائے.چنانچہ آپ کے بعد باتفاق رائے آپ ہی امیر جماعت منتخب کئے گئے.آپ مدرسہ احمدیہ کریام کے مینیجر بھی مقرر ہوئے.ہجرت کے بعد آپ نے چک نمبر ۰۹اگ.ب نرائن گڑھ ضلع لائل پور (فیصل آباد ) میں بودو باش اختیار کر لی اور صدر جماعت احمدیہ مقرر ہوئے اور آخر دم تک اس عہدہ پر فائز رہے.آپ موصی بھی تھے اور تحریک جدید کی پانچیز اری فوج میں بھی شامل تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 209 سال 1969ء اولاد عبد اللہ خان صاحب.احمد خان صاحب.عبدالرحمن خان صاحب.عبدالرحیم خان صاحب.عبدالقادر خان صاحب.حضرت مرز ا حسام الدین صاحب لکھنوی ولادت : ۱۸۷۷ء دستی بیعت : ۱۹۰۸ء وفات : ۲۳ جون ۱۹۶۹ء آپ نے بطور معلم اصلاح و ارشاد خدمت سلسلہ کی توفیق پائی.یا بو والا جھنگ میں تعینات رہے.آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بوڑھا صحابی ہوں.چنانچہ آپ نے تقریباً بانوے سال عمر پائی.آپ کی وفات لنگر خانہ ربوہ میں ہوئی.کثیر احباب نے جنازہ میں شرکت کی توفیق پائی.بعد ازاں قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.حضرت منشی عبدالحق صاحب خوشنویس 28 ولادت : ۱۸۸۲ ء بیعت : ۱۸۹۸ء ( بمطابق وصیت فارم) وفات: ۲۰ جولائی ۱۹۶۹ء اصل وطن جوڑ اضلع گجرات تھا.آپ بہت با کمال خوشنویس تھے.آپ نے اوائل میں اخبار الفضل قادیان میں کتابت کے فرائض سرانجام دیئے نیز تفسیر کبیر اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی متعدد دیگر تصانیف کی کتابت کرنے کا شرف بھی آپ کو حاصل ہوا.پیرانہ سالی کے باوجود تفسیر صغیر کے طبع اول میں قرآن مجید کے عربی متن کی کتابت آپ ہی نے کی.یوں تو آپ شروع سے قادیان میں مقیم تھے لیکن ۱۹۲۸ء میں آپ اپنے اہل و عیال کو بھی قادیان مستقل سکونت کیلئے لے آئے.آپ نے اپنے فرزندا کر مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کو شروع ہی سے دینی تعلیم دلوائی اور پھر فارغ التحصیل ہونے پر انہیں خدمت دین کے لئے وقف کیا.آپ کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی.حضرت منشی صاحب بہت خوش خلق، کم گو اور دعا گو بزرگ تھے اور موصی ہونے کے علاوہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.مولا نا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے حضرت منشی عبدالحق صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.’ ایک بہترین کا تب ہونے کی وجہ سے آپ کو دینی کتب و رسائل لکھنے کی سعادت بھی ملتی رہی.سب سے بڑھ کر آپ کو سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی اولین تفسیر کبیر کے لکھنے کی توفیق عطا ہوئی.ہر شخص کو خدمت سلسلہ کی اپنے اپنے رنگ میں توفیق ملتی ہے.حضرت منشی عبد الحق صاحب کو یہ خدمت 30.
تاریخ احمدیت.جلد 25 210 سال 1969ء کتابت اور خوشنویسی کے ذریعہ سے حاصل ہوئی اور اس راہ سے آپ کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا.بہت سے کا تب ان کے شاگرد ہیں.قادیان میں محلہ دار العلوم میں محترم منشی صاحب کا مکان تھا اور مجھے بھی ۴۰-۱۹۳۹ء میں ان کے قرب میں ہی بیت العطاء کے نام سے اپنا مکان بنانے کی توفیق ملی تھی.سالہا سال ہم پڑوسی کے طور پر رہے ہیں.پھر قادیان سے نکلنے والے رسالہ ”الفرقان“ کی کتابت بھی بہت دفعہ حضرت منشی صاحب کرتے تھے اور میں اس رسالہ کا ایڈیٹر تھا.مجھے حضرت منشی صاحب سے ایک رشتہ داری کا بھی تعلق ہے ان کے بڑے لڑکے مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب میرے ہم زلف حضرت قاضی محمد رشید صاحب مرحوم سابق وکیل المال کے داماد ہیں.مجھے محترم منشی صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے.ہجرت کے بعد ربوہ میں بھی ان کا اور میرا مکان ایک ہی محلہ یعنی دارالرحمت وسطی میں ہے.حضرت منشی صاحب کی زندگی تقویٰ و پرہیز گاری کی زندگی تھی.پنجوقتہ نمازیں بالالتزام مسجد میں ادا کرتے تھے اور جب تک ان کے لئے ممکن رہا وہ کتابت کے ذریعہ رزق حلال کماتے تھے اور اپنے بچوں میں سے کسی پر کسی طرح کا بار نہ تھے.اپنی صحت کا بھی اہتمام کرتے تھے.انہیں نماز فجر کے بعد خاص طور پر سیر کی عادت تھی اور بسا اوقات آتے یا جاتے ہوئے مجھے ان سے ملنے کا موقع ملتا رہتا تھا.نہایت بشاش چہرے سے ملتے اور دعا کرتے اور دعائیں دیتے.جب زیادہ کمزور ہو گئے تو اپنے کسی بیٹے یا پوتے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سیر کے لئے نکلتے.وفات سے تھوڑا ہی عرصہ پیشتر ایک دن اسی حالت میں از راہ محبت آہستہ آہستہ میرے ساتھ مکان تک آئے اور بیت العطاء پر نیا بالا خانہ دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے دعا فرمائی.حضرت منشی صاحب کے دل میں دین کے لئے قربانی کا خاص جذبہ تھا جس کا ظاہری ثبوت یہ بھی ہے کہ ان کے بڑے فرزند مکرم مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب واقف زندگی ہیں اور سلسلہ کی مسلسل خدمات بجالا رہے ہیں.ان کے دوسرے فرزند مکرم مولوی سراج الحق صاحب درویشان قادیان میں ہیں اور اب بطور مبلغ بھارت میں خدمت اسلام بجالا رہے ہیں.حضرت منشی صاحب کو اپنے بچوں اور بچیوں کی نیک تربیت کا ہمیشہ خیال رہتا تھا اس کے لئے وہ دعا ئیں بھی بکثرت کرتے تھے.خلاصہ یہ ہے کہ حضرت منشی عبدالحق صاحب ایک بزرگ انسان تھے.صاحب رؤیا تھے اور سلسلہ کے لئے مقدور بھر قربانی کرنے والے تھے.31-
تاریخ احمدیت.جلد 25 211 سال 1969ء (اصل نوٹ میں حافظ عطاء الحق صاحب کا نام درویش قادیان کی حیثیت سے درج ہوا ہے جو کہ سہو ہے.) اولاد: مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب ربوہ.حافظ عطاءالحق صاحب ربوہ.مولوی سراج الحق صاحب در ویش قادیان - محمد اسحاق صاحب کراچی حضرت ملک نبی محمد صاحب میانی گھوگھیاٹ بھیرہ ولادت: ۱۸۸۵ء تحریری بیعت ۱۹۰۱ء زیارت:۱۹۰۳ء وفات: ۷/اگست ۱۹۶۹ء حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو آپ سے بہت محبت تھی اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ ہمارے وطن میانی بھیرہ کے ہیں.لمبے عرصہ تک جماعت گھوگھیاٹ کے پریذیڈنٹ ،سیکرٹری مال اور زعیم انصار اللہ رہے.تحریک جدید کی پانچ ہزاری روحانی فوج میں شامل تھے.سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر نہایت ذوق وشوق سے محفوظ رکھتے تھے.خلیفہ وقت کی خدمت میں ہفتہ میں ایک بار خط لکھنا ان کا معمول تھا.بلند اخلاق، منکسر المزاج، شب بیدار اور صاحب رو یا بزرگ تھے.آپ کو قبل از وقت جناب الہی کی طرف سے بشارت دی گئی کہ آپ کی عمر ۷۵ یا ۸۵ سال ہوگی.آپ نے اپنے بعد خدا کے فضل سے ایک بڑا احمدی کنبہ چھوڑا.ملک محمد بشیر صاحب انسپکٹر انصار اللہ مرکز یہ ربوہ آپ ہی کے صاحبزادے ہیں.آپ فرماتے ہیں: حضور علیہ السلام کی بیعت تو میں نے ۱۹۰۱ء میں خط کے ذریعہ کر لی تھی.لیکن حضور علیہ السلام کی زیارت کا شرف ۱۹۰۳ء میں نصیب ہوا اور وہ بھی ایک خواب کی بناء پر.بذریعہ خط بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا چبوترہ ہے.اس چبوترہ کے گرد بہت سے لوگ ایک دائرہ کی شکل میں جمع ہیں اور مؤدب کھڑے ہوئے ہیں.ان لوگوں میں میں بھی شامل ہوں چبوترے کے اوپر چاندی کی دو خوشنما کرسیوں پر دو بزرگ ہستیاں تشریف فرما ہیں.دونوں بزرگ جوان اور خوش شکل ہیں.ان کے چہروں سے سفید نور کی شعائیں نکل کر آسمان کی طرف جارہی ہیں.اور اسی طرح ان کی کرسیوں میں سے نور کی شعاعیں پھوٹ رہی ہیں.اور آسمان کی طرف بلند ہو رہی ہیں.دونوں بزرگ قریبا ہم شکل نظر آتے ہیں.البتہ یہ احساس ہے کہ ان میں سے ایک آتا ہے اور دوسرا غلام.میرے قریب ہی ایک بزرگ کھڑے ہیں وہ انگلی کے اشارہ سے بتاتے ہیں کہ جو بزرگ دائیں جانب تشریف فرما ہیں.وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جو بزرگ بائیں
تاریخ احمدیت.جلد 25 212 سال 1969ء جانب بیٹھے ہوئے ہیں وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں.یہ نظارہ دیکھنے کے بعد میری آنکھ کھل گئی.میں اللہ تعالی کا شکر بجالایا کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے بذریعہ رویا حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب کی.یہ رویا دیکھنے کے بعد میرے دل میں قادیان جانے اور حضور علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کی شدید خواہش پیدا ہوئی.آخر میری امید بر آئی اور ۱۹۰۳ء میں محترم با بوفخر الدین صاحب مرحوم ( والد بزرگوار محترم مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل مرحوم اور محترم حکیم محمد صدیق صاحب ساکن گھوگھیاٹ میانی ضلع سرگودھا کے ہمراہ قادیان روانہ ہوا.جب ہم بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں ہمیں معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مولوی کرم دین بھیں کے مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہوئے ہیں.چنانچہ ہم تینوں بٹالہ سے سیدھے گورداسپور پہنچے.وہاں حضور علیہ السلام ایک مکان کے بالا خانہ پر فروکش تھے.ہم نے اوپر اطلاع بھجوائی اور ملاقات کے لئے حاضر خدمت ہونے کی اجازت چاہی.حضور علیہ السلام نے از راہ شفقت و ذرہ نوازی اجازت مرحمت فرمائی.چنانچہ ہم تینوں بالا خانہ میں پہنچ کر حضور علیہ السلام کی زیارت سے شرف یاب ہوئے اور مصافحہ کا شرف بھی حاصل کیا.اس وقت حضور علیہ السلام کے پاس حضرت خلیفۃ اسبح الاول ، حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور ایک اور بزرگ بیٹھے ہوئے تھے.خاکسار کو اور حکیم محمد صدیق صاحب کو حضور علیہ السلام نے از راہ شفقت پیار بھی کیا.کیونکہ ہم دونوں بچے ہی تھے.اس وقت میری عمر بارہ تیرہ سال کے قریب تھی.کچھ دیر کے بعد حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگ نیچے جا کر کھانا کھا لیں.ہم نیچے کے مکان میں گئے اور کھانا کھانے بیٹھے.دیکھا کہ پلاؤ پکا ہوا ہے.میں نے پلاؤ کا پہلا لقمہ ہی مونہہ میں ڈالا تھا کہ یک دم مجھے اپنا ایک پرانا خواب یاد آ گیا.کچھ عرصہ پہلے میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں ایک بالا خانہ پر گیا ہوں.وہاں چار بزرگ تشریف فرما ہیں.ان میں سے ایک بزرگ سے جو باقی بزرگوں کی نسبت بڑے ہیں، میں نے مصافحہ کیا ہے اور انہوں نے پیار کرنے کے بعد کھانا کھانے کیلئے ارشاد فرمایا ہے اور خواب میں ہی میں نے پلاؤ بھی کھایا ہے.لقمہ مونہہ میں ڈالتے ہی اس خواب کا نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آگیا.اس وقت مجھے بے انتہاء خوشی محسوس ہوئی اس خوشی کے عالم میں میں نے محترم با بوفخر الدین صاحب مرحوم کو جو میرے ساتھ ہی بیٹھے پلاؤ کھارہے تھے اپنا یہ خواب
تاریخ احمدیت.جلد 25 213 سال 1969ء سنانا شروع کیا.میں نے کہا کہ یہ پلاؤ جواب میں کھا رہا ہوں عرصہ پہلے خواب میں کھا چکا ہوں.وہ بزرگ جنہوں نے خواب میں مجھے پیار کرنے کے بعد کھانا کھانے کے متعلق ارشاد فرمایا تھاوہ حضرت صحیح موعود علیہ السلام ہی تھے.محترم بابو صاحب مرحوم یہ خواب سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا آپ کی خواب تو خوب پوری ہوئی.ہمارے کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے اصحاب کے ہمراہ کچہری تشریف لے گئے.ہم تینوں بھی ساتھ ہو لئے.کچہری کے آگے ایک سڑک تھی حضور علیہ السلام اس پر ٹہلتے رہے.وقفہ وقفہ کے بعد دودفعہ حضور علیہ السلام نے پانی طلب فرمایا.ہر دفعہ حضور علیہ السلام نے چند گھونٹ ہی بیٹے اور باقی پانی واپس کر دیا جسے تمام دوستوں نے گھونٹ گھونٹ پیا.الحمد للہ کہ تبرک کے طور پر ایک گھونٹ پانی پینے کی مجھے بھی سعادت نصیب ہوئی.کچہری سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو رتھ کے ذریعہ قادیان تشریف لے گئے اور ہم بذریعہ ریل گاڑی بٹالہ ہوتے ہوئے قادیان پہنچے.قادیان پہنچ کر مجھے حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر بھی بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.فالحمد للہ علی ذلک.حضور نماز ظہر کے بعد اکثر مسجد میں کافی دیر تشریف فرما رہتے اور احباب سے گفتگو فرماتے.ہم بھی مجلس میں حاضر رہ کر حضور علیہ السلام کے ارشادات سے مستفیض ہوتے.ایک دن باہر سے ایک شخص آیا.اس نے عرض کیا حضور طاعون بہت پھیل رہی ہے.فلاں شہر میں اتنی موتیں ہو چکی ہیں.بڑی تباہی پھیلی ہوئی ہے.حضور علیہ السلام نے اس شخص کی بات سن کر فرمایا اس تباہی سے بڑھ کر تباہی آئے گی.حضور علیہ السلام نے انگشت شہادت کے ساتھ گردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا سر الگ اور دھڑا الگ ہوں گے.یہ نظارہ بھی ہم نے ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بچشم خود دیکھ لیا.ان دنوں حضرت خلیفتہ اسیح الاول روزانہ قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.محترم بابو فخر الدین صاحب مرحوم تو چند دن رہنے کے بعد اپنی ملازمت پر میاں میر لاہور چلے گئے اور ہم دونوں یعنی خاکسار اور حکیم حمد صدیق صاحب تقریباً پندرہ دن قادیان میں ٹھہرے رہے اور باقاعدگی سے حضرت خلیفہ اُسی الاول کا درس سنتے رہے.آپ ہم سے بہت محبت کے ساتھ پیش آتے اور اکثر فرماتے یہ بچے ہمارے وطن (یعنی بھیرہ میانی) کے ہیں.انہی دنوں ایسا اتفاق ہوا کہ میری داڑھ میں شدید درد کی تکلیف رہنے لگی.حضرت خلیفہ اول بڑی ہمدردی اور محبت کے ساتھ علاج کرتے رہے.درد بھی رفع نہیں ہوا تھا کہ میں نے گھر واپس
تاریخ احمدیت.جلد 25 214 سال 1969ء جانے کا ارادہ کر لیا.میں نے ایک چھوٹی بچی کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ بھجوایا.اس میں لکھا کہ حضور مجھے گھر واپس جانے کی اجازت عطا فرمائیں.نیز دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی داڑھ کا درد دور کر دے اور میں بخیریت اپنے گھر پہنچ جاؤں.حضور علیہ السلام نے اجازت کا پیغام بھجوایا اور ساتھ ہی فرمایا اللہ تعالی آپ کو آرام سے گھر پہنچائے اجازت لیکر جب قادیان سے رخصت ہوا تو ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ داڑھ کے درد سے بالکل آرام آ گیا اور پھر آج تک ایسا درد نہیں ہوا.معمول کے مطابق بٹالہ سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر مجھے اگلے روز میانی گھوگھیاٹ پہنچنا تھا.میں قادیان سے صبح روانہ ہوا اور گیارہ بجے کے قریب بٹالہ پہنچا.وہاں گاڑی تیارتھی اس میں بیٹھ کر امرتسر پہنچا.وہاں جا کر کیا دیکھتا ہوں کہ خلاف توقع ڈاک گاڑی ابھی اسٹیشن پر ہی موجود ہے.چنانچہ میں ڈاک گاڑی میں سوار ہو کر لالہ موسیٰ ملک وال کے راستے اسی روز شام کو میانی گھوگھیاٹ پہنچ گیا.اللہ تعالی نے حضور علیہ السلام کی دعا کی برکت سے ایسے سامان بہم پہنچائے کہ میں اگلے دن پہنچنے کی بجائے اسی دن شام کو آرام سے گھر پہنچ گیا اور پھر داڑھ کا درد بھی جاتا رہا.آخر میں ایک بات جو نہایت ایمان افروز ہے بیان کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جب ہم بٹالہ سے یکہ پر قادیان جاتے تو چونکہ سڑک کچی تھی تو اس لئے راستہ میں دھول اڑتی.ادھر قادیان میں لوگوں کی بکثرت آمد و رفت کی وجہ سے یکے اکثر چلتے رہتے تھے.راستے میں اکثر سکھ کہا کرتے تھے کہ:.766 او بلے بلے مرجیا تیریاں مریداں نے تے سڑک ہی پٹ دتی اے یعنی شاباش مرزا تیرے مریدوں نے تو چل چل کر سڑک ادھیڑ دی ہے.آخر وہ دن بھی آئے کہ ریلوے لائن بن جانے کی وجہ سے جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان پیشل گاڑیاں پہنچنے لگیں.گاڑیوں میں بھیٹر کا یہ عالم ہوتا تھا کہ جگہ بھی مشکل سے ملتی تھی.حضرت ملک صاحب تقسیم سے پہلے قادیان میں جلسہ سالانہ پر اہتمام سے جایا کرتے.دسمبر میں خصوصاً آخری ہفتہ میں جب اپنے مخصوص پُر وقار لباس میں ملبوس سر گرم عمل نظر آتے تو ان کے نشست و برخاست سے صاف پتہ چلتا کہ مسیح پاک کے مہمان دارالامان جانے کی تیاری میں ہیں.گداز دل کے مالک تھے منکسر المزاج اور ہمدرد ، گاؤں کے بزرگان میں سے تھے.چھوٹے بڑے سب احترام کرتے اور باپ سمجھتے.حد درجہ مشفق تھے.بہت محبت سے پیش آتے.خواہ گاؤں کا غریب ترین آدمی کیوں نہ ہو.جب سیلاب آتا تھا اور گاؤں کے اردگرد پانی بھر جاتا لوگ آپ کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 215 سال 1969ء 36- مکان میں اکٹھے ہو جاتے بچے اور مستورات تو آپ کا گھر اپنا گھر ہی سمجھتے تھے.بے تکلف وہاں چلے جاتے.وہاں سب کو راحت اور سکون میسر آتا.آپ کے بیٹے مکرم محمد بشیر صاحب لکھتے ہیں کہ باوجود دو شادیوں کے کوئی اولاد نرینہ نہ ہوتی تھی.گیارہ لڑکیوں کی پیدائش کے بعد آپ کی والدہ محتر مہ روشن بی بی صاحبہ نے ایک لڑکی کی پیدائش پر آپ کو کہا کہ میں تو اللہ پاک سے ہر وقت دعا کرتی رہتی ہوں کہ آپ کے گھر لڑکا ہو.مگر اللہ تعالیٰ میری دعائیں قبول ہی نہیں کرتا.مرحوم نے عرض کیا کہ اللہ تعالی کے در سے نا امید نہیں ہونا چاہیئے.آپ کی دعائیں ضرور اللہ تعالیٰ قبول کرے گا.بعد میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خاص دعا سے خاکسار کی پیدائش ہوئی اور اب ہم تین بھائی ہیں.آپ کی عادت تھی کہ ہفتہ میں ایک خط دعا کیلئے خلیفہ وقت کی خدمت میں ضرور لکھا کرتے.ایک دفعہ کسی وجہ سے آپ نے خط لکھنے میں دیر کر دی تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے خط کے جواب میں فرمایا کہ اب آپ نے بڑی دیر کے بعد خط لکھا ہے.حضور کا خط پڑھ کر والد صاحب بہت خوش ہوئے کہ حضور نام سے واقف ہیں.اولاد ملک محمد بشیر صاحب سابق انسپکٹر مجلس انصار اللہ پاکستان.ملک محمد احمد صاحب سابق آڈیٹر ضلعی مجلس عاملہ سرگود با حال مقیم مسلم ٹاؤن نمبر ا فیصل آباد.ملک مبشر احمد صاحب.اقبال بیگم صاحبہ اہلیہ ملک فضل احمد صاحب سابق صدر جماعت احمد یہ گھوگھیاٹ.حامدہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمد اکبر صاحب محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک سعی محمد صاحب - حفیظہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد یوسف صاحب دار الرحمت وسطی ربوہ صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک علی محمد صاحب.ناصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ ملک محمد بشیر صاحب سرگودہا.رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم ریاض احمد صاحب سابق صدر جماعت احمد یہ دودہ ضلع سرگودہا.حضرت صوفی محمد یعقوب صاحب قندھاری کمپونڈ ر نور ہسپتال قادیان ولادت : ۱۸۹۱ء زیارت : ۱۹۰۶ ء بیعت : ۱۹۰۸ ء وفات : ۲۷ اگست ۱۹۶۹ء آپ میاں غلام بلورے شاہ صاحب کے فرزند تھے.آپ کے بیٹے جناب نصر اللہ صاحب صاحب رمطراز ہیں:.”میرے والد حضرت صوفی محمد یعقوب صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.بچپن میں ہی والدین کے سایہ شفقت سے محروم ہو گئے اور ان کی پرورش ان کے بچوں نے کی.مڈل
تاریخ احمدیت.جلد 25 216 سال 1969ء کرنے کے بعد تعلیم کا سلسلہ بند ہو گیا.بچپن سے پنجگانہ نمازی تھے.ہمارا گاؤں (کڑی افغاناں ڈاکخانہ خاص کا ہندووان نز د قادیان) قادیان کے قریب ہی صرف چار میل کے فاصلہ پر تھا.چونکہ آپ کو تعلیم کا بہت شوق تھا اس لئے آپ نے قادیان کا رخ کیا اور قادیان جاتے ہی ان کا حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت خلیفہ اول جیسے بزرگوں سے تعلق قائم ہو گیا.جنہوں نے ان کی تمام ضروریات اور پڑھائی کا بوجھ برداشت کیا.مرحوم وہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے لگے.اکثر اوقات حضرت خلیفہ اول اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کا بھی شرف حاصل ہوا.حق کی شناخت کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے.بالآخر دو تین خوابوں میں اللہ تعالیٰ سے بشارت پانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر ۱۹۰۶ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.دورانِ تعلیم میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک اور حکم کے مطابق منارة المسیح کے لئے چندہ دیا اور ان کا نام منارۃ اُسیح میں 11 نمبر پر کندہ کیا گیا.آخر تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو بمقام کا ٹھگڑھ ضلع ہوشیار پور مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر کی ملازمت ملی.فرمایا کرتے تھے کہ ” مجھے ملازمت تو مل گئی لیکن تسکین قلب نہ حاصل ہوئی کیونکہ میں قادیان میں رہ کر سلسلہ کی خدمت کرنے کی خواہش رکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کرتے ہوئے جلد ہی قادیان میں مستقل رہائش کے سامان پیدا کر دئیے آپ بیمار ہو گئے.پانچ چھ ماہ تک نور ہسپتال قادیان میں حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب جیسے پاکباز بزرگ کے زیر علاج رہ کر صحت یاب ہو گئے اور دوران بیماری ڈاکٹر صاحب موصوف کے زیر سایہ ڈسپنسر کا کام سیکھنا شروع کر دیا.چونکہ آپ بہت محنت اور دلچسپی سے کام سیکھتے تھے اس لئے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب بھی شفقت اور محبت سے راہنمائی فرماتے اور آخر نور ہسپتال میں ہی مستقل کمپونڈ ر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے لگے اور تینتیس سال کی خدمت کے بعد پنشن لی.دوران ملا زمت آپ کو خاندان حضرت مسیح موعود ، صحابہ کرام اور بزرگان سلسلہ و دیگر جماعت کے افراد کی خدمت کا موقع ملا.ہمیں یاد ہے کہ آپ کئی کئی دن گھر نہ آتے اور ہسپتال میں کھانا منگوا لیتے.اکثر اوقات ہسپتال سے رات کے دس گیارہ بجے گھر آنا ان کا معمول تھا.کیونکہ اس وقت شاف بہت کم تھا اس لئے رات کو دفتری کام بھی آپ ہی مکمل کیا کرتے تھے اور پھر چابیاں وغیرہ پاس ہوتی تھیں.جب بھی کوئی دوائی لینے آتا تو فورا دوائی اسے دیتے.کئی دفعہ اکثر بزرگوں اور دوستوں کے گھر
تاریخ احمدیت.جلد 25 217 سال 1969ء جا کر دوائیاں دیتے یہاں تک کہ قریبی گاؤں میں خود جا کر طبی خدمات انجام دیتے.خاص کر جلسہ سالانہ کے موقع پر کئی کئی روز متواتر ہسپتال میں ہی رہتے.آپ مریضوں سے بہت ہی خوش خلقی ، شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے یعنی اکثر اوقات انڈور مریضوں کی ضروریات گھر سے ہی پوری کر دیا کرتے تھے.اول تو آپ چھٹی لیتے ہی نہ تھے اور اگر اتنی لمبی ملازمت میں آپ نے دو یا تین مرتبہ رخصت لی بھی تو آپ نے گھر نہیں گزاری بلکہ تبلیغ دین کے لئے باہر چلے جایا کرتے اور اس طرح کئی ایک گھرانے ان کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہو گئے اور ہمارے گاؤں کے بھی چند ایک آدمی ان کے اخلاق اور اخلاص کی وجہ سے احمدی ہو گئے.آپ تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.اور اسماء مجاہدین کی فہرست میں 42 آپ کا نمبر شمار ۲۶۰۶ ہے.آپ کی اہلیہ اور بچے بھی پانچ زاری مجاہدین میں شامل تھے.ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کی چشم دید شہادت ہے کہ:.میں نے دیکھا ہے کہ ہر وقت خدمت کے لئے حاضر رہا کرتے تھے.چونکہ ان دنوں میں عملہ بہت تھوڑا تھا.ہسپتال کا دفتر کا کام بھی وہی سرانجام دیتے تھے اور بعض اوقات رات کے دس بجے سے گیارہ بجے تک بھی والد صاحب کے ساتھ کام کیا کرتے تھے اس سے مراد تحریری یا دفتری کام ہے.آپ میں کمال خوبی تھی کہ آپ لگا تار دو تین روز کام کرنے کے بعد بھی تھکتے نہ تھے آپ کو قادیان میں بطور طبی خادم ہونے کے بہت سے بزرگان سلسلہ اور صحابہ کرام کی خدمت کا موقع ملا تھا.جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر آپ کمر ہمت کس لیتے تھے اور لگا تار دن رات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی طبی خدمت سرانجام دیا کرتے تھے.مجھے ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۷ء تک نور ہسپتال قادیان میں بطور آنریری ڈاکٹر کے خدمت کا موقع ملا ہے اور صوفی صاحب کے ساتھ کبھی انڈور مریضوں کی نگرانی کا کام کرنے کا موقع ملا ہے.میں نے صوفی صاحب کو ہر وقت حاضر باش اور بہت محنتی پایا.تقریباً قادیان کے سب پرانے لوگ ان کی شخصیت سے واقف ہوں گے وہ بہت محبت و خوش خلقی سے بیماروں کی خدمت کیا کرتے تھے.تقسیم ملک کے بعد بھی آپ، جب تک مرکز سلسلہ لاہور میں رہا اور نور ہسپتال بھی وہیں رہا آپ وہاں بھی کام کرتے رہے پھر اس کے بعد ربوہ میں مرکز منتقل ہوا تو
تاریخ احمدیت.جلد 25 218 سال 1969ء شفاخانہ نور بھی مرکز منتقل ہو گیا اور آپ بھی ربوہ میں شفا خانہ میں خدمات بجالاتے رہے اور کچھ عرصہ بعد پیرانہ سالی اور علالت کی وجہ سے شفا خانہ سے آپ ریٹائر ہو گئے اور گھر ضلع گوجرانوالہ میں اپنے خاندان کے افراد کے پاس مقیم ہو گئے اور تا وفات وہ ہیں مقیم رہے...محترم صوفی صاحب مرحوم کو قادیان کے ساتھ بے حد انس و محبت تھی اور قادیان کو بہت یاد کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں جب رات کو سوتا ہوں تو میں قادیان میں ہوتا ہوں لیکن جب اٹھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ وہی لگکھڑ منڈی ہے.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قادیان سے انہیں کس قدر اور بے انتہا محبت تھی“.اولاد 43 آپ کی اہلیہ کا نام سکینہ بیگم صاحبہ تھا.آپ سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی.نصر اللہ خاں صاحب.فتح اللہ خاں صاحب ( گکھڑ منڈی ).ظفر اللہ خاں صاحب (نصرت آبا در بوہ ).نصرت اللہ عابدہ صاحبہ اہلیہ انور حسین صاحب اوورسئیر محکمہ انہار لا ہور.فرحت اللہ صادقہ صاحبہ اہلیہ محمد احمد خاں صاحب ملتان.عصمت اللہ راشدہ صاحبہ اہلیہ عبید الرحمن صاحب لاہور.مکرم مدثر احمد خاں صاحب واقف زندگی دفتر وکالت مال اول تحریک جدید ربوہ آپ کے پوتے ہیں.) حضرت بابوعبدالحمید صاحب آؤٹ آفیسر ریلوے 47 ولادت ۱۸۸۴ء بیعت : اگست ۱۹۰۳ء وفات : ۲۶/۲۵ ستمبر ۱۹۶۹ء آپ کے خاندان میں سب سے پہلے آپ کے بھائی حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب سیالکوٹی والد ماجد چوہدری شبیر احمد صاحب بی اے واقف زندگی سابق وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ ) کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل ہوا.محترم سردار صاحب نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت مارچ ۱۹۰۶ء میں قادیان دارالامان میں کی.آپ شروع میں کچھ عرصہ پٹیالہ میں ملازم رہے اور پھر تبادلہ کے بعد دسمبر ۱۹۱۰ء میں لاہور میں تشریف لے آئے.خلافت اُولیٰ کے بابرکت دور میں حضرت خلیفہ امسیح الاول نے آپ کو صدر انجمن احمد یہ قادیان کا آنریری آڈیٹر مقرر فرمایا.اور اسی زمانہ میں آپ نے حضور کی اجازت سے خطبات نور کے دو حصے (اشاعت طبع
تاریخ احمدیت.جلد 25 219 سال 1969ء اول نومبر ۱۹۱۲ء) اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈائری ۱۹۰۱ء کی شائع کی.خطبات نور حصہ اوّل کے عرض حال میں آپ نے تحریر فرمایا.” جب سے میری تبد یلی پٹیالہ سے لا ہور ہوئی مجھے بفضل خدا حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں حاضر ہونے کا زیادہ موقعہ مل گیا.جب کبھی قادیان جانے کا ارادہ کرتا تو یہ خیال آتا کہ حضرت صاحب کے لئے ایسی کیا چیز بطور نذرانہ لے جائی جاوے جو حضور کی خوشی کا باعث ہو.خورد و نوش تو حضور کی اصل خوشی کا موجب نہیں اور ہر گز نہیں کیونکہ اگر حضور کو یہ چیزیں مرغوب ہوتیں تو اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک گاؤں میں کیوں سکونت اختیار فرماتے.اس لئے میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ان خطبات کو ہی بہتر نذرا نہ سمجھا.اس تحریک کے ساتھ میں نے خطبات کو جمع کرنا اور ترتیب دینا شروع کر دیا.ایک مرتبہ جب میں حاضر خدمت ہوا تو میں نے مسودہ جو بدر اور الحکم میں سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا ہوا تھا حضور کے پیش کیا.حضور دیکھ کر بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا کہ میرے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی ان کو جمع کرے گا.بڑی محنت کی ہے جیسی آپ نے ان سے محبت کی ہے خدا آپ سے محبت کرے.حضرت صاحب کے اس اظہار مسرت کو دیکھ کر میری خوشی کی تو کوئی انتہا نہ رہی خدا کا شکر ہے کہ میری محنت قبول ہوئی.حضور نے اس پہلے حصہ کا پروف ملاحظہ فرمالیا ہے اور حضور ہی نے اس کا نام خطبات نور تجویز فرمایا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاول نے اپنے قلم مبارک سے یہ اجازت نامہ لکھا.بابو عبدالحمید صاحب نے میری اجازت سے اور مجھے مسودات دکھانے کے بعد میرے خطبات کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا انتظام کیا.اللہ تعالیٰ اس اخلاص کے واسطے انہیں جزائے خیر دے اور ان کے کام کو با برکت کرے.نورالدین.۲۰ جون ۱۹۱۲ء حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار ”بدر نے خطبات نور پر حسب ذیل تبصرہ سپرد قلم فرمایا:.اسی نور کے منور کلام کو ہمارے پیارے دوست بابو عبدالحمید صاحب سیالکوٹی نے الحکم و بدر کے کالموں سے نقل کر کے اور حضرت صاحب کو دکھا کر اور ان کی اجازت حاصل کر کے چھپوانا شروع کیا ہے.کاغذ اعلیٰ لکھائی خوشخط، چھپائی عمدہ ہر لازمی احتیاط کے ساتھ بابو صاحب نے اس کام کو شروع کیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 220 سال 1969ء 66 یہ نسخہ نور میرے ریویو یا تعریف کا محتاج نہیں.جن لوگوں نے ان خطبات کو سنا یا پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ کس قدر ضروری مسائل اور دلوں پر تاثیر کرنے والے پاک وعظ اور عملی قوت کو مدد دینے والے مجرب نسخے اور ظاہری شیاطین کے دفعیہ کے واسطے کاری حربے ان میں موجود ہیں.کتاب کے دوسرے حصہ کی اشاعت اخبار بدر قادیان ۳۰ جنوری ۱۹۱۳ء کے صفحہ ۷ اپر حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.بابو عبد الحمید صاحب لکھتے ہیں.” میں نے خطبات نور کی نسبت ایک خواب دیکھا جو بہت ہی مبارک خواب ہے.میں نے دیکھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر واقعہ سیالکوٹ تشریف شریف لائے اور میری والدہ سے خطبات کی تالیف پر بہت ہی اظہار مسرت فرمایا.مجھے طلب فرمایا لیکن میں اس وقت گھر پر نہ تھا.جب میں گھر گیا تو والدہ صاحبہ نے حضور پر نور کا تشریف شریف لانا اور اظہار خوشنودی فرمانے کا ذکر مجھ سے کیا.( فالحمد للہ ) لاہور میں آپ کو عرصہ دراز تک سلسلہ کی عظیم الشان خدمات بجالانے کی توفیق ملی.آپ کی پُر جوش تبلیغی مساعی پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نہایت درجہ مسرت کا اظہار فرمایا.اس ضمن میں حضور کے مندرجہ ذیل دو مکتوب قابل ذکر ہیں.مکرمی با بوعبدالحمید صاحب 51 السلام علیکم آپ کی تبلیغی کوششوں کی رپورٹ پڑھ کر بہت ہی خوشی ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل فرمائے اور ان دوسرے دوستوں پر بھی جو اس کام میں حصہ لے رہے ہیں.ایک لمبا عرصہ تک نو مسلموں کا خیال رکھنا اور پختہ کرنا ضروری ہوگا.محمد یوسف کی بیوی میرے نزدیک اسلام پر زیادہ پختہ ہے وہی انہیں کھینچ کر قادیان لا ئی تھی.واللہ اعلم.خاکسار مرزا محمود احمد د مکرمی با بوعبدالحمید صاحب السلام علیکم آپ کی تبلیغی کوششوں سے آپ کے تازہ خطوط سے اطلاع ملی.اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت.جلد 25 221 سال 1969ء برکت دے.سنتا ہوں مسیحیوں میں سخت گھبراہٹ ہے اور غیر احمدیوں پر بھی اچھا اثر ہے.اگر یہ تحریک عقل اور فکر سے جاری رکھی جائے اور جلدی اور لا پرواہی سے کام نہ لیا جائے تو امید ہے بہت مفید ہو.جاوی لڑکوں کا معاملہ ناظر متعلقہ کے پاس گیا ہے چونکہ مالی حالت سخت کمزور ہے اس لئے ہر کام میں سوچ بچار ضروری ہوگئی ہے.خاکسار مرزا محمود احمد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے زمانہ امارت لاہور میں آپ کو جولائی واگست ۱۹۲۶ء میں قائمقام امیر کے فرائض سر انجام دینے کی توفیق ملی.- جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت قریشی محمد حسین صاحب مفرح عنبری والے خاص خدمات بجالاتے تھے اور حضرت اقدس کی ضرورت کی چیزیں خرید کر قادیان پہنچایا کرتے تھے اسی طرح خلافت ثانیہ میں ۱۹۲۱ء سے لے کر ۱۹۲۹ ء تک یہ خدمت آپ کے سپر د رہی.اس دوران خاندان مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ کا قیام لاہور عموماً آپ ہی کے مکان پر ہوا کرتا تھا.نیز دیگر معززین جماعت کی مہمان نوازی بھی اکثر آپ ہی کرتے تھے.حضرت مصلح موعود نے مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے لئے سات ممبروں پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن مقررفرمایا جس کے صدر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب تھے آپ کو بھی حضور نے اس کا ممبر نامزدفرمایا.یہ اہم کام آپ تقسیم برصغیر تک برابر سرانجام دیتے رہے.اکتوبر ۱۹۴۰ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو صدر انجمن احمد یہ قادیان کی تمام نظارتوں، دفتر محاسب اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے لئے آنریری آڈیٹر مقرر فرمایا.یہ خدمت بھی آپ نہایت اخلاص اور ذوق وشوق سے بجالاتے رہے بلکہ ایک عرصہ تک آپ نے لاہور سے قادیان تک کا کرایہ آمد و رفت بھی وصول نہیں کیا.آپ کی زندگی کا آخری کارنامہ یہ ہے کہ پیرانہ سالی کے باوجود آپ نے خطبات نور کو نہایت اہتمام سے دوبارہ مرتب فرمایا اور ان میں اضافہ کر کے ان کی پہلی جلد دسمبر ۱۹۶۸ء میں اور دوسری مارچ ۱۹۶۹ء میں شائع کرا دیں.اولاد :.۱.چوہدری عبدالمجید صاحب کارکن دفتر محاسب صدر انجمن احمد یہ ربوہ.۲.چوہدری عبدالباری صاحب بی اے سابق نائب ناظر بیت المال ہومیو پیتھک ڈاکٹر مدینہ کالونی لاہور.54
تاریخ احمدیت.جلد 25 222 سال 1969ء.چوہدری عبدالنور صاحب بی ایس سی ٹیوب ویل ڈیلر گلبرگ لاہور.۴.بلقیس بیگم صاحبہ اہلیہ خان بہادر مولوی محمد صاحب ایم اے ایل ایل بی مدراس - ۵- ثریا بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد عمر صاحب (لکھنو ).۶.سارہ بیگم صاحبہ مرحومہ ( شادی سے پہلے فوت ہو کر بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون).ے.سلمیٰ بیگم صاحبہ اہلیہ الحاج چوہدری شبیر احمد صاحب (سابق) وکیل المال اول تحریک جدید - ۸- بشری بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری بشارت احمد صاحب ملٹری اکاؤنٹس کراچی.حضرت پیر زاده رشید احمد صاحب ارشد آف گولیکی ولادت: قریباً ۱۸۹۹ ء بیعت و زیارت : ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء وفات : ۹ را کتوبر ۱۹۶۹ء جناب پیر رشید احمد صاحب ارشد کا شمار آخری صحابہ مسیح موعود علیہ السلام میں ہوتا ہے جیسا کہ آپ خود تحریر فرماتے ہیں.۲۳ را پریل ۱۹۰۸ء کو میرے والد صاحب (حضرت پیر محمد رمضان صاحب) فوت ہوئے اور میں چھوٹا سا آٹھ نو سالہ یتیم رہ گیا.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لا ہور رونق افروز ہوئے اور آخر مئی ۱۹۰۸ء میں برادر محترم قاضی ( ظہور الدین) امل صاحب نے جوحضور علیہ السلام کے ہمراہ تھے ہمیں لاہور بلوا بھیجا.تا کہ حضور علیہ السلام کی زیارت کی جاسکے.چنانچہ اخویم قاضی صاحب موصوف کے برادر اصغر جناب اجمل صاحب مجھے گولیکی سے ساتھ لے کر لاہور پہنچے اور غالباً ظہر کی نماز کے وقت میں پہلی مرتبہ حضور کی زیارت سے مشرف ہوا.جبکہ میں چھت کا پنکھا حضور ( علیہ السلام) پر کرتا رہا.اس کے بعد عصر کی نماز کا وقت آیا اور اخویم مکرم قاضی المل صاحب نے مجھے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بریں الفاظ پیش کیا کہ میرا پھوپھی زاد بھائی ہے اور اس کا باپ فوت ہو گیا ہے.یتیم کی والدہ کی استدعا ہے کہ حضور اس پر اپنا دست شفقت پھیریں.اس پر حضور ( علیہ السلام) نے اس عاجز یتیم بچے کی پیٹھ پر ایک دو مرتبہ دستِ مبارک پھیرا اور تین مرتبہ تھپکی دی.( جیسے شاباش کہنے پر کیا جاتا ہے ) اس کے بعد بیعت ہوئی اور خاکسار بھی دستی بیعت سے مشترف ہوا.بعد ازاں حضور علیہ السلام ) اندرون خانہ تشریف لے گئے اور ہم دونوں بھائی رات کی گاڑی سے واپس اپنے وطن گولیکی روانہ ہو گئے.گھر پہنچنے پر غالباً دوسرے یا تیسرے دن یہ سانحہ جانگداز سنا گیا کہ حضور ( علیہ السلام ) کا وصال ہو گیا ہے.انا للہ وانا الیہ راجعون.گھر بھر میں کہرام مچ گیا اور سخت صدمہ درج ہوا.حضور ( علیہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 223 سال 1969ء السلام) کے دست شفقت پھیرنے سے اس قدر خوشی و بشاشت ہوئی کہ باوجود ایک معمولی دیہاتی یتیم و بیکس کے بے انداز فخر محسوس کرتا تھا اور اب اس صحبت قدمی کا اثر ہے کہ نیاز مند سلسلہ عالیہ کی ناچیز خدمات بجالا رہا ہے اور اکثر تنہائی میں وہ وقت بلکہ منظر سامنے آتا ہے تو بے اختیار آنسو نکل آتے ہیں.پیرزادہ صاحب دس سال کی عمر میں قادیان آگئے تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کیا اور نیو سکول آف آرٹس سے ڈپلومہ لیا اور ٹائپ وغیرہ سیکھ کر اپنے تئیں سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا اور ۴۲ سال تک صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں میں قابل قدر خدمات بجالاتے رہے اور آڈیٹر و محاسب صدر انجمن احمدیہ کے عہدہ پر پہنچ کر ریٹائر ہوئے.طبیعت میں انکسار، نفاست اور حلیمی پائی جاتی تھی اور تندہی ، محنت اور جفاکشی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے.یتیم اور نادار طلباء کی فیس کی معافی اور مفت کتب مہیا کرنے کا خاص خیال رکھتے تھے اور اپنی ٹائپ مشین پر احباب کی درخواستیں مفت ٹائپ کر دیا کرتے تھے.شعر و ادب سے بھی خاص لگاؤ تھا.یاد گار سعید اور انگریزی کا ایک تبلیغی پمفلٹ آپ کی علمی یادگار ہے.آپ نے اپنے پسماندگان میں تین لڑکے اور دولڑکیاں چھوڑ ہیں.حضرت چوہدری علی محمد صاحب امیر حلقہ ریتی چھلہ قادیان ولادت تخمیناً ۱۸۹۵ء بیعت : پیدائشی احمدی زیارت : ۱۹۰۵ء وفات : ۱۴ را کتوبر ۱۹۶۹ء آپ کا اصل وطن گوکھو وال ضلع لائل پور تھا.آپ کے والد ماجد کا نام چوہدری غلام دین صاحب تھا.چوہدری علی محمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ بچپن میں قادیان آئے تو اکثر دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ باہر سیر کو ہم لوگ جایا کرتے تھے.حضرت اقدس کبھی مشرق کی طرف کبھی شمال کی طرف اور کبھی ریتی چھلہ کی طرف تشریف لے جاتے تھے.آپ سالہا سال تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مختار عام کی حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.۱۹۲۴ء کے پہلے تاریخی سفر یورپ میں آپ کو بطور خادم خاص حضور کے ہمراہ جانے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.ہجرت کے بعد چک D.B39 ضلع سرگودھا میں آباد ہو گئے.60
تاریخ احمدیت.جلد 25 224 سال 1969ء اولاد زوجه اول: فاطمہ بی بی صاحبہ.ان سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی.سلطان محمد صاحب.برہان محمد صاحب لقمان محمد صاحب امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ عنایت احمد صاحب نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ عنایت اللہ صاحب.رضیہ بیگم صاحبہ اہلیہ جمال دین صاحب.عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ غلام مصطفی صاحب قدسیہ بیگم صاحبہ اہلیہ عنایت احمد صاحب.امتہ اللہ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد قدسیہ بیگم صاحبہ کی ان سے شادی ہوئی تھی.) زوجه دوم: بیگم بی بی صاحبہ.ان سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی.نصیرمحمد صاحب.منیر محمد صاحب - جمیل محمد صاحب (صدر جماعت ۳۹ ڈی.بی ضلع خوشاب).نیم محمد صاحب.سلیم محمد صاحب.جمیلہ بیگم صاحبہ اہلیہ یوسف بیگ صاحب.حضرت ملک امام الدین صاحب سمبر یا لوی ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۵ء وفات : ۸ نومبر ۱۹۶۹ء حضرت حاجی ملک امام الدین صاحب سمبڑیالوی منشی اللہ رکھا صاحب کے فرزند کبر تھے.آپ کی زندگی کے بعض واقعات بہت ہی سبق آموز ہیں.قیام پاکستان کے بعد آپ فوراً پنجاب تشریف لے آئے.مگر آپ کو علم نہیں تھا کہ ایسے حالات در پیش ہوں گے کہ بعد میں سفر پر پابندی عائد ہو جائے گی.یہاں آکر آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات کی اور حضور سے ہدایات لے کران پر عمل کیا.جس کے نتیجے میں ان کی تمام جائیداد اور سرمایہ محفوظ رہا اور آپ بخیریت ہندوستان سے مستقل طور پر پاکستان ہجرت کر آئے.واپس تشریف لانے کے بعد آپ لاہور گئے.تو آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات کی.ملاقات کے دوران آپ نے عرض کیا کہ حضور دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ کا روبار میں مددفرمائے.میں ایک سال کی آمدنی خرچہ نکال کر تحریک جدید کو دوں گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیس ہزار روپیہ نفع دیا.دس ہزار روپیہ اپنے لیے اور دس ہزار روپیہ تحریک جدید کے لیے جیب میں ڈال کر آپ کراچی سے سمبڑیال کے لیے جارہے تھے کہ دس ہزار روپیہ چوری ہو گیا تو اسے اپنے حصہ میں شمار کر لیا اور الگ سے دس ہزار روپیہ آپ نے تحریک جدید میں دے دیا.چندہ کی ادائیگی کی طرف احباب اور عزیز واقارب کو اکثر تلقین فرماتے رہتے.عرصہ تک سمبڑیال کی جماعت کے سیکرٹری اصلاح وارشاد کے فرائض سرانجام دیتے رہے.عبادت گزار تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 225 سال 1969ء اکثر آدھی رات کو مسجد میں جا کر قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے.بعض دوست ان سے پہلے جانے کی کوشش کرتے مگر ہر روز ہی پہلے وہ آپ کو قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے پاتے.آپ چونکہ موصی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کا شرف حاصل کر چکے تھے.اس لیے بہشتی مقبرہ میں قطعہ صحابہ میں دفن ہوئے.61 حضرت منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی ولادت: قریباً ۱۸۸۵ء (الحکم ۲۸ را پریل ۱۹۳۵ء صفحہ ۳ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۳۵ء میں آپ کی عمر ۵۰ سال تھی جس سے سال ولادت ۱۸۸۵ء متعین ہوتا ہے ) بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۲۸/ ۲۹ نومبر ۱۹۶۹ء جناب منشی عبدالسمیع صاحب کپور تھلوی نے مولوی عبدالرحمن انور صاحب بوتالوی کو بتایا کہ ”میرے والد صاحب مجھ سے پہلے بیعت شدہ تھے.( آپ کے والد حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے ۲۴ مارچ ۱۸۹۷ء کو بیعت کا شرف حاصل کیا.از اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۱۸ طبع دوم مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم اے اشاعت دسمبر ۱۹۶۸ء.انہوں نے لدھیانہ میں بیعت کی تھی ) میں بیعت کے بعد جلسہ سالانہ پر بھی حضرت صاحب کے زمانہ میں قادیان آتا رہا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مل کر کھانا کھانے کا موقع بھی ملا ہے...ریویو آف ریلیجنز کے اجراء کے وقت ایک جلسہ کیا گیا جو مسجد اقصیٰ میں ہوا.آپ نے اس میں تقریر کی...مقدمہ کرم دین میں میں بہت دفعہ حضرت صاحب کے پاس گورداسپور جاتا رہا ہوں.گورداسپور میں جب کھانا پکتا تھا تو ملک غلام حسین صاحب کھانا پکایا کرتے تھے اگر سو آدمی آجائیں تب بھی وہی وزن ہوتا تھا اگر ڈیڑھ سو آ جائیں تب بھی وہی وزن ہوتا تھا.سردار فضل حق نے جو گورداسپور میں مسلمان ہوا تھا گورداسپور میں دریافت کیا کہ عورتوں کی تعلیم کتنی ہونی چاہیے.فرمایا اتنی ہونا چاہیے کہ نماز روزہ دینیات سے واقف ہو دوسرے یہ کہ خط لکھنا جانتی ہو خط لکھانے کے وقت غیر شخص پر اپنا حال نہ ظاہر کرنا پڑے.64 منشی صاحب کی خود نوشت روایات میں ہے:.جیسا کہ اور لوگوں کا حال ہوتا ہے کہ جب ان پر کوئی مقدمہ ہو جائے تو مارے فکر کے برا حال ہو جاتا ہے.گورداسپور کرم دین کے مقدمہ میں حضور کو دیکھا گیا کہ عدالت میں آواز پڑنے سے قبل
تاریخ احمدیت.جلد 25 226 سال 1969ء حضور بالکل اطمینان سے بلا کسی ترد دعام مجلس میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے.جب عدالت میں حضور کو آواز پڑتی تو بلا کسی تردد کے شیر کی طرح عدالت کے کمرہ کی طرف تشریف لے جاتے اور بڑی تیزی سے جاتے.کسی قسم کا فکر چہرہ مبارک پر ظاہر نہیں ہوتا تھا.گورداسپور کے مقام پر (حضرت) میاں شریف احمد صاحب جو ابھی کمسن تھے کھیلتے کھیلتے ادھر اُدھر ہو گئے.معلوم ہونے پر حضور نے فوراًدوستوں کو تلاش کے واسطے دوڑایا.چنانچہ (حضرت) میاں صاحب جلدی ہی مل گئے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام گھر سے ایک کھڑکی کے راستہ تشریف لاتے تھے تو میں کھڑکی کے پاس کھڑا ہوتا تھا کہ حضور سے مصافحہ کروں اور سلام عرض کروں.لیکن بہت کم اتفاق ہوتا اور عموماً حضور ہی اول السلام علیکم باہر تشریف لانے پر فرماتے.معمولی معمولی بات کا حضور فور از بانی یا تحریری کسی رقعہ کے حضور کو ملنے پر جواب ارشاد فرماتے تھے.آپ کی اہلیہ کا نام محترمہ عزیز فاطمہ صاحبہ تھا.اولاد بیٹے شریف احمد صاحب ان کے بیٹے لئیق احمد صاحب آجکل زعیم انصار اللہ کوٹ عبدالمالک ضلع شیخو پورہ ہیں)، عبداللطیف صاحب، حنیف احمد صاحب،عبداللہ صاحب،عبدالعلیم صاحب بیٹیاں: مریم صدیقہ صاحبہ اہلیہ حضرت حکیم مولوی نظام الدین صاحب آف بیگم کوٹ شاہدرہ لاہور، امتہ القدیر صاحبہ اہلیہ ظہور الحق صاحب امتۃ الرشید صاحبہ اہلیہ غلام حید ر صاحب پاپوش نگر کراچی، امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ غلام حیدر صاحب امتۃ الرشید صاحبہ کی وفات کے بعد امتہ الحمید صاحبہ کا نکاح بھی غلام حیدر صاحب سے ہو گیا تھا) حضرت سردار بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت قریشی محمد شفیع صاحب ولادت: ۱۸۸۸ء بیعت: ۱۹۰۵ء وفات: ۳۰ نومبر ۱۹۶۹ء آپ کے خاوند حضرت قریشی محمد شفیع صاحب حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے حقیقی بھانجے تھے.آپ المبا عرصہ قادیان میں حضرت خلیفہ اُسیح الاول کی خدمت میں رہیں.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھائی جس کے بعد بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد: قریشی مشتاق احمد صاحب کراچی.قریشی غلام احمد صاحب ( مختار عام صدر انجمن احمد یہ 66
تاریخ احمدیت.جلد 25 227 سال 1969ء ربوہ).قریشی احمد شفیع صاحب (سابق امیر ضلع میانوالی).قریشی محبوب الہی صاحب کراچی.امتہ الحفیظ صاحبہ اہلیہ ماسٹر خدا بخش صاحب سرگودہا.( قریشی اسماعیل عبدالمساجد صاحب ریٹائرڈ مینیجر M.C.B بینک ربوہ آپ کے پوتے ہیں جو کہ دار الصدر غربی حلقہ لطیف ربوہ میں مقیم ہیں.) حضرت میاں عمر دین صاحب ولادت : ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۹۰۶ء وفات : ۸ دسمبر ۱۹۶۹ء آپ مکرم میاں نبی بخش صاحب کے بیٹے تھے.آپ صحابی تھے اور سلسلہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.آپ جہاں جہاں بھی رہے جماعتی تنظیموں کے عہدہ دار رہے.آپ کی تبلیغ سے کئی احباب حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھائی اور بعد میں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.67 حضرت سید امجد علی شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ سیالکوٹ ولادت : ۱۸۸۷ء بیعت: ۱۹۰۰ء وفات : ۱۰ دسمبر ۱۹۶۹ء آپ حضرت سید فضیلت علی شاہ صاحب کے صاحبزادہ تھے.قادیان میں تعلیم پائی اور مارچ ۱۹۱۴ء میں غیر مبایعین سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصہ تک آنریری جنرل سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے فرائض سرانجام دیتے رہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بھی محبت والفت کا قلبی تعلق قائم رکھا.۲۸ جنوری ۱۹۴۴ء کو حضرت مصلح موعود نے دعوئی مصلح موعود فرمایا جس کے دو ماہ بعد اپریل ۱۹۴۴ء میں آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے دست مبارک پر بیعت کر لی اور پھر آپ جماعت احمد یہ سیالکوٹ میں نہایت اخلاص و محبت سے سیکرٹری تعلیم وتربیت ،سیکر ٹری نشر واشاعت، قضاء امارت ضلع اور امیر جماعت سیالکوٹ شہر کے فرائض نہایت احسن رنگ میں سرانجام دیتے رہے.احراری تحریک نے جب قیام پاکستان کے بعد سر اٹھایا تو آپ نے سیکرٹری نشر واشاعت کی حیثیت سے مسلسل کئی ٹریکٹ اور ہینڈبل شائع کر کے جہاد بالقلم کا حق ادا کر دیا.آپ ایک عالم باعمل اور نہایت متدین بزرگ شخصیت تھے.69 خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا:.حضرت سید امجد علی شاہ صاحب مرحوم آف سیالکوٹ سے میرا تعارف اس وقت ہوا تھا جب
تاریخ احمدیت.جلد 25 228 سال 1969ء آپ انجمن احمد یہ اشاعت اسلام لاہور ( غیر مبائعین ) کے جنرل سیکرٹری ہوا کرتے تھے.ان کی طبیعت میں شرافت تھی اور انہیں افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دوسرے غیر مبائع صاحبان کے طریق پر بغض اور دشمنی نہ تھی بلکہ وہ اس طرز عداوت اختیار کرنے والے غیر مبائعین کو ناپسند کرتے تھے.ان کی دلی خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں میں مکمل اتحاد نہ ہو سکے تو کم از کم مصالحت ضرور ہو جائے.انہیں قادیان آنے کی بھی دعوت دی گئی جسے انہوں نے بخوشی منظور کر لیا اور قادیان پہنچے.ہمارے استاد حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت نے اپنی طبیعت کے مطابق پورا پورا اکرام ضیف کیا.مجھے یاد ہے کہ خاکسار نے جب حضرت شاہ صاحب مرحوم کو کھانے پر اپنے گھر بلایا تو مذہبی گفتگو بھی نہایت پیارے انداز سے ہوئی.حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ کوئی ایسا طریق ہونا چاہیے کہ دونوں فریق کے اخبارات ایک دوسرے کے خلاف سخت زبانی نہ کریں.میں نے عرض کیا کہ یہ تو کچھ مشکل نہیں.ہمارے ہاں تو پہلے ہی بڑی احتیاط کی جاتی ہے.میں ان دنوں رسالہ فرقان قادیان کا ایڈیٹر تھا جو ان دنوں صرف غیر مبائعین کے متعلق مقالات شائع کرتا تھا اور ان کے اعتراضات کے جوابات دیا کرتا تھا.میں نے عرض کیا کہ آپ اس رسالہ کے کسی مضمون یا کسی فقرہ کے متعلق فرمائیں کہ وہ نازیبا ہے تو اس کے بارے میں معذرت شائع کر دی جائے گی اور آئندہ مزید احتیاط کی جائے گی.جماعتی روزنامہ الفضل بھی حضرت امام ہمام کے منشاء کے مطابق اس بارے میں بالکل خاموشی بھی اختیار کر سکتا ہے مگر آپ فرما ئیں کہ ”پیغام صلح کوکون روکے گا؟ حضرت شاہ صاحب اس پر سوچ میں پڑ گئے اسی مرحلہ پر میں نے یہ بھی عرض کیا کہ اصل بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی مہمات کی راہ میں آپ لوگوں (غیر مبائعین ) کا ذکر بالکل غیر ضروری ہے.ہمارا سیدھا مسلک ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ قادیان میں پیدا ہوئے.وہیں آپ کا مدفن ہے اور وہی شروع سے جماعت احمدیہ کا مرکز رہا ہے اور وہی آج ہمارا مرکز ہے.آپ کا دعوی مسیح موعود اور غیر تشریعی امتی نبی ہونے کا ہے جسے جماعت احمد یہ روز اول سے مانتی ہے اور یہ بات سب غیر احمدی بھی جانتے ہیں.جماعت کا عملی مؤقف بھی سب کو معلوم ہے.اس سارے موضوع میں غیر مبائعین کے ذکر کی کہیں ضرورت نہیں پڑتی.اس لئے ہماری تبلیغ تو آپ لوگوں کے ذکر کے بغیر ہوسکتی ہے اور ہو رہی ہے مگر آپ ( غیر مبائعین ) نے جو غلط مؤقف اختیار کیا ہے اس میں آپ اپنی تبلیغ یہاں سے شروع
تاریخ احمدیت.جلد 25 229 سال 1969ء کرتے ہیں کہ ہمارا مرکز لاہور ہے قادیان نہیں اور قادیانی تمہیں یہ یہ کہتے ہیں اور ہم تمہارے بارے میں یہ خیالات رکھتے ہیں.میں نے حضرت شاہ صاحب مرحوم سے یہ ساری باتیں کھل کر دردمندانہ انداز میں کی تھیں.حضرت استاذنا لمحترم سید محمد اسحاق صاحب نے متعددموقعوں پر حضرت شاہ صاحب سے نہایت مؤثر انداز میں گفتگو فرمائی تھی.سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے بھی حضرت شاہ صاحب کے اعزاز میں دعوت دی تھی.خاکسار کو بھی حاضری کا شرف حاصل تھا.اس مجلس میں میں نے حضور سے عرض کیا کہ حضور، شاہ صاحب کی خواہش ہے کہ اخبارات میں ایک دوسرے کے متعلق تلخ لہجہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ فریقین میں مصالحت ہو جانی چاہیے.حضور نے فرمایا کہ ہماری طرف سے تو صرف جواب دیا جاتا ہے اگر ادھر سے زیادتی نہ ہو تو ہماری طرف سے تو غیر مبائعین کا ذکر کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے.اگر شاہ صاحب پیغام صلح کے بارے میں انتظام کراسکیں گے تو ہم ہر طرح ایسی مصالحت کے لئے تیار ہیں بلکہ اسے پسند کریں گے.حضور کے ارشادات کا حضرت شاہ صاحب پر خاص اثر تھا اس کے تھوڑے عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرما دی کہ بیعت خلافت کر کے جماعتی خدمات میں حصہ لیں چنانچہ حضرت شاہ صاحب مجسم تبلیغ بن گئے.خاندانی شرافت و وجاہت کے علاوہ بہت سی ذاتی خوبیوں کے آپ مالک تھے گفتگو کا انداز محبت سے پر ہوتا تھا.طبیعت میں جو دوسخاوت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.صاحب علم بزرگ تھے ان کی گفتگو میں روحانیت کا رنگ جھلکتا تھا.مہمان نوازی ان کا خاص وصف تھا.سیالکوٹ کی جماعت کے سالانہ جلسوں کے موقعہ پر مجھے کئی مرتبہ حضرت شاہ صاحب کے ہاں قیام کرنے کا موقع ملا ہے وہاں روحانی ماحول میسر آتا تھا.اللہ تعالیٰ نے انہیں جماعتہائے ضلع سیالکوٹ کے امیر کے طور پر بھی خدمات بجالانے کی سعادت عطا فرمائی.تالیفات ا.(کتاب) تحقیق حق“ ( ناشر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور ) ۲.( پمفلٹ ) مولانا مودودی کے عقائد میں تبدیلی (۱۲ دسمبر ۱۹۵۱ء) ۳.( پمفلٹ) یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے مسلمانوں کو گالیاں دی ہیں.۴.بنی نوع انسان کو خالص توحید کی دعوت.۵.آل پارٹیز کانفرنس کا پروگرام.۶.دھو کہ کون دے رہا ہے.۷.مدافعت نمبرا عطاء اللہ بخاری صاحب کی
تاریخ احمدیت.جلد 25 230 سال 1969ء اسکیم.۸.مکالمہ مخاطبہ اولیاء اور ہمارا دیں.۹.احرار احمدی تنازع کے متعلق میاں ممتاز محمد دولتانہ صدرصو بہ مسلم لیگ کی تقریر ۱۰.ختم نبوت کا منکر کون.۱۱.خاتم ولایت اور اس کی بہن.۱۲.علماء شر کی نشانیاں.۱۳.ازالہ شر ۱۴.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوی کی حقیقت.۱۵.قادیانیوں کے بعد شیعوں کی باری.فتویٰ باز علماء کے ارادے.۱۶.جماعت احمدیہ کے عقائد.کیا وہ ہیں جو احرار کہتے ہیں یا جو وہ خود کہتے ہیں.۱۷.کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا.۱۸.ایڈیٹر صاحب اعتصام کا مشورہ اور ہماری گذارش.( مندرجہ بالا پمفلٹ سیالکوٹ شہر کے جن مطابع میں چھپوائے گئے ان کے نام یہ ہیں.تعلیمی پر لیں.مسلم الیکٹرک پریس.ریمل گا میٹڈ پریس نعیمی پریس.ممتاز برقی پریس) اولاد سیده مسلمی صاحبہ (اہلیہ سید محمود احمد صاحب).ڈاکٹر علی اسلم صاحب آف نیروبی.سیدہ رُشدی اہلیہ سیدار شد حسین صاحب.ڈاکٹر سید علی احسن صاحب.سید علی اعظم صاحب حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا متصل قادیان ولادت : ۱۸۹۱ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء آپ کے فرزند صو بیدار طفیل محمد صاحب تحریر فرماتے ہیں.71 ”میرے والد ۱۸۹۱ء کے ابتدائی ایام میں پیدا ہوئے.بچپن کے ایام آپ نے قادیان کی مقدس بستی میں ایک طالب علم کی حیثیت سے گزارے اور اللہ تعالیٰ نے) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا ہم جماعت ہونے کا شرف عطا فرمایا.قادیان میں تعلیم الاسلام سکول کے اولین طلبہ میں سے تھے.حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی زیارت کے مواقع کثرت سے میسر آتے.حضور کے پاک کلمات سن کر ایمان کی مضبوطی حاصل ہوئی.۱۹۱۰ء میں آپ نے میٹرک میں نمایاں کامیابی حاصل کی.اسی سال تعلیم الاسلام ہائی سکول ( قادیان) میں پڑھانے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے آپ کو مقرر فرمایا.اس وقت آپ کو پولیس میں سب انسپکٹر اور پوسٹ آفس سے پوسٹ ماسٹر کی ملازمت کے لئے پیشکش ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے حضور حاضر ہونے پر حضور نے آپ کو فرمایا.میاں! آپ خدمت سلسلہ کریں.اس عرصہ میں آپ نے مزید تعلیم کے لئے ۱۹۱۱ء تا ۱۹۱۳ء لاہور کے ایک کالج میں داخلہ لیا اور پھر دوبارہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں اپنی ملازمت پر حاضر ہو گئے ( قادیان گائیڈ ( مؤلفہ محمد یا مین
تاریخ احمدیت.جلد 25 231 سال 1969ء صاحب تاجر کتب قادیان) کے صفحہ ۴۲-۴۳ پر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے سٹاف کی فہرست کے نمبر ۸ پر آپ کا نام لکھا ہے.یہ کتاب پہلی اور آخری بار ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء کو شائع ہوئی ).آپ کی عرصہ دراز ملازمت میں ہزاروں طالب علم آپ سے علم حاصل کر کے اس وقت اعلیٰ مراتب پر فائز ہیں آپ نے تمام عمر اپنی ڈیوٹی کو محنت سے سرانجام دیا.۱۹۴۶ء میں جس وقت آپ سکول سے ریٹائر ہوئے اس وقت سکول کے ہیڈ ماسٹر حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب تھے جو حضرت والد صاحب کے بہت عزیز شاگردوں میں سے تھے.اس موقع پر الوداعی ایڈریس حضرت شاہ صاحب نے پیش کیا جس میں انہوں نے دلی جذبات اور نمناک آنکھوں سے الوداع کہتے ہوئے فرمایا.آج میں اپنے ایک ایسے بزرگ استاد کو الوداع کہہ رہا ہوں جن کی جدائی کی وجہ سے میں بہت تکلیف اور اپنے سکول میں بہت بڑا خلا محسوس کر رہا ہوں.حضرت شاہ صاحب جب بھی سکول کی کلاسوں کے معاینہ کرنے جاتے جب والد صاحب کی کلاس کے پاس سے گذرتے تو اپنی آنکھوں پر رومال رکھ کر گذرتے اور فرمایا کرتے کہ میں اپنے شفیق استاد کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا.پھر فرماتے میں ان کے کام کو کس طرح چیک کروں جبکہ میں ذاتی طور پر بچپن سے جانتا ہوں کہ آپ نے کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کیا.بچوں کو بہت محنت سے پڑھاتے ہیں ان سے محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے ہیں.پاکستان بننے کے بعد فوری طور پر جس گاؤں میں رہائش اختیار کی وہاں مسجد تعمیر کروائی جس میں سب احمدی دوست نماز ادا کرتے تھے.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول نے جو وصیت حضرت نواب محمد علی خانصاحب کی کوٹھی پر تحریر فرمائی تھی اس کا ذکر بھی بار بار کرتے.جب حضور نے مولوی محمد علی صاحب سے وہ وصیت پڑھوا کر سنی تو اس وقت آپ بھی اس مجلس میں موجود تھے اور پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات پر اولین فرصت میں حضرت خلیفتہ اُسیح الثانی کی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ بہت مخلص، سادہ مزاج اور دعا گو بزرگ تھے.خود بھی باقاعدگی سے نماز باجماعت ادا کرتے اور دوسروں کو بھی نماز با جماعت کی تلقین فرماتے.ایک لمبا عرصہ تک اپنے گاؤں (کھارا ) میں صدر حلقہ رہے اور ہجرت کے بعد نائب امیر حلقہ اور پھر امیر حلقہ کے فرائض انجام دیتے رہے.مرکز سے آنے والے بزرگوں کا بڑا احترام کرتے اور اپنی اولا دکو بار بار یہی نصیحت فرماتے کہ "مرکز کے ساتھ مضبوط تعلق رکھنا.مرکزی نقطہ خلافت ہے سب سے بڑھ کر عزت و احترام خلیفہ اسیح کا رکھنا باقی سب ان کے تابع ہیں.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور (حضرت) صاحبزادہ 74
تاریخ احمدیت.جلد 25 232 سال 1969ء مرزا طاہر احمد صاحب آپ کے شاگردوں میں سے تھے.اولاد : چوہدری محمد طفیل صاحب صو بیدار.چوہدری عبدالحمید صاحب آفیسر محکمہ انکم ٹیکس.چوہدری عبدالعزیز صاحب واقف زندگی سابق مہتمم مقامی ربوہ حال لندن.چوہدری عبدالمجید صاحب.چوہدری عبدالرشید صاحب کنٹرولر ریڈیو پاکستان.چوہدری عبدالوحید صاحب.چوہدری عبدالکریم صاحب.چوہدری عبدالحکیم صاحب.چوہدری عبدالحلیم صاحب طیب قائد ضلع لاہور.(ماخوذ از مکتوب چوہدری عبدالمجید صاحب ڈوگر مورخه ۳ /اکتوبر ۱۹۹۲ء)
تاریخ احمدیت.جلد 25 233 سال 1969ء ۱۹۶۹ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت ۱۹۶۹ء میں دیگر بہت سے بزرگ اور مخلصین جماعت بھی اپنے مولائے حقیقی سے جاملے جن کا اجمالی تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.ڈاکٹر عبید اللہ صاحب بٹالوی ہومیو پیتھ لاہور (وفات: ۹ جنوری ۱۹۶۹ء) حضرت خلیفہ اول کے دست مبارک پر بیعت کی اور عرصہ تک آپ کی صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہوا.آپ کی زندگی کے تین پہلو بہت نمایاں تھے.نماز باجماعت.عشق قرآن اور خدمت خلق.علمی ذوق بہت بلند تھا اور حلقہ احباب نہایت وسیع.کئی لوگ آپ کے ذریعہ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.مکرم بشیر الدین احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ نماز با جماعت کا یہ عالم تھا کہ بارش ہو آندھی ہو کچھ بھی ہو.ڈاکٹر صاحب نماز فجر مسجد میں آکر ادا کرتے.پیرانہ سالی کا عالم ضعف کی حالت مکان مسجد سے تقریباً ایک میل دور لیکن اس کے باوجود ہر روز بلا ناغہ نماز فجر مسجد میں ادا کرتے.ضعف کی وجہ سے راستے میں بیٹھ بیٹھ کر آتے لیکن آتے ضرور.تلاوت قرآن کریم کا شوق ہی نہیں بلکہ انہیں اس سے عشق تھا.جب تک نظر کام کرتی تھی اپنا زیادہ سے زیادہ وقت تلاوت قرآن کریم میں گزارتے.جب نظر بہت کمزور ہو گئی تو مسجد میں آنے والے دوستوں سے خواہش کرتے کہ مجھے قرآن کریم سناؤ.مولوی سید فضل کریم صاحب آف کلکته (وفات: ۱۵ جنوری ۱۹۶۹ء) مدرسہ احمدیہ قادیان کے تعلیم یافتہ تھے.پُر جوش داعی الی اللہ تھے.اپنی سائیکل پر سینکڑوں میل کا سفر اختیار کرتے.قریہ قریہ پیغام حق پہنچاتے تھے.نہایت غیور اور خلافت کے فدائی اور شیدائی تھے اردو، بنگلہ اور انگریزی زبانوں میں گفتگو کا خاص ملکہ رکھتے تھے.اپنی تبلیغی گفتگو میں مذہبی دلائل کے اندر عقلی ، سیاسی اور سائنسی چاشنی یوں سمو دیتے تھے کہ لطف دوبالا ہو جا تا اور مخاطب قائل ہوئے بغیر نہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 رہ سکتا تھا.77 234 سال 1969ء چوہدری عبید اللہ صاحب منہاس سابق امیر بہوڑ و چک نمبر ۸ ضلع شیخو پوره (وفات: ۲۰.۲۱ جنوری ۱۹۶۹ء) آپ پُر جوش داعی الی اللہ تھے.تحریک جدید کے ویر و وال مشن میں بھی تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.ڈاکٹر عنایت اللہ احمد صاحب سیالکوٹی (وفات: ۲۶ جنوری ۱۹۶۹ء) عرصہ تک سیکرٹری اصلاح وارشادر ہے.طرز گفتگو ایسی تھی کہ سننے والا احمدیت کا مداح ہو جاتا تھا.تحریک وقف عارضی کے مجاہد تھے.جوش اور غیرت ایمانی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی.چوہدری عبدالرحمن صاحب آف کر یام حال چک نمبر ۸۸ ج ب فیصل آباد (وفات: ۲۷ جنوری ۱۹۶۹ء) 79 آپ کے والد چوہدری مولا بخش صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھا تو آپ کا نام بھی اس میں درج کر دیا اس وقت آپ کی عمر صرف 9 سال تھی.مستجاب الدعوات بزرگ تھے.تقسیم سے قبل جماعت احمدیہ کر یام کے نائب امیر تھے اور چک نمبر ۸۸ میں آباد ہونے کے بعد پریذیڈنٹ کے عہدہ پر فائز رہے.میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ ضلع راولپنڈی (وفات: ۲۷ جنوری ۱۹۶۹ء) آپ ۱۹۰۰ء میں پیدا ہوئے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں رحیم بخش صاحب تلونڈی کھجور والی ضلع گوجرانوالہ کے اکلوتے صاحبزادے تھے جو ۱۹۰۷ء کے اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.آپ کا نام ”سلسلہ حقہ کے نئے ممبر کے زیر عنوان فہرست میں بدر ۹ مئی ۱۹۰۷ صفحہ ا کالم ۴ نمبر ۸۴ پر اشاعت پذیر ہوا.میاں عطاء اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:.
