Tarikh-eAhmadiyyat V24

Tarikh-eAhmadiyyat V24

تاریخ احمدیت (جلد 24)

1967ء۔ 1968ء
Author: Other Authors

Language: UR

UR
تاریخ احمدیت

’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے  جلد نمبر 19 نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

تاریخ احمدیت جلد نمبر 24 $1968-1967

Page 2

عرض ناشر خدا تعالیٰ کا محض فضل و احسان ہے کہ تاریخ احمدیت کی جلد ۲۴ شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اس جلد میں ۱۹۶۷ ء اور ۱۹۶۸ء کے اہم اور قابل ذکر حالات و واقعات کا تذکرہ ہے.حضرت مصلح موعودؓ کا یہ پیغام بار بار دہرائے جانے اور دلنشین کرنے کے لائق ہے امید ہے کہ اس پر احباب عمل پیرا ہو کر فیضیاب ہوں گے.آپ فرماتے ہیں.سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.“ ( الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۶۴ء) تاریخ سلسلہ کے مطالعہ سے جماعت پر خدا تعالیٰ کے احسانات و تفضلات اور تائیدات ونصرت کے جلووں کا ادراک ہوتا ہے.دل خدا کی حمد سے لبریز اور لب اس کے ذکر سے معمور ہوتے ہیں اور یہ آگهی از دیا دایمان اور روح کی تازگی اور شادابی کا سامان بہم کرتی ہے اور اپنے بزرگوں اور ا کا برین کی خدمات جلیلہ کا ذکر دل میں جذبہ خدمت دین کے لئے مہمیز کا کام دیتا ہے.اس لئے تاریخ سے واقفیت ایک مسلمہ ضرورت ہے.امید ہے کہ احباب تاریخ احمدیت کی کتب کو خرید کر اپنے گھروں میں موجود و میسر رکھیں گے تا تمام اہل خانہ گا ہے گا ہے اس کو زیر مطالعہ رکھ کر استفادہ کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اور ہر لحاظ سے اس کو مفید مطلب بنانے کی کوشش کی ہے.پڑھ کر آپ بھی اس کی گواہی دیں گے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.شعبہ تاریخ کے جملہ کارکنان اپنے اپنے دائرہ میں مصروف کار رہ کر مؤلف کے معین و مددگار رہے.فجز اھم اللہ احسن الجزاء

Page 3

پیش لفظ تاریخ احمدیت کو چوبیسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش ہے.یہ جلد سال ۱۹۶۷ء اور ۱۹۶۸ء کے تاریخی حالات پرمشتمل ہے.یہ سال خلافت ثالثہ کے ابتدائی زمانہ کے ہیں.خاص طور پر ۱۹۶۷ء کا سال جماعتی زندگی میں ایک نہایت اہمیت کا سال تھا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بلا دغربیہ کا نہایت کامیاب اور عظیم الشان تاریخی دورہ فرمایا.اس سفر میں حضور انور جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ اور ڈنمارک کے ممالک میں تشریف لے گئے اور اسی سفر میں لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے چندہ سے تعمیر کی گئی مسجد، مسجد نصرت جہاں کو پن ہیگن کا افتتاح بھی فرمایا.اس کے علاوہ اہل مغرب کو ایک تاریخی انتباہ فرمایا.جس میں آپ نے مغرب کو اسلام کے دامن میں پناہ لینے اور حق و صداقت کو قبول کرنے کا پیغام دیا تا کہ وہ آنے والی خوفناک تباہی سے بچ سکیں.یہ ایک نہایت جلالی خطاب تھا جس نے اہلِ مغرب کو ہلا کر رکھ دیا.اس پیغام کو بعنوان ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ چھاپ کر وسیع پیمانے پر شائع کیا گیا.اس کے علاوہ جلسہ ہائے سالانہ کی مکمل روئداد مجلس مشاورت ، ذیلی تنظیموں کے اجتماعات اور بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی کے علاوہ دیگر بہت سے نادر و نایاب واقعات کا ذکر بھی موجود ہے.سال ۱۹۶۸ ء کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کہ اس سال دو جلسہ ہائے سالانہ کا انعقاد ہوا.جنوری میں ایک جلسہ جو ۱۹۶۷ء کا ملتوی کر دہ تھا اور دوسرا دسمبر میں جو خود ۱۹۶۸ء کا تھا.اسی طرح صحابہ کرام کے حالات زندگی اور بعض مخلصین سلسلہ کا ذکر خیر ہے.نیز بہت سی تاریخی اور نادر تصاویر بھی شامل اشاعت کی گئی ہیں.اس جلد کی تیاری میں فائلوں میں موجود مواد سے ایک حصہ منتخب کر کے لیا گیا ہے اور پھر مربیان کرام کی ایک ٹیم نے ان حوالہ جات کی تصدیق کے علاوہ مختلف واقعات کی جانچ پڑتال کی اور جہاں ضرورت سمجھی گئی وہاں واقعات کے پس منظر و پیش منظر کا بھی اضافہ کیا گیا ہے.اس کے علاوہ از سر نو روز نامہ افضل ہفت روزہ بدر، ماہنامہ خالد، تخمیذ الاذہان، انصار الله، الفرقان ،تحریک جدید، مجلہ ہائے جامعہ، اب تک شائع شدہ اضلاع کی تاریخ احمدیت ، جماعتی سود بیٹر اور جامعہ کے مقالہ جات وغیرہ سے استفادہ کر کے اس جلد کے لئے مواد جمع کیا گیا ہے.

Page 4

اسی طرح صحابہ کرام کے حالات زندگی کے لئے رجسٹر روایات صحابہ اور صحابہ کرام کے حالاتِ زندگی پر شائع شدہ کتب اور جامعہ احمدیہ کے مقالہ جات نیز بعض قلمی یادداشتوں سے مدد لی گئی ہے.نیز بطور خاص تقریباً تمام صحابہ کرام کی اولادوں کو تلاش کر کے ان سے رابطہ کیا گیا اور ان سے تصاویر ، مزید حالات زندگی اور خاندانی معلومات حاصل کی گئیں.شعبہ ہذا کی خصوصی کوشش ہے کہ صحابہ کرام کی موجودہ نسل کا بھی ذکر آ جائے تاکہ ان کے حالات کی تحقیق و تحریر کے لئے ربط وتسلسل قائم رہے.خاکسار اس جلد کی تیاری میں معاونت فرمانے والے احباب کا دلی شکر گذار ہے.بطور خاص مشاورتی پینل کے ممبران کرام کا ، جن کے قیمتی مشورے بہت خیر و خوبی کے حامل ہوتے ہیں.جنہوں نے اس میں بھر پور معاونت فرمائی ہے.بھی خصوصی شکر یہ ادا کرنا ضروری ہے کہ وہ نہایت محنت سے اگلے سالوں کے لئے تاریخ کا مواد مرتب کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ۲۰۱۱ ء تک کا بیشتر مواد تیار ہو چکا ہے.فالحمد لله نیز خاکسار مکرم عمیر علیم صاحب انچارج مخزن تصاویر لندن کے خصوصی تعاون پر بھی بہت شکر گزار ہے.جزاهم الله احسن الجزاء

Page 5

صفحہ i عنوان تاریخ احمدیت جلد 24 فهرست مضامین صفحہ عنوان صلح تا فتح ۱۳۴۶اہش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۷ء معلمین وقف جدید کی سالانہ تعلیمی کلاس کی صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا طلبائے اختتامی تقریب ہوٹل جامعہ احمدیہ سے خطاب 1 حضرت خلیفۃ اصبح الثالث کا سفر نخلہ اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) کی ایک مجالس موصیان کا قیام لاکھ اشاعت حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا معتکفین سے خطاب 1 میر عثمان علی خاں آصف جاہ ہفتم شاہ دگن کی وفات 2- نظام حیدر آباد دکن کا جماعت احمدیہ سے سلوک 2 دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا دوسرا جلسہ سالانہ 4 خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی دوسری مجلس جلسه سالانه مستورات LO 5 مشاورت حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے جلسہ سالانہ مغربی افریقہ میں مبلغین اسلام کی شاندار دینی کے متعلق ایمان افروز تاثرات 7 خدمات کا اعتراف جلسہ سالانہ میں بھارتی احمد یوں کی شمولیت حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پر معارف خطاب 9 احمد بی نائیجیریاکے نام.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا کارکنان جلسہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا حج سالانہ سے خطاب 10 بیت اللہ.جلسہ اور ہفت روزہ ”المنبر لائل پور 11 تعمیر بیت اللہ کے مقاصد سے متعلق ایمان “ ( ) انتظامات جلسہ سالانہ پر ایک طائرانہ نظر 13 افروز خطبات کا سلسلہ 23 شه له ته 22 23 23 25 25 30 50 39 42 45 45 47

Page 6

ii عنوان صفحہ عنوان قادیان میں عیدالاضحیہ پر غیر مسلم معززین کی نظارت تجارت وصنعت کے لئے خصوصی کمیٹی دعوت 49 کا قیام مانانوالہ لائکپور کی احمد یہ مسجد کی شہادت 49 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اپنے عہد خلافت علمی تقاریر مجلس ارشاد مرکز یہ اور اس کا ملک گیر 50 کا پہلا سفر یورپ پروگرام طلباء جامعہ احمدیہ سے حضرت خلیفہ اسیح 52 کی تحریک خاص الثالث کا خطاب.مجوزہ سفر کے بابرکت ہونے کے لئے دعا.سفر پر روانگی سے قبل احمدی مستورات سے.اہل ربوہ سے دردانگیز خطاب حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا جلسہ سالانہ کی رگ 54 خطاب شیخ کا کے لئے روح پرور پیغام ڈاکٹر عبدالسلام کی میکسویل میڈل اور نقد انعام 56 - قافلہ یورپ کے خوش نصیب ارکان.امیر مقامی اور امام الصلوۃ کا تقرر سے عزت افزائی مشرق وسطی کے مسلمانوں کیلئے دعا کی خصوصی 57 - قصر خلافت سے روانگی بہشتی مقبرہ میں دعا تحریک اور ربوہ اسیٹیشن پر تشریف آوری صفحہ 64 67 67 69 70 71 71 72 عرب وار ریلیف فنڈ میں امداد کیلئے پرزور تحریک 57.ربوہ سے روانگی اور کراچی میں ورود مسعود 73 صدر مملکت کی طرف سے جماعت احمدیہ کا مجلس انصار اللہ کراچی کے اجتماع سے روح بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان 59 پرور خطاب 60 - کراچی سے فرینکفورٹ تک 75 76 لائبیریا کے صدر مملکت اور گیمبیا کے گورنر جنرل فرینکفورٹ میں مختصر قیام اور دینی مصروفیات 77 61 - جرمن قوم کیلئے قدر کے جذبات کی احمد یہ مشن لندن میں آمد فضل عمر تعلیم القرآن کلاس سے افتتاحی خطاب 62 - اسپرانتو میں قرآن کریم کا ترجمہ | فضل عمر تعلیم القرآن کل اس کے نام مکتوب امام 63 - استقبالیہ میں حضور کا خطاب مشرقی پاکستان میں تبلیغ اسلام کی وسیع سرگرمیاں 64 - فرینکفورٹ پر لیس میں چرچا 78 79 82 85

Page 7

iii عنوان صفحہ عنوان زیورک میں تشریف آوری اور کامیاب استقبالیہ کو پن جیگن ڈنمارک میں تشریف آوری تقاریب 86 - مسجد نصرت جہاں کا شاندار افتتاح اور زیورک پریس میں حضور کی عظیم شخصیت کے حقیقت افروز خطاب تذکرے 90 - تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ہالینڈ میں تشریف آوری اور حضور کی دینی.افتتاحی تقریب کے مناظر سعودی عرب ٹیلی مصروفیات 94 ویژن سے.ہالینڈ میں دنیا کے جدید ترین ایئر پورٹ پر.ڈنمارک سے شائع ہونے والے با اثر حضور کا استقبال 95 اخبارات کے ادارتی مقالے حضور انور کی ہالینڈ سے روانگی 100 - حضور انور کا برقی پیغام دورہ ہالینڈ اور اخبارات کے تاثرات 100 - حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا مکتوب صفحہ 118 118 120 121 122 127 128 129 حضور انور کی ہمبرگ میں تشریف آوری 104 - احمدی خواتین کے نام روح پرور پیغام پراونشل گورنمنٹ کی طرف سے استقبالیہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے دو گرانقدر.لارڈ میئر آف دی ڈورا کا حضور کو استقبالیہ | 132 | 108.ڈینش مشنری سوسائٹی کے وفد سے ملاقات 130 111.اسلام کے خلاف ایک اخبار کی پھیلائی ہوئی حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے نام مکتوب کا غلط فہمی اور اس کی معجزانہ تردید اقتباس - 111 ڈنمارک سے انگلستان تک سید میر داؤد احمد صاحب کے نام مکتوب کا 112 - انگلستان میں پہلا خطبہ جمعہ اقتباس استقبالیہ اور تاریخی خطاب بعنوان ”امن کا پیغام.ڈاک کا باقاعدگی سے مرکز میں بھجوانے کا اور ایک حرف انتباہ احساس تیاری کو پن ہیگن 113.امیر صاحب مقامی کا مبارکباد کا تار 114 حضور انور کا جوابی برقیہ دورہ ہمبرگ اور پریس میں وسیع پیمانے پر چرچا 114.ساؤتھ آل میں بصیرت افروز خطاب 134 134 135 135 141 141 142

Page 8

عنوان صفحہ iv عنوان صفحہ تعلیم الاسلام سنڈے سکول کا پہلی بار معاینہ 144 - حضور انور کا سفر یورپ اور پاکستانی پریس 176 جلسہ سالانہ انگلستان سے پُر معارف خطاب 144 مراجعت کے بعد پہلا خطبہ جمعہ اور سفر یورپ محمود ہال کا سنگ بنیاد 148 کے ایمان افروز حالات تمام خدام کے نام حضرت خلیفہ المسح الثالث احمدی مستورات سے اہم خطاب کا شفقت بھر اسلام.دورہ سکاٹ لینڈ 151 یورپ کے نو مسلم احمدیوں کے ایمان و اخلاص کا 151 روح پرور تذکرہ.بریڈ فورڈ اور ہڈرزفیلڈ میں تشریف آوری 152 لوکل انجمن احمدیہ کا سپاسنامہ اور حضور کا رُوح بخیریت لنڈن واپسی 152 پرور خطاب انفرادی ملاقاتیں اور بعض ایمان افروز حضور انور کا مجلس انصاراللہ ربوہ کی استقبالیہ واقعات کا بیان.بی بی سی کو انٹر ویو 152 153 تقریب سے پُر معارف خطاب 178 188 189 193 198 یورپ میں زبر دست خلا اور جماعت احمدیہ کا فرض 200 تعلیم الاسلام سنڈے سکول میں دوبارہ تشریف آوری کراچی میں تشریف آوری.کراچی میں پریس کانفرنس.ایک اجلاس عام میں شرکت 153 156 156 158 حضور انور کا مجلس خدام الاحمد سید ربوہ کی استقبالیہ تقریب سے ایمان افروز خطاب مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی استقبالیہ تقریبات 200 ربوہ تک عقیدت و محبت کے بے مثال نظارے 158 علمائے سلسلہ کا دورہ مشرقی پاکستان.کوٹری اور حیدر آبا داسٹیشن.حیدر آباد سے چنیوٹ تک 161 204 208 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کاسفر راولپنڈی ومری 208 162 راولپنڈی میں شاندار پریس کانفرنس کا انعقاد 212.ربوہ میں شاندار استقبال اور چراغاں 164 جامعہ نصرت کی استقبالیہ تقریب میں حضرت.سفریورپ کے متعلق بعض احباب کے تاثرات 169 خلیفہ المسیح الثالث کی شمولیت.ایک انگریز کا تاثر 174 مرکزی تنظیموں کی طرف سے خصوصی استقبالیہ 217.بچے کے کان میں اذان 175 تقریب اور حضور انور کا اہم خطاب 219

Page 9

صفحہ 254 255 256 259 عنوان صفحہ عنوان سرگودھا میں دعوت استقبالیہ اور حضور انور کا خطاب 223 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دسواں سالانہ اجتماع روزنامہ ”شعلہ سرگودھا کا پُر جوش خیر مقدم اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ سے حضور انور کے 225 بصیرت افروز خطابات اور خصوصی دورہ یورپ نمبر پر شعلہ کے خلاف سرگودھا کے متعصب علماء تاریخ احمدیت کے پچھتر سالوں پر حضرت کا شرمناک مظاہرہ اور اس پر حقیقت افروز تبصره 227 خلیفہ اسیح الثالث کی طائرانہ نگاہ مدير ( حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب کی پشاور میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا حقیقت افروز پریس کانفرنس 230 مضمون سیرت رسول علیہ پر ایک پر معارف تقریر 234 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی صدر پاکستان کے دفاعی فنڈ میں مجالس خدام ضلع میانوالی میں اہم تقاریر 235 مبلغین کے اعزاز میں ایک تقریب الاحمدیہ امریکہ کا گرانقدر عطیہ ایک بہتان عظیم کی تردید حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور احمدی شعراء کا ذکر 238 افریقہ میں 236 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب مشرقی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کینیڈا میں 244 جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۶۷ء 262 263 264 264 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی دوسری کل پاکستان حضرت خلیفتہ امیج الثالث کا روح پرور پیغام (264 اردو کانفرنس تیسرا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ 246 پیغام حضور انور بذریعہ ٹیپ ریکارڈر 267 267 250 - پیغامات و تاثرات.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا خطاب حضور انور کی فضل عمر جو نیئر ماڈل سکول میں آمد 268 ٹورنامنٹ سے 250 حوالہ جات (صفحہ 1 تا 269) خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر بصیرت افروز خطابات 251 صحابہ کرام کا انتقال 270 مجلس اطفال الاحمد یہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع 253 حضرت ملک محمد عالم صاحب آف محمود آباد جہلم 278 اختتامی خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث 254 حضرت رسول بی بی صاحبہ 279

Page 10

vi عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت میاں نور محمد صاحب آف پیر کوٹ 279 حضرت ملک نیاز محمد صاحب کسووال ضلع ساہیوال - 348 280 حضرت منشی عبدالکریم صاحب بٹالوی حضرت بابا جمال دین صاحب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب پٹیالوی 281 ۱۹۶۷ء میں وفات پانے والے حضرت مہر قطب الدین صاحب آف قادیان 289 مخلصین جماعت 355 حضرت با با غلام محمد صاحب درویش قادیان 294 حاجی امیر عالم صاحب آف کوٹلی آزاد کشمیر 358 حضرت خواجہ محمد عثمان صاحب بھیروی 295 چوہدری عنایت محمد صاحب آف جاگووال حضرت ڈاکٹر عبدالحمید صاحب چغتائی 296 میجر بشیر احمد صاحب حضرت ملک عزیز احمد صاحب 299 محمد عمر خان صاحب یاردانی 359 359 360 360 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب 302 حضرت سیدہ شوکت سلطانہ صاحبہ حضرت میاں خدا بخش صاحب المعروف احمد علی صاحب آف ڈوله مستقیم حجرہ شاہ مقیم 361 | مومن جی حضرت بیگم سلطان صاحبہ حضرت مولوی میر محمد جی صاحب ہزاروی حضرت میاں عبد الغنی صاحب انجینئر 322 328 329 334 سید عبدالباسط صاحب نائب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ہاجرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب 362 362 حضرت میاں عبد الرشید صاحب ریٹائرڈ چیف ہاجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر ڈرافٹمین حضرت طالعه بی بی صاحبہ حضرت مہتاب بی بی صاحبہ حضرت ملک محمد فقیر اللہ خاں صاحب حضرت با با خیر الدین صاحب منگلی 334 337 338 339 341 الفضل ملک عبدالماجد صاحب شمس چوہدری کرامت اللہ صاحب ( کے سنز ہوزری کراچی) 363 363 363 364 حضرت حکیم انوار حسین صاحب آف خانیوال 341 چوہدری غلام حسین صاحب اوور سیر حضرت ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب آف مردان 342 مولوی شیخ طاہر الدین صاحب آف کیرنگ 365 ڈاکٹر حضرت حکیم شیخ محمد افضل صاحب بیٹیالوی 343 پروفیسرمحمد عطاءالرحمن صاحب آف آسام 365

Page 11

صفحہ 388 389 391 392 392 393 394 394 395 395 396 396 401 403 408 410 411 412 vii عنوان صفحہ عنوان چوہدری بشیر احمد صاحب حقانی (لاہور) 365 مدرسہ احمدیہ قادیان کا جلسہ تقسیم انعامات ملک غلام نبی صاحب ریٹائر ڈاے.ڈی.آئی 366 بھارتی احمدیوں کی دینی سرگرمیاں مرز اغلام حیدر صاحب ایڈووکیٹ نوشہرہ 366 گیارھویں آل کیرالہ احمدیہ کا نفرنس کا کامیاب السيد رشدى البسطى صاحب 370 انعقاد حوالہ جات (صفحہ 278 تا 371) 372 ایک سرکاری محکمے کا عدم تعاون ۱۹۶۷ء کے متفرق اہم واقعات ربوہ میں مجلس تلقین عمل خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی سید محی الدین صاحب ایڈووکیٹ رانچی کی تقاریب 378 باعزت بریت احمدیوں کی شاندار کامیابیاں اور اعزازات 378 صدر مملکت اور گورنر مغربی پاکستان کی بشیر ماڈل دعوت الی اللہ کا ایک دلچسپ اور نا در طریق 380 فارم شیخوپورہ میں آمد ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی ملتان آمد پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے نئے احمدی ممبرز 382 ملک امیر محمد خاں صاحب کا قتل را ولپنڈی ریجن کے ڈائریکٹر تعلیمات ربوہ میں 383 جامعہ احمدیہ میں ایک علمی تقریر 382 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی چیمپئن شپ نواں گل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ 383 مسجد حد محلہ فیکٹری امیر یار بوده جلسہ سالانہ مشرقی پاکستان 384 عالمی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ جماعت احمد یہ جتندر نگر (سندر بن ) کا پہلا بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی جلسه سالانه حکومت پاکستان کے چیف پارلیمینٹری سیکرٹری انڈر ونیشیا ربوہ میں 386 امریکہ 386 انگلستان ارکان آل پاکستان طبی بورڈ کی ربوہ تشریف آوری 1387 برما تعلیم الاسلام کالج کا جلسہ تقسیم اسناد و انعامات 388 جرمنی جامعہ نصرت ربوہ میں شاندار تقریب 388 سنگا پور

Page 12

viii سوئٹزرلینڈ سیرالیون عنوان صفحه عنوان 413 - ایثار و قربانی کی ایک درخشندہ مثال 418.ایک ایمان افروز تاریخی واقعہ صفحہ 465 467 432 کی ملاقات غانا 422 - جلسہ سالانہ مستورات 467 فنجی ( جزائر ) 425 ٹاؤن ہال ایلنگ انگلستان میں ایک مجلس مذاکرہ 468 کینیا 429 ایک غیر احمدی عالم کا اعتراف حق 470 گی آنا (جنوبی امریکہ) 430 حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے ایک ترک صحافی لانبیریا 470 ماریشس ملائیشیا ہالینڈ 443 یوگنڈا مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی 447 449 احمدی مندوب 472 نئی مطبوعات 451 حوالہ جات (صفحہ 373 تا 453) صلح تا فتح ۱۳۴۷ ہش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۸ء سال نو کے آغاز پر اجتماعی دعا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کا درس قرآن اور اجتماعی دعا 436 دسواں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ 471 442 - پیغام امام بر موقع ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ 471 امام بین الاقوامی اسلامی کانفرنس میں نائیجیریا کا راولپنڈی میں تراجم قرآن مجید کی کامیاب نمائش 473 مشرقی پاکستان کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ 454 مجلس ارشاد مرکز یہ کے تاریخی اجلاسات 459 459 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا اہم خطاب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی 460 مظفر آباد میں آمد اور تاریخی لیکچر ربوہ میں عید الفطر کی نہایت با برکت تقریب 460 خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا تیسرا جلسہ سالانہ 460 معاینہ انتظامات جلسہ سالانہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ایمان افروز خطابات روزنامہ نوائے وقت میں خبر 460- حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی احمد یہ نما ز سنٹر پر آمد 476 476 481 482 483 485 461 ربوہ میں عید الاضحی کی نہایت با برکت تقریب 486

Page 13

ix عنوان صفحہ عنوان پاکستان ٹائمنز میں ماریشس کے احمدیوں کا ذکر 487 کتاب المذاہب الاسلامیہ اور ماہنامہ ماریشس کا پہلا جشن آزادی اور جماعت احمدیہ 487 فکر ونظر کا دلچسپ تبصرہ تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی خصوصی تحریک 493 مبادۂ نبی حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی طرف سے بہائی ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ دہلی میں ایک تقریر لیڈرکو دعوت مقابلہ 495 ہفت روزہ چٹان پر پابندی صفحہ 517 518 522 522 527 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا خطاب 495 - مقدمہ چٹان اور فیصلہ ہائیکورٹ مغربی پاکستان 523 اہل ربوہ کو روح مسابقت پیدا کرنے کی تحریک 497.فیصلہ کے خلاف نامناسب مظاہرہ مستورات کے لئے خصوصی درس قرآن 501 مجلس خدام الاحمدیہ کی پندرھویں مرکزی تربیتی کلاس 529 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا اہم خطاب جامعہ حضور انور کی ایک خواہش کا اظہار اور اس نصرت ربوہ میں 502 کی تکمیل 530 530 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا خطبہ صدارت 505 ایک استفسار اور اس کا جواب سفارتخانہ فلپائن کی طرف سے خدام الاحمدیہ سوسائٹی آف سرونٹس آف گاڈ میں احمدی مبلغ کی 530 507 | تقریر ملتان کے لئے اظہار تشکر خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی تیسری مجلس پشاور یونیورسٹی میں قاضی محمد اسلم صاحب کا لیکچر 531 508 مشرقی پاکستان میں سترھویں تربیتی کلاس کا انعقاد 531 مشاورت کیرنگ کے جلسہ سالانہ کے لئے حضرت خلیفہ کراچی میں تراجم قرآن کریم کی مثالی نمائش 532 مسیح الثالث کا پیغام آرچ بشپ آف کنٹر بری اور رومن کیتھولک.اخبارات کی آراء 512 - دیگراہم زائرین کے تاثرات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ارشادات آرچ بشپ ویسٹ منسٹر کو روحانی مقابلہ کی دعوت 513 آرچ بشپ آف کنٹر بری کا جوابی مکتوب 516 بابت نمائش 536 539 541 542 رانسیسی پروفیسر کا لیکچر کراچی رومن کیتھولک آرچ بشپ ویسٹ منسٹر کا جوابی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا مری میں ورود مسعود 543 516

Page 14

X عنوان صفحہ عنوان ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار دی لائٹ کی حضور (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاح انور سے ملاقات 543 صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا پیغام حضورانور کی ربوہ کے لیے واپسی 544 مجلس اطفال الاحمد یہ ربوہ کی دوسری سالانہ مولانامحمد یعقوب خاں صاحب کے قلبی تاثرات 545 تربیتی کلاس.غیر مبایعین کی تنقید کا جواب 546 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کا حکومت پاکستان کو ایک مرکب روحانی نسخہ 547 قیمتی مشوره صفحہ 568 569 569 حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی ایک یادگار تحریر 548 ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی کراچی ریڈیو سے تقریر 570 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس حضور انور کا پُر معارف خطاب 548 549 حیدر آباد دکن کے ایک معزز مسلمان ربوہ میں 570 کوئٹہ و قلات ڈویژن کا سالانہ اجتماع انصار الله 578 فضل عم تعلیم القرآن کلاس کی اختتامی تقریب 550 حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا دورہ کراچی (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور.حضور انورکا کراچی میں ورود مسعود آپ کے رفقائے کار کو خراج تحسین 550 مشہور امریکن پادری اورل را برٹس کا روحانی 553 مقابلہ سے کھلا فرار.اخبارات میں چیلنج کا ذکر 554 یورپ سے وقف عارضی کی ایک مثالی رپورٹ 559 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تحریک احمدیت کا ذکر جامعہ ملیہ کی ایک کتاب میں 562 حضرت خلیفۃ امسیح الثالث کا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا مجلس انصار اللہ کراچی سے خطاب - حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا لجنہ اماء الله کراچی سے خطاب حضور انور کا سفر ٹھٹھہ مسجد اقصیٰ کی تاسیس کی ایک اور مبارک تقریب 564 حضور انور کی بخیریت ربوہ واپسی سورہ احزاب کی چند آیات کی پر معارف تفسیر 564 مری لٹریری سرکل کے زیراہتمام ایک لیکچر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ ایک مبشر خواب بابت حضرت خلیفتہ اسیح الثالث 566 (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی مشرق بعید ایک تحریر 567 579 579 580 581 582 583 584 585 586

Page 15

xi عنوان صفحه عنوان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کیلئے ایٹم برائے امن ایوارڈ 594 فیصلہ مسئلہ انشورنس اور ایک ضروری اعلان ایٹم برائے امن ایوارڈ کی رقم پاکستانی ضروری اعلان منجانب سیدنا حضرت خلیفة سائنسدانوں کیلئے مختص 596 المسیح الثالث پاکستانی اخبارات کا شاندار خراج تحسین 596 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے.لئے کمرے پیش کرنے کی تحریک اجتماع خدام الاحمدیہ سے حضرت خلیفہ ایسی الثالث کے روح پرور خطابات سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ 600 درس قرآن کی آخری دعا سے متعلق اعلان 603 جلسہ سالانہ کے معزز مہمانوں کی خدمت کے الجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا گیارھواں سالانہ اجتماع 603 خصوصی تحریک حضور انور کا اجتماع سے روح پرور خطاب 603 - جلسہ گاہ کی توسیع صفحہ 625 626 627 628 630 633.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی طرف خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا چوتھا جلسہ سالانہ 635 605 - حضور انور کا افتتاحی خطاب سے خصوصی دعاؤں کی تحریک حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت حضور انور کا دوسرے روز کا خطاب 606 - حضور انور کا تیسرے روز کا خطاب احمد یہ انڈونیشیا کے نام انصار اللہ کا تیرھواں سالانہ اجتماع 607 - بزرگان سلسلہ کی تقاریر مسئلہ خلافت و مجد دبیت پر معرکہ آراء خطاب 607 - جلسہ سالانہ مستورات حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی قبولیت دعا کا نشان 614.پاکستانی پریس میں جلسہ سالانہ کا ذکر انصار اللہ پر دفتر دوم کی ذمہ داری کا اعلان 620 حوالہ جات (صفحہ 459 تا 642) احمدی زمینداروں کو قرآنی دعا کی تلقین حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا شاہجہانپور کا نفرنس کے نام روح پرور پیغام 621 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال 621 حضرت مولوی حکیم نظام الدین صاحب آف ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک افسوسناک سانحہ 623 بیگم کوٹ مبلغ کشمیر صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی دہلی میں تشریف آوری 624 635 637 638 640 640 641 643 649 حضرت چوہدری نوراحمد صاحب آف سٹروعہ 652

Page 16

xii عنوان صفحه عنوان حضرت حکیم محمد رمضان صاحب تلا کو ضلع انبالہ ۱۹۶۸ء میں وفات پانے والے ( بھارت) 655 مخلصین جماعت حضرت سید محمود عالم صاحب سابق آڈیٹر 655 چوہدری محمد شریف صاحب آف فیروز والا 661 مولوی محمد مراد صاحب آف پنڈی بھٹیاں صفحہ 705 705 حضرت غلام فاطمہ صاحبہ حضرت میاں محمد حسین صاحب کشمیری 661 حکیم سید محمد یعقوب شاہ صاحب آف لگو ضلع منٹگمری 706 حضرت میاں اللہ دستہ صاحب آف ماہل پور ضلع چوہدری غلام احمد صاحب آف مانچسٹر، انگلستان 706 661 سکواڈرن لیڈر سید محمد نواز احمد صاحب ہوشیار پور 707 حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل و مشیر حافظ محمد رمضان صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ 707 663 ڈاکٹر سید سفیر الدین بشیر احمد صاحب 676 | ملک مولا داد خان صاحب قانونی صدر انجمن احمدیہ حضرت لیفٹیننٹ ملک مظفر احمد صاحب آف لاہور 673 عبداللطیف صاحب خوشنو لیں.ربوہ حضرت سید محمداکبر شاہ صاحب حضرت مولوی عبدالواحد خان صاحب میر تھی 676 سید محمد امین شاہ صاحب معلم اصلاح و ارشاد حضرت حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی 677 میاں محمد اسماعیل صاحب لائل پوری حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی 679 فقیر محمد صاحب آف علی پور ضلع مظفر گڑھ 685 سید لال شاہ صاحب امیر جماعت احمد یہ آنبه و 709 709 710 711 711 حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب حضرت میاں علی گوہر صاحب 688 کرم پور ضلع شیخو پوره 712 حضرت شیخ محمد بخش صاحب 688 قریشی یونس احمد صاحب اسلم در ولیش قادیان 714 715 حضرت چوہدری غلام حسین صاحب آف سرگودھا 689 حضرت خواجہ عبدالواحد صاحب پہلوان - گوجرہ الحاج حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری 690 ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ حضرت مولوی عبدالمنان صاحب کا ٹھگڑ بھی 693 پروفیسرمحمد ابراہیم صاحب ناصر سابق مجاہد ہنگری 716 کیپٹن سید محمد اکمل صاحب حضرت چوہدری کرم الہی صاحب گرد اور قانون گو 697 حضرت مرز اعبدالکریم صاحب 703 بابا محمد دین صاحب در ویش قادیان 717 717

Page 17

xiii عنوان صفحہ عنوان سیدہ بی بی صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ محمد سعید جان صوفی عبدالحکیم صاحب صاحب 718 میاں محمد اشرف صاحب چوہدری اللہ بخش صاحب پریذیڈنٹ جماعت حاجی عبدالکریم صاحب آف کراچی کنڈ یوالی ضلع رحیم یارخان عبدالشکور صاحب پراچہ 723 حوالہ جات (صفحہ 649 تا 746) 723 ۱۹۶۸ء کے متفرق اہم واقعات چوہدری رحمت خاں صاحب سابق امام مسجد 724 خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی فضل لندن تقاریب میاں محمد سعید صاحب ناظم انصار اللہ ضلع ملتان 725 نمایاں اعزازات خان عبد الاحد خان صاحب افغان در ولیش میاں محمد ادریس صاحب چنیوٹی آف کلکتہ مولوی کمال الدین صاحب امینی ڈاکٹر سید جنود اللہ صاحب مہاشہ محمد عمر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مولوی بی محمد عبد اللہ صاحب مالا باری مولوی ابوالفضل محمود صاحب 726 728 728 731 731 734 737 ربوہ میں اجتماعی وقار عمل صفحہ 744 744 745 747 752 753 754 755 مدراس میں احمد یہ انٹرنیشنل تبلیغی سال غیر مبائعین کے دو کنگ مشن کا عبرتناک حشر 756 سنٹرل زونل باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں فضل عمر کلب کی شاندار کامیابی 757 تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے بارہ میں ڈائریکٹر تعلیمات کے تاثرات مولوی محمد علی اکبر صاحب بنگالی معلم اصلاح و 737 احمد یہ شفاخانہ قادیان سے متعلق تاثرات ارشاد مولوی سید صمام الدین صاحب سونگھڑ وی لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ الحاج محمد عبد القادر اسحق غانا سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی حضرت شیخ محمد دین صاحب مختار عام 738 739 739 740 740 سینئر ڈپٹی جنرل مینجر ریلوے قادیان میں کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثات آل پاکستان والی بال ٹورنامنٹ کا انعقاد قبر مسیح اور حکومت کشمیر مجلس خدام الاحمدیہ ملتان کی طرف سے خدمت خلق کی قابل قدر مساعی 757 757 758 760 760 760 761

Page 18

xiv عنوان مسجد ڈائمنڈ ہاربر کلکتہ کا افتتاح رحمت بازار ربوہ وزیر بنیادی جمہوریت مغربی پاکستان کی ربوہ میں آمد صفحه 762 انگلستان 762 برما تنزانیہ 762 جرمنی جلسہ سالانہ احمد نگر (ضلع دینا جپور ) مشرقی جنوبی افریقہ پاکستان مولا نا صلاح الدین احمد صاحب کی یاد میں ایک خصوصی نشست 763 ڈچ گی آنا سیرالیون 763 غانا مدراس میں عیسائی کانفرنس اور جماعت احمدیہ 764 - پیغام امام همام وزیراعلیٰ میسور سٹیٹ کو دینی لٹریچر کی پیشکش 765 نجی میسورسٹیسٹ شیند رہ ضلع پونچھ میں علمی مذاکرہ 765 کینیا کراچی میں تصویری نمائش 766 گیمبیا جماعت اسلام آباد کا قیام 766 لائبیریا.ابتدائی تاریخ 766 ماریشس عنوان صفحه چوتھا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنا منٹ 772 ملائیشیا محمود الخطیب صاحب اُردنی کی تقریر 773 نائیجیریا کمشنر سرگودھا کا تعلیم الاسلام کالج میں خطاب 773 اپر وولٹا جمہوریہ میں احمد یہ مشن کا قیام غزہ میں جماعت احمدیہ کا قیام 774 ہالینڈ ربوہ میں پندرھویں قومی باسکٹ بال چیمپین شپ 774 یوگنڈا ترکی کے ماجد بے نی جے کی قبول احمدیت امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی 775 مبلغین سلسلہ کی آمد اور روانگی نئی مطبوعات 781 حوالہ جات (صفحہ 752 تا 849) 784 791 793 798 802 802 803 806 806 810 814 819 822 828 834 834 836 838 845 848 849 850

Page 19

تاریخ احمدیت.جلد 24 1 سال 1967ء صلح تاریخ ۱۳۴۶هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۷ء صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا طلبائے ہوٹل جامعہ احمدیہ سے خطاب صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے یکم جنوری ۱۹۶۷ء کو ہوٹل جامعہ احمدیہ ربوہ کے طلباء کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایک جامع اور موثر تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا میری دُعا ہے کہ آپ جہاں بھی مبلغ بن کر جائیں وہاں مساجد آباد ہو جائیں.دلوں کی کدورتیں ڈھل جائیں.احباب میں انفاق فی سبیل اللہ کا شوق بڑھ جائے.جماعت آپ سے صحابہ کے سے نمونے کی توقع رکھتی ہے.آپ پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں جن کے لئے ابھی سے تیاری کریں.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ویسے مربی بنائے جو اولیاء اللہ تھے.جنہوں نے دنیا میں قدم رکھا تو اسے دین میں بدل ڈالا.اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) کی ایک لاکھ اشاعت اس سال وکالت تبشیر تحریک جدید کے زیر اہتمام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرکۃ الآراء تصنیف اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں لنڈن سے چھپوا کر شائع کیا گیا.اس طرح اس عظیم الشان کتاب کی دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر اشاعت ہوئی.سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی تالیف کا اتنی بڑی تعداد میں ترجمہ شائع کیا گیا ہو.اس کے علاوہ نظارت اصلاح وارشا در بوہ کی طرف سے اس معرکۃ الآراء تصنیف کا نہایت دیدہ زیب ایڈیشن پوری صحت کے ساتھ بلاک بنوا کر سپر کیلنڈر کاغذ پر شائع کیا گیا.اس کی طباعت بہترین اور جاذب نظر تھی.

Page 20

تاریخ احمدیت.جلد 24 2 سال 1967ء حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا معتکفین سے خطاب سید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کے ہر طبقہ کی رہنمائی میں سرگرم عمل تھے.اس سلسلہ میں حضور نے ۹ تا ۱ جنوری ۱۹۶۷ء کونماز فجر کے بعد مسجد مبارک میں موجود احباب جماعت سے بالعموم اور معتکفین سے بالخصوص خطاب فرمایا اور اپنی زریں ہدایات سے نوازا.جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اعمال کی بنیاد تقویٰ پر رکھو اور ان پر کبھی فخر نہ کرو بلکہ یہ فکر کرو کہ وہ بارگاہ ایزدی میں بھی قبول ہو جائیں.جنوری کو حضور نے بعد نماز فجر ودرس معتکفین کو مصالح سے بھی مشرف فرمایا.اسی دن رمضان المبارک کی ۲۹ تاریخ کو حضور انور نے نماز عصر کے بعد آخری تین سورتوں کا درس دیا اور اجتماعی دعا کروائی.دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح ۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ایک نہایت مؤثر ، سادہ اور پُر وقار تقریب میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی نو تعمیر شدہ عمارت کا اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کے ساتھ افتتاح فرمایا.حضور نے احباب کو اس موقع پر ایک بصیرت افروز خطاب سے بھی نوازا.جس میں حضور نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کے اغراض و مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اونچے اونچے پہاڑوں پر برف کی شکل میں پانی نازل کرتا رہتا ہے جہاں سے سال بھر اور ہر زمانہ میں دنیا کو پانی ملتا رہتا ہے.بعض پہاڑوں کی ساری برف کچھ عرصہ بعد پگھل جاتی ہے اور وہاں سے دنیا کو پانی ملنا بند ہو جاتا ہے اور بعض پہاڑوں کی چوٹیوں پر سارا سال برف جمع رہتی ہے اور وہاں سے بہنے والے پانی سے دنیا سارا سال فائدہ اٹھاتی رہتی ہے.حضور انور نے فرمایا که بالکل اسی طرح روحانی دنیا کا حال ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو انبیاءعلیھم السلام مبعوث ہوئے ان کی مثال ان پہاڑوں کی مانند تھی جن پر کچھ عرصہ تک آسمانی پانی موجود رہتا ہے اور دنیا اس پانی سے فائدہ اٹھاتی ہے اور پھر ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ وہ پہاڑ آسمانی پانی سے خالی ہو جاتے ہیں اور ان انبیاء کی امتوں کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے.روحانی دنیا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بلند وارفع پہاڑ کی مانند ہیں جس کی چوٹی پر سارا سال برف رہتی ہے اور اس سے بہنے والا پانی ہمیشہ دنیا کو

Page 21

تاریخ احمدیت.جلد 24 3 سال 1967ء فائدہ پہنچاتا رہتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جانے والا پانی الہی فیصلہ کے مطابق کبھی خشک نہ ہوگا اور بنی نوع انسان کو ہمیشہ سیراب کرتا رہے گا.اس روحانی دریا سے آگے بہت سے ایسے نالے نکلے جنہوں نے تمہیں تمھیں ، چالیس چالیس سال تک اور بعض نے سوسال تک اپنے علاقے کو سیراب کیا اور پھر ایک بڑا دریا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض کی برف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صورت نکلا.اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ اب اس چوٹی سے نکلنے والے پانی اس دریا میں اکھٹے ہو کر بہتے ہوئے قیامت تک دنیا کو سیراب کرتے رہیں گے.حضور نے فرمایا کہ اس دریا کے پانی کے صحیح استعمال کے لئے خلیفہ وقت ایک بند باندھ رہا ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے اس دریا کا سارا پانی سمیٹ کر ایک بڑی نہر کی شکل میں جاری کیا جو قیامت تک چلتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ابد کے سمندر میں مل کر اس میں گم ہو جائے گی.ہمیں اس نہر پر وقفہ وقفہ پر ، کچھ کچھ فاصلہ پر اور زمانہ زمانہ کے بعد اس پر ڈیم بنانے کی ضرورت ہے تا کہ اس کے ذریعہ سے روحانی روشنی اور بجلی پیدا ہو کر دنیا کو مختلف رنگوں میں سیراب کرے.حضور انور نے فرمایا فضل عمر فاؤنڈیشن بھی ایک بند ہے جو بڑے دریا سے لیے گئے پانی کو محفوظ رکھنے اور اس سے انسان کو فائدہ پہنچانے ، اور اس کے منبع سے آگاہ کرنے کے لئے ہے جس سے وہ پانی نکلا.یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اور پھر خدا تعالیٰ کی ہستی کا عرفان حاصل کر کے اس کی رحمتوں برکتوں کو حاصل کریں جو وہ بندوں کو دینا چاہتا ہے.جس طرح بند بنانے والوں کے لئے ایک کالونی بنا کر کالونی کے لوگوں کو مختلف سہولتیں پہنچائی جاتی ہیں یہ بھی ایک کالونی ہے لیکن اس میں مخفی اصل چیز روحانی نور بجلی اور برقی طاقت ہے.جسے ایک عظمند انسان حاصل کر کے نہ صرف خود فائدہ اٹھاتا ہے بلکہ دنیا کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے.حضور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ فاؤنڈیشن کے کارکنوں کے ذہنوں میں جلا پیدا کرے خودان کو وہ راہیں دکھلائے جن پر چل کر وہ فاؤنڈیشن کے مقاصد کو حاصل کر سکیں.ان کی کوششوں میں برکت ڈالے، بہترین نتائج پیدا فرمائے اور اطراف عالم میں فیوض اسلام، اسکی تعلیم پہنچانے میں، جو حضرت مصلح موعود نے قرآن کریم کے نور سے اخذ کر کے ہمیں دی ہے اور ہمارے سینوں ذہنوں ، دلوں کو منور کیا ہے، یہ فاؤنڈیشن بھی حصہ دار ہو.حضور نے عمارت کا افتتاح فرمانے کے بعد اُس مشاورتی اجلاس کا بھی دعا کے ساتھ افتتاح

Page 22

تاریخ احمدیت.جلد 24 4 سال 1967ء فرمایا جو فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے طلب کیا گیا تھا.اس اجلاس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب چیئر مین فضل عمر فاؤنڈیشن اور ڈائریکٹر صاحبان کے علاوہ بعض بیرونی جماعتوں کے امراء صاحبان اور متعدد دیگر احباب بھی شریک ہوئے.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا دوسرا جلسہ سالانہ خلافت ثالثہ کا دوسرا جلسہ جو دسمبر ۱۹۶۶ء میں منعقد ہونا تھا وہ رمضان المبارک کی وجہ سے مؤخر ہو گیا.اور پھر جنوری ۱۹۶۷ء میں اس کا انعقاد ہوا.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کے اس دوسرے جلسہ سالانہ (منعقدہ ۲۶، ۲۸،۲۷ جنوری ۱۹۶۷ء) کے موقع پر پچاسی ہزار فدائیوں کا رُوح پرور اجتماع ہوا.یہ جلسہ مسجد اقصیٰ اور اس کی گراؤنڈ میں منعقد ہوا.سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس جلسہ کو اپنے چار روح پرور خطابات سے نوازا.حضور نے جلسہ کے دوسرے دن جب غیر مبایعین کی مسلسل ناکامیوں اور روز افزوں زوال و انحطاط کے مقابل جماعت مبایعین کی عظیم الشان اور غیر معمولی ترقیوں پر روشنی ڈالی تو احباب حضور کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے ایک ایک فقرے پر بے اختیار نعرے لگاتے رہے.اور جلسہ گاہ اور اس کا ماحول ان نعروں کی پُر شوکت آوازوں سے گونجتا رہا.جلسہ کے آخری روز حضور نے ایک نہایت علمی موضوع پر تقریر فرمائی جس میں تفصیل کے ساتھ اُن علمی اور انعامی چیلنجز کا ذکر کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کے لیڈروں کو دیں.حضور نے واضح فرمایا کہ یہ دعوتیں ، جنہیں دیگر مذاہب کے سرکردہ لوگوں نے قبول نہ کر کے اسلام کی برتری اور غلبہ پر مہر ثبت کی تھی ، آج بھی قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گی.یہ تقریر علوم و معارف کا ایک گنجینہ تھی ، جس نے سامعین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی.اور انہوں نے بے اختیار ہو کر بار بار نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے.( یہ تقاریر ” خطابات ناصر جلد اول میں.شائع کی گئی ہیں) اس کے علاوہ جن بزرگان سلسلہ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر کیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب زمانہ حال کے فکری رحجانات اور اسلام

Page 23

تاریخ احمدیت.جلد 24 مولانا ابوالعطاء صاحب 5 تعلق باللہ اور اس کے حصول کے ذرائع سال 1967ء مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب شیخ مبارک احمد صاحب مولانا نذیر احمد صاحب مبشر سید میر محمود احمد صاحب ناصر قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری قرآن کریم کا حسن و جمال احمدیت پر اعتراضات کے جوابات بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور اس کے نتائج مسیحی عقائد جدید انکشافات کی روشنی میں مقام مسیح موعود.بزرگان امت کی نظر میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مسلمانوں کی ترقی خلافت سے وابستہ ہے حضور نے جلسہ کے انعقاد سے قریباً دو ہفتے قبل تحریک فرمائی تھی کہ احباب کو مشکلات کے باوجود جلسہ سالانہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شامل ہونا چاہئے.نیز یہ کہ احباب ربوہ محبت اور اخلاص کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کریں اور کھانے کے لقمہ لقمہ اور ذرہ ذرہ کی حفاظت کی جائے.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضور کے اس ارشاد کی اہل ربوہ نے پوری پوری تعمیل کی.جس پر حضور 10.نے اپنے قلم مبارک سے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل معمور ہے کہ اہلِ ربوہ کو اس نے محض اپنے فضل سے یہ تو فیق عطا کی کہ وہ ایام جلسہ سالانہ میں اشیائے خوردونوش کو ضیاع سے بچاتے رہے.نمایاں اور غیر معمولی توفیق“.جلسه سالانه مستورات حسب سابق امسال بھی جلسہ سالانہ برائے خواتین اپنی مخصوص روایات کے ساتھ ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء کو ساڑھے نو بجے شروع ہو کر مورخہ ۲۸ جنوری کو شام پانچ بجے اختتام پذیر ہوا.یہ جلسہ احاطہ لجنہ ہال میں منعقد ہوا.اس سال مردانہ جلسہ گاہ سے بعض تقاریر براہ راست ریلے ہونے کی وجہ سے پروگرام خاصا

Page 24

تاریخ احمدیت.جلد 24 6 سال 1967ء دلچسپ رہا اور مستورات کو خطبہ جمعہ کے علاوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی چار روح پرور تقاریر سننے کی سعادت حاصل ہوئی.۲۶ جنوری اجلاس اوّل.حضرت سیدہ اُم متین صاحبہ نے رسومات کے متعلق قرآنی تعلیم کے موضوع پر خطاب فرمایا.اجلاس دوم زیر صدارت حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ شروع ہوا.اور محترمہ امتہ المالک صاحبہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت انسان کامل“ کے موضوع پر تقریر کی.اس اجلاس میں حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی مستورات سے خطاب فرمایا.آپ نے احمدی خواتین کی مالی قربانیوں کے بے مثال نمونہ پر جس سے قرونِ اولیٰ کی مسلم خواتین کی یاد تازہ ہوئی ، مبارک باد پیش کی.نیز مساجد کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کو آباد کرنے کے لئے بھی جد و جہد کرنے کی طرف توجہ دلائی.اس کے علاوہ تربیت اولا داور پردہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی.۲۷ جنوری کا اجلاس اول بھی حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی زیر صدارت شروع ہوا.حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ نائب صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ”ہمارے معاشرہ میں عورت کا کردار“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث ٹھیک گیارہ بجے مستورات سے خطاب کرنے کے لئے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے.حضور نے تشہد اور تعوذ کے بعد سورہ احزاب کی چونتیسویں آیت کی تلاوت کی اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں سے بھی وعدہ کیا ہے کہ اگر وہ اس آیت کریمہ میں بیان کی گئی دس خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کریں تو ان کو اتنا عظیم اجر دیا جائے گا کہ وہ پہلی تمام امتوں کی مستورات سے بڑھ جائیں گی.نیز حضور انور نے اپنے خطاب میں آیت میں مذکورہ خصوصیات کا تفصیلی ذکر فرما کر احمدی خواتین کو یہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.یہ تقریر ایک گھنٹہ جاری رہی.اس کے بعد حضورانور کی اقتداء میں مستورات نے بیعت کے الفاظ دہرائے.مورخہ ۲۸ جنوری کا اجلاس اوّل زیر صدارت حضرت سیدہ ام متین صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ شروع ہوا.محترمہ سلمی جبیں صاحبہ آف کوئٹہ نے دور حاضرہ اور ہماری ذمہ داریاں اور محترمہ رضیہ درد

Page 25

تاریخ احمدیت.جلد 24 7 سال 1967ء صاحبہ نے ذکر الہی کے موضوع پر تقاریر کیں.اس کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے مستورات کو ڈنمارک میں بننے والی مسجد کی تعمیر کے لئے مزید چندہ کی تحریک کی.چند لمحات میں نقدی اور زیورات کی صورت میں آٹھ ، نو ہزار کی نقد ادائیگی ہو گئی اور تینتیس ہزار روپے کے وعدہ جات موصول ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے جلسہ سالانہ کے متعلق ایمان افروز تاثرات جلسہ سالانہ کے کامیاب اختتام کے بعد افروری کو حضور انور نے جلسہ کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایا:.وو جیسا کہ میں نے ایک فقرہ گذشتہ جمعہ لکھ کر بھجوا دیا تھا کہ دل خدا کی حمد سے معمور ہے.اللہ تعالیٰ نے بڑا ہی فضل کیا.آپ بھائیوں کے ذریعہ سے خصوصاً اور باہر سے آنے والے دوستوں کے ذریعہ سے عموماً خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے بے حد اور بے انتہا مسرت پہنچائی جب جلسہ سالانہ کے بعد یہ رپورٹ ملی کہ امسال دوستوں نے خوردونوش کو ضیاع سے بچانے کا جو خیال رکھا ہے وہ غیر معمولی ہے اور بڑا نمایاں ہے اس کو دیکھ کر دل خدا کی حمد سے بھر گیا کہ اس کی توفیق کے بغیر نہ کوئی فرد نہ کوئی جماعت نیکی کے کوئی کام کر سکتی ہے نہ نیکی کی راہوں کو اختیار کر سکتی ہے.اس کے علاوہ بعض اور باتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل پر ایک نمایاں شہادت پیش کر رہی ہیں.مثلاً یہ کہ جلسہ سالانہ رمضان کی وجہ سے اپنی مقررہ تاریخوں پر نہیں ہوا...ایک اور روک یہ تھی کہ ان دنوں سکولوں اور کالجز میں چھٹیاں نہیں تھیں.اور بہت سے بچے یا نو جوان یا بہت سے ماں باپ بھی اپنے بچوں کی وجہ سے جلسہ میں شمولیت نہیں کر سکتے تھے.سوائے خاص کوشش اور غیر معمولی قربانیوں کے.وہ جلسہ پر نہ آسکتے تھے.پس ان تمام روکوں کے باوجود گذشتہ جلسہ کے موقع پر پرچی کے لحاظ سے بھی اور جو گاڑیوں اور بسوں پر سے مسافر اترتے اور ان کی گنتی ہوتی ہے.(گو سارے مسافروں کی گنتی نہیں ہو سکتی لیکن بہر حال ہر سال ہوتی ہے.اس سے ہمیں پتہ چلتا رہتا ہے کہ اس سال آنے والوں کی تعداد میں زیادتی ہوئی ہے یا کمی) ہر

Page 26

تاریخ احمدیت.جلد 24 8 سال 1967ء دولحاظ سے چند ہزار کی زیادتی ہوئی.ان سب چیزوں کو دیکھ کر دل خدا کی حمد سے اتنا معمور ہوا کہ انگریزی میں کہتے ہیں OVERFLOW کر گیا.یعنی حمد اتنی شدت اختیار کر گئی کہ دل اور روح میں سانہیں سکتی تھی.باہر نکل رہی تھی.یہ حمد کے جذبات اور شکر کے خیالات جو ہیں.یہ میرے اکیلے کے جذبات نہیں بلکہ میرے ہر بھائی کے جذبات ہیں.......جلسہ کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی انوار نازل ہوتے رہے ہیں.بڑی ہی برکات کا نزول ہوا ہے.اپنے تو محسوس کرتے ہی ہیں.اور اس پر شکر بھی بجالاتے ہیں.لیکن دوسروں کے لئے ایسی چیزوں کا پہچانا اور سمجھنا اور ان کو انوار الہی اور برکات سماوی یقین کرنا مشکل ہوتا ہے.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کے لئے بھی اپنی رحمت کے دروازے کھول دے.مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ ہمارے چند غیر مبائع دوست بھی یہاں تشریف لائے تھے.اور ان میں سے چند ایک نے تو یہیں بیعت کر لی.اور ایک کے منہ سے تو نکلا کہ ہم تو کچھ اور ہی سمجھتے تھے.لیکن یہاں آکر کچھ اور دیکھا.سمجھتے تو وہ وہی تھے نا ! جوان کو بتایا جاتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا فضل مبایعین کی جماعت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ غیر مبایعین کی جماعت کے ساتھ ہے، سنی سنائی باتوں پر وہ یقین رکھتے تھے.لیکن جو آنکھ نے دیکھا اس نے کان کو جھٹلا دیا.اور انہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہزار قسم کے فضل اور اس کی رحمتیں اس جماعت پر نازل ہورہی ہیں.اور خصوصاً جلسہ کے ایام میں تو اللہ تعالیٰ دلوں پر تصرف کر کے ایک خاص کیفیت روحانی پیدا کر دیتا ہے.اس سے وہ متاثر ہوئے اور یہیں انہوں نے بیعت کر لی.ایک دوست تھے وہ کسی وجہ سے بیعت تو نہیں کر سکے لیکن ان کا تاثر یہ تھا کہ وہ ایک دوست سے ۲۸ جنوری کی صبح کو کہنے لگے کہ میں قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ یہ تقریر جو غیر مبایعین کے متعلق تھی ۲۷ تاریخ کو ساری کی ساری الہامی تھی.تقریر الہامی تو نہ تھی اگر چہ اس کے خاص فضل کی حامل تھی.مگر اس قسم کا اثر اللہ تعالیٰ نے ان کے دماغ پر ڈالا.13

Page 27

تاریخ احمدیت.جلد 24 9 جلسہ سالانہ میں بھارتی احمد یوں کی شمولیت اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پر معارف خطاب سال 1967ء اس سال قریباً ساڑھے چارسو بھارتی احمدیوں کا قافلہ ربوہ کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوا.اور جلسہ سالانہ کی برکات حاصل کرنے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیارت اور روح پرور خطابات سُننے اور دوسرے احمدی بھائیوں سے رابطہ پیدا کرنے اور اجتماعی دعاؤں میں شریک ہونے کے بعد ے فروری ۱۹۶۷ء کو واپس ہندوستان روانہ ہوا.یہ قافلہ ۲۴ جنوری ۱۹۶۷ء کو چوہدری مبارک علی صاحب ایڈیشنل ناظر امور عامہ کی قیادت میں پاکستان آیا تھا.جس کار بوہ سٹیشن پر پر تپاک استقبال کیا گیا.ان کے قیام کا انتظام دارالضیافت میں تھا.۲۹ جنوری ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بھارتی احمد یوں کو شرف ملاقات بخشا.۳۱ جنوری کو حضور انور نے قصر خلافت کے صحن میں دو پہر کے کھانے پر مدعو فر مایا.۳ فروری کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے لجنہ ہال میں درویشان قادیان کے اہل وعیال کو کھانے کی دعوت دی گئی.۶ فروری ۱۹۶۷ء کو حضور نے درویشان قادیان سے ایمان افروز خطاب فرمایا.اور نہایت دلنشین انداز میں بیش قیمت ہدایات سے نوازا.حضور نے خطاب کے دوران فرمایا کہ:.حضرت مصلح موعود باون سال تک محبت اور پیار کے ساتھ اپنی جماعت کی تربیت کرتے رہے حضور لوگوں سے نذرانے قبول فرماتے مگر اس کے ساتھ اس کی قیمت بھی ادا کرتے اس کی قیمت چہرے کی وہ سرخی اور دل کا وہ احساس ہوتا تھا جو دعا کی شکل میں نذرانے دینے والے کے حق میں ظاہر ہوتا.اللہ تعالیٰ کے دینے کے ایسے ذرائع اور راستے ہیں کہ ان کے متعلق انسان سوچ بھی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ جب دینے پر آتا ہے تو ایسے رستوں سے دیتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.خدا کے دروازے کو چھوڑ کر کسی عاجز بندے کے متعلق آپ کبھی خیال بھی نہ کریں کہ وہ آپ کی ضرورت پورا کرنے والا ہوگا.خدا پر کامل تو کل کا مقام حاصل کریں.ایسے ماحول میں صرف اسی کی طرف آپ کی نگاہیں اُٹھتی رہیں.کسی اور طرف نہ جائیں.پانچ سوسال بعد بھی جب تاریخ دان تاریخ لکھیں تو آپ سے متعلق اللہ تعالیٰ کے

Page 28

تاریخ احمدیت.جلد 24 10 سال 1967ء پیار و محبت کے نیچے واقعات ان کے سامنے آئیں.اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے محبوں سے پیار کر رہا ہے.یہ ایسی قیمتی چیز ہے کہ ایک دن کے پیار کے مقابلہ پر اگر ساری عمر سجدہ میں پڑے رہیں تو اس کا شکر ادا نہیں کیا جاسکتا.حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا اور کوئی ہستی ایسی نہیں جو بندوں سے اس طرح سچا پیار کرتی ہو.“ حضور کے خطاب کے بعد حکیم بدر الدین صاحب عامل جنرل سیکریٹری لوکل انجمن احمد یہ قادیان کھڑے ہوئے اور سب درویشان کے دلی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تمام درویشان حضور کی خدمت میں وعدہ کرتے ہیں کہ ہم حضور کی زریں نصائح پر عمل پیرار ہیں گے.اور دنیاوی تکالیف ہمارے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کر سکیں گی.اس پر حضور نے فرمایا جزاکم اللہ احسن الجزاء.اور پھر ایک پُر سوز اور لمبی دعا کروائی اور پھر باری باری سب کو شرف مصافحہ بخشا.مصافحہ کے بعد سب درویشان قادیان کو حضور کے دستِ مبارک پر شرف بیعت حاصل ہوا.جس کے بعد حضور نے ایک بار پھر اجتماعی دعا کروائی.حضرت خلیلة اسح الثالث کا کارکنان جلسہ سالانہ سے خطاب ۲۶ فروری ۱۹۶۷ ء کو سید داؤ داحمد صاحب افسر جلسہ سالانہ نے ایک خصوصی اجلاس کا اہتمام کیا.جس میں جلسہ سالانہ جنوری ۱۹۶۷ء کے موقع پر خدمات بجالانے والے ایک ہزار سے زائد کارکنان نے شرکت کی.سیدنا حضرت خلیفتہ اُسیح الثالث نے ان کارکنوں کی اعلیٰ کارکردگی اور جذبہ خدمت پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ امسال بھی جملہ انتظامات بہت اچھے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب امور اور کام خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوئے.اس حسنِ انتظام کا سہرارضا کار کارکنوں کے سر ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے چھوٹے چھوٹے بچوں کو حسنِ عمل کا نمونہ پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ اس بات پر دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے کہ روٹی ضائع نہیں ہوئی.لیکن روٹی کا مسئلہ تنوروں سے حل نہیں ہوتا.مہمانوں نے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتے ہی چلے جانا ہے.اس ضمن میں حضور نے روٹی پکانے کی مشین نصب کرنے کی ضرورت پر زور دیا.اور تحر یک فرمائی کہ دو یا کم از کم ایک مزید لنگر ضرور قائم ہونا چاہئے.حضور نے فرمایا وسع مگانک کا مطلب یہ ہے

Page 29

تاریخ احمدیت.جلد 24 11 سال 1967ء کہ مستقل اور عارضی مکین تمہیں بڑی کثرت سے دیئے جائیں گے.اس لئے تم اپنے مکانوں کو وسیع کرتے چلے جاؤ.پس ہر گھر میں بھی وسعت مکانی ہونی چاہئے.اور اُن تعلیمی اداروں میں بھی جن میں جماعتی نظام کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں.جلسہ اور ہفت روزہ "المسنجر " (لائل پور ) ہفت روزہ المنبر (فیصل آباد ) نے اس جلسہ کے بارے میں لکھا:.16 اس سال ربوہ کا جلسہ سالانہ ہوا تو حسب سابق ہی ہے.مگر اس کے انداز نرالے تھے.قادیانی امت کے موجودہ سربراہ اور ان کے (خلیفہ اسیح) مرزا ناصر احمد نے ایک با قاعدہ پریس کانفرنس“ منعقد کی.اس میں شریک تمام اخباری نمائندوں کو مرزا محمود آنجہانی کی تفسیر کا ایک ایک نسخہ بھی دیا گیا اور اس پر یس کا نفرنس میں جماعت احمدیہ کی سیاسی پالیسی واضح کی گئی.دوسری اہم بات اس مرتبہ یہ ظہور پذیر ہوئی ہے کہ سر ظفر اللہ خان کی اس تقریر کو بھی خوب خوب شائع کیا گیا ہے.جس میں انہوں نے فرمایا کہ مسلمان ایک خلیفہ یا امیر کی زیر قیادت مجتمع اور متحد ہو جائیں.تیسری حیرت انگیز بات اس دفعہ یہ منصہ شہود پر آئی کہ پاکستان کے قومی پریس نے اس سال جلسہ ربوہ اور وہاں کی تقریروں اور تصاویر کو غیر معمولی اہمیت دی ہے.یوں تو اکثر و بیشتر اخبارات نے جلسہ ربوہ کی خبریں شائع کی ہیں.لیکن خصوصیت کے ساتھ ” نوائے وقت میں خلیفہ ربوہ اور سر ظفر اللہ خان کی تقاریر کو اچھالا گیا ہے.اور لائل پور کے عوام نے تو ایمان بالقادیانیت کا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے اور سنا گیا ہے کہ عام پر چوں میں قادیانیوں کی تقاریر کے علاوہ سپیشل ایڈیشن مرزا غلام احمد کی نبوت اور مرزا ناصر محمود کی خلافت کے عظیم الشان کارناموں کی تشہیر کے لئے شائع کیا گیا ہے مگر؟ یہ حالات غیر معمولی ہیں.اور ضرورت ہے کہ جولوگ الف - سید نا محمد مصطفى بآبائنا هو وامهاتنا کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں.ب.پاکستان کو اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں اور نظریہ پاکستان کو انہوں نے دیانت داری سے قبول کیا ہوا ہے.

Page 30

تاریخ احمدیت.جلد 24 12 سال 1967ء " ج.اس مملکت خداداد کو تقسیم در تقسیم اور مملکت در مملکت سے بچانے کو اپنے مقاصد میں سمجھتے ہیں.د.جن کا ایمان یہ ہے کہ اس امت کی جمعیت کی اساس حضور ختم المرسلین ﷺ بآبائنا هو و امهاتنا کی ذات اقدس اور حضور کی ختم نبوت پر ہے.18 166 ان سب حضرات کا دینی، اخلاقی، ملی اور سیاسی فرض یہ ہے کہ وہ ان حالات پر غور کریں اور سوچیں کہ جب سر ظفر اللہ خاں یہ فرماتے ہیں کہ :.تاریخ اسلام اس امر کی بولتی ہوئی دلیل ہے کہ مسلمان ہمیشہ اسی دور میں ترقی و خوشحالی سے ہمکنارر ہے جس دور میں ان پر کسی طاقت ور خلیفہ یا امیر کی حکومت تھی.تو ان کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ اس امر کے قائل ہیں کہ :.(۱) پوری دنیا میں جو مسلمان قوم آباد ہے.وہ مرزا غلام احمد کو نبی نہ مان کرد مسلمان رہے ہے؟ (۲) کیا ان کے نزدیک آج عالم اسلام میں کوئی بھی شخص مرزا ناصر احمد کے علاوہ مسلمانوں کا طاقتور خلیفہ یا امیر بن سکتا ہے؟ (۳) کیا یہ ممکن ہے کہ مرزا غلام احمد کی نبوت بشمول سرظفر اللہ خاں و مرز انا صراحمد.دنیا کے کسی مسلمان خلیفہ یا امیر کو اسلامی خلیفہ تسلیم کریں؟ کیا ان سوالات پر وہ اخبارات جنہوں نے ربوہ کے جلسہ کی روئیدادیں بڑے اہتمام سے شائع کی ہیں اور جنہوں نے اس موقع پر خفیہ خفیہ خاص نمبر شائع کئے ہیں.غور فرمائیں گے.اور وہ اہل ربوہ جو مسلمانوں کو اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کے استحکام کے عنوان سے اپنے قریب لانا چاہتے ہیں.ان سوالات کا جواب عنایت فرمائیں گے.دیدہ بائد المنبر کے اس تبصرہ میں چونکہ اہل ربوہ کو بھی مخاطب کیا گیا تھا.اس لئے روز نامہ الفضل 19 ۱۸ فروری ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں اس کا جواب دیتے ہوئے ایڈیٹر صاحب نے لکھا کہ ” جو باتیں آپ نے (الف) (ب) (ج) اور (د) میں فرمائی ہیں ان کے بارہ میں ہم سلسلہ وار عرض کرتے ہیں کہ احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے الف.سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ بآبائنا هو وامهاتنا کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں.

Page 31

تاریخ احمدیت.جلد 24 13 سال 1967ء ب.پاکستان کو اسلامی ریاست دیکھنا چاہتے ہیں اور نظریہ پاکستان کو انہوں نے دیانت داری سے قبول کیا ہوا ہے.ج.اس مملکت خدا داد کو تقسیم در تقسیم اور مملکت در مملکت سے بچانے کو اپنے مقاصد میں شامل سمجھتے ہیں.د.جن کا ایمان یہ ہے کہ اس امت کی اجتماعیت کی اساس حضور ختم المرسلین بآبائنا هو و امهاتنا کی ذات اقدس اور حضور کی ختم نبوت پر ہے.ان سوالوں کا جواب جو (۱) (۲) (۳) کے زیر المنبر نے پوچھے ہیں.ان سوالوں کے جواب میں آجائے گا جو ہم بہ ترتیب ( خودالمنبر ) سے ہی پوچھتے ہیں.(۱) کیا پوری دنیا میں آج جو مسلمان قوم ہے خود المنبر اس کو مسلمان سمجھتا ہے؟ المنبر کی فائلیں دیکھ کر جواب دیں.(۲) کیا المنبر کے نزدیک کوئی ایسا آج مسلمان ہے جو مسلمانوں کا طاقتور خلیفہ یا امیر بن سکتا ہے؟ (۳) یہ سوال نمبر ۲ میں شامل ہے.انتظامات جلسہ سالانہ پر ایک طائرانہ نظر جلسہ سالانہ ربوہ کے وسیع انتظامات کا ذکر کرتے ہوئے افسر جلسہ سالانہ سید داؤ د احمد صاحب رقمطراز ہیں.جلسہ سالانہ کے انتظامات کا سلسلہ گندم کی خرید سے شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ اس سال بھی گندم خرید کر سٹور کر لی گئی تھی.چونکہ جلسہ کے لنگروں میں تعمیر شدہ سٹور ایسی حالت میں نہیں ہیں کہ برسات وغیرہ سے گندم کو محفوظ کر سکیں.اس لئے گذشتہ سال کی طرح دار الضیافت سے ایک کمرہ مستعار لے کر گندم اس میں رکھی گئی تھی.گندم کی خرید میں میاں غلام احمد صاحب انصاف کمپنی لائک پور نے بہت تعاون کیا.انتظامات جلسہ سالانہ کا معائنہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۳ جنوری کو جلسہ سالانہ کے جملہ انتظامی شعبوں، لنگر خانوں اور اجتماعی قیام گاہوں کا معائنہ فرمایا.اور افسروں وکارکنوں کو ضروری ہدایات سے نوازا

Page 32

تاریخ احمدیت.جلد 24 14 سال 1967ء اور آخر میں خاکسار کی درخواست پر انتظامات کی کامیابی کے لئے اجتماعی دعا کرائی.جس میں جملہ افسران، معاونین اور حاضرین شریک ہوئے.انتظامات جلسہ سالانہ صیغہ ہذا کے ذمہ حسب معمول جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کے استقبال، قیام و طعام اور جملہ دیگر ضروریات کی فراہمی کے فرائض تھے.افسران جلسہ سالانہ کے ماتحت تقسیم کار مرکزی دفاتر جلسه سالانہ احاطہ جلسہ سالانہ نزد وقف جدید میں تھے.جلسہ کا کام مختلف شعبوں میں منقسم ہوتا ہے.ان شعبہ جات کے ناظمین اور منتظمین نے میری ہدایت اور نگرانی میں جملہ کام سرانجام دیئے.خاکسار کے نائبین کے طور پر مندرجہ ذیل احباب نے کام کیا:.ا.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی ۲.محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب - محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ - محترم پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر ۵ محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب ۶ - محترم ملک سیف الرحمن صاحب نائبین افسر جلسہ سالانہ کے ماتحت تقسیم کار حسب ذیل طریق پر تھی:.محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب:.ہر سہ لنگروں کی عمومی نگرانی معہ فراہمی ایندھن.محترم چوہدری ظہور احمد باجوہ :- عمومی نگرانی شعبہ جات، پرالی تعمیرات، گوشت، نیز آپ نے بطور افسر خدمت خلق بھی خدمات سرانجام دیں.محترم پروفیسر ابراہیم صاحب ناصر : دفتر افسر جلسہ سالانہ و عمومی نگرانی شعبہ جات روشنی حاضری و نگرانی معاونین ، استقبال والوداع.محترم صوفی بشارت الرحمن صاحب:.امسال چونکہ قحط سالی کا دور دورہ تھا.اس لئے اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا تھا کہ کھانا ضائع نہ ہو اور صرف پر چی مقررہ پر ہی حاصل کیا جاسکے.اور دوسرے

Page 33

تاریخ احمدیت.جلد 24 15 سال 1967ء ذرائع سے لنگروں سے باہر نہ جا سکے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس شعبہ نے نمایاں کام کیا.جس کے نتیجہ میں کھانے کا ضیاع بھی نہ ہوا.محترم ملک سیف الرحمن صاحب:.ہر سہ لنگروں اور قیام گاہوں کے کام کا جائزہ لے کر اور جہاں کوئی کمی ہواُسے میرے علم میں لا کر حسب ہدایت اُس کی اصلاح کروانامحترم ملک صاحب کے ذمہ تھا.شعبہ جات معلومات و فوری امداد، بازار، مکانات ، سپلائی اور مہمان نوازی براہِ راست افسر جلسه کی زیر نگرانی تھے.الحمد اللہ کہ تمام نائین اپنے مفوضہ فرائض محنت اور تندہی سے انجام دیتے رہے.فجزاهم الله احسن الجزاء نظامت سپلائی اس سال ناظم سپلائی کے طور پر مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ایم.اے نے کام کیا.اور جلسہ سالانہ سے کئی ماہ پیشتر خاکسار کے ساتھ اجناس کی فراہمی اور جلسہ سالانہ کے سلسلہ میں پیش آنے والی دوسری ضروریات کی فراہمی کے سلسلہ میں نہایت محنت اور جانفشانی سے کام کیا.نظامت سٹور اجناس اس نظامت کے انچارج مکرم پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب تھے اور ان کے ذمہ لنگر کو دونوں وقت حسب ضرورت جنس دینا اور اُس کا حساب رکھنا تھا.جلسہ سالانہ سے قبل ہی تمام لنگروں میں اجناس و غیرہ تخمیناً پہنچادی گئی تھیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی جنس کی کمی نہ ہوئی.بلکہ جلسہ سالانہ کے بعد بچی ہوئی اجناس کو فروخت کر دیا گیا.امسال پہلی بار نظارت علیا کی طرف سے لنگروں میں حسابات رکھنے کے لئے تین کا رکن دیئے گئے تھے.جنہوں نے بہت اچھے طریق پر حسابات کو رکھا.نظامت مکانات بعض احباب اپنی مجبوریوں کے پیش نظر اجتماعی قیام گاہوں کی بجائے علیحدہ رہائش کے بندو بست کا مطالبہ کرتے ہیں.اس مقصد کے لئے محلہ جات ربوہ سے پچاس کمرے حاصل کئے گئے.دفاتر اور ادارہ جات کے کمرہ جات اس کے علاوہ تھے.اس کے علاوہ خیمہ جات کا بھی

Page 34

تاریخ احمدیت.جلد 24 بندو بست کیا گیا.16 سال 1967ء گذشتہ سال اجتماعی قیام گاہیں کشادہ کر دی گئی تھیں.بدیں وجہ مہمانوں کو پہلے کی نسبت سہولت رہی.اس نظامت کے ناظم ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب تھے.نظامت معلومات و فوری امداد ایام جلسہ سالانہ میں مہمانان کرام کی مختلف قسم کی فوری امداد اور اُن کو ہر قسم کی معلومات مہیا کرنے ، گمشدہ اشیاء کی بازیابی اور اُن کو ان کے اصل مالکوں تک پہنچانے نیز اپنے والدین سے جدا ہو جانے والے چھوٹے بچوں کو اُن کے والدین کے حوالے کرنے کے لئے گزشتہ دو سال سے یہ نظامت قائم ہے.امسال بھی اس نظامت نے مکرم محمد احمد صاحب انور کی نگرانی میں یہ تمام امور سرانجام دیئے.ایام جلسہ سالانہ میں یہ دفتر چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے.نظامت تصدیق پر چی خوراک اس نظامت کے ذمہ حلقہ جات ربوہ میں کھانا حاصل کرنے کے لئے مقررہ تصدیقی کا رڈ تقسیم کرنا.جلسہ سالانہ کے ایام میں دونوں وقت تصدیق پرچی کا کام ہوتا ہے.امسال اس نظامت کے انچارج مکرم مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوہ تھے.شعبہ ہذا کے تحت ۲۷۰۰ تصدیقی کارڈ جاری کئے گئے.نظامت اجرائے پر چی خوراک اس نظامت کے تحت لنگر خانوں سے جاری ہونے والے کھانے کی پرچی جاری کرنا تھا.یہ پر چی نظامت تصدیق پرچی کی طرف سے جاری شدہ تصدیقی کارڈوں پر جاری کی جاتی رہی.پر چی کے اجراء کے لئے چھ دفتر قائم تھے.حلقہ جات ربوہ کے لئے لنگر خانوں میں ہی اجرائے پر چی کے دفتر قائم تھے اور اجتماعی قیام گاہوں کے لئے متعلقہ ناظمین کو اجرائے پر چی کا اختیار دیا گیا تھا.اس شعبہ کے ناظم صاحبزادہ مرزا انس صاحب تھے.لیکن وہ مجبوری کی وجہ سے حاضر نہ ہو سکے.اور کام اُن کے نائب عطاءالمجیب صاحب راشد نے سرانجام دیا.نظامت محنت امسال جلسہ سالانہ کے موقعہ پر پہلی بار یہ شعبہ قائم کیا گیا تھا.جس کا مقصد یہ تھا کہ جلسہ پر کام

Page 35

تاریخ احمدیت.جلد 24 17 سال 1967ء کرنے والے لوگ جن کو یومیہ اجرت دی جاتی ہے وہ ایک انتظام کے ماتحت آجائیں.پہلے تمام شعبہ جات اپنے اس قسم کے کارکن خود رکھتے تھے.جس میں ایک تو تلاش میں دقت ہوتی تھی اور دوسرے مختلف جگہوں پر اجرت بھی مختلف ہوتی تھی.مزدوروں کی تعداد کا کوئی شیڈول نہیں تھا.اس شعبہ کے قیام سے ہر قسم کی لیبر ایک ضبط میں آگئی ہے.شعبہ ہذا کے فرائض درج ذیل ہیں :.النگر خانوں میں نانبائی فراہم کرنا ۳.آٹا گندھائی کا انتظام ۵.مزدوروں کی فراہمی وغیرہ ۲.پیٹرے والیاں فراہم کرنا ۴.باورچی فراہم کرنے امسال جلسہ سالانہ کے موقع پر کل ۷۰۷ مزدوروں نے کام کیا.اس شعبہ کے ناظم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے تھے.انتظام گوشت اس شعبہ کے ذمہ جلسہ کے لئے بڑا اور چھوٹا گوشت مہیا کرنا تھا.چنانچہ جلسہ سے قبل دونوں قسم کے گوشت کے لئے ربوہ کے دوستوں سے ٹھیکہ طے کیا گیا.بڑے گوشت کے جانور جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے ربوہ لائے گئے تھے.جن کا ڈاکٹروں سے معائنہ کروایا گیا اور انہوں نے تسلی کا اظہار کیا.امسال بڑے گوشت کے لئے ۸۰ جانور ذبح کئے گئے اور ۳۸۲ من ۳۲ سیر گوشت خرچ ہوا.علاوہ ازیں ۰ امن ۲۴ سیر چھوٹا گوشت بھی خرچ ہوا.اس شعبہ کے منتظم مکرم عبد الغنی صاحب محلہ دار الرحمت شرقی ربوہ تھے.نظامت استقبال والوداع اس شعبہ کے ذمہ جلسہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کو اسٹیشن اور اڈہ لا ریاں پر خوش آمدید کہنا.قیام گاہوں کی طرف رہنمائی کرنا.قلیوں اور مزدوروں کا انتظام کرنا.نیز مہمانوں کی سہولت کے لئے پیشل گاڑیوں کا انتظام کرنا تھا.پیشل گاڑیوں کے لئے بروقت درخواستیں بھجوا دی گئی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مندرجہ ذیل سپیشل گاڑیوں کا انتظام ہو گیا.ا.راولپنڈی ۲.گجرات و وزیر آباد ۳.سیالکوٹ ۴.جھنگ.۵.نارووال ان گاڑیوں کے علاوہ لاہور، سرگودھا ایکسپریس کے ساتھ چارڈ بے زائد لگائے گئے.کراچی

Page 36

تاریخ احمدیت.جلد 24 18 سال 1967ء سے چناب ایکسپریس کے ساتھ ٹورسٹ کا رلگائی گئی.ملتان، لائل پور کی گاڑیوں کے ساتھ دوڑ بے زائد لگوائے گئے.امسال ۲۸۰ قلیوں کو پاس جاری کئے گئے.یہ تعداد مہمانوں کے سامان اتارنے کے لئے کافی رہی.اس شعبہ نے مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کی زیر نگرانی یہ امور سرانجام دیئے.اڈہ لاریاں پر اس شعبہ کا دفتر قائم تھا.جہاں سے بذریعہ لاؤڈ سپیکر دوستوں کو خوش آمدید کہا جاتا رہا.اس کے انچارج حمید احمد صاحب خالد تھے.نظامت کھانا پکوائی کھانے کی تیاری کے لئے چار لنگر خانوں نے کام کیا.مندرجہ ذیل احباب ناظمین لنگر مقرر تھے:.سید میر مسعود احمد صاحب ا لنگر دار الصدر ۲ لینگر دار الرحمت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب لنگر دار العلوم ۴ لنگر پرهیزی قریشی مقبول احمد صاحب ان لنگروں کا کام من حیث المجموع تسلی بخش رہا اور کسی کوکھانا نہ ملنے کی شکایت پیدا نہ ہوئی.ان لنگروں کے اعداد وشمار درج ذیل ہیں :.لنگر دار الصدر: ۶۷-۰۱-۲۳ سے لے کر ۶۷-۰۱-۳۱ صبح تک جاری رہا.سالن کی ۴۶۰ اور دال کی ۱۸۶ دیگیں پکائی گئیں اور اہم ے تنور جلائے گئے.لنگر دارالرحمت : - ۶۷-۰۱-۲۴ سے ۶۷ -۰۱-۲۹ شام تک جاری رہا.سالن کی ۲۵۱ اور دال کی ۱۰۳ دیگیں تیار ہوئیں اور ۳۸۳ تنور جلائے گئے.لنگر دارالعلوم: ۶۷-۰۱-۲۴ شام سے ۶۷-۰۱-۲۹ صبح تک جاری رہا.سالن کی ۲۵۲ اور دال کی ۱۱۷ دیگیں پکوائی گئیں اور ۴۲۱ تنور جلائے گئے.انتظام لکڑی نظامت سپلائی کے تحت ۶۰۰۰ من گیلی لکڑی خریدی گئی تھی.جو درج ذیل تفصیل کے مطابق جلائی گئی:.

Page 37

تاریخ احمدیت.جلد 24 برائے تنور : ۲،۴۹۵ من ۲۰ سیر دیگ: ۸۶۰ من ۲۵ سیر متفرق: ۱۳۳ من ۱۰ سیر گل میزان : ۴۸۹ ۳۰ من ۱۵ سیر 19 اس شعبہ کے منتظم مکرم مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سال 1967ء انتظام آب رسانی اس شعبہ کے منتظم مکرم عبدالشکور صاحب اسلم تھے.اس انتظام کے ذمہ مہمانوں کی فرودگا ہوں اور لنگروں میں پانی پہنچانے کا انتظام تھا.اس شعبہ کے تحت گل چالیس سقوں کا انتظام کیا گیا جن کی تقسیم لنگر خانوں اور اجتماعی قیام گاہوں میں کی گئی تھی.فرودگا ہوں میں میٹھا پانی سٹور کرنے کے لئے گذشتہ سال ڈرموں کا استعمال شروع کیا گیا تھا.امسال مزید ڈرم بنوائے گئے جنہیں فرودگاہوں میں تقسیم کیا گیا.ان ڈرموں کی وجہ سے پانی سٹور کرنے میں سہولت رہی.اِمسال فرودگا ہوں میں میٹھا پانی مہیا کرنے کے لئے ایک ٹینکر بھی کرایہ پر حاصل کیا گیا تھا.جس کی وجہ سے سقوں کی تعداد کم ہو گئی.انتظام صفائی شعبہ ہذا کے منتظم مکرم عبدالرشید صاحب غنی تھے.اس شعبہ کے تحت تعمیر بیت الخلاء، خاکروبوں کا انتظام اور عمومی صفائی کا کام تھا.چنانچہ اس شعبہ نے مختلف جگہوں پر ۱۴۸ بیت الخلاء تعمیر کروائے.لیکن بعض گھروں میں بھی جہاں مہمان کثرت سے ٹھہرتے تھے.بیت الخلاء بنوائے گئے یا بور کر وائے گئے.اُن کی کل تعداد ۳۶ تھی.ان بیت الخلاء کی صفائی اور دیگر صفائی کے کاموں کے لئے ۳۵ جمعداروں کا انتظام کیا گیا.انتظام بازار اس شعبہ کے سپر د عارضی دکانوں کے لئے اجازت نامہ جاری کرنا.اشیاء خورونوش کی نگرانی کرنا که خراب چیز فروخت نہ کی جائے.گراں فروشی سے روکنا وغیرہ فرائض تھے.چنانچہ جلسہ سے قبل ربوہ کے مستقل دکانداروں کو تفصیلی ہدایات دی گئیں.عارضی دکانوں کے۶ ۱۷ اجازت نامے جاری کئے

Page 38

تاریخ احمدیت.جلد 24 20 سال 1967ء گئے.تانگہ بانوں کو عارضی اجازت نامے جاری کئے گئے.اور اُن کے لئے مختلف محلہ جات کے نرخ مقرر کئے گئے.اس شعبہ کا کام مکرم عبد الرزاق صاحب کی زیر نگرانی انجام پذیر ہوا.جلسہ کے اوقات میں دکانوں کے بند کروانے کا انتظام بھی اس شعبہ نے کیا.نظامت مہمانانِ خاص اس نظامت کے ناظم ڈاکٹر سید سلطان محمود صاحب شاہد تھے.اس شعبہ کے ذمہ بعض مخصوص قسم کے مہمانوں کی مہمان نوازی تھی.اس شعبہ کے تحت آٹھ احمدی اور آٹھ غیر احمدی احباب کے قیام و طعام اور بستروں کا انتظام تھا.جو مناسب رنگ میں کیا گیا.ان غیر احمدی دوستوں میں پریس اور ٹیلیویژن کے نمائندے شامل تھے.ان کے علاوہ پولیس اور ٹیلیفون کے محکمہ جات کے افسران کے لئے بھی کھانا تیار کر وایا جاتا رہا.جس کی تعداد روزانہ ۵۲ رہی.نظامت مہمان نوازی مہمانوں کی فرودگاہوں میں کھانا کھلانے اور دوسری ضروری خدمات کے لئے تمام فرودگاہوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا.ا.نظامت دار الصدر و دار الرحمت ناظم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اس نظامت کے زیر انتظام مندرجہ ذیل فرودگا ہیں تھیں.(i).ایوان محمود (ii).دارالضیافت (iii) - دفاتر انصار اللہ مرکزیہ (iv).پرائمری سکول دار الرحمت ۲.نظامت دار العلوم : ناظم چوہدری محمد علی صاحب ایم اے اس نظامت کے زیر انتظام مندرجہ ذیل فرودگا ہیں تھیں.(i) جامعہ احمد یہ مع ہوٹل جامعہ احمدیہ (i) تعلیم الاسلام کا لج مع فضل عمر ہوٹل (ii) تعلیم الاسلام ہائی سکول معہ ہوسٹل و بشیر ہال..نظامت مہمان نوازی مستورات :.ناظمہ محترمہ نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اس نظامت کے سپر دمندرجہ ذیل فرود گا ہیں تھیں.

Page 39

تاریخ احمدیت.جلد 24 21 سال 1967ء (i) دفاتر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ (ii) جامعہ نصرت (iii) نصرت گرلز ہائی سکول ہر عمارت کے لئے ایک افسر مہمان نوازی اور اس کی امداد کے لئے مہمان نواز اور معاونین مقرر تھے.اس نظامت کے تحت یہ کوشش کی گئی کہ تمام مہمانوں کو بر وقت کھانا کھلایا جائے اور اُن کی دوسری ضروریات پوری کی جائیں.نظامت دار الصدر کی قیام گاہوں میں کھانا کھانے والوں کی ایک وقت کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۴۱۷۷ رہی.نظامت دار العلوم میں کھانا کھانے والوں کی ایک وقت کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۶۱۱۵ رہی.نظامت مہمان نوازی مستورات میں کھانا کھانے والیوں کی ایک وقت کی زیادہ سے زیادہ تعداد ۷۲۸ ۴ رہی.166 معلمین وقف جدید کی سالانہ تعلیمی کلاس کی اختتامی تقریب معلمین وقف جدید کی سالانہ تعلیمی کلاس جنوری ۱۹۶۷ء میں منعقد ہوئی.۳ فروری کو کلاس کی اختتامی تقریب ہوئی.صدارت کے فرائض حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ قادیان نے ادا کئے.صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید نے وقف جدید کی سالانہ رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ اس وقت مغربی پاکستان میں کم و بیش چھ ہزار اور مشرقی پاکستان میں ۵۱۷ حضرات زیر تبلیغ ہیں.جن سے با قاعدہ رابطہ قائم ہے.ان کی خدمت میں ۱۷۷۵۹ رکتب ورسائل بھجوائے گئے.آپ نے یہ بھی بتایا کہ اس وقت ۵۶ معلمین مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مختلف سنٹروں میں کام کر رہے ہیں.دورانِ سال ۵۲۴ دیہات تک آواز پہنچانے کی کوشش کی گئی.آئندہ پانچ سالہ منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ پروگرام یہ ہے کہ آئندہ پانچ سال میں کام کو اس طرح وسعت دی جائے کہ سارے ملک میں رُشد و اصلاح کا جال پھیلایا جائے اور کوئی گوشہ ایسا نہ رہے کہ جس تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز نہ پہنچ جائے.آپ نے غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی مساعی کا بھی خاص طور پر ذکر کیا اور بتایا کہ دورانِ سال ایک سو چالیس غیر مسلموں نے معلمین وقف جدید کی مساعی کے نتیجہ میں اسلام قبول کیا.سال کے دوران بیعتوں کی مجموعی تعداد ۶۸ ۵ رہی.آپ نے تربیت واصلاح اور خدمت خلق سے متعلق بھی بہت حوصلہ افزا اعداد و شمار پیش

Page 40

تاریخ احمدیت.جلد 24 22 سال 1967ء کئے.آپ نے کہا وقف جدید کی تحریک اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز اپنا قدم بڑھا رہی ہے لیکن سید نا حضرت فضل عمر مصلح موعود کے اندازہ اور آپ کی خواہش سے ابھی بہت پیچھے ہے.اس کی وجہ مالی وسائل کی کمی اور موزوں تعداد میں واقفین زندگی کا نہ ہونا ہے..بعدا زاں حضرت مولا نا عبدالرحمن صاحب فاضل نے حسب ذیل معلمین میں انعامات اور سندات تقسیم فرما ئیں.ا.تربیتی کلاس کے امتحان میں اول.مولوی گل محمد صاحب ( یہ امر قابل ذکر ہے کہ آپ ہر مضمون میں اول رہے.) دوم : صو بیدا ر سراج الدین صاحب سوم :.ڈاکٹر منیر احمدمحمود صاحب ۲.بیعتوں کے لحاظ سے اوّل:.سلطان احمد صاحب ملک دوم :.ڈاکٹر غلام محمد حق صاحب سوم :.حکیم محموداحمد صاحب انعامات تقسیم فرمانے کے بعد حضرت صاحب صدر نے معلمین سے خطاب کرتے ہوئے وقف جدید کی کارگزاری پر خوشی کا اظہار فرمایا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کام میں دن دگنی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا سفر نخلہ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۶۷ء کو چند یوم کے لئے حضور نخلہ تشریف لے گئے.اس دوران محترم مولانا ابوالعطاء جالندھری صاحب کو حضور انور نے امیر مقامی مقرر فرمایا.ایک ہفتہ نخلہ میں قیام کے بعد مورخہ ۲۰ فروری ۱۹۶۷ء کو پونے دو بجے بعد دو پہر حضور انور بذریعہ موٹر کار ربوہ واپس تشریف لے آئے.اہل ربوہ نے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب امیر مقامی کی زیر قیادت لاری اڈہ سے قصر خلافت تک سڑک کے ساتھ ساتھ قطار در قطار ایستادہ ہو کر حضور انور کے استقبال میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی.

Page 41

تاریخ احمدیت.جلد 24 مجالس موصیان کا قیام 23 سال 1967ء اس سال کے اہم واقعات میں مجالس موصیان کا قیام خاص طور پر قابل ذکر ہے.جس کے بارے میں حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۶۷ء کے موقع پر مفصل اعلان فرمایا تھا.اس سلسلہ میں مولانا ابوالعطاء صاحب صدر مجلس کار پرداز بہشتی مقبرہ کی طرف سے حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.حضور انور کے تازہ ارشادات کی روشنی میں مندرجہ ذیل مزید ہدایات کا اعلان کیا جاتا ہے.ا.جس جگہ کم از کم دو موصی ہوں وہاں بھی مجلس قائم کی جائے.۲.انتخاب صدر مجلس موصیان کے لئے کورم ۱۰۰/۱۰۰ ہے.صرف بیمار اور مسافر اور معذور کا استثناء ہوگا.رپورٹ میں حاضرین کی تعداد درج کی جائے.بقایا دارموصی بھی انتخاب میں رائے دیں گے.مگر بطور صدر منتخب نہ ہوں گے.۳.موصیان کا صدر منتخب کرا کے امیر جماعت یا پریذیڈنٹ صاحب اطلاع دیں گے.یہ اطلاع یا رپورٹ صدر مجلس بہشتی مقبرہ ربوہ کے نام بھیجی جائے.اس انتخاب کو بعدازاں نظارت علیا کی وساطت سے حضرت خلیفہ اسیح کی منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا.۴.حضورانور کی منظوری کے بعد صدر مجلس موصیان مقامی مجلس عاملہ کارکن بھی قرار پائے گا.مستورات کی مجلس موصیات کی صدر صاحبہ نائب صدر کہلائیں گی.ہر دو مجالس کی میٹنگ الگ الگ ہوا کرے گی تا کہ حضورانور کے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا جائے.۵.قیام مجلس موصیان اور انتخاب صدر کے لئے جماعتوں کے مقامی صدر صاحبان اور امراء صاحبان اضلاع اور مربیان سلسلہ احمدیہ ذمہ دار ہیں.زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے اندراندر انتخابات مکمل ہونے لازمی ہیں.۶.اس سلسلہ میں ریکارڈ اور مزید کارروائی دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ کے ذریعہ ہوگی.میر عثمان علی خاں آصف جاہ ہفتم شاہ دکن کی وفات دگن کی دولت آصفیہ کے آخری فرمانروا نظام نواب میر عثمان علی خان بہادر اس سال ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء کو انتقال کر گئے.اُن کی وفات سے دکن کی مسلم تاریخ کا سنہری باب ختم ہو گیا.سید نا حضرت مصلح موعود نے اپنی

Page 42

تاریخ احمدیت.جلد 24 24 سال 1967ء خلافت کے پہلے سال الہی منشاء کے ماتحت تحفۃ الملوک“ کے نام سے جو کتاب تالیف فرمائی.وہ نواب میر عثمان علی خاں ہی کے نام تھی.حضور نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے لکھا:.میں نے ایک حکم کے ماتحت جناب کو مخاطب کیا ہے اور میں یقین کرتا ہوں کہ مجھے لغو حکم نہیں دیا گیا.ضرور ہے کہ جلد یا بدیر میری یہ تحریر کوئی عظیم الشان نتیجہ پیدا کرے گی.جو اس ملک کی قسمت میں ایک حیرت انگیز تغیر پیدا کر دے گی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی باتیں لغو نہیں ہوتیں.خدا کرے اس برکت میں سے جو جلد نازل ہونے والی ہے.جناب کو بھی بہت ساحصہ ملے.اس بھاری بشارت کا پہلا ظہور ۹ را پریل ۱۹۱۵ ء کو ہوا.جب حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور سرزمینِ دکن سے اسلام و احمدیت کی تائید میں وسیع پیمانے پر لٹریچر شائع ہونے لگا.سیدنا حضرت مصلح موعود نے سقوط حیدر آباد (۱۹۴۸ء) کے موقعے پر نظام دکن کی رواداری، دوراندیشی علم پروری اور انصاف کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:.چونکہ میرے پردادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب اور عہدہ ملا تھا.اس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے.۱۷۰۷ء میں ہی اُن کو خطاب ملا ہے.اور ۱۷۰۷ء میں ہی میرے پردادا مرزا فیض محمد خان صاحب کو خطاب ملا تھا.اُن کو نظام الملک اور ہمارے پردادا کو عضدالدولہ.اس وقت میرے پاس کاغذات تو نہیں ہیں جہاں تک عہدے کا سوال ہے.غالباً نظام الملک کو پہلے پانچیزاری کا عہدہ ملا تھا.لیکن مرزا فیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کا عہدہ ملا تھا.اس وقت نظام الملک با وجود دگن میں شورش کے دلی میں بیٹھے رہے اور تب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے.سلطان حیدرالدین کی جنگوں میں بھی حیدرآباد نے کوئی اچھا نمونہ نہیں دکھایا تھا.مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اُس کا رویہ اچھا نہیں تھا.انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمنے میں بھی حیدر آباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا.مگر جہاں بہادری کے معاملے میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے وہاں عام دوراندیشی اور انصاف اور علم پروری میں

Page 43

تاریخ احمدیت.جلد 24 25 سال 1967ء یقیناً یہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتا رہا ہے.اور اسی وجہ سے کسی اور ریاست کے باشندوں میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایا میں نظام کی پائی جاتی ہے.انصاف کے معاملے میں میرا اثر یہی رہا ہے کہ حیدر آباد کا انصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ اچھا تھا.ہندو مسلمان کا سوال کبھی نظاموں نے اُٹھنے نہیں دیا.اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول 66 رہے.20 نظام حیدر آباد دکن کا جماعت احمدیہ سے سلوک نظام سابع فرمانروائے دکن کے عہد حکومت میں جماعت احمد یہ کس طرح مذہبی رواداری ، رعایا پروری اور عدل گستری سے فیضیاب ہوتی رہی اُس کی تفصیل جماعت دکن کے ایک نہایت ممتاز رکن اور مجلس اتحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے قدیم ممبر جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی مرحوم کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ نے ایک مفصل مقالہ میں تحریر فرمایا کہ:.جماعت احمدیہ حیدر آباد کے احمدی افراد میں سے جو اس وقت بقید حیات ہیں ان میں سے غالبا میں وہ آخری فرد ہوں جس کی حیثیت جماعت کے پہلے اور بعد کے دور کی درمیانی کڑی کی سی ہے.گذشتہ ۲۵ سالہ دور کے حالات کا میں شاہد عینی ہوں اور سلسلہ کے ایک کارکن کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک جماعت کی خدمت گزاری کی سعادت مجھے حاصل رہی ہے.پرانے دور کے اکثر حالات کا تذکرہ میں نے اُن بزرگوں سے سُنا ہے جو ان واقعات اور حالات کے اہم کردار یا شاہد عینی تھے.اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ جماعت حیدر آباد کی تاریخ کا ایک باب ، جس کا تعلق اہلِ حیدر آباد اور نظام سے ہے، اُس کو قلم بند کر دیا جائے...جماعت احمدیہ کا قیام ریاست حیدرآباد میں نواب میر عثمان علی خان نظام سابع کے والد نواب میر محبوب علی خاں (ولادت ۱۸۶۶ ء وفات ۱۹۱۱ء) کے دور حکومت میں عمل میں آیا تھا.( یہ چار برس کی عمر میں تخت نشین ہوئے.اس لئے صغرسنی کے باعث ایک مجلس نیابت بنادی گئی جس میں سالار جنگ اور امیر کبیر شمس الا مراء شامل تھے جو خاندان نظام کے قریبی رشتہ دار تھے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ا صفحه ۲۳)

Page 44

تاریخ احمدیت.جلد 24 26 سال 1967ء اگر چہ اس زمانے میں جماعت کی تعداد بہت مختصر تھی.لیکن اس ابتدائی دور میں جبکہ احمدی عقائد کے بارے میں بڑی غلط فہمیاں تھیں.جماعت کے بعض مخلصین اپنی قابلیت اور اہلیت کی بناء پر حکومت کے ذمہ دارانہ عہدوں پر فائز رہے.اور اُن کی ملازمت میں ان کا مسلک کسی طرح مانع نہ ہوا.حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد ( ناظم عدالت )، حضرت سید صفدر حسین صاحب (مہتم تعمیرات ) اور حضرت میر مردان علی صاحب (مددگار صد ر محاسبی ) ذمہ دارانہ عہدوں پر کارگزارر ہے.حضرت سید محمد رضوی صاحب و حضرت سید ظہور علی صاحب کا شمار حیدرآباد کے سر بر آوردہ وکلاء میں سے ہوتا تھا اور وہ بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.حضرت سید محمد رضوی صاحب کی شادی ان کی قبولیت احمدیت کے بعد نظام سابع کی حقیقی پھوپھی زاد بیوہ بہن سے ہوئی تھی.حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد، حضرت سید صفدر حسین صاحب اور حضرت سید محمد رضوی صاحب کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ / اصحاب کبار میں ہے.نواب میر عثمان علی خان نظام سابع ۱۹۱۱ء میں سریر آراء سلطنت ہوئے.ان کے دور حکومت میں بھی جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اہم کردار ادا کیا ہے.نظام سابع نے اُن میں سے بعض کو نہایت اہم عہدوں پر فائز کیا تھا اور دوسروں کو دیگر شعبوں میں ترقی ملی.اور انہیں حکومت کی سر پرستی حاصل رہی.اس کے علاوہ اندرون اور بیرون ریاست کے بعض احمد یوں کو الطاف شاہانہ سے نوازا گیا.اور جب بھی ضرورت پڑی انصاف کے تقاضے پورے کئے گئے.نظام سابع نے اپنے دور حکومت کے ابتدائی زمانے میں اپنے دینیات کے اُستاد مولانا انوار اللہ خاں صاحب المخاطب نواب فضیلت جنگ کو صدر الصدور صدارت العالیہ (محکمہ امور مذہبی ) مقرر فرمایا تھا.مولانا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ازالہ اوہام کے جواب میں ایک کتاب افادۃ الافہام لکھی تھی.ظاہر ہے کہ وہ سلسلہ کے مخالف علماء میں سے تھے انہوں نے بحیثیت صدر الصدور جمعہ کے موقعہ پر احمدیوں کی نماز گاہ پر پولیس کے چند جوانوں کی تعیناتی کا حکم دیا تھا.سُنا ہے کہ اُن کی یہ بھی تجویز تھی کہ احمدیوں کے جمعہ کے اس اجتماع کو اس بہانے سے کہ دوسروں کو اشتعال ہوتا ہے.اور امن کو خطرہ ہے ، روک دیا جائے.یہ سلسلہ قلیل عرصہ تک جاری رہا.جب ان واقعات کی اطلاع ایک معروضہ کے ذریعے نظام سابع کو پہنچائی گئی.تو انہوں نے پولیس کے مذکورہ انتظام کو فوری طور پر بند کر دینے کے نہ صرف احکام جاری فرمائے بلکہ مولانا انوار اللہ صاحب کو طلب کر کے

Page 45

تاریخ احمدیت.جلد 24 27 سال 1967ء اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور مولانا نے فرمایا کہ وہ (نظام) صرف سنی مسلمانوں کے بادشاہ نہیں ہیں بلکہ ان کے زیر حکومت ہر مذہب و ملت اور مختلف فرقوں کے لوگ بستے ہیں.اور اُن سب کو اپنے مذہبی فرائض کے اپنے اپنے طریقہ سے انجام دینے کی پوری آزادی حاصل ہے.غالباً ۱۷.۱۹۱۶ء میں جناب خواجہ کمال الدین صاحب حیدر آباد تشریف لائے تھے.اُن کی بحیثیت ایک قادیانی مبلغ بڑی شہرت تھی.اس کے باوجود حکومت کے انتظام کے تحت اُن کی ایک تقریر کا انتظام شہر حیدرآباد کی سب سے بڑی مسجد ، مکہ مسجد میں کیا گیا تھا.جس میں خود نظام سابع بھی شریک ہوئے تھے.اس کے چند دنوں بعد لنگر کے سالانہ جلوس میں جبکہ نظام اپنے دور حکومت کے ابتدائی چند سالوں تک اپنے خانوادشاہی اور بعض عمائدین سلطنت کے ساتھ ہاتھی کی سواری پر نکلا کرتے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب کو بھی ایک ہاتھی پر جگہ دی گئی تھی جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا.ان کے بعد لارڈ عمر فاروق ھیڈ لے خواجہ نذیر احمد (خلف خواجہ کمال الدین صاحب) کے ساتھ حیدر آباد آئے تھے.اور ان کی تقریر بھی حکومت کے زیر اہتمام ٹاؤن ہال میں ہوئی تھی.اس جلسہ میں خود نظام نے بھی شرکت کی تھی.اور لنڈن میں مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ لاکھ روپیہ کے عطیہ کا اعلان کیا تھا.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مائعین اور غیر مبائعین کا فرق بہت کم لوگوں کو معلوم تھا.اور ہر دو فرقوں کے اصحاب کو قادیانی ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا.۱۹۳۲ء میں حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی صاحب الہ دین نے اپنی وصیت کے حصہ جائیداد کی رقم کو اپنی زندگی ہی میں ادا کر دینے کے خیال سے شہر حیدر آباد میں ایک ہال تعمیر کروایا.جو احمد یہ جو بلی ہال کے نام سے موسوم ہے.بعد تکمیل تعمیر جب اس کا افتتاح حضرت مولا نا عبدالرحیم صاحب نیر کے ہاتھوں عمل میں آیا اور اس کی اطلاع نظام سابع نے مقامی اخبارات میں پڑھی تو جماعت کو اطلاع دیکر (ہاں دیکھنے آئے ) ہال کی دیواروں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم ، آپ کے دعوئی اور آپ کے بعض اشعار لکھے ہوئے ہیں.نظام نے ان سب کو شروع سے آخر تک پڑھا.اور جب وہ اس شعر پر پہنچے.برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے تو کہا کہ اس شعر میں ”احمد“ اور مسیح کے الفاظ ہیں اور یہ شعر عورتوں کی گیلری کے نیچے لکھا ہوا

Page 46

تاریخ احمدیت.جلد 24 28 20 سال 1967ء ہے اور اس سے ایک قسم کی بے ادبی ہو رہی ہے.اگر اس کو دوسری طرف لکھوایا جائے تو مناسب رہے گا.چنانچہ اُن کے اس نہایت مناسب مشورہ کی تعمیل کی گئی.پس جنگ عظیم کے چند سالوں بعد دواعلی تعلیم یافتہ نومسلم احمدی، جن میں ایک انگریز مسٹر عثمان فشر اور دوسرے بنگالی مسٹر خالد بینز جی تلاش روزگار میں انگلستان سے حیدر آباد آئے تھے.جماعت حیدر آباد کی جانب سے معروضہ پر ان دونوں احمدی نو مسلموں کو اچھی خدمات پر مامور کیا گیا.چنانچہ مسٹر عثمان فشر کا تقرر نائب معتمد ترقیات عامہ کے طور پر اور مسٹر خالد بیر جی کا بحیثیت سپرنٹنڈنٹ انجینئر کیا گیا تھا.مسٹر عثمان فشر کو گیسٹ ہاؤس (سرکاری) میں ٹھہرایا گیا اور اُن کے لئے سواری کا بھی انتظام کیا گیا تھا.اور سکندر آباد کی مشہور ٹیلرنگ فرم سرس جان برٹن سے انہیں کئی قیمتی سوٹ سلوا کر دیئے گئے تھے.وہ حیدر آباد میں زیادہ عرصہ نہیں ٹھہرے اور جلد واپس اپنے وطن چلے گئے.لیکن مسٹر خالد بیر جی سالہا سال اپنی خدمت پر مامور ر ہے اور پینشن پر علیحدہ ( ریٹائر ہوئے.ریاست حیدرآباد میں مسلمانوں کے ایک بہت بڑے طبقہ کا پیشہ سرکاری ملازمت رہا.اور جماعت احمدیہ کی ایک کثیر تعداد بھی اس پیشہ سے وابستہ رہی ہے اور وہ اپنی استعداد تعلیمی اور کارکردگی کی اعلیٰ اور اچھی صلاحیتوں کی وجہ سے اعلیٰ ، درمیانی اور نیچے درجہ کی مختلف خدمات پر فائز رہے ہیں اور ان کے ساتھ کسی قسم کے تعصب کا برتاؤ نہیں کیا گیا.نظام سابع کے دور حکومت میں مولوی غلام اکبر خاں صاحب سالہا سال ملک کی اعلیٰ عدالت ہائیکورٹ ) کے حج رہے اور کئی سال تک بحیثیت ہوم سیکر یٹری بھی کام کیا.ان کی اعلیٰ خدمات کے اعتراف میں انہیں نواب اکبر یار جنگ بہادر کے خطاب سے سرفراز فرمایا گیا.مسجد جعفری کے تعلق سے ۸۵،۸۰ سال کا جو پرانا تنازعہ سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان چلا آرہا تھا اس کے تصفیہ کے لئے جو کمیشن مقرر کیا گیا اس کی صدارت نواب صاحب کے سپرد کی گئی تھی.بعد کے سالوں میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی نواب صاحب ہی کی صدارت میں قائم ہوا تھا.نواب صاحب کو یہ اعزاز بھی ہمیشہ حاصل رہا کہ ملک کے اہم مسائل پر مشورہ کے لئے نظام اُن کو طلب فرمایا کرتے تھے.محترم نواب اکبر یار جنگ بہادر کے علاوہ نظام کے دارالحکومت میں حضرت مولانا ابوالحمید صاحب آزاد، حضرت ڈاکٹر سید ظہور اللہ احمد صاحب، شیخ فضل کریم صاحب، نواب ادیب یار جنگ بہادر، مولوی فضل حق خاں صاحب، نواب غلام احمد خان صاحب، نواب رشیدالدین خاں صاحب، کیپٹن محمد اسلم خاں صاحب، بریگیڈئیر ڈاکٹر غلام احمد صاحب احمدی،

Page 47

تاریخ احمدیت.جلد 24 29 29 سال 1967ء پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب، سید حسین صاحب ذوقی، مولوی حیدر علی صاحب، مولوی محمد عبد القادر صاحب صدیقی ، محمد عبداللہ صاحب بی.ایس سی، ڈاکٹر عبدالرحمن صدیقی صاحب اور محمد عبدالحئی صاحب مچھلی بندری وغیرہ نظم ونسق کے مختلف شعبوں کی گزیٹڈ خدمات پر مامورر ہے.خاکسار ( مراد سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدر آبادی) کو نظام کے دور حکومت میں تنظیم مابعد جنگ ( پلاننگ کمیشن)، دستوری مشاورتی کمیٹی ، فوڈ کونسل اور اس کی مجلس عاملہ اور حیدر آباد میونسپل کارپوریشن کا ممبر نامزد وو کیا گیا تھا.اور اس طرح ایک خدمت گزار کی قومی خدمات کا اعتراف کیا گیا تھا.جماعت احمدیہ کی جانب سے ریاست حیدرآباد کے پس ماندہ طبقہ کے بچوں کی تعلیم کے لئے شہر حیدرآباد اور بعض اضلاع میں مدارس کھولے گئے تھے اور ان مدارس کی تنظیم کے لئے حضرت مصلح موعود نے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب تیر کو متعین کیا تھا.نظام نے جماعت کی ان تعلیمی مساعی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور ان مدارس کے اخراجات جاریہ کے لئے معقول ماہوار رقم کی منظوری صادر فرمائی تھی.جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور ( قادیان ) کو قرآن کریم کے گورمکھی ترجمہ کے لئے پانچ ہزار روپیہ کا عطیہ دیا گیا تھا اور حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی کی کتاب حیات عثمانی کے بیان کے مطابق اس کی اشاعت کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی اور حضرت ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر کو رام پور سے طلب فرمایا گیا اور بطور مہمان شاہی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرایا گیا تھا.غالباً ۳۵ ۱۹۳۴ء میں برار ( ریاست حیدرآباد میں ایک جگہ کا نام پر نظام کا قانونی اقتدار اعلیٰ حکومت برطانیہ نے تسلیم کیا تھا.اور اس سلسلہ میں جو معاہدہ طے ہوا تھا.اس میں جماعت کی ایک بہت معروف شخصیت کی قانونی خدمات حاصل کی گئی تھیں.ایک احمدی صحافی لاہور سے حیدر آباد آن کرسن سٹروک سے فوت ہو گئے تو ان کی بیوہ اور بچوں کی پرورش کے لئے ایک معقول وظیفہ جاری کیا گیا.اسی طرح جماعت مدراس کے ایک عالم کو بھی ان کے علم کے اعتراف اور اُن کی ضعیفی کی وجہ سے وظیفہ ملتا رہا.ملک فضل حسین صاحب ( قادیان) کی ایک معروف کتاب کے انگریزی ترجمہ اور اس کی اشاعت کے سارے اخراجات کی بھی منظوری دی گئی تھی.میں نے یہ چند واقعات محض اپنے حافظہ اور یادداشت کی بناء پر مـن لــم يشكر الناس لم یشکر اللہ کے تحت اور موجودہ اور آنے والی نسلوں کے علم کے لئے بطور ریکارڈ لکھے ہیں.یقین ہے کہ ان میں اور اضافہ کی گنجائش ہے.