تاریخ احمدیت.جلد 25 وو 235 سال 1969ء مجھے احمدیت جیسی نعمت ورثہ میں بہت ہی سستی ملی.میں نے مڈل گوجر انوالہ مشن ہائی سکول سے پاس کیا.والد صاحب مرحوم نے میرے نام اخبار البدر“ جاری کروا رکھا تھا.اور میں بے خوفی سے بائیبل ٹیچر پر بائیبل کے پیریڈ ( گھنٹی) میں سوالات کی بوچھاڑ کیا کرتا تھا اور عموماًیہ گھنٹی میری بطور سز انچ پر کھڑے گذرتی.بحیثیت طالب علم میں نالائق نہ تھا لیکن مشن والوں کو میں پسند نہ تھا.نویں جماعت کی پڑھائی ابھی شروع نہ ہوئی تھی اور کچھ چھٹیاں تھیں.میں نے ایک مضمون لکھا جو کئی صفحات پر مشتمل تھا.میں اسے اپنی جیب میں ہی لے کر سکول گیا تو سکول کے ایک عیسائی طالب علم نے جو ہماری جماعت میں ہی پڑھتا تھا لیکن عمر میں باقی طالب علموں سے کافی بڑا تھا.دراصل بڑا ہوکر اسے منادی بن جانے کا خیال آیا اس لئے مزید تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا.اُس نے وہ مضمون میری جیب سے اُچک لیا اور وہ چونکہ قد اور جسم میں مجھ سے بڑا تھا میں کچھ نہ کر سکا.اس نے وہ مضمون پڑھ کر ہیڈ ماسٹر کو جو بنگالی عیسائی تھا دیدیا.اُس نے مجھے بلایا اور دھمکی دی.میں نے کہا کہ یہ میرے مذہب کی بات ہے.اُس نے کہا کہ تم سکول چھوڑ دو.میرے دل میں قادیان کے سکول میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق پہلے سے تھا.(اور میرے ہم جماعت طلباء نے بھی اس مدرسہ کو چھوڑ کر قادیان کے مدرسہ میں تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم سے آپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی ) اس طرح یہ واقعہ میرے لئے سبب خیر بنا اور میں ۱۹۱۵ء میں نویں جماعت میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں داخل ہوا.میرا بھائی بہن کوئی نہ تھا.میرے والدین چار بھائیوں اور دو بہنوں کا صدمہ دیکھے ہوئے تھے.جن میں سے دو جواں سال ہو کر فوت ہو گئے تھے، ان میں سے ایک نہایت خوش شکل اور مضبوط جسم بعمر پندرہ سال نویں جماعت میں پڑھتا تھا.دوسرے کی عمر بارہ سال تھی لیکن بڑا ہی ذہین تھا.۱۹۰۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری تقریر لاہور میں والد صاحب مرحوم کے ساتھ سنی تھی.حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد والد صاحب مرحوم نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کو غم غلط کرنے کے لئے بلایا ہوا تھا.ایک دن ہر دو بزرگان حضور علیہ السلام کی آخری تقریر کے متعلق گفتگو فرما رہے تھے تو برادرم مرحوم پاس کھڑا تھا.کہنے لگا حضور نے یوں نہیں.یوں فرمایا تھا.تو مولانا صاحبان نے بچے کی جرات کو دیکھ کر پوچھا کہ حضور نے اور کیا فرمایا تھا.تو برادرم مرحوم نے حضور علیہ السلام کی ساری تقریر فقروں کے فقرے جو یاد تھے سنا
تاریخ احمدیت.جلد 25 236 سال 1969ء دئے.دونوں بزرگوں نے اسے سینہ کے ساتھ لگا لیا اور دعائیں دیں کہ خدا اسے لمبی عمر دے.لیکن وہ ۱۹۱۱-۱۲ء میں فوت ہو گیا.اور اس صدمہ سے والد صاحب کی رہی سہی صحت بھی برباد ہو گئی.اور پھر اس پر بعض ٹھیکوں میں ایک دم خطر ناک گھاٹوں میں پڑ گئے اور میں ایک نادار طالب علم کی حیثیت سے قادیان میں وارد ہوا.اس طرح آپ نے دینی ماحول میں تربیت پائی.خلافت اولیٰ کے ایام میں ۱۹۱۰ء کا جلسہ سالانہ آپ نے دیکھا تھا.اس وقت سے حضرت مصلح موعود کی محبت آپ کے دل میں گھر کر گئی تھی.۱۹۱۵ء میں قادیان میں آجانے پر آپ حضور کی نوازشات کے مورد ہونے لگے.جن کا تسلسل حضور کی طرف سے ہمیشہ جاری رہا.اور آپ کے لئے دینی ودنیوی برکات کا موجب ہوا.آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ میٹرک کے امتحان کے قریب آپ کی والدہ ماجدہ محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ شدید بیمار ہو گئیں.اُن سے دریافت کیا گیا آیا آپ کے بیٹے کو قادیان سے بلوایا جائے تو انہوں نے منع کر دیا.اور فرمایا کہ مدرسہ کی تعلیم کا آخری سال ہے.میں اس کی تعلیم کا حرج کرنا نہیں چاہتی.کئی بچے فوت ہو چکے تھے اور میاں صاحب ہی واحد اولاد تھے اور طبعا ان سے والدہ ماجدہ کو بے حد پیار تھا.اس کے باوجود اس دانشمند اور ڈور بین اور صابرہ خاتون نے اپنے جگر گوشہ کی تعلیم کو اپنے جذبات پر ترجیح دی اور آخری ملاقات کے بغیر ہی اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئیں.مرحومہ کی تدفین موضع تلونڈی کھجور والی میں ہی ہوئی تھی.میاں صاحب کو امتحان کے بعد ہی والدہ محترمہ کی وفات کا علم ہوا اور یہ غم آپ کی ساری زندگی پر اثر انداز ہوا.لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ احساس بھی ہو گیا کہ والدہ ماجدہ کی نظر میں حصول علم کیسی اہمیت کا حامل تھا.میٹرک میں کامیاب ہو کر آپ نے اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا.انہی ایام میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے احمدی کا جھیئیٹس کے لئے احمد یہ ہوٹل کا انتظام فرمایا تھا.تا احمدی نوجوان حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم المسلم مرآة المسلم ( کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہوتا ہے ) کے مطابق ایک دوسرے کی تعلیم و تربیت میں ممد و معاون بن سکیں.حضور جب بھی لاہور میں تشریف لاتے تو آپ کا قیام از راہ شفقت احمد یہ ہوٹل میں طلباء کے پاس ہوتا.حضور وہیں نمازیں پڑھاتے ، درس دیتے اور تربیت فرماتے اور کھانا تناول فرماتے.اس طرح دنیوی تعلیم کے ساتھ ہی طلباء حضور کے ذریعہ روحانی علوم و فیوض سے بہرہ اندوز ہوتے.ان
تاریخ احمدیت.جلد 25 237 سال 1969ء احمد یہ ہوٹل لاہور میں قیام کے دوران ہی آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ تحریک شدھی کے خلاف جہاد کے لئے آپ بھی دوسری سہ ماہی کے پہلے وفد میں علاقہ ارتداد میں تشریف لے گئے.یہ وفد۲۰ جون ۱۹۲۳ء کو بعد نماز عصر قادیان سے روانہ ہوا.سیدنا حضرت مصلح موعود مع قادیان کے تمام احمدی احباب کے حسب دستور بیرون قصبہ کے بیرون تک ساتھ رہے اور پُر خلوص دعاؤں سے الوداع کہا.اس موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود نے تمام ارکان وفد کو شرف مصافحہ بھی بخشا.اخبار الفضل ۲۵ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱-۲ پر وفد کی روانگی کے کوائف اور اس کے معزز ممبران میں آپ کا یہ نام گرامی نمبر ۲۷ پر درج ہے.”میاں عطاء اللہ صاحب بی اے ایل ایل بی سٹوڈنٹ لاہور ۱۹۲۸ء میں قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد نواں شہر ضلع جالندھر میں پریکٹس کا آغاز کیا.۱۹۳۵ء کا سال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ایک ہنگامہ خیز سال ہے جبکہ مسٹر جے ڈی کھوسلہ سیشن حج گورداسپور نے عطاء اللہ بخاری کی اپیل کے سلسلہ میں اپنے رسوائے عالم فیصلہ میں سلسلہ احمدیہ اور اس کی بزرگ شخصیتوں پر ایسے ایسے کمینے حملے کئے جو کسی فاضل جج کے شایان شاں تو ایک طرف رہے، کسی شریف انسان کو بھی زیب نہ دیتے تھے.اس فیصلہ کے جواب میں میاں عطاء اللہ صاحب کے قلم سے ”مقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ بخاری اور مسٹر کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کے فیصلہ پر ایک تنقیدی نظر“ کے زیر عنوان ایک معرکہ آراء اور باطل شکن رسالہ شائع ہوا جو پچاس صفحات پر مشتمل اور اسلامک پریس گوجرانوالہ میں طبع ہوا تھا.اس رسالہ نے قانونی نقطہ نگاہ سے جسٹس کھوسلہ کے فیصلہ کے دجل و تلبیس کو چاک چاک کر کے اصل حقائق روز روشن کی طرح واضح کر دئے اور احرار ہندو کانفرنس اور حکومت پنجاب کی متحدہ کوششیں پیوند خاک ہو گئیں جسے میاں صاحب کے ایک شاہکار کی حیثیت سے ہمیشہ یادرکھا جائے گا.اس رسالہ کی روشنی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے آنریبل مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم حج ہائیکورٹ لاہور کی عدالت میں فیصلہ کھوسلہ کے خلاف نگرانی دائر کی گئی جس میں جماعت احمدیہ کو فتح مبین حاصل ہوئی اور کھوسلہ کے شرمناک ریمارکس خارج کر دئے گئے چنانچہ صدرانجمن احمد یہ قادیان کی سالانہ رپورٹ ۳۶ - ۱۹۳۵ء کے صفحہ ۱۵۲-۱۵۳ میں لکھا ہے :- وو مقدمہ مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری کے سلسلہ میں سال گذشتہ کی رپورٹ میں اس حد تک
تاریخ احمدیت.جلد 25 238 سال 1969ء ذکر کیا جا چکا ہے کہ دیوان سکھ آنند صاحب سپیشل مجسٹریٹ گورداسپور نے مولوی عطاء اللہ صاحب کو زیر دفعہ ۱۵۳ الف تعزیرات ہند مجرم قرار دیتے ہوئے چھ ماہ قید با مشقت کی سزا دی.اس سلسلہ میں سال زیر رپورٹ میں جو کارروائی ہوئی.اس کی تفصیل حسب ذیل ہے.مولوی عطاء اللہ صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف مسٹر ہے.ڈی کھوسلہ سیشن جج گورداسپور کی عدالت میں اپیل دائر کی.جس میں مسٹر کھوسلہ نے ملزم کے جرم کو محض اصطلاحی قرار دیتے ہوئے تا بر خاستگی عدالت کی برائے نام قید کی سزا دی.نیز اپیل کا فیصلہ کرتے ہوئے مسٹر کھوسلہ نے اپنے فیصلہ میں سلسلہ عالیہ احمد یہ اور اس کی بزرگ ہستیوں پر ایسے ایسے کمینہ حملے کئے جو کہ ایک حج کے شایانِ شان نہ تھے.گویا وہ فیصلہ مولوی عطاء اللہ صاحب کے متعلق نہیں تھا بلکہ سلسلہ عالیہ احمدیہ اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی شان والا صفات کے خلاف گندہ دہنی کا ایک پلندہ تھا.یہ فیصلہ ۶ جون ۱۹۳۵ء کو کیا گیا.از روئے قواعد سر کاری تاریخ فیصلہ کے دوماہ بعد تک گورنمنٹ اس کے خلاف اپیل کر سکتی تھی.کیونکہ گورنمنٹ اس مقدمہ میں مدعی تھی.اور ہمیں قوی امید تھی کہ گورنمنٹ برطانوی انصاف کے ماتھے پر اس سیاہ داغ کو کبھی بھی پسند نہ کرے گی.اور اس کے خلاف عدالت عالیہ لاہور میں اپیل کرے گی.مگر افسوس کہ گورنمنٹ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ اور بزرگان سلسلہ کی عزت کا ذرا بھی پاس نہ کیا اور صرف اپنے متعلق امور پر ہی عدالت عالیہ میں نگرانی دائر کی.اب ضرورت تھی کہ ہم خود اپنی اور سلسلہ عالیہ کی پوزیشن کو صاف کرنے کیلئے میدان میں آئیں اور قانونی چارہ جوئی کریں.اس کے لئے نظارت بیت المال کی امداد سے انداز ا۱۲۰۰۰ رو پید ا حباب جماعت سے مقدمہ کے اخراجات کے لئے جمع کیا گیا.اور عدالت عالیہ لاہور میں اس غیر منصفانہ فیصلہ کے ایسے حصوں کے خلاف جن میں سلسلہ کی توہین کی گئی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی طرف سے نگرانی دائر کی گئی.مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور کو اس مقدمہ کا پیروکار مقرر کیا گیا.مقدمہ کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک کثیر رقم بطور فیس برداشت کر کے ڈاکٹر سر تیج بہادر سپر و بیرسٹر ایٹ لاءالہ آباد ہائیکورٹ کو اس مقدمہ میں پیشی کے لئے بلایا گیا.اس مقدمہ کے لئے بہت ساریکارڈ جمع کیا گیا اور سلسلہ کے بہت سے مخلص اصحاب اور کارکنان رات دن نہایت محنت سے کام کرتے رہے.آخر بتاریخ ۱ نومبر ۱۹۳۵ء آنریبل مسٹر جسٹس کولڈ سٹریم حج عدالت عالیہ لا ہور نے اس نگرانی کا فیصلہ کیا.جس میں مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بہت سے ایسے فقرے قلمزن کئے جو
تاریخ احمدیت.جلد 25 239 سال 1969ء کہ سلسلہ عالیہ احمد یہ اور بزرگان سلسلہ احمدیہ کی توہین کا موجب تھے.مسٹر کھوسلہ کے فیصلہ کے خلاف سخت ریمارکس کئے اور تحریر کیا کہ سیشن جج نے خواہ مخواہ اپنا راستہ چھوڑ کر ایسے فریق کو کو سا ہے جو فریق مقدمہ نہیں تھا.اس سے شبہ پڑتا ہے کہ جج نے فیصلہ کو منصفانہ نگاہ سے نہیں دیکھا.مگر چونکہ مدعی (گورنمنٹ) کی طرف سے اس فیصلہ کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں تھی اس لئے جسٹس کولڈ سٹریم اس سارے فیصلے پر غور نہیں کر سکتے تھے.مگر تا ہم جس حد تک قانون ان کو اجازت دیتا تھا انہوں نے نہایت انصاف سے کام لیا.اس مقدمہ میں مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.جناب مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر گورداسپور.ڈاکٹر سرتیج بہادر سپر والہ آباد.مولوی فضل الدین صاحب پلیڈ ر قادیان.جناب چوہدری اسد اللہ خان صاحب بیرسٹر ایٹ لاءایم.ایل.سی لاہور.جناب پیراکبر علی صاحب ایڈووکیٹ ایم ایل سی فیروز پور.جناب مسٹر سلیم صاحب بیرسٹر لا ہور اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری کی سعی اور محنت قابلِ شکریہ وامتنان ہے.جسٹس کولڈ سٹریم حج عدالت عالیہ لاہور کے اس فیصلہ کو بزبان انگریزی دس ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا اور ہندوستان اور ممالک غیر میں بھجوایا گیا اور بھجوایا جا رہا ہے تا کہ مسٹر کھوسلہ کے گمراہ کن فیصلہ سے جو مکر وہ اثر انگریزی دان دنیا میں پھیلا ہوا ہے وہ زائل ہو سکے.میاں عطاء اللہ صاحب اپریل ۱۹۳۷ء میں کورٹ آکشیپیر کے عہدہ پر فائز ہو کر نواں شہر سے امرتسر منتقل ہو گئے.اس موقع پر ضلع گورداسپور کے مخلص احمدیوں کو ایک پُر خلوص الوداعی ایڈریس پیش کیا گیا.امرتسر میں بھی ملک کے بٹوارہ (اگست ۱۹۴۷ء) تک سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے قیمتی مواقع میسر آئے.قبل ازیں آپ ۱۹۲۹ء سے گورداسپور اور پھر ۱۹۳۰ء سے ۱۹۳۷ء تک نواں شہر یا کر یام کے نمائندہ کی حیثیت سے مجلس مشاورت قادیان شرکت فرماتے رہے.امرتسر میں آپ ۱۹۴۴ء کے سوا ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۷ء تک باقاعدگی سے مشاورت میں امرتسر کی نمائندگی کا کمال خوبی سے فریضہ ادا کیا.نظارت علیا، نظارت امور عامه نظارت امور خارجه، نظارت بہشتی مقبره و تالیف و تصنیف و نظارت بیت المال کی کمیٹیوں کے رکن کی حیثیت سے اہم خدمات بجالاتے رہے.قیام پاکستان کے بعد آپ ہجرت کر کے راولپنڈی میں مقیم ہو گئے اور سالہا سال تک جماعت احمد یہ راولپنڈی کی امارت سنبھالی اور وہ از سر نو ترقی کی راہ پر گامزن ہوگئی.مسجد نور مری روڈ راولپنڈی
تاریخ احمدیت.جلد 25 240 سال 1969ء کی تعمیر آپ کے زمانہ امارت کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے.آپ اردو، فارسی اور عربی کے فاضل بزرگ، بہترین انشاء پرداز اور قادر الکلام لیکچرار تھے.جلسہ سالانہ ربوہ کے مقدس سٹیج سے درج ذیل عنوان پر آپ کی علم و معرفت سے لبریز تقاریر ہوئیں اور بہت مقبول ہوئیں اور سلسلہ کے شعبہ نشر واشاعت کی طرف سے شائع کی گئیں.ا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم (جلسه سالانه ۱۹۵۴ء) ۲.حیات مسیح کے عقیدہ کے نقصانات (جلسہ سالانہ ۱۹۵۷ء) ۳ معجزات حضرت مسیح موعود علیہ السلام (جلسه سالانه ۱۹۵۸ء) ۴.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور عبادات ( جلسہ سالانہ جنوری ۱۹۶۰ء) حافظ شفیق احمد صاحب (وفات: ۳۱ جنوری/ یکم فروری ۱۹۶۹ء) سلسلہ کے بزرگ شاعر جناب قیس مینائی صاحب نجیب آبادی کے برادر اصغر تھے.۱۹۳۶ء سے تا دم آخر حافظ کلاس کے معلم کی حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.جماعت احمدیہ کے بہت سے حفاظ آپ کے شاگرد تھے.حق تعالیٰ نے انہیں لحن داؤدی عطا فرمایا تھا.قرآن کریم بہت خوش الحانی سے پڑھتے تھے.جلسہ سالانہ کے موقع پر سالہا سال تک آپ کو تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل ہوا.بہت صابر و شاکر، کم گو اور مرنجان مرنج طبیعت رکھنے والے درویش صفت بزرگ تھے.جن کی زندگی مولانا ابوالعطاء صاحب کے الفاظ میں " قابل رشک مومنانہ زندگی تھی.الحاج احمد عُکاشی صاحب (وفات: ۲ فروری ۱۹۶۹ء) علاقہ اروشه ( تنزانیہ، مشرقی افریقہ) کے ایک نہایت مخلص اور مخیر بزرگ اور نہایت دلیر مبلغ تھے.جماعتی کاموں اور مالی جہاد میں نہایت شوق سے حصہ لیتے تھے.تبلیغ کا تو جنون تھا چنانچہ اپنے علاقہ میں آپ نے اکثر بڑے افسران کو تبلیغ کی.اپنے قریبی رشتہ دار کے ایک یتیم بچہ کی بڑی محبت سے پرورش کی اور پھر اسے اپنے خرچ پر جامعہ احمد یہ ربوہ میں بغرض تعلیم بھیجا.یہ نو جوان محمد عبدی تھے.آپ نے وفات سے قبل اپنے تمام خاندان کو جمع کر کے اپنی آخری وصیت ٹیپ ریکارڈ کی جس
تاریخ احمدیت.جلد 25 241 سال 1969ء میں پورے خاندان کو جماعت احمدیہ سے ہر دم وابستہ رہنے کی تاکید کی اور کہا کہ اس بات میں ذرا بھر شبہ نہیں کہ روئے زمین پر صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس میں شامل ہو کر انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کر سکتا ہے.وصیت میں آپ نے اپنے مکانوں میں سے ایک مکان جماعت احمدیہ کے نام وقف کیا.84 راجہ محمود امجد خان صاحب جنجوعه (سرگودھا) (وفات: ۹فروری۱۹۶۹ء) آپ میجر جنرل افتخار جنجوعہ ہلال جرأت کے والد تھے.حضرت ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب کے چچازاد بھائی کے فرزند تھے.بہت مخیر اور فیاض ہونے کے علاوہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.آبائی وطن ڈنگہ ضلع گجرات تھا.شمس الدین خان صاحب امیر جماعت پشاور وڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن (وفات: ۱۴فروری ۱۹۶۹ء) آپ پیر کوٹھا شریف سیدا میر احمد صاحب کے مرید خاص خلیفہ حافظ حاجی نور محمد صاحب نقشبندی کے فرزند اور مولوی مسیح الدین صاحب پشاور کے برادر اصغر تھے.۷ ستمبر ۱۹۲۰ء کو داخل احمدیت ہوئے اور سلسلہ کے اخلاص و فدائیت میں جلد جلد ترقی کرنے لگے اور بالخصوص قیام پاکستان کے بعد پشاور و ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے امیر کی حیثیت سے قابل قدر خدمات انجام دیں.آپ سلسلہ احمدیہ کے ایک غیور اور جانثار سپاہی تھے.صاحب رؤیا و کشف اور فدائی بزرگ تھے.ان کے دل میں زبر دست تڑپ تھی کہ احمدی نوجوان دینی شعائر کے پابند ہوں اور اسلام کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں.اپنی عظیم الشان خدمات کے باعث حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی منظوری سے بہشتی مقبرہ کے قطعہ صحابہ کرام میں سپردخاک کئے گئے.آپ کی اہلیہ امتہ العزیز بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ آپ جب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو آپ کے دل میں خیال گذرا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے غیر تشریعی نبی امتی نہیں گذرا.اس لئے حضور کا مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا ہے.تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ حضور فرماتے ہیں میں خدا تعالیٰ کا پیارا نبی ہوں.86 87.
تاریخ احمدیت.جلد 25 حضرت امتہ الحمید بیگم صاحبہ (وفات: ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء) 88 242 سال 1969ء آپ ۱۹۰۶ء میں پیدا ہوئیں.آپ محترم چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی کی اہلیہ ، سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور مخلص صحابی حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی پٹواری ( یکے از اصحاب کبار ۳۱۳) کی صاحبزادی، حضرت بابا محمد حسن صاحب واعظ ( موصی اوّل.والد ماجد حضرت مولا نا رحمت علی صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا) کی بھتیجی ، حضرت مولوی محمد الدین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ کی نسبتی بہن اور چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان کی ماموں زاد بہن تھیں.آپ پیدائشی احمدی تھیں.حضرت مولوی محمد الدین صاحب تحریر فرماتے ہیں:.میں تصدیق کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو دیکھا ہوا تھا“.آپ کو حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ حرم سید نا حضرت مصلح موعود کی مبارک اولاد کی رضاعی والدہ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.اور جیسا کہ حضرت ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے اپنی ۸ دسمبر ۱۹۸۲ء کی تحریر میں رقم فرمایا آپ لجنہ کی ابتدائی ممبرات میں سے تھیں.کلکتہ ،لکھنو ، کوئٹہ اور راولپنڈی وغیرہ مقامات میں آپ نے سیکرٹری لجنہ اماءاللہ اور صدر لجنہ اماءاللہ کی حیثیت سے ۳۶ سال تک بے لوث خدمات سرانجام دیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد سے بہت محبت وعقیدت رکھتی تھیں اور ان کی خدمات بجالانے میں سرشار رہتی تھیں.مرحومہ نے تین لڑکے اور چھ لڑکیاں اپنی یاد گار چھوڑیں.20 فاطمہ بیگم صاحبه زوجه حکیم یوسف علی خان صاحب (وفات: ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء) آپ ۱۹۰۱ء میں پیدا ہوئیں.آپ کے والد صاحب حضرت قریشی غلام حسین صاحب اور والدہ صاحبہ دونوں کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.آپ کل پانچ بہن بھائی تھے.آپ کی بڑی ہمشیرہ حیات بیگم صاحبہ کی شادی حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بقا پوری سے ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 243 سال 1969ء آپ کی شادی کم عمری میں ہی حکیم یوسف علی خان صاحب سے ہوئی مگر آپ نے احسن طریق سے گھر چلایا.طبیعت کی حلیم اور صابرہ وشاکرہ خاتون تھیں.آپ کا فی عرصہ قادیان بھی رہیں اور بطور سیکرٹری مال کے خدمات بھی سرانجام دیتی رہیں.آپ کو بری رسومات اور بدعات سے سخت نفرت تھی.غیر احمدی مستورات کو بھی بری رسومات کے نقصانات سے آگاہ کرتی رہتی تھیں.ایک دفعہ آپ کا پوتا طاہر منصور سخت بیمار ہو گیا.بہت علاج کئے مگر جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا.بعض غیر احمدی خواتین نے مشورہ دیا کہ آپ کسی پیر فقیر کی درگاہ پر جائیں اور منت مانیں.آپ نے کہا کہ اے میرے پیارے خدا مجھے شرک سے بچائیو اگر اس بچے کی زندگی ہے تو تیرے در سے ہی ملے گی.چنانچہ خدا تعالی نے آپ کی دعاؤں کے ذریعہ بچہ کو معجزانہ شفا دی.حضرت خلیفہ ایچ کی جانب سے جب بھی چندہ کی تحریک ہوتی تو آپ اس میں حصہ لیتی تھیں.ہر سال جلسہ سالانہ میں شرکت کرتیں اور ہمہ تن گوش ہو کر جلسہ کی کارروائی سنتیں.آخری بیماری میں بھی جلسہ پر گئیں.آپ کمزوری کے باعث چل نہیں سکتی تھیں مگر پھر بھی اپنی بڑی ہمشیرہ صاحبہ کے ساتھ تانگہ میں سوار ہو کر جلسہ گاہ تک آئیں اور حضور انور کی تقریر سنی.آپ غرباء ومساکین اور گھریلو ملازمہ سے بھی اچھا سلوک کرتیں.قرآن شریف کی روزانہ تلاوت کرتی تھیں اور جب تک صحت اچھی رہی پورے روزے رکھتی رہیں.مورخہ ۲۷ فروری ۱۹۶۹ء بروزعید الاضحی بوقت ۲ بجے شب آپ نے وفات پائی.آپ موصیبہ تھیں.اسی دن صبح جناز ہ ربوہ لایا گیا.بعد از نماز عصر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.91 ملک امان خان صاحب آف بالاکوٹ (وفات: ۵مارچ ۱۹۶۹ء) آپ جماعت احمد یہ بالاکوٹ کے ابتدائی بیعت کرنے والوں میں سے تھے.جماعت احمد یہ بالا کوٹ کے قیام کے بعد آپ کو شدید مشکلات پیش آئیں لیکن آپ نے استقامت کا نمونہ دکھایا.سلسلہ کے لئے بہت غیرت رکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء سے بہت محبت رکھتے تھے.جناب عبدالقادر صاحب آف ڈیٹن ، اوہایو، امریکہ (وفات ۶ ۱ مارچ ۱۹۶۹ء بعمر ۸۷ سال)
تاریخ احمدیت.جلد 25 244 سال 1969ء آپ ڈیٹن جماعت کی روح رواں تھے.جب میجر عبدالحمید صاحب مربی سلسلہ نے ڈیٹن میں مسجد کی تعمیر کی تجویز پیش کی تو آپ نے سب سے پہلے ایک ہزار ڈالر اس نیک مقصد کے لئے پیش کر دیئے اور پھر ساری جماعت نے اس نیک نمونہ کی پیروی کی.بعد ازاں تحریک پر آپ نے پانچ ہزار ڈالر مزید ادا کر دئے.بڑھاپے کے باوجود آپ باقاعدگی سے مسجد میں حاضر ہو کر نماز ادا کرتے اور دوسری جماعتی تقریبات میں شریک ہوتے.مرحوم آخر تک مسجد ڈیٹن کے مؤذن رہے.آپ کی آواز میں خاص کشش تھی.93 بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ جنجه ( یوگنڈا) (وفات: یکم اپریل ۱۹۶۹ء) اصل وطن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ.یوگنڈا کے نہایت ہی باعمل پُر جوش اور سرگرم احمدی تھے.سلسلہ احمدیہ کے لئے قربانی مبلغین کا خصوصی احترام اور تعاون، مہمان نوازی اور دعوت الی اللہ آپ کا طرہ امتیاز تھا.جہ کی خوبصورت مسجد اور احمد یہ مشن ہاؤس دونوں عمارتیں آپ کی جدو جہد اور سعی بلیغ کا ثمر ہیں.مہمانوں کی خدمت کے لیے وہ خود اور ان کا گھرانہ وقف تھا.افسروں میں اپنی دیانت و امانت اور فرض کی ادائیگی کے لیے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.غیر از جماعت دوستان کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے اور ان کے خلوص اور نیک روی کے باعث بہت عزت کرتے.کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب انچارج احمد یہ ڈسپنسری لیگوس (وفات: ۵/اپریل ۱۹۶۹ء بمقام لیگوس) وطن مالوف مدینہ ضلع گجرات.نائیجیریا میں سلسلہ کے اولین میڈیکل مشنری تھے.آپ زندگی وقف کرنے کے بعد ۱۹۶۱ء میں اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لیے نائیجیر یا روانہ ہو گئے.ان دنوں آپ کی صحت بھی کوئی ایسی اچھی نہ تھی اور ڈسپنسری کے آغاز کے لیے محنت بھی معمولی سے زیادہ در کار تھی لیکن ڈاکٹر صاحب نے شبانہ روز محنت کر کے تمام ضروری امور سرانجام دیے اور ان تمام عوامل کو جمع کیا جو ڈسپنسری کے لیے ضروری تھے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو آٹھ سال تک اس ڈسپنسری کے ذریعہ خدمت خلق کا قابل رشک موقع عطاء فرمایا.طبی قابلیت کے علاوہ آپ میں مریضوں سے ہمدردی کا جذبہ بھی موجود تھا.ڈسپنسری بند ہو جانے کے بعد بھی آپ کے گھر مریض
تاریخ احمدیت.جلد 25 245 سال 1969ء آجاتے تھے.بعض اوقات تو بیان کرتے کہ آدھی رات کے وقت ایک مریض آگیا اور مجھے اتنی دیر تک اس کے علاج کے لیے مصروف رہنا پڑا کہ تھک گیا اور یوں معلوم ہونے لگا کہ دل کی تکلیف شروع ہوگئی ہے.آپ کے اس ہمدردی کے جذبہ نے ہی آپ کو ہر دلعزیز بنایا ہوا تھا اور لوگوں میں دیگر ڈاکٹروں کی نسبت آپ کی بہت زیادہ عزت تھی.یوم التبلیغ کے موقعہ پر یا اتوار کے روز تبلیغی پروگراموں میں آپ نہایت ذوق وشوق سے حصہ لیا کرتے.لیگوس سے کئی میل دور سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے جھونپڑوں کے سامنے پمفلٹ ہاتھ میں لیے آپ لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچاتے.خدا کے فضل سے آپ کے ذریعہ ہزار ہا نفوس صحت یاب ہوئے.نہایت پر جذب شخصیت کے حامل تھے.واقفین زندگی کا آپ کے دل میں بے حد احترام تھا اور آپ ان کی غیر معمولی طور پر حوصلہ افزائی فرماتے.جلسہ سالانہ نائیجیریا کے موقع پر میڈیکل ایڈ کے آپ ہی منتظم ہوتے تھے.حضرت چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ ملتان (وفات: ۷ اپریل ۱۹۶۹ء) عالمی شہرت کے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نوبیل انعام یافتہ کے والد ماجد تھے.۲ستمبر ۱۸۹۱ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کی.۱۹۱۴ء سے ۱۹۴۵ء تک جماعت احمدیہ ملتان کے مختلف عہدوں پر ممتاز رہے اور بالآخر امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع ملتان کے منصب پر فائز ہوئے.اپریل ۱۹۵۹ء سے دسمبر ۱۹۶۲ ء تک لندن میں قیام فرمار ہے.اس دوران آپ نے سیکرٹری تعلیم و تربیت جماعت احمد یہ لندن کے فرائض سرانجام دیئے اور ۱۷۰ کے قریب لیکچر دیئے.۱۹۶۲ء میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا.آپ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق مستجاب الدعوات، صاحب کشف بزرگ اور اہل اللہ میں سے تھے.ملک حبیب الرحمن صاحب انسپکٹر سکولز و ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ تحریر فرماتے ہیں.آپ کی شادی کو ابھی تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک فرشتہ ہے جو ایک خوبصورت بچہ کو ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے اور کہتا ہے کہ یہ آپ کا عبدالسلام ہے.اسی طرح ایک دفعہ دیکھا کہ محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے پاس ایک نہایت خوبصورت چوغہ ہے.چوہدری صاحب نے آپ سے فرمایا.یہ عبد السلام کے لئے ہے.عزیزم عبدالسلام ابھی بچہ ہی تھا کہ آپ نے دیکھا کہ عزیز ایک نہایت بلند کھجور پر چڑھ رہا ہے اور اتنی بلندی پر
تاریخ احمدیت.جلد 25 246 سال 1969ء پہنچ گیا ہے کہ نظر نہیں آتا.یہ عزیز کے غیر معمولی بلند مقام کی طرف اشارہ تھا.غرضیکہ اللہ تعالیٰ کا سلوک ان سے ایک فرمانبردار متقی بندے کا سا تھا.یہ کشوف جس شان سے پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں اس کی تفصیل محتاج بیان نہیں.آپ کی مفصل سوانح حیات چوہدری محمد حسین“ کے نام سے مولانا شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ( متوفی ۱۲ راکتو بر۱۹۷۲ء) نے مرتب فرمائی جو پہلی بار ۱۹۷۴ء میں نقوش پر لیس اردو بازار لا ہور سے چھپی اور محمد احمد اکیڈمی رام گلی نمبر ۳ لا ہور نے شائع کی ) محترم چوہدری محمد حسین صاحب والد مکرم پروفیسر عبد السلام صاحب نوبل انعام یافتہ کے سوانح آج سے ۱۵-۲۰ سال قبل محمد احمد اکیڈیمی رام گلی نمبر ۳ نے شائع کئے تھے.پیش لفظ کے طور پر محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے لکھا.جناب چوہدری محمد حسین صاحب سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ان منتخب افراد میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی نہایت صلح صفائی، پاکیزگی اور طہارت، ایمانداری اور سچائی، صدق و دیانت اور حسن و احسان کے ساتھ گزاری.اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دئے.لوگوں سے ہمیشہ اخلاق و مروت سے پیش آئے.جائز ہمدردی ہر شخص سے کی.ناجائز طرفداری کبھی کسی کی نہ کی.حق بات کے کہنے میں اور صداقت کے اظہار میں کبھی لومتہ لائم کی پرواہ نہیں کی.دعوت الی اللہ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا.جب تک ملازم رہے نہایت نرمی ، ملائمت اور دلائل کے ساتھ لوگوں سے گفتگو کرتے رہے.جب ملازمت سے ریٹائر ہوئے تو خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا اور دن رات نہایت انہماک کے ساتھ دعوت الی اللہ میں مصروف رہے.یہاں تک کہ مولائے حقیقی سے جاملے.اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے.اور ان پر رحمتوں کی بارش برسائے اور ان کی اولا د کو مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.خوش قسمتی سے اپنے اس ملفوظات کا ایک کافی ذخیرہ حضرت چوہدری صاحب اپنے پیچھے چھوڑ گئے.یہ مختلف یادداشتوں، نوشتوں، تحریروں اور شذرات کا مجموعہ ہے جو ان کے لائق فرزند ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے پاس محفوظ تھا اور جس کو میں نے ان سے لے کر ایک ترتیب کے ساتھ خود چوہدری صاحب کے اپنے الفاظ میں یہاں درج کر دیا ہے.اور اس طرح اس کتاب کی شکل ایک (Autobiography) آٹو بائیوگرافی (خود نوشت سوانح حیات) کی ہو گئی ہے.یہ خود نوشت حالات امید ہے بہت سوں کی
تاریخ احمدیت.جلد 25 247 سال 1969ء ہدایت کا موجب ہوں گے.اور اکثر لوگ ان کو پڑھ کر اپنے افعال و اعمال کو زیادہ بہتر اور زیادہ پسندیدہ بنا سکیں گے.حضرت چوہدری صاحب نے اپنی نجی زندگی اور اپنے سوانح حیات کے جو واقعات و حالات وقتاً فوقتاً اپنی ڈائریوں میں لکھے وہ میں نے سب ایک جگہ جمع کر دیئے ہیں اور انہیں سے اس کتاب کی ابتدا کی ہے.اس کے بعد چوہدری صاحب نے جو بکثرت حالات و واقعات اور مشاہدات مختلف اوقات میں اپنی ڈائریوں میں درج کئے وہ بھی قارئین کرام کی خدمت میں پیش کئے گئے ہیں.کتاب کا مغز اور عطر دراصل یہی حصہ ہے.جس میں آپ کو ہر قسم کے حالات و افکار ملیں گے.کتاب کے بعض اہم حصے آپ کے لائق اور قابل فرزند ڈاکٹر عبدالسلام نے مرتب کئے ہیں.آپ کی وفات کے کوائف اور تدفین کی کیفیت اخبارات سے لے کر میں نے شاملِ کتاب کر دی ہے.حضرت چوہدری صاحب کے ارتحال پر جن بزرگوں نے آپ کے متعلق اپنے مضامین میں نہایت پُر جوش اور نہایت پُر خلوص الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا میں نے الفضل میں ان سب مضامین کا مطالعہ کر کے ان کا خلاصہ آخر کتاب میں شاملِ اشاعت کر دیا ہے.میرا دوستی اور محبت کا تعلق حضرت چوہدری صاحب کے ساتھ ۱۹۳۲ء سے تھا جبکہ میں جھنگ کے ایک نیم سرکاری اخبار عروج کا ایڈیٹر تھا.اور حضرت چوہدری صاحب محکمہ تعلیم جھنگ کے ہیڈ کلرک تھے.اس لئے مجھے ان کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.جب میں جھنگ سے چلا آیا اور حضرت چوہدری صاحب بھی ملتان تبدیل ہو گئے اور پھر ریٹائر ہو گئے.اس کے بعد بھی ہم دونوں کے باہمی تعلقات میں فرق نہ آیا بلکہ محبت اور موڈت برابر بڑھتی رہی.یہاں تک کہ موت کے زبر دست ہاتھ نے ان کو مجھ سے جدا کر دیا.اس تمام طویل عرصے میں میں نے ہمیشہ ان کو نہایت شفیق و خلیق، ہمدرد و ملنسار، مستعد و ہشیار، ایماندار و کارگذار، خلوص و الفت اور امانت و دیانت کا پیکر پایا.ریا اور عجب سے وہ کوسوں دور تھے.تکبر اور غروران میں نام کو بھی نہ تھا.خاکساری اور فروتنی ان کی جبلت میں داخل تھی.خشونت وغضب سے وہ ہمیشہ مجتنب رہے.بلا لحاظ مذہب وملت لوگوں کے ساتھ رفق و مدارات سے پیش آتے اور ہر شخص سے نرمی و ہمدردی کا برتاؤ کرتے تھے.ان کی باتوں میں شیرینی اور ان کے کلام میں مٹھاس تھی.ان کے سمجھانے کا طریق نہایت دلنشیں ، ان کی نصیحت کا اسلوب بہت مرغوب، ان کی دعوت الی اللہ کا طرز نہایت مؤثر ہوتا تھا.وہ نہایت پابندی کے ساتھ احکام شریعت بجالانے والے تھے.اور نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 25 248 سال 1969ء اپنی نمازیں اور دیگر عبادات ادا کرتے تھے.قال اللہ وقال الرسول ان کا معمول تھا.فضولیات اور لغویات سے انہیں نفرت تھی.بے فائدہ اور لایعنی مشاغل میں مصروف رہنے کی نہ انہیں فرصت تھی نہ انہیں بے فائدہ کی نہ عادت تھی.لوگوں کی برائیاں بیان کرتے اور غیبت کرتے ہوئے میں نے ان کو کبھی نہیں دیکھا.انہوں نے ہمیشہ اپنے کام سے کام رکھا اور دوسرے کے کام اور دوسرے کے فعل سے کوئی سروکار نہ رکھا.جھگڑوں، بکھیڑوں میں پڑنے اور لڑنے بھڑنے سے ہمیشہ احتراز کرتے اور اس فرمانِ خداوندی پر پوری طرح عامل تھے کہ جب جاہل انہیں خطاب کرتے ہیں تو وہ سلام کہہ کر گذر جاتے ہیں.کتاب کے متن میں محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے حضرت چوہدری صاحب کی دینی مصروفیات کا جوا جمالی خاکہ پیش کیا ہے وہ درج ذیل ہے.حضرت چوہدری صاحب کی زندگی نہایت مصروف زندگی تھی.جو آپ نے تمام تر دینی خدمت، اعلائے کلمۃ الحق، وعظ ونصیحت اور درس و تدریس میں گزاری.وہ قبول احمدیت کے بعد عمر کے ہر حصہ میں والہانہ شوق کے ساتھ اس مقدس مشغلے میں منہمک رہے.اصول اسلام کی اشاعت اور دعوت الی اللہ کی ذیل میں جو مخلصانہ کوششیں حضرت چوہدری صاحب نے جھنگ، ملتان ، لندن، کراچی اور شیخو پورہ وغیرہ میں ایک طویل عرصے تک کیں ان کا ایک اجمالی خاکہ ان کے قابل فرزند ڈاکٹر عبدالسلام نے کھینچا ہے جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ا.چوہدری صاحب کی رہائش جھنگ شہر میں ۱۹۴۱ء تک رہی وہاں آپ جھنگ مگھیانہ میں ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس ضلع جھنگ کے دفتر کے ہیڈ کلرک تھے.سرکاری فرائض کی سرانجام دہی سے جو وقت بچتا وہ سارے کا سارا آپ دینی خدمت میں خرچ کر دیتے تھے.چنانچہ جھنگ شہر کی بیت الحمد آپ ہی کی پُر خلوص جد و جہد کا نتیجہ ہے.جماعت احمدیہ کی بنیاد بھی جھنگ شہر میں آپ ہی نے ڈالی.وہاں آپ بیت الحمد کے امام الصلوۃ بھی رہے اور جماعت جھنگ کے امیر بھی.۲.۱۹۴۱ء میں آپ کا تبادلہ انسپکٹر آف سکولز ملتان ڈویژن کے ہیڈ کلرک کے طور پر ہو گیا اور ۱۹۵۰ء میں آپ یہیں سے ریٹائر ہوئے.مگر ۱۹۵۵ء تک ملتان میں ہی سکونت پذیر رہے.یہاں کی بیت الحمد کو آپ نے آباد کیا اور اس کی امامت کے فرائض انجام دئے.اس دوران میں آپ جماعت احمد یہ ملتان اور ازاں بعد جماعت ہائے احمد یہ ضلع ملتان کے امیر رہے.اسلام اور احمدیت کی خدمت کا سب سے زیادہ موقعہ آپ کو ملتان ہی میں ملا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 249 سال 1969ء ۳.۱۹۵۵ء میں آپ اپنے آبائی وطن جھنگ شہر میں واپس تشریف لے آئے.جہاں اصل کام آپ کا یہ تھا کہ جھنگ کی جماعت کو مضبوط بنائیں.اور وعظ و نصیحت کے ساتھ ان کو دین کی خدمت اور اصلاح اخلاق کی طرف متوجہ کریں.آپ جھنگ کی جماعت کے امیر تھے.۴.اپریل ۱۹۵۹ء میں چوہدری صاحب اپنے فرزند ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس لندن تشریف لے گئے.آپ کا لندن جانا حضرت میاں بشیر احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند کرتا رہے) کے ارشاد کی تعمیل میں ہوا کیونکہ حضرت میاں صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ جماعت کی بزرگ ہستیاں جن کا ظاہری، اخلاقی اور روحانی اثر نئی پو دے سکے ضرورلندن میں رہنی چاہئیں.چنانچہ جب حضرت میاں صاحب کی خواہش کے مطابق چوہدری صاحب لندن گئے.تو حضرت میاں صاحب نے کئی باران کو تحریر فرمایا کہ میں آپ کی ہمت پر رشک کرتا ہوں اور اس بات پر بھی رشک کرتا ہوں کہ کس طرح اس پیرانہ سالی میں آپ جماعت کی خدمت بجالا رہے ہیں.قیام لندن کے ایام میں آپ کا سارا وقت دینی مصروفیات میں بسر ہوتا تھا.دعوت الی اللہ کے وہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت اچھے موقعے دئے.اس عرصے میں آپ نے وہاں بکثرت لیکچر اردو اور انگریزی میں دئے.۵.لندن میں آپ دسمبر ۱۹۶۲ ء تک رہے..جنوری ۱۹۶۳ء میں آپ کراچی آگئے.اور چند وقفوں کے علاوہ وفات کے وقت تک کراچی میں رہے.مگر برابر دعوت الی اللہ میں مصروف رہے.قیام کراچی کے دوران آپ کئی کئی ماہ جھنگ شہر، ملتان اور شیخو پورہ میں بھی جا کر رہے.مگر جہاں بھی جاتے احباب جماعت کو برابر وعظ ونصیحت کرتے رہتے.ربوہ بھی نہایت شوق کے ساتھ اکثر جایا کرتے تھے.اس بات پر بڑے خوش تھے کہ پاکستان میں مرکز احمدیت ان کے اپنے ضلع میں واقع ہے.جھنگ میں ان کی عمر کا بہت کافی حصہ گذرا تھا.اور وہ ان کا آبائی وطن بھی تھا.اس لئے آخری عمر میں جھنگ جا کر مستقل طور پر رہنے کی اکثر بڑی تمنا اور آرزو کیا کرتے تھے.مندرجہ بالا سطور میں جو نقشہ حضرت چوہدری صاحب کی دینی مصروفیات کا ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے کھینچا ہے اسی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت چوہدری صاحب کو خداوند کریم کے کلمات ، حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ارشادات لوگوں تک پہنچانے کا کتنا زیادہ شوق تھا اور کس قدر زیادہ ذوق تھا.حقیقت یہ ہے
تاریخ احمدیت.جلد 25 250 سال 1969ء کہ تربیت و ہدایت اور نصیحت اور مواعظت ان کی روحانی غذا تھی.اس کے بغیر وہ رہ ہی نہیں سکتے تھے.جب تک سرکاری ملازم رہے.دفتر میں بیٹھے ہوں یا دورے پر ہوں.برابر اپنے ملنے والوں کو دعوت الی اللہ کرتے رہتے تھے.صحیح معنوں میں وعظ و تذکیر ان کا اوڑھنا بچھونا بن گیا تھا.جس میں وہ وفات کے وقت تک منہمک رہے.یہ اجمالی خاکہ محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی نے نہیں بلکہ محترم پروفیسر عبدالسلام صاحب نے تحریر کیا.صرف تعارفی الفاظ محترم محمد اسمعیل صاحب پانی پتی کے ہیں.98 صدر مملکت کا اظہار تعزیت صدر مملکت اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل اے.ایم بیٹی خان نے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے نام ایک تعزیتی پیغام ارسال فرمایا.آپ نے اپنے پیغام میں فرمایا: آپ کے والد کی وفات کے متعلق معلوم کر کے مجھے گہرا صدمہ ہوا.براہ مہربانی میری طرف سے دلی تعزیت قبول فرما ئیں.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکینت عطا کرے.اور آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کی طاقت عطا فرمائے.ملک غلام ربانی صاحب آف ٹورانٹو کینیڈا (وفات: ۲۵ / اپریل ۱۹۶۹ء) 99 آپ حضرت حکیم شیخ فضل حق صاحب بٹالوی کے داماد اور جناب عبدالجلیل صاحب عشرت لاہور کے ہم زلف تھے.۱۹۵۴ء میں پاکستان سے ٹورانٹو تشریف لے گئے اور کینیڈا میں آباد البانیا، یوگوسلاویہ اور مشرقی یورپ کے دیگر ممالک کے مہاجرین کی اسلامی تعلیم کے انتظام کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.آپ کی کوشش سے مسلمانوں میں خاصی بیداری پیدا ہوگئی جس کے نتیجہ میں یہاں پہلا اسلامک سنٹر قائم ہوا.ابتدائی ایام میں کینیڈا ریڈیو نے آپ کی مختلف تقاریر نشر کیں.نارتھ پارک لائبریری (North York Library) میں اسلام کے موضوع پر آپ کے متعد دیکچر ہوئے.آپ ایک طرف خود تعلیم حاصل کرتے تھے.دوسری طرف کینیڈا کے مسلمانوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیتے تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی بے لوث خدمات کا صلہ آپ کو دینی و دنیوی عزت کے رنگ میں عطا فرمایا.آپ جماعت احمد یہ ٹورانٹو کے نائب صدر تھے.100
تاریخ احمدیت.جلد 25 251 سال 1969ء سیدامیرالدین صاحب قاضی ریٹائر ڈ ڈپٹی کلکٹر دھاروار (وفات: ۲۶ را پریل ۱۹۶۹ء) جماعت احمدیہ وہلی (جنوبی ہند) کے روح رواں تھے.خلافت احمدیہ سے دلی وابستگی اور بے حد عقیدت رکھتے تھے.تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا.سلسلہ کے مبلغین کرام اور دیگر احباب سے بہت محبت تھی.نیک دل ، در ولیش طبع ، نڈر اور سلسلہ کے مالی جہاد میں حصہ لینے والے بزرگ تھے.دھاروار شہر میں اپنے خرچ پر جلسے کرواتے اور پیغام حق پہنچاتے تھے.شیخ محمد صدیق صاحب شملوی 101 (وفات: یکم مئی ۱۹۶۹ء) آپ ۱۸۹۴ء میں اپنے آبائی شہر چنیوٹ میں پیدا ہوئے.اگر چہ آپ پیدائشی احمدی تھے لیکن آپ کو دستی بیعت کا موقع ۱۹۱۰ ء میں ملا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابی حضرت بابو امیر الدین صاحب شملوی کے صاحبزادے تھے.دینی تعلیم آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے پائی.آپ کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل تھا.بہت مخلص اور خلافت احمدیہ سے دلی وابستگی رکھنے والے فدائی بزرگ تھے.10 چوہدری محمد حسین صاحب مہار منگوله تحصیل نارووال ضلع سیالکوٹ (وفات: ۴ مئی ۱۹۶۹ء) بڑے مرنجان مرنج بزرگ تھے اور اشاعت احمدیت کے لئے ان کے دل میں ایک خاص جوش تھا.چنانچہ ان کے خاندان کے بیسیوں افراد کو ان کے ذریعہ احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی.اپنے خاندان کے اکثر یتیم بچوں کی پرورش کر کے ان کی شادیاں بھی کیں.عرصہ پانچ سال سے سندھ میں مقیم تھے اور جماعت احمد یہ دیہہ گڑھو کے پریذیڈنٹ تھے.103
تاریخ احمدیت.جلد 25 252 سال 1969ء سیده ممتاز بیگم صاحبه (وفات: ۲۱ مئی ۱۹۶۹ء) سید موعود علیہ کی اور آپ سید محمد اشرف صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی اور سید سردارحسین شاہ صاحب افسر تعمیرات ربوہ کی اہلیہ تھیں.اپنے حلقہ کی لجنہ اماءاللہ کی صدر تھیں.اپنے حلقہ اثر میں لڑکیوں اور دیگر مستورات کو قرآن کریم پڑھاتیں تھیں.قادیان میں اپنے محلہ کے ایک غریب بچہ کو آپ نے پالا اور پڑھایا جو بعد میں سلسلہ کا ایک بڑا عالم بنا.آپ موصیہ تھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.حضرت مہر النساء صاحبہ اہلیہ حضرت سردار امام خان صاحب آف سیالکوٹ چھاؤنی (وفات: ۲۱ مئی ۱۹۶۹ء) آپ نے اپنے خاوند کے داخل سلسلہ ہونے کے بعد ۱۸۹۶ء میں ہی تحریری بیعت کر لی تھی لیکن قادیان آ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل نہ کر سکیں.بہت مخلص نیک اور دعا گوخاتون تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت و عقیدت تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطاء فرمائیں.ان میں سے ایک صاحبزادے محمد احسن خان صاحب آرڈینینس آفیسر راولپنڈی اور ایک صاحبزادی زیب النساء صاحبہ والدہ ڈاکٹر اقبال احمد صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ مظفر گڑھ ہیں.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھائی جس کے بعد آپ کی بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.بو یوغ ما لک صاحب آف سنگاپور 105 (وفات: ۲۱ مئی ۱۹۶۹ء بمقام کو چیغ سراواق) جماعت احمدیہ کوالا لمپور کے پریذیڈنٹ اور جناب اسماعیل بن کرسہ کے خسر اور نہایت مخلص احمدی تھے.106 چوہدری عبدالرحیم صاحب صدر حلقہ اسلامیہ پارک لاہور (وفات: ۲۹ مئی ۱۹۶۹ء)
تاریخ احمدیت.جلد 25 253 سال 1969ء آپ ۳ امئی ۱۸۹۸ء کو دھار یوال میں پیدا ہوئے.آپ صاحب کشف و ر و یا بزرگ تھے.آپ نے خواب میں دیکھا کہ بالمقابل مسجد میں اذان ہو رہی ہے.پھر کسی نے نماز پڑھائی.آنکھ کھلی تو صبح کی نماز کا وقت تھا آپ پھر سو گئے.پھر دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں.حجرہ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار پائی پڑی ہے اور آپ حضور کے پاؤں دبا رہے ہیں.حضور نے فرمایا عبدالرحیم میں تمہارے واسطے بڑی دور سے چل کر آیا ہوں.پھر حضور نے نماز کمرہ کی چھت پر پڑھائی اور عبد الرحیم صاحب اکیلے مقتدی تھے.اسکے بعد حضور علیہ السلام بیٹھ گئے اور حضور نے فرمایا کہ میں ایسا ہی سچا ہوں جیسے پہلے مامور بچے تھے.چنانچہ آپ نے کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی.آپ نے اپنی ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: و جس خواب کا حضرت مغل صاحب ( حضرت میاں عبد العزیز مغل صاحب) نے ذکر کیا ہے وہ میں نے ۱۹۱۷ء میں اپنے گھر واقعہ امرتسر میں دیکھی تھی.ان دنوں میں احمدیت کا اشد مخالف تھا.میں نے دیکھا کہ ایک شخص نے دائیں طرف سے مجھے ایک گھڑی دی ہے اور اس کا منشاء یہ معلوم الله 107 ہوتا ہے کہ میں اس کی مرمت کروں.وہ کہتا ہے یہ آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے کیا اس کی مرمت ہو سکتی ہے.؟ میں نے کہا جب آنحضرت ﷺ کی گھڑی ہے تو اس کی مرمت کیوں نہیں ہوسکتی.چنانچہ جب میں نے اسے کھول کر دیکھا تو وہ ایک نہایت ہی قیمتی گھڑی تھی.اس کا ہر پرزہ نہایت ہی شاندار تھا.مین سپرنگ (Main Spring) بھی دو تھے.آج تک میں نے دو مین سپرنگوں والی جیبی گھڑی نہیں دیکھی.اس میں جو ہیرا لگا ہوا ہے وہ بھی بہت اعلیٰ ہے.خیر خواب میں ہی میں نے اس کی مرمت کی.جب مرمت کر چکا تو خواب میں زور سے آندھی آئی جس سے میں بیدار ہو گیا.۱۹۲۰ء کے شروع میں میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.۱۹۲۲ء کے شروع میں کسی تقریب پر لاہور میں حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغل کے مکان پر آنے کا اتفاق ہوا.مغل صاحب اوپر سے ایک گھڑی لائے اور دائیں طرف سے مجھے دکھا کر فرمایا.کیا آپ اس گھڑی کی مرمت کر سکتے ہیں؟ نیز فرمایا کہ آپ کو علم ہے کہ کس کی گھڑی ہے؟ میں نے کہا مجھے تو علم نہیں.فرمایا.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھڑی ہے جو حضور کے وصال کے دوسرے سال حضرت ام المومنین نے مجھے لاہور میں ہمارے مکان پر عطافرمائی تھی.میں نے جب اس گھڑی کو دیکھا تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کیونکہ یہ وہی گھڑی تھی جس کی میں ۱۹۱۷ء میں خواب میں مرمت کر چکا تھا اور جس کے متعلق مجھے کہا گیا تھا کہ یہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 254 سال 1969ء آنحضرت علی کی گھڑی ہے.میں وہ گھڑی امرتسر اپنے گھر لے گیا.بچوں کو دکھائی اور بتایا کہ خواب میں آنحضرت ﷺ کی جس گھڑی کا واقعہ میں آپ لوگوں کو کئی مرتبہ سنا چکا ہوں وہ گھڑی یہ ہے اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہے.چوہدری صاحب نے یہ واقعہ سنا کر فرمایا کہ میں نے حضرت مغل صاحب سے عرض کی تھی کہ یہ میری زندگی تک آپ کو جب بھی اس گھڑی کی مرمت کی ضرورت پیش آئے میری خدمات حاضر ہیں.اللھم صل على محمد وآل محمد وو محترم چوہدری صاحب نے فرمایا.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ جس طرح ۱۹۱۷ء کی خواب میں گھڑی کی مرمت کے بعد زور سے آندھی آگئی تھی.۱۹۲۲ء میں گھڑی کی مرمت کے بعد رات کو زلزلہ آیا جس سے شور پڑ گیا.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع نے اس گھڑی کے بارے میں جلسہ سالانہ انگلستان ۱۹۹۹ء کے موقع پر فرمایا: یہ گھڑی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت اماں جان نے حضرت عبدالعزیز صاحب کو دی تھی.اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کو آٹھ روز کے بعد چابی دی جاتی ہے.اس کی دو دفعہ مرمت کرائی گئی ہے.ایک گھڑی ساز نے خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ کی گھڑی مرمت کے لیے اس کے پاس آئی ہے.چند دن کے بعد یہی گھڑی مرمت کے لیے اس کے پاس لے جائی گئی.گھڑی ساز حیران ہوا کہ یہ تو وہی گھڑی ہے جو خواب میں مجھے دکھائی گئی تھی.66 حضور نے فرمایا کہ اس خاندان کا جماعت پر بڑا احسان ہے کہ اس نے اس گھڑی کی حفاظت کی ہے.ایک انگریز کاریگر نے سوسال کے بعد اس کے نئے پرزے بنائے ہیں.حضور نے ہاتھ میں گھڑی لے کر حاضرین جلسہ کو اس کی زیارت کروائی اور ایم ٹی اے کی وساطت سے دنیا بھر کے کونے کونے میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے احمدی احباب نے اس بابرکت اور مقدس گھڑی کی زیارت کی.حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے محبت اور عقیدت سے اس گھڑی کو بوسہ دیا.جب حضور نے یہ گھڑی ہاتھ میں پکڑی تھی تو اس کی ٹک ٹک کی آواز مائیک میں آ رہی تھی اور ساری دنیا میں نشر ہو رہی تھی.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے تھے.عمر بھر مختلف جماعتی عہدوں پر فائز رہے.عرصہ تک صدر حلقہ ہونے کے علاوہ امام الصلوۃ اور امین بھی رہے.گھر میں حکم دے رکھا تھا کہ جس وقت بھی کوئی ملاقاتی آئے اور وہ سورہے ہوں ان کو جگا دیا جائے.109
تاریخ احمدیت.جلد 25 وائی اے صافی آف نائیجیریا (وفات: مئی ۱۹۶۹ء) 255 سال 1969ء آپ وزارت اطلاعات میں سینئر پبلسٹی آفیسر تھے اور حکومت کے اس پرچے کے مدیر اعلیٰ تھے جو بچوں اور نو جوانوں کے لئے وسیع پیمانے پر شائع کیا جاتا تھا.نائیجیریا کی حکومت نے آپ کو جماعت کے اخبار ” ٹروتھ کے لئے انگلستان میں جرنلزم کی تعلیم کے لئے وظیفہ دیا تھا.یہ علیم کامیابی کے ساتھ مکمل کر کے جب واپس نا یجیر یا پہنچے تو جماعت کی اجازت سے حکومت نے آپ کی خدمات حاصل کر لیں اور محکمہ اطلاعات میں متعین کر دیا.آپ ایک ٹرینڈ استاد تھے اور اسکاؤٹنگ میں خاص دلچسپی لیتے تھے.چنانچہ ترقی کرتے کرتے آپ مغربی نائیجیریا کے سکاؤٹ کمشنر ہو گئے تھے.اخبار ٹروتھ کے اجراء اور اس کے انتظام اور وسعتِ اشاعت میں آپ نے نہایت مخلصانہ کوششیں صرف کی تھیں.حکیم محمد دین صاحب انصاری (وفات: ۸ جون ۱۹۶۹ء) حکیم محمد دین انصاری صاحب اکتوبر نومبر ۱۹۰۵ء میں جبکہ آپ طبیہ کالج دہلی میں زیر تعلیم تھے دہلی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیدار سے مشرف ہوئے.ایک درویش صفت بزرگ، ماہر طبیب اور عالم باعمل تھے.آپ کے ذریعہ بیسیوں نفوس داخل احمدیت ہوئے اور سینکڑوں افراد نے آپ سے قرآن کریم پڑھا.آپ جماعت احمد یہ ڈنڈ پور گھر والیاں ضلع سیالکوٹ کے پریذیڈنٹ تھے.حضرت مولوی محمد اعظم صاحب ( والد ماجد قاضی محمد رشید صاحب سابق وکیل المال تحریک جدید ) کے چھوٹے بھائی اور مولوی محمد سعید صاحب انصاری (مبلغ سنگاپور، انڈونیشیا.ملایا ) کے چچا تھے.آپ کے بیٹے حکیم عطاء الرحمن صاحب وقف جدید کے معلم تھے.چوہدری محمد الدین صاحب (وفات: ۱۰ جون ۱۹۶۹ء) بہت چھوٹی عمر میں احمدیت قبول کی جس کے بعد بہت تکالیف کا سامنا کرنا پڑا.جن کا نہایت خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا.تمام عمر خدمت دین میں گذری اور ہمیشہ مقامی جماعت کی ترقی میں کوشاں
تاریخ احمدیت.جلد 25 256 سال 1969ء رہے.آپ پریذیڈنٹ بھڈال ضلع سیالکوٹ و نائب امیر حلقہ بھی رہے.بہت نیک مخلص اور فدائی احمدی تھے.113 رشیدہ حسین صاحبہ ایم.اے (وفات: ااجون ۱۹۶۹ء) مولوی محمد حسین صاحب فاضل عربی کی صاحبزادی تھیں.نحیف ونزار ہونے کے باوجود خدمت اسلام کے کاموں اور اپنے عزم اور محنت و جانفشانی میں ایک چٹان کی حیثیت رکھتی تھیں.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ ۱۹۶۳ء میں میں نے ان کو لجنہ اماءاللہ مرکز یہ میں شامل کیا اور نائب سیکرٹری مال کا عہدہ دیا تا وہ کام سیکھ لیں.انہوں نے اتنا اچھا کام کیا کہ ۱۹۶۴ء میں جب مجلس عاملہ کی تشکیل کی گئی تو ان کو سیکرٹری مال لجنہ مرکز یہ بنا دیا گیا.اس وقت سے جس دن تک وہ فوت ہوئیں نہایت تندہی ، جانفشانی، انہماک اور خلوص سے انہوں نے کام کیا.بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ جو کام ان کے سپرد کیا گیا وہ اس طرح کریں کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہ جائے.رشیدہ حسین نے جب سے یہ عہدہ سنبھالا اتنی اچھی طرح یہ کام سنبھالا کہ مجھے احساس ہوا کہ واقعی مجھے لجنہ کے کاموں میں ایک دست راست مل گئی ہے.114 با بونیم اللہ صاحب کا رکن صدر انجمن احمد بہ قادیان (وفات: ۱۵ جون ۱۹۶۹ء) آپ نے ملٹری سروس سے پینشن پانے اور اس کے بعد ریلوے میں سرکاری ملازمت چھوڑ کر معمولی مشاہرہ پر صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت اختیار کر لی.بہت نیک دل، دعا گو، سلسلہ اور مرکز قادیان سے محبت رکھنے والے اور صدرانجمن احمدیہ کے مستعد کارکن تھے.شیخ اکبر علی صاحب بٹالوی برادر نسبتی حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی (وفات: ۱۶ جون ۱۹۶۹ء) آپ نے بذریعہ خواب حضرت خلیفہ المسیح الاول کے دست مبارک پر ۱۹۰۸ء میں بیعت کی تھی اور بیعت کرنے کے بعد آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں آپ کے تین بھائی اور خاندان کے بہت سے افراد بھی سلسلہ میں داخل ہو گئے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ قبل از بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بٹالہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 257 سال 1969ء میں مصافحہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی.آپ بہت دعا گو عبادت گزار اور ملنسار بزرگ تھے.ملک خیر الدین صاحب در ولیش (وفات: ۲۳ جون ۱۹۶۹ء) آپ پیدائش کے لحاظ سے موضع لودی منگل کے رہنے والے تھے.آخری عمر قادیان میں گزارنے کے ارادہ سے ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ گاؤں سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.۱۹۴۷ء میں جب حالات قابو سے باہر ہو گئے اور قادیان کی آبادی کو مجبوراً ہجرت کرنا پڑی تو ان ایام میں بوڑھوں بچوں اور خواتین کو ترجیحی بنیاد پر ٹرکوں پر بھجوانے کا سلسلہ جاری تھا.ملک صاحب بھی ایک کنوائے میں پاکستان چلے گئے.کچھ دنوں کے بعد جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات ہوئی تو حضور نے پوچھا کہ آپ تو زندگی کے آخری دن قادیان میں گزارنے کے لئے وہاں گئے تھے.آپ یہاں کیوں چلے آئے تو عرض کیا حضور مجھ سے غلطی ہو گئی.انتظام کرنے والوں نے مجھے بوڑھا سمجھ کر ٹرک میں بٹھا دیا میں یہاں چلا آیا.اب پچھتا رہا ہوں کہ میں کیوں آیا اور اب کس طرح واپس جاؤں.حضور نے فرمایا دفتر میں واپس قادیان جانے والوں میں اپنا نام لکھوا دو.میں نے دفتر میں آکر اپنا نام قادیان جانے والوں کی فہرست میں لکھوادیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں پھر قادیان پہنچ گیا.چوہدری نواب دین صاحب آف تلونڈی جھنگلاں ضلع گورداسپور (وفات: ۲۴ جون ۱۹۶۹ء) 117 آپ صوم وصلوٰۃ اور احکام شریعت کی پابندی کرنے والے ابتدائی عمر سے با قاعدگی کے ساتھ تہجد پڑھنے والے متقی اور بزرگ تھے.ایک لمبا عرصہ بطور ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں خدمت سلسلہ کی توفیق ملی.۱۹۴۷ء میں پارٹیشن کے بعد بطور پنشنر صدر انجمن احمد یہ ریٹائر ہوئے.تقسیم ملک تک جماعت تلونڈی جھنگلاں کے اور ہجرت کے بعد چک ۲۱۹ ر.ب ملوئیاں والا ضلع فیصل آباد کے پریذیڈنٹ کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور اپنی زمین میں سے ایک حصہ پر پختہ مسجد تعمیر کرنے کی توفیق پائی.سچائی اور غرباء کی ہمدردی ان کا شعار تھا.آپ کے فرزند چوہدری حفیظ احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے پرائیویٹ طور پر تعلیم حاصل کی اور پھر پہلے پولیس کے شعبہ میں اور بعد میں پٹوار کے شعبہ میں ملازمت کی.لیکن ان محکموں میں جھوٹ اور رشوت کا دور دورہ تھا
تاریخ احمدیت.جلد 25 258 سال 1969ء اس لیے ان کو چھوڑ کر چک ۳۰/R.L ضلع ساہیوال میں بطور ٹیچر ملازمت شروع کر دی لیکن دیار حبیب سے دور ہونے کے باعث اس ملازمت کو چھوڑ کر قادیان میں جا کر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ملازمت اختیار کی.آپ گرمیوں کی رخصتوں کو دینی خدمت میں بسر کرتے.ایک دفعہ مرکز نے ایک وفد جلال آباد ضلع گورداسپور بھجوایا.آپ بھی اس میں شامل تھے.جب یہ وفد جلال آباد پہنچا تو وہاں کے لوگوں نے انتہائی تکالیف دیں.لیکن ان کی تمام باتوں کوصبر اور تحمل سے برداشت کیا اور مرکز کے حکم کے مطابق اپنا پورا وقت گزار کر واپس آئے.آپ کی کوششوں سے کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی تحریک تعلیم القرآن کو اپنے چک میں جاری فرمایا اور اس مبارک تحریک کو تمام جماعت میں پھیلایا.۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانہ میں بھی آپ جماعت تلونڈی جھنگلاں کے پریذیڈنٹ تھے.آپ نے اس زمانہ میں گاؤں کے لوگوں کے حوصلوں کو بلند رکھا اور دن رات یہ تلقین کرتے تھے کہ گاؤں کو اس وقت تک مت چھوڑیں جب تک کہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے حکم نہیں آتا.ایک زمین کے ٹکڑا کے لیے دیوانی عدالت میں دعویٰ دائر تھا.فریق مخالف کو آپ پر یقین تھا کہ آپ سچ ہی بولیں گے چنانچہ انہوں نے آپ کی گواہی رکھ لی.جب مقدمہ پیش ہوا تو آپ نے تمام واقعات بتا دیے.اس پر جج نے فریق مخالف کے حق میں فیصلہ کر دیا.آپ نے فرمایا کہ میں جھوٹ بول کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا خواہ مجھے ظاہرا نقصان ہی کیوں نہ ہو.سید محمد ہاشم صاحب بخاری مولوی فاضل او.ٹی (وفات: ۲۸ جون ۱۹۶۹ء) 118 حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے حقیقی بھانجے تھے.عرصہ دراز تک بطور مدرس کام کرتے رہے.ریٹائر ہونے کے بعد آپ خدمت دین کے لئے وقف ہو گئے اور قریباً چار سال تک غانا اور سیرالیون میں تبلیغی خدمات بجالانے کی توفیق ملی.مغربی افریقہ سے واپسی کے بعد آپ نظارت اصلاح وارشاد میں انسپکٹر کی حیثیت سے آخر دم تک دینی خدمات بجالاتے رہے.مولوی فضل الدین صاحب آف ملیا نوالہ سیالکوٹ (وفات: الجولائی ۱۹۶۹ء)
تاریخ احمدیت.جلد 25 259 سال 1969ء حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے دست مبارک پر آپ نے بیعت کی اور اس کے بعد مخالفت کے طوفانوں کا جوانمردی سے سامنا کیا.آپ گورداسپور کے رہنے والے تھے.قیام پاکستان کے بعد ملیانوالہ سیالکوٹ میں قیام پذیر ہوئے.ملیا نوالہ کے نواح میں آپ کی پرزور تبلیغ کے نتیجہ میں جماعتیں قائم ہوئیں.آپ آنریری طور پر اصلاح وارشاد کا کام بھی کرتے رہے.ڈاکٹر سلطان احمد مجاہد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بعض احباب کو تبلیغ کر رہا تھا تو ضمناً آپ کا ذکر بھی آ گیا.ایک غیر احمدی نے کہا کہ گو میں احمدی نہیں ہوں لیکن مجھے یقین ہے اگر کوئی آدمی بھوکا ہو اور وہ مولوی فضل الدین صاحب کی زیارت کرے تو ان کی برکت سے اسے کھانا مل جاتا ہے.آپ موصی تھے.جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو آپ کا علم ہوا تو حضور باوجود اس کے کہ نماز عشاء پڑھ کر قصر خلافت میں تشریف لے جاچکے تھے واپس تشریف لے آئے اور فرمایا کہ میں انہیں جانتا ہوں اور پھر جنازہ پڑھایا.120 ایمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد شریف صاحب لاسکیپور (وفات: ۱۶ جولائی ۱۹۶۹ء) آپ نے اپنی اوائل ازدواجی زندگی میں خود محنت اور شوق سے لکھنے پڑھنے کا ملکہ پیدا کیا.عبادت گزار اور کثرت سے دعائیں کرنے والی خاتون تھیں.آپ میجر ڈاکٹر محمود احمد صاحب شہید کی والدہ تھیں.اپنے فرزند کی المناک شہادت پر قابل تعریف صبر کا نمونہ دکھایا.سلسلہ کی تحریکات میں شوق سے حصہ لیتیں.شہر لاہور کی لجنہ کی ابتدائی دور میں پریذیڈنٹ بھی رہیں.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.121 ابواحمد مرزا جمال احمد صاحب (وفات: جولائی ۱۹۶۹ء) آپ صدر جماعت احمد یہ بیروت (لبنان) تھے.فرمایا کرتے تھے کہ قیام لاہور کے دوران انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھی ہے.پہلی جنگ عظیم کے دوران مشرق وسطی میں تھے اور خاتمہ جنگ کے بعد حیفا میں آباد ہو گئے اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے ذریعہ احمدیت قبول کی.تقسیم فلسطین کے بعد بیروت میں آباد ہو گئے.جماعت کے روح رواں اور اپنی ذات میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 260 سال 1969ء تبلیغی مرکز تھے.ملاقاتوں کے ذریعہ بھی پیغام حق پہنچاتے اور کتابیں منگوا کر لوگوں میں تقسیم کرتے رہتے تھے.حاجی اونکو اسماعیل بن عبدالرحمن صاحب (وفات: جولائی ۱۹۶۹ء) آپ ریاست جو ہور ملایا کے شاہی خاندان کے چشم و چراغ تھے.ملائی ، انگریزی اور عربی میں خاص دسترس رکھتے تھے.مولوی محمد صادق صاحب سماٹری مبلغ ملائیشیا کے ذریعہ احمدیت کا پیغام پہنچا اور مسلسل چار سال کی تحقیق کے بعد ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو بیعت فارم پُر کیا.بعض لوگوں نے احمدیت کی وجہ سے تکلیف دینے اور ہتک کرنے کی کوشش کی مگر وہ کوہ وقار بن کر احمدیت پر ڈٹے رہے اور ان کی تحریک پر ان کی بہن اونکو فاطمہ اور دوسری اہلیہ سعدیہ نے بھی بیعت کر لی.حاجی اونکو صاحب چودہ برس تک مجسٹریٹ پھر محکمہ شرعیہ جوہور کے سربراہ بعد ازاں پبلک سروس کمیشن کے چیئر مین رہے اور اس دوران بیعت کا شرف حاصل کیا.ان کا یہ تقر ر دو سال کے لئے تھا جس کے بعد انہیں فارغ کر دیا گیا.پھر مرکزی حکومت نے دوبارہ انہیں اپنی ریاست میں مجسٹریٹ درجہ اول مقرر کر دیا.کچھ عرصہ بعد وہ اس عہدہ سے مستعفی ہو گئے اور زندگی کے بقیہ ایام عبادت اور تبلیغ کے لئے وقف کر دیے.کمال فولمر صاحب سوئٹزرلینڈ (وفات: اگست ۱۹۶۹ء) آپ کے والد ماجد سوئٹزر لینڈ کی یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھے.آپ کو ٹریکٹروں کی ایک فرم کے نمائندہ کی حیثیت سے مسلم ممالک خصوصاً مراکش میں جانے کا موقع ملا جس سے اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی اور آپ نے احمد یہ مشن سوئٹزر لینڈ سے رابطہ پیدا کیا اور ۷ دسمبر ۱۹۵۹ء کو بیعت کر لی.ان کی تحریر میں شوکت اور قلم میں روانی تھی.ہسپانوی ، فرانسیسی اور اطالوی زبانوں کو جانتے تھے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد محمود سوئٹزر لینڈ نے ان کی قابلیت اور دینی اور علمی شعور کی بناء پر انہیں جماعتی لٹریچر کے ترجمہ کی خدمت سپرد کی.چنانچہ انہوں نے ہماری تعلیم ( انتخاب کشتی نوح ) اور سیرۃ النبی ع ( مؤلفہ حضرت مصلح موعود ) اور اسلامی اصول کی فلاسفی کے جرمن زبان میں بلند پایہ تراجم کئے.ماہنامہ اسلام اور اخبارات کے لئے انہوں نے کثیر تعداد میں مضامین اور خطوط لکھے.صلى الله