Page 48

تاریخ احمدیت.جلد 24 30 سال 1967ء خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی دوسری مجلس مشاورت خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی دوسری مجلس مشاورت ۸،۷، ۹ مارچ کو ایوان محمود کے وسیع ہال میں منعقد ہوئی.جس میں ایجنڈا کے مطابق نظارت اصلاح وارشاد ، نظارت تعلیم ، نظارت بیت المال، وکالت تعلیم تحریک جدید کی ضروری تجاویز کے علاوہ صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید اور وقف جدید کے بجٹ زیر غور آئے جن کی مجموعی رقم گذشتہ سال سے ۱۸ا کھ ۸۳ ہزار ۸ سو۹۴ روپے زیادہ تھی.اس شوری کی سفارشات کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی منظوری کے بعد مولوی عبدالرحمن صاحب انور سیکرٹری مجلس مشاورت کی طرف سے ۱۰ جون ۱۹۶۷ء کو شائع کر کے سب جماعتوں کو بھجوا دیا گیا اور اس کی تفصیلی رپورٹ فروری ۱۹۶۸ء میں منظر عام پر آئی.جو ۲۶۹ صفحات پر مشتمل ہے.اس شوریٰ میں ۶۸۹ ممبران شریک ہوئے.حضور کی زیر ہدایت باری باری شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج مغربی پاکستان ہائیکورٹ لاہور، مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ، شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ کو حضور کی معاونت کا خصوصی شرف حاصل ہوا.سید نا حضرت خلیفتہ امیج الثالث مشاورت کے تینوں دن رونق افروز رہے اور اپنی بیش قیمت ہدایات اور ارشادات سے نوازا.حضور نے اپنے اختتامی خطاب میں مشورہ کے بابرکت اسلامی نظام پر نہایت بصیرت افروز روشنی ڈالتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں وضاحت فرمائی کہ جماعت کے ہر فرد کا حق نہیں کہ وہ مشورہ دے بلکہ خلیفہ وقت کا حق ہے کہ جماعت اُس کو مشورہ دے.چنانچہ حضور نے فرمایا:.مکرم ابوالعطاء صاحب نے اپنی رپورٹ کی ابتدا میں ایک تمہیدی نوٹ دیا تھا جس کے الفاظ یہ تھے کہ: سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری سمجھی گئی ہے کہ تمام جماعتوں اور افراد پر اچھی طرح واضح رہے کہ مشورہ لینے کا حق نبی یا امام وقت کو دیا گیا ہے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شَاوِرُهُمُ فِي الْأَمْرِ فرمایا ہے.امام جس طریق پر اور جن افراد سے مشورہ لینا پسند کرے اس کا اُسے از روئے شریعت اختیار ہے.جماعتوں اور افراد کا یہ حق نہیں کہ کسی خاص طریق پر مشورہ دینے کا مطالبہ کریں.مجلس

Page 49

تاریخ احمدیت.جلد 24 31 سال 1967ء شوری کو خلیفہ وقت بلاتے ہیں اور اس بارہ میں انہیں پورا اختیار ہے کہ جس طریق پر اور جن افراد سے اور جتنی تعداد سے مشورہ لینا چاہیں مشورہ لے سکتے ہیں.یہ وضاحت کرنا اس لئے ضروری سمجھا گیا تا کہ کسی نئے احمدی کے ذہن میں مغربی طرز فکر کے ماتحت پارلیمنٹوں کے طریق پر نمائندگی کے حق کا سوال پیدا نہ ہو.“ یہ تمہیدی نوٹ مجلس شوری کے متعلق تھا.اسلام نے مشورہ کی جو تعلیم دی ہے اس کے متعلق یہ تمہیدی نوٹ نہیں تھا.اس نوٹ میں سے ایک فقرہ مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب ( سابق امیر جماعت احمدیہ کراچی مراد ہیں ) نے نکال لیا اور قطع نظر اس کے کہ وہ کس سلسلہ میں کہا گیا ہے انہوں نے اس کے اوپر اپنی رائے کا اظہار کیا.میرے نزدیک اس فقرہ کا وہ مطلب نہیں تھا جو شیخ صاحب کے ذہن میں آیا ہے لیکن بہر حال ان کے ذہن میں ایک چیز آئی اور انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کر دیا.میں نے اس کی اس وقت اس رنگ میں وضاحت کر دی کہ جہاں تک مشورہ کا سوال ہے جماعت کے ہر فرد کا حق نہیں کہ وہ مشورہ دے بلکہ خلیفہ وقت کا حق ہے کہ جماعت اس کو مشورہ دے.ان دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ اگر یہ سمجھا جائے کہ جماعت کے ہر فرد بشر کا یہ حق ہے کہ وہ خلیفہ وقت کو مشورہ دے تو ہزاروں آدمی ایسے ہوں گے جو کہیں گے کہ ہمارا حق ہے ہم اسے چھوڑتے ہیں ، ہم نہیں دیتے مشورہ.لیکن اگر سمجھا جائے کہ خلیفہ وقت کا حق ہے کہ جس کے ذہن میں کوئی ایسی تجویز آتی ہے جو جماعت کی ترقی کے لئے مفید ہو خلیفہ وقت تک پہنچائے اور جب یہ خلیفہ وقت کا حق ہوا اور کوئی شخص وہ تجویز خلیفہ وقت تک نہیں پہنچاتا تو وہ حق مارنے والا ہو جائے گا.پہلی صورت میں وہ یہ کہے گا کہ میرا حق ہے میں نہیں دیتا.دوسری صورت میں وہ خلیفہ وقت کا حق مار رہا ہے.اس کی اُس کو اجازت نہیں مل سکتی.لیکن جہاں تک عام مشورہ کا تعلق ہے.میں ان سینکڑوں افراد جماعت کا اور اپنے بھائیوں کا بے حد ممنون ہوں کہ وہ مجھے مشورہ دیتے رہتے ہیں اور بڑے اچھے مشورے دیتے ہیں.یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض بڑی اچھی باتیں ان کے ذہن میں آتی ہیں لیکن موجودہ حالات میں اور موجودہ وسائل جو ہمیں حاصل ہیں ان کی وجہ

Page 50

تاریخ احمدیت.جلد 24 32 سال 1967ء سے ہم ان کے مشورہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے.لیکن وہ باتیں بہر حال بڑی اچھی ہوتی ہیں اور کسی وقت ہمارے کام آسکتی ہیں.پھر اگر ہر شخص یہ سمجھے کہ خلیفہ وقت کا یہ حق ہے کہ اس کو مشورہ دیا جائے اور مشورہ سے اس کی امداد کی جائے تو وہ جماعتی کاموں کے متعلق سوچتا ہے اور بڑے گہرے سوچنے والے ہمارے اندر موجود ہیں اور وہ سوچتے رہتے ہیں اور جب کوئی بات اُن کے ذہن میں آجاتی ہے تو اس کی تفصیل مجھے لکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا کام ختم ہو گیا.جہاں تک مجلس شوری کا سوال ہے وہی فقرہ درست ہے جو مکرم ابوالعطاء صاحب نے اپنے تمہیدی نوٹ میں لکھا ہے.کیونکہ یہ فیصلہ کر نا کہ کسی مجلس کو مشورہ کے لئے قائم کیا جائے یا نہ کیا جائے یہ جماعت کا حق نہیں ہے بلکہ خلیفہ وقت کا حق ہے.اگر آپ اسے جماعت کا حق فرض کر لیں تو ساتھ ہی ہمیں اس وقت یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت خلیفہ اول نے جماعت کو یہ حق نہیں دیا.کیونکہ انہوں نے اس قسم کی مجلس شوریٰ بلائی ہی نہیں اور اس طرح آپ نے جماعت کا ایک حق مارلیا (نعوذ باللہ ) جو غلط بات ہے اور پھر اس کا نتیجہ فورا یہ نکلتا ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی ۱۴ء میں مسند خلافت پر بیٹھے اور پہلی مجلس شوریٰ ۲۲ء میں منعقد ہوئی.اگر مجلس شوری کا قیام جماعت کا حق تسلیم کیا جائے تو ۱۴ء سے ۲۲ء تک آپ نے قوم کواس کا حق نہیں دیا اور یہ بالکل غلط بات ہے ، ان کا حق تھا ہی نہیں.اس لئے حق دینے کا یا نہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.غرض جہاں تک مجلس شوریٰ کا سوال ہے اسے کس شکل میں بُلا یا جائے ،اس کی نمائندگی کا کیا طریق ہو.انتخاب کس اصول پر ہو وغیرہ.یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کا فیصلہ کرنا خلیفہ وقت کا کام ہے اور اس کے متعلق خلیفہ وقت مشورہ لیتا ہے.وہ مشورہ کے بعد اکثریت کے حق میں فیصلہ کر رہا ہو یا اکثریت کے خلاف فیصلہ کر رہا ہو.یہ علیحدہ بات ہے لیکن بہر حال وہ مشورہ لیتا ہے اور کام کرتا ہے.نبی کریم ﷺ کے ایک طریق مشورہ کے متعلق عزیز محترم سید محمود احمد صاحب

Page 51

تاریخ احمدیت.جلد 24 33 سال 1967ء نے یہاں ذکر کیا تھا.نبی کریم ﷺ کی زندگی پر مجموعی طور پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے مشورہ کے سلسلہ میں ایک طریقہ کار نہیں اپنا یا بلکہ اپنی زندگی میں تین طریق سے مشورہ لیتے رہے.جس کا ذکر ایک مشاورت کے موقعہ پر حضرت مصلح موعود کر چکے ہیں اور وہ ہماری مشاورت کی رپورٹ میں موجود ہے.ایک طریق آپ کا یہ تھا کہ اگر کوئی اہم مسئلہ ہو اور وہ ایسا ہو کہ اسے ظاہر نہ کیا جا سکتا ہو.امت مسلمہ کے مفاد کا تقاضہ یہ ہو کہ وہ بات ظاہر نہ کی جائے اور امت مسلمہ کے مفاد کا یہ تقاضہ بھی ہو کہ اس کے متعلق مشورہ کیا جائے تو جن دوستوں کو اپنے متبعین میں سے آپ اہل الرائے سمجھتے اور آپ سمجھتے کہ ان کے ساتھ مشورہ ہونا چاہئے.آپ ان میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ بلاتے تھے اور ان سے علیحدہ علیحدہ مشورہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کسی کو نہ بتانا.ایک طریق آپ کا یہ تھا کہ آپ ان لوگوں کو اپنی نظر میں رکھتے تھے جو تقویٰ وطہارت کے اعلیٰ مقام پر ہوتے تھے اور آپ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فراست عطا فرمائی ہے اور صحیح فیصلہ کرنے کی قوت عطا کی ہے.آپ ان میں سے ۲۵ سے ۳۰ کو اپنے پاس بلا لیتے اور مشورہ کر لیتے تھے اور بعض دفعہ آپ نے سب لوگوں کو بلالیا.آپ نے مدینہ میں ڈھنڈورا پٹوا دیا اور فرمایا سب دوست جمع ہو جائیں مشورہ لینا ہے.ایک موقع پر ( تاریخ میں اختلاف ہے اس لئے میں تحقیق کرنے کے بعد ہی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہوں لیکن بہر حال جو مجموعی شکل ہمارے سامنے آتی ہے یہ ہے کہ ) جمعہ کا دن تھا آپ نے صبح سے لے کر جمعہ کے بعد تک مختلف وقتوں میں مشورہ کیا اور وہ اُسی طرح بلا کر آپ نے کیا تھا.آپ نے مہاجرین سے مشورہ کیا کہ جنگ اُحد کے لئے ) ہمیں مدینہ میں رہ کر لڑنا چاہئے یا مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے.اس وقت کفار کا لشکر ہم پر حملہ آور ہے.اگر سارے کے سارے نہیں تو بہت بھاری اکثریت میں مہاجرین کا یہ مشورہ تھا کہ ہمیں مدینہ میں رہ کر لڑائی کرنی چاہئیے.بزرگ انصار کی بہت بھاری اکثریت کا بھی مشورہ یہ تھا کہ ہمیں مدینہ

Page 52

تاریخ احمدیت.جلد 24 34 سال 1967ء میں رہ کر جنگ کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ کا کرنا کیا ہوا کہ جو منافقوں کا سردار تھا اُس کی بھی یہی رائے تھی اور تاریخ کہتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے پہلی بار مشورہ کیا تھا اور اُس نے اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ ہمیں مدینہ میں رہ کر لڑائی کرنی چاہیے.مہاجرین وانصار اور منافقین کے سردار کے دماغوں میں غالباً مختلف وجوہات اور حکمتیں ہوں گی.لیکن بہر حال منافقین کے سردار کے دماغ نے بھی یہی نتیجہ نکالا کہ مدینہ میں رہ کر ہمیں کفار کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن انصار میں بعض نوجوانوں نے جنہیں کسی صورت میں بھی اکثریت نہیں کہا جاسکتا.(وہ چند نو جوان تھے ) اپنے جوشِ جوانی میں اور جوشِ قربانی اور ایثار میں اور جوشِ شہادت میں مشورہ دیا کہ حضور مدینہ سے باہر نکل کر کفار کا مقابلہ کریں.وہ نوجوان بدر کی جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے اس لئے شاید ان کا یہ خیال تھا کہ اگر مسلمانوں نے کفار کا مقابلہ مدینہ میں رہ کر کیا تو ممکن ہے کہ کفار مدینہ کا محاصرہ کر لیں اور شاید وہ بغیر لڑائی کئے واپس چلے جائیں.ان کے دل میں یہ خواہش تھی کہ لڑائی ہو.کچھ ہم ماریں اور کچھ ہم میں سے جن کے حق میں شہادت مقدر ہے ، وہ شہادت حاصل کریں.تاریخ سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان نوجوانوں کی بات مان لی اور اکابر مہاجرین اور انصار کی بات کو رد کر دیا.آپ کے ایسا کرنے میں بہت سی حکمتیں تھیں اور سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ وہ حکمتیں کیا تھیں.ایک بات مثلاً یہی ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا کہ منافقوں کے سردار کی بات نہیں ماننی چاہیے.چاہے بعض مسلمان شہید کرنے پڑیں.اللہ تعالیٰ حکیم ہے نا.دوسرے نو جوانوں کا یہ بتانا تھا کہ انہیں اپنے صائب الرائے بزرگوں کی قدر کرنی چاہیے.بہر حال آپ کے اس فیصلہ میں بہت سارے سبق ہیں جو حاصل کیے جاسکتے ہیں اورسوچنے والوں کو ان پر غور کرنا چاہئیے.غرض عام مشورہ کے متعلق نبی کریم ﷺ کے یہ تین طریق تھے.آپ کے زمانہ میں اس قسم کی کوئی مجلس شوری نہیں تھی بلکہ جن کے متعلق آپ سمجھتے تھے کہ ان سے مشورہ لینا چاہئیے ، ان سے مشورہ لے لیتے تھے.حضرت مصلح موعود نے مجلس

Page 53

تاریخ احمدیت.جلد 24 35 سال 1967ء شوری ۱۹۲۲ء میں ( کہ جس میں آپ کے شوری سے تعلق رکھنے والے بہت سارے ارشادات ہیں) ان تین طریقوں کو بیان فرمایا ہے.مثلاً ایک طریق جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں، یہ تھا کہ آپ سب لوگوں کو بلالیا کرتے تھے.لیکن اس وقت یہ طریق نہ تھا کہ اگر مثلاً مشورہ کے لئے پانچ سو افراد آ گئے ہیں تو ان میں سے ہیں افراد ہاتھ کھڑا کر دیں کہ ہم نے بات کرنی ہے بلکہ ان کی طرف سے ان کا سردار بولتا تھا.باقی لوگ اس کی بات سنتے تھے تا انہیں معلوم ہو کہ ان کے سردار نے ان کی طرف سے کیا وعدہ کیا ہے.یہ طریق آسان تھا اگر دس ہزار آدمی بھی آجائیں تو اگر ان کے پچاس سردار ہیں تو دراصل بولنے والے وہی پچاس افراد ہوں گے.باقی سب مجلس شوری) سننے والے ہوں گے.اس زمانہ میں چونکہ سرداری کا رواج نہیں رہا.اس لئے حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں ہم اس طریق کو اپنا نہیں سکتے.لیکن اگر اب بھی وہی طریق رائج ہو جائے.تو اسی طریق پر مشورہ ہو سکتا ہے.آپ ( یعنی حضرت مصلح موعود ) فرماتے ہیں :.اب بھی اگر وہی طریق ہو کہ سردار ہوں تو اسی طرح مشورہ ہوسکتا ہے.مگر ابھی چونکہ ایسا رواج نہیں اس لئے مشورہ کے لئے آدمی منتخب کرنے پڑتے ہیں.دوسرا طریق مشورہ کا یہ تھا کہ وہ خاص آدمی جن کو رسول کریم یہ مشورہ کا اہل سمجھتے ان کو الگ جمع کر لیتے.باقی لوگ نہیں بلائے جاتے تھے.جن سے رسول کریم ﷺ مشورہ لیتے تھے.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمیں کے قریب ہوتے تھے رسول کریم ﷺ سب کو ایک جگہ بلا کر مشورہ لے لیتے.کبھی تین چار کو بلا کر مشورہ لے لیتے.تیسرا طریق یہ تھا کہ آپ کسی خاص معاملہ میں جس میں آپ سمجھتے کہ دو آدمی بھی جمع نہ ہونے پائیں (بصیغہ راز ہوتی تھی وہ بات علیحدہ علیحدہ مشورہ لیتے.پہلے ایک کو بلا لیا.اس سے گفتگو کر کے اس کو روانہ کر دیا.اور دوسرے کو بلا لیا.یہ تین طریقے تھے مشورہ لینے کے اور یہ تینوں اپنے اپنے رنگ میں بہت مفید ہیں.میں بھی ان تینوں طریق سے مشورہ لیتا ہوں.66

Page 54

تاریخ احمدیت.جلد 24 36 سال 1967ء پھر ۱۹۲۲ء کی شوریٰ ہی میں آپ فرماتے ہیں کہ:.یہ نہیں کہ ووٹ لئے جائیں اور ان پر فیصلہ کیا جائے بلکہ جیسا کہ اسلامی طریق ہے کہ مختلف خیالات معلوم کئے جائیں اور مختلف تجاویز کے پہلو معلوم ہوں تا کہ ان سے جو مفید باتیں معلوم ہوں ، وہ اختیار کر لیں....مشورہ کی غرض ووٹ لینے نہیں بلکہ مفید تجاویز معلوم کرنا ہے پھر چاہے تھوڑے لوگوں کی اور چاہے ایک ہی کی بات مانی جائے.پس صحابہ کا یہ طریق تھا اور یہی قرآن سے معلوم ہوتا ہے اور عارف کے لئے یہ کافی ہے.“ 29 پھر آپ فرماتے ہیں:.سلسلہ احمدیہ کے تمام افراد کے لئے قیام وحدت اور اجتماع کلمہ اور ملی فرائض کی بجا آوری کے لئے ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کرنا ضروری ہے اور اس بیعت کے بغیر کوئی شخص جماعت احمدیہ میں شامل نہیں رہ سکتا.یہ شخص جس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے مطابق احکام قرآن خلیفہ یا مطابق سنتِ صحابہ (خلیفہ اسیح) کہلائے گا اور تمام اجتماعی امور جماعت اس کی وساطت اور اس کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے ماتحت طے پائیں گے اور اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی چیزیں صرف خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کا کلام اور اس کا فعل اور سنت رسول کریم ﷺ اور حدیث جو مطابق قرآن ہو اور وحی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور کتب مسیح موعود اور اس کی اپنی عقل ہوگی.“ پھر آپ فرماتے ہیں:.مشورہ لینے کا حق اسلام نے نبی کو اور اس کی نیابت میں خلیفہ کو دیا ہے مگر کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ نبی یا خلیفہ کے سامنے تجاویز پیش کرنے کا حق دوسروں کے لئے رکھا گیا ہے کوئی ایسی مثال نہیں مل سکتی کہ کسی نے اپنی طرف سے رسول کریم ﷺ کے سامنے تجویز پیش کی ہو اور اسے اپنا حق سمجھا ہو.“ پھر اسی شوری میں آپ فرماتے ہیں:.30 66 خلافت کوئی سیاسی نظام نہیں ( ہماری کمیٹی نے بھی یہی کیا ہے کہ جمہوریت

Page 55

تاریخ احمدیت.جلد 24 37 سال 1967ء کے اثر کے نیچے کوئی نیا آنے والا یا نئی پود غلط قسم کے خیالات اپنے دماغ میں پیدانہ کرے بلکہ یہ مذہب کا جزو ہے اور وہ یہ ہے کہ خلیفہ قائم مقام ہوتا ہے رسول کا اور رسول قائم مقام ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا.اللہ تعالیٰ نے بعض احکام دے کر اس کے بعد رسول کو اختیار دیا ہے کہ وہ ان میں دوسروں سے مشورہ لے کر فیصلہ کرے.پھر لوگوں کو اس بات کا پابند قرار دیا ہے کہ جو فیصلہ رسول کرے اسے بغیر چون و چرا کے تسلیم کریں.اس پر اعتراض کر کے پیچھے ہٹنے کا کسی کو حق نہیں دیا.اسی طرح خلیفہ کو حق دیا ہے کہ وہ مشورہ لے اور فیصلہ کرے.دنیاوی مجالس مشاورت میں تو یہ ہوتا ہے کہ ان میں شامل ہونے والا ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ چاہے میری بات رد کر دو مگر سن لو.لیکن خلافت میں کسی کو یہ کہنے کا حق نہیں.یہ خلیفہ کا ہی حق ہے کہ جو بات مشورہ کے قابل سمجھے اس کے متعلق مشورہ لے اور شوریٰ کو چاہیئے کہ اس کے متعلق رائے دے.شوریٰ اس کے سوا اپنی ذات میں اور کوئی حق نہیں رکھتی کہ خلیفہ جس امر میں اس سے مشورہ لے اس میں وہ مشورہ دے.32 66 امید ہے کہ یہ مسئلہ اب واضح ہو گیا ہوگا“.مشاورت کے پانچویں اور آخری اجلاس کے دوران حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشاد مبارک پر مسٹرایم.کے بونگے جنرل سیکرٹری جماعتہائے احمد یہ سیرالیون نے انگریزی زبان میں ایک ولولہ انگیز تقریر فرمائی.جس میں کہا کہ میری زندگی کا یہ سب سے زیادہ خوش کن موقعہ ہے کہ میں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے پہلو میں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کرام اور جماعت کے معزز نمائندگان کے سامنے تقریر کے لئے کھڑا ہوا ہوں.آپ نے مجھے ربوہ کی گلیوں میں چلتا پھرتا ضرور دیکھا ہوگا.لیکن ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض کو یہ علم نہ ہو کہ میں کہاں سے آیا ہوں.میں ملک سیرالیون کا ایک باشندہ ہوں.جو یہاں سے قریباً پندرہ ہزار میل کے فاصلہ پر اور مغربی افریقہ کے ساحل پر واقع ہے.اس کی آبادی دو ملین کے قریب ہے جن میں سے ۷۰ فیصد خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہیں اور جماعت احمد یہ اس مسلمان آبادی کا ایک ممتاز حصہ ہے.سیرالیون میں احمدیت کا پیغام ۱۹۲۱ء میں پہنچا جبکہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر وہاں

Page 56

تاریخ احمدیت.جلد 24 38 سال 1967ء تشریف لے گئے آپ نے وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کیا.بلکہ آپ جلد ہی غا نا اور نا یجیریا تشریف لے گئے.۱۹۳۷ء میں وہاں جماعت احمدیہ کے باقاعدہ مشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور مولانا نذیر احمد علی صاحب مرحوم کو وہاں کا مشنری انچارج مقرر کیا گیا.آپ نے وہاں ہی وفات پائی اور آپ وہیں دفن ہیں.آپ کے بعد مکرم مولانا محمد صدیق صاحب امرتسری وہاں تشریف لے گئے.شروع شروع میں وہاں بڑی سخت مخالفت ہوئی لیکن ان مبلغین کرام نے سیرالیون کے ہر کونہ میں پیغام احمدیت پہنچایا اور یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اپنی زمین بعد میں احمدیت کے لئے زرخیز ثابت ہوئی.ہم سب کو احمدیت پر فخر ہے.ملک میں ہماری جماعت کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ملک کی حکومت بھی ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے.ملک کے ریڈیو اور پر لیس کو احمدیت کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور ہم بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کر سکتے ہیں کہ اس وقت ملک میں ہمارے ۲۱ پرائمری سکول قائم ہیں.تین سیکنڈری سکول جاری ہیں جن کے پورے اخراجات وہاں کی گورنمنٹ برداشت کر رہی ہے یہ سکول ملک کے رہنے والوں کو یہ دعوت دے رہے ہیں کہ جہاں آج احمدیت آپ کی روحانی ترقی کے سامان پیدا کر رہی ہے وہاں اس نے تمہاری دنیوی تعلیم اور ترقی کے لئے بھی بعض ادارے کھول رکھے ہیں.تم آج دونوں قسم کی ترقی کے سامان ( دنیوی بھی اور دینی بھی ) جماعت احمدیہ کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہو.آخر پر آپ نے کہا کہ ایک وقت تک پاکستان کا ملک ہمیں تبلیغ کرتا رہا ہے اور ہم اس کے ممنون ہیں لیکن آج مغربی افریقہ پاکستان کے رہنے والوں کو تبلیغ کر رہا ہے یعنی آج میں یہاں کھڑا ہو کر آپ کو تبلیغ کر رہا ہوں میں آپ سے پر زور درخواست کروں گا کہ آج آپ ایک عہد کریں کہ ہم میں سے ہر ایک سال میں کم سے کم ایک احمدی ضرور بنائے گا.اگر آپ ایسا کریں تو آپ نمائندگان شوری کے ذریعہ ہی اگلے سال اس ماہ تک سات سو سے زیادہ افرا د احمدیت میں داخل ہو جائیں گے اور اگر جماعت کا ہر فرد اس تجویز پر عمل کرے تو اگلے سال اس ماہ تک والا کھ سے زیادہ افراد احمدیت میں داخل ہو جائیں گے اور اس تجویز پر ہر سال عمل کریں تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہم ساری دنیا کو حلقہ بگوش احمدیت کر لیں گے.اگر آپ ایسا کریں تو میرے نزدیک یہ اسلام اور احمدیت کی بڑی خدمت ہوگی.33 166

Page 57

تاریخ احمدیت.جلد 24 39 سال 1967ء مغربی افریقہ میں مبلغین اسلام کی شاندار دینی خدمات کا اعتراف بریگیڈیئر گلزار احمد پاکستان کی ایک معروف شخصیت ہیں، جنہیں علمی حلقوں میں اہلِ سیف، اہل قلم اور صاحب ذوق شمار کیا جاتا ہے.آپ نے ۱۹۶۰ء میں افریقی ممالک کا دورہ کیا اور پاکستانی وفد کے لیڈر کی حیثیت سے ٹو گولینڈ کے یوم آزادی (۲۷ را پریل ۱۹۶۰ء) کی تقریب میں شرکت فرمائی.آپ کا سفر نامہ تذکرہ افریقہ کے نام سے معارف لمیٹڈ کراچی سے ۱۹۶۴ء میں شائع ہوا.اس کتاب کے صفحات ۱۱۴ ۱۱۵ ،۱۳۳، ۱۳۷، ۱۴۰ تا ۱۴۲ میں جماعت احمدیہ کی افریقہ میں تبلیغی سرگرمیوں کا تذکرہ موجود ہے.روزنامہ ”مغربی پاکستان لاہور ) نے ۱۹ مارچ ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں مبلغین اسلام کی تبلیغی مساعی اور اس کے خوشکن نتائج کے زیر عنوان ایک مضمون شائع کیا.یہ مضمون احسان چوہدری صاحب سیالکوٹ نے جناب بریگیڈئیر صاحب کے مطبوعہ مضامین کی روشنی میں مرتب کیا تھا.اور گو اس میں کہیں احمدیت کا ذکر نہیں تھا مگر اس میں جہاں جہاں ” مبلغین اسلام“ اور ان کی تبلیغی و تعلیمی مساعی کا ذکر کیا گیا تھا ان سب کا تعلق اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ سے ہے.چنانچہ احسان اللہ چوہدری صاحب تحریر کرتے ہیں کہ گذشتہ دنوں ہمیں پاک فوج کے ایک بہادر اور عظیم سپوت سے ملنے کا اتفاق ہوا.آپ کا نام بریگیڈیئر گلزار احمد صاحب ہے.موصوف اپنی فوجی زندگی کی مصروفیت سے کچھ وقت نکال کر ادب کی خدمت بھی کرتے ہیں.آپ کے متعدد آرٹیکل مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہو چکے ہیں.جناب بریگیڈیر گلزار احمد صاحب ٹو گولینڈ کی آزادی کے موقع پر حکومت پاکستان کی طرف سے ہد یہ تہنیت لے کر ایک وفد کی صورت میں پاکستان کی نمائندگی کرنے ٹو گولینڈ تشریف لے گئے تھے.موصوف نے اپنے دورے کے دوران جو کچھ دیکھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.جو ملا زم مجھے گورنر ٹو گولینڈ کے ہاں دیا گیا اس نے مجھے نماز پڑھتے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا جب میں نے کہا کہ سام تم نماز کو کیا جانو؟ تو اس نے مسکرا کر کہا ماستامے مسلم کہ میں جناب مسلمان ہوں میں نے کہا کہ لیکن تمہارا نام تو سام یعنی عیسائی ہے.کہنے لگا.Sir all men go back take Christian name بریگیڈئیر گزار احمد صاحب نے کہا کہ دوسرے ملکوں میں ہم سن چکے ہیں کہ مشن سکولوں میں

Page 58

تاریخ احمدیت.جلد 24 40 سال 1967ء داخلہ لینے کے لئے عیسائی نام اختیار کرنالازمی ہے لیکن اس سادہ سے افریقی نے بھی اس امر کی تائید کردی.آپ نے کہا کہ اگر ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر آج سے چالیس پچاس سال قبل کی افریقہ میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جائے تو یہ سمجھ لینا دشوار نہ ہوگا.جب کہ مسلمانوں کا ایک بھی سکول وہاں موجود نہ تھا تو عیسائی سکولوں میں مسلمان بچوں کا داخلہ لینے کے لئے عیسائی نام اختیار کرنے کے علاوہ بپتسمہ لینا بھی ضروری ہوتا ہوگا.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ عیسائیت کا پڑھا لکھا طبقہ ترقی کر رہا تھا اور مسلمان اس دوڑ میں پیچھے تھے.آپ نے جب اس بات کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ۱۹۲۱ء میں ایک ہندوستانی مسلم بزرگ مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے لیگوس نائیجیریا میں مسلمان بچوں کے لئے سب سے پہلا سکول جاری کیا اور ا سکے دوسال بعد گولڈ کوسٹ میں ایک مسلمان بزرگ فضل الرحمان صاحب مرحوم نے ایک سکول جاری کیا اور یہ سکول نہ صرف کامیابی کے ساتھ چلائے گئے بلکہ گولڈ کوسٹ کے گورنر نے اس سکول کے دورہ کے وقت اپنی رائے کا اظہار تحریری طور پر یوں کیا:.وو ” یہ سکول باقی تمام سکولوں کے لئے ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے.کاش عیسائی بھی ایسا ہی کام کریں.( گورنر گولڈ کوسٹ )‘“ اس کے بعد نائیجیریا اور غانا میں بھی مزید مسلمانوں نے سکول کھول دیئے اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور کچھ دیر بعد سیرالیون میں بھی مسلمان بچوں کی اسلامی طریق پر نشو و نما کے لئے تعلیمی ادارے جاری ہو گئے.آپ نے کہا کہ مذکورہ سکول شروع سے لے کر آج تک خدا کے فضل و کرم سے صحیح رنگ میں اسلامی سکول کہلانے کے مستحق ہیں.مسلمانوں کے ان سکولوں کی کامیابی کی دلیل اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب نائیجیریا کے وزیر اعظم الحاج تفاوا بلیوا شمالی علاقہ سے اپنے خاندان کے ساتھ لیگوس تشریف لائے تو اپنے بچوں کو مسلمانوں کے سکول میں داخل کروایا اور سیرالیون میں آنر بیل ایس ایم مصطفیٰ صاحب نے بریگیڈیئر گلزار احمد کے سامنے دل کھول کر سکولوں کے اساتذہ کرام اور کارکردگی کی تعریف کی.آنریبل ایس ایم مصطفیٰ نے کہا کہ اگر مسلمان عیسائی لوگوں کے سامنے میدانِ عمل میں نہ آتے اور اسلام کی خدمت کے لئے دوسرے ذرائع کے علاوہ تعلیمی ادارے جاری نہ کرتے تو آج یہاں ایک

Page 59

تاریخ احمدیت.جلد 24 41 سال 1967ء مسلمان نظر نہ آتا کیونکہ عیسائی سکولوں میں داخلہ لینے کے لئے سب سے پہلے عیسائی نام رکھنا پڑتا تھا اور داخلہ کے وقت بپتسمہ بھی لینا ضروری تھا.بریگیڈیئر گلزار احمد نے آگے چل کر بتایا کہ ان سکولوں کی وجہ سے نہ صرف مسلمان عیسائی ہونے سے رُک گئے بلکہ مسلمانوں کے تعلیمی نظام سے متاثر ہوکر سینکڑوں عیسائی جو پہلے مسلمان تھے پھر حلقہ بگوش اسلام ہو گئے.اس بات کا اعتراف نائیجیریا کے ایک کیتھولک اخبار ” ہیرلڈ نے یوں کیا ہے کہ:.عیسائی سکولوں کے طلباء اپنی تعلیم ختم کرنے کے بعد پچاس فیصدی کی نسبت سے اپنے مذہب کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں اور یہ افسوس کی بات ہے کہ ستر سال تک ہم نے جو کوششیں کیں ان کے باوجود عیسائیت یہاں اپنے قدم نہ جما سکی.“ پرائمری اور مڈل سکولوں کے علاوہ اب خدا کے فضل وکرم سے مسلمانوں کے سیکنڈری سکول بھی کھل چکے ہیں.غانا، سیرالیون اور نا پنجیر یا میں سیکنڈری سکولوں کی تعداد سات تک پہنچ چکی ہے اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ سکولوں کے علاوہ اور بھی مسلمان اس طرف توجہ دے رہے ہیں نائیجیریا میں کئی مسلمان اس طرف توجہ دے رہے ہیں نائیجیریا میں کئی مسلمان سوسائیٹیاں ایسی ہیں جو صرف تعلیمی امور کی طرف توجہ دے رہی ہیں.مشرقی اور مغربی افریقہ میں مسلمانوں کے سکول جاری کرنے اور ان کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے کا سہرا غیر صاحب ( مراد حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر )، مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب، مولانا نذیر احمد صاحب علی ، مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری، مولوی نصیر الدین صاحب، مولوی بشارت احمد صاحب بشیر اور مولوی نذیر احمد صاحب کے سر ہے.ان کے علاوہ ایک ہمارے بزرگ دوست جو ایک با اثر اور کثیر الاشاعت ماہنامہ کے ایڈیٹر ہیں ان کو بھی بہت دخل ہے.جناب نیم سیفی صاحب ایک کہنہ مشق صحافی اور نامور شاعر بھی ہیں.بریگیڈئیر گلزار احمد نے بتایا کہ:.ٹو گولینڈ کی آزادی کی تقریب میں حصہ لینے والوں میں نائیجیریا کی یونیورسٹی کا ایک انگریز پروفیسر مسٹر ور ر ڈ بھی شامل تھا.دوران گفتگو پاکستان کے ذکر سے لباس کی بات چھڑ گئی.پروفیسر ورڈ کہنے لگا سمجھ نہیں آتا کہ جوں ہی کوئی معاشرہ اسلام قبول کر لیتا ہے.اس کے افراد ستر ڈھانپنا کیوں شروع کر دیتے ہیں؟

Page 60

تاریخ احمدیت.جلد 24 42 سال 1967ء پھر خود ہی تبلیغی مشنوں کا قصہ چھیڑ بیٹھا.کہنے لگا کہ سالہا سال سے عیسائی مشن مغربی افریقہ میں لاکھوں پاؤنڈ خرچ کر رہا ہے.لیکن ترقی اسلام کی ہورہی ہے.اس کی اطلاعات کے مطابق نائیجیریا میں صرف ارواح پرست ہی نہیں بلکہ عیسائی بھی بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہورہے ہیں.خدا جانے مسلم مشنری لوگوں کے پاس کونسا جادو ہے جو ایک بار ان کا لیکچر سن لیتا ہے دوبارہ ضرور خواہش رکھتا ہے اور اگر عیسائیوں اور ارواح پرست لوگوں کی مسلمان ہونے کی رفتار یہی رہی تو چالیس پچاس سال کے بعد یہاں ایک بھی غیر مسلم نظر نہ آئے گا.“ مذکورہ مضمون پڑھ کر ہر مسلمان کو سوچنا چاہئیے کہ وہ کس غرض کے لئے دنیا میں بھیجا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے فرائض میں کون کون سی کوششیں ، باتیں شامل کی ہیں.شاید کہ ترے دل میں اتر جائے مری بات 766 حضرت خلیلہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت احمد بینائیجیریا کے نام احمد یہ مشن نائیجیریا کا سالانہ جلسہ جو۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء کولیگوس میں شروع ہوا اور ۲۶ مارچ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس موقع پر درج ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا:."بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر احباب کرام! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته مجھے یہ معلوم کر کے مسرت ہوئی ہے کہ آج آپ سب جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ اجتماع آپ سب کے لئے بہت با برکت ثابت کرے اور اس کے نتیجہ میں آپ میں اپنے فضل سے اور زیادہ انابت الی اللہ اور نیک تغیر پیدا کرے اور ان علاقوں میں اسلام اور احمدیت کی فتح کا دن قریب سے قریب ترلے آئے.آمین

Page 61

تاریخ احمدیت.جلد 24 43 سال 1967ء یہ دن اور یہ راتیں ذکر الہی ، نوافل اور اجتماعی اور انفرادی دعاؤں میں بسر کریں کہ آسمان اور زمین کا رب آپ پر اپنے خاص فضل نازل فرمائے ، آپ کی کمزوریاں اور کمیاں دور فرمائے.آپ کو نافع الناس بنائے ، آپ کی ناچیز کوششوں میں برکت ڈالے اور اسلام کو نہ صرف اس علاقہ میں بلکہ سارے مغربی افریقہ میں جلد فتح نصیب کرے.آمین میں اس موقع پر آپ کو اس امر کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت محض ایک مذہبی اور تبلیغی جماعت ہے.سیاست کے ساتھ ہمارا تعلق نہیں ہے.ہمارا مقصد محض دنیا میں اشاعت اسلام اور دنیا کا بچے خدا سے تعلق پیدا کرنا ہے اور ہمارا یہ مسلک ہے کہ جس جس ملک میں بھی جماعت احمدیہ قائم ہے وہ وہاں کی حکومت کے ساتھ ہر طرح تعاون کرتے ہوئے ملکی قوانین کی اطاعت کرے.پس آپ حکومت وقت کے ساتھ تعاون کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کریں اور ملک کے بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.دنیا بھر میں اشاعت اسلام کا عظیم مقصد ہم سے قربانی چاہتا ہے.اموال کی قربانی، اوقات کی قربانی، جذبات کی قربانی، آرام کی قربانی، عزتوں کی قربانی اور نفوس کی قربانی.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.و, سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کے لئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلی موقوف ہے.35 پس اسلام کی زندگی اور خدا تعالیٰ کی تجلی کا دن جلد تر لانے کے لئے محنت،

Page 62

تاریخ احمدیت.جلد 24 44 سال 1967ء جانفشانی اور قربانی کی ضرورت ہے.اسلام کی زندگی کے لئے اپنے نفسوں پر موت وارد کرنے کی ضرورت ہے اسلئے اپنے اندر ایک نیک تغیر پیدا کرو، ایک پاک تبدیلی.اس طرح کہ تم اپنے اعمال اور کردار، اخلاق اور جذبہ فدائیت، للہیت میں دنیا بھر میں ممیز و ممتاز ہو جاؤ اور اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ.جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو.اور اسلام کی فتح کا دن قریب تر لانے کے لئے ہر سختی برداشت کرنے اور ہر قربانی پیش کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.بظاہر تم خدا کے لئے ذلت برداشت کر رہے ہوگے، ایک موت قبول کر رہے ہو گے مگر یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کی قائم کردہ جماعت ہو جسے اُس نے اسلام کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے قائم کیا ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وو یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کر دے گا.تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جوز مین میں بویا گیا.خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھو لے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا.166 یہ بات بھی یا درکھو کہ تم سب محض خدا کے فضل سے احمدیت اور اسلام میں داخل ہو کر ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے ہو یہ محض خدا تعالیٰ کا احسان ہے.اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں اسے نعمت قرار دیتا ہے.جبکہ فرماتا ہے:." فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا» (آل عمران :۱۰۴) پس اس نعمت کی قدر کرو ، باہم پیار اور محبت سے رہو اور اطاعت کا ہمیشہ اعلیٰ نمونہ دکھاؤ.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہوا اپنے اندر صحابہ " کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو، باہم محبت اور اخوت ہو تو ย ویسی ہو، غرض ہر رنگ میں ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کر و جو صحابہ کی تھی.38 66 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے باہم اخوت و محبت اور اطاعت کا جو اعلیٰ نمونہ

Page 63

تاریخ احمدیت.جلد 24 45 سال 1967ء دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہی نمونہ اب تم دنیا کے سامنے پیش کرو.پھر جس طرح ان پر اللہ تعالیٰ نے بے حد افضال نازل فرمائے تھے اُسی طرح آپ پر بھی انشاء اللہ اپنے افضال نازل فرمائے گا.آپ کو ایک نئی زندگی بخشے گا اور ایک تازہ ٹور جس سے دنیا روشن ہو جائے ، تاریکی کے بادل چھٹ جائیں ، گمراہی نا پید ہو جائے اور اسلام دنیا میں غالب آجائے اور اللہ تعالیٰ کا روشن چہرہ دنیا میں پھر ظاہر ہو جائے.اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے.آمین مجھے اس سلسلہ میں آپ سے یہ بھی کہنا ہے کہ اس ملک میں جہاں ایک طرف اس ملک کے عوام روحانی تشنگی محسوس کر رہے ہیں اور آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ ہر قسم کی قربانی پیش کر کے اُن کی یہ شنگی دور کریں وہاں وہ آپ سے یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ اس ملک سے جہالت کو دور کرنے اور علم کو پھیلانے میں بھی آپ کوئی کسر باقی نہ رہنے دیں.پس اُن کی تربیت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کی طرف بھی خاص توجہ دیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور ہمیشہ اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے.فقط والسلام (خاکسار مرزا ناصر احمد ) 39 A 12 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا حج بیت اللہ 40 اس سال ایک سو سے زائد احمدی احباب نے حج بیت اللہ شریف کی سعادت حاصل کی.قادیان کے درویشان میں سے قریشی عطاء الرحمن صاحب، چوہدری عبدالحق صاحب اور قریشی عبد القادر صاحب اعوان نے بھی اسی سال فریضہ حج ادا کیا.ان خوش نصیب عشاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سب سے ممتاز تھے.آپ کے اس مبارک سفر، اس کے روحانی اثرات و تجلیات اور انتظامات حج کی تفصیل آپ کے قلم مبارک سے درج ذیل کی جاتی ہے:.چونکہ عالمی عدالت میں میرا تقرر ۶ فروری ۱۹۶۴ء سے عمل میں آنا تھا.میں نے اقوام متحدہ

Page 64

تاریخ احمدیت.جلد 24 46 سال 1967ء میں پاکستانی سفیر کے منصب کا چارج ۵ فروری ۶۴ء کو چھوڑ دیا.عدالت میں دوبارہ تقریر کے دیگر فوائد کے علاوہ ایک نعمت عظمیٰ جو حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ مارچ ۱۹۶۷ء میں میری حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کرنے کی دیرینہ آرزو محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی ذرہ نوازی سے بر آئی.فالحمد لله حمداً كثيراً طيباً مباركاً فيه.حسن اتفاق سے عزیز انور احمد اور عزیزہ امینہ کا ساتھ بھی میسر آگیا جن کی رفاقت کی وجہ سے مجھے بہت آرام ملا.فجزاهم الله خيراً ہم کراچی سے امارچ ۱۹۶۷ء جمعہ کے دن فجر کے وقت روانہ ہوئے اور دس بجے قبل دو پہر بخیریت جدہ پہنچ گئے.تشریفات ملکیہ کی طرف سے ہماری رہائش کا انتظام جدہ پیلس ہوٹل میں کیا گیا تھا جو امریکن طرز کا نہایت عمدہ ، آرام دہ ہوٹل ہے.اسی دن ہم مکہ معظمہ میں حاضر ہو کر بفضل اللہ عمرہ سے مشرف ہوئے اور پھر جدہ واپس آگئے.۱۱ کو جدہ میں ٹھہر کر تشریفات ملکیہ کے ساتھ پروگرام طے کیا.پاکستانی سفارت خانے میں حاضر ہو کر سفیر کبیر اور ان کے افسران سے نیاز حاصل کیا.ان میں سے دو صاحبان شیخ اعزاز نیاز صاحب افرحج اور سید اشتیاق حسین صاحب مدیر ثالث وزارت خارجه میں میرے رفیق کا ر رہ چکے تھے، اب بھی پہلے سی تواضع کے ساتھ پیش آئے اور انتظامات حج کے سلسلے میں ہمارے آرام کا موجب ہوئے.فجزاهم الله خيراً.۱۲ کو ہم جدہ سے کار پر مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور ۱۵ تک وہاں قیام کیا.ہماری جائے قیام مسجد نبوی سے چند قدم کے فاصلے پر تھی.اس سہولت کی وجہ سے ہمیں بفضل اللہ سب اوقات میں مسجد میں حاضری اور نوافل کی ادائیگی کا موقع میسر آ جاتا تھا.البتہ رسول اکرم ﷺ کے روضہ مبارک اور حضور کے منبر کے درمیان نوافل ادا کرنے والوں کا ہر وقت اس قدر ہجوم رہتا تھا کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ ان ایام میں اس مبارک مقام پر نفل ادا کرنے اور دعا کرنے کی حسرت دل میں ہی رہ جائے گی.لیکن اللہ تعالیٰ کے خاص کرم اور بندہ نوازی سے یہ موقع بھی بفراغت میسر آ گیا.غیر معمولی ہجوم کی وجہ سے مسجد کی صفائی کے متعلق خاص انتظام کرنا پڑتا ہے اس لئے مسجد نصف شب سے لے کر تین گھنٹے کے لئے بند کر دی جاتی ہے.اور اس دوران میں خدام مسجد کی صفائی مستعدی کے ساتھ مکمل کر لیتے ہیں.۱۳ کی شام کو نمائندہ تشریفات نے ہمیں مطلع کیا کہ وہ نصف شب کے وقت تشریف لا کر ہمیں مسجد کے اندر لے چلیں گے اور جس قدر عرصہ ہم چاہیں نوافل اور دعا میں صرف کر سکیں گے.چنانچہ دونوں رات ہمیں یہ موقع نصیب ہوتا رہا.فالحمد للہ.۱۵ کو مدینہ منورہ سے جدہ واپسی ہوئی.۱۶ کو ہم پھر مکہ معظمہ حاضر ہوئے اور عمرہ اور مناسک ادا کئے.۷ا کو

Page 65

تاریخ احمدیت.جلد 24 47 سال 1967ء مکہ معظمہ منتقل ہو گئے.۱۸ کی شام کو جلالۃ الملک فیصل کی طرف سے استقبالیہ دعوت تھی.عزیز انور احمد اور میں بھی مدعو تھے.جلالۃ الملک نے اپنی تقریر میں قضیہ یمن کا ذکر فرمایا اور صراحت فرمائی کہ ان کا موقف یہ ہے کہ جو عناصر بھی بیرون یمن سے یمن میں داخل ہوئے ہیں وہ یمن سے نکل جائیں اور یمن کی رعایا بغیر کسی بیرونی تداخل کے آزادانہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرے.مزید فرمایا ہم اعلان کرتے ہیں اور آپ سب کو اس پر گواہ ٹھہراتے ہیں کہ یمنی رعایا جو فیصلہ بغیر کسی بیرونی تداخل یا کسی جبر کے کرے گی ہم اس کے پابند ہوں گے خواہ فیصلہ ہماری نگہ میں پسندیدہ ہو یا نہ ہو.جناب اسمعیل از ہری صاحب صدر سوڈان دعوت استقبالیہ میں خصوصی مہمان تھے انہوں نے بھی حاضرین کو خطاب فرمایا.“ حج کے اختتام پر بھی حضرت چوہدری صاحب کی ملاقات سعودی عرب کے شاہ فیصل سے ہوئی.اس سال ایک سو سے زائد احمدی احباب نے حج بیت اللہ کی سعادت پائی.تعمیر بیت اللہ کے مقاصد سے متعلق ایمان افروز خطبات کا سلسلہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء کو تعمیر بیت اللہ کے تئیں عظیم الشان مقاصد سے متعلق نہایت ایمان افروز خطبات کا ایک سلسلہ جاری فرمایا.جو ۱۶ جون ۱۹۶۷ء کو پایہ تکمیل کو پہنچا.آخری روز حضور نے ثابت کیا کہ تعمیر بیت اللہ کے تمام مقاصد رسول کریم ﷺ کی بعثت کے ذریعے پورے ہوئے.حضور کے یہ خطبات بھی نظارت اصلاح وارشاد نے کتابی شکل میں شائع کر دیئے.حضور نے اپنے اس سلسلہ خطبات کے آخر میں ان خطبات کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑے زور کے ساتھ مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ موجودہ نسل کا جو تیسری نسل احمدیت کی کہلا سکتی ہے، صحیح تربیت پانا غلبۂ اسلام کے لئے اشد ضروری ہے.یعنی احمدیوں میں سے وہ جو ۲۵ سال کی عمر کے اندر اندر ہیں یا جن کو احمدیت میں داخل ہوئے ابھی پندرہ سال نہیں گزرے.اس گروہ کی اگر صحیح تربیت نہ کی گئی تو ان مقاصد کے حصول میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہو جائیں گی جن

Page 66

تاریخ احمدیت.جلد 24 48 سال 1967ء مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جرى الله في حُلل الانبیاء کی شکل میں دنیا کی طرف مبعوث فرمایا.اور جن مقاصد کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو قائم کیا ہے.پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ اس گروہ کی تربیت کے لئے جو طریق اختیار کرنے چاہئیں، ان کا بیان ان آیات میں ہے.جن کے اوپر میں خطبات دیتا رہا ہوں اور اگر ان مقاصد کو صحیح طور پر سمجھ لیا جائے اور ان کے حصول کی کوشش کی جائے تو خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری یہ پود صحیح رنگ میں تربیت حاصل کر کے وہ ذمہ داریاں نباہ سکے گی جو ذمہ داریاں عنقریب اُن کے کندھوں پر پڑنے والی ہیں.کیونکہ میری توجہ کو اس طرف پھیرا گیا تھا کہ آئندہ ہمیں پچیس سال اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے بڑے ہی اہم اور انقلابی ہیں.اور اسلام کے غلبہ کے بڑے سامان اس زمانہ میں پیدا کئے جائیں گے اور دنیا کثرت سے اسلام میں داخل ہوگی یا اسلام کی طرف متوجہ ہو رہی ہوگی.اس وقت کثرت کے ساتھ اُن میں مربی اور معلم چاہئیے ہوں گے.وہ معلم اور مربی جماعت کہاں سے لائے گی، اگر آج اس کی فکر نہ کی گئی.اس لئے اس کی فکر کرو اور ان مقاصد کو سامنے رکھو جوان آیات میں بیان ہوئے ہیں اور ان مقاصد کے حصول کے لئے جس رنگ کی تربیت کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے کلام پاک کی روشنی میں اس قسم کی تربیت اپنے نوجوانوں کو دو تا جب وقت آئے تو بڑی کثرت سے اُن میں سے اسلام کے لئے بطور مربی اور معلم کے زندگیاں وقف کرنے والے موجود ہوں تا وہ مقصد پورا ہو جائے کہ تمام بنی نوع انسان کو علی دین واحد جمع کر دیا جائے گا.“ ان خطبات کے دوران ایک بزرگ نے مجھے لکھا کہ آپ کے جو خطبات ہورہے ہیں ان کا تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام سے بھی ہے، جو تذکرہ کے صفحہ ۸۰۱ پر درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:."جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے.وہ بڑا انقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.“.

Page 67

تاریخ احمدیت.جلد 24 49 سال 1967ء پس میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو میری توجہ کو اس طرف پھیرا.خدا یہ چاہتا ہے کہ قوم کے بزرگ بھی اور قوم کے نوجوان بھی ، قوم کے مرد بھی اور قوم کی عورتیں بھی اس حکمت الہی کو سمجھنے لگیں جس حکمت الہی کا تعلق خانہ کعبہ کی بنیاد سے ہے تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اولو الا لباب ٹھہریں اور اس کی آواز کو اور اس کے احکام کو اور احکام کی حکمتوں کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں اور ان قدوسیوں کے گروہ میں شامل ہوں کہ جن پر اللہ تعالیٰ کے ہر آن فضل ہوتے رہتے ہیں.6 قادیان میں عیدالاضحیہ پر غیر مسلم معززین کی دعوت مورخہ ۱۸ اپریل ۱۹۶۷ء بعد نماز عصر نظارت امور عامه قادیان کی جانب سے غیر مسلم معززین کو احمد یہ محلہ میں چائے پر مدعو کیا گیا.اس دعوت میں سردارستنام سنگھ صاحب باجوہ ڈپٹی منسٹر پنجاب مہمان خصوصی تھے.ان کے علاوہ یکصد مقامی غیر مسلم معززین بھی شریک ہوئے.آنریبل باجوہ صاحب کی تشریف آوری پر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل ناظر اعلیٰ اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے آپ کا خیر مقدم کیا.بعدہ جملہ معززین نصرت گرلز سکول کی بلڈنگ میں تشریف لے گئے جہاں ٹی پارٹی کا انتظام تھا.تمام معزز مہمانوں کی چائے اور مٹھائی سے تواضع کی گئی بعدۂ استقبالیہ دیا گیا.مکرم چوہدری مبارک علی صاحب ایڈیشنل ناظر امور عامہ نے خطبہ استقبالیہ پڑھا.پھر اس ایڈریس کا جواب محترم ستنام سنگھ صاحب نے دیا اور فرمایا سیاسی جماعتوں میں حالات کے مطابق اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے ساتھ میرے تعلقات برادرانہ ہیں.سیاست ان پر غالب نہیں آسکتی.تقریب کے اختتام پر حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل نے جماعت احمدیہ کی طرف سے تمام مہمانوں کا شکر یہ ادا کیا.مانانوالہ لا سکور کی احمد یہ مسجد کی شہادت ۱۹ اپریل ۱۹۶۷ء کو قریباً ۸ بجے شب چک ۲۰۳ ر ب مانا نوالہ تحصیل و ضلع لائلپور میں جماعت احمدیہ کی مسجد کو جو دو تین سال سے احمدیوں کے رہائشی احاطہ کے اندر تعمیر شدہ تھی غیر احمدیوں نے گرادیا.ایک عرصہ سے غیر احمدی مولوی مسمی محمد مشتاق لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ اپنی تقریروں اور خطبات میں عوام کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکا تا اور احمدیوں کے خلاف جو قلیل

Page 68

تاریخ احمدیت.جلد 24 50 سال 1967ء تعداد میں تھے، بلاوجہ اشتعال دلاتا رہا.آخر اس کی اشتعال انگیزی رنگ لائی.۱۹ / اپریل کو شام کے قریب بہت سے غیر احمدی محمد سعید بٹ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ مانانوالہ کے پاس آئے اور مطالبہ کیا کہ شام تک مسجد اپنے ہاتھوں سے گرا دو اور آئندہ کے لئے اذان دینا بند کر دو اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہم خود گرادیں گے.بٹ صاحب نے جواب دیا کہ ہمارا کام مساجد تعمیر کرنا ہے، گرانا نہیں.یہ سن کر وہ لوگ واپس چلے گئے اور جب اندھیرا چھا گیا تو تیار ہو کر آئے اور احاطہ کا بیرونی دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے اور مسجد کو گرا دیا.چھت کی لکڑیاں اور دیگر ملبہ کا سامان اور نلکے کا ہینڈل تک لوٹ کر لے گئے.مسجد کی الماری میں مقامی جماعت کے چندہ کا جورجسٹر کھاتہ اور رسید بکس تھیں ،حملہ آور وہ بھی ہمراہ لے گئے.پولیس اگلے دن دو پہر کے بعد موقعہ پر پہنچی اُس نے اپنی آنکھوں سے مسمار شدہ مسجد کا مشاہدہ کیا.لوگوں نے اقرار کیا لیکن اس کے باوجود کئی دن تک نہ مسجد کا لوٹا ہوا مال برآمد کیا گیا اور نہ ہی کوئی گرفتاری عمل میں آئی.جب کئی دن تک کوئی کارروائی نہ ہوئی اور جماعت کی طرف سے حکام بالا کو توجہ دلائی گئی تو پولیس نے یہ کاروائی کی کہ مسجد گرانے والوں میں سے چند پر خفیف سی قابل ضمانت دفعہ لگا کر گرفتار کر لیا اور وہ جاتے ہی ضمانت پر واپس آگئے.لیکن احمدیوں کا چونکہ یہ قصور تھا کہ وہ کمزور اور تھوڑے تھے اس لئے اس قصور کی پاداش میں جماعت کے پریذیڈنٹ محمد سعید صاحب کو ایک ایسی دفعہ کے ماتحت گرفتار کر لیا گیا جس کی وجہ سے دس گیارہ دن تک ان کی ضمانت نہ ہو سکی.علمی تقاریر مجلس ارشاد مرکز یہ اور اس کا ملک گیر پروگرام 44 ۱۹۶۷ء میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے علمی تقاریر کے اجلاسوں کا نام، جومرکز میں حضور کی نگرانی میں منعقد ہورہے تھے مجلس ارشاد مرکز یہ تجویز فرمایا اور اپریل ۱۹۶۷ء میں ہدایت فرمائی کہ اس مرکزی مجلس کے پروگرام کے مطابق ہر بڑی جماعت کراچی، ملتان، منٹگمری (ساہیوال)، لاہور، سیالکوٹ، گجرات، راولپنڈی، سرگودھا، لائکپور، ڈھا کہ میں یہ اجلاس مرکزی تاریخ پر امیر جماعت کے زیر انتظام منعقد ہوں.نیز ہر جگہ اس مجلس کا نام ” مجلس ارشاد ہو گا.چنانچہ حضور کی اس ہدایت کے مطابق مرکز کے علاوہ ملک کی بڑی بڑی جماعتوں میں بھی علمی تقاریر کا سلسلہ زوروشور سے شروع ہو گیا.اور جماعت کے ہر حلقے میں حصول علم کا ایک نیا جذ بہ اور ذوق اور شوق دیکھنے میں آنے لگا.

Page 69

تاریخ احمدیت.جلد 24 مرکز میں علمی تقاریر 51 سال 1967ء اس سال بھی حضرت خلیفہ امسح الثالث کی صدارت میں علمی تقاریر کاسلسلہ جاری رہا.اور اس سلسلے میں بالترتیب ۲۱ / اپریل، ۱۷ جون ۱۹۶۷ ء اور ا انومبر ۱۹۶۷ء کو اجلاس عام ہوئے.جن میں مندرجہ ذیل علماء اور بزرگان سلسلہ کی تقاریر ہوئیں.جناب شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج ہائیکورٹ لاہور، مولوی غلام احمد صاحب بد وملهوی فاضل سابق مبلغ گیمبیا، سید میر مسعود احمد صاحب ایم.اے سابق مبلغ ڈنمارک، مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل، چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ ، ملک غلام فرید صاحب ایم.اے ایڈیٹر تفسیر القرآن (انگریزی)، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری،(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.۲۱ اپریل ۱۹۶۷ء کے اجلاس کے آخر میں سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے زار روس سے متعلق پیشگوئی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اصل پیشگوئی عصائے روس کے متعلق ہے جو کشفی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیا گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام روس میں پھیل کر رہے گا.اللہ تعالی نے زار روس کے حشر کے متعلق پیشگوئی کو پورا کر کے ہمیں یہ باور کرایا ہے کہ جس خدا نے اس پیشگوئی کو پورا کر دکھایا ہے.وہی قادر و توانا خدا بالآخر ایسے حالات بھی پیدا کرے گا کہ روس میں ہر طرف اسلام ہی اسلام ہو گا.ہمیں چاہئیے کہ اس راہ میں ہمیں جو قربانیاں بھی دینی پڑیں دیں اور بشاشت سے دیتے چلے جائیں.۱۷ جون ۱۹۶۷ء کے اجلاس کے آخر میں حضرت خلیفہ امسح الثالث نے احباب کو ایک مختصر خطاب سے سرفراز فرماتے ہوئے انہیں عظیم الشان خدائی بشارتوں کے ظہور سے متعلق ان کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا اگر ہم اس راہ میں پیس بھی ڈالے جائیں اور ہمارا غبار ہوا میں اڑا دیا جائے پھر بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس راہ میں جن قربانیوں کی ضرورت ہے ان کا حق ادا کر دیا.یہ عظیم الشان انقلاب جس کے نتیجہ میں اسلام کا روئے زمین پر غالب آنا مقدر ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی رونما ہوگا.ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اس راہ میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں اور ساتھ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ وہ ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے اور محض

Page 70

تاریخ احمدیت.جلد 24 52 سال 1967ء اپنے فضل سے غلبہ اسلام کی عظیم الشان بشارتوں کو پورا فرمائے.تاہم اسلام کو اپنی زندگیوں میں 47- پورے کرہ ارض پر غالب آتا دیکھ لیں.مورخہا انومبر ۱۹۶۷ء کو جو علمی تقاریر کا اجلاس منعقد ہوا اس میں چونکہ حضور انور علالت طبع کے باعث تشریف نہ لا سکے.اس لیے صدارت کے فرائض محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ نے سر انجام دیئے.کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے کیا گیا جو کہ مکرم حافظ ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سرگودہانے کی.بعد ازاں مکرم مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی منظوم کلام پڑھا.پھر محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری نے ”حضرت خلیفۃ ای الاول کا مقام فروتی اور انکساری میں" کے موضوع پر خطاب فرمایا.محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے اپنی تقریر میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کی خدمات دینیہ اور ان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اظہار خوشنودی کو واضح فرمایا.آخر میں مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ” مقام خلافت حضرت خلیفہ اول کی نظر میں“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.بعد ازاں صاحب صدر نے مختصر صدارتی خطاب کے بعد اجتماعی دعا کرائی.سواسات بجے یہ اجلاس اختتام پذیر ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا طلباء جامعہ احمدیہ سے خطاب ۱۳ اپریل ۱۹۶۷ء کو جامعہ احد یہ ربوہ میں تقسیم انعامات کی سالانہ تقریب تھی.اس موقع پر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے حسب ذیل خطاب فرمایا :.اس وقت میں مختصراً اپنے عزیز بچوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ، وہ نوجوان یا بڑی عمر کے مرد یا عورتیں جو خدا تعالیٰ کی خاطر اپنی زندگیاں وقف کرتے ہیں.وہ اس معنی میں اپنی زندگیاں وقف کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (یونس: ۶۶) دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی عزت پاسکتا ہے تو محض اپنے رب سے ہی پاسکتا ہے.اس لئے اگر ساری دنیا ان کی بے عزتی کے لئے کھڑی ہو جائے اور انہیں بُرا بھلا کہے تو وہ سمجھتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور وہ عزت کی جگہوں کی خود تلاش نہیں کرتے ، نہ عزت واحترام کے فقروں کو سننے کی خواہش ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.بلکہ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اپنے

Page 71

تاریخ احمدیت.جلد 24 53 سال 1967ء رب کی نگاہ میں عزت حاصل کر لیں.اگر اُن کا دل اللہ تعالیٰ کے بتانے پر یا اس کے سلوک کی وجہ سے یہ سمجھ لے کہ ہم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں معزز ہیں تو وہ ان ساری عزتوں کو جو د نیوی ہیں ٹھکرا دیتے ہیں اور ان سے خوشی محسوس نہیں کرتے کیونکہ حقیقی خوشی انہیں حاصل ہو جاتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے والے یہ جانتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.اس لئے دنیا کے اموال کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوتی نہ وہ اس بات کے پیچھے پڑتے ہیں کہ انہیں دنیا کے رزق دیئے جائیں.نہ وہ اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے گزاروں میں ایزادی کی جائے کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی رزاق اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.اور وہ اپنے سبھی بندوں کے لئے اسی طرح معجزے دکھاتارہتا ہے.جیسا کہ اس نے اپنے اور ہمارے محبوب محمد رسول محے کو دکھائے کہ پانی کو ہوا میں سے پیدا کر دیا ہے اور لوگوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آپ کی انگلیوں میں سے پانی بہہ رہا ہے.انگلی تو ایک پردہ تھی قدرت خداوندی کے نظارہ کو دیکھنے کے لئے یا آٹے کی اس بوری کی طرح جس میں اس وقت تک برکت رہی جب تک بدظنی کے نتیجہ میں گھر والوں نے اسے تول نہ لیا اور برکت جاتی رہی یا تھوڑا سا کھانا تھا لیکن کھانے والے بہت زیادہ تھے.اللہ تعالیٰ نے اس کھانا میں برکت ڈال دی.سب نے کھانا کھالیا لیکن وہ پھر بھی بیچ گیا یا اُس دودھ کے پیالے کی طرح جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو سیر کرنے کے لئے آیا تھا ( گواس پیالہ کا بھیجنے والا تو ایک انسان ہی تھا.لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہی آیا تھا ) نبی کریم ﷺ نے مجلس کے ہر آدمی کو کہا کہ پہلے تم اس سے سیر ہو کر پی لو.پھر میں اس سے پیوں گا.کیونکہ آپ جانتے تھے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ میں سیر ہو جاؤں.چاہے سارے لوگ سیر ہو کر اس سے دُودھ پی لیں.دُودھ ختم نہیں ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہ خدا تعالیٰ جس کے قبضہ قدرت میں یہ ساری باتیں ہیں.وہ ویسا ہی آج بھی قدرت والا خدا ہے اور ہر واقف زندگی اس بات کو سمجھتا ہے.ہماری جماعت

Page 72

تاریخ احمدیت.جلد 24 54 سال 1967ء میں بہت سے ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کی برکتوں کو اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن کا رب رزاق سے تعلق ہے.پھر ایک واقف زندگی یہ یقین رکھتا ہے کہ حقیقی شانی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.جس وقت وہ یا اس کا کوئی عزیز جس کے اخراجات کا بار اُس پر ہے، بیمار ہوجاتا ہے تو اُسے اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ نظام سلسلہ یا اس کے وسائل مہنگی دوا کے متحمل نہیں ہو سکتے.بلکہ وہ جانتا ہے کہ شفا دینا خدا تعالیٰ کا کام ہے.جب وہ شفا دینے پر آئے تو وہ مٹی کی ایک چٹکی میں شفا رکھ دیتا ہے اور جب تک شفا کا حکم آسماں سے نازل نہ ہو.تو ماہر ڈاکٹر اور بہترین ادویہ بھی کسی کو شفا نہیں دے سکتیں.ایسے نظارے جیسے پہلوں نے دیکھے ہیں.ہماری جماعت نے بھی دیکھے ہیں.غرض ایک واقف زندگی خدا تعالیٰ کی صفات پر یقین رکھتے ہوئے حقیقی تو کل اپنے رب پر کرنے والا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی حالت میں اور کسی ضرورت کے وقت وہ کسی اور کی طرف نہیں جھکتا.اگر جامعہ احمدیہ میں پڑھنے والے اور اس سے فارغ ہونے والے اس قسم کے واقف نکلیں تو ہم امید کر سکتے ہیں کہ بہت جلد خدا تعالیٰ وہ عظیم انقلاب پیدا کر دے گا جس عظیم انقلاب کو پیدا کرنے کے لئے اس نے اس زمانہ میںحضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کومبعوث فرمایا ہے.49 66 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا جلسہ سالانہ کیرنگ کے لئے روح پرور پیغام ۶،۱۵ اراپریل ۱۹۶۷ء کو جماعت احمدیہ کیرنگ (اڑیسہ، انڈیا) کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا.اس موقع کے لئے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا :."بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود پیارے دوستو ! عزیز بھائیو! خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

Page 73

تاریخ احمدیت.جلد 24 55 سال 1967ء مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی ہے کہ آپ ایک بار پھر اپنے ہاں جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں.یہ دن اور یہ راتیں ذکر الہی ، نوافل اور دعاؤں میں گزاریں اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو جذب کرنے کے لئے اس کے حضور گڑ گڑا ئیں.خدا کرے یہ اجتماع آپ سب کے لئے بہت با برکت ثابت ہو اور اس علاقہ کی جماعتوں میں ایک نئی زندگی، ایک روحانی انقلاب پیدا کرنے کا باعث ہو.آمین.اس زمانہ میں لوگ خدا تعالیٰ کی ہستی کے بظاہر قائل ہیں.اس کی قدرتوں اور اس کی طاقتوں سے ناواقف اور اس کی حقیقی معرفت سے محروم اور اس وجہ سے مایوسی کے شکار ہیں.اللہ تعالیٰ کا ہم پر بے حد احسان ہے کہ ہم نے اس زمانہ میں سیدنا حضرت رسول اکرم ﷺ کی قوت قدسیہ کے طفیل حضور کے ایک ادنی غلام اور فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ زندہ خدا کے زندہ نشانات بکثرت دیکھے اور ہر دور میں خدا کی قدرتوں کے بے شمار جلوے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کئے.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہماری عاجزانہ دعاؤں کو سنا.وہ مشکل لمحوں میں ہماری مددکو آیا اور اس نے ہماری نجات کے لئے غیر معمولی سامان پیدا کئے.فالحمد للہ علی ذالک.اس کی وجہ سے ہر مخلص احمدی کے دل میں خدا کے فضل سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرتوں پر زندہ اور کامل یقین ہے اور اسے بفضلہ خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل ہے.اسی لئے وہ مشکلات میں گھبرا تا اور مایوسی کا شکار نہیں ہوتا بلکہ ایک کامل یقین کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا اور اس سے مدد کا طالب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت اور اس کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے تقویٰ اور طہارت اور دل کی پاکیزگی ضروری ہے.پس ایک مخلص احمدی جہاں ایک طرف اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا دل سے قائل ہوتا ہے اور اس کی رحمتوں کا طلب گار، وہاں خدا کے فضل سے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے لرزاں اور ترساں رہتے ہوئے تقویٰ اور طہارت کا اعلیٰ نمونہ بھی پیش کرتا ہے اور یہی اس جماعت کے قیام کی اصل غرض ہے.جیسا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.

Page 74

تاریخ احمدیت.جلد 24 56 سال 1967ء 50 خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گم ہو چکی ہے اور وہ حقیقی تقویٰ اور طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی ، اسے دوبارہ قائم کرے.پس جہاں آپ خود اپنے اندر خداشناسی اور پاکیزگی کے اس معیار کو بلند سے بلند تر کرتے چلے جائیں وہاں اپنے نیک نمونہ سے یہ حقیقی معرفت اور زندہ خدا پر زندہ یقین اور یہ تقویٰ وطہارت اپنے عزیزوں ، دوستوں اور ہمسایوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں.اس طرح کہ خدا سے روٹھی ہوئی یہ مخلوق پھر اس کے آستانہ پر جھک جائے اور خدا تعالیٰ کی سچی معرفت اسے بھی حاصل ہو جائے.اس کے لئے سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق ضروری ہے کہ:.” ہمیشہ اپنے قول اور فعل کو درست اور مطابق رکھو جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں کر کے دکھایا.ایسا ہی تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر اپنے صدق اور وفا کے نمونے دکھاؤ.( الحام ) اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا کرے آمین.(خاکسار مرزا ناصر احمد ) خلیفة اصبح الثالث یکم اپریل ۱۹۶۷ء ڈاکٹر عبدالسلام کی میکسویل میڈل اور نقد انعام سے عزت افزائی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے محترم والد گرامی حضرت چوہدری محمد حسین صاحب نے لندن.۲۹ مئی ۱۹۶۷ء کو اپنے داماد ملک بشیر احمد صاحب اور صاحبزادی محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ کو ایک مکتوب سپرد قلم فرمایا جس سے پتہ چلتا ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو ۲۴ مئی کو HARROGATE CITY( جولنڈن سے بجانب شمال ۲۰۸ میل کے فاصلہ پر ہے) فزیکل اور فزکس سوسائٹی لنڈن نے میکسویل میڈل اور ۱۰۵ پونڈ نقد انعام دیئے تقسیم انعامات MAJESTIC HOTEL کے وسیع ہال میں تھا.

Page 75

تاریخ احمدیت.جلد 24 57 سال 1967ء اس تقریب کے بعد LEEDS یو نیورسٹی کے پاکستانی طلباء (جوسب انجینئر یا ڈاکٹر ہیں ) نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا جس میں آپ اور آپ کے والد گرامی بھی شریک ہوئے جو اس سے قبل میکسویل میڈل کی تقریب میں شامل ہو چکے تھے.مشرق وسطی کے مسلمانوں کے لئے دعا کی خصوصی تحریک 52 ۵ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل نے اچانک متحدہ عرب جمہوریہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ اور دوسرے شہروں پر فضائی حملہ کردیا.جس کے بعد عربوں اور اسرائیل میں گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اگلے روز ۶ جون کو مشرق وسطی کے مسلمانوں کے لئے دعا کی خصوصی تحریک کی.چنانچہ فرمایا:.اللہ تعالی الحی القیوم ہے اور اس نے انسانی زندگی کے لئے بے شمار سامان پیدا کئے ہیں اس لئے جان بوجھ کر خود کو ہلاکت میں ڈالنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں.اور اس کی نگاہ میں ناجائز ہے.اس وقت مشرق وسطی کے مسلمان خود حفاظتی میں لڑائی لڑنے پر مجبور ہوئے ہیں.جان و مال کی حفاظت کے لئے اسلام میں جنگ کرنا ضروری ہے.اگر چہ یہ خالص دینی جنگ تو نہیں.مگر خود حفاظتی کی جنگ بھی اسلام میں جہاد ہی ہے.پس ضروری ہے کہ ہم بہت دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد فرمائے.مجھے تو اس فکر میں رات کو نیند بھی ٹھیک طرح نہیں آئی.اور قریباً ساری رات ہی دعا میں گزری.بے شک اللہ تعالیٰ نے یورپین اقوام کو بہت طاقت دی ہوئی ہے.لیکن اسے یہ طاقت بھی ہے کہ وہ ان کو اس طاقت کے غلط استعمال سے روک دے.اس لئے ہمیں چاہیئے کہ بہت بہت دعا سے کام لیں.عرب وار ریلیف فنڈ میں امداد کیلئے پر زور تحریک چند روز بعد صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اسرائیلی جارحیت سے متاثرہ عرب بھائیوں کی امداد کے لئے عرب وار ریلیف فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا جس پر حضور نے دنیا بھر کے احمدیوں کے نام یہ نہایت ضروری پیغام دیا کہ اس امدادی فنڈ میں دل کھول کر عطیات ارسال کریں.

Page 76

تاریخ احمدیت.جلد 24 58 سال 1967ء اس پیغام کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.” جیسا کہ احباب جانتے ہیں کہ اسرائیل کے جارحانہ حملے اور بعض نئے عرب علاقوں پر اس کے ناجائز قبضہ کی وجہ سے عرب ممالک آج کل ایک نہایت نازک دور سے گزر رہے ہیں.آزمائش کی اس گھڑی میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے پریذیڈنٹس عرب وار ریلیف فنڈ“ PRESIDENT'S) (ARAB WAR RELIEF FUND کے نام سے ایک امدادی فنڈ قائم کیا ہے.اس فنڈ کا مقصد یہ ہے کہ اپنے عرب بھائیوں کے لئے مختلف اداروں ،تنظیموں اور افراد کی طرف سے جو امدادی رقوم پیش کی جارہی ہیں انہیں مرکز کے زیر انتظام منظم کر کے عرب بھائیوں کی مؤثر طریق پر مدد کی جائے.جیسا کہ گورنر مغربی پاکستان جناب محمد موسیٰ نے فرمایا ہے یہ وقت جذباتی نعرہ بازی کا نہیں بلکہ جذبات کے اظہار میں مثبت انداز اختیار کرنے اور عرب بھائیوں کی جد وجہد میں ہمدردانہ شرکت کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا ہے.میں احباب جماعت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ صدرمملکت کے قائم کردہ امدادی فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور فوری طور پر زیادہ سے زیادہ امدادی رقوم مقررہ بنکوں اور ڈاکخانوں میں جمع کرائیں.میں امید رکھتا ہوں کہ احباب زیادہ سے زیادہ قربانی سے کام لیں گے.جزاھم اللہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے احباب کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور اس نازک گھڑی میں مسلمانوں کی مدد فرما کر اُس ظلم کا مداوا فرمائے جو ان کے خلاف روا رکھا گیا ہے اور اسلام کو ارض فلسطین میں از سر نو بلند اور غالب فرمائے.آمین اللهم آمین.54 166 مقدس امام کے اس پیغام پر سب سے پہلے مرکزی جماعت احمد یہ ربوہ نے لبیک کہا جس کی طرف سے اس فنڈ میں ۱۵,۰۰۰ ( پندرہ ہزار روپے) کا عطیہ پیش کیا گیا.اس رقم کے چیک کے ساتھ ، جو مکتوب حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے صدر مملکت کی خدمت میں ارسال فرمایا، اس کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.

Page 77

تاریخ احمدیت.جلد 24 59 سال 1967ء "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم بخدمت صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صاحب السلام عليكم و رحمة الله وبركاته آپ کی طرف سے اسرائیلی جارحیت کے پیش نظر عرب بھائیوں کی امداد کے لئے جو فنڈ کھولا گیا ہے.اس کے لئے حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تمام احمدی جماعتوں اور افراد کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنے مسلمان عرب بھائیوں کے بہتر مستقبل کے لئے عملی قربانیوں اور دعاؤں پر زور دیں.نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اس تحریک میں برکت دے اور آپ کے ذریعہ ہم عرب بھائیوں کی کما حقہ امداد کر سکیں.اس ضمن میں مرکزی جماعت احمدیہ کی طرف سے بصورت چیک مبلغ پندرہ ہزار روپے آنمحترم کی خدمت میں پیش ہیں.براہ کرم اس فنڈ میں یہ رقم قبول فرما کر ممنون فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے نیک مقاصد میں ہر طرح آپ کی اعانت و نصرت فرمائے.والسلام مرزا عزیز احمد صدر مملکت کی طرف سے جماعت احمدیہ کا شکریہ یہ چیک موصول ہونے پر صدر مملکت نے جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ،عرب بھائیوں کے مفادات میں جماعت کے جذبہ امدا دو تعاون کو سراہا.اس ضمن میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے نام صدر مملکت کے ڈپٹی سیکرٹری کی طرف سے ایک خط موصول ہوا.جس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.پریذیڈنٹ ہاؤس راولپنڈی ۱۲ جولائی ۱۹۶۷ء جناب مرزا عزیز احمد صاحب ا.صدر مملکت نے مجھ سے خواہش ظاہر کی ہے کہ صدر کے عرب وار ریلیف فنڈ میں آپ نے جماعت احمدیہ کی طرف سے پندرہ ہزار روپے کا جو عطیہ ارسال فرمایا ہے،شکریہ کے ساتھ اس کی وصولی کی اطلاع آپ کو دوں.باضابطہ رسیدلف ھذا ہے.

Page 78

تاریخ احمدیت.جلد 24 60 سال 1967ء ۲.عرب جو اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوئے ہیں ان کے مفادات میں آپ کا جذبہ امدا دو تعاون صدر مملکت کے نزدیک قابل ستائش ہے.۳.صدر کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اپنی جماعت کے تمام اراکین کو تحریک فرمائی ہے کہ وہ اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور دعاؤں پر بھی زور دیں.۴.عرب ممالک نے اس آزمائش کی گھڑی میں ان کے مفادات کی بے لوث تائید وحمایت پر صدر اور اہل پاکستان کا شکر یہ ادا کیا ہے.یہ امرتسلی اور اطمینان کا موجب ہے کہ اہلِ پاکستان نے اور بالعموم دنیا بھر کے مسلمانوں نے اپنے عرب بھائیوں کی دل وجان سے پوری پوری حمایت کی ہے.ہم سب اپنے قادر و توانا خدا کے حضور دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے عرب بھائیوں کی مشکلات ومصائب میں ان کا حامی و ناصر ہو اور یہ کہ بالآخر مسلم مفاد ہی فتح وظفر سے ہمکنار ہو.بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان آپ کا مخلص ( دستخط) اے وحید.56- حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے ۲۳ جون ۱۹۶۷ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار بغرض تبلیغ وانذار کی روشنی میں دنیا بھر کی احمدی خواتین کو خصوصاً اور تمام احباب جماعت کو عموماً پر زور ہدایت فرمائی کہ ہمیں ہر گھر ، ہر مقام، ہر شہر اور اور ہر ملک کے احمدی گھرانوں سے تمام بد رسوم کو جڑ سے اکھیٹر کے پھینک دینا چاہئے.نیز فرمایا:.میں ہر گھر کے دروازے پر کھڑے ہوکر اور ہر گھرانے کو مخاطب کر کے کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور جو احمدی گھرانہ بھی آج کے بعد ان چیزوں سے پر ہیز نہیں کرے گا اور ہماری اصلاحی کوششوں کے باوجود اصلاح کی طرف متوجہ نہیں ہوگا وہ یادر کھے کہ خدا اور اس کے رسول اور اس کی جماعت کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے.وہ اس طرح جماعت سے نکال کر باہر پھینک دیا جائے گا جس طرح دودھ سے بھی میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمد یہ میں اس پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس پاکیزگی کے قیام کے لئے محمد اے بد رسوم.

Page 79

تاریخ احمدیت.جلد 24 61 سال 1967ء اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے.ہر بدعت اور بدرسم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے اور اپنے گھروں کو پاک کرنے کے لئے شیطانی وسوسوں کی سب راہوں کو اپنے گھروں پر بند کر دیں گے.دعاؤں کے ذریعہ اور کوشش کے ذریعہ اور جد وجہد کے ذریعہ.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء الله مرکزیہ کی زیر ہدایت لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی طرف سے حضور کا یہ خطبہ نہایت وسیع پیمانے پر ٹریکٹ کی صورت میں شائع کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ اسے ہر احمدی گھرانے تک پہنچا دیا جائے اور دیہات کی لجنات نے اپنے اپنے اجلاسوں میں اسے بار بار سنایا.59 لائبیریا کے صدر مملکت اور گیمبیا کے گورنر جنرل کی احمد یہ مشن لندن میں آمد وسط ۱۹۶۷ء احمد یہ مشن لندن کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا کیونکہ اس میں پہلی مرتبہ دو افریقن سربراہان مملکت کا ورود مسعود ہوا.۲۵ جون ۱۹۶۷ء کو صدر مملکت لائبیریا مسٹر ٹب مین (TUBMAN) احمد یہ مشن لندن تشریف لائے.بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے آپ کے اعزاز میں ایک ضیافت کا اہتمام کیا.جس میں صدر موصوف کے علاوہ برطانیہ میں لائبیریا کے سفیر اور لائبیریا کے متعدد سر بر آوردہ حضرات نے شرکت کی.صدر موصوف ان دنوں برطانیہ کے دورے پر آئے ہوئے تھے.امام صاحب نے اپنی استقبالیہ تقریر میں صدر موصوف کی ان مساعی اور خدمات کو سراہا جو وہ اپنے ملک کو شاہراہ ترقی پر گامزن کرنے کے سلسلہ میں بجالا رہے ہیں.اس موقع پر امام صاحب نے صد ر موصوف کو قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کا ایک نسخہ بھی تحفہ کے طور پر پیش کیا.جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.صدر موصوف نے اپنی جوابی تقریر میں جماعت احمدیہ کی مساعی کی تعریف کی جو وہ تبلیغ اسلام کے ضمن میں دنیا کے دوسرے ممالک اور خو دلائبیریا میں کر رہی ہے.صدر موصوف نے مسجد فضل لندن کو دیکھا.نیز مشن ہاؤس کا بھی معاینہ کیا.لائبیریا کی ٹیلیویژن سروس نے اس تاریخی تقریب کو ریکارڈ کیا.60

Page 80

تاریخ احمدیت.جلد 24 62 سال 1967ء پانچ روز بعد ۳۰ جون ۱۹۶۷ء کو گیمبیا کے گورنر جنرل اور جماعت احمد یہ گیمبیا کے نہایت معزز رکن ہز ایکسی لینسی ایف ایم سنگھاٹے اپنی بیگم صاحبہ محترمہ کے ہمراہ احمد یہ مشن لندن میں تشریف لائے اور نماز جمعہ ادا کی.خطبہ جمعہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت ہیگ نے پڑھا.گورنر جنرل موصوف ان دنوں انگلستان کے دورہ پر تشریف لائے ہوئے تھے.نماز جمعہ کے بعد آپ نے احباب جماعت سے خطاب فرماتے ہوئے اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انگلستان میں اپنے بھائیوں سے ملنے کا موقع عطا فرمایا ہے.یکم جولائی کو بشیر احمد صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے جماعت احمد یہ انگلستان کی طرف سے گورنر جنرل موصوف کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام کیا.اس موقع پر امام صاحب نے استقبالیہ ایڈریس میں گورنر جنرل موصوف کو جماعت احمدیہ انگلستان کی طرف سے خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی خدمت میں انگلستان کے احمدی احباب کی طرف سے گیمبیا کے احمدی بھائیوں کو محبت بھر اسلام پہنچانے کی درخواست کی.ہزایکسی لینسی ایف ایم سنگھاٹے صاحب نے اپنی جوابی تقریر میں اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کے غیر معمولی شرف سے نوازا ہے.نیز فرمایا کہ آپ بخوشی انگلستان کے احمدی بھائیوں کا محبت بھر اسلام جماعت احمد یہ گیمبیا کے افراد تک پہنچائیں گے.آپ نے اپنے لئے بھی دعا کی درخواست کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور انسانیت کی بیش از پیش خدمت کی توفیق عطا فرمائے.اس موقع پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی اخوت اسلامی“ کے موضوع پر مختصر لیکن جامع تقریر فرمائی.آخر میں امام صاحب نے دنیا میں غلبہ اسلام اور گورنر جنرل موصوف کی بخیریت واپسی اور دینی و دنیاوی ترقی کے لئے اجتماعی دعا کروائی.فضل عمر تعلیم القرآن کلاس سے افتتاحی خطاب یکم جولائی ۱۹۶۷ء کوسیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث نے فضل عمر تعلیم القرآن کلاس سے افتتاحی خطاب سے نوازا.یہ کلاس مورخہ یکم جولائی سے ۳۱ جولائی ۱۹۶۷ء تک جاری رہی.اور اس میں ۳۴ را ضلاع کے ۵۳۵ را حباب و خواتین نے شرکت کی.حضورانور کے خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ

Page 81

تاریخ احمدیت.جلد 24 63 سال 1967ء اسلام کی بنیادی غرض یہ ہے کہ ایک مسلمان کہلانے والا اپنے رب کی معرفت حاصل کرے یعنی پورے وثوق کے ساتھ یہ احساس رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ رحمن ہے، رحیم ہے، ہر خوبی اس میں پائی جاتی ہے.جب وہ یہ معرفت حاصل کر لیتا ہے.تو وہ اپنے رب کی قدر کرنے لگ جاتا ہے اور بے انتہا محبت اپنے رب کی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے.ساتھ ہی ہر وقت اسے یہ دھڑکا لگارہتا ہے کہ اگر میں نے اسے ناراض کر دیا تو اُس کے غضب میں ایسی گرمی ہے کہ کوئی آگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت کے نتیجہ میں انسان اس کی راہ میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس کا محبوب بن جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا نجات کا ذریعہ اور تمام نیکیوں کا سر چشمہ ہے.اللہ تعالیٰ کی معرفت کے حصول کے لئے ہی اس قسم کی کلاسیں جاری کی جاتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ احباب اس نکتہ کو سمجھنے لگیں کہ سب اللہ ہی کا ہے.جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ کریں اور وہ نتیجے نہ نکلیں جو صحیح معرفت کے نکلتے ہیں.اس وقت تک ہم اللہ کا پیار حاصل نہیں کر سکتے اور اپنے آپ کو شیطانی حملوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے.آپ لوگ جو تکلیف اٹھا کر دور دور سے یہاں آئے ہیں.اس سے غرض یہی ہے کہ آپ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں.پس یہاں اپنے وقتوں کو ضائع نہ کریں.حصول معرفت کے اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش ہیں.آپ صبغتہ اللہ کو سمجھنے اور اس کی معرفت سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کریں اور پھر اس رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کریں اور یا درکھیں کہ ہر بد عملی ، ہر بدعت ، ہر بدرسم اس رنگ کے راستہ میں روک ہے.اس قسم کی مشرکانہ رسوم و بدعات اور خیالات سے آپ اسی صورت میں بیچ سکتے ہیں کہ آپ اپنے رب کو پہچاننے لگیں.پس اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کی معرفت بنیادی چیز ہے.اس کے بغیر ہم روحانی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے.62 فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کے نام مکتوب امام مولانا ابوالعطاء صاحب نے ۲۰ جولائی ۱۹۶۷ء کو فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کے طلباء کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے حضور سفر یورپ کی کامیابی پر مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا.جس کے جواب میں حضور نے لنڈن سے جوابی خط میں تحریر فرمایا:

Page 82

تاریخ احمدیت.جلد 24 64 سال 1967ء اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے تمام ساتھیوں کو جو آپ کے ساتھ مل کر قرآن کریم کی تربیتی کلاس کو کامیابی سے چلانے کے لئے آپ سے تعاون کر رہے ہیں، جزائے خیر دے.میری طرف سے تمام کارکنان، احباب، بہنوں کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہیں جوتعلیم القرآن کلاس میں حصہ لے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو حسناتِ دارین سے نوازے اور جو علم آپ ربوہ سے حاصل کر کے جا رہے ہیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور اسے آگے پھیلانے کی ہمت بخشے.آمین.ہم ایک غریب جماعت ہیں باتنخواہ مبلغ رکھ کر قیامت تک ہمارا کام ختم نہیں ہوسکتا.ہاں اگر ہم سب تبلیغ کے جہاد کے لئے صدق دل سے کمر بستہ ہو جائیں.تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ ضرور ہماری حقیر کوششوں کو نوازے گا.“ 66 مشرقی پاکستان میں تبلیغ اسلام کی وسیع سرگرمیاں اس سال مشرقی پاکستان میں جماعت احمدیہ کے ۲۴ مقامات پر کامیاب جلسے منعقد ہوئے.بعض جلسوں میں مولانا عبدالمالک خاں صاحب ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ ربوہ، چوہدری فضل احمد صاحب ناظر دیوان ، مولانا سلطان محمود انور صاحب نے بھی شرکت فرمائی اسی طرح چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول نے میجک لینسٹرن ( پروجیکٹر کی ابتدائی شکل.علمی اردو لغت میں اسے جادو کی لالٹین لکھا ہے) پر جماعت احمدیہ کی مساعی تبلیغ اسلام کے روح پرور مناظر دکھلائے.مولانا عبدالمالک خان صاحب نے ڈھاکہ کی اسلامک اکیڈمی میں درج ذیل موضوعات پر کامیاب ٹیچر دئے.ا.اسلام کس طرح غالب آ سکتا ہے ۲.اسلام میں آزادی فکر“.ان تقاریر میں غیر از جماعت معززین نے کثیر تعداد میں شرکت فرمائی اور انہیں بہت پسند کیا.صدر صاحبان نے بھی نہایت عمدہ ریمارکس دیئے.64 66 نظارت تجارت و صنعت کے لئے خصوصی کمیٹی کا قیام حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جماعت احمدیہ میں صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے لئے اس سال نظارت تجارت و صنعت کا الگ سے ایک ناظر مکرم غلام محمد اختر صاحب کو مقررفرمایا نیز حضور نے نظارت کو صحیح خطوط پر رواں دواں رکھنے کے لئے سات ممبران پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی نامزدفرمائی

Page 83

تاریخ احمدیت.جلد 24 65 سال 1967ء جس کا صدر محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب اور سیکرٹری ناظر صاحب تجارت وصنعت کو مقرر فرمایا.۲۸ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو کمیٹی کا پہلا اجلاس قصر خلافت میں ہوا جس میں نظارت کے اغراض و مقاصد کے تعلق میں حضور اقدس نے زریں ہدایات سے نوازا.حضور کے ارشاد کی روشنی میں اسی دن اس کمیٹی کا دوسرا اجلاس ہوا ممبران کرام نے قریباً تین گھنٹہ تک پوری دلچسپی اور دلجمعی کے ساتھ غور و فکر کر کے ایک سوالنامہ مرتب کیا جو ۱۹ رامور پر مشتمل تھا.یہ سوالنامہ کمیٹی کی زیر ہدایت نظارت ہذا کی طرف سے مغربی پاکستان کی ۶ار اور مشرقی پاکستان کی ۲ منتخب کردہ جماعتوں کے امراء صاحبان کو بھجوایا گیا کہ وہ ان کی خانہ پری کر کے واپس فرمائیں اور حسب ضرورت ان کی واپسی کے لئے یاد دہانی بھی کروائی جاتی رہی.اس سوالنامہ کا مقصد یہ تھا کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ موجودہ حالات میں جماعت کے اندر تجارت وصنعت کا کس قدر رحجان ہے اور وہ اس وقت کس معیار پر ہے تا کہ چھوٹے اور بڑے تجار اور صنعتکاروں کو ترقی دینے کے لئے تجاویز سوچی جاسکیں.انہیں منتخب کردہ اٹھارہ جماعتوں کے امراء صاحبان کو ایک چٹھی بھی بھجوائی گئی کہ وہ ایسے اہل الرائے اور تجارت وصنعت کا تجربہ رکھنے والے احباب کے ناموں سے اطلاع دیں جو کمیٹی کے آئندہ اجلاس میں شمولیت کر کے اپنے تجربہ اور معلوماتی مشوروں سے مستفیض فرما سکیں.چنانچہ اس کے مطابق گیارہ جنوری ۶۸ ء کو یہ اجلاس منعقد کیا گیا.جس میں کمیٹی کے ممبران کے علاوہ بائیس مختلف جماعتوں کے نمائندگان نے شمولیت فرمائی.صدر صاحب کمیٹی کرنل محمد عطاء اللہ نے حضور انور کے ارشادات کی روشنی میں نظارت تجارت وصنعت کے قیام اور کمیٹی کی تشکیل اور غرض وغایت بیان کرتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حالات اور زمانہ کی مخصوص ضروریات کے پیش نظر جماعت کے ہر قسم کے تاجر وصنعتکاروں کے کام کو ترقی دینے کے کون کون سے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں.اس اجلاس میں کئی تجاویز زیر بحث آئیں اور بالآخر مندرجہ ذیل پانچ تجاویز پر سر دست عملدرآمد کرنے کا فیصلہ ہوا:.جائے.(۱) احمدی تاجر اور صنعت کار احباب کے نام پر مشتمل ایک ڈائریکٹری جلد مکمل کر کے شائع کی (۲) تاجر اور صنعت کا راحباب کے کاروبار کے متعلق مرکز میں فائلیں رکھی جائیں.(۳) گورنمنٹ گزٹ اور اخبارات منگوائے جائیں.

Page 84

تاریخ احمدیت.جلد 24 66 سال 1967ء (۴) ناظر تجارت و صنعت ان بڑے بڑے تجارتی شہروں میں جہاں جماعت کے تجار و صنعت کار بھی معقول تعداد میں ہیں، سے رابطہ پیدا کریں.(۵) نمائندگان اور ممبران کمیٹی ہر ماہ کچھ نہ کچھ اطلاعات ڈائریکٹری کے لئے بہم پہنچائیں اور ان کو Stencil کر کے جماعتوں کو بھجوائی جائیں.تجارت وصنعت کے کام کے سلسلہ میں ایک مشترکہ اجلاس کمیٹی تجارت وصنعت اور مجلس افتاء کا زیر صدارت محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر صدر مجلس افتا ۱۳۰ جنوری ۱۹۶۸ء کو منعقد کیا گیا.اس میں یہ امر زیر غور لایا گیا کہ اگر بڑی بڑی تجارتوں اور صنعتوں کو انشور (Insure) نہ کرایا جائے تو کیا کیا مشکلات پیش آتی ہیں وغیرہ وغیرہ.اس معاملہ میں کافی بحث و تمحیص کے بعد یہ قرار پایا کہ کمیٹی تجارت و صنعت کے ممبران اپنی اپنی الگ الگ رپورٹ مرتب کر کے بھجوائیں.نظارت نے نہ صرف یہ رپورٹیں حاصل کر کے مقررہ وقت کے اندر سیکرٹری مجلس افتاء تک پہنچا دیں بلکہ مختلف اخبارات سے اطلاعات فراہم کر کے روز نامہ الفضل میں متعدد بار اعلانات کر کے جماعت کے بے روز گار احباب کی مدد کی اور صنعتی اداروں کے لئے Apprentices مہیا کر دئیے.نیز مختلف Trades کے مینیشن (TECHNICIAN) احباب سے متعلق کوائف دریافت کر کے ایک فہرست مرتب کرنے کا کام شروع کر دیا.نظارت نے مجلس مشاورت ۱۹۶۸ء میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں مزید بتایا کہ " Cottage Industries یعنی گھریلو صنعتوں سے متعلق بھی نظارت ہذا اطلاعات جمع کر رہی ہے اور جہاں جہاں پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ (Poly Technical Institutes) ہیں یا بن رہے ہیں ان کی اطلاعات منگوانے کا انتظام کیا جا رہا ہے.گورنمنٹ کی طرف سے Small Industries Schemes کے متعلق وقتا فوقتاً جو مختلف صنعت و حرفت کے پمفلٹس (Pamphlets) شائع ہوتے رہتے ہیں، انہیں بھی نظارت ہذا جمع کر رہی ہے چنانچہ اس وقت تک مختلف نوعیتوں کے دو درجن کے قریب پمفلٹ حاصل کئے جاچکے ہیں جن سے مختلف گھر یلو صنعتوں اور حرفتوں کے بارہ میں راہنمائی اور کافی مدد ملے گی.ان پمفلٹوں کے ذریعہ جماعت کے اندر صنعت و حرفت کی ترویج اور بے روزگار بچوں اور غریب مستورات کی راہنمائی کی جاسکے گی.اور وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر دستی کام کر کے اپنی آمد میں اضافہ کر سکیں گے ( انشاء اللہ ) 65

Page 85

تاریخ احمدیت.جلد 24 67 سال 1967ء حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا اپنے عہد خلافت کا پہلا سفر یورپ اس سال کا اہم ترین واقعہ، جس نے دنیائے احمدیت کے مستقبل پر نہایت گہر ہے اور دورس اثرات ڈالے اور جو خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا ایک سنگ میل ثابت ہوا، حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پہلا سفر یورپ تھا.کوپن ہیگن (ڈنمارک) کی مسجد نصرت جہاں کی تقریب افتتاح ۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء قرار پا چکی تھی.یہی تقریب اس مُبارک سفر کی وجہ بنی.حضور 4 جولائی کو ربوہ سے روانہ ہوکر ۸ جولائی کو فرینکفورٹ پہنچے.اور پھر سوئٹزرلینڈ (۱۰جولائی)، ہالینڈ (۱۴ جولائی ) ، ہمبرگ (۱۶ جولائی) میں قیام فرما ہونے کے بعد ۲۰ جولائی کو ڈنمارک کے دارالسلطنت کوپن ہیگن پہنچے.اور ۲۱ جولائی کو مسجد نصرت جہاں کا اپنے دستِ مبارک سے افتتاح فرمایا.ازاں بعد ۲۶ جولائی کو انگلستان تشریف لے گئے.۲۸ جولائی کو ونڈ زورتھ ٹاؤن ہال میں حضور نے ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ“ کے عنوان سے ایک تاریخی خطاب فرمایا.۳۰ جولائی کو انگلستان کی احمدی جماعتوں کا چوتھا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.جس سے حضور نے اہم خطاب فرمایا.اسی روز حضور نے محمود ہال کی بنیاد رکھی.۳۱ جولائی کو حضور پانچ روز کے لئے گلاسگو، بریڈ فورڈ ، اور ہڈرزفیلڈ تشریف لے گئے.اور ۹ راگست کی شام کو واپس لندن تشریف لے آئے.۲۰ اگست کو حضور مع قافلہ انگلستان سے روانہ ہوکر۲۱ اگست کی دو پہر کو کراچی اور ۲۴ / اگست کی شام کو نہایت کامیابی و کامرانی کے ساتھ بخیریت مرکز احمدیت ربوہ میں مراجعت پذیر ہوئے.اس با برکت سفر کے اجمالی تذکرہ کے بعد اب اسکی تفصیلات پر روشنی ڈالی جاتی ہے.مجھ زہ سفر کے بابرکت ہونے کے لئے دعا کی تحریک خاص سید نا حضرت خلیفتہ المسح الثالث نے اپنے عہد خلافت کے اس پہلے مجوزہ سفر یورپ کا پہلی بار ذکر اپنے خطبہ جمعہ ۲۳ جون ۱۹۶۷ء میں فرمایا اور اس کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے دنیا بھر کے احمدیوں کو دعائے خاص کی تحریک فرمائی کہ اگر یہ سفر مقدر ہوتو اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اسے بابرکت کر دے.چنانچہ فرمایا :.دوست جانتے ہیں کہ یورپ میں انگلستان کے علاوہ ہماری پانچویں مسجد پایہ تکمیل پہنچ رہی ہے اور ۲۱ جولائی کا دن اس کے افتتاح کے لئے مقرر ہوا

Page 86

تاریخ احمدیت.جلد 24 68 سال 1967ء ہے.وہاں کے دوستوں کی یہ خواہش تھی کہ میں خود اس مسجد کا افتتاح کروں اور جب ہم اس تجویز پر غور کر رہے تھے تو دوسرے ممالک جو یورپ میں ہیں جہاں ہمارے مبلغین ہیں اور مساجد ہیں انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر افتتاح کے لئے آپ نے آنا ہے تو اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تمام مشنز کا دورہ بھی کریں، حالات کو دیکھیں ، ضرورتوں کا پتہ لیں اور اس کے مطابق سکیم اور منصوبہ تیار کریں.پھر انگلستان والوں کا یہ مطالبہ ہوا کہ اگر یورپ میں آنا ہے تو انگلستان کو بھی جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بڑی جماعت پیدا ہوگئی ہے اپنے دورہ میں شامل کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے صرف لنڈن میں قریب پانچ سواحمدی موجود ہیں.بڑی جماعت تو لنڈن میں پائی جاتی ہے.لیکن بعض دوسرے مقامات پر خاصی بڑی جماعتیں پائی جاتی ہیں....پس میں چاہتا ہوں کہ تمام دوست اس سفر کے متعلق دعائیں کریں اور خدا تعالیٰ سے خیر کے طالب ہوں.اگر یہ سفر مقدر ہو تو اسلام کی اشاعت اور غلبہ کیلئے خیر و برکت کے سامان پیدا ہوں.خدا جانتا ہے کہ سیر و سیاحت کی کوئی خواہش دل میں نہیں ، نہ کوئی اور ذاتی غرض اس سے متعلق ہے.دل میں صرف ایک ہی تڑپ ہے اور وہ یہ کہ میرے رب کی عظمت اور جلال کو یہ تو میں بھی پہنچانے لگیں جو سینکڑوں سال سے کفر اور شرک کے اندھیروں میں بھٹکتی پھر رہی ہیں اور انسانیت کے محسن اعظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دلوں میں قائم ہو جائے تا کہ وہ ابدی زندگی اور ابدی حیات کے وارث ہونے والے گروہ میں شامل ہو جائیں تا ان کی بد بختی دور ہو جائے تا شیطان کی لعنت سے وہ چھٹکارا پالیں تا شرک کی نحوست سے وہ آزاد ہو جائیں تابد رسوم کی قیود سے وہ باہر نکالے جائیں اور خدا تعالیٰ کی رحمت اور اس کی محبت اور اس کے حسن اور اس کے احسان اور اس کے نور کے جلوے وہ دیکھنے لگیں تا وہ وعدہ پورا ہو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے دیا تھا کہ میں تیرے فرزند جلیل کے ذریعہ سے تمام قوموں کو تیرے پاؤں کے پاس لا جمع

Page 87

تاریخ احمدیت.جلد 24 69 سال 1967ء کرونگا تا وہ دل جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے نا آشنا ہیں اور وہ زبانیں جو آج آپ پر طعن کر رہی ہیں وہ دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے بھر جائیں اور ان زبانوں پر درود جاری ہو جائے اور تمام ملکوں کی فضا نعرہ ہائے تکبیر اور درود سے گونجنے لگے اور وہ فیصلے جو آسمان پر ہو چکے ہیں زمین پر جاری ہو جائیں....پس بہت دعائیں کریں بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو مبارک کرے.اور اللہ تعالیٰ میری غیر حاضری میں بھی جماعت کو ہر فتنہ سے محفوظ رکھے وہی سب کام بنانے والا ہے.لیکن دل جہاں آپ کی جدائی سے غم محسوس کرتا ہے وہاں یہ خیال بھی آتا ہے کہ ایسے موقع پر بعض منافق فتنے بھی پیدا کیا کرتے ہیں تو جماعت کے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ ایسے فتنوں کو فور دبا دے.میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے موقعوں پر بعض منافق طبع فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر شروع میں ہی ان کو اس رنگ میں سمجھایا جائے کہ یہ جماعت خدا کے فضل سے اتنی مضبوط ہے کہ تمہارے فتنوں سے متاثر نہیں ہوگی، اگر تم باز نہ آئے اگر تمہیں سزا دینے والے بھی یہاں موجود ہیں تو پھر یہاں تک نوبت نہیں پہنچتی کہ ضرور ایسے لوگوں کو سزادی جائے ان کو سمجھ آجاتی ہے کہ ہماری دال اس قوم میں گلتی نہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے چوکس جماعت ہے، قربانی کرنے والی جماعت ہے،حالات کو سمجھنے والی جماعت ہے.66 سفر پر روانگی سے قبل احمدی مستورات سے خطاب حضور نے سفر یورپ پر روانگی سے قبل ۴ جولائی ۱۹۶۷ء کی شام 4 بجے لجنہ اماءاللہ کے ہال میں ربوہ کی مستورات سے ایک پُر اثر خطاب فرمایا.جس میں بتایا کہ پرسوں جمعرات کی صبح میں انشاء اللہ یورپ کے سفر پر روانہ ہو رہا ہوں.اس سفر کا اصل مقصد یہ ہے کہ کوپن ہیگن میں خدا کا جو گھر ہماری بہنوں نے ان ظلمت کدوں میں روشنی کرنے کے لئے تعمیر کیا ہے.اس کا افتتاح کروں.آپ نے بڑی قربانی دیکر اسے تعمیر کیا ہے.آپ کا حق ہے کہ میں یہ دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اسکی جزائے خیر دے اور میرا یہ حق ہے کہ آپ میرے اور میرے ساتھیوں کے لئے دعا کریں اور ان قوموں کا بھی حق

Page 88

تاریخ احمدیت.جلد 24 70 سال 1967ء ہے کہ ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صداقت قبول کرنے کی توفیق دے اور وہ اپنے رب کو پہنچانے لگیں اور آپ کا یہ بھی فرض ہے کہ آپ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.دین کا غلبہ ہم سے ایک موت نہیں ہزاروں موتوں کا مطالبہ کر رہا ہے.ہمیں چاہیئے کہ اپنی جان، وقت ، اولاد، جذبات اور دنیوی تعلقات اس کے حضور پیش کریں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنے اس خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ”میرا یہ سفر بڑا ہی اہم ہے.میں اہلِ یورپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کے لئے اب تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے.وہ یہ کہ وہ اپنے خُدا کو پہچانیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھنڈی چھاؤں تلے جمع ہو جائیں.آر بھی دعا کریں کہ ان باتوں کو میں احسن طریق پر وہاں پیش کر سکوں تا بچنے والے بچ جائیں.اور جو تباہ ہو نیوالے ہوں وہ دوسروں کے لئے عبرت بنیں اور دنیا کو پتہ لگ جائے کہ ایک زندہ اور قادر مطلق خُدا موجود ہے.ہر چیز اس کے علم میں ہے.دنیا اور انسان کی ہمدردی کی خاطر وہ وقوع سے قبل یہ باتیں بتا دیتا ہے تا لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے غضب سے بچ جائیں.“ حضور نے تقریر ختم کرتے ہوئے فرمایا: ”آپ یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری زبان میں اثر پیدا کرے.تاان کے دل صداقت کو قبول کریں.اور وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کی بجائے رحمت کو پانے والے ہوں.اسلام کے نالہ کادن نزدیک تر ہواور اپنی زندگیوں میں ان بشارتوں کو 66 پالیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی تھیں.“ حضور کا یہ نہایت پر اثر اور رقت آمیز خطاب قریباً ایک گھنٹہ تک جاری رہا.خطاب کے بعد حضور نے ایک لمبی اور پُر سوز دعا فرمائی اور خدا حافظ کہہ کر تشریف لے گئے اہل ربوہ سے دردانگیز خطاب 68- اگلے روز ۵ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضور نے بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں اہلِ ربوہ اور بیرونجات

Page 89

تاریخ احمدیت.جلد 24 71 سال 1967ء سے آئے ہوئے مخلصین اور عشاق خلافت کو شرف مصافحہ بخشا.اور ان سے خطاب فرما کر سفر کے للہی مقاصد میں کامیابی کے لئے دعاؤں کی پر زور تحریک فرمائی.حضور نے اپنے دردانگیز خطاب کے آخر میں فرمایا: 69 ” خدائی تصرف کے نتیجہ میں میں اپنے آپ کو مجبور پاتا ہوں کہ آپ لوگوں کے لئے دعائیں کروں میری نمازوں کے سجدے آپ لوگوں اور دیگر بنی نوع انسان کے لئے وقف ہوتے ہیں.میں اس حق کو ادا کرتا ہوں جو آپ کا مجھ پر ہے.اس کے لئے میں کسی اجر کا طالب نہیں.میرا اجر میرے مولی کے پاس ہے.لیکن میں چاہتا ہوں کہ اس تعلق میں جو فرض آپ پر عائد ہوتا ہے.وہ آپ پورا کریں.میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ لوگ میرے مقاصد کے حصول کے لئے بڑی کثرت کے ساتھ ، بڑی توجہ کے ساتھ اور تمام لوازم اور شرائط کی پابندی کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں گے.قافلہ یورپ کے خوش نصیب ارکان بعض مصالح اور مجبوریوں کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس تقریب پر بہت مختصر سا قافلہ یورپ روانہ ہو.اس قافلہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ساتھ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ، چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے پرائیویٹ سیکرٹری اور عبد المنان صاحب دہلوی خادم خاص کو ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.مزید برآں حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ (حضور کی حرم ) اور محترمہ سیده طیبه بیگم صاحبہ ( بیگم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) اپنے خرچ پر حضور کے ہمراہ شامل قافلہ ہو ہیں.70 امیر مقامی اور امام الصلوۃ کا تقرر حضور نے سفر یورپ سے واپسی تک کے لئے ربوہ میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کو امیر مقامی اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.نیز ارشاد فرمایا کہ مولانا کی غیر حاضری میں مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری یا مولوی عبد الرحمن صاحب انو رامام الصلوۃ ہوں گے.اس کے علاوہ حضور نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو مجلس انصاراللہ مرکز یہ کا قائم مقام صدر اور شیخ محبوب عالم خالد صاحب کو قائم مقام نائب صدر مقرر فرمایا.72

Page 90

تاریخ احمدیت.جلد 24 72 سال 1967ء قصر خلافت سے روانگی بہشتی مقبرہ میں دعا اور بوہ اسٹیشن پر تشریف آوری حضور 4 جولائی ۱۹۶۷ء کو صبح نو بجے قصرِ خلافت سے بذریعہ موٹر کار بہشتی مقبرہ تشریف لے گئے.جہاں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم، حضرت مصلح موعود، حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب اور دوسرے بزرگوں کے مزاروں پر دعا کی.خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اور جو دیگر احباب حضور کے ہمراہ تھے، اس دعا میں شریک ہوئے.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور ریلوے اسٹیشن تشریف لائے.جہاں ہزاروں احباب ایک نظام کے تحت قطار در قطار کھڑے تھے.اور حضور کا بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے تھے.جو نہی حضور موٹر کار سے اتر کر پلیٹ فارم پر تشریف لائے.فضا نعروں سے گونج اٹھی.حضور نے پلیٹ فارم پر بہت سے شہروں اور دیہات کے کثیر التعداد احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا.چونکہ احباب دُور دُور تک قطاروں میں کھڑے تھے اور پیچھے کھڑے ہوئے احباب کے لئے حضور کی زیارت کرنا ممکن نہیں تھا.اس لئے حضور نے از راہ محبت و شفقت مشتاقانِ دید کی خاطر ایک کرسی منگوائی.اور حضور خاصی دیر تک اسپر کھڑے رہے.تا کہ خود بھی شمع خلافت کے پروانوں کو دیکھ سکیں.حضور کا کرسی پر کھڑا ہونا تھا کہ احباب میں خوشی اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی.اور انہوں نے پھر والہانہ انداز میں پُر جوش نعرے لگانے شروع کر دیئے.دریں اثنا محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی نے لاؤڈ سپیکر پر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی دعائیہ نظم اے بندہ سبحان خدا حافظ و ناصر خوش الحانی سے پڑھنا شروع کی.احباب ایک ایک مصرعہ پر زیر لب آمین ثم آمین کہتے رہے.اس تمام عرصہ میں اور اس کے بعد بھی حضور قریباً پندرہ منٹ تک زیر لب دعاؤں میں مصروف رہے.اور ہزاروں ہزار احباب بھی اپنی اپنی جگہ کھڑے خاموشی سے دعائیں کرتے رہے.جب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ گاڑی لالیاں پہنچ چکی ہے.اور اب وہاں سے ربوہ کی جانب روانہ ہونے والی ہے.تو حضور نے دس بج کر دس منٹ پر ہاتھ اُٹھا کر اجتماعی دعا کرائی.جس میں سب احباب شریک ہوئے.یہ دعا ایک خاص شان کی حامل تھی.بہت دیر تک اسٹیشن اور اس کا ماحول ہزار ہا قلوب سے نکلنے والی متضر عانہ دعاؤں کے دوران احباب کی ہچکیوں اور سسکیوں کی دھیمی آوازوں سے گونجتا رہا.اجتماعی دعا سے فارغ ہونے کے بعد مزید پندرہ منٹ تک انفرادی طور پر زیر لب دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا.نیز درمیان میں حضور حسب ضرورت بعض احباب سے گفتگو بھی فرماتے رہے.

Page 91

تاریخ احمدیت.جلد 24 73 سال 1967ء ربوہ سے روانگی اور کراچی میں ورود مسعود گاڑی دس جگر پینتیس منٹ پر ربوہ کے اسٹیشن پر پہنچی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث اور قافلہ کے دیگر ارکان جو نہی گاڑی میں سوار ہوئے.تو احباب دیوانہ وار حضور کے ڈبہ کی طرف دوڑ پڑے.گاڑی روانہ ہونے تک حضور اپنے ڈبہ کے دروازے میں کھڑے رہے.پونے گیارہ بجے گاڑی نے وسل دی.جونہی گاڑی حرکت میں آئی.احباب نے پر جوش نعرے لگا کر حضور کو دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.اس وقت احباب پر عجب وارفتگی کا عالم تھا.بعض احباب بلند آواز سے دعائیں پڑھ رہے تھے.اور بہت سے احباب حضور انور کی اس عارضی جدائی پر اشکبار تھے.جب تک گاڑی پلیٹ فارم کے ساتھ گزرتی رہی.حضور گاڑی کے دروازے میں کھڑے ہاتھ ہلا ہلا کر احباب کے سلام کا جواب دیتے رہے.اس وقت حضور کی آنکھیں بھی پر نم تھیں.اور حضور ز مرلب دعاؤں میں مصروف تھے.گاڑی روانہ ہوتے ہی حضور کی طرف سے سات بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.نیز صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے اپنی طرف سے ایک بکرا ذبح کرایا.خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور لجنہ اماءاللہ کی طرف سے بھی بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے زیرانتظام ربوہ کے جملہ محلہ جات میں بھی اس روز نماز فجر کے بعد ایک ایک دو دو بکرے ذبح کئے گئے.73 ربوہ سے کراچی تک تمام بڑے بڑے اسٹیشنوں پر بلکہ بعض چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں پر بھی بکثرت احمدی افراد نے اپنے امام کا استقبال کیا.اور حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لئے ریلوے اسٹیشنوں پر تنظیم کے ساتھ قطاریں باندھ کر حاضر ہوتے رہے.حضور سخت گرمی اور تھکان کے باوجود اپنے غلاموں کو ملاقات کا شرف بخشتے رہے اور ملاقاتوں کا یہ سلسلہ رات کو بھی جاری رہتا تھا.جگہ جگہ مختلف اسٹیشنوں پر حضور قیمتی نصائح سے احباب کو نوازتے رہے اور خصوصیت سے قرآن کریم کے پڑھنے اور اسپر عمل کرنے کی تلقین فرمائی.حضور کی ربوہ سے روانگی کی اطلاع پاتے ہی جماعت کراچی نے استقبال کے لئے ضروری تیاریاں مکمل کر لیں.اور ایک مسرت کی ہر تھی جو قلوب میں موجزن تھی.چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے اس سارے انتظام کا نگران اعلیٰ مقامی طور پر میجر شمیم احمد صاحب ایڈیشنل نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی کو مقرر کیا.حفاظت اور دیگر بعض ضروری انتظامات ملک 74

Page 92

تاریخ احمدیت.جلد 24 74 سال 1967ء مبارک احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ کے سپرد کئے گئے.حضور کی پیشوائی کے لئے جناب کیپٹن سید افتخار حسین صاحب نائب امیر جماعت اور نائب قائد نعیم احمد صاحب کو حیدر آباد بھجوایا گیا.انہوں نے جماعت کی جانب سے حضور کو خوش آمدید کہا.اگر چہ گاڑی کی آمد کا وقت کراچی کینٹ پر سوا نو بجے مقرر تھا.لیکن ے جولائی کو احباب جوق در جوق صبح آٹھ بجے سے ہی اسٹیشن پر جمع ہونے شروع ہو گئے.ساڑھے آٹھ بجے تک پلیٹ فارم بھر گیا.اس موقع پر کراچی کے علاوہ بیرونی جماعتوں کے بھی بہت سے احباب الوداع کہنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.چنانچہ لاہور سے چوہدری اسد اللہ خان صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور، کوئٹہ سے شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت کوئٹہ اور سکھر سے مکرم صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت بالائی سندھ ، حاجی عبدالرحمان صاحب رئیس باندھی (سندھ)، پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ حیدر آباد کے علاوہ سندھ اور پنجاب کی دیگر جماعتوں کے نمائندگان بھی موجود تھے.مختلف علاقوں کے مربی صاحبان بھی تشریف لائے ہوئے تھے.انتظام کے ماتحت جملہ احباب کو دورویہ قطاروں میں کھڑا کیا گیا.خواتین کے لئے علیحدہ قطار تھی جو لجنہ اماء اللہ کراچی کے زیر اہتمام قائم کی گئی تھی.اتفاقاً اس دن گاڑی پونے تین گھنٹے لیٹ تھی.گرمی کی شدت کے باوجود دوست وہیں پر اپنے پیارے امام کی آمد کے لئے چشم براہ رہے.حضور کی گاڑی جو نہی اسٹیشن پر ٹھہری اور آپ باہر تشریف لائے اسٹیشن کی فضا پر جوش نعروں سے گونج اٹھی.پروگرام کے مطابق حضور اس دورویہ قطار کے درمیان سے گزرتے ہوئے احباب کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اسٹیشن سے باہر تشریف لائے.اس موقع پر متعدد پریس فوٹوگرافر اور دوسرے فوٹوگرافروں نے حضور کی آمد اور استقبال کے متعددفوٹو لئے.جو مقامی اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئے.اور حضور کی تصویر کے ساتھ سفر کی غرض وغایت کو بھی واضح کیا گیا.حضور کی باوقار، بارعب شخصیت، سادگی متبسم چہرہ، جماعت کی والہانہ فدائیت نظم و ضبط یہ سب ایسی چیزیں تھیں جود یکھنے والوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکیں.کسی نے کہا کہ آج کراچی میں بہت بڑا پیر آیا ہے.جس کے استقبال کے لئے اتنی مخلوق ٹوٹ پڑی کہ چاروں طرف کاریں ہی کاریں ہیں.کسی کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ قادیانی لوگوں کی اپنے امام سے محبت اور فدائیت قابلِ رشک ہے.کوئی یہ کہہ رہا تھا.ان کا امام کس قدر خوبصورت اور نورانی چہرہ والا ہے.الغرض اپنے اور پرائے سب کی زبانوں پر حضور کی آمد کا چر چا تھا.حضور کی سواری متعدد کاروں

Page 93

تاریخ احمدیت.جلد 24 75 سال 1967ء کے جلو میں قیام گاہ تک پہنچی.جہاں میجر شمیم احمد صاحب اور سیکرٹری ضیافت شیخ خلیل الرحمن صاحب اور دیگر ارکان نے حضور کو خوش آمدید کہا.حضور سوا دو بجے احمدیہ ہال تشریف لے گئے.ہال کے باہر دُور تک شامیانے لگا دیئے گئے تھے.پھر بھی جگہ کی قلت محسوس کی جارہی تھی.اس موقع پر خدام الاحمدیہ نے بہت عمدہ انتظام کیا ہوا تھا.حضور نے اپنے رُوح پرور خطبہ جمعہ میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے مستقبل پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ان اقوام پر ا تمام محبت ضروری ہے.نماز جمعہ کے ساتھ ہی حضور نے نماز عصر بھی جمع کر کے پڑھائی.بعد ازاں مجلس انصار اللہ کراچی کے سالانہ اجتماع کا افتتاح فرمایا.اور انصار کو خاص طور پر یہ اہم اور زریں نصیحت فرمائی کہ اُن کا کام یہ ہے کہ جماعت کی ذیلی تنظیموں کے دائرے میں رہ کر اپنے آپ کو جماعت احمدیہ کے اہم مقاصد کی تکمیل کے قابل بنا سکیں ، جوان کی اصل ذمہ داری ہے.حضور نے سے جولائی کا دن سفر کی تکان کے باوجود نہایت درجہ مصروفیت میں گذارا.اور ازراہِ شفقت تمام جماعت کو ملاقات اور مصافحہ کا موقعہ مرحمت فرمایا.نماز مغرب کے بعد سے دس بجے شب تک یہ سلسلہ پورے جوش و خروش سے جاری رہا.ملاقات کے وقت احمد یہ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.بعض غیر از جماعت بھی ملاقات کے لئے تشریف لائے.اور ایک صاحب اس موقع پر حضور کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ کے مبارک دامن سے وابستہ ہو گئے.فالحمد للہ علی ذالک جولائی کو فجر کی نماز قیام گاہ پر احباب کے ساتھ ادا فرمائی.اور نہایت رقت سے دُعا کی.ناشتہ اور سفر کی دیگر ضروریات کو مکمل فرمانے کے بعد حضور حسب پروگرام ٹھیک سواسات بجے باہر تشریف لائے اور پرائیویٹ سیکر ٹری صاحب کو ضروری ہدایات دیں.نیز مولا نا عبدالمالک خاں صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کراچی کو ایک بڑی رقم غرباء میں تقسیم کرنے کے لئے عطا فرمائی.جو حضور کے منشاء مبارک کے مطابق اس وقت تقسیم کر دی گئی.مجلس انصار اللہ کراچی کے اجتماع سے روح پرور خطاب مجلس انصار اللہ کراچی کا ساتواں سالانہ تربیتی اجتماع احمد یہ ہال میگزین لین میں ۷، ۸، ۹ جولائی ۱۹۶۷ء کو منعقد ہوا.ے جولائی ۱۹۶۷ء کو نماز جمعہ کے بعد تلاوت قرآن پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا.حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی نظم

Page 94

تاریخ احمدیت.جلد 24 76 سال 1967ء اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر خوش الحانی سے پڑھی.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسح الثالث نے انصار اللہ کا عہد دہرانے کے بعد اجتماعی دعا کرائی اور پھر ۴۵ منٹ تک نہایت روح پرور خطاب فرمایا.احمد یہ ہال کے اندر اور باہر دور دور تک سڑک پر شامیانے کے نیچے احباب کثیر تعداد میں جمع تھے.اوپر گیلری خواتین سے پڑ تھی.حضور کے خطاب کے بعد تھوڑی دیر اجلاس جاری رہنے کے بعد اگلے دن کے لئے ملتوی ہو گیا.یہ اجتماع مورخہ 9 جولائی کو بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.کراچی سے فرینکفورٹ تک جولائی کو اجتماعی دعا کے بعد حضور کا قافلہ کراچی کے ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہوا.اس موقع پر جماعت کراچی کی جانب سے ایک بکرا قربان کیا گیا.(جب تک حضور دورہ سے واپس تشریف نہیں لائے جماعت کراچی نے روزانہ ایک بکرا قربان کرنے کا سلسلہ جاری رکھا).حضور جب ائیر پورٹ پہنچے تو جماعت کے مردوں اور خواتین کی کثیر تعداد پہلے سے جمع تھی.جن میں خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، متعدد جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان، مربیان سلسلہ احمدیہ، کراچی کے سر بر آوردہ احباب اور لجنہ اماءاللہ کی نمائندہ خواتین شامل تھیں.حضور کی نشست کے لئے ائیر پورٹ پر علیحدہ انتظام کیا گیا تھا.جتنا عرصہ حضور اپنے خدام میں موجودر ہے مختلف نصائح فرماتے رہے.یہاں پھر حضور نے دعا کرائی.جوں جوں جدائی کا وقت قریب آ رہا تھا.خود حضور کے چہرہ مبارک پر اداسی کا اثر نمایاں تھا.بالآخر جب مسافروں کے جانے کا اعلان ہوا تو حضور مع قافلہ کے ہوائی جہاز کی طرف روانہ ہوئے.جہاز کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہوکر حضور نے اپنے خدام پر مشفقانہ نگاہ ڈالی اور ہاتھ کے اشارے سے الوداعی سلام کیا.اس وقت ہر آنکھ اشکبار تھی ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے جب طیارہ حرکت میں آیا ائیر پورٹ کی فضا پُر جوش نعروں سے گونج اٹھی.اور ہر لب پر یہ تھا.بسلامت روی و باز آئی حضور ساڑھے آٹھ بجے پی.آئی.اے کے بوئنگ بی۷۲۰ طیارے کے ذریعے براستہ تہران و ماسکو، فرینکفورٹ کے لئے روانہ ہوئے.یہ طیارہ نو بج کر پنتالیس منٹ پر تہران کے فضائی مستقر پر

Page 95

تاریخ احمدیت.جلد 24 77 سال 1967ء 78 اُترا.جہاں جناب محمد افضل صاحب صابر اور جماعت احمد یہ تہران کے دوسرے احباب نے حضور کا استقبال کیا.اور حضور نے سب احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا.سوا دس بجے طیارہ آگے روانہ ہوا.اور حضور اسی روز تین بجکر چالیس منٹ پر فرینکفورٹ پہنچ گئے.یہاں فرینکفورٹ کی مخلص جماعت مولوی فضل الہی صاحب انوری مبلغ فرینکفورٹ کی قیادت میں حضور کے استقبال کے لئے موجود تھی.چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی اور چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بھی حضور کے استقبال کے لئے ہوائی اڈہ پر آئے ہوئے تھے.فرینکفورٹ میں مختصر قیام اور دینی مصروفیات یہاں حضور کا قیام نہایت مختصر تھا اور عملاً صرف ایک دن مل سکا.چنانچہ جو پروگرام مرتب کیا گیا تھا وہ اسی ایک دن میں جو اتوار کا دن تھا پورا کرنا پڑا.پروگرام کے بڑے تین حصے تھے.احباب جماعت کی ملاقات ، اجتماعی کھانا اور استقبالیہ.اسی ترتیب سے یہ تینوں حصے انجام پذیر ہوئے.ملاقاتیں احباب جماعت کی دلی خواہش کے پیش نظر حضور کی خدمت میں یہ درخواست کی گئی کہ احباب الگ الگ ملاقات کرنا چاہتے ہیں جسے حضور نے از راہ شفقت منظور فرمالیا.ملاقات کرنے والوں کی فہرست ایک مستعد دوست مرزا محمود احمد صاحب کو دے دی گئی جو ہر ملاقات کرنے والے کو ترتیب کے ساتھ اندر بھیجتے جاتے تھے.ملاقات کے کمرے میں حضور کے ہمراہ جناب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب اور مکرم مولوی فضل الہی انوری صاحب موجود تھے.کل ۲۷ دوستوں نے ملاقات کی جن میں سے جرمن ، عرب، ۱۶ پاکستانی اور ایک اطالوی دوست تھے.اس دوران میں حضور نے بالخصوص جرمن احباب کو جو متعد د نصائح فرما ئیں اور جن ارشادات سے نوازا ان کا ترجمہ ذیل میں دیا جاتا ہے.ایک جرمن نوجوان مسٹر محمود اسمعیل زولش (Mahmud Ismail Gzoelech) سے دوران گفتگو فر مایا: قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے کتاب مکنون بھی قرار دیا ہے.قرآن کریم کا یہ پوشیدہ حصہ صرف ان پر کھولا جاتا ہے جو اپنے پیدا کرنے والے رب سے پیار کرتے اور اس کے نتیجے میں اس کے پیار سے حصہ لیتے ہیں جو اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ یہ

Page 96

تاریخ احمدیت.جلد 24 78 سال 1967ء لوگ خود بھی زندہ ہیں اور روحانی روشنی سے حصہ پا کر زندہ خدا کو دیکھ چکے ہیں.“ نیز فرمایا کہ اب آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس موجودہ نسل کے نوجوان طبقہ کو اسلام سے روشناس کرائیں یعنی اس نوجوان طبقہ کو جس سے آپ تعلق رکھتے ہیں انہیں کچھ علم نہیں کہ کیا ہونے والا ہے اور وہ خود کس طرف لیجائے جارہے ہیں اور کہ یہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے کیونکہ خدائی پیشگوئیوں میں تو یہ پہلے سے بتایا جا چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ نسل ہی سب سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھے گی.اگر یہ تباہی ۱۰.۱۵ یا ۲۰ سال کے بعد آئے تو بڑی عمر کے لوگ تو اُس وقت تک اپنی طبعی موت مرچکے ہوں گے اور وہ اس تباہی کا سامنا نہیں کریں گے.مگر اس نوجوان طبقہ کا اکثر حصہ ضرور اس کا سامنا کرے گا.اگر چہ ان میں سے بعض چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جائیں گے تاہم سب سے زیادہ متاثر آجکل کا نوجوان طبقہ ہی ہوگا.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو بچائیں.ہمیں اپنی طرف سے سب کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کرنی چاہئے.“ جرمن قوم کیلئے قدر کے جذبات اس موقعہ پر نو جوان مذکور نے حضور سے کہا کہ حضور دعا فرماویں.حضور نے جواب میں فرمایا کہ میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں.جرمن قوم کے متعلق میرے دل میں بڑی قدر کے جذبات ہیں جو اُس وقت پیدا ہوئے جب میں طالب علمی کے زمانے میں یہاں آیا تھا.میں آپ لوگوں کو بالکل اپنے بھائیوں کی طرح سمجھتا ہوں اور میرے خیال میں ہمیں اس قوم کو بچانے کی ضرور کوشش کرنی چاہئیے.انہوں نے پہلے ہی بہت مصیبت کا سامنا کیا ہے.پہلی جنگِ عظیم میں ان کو تکلیف اٹھانی پڑی.پھر انہیں Inflation کے ایام میں مصیبت کا سامنا کرنا پڑا.بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے کہ ۱۹۲۷ء میں کیا گزری.اس وقت جرمن قوم نے Inflation اور اقتصادی زبوں

Page 97

تاریخ احمدیت.جلد 24 79 سال 1967ء حالی کے لئے یہودیوں پر الزام دیا.اُس وقت تمام کی تمام دولت پانی کی طرح بہہ گئی.پھر انہوں نے ہٹلر کی حکومت کے ایام میں تکلیف اٹھائی.اور پھر ایک اور جنگ کی مصیبت دیکھی اور اب وہ امریکی اثر کے ماتحت اخلاقی اعتبار سے اذیت اٹھا رہے ہیں.میں آجکل کے لوگوں کو اخلاقی لحاظ سے اس معیار پر نہیں دیکھتا جس پر کہ مجھے یہ اُس وقت نظر آتے تھے.ان دونوں وقت کی حالتوں میں بڑا فرق ہے.“ اسپرانتو میں قرآن کریم کا ترجمہ ایک اطالوی اسلام اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے دوست ڈاکٹر ایطالو کیوسی ( Dr.Italo Chiussi) جو ایک اطالوی انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں نے حضور سے ملاقات کی.ابتدائی گفتگو میں حضور نے ان کے خاندانی حالات ، ان کے وطن اٹلی اور جزیرہ سسلی جو کسی وقت سارے کا سارا مسلمانوں سے آباد تھا کے متعلق اور پھر اسلام سے ان کی دلچسپی کے متعلق دریافت فرمایا.ڈاکٹر صاحب موصوف نے انشورنس کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کی بھی وضاحت چاہی.پھر اٹلی کے شہر وینیس کی انشورنس کی تاریخ پر مشتمل ایک کتاب حضور کی خدمت میں تحفہ پیش کی.اسی طرح انہوں نے ایک مصور کتاب فرینکفورٹ کی گزشتہ ۵۰ سالہ تاریخ پر مشتمل پیش کی.حضور کچھ دیر تک اسے ملا حظہ فرماتے رہے.گوئٹے ہاؤس دیکھ کر فرمایا کہ میں نے اسے اُس وقت دیکھا تھا جبکہ میں آکسفورڈ سے چند دنوں کے لئے یہاں آیا تھا.اُس وقت یہ اپنی پرانی عمارت میں تھا اور اسی پرانے فرنیچر سے مزین تھا جو گوئٹے استعمال کیا کرتا تھا.ڈاکٹر موصوف نے بتایا کہ اب عمارت کی دیوار میں تو نئی بن چکی ہیں مگر فرنیچر وہی ہے.حضور نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ آپ اسلام پر ہماری جماعت کی طرف سے لکھی ہوئی مزید کتب کا مطالعہ کریں.مثلاً دیباچہ تفسیر القرآن، اسلامی اصول کی فلاسفی.“ ڈاکٹر کیوسی: ”میں ضرور پڑھوں گا اور یہ کتب تو پہلے ہی میرے پاس موجود ہیں.مگر اس وقت میں ایک اور اہم کام میں مصروف ہوں.یعنی میں قرآن کریم کا اسپرانتو (Esperanto) زبان میں ترجمہ کر رہا ہوں.“

Page 98

تاریخ احمدیت.جلد 24 80 سال 1967ء حضور :.یہ ایک بہت بڑا مشکل اور نازک کام ہے.“ ڈاکٹر کیوسی : ”حضور میری اس بارے میں مزید را ہنمائی فرماویں.“ حضور نے فرمایا:.قرآن کریم کا جب ہم اردو میں بھی ترجمہ کرتے ہیں تو مشکل یہ پڑتی ہے کہ ایک عربی لفظ کے سات یا آٹھ یا بعض دفعہ دس یا بارہ معانی ہوتے ہیں.قرآن کریم میں کسی جگہ یہ ایک معنی میں اور دوسری جگہ یہ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہوتا ہے.پس کسی آیت کا اصل معنی معلوم کرنے کے لئے عربی زبان کا جاننا نہایت ضروری ہے.اس سے زیادہ مشکل امر یہ ہے کہ کئی مقامات پر تمام کے تمام معانی مراد ہوتے ہیں.کیونکہ ایک لفظ یا ایک چھوٹی سی آیت دراصل کئی مختلف مضامین کو بیان کر رہی ہوتی ہے اور مترجم کے لئے ان تمام معانی کے عوض ایک ہی لفظ لا نا عملاً ناممکن ہے.“ بعد ازاں مکرم ڈاکٹر ایطا لو کیوسی صاحب احمدی ہو گئے تھے اور جماعت میں ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب کے نام سے معروف ہوئے.) ایک جرمن فیملی مسٹر محمود خالد زیبر (Mr.Mahmud Khalid Siebir)مسنر محمودہ خالد زیبر اور ان کی بھاوج مسنز یولیا ( غیر مسلم ) ملاقات کے لئے آئے.حضور نے دریافت فرمایا: آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟“ ہوا.مسٹر زیبر : ” میں قالینوں کا کاروبار کرتا ہوں اور اسی سلسلہ میں اسلام سے میرا پہلا تعلق پیدا حضور نے تبسم سے فرمایا: ” تو گویا آپ قالینوں پر سے ہوتے ہوئے مسجد میں پہنچ گئے.“ مسٹر زیبر : یہ مسجد ایک خوبصورت مقام ہے“ حضور نے فرمایا: ” یہ تو صرف ایک علامت کے طور پر ہے.ایک وقت آئے گا کہ یہاں انشاء اللہ گر جاؤں کی نسبت مساجد کی تعداد زیادہ ہوگی.بشرطیکہ یہ قوم اس وقت تک کلی طور پر تباہ ہونے سے بچ گئی.اور مجھے تو اس امر کا خوف ہے کیونکہ بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کی ہے.ایک پیشگوئی یہ بتائی

Page 99

تاریخ احمدیت.جلد 24 81 سال 1967ء ہے.اور اس نے تو گویا آئندہ کے حالات کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے کہ تیسری جنگ میں بعض مقامات ایسے ہوں گے جہاں آبادیوں کا نام و نشان تک مٹ جائے گا.نہ صرف یہ کہ ان حصوں سے انسانی آبادی معدوم ہو جائے گی بلکہ پرندے، مویشی اور مچھر نہ رہیں گے.گویا ہر قسم کی حیات کا وجود ہی ختم ہو جائے گا.کوئی آدمزاد اس قوم یا ساری دنیا کو نہیں بچا سکتا.قوم کے بچنے کی صرف ایک امید ہے کہ وہ اپنے خالق اور تمام جہانوں کے رب کے ساتھ صحیح قسم کا تعلق پیدا کریں مگر یورپ کے رہنے والے اس قسم کی باتوں پر کب کان دھرتے ہیں.وہ ابھی ایسی چیزوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.مجھے اس کی تشویش بہت زیادہ ہے کیونکہ ہم وہ لوگ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ دنیا مصیبت کا منہ دیکھے.یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ یہاں کے رہنے والے لوگوں کی آنکھیں کھولیں.قرآن کریم ایک بہت عظیم الشان کتاب ہے اس کا ترجمہ آپ کے پاس موجود ہے مگر ہم ابھی بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ نہیں کر سکے.یہ کتب قرآن کریم کے معانی کی تفسیر ہیں.اور یہ نہایت ضروری چیز ہے.کیونکہ یہی تفسیر ان مشکلات کا حل ہے جو آج دنیا کو درپیش ہیں.جب تک آپ کو ان کتب کے مضامین سے اطلاع نہیں ہوتی آپ اس عظیم الشان کتاب کی عظمت اور حسن و جمال کو نہیں سمجھ سکتے.بہت سے لوگ جو یہاں ہیں اور اپنے آپ کو عیسائی کہتے ہیں وہ صرف نام کے عیسائی ہیں کیونکہ اگر وہ پُرانے اور نئے عہد نامہ کو غور سے پڑھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں.دونوں عہد نامے مکمل شریعت ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے بلکہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ ان کی تعلیم مکمل نہیں ہے اور یہ کہ تم ایک ایسے آنے والے کا انتظار کرو جو مکمل شریعت لائے گا.اس نئی شریعت لانے والے کی آمد کے بارے میں تو دونوں صحیفے متفق ہیں.سوال صرف یہ ہے کہ وہ ہے کون؟ اِس موضوع پر ہمیں بحث کر لینی چاہئیے.یہاں کے عیسائیوں کو اپنے مذہبی سر براہوں کو اس امر کے لئے تیار کرنا چاہئیے تا فیصلہ ہو کہ وہ موعود کون ہے جس کی حضرت موسیٰ“ ویسٹی نے خبر دی.جہاں تک خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعلق ہے وہ تو خود فرماتے

Page 100

تاریخ احمدیت.جلد 24 82 سال 1967ء ہیں کہ ان کی شریعت مکمل نہیں.پھر وہ مکمل شریعت لانے والا کون ہوسکتا ہے.“ ایک جرمن نو جوان مسٹر والٹر ہلزے حضور کے ہاتھ پر بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوا حضور نے اس کا نام ناصر محمود رکھا.اسے حضور نے مندرجہ ذیل نصائح فرمائیں:.”ہم میں اور دوسرے لوگوں میں فرق یہ ہے کہ ہم ایک زندہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں جو ہماری دعاؤں کو سُنتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے ہمیں چاہئیے کہ ہم اس خدا سے ذاتی تعلق پیدا کریں اور اس تعلق کے پیدا کرنے کے لئے رنگ نسل یا قوم کا 66 کوئی امتیاز نہیں.خدا تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے.“ استقبالیہ میں حضور کا خطاب اس موقع پر 9 جولائی کی سہ پہر حضور انور کو ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں معززین شہر ، مقامی جماعت کے افراد، کچھ ایرانی مسلمان، نیورمبرگ اور دیگر جرمن جماعتوں کے نمائندے شامل ہوئے.شہر کی انتظامیہ کے صدر جناب روڈلف ٹیفس صاحب (Rudolf Tefs)،عدلیہ فرینکفورٹ کے نمائندے جسٹس جناب فریڈرش کارل (Fredrish Carl) اور ان کی اہلیہ.شہر کے نائب میئر.فرینکفورٹ یونیورسٹی کے معزز پروفیسر لی پال ویرینٹس (Lie Paul Werints) شہر کی بلد یہ کے ڈائریکٹر ہینس ویرنر شنائڈر (Hans Werner Schneider) اوفن برگ کے کیتھولک پادری ڈاکٹر فرٹز فائل (Dr.Firitz Pfeil) ایک پروٹسٹنٹ پادری ریورنڈ کہنے (Rev.Kunhe) اور ان کے ایک دوست اور ان کے علاوہ بہت سے جرمن عیسائی اور ایرانی مسلمان شامل ہوئے.استقبالیہ کی تقریب میں حضرت اقدس کی خدمت میں فرینکفورٹ کی جماعت نے سپاسنامہ پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے جو تقریر انگریزی میں فرمائی اس کے متن کا مکمل ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے: معزز حضرات و خواتین ! میں جماعت فرینکفورٹ کا بہت ممنون ہوں اس استقبالیہ سپاسنامے کے لئے جو اُن کی طرف سے اس اجلاس میں پڑھا گیا ہے.اسی طرح ان تمام بھائیوں اور بہنوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو کچھ وقت خرچ کر کے یہاں آئے ہیں اور اس

Page 101

تاریخ احمدیت.جلد 24 83 سال 1967ء طرح مجھے ذاتی طور پر متعارف ہونے کا موقع دیا ہے.میری فرینکفورٹ میں یہ پہلی آمد نہیں ہے.میں اس سے پہلے بھی یہاں آچکا ہوں.اُس وقت میں ایک طالبعلم تھا اور اگرچہ میرا یہاں قیام بہت مختصر تھا مگر میرے ذہن میں اُس وقت کے فرینکفورٹ کے طالبعلم بچوں کی یاداب تک تازہ ہے.میں نے انہیں سادہ، خوش وضع اور محنتی پایا.مجھ پر جو تاثر انہوں نے پیدا کیا وہ بہت گہرا تھا.یہی وجہ ہے کہ سالہا سال گزر جانے کے بعد بھی وہ ابھی تک قائم ہے.اسوقت وہی بچے میرے سامنے آزمودہ کار اور جہاندیدہ شرفاء کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور مجھے ان سے دوبارہ مل کر خوشی ہوئی ہے.گویا ایک اعتبار سے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں آپ کو پہلے ہی سے جانتا ہوں.میں آپ سے دوبارہ مل کر خوش ہوں.بالخصوص اس لئے کہ مجھے آج یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اس خدا تعالیٰ کے فرستادہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح و مہدی موعود اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی کے متعلق کچھ بتاؤں.انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کو اس آخری زمانہ کا مصلح بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اور ان کے سپر د ایک خاص کام کی سرانجام دہی اور ایک خاص نصب العین کا حصول کیا گیا ہے.انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ یقین اور وعدہ دیا گیا ہے کہ وہ آخر کار کا میاب ہوں گے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ باوجود ہر قسم کی عداوت اور مخالفت کے جس کا اُن کو سامنا کرنا پڑے گا وہی کامیاب ہوئے.میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اُن کا دعویٰ خود ان کے الفاظ میں پیش کروں.وہ فرماتے ہیں: وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کے رشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں.اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کر کے صلح کی بنیاد ڈالوں.اور وہ دینی سچائیاں جو دنیا کی آنکھ سے مخفی ہوگئی ہیں اُن کو ظاہر کر دوں.اور وہ روحانیت جو نفسانی تاریکیوں کے نیچے دب گئی ہے اس کا نمونہ دکھاؤں اور خدا کی طاقتیں جو انسان کے اندر داخل ہو کر توجہ یا دعا کے ذریعہ سے

Page 102

تاریخ احمدیت.جلد 24 84 سال 1967ء نمودار ہوتی ہیں حال کے ذریعہ سے نہ محض مقال سے اُن کی کیفیت بیان کروں.اور سب سے زیادہ یہ کہ وہ خالص اور چمکتی ہوئی تو حید جو ہر ایک قسم کی شرک کی آمیزش سے خالی ہے جو اب نابود ہو چکی ہے اس کا دوبارہ قوم میں دائمی پودا لگا دوں.اور یہ سب کچھ میری قوت سے نہیں ہوگا بلکہ اُس خدا کی طاقت سے ہوگا جو آسمان اور زمین کا خدا ہے.66 ی مختصر اوہ دعوئی ہے جو سلسلہ احمدیہ کے مقدس بانی نے کیا آپ نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ دنیا نے اپنے خدا کو بھلا دیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا ہے کہ دنیا کے سامنے اپنی ہستی کا ثبوت دے اس لئے اُس نے اپنے مسیح موعود کو بھیجا ہے.خدا تعالیٰ کی ہستی اور قدرت کا ثبوت دینے کے لئے انہیں بہت سے نشانات دیئے گئے.آپ کی صداقت کے دلائل اس شان کے ہیں کہ کوئی دوسرا مذ ہب اُن کا مقابلہ نہیں کر سکتا.خدائی نشانات اور معجزات جو آپ کے ذریعے ظاہر ہوئے وہ اس قدر واضح ، خارق عادت اور کثرت سے ہیں کہ وہ اپنی کمیت اور کیفیت کے اعتبار سے تمام دوسرے مذاہب کے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہیں.اب یہ کوئی معمولی دعوی نہیں تھا.آپ کے پاس کوئی مادی ذرائع نہیں تھے.آپ خلوت پسند اور تنہا تھے.آپ کا کوئی دوست وغیرہ نہیں تھا.یشی کہ خود اپنے گاؤں میں کوئی نہیں جانتا تھا.مگر جو نہی آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا اور آپ کو نبوت کی چادر پہنائی گئی آپ کی زندگی میں ایک انقلاب برپا ہوا جس کے ساتھ آپ کے عروج کمال روحانی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا.آپ کے لائے ہوئے پیغام اور آپ کے عملی نمونے کے طفیل خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسے پیروکار دیئے جنہوں نے عہد کیا کہ وہ یہ پیغام اس کرہ ارضی کے ایک ایک گھرانے تک پہنچا کر دم لیں گے.ایسے پیروکار اس وقت دنیا کے ہر براعظم میں پائے جاتے ہیں.ہر دن جو طلوع ہوتا ہے تو وہ جماعت کو مضبوط تر اور وسیع تر مقام پر دیکھتا ہے.کسی مذہب کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ مقابل پر آئے اور ان دعاوی کا مقابلہ کرے جو دراصل خدائی چیلنج ہے جو نصف صدی سے دنیا کو دیا جا رہا ہے.

Page 103

تاریخ احمدیت.جلد 24 85 سال 1967ء میں حضرت مسیح موعود اور مہدی کے تیسرے جانشین کے طور پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ دعوی کرتا ہوں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا، حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک زندہ رسول اور حضرت مسیح موعود آپ کے روحانی فرزند ایک زندہ طاقت ہیں.آپ کا چیلنج جو آج تک کسی کو بھی قبول کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اب بھی قائم ہے.اگر دوسرے مذاہب کے رہنما اس چیلنج کو قبول کر لیں تو دنیا کو اسلام کی صداقت کے عدیم المثال اظہار کو مشاہدہ کرنے کا موقع مل جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل فرمائے اور آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی توفیق بخشے فرینکفورٹ پریس میں چرچا 81 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا فرینکفورٹ میں قیام صرف ایک روز کا تھا اور حضور کے دورہ کی پیلیٹی کے لئے کوئی خاص انتظامات نہیں کئے جاسکتے تھے.لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یہ دورہ اسلام کی اشاعت کے لئے ایک اہم کڑی ثابت ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود ہی یورپ کے صحافیوں اور پریس کے نمائندوں کے دلوں میں خصوصی تحریک فرمائی کہ وہ اس اہم دورہ کی تشہیر اور حضور کے پیغام کی وسیع پیمانے پر اشاعت کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں.اس آسمانی تحریک کا آغاز فرینکفورٹ سے ہی ہو گیا.چنانچہ حضور کے فرینکفورٹ پہنچنے پر فرینکفورٹ کے ایک اخبار نے لکھا: حیح و تمیں لاکھ احمدی افراد کے خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ( عمر ۵۸ سال) ہفتہ کے روز فرینکفورٹ میں تشریف لائے.دریائے مائن پر واقع فرینکفورٹ شہر ان کے لئے اجنبی نہ تھا کیونکہ آپ اس سے قبل ۱۹۳۶ء میں یہاں آئے تھے جبکہ آپ انگلستان میں پولٹیکل سائنس کی تعلیم مکمل کر رہے تھے.آپ سکینڈے نیویا میں کوپن ہیگن کی پہلی مسجد کا افتتاح فرمائیں گے اس موقعہ پر آپ یورپ کے دوسرے مشنوں کا بھی معاینہ فرمائیں گے.احمد یہ جماعت افریقہ میں بہت کامیابی کے ساتھ تبلیغ اسلام کے فریضہ میں مشغول ہے.اس جماعت نے گزشتہ دس سالوں میں وہاں متعدد مساجد اور سکول اور ہسپتال قائم کئے ہیں.فرینکفورٹ ہی کے ایک اور اخبار ”فرینکفورٹ رنڈ شاؤ“ نے ایک نوٹ دیا.دیگر باتوں

Page 104

تاریخ احمدیت.جلد 24 کے علاوہ لکھا: 86 سال 1967ء فرینکفورٹ میں احمدی جماعت کا ایک مشن ہی نہیں بلکہ مسجد بھی ہے.جس کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کے لوگوں کو اسلام کی سچائی سے روشناس کرایا جائے.انیسویں صدی کے آخر میں حضرت مرزا غلام احمد (علیہ السلام) جنہوں نے اس سلسلہ کی بنیا درکھی، نے خدائی الہامات کے ماتحت اپنے مسیح اور مہدی ہونے کا دعوی کیا.اور اپنے دعوی کی صداقت میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کے اقوال اور تصانیف کو پیش کیا.باوجود سخت مخالفت کے اب ساری دنیا میں اس سلسلہ کے ماننے والوں کی تعداد میں لاکھ کے قریب ہوگئی ہے.زیورک میں تشریف آوری اور کامیاب استقبالیہ تقاریب 66 حضرت خلیفہ المسیح الثالث فرینکفورٹ میں ایک روزہ قیام کے بعد اجولائی کو صبح گیارہ بجے کے قریب زیورک ( سوئٹزرلینڈ) تشریف لے گئے.ہوائی اڈے پر سوئٹزرلینڈ کے معزز اور سر بر آوردہ مسلمانوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا.شام کو حضور کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی.جس میں معززین کثرت سے شامل ہوئے اور مختلف ملکوں کے مسلمانوں نے حضور کی خدمت میں جذبات محبت و عقیدت کا اظہار کیا.جناب چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس استقبالیہ کا اہتمام مسجد میں کیا گیا تھا.تلاوت قرآن کریم ڈاکٹر محم حمودی اجسیم نے کی جو کہ بہت بڑے عالم اور قانون کی متعدد کتابوں کے مصنف اور عراق کے ڈپٹی اٹارنی جنرل تھے.ان کے بعد سب سے پہلا سپاسنامہ ایک ترک انجینئر مسٹر سوات اکتم نے پیش کیا.آپ نے اپنے سپاسنامہ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ احمدیہ مشن مسلمانوں کی ہر قسم کی مدد پر آمادہ رہتا ہے اور بچوں کی تعلیم کا انتظام کر کے تو اس مشن نے نہایت قابل قدر خدمت سر انجام دی ہے.ان کی تقریر اور دیگر تقریریں بھی ) ڈاکٹر اسمعیل حسن پی.ایچ ڈی نے ترجمہ کیں.ان کے بعد یوگوسلاویہ کے ایک نہایت معزز دوست عادل ذوالفقار پاسک صاحب نے خوش آمدید کہا.عادل صاحب کے بعد ڈاکٹر محمد عزالدین حسن صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا.ان سب حضرات کے بعد چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے جماعت کی طرف سے حضور کی

Page 105

تاریخ احمدیت.جلد 24 87 سال 1967ء خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.چودھری صاحب نے کہا کہ حضور کی یورپ میں تشریف آوری سے ان کی اور زیورک کی جماعت کی ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی ہے اور اس کے لیے وہ سب حضور کے از حد ممنون ہیں.آپ نے حضور کی تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی سکیموں کا ذکر کیا اور کہا کہ ان سکیموں کے ذریعہ جماعت کے لیے یہ بات ممکن بنادی کہ ہر شخص قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرے.حضور نے ان سپاسناموں کے جواب میں اردو میں تقریر فرمائی جس میں حضور نے قرآن کریم کی تعلیم کی افادیت اور اسلام کی امن پسندی کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی اور حاضرین سے اپیل کی کہ وہ اسلام کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر اس سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں.اس سپاسنامہ کے جواب میں حضور انور نے فرمایا: د بعض بھائیوں نے یہ ذکر کیا ہے کہ سوئٹزر لینڈ اور اسی طرح (اگر چہ نام نہیں لیا گیا ) یورپ کے بعض دوسرے ممالک مسلمانوں کو بڑی خوشی سے اپنے ملک میں ملازمتیں دیتے ہیں اور مسلمان خاندان بڑی کثرت سے ان ممالک میں آباد ہیں.میں تمام اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف سے آپ کے ملک کا اور دوسرے ممالک کا جو ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں ممنون ہوں لیکن غیر ممالک میں جمع ہو جانے کی وجہ سے اور وقتی طور پر آباد ہو جانے کے نتیجہ میں بہت سے مسائل پیش آگئے ہیں.جن میں سے ایک اہم مسئلہ جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ مسلمان خاندانوں کے بچوں کو دینی تعلیم دینا اور صحیح تربیت کرنا ہے میں بڑا خوش ہوں کہ ہمارے دوست نے اس طرف اشارہ کیا اور میں آپ سب کو یقین دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ پر غور کرنے کے بعد جو بھی ممکن ہوسکا بچوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے کیا جائے گا.میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ بات غلط ہے کہ قرآن کریم بچے سمجھ نہیں سکتے اگر آپ قرآن کریم کا ترجمہ اس زبان میں کریں جس کو بچہ سمجھ سکے تو یقینا وہ قرآن کریم سمجھنے لگ جائے گا جس طرح انگریزی کا ترجمہ جرمن لوگ نہیں سمجھ سکتے اسی طرح بڑوں کے لئے جو قرآن کریم کا ترجمہ ہے.وہ بچے نہیں سمجھ سکتے لیکن جس طرح جرمن ترجمہ جرمن بولنے والے سمجھ سکتے ہیں بچوں کی زبان میں جو انہیں

Page 106

تاریخ احمدیت.جلد 24 88 سال 1967ء بتایا جائے وہ بچے سمجھ جائیں گے.بچے کو اللہ تعالیٰ نے بڑا ذہین بنایا ہے اور وہ علم کا بڑا شوق رکھتا ہے.اس لئے وہ ماں باپ اور استادوں سے ہر وقت ہر چیز اور معاملے کے متعلق سوال کرتا رہتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسکی فطرت میں علم کے حصول کا شوق پایا جاتا ہے.اگر آپ اسکی فطرت کو علم کے پانی سے سیر نہیں کرتے.تو یہ اس کا قصور نہیں آپ کا قصور ہے.پس ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس ملک میں رہنے والے سب مسلمان آپس میں مشورہ کریں اور ایسے ذرائع اختیار کریں جن کے نتیجہ میں بچہ قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھنے لگے.قرآن کریم ایک عظیم نور ہے جو بچے کے دل کو اسی طرح منور کرتا ہے جس طرح ایک بڑے کے دل کو ، قرآن کریم میں علم کے سمندر موجزن ہیں.اسکے علوم کبھی ختم ہونے والے نہیں.جس طرح پچھلے چودہ سوسال کے مسائل کو قرآن کریم نے حل کیا ہے آج بھی ہمارے مسائل کو قرآن کریم نے حل کیا ہے.آج بھی ہمارے مسائل کو قرآن کریم حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.لیکن ہم قرآن کریم پر فکروتدبر کرنے کی بجائے دوسری طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.حالانکہ خود قرآن کریم نے ہمیں بتایا ہے کہ جب تک دعا اور تدبیر کو کمال تک نہ پہنچاؤ کامیابی حاصل نہیں کی 86 جاسکتی.زیورک میں تقریب ظہرانہ جولائی کو حضور کے اعزاز میں ظہرانہ کا انتظام کیا گیا.جس میں سات ملکوں کے سفیروں مثلاً غانا، نائیجیریا، ایران، ترکی وغیرہ کے علاوہ عراق کے سابق وزیراعظم ، متعدد دیگر سفارتی نمائندوں اور سوئٹزرلینڈ کے دیگر سر بر آوردہ حضرات نے شرکت کی.سوئس ریڈیو نے حضور کا ایک خصوصی انٹرویو نشر کیا.ٹیلی ویژن نے حضور کے انٹرویو اور استقبالیہ تقریب کی فلم تیار کی.انٹرویو کے مناظر اسی شام ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے.87 ظہرانہ کے موقعہ پر حضور نے فرمایا: اسلام امن کا مذہب ہے اور امن کو قائم کرتا ہے.سینکڑوں احکام اس

Page 107

تاریخ احمدیت.جلد 24 89 سال 1967ء سلسلہ میں قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں پائے جاتے ہیں.میں مختصراً آٹھ بنیادی احکام کا ذکر کرونگا.مذاہب میں اچھے تعلقات قائم کرنا اسلام کے نزدیک ضروری ہے.قرآن کریم نے اعلان کیا: وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ (فاطر: ۲۵) اس لیے ہر مذہب کے رسول کی مسلمان عزت اور احترام کرتا ہے اور اس وجہ سے اسلام صلح و امن کی فضا پیدا کرتا ہے.دوسرے اسلام اس بات سے روکتا ہے کہ دوسرے مذاہب کی قابل احترام ہستیوں یا ہدایتوں کو برا بھلا کہا جائے.اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ بت کو برا بھلا کہنا بھی برا سمجھا گیا ہے.تیسرے اسلام مذہبی آزادی کو قائم کرتا ہے.قرآن مجید کہتا ہے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: ۲۵۷) مذہب کا تعلق دل سے ہے.اور کوئی ہتھیار خواہ وہ ایٹم بم ہی کیوں نہ ہو دل کے خیالات کو بدلنے کے قابل نہیں.چوتھے اسلام رول آف لاء (Rule of Law یعنی قانون کی حکومت کو قائم کرتا ہے.پانچویں، بین الاقوامی تعلقات کو اخلاق کی بنیادوں پر اسلام نے قائم کیا ہے.اس لیے اسلام کے نزدیک کوئی طاقت خواہ روس جتنی بڑی خواہ امریکہ جتنی طاقتور کیوں نہ ہوا سے veto کا حق نہیں ملنا چاہئیے.بین الاقوامی تعلقات اخلاق پر مبنی ہونے چاہئیں اور کسی قوم کی طاقت زائد حقوق کا حقدارا سے نہیں بناتی.چھٹے اسلام کی نگاہ میں سب انسان برابر ہیں.خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو یا کسی ملک سے ہو یا کسی قوم سے ہو یا کسی رنگ سے ہو قرآن کی نگاہ میں اور اللہ کی نگاہ میں سب برابر ہیں.ساتویں اسلام عدل کو قائم کرتا ہے.قرآن کہتا ہے لَا يَجْرِ مَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (المائدة: 9) عدل کو مذہب کے ساتھ بریکٹ کر دیا ہے اور آٹھویں اسلام کا حکم ہے، جب آپس میں معاہدات کرو تو اُنکی پابندی کرو معاہدات توڑنے کے نتیجہ میں بدامنی پیدا ہوتی ہے صلح کی فضا قائم نہیں رہ سکتی“.88

Page 108

تاریخ احمدیت.جلد 24 90 سال 1967ء زیورک پریس میں حضور کی عظیم شخصیت کے تذکرے حضور کی زیورک میں تشریف آوری اور مصروفیات کی خبریں زیورک کے قریباً سبھی روزناموں میں شائع ہوئیں.جن میں حضور انور کی عظیم شخصیت کا تذکرہ ، جماعت کا تعارف اور اسلام کی بلندشان تعلیمات کا ذکر کیا گیا.چنانچہ زیورک کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت اور مقبول ترین اخبار ٹاگس انسا ئیگر (TAGES-ANZEIGER) نے ۱۲ جولائی کی اشاعت میں لکھا: اسلام کی بلند پایہ قابل تعظیم شخصیت زیورک میں“ اسلامی دنیا کی بلند پایہ اور قابل تعظیم شخصیت یعنی حضرت مرزا ناصر احمد امام جماعت احمدیہ بروز دوشنبه قبل دو پہر فرینکفورٹ سے زیورک کی مسجد محمود واقع فورخ روڈ میں تشریف لائے.اسلام کے مختلف یورپین مراکز کا دورہ کرتے ہوئے دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ (جس کا مرکز پاکستان میں ہے ) کے امام حضرت مرزا ناصر احمد نے ہمارے شہر میں بھی قدم رنجہ فرمایا.آپ یہاں سے ہالینڈ تشریف لے جائیں گے.وہاں سے ہمبرگ ہوتے ہوئے آپ کو پن ہیگن پہنچیں گے جہاں آپ ۲۱ جولائی کو یورپ کی پانچویں مسجد کا افتتاح فرمائیں گے.یہ مساجد مغربی یورپ میں گزشتہ بارہ سال میں تعمیر ہوئی ہیں.جماعت احمدیہ کے امام جن کی عمر اب اٹھاون سال ہے.۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو امام جماعت منتخب ہوئے.آپ اعلی تعلیم یافتہ ہیں آپ نے اپنے وطن کی اعلیٰ درس گاہوں نیز آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی.امام حضرت مرزا ناصر احمد ایک دل موہ لینے والی شخصیت ہیں.جس سے عرفان نیکی اور رواداری کی کرنیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں.عرفان نیکی اور روادری ہی وہ نصب العین ہے جس کے لئے جماعت احمد یہ زیورک سرگرم عمل ہے.زیورک مشن کا ۱۹۴۶ء میں قیام عمل میں آیا.۱۹۶۲ء میں ہماری حکومت کے ہمدردانہ تعاون کے باعث فورخ روڈ پر مسجد معرض وجود میں آئی جواب وسطی یورپ میں حیاۃ اسلامی کے اہم مرکز کی حیثیت اختیار کر چکی ہے.اسلامی تہواروں کے موقع پر فورخ روڈ پر پانچ صد مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے جو دور دور سے زیورک آتے ہیں جن میں سے ایک حصہ ترکوں کا ہوتا ہے جو ہمارے ملک میں کام کے لئے آئے ہوئے ہیں گو یہ عموماً جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں رکھتے لیکن اسی مقام سے انہیں ایسی برادرانہ اخوت اور تعاون حاصل ہوتا ہے جو اس نئے ماحول میں ان اجنبیوں کو حاصل ہونا نہایت

Page 109

تاریخ احمدیت.جلد 24 91 سال 1967ء ضروری ہے.بہت سے اہل یورپ بھی ان مواقع پر اس غیر متعصب آزاد اور قدیم اسلامی سیرت کے ساتھ رابطہ قائم کر کے حقیقی فائدہ حاصل کرتے ہیں.جماعت احمدیہ یہ خصوصیت رکھتی ہے کہ یہ صحیح اسلامی تصورات کی علمبر دار ہے اس کی بنیاد حضرت مرزا غلام احمد (علیہ الصلوۃ والسلام) نے رکھی.جن کا وصال ۱۹۰۸ء میں ہوا اور جنہیں ان کے پیرو مہدی موعود یقین کرتے ہیں.دیگر خدمات کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کی ایک اہم خدمت یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم کے مستند تراجم شائع کئے.ان تراجم نے خصوصاً مغربی دنیا میں اسلامی فکر کا جو قاہرہ کے انداز فکر سے ممتاز ہے بہتر شعور پیدا کیا ہے.امام حضرت مرزا ناصر احمد نے ایک غیر رسمی مجلس استقبالیہ میں جس میں مسجد سے تعلق رکھنے والے اور دیگر احباب مدعو تھے اس امر پر زور دیا کہ اسلام اپنے اصل کے لحاظ سے امن کا مذہب ہے اور اس کے پیروؤں کو صرف اور صرف اپنے قومی اور مذہبی دفاع کے لئے ہتھیار اٹھانے کی اجازت ہے آپ کا یہ ارشاد بہت دلچسپ تھا کہ ”ہولی وار کا ترجمہ اسلام میں لغوی طور پر موجود نہیں.قرآن نے جو اصطلاح استعمال کی ہے وہ ”جہاد“ ہے جس کا مطلب انتہائی کوشش ہے جو انسان دعا اور تدبیر کے ذریعہ ایک مقصد کے حصول کے لئے کرتا ہے یہ کوشش روحانی و مادی دونوں طرح کی ہو سکتی ہے.آپ نے فرمایا جس طرح آپ صبر سے یہاں ایک گھنٹہ سے بیٹھے باتیں سن رہے ہیں آپ نے بھی گویا ایک رنگ کا جہاد کیا ہے.89 آخر میں اخبار مذکور نے اپنی طرف سے توقع کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ:.” ہم اپنی دنیا کی بہتری کے خیال سے امید رکھتے ہیں کہ ایسی امن پسند قوتوں کی آواز جہاں بھی بلند ہوسنی جائے گی.اس رپورٹ کے ساتھ اخبار مذکور نے حضور کا ایک فوٹو بھی شائع کیا.جوا اجولائی کو حضور کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانہ کے موقعہ پر لیا گیا تھا.فوٹو میں حضور اقدس کے ہمراہ نائیجیریا کے سفیر ہزایکسی لینسی الحاج سولے ڈیڈے کو لو سفیر جمہوریہ تر کی ہز ایکسی لینسی نجم الدین تنجل اور رسابق وزیر اعظم عراق محمد فاضل الجمالی نظر آرہے ہیں.لاخبار NEUE-ZURCHER ZEITUNG نہ صرف سوئٹزر لینڈ کا موقر ترین روز نامہ ہے بلکہ اس کا شمار دنیا کے چوٹی کے روز ناموں میں ہوتا ہے.اس اخبار نے ۱۲ جولائی ۱۹۶۷ء

Page 110

تاریخ احمدیت.جلد 24 92 سال 1967ء کے شمارہ میں حسب ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا احمدیہ مسجد میں معزز مہمان جماعت احمدیہ کے امام کا زیورک میں ورود زیورک کا احمدیہ مشن کسی تعارف کا محتاج نہیں.آج سے چار سال قبل جب فورخ روڈ پر بالگرسٹ گر جا کے بالمقابل مسجد محمود کا افتتاح عمل میں آیا تو مشن ہذا کو بہت شہرت حاصل ہوئی.اس مسجد کے دروازے نہ صرف جماعت احمدیہ کے پیروؤں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے ہر وقت کھلے ہیں.یہ ایک نہایت پُر مسرت موقعہ تھا.جبکہ سلسلہ احمدیہ کے روحانی پیشوا جماعت احمد یہ سوئٹزرلینڈ کے افراد کو شرف زیارت بخشنے یہاں تشریف لائے اس دینی جماعت کے امام ( جس کا مرکز پاکستان میں ہے جو حقیقی اسلام پیش کرتی ہے اور جو یورپ میں بھی تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنے میں مصروف ہے.مورخہ 1 جولائی بروز سوموار فرینکفورٹ سے کلوٹن کے ہوائی اڈہ پر وارد ہوئے.اسی شام مسجد زیورک میں آپ کے اعزاز میں جماعت کی طرف سے ایک استقبالیہ تقریب کا انعقاد عمل میں آیا اور اس سے اگلے روز (۱ جولائی بروزمنگل ) جماعت احمدیہ کی اس بلند ترین روحانی شخصیت کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا.دعوت طعام کے بعد جو مشرقی طرز کے نفیس اور لذیذ کھانوں پر مشتمل تھی جماعت احمدیہ کی اس بلند ترین روحانی شخصیت نے پریس کے سراپا اشتیاق نمائندگان کو شرف گفتگو بخشا اور انہیں اسلام اور جماعت احمدیہ کے متعلق معلومات سے نوازا.اس تقریب کا امتیاز صرف یہی نہیں تھا کہ اس میں مشرقی رنگ میں رنگے ہوئے متعدد ممالک کے معززین ایک جگہ جمع تھے بلکہ ان میں متعدد ایشیائی افریقی اور یورپی ملکوں کے سفارتی نمائندے اور دیگر سر بر آوردہ حضرات بھی موجود تھے.چنانچہ اس تقریب میں اکثر عرب ممالک ایران ترکی نیز افریقہ اور ایشیا کے اسلامی یا اسلام سے متاثر ملکوں کے معززین آئے ہوئے تھے علاوہ ازیں نائیجیریا اور ترکی کے سفیر ، غانا اور ایران کے سفارت خانوں کے سربراہ بعض یورپین ممالک کے قونصل جنرل عراق کے ایک سابق وزیر اعظم اور البانیہ کے شاہی خاندان کے بعض افراد بھی اس میں شریک تھے.تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.زیورک کی مسجد محمود کے امام اور زیورک مشن کے سربراہ جناب مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ابتداء میں جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا حضرت مرزا ناصر احمد کا تعارف کرایا.

Page 111

تاریخ احمدیت.جلد 24 93 سال 1967ء بانی سلسلہ احمدیہ کے خلیفہ ثالث حضرت مرزا ناصر احمد ایک باوقار اور بے حد اثر انداز ہونے والی پرکشش شخصیت ہیں.آپ کا چہرہ سفید ریش سے مزین ہے آپ پاکستانی طرز کا بند گلے والا لمبا کوٹ اور سفید عمامہ پہنے ہوئے تھے.عمامہ کا سنہری کلاہ نظر آرہا تھا.آپ نے پنجاب یونیورسٹی لا ہور اور آکسفورڈ یونیورسٹی انگلستان میں اعلی تعلیم حاصل کی.آپ کو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کے مقرر کردہ نمائندگان نے ۶۵ء میں جماعت احمدیہ کا خلیفہ منتخب کیا.آپ نے سلجھے ہوئے انداز اور میٹھی زبان میں واضح فرمایا کہ دور حاضر میں اسلام کا کیا کردار ہے.آپ نے اس بات پر زور دیا کہ آپ جس مذہب کے پیرو ہیں وہ یعنی اسلام امن کا حامی اور رواداری کا علمبر دار ہے اور یہ انسانی حقوق کی حفاظت کرتا ہے آپ نے قرآن مجید کی آیات کی روشنی میں واضح فرمایا کہ اسلام نے سیاست کے میدان میں بھی عدل و انصاف کو ہی بنیادی اصل قرار دیا ہے.آپ نے دنیا میں غذائی بحران کے پیدا ہونے پر افسوس کا اظہار کیا.آپ نے یہ سب ارشادات ایک خطاب کی شکل میں پر شوکت اردو میں فرمائے جن کا ساتھ ساتھ جرمن ترجمہ کیا جاتا رہا.حضرت امام جماعت احمد یہ اردو زبان میں خطاب کے علاوہ استقبالیہ تقریب میں صبر و سکون کے ساتھ یورپین مہمانوں کے سوالات کے جوابات دیتے رہے اور ان سے فصیح و بلیغ انگریزی میں گفتگو فرماتے رہے.احمدیت اسلام کی ایک اصلاحی تحریک ہے.اس کا نصب العین دنیا کو قرآن کی حقیقی اور اصل تعلیم کی طرف واپس لانا ہے اور دین کو گزشتہ صدیوں کی بدعات اور غیر یقینی روایات سے پاک کرنا ہے.عیسائیت کے بارہ میں احمدیت کا نقطہ نظر وہی ہے جو ابتداء سے اسلام کا ہے یعنی یہ کہ مسیح ان انبیاء میں سے ایک تھے جو دنیا کو انتباہ کرنے اور اسے بیدار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وقتاً فوقتاً مبعوث کئے گئے.ہندوستان میں گوتم بدھ اور ایران میں زرتشت اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشرو تھے جس طرح مسیح فلسطین میں آپ کے پیشرو کے طور پر مبعوث ہوئے.بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کا تعلق لاہور (اصل میں گورداسپور لکھنا چاہئے تھا مترجم ) کے ایک گاؤں سے تھا.اکثر پیشوایان مذاہب کی طرح آپ کو اپنی بعثت کا علم رویا و کشوف کے ذریعہ حاصل ہوا.اس علم کے تحت آپ نے مسیحیت کا مقابلہ جاری رکھا اُس برصغیر میں جہاں مسیحی ممالک کی فوجوں اور پادریوں کی مدد سے نو آبادیاں قائم کی گئیں اور مسیحیت کا پرچار کیا گیا آپ کی طرف سے مسیحیت کا یہ مقابلہ تعجب انگیز نہیں آپ نے اپنی تصانیف میں اپنے آپ کو مسیح قرار دیا جسے

Page 112

تاریخ احمدیت.جلد 24 94 سال 1967ء خدا نے اس لئے معبوث کیا کہ تا وہ دلائل اور روحانی اصلاح کے ذریعہ اس صلیب کو توڑے جس نے مسیح کو توڑا تھا.(نمائندہ اخبار کی درخواست پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے اسے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی جماعت احمدیہ کی کتاب کا اصل حوالہ نکال کر دکھایا ) جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز اس وقت دنیا کے تینتیس ملکوں میں قائم ہیں.اس جماعت کو افریقہ میں بڑی کامیابی حاصل ہو رہی ہے.صرف مغربی افریقہ میں ہی اس کے مختلف درجوں کے پچاس سکول ہیں.کچھ عرصہ سے شفا خانے اور ڈسپنسریاں بھی ایسے مقامات پر یہ جماعت کھول رہی ہے جہاں ان کی بہت ضرورت ہے.نائیجیریا کے سفیر ہز ایکسی لینسی سمولے ڈیڈے کو لو نے جو خود مکہ معظمہ میں فریضہ حج ادا کر چکے ہیں اور ”الحاجی“ کہلاتے ہیں اس امر پر زور دیا کہ نائیجیریا میں جماعت احمدیہ تعلیمی ترقی اور معاشرتی اصلاحات کے میدان میں دیگر دینی تحریکات کی نسبت پیش پیش ہے.سوئیس پارلیمنٹ کے رکن مسٹر کارل کیٹرر نے جو سوئٹزر لینڈ میں ترکوں کی مجلس کے صدر ہیں اس امر کو سراہا کہ یہ تقریب رواداری کی آئینہ دار ہے.اور اس میں تمام مذاہب کے نمائندگان کو مدعو کیا گیا ہے.اس تقریب میں بلند پایہ مستشرق اور زیورک یونیورسٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈ وآسٹ شوائمز موجود تھے.ان کی رائے میں رواداری کا یہ نمونہ انسانی معاشرہ میں با ہم روز افزوں گہرے روابط اور تعلقات کی ایک خوشکن علامت ہے انہوں نے کہا کہ ہم سیاسی روحانی اور مذہبی قسم کے احساس برتری اور تفوق کے رحجانات سے دست بردار ہو جانے کی صورت میں ہی نوع انسانی کے اندر باہمی اعتماد کی فضا پیدا کر سکتے ہیں جس کے بغیر امن کا قیام ناممکن ہے.یونین بک سوئٹزر لینڈ کے ڈائریکٹر ارنسٹ جی رینک (ERNEST.G.RANK) نے حکومت ڈنمارک کے آنریری قونصل کی حیثیت سے حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمت میں اپنی حکومت کی طرف سے خوش آمدید کا پیغام پیش کیا.یادر ہے حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا ناصر احمد ۲۱ جولائی کو ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں جماعت احمدیہ کی چھٹی یورپی مسجد کا افتتاح فرمار ہے ہیں.20 90- ہالینڈ میں تشریف آوری اور حضور کی دینی مصروفیات مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل مبلغ ہالینڈ حضورانور کے اس دورے کی تفصیلات تحریر کرتے ہوئے

Page 113

تاریخ احمدیت.جلد 24 95 سال 1967ء فرماتے ہیں کہ مرکز سے جب یہ خبر موصول ہوئی کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث مسجد ڈنمارک کے افتتاح کے لئے بنفس نفیس تشریف لائیں گے اور اس موقع پر یورپ کی جماعتوں کا بھی دورہ فرمائیں گے تو جماعت میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.چنانچہ خاص سرکلر لیٹرز کے ذریعہ نزدیک و دور کے تمام افرادِ جماعت کو اس مبارک خبر سے آگاہ کر دیا گیا اور مسجد میں خاص اجلاس بلا کر ضروری تیاری شروع کر دی گئی.مشن ہاؤس کی عمارت کے اندر اور باہر وقار عمل کئے گئے اور ضروری صفائی وغیرہ کروائی گئی نیز باغ کی تزئین کے لئے پھولوں کے مزید پودے لگائے گئے.مسجد کے سامنے سڑک کے کنارے پر موٹریں پارک کرنے کے لئے حکام متعلقہ سے خاص اجازت حاصل کی گئی.چنانچہ اس محکمہ کی طرف سے مسجد کے سامنے روغن کے ساتھ ایک جگہ مخصوص کر دی گئی.مسجد کے باغ میں خیمہ جات لگانے کے لئے پولیس کے حکام سے ملاقات کر کے اجازت حاصل کی گئی اور دو خوشنما رنگین خیمہ جات نصب کئے گئے.پریس کی تیاری کے لئے مشن کی طرف سے حضور انور اور جماعت کے حالات پر مشتمل ایک مختصر سا پمفلٹ ترتیب دیا گیا.اور اسے پہلے صفحہ پر حضور کی تصویر کے ساتھ چھپوایا گیا.علاوہ ازیں ایک خوبصورت دعوت نامہ جو دو ورقہ تھا ڈچ اور انگریزی زبان میں تیار کیا گیا.حضور کی آمد کی خبر پریس میں ارسال کرتے ہوئے تیار شدہ پمفلٹ ساتھ بھجوایا گیا تا کہ انہیں حضور کے مقام اور آپ کے دورہ کی اہمیت کا صحیح طور پر علم ہو سکے.اس خط کا پریس میں پہنچنا تھا کہ اخبارات میں حضور کے ہالینڈ تشریف لانے کے پروگرام کی خبریں شائع ہو گئیں.ہالینڈ میں دنیا کے جدیدترین ایئر پورٹ پر حضور کا استقبال مورخہ ۴ جولائی ۶۷ ء بروز جمعتہ المبارک وہ مبارک گھڑی آن پہنچی جس کا جماعت کو کئی دنوں سے انتظار تھا.جملہ حاضر ممبران چھ عدد کاریں لے کر جلوس کی صورت میں ایمسٹر ڈیم ائیر پورٹ پر جا پہنچے.مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد ہالینڈ نے ہوائی مستنعقر والوں سے مل کر پہلے ہی حضور کے خاص استقبال کا انتظام کروا رکھا تھا.چنانچہ کمپنی کی طرف سے جماعت کو ہوائی جہاز کے قریب تک پہنچنے کی بھی اجازت مل گئی.ہوائی کمپنی کے نمائندے متعلقہ احباب جماعت کو ساتھ لے کر ایک بڑے آراستہ و پیراستہ کمرہ انتظار میں پہنچ گئے.چونکہ استقبال کے لئے لوگ زیادہ ہو گئے تھے اور ان

Page 114

تاریخ احمدیت.جلد 24 96 سال 1967ء سب کو ہوائی جہاز تک نہیں لے جایا جا سکتا تھا اس لئے یہاں پر دو حصے بنا دیئے گئے.ایک حصہ و ہیں محو انتظار رہا دوسرا حصہ ہوائی جہاز کی فرودگاہ کی طرف روانہ ہوا.مکرم مولوی عبد الحکیم اکمل صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ہالینڈ میں دنیا کے جدید ترین ایئر پورٹ کا حال ہی میں افتتاح ہوا تھا.ہر کام مشینوں سے انجام پاتا.سامان کو ادھر سے اُدھر لے جانے کے لئے خاص قسم کے پٹے چلتے اور کسی کو بوجھ اُٹھانا نہیں پڑتا.علاوہ ازیں لوگوں کو بھی وہاں پر چلنے کی زیادہ ضرورت نہیں پڑتی.لوگ چلتے ہوئے فرش پر کھڑے ہو جاتے اور ایک کنارے سے دوسرے کنارے پہنچ جاتے.متعلقہ احباب بھی کئی زینے اور گیلریاں عبور کرتے ہوئے ایک ایسے ہی چلتے ہوئے فرش کی طرف نکل آئے.کمپنی کے نمائندگان کی راہنمائی میں یہ گروپ بھی اس چلتے ہوئے فرش پر کھڑا ہو گیا اور چند لمحوں بعد ہی دوسرے کنارے پر تھا.سب لوگ نظریں اٹھا اٹھا کر حضور کو تلاش کر رہے تھے.ہوائی جہاز گیلری کے ساتھ لگ چکا تھا.آخر سامنے کی طرف سے حضور پر ٹو رکا چہرہ مبارک دکھائی دیا اور قافلہ کے افراد نمودار ہوئے.مکرم امام صاحب سب سے پہلے آگے بڑھے اور السلام علیکم کہا اور معانقہ اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.بعد ازاں دیگر افراد نے اهلا و سهلا و مرحبا کہتے ہوئے حضور کا استقبال کیا اور شرف معانقہ اور مصافحہ حاصل کیا.مستورات نے بڑھ کر محترمہ بیگم صاحبہ حضرت خلیفہ المسیح و محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی خدمت میں پھولوں کے گلدستے پیش کرتے ہوئے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا اور حضور انور کی خدمت میں السلام علیکم کہا.جماعت کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی.حضور کو گھیرے میں لئے سب اس طرح روانہ ہوئے جیسے چاند اپنے ہالے میں ہو.سب دوست فرحاں و شاداں کمرہ انتظار کی طرف بڑھے جہاں ایک دوسرا گروپ انتظار کی گھڑیاں گن رہا تھا اور بار بار سر اُٹھا اُٹھا کر حضور کی آمد کا منتظر تھا.جو نہی حضور اور افراد قافلہ وہاں پہنچے دوسرے گروپ نے بھی گرمجوشی سے استقبال کیا اور حضور سے معانقہ اور مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کیا.حضور نے چند منٹ تک انتظارگاہ میں قیام فرمایا اور اپنے خدام سے باتیں کرتے رہے اسی اثناء میں ایئر پورٹ پر پریس کے نمائندگان آپہنچے.اجازت حاصل کرنے کے بعد حضور کی تصاویر اتاریں.اور چند منٹ بعد ہی ریڈیو ہالینڈ پر حضور کی آمد کی خبر سارے ملک میں نشر ہو گئی.ایئر پورٹ سے فارغ ہونے پر سب لوگ کاروں کا قافلہ لے کر مسجد کی طرف رواں دواں

Page 115

تاریخ احمدیت.جلد 24 97 سال 1967ء ہوئے.وہ لوگ جو ایئر پورٹ پر نہ جا سکے تھے مسجد میں آپ کے منتظر تھے.حضور کے موٹر سے اتر نے پر یہ ہجوم بھی آپ کی طرف بڑھا اور السلام علیکم اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا اور اھلاً و سھلاً ومرحباً کہتے ہوئے حضور کا استقبال کیا.نماز جمعہ جمعہ کا وقت ہو رہا تھا.حضور نے کھانے سے پہلے جمعہ پڑھانا پسند فرمایا.چنانچہ ایک ڈچ احمدی بھائی Mr Omar Huybrechts نے پہلی اذان دی اور لوگ جمعہ کے لئے تیار ہو گئے.مسجد میں اس قدر بھیڑ ہوگئی کہ مزید ایک آدمی کے لئے بھی گنجائش نہ تھی.باقی افراد کے لئے مسجد سے ملحقہ ہال میں نماز کے لئے انتظام کیا گیا.حضور انور نے جمعہ پڑھایا.خطبہ جمعہ میں حضور انور نے آیات قرآنیہ اِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمُ فِي كِتَبٍ مَّكْنُونٍ لا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ تَنْزِيلٌ مِنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ (الواقعہ: ۷۸ تا ۸۱) کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت شریفہ میں کتاب الہی کی چار صفات بیان ہوئی ہیں.یعنی قرآن کریم تنزیل من رب العلمین.آپ نے ان چاروں صفات کی انگریزی زبان میں تشریح فرماتے ہوئے حاضرین کو ان سے مستفید ہونے کے طریق سے آگاہ فرمایا.چونکہ اسی روز پر یس کا نفرنس بھی تھی اس لئے نماز جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر جمع ہوئی اور نماز سے فراغت کے بعد حضور او پر گھر میں تشریف لے گئے اور کھانا تناول فرمایا.دیگر افراد قافلہ اور باہر سے آنے والے ممبران جماعت کے لئے کھانے کا انتظام بھی موجود تھا.چنانچہ سب احباب نے مل کر مسجد کے باغ میں کھانا کھایا.پریس کانفرنس ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء کو پریس کانفرنس کے لئے پونے پانچ بجے کا وقت دیا گیا تھا مگر لوگ وقت سے پہلے ہی جمع ہونا شروع ہو گئے.مشن ہاؤس کے بڑے ہال میں بیٹھنے کے لئے پہلے سے انتظام تھا.چنانچہ سب آنے والوں کو وہاں بٹھا دیا گیا.ریڈیو ہالینڈ کا نمائندہ بھی اپنے ٹیپ ریکارڈر وغیرہ کے ساتھ آپہنچا.اور بفضلہ تعالیٰ کا نفرنس شروع ہونے کے وقت تک ریڈیو ہالینڈ اور ہالینڈ پریس ایجنسیز کے نمائندگان کے علاوہ تیرہ دیگر اخبارات کے نمائندگان بھی جمع ہو گئے اور اس طرح حضور کی

Page 116

تاریخ احمدیت.جلد 24 98 سال 1967ء اس پر یس کا نفرنس میں پریس نے غیر معمولی دلچسپی لی.اتنے میں حضور بھی تشریف لے آئے اور ایک پُر وقار ماحول میں گفتگو شروع ہوئی.سب سے پہلے ریڈیو ہالینڈ کے نمائندہ نے آپ کا انٹرو یولیا اور اجازت لے کر چلا گیا اور حضور کا یہ انٹرویو اُسی روز ریڈیو پر نشر ہو گیا.پھر اخبارات کے نمائندگان سے گفتگو ہوتی رہی.ایک سوال کے جواب میں حضور نے نہایت پُر شوکت جذ بہ سے فرمایا کہ میں مغربی اقوام کو یہ پیغام دینے آیا ہوں کہ اگر انہوں نے اپنے خالق کو نہ پہچانا تو وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے.نیز آپ نے فرمایا کہ مغربی اقوام کا آئندہ مذہب یقینی طور پر اسلام ہی ہوگا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کا ذکر فرمایا جس میں حضور کو روس میں اسلام کے پھیلنے کی خبر دی گئی ہے اور جس میں ایک ایسی تباہی کا ذکر آتا ہے کہ جس میں انسان، حیوانات اور شجر و حجر تک کے وجود کا صفایا ہو جائے گا اور اس کے بعد اسلام پھیلے گا.حضور کی یہ پریس کانفرنس محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب رہی اور حضور کے فرمائے ہوئے خاص خاص فقرات نے عجیب تاثیر پیدا کی.اخبارات نے آپ کے فقرات کو شائع کر کے ملک کے دور ونزدیک اور ہر طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس طرح حضور کا یہ پیغام مغربی اقوام میں سے ڈچ افراد تک پہنچ گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملک کے اہم اخبارات نے حضور انور کی تصاویر کے ساتھ آپ کے پیغام کو شائع کیا.علاوہ ازیں بعض لوکل اخبارات نے بھی خبریں شائع کیں.استقبالیہ مؤرخہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۷ء کو ساڑھے چار بجے شام ہالینڈ مین کی طرف سے حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے اعزاز میں ایک عظیم الشان استقبالیہ دیا گیا.اس موقع پر ہالینڈ کے بعض چوٹی کے علماء اور دیگر اہم شخصیتوں کو حضور انور سے ملاقات کا موقع ملا.لوگ شوق ملاقات میں غیر متوقع طور پر بہت زیادہ آگئے لیکن جو بھی انتظام موجود تھا اس میں بفضلہ تعالیٰ کسی قسم کی کمی نہیں آئی.بلکہ اللہ تعالی نے سب چیزوں میں اپنے فضل سے برکت دے دی.اس وقت مختلف قومیتوں کے لوگ حاضر تھے.جیسے پاکستان، ہالینڈ ، جاپان ،ترکی ، انڈونیشیا، تنزانیہ، نائیجیریا، دیگر عرب و افریقن ممالک اور انگلستان اور امریکہ وغیرہ.بعض ممالک کے سفیر یا

Page 117

تاریخ احمدیت.جلد 24 99 سال 1967ء نمائندگان اور متعدد بڑے افسروں نے بھی شرکت کی.مشہور مستشرق پروفیسر ڈاکٹر G.F PIJPER بھی حضور سے ملاقات کے لئے تشریف لائے.علاوہ ازیں ایک کیتھولک پادری صاحب جن کا نام FATHER COULAY تھا وہ بھی مسجد آ کر حضور سے ملے.یہاں کی صوفی تحریک کے موجودہ لیڈر نے بھی حضور انور سے شرف ملاقات حاصل کیا اور کچھ دیر تک بیٹھے گفتگو کرتے رہے.ترکی کی حکومت کی طرف سے ترک مزدوروں کی دینی تربیت کے لئے جو امام صاحب ہالینڈ بھجوائے گئے تھے انہوں نے بھی اس موقعہ پر حضور انور سے ملاقات کی.انڈونیشیا کے ان مسلم گھرانوں کے لیڈر جو ہالینڈ میں آباد ہو چکے ہیں کافی مسافت طے کر کے حضور انور سے ملنے آئے.اسی طرح پولینڈ میں انڈونیشیا کے سفارتخانہ کے فرسٹ سیکرٹری مکرم بی پنو صاحب جو بفضلہ تعالیٰ احمدی ہیں مع بیگم صاحبہ وہاں سے حضور کی ملاقات کو ہالینڈ تشریف لائے اور اس موقعہ پر موجود تھے.اُنہی کے ذریعہ ریسیپشن کے موقعہ پر حضور کی ایک فلم بھی لی گئی.ہالینڈ کے آبی مسائل کے مشہور انجینئر پروفیسر ڈاکٹر J.P.THIJSSEN بھی حضرت صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دعوت کے موقعہ پر ہالینڈ کے بعض چیدہ حضرات کے لئے حضورانور سے ملاقات کا موقع پیدا ہوا.سورینام ( سابق ڈچ گی آنا) کے بھی بہت سے لوگ آکر حضور سے ملے اور اپنے ملک آنے کی دعوت دی.حضور انور ان سے کافی دیر تک گفتگو فرماتے رہے.مستورات کے لئے مسجد کے اوپر کے حصہ میں استقبالیہ کا انتظام تھا.چنانچہ حضرت بیگم صاحبہ حضرت خلیفة المسیح الثالث و محترمہ بیگم صاحبہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے اوپر کے حصہ میں مستورات کو Receive کیا اور اُن کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے محو گفتگو ر ہیں.یہاں کی مستورات پر آپ کی گفتگو کا نہایت اچھے رنگ میں اثر پڑا.حضور کے اعزاز میں دعوت طعام مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء کو بروز جمعہ ایک اسلامی ملک کے سفیر صاحب نے حضور انور اور افرادِ قافلہ ومبلغین کو کھانے پر مدعو کیا.حضور انور نے یہ دعوت قبول فرما کر ان کی عزت افزائی فرمائی اور وہ اس سعادت کے ملنے پر بے حد خوش تھے.مؤرخہ ۱۵ جولائی ۱۹۶۷ء کو ہفتہ کے دن جماعت کی طرف سے حضورانور کے اعزاز میں کھانے کا

Page 118

تاریخ احمدیت.جلد 24 100 سال 1967ء انتظام کیا گیا.چنانچہ محمد سلیم ربانی صاحب جو ہالینڈ میں حکومت کو یت کے نمائندہ ہیں ، نے جماعت کی طرف سے اپنے مکان پر کھانے کا انتظام فرمایا.چنانچہ حضور مع افراد قافلہ وممبران جماعت کھانے پر تشریف لے گئے.کھانے کے بعد کافی دیر تک حضور اپنے خدام سے محو گفتگو ر ہے.اس موقعہ پر مکان کے صحن میں ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا.اور اس طرح ہفتہ کا دن اختتام پذیر ہوا.حضور انور کی ہالینڈ سے روانگی مؤرخہ ۱۶ جولائی ۱۹۶۷ء بروز اتوار حضور انور کی واپسی کا دن تھا.ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد صبح دس بجے کے قریب حضور انور نے واپسی کے لئے روانگی کا حکم فرمایا.چنانچہ چھ عدد گاڑیوں میں حضور کا قافلہ ہوائی مستقر کی طرف روانہ ہوا.چلنے سے قبل حضور انور نے مسجد کے سامنے سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر اجتماعی دعا کروائی اور اس طرح حضور مسجد سے ایئر پورٹ کے لئے رخصت ہوئے.جولوگ ایئر پورٹ پر نہیں جا رہے تھے انہوں نے بھاری دل کے ساتھ آپ کو وہیں پر الوداع کہا اور خیر و عافیت سے منزل مقصود پر پہنچنے کے لئے دعائیں کرتے رہے.حضور کا قافلہ خیر و عافیت سے ایئر پورٹ پہنچ گیا.K.L.M ہوائی کمپنی والوں کے ذریعہ خاص انتظام پہلے سے موجود تھا.چنانچہ ان کے نمائندوں کی معیت میں سب لوگوں کو ایک کمرہ انتظار میں بٹھایا.حضور اپنے خدام سے گفتگو فرماتے رہے اور گیارہ بج کر پچاس منٹ پر حضور جرمنی جانے کے لئے طیارہ کی طرف تشریف لے گئے.ایک مختصر سے گروپ کو حضور کے ساتھ طیارہ کے قریب تک جانے کی اجازت ملی.چنانچہ باقی لوگوں نے اسی جگہ حضور سے آخری مصافحہ کرتے ہوئے دلی دعاؤں کے ساتھ الوداع کہا.ان لوگوں کو جو حضور کے ساتھ گئے تھے طیارہ کے قریب پہنچ کر معانقہ و مصافحہ کا موقع ملا اور انہوں نے فی امان الله وفی حفاظۃ اللہ کہتے ہوئے آپ کو اور دیگر افراد قافلہ کو رخصت کیا.دورہ ہالینڈ اور اخبارات کے تاثرات 91 حضرت خلیفہ امسح الثالث ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء کو ہیگ (ہالینڈ) میں رونق افروز ہوئے جہاں حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.بعد ازاں پریس کانفرس سے خطاب فرمایا جس میں اخباری نمائندے بہت کثیر تعداد میں شامل ہوئے.نیز ریڈیو سے حضور کا انٹرویو نشر ہوا.

Page 119

تاریخ احمدیت.جلد 24 101 سال 1967ء اسی طرح جرمن اور سوئس پریس کی طرح ڈچ اخبارات میں بھی حضور کی آمد اور حضور کے نظریات وافکار کا وسیع پیمانے پر پراپیگنڈہ ہوا.اور نہایت عمدہ جذبات و تاثرات کا اظہار ہوا.حضور اقدس کی ہالینڈ میں آمد کی خبر کو حضور کی تشریف آوری سے پہلے ہی ملکی پریس نے بڑی اہمیت اور دلچسپی کے ساتھ اپنے کالموں میں جگہ دی.چنانچہ ایمسٹر ڈیم کا ایک مقبول اور کثیر الاشاعت روز نامه HET PAROOL اپنی ۳ جولائی کی اشاعت میں مسلم لیڈر کی ہیگ میں آمد کے جلی عنوان کے تحت رقمطراز ہے:.”جماعت احمدیہ جس کا مرکز پاکستان میں ہے کے امام مرزا نا صراحد صاحب خلیفہ المسح الثالث مؤرخہ ۱۴ جولائی کو مسجد مبارک ہیگ میں تشریف لا رہے ہیں تا وہ افراد جماعت (احمدیہ ) اور دیگر اسلام سے ہمدردی رکھنے والے احباب سے مل سکیں..پھر اخبار مذکورلکھتا ہے:.’ جماعت احمدیہ ۱۸۸۹ء سے قائم ہے اور سارے عالم اسلام میں ایک ہی ایسی منظم جماعت ہے جو تبلیغ اسلام کی مہم کو چلا رہی ہے.“ کم و بیش ایسے ہی مضمون کی خبر اہتمام سے ملک کے بعض اور لیڈنگ روز ناموں میں بھی شائع ہوئی جن میں سے مندرجہ ذیل روزنامے قابلِ ذکر ہیں:.HET VADERLAND یہ ہیگ کا روز نامہ تعلیم یافتہ طبقہ کا مقبول ترین اخبار ہے.اس کا ایک حصہ انگریزی میں بھی ہوتا ہے.چنانچہ انگریزی کے حصہ میں بھی یہ خبر شائع ہوئی.HAAGSCHE COURANT یہ اخبار ہیگ کا سب سے کثیر الاشاعت اخبار ہے اور ہر طبقہ میں پڑھا جاتا ہے.NIEUWE HAAGSCHE COURANT یہ بھی ہیگ کا روز نامہ ہے اور کیتھولک طبقہ میں بہت مقبول ہے.ALGEMEEN ALGEMEEN HANDELSBLAD☆ DAGBLAD میں بھی حضور کی آمد کی خبر اہتمام سے شائع ہوئی.یہ دونوں اخبارایمسٹر ڈیم کے ہیں.دوسرا اخبار ہالینڈ کے تجارتی حلقہ میں خاصہ مقبول ہے.

Page 120

تاریخ احمدیت.جلد 24 102 سال 1967ء حضور کی ہالینڈ میں آمد پر اخبارات میں جو تاثرات اور مضامین شائع ہوئے وہ مختصر ادرج ذیل کئے جاتے ہیں :.ایمسٹر ڈیم کا ایک کثیر الاشاعت اور بہت اثر رکھنے والا اخبار ALGEMEEN HANDELSBLAD اپنی ۱۵ جولائی کی اشاعت میں یہ عنوان قائم کرتا ہے کہ خلیفة المسیح الثالث" مسجد ہیگ میں ایک پرکشش شخصیت ان عناوین کے تحت اخبار مذکورلکھتا ہے:.کل دو پہر مسجد بیگ میں امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے اعزاز میں ایک عظیم الشان ریسیپشن دی گئی.ہالینڈ میں آپ کی یہ آمد عین اس وقت ہوئی جبکہ اس مشن کو قائم ہوئے ۲۰ سال ہو رہے ہیں.جیسا کہ ۱۹۵۵ء میں آپ سے پہلے امام جماعت مسجد ہیگ کی تعمیر کے وقت یہاں تشریف لائے تھے.آپ ۲۱ جولائی کو یورپ کی چھٹی مسجد کے افتتاح کے لئے کوپن ہیگن تشریف لے جارہے ہیں.آپ کی بڑی سفید پگڑی اور بزرگانہ سفید داڑھی سے جو آپ کے چہرہ کو مزین کئے ہوئے ہے آپ کی شخصیت خوب نمایاں ہوتی ہے.آپ کی آنکھوں میں بچہ کی سی معصومیت کی جھلک ہے.آپ اسلام کو صلح اور آشتی کا مذہب سمجھتے ہیں.آپ کا ایمان ہے کہ احمد بیت اس زمانہ کے لئے خدا تعالیٰ کا پیغام ہے.آپ کے نزدیک مغربی ممالک کو دو میں سے ایک بات ضرور اختیار کرنا ہوگی.یا تو وہ اسلام قبول کر لیں اور یا مٹ کر خاک ہونے کے لئے تیار ہو جائیں.“ اخبار مذکور نے اپنے اس بیان کو حضور اقدس کے ایک بڑے فوٹو کے ساتھ مزین کیا ہے جو ایک اخبار بین کی نظر کو خاص طور پر اپنی طرف جذب کر لیتا ہے.اسی طرح ایمسٹرڈیم کا ایک مشہور اخبار HET VRIJE VOLK اپنی ۱۵ جولائی کی اشاعت میں حضور اقدس کا ایک بڑا فوٹو دے کر اس کے نیچے لکھتا ہے:.اس ہفتہ ایک قابل احترام اور ایک مثالی روحانی شخصیت ہیگ شہر کا مہمان ہوئی کل دو پہر مسجد مبارک ہیگ میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثالث وارد ہوئے جو کہ جماعتِ 66 احمد یہ اسلامیہ کے امام ہیں.“

Page 121

تاریخ احمدیت.جلد 24 103 سال 1967ء پھر اخبار مذکورلکھتا ہے:.وو سارے عالم اسلام میں جماعت احمدیہ ہی ایک ایسی تنظیم ہے جو تبشیر اسلام کے کام کو منتظم رنگ میں چلا رہی ہے اور جس کے افراد اور تبشیری مراکز ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، مسجد مبارک ہیگ ، ان پانچ مساجد میں سے ایک ہے جو براعظم یورپ میں تعمیر ہو چکی ہیں.“ ہیگ کا ایک اہم روزنامه HET VADERLAND جو تعلیم یافتہ طبقہ میں بہت مقبول ہے اور بڑی دلچسپی کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اپنی ۱۵ جولائی کی اشاعت میں زیر عنوان ہیگ میں مسلم لیڈر رقمطراز ہے:.امام جماعت احمد یہ...حضرت مرزا ناصراحمد صاحب خلیفہ المسح الثالث ( مرکز پاکستان ) جو ۷ ۵ سال کے ہیں زیورک سے بذریعہ ہوائی جہاز ایمسٹر ڈیم کے ہوائی اڈہ پر تشریف لائے ہیں.آپ بانی سلسلہ احمدیہ کے پوتے ہیں.آپ کو تھوڑا عرصہ ہوا جماعت کا تیسرا خلیفہ منتخب کیا گیا.امام صاحب مسجد ہیگ نے جماعت کے افراد نیز اسلام سے ہمدردی رکھنے والے احباب کے ہمراہ ہوائی اڈہ پر پہنچ کر آپ کو خوش آمدید کہا.آپ ہالینڈ میں صرف چند روز قیام فرمائیں گے اور اگلے ہفتہ جمعہ کے روز کوپن ہیگن میں ایک نئی اور اس ملک میں بننے والی پہلی مسجد کا افتتاح فرما دیں گے.آپ نے کل ( پریس کانفرنس کے دوران ) فرمایا کہ پیشگوئیوں کی روشنی میں یہ امر واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مستقبل میں اسلام مغربی ممالک میں پھیل کر رہے گا.نیز فرمایا کہ پیشگوئیوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مغربی ممالک پر پہلے ایک تباہی آئے گی اور اس کے بعد یہاں اسلام کو مضبوطی حاصل ہوگی.گو اس وقت کوئی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ ایسا ہوگا.مگر یہ بات یقینی ہے کہ ایسا ضرور ہوگا.یہ ایک پیشگوئی ہے جو پوری ہو کر رہے گی.اس ضمن میں آپ نے ملک روس کا خاص طور پر نام لیا.(ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ احمدیت کا سب سے اہم پیغام یہ ہے کہ لوگ اپنے خالق سے زندہ تعلق پیدا کریں کیونکہ اس کے بغیر زندگی بالکل بے شمر ہے.اس تعلق کے بغیر ایک انسان کی زندگی ایسی ہے جیسے ایک حیوان یا ایک کیڑے کی زندگی.جس کی کوئی خاص حقیقت ہی نہیں.“ ہیگ کا سب سے کثیر الاشاعت اور آزاد خیال اخبار HAAGSCHE COURANT اپنی ۱۵ جولائی کی اشاعت میں حضور اقدس کا ایک نہایت دل نواز فوٹو دیکر لکھتا ہے:

Page 122

تاریخ احمدیت.جلد 24 104 سال 1967ء حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثالث جن کی عمر ۵۷ سال ہے اور ایک صاحب ریش بزرگ ہیں اور اس شخص کے پوتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام بتایا تھا کہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا ، ہمارے ملک میں وارد ہوئے ہیں.آپ نے کل ایک پریس کانفرنس میں زور دار الفاظ میں فرمایا کہ میرا ایمان ہے کہ اسلام ہی مغربی ممالک کے لئے مستقبل کا مذہب ہوگا.اگر اہلِ مغرب نے اپنے خالق حقیقی کونہ پہچانا تو وہ تباہ ہو جائیں گے.“ دو پھر اسی تسلسل میں آپ نے فرمایا :.اگر کسی کو اسلام کے پھیلنے کے ضمن میں یہ فکر ہے کہ اس غرض کے لئے گولیاں چلیں گی اور تلوار استعمال ہوگی تو وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے.یہ سب ہتھیار اور ایٹم بم وغیرہ کسی شخص کے خیالات کو بدلنے کے لئے بالکل بے کار ہیں.اگر ایک شخص میں کوئی حقیقی تبدیلی آسکتی ہے تو وہ صرف دل کی تبدیلی ہی سے پیدا ہوسکتی ہے.“ مندرجہ ذیل اقتباس ہیگ کے تعلیم یافتہ طبقہ کے مقبول اخبار HET VADERLAND سے ماخوذ ہے.یہ اخبار اپنی ۱۷ جولائی کی اشاعت میں ایک اہم جگہ پر استقبالیہ تقریب کا ایک فوٹو دیتے ہوئے لکھتا ہے:.ہیگ شہر نے اس ہفتہ اپنی چار دیواری میں ایک مسلم لیڈر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث کو جگہ دی.ہفتہ کے روز اُن کے اعزاز میں مبارک مسجد ہیگ میں جو OOSTDUINLAAN پر واقع ہے ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں بہت سی مزید باتوں کے علاوہ یہ امر بھی خاص طور پر آپ نے بیان فرمایا کہ رہے.دُنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہی ہوگا“ اس دعوت کے دوران آپ ہمارے مشہور انجینئر پروفیسر J.P.THIJSSEN سے محو گفتگو 93 حضور انور کی ہمبرگ میں تشریف آوری ہالینڈ کے دورے کے بعد حضور انور ۱۶ جولائی کو ہمبرگ جرمنی تشریف لے گئے.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب شمس مبلغ مغربی جرمنی حضور انور کے اس دورہ ہمبرگ کی بابت تحریر کرتے ہیں کہ حضور کی آمد کی اطلاع ملتے ہی تیاری شروع کر دی گئی.ایک طرف مسجد سے بدستور اس سلسلہ میں خط وکتابت

Page 123

تاریخ احمدیت.جلد 24 105 سال 1967ء کے ذریعہ جملہ انتظامات کی تفاصیل طے پائیں تو دوسری طرف مقامی طور پر ہمبرگ پراونشل گورنمنٹ، مقامی اخبارات سے پریس کانفرنس منعقد کرنے ، ایئر پورٹ اتھارٹی ، پاکستان کونسل اور جماعتی طور پر حضور کی دعوت استقبالیہ کے انتظامات کے سلسلہ میں رابطہ پیدا کیا گیا.تمام ضروری امور کوقبل از آمد حضور مکمل کر لیا گیا.حضور کی آمد سے قبل دو مقامی اخباروں نے اپنے مختلف پر چوں میں خبر شائع کی.تا لوگ آمد سے قبل ہی معز زمہمان کو خوش آمدید کہنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں.ان خبروں کا خلاصہ یہ تھا کہ احمدیہ مسلم جماعت کے لیڈر خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد جس کا مرکز ربوہ مغربی پاکستان ہے یورپ کے مشنوں کا دورہ کرتے ہوئے ۱۶ جولائی کو ہمبرگ پہنچیں گے.امام عبداللطیف پونے دو بجے اُن کا ائیر پورٹ پر استقبال کریں گے.ساڑھے چار بجے اُن کے اعزاز میں جماعت کی طرف سے مسجد فضل میں دعوتِ استقبالیہ دی جائے گی.۷ اجولائی کو پراونشل گورنمنٹ کی طرف سے Rathaus میں پونے گیارہ بجے اُن کے اعزاز میں Reception دی جائے گی اور ۲۱ جولائی کو وہ کوپن ہیگن مسجد کا افتتاح کریں گے.چنانچہ ۱۶ جولائی کی دو پہر کو پونے ایک بجے احباب جماعت جن میں جرمن اور پاکستانی بھی شامل تھے اپنے محبوب امام کا استقبال کرنے کی غرض سے ائیر پورٹ پر پہنچ گئے.ہر ایک امام وقت کی صحت و سلامتی کے ساتھ آمد کے لئے اپنے مولا عز وجل سے دُعائیں مانگ رہا تھا.آخر وہ گھڑی آن پہنچی جس کا شدت سے انتظار تھا.جو نہی پیارے امام کا مبارک چہرہ جہاز سے باہر دکھائی دیا فضا نعرہ تکبیر، اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.یہ چیز مغربی دنیا کے لئے ایک نرالی حیثیت کی تھی.سبھی لوگوں نے تعجب اور شوق کے ملے جلے جذبات سے اس نظارہ کو دیکھا.ائیر پورٹ اتھارٹی نے نہایت ہی تعاون کا ثبوت دیا اور کاروں کو جہاز کے قریب چلے آنے کی اجازت دے دی.مصافحہ اور معانقہ کے بعد نز دیک کھڑی کا روں میں یہ قافلہ معہ احباب جماعت اڑھائی بجے بعد دو پہر مشن ہاؤس میں بخیر و عافیت پہنچ گیا.استقبالیہ تقریب اسی دن ہمبرگ میں بہت وسیع پیمانے پر ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا اس دعوتِ استقبالیہ میں علاوہ ممبران جماعت کے چند چیدہ احباب مثلاً Dr Sieg ڈائریکٹر کارپوریشن نمائندہ

Page 124

تاریخ احمدیت.جلد 24 106 سال 1967ء ، سنٹرل گورنمنٹ Mr Franz نمائندہ لوکل کارپوریشن Mr Binder پاکستان کونسل جنرل ، Mr Brachwoldt سیرالیون کونسل Miss Kerrutt سیکرٹری سیرالیون کونسل، مسٹر حسینی البانیہ کا Industrialist مسٹر حسن ولا ڈی ایرانی (انہوں نے اس موقعہ پر مفت عاریتاً قالین حسب ضرورت فراہم کئے ) ، ڈاکٹر میڈیسین دھون (جنہوں نے حضرت مصلح الموعود کے علاج کے سلسلہ میں ۱۹۵۵ء میں خدمت کی ) مسٹر عبدالحمید Dunker (جرمن احمدی ) باوجود معذور ہونے کے حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ، مسٹر خلیل Stommel (جرمن احمدی) قریباً ۳۰۰ میل سے زیارت کے لئے حاضر ہوئے ، مسٹر سعید Kratzchmar ( جرمن احمدی) قریباً ۴۰۰ میل سے زیارت کے لئے حاضر ہوئے ، بھی شریک ہوئے.۵ بجے شام پروگرام کے لئے جو نہی حضور انور اندرونِ خانہ سے باہر تشریف لائے ٹیلی ویژن کی ٹیم اور فوٹو گرافروں نے آپ کو اپنے ہالے میں لے لیا.حضور کرسی صدارت پر رونق افروز ہوئے اور پروگرام تلاوتِ قرآن مجید سے شروع ہوا جو بشیر احمد شمس صاحب نے کی.بعد ازاں تلاوت شدہ آیات کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی انہوں نے ہی پڑھ کر سنایا.مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب نے آمدہ مہمانوں کا آپس میں تعارف کرایا.اس موقعہ پر مرکزی گورنمنٹ اور پاکستان کونسل کے نمائندگان بھی موجود تھے جنہوں نے باری باری حضور کو خوش آمدید کہا.اس کے بعد جماعت ہمبرگ کی طرف سے عبدالغفور Grapenthein جرمن احمدی مسلم نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں حضور کی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کیا گیا.نیز خلافتِ احمدیہ سے دلی وابستگی کا اظہار کرتے ہوئے حضور انور کو اپنی کامل وفاداری اور تعاون کا بھی یقین دلایا.حضورانور کا خطاب اس کے بعد حضور نے جملہ حاضرین سے خطاب فرمایا.حضور انور نے تشہد کے بعد اپنے خطاب میں فرمایا.مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو جرمن زبان میں ایڈریس نہیں کر سکتا.جرمنی میں میں نے کئی مہینے گزارے ہیں لیکن اسے ایک لمبا عرصہ ہو چکا ہے.۱۹۳۴ء اور ۱۹۳۸ء کے درمیان میں یہاں آتا رہا ہوں اور کچھ جرمن زبان بھی میں نے سیکھی

Page 125

تاریخ احمدیت.جلد 24 107 سال 1967ء تھی.اب میں جرمنی آیا تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں گویا اپنے ہی ایک ملک سے اُڑ کر دوسرے اپنے ملک میں آ گیا ہوں.اور میں آپ سب کا جنہوں نے میرے لئے بہت سے الفاظ پیار، محبت اور احترام کے استعمال کئے ہیں، شکریہ ادا کرتا ہوں.صرف اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ اس جرمن گورنمنٹ کا خاص طور پر جن کے نمائندے یہاں بیٹھے ہیں.میں ایک پیغام آپ کے کانوں تک پہنچانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے.اسلام کے معنی ہی امن کے ہیں اور مسلمان وہ ہے جو کسی کو بھی دُکھ نہیں پہنچا تا.ہر ایک کو سکھ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے اور ہر ایک کا دُکھ دور کرتا ہے.اس لئے میرے دل میں آپ سب کی بڑی خیر خواہی ہے اور میں ہمیشہ دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اِس قوم کو اور دوسری قوموں کو بھی اِس ایٹمی تباہی سے جوسروں پر منڈلا رہی ہے محفوظ رکھے.اس تباہی سے بچنے کا ایک نسخہ میں آپ کو بتا سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایک زندہ تعلق پیدا کریں.کیونکہ اس وقت خدا غضب میں ہے اگر آپ اُسے راضی نہ کریں گے (تو) تباہ ہو جا ئیں گے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج امام صاحب ( چوہدری عبد اللطیف صاحب) کی لڑکی کی شادی ہے اس موقعہ پر میں امام صاحب اور آپ کو اس کی مبارک باد دیتا ہوں.اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے عورت کے حقوق کی اتنی حفاظت کی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.چودہ سو سال میں عورت نے ہر ایک قسم کی قربانی دے کر جو حقوق حاصل کئے ہیں اسلام نے پہلے سے یہ دے دیئے ہیں.اس سے بھی کہیں زیادہ.اس لئے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر ایک کو تم میں سے عورت کے حقوق کے متعلق معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور عورتوں کو بھی چاہئیے کہ مردوں کو مجبور کریں کہ وہ اُنہیں اُن کے حقوق کے متعلق معلومات بہم پہنچائیں تا عورت وہ تمام حقوق حاصل کر سکے جو اس کا پیدائشی حق ہے اور جو ایک مرد بعض دفعہ اسے دیتا نہیں.آخر میں آپ سب کا دوبارہ شکریہ.جماعت کا بھی اور باہر سے آنے والوں کا بھی.اور میری یہ دُعا ہے کہ آپ سب کو اللہ تعالیٰ اپنی شناخت کی توفیق بخشے.(آمین)

Page 126

تاریخ احمدیت.جلد 24 108 سال 1967ء اس کے بعد قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک حضور نے تمام احباب کو مصافحہ اور گفتگو کا انفرادی طور پر موقعہ دیا.اُن کے حالات سنے اور انہیں مفید مشورے بھی دیئے.ایک تقریب رخصتانہ استقبالیہ دعوت کے اختتام پر مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب کی صاحبزادی امتہ المجید صاحبہ کے رخصتانہ کا بھی پروگرام تھا.ان کا نکاح مکرم محمد نذیر احمد صاحب ہیڈ ماسٹر احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن سیرالیون کے ساتھ گزشتہ سال ربوہ میں پڑھا گیا تھا.ہر قسم کی مصروفیات سے فارغ ہو کر حضور انور اور حضرت بیگم صاحبہ نے چوہدری صاحب کی بیٹی کو اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.پراونشل گورنمنٹ کی طرف سے استقبالیہ ۱۷ جولائی کو پونے گیارہ بجے پراونشل گورنمنٹ کی طرف سے Rathaus میں گورنمنٹ ایڈوائز رمسٹر Birckholtz نے حضور انور کے اعزاز میں ریسیپشن دی جس میں حضور کے علاوہ مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ، مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب،مسٹر عبدالکریم ڈنگر ( جر من احمدی) اور خاکسار نے شرکت کی.آدھ گھنٹہ تک حضور مختلف امور پر گورنمنٹ کے نمائندہ سے گفتگو فرماتے رہے.ایک دعوت ولیمہ میں شرکت ۱۷ جولائی کی دو پہر کومحمد نذیراحمد صاحب نے دعوت ولیمہ کا اہتمام کیا جس میں حضور نے مع دیگر افراد کے شرکت فرمائی.پریس کانفرنس ۱۷ جولائی کو چار بجے شام ہمبرگ کے Atlantic ہوٹل میں حضور نے ایک زبر دست کا نفرنس منعقد کی جس میں پینتیس (۳۵) کے قریب مختلف اخبارات اور نیوز ایجنسیز کے اہم نمائندگان نے شرکت کی جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں :.۱.جرمن نیوز ایجنسی کے دو نمائندے Conti Press United Press-

Page 127

تاریخ احمدیت.جلد 24 109 سال 1967ء ۴.ریڈیو ام شاؤام اینڈ کے تین نمائندے ۵.سیکنڈری سٹینڈرڈ ایجوکیشن پروگرام کا ایک نمائندہ -Die Welt جرمنی کے ایک اہم ترین اخبار کا نمائندہ -Bild Zietung کا نمائندہ ۸.کیتھولک نیوز ایجنسی.۹.پروٹسٹنٹ نیوز ایجنسی.تین فوٹوگرافر ۱۰.دو نمائندے مختلف جرمن اخبارات ا.مارگن پوسٹ -۱۲.ہمبرگرا بنڈ بلٹ (HAMBURGER ABENDBLATT) ۱۳.یونائیٹڈ پریس ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ کانفرنس جاری رہی.حضور نے اس کانفرنس میں باقاعدہ اخباری بیان جاری کرنے کی بجائے سوال و جواب کے طریق کو ترجیح دی.چنانچہ رپورٹرز نے جو سوالات کئے.حضور نے نہایت اطمینان اور تفصیل کے ساتھ اُن کے جوابات دیئے.ایک سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ بچے مذہب کی نشانی یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو.جس مذہب کا تعلق خدا سے نہیں.وہ حقیقی مذہب نہیں ہوسکتا.کیونکہ مذہب کی غرض ہی یہ ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرے.ہمارا یہ دعوی ہے کہ اس وقت یہ نشانی صرف اسلام میں پائی جاتی ہے.اور صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے کہ جو انسان کو خدا سے ملا دیتا ہے.اس کے ثبوت کے لئے حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بنیادی چیلنج جو حضور نے قبولیت دعا کا دنیا کو دیا ہوا ہے.ان نمائندگان کے سامنے پیش فرمایا کہ مختلف مذاہب کے ماننے والے چند مریض منتخب کریں.ان میں سے ہر مذہب کے نمائندے کو چند مریض بانٹ دیئے جائیں.اور ہر ماننے والا صرف اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر کے اپنے حصہ کے مریضوں کی صحت کا طالب ہو.میرا یہ دعوی ہے کہ میرے حصہ میں جو مریض آئیں گے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ صحت یاب ہو جائیں گے.آپ نے مزید فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ نشانیوں اور حضرت مسیح موعود

Page 128

تاریخ احمدیت.جلد 24 110 سال 1967ء علیہ السلام کے اقوال سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ میں (۳۰) سال کے بعد دنیا میں ایک زبر دست تباہی آنے والی ہے.اور اس تباہی میں صرف وہی لوگ محفوظ رہ سکیں گے.جن کا اپنے خالق سے صحیح تعلق ہوگا.اور اس تباہی کے بعد کیا روس اور کیا امریکہ بلکہ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے گا.یہ پریس کانفرنس اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب رہی.اس پر حضور انور نے کئی بار خوشنودی کا اظہار بھی فرمایا.جماعت ہمبرگ کی طرف سے دعوت 94 ۱۷ جولائی کی شام کو مقامی جماعت نے حضور انور کے اعزاز میں کھانے کی دعوت دی جس میں حضور انور نے مع قافلہ شرکت فرمائی.اس موقعہ پر جماعت کی طرف سے حضور کی خدمت میں ایک ٹائم ہیں بھی تحفہ پیش کیا گیا جسے حضور نے از راہ نوازش قبول فرمایا.ہمبرگ کی ایک دلکش شام سترہ جولائی ۱۹۶۷ء کو نماز عشاء کے بعد حضور انور نے مسجد میں فرداً فرداً احباب سے ملاقات فرمائی.ایک جرمن دوست جو بھی جماعت میں شامل نہیں ہوئے حضور سے ملے ان کی تاریخ پیدائش سولہ نومبر اور حضور کی بھی یہی تاریخ پیدائش تھی.جب اس جرمن دوست کو اس بات کا پتہ چلا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی.اگر چہ عمر میں تفاوت ہے.وہ جرمن دوست ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے تھے اور حضور ۱۹۰۹ء میں لیکن اس کے باوجود چونکہ مہینہ اور تاریخ ایک ہی ہے اس لئے وہ جرمن دوست بہت خوش ہوئے.حضور نے تذکرہ میں سے ۱۸۸۶ء کا ایک الہام جرمن زبان میں ترجمہ کر کے انہیں لکھ کر بطور تحفہ عطا کیا.وہ الہام یہ ہے:.خدا تجھے نہیں بھولے گا اور فراموش نہیں کرے گا“ اس پر دوسرے دوستوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ انہیں بھی سال پیدائش یا اگر ممکن ہو تو یوم پیدائش یا پیدائش کے مہینہ کے کسی الہام کا ترجمہ کر کے دیا جائے چنانچہ حضور نے متعدد دوستوں کی اس خواہش کو پورا کیا.مختلف دوستوں کے لئے جو الہامات نکال کر دیئے گئے وہ یہ تھے:.عبدالکریم ڈنکر : وَاللَّهُ وَلِيُّكَ وَ رَبُّكَ

Page 129

تاریخ احمدیت.جلد 24 111 سال 1967ء ٹی ڈے مان: - سَلامٌ قولاً مِّن رَّبِّ رَحِيم سعید کرسٹشمیر :.خدا نکلنے کو ہے یعنی خدا ان پانچ زلزلوں کو لانے سے اپنا چہرہ ظاہر کرے گا اور اپنے وجود کو دکھلا دے گا.عبدالغفور گر پین تھین : - لَا تَخَفْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.خلیل سٹول: إِنَّ اللَّهَ يَحْمِلُ كُلَّ حِمْلٍ ن صاحب کو حضور انور نے اپنے دستخط فرما کر اپنی ایک تصویر بھی عنایت کی.ناصرہ گر پین تھین :.زندگی بآرام ہو جانا پہلی زندگی سے.اس موقعہ پر حضور انور نے الیس الله بکاف عبدہ والی اصل انگوٹھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بنوائی تھی وہ بھی دکھائی اور حضور نے دوستوں کو ارشاد فرمایا کہ اس انگوٹھی کو بوسہ دیں.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ انگوٹھی جو ایک کپڑے میں بندھی رہتی ہے اور اس کپڑے کے ساتھ ہی حضور انگشت مبارک میں پہنتے تھے جب اُتاری گئی اور اس کا کپڑا الگ کیا گیا تو ایک جرمن دوست نے نہایت محبت اور اخلاص سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ یہ کپڑا انہیں مل جائے تو وہ بہت ممنون ہوں گے.چنانچہ حضور نے انگوٹھی پر بندھا ہوا کپڑا ان صاحب کو دے دیا.یہ شام اتنی دلکش اور حسین تھی کہ ہمبرگ کی فضا معلوم نہیں کب پھر ایسی شام پیش کر سکے گی اور جو لوگ اس مجلس میں موجود تھے وہ تو عمر بھر اس کے حسن سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے اور اپنی روحانی پیاس بجھانے کی کو شش کرتے رہیں گے.کوشش حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے دوگر انقدر مکتوب پیارے امام حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ہمبرگ سے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور جناب میر داؤ د احمد صاحب قائم مقام وکیل اعلیٰ کے نام اہم مکتوب ارسال فرمائے.جن میں یورپ میں اسلام کی وسیع پیمانے پر اشاعت اور غیر معمولی الہی تائید ونصرت کا تذکرہ بڑے وجد آفریں انداز میں فرمایا.ان مکتوبات کے اقتباسات درج ذیل کئے جاتے ہیں :.حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے نام مکتوب کا اقتباس ”یہاں بے حد مصروفیت رہتی ہے.الحمد للہ احمد للہ ثم الحمدللہ کہ اس نے اپنی

Page 130

تاریخ احمدیت.جلد 24 112 سال 1967ء بے پایاں رحمت اور محبت سے بڑی کامیابی کے سامان پیدا کر دئیے.صرف ہمبرگ کے علاقہ میں ٹیلی ویژن پر انداز اساٹھ ستر لاکھ دیکھنے والے احمدیت سے متعارف ہوئے.اس کے علاوہ سوئٹزر لینڈ میں وہاں کے ٹیلی ویژن پر لاکھوں آدمی احمدیت سے متعارف ہوئے.ہمبرگ کے صوبہ میں صرف چار روزانہ اخبار ہیں تین صبح شائع ہوتے ہیں ایک شام.ہر چار اخباروں نے توجہ کھینچنے والی بڑی تصاویر شائع کر کے خبریں شائع کیں.جن میں یہ خبر بھی تھی کہ اگر وہ اپنے زندہ خدا سے زندہ تعلق قائم نہ کریں گے تو تباہ ہو جائیں گے.نتیجہ یہ ہوا کہ اگلے روز بازار میں جاتے تو سارا بازار کام چھوڑ چھاڑ کر ہماری طرف متوجہ ہو جاتا...پر یس کا نفرنس ہر مقام پر کامیاب رہی.ہالینڈ والے ڈرتے تھے کہ کہیں اسرائیل کے متعلق سوال ایسے رنگ میں نہ کئے جائیں جن سے نقصان ہو کیونکہ اسلام دشمنی زوروں پر ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا رعب ڈالا کہ وہ اس قسم کے سوال کی جرات ہی نہ کرسکیں.ہمبرگ میں پریس کانفرنس تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کی تھی.ہر قسم کے دلچسپ سوالات کئے گئے اور تسلی بخش جواب اللہ تعالیٰ نے دلوائے.پیشگوئیوں کا سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے آسان نہیں.ایک اخبار نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے.اس قدر دلچسپی لی کہ دیکھنے والے حیران تھے اور خدا کا ایک بندہ اپنے رب کی حمد سے معمور.فالحمد للہ 96 سید میر داؤ د احمد صاحب کے نام مکتوب کا اقتباس صرف ہمبرگ کے علاقہ میں تقریباً ساٹھ ستر لاکھ آدمی نے ٹیلی ویژن پر احمدیت سے تعارف حاصل کیا.بڑی برکت ہے الحمد للہ.صرف چار اخبار اس چھوٹے سے صوبے میں شائع ہوتے ہیں (T.V کا حلقہ کئی صوبوں پر مشتمل ہے) جن میں سے ایک DIE WELT ساری مغربی جرمنی کے چوٹی کے اخباروں میں سے ایک ہے.سب نے نمایاں تصویر کے ساتھ نوٹ دیئے ہیں.نتیجہ بچہ بچہ پہچاننے لگا ہے.باہر نکلیں تو سب آنکھیں ہم پر.سب کام بھول جاتے ہیں.دوکاندار اخبار نکال کر سامنے رکھ دیتے ہیں یا زبانی اظہار کرتے ہیں کہ ہم آپ کو جانتے

Page 131

تاریخ احمدیت.جلد 24 113 سال 1967ء ہیں.اور یہ سب کچھ بڑی بشاشت اور شرافت کے ساتھ.کہیں بدتمیزی کا مظاہرہ نہیں دیکھا.ہر پریس کانفرنس میں نمائندگان پر فرشتوں کا رعب مشاہدہ کیا.فالحمد لله الذي له ملك السموات والارض Warning دے دی گئی اور چھپ بھی گئی ہے.اتمام حجت ہو گیا ہے.مگر مغرب کی تاریکی میں ان باتوں کا سمجھنا ان اقوام کے لئے آسان نہیں.اللہ تعالیٰ رحم کرے.بے حد مصروفیت میں جسمانی اور دماغی کوفت کا بھی احساس نہیں.دل خدا کی حمد سے لبریز اور احباب جماعت کی دعاؤں کی ضرورت کا احساس بیدار.وعلیہ التوكل ولہ الحمد.سب کو سلام.تمام احباب جماعت کو دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا سلام پہنچا دیں دعا کی درخواست کے ساتھ.97 766 ڈاک کا باقاعدگی سے مرکز میں بھیجوانے کا احساس ۱۹ جولائی کی صبح کو حضور کو علم ہوا کہ کافی دنوں کی ڈاک جمع ہو چکی ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا کہ آج اکٹھے بیٹھ کر سارا پچھلا کام ختم کرنا ہے حضور بنفس نفیس نو بجے دفتر میں تشریف فرما ہوئے.مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب، مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب اور مکرم بشیر احمد شمس صاحب حضور کے ساتھ کام میں مصروف ہو گئے.بارہ بجے دوپہر تک سارا کام ختم کر کے گزشتہ ڈاک کو حضور نے اپنی نگرانی میں پوسٹ کروایا.فوٹوگرافی ۱۹ جولائی کو ظہر وعصر کی نماز سے فراغت کے بعد ڈرائیور کی خواہش پر حضور نے اُس کے ساتھ فوٹو کھنچوا کر اسے عنایت فرمایا.حضور نے اس دوران ایک نیا کیمرہ بھی خریدا تھا.اس موقعہ پر حضور نے خود بھی اپنا کیمرہ لاکر فوٹو گرافی کا شوق فرمایا اور مختلف فوٹوز احباب کی خواہش کے مطابق انہیں عنایت فرمائے.ممبران نے اس پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا.اسی طرح حضور مختلف اوقات میں سیرو تفریح کے لئے بھی باہر تشریف لے جاتے رہے.اس عرصہ قیام میں دو اشخاص نے حضور انور کے ہاتھ پر بیعت کی اور با قاعدہ طور پر جماعت میں

Page 132

تاریخ احمدیت.جلد 24 114 سال 1967ء شامل ہو گئے.اُن میں ایک معز ز عرب تھے اور دوسری ایک عورت جس کا خاوند پہلے ہی سے احمدی تھا.یہ عورت جرمن تھیں.حضور نے اس کا اسلامی نام راشدہ مارٹن تجویز فرمایا.تیاری کو پن ہیکن حسب پروگرام ۱۹ جولائی کی رات کو ہمبرگ سے کوپن ہیگن روانگی تھی.حضور نے تیاری کا ارشاد فرمایا اور سامان کی تیاری کی خود نگرانی فرماتے رہے.بعد میں حضور نے سفر کی کامیابی کے لئے اجتماعی دعا فرمائی اور یہ قافلہ ساڑھے نو بجے ریلوے اسٹیشن ہمبرگ پہنچا.اتفاق سے گاڑی لیٹ ہوگئی.کافی دیر تک حضور کو اسٹیشن پر انتظار کرنا پڑا.ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت مضمر ہوتی ہے.اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ احباب حضور کی روانگی کی اطلاع پانے پر اسٹیشن پر پہنچ گئے.گاڑی کے انتظار میں حضور احباب سے گفتگو فرماتے رہے.آخر گیارہ بج کر پانچ منٹ پر گاڑی اسٹیشن پر آن پہنچی اور حضور مع قافلہ ہسپانیہ ایکسپریس کے ذریعہ کو پن ہیگن کے لئے روانہ ہو گئے.دورہ ہمبرگ اور پریس میں وسیع پیمانے پر چرچا 98- یہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ استقبالیہ کی تقریب میں ٹیلی ویژن ٹیم بھی موجود تھی.اُس نے حضور انور کے علاوہ تقریب کے مختلف مناظر کے فوٹوز لئے.چنانچہ یہ پروگرام ۱۷ جولائی کی شام کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا جس میں خاص طور پر حضور کو تقریب میں تشہد پڑھتے دکھایا گیا اور ساتھ ہی حضور کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی.یہ پروگرام صرف ہمبرگ میں ہی نہیں بلکہ سارے شمالی جرمنی میں دکھایا جاتا ہے.گویا اس لحاظ سے اگر زیادہ نہیں تو ۸۰ فیصد آبادی کو اسلام واحمدیت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ ٹیلی ویژن بنا.ہمبرگ میں بڑے اخبارات چار ہیں اور چاروں نے ہی حضور انور کی آمد کے سلسلہ میں مختلف اوقات میں خبریں اور اس پر مضامین شائع کئے.نہ صرف مضامین بلکہ بڑے سائز کے حضور کے فوٹوز بھی شائع کئے.اور خاص طور پر پریس کانفرنس کو تو اخبارات نے بہت اہمیت دی اور بڑے اچھے انداز میں فوٹوز کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا گیا.گویا اس طرح ان اخبارات کے ذریعہ حضور انور کی شخصیت ، آپ کا پیغام امن، خدا تعالیٰ سے عدم تعلق کی بناء پر عظیم تباہی کی تنبیہ وغیرہ کا وسیع آبادی کو علم ہو گیا.

Page 133

تاریخ احمدیت.جلد 24 115 سال 1967ء ۲.حضور کی مورخہ ۷ جولائی کو ہونے والی پریس کانفرنس (جس کا تفصیلی ذکر پچھلے صفحات پر گزر چکا ہے) کے کئی اثرات و نتائج کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمبرگ میں ملی افغان بنگ کے مینیجر کو کئی احباب نے مشن کے ٹیلی فون کا علم نہ ہونے کی وجہ سے ٹیلی فون کیا کہ وہ انہیں اسلام واحمدیت کے بارہ میں مزید معلومات مہیا کرے.اُسے چونکہ پورا علم نہ تھا لہذا اس نے احمد یہ مشن کو ٹیلی فون کیا.مکرم عبد اللطیف صاحب نے اُسے مشن سے متعلقہ معلومات بہم پہنچائیں.اس پر اُس نے حضور سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا جسے حضور نے منظور فرمایا.چنانچہ 4 بجے شام مینیجر صاحب مع سابق مینیجر صاحب حاضر ہوئے.حضور سے ملاقات کے دوران مختلف امور پر گفتگو ہوتی رہی جس کا اُس کی طبیعت پر نہایت خوشگوار اثر ہوا.ہمبرگ میں حضور کے چار روزہ قیام کے دوران اخبارات نے حضور کی تشریف آوری کا ذکر نمایاں رنگ میں اور تفصیل کے ساتھ شائع کیا.یہ ذکر اس کثرت سے ہوا اور اتنی کثرت سے تصاویر شائع ہوئیں کہ شہر کے اکثر لوگ حضور کو خوب پہچاننے لگ گئے.ایک مرتبہ حضور ایک سٹور میں خریداری کے لئے تشریف لے گئے تو دوکاندار نے حضور کو پہچان لیا.اور اخبار لا کر سامنے رکھ دیا.جس میں حضور کی تصویر چھپی تھی.اس کا ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخبارات کے ذریعہ بھی لاکھوں افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا جو حضور کے اس سفر کا اصل مقصد تھا.اخبار HAMBURGER MORGEN POST اپنی اشاعت ۷ اجولائی میں حضور کی تصویر دیتے ہوئے رقمطراز ہے:.احمد یہ مسلمہ سلسلہ کے پیشوا خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد جور بوہ مغربی پاکستان میں رہائش پذیر ہیں گزشتہ روز سیاہ برقعہ پوش عورتوں کی معیت میں فو ہلز بیوگل ہوائی اڈہ پر اترے.ہمبرگ کی مسجد کے انچارج امام عبد اللطیف نے مہمانوں کا استقبال کیا.مسلم پیشوا یورپ میں اپنے مشنوں کے معاینہ کی غرض سے تشریف لائے ہیں.آج مسٹر برک ہولٹ ٹاؤن ہال میں خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد کو خوش آمدید کہیں گے.ایک پریس کانفرنس میں خلیفہ یورپ میں تبلیغ اسلام پر لیکچر دیں گے.“ اس مضمون کی رپورٹ دو اور اخبارات HAMBURGER ABENDBLATTاور BILD HAMBURG نے بھی حضور کی تصاویر دیتے ہوئے اپنے ۱۷ جولائی کے شماروں میں شائع کیں.

Page 134

تاریخ احمدیت.جلد 24 116 سال 1967ء ”DIE WELT “ جو جرمنی کے دو مشہور اخباروں میں سے ایک ہے، اپنی اشاعت ۱۸ جولائی میں حضور کی بڑے سائز کی تصویر دے کر لکھتا ہے کہ احمدیہ مسلمہ جماعت کے لیڈر خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد جور بوہ (پاکستان ) سے آئے ہوئے ہیں MR.BIRCKHOLTZ سٹیٹ ایڈوائزر نے ٹاؤن ہال ہمبرگ میں آپ کا استقبال کیا (یادر ہے ۱۹۵۵ء میں جب سیدنا حضرت امصلح الموعود ہمبرگ تشریف لے گئے تھے تو حضور کے اعزاز میں صوبائی حکومت کی طرف سے اسی ہال میں استقبالیہ دیا گیا تھا.ناقل ) بعد دو پہر آپ نے اٹلانٹک ہوٹل میں پریس کانفرس کی جس میں جماعت احمدیہ کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا.....جمعہ کے روز آپ کوپن ہیگن کی مسجد کا افتتاح کریں گے.جماعت احمد یہ جس نے تمام دنیا میں مساجد بنائی ہیں اب وسطی یورپ میں بھی مساجد بنانے کی کوشش کر رہی ہے.“ ( یہی اخبار اس سے قبل اپنی اشاعت ۶،۱۵ ۱ اور ے اجولائی کو بھی حضور کی آمد کی خبر شائع کر چکا تھا) ایک اور اخبار BILD ZEITUNG نے اپنی اشاعت ۱۸ جولائی میں حضور کی ایک بڑی تصویر چھاپ کر تین کالموں میں گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کی رپورٹ شائع کی.اس کا نفرنس کی سُرخی سارے صفحے پر حاوی جلی حروف سے لکھی گئی ہے.اخبار لکھتا ہے:.ایسا آدمی جو کسی عورت سے مصافحہ نہیں کرتا“ ایسا کرنا عورت کی بے عزتی نہیں.خلیفہ حضرت مرزا ناصر احمد جو پاکستان کے رہنے والے ہیں کسی عورت سے مصافحہ نہیں کرتے.احمد یہ مسلمہ جماعت کے باریش لیڈر نے کل اٹلانٹک ہوٹل میں صرف مردوں سے مصافحہ کیا اور عورتوں کو صرف سر کے اشارے سے سلام کیا کل خلیفہ نے یہ واضح کیا کہ ایسا کرنا عورت کی عزت کی بنا پر ہے.اسلام اس بات سے منع کرتا ہے کہ کسی غیر عورت سے مصافحہ کیا جائے.احمد یہ مسلمہ جماعت کے لیڈر نے جرمنی میں اسلام کی ترقی پر بھی گفتگو کی.اس جماعت کے جس کا لیڈ رخلیفہ کہلاتا ہے ساری دنیا میں کئی لاکھ نمبر ہیں ہمبرگ فضل عمر مسجد کی جماعت کے ممبر جن کی تعداد میں ہے نے آپ کے اعزاز میں کھانے کی دعوت دی.اس موقعہ پر جماعت نے آپ کو ایک قیمتی گھڑی بھی پیش کی.اسلام سور کے گوشت کے کھانے سے بھی منع کرتا ہے.آپ کے کھانے میں سور کا گوشت نہیں

Page 135

تاریخ احمدیت.جلد 24 117 سال 1967ء تھا.نیز اسلام مسلمانوں کو روزانہ پانچ نمازیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے.۵۷ سالہ خلیفہ کی کئی بیویاں نہیں جیسا کہ قرآن اجازت دیتا ہے.حضرت مرزا ناصر احمد کی صرف ایک بیوی ہے.آپ کی فیملی تین لڑکوں اور دولڑکیوں پر مشتمل ہے.( دوسری عالمگیر ) جنگ سے قبل آپ نے مشہور یونیورسٹی آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی.احمد یہ مسلمہ جماعت کے لیڈر نے پیشگوئی کی کہ آئندہ میں سال میں ایک زبر دست تباہی آئے گی جس سے علاقے کے علاقے تباہ ہو جائیں گے اور پھر جولوگ بچیں گے وہ اسلام میں پناہ لیں گے.“ ایک شام کو نکلنے والے اخبار HAMBURGER ABENDBLATT نے اپنی اشاعت ۱۸ جولائی میں درمیانے سائز کی حضور کی تصویر دے کر پریس کانفرنس کی رپورٹ شائع کی.اخبار لکھتا ہے:.ایک خلیفہ نے پریس کانفرنس منعقد کی 66 احمدیہ مسلمان جماعت کے لیڈر حضرت مرزا ناصر احمد نے اپنے جرمنی کے دورہ کے اختتام پر یورپ میں اسلام کی ترقی کے متعلق پریس کانفرنس کی.اس مشرقی دانا کی باتیں سمجھنا ہمارے لئے آسان نہ تھا لیکن انہوں نے تمام سوالات کے جوابات پوری بشاشت اور قتل کے ساتھ دیئے.سوال.جرمنی اور یورپ میں آپ کے کس قدر ممبر ہیں؟ جواب.ہم نے تعداد تو نہیں گئی تعداد کے لحاظ سے تھوڑے ہیں مگر ہماری یہ رائے ہے کہ ہم نے جرمنی میں گہرا اثر پیدا کیا ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ ہم بہت سے اور ممبر بنالیں گے.سوال.یہ کیسے ہوگا ؟ جواب.جرمن قوم کے قلوب کو فتح کرنے سے اور یہ حقیقت ہے کہ دلوں کو تب ہی فتح کیا جا سکتا ہے جب انہیں اسلام کی خوبیوں سے پوری طرح اطلاع دی جائے.نیز ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بے تکلفی کے رنگ میں یہ بتانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ فرینکفورٹ کے علاقہ میں امریکن تہذیب کا اثر مجھے پسند نہیں.سوال.اس دفعہ کے سفر میں آپ کا جرمن قوم کے متعلق کیا نظریہ ہے؟ جواب.جرمن لوگ بڑے بے تکلف اور کھلے دل والے ہیں انسان ان کے ساتھ جلدی دوست بن جاتا ہے.66

Page 136

تاریخ احمدیت.جلد 24 118 سال 1967ء کوپن ہیگن ڈنمارک میں تشریف آوری ۲۰ جولائی ۱۹۶۷ء کوسید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث بذریعہ ریل گاڑی ہمبرگ سے ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں رونق افروز ہوئے.ریلوے سٹیشن پر سکنڈے نیویا کی جماعتوں نے حضور کا نہایت پر تپاک اور گرمجوشی سے استقبال کیا.100 مسجد نصرت جہاں کا شاندار افتتاح اور حقیقت افروز خطاب پروگرام کے مطابق حضور نے ۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء بروز جمعۃ المبارک سوا ایک بجے بعد دو پہر مسجد نصرت جہاں کا افتتاح فرمانا تھا جس کے لئے صبح ہی سے زائرین اور احمدی دوست دور دراز سے افتتاح کی مبارک تقریب میں شامل ہونے کے لئے پہنچنے شروع ہو گئے تھے.ٹیلی ویژن والوں نے قبل از وقت ہی بڑے بڑے کیمرے مختلف مقامات پر نصب کر دیئے تھے.اخبارات کے نمائندگان بھی کثرت سے موجود تھے.یورپ کے جملہ مبلغین کرام کے علاوہ انگلستان، سویڈن ،ناروے ، جرمنی ، سپین، امریکہ، سوئیٹزرلینڈ کے دوستوں نے بھی شرکت فرمائی.حضور انور ٹھیک سوا ایک بجے مسجد میں تشریف لائے.پہلی اذان ڈینش احمدی عبدالسلام صاحب میڈسن نے دی.حضور اقدس نے انگریزی زبان میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا کہ قرآن کریم میں دنیا میں امن پیدا کرنے اور انسان کا تعلق اس کے مالک حقیقی سے پیدا کرنے کے گر بیان کئے گئے ہیں.اور دنیا کی نجات صرف اور صرف قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے پر ہی منحصر ہے.خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا واحد ذریعہ قرآن کریم ہی ہے.خطبه ونماز جمعہ کے بعد افتتاح کی تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو سویڈش احمدی سیف الاسلام ارکسن نے کی.آپ نے سورۃ آل عمران کی آیات ۷۹ تا ۱۰۵ تلاوت کیں.تلاوت قرآن کریم کے بعد ناروے کے آنریری مبلغ نور احمد صاحب بولستاد نے حضور اقدس کو جماعت احمد یہ ناروے کی طرف سے خوش آمدید کہا.اُن کے بعد سویڈن کے احمدی بھائی سیف الاسلام ارکسن صاحب نے سویڈن کی جماعت احمدیہ کی طرف سے خوش آمدید کہا.ان کے بعد ڈنمارک کے آنریری مبلغ عبدالسلام صاحب میڈسن نے ڈینش احمدیوں کی طرف سے حضور کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ ڈنمارک کی تاریخ میں یہ نہایت اہم دن ہے.جب کہ حضور اقدس بنفس نفیس

Page 137

تاریخ احمدیت.جلد 24 119 سال 1967ء ڈنمارک میں مرکز تو حید کے افتتاح کے لیے دور دراز کا سفر طے فرما کر تشریف لائے ہیں.اس لیے ہم جتنا بھی خدا تعالیٰ کا شکر کریں کم ہے.خوش آمدید پر مشتمل مختصر تقاریر کے بعد حضور اقدس نے انگریزی زبان میں تقریر فرمائی.جس کا ترجمه برادرم عبدالسلام صاحب میڈسن ڈینش زبان میں کرتے رہے.حضور اقدس نے اسلام کے پانچ ارکان پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا کہ مسجد خدا کا گھر ہے اور ہر اس شخص کے لیے کھلا ہے جو خدائے واحد کی پرستش کے لیے اس میں آنا چاہے.حضور اقدس کی اس تقریر کے دوران شدّتِ جذبات سے اکثر دوستوں کی آنکھیں پر نم تھیں.حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.”ہمارے لئے واقعی یہ ایک پُر مسرت، بابرکت اور مقدس تقریب ہے.محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی مستورات نے اس مسجد کی تعمیر کے لئے جو اس خوبصورت سرزمین اور ڈنمارک کے مہذب اور شائستہ شہریوں کے دارالحکومت میں بنائی گئی ہے، چندہ جمع کر کے رقم فراہم کی.اللہ تعالیٰ کے اس غیر معمولی احسان پر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے معمور ہیں.ہم اس سرزمین کے عظیم شہریوں کے بھی ممنون ہیں کہ انہوں نے بطیب خاطر ہم سے تعاون کیا اور مسجد کی تعمیر کے راستے میں جور کا وٹیں حائل تھیں ان کو دُور کر نے کے لئے ہمیں اخلاقی مدد بہم پہنچائی.فالحمد للہ.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ یہ چھوٹی سی مسجد اب پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے.میں اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اس کا افتتاح کرتا ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسہ اور یقین ہے کہ وہ اس مقصد کو پورا فرمائے گا جس کے لئے یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے.قرآن کریم پر زور الفاظ میں اس بات کو پیش کرتا ہے کہ مسجد خانہ خدا ہے اس لئے یہ کسی فرد واحد کی ملکیت نہیں ہوتی اور یہ کہ تمام عبادت گاہیں اللہ ہی کے لئے ہیں.انسان تو صرف ان کی نگرانی اور دیکھ بھال کا فرض ادا کرتا ہے لہذا تمام اسلامی مساجد کے دروازے ہر ایسے فرد اور ہر ایسی مذہبی جماعت کے لئے کھلے ہیں جو خدائے واحد کی پرستش کرنا چاہے.چنانچہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں جب

Page 138

تاریخ احمدیت.جلد 24 120 سال 1967ء خیبر کے یہودی اور نجران کے عیسائی اسلامی حکومت کے زیر اقتدار آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے اعتقاد اور اس کے مطابق اعمال کی مکمل آزادی عطا فرمائی.یہ بات بھی مستند روایات میں مذکور ہے کہ جب نجران کے عیسائی مدینہ منورہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت عطا فرمائی کہ وہ مسجد نبوی میں ہی اپنی عبادت کی رسوم ادا کر لیں.اور جب بعض صحابہ کو اس پر اعتراض پیدا ہوا تو حضور نے اس پر انہیں تنبیہ فرمائی.چنانچہ عیسائیوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنے طریق پر عبادت کی رسوم ادا کر لیں.“ پھر حضور انور نے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کے اوپر تفصیلی روشنی ڈالی اور بعد ازاں مختلف دعائیں کرتے ہوئے فرمایا:.”اے ہمارے آقا اور ہمارے رب ! اپنے اس گھر کو امن اور حفاظت کا گھر بنا دے.اس میں نماز ادا کرنے والوں کو توفیق عطا فرما کہ وہ غلط فہمیوں اور شرارتوں کے بادلوں کو اس دُنیا سے چھانٹ کر رکھ دیں.اے خدا ایسا کر کہ تمام انسان ایک دفعہ پھر آپس میں بھائی بھائی بن جائیں.اور ایسا ہو کہ تمام بنی نوع انسان تیری حفظ و امان کے خوشگوار سائے کے نیچے پناہ لیں اور تیرا ٹور ہر دل میں چمکے اور سب دل تیرے محبوب اور انسانیت کے محسن اعظم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق سے لبریز ہو 166 جائیں.تقریب کا آنکھوں دیکھا حال تقریر کے بعد حضور اقدس نے دعا کرائی جس کے بعد السید حسین زین صاحب نے ڈنمارک میں مقیم عربوں کی طرف سے حضور اقدس کی خدمت میں عربی زبان میں خوش آمدید کہا.اس کا رروائی کے اختتام پر حضور اقدس پر یس کا نفرنس کو خطاب فرمانے تشریف لے گئے.جماعت ڈنمارک کے افراد نے عموماً اور مسٹر و مسٹر میڈسن اور مس مریم نے دن رات ایک کر کے مہمانوں کے کھانے وغیرہ کا نہایت اعلیٰ رنگ میں بندوبست کیا تھا.جرمن احمدیوں نے بھی بڑے اخلاص کے ساتھ ہاتھ بٹایا.فجزاهم الله احسن الجزاء

Page 139

تاریخ احمدیت.جلد 24 121 سال 1967ء حضور اقدس پریس کانفرنس سے فراغت کے بعد بہت دیر تک خدام میں رونق افروز رہے اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس تیسری عالمگیر تباہی کا ذکر فر مایا ہے.اس کے دن اب قریب آتے جاتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ ہم ان لوگوں پر اتمام محبت کر دیں.اور اسلام کا پیغام ان کو پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں.شام کو ساڑھے سات بجے مسجد کے افتتاح کی تقریب کا آنکھوں دیکھا حال ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا.نیز ریڈیو پر بھی پروگرام نشر کیا گیا.اور شام کو شائع ہونے والے اخبارات نے مسجد کی تصاویر کے ساتھ افتتاح کی تقریب کی مفصل رپورٹیں شائع کیں.ایک اخبار نے سُرخی جمائی "محمد صلی اللہ علیہ وسلم ڈنمارک میں آگئے ہیں.اور اب اس مسجد کے قیام کی وجہ سے آپ کی آواز ڈینش لوگوں تک پہنچے گی.افتتاح کی تقریب میں پاکستان ، ہندوستان اور ترکی کے سفراء نے بھی شرکت کی.لوکل معززین میں سے لارڈ میئر اور اس کی کا بینہ، یونیورسٹی کے پروفیسر اور مستشرق، کوپن ہیگن میوزیم کے ڈائریکٹر، احمدیت اور اسلام پر تحقیق کرنے والے عیسائی بورڈ کے ممبر، رائٹر، ڈینش ایسوسی ایٹڈ پریس، یونائیٹڈ پریس، سویڈش اور ڈنیش پر لیس اور عالمی پریس کے نمائندوں کے علاوہ (I.T.S) یعنی عالمی ٹیلی ویژن سروس نیز ڈینش ٹیلی ویژن و ریڈیو، اسی طرح تمام فر میں جن کے اسلامی ملکوں سے تجارتی تعلقات ہیں ، کے نمائندوں نے بھی شرکت کی.حضور نے سب کو شرف مصافحہ بھی بخشا.مسجد کو دیکھنے والے مردوں اور عورتوں کا تانتا بندھا ہوا تھا.افتتاحی تقریب کے مناظر سعودی عرب ٹیلی ویژن سے اس افتتاحی تقریب کے مناظر نہ صرف ڈنمارک ٹیلی ویژن پر دکھائے گئے بلکہ یورپ کے بعض دوسرے ممالک نیز اسلامی ممالک نے اس تقریب میں غیر معمولی دلچسپی لی.خصوصاً سعودی عرب نے جہاں ٹیلی ویژن پر یہ فلم دو بار دکھائی گئی.فلم میں مسجد نصرت جہاں کی عمارت ، افتتاحی تقریر اور پہلی نماز جمعہ کے دلکش مناظر بھی شامل تھے.اسی طرح مغربی جرمنی کے ٹیلی ویژن پر بھی اس فلم کی نمائش ہوئی.اور ان دو ممالک میں لاکھوں افراد نے افتتاحی تقریب کے روح پرور مناظر دیکھے.علاوہ ازیں مراکش ریڈیو نے اپنے مختلف نیوز بلیٹنز میں تین بار اس تقریب کی خبر نشر کی.103

Page 140

تاریخ احمدیت.جلد 24 122 سال 1967ء ڈنمارک سے شائع ہونے والے با اثر اخبارات کے ادارتی مقالے ڈنمارک کے کثیر الاشاعت اور با اثر روز ناموں نے اس واقعہ کو خاص اہمیت دی.انہوں نے نہ صرف مسجد نصرت جہاں اور اس کی افتتاحی تقریب کے فوٹو اور تفصیلی خبر میں شائع کیں.بلکہ نامور روز ناموں نے اپنے ادارتی مقالوں میں ڈنمارک کی تاریخ کے اس عظیم واقعہ پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا.الا ما شاء اللہ.یہ تبصرے بالعموم مخالفانہ جذبہ کے ماتحت لکھے گئے.لیکن ساتھ ہی ان میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کو سراہتے ہوئے عیسائیت کے گڑھ میں مسجد کی تعمیر کو اسلام کی قوت و عظمت کا درخشندہ نشان قرار دیا گیا.روزنامه KRISTELIGT DAGBLAD(کلیسائے ڈنمارک کا ترجمان اور عیسائی حلقوں کا مقبول ترین اخبار ) نے اپنے شمارہ ۲۱ جولائی ۱۹۶۷ء میں لکھا:.ڈنمارک میں پہلی مسجد کا افتتاح“ ڈنمارک میں مسجد ! آج سے ہیں تھیں سال قبل یہ تصور ہی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ ڈنمارک میں بھی کوئی مسجد تعمیر ہو سکتی ہے.اس وقت ایسا خیال مضحکہ خیز شمار ہوتا اور اس پر قہقہے بلند کئے جاتے.بہر حال یہ مانا پڑے گا کہ اسلام کی اس شاخ ( یعنی جماعت احمدیہ.ناقل ) نے فی زمانہ تبلیغی جد و جہد کا حیران کن مظاہرہ کیا ہے اور اس میدان میں اس نے بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے.بالخصوص افریقہ میں اس نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ کسی لحاظ سے کم نہیں ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈنمارک میں اس جماعت کی ترقی کے امکانات ہیں کہ نہیں ؟ ہمارے نزدیک اگر مارمن اور یہوواہ فرقوں کے لوگ دوسروں کو اپنا ہم خیال بنا سکتے ہیں تو یہاں اسلام کو پیرو کیوں نہیں مل سکیں گے؟ یہ درست ہے کہ اس وقت تک ڈنمارک میں اس جماعت کے ممبر بہت تھوڑے ہیں لیکن اس تعلق میں ہم یہ یاد دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ یہی بات مسلمان ممالک میں عیسائیت قبول کرنے والوں پر صادق آتی ہے.ان ممالک میں وہ خود بہت قلیل تعداد میں ہیں تا ہم اس سلسلہ میں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں مکمل مذہبی آزادی ہے جبکہ مسلم ممالک میں عیسائیت قبول کرنے کے نتیجہ میں جان کو خطرہ لاحق ہونا یا کم از کم خطرناک معاشرتی نتائج سے دو چار ہونا ایک لازمی امر ہے.

Page 141

تاریخ احمدیت.جلد 24 123 سال 1967ء ہم آج کی خبر کا نوٹس لینا ضروری سمجھتے ہیں اور ہم تو ان لوگوں کی ہمت اور حوصلہ کی داد دینے کے لئے بھی تیار ہیں جس کے بل پر انہوں نے نسبتاً بہت تھوڑی مدت میں یہ کچھ کر دکھایا.اس امر کا احساس ہمارے لیے چنداں دکھ اور تکلیف کا موجب نہیں ہو سکتا.خصوصاً عین ایسے وقت میں جب کہ اسرائیل اور دنیائے عرب کے درمیان کشیدگی زوروں پر ہے.اسلام حقیقت ہم سے اتنا دور اور اتنا متروک نہیں ہے جیسا کہ اسے ہمارے آباء واجداد عام طور پر یقین کرتے تھے.اسلام کی قوت اور عظمت کا یہ ایک درخشندہ نشان ہے جس کا تعمیر مکمل ہونے کے بعد آج افتتاح ہوا ہے.کیا ہی اچھا ہوا گر یہ مسجد اہلِ کلیسا کو دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) کا اصل باہمی فرق معلوم کرنے اور اس پر اپنی توجہ مرکوز کرنے پر آمادہ کر دے.باہمی فرق کو گا ہے گا ہے اچھالا تو بہت جاتا ہے لیکن دراصل اس فرق کا کوئی جواز موجود نہیں ہوتا.جو لوگ اصل حقیقت سے آگاہ ہیں ان کا یہ کہنا کہ عیسائی مشنوں نے ابھی تک مسلمانوں کو مخاطب کرنے کا صحیح ڈھنگ نہیں سیکھا.اس لحاظ سے بھی کوپن ہیگن کی مسجد کلیسا کے لیے ایک پر زور یاد دہانی کا کام دے سکتی ہے.روزنامه BERLINGSKE TIDENDE ڈنمارک کا قومی اخبار ہونے کے باعث وہاں کا سب سے زیادہ با اثر اخبار شمار ہوتا ہے.ہر چند کہ اُس نے مسجد ڈنمارک کے افتتاح پر مخالفانہ جذ بہ کے ماتحت ادارتی مقالہ لکھا تاہم اس نے چاروناچار اس امر کو تسلیم کیا کہ مذہبی افراتفری اور ابتری کے موجودہ دور میں اشاعت اسلام کی مساعی کے بارآور ہونے کا امکان ہے.چنانچہ اخبار نے اپنی ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں یہ خبر دی کہ:.ڈنمارک میں مسجد ڈنمارک میں اسلام کی تبلیغی مساعی کا آغاز ۱۹۵۰ء کے اواخر میں ہوا تھا.لیکن چند ماہ پیشتر قرآن کے ڈینش ترجمہ کی اشاعت اور اب حال ہی میں وی ڈورا (HVIDOVRE) میں ایک مسجد کے افتتاح کے ذریعہ اسلام کی یہ تبلیغی مساعی پہلی بار نمایاں اور مؤثر طور پر منصہ شہود پر آئی ہیں.ڈنمارک میں اسلام کی یہ تحریک اپنی خواتین کی بین الاقوامی انجمن کے فراہم کردہ وسائل سے یہ مسجد تعمیر کرنے کے قابل ہوئی ہے.اس کے اراکین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ مقامی طور پر اپنی تبلیغی مہم کو کامیابی سے چلا سکے.خود احمد یہ مشن کی اپنی اطلاع کے مطابق اس وقت ڈینیش مسلمانوں کی تعداد ایک سو سے کچھ اوپر ہوگی.اس ملک میں مستقل یا عارضی طور پر رہائش رکھنے والے غیر ملکی مسلمانوں کی

Page 142

تاریخ احمدیت.جلد 24 124 سال 1967ء ایک محدود تعداد اس کے علاوہ ہے.اس سے ظاہر ہے کہ جماعت اپنے پھیلاؤ کے لحاظ سے ڈنمارک کے درمیانہ درجہ کے گھروں کے رہنے والے متوسط طبقہ کے مکینوں کی کسی ایسوسی ایشن سے بڑی نہیں قرار دی جاسکتی ہے.اور یہ تقابل یہاں پر ہی ختم ہو جاتا ہے.ہر چند کہ اس امر کے کوئی آثار نہیں ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے جو سکنڈے نیویا کی سب سے پہلی مسجد ہے.اس ملک میں اسلام قبول کرنے کی ایک روچل پڑے گی.تاہم موجودہ زمانہ میں مذہب سے کھچاؤ اور دوری اور دنیا میں رونما ہونے والی دور رس تبدیلیاں روحانی بگاڑ کی ایک واضح علامت ہیں.اور غالباً اسی امر کے پیش نظر ہی مسلمانوں نے خاص مرحلہ پر مسجد کی تعمیر کو ضروری خیال کیا ہے.اسلام جو دنیا کے بڑے بڑے مذاہب میں سے سب سے آخر میں رونما ہونے والا مذہب ہے.اب عیسائی یورپ میں پاؤں جمانے اور وہاں مقام پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس بر اعظم میں اسلام کے پھیلنے اور غالب آنے کے امکانات تو اس وقت ہی معدوم ہو گئے تھے جب یورپ کے جنوبی حصوں میں عربوں کی سیاسی قوت اور ان کے بعد ترکوں کا اثر ونفوذ ہزیمت سے دوچار ہو کر خاک میں مل گیا تھا.اس کے بعد مشرق و مغرب میں مذہبی رابطہ کا رخ یکسر بدل گیا اور وہ اس طرح اُلٹا کہ اُن علاقوں میں جہاں اسلام غالب تھا عیسائیت کی متحدہ قوت اور اس کے مستحکم مراکز سے کوئی تائید وحمایت حاصل نہیں ہوسکتی.لیکن یورپی معاشرہ کو مذہب سے محروم کر کے اسے سراسر مادی سانچے میں ڈھالنے کی رودن بدن بڑھ رہی ہے.اس کے نتیجہ میں جو مذہبی افراتفری اور ابتری پیدا ہو رہی ہے اس میں اشاعت اسلام کی مساعی کے پنپنے اور بار آور ہونے کا امکان ہے.فی زمانہ ذرائع رسل و رسائل کی ترقی کے باعث بر اعظم ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں اور دنیا ایک لحاظ سے سمٹ کر چھوٹی ہو گئی ہے.اس صورتحال نے بھی بڑے بڑے مذاہب کے جلد جلد اور براہ راست ایک دوسرے سے متصادم ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے.اس صورتحال میں عیسائی کلیسیا کے لئے کوئی بات نئی یا انوکھی نہیں ہے.کیونکہ کلیسیا کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ وہ ایسے علاقوں اور اقوام میں اپنے پیغام کی اشاعت کرے جن میں دوسرے مذاہب کو بالا دستی حاصل ہو لہذا ڈنمارک میں مسجد کی تعمیر فی ذاتہ اس امر کی متقاضی نہیں کہ کلیسیا اپنے طریق کار میں کوئی تبدیلی کرے.“ کوپن ہیگن سے شائع ہونے والا روز نامہ AKTUELT “ وہاں کے ان اخبارات میں

Page 143

تاریخ احمدیت.جلد 24 125 سال 1967ء ہے جنہوں نے ڈنمارک میں پہلی مسجد کی تعمیر کو چنداں اہمیت نہ دیتے ہوئے اس امکان کو خارج از بحث قرار دیا کہ اسلام ڈنمارک میں وسیع پیمانے پر پھیل سکتا ہے.اسی پر بس نہیں اُس نے اِس موقعہ پر اسلام پر ناروا حملے کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھا اس اخبار نے اپنے ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں حسب ذیل نوٹ سپر دا شاعت کیا : وی ڈورا کی مسجد اسلام کی ایک چھوٹی سی شاخ اس ملک میں بھی موجود ہے.اس حقیقت کی واحد ظاہری علامت وی ڈورا کی نوتعمیر شدہ مسجد ہے.یہ باور کرنے کی ضرورت نہیں کہ مستقبل میں عرب کا یہ قدیمی مذہب یہاں بھی وسیع پیمانہ پر پھیل جائے گا.اس مسجد کو اپنے مذہبی امور کی سرانجام دہی سے قطع نظر بہر طور یہ اہمیت ضرور حاصل ہے کہ یہ واضح ثبوت ہے اس بات کا کہ اس ملک میں مذہبی آزادی کا دور دورہ ہے.مغربی دنیا مذہب کے معاملہ میں عربوں کی ممنون احسان نہیں ہے.یہاں سب سے پہلے عیسائیت ہی آئی اور وہی آج کے دن تک یہاں غالب ہے اور اس طرح غالب ہے جس طرح کہ مشرق قریب میں اسلام کو غلبہ حاصل ہے.ہر شخص جانتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے خود اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ اُن کا بہت کچھ مدار یہودی اور عیسائی مذاہب پر ہے.لیکن یہ بتادینا ضروری ہے کہ بعد میں جو حالات رونما ہوئے وہ دونوں مذاہب (اسلام اور عیسائیت ) کے نقطہ نظر سے مختلف اور متضاد نوعیت کے حامل تھے.عیسائی دنیا میں ارادہ اور اختیار کی آزادی غالب آتی چلی گئی.برخلاف اس کے اسلامی دنیا میں شروع ہی سے بڑی حد تک یا کسی حد تک تقدیر اور جبر کا پہلو غالب رہا ہے.اس تصور نے مسلمان ملکوں اور مسلمانوں پر اثر انداز ہونے میں اِس درجہ نمایاں کردار ادا کیا ہے کہ جس کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں.وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن کو گویا مسلمانوں کے نزدیک ابتداء ہی سے معاشرتی اور سیاسی بائبل کی حیثیت حاصل رہی ہے.لفظاً ومعنا تقدیر کے قائل اس مذہب نے عرب ممالک کو پسماندہ رکھنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.اس کے بالمقابل دور جدید کے اسرائیل کی مثال ہمارے سامنے ہے.اس نے اس نقطہ کو سمجھ لیا کہ ملک کے ترقیاتی کاموں کو مذہب سے بے تعلق رکھنا ضروری ہے.اسلام اپنی

Page 144

تاریخ احمدیت.جلد 24 126 سال 1967ء تاریخ میں ایسی ترقی سے صرف ایک دفعہ ہی ہمکنار ہوا تھا.یہ بات ہے ازمنہ وسطی کی کہ جب عرب سائنس اور عرب آرٹ نے قدیم یونانی اور لاطینی روایات کا سہارا لے کر جنوبی یورپ کے وسیع حصوں پر اپنے اثر ونفوذ کے نقوش ثبت کئے.یہ وہ زمانہ تھا کہ جب سیاحوں نے عرب کی خوش حال سرزمین کے متعلق بہت کچھ لکھا اور اس سلسلہ میں بہت سی تصانیف معرض وجود میں آئیں.وی ڈورا کی مسجد اُس مذہب کی جو عرب کی پسماندہ و خستہ حال سرزمین میں اب بھی زندہ ہے، بہت بعد میں پھوٹنے والی ایک چھوٹی سی شاخ کی حیثیت رکھتی ہے اس موجودہ وقت میں اللہ اور اس کے رسول کو یہاں پیر و حاصل کرنے میں بہت وقت اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.“ نوٹ :.روز نامہ مذکور کا مندرجہ بالا ایڈیٹوریل وہاں کے ایک اور اخبار SVENDBORG AVIS کے ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ ء کی اشاعت میں بھی شائع ہوا.# LOLLANDS TIDENDE ۲۵ جولائی ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں لکھتا ہے کہ:.کلیسیا کے لئے قابل توجہ آج مسلمانوں کا مذہب یعنی دین اسلام ڈنمارک میں پھیلایا جارہا ہے کو پن ہیگن کے علاقہ وی ڈورا میں پہلی مسجد تعمیر ہو چکی ہے اور اس کا افتتاح بھی عمل میں آچکا ہے.ایک ایسے وقت میں جب کہ خود ڈنمارک کے کلیسا نے اپنے داخلی حالات کا جائزہ لینے اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی غرض سے با قاعدہ ایک کمیشن مقرر کر رکھا ہے اس مسجد کا نوٹس لینا اور اسے قابل اعتناء سمجھنا خالی از دلچسپی نہ ہوگا.عیسائیت ڈنمارک میں ایک ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے قائم چلی آرہی ہے اور یہاں ایسے مناد ( مرد بھی اور عورتیں بھی) موجود ہیں جنہوں نے ایسے ممالک میں عیسائیت کا پیغام پہنچایا ہے جہاں اسلام مذہب کی حیثیت سے بہت مقبول ہے.لیکن آج صورت حال مختلف ہے اب خود ڈنمارک میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان مقابلہ کی طرح پڑ چکی ہے.کلیسا کی اصلاحی تنظیم کو جسے داخلی مشن کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا ہے.آئندہ اس داخلی مشن کو خود اپنے ہی گھر میں کلیسا اور مسجد کی باہمی مخالفت کی شکل میں نئی سرگرمی اور جدو جہد کا مظاہرہ کرنا ہوگا وہ ممالک جن میں ہم اپنے منا بھیجا کرتے تھے اب جواباً ہمارے ہاں منا ذ بھیج رہے ہیں اور ہمارا قرض چکانے پر تل گئے ہیں.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اب حالات بدلے ہوئے ہیں.سوال یہ ہے کہ اس غیر ملکی مذہب اور اس کی تعلیم کے ساتھ

Page 145

تاریخ احمدیت.جلد 24 127 سال 1967ء کیا سلوک کیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ اسی سطح پر اور وہی سلوک کیا جائے گا جو دیگر مذاہب کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے کیونکہ ڈنمارک میں مکمل مذہبی آزادی ہے.البتہ یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس غیر ملکی مذہب کے بارہ میں عوام کا رد عمل کیا ہو گا؟ یہ امر محتاج بیان نہیں کہ ڈنمارک میں بڑی تیزی سے مسلمانوں کی ایک جماعت معرضِ وجود میں آچکی ہے اور جس رفتار سے مسجد کی تعمیر عمل میں آئی ہے وہ اس امر کی آئینہ دار ہے کہ ڈنمارک کی مسلم تحریک کے پیچھے پر عزم اور فعال دماغ کارفرما ہیں.اس بات کو تو کوئی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ سارا ڈنمارک حلقہ بگوش اسلام ہو جائے گا.لیکن کوپن ہیگن کے علاقہ وی ڈورا میں جس سرگرمی کا ثبوت منظر عام پر آیا ہے وہ اپنی وسعت کے لحاظ سے 104 766 اس نوعیت کی ہے کہ کلیسا اس موقف کا سہارا نہیں لے سکتا کہ گویا کچھ ہوا ہی نہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ ڈنمارک میں جو پہلے بیرونی دنیا میں عیسائی مناد بھیجا کرتا تھا اب خود تبلیغی سرگرمیوں کی آماج گاہ بن چکا ہے.یہ صورتحال ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے اور اس چیلنج کو بہر حال قبول کرنا ہوگا.اگر وی ڈورا میں مسجد کی تعمیر سے چوکنا ہو کر کلیسا کا مقرر کردہ کمیشن سرگرمی سے مصروفِ عمل رہے اور آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے اپنے نقطہ ء نگاہ سے بھی مسجد کی تعمیر بے فائدہ ثابت نہ ہوگی.صرف ڈنمارک ہی سے سید کمال یوسف صاحب مبلغ سلسلہ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں اس تاریخی دورہ کے متعلق ۶۴ ا کٹنگ ارسال کئے.اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تمام ممالک کے اخبارات نے جہاں جہاں حضور نے قدم مبارک رکھا.اس دورے کی کس قدر پبلسٹی کی اور حضور کے اس اہم پیغام کو کروڑوں افراد تک پہنچا دیا.جس کے پیچھے خدا تعالیٰ کا تصرف خاص اور اُس کی آسمانی افواج کا نزول خاص طور پر کارفرما نظر آتا ہے.حضور انور کا برقی پیغام 105 اسی روز ۲۱ جولائی کو حضور نے حضرت سیدہ ام متین صدر لجنہ اماءاللہ کے نام حسب ذیل برقی پیغام ارسال فرمایا:.(ترجمہ) ”الحمد للہ مسجد نصرت جہاں کا افتتاح آج سوا ایک بجے بعد دو پہر عمل میں آیا.اس مسجد کی تعمیر یورپ میں بالعموم اور ڈنمارک میں بالخصوص اسلام کی

Page 146

تاریخ احمدیت.جلد 24 128 سال 1967ء ترقی اور غلبہ کے حق میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.میری طرف سے اور سکنڈے نیویا کے احمدیوں کی طرف سے لجنہ اماء اللہ کو مبارک پہنچادیں.مسجد کی عمارت خوبصورت اور دیدہ زیب ہے.افتتاح کی تقریب میں یورپ کے مبلغین اسلام ، احمدی احباب، غیر ملکی سفراء، ڈنمارک کی سر بر آوردہ ہستیوں اور شہریوں نے شرکت کی.بعد ازاں پریس کانفرنس میں عالمی اخبارات کے نمائندے بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے انٹرویو ریکارڈ کیا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کی تعمیر کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے،اسے مثمر ثمرات حسنہ بنائے اور ہماری حقیر کوششوں کو اپنے فضل سے قبول فرمائے“.مسجد کوپن ہیگن کے افتتاح کے بعد سرزمین یورپ میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے تعمیر ہونے والے خدا کے گھروں کی تعداد چھ ہو گئی.قبل از میں تعمیر ہونے والے مساجد کی تفصیل یہ ہے:.مسجد فضل لندن (سنگ بنیاد ۱۹ اکتوبر ۱۹۲۴ء) مسجد مبارک ہیگ (سنگِ بنیاد ۱۹۵۵ء ) مسجد فضل عمر ہمبرگ (سنگِ بنیاد ۲۲ فروری ۱۹۵۷ء) مسجد نور فرینکفورٹ (سنگ بنیاد ۱۹۵۹ء) مسجد محمود سویٹزر لینڈ (سنگ بنیاد ۲۵ را گست ۱۹۶۲-) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا مکتوب 106 حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء کوحضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے نام افتتاح کے نہایت ایمان افروز کوائف پر مشتمل حسب ذیل مکتوب رقم فرمایا:.کل بعد نماز جمعہ مسجد کا افتتاح مختصر تقریر اور دعاؤں کے ساتھ ہوا.افتتاح بہت کامیاب تھا.خدا تعالیٰ کے فضل سے نمازی تو صرف تین صد سے اوپر تھے.مگر زائرین سے سارا احاطہ بھرا ہوا تھا.سینکڑوں کھڑے نظر آ رہے تھے، بعض ملکوں کے سفیر ،شہر کی چوٹی کی شخصیتیں اور عوام.میرا خیال ہے کہ سینکڑوں نے چائے میں بھی شمولیت اختیار کی.کھانے میں اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت ڈالی کہ پھر بھی کچھ بیچ ہی گیا.صرف ایک شخص تھا جس نے کچھ نہیں کھایا یعنی خاکسار.کیونکہ پریس انٹرویو میں پوری توجہ سے نمائندگان سے مخاطب تھا.یہ پہلی جگہ ہے جہاں اخباروں نے

Page 147

تاریخ احمدیت.جلد 24 129 سال 1967ء اسلام کے ، ہمارے خلاف بھی لکھا ہے.یعنی خدا کی زمین میں کھاد بھی پڑ گئی ہے، آسمانی پانی سے بھی حصہ ملا ہے.امید ہے اور دعا کہ فصل اچھی ہوگی.الحمد للہ.ریڈیو، ٹیلیویژن نے افتتاح کی خبریں نشر کی ہیں.اور بہت سے اخباروں نے بڑی بڑی تصاویر کے ساتھ نوٹ دیئے ہیں.حق میں بھی اور خلاف بھی ، زائرین کل سے آئے چلے جارہے ہیں اور آتے رہیں گے.امید ہے اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے.وَلَهُ الْحَمدُ بے حد دعائیں کرتی رہیں اور کرواتی رہیں.ز یورک صبح تین بجے کے قریب زبان پر مندرجہ ذیل الفاظ جاری ہوئے مُبَارِک وَّ مُبَارَكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ “ والحمد لله آپ کی دعاؤں کا طالب.یہاں سب خیریت ہے سب کی طرف سلام.احمدی خواتین کے نام روح پرور پیغام 107- حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے عین افتتاح کے روز حضور کی خدمت اقدس میں مبارک باد کا تار دیا تھا.جس کے جواب میں حضور نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا محبت بھرا تار نصرت جہاں مسجد کے افتتاح کی مبارک تقریب کے موقعہ پر ملا اور کنوینشن کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو دنیا کے اس حصہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بنائے اور ڈنمارک اور سکنڈے نیویا کے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوں اور اس کا ثواب ان بہنوں کے حساب میں لکھا جائے جنہوں نے قربانی کر کے اس مسجد کی تعمیر کی.یہاں لوگوں کا سارا دن غروب آفتاب تک تانتا بندھا رہتا ہے.بچے بوڑھے جو ان سب ہی حیرت سے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کو دیکھنے آتے ہیں.بعض ان میں سے خصوصاً بچے نماز میں شامل ہو جاتے ہیں آپ دعا جاری رکھیں.اللہ تعالیٰ اس سفر کو ہرلحاظ سے بابرکت بنائے.“ اس پیغام کے بعد حضور نے مزید لکھا:.