تاریخ احمدیت.جلد 25 261 سال 1969ء وہ ایک غنتو راحمدی تھے اور اسلام کے خلاف لکھی ہوئی تحریر دیکھ کر ان کے تن بدن میں آگ لگ جاتی تھی اور جب تک وہ اس کا جواب نہ لکھ لیتے تھے انہیں چین نہ آتا تھا.۱۹۶۷ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں جماعت سوئٹزرلینڈ کی طرف سے ایڈریس پیش کرنے کی سعادت آپ ہی کو حاصل ہوئی.اس مجاہد سوئس بھائی کا جنازہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے پڑھایا.124 ڈاکٹر عبدالکریم صاحب امیر جماعت احمدیہ ملتان (وفات: ۲۹ /اگست ۱۹۶۹ء) موضع مندراں والی ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے.تقسیم ملک کے بعد ملتان تشریف لے آئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی پریکٹس میں بڑی برکت پیدا کی.ملک عمر علی صاحب کی وفات (۱۰ مئی ۱۹۶۴ء) کے بعد ضلع ملتان کی جماعتوں کے امیر منتخب ہوئے اور اس اہم ذمہ داری کو مرتے دم تک پوری ذمہ داری ، اخلاص اور فرض شناسی کے ساتھ نبھایا اور اس سلسلہ میں اپنی پریکٹس اور گھر کے کاموں کی کوئی پرواہ نہ کی.سچ سچ فنافی الخلافہ تھے اور مرکزی ہدایات پر کما حقہ عمل کرنا جزوایمان سمجھتے تھے.سلسلہ کے معاملہ میں نہایت درجہ غیور تھے.مرکزی مبلغوں اور کارکنوں سے بے حد محبت و شفقت سے پیش آتے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں آپ ان کی خدمت اور مہمان نوازی نہایت خندہ پیشانی اور خلوص دل سے کرتے تھے اور انہیں ادویہ مفت دیتے تھے.مکرم عبدالمنان شاہد صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مکرم ڈاکٹر صاحب کے دل میں دینی کام سرانجام دینے کا بے پناہ جذبہ تھا.اور اس کے لئے اپنی پریکٹس کی کوئی پرواہ نہ کرتے تھے.ایک دو سال آپ کو مالی کمزوری آئی تو بعض کم فہم لوگوں نے کہا کہ آپ دوکان پر کم بیٹھتے ہیں اور ہر وقت جماعتی کام کرتے رہتے ہیں.اس وجہ سے کمزوری ہے.آپ امارت کا کام چھوڑ دیں تو مکرم ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ یہ جو تھوڑی بہت آمد مجھے ہو رہی ہے یہ دراصل امارت ہی کی برکت سے ہے.آپ مرکزی مہمانوں کا خاص خیال رکھتے تھے.انہیں ادویہ مفت دیتے جو بھی مربی سلسلہ مرکز کی طرف سے مقرر ہوتا اس کی عزت کرتے اور اس کی ضروریات کا خیال رکھتے بلکہ مجھے ایک دفعہ بتلایا کہ میں تمام غیر احمدی مولویوں اور طالب علموں کو بھی مفت دوا دیتا ہوں.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے کارکنان کا ادب و احترام کرتے تھے اور ان سے بے حد محبت و شفقت اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 262 سال 1969ء ہمدردی سے پیش آتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خلیفہ وقت کے نمائندے ہیں اور ان کی خدمت اور مہمان نوازی نہایت خندہ پیشانی اور خلوص دل سے کرتے تھے.الطاف حسین خان صاحب شاہجہانپوری ( وفات ۳۰ را گست ۱۹۶۹ء) 125 اودے پور کٹیا مولد تھا جو شاہجہانپور کے دس میل کے فاصلہ پر ہے.حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کے ذریعہ احمدیت کی نعمت اور تبلیغی تربیت نصیب ہوئی.آپ اپنے خاندان میں پہلے احمدی تھے.بیعت کے بعد آپ کی بہت مخالفت بھی ہوئی اور گھر سے بھی نکال دیے گئے مگر آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.آپ خدا کے حضور دعاؤں میں لگے رہے کہ آپ کا خاندان بھی ہدایت پا جائے چنانچہ آپ کی دعائیں رنگ لائیں اور آپ کا خاندان اور رشتہ دار احمدیت کی آغوش میں آگئے.آپ گاؤں سے پندرہ میل دور تک جاتے اور لٹریچر تقسیم کرتے.ملکانہ تحریک کے خلاف جہاد میں حصہ لیا.بہت نڈر اور جو شیلے احمدی تھے.احمدیت کا پیغام پہنچانا ان کی روح کی غذا تھی اور بعض اوقات وہ سارا سارا دن اسی میں مصروف رہتے تھے.بہت سے لوگ آپ کی تبلیغ اور نمونہ سے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اودے پور کٹیا کی مخلص جماعت جس کے آپ ہجرت پاکستان سے قبل صدر رہے.آپ کی بہترین یادگار ہے اس طرح اس جماعت کی خوبصورت مسجد بھی.سلسلہ احمدیہ کی بیش قیمت کتابوں کا خاصا ذخیرہ آپ کے پاس موجود تھا.آریوں اور عیسائیوں کو ایسا مدلل اور مسکت جواب دیتے کہ اسے دم مارنے کی مجال نہ ہوتی.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا.بیماری کے ایام میں بھی ہسپتال میں آپ بستر پر ہی لیٹے لیٹے حضور علیہ السلام کے اشعار پڑھتے اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے.126 منشی غلام محمد صاحب پنشنرز آف موضع ہجکہ بھیرہ ( وفات ۴/۳ ستمبر ۱۹۶۹ء) آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا.کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مطالعہ کرنے کے بعد دل سے مصدق ہو گئے تھے اور ایمان لے آئے مگر بیعت حضرت خلیفتہ اسیح الاول کے ہاتھ پر کی.آپ موصی تھے.آپ کی امانتا تد فین اپنے گاؤں میں ہوئی.127
تاریخ احمدیت.جلد 25 263 سال 1969ء میجر عزیز احمد صاحب ڈائر یکٹر شاہ نواز لیمیٹڈ کراچی (وفات الاستمبر ۱۹۶۹ء) آپ چوہدری عبدالمالک صاحب تحصیلدار کے فرزند تھے.آپ کا دینی جذ بہ اور دینی غیرت قابل تعریف تھی.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح ثالث نے کراچی میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور فرمایا کہ مرحوم بڑے مخلص اور دعا گو انسان تھے.نیز مرحوم کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر دیر تک دعا کی.شیخ حبیب اللہ صاحب ایڈووکیٹ نا بھ سٹیٹ حال حافظ آباد 128 (وفات: ۷ استمبر ۱۹۶۹ء) آپ نے ۱۹۰۸ء میں بیعت کی لیکن یہ تعین نہیں ہوسکی کہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف بھی پایا تھا کہ نہیں.آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند اور بہت متقی انسان تھے.آپ نہایت غریب پرور تھے.کئی غریب بچوں، بچیوں کی تعلیم ، علاج معالجہ اور شادیوں میں مثالی تعاون فرماتے رہے.آپ ایک معروف وکیل تھے.آپ جماعت احمد یہ حافظ آباد کے صدر رہے.چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ایجوکیشن آفیسر تنزانیہ 129 ( وفات ۲۷ ستمبر ۱۹۶۹ء ) اصل وطن میانی ضلع سرگودھا.۱۹۲۶ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا.اوائل ۱۹۲۸ء میں آرسنل راولپنڈی میں ملازم ہو گئے بعد ازاں جوگندر نگر ضلع کانگڑہ راولپنڈی اور کوئٹہ میں ملازمت کی اور ۱۹۳۸ء کے آخر میں مشرقی افریقہ میں آباد ہو گئے.آپ حضرت با بوفخر دین صاحب آف گھوگھیاٹ کی تبلیغ سے جلسہ سالانہ ۱۹۱۸ء پر احمدی ہوئے اور پھر اپنے نمونہ اور تبلیغ سے اپنے والد حاجی جلال الدین صاحب کو احمدیت میں لانے کا باعث بنے.آپ نے تحریک جدید کے ابتدائی مشن مکیراں ضلع ہوشیار پور میں دو ماہ امیر کی حیثیت سے تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.آپ کے ذریعہ چوہدری عبدالکریم صاحب رئیس مکیریاں بھی احمدی ہوئے.صوم وصلوٰۃ کے بہت پابند تھے.تہجد بھی پڑھا کرتے تھے.گھر میں سب کو نمازوں کی تلقین کرتے.نماز فجر کے بعد ہمیشہ تلاوت قرآن کریم کرتے.افریقہ میں بھی آپ کے ذریعہ کئی لوگوں نے احمدیت قبول کی.کمپالہ میں آپ نے اپنی کوشش سے بشیر ہائی سکول جاری کیا اور جب چند سال میں کامیابی سے چل نکلا تو آپ نے اس کو
تاریخ احمدیت.جلد 25 264 سال 1969ء انجمن کی تحویل میں دے دیا.جس پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے خوشنودی کا اظہار فرمایا.۱/۳حصہ کی وصیت کی اور تمام رقم اپنی زندگی میں ہی ادا کر دی.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے.آپ کی امانتاً تدفین دارالسلام افریقہ میں ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور احباب جماعت کو بھی ارشا د فر مایا کہ مرحوم کا جنازہ پڑھیں.یونس الوگوس (Olughose) (وفات: اکتوبر ۱۹۶۹ء) احمد یہ جماعت ابیوکوٹا (Abeokuta) نائیجیریا کے ایک مخلص احمدی تھے جو چار فوجی سپاہیوں کے ہاتھوں اکتوبر ۱۹۶۹ء میں شہید کر دیئے گئے.صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے اور چندوں میں پیش پیش رہتے تھے.5 میاں محمد یوسف صاحب پشاوری ککے زئی ساکن کو ٹلہ فیل ہانہ پیشاور (وفات اارا کتوبر ۱۹۶۹ء) اہل حدیثوں سے جنوری ۱۹۲۴ء میں احمدیت سے وابستہ ہوئے اور باوجود مذہبی تعلیم کم ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی برکت سے مبلغ بن گئے.قبول احمدیت کے باعث بہت تکالیف اور مشکلات برداشت کیں.پیغام حق پہنچانے کا انہیں غیر معمولی شوق بلکہ جنون تھا.تبلیغی اشعار سنانے کے باعث لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز بن جاتے تھے.برجستہ جواب دیتے تھے.گفتگو میں لطیف مزاح کا رنگ تھا.132 مولوی مبارک علی صاحب بی اے بی ٹی سابق مجاہد جرمنی ( وفات یکم نومبر ۱۹۶۹ء) آپ ۱۹۱۳ء میں قادیان جا کر حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے اور قادیان میں ایک عرصہ تک مقیم رہ کر حضرت خلیفہ اسیح الا قول سے دینی تعلیم حاصل کرتے رہتے پھر بعد میں اپنے وطن بنگال واپس جا کر شب و روز تبلیغ احمد بیت میں مصروف رہے.ازاں بعد جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے ابتدائی زمانہ خلافت میں جماعت کے انگریزی داں نو جوانوں کو اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو اس تحریک
تاریخ احمدیت.جلد 25 265 سال 1969ء پر لبیک کہتے ہوئے خانصاحب نے اپنی سرکاری ملازمت چھوڑ کر اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور نے خانصاحب کو پہلے انگلستان اور بعد میں جرمنی میں مبلغ مقرر فرمایا.فریضہ تبلیغ کی بجا آوری کے بعد خانصاحب جنوری ۱۹۲۵ء میں اپنے وطن واپس تشریف لے آئے اور دوبارہ محکمہ تعلیم میں ملازمت اختیار کر لی اور اس دوران میں بھی دن رات احمدیت کی تبلیغ میں مشغول رہے.۱۹۴۰ء میں آپ مشرقی بنگال کے صوبائی امیر مقرر ہوئے اور ۱۹۵۰ء تک اس عہدے پر فائز رہے اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گراں قدر خدمات سرانجام دیں.برکت علی خاں صاحب برمی (وفات: ۷ نومبر ۱۹۶۹ء) 133 آپ نے ۱۸۹۰ء یا ۱۸۹۲ء میں حضرت مسی موعود علیہ السلام کی زندگی میں بیعت کی تھی.مگر چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت سے محروم رہے.حضرت خلیفہ امسیح الاول کے زمانہ میں قادیان آگئے اور دستی بیعت کی.خلافت ثانیہ میں عمر کا بیشتر حصہ برما میں گذارا.۱۹۴۲ء میں برما پر جاپان نے حملہ کیا تو آپ بیوی بچوں سمیت وہاں سے پیدل چل پڑے اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قادیان پہنچے اور وہیں مقیم ہو گئے.تقسیم ملک کے بعد آپ نے گجرات میں رہائش اختیار کی.آپ نے سات بیٹے اور پانچ بیٹیاں یادگار چھوڑے.آپ موصی تھے.چوہدری محمد عالم صاحب صدر فتح پور ضلع گجرات (وفات: ۱۲ نومبر ۱۹۶۹ء) 134- ۱۹۳۲ء میں داخل احمدیت ہوئے.اپنی پوری لائبریری جو قیمتی اور نایاب کتب پر مشتمل تھی مقامی جماعت کی لائبریری کے لئے وقف کر دی.فتح پور مڈل سکول کو ہائی سکول کا درجہ دینے کے لئے آپ نے دن رات ایک کر کے نئے کمرے تعمیر کرائے.ایک سکول ماسٹر نے کہا کہ چوہدری محمد عالم اس علاقہ کے سرسید ہیں جو قوم کے نونہالوں کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں.بہت سے طلباء کی فیس اپنی گرہ سے دیتے.چند او باش لوگوں نے ایک لڑکی اغوا کر لی آپ نے اس کے برآمد کرنے کا تہیہ کر لیا.اوباشوں نے چیلنج دیا کہ ہم تمہارا خاتمہ کر دیں گے.آپ نے فرمایا خواہ میری لاش کتے گھسیٹتے پھریں میں لڑکی کو ضرور برآمد کر کے رہوں گا.آپ نے ان بد معاشوں کا اس رنگ میں ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ ان
تاریخ احمدیت.جلد 25 266 سال 1969ء کے مکان اور مویشی تک نیلام ہو گئے اور آپ معصوم لڑکی کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے.غرباء پروری آپ کا خاص وصف تھا.نظام سلسلہ کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کر سکتے تھے اور ان کی 135 ساری زندگی نظم وضبط سے عبارت تھی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جب وقف زندگی کی تحریک فرمائی تو آپ نے زندگی وقف کر دی اور عرصہ تک ضلع جہلم اور سیالکوٹ میں فریضہ تبلیغ ادا فرماتے رہے.فراغت کے بعد بھی تبلیغ ہی آپ کا اوڑھنا بچھونا تھا.مسجد کی آبادی کا آپ کو بہت خیال رہتا تھا.نماز فجر سے پہلے رستہ میں احمدیوں کو جگاتے.ایک دن مسجد میں چراغ روشن نہ تھا.چشم پر آب ہو کر فرمایا خانہ خدا میں اندھیرا! پیسے پاس نہ تھے.ایک آدمی سے کئی سیر تیل قرض لے کر مسجد میں رکھوا دیا.مسجد کی ملحقہ زمین میں ایک کمرہ تعمیر کروایا.بعد میں وہاں نلکا اور دروازے بھی لگوا دیے.غرباء پروری آپ کا خاص وصف تھا.ایک دن ایک غریب آدمی کے گھر گئے.دیکھا کہ سردی کے مارے اس کا برا حال ہے.اپنا گرم بستر اٹھا کر اس کے گھر رکھ آئے.آپ کی اہلیہ نے کہا خود کیا کرو گے.فرمایا میں چادر میں گزارا کرلوں گا.رقیہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد یوسف صاحب غوث گڑھی احمد نگر (وفات: ۱۲نومبر ۱۹۶۹ء) 136- آپ ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئیں.آپ نے ایک خواب کی بناء پر حضر خلیفہ اسیح الثانی کے زمانہ میں ۱۹۱۷ء میں احمدیت قبول کی ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے سفر یورپ اختیار کیا اور عورتوں سے مسجد لنڈن کے لئے چندہ دینے کا ارشاد فرمایا تو آپ نے اپنا سارا زیور خانہ خدا کی خاطر وقف کر دیا.آپ اہل حدیث فرقہ کے ایک جید عالم کی بیٹی تھیں.۱۸۹۴ء میں آپ کی پیدائش کے وقت جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی جا چکی تھی اور مخالفت زوروں پر تھی.اس لئے آپ کے خاندان کا بھی جماعت کی مخالفت کرنا دور از قیاس نہ تھا.آپ کے گاؤں غوث گڑھ ریاست پٹیالہ میں احمدیت حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کے ذریعہ آئی.خلافت ثانیہ کا دور تھا مگر آپ کا خاندان ابھی احمدیت سے محروم تھا کہ آپ کی شادی چوہدری یوسف صاحب نمبر دار سے طے پاگئی.بارات میں اہل حدیث اور احمدی مخلوط افراد شامل تھے.جب آپ کے خاندان کے بعض احمد یوں نے اپنی نماز علیحدہ پڑھی تو شور مچ گیا اور متعصب افراد نے یہ خبر آپ کے والد صاحب تک پہنچادی اور یہ سکیم تیار کی کہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 267 سال 1969ء نکاح سے قبل محتر مہ رقیہ بیگم صاحبہ کے سر سے حلف لیا جائے کہ وہ احمدی نہیں ہیں.ان کے اس امر کا حلف دینے پر نکاح ہوا.شادی کے بعد آپ کے خاوند مکرم چوہدری محمد یوسف صاحب نے حضرت چوہدری عطاء اللہ صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا.قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرتے کرتے صداقت اثر کر گئی اور آپ نے بیعت کر لی.جب یہ خبر آگ کی مانند پھیلتی ہوئی مکرم محمد یوسف صاحب کے گھر پہنچی تو آپ شدید مخالفت پر اتر آئیں اور ہر قسم کا بائیکاٹ کیا.زمیندارہ ماحول میں کھانا بند کر دیا گیا.خاوند کی اندرونی و بیرونی امداد بند کر دی گئی تھی کہ کلام تک نہ کرتی تھیں.مکرم محمد یوسف صاحب کے والد صاحب ناراض ہو کر گھر کو خیر باد کہہ گئے.جب مخالفت شدت اختیار کر گئی اور کئی ماہ کا عرصہ گزر گیا تو حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری آپ کے گھر تشریف لائے اور مکرمہ رقیہ بیگم صاحبہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آپ استخارہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے صداقت ڈھونڈیں.آپ کو یہ تجویز پسند آئی اور اگلے روز استخارہ شروع کر دیا اور خواب کی بناء پر آپ نے بیعت کر لی.آپ کی بیعت کا علم جب آپ کے سسر صاحب کو ہوا تو وہ گھر واپس آگئے اور کچھ عرصہ بعد سلسلہ احمدیہ میں شامل ہو گئے.قبول احمدیت کی خبر آپ کے میکے والوں پر بجلی کی طرح گری.ان کے نزدیک ان کی ناک کٹ گئی.آپ کے والد صاحب اس خبر کے صدمہ کو برداشت نہ کر سکے.یہ خبر سنتے ہی بیٹی کا ہمیشہ کے لئے بائیکاٹ کر دیا اور خود بیمار ہو گئے.اس کے بعد تیرہ سال زندہ رہے لیکن باپ بیٹی ایک دوسرے کی شکلوں کو بھول چکے تھے.باپ اپنی ظاہری عزت کے خاک میں ملانے کا رونا رورہا تھا اور بیٹی کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغزش نہ آئی.آخر ایک ایک کر کے تیرہ سال ختم ہوئے اور آپ کے والد صاحب کی وفات ہوگئی.۳ فروری ۱۹۵۸ء کو آپ کے شوہر کا انتقال ہو گیا.آپ کے میکے والوں نے اس عرصہ میں بھی پوری کوشش کی کہ آپ کو کسی نہ کسی طریق سے سسرال سے لے جائیں اور عقائد بدل دیں مگر آپ احمدیت پر مضبوطی سے قائم رہیں.جناب محمد سلطان صاحب ظفر کینیڈا ابن ماسٹر محمد عیسی ظفر صاحب کا بیان ہے:.محترمہ رقیہ بی بی صاحبہ نظام وصیت میں بھی شامل ہوئیں.آپ کا وصیت نمبر ۴۱۶۱ تھا.نیز آپ تحریک جدید دفتر دوم کی مجاہدہ بھی تھیں.آپ ایک دعا گو اور صوم وصلوٰۃ کی پابند خاتون تھیں.آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کیا کرتی تھیں کہ وہ آپ کو اپنی اولاد کے کم از کم دو دو بچے دیکھنا ضرور نصیب کرے.ہمارے والد صاحب کے تمام بہن بھائیوں کے ہاں تو اللہ کے فضل وکرم سے دو سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 268 سال 1969ء زائد بچے تھے لیکن ہمارے والد ماسٹر محمد عیسی ظفر صاحب اور والدہ صاحبہ حلیمہ بی بی صاحبہ کے ہاں، ان کی شادی کے پانچ سال بعد ہمارے بڑے بھائی مکرم محمداحمد ظفر صاحب ( حال کارکن دفتر امور عامه، صدر انجمن احمد یہ ربوہ) پیدا ہوئے.اور پھر مزید تین سال کے انتظار کے بعد ہمارے دوسرے بھائی مکرم محمد منور ظفر صاحب ( سابق کارکن صدر انجمن احمد یہ ربوہ ، حال مسی سا گا، کینیڈا ) اکتوبر ۱۹۶۹ء میں پیدا ہوئے تو ان کی پیدائش کے صرف ڈیڑھ ماہ بعد ۲ رمضان المبارک بمطابق ۱۲ نومبر ۱۹۶۹ء کو ۷۵ سال کی عمر میں وفات پاگئیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو قبولیت بخش کر آپ کو اپنی تمام اولاد کے کم از کم دو دو بچوں کی پیدائش آپ کی زندگی میں دکھا دی.ایک وقت تھا کہ اولا د نہ ہونے کی وجہ سے چوہدری محمد یوسف صاحب نے اپنی آدھی جائیداد دے کر ایک شخص کو اپنا بھائی بنالیا اور رقیہ بی بی صاحبہ نے اسلام احمدیت کے لئے اپنے ماں باپ کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا.لیکن خدا نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور آج ان کی نسل آسٹریلیا سے لے کر کینیڈا تک پوری دنیا میں پھیل چکی ہے.اور حتی المقدور اسلام احمدیت کی خدمت کی توفیق پا رہی ہے.نیز کئی سعید روحوں کو احمدیت کی سچائی سے روشناس کر چکی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے ایک خطبہ جمعہ میں حضرت عبداللہ سنوری صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کے ذریعہ غوث گڑھ میں جن لوگوں نے احمدیت قبول کی مجھے یقین ہے کہ ان کی نسلیں پوری دنیا میں پھیل چکی گی.66 ہوں کی.138 با با فضل احمد صاحب در ولیش ولد میر داد صاحب ساکن گھٹیالیاں (وفات: ۷ انومبر ۱۹۶۹ء) ۱۹۴۷ء میں ۱۵ نومبر کو آخری قافلہ پاکستان جانے کے بعد جو درویشان قادیان میں رہ گئے تھے وہ سوائے ۱۲۱۰ / افراد کے جو انصار اللہ کی عمر میں تھے باقی تمام درویش نوجوان تھے اس لئے سیدنا حضرت اصلح الموعود نے ۱۹۴۸ء میں جن درویشوں کا تبادلہ ناگزیر تھا ان کی جگہ تبادلہ میں معمر افراد کو بھجوایا.۱۳ مئی ۱۹۴۸ء میں جو قافلہ آیا وہ سب بزرگ افراد پر مشتمل تھا.اسی قافلہ میں مکرم چوہدری (بابا) فضل احمد صاحب آف گھٹیالیاں قادیان آکر درویشان میں شامل ہوئے تھے.زبان ٹھیٹھ پنجابی ، لباس ٹھیٹھ پنجابی، آواز بلند رعب دار، قد لمبا، جسم بھرا ہوا.گاؤں میں آپ نمبر دار تھے.چال ڈھال، بول چال اور رکھ رکھاؤ میں خالص نمبر دار، سوال کرنے کی عادت نہیں تھی.اپنا چھوٹا موٹا جو بھی کام
تاریخ احمدیت.جلد 25 269 سال 1969ء در پیش ہو خود کرتے تھے.بزرگوں کی روٹی لنگر خانہ سے لا کر دینے اور احمد یہ شفا خانہ سے بوقت ضرورت دوائی لا کر دینے کے لئے خدام ڈیوٹی پر موجود تھے مگر بابا جی جب تک چلنے پھرنے کے قابل تھے یہ جملہ کام خود ہی کر لیا کرتے تھے.اپنے کپڑے بھی خود دھولیا کرتے.مرزا بشیر احمد صاحب درویش ولد مرزا بہادر بیگ موضع نسو والی سویل خورد ضلع گجرات 139 (وفات: ۲۶ نومبر ۱۹۶۹ء) آپ بھی ان خدام میں سے تھے جنہیں مستقل خدمت کے لیے قادیان بلوایا گیا تھا اور انہیں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کچھ گزارا بھی دیا جاتا تھا.۱۹۵۲ء میں جب دیگر درویشان کے بال بچے قادیان آئے تھے تو ان کی فیملی بھی قادیان آگئی تھی.کثیر العیال تھے اور گزارانگی سے ہوتا تھا.نہایت سادہ طبیعت پائی تھی.کئی دفاتر میں بطور مددگار کارکن خدمت کی توفیق پائی.۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۴ء تک آپ مہمانوں کو کھانا کھلانے کی ڈیوٹی پر متعین تھے تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی اپنے دستخط کر لیتے تھے ٹھیٹھ پنجابی زبان بولتے تھے مگر قادیان کے ماحول سے متاثر ہوکر اردو پنجابی ملی جلی گفتگو بھی کر لیتے تھے جو نہایت پیاری لگتی تھی.جس ڈیوٹی پر بھی لگایا جاتا بڑی توجہ اور فرمانبرداری سے اسے بجالاتے.وفا کا مادہ آپ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.افسران کی اطاعت دل و جان سے کرتے تھے.اپنی اولاد کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے.نہایت درجہ کے صابر تھے.اپنے معاملہ میں کسی غرض سے شور مچانے والے نہ تھے.۱۹۶۵ء کی جنگ کے نتیجہ میں ایک دم قیمتیں بڑھ گئی تھیں اور مہنگائی نے اوسط درجہ کے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی.اس وقت بعض بعض گھروں میں چولہا تک نہ جلتا تھا اور سالن تو اکثر گھروں میں روزانہ نہ پکتا تھا.نمک مرچ اچار سے کام چلتا تھا.جن درویشان کے کسی روز چولہا نہ جلنے کی خبرماتی فورا لنگر خانہ سے ان کے طعام کا انتظام کیا جاتا.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا حکم تھا کہ کوئی بھوکا نہ رہے.مرزا صاحب بھی کثیر العیال تھے اور آمد بہت کم.آپ کے گھر بھی چولہا نہ جلا اور آپ نے صبر اور وفا پر عمل کرتے ہوئے کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی.دوسرے روز یہ خبر عام ہوگئی تو فوراً کھانے کا انتظام کیا گیا.آپ وضو کر کے نماز کے لیے تیار تھے.اہلیہ نے کہا کھانا آگیا ہے کھالیں کہنے لگے تم سالن گرم کرو میں اتنی دیر میں نماز پڑھتا ہوں.اہلیہ سالن گرم کر کے تیار ہو گئیں کہ مرزا صاحب سجدہ سے سر اٹھا ئیں تو کھانا پیش کر دیں.مرزا صاحب ہیں کہ سجدہ سے سر ہی نہیں اٹھا رہے.آخر قریب آکر دیکھا تو مرزا صاحب وفات پاچکے تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 مولوی محمد یسین صاحب محر لنگر خانه (وفات: ۷ دسمبر ۱۹۶۹ء) 270 سال 1969ء اصل وطن موضع ہمسول ضلع جہلم.بچپن میں ہی یتیم ہو گئے.حافظ غلام علی صاحب (خسر منوراحمد صاحب جہلمی کارکن صدر انجمن احمد یہ ربوہ) نے ان کو اپنی کفالت میں لے لیا.۱۹۲۸ء کے قریب ہجرت کر کے قادیان چلے گئے اور ہجرت تک قادیان میں دھونی رمائے بیٹھے رہے.قادیان میں جب حضرت سید میر محمد الحق صاحب کے دامن فیض سے وابستہ ہوئے تو ایثار و قربانی میں جلد ترقی کرنے لگے.حضرت میر صاحب کی بے مثال شفقت علی خلق اللہ اور ہمدردی کا مولوی صاحب پر ایسا گہرا اثر پڑا کہ حضرت میر صاحب کی جھلک ان میں بھی نظر آنے لگی اور اُن کے دل میں بھی حضرت میر صاحب کی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت اور غرباء کی حاجت روائی کا جذبہ پیدا ہو گیا.آپ بہت خلیق ، صوفی منش اور درویش طبع بزرگ تھے.پیغام حق پہنچانے کا بہت شوق تھا اور تبلیغی خطوط لکھتے رہتے تھے.بھائی شیر محمد صاحب آسٹریلیا والے (وفات: ۱۲،۱۱ دسمبر ۱۹۶۹ء) آپ نے عمر عزیز کا بیشتر حصہ آسٹریلیا میں گزارا اور تجارت کے ساتھ ساتھ آنریری مبلغ کے فرائض انجام دیتے رہے اور لٹریچر وغیرہ کا تمام خرج خود برداشت کرتے رہے.پھر آپ لا ہور آ گئے اور وہیں آپ کی وفات ہوئی.142 سردار سلطان احمد صاحب (وفات: ۱۶ دسمبر ۱۹۶۹ء) آپ ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے.آپ کا اصل مسکن ڈہر یوالہ نزد قادیان تھا.آپ کے والد صاحب کا نام جواہر سکھ تھا.سکھ ہونے کی حالت میں آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں پڑھتے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت سے تین سال تک مشرف ہوتے رہے.میٹرک پاس کرنے کے بعد گوردوارہ امرتسر میں ملازم ہوئے.آپ کی بیوی ڈہر یوالہ میں پڑھایا کرتی تھی.آپ چونکہ قادیان ہائی سکول میں پڑھے ہوئے تھے اس لیے قادیان آنا جانا تھا.ایک دفعہ آپ قادیان آئے
تاریخ احمدیت.جلد 25 271 سال 1969ء تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ملاقات کی.آپ کے ہمراہ آپ کی بیوی اور ایک بچہ بھی تھا.آپ کی بیوی بچہ سمیت حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور وہاں تین دن تک رہی.اور حضرت اماں جان کا پاکیزہ طرز عمل اور اسلامی ماحول دیکھ کر وہ دل و جان سے اسلام پر فدا ہوگئیں.چوتھے دن آپ نے مائی کا کو مرحومہ کے ذریعہ اپنی بیوی کو پیغام بھیجا کہ آؤ چلیں مگر اس نے کوئی جواب نہ بھیجا.آپ نے مائی کا کو صاحبہ کو ایک روپیہ بطور انعام دیا اور ان کے ذریعہ اپنی بیوی کو پھر پیغام بھیجا.اس نے کہلا بھیجا میں نہیں آؤں گی.میں نے جو نور پانا تھا پالیا.تین چار بار بلایا پر آپ کی بیوی نہ آئی پھر آپ اپنی ملازمت پر امرتسر چلے گئے.آپ نے جب وہاں اپنے بہنوئی سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے ہنس کر کہا کہ اب وہ نہ آئی.اس کے بعد آپ قادیان آتے جاتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے سردار محمد یوسف صاحب مرحوم ایڈیٹر نو کو ہدایت فرمائی کہ وہ آپ کو اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں.چنانچہ انہوں نے آپ کو تبلیغ کرنی شروع کر دی.آپ نے خود ہی اسلامی کتب کا از سرنو مطالعہ کرنا شروع کر دیا اور اسلام کی صداقت آپ پر واضح ہو گئی.سردار محمد یوسف صاحب بیعت کے لئے آپ کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی خدمت میں لے گئے اور آپ نے ۱۹۲۷ء میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.آپ کی جوانی کی عمر تھی اور صحت بہت اچھی تھی.ایک دفعہ قادیان ریتی چھلہ میں مخالفین کا جلسہ ہوا.ان کے بلائے ہوئے مقررین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بہت گستاخی کی.آپ سے برداشت نہ ہو سکا.غصہ کی حالت میں حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور آپ کو گالیاں سن کر برداشت کرنے کی عادت ہوگئی ہے.مگر میں تو برداشت نہیں کر سکتا.میں ان سے ضرور بدلہ لوں گا.حضور ناراض ہوئے اور فرمایا میں اس کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.البتہ تمہارے لئے دعا کروں گا کہ اللہ تعالی تمہیں بھی صبر کی توفیق دے.۱۹۴۷ء میں جبکہ فرقہ وارانہ فسادات زوروں پر تھے.آپ اپنے گاؤں کے سکھوں کے بدلے ہوئے تیور دیکھ کر اپنے چار بیٹوں چار بہوؤں اور پوتوں اور پوتیوں کے ساتھ اپنے گھر ڈ ہرانوالہ سے نکل کر قادیان کی طرف چل پڑے.نہر تتلہ والی پار کر کے آپ کو پاخانہ کی حاجت ہوئی.آپ ایک طرف ہو گئے.اتنے میں سکھوں کا ایک جتھہ نمودار ہوا اور اس نے آپ کے بال بچوں پر حملہ کر دیا.آپ کے چار بیٹے اور پوتے کافی جوان تھے.انہوں نے عورتوں اور بچوں کو علیحدہ کر کے جتھہ کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 272 سال 1969ء جوانمردی سے مقابلہ کیا.کئی سکھ ہلاک کئے مگر چونکہ وہ مقابلہ میں بہت زیادہ تھے اس لئے آپ کے چاروں جوان بیٹے چار جوان پوتے دس پوتے پوتیاں کل اٹھارہ افراد خاندان وہاں شہید ہو گئے.آپ بچ گئے اور قادیان پہنچ گئے.(حضرت) مرزا ناصر احمد صاحب ان دنوں قافلوں کے انچارج تھے.انہوں نے آپ کو لاہور بھجوا دیا.آپ صدمہ کی وجہ سے ذہنی مریض ہو گئے چنانچہ مینٹل ہسپتال میں آپ کا علاج ہوتا رہا.کچھ عرصہ بعد آپ کو صحت ہو گئی اور ربوہ آگئے.آپ کافی عرصہ اعصابی مرض میں مبتلا رہے.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی نے از راہ شفقت آپ کی خدمت کے لئے ایک خادم رحیم بخش صاحب کو مقرر کیا ہوا تھا.جنہوں نے آپ کی بہت خدمت کی.جب تک آپ کی ٹانگوں میں جان رہی مکرم چوہدری عبدالواحد صاحب بی.اے و دیا تھی کے پاس تشریف لاتے رہے اور حضور انور کی خدمت میں دعا کے لئے چٹھیاں لکھواتے.حکیم محمد موہیل صاحب ولد محمد لقمان صاحب (وفات: ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء) حکیم محمد موبیل صاحب صدر جماعت احمد یہ کمال ڈیرہ ضلع نواب شاہ سندھ تھے.کمال ڈیرہ علاقہ سندھ کا وہ قصبہ ہے جہاں سب سے اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی حضرت میاں محمد رمضان صاحب کی بیعت کے ذریعہ احمدیت قائم ہوئی.آپ نے قادیان جا کر ۱۸۹۸ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا تھا.محترم حکیم صاحب حضرت میاں محمد رمضان صاحب کے نواسے تھے.آپ نہایت بے باک مبلغ ہونے کے ساتھ ساتھ نمازوں کو پابندی کے ساتھ بجالاتے اور اسلامی شعار پر قائم رہتے تھے.حضور علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی کرتے نیز آپ کے مضامین بھی سندھی اخبارات میں شائع ہوتے رہتے تھے اور بعض تبلیغی ٹریکٹ بھی آپ نے شائع کئے.مرکز کے ساتھ گہرا تعلق تھا.قریبا ہر سال جلسہ سالانہ میں شامل ہوتے.مرحوم موصی تھے بر وقت جنازہ ربوہ پہنچانے کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے امانتا دفن کیا گیا تھا.بعد میں ۲۹ جنوری ۱۹۷۱ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کیا گیا.ماسٹر رانا محمد بخش صاحب (وفات: ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء) 144 تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سینئر ٹیچر تھے.ایک لمبا عرصہ اس مرکزی ادارہ میں پڑھانے
تاریخ احمدیت.جلد 25 273 سال 1969ء کے باعث آپ کے شاگردوں کا ایک وسیع حلقہ تھا.آپ کے شاگرد ہمیشہ آپ کو ایک ہمدرد اور بے تکلف دوست کی طرح ملتے تھے.بہت جوشیلے، صاف باطن اور دینی غیرت رکھنے والے انسان تھے.اگر دو دوستوں میں شکر رنجی دیکھتے تو اپنی گرہ سے کچھ خرچ کر کے بھی ان میں صلح کروا دیتے.اپنے دوستوں سے تعلقات اخوت کو آخر دم تک نبھایا.چوہدری بقاء اللہ صاحب المعروف بگا صاحب (وفات: ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء) آپ جماعت احمد یہ گوئی ( آزاد کشمیر) کے ایک بزرگ اور مخلص احمدی تھے.آپ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.احمدیت کے شیدائی تھے.آپ نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں تحریری طور پر آپ علیہ السلام کی بیعت کی تھی.پھر حضرت خلیفتہ ایسی الاول کے ہاتھ پر قادیان جا کر بیعت کی.اسی طرح خلافت ثانیہ کے دور میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی.آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.سلسلہ کی خاطر ہر قسم کی قربانی پر کمر بستہ رہتے تھے.تقریبا استی سال کی عمر میں وفات پائی.صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب بازید خیل ضلع پشاور ( وفات ۲۹،۲۸ نومبر ۱۹۶۹ء) موضع بازید خیل کا ایک حصہ عید گاہ کہلاتا ہے اسی جگہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل طالب علمی کے زمانہ میں قیام فرما رہے ہیں.یہیں صاحبزادوں کا ایک قدیم اور معزز علمی خاندان آباد ہے.صاحبزادہ سیف الرحمن صاحب اسی معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ نے خلافت اولی میں احمدیت قبول کی.۱۹۴۰ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی بیعت کر کے خلافت سے وابستہ ہو گئے جس کے نتیجہ میں آپ کا خاندان جو پہلے غیر مبائعین میں شامل ہو گیا تھا نظام خلافت کی آغوش میں آ گیا.آپ دعا گو اور فدائی احمدی تھے.بعد میں آئے مگر بہتوں سے آگے نکل گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام، قادیان دار الامان اور حضرت مصلح موعود سے اس قد روالہانہ محبت اور عشق تھا کہ ان کے ذکر پر تڑپ اٹھتے اور بے ساختہ رو پڑتے تھے جس سے ملاقات کرنے والوں پر بھی عجیب کیفیت طاری ہو جاتی تھی.حضرت خلیفہ اول کی محبت بھری باتیں بیان کر کے خود روتے اور دوسروں کو رلا دیتے تھے.147
تاریخ احمدیت.جلد 25 274 1 الفضل ۱۶.۷ امئی ۱۹۶۹ء 2 الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۶۹ صفحه ۸ حوالہ جات (صفحہ 194 تا 273) 3 الفضل یکم فروری ۱۹۶۹، صفحه ۶ سال 1969ء 4 الفضل نے فروری ۱۹۶۹ صفحہ ۸ 5 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 6 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ربوه ۱/۸اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 8 رجسٹر روایات صحابہ جلدے صفحہ ۵۹٬۵۸ 9 مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو تمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۱۵۲ تا ۱۵۷.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۲ صفحه ۵۹۰ تا ۵۹۵ 10 تمہ حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۵ طبع اول.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۹۳ - الناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ سن اشاعت ۳۰ مارچ ۱۹۶۸ء 11 البدر ۲۳، ۳۰ جنوری ۱۹۰۳، صفحه ۱۵ 12 الفضل ۱۳ / اپریل ۱۹۶۹ صفحهیم 13 کیفیات زندگی صفحه ۶۰ تا ۶۲ 14 مرکز احمدیت قادیان صفحه ۳۴۵ از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی سال اشاعت ۳-۱۹۴۲ء.الفضل ربوہ ۲۲.۳۱ مئی و ۳ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۵ - رساله مصباح ربوہ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۶۰ تا ۷۰.تاریخ بجنہ اماءاللہ جلد سوئم صفحه ۶۰۶ تا ۲۰۸ مرتبه حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز بی تاریخ اشاعت ۲۵ دسمبر ۷۲ء 15 البدر ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ صفحه 9 16 الفضل اس مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۵ و ۳ جون ۱۹۶۹ صفحه ۶،۵ 17 مصباح سالنامه ۱۹۶۹ء صفحه ۶۵،۶۴ 18 الفضل ۵ جون ۱۹۶۹ء صفحریم 19 ریکارڈ بہشتی مقبره ر بوه والفضل ربو ۳۰ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 20 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ صفحه ۴۲۵ تا ۴۲۷
تاریخ احمدیت.جلد 25 275 21 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۴ صفحه ۲۹۹ تا ۳۰۳ 22 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ صفحه ۴۳۰.روایات حضرت منشی عبدالسمیع صاحب 23 الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۵ 24 الفضل ۳ جون ۱۹۶۹ ء صفحہ ۸ 25 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ سال 1969ء 26 اصحاب احمد جلد دهم صفحه ۱۳۵ تا ۱۳۹ مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب ایم اے.ناشر احمد یہ بک ڈپور بوہ پاکستان طبع اوّل ۱۹۶۱ء.الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۹ صفحه ۵ 27 الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۹ صفحه ۵ مضمون چوہدری احمد دین خان صاحب لائل پور 28 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره ربوه و الفضل ۲۶ جون ۱۹۶۹ صفحه ۱۲ 29 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ.صحابہ مسیح موعود قادیان کی فہرست مشمولہ ضمیمہ تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحه ۵۰ نمبر ۳۱۰ کے مطابق آپ کی بیعت اور زیارت کا سال ۱۸۹۷ء ہے 30 الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۹ ء صفحہ ۸.اخبار بدر قادیان ۳۱ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۷.تاریخ احمدیت جلد۵ صفحہ ۱۷۰ حاشیہ.کتاب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحه ۱ مرتبہ حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب قادیانی گذشتنکری پنشنر وکیل المال تحریک جدید نا شهر تحر یک جدید انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ.اشاعت جون ۱۹۵۹ء 31 الفضل ۲۱ را گست ۱۹۶۹، صفحریم 32 انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۶۵، صفحہ ۳۶ تا ۳۹ 33 الفضل ۱۴ راگست ۱۹۶۹ صفحه ۸ 34 الفضل ۲۲۰۱۴ راگست ۲۱ ۲۳۱ ستمبر ۱۹۶۹ء 35 انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۶۵ ، صفحه ۳۶ تا ۳۹ 36 الفضل ۲۲ اگست ۱۹۶۹، صفحه ۵ 37 الفضل ۲۳ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۵ 38 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 39 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 40 الفضل ۳۱ را گست ۱۹۶۹، صفحه ۸ 41 نمبر اپر نام لکھا ہوا ہے.”صوفی محمد یعقوب صاحب کڑی افغاناں احمدی جنتری قادیان ۱۹۳۷ء صفحه ۳۸ مرتبه مولوی محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان 42 الفضل ربوده ۴ نومبر ۱۹۶۹، صفحه ۶ 43 الفضل و ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت.جلد 25 44 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 45 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرور بوه 46 الحکم ۱۷ را گست ۱۹۰۳، صفحه ۲۰ 47 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۶۹ صفحہ۸ 276 48 لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۳۲۶ مولفه مولانا شیخ عبد القادر صاحب مری 49 خطبات نور حصہ اوّل سرورق صفحه به طبع اوّل 50 خطبات نور سر ورق صفحہ اطبع اوّل 51 اخبار بد ر قادیان ۳۰ جنوری ۱۹۱۳ صفحه ۱۷ 52 لا ہور تاریخ احمدیت مؤلّفہ شیخ عبد القادر سابق سوداگر مل صفحه ۳۳۰،۳۲۹ 53 رپورٹ مجلس مشاورت اپریل ۱۹۳۶ صفحه ۱۱۶ 54 لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۳۲۸ مؤلّفه مولانا شیخ عبدالقادر صاحب 55 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ 56 رجسٹر روایات صحابہ جلدی صفحه ۸۳ سال 1969ء 57 الفضل، اول ار اکتوبر ۱۹۶۹ء ورسالہ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت صفحہ ۱۶.مرتبہ میاں عبدالعظیم صاحب در ولیش قادیان پروپرائیٹر احمد یہ بک ڈپو قادیان دارالامان 58 فہرست صحابه سیح موعود علیه السلام قادیان زیر نمبر ۱۵۹ مشموله ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۴۳ 59 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۸ صفحه ۱۰۴ 60 الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ 61 الفضل ۲۶ را گست ۱۹۷۱ء 62 فهرست صحابہ قادیان مرتبہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مشمول ضمیمه تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۳۶ نمبر۱۴ 63 الفضل ۲ دسمبر ۱۹۶۹ ء صفحه ا 64 الحکم ۲۸ را پریل ۱۹۳۵ء صفحه ۳ 65 رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۱۳۱ 66 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ا 67 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۶ 68 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ 69 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۵ 70 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت.جلد 25 277 71 فہرست اولا د مر تبہ سید جواد علی صاحب سابق مجاہد امریکہ 72 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبر و ربوہ 73 روزنامه الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ و ۱۷ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 74 الفضل 3 جنوری ۱۹۷۰ء صفحہ ۸.الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 75 الفضل ۱۵ جنوری ۲۹ اپریل ۴ جون ۱۹۶۹ء 76 الفضل ۲۹ / اپریل ۱۹۶۹ صفحه ۵ 77 اخبار بد ر قادیان ۲۳ جنوری، ۶ فروری و ۸ مئی ۱۹۶۹ء 78 الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۶ 79 الفضل ۳ ر ا پریل ۱۹۶۹ء صفحهیم 80 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۹ صفحه ۶ سال 1969ء 1 تابعین اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۹ تا ۱۴ مولفہ ملک صلاح الدین ایم اے طبع اول مارچ ۱۹۷۶ء ناشر احمد یہ بک ڈپور بوہ 82 رپورٹ سالانہ یکم مئی ۱۹۳۵ لغایت ۳۰ را پریل ۱۹۳۶ء صفحه ۱۵۱-۱۵۲ 83 الفضل ۴، ۵ ۱۳ فروری و ۵ جون ۱۹۶۹ ء ورساله الفرقان ربوہ ستمبر ۱۹۶۹ صفحه ۴۳ 84 الفضل اس مئی ۱۹۶۹ء صفهیم 85 الفضل ۱۵ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 86 الفضل ۱۸ فروری ۳۰ مارچ.۲۶ اپریل.۲۳ مئی ۱۹۶۹ء 87 مصباح مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۳۱ 88 الفضل ۴ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحه ۸ مسل وصیت نمبر ۳۰۹۲ بهشتی مقبر در بود 89 ضمیمہ رساله انجام آتھم روحانی خزائن جلد نمبر ۱۱ صفحه ۳۲۵ فهرست ۳۳ 90 الفضل ۴ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحه ۸ 91 الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۷۰ صفحه ۵ 92 الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۶۹، صفحہ ۶ 93 رسالہ تحریک جدید حصہ انگریزی مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۶.الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۹ء صفحریم 94 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۹ء صفحریم 95 الفضل ۱۲ ۱۲۲ اپریل.۲۰-۲۵ مئی.۷.۸/اگست ۱۹۶۹ء 96 الفضل ۲۴۲۰۹-۲۶ را پریل ۳ مئی ۱۹۶۹ء.رسالہ تحریک جدید مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۷ تا ۲۳ 97 الفضل ۹-۱۲-۱۵-۱۲-۲۲ / اپریل ۲-۴-۶-۹-۱۰-۱۱.۲۱ مئی.۱۶.۱۷.۱۹اراگست ۱۹۶۹ء 98 الفضل ۱۰ راگست ۱۹۸۹ ء صفحه ۶-۷
تاریخ احمدیت.جلد 25 وو الفضل ۱۳ار ایریل ۱۹۶۹، صفحه ۸ 100 الفضل ، امئی و ۲۸ جون ۱۹۶۹ء 101 اخبار بدر قادیان ۸ مئی ۱۹۶۹ صفحه ۱۱ 102 الفضل سے مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ 103 الفضل ۶ امئی ۱۹۶۹ء صفحه م 104 الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۵ 105 الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۹ صفحه ۸ 106 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۹ صفحه ا 278 سال 1969ء 107 الفضل ۲۹ جون ۱۹۶۹، صفحه ۵ 108 لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۱۴ ، ۱۱۵ 109 المفضل ۲۳ اگست ۱۹۹۹ صفحه ۲ 110 الفضل ۳.۱۲.۲۹ جون ۴ ستمبر ۱۲.۱۴.۱۶ اکتوبر ۱۹۶۹ء.کتاب "تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین، صفحہ ۹۵.بشارات رحمانیہ حصہ اول صفحه ۱۱۴ تا ۱۲۲) طبع اوّل مرتبہ مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر مطبوعه اله بخش سٹیم پریس قادیان ۱۹۳۹ء 111 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۹ صفحه ۸ 112 الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۹ء صفحہ ۶ 113 الفضل ۱۹ جون ۱۹۶۹ ء صفحہ ۸ 114 الفضل ۱۵، ۱۸ جون ۱۹۶۹ء 115 اخبار بدر قادیان ۱۹ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۲ 116 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۶ 117 وہ پھول جو مرجھا گئے صفحہ ۲۴۶ ۲۴۷ 118 الفضل ۴ جولا ئی و ۲۳، ۲۵ نومبر ۱۹۹۹ء 119 الفضل یکم جولائی ۱۹۶۹ء 120 الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۷۶ 121 الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۶ 122 الفضل، ۱ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۶ 123 الفضل یکم اگست - ۱۶.۹ استمبر ۱۹۶۹ء 124 الفضل ۲۱ را گست و ۲۰ ستمبر ۱۹۶۹ء 125 الفضل ۲٦،٩،٢ ستمبر ۱۹۶۹ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 279 126 الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۶۹ ، صفحہ ۵ و ۲۷ نومبر ۱۹۶۹ء صفحہ۵.127 الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۹ ء صفحہ ۷ 128 الفضل ۱۶ ۲۳ تمبر و یکم اکتوبر ۱۹۶۹ء 129 الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۱.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 130 الفضل ۳۰ ستمبر ۵۷_۱۱_۲۸_۳۰/اکتوبر ۱۹۶۹ء 131 الفضل اار اکتوبر ۱۹۶۹ ء صفحه ۵ 132 الفضل ۱۷ را کتوبر و ۲ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۵ 133 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۸ ۲۰ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۵ - تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۳۸۷-۳۸۶ 134 الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۹، صفحه ۶ 135 الفضل ۱۸و۲۲ نومبر ۱۹۶۹ء 136 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۹ ء صفحه ۵ 137 الفضل ۳ فروری ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 138 الفضل انٹر نیشنل ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ء 139 وہ پھول جو مرجھا گئے صفحہ ۲۴۸ تا ۲۵۰ 140 وہ پھول جو مر جھا گئے صفحہ ۲۵۱ تا ۲۵۴ 141 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۵ 142 الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 143 الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۷۰ ، صفحه ۵ 144 الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۵ 145 الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۶ سال 1969ء 146 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۷۰ ء صفحه ۱۰ 147 الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۵ - تاریخ احمدیت سرحد صفحه ۲۳۵ تا ۲۳۸ مؤلفه حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی قاضی خیل ہوتی ضلع مردان امیر جماعت احمد یہ سرحد.اشاعت ۱۹۵۹ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 280 سال 1969ء ۱۹۶۹ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت اس سال کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں سیدنا حضرت مصلح موعود کے پہلے پڑپوتے کی ولادت ہوئی یعنی مرزا محمود احمد صاحب ابن مرزا مجیب احمد صاحب جو ۱۲ جنوری ۱۹۶۹ء کو پیدا ہوئے.اس کے علاوہ مندرجہ ذیل نفوس کا اضافہ ہوا.امتہ الحی منورہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب ( ولادت ۹ را پریل ۱۹۶۹ء) مرزا انصیر احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ( ولادت ۱۰ جون ۱۹۶۹ء) مرزا بشیر الدین فخر احمد صاحب ابن ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب ( ولادت ۳۰ جون ۱۹۶۹ء) در مشین صاحبہ بنت ملک فاروق احمد صاحب کھوکھر ( ولادت ۴ جولائی ۱۹۶۹ء) ملک بابرظہیر احمد صاحب ابن میجر ملک شیر احمد صاحب ( ولادت ۲۸ جولائی ۱۹۶۹ء) صائمہ صاحبہ بنت نوابزادہ مصطفی احمد خان صاحب ( ولادت ۲۷ جولائی ۱۹۶۹ء) مرز انصر احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا اور لیس احمد صاحب ( ولادت ۲۱ /اگست ۱۹۶۹ء) امة الاعلیٰ نصرت صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( ولادت ۲۳ ستمبر ۱۹۶۹ء) امتة الممالک وردہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب (ولادت ۳ را کتوبر ۱۹۶۹ء) امہ السمیع سمیر احمد صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا شمیم احمد صاحب (ولادت ۲۸ نومبر ۱۹۶۹ء) سیّد خالد مقصود احمد صاحب ابن میر مسعود احمد صاحب (ولادت ۳۰ دسمبر ۱۹۶۹ء) احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات 10 اس سال سیرالیون کے احمد یہ سیکنڈری سکول بونے فٹ بال نیشنل چیمپیئن شپ جیت کر مسلمان سکولوں کی نیک نامی میں اضافہ کیا.اسی طرح پاکستان میں ایک احمدی نوجوان ملک عبدالوحید خان صاحب جو تھرڈ ائیر مکینیکل
تاریخ احمدیت.جلد 25 281 سال 1969ء انجینئر نگ کے طالب علم تھے.ویسٹ پاکستان انجینئر نگ یو نیورسٹی کے آٹھویں سالانہ کھیلوں کی چیمپیئن شپ میں بہترین کھلاڑی قرار دئے گئے.انہوں نے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا اور چار میں اول پوزیشن اور انعامات حاصل کئے.انہیں یونیسکو کے پروفیسر ڈاکٹر ڈنکن سمتھ نے یونیسکو ٹرافی عطا کی.نیز آپ نے یونیورسٹی کے بہترین کھلاڑی کی ٹرافی حاصل کی.علمی میدان میں یہ سال احمدی نوجوانوں کی علمی برتری اور غیر معمولی علمی کامیابیوں اور کامرانیوں کا پیغام لے کر آیا.انہیں قومی اعزاز سے نوازا گیا اور دنیا کی مختلف یو نیورسٹیوں سے مختلف علوم سے متعلق نہایت اعزاز کے ساتھ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں.کئی احمدی یو نیورسٹیوں کے امتحانات میں اول یا دوم رہے اور کئی احمدی تعلیمی اداروں کے نتائج سو فیصد رہے.چنانچہ ڈاکٹر عبدالمنان خان صاحب ( ابن الحاج ملک عبد المالک صاحب آف لاہور) نے امریکہ کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی مشہور یونیورسٹیوں ایم.آئی.ٹی بوسٹن اور پرڈیوسٹیٹ یونیورسٹی انڈیانا سے ایم.ایس.سی اور پی.ایچ.ڈی نیوکلیئر انجینئرنگ کی ڈگریاں حاصل کیں.احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کے ایک طالب علم نے جی سی ای کے امتحان میں مغربی افریقہ 16 15 میں اول پوزیشن حاصل کی.محمد عقیل صاحب اطہر ولد ڈاکٹر محمد زبیر صاحب لکھنوی نے لندن یونیورسٹی سے اینٹی بائیٹک میں پی.ایچ.ڈی کا امتحان پاس کیا.پاکستان میں اس مضمون کے آپ پہلے پی.ایچ.ڈی ہیں.مربی سلسله گیانی واحد حسین صاحب کے صاحبزادہ مرزامحی الدین صاحب سینئر سائنٹیفک آفیسر 18 پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے البرٹا یونیورسٹی کینیڈا سے پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی.جناب منظور احمد صاحب قریشی کے فرزند ڈاکٹر لطیف احمد صاحب قریشی پونے آٹھ سال انگلینڈ میں مقیم رہے اور وہاں سے ایم.آر سی.پی اور ڈی.سی.ایچ کا امتحان پاس کیا اور واپس پاکستان آکر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ہدایت پر فضل عمر ہسپتال ربوہ میں طبی خدمات بجالانے لگے.الحاج ڈاکٹر غلام اللہ خان صاحب ڈائریکٹر ریسرچ پاکستان فاریسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور کو صدرِ پاکستان محمد یحی خان کی طرف سے تمغہ قائد اعظم کا اعزاز عطا کیا گیا.یہ اعزاز ان کو پھلدار درختوں اور جنگلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات الارض کی روک تھام کے سلسلہ میں ریسرچ اور اعلیٰ کارکردگی کے صلہ میں دیا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 282 21 سال 1969ء ڈائریکٹر آف ایجو کیشن راولپنڈی ریجن کی طرف سے جامعہ نصرت سے ۱۹۶۸ء میں بی.اے کا امتحان دینے والی مندرجہ ذیل طالبات کو گورنمنٹ سکالرشپ کا حقدار قرار دیا گیا.نصرت تنویر صاحبہ، امینہ بیگم صاحبہ، شاہدہ نجمہ صاحبہ ، فرحت احمد صاحبه، ریحانه سعید صاحبہ شمیم اختر صاحبہ - صبح فرزانه شی صاحبہ بنت ماسٹر خادم حسین صاحب مڈل سٹینڈرڈ کے امتحان میں ضلع تھر پارکر سے لڑکیوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی.لطف الرحمن صاحب ابن جناب عبدالرحمن صاحب صابر جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ گوجرانوالہ نے دسویں کا امتحان بحالت بیماری دیا لیکن محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ احمدی نوجوان اپنے سکول میں اول اور ضلع میں دوم آیا.عبدالکریم صاحب زاہد ابن صوبیدار رحیم بخش صاحب زیروی پشاور کینٹ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم.ایس سی ریاضی کا امتحان نمایاں کامیابی کے ساتھ پاس کیا اور یونیورسٹی میں سیکنڈ آئے.عبدالرشید صاحب ابن ڈاکٹر عبدالمغنی صاحب راولپنڈی اس سال ثانوی تعلیمی بورڈ سرگودھا کے انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں اول آئے.نیز ایف ایس سی پری میڈیکل گروپ میں ایک اور احمدی نوجوان عزیزم منیر احمد صاحب سہیل ابن چوہدری محمد دین صاحب انور نے بورڈ میں دوسری اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں اول پوزیشن حاصل کی.خلیل محمود صاحب ابن اے.آرسلیم صاحب بی اے.ایل ایل بی سیکشن آفیسر ( گورنمنٹ آف 23.26 پاکستان کراچی ) ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی کے ایف ایس سی کے امتحان میں اول رہے.كلية الطب بالجامعۃ الاحمد یہ ربوہ کے ایک ہونہار طالب علم فارقلیط احمد صاحب نے بورڈ آف یونانی اینڈ آیورویدک سٹم آف میڈیسن پاکستان میں تیسری پوزیشن حاصل کی.مرزا ناصر احمد صاحب ابن مرز آفتاب احمد صاحب نے پشاور یونیورسٹی میں بی ایس سی آنرز ( ایگریکلچر ) کا امتحان اعلیٰ فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور یونیورسٹی بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کرنے کے علاوہ اپنے خاص مضمون فوڈ ٹیکنالوجی میں فرسٹ ڈویژن کا اعزاز حاصل کیا.تعلیم الاسلام مڈل سکول کھاریاں، کلیۃ الطب بالجامعۃ الاحمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ ایم.اے عربی کے نتائج سو فیصد رہے.مؤخر الذکر مرکزی ادارہ کی دو طالبات امتہ الباسط شریف صاحبہ بنت چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد گیمبیا اور امتہ الرفیق صاحبہ بنت قریشی فضل حق صاحب گولبازار
تاریخ احمدیت.جلد 25 283 سال 1969ء ربوہ پنجاب یونیورسٹی کے امتحان ایم.اے عربی میں بالترتیب دوئم اور سوئم رہیں.نیز حلیمہ زاہدہ صاحبہ اور امۃ الرؤف صاحب نے یونیورسٹی میں چھٹی اور ساتویں پوزیشن حاصل کی.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ۱۹۶۹ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی سات طالبات ایم.اے عربی کے امتحان میں شریک ہوئیں.سبھی نہ صرف پاس ہوئیں بلکہ مذکورہ بالا چار پوزیشنیں بھی حاصل کیں.مسجد خضر سلطانہ کی تعمیر سیدہ خضر سلطانہ صاحبہ ( وفات ۲۲ جولائی ۱۹۶۴ء) بیوہ محمد یونس صاحبہ دہلوی نے ایک قطعہ واقع محله دارالرحمت وسطی ربوہ مسجد کی تعمیر کے لئے وقف کیا تھا.اس سال یہاں مسجد خضر سلطانہ تعمیر ہوئی جس کا سنگ بنیا د حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ۱۹ جنوری ۱۹۶۹ء کو بعد نماز عصر رکھا.لیڈی ڈاکٹر سعیدہ اختر صاحبہ آف کراچی ( بنت حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے مہر سنگھ ) حج بیت اللہ کے بعد میدانِ عرفات اور صفا و مروہ کے دوٹکڑے پتھر کے بطور تبرک ساتھ لائی تھیں اس نیت کے ساتھ کہ خدا کے کسی گھر میں نصب کروں گی.چنانچہ مسجد خضر سلطانہ کے اندرونی پلستر کے دوران ۴ جولائی ۱۹۶۹ء کو ایک پتھر مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی نے محراب میں اور دوسرا ملک محمد شفیع صاحب نوشہروی صدر محلہ دار الرحمت وسطی نے نصب کیا.خدا کے اس گھر کی تعمیر مولوی عبدالرحمن صاحب انور سابق اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ امسیح کی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچی.قادیان میں یوم جمہوریت 30 ۲۶ جنوری ۱۹۶۹ء کو بھارت کا قومی تہوار یوم جمہوریت تھا.جو ملک بھر میں منایا گیا.قادیان دار الامان میں بھی یہ تقریب منائی گئی.جس میں دیگر شہریوں کے علاوہ باقاعدہ تنظیم سے اور اپنی سابقہ روایات کے مطابق درویشان قادیان کی کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی جن میں حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمدیہ قادیان خاص طور پر قابل ذکر تھے.جھنڈا لہرانے کی رسم ادا کی گئی تو تمام حاضرین اس کے اعزاز میں کھڑے رہے.دو احمدی بچوں نے اس موقعہ کے مناسب حال نظمیں سنائیں.متعدد مقررین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور شاعروں نے نظمیں پیش کیں.آخر میں صدر جلسہ سردار ستنام سنگھ صاحب نے اپنی صدارتی تقریر میں بتایا کہ سب بھارتیوں کی کوششوں ہی سے ملک کی ترقی ممکن ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 284 سال 1969ء مسجد احمدیہ شیموگہ کا افتتاح ۳۱ جنوری ۱۹۶۹ء کو مولوی حکیم محمد دین صاحب انچارج مبلغ نے شیموگہ میسورسٹیٹ بھارت) کی مسجد احمدیہ کا دعاؤں کے ساتھ افتتاح کیا.ان دنوں سید مدار صاحب جماعت احمد یہ شیموگہ کے پریذیڈنٹ تھے.32 وقار عمل کی ایک دلچسپ رپورٹ پرائمری گرلز سکول چک نمبر ۶ ۸ ضلع سرگودہا کو مڈل سکول میں تبدیل کرنے کے لئے دومزید کمروں کی ضرورت تھی.مگر فنڈ کی کمی کی وجہ سے کمروں کے اندر بھرتی نہیں ڈالی جاسکتی تھی.اس مشکل کو دیکھتے ہوئے چوہدری غلام رسول صاحب نگران حلقہ نے مقامی یونین کونسل کے چیئر مین اور معزز زمینداروں کو بتایا کہ اگر وہ پسند کریں تو ہم وقار عمل کے ذریعہ یہ کام مفت کر سکتے ہیں.انہوں نے پیشکش کو نہایت خوشی سے قبول کیا.لہذا چوہدری غلام رسول صاحب نگران حلقہ نے ان کو بتایا کہ ہم ۲۳ فروری بروز اتوار و وقار عمل منائیں گے.اس با برکت وقار عمل کے شروع ہونے سے قبل ہی نیک نتائج پیدا ہونے شروع ہو گئے.جب گاؤں کے لوگوں کو علم ہوا کہ وقار عمل میں شامل ہونے کے لئے سرگودہا اور ربوہ سے بھی احمدی آر ہے ہیں تو ان میں سے ایک نے ان لڑکوں کو جنہوں نے دیواروں پر مرزائی کا فرلکھا ہوا تھا.مٹا ڈالنے کے لئے کہا اور ان کو سمجھایا کہ یہ بہت بری بات ہو گی کہ وہ یہاں آکر ہمارے کام کریں.اور ہم ان کے خلاف لکھ لکھ کر دیوار میں بھر دیں لہذا وہ الفاظ مٹا دیئے گئے.اس میں حلقہ چک نمبر ۸۶ جنوبی کی چار مجالس یعنی ۸۱،۸۶،۳۵ اور ۳۳ جنوبی کے ۲۱ خدام، ۱۰ اطفال اور ۶ انصار شامل ہوئے.اس کے علاوہ غیر از جماعت احباب میں سے چوہدری محمد اکرم صاحب ایل ایل بی چیئر مین اور چوہدری ریاض احمد صاحب ممبر یونین کونسل نمبر ۹۴ بھی اس وقار عمل میں شریک ہوئے کل حاضری ۴۳ تھی.یہ وقار عمل ساڑھے تین گھنٹے تک جاری رہا.وقار عمل کے اختتام پر قائد ضلع سرگودہانے تمام حاضرین کے سامنے جن میں غیر از جماعت احباب بھی شامل تھے حضرت مصلح موعود کے ارشادات کی روشنی میں وقار عمل کی ضرورت واہمیت اور فوائد پرمختصر تقریر کی.آخر پر محمد حسین صاحب پریذیڈنٹ چک نمبر ۶ ۸ جنوبی نے دعا کرائی.33
تاریخ احمدیت.جلد 25 285 سال 1969ء ربوہ کے ڈاکٹر ز کے متعلق ایک خبر اس سال کے ابتداء میں پاکستان میں ملک گیر ہڑتالوں کا سلسلہ تشویشناک صورت اختیار کر گیا.لیکن مرکز احمدیت ربوہ نے اپنی امتیازی اور منفردشان برقرار رکھی اور اس کے کسی شہری نے ان ہنگاموں میں حصہ نہیں لیا اور وہ برابر تعمیر وطن میں مصروف عمل رہے.چنانچہ روزنامہ مشرق“ نے یہ خبر شائع کی:.ربوہ کے ڈاکٹروں نے ہڑتال نہیں کی ربوه ۵ مارچ ( نامہ نگار ) ربوہ غالباً مغربی پاکستان میں واحد شہر ہے جہاں کے ڈاکٹر ملک گیر ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے اور باقاعدہ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں.مقامی تعلیمی ادارے بدستور کھلے ہیں اور ان میں سالانہ امتحان شروع ہو گئے ہیں.مقامی ڈاک خانہ کے ملازمین بھی ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے“.۱۹۶۹ء کے احمدی حجاج نظارت اصلاح وارشاد کے ریکارڈ کے مطابق سال ۱۹۶۹ء میں مندرجہ ذیل احمدی احباب کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی.ا.قریشی محمد اقبال صاحب ( گوجرانوالہ ) ۲- محمد ہاشم خان صاحب (اردن) ۳.مبارک احمد صاحب مع خاندان ( عراق )۴.ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب (راولپنڈی ) ۵.میاں مبارک احمد صاحب مع اہلیہ (لائلپور )۶.کے پی اسو صاحب ( کالی کٹ کیرالہ ).کے احمد کنجی صاحب ( کالی کٹ کیرالہ ).ایم اے محمد صاحب (کالی کٹ کیرالہ ) ۹.اُنی معین صاحب (کالی کٹ کیرالہ ) ۱۰.احمد توفیق صاحب بنگالی ( مشرقی پاکستان (۱۱.ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ( مشرقی افریقہ) ۱۲.نوابزادہ چوہدری محمد سعید صاحب (حیدر آباد ) ۱۳.عزیزہ بیگم صاحبہ (حیدر آباد ) ۱۴.عبدالرحمن صاحب اختر ( شیخو پوره ) ۱۵- امینه خاتون صاحبه (شیخوپورہ)۱۶.چوہدری محمود احمد صاحب (لا ہور ) ۱۷.مرزا عمر الدین صاحب (نارووال ۱۸ - زینب بی بی صاحبہ (نارووال )۱۹.مرزا معظم بیگ صاحب مع اہلیہ و بچگان ( کوئٹہ ) ۲۰.چوہدری شہاب الدین صاحب ( شیخو پورہ )۲۱.سردار بی بی
تاریخ احمدیت.جلد 25 286 سال 1969ء صاحبه ( شیخو پوره ) ۲۲.مرزا عبدالوحید بیگ صاحب (کراچی) ۲۳.حفیظ بیگم صاحبہ ( کراچی ) ۲۴.چوہدری اعظم علی صاحب (لاہور ) ۲۵.سید ادیب الدین صاحب ( کراچی )۲۶.راجہ نصر اللہ خان صاحب ( ڈلوال ضلع جہلم (۲۷.ایک ڈچ مسلمان خاتون (ہالینڈ)۲۸.Ali Seray (سیرالیون )۲۹.محمد یوسف صاحب مع اہلیہ (کوالا لمپور ) ۳۰.ڈاکٹر احمد دھلان صاحب ( جکارتہ ) ۳۱.عبدالحی صاحب بٹ ( یوگنڈا ) ۳۲.چوہدری رحمت علی صاحب ( گوکھو وال ضلع لائکپور (۳۳.عبدالسمیع صاحب (لائکپور (۳۴ تا ۳۶ تین ہمشیرگان مبارک احمد صاحب لائکپور ) ۳۷.ضیاء اللہ صاحب مع اہلیہ (چک ۸۸ ضلع لائلپور ) ۳۸.مبارک احمد صاحب (چک ۸۸ ضلع لائلپور ) ۳۹.ولی محمد صاحب (جھنگ مگھیا نہ )۴۰.ڈاکٹر عزیز احمد صاحب (ایڈنبرا سکاٹ لینڈ ) ۴۱.زہرہ فاطمہ صاحبہ ( گوجره ) ۴۲ - خورشید احمد صاحب ( گوجره )۴۳.اقبال بیگم صاحبہ ( گوجره ) ۴۴.بولید بن طالب صاحب ( سنگاپور) ۴۵.فاطمہ بنت مپوزی صاحبہ (سنگا پور (۴۶.سید احمد صاحب ( سنگاپور ) احمدیہ محلہ قادیان میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی آمد ۲۳ مارچ ۱۹۶۹ء کو آنریبل چیف منسٹر پنجاب سردار گورنام سنگھ صاحب احمدیہ محلہ قادیان میں تشریف لائے.آپ کے ہمراہ دیگر سرکاری افسران کے علاوہ جنرل راجندر صاحب سپیرو اور سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ ایم ایل اے بھی تھے.احمد یہ چوک میں آپ کا پُر جوش نعروں سے استقبال کیا گیا.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب قائمقام ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے معزز مہمان سے مصافحہ کیا اور ہار پہنائے.آپ کے بعد صدرانجمن احمد یہ قادیان کے تمام ممبران نے بھی مصافحہ کیا اور ہار پہنائے.بعد ازاں تمام معزز مہمان مہمان خانہ میں تشریف لے گئے.جہاں مشروب اور مٹھائی سے تمام مہمانوں کی تواضع کی گئی.اس موقعہ پر آنریبل چیف منسٹر صاحب نے جماعت احمدیہ کے ایک نمائندہ وفد سے علیحدگی میں بھی ملاقات کی جس کے دوران صاحبزادہ صاحب نے انہیں قرآن کریم اور دیگر دینی لٹریچر پیش کیا.36 جامعہ احمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلے جامعہ احمد یہ ربوہ کے سالانہ تقریری مقابلے اردو، انگریزی، اور عربی متینوں زبانوں میں