Page 148

تاریخ احمدیت.جلد 24 130 سال 1967ء السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ کا تارملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء.امید ہے آپ کو بھی تار مل گیا ہوگا.اللہ تعالیٰ یہ خوشی آپ کو خصوصاً اور تمام لجنہ کی ممبر خواتین کو عموماً مبارک کرے.اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول فرمائے اور اپنے خاص فضل سے اس مسجد کو اس علاقہ میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مرکز بنائے.108 ڈینش مشنری سوسائٹی کے وفد سے ملاقات تقریب افتتاح کے سبب اسلام کا اس قدر چرچا ہوا کہ عیسائی حلقے بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ ڈینش مشنری سوسائٹی کے سیکرٹری نے جو پاکستان میں ڈینش چرچ کے مناد بھی رہ چکے ہیں، عیسائی علماء کے ایک گروہ کے ساتھ حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر تبادلہ خیالات کی درخواست کی.چنانچہ ڈینیش مشنری سوسائٹی کے بعض نامور مناد، کوپن ہیگن یو نیورسٹی کے مستشرق اور کوپن ہیگن یو نیورسٹی کے اینتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر اور ان کے مشیر کے علاوہ عیسائی منادوں کے اس بورڈ کے ممبر جو احمدیت پر تحقیق کر رہا تھا.۲۲ جولائی بروز ہفتہ شام سات بجے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.اراکین وفد کا تعارف کرانے کے بعد ڈینش مشنری سوسائٹی کے سیکرٹری نے اس ملاقات کی غرض بیان کی.اور اس کے بعد حضور سے یہ سوال کیا کہ احمد یہ جماعت میں حضور کا مقام کیا ہے؟ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا کہ میں اور جماعت احمد یہ ایک ہی وجود ہیں جماعت کے لیے میرے تمام ایسے احکام کی جو امر معروف ہوں.اطاعت واجب ہے اور میرے لیے قرآن مجید اور سنت نبوی کی پیروی ضروری ہے.اس کے بعد یہ سوال کیا گیا کہ جماعت احمدیہ کے تعلقات اہل سنت و الجماعت اور اہل تشیع سے کیسے ہیں؟ حضور نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ بنیادی طور پر ہم میں اتحاد موجود ہے اور اسلام کے سب فرقے ہی اللہ ، قرآن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں ہمارا زیادہ اختلاف فقہ میں یا غیر بنیادی باتوں میں ہے.اور جہاں کہیں ہماری مخالفت ہوتی ہے وہ بحیثیت سنی یا شیعہ ہونے کے نہیں ہوتی.بلکہ انفرادی یا مقامی طور پر ہوتی ہے.ہماری شاندار تبلیغی مساعی کے نتائج دیکھ کر مسلمان ہمیں دن بدن بنظر استحسان دیکھ رہے ہیں.اور اہلِ علم طبقہ میں ہماری قدر بڑھ رہی ہے.

Page 149

تاریخ احمدیت.جلد 24 131 سال 1967ء اس سوال پر کہ احمدیت کے آئندہ تعلقات عیسائیت سے کیا ہوں گے؟ حضور نے فرمایا کہ موجودہ عیسائیت اور اسلام میں بہت زیادہ فرق ہے.لیکن ایک عیسائی اور مسلمان میں انسانیت ایک جیسی ہے.ہمیں آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرنا چاہیئے.تا کہ ایک دوسرے کے خیالات کا علم ہو کر غلط نہی دور ہو.ایک دو موقعوں پر ایک عیسائی پادری نے حضور کے اس غیر معمولی اثر کو جو حاضرین پر ہورہا تھا دور کرنے کے لیے بعض اعتراضات غیر مناسب رنگ میں کرنے شروع کر دیے.اس پر عبد السلام صاحب میڈسن (جو نو مسلم احمدی ہیں ) جوش میں آگئے.مگر حضور نے بڑے تحمل اور حکیمانہ رنگ اختیار کرتے ہوئے اپنے جواب کو جاری رکھا.اور عبد السلام صاحب میڈسن کو بھی صبر کی تلقین کی.ملاقات کے آخر میں حضور نے عیسائیت کے ان مذہبی رہنماؤں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُس انعامی چیلینج کا انگریزی ترجمہ پیش کیا.جو حضور نے اپنی کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب“ کے صفحہ ۳۴ پر دیا تھا.جس میں حضور نے پادری صاحبان کو بائبل سے سورہ فاتحہ کے حقائق و معارف پیش کرنے کی دعوت دی تھی.حضور نے فرمایا کہ یہ دعوت اب بھی کھلی ہے.اور ہمیں خوشی ہوگی کہ اگر عیسائیت کی سچائی اور اسلام کی صداقت کا فیصلہ کرنے کے لیے عیسائی حضرات اس دعوت کو قبول کریں.اس کے علاوہ حضور نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل چیلنج بھی دہرایا.اسی خیال سے یہ اشتہار جاری کیا جاتا ہے اور ظاہر کیا جاتا ہے کہ جس قدر اصول اور تعلیمیں قرآن شریف کی ہیں.وہ سراسر حکمت اور معرفت اور سچائی سے بھری ہوئی ہیں.اور کوئی بات ان میں ایک ذرہ مؤاخذہ کے لائق نہیں اور چونکہ ہر ایک مذہب کے اصولوں اور تعلیموں میں صد با جزئیات ہوتی ہیں.اور ان سب کی کیفیت کا معرض بحث میں لانا ایک بڑی مہلت کو چاہتا ہے.اس لیے ہم اس بارہ میں قرآن شریف کے اصولوں کے منکرین کو ایک نیک صلاح دیتے ہیں کہ اگر ان کو اصول اور تعلیمات قرآنی پر اعتراض ہو تو مناسب ہے کہ وہ اوّل بطور خود خوب سوچ کر دو تین ایسے بڑے سے بڑے اعتراض بحوالہ آیات قرآنی پیش کریں.جو ان کی دانست میں سب اعتراضات سے ایسی نسبت رکھتے ہوں جو ایک پہاڑ کو ذرہ سے نسبت ہوتی ہے.یعنی ان کے سب اعتراضوں سے ان کی نظر میں اقوامی واشد اور

Page 150

تاریخ احمدیت.جلد 24 132 سال 1967ء انتہائی درجہ کے ہوں جن پر ان کی نکتہ چینی کی پر زور نگاہیں ختم ہو گئی ہوں.اور نہایت شدت سے دوڑ دوڑ کر اُنہی پر جا ٹھہری ہوں.سوایسے دو یا تین اعتراض بطور نمونہ پیش کر کے حقیقت حال کو آزما لینا چاہئے کہ اس سے تمام اعتراضات کا بآسانی فیصلہ ہو جائیگا کیونکہ اگر بڑے اعتراض بعد تحقیق نا چیز نکلے.تو پھر چھوٹے اعتراض ساتھ ہی نابود ہو جائیں گے.اور اگر ہم اُن کو کافی و شافی جواب دینے سے قاصر رہے اور کم سے کم یہ ثابت نہ کر دکھایا کہ جن اصولوں اور تعلیموں کو فریق مخالف نے بمقابلہ ان اصولوں اور تعلیموں کے اختیار کر رکھا ہے وہ ان کے مقابل پر نہایت درجہ رذیل اور ناقص اور ڈورا ز صداقت خیالات ہیں تو ایسی حالت میں فریق مخالف کو در حالت مغلوب ہونے کے فی اعتراض پچاس روپیہ بطور تاوان دیا جائے گا.لیکن اگر فریقِ مخالف انجام کار جھوٹا نکلا اور وہ تمام خوبیاں جو ہم اپنے ان اصولوں یا تعلیموں میں ثابت کر کے دکھلا دیں بمقابل اُن کے وہ اپنے اصولوں میں ثابت نہ کر سکا.تو پھر یا درکھنا چاہیے کہ اسے بلا توقف مسلمان ہونا پڑے گا لارڈ میئر آف وی ڈورا کا حضور کو استقبالیہ 109 ۲۵ جولائی کی صبح کو (HVIDOVRE ) وی ڈورا کے لارڈ میئر نے حضور کے اعزاز میں استقبالیہ دیا اور اپنے خطاب میں کہا:.ہم اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ آپ مسجد کے افتتاح کے لیے بنفس نفیس تشریف لائے اس عزت افزائی پر ہم آپ کے ممنون ہیں ہم اس موقعہ کی یادگار اور شان کے طور پر شہر کا جھنڈا آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.“ لارڈ میئر نے کوپن ہیگن کے متعلق ایک با تصویر کتاب بھی اپنے دستخط کر کے حضور کی خدمت میں پیش کی.جسے حضور نے قبول فرمایا.اور ساتھ ہی ایک صفحہ پر باریک لکھا ہوا ایک فریم شدہ قرآن کریم بطور تحفہ انہیں پیش کیا جسے انہوں نے نہایت ادب سے قبول کیا.پریس کے متعدد نمائندگان کو حضور نے شرف ملاقات بخشا یہ نمائندگان حضور سے بے حد متاثر ہوئے اور ان پر ایک محویت کی سی کیفیت طاری رہی اور حضور کی شخصیت میں ایک خاص روحانی کشش اور جذب محسوس کرتے رہے مثلاً ان میں سے ایک نمائندہ تو حضور کی ذات سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ

Page 151

تاریخ احمدیت.جلد 24 133 سال 1967ء کئی گھنٹے تک مشن ہاؤس میں مقیم رہا.اور عصر کی نماز میں پورا وقت مسجد کے اندر رہ کر حضور کو نماز پڑھاتے دیکھتا رہا.پریس کا ایک اور نمائندہ اگلے روز آیا اور کہا کہ میں اب دوبارہ حضور کی زیارت کے لئے آیا ہوں اور کہنے لگا کہ میں تو اس شخص کو سر سے پاؤں تک روحانیت میں بھرا ہوا پا تا ہوں“ ایک امریکن استاد جو تمام مذاہب کے متعلق وسیع علم رکھتے ہیں اور خود ایک علمی اور مذہبی حلقہ کے سر براہ ہیں انہوں نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ مسجد کے افتتاح کے وقت حضور سے چند لمحوں کی ملاقات اس کی روحانی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات تھے.یورپین احمدیوں کا حال یہ تھا کہ پروانوں کی طرح ہر وقت حضور کے اردگرد حاضر رہتے اور حضور کی ہر بات سننے کے لئے بیقرار رہتے گو یا شمع خلافت پر قربان ہو جانا چاہتے ہیں.شمالی یورپ میں عموماً اور سویڈن میں خصوصاً کسی مرد کے لئے رونا اس کی بزدلی اور کمزوری کی علامت سمجھا جاتا ہے اور یہ صرف عورت کے لئے جائز سمجھا جاتا ہے اور اس بات پر زور بھی دیا جاتا ہے کہ ہر گز اپنے جذبات کا کھلم کھلا اظہار نہ کیا جائے.مگر حضور کی ذات نے چند لمحوں میں کچھ اس طرح ان کو متاثر کیا کہ وہ اس فطری اور قومی ضبط کو بھول گئے اور بات ان کے بس کی نہ رہی.قدم قدم پر ان کے دبے ہوئے آنسو اُبل پڑتے اور وہ اپنی گہری محبت کے جذبات کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکے.یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپین لوگ بالکل جذباتی نہیں ہوتے اور وہ کسی کے ساتھ جذباتی تعلق نہیں رکھتے مگر جو بھی حضور سے ملاقات کرتا یا بغلگیر ہونے کا شرف حاصل کرتا وہ ایک دم جذبات سے مغلوب ہو کر رہ جاتا اور بے تابانہ حضور سے اپنی محبت کا اظہار کرتا.افتتاح کے وقت جن سیکنڈے نیوین احمدیوں نے حضور کو خوش آمدید کہا اس وقت وہ اپنے جذبات سے اس قدر مغلوب اور گلو گیر ہوئے کہ بمشکل الفاظ ادا کر سکے اور الفاظ ان کے حلق میں پھنس کر رہ جاتے تھے.ہر شخص ایک غیر معمولی روحانی خوشی سے لطف اندوز ہو رہا تھا.ہر ایک نے دن رات ایک کر کے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حضور کی خدمت کرنے اور خدمت میں حاضر رہنے کی سعادت حاصل کی اور حضور نے بھی از راہ شفقت اپنی انتہائی مصروفیات کے باوجود ہر ایک پر نظر کرم رکھی.اس موقعہ پر پاکستان کے ایک مشہور سجادہ نشین کے صاحبزادے اور ان کی ڈینیش بیوی نے بھی حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.الحمد للہ

Page 152

تاریخ احمدیت.جلد 24 134 سال 1967ء افتتاحی تقریب کا اس قدر چرچا ہوا کہ زائرین کا ایک تانتا بندھا رہا اور لوگ سینکڑوں کی تعداد میں خدا کا گھر دیکھنے کے لئے آتے رہے اور اس طرح اس ملک میں اسلام سے تعارف کا ایک وسیع راستہ کھل گیا.0 110.اسلام کے خلاف ایک اخبار کی پھیلائی ہوئی غلط فہمی اور اس کی معجزانہ تر دید کوپن ہیگن کے روز نامہ politiken “ نے اپنے ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء کے شمارہ میں اسلام کے خلاف یہ غلط فہمی پھیلائی کہ اس نے مسجد کے افتتاح کی رپورٹ اس انداز سے مرتب کی کہ جس سے یہ اثر پڑے کہ گویا مسلمان خدائے واحد کی نہیں بلکہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتے ہیں.اسی طرح اس نے مسجد میں پہلی نماز جمعہ کی جو تصویر شائع کی اس کے نیچے اس مفہوم کی عبارت درج کی کہ ڈینش مسلمان محمد ﷺ کی عبادت کرنے میں مصروف ہیں.ظاہر ہے یہ بات بالبداہت غلط ہے اور اس غلط فہمی کا ازالہ ضروری تھا.چنانچہ اگلے ہی روز جب بارہ نامی گرامی پادریوں کا ایک وفد سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے تبادلہ خیالات کرنے آیا تو حضور نے ان کو اس طرف توجہ دلائی جس پر وہ بہت شرمندہ ہوئے اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ خود اس کی تردید شائع کرا دیں گے.ادھر اللہ تعالی نے وہاں کی ایک اہل علم عیسائی خاتون انگرؤلف (Inger Wulff) کے دل میں یہ تحریک فرمائی کہ وہ خود اس سراسر غلط بات کی تردید کرے چنانچہ اس عورت نے اس اخبار کو ایک خط لکھا اور اس میں پرزور طریق پر اس امر کی تردید کی اور افسوس کا اظہار کیا کہ ہم اپنے علم پر فخر کا اظہار کرتے ہیں حالانکہ ہمارا ہی ایک اخبار اسلام کی طرف ایسی بات منسوب کرتا ہے جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے.اللہ تعالی نے ایسا تصرف فرمایا کہ اس اخبار نے اپنے ۲۶ جولائی کے پرچہ میں اس عیسائی خاتون کا مراسلہ شائع کر کے خود ہی اپنی پھیلائی ہوئی غلط فہمی کا ازالہ کر دیا.ڈنمارک سے انگلستان تک 111 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث مسجد نصرت جہاں کے افتتاح اور ڈنمارک میں قریباً ایک ہفتہ تک شب وروز دینی اور تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہنے کے بعد ۲۶ جولائی ۱۹۶۷ء کو پونے چار بجے سہ پہر انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.ڈنمارک کے مخلص احمدیوں ، یورپ کے مبلغین احمدیت اور دوسرے سر بر آوردہ حضرات نے حضور کو دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.جہاز ساڑھے پانچ بجے

Page 153

تاریخ احمدیت.جلد 24 135 سال 1967ء شام لنڈن کے فضائی مستقر پر پہنچا.انگلستان اور دوسرے علاقوں کے سینکڑوں مخلص احمدی ، جن میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری بھی تھے ، حضور کے استقبال کے لئے موجود تھے.حضور نے تمام اصحاب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا.لجنہ اماءاللہ انگلستان نے بھی خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی.اخباری نمائندوں نے پر لیس ملاقات میں حضور سے امن کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا.حضور نے جواب دیا کہ مشتبہ ہیں.حضور نے مزید فرمایا جب تک انسان اپنے خالق کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور اس سے زندہ تعلق قائم نہیں کرے گا.دُنیا ہولناک تباہی کی طرف بڑھتی چلی جائے گی.انگلستان میں پہلا خطبہ جمعہ ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ء کو سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے انگلستان میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.چنانچہ حضور نے مسجد فضل لندن میں احباب جماعت پر یہ حقیقت واضح فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ کے حصن حصین ہیں.جس میں داخلہ قرآن مجید سیکھنے اور اُس کی تعلیم پر کماحقہ عمل پیرا ہونے کے بغیر ممکن نہیں..استقبالیہ اور تاریخی خطاب بعنوان ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ اسی شام حضور نے اس استقبالیہ میں شرکت فرمائی، جو حضور کے اعزاز میں وانڈ زورتھ ٹاؤن ہال لندن میں منعقد ہوا.اس خصوصی تقریب میں وانڈ زور تھ کے میر سر ہیرالڈ ہیو جینکنز ہمبر پارلیمنٹ مسٹر ہیرلڈ ٹشو برٹ جو پاکستان سوسائٹی کے اعزازی سیکرٹری بھی ہیں محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، سیرالیون ( مغربی افریقہ) کے ہائی کمشنر اور متعد د دوسری نامور شخصیتیں بھی شریک ہوئیں.لارڈ میر سر ہیرلڈ ہیو جینکنز اور محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی تقریروں میں حضور کو خوش آمدید کہا.14 حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس تاریخی تقریب میں امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ کے عنوان سے ایک پُر جلال تاریخی خطاب فرمایا.جس کا چیدہ چیدہ ذکر درج ذیل ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.احمد یہ جماعت کے امام کی حیثیت میں مجھے ایک روحانی مقام پر فائز

Page 154

تاریخ احمدیت.جلد 24 136 سال 1967ء ہونے کی عزت حاصل ہے.اس حیثیت میں مجھ پر بعض ایسی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جن کو میں آخری سانس تک نظر انداز نہیں کر سکتا.میری ان ذمہ داریوں کا دائرہ تمام بنی نوع انسان تک وسیع ہے اور اس عقد اخوت کے اعتبار سے مجھے ہر انسان سے پیار ہے.احباب کرام! انسانیت اس وقت ایک خطرناک تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے.اس سلسلہ میں میں آپ کے لئے اور اپنے تمام بھائیوں کے لئے ایک اہم پیغام لایا ہوں.موقعہ کی مناسبت کے پیش نظر میں اسے مختصر بیان کرنے کی کوشش کروں گا.میرا یہ پیغام امن صلح اور انسانیت کے لئے امید کا پیغام ہے.اور میں 66 اُمید رکھتا ہوں کہ آپ پورے غور کے ساتھ میری ان مختصر باتوں کو سنیں گے اور پھر ایک غیر متعصب دل اور روشن دماغ کے ساتھ ان پر غور کریں گے.“ اس کے بعد حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختصر سوانح بیان فرمائے اور آپ کی صداقت کے نشان بالخصوص چاند سورج گرہن کے متعلق حاضرین کو آگاہ فرمایا پھر آپ کی بعض پیشگوئیوں مثلا زار روس اور جنگ عظیم اول اور دوم کے متعلق وجد آفریں ذکر کرتے ہوئے آپ نے بڑے جلال کے ساتھ فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیسری جنگ کی بھی خبر دی ہے جو پہلی دونوں جنگوں سے زیادہ تباہ کن ہوگی.دونوں مخالف گروہ ایسے اچانک طور پر ایک دوسرے سے ٹکرائیں گے کہ ہر شخص دم بخودرہ جائے گا.آسمان سے موت اور تباہی کی بارش ہوگی اور خوفناک شعلے زمین کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے.نئی تہذیب کا قصرِ عظیم زمین پر آ رہے گا.دونوں متحارب گروہ یعنی روس اور اس کے ساتھی اور امریکہ اور اس کے دوست ہر دو تباہ ہو جا ئینگے ان کی طاقت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی.ان کی تہذیب و ثقافت برباد اور ان کا نظام درہم برہم ہو جائے گا.بیچ رہنے والے حیرت اور استعجاب سے دم بخود اور ششدر رہ جائیں گے.روس کے باشندے نسبتاً جلد اس تباہی سے نجات پائیں گے اور بڑی وضاحت سے یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اس ملک کی آبادی پھر جلد ہی بڑھ جائے گی اور

Page 155

تاریخ احمدیت.جلد 24 137 سال 1967ء وہ اپنے خالق کی طرف رجوع کریں گے اور ان میں کثرت سے اسلام پھیلے گا اور وہ قوم جو زمین سے خدا کا نام اور آسمان سے اس کا وجود مٹانے کی شیخیاں بگھار رہی ہے وہی قوم اپنی گمراہی کو جان لے گی اور حلقہ بگوش اسلام ہوکر اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختگی سے قائم ہو جائے گی.شاید آپ اسے ایک افسانہ سمجھیں مگر وہ جو اس تیسری عالمگیر تباہی سے بیچ نکلیں گے اور زندہ رہیں گے.وہ دیکھیں گے کہ یہ خدا کی باتیں ہیں اور اس قادر و توانا کی باتیں ہمیشہ پوری ہی ہوتی ہیں.کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی.پس تیسری عالمگیر تباہی کی انتہاء اسلام کے عالمگیر غلبہ اور اقتدار کی ابتداء ہوگی اور اس کے بعد بڑی سرعت کے ساتھ اسلام ساری دنیا میں پھیلنا شروع ہوگا اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام قبول کر لیں گے اور یہ جان لیں گے کہ صرف اسلام ہی ایک سچاند ہب ہے اور یہ کہ انسان کی نجات صرف محمد رسول اللہ کے پیغام کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہے.“ پھر حضور نے سب حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.یہ بھی یادر ہے کہ اسلام کے غلبہ اور اسلامی صبح صادق کے طلوع کے آثار ظاہر ہورہے ہیں گوا بھی دھندلے ہیں لیکن اب بھی ان کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے.اسلام کا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہوگا اور دنیا کو منور کرے گا لیکن پہلے اس سے کہ یہ واقع ہو، ضروری ہے کہ دنیا ایک اور عالمگیر تباہی میں سے گزرے.ایک ایسی خونی تباہی جو بنی نوع انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے گی لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ ایک انداری پیشگوئی ہے اور انذاری پیشگوئیاں تو بہ اور استغفار سے التواء میں ڈالی جاسکتی ہیں بلکہ مل بھی سکتی ہیں اگر انسان اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور تو بہ کرے اور اپنے اطوار درست کر لے.وہ اب بھی خدائی غضب سے بچ سکتا ہے اگر وہ دولت اور طاقت اور عظمت کے جھوٹے خداؤں کی پرستش چھوڑ دے اور اپنے ربّ سے حقیقی تعلق قائم کرے.فسق و فجور سے باز آجائے.حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے لگے اور بنی نوع انسان کی سچی خیر خواہی اختیار کر لے مگر اس کا انحصار تو ان

Page 156

تاریخ احمدیت.جلد 24 138 سال 1967ء قوموں پر ہے جو اس وقت طاقت اور دولت اور قومی عظمت کے نشہ میں مست ہیں کہ آیا وہ اس مستی کو چھوڑ کر روحانی لذت اور سرور کے خواہاں ہیں یا نہیں؟ اگر دنیا نے دنیا کی مستیاں اور خرمستیاں نہ چھوڑیں تو پھر یہ انذاری پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی اور دنیا کی کوئی طاقت اور کوئی مصنوعی خدا دنیا کو موعودہ ہولناک تباہیوں سے بچانہ سکے گا.پس اپنے پر اور اپنی نسلوں پر رحم کریں اور خدائے رحیم وکریم کی آواز کو سنیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور صداقت کو قبول کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے.“ پھر حضور انور نے مختصرا اس روحانی انقلاب کا ذکر فرمایا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بر پا ہوا تھا اور جس نے عیسائیت کی یلغار کا رخ پلٹ کر رکھ دیا تھا.آپ نے فرمایا کہ افریقہ کا وسیع براعظم عیسائیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی بجائے اسلام کے خنک اور سرور بخش سایہ تلے جمع ہو رہا ہے.ہندوستان میں یہ حالت ہے کہ احمدی نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے بڑے بڑے پادری گھبراتے ہیں اور مکہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا اور نہ کبھی ہو گا (انشاء اللہ ).غلبہ اسلام کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں ان کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.مگر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں ایک تیسری عالمگیر تباہی کی بھی خبر دی گئی ہے جس کے بعد اسلام پوری شان کے ساتھ دنیا پر غالب ہوگا.مگر یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ تو بہ اور اسلام کی بتائی ہوئی راہیں اختیار کرنے سے یہ تباہی ٹل بھی سکتی ہے.اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ اپنے خدا کی معرفت حاصل کر کے اور اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو اس تباہی سے بچالیں یا اس سے دُوری کی راہیں اختیار کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو ہلاکت میں ڈالیں.ڈرانے والے عظیم انسان نے خدا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے نام پر (مندرجہ ذیل الفاظ میں ) آپ کو ڈرایا ہے.اور اپنا فرض پورا کر دیا ہے.میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کو اپنا فرض پورا کرنے کی توفیق دے.میں اپنی تقریر اس عظیم شخص کے اپنے الفاظ پر ختم کرتا ہوں :.

Page 157

تاریخ احمدیت.جلد 24 139 سال 1967ء دو یادر ہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے.اور اس قدرموت ہوگی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی اور اکثر مقامات زیروز بر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عظمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے.اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دُنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا (بنی اسرائیل :۱۲) اور تو بہ کرنے والے امان پائیں گے.اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہوگا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے

Page 158

تاریخ احمدیت.جلد 24 140 سال 1967ء والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد یگانہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا.جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ 766 زنده - 115 حضور کی یہ تقریر پینتالیس منٹ تک جاری رہی.حاضرین نے اسے پوری دلجمعی سے گہرے انہماک کے عالم میں سُنا اور وہ بہت متاثر ہوئے سب نے حضور کی تقریر کو جو صاف گوئی ، خلوص اور جذبہ ہمدردی کی آئینہ دار تھی ، بہت پسند کیا اور سراہا.اس نہایت تاریخی پر معارف اور جلالی خطاب کے بارے میں سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث 116 نے ۲۰ /اکتوبر ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں بتایا:.” میرا یہ مضمون تبلیغ کے لحاظ سے بڑا ہی مفید ثابت ہورہا ہے جو محض خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے.جب ہمارے گورنر جنرل گیمبیا نے یہ مضمون ریویو آف ریچز میں پڑھا تو انہوں نے مزید کا پیوں کی خواہش ظاہر کی.کہ وہ اپنے دوستوں کو بھی یہ مضمون پڑھانا چاہتے ہیں.کل ہی امام کمال یوسف کا ڈنمارک سے خط آیا ہے کہ افسوس ہے کہ ابھی تک اس مضمون کا ترجمہ ڈینش زبان میں نہیں ہو سکا.لیکن ہر اس شخص نے جس کو ہم نے یہ مضمون پڑھایا ہے.احمدی تھے یا غیر احمدی یا زیرتبلیغ عیسائی.ہر ایک نے یہ مضمون پڑھنے کے بعد اس بات پر زور دیا ہے کہ اس مضمون کا جلد ترجمہ ہونا چاہئے.....میرے اس پیغام کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر بھی جس کو اللہ تعالیٰ نے توفیق

Page 159

تاریخ احمدیت.جلد 24 141 سال 1967ء دی ہے، اسلام کے خدا کی حقیقی شناخت کی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کی معرفت کی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کو پہچاننے کی.اس پر بھی اس دعوت کے نتیجہ میں ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ گئی ہیں.امیر صاحب مقامی کا مبارکباد کا تار 117 امیر صاحب مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے ۲۷ جولائی ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت اقدس میں ہدیہ تبریک عرض کرتے ہوئے حسب ذیل تار ارسال کیا :.ربوہ ۲۷ جولائی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث معرفت اسلام آباد.لنڈن ہم جملہ اراکین جماعت احمد یہ ربوہ پیہم موصول ہونے والے مشفقانہ سلاموں اور محبت بھرے پیغاموں پر حضور کا شکریہ ادا کرتے ہیں.یہ امر ہمارے لئے باعث مسرت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کا دورہ کامیاب رہا، الحمدللہ.از راہ شفقت ہماری طرف سے پُر خلوص اور دلی مبارکباد قبول فرما کر ہمیں سرفراز فرمائیں.ہم حضور کے شکر گزار ہیں کہ حضور مصروفیت کے ان ایام میں بھی اپنے حقیر خدام کو نہیں بھولے اور ہمیں مسلسل یا د فرماتے ہیں.اسی طرح اس عارضی جدائی پر ہمارے دل بھی اُداس ہیں.ہم اُس دن کے بشدت منتظر ہیں کہ حضور کامیاب وکامران بخیریت واپس تشریف لائیں اور ہمارے درمیان رونق افروز ہوں.ہمارے دل حضور کے ساتھ ہیں.ہم ہر آن دُعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضور کا حامی و ناصر ہو.حضور کی مساعی میں برکت ڈالے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچانے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ہر آن اور ہر گام پر حضور کا حافظ و ناصر ہو.آمین.حضور انور کا جوابی برقیہ لنڈن ۲۸ جولائی مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی ربوہ آپ کے ارسال کردہ تار کا شکریہ.تمام احباب جماعت بہنوں اور بچوں کو

Page 160

تاریخ احمدیت.جلد 24 142 سال 1967ء ذاتی طور پر میری طرف سے مبارکباد، محبت بھر اسلام اور دعا پہنچادیں.مسجد نصرت جہاں کا افتتاح بلاشبہ ہماری تاریخ کا ایک عظیم واقعہ ہے.لیکن ہمیں یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اب ہم پر اور بھی زیادہ گراں بہا ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ آئندہ ہمیں اور بہت سی مساجد تعمیر کرنا ہیں اور اپنے حقیقی احمدی ہونے کا ثبوت دینا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.مرزا ناصر احمد ساؤتھ آل میں بصیرت افروز خطاب خليفة اح - 10 166 حضور نے ۲۹ جولائی ۱۹۶۷ء کولندن کی جماعت احمد یہ ساؤتھ آل کی دعوت عصرانہ میں شرکت فرمائی.اس موقع پر انگلستان کے متعدد مقامات سے دو سو کے قریب احباب موجود تھے.مکرم ناصر احمد صاحب پریزیڈنٹ جماعت احمد یہ ساؤتھ آل نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.جس میں تمام جماعت کی طرف سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے جماعت احمد یہ ساؤتھ آل کی گزشتہ سال کی کارگزاری کا بھی ذکر کیا.حضور نے اپنے بصیرت افروز خطاب کے پہلے حصے میں بتایا کہ مجھے اس جگہ اپنے بھائیوں سے مل کر اس قدر خوشی ہوئی ہے کہ اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا.خدا تعالیٰ نے احمدیت کے رشتے سے ہمارے اندر ایک جذبہ اخوت پیدا کر دیا ہے.جسے میں نے یہاں بھائی کے لفظ سے پکارا ہے.مگر اپنے مقام کے لحاظ سے مجھے آپ سب اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں.جس طرح پاکستان سے آنے والا ایک شخص اگر میں سال کے بعد اپنے بھائی سے ملے تو وہ چند گھنٹوں کے بعد اس سے بے تکلف ہو جاتا ہے.اسی طرح ہمارے اندر چند گھنٹوں کے اندر بے تکلفی پیدا ہو جاتی ہے.ڈنمارک، جرمنی ، فرانس، اٹلی، سپین، نائیجیریا، غانا، لیبیا، آئیوری کوسٹ، گیمبیا، سیرالیون، تنزانیہ، الجزائر ، یوگنڈا میں رہنے والے احمدی خواہ ایک دوسرے کی شکلوں سے واقف ہوں یا نہ ہوں.ان کے دلوں میں بھائیوں جیسی محبت ہے.شائد اس سے بھی زیادہ.ایسی جو دو سگے بھائیوں میں بھی نہ ہو.یہ احمدیت کا احسان ہے اس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.آپ کو بھی مجھے سے مل کر ایسی ہی خوشی ہوئی ہوگی.اس بات کو سمجھنا دوسروں کے لئے مشکل ہے.

Page 161

تاریخ احمدیت.جلد 24 143 سال 1967ء کوپن ہیگن میں احمدی عورتوں نے کہا کہ جماعت کا خرچ بچانا چاہئے ہم خود کام کریں گی.چنانچہ وہ صبح ناشتہ کے وقت سے رات کے بارہ بجے تک کام کرتیں.۲۵ ،۳۰ افراد کا کھانا تیار کرتیں.یہ ایک بڑی تعداد ہے ان ممالک کے لحاظ سے.یہاں ہمارے لحاظ سے شائد نہ ہو.وہ ہر وقت مسکراتے ہوئے خوشی خوشی یہ کام سرانجام دیتیں.اس وجہ سے کہ وہ احمدیت کی بدولت ایک رشتہ اخوت میں منسلک تھیں.خطاب کے دوسرے حصے میں حضور نے اسلام کی قائم کردہ عظیم الشان بین الاقوامی انسانی برادری کا تذکرہ کیا.پھر قرآنی تعلیم کے ذریعہ دُنیا میں امن وسلامتی کا معاشرہ قائم کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن نے جو پُر حکمت تعلیمات دی ہیں.اُن کا ذکر نہایت وجد آفریں انداز میں فرمایا.مثلاً ہر مذہب کی عبادت گاہ کی حفاظت کی جائے.مذہبی گفتگو ایسا رنگ اختیار نہ کرے جس سے دوسرے مذہب کے پیروکار کو تکلیف ہو.اسلام نے انسان کی جان، مال اور عزت کی ضمانت دی ہے اور فرمایا کہ جو شخص کسی کو قتل کرتا ہے گویا اس نے ساری دنیا کو قتل کر دیا ہے.اسلام غاصب کا نہیں مظلوم کا ساتھ دیتا ہے.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ کسی کی غیبت نہ کرو.اگر کسی کی معیوب بات سامنے آئے تو بھی مجلس میں بیان نہ کرو کسی کی طرف ایسی بات منسوب نہ کرو.جو اس نے نہ کہی ہو.کسی کے خلاف بدظنی نہ کرو.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ انسان کسی کو حقیر نہ سمجھے بلکہ سب سے کمتر اور حقیر اپنے کو ہی سمجھے.تکبر کے خلاف اسلام نے علم بلند کیا ہے.اگر ہر شخص اپنے آپ کو دوسروں سے حقیر سمجھے تو جولڑائیاں ہوتی ہیں ختم ہو جا ئیں.آخر میں حضور نے احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ جو اس علاقہ میں رہتے ہیں.جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہزاروں دوست رہتے ہیں.آپ کو ایسا نمونہ دکھانا چاہئے کہ جس سے ثابت ہو جائے کہ اسلام دوسروں سے نفرت و حقارت کو نا پسند کرتا ہے.دنیا نمونہ کی محتاج ہے.اسی صورت میں آپ اسلام کے سب سے بڑے مبلغ ٹھہریں گے.اگر آپ اس تعلیم کے مطابق عمل کریں گے.تو پھر ہی حقیقی احمدی کہلائیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اور مجھے بھی حقیقی احمدی بنے کی توفیق عطا فرمادے.اس جلسہ میں احمدی احباب کے علاوہ بعض ایسے ہندو اور سکھ حضرات نے بھی شرکت کی جو ساؤتھ آل میں مستقل طور پر رہائش پذیر تھے.

Page 162

تاریخ احمدیت.جلد 24 144 سال 1967ء تعلیم الاسلام سنڈے سکول کا پہلی بار معا ینہ حضور نے ۳۰ جولائی کی صبح کو تعلیم الاسلام سنڈے سکول لنڈن کا معاینہ فرمایا.معائنہ کے وقت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی حضور کے ہمراہ تھے.یہ سکول جماعت احمد یہ ساؤتھ آل نے ۱۹۶۶ء میں جاری کیا تھا.تا کہ احمدی بچوں کی صحیح تربیت ہو سکے.اور اُن کو اسلامی ماحول میں تعلیم دی جا سکے.جلسہ سالانہ انگلستان سے پُر معارف خطاب 122- ساڑھے تین بجے وانڈ زورتھ ٹاؤن ہال میں انگلستان کی احمدی جماعتوں کا چوتھا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.جس میں ایک ہزار کے قریب شمع خلافت کے پروانوں نے شرکت کی.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے اس موقع پر پر معارف خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری انگلستان کی جماعت احمدیہ پاکستان اور ہندوستان کے بعد سب سے بڑی جماعت (اردو بولنے اور سمجھنے کے لحاظ سے) ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آج اپنے بھائیوں سے ذرا تفصیلی گفتگو کروں اور ابتدا ہی سے جو باتیں وقوع پذیر ہوئیں ان کا ذکر کروں.آپ سب جانتے ہیں کہ ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو جماعت پر کیا قیامت گزری.وہ جو ہمارا پیارا تھا جس نے ۵۲ سال تک ہماری تربیت کی تھی.ہمارے لئے دُکھ اُٹھانے والا ، ہماری خاطر راتوں کو جاگنے والا ، جس نے ہمارے لئے ہر قسم کی جانی و مالی قربانیاں دی تھیں.جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے رنگ میں ہم میں قائم کیا تھا وہ الہی منشاء کے مطابق اپنے محبوب اللہ کے پاس بلا لیا گیا.اور جماعت کے ہر فرد نے یہ سمجھا کہ ہمارے سہارے ٹوٹ گئے ہیں اور ہر دل نے یہ بھی یقین کر لیا کہ ایک اللہ تعالیٰ کا سہارا نہیں ٹوٹا اور نہیں ٹوٹ سکتا.وہ دن ہمارے لئے قیامت سے کم نہیں تھا.لیکن ہم نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا.ہم اس کی رضا پر راضی ہوئے.ہم نے اس کے حضور یہ عرض کی کہ اے خدا دکھ تو بڑا پہنچا ہے مگر ہم تیری رضا اور مرضی پر خوش ہیں تو ہمیں اکیلا نہ چھوڑ یو.ہر دل کی یہی صدا تھی اور دنیا کی نگاہ میں ایک نا قابل تسلیم بات ہمیں یہ نظر آئی کہ نجی کے بسنے

Page 163

تاریخ احمدیت.جلد 24 145 سال 1967ء والے اور امریکہ کے رہنے والے، انگلستان کے رہنے والے، دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے احمدی خواہ وہ پاکستانی ہوں یا غیر پاکستانی.مرد و عورت جن میں بعض پرانے احمدی تھے اور بعض نئے ، ان سب کے خیالات کی رو ایک ہی راستہ پر چل رہی تھی.ان دنوں میں نے ہزار ہا خطوط وصول کئے ہیں تین باتیں ہر ایک خط میں مشترک تھیں.(1) پہلی تو یہ کہ ہمیں سخت اندوہ اور غم ہے کہ ہمارا سر دار ہم سے جدا ہو گیا.(۲) دوسری بات یہ کہ ہمیں فکر ہے کہ اس نئے دور میں جماعت کوئی غلطی نہ کر جائے.(۳) تیسرے انتخاب خلافت کے بعد ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے احسان پر شکر سے لبریز ہو گئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا فضل کیا.ایک قیامت کے دور سے گزرتے ہوئے بھی وہ ہمارا راہبر رہا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک ہی خط تھا جسے ساری جماعت کو Dictate کروایا جا رہا تھا.یہ چیز کسی معجزہ سے کم نہیں.اس دن ایک اور نظارہ بھی جماعت نے دیکھا.ربوہ میں ۳۵ ۴۰ ہزار کے قریب آدمی موجود تھے.ہر دل زخم خوردہ ہر آنکھ نم دار تھی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگوں کو تسلی دلانے کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہورہے ہیں.حضرت مصلح موعود کے وصال سے قبل مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ کسی معاملہ میں سارا خاندان یک جہتی کا مظاہرہ کرے گا.اس خواب کی کسی حد تک تعبیر مجھے معلوم ہوگئی تھی لیکن پوری تعبیر اس وقت معلوم ہوئی جب انتخاب خلافت ہوا.انتخاب سے قبل خاندان مسیح موعود کے جو ممبر انتخاب میں حسب قواعد حصہ لے سکتے تھے ان سب نے فیصلہ کیا کہ ہم انتخاب کے وقت آخر میں سب سے پیچھے بیٹھیں گے اور خدا تعالیٰ ساری جماعت میں سے جس کو بھی خلیفہ بنائے گا اُسے متفقہ طور پر قبول کرلیں گے اور اس کی پوری پوری اطاعت کریں گے.پھر انتخاب کا وقت آیا.میں اپنی کیفیت میں تھا.بعض باتوں کا مجھے علم بھی

Page 164

تاریخ احمدیت.جلد 24 146 سال 1967ء نہیں ہوا.جب انتخاب ہو گیا اور کسی شخص نے مجھے آکر کہا کہ اٹھئے آپ کا انتخاب ہو گیا ہے تو پھر مجھے علم ہوا.یہ کوئی معمولی چیز نہیں.ایک آدمی جسے اُس وقت جماعت کوئی بہت بڑا بزرگ یا عالم یا بڑا آدمی نہ بجھتی تھی خدا تعالیٰ نے اسے اٹھایا اور کرسی خلافت پر بٹھا دیا.اگر بندوں کے اختیار میں ہوتا تو جماعت جسے بزرگ سمجھتی تھی اُسے بٹھا دیتی لیکن خدا نے کہا کہ آج تمہاری نہیں چلے گی بلکہ میں ایک شخص کو جو تمہاری نظر میں کم تر اور نا کا رہ ہے اٹھاؤں گا یہ اُسی کی طاقت ہے نہ کسی انسان کی.خلیفہ وقت کی طاقت کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ اُس کی اپنی کوئی طاقت نہیں.خلیفہ وقت کے علم کا راز یہ ہے کہ وہ اس یقین پر قائم ہوتا ہے کہ میرا اپنا ذاتی کوئی علم نہیں.میں نے گزشتہ دنوں مقاصد حج بیت اللہ سے متعلق جو آٹھ خطبات دیئے تھے جو انوار قرآنی کی شکل میں چھپ چکے ہیں.یہ سارا علم خدا تعالیٰ نے مجھے ایک سیکنڈ میں دے دیا تھا.ایک بجلی سی کوندی اور مجھے ساری سکیم سمجھا دی گئی.ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ ان خطبات کے تیار کرنے میں بڑی محنت کرنی پڑتی ہو گی.میں نے کہا مجھے تو کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی.جب جمعہ آتا ہے تو خدا تعالیٰ خود مضمون میرے دل میں ڈال دیتا ہے.ہاں اس علم کے بعد اقتباسات اور حوالہ جات حاصل کرنے میں کچھ محنت کرنی پڑتی ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں.اُس دن خدا تعالیٰ نے یہ ایک عجیب معجزہ دکھایا کہ میرے جیسے ناکارہ شخص کو جماعت کا خلیفہ بنا دیا.فرشتوں نے ہر احمدی کے دل کو کھول دیا اور اس میں وہ محبت پیدا کر دی جو پہلے وہاں موجود نہیں تھی.جب انتخاب ہو گیا تو مسجد سے باہر کھڑے ہوئے ہزاروں لوگ ایک دم اندر آنے شروع ہوئے اور ایک ابتری سی پیدا ہوگئی.اس وقت میں نے اعلان کیا کہ بیٹھ جاؤ.میری یہ آواز مسجد سے باہر لنگر خانہ تک پہنچی اور کھڑے ہوئے لوگ فوراً بیٹھ گئے.مجھے خلافت کے انتخاب کے چھ سات مہینوں کے بعد لاہور سے ایک شخص کا

Page 165

تاریخ احمدیت.جلد 24 147 سال 1967ء خط آیا.جس نے لکھا کہ انتخاب خلافت سے قبل مجھے آپ سے سخت نفرت تھی جس دن انتخاب ہونا تھا انتخاب سے کچھ وقت پہلے نماز کے وقت آپ کو کھڑا ہونے کے لئے کوئی موزوں جگہ نہ ملی البتہ اگر میں چاہتا تو آپ کو اپنی جگہ دے سکتا تھا لیکن میں نے کہا کہ اس شخص کو جوتیوں میں کھڑا رہنے دے.لیکن اب میری یہ حالت ہے کہ اگر حضور مجھے تندور میں چھلانگ لگانے کا بھی حکم دیں تو میں دریغ نہ کروں گا.یہ تبدیلی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا نشان ہے.جماعت کے دل میں یہ تبدیلی پیدا کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے.جب میں اپنی خلافت کے پہلے جلسہ کے افتتاح کے بعد باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ ہزاروں لوگ جلسہ گاہ سے باہر نکل آئے تا کہ مجھے دیکھ سکیں.ان میں میرے بزرگ، میرے بھائی اور میرے بچے بھی تھے.میں نے ان کے چہرے دیکھے اور محبت کے سمندر کو ان میں موجزن پایا.تب میری آنکھیں نم ہو گئیں اور میں نے اپنے رب سے کہا کہ آج تو نے پھر مجھے وہ محبت دی ہے جس کا میں اہل نہیں.دوسری طرف خدا تعالیٰ نے میرے دل کو چیرا اور ساری کدورتیں دور کر دیں اور ان کی جگہ اپنی محبت ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ سب کی محبت گاڑ دی اور میں ہر چیز کو بھول گیا.یہ محبت قائم ہوئی اور قائم ہے اور مرتے دم تک قائم رہے گی.اب حالت یہ ہے کہ نبی کے ایک مریض کی بیماری کی مجھے اطلاع ملتی ہے یا CONTINENT کے بیمار کی مجھے خبر ہوتی ہے تو اس سے مجھے کم از کم اتنی پریشانی ضرور ہوتی ہے جتنی خود اس کو ہوگی میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مجھے اس کی پریشانی سے زیادہ پریشانی ہوتی ہے کیونکہ شائد یہ دعوئی اس صورت میں صحیح نہ ہولیکن میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجھے ان کے دکھ سے اتنی پریشانی ضرور ہوتی ہے جتنی خودان کو اُٹھانی پڑتی ہے.میں اکثر اپنے سجدوں میں دعا کرتا ہوں کہ اسے خدا جنہوں نے دعا کے لئے لکھا ہے تو ان کی بیماری ہنگی امتحان کی پریشانی کو دور فرما اور جنہوں نے لکھنا چاہا مگر لکھ نہ سکے ان پر بھی فضل کر اور جنہوں نے سستی اور کوتاہی کی ان پر بھی رحم فرما.یہ دعا ئیں اس لئے کرتا ہوں کہ میرا سب سے تعلق ہے اور سب کے لئے میرے دل

Page 166

تاریخ احمدیت.جلد 24 148 سال 1967ء میں محبت پیدا کی گئی ہے.خدا تعالیٰ کی ذات اتنی پیاری اور محبت کرنے والی ہے کہ انسانی عقل اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی.اس تھوڑے سے عرصے میں خدا تعالیٰ نے ہزار ہا لوگوں کی ضرورتوں کو اپنے فضل سے میری دعا کے ذریعے پورا کیا.جن کے حق میں یہ دعائیں قبول ہوئیں وہ ہر جگہ کے ہیں یہاں کے بھی اور افریقہ کے بھی.افریقہ سے مجھے ایک خط آیا.ایک شخص نے لکھا کہ میری چھ سات لڑکیاں ہیں کوئی نرینہ اولاد نہیں.میں نے دعا کی اور اس کے بعد لڑکا پیدا ہوا.کوئی بیوقوف کہے گا کہ یہ اتفاق ہے.ہم زیادہ بار یکی میں نہیں جاتے کیونکہ وہ اسے سمجھ نہیں سکتا.ہاں ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ اگر یہ اتفاق ہے تو بھی اسلام کے حق میں ہوا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام زندہ مذہب ہے.پس دونوں طرف کے دلوں کو خدا تعالیٰ نے بدل دیا ہے.ایک نا اہل کو وہاں بٹھا دیا جہاں بڑی اہلیت کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی کان میں کہا کہ گھبرانا نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں جب ضرورت پڑے گی میں پوری کر دوں گا شروع میں ہی مجھے پنجابی میں الہام ہوا ” میں تینوں ایناں دیاں گا کہ توں رج جائیں گا اور میں خدا سے جو مانگتا ہوں اس کا ہزار میں سے ۹۹۹ حصہ آپ کے لئے ہی ہوتا ہے.“ اس کے بعد حضور نے خلیفہ وقت کی ذمہ داریوں اور جماعت کی ذمہ داریوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا مقصد بیان فرمایا.خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مہتم بالشان گیارہ مقاصد کا ذکر فرمایا.یہ حصہ تقریر متعدد قیمتی حوالوں سے مزین تھا.اسکے بعد حضور نے چند سکیموں کا ذکر فرمایا جو آپ کے دور خلافت میں جماعتی تربیت کے لئے رائج کی گئیں اور ان کے غیر معمولی نتائج کا ذکر فرمایا.دعا کے بعد یہ جلسہ اختتام پذیر ہوا اس کے بعد حضور نے سب افراد جماعت کی بیعت لی اور سب کو شرف مصافحہ بخشا.محمود ہال کا سنگ بنیاد 123- اسی روز ا ڈھائی بجے بعد دو پہر لندن مشن کے احاطہ میں محمود ہال کے سنگ بنیاد کی تقریب عمل میں

Page 167

تاریخ احمدیت.جلد 24 149 سال 1967ء آئی.پہلے حضور نے اپنے دستِ مبارک سے بنیاد میں اینٹ نصب فرمائی.بعد ازاں حضور کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور حضرت الحاج مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے بھی ایک ایک اینٹ رکھی.پھر حضور نے جملہ حاضرین سمیت دعا کرائی.یہ ہال اور اس کے علاوہ لائبریری مشن ہاؤس اور مکانات حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے قائم کردہ ساؤتھ فیلڈ ٹرسٹ کے ذریعہ تعمیر ہوئے.مکرم بشیر احمد رفیق صاحب سابق امام مسجد فضل لندن و مربی انچارج انگلستان محمود ہال کی تعمیر وغیرہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:.ایک تعمیری ادارہ اس شرط پر رقم دینے پر آمادہ ہوا کہ وہ ہمارے منظور شدہ نقشہ کے مطابق تعمیر مکمل کر کے دیں گے اور مرکز اگلے ۲۵ سال میں بالا قساط ان کی رقم واپس کرے گا.نقشہ جات کی منظوری کا کام شروع ہوا.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے نقشہ کی منظوری عطا فرمائی لیکن جب معاہدہ پر دستخط کرنے کا وقت آگیا اور سب تیاری مکمل ہو گئی تو اچانک بغیر کسی نوٹس کے تعمیراتی کمپنی نے رقم دینے سے انکار کر دیا اور قریباً ایک سال کی تگ و دو کا نتیجہ کچھ نہ نکلا.اور خاکسار نے نہایت افسردگی کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ مرکز کا اور تعمیری کمیٹی کا ایک سال ضائع ہو گیا اور جو امید ہم نے ایک کشادہ ، خوبصورت اور آرام دہ مشن ہاؤس کی تعمیر کی باندھی تھی وہ سب ختم ہو گئی.جس دن کمپنی مذکورہ نے مجھے انکار کا خط لکھا اس سے اگلے دن حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ہالینڈ سے لندن تشریف لائے اور خاکسار کے مہمان ہوئے.رات کے کھانے پر باتوں باتوں میں تعمیراتی کمپنی کا رقم دینے سے انکار کا بھی ذکر آیا اور خاکسار نے نہایت افسردگی کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا کہ مرکز کا اور تعمیری کمیٹی کا ایک سال ضائع ہو گیا اور جو امید میں ہم نے ایک کشادہ، خوبصورت اور آرام دہ مشن ہاؤس کی تعمیر کی باندھی تھیں وہ سب ختم ہو گئیں.مکرم چوہدری صاحب خاموش رہے اور بات ختم ہو گئی.اگلے ہفتہ مکرم حضرت چوہدری صاحب پھر لندن تشریف لائے اور خاکسار کے مہمان ہوئے.رات کے کھانے پر انہوں نے فرمایا کہ اگر انہی شرائط پر تعمیر مشن ہاؤس کے لئے میں رقم کا انتظام کر دوں جن شرائط پر رقم تعمیراتی کمپنی کو ادا کی جانی تھی تو کیا مرکز کو منظور ہوگا ؟ خاکسار نے خوشی کے ساتھ کہا کہ مرکز کو اور کیا چاہئے لیکن اگر آپ کی آفر پختہ ہے تو میں فوراً حضور سے اجازت حاصل کرنے کے لئے لکھ دوں گا.مکرم چوہدری صاحب فرمانے لگے بیشک لکھ دیں.میں نے

Page 168

تاریخ احمدیت.جلد 24 150 سال 1967ء فوری حضور کو اطلاع دی.حضور نے بذریعہ تار منظوری عطا فرما دی اور یہ طے پایا کہ مکرم چوہدری صاحب مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے رقم کا انتظام کریں گے.مرکز تکمیل تعمیر کے بعد ۲۵ سال کے عرصہ میں مکرم چوہدری صاحب کا قرضہ واپس کرے گا.اس وقت تعمیر کا اندازہ ایک لاکھ پاؤنڈ لگایا گیا.نقشہ جات حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے جو منظور ہو کر آگئے اور کام شروع ہو گیا.جب تعمیر مکمل ہو گئی تو مشن ہاؤس میں مناسب فرنیچر، پردے، تزئین و آرائش کا مرحلہ پیش آیا.معاہدہ میں صرف تعمیر کی ذمہ داری چوہدری صاحب کی تھی جب تعمیر کی تکمیل ہو گئی تو میں نے حضرت چوہدری صاحب سے فرنیچر وغیرہ کے سلسلہ میں بھی مدد کی درخواست کر دی.وہ فرمانے لگے کہ یہ تو معاہدہ میں شامل نہ تھا.لیکن ٹھیک ہے جہاں اتنا خرچ کیا ہے وہاں یہ بھی سہی.جب تعمیر و تزئین و آرائش کے جملہ مراحل بخیر و خوبی طے ہو گئے تو خاکسار نے حضرت خلیفہ ا ت خلیفة المسيح الثالث کے حکم کی تعمیل میں معاہدہ کا ڈرافٹ مکرم چوہدری صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا.انہوں نے فرمایا کہ وہ اس کا مطالعہ کریں گے اور اگلے ہفتہ دستخط کی باقاعدہ کارروائی ہوگی.حضور نے ازراہِ شفقت مرکز کی طرف سے خاکسار کو دستخط کرنے کا اختیار عطا فرمایا تھا.اگلے ہفتہ چوہدری صاحب ہالینڈ سے تشریف لائے اور فرمایا کہ انہوں نے معاہدہ کا مطالعہ کر لیا ہے اور وہ اب اس پر دستخط کرنے کو تیار ہیں.خاکسار نے عرض کیا کہ کل مجلس عاملہ کی میٹنگ بلا لیتے ہیں، ان کے سامنے دستخط ہو جائیں گے.اگلے دن صبح سویرے حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا کہ میں رات بھر اس بات پر غور کرتا رہا اور کسی قدر بے چینی کا شکار رہا اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے گفتگو کرتا رہا کہ ظفر اللہ خاں! یہ جو کچھ بھی تجھے ملا ہے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں دولت دیتے وقت کوئی شرائط عائد نہیں کیں تو پھر تم خدا کو کچھ حصہ اس دولت کا واپس کرتے وقت شرائط لگانے میں کس حد تک حق بجانب ہو؟ خدا تعالیٰ کا شکر تم اسی طرح ادا کر سکتے ہو کہ برضا و رغبت اور بشاشت یہ ساری رقم اور جور تم تم نے خرچ کی ہے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کر دو.فرمایا:.معاہدہ میں نے پھاڑ دیا ہے.مشن ہاؤس جماعت کو مبارک ہو.صرف ایک شرط ہے کہ میری زندگی میں اس بات کو مشتہر نہ کیا جائے کہ مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے رقم میں نے فراہم کی تھی.یہ رقم میری طرف سے تحفہ ہے.،،

Page 169

تاریخ احمدیت.جلد 24 151 سال 1967ء تمام خدام کے نام حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا شفقت بھر اسلام سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے اپنے دورہ یورپ کے دوران ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے نام ایک دعائیہ پیغام ارسال کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.”میرا اسلام تمام خدام تک پہنچا دیں اور دعا کی تحریک کریں کہ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہم نا تواں اور عاجزوں کی مدد کے لئے آسمان سے نزول فرمائے اور ہماری حقیر کوششیں بار آور ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو کما حقہ خدمت سلسلہ کی توفیق دے اور ایثار اور قربانی کی روح اس رنگ میں آپ کے اندر پیدا کرے کہ آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے قائم کردہ دین کی خاطر دیوانہ وار تبلیغ اور نفس کے جہاد کیلئے میدان میں اتر آئیں اور سب کا وجود مجسم رحمت اور برکت بن جائے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو ہر جہت سے بابرکت بنائے.یہاں اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں کامیابی بخشی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے.دورہ سکاٹ لینڈ 127 جلسہ سالانہ انگلستان سے خطاب کے بعد حضرت خلیفہ مسیح ۳۱ جولائی کی شام کو عازم سکاٹ لینڈ ہوئے.رستہ میں حضور نے رات سکاچ کارنر کے مقام پر بسر کی.اور یکم اگست کی شام کو مع افرادِ قافلہ گلاسگو پہنچے.جہاں جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈ کے مخلص احباب نے مسٹر بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سلسلہ کی سرکردگی میں حضور کا والہانہ انداز میں خیر مقدم کیا.۲ اگست کو حضور نے ایک استقبالیہ تقریب میں شرکت فرمائی جو گلاسگو میں حضور کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی.اس تقریب میں حضور نے گلاسگو کے اخباری نمائندوں کے سوالات کے نہایت برجستہ اور مدلل جوابات دیئے.اسی روز حضور سہ پہر کو ایڈنبرا تشریف لے گئے اور وہاں کے احمدی احباب کو شرف ملاقات بخشا.۳ راگست کو حضور لیک ڈسٹرکٹ کے ونڈر میئر مقام پر تشریف لے گئے.جو ایک پُر فضا مقام ہے.حضور نے چند روز یہیں قیام فرمایا.

Page 170

تاریخ احمدیت.جلد 24 152 سال 1967ء بریڈ فورڈ اور ہڈرزفیلڈ میں تشریف آوری سکاٹ لینڈ میں چند روزہ قیام اور گلاسگو میں مسجد کے لئے زمین خریدنے کی ہدایات دینے کے بعد حضور بریڈ فورڈ سے ہوتے ہوئے ہڈرزفیلڈ تشریف لائے.جہاں حضور نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں عیسائی چرچ کو دعوت مقابلہ دی.130 بخیریت لنڈن واپسی سکاٹ لینڈ ، بریڈ فورڈ اور ہڈرزفیلڈ کے کامیاب دورہ کے بعد حضور ۹ راگست کی شام کو بخیریت لنڈن واپس تشریف لے آئے.131- انفرادی ملاقاتیں اور بعض ایمان افروز واقعات کا بیان ۱۰ را گست ۱۹۶۷ء کے دن کا پہلا حصہ انفرادی ملاقاتوں کے لئے مخصوص تھا.مخلصین جماعت انگلینڈ کے دور ونزدیک سے پروانہ وار حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور سے شرف ملاقات حاصل کرتے رہے.ملاقاتیں تقریباً ڈیڑھ بجے تک جاری رہیں.ان انفرادی ملاقاتوں کے اختتام پر حضور ویٹنگ روم سے باہر تشریف لائے.اسی اثناء میں ایک دوست نے عرض کی کہ حضور اس سے قبل میں نے حصول اولاد کے لئے دُعا کی درخواست کی تھی.اور اس کے نتیجہ میں میرے ہاں دولڑ کیاں پیدا ہوئیں.لیکن اولاد نرینہ نہیں ہوئی.میرا خیال ہے کہ اگر میں نے حصول اولاد کی بجائے اولاد نرینہ کے لئے دعا کی درخواست کی ہوتی تو خدا تعالیٰ مجھے لڑ کا عنایت فرماتا اب حضور دعا فرماویں کہ خدا تعالیٰ مجھے لڑکا دے.حضور نے از راہ شفقت فرمایا کہ ”میں دعا کروں گا کسی دوست نے عرض کی کہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے فرمایا ہے کہ اگر لڑ کی کا نام بشری رکھا جائے تو اس کے بعد لڑکا پیدا ہوتا ہے.حضور نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اس طرح ضرور ہی لڑکا پیدا ہو.خدا تعالی قادر اور غنی ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے ایک دلچسپ واقعہ بیان فرمایا کہ کالج کے ایک کارکن کے ہاں شادی کے بعد قریباً اکیس سال تک کوئی بچہ پیدا نہ ہوا.اور اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد ایک مرتبہ ان کی بیوی کے پیٹ میں کچھ تکلیف ہوئی.ڈاکٹروں کو دکھایا گیا.اور ان کی تشخیص ی تھی کہ پیٹ میں رسولی ہے.اور اس کے علاج کے لئے بعض تیزر قسم کی ادویہ دیں.یہ ایسی ادویہ تھیں

Page 171

تاریخ احمدیت.جلد 24 153 سال 1967ء جو دورانِ حمل سخت مضر ہوتی ہیں.اس کے بعد ایک اور ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اور کہا کہ پیٹ میں کوئی رسولی نہیں ہے بلکہ بچہ ہے.اور اس کے کچھ عرصہ بعد بچہ ہونے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے.یہ خدا تعالیٰ کی ہی قدرت تھی کہ ان زود اثر ادویہ کے مضر اثرات سے اس خاتون کو محفوظ رکھا.خدا تعالیٰ کی قدرت کے ایک اور نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ربوہ میں مجھے ایک شخص کا خط ملا کہ اس کے دو عزیزوں کو سزائے موت کا فیصلہ ہوا ہے.اور اصل مجرم تو بچ گیا ہے.لیکن ہم جو مجرم نہیں، انہیں سزا مل رہی ہے.ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے.بظاہر بچنے کے کوئی امکانات نہیں ہیں.اب ہم رحم کی اپیل کر رہے ہیں.حضور ہمارے لئے دعا فرما دیں.میں نے جب یہ خط پڑھا تو اس کے جواب میں یہ لکھنے لگا کہ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہو.لیکن معا کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا اور میرے قلم سے جو الفاظ لکھے جانے والے تھے میں اُن کے لکھنے سے رک گیا.اور مجھے یہ خیال آیا کہ میرے ان الفاظ سے کہیں یہ شخص یہ گمان نہ کرے کہ انتہائی مشکلات میں خدا تعالیٰ ان مشکلات کو دُور کرنے کی قدرت نہیں رکھتا.چنانچہ میں نے انہیں لکھا کہ میں دعا کروں گا.خدا تعالیٰ بڑا ہی قادر اور رحیم ہے.اس کے ہاں کوئی بات انہونی نہیں.مایوس نہ ہوں.چند دنوں کے بعد مجھے اُن کا خط ملا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عدالت نے انہیں اس جرم سے بری الذمہ قرار دیا ہے.132 بی بی سی کو انٹرویو اس گفتگو کے بعد حضور اپنی جائے رہائش تشریف لے گئے.اڑھائی بجے حضور نے ظہر وعصر کی نمازیں پڑھائیں.اس موقعہ پر ایک برطانوی فوٹوگرافر نے جو برطانیہ کی سب سے بڑی پریس ایسوسی ایشن کے نمائندہ تھے، حضور کی تصاویر لیں.اسی پریس ایجنسی کا چیف رپورٹر بھی آیا ہوا تھا.تین بجے کے قریب بی بی سی کے نمائندہ نے مشن ہاؤس میں حاضر ہو کر حضور کا انٹرویو لیا.یہ انٹرویو اسی روز رات آٹھ بجے ریڈیو پر ریلے کیا گیا.اس کے علاوہ یہ انٹرویو اار اگست کو بھی رات ایک بجے LOOK OUT PROGRAMME میں نشر ہوا.138 تعلیم الاسلام سنڈے سکول میں دوبارہ تشریف آوری حضرت خلیفہ المسح الثالت ۱۳ را گست کو دو بار تعلیم الاسلام سنڈے سکول میں تشریف لائے اور

Page 172

تاریخ احمدیت.جلد 24 154 سال 1967ء سکول کا معائنہ فرمایا.آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا.اس موقعہ پر حضور نے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.آئندہ روشن مستقبل صرف احمدی بچوں کا ہوگا اور خدا تعالیٰ تمہارے ذریعہ سے ساری دنیا کو ہدایت دے گا.اور دنیا کی سب سے زیادہ دولت بھی تمہیں دے گا.یہ الہی وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے احمدی بچوں سے کر رکھا ہے.جب یہ بچے بڑے ہوں گے اور ان کی عمر ۲۵ سال کے قریب ہوگی تو اُس وقت یہ دنیا بدل چکی ہوگی اور (انشاء اللہ ) یہاں صرف احمدیت کی دنیا نظر آئے گی.اور پھر وہی لوگ عزت پائیں گے جو بچے احمدی ہوں گے.“ پھر حضور نے بچوں سے پوچھا:.بتاؤ کلاس میں کس کی عزت ہوتی ہے.جو ہوشیار ہو یا کمزور؟“ وو ایک ننھے بچے نے عرض کی جو ہوشیار ہو اس پر حضور نے فرمایا کہ: جس وقت تم اس زندگی میں داخل ہو گے جو احمد یوں کو ملنے والی ہے تو اس وقت اسی کی زیادہ عزت ہوگی جو زیادہ اچھا احمدی ہوگا.تم سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ تمہیں بڑا روشن مستقبل ملنے والا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَلَلآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْأُولى (الضحى :٥) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو بزرگیاں اور فتح اور نصرت آپ کو دوسرے دور میں ملنے والی ہیں وہ پہلی سے بہتر ہیں.پس ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ شیطان تمہارا روشن مستقبل تم سے چھین لے.ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اس لئے دعا اور اچھی تربیت سے بچوں کے روشن مستقبل کی حفاظت کرنی چاہئے.والدین بچوں کو ایسی عادتیں سکھلائیں جو خدا کی نگاہ میں اچھی ہوں.“ اسی تسلسل میں حضور نے فرمایا:.134 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ایک زمانہ آنے والا ہے.جب ساری دنیا اسلام اور احمدیت میں داخل ہو جائے گی.یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ

Page 173

تاریخ احمدیت.جلد 24 155 سال 1967ء اگر اس وقت عیسائیوں سے کہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے.سفر یورپ میں اخبارات کے نمائندوں اور متعد د عیسائی مشنریوں سے باتیں ہوئی ہیں.میں نے اُن سے کہا کہ بہت سی بظاہر انہونی باتیں جو وقوع پذیر ہو چکی ہیں.انہیں ذکر کیا جائے تو تم کہتے ہو کہ ایسا واقعہ ہو چکنے کے بعد بیان کرتے ہو.اور اگر کوئی واقعہ اس کے وقوع پذیر ہونے سے قبل بیان کروں تو کہاں یقین کرو گے ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عظیم الشان تباہیوں کی اطلاع دی ہے.اب تم میں سے جو بچے گا وہ میری ان باتوں کا گواہ ہوگا.جو میں نے آج بیان کی ہیں.گو ساری دُنیا میں تمھیں لاکھ کی احمدی آبادی کچھ بھی نہیں.مگر ہمارے قلوب کی تسلی کے لئے خدا تعالیٰ نے پیشگوئیاں کی ہوئی ہیں.جو ضرور پوری ہوں گی.اور ہماری کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ الہی سلسلے بتدریج ترقی کرتے رہتے ہیں.اس کے بعد حضور نے خدا تعالیٰ کی بعض قدرتوں کے نظاروں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ احمدیت کی ترقی کے نظارے بھی ضرور پیدا ہوں گے.ان وعدوں کو جلد سے جلد لانے کے لئے احمدیوں کی سی زندگی بسر کرو.تم احمدی بچیوں کی زندگی احمدیوں کی سی ہونی چاہئے نہ کہ عیسائی عورتوں کی طرح.اپنے والدین سے کہو کہ تمہاری اچھی طرح تربیت کریں.خدا تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس تقریب کے اختتام پر حضور نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی طرف سے پیش کردہ دوانعامات سنڈے سکول کے دو بچوں قدسیہ بانو اور نعیم احمد کو اپنے دست مبارک سے عطا فرمائے.186 واپسی حضور اقدس کی روانگی پاکستان کا نظارہ لندن مشن کی تاریخ میں یادگار رہے گا.صبح سے ہی لوگ جوق در جوق مشن ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں جمع ہونے شروع ہو گئے تھے.ہر دل مغموم اور اُداس تھا.۲۰ را گست کو ۵ بجے شام مشن ہاؤس سے روانگی کا وقت مقرر تھا حضور اقدس ۴ بجے لان میں

Page 174

تاریخ احمدیت.جلد 24 156 سال 1967ء تشریف لائے احباب قطار میں کھڑے ہو کر مصافحہ و معانقہ کا شرف حاصل کرنے لگے.ٹیپ ریکارڈ پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی مشہور نظم جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر خوش الحانی سے بار بار سنائی جا رہی تھی.بعض لوگ تو مصافحہ کے وقت بلک بلک کر روتے جاتے تھے گویا اُن کا شفیق باپ اُن سے جُدا ہورہا ہے.کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو پر نم نہ تھی خود حضور بھی اِس نظارہ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اجتماعی دُعا کے وقت حضور کے ضبط نے بھی خیر باد کہہ دیا.اس کے بعد حضور انور کے قافلہ کے ہمراہ ایئر پورٹ روانہ ہوئے اور وہاں سے پی.آئی.اے کی پرواز کے ذریعہ پاکستان واپسی کے لئے روانہ ہوئے.اس طرح حضور انور کا یہ نہایت تاریخی، انتہائی بابرکت اور کامیاب دورہ اختتام پذیر ہوا.کراچی میں تشریف آوری حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ۲۰ /اگست کو لندن سے روانہ ہو کر ۲۱ /اگست کو قریباً پونے بارہ بجے کراچی پہنچے.حضور کے استقبال کے لئے مرکز احمدیت ربوہ سے صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید ، وقف جدید اور ذیلی تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ پشاور ، لاہور، کوئٹہ، حیدر آباد اور دیگر جماعتوں کے امرائے کرام اور مربیانِ سلسلہ عالیہ احمد یہ بھی کراچی پہنچ گئے تھے.جہاز پر حضور کا استقبال خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد افراد اور مقامی جماعت کے نمائندگان نے کیا.جس کے بعد حضور اپنے قافلہ کے جلو میں بہت ہی ہشاش بشاش اس کمرے میں تشریف لائے.جہاں باہر سے آئے ہوئے مہمان اور جماعت کے عہدیدار منتظر تھے.تمام احباب جو اپنے مقدس آقا کو دیکھ کر بہت ہی خوش تھے.ہدیہ تبرک پیش کیا.حضور نے حاضرین کو شرف مصافحہ و معانقہ بخشا.ازاں بعد حضور باہر تشریف لائے جہاں احباب جماعت بھاری تعداد میں دورویہ قطار میں کھڑے تھے.ان سب احباب کو بھی حضور نے شرف مصافحہ بخشا.حضور کی کراچی میں آمد کی اطلاع تمام مقامی اخبارات میں شائع ہوئی.کراچی میں پریس کانفرنس ۲۲ راگست کو شام پانچ بجے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں ایک پریس کانفرنس میں شرکت فرمائی اور

Page 175

تاریخ احمدیت.جلد 24 157 سال 1967ء بڑی تفصیل سے سفر یورپ کی غرض وغایت ، اسلام کی اشاعت اور مغربی اقوام پر اتمام حجت کا ذکر فرمایا اور صحافیوں کے متعددسوالات کے جوابات دیئے.مقامی پریس اور نیوز ایجنسیوں نے اسے ریلیز کیا اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس کی اشاعت ہوئی.کچھ اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں درج ذیل ہیں.136- ا.روزنامہ ”جنگ“ کراچی نے اپنی ۲۳ را گست ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں لکھا:." کراچی ۲۲ /اگست (اسٹاف رپورٹر) احمدیہ فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئیے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور اس عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے.انہوں نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انشاء اللہ اس تجویز کے مفید نتائج برآمد ہوں گے.“ ۲ - روزنامه مشرق کراچی ۲۴ را گست ۱۹۶۷ء میں یہ خبر شائع ہوئی:." کراچی ۲۲ / اگست (اسٹاف رپورٹر) جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد آج شام ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے اپنے حالیہ دورہ یورپ کے تاثرات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا یورپ میں اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں وہ کافی حد تک دور ہو چکی ہیں انہوں نے کہا کہ عیسائی مشنریوں نے اسلام اور مسلمانوں کے متعلق الزام تراشی کی مہم شروع کر رکھی ہے جس کی روک تھام کے لئے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمانوں اور احمد یوں میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے دوسرے فرقوں سے احمدیوں کے صرف فروعی اختلافات ہیں“..راولپنڈی کے اخبار ” تعمیر ۲۳ اگست ۱۹۶۷ء نے دنیا کے مسلمانوں سے متحد ہونے کی اپیل“ کے عنوان سے لکھا:." کراچی ۲۲ /اگست (پ.پ۱) احمدیہ فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد نے دنیا کے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے متحد ہوکر کام کریں آج یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں.اب وقت ہے کہ متحد ہو کر اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے احمد یہ فرقہ کے سربراہ نے تجویز کیا کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہیئے تاکہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوئی ,,

Page 176

تاریخ احمدیت.جلد 24 158 سال 1967ء مشتر کہ پروگرام تیار کیا جا سکے.اپنے دورے کے متعلق انہوں نے کہا کہ دنیا میں مسلمانوں کے خلاف ایک مہم شروع ہو چکی ہے اور اس کا مقابلہ زیادہ سے زیادہ مشن غیر ممالک کو بھیج کر کیا جا سکتا ہے.ایک اجلاس عام میں شرکت 137 پریس کانفرنس کے بعد حضور نے اسی دن خدام الاحمدیہ کراچی کے زیر اہتمام ایک اجلاس عام میں خطاب فرمایا.جس میں سفر یورپ کے دوران خدا تعالیٰ کی غیر معمولی تائید ونصرت کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.آپ نے فرمایا کہ: دوران سفر ہم نے اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے ایسے جلوے دیکھے جن کا تصور کرنا بھی ممکن نہ تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فرشتے نازل ہو کر ہماری تائید کر رہے ہیں.یورپ کے لوگوں نے بہت تعاون اور محبت کا اظہار کیا.گفتگو کے اچھے مواقع میسر آئے.مشہور اخباروں نے تصاویر کے ساتھ خبر میں نمایاں طور پر شائع کیں بارہ پادریوں پر مشتمل ایک وفد نے کئی گھنٹے مجھ سے تبادلہ خیال کیا اور مجھے ان تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقعہ ملا.کوپن ہیگن میں مسجد دیکھنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا.میں نے قریباً ہر جگہ اہل یورپ کو انتباہ کیا کہ دنیا میں دوسنتا ہیاں آچکی ہیں.تیسری بڑی تباہی سر پر کھڑی ہے اس تباہی سے بچنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ آپ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کریں اور اسلام قبول کر لیں.“ مخلصین جماعت ربوہ تک عقیدت و محبت کے بے مثال نظارے ۲۳ اگست کی شام کو حضور بذریعہ چناب ایکسپریس ربوہ کے لیے روانہ ہوئے کثیر تعداد میں کراچی شہر کے اسٹیشن پر اپنے محبوب امام کو الوداع کہنے کے لیے موجود تھے.روانگی سے قبل حضور کے ارشاد پر مولانا عبد المالک خانصاحب مربی کراچی نے احباب سے درج ذیل دعا بلند آواز سے دھرائی، جو سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپسی پر پڑھا کرتے تھے.ائِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ.(ترجمہ: ہم اللہ تعالیٰ کی درگاہ کی طرف لوٹنے والے، تو بہ کرنے والے اسکی عبادت کرنے والے اور اسکی حمد کرنے والے ہیں.)

Page 177

تاریخ احمدیت.جلد 24 159 سال 1967ء اس طرح احباب جماعت نے پر سوز دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب امام کو الوداع کہا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے کراچی جا کر حضور انور کے استقبال کی سعادت نصیب ہوئی اور پھر واپسی پر بھی حضور انور کے قافلہ میں شامل رہے.آپ اپنے تاثرات و مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارا وفد ۱۹ را گست کور بوہ سے روانہ ہوکر ۲۰ /اگست کو کراچی پہنچا.۲۱ / اگست کو محترم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی، مربی سلسلہ مولانا عبدالمالک خان صاحب اور احباب کراچی کے ہمراہ ہم ہوائی اڈہ پر تھے.بارش ہورہی تھی.جملہ احباب ہمہ تن دعا بنے ہوئے تھے کہ ہمارے امام بخیر و عافیت ہوائی جہاز سے اتریں.بالآخر وہ مبارک ساعت آگئی.جب جہاز ہوائی اڈہ پر اُترا اور چند منٹوں کے بعد حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نہایت ہشاش بشاش ہمارے درمیان وسیع کمرہ میں تھے.احباب آگے بڑھ بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہتے تھے.مگر منتظمین کا طے شدہ پروگرام تھا کہ اس جگہ معدودے چند دوستوں کے سوا کوئی مصافحہ نہ کر سکے گا.جونہی اس پروگرام کا ذکر محبوب امام سے ہوا آپ نے اپنے دل پر نگاہ کر کے فوراً فر مایا کہ میں تو سب سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں پھر کیا تھا مصافحہ کا سلسلہ شروع ہو گیا.دونوں طرف آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور لذتِ دید سے دل محظوظ ہورہے تھے.حضور انور نے ہماری اداسی کو بھانپ کر خود پہل کی.مثلاً خاکسار کو معانقہ کا شرف عطا کرتے ہوئے فرمایا آپ ڈبلے کیوں ہو گئے ہیں.ایک بزرگ سے فرمایا آپ پیچھے تھے آگے آگئے ہیں.سب سے بے تکلفی سے ملاقات ہوئی.پیار و محبت کا باغ مہک اُٹھا.اور سب کے دل باغ باغ ہو گئے.جو دوست ہوائی اڈہ کی اجازت نہ ہونے کے باعث کمرہ میں نہ آسکے تھے.حضور نے ان سب سے بھی ، ایک ایک سے خودان کے پاس پہنچ کر ملاقات فرمائی اور سب کی خوشی کو دوبالا کر دیا.امراء اضلاع ، بزرگانِ سلسلہ اور جملہ احباب کو ملاقات کے علاوہ یورپ میں اسلام کے شاندار مستقبل کی خبروں سے محظوظ فرمایا.جلوس کی شکل میں کاروں میں حضور قیام گاہ پر پہنچے.اندر داخل ہونے سے پہلے پروگرام کے بارے میں ہدایات دیں.اور یہ بھی فرمایا کہ گزشتہ رات میں ایک منٹ کے لئے بھی نہیں سو سکا.۲۲ اگست کو بھی بارش تھی.مگر وقفہ ملتا رہا.حضور انور کی قیامگاہ پر خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ احمدی احباب جو کراچی کے علاوہ دور دراز علاقوں سے آئے تھے، ملاقات

Page 178

تاریخ احمدیت.جلد 24 160 سال 1967ء کے لئے حاضر ہوتے رہے اور اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے رہے.مردوں کے علاوہ خواتین بھی اس میدان میں پیچھے نہ تھیں.پانچ بجے پریس کانفرنس کا وقت مقرر تھا.حضور ہوٹل میں تشریف لے گئے.ایک بھر پور پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جوابات دئے.اپنے سفر کے مقاصد بیان فرمائے.یہ سب گفتگو بھی محبت کے چھلکتے ہوئے پیالے کی شکل میں تھی.ہم تو خیر ماننے والے اور محب ہیں.دوسرے لوگ بھی اتنے گرویدہ تھے کہ ان کے قول و فعل سے اس کا واضح اظہار ہور ہا تھا.دوسرے دن کے اخبارات میں مؤثر نوٹ شائع ہوئے.حضور نے مغرب وعشاء کی نمازوں کے بعد احمدیہ ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے زیر اہتمام جلسہ سے خطاب فرمایا.خطاب سے پہلے حضور نے دو نکاحوں کا اعلان فرمایا.جن میں سے ایک مکرم اخویم نسیم سیفی صاحب کے فرزند کا نکاح تھا جلسہ سے خطاب میں حمد باری اور جماعت سے محبت کا بھر پور ذکر تھا.اللہ تعالیٰ کے بے پایاں احسانات کے ذکر میں یہ بھی فرمایا کہ جماعت احمد یہ نہایت قابلِ قدر بلکہ بے نظیر جماعت ہے.فرمایا مجھ سے یورپ میں ایک جگہ ایک اخبار نویس نے پوچھا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے؟ میں نے کہا کہ میں اور جماعت احمد یہ الگ الگ نہیں ہیں.میں جماعت ہوں اور جماعت مجھ میں ہے.ساڑھے دس بجے کے قریب حضور کی پیار بھری گفتگوختم ہوئی منتظمین کا فیصلہ تھا کہ اب مصافحہ سے حضور کو تکلیف ہوگی.کوفت کافی ہو چکی ہے.یہ اعلان ہونے ہی والا تھا کہ ہزاروں سامعین جو ہوائی اڈہ پر نہ پہنچ سکے تھے ، ان کی آنکھوں اور چہروں کو پڑھتے ہوئے میں نے حضور کی دیرینہ کرم نوازی کے باعث جسارت کر لی اور حضور سے عرض کیا کہ اگر ان دوستوں کو مصافحہ کا موقع نہ ملا تو ان کو صدمہ ہوگا.میرا عرض کرنا تھا کہ حضور نے فی الفور فرمایا کہ میں تو خود چاہتا ہوں خواہ ایک گھنٹہ لگ جائے.جھٹ انتظام کا رُخ بدل گیا.اور مصافحے شروع ہوگئے.حضورانور نے ہر شخص سے اس بشاشت ،خندہ پیشانی اور پدرانہ شفقت سے مصافحہ کیا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ شاید اسی شخص سے آپ نے ملنا ہے.دعاؤں کے علاوہ پیار سے زخمہائے فراق کا مداوا فرماتے رہے.ایک غیر از جماعت شخص نے اپنی پریشانی کا ذکر کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی.دعا فرمائی اور جھٹ ایک رقم مقامی مربی کو دی کہ اس کے پیچھے جا کر خفیہ طور پر اسے دے آئیں.اگلے روز ۲۳ راگست کو پھر صبح سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں.ساڑھے چھ بجے شام کے قریب حضور کراچی ریلوے سٹیشن پر تھے.احباب جماعت کا ایک انبوہ کثیر حاضر تھا.بہت سے دوسرے دوست بھی موجود تھے.مصافحہ اور گفتگو کے بعد حضور

Page 179

تاریخ احمدیت.جلد 24 161 سال 1967ء نے سب حاضرین سمیت ہاتھ اُٹھا کر دعا کی اور گاڑی نعرہ ہائے تکبیر میں سوئے ربوہ روانہ ہوئی.چھاؤنی کے سٹیشن پر بھی دوست شرفِ زیارت کے لئے حاضر تھے.اس کے بعد اہم مقام کوٹری اور حیدر آباد تھے.140 کوٹری اور حیدر آبا داسٹیشن ۲۳ اگست کو احباب جماعت حیدر آباد مرد اور عورتیں، بچے بوڑھے اور جوان اپنے محبوب امام کی سفر یورپ سے کامیاب و با مراد مراجعت پر زیارت کے لیے کوٹری سٹیشن پر دو گھنٹے قبل ہی جمع ہونے شروع ہو گئے.گاڑی اپنے مقررہ وقت سے چند منٹ دیر سے پہنچی احباب اشتیاق کے عالم میں حضور کے کمپارٹمنٹ کی طرف بڑھے.جو نہی حضور کی زیارت ہوئی سب کے دل سرور سے بھر گئے.دوستوں کے اشتیاق کو دیکھ کر حضور گاڑی سے اتر کر پلیٹ فارم پر تشریف لے آئے.اور باری باری تمام احباب سے مصافحہ فرمایا اور گفتگو فرمائی.احباب نے اپنے اپنے حالات عرض کیے اور دعا کے لئے درخواستیں پیش کیں.اس موقعہ پر پریس کے نمائندگان بھی آئے ہوئے تھے جن میں ریڈیو پاکستان حیدر آباد، روز نامہ انڈس ٹائمنر (انگریزی)، روزنامه عبرت (سندھی)، روزنامہ نواء سندھ (سندھی) اور روزنامہ خادم وطن (سندھی) کے نمائندگان قابل ذکر ہیں.حضور نے انکو بھی شرف مصافحہ بخشا اور ان کے سوالات کے جواب دیئے.حضور نے اس موقعہ پر اپنے دورہ کے خوشکن نتائج کا بھی ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس وقت یورپ کے ان ممالک میں اسلام کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے اور اسلام کی صحیح تعلیم پھیلانے کی بڑی ضرورت ہے وہاں کے اسلام قبول کرنے والے نومسلموں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان کے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنے مسلمان بھائیوں کی محبت کے جذبات اسی طرح موجزن ہیں جس طرح کہ ہمارے دلوں میں.گاڑی پچیس منٹ کے قریب ٹھہری.کوٹری سے گاڑی روانہ ہوکر حیدر آبا داسٹیشن پر آ کر رکی.دور ونزدیک سے آئے ہوئے دوست یہاں بھی جمع تھے.حضور نے یہاں بھی احباب کو شرف مصافحہ بخشا.احباب نے خوشی وامتنان کے جذبات سے معمور ہوکر بے اختیار اللہ اکبر.اسلام زندہ باد.پاکستان زندہ باد.اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث زندہ باد کے نعرے لگائے.جن سے فضا گونج

Page 180

تاریخ احمدیت.جلد 24 162 سال 1967ء اُٹھی.جب گاڑی روانہ ہوئی تو حضور نے ”السلام علیکم کہہ کر ہاتھ ہلایا اور احباب نے بھی ہاتھ ہلائے اور ”وعلیکم السلام کے ساتھ حضور کو رخصت کیا.حضور بھی زیرلب دعا فرما رہے تھے اور احباب بھی حضور کے لیے دعائیں کرتے ہوئے لوٹے کہ اللہ تعالیٰ حضور کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے.آمین یا رب العالمین.اس موقع پر حیدر آباد کے علاوہ اضلاع حیدر آباد اور تھر پارکر کی جماعتوں کے احباب بھی بکثرت تشریف لائے ہوئے تھے حالانکہ شدید بارش ہو چکی تھی اور موسم بھی ابر آلود تھا.حیدر آباد سے چنیوٹ تک حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا بیان ہے کہ: 141 گاڑی کچھ لیٹ بھی تھی.اردگرد کے احباب کثیر تعداد میں حاضر تھے.حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا.ہمیں دیکھ دیکھ کر حیرت ہو رہی تھی کہ حضور قریباً سب دوستوں کو جانتے ہیں.مربی حیدر آباد مولانا غلام احمد صاحب فرخ کو بہت کم ضرورت پیش آئی کہ مصافحہ کرنے والے دوست کا تعارف کرائیں.ہاں یہ بات نا قابل فراموش ہے کہ جب حضور انور سے پلیٹ فارم پر قدم رکھنے کے ساتھ عرض کیا گیا کہ اخبار نویس بھی انٹرویو لینے کے لئے حاضر ہیں.تو حضور نے فرمایا کہ جماعت مقدم ہے میں پہلے جماعت کے دوستوں سے مصافحہ کروں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پھر حضور نے آخر میں اخبار والوں کے جوابات بھی دئے اور وہ حضور کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر بھی باتیں کرتے رہے.روہڑی میں صبح پانچ بجے گاڑی پہنچی وہاں پر محترم صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت بہت سے دوستوں کے ساتھ ہمہ تن انتظار کھڑے تھے.دوستوں کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار تھے.ایک بڑی تعدا د سندھی احمدی مردوں اور خواتین کی ایسی تھی کہ جن کے متعلق مربی سلسلہ مولوی محمد عمر صاحب بی.اے نے بتایا کہ یہ ساری رات جاگتے رہے ہیں اور برانچ لائنوں سے حضور کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے ہیں.حضور انور نے ہر چھوٹے بڑے، بچے بوڑھے سے نہایت پیار سے مصافحہ فرمایا.خواتین کو السلام علیکم کہا اور سب کے لئے دعا فرمائی.یوں دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نالازمی نہیں.مومن کا دل ہر لمحہ آستانہ الوہیت پر گداز ہوتا ہے.اس سفر میں حضور انور نے اکثر جماعتوں کے لئے سٹیشنوں پر ہاتھ اُٹھا کر بھی دعا فرمائی.حضور کی دعا کے بعد احباب کے چہروں پر مسرت و انبساط کی خاص لہر

Page 181

تاریخ احمدیت.جلد 24 163 سال 1967ء دوڑتی نظر آتی تھی.روہڑی اور اس کے بعد کے سٹیشنوں پر احمدی بہنیں بھی خاص تعداد میں اپنے امام کو خوش آمدید کہنے اور دعا کی درخواست کرنے کے لئے حاضر تھیں.پردہ کی پوری رعایت کے ساتھ وہ حضور کی خدمت میں سلام عرض کرتیں اور درخواست دعا کرتیں.ننھے بچوں کی بھی کافی تعداد ساتھ ہوتی تھی.یہ ایمان پر ور عقیدت کا نظارہ پیش کرنا اہلِ ایمان کا ہی خاصہ ہے.رحیم یار خان اور خان پور کے اسٹیشنوں پر بھی امراء اور مربیان سلسلہ کی قیادت میں احباب کا جم غفیر حاضر تھا اور سب کے چہروں سے بشاشت ٹپک ٹپک کر نمایاں ہورہی تھی.رحیم یار خاں کی جماعت نے حضور کے سارے قافلے کے لئے ناشتے کا انتظام کیا تھا.رات کے کھانے کا اہتمام احباب کراچی نے کر دیا تھا.بہاولپور، ڈیرہ نواب لیاقت آباد ہر جگہ قرب و جوار کی جماعتیں حضرت امام ہمام کی زیارت کے لئے جمع تھیں حضور ہر سٹیشن پر احباب کے ملنے کے لئے گاڑی سے باہر تشریف لاتے اور جملہ احباب سے ملاقات فرماتے سمہ سٹہ اور لودھراں میں بھی کثیر تعداد میں احباب جماعت موجود تھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہر جگہ احمدی ہی احمدی ہیں.ریل کے دوسرے مسافر بھی ہر جگہ تعجب اور پیار کی نگاہوں سے حضور کو دیکھتے تھے.اور احباب سے استفسار کرتے تھے.اخباری نمائندے بھی کئی مقامات پر آتے رہے.ملتان چھاؤنی پر امیر جماعت اور مربی سلسلہ کی قیادت میں احباب بہت بڑی تعداد میں موجود تھے.حضور انور نے سب سے مصافحہ فرمایا اور احباب کی کثرت کے باعث حضور نے اخباری نمائندوں سے معذرت فرما دی.البتہ ان کو سفر کے بارے میں مکرم چوہدری محمد علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری سے معلومات حاصل ہو گئیں.دو پہر کا کھاناملتان نے پیش کیا.جزاهم الله خيراً خانیوال میں بھی عشاق کا جم غفیر محو انتظار تھا.ہجوم کو قابو میں رکھنا مشکل ہورہا تھا.بعض جگہ نوجوان منتظمین غلطی کرتے اور احباب کو جو جوش محبت میں آگے بڑھتے تھے، ہاتھ سے روکتے.میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ اس انداز انتظام سے حضور انور کو بہت تکلیف ہوتی اور حضور اسے برداشت نہ کر سکتے کہ کسی احمدی کو ہاتھ کے زور سے روکا جائے.خانیوال کے سٹیشن پر حضور نے ایک منتظم کو اسی سلسلہ میں پُر زور منع فرمایا.جس سے وہ مُرجھا سا گیا.مگر جو نہی سب سے مصافحہ ہو گیا حضور نے اس عزیز سے بھی پیار سے مصافحہ فرمایا اور اس کی شادمانی کا سامان کر دیا.عبدالحکیم، شورکوٹ ، ٹو بہ ٹیک سنگھ، گوجرہ کے سٹیشنوں پر بھی احباب کی بڑی تعداد، جو مردوں، عورتوں اور بچوں پر مشتمل تھی ، اپنے امام کو ایک نظر دیکھنے کے لئے چشم براہ تھی.حضور نے سب مردوں سے مصافحہ فرمایا.بچوں کے سروں

Page 182

تاریخ احمدیت.جلد 24 164 سال 1967ء پر دست شفقت پھیرا اور خواتین کو السلام علیکم کہا.اور سب کے لئے دعا فرمائی.کئی احباب سے اُن کا حال خاص طور پر دریافت فرمایا.عام طور پر سٹیشنوں پر نعروں کی ممانعت تھی مگر لائکورٹیشن پر اتنے احباب جمع ہو چکے تھے کہ ریل کے ٹھہرنے کے وقت میں سارے احباب سے مصافحہ ممکن نہ تھا.اس لئے منتظمین نے دوستوں کو مصافحے کے لئے بڑھنے سے روک رکھا تھا.حضور انور کے ریل کے دروازہ میں آنے پر احباب نے پُر جوش نعروں سے حضور کا استقبال کیا اور کافی دیر تک اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعلان ہوتا رہا.احباب کے چہرے بتارہے تھے کہ نظام کی پابندی اور وقت کی تنگی سے وہ مجبور ہیں.خلوص ، عقیدت اور شیفتگی ان کے چہروں سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی تھی.جماعتوں کی نمائندگی میں صرف محترم شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت نے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.احباب لا کپور نے قافلہ کے لئے چائے کا انتظام بھی فرمایا تھا.لائلپور میں احباب ربوہ کا ایک گروپ اور بعض لا ہور وغیرہ کے احباب جماعت بھی موجود تھے.اب لمحہ بہ لمحہ ربوہ قریب آ رہا تھا.حضرت خلیفہ مسیح کا تمتما تا ہوا چہرہ بتا رہا تھا کہ ربوہ پہنچنے کی آپ کو خاص خوشی ہو رہی ہے.چک جھمرہ، بُرج اور چنیوٹ کے سٹیشنوں پر احباب کو شرفِ زیارت 66 حاصل ہوا.12 ربوہ میں شاندار استقبال اور چراغاں حضور انور کی ربوہ آمد سے قبل ہی اہل وفائے ربوہ کے علاوہ مظفر آباد،ایبٹ آباد، واہ کینٹ، اسلام آباد، راولپنڈی، جہلم، چکوال، دوالمیال، میانوالی، گجرات، کھاریاں، گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ ، اوکاڑہ، شیخوپورہ لاہور ، جھنگ، سرگودھا اور بیسیوں دوسرے شہری اور دیہی مقامات کے امراء جماعت اور احباب بہت کثیر تعداد میں ربوہ پہنچ چکے تھے.بہت سے مخلصین تو عین وقت پر موٹر کاروں کے ذریعہ ربوہ پہنچے.یہ سب احباب ایک خاص نظام کے ماتحت ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر نیز ریلوے سٹیشن سے لے کر قصر خلافت تک کے پون میل لمبے راستے پر دورویہ قطاروں میں کھڑے ہوئے حضور کی تشریف آوری کے انتظار میں چشم براہ تھے.یہ سارا راستہ جھنڈیوں اور آرائشی محرابوں اور بجلی کے رنگ برنگ کے قمقموں سے دُلہن کی طرح سجا ہوا تھا.

Page 183

تاریخ احمدیت.جلد 24 165 سال 1967ء ۲۴ / اگست کو چناب ایکسپریس نے پروگرام کے مطابق شام کو 4 بجکر ۲۳ منٹ پر ربوہ پہنچنا تھا اور اس امر کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی کہ گاڑی تقریباً پچاس منٹ لیٹ ہے.پھر بھی احباب پانچ بجے سہ پہر مساجد میں نماز عصر ادا کرنے کے بعد جوق در جوق ریلوے اسٹیشن اور پھر وہاں سے قصر خلافت تک کے راستے پر پہنچنے شروع ہو گئے.پلیٹ فارم پر صرف صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، ناظر ، وکلاء صاحبان صدرانجمن احمدیہ و تحریک جدید ، وقف جدید، امراء صاحبان اضلاع ، نائب ناظران و نائب وكلاء، انصار اللہ مرکز یہ وخدام الاحمدیہ مرکزیہ کی مجالس عاملہ کے اراکین نیز محلہ جات کے چیدہ چیدہ احباب کو جگہ دی گئی تھی.یہ سب احباب اپنی اپنی مقررہ جگہوں پر غروب آفتاب کے بعد گاڑی آنے کے وقت تک ایستادہ رہے.اس طرح جملہ دیگر ہزاروں ہزار احباب سٹیشن سے قصرِ خلافت تک کے راستہ پر دو رویہ قطاروں میں کھڑے گھنٹوں حضور کی تشریف آوری کا انتظار کرتے رہے.وہ سب حضور کو خوش آمدید کہنے اور حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھے.نہایت ذوق و شوق کے عالم میں قریباً دو گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ٹھیک ے بجکر 10 منٹ پر جبکہ دن غروب ہو چکا تھا اور اسٹیشن روشنی کے خصوصی انتظامات کی وجہ سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا.ڈور سے گاڑی کی روشنی نظر آئی.روشنی نظر آنے کی دیر تھی سراپا انتظار ہزاروں احباب میں خوشی ومسرت کی ایک نئی لہر دوڑ گئی اور سارا اسٹیشن الحمد للہ الحمد للہ کی زبانوں سے بے اختیار نکلنے والی آوازوں سے گونجنے لگا.گاڑی کے اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے ہی تمام فضا علی الترتيب السلام عليكم ، اهلا وسهلا ومرحباً، الله اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، حضرت خلیفتہ المسیح الثالث زندہ باد، اہلِ مغرب کو کامیاب دعوتِ اسلام مبارک ہو کے پر جوش نعروں سے گونج اُٹھی.یہ نعرے پروگرام کے مطابق قاضی عزیز احمد صاحب نے لاؤڈ سپیکر پر سے لگوائے.پُر جوش نعروں کی گونج میں گاڑی اسٹیشن پر آکر ر کی.حضور پر نور گاڑی سے باہر تشریف لائے.امیر مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا اور حضور کو پھولوں کا ہار پہنایا.حضور نے آپ کو مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.ازاں بعد علی الترتیب حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ، میر داؤ داحمد صاحب قائم مقام وکیل اعلیٰ تحریک جدید، چوہدری محمد صدیق صاحب ایم اے صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ، جناب مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعتہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور، پروفیسر محبوب

Page 184

تاریخ احمدیت.جلد 24 166 سال 1967ء عالم صاحب خالد قائم مقام نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ، سید میر محمود احمد صاحب ناصر نمائندہ لجنه اماءاللہ مرکز یہ اور پروفیسر حمید اللہ صاحب قائم مقام صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے حضور کی خدمت میں باری باری حاضر ہو کر حضور کو ہار پہنائے اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر صدرانجمن احمد یہ حضور کے استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.لیکن چونکہ پیرانہ سالی کے باعث کھڑے ہو کر ہار پہنانا آپ کے لئے ممکن نہ تھا.اس لئے آپ کے ارشاد پر آپ کی طرف سے میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر بیت المال ( آمد) نے حضور کو ہار پہنانے کی سعادت حاصل کی.اس دوران ہزاروں ہزار احباب اپنی اپنی جگہ پر احتراماً کھڑے رہے.اس کے بعد حضور امیر مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور استقبال کرنے والے دیگر نمائندہ احباب کی معیت میں اسٹیشن کے برآمدہ میں، جو پلیٹ فارم سے خاصا اونچا ہے تشریف لائے.وہاں حضور کی زیارت سے شرف یاب ہونے پر احباب نے ایک بار پھر پُر جوش نعرے بلند کئے.حضور نے احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وو جان سے عزیز احباب جماعت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو ان ایام میں بے انتہاء دعا ئیں کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے اور اپنے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرمایا.میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب احباب کو بہترین جزا عطا فرمائے.آمین اس مختصر دعائیہ خطاب کے بعد حضور نے ایک دفعہ پھر احباب کو مخاطب کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکانہ فرمایا.اس پر تمام فضاء علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ کی آوازوں سے گونج اٹھی.اس وقت بہت سے احباب پر رقت کا عالم طاری تھا.اور وہ زیر لب دعائیں کرنے میں مصروف تھے.اسٹیشن سے باہر تشریف لا کر حضور نے موٹر کار میں سوار ہونے سے قبل اسٹیشن کی بیرونی سڑک کے دورویہ کھڑے ہوئے احباب کی طرف ہاتھ ہلا کر ان کے السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور اھلاً وسهلا و مرحبا کے پُر جوش نعروں کا جواب دیا.حضور کی کا راسٹیشن سے جلوس کی شکل میں روانہ ہوئی.حضور کی کار کے آگے آگے دو جیپیں تھیں.ان میں سے اگلی جیپ میں چوہدری محمد صدیق صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ بعض خدام کے ہمراہ بیٹھے خیر مقدمی نعرے لگواتے جاتے تھے.

Page 185

تاریخ احمدیت.جلد 24.167 سال 1967ء دوسری جیپ کو امیر مقامی صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب خود ڈرائیو کر کے اس امر کی نگرانی فرمار ہے تھے کہ نظم وضبط برقرار رہے اور پورے راستہ پر دو رویہ کھڑے ہوئے احباب بسہولت حضور کو خوش آمدید کہنے اور حضور کی زیارت سے مشرف ہونے کی سعادت حاصل کر سکیں.اس کے بعد حضور کی کار تھی اور اس کے عقب میں قافلہ یورپ کے دیگر اراکین کی کاروں کے علاوہ دیگر احباب کی قریباً چالیس کاریں تھی نظم و ضبط برقرار رکھنے والے بہت سے خدام حضور کی کار کے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے اور کچھ سائیکلوں پر سوار تھے.حضور کی کار دیگر کاروں کے ہمراہ راستہ میں بنی ہوئی آرائشی محرابوں میں سے گزرتی ہوئی خراماں خراماں آگے بڑھ رہی تھی سڑک کے دورویہ کھڑے ہوئے احباب اور مختلف محلوں کے اطفال جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں علم اٹھائے ہوئے تھے با آواز بلند السلام عليكم ورحمة الله وبركاته ، اهلا وسهلا ومرحباً، اہلِ مغرب کو کامیاب دعوت مُبارک ہو، کے نعرے لگاتے جاتے تھے.حضور موٹر میں ہاتھ ہلا ہلا کر تبسم فرماتے اور وعلیکم السلام کہتے ہوئے جواب دیتے جاتے تھے اُس وقت راستہ میں ایک خاص نظم سے کھڑے ہوئے احباب پر خوشی و مسرت کا جو عالم طاری ہوا اور جس جوش و خروش کے ساتھ انہوں نے نعرے لگا لگا کر حضور کو خوش آمدید کہا.وہ اپنی نظیر آپ تھا.ہر شخص کی نگاہیں اس اشتیاق کے ساتھ استقبال کے لئے آگے بڑھتی تھیں کہ سب سے پہلے وہی زیارت سے مشرف ہو، اور اس وقت کی کیفیت بہت ولولہ انگیز تھی.حضور کی کارریلوے اسٹیشن کے عقب میں واقع سڑک کے ساتھ ساتھ ہوتی ریلوے کراسنگ پر آئی اور پھر ایوان محمود دفتر وقف جدید اور دفتر ٹاؤن کمیٹی کے آگے سے گزر کر گولبازار میں داخل ہوئی اس سڑک کے ساتھ ساتھ واقع تمام مکانات اور عمارتوں پر احباب نے بجلی کے قمقموں سے چراغاں کا اہتمام کر رکھا تھا.اور سارا راستہ جگمگ جگمگ کر رہا تھا.گولبازار میں داخل ہوتے ہوئے جب حضور کی کا را یک بہت خوشنما آرائشی محراب میں سے گزری تو اس آرائشی محراب میں سے حضور کی کار پر گلاب کی پتیوں سے گل پاشی کی گئی.سارا گولبازار بجلی کے رنگ برنگ قمقموں سے بقعہ نور بنا ہوا تھا.گولبازار سے حضور کی کار دفاتر صد را منجمن اور دفاتر تحریک جدید کی درمیانی سڑک پر سے ہوتی ہوئی لجنہ اماءاللہ ہال 66 کے چوک سے شارع مبارک پر مڑی اور پھر مسجد مبارک کے احاطہ میں داخل ہو کر قصر خلافت پہنچی.احباب احاطه مسجد مبارک کے اندر بھی راستہ کے ساتھ ساتھ قصر خلافت تک کھڑے ہوئے

Page 186

تاریخ احمدیت.جلد 24 168 سال 1967ء تھے.حضور ان سب کے نعروں اور سلام کا جواب دیتے ہوئے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے احاطہ میں پہنچے.وہاں جو نہی حضور موٹر کار سے اُترے.سردار مقبول احمد صاحب ذبیح مهتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور خواجہ عبدالمومن صاحب ناظم اطفال مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ ( حال مقیم ناروے) نے حضور کی خدمت میں دو اطفال لئیق احمد صاحب عابد.دارالرحمت شرقی ب ( حال وکیل صنعت و تجارت تحریک جدید ) اور عبدالخالق صاحب بنگالی دار الصدر غربی الف پیش کئے.جنہیں کارکردگی کے لحاظ سے نمایاں طور پر ہونہار طفل قرار دیا گیا تھا.ان دونوں اطفال نے حضور کی خدمت میں پھولوں کے دو خوشنما گلدستے پیش کئے ان گلدستوں پر یہ شعر لکھا ہوا تھا فرمایا.مبارک صد مبارک میرے آقا سفر یورپ ہو خدا نے کامیابی سے نوازا ہے مبارک ہو حضور نے از راہ شفقت یہ گلدستے قبول فرماتے ہوئے ان دونوں اطفال کو مصافحہ کا شرف عطا دریں اثناء احباب شہر میں سے سمٹ کر مسجد مبارک میں آجمع ہوئے تھے.چنانچہ حضور موٹر سے اُترنے کے بعد قصر خلافت کے اندر تشریف لے جانے کی بجائے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور بعض دیگر احباب کی معیت میں سیدھے مسجد مبارک تشریف لے گئے.اور وہاں مغرب کی نماز پڑھائی.چنانچہ حضور کے ربوہ پہنچنے کے معابعد ہزاروں احباب کو حضور کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی سعادت میسر آئی.اسی شام دارالضیافت کی طرف سے مستحقین میں خاص کھانا تقسیم کیا گیا.نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے سب احباب کو بآواز بلند السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ کہا اور پھر حضور قصرِ خلافت کے اندر تشریف لے گئے.جس کے بعد احباب اللہ کا شکر ادا کرتے اور حضور کی صحت و سلامتی اور درازی عمر کی دعائیں کرتے ہوئے گھروں کو واپس لوٹے.حضورانور کے ہمراہ حضرت منصورہ بیگم صاحب حرم سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر نیز آپ کی بیگم آمنہ طیبہ صاحبہ بھی واپس ربوہ تشریف لائی ہیں اور اس طرح قافلہ کے باقی دوارکان چوہدری محمد علی صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور عبدالمنان صاحب دہلوی بھی.مزید برآں مرکزی وفد کے ارکان مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل، میاں عبدالرحیم

Page 187

تاریخ احمدیت.جلد 24 169 سال 1967ء احمد صاحب، (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ ، میاں غلام محمد صاحب اختر نیز وہ امرائے اضلاع جو حضور کے استقبال کے لئے کراچی گئے تھے اور جن میں خان شمس الدین خان صاحب امیر جماعت احمدیہ پشاور بھی شامل تھے، اسی گاڑی سے ربوہ واپس آئے.رات کو دیر تک ربوہ کے گلی کوچوں، بازاروں اور علی الخصوص گولبازار میں رونق رہی قریباً سارا شہر چراغاں کی روشنی سے جگمگ جگمگ کر رہا تھا.یوں تو محلوں کی گلیوں اور سٹرکوں پر بجلی کی روشنی کا اہتمام تھا اور بہت سے احباب نے اپنے گھروں کی چھتوں پر بھی دیئے جلا کر چراغاں کیا تھا.لیکن دفاتر تحریک جدید ، جامعه احمدیه، ایوان محمود، مسجد مبارک، دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن، دفاتر صدرانجمن، وقف جدید، ہال لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نصرت گرلز کالج اور ہائی سکول اور ان میں سے بھی علی الخصوص دفاتر تحریک جدید ، جامعہ احمدیہ، ایوان محمود اور گولبازار کی روشنی کی بات ہی کچھ اور تھی.مزید برآں ربوہ کی ملحقہ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر آگ جلا کر بلندی پر بھی روشنی کا انتظام کیا گیا تھا.یہ آگ رات کو دیر تک روشن رہی اور چراغاں کے منظر کی دلکشی کو دوبالا کرتی رہی.احباب اور بچے دیر تک شہر کے مختلف حصوں میں ، جہاں روشنی کا خصوصی انتظام تھا، گھوم پھر کر چراغاں کا لطف اُٹھاتے رہے.سب بہت خوش تھے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.سفر یورپ کے متعلق بعض احباب کے تاثرات (۱) پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے کو اس تاریخی سفر میں پرائیویٹ سیکرٹری کی حیثیت سے حضور کے ہمراہ جانے اور خدمت بجالانے کا خصوصی شرف حاصل ہوا تھا.آپ نے اس دورے میں نازل ہونے والے پیہم افضال الہی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ حضور کی تشریف آوری کے ساتھ ہی جیسے سارے یورپ میں ایک زلزلہ آ گیا ہو.نہ صرف اخبارات، ریڈیو، ٹیلیویژن وغیرہ نے نمایاں جگہ بلکہ عزت اور ادب کے مقام پر جگہ دی بلکہ پڑھنے اور سننے والوں نے جو وہاں کی ہما ہمی میں تو قف اور رکنے کے عادی نہیں ہیں حضور کے ارشادات کو غور سے سنا اور یا درکھا.چنانچہ مثال کے طور پر ہمبرگ میں حضور کا انٹرویو ہوا اور ٹیلیویژن پر حضور کا ارشاد نشر ہوا اور اگلے روز یہ کیفیت تھی کہ جدھر حضور تشریف لے جاتے تھے لوگ ادب اور حیرت سے دور و یہ کھڑے

Page 188

تاریخ احمدیت.جلد 24 170 سال 1967ء ہو جاتے تھے اور آپس میں سرگوشیاں بھی کرتے تھے کہ یہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں.دوسری پریس کا نفرنسوں کی طرح یہ کانفرنس بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت اور تائید اور محبت کی ایک زندہ مثال تھی.پریس کے نامہ نگار یورپ کے ذہین ترین اور ہوشیار ترین دماغ سمجھے جاتے ہیں.ان کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑوں کا زہرہ آب ہوتا ہے.عموماً پریس کانفرنسوں میں بڑے بڑے لسان لوگ تحریری بیان پڑھ دیتے ہیں.یہ کانفرنس ایک بہت بڑے ہوٹل میں ہوئی.کانفرنس سے قبل اپنوں بیگانوں سبھوں نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ یورپ، انگلستان سب جگہ پریس پر یہودی چھائے ہوئے ہیں اور اسلام دشمنی اور عرب اسرائیل جنگ کے باعث جذبات بہت برافروختہ ہیں.مسلمانوں پر اکا دُکا حملوں کی وارداتیں بھی ہو چکی ہیں اس لئے خطرہ ہے کہ اخباری نمائندے اوّل تو پریس کانفرنس کے موقع پر ہی کوئی شرارت کریں گے ورنہ رپورٹنگ کے وقت ضرور اسلام کے خلاف زہر فشانی کریں گے.عموماً ایسے موقعوں پر سات آٹھ نمائندے آیا کرتے ہیں اور دس پندرہ منٹ کے لئے کانفرنس ہوتی ہے اور کانفرنس کے دوران پر یس کے نامہ نگار آتے جاتے رہتے ہیں.جب حضور کا نفرنس روم میں پہنچے تو اُس وقت پینتیس نمائندگان پریس، ریڈیو، نیوز ایجنسیز وغیرہ موجود تھے اور کمرہ بھرا ہوا تھا.سب کے سب تیز طرار اور چالاک.ان میں تین خواتین بھی تھیں.بعد میں کچھ اور بھی آگئیں.پہلے تو حضور نے باری باری سب مردوں سے مصافحہ فرمایا.عورتوں کو حضور کے حسب ارشاد پہلے ہی کہہ دیا گیا تھا کہ حضور اسلامی تعلیم کے مطابق نامحرم عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتے.مصافحہ ختم ہوتے ہی ایک نامہ نگار کھڑا ہوگیا اور بڑے زناٹے سے سوال کیا کہ یور ہولی نس! آپ نے ہمارے شہر اور قوم کی عزت افزائی فرمائی ہے کہ یہاں تشریف لائے ہیں.یہ مزید عزت افزائی فرمائی کہ ہمیں ملنے کا موقع دیا اور اس کی عزت افزائی یہ فرمائی کہ ہم سب کو مصافحے کا شرف بخشا لیکن مجھے غلطی لگی ہے.آپ نے سب سے مصافحہ نہیں فرمایا عورتوں کو اس شرف سے محروم رکھا.کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ کیوں ؟“ سوال کے ختم ہوتے ہی نہایت دل آویز مسکراہٹ کے ساتھ نہایت شیریں آواز میں حضور نے فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ نہیں میں نے آپ ہی کی نہیں عورتوں کی بھی عزت کی ہے.اسلام عورتوں کی عزت سکھاتا ہے.بلکہ اسلام ہی نے عورتوں کی صحیح عزت قائم کی ہے.آپ یہ نہیں کہ سکتے کہ میں نے مصافحہ نہ کر کے ان کی عزت نہیں کی.میرے نزدیک ہماری روایت اور اسلامی تعلیم کی روشنی میں

Page 189

تاریخ احمدیت.جلد 24 171 سال 1967ء عورت کی عزت یہی ہے کہ نامحرم اس سے ہاتھ نہ ملا ئیں.آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے مستورات کی اپنے طریق پر عزت افزائی کی ہے، یہ نہیں کہہ سکتے کہ عزت افزائی نہیں کی.“ 66 اس جواب کے بعد دس پندرہ منٹ نہیں پورے ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ کانفرنس جاری رہی ، اور سوال پر سوال ہوئے لیکن ہر سوال میں حضور کا احترام اور تکریم ملحوظ خاطر رہی.نامہ نگاروں پر ایک رعب طاری ہوا اور وہ بچوں کی طرح حضور کی خدمت میں ادب سے سوال کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے حضور کی زبانِ مبارک پر ایسے ایسے الفاظ جاری فرمائے کہ غم اور تشویش اور گھبراہٹ جاتی رہی اور اس کی جگہ خوشی اور اللہ تعالیٰ کی حمد نے لے لی.آخر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد حضور نے کانفرنس کو دیگر مصروفیات کے باعث ختم فرمایا.لیکن بعض نامہ نگار پھر بھی ٹھہرے رہے.اگلے روز سارے اخبارات میں اسلام اور احمدیت کا شہ سرخیوں (Banner Headlines) کے ساتھ خوب خوب چرچا ہوا.اور دیانت داری سے رپورٹنگ کی گئی.پھر ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ہیگ میں حضور سے سوال ہوا کہ آپ نے کتنے احمدی مسلمان یورپ میں پیدا کئے ہیں؟ حضور نے فرمایا جتنے مسیح علیہ السلام نے اپنی زندگی کے دوران ( جو آپ لوگوں کے نزدیک اُن کی زندگی تھی ) پیدا کئے تھے اُن سے زیادہ.سوال کرنے والا مبہوت ہو کر رہ گیا.ایک کانفرنس میں سوال ہوا آپ اسلام کیسے پھیلائیں گے؟ حضور نے فرمایا کہ دلوں کو فتح کر کے.پھر اس جواب پر سوال ہوا کہ آپ دلوں کو کیا کریں گے؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے قدموں میں ڈال دیں گے.سوال ہوا کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ انگلستان میں لوگوں کا مذہب سے تعلق ختم ہورہا ہے؟ فرمایا کہ پہلے گر جا گھر بکا نہیں کرتے تھے اب پک رہے ہیں.اور ان پر For Sale “ کے نوٹس لگے ہوئے ہیں.66 ایک سوال ہوا کہ آپ کا سکاٹ لینڈ کی آزادی کے متعلق کیا خیال ہے؟ حضور نے فرمایا I think اور قدرے توقف فرمایا.اور فرمایshould not think for you یعنی میرا خیال ہے کہ اس معاملے میں آپ کی جگہ مجھے نہیں سوچنا چاہیئے.اس پر سب حاضرین بے اختیار کھلکھلا کر ہنس پڑے او ر نامہ نگار کھسیانا سا ہو گیا.لیکن حضور کسی کی زبان بند کرنے کے لئے جواب نہیں دیا

Page 190

تاریخ احمدیت.جلد 24 172 سال 1967ء کرتے بلکہ نہایت محبت، نہایت تحمل اور نہایت دل آویزی اور شیرینی سے گفتگو فرماتے تھے جو دلوں میں اُترتی چلی جاتی تھی اور اسلام کے حسین چہرے پر صدیوں کے پڑے ہوئے جہالت اور دروغ کے پردوں کو چاک کرتی چلی جاتی تھی.اور وہ لوگ حضور کے وقار، جلال اور حسن اور شیرینی کا ذکر کئے بغیر نہ رہ سکتے تھے.مکرم چوہدری محمد علی صاحب مزید تحریر کرتے ہیں کہ سفر کا ایک اور ا ہم تاثر یہ ہے کہ حضور کو جماعت سے بے پناہ محبت ہے.اگر چہ جماعت کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی ذات سے محبت اور عشق ہے لیکن ہماری محبت اس عظیم محبت کا حقیر سا بدل بھی نہیں جو حضور کو ہم سے ہے.اور ہمارے پاس اپنے پیارے آقا کے حضور پیش کرنے کے لئے سوائے خلوص اور محبت اور عشق کے کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی دین ہے اور ہے ہی کیا.حضور کو جماعت کے ہر چھوٹے اور ہر بڑے اور ہر کامل اور ناقص سے ماں باپ سے بڑھ کر محبت ہے.اور خدا جانتا ہے کہ میں اس میں ذرہ بھر بھی مبالغہ نہیں کر رہا.چنانچہ احباب جماعت سے اس محبت کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ :.ایک دوست لندن میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب ملاقات کے کمرے سے باہر نکلے تو پہلے تو اپنی کیفیت چھپانے کے لئے میرے کمرے کی طرف لپکے لیکن وہاں کچھ مستورات ملاقات کے لئے انتظار کر رہی تھیں.وہ وہاں سے بھی تیزی سے ایک اور کمرے میں بھاگ کر پہنچے.اُن کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی.پھوٹ پھوٹ کر زار و قطار رورہے تھے.اس کمرے میں میں بھی موجود تھا.مجھے کچھ حجاب ہوا اور میں وہاں سے جانے لگا تو مجھے چمٹ گئے اور کہنے لگے کہ چوہدری صاحب میں اتنے عرصے سے منتظر تھا کہ حضور ایک بار تو میری غلطی پر مجھے پوچھتے لیکن انہوں نے تو چہرے سے بھی کوئی اظہار نہیں فرمایا اور مجھے سینے سے لگا لیا.یہی کیفیت یورپ کے مختلف ممالک میں رہی حضور کی محبت اور شفقت کی وسعتوں کا اندازہ کون کر سکتا ہے.کراچی آکر خود حضور نے اس راز سے کچھ پردہ اُٹھایا فرمایا ہر احمدی سونے کی طرح ہوتا ہے اگر سونے کو کوئی گند لگ جائے تو اسے پھینک نہیں دیتے بلکہ اُسے صاف اور پاک کرتے ہیں اور اس کی حفاظت کرتے ہیں.“ پھر تحریر فرماتے ہیں کہ اس سفر کے دوران ایک تجربہ جو بار بار ہواوہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور پُر نور کی زبان پر ایسے ایسے مضامین جاری کئے جو یورپ کے رہنے والوں کے دل میں اپنی پوری تاثیر کے ساتھ جاگزیں

Page 191

تاریخ احمدیت.جلد 24 173 سال 1967ء ہو گئے اور انہوں نے انہیں توجہ سے سنا.حالانکہ اس سے قبل ہم میں سے بعض کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ اگر حضور کی انذاری تقاریر یورپ والوں تک پہنچیں تو شاید اُن پر صحیح قسم کا اثر نہ ہو.لیکن ہوا یہ کہ جہاں بھی حضور نے اہلِ یورپ کو آنے والے خطرات اور عذابوں سے خبر دار کیا اس کا خاص اثر ہوا.اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضور کے دل میں بنی نوع انسان کے لئے کتنی ہمدردی ہے.یورپ اس وقت ایک ایسے کوہ آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے.حضور نے فرمایا کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اہلِ مغرب کو خبردار کریں کہ وہ اس وقت موت کے منہ میں کھڑے ہیں اور انہیں بتائیں کہ اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تباہ ہو جائیں گے.ان لوگوں کو اب خود بھی اس عظیم تباہی کا احساس ہو چکا ہے اس لئے حضور نے ایک جھٹکے اور دھکے سے بیدار کرنے والے انذاری رنگ میں مغرب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری پیشگوئیوں سے روشناس کرایا.تقریباً سب نے علی قدر مراتب اس انذار کو سُنا اور اس پر غور کیا.وانڈ زورتھ کے میئر نے تو لفظا کہا کہ ہم اس انذار کے مستحق ہیں.766 حضور کو اہل مغرب کے اس متوقع انجام کا بے حد غم ہے.ایک دفعہ کہیں تشریف لے جار ہے تھے راستے میں زیر لب اپنے آپ سے فرمایا جو اس عاجز نے سُنا کہ افسوس کہ یہ سب کچھ تباہ ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور تباہی سے پہلے پہلے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور سایہ عاطفت میں جگہ دے.(۲) جناب بشیر احمد رفیق خان صاحب ان دنوں مسجد فضل لندن کے امام تھے.اس حوالہ سے حضور کے انگلستان میں وردود اور مصروفیات سے متعلق ان کے رقم فرمودہ ذاتی تاثرات ایک چشم دید شہادت کا درجہ رکھتے ہیں.وہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضور انور کا خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد یہ پہلا دورہ غیر ممالک تھا.انگلستان میں احمدی احباب کی ایک کثیر تعداد موجود ہے انہوں نے حضور اقدس کو خلافت سے قبل نہ صرف دیکھا ہوا تھا بلکہ بہت ساروں کو حضور کی شاگردی کا بھی شرف حاصل تھا.حضور اقدس مورخہ ۲۶ جولائی ۱۹۶۷ء کو لندن ایئر پورٹ پر تشریف لائے.ہزاروں کی تعداد میں احمدی احباب ایئر پورٹ پر استقبال کیلئے جمع تھے.ایئر پورٹ کی تاریخ میں غالباً اتنی کثرت اور جوش سے نعرہ ہائے تکبیر بلند نہ کئے گئے ہوں گے.جتنے حضور کی تشریف آوری کے موقع پر بلند کئے گئے.

Page 192

تاریخ احمدیت.جلد 24 174 سال 1967ء ایک بات جس کا اظہار متعدد دوستوں نے کیا یہ تھا کہ جتنے دوستوں نے حضور اقدس کو خلافت کے بعد ایئر پورٹ پر پہلی بار دیکھا.ہر شخص کو حضور کے چہرہ پر ایک نو راور روشنی نظر آئی جو خدا داد تھی اور جس نے ہر شخص کا دل موہ لیا.اور اس بات پر پختہ ایمان وایقان پیدا ہوا کہ خلافت کا انتخاب اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے اور جس کو وہ اس منصب پر قائم کر دیتا ہے اس کے چہرہ پر ایک ایسا نور پیدا کر دیتا ہے جو قلوب کو اپنی طرف کھینچے.اور اس طرح خلیفہ کی محبت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کر دیتا ہے.“ ایک انگریز کا متاثر مکرم بشیر احمد رفیق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس کا پروگرام لندن میں اتنا مصروف تھا کہ اگر ایک عام آدمی اتنی مشقت کرتا تو اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن اور بیزار پن کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.لیکن باوجود اتنی مصروفیت کے حضور کے چہرہ پر سدا بہار مسکراہٹ ، اطمینان اور سکینت ہر وقت قائم رہتی تھی.مجھ سے ایک انگریز بینک مینجر نے جس کو حضور سے ملنے کا شرف ملا یہ بات بیان کی کہ اس نے اپنی پوری زندگی میں کسی شخص کے چہرہ پر اتنی رونق ، اطمینان اور سکینت نہیں دیکھی.حضور اقدس کے لندن کے صرف ایک دن کے کام کی ایک جھلک بیان کرتے ہوئے بشیر احمد رفیق صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضور جمعرات کی رات کو ایک بجے رات تک احباب جماعت میں تشریف فرما ر ہے.ان کے سوالات کے جوابات دیتے رہے.ان کو نصائح کیں اور ارشادات سے نوازا.صبح ۴ بجے مسجد میں نماز فجر کی ادائیگی کے لئے تشریف لائے.اور مجھے خود پہریداروں نے بتایا کہ حضور کی خواب گاہ میں ۳ بجے شب روشنی ہوگئی تھی.گویا بمشکل دو گھنٹے سونے کو ملے.نماز فجر کے بعد غالباً کچھ دیر آرام فرمایا ہو گا.بجے صبح ناشتہ کی تیاری ساڑھے آٹھ بجے ملاقاتیں شروع ہو گئیں جو ایک بجے تک جاری رہیں.ہر شخص سے اُٹھ کر ملنا، اُن کی باتیں سنتا ، ہر ایک کو مشورے سے نواز نا کوئی آسان کام نہیں.ایک سے اڑھائی بجے تک کے وقت میں نماز جمعہ کی تیاری، کھانا وغیرہ سب کچھ شامل ہے.۲ بجے سے ڈھائی بجے تک خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور پھر احباب کے جھرمٹ میں کچھ دیر تشریف فرما رہے.شام کو ے بجے وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال میں جماعتی دعوت استقبالیہ میں شرکت فرمانے کے لئے ٹاؤن ہال تشریف لے گئے اور قریباً ۲۰۰ /افراد سے مصافحہ فرمایا.رات کے ساڑھے نو بجے تک کھانے سے فارغ ہو کر اہم ترین تقریر فرمائی.

Page 193

تاریخ احمدیت.جلد 24 175 سال 1967ء وا پس مشن ہاؤس تشریف لا کر پھر ملاقاتیں اور احباب کی محفل میں تشریف فرمائی.یہ تھا حضور کا معمول جب تک حضور انگلستان میں مقیم رہے.مکرم امام بشیر احمد رفیق صاحب کہتے ہیں کہ بعض باتیں خواہ بظاہر چھوٹی نظر آئیں لیکن اُن کے اظہار سے اس عظیم شخصیت کی محبت اور شفقت کے بے پایاں سمندر کا اندازہ ہوتا ہے.خاکسار کی بیٹی جمیلہ حضور کے قیام کے دنوں میں بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوگئی.مجھے طبعی طور پر بے حد گھبراہٹ تھی.میں نے شام کے وقت حضور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا.حضور نے بڑے وثوق سے فرمایا فکر نہ کرو بچی کو اللہ تعالیٰ صحت عطا فرمائے گا.اُس رات بچی ایک رنگ میں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھی.آکسیجن منٹ میں ساری رات رہی.اگلے دن صبح حضرت بیگم صاحبہ نے مجھ سے بچی کی صحت کے متعلق دریافت فرماتے ہوئے فرمایا.کہ حضور کی جب بھی رات کو آنکھ کھلتی تھی تمہاری بچی کے لئے دعا کرتے تھے اور یہ حالت ساری رات رہی.بچی کو خدا تعالیٰ نے حضور اقدس کی دعاؤں کے طفیل معجزانہ زندگی عطا فرمائی اور اب تندرست اور صحت مند ہے.ایک طرف اتنا مصروف پروگرام اور دوسری طرف جماعت کے ایک ادنی ترین خادم کی بچی کے لئے اتنی دعا.بچے کے کان میں اذان ایک اور بڑا دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہوئے جو حضور انور کی بے پایاں شفقت کا آئینہ دار ہے، لکھتے ہیں کہ ایک دن جب کہ دن بھر ایک سیکنڈ بھی حضور کو آرام نہ مل سکتا تھا.سارا دن مصروفیت رہی شام کو ایک دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ میرے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے اس کے کان میں اذان دلانی ہے آپ میرے ہاں چلیں.میں نے کہا کہ یہاں بڑی مصروفیت ہے، آج تو مشکل ہے کل یا پرسوں وقت نکال کر چلیں گے.کچھ دیر بعد حضور چند منٹ کے لئے نیچے تشریف لائے.یہ شخص بھی موجود تھا اس نے حضور کی خدمت میں بچے کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ حضور اگر بچے کے کان میں اذان دیں تو بڑا احسان ہوگا.حضور کا سارا دن بہت ہی مشغول گزرا تھا اور اس وقت بھی ضروری کام کے سلسلہ میں تشریف لائے تھے لیکن ایک احمدی دوست کی درخواست رد نہ فرمائی.مجھے اُسی وقت حکم فرمایا کہ کار تیار کرو میں اس کے ساتھ جاؤں گا.سب تو حیران ہو ہی گئے مگر جس دوست نے درخواست کی تھی اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا.اس کے تو وہم گمان میں نہ تھا کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ اس کے بچے کو یہ سعادت بخشے گا.حضور کا بار بار انکسار اور فروتنی کا اظہار یہاں لوگوں کے دلوں پر جادو کا اثر کر گیا.

Page 194

تاریخ احمدیت.جلد 24 176 سال 1967ء آکسفورڈ کی جماعت کے ایک دوست نے ۱۰ شلنگ کا نوٹ حضور کے سامنے کیا کہ اس پر حضور دستخط فرما دیں.حضور نے فرمایا کہ میں تمہارے نوٹ پر کیوں دستخط کروں.اس پر اپنی جیب سے دس شلنگ کا نوٹ نکال کر اس پر دستخط فرمائے.اب کیا تھا دوستوں نے جیب سے نوٹ نکالنے شروع کئے.لیکن حضور نے کسی کے نوٹ پر دستخط کرنے کی بجائے اپنے پاس جتنے نوٹ تھے اُن پر دستخط کر کے لوگوں کو دے دیئے.انہی باتوں کا نتیجہ تھا کہ جماعت کے ہر فرد کے دل میں حضور کی بے پایاں محبت قائم ہوگئی.بشیر احمد رفیق صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس کی شخصیت سے صرف احمدی ہی متاثر نہ ہوئے بلکہ غیر بھی یکساں متاثر ہوئے.ہڈرزفیلڈ میں حضور صرف چند گھنٹے ٹھہرے وہاں کے پریذیڈنٹ کمال الدین امینی صاحب نے مجھے ایک خط لکھا کہ: ”ہمارے شہر کے معززین جنہوں نے حضور انور کا بابرکت مسکراتا ہوا چہرہ دیکھا ہے بہت متاثر ہوئے ہیں اور آج تک حضور کی تعریفیں کر رہے ہیں.ہمارے ہمسایہ میں ایک انگریز عورت ہے اس کا بیان ہے کہ میں نے اپنی گزشتہ ساٹھ سالہ زندگی میںاس محلہ میں ایسا نورانی چہرہ اور ایسی رونق نہیں دیکھی جیسی حضور کی آمد پر تھی.“ اخبار ٹائمز جو انگلستان بلکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار ہے، نے لکھا:."At 57 Caliph Ahmad is gentle of manner and has a kind smile." وو ستاون سال کے حضرت خلیفہ (مسیح) احمد نہایت اچھے اخلاق اور ایک مہربان مسکراہٹ کے مالک ہیں.“ ) غرضیکہ حضور اقدس کا یہ دورہ انتہائی بابرکت کامیاب اور یورپ کے احمدیوں کے ازدیاد ایمان کا باعث ہوا.145 حضور انور کا سفر یورپ اور پاکستانی پریس حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے انقلاب انگیز سفر یورپ کے نہایت خوش گن اثرات و نتائج کا تذکرہ پاکستانی پریس نے بھی کیا..میر پور خاص کے سندھی ہفت روزہ مہمدرد نے اا راگست ۱۹۶۷ء صفحہ ۴ پر امن جو پیغام“

Page 195

تاریخ احمدیت.جلد 24 177 سال 1967ء (امن کا پیغام ) کے زیر عنوان ایک نوٹ شائع کیا جن کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.امام جماعت احمد یہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے آکسن ایک ماہ کے تبلیغی دورہ کی غرض سے ۸ جولائی کو بذریعہ ہوائی جہاز یورپ روانہ ہوئے.آپ کے اس سفر کا مقصد یہ ہے کہ وہاں تبلیغی مشنوں کا جائزہ لیں.نیز اہلِ یورپ پر اتمام حجت کردیں کہ اب نجات محض اسلام کے دامن میں ہی حاصل ہو سکتی ہے.آپ کے ہمراہ بیرونی ممالک میں احمد یہ مشنوں کے انچارج مرزا مبارک احمد صاحب بھی ہیں.آپ کراچی سے فرینکفورٹ (مغربی جرمنی ) پہنچے.پھر زیورک ( سوئٹزر لینڈ ) تشریف لے گئے.وہاں کے ریڈیو نے امام صاحب کا خصوصی انٹرویو نشر کیا اور ٹیلی وژن پر مناظر دکھائے گئے.پھر ہمبرگ تشریف لے گئے.کئی لوگ حلقہ بگوش اسلام بھی ہوئے.اسی طرح آپ ہالینڈ بھی تشریف لے گئے.ہمبرگ سے کوپن ہیگن تشریف لے گئے.وہاں آپ نے عورتوں کے چندہ سے بنی ہوئی مسجد کا ۲۱ جولائی بروز جمعہ افتتاح فرمایا.ہزاروں افراد مسجد کو دیکھنے آئے.وہاں سے آپ لندن پہنچے.لندن میں اخباری نمائندوں کو بتایا.”امن کے امکانات مشتبہ ہیں.جب تک انسان اپنے خالق کی طرف رجوع نہیں کریگا اور اس سے زندہ تعلق قائم نہیں کرے گا.دنیا ہولناک تباہی کی طرف بڑھتی چلی جائے گی.“ آپ لنڈن سے گلاسگو تشریف لے گئے.ایک ماہ کے کامیاب دورہ کے بعد حضرت امام صاحب واپس پاکستان تشریف لا رہے ہیں.آپ نے اہلِ یورپ پر انذاری طور پر اتمام حجت کردی ہے اور عیسائیوں پر واضح کر دیا ہے کہ دنیا اگر امن چاہتی ہے تو اسلام کے دامن میں آجائے.یا تو اسلام قبول کر لواور خدا کے حضور جھک جاؤ.ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.روز نامہ شہباز پشاور میں ۷ ار ا گست ۱۹۶۷ء کو حسب ذیل خبر شائع ہوئی.پشاور ۱۶ را گست مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا امیر سابق صوبہ پنجاب جماعت احمدیہ نے آج یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعتِ احمدیہ کے قیام کی غرض اسلام کو از سر نو زندہ کرنا اور اسے دنیا میں پھیلانا ہے اس کے زندہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ مرور زمانہ سے جو غلطیاں اس میں داخل کر دی گئی ہیں.ان سے اسے پاک کیا جائے.اور ہمارے پیارے آقا

Page 196

تاریخ احمدیت.جلد 24 178 سال 1967ء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کو اس کی نہایت ہی پیاری اور دلکش شکل میں دنیا میں ظاہر کیا جائے اور قرآنی انوار اور معارف سے انسانوں کو آگاہ کیا جائے اور اسلامی تعلیم کی برتری کو ثابت کیا جائے.ڈنمارک کی مسجد کے افتتاح کے لئے ہمارے امام حافظ مرزا ناصر احمد صاحب گزشتہ ماہ کے شروع میں یورپ گئے.آپ نے یورپ کے باقی مشنوں کا بھی دورہ کیا.جس کا ذکر وہاں کے مختلف اخبارات میں تفصیل سے آیا ہے.یورپ کے بعض بڑے بڑے آدمی آپ کو ملنے کے لئے آئے.اور آپ کے اعزاز میں دی گئی دعوتوں میں شریک ہوئے.اور آپ سے اسلام کے متعلق سوالات کرتے رہے.وہ آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے جس کا ذکر خاص طور پر وہاں کے اخبارات میں آیا.آپ کے لئے پریس کانفرنسیں بھی منعقد کی گئیں.آپ کے انٹرویوٹیلیویژن پر بھی نشر کئے گئے.جو کروڑوں انسانوں نے سنے اور دیکھے.آپ نے واضح الفاظ میں اہلِ یورپ کو متنبہ کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کر کے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار نہیں کریں گے.تو ان پر تباہ کر دینے والے عذاب آئیں گے.آپ نے پادریوں کو قبولیت دعا کا چیلنج بھی دیا.اس طور سے آپ نے تمام یورپ کو اسلام کی طرف متوجہ کر دیا ہے.وہاں کے بعض لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول بھی کیا.ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید کرتے ہیں کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں یورپ اسلام کی طرف آئے گا اور دنیا میں اسلام کا غلبہ ہو گا.147 66 مراجعت کے بعد پہلا خطبہ جمعہ اور سفر یورپ کے ایمان افروز حالات سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے اس تاریخ ساز اور بابرکت سفر سے مراجعت کے بعد یہ فیصلہ فرمایا کہ اپنی زبان مبارک سے سفر یورپ کے تفصیلی حالات اور برکات خطبات جمعہ اور دوسری تقاریب کے ذریعے سے پوری جماعت تک پہنچا دیں.چنانچہ اس کا آغاز حضور نے ۲۵ /اگست ۱۹۶۷ء کے خطبہ سے کیا.جو مراجعت ربوہ کے بعد حضور کا پہلا خطبہ جمعہ تھا.یہ ایک مفصل خطبہ تھا، جس کے بعد حضور نے جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع کروا ئیں.حضور نے اس مبارک سفر کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.

Page 197

تاریخ احمدیت.جلد 24 179 سال 1967ء " جس وقت ہم یورپ گئے اس وقت ہمارا یہ راستہ تھا.پہلے فرینکفورٹ پھر زیورک پھر ہیگ پھر ہیمبرگ پھر کوپن ہیگن اور پھر لنڈن اور گلاسگو.زیورک میں ایک دن صبح میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام تھا.مُبَارِک وَمُبَارَكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكِ يُجْعَلُ فِيْهِ یہ الہام اخبار الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.اس سے دوسرے دن تین بجے کے قریب میری آنکھ کھلی اور میری زبان پر قرآن کریم کی ایک آیت تھی اور ساتھ ہی مجھے اس کی ایک ایسی تعبیر بھی بتائی گئی جو بظاہر انسان ان الفاظ سے نہیں نکال سکتا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعبیر مجھے اللہ تعالیٰ نے ہی سکھلائی تھی.کوپن ہیگن میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے پیارے نظارے دیکھے اور لوگوں میں اس قدر رجوع تھا کہ وہاں بڑی تعداد میں آرہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ان لوگوں کو کچھ پتہ نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور فرشتے ان کو دھکے دے کر لا رہے ہیں.مثلاً عیسائی بچے جو دس سال اور پندرہ سولہ سال کے درمیان عمر کے تھے، مسجد میں آجاتے تھے اور ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھے.ان کی تعداد کوئی چالیس پچاس ہو گی جو مختلف وقتوں میں آئے.پھر وہ بچے صرف فرائض میں ہی شامل نہیں ہوتے تھے کہ ہم سمجھیں کہ وہ عجوبہ سمجھ کر ایسا کرتے تھے بلکہ مغرب وعشاء کی نمازیں جمع ہوتی تھیں اور بعد میں ہم وتر ادا کرتے تھے تو دس دس بارہ بارہ سال کی بعض لڑکیاں ہماری احمدی مستورات کے ساتھ وتر بھی پڑھ کے جایا کرتی تھیں.ایک دن ہم میں سے کسی نے انہیں کہا کہ تمہارے ماں باپ کو پتہ لگ گیا تو وہ تمہیں ماریں گے تو وہ کہنے لگیں نہیں ، ان کو پتہ ہے کہ ہم یہاں آتی ہیں.غرض صبح سے لے کر شام تک ایک تانتا سا بندھا رہتا تھا، لوگ آرہے ہیں مسجد کو دیکھنے کے لئے اور واپس جارہے ہیں.ایک دن چوہدری محمد علی صاحب کی آنکھ رات کے ڈیڑھ بجے کھلی اور وہ اپنے کمرے سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کی تصویر لے رہا ہے، رات کو ڈیڑھ بجے وہ مسجد کی تصویر لے رہا تھا.جمعہ کے روز افتتاح کے وقت لوگ اتنی کثرت سے آئے کہ جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے آئے ہوئے ہیں اور

Page 198

تاریخ احمدیت.جلد 24 180 سال 1967ء کندھے سے کندھا ملا ہوا ہے اور میں مسجد کے دروازہ تک نہیں پہنچ سکتا بعد میں تین چار رضا کار آئے انہوں نے بڑی مشکل سے رستہ بنایا تب میں مسجد میں پہنچا.آنے والوں میں بڑے بڑے لوگ بھی تھے جن کی طرف اس وقت ہماری توجہ بھی نہ ہوئی.خود ہی وہ افتتاح کی تقریب میں شامل ہوئے اور پھر واپس چلے گئے.ان لوگوں میں ہمارے علاقہ کا لارڈ میئر بھی تھا جو بڑا شریف انسان ہے اور جماعت کے دوستوں کے ساتھ تعلق بھی رکھتا ہے.ہمارے ملک میں تو رواج نہیں وہاں یہ رواج ہے کہ اگر کوئی آدمی جس کو وہ بڑا سمجھیں ان کے ملک میں آجائے تو وہ اسے رسیو کرتے ہیں RECEPTION دیتے ہیں اور یہ ایک فارمل سی چیز ہے پندرہ منٹ کے قریب عرصہ کے لئے یہ تقریب منائی جاتی ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ہم اس شخص کو اپنے میں شامل کر رہے ہیں اور یہ اس شخص کے لئے احترام اور عزت کا ایک مظاہرہ ہوتا ہے.چنانچہ افتتاح سے دوسرے روز انہوں نے میرے اعزاز میں ریسیپشن دی تو وہاں انہوں نے مجھے بتایا کہ میں بھی افتتاح کے موقعہ پر موجود تھا حالانکہ ہم میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا.چنانچہ معذرت کی گئی کہ لوگ چونکہ بڑی تعداد میں جمع تھے اس لئے ہم نے آپ کو دیکھا نہیں.“ فرینکفورٹ کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: 66 وہاں ایک مختصرسی ریسیپشن ہوئی اور اگلے دن ہم نے دیکھا کہ وہاں کے ہر اخبار نے رپورٹ شائع کی ہوئی ہے.بڑے اچھے نوٹ دیئے تھے اور تصویریں بھی دی تھیں.مجھے قطعاً امید نہیں تھی کہ کوئی ایک اخبار بھی تصویر کے ساتھ خبر شائع کرے گا.لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ وہاں بھی ہمارے متعلق خبریں شائع ہو گئیں اور اسلام کا پیغام قریباً ہر شخص کے کان تک پہنچ گیا.“ پھر ایک بڑے ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: زیورک پہنچے تو وہاں پہلی پر یس کا نفرنس ہوئی.وہاں ایک اخبار بہت پائے کا ہے اس کے متعلق ہمارے مبلغ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ کی رپورٹ ہے کہ یہ ہمیشہ اسلام کے خلاف لکھتا ہے لیکن جب میں اس کی تردید کرتا ہوں تو یہ اسے

Page 199

تاریخ احمدیت.جلد 24 181 سال 1967ء شائع نہیں کرتا.ہمارے خلاف لکھتا چلا جاتا ہے لیکن تردید میں ایک لفظ بھی شائع نہیں کرتا اور پتہ نہیں اس کا نمائندہ پر یس کا نفرنس میں آتا ہے یا نہیں.پہلی کا نفرنس تھی اور وہ بڑے ڈرے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں پریس والے کیا کرتے ہیں.لیکن ہوا یہ کہ سب اخباروں کے نمائندے آئے اور نہایت آرام کے ساتھ سوا گھنٹے کے قریب پر یس کا نفرنس جاری رہی.وہ لوگ سوال کرتے رہے اور میں ان کو جواب دیتا رہا.بعض دفعہ وہ سیاسی سوال بھی کر دیتے تھے اور میں انہیں کہہ دیتا تھا کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں آپ مجھ سے مذہب کی باتیں کریں.اس اخبار کا نمائندہ جو اسلام کے خلاف لکھتا رہتا تھا اور اس کے حق میں اس نے کبھی کوئی لفظ نہیں لکھا تھا ایک نوجوان تھا اُس کو مجھ سے دلچسپی پیدا ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے اس کے دل کی تاروں کو ہلایا.پریس کانفرنس ختم ہوگئی لیکن وہ نو جوان اس کے بعد بھی پندرہ منٹ کے قریب مجھ سے باتیں کرتا رہا.آخر میں اس نے کہا کہ میں آپ سے ایک آخری سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ مجھے بتائیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی کی بعثت کا مقصد کیا ہے.میں نے اس سے کہا کہ آپ کی بعثت کا مقصد تمہیں اپنے الفاظ میں کیوں بتاؤں، میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے الفاظ میں ہی تمہیں بتاتا ہوں کہ ان کی بعثت کا مقصد کیا تھا ، آپ نے لکھا ہے کہ میں دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑنے کے لئے آیا ہوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا اور اس کے جسم کو زخمی کیا.وہ نوجوان اچھل پڑا اور کہنے لگا کہ مجھے حوالہ چاہئے.اب وہ شخص تو احمدی نہیں تھا اسے کیا غرض تھی کہ وہ اس حوالہ کو شائع کرتا.لیکن اس نے کہا مجھے اصل حوالہ چاہیئے.اب دیکھو خدائے علام الغیوب کو تو پتہ تھا کہ اس حوالہ کا مطالبہ ہونا ہے.میں نے یہاں مضمون لکھنے شروع کئے تو میں نے بعض حوالے نکلوائے تھے بعد میں ، میں نے مضمون تو تیار نہ کئے اور نہ میں تیار کر سکا کیونکہ میری طبیعت میں انقباض پیدا ہو گیا تھا.لیکن میں نے چوہدری محمد علی صاحب سے کہا کہ یہ حوالے ساتھ رکھ لیں.شائد وہاں کام آئیں.ان حوالوں میں وہ حوالہ بھی تھا اور پھر وہ اردو میں بھی نہیں تھا بلکہ اس کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا ہوا تھا.میں نے وہ حوالہ منگوایا اور اس نوجوان کے ہاتھ

Page 200

تاریخ احمدیت.جلد 24 182 سال 1967ء میں دے دیا اور کہا یہ ہے حوالہ.اس نے اسے پڑھا تو کہا میں نے اسے نقل کرنا ہے.میں نے کہا بڑی خوشی سے نقل کرو اور اگلے دن اس اخبار میں ، جس میں اسلام کے حق میں کبھی ایک لفظ بھی نہیں چھپا تھا ایک لمبا نوٹ چھپا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ ساری عبارت بھی نقل کر دی گئی.اس نے لکھا کہ آپ کا دعوی تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ میں اس غرض کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں کہ اس صلیب کو دلائل کے ساتھ توڑ دوں جس نے مسیح کی ہڈیوں کو توڑا تھا اور آپ کے جسم کو زخمی کیا تھا.چنانچہ اس نے پورا پورا حوالہ شائع کیا.سارے حیران تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں تو کوئی توقع نہیں تھی کہ اس قسم کی پریس کانفرنس ہو سکتی ہے.سارے اخباروں میں خبریں شائع ہوئیں.ان میں سے کسی نے مسجد کی فوٹو دی اور کسی نے نہ دی.لیکن ہمارے فوٹو کے ساتھ نوٹ شائع کئے.غالبا مسجد کی فوٹو اس لئے شائع نہ کی گئی کہ اس کے فوٹو اخبارات میں آچکے ہیں اور وہ پرانی مسجد ہے.“ اس کے بعد حضور نے ہیگ میں آمد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کے بعد ہم ہیگ پہنچے.وہاں حافظ قدرت اللہ صاحب مجھے کہنے لگے کہ یورپ کے دوسرے ملکوں کی نسبت یہاں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب بہت زیادہ ہے اور میں ڈر رہا ہوں پتہ نہیں پریس کانفرنس میں کیا ہوگا اور غالبا میں نے ان سے ہی کہا تھا کہ آپ فکر نہ کریں.سوال مجھ سے ہونے ہیں اور میں نے ہی ان کے جواب دینے ہیں.وہاں بھی پریس والوں نے بڑے ادب اور احترام کے ساتھ مجھ سے باتیں کیں.ایک نوجوان جو بڑا لمبا اور صحت والا تھا اور غالبا کسی کیتھولک اخبار کے ساتھ تعلق رکھتا تھا.اس نے ایک سوال کیا.سوال تو اس نے بڑے ادب سے کیا لیکن اس کی آنکھوں میں شوخی تھی وہ نو جوان کہنے لگا آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ نے ہمارے ملک میں کتنے مسلمان کئے ہیں.غالباً اسے علم تھا کہ یہاں احمدی تھوڑی تعداد میں ہیں.میں نے اس کو کہا کہ تمہارے نزدیک مسیح علیہ السلام کی جتنی زندگی تھی گو اس مسئلے میں ہمارا اور تمہارا اختلاف ہے لیکن میں اس وقت اُس اختلاف کو چھوڑتا ہوں.تمہارے خیال میں جتنے سال مسیح علیہ السلام اس دنیا

Page 201

تاریخ احمدیت.جلد 24 183 سال 1967ء میں زندہ رہے اس ساری عمر میں انہوں نے جتنے عیسائی بنائے تھے ان سے زیادہ اس ملک میں ہم نے مسلمان بنائے ہیں.اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ دوسرے نمائندے تو سوال کرتے رہے لیکن وہ خاموش رہا.تمہیں چالیس منٹ کے بعد میں نے اس کی طرف توجہ کی اور کہا کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ تم نے مجھ میں دلچسپی لینی چھوڑ دی ہے لیکن میری تم میں دلچسپی ابھی تک قائم ہے تم سوال کرو میں اس کا جواب دوں گا.خیر اس کے بعد اس نے بعض سوال کئے اور میں نے ان کا جواب دیا.پریس کانفرنس کے بعد وہ نوجوان قریباً ایک گھنٹے تک ٹھہر کر دوستوں سے گفتگو کرتا رہا.اس نے قیمتاً ہمارالٹریچر بھی خریدا اور کہنے لگا میں اسے ضرور پڑھوں گا.غرض اس پر اتنا اثر تھا.“ پھر حضور انور نے ہمبرگ میں پریس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہاں ایک اٹلانٹک ہوٹل ہے جس میں پریس کانفرنس ہوئی.میں جب وہاں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ۳۵ نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں ہمبرگ کے مشہور چاروں اخباروں کے نمائندے بھی موجود تھے.ہفتہ وار اخباروں کے نمائندے تھے.دو نمائندے ریڈیو کے تھے.(وہاں دو مختلف ریڈیو پروگرام ہیں اور ان میں سے ہر ایک نے علیحدہ علیحدہ اپنی انڈیپینڈنٹ ٹیم بھیجی ہوئی تھی ) نیوز ایجنسیز کے نمائندے تھے پھر وہاں رواج ہے کہ فوٹو گراف مہیا کرنے والی بھی انڈیپینڈنٹ ایجنسیاں ہیں.کل نمائندے ۳۵ تھے اور ایک گھنٹہ چھپچیس منٹ تک باتیں کرتے رہے.اس پریس کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس پر یس کا نفرنس میں دو عور تیں بھی تھیں میں نے ان سے ہاتھ نہیں ملایا تھا اس پر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا آپ نے ہم سے ہینڈ شیک یعنی مصافحہ کر کے ہماری عزت افزائی تو کی ہے لیکن ان عورتوں کی عزت افزائی نہیں کی یہ کیا بات ہے.میں نے اسے کہا کہ میں تمہارا بڑا ممنون ہوں کہ تم نے یہ سوال کر کے بات کی وضاحت کر والی ہے ورنہ تم یہاں سے اٹھ جاتے تو غلط نہی قائم رہتی.اسلام کا یہ مسئلہ ہے اور یہ ایک عورت کی بے عزتی کے خیال سے نہیں بلکہ اس کی عزت اور احترام کو قائم کرنے کے لئے ہے.تم یہ تو کہہ سکتے ہو کہ ہمارا نظریہ درست نہیں مگر ہم پر یہ الزام نہیں لگ سکتا کہ ہم عورت کی عزت اور احترام نہیں کرتے.خیر بات ان کی سمجھ میں آگئی اور ان کی تسلی ہو گئی.“ 66

Page 202

تاریخ احمدیت.جلد 24 184 سال 1967ء پھر الیکٹرانک میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ہیمبرگ کے ٹیلی ویژن کو ایک کروڑ سے زائد آدمی دیکھتے ہیں جرمنی کے چھوٹے چھوٹے کئی صوبے ہیں اور ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن تین چار صوبوں میں دیکھا جاتا ہے ہیمبرگ کا ٹیلی ویژن جس علاقہ میں دیکھا جا سکتا ہے.اس کے متعلق اندازہ ہے کہ اس میں اسے ایک کروڑ سے زیادہ آدمی دیکھتے ہیں.ہم نے اس میں چالیس فیصدی کاٹ دیا کہ بہت سے لوگ باہر گئے ہوئے ہوتے ہیں.بعض لوگ سیر وسیاحت کے لئے گھروں سے نکلے ہوئے ہوتے ہیں پھر بھی ۷۰،۶۰ لاکھ کے درمیان لوگوں نے ہمیں ٹیلی ویژن پر دیکھ لیا اور جو باتیں وہاں ہوئیں تھیں کہ اسلام لاؤ اور اپنے اللہ کی معرفت حاصل کرو.یہ پیغام براڈ کاسٹ بھی ہو گیا اور پھر سارے اخباروں میں بھی آگیا.اخباروں کی وجہ سے شہر میں ہمارا اس طرح چرچا ہوا کہ ہمارے لئے باہر نکلنا مشکل ہو گیا.دو ایک بار ہم بازار میں گئے تو جہاں تک نظر جاتی تھی مرد عورتیں اور بچے اپنا کام کاج چھوڑ کر ہماری طرف دیکھنے لگ جاتے تھے اور سینکڑوں کیمرے نکل آتے تھے جس دکان میں بھی جاؤ سودے کے متعلق بات بعد میں ہوتی پہلے اخبار ہمارے سامنے کر دیا جاتا تھا اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ہمیں جانتے ہیں اور اس بات کا اظہار وہ بڑی خوشی اور بشاشت سے کرتے تھے.میرا بتانے کا یہ مطلب ہے کہ ہر گھر میں ہمارا یہ پیغام پہنچ گیا کہ اسلام لا و یا تباہ ہو جاؤ.کیونکہ میری باتوں کا خلاصہ یہی تھا کہ اپنے رب سے تعلق پیدا کرو ورنہ تباہی تمہارے سامنے ہے.“ اس کے بعد حضور نے کوپن ہیگن میں پریس کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: " کوپن ہیگن کی پریس کانفرنس میں بھی ایک نمائندہ نے سوال کر دیا کہ آپ ہمارے ملک میں اسلام کو کیسے پھیلائیں گے.میں نے اسے کہا کہ بالکل یہی سوال زیورک میں ایک عورت نے کیا تھا اور میں نے اسے یہ جواب دیا تھا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس جواب پر ایک عورت نمائندہ بڑے وقار سے کہنے لگی کہ ان دلوں کو لے کر آپ کیا کریں گے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ پیدا کرنے والے رب کے قدموں

Page 203

تاریخ احمدیت.جلد 24 185 سال 1967ء 66 میں جا رکھیں گے.اس جواب کا اس پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ پریس کانفرنس کے بعد بھی کافی دیر وہاں ٹھہری رہی.اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا.اس نے کہا کہ میں واپس جاکر ایک مضمون لکھوں گی.خیر وہاں بھی پریس انٹرویو ہوا اور بڑا اچھا ہوا اور تمام اخبارات میں وہ چھپا.“ کوپن ہیگن کے استقبالیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس کارپوریشن کا جس کے علاقہ میں ہماری مسجد ہے الگ لارڈ مئیر ہے اس کے علاوہ ایک اور کار پوریشن ہے جس میں کو پن ہیگن کا پرانا شہر واقع ہے.اس کی مئیر ایک عورت ہے ان دونوں کا رپوریشنوں نے ہمیں ریسیپشن دی ہوئی تھی.ہمارے علاقہ کی کارپوریشن کا لارڈ میئر مشن سے اتنا تعلق رکھتا ہے کہ وہ چھٹیوں پر گیا ہوا تھا اور وہاں سے وہ صرف مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے اور مجھے ریسیپشن دینے کے لئے واپس آیا اور بڑے پیار سے اس نے مجھ سے گفتگو کی.میں نے اسے بتلایا کہ ہمارے احمدی مسلمان تمہاری کارپوریشن کے بہترین شہریوں میں سے ہوں گے کیونکہ ہمارا یہ مذہبی عقیدہ ہے کہ ہم ملکی قانون کی پابندی کریں اور اسلام نے ہمیں یہی سکھایا ہے.لارڈ میئر نے ہمیں اپنی کارپوریشن کا جھنڈا دیا اور ہم نے اسے قرآن کریم دیا.پھر ہم دوسری کارپوریشن کی طرف سے دی ہوئی ریسیپشن میں شریک ہوئے اس میں لارڈ میئرس نے ہمیں اپنی کارپوریشن سے متعلق ایک معلوماتی کتاب دی اور ہم نے اس کو قرآن کریم پیش کیا.باتیں بھی ہوتی رہیں.اس موقعہ پر پریس کے نمائندہ بھی موجود تھے.اگلے دن اس ریسیپشن کی تصویر بھی اخباروں میں آگئی.جس میں لارڈ مئیرس کو قرآن کریم وصول کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا.ایک اخبار نویس نے شرارتا اسے کہا کہ انہوں نے تم کو اپنا ہاتھ نہیں دیا.یعنی مصافحہ نہیں کیا.وہ عورت پڑھی لکھی تھی اور بڑی ہوشیار تھی.اس نے فوراً یہ جواب دیا کہ انہوں نے مجھے اپنا ہاتھ تو نہیں دیا.لیکن مجھے قرآن کریم دیا ہے.اور اگلے دن اس کا یہ فقرہ بھی اخباروں میں چھپ گیا.“ پھر حضور انور نے اپنے دورہ انگلستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

Page 204

تاریخ احمدیت.جلد 24 وو 186 سال 1967ء لنڈن کے پریس نے ہمارے ساتھ پہلے تو کوئی تعاون نہیں کیا.یعنی انہوں نے ہمارے متعلق کوئی خبر نہیں دی.صرف ایک اخبار نے خبر دی جس کا نمائندہ ایئر پورٹ پر آیا ہوا تھا اور اس سے گفتگو بھی ہوئی تھی.لیکن عام طور پر پریس نے ہمیں نظر انداز کیا.تین دن ہم وہاں رہے پھر ہم سکاٹ لینڈ چلے گئے وہاں بھی پریس کانفرنس ہوئی اور وہاں کی اخباروں نے خبریں بھی دیں.اس کے بعد ہم چند روز ونڈ رمیر“ ٹھہرے اس دوران ایک مقامی اخبار نے امام رفیق (مسجد لنڈن کے امام) کو فون کیا اور کہا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہمارے علاقہ میں ٹھہرے ہوئے ہیں.یہاں تو ایک ہنگامہ بپا ہے کہ مقامی اخبار نے کچھ لکھا نہیں اور لوگ حیران ہیں.آخر انہیں پتہ لگنا چاہئے کہ یہ کون ہیں چنانچہ امام رفیق نے اسے بتایا اور اس نے اگلے روز ایک خبر شائع کر دی.ابھی ہم ونڈر مئیر میں ہی تھے کہ ہمیں وہاں ایک پیغام ملا کہ ٹائمنز لندن سپیشل انٹرویو لینا چاہتا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے لیکن وقت ہم وہاں مقرر کریں گے.ٹائمنرلنڈن چوٹی کے اخباروں میں سے ہے دوست یہ نہ سمجھیں کہ میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا ذکر کر رہا ہوں.میرے نزدیک یہ باتیں بڑی اہم ہیں.کیونکہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ نظر آتا ہے.ٹائمنر لنڈن کا جونو جوان نمائندہ انٹرویو لینے آیا.وہ نوجوان بڑا عقلمند تھا اور زیرک تھا.وہ مجھ سے مختلف باتیں کرتا رہا.وہاں پریس کے نمائندے مجھے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے تھے لیکن یورپ کا پریس بڑا سمجھدار ہے جب میں ان سے کہہ دیتا تھا کہ مجھ سے صرف مذہبی باتیں کرو.تو وہ اس پر زور نہیں دیتے تھے.میں نے اس سے بھی کہا مجھ سے سیاست کی بات نہ کرو تو وہ رک گیا.میں نے اس کو یہ بتایا کہ اسلام امن اور سلامتی کا مذہب..نیز مذ ہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کو طاقت کے ذریعہ بدلا نہیں جاسکتا.مذہب کے نام پر خواہ مخواہ جھگڑ نا غیر معقول ہے.اب ہم دونوں یہاں بیٹھے ہیں.میں ایک مسلمان ہوں اور ایک مذہبی فرقہ کا سر براہ ہوں اور تم ایک عیسائی نو جوان ہو میرے دل میں تمہارے متعلق دشمنی نفرت کا یا حقارت کا کوئی جذ بہ نہیں

Page 205

تاریخ احمدیت.جلد 24 187 سال 1967ء اور مجھے یقین ہے کہ تمہارے دل میں میری دشمنی، نفرت یا حقارت کا کوئی جذبہ نہیں اور اگر ہم یہاں اس کمرہ میں اس قسم کی فضا پیدا کر سکتے ہیں تو ساری دنیا میں بھی پیدا کر سکتے ہیں دوسرے دن اس نے اخبار میں بڑا اچھا نوٹ دے دیا.ہمیں یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اس قسم کا نوٹ اخبار میں آجائے گا.ٹائمز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اگر اس میں کوئی چیز چھپ جائے تو اس کے متعلق یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ انگلستان کے سارے پر لیس میں وہ چیز آگئی.بہر حال وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے اعلاء کلمتہ اللہ کے سامان پیدا کر دئے.“ پھر دورے سے واپسی پر پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: کراچی میں انٹرویو ہوا یہ لوگ اپنے رنگ کے ہیں یہ لوگ بار بار مجھ سے سیاسی سوال کر دیتے تھے اور بار بار مجھے یہ کہنا پڑتا تھا کہ میں کسی سیاسی سوال کا جواب نہیں دوں گا.ویسے سب ہی اچھے تھے انہیں یہی اچھا معلوم ہوتا تھا کہ میں ان سے سیاسی گفتگو کروں ہر ایک کا اپنا اپنا خیال ہوتا ہے لیکن یہاں بھی اخبارات میں اچھے نوٹ آگئے تھے.ان پریس کانفرنسز سے میری کوئی ذاتی غرض وابستہ نہ تھی میں نے صرف یہی مقصد اپنے سامنے رکھا تھا کہ ان لوگوں کو جھنجھوڑا جائے اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کا آسمانوں پر جو فیصلہ ہو چکا ہے اس حقیقت کی طرف انہیں متوجہ کیا جائے اور یہ غرض اخباروں کے تعاون سے پوری ہوگئی اور یہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا.ساری قوم کو انتباہ کر دیا گیا اس لحاظ سے کہ اکثریت کے کانوں میں یہ آواز پہنچ گئی اور یہ بات ان کے ذہن نشین کر دی گئی کہ ہمیں ایک انتباہ دیا گیا ہے اور ایک وارنگ دینے والے نے ہمیں وارننگ دے دی ہے.“ حضور انور نے لندن میں ایک نہایت تاریخی اور جلالی خطاب فرمایا تھا جو بعد ازاں الگ صورت میں کتابی طور پر بھی بعنوان ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ " کے نام سے شائع ہوا.اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس سارے عرصہ میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سامعین مسحور ہیں کوئی آواز پیدا نہ ہوئی.بعد میں احمدیوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں پسینے آرہے تھے اس میں کوئی شک

Page 206

تاریخ احمدیت.جلد 24 188 سال 1967ء نہیں تھا کہ وہ بڑا تیز مضمون تھا لیکن وہ مضمون میر انہیں تھا.یہ نہیں تھا کہ میں نے سوچ کر اور عقل پر زور دے کر اُسے بنایا ہو بلکہ جب میں لکھنے لگا.تو مضمون ذہن میں آتا گیا اور میں لکھتا گیا.ایک احمدی کہنے لگا کہ میرے ساتھ ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا جب آپ نے مضمون پڑھنا شروع کیا تو اس نے حیرانی سے منہ کھولا ( بعض لوگ حیرانی کی حالت میں اپنا منہ کھول لیتے ہیں ) اور پھر ۴۵ منٹ تک اس کا منہ کھلا ہی رہا.جس وقت میں نے مضمون ختم کیا اور سلام کیا.اس وقت کوئی چیونٹی بھی چلتی تو مجھے آواز آجاتی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا سارے سٹنڈ (STUNNED) ہوگئے ہیں اپنے اور پرائے بھی.پھر میں نے جماعت کو ہدایت دی کہ میرا یہ مضمون بہت تھوڑے آدمیوں نے سنا ہے اب اسے گھر گھر پہنچاؤ اور خرچ کا اندازہ لگاؤ ، انہوں نے کہا کہ پچاس ہزار کا پیوں پر کوئی ڈیڑھ سو پونڈ خرچ آئے گا.یعنی پچاس ہزار کا پیوں پر دو ہزار روپے میں نے کہا ٹھیک ہے اگر پیسے نہیں ہیں تو میں انتظام کر دیتا ہوں.وہ کہنے لگے رقم کا انتظام ہم کر چکے ہیں.اللہ تعالیٰ نے وہاں رہنے والے احمدیوں کو قربانی کی بڑی توفیق دی ہے.چنانچہ چند دوستوں نے باہم ملکر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اسے شائع کریں گے چنانچہ پچاس ہزار کا پیاں اس مضمون کی وہاں چھپ چکی ہیں.اب میں نے ہدایت دی ہے کہ اس کا جرمن ، ڈینش اور ڈچ زبان میں ترجمہ ہو جائے اور پھر اگر موقعہ ملا تو سپینش اور اٹالین میں بھی اس ترجمہ کو کروایا جائے گا اور سارے یورپ میں اسے پہنچادیا جائے گا.میں نے انہیں کہا کہ وقف عارضی کو جاری کرو اور واقفین سے یہ کام لو.اسے ہر گھر پہنچاؤ " احمدی مستورات سے اہم خطاب 148 66 حضرت خلیفہ المسح الثالث نے ۲۶ / اگست ۱۹۶۷ء کو احمدی مستورات کے ایک اجتماع سے ایک اہم خطاب فرمایا یہ اجتماع قصر خلافت میں ہوا اور اس میں ربوہ اور بیرون جات کے مختلف مقامات کی احمدی مستورات کثیر تعداد میں شامل ہوئیں.حضور نے اپنے خطاب کے آغاز میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جماعت احمدیہ کی مستورات اسلام کی خاطر مالی قربانیوں کا ایک مثالی نمونہ قائم کر

Page 207

تاریخ احمدیت.جلد 24 189 سال 1967ء رہی ہیں چنانچہ انہیں کے چندہ سے کوپن ہیگن میں خوبصورت مسجد تعمیر ہوئی.اس سلسلہ میں حضور نے متعدد ایمان افروز واقعات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کی تعمیر اور پھر اس کے افتتاح کے موقع پر ہر مرحلہ میں اپنی غیر معمولی تائید ونصرت کے نشان دکھائے اس کا انجینئر ایک مسلمان میسر آ گیا.جس نے بڑے اخلاص کے ساتھ کام کیا.جب اس کا افتتاح ہوا تو صبح سے لے کر رات کے ڈیڑھ بجے تک لوگ آکر اسے دیکھتے رہے اور اس کی تصویر میں لیتے رہے.افتتاح کے دن اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رزاقیت کا یوں نظارہ دکھایا کہ سوا سور اشخاص کے لئے جو کھانا تیار کیا تھا.وہ کم و بیش تین صد نے کھایا اور پھر بھی بیچ رہا.حضور نے اس امر پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا کہ وہاں پر جو یورپین اسلام قبول کر رہے ہیں.وہ اپنے ایمان و عرفان میں بڑی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں.وہاں کی نو مسلم بہنیں اسلامی احکام پر عمل کرنے کی کوشش کرتی ہیں.انہوں نے ہمارے لئے کھانا تیار کرنے کا سارا کام اپنے ذمہ لے لیا تا کہ جماعت پر خرچ کا زیادہ بار نہ ہو اور پھر اس خدمت کو انہوں نے بڑی ہی بشاشت اور اخلاص کے ساتھ نبھایا.حضور نے فرمایا آپ تصور بھی نہیں کر سکتیں کہ یورپ کی احمدی نومسلم خواتین وہاں کے نہایت گندے اور حیا سوز ماحول میں رہنے کے باوجود اسلامی اخلاق اور اسلامی عفت و حیا کا کتنا شاندار نمونہ پیش کر رہی ہیں.جبکہ ہمارے ملک کی بعض عورتیں مغربی فضا سے متاثر ہوکر بے حیائی کی طرف مائل ہو رہی ہیں.آخر میں حضور نے اس امر پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی روحانی تربیت کا جو عظیم الشان کام ہمارے سپر د کیا ہے.اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہم قربانیوں میں اور اسلامی احکام پر عمل کرنے میں دوسرے ممالک کے لئے ہمیشہ نمونہ بنے رہیں.یورپ کے نومسلم احمدیوں کے ایمان واخلاص کا روح پرور تذکرہ سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے یکم ستمبر ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں یورپ کے نومسلم احمد یوں کے اخلاص کا نہایت ایمان افروز تذکرہ فرمایا اور بتایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں بہت ترقی کر رہے ہیں اور ان کے دلوں سے خدا اور محمد مصطفی میں اللہ کی محبت پھوٹ پھوٹ کر بہتی ہوئی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی.چنانچہ حضور نے فرمایا:.

Page 208

تاریخ احمدیت.جلد 24 190 سال 1967ء کئی ہزار احمدی اس وقت انگلستان میں موجود ہیں.ہمارے زیادہ احمدی پاکستانی ہی ہیں اور میں نے ان کو توجہ بھی دلائی ہے کہ آپ کوشش کریں کہ درجنوں کی بجائے ہزاروں لاکھوں مقامی باشندے مسلمان ہو جائیں.وہاں کی قلبی حالت جماعت کی بہت کچھ یہاں کی جماعتوں کی قلبی حالت سے ملتی جلتی ہے.وہاں بھی بعض انگریز نواحمدی ایثار اور اخلاص کا ایک عجیب نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.جیسا کہ یورپ میں بسنے والے نو احمدی مسلمان پیش کر رہے ہیں.ہر جگہ میں نے یہ محسوس کیا کہ اسلام کے دلائل نے ان کی عقلوں کو گھائل کیا.اسلام کے حسن نے ان کی بصیرت اور بصارت کو خیرہ کیا اور ان کے دلوں میں اسقدر محبت اپنی پیدا کر دی ہے کہ اس سے زیادہ محبت تصور میں بھی نہیں آسکتی اور یہ احساس ان کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ آنحضرت می ﷺ کی ذات دنیا کے لئے ایک محسن اعظم کی حیثیت رکھتی ہے.اسلام کے حسن اور آنحضرت ﷺ کے احسان کے وہ شکار ہیں اور اس کے نتیجہ میں آج وہ اتنی قربانی دینے والے ہیں کہ ( میں بعض مثالیں بیان کروں گا ) اس کی وجہ سے تم میں سے بعض کو شرم آجائے.اتنی دور بیٹھے ہوئے کہ مرکز میں آنا جانا ان کے لئے قریباً ناممکن ہے.کبھی ساری عمر میں ایک دفعہ آجائیں مرکز میں، تو اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے آسمانوں سے فرشتوں کو نازل کر کے ان کے دلوں میں اسقدر اور کچھ اس قسم کی تبدیلی پیدا کردی ہے کہ یہ لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کے نقش قدم پر چلنے والے ہمیں نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے ان کے دلوں میں محبت کا بڑا مقام ہے اور ہونا چاہیئے کیونکہ آپ نبی اکرم ﷺ کے فرزند جلیل کی حیثیت میں مبعوث ہوئے اس لئے ان کے دل میں محبت کا شدید جذ بہ پایا جاتا ہے.“ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے حضور نے فرمایا: میں نے ہمبرگ (جرمنی) میں ایک موقع پر الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی کی برکت اور اہمیت کا تذکرہ کیا اور میں نے وہ انگوٹھی اتاری.ان کو کہا کہ ہر ایک اس کو بوسہ دے.خیر انہوں نے جو پیار کیا وہ تو میرے کہنے سے کیا.جو کپڑا

Page 209

تاریخ احمدیت.جلد 24 191 سال 1967ء کئی ماہ اس انگوٹھی پر رہا تھا اور جو اس کی برکت سے بابرکت بن چکا تھا.کپڑے کا وہ چھوٹا ساٹکڑا میں نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا.میرے سامنے پاکستانی احمدی بیٹھے ہوئے تھے اور جرمن احمدی بھی بیٹھے ہوئے تھے.میرے دل میں شدید خواہش پیدا ہوئی کہ کوئی جرمن اس کپڑے کو بطور تبرک مجھ سے مانگے.مجھے خطرہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی پاکستانی پہل کر جائے اور یہ لوگ اس سے محروم رہ جائیں.میرے دل میں یہ خواہش تو تھی لیکن میں اس کا اظہار نہیں کر سکتا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ کسی جرمن احمدی کے دل میں خود یہ جذبہ شوق اور محبت پیدا ہو اور وہ اسے حاصل کرے.پہلا ہاتھ جو آگے بڑھا کہ میں لینا چاہتا ہوں.وہ ایک جرمن احمدی کا تھا.میرا دل خوشی سے بھر گیا، یہ دیکھ کر کہ محبت کامل دل میں موجزن ہے، جس نے فوراً اس کے ہاتھ کو کہا ہے کہ آگے بڑھو.پھر ایک پاکستانی نے اس سے کہا کہ اس کا آدھا حصہ مجھے دے دو.اس نے کہا کہ میں نے بالکل نہیں دینا.اگر تم نے لینا ہی ہے تو ایک دھاگا نکلا ہوا تھا، وہ اس نے نکالا اور کہا کہ یہ لے لو.“ پھر حضور انور نے ڈنمارک کے ایک مخلص ڈینش احمدی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ڈنمارک میں ایک شخص ہے عبدالسلام میڈیسن.وہ احمدی ہوا، اس نے اسلام کو سیکھا.قرآن کریم کے ترجمے جو حضرت مصلح موعود نے شائع کروائے.ان میں سے ہر ایک کو لے کر اس نے بڑے غور سے پڑھا.پھر ڈینش زبان میں اس نے قرآن کریم کا ترجمہ کیا.ان تراجم کی روشنی میں.اور وہ بڑا مقبول ہوا.ایک کمپنی نے اُس سے معاہدہ کیا اور دس ہزار شائع کیا.جس میں سے غالباً تین چار ہزار چند مہینوں کے اندر فروخت بھی ہو چکا ہے.کچھ رقم بطور معاوضہ کے (اس کو رائلٹی کہتے ہیں) اس کمپنی نے اس کو دی.وہ ساری کی ساری رقم اشاعت اسلام کے لئے اس نے وقف کر دی.ایک پیسہ نہیں لیا.وہ دونوں میاں بیوی سکول میں کام کرتے ہیں.ہر ایک کی قریباً ہزار ہزار روپیہ تنخواہ ہے اور ٹیکس لگ جاتا ہے ان پر قریباً ایک ہزار.تو ایک ہزار بچتا ہے ہر دو کی تنخواہ سے.اب جس شخص کی ایک ہزار روپیہ ماہوار آمد

Page 210

تاریخ احمدیت.جلد 24 192 سال 1967ء ہے اور اسے ٹیلی فون کا دو ہزار کابل آجائے.تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ کس قدر اسلام کا در درکھتا ہے وہ شخص.اگر کوئی شخص اس کو خط لکھے.اسلام پر اعتراض کرے.یا اسلام کے متعلق کوئی بات پوچھے اور اس کے خط میں ٹیلی فون نمبر ہے تو وہ ٹیلی فون اٹھا کے اس کو ٹیلی فون کرتا ہے....جب امام کمال یوسف صاحب کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ یہ تمہارا ذاتی خرچ تو نہیں ہے.انہوں نے سوچا کہ ایک مہینہ میں دو مہینے کی آمد کے برابر بل وہ کیسے ادا کرے گا.) تم کو اشاعت قرآن سے جو آمد ہورہی ہے وہ ہمارے پاس جمع ہو رہی ہے میں اس میں سے یہ بل ادا کردوں گا.سو دوسو کا بل ہو تو وہ خود ہی ادا کر دیتا ہے.ایک ماہ میں دو ہزار روپے کے بل کا مطلب یہ ہے کہ دو ہزار روپے کا بل جتنا وقت خرچ کرنے پر آتا ہے.اتنا وقت بھی تو اس نے خرچ کیا نا ؟؟؟ میرا اندازہ ہے کہ کئی گھنٹے روزانہ اوسط بنے گی.پس بڑی ہی قربانی ہے.اُس شخص کی جو پورے چندے بھی دیتا ہے اور دین کے کاموں پر بہت سا وقت بھی خرچ کرتا ہے اور اس کے علاوہ گھنٹوں ٹیلیفون پر تبلیغ اسلام کرتا ہے اور ٹیلی فون کا بل بھی اپنی گرہ سے دیتا ہے.یہ دوست بڑی غیرت رکھنے والے ہیں اسلام کے لئے.بڑی قربانیاں کرنے والے ہیں اسلام کے لئے.بڑی محبت رکھنے والے ہیں اللہ سے اور آنحضرت ﷺ سے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اور آپ کے غلاموں سے اور اللہ تعالیٰ کی محبت پانے والے بھی ہیں.کیونکہ جو خدا کی راہ میں دیتا ہے.وہ خدا سے اس سے زیادہ حاصل بھی کرتا ہے.درجنوں ایسے آدمی ہیں.مرد بھی اور عورتیں بھی جنہوں نے خدا کی راہ میں فدائیت اور ایثار کا نمونہ دکھایا اور اللہ تعالیٰ نے انتہائی محبت اور پیار کا سلوک ان سے کیا اور ان کے سینوں کو اپنے نور سے اور اپنی محبت سے اور آنحضرت ﷺ اور آپ کے فرزند جلیل کی محبت سے بھر دیا اور یہ ایک نمونہ بن گئے ہیں.“ یورپین احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ایسی قوم بن گئے ہیں کہ اپنے اخلاص اور تقویٰ اور اس فضل کی وجہ سے اور

Page 211

تاریخ احمدیت.جلد 24 193 سال 1967ء اس کی رحمت کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ ان پر نازل کر رہا ہے، اس پیار کی وجہ سے، جس کے وہ نمونے دیکھتے ہیں، یہاں کے مخلص بزرگوں کے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں.اب ان کی حیثیت ایک شاگرد کی نہیں رہی وہ شاگرد کی حیثیت سے آگے بڑھ گئے ہیں اور جس طرح یہاں کے مخلصین دنیا کے استاد ہیں اور استاد ثابت ہورہے ہیں.اسی طرح وہ بھی دنیا کے استاد ثابت ہوئے ہیں اور اگر ہم نے سستی سے کام لیا اور وہ قربانیاں نہ دیں جو ہمیں دینی چاہئیں ایسے احمدی کی حیثیت سے ، جن کا مرکز کے ساتھ تعلق ہے اور جو پاکستان میں رہنے والے ہیں.نیز اگر ہم نے اپنی نسلوں کی اعلیٰ تربیت نہ کی تو پھر اللہ تعالیٰ تحریک غلبہ اسلام کا مرکز ایسی قوم میں منتقل کر دے گا جو اس کی راہ میں سب سے زیادہ قربانی دینے والی ہوگی.150 لوکل انجمن احمد ہی کا سپاسنامہ اور حضور کا روح پرور خطاب ۵ ستمبر ۱۹۶۷ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں لوکل انجمن احمدیہ کی طرف سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی یورپ سے کامیاب مراجعت پر پہلی خصوصی تقریب منعقد ہوئی.جس میں اہلِ ربوہ کی طرف سے چوہدری محمد صدیق ایم.اے صدر عمومی نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.( یہ سپاسنامہ ایک دو ورقہ کی شکل میں بھی شائع کیا گیا ) جس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ:.”نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امام مقرر کیا جاتا ہے اس کے دل میں جماعت کی اور سلسلہ کی محبت پیدا کی جاتی ہے.ایسے رنگ میں کہ دنیا کے لئے اس کا سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے اور جماعت کے دلوں میں اس کے لئے محبت پیدا کر دی جاتی ہے.نبی اکرم علیہ کے اس فرمان کا نظارہ میں نے ربوہ 66 سے لنڈن تک اور لنڈن سے واپس ربوہ تک اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.“ ہر جگہ اس للہی محبت کے نہایت دلگداز اور نا قابل فراموش نظارے دیکھے گئے.چنانچہ حضورانور نے لندن سے روانگی کا ذکر کرتے ہوئے احباب جماعت کی محبت کا تذکرہ فرمایا اور ایک چھوٹے بچے کا واقعہ بیان فرمایا کہ:

Page 212

تاریخ احمدیت.جلد 24 194 سال 1967ء " ایک بارہ تیرہ سال کا احمدی بچہ مسجد میں کام کیا کرتا تھا.وہ نیچے سے پیغام میرے پاس لاتا تھا اور میرے پیغام نیچے لے جاتا تھا.جس وقت دعا ہوئی ساری جماعت پر رقت طاری تھی.مجھ پر بھی رقت طاری تھی.ہم نے جہاں اپنے لئے دعا کی وہاں یہ دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ ان قوموں کو ہدایت دے اور وہ اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننے لگیں.دعا ختم کرنے کے بعد میں آنکھیں نیچے کئے چند منٹ کھڑا رہا.پھر میں نے اپنے دوستوں کو دیکھا اور ان کو سلام کیا اسی وقت ہمیں ہوائی اڈہ پر جانا تھا.اچانک دائیں طرف جو میری نظر اٹھی تو میں نے دیکھا کہ وہ پیارا بچہ جس کی عمر بمشکل بارہ تیرہ سال کی تھی.اس وقت بھی اس کی آنکھوں سے پانی کا دریا بہہ رہا تھا.حضور انور کی عظیم الشان روحانی شخصیت کا غیر از جماعت احباب پر جو اثر تھا اس کی ایک جھلک بیان کرتے ہوئے فرمایا:." مجھے جھنگ کے ایک دوست نے خط لکھا کہ ایک غیر احمدی عورت آپ کے ساتھ اسی گاڑی پر سفر کر رہی تھی.شورکوٹ میں ہماری جھنگ کی جماعت بھی پہنچی ہوئی تھی.شورکوٹ کے ریلوے سٹیشن پر اس عورت کے منہ سے جو فقرے نکلے اور کسی احمدی نے وہ سنے، وہ یہ تھے کہ مرید تو بہت دیکھے ہیں پر اس قسم کے عقیدت مند مرید ہم نے کبھی نہیں دیکھے اور پیر بھی بڑے دیکھے ہیں مگر ایسا پیر بھی ہم نے کبھی نہیں دیکھا.غرض یہ اثر غیر از جماعت افراد بھی لے رہے تھے.“ فرمایا: ” جب میں یہاں سے گیا ہوں اس سے پہلے میرے دل میں بڑے زور سے یہ تحریک ہوئی تھی کہ پیشگوئیاں ( انذاری ) موجود ہیں.لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں ہیں لہذا ان کو دنیا کے سامنے اس طرح رکھا نہیں جاتا، جس طرح انہیں رکھا جانا چاہیئے اور اب وقت ہے کہ میں وہاں جا کر ان قوموں پر اتمام حجت کر دوں.اپنے دورہ کے دوران فرینکفورٹ میں بھی ، زیورک میں بھی ، ہیگ میں بھی ، ہیمبرگ میں بھی ، کوپن ہیگن میں بھی ،لنڈن میں بھی ، گلاسگو میں بھی ، جہاں

Page 213

تاریخ احمدیت.جلد 24 195 سال 1967ء بھی میں گیا.میں نے بڑی وضاحت سے ان کو یہ بتایا کہ اس قسم کی پیشگوئیاں ہیں اور پھر میں نے ان پیشگوئیوں کی تفصیل کو ان کے سامنے رکھا اور ان کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ اب تمہارے لئے کوئی اور راہ کھلی نہیں.اگر تم تباہی سے بچنا چاہتے ہو تم اسلام لے آؤ اور اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا ہی فضل ہے کہ اس نے ہر گھر میں یہ پیغام پہنچا دیا.66 حضور نے اپنے دورہ میں پریس کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ:.ایک جگہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو روس کے متعلق جہاں بعض انذاری باتیں بتائی ہیں، وہاں بعض اچھی باتیں بھی تفصیلی رنگ میں آپ کو اس کے متعلق بتائی گئی ہیں.چنانچہ آپ کو کشف میں دکھایا گیا کہ ریت کے ذروں کی طرح احمدی مسلمان وہاں پھیلے ہوئے ہیں اور میں نے انہیں بتایا کہ اتنے کھلے اور واضح الفاظ میں مجھے یورپ کے متعلق کوئی پیشگوئی نظر نہیں آتی.آپ کو یہ تو دکھایا گیا تھا کہ آپ نے چند پرندے پکڑے ہیں مگر یہ کہ ریت کے ذروں کی طرح وہاں احمدی پھیلے ہوئے ہیں اس قسم کی پیشگوئی یورپ کے متعلق نہیں اور میں اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ جو تباہی اس وقت دنیا کے سامنے کھڑی ہے اگر روس والوں نے اپنے رب کی طرف رجوع نہ کیا تو روس کی طاقت تو تو ڑ دی جائے گی لیکن روسی قوم کی اکثریت اس سے بچالی جائے گی.تبھی تو ان میں اسلام اس کثرت سے پھیلے گا.میں نے کہا مجھے تمہاری فکر ہے پتہ نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہتا ہے اس لئے تم اپنی فکر کرو مجھے بھی تمہاری فکر ہے پھر صرف وہاں نہیں بلکہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے میری آواز کو ( جو دراصل اس عاجز بندے کی آواز نہیں تھی کیونکہ میں تو اللہ تعالیٰ کی منشاء کو پورا کرنے کے لئے وہاں گیا تھا اور ایک نہایت ہی ادنیٰ خادم کی حیثیت سے گیا تھا) ساری دنیا میں پہنچا دیا.میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کروڑوں باشندوں تک یہ آواز پہنچی.ہیمبرگ (جرمنی) میں ہمارا اندازہ تھا کہ ساٹھ ستر لاکھ لوگوں نے مجھے ٹیلی ویژن پر دیکھا اور انہوں نے میرے پیغام کو سنا.اب خبر آئی ہے کہ ڈنمارک کی مسجد کے افتتاح کی ٹیلی ویژن کی ریل جرمنی کے ٹیلی

Page 214

تاریخ احمدیت.جلد 24 196 سال 1967ء ویژن کے سارے اسٹیشنوں پر دکھائی گئی ہے اس کے علاوہ انٹر نیشنل بک اپ کے ذریعہ یہ تصویر بعض دوسرے ملکوں میں بھی دکھائی گئی ہے.افتتاح کے ساتویں روز مجھے نائیجیریا ( مغربی افریقہ) سے وہاں کے مبلغ انچارج کا خط آیا کہ ہم نے آپ کو افتتاح کے موقعہ پر ٹیلی ویژن پر دیکھا ہے اور ساری جماعت اس بات پر بڑی خوش ہے کہ افتتاح کا نظارہ یہاں مغربی افریقہ میں بھی پہنچ گیا.مشرق وسطی کے عرب ممالک میں اس افتتاح کی ٹیلی ویژن کی ریل دکھائی جارہی ہے.چنانچہ پرسوں ہی مجھے ڈنمارک سے امام کمال یوسف نے اطلاع دی کہ مرا کو میں تین دفعہ مسجد کے افتتاح کی خبر براڈ کاسٹ ہوئی ہے اور ابھی وہ انتظار کر رہے ہیں.جوں جوں تصاویر ٹیلی ویژن پر دکھائی جائیں گی وہ کمپنی ان کو اطلاع دے گی کہ فلاں فلاں جگہ ریل دکھائی گئی ہے.ایک دن بی بی سی کا نمائندہ آ گیا اور کہنے لگا میں نے آپ کا انٹرویو لینا ہے.میں نے کہا تم جو سوال کرنا چاہتے ہو وہ مجھے بتا دو لیکن وہ کہنے لگا بتانے کی ضرورت نہیں میں سوال کرتا جاؤں گا اور آپ جواب دیتے چلے جائیں.میں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ اس نے وہ انٹر ویولیا اور اس نے بتایا تھا کہ یہ انٹرویو بی بی سی سے دو دفعہ نشر ہوگا.غرض اس طرح ساری دنیا میں اسلام کی آواز پہنچی اور اس پیغام کو لوگوں نے سنا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا کی طرف لے کے آئے تھے.یعنی اب اسلام کے غلبہ کا وقت آگیا ہے اور دنیا کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اسلام پر ایمان لائے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالے.اللہ تعالیٰ نے اس آواز کو دنیا میں پھیلا دیا اور کروڑوں آدمیوں کے کانوں تک یہ آواز پہنچ گئی.ہم شاید کروڑ روپیہ بھی خرچ کرتے تو اپنے طور پر اس قسم کی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے جس کے سامان اللہ تعالیٰ نے خود بخود اپنی طرف سے پیدا کر دیئے.میرا خیال ہے کہ شاید سارے سفر کے دوران پچاس ہزار سے زیادہ کیمروں نے ہماری تصویریں لی ہوں گی.لوگ اپنے کام بھول کر ، اپنی سیر بھول کر ہماری

Page 215

تاریخ احمدیت.جلد 24 197 سال 1967ء طرف متوجہ ہو جاتے تھے.ان سب لوگوں کے کان میں جو آواز میں نے ڈالی وہ یہ تھی که (COME BACK TO YOUR CREATOR) یعنی اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو تم اپنے خدا کو بھول گئے ہو اور اپنی تباہی کے سامان کر رہے ہو.اگر تم خدا تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرو گے تو ہلاکت تمہارے سامنے ہے.“ پھر حضور نے فرمایا: " آج کی تقریب کے متعلق میں نے پتہ کیا تو مجھے پتہ لگا کہ مغرب اور عشاء کے درمیان سب کام ختم ہو جائے گا لیکن آپ دوستوں کے چہروں پر جذبات محبت کے جو آثار مجھے نظر آئے انہوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں آپ سے لمبی گفتگو کروں اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اپنے دل کا ایک کو نہ کھول کر آپ کے سامنے رکھ دوں باقی جو کچھ دل میں ہے وہ سب ظاہر کرنے والا نہیں اور نہ ہی مجھے ایسا کرنے کی خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے.ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا تھا تمثیلی زبان میں کہ ”میرے سارے پیار کو دنیا کے سامنے ظاہر نہیں کرنا“ ہاں بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جو جماعت کے مفاد میں بتانی پڑتی ہیں اور بعض ایسی ہوتی ہیں جو ذاتی قسم کی ہوتی ہیں ( کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر ایک سے پیار کرتا ہے ) اور وہ بتائی نہیں جاسکتیں اور نہ وہ بتانی چاہئیں کیونکہ بعض اوقات ان کے بتانے سے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے.“ احمدیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے پیار اور محبت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے کہ ہم میں لاکھوں ہیں جن سے اللہ تعالیٰ پیار کرتا ہے سفر کے دوران جب ایک عیسائی عورت نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ایک سچے مسلمان اور ایک بچے عیسائی میں کیا فرق ہے تو میں نے اسے بتایا کہ ایک بچے مسلمان کا زندہ تعلق خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اور تم اسے سمجھ نہیں سکتیں جب تک میں اس کی کوئی مثال نہ دوں اور میں نے بڑی تحدی سے کہا کہ اسلام کے سوا باقی ساری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں پائی جاسکتی.میں نے اس عورت سے کہا کہ میں ایک سچی

Page 216

تاریخ احمدیت.جلد 24 198 سال 1967ء مسلمہ کی ایک مثال تمہارے سامنے رکھتا ہوں کہ مغربی افریقہ کے ایک دوست نے ایک خواب دیکھی جس کا تعلق مشرقی افریقہ سے تھا یعنی اس خواب کا تعلق ایک ایسے ملک سے تھا جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور وہ بہت پریشان تھا جب وہ خواب مجھے پہنچی تو مجھے اس خواب کی تعبیر کا علم تھا.ایک شخص کے متعلق میں سوچ رہا تھا کہ اسے مشرقی افریقہ بھجوا دیا جائے اور اس خواب میں یہ بتایا گیا تھا کہ اسے وہاں نہ بھجواؤ.حالانکہ میرے اس ارادہ کا علم میرے سوا اور بعض دوسرے متعلق افراد کے سوا کسی کو نہیں تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مغربی افریقہ کے ایک دوست کو اطلاع دی اور اس نے پھر مجھے لکھ دیا.“ آخر پر دعا کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ہمیں اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا شکر ہر وقت بجالاتے رہنا چاہئے تا کہ وہ اپنے فضلوں کو پہلے سے بھی زیادہ بارش کے قطروں کی طرح ہم پر نازل کرے اور ہمیں وہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بنائے ہماری تمام کمزوریوں کو دور کرے اور ہمیں ہماری اپنی غفلتوں سے بچائے.ہم خود بھی اپنی غفلتوں سے بچ نہیں سکتے جب تک وہ فضل نہ کرے اور جب بھی دنیا کے ساتھ علم کے میدان میں یا کسی اور میدان میں مقابلہ ہو تو وہ ہمارے پیچھے کھڑا ہو اور جس طرح اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصرت کا اعلان کرتے ہوئے مخالف دشمنوں کو کہا تھا ” مجھ سے لڑ واگر تمہیں لڑنے کی تاب ہے.ہمارے کان بھی اس کی یہ میٹھی آواز سنتے رہیں کیونکہ جو خدا کا بندہ ہو جاتا ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کے نشان دکھاتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنا حقیقی بندہ بنائے.166 حضور انور کا مجلس انصار اللہ ربوہ کی استقبالیہ تقریب سے پُر معارف خطاب سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے اعزاز میں دوسری استقبالیہ تقریب مجلس انصار اللہ ربوہ کی طرف سے ے تمبر ۱۹۶۷ء کوانصار اللہ ہال میں منعقد ہوئی.اس میں مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب زعیم اعلیٰ انصار اللہ ربوہ نے سپاسنامہ پیش کیا.اسپاسنامہ پیش کئے جانے کے بعد حضرت خلیفۃ اسیح 153

Page 217

تاریخ احمدیت.جلد 24 199 سال 1967ء الثالث نے تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ یہ سفر یورپ میں نے ایک اہم مقصد کی خاطر اختیار کیا.اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے بہت دعائیں کرنے کی توفیق دی اور افراد جماعت نے بھی بہت دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو سنا اور قبول فرمایا اور ایسے سامان پیدا فرمائے کہ ان ملکوں میں قریبا ہر گھر میں اللہ تعالیٰ کا پیغام اور دعوت توحید پہنچ گئی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان ملکوں کے رہنے والوں کو خلیفہ وقت اور امام وقت کا چہرہ دکھایا.اور ان پر ایک خاص اثر پڑتا تھا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کا فضل تھا کہ خلیفہ وقت کے چہرہ کو دیکھ کر وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کر رہا ہے آپ لوگ اپنی ذمہ داریاں نبھائیں.خلافت راشدہ الہی سلسلہ کے لئے بہت بڑی برکت ہے.یہ نبوت کی شمع کو روشن رکھتی اور اس کی روشنی کو دنیا میں پھیلاتی ہے اور خلافت راشدہ جو کچھ پاتی ہے خدا سے ہی پاتی ہے.خلیفہ وقت میں شجاعت خدا کی طرف سے پیدا ہوتی ہے وہ اسکی طرف جھک کر وہ کچھ پاتا ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کرسکتا.خدا کی تقدیر خاص کے انتظام سے یورپ کے ملکوں بلکہ ساری دنیا کے بسنے والوں کے کانوں تک اسلام کا پیغام پہنچا دیا.پھر فرمایا کہ میں نے لندن میں اپنا جو مضمون پڑھا تھا.ڈاکٹر عبدالسلام نے کسی سے کہا کہ حضور نے زبر دست انذار اور تنبیہ بغیر الفاظ یا لہجہ کی سختی کے بڑے پیار کے ساتھ فرمائی.فرمایا میں نے انہیں چاند سورج گرہن کی پیشگوئی بتائی کہ کئی مہدی پیدا ہوئے ، دعویٰ کیا.مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق بچے مہدی کی صداقت کے لئے اس کے دعوی کے چار سال بعد ایک سال مشرقی حصہ دنیا اور اگلے سال مغربی دنیا امریکہ وغیرہ میں یہ نشان پورا ہوا عظیم تھا وہ شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس نے پیشگوئی کی اور عظیم تھا آپ کا وہ خادم جس کے حق میں یہ پوری ہوئی.حضور انور نے فرمایا کہ میں نے انہیں بتایا کہ روس کے متعلق تین انہونی باتیں کہی گئیں.۱.زار کی تباہی.۲.کمیونزم کی تباہی ۳.رشیا میں اسلام کا پھیل جانا.اور یہ باتیں اس وقت کی گئیں جب یہ انہونی تھیں.ان میں سے دو ہو چکی ہیں اب تیسری بھی پوری ہوگی.انشاء اللہ.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.خطاب کے آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ انصار پر پہلے بھی بڑی ذمہ داریاں تھیں.اب جو حالات نظر آرہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وقت آگیا ہے کہ اس ذمہ داری کو سب انصار نبھائیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر رب البیت پر عائد کی ہے.ہر شخص راعی ہے بزرگوں کے بعد

Page 218

تاریخ احمدیت.جلد 24 200 سال 1967ء نوجوان سر براہ خاندان بن جاتے ہیں مگر جو احمدی انصار اللہ میں شامل ہیں وہی گھرانوں کے راعی ہیں.تم اب گھروں کو صاف کرو اور سارے گند گھروں کے باہر نکال دو.کیونکہ خدا کی تقدیر ہے کہ وہ ان گھروں میں فرشتوں کے ڈیرے ڈالے گا.اور پھر وہاں سے اشاعت اسلام اور فتح اسلام کی مہم کو پہلے سے بہت زیادہ تیز کرے گا.گھر کی ظاہری صفائی کی بھی اسلام نے تعلیم دی ہے لیکن اصل چیز دلوں کی صفائی ہے.اپنی بیویوں بچوں کے دلوں کو صاف کرو.اگر گھر میں کوئی عزیز رہتا ہو یا نوکر ہوں تو ان کے دلوں کی بھی صفائی کرو اور نیک دل اور نیک ارادہ انسان بن کر اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس کے بعد حضور انور نے حاضرین سمیت لمبی دعا کرائی.یورپ میں زبر دست خلا اور جماعت احمدیہ کا فرض حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۸ تمبر ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں دنیا بھر کے احمدیوں کو اس طرف متوجہ فرمایا کہ یورپ میں ایک خلا پیدا ہو چکا ہے اور اس کو پر کرنے کی ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ہے اور اس کو نباہنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود معرفت اور عرفان کے بلند مقام پر قائم ہوں اور ساری دنیا کی جماعت ہر قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جائے.آسمان پر سے فرشتے نازل ہو چکے.اور انہوں نے عیسائیت کو یورپ اور امریکہ کے ملکوں سے مٹادیا.اب ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی انتہائی کوشش کر کے خدائے واحد کے جھنڈے ان ملکوں میں گاڑ دیں.حضور نے فرمایا: یہ ضروری ہے کہ بتوں کی محبت کی جگہ خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور یہ سوائے اسلام کے نہیں ہو سکتا اور یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کے قیام کی غرض ہی یہ ہے کہ گمشدہ معرفت کو دنیا میں پھر سے قائم کیا جائے.155 حضور انور کا مجلس خدام الاحمد سید یوہ کی استقبالیہ تقریب سے ایمان افروز خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے اعزاز میں تیسری استقبالیہ تقریب ۸ تقبر ۱۹۶۷ء کو جلس خدام

Page 219

تاریخ احمدیت.جلد 24 201 سال 1967ء الاحمد یہ ربوہ کی طرف سے منعقد کی گئی.اس موقعہ پر سردار مقبول احمد صاحب ذبیح مہتم مقامی نے سپاسنامہ پیش کیا.جس کے بعد حضور نے خدام کو زریں نصائح سے سرفراز فرمایا اور انہیں تلقین فرمائی کہ حضرت مصلح موعود نے جو سبق تمہیں دیئے تھے انہیں ہر وقت اپنے پیش نظر رکھو اور خلافت سے وابستگی ، انتہائی محنت، دیانتداری اور عاجزانہ راہوں کو اپنا شعار بنالو.حضور نے فرمایا:.” جو نظارے اور واقعات میں نے یورپ کے ان ملکوں میں دیکھے ہیں.جن کے دورہ سے ابھی میں واپس آیا ہوں اس کے نتیجے میں، میں اس یقین سے پُر ہوں کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں.جب ہمارے نوجوانوں کو بھی اور بڑوں کو بھی ، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی اسلام کے استحکام اور اسلام کی اشاعت کے لئے اور توحید کے قیام کے لئے انتہائی قربانیاں دینی پڑیں گی اور میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں اور میں بہت کثرت سے یہ دعائیں کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے ہم میں سے کوئی بھی اپنے رب کے حضور شرمندہ نہ ہو بلکہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے انہیں کماحقہ ادا کرنے والا ہو.اس تربیت کے لئے حضرت مصلح موعود نے آپ کو بہت سے اسباق دیئے ہیں جن میں سے چند ایک کا جو بنیادی حیثیت رکھتے ہیں ، میں اس وقت یہاں ذکر کرنا چاہتا ہوں.لا پہلا سبق خلافت سے وابستگی کا تھا.حملہ دوسرا سبق محنت کی ، انتہائی محنت کی عادت ڈالنے کا تھا.ما تیسر اسبق دیانتداری کو قائم کرنے کا تھا.چوتھا سبق جو تنظیم کے لئے حقیقتا بنیادی سبق ہے.وہ یہ تھا کہ ہم میں سے ہر ایک نوجوان کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ اس نے اپنی زندگی میں عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا اور خدا اور اس کے رسول کا ایک طرف اور بنی نوع انسان کا دوسری طرف ایک خادم بن کر زندگی کو گزارنا ہے.پہلے سبق کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی منشاء اپنے سلسلہ میں خلافتِ راشدہ کو قائم رکھنے کی رہے.اس وقت تک تمام برکتیں خلافت

Page 220

تاریخ احمدیت.جلد 24 202 سال 1967ء سے وابستہ ہوتی رہیں اور ہر وہ شخص جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتا وہ ان برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے.میرا یہ تجربہ ہے ذاتی کہ بعض لوگ جو اس نکتہ کو نہیں سمجھتے ان کے حق میں میری دعائیں قبول نہیں بلکہ رڈ کر دی جاتی ہیں..اسی لئے حضرت مصلح موعود نے ہم خدام کو عہد میں اس لئے شامل کیا تھا کہ جماعت کے نو جوان خلافت سے وابستہ رہیں.اس حد تک ہر قربانی کرنے کے لئے تیار ر ہیں.اور اسی میں ہر خیر و برکت ہے.اس تنظیم کے لئے جو خدام الاحمدیہ کہلاتی ہے.دوسرا سبق ہمیں یہ دیا گیا تھا محنت کا.اگر ہم اس سبق پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہماری ذمہ داریاں دوسروں کے مقابلہ میں دوہری ہیں.جو انسان اپنے رب کو نہیں پہچانتا تو اس کی جتنی بھی ذمہ داری ہے.دنیوی ہے.اپنے بھائیوں سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہ جماعت اور اس جماعت کے نوجوان جو اپنے ربّ کو پہچانتے ہیں اور اسی کا عرفان رکھتے ہیں.ان کے اوپر ایک طرف...حقوق اللہ کی ادائیگی کی ذمہ داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کی ادائیگی کی ذمہ داری.لیکن ہر دو گروہوں کی زندگی کے اوقات ایک ہی ہیں وہی چوبیس گھنٹے ایک کو ملتے ہیں.وہی دوسرے کو ملتے ہیں.اگر ایک شخص نے ان چوبیس گھنٹوں میں ان دوہری ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو تو عقل کہتی ہے کہ اپنی رفتار کو ڈبل کر دو.دگنی رفتار سے چلو تب اپنے مقصد کو پاسکو گے.تو ہمارے اوپر ذمہ داری چونکہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ہر دو کی ادائیگی کی تھی.اس لئے ہمیں ہمارے پیارے امام مصلح موعود نے کہا کہ محنت کی عادت ڈالو اتنی محنت کرو کہ کوئی دوسرا انسان ( احمدیت سے باہر ) اتنی محنت نہ کرتا ہو.میں اپنے اس دورہ میں یورپ میں بسنے والوں کو بھی کہتا رہا ہوں اور یہاں بھی میں نے یہ بیان کیا ہے کہ اگلے پچھپیں تھیں سال انسانیت کے لئے بڑے ہی نازک ہیں.ہمارے ایک مبلغ نے وہاں ایک خواب دیکھی کہ چونسٹھ سال کے بعد وہ واقعات ہوں گے.انہوں نے مجھے خواب لکھی.فوری طور پر میرے ذہن میں یہ تعبیر آئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ بتایا ہے کہ جس رفتار سے تم چل رہے ہو.اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونسٹھ سال کے بعد موعودہ واقعات رونما ہونے والے ہیں

Page 221

تاریخ احمدیت.جلد 24 203 سال 1967ء حالانکہ ہونے ہیں جلدی.اس واسطے اپنی رفتار تیز کرو.تو ہمیں آہستہ نہیں چلنا.ہم نے دوسروں کی تیزی جتنی تیزی بھی نہیں دکھانی بلکہ ان سے زیادہ تیز چلنا ہے.انگلستان میں ( میں اللہ تعالیٰ کا ایک نہایت ہی عاجز بندہ ہوں.بہت کمزور ہوں.سردرد کے بھی دورے ہو جاتے ہیں.لیکن وہاں ) چونکہ اندر ایک آگ لگی ہوئی تھی.تربیتی امور میں یا تبلیغی کاموں میں مصروف رہ کے میں قریباً سارا عرصہ ایک اور دو کے درمیان یا اکثر دو کے بعد سویا ہوں.ایک دن ایک بزرگ مجھے کہنے لگے.تھک گئے ہیں.آپ ذرا خیال رکھیں آرام کریں.تو میں نے ان کو جواب دیا کہ آرام کی عادت ہی نہیں رہی...پھر دیانت کا ہمیں سبق دیا گیا تھا.دیانت ، بندوں کے ساتھ جو تعلقات ہیں ان کے لئے بھی ضروری ہے.بد دیانتی کے نتیجہ میں جھوٹ آدمی بولنے لگ جاتا ہے.جب وہ دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا نہ کر رہا ہو اور ظاہر یہ کرنا چاہے کہ میں دیانتداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کر رہا ہوں اسے جھوٹ بولنا پڑتا ہے.پس جب تک دیانتدارانہ تعلقات آپس کے نہ ہوں.اپنے رب سے نہ ہوں.اس وقت تک ہم اپنے رب کی رضا کو حاصل کیسے کر سکتے ہیں.پھر تمہیں سبق دیا گیا تھا.خادم نام میں کہ کسی وقت کبر اور غرور تم میں پیدا نہ ہو بلکہ خادمانہ ذہنیت اپنے اندر پیدا کرو.محض خدمت کرنا کوئی چیز نہیں.انسان کو ایسا ہونا چاہئے کہ ہر وقت وہ اپنے آپ کو خادم سمجھتار ہے.اس کی باتوں میں، اس کی طرز میں جب وہ کسی کو مخاطب ہو اس میں کسی قسم کی بڑائی نظر نہ آئے.ہر وقت عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنے والا ہو اور اس عاجزی میں بڑی شان اور بڑی طاقت ہے.زیورک میں ایک بہت بڑے غیر احمدی بھی آئے ہوئے تھے (ریسیپشن میں ہر ایک اپنی نظر سے دیکھتا ہے دوسرے کو ) وہ چوہدری مشتاق احمد صاحب کو کہنے لگے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک مقام عطا کیا ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ بڑا ارفع مقام ہے.لیکن جس وقت ہم آپس میں بیٹھے اور باتیں کیں.تو بالکل یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کوئی بزرگ یا کوئی بلند مقام والا آدمی ہم سے باتیں کر رہا ہے.اس طرح بے تکلفی

Page 222

تاریخ احمدیت.جلد 24 204 سال 1967ء کے ساتھ ، اخوت اور برادرانہ رنگ میں ہم سے باتیں ہورہی تھیں اور اس چیز نے مجھے پر بڑا اثر کیا.ان کو کیا معلوم کہ جو شخص اپنے رب کی معرفت کو لیتا ہے.اس کے لئے سوائے نیستی کے مقام کے اور کوئی مقام باقی نہیں رہتا.خود بینی تو بت پرستی ہے مشرک ہے ایسا شخص جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے.جو شخص تو حید پر قائم ہے وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتا وہ اپنی حقیقت کو جانتا ہے.اور اپنے رب کی طاقت کو بھی پہچانتا ہے.اس کے دل اور دماغ میں تکبر اور غرور اور اپنی بڑائی اور اپنے علم کا زعم کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں.مجلس انصار اللہ اور لجنہ اماءاللہ کی استقبالیہ تقریبات استمبر ۱۹۶۷ء کوقصر خلافت میں حضرت خلیفہ المسح کے اعزاز میں چوتھی استقبالیہ تقریب مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے زیر اہتمام انعقاد پذیر ہوئی.جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب نے سپاسنامہ پیش کیا.سپاسنامہ کے جواب میں حضور انور نے ایک مختصر خطاب فرمایا جس کا متن درج ذیل ہے.یوں تو انسان کے لئے کسی وقت بھی یہ ممکن نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار کر سکے لیکن بعض اوقات ان بے شمار نعمتوں کا ہجوم ایک محدود وقت کے اندر کچھ اس طرح جمع ہو جاتا ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اس وقت جذبات میں میرے بڑا تلاطم پیدا ہو گیا ہے.یہ سوچ کر کہ اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کی بارش کچھ اس طرح کی کہ ایک عاجز انسان میرے جیسا تو نہ الفاظ پاسکتا ہے.نہ کوئی اور طریقہ ڈھونڈ سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کا.اور اس وقت حمد کے جذبات کا اس قدر ہجوم ہے کہ میرے لئے کوئی تقریر کرنا ممکن نہیں اس لئے میں دعا پر آج کی اس تقریب کو ختم کرتا ہوں.دوست مل کے 158 دعا کر لیں.اسی روز پانچویں استقبالیہ تقریب لجنہ اماءاللہ مرکزیہ، لجنہ اماء الله ر بوہ اور ناصرات الاحمدیہ کی طرف سے بعد نماز عصر لجنہ اماءاللہ ہال میں منعقد ہوئی، جس میں مقامی خواتین کے علاوہ پنجاب کے

Page 223

تاریخ احمدیت.جلد 24 205 سال 1967ء 159 مختلف اضلاع کے نمائندگان نے بھی شرکت کی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی طرف سے سپاسنامہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے پیش کیا.لجنہ اماء اللہ ربوہ کی طرف سے صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ نے اور صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ نے ناصرات الاحمدیہ کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.ان سپاسناموں کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ سب سے پہلے تو میں تینوں ایڈریسوں پر جو یہاں دیئے گئے ہیں.لجنہ اماء اللہ مرکزیہ ، لجنہ اماءاللہ ربوہ اور ناصرات احمدیہ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.شکریہ سے میرا دل تو لبریز ہے.مگر جس شکریہ سے میرادل لبریز ہے.وہ اپنے رب کے لئے ہے.جس کی حمد میرے روئیں روئیں سے پھوٹ کر نکل رہی ہے.نصرت جہاں مسجد کے افتتاح کے ساتھ کہ جس کے لئے میں کوپن ہیگن گیا.یہ مقصد بھی میرے پیش نظر تھا کہ جس غرض کے لئے مساجد تعمیر کی جاتی ہیں اس غرض سے بھی ان ممالک کے بسنے والوں کو روشناس کرایا جائے.مسجد نصرت جہاں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے رب نے آسمان کے فرشتوں سے کہا کہ زمین پر اتر و اور اس مسجد کی مقبولیت دلوں میں بٹھاؤ.پہلے دن سے ہی ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم اسے دیکھنے آتے رہے اور پھر ہفتوں یہ سلسلہ جاری رہا.صرف یہی نہیں بلکہ اس کثرت سے عیسائی لوگ اس مسجد کو دیکھنے کے لئے آتے تھے کہ جن دوستوں کے ذمہ یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ آنے والوں کا استقبال کریں.انہیں مسجد دکھا ئیں.ان کا شکر یہ ادا کریں اور جاتے وقت ان کے ہاتھ میں وہ دو ورقہ دے دیں جو اس غرض کے لئے پہلے سے ڈینش زبان میں شائع کرایا گیا تھا.وہ ناکافی ہو جاتے تو عیسائی بچے ہمارے مہمانوں کا استقبال کرتے اور انہیں مسجد میں لاتے ، انہیں مسجد دکھاتے اور جب وہ واپس جاتے تو وہ عیسائی بچے عیسائیوں کے ہاتھ میں اسلام کا پیغام یعنی وہ دو ورقہ.پہنچا دیتے.پھر حضور انور نے پریس کے رویہ اور تعاون کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ قریباً سب اخبارات نے جو ڈنمارک سے چھپتے ہیں اور بعد کی رپورٹ کے مطابق سویڈن اور ناروے میں بھی چھپتے ہیں.انہوں نے اس مسجد کا تذکرہ اپنے اخبارات میں کیا اور اس پر مضامین لکھے.ریڈیو کے ذریعہ اس مسجد کا ذکر دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ گیا.اس کے علاوہ ٹیلی ویژن پر مسجد کا افتتاح کروڑوں باشندوں نے دیکھا.اور نہ صرف یورپ کے کروڑوں باشندوں نے دیکھا بلکہ سعودی عرب میں بھی افتتاح کی ریل بذریعہ ٹیلی ویژن دو دفعہ دکھائی گئی ( بعد کی اطلاع کے مطابق مصر میں بھی دکھائی گئی )

Page 224

تاریخ احمدیت.جلد 24 206 سال 1967ء آپ نے فرمایا کہ افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا گیا کہ ہر وہ شخص جو خدائے واحد کی عبادت کرنا چاہتا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ آنا چاہتا ہے تو اس کے لئے مسجد کے دروازے کھلے ہوئے ہیں.چنانچہ اس اعلان کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیسیوں بچوں نے ( گو یہ عمر نا کبھی کی ہے ) ہمارے ساتھ نماز میں شامل ہو کر نماز ادا کی.اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ سینکڑوں عیسائی مردوں اور عورتوں نے ہماری دعا اور نماز کے وقت اس عبادت میں اس طرح شرکت کی کہ وہ بھی سر جھکا کر اس نماز کے وقت دعا کرتے رہے اور ایک شخص نے اخبار میں لکھا کہ اس روز ہمیں عبادت کا جو مزہ آیا وہ ہمیں کسی اور جگہ نہیں ملا.اس دورے کے نتیجہ میں فوری طور پر پانچ بیعتیں ہوئیں.ان بیعت کرنے والوں میں ایک کیتھولک نوجوان بھی شامل ہیں اور وہ سکنڈے نیویا میں پہلے کیتھولک نو جوان ہیں جس نے اسلام اور احمدیت کو قبول کیا ہے اس طرح کیتھولک عیسائیوں کے لئے بھی جو اپنے مذہب میں بڑے کٹر ہوا کرتے ہیں، اسلام کا دروازہ کھل گیا ہے.پھر خواتین کے اخلاص و وفا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کوپن ہیگن میں ہماری پانچ سات احمدی بہنیں.وہ صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے گیارہ بجے تک جماعت کے کاموں میں مشغول رہتی تھیں اور بڑے شوق سے کام کرتی تھیں.اسی طرح زیورک میں ہماری ایک احمدی بہن ہے وہ ایک بڑے مشہور نواب کی بیٹی ہیں.وہ احمدی ہو چکی ہیں.وہ وہاں صبح سے لے کر شام تک نوکروں کی طرح کام کیا کرتی تھیں.وہ برتن صاف کرتی تھیں اور کھانے پکانے میں مدد کرتی تھیں.وہ اتنی باحیا تھیں کہ نقاب نہ ہونے کے باوجود برقعہ میں ہوتی تھیں.نظر ہر وقت نیچے کئے ہوئے اور سر ڈھانکے ہوئے.ان کے چہرہ پر مجسم حیا کی روشنی چمکتی تھی اور جب وہ بے وقت کام سے فارغ ہو کر گھر واپس جاتی تھیں تو یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ اگر کوئی اور کام ہوتا تو وہ بھی میں کرتی چاہے ساری رات ہی یہاں کیوں نہ گزر جاتی غرض بڑی فدائی احمدی بہنیں وہاں پیدا ہو چکی ہیں.ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کوپن ہیگن میں جب مجھ سے یہی سوال کیا گیا کہ آپ ہمارے ملک میں کس طرح اسلام پھیلائیں گے تو میں نے کہا کہ یہ سوال مجھ سے زیورک میں بھی کیا گیا تھا اور میں نے اس کا یہ جواب دیا تھا کہ دلوں کو فتح کر کے.اس مجلس میں ایک بڑی باوقار صحافی عورت بھی بیٹھی ہوئی تھی اس نے یہ جواب سُن کر بڑے وقار سے پوچھا کہ آپ ان دلوں کو کریں گے کیا؟ میں نے اسے جواب دیا کہ ہم انہیں پیدا کرنے والے رب کے قدموں پر جارکھیں گے.اس

Page 225

تاریخ احمدیت.جلد 24 207 سال 1967ء جواب کا اس پر اتنا اثر ہوا کہ پریس کانفرنس کے بعد بھی وہ کئی گھنٹے وہاں ٹھہری رہی اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھا کئی گھنٹوں وہ ہمارے دوستوں سے باتیں کرتی رہی اور اس نے کہا کہ میں واپس جا کر اس ملاقات، مسجد اور پریس کانفرنس کے متعلق اپنے اخبار میں ضرور ایک مضمون لکھوں گی.آپ نے فرمایا کہ کوپن ہیگن میں، میں نے پادریوں سے گفتگو کی.انہوں نے ایک منصوبہ تیار کر کے اور بڑے غور کے بعد بعض سوالات تیار کئے تھے جو وہ مجھ سے پوچھنا چاہتے تھے.ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ جماعت احمدیہ میں آپ کا کیا مقام ہے.میں نے انہیں جواب دیا کہ تمہارا سوال میرے نزدیک درست نہیں کیونکہ میرے نزدیک جماعت احمد یہ اور میں دونوں ایک ہی وجود ہیں.یہ دو نام ہیں ایک وجود کے اور جب میں اور جماعت دونوں ایک ہی وجود ہیں تو ” جماعت میں میرا مقام کیا ہے.کا سوال درست نہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خلافت راشدہ کی نعمت جب تک کسی قوم میں قائم رکھی جاتی ہے اس وقت تک یہ دونوں وجود علیحدہ نہیں ہوتے.گوجسم وجان مختلف ہوتے ہیں لیکن ان کے اندر دل ایک ہی دھڑک رہا ہوتا ہے اُن میں آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا سوائے منافق کے دل کے اور منافق رسول کریم ﷺ کے وقت میں بھی موجود تھے اور اب بھی ہیں اور وہ الہی سلسلوں کے ساتھ ہمیشہ رہتے ہیں.ان منافقوں کو اگر ہم چھوڑ دیں تو ساری جماعت اور خلیفہ وقت دونوں ایک ہی وجود ہیں.پریس کی طرف سے کئے گئے ایک سوال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک سوال مجھ پہ یہ ہوا کہ ایک سچے عیسائی اور ایک سچے مسلمان میں کیا فرق ہے تو میں نے جواب میں کہا کہ ایک سچا مسلمان اپنے رب سے ایک زندہ تعلق رکھتا ہے اور اس فقرہ کو سمجھانے کے لئے میں تمہیں ایک مثال دیتا ہوں چنانچہ میں نے ایک احمدی بہن کی مثال دی جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہی رات میں تین بشارتیں ملیں اور میں نے کہا کہ اس قسم کی ایک مثال بھی عیسائی دنیا میں نہیں مل سکتی.اس پر سوال کرنے والی خاموش ہوگئی.آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ " غرض کوپن ہیگن کی مسجد کو جسے الہی منشاء کے مطابق مسجد نصرت جہاں کا نام دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے بڑی برکتوں کا موجب بنایا ہے اور اس سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قربانیوں کو قبول کیا ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ ان فضلوں

Page 226

تاریخ احمدیت.جلد 24 208 اور رحمتوں کے دیکھنے کے بعد جو ذ مہ داریاں آپ پر اور مجھ پر عائد ہوتی ہیں ان سے کو نباہنے کی اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا کرے.سال 1967ء علمائے سلسلہ کا دور ہ مشرقی پاکستان مورخہ ۰ استمبر ۱۹۶۷ء کو مرکز سلسلہ ربوہ سے تین بزرگان سلسلہ ڈھا کہ پہنچے جن میں محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح و ارشاد، محترم چوہدری فضل احمد صاحب ناظر دیوان اور محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال شامل تھے.تقریباً چار ہفتہ کا یہ نہایت مفید اور کامیاب دورہ ختم کر کے مرکزی و فدا ا راکتو بر ۱۹۶۷ء کو واپس ربوہ پہنچ گیا.اس دورہ میں متعدد مقامات پر انصار اللہ کے اجتماعات کے علاوہ تربیتی اجلاس نیز سلائیڈز کے ساتھ تقریریں ہوئیں.اسلامک اکیڈیمی ڈھا کہ میں دو اہم لیکچر ہوئے.ایک لیکچر محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب کا تھا.اس کا عنوان تھا ”اسلام کس طرح دنیا پر غالب آ سکتا ہے.صدر اجلاس ایک ریٹائرڈ ڈپٹی مجسٹریٹ تھے.انہوں نے لیکچر کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا.دوسرا لیکچر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب کا تھا.عنوان تھا ”تحریک جدید کے تقاضے.آپ نے سلائیڈ ز کی روشنی میں اپنا لیکچر دیا.اس تقریب کی مفصل رپورٹ ایک بنگلہ روز نامہ ”آزاد“ میں شائع ہوئی مجلس انصاراللہ کاآخری اجتماع جواحد نگر میں ہوا اس میں کئی افراد نے بیٹنیں بھی کیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا سفر را ولپنڈی ومری کاسفر استمبر ۱۹۶۷ء کو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تین ہفتے کے لئے راولپنڈی اور مری تشریف لے گئے.یہ پورا سفر دینی و جماعتی مصروفیات میں گزرا.حضور انور ا استمبر کی صبح 9 بجے ربوہ سے عازم سفر ہوئے اور جہلم میں مختصر قیام فرمایا.پھر سہ پہر کوراولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے تو گوجر خان سے۲ میل کے فاصلہ پر گوجر خان اور چنگا بنگیال کے احباب اور ضلع کی دیگر جماعتوں کے نمائندہ احباب جماعت نے مکرم چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع راولپنڈی کی سرکردگی میں حضور کا والہانہ استقبال کیا.حضور انور نے سب احباب کو شرف مصافحہ عطا فرمایا اور پھر وہاں سے ضلع کی جماعتوں کے نمائندوں کے ہمراہ جو علیحدہ موٹروں میں سوار تھے ، حضور راولپنڈی روانہ ہوئے.حضور انور نے شام کے بجکر ہیں منٹ پر راولپنڈی میں قدم رنجہ فرمایا.راولپنڈی میں محترم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب

Page 227

تاریخ احمدیت.جلد 24 209 سال 1967ء کے مکان پر راولپنڈی شہر کے کثیر التعداد ا حباب نے جو وہاں پہلے سے جمع تھے حضور کا استقبال کرنے کی سعادت حاصل کی.یہاں بھی حضور نے جملہ حاضر ا حباب کو شرف مصافحہ بخشا.۲ ستمبر کو حضور نے احباب جماعت کو شرف ملاقات بخشا اور نمازوں کے بعد بھی احباب میں تشریف فرمارہ کر پر معارف ارشادات سے نوازتے رہے.۳ ستمبر کو راولپنڈی کے متعدد وکلاء، معززین اور اہم شخصیات نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.۴ ستمبر کو صبح 9 بجے مسجد نور میں حضور نے لجنہ اماء اللہ راولپنڈی کے خصوصی اجلاس سے خطاب فرمایا اور مسجد نصرت جہاں کے افتتاح پر انہیں مبارک باد دیتے ہوئے دین کی سر بلندی کے لئے مزید قربانیاں کرنے کی تحریک فرمائی.اجلاس سے خطاب فرمانے کے بعد حضور ایٹمی ری ایکٹر دیکھنے تشریف لے گئے.اسی روز ساڑھے پانچ بجے سہ پہر اسلام آباد میں صدرانجمن احمدیہ کی کوٹھی کا اپنے دست مبارک سے سنگِ بنیا درکھا.اس کے بعد باری باری ۹ را فراد نے اینٹیں رکھیں پھر حضور انور نے اجتماعی دعا کروائی بعد میں حضور کچھ دیر کے لئے اسلام آباد کی ایک سیر گاہ شکر پڑیاں بھی تشریف لے گئے.۱۵ ستمبر کو حضور انور نے مسجد نور راولپنڈی میں جمعہ اور عصر کی نمازیں پڑھائیں.اپنے خطبہ جمعہ میں حضور نے سفر یورپ کے دوران خدا تعالیٰ کے غیر معمولی احسانات کا تذکرہ فرماتے ہوئے احباب کو ان ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی جو اللہ تعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کے نتیجہ میں ان پر عائد ہوتی ہیں.حضور نے اس موقع پر تمام احباب کو جو ہزاروں کی تعداد میں تھے از راہ شفقت مصافحہ سے نوازا.حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے ضلع راولپنڈی کی تمام جماعتوں کے علاوہ پشاور، مردان، نوشہرہ، ایبٹ آباد، مانسہرہ، کیمبل پور، جہلم ،سرگودہا اور بعض دوسری جماعتوں کے احباب بھی کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.قیام گاہ پر بعض معززین اور اعلیٰ شخصیات نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.مغرب اور عشاء کی نمازیں حضور نے قیام گاہ پر پڑھائیں.۶ استمبر کو دو پہر ۲ بجے تک کثیر التعداد احباب کو حضور انور نے شرف ملاقات بخشا.جن میں کئی غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.۵ بجے شام حضور فلیش مین ہوٹل میں تشریف لے گئے.جہاں آپ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا.تقریب میں کم و بیش ۲۰۰ احباب نے شرکت کی.جن میں بعض بیرونی ممالک کے سفراء، مرکزی حکومت کے سیکرٹریان، متعدد

Page 228

تاریخ احمدیت.جلد 24 210 سال 1967ء دیگر اعلیٰ سول و فوجی حکام اور معززین شہر بھی شامل تھے.اس موقع پر حضور نے تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا.اور بعض سے تفصیلی گفتگو بھی فرمائی.اس موقع پر جملہ مقامی اخبارات کے نمائندے اور فوٹو گرافر بھی آئے ہوئے تھے.ساڑھے چھ بجے شام حضور واپس اپنی قیام گاہ پر واپس تشریف لے آئے.کھانے کے بعد رات ساڑھے گیارہ بجے تک اپنے خدام میں تشریف فرما رہے اور ان کو اپنے روح پرور ارشادات سے نوازتے رہے.استمبر کو حضور انور نے ساڑھے دس بجے ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل تشریف لے جا کر وہاں وسیع پیمانے پر منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا.کانفرنس نہایت خوش گوار ماحول میں پونے ۲ گھنٹے تک جاری رہی.تمام مقامی اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کے نمائندے اور پریس فوٹوگرافرز اس موقع پر موجود تھے.حضور نے اپنے سفر یورپ کے کوائف اور نتائج و اثرات سے اخبار نویسوں کو آگاہ فرمایا اور ان کے مختلف سوالوں کے جواب دیئے.حضور نے اس امر پر زور دیا کہ تمام مسلمان فرقوں کو اپنے اپنے مسلک اور ذرائع کے مطابق بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرنا چاہئیے.پریس کا نفرنس بہت کامیاب رہی.محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر بھی پریس کانفرنس میں موجود تھے.اس کے بعد پونے ۲ بجے بعد دو پہر حضور مسجد نور میں تشریف لائے جہاں مقامی جماعت کی طرف سے حضور کے اعزاز میں دعوت طعام کا وسیع پیمانے پر انتظام تھا.اس موقع پر ضلع راولپنڈی کے علاوہ بعض دیگر اضلاع اور مقامات سے بھی لوگ آئے ہوئے تھے.مسجد نور سے روانہ ہونے سے قبل احباب کو شرف مصافحہ بخشا.اس کے بعد حضور مکرم میجر مقبول احمد صاحب کے مکان بیت السلام واقع ڈلہوزی روڈ تشریف لے گئے.جہاں لجنہ اماءاللہ راولپنڈی کی طرف سے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور حضور کی حرم محترمہ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا.لجنہ اماءاللہ نے اس موقع پر ان کی خدمت میں سپاسنامہ بھی پیش کیا.۱۸ستمبر کو حضور مع اہلِ قافلہ مری تشریف لے گئے.روانگی سے قبل حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور جماعت راولپنڈی کے ان تمام احباب کو شرف مصافحہ بخشا جو حضور کو الوداع کہنے کی غرض سے آئے ہوئے تھے.جماعت کا ایک نمائندہ وفد مکرم چوہدری احمد جان صاحب امیر ضلع کی زیر قیادت راولپنڈی سے ۷ امیل دور تک مشایعت کی غرض سے حضور کے ساتھ گیا.جہاں حضور نے وفد کے ممبران کو شرف مصافحہ بخشا اور انہیں واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.۲۲ ستمبر کا خطبہ جمعہ

Page 229

تاریخ احمدیت.جلد 24 211 سال 1967ء حضور نے مسجد احمدیہ گلڈ نہ میں ارشاد فرمایا.اس پر معارف خطبہ میں احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ دُنیا بھر میں غلبہ دین کی ذمہ داری اب ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.ہمارے پاس کوئی مادی طاقت اور ظاہری اسباب نہیں ہیں.ہمارا ہتھیار صرف دُعا ہے.جماعت کا فرض ہے کہ وہ اس ہتھیار کی قدرو قیمت کو پہچانے اور دعاؤں پر پورا زور دے.قبولیت دعا کے لئے فنافی الرسول کے مقام پر قائم ہو کر مجاہدہ کرنا ضروری ہے.اس کے بغیر انسان افضال الہی کا مورد نہیں بن سکتا ہے.۲۴ ستمبر کو حضور نے بیرونجات کے احمدیوں کے علاوہ ایک مقامی کالج کے ممبرانِ سٹاف اور طلبہ کو شرف ملاقات بخشا.مزید برآں بہت سی خواتین نے بھی تشریف لا کر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلّها العالی اور محترمہ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے ملاقات کی.۲۹ ستمبر کے خطبہ جمعہ ( بمقام مسجد احمد یہ کلڈ نہ مری) میں حضور نے مخلصین جماعت کو تحریک فرمائی کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کے دلوں میں اس احساس کو زندہ رکھیں کہ عظیم فتوحات کے دروازے اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے کھول رکھے ہیں.لیکن ان دروازوں میں داخل ہونے کے لئے عظیم قربانیوں کی ضرورت ہے.حضور ۳۰ ستمبر کو صبح نو بجے مری سے روانہ ہوئے.مکرم چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت احمد یہ راولپنڈی جو مری آئے ہوئے تھے حضور کے ہمراہ جہلم تک آئے.راستہ میں اسلام آباد کے قریب جماعت احمد یہ راولپنڈی کے احباب بہت کثیر تعداد میں جمع تھے.ور نے موٹر سے اتر کر سب احباب کو شرف مصافحہ بخشا.وہاں سے روانہ ہو کر ایک بجے دوپہر کے قریب جہلم تشریف لائے اور وہاں اپنی صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ بیگم مکرم نواب شاہد احمد خان صاحب کے ہاں قیام فرمایا.سہ پہر کو حضور انور منگلا ڈیم دیکھنے تشریف لے گئے.وہاں سے واپس آکر حضور نے جہلم کے احباب کے علاوہ گجرات اور گوجرانوالہ کے احباب جو خاصی تعداد میں آئے ہوئے تھے کو شرف ملاقات بخشا.اور اگلے روز یکم اکتوبر ۱۹۶۷ء کو جہلم سے روانہ ہو کر کھاریاں تشریف لائے.جہاں کھاریاں اور اس کے مضافات کے احباب کثیر تعداد میں آئے ہوئے تھے.حضور نے سب کو شرف مصافحہ بخشا اور کھاریاں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت کی بُنیا درکھنے کے لئے ایک اینٹ پر دُعا کی اور پھر بخیریت ایک بجکر چالیس منٹ پر ربوہ میں رونق افروز ہوئے.اہل ربوہ نے جو پہلے سے احاطہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں جمع تھے حضور کا پرتپاک خیر مقدم کیا.سب سے پہلے محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب امیر مقامی اور محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے آگے بڑھ کر

Page 230

تاریخ احمدیت.جلد 24 212 سال 1967ء حضور کا استقبال کرتے ہوئے شرف مصافحہ حاصل کیا.بعد ازاں حضور نے نماز ظہر پڑھائی اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد استقبال کے لئے آئے ہوئے جملہ احباب کو از راہ شفقت شرف مصافحه عطا فرمایا.10 راولپنڈی میں شاندار پریس کانفرنس کا انعقاد اس سفر کا یادگار واقعہ ایک شاندار اور پر ہجوم پریس کانفرنس کا انعقاد ہے جو ۷ استمبر ۱۹۶۷ء کو راولپنڈی کے مشہور ہوٹل انٹر کانٹی نینٹل میں ہوئی.یہ پریس کانفرنس نہایت عمدہ اور خوشگوار ماحول میں پونے دو گھنٹے تک جاری رہی.اس موقع پر تمام مقامی اخبارات اور خبر رساں ایجنسیوں کے نمائندے موجود تھے.حضور نے اپنی اس نہایت کامیاب اور مؤثر پریس کانفرنس میں اپنے سفر یورپ کے کوائف اور نتائج واثرات سے صحافیوں کو آگاہ فرمایا اور اُن کے متعد دسوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے.کانفرنس کی تفصیلی رودا در سالہ لاہور کے وقائع نگار خصوصی جناب منصور قیصر کے قلم سے درج کی جاتی ہے:.امام جماعت احمدیہ کی پریس کانفرنس 164 یورپ تہذیبی گراوٹ اور اخلاقی تباہی کے اُس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اگر اب بھی اُس نے پر چم اسلام کے تلے پناہ نہ لی تو وہ بالکل تباہ ہو جائے گا.“ یہ الفاظ جماعت احمدیہ کے امام (حضرت) مرزا ناصر احمد کے ہیں جو انہوں نے یورپ کے چھ ہفتے کے دورے سے واپس آنے کے بعد راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس میں کہے.یہ ہوٹل انٹرکانٹینینٹل میں اولین پریس کانفرنس تھی جسے مملکت خداداد میں اس فخر سے بنایا گیا ہے کہ اس میں یورپ کی تمام آسائشیں میسر ہیں.اس ہوٹل کی تمام نمایاں خصوصیات وہی ہیں جس سے یورپ والے خود بیزار ہوکر آج کل ایل.ایس.ڈی استعمال کر رہے ہیں.اسی ہوٹل میں خالص پاکستانی مسلمانوں کی وضع قطع کے بزرگ نے جن کی اپنی جوانی آکسفورڈ میں گذری ہے اعلان کیا ہمیں مغرب کی نہیں مغرب کو ہماری ضرورت ہے.مغرب کی زندگی میں ایسا خلاء پیدا ہو چکا ہے کہ مغرب والوں کو خود سمجھ نہیں آرہا کہ وہ اس خلاء کو کیسے پر

Page 231

تاریخ احمدیت.جلد 24 213 سال 1967ء کریں.میں نے وہاں انہیں متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے اللہ کریم کی رہتی کو مضبوطی سے نہ پکڑا اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو قبول نہ کیا تو اُن کے لئے تباہی منہ پھاڑے کھڑی ہے.“ کرب کی لکیریں مرزا ناصر احمد کو ان چھ ہفتوں میں مغربی زندگی کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اسی مشاہدے کا اظہار کرتے ہوئے میں نے اُن کے چہرے پر اُس وقت گہرے کرب کی لکیریں دیکھیں.جب اُنہوں نے بتایا کہ مغربی اخلاق نے ماں، بہن اور بیٹی کی تفریق تک ختم کر دی ہے.عفت اور حیا جیسے الفاظ سے اب وہ آشنا ہی نہیں ہیں.لیکن ساتھ ہی انہوں نے جرمنی اور ڈنمارک میں ایسی خواتین بھی دیکھیں جو اسلام قبول کر لینے کے بعد اسی طرح حیا اور شرم کے پردوں میں لپٹی ہوئی ہیں جیسے سچی پاکستانی مسلمان عورتیں.چاروں طرف بے حیائی کے طوفان میں حیا کا جذ بہ اگر اسلام کا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟.مرزا ناصر احمد صاحب نے بتایا کہ انہوں نے چھ ہفتوں میں برطانیہ، سوئٹزر لینڈ ، جرمنی، ہالینڈ اور ڈنمارک کا دورہ کیا اور ان ممالک میں پادریوں اور دوسرے افراد کے اجتماعات کے علاوہ متعدد پریس کانفرنسوں سے خطاب کیا اور اسی طرح ریڈیو، اخبارات اور ٹیلی ویژن کے ذریعے تقریباً دو کروڑ انسانوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا اور انہیں اُن کی تباہی سے باخبر کیا.انہوں نے کہا کہ اس دورہ میں میری باتوں سے دلچسپی کا یہ عالم رہا کہ بعض ایسے اخبارات نے بھی میری پریس کانفرنس کی پوری پوری کا رروائی شائع کی جو اسلام دشمنی میں اتنے متعصب ہیں کہ لفظ ”اسلام“ تک چھاپنے کے روادار نہیں.اُن کی ان پر یس کا نفرنسوں کی کامیابی کی وجہ مجھے یہ محسوس ہوئی کہ وہ تکلف اور پروٹوکول کے قائل نہیں ہیں.مجھے پہلی بار اُن سے ملنے اور گفتگو کرنے کا موقع اسی پریس کانفرنس میں ملا.وہ ہر ایک سے مزاح کی ہلکی پھلکی چاشنی کے ساتھ یوں بلا تکلف گفتگو کر رہے تھے جیسے وہ سب کو برسوں سے جانتے ہوں.اسی لئے یہ انفارمل“ پر یس کا نفرنس پون گھنٹے کے بجائے دو گھنٹے تک جاری رہی.بیرون ملک تبلیغ اسلام بات بیرون ملک میں تبلیغ اسلام کی چلی تو مرزا صاحب نے فرمایا کہ یہ کام صرف جماعت احمدیہ

Page 232

تاریخ احمدیت.جلد 24 214 سال 1967ء کو نہیں بلکہ پاکستان کی ہر جماعت اور فرقے کو کرنا چاہئیے.مجھے کسی فرقے یا جماعت سے عداوت نہیں.کیونکہ ہر فرقہ اپنے رنگ میں اسلام ہی کا نام تو لیتا ہے.اگر تبلیغ اسلام کے سلسلے میں کسی ملک میں جماعت احمد یہ ایک ہزار پمفلٹ تقسیم کرتی ہے اور دوسری جماعت تین ہزار پمفلٹ تقسیم کرتی ہے تو مجھے خوشی ہوگی.کیونکہ اس طرح اسلام کے بارے میں چار ہزار پمفلٹ تو تقسیم ہو جائیں گے.اسی طرح مبلغین کی صورت ہوگی.میں گشتی کا نہیں دوڑ کا قائل ہوں.کیونکہ گشتی میں تو سارا زور مد مقابل کو چاروں شانے چت گرانے میں لگایا جاتا ہے لیکن دوڑ میں اپنے آپ کو آگے لے جانے پر صرف ہوتا ہے.آج تبلیغ اسلام کے لئے گشتی کی نہیں دوڑ کی ضرورت ہے، تبلیغ اسلام کے سلسلے میں جماعت احمدیہ کی کوششوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ”مشن کے بارے میں مغربی تصور اور اسلامی تصور میں بنیادی فرق ہے.عیسائیت کے مشن میں خصوصی طور پر مشنری مقرر کئے جاتے ہیں.جنہیں بڑی بڑی تنخواہیں ملتی ہیں.انہیں پوری پوری آسائشیں حاصل ہوتی ہیں.لیکن اسلام کے مشن میں مسلمان مشنری ہوتا ہے.یہ اس کا مذہبی فریضہ ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرے.یہی وجہ ہے کہ یورپ اور افریقہ میں جس کونے میں جو مسلمان بھی رہتا ہے وہ اسلام کی تبلیغ کو اپنا فرض سمجھ کر کرتا ہے.انہوں نے ایک واقعہ بتایا کہ ڈنمارک کا ایک مسلمان جوڑا اپنے دفتری اوقات کے بعد سارا وقت اسلام کی تبلیغ میں صرف کرتا ہے.دونوں کو ایک ایک ہزار کرونے (روپے تنخواہ ملتی ہے.ان دو ہزار روپوں میں سے ایک ہزار روپے ٹیکس کے طور پر چلے جاتے ہیں اور ایک ہزار روپے میں دونوں میاں بیوی گزر اوقات کرتے ہیں.وہ شخص دور دراز کے لوگوں کو ٹیلیفون پر اسلام کی برکات بتاتارہتا ہے.ایک بار ایسا بھی ہوا کہ اسے ٹیلیفون کا ماہانہ بل ایک ہزار کرونے ( روپے) موصول ہوا.جو اس نے خوشی سے ادا کر دیا.ڈنمارک میں بیٹھے ہوئے اس مسلمان کوکوئی لالچ نہیں.اسے صرف وحدہ لا شریک پر بھروسہ ہے کہ وہ اسے اس کے ہر فعل کا اجر دے گا.کوپن ہیگن میں مسجد ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں احمد یہ خواتین کے چندے سے ایک مسجد تعمیر ہوئی ہے جس کا افتتاح 9 جولائی ۱۹۶۷ء کو مرزا صاحب نے اپنے ہاتھوں سے کیا.اس مسجد کا نام "نصرت جہاں رکھا گیا ہے اور احمد یہ خواتین کے چندے سے بنے والی یہ تیسری مسجد ہے.پہلی دو مساجد لندن

Page 233

تاریخ احمدیت.جلد 24 215 سال 1967ء اور ہیگ میں ہیں.مسلمان مبلغین کی بات جاری تھی کہ درمیان میں کوپن ہیگن کی مسجد کا ذکر آ گیا.مرزا صاحب نے کہا کہ میں جس روز کوپن ہیگن پہنچا.اسی روز راج مزدور مسجد کو فنشنگ بیچ دے رہے تھے.میں نے یونہی انجینئر سے پوچھا کہ ان مزدوروں کی اجرت کیا ہے تو اس نے بتایا کہ ۳۲ کرونے ( روپے فی گھنٹہ مرزا صاحب کہنے لگے.اس کے برعکس پاکستان سے گئے ہوئے اس مبلغ کو جس کی نگرانی میں وہ مسجد تعمیر ہوئی اور جو امام مسجد بھی ہے صرف پندرہ پونڈ ماہانہ ملتے ہیں بلکہ ایسے تمام مبلغین کو صرف ۱۵ پونڈ ماہانہ ہی ملتے ہیں.مگر وہ اس عسرت کی زندگی میں بھی راحت محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان کے سامنے اللہ کی خوشنودی کا موقف ہے ایک اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ آپ یورپ میں زیادہ سے زیادہ مبلغین کیوں نہیں بھیجتے.تو انہوں نے جواب دیا کہ ”حکومت زر مبادلہ نہیں دیتی مجھے تو یہ جملہ کھا گیا.ہم انٹر کانٹی نینٹل ہوٹلوں کے لئے سامانِ آرائش ، شراب، کیبرے اور میزبان لڑکیاں درآمد کرنے پر تو زر مبادلہ خرچ کر سکتے ہیں لیکن تبلیغ اسلام کے لئے ہمارے پاس کوئی زرمبادلہ نہیں (یہاں میں اتنا عرض کردوں کہ میرا کسی فرقہ سے تعلق نہیں.میں تو لا فرقہ ہوں.البتہ پاکستان کو سچا اسلامی ملک دیکھنے کا ضرور خواہشمند ہوں ).آزمائش کے تمیں سال مرزا ناصر احمد صاحب نے کہا کہ آئندہ تمیں سال مسلمانوں کے لئے انتہائی آزمائش کے ہیں.ہمیں تمام فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر یورپ کی مادیت اور اخلاقی گراوٹ کا مقابلہ کرنا ہوگا.مغرب میں عیسائیت کو ایکسپلائیمیٹ کرنے والی ایسی قوتیں کارفرما ہیں جو اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑے بڑے منصوبے بنارہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کی ہر ممکن اعانت کر رہی ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا پوری طرح دفاع کیا جائے اور انہیں صراط مستقیم کا پتہ بتایا جائے.“ انہوں نے کہا کہ افریقہ سفید فام کے استبداد سے آزاد ہونے کے لئے پوری طرح بیدار ہو چکا ہے اور افریقہ میں اسلام جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس سے عیسائیت کے کلیساؤں میں دہشت سی پیدا ہوگئی ہے.ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں کہ پورا افریقہ اور لادینی ایشیا دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے گا.دوران گفتگو میں انہوں نے ایک قصہ بتایا کہ ایک پادریوں کی محفل میں جہاں کچھ دوسرے دانشور بھی موجود تھے ایک عورت نے مجھ سے سوال کیا کہ بچے مسلمان اور سچے عیسائی میں کیا فرق ہے

Page 234

تاریخ احمدیت.جلد 24 216 سال 1967ء میں نے جواب دیا کہ کہ بچے عیسائی کے بارے میں تو تم خود کوئی مثال دو.البتہ سچے مسلمان کی زندہ مثال یہ ہے کہ پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی فوج کے ایک میجر کو ( جن کا نام میں دانستہ حذف کر رہا ہوں ) سیالکوٹ کے محاذ پر بھیجا گیا.ماں آخر ماں ہوتی ہے اُس نوجوان میجر کی ماں بھی دوسری ماؤں کی طرح اپنے بیٹے کی زندگی کے لئے دعائیں مانگتی.لیکن اس کے دل کو سکون اور چین نصیب نہیں ہوتا تھا.ایک شب ماں کو بشارت ہوئی کہ پاکستان دشمنوں سے محفوظ رہے گا لیکن یہ اشارہ بھی اسے تسکین نہ دے سکا.اسے پھر بشارت ہوئی کہ سیالکوٹ کا محاذ اللہ کی حفاظت میں ہے.لیکن ماں کا دل پھر بھی بیٹے کے لئے بے چین رہا.اس کے بعد اسے پھر بشارت ہوئی کہ اس کا بیٹا اللہ کی امان میں ہے.اس بشارت سے اس ماں کو اس قدرسکون قلب نصیب ہوا کہ اس نے پھر یہ سوچا ہی نہیں کہ اس کا بیٹا محاذ جنگ پر ہے.اسے یہ سکون قلب کس جذبہ نے دیا ؟ یہ جذبہ اسے اللہ پر کامل ایمان لانے سے حاصل ہوا اور یہی ایمان کامل بچے مسلمان کی دلیل ہے.“ سماجی گراوٹ سے بیزاری حضرت صاحب سے ایک اخباری نمائندے نے سوال کیا کہ آج ہم مغربی اخبارات اور لٹریچر پڑھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اپنی اخلاقی اور سماجی گراوٹوں سے خود بیزار ہو چکا ہے.لیکن پھر بھی وہ ان گراوٹوں سے کنارہ کش کیوں نہیں ہوتا.انہوں نے اس سوال کے جواب میں ایک واقعہ سنایا کہنے لگے ”جب میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا پرنسپل تھا تو میرے ایک ذاتی دوست جو بہت بڑے زمیندار تھے مجھ سے اکثر ملنے آیا کرتے.گھنٹوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے اور میری باتوں میں دلچسپی بھی لیتے.ایک دن میں نے ان سے کہا کہ تم بہت سمجھدار ہو.بہت ہی اچھی باتیں کرتے ہو.ہماری جماعت میں کیوں نہیں شامل ہو جاتے.اس پر وہ بولے حضرت صاحب سب کچھ ہوسکتا ہے لیکن یہ نہیں ہوسکتا.میں نے پوچھا کہ کیوں؟ تو وہ کہنے لگے کہ دیکھئے ناجی ! ہمیں تو اپنی زمینداری قائم رکھنی ہے اور زمینداری قائم رکھنے کے لئے ہمیں قتل اور اغواء بھی کروانے پڑتے ہیں ڈا کے بھی ڈلوانے پڑتے ہیں جھوٹے مقدمے بھی کروانے پڑتے ہیں اور اگر میں آپ کی جماعت میں شامل ہو جاؤں تو پھر ایسا نہیں کر سکوں گا.کیونکہ آپ تو میری گردن پکڑ لیں گے اور میری چوہدراہٹ کا بھٹہ بیٹھ جائے گا.یہی حال یورپ کا ہے جو سمجھتا سب کچھ ہے.لیکن اپنی چوہدراہٹ کا بھٹہ نہیں بٹھانا چاہتا.حالانکہ

Page 235

تاریخ احمدیت.جلد 24 217 سال 1967ء یہ چوہدراہٹ ریت کی دیوار کی طرح گر رہی ہے.مرزا صاحب کے اس جملے سے میری نظر سامنے گھومتے ہوئے بیروں اور ویٹروں پر گئی جو مجھے ریت کی دیوار میں معلوم ہورہے تھے.کالجوں سے نئے نئے نکلے ہوئے یہ نوجوان مغرب کی تلاش میں ہاتھوں میں طشتریاں لئے ہراساں کھڑے تھے ولائتی بیروں کے آداب سیکھنے میں نہ جانے انہیں کتنا وقت لگے.شاید اس وقت تک سورج مغرب میں ڈوب چکا ہو.166 جامعہ نصرت کی استقبالیہ تقریب میں حضرت خلیفہ المسح الثالث کی شمولیت ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو چھٹی استقبالیہ تقریب جامعہ نصرت ربوہ کی طرف سے منعقد ہوئی.جس میں پرنسپل اور اساتذہ جامعہ نصرت کی طرف سے سٹاف سیکرٹری نے سپاسنامہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.پھر صدر یونین نے طالبات کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.(طالبات کے سپاسنامہ کی ایک خوشخط نقل شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے) پیشکر دہ سپاسناموں کے جواب میں حضور نے ایک اہم خطاب فرمایاا ور احمدی مستورات اور بچیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا سب سے قبل میں پیش کردہ سپاسناموں کا شکر یہ ادا کرتا ہوں.پھر فرمایا کہ کو پن ہیگن کی مسجد نصرت جہاں کو عظیم الشان مقبولیت حاصل ہوئی ہے.افتتاح کا نظارہ مختلف ممالک میں ٹیلی ویژن کے ذریعہ کروڑوں لوگوں نے دیکھا.سعودی عرب میں یہ تصویریں دو دفعہ دکھائی گئیں.افتتاحی تقریب کے مناظر سکینڈے نیویا، جرمنی ، سعودی عرب، مصر، نائیجیریا، غانا اور سیرالیون میں دکھائے گئے.ہوسکتا ہے اس وقت تک امریکہ میں بھی یہ مناظر دکھائے جاچکے ہوں.کیونکہ انہوں نے بھی اس کا مطالبہ کیا ہے.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن اس کے مقابل جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں وہ بہت اہم ہیں.کوپن ہیگن کی ایک صحافی خاتون کو میں نے بتایا کہ ہم دلوں کو فتح کر کے اسلام کو غالب کریں گے تو اس نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ ہمارے دل لیکر آپ کیا کریں گے؟ تو میں نے جواب دیا کہ ہم لوگوں کے دل جیت کر اپنے پیدا کرنے والے کے قدموں میں جا رکھیں گے.میرے اس فقرہ نے اسے بے حد متاثر کیا.میرا یہ جواب آپ کی اور میری ایک اہم ذمہ داری کا اعلان بھی ہے.ہمیں یہ جائزہ لینا چاہئیے کہ کیا ہمارے دل ہمارے محبوب مولا کے قدموں میں پڑے

Page 236

تاریخ احمدیت.جلد 24 218 سال 1967ء ہیں یا دنیا کی لذت کے لئے بے چین ہیں.اگر ہم دنیا کو دین پر مقدم کرنے والے ہوں گے تو وہ لوگ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ آپ ہمارے دلوں کو کیسے خدا تعالیٰ کے قدموں میں رکھیں گے جبکہ اپنے دلوں پر آپ کو قدرت حاصل نہیں ہے اور وہ آپ کے قابو میں نہیں ہیں.“ حضور نے فرمایا احمدی مستورات نے کوپن ہیگن کی مسجد کے علاوہ بھی اپنے چندوں سے یورپ میں دیگر مساجد بنوائی ہیں لیکن جو نظارہ مسجد نصرت جہاں کے افتتاح کے وقت دیکھنے میں آیا اس کا الفاظ میں بیان کرنا محال ہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہاں سبھی لوگ مسحور ہو گئے ہیں.چنانچہ ڈنمارک کے چرچ بلیٹن نے ایک نوٹ لکھا کہ ڈنمارک کے لوگوں کے عقائد اسلام سے اس طرح ملے ہیں جس طرح پانی کے دو قطرے“.اس بلیٹن کے اس نوٹ کے انداز تحریر سے عیاں ہوتا ہے کہ عیسائی دنیا میں اس بات سے بہت گھبراہٹ پیدا ہو گئی ہے کہ ایسے لوگ جو بظاہر تو عیسائی ہیں مگر عقیدہ مسلمان ہیں.اب عملاً اسلام میں داخل نہ ہو جائیں اور عیسائیت کو شکست نہ ہو.جو کچھ میں نے وہاں محسوس کیا اسی کی بناء پر میں نے آپ لوگوں کو مبارک باد دی تھی کہ احمدی مستورات کی کوشش نے مقبولیت کا شرف حاصل کر لیا ہے.اگر ہم نے اپنی عظیم ذمہ داری کو سمجھ لیا تو انشاء اللہ ان فضلوں کے وارث ہوں گے جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے مسیح پاک علیہ السلام سے کر رکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کے مردوں اور عورتوں کو بڑی بشارتیں دی ہیں.علاوہ ازیں ہمارا یہ ایمان بھی ہے کہ موت کے ساتھ ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ موت سے ایک نئی زندگی کی ابتداء ہوتی ہے.اگر کوئی آخری زندگی میں نعمتوں کا خواہشمند ہے تو اسے اس دنیا میں بھی خدا کی رضا کی جنت حاصل کرنے کی سعی کرنی ہوگی.اور یہ ہم سب کا ذاتی فرض ہے کیونکہ کوئی دوسرا ہمیں پکڑ کر اس جنت میں داخل کرنے پر قادر نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے بھی تمثیلی رنگ میں فرمایا تھا اگر میرے ساتھ چلنا ہے تو اپنی صلیب خود اٹھاؤ.دنیائے عیسائیت نے اس تمثیل کو سمجھا نہیں اور غلط عقیدہ پر قائم ہو گئے لیکن ہمارا عقیدہ تو یہ ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میری بعثت کی غرض یہ ہے کہ دلائل کے ساتھ اس صلیب کو توڑ دوں جس نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی ہڈیوں کو توڑا اور جسم کو زخمی کیا تھا.سو واضح ہو کہ اگر ہم نے اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنی ہے اور شیطانی ظلمتوں سے نجات حاصل کرنی ہے تو ہمیں ایسا مجاہدہ کرنا ہے جو ہمیں نور کی فضا میں لے جائے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی جنت میں پہنچا دے.