تاریخ احمدیت.جلد 25 287 سال 1969ء بالترتیب ۲۴، ۲۵ اور ۲۶ مارچ کو منعقد ہوئے.آخری روز مقابلوں کے اختتام پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے تشریف لاکر طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا ایک خصوصی اجلاس 37 ۲۸ مارچ ۱۹۶۹ء کو بزم سیاسیات تعلیم الاسلام کالج کے زیر انتظام ایک خصوصی اجلاس منعقد ہوا جس کی خبر روزنامه امروز ۲۹ مارچ ۱۹۶۹ ء نے درج ذیل الفاظ میں دی:.اسلامی احکام پر عمل کئے بغیر اسلام کا اقتصادی نظام قائم نہیں ہوسکتا ربوه ۲۸ مارچ.ممتاز عالم مولانا دوست محمد شاہد نے کہا ہے کہ احکام خداوندی پر عمل پیرا ہو کر ہی دنیا میں صحیح اقتصادی نظام قائم ہو سکتا ہے.مولا نا گزشتہ روز بزم سیاسیات تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے.آپ نے مزید کہا کہ اسلامی اقتصادی نظام کا ایک نقشہ خلافت راشدہ کے وقت دنیا میں اپنی برکات ظاہر کر چکا ہے.اسلامی دنیا کی تمام مشکلات کا حل قرآن مجید کے اصولوں کو اپنانے میں مضمر ہے.آپ نے کہا کہ قرآن مجید کے مطابق وہی شخص معزز ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں ادا کرے.صرف دولت کے لحاظ سے کوئی شخص معزز نہیں قرار پاسکتا“.سفیر سعودی عرب کو قرآن مجید انگریزی کا بیش قیمت تحفہ 38 ہز ایکسیلنسی انس یوسف ین سفیر سعودی عربیہ (برائے ہند ) کے اعزاز میں انڈ و عرب ایسوسی ایشن حیدرآباد نے ۶ را پریل ۱۹۶۹ء کو ایک تقریب کا اہتمام کیا.جس میں حیدر آباد کے ممتاز شہریوں کی کثیر تعداد شریک تھی.اس موقعہ پر جماعت احمد یہ حیدر آباد کے ایک بزرگ قاضی جناب احمد حسین صاحب جماعت کے نمائندہ کی حیثیت سے مدعو تھے.جنہوں نے قرآن کریم انگریزی کا ایک نسخہ اور دیگر انگریزی کتب کا ایک خوبصورت پیکنگ آنریبل سفیر صاحب کو پیش کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول فرمایا.دوسرے روز مقامی اخبارات نے اس خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا.صدر جمہوریہ ہند کا انتقال اور قادیان میں تعزیتی جلسہ 39 ۳ مئی ۱۹۶۹ء کو صدر جمہوریہ ہند جناب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب دلی میں صبح گیارہ بج کر ہیں منٹ پر انتقال کر گئے جو نہی یہ افسوسناک خبر آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہوئی ملک بھر میں گہرے رنج و غم کی لہر دوڑ گئی.ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ قادیان حضرت مولوی عبدالرحمان صاحب فاضل کے حکم سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 288 سال 1969ء اسی وقت انجمن کے جملہ ادارے بند کر دیئے گئے اور اگلے روز ہم مئی کو بھی بند رہنے کا اعلان کر دیا گیا.اس سلسلے میں میونسپل کمیٹی قادیان کے زیر اہتمام کے بجے شام ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں در ویشان قادیان بھاری تعداد میں شامل ہوئے.جلسہ میں متفقہ طور پر تعزیتی قرار داد پاس کی گئی جس کی پُر زور تائید جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے حکیم بدرالدین صاحب عامل جنرل سیکرٹری لوکل انجمن احمد یہ قادیان نے کی.نیز گیانی عبد اللطیف صاحب نے اپنی مختصر مگر جامع تقریر میں اس المناک سانحہ پر جماعت احمدیہ کی طرف سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور مرحوم صدر کی شاندار قومی اور ملکی خدمات پر مفصل روشنی ڈالی.جماعت احمدیہ کے ترجمان اخبار ” بدر نے امئی ۱۹۶۹ء کے صفحہ اول پر صدر جمہوریہ ہند کے انتقال پر مفصل خبر سپر داشاعت کی اور ان کی عظیم الشان قومی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا.تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں ماہرین تعلیم کی آمد 40 ۴ مئی ۱۹۶۹ء کو پاکستان کے دو مشہور ماہرین تعلیم جناب ڈاکٹر ایل ایم چاولہ صاحب پرنسپل سنٹرل ٹرینگ کالج لاہور اور ڈاکٹر سید نذیر احمد شاہ صاحب سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور تعلیم الاسلام انٹرمیڈیٹ کالج گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ میں تشریف لائے.وہ کالج کی منظوری کے سلسلہ میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کی ہدایات کے ماتحت آئے تھے.انہوں نے کالج بلڈنگ، طلباء کی اقامت گاہ (ہوسٹل)، سٹاف کے رہائشی کوارٹرز، لائبریری اور کالج گراؤنڈ کا نہایت دلچسپی سے معا ینہ کیا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بھی دیکھا اور اس پسماندہ علاقہ میں کالج کے ارباب حل وعقد کی مساعی کو سراہا نیز اپنے قیمتی خیالات سے لیکچرار صاحبان اور طلبہ کونوازا..کالی کٹ انڈیا میں تبلیغی نمائش جماعتہائے احمدیہ کیرالہ (جنوبی ہند) کے زیر اہتمام 4 مئی سے امئی ۱۹۶۹ء تک کالی کٹ کے ٹاؤن ہال میں ایک عظیم الشان تبلیغی نمائش منعقد ہوئی جس کا افتتاح مسٹرسن کرن نرائن میئر کالی کٹ نے فرمایا اور اپنی افتتاحی تقریر میں جماعت احمدیہ کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں اور غیر معمولی کامیابیوں کا تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ قدیم زمانہ میں مذہب کے نام پر جنگیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب تقریروں، تحریروں اور اس قسم کی نمائشوں کا زمانہ ہے اور جماعت احمد یہ اپنے نظریات و عقائد کی اشاعت کیلئے ان ذرائع کو خوب استعمال کرتی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 289 سال 1969ء یہ نمائش اپنے علاقے میں اپنی طرز کی ایک انوکھی نمائش تھی جس میں نہایت قرینہ اور سلیقہ کے ساتھ بہتر ۷۲ مختلف قطعات بہت خوبصورت اور جاذب نظر لکھائی میں آویزاں تھے.علاوہ ازیں اسے بہت سی تصاویر سے مزین کیا گیا جن سے جماعت احمدیہ کی بین الاقوامی دین کی خدمت کی عکاسی ہوتی تھی.نمائش میں جماعت احمدیہ کا مختلف زبانوں پر مشتمل لٹریچر قرآن کریم کے تراجم، مختلف زبانوں کی کتب اور اکناف عالم سے شائع ہونے والے جرائد و رسائل بھی رکھے گئے تھے.مئی کو نمائش ہال میں ایک پریس کانفرنس ہوئی جس میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی تفصیلات پر روشنی ڈالی گئی.کانفرنس کی نمائندگی مکرم مولوی ابوالوفا صاحب مبلغ انچارج کیرالہ نے کی.اس نمائش اور پریس کانفرنس کا ذکر کیرالہ کے سرکردہ اخباروں نے نمایاں طور پر شائع کیا اور جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی سرگرمیوں کو سراہا.نمائش دیکھنے والوں کی آراء معلوم کرنے کیلئے نمائش ہال کے دونوں دروازوں کے پاس ایک ایک Visitor's Book رکھی گئی تھی.ان ہر دو Books میں مالا یا لم ، تامل، اردو، انگریزی، عربی، گجراتی اور ہندی زبانوں میں ناظرین نے اپنی قیمتی آراء تحریر فرمائیں.بعضوں نے لکھا کہ نمائش دیکھنے کے بعد تحریک احمدیت کے بارے میں دل میں عزت و احترام کے جذبات پیدا ہوئے اور احمدیت کے متعلق کئی شکوک رفع ہو گئے.بعض نے لکھا کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے سورۃ تکویر پیشگوئیوں کی عملی تصویر دیکھی اور دجال و یاجوج و ماجوج کی حقیقت و اصلیت کا علم ہوا.بعض نے لکھا کہ واقعی احمد یہ جماعت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا دوسرا نام ہے.نمائش نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی سچائی دنیا میں روزِ روشن کی طرح صرف جماعت احمد یہ ہی پیش کر سکتی ہے.ہندوؤں، عیسائیوں اور مسلمانوں نے اپنی آراء میں خوب تعریفی کلمات لکھے.بعض ملاحظہ ہوں:.(۱) پی.ایم محمد صاحب میری عمراب ۵۵ سال ہے.میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنی اچھی علمی نمائش نہیں دیکھی.اس کی ترتیب دینے والوں کی خدمت میں میں محبت وعقیدت کے پھول نچھاور کر رہا ہوں.(۲) عبداللہ صاحب والا پٹنم :.میں نے مسلسل تین روز تک روزانہ ایک ایک گھنٹہ نمائش کا تفصیلی جائزہ لیا.جس طرح مذاہب عالم کے درمیان اسلام مختلف غلط فہمیوں کا شکار ہے اسی طرح اسلامی سلسلوں میں جماعت احمدیہ کو بھی
تاریخ احمدیت.جلد 25 290 سال 1969ء غلط رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے.ٹاؤن ہال میں منعقدہ اس نمائش کا چارٹران غلط فہمیوں پر ایک کاری ضرب ہے.نہایت خوبصورتی، سجاوٹ اور قرینہ وترتیب کے ساتھ لگائی گئی نمائش اپنوں اور غیروں کی مبارکباد قبول کر رہی ہے.(۳) ڈاکٹر ستیش.کینا نور :.مجھے اسلام کی خوبی اور فضیلت دیکھنے کا آج ہی موقعہ ملا ہے.میں احمد یہ جماعت کا شکر گزار ہوں جس نے اس کے لئے راہ ہموار کر دی.(۴) ایک ہندو سکالر :.کیرالہ میں اس قسم کی نمائش پہلی دفعہ دیکھنے میں آئی ہے.یہ نمائش اسلام کی ترقی کا ایک سنگِ میل ہے.احمد یہ جماعت کے بارے میں آنکھیں بند کر کے اعتراض کرنے والوں کیلئے نمائش ایک کاری ضرب ہے.الغرض یہ نمائش اپنے ظاہری حسن و خوبی اور خوبصورتی کے علاوہ ایک ٹھوس اور معلوماتی کا رنامہ تھا.جو جماعت احمدیہ کالی کٹ کے نوجوانوں نے سرانجام دیا.42 ایک درویش قادیان کی آل انڈیاریڈیو جالندھر سے تقریر ۶ امئی ۱۹۶۹ ء کو گیانی عبداللطیف صاحب درویش قادیان کی ایک تقریر پنجابی زبان میں آل انڈیا ریڈیو جالندھر سے نشر کی گئی.جس کا عنوان تھا ” وقت کی پابندی قرآن اور حدیث کی روشنی میں.ربوہ میں سیرت النبی منانے کا عظیم الشان جلسہ ۲۹ مئی ۱۹۶۹ء کو لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے زیر اہتمام مسجد مبارک میں محترم مولانا ابو العطاء صاحب کی زیر صدارت سیرت النبی ﷺ کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں علمائے سلسلہ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حیات طیبہ اور سیرت مقدسہ پر ایمان افروز تقاریر کے دوران حضور علیہ کے انتہائی ارفع و اعلیٰ مقام پر تفصیل سے روشنی ڈالی.نیز بعض اصحاب نے آنحضور ﷺ کی شان اقدس میں حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام کا عربی اردو کلام سنانے کے علاوہ متعدد شعراء نے اپنا نعتیہ کلام پیش کر کے آنحضور ﷺ کی خدمت میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.44-
تاریخ احمدیت.جلد 25 291 تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں سے ڈپٹی کمشنر ضلع سیالکوٹ کا خطاب سال 1969ء ۱۴ جون ۱۹۶۹ء کو تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں میں تقسیم انعامات اور سال دوم کے طلبہ کی الوداعی تقریب تھی.اس موقع پر میاں اصغر علی صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع سیالکوٹ نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ اس علاقہ میں جن لوگوں نے یہ اعلیٰ اور عمدہ ادارہ قائم کیا ہے وہ قابل صد مبارکباد ہیں.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تعمیل کی ہے کیونکہ اسلام تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیتا ہے.آپ نے طلباء کو نصیحت کی کہ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ محنت اور خلوص سے کام کریں.آج تو مسلمان آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں میں جا کر تعلیم حاصل کرنا فخر سمجھتے ہیں لیکن ایک زمانہ وہ تھا کہ بادشاہوں کے بیٹے قرطبہ کی مسلم یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا موجب فخر سمجھتے تھے.آپ نے اس علاقہ کے لوگوں پر بھی واضح کیا کہ اس کالج کا یہاں کھلنا ساری قوم پر احسان ہے اور اس ادارہ کی ہر ممکن مدد نہ کرنا اور یہاں اپنے بچوں کو تعلیم کے لئے نہ بھیجا نا شکر گزاری ہوگی.ڈاکٹر حمید الدین صاحب کا فکر انگیز خطبہ اسناد 45- ۲۹ جون ۱۹۶۹ء کوتعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و انعامات منعقد ہوا.اس سادہ اور پُر وقار تقریب میں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئر مین جناب ڈاکٹر حمید الدین صاحب نے ایک پر مغز خطبہ اسنادارشاد فرمایا اور بتایا کہ طباء قوم کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہیں اور قوم کے مستقبل کا دارو مدار انہی پر ہے.اگر ہمارے طلباء خلوص و صداقت اور جائز استحقاق کے اوصاف سے پورے طور پر متصف ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو دنیا کی عظیم طاقتوں میں شمار ہونے سے روک نہیں سکتی.اس کے ساتھ ہی طلباء کی خود فریبی ، فریب کاری اور بلا استحقاق حصول کامیابی کے خطرناک رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم مذہب کے معاملات میں بھی تصنع اور فریب سے باز نہیں آتے.ہمارے اکثر نو جوان اس مرض کا شکار ہیں بجائے اس کے کہ وہ دیانتداری کے ساتھ اسلام قبول کریں یا اس کا انکار کریں وہ منہ سے تو اس کا اقرار کرتے ہیں لیکن اپنی زندگی کے کسی میدان میں اس کے اصولوں کو اپنا نا پسند نہیں کرتے اور اس کے باوجود ہمارے اکثر نوجوان ظاہر داری کا لباس اوڑھے پھرتے ہیں.اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور بھول کر بھی وہ کام نہیں کرتے جو ایک سچے مسلمان کو کرنے چاہئیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25.292 سال 1969ء اس تلخ حقیقت کے اسباب و عوامل کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد آپ نے فرمایا کہ جہاں تک آپ کا تعلق ہے جو یہاں میرے سامنے اس ہال میں تشریف فرما ہیں میں آپ کے نظم و ضبط اور اخلاق کا بہت مداح ہوں.مجھے آپ لوگوں کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا ہے.علمی میدان میں بھی اور کھیل کے میدان میں بھی.جہاں میں آپ کو آپ کی علمی ترقیات پر اور کھیل کے میدان میں ٹھوس کامیابیاں حاصل کرنے پر مبارکباد دیتا ہوں.وہاں میں اس سے بڑھ کر آپ کو آپ کے نظم و ضبط، آپ کے سلیقہ اور آپ کے صبر و قتل پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں.کیونکہ آپ نے مسلسل عملی مشکلات کے باوجود کبھی حوصلہ نہیں ہارا.آپ اپنے نتائج پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں اور اپنی مختلف انجمنوں یعنی کالج یونین، مجلس ارشاد مجلس عربی، بزم اردو، سائنس سوسائٹی مجلس ریاضی، بزمِ شماریات، بزمِ سیاسیات، بزم تاریخ ، بزم فارسی ور مجلس اقتصادیات کی شاندار کارکردگی پر بھی.پنجاب میں جنت.احمد یہ محلہ قادیان پارٹیشن کے بعد جب کہ پنجاب کے تمام شہر مسلمانوں سے خالی ہو گئے تھے اس وقت محض اللہ کے فضل سے قادیان کی مقدس بستی ایک فعال اور منظم مرکز کی حیثیت سے برقرار رہی.اس دوران قرب و جوار کے ہزاروں بااثر مسلم اور غیر مسلم احباب قادیان آتے تا کہ جماعت احمدیہ سے متعارف ہوں اور اس کے دائگی مرکز کو بچشم خود دیکھ سکیں.اس قسم کے زائرین نے مختلف مواقع پر جماعت احمدیہ اور اس کے مرکز کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا.درج ذیل مضمون بھی اسی نوعیت کے ایک پنجابی مضمون ” پنجاب وچ جنت کا اردو ترجمہ ہے.یہ مضمون ڈاکٹر گیان سنگھ مسکین پر دھان پنجابی سمجھاتر سکا امرتسر نے لکھا کہ د مغل خاندان کے بادشاہ جہانگیر نے اپنی کتاب " تزک جہانگیری“ میں لکھا ہے کہ کشمیر کے خوبصورت اور دل کو موہ لینے والے خطہ کو آسمان سے نازل شدہ جنت کا خطاب دیا گیا ہے.جس نے بھی ایک باراس جنت کو دیکھا اس کا دل ہر سال ہی اسکو دیکھنے کے لئے بیتاب رہتا ہے.لیکن اگر آپ نے اس جنت ( یعنی کشمیر کے دیدار ابھی تک اپنی گھریلو مصروفیات کے باعث نہ کئے ہوں تو تر سکے سے تمیں چالیس میل کی دوری پر آسمان سے اتری ہوئی جنت کو دیکھ سکتے ہیں اور وہ ہے قادیان.مجھے ایک روز اس خوبصورت جنت کو دیکھنے کا موقع میسر آیا.میں تر سکہ سے ہرگوبند پورہ اور ہر چووال
تاریخ احمدیت.جلد 25 293 سال 1969ء ہوتا ہوا فردوس نما قصبہ قادیان میں پہنچا.بس سے اتر کر میں ایک فوٹوگرافر کی دوکان پر کھڑا ہو گیا جس کا مالک ہند و تھا.میں نے اس سے دریافت کیا کہ بابو جی! احمد یہ جماعت کا دفتر کہاں ہے؟ اس نے جھٹ بہت ہی پیار سے سڑک پر کھڑے ہو کر کہا کہ یہ بازارسیدھا احمد یہ چوک کو جائے گا.میں اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چل پڑا.راستہ میں مجھے ایک سکھ دوست ملے.میں نے انہیں ست سری اکال بلا کر دریافت کیا کہ احمد یہ جماعت کا دفتر کس طرف ہے؟ سردار جی نے بڑے پیار سے جواب دیا کہ کا کا جی ! احمد یہ چوک یہاں سے کوئی ہمیں چھپیں قدم پر ہے.وہاں پہنچ کر آپ کسی بھی مسلمان سے احمد یہ دفتر کے بارہ میں دریافت کرلیں.سو میں جلدی جلدی احمد یہ چوک میں جا پہنچا.ایک مسلمان دوکاندار کو السلام علیکم کہی اور اس سے احمد یہ دفتر کے بارہ میں پوچھا.انہوں نے بڑے ہی پیار سے مجھے اپنی دکان پر بٹھا لیا.اور دریافت کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں.جس پر میں نے جواب دیا کہ میں ضلع امرتسر سے آرہا ہوں اسکے میٹھے اور پیارے الفاظ کا میرے دل پر بہت اچھا اثر پڑا.اتنی دیر میں ادھر سے ایک چھوٹا سا بچہ گزرا جسے انہوں نے میرے ساتھ بھجوا دیا.اور اس لڑکے نے مجھے احمدیہ دفتر میں پہنچا دیا.دفتر والوں نے جماعت کے بارہ میں میری راہنمائی کی اور سری گورونانک اور سری گورو گوبند جی مہاراج کے کلام میں سے مثالیں دے کر اس بات کو میرے ذہن نشین کروادیا کہ سب روحانی لوگ انسانوں کا تعلق اللہ تعالی سے کروانے آتے ہیں.اس کے بعد میں نے مینار دیکھا.دفتر والوں کے نیک برتاؤ کا بھی میرے دل پر بہت اچھا اثر پڑا.میرا دل چاہتا تھا کہ ان سے دیر تک گفتگو کرتا رہوں مگر وقت کی قلت کے باعث میں ایسا کرنے سے محروم رہا.اس کے بعد مجھے جنت (بہشتی مقبرہ) دیکھنے کا موقع ملا.قادیان کے کرمچاریوں نے مجھے بہت ہی پیار کیا جس سے میرا دل باغ باغ ہو گیا.میں یوں محسوس کر رہا تھا جیسے میں واقعی جنت میں گھوم رہا ہوں.اس کے بعد میں احمد یہ جماعت کے مہمان خانہ میں آیا.لنگر خانہ کے کارکنان نے بھی میرے ساتھ جو نیک برتاؤ کیا اس کے نقوش بھی میرے دل پر ابھی تک موجود ہیں.مولوی بشیر احمد صاحب کی خوش خلقی بھی میرے دل پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکی.مہمانخانہ میں مجھے ایک کمرہ دے دیا گیا جس میں بجلی کی لاٹ اور پنکھے وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام تھا رات کو کھانے وغیرہ سے میری تواضع کی گئی.جماعت احمدیہ کے کارکنان کے میٹھے الفاظ اور ان کے نیک برتاؤ کا نظارہ میرے دل میں بار بار
تاریخ احمدیت.جلد 25 294 سال 1969ء چکر لگا رہا ہے میں محسوس کرتا ہوں کہ قادیان در حقیقت جنت ہے.اور اس میں رہائش رکھنے والے تمام احمدی دیوتے (فرشتے) ہیں.ربوہ میں یوم دفاع ۶ ستمبر ۱۹۶۹ء کو ربوہ میں یوم دفاع کی تقریب اہتمام کے ساتھ منائی گئی.جملہ دفاتر اور تعلیمی ادارہ جات میں تعطیل رہی.نماز فجر کے بعد تمام مقامی مساجد میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام اور شھداء کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کی گئیں.عمارتوں پر پاکستانی پر چم لہرایا گیا.بعد نماز عصر سرگودھا ڈویژن باسکٹ بال ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام شہداء کی یاد میں باسکٹ بال کا ایک میچ ہوا.جس میں لیفٹینٹ جنرل اختر حسین ملک مرحوم اور بریگیڈئیر احسن رشید شامی مرحوم کی ٹیموں نے حصہ لیا.اس موقع پر آرمی سٹیشن ہیڈ کوارٹر سرگودھا کے نمائندہ کی حیثیت سے میجر جنرل عبدالقادر صاحب تشریف لائے اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے.پانچواں آل پاکستان کبڈی ٹورنامنٹ 48 ۲۶ ستمبر سے ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء تک ربوہ میں پانچویں آل پاکستان کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد عمل میں آیا.ٹورنامنٹ کا افتتاح ائیر کموڈور ظفر چوہدری صاحب ٹیشن کمانڈر پی.اے.ایف سرگودھا نے کیا اور اس کے اختتام پر چوہدری محمد صدیق صاحب سیکرٹری پاکستان کبڈی فیڈریشن نے انعامات تقسیم گئے.کلب سیکشن میں ریلوے کی نامی گرامی ٹیم اور کالج سیکشن میں اسلامیہ کالج لائل پور کی ٹیم چیمپئین قرار پائی.ہر دو سیکشنوں میں علی الترتیب ربوہ اور میونسل کا لج وزیر آباد کی ٹیمیں رنرز آپ رہیں.اس ٹورنا منٹ میں ربوہ کے علاوہ لاہور، لائل پور (فیصل آباد)،سرگودھا،سیالکوٹ، وزیر آبا داور جھنگ کی ۱۳ نامورٹیموں نے شرکت کی جن میں ملک گیر شہرت کے حامل متعدد مایہ ناز کھلاڑی بھی شامل تھے اور انہوں نے طاقت و توانائی، عزم و حوصلہ، چیستی، چابکدستی اور داؤ پیچ کے بل پر نہایت بلند پایہ کھیل کا مظاہرہ کر کے شائقین سے خوب داد وصول کی.اس موقع پر بیرونی مقامات کے کثیر التعداد شائقین کے علاوہ نیشنل سپورٹس کی متعدد نامور شخصیتیں بھی ربوہ آئیں.ٹورنامنٹ کے اختتام پر ٹورنامنٹ کمیٹی کی طرف سے ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کے اعزاز میں وسیع پیمانہ پر ظہرانہ دیا گیا جس میں متعدد مہمانوں نے بھی شمولیت فرمائی.49
تاریخ احمدیت.جلد 25 295 سال 1969ء صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی سکھ نیشنل کالج قادیان میں ایک تقریر ۷ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو سکھ نیشنل کالج قادیان کی اتہاسک سوسائٹی کی طرف سے بابا نانک صاحب کی پانچصد سالہ برسی کی تقریب منعقد ہوئی.جس میں کالج سٹاف اور طلباء کے علاوہ متعدد مقامی معززین اور شملہ سے جناب پروفیسر عبدالمجید خان صاحب سابق ممبر سروس کمیشن پنجاب بھی مدعو تھے.سوسائٹی کی خواہش پر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے حضرت بابا نانک کی سوانح و تعلیمات پر ایک حقیقت افروز تقریر کی.آپ نے بتایا کہ حضرت بابا صاحب خدا کے ولی اور بزرگ تھے.آپ نے توحید باری تعالیٰ کی تعلیم دینے اور اسی کا پر چار کرنے میں اپنی تمام مساعی کو وقف فرما دیا.یہ آپ کے پر چار کا مخصوص اور پسندیدہ طریق تھا جو صلح کل دستور العمل پر مبنی تھا.آپ کو خدا سے ہمکلامی کا بھی شرف حاصل تھا.دین اسلام اور مسلمانوں سے غیر معمولی محبت اور اُلفت رکھتے تھے.مسلم علماء اور فقراء کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور روحانی باتیں کرنے میں دلی مسرت پاتے.اس موقعہ پر دیگر مقامی مقررین کے علاوہ جناب پروفیسر عبدالمجید خان صاحب کی فاضلانہ تقریر بھی ہوئی.جسے حاضرین نے بہت پسند فرمایا.آپ نے حضرت بابا نانک کی زندگی کے متعدد دلچسپ واقعات اور شلوک سنا کر مجلس کو اپنا گرویدہ بنا لیا.آخر میں شریمتی سردار ستنام سنگھ صاحب باجوہ نے کالج کے طلباء کو خطاب کرتے ہوئے انہیں نصیحت کی کہ ایسی دھارمک تقاریر کو بڑی توجہ اور خاموشی سے سنا جانا چاہیئے کہ یہ ان کے لئے بے حد فائدہ بخش ہیں.جناب پرنسپل صاحب نے سب کا شکر یہ ادا کیا.66 امریکن چرچ کے وفد کی قادیان میں آمد ۱۴ را کتوبر ۱۹۶۹ء کو قادیان کی مقدس سرزمین نے پیشگوئی یــاتــون مــن كل فج عميق “ (ترجمہ: اس کثرت سے لوگ تیری طرف آئیں گے کہ جن راہوں پر وہ چلیں گے وہ عمیق ہو جائیں گی.کا ایک نہایت ایمان افروز نظارہ دیکھا جبکہ امریکن یو نائیٹڈ پریس بائی ٹیرین چرچ ( The United Presbyterian Church in U.S.A) کے ۲۶ رافراد پر مشتمل ایک وفد قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کیلئے پہنچا.یہ وفدا نہیں خواتین اور سات مردوں پر مش مشتمل تھا.یہ سب افراد ریٹائر ڈ تھے اور چرچ میں گہری دلچپسی رکھنے والے مذہبی لوگ تھے.جو سات کاروں پر مرکز احمدیت میں آئے تھے.احمد یہ محلہ میں ان معزز مہمانوں کا اھلا و سهلا و مرحبا کے نعروں کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 296 سال 1969ء ساتھ پُر تپاک استقبال کیا گیا.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی قیادت میں انگریزی دان مقامی احباب جماعت نے اراکین وفد کو ضروری معلومات بہم پہنچائیں اور جملہ ارکان وفد مسجد مبارک ،مسجد اقصی، دار المسیح اور بہشتی مقبرہ کی زیارت کے بعد مہمان خانہ میں تشریف لائے جہاں ایک خوشنما شامیانے کے نیچے ان کی نشست کا اہتمام کیا گیا تھا.ازاں بعد ایک مختصر اجلاس منعقد ہوا.صدارتی کرسیوں پر حضرت مولانا عبد الرحمان صاحب فاضل اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ کے علاوہ معزز مہمانوں کے پارٹی لیڈر جیمز ڈی نسبت (James D.Nesbitt) تشریف فرما تھے.محترم صاحبزادہ صاحب نے شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے ناظر جائیداد سے خواہش کی کہ صاحبزادہ صاحب کی طرف سے مہمانوں کی خدمت میں استقبالیہ ایڈریس پڑھ کر سنائیں.چنانچہ جناب عاجز صاحب نے نہایت خوش اسلوبی سے انگریزی زبان میں ایڈریس پڑھا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ قادیان میں اس وفد کی آمد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی صداقت کا زندہ نشان ہے.جماعت احمد یہ دنیا کے اکناف تک پھیل چکی ہے.جیسا کہ حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو الہاما خبر دی گئی تھی کہ میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.جماعت احمدیہ قرآنی تعلیم کی روشنی میں حضرت مسیح علیہ السلام کوخدا کا برگزیدہ نبی اور پیارا بندہ مجھتی ہے جسے خدا نے اپنے خاص فضل وکرم کے ساتھ صلیب کی لعنتی موت سے بچالیا.صلیبی واقعہ کے بعد آپ یروشلم سے ہجرت کر کے کشمیر تشریف لے آئے اور سرینگر محلہ خانیار میں میں طبعی وفات پائی.وہاں آپ کا مقبرہ اب بھی موجود ہے یہ وہ انکشاف ہے جو زمانہ حاضر میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مقدس بانی نے زبر دست دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش فرمایا.ایڈریس میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی مساعی، وصیت اور وقف زندگی کے نظام اور جماعت کی وسعت اور ترقی پر مختصر روشنی ڈالنے کے بعد گیمبیا کے احمدی گورنر جنرل کے اخلاص اور ان کی خدمات کا خصوصی ذکر کیا گیا اور بتایا گیا کہ ہمارے موجودہ امام نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ پچپیس سے تمہیں سال کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب رونما ہونے والا ہے.یہ ایڈریس وفد کے ہر رکن نے پوری توجہ اور انہماک سے سنا.متعد دارکان نے اپنے طور پر نوٹ بھی لئے.بعض نے اجلاس کی کارروائی بذریعہ ٹیپ محفوظ کر لی.ایڈریس ختم ہونے پر پارٹی لیڈر مسٹر جیمز نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے مختصر خطاب کیا.موصوف نے کہا کہ ہم لوگ امریکہ کی مختلف سٹیٹس کے باشندے ہیں اور چرچ کی طرف سے دو ماہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 297 سال 1969ء کیلئے ہندوستان بھر کا دورہ کرنے آئے ہیں.اس موقعہ پر جہاں ہم مسیحی مشنوں کا معاینہ کر رہے ہیں اور ان مقامات کے مشنریوں کے کام کا جائزہ لے رہے ہیں وہاں اس ملک کے دیگر مذاہب کے مراکز اور ان کی مذہبی مساعی کا مطالعہ بھی ہمارے مدنظر ہے.اسی کے مطابق ہمارا با قاعدہ پروگرام جماعت احمدیہ کے مرکز قادیان آنے کا بھی تھا.چنانچہ اسی پروگرام کو پورا کرتے ہوئے ہم سب آج یہاں وارد ہوئے ہیں اور ہمیں آپ کا مرکز دیکھ کر اور آپ کی باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی ہے.آپ کے خیالات ہمارے لئے جدید معلومات کا باعث ہوئے ہیں.ہم آپ کا محبت سے دیا گیا لٹریچر بغور مطالعہ کریں گے.آخر میں مسٹر جیمز نے وفد کے ممبران کی طرف سے جماعت کا شکریہ ادا کیا.اجلاس کے بعد مہمانوں سے درخواست کی گئی کہ ملحقہ کمرہ میں جماعت کا لٹریچر موجود ہے.خود تشریف لے جا کر حسب پسند انتخاب فرمالیں.چنانچہ سبھی اراکین نے اشتیاق اور دلچسپی سے جماعت کا یہ سارا لٹریچر ملاحظہ کیا اور اپنی اپنی پسند کی کتب اور پمفلٹ انتخاب کئے.پارٹی لیڈر مسٹر جیمز کو ان کی خواہش کے مطابق جملہ لٹریچر کی ایک ایک کاپی مع ایک نسخہ انگریزی ترجمۃ القرآن صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے بطور ہدیہ پیش کیا.اسی موقعہ پر آنے والے امریکن معزز مہمانوں کا ایک گروپ فوٹو بھی ہوا.وفد کے جملہ افراد جماعت احمدیہ کی خوش اخلاقی، مہمان نوازی تنظیم ، اسلام کی ٹھوس تبلیغ و اشاعت کے صحیح جذبہ سے بہت متاثر ہوئے اور بار بار شکریہ ادا کرتے ہوئے خوشی اور مسرت کے ساتھ حسب پروگرام واپس روانہ ہو گئے اور اسی روز امرتسر سے بذریعہ طیارہ دہلی پہنچ گئے.راٹھ (یو.پی ) میں احمد یہ صوبائی کانفرنس 52 جماعتہائے احمدیہ اتر پردیش میں احمدیہ کا نفرنس کا سلسلہ ۱۹۶۵ء سے جاری تھا.اس سال یہ صوبائی کانفرنس ۲۳،۲۲/اکتوبر ۱۹۶۹ء کو راٹھ ضلع ہمیر پور علاقہ بندھیل کھنڈ میں منعقد ہوئی.کانفرنس کے جملہ انتظامات کیلئے ایک مجلس استقبالیہ کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر مولوی بشیر احمد صاحب فاضل انچارج مبلغ دہلی اور سیکرٹری انوار محمد صاحب آف راٹھ مقرر ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس کا نفرنس کے نام حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا :.احباب جماعت احمد یہ راٹھ ! اللہ تعالیٰ آپ کی کانفرنس اور مشور ہوں میں برکت دے اس میں شمولیت کرنے والوں کو میرا السلام علیکم پہنچا دیں.(خلیفہ اسیح)
تاریخ احمدیت.جلد 25 298 یہ مبارک پیغام مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی نے پڑھ کر سنایا.سال 1969ء خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ کانفرنس نہایت درجہ کامیاب رہی اور اس میں قادیان، بریلی، شاہجہانپور، لکھنو ، مودہا، مسکرا، پنواڑی، کونچ ، صالح نگر ، مکبر یا، فتح پور، امروہہ، دہلی، کلکتہ اور میرٹھ سے کثیر تعداد میں احمدی احباب تشریف لائے.سامعین کی تعداد ڈیڑھ پونے دو ہزار ہوگی جن میں اکثریت غیر مسلم معززین کی تھی.فاضل مقررین میں صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سب سے ممتاز تھے.آپ کے علاوہ مولوی بشیر احمد صاحب فاضل، مولوی بشیر احمد صاحب خادم ، مولوی غلام نبی صاحب فاضل یاد گیر نے خطاب کیا.اس موقع پر درج ذیل غیر مسلم معززین نے بھی فاضلانہ لیکچر دیئے.جناب کملا کانت ترپاٹھی.شری بر همانند جی نمبر پارلیمنٹ.شری رام گوپال گپتا صدر ضلع پریشد.پروفیسر شری لکشمی نرائن آنند جی.شری سر بندرت باجپئی صاحب ، مسٹر لال جی.آنریبل سوامی پرشاد سنگھ جی وزیر قانون یوپی گورنمنٹ.(وزیر قانون صاحب نے کانفرنس کے اجلاس کی صدارت کی اور اس اعزاز کے لئے جماعت احمدیہ کا دلی شکریہ ادا کیا).کانفرنس کے آغاز میں شری موہن لال صاحب ایم ایل اے راٹھ نے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کا شکریہ ادا کریں.ہم آپ کے بڑے احسان مند ہیں اور بار بار آپ کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.آپ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے پوتے ہیں جو پنجاب پرانت کی ایک بستی قادیان میں پیدا ہوئے.آپ نے خدائی حکم کے مطابق بچی پر ارتھنا، الہام اور روحانی تعلیم کے ذریعہ دیش داسیوں کو خواہ وہ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کسی بھی مذہب کے ہوں.جیون کے مقاصد سمجھائے اور انہیں نیک مقاصد کو پورا کرنے کے لئے احمد یہ جماعت کی استھاپنا کی.ہمارے معزز مہمان، صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب بھی اسی مشن کو پورا کرنے میں اپنا تن من دھن لگائے ہوئے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک کو اس قسم کی روحانی تعلیم کی بے حد ضرورت ہے.ہمیں امید ہے کہ خدا آپ کو اپنے کام میں کامیابی دے گا اور دنیا سے نفرت اور مذہبی جھگڑے ختم ہو کر انسانی ہمدردی پیدا ہو جائے گی.صاحبزادہ صاحب نے سپاسنامہ کے جواب میں فرمایا کہ اختلاف رنگ ویو بھی قدرت کا ایک حسن اور اس کی جلوہ گری ہے.مگر اس اختلاف کو محبت والفت کا ذریعہ بنانا زیادہ اچھا ہے.بمقابلہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 299 سال 1969ء نفرت اور دوری کے.محبت، محبت پیدا کرتی ہے اور نفرت سے بعد اور دوری پیدا ہوتی ہے.اسلام نے ی تعلیم دی ہے کہ حکمت، دانائی اور عقلمندی کی بات مومن کی گمشدہ متاع ہے.جہاں بھی اس کو پائے حاصل کرلے.اگر ایک سچا مسلمان ایسا نہیں کرے گا تو وہ چھپڑ جائے گا.مقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی جماعت کو اس بات کی خصوصیت کے ساتھ تلقین کی.مگر افسوس کہ اس وقت کی دوسری دنیا اس مفید بات کو اپنانے کیلئے تیار نہیں.جماعت احمد یہ اپنے مقدس بافی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے ہر مذہبی پیشوا کی عزت کرتی ہے.قرآن کریم میں جتنے انبیاء کا ذکر ہے.ان کے علاوہ شری کرشن جی مہاراج اور شری رام چندر جی کو بھی ہماری جماعت خدا تعالیٰ کے نیک بندے اور بزرگ یقین کرتی ہے.اسی عقیدہ کے مطابق ہی کسی کی محبت حاصل کی جاسکتی ہے.جماعت احمد یہ مذہبی جبر کی قائل نہیں.اس لئے کہ طاقت اور زور سے زبان تو بند کی جاسکتی ہے لیکن محبت پیدا نہیں کی جاسکتی.جماعت احمد یہ باہمی محبت والفت پیدا کرنے کی قائل ہے.لائبریری مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا افتتاح ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۹ء کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے بابرکت ہاتھوں سے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی لائبریری کا افتتاح عمل میں آیا.لائبریری میں اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی کی قریباً ایک ہزار کتب جمع ہو چکی تھیں اور منیر الحق صاحب شاہد ایم اے نے ان کو کمال محنت و جانفشانی سے ترتیب دیا تھا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ لائبریری میں الفضل“ کے مکمل فائل ہونے چاہئیں.معاینہ کے بعد حضور نے پروفیسر رفیق احمد صاحب ثاقب معتمد مرکزیہ کی درخواست پر اپنی پسند کی ایک کتاب اپنے دستخط مبارک سے جاری کروا کے لائبریری کا باضابطہ افتتاح کیا اور اجتماعی دعا کرائی.مجلس خدام الاحمد ی ربوہ کے زیر اہتمام وقار عمل 54 ۷نومبر ۱۹۶۹ء بروز جمعہ مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے زیر اہتمام وسیع پیمانہ پر وقار عمل منایا گیا.یہ وقار عمل ریلوے سٹیشن اور لنگر خانہ نمبر کے درمیانی حصہ میں شمال مغربی جانب تقریباً تین فرلانگ کے فاصلہ تک مختلف جگہوں پر منایا گیا.کم و بیش چھ صد خدام واطفال نے بڑے جوش اور ذوق وشوق سے اس میں حصہ لیا.اس وقار عمل کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اپنے مرکزی عہدیداران کے ساتھ اس وقار عمل میں شامل ہوئے.یہ وقار عمل تقریباً
تاریخ احمدیت.جلد 25 300 سال 1969ء اڑھائی گھنٹہ تک جاری رہا.مختلف جگہوں پر شکستہ سڑکوں کی مرمت کی گئی.گڑھوں کو پر کیا گیا اور پانی کے نکاس کے لیے نالیاں کھودی گئیں.جملہ خدام واطفال نے بڑی دلچسپی سے اس میں حصہ لیا.دعا کے ساتھ یہ وقار عمل اختتام پذیر ہوا.مجلس ارشاد مرکزیہ کے اجلاسات امارچ ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسجد مبارک ربوہ میں نماز مغرب کے بعد علمی تقاریر کا ایک نہایت ہی مبارک سلسلہ شروع فرمایا تھا.اس سال بھی علمی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا.ذیل میں ان اجلاسات کی مختصر کاروائی تحریر ہے.(۱) ۸ نومبر ۱۹۶۹ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیر صدارت منعقد ہوا.تلاوت قرآن اور نظم کے بعد چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب، مولوی دوست محمد شاہد صاحب اور مولانا ابو العطاء صاحب نے علی الترتیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام انی احافظ كل من في الدار ، حضرت عمر بن عبدالعزیز اور تصوف اور اسکی تعریف کے موضوعات پر بہت ٹھوس اور پر مغز مقالہ جات پڑھے.آخر میں حضور نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ اسلام کی اصل اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ اللہ ایک ہے اور یہ کہ جسے اس کا قرب حاصل کرنا ہو وہ صفات الہیہ کا مظہر بنے کی کوشش کرے.ہر علم جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے کہ فلاں فلاں علم سے تعلق رکھنے والی فلاں فلاں صفات ہیں ان کے مظہر بن جاؤ تو یہ علوم تمہیں حاصل ہو جائیں گے.اور جب اس رنگ میں تم علم حاصل کرو گے تو اس کے نتیجہ میں تمہیں اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا.تصوف کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا اسلام نے جو تصوف پیش کیا ہے وہ بھی اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بنے.جو اصل اور حقیقی صوفی تھے وہ یہی کہتے تھے کہ اصل تصوف کی بنیاد تخلقوا باخلاق الله ہی ہے.صوفیاء نے جو حقیقت بیان کی ہے وہ مختلف الفاظ میں یہی تھی کہ اللہ کا رنگ اختیار کرو اور اللہ کی صفات کا مظہر بنو.حضور نے فرمایا نئی نسل کو اسی رنگ میں رنگین کرنا ضروری ہے کیونکہ زندگی کا مزا تب ہی ہے کہ اللہ سے زندہ تعلق ہو اور زندہ تعلق خدا سے اس کا ہوتا ہے جس نے صفات الہیہ کا رنگ اپنی زندگی پر چڑھایا ہوا ہو.
تاریخ احمدیت.جلد 25 301 سال 1969ء (۲) ۱۴ دسمبر ۱۹۶۹ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کے ارشاد پر صدارت کے فرائض مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ نے ادا فرمائے.اس موقع پر مولانا بشارت احمد بشیر صاحب نے وفات مسیح علیہ السلام ( تین آیات قرآنیہ سے ) کے موضوع پر اور عطاء المجیب راشد صاحب نے نبی اکرم علیہ کا افاضہ کمالات روحانی کے موضوع پر ٹھوس اور پر مغز مقالے پڑھے.بعدہ صاحب صدر کے صدارتی ارشادات کے بعد اجلاس دعا پر اختتام پذیر ہوا.حضرت اماں جان کی خادمہ کے بچوں کا نکاح سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مورخہ ۱۵ دسمبر ۱۹۶۹ء بعد نماز عصر مسجد مبارک میں محترمہ صادقہ بیگم صاحبہ بنت محترم چوہدری محمد یوسف صاحب نائب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کے نکاح کا اعلان فرمایا.یہ نکاح دو ہزار روپے حق مہر پر محترم چوہدری منیر احمد صاحب ابن محترم چوہدری نذیر احمد صاحب ربوہ کے ساتھ ہونا قرار پایا ہے.خطبہ مسنونہ کے بعد حضور انور نے فرمایا:.جس نکاح کے اعلان کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.ان دونوں لڑکی اور لڑکے کی دادی صاحبہ بچپن سے حضرت اماں جان کے پاس رہی ہیں اور حضرت اماں جان نے انہیں گھر کے ایک فرد کی طرح رکھا.اب اللہ تعالیٰ نے انہیں عمر دی اور پوتے اور پوتیوں سے نوازا.جن کی اب شادیاں ہو رہی ہیں اور بھی ہوں گی انشاء اللہ.اس نسبت کے ساتھ جو ان کی دادی کو ہے حضرت اماں جان کے پیار اور خیال رکھنے کی وجہ سے ہماری بہن کی طرح ہیں.اور یہ تعلق محبت اور تعلق شفقت بھی ایک قرب اور رشتہ کو قائم کرتا ہے.اس رشتہ کے نتیجہ میں دل سے دعا نکلتی ہے.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس قائم ہونے والے رشتہ کو بہت ہی بابرکت کرے اور ایک ایسی نسل اس سے چلے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عظیم مہم غلبہ اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ نے جاری کی ہے.اس میں سب کام کرنے والے،
تاریخ احمدیت.جلد 25 302 سال 1969ء قربانیاں دینے والے اور ایثار دکھانے والے ہوں اگلی نسل بھی اور موجودہ نسل بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی وارث بنے.ایجاب و قبول کروانے کے بعد حضور نے اس رشتہ کے ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بننے کے لئے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.قابل رشک قربانی کا مظاہرہ 58 ناظم مال وقف جدید صدرانجمن احمدیہ نے اخبار الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء میں لکھا کہ وقف جدید کے زیر انتظام علاقہ نگر پارکر (سندھ) میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے متعدد معلّم شب و روز تبلیغ اسلام کے مقدس جہاد میں مصروف ہیں یہ علاقہ ایسا ہے جہاں موسمی اور اقتصادی اعتبار سے بہت زیادہ مشکلات ہیں.یہاں کی ذمہ داریوں کا احساس جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی جماعتوں کو ہوا وہاں بعض افراد نے بھی اس سلسلے میں قابل رشک قربانی کا مظاہرہ کیا ہے چنانچہ ملک منور احمد صاحب جاوید قائد مجلس خدام الاحمدیہ لاہور ( حال نائب ناظر ضیافت ربوہ) نے اس سلسلے میں پہل کرتے ہوئے ایک مشن کا مکمل خرچ اپنے عزیز بھائی ملک محمود احمد خالد صاحب ( ایڈووکیٹ حال گوجرانوالہ) کی طرف سے ادا کرنے کا عہد فرمایا اور وہ اپنے عہد کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیابی سے نباہ رہے ہیں.نیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے حکیم عبدالحمید صاحب اعوان (المشہو ر دواخانہ گوجرانوالہ) ابن حکیم نظام جان صاحب گوجرانوالہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ وہ وقف جدید کے زیر اہتمام علاقہ نگر پارکر سندھ میں ایک اور تبلیغی مشن کا مکمل خرچ برداشت کرنے کی سعادت حاصل 59
تاریخ احمدیت.جلد 25 303 سال 1969ء آئس لینڈ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی سید کمال یوسف صاحب انچارج احمد یہ مشن سکنڈے نیو یا ماہ اپریل کے تیسرے ہفتے آئس لینڈ تشریف لے گئے.تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ اسلام کے ایک مبلغ کے ذریعہ ٹیلی ویژن ، پریس اور لیکچروں میں وسیع پیمانہ پر اسلام کی اشاعت ہوئی.آپ ۲۱ اپریل کی شام کو آئس لینڈ کے صدر مقام ریکجاوک (Reyjavik) میں پہنچے.۲۳ /اپریل کو یہاں کے مشہور ہفت روزہ دیکن ( The Vikan) کے ایڈیٹر کو ایک گھنٹہ تک انٹرویو دیا.ازاں بعد لوتھرن بشپ ریورنڈ انرسن (.Rev Einarsson) سے اسلام کے موضوع پر آپ نے تبادلہ خیالات کیا.اور آپ نے قرآن مجید اور انجیل کے مقام و حیثیت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے متعلق بائبل کی پیشگوئیوں پر روشنی ڈالی.جب آپ نے وفات مسیح کے بارہ میں جماعت کا موقف پیش کیا تو وہ حیران رہ گئے.آپ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تالیف اسلامی اصول کی فلاسفی پیش کی.۱/۲۴ پریل کو آپ کی کیتھولک بشپ اور ہالینڈ کے مشہور ماہر علم المذاہب ڈاکٹر ایچ فریڈن (Dr.H.Fridon) سے ملاقات ہوئی اور ان سے عیسائیت کے تازہ رجحانات ، سپین میں مذہبی آزادی کی مشکلات، مدینہ میں وفد نجران کی آمد ، حضرت مسیح موعود کا مقام، طلاق و تعد دازدواج وغیرہ سے متعلق اسلامی نظریہ اور دیگر مسائل پر آپ کی دو گھنٹے تک تفصیلی گفتگو ہوئی.آئس لینڈ میں قیام کے دوران ٹیلی ویژن پر آپ کا انٹرو یونٹر ہوا جس سے آئس لینڈ میں اسلام کا چرچا ہوا.ازاں بعد اخبارات نے دلچسپی لینا شروع کی.پہلے ایک اخبار نے آپ کا انٹرویو مع تصویر شائع کیا اور لکھا کہ آئس لینڈ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کوئی اسلامی مبلغ یہاں آیا.اس کے بعد پے در پے اخبارات کے انٹرویو چھپنے شروع ہوئے.۱/۲۹ پریل ۱۹۶۹ء کو تھیو سافیکل سوسائٹی کے ہال میں آپ کا لیکچر ہوا.سارا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.تقریر کا وقت صرف ایک گھنٹہ تھا مگر سامعین نے اتنی دلچسپی لی کہ اجلاس دو گھنٹہ سے قبل ختم نہ ہو سکا.امریکہ 60 مشن کی مطبوعہ سہ ماہی رپورٹ ( یکم جنوری تا ۳۱ مارچ ۱۹۶۹ء) کے مطابق قریشی مقبول احمد
تاریخ احمدیت.جلد 25 304 سال 1969ء صاحب مبلغ انچارج اور سید جواد علی صاحب سیکرٹری امریکہ مشن کو تقاریر اور ملاقاتوں کے ذریعہ ہزاروں افراد تک پیغام حق پہنچانے کا موقع ملا.ان دنوں مشی گن ریاست کے شہر ایسٹ لینکس میں سید حضرت اللہ پاشا صاحب حصول تعلیم کی غرض سے وہاں مقیم تھے آپ نے مسلم ایسوسی ایشن کی ایک خاص میٹنگ کا اہتمام کیا جس میں قریشی مقبول احمد صاحب کو اسلام ہر زمانہ میں ایک قابل عمل مذہب ہے“ کے موضوع پر تقریر کی.تقریر کے بعد سوالات کا سلسلہ جاری رہا.میٹنگ بہت کامیاب رہی.اس میں سعودی عرب، مصر، ہندوستان ، پاکستان اور امریکہ کے باشندے شریک ہوئے.عید الاضحیٰ کے موقعہ پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مبارکباد کا پیغام موصول ہوا جو تمام جماعتوں میں بھجوا دیا گیا.ڈیٹن میں نماز عید کے بعد دو دعوتیں کی گئیں جن میں غیر مسلم احباب بھی شریک ہوئے.واکسیکن میں نماز عید کے بعد دعوت ہوئی جس میں ۲۰۰ را حباب نے شرکت کی.قریشی مقبول احمد صاحب نے یونیورسٹی آف ڈیٹن کے مسلمان طلباء میں اسلامی شادی کے موضوع پر ایک تقریر کی.اس تقریب کو ٹیلی ویژن کی خبروں میں بھی دکھایا گیا.آپ نے ڈیٹن کے ایک چرچ میں دوصد حاضرین کے سامنے لیکچر دیا اور پھر سوالوں کے جوابات بھی دیئے.ڈیٹن کے ایک مقامی ہائی سکول کی دو کلاسز کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کیا.بعد میں طلباء دیر تک سوالات کر کے مزید معلومات حاصل کرتے رہے.اسی طرح ویلری ہائی سکول کے طلباء کو بھی آپ نے اسلام کے بنیادی اصولوں پر تقریر کی.یہاں بھی سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.بالٹی مور کی ایک مختصر یہودی فیملی جس کے سربراہ کچی عبداللہ شریف تھے، جو پچھلے سال اسلام میں داخل ہو گئے تھے.ان کے مسلمان ہونے پر یہودی تنظیم میں چہ میگوئیاں ہوئیں اور منتظمین نے اس نوجوان کو بلا کر تقریر کروائی کہ اس نے اسلام کیوں قبول کیا.جس کے بعد مبلغ امریکہ سید جواد علی صاحب نے حاضرین سے خطاب کیا اور پھر حاضرین کے سوالوں کے جوابات دئے.یہ پہلا موقع تھا کہ کسی یہودی تنظیم کے سامنے ان حضرات کو اسلامی تعلیمات پیش کرنے کا موقع ملا.واشنگٹن کے ایک مقامی چرچ میں ہندوازم، عیسائیت، یہودیت ، بدھ ازم اور اسلام کے نمائندگان پر مشتمل ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.سید جواد علی صاحب نے مذاکرہ میں اسلام کی نمائندگی کا فریضہ ادا کیا نیز سوالوں کے جوابات دینے کے علاوہ سامعین اور نمائندگان میں لٹریچر بھی تقسیم کیا.اس موقع پر کسی اور نمائندہ کی طرف سے کوئی لٹریچر تقسیم نہیں ہوا.آپ نے واشنگٹن کے ایک میتھوڈسٹ چرچ میں موازنہ مذاہب سے دلچسپی رکھنے
تاریخ احمدیت.جلد 25 305 سال 1969ء والے ایک گروپ میں اسلام پر تقریر کی اور سامعین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دئے.حلقہ شکاگو میں شکر الہی صاحب حسین کی سرکردگی میں یوم تبلیغ منایا گیا.اس موقع پر پندرہ ہزار اسلامی اشتہارات چھپوا کر تقسیم کئے گئے.اس سلسلہ میں سید جواد علی صاحب نے بھی چار قسم کے اشتہارات شائع کرنے کا اہتمام کیا.بعض اشتہارات ہیں ہزار کی تعداد میں چھپوائے گئے.نیو یارک مشن کی طرف سے بھی یوم التبلیغ منایا گیا.جناب سید جواد علی صاحب نے اس موقع پر قرآن کریم دنیا کیلئے ہدایت ہے“ کے موضوع پر لیکچر دیا.۲۳ راگست سے ۲۹ اگست تک امریکہ مشن کے زیرانتظام ایک تعلیمی وتربیتی کلاس کا انعقاد ہوا جس میں چھپیں طلباء نے حصہ لیا.احمدی نوجوانوں کو کھانا پکانے اور گھڑ سواری کی مشق بھی کرائی گئی.۳۰ و ۳۱ را گست ۱۹۶۹ء کو ڈیٹین میں امریکہ کی احمدی جماعتوں کا کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا.قریشی مقبول احمد صاحب انچارج مشن نے افتتاحی تقریر سے قبل حضور کا برقی پیغام پڑھ کر سنایا.پیغام حضور انور حضور انور نے فرمایا:.63 اللہ تعالیٰ آپ کی مساعی میں برکت ڈالے اور ہر ممبر کو خدمت دین اسلام کی توفیق بخشے عملی نمونہ سے تبلیغ اسلام کریں اور ہر فرد پر واضح کریں کہ دنیا کا امن مذهب امن (اسلام) کی پیروی کرنے سے ہی قائم ہوسکتا ہے.نیز تمام ممبران کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتی اس کا نفرنس میں محمد قاسم صاحب امیر ڈیٹن مشن ہمنیر احمد صاحب امیر سینٹ لوئس مشن ،سید جواد علی صاحب، بشیر افضل صاحب امیر نیو یارک مشن، ڈاکٹر بشیر الدین اسامہ امیر ڈیٹرائٹ مشن ، ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر اور قریشی مقبول احمد صاحب انچارج مشن اور بعض دیگر اصحاب نے خطاب فرمایا.کانفرنس میں تمام جماعتوں کے امراء نے اپنے اپنے مشن کی سالانہ رپورٹ پیش کی نیز انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کی ذیلی تنظیموں کے الگ الگ اجلاس ہوئے.مشن کے مختلف تبلیغی مراکز میں زائرین کی آمد کا سلسلہ اس سال بھی زور وشور سے جاری رہا اور ڈیٹن ، واشنگٹن اور شکا گوسنٹرز ملک کے مختلف حلقوں اور بیرونی ملک سے آنے والے احباب تک 64.پیغام حق پہنچانے اور انہیں لٹریچر مہیا کرنے میں سرگرم عمل رہے.قریشی مقبول احمد صاحب ایک
تاریخ احمدیت.جلد 25 306 سال 1969ء مقامی سکول میں تشریف لے گئے جہاں آپ نے متواتر کئی گھنٹے مختلف کلاسز میں اسلام کی تعلیمات پر لیکچر دیا جس کے بعد سوال وجواب کا موقع بھی دیا گیا.شکاگو کے مبلغ صاحب کو ایک چرچ میں تقریر کی دعوت ملی جہاں کا روباری طبقہ سے کثیر احباب بھی آئے تھے.چنانچہ تقریر کی گئی جس کے بعد سوال و جواب بھی ہوئے.واشنگٹن کی ایک نواحی بستی Bethesda کے ایک یونیٹیرین چرچ کی جانب سے طلباء کی ایک کلاس میں لیکچر کی دعوت ملی.یہ کلاس چرچ میں موازنہ مذاہب کے پروگرام کے ماتحت منعقد ہوئی تھی.چنانچہ ان کو اسلام کے بنیادی اصولوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا جس کے بعد طلباء نے سوالات پوچھے.اس کامیاب پروگرام کے ماتحت ان کو اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا.شکا گو میں ایک ٹیلیویژن سٹیشن نے ہفتہ میں دوبار اسلام پر مختصر سا پروگرام نشر کیا.یہ پروگرام گفتگو پر مشتمل تھا.چوہدری شکر الہی صاحب نے اس میں باقاعدہ حصہ لیا.اس طریقے سے لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا.اس پروگرام کے دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر چھ دفعہ ٹیلیویژن پر دکھائی گئی.یوم التبلیغ کے موقع پر پٹسبرگ، نیو یارک اور کلیولینڈ میں جلسے منعقد کیے گئے.ان جلسوں کے متعلق اشتہارات اخباروں میں دیے گئے.چنانچہ بہت سے غیر از جماعت احباب نے بھی ان میں شرکت کی.اس طرح اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقع ملا.خدام الاحمدیہ کا ایک اجتماع تین دن کے لیے زیر سر کر دگی نا ئب صد ر مکرم قریشی مقبول احمد ڈیٹین میں منعقد ہوا.جس میں تمہیں کے قریب نمائندگان شامل ہوئے.سال کی آخری سہ ماہی میں تبلیغ کا کام سارے حلقوں میں کامیابی سے جاری رہا.کئی احباب کو تبلیغی خطوط لکھے گئے.ایک اشتہار Jesus Christ and the Bible تین بار شائع کر کے تقسیم کیا گیا.چوہدری عبدالرحمن خان صاحب بنگالی جو ماہ اکتوبر ۱۹۶۹ء میں دوبارہ یہاں خدمت دین کے لئے تشریف لائے اور آتے ہی اشاعتِ حق میں گرمجوشی سے مصروف ہو گئے اور بسوں کے اڈوں، سٹوروں اور دفتروں میں جا کر اشتہارات تقسیم کرتے رہے.سید جواد علی صاحب نے واشنگٹن کے قریباً نوے افراد تک بذریعہ ملاقات احمدیت کا پیغام پہنچایا اور بیرون واشنگٹن کے ستر افراد کولٹریچر بھجوایا.تمہیں کے قریب غیر مسلم اصحاب جن میں واشنگٹن یونیورسٹی کے ایک طالب علم اور نیو یارک میں کولمبیا یونیورسٹی کے ایک طالب علم بھی تھے واشنگٹن مشن ہاؤس آئے جن سے آپ نے احمدیت پر خاصی دیر تک تبادلۂ خیالات کیا اور لٹریچر بھی پیش کیا.اسی طرح واشنگٹن کی ایک نواحی بستی ہائیٹس ول، میری
تاریخ احمدیت.جلد 25 307 سال 1969ء لینڈ (Hyattsvile MD) کے ایک کیتھولک گرلز ہائی سکول کی ہسٹری کلاس میں آپ کا لیکچر ہوا اور خاصی دیر تک دلچسپ سلسلہ سوال و جواب جاری رہا.قریشی مقبول احمد صاحب نے کلیولینڈ مشن کا دورہ کیا اور کولمبس اور سنسنائی تشریف لے گئے جہاں آپ نے اشتہارات تقسیم کئے اور انفرادی رنگ میں پیغام حق پہنچایا.آپ نے سنٹرول میں Seventh Day Adventist Church کے ایک سکول میں دو بار لیکچر دیئے.امریکہ میں عید الفطر اسلامی روایات کے مطابق منائی گئی.کلیولینڈ میں وہاں کے ایک مقامی اخبار پلین ڈیلر نے عید الفطر پر مختصر سا نوٹ دیا.اس کے علاوہ واشنگٹن میں بھی عید الفطر خاص خوشی سے منائی گئی.۵۰۰ کے قریب احباب نے نماز عید میں شرکت کی.انڈونیشیا 67 66 ستمبر ۱۹۶۹ء کے آغاز میں جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا کا جلسہ سالانہ جکارتہ میں نہایت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا.مہنگائی اور دیگر مشکلات کے باوجود ملک کے تمام علاقوں سے احمدی مخلصین بکثرت شامل جلسہ ہوئے.اس موقع پر ایک تبلیغی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا اور ایک تبلیغی کا نفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں سینکڑوں غیر از جماعت اصحاب نے بھی شرکت فرمائی.ملک کی اہم شخصیتوں کو دینی لٹریچر دیا گیا.اس موقعہ پر قرآن کریم کے پہلے سپارہ کی انڈونیشی تفسیر کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی.اس تقریب پر خدام الاحمدیہ انڈو نیشیا کا اپنا الگ اجتماع بھی منعقد ہوا اور یہ ایام مرکزی اجتماع کی طرح خیموں میں گزارے.جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حضرت خلیفہ ایح الثالث کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ حضور انو راز راہ شفقت انڈونیشیا کو اپنے مبارک وجود سے برکت دیں اور اپنی زیارت سے انڈونیشین احمدیوں کو مشرف فرمائیں.مورخہ ۷ نومبر ۱۹۶۹ء کو مولانا محمد صادق صاحب سماٹری رئیس التبلیغ انڈونیشیا نے ایک گاؤں 68 69 تانگے رنگ (Tangerang) میں ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمایا.اس مسجد کا نام مسجد نور رکھا گیا.۹ نومبر ۱۹۶۹ء کو انڈونیشیا کے مبلغین کا اجلاس ہوا جو آٹھ بجے سے لے کر ایک بجے تک جاری رہا اور اس میں مختلف امور سے متعلق اہم فیصلے کئے گئے.مولوی محمد صادق صاحب سماٹری رئیس التبلیغ انڈو نیشیا نومبر دسمبر ۱۹۶۹ء کی رپورٹ میں رقمطراز
تاریخ احمدیت.جلد 25 308 سال 1969ء ہیں کہ انڈونیشین زبان میں جو ہماری تفسیر چھپ رہی ہے اس میں روپیہ کی کمی کی وجہ سے روک پیدا ہو رہی تھی.اس کے لئے مکرم میاں عبدالحی صاحب نے تشویش کا اظہار کیا.میں نے انہیں کہا کہ یہ رو پید انشاء اللہ تعالیٰ جمع ہو جائے گا.اس کے بعد وہ 19 دسمبر کو بنڈونگ سے جا کر نہ آئے.چنانچہ تفسیر کے خرچ وغیرہ کے متعلق انہیں پوری تفصیل کا علم تھا.اس لئے میں نے اور مولوی ابوبکر صاحب نے انہیں کہا کہ خطبہ جمعہ آپ پڑھائیں اور ہم آپ کی تائید کریں گے.انہوں نے خطبہ جمعہ پڑھا.مولوی ابوبکر صاحب نے مختصر سی تقریر میں اعلان کیا کہ اس تفسیر کے تین نسخوں کی قیمت پیشگی ادا کرتا ہوں.بس پھر کیا تھا سارے دوستوں نے پیشگی قیمت ادا کرنے کے لئے وعدے لکھوائے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لاکھ پچاس ہزار روپے کے قریب وعدے ہوئے اور دولاکھ روپیہ سے زائد رقم اسی وقت جمع ہوگئی.الحمد للہ علی ذالک.مکرم احمد صاحب پولیس افسر جا کر تہ نے ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم دی اور مکرم لیفٹینٹ کولونیل محمد صاحب نے ایک لاکھ روپیہ کی رقم دی.70 انگلستان امسال عید الاضحی ۲۷ فروری کو مذہبی جوش و جذبہ کے ساتھ منائی گئی.گلاسگو میں نماز عید مکرم بشیر احمد آرچرڈ صاحب نے پڑھائی اور قربانی کا فلسفہ بیان کیا.پریسٹن ، برمنگھم، بریڈفورڈ ، لیڈز، ہڈرز فیلڈ اور برسٹل میں بھی نماز عید با جماعت ادا کی گئی.لندن میں تقریباً ۱۶۰۰ار افراد نے نماز عید میں شرکت کی.لئیق احمد طاہر صاحب نے حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی جانب سے عید مبارک کا درج ذیل پیغام پڑھ کر سنایا.پیغام کا ترجمہ یہ ہے: تمام احباب جماعت احمدیہ انگلستان کو السلام علیکم اور عید مبارک.خدا تعالیٰ آپ کو عید الاضحی کی اہمیت اور اس کے مقاصد سمجھنے کی پوری توفیق عطا فرمائے.آمین 71 عید الاضحی کے تیسرے دن یکم مارچ کو مشن میں عید ملن پارٹی کا انعقاد کیا گیا جس میں متعدد غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی اور تبلیغ کا موقع میسر آیا.یہ سال تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک نمایاں حیثیت کا حامل تھا جس میں لاکھوں افراد تک نہایت کامیابی سے پیغام حق پہنچا.اس سال جماعت احمد یہ انگلستان نے دو بار یوم التبلیغ منایا.(۱۶ مارچ و ۲ ستمبر ۱۹۶۹ء) اس کے علاوہ دو بار ہفتہ ہائے تبلیغ کا انعقاد عمل میں آیا.پہلے یوم التبلیغ کے موقعہ پر احباب
تاریخ احمدیت.جلد 25 309 سال 1969ء جماعت کو ذاتی رابطہ، اخبار احمدیہ اور سرکلر خطوط کے ذریعہ اس بارہ میں مطلع کیا گیا.جناب غلام احمد صاحب چغتائی نے موزوں پلے کارڈ تیار کئے جسے احباب جماعت ملک کے مختلف حصوں میں لے گئے.تبلیغی گروپس کو عام تقسیم کی غرض سے ضروری لٹریچر فراہم کیا گیا.گو اس روز صبح بہت سردی تھی لیکن نو جوانوں اور بوڑھوں کے علاوہ بچوں کی ایک بڑی تعدا دلندن مشن ہاؤس میں جمع ہوگئی.جنہیں جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل نے خطاب کرتے ہوئے ان کے حلقہ ہائے تبلیغ اور تبلیغی روابط بڑھانے کے بارہ میں ضروری ہدایات دیں.جماعت ہڈرزفیلڈ کے احباب نے جنرل ہسپتال میں مریضوں کی عیادت کی جس کی خبر ایک مقامی اخبار نے شائع کی.دوسرے یوم التبلیغ کے موقعہ پر پچاس ہزار کی تعداد میں ایک انگریزی پمفلٹ شائع کیا گیا نیز سو سے زائد پلے کارڈ بھی تیار کئے گئے.احمدی احباب قریباً ساڑھے دس بجے مسجد فضل لندن میں جمع ہوئے.سب جذبہ تبلیغ سے سرشار تھے اور دعاؤں میں مصروف.خان بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد فضل نے جماعت سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ تین سالوں میں جب سے ہمارا نو نکاتی پروگرام شروع ہوا ہے تقریباً ستر اخبارات نے جماعت احمدیہ اور مسجد فضل کی تصاویر کے ساتھ تفصیلی مضامین شائع کئے جو بڑی کامیابی ہے.تبلیغ کے لئے احباب کو گروپس میں تقسیم کر کے ان کا ایک ایک لیڈر مقرر کیا گیا.اس روز لندن کو پندرہ حلقوں میں تقسیم کیا گیا تھا.بڑے تو بڑے چھوٹے اور کمسن احمدی بچوں کے جذبہ تبلیغ کا یہ عالم تھا کہ شام کو چھ بجے جب سب دوست واپس آئے تو ایک گروپ میں شامل بچہ نے بتایا کہ ہمارے گروپ نے دو پہر کا کھانا بھی نہیں کھایا.سارا دن بھوکارہ کر تبلیغ کی ہے.قریباً سب کا یہی حال تھا.خان بشیر احمد صاحب رفیق، خواجہ نذیر احمد صاحب سیکرٹری نشر و اشاعت اور غلام احمد صاحب چغتائی کی رفاقت میں میسٹ سٹریٹ تشریف لے گئے اور اخبار ڈیلی مرر ( The Daily Mirror) کے اسٹنٹ نیوز ایڈیٹر کو دو گھنٹہ تک انٹرویو دیا جس کے بعد آپ ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفتر میں گئے اور انٹرویو دیا اور شام کو اپنے ہاں تین ترک دوستوں کو مدعو کیا جن میں سے ایک انقرہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور ایک جرنلسٹ تھے.خان صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ احمدیت کا پیغام پہنچایا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ آج اسلام کی صحیح خدمت صرف جماعت احمدیہ کر رہی ہے.شام کے چھ بجے جملہ تبلیغی گروپ مسجد فضل میں پہنچ گئے اور اپنی تبلیغی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کی جو بہت خوشکن تھی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 310 سال 1969ء لندن کے علاوہ انگلستان کی متعدد دوسری جماعتوں مثلاً ہڈرز فیلڈ نے بھی کامیاب یوم تبلیغ منایا جس کے نتیجہ میں انگلستان کے احمدیوں میں تبلیغ کا زبردست جذ بہ پیدا ہو گیا.جماعت انگلستان نے پہلا ہفتہ تبلیغ ۸ امئی سے ۲۵ مئی تک منایا.یہ ہفتہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پریس سے رابطہ کے لئے مخصوص تھا چنانچہ اس کے دوران برطانیہ کے ہر اخبار اور رسالہ کو تبلیغی خطوط لکھے گئے.نیز بی بی سی پر خان بشیر احمد صاحب رفیق کی ایک تقریر بھی نشر ہوئی.علاوہ ازیں متعدد احمدی احباب برطانیہ کے اہم اخبارات کو فرداً فرداً ملنے کے لئے ان کے دفاتر میں پہنچے اور ان پر اسلام کی تعلیمات واضح کیں نیز احمد یہ مشن لندن کی کارگذاری سے ان کو متعارف کرایا.لندن کے اخبار ویمبلڈن برو( The Wimbledon Borough News) نے خان بشیر احمد صاحب رفیق کا ایک مفصل انٹرویو مسجد فضل اور آپ کی تصویر کے ساتھ نمایاں رنگ میں شائع کیا.یہ انٹرو یونو مزید اخبارات میں بھی شائع ہوا جل گھم ( کینٹ) کے ایک اخبار نے بھی آپ کی تقریر کے اقتباسات معہ تصویر شائع کئے اور جماعت کا تعارف بھی پیش کیا.دوسرا ہفتہ تبلیغ اردو دان طبقہ سے مخصوص تھا.اس غرض کیلئے اردو میں ایک پمفلٹ احمدیت کا پیغام ، دس ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا اور کثرت سے اردو دان حلقوں میں تقسیم کیا گیا جو بہت سے غیر از جماعت پاکستانی دوستوں کی غلط فہمیوں کے ازالہ کا موجب بنا.رساله الفرقان (مئی ۱۹۶۹ ء) سے پتہ چلتا ہے کہ ان ایام میں ساؤتھ آل لندن میں جناب خان بشیر احمد صاحب رفیق کا ایک پادری صاحب سے وفات مسیح اور رفع الی السماء کے موضوع پر ایک کامیاب مناظرہ ہوا جس کے آخر میں پادری صاحب نے کھڑے ہو کر اقرار کیا کہ امام صاحب کئی پوائنٹس پر ہم سے آگے نکل گئے ہیں لیکن ہم دوبارہ ان کو بلا کر اسی قسم کی محفل منعقد کریں گے.اس کے علاوہ آپ کے دلائل کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے.اس سال برطانیہ کی احمدی جماعتوں کا کامیاب چھٹا سالانہ جلسہ ۲۶.۲۷ جولائی ۱۹۶۹ء کو وانڈ زورتھ ٹاؤن ہال میں ہوا جس میں انگلستان کی اٹھارہ جماعتوں سے پندرہ سو مخلصین نے شرکت فرمائی.خان بشیر احمد صاحب رفیق نے جلسہ کے انتظامات کے لئے خواجہ رشید الدین صاحب قمر قائد مجلس خدام الاحمدیہ لندن کو انچارج مقرر کیا تھا جنہوں نے اپنے مندرجہ ذیل معاونین بشیر اصغر باجوہ صاحب (ناظم رہائش)، چوہدری اعجاز احمد صاحب (ناظم جلسه گاه)، خالد اختر صاحب (ناظم 74-
تاریخ احمدیت.جلد 25 311 سال 1969ء خوراک)، رشید جاوید صاحب ( محصل اعلی، خواجہ نذیر احمد صاحب ( ناظم پلیٹی)، خواجہ بشیر احمد صاحب ( ناظم بکسٹال)، میر مظفر احمد صاحب ( منتظم سٹال) کی مستعد ٹیم کے ساتھ نہایت کامیابی سے جملہ انتظامات کیے.نمائش کتب کا انتظام غلام احمد صاحب چغتائی، عقیل اظہر صاحب اور خواجہ نذیر احمد صاحب کے سپر د تھا.نمائش میں سلسلہ کا لٹریچر ،سینکڑوں تصاویر اور قرآن مجید رکھے گئے تھے.ہزاروں افراد نے اس کو دیکھا.استقبال کا شعبہ عبدالعزیز دین صاحب اور بشیر احمد صاحب شیدا کے سپرد تھا.پہلے دن جلسہ کی کارروائی سر پیری گرین بینیکر میٹن ( Sir Peregrine Henniker-Heaton) ( اینگلو عرب سوسائٹی انگلستان کے سابق سیکرٹری.آپ لمبے عرصہ تک عرب سیاسیات سے بھی وابستہ رہے) کی زیر صدارت ہوئی جس میں بالترتیب جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ گلاسگو اور بلدیہ ساؤتھ آل کے رکن مسٹر کینیتھ ریوز ( Mr.Kenneth Reeves) اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے تقاریر فرمائیں.آپ کی تقریر کا موضوع تھا ”خدا کا تصور موجودہ معاشرہ میں ( The Concept of God in the Current Society).آپ کا یہ ایمان افروز خطاب سوا گھنٹہ تک جاری رہا.آپ نے اپنی تقریر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور تعلق باللہ پر خاص زور دیا.اس تقریر سے حاضرین بے حد متاثر ہوئے چنانچہ ایک انگریز خاتون نے امام صاحب مسجد فضل سے کہا مجھے خدا پر یقین تو تھا لیکن اس تقریر کے بعد خدا تعالیٰ پر مضبوط اور پختہ ایمان پیدا ہو گیا ہے.یہ اجلاس انگریزی تقاریر کیلئے مختص تھا جس میں انگریز مدعوئین خاصی تعداد میں موجود تھے.شام کو مسجد فضل میں صدر صاحبان جماعتہائے احمد یہ انگلستان مجلس عاملہ لندن اور جماعت کے دوسرے صائب الرائے افراد پر مشتمل ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مالیات، تبلیغ کی توسیع اور تربیتی امور وغیرہ پر تفصیلی بحث ہوئی.دوسرے دن مولوی عبدالکریم شر ما صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ، جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ ، اسلم جاوید صاحب اور لئیق احمد صاحب طاہر نائب امام کی تقاریر ہوئیں.آخر میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ایک پُر اثر خطاب فرمایا جس میں احباب جماعت کو مغربیت کے اثر سے بچنے کی تلقین فرمائی.رات کو تیرہ مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک پُر معارف اقتباس کا ترجمہ سنایا گیا.اس محفل خاص کا اہتمام چوہدری اعجاز احمد صاحب نے فرمایا تھا.جلسہ کے موقعہ پر انگلستان کی احمدی خواتین کی طرف سے دست کاری کی ایک نمائش کا انتظام بھی کیا گیا.75
تاریخ احمدیت.جلد 25 312 سال 1969ء ڈنمارک کی دو نو مسلم احمدی خواتین عائشہ صاحبہ اور طیبہ صاحبہ جولائی کے اواخر میں انگلستان کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی غرض سے کو پن ہیگن سے لندن آئیں.انہوں نے جلسہ میں شرکت کے بعد لندن مشن کے زیر اہتمام شائع ہونے والے دینی مجلہ دی مسلم ہیرلڈ کے ایڈیٹر کے نام ایک خط میں جلسہ سالانہ کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کیا.اس خط میں مس جیسے عائشہ وش نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ کا بڑ افضل اور احسان ہے کہ مجھے انگلستان کے جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق ملی.لندن میں جناب بی.اے رفیق اور ان کی بیگم نے استقبال کیا.وہاں سے ہم سیدھے مسجد گئے تا کہ ہم آنحضرت عیے نے ارشاد کی تعمیل میں ایک نئے شہر میں داخل ہونے پر نفل ادا کرسکیں.اس جلسہ کے انعقاد میں جو روح کارفرما ہے اس سے اور اپنے دینی بھائیوں اور بہنوں کے جذبات سے ( جن سے ہمیں ملاقات کا موقع ملا ہم دونوں بہت متاثر ہوئیں اپنی دینی بہنوں کی صحبت میں وقت گزارنے کی سعادت ہم دونوں کے لئے بے حد مسرت بخش ثابت ہوئی.ڈنمارک کی ان دو نو مسلم احمدی خواتین کی برطانیہ کی ایک نو مسلم احمدی خاتون سلمی صاحبہ سے بھی ملاقات ہوئی.جلسہ کے بعد سلمی صاحبہ نے اپنی ڈینش بہن طیبہ صاحبہ کو لندن سے جو خط لکھا اسکے بعض اقتباسات کا ترجمہ درج ذیل ہے.تم ( مراد طیبہ صاحبہ ) سے اور بہن عائشہ سے ملاقات میرے لئے جلسہ کو اور بھی زیادہ مسرت انگیز بنانے کا موجب ثابت ہوئی.تم دونوں سے ملاقات کے بعد میں اپنے اندر ایک نئی زندگی اور نئی امید محسوس کرتی ہوں.اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت کے چند ابتدائی سفیروں کی حیثیت سے جو ذمہ داریاں اور فرائض ہم پر عائد ہوتے ہیں تم دونوں سے مل کر ان کی شدت اور وسعت کا احساس اور بھی زیادہ گہرا ہو گیا ہے.ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم الشان فضل سے نوازا ہے.لیکن ساتھ ہی ایک عظیم الشان کام بھی ہمارے سپرد فرمایا ہے.میں دعا کرتی ہوں کہ ہمارا قادر وعزیز اور رحیم خدا ہمیں ہمت ، طاقت اور صلاحیت عطا کرے تا کہ ہم غلبہ اسلام کے ضمن میں وہ کردار ادا کر سکیں جو احمدی ہونے کی حیثیت میں ہمیں ادا کرنا چاہئیے.میری بڑی ہی خواہش ہے کہ ہم ایک دوسرے سے جلدی جلدی اور بار بارمل سکیں.اس طرح اور باتوں کے علاوہ تم دونوں مجھے صحتمند مسابقت کی روح سے ہمکنار کر سکو گی.اسلامی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے جو فوائد مجھے حاصل ہوں گے ان سے قطع نظر کرتے ہوئے مجھے یقین
تاریخ احمدیت.جلد 25 313 سال 1969ء ہے اس طرح میں عربی زبان سیکھنے میں بھی دن دگنی رات چوگنی ترقی کرسکوں گی تم بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد انگریزی بولنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے 66 تا موجودہ خلا پر ہو سکے.مندرجہ بالا خطوط خاص اہمیت کے حامل ہیں اس لیے کہ یہ یورپ میں رونما ہونے والے روحانی انقلاب کے آئینہ دار ہیں.دو سال قبل مسجد فضل لندن کو ایک کمپنی کے ذریعہ پینٹ کروایا گیا تھا جس پر ساڑھے تین سو پاؤنڈ خرچ ہوئے.اس سال اسے دوبارہ رنگ و روغن کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی جس پر خان بشیر احمد صاحب رفیق کی تحریک پر لندن کے احمدی نوجوانوں نے پانچ دن صرف کر کے مسجد فضل اندر اور باہر سے پینٹ کر دی.یہ مشکل کام تھا خصوصاً اونچائی پر کام کرنا خطرہ سے خالی نہ تھا لیکن خدام نے کمال شوق اور ولولہ خدمت سے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا.خدا کے گھر کی تزئین اور رنگ و روغن کی یہ عظیم الشان خدمت خواجہ رشید الدین صاحب قمر اور سیکرٹری وقار عمل چوہدری اعجاز احمد صاحب کی زیر قیادت سرانجام پائی جس سے مشن کو قریباً ڈھائی سو پاؤنڈ کی بچت ہوئی اور سارا کام سو پاؤنڈ میں مکمل ہو گیا.میں جلنگھم میں عرصہ سے ایک مخلص جماعت قائم تھی.یہاں کے ایک احمدی طفل فرید احمد صاحب ابن لئیق احمد صاحب کھو کھر اُن دنوں اپنے ہم جماعت طلباء میں پورے جوش کے ساتھ اسلامی تعلیم کی اشاعت میں مصروف تھے.ان کے اسکول میں اسمبلی کے دوران دینیات کے استاد نے اسلام کے خلاف بعض نازیبا کلمات کہے.یہ بھی کہا کہ قرآن کریم میں کسی قسم کی سماجی اور معاشرتی تعلیم نہیں.اس پر عزیز موصوف فورا ہیڈ ماسٹر صاحب کے پاس پہنچے اور ان ریمارکس پر احتجاج کیا اور انہیں اسلامی تعلیمات کے مختلف پہلوؤں سے بھی روشناس کرایا.ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس غیور احمدی بچہ کی جرات ایمانی پر خوشنودی کا اظہار کیا اور استاد کی طرف سے خود معافی مانگی اور وعدہ کیا آئندہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا.بعد میں انہوں نے اس استاد کو بھی تنبیہہ کی.اسی طرح اس نے اپنی تبلیغی کارگزاری میں لکھا کہ میں نے تبلیغ کے لیے اپنے ہم جماعت Mr.Bradley کو گھر آنے کی دعوت دی.انہوں نے دعوت قبول کر لی لیکن بعد میں یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ انہیں نارتھمپٹن میں چرچ کے کام کے سلسلہ میں جانا ہے اس لیے وہ نہیں آپا ئیں گے.لیکن اگلے دن وہ آگئے.مجھے اس پر حیرت ہوئی.دریافت
تاریخ احمدیت.جلد 25 314 سال 1969ء 79.کرنے پر Mr.Bradley نے بتایا کہ انہوں نے رات کو خواب دیکھی ہے جس میں کسی نے ان کو زور سے کہا کہ Surrender to God - جب ان کو یہ بتایا گیا کہ اسلام کے معنی ہی یہی ہیں تو وہ سخت حیران ہوئے اور اسلام میں گہری دلچسپی لینے لگے.۱۱دسمبر ۱۹۶۹ء کو ویمبلڈن ٹاؤن ہال لنڈن میں عید الفطر کی مبارک تقریب منعقد ہوئی.اخبار ویمبلڈن برونیوز نے 19دسمبر ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں لکھا کہ انگلستان میں مقیم ہزار ہا مسلمانوں کے لیڈ ر امام بشیر احمد رفیق نے عالم عرب میں مذہبی اتحاد کو مشرق وسطی میں امن کا واحد ذریعہ قرار دیا.امام صاحب نے یہ بیان ویمبلڈن ٹاؤن ہال میں تین ہزار احمدیوں کے سامنے دیا جو رمضان کے اختتام پر عید الفطر کی تقریب کے لئے جمع ہوئے تھے.آپ نے مزید فرمایا کہ موجودہ زمانہ میں عالم اسلام کا سب سے بڑا المیہ فلسطین ہے جہاں لاکھوں مسلمان اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے ہیں اور کیمپوں میں رہائش کے لئے مجبور ہیں اور ہزاروں قلت غذا اور مختلف بیماریوں کے باعث لقمہ اجل بن رہے ہیں اور اس صورتحال کا علاج صرف مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے.( گلاسگو میں نماز عید جناب بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے پڑھائی.انگلستان کے قریب بارہ مقامات پر احمدی احباب نے اجتماعی طور پر عید منائی ) برما 80 کرن اسٹیٹ کے شہر پھآن میں مقامی اسلامک کونسل نے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کی نمائش کا انتظام کیا.چنانچہ کونسل کی درخواست پر جماعت نے پانچ زبانوں میں تراجم مہیا کیے.جماعت کی اس مساعی کی تعلیم یافتہ طبقہ نے کھلے دل سے پذیرائی کی.۲۳ مارچ کو جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس کے پہلے اجلاس میں حضرت خلیفتہ امسح الثالث کا دل نواز پیغام سنایا گیا.نیز محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور وکالت تبشیر کے پیغامات سنائے گئے.احباب نے جلسہ کی تقاریر سے بہت فائدہ اٹھایا.۲۷ مارچ کو چھٹی کے روز سیر کے لیے ۴۲/۴۰ افراد رائل لیک گئے.جہاں دعا کے بعد کبڈی، فٹ بال، تیرا کی اور تقاریر کے مقابلہ جات ہوئے.تمام احباب اس سے بہت لطف اندوز ہوئے تبلیغ کے نتیجہ میں ایک ہندو دوست اور چار چینی احباب نے اسلام قبول کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 تنزانیہ 315 سال 1969ء مشن کی پہلی سہ ماہی کی مطبوعہ رپورٹ کے مطابق اس سال کے شروع میں مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق نے مورو گورو، ارنگا، موشی، مایا مے اور ما بوگینی کا دورہ کیا.یہ سارا سفر ایک ہزار میل کا تھا.اس دورہ میں ارنگا کے ریجنل پولیس کمانڈر اور ان کے سیکرٹری سے طویل تبلیغی گفتگو کا موقعہ میسر آیا اور وہ بہت متاثر ہوئے.چوہدری عنایت اللہ صاحب نے موروگورو کے قرب و جوار میں بار بار دورے کر کے پیغام حق پہنچایا.مکو یونی میں لوگوں نے آپ کی باتیں نہایت ذوق و شوق سے سنیں جامع مسجد میں آپ نے نماز ظہر پڑھائی تو کثرت سے غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.حافظ محمد سلیمان صاحب نے جن کا اُن دنوں ہیڈ کوارٹر موانزا تھا، گرد و نواح کے علاقوں کے دورے کر کے کثیر افراد تک پیغام احمدیت پہنچایا.شنیا نگا کے دورہ کے دوران آپ نے امیر یا کمشنر اور ان کے سیکرٹری صاحب سے ملاقات کی.سیکرٹری صاحب کے دفتر میں اس وقت حرمت خنزیر کی وجوہ پر بحث ہو رہی تھی.حافظ صاحب نے اس کی حکمت پر بالوضاحت روشنی ڈالی جس سے سامعین بہت محظوظ ہوئے.ہائیکورٹ کے ایک حج سے ملاقات کر کے انہیں مسیح کی آمد ثانی کی خوشخبری سنائی.آپ ایک سکول میں گئے.ہیڈ ماسٹر صاحب نے آپ سے درخواست کی کہ مسلمان بچوں کو آپ ہی دینیات پڑھا ئیں.حافظ صاحب نے اس روز تمام مسلمان طلباء کو دمیات پڑھائی اور ان کے سوالوں کے جوابات دئے.کہا ما میں آپ نے بعض سرکاری افسران سے ملاقات کی اور ایک چرچ میں دو پادریوں سے گفتگو کا موقع ملا.قصبہ اٹانڈا (Itanda) میں اکثر عربوں کی دکانیں ہیں.آپ نے بعض عربوں کو سلسلہ کا لٹریچر دیا اور اپنے بچوں کو دین سکھانے کی طرف توجہ دلائی.Ukerewe کے چھوٹے سے جزیرہ میں بھی آپ پہنچے اور امر یا کمشنر سے ملاقات کر کے انہیں مولانا جلال الدین صاحب شمس کی کتاب (?Where did Jesus Die) پیش کی.ایک اور دورہ میں جو اڑھائی سو میل کے علاقہ میں پھیلی ہوئی بستیوں پر محیط تھا آپ نے دکانوں، ہوٹلوں اور بازاروں میں منادی کی.ایک بہائی سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا.پانچ چینیوں سے ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر گفتگو کی.الغرض آپ کے یہ دورے بہت کامیاب رہے اور اس دوران خاصا لٹریچر فروخت ہوا.بکو بامشن کے انچارج اور افریقن مبلغ شیخ یوسف عثمان صاحب شاہد ( آپ نے جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کا امتحان پاس کیا اور پھر واپس وطن پہنچ کر دینی خدمات میں مصروف عمل ہو گئے ) نے
تاریخ احمدیت.جلد 25 316 سال 1969ء ایک سوشل چرچ میں اسلام پر تقریر کی جس سے سامعین بہت متاثر ہوئے.آپ ہر اتوار جیل خانہ کے قیدیوں کو قرآن مجید سکھاتے رہے اور بکو با بندرگاہ پر تبلیغ کا سلسلہ با قاعدہ جاری رکھا اور پانچ بار قریبی علاقوں میں تبلیغی دورے کئے.جن افراد تک آپ نے پیغام حق پہنچایا ان میں مذہبی زعماء، اساتذہ، طلباء اور سرکاری افسران شامل تھے.نیز ایک پادری سے آپ نے خاص طور پر تبادلہ خیالات کیا.ے جولائی ۱۹۶۹ء کو تنزانیہ کی آزادی کا دن تھا.جماعت احمد یہ تنزانیہ نے اس قومی جشن منانے میں بھر پور حصہ لیا.ٹہو را میں مولوی عبدالرشید صاحب رازی اور مولوی عبدالباسط صاحب نے ایک شاندار احمد یہ بک سٹال لگایا جو اپنی انفرادیت اور افادیت کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا.ہزاروں افراد تین روز تک اسے بڑے شوق سے دیکھتے اور سراہتے رہے.زائرین کی آمد اور ان کے ساتھ تبلیغی گفتگو کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہا.موروگورو میں چوہدری عنایت اللہ صاحب احمدی نے تبلیغی لٹریچر کی ایک خصوصی نمائش کا اہتمام کیا اور اُسے دیدہ زیب بورڈوں، کتبات اور بینرز سے سجایا.ایک نقشہ کے ذریعہ دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو واضح کیا گیا.یہ نمائش بھی بہت کامیاب اور مفید رہی.ہزاروں زائرین جن میں افریقن کے علاوہ یوروپین، عرب، ہندو، سکھ، آغا خانی، ہندوستانی اور پاکستانی دوست سٹال دیکھنے کیلئے تشریف لائے اور گہری دلچپسی کا اظہار کیا.سٹال کو کامیاب بنانے میں ڈاکٹر طفیل احمد صاحب ڈار اور چوہدری افتخار احمد صاحب ایاز اور ان کی اہلیہ صاحبہ 83 نے نمایاں حصہ لیا.اس سال کے آخر میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفہ المسح الثالث کی قبولیت دعا کا ایک عظیم الشان نشان اس سرزمین میں ظاہر ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے ایک عرب نوجوان عبداللہ سالم سيف صاحب اُن دنوں ٹانگا شہر میں رہائش پذیر تھے فرقہ اباضیہ (سلطنت عمان کا سرکاری مذہب اباضیہ ہے.اس فرقہ کے نزدیک حضرت ابو بکر اور حضرت عمر خلیفہ راشد تھے مگر حضرت عثمان اور حضرت علی واجب القتل.) سے تعلق رکھتے تھے اور جماعت احمدیہ کی دینی خدمات کے مداح تھے.انہوں نے مولوی محمد منور صاحب مبلغ انچارج ٹانگانیکا مشن اور مقامی مبلغ شیخ ابو طالب صاحب عیدی ساندھی صاحب کو اپنے ہاں چائے پر مدعو کیا اور بتایا کہ وہ پندرہ سال سے بیمار ہیں.ہر دو تین روز کے بعد شدید بخار ہو جاتا ہے.علاج سے وقتی طور پر افاقہ ہوتا ہے لیکن مرض پھر عود کر آتا ہے.ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.شدید نقاہت لاحق ہو جاتی ہے.سارے طریقہ ہائے علاج کو آزما لیا ہے مگر
تاریخ احمدیت.جلد 25 317 سال 1969ء کوئی کارگر نہیں ہو سکا اور درخواست کی کہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی خدمت میں دعا کیلئے لکھا جائے.مولوی محمد منور صاحب نے وعدہ کیا کہ آپ خود اپنی کیفیت تفصیل سے حضور کی خدمت میں میری معرفت لکھ بھیجیں.میں آپ کے سواحیلی خط کا ترجمہ حضور کی خدمت میں پہنچا دوں گا اور عبداللہ سالم سیف صاحب نے ساتھ ہی نہایت عاجزی سے ستر شلنگ نذرانہ پیش کیا جو مولوی صاحب نے مقامی مسجد کے رنگ و روغن کے لئے دیدیا.بعد ازاں عبداللہ سالم سیف صاحب نے اپنا خط بھی مولوی صاحب کو بھجوا دیا جس کا ترجمہ آپ نے حضور کی خدمت میں بھجواتے ہوئے مزید حالات بھی عرض کئے اور بڑے الحاح اور عاجزی سے ان کی شفایابی کیلئے درخواست دعا کی.حضور کی طرف سے فوری جواب پہنچا کہ عبداللہ سالم صاحب آف ٹانگا کے لئے دعا کی گئی ہے.اس کے بعد اس عرب نوجوان کے مرض میں حیرت انگیز طور پر افاقہ ہونا شروع ہو گیا حتی کہ وہ چند ماہ کے اندر مکمل طور پر شفایاب ہو گئے چنانچہ انہوں نے • امارچ ۱۹۷۰ء کو مولوی محمد منور صاحب کو ایک خاص اطلاع دی کہ حضور کی دعاؤں اور توجہ کے طفیل انہیں بہت روحانی اور جسمانی فائدہ ہو رہا ہے.عام حالات میں انہیں ایک ماہ میں بارہ ٹیکے لگتے تھے اور پھر بھی بیماری دور نہیں ہوتی تھی لیکن اب بفضلہ تعالیٰ انہیں ایک ٹیکا بھی لگوانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ اس بیماری کا حملہ ہوا.انہوں نے مولوی صاحب سے یہ بھی خواہش کی کہ وہ ان کی طرف سے مبارکباد اور دلی شکریہ حضور کی خدمت میں پہنچا دیں کہ حضور کی دعا کی برکت سے مجھے بہت فائدہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضور کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا.جاپان اس سال ۸۰ ستمبر ۱۹۶۹ء کو جاپان مشن کا احیاء عمل میں آیا جب میجر (ریٹائرڈ) عبدالحمید صاحب حضرت خلیفة أسبح الثالث کے ارشاد پر فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کے لئے جاپان کے دارالسلطنت ٹوکیو وارد ہوئے.85 قریباً چونتیس سال قبل ۴ جون ۱۹۳۵ء کوصوفی عبدالقدیر نیاز صاحب کے ذریعہ دار التبلیغ جاپان کا قیام ہوا تھا.آپ تین سال تک پیغام حق کی اشاعت میں مصروف رہے اور ۱۲ جولائی ۱۹۳۸ء کو قادیان تشریف لے آئے.آپ کے بعد مولوی عبدالغفور صاحب کو پانچ سال تک تبلیغی خدمات بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ ۳۰ اکتو بر ۱۹۴۱ء کو واپس قادیان پہنچے.ازاں بعد مرکز کی طرف سے کوئی اور مبلغ بھجوائے جانے کا انتظام نہ ہوسکا.86-
تاریخ احمدیت.جلد 25 318 سال 1969ء میجر (ریٹائرڈ) عبدالحمید صاحب مبلغ جاپان کو بھی پہلے مبلغین کی طرح شروع میں زبان اور قیام کے سلسلہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم عارضی طور پر ایشیا سنٹر میں جگہ مل گئی اور جاپانی زبان سیکھنے کیلئے آپ نے ۶ ستمبر کو شیبو یا (Shibuya) میں واقع جاپانی سکول میں داخلہ لے لیا.یہ سکول عیسائیوں نے شروع شروع میں پادریوں کی سہولت کے لئے کھولا تھا تا کہ وہ جاپانی زبان سیکھ کر آسمانی سے عیسائیت کا پرچار کر سکیں.ایشیا سنٹر میں انگریز ، امریکن ، کینیڈین ، آسٹریلین، افریقن ، رشین الغرض بہت سے ملکوں کے لوگ ٹھہرے ہوئے تھے جنہیں آپ نے اپنی بساط کے مطابق اسلام کا پیغام پہنچانا شروع کر دیا.جن دوستوں نے دلچسپی کا اظہار کیا ان کے پتے مرکز میں بھجوا دئے اور انہیں بلا تاخیر لٹریچر مہیا کر دیا گیا.ان لوگوں میں ایک صاحب ڈاکٹر عیسی بھی تھے جو جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں پریکٹس کر رہے تھے اور حاجی صابری صاحب (جنوبی کوریا کی مسلم ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ) کے بھتیجا تھے.مبلغ جاپان کا بیان ہے " پہلا سمسٹرا بھی ختم نہیں ہوا تھا کہ سکول میں ایک تقریب عمل میں آئی جس میں طالب علموں کو دعوت دی گئی کہ اگر وہ کسی مضمون پر تقریر کرنا چاہیں تو اپنا نام لکھوادیں.چنانچہ میں نے بھی اپنا نام لکھوا دیا.میں نے ایک لیکچر مسیح کی آمد ثانی پر تیار کیا.اسے رومن الفاظ میں لکھ کر اپنے استاد سے اس کی اصلاح کروائی.سکول کے عملہ نے جاپانی الفاظ کا صحیح تلفظ ادا کرنے کی پریکٹس کروائی.چنانچہ وہ لیکچر زبانی تیار کر کے دیا.باہر سے لوگ بھی آئے ہوئے تھے.طالبعلموں، استادوں، استانیوں اور زائرین سے ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.طالبعلم اکثر یورپین اور امریکن تھے جن میں سے بعض عیسائی مشنری تھے اور بعض ٹورسٹ (سیاح) تھے.اس لیکچر سے میری کافی حوصلہ افزائی ہوگئی.اس زمانہ میں شیبو یا ریلوے اسٹیشن کے سامنے ایک کھلی جگہ پر جہاں سے لوگوں کی آمد و رفت کا صبح سے شام تک تانتا بندھا رہتا تھا.بعض عیسائی لڑکے اور لڑکیاں جاپانی زبان میں بائبلیں لے کر کھڑے رہتے اور انفرادی طور پر لوگوں کو عیسائیت کی تبلیغ کرتے.میں بھی ان کے پاس کھڑا ہو جاتا اور ٹوٹی پھوٹی زبان میں انہیں تبلیغ کرتا.یہ فرقہ ایک نئے چرچ سے تعلق رکھتا تھا جس کے بانی ( Reverend Sunmyung Moon) ریورنڈسن میونگ مون ہیں جو جنوبی کوریا کے باشندے ہیں.ہر روز اس فرقہ کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تبلیغ کرتے.میں ان کے پاس چلا جاتا اور انہیں کہتا کہ آپ بائبل کے بعض حوالہ جات ایک ایک کر کے پڑھیں جو انہیں میں زبانی بتلاتا.تو اس طرح
تاریخ احمدیت.جلد 25 319 سال 1969ء سوال کر کر کے میں انہیں بتلاتا کہ وہ انتہائی غلطی خوردہ ہیں.جب وہ میرے بتائے ہوئے حوالہ جات میں پڑھتے کہ حضرت عیسی علیہ السلام تو صرف بنی اسرائیلوں کی خاطر آئے تھے.یا ان کی تعلیم مکمل نہیں بلکہ ان کے بعد ایک سچائی کی روح آئے گی اور انہیں تمام باتیں سکھلائے گی یا بائبل الہامی کتاب نہیں ہوسکتی کیونکہ اس میں تناقض پایا جاتا ہے یا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ اسرائیل کے بھائیوں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا ایک نبی بر پا ہو گا جس کو ماننا اور جس کی مدد کرنا نہایت ضروری ہوگا تو وہ بڑے حیران رہ جاتے.ان میں سے بعض میرے گھر آجاتے.انہی دنوں کی بات ہے کہ آدیاما یو نیورسٹی (Aoyama University) کے ایک طالب علم میرے گھر آئے.میں نے اسی طریق سے اسے تبلیغ کرنا شروع کی.وہ ایک دن بھی آیا اور دوسرے دن بھی آیا.دوسرے دن اس نے مجھ سے کہا کہ آپ میں زبر دست طاقت ہے.اگر میں ایک بار پھر آیا تو مجھے ڈر ہے کہ میں مسلمان ہو جاؤں گا.تو میں نے کہا پھر مسلمان ہو جاؤ.مگر کہنے لگا کہ متحدہ چرچ والوں نے میرے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ مجھے امریکہ بھیجیں گے.اس لئے میں مسلمان نہیں ہونا چاہتا تاکہ میں اس چانس سے محروم نہ ہو جاؤں.اسی طرح اس گروپ کے بیشمار عیسائی لڑکوں اور لڑکیوں کو تبلیغ کی.ایک دفعہ مجھے ان کے ایک مرکز میں جانے کا اتفاق ہوا.وہاں بیشمار لڑکے اور لڑکیاں تربیت حاصل کر رہے تھے.ان کے لیڈر نے مجھے بھی دعوت دی کہ میں تقریر کروں.مجھے اس وقت جاپانی زبان میں مہارت نہیں تھی.میں نے کہا کہ میں انگریزی میں تقریر کروں گا.آپ کسی انگریزی دان کو ساتھ کھڑا کر دیں جو ساتھ ساتھ میری تقریر کا جاپانی زبان میں ترجمہ سناتا رہے.انہوں نے میری بات مان لی.مگر جب میں نے دیکھا کہ جس جاپانی کو انہوں نے کھڑا کیا ہے وہ صحیح ترجمانی نہیں کر رہا تو میں نے اس سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں.میں نے وہی تقریر جو سکول میں کی تھی یہاں بھی کر دی.سامعین بڑے محظوظ ہوئے.میں نے اس گروپ کے عیسائیوں سے رابطہ قائم رکھا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں بہت جلد جاپانی بولنا سیکھ گیا.جرمنی نے پاکستان میں سفارت خانہ جرمنی کے ترجمان اطلاعات جرمنی نے مسجد نور فرینکفرٹ کی دو تصاویر کے ساتھ یہ نوٹ لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 25 320 سال 1969ء 66 فرینکفرٹ کی مسجد نور.جس کے امام مسعوداحمد جہلمی ہیں جو پانچ زبانیں بڑی روانی سے بولتے ہیں.ہر ہفتے فرینکفرٹ اور اس کے قرب وجوار کی بستیوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لئے پہنچتی ہے.بہت سے مسلمانوں کے لئے خواہ وہ مراکش کے ہوں یا انڈونیشیا کے مشرقی افریقہ کے ہوں یا مغربی افریقہ کے، امام مسجد مسعود کی حیثیت ایک مشفق والد ، ہمدرد، بہی خواہ ، تر جمان اور پیر و مرشد کی ہے.ان کی مسلسل دینی و ثقافتی سرگرمیوں سے جرمن لوگوں میں اسلامی ثقافت و نظریات سے دلچسپی میں اضافہ ہورہا ہے.اس کے علاوہ ایک خوبصورت مسجد میونخ میں زیر تعمیر ہے جس کا سنگ بنیاد ۱۹۶۷ء میں رکھا گیا تھا.اس مسجد کی تعمیر میں مشرق و مغرب کے مختلف اسالیب کو نہایت ہی دلکش پیرائے میں سمونے کی کوشش کی جارہی ہے.مجموعی طور پر وفاقی جمہوریہ جرمنی میں دولاکھ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ مسلمان باشندے بستے ہیں.ان میں ایک بڑی تعداد ۱۹۴۵ء میں سوویٹ یونین سے ہجرت کر کے یہاں چلے آنے والے روسی مسلمانوں کی بھی ہے.نئے اسلام قبول کرنے والے جرمنوں کی تعدا د وفاقی جمہوریہ کی حدود میں ایک ہزار کے لگ بھگ ہے.فرینکفورٹ میں جماعت احمدیہ کے قیام اور تعمیر مسجد پر دس سال کا کامیاب عرصہ گذرنے پر ۱۸ ر ا پریل ۱۹۶۹ء کومشن کے زیر انتظام ایک پر وقار تقریب منعقد ہوئی.اس تقریب کے روح رواں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت انصاف ہیگ سے خاص طور پر اس تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لائے اور تین روز تک مشن ہاؤس میں قیام فرمار ہے اور دورانِ قیام دیگر دینی مصروفیات کے علاوہ فرینکفورٹ کے اعلیٰ دینی اور علمی حلقوں میں مؤثر تقاریر کر کے فریضہ اعلاءِ کالمہ اللہ کی بجا آوری کا حق ادا کر دیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب پروگرام کے مطابق ۷ ار ا پریل کی شام کو ہیگ سے بذریعہ ٹرین فرینکفورٹ تشریف لائے.اسی شام چوہدری عبداللطیف صاحب انچارج مبلغ جرمنی بھی ہمبرگ سے فرینکفورٹ پہنچ گئے.۱۸ / اپریل انتہائی مصروفیت کا دن تھا.صبح 9 بجے سے رات اابجے تک حضرت چوہدری صاحب نے یکساں بشاشت اور خندہ پیشانی کے ساتھ چھ مختلف تقاریب میں شرکت فرمائی.پروگرام کا آغاز آپ کی ولولہ انگیز تقریر مسیح کی آمد ثانی کے ساتھ ہوا.یہ تقریر کی تھولک فرقہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہم ادارہ میں تھی جو بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے.حضرت چوہدری صاحب نے اس موضوع پر ایک پُر مغز اور نہایت معلومات افروز اور فکر انگیز تقریر فرمائی جو
تاریخ احمدیت.جلد 25 321 سال 1969ء قرآن مجید اور بائبل کے حوالوں سے مرصع تھی.آپ نے ثابت کیا کہ مسیح کی آمد ثانی کے بارہ میں خود حضرت عیسی علیہ السلام کے اپنے بیان اور عقیدہ کے عین مطابق اور مسیح کے ظہور ثانی سے متعلق سبھی علامات پوری ہو چکی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ زمانہ اور اس کے حالات ایک آسمانی رہنما کا تقاضا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمان کے مطابق گذشتہ زمانوں کی طرح اس زمانہ میں بھی ایک ہادی برحق کو مبعوث فرمایا.وہ شخص ایک ایسے گمنام گاؤں میں مبعوث ہوا جس کی واحد درسگاہ ایک پرائمری سکول تھا.اس شخص نے دعوی کیا کہ خدا تعالیٰ نے اسے الہام سے نوازا ہے.اس شخص کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے وہ روحانی راہنمائی مہیا فرمائی جس کا یہ زمانہ مقتضی تھا.چنانچہ آپ کے جذب روحانی کا یہ نتیجہ ہے کہ آج آپ کے متبعین میں اخلاق و روحانیت کی ایسی روح جلوہ گر نظر آتی ہے جو اس زمانہ کا گوہر نایاب ہے.تقریر کے بعد میں منٹ تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.یہاں سے فارغ ہونے کے بعد فرینکفورٹ کے ایک بہت بڑی انشورنس کے ادارہ کی طرف سے دعوت تھی.اس ادارہ کے ایک ڈائریکٹر ڈاکٹر کیوی تھے جنہوں نے احمدی مبلغین کے اشتراک عمل سے قرآن پاک کا اسپرانٹو زبان میں پہلا ترجمہ کیا اور اس کا پیش لفظ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے تحریر فرمایا تھا.ڈاکٹر کیوسی حضرت چوہدری صاحب کے قیام کے دوران ہمہ وقت اپنی کار سمیت مصروفِ خدمت رہے.دوپہر کے کھانے کی دعوت مسٹر حسن الافرادی کی طرف سے فرینکفورٹ کے سب سے بڑے ہوٹل فرینکفورٹ ہوف میں مقرر تھی جس میں شہر کے میئر بھی مدعو تھے.دوپہر کے کھانے کے بعد جمعہ و عصر کی نمازیں مشن ہاؤس میں جمع کر کے ادا کی گئیں جس کے بعد تین بجے بعد دو پہر فرینکفورٹ کے مئیر کی طرف سے اس تاریخی ہال میں حضرت چوہدری صاحب کے اعزاز میں استقبالیہ تھا جہاں ہولی رومن امپائر کے دور میں بادشاہوں کی رسم تاجپوشی ادا ہوتی تھی.میر صاحب نے حضرت چوہدری صاحب کو ایوانِ قیصر کا معاینہ بھی کرایا.جس میں اُن تمام شہنشاہوں کی تصاویر آویزاں تھیں جن کی رسم تاجپوشی وہاں ادا ہوئی.پروگرام کے مطابق شام چھ بجے پریس کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں ریڈیو، اخبارات اور اہم خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے موجود تھے.ملکی ریڈیو کے علاوہ سمندر پار پروگرام کے تحت اردو اور انگریزی کے بھی مختلف پروگراموں میں حضرت چوہدری صاحب کے انٹرویو نشر کئے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 322 سال 1969ء شام سات بجے فرینکفرٹ میں جماعت احمدیہ کے قیام کی دس سالہ پُر وقار تقریب مشن ہاؤس کے لیکچر ہال میں منعقد ہوئی.اس تقریب میں ہالینڈ ، سپین، سویڈن کے سفارتی نمائندوں اور فرینکفورٹ کے مئیر ڈاکٹر فائے نے بھی شمولیت اختیار کی.علاوہ ازیں شرکاء میں بلدیہ کے بعض اہم افسران ، سیاسی پارٹی.C.D.U کے سر براہ Hans Von Moog ،محکمہ ریلوے کے افسر اعلیٰ :Dr Wendler ، مقامی مجسٹریٹ Dr.Volde ، دفتر روزگار کے ڈائریکٹر Dr.Schmidt اور جرمنی کے ممتاز قانون دان Dr.Janike اور متعدد دوسرے معززین شہر اور اہم مذہبی شخصیات، بشپ کے صاحبزادہ بطور نمائندہ بشپ ، اہم کیتھولک پادری Dr.Baum وغیرہ کے اسماء قابل ذکر ہیں.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد مسعود احمد صاحب جہلمی نے معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا.بعد ازاں نہایت ہی مخلص احمدی اور سعید الفطرت جرمن نوجوان محمود اسمعیل زولش نے مشن کی دس سالہ رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں بتایا کہ گذشتہ دس برس کے عرصہ میں اسلام پر مختلف زبانوں کے لٹریچر اور خصوصاً جرمن اور انگریزی میں قرآن کریم کے تراجم کی یہاں سے بڑی کثرت کے ساتھ اشاعت ہوئی ہے.فرانکفورٹ یونیورسٹی میں اسلام پر سیمینار منعقد ہوئے.مشن ہاؤس میں اور باہر سکولوں، گرجوں، کلبوں اور مختلف سوسائٹیوں میں مبلغین اور ان کے رفقاء کی طرف سے اسلام پر گذشتہ دس برس میں کم و بیش پانچ سو تقاریر ہوئیں.سکولوں اور سوسائٹیوں کی طرف سے گذشتہ کئی ماہ سے تقاریر کے مطالبات اس کثرت سے آرہے ہیں کہ تقریباً ہر ہفتہ ایک اور بعض اوقات زیادہ تقاریر کی دعوت آجاتی ہے.رپورٹ کے بعد فرینکفرٹ کے مئیر Dr.W.Fay نے حضرت چوہدری صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس امر کی یقین دہائی کرائی کہ وہ اور ان کے رفقاء کار مسجد اور مشن کی ہر ممکن اخلاقی مدد کیلئے ہمیشہ ممد و معاون رہیں گے.اس کے بعد محترم چوہدری صاحب موصوف نے حاضرین سے مختصر خطاب کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض و غایت بیان کی اور فرمایا کہ آپ سے منسلک ہو کر خدا تعالیٰ پر محض عقلی ایمان یعنی خدا ہونا چاہیے سے بڑھ کر ذاتی اور زندہ ایمان حاصل ہوتا ہے جبکہ انسان خدا تعالیٰ کو مشاہدہ کر لیتا ہے اور اس کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے.اگلے روز ۱۹ را پریل کو حضرت چوہدری صاحب کا پبلک لیکچر عصر حاضر کامذہب“ کے موضوع پر ہوا.لیکچر کا اہتمام فرینکفرٹ کے معروف سنگن برگ میوزیم کے لیکچر ہال میں تھا.باوجود یکہ لیکچر
تاریخ احمدیت.جلد 25 323 سال 1969ء انگریزی زبان میں تھا جرمن سامعین کی خاصی تعداد موجود تھی.آپ نے اپنے فاضلانہ لیکچر میں سائنسی علوم وفنون کی بڑھتی ہوئی ترقی اور عروج کے باعث یورپ میں مروجہ عیسائیت کی پسپائی اور بے بسی کا تذکرہ کرتے ہوئے بڑی شرح وبسط کے ساتھ واضح کیا کہ اس زمانہ کا حقیقی مذہب اسلام ہے جو قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی مکمل ہدایت و راہنمائی کا سامان مہیا کرتا ہے.آپ نے اپنی تقریر کے آخر میں اس خیال کی پُر زور تردید فرمائی کہ مذہب اور سائنس میں تضاد پایا جاتا ہے.آپ نے فرمایا سائنس مذہب کی مد مقابل نہیں بلکہ خادم ہے.بہت سی سچائیاں جو اب تک محض ایمان اور عقل کی بناء پر تسلیم کی گئی تھیں سائنسی علوم کی ترویج کے ذریعہ حقیقت بنتی جارہی ہیں.ہاں یہ شرط ہے کہ انسان اپنے قومی کو بنی نوع کی بہبود اور ترقی کیلئے خرچ کرے.اس صورت میں قرآنی وعدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی صلاحیتوں کو اور اپنی نعماء کو انسان کیلئے بڑھاتا چلا جائے گا.یہ دس سالہ تقریب فرینکفرٹ میں اشاعت اسلام کی راہ میں ایک سنگِ میل بن گئی اس موقع پر فرینکفرٹ کے ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اہم اخبارات میں احمدیہ مشن کی شبانہ روز مساعی کا بہت چرچا ہوا اور اس امر کا کھلے بندوں اعتراف کیا گیا کہ احمدیہ مشن کے ذریعہ جرمن عوام کو اسلام کے بارہ میں بہتر رائے قائم کرنے میں بھاری مددملی ہے.فرینکفرٹ کے اہم ترین اخبار Frankfurter Allgemeine نے ( جو روزنامہ ڈی ویلٹ کے بعد جرمنی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ) اپنی اشاعت مورخہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۹ء میں اسلامی مہمان“ کے عنوان کے تحت لکھا:.( ترجمہ ) ہندو پاک کے ممتاز ترین قانون دان، بین الاقوامی عدالت انصاف ہیگ کے حج جناب محمد ظفر اللہ خان فرینکفرٹ میں جماعت احمدیہ کی مسجد نور کی دس سالہ تقریب کے مہمان خصوصی تھے.پاکستان کے سابق وزیر خارجہ، اپنے ملک کے ممتاز ترین قانون دان اور اقوام متحدہ کی ستر ہوئیں جنرل اسمبلی کے صدر نے عالمی عدالت انصاف کے حج کی حیثیت سے شمالی سمندر کے شیل کے اس حالیہ بین الاقوامی قضیہ کی سماعت میں شرکت فرمائی جس کا فیصلہ جرمنی کے حق میں ہوا ہے.جناب محمد ظفر اللہ خان اسلامی موضوعات پر کئی ایک تصنیفات کے مصنف ہیں.آپ نے ۱۹۵۹ء میں فرینکفرٹ مشن کا افتتاح کیا.جمعہ کے روز فرانکفورٹ کے مئیر ڈاکٹر فائے نے ٹاؤن ہال میں آپ کو خوش آمدید کہا.آپ نے اپنے اس قیام کے دوران فلوسا فیسکل تھولا جیکل انسٹیٹیوٹ سینٹ
تاریخ احمدیت.جلد 25 324 سال 1969ء جارج اور سنگن برگ میوزیم کے ہال میں تقاریر کیں.جماعت احمد یہ اسلام کی ایک تبلیغی جماعت ہے جو تجدید و احیائے اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائی و غیر عیسائی اقوام اور اسلام کے مابین صلح و رواداری کے اصولوں کے تحت بہتر فضا اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی علمبردار ہے.جرمنی میں ہمبرگ کے بعد فرینکفرٹ جماعت احمدیہ کا دوسرا مشن ہے.اسلام کے متعلق بیشمار تقاریر اور مذاکرات کے ذریعہ زبردست بیداری کے پیدا ہونے سے اس مشن کے کام کی غمازی ہوتی ہے.سکولوں ، مذہبی اداروں اور دیگر سوسائٹیوں کی طرف سے بڑی کثرت کے ساتھ اس مشن کو اسلام کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے دعوت نامے ملتے ہیں.یو نیورسٹی اور میونسپل لائبریریوں کو اسلام کے متعلق یہاں سے کتب مہیا کی گئی ہیں.ترجمہ و تصنیف کے دیگر کاموں کے علاوہ جو اس مشن سے وابستہ ہیں اسپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا تر جمہ خاص طور پر قابل ذکر ہے جو اس مشن کے گہرے اشتراک عمل سے معرض وجود میں آیا ہے.اس کے علاوہ مسجد نور فرینکفرٹ میں اسلامی ممالک سے آنے والے زائرین ،طلباء، تاجروں اور سیاحوں وغیرہ کے لئے روحانی مرکز ہی نہیں بلکہ اس اجنبی ملک میں ان کے لئے وطن کی فضا مہیا کرتی ہے.دوسرے اہم اخبارات (Rundschau) اور (Neue Presse) نے بھی ایسے ہی نوٹ شائع کئے.89.۴ جولائی ۱۹۶۹ء کو مسجد نور فرینکفرٹ میں سیرت النبی علیہ کا اجلاس منعقد ہوا.اس اجلاس میں انڈونیشیا کے سفیر مقیم جرمنی پروفیسر یوسف اسماعیل صاحب نے آنحضرت علی کی قوت قدسیہ کا اثر انڈونیشیا پر“ کے موضوع پر تقریر کی.موصوف بون سے خاص طور پر اس تقریب کے لیے تشریف لائے تھے.اس اجلاس کی دوسری تقریر محمود اسماعیل زولش صاحب نے آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ کے موضوع پر کی.مقامی اخبارات نے اس تقریب کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.اسی طرح مسجد نور کے لیکچر ہال میں ڈاکٹر عبد الہادی کیوسی صاحب نے ایک تقریر کی جس میں بائبل اور قرآن میں مشتر که بیان کرده امور اور قرآن کریم کی فضیلت کو ثابت کیا.فرینکفرٹ کے مرکزی چرچ ڈوم میں بھی مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب کو تقریر کا موقعہ ملا.جرمنی کے نومنتخب صدر ڈاکٹر ہائے من اور فرینکفرٹ 66
تاریخ احمدیت.جلد 25 325 سال 1969ء کے میئر ڈاکٹر فائے سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں قرآن کریم کا ترجمہ پیش کرنے کی توفیق ملی.سکولوں اور بعض سوسائیٹیوں کے پانچ وفود مسجد دیکھنے آئے جن کو لیکچر دیا جاتا اور بعد میں سوالات کا سلسلہ شروع ہوتا.محمود اسماعیل زولش صاحب نے مسجد میں اسلام پر ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا جس میں یونیورسٹی کے طلباء اور سکولوں کے اساتذہ نے شرکت کی.یہ مذاکرہ چھ گھنٹے تک جاری رہا.مشن کی طرف سے محمود اسماعیل زولش ، جناب ڈاکٹر کیوسی اور مسعود احمد جہلمی صاحب نے حصہ لیا.اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے اسلام کے متعلق شائع شدہ لٹریچر کی نمائش بھی کی گئی.اسپرانٹو زبان میں ترجمہ شائع ہونے پر مسعود احمد جہلمی صاحب نے بعض اسلامی ممالک مثلاً مصر،سعودی عرب، انڈونیشیا، لیبیا، ایران کے سفراء صاحبان سے ملاقاتیں کیں اور ان ممالک کے سربراہان کو اسپرانٹو زبان میں ترجمہ قرآن کریم کا ایک ایک نسخہ بھجوانے کے لیے دیا.سپین 66 90 اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی اور حضرت مصلح موعود کے لیکچر اسلام کا اقتصادی نظام کی ملک بھر میں وسیع پیمانے پر اشاعت ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی خاص طور پر رائل میڈیکل اکیڈیمی، رائل اکیڈیمی آف ہسٹری، جوڈیشل رائل اکیڈیمی اور رائل اکیڈیمی آف فارمیسی کے ایک سوتین ممبران کو بھجوائی گئی اور ہر حلقہ میں بیحد پسند کی گئی اور اسلام کی اعلیٰ اخلاقی اور روحانی تعلیم کی عظمت و برتری کا اعتراف کیا گیا.اس سلسلہ میں میڈیکل پروفیسر و ممبر رائل اکیڈیمی آف میڈیسن (D.Alfonso De La Fuente) اور ایک میڈیکل سکول کے پرنسپل اور رائل اکیڈیمی کے ممبر سر ولا نووا (Sr.Villa Nova) کے تاثرات کا ذکر تاریخ احمدیت جلد نمبر۱۲ کے صفحہ ۴۱ اور ۴۲ پر گذر چکا ہے.رائل اکیڈیمی کے ممبر (Exemo Sr.D) نے مولوی کرم الہی صاحب ظفر انچارج سپین مشن کے نام خط لکھا کہ ”میرے نہایت ہی واجب الاحترام دوست مجھے میڈرڈ سے مجبوراً باہر جانا پڑا.اس لئے آپ کے خطوط کا جواب کسی قدر تاخیر سے دے رہا ہوں.آپ کی طرف سے کتاب ”اسلامی اصول کی فلاسفی“ بھجوانے کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.میں نے یہ کتاب پورے غور اور دلچسپی سے پڑھی ہے اور اس سے پورا فائدہ اٹھایا ہے.جو چیز
تاریخ احمدیت.جلد 25 326 سال 1969ء مجھے سب سے زیادہ پسند آئی ہے کہ یہ کتاب روحانیت کا شیریں سر چشمہ ہے جس سے آج کی مادہ پرست دنیا میں دائی زندگی کا پانی بہتا ہے وہ اس بے آب و گیاہ اور لق و دق پتے ریگستان میں نخلستان کا کام دیتی ہے جس سے اب بھی آب حیات میسر آسکتا ہے.میں دوبارہ شکر یہ ادا کرتے ہوئے آپ کے ساتھ گہرے دلی جذبات کا اظہار کرتا ہوں.دستخط (ترجمه) مشن کی طرف سے موصوف کو کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ اور ”احمدیہ موومنٹ بھجوائی گئی تو انہوں نے مزید خوشی کا اظہار کیا اور مولوی کرم الہی صاحب ظفر سے ملاقات کے دوران بتایا باوجود یکہ وہ کیتھولک پادری ہیں ہمیشہ خدا کی تائید کے قائل رہے ہیں لیکن مکتی چرچ سے مرعوبیت کے باعث اسے کبھی ظاہر نہیں کیا.انہیں کتاب در مسیح ہندوستان میں “ پڑھ کر بہت تسلی ہوئی ہے.مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے اس سال جن اہم شخصیات تک پیغام حق پہنچایا ان میں سابق وزیر خارجہ اور سٹیٹ کونسل کے سیکرٹری (D.Alberto Martin Artajo) اور ایک وکیل (.D Jose Luis) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مولوی صاحب نے چاند پر جانے والے خلابازوں (نیل آرمسٹرانگ (Neil Armstrong اور ایڈون آلڈرن (Edwin Aldrin) پہلے امریکی خلا باز تھے جو ۲۰ جولائی کو چاند پر اترے.پاکستان ٹائمنز ۲۱ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ) کو ایک تبلیغی خط لکھا نیز احمد یہ موومنٹ“، ”ہماری تعلیم اور مسیح ہندوستان میں پر مشتمل لٹریچر بھجوایا.آپ نے ایک خواب کی بناء پر صد را مریکہ مسٹر نکسن (Nixon) کو ایک خط کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی کامل تو حید قرآن کریم کی کامل شریعت پر ایمان اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت ہی سے دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے.92 سکنڈے نیویا اس سال ملک میں اسلام سے متعلق بڑھتی ہوئی دلچسپی کے باعث چرچ سوسائٹی نے ایک اسلامک کمیشن مقرر کیا اور اس کی کمیٹی نے احمدیت پر بھی ریسرچ شروع کی نیز ایک کتاب ”اسلام ڈنمارک میں تیار کی اور اس میں مندرجہ ذیل پہلوؤں کو بھی خاص طور پر اجاگر کیا.ابتدائی تاریخ اسلام، احمد بیت، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا چیلنج سورۃ فاتحہ سے متعلق مشہور عیسائی مٹا دڈاکٹر بلی گراہم کو قبولیت دعا کا چیلنج وغیرہ.اسی سال سید کمال یوسف صاحب، مولوی بشیر احمد صاحب شمس اور سویڈن کے مقامی مشنری محمود
تاریخ احمدیت.جلد 25 327 سال 1969ء سیف الاسلام ارکسن صاحب ڈنمارک سے سویڈن کے شہر گوئٹے برگ (Gothenburg) تشریف لے گئے اور یہاں ۲۰ رافراد پر مشتمل ایک نئی مخلص جماعت کا قیام عمل میں آیا.محمود ارکسن صاحب کو اسی سال حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا.یورپین احمدی مسٹر غلام احمد اور مسٹر عبدالسلام میڈسن نے وقف عارضی کے تحت کئی ایام شرق اوسط میں گزارے.نومبر میں طلباء اور اساتذہ کے متعد دو فود مسجد نصرت جہاں کو پن ہیگن میں پہنچےجنہیں سید مسعود احمد صاحب مبلغ سکنڈے نیو یا مقیم کوپن ہیگن اور عبدالسلام صاحب میڈسن اور محمو دار کسن صاحب نے 93.94 اسلام پر کامیاب لیکچر دئے.سید کمال یوسف صاحب مبلغ سکنڈے نیویا نے جلسہ سالانہ ربوہ دسمبر ۱۹۶۹ء کے موقعہ پر خطاب فرمایا اور سکنڈے نیویا مشن کی ابتدائی تاریخ اور اس کے اثرات پر نہایت عمدہ پیرایہ میں روشنی ڈالی.پوری تقریر معلومات سے لبریز تھی.مولوی محمد عثمان صاحب چینی اپریل ۱۹۶۶ء میں مرکز احمدیت ربوہ سے سنگا پور بھجوائے گئے.جہاں آپ ستمبر ۱۹۶۹ء تک مبلغ انچارج کی حیثیت سے دینی فرائض بجالاتے رہے.سنگا پور میں قیام کے دوران چینی اخباروں میں آپ کے انٹرویو اور مضامین شائع ہوئے.اسلامی اصول کی فلاسفی کا چینی ایڈیشن تقسیم ہوا.چینی زبان میں رسالہ میں نے اسلام کیوں قبول کیا“ کی پانچ ہزار کا پیاں شائع کی گئیں اور سنگا پور، ملائیشیا، بنی ،سبا اور انڈونیشیا میں مفت تقسیم کی گئیں قرآن مجید کے بعض درسی اسباق انگریزی ، ملائی، چینی اور عربی زبان میں شائع کر کے تقسیم کروائے.آپ نے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ایک کتاب احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا چینی زبان میں ترجمہ کیا اور پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کی.اور اسے سنگا پور، ملائیشیا کے بڑے بڑے شہروں کے کتب خانوں میں رکھوایا.مؤخر الذکر کتاب کے متعلق سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی کے ایک چینی امام اسحاق مانے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ نہایت بلند پایہ کتاب ہے.ملائیشیا کی Deism Society (الحاد.مذہب فطرت.عقیدہ جس کا ماننے والا خدا کا قائل مگر منکر وحی ہوتا ہے) نے چینی اخبارات میں آپ کا انٹرویو پڑھ کر آپ کا ایک مضمون اپنے رسالے میں شائع کیا اور لکھا ” ہمیں آپ نے اسلام کے بارے میں ایک عظیم الشان
تاریخ احمدیت.جلد 25 328 سال 1969ء مضمون دیا.ہم آپ کے بہت ممنون ہیں آپ نے غیر جانبدارانہ رنگ میں اسلام کے حقائق بیان کئے ہیں.آپ کی بحث باریک اور لطیف تھی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے بہت اچھی طرح مذہب کے علوم حاصل کئے ہیں.چینی لوگوں کو اب تک اسلام سے واقفیت نہیں.وجہ یہ ہے کہ چینی زبان میں اسلام کی تبلیغ نہیں ہوئی.اب آپ سنگاپور میں اسلام کی اشاعت کے لئے آگئے ہیں.یہ لازمی بات ہے کہ اسلام ان ممالک میں چینیوں میں پھیل جائے اور چینی لوگ بھی اس سے برکات حاصل کریں.مولوی محمد عثمان صاحب کے ذریعہ چینیوں ، عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام نہایت مؤثر رنگ میں پہنچا اور سنگا پور کے مسلمانوں کو آپ سے بہت تقویت پہنچی.چینی مسلمانوں کے ایک راہنما ابراہیم ما صاحب نے ایک دفعہ آپ کو لکھا.میں نے جماعت احمدیہ کے لٹریچر سے بہت فائدہ اٹھایا اور بہت سے علوم حاصل کئے.ایک پاکستانی ایسوسی ایشن کی جنرل سیکرٹری غیروں تک اسلام کی آواز پہنچانے کے لئے ہمیشہ سلسلہ کے لٹریچر سے فائدہ اٹھاتے تھے.ایک چینی مسلمان نے آپ سے کہا کہ وہ سلسلہ کی کتاب چھاپ کر لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں جو منافع ہوگا وہ جماعت کو دیں گے مگر کتاب پر جماعت کا نام نہ ہو ورنہ اشاعت کم ہوگی آپ نے جواب دیا ہم حق پھیلانا چاہتے ہیں ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے.96 سوئٹزرلینڈ یکم اگست ۱۹۶۹ء کو سوئٹزرلینڈ نے اپنا قومی دن پوری روائتی شان سے منایا.اسی روز ملک کے چوٹی کے ایک اخبار ٹاگس انسٹا ئیگر (Tages Anzeiger) نے مسجد محمود کے بارہ میں ایلزی سٹرائف کا ایک مضمون شائع کیا.مضمون کے آغاز میں مسجد محمود میں خطبہ عید کی ایک تصویر دیتے ہوئے لکھا مشتاق احمد صاحب باجوہ بحیثیت امام احترام کے مقام پر مسلمانوں سے خطاب کر رہے ہیں.مضمون کا عنوان تھا زیورک میں اسلام.امام سے ایک ملاقات“.مضمون نگار نے شروع میں مسجد محمود کی دلکش عمارت کا نہایت پر کیف انداز میں نقشہ کھینچتے اور اسے قدیم فنونِ لطیفہ اورفن تعمیر کا ایک عمدہ نمونہ قرار دیتے ہوئے لکھا:.کئی سومسلمانوں کے لئے زیورک کی یہ مسجد ایک بھروسہ کے قابل مرکز کی حیثیت رکھتی ہے گویا
تاریخ احمدیت.جلد 25 329 سال 1969ء وہ ان کے لئے اپنا دینی وطن ہے.اس مسجد سے تعلق رکھنے والے بعض ممالک بیرون سے ہیں جو مختلف قسم کے کاروبار میں لگے ہوئے یا تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں سے بعض کے اہل وعیال بھی یہاں ہیں اور پھر غیر ممالک سے آئے ہوئے محنت کش اور مذہبی جذ بہ رکھنے والے سیاح جو آتے رہتے ہیں.اسی طرح مشرق قریب ، مشرق بعید، افریقہ اور بلقانی ممالک کے مسلمان اور خود سوئٹزرلینڈ کے سوئس مسلمان.یہ مختلف ممالک کے مسلمان سنتی ، شیعہ، اسمعیلی وغیرہ بھی آتے ہیں.یہ مسجد چھ سال قبل اسلام کے ایک تبلیغ کرنے والے سلسلہ کے زیر ہدایت تعمیر کی گئی جس کا نام سلسلہ احمدیہ ہے اور جو اپنے اراکین سے اس مستعد خدمت کی بجا آوری کا مطالبہ کرتا ہے.یہ جماعت ان مذہبی عملی افراد پر مشتمل ہے جو اپنے مقصود کے حصول کے لئے مساعی ہیں یہ جماعت اسلام کو صلح و امن سے پھیلانا چاہتی ہے اور اس کے عقیدہ کے مطابق اسلام کے لئے تلوار کا استعمال صرف اس صورت میں جائز ہے.جب اس کے دفاع کے لئے ضروری ہو.اس سلسلہ کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد (علیہ السلام) نے ۱۸۸۹ء میں قادیان (ہندوستان ) میں رکھی.بانی سلسلہ ٹھیک چالیس سال کی عمر کے تھے جب خدائی آواز نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ مسیح موعود ہیں اور وہ دنیا کو خدا کی طرف بلا لیں.سلسلہ احمد یہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور گروہوں میں وحدت پیدا کرنے کے لیئے مساعی ہے.امام مشتاق احمد باجوہ یہاں کی جماعت کے قائد اور خلیفہ اسیح الثانی کے نام پر تعمیر شدہ مسجد کے امام ہیں.امامت یعنی کسی جماعت کی قیادت ایک بلند عزت والا مقام ہے اور جماعت کی خاص شخصیتوں کو ہی یہ حاصل ہو سکتا ہے.مشتاق احمد باجوہ پاکستان میں جوان ہوئے.وکالت کا امتحان پاس کیا اور پھر برضاء ورغبت دینی تحریک کی تعمیل میں اپنی زندگی وقف کر دی.اسلامی تاریخ اور اسلامی دینیات کی تعلیم حاصل کی.اور کئی سال جماعت احمدیہ کی دار القضاء میں قاضی کی حیثیت سے کام کیا.زیورک کی مسجد کے سفید بالوں والے امام کے وقار انسانی تپاک و دلسوزی و خوش طبعی کی تاثیرات کو ملنے والا محسوس کر لیتا ہے.سوئس ملاقاتی انہیں روانی سے جرمن زبان کو بولتے سن کر متعجب ہوتا ہے اور اسے اس اعلیٰ تعلیم یافتہ مضبوط عقاید والے انسان کے جذبہ رواداری کا احتراما اقرار کرنا پڑتا ہے.قرآن کی سورۃ ۱۰۹ کی آخری آیت میں غیر مسلموں اور مختلف عقائد رکھنے والوں کے بارہ میں ارشاد ہے.تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین.کیا اسلام کا یہ فراخدلانہ رویہ اُس خبطی «مسیحی کو جو گویا اپنے اونچے تخت سے غیر مذاہب کو اور خصوصاً اہم عالمگیر مذاہب کو بھی حقارت کی نظر -
تاریخ احمدیت.جلد 25 330 سال 1969ء سے دیکھتا ہے.گہری شرمندگی میں نہیں ڈالتا ؟ اسلام میں ہمارے مذہب کے مقابلہ میں بہت کم حکمی ہے.وہ اللہ.خدائے واحد کے پیغام پر سب سے زیادہ غور وفکر پر زور دیتا ہے.اسلامی تعلیمات مسیحی تعلیمات کی نسبت (اگر مسیحی تعلیمات کی پیروی کی جائے ) عمل کے لحاظ سے زیادہ سہل ہیں.مشتاق احمد باجوہ روائتی مشرقی استقامت کے ساتھ تین مختلف مدارج کی جماعتوں میں بچوں اور بڑوں کو عربی کی تعلیم دیتے ہیں.اس زبان کے سیکھ لینے سے طلباء اس قابل ہو جاتے ہیں کہ وہ صحیفۂ مقدس قرآن کی اصل عبارت کو پڑھ سکیں.دوسری باتوں میں ان کی مصروفیات دوسرے مذاہب کے ایسے مراکز کے نگرانوں سے مشابہ ہیں مثلاً افراد جماعت کی مذہبی راہنمائی ، بیماروں کی عیادت، ضرورتمندوں کی برادرانہ امداد، دینی موضوعات پر تقاریر اور شادی کی تقاریب، وہ اسے ایک مذہبی فریضہ اور انسانی ہمدردی کا ایک تقاضا تصور کرتے ہیں کہ ہر مشورہ وراہنمائی کے طالب کو وقت دیں.پس آپ کی کارگذاری دریائے طٹ پر ہمارے وسیع المشرب شہر کے محلہ دے آلپ کے بے کیف ماحول میں مشرقی ثقافت ایک رنگ پیدا کر رہی ہے.سال کے آخری چار مہینوں میں نہایت کثرت سے زائرین مسجد محمود میں تشریف لائے جن میں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک نو جوانوں کی اکثریت تھی جنہیں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ انچارج سوئٹزر لینڈ مشن نے مدلل اور دل آویز انداز میں پیغام حق پہنچایا اور لٹریچر پیش کیا.ایک پادری صاحب نے جن کے چرچ میں تین ہزار سے اوپر ارکان تھے.گفتگو کے آخر میں شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں نے زندگی میں پہلا مسلمان ایسا دیکھا ہے جس کو اپنے معتقدات پر اس قدر یقین ہے.۱۴ ستمبر ۱۹۶۹ء کوسوئٹزرلینڈ میں پاکستان کے نئے سفیر ہز ایکسی لینسی مسٹر افضل اقبال مسجد محمود میں تشریف لائے.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے اس موقعہ پر زیورک اور قریبی علاقوں میں رہائش پذیر پاکستانیوں کو بھی مدعوکر لیا.ہز ایکسی لینسی افضل اقبال نے تحریک فرمائی کہ سوئس پاکستان مجلس کا قیام عمل میں لایا جائے.چنانچہ ایک کمیٹی تشکیل کی گئی.باجوہ صاحب نے ہز ایکسی لینسی کو قرآن کریم اور دیگر لٹریچر پیش کیا جو انہوں نے خوشی سے قبول کیا.سوئس ٹیلی ویژن نے باجوہ صاحب کو اپنے سٹوڈیو میں ۲۴ ستمبر کو مدعو کیا اور ہندو مذہب، بدھ مذہب ،شنٹو ازم اور اسلام پر دستاویزی فلمیں دکھائیں اور لنچ کے وقفہ پر اجلاس کیا جس میں سوس ٹیلی ویژن کے مذہبی و تمدنی شعبہ نے بتایا کہ ان فلموں کے سوئٹزرلینڈ میں دکھائے جانے کے بعد
تاریخ احمدیت.جلد 25 331 سال 1969ء ۱۴ را کتوبر کو ایک فلم ”خدا کے کئی نام ہیں دکھائی جاتی ہے جس میں چار مذہبوں کے نمائندگان مقررہ سوالات کے جواب دیں گے.چنانچہ باہمی مشورہ سے سات سوالات طے کئے گئے.ہندو مذہب کی نمائندگی کے لئے ایک پروفیسر ڈاکٹر تریپاٹھی آئے ہوئے تھے.عیسائیت کی نمائندگی ڈاکٹر ہولن دیگر (Dr.Hollenioeger) کے سپرد ہوئی جو کلیسائی وحدت کی مجلس کے صدر ہیں جس کا مرکز جنیوا ہے.بدھ مذہب کی نمائندگی جرمن بدھ مذہب کے سیکرٹری ڈاکٹر ہیلیموٹ کلا ( Dr.Helmut Kala) ہائیڈل برگ کے سپرد ہوئی.اور اسلام کی نمائندگی چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے کی.شنٹو ازم کا سوال ٹیڑھا تھا.باجوہ صاحب نے کہا کہ اسے تو مذہب قرار ہی نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کا اور نہ ہی حیات آخرت کا تصور ہے.یہ تو تاج شاہی کی پشت پناہی کیلئے ایک نظریہ بنایا گیا تھا.شرکا مجلس میں سے کسی نے اس سے اختلاف نہ کیا.چونکہ شنٹوازم پر فلم دکھائی جانی تھی اس لئے اس کی نمائندگی ضروری تھی.چنانچہ جاپان یونیورسٹی کے جاپانیات کے سوس پروفیسر شنٹوازم کی طرف سے شریک ہوئے.۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء کو ڈاکٹر محمد فاضل جمالی سابق وزیر خارجہ عراق نے مسجد محمود میں اسلامی اخلاق پر ایک عالمانہ خطاب کیا.حاضری خاصی تھی جن میں اکثریت علمی طبقہ کے لوگوں اور سوئس احمدیوں کی تھی.تقریر کا جرمن ترجمہ ڈاکٹر محمد عز الدین حسن نے سنایا.سب کی پُر تکلف تواضع کی گئی اور دیر تک سلسلہ گفتگو جاری رہا.یکم اکتوبر ۱۹۶۹ء کوسوس ٹیلی ویژن کے شعبہ مذہب و تمدن کے سر براہ اپنے نائب اور فلم تیار کرنے والے عملہ کے ساتھ مسجد محمود آئے اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے مختلف سوالات کے جواب حاصل کئے جو ۱۴ را کتوبر کو ٹیلی کاسٹ کئے گئے جس پر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلم سوئس کی طرف سے بھی مبارکباد کے خطوط موصول ہوئے.سوئٹزرلینڈ کے ایک دور دراز علاقہ میں ایک ترک دوست مدتوں سے مقیم تھے جو خاص طور پر آپ کو مبارکباد دینے کے لئے آئے اور بہت داد دی.زائرین میں بھی اس وجہ سے اضافہ ہوا چنانچہ ایک سوس فیملی کار پر تین گھنٹہ کا سفر طے کر کے محض ملاقات کے لئے پہنچی.آنے والوں میں جو معاشرہ کے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے تھے نائیجیریا کے میٹرولا جیکل ڈائریکٹر ( Meteorological Director) اور ایک شیعہ عالم حاجی محمد صادق صاحب جو جناب آیت اللہ کا شانی کی مسجد کے امام 98
تاریخ احمدیت.جلد 25 332 سال 1969ء اور استاد تھے خاص طور پر قابل ذکر ہیں.شیعہ عالم فصیح عربی میں کلام کی قدرت رکھتے تھے.آپ نے انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض عربی تصانیف پیش کیں.تین دن کے بعد دوبارہ تشریف لائے.اب ان کا انداز ہی اور تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مبارک نام انتہائی ادب سے لیتے اور عقیدت کے ساتھ رحمہ اللہ کہتے اور اصرار کے ساتھ مزید کتب ساتھ لے گئے.اس مشن کا ایک بڑا کام سوئٹزر لینڈ کے احمدی احباب کی دینی تعلیم و تربیت کا مؤثر انتظام ہے.اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی خصوصی توجہ اس پہلو کی طرف بھی رہی اور آپ بار بار اپنے سوس بھائیوں کو تلقین فرماتے رہے کہ یہ آپ کا مشن ہے.میں تو ایک پردیسی ہوں.آپ کو خود اس قابل ہونا چاہیے کہ اس بار کو اٹھا ئیں.جونہی کوئی نیا احمدی ہوتا آپ اسے تعلیم دینا شروع کر دیتے.آپ نے ایک مطبوعہ رپورٹ میں لکھا ” بعض نما ز یاد کر کے ختم کر رہے ہیں.بعض قرآن کریم کو پڑھنے کو مقصود بنا رہے ہیں.ان زیر رپورٹ دو مہینوں میں دو نے قرآن کریم پڑھا.ایک نے تقریباً یتر نا القرآن ختم کر لیا ہے.ایک نے ابھی شروع کیا ہے.یہ تعلیم انفرادی ہے.اس میں کلاس ممکن نہیں.بچوں کی البتہ تین کلاسیں منعقد ہوئیں.اس کے علاوہ جنوبی افریقہ کے ایک افریقن دوست نے آنا شروع کیا.جنوبی افریقہ میں عرصہ ہوا اسلام قبول کیا تھا مگر نماز تک نہ جانتے تھے.آتے اور مسجد میں تسبیح پکڑ کر بیٹھے کچھ پڑھتے رہتے.میں نے نماز کے سبق دئے.ساتھ نمازیں پڑھائیں اور میسر نا القرآن بھی شروع کر دیا.لٹریچر بھی ان کے پاس مطالعہ کے لئے بہت پڑا ہے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو پھر ہی ممکن ہے کہ پورا فائدہ اٹھا سکیں.ایک ترک اپنی سوئس (Swiss) اہلیہ کو لے کر آئے اور کہا اس نے اسلام قبول کر لیا ہے.مگر اسے اسلام کا چنداں علم نہیں.آپ اسے تعلیم دیں.میں نے ہفتہ میں ایک شام انہیں وقت دینا منظور کیا اور ان کی تعلیم شروع کر دی.سیرالیون جیسا کہ اس سال کے ابتدائی حالات میں بتایا جا چکا ہے جماعت احمد یہ سیرالیون کی بیسیویں سالانہ کانفرنس ۷-۸-۹ فروری ۱۹۶۹ء کو نہایت کامیابی کے ساتھ انعقاد پذیر ہوئی.کانفرنس سے ایک دن قبل مجلس شوری کا بھی انعقاد ہوا جس میں جماعتوں کے نمائندوں نے گذشتہ سال کے فیصلوں کا جائزہ لیا اور آمد و خرج کے میزانیہ، نئی تجاویز اور اصلاحات پر غور وفکر کیا.کانفرنس میں گورنر جنرل سیرالیون ہز ایکسی لینسی بانجا تیجانسی اور وزراء اور دیگر اہم شخصیتوں نے شرکت کی.
تاریخ احمدیت.جلد 25 333 سال 1969ء گورنر جنرل سیرالیون نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جماعت اسلام کی تعلیمات کی جس مفکرانہ اور مستحکم انداز سے تشریح و توضیح کرتی ہے اس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ آپ کی جماعت نے اسلامی علوم کی مشعل کو پھر علماء کی محرابوں سے نکال کر عوام کے ہاتھوں تک پہنچایا ہے.آپ لوگ اسلامی تعلیمات میں جو ہم سب کو بیحد عزیز ہیں نئی زندگی اور قوت بخش روح پھونک رہے ہیں.اسلام صلح کا دین ہے.اس پہلو پر آپ کی جماعت نے بجاطور پر زور دے کر اسلام کی اخلاقی قدروں کو اجاگر کیا ہے.آپ کی جماعت مذہب کے قدیم تصور کو عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا پیغام دیتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ احمدیت اسلام کو بدلنا چاہتی ہے.ہرگز نہیں.بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تحریک احمدیت نے یہ ثابت کر دیا ہے اور ثابت کر رہی ہے کہ اسلام اپنے دامن میں جدید دور میں ہر قسم کی صورت حال کیلئے روحانی اقدار کا خزانہ محفوظ رکھتا ہے.بالفاظ دیگر جماعت احمد یہ ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کی گہرائیوں پر اپنی توجہ مرتکز کریں تا ہمیں ایمان اور یقین کی قوت حاصل ہو اور ہماری زندگیاں روحانی ارتقاء سے ہمکنار ہوں.اور اس طرح انسانی اخوت اور محبت کا بول بالا ہو.آپ کی جماعت اپنی عالمگیر تبشیر کی تنظیم کے ذریعہ انسانیت کی اس روح کا بہترین رنگ میں پر چار کر رہی ہے جس کا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.کوئی شخص اس وقت تک حقیقی رنگ میں مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ دوسروں کے لئے بھی وہی کچھ پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے.(متن حديث لَا يُومِنُ اَحَدُكُمُ حَتَّى يُحِبَّ لاَ خِيهِ مَا يُحِبُّ لِنفسه ) آپ کی جماعت کی ایک امتیازی خصوصیت جس کا اس ملک کی اکثریت کو اعتراف ہے آپ کے مبلغین کرام کا انکسار، جذبہ ایثار اور احساس فرض ہے.یہ اس قسم کا انکسار ہے جس میں مادی لذات اور دور حاضر کے جدید علمی غرور کا گذر تک ناممکن ہے.یہ ایسی کیفیت ہے جو دوسرے انسانوں کو ہمدردی، پیار اور تلطف سے دیکھنے پر مجور کرتی ہے آپ جو خدمت بھی ملت کی کر رہے ہیں وہ آپ کے ذاتی نفع قمع کے لئے نہیں ہے.آپ نوجوانوں کی نسل کو روحانی اقدار کے صحتمندانہ نظریات سے آشنا کر رہے ہیں اور ایسا کر کے آپ ہماری قوم کو صحتمندانہ بنیادوں پر تعمیر کر رہے ہیں.گورنر جنرل سیرالیون کے اس پر اثر خطاب سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کا یہ عظیم الشان الہام ایک بار پھر نہایت آب و تاب سے پورا ہوا کہ وہ وقت آتا ہے.101
تاریخ احمدیت.جلد 25 334 سال 1969ء بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا.مسٹر اولا کروما ( وزارت تعلیم سیرالیون) سیکرٹری بورڈ آف اما مز مسلم کانگریز نے کانفرنس کے نام ایک اہم پیغام دیا جس کا ترجمہ یہ تھا کہ آپ کی جماعت لاریب اسلام کے چند نمایاں علمبرداروں میں سے ایک ہے اور اس نے مسلمانانِ سیرالیون کی اسلامی تربیت ، مروجہ علوم کی ترویج اور فروغ کے لئے نمایاں کام کیا ہے.میری مخلصانہ دعا ہے اور امید کرتا ہوں کہ کانفرنس کی کارروائی ہمشن کی ترقیات وفتوحات میں اضافہ کا باعث ثابت ہوگی.کانفرنس میں جن غیر از جماعت معزز مہمانوں نے سامعین سے خطاب فرمایا ان میں پیراماؤنٹ چیف ایم.کے بونگے.آنریبل عمر باش تقی لیڈر ایوانِ نمائندگان و وزیر حکومت سیرالیون، جناب ایم اے عبداللہ ، جناب عبدالکریم زبیر وسیکرٹری جنرل مسلم کانگریس سیرالیون، جناب ایم ایس مصطفیٰ سنوسی خاص طور پر قابل ذکر ہیں.پیراماؤنٹ چیف ایم.کے.بونگے نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے علاقہ میں جماعت احمد یہ مساجد اور سکول قائم کر کے لوگوں کی روحانی اور ذہنی و علمی ضروریات کی کفالت کر رہی ہے.احمد یہ مشن کے سکول قبائلی کشمکش کی فضا سے کلّی طور پر پاک ہیں اور ہمارے بچوں کو وسیع القلب، پُرامن، قانون کا احترام کرنے والے ذہین شہریوں میں ڈھال کر اس علاقہ پر احسانِ عظیم کر رہے ہیں جس کے لئے ہم سب احمدیہ مشن کے ممنونِ احسان ہیں.جناب عمر باشی تقی وزیر بے محکمہ و لیڈر دی ہاؤس آف پارلیمنٹ نے بتایا کہ احمدیہ تحریک نے اپنے وجود کی ضرورت عملی رنگ میں ثابت کر دی ہے.اس ملک کا ہر پڑھا لکھا باشعور شہری احمدیت کی اسلامی اور تعلیمی و مذہبی خدمات کا بجاطور پر مداح و معترف ہے.احمد یہ جماعت کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ دین کی اشاعت کے ساتھ ساتھ مسلم ذریت میں تعلیم عام کرنے کے لئے بھی کوشاں ہے جس کے بغیر اسلام مضبوط نہیں ہوسکتا.آپ لوگ احمدی جماعت کی برکت سے حقیقی اخوت و مساوات سے بہرہ ور ہورہے ہیں.جناب عبدالکریم زبیرو سیکرٹری جنرل مسلم کانگریس سیرالیون نے سامعین کو بتایا کہ انہیں سالہا سال سے احمدی مبلغین کے کام کو دیکھنے کا موقع مل رہا ہے.احمدی مبلغین جس خلوص اور انہماک سے یہ فریضہ انجام دے رہے ہیں بہت ہی قابل قدر ہے.پریس میں اسلام کے خلاف استہزاء اور تمسخر ایک معمول بن گیا تھا لیکن احمدی مبلغین کے دفاع کے بعد صورتحال بالکل بدل چکی ہے.اب دینِ مبین کے خلاف بے بنیا دغلط
تاریخ احمدیت.جلد 25 335 سال 1969ء فہمیوں کا ازالہ ہو چکا ہے.اس وقت احمد یہ سکولوں میں پانچ ہزار سے زائد مسلم طلباء و طالبات علم حاصل کر رہے ہیں.یہ مسلمان نسل کی ایسی گرانقدر خدمت ہے جو مسلمانانِ سیرالیون کو ہمیشہ زیر بار احسان رکھے گی.جناب ایم.اے عبداللہ نمبر بورڈ آف گورنرز نے اپنی تقریر میں احمدی مبلغین کے جذبہ ایثار اور مضبوط قوت ارادی کی تعریف کی اور بتایا کہ کس طرح مختصر وقت میں احمد یہ سکولوں نے تعلیمی میدان میں نامساعد حالات کے باوجود حیران کن ترقی کی ہے.آخر میں جناب ایم ایس مصطفیٰ صاحب سابق نائب وزیر اعظم سیرالیون نے اپنی تقریر میں احمد یہ جماعت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُس اسلامی برادری اور اخوت کا ذکر کیا جس کی خوشبو جماعت احمدیہ کی بدولت نئے مسلم معاشرہ میں محسوس ہوتی ہے.آپ نے دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بعض احمدی جماعتوں کے بارہ میں اپنے مشاہدات بیان کئے اور ان کے جذ بہ خلوص کی تعریف فرمائی.کانفرنس میں جماعت احمدیہ سیرالیون کے جنرل سیکرٹری الحاج محمد کمانڈا بونگے نے سیرالیون مشن کے سالِ گذشتہ کی رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں جماعت کی تبلیغی تنظیمی ، تربیتی اور تعلیمی میدان میں ترقیات کا جائزہ لیا گیا تھا.رپورٹ کی کاپیاں سامعین میں بھی تقسیم کی گئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ریڈیو اور پریس میں اس مرتبہ کا نفرنس کے پروگرام اور کارروائی کی خبریں تفصیل کے ساتھ اشاعت پذیر ہوئیں خصوصاً گورنر جنرل صاحب کی شمولیت کا بہت چرچا ہوا.103 ۲۰ فروری کوفری ٹاؤن میں یوم مصلح موعود کے سلسلہ میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا.۲۷ فروری کو عید الاضحی منائی گئی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی جانب سے موصول شدہ عید مبارک کا پیغام احباب کو سنایا گیا.عید کے موقع پر اخبار Daily Mail میں مکرم مولوی محمد صدیق صاحب کا پیغام شائع ہوا جس میں مسلمانوں کو عید کی اصل غرض و غایت سے آگاہ کیا گیا.روزنامہ Unity میں بھی عید الاضحیٰ کے اغراض و مقاصد کے عنوان سے مضمون شائع ہوا.۳ مارچ ۱۹۶۹ء کا دن احمد یہ سیکنڈری سکول ( جماعت احمد یہ سیرالیون اور دوسرے احمدی سکولوں کی خصوصیات کا مطالعہ کرنے کے لئے ملاحظہ ہو جناب عطاء الرحیم حامد صاحب ٹیچر احمد یہ سکولز سیرالیون کا مضمون مطبوعہ رسالہ تحریک جدید ربوہ اپریل ۱۹۷۰ء صفحہ ۱۷ تا ۱۹) جور و کیلئے نمایاں 104
تاریخ احمدیت.جلد 25 336 سال 1969ء اہمیت کا حامل تھا جبکہ سیرالیون کے گورنر جنرل معہ وزرائے مملکت اور دیگر اعلیٰ حکام سکول میں تشریف لائے اور اس کے سائنس اور تنظیمی بلاکوں کا افتتاح فرمایا.گورنر جنرل نے اپنی افتتاحیہ تقریر میں فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے اس ملک میں قیام کے بعد سے اب تک احمدیہ مبلغین نے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ان کی بناء پر پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ہماری آئندہ نسلوں کا مستقبل نہایت روشن اور درخشندہ ہے.احمدی مبلغین جفاکش، انتھک اور ہمت نہ ہارنے والے واقع ہوئے ہیں.شکست اور مایوسی اُن کی لغت میں نہیں.ان مبلغین کا پاکستان جیسے دور دراز ملک سے ہماری مدد کے لئے آنا فی ذاتہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ لوگ انسانی ہمدردی کے بے مثال جذبہ سے سرشار ہیں.افتتاحی تقریر کے بعد گورنر جنرل نے سکول کی نئی انتظامیہ اور سائنسی عمارت کا معاینہ فرمایا.آپ نے بلڈنگ اور سکول کے دفاتر کی منصوبہ بندی اور تعمیر کی تعریف کی اور خوشنودی کا بار بار ذکر فرمایا.اس دوران مبارک احمد صاحب نذیر پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول نے آپ کو قرآن کریم انگریزی کا تحفہ پیش کیا.اس انمول تحفہ پر آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی خدمت قرآن کی تعریف کی.ریڈ یوسیرالیون نے اسی روز شام کو انگریزی اور کریول ( سیرالیون کی لوکل زبان جو پورے ملک میں بولی و سمجھی جاتی ہے.) کی نشریات میں گورنر جنرل اور پرنسپل صاحب سکول ہذا کی تقاریر کے اقتباسات نشر کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کی تعلیمی اور مالی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا.سرکاری اخبار ڈیلی میل نے اپنی ۴ مارچ ۱۹۶۹ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر احمد یہ سیکنڈری سکول جورو کی انتظامی اور سائنسی بلڈنگ کے افتتاح کے موقع پر پرنسپل صاحب کی تقریر کے اقتباسات اور گورنر جنرل صاحب کی تقریر اور خاص طور پر وہ حصہ شائع کیا جس میں آپ نے جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف فرمایا ہے.گورنر جنرل (سر بانجا تیجان ) صاحب نے اپنی اہلیہ اور وزراء مملکت سمیت افتتاحی تقریب کے معاینہ کے بعد لاگ بک میں بایں الفاظ اپنے تاثرات قلمبند فرمائے.تقریب بڑی پُر اثر تھی.سکول کے طلباء بڑے چاق و چوبند ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تربیت بڑے اچھے طریق سے کی گئی ہے.یہ وہ خوبی ہے جو ہم اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر یہ سکول اپنی ان روایات کو قائم رکھ سکا تو ہماری قوم کی صحیح خطوط پر تعمیر میں اس سکول کا حصہ نمایاں ہوگا.میں سکول کی ترقی کیلئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں“.