Page 237

تاریخ احمدیت.جلد 24 219 سال 1967ء حضور نے مزید فرمایا کہ میرے ڈنمارک کے قیام کے دوران ایک خاتون طالب علم سویڈن سے ڈنمارک اسلام کے متعلق گفتگو کرنے آئی.اس نے ہمارے مبلغ سے تبادلہ خیالات کیا اور مجھ سے بھی ملنے کی اجازت طلب کی میں نے اسے گفتگو کا موقع دیا تو اس لڑکی نے سوال کیا کہ اسلام اور احمدیت ایک ہی ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے.میں نے جواب دیا کہ ” میرے نزدیک تو یہ دونوں ایک ہی ہیں “ یہ سن کر اس نے کہا کہ پھر میری بیعت اسی وقت لے لیں.‘“ ایک طالبہ کا دین کے معاملہ میں یہ ذوق و شوق خدائی تصرف تھا اور فرشتے نے اسے کہا کہ اٹھ اور ڈنمارک میں جا کر اسلام قبول کر“.اس واقعہ میں آپ طالبات کے لئے بھی ایک سبق ہے.لہذا آپ سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.مسلمان بچیاں خواہ وہ کالج میں ہوں یا اسکول میں ایک چیز مشترکہ طور پر ان کے مدنظر رہنی چاہئیے کہ ہم نے ایک مسلمان خاتون کی زندگی گزارنی ہے.اگر دنیا دھتکار بھی دے تو آپ کو اس بات پر خوش ہونا چاہئیے کہ خدا نے آپ کو قبول کر لیا ہے.لہذا آپ ایک احمدی بچی کی زندگی گزار ہیں.اس کے بغیر ہم ان عظیم الشان بشارتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جو ہمارے تصور سے بھی بالا ہیں اور جن کا وعدہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیا.اساتذہ جامعہ نصرت کو بھی میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسی مقصد کو اپنے سامنے رکھیں کہ وہ بچوں کی سیچ رنگ میں تربیت کریں گی اور دین کی بچی روح ان میں پھونک دیں گی تاوہ اسلام اور احمدیت کی فدائی بن سکیں.اللھم آمین.اس کے بعد حضور نے دعا کروائی اور تقریب اختتام پذیر ہوئی.1 مرکزی تنظیموں کی طرف سے خصوصی استقبالیہ تقریب اور حضور انور کا اہم خطاب ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو بعد نماز عشاء حضرت خلیفۃالمسیح الثالث کی سفر یورپ سے، جو خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی الہی تائیدات و برکات سے معمور تھا ، کامیاب مراجعت پر جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں یعنی صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید، وقف جدید انجمن احمدیہ، مجلس انصاراللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے مشترکہ طور پر ساتویں استقبالیہ تقریب حضور کے اعزاز میں دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے کھلے اور وسیع میدان میں منعقد ہوئی.یہ تقریب کئی لحاظ سے ایک منفرد اور جماعت کی تاریخ میں ایک یاد گار تقریب تھی.اس میں ربوہ کے رہنے والے تمام خدام وانصار بطور میزبان شریک ہوئے.ہر محلے کے دس دس اطفال بھی شریک

Page 238

تاریخ احمدیت.جلد 24 220 سال 1967ء ہوئے.مغربی پاکستان کی احمدی جماعتوں کے ڈویژنل اور ضلعی امراء بھی اس میں شریک ہوئے.مشرقی پاکستان کی جماعتوں کی طرف سے وہاں کے صوبائی امیر جناب مولوی محمد صاحب اور جنرل سیکرٹری مشمس الرحمن صاحب بیرسٹر نے بھی اس میں شرکت فرمائی.قائدین اضلاع خدام الاحمدیہ، زعماء اعلیٰ اضلاع انصار اللہ بھی مدعو تھے.غرض یہ تقریب مغربی اور مشرقی پاکستان کے تمام احمدیوں کی نمائندہ تقریب تھی.جس میدان میں یہ تقریب منعقد ہوئی اسے خوبصورت قناتوں ، دروازوں ،جھنڈیوں، رنگارنگ کے برقی قمقموں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلبہ اسلام کے متعلق الہامات پر مشتمل قطعات سے نہایت سلیقہ کے ساتھ آراستہ کیا گیا تھا.جو کارکنان کے حسن انتظام کا ثبوت تھا.جملہ میز بانوں کے لئے جو ہزارہا کی تعداد میں موجود تھے.حضور انور کی نشست کا ، جو اس تقریب میں بطور مقدس مہمان کے تشریف لا رہے تھے.ایسے طور پر انتظام کیا گیا تھا کہ جملہ حاضرین حضور کی زیارت کا شرف حاصل کر سکیں سٹیج پر صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، مرکزی انجمنوں کے سر براہ اور علاقائی امراء بھی تشریف فرما تھے.پونے آٹھ بجے شب حضرت خلیفہ مسیح الثالث اس تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لائے.جملہ حاضرین نے کھڑے ہو کر اللہ اکبر، حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ باد، اسلام زندہ باد، حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ باد اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث زندہ باد کے نعروں کے ساتھ حضور کا خیر مقدم کیا.سٹیج پر رونق افروز ہونے کے بعد کا رروائی کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا.جو کہ مکرم حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب سابق مجاهد افریقہ و ماریشس نے کی.اس کے بعد الحاج چوہدری شبیر احمد صاحب نے حضرت نواب مبار کہ صاحبہ کی وہ نظم خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنائی جو حضرت سیدہ مدوحہ نے حضور کے سفر یورپ کے سلسلے میں کہی تھی.تلاوت و نظم کے بعد سید داؤ داحمد صاحب ناظر خدمت درویشاں نے قادیان اور ہندوستان کی دیگر احمدی جماعتوں کا ارسال کردہ سپاسنامہ پڑھ کے سنایا.جس میں انہوں نے حضور انور کی خدمت میں سفر یورپ سے کامیاب مراجعت پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اپنے دلی جذبات محبت و عقیدت کا اظہار کیا گیا تھا.اس کے بعد خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے مرکز سلسلہ پاکستانی تنظیموں یعنی صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید انجمن

Page 239

تاریخ احمدیت.جلد 24 221 سال 1967ء احمدیہ، وقف جدید انجمن احمد یہ مجلس انصار اللہ مرکز یہ اور مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.168- ان سپاسناموں کے جواب میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے ایک بصیرت افروز تقریرفرمائی.جس کا ملخص درج ذیل ہے.حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا کہ دل اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کے شکر سے لبریز ہے کہ اس نے ہمیں یہاں آج اکٹھے ہو کر بیٹھنے کا موقع عطا فر مایا اور مجھے توفیق بخشی کہ میں اپنے بھائیوں کے دلی جذبات سے آگاہ ہوسکوں.یہ تقریب اس رنگ میں ایک نرالی شان رکھتی ہے کہ میرے سامنے میرے ہزاروں پیارے بھائی میزبان کی حیثیت سے نہایت محبت و اخلاص کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں.حضور نے فرمایا کہ آج میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو ایک اور زاویہ نگاہ سے آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ دنیا اپنے رب کو بھول چکی ہے.دعاؤں پر اسے اعتقاد نہیں رہا صرف اور صرف آپ ہی وہ خوش قسمت جماعت ہیں.جو دعاؤں پر زندہ یقین رکھتے ہیں اور دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں یہ مشاہدہ بھی کرتے ہیں کہ کس طرح ہمارا رب ہمارے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کرتا ہے.میرے اس سفر کے دوران ساری دنیا کے احمدیوں کو غیر معمولی طور پر میرے سفر کی کامیابی اور دنیا میں غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرنے کی توفیق ملی ہے.دنیا کے ہر حصے سے بکثرت احباب جماعت کے خطوط مجھے ملتے رہے.حتی کہ چھوٹے چھوٹے معصوم احمدی بچوں کے خط بھی مجھے ملے.جن میں انہوں نے لکھا تھا کہ ہم خاص طور پر آپ کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ ساری جماعت کا دعاؤں کی یہ توفیق پانا بھی اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا فضل ہے.جو اس سفر کے نتیجہ میں حاصل ہوا.پھر دوسر افضل یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول بھی فرمایا اور جس مقصد کی خاطر یہ سفر اختیار کیا گیا تھا.اس میں معجزانہ رنگ میں ہمیں کامیابی بخشی.حضور نے فرمایا کہ جیسا کہ سب دوستوں کو علم ہے اس سفر سے میرا بڑا مقصد اہلِ یورپ کو یہ انذار کرنا تھا کہ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اسلام کے سایہ تلے جمع ہو جاؤ.ورنہ تمہیں ہولناک تباہی کا سامنا کرنا ہوگا.سو یہ مقصد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے رنگ میں پورا ہوا جس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف نے اس

Page 240

تاریخ احمدیت.جلد 24 222 سال 1967ء پیغام کو پہنچانے کے لئے ایسے سامان مہیا کر دیئے جو ہمارے اختیار اور ہماری استطاعت سے بھی باہر تھے.حضور نے متعدد مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ کس طرح غیر معمولی رنگ میں ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعے اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر اشاعت ہوئی اور زیادہ سے زیادہ افراد تک یہ پیغام پہنچا.حضور نے فرمایا اگر یہ پیغام اخباروں میں شائع تو ہو جاتا مگر لوگ اسکی طرف توجہ نہ کرتے ظاہر ہے کہ کوئی فائدہ نہ ہوتا.مگر یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے نہ صرف غیر معمولی رنگ میں اس کی اشاعت کے سامان مہیا کئے بلکہ لوگوں کی توجہ کو بھی اس طرف پھیر دیا.چنانچہ اب تک برابر یہ اطلاعیں وہاں سے آ رہی ہیں کہ لوگ اس پیغام میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں وہ اسے توجہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اس سے گہرے طور پر متاثر ہورہے ہیں.الحمد للہ اس سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سفر کے دوران جماعت کو جن خاص دعاؤں کی توفیق بخشی انہیں اس نے قبول بھی فرمایا.چنانچہ جس غرض سے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا اس میں اس نے ہمیں خاص کامیابی عطا فرمائی.الحمد للہ علی ذالک حضور نے فرمایا پھر ایک اور فضل اللہ تعالیٰ نے یہ کیا کہ تربیتی لحاظ سے بھی یہ سفر بہت کامیاب رہا.بیرونی ممالک کے جو احمدی بھی مجھے ملے ان کے ایمان و اخلاص میں نمایاں اضافہ ہوا اور ساری جماعت میں ہی باہمی محبت اور اخوت کی ایک خاص رو پیدا ہوگئی.عاجزانہ دعاؤں کے نتیجہ میں ساری جماعت پکھل کر گویا ایک وجود بن گئی اور محبت واخوت کی فضا قائم ہوگئی.آخر میں حضور نے احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس سفر کے نتیجہ کے طور پر میں وثوق کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا کام دراصل اب شروع ہوا ہے.کیونکہ اس سفر کے نتیجہ میں وہاں پر اللہ تعالیٰ نے جو تغیرات کئے ہیں اور جس طرح وہ لوگ عیسائیت سے متنفر ہو گئے ہیں اور اب اسلام کے پیغام میں دلچسپی لینے لگے ہیں ان کی وجہ سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم یورپ میں تبلیغ اسلام کی خاص جد و جہد شروع کریں.ہم نے اب بہت کچھ کرنا ہے اور کرتے چلے جانا ہے.جب تک کہ غلبہ اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے نہ ہو جائیں.اس سفر میں اللہ تعالیٰ کے جو فضل ہم پر نازل ہوئے ان کی بناء پر ہماری ذمہ داریوں میں بھی بہت اضافہ ہو گیا ہے.ہمیں دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور پھر انہیں کما حقہ ادا کرنے کی توفیق دے کہ اس کی توفیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں ہیں.

Page 241

تاریخ احمدیت.جلد 24 223 سال 1967ء قریباً سوا نو بجے شب حضور کی تقریر ختم ہوئی.جس کے بعد جملہ حاضرین نے حضور کی معیت میں کھانا کھانے کی سعادت حاصل کی.پھر حضور نے لمبی اجتماعی دعا کرائی.اس طرح یہ اہم اور یادگار تقریب بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوئی.169 سرگودھا میں دعوت استقبالیہ اور حضور انور کا خطاب سفر یورپ سے کامیاب مراجعت کے تعلق میں آٹھویں اور آخری استقبالیہ تقریب ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء بروز اتوار سرگودھا میں منعقد ہوئی.صوبائی امارت کی طرف سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ سابق پنجاب و بہاولپور نے اپنی کوٹھی ( واقع نمبر 4 را اولڈ سول لائنز سرگودھا) پر استقبالیہ دیا.جس میں سابق صوبہ پنجاب و بہا ولپور ڈویژن کے تمام امراء اضلاع ، صدرانجمن احمدیہ کے ناظر صاحبان تحریک جدید کے وکلاء، وقف جدید کے ممبران اور دیگر مرکزی عہدیداروں، مقامی جماعت کے کثیر احباب کے علاوہ سرگودھا کے غیر از جماعت احباب بھی کثرت سے مدعو تھے.حضرت اقدس بارہ بج کر ۲۰ منٹ پر ربوہ سے سرگودھا پہنچے.چند منٹ انتظار کے بعد حضور نے کوٹھی سے ملحق مسجد میں (جو انہیں دنوں تعمیر ہوئی تھی ) نماز ظہر وعصر پڑھا کر اس کا افتتاح فرمایا.نماز کے بعد امراء جماعت ہائے اضلاع کے ہمراہ حضور کا فوٹو لیا گیا.ازاں بعد حضور انتظارگاہ میں، جہاں شامیانے لگے ہوئے تھے، تشریف فرما ہوئے.جہاں مکرم مرزا عبدالحق صاحب موصوف نے شہر کے غیر از جماعت معززین سے حضور کی ملاقات کرائی.اس کے بعد حضور کھانے کے لئے تشریف لے گئے.کھانے سے فارغ ہونے کے بعد تقریب کا آغاز ہوا.مکرم حافظ مسعود احمد صاحب نے تلاوت قرآن مجید کی.جس کے بعد مرزا عبدالحق صاحب نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.جس کے جواب میں حضور نے تقریر فرمائی.جس میں حضور نے اپنے سفر کے حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یورپ کے رہنے والوں کے دلوں کی تختیاں صاف ہو چکی ہیں.عیسائی عقائد سے وہ بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں.اب ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جائے.تاوہ آنحضرت علی کے ٹھنڈے سایہ تلے جمع ہو کر آئندہ آنے والی ہلاکتوں سے محفوظ ہو جائیں کہ ان کی نجات اسی میں مضمر ہے.ہے.170

Page 242

تاریخ احمدیت.جلد 24 224 سال 1967ء سید نا حضرت خلیفتہ امسیح نے صوبائی امارت کی دعوت استقبالیہ سے خطاب کے بعد شیخ محمد اقبال صاحب پراچہ کی کوٹھی میں ایک عصرانہ میں شمولیت فرمائی.ازاں بعدر بوہ واپس تشریف لے آئے.روز نامہ امروز نے حضور انور کی اس تقریر کا خلاصہ درج ذیل الفاظ میں شائع کیا:.تمام مسلمان فرقوں کو اسلام کی سربلندی اور خدا اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی خاطر دس یا بیس سال کے لئے آپس میں صلح کر کے تمام فروعی اختلافات کو خیر باد کہہ دینا چاہئیے اور اپنی ساری توجہ 171 66 تبلیغ اسلام پر مرکوز کرنی چاہیئے.یہاں ضمناً ایک افسوسناک حقیقت کا تذکرہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ حضور کی یہ مخلصانہ تحریک سراسر خیر خواہی پر مشتمل تھی.مگر افسوس اس بے لوث دعوت کا علماء نے یہ جواب دیا:.خلیفہ ربوہ کی خواہش ہے کہ تمام فرقہ ہائے اسلامی جماعت ربوہ کے کچھوے کو آہستہ آہستہ اپنی منزل کی طرف بڑھنے دیں اور خود خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے ذرا دس بیس سال کے لئے میٹھی نیند آرام کریں تا کہ جب ان کی آنکھ کھلے تو جماعت ربوہ کے خلیفہ ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان تعمیر کر چکے ہوں.اگر یہ نیک تحریک کسی اور حلقے کی طرف سے پیش کی جاتی تو اس پر غور کرنے کا سوال پیدا ہوتا تھا.مولا نا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر الفرقان“ ربوہ نے اس نوٹ پر یہ دلچسپ تبصرہ فرمایا:.مدیر صاحب تحریک کو نیک تحریک تسلیم کرتے ہیں مگر صرف اس خطرہ کے پیش نظر اس پر غور کرنے اور اسے ماننے کے لئے تیار نہیں کہ وہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہوئی ہے.مدیر لولاک سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے دس بیس سال تک متحد ہو کر تبلیغ اسلام میں صرف کر دیئے تو تحریک احمدیت اس دوران ایک نئی زمین اور ایک نیا آسمان تعمیر کر لیگی.گویا ان مولویوں پر بے عملی کے علاوہ مایوسی کا بھوت بھی بری طرح سوار ہے.اگر آپ لوگوں کو جماعت احمدیہ سے اتنا ہی بیر ہے تو چلئے احمدیوں کے علاوہ باقی فرقے ہی تبلیغ اسلام کے لئے متحد ہو جا ئیں اب تو آپ کے قول کے مطابق مسلمانوں کے فرقوں کی حالت یہ ہے کہ:.مذہبی فرقوں کا اختلاف عناد اور انتشار کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے ملک کے اتحاد کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے.آئے دن مذہبی فرقوں کے تنازعات اور مناقشات فساد کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں جس سے ملک اور مذہب دونوں کی رسوائی ہوتی ہے.166 173

Page 243

تاریخ احمدیت.جلد 24 225 سال 1967ء خدا را سوچئے کہ ان حالات میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے کتنی اچھی تجویز پیش فرمائی ہے؟ کیا اس تجویز پر عمل پیرا ہونے سے ”فساد ختم نہیں ہو جاتے اور ملک و مذہب کی رسوائی کا سلسلہ بند نہیں ہو جاتا؟ ہماری درخواست ہے کہ نئی زمین اور نئے آسمان کی خدائی تقدیر سے ہراساں ہو کر آپ تبلیغ اسلام کے لئے متحدہ جدو جہد سے گریز نہ فرمائیں اور حضرت امام جماعت احمدیہ کی مخلصانہ دعوت پر دوبارہ غور فرمائیں وما علينا الا البلاغ المبين اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام سرگودھا نے غیظ و غضب سے بھرا ہوا ایک پمفلٹ بھی شائع کیا تھا.جس کا عنوان تھا ” فروعی اختلافات ختم کرنے کا سیاسی ڈھکوسلہ) 66 روز نامہ ”شعله "سرگودھا کا پُر جوش خیر مقدم اور خصوصی دورہ یورپ نمبر سرگودھا کی استقبالیہ تقریب ایک نمایاں شان کی حامل تھی جس کا ایک منفرد اور امتیازی پہلو یہ تھا کہ اس تقریب پر سرگودھا کی ایک علمی شخصیت اور فاضل ادیب و صحافی جناب عبدالرشید اشک نے اس تاریخی موقع پر اپنے اخبار روز نامہ شعلہ کا ایک خصوصی نمبر شائع کیا.جو حضرت خلیفۃ امسیح الثالث کے سفر یورپ کی دس یاد گار تصاویر سے مزین تھا اور اس میں امام جماعت کے دورہ یورپ سے متعلق نہایت بیش قیمت مضامین تھے.لنڈن کے مشہور عالم لیکچر امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ کامکمل متن شامل اشاعت تھا اور وہ سپاس عقیدت بھی جو اس تقریب پر اضلاع پنجاب کی طرف سے حضرت مرزا عبدالحق صاحب نے پیش فرمایا.جناب عبدالرشید اشک نے اخبار کے خصوصی اداریہ ”خیر مقدم“ میں حضرت امام ہمام اور جماعت احمدیہ کوزبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.چنانچہ انہوں نے لکھا:.جماعت احمد یہ سرگودھا کے اراکین کی دعوت پر امام جماعت احمد یہ مرزا ناصر احمد صاحب آج سرگودھا تشریف لا رہے ہیں.اپنے دورہ یورپ کے بعد امام موصوف پہلی مرتبہ سرگودھا آرہے ہیں یہاں وہ اپنی جماعت کے لوگوں اور دوسرے حضرات کو اپنے دورے کے تاثرات بیان کریں گے.ہم امام صاحب کی سرگودھا میں آمد کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جماعت احمدیہ کے اراکین کی اس مسرت میں برابر کے شریک ہیں.جماعت احمدیہ سے دوسرے مذہبی فرقوں کے اختلافات ایک الگ موضوع ہے لیکن باہر کی دنیا

Page 244

تاریخ احمدیت.جلد 24 226 سال 1967ء میں اس فرقہ کے مبلغین نے اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جو خدمات انجام دی ہیں.انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.چونکہ غیر مسلم ممالک میں اسلام کو ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے.یورپی ممالک میں عام طور پر اور افریقی ممالک میں خاص طور پر مذہب اسلام کو عیسائیت کا مد مقابل سمجھا جاتا ہے.افریقی ممالک میں عیسائیت پھیلانے کے لئے جہاں عیسائی مبلغین سرگرم عمل ہیں، وہاں ان کے مقابلہ میں مسلمان مبلغین کے لئے بھی اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں دن رات کام کرنے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے.اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کے مبلغین پیش پیش ہیں.جس کی وجہ سے بیرونی ممالک میں کلمہ گویانِ محمد ﷺ کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے.اشاعت اسلام کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے مبلغین جس فرض شناسی ، تند ہی اور خلوص دل سے خدمات انجام دے رہے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے اور یہ احمدی جماعت کے مخلص کارکنوں کی قربانیوں اور اسلام سے قلبی تعلق کا ثمر ہے.امام جماعت احمدیہ کا حالیہ دورہ یورپ انتہائی کامیاب اور مؤثر رہا ہے.کوپن ہیگن کی مسجد نصرت جہاں میں ( جو صرف احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر ہوئی ہے ) امام موصوف نے جو تقریر کی ہے، اس کے بہت اچھے اثرات ہوئے ہیں.اپنی تقریر میں امام موصوف نے اہلِ یورپ کو انتباہ فرمایا:.وو یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ ( دراصل یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک الفاظ ہیں جو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۷ پر درج ہیں اور حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے اپنے خطاب میں یہ اقتباس پڑھا تھا.) یہ ایسی باتیں ہیں جن سے مسلمانوں کے کسی فرقے کا کوئی آدمی بھی اختلاف نہیں کرسکتا.ہم

Page 245

تاریخ احمدیت.جلد 24 227 سال 1967ء امام صاحب موصوف کے ایک مغربی ملک میں پہنچ کر اللہ اور اس کے نبی آخر الزماں محمد مصطفی عمل اللہ کے لائے ہوئے دینِ اسلام کا پیغام جرات آموز طریق پر اہلِ یورپ تک پہنچانے پر ان کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی دانشمندانہ راہنمائی میں دینِ اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت بجالانے کی مزید توفیق عطا کرے.175 166 مدیر شعلہ کے خلاف سرگودھا کے متعصب علماء کا شرمناک مظاہرہ اور اس پر حقیقت افروز تبصرہ روز نامہ ”شعلہ کے خاص نمبر کی اشاعت پر سرگودھا کے متعصب احراری علماء اور ختم نبوت کے نام نہاداجارہ داروں نے شہر میں زبر دست ہنگامہ کھڑا کر دیا.قد آدم پوسٹر شائع کئے اور انہیں تمام شہر میں عموماً اور جمعہ کی نماز کے بعد خصوصاً جامع مسجدوں میں تقسیم کر کے پورے شہر میں آگ لگادی.اس اخلاق سوز مظاہرہ کو دیکھ کر جناب میر عبدالرشید اشک نے روزنامہ ”شعلہ“ کی اشاعت مورخہ ۳ دسمبر ۱۹۶۷ء کے صفحہ اول پر طوفان بدتمیزی کے زیر عنوان حسب ذیل مقالہ خصوصی سپر د قلم کیا:.۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء بروز اتوار جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد صاحب اپنے حالیہ دورہ یورپ کے بعد مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور کی دعوت پر پہلی بار تشریف لائے تو ان کے اعزاز میں مرزا عبدالحق صاحب کی کوٹھی پر دو پہر کے کھانے کا اہتمام کیا گیا.اس دعوت میں لاہور، شیخو پورہ، گجرات ، جھنگ ، میانوالی ، بہاولنگر ، لائل پور، گوجرانوالہ، جہلم، ملتان، ڈیرہ غازی خان، رحیم یارخان، راولپنڈی، سیالکوٹ ، ساہی وال، کیمبلپور، مظفر گڑھ اور بہاولپور کی احمد یہ جماعتوں کے امراء اضلاع و شہر سرگودھا کے چیدہ چیدہ احمدی نمائندوں کے علاوہ شہر سرگودھا کے مختلف الخیال سرکاری اور غیر سرکاری معززین شریک ہوئے جن میں میر مظاہر حسین ایڈووکیٹ ، ملک فتح محمد ٹوانہ (ستاره خدمت) صدر ضلع مسلم لیگ سرگودھا، چوہدری بشیر احمد تارڑ وائس چیئر مین بلد یہ ، ملک محمد اقبال ایڈووکیٹ ، الحاج خان عنایت اللہ خان اور پریس کے متعدد نمائندے بھی شامل تھے.اس کھانے کی تقریب کے موقع پر مرزا ناصر احمد صاحب نے حالیہ دورہ یورپ کا ذکر کرتے

Page 246

تاریخ احمدیت.جلد 24 228 سال 1967ء ہوئے بتایا کہ جماعت احمدیہ کی مخلص خواتین کی طرف سے مہیا کردہ سرمائے سے کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں ایک عالیشان مسجد نصرت جہاں تعمیر کی گئی ہے جس کی رسم افتتاح مسجد مذکور میں مرزا صاحب نے پہلی نماز ادا کر کے ادا کی.علاوہ ازیں آپ نے کہا کہ میں نے حالیہ دورے میں یورپ کے لوگوں کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق صرف اسلام ہی کے ذریعے قائم ہوسکتا ہے.نیز انہیں بتایا کہ اگر تم اپنی زندگیاں سنوارنی چاہتے ہو یا نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو قرآن پر عمل کرو اور حضرت محمد رسول صلى الله اللہ علیہ کے خنک سائے میں آجاؤ.امام جماعت احمدیہ نے کہا کہ اپنے دورہ یورپ سے واپسی کے بعد پاکستان میں آکر ایک بیان دیا تھا کہ کہ ہم سب مسلمان فرقوں کو اللہ تعالیٰ ، اس کے آخری نبی اور اسلام کی مقبولیت کو ترقی دینے کے جذبے کی خاطر کم سے کم دس بیس سال کے لئے آپس میں صلح کر لینی چاہیئے اور عیسائیت کے مقابلے میں متحد ہو کر یورپی اور افریقی ممالک میں اسلام کی تبلیغ واشاعت کی مہم کو شروع کر کے کامیاب بنانے کی سعی کرنی چاہئے.“ اس موقع پر روز نامہ شعلہ سرگودھا کا ایک خاص نمبر شائع کیا گیا تھا جس میں مذکور جماعت کے امام صاحب کے حالیہ دورہ یورپ کے حالات وکوائف اور جماعت احمدیہ کی ان خدمات کا ادنی سا خاکہ پیش کیا گیا تھا جو یہ جماعت اسلام کی ترویج واشاعت کے لئے ادا کرتی چلی آرہی ہے اور مرز اصاحب موصوف کی قیادت میں انجام دے رہی ہے.مذکورہ نمبر میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ جماعت قبل ازیں پانچ مساجد مغربی ممالک میں تعمیر کرا چکی ہے.مسجد فضل لندن ۱۹۲۴ء میں تعمیر ہوئی.مسجد مبارک ہیگ (ہالینڈ) ۱۹۵۵ء، مسجد فضل عمر ہمبرگ (مغربی جرمنی ) مسجد نور فرینکفورٹ (مغربی جرمنی (۱۹۵۹ء اور مسجد محمودز یورک ( سوئٹزرلینڈ ) ۱۹۶۲ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی.علاوہ ازیں ادارتی کالموں میں کہا گیا تھا:.جماعت احمدیہ سے دوسرے مذہبی فرقوں کے اختلافات ایک الگ موضوع ہے لیکن باہر کی دنیا میں اس فرقہ (احمدیوں) کے مبلغین نے اشاعت اسلام کے سلسلے میں جو نمایاں خدمات انجام دی ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.چونکہ غیر مسلم ممالک میں اسلام ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے جانا پہچانا جاتا ہے، یورپی ممالک میں عام طور پر اور افریقی ممالک میں خاص طور پر مذہب اسلام

Page 247

تاریخ احمدیت.جلد 24 229 سال 1967ء کو عیسائیت کا مد مقابل سمجھا جاتا ہے، افریقی ممالک میں عیسائیت پھیلانے کے لئے جہاں عیسائی مبلغین سرگرم عمل ہیں وہاں ان کے مقابلے میں مسلمان مبلغین کے لئے اشاعت اسلام کے سلسلے میں دن رات کام کرنے کی ضرورت سے کون انکار کر سکتا ہے؟ اس سلسلے میں جماعت احمدیہ کے مبلغین جس فرض شناسی ، تندہی اور خلوص دل سے خدمات انجام دے رہے ہیں وہ انہی کا حصہ ہے اور یہ احمدی جماعت کے مخلص کارکنوں کی قربانیوں اور اسلام سے قلبی تعلق کا ثمر ہے.“ اب قریباً ہفتہ عشرہ گذر جانے کے بعد مولوی نما چند کا روباری حضرات کی طرف سے مذکورہ دعوت ظہرانہ میں شرکت کرنے والے معززین اور خاکسار راقم الحروف کے خلاف نہایت اشتعال انگیز گھٹیا قسم کا طوفانِ بدتمیزی بر پا کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے.ایک قد آدم پوسٹر بعنوان کفر نوازی کا شرمناک مظاہرہ شعبہ نشر واشاعت جمعیۃ علماء اسلام سرگودھا کی طرف سے شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چوہدری ظفر اللہ خان نے علی الاعلان قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا.”مرزائی قادیانی ہوں یا لا ہوری مسلمانوں سے الگ اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں (لہذا ) مرزا ناصر احمد (پوسٹر پر نام صرف مرزا ناصر احمد ہی لکھا گیا ہے ) کے اعزاز میں بلائی گئی دعوت میں شریک ہوکر سرگودھا کے غیور مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو سخت پامال کرنے کے ساتھ قائداعظم کی انتہائی توہین کی ہے.تمام شرکائے دعوت کو جی بھر گالیاں دینے کے بعد آخر میں ملک فتح محمد ٹوانہ (ستاره خدمت ) صدر ضلع مسلم لیگ ، چوہدری بشیر احمد تارڑ (وائس چیئر مین بلدیہ، میر مظاہر حسین ایڈووکیٹ سابق صدر شہری مسلم لیگ کے اسمائے گرامی لکھ کر اور دوسرے سرکاری اور غیر سرکاری شرفاء کو مخاطب کرتے ہوئے ہا گیا ہے کہ یہ لوگ (شرکائے دعوت مذکور ) مرزائیوں کی مجلس میں حاضر ہوتے ہیں اور پھر مسلمان قوم کی راہنمائی کا دعوی بھی کرتے ہیں.ایسے لوگ پوری قوم کے مجرم ہیں.تا وقتیکہ یہ خدا، رسول اور قوم کے سامنے اپنی اس شرمناک حرکت سے علی الاعلان تو بہ نہ کریں.“ علاوہ بریں ایک اور پوسٹر یکم دسمبر بروز جمعہ انجمن نوجوانانِ اسلام سرگودھا کے فرضی نام سے چھپوا کر تمام شہر میں عموماً اور جمعہ کی نماز کے بعد اکثر جامع مسجدوں میں تقسیم کیا گیا.مذکورہ پوسٹر کا عنوان ” سرگودھا کی صحافت پر بدنما زہریلا ناسور ہے اور اس کی تحریر کا پہلا جملہ یہ ہے ” ایک مردہ ضمیر ٹانگہ بان عبدالرشید اشک مالک مدیر روز نامہ شعلہ، جس نے ہزاروں روپ بھرے، اس کے بعد ضمیر فروش، ایمان کا تاجر، مردہ ضمیر، ایمان فروش، احساس کمتری ( کاشکار ) ، شمع رسالت کے

Page 248

تاریخ احمدیت.جلد 24 230 سال 1967ء پروانوں کے دلوں کو مجروح ( کرنے والا ) وغیرہ لکھ کر آخر میں کہا گیا ہے کہ:.اہلِ شہر اس مردہ ضمیر بکاؤ مال انسان کو جس نے صحافت کا روپ بھرا ہے اس کو اصل مقام ( ٹانگہ ہانکتے دیکھنا چاہتے ہیں.ضرورت اس امر کی تھی کہ جماعت احمدیہ کے امیر مرزا ناصر احمد صاحب نے جو کچھ کہا تھا یا روز نامہ شعلہ میں جو کچھ شائع ہوا تھا ان تمام خیالات اور افکار پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور وفکر کیا جاتا اور اگر کچھ ایسی باتیں بھی کہی گئی تھیں جن سے اختلاف لازمی تھا تو ان پر مدلل اور احسن طریق پر تنقید کی جاتی اور ثابت کیا جاتا کہ فلاں فلاں فرقے کے لوگ، جماعتیں اور علمائے کرام، اندرون ملک کے علاوہ یورپی اور افریقی ممالک میں جماعت احمدیہ سے بہتر طور پر خدمات اسلام انجام دے رہے ہیں اور روز نامہ شعلہ کے فلاں فلاں مندرجات غلط ہیں لیکن جمیعۃ العلماء سرگودھا اور فرضی انجمن نو جوانانِ اسلام سرگودھا کے معزز کارکنوں کی طرف سے شرفا کے شہر کو بعض سیاسی اور ذاتی اغراض کے تحت جو اندھا دھند گالیاں دی گئی ہیں ہمارا یقین ہے کہ اس سے یہ ثابت کرنا بے حد مشکل ہے کہ ان پوسٹروں کو شائع کرانے والے اسلام اور نبی آخر الزماں کے بچے پیروکار ہیں کیونکہ دلائل کے مقابلے میں گالیاں دینے کی تعلیم اسلام ہرگز نہیں دیتا.البتہ اگر مذکورہ پوسٹروں کے مرتبین کو اپنے بزرگوں یا کسی پس پردہ..الحاج نے تحفظ ختم نبوت کا ڈر مقصود حاصل کرنے کے لئے یہی طریق بتایا ہے تو چشم ما روشن دل ما شاد.ادھر آ ستمگر ہنر آزمائیں تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں 176 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی پشاور میں پریس کانفرنس (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ دورہ پر پیشاور تشریف لے گئے جہاں آپ نے ۲ ستمبر ۱۹۶۷ء کو پشاور کے ایک ہوٹل نیلاب میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا.اس کا نفرنس میں تقریباً دس اخباری نمائندوں کے علاوہ ریڈیو پاکستان کے نمائندہ نے بھی شرکت کی.(حضرت) صاحبزادہ صاحب نے جماعت احمدیہ کا نصب العین پیش کیا.جس کے بعد آپ نے سوالات کے جوابات دیئے.متعدد اخبارات میں اس پریس کانفرنس کی تفصیلی خبر میں شائع ہو میں.177

Page 249

تاریخ احمدیت.جلد 24 231 چنانچہ اخبار خیبر میں نے ۲ ستمبر ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں لکھا:.سال 1967ء Press Conference By A Staff Reporter Sahibzada Mirza Tahir Ahmad President International Ahmadiyya Youth Organization, will be addressing a press conference at Hotel Neelab, at 4:30 today.A press release of the local Majlis Khuddamul Ahmadiyya added that the 3 day annual gathering of the Majlis was inaugurated yesterday by Khan Shamsuddin Khan.Sahibzada Mirza Tahir Ahmad addressed a gathering of the Khuddams at Mardan yesterday.He is reaching here today.178 Call for Muslims to close ranks for combating foes By A Staff Reporter Sahibzada Mirza Tahir Ahmad, president Central Majlis Khuddamul Ahmadiyya, reiterated the Ahmadiyya proposal that the internel differences of various Muslim sects be set aside and a moratorium effected for 7 years to enable the scholars of all the sects to wage a war against Christianity, atheism and materialism.He was addressing a press conference here.The head of the Ahmadiyya youth explained that such a moratorium could serve a useful purpose only if there was a minimum understanding among the contending groups.He gave a brief description of how the Ahmadis managed to

Page 250

سال 1967ء 232 تاریخ احمدیت.جلد 24 finance their 135 missions throughout the world and disclosed that every Ahmadi was required to contribute at least 1/16th of his income towards the expenses in this connection in addition to a number of other subscriptions, donations and contributions.The Ahmadiyya leader emphatically asserted that the "promised and expected renaissance of Islam and its consequent world domination" could be achieved only if the Muslims were prepared for the sort of sacrifices made by the companions of the great Prophet of Islam and added that the Ahmadiyya were doing their bit to attain that aim.Mr.Ahmad discarded the idea that Islam was imposed upon the nations of the world by violent means.This, he said, was not supported by history and was against the very precepts of the Holy Prophet.Islam, he said, the religion of the majority of people in the four northern provinces of China but there was no historical evidence to prove that the armies of Islam ever marched on China.How then this mass coversion to Islam could be explained, he asked.Replying to a question about the Black Muslims the Ahmadiyya leader said that Islam being the religion of universal peace and concord could not approve of hatred, as a basis of faith.Racial hatred, he said, was a thing alien to the teachings of Islam.

Page 251

تاریخ احمدیت.جلد 24 233 سال 1967ء Earlier, Masood Ahmad, the Quaid of the local Majlis introduced Sahibzada Mirza Tahir Ahmad to the local pressmen.Sahibzada Tahir Ahmad, he said, was the grandson of the founder of the movement, the son of the second successor of the founder and a brother of present Imam.The press conference was attended among others by Maulana Abul Ata and Khan Shams-ud-din Khan.179 پریس کانفرنس از سٹاف رپورٹر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ آج ۴۰:۳۰ بجے بمقام نیلاب ہوٹل پریس کانفرنس سے خطاب کریں گے.مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کا اپنی پریس ریلیز میں مزید کہنا تھا کہ مجلس کے سہ روزہ سالانہ اجتماع کا افتتاح گذشتہ روز خان شمس الدین خان نے کیا.صاحبزادہ مرزا طاہر احمد نے گذشتہ روز مردان میں خدام کے اجتماع سے خطاب کیا.وہ آج یہاں پہنچ رہے ہیں.مسلمانوں سے درخواست کہ وہ دشمن کے مقابل پر پجہتی کا مظاہرہ کریں از سٹاف رپورٹر صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے جماعت احمدیہ کی اس تجویز کو بار بار دہرایا کہ مختلف مسلمان فرقوں کے اندرونی اختلافات کو ایک طرف رکھ دینا چاہئیے اور ے سال کی ایک ایسی قابل عمل پابندی لگانی چاہئیے جو تمام فرقوں کے علماء کو صرف اورصرف عیسائیت، دہریت اور مادیت کے خلاف ایک محاذ جنگ کھولنے کا موقع فراہم کرے.وہ یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے.صدر خدام الاحمدیہ کا کہنا تھا کہ اس قسم کی پابندی اس وقت سودمند ثابت ہوسکتی ہے جب اختلافی گروہوں کے درمیان تھوڑی بہت باہمی مطابقت تو ضرور ہو.انہوں نے کسی قدر تفصیل سے بتایا کہ کس طرح احمدی ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اپنے ۱۳۵ مشنوں کو مالی طور پر مدد فراہم کرتے ہیں کہ ہر احمدی سے اس تناظر میں دیگر کئی اقسام کے چندہ

Page 252

تاریخ احمدیت.جلد 24 234 سال 1967ء جات، فنڈ ز اور عطیہ جات کے علاوہ کم سے کم اپنی آمد کا۱/۱۶ حصہ دینے کا مطالبہ کیا جاتا ہے.احمدی رہنما کا خاص طور پر یہ کہنا تھا کہ موعود اور متوقع تجدید اسلام اور اس کے نتیجہ میں ساری دنیا پر (اس کا ) غلبہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر مسلمان اسی قسم کی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہو جائیں جیسی قربانیاں عظیم رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے دیں اور ان کا مزید کہنا تھا کہ احمدی اسی مقصد کو پانے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں.احمد نے اس نظریہ کو مستر د کر دیا کہ اسلام اقوام عالم پر پر تشدد ذرائع سے مسلط کیا گیا.ان کا کہنا تھا کہ تاریخ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور (ویسے بھی یہ بات ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے.ان کا کہنا تھا کہ اسلام چین کے چار شمالی صوبوں میں رہنے والے لوگوں میں سے اکثریت کا مذہب ہے لیکن کوئی بھی ایسا تاریخی ثبوت نہیں ملتا جو یہ ثابت کرے کہ اسلامی فوجوں نے کبھی بھی چین پر چڑھائی کی ہو.ان کا سوال تھا کہ پھر اس قدر بڑی تعداد میں اسلام کو اپنانے والوں سے متعلق کس طرح وضاحت پیش کی جاسکتی ہے.سیاہ فام مسلمانوں سے متعلقہ سوال کے جواب میں احمدی رہنما کا کہنا تھا کہ اسلام عالمی امن کا مذہب ہے اور فاتح سے نفرت کرنے کو دین کا اساس بنالینا، اس کا کوئی جواز نہیں بنتا.ان کا کہنا تھا کہ نسلی تعصب ایک ایسی چیز ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے.آغاز میں مقامی قائد مجلس مسعوداحمد نے مقامی صحافیوں کو صاحبزادہ مرزا طاہر احمد سے متعارف کروایا.ان کا کہنا تھا کہ صاحبزادہ طاہر احمد ، بانی جماعت کے پوتے، دوسرے خلیفہ کے بیٹے اور موجودہ امام کے بھائی ہیں.پریس کانفرنس میں دیگر شخصیات کے علاوہ مولانا ابوالعطاء اور خان شمس الدین خان بھی موجود تھے.سیرت رسول ﷺ پر ایک پر معارف تقریر ۳ ستمبر ۱۹۶۷ء کو (حضرت) صاحبزادہ صاحب کے اعزاز میں ڈاکٹر غلام اللہ صاحب پاکستان فارسٹ انسٹیٹیوٹ پشاور یونیورسٹی کے مکان پر جماعت احمد یہ پشاور کی طرف سے عصرانہ دیا گیا.عصرانہ میں یونیورسٹی کے پروفیسر صاحبان و دیگر معزز احباب نے شرکت کی.عصرانہ کے بعد ڈاکٹر

Page 253

تاریخ احمدیت.جلد 24 235 سال 1967ء عمرحیات صاحب ملک کی زیر صدارت مہمان خصوصی نے سیرت آنحضرت ﷺ پر پر معارف تقریر کی.اس تقریر میں (حضرت) صاحبزادہ صاحب نے رسول پاک کی سیرت کا ایک پہلو ( انسانوں سے حسن سلوک) بیان کیا.اپنے ڈیڑھ گھنٹے کے خطاب میں ( حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے حاضرین کو اہم دینی و علمی معلومات بہم پہنچا ئیں.جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے.ڈاکٹر عمر حیات صاحب ملک نے اپنی صدارتی تقریر میں آپ کی تقریر کی بہت تعریف کی اور آپ کا شکریہ ادا کیا.ڈاکٹر ملک صاحب نے کہا کہ ایسے مواقع بار بار آنے چاہئیں تا کہ عوام کو اس محسن اعظم آنحضرت کی زندگی سے لگاؤ پیدا ہو اور وہ اسلام کی روح کو سمجھنے لگیں.عصرانہ کے اختتام پر حضرت صاحبزادہ صاحب نے سلسلہ کی کتابوں کا ایک سیٹ ڈاکٹر عمر حیات صاحب کو پیش کیا.جو انہوں نے بخوشی قبول کیا اور اس تحفے پر آپ کا شکریہ ادا کیا.صدر پاکستان کے دفاعی فنڈ میں مجالس خدام الاحمدیہ امریکہ کا گرانقدر عطیہ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد امریکہ میں ہمارے احمدی نو جوان بھائیوں نے اپنی مختصر تعداد کے باوجود پاکستان اور اہلِ پاکستان سے اپنی ہمدردی اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے ۳۱۶ ڈالر ۲۵ سنٹ یعنی قریباً ۱۶۰۰ روپے کی رقم صدر پاکستان کے دفاعی فنڈ میں بھجوائی.مجالس خدام الاحمدیہ امریکہ کے نائب صدر جناب اے.آر.خان بنگالی صاحب نے صدر پاکستان کو جو خط اس ضمن میں تحریر فرمایا، اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.۴ اکتو بر ۱۹۶۷ء بخدمت جناب صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان جناب صدر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے خوشی محسوس کر رہا ہوں کہ جماعت احمد یہ امریکہ اپنے ملک میں پاکستان کے مفاد کی خاطر پوری تندہی سے مصروف کار ہے اور امریکی عوام کی رائے کو پاکستان اور خصوصاً کشمیر سے متعلق پاکستان کے جائز موقف کی حمایت میں ہموار کرنے میں پوری طرح کوشاں ہے.اس مقصد کے لئے کالجوں، کلبوں، کلیساؤں میں تقاریر کی جاتی ہیں جہاں جماعت احمدیہ کے مبلغین کو لیکچر کے لئے بلایا جاتا ہے.علاوہ ازیں مقتدر شہریوں اور نمائندگان پریس سے بات چیت اور انٹرویو کے ذریعہ بھی اس کام کو سرانجام دیا جاتا ہے.حال ہی میں ہم نے مجالس خدام الاحمدیہ امریکہ کے اراکین سے اپیل کی کہ وہ پاکستان وار

Page 254

تاریخ احمدیت.جلد 24 236 سال 1967ء ریلیف اینڈ ڈیفنس فنڈ میں چندہ دیں.بفضلہ تعالی ۳۱۶ ڈالر ۲۵ سنٹ کی رقم جمع ہوگئی جو کہ آپ کو بذریعہ بنک ڈرافٹ بھجوائی جا رہی ہے.امریکہ کے احمدی نوجوانوں کی یہ حقیر سی پیشکش ہے جوانہوں نے اپنے وطن عزیز (پاکستان) کے دفاع اور اپنے بھائیوں سے اپنی محبت کے اظہار کے طور پر کی ہے.ہمیں امید ہے کہ آپ اسے قبول کر کے ہمارے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرمائیں گے.ہم دعا کرتے ہیں کہ آپ کی عاقلانہ ومشفقانہ رہنمائی میں پاکستان ایک عظیم اسلامی مملکت کی حیثیت سے اقوامِ عالم کی صف میں وہ بلند مقام حاصل کرے جس کا وہ مستحق ہے.نیز حق و انصاف اور امن و تحفظ، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر بنی نوع انسان کی بہبود ایسی پالیسی پر استقامت اختیار کرنے کی مثال قائم کر دے.اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر، صحت وقوت اور علم وفراست سے بہرہ مند کرے تا آپ پاکستان کو صحیح راستے پر گامزن کر کے اسے اس کے نیک مقصد سے ہمکنار کر دیں.آمین ایک بہتان عظیم کی تردید لائکپور ( فیصل آباد) کے ایک ہفت روزہ اخبار نے انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ یہ بیان شائع کیا کہ معاذ اللہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے دعویٰ نبوت کیا ہے اور احمدی اسی بناء پر تجدید بیعت کر رہے ہیں.اس ظالمانہ اور ناپاک افترا کی تردید میں حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے قلم سے حسب ذیل بیان شائع کیا گیا:.ہر احمدی کے لئے یہ بات ہمیشہ رنج و تکلیف کا موجب رہی ہے کہ بعض مخالفین نا سمجھی اور بعض دشمنی کی بناء پر ہماری جماعت کی طرف ایسے عقائد منسوب کر دیتے ہیں جو حقیقت میں ہمارے نہیں ہوتے.اسی سلسلہ میں لائکپور کے ایک ہفت روزہ اخبار نے نہایت دیدہ دلیری سے سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد خلیفہ مسیح الثالث کی طرف یہ منسوب کر کے شائع کر دیا ہے کہ گویا حضور نے نبوت کا دعویٰ کر دیا ہے اور یہ کہ اسے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ہماری جماعت کے دوست دوبارہ بیعت نبوت کر کے تجدید بیعت کر رہے ہیں.اس بات کو پیش کر کے اس اخبار نے نہایت غیر ذمہ دارانہ نوٹ شائع کیا ہے جو ہمارے دلوں کو زخمی کرنے والا اور دوسرے مسلمان بھائیوں کو اشتعال دلانے والا ہے اور ایسا اکسانے والا طریق اختیار کیا ہے جس سے یقیناً امن عامہ کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے.

Page 255

تاریخ احمدیت.جلد 24 237 سال 1967ء ہماری جماعت کے دوست تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ بات غلط، بے بنیاد اور محض افتراء ہے تاہم میں اس اعلان کے ذریعہ دوسرے دوستوں پر بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ امسیح نے ہرگز نبوت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی کوئی تجدید بیعت کی تحریک جاری کی گئی ہے.مذہبی جذبات نہایت نازک ہوتے ہیں اور اس دائرے میں کسی کی طرف معمولی سی بات بھی منسوب کرنا تکلیف کا موجب ہوتا ہے.کجا یہ کہ بے بنیاد طور پر اتنا بڑا دعویٰ منسوب کر دیا جائے.ہماری جماعت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ حضرت ختمی تاب سرور کائنات فخر موجودات عﷺ کا ایک امتی آنجناب کی غلامی میں اور شریعت قرآنیہ کے تابع ہوتے ہوئے مقام نبوت سے سرفراز ہوسکتا ہے.لیکن یہ وہی شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ خود اپنی وحی کے ذریعہ اس مقام سے سرفراز کرے اور صریح طور پر نبی کے نام اور لقب سے نوازے.ورنہ نہ کسی کا حق ہے اور نہ کسی شخص کی جرات ہو سکتی ہے کہ ایسا دعوی کرے بلکہ جھوٹے طور پر ایسا دعویٰ کرنے والا بموجب آیہ کریمہ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ، ہر وقت اللہ تعالیٰ کے غضب اور گرفت کے نیچے ہے.کسی کی طرف نبوت کا دعویٰ منسوب کرنا اتنی بڑی جسارت ہے کہ اس اخبار کے ایڈیٹر صاحب کو بغیر تحقیقات محض قیاسات پر گمان کر کے اور عواقب کو نظر انداز کر کے ایسا نوٹ شائع کرنا ہرگز مناسب نہ تھا.ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا شرف اب بھی اس امت کے نیک لوگوں کو حاصل ہوسکتا ہے اور تیرہ سو سال میں ہزاروں لاکھوں اولیاء اس شرف سے نوازے گئے اور جیسا کہ امم سابقہ کے اولیاء کو یہ انعام عطا ہوا اسی طرح بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس خیر امت کے بزرگوں کو اس انعام سے حصہ ملا ہے کیونکہ اس امت کے لوگ جس بزرگ ہستی ع کے فیضان اور قوت قدسیہ کے ذریعہ قرب الہی کے درجات حاصل کرتے ہیں وہ اہم سابقہ کو حاصل نہیں لیکن قطع نظر اس سے امر واقعہ کے طور پر یہ ہرگز درست نہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے کسی پر یس کا نفرنس میں یہ الفاظ استعمال کئے ہوں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی.جیسا کہ اس پریس کانفرنس کی روئداد شائع کرنے والے بہت سے دوسرے اخبار شاہد ہیں.پس میں تمام دوستوں تک یہ بات پہنچادینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ حضرت خلیفہ امسح الثالث کی طرف جو باتیں منسوب کی گئی ہیں.وہ ہرگز درست نہیں اور ایسا بیان دینے والے یا کسی گہری غلط

Page 256

تاریخ احمدیت.جلد 24 238 سال 1967ء فہمی کا شکار ہیں یا دیدہ دانستہ اس راہ پر چل نکلے ہیں جو نہایت خطرناک راہ ہے.میں اس موقعہ پر حکومت کے ذمہ دار اراکین کی توجہ بھی اس نہایت دل آزار اور خلاف حقیقت اور اشتعال دلانے والے نوٹ کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ فوری طور پر ایسے عنصر کی روک تھام کی جائے گی.(مرزا عزیز احمد ناظر اعلی ) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور احمدی شعراء کا ذکر 182 شہنشاہ ایران کے جشنِ تاجپوشی کی یادگار میں اقبال اکادمی کراچی نے اکتوبر ۱۹۶۷ء میں فارسی زبان کی ایک ضخیم کتاب ”تذکرہ شعرائے پنجاب“ شائع کی.یہ کتاب جناب خواجہ عبدالرشید صاحب نے نہایت محنت و عرقریزی سے مرتب فرمائی.فاضل مؤلف نے پنجاب کے فارسی شعراء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل، حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی ، حضرت شیخ محمد احمد مظہر ، حضرت حکیم عبدالرحمن صاحب خا کی کا بھی ذکر فرمایا.مولف کتاب نے سلسلہ احمدیہ اور احمدی شعراء کے مختصر مگر جامع سوانح حیات درج کرنے کے بعد اُن کے کلام سے فارسی اشعار کے جو منتخب اور مؤثر نمونے پیش فرمائے ، ان سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ یہ بزرگ حقیقی معنوں میں خدا اور محمد مصطفی ﷺ اور قرآن مجید کے سچے عاشق تھے اور اسلام کے چلتے پھرتے نمونے تھے.مولانا ابوالعطاء صاحب نے الفرقان میں لکھا کہ ہمارے نزدیک یہ کتاب نہایت مفید اور علمی خزانے کی حیثیت رکھتی ہے.ہر علم دوست بھائی کی لائبریری میں اس کتاب کا ہونا ضروری ہے.تذکرہ شعرائے پنجاب سے اقتباسات (۱) میرزاغلام احمد قادیانی (علیہ السلام) او در دہی که باسم قادیان معروف و در شهر معروف گورداسپور واقع است بدنیا آمدند سال تولد وی ۱۸۳۵ است از زمان کود کی نسبت به دین مبین اسلام علاقمند بود و مطالعات عمیقی را در پیرامون این مذهب آغاز نمود.در آن زمان ہندو ہاو سیحی با ونصرانی ہا بر علیہ اسلام تبلیغ نموده مردم را از جاده حق منحرف می گردانیدند.میرزا مذکور در جواب تبلغات ضد اسلامی قیام نموده و بادلایلی بسیار محکم و قاطع دشمنان اسلام را شکست داد - تعداد تصنیفات وی در حدود هشتاد جلد است - ذوق شعری هم داشت و کتابی باسم در مشین

Page 257

تاریخ احمدیت.جلد 24 239 سال 1967ء بزبان فارسی چاپ کرد.در زیر انتخابی از آن کتاب داده شده است ترجمہ:- آپ ضلع گورداسپور کے قادیان نامی گاؤں میں ۱۸۳۵ء میں پیدا ہوئے آپ بچپن ہی سے دین مبین اسلام سے محبت رکھتے تھے.چنانچہ آپ نے اسلام کا بنظر غائر مطالعہ شروع کر دیا.اُن دنوں ہندو اور عیسائی اسلام کے خلاف پروپیگنڈہ کر کے عوام کو راہ حق سے منحرف کر رہے تھے (حضرت) میرزا صاحب موصوف اسلام کے خلاف اعتراضات کے جواب کے لئے کمر بستہ ہوئے اور نہایت محکم اور قاطع دلائل کے ساتھ دشمنانِ اسلام کو شکست دی.آپ کی تصنیفات کی تعداد ۸ کے لگ بھگ ہے.ذوق شعری بھی رکھتے تھے.فارسی میں درنشین نامی کتاب شائع کی.یہ کلام اسی کتاب سے منتخب ہے نمونہ کلام بر آن سرم که سروجاں فدای تو بکنم که جان بیار سپردن حقیقت یاری است بیچ آگهی نبود زعشق و وفا مرا خود ریختی متاع محبت بدانم فصلِ بہار و موسم کل نایدم بکار کاندر خیال روی تو ہردم بظشنم در کوی تو اگر سرعشاق را زنند اول کسی که لاف تعشق زند منم ذره را تو بیک جلوه کنی چون خورشید ای بسا خاک که چون ما مه تابان کردی ہوشمندان جهان را تو کنی دیوانه اے بسا خانه فطنت که تو ویران کردی تا نه دیوانه شدم ہوش نیامد بسرم اے جنون گرد تو گردم که چه احسان کردی کہ نعت درد دلم جوشد ثنائی سروری آنکه در خوبی ندارد ہمسری آنکه در جود و سخا ابر بهار آنکه در فیض و عطا یک خاوری بر لبش جاری ز حکمت چشمه ای در دلش پر از معارف کوثری روشنی از وی بهر قومی رسید نور او رخشید بر هر کشوری منکه از حسنش همی دارم خبر جان فشانم گردید دل دیگری یاد آن صورت مرا از خود برد هر زمان مستم کند از ساغری

Page 258

تاریخ احمدیت.جلد 24 240 ختم شد برنفس پاکش ہر کمال لاجرم شد ختم پیغمبری (۲) بسمل - عبید اللہ گورداسپوری ہر سال 1967ء 184 مولا نا عبیدالله بن مولانا مظہر جمال در بمبئی پیش ایرانیان فارسی یاد گرفت و سپس کتابخانہ ہائے شہر ہائے رامپور ، بھوپال و حیدر آباد دکن را مورد بازدید قرار داده بوطن خویش بازگشت.مہارت تامی در شعر داشت واشعار بسیار زیبای را می سرود گفته اند که سنجر ملک الشعرای ایران با بسمل ملاقات نمود واشعارش را مورد تقدیر قرار داده و گفت : "والله من بهتر از و نتوانم گفت، بسمل در سال ۱۹۳۸ میلادی در شهر قادیان عرصه وجود را ترک گفت - تصنیفاتش زیاد است اما کتابهای زیر معروفیت دارد: ترجمه (حضرت) مولانا عبید اللہ بکل بن مولانا مظہر جمال نے بمبئی میں ایرانیوں سے فارسی سیکھی.ازاں بعد رامپور، بھوپال اور حیدرآباد دکن کے کتب خانوں سے استفادہ کیا اور وطن واپس لوٹے.آپ کوفن شاعری میں مہارت تامہ حاصل تھی اور آپ کے شعر نہایت بلند پایہ ہوتے تھے.بیان کرتے ہیں کہ جب ایرانی ملک الشعراء سنجر کی ملاقات بہل سے ہوئی تو اس نے کلام بہل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بخدا میں ان سے بہتر نہیں کہہ سکتا ، بسمل نے ۱۹۳۸ء میں قادیان میں وفات پائی.آپ کی تصنیفات کی تعداد کافی ہے معروف تر یہ ہیں:.ا.اتالیق فارسی ۲- ترجمان پارسی ۳ ارجح المطالب ۴.حیات بسمل ۵ - مرأة الاسلام حق الیقین نمونہ کلام جرم بیرون از حساب و فسق بیرون از شمار آنچه کس نارد بدر گه تو آن آورده ام خام طبعی ، ست خوئی، اجر جوئی، بی عمل خود غرض جرم گدای ناتوان آورده ام باز بسمل از رو فرزانگی رخت یاران بر سر دیوانگی وه چه گویم از خود بیگانه شد مست شد، بدمست شد، دیوانه شد 183 (۳) مولانا غلام رسول.گجراتی ”مولانا غلام رسول پسر میاں کرم دین در دبی بنام را یکی از نواحی گجرات در سال ۱۸۷۷ میلادی

Page 259

تاریخ احمدیت.جلد 24 241 سال 1967ء متولد گردید وفارسی از میاں محمد دین کشمیری آموخت و سکندر نامه و آثار نثری ابوالفضل را هم در خدمت استاد خود یاد گرفت.سپس بحضور مولانا امام دین رسیده مثنوی مولانا روم را یاد گرفت - تصانیف متعددی دارد که عبارتند از :.حیات قدسی، اظہار حقیقت توحید باری تعالی، تنقید الحقائق وغیرہ اشعار خوبی را بزبان فارسی می سرود و دارای ذوقی بسیار لطیف و عالی بود دیوانش هنوز بچاپ نرسیده است.اما اشعاری چند در زیر قل می گردد که در مدح یکی از دوستان عزیزی خود سروده است: ترجمہ: ( حضرت ) مولانا غلام رسول ابن کرم دین گجرات کے نواحی گاؤں راجیکی میں ۱۸۷۷ء میں پیدا ہوئے.فارسی زبان میاں محمد دین کشمیری سے سیکھی اور انہیں سے سکندر نامہ اور ابوالفضل کی نثر کی کتابیں پڑھیں.اس کے بعد مثنوی مولانا روم کی تعلیم مولانا امام دین سے حاصل کی.آپ کی متعدد تصانیف ہیں.کچھ کے نام درج ہیں.حیات قدسی، اظہار حقیقت، توحید باری تعالی ، تنقید الحقائق وغیرہ.فارسی میں شعر خوب کہتے تھے اور نہایت لطیف بلند پایہ ذوق رکھتے تھے.آپ کا دیوان تا حال غیر مطبوعہ ہے.چند اشعار جو آپ نے اپنے ایک عزیز دوست کی مدح میں کہے تھے نقل کئے جاتے ہیں.میر صاحب محمد اسماعیل آنکه می بود هیچو ابن خلیل وصف او در بیان نمی گنجد گر بیانش بیانش کنیم بالتفصیل فطر تش فطرت ہمہ ابرار ذات او متصف بوصف جمیل قدسیان را شده دلش منزل عارفان را برسم او تبتیل منزل قدس بود منزل او بر زبانش حقائق از تنزیل (۴) مظہر محمداحمد پنجابی 186 پدرش ظفر احمد در کپور تصله مامور امور آن ایالت بود و منصب منشی گری را بعهده خود داشت - محمد احمد با تفاق پدر خود بمجالس سخن و شعر حضور بهم میرسانید و در همان زمان علاقه ای نسبت به شعر پیدا کرد.پدرش میخواست که محمد احمد از غزل اجتناب کند و فقط بسرودن نظم با مثنوی با پر داز دو ہمیں جہت با واجازه داد که شاعری آغاز کند در ایام جوانی خود به لاهور رسید و بعد از پایان تحصیلات خود به شغل وکالت

Page 260

تاریخ احمدیت.جلد 24 242 سال 1967ء دادگستری درآمد - بزبان اردو شعر می سراید ولی در زبان فارسی تلمیذ حضرت بسمل بود.در تاریخ گوئی ہم ماہر است - الحال در شهر لائکپور زندگی می کند دیوان خود را تحت عنوان ” در دو درمان بیچاپ رسانیده است انتخاب زیر از همان جاست :.آپ کے والد (حضرت منشی ) ظفر احمد صاحب ریاست کپورتھلہ میں منشی تھے.محمد احمد (مظہر ) اپنے والد کے ہمراہ مجالس شعر وفن میں حاضر رہتے.اسی طرح اوائل عمر شعر میں شاعری سے لگاؤ پیدا کرلیا.ان کے والد صاحب کی خواہش تھی اور اسی شرط پر انہوں نے محمد احمد کو شاعری کی اجازت دی کہ وہ غزل گوئی سے مجتنب رہ کر صرف نظم اور مثنوی کی صنف کو اختیار کریں گے.جوانی کے ایام میں لاہور پہنچے.حصول تعلیم کے بعد وکالت کا پیشہ اختیار کیا.اردو میں شعر کہتے ہیں.فارسی میں حضرت بہل کے شاگرد ہیں.تاریخ گوئی میں بھی ماہر ہیں ان دنوں لائکپور میں سکونت پذیر ہیں.آپ کا دیوان بعنوان در دو در ماں“ شائع ہو چکا ہے.یہ اشعار اسی سے منتخب ہیں:.با اہل تناسخ گو، از بنده بپاسخ گو چون مفت ہے افتی دایم بعذ اب اندر داور چو عمل سنجد ، تنہا نہ عمل سنجد ہم نیست سالک را گیر دبحساب اندر از تست سوال من، وز تست مراد من چون از تو ترا خواهم خود به جواب اندر از درد چو درمانم، در آپی درمانم اے چارہ گر مظہر ، لطفی بعتاب اندر وو به ندارد کس چنین سامان محرومی که من دارم بہر گامی غلط رفتم بهر کاری خطا کردم بکار خویش حیرانم به هم خود نمی آید که من این ناروائی ہا چسان برخودر وا کردم گریبان چاک و دامن چاک و دل ہم چاک میدارم ندانم چاره گر آخر کرا عزم رفو دارد بکوئی عشق اگر دیوانہ باشی شہر ما بسی فرزانه باشی دل و جان در سرکار تو کردم چه مے پرسی چرا بیگانه باشی تاریخ وفات حضرت عنایت علی لدھیانوی گفته است:- عاشقاں بعد مرگ زنده شدند ہان وہان زنده را تو مرده مخوان بود مظهر بفکر سال وصال آمد آواز غیب "الغفران" ۱۳۹۲

Page 261

تاریخ احمدیت.جلد 24 243 سال 1967ء تاریخ وفات سیّدہ ام طاہر چنین گفته است: کرم نما و ببخشا و چاره سازی کن نگفتنیه ای که منم واسع و رؤف و رحیم برائے سال وفاتش بفکر شد مظہر ندای غیب درآمد مقیم باغ نعیم (۵) خاکی.عبدالرحمن امرتسری 187 ابوظفر حکیم عبد الرحمن خاکی در سال ۱۸۹۴ء در شهر امرتسر متولد گردید او از خانواده معروف طبیبان امرتسر بود و لیسانس طب را از دانشکده طب گرفته بود - آشنائی کا ملے با زبان فارسی دارد و باین زبان شعر می سراید - در راولپنڈی زندگی می کند و بازنشسته است.دیوانش هنوز تدوین نگردیده است اما انتخاب اشعارش در زیر نقل می گردد: ترجمہ:.ابوظفر حکیم عبدالرحمن خاکی ۱۸۹۴ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے.آپ امرتسری اطباء کے مشہور خاندان کے فرد ہیں اور خود بھی طیبہ کالج کے سند یافتہ ہیں.زبان فارسی میں کامل دسترس رکھتے ہیں اور شعر بھی کہتے ہیں.راولپنڈی میں اقامت پذیر ہیں اور وہیں بود و باش رکھتے ہیں.آپ کا دیوان ابھی مرتب نہیں ہوا.البتہ آپ کے منتخب اشعار پیش کئے جاتے ہیں.زرب خود چو خواہی دلنوازی قدم زن بر طریق پاکبازی زنی دست طلب گر بر درحق ترا آید میسر کارسازی نسازد هیچ کس با تو در عالم اگر تو با خدای خود نسازی ترا ہر شب شب قدر است اگر تو به شب ها در عبادت جانت گدازی تو بازی باختی در منزل عشق براین بازی اگر نازی چه نازی خدایا برمن مسکین نگاہی کہ رحمانی کریمی کارسازی به مشت خاک باری ابر رحمت بھی بخشش بھی بندہ نوازی شوی محمود را مقبول خاکی بیاموزی چو آداب ایازی

Page 262

تاریخ احمدیت.جلد 24 244 سال 1967ء شدن الفت احمد چو پیوند بدن خواهد شدن این دمن از فیض روحانی چمن خواهد شد فتح باب نصرت اسلامیان نزدیک هست رنج نا کامی نصیب اہرمن خواہد شدن چون جمال یوسفی افروخته بزم شهود شاہد جرم حریفان پیرہن خواهد شدن سعی در کار است خاکی از پی اظهار دین لشکر محمود آخر بُت شکن خواہد شدن آنکه عشقش در دلش مستور نیست دعوی اخلاص او منظور نیست جز به تنویر تو ای نور ازل سینه اشراقیان را نور نیست از خوش انفاس تو ای سحر حلال نیست انسانی که او مسحور نیست لذت عشقت نباید کور ذوق دیده بی معرفت را نور نیست جز خطاها نیست معمول مرا حجز عطا کردن ترا دستور نیست بنده خاکی به جرم بی حساب الطاف خدا مغفور نیست مثل پروانه فداکشتند بر شمع جمال عاشقان روی خود را شعله سامانی ہنوز خوشہ چین علم تو شد یک جہانِ عارفان طالبان فیض را خرمن بدامانی ہنوز فرصت بادا که ما را در دالفت داده ای غم نمی دارم ز درد خود که درمانی هنوز از خدا خاکی طلب کن کثرتِ انصاردین نصرت او در طلب گر در پریشانی ہنوز حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کینیڈا میں اس سال حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۷ اکتوبر کو کینیڈا تشریف لے گئے اور اکتوبر کے آخر تک وہاں قیام پذیر ہے.ان دنوں کینیڈا کی صد سالہ وفاقی نمائش ہورہی تھی.آپ نے نمائش دیکھنے پر تو زیادہ وقت صرف نہیں فرمایا بلکہ بیشتر وقت اعلائے کلمتہ اللہ میں گزارا.اس کے نتیجے میں اس ملک میں اسلام کے حق میں ایک نئی رو پیدا ہوگئی.ابتداء آپ نے ملک کے سب سے بڑے شہر مانٹریال کی مختلف شخصیات کو اپنے علم سے مستفیض فرمایا.بعد ازاں آپ ٹورانٹو تشریف لے گئے جہاں ٹورانٹو یونیورسٹی میں ایک بین الاقوامی تلقین و تدریس کا پروگرام تھا.جو ۱۷ اکتوبر سے۲۲ اکتوبر تک

Page 263

تاریخ احمدیت.جلد 24 245 سال 1967ء جاری رہا اور اس میں بہت سے بین الاقوامی شہرت کے حامل مقررین شامل ہوئے.آپ کا قیام ٹورانٹو یونیورسٹی کے زیر انتظام تھا.ٹورانٹو میں پاکستان سٹوڈنٹس یونین، مسلم سٹوڈنٹس یونین اور انٹر نیشنل سٹوڈنٹس سنٹر کی تین مختلف تنظیمات تھیں.چوہدری صاحب کی آمد کی اطلاع پر انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ کے لیکچروں کا انتظام کیا جائے.ہر چند کہ آپ TEACH-IN کے پروگرام میں بہت مصروف تھے پھر بھی آپ نے وقت نکالا اور ایک لیکچر پاکستان سٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام اقوام متحدہ اور پاکستان“ کے عنوان پر دیا.حاضری بہت تھی.تقریر کے بعد بہت سے سوالات کئے گئے.جن کے آپ نے تسلی بخش جوابات دیئے.دوسری تقریر ۱۹ اکتوبر کو امن عالم دوراہے پر“ کے عنوان کے ماتحت کی.جس کا مسلم سٹوڈنٹس یونین اور جماعت احمد یہ ٹورانٹو نے مل کر انتظام کیا.حاضری پہلے سے بھی زیادہ تھی.سوا گھنٹہ کی تقریر کے بعد بہت سے سوالات کئے گئے.آپ نے قرآن کریم کی سورہ معارج میں جو آخری زمانہ میں ایٹم اور ہائیڈ روجن بم اور کو بالٹ کی تباہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اسے وضاحت سے بیان کیا اور قرآن کریم کی آخری تین سورتوں میں ان ایجادات کے فوائد کی طرف جو توجہ دلائی گئی ہے اور تباہی سے بچنے کی جود عا سکھائی گئی ہے، اسے بیان کیا.اور اس طرح وہ انذار جوسید نا حضرت خلیفۃ اسح الثالث نے براعظم یورپ کا کیا، اس کو یہاں بھی آپ نے دہرایا.حضرت چوہدری صاحب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا وہ پیغام بعنوان امن کا پیغام اور ایک حرف اختباہ جو انگلینڈ سے چھپا، ساتھ ہی لے کر گئے تھے، جو تقسیم کیا گیا.محترم چوہدری صاحب نے ہر تقریر میں یہ واضح کیا کہ وہ مسلمان ہیں اس لئے تمام سچائیوں کا منبع ان کے لئے قرآن کریم ہے اسی لئے وہ اپنی ہر بات قرآن کریم سے پیش کریں گے.اس طرح آپ نے قرآن کریم کثرت سے پیش کیا.حضرت چوہدری صاحب TEACH-IN کے سارے پروگرام میں شامل ہوتے رہے.اور آپ کی موجودگی سے اسلامی نقطہ نگاہ کی حفاظت ہوتی رہی.جہاں کہیں کسی امر کا اسلام کی طرف سے جواب ضروری ہوتا.آپ اس امر کی وضاحت فرماتے رہے.بعض مقررین پر تو آپ کی موجودگی کا بہت ہی اچھا اثر پڑتا رہا.اور کوئی بھی مقرر اسلام کے خلاف کوئی بات نہ کہہ سکا.آپ کے جوابات فکر انگیز اور خیال پرور ہوتے تھے.ان تقاریر کے علاوہ آپ نے ملاقات کے مواقع بھی دئے.اور ان مواقع پر بھی آپ کا وقت تبلیغ حق

Page 264

تاریخ احمدیت.جلد 24 246 سال 1967ء اور نصائح میں صرف ہوتا رہا.یہاں کے سب سے زیادہ شائع ہونے والے روزنامہ TORONTO STAR کے مذاہب کے کالم نویس کو بھی آپ نے ملاقات کا موقع دیا.جو ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی.یہ شخص بڑا ذہین اور دیگر ادیان سے بھی خاصی واقفیت رکھتا تھا.اسے اسلام کا لٹریچر پہلے بھی دیا جا چکا تھا.اس ملاقات کے بعد اس نے ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو ایک شذرہ سپر قلم کیا.دورانِ قیام آپ کی ایک گفتگوئی وی سے متعلق ایک صاحب لٹر گارڈن نیلر سے ہوئی.جو ٹیلی کاسٹ بھی کی گئی.حضرت چوہدری صاحب کے اور بھی کئی انٹرویور یڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے.علاوہ ازیں آپ کی نسبت مانٹریال کے پریس نے بھی نوٹ لکھے.189 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی دوسری کل پاکستان اردو کا نفرنس مرکز احمدیت ربوہ نہایت تیزی کے ساتھ زبانِ اردو کی اشاعت کا بھی مرکز بن رہا تھا اور پاکستان بھر کے دانشور، ادباء اور شعراء کی نگاہیں خاص طور پر اس سرزمین کی طرف لگی ہوئیں تھیں اور افق پر اردو کا مستقبل نہایت روشن اور درخشاں نظر آنے لگا.جس کا ایک واضح اور عملی ثبوت تعلیم الاسلام کالج کی دوسری کل پاکستان اردو کا نفرنس نے مہیا کیا.جو ۱۵،۱۴ راکتو بر ۱۹۶۷ء کو نہایت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوئی.جس میں ملک کے طول وعرض سے یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ، نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت فرمائی.اس کانفرنس کے لئے جناب جسٹس اے آر کار نیلٹس چیف جسٹس آف پاکستان، جناب اختر حسین صاحب صدر انجمن ترقی اردو پاکستان، جناب ممتاز حسین صاحب سابق مینجنگ ڈائر یکٹر نیشنل بنک آف پاکستان، جناب پروفیسر حمید اللہ خان صاحب وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے اپنے خصوصی پیغامات ارسال فرمائے.جو جناب پرویز پروازی صاحب معتمد مجلس استقبالیہ نے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنائے.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کینٹ پر نسل تعلیم الاسلام کالج نے اپنے خطبہ استقبالیہ میں اس امر کو واضح کیا کہ تعلیم الاسلام کالج میں اردو کا نفرنس اس لئے منعقد کی جارہی ہے کہ ہمیں اردو کے ساتھ بڑی محبت ہے اور ہم اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے اور اعلیٰ تعلیم کے ماحول کو اردو کا رنگ دینے کے لئے سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں اور یقین دلایا کہ ملک میں اردو کے فروغ کے لئے جو

Page 265

تاریخ احمدیت.جلد 24 247 سال 1967ء کوششیں بھی بروئے کار لائی جائیں گی ہم ان میں پیش پیش ہوں گے.جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین صاحب قریشی وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی نے کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے اس امر پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہم لوگ احساس کمتری کے ماتحت اردو کے ساتھ بیگانگی کا سلوک کر رہے ہیں.اور اسی بیگانگی نے ہماری تعلیم کو بے منہاج ، بے مقصد، بے اثر اور بے نتیجہ بنا دیا ہے.آپ نے اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تک اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا جب تک اعلیٰ سے اعلیٰ معیار تک قومی زبان کے ذریعہ تعلیم نہ ہوگی.اس وقت تک ہمارا شمار علمی حیثیت سے کبھی صفحہ اول کی اقوام میں نہیں ہو سکے گا.ڈاکٹر صاحب موصوف نے خبر دار کیا کہ اگر ہم نے اپنی قومی زبان کے سلسلہ میں اپنے احساس کمتری کو فوری طور پر دور نہ کیا تو یہ احساس کمتری ہمارے عقائد کو برباد کر دے گا.ہمارے دین سے ہمارا علاقہ تو ڑ دے گا اور ہمیں اسلام کی نعمت سے محروم کر دے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں.اور اپنی چیزوں سے محبت کرنا سیکھیں.اس کا نفرنس کے ۹ / اجلاس ہوئے.مغربی پاکستان کی تین یونیورسٹیوں اور متعد د تعلیمی اداروں اور ادبی تنظیموں کے ۸۴ خصوصی مندوبین نے شرکت کی.کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کے علاوہ زرعی یونیورسٹی لائکپور کے وائس چانسلر جناب ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی صاحب بھی کا نفرنس میں شریک ہوئے اور آپ نے سائنسی تدریس کے مذاکرہ کی صدارت فرمائی.یو نیورسٹی مندوبین میں میجر آفتاب حسن صاحب ( کراچی یونیورسٹی ) ، پروفیسر سید وقار عظیم، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر محمد عبد العظیم ( پنجاب یونیورسٹی ) جیسے نامور اہلِ علم شامل تھے.گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورنمنٹ کالج لائکپور، گورنمنٹ کالج جھنگ، گورنمنٹ کالج راولپنڈی اور یو نیورسٹی اور پینٹل کالج لاہور نے اپنے خصوصی مندوبین شرکت کے لئے بھجوائے.ان تعلیمی اداروں کے علاوہ انجمن ترقی اردولائکپور، بزم ترقی ادب ملتان اور بزم فکر ونظر گجرات کے مندوب بھی شریک ہوئے.اس کانفرنس کی افادیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جناب ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کا نفرنس کے ایام میں ربوہ میں ہی قیام فرمار ہے.اور اکثر اجلاسوں میں شرکت فرماتے رہے.اس دوروزہ کانفرنس میں زبان، ادب، صحافت اور تدریس کے پچاس موضوعات پر نہایت اعلیٰ پایہ کے ۴۳ مقالے پڑھے گئے اور باقی سات مقالے اشاعت کے لئے پیش کئے گئے.کانفرنس میں

Page 266

تاریخ احمدیت.جلد 24 248 سال 1967ء دو مذاکرے بھی ہوئے.ان میں سے ایک مذاکرہ اردو میں سائنسی تدریس کی مشکلات اور ان کے حل کے موضوع پر منعقد ہوا.جس کی صدارت جناب ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی صاحب وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائکپور (فیصل آباد) نے فرمائی.دوسرے مذاکرہ کا موضوع ” جدید اردو شاعری کے رجحانات‘ تھا.اس میں صدارت کے فرائض سید وقار عظیم صاحب صدر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی نے ادا کئے.کانفرنس کا ایک اجلاس محسنین اردو کے تذکرہ کے لئے وقف تھا.اس میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، علامہ نیا رفتچوری اور مولا نا صلاح الدین احمد کی خدمات اور کارناموں پر ٹھوس اور فکر انگیز مقالے پڑھے گئے.ان اجلاسوں کے علاوہ ملک کے نامور شاعر جناب سید عابد علی عابد کی صدارت میں ایک محفل شعر و سخن کا انعقاد بھی عمل میں آیا.جس میں مقامی شعراء کے علاوہ لاہور ، فیصل آباد، ملتان، سرگودھا اور راولپنڈی کے نامور شعراء نے شرکت کر کے اپنا کلام پیش کیا.دارالضیافت صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے ۱۴ اکتوبر کی شام کو کانفرنس کے مندوبین کے اعزاز میں ایک عشائیہ ترتیب دیا گیا.جس میں سیدنا حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفة المسیح الثالث نے بھی شرکت فرمائی اور دیر تک بعض چیدہ مندوبین سے مصروف گفتگو ر ہے.۱۵ اکتوبر کی شام کو مشہور نقاد اور ادیب جناب ڈاکٹر وزیر آغا نے مندوبین کو اپنے گاؤں وزیرکوٹ میں مدعو کر کے وہاں اُن کے اعزاز میں پر تکلف عشائیہ کا اہتمام کیا.یہ اردو کا نفرنس ہر اعتبار سے کامیاب رہی.کانفرنس کے متعلق راولپنڈی کے با اثر اردو اور انگریزی پریس نے حسب ذیل خبریں شائع کیں:.ا.روز نامہ جنگ راولپنڈی نے لکھا:.دوسری آل پاکستان اردو کا نفرنس ۱۴ را کتوبر کور بوہ میں شروع ہوگی.راولپنڈی ۱۰ اکتوبر (اسٹاف رپورٹر) تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی دوسری آل پاکستان اردو کانفرنس ۱۴ اور ۱۵ اکتوبر کور بوہ میں منعقد ہورہی ہے.اس کانفرنس کے مندوبین اردوزبان ،ادب اور صحافت کے مسائل پر مقالے پڑھیں گے.کانفرنس کے لئے پنجاب یونیورسٹی نے پروفیسر سید وقار عظیم، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالعظیم کو اپنا خصوصی مندوب نامزد کیا ہے.سندھ یو نیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اور کراچی یونیورسٹی کی طرف سے میجر آفتاب حسن اور ڈاکٹر فرمان فتح

Page 267

تاریخ احمدیت.جلد 24 249 سال 1967ء پوری کے علاوہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید اشتیاق حسین قریشی بھی شریک ہونگے.ڈاکٹر سید عبداللہ ،سید عابد علی عابد، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ، آغا محمد باقر ، ڈاکٹر وحید قریشی بھی مختلف موضوعات پر مقالے پڑھیں گے.پاکستان ویسٹرن ریلوے نے اس کا نفرنس میں شرکت کرنے والوں کے لئے کرایہ کی خصوصی رعایت کا اعلان کیا ہے.۲.روزنامہ نوائے وقت نے تحریر کیا :.ربوہ میں آل پاکستان اردو کا نفرنس، ریلوے کی طرف سے کرائے میں رعایت کا اعلان راولپنڈی (سٹاف رپورٹر ) یہاں معلوم ہوا ہے کہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی دوسری کل پاکستان اردو کا نفرنس ۱۱۴ اور ۱۵ اکتوبر کو ربوہ میں منعقد ہورہی ہے اس کانفرنس میں ملک بھر کے ممتاز دانشور شریک ہوکر اردوزبان ، ادب اور صحافت کے مسائل پر مقالے پڑھیں گے اس کانفرنس کے لئے پنجاب یونیورسٹی نے پروفیسر سید وقار عظیم، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالعظیم کو اپنا خصوصی مندوب نامزد کیا ہے.سندھ یو نیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اور کراچی یونیورسٹی کے طرف سے میجر آفتاب حسن اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے علاوہ کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سید اشتیاق حسین قریشی بھی شریک ہونگے.ڈاکٹر سید عبداللہ ، سید عابد علی عابد، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید ، آغا محمد باقر ، ڈاکٹر وحید قریشی اور دیگر نامور ادباء مختلف موضوعات پر مقالے پڑھیں گے.پاکستان ویسٹرن ریلوے نے اس کا نفرنس میں شرکت کرنے والوں کے لئے کرایہ کی خصوصی رعایت کا اعلان کیا ہے.۳.روز نامہ پاکستان ٹائمنر لکھتا ہے:.URDU CONFERENCE AT RABWAH The second All-Pakistan Urdu Conference, under the auspices of Taleem-ul-Islam College, Rabwah, will be held on Oct14 and 15, says a Press release of the Jama't-e-Ahmadiyya, ۴.روزنامہ تعمیر راولپنڈی رقمطراز ہے:.Rawalpindi-PPA دوسری کل پاکستان اردو کانفرنس راولپنڈی ۱۰ راکتوبر (اپ پ) جماعت احمد یہ راولپنڈی کے ایک اخباری بیان کے مطابق

Page 268

تاریخ احمدیت.جلد 24 250 سال 1967ء دوسری کل پاکستان اردو کا نفرنس تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے زیر اہتمام۱۳/اور۱۴/اکتوبرکومنعقد ہورہی ہے.ملک کے ممتاز مصنفین اور اساتذہ کی شرکت متوقع ہے.۵ روز نامہ کو ہستان راولپنڈی نے لکھا:.194 دوسری آل پاکستان اردو کانفرنس راولپنڈی (اسٹاف رپورٹر ) دوسری کل پاکستان اردو کانفرنس ۱۴ اور ۱۵ ۱۷اکتوبر کومنعقد ہورہی ہے اس میں ملک بھر کے چنیدہ دانشور شریک ہو کر اردو پروگرام، ادب اور صحافت کے مسائل پر مقالے پڑھیں گے.اس کا نفرنس کے لئے پنجاب یونیورسٹی نے پروفیسر سید وقار عظیم ، ڈاکٹر سید نذیر احمد اور ڈاکٹر عبدالعظیم کو اپنا خصوصی مندوب نامزد کیا ہے.سندھ یونیورسٹی کی طرف سے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان اور کراچی یونیورسٹی کی طرف سے میجر آفتاب حسن اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے علاوہ کراچی یو نیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بھی شریک ہوں گے.ان کے علاوہ ڈاکٹر سید عبداللہ سید عابد علی عابد، ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، آغا محمد باقر ، ڈاکٹر وحید قریشی اور دیگر ناموراد باء بھی مختلف موضوعات پر مقالے پڑھیں گے.یہ کانفرنس تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں منعقد ہورہی ہے.تیسرا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام مورخہ ۶ اکتوبر ۱۹۶۷ء کور بوہ میں تیسرا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ شروع ہوا.صوبائی وزیر بلدیات محترم میاں محمد یسین صاحب وٹو نے بطور صدر آل پاکستان کبڈی فیڈریشن ٹورنامنٹ کا افتتاح کیا.اس ٹورنامنٹ میں ربوہ کی مقامی ٹیموں کے علاوہ جن ٹیموں نے شمولیت اختیار کی ان میں پاکستان ویسٹرن ریلوے (گرین)، پاکستان ویسٹرن ریلوے (ریڈ ) ، واپڈا لا نکپور (فیصل آباد)، واپڈالا ہور، نیز سرگودھا اور گوجرانوالہ کی یمیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یہ ٹورنامنٹ تین روز جاری رہا.مقابلوں میں ریلوے کی ٹیم چیمپئن قرار پائی.واپڈا کی ٹیم رنر اپ رہی.ربوہ جی نے تیسری پوزیشن حاصل کی.196 حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا ٹورنامنٹ سے خطاب ۱۸ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثالٹ نے اس تیسرے آل پاکستان طاہر کبڈی

Page 269

تاریخ احمدیت.جلد 24 251 سال 1967ء ٹورنامنٹ کے اختتام پر کامیاب ٹیموں اور کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم فرمائے اور ایک مختصر مگر پر معارف خطاب فرمایا.جس کے دوران حضور نے یہ نصیحت فرمائی:.کبڈی، کرکٹ یا دوسری کھیلیں ہماری زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ہماری زندگی کا مقصد ان ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے جو قرآن کریم نے دی ہیں.مثلاً اس نے کہا ہے کہ تم ایک دوسرے سے خیر خواہی کرو.کسی کو دُکھ نہ دو.ہر ایک سے محبت اور پیار کا سلوک کرو.ان کے علاوہ اور سینکڑوں ہدایات ہیں جو قرآن کریم نے دی ہیں اور فرمایا ہے کہ تم ان پر عمل کرو.قرآن کریم نے ان ہدایات کے ذریعہ ایک نہایت ہی اچھا معاشرہ پیدا کیا ہے.اس معاشرہ کو دیکھ کر ہم یہ اعلان کرنے کے قابل ہیں اور اعلان کرتے صلى الله ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود ساری دنیا کے لئے محسن اعظم کی حیثیت رکھتا ہے.گذشتہ دنوں مجھے یورپ کا سفر کرنے کا موقع ملا ہے.اس سفر کے دوران میں نے وہاں کے رہنے والوں کو خوب جھنجھوڑ کر یہ صداقت بتائی کہ تم اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو.اور محمد رسول اللہ ﷺ ( جو آپ سب کے محسن اعظم ہیں ) کے مقام کو سمجھنے کی کوشش کرو.اس کے بغیر تمہیں نجات نہیں ملے گی.تم اس تباہی سے نہیں بچ سکو گے جو جلد ہی تمہیں اپنی لپیٹ میں لینے والی ہے.غرض قرآن کریم نے جو معاشرہ پیدا کیا ہے اُسی کے مطابق زندگی بسر کرنے کے نتیجہ میں دنیا آئندہ تباہی سے بچ سکتی ہے.اس وقت جو نئے نئے ہتھیار مثلاً ایٹم بم، ہائیڈ روجن بم ایجاد ہورہے ہیں.یہ تباہی سے بچانہیں سکتے بلکہ ان کے غلط استعمال اور خدا تعالیٰ کی دیگر نعمتوں کے غلط استعمال کے نتیجہ میں دنیا تباہی کی لپیٹ میں آئے گی اور اس تباہی سے تم بچ نہیں سکتے جب تک تم رسول کریم ﷺ اور قرآن کریم کی ہدایات پر عمل نہ کرو.166 خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر بصیرت افروز خطابات اس سال مجلس خدام الاحمدیہ کا چوبیسواں سالانہ اجتماع ۲۱،۲۰ اور ۲۲/اکتوبر کو منعقد ہوا.جس کے آغاز اور اختتام پر امام عالی مقام سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے بصیرت افروز تقاریر فرمائیں

Page 270

تاریخ احمدیت.جلد 24 252 سال 1967ء جس میں خدام کو نہایت مؤثر انداز میں یہ نصیحت فرمائی کہ ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت پر ہونی چاہئیے.نیز ضروری ہے کہ غلبہ دین کے زمانہ کو قریب تر لانے کے لئے ہم انتہائی قربانی کریں اور ہماری زندگیاں اسلام کے عملی نمونہ کی مظہر ہوں.چنانچہ افتتاح کے موقع پر حضور نے خدام سے خطاب میں فرمایا کہ کچھ عرصہ قبل میں نے یورپ کا دورہ اس غرض سے کیا تھا تا کہ مغربی اقوام کو جو اپنے رب کو بھلا چکی ہیں یہ بتا سکوں کہ اپنے رب کی طرف جھکو اور اس کی خشیت اپنے اندر پیدا کرو.الہی بشارتوں اور الہی اذن سے یہ سفر اختیار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ ان اقوام کی توجہ میرے پیغام کو سننے اور سمجھنے کی طرف پھیر دی.چنانچہ کروڑوں انسانوں نے اخبارات کے ذریعہ اور کروڑوں نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعہ اس پیغام کو سنا اور اسے سمجھنے کی کوشش کی.جس کثرت سے اس کی اشاعت ہوئی اس کا ہمیں وہم و گمان بھی نہ تھا.حضور نے فرمایا اس وقت میں جس امر کی طرف اپنے عزیزوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب ہم دنیا کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ اپنے رب کی طرف توجہ کرو تو خود ہمارے لئے کتنا ضروری ہو جاتا ہے کہ پہلے ہم اپنے نفسوں کو دیکھیں اور ٹولیں کہ کیا ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خشیت اس حد تک ہے جس حد تک ہونی چاہئیے.حضور نے خشیت الہی کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا اگر کوئی شخص کہے کہ میں سوائے خدا کے اور کسی سے نہیں ڈرتا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تمام قسم کی پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد ہو گیا ہے.نہ والدین کی اطاعت فرض رہی ہے اور نہ بھائیوں کا احترام بلکہ اس کا صحیح مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ہزاروں بندشوں میں جکڑ لیا ہے.اور وہ ان تمام باتوں پر عمل کرتا ہے جنہیں اختیار کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے.آخر میں حضور نے فرمایا پس اے میرے پیارے عزیز و اور بچواللہ تعالیٰ کی خشیت صحیح معنوں میں اپنے اندر پیدا کرو تا کہ عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا آپ کے لئے آسان ہو جائے اور پھر اللہ تعالیٰ آپ پر اپنے اتنے فضل نازل فرمائے کہ آپ کی نسلیں بھی انہیں نہ گن سکیں.مورخه ۲۲ اکتوبر کو حضور انور نے اپنے اختتامی خطاب میں اولاً اس امر پر خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ امسال اجتماع میں شامل ہونے والی مجالس کی تعداد میں گذشتہ سال کی نسبت نمایاں اضافہ ہوا ہے.لیکن حضور نے فرمایا میرے نزدیک یہ اضافہ تسلی بخش نہیں ہے.میرے نزدیک اس اجتماع میں ملک کی ہر مجلس کا کم از کم ایک نمائندہ ضرور موجود ہونا چاہئیے.حضور نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ

Page 271

تاریخ احمدیت.جلد 24 253 سال 1967ء علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جس غلبہ کی پیشگوئی فرمائی تھی یہ کام گو بہت اہم اور بہت ہی مشکل ہے لیکن بہر حال ہو کر رہے گا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.مگر اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انتہائی قربانیاں بھی پیش کریں.جب ہم انتہائی قربانیاں پیش کریں گے تو پھر ہی اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام کا وہ دن لائے گا جس کے لئے مسلمان صدیوں سے تڑپتے چلے آتے ہیں.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک ایمان افروز تحریر پڑھنے کے بعد بتایا کہ اس میں حضور نے تین اہم امور پیش کئے ہیں.جنہیں ہر وقت ہمیں پیش نظر رکھنا چاہئیے :.۱.غلبہ اسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر پورا اور کامل یقین ہو.۲.اس یقین کے ساتھ ہی یہ جذ بہ بھی ہو کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں انتہائی قربانی دینی ہے.کیونکہ انتہائی قربانی کے بغیر کامیابی ممکن نہیں.۳.ہم میں سے جو ستی دکھائیں گے ان پر غداری کا داغ لگ جائے گا.اور انہیں عزت کا وہ مقام کبھی حاصل نہ ہو سکے گا.جوایسے لوگوں کے لئے مقدر ہے جو شروع سے آخر تک ثبات قدم کا نمونہ دکھا ئیں گے.حضور نے اپنے سفر یورپ کے بابرکت اور نہایت خوشکن نتائج کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح یورپ کی عیسائی دنیا کے خیالات و افکار میں اسلام کے حق میں ایک حیرت انگیز رو پیدا ہوگئی ہے.لیکن اس رو سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ جس طرح دلائل کے میدان میں ہم نے قرآن مجید کے ذریعہ انہیں ساکت کر دیا ہے.اسی طرح اب عملی نمونہ کے میدان میں بھی انہیں شکست دیں.حضور نے فرمایا میں بڑے درد کے ساتھ یہ امر آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ اس وقت جو امر اسلام کی ترقی کی راہ میں اہل یورپ کے راستہ میں حائل ہے وہ اسلام کے عملی نمونہ کا فقدان ہے.اور یہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس روک کو دور کرے.آخر میں حضور نے فرمایا.اگر ہمارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت ہے اگر ہم اسلام سے واقعی پیار کرتے ہیں اگر ہم اپنے محسن اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعی حقیقی عقیدت رکھتے ہیں اور اگر ہمارا یہ دعویٰ صحیح ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جماعت کے ذریعہ ہی اسلام کا غلبہ مقدر ہے.تو پھر ہم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالے اور اسلام کا عملی نمونہ پیش کرے تاکہ جلد سے جلد اسلام دنیا پر غالب آجائے.اس کے بعد حضور نے لمبی پر سوز دعا کرائی.198-

Page 272

تاریخ احمدیت.جلد 24 254 سال 1967ء مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع مورخه ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء صبح پونے گیارہ بجے ایوان محمود میں مجلس اطفال الاحمدیہ کے چوبیسویں سالانہ اجتماع کا افتتاح محترم صاحبزادہ (حضرت ) مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے فرمایا.کل ۳۳ مجالس کے ۷۹۰ اطفال نے شرکت کی.تلاوت نظم کے بعد مہتمم صاحب اطفال نے بیرونی مجالس سے آنے والے اطفال کو خوش آمدید کہا.اس کے بعد صدر مجلس نے اطفال سے تقریبا نصف گھنٹہ تک خطاب فرمایا اور اطفال کو نماز با جماعت پڑھنے کی تلقین فرمائی.صدر محترم نے اپنے بچپن کے بعض واقعات سنا کر اطفال کو تلقین فرمائی کہ بچپن کی عادات انسان کی ساری زندگی میں اس کا ساتھ دیتی ہیں.خطاب کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب نے عہد دہر وایا اور اجتماعی دعا 199 کروائی.100 اختتامی خطاب حضرت خلیفة المسیح الثالث حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مورخہ ۲۲ اکتو بر ۱۹۶۷ء کو اطفال الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی اختتامی تقریب میں اطفال سے خطاب فرمایا.حضور نے فرمایا کہ آپ جو اس وقت چھوٹی عمر میں میرے سامنے بیٹھے ہیں جس وقت آپ بڑے ہوں گے اور آپ کی عمریں ۴۰،۳۵،۳۰،۲۵ سال کی ہوں گی اس وقت دنیا کی اکثریت اللہ تعالی کو پہچان چکی ہوگی اور وہ آپ سے مطالبہ کرے گی کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ.اگر آج اس عمر میں آپ نے اسلام نہ سیکھا تو جس وقت دنیا آپ کو کہے گی کہ آؤ اور ہمیں اسلام سکھاؤ تو آپ انہیں کیسے اسلام سکھائیں گے.اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ دنیا کمانا برا ہے یا دنیا کمانے کی جو راہیں ہیں انہیں آپ اختیار نہ کریں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ تم کوئی اور پیشہ اختیار کرنے کے باوجود علم قرآن اتنا تو سیکھو کہ جب تمہیں دنیا استاد بنانا چاہے تو تم استاد بننے کے قابل ہو.پھر حضور نے فرمایا کہ ہمارے اندر اللہ تعالی کی محبت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ، قرآن کریم کی محبت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت پیدا ہونی چاہئیے.فرمایا اگر تمہارے دل میں یہ جبیں بیدار اور زندہ رہیں تو پھر ہمیں کوئی خوف نہیں پھر ہم سمجھیں گے کہ ہم تمہاری تربیت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.200

Page 273

تاریخ احمدیت.جلد 24 255 سال 1967ء لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا دسواں سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع احاطہ دفتر لجنہ اماءاللہ میں مورخہ ۲۰ تا۲۲ را کتوبر ۱۹۶۷ء منعقد ہوا.آغاز ناصرات الاحمدیہ کی کھیلوں سے ہوا.جس کے بعد حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے ناصرات الاحمدیہ سے خطاب فرمایا.اس کے بعد محترمہ بشری بشیر صاحبہ جنرل سیکرٹری نے مختلف بیرونی لجنات کے پیغامات پڑھ کر سنائے.مورخہ ۲۱ اکتوبر کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے لجنات کو اپنے بصیرت افروز خطاب سے نوازا.حضور نے خطاب کرتے ہوئے خوف خدا اور خشیت الہی کی نہایت اعلی تشریح کی اور فرمایا کہ ان صفات کو اپنائے بغیر کوئی مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان نہیں کہلا سکتا.اس لئے ہر مومنہ کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر اللہ تعالی کا خوف اور اس کی خشیت پیدا کرے.حضور کا خطاب ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہا.اجتماع سے حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ محترمہ آمنہ طیبہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزاده مرزا مبارک احمد صاحب، حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے بھی خطاب فرمایا.۱۹۶۶ء میں ربوہ کے علاوہ کل بہتر دیہاتی و شہری لجنات کی ۱۳۸۸ ممبرات اجتماع میں شامل ہوئی تھیں.۱۹۶۷ء میں اللہ تعالی نے ۸۵ لجنات کی ۵۸۸ نمائندگان کو شرکت کی توفیق عطا فرمائی.ربوہ کے مکینوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے.اس موقع پر لجنہ کی مجلس شوریٰ بھی منعقد ہوئی.اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ سے حضور انور کے بصیرت افروز خطابات 201 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے چند روز بعد ۲۹،۲۸،۲۷/اکتوبر ۱۹۶۷ء کو مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا بارہواں سالانہ اجتماع انابت الی اللہ کے روح پرور ماحول اور دعاؤں اور ذکر الہی کی مخصوص روایات کے ساتھ منعقد ہوا.جس کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے دوبارا اپنے بصیرت افروز خطاب سے نوازا.حضور نے انصار اللہ کو ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہیں اس فرض کی طرف خصوصی توجہ دلائی کہ انصار اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کو دیکھتے ہوئے اپنی قربانیوں کے معیار کو بڑھاتے چلے جائیں نیز فرمایا کہ حضرت مصلح موعود نے انصار اللہ کی تنظیم اس لئے قائم فرمائی

Page 274

تاریخ احمدیت.جلد 24 256 سال 1967ء تھی تا کہ یہ جماعت کو بیدار رکھ سکے.اس غرض کو سو فیصدی پورا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ تمام مجالس انصار اللہ کے نمائندے اپنے سالانہ اجتماع میں شامل ہوا کریں اور احباب کثرت کے ساتھ بار بار اپنے مرکز میں آئیں.اور مرکز سے اور خلافت سے پختہ تعلق قائم رکھیں.اس ضمن میں حضور نے اس غلط فہمی کا پوری قوت و شوکت کے ساتھ ازالہ کیا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل جماعت پر شاید کسی خاص وجود کی وجہ سے نازل ہورہے ہیں.حضور نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان فرمایا کہ یہ بالکل غلط خیال ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور فضل ساری جماعت پر جو کہ اللہ تعالیٰ کی برگزیدہ جماعت ہے، نازل ہورہے ہیں.میرا اور جماعت کا وجود ایک ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کے دل میں جماعت کے لئے اتنی محبت پیدا کر دیتا ہے کہ دنیا اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتی.دوسری طرف وہ جماعت کے دل میں بھی خلیفہ وقت کے لئے شدید محبت پیدا کر دیتا ہے.جب دو محبتوں کی یہ آگ مل کر اکٹھی ہوتی ہے تو ایک وجود بن جاتا ہے اور یہی وجود ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کا مورد ہے.ساری بزرگی اس جماعت کو حاصل ہے جس کے افراد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے درخت وجود کی سرسبز شاخیں قرار دیا ہے.حضور نے فرمایا نادان ہیں وہ لوگ جو اپنی قبولیت دعا یا اپنی خوابوں کو ظاہر کر کے بزرگ بننا چاہتے ہیں.اور اپنے آپ کو جماعت پر مقدم سمجھتے ہیں اور جماعت کی محبت اپنے لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں یہ نادانی اور ہلاکت کی راہ ہے.202 تاریخ احمدیت کے پچھتر سالوں پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی طائرانہ نگاہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ۳ نومبر ۱۹۶۷ء کے خطبہ جمعہ میں تاریخ احمدیت کی پون صدی پر نہایت بصیرت افروز رنگ میں طائرانہ نگاہ ڈالی اور تبصرہ کیا.چنانچہ فرمایا:.” جب اس زمانہ میں نشاۃ ثانیہ کی ابتدا میں مخلصین کی ایک جماعت پیدا ہوئی.اور انہوں نے اپنے وقتوں اور زندگیوں اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے ایک وعدہ کیا.اور وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ( جماعت کے متعلق ) کہ میں ان کے نفوس اور ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.آؤ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ کس رنگ اور کس شان کے ساتھ پورا ہوا.میں اس وقت جماعت احمدیہ کی تاریخ کے پچھتر سالوں پر طائرانہ نگاہ

Page 275

تاریخ احمدیت.جلد 24 257 سال 1967ء ڈالوں گا.یہ ۱۹۶۷ ء ہے.اس میں سے پچھتر ہم نکال دیں تو ۱۸۹۲ء کا سال بنتا ہے اور جب ہم ۱۸۹۲ء اور ۱۹۶۷ء کے درمیان پچھتر سالہ عرصہ پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں اور مجموعی ترقی نفوس میں اور اموال میں مشاہدہ کرتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو قدرت کاملہ کا مالک ہے.اپنے بندوں پر کس طرح فضل کرتا ہے.۱۸۹۲ء میں نفوس کے لحاظ سے (۱۸۹۲ء کے صحیح اعداد و شمار تو غالباً ہمارے ریکارڈ میں نہیں.کیونکہ ہماری سینسز (مردم شماری) کبھی نہیں ہوئی.لیکن ایک عام اندازہ کیا جا سکتا ہے.جلسہ سالانہ (۱۸۹۲ء میں حاضری جلسہ ۳۲۷ تھی ) کی حاضری دیکھ کر وغیرہ وغیرہ) کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ یا اگر بہت ہی گھلا اندازہ کیا جائے تو ایک ہزار سے تین ہزار کے درمیان تھی.عام اندازے کے مطابق ۱۹۶۷ء کی یہ تعداد اس چھوٹی سی تعداد سے بڑھ کر کم و بیش تھیں لاکھ کے قریب ہوگئی ہے.میرے اندازے کے مطابق تمہیں لاکھ سے کچھ اوپر ہے.اس زیادتی میں دو چیزیں اثر انداز ہوئیں.ایک پیدائش دوسرا تبلیغ.ہر دورا ہوں سے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے نفوس میں برکت ڈالی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا تو یہ فرمائی تھی کہ اک سے ہزار ہوویں.لیکن جب اس تعداد کا جو ۱۹۶۷ء کی ہے۱۸۹۲ء کی تعداد سے ہم مقابلہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے نتیجہ میں عملاً یہ کیا کہ تم اک سے ہزار مانگتے ہو، میں اک سے تین ہزار کرتا ہوں.چنانچہ جب ہم ان دو اعداد و شمار کا آپس میں مقابلہ کرتے ہیں، گو (اگر اس وقت ایک ہزار احمدی سمجھے جائیں ) ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو تین ہزار کر دیا ہے اک کو ہزار نہیں.اک کو تین ہزار بنادیا ہے کیونکہ تین ہزار کو ہزار کے ساتھ ضرب دیں تب یہ موجودہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے.اور اگر۱۸۹۲ء میں جماعت کی تعداد تین ہزار بھی جائے جو میرے نزدیک بہت زیادہ اندازہ ہے تو پھر بھی اس سے اک سے ہزار ہو دیں والی دعا اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی اور پچھتر سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کے نفوس کو ایک ہزار گنا زیادہ کر دیا ہے.یہ معمولی زیادتی نہیں حیرت انگیز زیادتی ہے.اللہ تعالیٰ کی قدرت

Page 276

تاریخ احمدیت.جلد 24 258 سال 1967ء کا جہاں اظہار ہوتا ہے.وہاں عقل کی رسائی نہیں.اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت اپنے بندوں پر جلوہ گر ہوتی ہے.اور تمام اندازوں کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے.اگر یہ امید رکھیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ مستقبل میں بھی اس جماعت کو اسی رنگ میں اور اسی حد تک قربانیاں دینے کی توفیق دے گا جس طرح گذشتہ پچھتر سال وہ دیتا رہا ہے.اور اس کے نتیجہ میں ہم پر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی اسی رنگ میں ہوتے رہیں گے.یہ تعداد اگر اسی نسبت سے بڑھتی رہے تو آج سے پچھتر سال کے بعد تین ارب اور نو ارب کے درمیان ہو جائے گی.اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم اپنی دعاؤں سے اور اپنی تدبیر سے اور اپنی قربانیوں سے اور اپنی فدائیت اور جاں شاری سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اسی طرح جذب کرتے رہیں.جس طرح گذشتہ پچھتر سال میں ہم نے جذب کیا تھا تو اگلے پچھتر سال میں اسلام دنیا پر غالب آجائے گا.اور نشاۃ ثانیہ کی جو مہم ہے وہ پوری کامیابی کے ساتھ دنیا میں ظاہر ہو جائے گی.خدا کرے کہ جماعت کو اسی طرح قربانیاں دینے کی توفیق ملتی رہے.یہ بھی کہا گیا تھا کہ میں ان کے اموال میں برکت ڈالوں گا.اب اموال کو ہم دیکھتے ہیں.۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ میں ۱۸۹۳ء کے لئے چندوں کے وعدے دئے گئے.(وہ انتظام اس وقت قائم نہیں تھا، جو آج قائم ہے ) اور وہ وعدے ساری جماعت کے سمجھے جانے چاہئیں کیونکہ تمام مخلصین جلسہ سالانہ پر جمع ہو جاتے تھے.تو ۱۸۹۳ء کے لئے ۱۸۹۲ء کے جلسہ سالانہ پر جماعت نے جو وعدے دئے ان کی رقم سات سو کچھ روپے تھی.اور آج ”پچھتر سال گذرنے کے بعد عملاً جماعت جو مالی قربانیاں خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے.اس کی رقم ایک کروڑ سے او پر نکل گئی ہے.ہم سات سو کی بجائے اگر ایک ہزار لے لیں.( کیونکہ ان وعدوں کے علاوہ وہ دوست جو بعض مجبوریوں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں.انہوں نے بعد میں وعدے کئے ہوں گے اور رقمیں بھجوائی ہوں گی.تو اگر ۱۸۹۲ء کی آمد ایک ہزار روپیہ سمجھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس کے مقابلہ میں ۱۹۶۷ء کی آمد ایک کروڑ سے اوپر نکل گئی ہے.تحریک جدید کے چندے، صدرانجمن کے چندے، وقف جدید کے چندے،

Page 277

تاریخ احمدیت.جلد 24 259 سال 1967ء وقف عارضی کا جو خرچ ہوتا ہے (اگر چہ وہ ہمارے رجسٹروں میں درج نہیں ہوتا.لیکن وہ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ ہے.جو ایک احمدی کر رہا ہے.اپنے خرچ پر باہر جاتا ہے.کرایہ خرچ کرتا ہے.وہاں اپنے گھر سے زائد اسے خرچ کرنا پڑتا ہے) ان سب کو اگر اکٹھا کیا جائے تو یہ رقم ایک کروڑ سے کہیں اوپر نکل جاتی ہے.میں ایک کروڑ کی رقم اس وقت لے لیتا ہوں تو ایک ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ تک ہماری مالی قربانیاں پہنچ گئیں.یہ بھی دس ہزار گنا رقم بن جاتی ہے.گویا ایک روپے کے مقابلہ میں دس ہزار روپے کے چندے بنتے ہیں.یعنی ۱۸۹۲ء میں اگر جماعت نے ایک روپیہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق اپنے رب سے حاصل کی.تو اسی برگزیدہ جماعت نے ۱۹۶۷ء میں دس ہزار روپیہ (اس ایک روپیہ کے مقابلہ میں ) خرچ کرنے کی اپنے رب سے توفیق پائی.یہ تو چندوں کی نسبت ہے مگر وعدہ کیا گیا ہے کہ اموال میں برکت دی جائے گی.اب جس نسبت سے جماعت کے اموال بڑھے ہیں.وہ دس ہزار گنا سے زیادہ ہے.کیونکہ ۱۸۹۲ء میں قریباً سو فیصدی مخلص تھے اور پوری قربانی دے رہے تھے خدا کی راہ میں.لیکن ۱۹۶۷ء میں تعداد چونکہ بڑھ گئی ہے.بہت سے ہم میں سے ایسے ہیں جو تربیت کے محتاج ہیں.ہم امید رکھتے ہیں کہ وہ آج سے ایک سال یا دو سال یا چار سال یا پانچ سال کے بعد اس ارفع مقام پر پہنچ جائیں گے جس پر اللہ تعالیٰ انہیں دیکھنا چاہتا ہے اور ان کے چندوں کی شرح اس شرح کے مطابق ہو جائے گی جو ۱۸۹۲ء میں مخلصین دیا کرتے تھے.اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو جو اموال منقولہ اور غیر منقولہ ۱۸۹۲ء کے احمدیوں کے پاس تھے.آج اس کے مقابلہ میں جماعت کے مجموعی اموال منقولہ یا غیر منقولہ کی قیمت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دس ہزار گنا سے زیادہ برکت ڈال دی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل ہم پر نازل ہور ہے ہیں.جس نقطہ نگاہ سے بھی ہم دیکھتے ہیں عقلیں حیران رہ جاتی ہیں.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا حقیقت افروز مضمون

Page 278

تاریخ احمدیت.جلد 24 260 سال 1967ء حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے یہ زمانہ محمود کا زمانہ ہے“ کے زیر عنوان حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خلافت کی عظمت کے بارے میں الفضل ۱۰نومبر ۱۹۶۷ء میں جو حقیقت افروز مضمون تحریر فرمایا وہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آج میرا خیال مجھے کہاں سے کہاں لے گیا.دل کی کیفیت بیان میں نہیں آسکتی.سالہا سال گذر چکے ہیں مگر وہ خواب اتنا روشن تھا کہ آج ہی گویا دیکھا ہے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی میرے پیارے میرے چاہنے والے بھائی کی خلافت کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا کہ میں نے خواب میں حضرت مسیح موعو علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ کھڑے ہیں پورے لباس میں کوٹ عمامہ پہنا ہوا ہے، میں پاس کھڑی ہوں.میں نے پوچھا کہ مجھے بتادیں میرے بھائیوں میں سے وہ خاص موعود لڑ کا کونسا ہے؟ آپ نے مسکراتے لبوں سے مسکراتی اور خوشیوں اور بشارتوں سے بھر پور نظر سے مجھے دیکھا (وہ آنکھیں وہ خاص نظر، پیار کی نظر میں کبھی بھول نہیں سکتی ) اور فرمایا کہ میری دعاؤں سے تو سارے ہی اپنے اپنے وقت پر فیض پائیں گے مگر.یہ زمانہ محمود کا زمانہ ہے 66 اس خواب کے بعد میرے دل کو یقین ہو گیا کہ وہ خاص مصلح موعود میرے بڑے بھائی ہی ہیں.پھر بہت عرصہ گذر جانے کے بعد یہ امر اللہ تعالیٰ سے بشارت پا کر خودان پر ظاہر ہوا اور تمام جماعت پر.بعض خاص لوگ تو پہلے بھی سمجھتے تھے مگر وقت اس کے اعلان کا جب آیا تو یہ بات سب پر واضح ہو گئی.ان کا زمانہ ان کے عمر بھر کے کام ایک ایک قدم جو انہوں نے اٹھایا اس امر کی شہادت ہیں کہ وہ وجودان سب بشارتوں اور پیشگوئیوں کے ظہور کا روشن ثبوت تھا.اندھوں کو تو سورج بھی نظر نہیں آتا.ان کے سمجھنے نہ سمجھنے کا سوال ہی نہیں ، تمام عمر جس عاشق یار ازل نے خدمت دین میں گزار دی.اپنی تمام طاقتیں اسی کوشش میں صرف کر دیں کہ اسلام کا علم ، توحید کا پرچم دنیا کے چپہ چپہ پر گاڑ دیا جائے.جو عہد کیا تھا دم آخر تک نبھا دیا وہ بھولنے کی چیز نہیں ہے.وہ اپنے مولا کے پاس زندہ ہے.وہ ہمارے دلوں میں زندہ ہے.اس کا نام ، اس کا کام زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.انشاء اللہ تعالی.اب ان کے احسانوں کا بدلہ ان کی محبت اور یاد کا تقاضہ یہی ہے اور یہی خدمت کر کے ہم ان کی روح پاک کو بشارتوں پر بشارتیں پہنچا سکتے ہیں کہ ہم ان کے لئے دعاؤں سے کبھی غافل نہ ہوں ، جن امور دین کی تحمیل کی ان کو تڑپ رہتی تھی ان خدمات سے کبھی روگرداں نہ ہوں.کبھی ہمارے قدم ست نہ ہوں.

Page 279

تاریخ احمدیت.جلد 24 261 سال 1967ء اصل محبت اور قدر کا نشان یہی ہے ورنہ سب محبت کے اظہار زبانی با تیں ہوں گی (خدانخواستہ).وہ رخصت ہوئے ایک عالم کو نشان دکھا کر مگر ان کا زمانہ ابھی ہے، ان کا بیٹا، ان کی نشانی ، یہ موعود ابن موعود ابنِ موعود اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے قدر کریں اس وجود کی اور ترقی کریں نیکی ،تقویٰ اور خدمات دین کی جدو جہد میں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے لئے جو بشارتوں کے الہامی الفاظ ہیں ان میں یہ بھی تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے تھے کہ بعض مبشر خوا ہیں اور الہامات کئی بارکئی رنگ میں پورے ہوتے ہیں تو میرا ذاتی خیال ہے، کسی پر میں اس کو زبر دستی ماننے کے لئے زور نہیں دے سکتی.مگر مجھے یقین کامل ہے کہ آپ تین کو چار کرنے والے ہوئے، جب ہمارے بڑے بھائی صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ایک کھویا ہوا بھائی ہمیں مل گیا.مگر آپ پھر تین کو چار کرنے والے ہوئے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں اور اللہ تعالیٰ کی جناب سے آپ کو عطا کردہ بشارتوں کے مطابق وہ ”مبارک‘ وہ نافلہ جس کی بہت زور دار الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے (حضرت اماں جان ) علیہا السلام کو بشارت دی تھی کہ مبارک کا بدلہ تم کو بہت جلد ملنے والا ہے.وہ مبارک محمود مصلح موعود کے ہی ذریعہ سے حضرت اماں جان کی گود میں آیا اور حضرت اماں جان کے پھر چار بیٹے ہو گئے.ان کا مبارک ان کومل گیا.اب میری التجا ہے کہ آپ سب بہن بھائی شکر نعمت اپنے ہر عمل سے بجالاتے رہیں.قول سے، فعل سے دعاؤں سے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی.مبارک احمد مرحوم کے متعلق کہ یا کم عمری میں فوت ہوگا یا بڑا مرتبہ پائے گا.اُس مبارک کو خدا تعالیٰ نے بلایا تو پھر اس مبارک کی بشارت دی.اللہ تعالیٰ نے اس کو منصب خلافت بخشا.ہمارے سب کے قلوب پر زخمی دلوں پر رحمت کا مرہم رکھ دیا.ہم جس قدر اس کا شکر ادا کریں کم ہے.پس اس زمانہ کو بھی محمود کا زمانہ جانیں.اللہ تعالیٰ نے برکات کے، رحمتوں کے فتوحات کے در کھول کر آپ کو دکھا دیئے ہیں گذشتہ سفر اور اس کی اتنی شاندار کامیابی، اتنی دنیا بھر میں شہرت کیا کم رحمت ہوئی ہے؟ دعائیں کریں.اور التزام سے کریں کہ خدا تعالیٰ سیدی و عزیزی ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث کی زندگی میں برکت، صحت، تندرستی قولی و اعضاء کی سلامتی کے ساتھ خدمت دین کے لئے بخشے اور لمبی عمر زیادہ سے زیادہ

Page 280

تاریخ احمدیت.جلد 24 262 204 سال 1967ء خدمات اسلام کی توفیق کے ساتھ عطا فرمائے اور ان کی خدمات کے بہت مبارک، شاندار نتائج ظاہر ہوں اور روشن نشانوں کا ظہور ہو، ان کے ہاتھوں سے گلشنِ اسلام تمام عالم میں پھیلے.ان کے ہر ہر قدم پر خدا کا فضل اور اس کی نصرت شاملِ حال رہے.ان کے دل و جان و دماغ ، زبان و قلم سے خیر و برکت، روحانیت، علم و عرفان اور نور ہدایت کے چشمے جاری رہیں اور دنیا نور ہدایت پاتی رہے.ان پر رب کریم کا سایہ رحمت رہے اور خدا تعالیٰ ان کو تمام عالم کے لیے سایہ رحمت بنادے.یہ فرض جس نے ان کے کاندھوں پر ڈالا ہے، جس نے اس کام کے لئے ان کو چن لیا یہ وہی کریم و رحیم و نصیر خدا ولی اور رفیق خدا ان کا دست و بازو بن جائے.وہ قوی و قادر خدا جس نے یہ بھاری بوجھ اٹھانے کے لئے اس عمر میں پسند فرمایا وہی ان کا ناصر و معین ہو اور زندگی میں خاص برکت، بہت مبارک کاموں کے لئے عطا فرمائے.خیر ہی خیر رہے خیر کی راہیں کھل جائیں.آمین (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی ضلع میانوالی میں اہم تقاریر ۱۳،۱۲ نومبر ۱۹۶۷ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اعزاز میں چشمہ بیراج، میانوالی شہر اور بھکر میں استقبالیہ دعوتوں کا انعقاد عمل میں آیا.معززین علاقہ آپ کی جاذب شخصیت اور بصیرت افروز تقاریر سے بہت محظوظ ہوئے اور سلسلہ احمد یہ کی اکناف عالم میں دینی خدمات اور ایثار و قربانی کے تذکرہ سے گہرا اثر لیا.چشمہ بیراج ( گندیاں) کی دعوت عصرانه امام حقانی صاحب ایگزیکٹو انجینیئر ( قائد مقامی ) کی صدارت میں ہوئی.جس میں تعلیم یافتہ معززین علاقہ کی کثیر تعداد شریک ہوئی.ملک فضل الرحمن صاحب سعید صدر جماعت احمدیہ نے سپاسنامہ پیش کیا.( حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے نہایت دلکش انداز میں حاضرین کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ پیش کیا اور ثابت کیا کہ آپ مکارم اخلاق پر فائز تھے.آپ نے متعد د تاریخی واقعات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک ، محبت اور شفقت کے نتیجہ میں سخت ترین دل رام ہو گئے.آپ نے ظلم کا انتقام عفو سے لیا اور اعلیٰ صبر و قتل کا نمونہ پیش کیا.آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی اور بتایا کہ قوموں کی تقدیر بدلنے کا نسخہ محبت اور اعلیٰ اخلاق کے ساتھ حسن سلوک ہے.کبھی زور بازو سے اخلاق نہیں بدلے جاسکتے.۱۲ نومبر کی شب میانوالی میں جناب پیرالیں.اے رشید صاحب افسر خزانہ و مجسٹریٹ درجہ اول

Page 281

تاریخ احمدیت.جلد 24 263 سال 1967ء کی صدارت میں استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں نمائندہ اخبارات نے بھی شرکت کی.جناب میاں عبدالرحمن صاحب بھٹی امیر ضلع میانوالی نے سپاسنامہ پیش کیا.( حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے سپاسنامہ کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمد یہ اپنے پورے وسائل کے ساتھ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے مسلسل جدو جہد کر رہی ہے.آپ نے فرمایا کہ قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک افراد اپنی قلبی کیفیات اور رحجانات کو نہیں بدلتے.اسی میں قومی ترقی کا راز ہے.آپ نے غلبہ اسلام کے لئے حسن سلوک، اعلیٰ کردار اور خلوص نیت کے ساتھ متحدہ قربانیاں پیش کرنے پر خاص زور دیا.بھکر میں ۱۳ نومبر کو آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا گیا.اس تقریب کی صدارت چوہدری نذیر احمد صاحب ڈپٹی کلکٹر محکمہ انہار نے کی.ماسٹر نور محمد صاحب صدر جماعت احمد یہ بھکر نے سپاسنامہ پیش کیا.جس کا جواب دیتے ہوئے (حضرت) صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہمیں اسلام کی ترقی اور احیاء کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے اور اس اہم کام کے لئے اسی طریق کو اختیار کرنا چاہئے جو ہمارے آقا رسول عربی ﷺ نے اختیار کیا تھا.آپ نے فرمایا کہ نرمی اور شفقت، ہمدردی اور موڈت اور صبر وقتل جیسے عظیم الشان اوصاف پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم آنحضرت ﷺ کے نمونہ پر چل سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہی وہ امور تھے جن کی بدولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سخت ترین دشمن آپ کے جانثار بن گئے.20 205- مبلغین کے اعزاز میں ایک تقریب ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء کو بعد نما ز عصر لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کی طرف سے احاطہ خلافت لائبریری میں چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی ، حافظ بشیر الدین عبد اللہ صاحب اور سید ظہور احمد شاہ صاحب کے اعزاز میں ایک دعوت عصرانہ دی گئی.جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے بھی از راه شفقت شمولیت فرمائی.چوہدری محمد صدیق صاحب ایم.اے صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ نے مبلغین کرام کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.جس کے جواب میں تینوں مبلغین کرام نے مختصر تقاریر فرمائیں.بعد ازاں حضور نے اپنے قیمتی ارشادات سے نوازا.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

Page 282

تاریخ احمدیت.جلد 24 264 سال 1967ء کے فریضہ کی خاطر اپنی زندگیوں کو وقف کرنا اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا انعام ہے.جو اس زمانہ میں ہماری جماعت کے افراد کو حاصل ہے.ہمارے مربیان کو اس انعام کی قدر کرنی چاہئے.اور اس کے مطابق اپنے فرائض کو ادا کرنا چاہئے.اور جماعت کا بھی فرض ہے کہ وہ اس احسان کو پہچانے جو واقفین کے ذریعے اللہ تعالیٰ اُن پر کر رہا ہے.206 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب مشرقی افریقہ میں ۱۹۶۷ء کے آخر میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جنوبی افریقہ جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لئے کمپالہ (یو گنڈا) میں قیام فرما ہوئے.نماز جمعہ کے بعد آپ نے احباب جماعت کو ت جماعت تقریباً ایک گھنٹہ بیش قیمت نصائح سے نوازا اور خلافت حقہ کے ساتھ دلی وابستگی اور عقیدت پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.بعد ازاں بشیر ہائی سکول کے طلبہ سے بھی مختصر خطاب فرمایا.207 جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۶۷ء مرکز احمدیت قادیان میں جماعت احمدیہ کا نہایت کامیاب چھہتر واں (۷۶ ) سالانہ جلسه ۲۴، ۲۵، ۲۶ نومبر ۱۹۶۷ء کو منعقد ہوا.اس مقدس اجتماع میں بھارت کے احمدیوں کے علاوہ پاکستان سے قریباً ایک سو مخلص احمدی احباب نے شرکت کی سعادت حاصل کی.قافلے کے امیر چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ سابق امام مسجد فضل لنڈن تھے.اور اس میں متعدد ایسے مجاہدینِ احمدیت شامل تھے.جو سالہا سال تک بیرونی ممالک میں سرگرم عمل رہے.مثلاً مولا نا ابوالعطاء صاحب، مولانا ظہور حسین صاحب بخارا،مولانا محمد صادق صاحب سماٹری ، مولانا امام الدین صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا، مولوی رشید احمد صاحب چغتائی مجاہد بلاد عربیہ، مولوی مقبول احمد ذبیح مبلغ یوگنڈا، چوہدری رشید الدین صاحب 208 مبلغ نایجیر یا سید داؤ داحم صاحب اور مبلغ غانا مولوی ابراہیم صاحب ناصر سابق مبلغ ہنگری.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس جلسہ کے لئے درج ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا جو سید میر داؤ داحمد صاحب ناظرِ خدمت درویشان ربوہ نے پڑھ کر سنایا:.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا روح پر ور پیغام تشہد، تعوذ ، تسمیہ اور سورۃ فاتحہ تحریر کرنے کے بعد فرمایا :.السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اے میرے عزیزو! میرے پیارو جو آج

Page 283

تاریخ احمدیت.جلد 24 265 سال 1967ء قادیان کی مقدس بستی میں جمع ہوئے ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو (اور ہم جملہ احمدیوں کو ) ہمیشہ صحیح اعتقاد پر قائم رکھے اور ایسے صالح اعمال کی توفیق دیتا چلا جائے جن میں کسی قسم کا کوئی فساد نہ ہو.تا آپ اس کی نگاہ میں ”من فی الدار کے مقدس گروہ میں شامل ہوں اور آپ کو اپنی حفاظت میں لے لے اور لئے رکھے.آپ کی مدد اور نصرت کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں.آج دنیا آپ کو پہچانتی نہیں اور نہ آپ کی قدر کرتی ہے.اللہ کرے کہ میرے اللہ کی نگاہ میں آپ عزت اور محبت کا مقام پائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہر دُکھ اور تکلیف سے محفوظ رکھے.ہر رنج اور غم سے بچائے رکھے.آپ کی سب پریشانیاں دور فرمائے.دل کا سکون اور روح کا اطمینان عطا کرے.قناعت اور ایثار کی خنکی سے آپ کے دل ہمیشہ ٹھنڈک اور سرور حاصل کرتے رہیں.نور السموات والارض کے نور کی چادر میں آپ ہمیشہ لیٹے رہیں اور اس کی رضاء کی جنتوں میں آپ پرورش پائیں.اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی.آمین محمد رسول اللہ اللہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم روحانی فرزند مسیح موعود و مہدی موعود کا وعدہ فرمایا تھا اور بشارت دی تھی کہ آپ (ع) کی قوت قدسیہ کے طفیل اس عظیم روحانی فرزند کی فانی فی اللہ اور فانی فی الرسول کی روح کی برکت سے اسلام ایک دفعہ پھر دنیا پر چھا جائے گا.اور ایک دفعہ پھر اسلام اپنے حسن اور اپنے احسان کے جلووں سے دنیا کے دل کو جیتے گا اور غالب آئے گا اور یہ غلبہ تا قیامت قائم رہے گا.اسلام کے حُسن کے جلوے تو وہ دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ ہیں اور وہ حسین تعلیم ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی جھولیاں بھر دی ہیں.اس سے کبھی غافل نہ ہوں.نہ یہ بھولیں کہ ساری دنیا ہی اس میں برابر کی شریک ہے.پس ان دلائل اور حسین تفسیر کی روشنی میں قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی خود بھی کوشش کریں اور اپنی نسلوں کو بھی اس حُسن کا عاشق حقیقی اور اس روحانی سرور کا دلدادہ بنانے میں ہر ممکن سعی کریں.نیز دنیا اس سے غافل ہے تا وہ بھی اس حقیقی حسن سے گھائل ہو اور وارفتہ ہوکر اس حُسن ، اس قرآن کے گردگھومے اور دلوں کے سب بت تو ڑ کر اور حسن مجازی سے منہ موڑ کر اس

Page 284

تاریخ احمدیت.جلد 24 266 سال 1967ء حسن حقیقی کو اپنا قبلہ بنالے.پاک دل اور پاک خیال بن جائے.اسلام کے احسان کے جلوے وہ اعمال ہیں جو قر آنی تعلیم کے مطابق آپ کی بہبود کے لئے اور اس کی ہمدردی میں بجالاتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر امت بنایا ہے.وہ آپ کو دنیا کا خادم دیکھنا چاہتا ہے.پس ہر ایک سے حسن سلوک کریں.خندہ پیشانی سے پیش آئیں.ہر ایک سے ہمدردی اور غمخواری آپ کا شیوہ ہو.اور باہمی اخوت اور محبت آپ کا شعار.دنیا آپ کی دشمن ہو تو ہو، آپ کسی کے دشمن نہیں نہ کسی سے آپ کو عداوت - فلعلک باخع نفسک کا محمدی اُسوہ اپنے سامنے رکھیں اور اپنے دن ، اپنی راتیں اور اپنی زندگی کی ہر گھڑی اپنے رب کے لئے دنیا کے دل جیتنے میں خرچ کریں.دلوں پر آخری فتح حاصل کرنے کا وقت قریب آرہا ہے.خدا غضب میں ہے اور ہم دنیا کے لئے انتہائی فکر مند.ہماری بڑی اور ہماری چھوٹی نسل پر بڑی ہی ذمہ داری آپڑی ہے.دنیا نمونہ کی محتاج ہے اور اسلام کا صحیح نمونہ سوائے ہمارے اور کوئی پیش نہیں کرسکتا.سوائے ہمارے؟ کیونکہ ہم نے ہی اپنے رب کی توفیق سے محمد (ع) کے مہدی اور آپ کے عظیم روحانی فرزند کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد باندھا ہے.اگر ہم واقعہ میں اور حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے بن جائیں.اگر ہم واقعہ میں اور سچے طور پر دنیا کے خادم ٹھہریں.اگر ہماری عملی زندگی میں دنیا فی الحقیقت اسلام کے احسان کے جلووں کو موجزن پائے اور دیکھے.اگر اور جب حقیقہ ایسا ہو جائے تب ہی تو دنیا اپنے رب کو پہچان سکتی ہے اور اس کا عرفان اور معرفت حاصل کر کے اپنے دل اور اپنی روح کے ساتھ اس کے آستانہ پر جھک سکتی ہے.اس کے غضب سے بچنے کے قابل ہوسکتی ہے.پس اٹھو اور بیدار ہو جاؤ.مُستیاں ترک کرو اور کمر ہمت کس لو.اور اپنی دعاؤں ، اپنے علم، اپنے عمل، اپنے حسن سلوک اور اپنی ہمدردی اور غمخواری سے دنیا پر اسلام کے حسن اور اس کے احسان کے جلوے ظاہر کرو.اور دنیا کے دل اپنے رب کریم

Page 285

تاریخ احمدیت.جلد 24 267 کے لئے جیت لو اور اپنے رب کے محبوب بن جاؤ وعليه توكلنا وبه التوفيق فقط آپ سے بے حد محبت اور پیار کرنے والا خاکسار آپ کی دعاؤں کا بھو کا مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث پیغام حضور انور بذریعہ ٹیپ ریکارڈر سال 1967ء یہ پیغام پہلے تو پڑھ کرسنایا گیا تھا.مگر آخری اجلاس میں جب اسے حضور ہی کی مبارک آواز میں ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے سنایا گیا تو اس کی کیفیت بہت غیر معمولی تھی.اس وقت سب دوست اپنے پیارے آقا کی درازی عمر اور مقاصد میں کامیابی کے لئے ہمہ تن دعا تھے.20 پیغامات و تاثرات اس جلسہ سالانہ کے موقع پر بھارت کے جن مرکزی وصوبائی وزراء واعلی عہد یداران و معززین نے پیغامات بھجوائے اُن کے نام یہ ہیں:.صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب، نائب صدر جمہوریہ ہند جناب وی وی گری صاحب، مسز اندرا گاندھی وزیر اعظم ہند، مرکزی وزیر جناب فخر الدین احمد صاحب وزیر صنعت و ترقی ، پروفیسر دیوان چند شر ما ممبر پارلیمنٹ، گورنر پنجاب D.C.PAVATE، چیف سیکرٹری پنجاب سردار گیان سنگھ کاہلوں ، ڈپٹی سپیکر پنجاب ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان ، وزیر آبپاشی ،بجلی تعلیم حکومت پنجاب، پیارا رام دهنو والی وزیر ویلفیئر وهاؤسنگ حکومت پنجاب، وزیر لیبر و پارلمینٹری امور پنجاب، سردار گیان سنگھ راڑ یوالا لیڈر پنجاب کانگریس لیجسلیچر پارٹی ، سردار جوگندرسنگھ صاحب ڈپٹی سیکرٹری ڈویلپمنٹ حکومت پنجاب، ڈی.این جلالی صاحب پبلک ریلیشنز آفیسر ٹو چیف منسٹر حکومت جموں و 211 مولا نا ابوالعطاء صاحب فاضل نے اس مبارک جلسہ کے متعلق اپنے قیمتی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.جلسہ سالانہ ۲۴، ۲۶،۲۵ نومبر کو ہوا.بہت ایمان افروز تقریریں تھیں.بھارت کے احمدی مبلّغین اور دوسرے احباب کی تقریروں سے بہت لطف آیا.ہندو اور سکھ بھی شامل جلسہ تھے.مگر پر کیف

Page 286

تاریخ احمدیت.جلد 24 268 سال 1967ء نظارہ تو یہ تھا کہ حالات کی ناسازگاری کے باوجود بھارت کے شمال، جنوب اور مشرق و مغرب سے احمدی نمائندے جلسہ میں موجود تھے.کشمیر کے احباب خاصی تعداد میں شامل جلسہ ہوئے.مغربی بہار، بنگال، اڑیسہ، مالا بار، مدراس، حیدر آباد دکن، یو.پی.دہلی بمبئی اور دوسرے علاقوں سے احباب آئے ہوئے تھے.نجی اور افریقہ سے آنے والے احمدی بھی موجود تھے.ایک دور بین آنکھ کے لئے یہ اجتماع خدا تعالیٰ کے خاص تصرف کا منظر پیش کر رہا تھا.لوائے احمد بیت لہرایا گیا.دعائیں ہوئیں.جلسہ کا پروگرام دوحصوں میں منقسم تھا.دن کو گیارہ بجے سے اڑھائی بجے تک اور رات کو آٹھ بجے سے دس بجے تک.یہ سارا پروگرام نہایت عمدہ اور معلومات افزا تھا.سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جلسہ عین وقت پر شروع ہوتا اور عین وقت پر ختم ہوتا تھا.اور ہر تقریر مقررہ وقت میں ختم ہوتی تھی.نمازوں کے معین اوقات ہیں اور ہر نماز ٹھیک وقت پر ہوتی رہی.نمازوں میں درد و سوز کا بیان طاقت سے باہر ہے.تہجد کی نماز بھی ان دنوں مسجد مبارک میں باجماعت ہوتی تھی.اس کی کیفیت خاص کیفیت تھی.سب پیر و جوان نماز پڑھتے تھے.عورتوں کے لئے پردہ کا انتظام تھا.وہ بھی با قاعدہ نمازوں میں شامل ہوتی تھیں.بیت الدعا میں دعا اور نوافل کی باری مشکل سے آتی تھی.دن کا وقت بیت الدعا میں دعاؤں کے لئے مستورات کے لئے مخصوص تھا.اور رات کو مرد اس جگہ دعائیں کرتے تھے.سارا وقت ہی بیت الدعا معمور رہتا تھا.مسجد اقصیٰ کے مینار سے اذانیں کتنی دلر با ہیں.ہندوؤں اور سکھوں کی بھر پور آبادیوں میں نور کے اس مرکز سے خدا تعالیٰ کی کبریائی اور اس کی توحید کی صدا کتنی اچھی اور ایمان افروز ہے.یہ کیف کچھ دیکھنے سننے سے ہی تعلق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر بہشتی مقبرہ میں جا کر رفع درجات اور غلبہ اسلام کے لئے دعائیں کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا.بہشتی مقبرہ اس دور ابتلاء میں خدا کے نیک بندوں کے مال اور ان کی محنت سے خاص ترتیب سے سجایا جا چکا ہے.پودوں اور پھولوں کی قطار میں اور صفائی بہت دلکش ہے.حضور انور کی فضل عمر جونیئر ماڈل سکول میں آمد 212 766 مورخہ ۳۰ نومبر ۱۹۶۷ء کوساڑھے چار بجے بعد از نماز عصر حضرت خلیفة المسیح الثالث فضل عمر جونیئر ماڈل سکول تشریف لائے.حضور کی آمد کے پیش نظر پورے سکول کو رنگ برنگی جھنڈیوں اور مختلف قطعات اور سینریوں سے سجایا گیا تھا.حضور نے بچوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ پروگرام

Page 287

تاریخ احمدیت.جلد 24 269 سال 1967ء شروع ہوتے ہی مجھے یہ احساس ہوا کہ بچوں کی بلند آواز کا مقابلہ کرایا جارہا ہے.سو میں بچوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اب تک جن اداروں میں مجھے جانے کا اتفاق ہوا ہے ان میں سب سے زیادہ بلند آوازیں آپ کی ہیں اور آپ ان سب میں اول رہے ہیں.میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں اور یہ پھولوں کا گلدستہ جو ابھی ابھی مجھے ایک بچے نے دیا ہے اور اب وہ میری ملکیت ہے.وہ بطور انعام آپ کو دیتا ہوں اسے سنبھال کر رکھیے.خدا کرے آپ کی آوازیں ان دور دراز ملکوں تک پہنچیں جن تک ہم اپنی آواز میں نہیں پہنچا سکے.آپ سب بچے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد ہیں.جو بچوں سے بے حد پیار و محبت کیا کرتے تھے اور آپ کے روحانی باپ نے بچوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے.تو جہاں میں والدین اور آپ کی استانیوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بچوں کو نہ ماریں وہاں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ ہمیشہ اچھے کام کریں اور کبھی بھی ایسے کام نہ کریں جن کی وجہ سے آپ کو آپ کے والدین یا استادوں کو کو سزا دینی پڑے.خطاب کے بعد حضور نے بچوں سے مصافحہ کیا.جتنا عرصہ حضور اس مجلس میں رہے آپ کا چہرہ نہایت ہشاش بشاش تھا اور آپ بچوں سے محظوظ ہورہے تھے.213-

Page 288

تاریخ احمدیت.جلد 24 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 270 حوالہ جات (صفحه 1 تا 269) الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۷ صفحه ۶ الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل ۳ نومبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۶ تحریک جدید ر بوه اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۲۱ الفضل ۱۵،۱۲ جنوری ۲ فروری ۱۹۶۷ء غیر مطبوعہ ریکارڈ از خلافت لائبریری ربوہ.الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل یکم فروری ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۷ء اخبار بدر ۱۶ فروری ۱۹۶۷ء صفحہ ۷ الحمر اب بر موقع سوواں جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ عالمگیر مجله لجنہ اماءاللہ کراچی ۱۸۹–۱۹۹۱ء صفحه۱۰۹ الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۷، صفحه ۲۱ الفضل ۵ فروری ۱۹۶۷ صفحه ا الفضل ۱۶،۱۵ فروری ۱۹۶۷ء الفضل ۲۲ فروری ۱۹۶۷، صفحه ۲ تا ۴ بدر ۱۶ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ۲ اخبار بدر ۲۳ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۳۰۲ الفضل ۴ مارچ ۱۹۶۷، صفحه ۳ ۴ نوائے وقت ۳۰ جنوری ۱۹۶۷ء آخری صفحہ کالم نمبر ۵ نوائے وقت ۳۰ جنوری ۱۹۶۷ء ہفت روزہ المنبر لا سکیور۳ فروری ۱۹۶۷ء بحواله الفضل ۱۸ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۲ سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوه ۶۷ -۱۹۶۶ صفحه ۱۸۵ تا ۱۹۳ الفضل ۷فروری ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ 22 الفضل ۲۲۰۱۴ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ا 23 الفضل ۲۳ فروری ۱۹۶۷ء صفحیم سال 1967ء

Page 289

تاریخ احمدیت.جلد 24 24 25 26 27 28 29 30 271 سال 1967ء تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو جامع انسائیکلو پیڈیا.جلد اوّل صفحہ ۲۳ نا شر شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور مارچ ۱۹۸۷ء تحفۃ الملوک.انوار العلوم جلد ۲ صفحه ۱۴۴ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۴۸ صفحهیم ہفت روزہ بدر قادیان ۴ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۶ تا ۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحه ۱۳ 31 32 33 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ صفحه ۴۲ تا ۴۳ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۷، صفحه ۲۴۴ تا ۲۵۰ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۷ صفحه ۲۱۷ تا ۲۱۹ 34 الفضل ۱۲ اپریل ۱۹۶۷ صفحه ۵ 35 فتح اسلام صفحه ۱۵ تا ۱۷ 36 الحکم ، ۱ جولائی ۱۹۰۲ء 37 رسالہ الوصیّت صفحه ۸ 38 الحکم نمبر ۵ - ۱۹۰۱ء صفحه ۲ کالم ۲ 39 40 41 42 43 رسالہ تحریک جدید ا پریل ۱۹۶۷ء صفحہ ۵.۷ تفصیلی حالات و کوائف کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بد را امئی ۱۹۶۷ صفحہ ۱۰ تحدیث نعمت طبع دوم صفحه ۸۷۱،۸۷۰ الفضل ۲۵ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۵،۴ ہفت روزہ بدر قادیان ۱۳ را پریل ۱۹۶۷، صفحه ۱۲۱ 44 خطا مکرم محمد اسماعیل صاحب دیا لگڑھی بنام انچارج شعبہ تاریخ احمدیت 45 الفضل ۲ ر ا پریل ۱۹۶۷، صفحه ۲۴،۸ نومبر ۱۹۶۷، صفحه ۱ 46 الفضل ۲۳ / اپریل ۱۹۶۷ صفحه ۱۲ را 47 48 49 50 الفضل ۲۰ جون ۱۹۶۷ء الفضل مورخہ ۴ انومبر ۱۹۶۷ء صفحها الفضل ۲۵ را پریل ۱۹۶۷ صفحه ۳ الحکم ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ء صفحه ۳

Page 290

تاریخ احمدیت.جلد 24 51 272 سال 1967ء الفضل ۳ امئی ۱۹۶۷ء صفحه ی تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بدر قادیان ۲۹ جون ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ تا ۸ رپورٹ مرتبہ ہارون رشید صاحب آف بھدرک اڑیسہ 52 فوٹو کاپی برائے شعبہ تاریخ احمدیت منجانب محترمہ ام مبشر حمید و بیگم صاحبہ اہلیہ ملک بشیر احمد صاحب رفاہ عام سوسائٹی C.66 ملیر ہالٹ کراچی 53 الفضل ۸ جون ۱۹۶۷ء صفحه ا 54 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۷ء صفحه ا 55 الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۲ 56 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ 1 ا 57 منقول از الحکم، اجولائی ۱۹۰۲ء صفحہ ، مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه ۴ ۸ تا صفحہ ۷ ۸ ضیاءالاسلام پریس ربوہ 58 الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۵ 59 الفضل 9 جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۱ 60 الفضل ۵ جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۸ 61 الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ 62 الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۸ 63 الفضل اار اگست ۱۹۶۷ء صفحه ا 64 65 2222 66 67 رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ ۱۹۶۸ء صفحہ ۴۶.۴۷ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ء صفحہ ۶۷-۷۰ الفضل ۲۶ / اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۴ تا ۷ الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱، ۸ 68 الفضل ا جولائی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۴۰۳ 69 الفضل ۷ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸،۱ الفضل ۸ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ا 70 71 یه الفضل ۸ جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۱ 72 الفضل 9 جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۱ 73 الفضل ۸ جولائی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۱ ، ۸ 74 الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ 75 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۶۷ صفحه ۳ 76 الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۵

Page 291

تاریخ احمدیت.جلد 24 77 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۶۷ء صفحه ۴ 78 الفضل 11 جولائی ۱۹۶۷، صفحہ 1 اا 79 الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۸ 80 لیکچر لا ہور صفر ۳۴.روحانی خزائن جلد ۲۰ 81 82 83 84 273 سال 1967ء رساله تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ۳۳ تا ۳۹، مزید کوائف کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۳ بحوالہ رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۷، صفحه ۶۲۶۱ بحوالہ رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ۶۱ ۶۲ الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ا 85 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۸۵ 86 87 88 89 90 الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۳ ۴۰ الفضل ۱۴ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱.الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء صفہ ۳ الفضل ۹ راگست ۱۹۶۷ء صفحه ۲ ،۳ روزنامه ناگس انسا ئیگر یورک مورخہ ۱۲ جولائی ۱۹۶۷ء بحواله الفضل، ار ا گست ۱۹۶۷ء صفحه۱، ۸ 12.1967 NEUE ZURCHER ZEITUNG.JULY بحوالہ الفضل ۶ راگست ۱۹۶۷ء صفحها ،۸.مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہوا افضل ۲۰ جولائی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۳ ۴ ۲۲ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۴۰۳ 91 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸، صفحه ۴۱-۵۰ 92 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۷ صفحہ۱ 93 الفضل ۱۶ را گست ۱۹۶۷، صفحه ۶،۵ 94 الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۶۷ ء صفحہ ۱.الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۳،۲ 95 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸، صفحه ۴۰ 96 الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ا 97 الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ 98 رسالہ ” تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ۲۱ تا ۲۷ 99 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۳ 100 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ 1 101 الفضل اار اگست ۱۹۶۷ صفحه ۳ تا ۵ 102 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸، صفحه ۵۴۵۲،۵۱ 103 الفضل ۸ ستمبر ۱۹۶۷ صفحه ۸،۱

Page 292

تاریخ احمدیت.جلد 24 104 الفضل ۱۷ اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۳ تا ۵ 105 رسالہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ ۶۷ 106 الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۲ 107 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۲۱ 108 الفضل ۴ راگست ۱۹۶۷ صفحه ا 274 109 سرمه چشم آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۳۱۴۳۱۳.مجموعہ اشتہارات جلد اصفحه ۱۰۶ جدید ایڈیشن 110 الفضل ۳ را گست ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 111 رسالہ انصار اللہ ربوہ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۰،۳۹ 112 الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱ 113 الفضل یکم اگست ۱۹۶۷ء صفحہ ا تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۶ راگست ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۳ 114 الفضل یکم اگست ۱۹۶۷ صفحه ا 115 حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۵۶-۲۵۷.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱۲ تا ۲۲ 116 الفضل یکم اگست ۱۹۶۷ صفحه ۸ 117 الفضل ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲ 118 الفضل ۲ اگست ۱۹۶۷، صفحها 119 الفضل ۲ اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۱، ۸ 120 الفضل ۱/۸ اگست ۱۹۶۷ صفحه ۸ سال 1967ء 121 الفضل ۵ر اگست ۱۹۶۷ صفحه ا 122 الفضل ٨/ اگست ۱۹۶۷ ء صفحه ا 123 الفضل ۹ را گست ۱۹۶۷، صفحه ۱-۱۲ 124 الفضل ۵ اگست ۱۹۶۷ ء صفحها 125 الفضل ۹ ر اگست ۱۹۶۷، صفحه ۱۲ 126 چند خوشگوار یادیں صفحہ ۲۰۹ تا ۲۱۲ از بشیر احمد رفیق سابق امام مسجد فضل لندن - مطبوعہ ۲۰۰۹ء.یونی ٹیک پبلیکیشنز قادیان ڈسٹرکٹ گورداسپور.پنجاب انڈیا 127 الفضل ۶ را گست ۱۹۶۷ صفحه ۸ 128 الفضل ۴ ، ۵/اگست ۱۹۶۷ء 129 الفضل ۵/ اگست ۱۹۶۷، صفحہ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ اگست ۱۹۶۷، صفحہ ۳ 130 الفضل ۱۳ را گست ۱۹۶۷ء صفحه ۱

Page 293

تاریخ احمدیت.جلد 24 131 الفضل ۱۳ اگست ۱۹۶۷ ء صفحه ۱ 132 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۳ 133 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۷ء 134 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۴۰۳ 135 الفضل ۳۱ / اکتوبر ۱۹۶۷ ء صفحه م 275 136 الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۶۷ء صفحریم 137 الفضل ۶ استمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 138 بخاری کتاب الدعوات بَابُ الدُّعَاءِ إِذَا أَرَادَ سَفْرًا أَوْرَجَعَ 139 الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۶۷ ، صفحه یم 140 الفضل ۲۹ اگست ۱۹۶۷ صفحه ۳ هم 141 الفضل یکم ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 142 الفضل ۲۹ اگست ۱۹۶۷ء صفحهیم 143 الفضل ۲۶، ۲۷ اگست ۱۹۶۷ ء ر پورٹ مرتبہ جناب مسعود احمد خاں صاحب دہلوی 144 انصار اللہ ربوہ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲۰ تا ۳۰ 145 ماہنامہ تحریک جدید جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ۲۹ تا ۳۲ 146 الفضل و ستمبر ۱۹۶۷، صفحه ۵ 147 روز نامہ شہباز ، پیشاور۱۷اراگست ۱۹۶۷ء 148 الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۶۷، صفحه ۵ تا ۱۱ 149 الفضل ۳۱ / اگست ۱۹۶۷ صفحه ۸ 150 الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۳ تا ۶ 151 الفضل 9 ستمبر ۱۹۶۷ء صفحریم متن 152 الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۱ تا ۸ 153 الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۵،۳ 154 الفضل و ستمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۱.غیر مطبوعہ ریکارڈ از خلافت لائبریری ربوہ 155 الفضل اا اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۳۲ 156 الفضل، استمبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 157 الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۶ تا ۸، خالد جنوری ۱۹۶۸ ، صفحه ۱۲ تا ۲۰۱۶ 158 الفضل ۱۵ستمبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۳ ۴.غیر مطبوعہ ریکارڈ.از خلافت لائبریری سال 1967ء

Page 294

تاریخ احمدیت.جلد 24 159 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۵ 160 الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۲ تا ۵ 161 الفضل ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۴۲۳ 276 162 الفضل ۱۳، ۲۴،۲۰،۱۷، ۲۷ ستمبر.یکم ٫۳را کتوبر ۱۹۶۷ء 163 الفضل ۲۰۱۹ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 164 الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۶۷ ، صفحہ 1 165 لاہور۲ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۹-۱۲ 166 الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۵.الفضل ۷ نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۳ 167 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۳ 168 متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 169 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۴۰۳ 170 الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ 171 روزنامه امروز لا ہور ۲۳ نومبر ۱۹۶۷ء 172 لولاک لاکپور یکم دسمبر ۱۹۶۷ء 173 لولاک یکم دسمبر ۱۹۶۷، صفحه ۳ 174 الفرقان دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲۵ 175 روزنامه شعله" سرگودھا ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ ، صفی ۳، ۶ 176 روزنامه شعله ۳ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحها 177 الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۷ء صفریم Khyber mail, Saturday, September, 2, 1967 178 سال 1967ء 179 (5,1967 ,Khyber Mail Tuesday, September) بحوالہ خالد اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۵۰،۴۹ (حصہ انگریزی) 180 الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۷ء صفحیم 181 ماہنامہ خالد فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۴۷ 182 الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحہ۱ 183 الفرقان نومبر ۱۹۶۸ء صفحه 9 184 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۲۶۰_۲۶۲ 185 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۷۸

Page 295

تاریخ احمدیت.جلد 24 186 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۲۶۲ 187 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۳۳۷.۳۳۸ 277 188 تذکرہ شعرائے پنجاب صفحہ ۱۳۶.۱۳۷ بحوالہ الفرقان نومبر ۱۹۶۸ صفحه ۹ تا ۱۵ 189 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۷ء صفه ۳ سال 1967ء 190 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۵ پروگرام ، افضل ۱۵ راکتو بر ۱۹۶۷ صفحہ۸ پروگرام کا نفرنس.الفضل ۷ ارا کتوبر ۱۹۶۷ء صفحہا.۸ 191 روزنامہ جنگ راولپنڈی ۱۱ را کتوبر ۱۹۶۷ء 192 روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی ۱۳ را کتوبر۱۹۶۷ء 193 روزنامہ پاکستان ٹائمنر راولپنڈی ۱۱ را کتوبر ۱۹۶۷ء 194 روزنامہ تعمیر راولپنڈی لارا کتوبر ۱۹۶۷ء 195 روزنامہ کوہستان را ولپنڈی اار اکتوبر ۱۹۶۷ء 196 الفضل ۱۰،۸، ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء 197 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفه ۳ 198 الفضل ۲۲-۲۴ اکتوبر ۱۹۶۷ء مکمل متن کے لئے دیکھیں مشعل راہ جلد دوم صفحہ ۵۱ تا ۵۶ 199 الفضل ربوه ۲۲ را کتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۸ 200 تشحید الا ذبان ربوه مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۲۳٬۲۱،۹ 201 مصباح ربوہ نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۴۵.الفضل ۲۴٬۲۲،۲۱ اکتوبر۱۹۶۷ء 202 الفضل ۲۹، ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۷ء 203 الفضل.نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۳،۲ 204 الفضل، انومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱۰ 205 الفضل ۲۵ نومبر ۱۹۶۷، صفحه ۵ 206 الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۷ ء صفحه ۸ 207 رسالہ تحریک جدید دسمبر ۱۹۶۷، صفحه ۱۹ 208 اخبار بدرے دسمبر ۱۹۶۷ء ، روز نامہ الفضل ربوه ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۶،۵ 209 الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 210 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۷ ، صفحیم 211 اخبار بدر ۱۴ دسمبر ۱۹۶۷ صفحه ۱۲۱ 212 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 213 مصباح ربوہ جنوری فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۶۷، ۶۸

Page 296

تاریخ احمدیت.جلد 24 278 سال 1967ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال مهدئ دوراں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو جلیل القدر صحابہ اس سال اس عالم فانی سے رخصت ہو کر اپنے مولائے حقیقی سے جاملے، ان کا تذکرہ درج ذیل کیا جاتا ہے.حضرت ملک محمد عالم صاحب آف محمود آباد جہلم 1 ولادت: ۱۸۶۲ء اندازاً بیعت: ۱۹۰۰ ء وفات: 11 جنوری ۱۹۶۷ء 1 حضرت ملک محمد عالم خان صاحب ناڑہ ضلع اٹک کے معروف بزرگان حضرت بورے خان صاحب اور حضرت موسیٰ خان صاحب کی اولاد میں سے تھے جن کے مزارات اب بھی وہاں موجود ہیں.آپ پہلی بار جلسہ سالانہ ۱۹۰۰ ء کے موقع پر قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دستِ مبارک پر شرف بیعت حاصل کیا.چنانچہ خود فرماتے ہیں: میں پہلی دفعہ جب قادیان گیا.تو میرے ساتھ میاں غلام حسن صاحب امام جماعت ، مستری کرم الہی صاحب سکنہ محمود آباد، مستری عبدالستار صاحب، میاں فتح دین صاحب جہلمی اور مولوی مہر دین صاحب گجراتی تھے.بٹالہ سٹیشن پر اُتر کر پیدل قادیان گئے.جلسہ کے ایام تھے.شہر جہلم کے دو آدمی بھی تھے.مسجد اقصیٰ (مسجد اقصیٰ جون ۱۸۷۶ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی اس وقت یہ جامع مسجد کہلاتی تھی.تاریخ احمدیت جلد اصفحہ ۱۲۶) اس وقت چھوٹی سی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوران تقریر فرمایا کہ ان سکھ صاحبان سے (حضور نے اُن سکھ صاحبان کا نام لیا ) دریافت کرلو کہ میری پہلی زندگی کیسی تھی.ان سکھ صاحبان کی داڑھیاں سفید تھیں.ایک صاحب نے نظم پڑھی تو وہ ہے جس پہ ہے محمد کا سلام اے قادیاں والے مسجد مبارک میں بھی میں حضرت صاحب کے پاس بیٹھا کرتا تھا.وہاں نماز حضور کے ساتھ مل کر پڑھتے رہے.نماز ان دنوں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفة المسیح الاول پڑھاتے رہے.(ان دنوں مسجد مبارک کے امام حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ہوا کرتے تھے.) بیعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر کی.باہر جب گئے تو پگڑیاں بھی پھینکی گئیں.میں نے بھی پگڑی کو پکڑا.خواجہ کمال دین صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب حضور کے پاس ہی رہتے تھے.

Page 297

تاریخ احمدیت.جلد 24 279 سال 1967ء آپ کے پوتے ملک فضل داد خان صاحب ایم.اے محمود آباد جہلم تحریر کرتے ہیں کہ آپ احمدیت کی تعلیم اور عام تاریخی واقعات کا وسیع علم رکھتے تھے.نہایت متقی ، پرہیز گار، غریب پرور ، پارسا اور حلیم الطبع تھے.اولاد ملک اللہ دتہ خان صاحب، ملک اللہ داد خان عارف صاحب شہید حضرت رسول بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸۷۷ء بیعت : سن کی تعیین نہیں ہوسکی وفات ۲۲ فروری ۱۹۶۷ء آپ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے حقیقی چچا حضرت حکیم مولوی شیر محمد صاحب آف نجن ضلع سرگودھا کی اہلیہ تھیں.حضرت حکیم مولوی صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ میں شامل تھے.آپ عربی فارسی کے عالم اور بڑے پایہ کے حکیم تھے اور جوانی میں ہی وفات پاگئے تھے.حضرت رسول بی بی صاحبہ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیات میں شمولیت کا شرف حاصل تھا.مرحومہ بہت نیک مخلص اور عبادت گزار خاتون تھیں.آپ کی وفات حُجن میں غیر احمدی بھائی بھتیجوں کے ہاں ہوئی.قریبی احمدی رشتہ دار بھی حجن میں موجود تھے.آپ کی تدفین گاؤں میں ہی کی گئی.اولاد ۱.چوہدری ولی محمد صاحب.آپ کی شادی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی بیٹی خدیجہ زینب صاحبہ سے ہوئی تھی جس سے ایک بیٹی رقیہ صاحبہ اہلیہ محمد اسحاق صاحب ہیں.جنہوں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کی سیرت و سوانح پر مشتمل کتاب نجم الہدی تحریر فرمائی ہے.۲.امتہ اللہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمان را نجھا صاحب ( کراچی ) ابن حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت میاں نور محمد صاحب آف پیر کوٹ ولادت: ۱۸۸۳ء ( قریباً) بیعت: جولائی ۱۹۰۳ ء وفات :۲۳ فروری ۱۹۶۷ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں امام الدین صاحب ( ان کی بیعت کا ذکر البدر ۶ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۲۴ پر ہے) کے فرزند اور جناب مولوی سلطان احمد صاحب پیر کوئی زودنویس کے تایا تھے.آپ پیر کوٹ حال ضلع حافظ آباد کے رہنے والے تھے.ابتداء میں تحریری بیعت کی اور پھر ۱۹۰۳ء میں خود قادیان جا کر دستی بیعت کی.بہت کم گو صلح جو، عبادت گزار اور بکثرت دعائیں کرنے

Page 298

تاریخ احمدیت.جلد 24 280 سال 1967ء والے بزرگ تھے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو رویا و کشوف کی نعمت سے بھی نوازا تھا.آپ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہر سال قادیان اور ہجرت کے بعد ر بوہ جاتے اور اس کی برکات سے مستفید ہوتے.آپ کی ظاہری تعلیم کچھ نہ تھی سارا ناظرہ قرآن کریم بھی نہیں جانتے تھے.قرآن کریم پڑھتے مگر کوئی لفظ ذہن میں نہیں بیٹھتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آپ کے والد نے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا قرآن کریم پڑھتا ر ہے اس خیال سے کہ الفاظ ذہن میں نہیں بیٹھتے قرآن کریم پڑھنا نہ چھوڑے اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آہستہ آہستہ ذہن بھی درست ہو جائے گا.چنانچہ آپ جب تک زندہ رہے قرآن کریم کا وہ حصہ جو آپ جانتے تھے اس کی باقاعدہ تلاوت کرتے رہے.بڑے عبادت گزار دعا گو بزرگ تھے.اکثر جب نماز مغرب ادا کر کے مسجد سے باہر نکلتے تو غیر احمدی عورتیں قطار باندھے کھڑی ہوتیں اور درخواست کرتیں کہ آپ ہمارے بچے کو دم کر دیں چنانچہ آپ دم کر دیتے ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا پڑھ کر دم کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا بیٹا میں تو کچھ نہیں جانتا عورتیں مجبور کرتی ہیں تو میں سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیتا ہوں اور ان کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.جماعت کا جو کام بھی آپ کے سپرد کیا جاتا وہ آپ بخوشی کرتے.حضرت مصلح موعود کی وفات کے موقع پر نہ صرف آپ کو آپ کی وفات سے پہلے خبر دی گئی بلکہ آپ کو مجلس انتخاب میں شریک دکھایا گیا.آپ کو یہ بھی دکھایا گیا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے ہیں.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے اپنی کتاب ”حیات قدسی حصہ دوم صفحہ 4ے پر آپ کا ذکر فرمایا ہے.اولاد شریف احمد صاحب پیر کوئی کلاتھ مرچنٹ حافظ آباد.( آپ کے بیٹے فہیم احمد خادم صاحب مربی سلسلہ اور دوسرے نصیر احمد شریف صاحب معلم اصلاح وارشاد ہیں ) اقبال احمد صاحب پیر کوئی کریانہ مرچنٹ کرونڈی خیر پور سندھ.( آپ کے بیٹے اکبر احمد طاہر صاحب مربی سلسلہ ہیں) بشری بیگم صاحبہ اہلیہ فضل احمد صاحب فیکٹری ایریار بوہ.-۴ زنیب بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا حمید اللہ صاحب ناصر آبادر بوہ.حضرت با با جمال دین صاحب ولادت: ۱۸۸۷ء (اندازاً) بیعت : ۱۹۰۸ء (اندازاً) وفات: ۱۶ مارچ ۱۹۶۷ء

Page 299

تاریخ احمدیت.جلد 24 281 سال 1967ء آپ تحصیل نکو در ضلع جالندھر کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھے.قیام پاکستان کے بعد جڑانوالہ (ضلع فیصل آباد ) میں سکونت اختیار کی.زیادہ علم نہ رکھتے تھے.مگر کئی ابتلاؤں میں کامیاب ہوتے رہے.بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن کئے گئے.جنازے کے ساتھ آپ کے غیر احمدی رشتہ دار بھی تھے.آپ کی کوئی اولاد نہ تھی.10 حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب پٹیالوی ولادت : ۱۸۸۷ء (غالبا) بیعت: جون ۱۹۰۲ء 2 وفات :۱۳ را پریل ۱۹۶۷ء سرہند بھارت کے مشہور شہر پٹیالہ سے اکیس میل پر ایک مشہور قصبہ ہے جو سکندراعظم کے وقت سے آباد ہے.اور حضرت مجد دالف ثانی شیخ احمد سر ہندی کا مولد و مدفن ہونے کے باعث مرجع خلائق ہے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کے پردادا احمد خاں صاحب اسی شہر میں سکونت پذیر تھے اور سپہ گری کرتے تھے.۱۸۸۷ء کے قریب آپ یہاں سے سیف آباد اور پھر پٹیالہ منتقل ہو گئے.اس خاندان میں احمدیت کی نعمت حضرت ڈاکٹر صاحب کے دادا حضرت مولا بخش صاحب (وفات ۱۹۰۰ء) اور والد ماجد حضرت رحیم بخش صاحب ( وفات اگست ۱۹۰۷ء) کے ذریعے پہنچی.جنہوں نے ۱۸۹۹ء میں مولوی عبدالقادر صاحب (وفات ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء) جمالپوری کے ہاتھ پر بیعت کی.(آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بیعت لینے کے مجاز تھے ).اس بیعت کے وقت حضرت ڈاکٹر صاحب بھی موجود تھے.اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کی تھی.14 حضرت ڈاکٹر صاحب خود اپنی بیعت کے متعلق بیان فرماتے ہیں: میری بیعت کا زمانہ تین وقتوں پر تقسیم ہوسکتا ہے.اول جبکہ میں پرائمری سکول کا طالب علم تھا اس زمانہ میں ہمارے محلے کی مسجد کا ایک متولی احمدی ہو گیا.اس وقت میں نے احمدیت کا نام سنا.پھر ۱۸۹۸ ء یا ۱۸۹۹ء میں مولوی عبد القادر صاحب لدھیانوی پٹیالہ میں آئے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیعت لینے کا اختیار دیا ہوا تھا.انہوں نے ہمارے کنبے کی بیعت لی.میرے والد صاحب اور بھائی صاحب اور دادا صاحب نے بیعت کی.جنکی عمر ۹۰ سال کی تھی.اور میں اسوقت پاس موجود تھا.دوم پھر مجھے جب ذرا شعور پیدا ہوا تو ۱۹۰۱ء میں میں نے اپنی بیعت کا خط لکھا.اس وقت

Page 300

تاریخ احمدیت.جلد 24 282 سال 1967ء سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی توجہ کا اثر مجھ پر ہونے لگا.اور جو کتاب آتی آسانی سے پڑھی جاتی اور جو اخبار آتا تھا وہ شوق سے پڑھا کرتا تھا.پھر بچپن کی عمر میں دعا کی طرف توجہ ہوگئی بعض دعاؤں کے اثرات بھی دیکھنے میں آئے.سوم تیسر ا زمانہ وہ تھا جب یہ شوق پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کی جائے.میں ابھی متعلم ہی تھا.میں نے اس غرض کے لئے نہایت توجہ سے دعا کی تو میں نے دیکھا کہ میں مسجد کے حجرے میں لیٹا ہوا ہوں کہ حضرت صاحب دروازہ کھول کر اندر تشریف لے آئے.میں اٹھ کر چمٹ گیا اور رونے لگا.اس رؤیا کے دس پندرہ دن کے بعد میرا قادیان آنے کا بندو بست ہو گیا.قادیان آنے والے تین بڑے آدمی تھے.(حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پٹیالہ، حضرت حافظ نور محمد صاحب سیکرٹری ، حاجی مستری محمد صدیق صاحب پٹیالوی) اور ہم تین (ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب، میاں خدا بخش المعروف مومن جی ، شیخ محمد افضل صاحب) طالب علم تھے چنانچہ اس وقت کے اخبار بدر میں میرا نام حشمت اللہ طالب علم چھپا ہوا موجود ہے.اس وقت مہمان خانہ کچا تھا اور بہت مختصر تھا ایک کوٹھڑی میں سید احمد نور صاحب دکان کیا کرتے تھے اور ایک کوٹھڑی میں سید عبدالحی صاحب عرب دکان کرتے تھے.پہلی بار مجھے نماز مغرب میں آنے کا اتفاق ہوا.میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ڈھونڈ رہا تھا.مجھے ایک شخص دکھائی دیا مگر فورا ہی میری نظر نے اندازہ لگایا کہ یہ حضرت صاحب نہیں ہیں.تھوڑی دیر کے بعد حضور تشریف لائے اور نماز کے بعد شاہ نشین پر بیٹھ گئے.ایک شخص عبد الحق نامی جو نومسلم ( آریہ ) تھا.ہم سے پہلے قادیان میں آیا ہوا تھا.اس نے ذکر کیا کہ میں تین چار دن سے آیا ہوا ہوں.مگر حضرت صاحب نے میری بیعت نہیں لی.مگر حضرت صاحب نے دوسرے ہی دن ہماری بیعت لے لی.اس شخص نے بھی ہماری بیعت کے وقت اپنا ہاتھ رکھ دیا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس امر کا علم نہ ہوا.اگلی صبح حضرت صاحب حضرت میاں بشیر احمد صاحب والے مکان کے پاس کھڑے تھے کہ عبدالحق نو مسلم بھی وہاں آ گیا.اس نے عرض کی کہ حضور دعا کریں میں نے بیعت تو کر لی ہے.یہ سن کر حضور کے چہرے پر تغیر واقع ہو گیا.حضور نے فرمایا:

Page 301

تاریخ احمدیت.جلد 24 283 سال 1967ء ایسی بیعت کا کوئی فائدہ نہیں، اگر استقامت نہ ہو.چنانچہ چنہ کے بعد اس کی حالت بگڑ گئی اور وہ مرتد ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انہی ایام میں ایک الہام ہوا.فَزِعَ عِيسَى وَمَنْ مَّعَهُ.ہم نے اس الہام سے غم سمجھا تھا.چنانچہ اس کے دو مہینے کے عرصے میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات ہوگئی اور سب کو غم ہوا.اس طرح ایک روز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وضو کر نے کے بعد اٹھنے لگے تو دریچہ جو کھلا تھا.اس سے حضور کو چوٹ لگی اور بڑا خون نکلا.اور ہم سب کو بڑا صدمہ ہوا.قادیان میں دوبارہ آمد حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ دوسری بار ۱۹۰۷ء میں سالانہ جلسہ پر قادیان آنے کی توفیق ملی.گو اس زمانے میں بھی میں طالب علم تھا.مگر جماعت کا سیکرٹری بھی تھا.صدرانجمن نے جماعت کے نمائندوں کو مشاورت کے لئے بلایا تھا.مشاورت کا وقت مغرب عشاء کے بعد تھا.میں نے صبح آٹھ بجے کھانا کھایا تھا اور میں نے خیال کیا تھا کہ جلدی ہی اجلاس ہو جائے گا.تو واپس آکر کھانا کھالوں گا.میں بھی اس اجلاس میں جا کر بیٹھ گیا.اس اجلاس میں خواجہ کمال الدین صاحب، خان صاحب برکت علی خان صاحب اور خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب بھی شامل تھے یہ مشاورت رات کے گیارہ بجے ختم ہوئی.اس عرصہ میں لنگر خانہ بند ہو گیا تھا.میں اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گیا.ایک خشک ٹکڑا میرے ہاتھ لگ گیا اور میں نے اسے چبانا شروع کیا.مگر بھوک بند نہ ہوئی.میں ابھی سویا نہیں تھا کہ دروازہ پر دستک ہوئی کہ جو یہاں بھوکا ہو کھانا کھالے.دوسرے دن صبح کو دیکھا کہ حضرت صاحب مسجد مبارک پر کھڑے ہیں اور حضرت خلیفتہ اُ يفته السيح الا ول بھی ہیں.حضور بڑے جوش سے فرمارہے تھے.رات کو مہمان بھو کے رہے اور مجھے الہام ہوا.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ مجھے تیسری مرتبہ لاہور میں زیارت کا موقعہ نصیب ہوا.اس وقت میں میڈیکل کالج کا طالب علم تھا.۲۰ را پریل ۱۹۰۸ء کو میں لاہور آ گیا تھا ۲۷ را پریل ۱۹۰۸ء کو حضور لا ہور تشریف لے آئے.ہم روز جاتے اور زیارت سے شرف یاب ہوتے.حضور کا ان ایام میں معمول تھا کہ روزانہ شام کو سیر

Page 302

تاریخ احمدیت.جلد 24 284 سال 1967ء کو تشریف لے جاتے.حضرت اماں جان بھی ساتھ ہوتی تھیں اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی گاڑی کے پچھلی طرف کھڑے ہو جایا کرتے تھے.الغرض ہم روزانہ حضور کی زیارت سے مشرف ہوتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شاہزادہ ابراہیم نے دعوت کی اور دعوت کے طور پر مبلغ پچاس روپے کی رقم بھیج دی.حضور نے اس رقم میں اپنی طرف سے اور رقم شامل کر کے روؤساءلا ہور کی دعوت فرمائی.اور اس دعوت میں حضور نے بڑے جوش سے ایک تقریر فرمائی.جو سب مہمانوں نے سنی تھی.دورانِ تقریر میں حضور نے دودھ کا ایک گھونٹ بھی پیا تھا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری تقریر بھی سنی تھی.وہ تقریر آخری تقرریتی اور ایک قسم کی وصیت تھی.اس میں فرمایا تھا.”دیکھو ہمارے لئے بڑا خوف کا مقام ہے.کروڑوں آدمی ہمارے خلاف ہیں.اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا نہ کیا تو ہم دین سے بھی گئے.اور دنیا سے بھی گئے.“ ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کی شام کو ہم نے تو حضور کو سیر کے لئے رخصت کیا.مگر صبح دس بجے آپ کی وفات ہوگئی.ایک مرتبہ لاہور میں حضور کا جنازہ پڑھا گیا.پھر جنازہ گاڑی میں رکھکر بٹالہ لایا گیا.بٹالہ سے چار پائی پر رکھ کر قادیان لایا گیا.میرا چونکہ قد چھوٹا تھا اس لئے میں نے چار پائی کے پچھلی طرف اپنا سر دے دیا اور اس طرح کئی میل تک چلا آیا.اللہ تعالیٰ نے چونکہ حضرت ڈاکٹر صاحب کے لئے حضرت مصلح موعود اور جماعت کی عظیم طبی خدمات ازل سے مقدر کر رکھی تھیں.اس لئے انتہائی ناموافق حالات کے باوجود ۲۰ را پریل ۱۹۰۸ء کو میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا.خدا تعالیٰ کے اس غیر معمولی فضل نے آپکا سر آستانہ الوہیت پر ایسا گرا دیا کہ عمر بھر پھر اس کی بارگاہ سے کبھی نہ اٹھا.یہانتک کہ باری تعالی کی مخفی در مخفی ذات آپ کے قلب وروح پر مستولی ہوگئی.کالج کا چار سالہ تعلیمی دور تعلیم کے ساتھ ساتھ نمازوں اور سجدوں میں گذرا.اور آپ آخری امتحان میں کامیاب ہو کر ۱۲ جون ۱۹۱۲ء سے ریاست پٹیالہ کے سب سے بڑے ہسپتال راجندر ہسپتال میں ملازم ہو گئے.آپ کی شب و روز دُعاؤں کے مزید اثرات رفتہ رفتہ نمایاں سے نمایاں تر ہونے لگے.اور ابھی ایک سال بھی ختم نہ ہو پایا تھا کہ آپ کے سب سے بڑے افسر ڈاکٹر

Page 303

تاریخ احمدیت.جلد 24 285 سال 1967ء کا ون نے آپ کے کام کو دیکھتے ہوئے بجٹ کی منظوری تک اپنی جیب خاص سے الاؤنس دینا شروع کر دیا.نیز کہا کہ میں نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب جیسا سب اسٹنٹ سرجن اپنی تمام سروس کے زمانے میں نہیں دیکھا.آپ کی شہرت دو ایک سال کے عرصہ میں ریاست کے طول وعرض میں پھیل گئی.یہانتک کہ آپ کو مہاراجہ پٹیالہ کے خاص طبی عملہ میں لیا جانے لگا مگر یہ مرحلہ آپ کی متضرعانہ دعاؤں کی برکت سے رُک گیا.کیونکہ اس سے آپ کو دین کے برباد ہو جانے کا خطرہ تھا.حضرت ڈاکٹر صاحب سرکاری فرائض بجا لانے کے ساتھ ساتھ پٹیالہ کی جماعت کے سرگرم رکن تھے.اور جماعت کی مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے.آپکی ان پر جوش سرگرمیوں کے نتیجے میں آپکو پٹیالہ کی جماعت کا سیکرٹری مقرر کیا گیا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر آپ اسی حیثیت سے پٹیالہ سے قادیان پہنچے اور نہ صرف حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.بلکہ ۱۵ مارچ ۱۹۱۴ء کے اس تاریخی اعلان پر بھی دستخط کئے.جو سلسلہ کے بزرگوں اور شمع خلافت کے پروانوں کی طرف سے خلافت ثانیہ کی بیعت کی تحریک کے طور پر الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۴ پر شائع ہوا.ریاستی ملازمت پر چھٹا سال شروع ہوا تو جناب الہی کی طرف سے آپ کے مستقل طور پر قادیان میں بودو باش رکھنے اور حضرت مصلح موعود کے معالج خصوصی مقرر کئے جانے کے غیبی سامان پیدا ہو گئے.واقعہ یہ ہوا کہ اس سال ۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم اول کے نتیجہ میں انفلوئنزا کی وبا ملک میں پھوٹ پڑی اور قادیان بھی اسکی زد میں آگیا.حتی کہ حضرت مصلح موعود پر اس مرض کا ایسا سخت حملہ ہوا کہ آپ نے ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھوا دی.حضور کا علاج یونانی اور انگریزی دونوں طریق سے کیا جار ہا تھا.یونانی علاج حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب اور مولوی غلام محمد صاحب امرتسری اور انگریزی علاج ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کر رہے تھے.لیکن ایک مرحلہ ایسا آگیا کہ دوسرے ڈاکٹر کی ضرورت پڑ گئی.چنانچہ بیک وقت دوتار حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی طرف سے دیئے گئے.ایک تار حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو پانی پت اور دوسرا حضرت ڈاکٹر صاحب کو پٹیالہ بھجوایا گیا.حضرت ڈاکٹر صاحب اس تار کے ملتے ہی دیوانہ وار اپنے آقا کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے تحریر فرمایا کہ صاحب سول سرجن پٹیالہ نے بمشکل دودن کی رخصت منظور کی تھی.ایک 18

Page 304

تاریخ احمدیت.جلد 24 286 سال 1967ء تو اس وجہ سے زیادہ دن کی رخصت نہ دی کہ ایک عظیم ہاسپٹل کے اہم کام میرے سپرد تھے.دوسرے اس وجہ سے کہ انفلوئنزا کی وبا کی وجہ سے ڈاکٹروں کی ہر جگہ احمد ضرورت تھی.چھٹی ملتے ہی قادیان کی راہ لی.اور اگلے روز دو تین بجے قادیان پہنچ گیا.قریب چار بجے کے مجھے حضرت (خلیفہ المسیح) کی خدمت میں لے جایا گیا.اس وقت حضور انور زمین پر کئے ہوئے بستر پر جو اس دالان میں تھا.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہا کرتے تھے ، لیٹے ہوئے تھے.مجھے دیکھ کر حضور خوش ہوئے اور اپنی بیماری کا حال بیان فرمانے لگ گئے.حضور کا بیان ختم ہونے پر میں نے آپ کا طبی معائنہ کیا.اور بشرح صدر بتلایا کہ پھیپھڑے اور دل خدا کے فضل سے بالکل محفوظ ہیں اور دونوں نہایت عمدہ ہیں.یہ سُن کر حضور کو بہت تسلی ہوئی اور حضور کا چہرہ پر رونق نظر آنے لگا.حضور نے میری چار پائی اسی دالان میں لگوادی اور میری دو دن کی رخصت میں حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کو پٹیالہ بھیج کر تین ماہ کی توسیع کروادی.علاج معالجہ کا سلسلہ جاری ہو گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی.میری رہائش رخصت کے اختتام تک اسی دالان میں رہی.اور حضور بھی اس کمرہ میں قیام فرما رہے.رات کو صرف میں ہی حضور کے پاس سوتا تھا.اور ہم دونوں اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے.غرض میری تین مہینے کی رخصت یہ خدمت انجام دیتے ہوئے ختم ہوئی.اور جس روز میں پٹیالہ کو واپس روانہ ہورہا تھا.اس روز حضور نے میرے شکریہ اور اعزاز میں بہت سے احباب کو دعوتِ طعام دی اور مجھے قصبہ سے باہر تک چھوڑنے کے لئے تشریف لائے.پھر میں نے پٹیالہ پہنچ کر اپنی ڈیوٹی کا چارج لے لیا.لیکن چند دن بھی نہ گذرے تھے کہ حضور نے خطوں کے ذریعہ علالت طبع کا لکھنا شروع کر دیا.آخر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو پٹیالہ بھجوا کر میری چھ ماہ کی رخصت منظور کروا دی اور میں صرف تیرہ روز بعد دوبارہ قادیان پہنچ گیا.چند ماہ بعد حضور کے منشاء سے میں نے اپنا استعفی لکھ بھیجا اور مجھے رہائش کے لئے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا شہر والا مکان مل گیا اور میں نے اپنے اہل وعیال کو پٹیالہ سے بلا کر عافیت کے قلعہ میں بسا لیا.(اس مکان میں آپ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۴۷ء تک قیام فرما رہے ) حضرت مصلح موعود کے طبی معالج و مشیر کے اہم منصب پر فائز ہونے کے علاوہ آپ ۲ فروری ۱۹۱۹ء کو افسر نور ہسپتال بھی مقرر ہوئے.آپ کے دور میں ہسپتال کو صوبہ بھر میں غیر معمولی قبولیت حاصل ہوئی اور اس کے ذریعہ سے بہت سے مریضوں کو خدا کے فضل سے شفا حاصل ہوئی.حضرت 20

Page 305

تاریخ احمدیت.جلد 24 287 سال 1967ء ڈاکٹر صاحب جیسے دعا گو، خلیق، ہر دلعزیز اور ایثار پیشہ ڈاکٹر کی زیر نگرانی یہ ہسپتال فسادات ۱۹۴۷ء تک برابر ترقی کرتا رہا اور اپنوں اور بیگانوں نے اس ہسپتال کی دل کھول کر تعریف کی.حضرت ڈاکٹر صاحب کی عظیم الشان خدمات اور خصوصیات کا سلسلہ بہت طویل ہے مثلاً فروری حضرت مصلح موعود کے حرم میں حضرت سیدہ ام طاہر آئیں.نہایت مختصر بارات تھی.حضور نے اپنے ایاز یعنی حضرت ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لیا.اور تانگے پر سوار ہو کر دلہن کے گھر پہنچے.۱۹۲۴ء کے مشہور عالم سفر یورپ کے دوران آپ کو حضرت مصلح موعود سے ہمرکابی کا شرف 21 حاصل ہوا.(اس سفر کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم میں گذر چکی ہے ) مارچ یا اپریل ۱۹۲۵ء میں آپ حضرت مصلح موعود کے خصوصی ارشاد پر بھا گلور تشریف لے گئے.اور حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے متعلق طبی رپورٹ پیش کی جس پر حضرت مصلح موعود نے چند روز بعد حضرت سیدہ موصوفہ سے اپنے نکاح کا اعلان فرمایا.دعوت ولیمہ کا انتظام آپ ہی کے سپر د ہوا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء کو اپنے مکان میں سیدنا حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی اس موقعہ پر آپ بھی موجود تھے.اس بیعت میں آپ کی خصوصی تحریک کا نمایاں حصہ تھا.حضرت سیدہ ام طاہر کا انتقال ۵ مارچ ۱۹۴۴ء کو گنگا رام ہسپتال لاہور میں ہوا.سیدہ مرحومہ کی آخری علالت میں آپ کو بھی قیام لاہور کے دوران حضرت مصلح موعود کی معیت حاصل رہی.جنازہ لاری میں رکھا گیا تو حضور نے آپ کو ہدایت فرمائی کہ نعش کے پاس قادیان تک بیٹھیں.چنانچہ آپ نے اسکی تعمیل کی.سید نا حضرت مصلح موعود نے ۱۹۵۵ء میں دوسرا سفر یورپ اختیار فرمایا (ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ہفد ہم ) اس مبارک اور تاریخی سفر میں بھی آپ کو ہمرکابی کا شرف حاصل ہوا.آپ فرماتے ہیں کہ ”جب حضور ۱۹۵۵ء میں بغرض حصول طبی مشورہ یورپ تشریف لے جارہے تھے تو دس بارہ روز قبل حضور کو علم ہوا کہ میرا پاسپورٹ تیار نہیں کرایا گیا اس پر حضور سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اگر اُن کا پاسپورٹ نہ بنا تو میں بھی نہ جاؤں گا.خواہ میرا دولاکھ روپیہ بھی کیوں نہ خرچ ہو گیا ہو.سفر پر روانگی کے وقت قافلہ دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ایک حصہ سیدھالندن گیا جن میں حضور کے گھر کے افراد اور خاکسار تھا اور دوسرے قافلہ میں خود حضور شامل تھے.

Page 306

تاریخ احمدیت.جلد 24 288 سال 1967ء حضرت ڈاکٹر صاحب کو پینتیس سال تک حضرت مصلح موعود کے طبی مشیر اور معالج خصوصی کی حیثیت سے نہایت درجہ ذوق و شوق اور جذبہ محبت و وارفتگی کے ساتھ حضرت مصلح موعود کی خدمت سرانجام دینے کی سعادت ملی آپ کیکم اکتو بر ۱۹۵۴ ء تک اس خدمت پر مامور رہے.اس کے بعد حضور کے علاج کا عملی حصہ مثلاً ٹیکے وغیرہ کرنا آپ کے ہی ذمہ رہا.اور ہاسپٹل کا انتظام صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منوراحمد صاحب کے سپر دہوا.لیکن ڈاکٹر صاحب مئی ۱۹۵۹ء سے لیکر ۱۹۶۵ء تک حضرت مصلح موعود کی وفات تک حضور کی رہائش گاہ سے متصل کمرہ میں قصرِ خلافت میں ہی رات دن قیام پذیر رہے.آپ کو 25.اس دور میں بھی حضور کے سفروں میں معیت کا اعزاز حاصل ہوتا رہا.اور حضور کے علاج کا ایک عملی حصہ مثلاً شیکے وغیرہ کرنا آپکے ہی ذمہ رہا.سید نا حضرت مصلح موعود نے ۲۰ ستمبر ۱۹۴۴ء کو درج ذیل الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا:.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اپنی ذات میں واقف زندگی ہیں یعنی انہوں نے اپنی زندگی سلسلہ کے لئے وقف کر رکھی ہے اور ایک لمبے عرصہ سے...وہ اپنے آپ کو وقف کئے ہوئے ہیں پھر اُن کا ذاتی تعلق بھی میرے ساتھ اس قسم کا ہے کہ جوان کو اس بات کا مستحق بنا دیتا ہے کہ اُن کے ساتھ خاص سلوک کیا جائے“.26 حضرت ڈاکٹر صاحب سلسلہ کے منکسر المزاج، صاحب رویاء بزرگوں اور اہل اللہ میں سے تھے اور بجاطور پر ایاز محمود کہلانے کے مستحق تھے.آپ نے آنے والی نسلوں کے لئے مثالی خدمت و ایثار کا قابل تقلید نمونہ چھوڑا.آپ کی بہت سی بصیرت افروز تقاریر اور پر از معلومات مضامین جماعت کے اخبارات میں ریکارڈ ہیں اور آپ کی بہترین علمی یادگار ہیں.اولاد.ڈاکٹر محمد احمد صاحب ۲.زینب بیگم صاحبہ زوجہ ڈاکٹر غلام حیدر قریشی صاحب لاہور کلثوم بیگم صاحبہ ۴.مسعود احمد صاحب سلیمہ بیگم صاحبہ ایم اے زوجہ ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی میر پور خاص سندھ.مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید ضلع میر پور خاص سندھ آپ کے اکلوتے فرزند تھے.) ۶ سلیم احمد صاحب ۷ امینہ بیگم صاحبہ ۸.کریم احمد صاحب نعیم بی ایس سی فارمیسی

Page 307

تاریخ احمدیت.جلد 24 و.289 سال 1967ء نعیمہ بیگم صاحبہ ایم اے لیکچرار جامعہ نصرت ربوہ.اہلیہ سید محمد اکرم شاہ صاحب انفارمیشن آفیسر لاہور.ثمینہ بیگم صاحبہ ایم اے اہلیہ چوہدری عبدالشکور صاحب ایم ایس سی میر پور خاص سندھ ) حضرت مہر قطب الدین صاحب آف قادیان 28 ولادت : ۱۸۸۲ء بیعت وزیارت انداز ۹۵-۱۸۹۴ء وفات: ۱۵ را پریل ۱۹۶۷ء آپ کے والد ماجد حضرت مہر حامد صاحب بھی صحابی تھے.آپ قادیان کے آرائیوں میں سے اولین ایمان لانے والے تھے.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر پہلے آپ کا بھی تذکرہ کر دیا جائے.آپ کے والد کا نام محکم الدین آرائیں تھا.آپ نے انداز ا۹۵-۱۸۹۴ء کو قبول احمدیت کی توفیق پائی.آپ کے ساتھ آپ کے چچازاد بھائی حضرت میاں عبداللہ صاحب قادیانی ولد حکم الدین آرائیں نے بھی بیعت کی.حضرت مہر حامد صاحب مخلص اور شیدائی احمدی تھے.آپ کے حالات زندگی کے متعلق زیادہ علم نہیں صرف آپ کے آخری عمر میں بیمار ہونے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کے گھر بغرض عیادت جانے کا ذکر محفوظ ہے.حضرت حافظ محمد امین صاحب آپ کی آخری بیماری اور وفات کے متعلق فرماتے ہیں کہ قادیان میں ایک بزرگ حضرت حامد صاحب آرائیں....حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص خادم اور شیدائی تھے چونکہ ان دنوں مہمان خانہ چھوٹا سا تھا اس لئے بعض دفعہ مہمان ان کے مکان میں بھی ٹھہر جایا کرتے تھے.آپ جب بیمار ہوئے تو ان کا علاج حضرت مولوی نورالدین صاحب نے کیا.جب تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے حضور اپنا آدمی بھیجا اور عرض کیا کہ حضور جب باغ میں سیر کے لئے تشریف لے جائیں تو ادھر سے ہو کر تشریف لے جائیں تا کہ میں بھی حضور کی زیارت سے مشرف ہو سکوں.(حضور ان دنوں قادیان سے جانب جنوب اپنے باغ میں سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے تو مسجد فضل کے عقب والی سڑک سے تشریف لے جاتے تھے اور حضرت حامد صاحب کا مکان اسی سڑک پر واقع تھا) چنانچہ یہ پیغام سن کر حضور سیر کے لئے ادھر چل پڑے اور آپ کے مکان پر تشریف لے گئے.آپ کو شرف مصافحہ بخشا اور دریافت فرمایا کہ کیا تکلیف ہے اور مرض کے متعلق چند ایک اور سوالات کئے اور آخر حضور نے ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر فرمایا کہ آپ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ

Page 308

تاریخ احمدیت.جلد 24 290 سال 1967ء رکھیں اور گھبرا ئیں نہیں.میں دعا کروں گا.حضور نے پھر شرف مصافحہ بخشا اور واپس تشریف لے آئے.اس کے بعد حضرت حامد صاحب اسی دن دو بجے کے قریب فوت ہو گئے.حضرت اقدس کو اطلاع دی گئی تو حضور نے فرمایا کہ ان کا جنازہ تیار کر کے مدرسہ کے صحن میں لایا جائے اور ہمیں اطلاع دی جائے ان کا جنازہ ہم خود پڑھائیں گے.چنانچہ جنازہ مدرسہ کے صحن میں لا کر حضور کو اطلاع دی گئی اور حضور نے تشریف لا کر خود جنازہ پڑھایا اور جنازہ پڑھنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ یہ ہمارے پرانے اور مخلص اور جماعت کی مدد کرنے والے شخص تھے.ان کو عید گاہ والے قبرستان میں دفن کیا گیا تھا.32 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب آپ کی اس شدید بیماری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا از راہ شفقت آپ کی عیادت کے لئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مہر حامد قادیان کے آرائیوں میں پہلا آدمی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سلسلہ بیعت میں داخل ہوا اور اب تک اس کا خاندان خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہے.مہر حامد نہایت غریب مزاج تھا....وہ بیمار ہوا اور وہی بیماری اس کی موت کا موجب ہوئی حضرت اقدس متعدد مرتبہ اپنی جماعت مقیم قادیان کو لے کر اس کی عیادت کو تشریف لے گئے.آپ جب جاتے تو اس سے بہت محبت اور دلجوئی کی باتیں کرتے اور اس کی مرض اور اس کی تکلیف وغیرہ کے متعلق بہت دیر تک دریافت فرماتے اور تسلی دیتے.مناسب موقع ادویات بھی بتاتے اور توجہ الی اللہ کی بھی ہدایت فرماتے تھے.وہ اپنی حیثیت کے لحاظ سے ایک معمولی زمین دار تھا اور یہ کہنا بالکل درست ہے کہ آپ کے زمین داروں میں ہونے کی وجہ سے وہ گویا رعایا کا ایک فرد تھا.مگر آپ نے کبھی تفاخر اور تفوق کو پسند نہ فرمایا.اس کے پاس جب جاتے تھے تو اپنا ایک عزیز بھائی سمجھ کر جاتے تھے اور اس طرح پر سے اس سے باتیں کرتے اور اس کی مرض اور اس کے علاج کے متعلق اس قدر دلچسپی لیتے کہ دیکھنے والے صاف طور پر کہتے تھے کہ کوئی عزیزوں کی خبر گیری بھی اس طرح نہیں کرتا.بعض ادویات جن کی ضرورت ہوتی اور کسی جگہ سے میسر نہ ہوتیں تو خود دے دیتے.غرض آپ نے متعدد مرتبہ مہر حامد مرحوم کی عیادت فرمائی.اگر چہ مہر صاحب فوت ہو گئے مگر ان کو جو تسلی اور اطمینان اور خوشی اس امر کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کی عیادت کو آتے اور خبر گیری فرماتے ہیں وہ بیان سے باہر ہے.بعض وقت میں دیکھتا تھا کہ سرور سے اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے وہ اپنے گھر کو، اپنی حیثیت کو دیکھتا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 309

تاریخ احمدیت.جلد 24 291 سال 1967ء کو دیکھتا کہ آپ اپنی جماعت کو لیکر اس کی عیادت کے لئے آرہے ہیں اور اس کو الگ اور اس کے بیوی بچوں کو جو وہاں موجود ہوتے نہایت ہی پیارے الفاظ میں تسلی اور اطمینان دلاتے اور رو بخدا ر ہنے کی وصیت فرماتے رہتے.خدا تعالیٰ کی تقدیر مبرم اور اجل مقدر تھی مہر حامد فوت ہو گیا آپ نے خود اس کا جنازہ پڑھا اور اس کے اخلاص اور وفادارانہ تعلق کا ذکر کرتے رہے.اس کا خاندان احمدی تھا اس کے بڑے بیٹے میاں مہرالدین مرحوم کے ساتھ اسی محبت اور پیار سے پیش آتے جس طرح ایک باپ اپنے بیٹے سے.قادیان میں آنے والے مہمان بعض اوقات حضرت مہر حامد صاحب کے گھر میں آکر ٹھہرتے.حضرت ڈاکٹر گوہر دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب ابتدا میں قادیان آئے تو کافی عرصہ تک حضرت مہر حامد صاحب کے گھر قیام پذیر ر ہے اور دینی معلومات حاصل کرتے رہے.آپ کے تین بیٹے تھے.حضرت میاں مہر الدین صاحب، حضرت فیروز الدین صاحب اور حضرت مہر قطب الدین صاحب.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے تینوں بیٹوں کو صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.حضرت فیروز الدین صاحب نے جوانی میں ہی وفات پائی.حضرت مہر الدین صاحب نے ۱۴ جولائی ۱۹۱۸ء کو وفات پائی.وفات سے پہلے چند روز بعارضہ ٹائیفائیڈ بیمار ہے.بوجہ موصی ہونے کے بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.آپ نے وفات سے چند دن پہلے ہی وصیت کا سارا چند ادا کر دیا تھا.آپ کے تین بیٹے تھے.مہر جلال الدین صاحب، ۲.مولانا محمد ابراہیم صاحب قادیانی درویش ۳۰.مولوی محمد عبداللہ صاحب مولوی فاضل.آپ کے منجھلے بیٹے مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی درویش قادیان میں سے تھے.آپ ۴ دسمبر ۱۹۰۶ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور نومبر ۱۹۲۹ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے مدرس متعین ہوئے.مدرسہ احمدیہ میں حضرت مصلح موعود کے چار فرزندان کو تعلیم دینے والے اساتذہ میں سے ایک آپ بھی تھے.صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ممبر ہونے کے علاوہ نظارت دعوت الی اللہ میں بطور نائب ناظر اور ناظر تالیف و تصنیف کی خدمت کی بھی توفیق پائی.اب حضرت مہر قطب الدین صاحب کے حالات قلمبند کئے جاتے ہیں.حضرت مہر قطب الدین صاحب نے سورج گرہن کے نشان کے بعد بیعت کی تھی.آپ کی خود نوشت روایات میں لکھا ہے:.

Page 310

تاریخ احمدیت.جلد 24 دو 292 سال 1967ء ” جب والد صاحب مرحوم بیمار ہوئے.بارہ دن بیمار رہے.ہم نے پوچھا کہ کسی کو ملنا چاہتے ہو.کہتے ہاں.حضرت صاحب کو ملنا چاہتا ہوں.چنانچہ حضور کو اطلاع کی گئی.حضور میں چھپیں آدمیوں کے ساتھ تشریف لائے.حالات دریافت کرتے رہے.والد صاحب کی پہلی میں درد ہوتا تھا.فرمایا کس کا علاج کرتے ہو.والد صاحب نے کہا کہ مولوی صاحب کا ( مراد حضرت مولوی نورالدین صاحب) فرمایا کیا تکلیف ہے.اس نے کہا پہلی میں درد اور بخار ہوتا رہتا ہے.حضور نے فرما یا ایلواسہا گہ اور مرغی کے انڈے کا لیپ کرو.مولوی صاحب نے فرمایا یہ نسخہ استعمال کیا ہے لیکن فائدہ نہیں ہوا.حضرت اقدس نے کسی اور دوا کا نام لیا.مولوی صاحب نے فرمایا اس کا استعمال بھی کیا ہے لیکن فائدہ نہیں ہوا.اس پر حضور نے تیسری دوا کا نام لیا، مولوی صاحب نے فرمایا اس سے فائدہ نہیں ہوا.اس پر حضرت اقدس نے فرما یا ایلو اسہا گہ اور مرغی کا انڈہ لاؤ میں اپنے ہاتھ سے لیپ کروں گا.انشاء اللہ آرام آجائے گا.اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور تکلیف نہ کریں میں دوبارہ خود کروں گا.چنانچہ لیپ کیا گیا.جوں جوں مولوی صاحب لیپ کرتے درد ہلتا جاتا.حتی کہ بالکل فائدہ ہو گیا لیکن بخار نہ گیا.حضور بعد میں پھر تیسرے دن تشریف لائے.دو دفعہ بعد میں آئے.جس دن تیسرے دن تشریف لائے پندرہ منٹ تک پاس بیٹھے رہے اور فرمایا تم گھبراؤ نہیں.جس جگہ تم جار ہے ہو ہم بھی وہیں آئیں گے.انہی دنوں والد مرحوم فوت ہو گئے.مہمان خانہ میں حضرت (اقدس) نے جنازہ پڑھایا.پرانے قبرستان میں دفن کیا گیا.ان دنوں بہشتی مقبرہ نہیں تھا.شیخ یعقوب علی صاحب (عرفانی) نے کہا حضور سلسلہ کی چوتھی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے.جو مہمان باہر سے آتے تھے وہ حضور کے پاس یا مولوی صاحب کے پاس یا میرے پاس یا اس کے پاس ٹھہرتے تھے.حضرت اقدس) نے دعائے خیر دی.حضرت مہر قطب الدین صاحب قادیان میں اپنی زرعی زمین ہونے کی وجہ سے زمیندارہ کا کام کرتے تھے.آپ کی شادی پٹھا نہ والہ نز دلا ہور میں محترمہ مہتاب بی بی صاحبہ کے ساتھ ہوئی.قادیان میں ایک مرتبہ آپ نے حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کو دعوت طعام دی.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے قدیمی تعلق ہونے کی وجہ سے از راہ شفقت دعوت قبول فرمائی.آپ کا گھر کچا لیکن کشادہ تھا، دیہاتی طرز زندگی تھا باہر مال مویشی بندھے تھے.دیواروں پر گوبر کے اوپلے ( پاتھیاں ) لگی تھیں جن پر چادریں ڈال کر انہیں ڈھانک دیا گیا تا کہ ظاہر نہ ہوں اور بد بو وغیرہ نہ آئے ، مال مویشی گھر

Page 311

تاریخ احمدیت.جلد 24 293 سال 1967ء سے باہر باندھ دیئے.کھانے میں ساگ اور مکئی کی روٹیاں تیار کیں.جب حضور مع چند احباب تشریف لائے تو نیچے دریاں وغیرہ بچھا کر اوپر چادریں بچھا دی گئیں اور گاؤ تکیے رکھے گئے حضور وہاں بیٹھ گئے.حضور نے آدھی روٹی کھائی.جب واپس جانے لگے تو فرمایا قطب الدین ساگ تو بہت اچھا پکا ہے مگر نمک تھوڑا زیادہ ہے.حضور کے جانے کے بعد آپ نے ساگ چکھا تو نمک معمول سے کافی زیادہ تھا اور ساگ کافی کڑوا تھا آپ نے بھا بھی سے پوچھا تو کہنے لگیں میں نے چکھا ہی نہیں کہ کہیں حضور کو جو ٹھا کھانا نہ دیا جائے.بہر حال حضور کا وسعت حوصلہ اور اعلی ظرفی تھی کہ غلام کو شرمندہ نہ ہونے دیا.آپ ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے قادیان سے پاکستان آگئے اور بقیہ عمر ربوہ میں بسر کی.بہت مخلص، دعا گوا اور صاحب رؤیا بزرگ تھے.جب ہجرت کر کے پاکستان آئے تو ابتدا میں لاہور میں ہی تھے، کوئی ٹھکانہ نہیں تھا.آپ کے ساتھ آپ کے پوتے تھے جن کے والد ( ٹھیکیدار غلام محمد صاحب) قادیان ہی ٹھہر گئے تھے اس وقت آپ نے ان بچوں کو بہت سہارا دیا مہاجرین کی طرح سڑکوں پر سوتے آپ ایک بوری نیچے بچھاتے اور ایک اوپر لیتے.ایسی حالت میں نہایت غمزدہ تھے.ایک دن ایک شخص آیا اور پوچھا بابا جی آپ کیوں رور ہے ہیں آپ نے فرمایا یہاں سب رور ہے ہیں میں رویا تو کیا ہوا.اس نے کہا نہیں پھر بھی آپ بتائیں.آپ نے بتایا کہ میں قادیان کا رہنے والا ہوں وہاں میری زمین تھی ، مال مویشی تھے وہاں میں ان بچوں کوکھلایا پلایا کرتا تھا اور ہر طرح کا خیال رکھتا تھا اب یہاں اتنی تنگ حالت ہے میں اپنے بچوں کے لئے کچھ بھی نہیں کر پارہا.اس نے کہا بابا جی آپ کے پاس کچھ پیسے ہیں آپ نے فرمایا ہاں چالیس روپے ہیں.اس شخص نے زمین پر سے گرا ہوا کوئی کاغذ اٹھایا اور اس پر کچھ لکھ دیا اور کہا کہ وہ فلاں جگہ (جو دھا مل بلڈنگ کے پاس کہیں راشن مل رہا ہے آپ بھی لے لیں.آپ وہاں پہنچے لوگوں کا بہت ہجوم تھا آپ بھی کھڑے ہو گئے انتظامیہ نے کہا کہ یہاں سے ذرا پیچھے ہٹ جاؤ، وہاں کھڑے ہو جاؤ ( جیسا کہ رش کے موقعوں پر ہوتا ہے ) آپ نے وہ کاغذ دکھایا تو وہ آپ کو اور بچوں کو ساتھ والی قطار میں لے گیا اور جہاں سے تھوڑی ہی دیر میں آپ کو پانچ روپے کا ہفتہ بھر کا راشن (چاول ، گڑ ،شکر وغیرہ) مل گیا جس سے گذارا چلتا رہا آخر جب لاہور چھوڑ کر آگئے تو وہ کا غذ ایک غریب عورت کو دے آئے نہ جانے وہ شخص کون تھا جوا ایسے کڑے وقت میں الہی مدد کا ذریعہ بنا.

Page 312

تاریخ احمدیت.جلد 24 294 سال 1967ء رجسٹر روایات میں آپ کی چند روایات بھی محفوظ ہیں ایک روایت بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ”ایک دفعہ حضرت اقدس نے بعض لوگوں کی دعوت کی.ہمارے مکان پر ایک سائیں رہا کرتا تھا وہ بھی کھانا کھانے گیا.جب اطلاع کرنے والا آیا والد صاحب نے کہا حضرت صاحب کو کہہ دینا کہ حامد کہتا تھا کہ دو آدمیوں کی روٹی زیادہ پکانا کھانے سے واپسی پر سائیں کہنے لگا کہ تمام عمر توڑی (بھوسہ) سے پیٹ بھرتا رہا ہوں صرف آج کھانا کھایا ہے.۱۹۶۶ء میں مجلس شوریٰ میں آپ کو بطور صحابی شمولیت کا اعزاز ملا.آپ کا نام صحابہ کرام قبل از ۱۹۰۰ء میں اس طرح شامل ہے.۵۳ مکرم مہر قطب الدین صاحب ربوہ.آپ مجلس انتخاب خلافت میں بھی شامل تھے.آپ کا نام تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی مطبوعہ فہرست کے صفحہ ۱۸ اپر مذکور ہے.اولاد 39.ا ٹھیکیدار غلام محمد صاحب ۲.رحمت اللہ صاحب حضرت با با غلام محمد صاحب در ویش قادیان ولادت: ۱۸۸۰ء 42 بیعت : ۱۹۰۲ء وفات ۲۰ را پریل ۱۹۶۷ء چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی سیکرٹری بہشتی مقبرہ قادیان نے لکھا:.بابا جی موضع ما نگا ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.لیکن ابتدائے درویشی سے خدمت مرکز کے لئے یہاں مقیم تھے.پرانی وضع کے بزرگ تھے.منحنی سا قد وقامت تھا.اور سرما ہو یا گرما سفید لباس میں ملبوس رہتے تھے.بڑھاپے کی وجہ سے پہرہ وغیرہ کی ہلکی ڈیوٹیاں دیتے رہے.مگر آخری چند سالوں میں ضعف پیری کے باعث تمام ڈیوٹیوں سے فارغ رہے.جن ایام میں وہ بہشتی مقبرہ میں پہرہ کی ڈیوٹی دیتے تھے.غیر مسلم زائرین کو بڑے جوش سے تبلیغ کیا کرتے تھے.گوان پڑھ تھے.مگر جماعتی مسائل سے واقفیت رکھتے تھے.آپ کا عرف بابا حویلی“ تھا.اور اس تسمیہ کی وجہ یوں پیدا ہوئی کہ آپ مجرد تھے.اور اپنے گاؤں میں ہمیشہ اپنی حویلی میں حاضر رہتے تھے.اسی نسبت سے 'بابا حویلی نام پڑ گیا تھا.آپ نے ۱۹۰۲ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا.موصی بھی تھے.۲۰ را پریل ۱۹۶۷ء کو ۸۷ سال کی عمر میں فوت ہو کر بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر ۸ میں دفن ہوئے.“ 43

Page 313

تاریخ احمدیت.جلد 24 295 سال 1967ء اخبار بدر قادیان نے آپ کی وفات پر لکھا.مرحوم بابا غلام محمد صاحب بہت نیک، جوشیلے مخلص بزرگ تھے.دعا گو، تہجد گزار اور صوم وصلوۃ نیز سنت نبوی کے بڑے ہی پابند تھے.سلسلہ کی ہر مالی تحریک پر خلوص اور محبت کے ساتھ لبیک کہتے اور اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیتے.درویشی کا زمانہ بڑے ہی صبر او رسکون اور اخلاص سے گزارا.مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی.حضرت خواجہ محمد عثمان صاحب بھیروی ولادت: ۱۹۰۰ء بیعت : ۱۹۰۷ء 45 وفات: ۳ مئی ۱۹۶۷ء آپ بھیرہ میں پیدا ہوئے.کہتے ہیں آپ کی عمر ابھی ۶/۷ سال ہی تھی کہ حضرت حاجی حافظ حکیم مولوی فضل الدین صاحب (وفات ۱۸اپریل ۱۹۱۰ء بدر۷ تا ۲۱ را پریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۵) بھیروی آپ کو قادیان لے گئے اور اسکول میں داخل کروا دیا.جہاں انہوں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی.اور زمانہ طالبعلمی میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.فرمایا کرتے تھے کہ زمانہ بچپن میں جب کوئی مہمان حضور علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کرنے لگتا تو ہم بھی اپنے ہاتھ رکھ دیتے.حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب نے فیروز پور میں آپ کو بطور کلرک ملازم کرا دیا.آپ اکا ؤنٹس برانچ میں تھے.بڑے دیانتدار اور محنتی تھے.۱۹۵۴ء میں اکاؤنٹ آفیسر کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے تھے.آپ نہایت سادہ طبیعت، حلیم طبع ، ملنسار اور قرآن پاک سے والہانہ محبت رکھنے والے تھے.اور احمد یہ لٹریچر پر بھی خاص عبور رکھتے تھے.نمازوں کو حتی الامکان با جماعت ادا کر تے خدمت خلق کر کے بڑے خوش ہوتے تھے.اہلِ محلہ کا سودا سلف بھی خرید لاتے تھے.ہر جماعتی کام میں حصہ لیتے اور ان کو بڑی ذمہ داری اور کوشش سے نباہتے.آپ صدر جماعت احمد یہ قصور بھی رہے ہیں.اولاد: ا.شیخ محمد اسلم صاحب ۲.شیخ محمد اکرم صاحب ۳.شیخ محمد اشرف صاحب ۴.شیخ ڈاکٹر محمد سلیمان صاحب فیصل آباده - شیخ محمد اسماعیل صاحب کراچی ۶.شیخ محمد اسحاق صاحب لا ہورے.مبارکہ بیگم صاحبه ۸.ناصرہ بیگم صاحبہ ۹.رضیہ بیگم صاحبہ ۱.امتہ الحفیظ صاحبہ

Page 314

تاریخ احمدیت.جلد 24 296 سال 1967ء یہ معلومات مکرم شیخ محمد یوسف صاحب امیر ضلع قصور جو کہ حضرت شیخ محمد عثمان صاحب کے پوتے ہیں، سے ملی ہیں.) حضرت ڈاکٹر عبدالحمید صاحب پختائی 47 ولادت : یکم جولائی ۱۸۹۴ء ۳ بیعت: جنوری ۱۹۰۳ء وفات: ۶ مئی ۱۹۶۷ء آپ حضرت حکیم محمد حسین صاحب ” مرہم عیسی “ کے فرزند اکبر اور حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے نامور پوتے تھے.آپ کے بیٹے جناب عبدالقدیر صاحب ہارون تحریر فرماتے ہیں.آپ لاہور میں یکم جولائی ۱۸۹۴ء کو پیدا ہوئے.شادی ۱۴ جون ۱۹۱۴ء کو ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ۱۳ بچے عطا فرمائے.۱۹۱۴ء میں میٹرک پاس کیا.منشی اور منشی فاضل کے امتحانات ۱۹۱۸ء میں پاس کئے.حکیم حاذق اور ہومیو پیتھک کی سندات بھی حاصل کیں.قدرتی طور پر آپ کا رجحان طب کی طرف تھا.آپ نے طب کی ضروری کتابیں سبقاً سبقاً اپنے وقت کے چوٹی کے حکماء سے پڑھیں جن میں سے خاص طور پر قابل ذکر حکیم مفتی سلیم اللہ صاحب مرحوم و مغفور اور حکیم مولوی ضیاء الدین صاحب مرحوم ہیں.اسکے علاوہ آپ نے طب میں استفادہ اپنے والد ماجد حکیم محمد حسین صاحب مرحوم المعروف مرہم عیسی سے بھی کیا.طب و یدک پنڈت مرلی دھر صاحب سے پڑھی.کتب ڈاکٹری کا بھی بکثرت مطالعہ کیا اور کئی کتب کا ترجمہ بھی کیا.آپ آٹھ مختلف طریق علاج سے واقف اور خوب واقف تھے.معمولی آپریشن بھی پوری مہارت کے ساتھ کیا کرتے تھے.آپ کے طبی مضامین ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۶۷ ء تک مختلف طبی اخبارات میں شائع ہوتے رہے جن کو طبی دنیا نے نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا.آپ ذیل کی کتابوں کے مصنف بھی تھے:.بیاض حمید انجکشن بک.معالجات اطفال - پرورش اطفال، فارما کو پیاڈاکٹری، فارما کو پیا یونانی وغیرہ وغیرہ.آپ کے جس قدرطبی مضامین شائع شدہ ہیں اگر انہیں یکجا جمع کیا جائے تو ہزار ہا صفحات کی ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے.آپ ۱۹۱۸ء سے باقاعدہ عوام کی طبی خدمت میں مشغول رہے.ہزارہا بیماروں کا نہایت کامیابی کے ساتھ علاج معالجہ کیا.لاہور کے مشہور ڈاکٹر اور ماہرین فن سے آپ کا گہرافنی تعلق تھا اور عند الضرورت ان کے مشوروں سے بھی استفادہ کرتے تھے.آپ نے کبھی بھی

Page 315

تاریخ احمدیت.جلد 24 297 سال 1967ء اپنے نام کا اشتہار نہیں دیا.چودہ سال آپ A.G کے دفتر میں ملازم بھی رہے.آپ نے ۱۹۳۱ء میں خود پینشن لی.لاہور کے مختلف طبی اداروں کی قابل قدر طبی خدمت سرانجام دی.آپ مریضوں کا علاج نہایت درجہ محبت درد اور اخلاص سے کیا کرتے تھے.طبیعت میں لالچ اور طمع ہر گز نہ تھا.امیر غریب اپنوں بیگانوں کا علاج ایک ہی جذبہ سے کیا کرتے تھے.کشتہ جات اور جڑی بوٹیوں سے بڑی واقفیت تھی.نسخہ لکھنے سے پہلے ھو الشافی اللہ لکھنا عادت میں داخل تھا.نسخہ جات مناسب حال لکھا کرتے تھے.اور مریض کی مالی استطاعت کو کبھی نظر انداز نہ کیا کرتے تھے.آپ کو ایک مرض کے پچاسوں نسخے یاد تھے.ضرورت کے مطابق ایلو پیتھی اور ہومیو پیتھی کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے.بدن انسانی کے جملہ امراض کے علاج سے واقف تھے.آپ نے سرجری بھی اپنے شوق سے سیکھی چنانچہ اس میں بھی آپ کو خاصی مہارت حاصل تھی.آپ نے بارہا معمولی آپریشن کامیابی سے کئے.مرض کی شدت کے پیش نظر آپ کی عادت میں داخل تھا کہ نسخے بار بار تبدیل کیا کرتے تھے.تا کہ مریض جلد از جلد صحت یاب ہو جائے.مریض کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتے تھے.آپ گھر میں ہمیشہ ضروری ادویات یونانی و انگریزی اور اوزار جراحی موجود رکھتے تھے.عمر بھر اچھی اچھی کتابیں خریدنے کا شوق رہا اور اپنے تجربہ کو ہمیشہ بڑھاتے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفا رکھی ہوئی تھی اور ہزاروں مریضوں نے آپ کے ہاتھوں شفاء پائی.ان کے طریق علاج کو یونانی اور ایلو پیتھی میں سراہا جاتا تھا.مریض خواہ عورت ہو یا مرد.بچہ ہو یا بوڑھا سب سے نہایت اخلاق کے ساتھ پیش آتے.جو مریض ایک دفعہ آجاتا ہمیشہ کے لئے گرویدہ ہوجاتا اور ضرورت پڑنے پر ہمیشہ آپ کی خدمات حاصل کرتا.آپ مریضوں کے علاج کے لئے ہر وقت تیار رہتے رات اور دن کے کسی حصہ میں جب کبھی کسی کو ضرورت پڑی آپ نے کبھی جانے سے انکار نہیں کیا.آپ نے کبھی بھی صحیح نسخہ بتانے میں بخل سے کام نہیں لیا.کتب بینی کا مشغلہ تمام عمر رہا.مضامین لکھنے کا کام بڑی عرق ریزی، اخلاص ، محنت اور درد سے کیا اور سب سے بڑھ کر مخلوق خدا کی ہمدردی کا جذبہ پس پردہ کام کر رہا تھا.اس خیال سے آپ کو مسرت ہوتی تھی کہ میرے طبی مضامین سے دنیا ہمیشہ فائدہ اٹھاتی رہیگی اور یہ میرا صدقہ جاریہ ہے جو میری وفات کے بعد میرے لئے مغفرت کا باعث بنتا رہے گا.آپ نے ساری عمر روپیہ جمع نہیں کیا اور نہ ہی زیور اور جائیداد بنانے کا شوق کیا.آپ ایک متوکل علی اللہ آدمی تھے.کفایت شعاری سے جو روپیہ بچ گیا فوراً کوئی نہ کوئی کتاب یا اوزار یا ادویات خرید لیتے اور سب

Page 316

تاریخ احمدیت.جلد 24 298 سال 1967ء سامان ہر وقت موجود رکھتے تا کہ ضرورت کے وقت کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ ہو.کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں کہ خود مطالبہ کر کے کسی سے فیس لی ہو.نادار اور مفلس مریضوں کا علاج مفت کیا کرتے تھے.بلکہ اپنی جیب سے امداد بھی کیا کرتے تھے.علاج زیادہ تر ادویات کی بجائے پھلوں اور پر ہیزی غذا سے کیا کرتے تھے.ڈاکٹری سرجری کے بہت قائل تھے اور کئی امراض میں علاج کی بجائے فوری آپریشن کرانے کا مشورہ دیتے.حکیم حاذق کی ایڈیٹری آپ نے چھوٹی عمر میں کی اور بعد میں آفتاب حکمت آپ کی زیر ادارت شائع ہوتا رہا.آپ کی ایک تصنیف ”بیاض حمید“ کے نام سے مشہور ہے.“ نیز عبدالقدیر ہارون صاحب مزید تحریر فرماتے ہیں:.لباس، خوراک اور رہائش میں سادہ تھے.شاعری میں بھی آپ کو کافی دلچسپی تھی.شیخ سعدی، عمر خیام، حافظ شیرازی، غالب اور اقبال کے کلام آپ کے پاس موجود تھے.اردو، فارسی، انگریزی اور پنجابی کے سینکڑوں کی تعداد میں اشعار آپ کو زبانی یاد تھے.بعض آدمی اس وجہ سے مخالفت رکھتے تھے کہ یہ احمدیت کی تبلیغ بھی کرتا ہے.اور عوام میں مقبول بھی بہت ہے.لیکن ساری عمر کسی سے عداوت ، دشمنی اور بغض نہیں رکھا.آپ کی صحبت لائق ، قابل اور صالحین کے ساتھ تھی.آپ کی واقفیت کا حلقہ بہت وسیع تھا.آپ کے عزیز واقارب کے علاوہ کافی دوست احباب ان کی قابلیت ، خلوص اور محبت کی وجہ سے مداح تھے.یہی وجہ کہ جس نسخے پر ذاتی “ لکھ دیتے دوائی فروش بغیر قیمت وصول کئے دوائی دے دیتے تھے.ایک دفعہ ایک بد باطن نے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے ایک مشہور و معروف نسخہ پر زہر اگلا جس کا جواب کئی اقساط میں لاہور کے طبی رسالہ میں والد صاحب دیتے رہے.جب جواب سے عاجز آگیا تو اس نے والد صاحب کے نام گھر کے پتہ پر گمنام خط لکھنے شروع کر دیئے.جن میں گالیاں اور قتل کی دھمکیاں ہوتی تھیں.ہم بہت پریشان ہوئے اور والد صاحب کو اس بات پر آمادہ کرتے رہے.کہ آپ احتیاط سے کام لیں.اور کچھ عرصہ گھر سے باہر نہ جائیں.لیکن یہ بے کار ثابت ہوا.فرماتے یہ کیسے ہوسکتا ہے.کہ میں گھر سے باہر نہ جاؤں اور ڈر کر گھر بیٹھ جاؤں.اگر میرے قتل ہونے کا وقت آ گیا ہے.تو کوئی مجھے بچا نہیں سکتا.مجھ سے ہرگز نہیں ہوسکتا کہ ایک طلاء بیچنے والا اور فن طبّ سے نابلد شخص حضرت حاجی الحرمین شریفین حکیم مولوی نورالدین خلیفہ المسیح الاول کے ایک اعجازی نسخہ پر اعتراض کرے اور میں جواب نہ دوں.&

Page 317

تاریخ احمدیت.جلد 24 299 سال 1967ء حضور المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی کی بیماری کے دوران میں والد صاحب اپنے مشورے بھیجتے رہتے تھے.اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے بھی رابطہ تھا.مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم طب میں آپ کے شاگرد تھے.مولوی عبد القادر صاحب ( سوداگر مل ) سے بھی گہرے تعلقات تھے.لاہور کی تاریخ احمدیت مرتب کرنے میں اپنے خاندان کے حالات لکھوانے میں بہت مدددی تھی.آپ جلسہ سالانہ قادیان اور بعد میں ربوہ ہمیشہ شریک ہوتے رہے.جمعہ کے دن مسجد سب سے پہلے جانے والوں میں ہوتے اور ہمیشہ گھر میں تلاوت قرآن پاک کرتے.الفضل اور سلسلہ کے دیگر اخبارات رسائل و جرائد زیر مطالعہ رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا قریباً پورا سیٹ ،حضرت خلیفہ المسح الاول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی کتب اور تفاسیر کا پورا ذخیرہ،سلسلہ کا تبلیغی لٹریچر، کتب علماء، اخبارات، رسائل کا بھی ذخیرہ آپ کے پاس تھا.آپ کے پاس طب یونانی اور ڈاکٹری اور ہومیو پیتھی ، تاریخ ، فلسفہ، ادب، اور شاعری پر پر مشتمل بہت بڑی لائبریری تھی.جو ۱۹۵۳ء کے فسادات میں ضائع ہوگئی.ان دنوں مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا.اور سخت پریشانی ہوئی.آپ کو مرتے دم تک اپنی لائبریری کے ضائع ہونے کا دُکھ تھا.اولاد المصل 50 ا.عبد الوحید صاحب مرحوم -۲- عبدالسلام صاحب ۳.عبدالقدیر صاحب ۴- آفتاب احمد صاحب ۵.ناصر احمد صاحب.بسم اللہ بیگم صاحبہے.بلقیس مبارکہ صاحبہ ۸.بلقیس مطہر بصاحبہ 9.سارہ جبیں صاحبہ ۱.مریم صاحبہ ۱.امۃ الرؤف صاحبہ ۲.طوبی مشین صاحبہ ۱۳.طوبی قدسیہ صاحبہ - 51 حضرت ملک عزیز احمد صاحب ولادت : ۱۸۹۶ء بیعت پیدائشی احمدی وفات: ۶ مئی ۱۹۶۷ء آپ حضرت ملک نورالدین صاحب صحابی کے بیٹے تھے اور خود بھی صحابی تھے.آپ اپنی ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۷ء میں میرا ایک بھائی فوت ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میرے والدین کو ایک صدمہ گزرا....حضرت والد صاحب مرحوم فورا...دوماہ کی رخصت لے کر ہم سب کو قادیان لے آئے....ایک دن رات کو جب میں پڑھنے کے لئے جارہا تھا تو مجھ پر ایسی غشی آئی کہ دو تین تک ہوش نہ آیا، والدہ

Page 318

تاریخ احمدیت.جلد 24 300 سال 1967ء صاحبہ کو ہنوز میرے بڑے بھائی کی فوتگی کا صدمہ تھا، میرے اس بیمار پڑ جانے سے اور بھی گھبراہٹ پیدا ہوئی چنانچہ وہ اسی وقت غالبا رات کے دس یا گیارہ بجے ہوں گے کہ حضرت خلیفہ اول کے پاس دوڑی گئیں.حضرت خلیفہ اول میرے نانا حافظ غلام محی الدین صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی ایام میں ڈاک کا کام کیا کرتے تھے، رضاعی بھائی تھے.حضرت خلیفہ اول اس تعلق کی بنا پر یا اس ہمدردی کے ماتحت جو حضور کو بنی نوع انسان کے ساتھ تھی فوراً والدہ صاحبہ کے ساتھ تشریف لا کر مجھے دیکھا، والدہ صاحبہ کو تسلی دی مگر ساتھ ہی واپس جا کر میرے آقا فداہ روحی کو اطلاع دی، حضور بھی از راه شفقت حضرت خلیفہ اول کے ساتھ تشریف لے آئے ، حضور نے حضرت خلیفہ اول کو فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ دوا دیں میں دعا کرتا ہوں...حضور کی دعاؤں کا نتیجہ تھا کہ مجھے شفا ہوئی.53 166 اسی طرح آپ سے بعض اور روایات بھی مروی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :.۱۹۰۷ ء کی ہی بات ہے کہ میری والدہ صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعوت طعام کی کھانا تناول فرمانے کے لئے جہاں حضور انور رونق افروز تھے، حضور پر نور کے دائیں جانب مجھے بیٹھنے کا موقع مل گیا اور بائیں جانب حضرت خلیفہ اسیح الاول تھے.اور میرے پہلو میں حضرت والد صاحب تھے.حضور علیہ السلام نے میرے والد صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے جن کو حضور منشی جی“ کے الفاظ سے یاد فرمایا کرتے تھے ، دریافت فرمایا.منشی جی آپ کے کتنے بچے ہیں.میرے والد صاحب نے جواباً عرض کیا.حضور ! بڑا بچہ تو فوت ہو گیا ہے.دوسرا یہ عزیز احمد حضور کے پہلو میں حاضر ہے.اور تیسرا اس سے چھوٹا باہر کھیلنے گیا ہے.اس پر حضور علیہ السلام نے میری پشت پر اپنا دست مبارک پھیرا.اور میری درازی عمر کی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی عمر میں برکت دے.حضور علیہ الصلواۃ والسلام کی اس دعا کی برکت ہے کہ یہ عاجز شدید سے شدید اور مہلک سے مہلک بیماریوں کے پے در پے حملوں کے باوجود شفایاب ہوتا چلا جاتا ہے اور عمر پاتا چلا جاتا ہے.تیسرا واقعہ بھی غالبا ۱۹۰۷ ء ہی کا ہے.جب ایک بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان کو لینے بٹالہ تشریف لے گئے تھے.حضرت اماں جان لاہور سے تشریف لا رہی تھیں.حضور اسٹیشن کے قریب کے ایک تحصیلدار کے مکان پر قیام فرما تھے.گرمیوں کے دن تھے.حسن اتفاق سے خدام حضرت صاحب کے حضور حاضر تھے.منجملہ دیگر خدام کے میرے والد بزرگوار مرحوم بھی.ر

Page 319

تاریخ احمدیت.جلد 24 301 سال 1967ء تھے.اور آپ کے ہمراہ میں بھی تھا.مجھے پیاس محسوس ہوئی تو میں نے والد صاحب سے پانی کیلئے عرض کیا.آپ خاموش رہے.میں نے پھر عرض کیا.آپ پھر خاموش رہے.اور مجھے بھی خاموش رہنے کی تلقین کی.مگر کچھ تو گرمی کی شدت کے باعث اصرار تھا.اور کچھ لڑکپن کے باعث کہ مجھے پینے کے لئے پانی دیا جائے.والد صاحب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پاک سے علیحدہ نہ ہونا چاہتے تھے.میں نے پانی کا ایک بار پھر تقاضا کیا تو آپ ادب کے ساتھ مجلس سے اٹھے اور باہر تشریف لے جانے لگے.اس پر حضور علیہ السلام نے میرے والد صاحب سے دریافت کیا.منشی جی کہاں جاتے ہیں.میرے والد صاحب نے عرض کیا کہ حضور بچہ پانی کے لئے تقاضا کر رہا ہے.اس کے لئے ) پانی لینے جاتا ہوں.حضور نے فرمایا ٹھہر جائے.اور تشریف رکھیے.اور پھر حضور نے بنفس نفیس اٹھ کر ایک گلاس میں غالبا صراحی سے ٹھنڈا پانی لیا.اور اس میں مصری حل کر کے اس عاجز کو پیار کرتے ہوئے دیا کہ لو پیو.میں نے یہ ٹھنڈا اور شیریں پانی کیا بلحاظ شدت پیاس کے اور کیا بلحاظ اس کے کہ وہ ٹھنڈا اور شیریں تھا.اس قدر سیر ہو کر پیا کہ میں اس سے زیادہ پی ہی نہیں سکتا تھا.اس کے بعد میں نے گلاس اپنے والد صاحب کو دے دیا اور انہوں نے بھی پیا اور وہ فرماتے تھے.اور میں نے بھی خوب سیر ہو کر پیا.اسکے بعد قریب ہی ایک دوست نے باقی ماندہ شربت نوش فرمایا.حالانکہ گلاس صرف ایک ہی تھا.کوئی نو انچہ لمبا ہو گا.میں اس کرامت کا زندہ گواہ ہوں.۱۹۰۴ء میں ہم جب چھوٹے بچے ریتی چھلہ میں کھیلنے جایا کرتے تھے.ان دنوں سپورٹس کا با قاعدہ کوئی سامان تو وہاں ہوتا نہیں تھا.گھر یلو بنی ہوئی چیزوں سے اینٹیں وغیرہ کھڑی کر کے کرکٹ یا کوئی اور کھیل کھیلتے.ایک دن میری کسی غلطی پر محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے تھپڑ مار دیا.بچپن اور نا سمجھی کا زمانہ تھا.میں نے جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت کر دی اتنے میں محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بھی آگئے.حضرت کے دریافت فرمانے پر اپنے سر کو خم کر کے اپنی غلطی کا اعتراف فرمالیا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم (یعنی ملک عزیز احمد صاحب) بھی بدلہ لے سکتے ہو.لیکن اگر معاف کر دو تو یہ بہتر ہے.میں نے عرض کیا حضور معاف کیا.اتنا کہہ کر بھاگ آیا.اس میں ایک خدائی بھید پوشیدہ تھا.کیونکہ حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک وقت جماعت کا امام اور خلیفہ بنا تھا.اور خدا تعالیٰ یہ نہیں چاہتا تھا کہ جس شخص نے اس کی غلامی اختیار کرنی تھی.اس سے کسی قسم کی بے ادبی سرزد ہو.

Page 320

تاریخ احمدیت.جلد 24 302 سال 1967ء میاں مبارک احمد صاحب مرحوم جن دنوں پرائمری کی دوسری جماعت میں پڑھتے تھے.میں بھی ان کا ہم مکتب تھا اور ہم اکھٹے ہی بیٹھتے.ہمارے استاد مولوی سکندر علی صاحب مرحوم بھینی والے ہوتے.چھوٹی جماعتوں کے بیٹھنے کے لئے ٹاٹ اور اساتذہ کیلئے چٹائیاں ہوتیں.ایک دن اتفاق سے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو جاتے ہوئے محض صاحبزادہ صاحب کو دیکھنے کمرے میں تشریف لے آئے.مگر یہ دیکھ کر کہ لڑکوں کے بستے جن میں عربی قاعدے بھی ہوتے زمین پر پڑے ہیں.حضور نے واپس جا کر منتظمین کو چھوٹی بچیں مہیا کرنے کا ارشادفرمایا جو چند دنوں میں تیار ہوکر آگئیں.ایک بستر کی دری تو اسی وقت حضور نے ہمارے بیٹھنے کے لئے بھجوا دی تھی.خاکسار نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضور کی زندگی کے آخری ایام میں اندرون خانہ مغرب کی نماز پڑھتے دیکھا.حضور کے دائیں جانب تخت پوش پر حضرت اماں جان کھڑی ہوتیں اور اس کے پیچھے دوسری مستورات اور ہم چھوٹی عمر والے بچے بھی شامل نماز ہوتے“.ایک لمبے عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے.لاہور اپنے بیٹے ملک رشید صاحب کے ہاں مقیم تھے.وہیں آپ کی وفات ہوئی.جنازہ ربوہ لایا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.آپ کی ایک بیٹی مکرم میاں عبدالحی صاحب مجاہد انڈونیشیا کی اہلیہ ہیں.اولاد ا.ملک رشید احمد صاحب ۲.ملک سعید احمد صاحب ۳.ملک بشیر احمد صاحب ۴.عزیزہ اختر صاحبه ۵.ملک منیر احمد صاحب ۶.رضیہ کوثر صاحبہ ۷.ملک سلیم احمد صاحب ۸.ملک نسیم احمد صاحب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب 56 ولادت: ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء بیعت و زیارت: ۱۹۰۳ء وفات : ۶/۱۵ امئی ۱۹۶۷ء حضرت شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قدیم اور جلیل القدر صحابی ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب کے عظیم المرتبت صاحبزادے، حضرت مصلح موعود کے برادر نسبتی اور حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمۃ اللہ تعالیٰ کے سگے ماموں تھے.آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کے لئے وقف رکھی اور صدر انجمن احمدیہ کے ناظر کی حیثیت سے متعدد محکموں میں ایک لمبے عرصے تک ایسی شاندار اور قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں جنہیں سلسلہ کا کوئی مورخ نظر انداز نہیں کر سکے گا.

Page 321

تاریخ احمدیت.جلد 24 303 سال 1967ء آپ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور خاندان سادات سے تھے.آپ نے ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق پائی.حضرت شاہ صاحب نے ۴۰ - ۱۹۳۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کی چشم دید روایات قلمبند فرمائی تھیں.ان میں سے بعض روایات آپ کے الفاظ میں پیش کی جارہی ہیں :.میں اور سید حبیب اللہ شاہ صاحب ۱۹۰۳ء میں قادیان بغرض تعلیم آئے.جب ہم آئے تو ہم بڑے باغ کے دیکھنے کے شوق میں اسکی طرف گئے.ابھی باغ کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک بوڑھے سفید ریش صاحب ہاتھ میں تسبیح لئے ہمیں ماں بہن کی گالیاں دیتے ہوئے ہماری طرف لپکے.ہم دونوں بھائی حیران ہو کر واپس بورڈنگ چلے آئے ،مگر وہ ہمارے پیچھے ہی آرہے تھے.میں نے کسی سے دریافت کیا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے.تو مجھے بتلایا گیا کہ یہ علی شیر ہے.اور حضور علیہ السلام کا سخت دشمن ہے.لطیفہ یہ ہے کہ گندی گالیوں کے ساتھ تسبیح کے دانے بھی زورزور سے ہل رہے تھے.۱۹۰۳ء میں جب والد صاحب حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار صاحب نے مجھے اور میرے بھائی کو برائے تعلیم بھیجا.تو ہم رعیہ سے قادیان کی طرف بڑے شوق اور خوشی خوشی سے روانہ ہوئے تھے.اُس وقت ہماری عمرا ار اور ۳ سال کے لگ بھگ تھی.اس شوق کا جو ہمارے اندر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے کا تھا دوسرا اندازہ نہیں لگا سکتا.کیونکہ جب ہم بہت چھوٹے تھے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا علم ہمارے گھروں میں نہیں پہنچا تھا تو اُس وقت ہم اپنی والدہ سے سُنا کرتے تھے کہ حضرت امام مہدی عنقریب پیدا ہونے والے ہیں.اور جمعہ کے دن ہم بچوں کو اپنے پاس اکٹھا کر لیا کرتیں.اور سورہ کہف پڑھتیں اور سورہ کہف پڑھ کر ہمیں فرماتیں کہ یہ میں اس لئے پڑھتی ہوں کہ اس کے پڑھنے سے انسان دجال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا.بچپن کے اس قسم کے تصورات کے ساتھ جب ہمیں معلوم ہوا کہ ہم قادیان میں اس مہدی کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے جارہے ہیں تو اس سے ہمارے جذبات کا اندازہ بآسانی کیا جاسکتا ہے.مگر ہمارے اس شوق کو صدمہ سا پہنچا جب ہم چوہڑوں کی ٹھٹھی کے پاس پہنچے.جواب دارالصحت کہلاتی ہے.اور جس کے مکین اب قریباً سارے مسلمان ہیں.جب ہم قادیان پہنچے تو قادیان کو بے رونق اور سُنسان سا گاؤں پایا.مدرسہ میں داخل ہوئے تو اس میں بھی کوئی رونق نہیں

Page 322

تاریخ احمدیت.جلد 24 304 سال 1967ء تھی.نارووال میں جب ہم پڑھا کرتے تھے جو ایک بارونق شہر تھا، بچپن کے تصور کے ساتھ قادیان کے متعلق ہمارے دماغوں میں یہ تصور تھا کہ حضرت مہدی کا شہر بہت بارونق شہر ہو گا.مگر اس میں کچھ بھی نہ تھا.طبیعت اُداس ہونے لگی.مگر چھ ماہ نہیں گزرے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان نے ہماری رُوحوں میں کچھ ایسا جادو بھرا اثر کر دیا کہ ہم دونوں بھائیوں نے با قاعدہ تہجد پڑھنی شروع کر دی.اور گھنٹوں نماز میں کھڑے رہتے اور سجدوں میں پڑے رہتے اور مطلق طبیعت سیر نہ ہوتی.ہمارے اساتذہ ہماری اس حالت سے اچھی طرح واقف اور گواہ ہیں.ہماری یہ کوشش بھی ہوتی کہ سحری کے وقت ہمیں کوئی نماز پڑھتے نہ دیکھ سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالعموم نمازوں کے بعد ا کثر مسجد مبارک میں بیٹھ کر گفتگو فرمایا کرتے تھے اور ہم بورڈنگ کی پابندیوں کو تو ڑ کر حضور کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے.اور حضور کی باتوں کو بڑے شوق سے سنتے.میری عمر کوئی پانچ چھ سال کی ہوگی کہ رعیہ کے شفاخانہ کے احاطہ میں ہمجولیوں سے کبڈی کھیل رہا تھا.ایک ساتھی کو زمین پر گرا کر گھر کی طرف بھاگا.عصر کا وقت تھا کہ والدہ صاحبہ چاچی میں وضو کر کے نماز پڑھ رہی تھیں.اور وہ چاہچی دروازہ کی دہلیز کے سامنے پڑی ہوئی تھی.دہلیز سے جو ٹھوکر لگی تو میری ٹانگ دوہری ہو کر میرا گھنا چاچی کے اندر گڑ گیا.جس پر میں بے ہوش ہو گیا.یہ بھی یاد نہیں کہ میرا گھٹنا کب چاچی سے نکالا گیا.اور کب مجھے ہوش آیا.لیکن یہ مجھے یاد ہے کہ نوکر نے مجھے اٹھایا.اور میں اس وقت رورہا تھا.یہ چوٹ ایسی سخت تھی کہ جس نے مجھے چلنے پھرنے سے معطل کر دیا.کیونکہ گھٹنے کا جوڑ نکل گیا تھا.اور مختلف ڈاکٹروں کو دکھایا گیا.یہانتک کہ وہ وقت آگیا کہ والد صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.اور حضور کی خدمت میں میرے لئے دعا کی درخواست کی.غالبا ۱۹۰۲ء میں ڈاکٹر ہیگو سیالکوٹ کے سول سرجن ہوئے.اور وہ شفاخانہ رعیہ کا معاینہ کرنے کے لئے آئے.میں اس وقت سکول سے، جو شفا خانہ کے احاطہ میں ہی تھا.بستہ اُٹھائے گھر کو آرہا تھا.کہ میں نے شفاخانہ کے برآمدے میں ایک انگریز کو کھڑے دیکھا.والد صاحب مرحوم بھی ساتھ کھڑے تھے.شفاخانہ کا ایک ملازم میری طرف آیا اور مجھے اپنے ساتھ شفاخانہ لے گیا.ڈاکٹر ہیکو نے میرے گھٹنے کو دیکھا.اور رحم اور شفقت کے جذبات اس کے چہرہ پر نمایاں تھے.اس کے متعلق اس نے والد صاحب مرحوم سے گفتگو کی.چنانچہ مجھے انہی دنوں سیالکوٹ لے جایا گیا.اور میرے گھٹنے پر وقفہ وقفہ کے بعد کلور و فام سُونگھا کر آپریشن کیا گیا.ٹانگ میں اسقدر فرق ہو گیا کہ میرا پاؤں زمین پر لگنے لگا.