تاریخ احمدیت.جلد 25 337 سال 1969ء گورنر جنرل کی تشریف آوری کے آٹھ ماہ بعد وزیر اعظم سیرالیون جناب ڈاکٹر سیا کا سٹیونز 106 (Dr.Siaka Stevens) ، وزیر تعلیم اور وزارت تعلیم کے دیگر اعلیٰ حکام کی معیت میں سیکنڈری سکول میں ۲ دسمبر ۱۹۶۹ء کو دوبارہ تشریف لائے اور سکول کے اعلیٰ نتائج ، معیاری لیبارٹریز اور طلباء کی اعلیٰ اخلاقی تربیت پر نہایت درجہ خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا: ” احمد یہ مشن نے جس رنگ میں اس ملک کی شاندار اور بے لوث خدمت کی ہے اور تعلیمی اور مشنری میدان میں جو نمایاں کام کیا ہے اس کو سیرالیون کی تاریخ لکھنے والے ہرگز فراموش نہیں کر سکتے.مجھے اس امر کی خوشی ہے کہ اس سکول میں صرف دُنیوی تعلیم ہی نہیں دی جاتی بلکہ طلباء کے اخلاق اور عادات کی درستی کی بھی پوری پوری تربیت دی جاتی ہے جو یقیناً آئندہ زندگی میں بہترین نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور یہ طلباء ملک کے لئے مفید وجود ثابت ہوسکیں گئے.اس سال احمد یہ مشن ہاؤس فری ٹاؤن میں اہم شخصیات کی آمد کا سلسلہ زور شور سے جاری رہا جن تک پیغام حق اور دینی لٹریچر پہنچایا گیا.بعض قابل ذکر شخصیات کے نام یہ ہیں: آنریبل باش تقی صاحب (وزیر حکومت سیرالیون اور پہلے لیڈر آف دی ہاؤس)، مسٹر الحاج دوری صاحب (برسر سیرالیون یو نیورسٹی ) ، سید محمد نواب صاحب ( ممتاز بھارتی سائیکلسٹ )، جناب مصطفیٰ سنوسی صاحب ( سابق نائب وزیر اعظم)، مسٹر ز بیرو (جنرل سیکرٹری مسلم کانگریس ) ،مسٹر اولی کروما (سیکرٹری بورڈ آف امامز)، ڈپٹی کمشنر بو، صوبائی سیکرٹری، پولیس کمشنر، مسٹرسٹیونز (وزیر اعظم سیرالیون کے بھائی)، الحاجی مانا پا کا افسر محکمہ بجلی ) ، اس کے علاوہ احمد یہ مشن کبالا میں ( جہاں مولوی نظام الدین صاحب مہمان مبلغ تھے ) سابق حکومت کے ایک وزیر مسٹر اے.ایچ.کانڈے، ایس.ایل.ڈی سی لنسر کے چیف اکاؤنٹنٹ ، میڈیکل آفیسر گورنمنٹ ہسپتال کبالا، محکمہ زراعت کے ایک آفیسر، ضلع Koinadugu کے انسپکٹر آف سکولز ، سپر وائزر آف سکولز ، کہالا سیکنڈری سکول کے ایک امریکن ٹیچر، ڈی سی اور آرسی سکولز کے ہیڈ ٹیچر، قصبہ سیری کولیا کے ہیڈ مین اور بعض مقامی معززین تشریف لائے.مولوی صاحب موصوف نے ان سے تبادلہ خیالات کیا.اسلام کے بارہ میں معلومات بہم پہنچا ئیں نیز لٹریچر پیش کیا.سیکنڈری سکول کبالا کے بعض مسلمان طلباء قریباً ہر اتوار کومشن میں آکر دینی معلومات حاصل کرتے رہے اور اسلام کی تائید میں بائبل کے حوالے بھی نوٹ کرتے رہے.اس سال Levuma گاؤں میں مولوی نصیر احمد خان صاحب نے ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد 107
تاریخ احمدیت.جلد 25 338 سال 1969ء رکھا.۲ مارچ ۱۹۶۹ء کو مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری (انچارج مشن ) تبلیغی دورہ میں ایک حادثہ میں شدید طور پر زخمی ہو گئے.غیر از جماعت لبنانی دوستوں نے بذریعہ چارٹرڈ طیارہ فری ٹاؤن ہسپتال میں پہنچایا اور علاج پر جس قدر اخراجات ہوئے وہ بھی انہوں نے ادا کئے.شفایابی کے بعد آپ دوبارہ تبلیغی فرائض میں منہمک ہو گئے.مولوی محمد صدیق صاحب کا اس سال ایک یوروپین عیسائی پادری سے بائبل اور قرآن کریم نیز کفارہ پر کامیاب تبادلہ خیالات ہوا.یہ صاحب عیسائیوں کی ایک تنظیم کی طرف سے جس کا ہیڈ کوارٹر ابادان ( نائیجیریا) تھا سیرالیون میں دورہ کے لئے بھجوائے گئے تھے.100 اس سال میلاد النبی کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور بلند بالا شان سے متعلق ایک خاص پمفلٹ دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.ایک اور پمفلٹ جو نسیم سیفی صاحب مبلغ نائیجیریا کا تحریر فرمودہ تھا پانچ سو کی تعداد میں چھپوایا گیا.یہ دونوں پمفلٹ ملک میں مفت تقسیم کئے گئے.سیرالیون کی دو احمد یہ جماعتوں کی طرف سے عرصہ تین سال سے دو پرائمری سکول جاری تھے جن کی منظوری اس سال حکومت کی طرف سے مل گئی جس سے سیرالیون کے احمدی سکولوں کی تعداد دو در جن ہو گئی یعنی چار سیکنڈری اور ہمیں پرائمری اور مڈل سکول.مولوی محمد صدیق صاحب نے پہلے دورہ کے بعد ملک کے مزید دو طویل دورے کئے اور مجموعی طور پر قریباً پندرہ سو میل کا سفر طے کیا.پہلا دورہ رمضان المبارک (۱ انومبر تا ۱۰ دسمبر ۱۹۶۹ء) سے قبل ہوا.اس دورہ میں الحاج بونگے جنرل سیکرٹری اور مولوی نظام الدین صاحب مہمان کی معیت میں آپ لنسر مکینی ، ورڈالہ، کنڈے بایا، کمبالا، مسایا، سنکونیا، فلایا،کمبیلی ،مونگو اور سیری کولیا وغیرہ شمالی علاقہ کی بستیوں میں تشریف لے گئے اور انفرادی تبلیغ کے علاوہ کامیاب تربیتی وتبلیغی پبلک جلسوں سے - 110 خطاب کیا نیز احمد یہ پرائمری سکولوں کا معاینہ کیا.آپ کا دوسر ۳ روزہ دورہ رمضان شریف کے بعد سیرالیون کے مشرقی علاقوں میں تھا جس کے دوران الحاج بونگے جنرل سیکرٹری، مسٹر ابراہیم سیکرٹری تعلیم ، مولوی مقبول احمد صاحب مبلغ بواجے بوریجین اور مولوی نظام الدین صاحب مہمان نے آپ کی رفاقت کی.مولوی محمد صدیق صاحب کے علاوہ بور یجن کے مبلغ مولوی منصور احمد صاحب نے کم و بیش بارہ سومیل کا سفر طے کر کے سینکڑوں افراد تک پیغام حق پہنچایا.آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے پاکستانی اساتذہ کے ذریعہ بو کے ماحول میں واقع متعدد گاؤں میں تبلیغی جد و جہد کا منتظم رنگ میں آغاز
تاریخ احمدیت.جلد 25 339 سال 1969ء کیا.ان کی ہدایات کے مطابق فردا فردا پاکستانی اساتذہ آٹھ آٹھ دس دس مرتبہ پہنچے اور نہایت احسن رنگ میں پیغام حق پہنچایا نیز انگریزی و عربی لٹریچر اور دیدہ زیب احمدی کیلنڈر بکثرت تقسیم کئے.ان مواضعات میں سے گنڈاما (Gondama)، ماترو (Matru) اور سمبے ہون ( Sembehun) قابل ذکر ہیں.نعیم احمد صاحب طیب ، خلیل الرحمن صاحب فردوسی اور انور حسن صاحب پر نسپل احمد یہ سیکنڈری سکول بو نے اس تبلیغی جد و جہد میں نمایاں خدمات انجام دیں اور اپنی کاریں اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کیلئے وقف رکھیں.ایک مطبوعہ رپورٹ کے مطابق مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح مبلغ بواجے بوریجن نے اپنے حلقہ کی ستائیس جماعتوں میں آٹھ دورے کئے جن میں ایک ہزار میل سے زائد سفر طے کیا جس میں چالیس میل کا سفر پیدل تھا.کئی مقامات پر پبلک جلسوں کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی خوشخبری سنائی جس کے نتیجہ میں ایک نئے مقام پر جماعت کا قیام عمل میں آیا اور جماعتوں میں خاصی بیداری پیدا ہوئی.اخبار افریقن کریسنٹ جو بعض ناگزیر حالات کے باعث ایک عرصہ سے بند تھا اس سال دوبارہ مشن کے زیر انتظام جاری ہو گیا.دسمبر ۱۹۶۹ء کا پرچہ خاص مضامین پر مشتمل تھا.یہ اخبار کینما بک سٹال میں آنے والے دوستوں کو مفت دیا گیا اور بیرونی مشنوں اور سیرالیون کی لائبریریوں میں بھی بھجوایا گیا.ضلع کوئنا ڈوگو ( Koinadugu) کے ہیڈ کوارٹر کبالا میں حکومت کی طرف سے ایک بین الاقوامی ہفتہ تعلیم منایا گیا.کمیٹی کے چیئر مین اسی ضلع کے افسر (.D.O) اور سیکرٹری سپر وائز رآف سکولز مقرر ہوئے.اور دیگر ممبران کے علاوہ مولوی نظام الدین صاحب مہمان کو بھی ممبر منتخب کیا گیا.کبالا شہر اور اس کے قرب وجوار میں کمیٹی کے وفد نے دورہ کیا اور عوام کولیکچروں اور ملاقاتوں کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کی تحریک کی.اس سال کے آخر کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے سفیر برائے مغربی افریقہ ہز ایکسی لینسی جناب علی ارشد صاحب کے اعزاز میں احمد یہ مشن ہاؤس میں وسیع پیمانہ پر عشائیہ دیا گیا جس میں فری ٹاؤن میں مقیم جملہ پاکستانی احمدی اور غیر از جماعت پاکستانی دوست شریک ہوئے.اس طرح انہیں تمام پاکستانی بھائیوں سے ملاقات کرنے اور متعارف ہونے کا موقع ملا.آپ نے احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کے ایک بلاک کا سنگ بنیاد بھی رکھا اور فرمایا کہ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ میرے 112
تاریخ احمدیت.جلد 25 340 سال 1969ء پاکستانی بھائی اس رنگ میں سیرالیون کی خدمت کر رہے ہیں.یہ در حقیقت پاکستان ہی کی خدمت ہے.مولوی محمد صدیق صاحب گورداسپوری نے انہیں قرآن کریم انگریزی اور تفسیر صغیر تحفہ پیش کی جس کا انہوں نے نہایت خوشی کے ساتھ دلی شکریہ ادا کیا.آپ کے سیکرٹری جناب علی حسین صاحب کو بھی تفسیر صغیر تحفہ پیش کی گئی.غانا 113 جماعت احمد یہ غانا کا چوالیسواں کامیاب جلسہ سالانہ ۹ تا ۱۱ جنوری ۱۹۶۹ء کو بمقام سالٹ پانڈ سمندر کے کنارہ پر انعقاد پذیر ہوا.اس مبارک اجتماع میں چھ ہزار افریقن احمدیوں نے شرکت فرمائی.کانفرنس کا افتتاح امیر صاحب غانا مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے فرمایا اور اختتامی اجلاس کی صدارت جناب محمد آرتھر صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ غانانے کی.یوسف علی صاحب وزیر تعمیرات مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھے.آپ نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ احمدیت نے احیاء اسلام کی بنیاد رکھی ہے.احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کے مشعل بردار ہیں.ملک کے نامور وکیل اور سابق وزیر انصاف جناب بشیر سوانزی نے بڑے دلنشین پیرا یہ میں اپنے قبولِ اسلام کے حالات بیان کئے اور بتایا کہ کس طرح تیرہ سال کی عمر میں مشن بوائے کی حیثیت میں ایک پادری بننے کے لئے داخل ہوا مگر چھیالیس سال کی عمر میں جیل خانہ کی تاریکیوں میں قرآن مجید کا نور ملا اور میں مسلمان ہو گیا.آج میں اسلام کو سچا مذہب یقین کرتا ہوں.میرا یقین ہے کہ قرآن مجید غیر محترف غیر مبدل کلام ہے.آج مسلمان کے ہاتھ میں قرآن مجید سب سے زبر دست طاقت اور ہتھیار ہے.لا الہ الا اللہ آج بھی سب سے بڑا ذکر ہے.وزیر زراعت جناب ایلبرٹ اڈوما کو ( Albert Adomoko) نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ میں ایک عیسائی ہوں اور آپ مسلمان مگر ہم بھائی بھائی ہیں، خدا پر ایمان لانیوالے.خوشی کی بات ہے کہ غانا میں احمد یہ جماعت مسلمانوں کا معتدبہ حصہ ہے.میرے نزدیک ہر ایک مذہب ایک ہی مقصد کیلئے کام کر رہا ہے.ہمارا مقصد امن پسند ، ذمہ دار اور محنت کرنے والی جماعت ہونا چاہیے.کانفرنس کے دوران جماعت غانا نے مالی قربانی کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے سات ہزار پانچ سو سیڈیز کی رقم پیش کی.اس سلسلہ میں سالٹ پانڈ ، ابورا، مان کم اور گومو و سرکٹ علی الترتیب اول اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 341 115- سال 1969ء 114 دوم انعام کے مستحق قرار پائے.اس سال پہلی بار کا نفرنس کے موقع پر بائیں زبانوں میں تقاریر کا پروگرام ہوا جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ” میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا منتخب کیا گیا.یہ پروگرام بہت دلچسپ رہا اور سمندر کے کنارہ پر اس کا اعلان بہت ایمان افروز نظارہ پیش کر رہا تھا.کانفرنس کے موقع پر ماہنامہ گائیڈنس کا ضخیم نمبر شائع ہوا اور ایک نہایت خوبصورت سہ رنگا اسلامی کیلنڈر بھی جو بہت مقبول ہوا اور تبلیغ کا موثر ذریعہ بنا.ملک کے دونوں بڑے اخباروں ڈیلی گرافک (The Daily Graphic) اور غانین ٹائمنر ( The Ghanaian Times) میں متعدد بار کا نفرنس کا ذکر ہوا اور ریڈیو اور ٹیلیویژن نے اس کی خبریں نشر کیں.مئی میں بیرونگ ابا فوریجن کے ریجنل جماعتی مرکز ٹیچی مان ( Techiman) میں مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے ایک نئے پختہ اور وسیع مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.تقریب کے جلسہ کی صدارت پیراماؤنٹ چیف ٹیچی مان نے کی جو مختلف ماتحت چیفس کے ساتھ شریک ہوئے تھے.جلسہ سے جناب کلیم صاحب، الحاج محمد آرتھر صاحب اور مولوی عبد الوہاب صاحب نے خطاب فرمایا.اس تقریب کی خبر ریڈیو نے نشر کی اور اخبار ڈیلی گرافک اور غانین ٹائمنر میں چھپی.اگلے ماہ جون میں تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات کی تقریب نہایت تزک واحتشام سے عمل میں آئی.بجلی کے قمقمے روشن کئے گئے.سکول کے تالاب اور باغیچہ کو نئے سرے سے سجایا گیا.مہمان خصوصی جناب ابودے کمشنر نیشنل لبریشن کونسل تھے.جناب محمد لطیف صاحب ایم اے ہیڈ ماسٹر نے اپنی مختصر مگر جامع رپورٹ میں بتایا کہ یہ سکول کماسی کا قدیم ترین سیکنڈری سکول ہے جس کا آغاز ۱۹۵۰ء میں ایک عارضی عمارت میں ہوا.اولین اساتذہ میں سے ڈاکٹر سفیر الدین احمد صاحب مرحوم اور جناب سعود احمد دہلوی نے اس کے استحکام کے لئے انتھک محنت کی.۱۹۵۳ء میں اسے موجودہ عمارت میں منتقل کیا گیا.۱۹۵۶ء میں وزارت تعلیم نے اسے با قاعدہ منظور کرتے ہوئے مالی امداد دینا شروع کی.مرکز سے صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ایم اے پرنسپل مقرر ہو کر تشریف لائے.۱۹۶۵ء میں وزارت تعلیم نے دو سائنس لیبارٹریز، چار کلاس رومز اور دو بلاک بورڈ نگ کے لئے مہیا کئے.اسی سال سے سکول میں جنرل سرٹیفیکیٹ آف ایجوکیشن ایڈوانسڈ لیول کی کلاسز سائنس اور آرٹس کے مضامین میں جاری کی گئیں.آج نتائج کے اعتبار سے یہ احمدیہ سکول بہترین سکولوں میں شمار ہوتا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 342 سال 1969ء 116- کھیل اور تعلیمی میدان میں نمایاں پوزیشن لینے والے طلباء کو سرٹیفکیٹس اور منتخب کتب انعام میں دی گئیں.تعلیمی میدان میں سب سے زیادہ انعام لوکل احمد یہ مشنری اور جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل جناب ابراہیم مینو کے صاحبزادے نے حاصل کئے.صاحب صدر عزت مآب مسٹر علی ارشد ہائی کمشنر آف پاکستان مقیم غانا نے اپنے صدارتی ریمارکس میں سکول کی انتظامیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ میرے ہم وطن پاکستانی احباب ملک غانا کے نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں.ریڈیو نانا نے اس کامیاب جلسہ کی خبر نشر کی نیز اخبار ڈیلی گرافک مورخہ 9 جون ۱۹۶۹ء میں یہ خبر شائع ہوئی.جلسہ کو کامیاب بنانے میں الحاج مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم، مرز لطف الرحمن صاحب اور ملک غلام نبی صاحب شاہد نے نمایاں خدمات انجام دیں.اکتوبر کے دوسرے ہفتہ میں دارالحکومت اکرا کے کمیونٹی سنٹر میں سنٹر فارسوک ایجوکیشن کی اکرا برانچ کے زیر اہتمام ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی جس کا موضوع مسلمان اور جدید تعلیم تھا.مذاکرہ میں مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے بھی حصہ لیا.آپ کی تقریر خاص اہمیت کی حامل تھی.آپ نے ازمنہ گذشتہ میں مسلمانوں کے شاندار علمی و سائنسی کارناموں پر روشنی ڈالنے کے بعد تفصیل سے بتایا کہ کس طرح پہلے مختلف یورپین طاقتوں نے کرسچین مشنری سوسائٹیز کی پشت پناہی میں اور پھر برطانیہ نے پورے ملک کو عیسائیت کا حلقہ بگوش بنانے کے لئے اپنے مشن سکولوں میں جدید تعلیم کو آلہ کار بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.آپ نے بتایا کہ عیسائی مشنری اکثر و بیشتر اپنے سکولوں میں ایک مسلمان طالب علم کو اس وقت تک داخل نہیں کرتے تھے جب تک کہ وہ اپنا اسلامی نام ترک کر کے عیسائی نام اختیار نہ کر لے.پھر رفتہ رفتہ یہ کوشش کی جاتی تھی کہ تعلیم مکمل کرنے سے پہلے اسے بپتسمہ دے دیا جائے.اور عیسائی بن کر ہی سکول سے نکلے.اس حقیقت کا اعتراف خود عیسائی سکالرز نے بھی کیا.چنانچہ مسٹر جو پرائس ( Mr.Jo Price) نے جون ۱۹۶۶ء میں اپنے ایک مضمون میں لکھا: "I interviewed,....in March, 1956 a six year-old Hausa girl, who had just completed her first term at a well-known Roman Catholic Convent Boarding School.During the first week at the School, she told me, all the non-Christian girls, including herself,
تاریخ احمدیت.جلد 25 343 سال 1969ء were baptised and were then informed by the Mother Superior that they were now Christians.When her mother protested about this, she was blandly informed that she could, if she wished, remove her daughter from the school.As it is very difficult to secure a place for a girl at a good Primary Boarding School, the mother had to acquiesce for the sake of her child's education." 117 ترجمہ: مارچ ۱۹۵۶ء میں مجھے ہوسا قبیلے کی ایک لڑکی سے ملنے کا اتفاق ہوا.اس کی عمر چھ سال تھی اور اس نے ایک مشہور رومن کیتھولک کو نوینٹ بورڈنگ سکول میں پہلی ٹرم مکمل کی تھی.اس بچی نے مجھے بتایا کہ سکول میں داخل ہونے کے بعد بھی ایک ہفتہ پورا نہیں گذرا تھا کہ نئی داخل ہونے والی تمام غیر عیسائی لڑکیوں کو جن میں وہ خود بھی شامل تھی، بپتسمہ دیا گیا.بعد میں سکول کی Mother Superior نے انہیں بتایا کہ اب تم سب عیسائی ہو.جب اس بچی کی ماں نے بچوں کو عیسائی بنانے کے اس طریق کے خلاف احتجاج کیا تو اسے صاف کہہ دیا گیا کہ اگر تم چاہوتو اپنی لڑکی کو سکول سے اٹھا سکتی ہو.چونکہ ایک اچھے پرائمری بورڈنگ سکول میں کسی لڑکی کو جگہ دلوانا بے انتہا مشکل ہے اس لئے ماں کو اپنی بچی کی تعلیم کی خاطر چپ سادھنے میں ہی عافیت نظر آئی.آپ نے فرمایا یہ تھی وہ صورتحال جس نے مسلمانوں کو بالعموم اپنے بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے سے باز رکھا.اب بھی ملک میں کوئی ایسا ادارہ نہیں جس میں وزارت تعلیم نے مسلمان طلباء کو اسلامی د مینیات وغیرہ کی تعلیم دینے کے لئے کسی مسلمان استاد کو مقرر کیا ہو.ہمیں چاہیے کہ اس مسئلہ کو خاطر خواہ طریق پر حل کرنے کے لئے مثبت اور مؤثر ذرائع تلاش کریں.سب سے اول تو مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں اتحاد اور تعاون کا ہونا ضروری ہے.دوسرے وقت کی نہایت اہم ضرورت یہ ہے کہ ایک مسلم ٹریننگ کالج کا قیام عمل میں لایا جائے.تیسرے یہ کہ حکومت سے پرزور درخواست کی جائے کہ ایسے سکولوں میں جن میں مسلمان طلباء خاصی تعداد میں ہوں ان کے مذہبی مفاد کی دیکھ بھال کے لئے ایک ایک مسلمان استاد مقرر کیا جائے.ٹرینینگ کا لجز میں مسلمان طلباء کو اسلامی علوم پڑھانے کی تربیت دینے کا بھی انتظام ہونا چاہیے.حکومت پورے خلوص کے ساتھ یہ بھی جائزہ لے اور اس امر کی نگرانی کرے کہ سکولوں میں عبادت کی آزادی سے متعلق قوانین پر کما حقہ عمل کیا جائے.مسلمان
تاریخ احمدیت.جلد 25 344 سال 1969ء بھی اس ملک کے اسی طرح باشندے ہیں جس طرح دوسرے لوگ.وہ بھی اپنے دوسرے ہم وطنوں کی طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں.غانا کے شہریوں کی حیثیت سے ان کے حقوق کی حفاظت بھی ضروری ہے.ان کی جو حق تلفی ہوتی رہی ہے اس کی موجودہ جمہوری حکومت کو پوری پوری تلافی کرنی چاہیے.آپ نے حاضرین کو بتایا کہ احمدیہ مشن غانا کو جس کے وہ انچارج ہیں اس ملک کے مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے میں اولیت کا شرف حاصل ہے.مشن ملک میں واحد مسلم ایجوکیشنل یونٹ کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی یہ حیثیت وزارت تعلیم کی طرف سے تسلیم شدہ ہے.مشن اس وقت چار سیکنڈری سکول اور چھتیں پرائمری اور مڈل سکول چلا رہا ہے.ان تمام سکولوں میں اسلامی تعلیم کی پوری پوری سہولتیں موجود ہیں.آخر میں آپ نے سنٹر فار سوک ایجوکیشن کے عہد یداروں سے اپیل کی کہ وہ مسلمانوں کے اس خدشہ کو دور کرنے میں ہاتھ بٹائیں کہ فی زمانہ سکولوں میں کوئی انہیں اپنا عقیدہ ترک کر کے کوئی دوسرا عقیدہ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے.ساتھ ہی آپ نے چرچ کو نیز سکولوں اور اداروں کے عیسائی سربراہوں کو مشورہ دیا کہ وہ رواداری سے کام لیں اور اپنے مسلمان طلباء کے بارہ میں نرم پالیسی اختیار کریں.انہوں نے مسلمان بھائیوں کو یقین دلایا کہ احمدیہ مسلم مشن ان کی ہر ممکن خدمت بجالانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گا.وہ ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنے اور ہر ایسے اقدام میں جسے وہ اس ملک کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے مفید اور ضروری خیال کریں ، ان کے ساتھ دل وجان کے ساتھ شریک ہونے اور ان کا پورا پورا ساتھ دینے کے لئے ہر وقت تیار 118 في ۲۵ مئی ۱۹۲۹ء کوسید ظہور احمد شاہ صاحب انچارج احمد یہ مشن نبی نے جماعت کے پہلے پرائمری سکول لٹو کا کا افتتاح کیا.اس موقع پر احباب جماعت کے علاوہ غیر از جماعت حضرات بھی مدعو تھے.ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے سکول کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا اور مبارکباد دی اور بتایا کہ اس علاقہ میں یہ پہلا سکول ہے.ریڈ یونجی نے انگریزی، ہندوستانی اور نجین زبانوں میں اس سکول کی خبر نشر کی.اس سال کے آخر میں سکول میں ایک مزید پختہ کمرہ کا اضافہ ہوا جس کی تعمیر کے جملہ اخراجات حاجی محمد رمضان خان صاحب آف ناندی نے ادا فرمائے.اس احمدیہ پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد حسین صاحب تھے اور دیگر سٹاف میں ایک احمدی نوجوان، ایک ہند و مدراسی ٹیچر لیں اور ایک ہندو تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 345 سال 1969ء مدراسی ٹیچر یس کی تنخواہ جماعت ادا کرتی تھی.باقی تینوں اساتذہ سرکاری ملازم تھے جن کی تنخواہ کا ایک حصہ جماعت ادا کرتی تھی.اس پرائمری سکول کے نزدیک ہی جماعت کی طرف سے تعلیم الاسلام کنڈرگارٹن سکول جاری تھا جس میں محترمہ خاتون النساء حسین صاحبہ اہلیہ ماسٹر محمدحسین صاحب پڑھاتی تھیں اور یہ دونوں سکول کامیابی سے چل رہے تھے اور ہر قوم و مذہب کے لڑکے اور لڑکیاں ان میں زیر تعلیم تھیں.اس سال سید ظہور احمد شاہ صاحب کو خصوصیت سے عیسائیوں میں پیغام حق پہنچانے کی سعادت نصیب ہوئی.انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ اس نو آبادی میں اکثریت میتھوڈسٹ فرقہ نصاری کی ہے.دوسرے نمبر پر رومن کیتھولک ہیں.میتھوڈسٹ کی ایک انجمن کی طرف سے بذریعہ ٹیلیفون اسلام پر ان کے چرچ میں لیکچر دینے کی دعوت ملی جو فوراً قبول کر لی گئی.وقت مقررہ پر وہاں پہنچا.تقریر سے قبل ان کی دعائیہ تقریب تھی جس کے اختتام پر میری تقریر شروع ہوئی.بعد میں سوال و جواب کا سلسلہ تقریباً دو گھنٹے جاری رہا.سامعین میں اکثریت گورے مشنریوں کی تھی اور ایک جوڑا تو نیوزی لینڈ سے آیا ہوا تھا.میں نے عیسائیت کا اسلام سے موازنہ کیا.طلاق ، تعد دازدواج، پردہ، عبادات، یسوع مسیح کا صلیب پر نہ مرنا، قرآن شریف میں مردے زندہ کرنے اور پرندے بنانے کا مطلب وغیرہ مسائل زیر بحث آئے.اس چرچ کے پادری نے سوال کیا کہ کیا اسلام کا خدا گناہوں کو معاف کر سکتا ہے؟ میں نے کہا نہ صرف معاف کرتا ہے بلکہ بار بار معاف کرتا ہے کیونکہ گناہ کی عادت یکدم چھوٹنا محال ہے.اس لئے تو بہ کے بعد پھر گناہ کرنے کا امکان ہے.اور اس لئے وہ بار بار بخشتا ہے.اس پادری نے کہا کہ میں آپ کا لیکچر پھر کروانا چاہتا ہوں.آخر میں لٹریچر تقسیم کیا گیا.میں نے قبر مسیح (انگریزی) کا نسخہ چرچ کے پادری کو دیا تو اس سے نیوزی لینڈ کے پادری نے لے لیا اور کہنے لگا کہ جو قیمت کہتے ہو وہ میں دوں گا لیکن یہ کتاب مجھے دے دو.وہ رضامند نہ ہوا تو بیگ سے مجھے دوسرا نسخہ مل گیا جو اسے دیا نیز اس کا شوق دیکھ کر کتاب مسیح ہندوستان میں اُسے دے دی.اس نے اگلے روز واپس نیوزی لینڈ جانا تھا.وہ کہتا تھا کہ اسلام کے متعلق ایسی باتیں اس نے پہلے نہیں سنیں.اور ایک روز ایک سفید فام رومن کیتھولک، ایک سفید فام کمبائنڈ چرچ اور ایک قوم کا ویتی کے میتھوڈسٹ پادری آئے اور پونے دو گھنٹے تک گفتگو کرتے رہے.میں نے کچھ عرصہ ہوا ایک تاجر کتب کی معرفت انگلستان سے ڈاکٹری کی کتاب Black's Medical Dictionary کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 346 سال 1969ء ۱۹۶۸ء کا ایڈیشن منگوایا اور خرید کر مشن ہاؤس لائبریری میں رکھ دیا.اس کے صفحہ ۲۳۷ پر موت کی علامت Death, Signs of کے تحت لکھا ہے کہ اگر جلد کو کاٹا جائے یا کوئی خون کی رگ بھی کھول دی جائے تو مرنے کے بعد اس میں سے خون نہیں بہتا.میں نے یہ مقام نکال کر کیتھولک پادری کو دیا جو اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھا تھا کہ اسے بلند آواز سے پڑھے تا کہ دونوں ساتھی سن لیں.چنانچہ اس نے پڑھ دیا اور پھر تینوں خاصی دیر تک خاموش رہے کیونکہ کرنتھیوں نمبر ا باب ۱۵ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ اگر یسوع مرکر جی نہیں اٹھا تو اس کا دین ہی جھوٹا ہے اور یہ امر واقع ہے کہ صلیب سے اتارنے کے بعد اُن رگوں سے خون جاری تھا.راس سال کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں جماعت احمد یہ منفی کے مخلصین نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے پانچ طلباء مرکز احمدیت میں بغرض تعلیم بھجوائے جن کے نام یہ ہیں.فاضل صاحب پسر محمد اسحاق جان خان صاحب ناندی، عبدالمنان صاحب پسر محمد یین صاحب آف ناندی، عبدالصمد صاحب و محمد یونس صاحب پسران محمد یسین حسین صاحب آف ناندی اور محمد شمیم صاحب پسر حاجی رحیم بخش صاحب آف لمباسه - فنجی کے مشہور تعلیمی ادارہ ڈیرک ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کی ۴۵ طالبات کا ایک گروپ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لیے مشن ہاؤس آیا جن کے ہمراہ دو ٹیچر ز بھی تھیں.ایک گھنٹہ کے قریب لیکچر دیا گیا جس کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.حلقہ مارو میں جلسہ سیرت النبی ﷺ کا انعقاد کیا گیا جس میں غیر از جماعت احباب بھی شامل ہوئے.کینیا 119 ماه جنوری ۱۹۶۹ء میں مولوی امین اللہ خان صاحب سالک نے کینیا ٹاٹرینگ کالج میں اسلام کے موضوع پر آدھ گھنٹہ تقریر کی.بعد میں قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا جس میں مولوی عبدالکریم صاحب شر ما امیر ومبلغ انچارج کینیا مشن نے بھی حصہ لیا.آخر میں طلباء میں اخبارات تقسیم کئے گئے.پاور اینڈ لائٹنگ سکول نیروبی کی طرف سے دو دفعہ مشن کو تقریر کرنے کی دعوت ملی.پہلی دفعہ مکرم امین اللہ خان صاحب سالک نے اسلام میں حضرت مسیح کا مقام کے موضوع پر تقریر کی.بعد میں مولوی شر ما صاحب نے سوالات کے جوابات دیئے.دوسری مرتبہ اسی سکول میں مولوی شر ما صاحب نے Why Islam کے موضوع پر ایک گھنٹہ تک تقریر کی.بعد میں ڈیڑھ گھنٹہ تک
تاریخ احمدیت.جلد 25 347 سال 1969ء سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا.جوابات میں مکرم عثمانی گوگور یا صاحب نے بھی حصہ لیا.مولوی بشیر احمد صاحب اختر نے Banana Hill کے دو ہائی سکولوں میں دو بار اسلام پر تقاریر کیں اور بعد میں طلباء و اساتذہ کے سوالات کے جواب دئے.علاوہ ازیں کینیا ٹیچرز ٹرینگ کالج سے مختلف اوقات میں طلباء کے تین گروپ اپنے پادری صاحب کے ہمراہ مشن ہاؤس میں آئے.یہ گروپ بالترتیب یکم فروری، ۸ فروری اور ۱۵ فروری کومشن تشریف لائے.ہر گروپ ستر طلباء پر مشتمل تھا.ہر گروپ سے مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے اسلامی تعلیمات پر خطاب کیا اور طلباء کے نہایت عمدہ اور مدلل جواب دئے.بعد ازاں طلباء میں اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنز کے پرچے تقسیم کئے گئے.۲۸ فروری اور یکم مارچ ۱۹۶۹ء میں ایلڈوریٹ ٹاؤن میں زراعتی نمائش لگی جس میں احمدیہ مشن نے اپنا تبلیغی سٹال لگایا جو بہت کامیاب رہا.چنانچہ ان دو ایام میں تین ہزار افراد سٹال پر آئے.تبلیغی مساعی پر مشتمل چارٹ دیکھے اور متعدد سوالات کئے جن کے جوابات دئے گئے.زائرین کو اخبارات اور پمفلٹ پیش کئے گئے.قریباً ڈھائی سوشلنگ کا لٹریچر فروخت ہوا.نمائش کا افتتاح کینیا کے نائب صدر مسٹر موئی نے کیا.انہوں نے خاص طور پر احمد یہ سٹال دیکھا اور مختلف زبانوں میں شائع کردہ قرآن کریم اور دیگر کتب کے تراجم کو دیکھ کر اظہار مسرت کیا اور کہا کہ You" Have Done Well.ان کی خدمت میں کتب کا ایک سیٹ پیش کیا گیا.ایلڈ رویٹ کے مئیر بھی سٹال دیکھ کر بہت خوش ہوئے ان کو اور سوسائٹی کے صدر کو جو ان کے ہمراہ تھے بعض کتب تحفہ پیش کی گئیں جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیں.سٹال کو کامیاب بنانے میں ایلڈ رویٹ کے احباب چوہدری مولا دا د صاحب، محمد عارف صاحب بھٹی اور محبوب صادق بھٹی کا نمایاں عمل دخل تھا.جنہوں نے سٹال کے اخراجات برداشت کرنے ، اسے سجانے اور نمائش کے دوران پیغام حق پہنچانے میں مبلغین کا ہاتھ بٹایا.اس سال کے نصف اول میں دو دفعہ احمدیہ مشن کی طرف سے ٹیلی ویژن پر انٹرویو دکھایا گیا.ایک انٹرویو جناب شر ما صاحب کا تھا جس میں آپ نے نہایت مدلل طور پر ان امور کی وضاحت فرمائی کہ اسلام کیا ہے، خدا تعالیٰ کے متعلق اسلام اور عیسائیت کے تصور کا موازنہ، اسلام اور عیسائیت میں سے بالآ خر فتح کے حاصل ہوگی اور کیوں؟ نیز احمدیت کے ذریعہ اب تک کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 348 سال 1969ء 121 اگلے ہفتے مکرم امین اللہ خان صاحب سالک کو ایک پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملا.اس سال کی پہلی ششماہی میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ۲۳ را فراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ماہ فروری ۱۹۶۹ء میں غانا کی لبریشن کونسل کے چیئر مین جنرل انکرہ کے اعزاز میں غانا ہائی کمشنر نیروبی کی طرف سے ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا جس میں مولوی عبدالکریم صاحب شر ما ، مولوی بشیر احمد صاحب اختر اور جناب عثمانی کا کوریا نے بھی شرکت کی.مولوی عبدالکریم صاحب نے بحیثیت امیر جماعت جنرل انکرہ کو خوش آمدید کہا اور قرآن کریم انگریزی اور دیگر مذہبی لٹریچر پیش کیا جس کا انہوں نے شکریہ ادا کیا.اس موقع پر عمائدینِ حکومت مختلف ممالک کے سفراء اور بہت سے دوسرے دوستوں سے تبادلہ خیالات کرنے کا بہت اچھا موقع میسر آیا.بشیر احمد اختر صاحب اور جمیل الرحمان رفیق صاحب کو کینیاٹا کالج میں وہاں کے موازنہ مذاہب کے لیکچرار سے ملاقات کا موقع ملا اور طلباء کو سواحیلی اور انگریزی اخبارات دیے گئے.جمیل الرحمان رفیق صاحب Kabete ٹیکنکل سکول میں عربی زبان اور دینیات پڑھاتے رہے جس میں مسلمان ٹیچر بھی شوق سے شرکت فرمار ہے.ایک بار St.Andrew's Church سے متعلق چارافراد کا گروپ مشن ہاؤس میں گفتگو کے لیے آیا چنانچہ ان کے ساتھ تین گھنٹے گفتگو ہوئی اور سوال و جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا.نیروبی شو اور ممباسہ شو میں بھی جماعت کو سٹال لگانے کی توفیق حاصل ہوئی جس کے ذریعہ ہزاروں افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا.123 کیمبیا 122- یہ سال تعمیری حیثیت سے نہایت درجہ اہمیت رکھتا ہے.گذشتہ سال احمدیہ مشن گیمبیا کے لئے باتھرسٹ کے عین وسط میں جو قطعہ زمین خریدا گیا تھا اس کی رجسٹریشن اور نقشہ کی منظوری کے مختلف مراحل اس سال کے شروع میں طے ہوئے اور اار اپریل ۱۹۶۹ء بروز جمعہ تین بجے بعد نماز جمعہ ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل گیمبیا سر الحاج فاریمان سنگھاٹے نے اپنے ہاتھ سے رکھا.اس تقریب کا ذکر حکومت گیمبیا کے محکمہ اطلاعات کی طرف سے گیمبیا یو نیورسٹی میں اور دو بار ریڈیو گیمبیا میں انگریزی، وولف اور میڈ نگا زبانوں میں نشر کیا گیا.سنگِ بنیاد کی تقریب کے بعد نہایت تیزی سے تعمیر کا کام شروع ہو گیا اور ۲۹ جون تک دوسری منزل کی کنکریٹ کی چھت بھی پڑ گئی.یہ عمارت پایۂ تکمیل تک پہنچ گئی تو احمد یہ مشن اس میں منتقل کر دیا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 349 سال 1969ء ماہ مارچ ۱۹۶۹ء کے آخر میں حکومت کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کیلئے ملنے والی زمین کے با قاعدہ کا غذات ملکیت رجسٹرڈ ہو کر ملے.مشن کی طرف سے تین ماہ کے عرصہ میں اس زمین کے لئے چار دیواری بنادی گئی اور بعد ازاں نقشہ کی تیاری اور منظوری اور پھر مدرسہ کی تعمیر کے کام کا آغاز ہوا.اس سال جارج ٹاؤن میں بھی حکومت نے احمد یہ مشن کے لئے قطعہ زمین کی منظوری دے دی.اس کام کے لئے مولوی دا ؤ د احمد حنیف صاحب نے بڑے استقلال اور جوانمردی سے جد و جہد جاری رکھی جو بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوئی.احمدیہ میڈیکل سنٹر مرجع خلائق رہا اور دور و نزدیک سے گیمبیا و سینیگال کے بیمار بغرض علاج آتے رہے.۳ جنوری ۱۹۶۹ء سے اس کی ایک شاخ پبلک کے مطالبہ پر قصبہ فرافینی میں بھی کھول دی گئی جہاں ڈاکٹر سعید احمد صاحب ہر جمعہ اور ہفتہ کے روز صبح سے شام تک مریضوں کے علاج معالجہ میں مصروف کار رہنے لگے.جنوری کے آخر میں ہزا ایکسی لینسی گورنر جنرل گیمبیا اندرون ملک کے دورہ پر تشریف لے گئے تو احمد یہ میڈیکل سنٹر کو بھی ملاحظہ فرمایا اور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ جماعت احمدیہ نے اس ملک اور علاقہ کی ایک حقیقی ضرورت کو پورا کیا ہے.آپ کے یہ ریمارکس گیمبیا نیوز بلیٹن میں شائع اور ریڈیو گیمبیا سے نشر کئے گئے.یکم فروری ۱۹۶۹ء کو چوہدری مولوی محمد شریف صاحب انچارج احمد یہ مشن گیمبیا ایک جماعتی کام کے سلسلہ میں ایک ماہر تعمیرات مخلص احمدی با جان صاحب، علی با صاحب کنٹرولر آف کسٹمز اور ایک نوجوان خادم احمد یہ مشن کے ساتھ کار میں ایک ضروری جماعتی کام کے لئے جارہے تھے کہ باتھر سٹ سے پچاسی میل دور کار ایک ٹرک سے ٹکرا کر چکنا چور ہوگئی اور آپ اور آپ کے ساتھی چوٹوں سے بیہوش ہو کر سڑک کے نیچے جا گرے.بعد ازاں معجزانہ طور پر ایک نوجوان نے انہیں دیکھ کر اپنی کار سے اپنی سواریوں کو وہیں اتار کر انہیں بلا معاوضہ دو گھنٹہ میں باتھرسٹ کے رائل وکٹوریہ ہسپتال میں پہنچا دیا.ہسپتال والوں نے فوراً طبی امداد دی مگر با جان صاحب جو کار چلا رہے تھے ہسپتال میں داخل ہونے کے دو گھنٹے کے بعد انتقال کر گئے.جناب چوہدری محمد شریف صاحب اور علی با صاحب پندرہ دن کے بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور یکم مارچ سے دوبارہ اپنے فرائض بجالانے لگے.مولوی محمد شریف صاحب اپنی ایک مطبوعہ رپورٹ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اس حادثہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت و رحمت اور شفقت کا بھی عجیب جلوہ دکھایا اور ہمارا ایمان بڑھایا.راتوں رات جنگل سے اٹھا
تاریخ احمدیت.جلد 25 350 سال 1969ء کر باتھرسٹ کے مرکزی ہسپتال میں پہنچایا.سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے اپنی خاص دعاؤں اور تار کے ذریعہ اظہار شفقت فرمایا.محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر اور وکیل اعلیٰ نے بھی بروقت الفضل میں تحریک دعا کر کے احسان فرمایا اور تاروں اور خطوط کے ذریعہ حالت - دریافت فرماتے رہے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ( ناظر اعلی) محترم سید میر داؤ د احمد صاحب ( ناظر خدمت درویشاں) نے مرکز سے اور آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ہالینڈ سے خطوط لکھ کر عیادت اور حوصلہ افزائی فرمائی اور ہزار ہا مخلصین سلسلہ احمدیہ نے شب و روز ہمارے لئے دعائیں کیں.ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل صاحب گیمبیا سر الحاج سنگھاٹے صاحب اور ان کے اہل وعیال بھی پہلے تین روز متواتر ہسپتال میں میری عیادت اور دیکھ بھال کیلئے تشریف لاتے رہے اور بعدہ روزانہ ٹیلیفون کے ذریعہ انچارج ہسپتال سے رفتار صحت دریافت فرماتے رہے.مرکز اور قریب ترین امیر صاحب احمدیہ مشن (سیرالیون) کو بھی فوراً اس حادثہ کی اطلاع ارسال فرمائی اور محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب اور عزیزم مکرم مولوی داؤ د احمد حنیف صاحب کو حادثہ کی اطلاع ملتے ہی بذریعہ ٹیلیفون اندرونِ ملک سے ان کے ہیڈ کوارٹروں سے بلا کر میرے پاس ہسپتال میں بھیج دیا.جماعت کے چار اصحاب علاوہ کارکنان متعلقہ ہسپتال ( دو پہلی رات اور دو پچھلی رات ) ہر رات ہسپتال میں میرے کمرہ میں کرسیوں پر بیٹھ کر راتیں گزارتے رہے.محترم ڈاکٹر سعید احمد صاحب دو مرتبہ اپنے نہایت ضروری کام کو چھوڑ کر میری عیادت کیلئے تشریف لائے.عزیزم مکرم حنیف صاحب ایک ماہ میرے پاس رہے اور علاوہ تیمارداری کے ، عیادت کیلئے شب و روز آنے والوں کی خاطر و تواضع کرتے اور فوری ڈاک کا جواب بھی دیتے رہے.ہسپتال میں شب و روز آنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کا تانتا بندھا رہا.اور ہسپتال سے احمد یہ مشن آنے پر بھی یہی حال رہا.دریافت حال کیلئے تاریں اور ہوائی ڈاک کے خطوط آتے رہے.پریذیڈنٹ صاحب جمہوریہ زیمبیا ۲۳ ۲۴ جون کو سرکاری دورہ پر گیمبیا تشریف لائے.ہوائی اڈہ پر استقبال کرنے والوں میں چوہدری محمد شریف صاحب انچار ج مشن بھی تھے.اس موقعہ پر آپ نے قرآن مجید مترجم انگریزی اور دیگر دینی لٹریچر بطور تحفہ پیش کیا.۲۵ جون ۱۹۶۹ء کو گیمبیا کے مرکزی احمدی مبلغین کی خصوصی میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ملک میں آئندہ لائحہ عمل کے متعلق اہم تجاویز زیر غور آئیں.
تاریخ احمدیت.جلد 25 351 سال 1969ء احمد یہ مشن کے ایک لوکل مبلغ سینیگال کے جنوبی صوبہ کا سامانس بھجوائے گئے جنہوں نے تین ہفتہ قیام کیا اور الازہر کے تعلیم یافتہ ایک احمدی نوجوان کے ساتھ متعدد دیہات کا دورہ کیا.جولا قبیلہ کے گیارہ اصحاب داخلِ سلسلہ احمدیہ ہوئے.(الفضل میں مطبوعہ ششماہی رپورٹوں کے مطابق ) ۲۰۲ احباب کو جماعت احمد یہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی جن میں سے 11 گیمبیا کے باشندہ اور ۹۱ سینیگال کے باشندہ تھے.انہی میں میکارتھی ڈویژن کے ایک گاؤں مصر ا(Misra) کے بھی ۲۲ بالغ مرد افراد ہیں جو اپنے امام الصلوۃ کے ساتھ معہ اہل و عیال جن کی تعداد ایک صد کے قریب ہے داخلِ احمدیت ہوئے اور اس طرح یہ سارا گاؤں خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا.دیگر اصحاب میں سے بھی اکثر معہ اہل وعیال داخل احمدیت ہوئے.12 گی آنا میر غلام احمد صاحب نیم مبلغ گی آنا نے اس سال سور بنام احمد یہ جماعت کی دعوت پر ۸ جولائی ۱۹۶۹ء کو ایک ماہ کا تبلیغی تربیتی اور انتظامی دورہ کیا جو ہر اعتبار سے مفید رہا.ایک ماہ کے دوران آپ کو تین بار بذریعہ ریڈیو پیغام حق پہنچانے کا موقع میسر آیا.ایک بار آپ کی انگریزی تقریر ٹیلیویژن پر نشر ہوئی جس کا بعد میں ترجمہ بھی شائع ہوا.اس تقریر سے ملک میں ایک نئی حرکت پیدا ہو گئی کیونکہ سورینام ٹیلیویژن پر یہ پہلا موقعہ تھا کہ اس کے ذریعہ تبلیغ اسلام کی گئی.آپ کا ایک کامیاب پبلک لیکچر پیرا ماریبو کے ایک بڑے ہال سی سی ایس میں ہوا.آپ نے ایک گھنٹہ تک اسلام کے موضوع پر تقریر کی جس کے بعد سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ ہوا.سوال کرنے والوں میں بعض پادری اصحاب بھی تھے.تقریر میں آپ نے اسلامی مساوات کا پہلو خوب نمایاں کیا جس کا لوگوں پر خاص اثر ہوا.دو اخبارات میں آپ کے انٹرویو چھپے.ایک مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی جس پر چھ ہزار ڈالر خرچ ہوئے.دو اور مساجد کے لیے بھی کوشش کی گئی چنانچہ ایک مسجد کے لیے زمین خرید لی گئی اور تعمیر کے کام کا آغاز بھی کر دیا گیا.ملک کے کثیر الاشاعت اخبار گرافک میں مبلغ انچارج کے قلم سے تین مضامین شائع ہوئے.دو اخبارات میں انٹرویو شائع ہوا.126 مبلغ گیانا کے انٹرویو کی اشاعت اخبار دی سنڈے کرانیکل نے ۱۲ جنوری ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں مبلغ گیانا مولانا غلام احمد
تاریخ احمدیت.جلد 25 352 سال 1969ء صاحب نسیم کا درج ذیل ایک اہم انٹرویو دیا، جو مسٹر کلاڈٹ ارل (Claudette Earle) نے لیا تھا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے.پاکستانی نژاد میر غلام احمد نیم صاحب جو احمد یہ مسلم مشن کے سربراہ ہیں.چند ماہ قبل اس ملک میں آئے ہیں.آپ درمیانی عمر کے پاکستانی یونیورسٹی کے ایک جوشیلے گریجویٹ ہیں.جنہوں نے حضرت مرزا غلام احمد کی احمد یہ تحریک کے تحت اشاعت اسلام کے لئے زندگی وقف کی ہے.یہ ایک تبلیغی جماعت ہے جو دنیا بھر میں اسلامی عقائد و تعلیم کو پھیلانے کے لئے منادوں کو تیار کرتی ہے.گذشتہ ہفتہ ملاقات میں میر غلام احمد نسیم نے کہا کہ میں اس ملک میں اس جماعت کا نمائندہ ہوں.میرا فرض یہ ہے کہ جہاں بھی جاؤں اسلام کی دعوت دوں.مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ دنیا کی نجات اسلام میں ہے.اسلامی عقائد کے مطابق انسانوں میں رنگ قوم و نسل قبیلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے.خدا تعالیٰ کی نظر میں سب برابر ہیں.اسلام مساوات سکھاتا ہے اور اس ذریعہ سے ہی دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے یا کیا جا سکتا ہے.یہ ان کی سنجیدہ رائے تھی.مولانا نے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی مشنری بننا چاہتے تھے.اور وہ ایک مشنری ہیں اور مجھے یہ کام بہت پسند ہے.آپ کے علاقے کے نوجوان جو مشنری بننا چاہتے ہیں وہ میٹرک کے بعد مذہبی ٹریننگ شروع کر دیتے ہیں.مولا نانسیم نے بتایا.میں نے سکول کی مروجہ تعلیم کے بعد ایک مسلم تبلیغی ادارے میں چارسال تعلیم حاصل کی.جہاں انہوں نے اسلامی لٹریچر قرآن کریم ، حدیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ، تاریخ اسلام، فلسفہ اور اسلام منطق کی بھر پور مکمل تعلیم حاصل کی.کالج کی تعلیم کے بعد انہوں نے ایک ماہ پاکستانی یو نیورسٹی سے عربی زبان میں ایم اے کی امتیازی سند حاصل کی.ان کی اہلیہ محترمہ بی اے کے ساتھ ٹیچنگ ڈپلومہ رکھتی ہیں جو تین بچوں سمیت پاکستان میں رہائش پذیر ہیں.دوران سال وہ آپ کے ساتھ رہائش کے لئے ( گی آنا ) یہاں آئیں گی.فی الحال مولانا اکیلے ہی ہیں.مولا ناسیم پانچ زبانیں جانتے ہیں اور اردو، عربی، پنجابی، فارسی اور انگریزی میں گفتگو کر سکتے
تاریخ احمدیت.جلد 25 353 سال 1969ء ہیں اور لکھ پڑھ سکتے ہیں.آپ سیرالیون کی زبان ثمنی میں بھی کسی قدر گفتگو کر سکتے ہیں.۱۹۶۳ء میں آپ سیرالیون سے درس و تدریس کے لئے نائیجیریا چلے گئے جہاں ۷۰ فیصد مسلمان آباد ہیں.نائیجیریا میں مسلمان اسلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں اور مذہب کو سیاست سے بالا تر رکھتے ہیں.گی آنا میں مولانا نسیم کی رہائش احمد یہ مسلم مشن میں ہے اسائیلم سٹریٹ گی آنا پر نیوایمسٹر ڈیم کی بیک پر واقع ہے.وہ نیو ایمسٹر ڈیم میں با قاعدہ مسجد میں نماز ادا کرتے اور پڑھاتے ہیں.مولا نانسیم پُر امید ہیں کہ گی آنا کے بہت سے لوگ اسلام قبول کر لیں گے اور اسلام ایسا مذہب ہے جس میں نسل یا رنگ کی اہمیت کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ یہ مساوات سکھاتا ہے خواہ ان کا تعلق کسی رنگ قوم ونسل سے ہی ہو.لائبیریا مارچ ۱۹۶۹ء کا مہینہ مشن کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اسی کے دوران لائبیریا کے علاقہ کیپ ماؤنٹ میں لارگو (Largo) کے مقام پر جماعت احمدیہ کا پہلا پرائمری سکول جاری ہوا اور اس میں یکصد کے قریب طلباء نے داخلہ لیا.ماریشس 128 اس سال جماعت احمدیہ ماریشس کا پہلا دوروزہ جلسہ سالانہ ۴ ، ۵ جنوری ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.اس موقع پر دار السلام بلڈنگ کو رنگ و روغن کر کے دلہن کی طرح سجادیا گیا.زیر تعمیر مشن ہاؤس کو اس قابل بنا دیا گیا کہ اس میں مہمان قیام فرما سکیں.تعلیم الاسلام احمد یہ کالج کے تین کمروں میں احمد یہ لٹریچر، اخبارات اور جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں پر مشتمل نمائش کا انتظام تھا.اس خصوصی تقریب پر جماعت ماریشس کی سالانہ رپورٹ کے علاوہ لی میسج کا خاص نمبر بھی شائع ہوا.جلسہ سے جن فاضل مقررین نے خطاب کیا ان میں مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر انچارج احمد یہ مشن ماریشس ، ابوبکر خان صاحب مقامی مبلغ، احمد حسین صاحب سوکیہ، شمس الحق یاد علی صاحب اور حاجی احمد ید اللہ صاحب بھنوں خاص طور پر قابل ذکر ہیں.جلسہ میں بینک آف ماریشس کے پہلے گورنر مسٹرانت بیجا دھر، مسٹر جگت سنگھ وزیر
تاریخ احمدیت.جلد 25 354 سال 1969ء صحت و سیکرٹری لیبر پارٹی ، مسٹر عبدالمناف فقیر ممبر پارلیمنٹ، انڈیا کے سفیر مسٹر اوتار سنگھ،مسٹر مارسل کیبن او.بی.ای (Mr.Marcel Cabon O.B.E)،مسٹر حیدر خان سپرنٹنڈنٹ پولیس، مسٹر پیٹا نگ (Mr.Yipton) ایک چینی مجسٹریٹ اور دیگر معزز شخصیات نے شرکت کی.سامعین اس جلسہ کی کارروائی سے بہت متاثر ہوئے چنانچہ بہت سے مہمانوں نے وزیٹر بک میں اپنی آراء لکھتے ہوئے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ ” کامیاب ترین جلسہ تھا.ایک معزز مسلمان دوست نے لکھا ایک حیران کن جلسہ جس کا ہر ایک شامل ہونے والے کو فائدہ ہوا.ایک ہندور بیٹائر ڈ گورنمنٹ آفیسر نے یہ رائے دی کہ ہر لحاظ سے قابل تعریف جلسہ ہے“.اس کامیاب جلسہ کی فلم ٹیلیویژن سے دو مرتبہ دکھائی گئی.تین روز ناموں نے جلسہ کی تصاویر اور رپورٹیں شائع کیں.ایک ہفت روزہ نے اپنی دواشاعتوں میں جلسہ کی تقاریر اور فوٹو شائع کئے.۵اجون ۱۹۶۹ء کو جماعت احمد یہ ماریشس نے پورے ملک میں نہایت جوش وخروش کے ساتھ چوتھا سالا نہ یوم التبلیغ منایا جسے کامیابی اور صحیح خطوط پر منانے کے لئے مئی کے مہینہ سے تیاری شروع کر دی گئی تھی.چنانچہ اس موقعہ کے لئے کثیر لٹریچر کی اشاعت کا انتظام کیا گیا.مفت تقسیم کے لئے فرینچ زبان میں دو پمفلٹس پچاس پچاس ہزار یعنی ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کئے گئے.ایک پمفلٹ کا عنوان تھا ایک عظیم الشان خوشخبری ( One Grande Benediction).اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موعودا قوام عالم ہونا ثابت کیا گیا.دوسرے پمفلٹ میں جماعت احمدیہ کے عقائد ہستی باری تعالیٰ، انبیاء، الہامی کتب اور موجودہ زمانہ میں ایک روحانی مصلح کی آمد کے بارے میں بیان کئے گئے.ان کے علاوہ چار کتب قیمتا فروخت کرنے کے لئے فرنچ زبان میں شائع کی گئیں.پہلی کتاب ”اسلا اسلام.موجودہ زمانہ کا علاج“ کے عنوان سے شائع کی گئی.دوسری کتاب سولہ صفحات پر مشتمل حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تقریر لندن ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی.تیسری کتاب ” حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم از روئے بائبل ( Mohammad ala Bible) بھی پانچ ہزار کی تعداد میں شائع کی گئی.چوتھے نمبر پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی الصلح الموعود کی معرکۃ الآراء کتاب ”اسلام کا اقتصادی نظام کا فرنچ زبان میں دوسرا شاندار اور دیدہ زیب ایڈیشن دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 355 سال 1969ء یوم التبلیغ کی تیاری کے ضمن میں سارے ماریشس کو دس حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر حلقہ کے احباب ، اطفال، خدام اور انصار کی ڈیوٹی ان کے حلقہ کے مختلف دیہات اور شہروں میں لگا دی گئی نیز یوم التبلیغ سے پہلے ہر حلقہ کے انچارج کولٹر پچر برائے تقسیم و فروخت پہنچا دیا گیا جس میں تازہ طبع شدہ لٹریچر کے علاوہ پہلے سے موجود لٹریچر اور کتب بھی شامل تھیں جن میں علاوہ فرینچ زبان کی کتابوں کے ہندی، انگریزی، اردو، تامل اور بعض چینی زبان کی کتب بھی شامل تھیں.اس روز مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کی نگرانی اور ہدایات کے مطابق پورے ملک میں احمدی احباب جن میں بچے، نوجوان اور بوڑھے سبھی شامل تھے نہایت درجہ خلوص، جذبہ ایمان اور ولولہ تبلیغ دل میں لئے ہوئے پیغام حق پہنچانے اور دینی لٹریچر کی تقسیم اور فروخت میں مصروف عمل رہے.دوران تقسیم لٹریچر بعض عیسائیوں اور بہائیوں نے کہا کہ ہمارے پادریوں اور علماء نے احمد یہ لٹریچر کے مطالعہ سے منع کیا ہوا ہے تا ہم بہت سے عیسائیوں اور ہندوؤں نے لٹریچر خریدا اور احمدیوں کے پیغامِ صداقت پہنچانے کی منظم اور پُر امن جدوجہد کو سراہا.اس مبارک فریضہ کی انجام دہی کے لئے مخلص احمدیوں نے بیس کاریں سارا دن وقف رکھیں اور پٹرول کا خرچ اور کھانے پینے کے تمام اخراجات خود برداشت کئے.بعض مقامات پر غیر از جماعت بھائیوں نے بھی تبلیغ حق میں احمدی دوستوں کا ہاتھ بٹایا.مقررہ پروگرام ختم ہونے پر جملہ تبلیغی گروپوں کے انچارج جماعتی ہیڈ کوارٹر دار السلام، روز ہل میں پہنچے اور رپورٹ پیش کی.اس کامیاب اور پُر جوش یوم التبلیغ کے تین دن بعد 19 جون کو پلاز اتھیٹر ہال ، روز بل میں ایک عظیم الشان سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نفرنس کا انعقاد ہوا.یہ کانفرنس ہائی کمشنر صاحب پاکستان کی صدارت میں ہوئی جنہوں نے استقبالیہ تقریب میں اس جلسہ کے انعقاد پر اظہار مسرت کرتے ہوئے کہا ”جماعت احمد یہ ماریشس میں بہت اچھا کام کر رہی ہے اور اپنے سماجی اور اخلاقی بہبود کے پروگراموں کی وجہ سے ملک بھر میں بہت مقبول ہے اور اسلام کی نہایت عمدہ رنگ میں نمائندگی اور خدمت کر رہی ہے.جن فاضل مقررین نے تقاریر کیں ان کے اسماء یہ ہیں.مسٹر سوشوں انچارج روز ہل ڈسٹرکٹ کیتھولک مشن ، مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر، مسٹر مادھو گو پال پرنسپل را ما کرشنن کالج ماریشس، قریشی محمد اسلم صاحب مبلغ ماریشس، مسٹر گورا دست صدر ماریشس پاکستان سوسائٹی.جلسہ میں ر مذہب وملت اور طبقہ کے احباب شامل ہوئے.جناب ہائی کمشنر صاحب انڈیا، سفارت خانہ فرانس
تاریخ احمدیت.جلد 25 356 سال 1969ء کی ایک نمائندہ خاتون اور ماریشس پولیس اور سول کے کئی افسران نے شرکت کی.ماریشس ٹیلی ویژن پر کانفرنس کے روح پرور مناظر دو بار فریج اور انگریزی خبروں کے پروگرام میں دکھائے گئے جس کے ساتھ تعریفی ریمارکس بھی تھے.جماعت احمد یہ ماریشس نے ۱۴ را گست ۱۹۶۹ء کو جلسہ یوم پیشوایان مذاہب کا انعقاد کیا.بانیان مذاہب کی زندگی اور تعلیمات پر لیکچر دینے کے لئے ہندو اور عیسائی حلقوں سے رابطہ کیا گیا.چنانچہ حضرت کرشن کی زندگی پر ہندو نمائندے مسٹر ہے.این رائے سابق ایم ایل اے اور عیسائیوں کی طرف سے بشپ آف پورٹ لوئس کے نمائندہ پادری نوئل مقرر کیے گئے.اسلام کی نمائندگی مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب نے کی.اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے جلسہ گاہ ( پلاز اہل ) کے انٹرنس ہال طرف سے اس گاہ (پیاز اہل) کے انٹرس بال میں قرآن کریم اور لٹریچر کی نمائش بھی لگائی گئی.جلسہ کے لیے وزیر اعظم ماریشس سرسیو ساگر رام غلام اور گورنر جنرل ماریشس کو دعوت دی گئی جو مقررہ وقت پر تشریف لے آئے.جلسہ کی کارروائی وزیر اعظم صاحب کی زیر صدارت شروع ہوئی.صدارتی خطاب میں آپ نے فرمایا کہ میرے لیے آج کے جلسہ کی صدارت بڑی عزت افزائی ہے.اور میں نے اسے اس لیے قبول کیا ہے کہ اس قسم کے جلسہ کا انعقاد لائق تحسین ہے جس سے سب فائدہ حاصل کر سکتے ہیں.اس کے بعد جملہ مقررین نے اپنے عناوین پر تقاریر کیں.آخر میں ایک منٹ کی دعائیہ خاموشی کے ساتھ یہ اجتماع برخاست ہوا.متعدد اخباری نمائندے بھی اس موقعہ پر آئے تھے چنانچہ اس جلسہ کی خبر فوٹوز کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوئی.۱۹دسمبر ۱۹۹۹ء کوتعلیم الاسلام احمد یہ کالج ماریشس کی تقریب سالانہ تقسیم انعامات و اسناد خاص اہتمام کے ساتھ منعقد ہوئی.پرنسپل کالج مسٹر احمد حسین سوکیہ نے کالج کی سالانہ رپورٹ پڑھ کر سنائی.انہوں نے اس ادارہ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ اس ادارہ کا مطمح نظریہ ہے کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ موریشین نوجوان اعلیٰ اخلاقی اور روحانی قدروں کے بھی حامل ہوں اور وہ سوسائٹی کے بہترین افراد اور ملک کے بہترین شہری ثابت ہوں.یہی وجہ ہے کہ ہمارا نقطہ نظر نفع کمانا نہیں بلکہ اپنی گرہ سے خرچ کر کے بھی اپنے نونہالوں کو بہترین درسی اور اخلاقی تعلیم سے آراستہ کرنا ہے.اپنی نوعیت کا یہ واحد سکول یا ادارہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کے بانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قائم کردہ تعلیم الاسلام ہائی سکول (جواب ترقی کر کے ایم.اے، ایم.ایس.سی تک اعلیٰ تعلیم کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 357 سال 1969ء گہوارہ بن چکا ہے اور ر بوہ پاکستان میں قائم ہے ) کے نقش قدم پر دنیا کے بہت سے ممالک میں ایسے تعلیمی ادارے قائم ہو چکے ہیں اور مزید قائم ہوتے چلے جارہے ہیں اور ہر ملک کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں.کالج کی دیگر سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی مالی امداد لئے بغیر جماعت احمدیہ نے سکول کی یہ شاندار عمارت اپنی مدد آپ کے اصول پر تعمیر کی اور اب اس سال کے دوران سائنس لیبارٹری کو بھی کافی حد تک ضروری سامان سے آراستہ کیا گیا ہے.رپورٹ کے بعد مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے کالج کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی.ازاں بعد وزیر تعلیم ماریشس مسٹر آر.جمعدار نے اپنی تقریر میں اس بات پر اظہار مسرت کیا کہ جماعت احمدیہ نے مذہبی اور سوشل خدمات بجالانے کے ساتھ ساتھ اب تعلیمی میدان میں بھی ملکی خدمات انجام دینے کا آغاز کر دیا ہے جو ماریشس کے تمام لوگوں کے لئے قابل نمونہ اور لائق تقلید ہے.آپ نے فرمایا بالعموم لوگ تمام کاموں کی ذمہ داری گورنمنٹ پر ڈال دیتے ہیں مگر جماعت احمد یہ اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ لوگوں کے لئے نمونہ کا کام دیتی ہے تقسیم انعامات کی تقریب کے بعد وزیر تعلیم صاحب اور دوسرے معززین نے کیمسٹری کی تجربہ گاہ کا معاینہ کیا اور لیبارٹری کی شاندار عمارت، اس کی تزئین و آرائش اور صفائی پر نہایت درجہ خوشی کا اظہار کیا.ملائیشیا 130 مخالفتوں کے باوجود ملائیشیا میں اشاعت حق کا سلسلہ زور و شور سے جاری رہا چنانچہ مولوی بشارت احمد صاحب امروہی مبلغ ملائیشیا نے اپنی سالانہ رپورٹ ۱۹۶۹ء میں تحریر فرمایا کہ عرصہ زیر رپورٹ میں عوام کے تقریباً تمام طبقہ جات کے ساتھ ملنے اور موقع کی مناسبت سے پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی گئی.اعلیٰ اور تعلیم یافتہ طبقہ تک پہنچ کر بصورت تبادلہ خیالات یا لٹریچر پیغام حق پہنچایا گیا.ایسے طبقہ میں گورنمنٹ کے اعلیٰ واد فی ملازمین مال ، صحت، تعلیم ، پولیس وغیرہ محکمہ جات میں کام کرنے والے افسر و کلرک شامل ہیں.اسی طرح تجارت پیشہ احباب، دکاندار، اساتذہ، طلباء وطالبات، مزدور و پیشہ ور احباب، مذہبی راہنما اور زمیندار بھی شامل ہیں.اسی طرح اسلام اور احمدیت کے متعلق غلط پراپیگنڈے کے ازالہ کی کوشش بھی کی جارہی ہے.سفر کے دوران یا قیام کی صورت میں احباب سے
تاریخ احمدیت.جلد 25 358 سال 1969ء وقت کی تعیین کر کے یا اچانک کسی قیام گاہ پر ملاقات کر کے بھی اس فریضہ کی ادائیگی کی صورت اختیار کی گئی.چنانچہ اس ذیل میں برٹش ہائی کمیشن کے سیکرٹری سے ان کے آفس میں ملاقات کی اور جماعت کا تعارف کرایا نیز مشرق بعید میں ایک برطانوی لارڈ اور اس کی بیگم کے دورہ کے دوران سبا میں آمد پر اس کمیشن کی معرفت اسلامی لٹریچر پر مشتمل سیٹ ان اصحاب تک پہنچانے کے لئے دئے گئے.چنانچہ برٹش ہائی کمیشن کی طرف سے شکریہ کا خط بھی ملا.اسی طرح جاپانی قونصل مقیم کوتا کینابالو ( جیسلٹن ) سے ان کے آفس میں ملاقات کی اور اسلامی لٹریچر مطالعہ کیلئے دیا.سیٹ کتب میں لائف آف محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، نظام کو ، اسلام کا اقتصادی نظام، اسلام وغیرہ کتب شامل تھیں.اسی طرح عیسائی مشنز مثلاً کیتھولک مشن ، سینٹ مچل اینڈ آل انجلز چرچ، ایس.ڈی.اے مشن کے انچارج مشنز اور لوکل پادری صاحبان سے ان کے مشن آفسوں اور قیام گاہوں پر ملاقات کی اور تفصیلاً گفتگو کی.امریکن مشن کے تحت سیکنڈری سکول کے پرنسپل اور ٹیچرز سے بھی سکول اور قیام گاہ پر ملاقات کر کے اسلام کا پیغام پہنچایا گیا.لٹریچر : حسب ذیل لٹریچر تقسیم کیا گیا اور بھجوایا گیا.اسلام مصنفہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، ٹیچنگز آف اسلام، اسلام ان افریقہ، اسلام آن دی مارچ، پریچنگ آف اسلام، اسلام کیا ہے؟ ، لائف آف محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) عورتوں کی آزادی کا علمبردار، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) بنی نوع انسان کا خیر خواہ، نظام کو ، اسلام کا اقتصادی نظام، معصوم نبی، اسلامی تعلیمات انسان کے اخلاق پر ، احمدیت کا مستقبل، اسلام اور کمیونزم، اسلام اور ڈیما کریسی ، احمدیت مشرق بعید میں، دو خطابات، چشمہ مسیحی مسیح ہندوستان میں، گناہ سے کیسے نجات حاصل ہو، میسیج کشمیر میں ، حضرت مسیح علیہ السلام کہاں فوت ہوئے ؟ ، اولین عیسائیوں نے اسلام کیوں قبول کیا وغیرہ وغیرہ.لائبریریوں کو التزاما ریویو آف ریلیجنز کی کاپیاں ہر ماہ بھجوائی جاتی ہیں اور گاہے گا ہے اس امر کا معاینہ کیا جاتا ہے کہ آیا مطالعہ کیلئے رسالہ رکھا بھی جاتا ہے یا نہیں.معا ینہ سے یہی ثابت ہوا ہے کہ ریڈنگ رومز میں عام مطالعہ کیلئے رکھا جاتا ہے.لائبریریوں کے علاوہ زیرتبلیغ احباب اور جماعت کے بعض علم دوست لیکن غریب احباب کو علم میں اضافہ کیلئے بھی بھجوایا جاتا ہے.اسی طرح ایسٹ افریقن ٹائمنر کی کا پیاں بھی زیر تبلیغ احباب کو بھجوائی جاتی ہیں.131
تاریخ احمدیت.جلد 25 359 سال 1969ء اس سال ملائیشیا کی احمدی جماعتوں کی سالانہ کانفرنس ۱۲ ۱۳ ۱۴دسمبر ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوئی.یہ کانفرنس (جیسلٹن ) کوتا کینابالو میں مشن کی عمارت میں ہوئی اور جماعت احمد یہ قیلبوک ، کابایو اور انانم اور کوتا کینابالو کی احمدی خواتین نے مہمانوں کے کھانے اور ناشتہ کا نہایت عمدہ انتظام کیا اور ان جماعتوں کے مردوں نے مہمان نوازی کے فرائض ادا کرنے میں مثالی نمونہ قائم کیا.دو یوم جلسہ سالانہ کے لئے اور ایک شوری کیلئے مخصوص تھا.جلسہ کا افتتاح مولوی بشارت احمد صاحب امروہی مبلغ انچارج ملائیشیا نے کیا.مقررین میں محمد شریف صاحب ، تیسو چیانگ صاحب، ون رائٹ ما را پاس صاحب، ڈینئیل مورا یوسف صاحب، جعفر بن عبد الہادی صاحب اور عباس بن عبدالہادی صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.شوریٰ میں آئندہ سال کیلئے مقامی اور مرکزی آڈیٹر بورڈ آف ٹرسٹیز زکوۃ کمیٹی اور قرآن کمیٹی وغیرہ کا انتخاب عمل میں آیا.نائیجیریا 132 اوکیٹی پوپا (Okitipupa) اور اپائے (Apate) کے مقام پر پہلے صرف دو ایک احمدی تھے.اب اللہ تعالیٰ نے یہاں خاصی بڑی جماعت پیدا کر دی.اس سال مبلغین احمدیت نے ان مقامات کا خاص طور پر دورہ کیا اور نہایت موثر اور کامیاب لیکچر دئے.ریڈ یو نائیجیر یا مولوی فضل الہی صاحب انوری امیر دمشنری انچاری اور دیگر پانچ مخلصین جماعت نے کثرت سے تقاریر کیں.جون ۱۹۶۹ء تک ان تقاریر کی تعداد چھتیں تھی.ازاں بعد ایک اور مطبوعہ رپورٹ کے مطابق مولوی فضل الہی صاحب انوری اور تین دیگر مخلصین جماعت نے تئیس مرتبہ اسلام پر اپنے خیالات کا اظہار کیا.چھ تقاریر کیں اور گیارہ مرتبہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر موضوعات پر سوال و جواب کے رنگ میں ٹیلی ویژن پر مکالمہ ہوا اور لیگوس کی مرکزی مسجد احمدیہ سے متعدد بار خطبہ جمعہ براڈ کاسٹ کیا گیا.اس سال نائیجیریا کی قریباً تمام مسلمان جماعتوں کی طرف سے عید الاضحیہ کی تاریخ کا غلط اعلان کر دیا گیا جو اصل تاریخ (۲۷ فروری) سے ایک روز پہلے تھا.جس پر مولوی فضل الہی صاحب انوری کی طرف سے ایک پریس نوٹ جاری کیا گیا جو اخبار مارننگ پوسٹ ( فروری ۱۹۶۹ء) میں شائع ہوا جس پر تمام مسلم جماعتوں نے اپنی غلطی کو تسلیم کیا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ تاریخ ہی کو درست قرار دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 25 360 سال 1969ء مولوی فضل الہی صاحب انوری نے اس سال کے دوران الارو ( Ilaro)، ایپیو کوٹا ( Abeokuta)،اوڈو وڈو ( Ado do)،اووڈے(Owode)، بیڈا گرے(Badagrey) اور اجیبو اوڈے ( Teb de) کا دورہ کیا اور الارو کے ایکباڑو (Egbado) کالج کی مسلم سٹوڈنٹس سوسائٹی کے زیر اہتمام اسلام کی امتیازی خصوصیات پر تقریر فرمائی جو بہت توجہ اور دلچسپی سے سنی گئی.تقریر کے بعد کثرت سے سوال ہوئے جن کے آپ نے خاطر خواہ جوابات دئے.بعد ازاں آپ ابیبیو کوٹا کے سیکنڈری سکول تشریف لے گئے اور اس کے پرنسپل صاحب سے مسلم طلباء کی مذہبی حالت کے متعلق گفتگو کی.پرنسپل صاحب نے بتایا کہ مسلمان طلباء کی مذہبی تعلیم کا یہاں کوئی انتظام نہیں بلکہ ہرا تو ار کو انہیں چرچ جانا ہوتا ہے.مولوی فضل الہی صاحب نے یہ معاملہ فوری اقدام کے لئے کونسل آف مسلم سکول پروپرائیٹر نائیجیریا میں پیش کیا.آپ نے بابا ٹریڈ سنٹر کے مسلم طلباء کی چودہویں سالانہ کانفرنس سے عید الاضحیہ سے متعلق خطاب کیا.ٹیکنالوجی کالج یا با کے مسلم طلباء کی سالانہ تقریب میں صدارت کے فرائض انجام دئے اور اسلامی تہذیب کے موضوع پر تقریر کی.نائیجیریا کی سالانہ کانفرنس ۵ تا ۷ را پریل ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوئی.تین دنوں کے چارا جلاسوں میں کل میں تقاریر ہوئیں.اس کانفرنس میں سفیر سوڈان محمد محمد الامین اور سوڈانی سفارتخانہ کے سیکرٹری اول محمد عباس اگا بیا بھی تشریف لائے تھے.اس کا نفرنس کی کارروائی کے بعض مناظر ٹیلی ویژن پر بھی دکھائے گئے.اسی طرح کا نفرنس کے انعقاد سے قبل اور بعد ریڈ یو نائیجیر یا پر بھی کئی بار اعلان ہوتا رہا.آگواووٹی میں جماعت کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے ایک جلسہ منعقد کیا گیا جس میں مقامی مبلغین اور کئی دوسرے احباب نے تقاریر کیں.اس کے بعد امیر صاحب نے سنگ بنیا درکھا اور دعا سے یہ تقریب اختتام پذیر ہوئی.نائیجیر یا مسلم کونسل کی طرف سے سیرت النبی ﷺ کے سلسلہ میں ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ نائیجیریا، جنرل سیکرٹری اور سلطان احمد شاہد مبلغ نائیجیریا نے شرکت کی.اسی طرح مسلم سٹوڈنٹ سوسائٹی لیگوس امیر یا یونٹ کی طرف سے جلسہ سیرت النبی ﷺ منعقد کیا گیا جس میں صدارت کے فرائض فضل الہی انوری صاحب نے ادا کیے اور جماعت کے دو دوستوں نے تقاریر کیں.لیگوس میں بھی جلسہ سیرت النبی ﷺ کی تقریب منعقد کی گئی جس میں امیر صاحب اور
تاریخ احمدیت.جلد 25 361 سال 1969ء مسٹر زیڈ او الیاس صاحب نے شرکت کی.اس سال ایک رسالہ این آؤٹ لائن آف اسلام (An Outline Of Islam) پندرہ ہزار کی تعداد میں پانچویں بار شائع کیا گیا.نیز قرآن کریم کے پہلے پارہ کا یورو با زبان میں ترجمہ تین ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.یہ ترجمہ سابق امیر مکرم نسیم سیفی صاحب نے تیار کروا کے شائع کرایا تھا اور بہت لمبے عرصہ سے نایاب تھا.اس سال چھ نئی جماعتوں کا قیام عمل میں آیا.مولوی محمد بشیر شاد صاحب مبلغ کا نوسٹیٹ نے تین کمشنروں کے اعزاز میں ایک ڈنر دیا جس میں علاوہ مقامی احباب کے بکثرت مقامی دوست شامل ہوئے.اس تقریب میں آپ نے الحاج تنکوریکاسی کمشنر اطلاعات کا نو کو قرآن کریم کا تحفہ پیش کیا.بعض دوسرے مواقع پر بھی آپ نے کانو کے پانچ معز ز مسلمانوں کو جن میں کمشنر بحالیات الحاج باباؤن یا پا بھی شامل تھے ، قرآن مجید تحفہ پیش کیا.ریڈیو اور اخبارات میں اس کا خوب چرچا ہوا.مولوی سلطان احمد صاحب شاہد اس سال اپریل میں پاکستان سے نایجیریا پہنچے تھے.ماہ اگست میں آپ کی تقرری مڈ ویسٹرن سٹیٹ میں ہوئی اور اگبیڈے مقام پر ہیڈ کوارٹر تجویز کیا گیا.جہاں آپ نے درس اور تعلیم القرآن کلاس کا اجراء کیا.مولوی فضل الہی صاحب انوری نے اپنے ایک خطبہ جمعہ میں نائیجیریا کے تمام مسلمانوں سے خانہ جنگی کے اختتام اور مسلمانان عالم کے امن وسلامتی کیلئے ایک خصوصی ہفتہ دعا منانے کی اپیل کی.یہ خطبہ براڈ کاسٹ کیا گیا اور ملکی اخبارات میں بھی جماعت احمدیہ نائیجیریا کی طرف سے شائع ہوا.نائیجیریا میں پاکستان کے نئے ہائی کمشنر جناب ڈاکٹر ایس ایم قریشی صاحب کے اعزاز میں برسٹل ہوٹل میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں احمدیوں کی کثیر تعداد کے علاوہ لیگوس میں پاکستانی احباب اور مسلم ممالک کے سفراء نے شرکت کی.جماعت احمد یہ نائیجیریا کے جنرل سیکرٹری نے اپنے ایڈریس میں بتایا کہ پچھلے بیس سال میں جماعت احمد یہ نائیجیریا نے پاکستان کے لئے کتنی اہم خدمات انجام دی ہیں.بعدہ جناب ہائی کمشنر صاحب نے نہایت عمدہ پیرایہ میں جماعت احمدیہ نائیجیریا کی ان تمام خدمات کو بہت سراہا جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ملک کے اندر اور باہر سرانجام دے رہی ہے.جماعت احمدیہ نائیجیریا کی اکیسویں مجلس شوری اگست کے آخر میں لیگوس کے مرکزی مسجد میں منعقد ہوئی جس میں ملک بھر کی جماعتوں سے ایک سو سے زیادہ نمائندگان نے شرکت کی.شوری دو دن تک جاری رہی جس میں مفید فیصلے کئے گئے.ان فیصلوں پر عملدرآمد کیلئے انتظامیہ کمیٹی کا ایک
تاریخ احمدیت.جلد 25 362 سال 1969ء اجلاس ہوا جس میں مختلف کمیٹیاں بنائی گئیں جن کے سپر دمختلف کام کئے گئے.مجلس شوریٰ کے معا بعد ایک پندرہ روزہ ریفریشر کورس ہوا جس میں سولہ لوکل مبلغین کے علاوہ تین اعزازی مبلغین نے بھی شرکت کی.کورس میں علاوہ تعلیم و تربیت کا اسلامی پروگرام بھی رکھا گیا اور تمام مبلغین ہر روز فریضہ تبلیغ بھی انجام دیتے رہے جس کے نتیجہ میں تمہیں افراد داخل احمدیت ہوئے.علاوہ ازیں دورانِ سال پانچ سوا کانوے سعید روحوں کو قبول احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی.اپریل میں لیفٹیننٹ کرنل ڈاکٹر محمد یوسف شاہ صاحب میڈیکل انچارج احمد یہ ڈسپنسری اپاپا لیگوس انتقال فرما گئے جس کے بعد مرکز کی طرف سے ڈاکٹر عمر الدین صاحب سیدھوایم بی بی ایس وسط جولائی ۱۹۶۹ء میں ہی حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے حکم سے بطور میڈیکل مشنری نائیجیر یا تشریف لے آئے.آپ ۸ دسمبر ۱۹۶۸ء کو پنجاب ہیلتھ سروس سے بعمر ساٹھ سال ریٹائر ہوئے اور نصرت جہاں سکیم کے تحت زندگی وقف کر دی.آپ نے چند دن میں ہی ڈسپنسری کا چارج سنبھال لیا اور دن رات مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف عمل ہو گئے.آپ نے مولوی فضل النبی صاحب انوری کی معیت میں اس سال متعدد اہم شخصیات سے بھی ملاقات کی جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں: ہزا ایکسی لینسی ڈاکٹر ایس ایم قریشی پاکستانی ہائی کمشنر ، الحاجی امینو کانوفیڈرل کمشنر مواصلات اور یو این او کے نائیجیریا میں پاکستانی نمائندہ بریگیڈ مرالیں.ڈی.خان.مولوی فضل الہی صاحب انوری اور جماعت کے دو اور تعلیم یافتہ دوستوں نے لیگوس یونیورسٹی میں پانچ مرتبہ نماز جمعہ پڑھائی.آپ اور مینیجر صاحب احمد یہ سکولز مسلم سکول پروپرائیٹرز کی کونسل کے دواجلاسوں میں بھی شامل ہوئے جن میں سکولز بورڈ میں مسلمانوں کی حق تلفی پر غور کیا گیا.جناب انوری صاحب نے اسلام ، کائنات اور خلاء (Islam, Universe and Space) کے موضوع پر ایک مضمون تحریر فرمایا جس میں اُن الزامات کی تردید کی جو موجودہ سائنسی تحقیقات کے سلسلہ میں اسلام پر کئے جاتے ہیں.یہ مضمون ایک مشہور ملکی اخبار کی تین اقساط میں سپر داشاعت ہوا.متحدہ عرب جمہوریہ ( یونائیٹڈ عرب ری پبلک) کے سفارت خانے کی طرف سے یونائیٹڈ عرب ری پبلک کے وائس پریذیڈنٹ مسٹر حسین الثانی کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دعوت دی گئی.اسی طرح نائیجیریا کے مسلمانوں نے بھی ان کے اعزاز میں ایک استقبالیہ پارٹی دی.ان ہر دو تقریبات میں محترم امیر صاحب مولوی فضل الہی صاحب انوری نے بھی شمولیت فرمائی.نائیجیریا کے دو اخبارات
تاریخ احمدیت.جلد 25 363 سال 1969ء نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا وہ بیان جو حضور انور نے مسجد اقصی کو آگ لگائے جانے پر ارشاد فرمایا تھا شائع کیا.ایک اخبار نے اس بیان کے ساتھ حضور کی تصویر بھی شائع کی.ہالینڈ 133- ہالینڈ مشن کے ملک بھر میں اثر و نفوذ کی وسعتوں میں اس سال مزید اضافہ ہوا اور اس کی شہرت عوامی علمی ،سماجی اور مذہبی حلقوں میں پھیلتی چلی گئی.گذشتہ سالوں سے بڑھ کر مختلف اداروں نے مشن کے انچارج عبدالحکیم صاحب اکمل کو اپنے ہاں آکر لیکچر دینے کی دعوت دی.مشن ہاؤس میں وفود کی آمد میں اور بھی زیادہ تیزی پیدا ہوگئی اور خود مشن ہاؤس میں نہایت درجہ کا میاب پبلک جلسے ہوئے جن میں اہم شخصیات نے شرکت کی.عید الاضحی کی مبارک تقریب ۲۷ فروری کو مذہبی جوش وجذ بہ کے ساتھ منائی گئی.مسجد مبارک ہالینڈ میں ڈچ احمدی دوستوں کے علاوہ پاکستان، سورینام ، انڈونیشیا، افریقہ، مصر، ترکی، مراکو، الجیریا کے مسلمانوں نے شرکت کی.خطبہ عید محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ارشاد فرمایا.اس تقریب کی خبر کو کئی اخبارات نے شائع کیا.ریڈیو ہالینڈ کے نمائندہ نے انٹر ویو لیا.خطبہ عید اور انٹر ویواسی روز ریڈیو ہالینڈ سے نشر کیا گیا.اسی طرح اخبار کے نمائندہ نے بھی انٹرویو لیا جو ہیگ کے کثیر الاشاعت اخبار Haagsche courant میں شائع ہوا.تقاریر / لیکچرز :۱۹۶۹ء میں ملک کے بہت سے اداروں اور سوسائٹیوں کی دعوت پر مبلغین 134- احمدیت کی تقاریر ہوئیں جن میں سے بعض کا تذکرہ نہایت ضروری ہے.ا.ہالینڈ کی شمالی سرحد کے پاس ایک شہر کے کیتھولک چرچ میں مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کو چار تقاریر کرنے کا موقع ملا.کیتھولک چرچ میں اسلام پر تقریر کا یہ پہلا موقع تھا.یہ تقاریر دو دنوں میں ختم ہوئیں جن کے ذریعہ ساڑھے چار سو افراد تک پہلی بار اسلام کا پیغام پہنچا.حاضرین میں اکثر سنجیدہ اور تعلیم یافتہ تھے.۲.ہیگ سے ۲۵۰ کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک شہر روڈن (Roden) میں جناب اکمل صاحب نے مختلف فرموں کے ڈائریکٹرز، انجینئر ز اور سکولوں کے اساتذہ کے ایک مجمع میں ایک معلومات افروز لیکچر دیا.ایک ڈائر یکٹر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ ہمیں آج جس رنگ میں اسلام کے متعلق بتایا گیا ہے اس سے تو واقعی یہ حقیقت نمایاں ہوتی ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے
تاریخ احمدیت.جلد 25 364 سال 1969ء جس کی تعلیمات قابل عمل ہیں.اسی موقع پر ایک خاتون سے جو کسی سکول کی استانی تھیں اسلام میں عورت کے مقام پر بہت دلچسپ گفتگو ہوئی.وہ اپنے اس خیال پر مصر تھیں کہ عیسائیت نے عورتوں کو اونچا مقام دیا ہے لیکن جب بائبل اور اسلام کی تعلیمات کا موازنہ کر کے بتایا گیا کہ کس طرح اسلام نے صنف نازک کے مقام اور شان کی عظمت بیان کی ہے تو وہ بالکل خاموش ہو گئیں..ہالینڈ کے شہر Dordrecht میں ایک عیسائی فرقہ سالویشن آرمی کے سامنے مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے پہلی بار اسلام پر تقریر کی اور سوالوں کا جواب دیا.اس دوران تثلیث اور الوہیت مسیح کا عقیدہ بھی زیر بحث آیا اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضرین پر عیسائی عقائد کی کمزوری روز روشن کی طرح واضح کر دکھائی.صاحب صدر نے دیکھا کہ سامعین اسلامی عقیدہ کی معقولیت سے متاثر ہو رہے ہیں تو انہوں نے مزید بحث روک دی.۴.روٹرڈیم شہر کے مضافات میں انڈونیشین مسلمانوں کے چند گھرانے آباد تھے.ایک مقام پر جہاں اکثریت حجاج کی تھی بعض الا زھر یو نیورسٹی اور بعض مکہ معظمہ کے تعلیمیافتہ لوگ بھی موجود تھے، مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے ایک محفلِ سوالات میں شرکت کی اور متعدد آیات قرآنیہ کی تشریح تفسیر کبیر کی روشنی میں بیان کی.وفات مسیح علیہ السلام کی آیات بھی زیر بحث آئیں.اس کی صحیح تشریح بھی آپ نے پیش کی جسے سب نے پسند کیا.۵.ہیگ سے تین سو کلومیٹر دور مسافت پر واقع شہر Breskens میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا جس میں اسلام کی نمائندگی مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے کی.اس کا نفرنس میں آپ نے اسلام، قرآن کریم اور اسلامی عبادات کے موضوع پر تین نہایت مدلل اور اثر انگیز تقریریں کیں جن کا نہایت خوشگوار اثر سننے والوں پر ہوا اور ان کے ذہنوں سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوگئیں اور اسلام کے متعلق دلچسپی بڑھ گئی.تینوں تقاریر کے بعد سوالات کا دلچسپ سلسلہ جاری رہا جن کے جوابات آپ نے نہایت عمدگی سے دئے.کئی افراد نے بعد میں بھی معلومات حاصل کیں اور بعض نے سلسلہ کا لٹریچر بھی خریدا..ہالینڈ کی ورلڈ کانگریس آف فیتھ کی مجلس عاملہ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں اکمل صاحب بھی مدعو تھے.آئندہ سال کی مجلس عاملہ میں آپ کو اسلام کا نمائندہ منتخب کیا گیا.زائرین کی آمد : اس سال اسلام پر معلومات حاصل کرنے ، مسجد دیکھنے یا کسی دینی مشورہ کے
تاریخ احمدیت.جلد 25 365 سال 1969ء لئے مشن ہاؤس میں زائرین کی خوب چہل پہل رہی.آنے والوں کا تعلق یورپ، افریقہ اور ایشیا کے ممالک کے ساتھ تھا.سب سے زیادہ تعداد ہالینڈ کے زائرین کی تھی جن کی بھاری اکثریت مختلف مذہبی تنظیموں ، سوسائٹیوں اور سکولوں کے وفود اور سرکاری محکموں کے نمائندوں اور سر براہوں پر مشتمل تھی.مثلاً Zoetermeer کا ریفارڈ چرچ، ہیگ کے ایک مضافاتی شہر کا ایک ہائی سکول، NTS ہالینڈ ٹیلی ویژن سروس کے ڈائریکٹر، نمائندہ ریڈیو ہالینڈ ، ایک عجائب گھر کے بیالوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ، کیتھولک نوجوانوں کی تنظیم KWJ کے ممبران ، لنڈ کے ایسٹرن آرٹ ڈیپارٹمنٹ کے انچارج، Kerken کی عیسائی تنظیم، ڈائریکٹر آف یوروپین ٹرانسلیشن بورڈ Vormings ، پبلک یونیورسٹی ہیگ کا گروپ، ہیگ کے مضافاتی قصبہ Vourchoten کے طلباء کا گروپ، نیز Wassenaar کے شہروں سے دو وفود.ان زائرین میں Dr.Konijnen Burg خاص طور پر قابل ذکر تھے کیونکہ وہ ملک کے اعلی تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور اسلام پر معلومات کے لئے کئی بار مشن ہاؤس آئے اور بعض جلسوں میں بھی شرکت کی.پبلک جلسے : اس سال مشن ہاؤس میں موسم سرما کے پروگرام کے تحت متعدد کامیاب پبلک جلسے منعقد ہوئے.مقررین میں مسٹر نمبرگ (Mr.Gimberg)،مسٹر محمود اسمعیل آف فرینکفرٹ، ڈاکٹر وی.ڈی.مولن (Dr.V.D.Meulen.سابق سفیر ہالینڈ متعینہ سعودی عرب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.ہالینڈ مشن کی دینی اور علمی مساعی کو موثر رنگ میں وسیع کرنے اور ملک کے چپہ چپہ تک اس کے اثرات کو پھیلانے میں ملک کے ذرائع ابلاغ یعنی ریڈیو، ٹیلی ویژن اور پریس نے بھر پور کردار ادا کیا.پہلا جلسہ مورخہ ۱۰ را کتوبر ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.اس جلسہ میں بدھسٹ انسٹی ٹیوٹ آف دی ہیگ تقر کے ڈائریکٹر، انجینئر Bloemsma نے ”دور حاضر میں مذہب کے کردار کے عنوان پر کی.تقریر کے بعد سامعین کو سوال کرنے کا موقع بھی دیا گیا.اس جلسہ کی صدارت مکرم عبدالحکیم الکمل صاحب امام مسجد ہالینڈ نے کی.دوسرا جلسہ ۲۲ /اکتوبر ۱۹۶۹ء کو منعقد ہوا.اس میں ایمسٹر ڈیم یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کے پروفیسر ڈاکٹر بروئن نے علوم ریاضی و الجبراء پر عربی کلچر کا اثر“ کے عنوان پر تقریر کی.اس قسم کے جلسے مورخہے نومبر ۱۴ نومبر اور دسمبر کو بھی منعقد کئے گئے.ان جلسوں میں معززین شہر اور اونچے تعلیم یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد حاضر ہوتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 25 366 سال 1969ء ریڈیو: ریڈیو ہالینڈ نے کئی بار مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل کے معلومات افروز انٹرویو بلکہ خطبہ جمعہ بھی نشر کیا.ریڈیو نے دعا کی اہمیت کے موضوع پر ایک پروگرام ترتیب دیا جس میں اسلام عورت اور عیسائیت کے چھ مختلف فرقوں کے نمائندوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقعہ دیا گیا.اسلام کی نمائندگی کی توفیق وسعادت مسجد احمد یہ ہالینڈ کے امام عبدالحکیم صاحب اکمل کو نصیب ہوئی.چنانچہ آپ نے دعا کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے مزین اپنا مضمون پڑھا.چنانچہ نصف گھنٹہ کا یہ پروگرام ملک بھر میں دلچسپی کے ساتھ سنا گیا.مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور سانحہ آتشزدگی (۲۱ / اگست ۱۹۶۹ء) کی خبر تمام عالم اسلام کے لئے نہایت جگر پاش خبر تھی جس سے سب مسلمان گہرے درد و کرب کا شکار ہو گئے.اس موقعہ پر صلاح الدین خان صاحب مربی سلسلہ کا ایک انٹرویو ریڈیو ہالینڈ پر نشر ہوا جس میں آپ نے اس اندوہناک واقعہ پر رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عالم اسلام کیلئے مسجد اقصیٰ کی اہمیت کو واضح کیا نیز دورانِ گفتگو اسلام میں جہاد کے صحیح مفہوم اور اس کی اقسام کے علاوہ لفظ اسلام کے معنی اور اسلام کے مقصد کو واضح طور پر بیان کیا گیا.ٹیلی ویژن :ہالینڈ ٹیلی ویژن نے ایک دلچسپ موضوع مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق ہمارا عقیدہ پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کو اظہارِ خیال کی دعوت دی.اس میں عیسائیت کے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے مقررین کے علاوہ ایک یہودی نمائندہ بھی تھا.اسلام کی طرف سے عبدالحکیم صاحب اکمل بطور نمائندہ اس موقعہ پر پیش ہوئے اور قرآن کریم سے استدلال کرتے ہوئے آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق اسلامی نظریہ مؤثر رنگ میں ٹیلی ویژن کی وساطت سے باشندگانِ ہالینڈ کے سامنے پیش کیا جس کی پسندیدگی سے لوگوں نے فون اور خطوط کے ذریعہ اظہار کیا.ڈچ ماہنامہ الاسلام کی اشاعت کے ذریعہ بھی تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا جاتا رہا.اس کے علاوہ ہفتہ وار مجالس کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا جس میں نماز با جماعت کے بعد درس قرآن کریم دیا جاتا رہا.یہ مجلس ہر ہفتہ کے روز ڈیڑھ بجے سے شام ساڑھے پانچ بجے تک منعقد ہوتی رہی.ایسی ہی ایک مجلس میں از راه کرم مکرم جناب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لائے اور حاضرین سے گفتگو فرمائی.135
تاریخ احمدیت.جلد 25 367 سال 1969ء یوگنڈا یشن جس کے مبلغ انچارج اُن دنوں صوفی محمد الحق صاحب تھے اشاعت دین کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذرائع بروئے کارلانے میں شب و روز کوشاں رہا نیز تالیف و تصانیف کی اشاعت میں بھی مثالی خدمات سرانجام دیں جس کا کسی قدر اندازه صوفی صاحب کی اس رپورٹ سے بخوبی ہوتا ہے جوان کے قلم سے الفضل ۳ ہم وے مارچ ۱۹۷۰ء میں چھپی اور صرف آٹھ ماہ کی سرگرمیوں پر مشتمل تھی.ان دنوں یوگنڈا کے پرائمری سکولوں میں ایک کتاب ورلڈ ہسٹری (World History) دیکھنے میں آئی.اس کتاب کے صفحہ ۸۴ پر لکھا تھا کہ قرآن کے اندروحی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال بھی درج ہیں.یہ کتاب ہنوز بطور نصاب مقررنہیں ہوئی تھی تاہم اندیشہ تھا کہ اسے داخل نصاب نہ کر لیا جائے.اس لئے صوفی محمد الحق صاحب نے وزیر تعلیم یوگنڈا کو اس گمراہ کن صورتحال سے آگاہ کرنے کے لئے ایک احتجاجی مراسلہ بھیجوایا اور اس کی نقول پریس، یوگنڈا پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران ، مفتی یوگنڈا، کتاب کے برطانوی ناشرین، امام مسجد فضل لندن اور انچارج مبلغین تنزانیہ و کینیا کوبھجوائیں.اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ لندن سے اس کتاب کے ناشرین نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ وہ اگلے ایڈیشن میں اس غلطی کا ازالہ کر دیں گے.چوہدری محمود احمد صاحب پرنسپل بشیر ہائی سکول کمپالا نے اپنی تعلیمی مصروفیتوں کے باوجود خاص طور پر دو نہایت اہم تبلیغی مواقع پیدا کئے.ایک یہ کہ کمپالا میں حکومت یوگنڈا کے زیر انتظام ایک ایجو کیشن اور لیبر سیمینار منعقد ہوا جس میں مختلف ملکوں کے وفود نے شرکت کی جس میں چوہدری صاحب نے سیمینار کے پاکستانی، اردنی اور مصری وفود کے ارکان کو مشن میں چائے پر بلایا جس میں صوفی محمد الحق صاحب ججہ سے کمپالا تشریف لائے اور سب کو جماعت احمدیہ کا سواحیلی ، لوگنڈی، انگریزی، عربی ،فرانسیسی اور اردو لٹریچر دکھایا جو نہایت قرینہ سے میزوں پر رکھا تھا.نیز جملہ ارکان کو جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت اور خدمات سے متعارف کرایا.سبھی نے جماعت کی دینی مساعی کی بہت تعریف کی اور ہر ایک نے کچھ نہ کچھ لٹریچر لیا.مصری وفد کے ایک رکن نے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی کتاب انگلش ٹریسٹڈ ٹو عربیک (English Traced to Arabic) مصر میں اس موضوع پر ریسرچ کرنے والے ایک پروفیسر کے لئے حاصل کی.دوسرا تبلیغی موقع بھی چوہدری محمود احمد صاحب کے ذریعہ کمپالا میں پیدا ہوا.اور وہ یہ کہ انہوں
تاریخ احمدیت.جلد 25 368 سال 1969ء نے ایک بین الاقوامی سوشل سیمینار کے ماریشین اور سوڈانی نمائندوں کو مشن میں مدعو کیا جنہیں حسب دستور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر اور بشیر ہائی سکول کمپالا دکھایا جس سے وہ بہت متاثر ہوئے.سوڈانی نمائندہ نے متعدد کتابیں لیں.صوفی محمد الحق صاحب نے اس موقع پر کتاب من الرحمن کا انگریزی ترجمہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کتاب کا مقصد عربی زبان کو ام الالسنہ ثابت کرنا ہے.اس پر اُس نے اسے بھی بہت شوق سے قبول کیا.یوگنڈ مشن کو پہلی بار جنجہ میں ایک سرکاری، زرعی اور تجارتی نمائش کے موقع پر ایک کامیاب سٹال لگانے کی سعادت نصیب ہوئی.اس سٹال کا انتظام صوفی صاحب نے محمد شفیق صاحب قیصر کو سپرد کیا جسے انہوں نے کمال فرض شناسی سے انجام دیا.سٹال کے لئے آیات قرآنیہ، کلمہ طیبہ اور دیگر کپڑے کے دیدہ زیب قطعات صوفی صاحب کی اہلیہ مبشرہ بیگم صاحبہ نے بڑی محنت سے تیار کئے.یہ نمائش تین دن جاری رہی اور اس دوران میں ہزار ہا عیسائی اور بعض سکھ اور ہندو بھی سٹال پر آئے.سات سوشلنگ کی کتب فروخت ہوئیں اور مشن کی طرف سے لو گنڈی زبان میں ہزار ہا اشتہارات تقد کئے گئے.سٹال میں ایک لاؤڈ سپیکر بھی نصب تھا جس پر بار بار اعلانوں کے علاوہ مقامی مبلغین احمدیت نے سواحیلی اور لوگنڈی زبان میں تقاریر فرما ئیں.سٹال کے بھاری سامان کو لے جانے اور واپس لانے کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتظام عبدالحئی صاحب بٹ نے نہایت اخلاص سے کیا.اس نمائش کے معاً بعد صوفی صاحب نے دیگر مبلغین اور احباب جماعت کے ساتھ غیر احمدی مسلمانوں کے جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شرکت فرمائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت میں ظاہر ہونے والے منجزات پر تقریر کی اور خوشخبری دی کہ احمد یہ مشن نے پہلی بارلوگنڈی زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ پر کتاب شائع کر دی ہے اور وہ اس جلسہ پر فروخت ہو رہی ہے.تقریر کے بعد آپ نے جلسہ کے خصوصی مہمان اور یوگنڈا مسلم کمیونٹی کے صدر کو اس کتاب کا ایک نسخہ بطور تحفہ پیش کیا.جلسہ پر زیر تربیت احمدی معلمین اور مقامی مبلغین نے ستر شلنگ کا لٹریچر فروخت کیا.اس سال یوگنڈا میں پوپ پال ششم کی آمد پر پیغام حق پہنچانے کا شرف صرف جماعت احمد یہ یوگنڈا کو حاصل ہوا.اس سلسلہ میں ڈاکٹر لال دین احمد صاحب، مولوی جلال الدین صاحب قمر اور ڈاکٹر مختار احمد صاحب پر مشتمل ایک جماعتی وفد کی طرف سے انہیں انگریزی ترجمہ قرآن مجید پیش کیا گیا جسے انہوں نے بڑے احترام سے قبول کیا.پوپ صاحب نے وفد کی موجودگی میں ایک تقریر
تاریخ احمدیت.جلد 25 369 سال 1969ء کی جس میں ان مسلمان شہداء کی طرف بھی اشارہ کیا جنہوں نے یوگنڈا میں مذہب کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور کہا کہ ان کے دل میں مذہب اسلام کی بہت عزت ہے.احمد یہ مشن ججہ کی طرف سے بھی انہیں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ایک نسخہ بذریعہ ڈاک بھجوایا گیا.پوپ صاحب کو ترجمہ قرآن کریم پیش کرنے کی خبر نیروبی کے اخبار ڈیلی نیشن اور دیگر سب ملی اخباروں میں فوٹو کے ساتھ شائع ہوئی.پاکستانی اخبارات نے بھی اس کی خبر دی چنانچہ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۶ ستمبر ۱۹۶۹ء میں یوں خبر آئی:." کراچی.مشرقی افریقہ کے حالیہ دورے کے دوران پوپ پال ششم کو قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا گیا.یہ تحفہ احمدیہ فرقے کے افریقہ میں مبلغ ڈاکٹر ایل.ڈی احمد نے فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد کی طرف سے پیش کیا ہے.پوپ نے قرآن مجید کے تحفہ کو عزت و تکریم سے قبول کرتے ہوئے اظہار تشکر کیا.اور اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ میری خواہش تھی کہ میں افریقہ بھر میں پھیلی ہوئی مسلمانوں کی اقلیت کو ہدیہ تبریک پیش کروں.انہوں نے کہا کہ میرے لئے یہ امر باعث صد مسرت ہے کہ مجھے مسلمانوں کے نمائندوں سے ملنے کا شرف حاصل ہوا ہے.پوپ نے کہا کہ آئیے ہم مل کر رب قدیر وجلیل کے سامنے دست دعا دراز کریں کہ وہ ہم میں عفو و صلح کا داعیہ پیدا کر دے جس کی قرآن اور بائبل میں بکثرت تعریف و توصیف کی گئی ہے.واضح رہے کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پوپ کو قرآن مجید کا تحفہ پیش کیا گیا ہے.“ صوفی صاحب نے عرصہ زیر رپورٹ میں کالجوں اور سیکنڈری سکولوں میں کامیاب لیکچر دئے جسے سامعین نے بہت پسند کیا چنانچہ Teso کالج (سروئی) میں آپ کا ایک لیکچر اسلام عہدِ حاضر میں (Islam in this Modern Age) کے موضوع پر ہوا.لیکچر کے وقت کمرہ طلباء سے بھرا ہوا تھا.لیکچر کے اختتام پر انگریز اسٹنٹ پرنسپل نے کہا "astule lecture It was a very" یعنی یہ ایک بہت فاضلانہ لیکچر تھا.لیکچر کی صدارت مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر نے کی اور اپنے صدارتی ریمارکس میں کہا کہ یہ لیکچر نہایت بلند پایہ ہے.لیکچر کے بعد صوفی صاحب نے اسلامی لٹریچر کا ایک سیٹ جو تقریباً چالیس کتب پر مشتمل تھا کالج کو بطور تحفہ پیش کیا.اس لیکچر کا انتظام محمد ابراہیم صاحب کھوکھر نے کیا.آپ کا ایک لیکچر گلو میں سرسیموئیل بیکر ہائی سکول کے وسیع ہال میں ہوا.آپ نے اسلام پر ایسے رنگ میں لیکچر دیا کہ مسلمان طلباء اپنے مذہب پر فخر کر سکیں نہ یہ کہ احساس کمتری کا
تاریخ احمدیت.جلد 25 370 سال 1969ء شکار ہوں.مسلمان طلباء نے اس لیکچر کو بہت پسند کیا اور دوبارہ لیکچر کی درخواست کی نیز بڑے ذوق شوق سے جماعتی لٹریچر لیا.ججہ کے سکھ اصحاب حضرت بابا نانک رحمۃ اللہ علیہ کی پانچ سوسالہ برسی منا رہے تھے.اس تقریب پر آپ نے ججہ کے گوردوارہ میں پر اثر لیکچر دیا جس سے سکھ دوست بہت محظوظ ہوئے اور دوبارہ لیکچر کی خواہش کا اظہار کیا.اسی تعلق میں آپ نے دوسرا لیکچر جہ سے آٹھ میل دور را ہوانی اسٹیٹ کے وسیع ہال میں دیا جس میں ہندو اور سکھ دونوں شامل تھے.دونوں لیکچروں میں آپ نے حضرت بابا صاحب کی توحید پرستی اور مسلمان بزرگوں سے قلبی تعلقات اور قریبی روابط کا تفصیلی ذکر کیا جس کو منتظمین جلسہ نے بہت سراہا.ایک سکھ دوست نے کہا کہ بلاشبہ جماعت احمد یہ اپنی رواداری اور تعلق کی بناء پر ہمارے زیادہ قریب ہے اور ہم اس تعلق کی بہت قدر کرتے ہیں.مؤخر الذکر لیکچر میں بھارت کے مشہور دانشور اور صحافی اور کثیر الاشاعت اخبار السٹریٹڈ ویکلی ( The Illustrated Weekly, Bombay) کے ایڈیٹر سردار خشونت سنگھ بھی شامل تھے جن کے اعزاز میں سکھوں نے بعد ازاں ججہ کے مشہور ہوٹل کر سٹڈ کرین میں ایک استقبالیہ دیا جس میں صوفی صاحب بھی مدعو تھے.مشن کی طرف سے عرصہ زیر رپورٹ میں حسب ذیل کتابیں شائع ہوئیں.۱.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بائبل میں.مؤلفہ صوفی محمد اسحاق صاحب ( سواحیلی ) تعداد پانچ ہزار..دعاؤں پر ایک کتاب - مؤلفہ صوفی محمد اسحاق صاحب ( سواحیلی ) تعداد پانچ ہزار..آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ مؤلفه حکیم فضل الرحمن صاحب سابق رئيس التبليغ مغربی افریقہ (لوگنڈی) یہ کتابیں ملک بھر میں بہت مقبول ہوئیں اور ان آٹھ ماہ میں یوگنڈا مشن نے دس ہزار شلنگ کا لٹریچر فروخت کیا جو گذشتہ پورے سال کی فروخت سے تین گنا تھا.باوجود یکہ یوگنڈا پریس کے قبضہ میں تھا احمد یہ مشن کا تذکرہ ملک کے وقیع اخبار یوگنڈا آرگس میں ہوتا رہا.اسلامی تہواروں پر اس اخبار نے صوفی صاحب کے متعدد مضامین سپر داشاعت کئے.اسپرانٹو زبان میں ترجمہ قرآن کی اشاعت کی خبر چھپی.ایک روز اس کے صفحہ اول پر لو گنڈی ترجمہ قرآن کے مترجمین مولانا جلال الدین صاحب قمر اور جناب ذکر یا کزیٹو کے فوٹو نمایاں طور پر شائع ہوئے اور اندرونی صفحہ پر ایک کالم میں جماعت احمدیہ کی دینی مساعی پر ایک نوٹ شائع ہوا.اسی طرح
تاریخ احمدیت.جلد 25 371 سال 1969ء جیسا کہ ذکر ہو چکا ملک کے متعدد اخبارات نے احمد یہ وفد کی طرف سے پوپ کو ترجمہ قرآن کریم پیش کرنے کی خبر فوٹو کے ساتھ دی.صوفی محمد اسحاق صاحب ۱۹۶۷ ء میں جب دوسری بار یوگنڈا تشریف لائے تو اس ملک میں صرف ایک احمد یہ سیکنڈری سکول تھا لیکن اس کے بعد تین اور پرائمری سکولوں کا اضافہ ہوا.یہ نئے سکول سیٹا ، بوسو اور پنجارے میں قائم ہوئے اور کامیابی سے چلنے لگے.سیٹا سکول کھولنے کے لئے ڈاکٹر لال دین احمد صاحب نے تقریباً بارہ سوشلنگ کا عطیہ دیا.بوسو سکول کے ساتھ چارا پکڑ کے قریب زمین بھی تھی جو احمدی دوستوں نے مشن کو ہبہ کر دی.سکول کے ساتھ جماعت نے ہمت کر کے اسی سال خدا کا ایک گھر بھی تعمیر کر لیا.اسی طرح اس علاقہ میں جماعت کا یہ تعلیمی مرکز مستقل بنیادوں پر قائم ہو گیا.چجارے سکول مولوی جلال الدین صاحب قمر نے قائم کیا تھا اس کی ابتداء دینی مدرسہ کے طور پر ہوئی لیکن بعد میں اُسے پرائمری سکول میں تبدیل کر دیا گیا تا مسلم طلباء دینی تعلیم کے ساتھ دنیوی تعلیم سے بھی بہرہ ور ہوسکیں.اس سکول نے اتنی تیزی سے ترقی کی کہ ۱۹۶۹ء میں اس کے لئے ایک نہایت ہی خوشنما اور صحت افزاء بلند جگہ پر چارا یکڑ کے قریب زمین خریدی گئی جس پر اسی سال نیم پختہ عمارت تعمیر کر کے سکول کو منتقل کر دیا گیا.ان تینوں سکولوں کی خصوصیت یہ تھی کہ ان کے ہیڈ ماسٹر احمدی اساتذہ تھے اور جماعت احمد یہ یوگنڈا کی دینی تربیتی کلاس کے تربیت یافتہ تھے.مسا کا کا ضلع یوگنڈا کے صدر مقام کمپالا کے جنوبی سمت میں واقع ہے.جماعت احمدیہ کا مشن مدت سے اس علاقہ میں تبلیغی خدمات بجالا رہا ہے.اپریل ۱۹۶۹ء میں مولوی محمد شفیق صاحب قیصر مرکز سے یہاں تشریف لائے اور مولوی جلال الدین صاحب قمر سے چارج لیا.آپ نے اس سال مختلف مذہبی شخصیات مثلاً شیخ محمود صاحب آف مسانو و، شیخ آف چیکونگو، شیخ العلماء، مفتی یوگنڈا اور دیگر بیسیوں مشائخ سے ملاقات کی اور پر حکمت انداز میں احمدیت کا تعارف کروایا.مفتی یوگنڈا نے دوران گفتگو فر مایا آپ مجاہدینِ اسلام ہیں اور ہر ملک میں آپ لوگ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اور افریقہ اور یورپ میں بھی آپ کی تبلیغی کوششوں سے لوگ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں آپ کی تبلیغی مساعی سے واقف ہوں اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور آپ کے شائع کردہ لٹریچر سے استفادہ کرتا ہوں.جناب قیصر صاحب نے یہاں پہنچتے ہی عیسائیت کے خلاف بھر پور علمی جہاد کا آغاز کر دیا چنانچہ
تاریخ احمدیت.جلد 25 372 سال 1969ء اولین مرحله پر تردید الوہیت مسیح کے موضوع پر ایک پمفلٹ خاصی تعداد میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں تقسیم کیا جس پر مسلمان نوجوانوں نے اظہار مسرت کیا اور انہیں مقامی چرچ میں جا کر وہاں کے انچارج سے گفتگو کرنے کو کہا.چنانچہ تردید الوہیت کے موضوع پر آپ سے دلچسپ تبادلہ خیالات ہوا.ایک عیسائی نوجوان مسایو نامی نے اسی موضوع پر گفتگو کے لئے وقت مقرر کیا چنانچہ حسب پروگرام آپ بعض افریقن احمدیوں کے ساتھ وہاں پہنچ گئے مگر مختصرسی ابتدائی گفتگو کر کے مزید بات چیت کرنے سے انہوں نے معذرت کر لی.ان دنوں مولوی جلال الدین صاحب قمر لو گنڈ ا ترجمہ قرآن پر نظر ثانی کا کام کر رہے تھے.جماعت کی خدمت قرآن کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ یوگنڈ ا زبان کے مشہور روزنامہ طائفہ امپیا (Taifa Empya) میں ایک شیخ عبد القادر بگو نے جماعت کی اس خدمت کو خوب سراہا اور لکھا.مسلمانوں کے دیگر فرقوں کے علاوہ احمد یہ جماعت کے لوگ بھی یوگنڈا میں رہتے ہیں احمدی لوگ حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں یہ احمدی جماعت ہی تھی جس نے سب سے پہلے اس ملک کی اہم زبان لو گنڈا میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کیا.اور نہ صرف لو گنڈا میں ہی بلکہ دنیا کی بہت سی زبانوں میں قرآن پاک کا ترجمہ شائع کر چکی ہے.اب یہ جماعت تقریباً دنیا کے ہر خطہ میں پھیل چکی ہے اور انہوں نے ہر جگہ اپنی مساجد بنائی ہیں“.کثیر الاشاعت انگریزی روز نامہ یوگنڈا آرگس نے اپنی اشاعت مورخہ ۳ ستمبر ۱۹۶۹ء میں مولوی جلال الدین صاحب قمر اور ذکر یا کزیٹو صاحب کا لوگنڈا ترجمہ قرآن کے متعلق با تصویر انٹرویو شائع کیا جس میں جماعت کی تراجم قرآن کے سلسلہ میں مساعی کا عمدہ رنگ میں ذکر کیا.138
تاریخ احمدیت.جلد 25 373 آمد روانگی ۲..۴.ا.۲..۴.._^ و.ا.مبلغین احمدیت کی آمد وروانگی مولوی محمد عیسی صاحب مبلغ (۲۱ / اپریل از مشرقی افریقہ ) سید کمال یوسف صاحب (۲۶ را گست از سکنڈے نیویا ) 0 مولوی عبد الکریم صاحب شرما (۱۵ ستمبر از مشرقی افریقہ ) مولوی نصیر احمد خان صاحب ( ۱۸ ستمبر از غانا و سیرالیون ) مولوی ناصر احمد صاحب (۳ نومبر از سیرالیون) مولوی بشیر احمد صاحب شمس (۴ دسمبر از جرمنی ) مولوی مبارک احمد صاحب ساقی (۱۵ دسمبر از لائبیریا ) مولوی داؤ د احمد حنیف صاحب (۲۱ دسمبر از گی 144 146 141 140 مولوی عبد الباسط صاحب شاہد (۲۳ جنوری برائے تنزانیہ ) مولوی عبد الحکیم صاحب جوزاء (۳ مارچ برائے نانا ) مولوی محمد شفیق صاحب قیصر (۶ مارچ برائے یوگنڈا ) 148 149 مولوی بشیر احمد خان صاحب رفیق ( ۱۰ مارچ برائے انگلستان ) مولوی سلطان احمد صاحب شاہد (۷ را پریل برائے نائیجیریا ) قریشی محمد اسلم صاحب (۲۸ مئی برائے ماریشس ) 152 میر مسعود احمد صاحب ایم اے (۱۲ جون برائے ڈنمارک) 150 151 مولوی محمد منور صاحب ( 4 جولائی انچارج احمد یہ مشن برائے تنزانیہ) قاضی نعیم الدین صاحب (۱۹ جولائی برائے جرمنی ) مرز امحمد ادریس صاحب (۲۲ جولائی برائے انڈونیشیا) 155 156 157 حافظ قدرت اللہ صاحب (۲۲ جولائی برائے انڈونیشیا) 154 سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 ۱۲.374 میجر راجہ عبدالحمید صاحب ( ۵ ستمبر برائے جاپان ) 158 ۱۳ سردار مقبول احمد صاحب ذبیح (۲۱ ستمبر برائے سیرالیون ) ۱۴.۱۵.سید منصور احمد صاحب بشیر (۲۱ ستمبر برائے سیرالیون ) 160 مولا نا محمد صادق صاحب سماٹری (۲۴ ستمبر برائے انڈونیشیا) چوہدری غلام یسین صاحب (۲۴ ستمبر برائے انڈو نیشیا) 162 ۱.امین اللہ خان صاحب سالک (۱۴ راکتو بر برائے لائبیریا ) مرز امحمد اقبال صاحب (۱۵ را کتوبر برائے گیمبیا ) وا.163 چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی (۱۶ را کتوبر برائے امریکہ ) چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ (۴ نومبر برائے انڈونیشیا) 166 165 سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 375 سال 1969ء نئی مطبوعات ۱۹۶۹ء میں درج ذیل کتب شائع ہوئیں.ا تفسیر سورۃ فاتحہ بیان فرمودہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام) ناشر ادارۃ المصنفین ربوہ.۲.کشمیر کی کہانی (چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان ) - High Court Practice And Procedure ( فیض محمد صادق صاحب ) ۴.گورونانک جی مہاراج کا فلسفہ تو حید (عباداللہ صاحب گیانی سکالر سکھ لٹریچر ) ۵- تاریخ احمدیت جلد دہم ( مولا نا دوست محمد شاہد صاحب) ناشر ادارۃ المصنفین ربوہ.(Farid, A.H.) Prayers of Muhammad- ے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا اجمالی تعارف ( حصہ دوم ) ( عبد الباری قیوم صاح شاہد ایم اے) ایاز محمود جلد چهارم ( عبدالباری قیوم صاحب شاہد ایم اے) (English Translation and Commentary) The Holy Quran-9 مرتبہ حضرت ملک غلام فرید ایم.اے) ۱۰.منکرین ہستی باری تعالیٰ کے شکوک کا ازالہ (مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا) 167 ۱۱.ہومیو پیتھک علاج ( ڈاکٹر فضل الرشید صاحب) ۱۲.1969 Souvenir ) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ) 168 ۱۳.حضرت حافظ روشن علی صاحب.سیرۃ وسوانح (سلطان احمد پیر کوئی صاحب) ۱۴.شان خاتم الانبیاء علیہ کے چند پہلو ۱۵.حج بیت اللہ مصنفہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۱۶ تفسیر القرآن انگریزی (خلاصه) 172 169 - The Wonderful Quran ( ترجمه قرآن مجید مترجم: پیر صلاح الدین
سال 1969ء تاریخ احمدیت.جلد 25 صاحب) 173 376 ۱۸.رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم ( مصنفہ حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ )
تاریخ احمدیت.جلد 25 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۶۹ء صفحه ا مصباح مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۵ الفضل ۱۳ جون ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ا الفضل ۸ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۶۹ صفحه ۲ الفضل ۱۰ راگست ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۶۹ء صفحها الفضل ۱/۸ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۶۹ ءصفحہ الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ الفضل ۷ جنوری ۱۹۷۰ ء صفحہ ا الفضل ۶ جون ۱۹۶۹ ، صفحه ا الفضل ۱۰ جون ۱۹۶۹ صفحه ۸ الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۶۹، صفحیم بدر یکم جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۹ الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ا الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۸ الفضل ۳۰ راگست ۱۹۶۹، صفحه ۸ الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۸ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۶ الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۶۹ ء صفحه ۷ 377 حوالہ جات ( صفحه 280 تا 376) سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 49 الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۶۹ ء صفحه ا الفضل ۲۸/اکتوبر ۱۹۶۹ صفحهیم الفضل ۴ نومبر ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل نے نومبر ۱۹۶۹ ء صفحہ ا الفضل ۲۳ جولائی ۴ نومبر ، ۱۹دسمبر ۱۹۶۹ء الفضل یکم فروری ۱۹۶۹، صفحه ۸ مصباح ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳۲ اخبار بدر قادیان ۳۰ جنوری ۱۹۶۹، صفحه ۱۲ اخبار بدر قادیان ۲۰ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۹ خالد اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۴۶ روزنامہ مشرق لاہور ۶ مارچ ۱۹۶۹ء صفحه ۵ کالما 378 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۸.الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ اخبار بدر قادیان ۲۷ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحه ۱۲ تفخیذ الاذہان ربوہ اپریل ۱۹۶۹، صفحه ۴۲ روزنامه امروز ۲۹ مارچ ۱۹۶۹ء اخبار بدر قادیان ۷ اسر اپریل ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ اخبار بدر قادیان ۸ مئی ۱۹۶۹ صفحه ا الفضل ۲۰ مئی ۱۹۶۹ ، صفحہ ۶ اخبار بدر قادیان ۱۹ جون ۱۹۶۹ صفحه ۱۱۱ اخبار بدر قادیان ۵ جون ۱۹۶۹ صفحه ۵ تنفر میر کا مکمل اردو تر جمه الفضل ۳۱ مئی ۱۹۶۹ء صفحها الفضل ۳ را گست ۱۹۶۹ ، صفحه ۵ الفضل ااجولائی ۱۹۶۹ء صفحه ۳ تا ۵ ہفت روز ہ بدر قادیان ۲۴ جولائی ۱۹۶۹ صفحه ۹ الفضل.استمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ 50 51 الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ اخبار بدر قادیان ۱۶ را کتوبر ۱۹۶۹، صفحه ۱۲ براہین احمدیہ حصہ سوم حاشیه صفحه ۲۴۱ اشاعت ۱۸۸۲ء مطبع سفیر ہند پریس امرتسر سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 اخبار بدر قادیان ۱۶ را کتوبر ۱۹۶۹ ، صفحه ۱، ۱۱،۲ اخبار بدر قادیان ۱۳ نومبر و ۱۴ نومبر ۱۹۶۹ء الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۶ الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ا 379 خطبات ناصر ( عیدین و نکاح ) جلد دهم صفحه ۴۲۳ ۴۲۴۰ الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۶ الفضل مئی ۱۹۶۹ ، صفحہ ۱.رسالہ تحریک جدیدر بوه جون ۱۹۶۹، صفحه ۲۰ تا ۲۲ الفضل ۲۷ جون ۱۹۶۹ء صفحه ۳ الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۹ ، صفحیم الفضل ۲۷ و ۲۸ جون ۱۹۶۹ء 62 63 64 65 66 67 68 69 70 لا لا له 71 72 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۶۹ ء صفحه ۳ و۴ 73 74 75 76 77 78 79 الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۴۳ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۷۰ صفحه ۴۳ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۷۰ صفحهیم الفضل ۶ ستمبر ۱۹۶۹ صفحه ۸ الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ۳ الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء صفحریم الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۹، صفحه ۳ تحریک جدید حصہ انگریزی مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۱۰ الفضل ۸ جولائی دا ارا کتوبر ۱۹۶۹، صفحہ ۳ رساله الفرقان مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ عنوان ” ساؤتھ آل لندن میں ایک تازہ مناظرہ الفضل ۱۶ / اگست ۱۹۶۹ صفحه ۳- رساله تحریک جدید انگریزی حصہ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۵ مسلم ہیرلڈ بابت ستمبر ۱۹۶۹ صفحه ۲۲ ۲۳۰ رسالہ انصار اللہ ربوہ اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۴۰،۳۹ الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۶۹ ء صفحهیم الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۹ صفحهیم سال 1969ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 80 81 82 83 84 85 86 87 الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۷۰ء صفحریم الفضل ۲۰ راپریل ۱۹۶۹، صفحه ۴۰۳ الفضل ۲۹ و ۳۱ مئی ۱۹۶۹ء رساله تحریک جدید تمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۲۲۹۲۱ رسالہ تحریک جدیدر بوه جون ۱۹۷۰ء صفحه ۱۷ تا ۱۹ الفضل ۲۱ / اکتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ تاریخ احمدیت جلد ۸ صفحه ۲۱۸ تا ۲۲۱ 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 380 سال 1969ء تبلیغی واقعات حصہ دوم صفحه ۵۶-۶۲ مؤلفہ میجر عبدالحمید صاحب ریٹائر ڈ مبلغ انگلستان، امریکہ و جایان، مطبوعہ ربوہ ۱۹۸۱ ء - الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۹، صفحه ۳ اطلاعات جرمنی بحوالہ ہفت روزہ لاہور ۹ فروری ۱۹۷۰ صفحه ۱۴ الفضل ۱۳ ۱۴ جون ۱۹۶۹ء الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۴۳ پاکستان ٹائمنر ۲۱ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ا الفضل ۱۲ جولائی و ۱۳ راگست و ۱۰ را کتوبر ۱۹۶۹ء الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۹ صفحه ۳ و ۴.رسالہ تحریک جدیدر بوہ جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۸ الفضل ۵ دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۸ الفضل ۱۴ تا ۱۸ر اپریل ۱۹۷۰ متن الفضل ۲۶ و ۲۷ ستمبر ۱۹۷۰ء الفضل ۲۰ راگست ۱۹۶۹ء صفحه ۹۹۸ رسالہ مسلم ہیرلڈ لندن نومبر ۱۹۶۹ء الفضل ۵ و ۶ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ بخاری کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب لاخيه ما يحب لنفسه 101 الفضل ۶ار اپریل ۱۹۶۹ء صفحہ ۳.اخبار بد ریکم مئی ۱۹۶۹ء صفحه ا 102 اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ضمیمه اخبار ریاض ،ہند، امرتسر مطبوعه یکم مارچ ۱۸۸۶ء صفحه ۱۴۸ 103 الفضل ۱۵ را پریل تا ۱۹ اپریل ۱۹۶۹ء.بدر قادیان دارالامان یکم مئی ۱۹۶۹ء صفحہ ۱۳۹۱ 104 105 الفضل ۱۸ تا ۲۱ جون ۱۹۶۹ء الفضل ۱۲ و ۱۳ راپریل ۱۹۶۹ء 106 بدر قادیان دار الامان یکم جنوری ۱۹۷۰ء
تاریخ احمدیت.جلد 25 381 سال 1969ء 107 108 109 110 الفضل ۱۸ جون و ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء ۱ اراپریل ۱۹۷۰ ، صفحہ ۷ الفضل ۲۰ جون ۱۹۶۹ء الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ 111 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳ و۴ الفضل ۵ را پریل۱۹۷۰ء صفحه ۳ 112 الفضل ۸ / اپریل ۱۹۷۰ء صفحریم 113 الفضل ۱۱ راپریل ۱۹۷۰ء صفحه ۳ 114 الفضل ۳۰٫۲۹ مارچ ۱۹۶۹ صفحه ۳ 115 رسالہ تحریک جدید جولائی ۱۹۶۹، صفحه ۲۰ 116 117 118 الفضل استمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۳و۴ رسالہ تحریک جدید حصہ انگریزی دسمبر ۱۹۶۹ صفحه ۵ ,The Gold Coast by Mr.Joe Price) June, 1966) انصار اللہ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۴۵ تا ۴۷.رسالہ تحریک جدید انگریزی حصہ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۵ 119 الفضل ۷ افروری ۱۹۷۰ء صفحه ۳ ، الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۹ء 120 الفضل ۳ را گست ۱۹۶۹ ، صفریم 121 الفضل ۲۷ و ۲۸ مئی ۱۹۶۹ ء در سالہ تحریک جدید مئی ۱۹۶۹، صفحه ۴ ۱و۱۵ 122 رساله تحریک جدید مئی ۱۹۶۹، صفحه ۱۴ و ۱۵ 123 رساله تحریک جدید دسمبر ۱۹۶۹، صفحه ۱۰ 124 الفضل ۳ مئی ۱۹۶۹ء صفریم 125 الفضل ۳ مئی ۱۹ راگست ۱۹۶۹ ء - در ساله تحریک جدید جولائی ۱۹۶۹، صفحہ ۲۰،۱۹ 126 الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۹، صفحہ ۳.رسالہ تحریک جدیدر بوه اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۲۱ 127 تحریک جدید دسمبر ۱۹۲۹، صفحه 1 128 الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۹ صفحه ا 129 الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۹ء صفحہ ۲.۹ ۱۱ 130 الفضل ۴ را اپریل ۲۳ جولائی ۱۹۶۹ ء - الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۷۰ء.بدره اسرا پریل وا۳ جولائی ۱۹۶۹ء 131 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۷۰ء صفحریم 132 الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۷۰ ، صفحہ ۷
تاریخ احمدیت.جلد 25 133 382 سال 1969ء الفضل ۲۹ جون - ۱۰۹ را کتوبر ۱۹۶۹ء - الفضل ۱۳ فروری ۱۹۷۰ ، صفحہ ۳-۴- کتاب " احمدیت کا فدائی، انسانیت کا خادم ڈاکٹر عمر الدین سد ھو ، صفحہ اے 134 الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۶۹ ، صفحہ ۴۰۳ 135 الفضل سے امئی ، ۲۹ جولائی ۴۰ ، ۵ نومبر ۱۹۶۹ء والفضل ۱۰ ۱۱ مارچ ۱۹۷۰ء 136 الفضل ۳ ۴۰ دے مارچ ۱۹۷۰ ء - الفرقان ربوہ تمبر ۱۹۶۹ ، صفحہ ۶.رسالہ تحریک جدیدر بوہ جنوری ۱۹۷۰ء صفحه ۴ ۷ و ۷۵ 137 روز نامہ طائفہ امپی جولائی ۱۹۶۹ء.( لو گنڈ از بان کا مشہور روزنامہ) 138 الفضل 9 اپریل ۱۹۷۰ ء صفحہ ۷ واا 139 الفضل ۲۲ / اپریل ۱۹۶۹ صفحه ا 140 رسالہ تحریک جدید ر بوه اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۷ 141 الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۲ 142 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۹ ء صفحها 143 الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۲ 144 الفضل 9 دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه 145 الفضل ۱۹ دسمبر ۱۹۶۹ء صفحہا 146 الفضل ۴ جنوری ۱۹۷۰ صفحه ا 147 رسالہ تحریک جدیدر بوہ اپریل ۱۹۶۹ء 148 رسالہ تحریک جدید اپریل ۱۹۶۹ء سر ورق نمبرا 149 رسالہ تحریک جدید اپریل ۱۹۶۹ء سر ورق نمبرا 150 رسالہ تحریک جدید مئی ۱۹۶۹ ء سر ورق صفحه یم 151 رساله تحریک جدید مئی ۱۹۶۹ء سر ورق نمبر ۴ 152 رسالہ تحریک جدید جولائی ۱۹۶۹ء صفریم 153 رسالہ تحریک جدید جولائی ۱۹۶۹، صفحریه 154 الفضل 8 جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۸ ۸ 155 رساله تحریک جدیدا کتوبر ۱۹۶۹، صفحه ۱۷ 156 رساله تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۷ 157 رسالہ تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۷ 158 رساله تحریک جدیدا اکتوبر ۱۹۶۹ ، صفحه ۱۷ 159 رساله تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۷
تاریخ احمدیت.جلد 25 160 رساله تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۹ صفحه ۱۷ 161 رسالہ تحریک جدیدا کتوبر ۱۹۶۹ء صفحه ۱۷ 162 رسالہ تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۹ ، صفحه ۱۷ 163 رسالہ تحریک جدید فروری ۱۹۷۰ء سر ورق نمبر ۳ 164 رسالہ تحریک جدید فروری ۱۹۷۰ ء سر ورق نمبر ۳ 165 رسالہ تحریک جدید فروری ۱۹۷۰ ء سر ورق نمبر ۴ 166 رسالہ تحریک جدید فروری ۱۹۷۰ء سر ورق نمبر ۳ 167 رسالہ الفرقان مئی ۱۹۶۹ ، صفحہ ۳۱ ۳۲ 383 168 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۶۹ء صفحها ( انگریزی حصہ ) 169 رسالہ تحریک جدید جون ۱۹۶۹ء صفحه ۱۶ 170 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۹ صفحریم 171 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۹ء صفحه ۴ 172 الفضل 19 دسمبر ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 173 الفضل ۲۹ / اگست ۱۹۶۹ ، صفحه ۵ 174 الفضل ۴ فروری ۱۹۶۹ء صفحریم سال 1969ء
اشاریہ مرتبہ مکرم فراست احمد راشد صاحب ،کرم و قاص عمر صاحب مکرم اولیس احمد نوید صاحب، مکرم بلال احمد قمر صاحب اسماء....مقامات کتابیات 3 25 35
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 آ.الف آر.جمعدار، مسٹر آصف.یوگوسلاویہ آفتاب احمد آفتاب احمد، مرزا آیت اللہ کا شانی 357 85 149 282 331 3 اشاریہ اسماء ابوحما در شید اسماء 18 احمد صادق، میر ابودے 341 احمد عکاشی ، الحاج ابو طالب عیدی ساندھی 316 احمد مختار، چوہدری اجمل ( برادر قاضی ظہور الدین اکمل ) 222 احمد ندیم قاسمی اچھر چند 196 احمد ید اللہ بھنوں، حاجی 170 240 76, 79, 107 119 353 احسان زمرانی 79 اختر احمد اور سینوی ، ڈاکٹر سید احسن رشید شامی، بریگیڈیئر 294 156, 171, 173 338 احمد المنصور ابراہیم علیہ السلام، حضرت 40 ابراہیم ما ابراہیم مینو ابراہیم، مسٹر 328 342 احمد (پولیس افسر.جا کرتہ ) اختر حسین ملک، جنرل 1834 ابوالعطاء جالندھری، مولانا احمد بخش ادیب الدین ، سید ,99,101 ,02 احمد تو فیق بنگالی ارشد حسین سید 115, 118, 164, 182, احمد جان ، چوہدری 64,242 اسحاق ما 308 106, 113-121, 294 79 78 286 230 327 285 اور لیس احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 ,209,227,240,243 | احمد حسن امروہی ، مولوی 259290,300 احمد حسین ، قاضی 204 287 اسد اللہ خان، چوہدری ابوالمنیر نورالحق ،مولوی احمد حسین سوکیہ 35356 اسد اللہ خان غالب 141, 147, 239 29 211 210 209 | احمد خان ابن چوہدری مهر خان ابوالوفا، مولوی (احمدی مبلغ )289 اسد علی، ڈاکٹر قاری میر 78 ابوبکر، حضرت احمد دھلان ، ڈاکٹر 209 286 ابوبکر خان 13717616 احمد دین خان، چوہدری 275 353 احمد شفیع ، قریشی ابن محمد شفیع قریشی اسلم جاوید اسرا خان اسلم بیگ ابوبکر ، مولوی 308 227 اسماعیل بن کرسہ 207 78 311 252
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 4 اشاریہ اسماء اسماعیل عبد الماجد، قریشی 227 الطاف حسین خان شاہجہانپوری امۃ الرشید اہلیہ غلام حیدر 226 اسماعیل محمد 164 اصغر علی ، میاں 291 الف خال سیاہی والے اطالو کیوسی ، پروفیسر ڈاکٹر ( محمد عبد اللہ رکھا منشی الہادی) 98 97 96 95 | المتوکل علی اللہ ثالث 190, 321, 324, 325 اطیع اللہ خان 262 امتة الرفيق امة الرؤف امة السمیع سمیر احمد 205 224 85 الہی بخش ، مولوی 2025 12 امام الدین، چوہدری 195 اظہر احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 امام الدین سمبڑیالوی ، ملک 224 امام بخش، شیخ اعجاز احمد، چوہدری 183, 310, 311, 313 7, 12 282 283 280 امتہ العزیز اہلیہ شمس الدین خان 241 امة القدير اہلیہ ظہور الحق 226 امة اللطیف خورشید 192,193 امتہ اللہ بیگم اہلیہ عنایت احمد 224 امة المالک ورده امام بی بی اہلیہ فضل دین 195 امجد علی شاہ، سید 280 227 242 ام طاہر، سیدہ ام متین ،سیده ( مریم صدیقہ ) 59, 101, 152, 176, 192, 193, 242, 256, امان خان ، ملک 252 243 اماں جان حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) اعظم علی ، چوہدری امام خان، سردار 286 174, 316 178 330 274, 283, 376 69, 194, 195, 199, 148 200 200 241 ام مظفر ( سرور سلطان ) ام ناصر امیر احمد ، سید 205, 254, 271, 301 252 افتخار احمد ایاز افتخار علی ، قریشی افضل اقبال، مسٹر افضل حسین اقبال احمد ، ڈاکٹر 280 282 امہ الاعلی نصرت امة الباسط شریف 251 209 اقبال بیگم اہلیہ ملک فضل احمد 215 امتہ الحفیظ اہلیہ ماسٹر خدا بخش 227 امیر الدین سید امة الحفیظ بیگم ، نواب 200 امیر الدین ، مرزا 251 5 امہ الحمید اہلیہ چوہدری احمد جان امیرالدین شملوی، بابو 242 امیر مینائی امتہ الحمید اہلیہ غلام حیدر 226 امین اللہ خان سالک الطاف حسین حالی 189 امتة الحئی منوره 280 346, 348, 374 286 12 239 256 12 اقبال بیگم.گوجرہ اقبال علی خان غنی ، ڈاکٹر اکبر علی ایڈووکیٹ ، پیر اکبر علی بٹالوی ، شیخ اکبر علی خان
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 5 اشاریہ اسماء امینوکانو ، الحاجی 362 ایڈون ایلڈرن Edwin امینہ بیگم Aldrin | 282 امینہ خاتون - شیخوپورہ 285 ایس ایم احسن، ایڈمرل 121 بابا ڈن یا یا ، الحاج با برظہیر احمد ، ملک اندر من مراد آبادی انرسن ، ریورنڈ (.Rev 8 111, 114 با جان.گیمبیا ایس ایم قریشی، ڈاکٹر (Einarsson 303 361, 362 انس احمد ، صاحبزادہ مرزا الیس.ڈی.خان، بریگیڈیئر بانجا نتیجان باور، سلطان بختاور سنگھ سانی، ڈاکٹر 103, 106 362 بدرالدین عامل، حکیم انس یوسف یسین 287 ایل ایل زامنهوف، ڈاکٹر 95 برکت علی خاں.برما 361 280 349 332, 336 139 32 288 265 انکرہ، جنرل 348 ایل ایم چاولہ ، ڈاکٹر 288 برکت علی خان قادیانی ، چوہدری ، بیجادھر، مسٹر است 353 ایلبرٹ اڈوما کو (Albert 275 انوار احمد ، سید (Adomoko | 5 انوار احمد ،منشی 12 ایلزی سٹرائف 340 328 بروئن، ڈاکٹر 365 انور احمد کاہلوں 111 ایم ایس مصطفی سنوسی برہان الحق شاہجہانپوری منشی 11 برہان محمد ابن چوہدری علی محمد 224 انوار محمد راٹھ انور حسن 297 334, 337 339 ایم اے عبداللہ 335 334 انور حسین اوورسیئر 218 | ایم اے محمد.کالی کٹ کیرالہ 285 اوتار سنگھ 354 ایم عبدالشکور چوہان اولا کروما، مسٹر (اولی کروما) ایمنہ بیگم اہلیہ قاضی محمد شریف 334, 337 اونکو اسماعیل، حاجی 260 | اے آر سلیم اونکو فاطمه 260 اے ایچ کانڈے، مسٹر 174 بر همانند جی 298 بشارت احمد ، چوہدری.کراچی 222 بشارت احمد ، ڈاکٹر ( غیر مبائع) 164, 166 بشارت احمد امروہی ، مولوی 259 282 206, 207, 357, 359 337 301 ایچ فریڈن، ڈاکٹر Dr.H اے رحیم ، ائیر وائس مارشل 114 303 انی معین.کالی کٹ کیرالہ 285 (Fridon بشارت احمد بشیر ، مولانا بشارت الرحمن ، پروفیسر 72
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 60 اشاریہ اسماء بشارت علی ، ڈاکٹر 7879 بشیر احمد شیدا 311 | بیگم بی بی اہلیہ چوہدری علی محمد بشری بیگم اہلیہ چوہدری بشارت احمد بشیر احمد فاضل 222 3, 171, 297, 298 بشری بیگم بنت مرز اسلام اللہ بشیر احمد کالا افغاناں ، مولوی 161 197 بشیر احمد ناصر ، ملک بشیر احمد ، خواجہ 311 | بشیر اصغر باجوہ بشیر احمد ، ڈاکٹر.مشرقی افریقہ بشیر افضل 285 بشیر الدین احمد 172 310 پرشاد سنگھ، سوامی پریتم سنگھ ، سردار پی ایم محمد 305 پیری گرین بینیکر جین 224 298 173 289 Sir Peregrine ) (Henniker-Heaton 311 233 بشیر احمد ، صاحبزادہ مرزا بشیر الدین اسامہ، ڈاکٹر 305 191960 بشیر الدین فخر احمد ، مرزا 280 بشیر احمد ، مولوی 293 بشیر الدین محمود احمد، مرزا ( حضرت 16 خلیفہ اسیح الثانی مصلح موعود ) بشیر احمد آرچرڈ 12, 13, 14, 34, 111, 163, 17, 308, 311, 314 ت،ٹ،ث تریپاٹھی ، پروفیسر ڈاکٹر 331 تقی.ایران 82 بشیر احمد اختر ، مولوی 2204748 ,202 ,167 ,164 تمیزہ خانم بنت حافظ عبدالسمیع خان بشیر احمد ایڈووکیٹ ، شیخ 221, 227, 258, 280 239 238 بشیر سوانزی 340 امروہی تنکور کاسی، الحاج بشیر احمد خادم، مولوی 298 بقاء اللہ ، چوہدری 273 تیج بہادر سپر و، ڈاکٹرسر بشیر احمد خان، ڈاکٹر 119 | بلقیس بیگم اہلیہ خان بہادر مولوی محمد 208 361 بشیر احمد در ولیش ، مرزا بشیر احمد رفیق 269 بلی گراہم، ڈاکٹر 222 326 تیسو چیانگ تیمور، امیر 238, 239 359 111 ,112309 1342 بولید بن طالب.سنگاپور 286 ٹور بن کیلٹ Torben) 310, 313, 314, 373 252 Kehlet) بشیر احمد شمس ، مولوی.جرمنی بہادر بیگ، مرزا 269 ثاقب زیروی 32673 بھگت رام 196 96 90, 107, 127
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 7 اشاریہ - اسماء ثریا بیگم اہلیہ ڈاکٹر محمد عمر 22 جو پرائس مسٹر ( Mr.Joe حسام الدین لکھنوی، مرزا 209 (Price 342 | حسن العطاء ،الحاج ج ، ج جارج ششم 18 جہانگیر، بادشاہ 292 206 | جہاں احمد ، برادر جان الیگزینڈر ڈوئی جعفر، ملک 120 جی ایم پٹیل 251 حسن یاد گیر، سیٹھ شیخ 78 حسین ، شاه 174, 182, 186 103 113 362 85 جعفر بن عبدالہادی 359 جے این رائے 356 حسین الثانی ، مسٹر جگت سنگھ، مسٹر 353 جے ڈی کھوسلہ، مسٹر جلال الدین، چوہدری.وہاڑی حسین ہوزک 239 238 237 | حشمت اللہ خاں، ڈاکٹر 195 | جیٹے عائشہ وش.ڈنمارک 312 216, 217 جلال الدین، حاجی 263 جیمز ڈی نسبت.James D) حشمت بی بی بنت چوہدری امام جلال الدین شمس، مولانا 315 Nesbitt 297 296 | الدین جلال الدین قمر ، مولوی چراغ محمد ، ماسٹر 230 | حضرت اللہ پاشا، سید 372 371 368370 چنگیز خاں 144 | حفیظ احمد ، چوہدری جمال احمد ، ابو احمد مرزا 259 | چنن سنگھ 94 حفیظ بیگم.کراچی 195 304 257 286 جمال احمد ، حافظ 49 حفیظہ بیگم اہلیہ چوہدری محمد یوسف جمال دین 224 حاکم بی بی بنت خیر الدین 195 جمشید احسن 202 حامدہ بیگم اہلیہ ملک محمد اکبر 215 حکم سنگھ ، سردار 215 94 جمیل اختر ملک 115 بیب الرحمن، ملک 245 حلیمہ بی بی اہلیہ ماسٹر محمد عیسی ظفر جمیل الرحمن رفيق 31548 حبیب اللہ ، مرزا جمیل محمد ابن چوہدری علی محمد 224 حبیب اللہ ایڈووکیٹ ، شیخ 263 جمیلہ بیگم اہلیہ یوسف بیگ 224 جواد علی ،سید حمید اختر ، میاں حبیب اللہ خان، پروفیسر 613 حمیدالدین ، ڈاکٹر 306 305 304 ,277 حبیبہ بیگم صاحبہ المیہ لطیف احمد حمید اللہ ، چوہدری جواہر سنگھ 270 208 149, 157, 299 197 حلیمہ زاہدہ 268 283 62 291
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 8 حمید خالد 184 خلیل محمود 282 دیانند ، سوامی حمید محمد الامین 360 نمبرگ مسٹر (Mr.Gimberg) ڈنکن سمتھ ، ڈاکٹر حمیدہ بیگم بنت خیرالدین 195 365 | ڈینیئل مورا یوسف حنیف احمد ابن منشی عبدالسمیع کپور تھلوی خورشید احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 ذاکر حسین ، ڈاکٹر 226 خورشید احمد گوجرہ 286 ذکر یا کزیٹو حیات بیگم اہلیہ محمد ابراہیم بقا پوری خورشید احمد پر بھا کر ، مولوی 15 ذوالفقار علی بھٹو، مسٹر 242 خورشید بیگم بنت مرزا اسلام اللہ حیدر خان ،مسٹر خ خاتون النساء حسین خادم حسین ، ماسٹر خالد اختر خالد مقصود احمد سید خالد ورک خدا بخش، ماسٹر اشاریہ.اسماء 34 281 359 287 370, 372 118, 185 201 286 199 299 298 197 | ذوالفقار علی گوہر خورشید عاقل ابن قاضی محمد ظہور الدین اکمل خیر الدین 202 194 را جندر سپیرو، جنرل راشد الخیری ، علامه خیر الدین درویش، ملک 257 رام چندر د، ڈ، ز رام گوپال گپتا 354 345 282 310 280 داؤ د احمد ، سید میر 1,213 رحمت بی بی اہلیہ محمد نور الہی جنجوعہ 62 202 106, 145, 182, 350 227 داؤ د احمد حنیف ، مولوی خدیجہ بیگم بنت حافظ عبدالسمیع خان رحمت علی ، چوہدری.گوکھو وال ضلع 349, 350, 373 امروہی خسرو پرویز خشونت سنگھ ،سردار خصیلت علی شاہ ،سید خلیل احمد ناصر ، ڈاکٹر 208 177 370 227 305 داؤد گلزار، چوہدری 195 رحمت علی ، مولانا در نشین بنت ملک فاروق احمد کھوکھر رحیم بخش (خادم) 286 242 272 280 رحیم بخش، حاجی.لمباسہ 346 دوری ، الحاج 337 رحیم بخش ، میاں 234 دوست محمد ، میاں 197 رحیم بخش زیروی ، صوبیدار 282 خلیل الرحمان فردوسی 339 دوست محمد شاہد، مولانا خلیل حسن ، شیخ 40, 287, 300, 375 114 رشدی ، سیدہ املیه سیدار شد حسین 230
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 رشید احمد ارشد، پیرزاده رشید احمد سرور، مولوی 9 222 4 اشاریہ اسماء ز سعد یہ اہلیہ حاجی اونکو اسماعیل 260 زہرہ فاطمہ سعود احمد دہلوی 286 رشیدالدین قمر ، خواجہ 13 310 زیب النساء بنت سردار امام خان سعی محمد ، ملک 341 215 رشید جاوید 311 سعید احمد ، ڈاکٹر 350 349 رشیدہ بیگم اہلیہ عبد الکریم 195 زیڈا والیاس، مسٹر رشیده حسین 256 زینب بی بی.نارووال 252 361 285 سعید اختر ملک، کیسیٹین سعیدہ اختر ، ڈاکٹر 115, 120 283 رضیہ بیگم اہلیہ جمال دین 224 رضیہ بیگم اہلیہ حکیم ریاض احمد 215 رفیع احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 رفیعہ بیگم اہلیہ مرزا سلام اللہ 196 رفیق احمد ثاقب، پروفیسر 299 170 266, 267, 268 215 4 13, 163 ساره بیگم بنت با بوعبدالحمید 222 ستنام سنگھ باجوہ ،سردار 173, 283, 286, 295 ستیش ، ڈاکٹر سخاوت علی ، شیخ سراج الحق ، مولوی ( درویش) سراج الحق نعمانی، پیر 290 12 210, 211 سعیدہ بیگم اہلیہ جنرل اختر حسین ملک سعیدہ بیگم بنت مرز اسلام اللہ سفیرالدین ، ڈاکٹر سکھ آئند، دیوان سکینۃ النساء، استانی 113 197 341 238 198 سیکینہ بیگم اہلیہ صوفی محمد یعقوب قندھاری سکینہ بیگم بنت حافظ عبد السميع خان 218 رفیق احمد چنن رقیہ بیگم اہلیہ چوہدری محمد یوسف روشن بی بی 203, 205 روشن دین، مولوی سراج الدین خانپوری ، مولوی 13 روشن علی ، حافظ امروہی ریاست احمد ابن حافظ عبدالسمیع خان سراج الدین کا نپوری منشی 10 سلام اللہ ، مرزا سردار بی بی.شیخوپورہ 285 امروہی ریاض احمد ، چوہدری ریاض احمد ، حکیم ریحانہ سعید ریشماں 207 284 215 282 186 سلطان احمد ، سردار سردار بی بی اہلیہ قریشی محمد شفیع سلطان احمد پیر کوئی 208 196 270 375 سردار حسین شاہ، سید سرسیوسا گر رام غلام 226 252 356 سلطان احمد شاہد 360, 361, 373 سلطان احمد مجاہد، ڈاکٹر 259
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 10 اشاریہ اسماء سلطان بی بی 194 | سر بندرت باجپٹی 298 شریف احمد امینی سلطان محمد ابن چوہدری علی محمد سوشوں ،مسٹر 224 | سومراج 355 3, 170, 171, 172 196 شریف احمد فاضل ، مولانا سلطان محمود انور ، مولوی 182 سیا کا سٹیونز ، ڈاکٹر ) 182 سیا کا سٹیونز، ڈاکٹر ).Dr شفیق احمد ، حافظ سلمہ اختر بنت جنرل اختر حسین ملک (Siaka Stevens 37 شکر الہی ، چوہدری 115 سید احمد (بھائی حضرت حافظ سید شکر الہی حسین سلمی.برطانیہ 312 مختار احمد شاہجہانپوری) 5 شمس الحق یاد علی سلمی، سیدہ اہلیہ سید محمود احمد 230 سید احمد.سنگاپور 286 شمس الدین خان سلمی بیگم اہلیہ چوہدری شبیر احمد سید احمد شہید سلیم ،مسٹر 3 240 306 305 353 241 138 شمیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 222 سیف الاسلام محمود ایرکسن شمیم اختر 239 شناسی سبر، پروفیسر سلیم اختر ملک کیپٹن 115 سیف الرحمن، صاحبزاده 273 شوکت علی ، مولانا 282 83 201 سلیمان اعظم قانونی، سلطان 85 سیف الرحمن، ملک 59 شہاب الدین ، چوہدری.شیخوپورہ سلیمان میسووک 85,86 ش 285 سلیم اول ، سلطان 85 | شاہ محمد شہزادہ پرویز سلیم شاہجہانپوری ،ابوالعارف شاہدہ نجمہ 7 282 شیر احمد، میجر ملک 103 280 216 شیر علی ،مولوی 10 شبیر احمد، چوہدری 222 218 سلیم محمد ابن چوہدری علی محمد 224 شرافت احمد ابن حافظ عبدالسمیع خان شیر محمد، بھائی.آسٹریلیا 270 سلیمہ بیگم بنت مرز ا سلام اللہ 197 | امروہی سن کرن نرائن 288 | شرافت اللہ خان 207 شیر محمد قریشی ، بھائی 12 سن میونگ مون ، ریورنڈ شریف احمد ،صاحبزادہ مرزا صابری، حاجی Reverend) (Sunmyung Moon 197 318 226381 صادقہ بیگم اہلیہ ملک علی محمد 215 شریف احمد ابن منشی عبدالسمیع صادقہ بیگم بنت چوہدری محمد یوسف 318 کپورتھلوی 226 301
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 11 صائمہ بنت نواب زاده مصطفی احمد طفیل محمد ، صو بیدار خان صبیحہ فرزانه کشی 280 | طیبہ.ڈنمارک 282 صدرالدین، مولوی ابن خیر الدین ظفر اللہ الیاس ظ صفی الرحمن خورشید صفیہ سلطانہ صلاح الدین، پیر صلاح الدین، ملک 195 184 201 375 اشاریہ اسماء 230 312 ع عباداللہ گیانی عباس بن عبدالہادی 375 359 عبدالباری ، چوہدری ابن بابوعبدالحمید 174, 182, 186 ظفر اللہ خاں ابن صوفی محمد یعقوب عبدالباری قیوم شاہد قندھاری 218 | عبد الباسط ، سید 221 375 18 ظفر چوہدری ، ایئر کموڈور 294 عبد الباسط ، مولوی 31673 3, 171, 225, 275, 277 366 صلاح الدین خان ض ضیاءالحق.لاہور 23 ظفر حسین 77 عبد الجبار ظفر علی، راجہ 114 عبد الجلیل عشرت ظفر علی خان، مولانا 18 عبدالجمیل شاہجہانپوری ظہور احمد ، چوہدری.قائد مال عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا 78 250 15 64, 101, 182, 239, 108 301,375 ضیاء اللہ.چک ۸۸ ضلع لائلپور ظہور احمد، چوہدری ( ناظر دیوان) 286 ضیاء اللہ مبشر 188 b طاہر احمد ، صاحبزادہ مرزا (حضرت خليفة امسیح الرابع ) 104,195,242,375 عبدالحق خوشنویس منشی ظہور احمد باجوہ ، چوہدری ,111 ,108 ,10316 - عبد الحق فضل مولوی 140, 300 209, 210 3, 156, 157, 171 22,28 ظہور احمد شاہ سید 345 344 عبدالحکیم، چوہدری ابن ماسٹر چراغ 13 12149 ظہور الحسن ، مولوی 119 | محمد 1571224 ظہور الحق (داماد منشی عبدالسمیع عبدالحلیم المل منصور طاہر 243 | کپورتھلوی) طفیل احمد ڈار ، ڈاکٹر 316 ظہور علی بیگ مرزا | 232 363, 364, 365, 366 226 373 12 عبدالحکیم جوزا ، مولوی
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 12 اشاریہ اسماء عبدالعلیم ابن منشی عبدالسمیع کپور تھلوی عبدالرحمن ، مولانا 334170 عبدالرشید ابن ڈاکٹر عبد المغنی 173, 283, 287, 296 226 282 عبدالحلیم طیب، چوہدری ابن ماسٹر عبدالرحمن ( والد حاجی اونکو ) 260 عبدالرشید، چوہدری ابن ماسٹر چراغ چراغ محمد عبدالحمید، بابو 232 عبدالرحمن اختر - شیخوپوره 285 محمد 218, 219, 220 عبدالرحمن انور ،مولوی عبدالرشید بدر 232 161 22583 عبد الرشید رازی، مولوی 316 عبدالحمید، چوہدری ( آفیسر محکمہ انکم عبد الرحمن جنید ہاشمی ابن قاضی محمد عبد السلام، پروفیسر ڈاکٹر ٹیکس) عبد الحمید ، میجر 232 ظہور الدین اکمل 50, 51, 148, 169, 202 ,244 | عبدالرحمان خان ابن چوہدری مهر 248 247 246 245 317, 318, 374, 380 عبد الحمید اعوان، حکیم 302 عبدالرحمن خان بنگالی، چوہدری عبدالحمید خان لیفٹنٹ جنرل عبد الحمید عاجز ، شیخ عبد الحئی ، میاں عبدالحی بٹ.یوگنڈا 114 عبد الرحمن صابر 209 306, 374 282 296 عبد الرحمن قادیانی، بھائی 276 308 286, 368 عبد الرحمن مبشر ، مولوی عبدالرحیم ، چوہدری.لاہور 278 249, 250 88 204 عبد السلام ، کیپٹن عبدالسلام حکیم عبدالسلام رئیس ، حکیم 204 عبد السلام میڈسن 56327 عبدالسمیع.لائلپور عبد السميع انور عبدالسمیع خان امروہی ، حافظ 286 184 عبد الخالق، مولوی چوہدری 4 عبدالرحمن ، بھائی.نیروبی 197 عبدالرحمان، چوہدری.کریام 234 17 عبد الرحمن.لاہور عبد الرحمن، ماسٹر (مہر سنگھ )283 عبدالرحمان منشی 225 252, 253 190 عبد الرحیم بیگ، مرزا عبدالرحیم خان ابن چوہدری مہر خان 209 عبد الرحیم شبلی ابن قاضی محمد ظہور الدین اکمل 202 عبدالرحیم فانی درویش 207 202, 203, 275 عبدالسمیع کپور تھلوی منشی عبد الشکور اسلم عبد الصمد 225, 275 178 346 عبدالعزیز ، چوہدری (سابق مہتمم مقامی) 232
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 13 عبد العزیز اوجلوی ، منشی 242 عبد القادر ، میجر جنرل 294 | عبد اللطیف ، آغا عبد العزیز خان 12 عبدالقادر بگو، شیخ 372 عبداللطیف، چوہدری اشاریہ - اسماء 149 320 3,94, 161, 171, 288, 290 209 عبد العزیز دین 311 | عبدالقادر خان ابن چوہدری مہر عبداللطیف، گیانی عبدالعزیز سیالکوٹی، حافظ 218 خان آف کریام عبدالعزیز مغل، میاں 253,254 عبد القادر دانش دہلوی، الحاج مولوی عبداللطیف ابن منشی عبدالسمیع 161 | کپورتھلوی 226 عبد العظیم درویش ، میاں 187 عبدالقادر محقق، شیخ 13 عبد اللطیف شہید، صاحبزادہ 273 عبد العلی ملک 94 289 188,276 عبد القدیر ، چوہدری عبد اللہ.ولا بینم عبدالقدیر نیاز ، صوفی 317 عبداللہ ابن فضل دین 195, 115, 117, 119, 120 عبد القیوم ، خواجہ 26 عبداللہ ابن منشی عبدالسمیع کپور تھلوی عبدالغفور، چوہدری.مراڑہ سیالکوٹ عبدالکریم ، چوہدری ابن ماسٹر چراغ 115 محمد 232 عبد الغفور، حافظ مولوی عبدالکریم، چوہدری (رئیس میریاں) 78, 317 عبدالغفور، مولوی.بریلی 14 عبد الغفور ، مولوی حافظ 78, 317 عبد الکریم ، حاجی 263 86 عبد الکریم ( داماد فضل دین ) 195 عبدالکریم ، ڈاکٹر.ملتان 261 عبد الکریم ، مولوی لندن 174 عبد الکریم خان، میجر بہادر 8 عبد الغنی ، مستری ابن خیر الدین 195 عبد الکریم زاہد عبدالکریم زبیر 226 عبداللہ خان ابن چوہدری مہر خان 209 عبدالله سالم سیف 317 316 عبداللہ سنوری ، مولوی 73, 266, 267, 268 عبدالمالک، چوہدری تحصیلدار عبدالمالک ، ملک عبدالمالک خان ، مولوی 263 281 عبد الغنی رشدی، میاں 62 عبد القادر، شیخ ( سوداگرمل) 18, 19, 106, 276 282 334 عبدالکریم سیالکوٹی ،مولوی 212 79, 182 عبد الکریم شرما 17411 عبدالمجید، چوہدری ابن بابوعبدالحمید 221 243 346, 347, 348, 373 عبد القادر.ڈیٹن
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 14 اشاریہ اسماء عبدالمجید، چوہدری ابن ماسٹر چراغ عبید اللہ بسمل ، مولوی 196 عطاء اللہ ایڈووکیٹ ، میاں 232 عبید اللہ منہاس، چوہدری 234 عبدالمجید ، ملک 115 عثمان ، حضرت عبد المجید خان، پروفیسر 295 عثمان ڈان فوڈیو ( عثمان فودیو ) 234, 237, 239 229, 237, 238 316 عطاء اللہ شاہ بخاری عبد المجید طاہر 184 140 139 ,368 عطاء اللہ کلیم ، مولوی عبد المغنی ، ڈاکٹر 282 عثمانی گوگوریا 347, 348 عبدالمناف فقیر،مسٹر 354 عبدالمنان ابن محمد یسین 346 عبد المنان خان، ڈاکٹر 281 340, 341, 342 301 311 عزیز احمد ، ڈاکٹر.ایڈنبر اسکاٹ لینڈ عطاء المجیب راشد 286 | عقیل اظہر عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا 350 علی ، حضرت 316 عبدالمنان شاہد، مولوی عزیز احمد، میجر 1923 علی احسن، ڈاکٹر سید ابن سید امجد علی 194, 195, 261 عبد المنان مبشر ابن قاضی محمد ظہور الدین اکمل 202 عبدالنور، چوہدری ابن بابوعبدالحمید 222 عزیز فاطمہ اہلیہ منشی عبدالسمیع شاہ کپورتھلوی 226 | علی ارشد 230 339, 342 عزیز ہمدانی 120 علی اسلم ، ڈاکٹر ابن سید امجد علی شاہ عزیزہ بیگم.حیدر آباد 285 230 عزیزہ بیگم اہلیہ غلام مصطفی 224 علی اعظم ، سیدا بن سید امجد علی شاہ عبدالواحد ودیارتھی ، چوہدری عبدالوحید، چوہدری 24, 272 232 عصمت اللہ راشدہ اہلیہ عبید الرحمان 218 | علی با عبدالوحید بیگ، مرزا 286 عطاء الحق، حافظ ابن منشی عبدالحق علی جان، میاں 211 علی محمد، چوہدری 230 349 7 164 عبد الوحید خان، ملک 280 خوشنویس عبدالوہاب ، مولوی 341 عطاء الرحمن ، حکیم 255 | علی محمد، چوہدری (امیر حلقہ ریتی عبد الہادی فلسطینی 79 عطاء الرحیم حامد 335 | چھلہ قادیان) عبید الرحمان.لاہور 218 عطاء اللہ ، چوہدری 267 علی محمد ، ملک عبید الرحمن بھیاں 79 عطاء اللہ ، مرزا ابن مرزا سلام اللہ علی میاں سید عبید اللہ بٹالوی ،ڈاکٹر 233 197 223 215 4, 5, 6, 8, 12
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 عمر، حضرت عمر الدین،مرزا.نارووال 285 15 غلام احمد ، قریشی ابن قریشی محمد شفیع غلام حسن نیازی 226 | غلام حسین، قریشی عمر الدین سدھو ، ڈاکٹر غلام احمد ، مرزا قادیانی ( حضرت غلام حسین ، ملک مسیح موعود علیہ السلام 11 غلام حسین ایاز ، مولوی عمر باش تقی عمر بن عبد العزيز عمر دین ،میاں عمر علی، ملک 362, 382 11, 18, 19, 21, 23, 30, 33, 34, 35, 41, 334 300 47, 56, 57, 67, 69, 227 71, 74, 75, 86, 96, غلام حیدر.کراچی غلام دین، چوہدری غلام ربانی، چوہدری اشاریہ.اسماء 163 242 225 49 226 223 172 250 284 عنایت اللہ عنایت اللہ ، چوہدری عنایت احمد 144,261 138,142 106 غلام ربانی ، ملک 224 | 164,167 ,151 ,145 غلام رسول، چوہدری ' 235175, 224 203 199 198 ,175 غلام رسول راجیکی ،مولوی 235 ,20821223230 غلام رسول وزیر آبادی، حافظ 235 غلام احمد، مسٹر 298, 329, 352, 375 315,316 327 غلام علی، حافظ عنایت اللہ ، مرزا ابن مرزا سلام اللہ غلام غوث ، ڈاکٹر غلام احمد بد و ماهوی ، مولوی عنایت اللہ سیالکوٹی عیسی ، ڈاکٹر عیسی علیہ السلام، حضرت 197 234 318 غلام فرید ملک 16, 163 غلام محمد صوفی غلام احمد چغتائی 309311 غلام محمد ، منشی 270 17 375 41,170 262 غلام احمد خان، حاجی 208 9, 35, 171, 296, 301, 319, 321, 345, 346, 358, 366 غ غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا غلام احمد نسیم، میر 351,352 غلام اللہ ، مرزا غلام اللہ خان، ڈاکٹر غلام امام ، مولوی 196 281 غلام باری سیف ، مولوی 182 7 غلام بلورے شاہ، میاں 215 غلام محی الدین خان، مولوی 26 غلام محی الدین قصوری، مولوی غلام مصطفی غلام نبی شاہد ، ملک 242 224 342 غلام نبی فاضل، مولوی 298 194 غلام حسن پشاوری ،مولانا 165 غلام یین ، چوہدری 374
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 فارقلیط احمد ف 282 16 فرید احمد ، صاحبزادہ مرزا 106 فیض محمد صادق اشاریہ - اسماء فرید احمد ابن لئیق احمد کھوکھر 313 فیض محمد قصاب ابن فضل دین فاروق احمد کھوکھر، ملک 280 فریدہ خانم 375 195 فاریمان سنگھائے ، الحاج 348 فضل احمد ، حافظ فضل احمد ، ملک فاضل ابن محمد اسحاق جان خان فضل احمد بٹالوی ، شیخ 346 186 5 215 256 ق قاسم علی معمار قدرت اللہ ، حافظ.انڈونیشیا 7 فاطمہ بنت میوزی.سنگا پور 286 فضل احمد درویش ، بابا 268 3, 4, 373 فاطمہ بی بی اہلیہ چوہدری علی محمد فضل الدین ، مولوی.سیالکوٹ قدرت اللہ شاہجہانپوری 224 258,259 قدرت خان معمار فاطمہ بیگم اہلیہ حکیم یوسف علی خان فضل الدین پلیڈر مولوی قدرت علی ، شیخ فائے ، ڈاکٹر 242 322, 323, 325 فضل الرحمان، حکیم فضل الرشید، ڈاکٹر 16, 7 12 12 139 قدسیہ بیگم اہلیہ عنایت احمد 224 370 قدیر الدین احمد ، جسٹس 75,76 375 میں مینائی نجیب آبادی 240 فتح اللہ خاں ابن صوفی محمد یعقوب | فضل الہی انوری، مولوی 190 ک قندھاری 359, 360, 361, 362 218 کا کو ، مائی فتح سنگھ 94 فضل حسین ، حاجی فخر الدین ابن خیر الدین 195 فضل حق ، سردار 7 225 کبیر الدین احمد، مرزا 271 13 فخر الدین ، بابو فضل حق ، قریشی 87,282 کرشن علیہ السلام، حضرت 21363 212 فضل حق بٹالوی ، حکیم شیخ 250 299, 356 فداحسن ، سید 90 فضل کریم ،سید کرم الہی ظفر ، مولوی فرحت احمد فکری فرحت اللہ صادقہ اہلیہ محمد احمد خاں فہیم اللہ ، بابو 218 | فیروزه فائزه 282 فرزند علی ، شیخ 7 فیصل ، شاه 233 79 256 201 113, 124 325, 326 کرم دین بھیں ،مولوی کرم علی خان 203, 212, 12
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 کفایت اللہ ، مفتی 6 لال خاں 17 26 | مبارک احمد ساقی اشاریہ.اسماء 373 کلاڈٹ ارل ( Claudette لال دین احمد ، ڈاکٹر مبارک احمد - چک ۸۸ ضلع لانکیپور (Earle کمال فولمر 352 260 | لطف الرحمن 368, 371 282 مبارک احمد.لائلپور 286 286 کمال یوسف ، سید 32 لطف الرحمان، مرزا 342 مبارک احمد نذیر 101336 303,326,327,373 | لطیف احمد داماد حافظ عبد السميع مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا 46 کملا کانت ترپاٹھی 298 | خان امروہی ) کولڈ سٹریم ،جسٹس 48, 62, 81, 96, 106, 208 لطیف احمد قریشی ، ڈاکٹر 281 186,350 ,125 107 239 238 237 | لطیف اختر ملک 115 مبارک احمد ، صاحبزادہ مرزا (ابن کینتھ ریوز ( Mr.Kenneth لقمان محمد ابن چوہدری علی محمد 224 | حضرت مسیح موعود علیہ السلام) 7 311 لکشمی نرائن آنند ، پروفیسر 298 | مبارک احمد، مولانا شیخ (Reeves کے احمد کنجی.کالی کٹ کیرالہ 285 لئیق احمد ابن شریف احمد 226 62, 73, 182, 197 مبارک احمد ، میاں.لائکپور 285 کے پی اسؤ.کالی کٹ کیرالہ 285 لئیق احمد طاہر گ لئیق احمد کھوکھر گوبند جی ، گورو گورا دست، مسٹر گور بچن سنگھ ،سردار 293 355 126 ماجد باسط مادھو گویال، مسٹر گورنام سنگھ ، سردار 308, 311 313 مبارک احمد.عراق مبارک علی ، چوہدری مبارک علی فاضل، چوہدری 83, 84, 86 355 مبارک علی ، مولوی 285 171 3, 103 264 گیان سنگھ ،سردار گیان سنگھ مسکین ، ڈاکٹر 292 94, 157, 286 Cabon 94 (O.B.E 132, 133 مارگولیتھ مامون احمد ، شیخ مارسل کیبن او.بی.ای(.مبارک مصلح الدین ، چوہدری Marcel 354 مبارکه بیگم، سیده نواب 45, 184 68, 199 62 مبشر احمد ، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا لال جی، مسٹر 298 مانا پا کا ، الحاجی 337 280
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 18 مبشر احمد ، ملک ابن ملک نبی محمد محمد احمد مظہر ، شیخ 16 محمد اشرف سید 215 59171188,367 محمد اعظم ، ملک مبشرہ بیگم اہلیہ صوفی محمد الحق 368 محمد ادریس ، مرزا.انڈونیشیا 373 محمد اعظم مولوی میوزی.سنگا پور 286 | محمد الحق ، صوفی.یوگنڈا محمد افضل مجیب احمد، صاحبزادہ مرزا 371280 36738370 محمد افضل صابر مجیدہ بیگم بنت مرزا اسلام اللہ 197 محمد اسحاق ، میر محمد اقبال، قریشی 163, 228, محبوب الہی قریشی ابن محمد شفیع قریشی 270 29 1328 محمد اقبال ، مرزا.گیمبیا اشاریہ.اسماء 252 80 255 184 82, 83 محمد اسحاق ابن منشی عبدالحق خوشنویس محمد اکبر، ملک محبوب صادق بھٹی محمد ، مولوی خان بہادر محمد ، لیفٹیننٹ کرنل محمد آرتھر 227 347 222 محمد اسحاق جان خان محمد اسحاق خلیل ، حافظ 211 346 61 محمد اکرم چوہدری محمد الدین ، چوہدری 308 محمد اسد اللہ کاشمیری، قریشی 340 محمد ابراہیم بقاپوری ، مولانا 242 محمد اسلم محمد الدین ، مولوی محمد الیاس ،سیٹھ محمد ابراہیم کھوکھر 369 محمد اسلم ، مسٹر 61, 73 184 116, 118 محمد امین خان، خان محمد امین شاہجہانپوری 285 374 215 284 255 242 103 4 10 27, 202, 203 252 162, 164, 246,248,250 محمد اجمل شاہد، مولوی 75 محمد اسلم ، قاضی محمد احسن امروہی ، مولوی محمد اسلم قریشی.ماریشس محمد احسن خان محمد احمد ، ڈاکٹر ابن ڈاکٹر حشمت اللہ 217 خاں محمد احمد ، ملک ابن ملک نبی محمد 215 محمد احمد خاں.ملتان محمد احمد ظفر 218 268 محمد اسماعیل پانی پتی ،مولانا شیخ محمد اسماعیل، ڈاکٹر.راولپنڈی محمد برکات الہی جنجوعہ ابن محمد نور الہی 285 جنجوعه محمد اسماعیل، ڈاکٹر میر 221 محمد بشیر ، ملک ابن ملک نبی محمد 202 محمد انور حسین ایڈووکیٹ، چوہدری 60 64 355, 373 محمد ایوب خان صدر محمد بخش ، ماسٹر رانا 31, 90, 91, 92 272 محمد اسماعیل منیر 129, 357 356 53355 محمد بشیر بھوپالوی، مولوی 211, 215 6
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 19 اشاریہ.اسماء محمد بشیر شاد، مولوی 261 محمد دین، حکیم ( مبلغ انچارج میسور) محمد شفیع، قریشی 1384 محمد شفیع ، ملک محمد تقی میاں ، سید 12 محمد حسن واعظ ، بابا 242 محمد دین انصاری ، حکیم 255 محمد شفیق قیصر ، مولوی محمد حسین ( پریذیڈنٹ چک ۸۶ محمد دین انور، چوہدری جنوبی) 284 محمد دین، مولوی 282 محمد حسین ، چوہدری.امیر جماعت محمد رشید ، قاضی 1055 احمدیہ ملتان 245, 246 محمد رمضان ، پیر محمد حسین، چوہدری.سیالکوٹ محمد رمضان ، میاں 251 49 226 283 368, 371, 373 محمد شمیم - لمباسہ محمد صادق ، حاجی محمد صادق ، مفتی 346 331 11, 198, 222 12, 16, 17, 206, 219 272 260, 307, 374 محمد صادق سماٹری ، مولوی محمد صدیق، چوہدری ( سیکرٹری 344 8 281 محمد رمضان خان، حاجی محمد حسین ، سیٹھ 103 محمد حسین نجی 345 344 محمد روڑا محمد زبیر لکھنوی ، ڈاکٹر پاکستان کبڈی فیڈ ریشن) 294 محمد حسین ، حکیم قریشی ( مفرح عنبری محمد سرور شاہ، مولوی سید والے) محمد حسین، مولوی محمد حسین بٹالوی ،مولوی 221 256 166, 206 محمد حسین شاہ، ڈاکٹر کیپٹن 201 244 5, 11, 163 محمد سعید، نوابزادہ چوہدری حیدر آباد 285 محمد سعید انصاری ، مولوی 255 محمد سعید قادری حنفی ، میر 163 محمد سلیمان ، حافظ 315 محمد صدیق حکیم 121 212, محمد صدیق ، مولوی (صدر عمومی ) 283 محمد صدیق بانی ، سیٹھ 103 محمد صدیق شملوی ، شیخ 251 محمد ضیاء الحق.لاہور 17 16 محمد ظفر اللہ خان، چوہدری 16 محمد حسین کھوکھر ، بھائی محمد حفیظ بقا پوری ،مولانا محمد حنیف ، شیخ محمد خالق عالم فاروقی 3, 161, 171, 172 64 83 محمد خان محمد سلیمان ظفر محمد شریف.ملائیشیا محمد شریف، چوہدری مجاہد بلاد اسلامیہ ) 267 59, 95, 97, 167, 174, 182, 221, 245, 359 311, 320, 321, 323, 350, 358, 363, 375 3, 350 282,349 محمد ظہور الدین اکمل ، قاضی ' 8 محمد شریف، قاضی 259 198, 202, 222
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 محمد عارف بھٹی 347 محمد عمر ، ڈاکٹر 20 اشاریہ.اسماء 222 محمد نواب سید 337 12 محمد عالم ، چوہدری 265 محمد عیسی ، مولوی.مشرقی افریقہ محمد ولی بیگ محمد عالم مختار حق عبداللہ 162 373 محمد ہاشم بخاری ،سید محمد عبد اللہ ابن فضل دین 195 محمد عیسی ظفر ، ماسٹر 268 267 محمد عبد الہادی اطالوکیوسی ، پروفیسر محمد فاضل جمالی، ڈاکٹر 190, 321, 324, 325 محمد عبدی محمد عثمان چینی 240 327, 328 331 محمد ہاشم خان 5, 25, 258 285 305 محمد یا مین ( پیام شاہجہانپوری) 12 3, 170, 172 ڈاکٹر ,98 97 96 95 | محمد قاسم محمد قاسم میاں، سید محمد کریم الدین شاہد محمد کمانڈا بونگے محمد عز الدین حسن، ڈاکٹر 331 محمد عطاء اللہ ، کرنل محمد عقیل اطهر محمد عقیل قریشی محمد علی ، مولوی ( غیر مبائع) محمد لطیف ایم اے 60, 64, 73, 145 محمد لقمان 281 334, 335, 338 341 272 184 16 محمد لقمان ، مرزا 15,16 محمد حمود الحسن خان، خان محمد منظورالہی ، چوہدری بابو 187 محمد یا مین ( تاجر کتب ) 4, 10 محمد یحیی خان محمد یعقوب ،مولوی 230, 275 117, 250 212 محمد یعقوب خان، مولانا (ایڈیٹر رسالہ لائٹ) 87, 165, 168 محمد یعقوب قندھاری ،صوفی 215 268 محمد یعقوب کڑی افغاناں،صوفی 316, 317, 373 275 272 | محمد یوسف 220 163, 164, 166, 231 محمد منور ظفر محمد علی، مولوی.بچھراؤں محمد علی جوہر، مولانا 8 201 محمد منور، مولوی محمد علی خان نواب 231 محمد موبیل، حکیم محمد یوسف، چوہدری محمد علی خان شاہجہانپوری 124 محمد میاں سلیم شاہجہانپوری ، سید محمد علی وانگ ، ڈاکٹر 79 10, 12, 28 محمد علی مضطر، چوہدری (پرائیویٹ محمد نذیر لائلپوری ،مولانا قاضی سیکرٹری) 87,90 محمد یوسف، چوہدری.احمد نگر 215 266, 267, 268 4079104 محمد یوسف، چوہدری (نائب آڈیٹر ) محمد عمر ، مولوی 3,170,193 165,182,195 ,109 301
اشاریہ اسماء 21 21 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 محمد یوسف، سردار ( ایڈیٹر نور ) محمود احمد ، مرزا ابن مرزا مجیب احمد مریم صدیقہ اہلیہ حکیم مولوی نظام 271 محمد یوسف کوالا لمپور 286 محمود احمد ، میجر ڈاکٹر | محموداحمد، محمد یوسف پشاوری ، میاں 264 | محمود احمد چیمہ، چوہدری محمد یوسف شاہ، کرنل ڈاکٹر محمد یوسف فاروقی محمود احمد خالد ، ملک 24432 محمود احمد عرفانی ، شیخ 279 محمود احمد قمر ایڈووکیٹ 280 | الدین 259 مریم صدیقہ ، سیدہ ام متین) 226 59, 101, 152, 176, 374 192, 193, 242, 256, 302 274 183 274, 283, 376 327 280, 373 مسعود احمد، سید مسعود احمد ، میر مسعود احمد جہلمی محمد یونس ابن محمد یاسین حسین محمود اسماعیل زولش 346 322, 324, 325, 365 320, 322, 324, 325 195 241 محمود اللہ شاہ، سید محمود امجد خان جنجوعہ ، راجہ 241 مسعودہ خاتون اہلیہ چوہدری داؤد محمود حسین گلزار محمود شاه 7 مسیح الدین ، مولوی 283 231 270 346 62 346 308 محمد یونس دہلوی محمد بیبین ، مولوی محمد لیلین.ناندی محمد یسین حسین.ناندی محمد ، لیفٹیننٹ کرنل محمودہ بیگم اہلیہ ملک سعی محمد 215 مسیح اللہ شاہجہانپوری، شیخ 7 محمد صدیق شاہد گورداسپوری محیی الدین ، مرزا 281 مشتاق احمد قریشی ابن محمد شفیع قریشی 226 82 مختار احمد ، ڈاکٹر 368 263 مشتاق احمد ، ملک مختار احمد ایاز ، چوہدری مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ سید مشتاق احمد باجوہ، چوہدری محمد ، خان بهادر مولوی محمود، شیخ.مسانو محمود احمد محمود احمد، ڈاکٹر بھائی 36, 335, 338, 340 222 371 184 241 محمود احمد، چوہدری.کمپالا 367 مدار، سید 86, 260, 261, 328, 4-28, 187, 188,258,262 329, 330, 331, 332 284 178 280 محمود احمد، چوہدری لاہور 285 مدثر احمد خاں 218 مشتاق احمد ہاشمی ، سید.محمود احمد، سید ( دامادسید امجد علی شاہ مراد، مسٹر 85 | مصطفی احمد خان، نواب زادہ 119 230 مرید حسین شاہ ، سید
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 مصطفیٰ سنوسی 337 | منور احمد ، مرزا 22 مظفر احمد، میر 311 | منور احمد جاوید، ملک مظفر علی شاہ، ڈاکٹر 148 اشاریہ.اسماء 49 مہر النساء اہلیہ سردار امام خان 14302 مهر خان، چوہدری معراج دین عمر، میاں 163 | منور احمد جہلمی 270 | میرداد معظم بیگ، مرزا.کوئٹہ 285 منیر احمد ( امیر سینٹ لوئیس مشن ) معین الدین، الحاج سیٹھ 103 معین الدین ، پیر | 305 ناصر، صدر 164 منیر احمد ، چوہدری ابن چوہدری ناصر احمد، شیخ مقبول احمد، قریشی ,303 نذیر احمد 301 307 306 305 304 منیر احمد انجینئر.کراچی 182 مقبول احمد ، میجر سید 89 | منیر احمد خان مقبول احمد ذبیح ، مولوی منیر احمد سہیل 34 339 338 منیر احمد عارف ، مولوی ممتاز بیگم، سیده 252 منیر الحق شاہد 252 208 268 113 174 ناصر احمد، مرزا ابن مرزا آفتاب احمد 282 184 ناصر احمد ، مرزا ( حضرت خلیفہ اسیح 299 4, 20, 26, 31, (±Û 36, 38, 40, 51, 56, 61, 64, 69, 72, 73, 82, 87, 99, 102, 103, 109, 111, 121, 125, 132, 140, 152, 157, 160, 165, 166, 168, 282 4 منان لیسین، ڈاکٹر 149 منیر محمد ابن چوہدری علی محمد 224 منصور احمد ، ڈاکٹر سید 157 | موسیو بی مونیٹر منصور احمد، صاحبزادہ مرزا موسیٰ علیہ السلام، حضرت 87, 90, 104, 111, 78 174, 178, 183, 185, 30, 136, 319 147 111440 مولا بخش.شاہجہانپور منصور احمد بشیر ، سید.سیرالیون مولا بخش، چوہدری 3338374 مولا بخش ، میاں منظور احمد قریشی 281 مولاداد، چوہدری 25 | موئی ،مسٹر منظور محمد، پیر منور احمد ، صاحبزادہ مرزا 195, 226, 227, 231, 7 243, 252, 259, 264, 272, 287, 299, 301, 316, 326, 363, 369 347 234 7 347 | ناصر احمد ،مولوی.سیرالیون 373 موہن لال ،شری 298 | ناصر احمد پرویز پروازی، پروفیسر 87103108 مہتاب بی بی 236 | ڈاکٹر 23
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 23 اشاریہ.اسماء ناصرہ بیگم اہلیہ ملک محمد بشیر 215 نصر اللہ ابن صوفی محمد یعقوب نعیم احمد خان - کراچی ناصف، ڈاکٹر 97,98 | قندھاری نانک، بابا گرو 35, 94, 156, 157, 3 215, 218 106, 182, 184 339 نصر اللہ خان ، راجہ.ڈلوال ضلع جہلم نعیم احمد طیب 286 نعیم الدین ، قاضی 4 ,162,171,192 161 | نصرت اللہ عابدہ اہلیہ انور حسین نعیم الدین، قاضی.جرمنی 373 293, 295, 370, 375 218 نکسن ، مسٹر ( Nixon) 326 نبی بخش 7 نصرت تنویر 282 | نواب دین ، چوہدری نبی بخش، میاں ( والد میاں عمر دین) نصرت جہاں بیگم ، سیدہ (حضرت نور احمد شیخ 257 202 227 | اماں جان) نور احمد بولستاد نبی محمد ، ملک 199,211 195 194 ,69 | نور احمد فائز ، مولوی نثار احمد ،منشی 16 | 271,301 20554 | نور الحق تنویر نورالدین، الحاج حکیم مولانا 83 83 5 4 نذیر احمد، چوہدری.ربوہ 301 نصیر احمد ، صاحبزادہ مرزا 280 نذیر احمد، چوہدری.کویت 174 نصیر احمد خان، پروفیسر 4,169 ( حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل) 11, 20, 34, 164, 337 نذیر احمد ، خواجہ 30911 نصیر احمد خان، مولوی نذیر احمد امرتسری ، بابو و نصیر احمد خان مولوی.غانا 373 212 ,206 ,202 ,194 نذیر احمد دہلوی ، ڈپٹی 199 نصیر محمد ابن چوہدری علی محمد 224 1324226256 نذیر احمد شاہ سید 288 | نصیرہ بیگم اہلیہ عنایت اللہ 224 262, 265, 273 نذیر احمد علی ، مولوی 49101 نظام الدین حکیم، مولوی 226 نور محمد نقشبندی، حاجی 241 نیل آرمسٹرانگ ( Neil 121,326 (Armstrong 337, 338, 339 نذیر احمد ناصر ، ملک 184 نظام الدین ، مولوی نذیر الدین، منشی 13 نیم سیفی 3338 نظام جان، حکیم 302 نسیم محمد ابن چوہدری علی محمد 224 نعمت الله ، مرزا ابن مرز اسلام الله واحد حسین، گیانی نصر احمد، صاحبزادہ مرزا 280 197 | وائی اے صافی و 281 255
اشاریہ.اسماء تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 24 وسیم احمد، صاحبزادہ مرزا یوسف ( پیچرار ) ,1994,113161170,172 یوسف اسماعیل، پروفیسر 324 322 Hans Von Moog 322 | 149 Janike, Dr.Joe Price, Mr ,173,280,286,295 | یوسف بیگ ولاد وشستن 298,314 297 296 یوسف سلیم شاہد 85 یوسف عثمان شاہد، شیخ ولا نو وا،سر یوسف علی 224 342, 381 145 Lapenna, Dr 97 315 Schmidt, Dr.Volde, Dr.322 340 322 Wendler, Dr.322 242, 243 188 (r.Villa Nova 325 یوسف علی خان ، حکیم ولی محمد.جھنگ مگھیا نہ ون رائٹ ما را پاس 286 359 یوسف علی ، شیخ یوسف نمبر دار، چوہدری 266 وی.ڈی.مولن، ڈاکٹر (Dr.V.D.Meulen) 365 یونس الگوس 264 English Ali Seray 286 324 Baum, Dr.ہائنے من ، ڈاکٹر ہولن دیگر ، ڈاکٹر (.Dr 322 (Hollenioeger ہیلموٹ کلا ، ڈاکٹر (.Dr Bloemsma 365 331 Bradley, Mr 313, 314 331 D.Alberto Martin Artajo 326 149 D.Alfonso De La (Helmut Kala ی یار محمد ظہیر ، ڈاکٹر پیٹانگ مسٹر (Mr.Yipton) Fuente 325 354 D.Jose Luis 326 304 Exemo Sr.D 325 یحیی عبداللہ شریف یعقوب علی عرفانی ، شیخ Farid, A.H.325 13, 27, 165, 202 '
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 25 اشاریہ.مقامات 250 363 اڑیسہ مقامات 170 | البانيا 83,116-118 | الجيريا 273 | از میر 4, 94, 161, 165, 84, 85 201-203, 214, 239, 112, 253, 254, 270, 271, 292, 293, 297, 380 113, 125, 126, 128 360 آزاد کشمیر آسٹریلیا 268,270 | استنبول آگرہ 164 163 اسرائیل آگوا ووٹی 88,89 1,170 اسلام آباد آندھرا پردیش 15 امروہہ 174, 186 303 اشانٹی ریجن آئس لینڈ 203-205, 207, 298 45,46 | افریقہ آئیوری کوسٹ ابادان ابورا ابوظہبی ابیو کوٹا امریکہ 45, 72, 127, 174, 179, 206, 55, 137, 263, 329, 243, 251, 277, 281, 363, 365, 369, 371 296, 303-305, 307, 45, 332 338 319, 326, 374, 380 197, افریقہ (جنوبی) افریقہ (مشرقی) 340 174 359 انانم 240, 263, 320, 369 264 ایپایا 362 | افریقہ (مغربی) 45, 46, انڈونیشیا 56, 174, 242, 255, ایائے اٹانڈا ا جیبو اوڑے افغانستان احمد آباد اسرا احمد نگر 266 | اکولہ اردن 48,285 اگبیڈے 49, 55, 186, 359 307, 320, 324, 325, 258, 281, 320, 339 315 327, 363, 373, 374 174 360 انڈیا (ہند.ہندوستان.بھارت) 342 126 1, 2, 5, 12, 33, 34, 55, 103, 113, 115-118, 361 120, 126, 156, 169, ارنگا 315 الہ آباد اروشه 240 | الارو 171, 174, 210, 224, 237, 238 239, 251, 283,284, 360
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 26 26 اشاریہ مقامات 143 | بنڈونگ ( بانڈ ونگ ) ,287288297,304 باٹا پور 323, 329, 354, 355 308 273 | بنگال 265 170,264 انقره بالاکوٹ 83, 113, 116-118 243 بو 304 | بوا جے بو انگلستان (انگلینڈ.برطانیہ ) بٹالہ بوسٹن 206, 212-214, 256 17,45,56, 72, 112, 166, U174,254, 255, 265, 281, ,308310-312,314 بحرین 8 45 بون بہار 35, 338, 339 338, 339 281 371 324 1, 156 342,345,373,380 برار بہاولپور 11312 116 5 بہاولپور 1562 برشل اودے پور کٹیا 308 بہوڑ و چک نمبر ۱۸ 234 آڑواورو 360 برطانیہ (انگلینڈ.انگلستان) بھارت ( انڈیا.ہند.ہندوستان ) کمیٹی پویا 359 اووڈے اوہایو ایبٹ آباد ابیو کوٹا ایڈنبرا 88, 89 360 286 1, 2, 5, 12, 33, 34, 55, 103, 113, 115-118, 120, 126, 156, 169, 171, 174, 210, 224, 239, 251, 283,284, 17,45,56, 72, 112, 166, 174,254, 255, 265, 281, 308, 310-312, 314, 342, 345, 373, 380 45, 116, 265, 314 308 360 243 ایران 81-83325 بریڈ فورڈ 304 | بریلی یسٹ لینکس ایلڈوریٹ ٹاؤن اتر پردیش (یو پی) 347 بکوبا بلغراد 56200297 بلوچستان بمبئی بند ھیل کھنڈ باتھرسٹ 348-350 بھاگلپور 315,316 | بھڈال 85 64 170,193 297 287, 288, 297, 304, 308 323, 329, 354, 355 8, 13-15, 298 26 256 116 بھیرہ 211,213,262 بیڈا گرے بیروت 360 259
18, 31, 50, 52, 64, 113, 119, 127, 207, 224, 227, 231, 259, 291304357,363 پیلی بھیت تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 بیرونگ اہافو 27 237, 286, 292, 295 341 15 پنڈوری بیگم کوٹ 226 | پنواڑی پورٹ لوئس پاپوش نگر پولینڈ 226 پاکستان 117 298 356 95 1, 170 314 351 165 15 اشاریہ.مقامات 282 ٹانگانیکا ٹورا ٹریسٹ ٹرینیڈاڈ 316, 317 316 64 50 پھان پیرا ماریبو پیر پیائی ٹنڈو محمد خان ٹورانٹو ٹوکیو ٹو گولینڈ پاکستان (مشرقی) 52, 111, 154, 174, 285 ٹیچی مان تانگے رنگ 307 | ٹیکسلا 45 107 250 317 45 341 89 پاکستان (مغربی) 16475 تقتله والی 92, 154, 174, 285 ترسکه پٹسبرگ ترکی 271 292 81-86, 106, 113, ج جاپان 46,56, 79, 144, 179, 265, 317, 318, 374, 380 114, 118, 120, 121 306 171 پٹیالہ پریسٹن پسرور پشاور 218, 219, 266 244 349 4, 161, 237 جارج ٹاؤن جالندھر 45, 308 تلونڈی جھنگلاں 25758 113 | تلونڈی کھجور والی 23436 جرمنی 56, 98, 190, 264, 15 265, 319-325, 373 45, 121, 72, 174 31, 89, 94, 113, 165, 241, 264, 273, 282 32, پنجاب تتبر تنزانیہ ,17440,263,315 | جرمنی (مغربی) ,33,94,157,173 316,367,373 | جکارتہ (جاکرتہ ) ,182,197,198,224 | تهران 82 286, 307, 308
258 چک نمبر ۳۵ جنوبی 284 | حيفا تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 28 جلال آباد جلناهم 3103 چک نمبر ۸۶ جنوبی جموں وکشمیر ,188 چک نمبر ۸۸ ج ب 284 234 خ اشاریہ.مقامات 259 116,170,292,296 چک نمبر ۰۹ اگ.ب نرائن گڑھ مجد جنوبی کوریا جنیوا جورو 244, 367-370 خانپور خوشاب 208 خیل ہوتی 318 چک ۸۸ ضلع لائلپور 286 331 چکلالہ 114,117,118 R.L/335, 336 258 جوڑا ( ضلع گجرات) چک ۲۱۹ ر ب ملوئیاں والا 257 جوڑہ جوڑیاں 209 143 115, 117, 118, 119 263 260 7 113, 197, 198, جو گند رنگر جوہور جہان پوری (منی پور ) جہلم چک D.B39 چنتہ کنٹ پنجارے چنیوٹ چونڈہ داد آباد , 15 52, 224 279 207 دارالعلوم ( محلہ قادیان) 210 45 دبئی وتی (دہلی) ,170,200,205 223 103 255, 287, 297, 298 371 45 دمشق 215 روره 251 253 251 دهاروار دھار یوال دیہہ گڑھو 79, 81, 196, 251 117, 119 115-119 371 203, 266, 270, 286 ط جھنگ 22, 114, 115, 245, 247, 248, 249, 294 حافظ آباد حسینی والا حیدرآباد 263 171 چ 105, 107, 285, 287 چک نمبر ۸۱ جنوبی 284 حیدر آباد دکن ڈرگ روڈ ڈلوال ڈنڈ پور کھر ولیاں ڈنگہ 106, 178 286 255 241 ڈنمارک 1569698 چک نمبر ۳۳ جنوبی 284 312, 326, 327, 373 32, 103, 163, 170
78, 286 45 224 307 105, ڈ ہر یوالہ ( ڈہرانوالہ) تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 رنگون 29 29 اشاریہ.مقامات 271 270 روٹرڈیم 121 سرینگر 364 | سعودی عرب 296 ڈھاکہ 31 روڈن ڈیٹرائٹ 305 روز بل ڈیٹن روس 244,304-306 243 ریتی چھلہ 355 38, 128 223, 271 303 124, 128, 287, 304, 363 325, 327, 365 سکاٹ لینڈ سمالی لینڈ سمبر یال سنٹرول سندھ 241 | ریکاوک ڈیرہ اسماعیل خان 85, 86 179, 251, 272, 302 307 338 سنسنائی سکونیا 174, 350 ز ز غریب زیمبیا 83 139 ڈیز فل ڈیگل 328-330 45, 46, 56, 252, 255, 286, 327, 328 340 360 85 45, 351, 363 94, 258 327, 358 45, 88, 89, 114, 115, 117, 56, 303, 322, 325 163, 234, 239, 242, 45, 56, 73, 98, 174, 279 260, 261, 328-332 207 سویڈن 20, سرحد سردار نگر سرگودہا (سرگودھا) 252, 263, 282, 285 124-128 18, رباط ربوه راٹھ 298 297 | زیورک راجہ جنگ 143 س راجستھان 94 سالٹ پانڈ راڑ یوالہ 94 ساؤتھ آل 311 310 | سوڈان را مپور راولپنڈی 13 ساہیوال سورا یا و 31 سبا سور بینام سوئٹزرلینڈ 179, 322, 326, 327 52, 79, 94, 115, سیالکوٹ 163, 178, 212, 215, 79, 81, 40, 69, 70, 223, 227, 241, 263, 112, 167, 173, 217, 218, 285, 290, 294 115, 119, 220, 227, 229, 230, 251, 252, 282, 284, 294, 375,
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 255, 256, 258, 259, 266288291,294 | صالح نگر 30 284 | فیروز پور اشاریہ.مقامات 4, 171, 239, 261 298 فیصل آباد 31, 79, 80, 89, 113, 45 115, 148, 149, 171, 48, 285, 331 178, 183, 208, 215, 205 223, 234, 257, 259, 266, 268 275, 285, 286, 294 177 ع غ عدن عراق غازی آباد غوش گڑھ ف فارس ح پور 265,298 | قادیان 1, 3, 14, 19, 33, 45, 327, 344, 346 169, 170, 172, 200, 349 204, 212, 214, 216, 78, 96, 355 فرافینی فرانس فرانکفورٹ ، فرینکفرٹ فرینکفورٹ) 287 228,283,286 292-294, 295, 297 98, 190, 319-324, 365 97 291 143 359 16 371 سیتاپور سیٹا 35, 36, 45, 48, 49, 55, 101, 258, 280, 286, 332-340, 350, 353, 373, 374 337, 338 45, 170 339 305 349, 351 سیری کولیا سیلون سیمبے ہون سینٹ لوئس سینیگال 318 سیول ش_ص شاہجہان پور (شاہجہانپور ) ,281 | قاہرہ قرطبہ قصور قیلبوک کالی کٹ کیرالہ 5-9, 11-16, 26, 207, فری ٹاؤن 262, 298 335, 337, 338, 339 143, 226 338 45 فلایا 295 | فلپائن 318 | فلسطين 305, 306 شاہدرہ شکا گو 45, 113, 125-128, 259, 314 64, 95 شملہ شيبويا شیخو پوره 113, 115, 226, 234, 248, 249, 285, 286 285, 288, 290
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 31 اشاریہ مقامات کانگڑہ 263 کماس 143 | کہا ما 315 کا نوٹیٹ 361 کماسی کا ہنووان 216 کمال ڈیرہ 341 | کھارا 272 | کھاریاں کبابیر کبالا 48 کمبالا 337,339 کمبیلی 338 کھیر پڑ 338 کیپ ماؤنٹ کپورتھلہ 8,16 کمپالا ( کمپالہ ) ,55 کیرالہ 230, 231 282 143 353 1,170, 15 285, 288, 289, 290 263, 367, 368, 371 کراچی 338 کیمبلپور ( کیمل پور) ,31,275 کنڈے بابا ,87 ,86 80 7679 کوالا لمپور 252, 286 83, 96, 98, 327100, 103, 104, 105, 89, 116, 117 339 106, 107, 109, 111, 112, 114, 122, 123, 140, 178, 182, 183 189, 211, 224, 248, 249, 263, 286, 369 کوتا کینابالو(جیسلٹن ) کینیا 45, 46, کوٹ عبدالمالک 147,226 | کینیڈا کوٹ قاضی 314 کوٹری کرن اسٹیٹ 105,107 کوٹلہ فیل بانه 346, 347, 348, 367 358, 359 26, 45, 174, 202, 250, 267, 268 101 107 197, 198, 209, 1264 کرونڈی کریام 239 20834 کو چیغ سراواق کڑی افغاناں 21675 کورنگی 241, 244, 265, 269 252 | 106 گکھڑ منڈی 218 1, 88, 116, 170, 292, 296 52, 64, 113, 116, 88, 89, 99 کلڈ نہ کولمبس 307 گلاسگو 308,311,314 کو سچ 298 | گنڈا سنگھ 4 339 ,12 171242263,285 | گو بیر 103233242,298 کوئنا ڈوگو 339 گوجرانوالہ کلیولینڈ 307 251,306 کویت 139,140 115, 218, 234, 235, 237, 45, 174
اشاریہ مقامات 45, 48, 259 344 225 143 13, 98, لبنان 32 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 244, 282, 285, 302 89 لارگو 353 لٹوکا 201,214 | لدھیانہ 286 | لالہ موسیٰ 79 | لدے کے نیویں 140 | لالیاں لائبیریا لكهنة گوجرخان گوجرہ گوڈو گورداسپور 190, 222, 242, 298 45, 353, 373, 374 33, 207, 208, 212, 143 346 3, 174, ,238 237 226 225 لائل پور (فیصل آباد ) ' 239, 257, 258,259 للیانی ,89,113 ,31,790 لمباسه ,115148,149,171 | لندن (لنڈن) 223, 286 178, 183, 208, 215, 183, 195, 232, 245, 198, 201, 222 223, 234, 257, 259, 248, 249, 308-314, 340 275, 285, 286, 294 354, 367, 379, 380 لاہور 327 337, 338 9, 11, 16, 17, 18, 273 257 20, 24, 31, 54, 60, 45, 46, 31 325 308 244, 245, لودھی منگل لیاقت آباد ليبيا گھٹیالیاں 143268,288,291 ,141 ,140 ,121 لیڈز لیگوس گوکھو وال گولیکی گومو واسرکٹ گوئٹے برگ گوئی گھانا 62, 87, 88, 89, 90, 48, 49, 55, 174, 91, 104, 105, 111, 182, 186, 258, 340, 113, 115, 119, 120, 342, 344, 348, 373 359, 360, 361, 362 145, 146, 147, 148, 315 339 346 ما بوگینی مانرو مارو گی آنا 162, 167, 198, 208, 45, 351, 352, 353 217, 218, 219, 220, 221, 222, 224, 229, 45, 46, 48, 55, 282, 296, 348, 349, 235, 236, 253, 259, 350, 351, 373, 374 270, 272, 294, 302
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 ماریشس ,45,849,55 مظفر آباد 33 156, 157, 171129, 353-357, 373 340 مظفر گڑھ 89 | مونگو 252 میانی گھوگھیاٹ اشاریہ.مقامات 338 11 263 313 251,285 83 7 344, 346 45, 46, نا بھ سٹیٹ نارتھمپٹن نارووال ناروے نا گا پھل ناندی نائیجیریا مکویونی 315 مکه ,11217 | میر پورخاص 12845327,364 | میرٹھ مكبر يا 298 | میری لینڈ 211-214, 263 107 164, 298 306 مکیریاں 263 | میسور 1,170,193,284 مكنى 351 338 | مصرا مگھانہ (جھنگ) 248,286 ملائیشیا 315 1, 222 112, 125-128, مان کسم مایا ہے مدراس مد بینہ 245, 303, 327 244 139 8,15 45, 206, 207, 115 260, 327, 357, 359 124, مدینه (گجرات) مراٹا (Marata) مراد آباد مراره مراکش ( مراکو) 46,255 245, ملایا ملتان 125, 260, 320, 363 279 247, 248, 249, 261 214 371 258,259 106 338 55, 136, 138, 139, 348 45 ممباسه 174, 182, 186, 244, 261 245, 255, 264, 331, 251 منگوله 268 338, 353, 359-362 298 303 269 نجران نسو والی سوہل خورد 315, 316 مردان مری ملکوال مسا کا مسانو و 371 ملیانوالہ ملیر مسایا مسقط مسكرا 298 مندراں والی مسی ساگا مشی گن 304 مودہا ,38 موروگورو 87, 89, 90, 99 315 48, 85, 133, 367
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 34 اشاریہ.مقامات 179,302 | ہانگ کانگ نگر پارکر 10772 | ہائیڈل برگ نواب شاہ نواں شہر 237,239 ہجکہ نیروبی 198 197 ہڈیارہ 45 331 262 ی یا بو والا جھنگ یادگیر 143 سیر و علم 209 103, 298 296 نیوا کیمسٹرڈیم نیوزی لینڈ نیویارک 353 | ہر چووال 345 ہرگوبند پوره 56, 96, 97, 308, 309, 310 230, 346, 348, 369 179, 223, 250, 266, 292 313, 323, 365, 371 292 305, 306 ہری پور 26 یوگنڈا وارسا و ہزارہ 95 ہلسنکی 45, 46, 48, 244, 26 286, 367-372, 373 96 85, 86, 179, 250 270 English 297 Banana Hill Bethesda 306 Breskens 364 Dordrecht Koinadugu 337, 339 364 واشنگٹن 32024 یوگوسلاویہ 304-307 | ہمبرگ 72, 81, 82, واکسیکن 304 | ہمسولہ وانڈ زور تھ 310 | ہمیر پور ور ڈالہ 338 ہند.ہندوستان (بھارت.انڈیا) | 347 وزیر آباد وہاڑی و پہیلی ویمبلڈن 1, 2, 5, 12, 33, 34, 294 55, 103, 113, 115-118, 195 120, 126, 156, 169, 251 171, 174, 210, 224, 314 239, 251, 283,284, Levuma Ukerewe 337 287, 288, 297, 304, 315 Vourchoten 365 Wassenaar 365 45, ہالینڈ 323, 329, 354, 355 56, 174, 246, 303, 216, 263 182, 320, ہوشیار پور بیگ 322, 350, 364-366 143 323, 363, 364, 365 ہانڈو
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 35 اشاریہ.کتابیات ازاله شر کتابیات آل پارٹیز کانفرنس کا پروگرام 229 اسپرانٹو، رسالہ 230 اسلامی اصول کی فلاسفی (چینی) 97 327 آنحضرت بائبل میں 370 اسلام ان افریقہ 358 اسلامی اصول کی فلاسفی ( سواحیلی ) آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ اسلام اور ڈیما کریسی 370 اسلام اور کمیونزم آئینہ کمالات اسلام 8,9 اسلام آن دی مارچ اسلام ڈنمارک میں اثناعشره 26 اسلام کا اقتصادی نظام احرار احمدی تنازع کے متعلق میاں 358 47, 58 358 اسلامی اصول کی فلاسفی ( گورکھی ) 358 157 326 اسلامی تعلیمات انسان کے اخلاق 358 325,354,358 اسماء الانبياء في القرآن 6173 ممتاز محمد دولتانہ صدر صوبہ مسلم لیگ اسلام کا اقتصادی نظام (عربی) اشتهار۲۰ فروری ۱۸۸۶ء 380 کی تقریر 230 احقاق الحق نمبر ۲ 26 اسلام کی دوسری کتاب احمدی جنتری قادیان 275 اسلام کیا ہے؟ 47,57 27 358 اصحاب احمد جلد چہارم اصحاب احمد جلد دہم اظہار الحق نمبرا 225 275 26 احمدیت کا فدائی، انسانیت کا خادم اسلام موجودہ زمانہ کا علاج 354 افریقن کریسنٹ، اخبار 339 382 اسلام میں اختلافات کا آغاز 41 احمدیت کا مستقبل 358 احمدیت یعنی حقیقی اسلام 327 احمدیہ موومنٹ 326 اسلامی اصول کی فلاسفی (ترکی) 366 161, الاسلام، ماہنامہ.ڈچ البدر 32 اسلامک کلچر ، رساله 164, 187, 235, 247 احمدیت مشرق بعید میں 358 اسلامی اصول کی فلاسفی 303, 325, 369 26 370 الحق نمبر ۳ السٹریٹڈ ویکلی اردو زبان میں ترجمہ و مختصر مطالب 47, 58 موسوم به حسن بیان 163 اسلامی اصول کی فلاسفی (جرمن) الفرقان ، رساله ازالہ اوہام 8,33 19, 27, 164, 192, 260
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 36 اشاریہ.کتابیات ,1028277,310 این آؤٹ لائن آف اسلام 361 تاریخ احمدیت 379, 382, 383 33.98, 303, 318, 279 تاریخ احمدیت جلد دوم 18 11, 187 الفضل انٹرنیشنل المصالح 193 337176,192 324 319,321 تاریخ احمدیت جلد سوم 205 امام الزمان علیہ السلام اور خلفائے 369 364 354 338 تاریخ احمدیت جلد چہارم 13 380 تاریخ احمدیت جلد پنجم ، احمدیت لاہور میں مجلہ 192 بخاری کتاب الایمان امروز ، روزنامه 5015119 بدر، حضرت بابا نانک نمبر 161 براہین احمدیہ 189, 191, 287, 378 14, 275, 279 33 تاریخ احمدیت جلد دہم 375 امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ براہین احمدیہ حصہ سوم 378 تاریخ احمدیت جلد بہشتم 354 بركات الدعاء امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ بشارات رحمانیہ ( ترکی زبان) انجام آتھم 41 188, 380 278 تاریخ احمدیت جلد ہشتم ضمیمه 4 بنی نوع انسان کو خالص توحید کی 57 7, 277 انصار الله ، رسالہ 275,381 اولین عیسائیوں نے اسلام کیوں دعوت 275, 276 279 229 تاریخ احمدیت سرحد تاریخ لجنہ اماء اللہ جلد سوم 274 پریچنگ آف اسلام 358 تحریک جدید کے پانچ ہزار ی پلین ڈیلر، اخبار 307 | مجاہدین 292 16, 275, 278 تحریک جدید، رساله 82,190 قبول کیا 358 ایاز محمود جلد چهارم 375 ایڈیٹر صاحب اعتصام کا مشورہ اور ہماری گذارش پنجاب وچ جنت پیام مشرق ، رساله 230 192, 277, 335, 379, 380, 381, 382, 383 18, 19, 27, 188 ایسٹ افریقن ٹائمنز ،اخبار 347,358 ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات (انگریزی) ایک غلطی کا ازالہ 27 پیغام صلح 229 166228 تخفته الملوک | پیغام صلح (انگریزی) 4757 تحقیق حق 209 229 190,191 تابعین اصحاب احمد جلد ہشتم ترجمه قرآن بين السطور 163 277 | تیک جهانگیری 292
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 تشحذ الاذہان 110378 جنگ، روزنامه تعلیم الاسلام، رسالہ 163 تفسیر القرآن انگریزی 46,57 چشمه مسیحی 37 چ 121191 حیات حضرت مختار 358 حیات نور خ اشاریہ.کتابیات 28 لله له 18 تفسیر القرآن ،رساله 163 | چشمه معرفت 193 خاتم ولایت اور اس کی بہن 230 تفسیر بیان القرآن تفسیر سروری مع ترجمہ 163 163 چوہدری محمد حسین 246 | خالد، ماہنامه 27,28129 こ 187, 188, 189, 192, 378 164 164 145, تفسیر سورة العصر وفاتحه تفسیر سورۃ کہف تفسیر کبیر 163, 164, 209, 364 تفسیر سورۃ جمعہ 165 حج بیت الله 375 | ختم نبوت کا منکرکون حضرت محمد و از روئے بائبیل خزينة العرفان 230 165 354 خطبات ناصر ( عیدین و نکاح ) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 379 59, 3 تفسیر سورۃ فاتحہ 145375 145 | خطبات نور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے تفسیر صغیر 101, 145, دعوی کی حقیقت 230 خطبات نور حصہ اول 218, 220, 221 276 163, 191, 209, 340 دعوۃ الا میر تلخیص (انگریزی) 47 حضرت مسیح علیہ السلام کہاں فوت خطبہ الہامیہ (عربی) 47,57 ہوئے؟ 358 خطبہ تقسیم اسناد تعلیم الاسلام کالج حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ربوہ 27 ٹاگس انسٹائیگر Tages کتب کا اجمالی تعارف 375 د، ڈ، ز Anzeiger اخبار ٹروتھ ، اخبار 328 255 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دافع البلاء ٹریکٹ منجانب جماعت احمدیہ ڈائری 219 در شین شاہجہانپور 26 حقیقۃ الوحی 14 دعاؤں پر ایک کتاب ٹیچنگز آف اسلام 358 حمائل شریف مترجم مع حواشی دعوۃ الامیر (ترکی) 203, 204 263 370 47,58 ج 163 | دعوة الامير ( عربی ) 4758 جماعت احمدیہ کے عقائد 230 حیات بشیر 19188 | دو خطابات 358
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 38 دھو کہ کون دے رہا ہے 229 رجسٹر روایات صحابہ نمبرے اشاریہ.کتابیات مختار احمد صاحب شاہجہانپوری دی سنڈے کرانیکل،اخبار 351 274, 276 ڈان ڈی ویلٹ ، روزنامہ 121 رجسٹر روایات صحابہ نمبر 276 سیرة النبی الله 187,188 260 شان خاتم الانبیاء ﷺ کے چند پہلو 323 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ ڈیلی گرافک اخبار 187, 274, 275 342,351 341 | رجسٹر روایات صحابہ ۱۴ 275 شہادت القرآن ڈیلی مرر، اخبار رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم صدق جدید لکھنو ڈیلی میل،اخبار ڈیلی نیشن،اخبار ذكر حبيب 309 336 369 3 376 ضمیمہ انجام گفتم رگ وید 12 375 41 98 7, 277 b رپورٹ سالانہ ۱۹۳۵ء 277 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء 188 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء 188 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء 188 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۶ء 276 روحانی خزائن جلداا 277 طائفه امپیا Taifa Empya روحانی خزائن جلد ۱۸ 204 | ، روزنامه 274 ریاض ہند،اخبار 380 | عروج ، اخبار 372, 382 ع ، غ روحانی خزائن جلد ۲۲ ریویزن آف ڈسٹرکٹ گزیٹر 32 علماء شر کی نشانیاں ریویو آف ریلجنز عورتوں کی آزادی کا علمبردار 358 247 230 59163,225,358 عہد نامہ جدید س ش ص ض عہد نامہ عتیق سام وید سچائی کا اظہار 12 8 12 12 عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ سمندر اور اس کے عجائبات غانین ٹائم رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۹ء سیارہ ڈائجسٹ، ماہنامہ رجسٹر بیعت اولی 189 61,73 ف،ق فاروق، اخبار 162192 فتح اسلام 61, 73 341 27 8,33 7 سیرت و سوانح حضرت حافظ سید فتوی باز علماء کے ارادے 230
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 قادیانیوں کے بعد شیعوں کی باری قادیان گائیڈ 39 اشاریہ.کتابیات اشاعت اسلام کی روایات کا 230 لائٹ، رسالہ 87,165 | تنقیدی جائزہ 230 لائف آف محمد الله 61 312, 379, 380358 132 قادیانی شاعری 2, 19, 18 لائف آف محمدی ( ترکی ) 47 مسند احمد بن حنبل قبر مسیح (انگریزی) 345 لائف آف محمد الله (جرمن) مسیح کشمیر میں قرآن مجید مترجم تفسیر اوضح القرآن مسمی به تفسیر احمدی 163 | لاہور تاریخ احمدیت 276 مسیح ہندوستان میں 358 326, 345, 358 لاہور، ہفت روزہ 193,380 | مسیح ہندوستان میں (عربی) کشتی نوح 260 | لی نگارو کشمیر کی کہانی کلام محمود 88, 375 263 96 47, 57, 58 81 353 | مشرق لاہور، روزنامه مشرق ومغرب کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا مارننگ پوسٹ، اخبار 359 | پیام مشرق 230 | مجله الجامعه 27 کیا وہ ہیں جو احرار کہتے ہیں یا جو وہ مجموعہ اشتہارت جلد اول 193 | مصباح خود کہتے ہیں 230 محامد المسيح کیفیات زندگی 19774 محمد یہ بنی نوع انسان کا خیر خواہ ' 97 18, 19, 27, 188 192, 274, 277, 377, 378 27 358 معصوم نبی 358 | مقدمہ سرکار بنام عطاء اللہ شاہ گائیڈنس، ماہنامہ 341 مخزن معارف یعنی خلاصہ تفسیر کبیر بخاری اور مسٹر کھوسلہ سیشن حج 164 گورداسپور کے فیصلہ پر ایک تنقیدی مکالمه مخاطبہ اولیاء اور ہمارا دیں 358 مدافعت نمبرا عطاء اللہ بخاری نظر، رساله گناہ سے کیسے نجات حاصل ہو گورونانک جی مہاراج کا فلسفہ صاحب کی اسکیم 375 مرکز احمدیت قادیان 237 توحید 229 274 230 گیمبیا نیوز بلیٹن 349 | مسک العارف 27 منکرین ہستی باری تعالی کے شکوک مسلم سلاطین ہند کے متعلق کا ازالہ 375
اشاریہ.کتابیات Rundschau 324 310, 314 Souvenir 1969 375 260, 326 The Gold Coast 381 375 The Holy Quran 375 The Wonderful 223 Quran 375 12 Unity 40 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 25 منن الرحمن - انگریزی 368 ویمبلڈن برو | مواہب الرحمن 203 | ہماری تعلیم مولانا مودودی کے عقائد میں ہومیو پیتھک علاج تبدیلی 229 ی میرا حج بیت اللہ 190 | یادگار سعید میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں (اٹالین) بجروید یوگنڈا آرگس ، اخبار 372 370 - 335 میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں یہ بالکل جھوٹ ہے کہ حضرت مسیح Where did Jesus Die? 315 Where did Jesus ( سواحیلی ) ? Die 4757 موعود نے مسلمانوں کو گالیاں دیں 229 انگریزی 47, 57 47, 58, La Nobla Korano 164 97, 98 (سپینش) نظام نو ( ترکی ) نكات القرآن نوائے وقت، روزنامه Blacks Medical 81, 117,191,369 Dictionary 345 271 Frankfurter 164 Allgemeine 323 069 نور نور القرآن واذ االصحف نشرت 18876 Haagsche courant 363 367 High Court Practice and Procedure 375 278, 279 Neue Presse 324 ورلڈ ہسٹری وہ پھول جو مرجھا گئے ویکن The Vikan ، روزنامه One Grande 303 Benediction 354