Page 323

تاریخ احمدیت.جلد 24 305 سال 1967ء لیکن کمزوری اتنی تھی.کہ میں بغیر سہارے کے چل نہیں سکتا تھا.اس لئے مجبوراً مجھے بیساکھی کے سہارے چلنا پڑتا تھا.اسی حالت میں قادیان آیا.جب والد صاحب مرحوم تین ماہ کی رخصت لیکر آئے ہیں.تب گرمی کا موسم تھا.ہم حضرت صاحب کے گھر میں رہا کرتے تھے.ایک دن عصر کے بعد جب حضرت ( اماں جان ) اور گھر کی مستورات باغ کی طرف سیر کو گئی ہوئی تھیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تنہا دیکھ کر پنکھا ہاتھ میں لے لیا.اور حضور کے پاس آکر حضور کو پنکھا کرنا شروع کر دیا.حضور اس وقت ایک چٹائی پر جو زمین پر بچھی ہوئی تھی ، بیٹھے ہوئے تھے.بدن پر باریک ململ کی قمیص تھی سر سے ننگے تھے.میں نے جب پنکھا کرنا شروع کیا.تو حضور کے سر کے باریک بال ادھر اُدھر لہرانے لگے.مسیح موعود علیہ السلام کے حلیہ والی حدیث میں سُن چکا تھا.اس لئے مجھے خیال آیا کہ یہ وہی بال ہیں جن کے متعلق حضرت نبی کریم ﷺ نے پیشگوئی فرمائی ہوئی ہے.اس لئے مجھے خیال آیا کہ حضور کے بالوں کو بوسہ دوں مگر شرم و حیا مانع رہا.ادھر مجھے یہ خیال آیا اُدھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھ مڑ کر دیکھا آپ مسکرائے اور فرمایا کہ آپ تھک گئے ہوں گے آپ بیٹھ جائیں.(حضور چھوٹوں کو بھی آپ کے لفظ سے مخاطب فرمایا کرتے تھے ) آپ نے مجھے پوچھا کہ آپ کے گھٹنے کا کیا حال ہے.جو حال تھا میں نے بتایا.اور دعا کے لئے عرض کی.حضور نے فرمایا کہ میں نے آپ کے لئے بہت دعا کی ہے.اور پھر میرے چھوٹے بھائیوں کے نام دریافت فرمائے.حضور اس وقت کچھ لکھ رہے تھے.میں وہاں سے اُٹھ کر چلا آیا.اُنہی دنوں میں جبکہ ایک ہفتہ بھی نہ گذرا تھا کہ میری بسا کبھی کو ( جس کے سہارے میں چلا کرتا تھا) ڈاکٹر فضل الدین صاحب وٹرنری جو اُس وقت میرے ہم جماعت تھے، نے کھیلتے ہوئے توڑ دیا.جس پر بھائی عبدالرحیم صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ نے اُنہیں سزا دی.قادیان میں بانس کی بساکھی کی تلاش کی گئی.مگر نہ ملی آخر عبدالرحیم صاحب یکہ بان کو جو آج کل مہمان خانہ میں باورچی کا کام کرتے ہیں ،۲ آنے دئے کہ بٹالہ سے بانس لے آئے مگر ہیں،۲ اس کو بھول ہوئی کہ ہفتہ عشرہ تک بانس نہ لا سکا.اس اثنا میں سرکنڈے کے سہارے سے دیواروں کو پکڑ پکڑ کر چلتا رہا.اور محسوس کرنے لگا کہ میری ٹانگ اور پاؤں طاقت پکڑ رہے ہیں.اس کے بعد مجھے سہارے کے لئے بساکھی بنانے کی ضرورت ہی نہ رہی.اور تصرف الہی کچھ ایسا ہوا کہ بغیر چھڑی کے چلنے لگ گیا.مجھے کامل یقین ہے کہ یہ حضور علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ تھا.کہ جس نے غیر معمولی طور پر یہ تصرف

Page 324

تاریخ احمدیت.جلد 24 306 سال 1967ء کیا.حضور علیہ السلام نے اُس وقت مجھے فرمایا تھا کہ میٹھے تیل میں کافور ملا کر مالش کیا کروں.چنانچہ الہ دین فلاسفر ایک عرصہ تک معمولی سی اُجرت لیکر مجھے مالش کرتا رہا.اس کے سوا اور کسی علاج کی ضرورت نہ پڑی.اور میری ٹانگ میں جو خفیف سا نقص رہا اُس نے کوہ ہمالیہ کی برفانی چوٹیوں تک جانے میں کسی قسم کی روک پیدا نہیں کی.میں گھوڑے کی سواری جانتا ہوں.اور جنگِ عظیم میں سوار فوج میں بعہدہ کپتان شریک ہوا اور دو معرکوں میں حصہ بھی لیا.غالبًا ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے کہ طاعون پنجاب میں سخت زوروں پر تھی.راولپنڈی کا ضلع خاص طور پر لقمہ اجل بنا ہوا تھا.حضرت والد صاحب نے حضور سے اپنے وطن جانے کی درخواست کی.مگر حضور نے اس بنا پر جانے سے روک دیا.کہ حدیث میں منع ہے کوئی شخص ایسی جگہ میں جائے جہاں وبا پھیلی 57 ہوئی ہے.۴ را پریل ۱۹۰۵ء میں جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو حضور بڑے باغ میں مع اپنے اہل وعیال کے تشریف لے گئے اور ہم طلباء مدرسہ بھی باغ میں چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ والے مکان میں تشریف رکھتے تھے.جس کا ہم طلباء مدرسہ باری باری پہرہ بھی دیا کرتے تھے.اس مکان کے جانب مشرق ایک توت کا درخت تھا.اس کے قریب ایک دفعہ خواجہ عبدالرحمن صاحب اور میں پہرہ پر متعین تھے.رات اندھیری تھی.اتنے میں ہم نے کسی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا.قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی بذات خود ہیں.حضور نے شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا اور حضور بہت خوش ہوئے اور ہماری خوشی کی بھی کوئی انتہا نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان طلباء کا ، جو باہر سے دارالامان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتے تھے، بہت خیال رکھا کرتے تھے.عبدالکریم کو جب ہلکائے کتے نے کاٹا، اس وقت حضور کو اس کے متعلق بہت تشویش تھی.ایک رات عشاء کے قریب ڈاکٹر عبداللہ صاحب اور غالباً مولوی شیر علی صاحب یا مفتی صاحب کو بلایا اور انہیں بادام روغن دیا.اور فرمایا کہ یہ اسے استعمال کرایا جائے جہاں تک مجھے یاد ہے.مسہل دینے کی بھی ہدایت فرمائی.جس وقت یہ ہدایات دی گئیں.میں موجود نہ تھا.لیکن مندرجہ بالا دونوں اصحاب ہدایات لینے کے معابعد بورڈنگ میں آئے.اور ہمارے سامنے حضور کی ان ہدایات کا ذکر کیا.اور انہوں نے یہ بھی بتلایا کہ حضور نے ایک حدیث بیان کی ہے کہ جو شخص بیمار کی خدمت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اس بیماری سے محفوظ رکھتا ہے.گویا یہ حدیث بیان کر کے

Page 325

تاریخ احمدیت.جلد 24 307 سال 1967ء حضور نے تلقین فرمائی کہ عبدالکریم کی خدمت میں اس خوف سے کسی قسم کی کمی نہ کی جائے کہ اسے باولے کتے نے کاٹا ہے.چنانچہ حضور کا یہ ارشاد سن کر طلبا میں سے سب پہلے میں نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا.خواجہ عبد الرحمن صاحب کشمیری ( فارسٹ رینجر بارہ مولا ) نے بھی میرے ساتھ ہی اپنے آپ کو پیش کیا.خواجہ صاحب میرے ہم جماعت تھے.چنانچہ ہمیں دوسرے دن صبح سے شام تک عبدالکریم کی نگرانی اور خدمت کے لئے رکھا گیا.عبدالکریم کو سید محمد علی شاہ صاحب کے چوبارہ میں ٹھہرایا گیا تھا.مجھے یاد ہے کہ جو نہی اسکی طرف سے کوئی ایسی حرکت صادر ہوتی یا آواز آتی میں اور خواجہ صاحب دونوں گھبرا اٹھتے اور پیشتر اس کے کہ اسکی طرف سے کوئی حملہ صادر ہوتا.ہماری نظریں سیڑھی کے دروازے کی طرف ہوتیں.کہ وقت پر اس کے کاٹنے سے محفوظ ہوجائیں.شام کے قریب عبدالکریم نے مجھے دیکھا.چونکہ اس کے دل میں میرے لئے عزت تھی.مجھے دیکھ کر پہچانا اور نہایت ہی نرم آواز سے کہا کہ شاہ صاحب آپ میرے قریب آجائیں.ڈریں نہیں.مجھے آگے سے اب آرام ہے.کسولی عبدالکریم کے علاج کے لئے تار بھی دیا گیا تھا.مجھے یاد ہے کہ وہاں سے جواب آیا تھا SORRY, NOTHING CAN BE DONE FOR ABDUL KARIM.میرے بھائی میجر ڈاکٹر حبیب اللہ شاہ صاحب، جب میڈیکل کالج میں پڑھا کرتے تھے تو اس بیماری کا لیکچر دیتے ہوئے پروفیسر نے جب کہا کہ اس بیماری کا جب دورہ شروع ہو جائے تو وہ لاعلاج ہوتی ہے.تو انہوں نے اٹھکر کہا کیا یہ صحیح ہے کہ یہ مرض لاعلاج ہے؟ پر و فیسر نے پورے وثوق سے کہا کہ ہاں یہ مرض اس صورت میں لاعلاج ہو جاتا ہے.اسپر حبیب اللہ شاہ صاحب نے اپنا چشمدید واقعہ بیان کیا.کیونکہ وہ بھی ان دنوں ہائی سکول میں پڑھتے تھے.جب انہوں نے سارا واقعہ بیان کیا.تو پروفیسر نے کہا پھر تو یہ ایک معجزہ ہے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے چند سال بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس عہد کے ایمان افروز حالات پہلے سے زیادہ شرح وبسط سے سپر د قلم فرمائے جو اس مبارک دور کی عکسی تصویر ہے.یہ حالات ذکر حبیب کے عنوان سے اخبار الفضل قادیان ۳۰ مارچ تا ۲ مئی ۱۹۴۳ء میں بالاقساط اشاعت پذیر ہوئے جن کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.59

Page 326

تاریخ احمدیت.جلد 24 308 سال 1967ء ’ایک دفعہ جب کہ حضور انور دارالا نوار کے کھیتوں کی طرف سیر کیلئے جارہے تھے تو اسوقت میں بھی ساتھ ہو گیا.اب جہاں مولوی عبد المغنی خان صاحب وغیرہ کے مکانات ہیں اُن دنوں یہاں بڑ کا درخت ہوتا تھا.اور ڈھاب ہوا کرتی تھی.یہاں سے گذر کر حضور علیہ السلام موڑ کے قریب پہنچے.جہاں اب نیک محمد خان صاحب کا مکان واقعہ ہے.تو اس موقع پر حکیم عبدالعزیز صاحب پسروری نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور آدم کے متعلق قرآن میں آتا ہے عَضَى أَدَمُ رَبَّهُ فَغَوى.ایک نبی کی شان میں ایسے الفاظ آتے ہیں.حضور نے اسوقت تقریر فرمائی.اس میں سے یہ حصہ مجھے اب تک یاد ہے.حضور علیہ السلام نے عربی کے اشتقاق کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عصفور ( چڑیا ) کا لفظ بھی دو لفظوں سے مرکب ہے عصی اور فر.عصی کے معنی قابو سے نکل گیا.فر کے معنی بھاگ گیا.چڑیا کو عصفور اسلئے کہتے ہیں کہ ذرا موقع پانے پر فورا ہا تھ سے نکل جاتی ہے.اس موقع پر آدمیوں کے ریلے نے مجھے پیچھے دھکیل دیا.چونکہ حضرت اقدس تیز چلتے تھے.اس لئے میں اس کشمکش میں پیچھے رہ گیا.اور باقی باتیں نہ سُن سکا.حضرت والد صاحب مرحوم ڈاکٹر تھے.ہر تین سال کے بعد تین ماہ کی رخصت لیکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے استفادہ کی غرض سے قادیان آجایا کرتے تھے.اور حضور علیہ السلام انہیں اپنے مکان میں ٹھہراتے تھے.اور اس طرح ہمیں بھی حضور کے مکان میں رہنے کا موقع ملتا.مجھے یاد ہے کہ انہیں ایام میں جبکہ ہمیں حضور علیہ السلام کے گھر میں رہنے کا موقع ملا.ایک دفعہ جبکہ گرمی کے دن تھے ہمیں اطلاع پہنچی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بحالت غشی ہیں اور نبضیں کمزور ہوگئی ہیں.اور حضرت خلیفہ اول اور دیگر ڈاکٹر حضور علیہ السلام کے پاس ہیں.میں یہ سنکر اپنے اس حصہ مکان سے جہاں ہم رہتے تھے گھر کے اُس حصہ میں آیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام غشی کی حالت میں تھے.اندر جا کر دیکھتا ہوں.کہ حضور نے لحاف اوڑھا ہوا ہے اور حضرت خلیفہ اول حضور علیہ السلام کے سرہانے کھڑے ہیں.دو تین اور شخص بھی وہاں تھے.مگر مجھے یاد نہیں رہا کہ وہ کون تھے.حضور کے پاؤں دبائے جارہے تھے.تھوڑی دیر کے بعد حضور علیہ السلام ہوش میں آئے اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوا ہے ( اس الہام کے اصل الفاظ مجھے یاد نہیں) لیکن اس کا مفہوم یہ تھا کہ ہیضہ پھوٹے گا.اس الہام پر ہفتہ عشرہ ہی گذرا ہوگا کہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور اسکے پھوٹنے کی پہلی خبر جو مجھے پہنچی وہ مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکان کا واقعہ ہے دن کے دس بجے کے قریب انکے مکان

Page 327

تاریخ احمدیت.جلد 24 309 سال 1967ء سے رونے اور بین کی آواز آئی.میں اپنے کمرہ سے نکل کر صحن میں آیا ہی تھا کہ حضور علیہ السلام بھی ہمارے کمروں کے صحن میں تشریف لائے اور کسی سے دریافت فرمایا کہ کیا ہوا.حضور کو بتلایا گیا کہ مرزا علی شیر بیگ مرگیا ہے اور وہ ہیضہ سے مرا ہے.یہ علی شیر بیگ ایک سفید ریش بوڑھا شخص تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا رشتہ دار تھا.( یہ حضور علیہ السلام کا ماموں زاد بھائی اور برادر نسبتی تھانیز مرز افضل احمد صاحب کا خسر تھا.مرتب) لاہور میں جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا انتقال ہوا.تو اس وقت میں بھی لاہور تھا اور گورنمنٹ کالج کی فرسٹ ائیر کلاس میں پڑھتا تھا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء اور منگل کا دن ہمیں کبھی نہیں بھول سکتا.۲۵ مئی کی شام کو سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے احمد یہ بلڈنگ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے سامنے میں کھڑا تھا.میرے ساتھ میاں محمد شریف صاحب رٹیائر ڈالی.اے.سی کے علاوہ اور بھی کئی دوست کھڑے تھے.کہ اتنے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام فٹن میں بیٹھے ہوئے سیر سے لوٹے.فٹن کے دروازہ پر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بطور محافظ کھڑے تھے.جب حضور کی بگھی خواجہ صاحب کے مکان کے سامنے کھڑی ہوئی.تو اس وقت حضور کی زیارت کرنے والے لوگوں کا ایک انبوہ تھا جس میں غیر احمدی بھی بکثرت تھے.حضور فٹن سے اتر کر مکان پر جانے کے لئے سیڑھی پر چڑھے (ایک چھوٹی سی چوبی سیڑھی اوپر کمرے میں جانے کے لئے رکھی ہوئی تھی ) تو اس موقعہ پر کسی شخص نے گالی دی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس تشریف لے آئے.ادھر ادھر کی باتیں ہونے کے بعد غالباً میاں محمد شریف صاحب نے تجویز کی کہ کل صبح دریائے راوی پر چلیں.جب جانے کے متعلق فیصلہ ہو گیا.تو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے مجھے بتا کید فرمایا کہ کل صبح ہوسٹل میں تیار رہنا.ہم اسی طرف سے آئیں گے اور تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے.چنانچہ منگل کی صبح کو میں تیار ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا.مگر انتظار کرتے کرتے دن کے و بج گئے.خواجہ عبدالرحمن صاحب امرتسری جو میرے کلاس فیلو تھے انہوں نے کہا کہ آنے میں دیر ہوگئی ہے آؤ پہلے کھانا کھالیں.میں کھانا کھانے کے لئے ان کے ساتھ گیا لیکن بوجہ ایک نامعلوم غم کے جو میرے دل پر طاری تھا.میں کھانا نہ کھا سکا.میں نے عبدالرحمن صاحب سے کہا کہ مجھے کوئی حادثہ معلوم ہوتا ہے.خدا نخواستہ حضرت میاں صاحب پر کسی نے حملہ نہ کر دیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی طرف خیال تک نہ گیا.حالانکہ اس سے دو تین دن پہلے حضور علیہ السلام بیمار تھے.میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے

Page 328

تاریخ احمدیت.جلد 24 310 سال 1967ء گورنمنٹ کالج سے احمد یہ بلڈنگ میں گیا تھا میرے سامنے کسی نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور اب طبیعت کیسی ہے.اسہال میں کچھ فرق ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا.کہ میں نے کلوروڈائین استعمال کی ہے.اور آگے سے کچھ افاقہ ہے.تو اگر چہ میں جانتا تھا.کہ حضور بیمار ہیں.لیکن باوجود اس علم کے میرا ذہن آپ کے متعلق کسی حادثہ کی طرف نہیں گیا.بلکہ یہی خیال غالب ہوا کہ کسی نے حضرت میاں صاحب پر حملہ نہ کر دیا ہو.یہ خیال آتے ہی لقمہ میرے ہاتھ سے گر گیا.اتنے میں چوہدری فتح محمد صاحب، اور شیخ تیمور صاحب کو ہوٹل کے گیٹ سے نکلتے ہوئے میں نے دیکھا.میں اس وقت باورچی خانہ کے سامنے کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا میں نے انہیں دیکھا.کہ یہ جلدی جلدی باہر جارہے تھے.میں اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہی ہاتھ کے اشارہ سے ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کچھ جواب دیا.مگر ہم اسے اچھی طرح نہ سُن سکے.لیکن ہاں یہ ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں بلا رہے تھے.کہ آؤ وہاں چلیں جس سے میں سمجھا کہ احمد یہ بلڈنگ کی طرف یہ جارہے ہیں.گھبراہٹ ان کے چہروں سے اور رفتار سے نمایاں تھی.میں بھی عبدالرحمن صاحب کو ساتھ لے کر احمد یہ بلڈنگ کی طرف چلا گیا جب ہم اس سڑک کے محاذ پر پہنچے جو دہلی دروازہ کی طرف سے آکر لوہاری دروازہ کی طرف جاتی ہے.تو میں کیا دیکھتا ہوں ایک انبوہ ہے.جو دہلی دروازہ کی طرف سے آ رہا ہے.اور انہوں نے ایک جنازہ اٹھایا ہوا ہے.جنازہ کی چار پائی پر جو شخص لیٹا ہوا ہے.اس کا منہ کالا کیا ہوا ہے.آنکھیں اس کی چمک رہی ہیں.اور اس کا سر ہلتا بھی ہے اور جنازہ کے اردگرد کے لوگ یہ کہکر پیٹ رہے ہیں کہ ہائے ہائے مرزا میں اس ماجرا کو دیکھ کر حیران رہ گیا.اور کچھ نہ سمجھا.ٹانگہ ہمیں جلدی سے احمد یہ بلڈنگ کی طرف لے گیا.اور اُترتے ہی ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ہے؟ اس نے مجھے جواب دیا.کہ سچ ہے.میں اس سے کچھ بھی نہ سمجھا اور گھبراہٹ میں بجائے اس سے مزید دریافت کرنے کے سیڑھی سے چڑھ کر اوپر مکان میں پہنچا اور چودھری ضیاء الدین صاحب مرحوم سے جو باہر بے بسی کی حالت میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے.پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے مجھے بھرائی ہوئی آواز میں کہا.کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.یہ سن کر میری ٹانگوں میں سکت نہ رہی.اور میں بھی بیٹھ گیا.پھر جلد ہی وہاں سے اُٹھ کر احمد یہ بلڈنگ کے پچھواڑے میں جہاں اس وقت ایک کھیت تھا.جا کر خوب رویا اور تنہائی میں دل کی ساری بھڑاس نکالی.اس وقت دل کے غم کی انتہاء کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا تھا.

Page 329

تاریخ احمدیت.جلد 24 311 سال 1967ء پھر میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جنازہ کے ساتھ گاڑی میں بٹالہ پہنچا.امرت سرٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہم نے مغرب کی نماز حضرت خلیفہ المسیح الاول کی اقتداء میں پڑھی جب بٹالہ پہنچے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا تابوت اُتار کر اسٹیشن بٹالہ کے پلیٹ فارم پر رکھا گیا.میں بھی ان لوگوں میں سے تھا.جنہوں نے رات کو اس تابوت کا پہرہ دیا.رجب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد مبارک باغ والے مکان میں رکھا گیا تو حضرت..خلیفہ اسیح الثانی سے میں نے اور میرے بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی حضور علیہ الصلواۃ والسلام کا چہرہ مبارک دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ ہمیں باغ والے مکان کے اس کمرہ میں لے گئے جہاں حضور علیہ السلام کا جنازہ رکھا ہوا تھا.حضرت اماں جان جنازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں.ہم گئے اور ہم نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خاموش چہرہ کو دیکھا.اور چپ سے ہو کر رہ گئے.اور باہر آ کر اُس کمرہ کے سامنے جو لوکاٹ کے درخت تھے.ان میں سے ایک درخت کے نیچے ہم تینوں کھڑے ہو گئے“.حضرت خلیفہ مسیح الاول سے شرف تلمذ اور سفر مصر وشام حضرت شاہ صاحب کو کس طرح حضرت خلیفہ اول سے شرف تلمذ حاصل ہوا اور آپ سید نا محمود کی توجہ سے شرق اوسط میں بغرض تعلیم بھجوائے گئے؟ اس کی تفصیل آپ ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۰۸ء میں میٹرک پاس کرنے پر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوا.والد صاحب کا خیال تھا کہ میں ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کروں.اس لئے ایف ایس سی میڈیکل کا کورس لیا.ان دنوں بطور تجربہ میڈیکل کالج کا ایک سال کا کورس ایف ایس سی کے ساتھ شامل کر دیا گیا تھا.اور میڈیکل کالج کی ڈاکٹری تعلیم بجائے پانچ سال، چار سال کر دی گئی تھی.۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ اول نے مجھ سے فرمایا.دو جتنی انگریزی کی تمہیں ضرورت ہے.اتنی آپ نے پڑھ لی ہے.اب نورالدین کی شاگردی اختیار کریں جس راستے پر نورالدین چلائے گا.اس میں آپ کے لئے کامیابی ہے.“

Page 330

تاریخ احمدیت.جلد 24 312 سال 1967ء کم و بیش یہی آپ کے الفاظ تھے.جو محبت بھرے لہجہ میں آپکی زبان سے نکلے اور میرے دل میں گڑ گئے.قرآن مجید کا درس تو حضرت خلیفہ اول سے بار بار سننے کا موقع ملا.اس درس میں بھی حضور کی شفقت ہم طالب علموں پر خاص تھی.آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کو مجھے عربی صرف ونحو، ایک عربی کتاب اصول شاشی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب کو منطق پڑھانے کے لئے مقرر فرمایا.خود موطا امام مالک پڑھانے کے بعد صحیح بخاری بھی درسا درسا پڑھائی.اسی طرح فوز الکبیر بھی.طالبعلمی کے زمانے ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب پڑھنے کا مجھے موقع ملا.حضرت خلیفتہ المسیح الاول وغیرہ سے میں دو تین سال پڑھا.اس دوران میں حضور کی عیادت کا بھی مجھے موقعہ ملا.جب حضور گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے ہیں.انہی دنوں کی بات ہے.کہ شیخ تیمور احمد صاحب جو حضرت خلیفہ اول کے شاگرد تھے، سے فرمایا کہ ولی اللہ شاہ کو وقف کی تحریک کی جاوے اور اُن سے میرے متعلق اچھی امید کا اظہار فرمایا.چنانچہ شیخ صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ میں یکسو ہو کر دینی تعلیم حاصل کروں.اور کالج کی تعلیم کا خیال چھوڑ دوں.اور جب حضرت خلیفہ اول نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیخ تیمور کو مفتاح العلوم کا سبق پڑھانے کا ارادہ کیا.تو آپ نے مجھ سے بھی فرمایا کہ میں بھی شریک ہو جاؤں.مجھے عربی کا بہت معمولی علم تھا.بلکہ نہ ہونے کے برابر.میں حیران ہوا اور میرے ساتھی بھی حیران ہوئے.لیکن حکم کی تعمیل میں دو تین سبقوں میں شریک ہوا تو مجھے اپنی کمزوری کا غائت درجہ احساس ہوا.حضرت حافظ صاحب سے سبق پڑھنے کے لئے جد و جہد کی.میرے دوست مرزا برکت علی صاحب بھی میرے ساتھ وہی سبق پڑھتے تھے.جو میں پڑھتا تھا.مسجد مبارک میں ہمیں حافظ صاحب پڑھا رہے تھے.ایک دن مجھ سے فرمانے لگے تہانوں نہیں عربی آنونی.میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے.کون زیر، زبر اور پیش کے ساتھ ساتھ ہر دفعہ آنکھیں اونچی نیچی کرے.اگر یہ زیر، زبر، پیش نہ ہو تو پڑھنا ناممکن ہے.اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ پڑھائی جاری رکھوں یا نہ رکھوں.ایک جمعہ کے دن مسجد مبارک کے اس حجرہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سُرخی والا نشان دکھایا گیا تھا.میں پڑھ رہا تھا.(اس کمرہ میں میری رہائش تھی ) حضرت خلیفتہ امسیح الثانی جو اس وقت ہمارے ہم جولی تھے.میرے پاس تشریف لائے.اور ادھر اُدھر کی باتیں شروع کر دیں.دورانِ گفتگو میں مجھ سے فرمایا کیا خیال ہے.اگر آپ

Page 331

تاریخ احمدیت.جلد 24 313 سال 1967ء مصر بھیج دئے جائیں.اور وہاں عربی پڑھیں.مدرسہ احمدیہ کے لئے بھی ہمیں ضرورت ہے.میں یہ بات مذاق سمجھا.لیکن بار بار فرمایا.یہ مذاق نہیں.آپ اقرار کریں.تو ابھی انتظام کیا جاسکتا ہے.آپ اُٹھے نہیں جب تک مجھ سے پختہ اقرار نہیں لے لیا.چنددنوں میں میری اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے سفر کی تیاری ہوگئی.اور حضرت خلیفہ المسیح الاول نے دُعا کے ساتھ ہمیں الوداع کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خوشی خوشی شہر سے باہر جا کر ہمیں یکے پر بٹھا کر رخصت کیا.یہ واقعہ ۱۹۱۳ء کا ہے.قاہرہ میں قدیم طریقہ تعلیم سے میرا دل اُچاٹ ہو گیا.ابھی چار ماہ گذرے تھے کہ الہی تصرف سے بیروت دیکھنے کا مجھے موقعہ ملا.اور میں نے شیخ صاحب کو قاہرہ چھوڑ کر بیروت میں پڑھائی شروع کر دی.اتنے میں عالمگیر جنگ عظیم اول شروع ہوگئی اور بیروت خطرہ میں تھا.میرے اساتذہ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حلب چلا جاؤں.چنانچہ میں حلب آگیا.اور یہاں اعلیٰ پایہ کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی.اسی اثناء میں مجھے سات ماہ ایک ترکی رسالہ میں بھی خدمت کا موقعہ ملا.جس کے ساتھ میرے وسیع مطالعہ کا انتظام بھی رہا.بعض ملٹری لٹریچر سے متعلق کتب جو برٹش کونسل بغداد کی لائبریری ضبط ہونے پر حاصل ہوئی تھی، مجھے دی گئیں.میں ان سے ضروری حصے عربی میں ترجمہ کرتا.اور پھر وہ ترکی زبان میں نقل کی جاتیں اس طرح میری مشق ہوتی رہی.اور میری اس خدمت کے صلہ میں سفارش کی گئی کہ ترکی زبان کے امتحان کی شرط سے میں مستفی کیا جاؤں.چنانچہ بیت المقدس میں میں نے امتحان دیا.اور اچھے نمبروں پر پاس ہوا.اور صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس میں بطور استاد متعین ہو گیا.اور یہاں عربی میں پڑھانے اور تعلیم جاری رکھنے کا سنہری موقعہ ملا.فن تعلیم و تدریس میں مقابلے کے ایک امتحان کا اعلان ہوا.جس میں کئی اساتذہ شریک ہوئے.میں بھی شریک ہوا.اس امتحان میں اول رہا.اور مجھے سنہری تمغہ مجیدی اور پچاس اشرفیاں انعام ملیں.اور شام کی یونیورسٹی سے جو سند بدستخط وزیر تعلیم اور کونسل جاری کی گئی وہ بھی تعلیمی لحاظ سے میرے لئے بہت خوشگن تھی.اُس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ایک قلیل عرصہ میں علوم ادب عربیہ کی ایسی قابلیت حاصل کر لینا ایک نادر بات ہے.الحمد للہ علی ذالک.یہ میری تعلیمی جدو جہد کی مختصر سرگذشت ہے.مشار الیہ سند مع قیمتی لائبریری ۱۹۴۷ء بوقت تقسیم ٹوٹ میں ضائع ہوگئی.صلاح الدین ایوبیہ کالج میں مجھے تاریخ ادیان انگریزی اور اردو پڑھانے کا موقع ملا.اور شام میں انگریزوں اور امیر فیصل کی افواج کے داخل ہونے کے بعد مجھے سلطانیہ کالج کا وائس

Page 332

تاریخ احمدیت.جلد 24 314 60 سال 1967ء پرنسپل منتخب کیا گیا.اور یہاں علم النفس ( سائیکالوجی) اور علم الاخلاق (ETHICS) کے مضامین دئے گئے.اکتوبر ۱۹۱۸ ء کے آخر میں جنرل ایلز کے حکم سے ملٹری نے مجھے حراست میں لیا.اور بطور اسیر جنگی اور اسیر سیاسی قاہرہ لے گئے.اور جنگ ختم ہونے کے بعد مئی ۱۹۱۹ء کے اواخر میں لاہور لایا گیا.بظاہر میں حکومت برطانیہ کا شاہی قیدی تھا.لیکن حقیقت میں آسمانی بادشاہت کا ایک اسیر تھا.جس سے سلسلہ کے لئے کئی ایک خدمات لینا منشائے الہی تھا.یہاں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجھے آزاد کروایا.اُن دنوں پنجاب کے گورنر سرایڈ وائر تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور عرفانی صاحب وغیرہ اُن کے پاس لاہور بھیجے گئے.اس تحریری ہدایت کے ساتھ کہ اگر پچاس ہزار روپیہ کی ضمانت بھی دینی پڑے دی جائے.دوسرا سفر شام حضرت شاہ صاحب جولائی ۱۹۲۵ء کے شروع میں مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ شام بھجوائے گئے.آپ کا یہ سفر بھی تاریخ احمدیت میں ہمیشہ یادگار رہے گا.حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے ناظر دعوت و تبلیغ قادیان نے مبلغین دمشق وشام کے زیر عنوان لکھا:.( جناب شاہ صاحب کو ) حضرت خلیفہ امسیح نے مولوی جلال الدین صاحب کے ساتھ گذشتہ ماہ جولائی ۱۹۲۵ء کے شروع میں دمشق بطور پائنیر (اوار) تبلیغ کی حیثیت سے بھیجا تھا کہ تا تبلیغ کے راستے میں وہاں جو دقتیں ہیں اُنہیں دُور کر کے ایک مستقل تبلیغی مرکز قائم کر دیں.اور وہ مشکلات ایسی نہیں تھیں جو کسی معمولی ہمت و جد و جہد سے حل ہو نیوالی تھیں اور مابعد کے واقعات نے تصدیق کی ہے کہ حضرت خلیفتہ امسیح کا انتخاب عین مشیت الہبی کے ماتحت تھا.اور ایک تھوڑے سے عرصہ میں ملک شام وعدن میں جو کام ہوا ہے وہ جیسا کہ حضرت خلیفہ المسیح نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا.ایک عظیم الشان تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور انکی دانشمندی ، دوراندیشی و کمال جرات پر دلالت کرتا ہے.دمشق میں سب سے پہلے گورنمنٹ سے تبلیغ کے لئے اجازت حاصل کرنے کا سوال تھا.اس میں سب سے بڑی رکاوٹ وہاں کے مفتی و مشائخ کا وجود تھا اور وہ پلک رائے تھی جسکو ان مشائخ نے اپنے غلط بیانوں سے حضرت خلیفہ المسیح کے دمشق سے چلے آنے کے بعد خطر ناک طور سے زہریلہ کر دیا ہوا تھا.ڈر تھا کہ یہ لوگ پہلے کی طرح شور و شر بر پا کر کے تبلیغ کو روک نہ دیں اسلئے سب سے

Page 333

تاریخ احمدیت.جلد 24 315 سال 1967ء پہلے جناب شاہ صاحب مبلغ دمشق کی یہ کوشش ہوئی کہ کسی نہ کسی طرح با اثر لوگوں میں سے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جائے کہ جو ہمارے مشن کی اہمیت کو محسوس کرے اور مخالفت کے پیدا ہونے کی صورت میں اس سے موافقت و حمایت کی امید ہو سکے چنانچہ تین ماہ پہلے ملاقاتوں کے ذریعہ سے ائیویٹ خط وکتابت کے ذریعہ سے اخبارات وٹریکٹ کے ذریعہ سے.ان تمام غلط بیانیوں وغلط فہمیوں کا ازالہ کیا گیا جو مشائخ نے پیدا کر دی ہوئی تھیں.یہاں تک کہ سمجھدار طبقے نے حقیقت کو سمجھ لیا.دو ماہ کے بعد مشائخ کو علم ہوا کہ احمدی مبلغ کامیابی سے اپنا کام کر رہے ہیں تو انہوں نے باہمی مشورہ کر کے اپنی طرف سے ایک نہایت بد اخلاق شخص کو مخالفت کے لئے کھڑا کر دیا جس نے :.(۱) حکام کو ہمارے مبلغین کے برخلاف انگیخت کرنے کی پوری کوشش کی (۲) بذریعہ اشتہار پبلک کو انکے قتل کے لئے اکسایا.(۳) بازاروں وکوچوں اور مسجدوں میں منادی کرائی کہ انکے پاس کوئی نہ جائے.(۴) اخباروں میں شاہ صاحب کے کارٹون نکالے اور مدرسے کے طلباء کو انکے برخلاف بھڑ کا یا.(۵) اور اخبارات میں احمدیت کے متعلق مضحکہ آمیز مضمون لکھنے شروع کئے.(1) بعض بازاری غنڈوں کو لیکر انکے راستے کی ناکہ بندی شروع کی اور (۷) آدمی بھیج کر قتل کر دینے کی دھمکیاں دیں اور (۸) ہر ایک ممکن ذریعے سے شہر سے انکے نکالنے کی کوشش کی.اور ان تمام مخالفتوں کو جرات و شجاعت سے مبلغین دمشق نے صبر سے برداشت کیا اور انکے بالمقابل مناسب وسائل اختیار کئے.یہاں تک کہ جب مخالفت اپنی آخری حد تک پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے آسمانی اسباب کے ماتحت یکا یک وہ حالات پیدا کر دیئے کہ جو بلائے دمشق کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا موجب ہوئے اور یکا یک تمام پبلک کی توجہ اس ماتم کی طرف منعطف ہوگئی جسکا ہنگامہ بلائے دمشق کی وجہ سے بر پا ہو گیا تھا.اس اثناء میں مبلغین دمشق کو اپنی تبلیغ کو اور پائدار کرنے کا موقعہ مل گیا سابقہ تبلیغ کے ماتحت لوگوں میں احمدیت کے لٹریچر کو مطالعہ کرنے کی خواہش پورے طور پر پیدا ہو چکی ہوئی تھی اور انکا نکتہ نظر احمدیت کے متعلق بدل چکا تھا.انکی اس خواہش کو پورا کرنے اور نیز مستقل مبلغ کے ہاتھ میں تبلیغی سرمایہ مہیا کرنے کے لئے جناب سید صاحب نے ٹریکٹ حقائق احمدیہ کے علاوہ اڑھائی سو صفحے کی ایک کتاب حیات مسیح و وفاتہ اور کشتی نوح کا عربی میں ترجمہ شائع کرا دیا اور نیز ان آخری تین ماہ کے اثناء میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا ترجمہ بھی عربی میں کر دیا.اور اس وقت اس ملک میں احمدیت

Page 334

تاریخ احمدیت.جلد 24 316 سال 1967ء کے متعلق تازہ لٹریچر چار ہزار کی تعداد میں موجود ہے حالانکہ نظارت سے انہیں اشاعت کے لئے صرف ساڑھے تین سو روپیہ دیا گیا تھا.اسکے علاوہ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے تبلیغی مرکز کو مضبوط کرنے اور مستقل مبلغ کے تعلقات کو اہل دمشق کے ساتھ مستحکم کرنے کے لئے ان کی شادی کا انتظام ایک عمدہ ذی اثر خاندان کے ساتھ کر دیا.( نام زوجہ سیدہ سیارہ حکمت دمشق) جس کے لئے بھی انہیں بہت مشکلات کا سامنا ނ کرنا پڑتا ہم علماء کے فتاوی ومخالفت کے برخلاف انکا نکاح کرا دیا.اور جب شاہ صاحب دمشق.روانہ ہوئے ہیں تو کئی آدمی انکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر حضرت خلیفۃ المسیح کی بیعت کر چکے تھے.اور ا سکے علاوہ تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے متعلق سنجیدگی کے ساتھ تحقیق کرنے کی جستجو پورے طور پر پیدا ہو چکی ہوئی تھی.سفر عراق 61 آپ شام سے واپس آتے ہوئے عراق بھی تشریف لے گئے جہاں پر نہایت تاریخی خدمت سرانجام دینے کا موقع ملا جس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شاہ صاحب کا بیان ہے کہ:.ہم طرابلس شام جمص اور تذمر وغیرہ مقامات میں قیام کرتے ہوئے بغدا ددس روز میں پہنچے.بغداد میں میرے قدیم اور نہایت محب دوست مرحوم رستم حیدر تھے صلاح الدین ایوبیہ کالج میں ناظم الدروس تھے اور تاریخ عام کے پروفیسر.یہ سور بون یو نیورسٹی (فرانس) کے تعلیم یافتہ اور بہت قابل تھے.زبان عربی کے بھی ادیب تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں میری بہت ہی محبت اور عزت ڈال دی.انہیں میری بغداد میں آمد پر بڑی خوشی ہوئی.کئی دعوتیں انہوں نے کیں جن میں شہر کے معزز دوست مدعو کئے جاتے رہے.وہ وہاں وزیر دیوان تھے.وزراء و حکام اور علماء سے تعارف ہوا.یہاں تک کہ ملک فیصل نے بھی مجھے دعوت دی اور اس دعوت میں بھی چیدہ لوگ مدعو تھے.دورانِ طعام رستم حیدر نے احمدیت کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا اور احمدیت سے متعلق ملک فیصل مرحوم نے سوالات کئے.جنگ عظیم کے دوران میں بھی ان کا تعارف مجھ سے ہو چکا تھا.جب دجال سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھ سے آیت لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام :۱۰۴) کا مفہوم دریافت کیا.میرے جواب دینے سے پہلے وہ اپنے

Page 335

تاریخ احمدیت.جلد 24 317 سال 1967ء بھائی علی سے مخاطب ہوئے اور کہا بھائی آپ بڑے عالم ہیں آپ اس آیت سے کیا سمجھتے ہیں.تفاسیر میں جو انہوں نے پڑھا تھا وہ بیان کیا.پھر ملک مرحوم مجھ سے مخاطب ہوئے کہ میں اس سے کیا سمجھتا ہوں.میں نے مفصل جواب دیا جس پر وہ اتنے خوش ہوئے کہ بے اختیار کہنے لگے اگر اسلام کیلئے دوبارہ زندگی مقدر ہے تو وہ ان خیالات کے ذریعہ سے جن کا میں نے اظہار کیا ہے.میں نے فوراً شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا آپ کی مملکت میں ہر مذہب کو تبلیغ کی آزادی ہے حتی کہ آریہ جیسے شدید دشمن اسلام کیلئے بھی اور اگر آزادی نہیں تو اس جماعت کیلئے نہیں جس کے خیالات کے متعلق بادشاہ نے یہ داد دی ہے.میز سے اٹھتے ہوئے فرمایا آپ کو ان سے بڑھ کر آزادی ہوگی اور جب ہم ڈرائینگ روم میں داخل ہو رہے تھے تو میرے دوست رستم حیدر مرحوم نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور کہاؤ اَنتَ تَدْرِي مِنْ اَيْنَ تُؤكَلُ الكَتِف.اور اس کے بعد جب رستم حیدر مجھے اپنے مکان پر لائے تو اپنے سیکرٹری سے ایک درخواست عربی میں ٹائپ کرائی جس پر میں نے دستخط کئے.اور وہ درخواست بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی جس پر انہوں نے مجلس کو غور کرنے کا حکم دیا اور اس طرح یه درخواست تین ماہ تک دفتروں میں چکر لگاتی رہی اور کئی مایوسیوں کے بعد ایک شام مغرب کی نماز سے ہم دوست فارغ ہوئے تھے کہ سرکاری اردلی نے آ کر جعفر صادق مرحوم امیر جماعت احمد یہ بغداد کو ایک لفافہ دیا.وہ کھولا گیا.اس میں بادشاہ کی مہر کے ساتھ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ اطلاع تھی کہ بادشاہ کی طرف سے ان کا سابقہ حکم منسوخ کر دیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کو مکمل تبلیغی آزادی دی جاتی ہے.یہ الفاظ پڑھ کر جو دوست نماز مغرب میں حاضر تھے بے اختیار سر بسجو د ہو گئے.۳ ستمبر ۱۹۲۶ء کو حضرت مصلح موعود نے آپ کو بخاری کے ترجمہ اور اسکی شرح کا عظیم الشان کام 62 766 سپر دفرمایا.چنانچہ حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں:.آپ نے فرمایا.بہت سے ضروری کام ہیں.جو کرنے کے ہیں.مگر اُن کی طرف توجہ نہیں.مثلاً صحیح بخاری کے ترجمہ اور اسکی شرح کا کام بھی نہایت ضروری اور اہم ہے.اگر ہم نے نہ کیا تو ان لوگوں سے کیا توقع ہو سکتی ہے.جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہنے کا موقع نہیں ملا.اور جو آپ کے فیضان سے براہ راست مستفیض نہیں ہوئے.غیروں کے تراجم اور حواشی رہ جائیں گے.اور پھر جواناپ شناپ لکھا ہوا ہو گا.اسی پر دار و مدار ہوگا.اور پھر بعد از وقت اعتراضوں کو دیکھ کر ادھر اُدھر کے جوابوں کی سُوجھے گی.

Page 336

تاریخ احمدیت.جلد 24 318 سال 1967ء یہ مضمون تھا آپ کی اس درد بھری گفتگو کا جس کی یاداب بھی میرے دل کو ٹھیس لگاتی ہے.دار الامان پہنچ کر صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے تبادلہ کی باقاعدہ اطلاع مجھے ملی.اور مجھ سے دریافت کیا گیا.کہ اپنے لئے تصنیف کا کوئی کام تجویز کروں.عربی زبان میں لکھنے کا ایک کام میں نے تجویز کیا.جسے صدر انجمن نے باتفاق رائے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی آخری منظوری کے لئے پیش کیا.مگر آپ نے اُسے نامنظور کرتے ہوئے مجلس شوری کے مقامی کارکنوں سے مشورہ لینے کا حکم دیا.تبادلہ کے متعلق سابقہ حکم میں مجھ سے تصنیف کا کام لینے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ مثلاً بخاری کا ترجمہ اور شرح کا کام نہایت ضروری ہے.جو ان سے لیا جاسکتا ہے.اور اس بارے میں مشورہ کرنے کا ارشاد فرمایا.اس حکم میں صراحت نہ تھی.اور چونکہ مجھے احادیث میں دسترس بھی نہ تھی.اس لئے میں اس سے بہت ڈرتا تھا.اور اس دوسرے مشورہ میں احباب نے بھی یہی رائے پیش کی کہ صحیح بخاری کے سوا کوئی اور کام مجھے دیا جائے.میں اس قابل نہیں ہوں.اور قرار پایا کہ عربی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر ایک مفصل اور مستند کتاب لکھی جائے.مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس تجویز کو بھی نا منظور کرتے ہوئے واضح الفاظ میں حکم دیا کہ میں فوراً صحیح بخاری اور ترجمہ کا کام شروع کر دوں.اور اس کے بعد آپ نے اس بارہ میں اُصولی ہدایات سے مجھے متمنع فرمایا.آپ کے اصل مقصد کو سمجھ کر محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے میں نے یہ مبارک کام شروع کر دیا.پہلے تین چار سالوں میں ترجمے کا کام مکمل ہوا.66 وسط ۱۹۲۷ء میں آپ مجلس منتظمہ ولوکل کمیٹی قادیان کے پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.۱۹۳۱ء میں تحریک کشمیر کی زمام سیدنا حضرت مصلح موعود کے ہاتھ میں دی گئی.اس تحریک میں حضرت شاہ صاحب نے مقدس امام کے نمائندہ کی حیثیت سے نہایت شاندار کار ہائے نمایاں انجام دیئے جن کا مفصل تذکرہ تاریخ احمدیت جلد ششم میں آچکا ہے.۴ ستمبر ۱۹۴۷ء سے ۹ / اپریل ۱۹۴۸ء تک آپ اسیر راہ مولیٰ رہے اور ۱۰ را پریل ۱۹۴۸ء کو رہا ہوئے کرب و بلا کا یہ زمانہ آپ نے بے مثال صبر و استقامت اور کمال ایقان و عرفان سے گزارا.65 تیسر اسفرشام جولائی ۱۹۵۶ء میں آپ نے سیدنا حضرت مصلح موعود کے حکم پر تیسری اور آخری بارسفر شام

Page 337

تاریخ احمدیت.جلد 24 319 سال 1967ء اختیار فرمایا جس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:.تیسری بار جولائی ۱۹۵۶ء میں دمشق بھیجا گیا جہاں مجھے تین ماہ قیام کا موقع ملا اور دمشق میں ایک مضبوط جماعت دیکھ میرے جسم کا رواں رواں متاثر ہوا اور ہفتہ میں دو دفعہ دوست جمع ہوتے.جمعہ کے روز اور ایک دفعہ ہفتہ وار اجلاس میں.اللہ تعالیٰ کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے فضل سے حضرت خلیفہ المسیح کو تحریک فرمائی اور میں دمشق بھجوایا گیا.دمشق میں علاوہ مذکورہ بالا خاص تربیت سے متعلق ( موقعہ ملنے کے ) قدیم دوستوں وغیرہ میں عام تبلیغ کا بھی موقعہ ملا اور اسی اثناء میں قادیانی مسئلہ کا جو جواب جماعت کی طرف سے مرکز میں شائع ہوا تھا وکالت تبشیر کی فرمائش پر مجھے ترجمہ کرنے کی توفیق ملی.سید سلیم الجابی نے اپنی طرف سے ایک الگ جواب عربی زبان میں تیار کیا تھا جو میرے نزدیک مناسب نہ تھا.اصل جواب وہی تھا جو حضور کی پسندیدگی سے شائع ہوا تھا.اُن کا خیال تھا کہ بعض باتیں اُس جواب میں قابل حذف ہیں.حضور سے مشورہ کرنے کے بعد دونوں مسودے منیر الحصنی صاحب کو بھجوا دئے گئے تھے.چنانچہ دورانِ قیام دمشق میں ان کو مشورہ دیا کہ دونوں مسوڑوں سے اخذ کر کے نئی شکل دے دیں مگر علماء کے تکفیر کا حصہ ضرور رکھا جائے گا.انہوں نے ایسا ہی کیا.اور المودودی فی المیز ان کے نام سے کتاب شائع کی جس کا بہت گہرا اثر ہوا اور اس کا بیشتر حصہ وہی ہے جو قادیانی مسئلہ کے جواب میں آچکا ہے اور جس کا ترجمہ عربی زبان میں کیا گیا تھا.اس کے علاوہ کمیونزم کے اثر کو دیکھ کر ایک کتاب اور سید ابوالفرج کو کھوائی.وہ ٹائپ جانتے ہیں اور انہیں تبلیغ کا شوق ہے.اس مسودہ کے شائع کرنے میں سید منیر احصنی صاحب کو تر ڈ دتھا کہ حکومت مواخذہ کرلے گی کیونکہ اس کے تعلقات سوویٹ کے ساتھ ہیں.اسی اثناء میں میری واپسی ہوئی اور میں اپنی موجودگی میں یہ رسالہ شائع نہیں کروا سکا.اکثر احباب کی رائے تھی کہ اسکی اشاعت وقت کی ضرورت ہے.میں نے اس میں صرف اسلامی اصول اور اشتراکیت کے اصول کا موازنہ کیا تھا اور نتیجہ کے لحاظ سے بتایا تھا کہ کون کامیاب ہے.اسلام یا اشتراکیت.غرض اس تیسرے سفر میں خدا تعالیٰ نے خدمت دین کا موقع دیا.اجمالی خاکہ 66 حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کی انتظامی خدمات کا اجمالی خاکہ پیش ہے.

Page 338

تاریخ احمدیت.جلد 24 320 سال 1967ء ۴..و..ا.ناظر دعوة و تبلیغ یکم مئی ۱۹۲۳ء تا ۱۶ را پریل ۱۹۲۴ء ناظر تعلیم وتربیت ۱۶ / اپریل ۱۹۲۴ء تا ۱۵ جون ۱۹۲۵ء بطور مبلغ بلا دیشام اور عراق عرب ۱۵ جون ۱۹۲۵ء تا آخر اپریل ۱۹۲۶ء ناظر تجارت یکم مئی ۱۹۲۶ء بطور رکن نظارت تالیف و تصنیف.بحیثیت مصنف ترجمه و شرح بخاری از ۲۸ / اکتوبر ۱۹۲۶ء تا ۲۲ جنوری ۱۹۳۱ء ناظر دعوة وتبليغ از ۲۱ جنوری ۱۹۳۱ء تا ۱۰ / اکتوبر ۱۹۳۶ء ناظر تعلیم و تربیت از ۲۳ نومبر ۱۹۳۶ تا ۱۴ فروری ۱۹۳۷ء قائمقام ناظر اعلی یکم ستمبر ۱۹۴۸ء تا ۲ اکتوبر ۱۹۴۸ء ناظر امور عامه و خارجه ۱۴ فروری ۱۹۳۷ء تا ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ء ( نظر بندی حکومت ہند ) ناظر امور خارجه جون ۱۹۴۸ء تا یکم دسمبر ۱۹۵۳ء ایڈیشنل ناظر اعلی ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء تا یکم جون ۱۹۵۴ء ا.۱۲.پنشن یکم جون ۱۹۵۴ء ۱۳.ناظر دعوت و تبلیغ ۲۰ مئی ۱۹۵۰ء تا ۸ دسمبر ۱۹۵۵ء الد تصنیفات ناظر امور خارجه ۸ دسمبر ۱۹۵۵ ء تا ۲ مئی ۱۹۶۴ء حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا گراں قدر اور ایمان افروز لٹریچر کئی اقسام پر مشتمل ہے.ا.تراجم -۲ کتب ۳ رسائل -۴.پمفلٹ.تفصیل درج ذیل ہے.الخطاب الجلیل ( عربی ترجمہ اسلامی اصول کی فلاسفی ).التبلیغ (عربی ترجمه کشتی نوح) مقدمه کتاب حیات المسیح ووفاته (عربی) حیات اسیح و وفاته (عربی) • احمد امسیح الموعود (عربی) اچھوت بھائیوں کے نام احمدیت کا پیغام ( بر موقع مذاہب کانفرنس لکھنو منعقدہ ۲۲ مئی ۱۹۳۶ء) وصیت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب • آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کی امتیازی حیثیت • محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی پر ایک نظر.نوٹس برائے جلسہ ہائے سیرۃ النبی

Page 339

تاریخ احمدیت.جلد 24 321 سال 1967ء انبیاء کی آسمانی بادشاہت اسمه احمد ( حصہ اوّل و دوم) • ایک غلط فہمی کا ازالہ • اسباق القرآن (حصہ اول، دوم، سوم) • دنیا میں ایک نذیر آیا • تیسری بار کی چمک کی گھڑی بھی قریب آن پہنچی.گورونانک کیا فرماتے ہیں ؟ • حضرت آدم از روئے قرآن.گذشتہ عالمگیر جنگ.ترمسیح • خدا نے خشمگین کی قبری تجلی • انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات • ہماری ہجرت اور قیام پاکستان • شیعہ صاحبان سے گزارش.کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے پوچھو غافلو • نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے.عیسائی صاحبان غور فرمائیں.موجودہ خطرہ سے نجات کیونکر ہوگی؟ • پیشگوئی نشانِ رحمت کے تعلق میں چمکتے ہوئے بیسیوں نشان فاتوا بمثله ان كنتم مومنین • پیشگوئی نشانِ رحمت.نشانِ رحمت کا انذاری حصہ کیونکر پورا ہوا • پیشگوئی نشانِ رحمت.قہری نشان کا دوسرا نمونہ • نشانِ رحمت کی عظیم الشان پیشگوئی • پیشگوئی نشانِ رحمت کا انذاری حصہ محکمات و متشابہات کی کسوٹی پر • نشانانِ رحمت کے بیسیوں چمکتے ہوئے نشانات منصب خلافت • رحمت کے بیسیوں چمکتے ہوئے نشانات اور اس کا انذاری حصہ قانونِ الہی کی روشنی میں.جہاد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ • زار بھی ہوگا تو ہوگا اس گھڑی با حال زارا ۲ • منصب خلافت اور اسکی خصوصیات اسلامی معاشرہ حیات الآخرة • جامع صحیح مسند بخاری جلد ۱ تا ۱۵ ( ترجمه و شرح).بخاری کے ترجمہ و شرح کے پہلے دو جزو بگڈ یو تالیف واشاعت قادیان دارالامان نے چھپوائے اور تیرہ اجزاء ادارۃ المصنفین ربوہ کے زیر اہتمام شائع ہوئے.حضرت شاہ صاحب ۱۹۶۲ء میں بیمار ہوئے تو سیدنا حضرت مصلح موعود نے مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کو شاہ صاحب کا انہیں اجزاء پر مشتمل مسوده سپر دفرمایا اور ارشاد فرمایا کہ بقیہ اجزاء کا مضمون بھی تیار ہو جائے.مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کا بیان ہے کہ:.حضرت شاہ صاحب نے اپنی بیماری کے ایام میں مجھے ارشاد فرمایا کہ میں اُن سے روزانہ ملنے آیا کروں.اگر کسی وجہ سے خاکسار حاضر نہ ہو سکتا تو آپ کسی کے ذریعہ مجھے بلوا بھیجتے اور بعض اوقات بار بار یا دفرماتے.دوران گفتگو کبھی آپ کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں.اور فرماتے افسوس بخاری کا کام مکمل نہ ہوا.اور اس خواہش کا اظہار فرماتے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت دے تو آپ اس کام کو مکمل کر ،، دیں.68

Page 340

تاریخ احمدیت.جلد 24 322 سال 1967ء ان بیش قیمت تصانیف کے علاوہ حضرت شاہ صاحب کے قلم سے الفضل اور ریویو آف ریلیجنز اردو وغیرہ میں نہایت بلند پایہ اور حقیقت افروز مضامین شائع ہوئے.اولاد سیدہ وسیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ پروفیسر فیض الرحمن صاحب فیضی امریکہ سیدہ صبیحہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر ائیر کموڈ ورسید منصور احمد شاہ صاحب سید صفی اللہ شاہ صاحب انگلستان سیدہ طاہرہ شاہ صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعود سیده آنسه شاہ صاحبہ اہلیہ پرویز احمد صاحب کمشنر سیده قدسیہ شاہ صاحبہ اہلیہ چودھری خلیل احمد صاحب حضرت میاں خدا بخش صاحب المعروف ” مومن جی“ 69 ولادت: ۱۸۸۰ء 70 بیعت تحریری: ۱۹۰۰ء بیعت دستی: جون ۱۹۰۲ء وفات: ۲۶ مئی ۱۹۶۷ء آپ اپنے قبول احمدیت کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.: میں گیارہ بارہ سال کی عمر کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پٹیالہ تشریف لے گئے تھے.میں اور شیخ محمد افضل صاحب ایک جماعت میں تعلیم پاتے تھے اور ان کے تایا صاحب شیخ عباداللہ صاحب حضرت صاحب سے بہت محبت رکھتے تھے.اس وقت کوئی سلسلہ بیعت کا مجھے معلوم نہ تھا.مگر شہر میں مخالفت ضرور تھی.جس وقت حضور تشریف لے گئے تھے تو مولوی اسحاق جو پٹیالہ کے مفتی تھے.انہوں نے مخالفت میں اشتہار شائع کئے اور مناظرہ کے چیلنج بھی دئے.پھر جب حضرت صاحب کی طرف سے اشتہار شائع کرنے کا مضمون ملا.تو شیخ عباداللہ صاحب نے کہا کہ میں اشتہار چھپوا کر شائع کر دیتا ہوں.چنانچہ انہوں نے وہ مضمون شیخ جلال الدین صاحب کے ہاتھ میں دیا.اور مجھ کو بھی ان کے ساتھ روانہ کیا کہ اشتہار چھپوا کرلائیں.ہم نے وہ مضمون چھاپے خانے والے کو دیا جو کہ رجب علی شاہ شیعہ مذہب کا تھا (اور وہ) شیخ عباد اللہ کا بہت دوست تھا.جب اشتہاروں کی اجرت ہم نے دینی چاہی تو رجب علی شاہ کہنے لگے کہ تم دوست آدمی ہو اور شیخ عباداللہ میرے دوست ہیں ان اشتہاروں کی

Page 341

تاریخ احمدیت.جلد 24 323 سال 1967ء اجرت کیا لینی ہے.مگر جب جواب الجواب مخالفوں کی طرف سے اشتہار شائع ہوا.تو انہوں نے اس اشتہار میں لکھ دیا کہ دعوی تو مسیح ہونے کا ہے مگر اشتہاروں کی اجرت بھی نہیں دی جاتی.جب حضور والا کی خدمت میں یہ اشتہار پہنچا تو حضور فرمانے لگے کہ ان کو ہمارے سامنے لاؤ جو اشتہار چھپوانے گئے تھے.چنانچہ خاکسار کو اور شیخ جلال الدین صاحب کو حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا گیا.جب ہم نے تمام قصہ رجب علی شاہ کا سچ سچ سنایا تو ہم دونوں کو خندہ پیشانی سے معاف فرما کر فرمانے لگے کہ میں سمجھ گیا ہوں.یہ چالا کی انہیں لوگوں کی ہے.سو پہلی دفعہ حضور والا کی اس طرح زیارت نصیب ہوئی.اس کے بعد پہلی دفعہ قادیان میں آنے کا موقعہ ملا.وہ نظارہ میری آنکھوں کو نہیں بھول سکتا.جس وقت مہمان خانہ میں قدم رکھا تو حضرت صاحب یعنی میاں محمود احمد صاحب دروازہ کی دہلیز پر کھڑے تھے.نہایت ہی خوشی سے ملے.ہمارا وفد کوئی چھ آدمیوں کا تھا.حافظ نور احمد صاحب، مولوی عبداللہ صاحب، حاجی محمد صدیق صاحب، محمد افضل صاحب، ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خاکسار خدا جس وقت ہم پہلی دفعہ قادیان آئے تھے.تو تقریباً آٹھ یا دس دن ٹھہرے تھے.اتفاق سے حضرت صاحب کے سر میں کوئی تختے کی نوک وغیرہ سے چوٹ آگئی.اس وجہ سے باہر تشریف کم لاتے تھے.ایک دفعہ جب کہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کی بنیاد کھودی جارہی تھی.حضور وہاں پر آگئے.اور ہم تینوں یعنی محمد افضل ، اور حشمت اللہ اور میں حضور کے سامنے کھڑے تھے.اور ساتھ ہمارے ایک شخص عبد الحق بھی تھا ایک آریہ تھا جو مسلمان ہو چکا تھا مگر بہت بد مزاج ) حضور اس کی طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ کچھ دنوں ٹھہر کر بیعت کرنا.عبدالحق نے کہا کہ حضور میں نے تو رات بیعت کر بھی لی ہے.حضور نے فرمایا کہ ایک عیسائی تھا.وہ عیسائیوں کا پچاس روپے پر ملازم تھا.مسلمانوں نے کہا کہ ہم تم کو ساٹھ روپے ماہوار دیتے ہیں تم مسلمان ہو جاؤ.چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا.کچھ عرصہ مسلمان رہا مگر عیسائیوں نے کہا ہم تم کو سور و پیہ ماہوارد دیں گے.پھر وہ عیسائی ہو گیا.یہ قصہ مثال کے طور پر حضور نے تین چار دفعہ دہرایا اور عبد الحق کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو اس طرح کا ایمان اچھا نہیں ہوتا.اس کے بعد حضور اندر تشریف لے گئے.اور ہم بھی واپس آگئے.تھوڑے دن نہ گزرے تھے کہ عبد الحق قادیان ہی میں حضور کی مخالفت کرنے لگ گیا اور آریوں میں جاملا.کچھ عرصہ کے بعد پھر وہ مسلمان ہوا اور پھر آریہ بن گیا.جتنی دفعہ حضور نے عیسائی کی مثال بیان فرمائی اور جس

Page 342

تاریخ احمدیت.جلد 24 324 سال 1967ء طرح ماہوار تنخواہ کے لالچ کے اسکو سمجھایا تھا.اسطرح سے وہ آریہ بنا اور مسلمان بنا.پھر ایک روز میں اور ڈاکٹر حشمت اللہ ڈھاب پر کشتی چلانے کا نظارہ دیکھنے گئے تھے.جبکہ حضرت صاحب یعنی میاں محمود احمد صاحب کشتی چلا رہے تھے.جب ہم گئے تو ان کو دیکھتے ہی ہماری آنکھوں میں کچھ ایسی محبت اور دل میں سرور تھا کہ اس کا مزہ اب تک نہیں بھولتا.میں تو اب بھی جب بھی حضور کے سامنے ہوتا ہوں تو وہی بچپن کا نظارہ سامنے آجاتا ہے.اس کے بعد جب ہم آٹھ دس یوم ٹھہر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہونے کے لئے اندر گئے تو حضور والا کے ہاں ایک معمولی چار پائی اور ایک معمولی لحاف کا بستر بچھا ہوا تھا.حتی کہ اس چار پائی کو لوہے کی ایک پتری لگی ہوئی تھی.دیکھ کر نہایت ہی اللہ تعالیٰ کا جوش میرے دل میں آیا کہ دوسروں کے لئے تو ایسے تکلف والے اور آرام دہ بستر اور اپنے لئے ایسا معمولی سامان.ہمارے وفد میں سے ایک ایک مصافحہ کر کے حضور سے رخصت ہوتا جاتا تھا.مگر جس وقت میں مصافحہ کر کے رخصت ہونے لگا تو حضور نے فرمایا کہ دیکھو خدا سے وفاداری کرنے میں کبھی غفلت نہ کرنا.تو پھر تمہارا نہ کوئی دنیا کا کام انکے گا اور نہ دین کا کام اٹکے گا.اس کے بعد تقریباً ۱۹۰۶ء کا واقعہ ہے کہ حضور دہلی میں تشریف فرما تھے.وہاں سے واپسی پر جماعت پٹیالہ نے حضور کو پٹیالہ آنے کی دعوت دی.مگر حضور نے قبول نہ فرمائی.لدھیانہ میں حضور والا نے تقریر فرمائی.جماعت کے اور دوست لدھیانہ پہنچے مگر میں اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے والد بزرگ میاں رحیم بخش صاحب جو ہمیشہ مجھ سے دلی محبت کیا کرتے تھے.بلکہ میں نے بیعت ہی ان کے واسطہ سے کی ہے، وہ مجھ کو ساتھ لیکر لدھیانہ میں پہنچے.اتفاق سے رمضان شریف کا مہینہ تھا.جس وقت میں اور بھائی رحیم بخش صاحب لدھیانہ میں شام کو پانچ بجے کے قریب پہنچے.حضور سے ملاقات ہوئی تو ہم نے روزے رکھے ہوئے تھے ، حضور نے فرمایا کہ سفر میں روزہ نہیں رکھنا چاہیے.بھائی صاحب کہنے لگے ہم نے تو روزہ رکھا ہوا ہے.حضور نے فرمایا کہ روزہ کھول دو.میں نے عرض کیا کہ حضوراب تو تھوڑا سا وقت رہ گیا ہے.حضور فرمانے لگے کہ کیا خدا کو زبردستی راضی کرنا چاہتے ہو.پس فوراً بھائی صاحب نے اور میں نے روزہ کھول دیا.اس کے دوسرے روز حضرت صاحب نے لدھیانہ میں تقریر فرمائی.وہ لطف اور مزا اب تک میرے دل سے نہیں بھولتا.جبکہ حضور اپنی سوٹی کو جلدی جلدی نیچے مارتے تھے اور فرماتے تھے کہ خدا نے مجھے پر یہ احسان کیا.میں اکیلا تھا، خدا نے مجھے ایک جماعت عطا کی.پھر حضور نے دوران تقریر میں چائے نوش فرمائی.بس پھر کیا تھا.شور برپا ہو گیا کہ رمضان شریف

Page 343

تاریخ احمدیت.جلد 24 325 سال 1967ء کی حرمت نہیں رہی.مخالفوں نے ہر چند شور مچا کر کوشش کی کہ تقریر بند ہوجاوے ، مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے انتظام کے ساتھ تقریر برابر شروع رہی.باہر جا کر ایک مولوی سعد اللہ نام نے بہت شور مچایا.لوگوں کو اکسایا کہ تقریر کے دوران میں خرابی پیدا ہو.مگر خیر خوبی کے ساتھ تقریر ختم ہوئی.اگلی صبح کو حضور امرتسر کو روانہ ہوئے.وہاں جماعت امرتسر نے حضور سے تقریر کر نیکا وعدہ لیا ہوا تھا.وہاں سے ہم پٹیالہ واپس ہو گئے.جب ہم کو معلوم ہوا کہ امرتسر میں دوران تقریر میں لوگوں نے حضور کو اینٹیں ، پتھر مارنے شروع کئے.حتی کہ گاڑی میں بیٹھنے کے وقت بھی بہت سارے روڑے پھینکے گے.مجھے یہ یاد نہیں کہ پٹیالہ کی جماعت میں سے کون دوست لدھیانہ سے امرتسر حضور کے ساتھ تشریف لے گئے.انہوں نے پتھروں کا واقعہ سنایا تھا.مگر سن کر دل کو بہت افسوس ہوا کہ ہم ساتھ کیوں نہ گئے.اس کے بعد میں جس محلہ میں رہتا تھا اکیلا ہی احمدی تھا.ایک مولوی فاضل کرامت اللہ میرے مکان کے پاس رہتا تھا.وہ ظاہر تو نیک معلوم ہوتا تھا.مگر اندرون سے حضور کا سخت دشمن تھا.وہ ہر جمعرات کو اس مسجد میں وعظ کیا کرتا تھا اور حضرت صاحب کی شان میں سخت لفاظی کرتا اور جھوٹے حوالے دے کر لوگوں میں حضرت کے دعوی کو جھوٹا ثابت کرتا...مولوی صاحب کے الفاظ میرے کان میں پڑتے تو میں برداشت نہ کر سکتا اور نہ میں دوکان چھوڑ کر وہاں سے کسی جگہ جا سکتا تھا.سخت تنگ ہوکر یہ سارا واقعہ حضور والا کی خدمت میں لکھا.حضور نے میرے پاس کتاب انجام آتھم روانہ کی اور لکھا کہ یہ چند سطور مباہلہ والی مولوی کو سنا دیں.اگر نہ سنے تو یہ کتاب ہی اس کو دے دیں.چنانچہ اگلی جمعرات کو اُس نے حضرت صاحب کے خلاف کہا تو میں وہ کتاب لیکر مسجد میں گیا.تو اس نے وہ کتاب نہ خودسنی اور نہ اور لوگوں کو سننے دی.مجبوراً میں وہ کتاب ان کو دے کر چلا آیا.اور ان کو قسم دے کر کہہ آیا کہ اس کتاب کو ضرور بغور پڑھیں.اس کے بعد خدا معلوم اس نے یہ کتاب پڑھی یا نہ پڑھی مگر ایک ماہ کے بعد وہ بالکل پاگل ہو گیا.اور الف ننگا ہوکر گلیوں میں پھرتا تھا.اور مور یوں کا پانی اور کیچڑ پی لیتا تھا.وہ اسی حالت پاگل پن میں فوت ہو گیا.ایک روز میں کسی کام کے واسطے اس مولوی کے مکان کی طرف گیا.وہ لوہے کے سنگل سے جکڑا ہوا تھا.کچھ لوگ دیوار پر چڑھ کر اس کا تماشہ دیکھے رہے تھے.میں نے سوچا کہ میں بھی مولوی صاحب کو دیکھ لوں.چنانچہ جب میں نے دیوار پر چڑھ کر مولوی صاحب کی طرف دیکھا تو مولوی صاحب میری طرف مخاطب ہو کر کہنے لگے کہ او مرزائی تو نے مجھ کو پاگل تو بنا دیا.ابھی بھی تجھ کو چین نہیں آتا.میں یہ سن کر دیوار سے نیچے اتر آیا اور

Page 344

تاریخ احمدیت.جلد 24 326 سال 1967ء اللہ تعالیٰ کے حضور بہت استغفار کیا اور حضور والا کی خدمت میں یہ تمام واقعہ لکھ دیا.میں جب سے احمدی ہوا تھا.اس وقت سے میرے والد صاحب سخت مخالف تھے...اور جس پیر صاحب کے وہ مرید تھے وہ بڑے مشہور و معروف اور بڑے تقویٰ والے انسان پٹیالہ میں گنے جاتے تھے.یعنی ہزاروں آدمی ان کے شہروں میں اور دیہاتوں میں مرید تھے.کتنی دفعہ میرے والد صاحب اپنے پیر صاحب سائیں جمال شاہ کے پاس مجھ کو لیکر گئے.اور بہت کوشش کی کہ سائیں صاحب میرے لڑکے کو سمجھاؤ.جب بھی وہ مجھ سے گفتگو کرتے تو میں خدا کے فضل سے ان کے آگے ایسے دلائل رکھتا کہ وہ ان کو توڑ نہ سکتے.ایک دن کا واقعہ ہے کہ میرے والد صاحب نے اپنے پیر سائیں جمال شاہ کو اپنے گھر پر کھانے کے لئے دعوت دی.چونکہ میں ابھی وہیں اس دعوت میں شریک تھا.کھانا کھانے کے بعد میرے والد صاحب نے پیر صاحب کی خدمت میں عرض کی تاکہ وہ مجھ کو سمجھا ئیں.پیر صاحب میری طرف مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ تم نے مرزا کا کیا دیکھا تم کیوں ان کو نہیں چھوڑتے.میں نے عرض کی کہ حضرت کا چھوڑنا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑنا ہے.میں کس طرح ان کو چھوڑ دوں.انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تمھارے مرزا صاحب میں روحانی طاقت ہے یا معجزہ یا کرامات رکھتے ہیں تو آئیں میرے مقابلہ پر.اس طرح سے کہ میں ایک ماہ کے لئے مراقبہ میں بیٹھتا ہوں وہ بھی میرے ساتھ ایک ماہ مراقبے میں بیٹھیں.میں بھی کھانا پینا حرام کر دوں گا وہ بھی کھانا پینا حرام کر دیں.دنیا دیکھ لے گی کہ کس میں روحانی طاقت زیادہ ہے اور کون فتح یاب ہوتا ہے.جولوگ وہاں پر موجود تھے بہت خوش اور واہ واہ کے نعرے لگانے لگے کہ پیر صاحب نے کیا ہی عمدہ کہا ہے.تمام میری طرف مخاطب تھے کہ اب یہ کیا کہتا ہے میرے والد صاحب بھی خوش تھے کہ اس بات کا میرے لڑکے کے پاس کوئی جواب نہیں ہے.میں نے نہایت ادب سے کہا کہ اگر اجازت ہو تو میں کچھ کہوں.مجھے آپ کا یہ معیار مراقبہ والا قرآن مجید کے خلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف قابل قبول نہیں.کیونکہ خدا کی کتاب یوں کہتی ہے کہ محمد رسول اللہ کے خلاف ایک قدم بھی چل کر انسان منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا.اس لئے آپ کا مراقبے والا معیار قابل قبول نہیں.چلو اگر آپ ایسا کرنا چاہتے ہیں.تو میں آپ کے ساتھ مراقبے میں بیٹھ جاتا ہوں.جب تک آپ نہ کھانا کھاؤ گے میں بھی نہ کھاؤں گا اور جب تک تم نہ پانی پیو گے میں بھی نہ پیوں گا.اور پھر اگر آپ مجھ پر اپنا روحانی اثر نہ ڈال سکے اور نہ مجھ کو زیر کر سکے تو ایک کاغذ بطور تمسک کے لکھ لیں کہ کم سے کم میں اگر اپنا روحانی اثر نہ ڈال

Page 345

تاریخ احمدیت.جلد 24 327 سال 1967ء سکا تو قادیان کے لنگر خانہ میں پانصد روپیہ بطور جرمانہ کے دے دوں گا.اس صورت میں میں آپ کے ساتھ مراقبہ میں بیٹھ جاتا ہوں.کیونکہ مرزا صاحب تو بہت دور ہیں میں ان کا ادنی غلام آپ کے ساتھ مراقبہ کرنے کو تیار ہوں.اس پر وہ پیر صاحب بہت خفا ہوئے اور کہنے لگے کہ دیکھو یہ بہت بے ادب ہے میرے والد صاحب بھی اس پر بہت خفا ہوئے.اور کہنے لگے کہ تم نے میرے پیر صاحب کی بہت بے ادبی کی ہے.چنانچہ اس غصہ میں انہوں نے تیشہ اُٹھایا اور سیدھا میرے سر کی طرف چلا دیا.وہاں پر اتفاق سے ایک سکھ بھی آ گیا تھا اس نے اس تیشہ کو اپنے ہاتھوں میں دبوچا.اور مجھ کو پکڑ کر باہر لے گیا.میرے دل میں نہایت درد اور رونا آتا تھا کہ یا الہی یہ کیا معاملہ ہے میں اپنی زندگی سے مایوس ہو چکا تھا.اگلی صبح کو قادیان میں حضور والا کی خدمت میں حاضر ہوا.میں روتا تھا اور حضور کو تمام واقعہ زبانی سناتا تھا.حضور نے مجھ کو کچھ دودھ اور کچھ دوائی کھلائی اور بہت ساری تسلی دی اور فر مایا کہ خدا کے راستہ میں جان دینا کوئی چیز نہیں بلکہ یہی اصلی زندگی ہے اور بہت خوش ہوئے.اور فرمایا کہ میں آپ سے بہت خوش ہوں.پیر صاحب کو یہی جواب دینا چاہیے تھا.جو آپ نے دیا اور فرمایا کہ تم سب کچھ چھوڑ کر اپنے والد صاحب سے جدا ہو جاؤ کسی دوسری جگہ رہائش کا انتظام کرلو.پس یہ حضور والا کی آخری زیارت تھی اس کے بعد پھر مجھ کو حضور سے ملنا نصیب نہیں ہوا.داخل احمدیت ہونے کے بعد آپ کے والد بلکہ تمام رشتہ داروں نے شدید مخالفت کی.بلکہ آپ کے دادا صاحب نے مشتعل ہو کر آپکو اپنے گھر سے نکال دیا اور آپ کی پہلی بیوی کے تمام زیورات اُتار لئے.آپ اسی بے بسی کے عالم میں ۱۹۲۰ء کے قریب اپنے آبائی وطن پٹیالہ کو چھوڑ کر مستقل طور پر قادیان دار الامان میں سکونت پذیر ہو گئے.ازاں بعد کچھ عرصہ لا ہور اور پھر خوشاب میں رہنے کے بعد مستقل طور پر ربوہ میں بود و باش اختیار کر لی.آپ بناوٹ تصنع اور ریا سے کوسوں دور تھے.فقیروں اور غریبوں سے بہت محبت تھی.لین دین اور معاملات میں بہت صاف تھے.بہت کم قرضہ لیا کرتے تھے.اور اگر لیتے تو بہت فکر کے ساتھ اولین فرصت میں اتارتے.آخری عمر تک محنت و مشقت کے عادی رہے.کئی میل تک پیدل سفر کر لیتے تھے.پوری عمر نماز تہجد کا با قاعدگی سے التزام رکھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق تھا.آنحضور ﷺ کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھتے وقت آبدیدہ ہو جاتے 74.

Page 346

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 328 سال 1967ء آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تین بیٹیوں اور چار بیٹوں سے نوازا جن کی تفصیل درج ذیل ہے.- محتر مہ امتہ الوہاب صاحبہ مرحومہ زوجہ مکرم حبیب الرحمان صاحب دار العلوم غربی ربوه محترمہ امته الرحمن طیبه صاحبه مرحومه زوجہ مکرم محمد نواز مؤمن صاحب واقف زندگی ریٹائرڈ.کارکن صدر انجمن احمد یہ پاکستان محترمہ امۃ المومن صاحبه زوجہ مکرم شعبان احمد نسیم صاحب گوجرانوالہ مکرم عبدالشکور اسلم صاحب سابق مہتم اشاعت و تجنید مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ مکرم عبدالوہاب خان صاحب ایم اے ریٹائر ڈایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ( اشتمال) مکرم عبدالسمیع خان صاحب مرحوم اقبال ٹاؤن لاہور مکرم شہاب الدین خان صاحب ایم اے حضرت بیگم سلطان صاحبہ ولادت :۱۸۹۴ء بمقام لدھیانہ بیعت سن کی تعین نہیں ہوسکی وفات سے جون ۱۹۶۷ء آپ حضرت آغا عبدالوہاب خاں صاحب لدھیانوی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں.پندرہ سال کی عمر میں آپ کی شادی حضرت حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی“ سے ہوئی تھی.نکاح حضرت خلیفہ المسیح الاول نے پڑھایا تھا.آپ کو بارہ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں قیام کا موقعہ ملا.آپ کی زیارت نصیب ہوئی.آپ کی باتیں سنیں.آپ کی خدمت کی توفیق ملی.آپ کی بیٹی محترمہ صغری بیگم صاحبہ زوجہ مکرم میاں عبدالقیوم صاحب اپنے ایک نوٹ میں لکھتی ہیں:.والدہ مرحومہ فرمایا کرتی تھیں کہ حضرت (اماں جان ) نے والد بزرگوار حکیم مرہم عیسی صاحب کو بطور دولہا بنا کر اپنے گھر سے برات روانہ کی تھی اور حضرت اماں جی (صغری بیگم ) حرم حضرت خلیفہ مسیح الاول نے مجھے اپنی بیٹی بنا کر رخصتانہ کی تقریب عمل میں لائی تھی اور اس طرح یہ

Page 347

تاریخ احمدیت.جلد 24 329 سال 1967ء بابرکت شادی ظہور میں آئی تھی.شادی کے بعد لاہور تشریف لائیں.والد صاحب کی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھیں اور اس کے سات بچے زندہ موجود تھے.لیکن ہماری والدہ کی یاد بھلا دی بفضلہ تعالیٰ.ان بچوں نے ( بھی ) بچپن سے لے کر اب تک محبت کا بہترین سلوک کیا جو ہمارے خاندان میں ایک مثال رکھتا ہے.والدہ مرحومہ نہایت دیندار، نیک، حق گو، اور نمازوں کی پابند اور اکثر نمازوں کی تلاوت کیا کرتی تھیں.اپنی تمام اولاد کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور کثرت سے دعائیں کیا کرتی تھیں.اولاد آپ کو خدا تعالیٰ نے آٹھ لڑکے اور ایک لڑکی عطا فرمائی.حضرت مولوی میر محمد جی صاحب ہزاروی ولادت: ۱۸۸۹ء 76 بیعت اکتوبر ۱۹۰۱ ء | 7 وفات ۱۳ جون ۱۹۶۷ء حضرت مولوی صاحب کا اصل وطن موضع کو کمنگ ضلع ایبٹ آباد تھا.آپ کے والد کا نام میر محمد زمان خان صاحب تھا.آپ اپنی خود نوشت روایات میں لکھتے ہیں کہ خاکسارا اپنے متعلقین کے پاس موضع دانہ میں رہتا تھا.ان دنوں ایک حاجی برکت اللہ صاحب جوا کثر عربستان یا کاشغر میں رہتا.پنجاب سے حضرت اقدس کا تصنیف کردہ رسالہ ہمراہ لایا.اور موضع دانہ کے امام صاحب کو طلوع آفتاب کے وقت محراب میں لا کر دیا اور کہا پنجاب میں سنا ہے کہ پہلے یہ شخص خدائی کا دعوی کرتا تھا اور اب نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے.مولوی صاحب کے ہاتھ سے ایک یاغستانی طالبعلم نے رسالہ لے کر پڑھا اور گالیاں دینی شروع کیں.خاکسار کی عمر اس وقت چھوٹی تھی.کھیل میں مشغول تھا.مولوی صاحب کو کہتے سنا کہ گالیاں نہ دو یہ شخص خدا رسیدہ ہے.لیکن طالبعلم باز نہ آیا.کچھ دنوں کے بعد قصبہ مانسہرہ میں ایک شخص عیسائی ہوا اور وہاں کا جو خاص مولوی تھا وہ پادری سے مغلوب ہوا.یاغستانی مذکورہ کے دل کو بہت صدمہ ہوا.اُس نے پڑھائی چھوڑ دی.حضرت اقدس کی کتاب ازالہ اوہام منگوا کر مطالعہ میں لگ گیا.عصر کے بعد اس نے کتاب ختم کی.امام مسجد گھر کو جارہے تھے کہ طالبعلم مذکور نے کہا مولوی صاحب حضرت مرزا صاحب اپنے دعوئی میں بچے ہیں.مولوی صاحب نے فرمایا.پہلے تم گالیاں دینے سے باز نہیں آتے تھے اب نوبت با نینجا رسید.تم یاغستان کے ہو تمہیں زندگی سے ہاتھ

Page 348

تاریخ احمدیت.جلد 24 330 سال 1967ء دھونا پڑے گا.گاؤں کے لوگ بھی تیرے دشمن ہو جائیں گے.یہ عقیدہ دل میں رکھو.طالبعلم نے کہا میں پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.مولوی صاحب گھر چلے گئے.گاؤں کے سنجیدہ لوگ دوسرے دیہات سے مولویوں کو مباحثہ کے لئے منگواتے.یاغستانی کہتا میں طالبعلم ہوں.یکصد روپے اس کتاب پر میں نے خرچ کئے ہیں.اگر اس کی ایک دلیل باطل کر دکھاؤ گے تو میں اس کو تمہارے سامنے جلا دونگا.ملا لوگ عاجز رہتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گاؤں کے کچھ اور لوگ بھی احمدی ہو گئے.خاکسار کی عمر چھوٹی تھی لیکن احمدیوں کے آگے مولوی مغلوب ہوتے دیکھ کر خاکسار احمدیوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوتا اور احمدی کہلاتا.جب قادیان کے راجہ عطا محمد خان یاڑی پورہ کشمیر کا باشندہ قادیان سے دانہ پہنچا اس کے کچھ ماہ کے بعد خاکسار نے بیعت کا کارڈلکھا جس کا جواب حضرت اقدس کی طرف سے پہنچا.غالبا یہ واقعہ ۱۹۰۰ء کے قریب کا ہے.اس کے بعد خاکسار کو قادیان آنے کا شوق ہوا.خدائے برتر نے شروع اپریل ۱۹۰۳ء میں ۱۴ ۱۵ سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود و مہدی موعود علیہ وعلی مطالعہ خیر الامام الصلوۃ والسلام کے دیدار مسرت آثار سے نوازا.....میرا بڑا بھائی گل حسن خان جس نے احمدی ہونے پر مجھے اتنا مارا تھا کہ میرے کپڑے لہولہان ہو گئے تھے.احمدی ہو کر قادیان آیا اور مجھے ایک رومال خرید کر دیا کہ حضرت اقدس سے بدلوا دو.میں نے وہ رومال حضور کو دیا اور ان کے سفید چھینٹ کا میلا رو مال لیکر بھائی کو دیا.حضرت اقدس کا پس خوردہ خشکہ چاول روغن زرد سے چکنا کیا ہوا.اور چپڑی ہوئی چپاتی کو خاکسار نے مسجد مبارک کی چھت پر کھایا تھا.صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس علی گڑھ میں پڑھتے تھے.ان کا خرچ کوئی اور برداشت کرتا.حضرت اقدس نے عائشہ بیگم بنت شادی خان سے ان کے عقد نکاح کی تجویز فرمائی اور میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کی چھت پر لوگ جمع ہوئے.آپ نے ۵۰۰ روپے مہر تجویز کر کے فرمایا.اگر چہ اس وقت ان کی طاقت نہیں.لیکن خدا تعالیٰ ان کو اس قابل کر دے گا کہ یہ ۵۰۰ دے سکیں گے.علماء صوفیاء حضرت اقدس کی روحانی طاقت کو مانتے ہوئے مخالفت کرتے تھے کہ ان کی عزت اور وقار کو صدمہ نہ پہنچے.کئی آدمی میں نے دیکھے کہ وہ بیعت میں بھی شریک ہوئے لیکن اپنی بیعت کو انہوں نے قوم پر ظاہر ہونے نہیں دیا.ایک بار گورداسپور کے ضلع کا ایک پیر آیا.نماز ظہر پڑھ کر عرض کی میں الگ ملنا چاہتا ہوں.حضور اس کو مسجد مبارک کی شمالی دیوار کی کھڑکی کے اندر لے گئے.وہاں جا کر اس

Page 349

تاریخ احمدیت.جلد 24 331 سال 1967ء نے کہا حضور میرے مرید مجھ سے برگشتہ ہو جائیں گے.اگر ان کو میرا احمدی ہونا ظاہر ہوا.آپ مجھے مخفی رکھنے کی اجازت دیں.میں آپ کی تعلیم کی اشاعت کروں گا.آپ نے اس کو اجازت دے دی.شمال مغربی کشمیر مظفر آباد کا پیر ۱۹۰۶ ء کے قریب آیا.بیعت کی.اور کسی کی طرف سے اعتراض کیا کہ جماعت کی اخلاقی حالت پر ایسے ایسے اعتراض ہوتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا اس شخص کو تو بہ کرنی چاہیے.خدا کے غضب سے ڈرے میری جماعت ایک پاکیزہ جماعت ہے اس میں بڑی تبدیلی پاتا ہوں.یہ پیر وطن میں گیا اور اپنے آپ کو احمدی ظاہر نہیں کیا.موضع چھور پرگنہ ہزارہ کا پیر ۱۹۰۵ء میں باغ میں آیا.اور کچھ دن رہ کر بیعت کر کے چلا گیا.لیکن وہاں اس نے اخفاء رکھا.۱۹۰۸ء میں جب کہ فنانشل کمشنر آیا تھا.رحمت اللہ خان بمعہ رئیس ڈلہوزی کئی دن تک یہاں رہے.مسجد مبارک میں باجماعت نماز ادا کرتا رہا اور دعا کے لئے عرض کرتا رہا.لیکن وطن میں جا کر خاموش رہا.مولوی فضل دین بوڑھا شخص اضلاع گجرات کا حضرت اقدس کا وعظ میں بُرا کہتا.وہ سالم یکہ لیکر اپنے مطب میں آیا.استاد صاحب اس کو دیکھ کر حیران ہوئے.اس نے کہا کل حمایت اسلام میں واعظ ہے میں نے چاہا کہ حضرت کو مل آؤں.استاد مغفور نے فرمایا ظہر کی نماز کو تشریف لائیں گے.جب حضور تشریف لائے.مولوی صاحب کو لیکر ہم مسجد گئے.حضرت اقدس اس کو دیکھ کر مسکرائے اور مزاج پرسی کی مولوی نے پنجابی میں کہا کہ کل میرا وعظ ہے.آج میں نے کہا کہ حضرتاں دی زیارت کر آواں.اس مولوی نے دو روپے نذرانہ دئے اور نماز باجماعت پڑھ کر واپس چلا گیا.اسی طرح کئی اور لوگ تھے جو اپنے لوگوں میں جا کر اظہار نہ کرتے تھے.جلسہ کے ایام میں آپ پر وحی نازل ہوئی.يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ آپ نے فرمایا شاید مہمانوں کو تکلیف ہوئی ہوگی.۱۹۰۵ء میں آپ باغ میں تھے.اردگرد کے دیہات میں چور تھے.خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوئی.”امن است در مقام محبت سرائے ما‘ بشن سنگھ ایک تن آور قوی بدن مشہور چور آیا.خدا کے فرشتوں نے اس کو ایسا حیران کیا کہ وہ پیاز اکھیڑ نے لگا پہرہ داروں سے ڈر کر بھاگا اور پکڑا گیا.موجودہ پختہ مکان کے مغربی طرف لا کر رسی سے باندھا گیا.ہم نے جا کر دیکھا استاد صاحب بھی

Page 350

تاریخ احمدیت.جلد 24 332 سال 1967ء آئے.سکھ شور کر رہا تھا کہ مجھے یونہی گرفتار کر لیا گیا.میں مویشی لے کر جارہا تھا.حضرت اقدس نے کہلا بھیجا اس کی مشکیں ڈھیلی کر دو تکلیف نہ ہو.چور کے بدن پر تیل ملا ہوا تھا.اس کو کابل کے پٹھان نے پکڑا تھا.بازار کے ہند و صبح اس کو دیکھنے آئے.اور کہتے کہ یہ بھی واقعی جوان ہے.جس نے بشن سنگھ کو پکڑا.یہ سکھ تھانے میں جانے سے سزا یاب ہو گیا.گورداسپور میں مقدمہ پر کتابوں کی ضرورت تھی.قادیان سے راتوں رات خاکسار وہاں پہنچا حضرت اقدس نے مطبع والوں کو تکان دور کرنے کے لئے چائے پلانے کا حکم دیا.لیکن تکان کے سبب خاکسار سو گیا....دوران مقدمہ حضور لاہور گئے.وہاں آپ بابو چراغ دین ، معراج دین صاحب کے مکانوں میں نزول فرما ہوئے.ملاں لوگ اپنے چیلوں کو بھیجتے وہ سڑک پر کھڑے ہوکر گالیاں دیتے.مرزا توں ایسا ویسا.پولیس ان لوگوں کو ہٹا دیتی.جلسہ گاہ کے کام کرنے والوں کے لئے مغرب کے بعد خاکسار اور ایک اور شخص یکہ پر روٹیاں لاد کر لے گئے.رات کو خاکسار وہاں ہی رہا.صبح کے وقت مولوی عبدالکریم صاحب لیکچر پڑھنے سے فارغ ہوئے تو حضرت اقدس تقریر کے لئے کھڑے ہوئے.لوگوں نے شور کرنا شروع کیا.ایک آریہ جو میرے پاس سٹیج پر تھا.کہنے لگا مسلمان بھائیوں آپ نہیں سنتے تو ہمیں سنے دو.لیکن لوگ خاموش نہ ہوئے.پھر مولوی عبدالکریم صاحب نے فرمایا حضور میں چپ کروا دیتا ہوں پھر مولوی صاحب نے خوشخوانی سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا.لوگ خاموش ہو گئے.جب قرآن پڑھ چکے تو حضرت اقدس کھڑے ہوئے اور تقریر میں فرمایا کہ مذہب کی وجہ سے طبائع میں غیر معمولی جوش پیدا ہو جاتا ہے.آپ لوگوں کا شکریہ ادا کیا جاتا ہے کہ مضمون کو خاموشی سے سنا.جب ہم جلسہ گاہ سے نکلے تو جگہ جگہ ملاں کی ٹولیاں گالیاں دے رہی تھیں.بعض آدمیوں کی جھولیاں اینٹوں کے ٹکڑوں سے پر تھیں کہ حضرت اقدس پر پھینکیں گے.جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت تشریف لے گئے ہیں تو اینٹیں گرا دیں.دہلی دروازہ سے باہر ایک شیشم کا درخت تھا.اس کے نیچے بھیڑ تھی.لیکن مقر ر نظر نہ آتا.جب درخت کے اوپر نظر کی تو ایک مولوی درخت پر چڑھ کر گالیاں دے رہا تھا.اور استہزاء کرتا....حضرت اقدس نہایت فیاض صاحب کرم تھے.ایک بار ریاست پو نچھ کا نو جوان مسافر صالح محمد نام ہیضہ میں گرفتار ہوا.آپ نے اس کے لئے اپنے کھانے کی کستوری کی بوتل بھیج دی جس میں تولہ سے زیادہ کستوری تھی.وفات کے بعد صالح محمد کو بہشتی مقبرہ میں دفن کروایا تھا.

Page 351

تاریخ احمدیت.جلد 24 333 سال 1967ء موضع کچھ کے مولوی نے کہا حضرت سے مجھے کتابیں لے دو حضرت کی خدمت میں لکھا گیا.آپ نے براہین احمدیہ ، تریاق القلوب اور جو کتا بیں رقعہ میں لکھی تھیں بھیج دیں....جلسہ پر میں نے حضرت اقدس کو تقریر کرتے دیکھا ہے.کوئی وقت متعین نہ ہوتا تھا.جب ارادہ فرماتے تو اعلان کیا جاتا میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں جلسہ ہوا تو آپ لکڑی کی سیڑھی اتر کر آئے.جود دالان کے اندر لگی ہوئی تھی.اور زندگی وقف کرنے کا ارشاد کیا تھا.مسجد اقصیٰ میں ایک جلسہ میں آپ کے لئے کرسی رکھی گئی اور بیٹھ کر تقریر کی.تقریر میں فرمایا ہر ایک آدمی جو یہاں ہے میرانشان ہے.حضرت اقدس کی تقریر میں تسلسل ہوتا.شروع میں کچھ دھیمی آواز ہوتی پھر بلند ہو جاتی.مقرر اپنی تقریر میں بعض فقروں پر زور دیا کرتے ہیں.آپ کی یہ عادت نہ تھی.قرآن مجید کی آیت بھی سادہ طرز سے پڑھتے نہ ہاتھ سے اور نہ انگلی سے اشارہ کرتے لاٹھی ہاتھ میں لے کر کھڑے ہوتے کبھی دونوں ہاتھ اس پر رکھ لیتے آپ کی تقریر نہایت دلکش ہوتی بالکل اطمینان سے آپ تقریر فرماتے گویا قدرتی مشن ہے جس کو قدرت کے ہاتھ نے کام لینے کے لئے کھڑا کیا ہے.79 ۹ امئی کو خاکسار نے استاد مغفور ( حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی) سے اجازت لی اور اپنے وطن کو چلا گیا.۲۷ مئی کو سنا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشانی مبارک کو فرشتہ اجل نے بوسہ دیا.انا لله وانا اليه راجعون.پھر استاد مغفور ( حضرت مولوی نورالدین صاحب بھیروی ) خلیفہ ہوئے.ان کا خط پہنچا کہ جلد قادیان آجائیں.خاکسار قادیان میں آگیا.حضرت مولوی صاحب نے سالہا سال تک مدرسہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور نصرت گرلز ہائی سکول میں فرائض تدریس سرانجام دیئے.عربی لغت پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا.عربی اردو لغت و سھیل العربیہ اور مشہور قرآنی لغت مفردات راغب کا اُردو ترجمہ آپ کی علمی یادگار ہے.اوّل الذکر قادیان اور ثانی الذکر پشاور سے شائع ہوئی.آپ نمود و نمائش سے بالا جید عالم اور بہت کم گو ، سادہ منش ، درویش صفت اور گوشہ نشین بزرگ تھے.اولاد محمد مسعود احمد صاحب، میجر محمد عاصم صاحب ، خالدہ خانم صاحبہ اہلیہ احمد حسن صاحب سابق رجسٹرار پشاور یونیورسٹی ، اریبہ خانم صاحبہ ایم.اے بیچر ار جامعہ نصرت ربوہ 80

Page 352

تاریخ احمدیت.جلد 24 334 سال 1967ء حضرت میاں عبد الغنی صاحب انجینئر ولادت: ۱۹۰۱ء بیعت پیدائشی احمدی وفات: ۱۳ جولائی ۱۹۶۷ء آپ کے بھائی مکرم ڈاکٹر عبدالحمید صاحب ریٹائرڈ چیف میڈیکل آفیسر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت میاں عبدالغنی صاحب حضرت میاں نظام الدین صاحب کے بیٹے ، حضرت میاں چراغ دین صاحب کے نواسے اور حضرت سید محمد شاہ صاحب آف شاہ مسکین کے داماد تھے بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.نہایت قابل اور محنتی الیکٹریکل انجینیئر تھے.۱۹۲۷ء میں مغلپورہ سے اے کلاس کی ڈگری حاصل کی تھی.۴۰ سال ریلوے سعودی عرب، کراچی الیکٹریکل کمپنی میں اعلی عہدہ پر ملازم رہے.نہایت دیانت دار ، پاکیزہ فطرت ،خوش اخلاق افسر مشہور تھے.بہت منکسر المزاج، ملنسار اور مہمان نواز تھے.ادیب اور شاعر بھی تھے.دینی مطالعہ بہت وسیع تھا.اور تبلیغ کا بہت شوق تھا.صوم وصلوٰۃ اور دیگر احکام شریعت کے پابند تھے.اولاد 81 آپ کے تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں تھیں.ا.عبدالباسط صاحب فرینکفورٹ جرمنی ۲- عبدالحئی صاحب ماڈل ٹاؤن لاہور۳.عبدالشکور صاحب ۴.امۃ الاکرام صاحبہ زوجہ ڈاکٹر محمود احمد صاحب لاہور ۵.امۃ القدیر صاحبہ زوجہ مکرم عبدالوحید صاحب ۶.امۃ الصفیہ صاحبہ زوجہ نصرت احمد صاحب لاہورے.امۃ الواسع صاحبہ زوجہ مکرم محمد اکبر صاحب لاہور ۸.امتہ السمیع صاحبه زوجہ عبد اللطیف صاحب ربوہ حضرت میاں عبدالرشید صاحب ریٹائر ڈ چیف ڈرافٹسمین ولادت: ۱۸۸۴ء 83 بیعت : ۱۸۹۸ء وفات: ۲ ستمبر ۱۹۶۷ء آپ لاہور کے ایک مشہور اور معروف اور قدیم مخلص اور فدائی احمدیت خاندان (”میاں فیملی کے فرد اور حضرت میاں چراغ دین صاحب کے بیٹے تھے.آپ اُن خوش نصیب بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبانِ مبارک سے خطبہ الہامیہ سنا.آپ ایک فرشتہ خصلت انسان تھے.عوام سے ہمدردی اور غیر مسلموں سے حسن سلوک کرنا آپ کا خاصہ تھا.سلسلہ احمدیہ سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے.حضرت مصلح موعود سے تو خاص عشق تھا اور حضور علیہ السلام

Page 353

تاریخ احمدیت.جلد 24 335 سال 1967ء کو بھی ان سے دلی محبت تھی.جماعتی نظام کے ماتحت ہر اتوار کو امرتسر کے قرب وجوار میں جو تبلیغی وفود بھجوائے جاتے تھے.ان میں آپ باقاعدگی سے شامل ہوا کرتے تھے.آپ نے اپنی دفتری زندگی میں بھی اپنا خاص مقام پیدا کیا ہوا تھا.اور اپنے حسن اخلاق ، خوش خلقی اور ہمدردی خلائق کے باعث افسر اعلیٰ سے لے کر چپڑاسی تک آپ کا مداح تھا اور خاص اُنس اور محبت رکھتا تھا.آپ کی زبان ہر وقت ذکر الہی سے تر رہتی تھی.84 حضرت میاں عبدالرشید صاحب فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۳ ء میں جب میں سکول آف آرٹس میں طالبعلم تھا اور آخری سال کی تعلیم حاصل کر رہا تھا کہ محلہ وچھو والی کا ایک مسلمان لڑکا آریہ خیالات کے زیر اثر آکر اسلام سے سخت متنفر ہورہا تھا حتی کہ اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا تھا.رشتہ دارا سے بیگم شاہی مسجد کے امام عبد القادر کے پاس لے گئے.اس مسجد پر ایک بورڈ بھی آویزاں تھا جس پر لکھا ہوا تھا کہ اس مسجد میں کوئی مرزائی یا وہابی نماز نہ پڑھے.خیر جب اسے مولوی صاحب کے سامنے پیش کیا گیا تو مولوی صاحب اسے دلائل سے سمجھانے کی بجائے اسے گالیاں دینے لگ گئے اور غصہ میں آکر اس لڑکے کو پیٹنا شروع کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑکا اسلام سے اور متنفر ہو گیا.انہی ایام میں اس کا گذر موتی بازار سے ہوا.وہاں ایک احمدی مستمی احمد دین صاحب ڈوری باف کی دکان تھی.احمد دین صاحب کو جب اس کے حالات کا علم ہوا تو وہ اس کا گھر دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے پیچھے ہو لئے.بعد ازاں انہوں نے مجھے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا.ہم نے اس لڑکے کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کئے.اور ایسٹر کی رخصتوں میں میں اسے قادیان لے گیا.حضرت خلیفہ اول اپنے مطب میں تشریف فرما تھے اور درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا.میں نے اس لڑکے کو کہا کہ یہاں آپ اپنا کوئی سوال کریں.مگر وہ حضرت مولوی صاحب کے علم اور رعب اور ساتھ ہی سادگی کو دیکھ کر مبہوت ہو رہا تھا.جب اسے سوال کرنے کی جرات نہ ہوئی تو میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں اس کے حالات عرض کئے اور کہا کہ آریہ خیالات سے متاثر ہو کر اس نے گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا ہے.حضرت مولوی صاحب جب مطلب سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے گھر سے دال مونگ جو غالباً پہلے ہی تیار تھی مہمان خانہ میں بھجوادی اور مجھے کہا کہ اپنے اس دوست کو کھانے کے لئے یہ دال پیش کرنا.اس کے بعد ظہر کی نماز کے لئے ہم دونوں مسجد مبارک میں گئے مگر اس میرے دوست نے نماز نہیں پڑھی.نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف فرما ہوئے.بعض دوستوں نے

Page 354

تاریخ احمدیت.جلد 24 336 سال 1967ء آریوں کے سوالات ہی حضور کی خدمت میں پیش کئے جن کے حضور نے جوابات دیئے.میرا دوست ان جوابات کو بڑے غور سے سنتا رہا.میں نے اسے بھی کہا کہ آپ بھی کوئی سوال کریں مگر اس نے اس مرتبہ بھی کوئی سوال نہ کیا.اس کے بعد عصر کی نماز ہوئی.عصر کے بعد حضرت خلیفہ اول کے درس میں ہم شامل ہوئے.اس درس سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ قرآن مجید کی تعلیم ہے جو بیان کی جارہی ہے.وہ سمجھتا تھا کہ یہ حضرت مولوی صاحب کے اپنے خیالات ہیں.جب آپ درس سے فارغ ہوئے تو اس میرے دوست نے حضرت مولوی صاحب سے سوال کیا کہ جب خدا تعالیٰ کی صفت رحمن رحیم ہے تو ایک جانور کو ذبح کر دینا یہ کہاں کی رحمانیت اور رحیمیت ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اسی رحمن اور رحیم خدا نے ایسے جانوروں کو بھی پیدا کیا ہے جو دوسرے چھوٹے جانوروں کو اپنا لقمہ بنالیتے ہیں.کیا ایسے جانور رحمن اور رحیم خدا کی مخلوق نہیں؟ وغیرہ وغیرہ اس قسم کے جوابات سے اس پر بڑا اثر ہوا.مغرب وعشاء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس عرفان میں شامل ہوئے.دوسرے روز پھر حضرت خلیفہ اول کے مطب میں جا بیٹھے اور جب نماز ظہر کیلئے میں نے وضو کرنا شروع کیا تو پہلی مرتبہ اس نے بھی وضو کیا اور نماز میں شریک ہوا.نماز کے بعد اس نے بیعت بھی کر لی.آپ نے ایک واقعہ یوں بیان فرمایا کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک پہلوان رہا کرتا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں بہت گستاخیاں کیا کرتا تھا.کہا کرتا تھا کہ نعوذ باللہ آپ کے جسم میں کیڑے پڑ گئے تھے.چند دن کی بات ہے.رات نہانے کے بعد گیلا کپڑا اسکھانے کے لئے اس نے اپنے مکان کی دوسری منزل پر کھڑے ہو کر سامنے کے درخت پر کپڑا ڈالنا چاہا مگر پاؤں جو پھسلا تو دھڑام سے گلی کے فرش پر گرا.صبح جب میں دفتر جانے لگا تو پولیس پہنچ چکی تھی.جب چار بجے واپس آیا تو تفتیش مکمل ہونے کے بعد میرے سامنے اس کی لاش پر سے کپڑا اٹھایا گیا یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ سخت گرمی کا موسم ہونے کی وجہ سے سارا جسم کیڑوں سے بھرا ہوا تھا.حضرت میاں عبدالرشید صاحب نے بیان کیا کہ لنگے منڈی میں ہمارے مکانوں کے سامنے جو چھوٹی سی مسجد ہے اس وقت حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب کی مسجد کہلاتی تھی.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب نے کابل جاتے ہوئے اسی مسجد میں قیام فرمایا تھا.آپ سارا دن اور ساری رات عبادت میں مشغول رہتے.جب انہیں ہمارے والد صاحب کہتے کہ آپ آرام بھی کیا کریں تو آپ

Page 355

تاریخ احمدیت.جلد 24 337 سال 1967ء فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا کہ اس نے مجھے اس انسان کی زیارت کرنے کا موقع عطا فرمایا جس کی انتظار صدیوں سے ہو رہی تھی.جب آپ لاہور سے کابل کی طرف جانے لگے تو گھوڑا گاڑی کے پائیدان پر قدم رکھ کر نیچے کر لیا اور فرمایا کہ کابل کی زمین میرے سر کی پیاسی ہے.حضرت والد صاحب نے آپ کو گلے سے لگالیا اور رو پڑے.آپ نے فرمایا کہ یہ تو خوشی کا مقام ہے رونے کا نہیں.مکرم حافظ مبین الحق شمس صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حضرت میاں صاحب کو میرے متعلق بطور سفارش کے اپنے خط میں تحریر فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ اسے دل لگا کر ڈرافٹسمین کا کام سکھا دیں اور کسی جگہ پر کام لگانے کی کوشش کریں میں یہ چند سطور سفارشاً لکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ نہایت اخلاص اور محبت سے اس کام کو کریں گے.جزاکم اللہ احسن الجزاء" حضور کا یہ خط لیکر جب میں حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.تو وہ خود بھی اور گھر کے تمام افراد بھی حضور کے اس خط کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے.حضرت میاں صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ کہ آپ میرے ہاں رہیں اور یہاں ہی کھانا کھاویں.میں آپ کو کام سکھلاؤ نگا.حضرت میاں صاحب نے حضور کے اس فرمان کی پوری پوری تعمیل کی اور مجھے نہایت محبت اور اخلاص کے ساتھ کام سکھلایا اور پھر مجھ کو میونسپل کمیٹی میں بطور ڈرافشمین کے ملازم بھی کروایا.اولاد 86 ا.عبدالمالک صاحب مرحوم -۲- عبد السلام صاحب مرحوم ۳.عزیز احمد صاحب ۴ محمود احمد صاحب ۵ - رشیده صاحبه ۶ - زبیدہ صاحبہے.امینہ صاحبہ ۸ خورشیدہ صاحبہ ۹- عزیزہ صاحبہ ۱۰.رفیعہ صاحبہ ۱۱- اختر صاحبہ ۱۲- محمودہ صاحبہ حضرت طالعه بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸۸۲ء بیعت سن کی تعیین نہیں ہوسکی وفات: استمبر ۱۹۶۷ء آپ حضرت منشی محمد حسین صاحب کی اہلیہ محترمہ اور مکرم منشی احمد حسین صاحب ہیڈ کا تب الفضل، احکام اور البدر کی والدہ محترم تھیں.آپ بہت نیک اور مخلص خاتون تھیں.ان پڑھ تھیں لیکن قرآن مجید پڑھ سکتیں تھیں.آپ کی وفات کراچی میں ہوئی اور وہیں تدفین ہوئی.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ ہونے کا اعزاز حاصل تھا.

Page 356

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 338 ان کرمہ حمید و بی بی زوجہ مکرم عبدالکریم صاحب نیچر ۲ مکرم احمد حسین صاحب ریٹائرڈ ہیڈ کا تب الفضل، الحکم ، بدر مکرمہ سعیدہ بی بی صاحبہ.یہ ۶ اسال کی عمر میں وفات پا گئی تھیں.۴ مکرم رشیده بی بی صاحبہ زوجہ مکرم ماسٹر محمد اسماعیل صاحب سال 1967ء مکرم مولوی شوکت حسین شاد صاحب مولوی فاضل استاد جامعہ احمدیہ قادیان.تقسیم ہند کے بعد یہ میر پور خاص سندھ میں رہائش پذیر ہو گئے تھے.حضرت طالعہ بی بی صاحبہ ان کے پاس ہی رہی تھیں.مکرمه نصیره فردوس صاحبه زوجہ مکرم مولوی فیروز محی الدین صاحب سابق مربی سلسلہ مکرمہ ناصرہ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم لطیف احمد صاحب آف میلسی (ملتان) منصورہ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم شہزادہ الطاف احمد خاں صاحب مرحوم طاہر آباد غربی ربوہ مکرم منصور احمد اقبال صاحب مرحوم - حضرت مہتاب بی بی صاحبہ ولادت: ۱۸۵۷ء بیعت: ۱۹۰۰ء وفات: ۱۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء آپ حضرت میاں اللہ بخش صاحب آف اٹھوال کی اہلیہ اور محترم مولانا محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم کی دادی تھیں.آپ متقی ، دعا گو اور سلسلہ کے ساتھ محبت رکھنے والی خاتون تھیں.جب لجنہ اماءاللہ کی طرف لوائے احمدیت کی سلائی صحابیات سے کرائی گئی تو آپ کو بھی اس سعادت سے حصہ ملا.احمدیت قبول کرنے سے قبل آپ کی اولا د سوائے ایک بیٹی غلام بی بی صاحبہ کے صغرسنی میں وفات پا جاتی تھی.چنانچہ حضرت میاں اللہ بخش صاحب اپنی اہلیہ محترمہ کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی درخواست کی.اس پر حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں بھی دعا کروں گا اور ساتھ ہی حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب سے دوائی لینے کا بھی ارشاد فرمایا.چنانچہ اس کے بعد ۱۹۰۸ء میں آپ کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے محمد صدیق تجویز فرمایا.مکرم محمد صدیق صاحب کے علاوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی بھی آپ کے ہاں پیدا ہوئی.گذشتہ دو

Page 357

تاریخ احمدیت.جلد 24 339 سال 1967ء سال سے محلہ دار انصر میں اپنی بی محترمہ باجر و نیم صاحبہ کے ہاں تنظیم تھیں.باوجود کمزوری کے تانگہ پر جمعہ کے لئے تشریف لے جاتیں تھیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد 89 ا.مولوی احمد دین صاحب معلم وقف جدید ۲- محمد صدیق صاحب ۳.غلام بی بی صاحبہ زوجہ عبدالواحد صاحب دھار یوال ۴.ہاجرہ بیگم صاحبہ زوجہ اللہ رکھا صاحب ماہی ( مکرم نصر اللہ خاں ملہی صاحب مرحوم مربی سلسلہ آپ کے پوتے تھے.90 حضرت ملک محمد فقیر اللہ خاں صاحب 91 ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت: ۱۹۰۵ء وفات: ۲۸ /اکتوبر ۵۱۶۱۹۶۷ آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.دھرم کوٹ رندھاو اضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام ملک شہاب الدین صاحب تھا.آپ کے جد امجد جن کا تعلق گلے زئی قبیلہ سے تھا، افغانستان سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے.آپ چھ بہن بھائی تھے.لیکن احمدیت قبول کرنے کا شرف صرف آپ ہی کو حاصل ہوا.آپ کے ایک چا ملک نظام الدین صاحب تھے.ان کی اولاد میں سے حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے جو کہ ملک منور احمد جاوید صاحب نائب ناظر ضیافت ربوہ کے دادا تھے.حضرت ملک محد فقیر اللہ صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کا علم ۱۹۰۵ء میں اس وقت ہوا جب آپ علی گڑھ میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.اس سلسلہ میں آپ نے استخارہ کیا تو آپ نے خواب میں ایک بزرگ کو دیکھا جن کے بارے میں ایک شخص نے جو خواب میں آپ کی راہنمائی کر رہا تھا، بتایا کہ یہ بزرگ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، ان کو سلام کرو.اس رویا نے آپ کے دل میں بیقراری پیدا کر دی.چنانچہ آپ قادیان گئے.خواب میں جس بزرگ کو آپ نے دیکھا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.آپ نے حضور علیہ السلام کو دیکھتے ہی فوراً بیعت کرلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے بطور ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز سرکاری ملازمت شروع کی.۱۹۴۴ء میں بطور ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز آپ کی ریٹائرمنٹ ہوئی.دوران ملازمت آپ نے قادیان محلہ

Page 358

تاریخ احمدیت.جلد 24 340 سال 1967ء دارالبرکات میں رہائش اختیار کر لی.آپ کی رہائش پہیلی کوٹھی کے نام سے معروف تھی تقسیم ملک کے بعد لاہور تشریف لے آئے.لاہور میں آپ کا قیام اپنی چھوٹی ہمشیرہ نظیر بیگم صاحبہ کے ہاں تھا.وہ چونکہ احمدی نہیں تھیں.اس لئے ۱۹۴۸ء میں آپ کوٹ رادھا کشن چلے گئے.وہاں بھی اگر چہ آپ کی ایک بہن امیر بیگم صاحبہ رہتی تھیں، مگر آپ نے اپنی فیملی کے لئے علیحدہ رہائش کا انتظام کر لیا.پاکستان آکر آپ نے قادیان والے مکان کا اس لئے کلیم (claim) نہ کیا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے افراد جماعت کو اس سے منع کیا ہوا تھا.اس کے بعد آپ نے دار البرکات ربوہ میں اپنا مکان بنوالیا جو بعد میں فروخت کر دیا.اپنے غیر از جماعت بہن بھائیوں اور عزیز واقارب کا آپ بہت خیال رکھتے تھے.لیکن جہاں دینی غیرت کا سوال ہوتا تو پھر قطع تعلقی کے لئے بھی تیار ہو جاتے تھے.کوٹ رادھا کشن والی بہن نے ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بارے میں کوئی بات کی جو آپ کو ناگوار گذری اور آپ نے اپنی بہن کو واضح طور پر کہہ دیا کہ آئندہ ایسی بات نہ ہو ، ورنہ زندگی بھر آپ سے نہیں ملوں گا.جس پر بہن نے معذرت کر لی.آپ بہت مہمان نواز، غریب پرور اور محض اللہ نیکی کرنے والے بزرگ تھے.آپ کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اور آپ علی گڑھ میں اکٹھے پڑھتے رہے تھے.آپ کی شادی محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ سے ہوئی اور ایک بچی کے بعد ان کی وفات ہو گئی.جس کے بعد دوسری شادی حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب کی صاحبزادی محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہوئی.جن سے آپ کو خدا تعالیٰ نے ۸ بچے عطا فرمائے.۱۳ ر ا پریل ۱۹۳۰ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایک ہزار روپیہ حق مہر پر آپ کے نکاح کا اعلان فرمایا تھا.آپ کی وفات ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو ربوہ میں ہوئی.بوقت وفات رہائش دار الرحمت وسطی ربوہ میں تھی.آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے پڑھائی.بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد ا.ملک صفی اللہ خاں صاحب مرحوم.۲.ملک نصیر اللہ خاں صاحب مرحوم.۳.ملک مجیب اللہ خاں صاحب حال مقیم بیت الکرامہ ربوہ.۴.شوکت جہاں صاحبہ مرحومہ اہلیہ ملک ظہور الدین خاں صاحب مرحوم آف مور وسندھ

Page 359

تاریخ احمدیت.جلد 24 341 سال 1967ء ۵.فرحت جہاں صاحبہ مرحومہ اہلیہ چوہدری عبدالباری صاحب ایڈووکیٹ مرحوم آف رحیم یار خاں ۶.مسرت جہاں بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ نثار احمد قریشی صاحب کراچی ے.لطافت جہاں صاحبہ اہلیہ ملک ظفر احمد خاں صاحب حال رحمان کا لونی ربوہ ۸ صداقت جہاں صاحبہ ۹ شرافت جہاں صاحبہ ( چھوٹی عمر میں وفات پاگئیں ) حضرت با با خیر الدین صاحب جنگلی 93 بیعت اپریل ۱۹۰۳ ء وفات : ۶ نومبر ۱۹۶۷ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.نہایت مخلص اور سلسلہ کا در درکھنے والے وجود تھے.چندے بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے.آپ کی عمر سو سال سے زائد تھی.آپ کی نماز جنازہ مکرم چوہدری خورشید احمد صاحب نائب امیر ضلع گوجرانوالہ نے پڑھائی.موضع فتومنڈ متصل گوجرانوالہ میں آپ کی تدفین ہوئی.مرحوم کا ایک ہی بیٹا تھا جو تقسیم ملک کے تھوڑا عرصہ بعد دو چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر وفات پا گیا تھا.حضرت حکیم انوار حسین صاحب آف خانیوال ولادت: ۱۸۹۲ ء اندازاً زیارت: اکتوبر نومبر ۱۹۰۵ء وفات: ۱۹ نومبر ۱۹۶۷ء آپ کے بیٹے حکیم محمود احمد صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخری سفر دتی میں تشریف لے گئے تو آپ نے اپنے والد حضرت حکیم محمد حسین صاحب کے ساتھ شرفِ زیارت حاصل کیا.اور حضرت اقدس نے آپ کے سر پر اپنا مبارک ہاتھ پھیرا.آپ نے کچھ عرصہ حضرت خلیفہ اول کے مطب میں بھی گزارا.نومبر ۱۹۴۷ء میں ہجرت کر کے خانیوال میں سکونت اختیار کی.آپ وہاں کے صدر جماعت بھی رہے.پُر جوش داعی الی اللہ تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قاضی بھی منتخب ہوئے.اپنی اولاد کو نماز با جماعت اور خلافت سے وابستگی کی تلقین فرماتے رہتے تھے.جماعت احمد یہ خانیوال میں درسِ قرآنِ مجید با قاعدگی کے ساتھ دیا کرتے تھے.تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں شمولیت کا شرف رکھتے تھے.اولاد.حکیم ضیاء الحسن صاحب ۲.حکیم محمود احمد صاحب ۳.نصرت جہاں صاحبہ 97 ۴.فہمیدہ صاحبه ۵ محموده صاحبه ۶ - منصوره صاحبه

Page 360

تاریخ احمدیت.جلد 24 342 سال 1967ء حضرت ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب آف مردان ولادت: سال کی تعیین نہیں ہوسکی تحریری بیعت : ۱۹۰۵ء زیارت: ۱۹۰۶ء وفات ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ء آپ بگٹ گنج مردان کے رہنے والے تھے.اوائل عمر میں مشہور گائیڈ ز رسالہ میں بھرتی ہوئے اور ابھی سپاہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں قبول احمدیت کی توفیق بخشی.جس پر رسالہ کے ساتھیوں نے زبردست مخالفت کی حتی کہ مقاطعہ کر دیا.ڈاکٹر صاحب کو اُس زمانے میں بہت دعاؤں کی توفیق ملی اور بذریعہ خواب بشارت دی گئی کہ آپ پر دینی و دنیاوی ترقیوں کے دروازے کھولے جائیں گے.چنانچہ ایسے ہی ہوا.اور آپ معمولی سپاہی کے درجہ سے ترقی کرتے کرتے انگریزوں ہی کے زمانے میں لیفٹیننٹ ڈاکٹر کے عہدہ پر سے ریٹائرڈ ہوئے.ہر قسم کے تمغہ جات سے نوازے گئے.کافی جائیداد بھی بنائی اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی بشارت پوری ہوئی.انہوں نے واقعی دینی ودنیاوی ترقی پائی.وہ اپنی زندگی پر نہایت خوش اور شاکر تھے.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے احسانات اور فضلوں کا ذکر بڑی رقت سے کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں ایک معمولی سپاہی تھا.اللہ تعالیٰ نے احمدیت نصیب کی اور پھر صحابی بننے کا موقع عطا فرمایا اور سپاہی سے ترقی دیتے دیتے لیفٹیننٹ ڈاکٹر کے عہدہ تک پہنچا دیا.کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا.مگر اللہ تعالیٰ نے بہادری کے تمغہ سے نوازا.پنشن تنخواہ کے برابر عطا فرمائی اور جائیداد بھی دی.یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوا.ملکانہ میں تبلیغ کے لئے اپنا نام حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کاحکم ملکانہ جانے کے لئے ایسے وقت میں پہنچا.جبکہ آپ کی بڑی لڑکی حسن آراء زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھی مگر وہ خدا کے سپر دکر کے مالکانہ کے لئے روانہ ہو گئے.حالانکہ صاحبزادی کی شدید علالت کے پیش نظر گھر والوں نے بھی سخت مخالفت کی.مگر آپ نے حضرت خلیفہ اسیح کے حکم کو مقدم رکھا.اور جاں بلب بیٹی کو چھوڑ کر چلے گئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاص کو دیکھ کر آپ کی بیٹی کو شفاء کامل بخشی.اور جب ڈاکٹر صاحب مرحوم تبلیغ کا فریضہ ادا کر کے واپس آئے تو بیٹی کو تندرست و توانا پایا.یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ چھوڑ دیں.اللہ تعالیٰ اُن کے گھروں اور اولاد تک کا حامی و ناصر ہوتا ہے.آپ نہایت ملنسار اور خوش اخلاق انسان تھے.اور باجماعت نماز

Page 361

تاریخ احمدیت.جلد 24 343 سال 1967ء کے سختی سے پابند تھے.آپ تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں بھی شامل ہونے کا اعزاز رکھتے تھے.اولاد 99 ا.الطاف احمد قریشی صاحب ۲.ناصر احمد قریشی صاحب.ان کے ایک پوتے مکرم نصیر احمد قریشی صاحب سابق قائد مجلس خدام الاحمدیہ مردان ہیں جو اس وقت سیکرٹری امور عامه مردان شہر وضلع کے طور پر خدمت کی توفیق پارہے ہیں.حضرت حکیم شیخ محمد افضل صاحب پٹیالوی ولادت: ۱۸۸۲ء دستی بیعت جون ۱۹۰۵ء 100 وفات: الدسمبر ۱۹۶۷ء حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، حضرت میاں خدا بخش صاحب مومن جی اور حضرت شیخ محمد افضل صاحب پٹیالوی متینوں بچپن کے دوست تھے انہوں نے ایک ساتھ ۱۹۰۲ء میں بذریعہ خط بیعت کا شرف حاصل کیا.تینوں دوست اس دنیا میں اپنی دوستی نباہتے رہے اور اللہ تعالیٰ کی عجیب حکمت کے مطابق تینوں نے سال ۱۹۶۷ء میں جامِ وصال نوش کیا.آپ اپنی بیعت ، زیارت مسیح موعود اور قیام قادیان کے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم فرماتے ہیں:.ا.101 جس وقت خاکسار کی عمر ۱۲ سال کی تھی اور گو ہمارے خاندان میں میرے تایا حکیم شیخ عباداللہ صاحب اور میرے تایا زاد بھائی شیخ کرم الہی صاحب حضرت صاحب سے بیعت تھے.مگر خادم نے نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا تھا اور نہ ہی حضور کا فوٹو دیکھا تھا.خواب دیکھا کہ میرے جسم کی جان نکل گئی ہے.مگر دماغ میں سمجھنے کی اور آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت باقی ہے.میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہیں.اور اُن کے پیچھے گھٹنوں تک قدم مبارک دکھائی دیتے ہیں.میرے دل میں ڈالا گیا یہ بزرگ جو بیٹھے تیری طرف دیکھ رہے ہیں ،مرزا صاحب ہیں اور چھلی طرف جو قدم مبارک نظر آتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں.میری آنکھ کھل گئی.صبح میں نے مرتضی خاں ولد مولوی عبداللہ خاں صاحب جو ان دنوں لاہوری جماعت میں شامل ہیں سے تعبیر

Page 362

تاریخ احمدیت.جلد 24 344 سال 1967ء دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو مرزا صاحب کی بدولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حاصل ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں خدا کی قسم کھا کر تحریر کرتا ہوں کہ جب ۱۹۰۵ء میں میں بیعت ہو ا تو حضور وہی تھے جو خواب میں میری طرف دیکھ رہے تھے.اس طرح سے خدا جس کو چاہتا ہے سچا راستہ دکھا دیتا ہے.۲.جب میری عمر پندرہ سال کے قریب تھی تو میں نے بہشت اور دوزخ اور اعراف کو خواب میں دیکھا.اُن کے دیکھنے کی ایک لمبی تفصیل ہے.محض اس پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ جب میں بہشت دیکھ کر باہر آیا تو ایک بزرگ ملے اور اُنہوں نے میرے کندھے پر دستِ مبارک رکھ کر فرمایا کہ لڑکے تو کہاں.میں نے تو اس کا کوئی جواب نہ دیا.اُس بزرگ نے دریافت کیا کہ یہ مکان یعنی بہشت کس مالیت کا ہے.بزرگ نے فرمایا کہ اگر تیرا پٹیالہ دو دفعہ بھی فروخت ہو.اس مکان کی ایک اینٹ کی بھی قیمت نہ ہوگا.میری آنکھ کھل گئی.خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے.جب میں ۱۹۰۵ء میں بیعت کے لئے قادیان شریف گیا تو مرزا صاحب وہی بزرگ تھے جو مجھ کو بہشت کے دروازہ پر ملے تھے..۱۹۰۵ء میں گرمی کا مہینہ تھا کہ یہ خادم مع ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کے قادیان با ارادہ بیعت گیا.مغرب کے قریب قادیان پہنچا.قادیان کے شہری کچے مہمان خانہ میں بسترہ رکھ کر مسجد مبارک میں گیا.حضرت مرزا صاحب نماز مغرب کے لئے اندرونِ خانہ سے تشریف لائے.چونکہ کچھ اندھیرا ہو گیا تھا.خوب فربہ معلوم ہوئے.کیونکہ خادم شہری آب و ہوا میں پرورش پایا ہے.شیطان نے دل میں ڈالا.موٹا کیوں نہ ہو.لوگوں کا ماس خوب کھاتا ہے.پھر اندر سے بہت سی عورات ( مراد عورتیں) کی بولنے کی آواز میں آئیں.دل میں وسوسہ اُٹھا کہ اس کی نیک چلنی کا کیا پتہ ہے.نفس کے ساتھ سخت جدو جہد ہوئی کہ تمام بدن پسینہ پسینہ ہو گیا.نفس نئے سے نئے پلید خیالات لاتا تھا.میں نماز میں دعا کرتا رہا کہ اے خدا اگر یہ شخص سچا ہے تو میں اس کے دروازہ سے نامراد اور نا کام واپس نہ جاؤں.مگر دل کی کوئی اصلاح نہ ہوئی.نماز کے بعد مہمان خانہ میں واپس گیا اور فیصلہ کیا کہ ایسے حالات میں بیعت کرنا درست نہیں ہے.یہ یاد نہیں کہ عشاء کی نماز پڑھی یا نہیں اور پڑھی تو کہاں پڑھی.مغموم حالت میں سو گیا رات کے دو یا تین بجے کا وقت ہوگا کہ ایک شخص نے مجھ کو گلے سے پکڑ کر چار پائی سے کھڑا کر لیا.اور اس زور سے میرے گلا دبایا کہ جان نکلنے کے قریب ہوگئی.اور

Page 363

تاریخ احمدیت.جلد 24 345 سال 1967ء کہا کہ تو نہیں جانتا کہ مرزا کون شخص ہے.یہ وہ شخص ہے جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اپنے دعوئی میں بالکل صادق ہے.خبر دار اگر کچھ خیال کیا اور مجھ کو چار پائی پر دے مارا.میری آنکھ کھل گئی.اس وقت میری آنکھوں میں آنسو تھے.اور گلا سخت درد کر رہا تھا.جیسے فی الواقعہ کسی نے دبایا ہو.حالانکہ یہ سب خواب کی کیفیت تھی.دل سے دریافت کیا کہ اب بھی مرزا صاحب کی صداقت میں کوئی شبہ ہے.دل نے کہا بالکل نہیں.صبح کو مرزا صاحب کو دیکھا تو معلوم ہوا کوئی فرشتہ آسمان سے اترا ہے.اور معمولی بدن کا انسان ہے.اور اس کی ہر حرکت پر جان قربان کرنے کو طبیعت چاہتی تھی.جب حضور سامنے آجاتے تھے.بے اختیار رونا آجاتا تھا اور گویا حضور معشوق تھے اور نا چیز عاشق.بڑی خوشی سے بیعت کی اور خدا نے شیطان کے پنجہ سے چھوڑایا اور مسیح کے دروازہ پر زبر دستی لا ڈالا.ورنہ میرے بگڑنے میں کیا کسر باقی رہی تھی.۴.اب بیعت کا حال گزارش کرتا ہوں.چار پانچ روز ہو گئے مگر بیعت کا موقعہ حاصل نہ ہوا.میں نے اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے عرض کیا کہ ہماری بیعت کروا دیں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ مغرب کی نماز کے بعد تم سب سے آگے بیٹھ جانا.ہم حضرت صاحب سے عرض کر کے بیعت کرا دیں گے.چنانچہ ہم نے ایسا ہی کیا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جب حضور نماز کے لئے عشاء کے وقت تشریف لائے تو عرض کر دیا کہ حضور یہ لڑکے بیعت کرنا چاہتے ہیں.حضور نے فوراً خادم کا ہاتھ دست مبارک میں لے کر بیعت لینی شروع کی.خادم کے ہاتھوں میں بہت بڑے بڑے چمبل تھے اور خون سخت خراب تھا.اور باوجود ہر قسم کے علاج معالجہ سے اچھا نہ ہوا تھا.اور یہ عارضہ تین سال سے تھا.حضور نے ہاتھ بہت زور سے دبایا سخت تکلیف ہوئی.میں بہت خوش تھا کہ اب یہ بزرگ جب ہاتھ دبا رہا ہے تو چمبل کا ہے کو رہے گا.چنانچہ بیعت کر کے جب یہ خادم پٹیالہ آیا تو تین چار یوم کے بعد ، بعد نماز عشاء جبکہ یہ خادم جائے نماز پر ہی بیٹھا تھا.اور رات کے بارہ بجے تھے.اور چوبارہ کے تمام دروازے بند تھے بہت بلند آواز آئی کہ (تو راضی ہو گیا ہے.بس ) چنانچہ اس کے بعد تمام چمبل اور زخم اچھے ہو گئے.اور خون خود بخود ٹھیک ہو گیا.اور خدا کے فضل سے آج تک پھر کبھی خون کا فساد نہیں ہوا.اور جمبل اور داد تو کیا ذرا کبھی کوئی پھوڑا اور پھنسی تک نہیں ہوا.ان ہی ایام میں جب میں مہمان خانہ میں ٹھہرا ہوا تھا ایک مولوی عبدالحق صاحب جو

Page 364

تاریخ احمدیت.جلد 24 346 سال 1967ء آریہ سے مسلمان ہوئے تھے.مہمان خانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے اور ان صاحب کے متعلق معلوم ہوا تھا کہ دو ڈیڑھ ماہ سے قادیان آئے ہوئے ہیں اور حضور اس کی بیعت نہیں لیتے.ایک صبح کو معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مکان کی تعمیر دیکھنے کو نیچے تشریف لائے.وہ مولوی صاحب اور یہ خادم دوڑ کر وہاں آئے تو حضور مع دو تین خدام کے جو اس وقت یاد نہیں رہا کون تھے.معماران کے قریب کھڑے کچھ ان کو بتلا رہے ہیں.پھر مولوی صاحب نے جو میرے ساتھ گئے تھے.حضور سے کہا کہ حضور میں نے تو کل بیعت کرنے والوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لی.حضور نے فرمایا مولوی صاحب ہم کو پتہ نہیں.پھر فرمایا میرے راستے میں بہت کانٹے دار جھاڑیاں ہیں اور دشوار گزار راستہ ہے.استقلال کی سخت ضرورت ہے.اور میرے ساتھ معاملہ میں تو زیادہ ہی عزم و استقلال کی ضرورت ہے.مولوی صاحب نے کہا کہ نہیں حضور مجھ کو تو بڑا استقلال ہے.میں حیران تھا کہ حضور اس مولوی کو کیوں بار بار استقلال کی نصیحت فرماتے ہیں.حالانکہ حضور کے اور مرید بھی تو ہیں.چنانچہ جب خادم پٹیالہ واپس آیا.تو یہ مولوی صاحب بھی خادم کے ساتھ پٹیالہ آگئے.اور میرے مکان پر ٹھہرے.اور دو پہر کا کھانا کھا کر شہر میں پھرنے کے لئے گئے.تھوڑے عرصہ کے بعد قاضی سلیمان صاحب کا جو حضرت صاحب کا سخت ترین مخالف تھا.ملازم آیا.اور کہا کہ مولوی صاحب نے اپنا بستر منگایا ہے.اور قاضی صاحب کے مکان پر بیٹھے ہیں.چنانچہ وہ بسترہ لے گیا.دوسرے دن میرے مکان کے قریب سبز منڈی میں دن کے وقت مولوی صاحب کا وعظ ہوا.میں سُننے گیا.تو مولوی صاحب نے حضرت صاحب کے متعلق سخت بد زبانی کی.اور کہا کہ میں نے بیعت ویت کیا کرنی تھی.میں تو اس ترکیب سے ان کا بھید لینے گیا تھا.اس واقعہ سے ایمان کو بڑی ترقی ہوئی کہ حضور اس مولوی کے اندرون سے واقف تھے.جب ہی تو اسکو استقلال کی نصیحت فرماتے تھے.غالبا ۱۹۰۶ ء یا ۱۹۰۷ میں جبکہ خادم جلسہ سالانہ کے موقعہ پر قادیان گیا ہوا تھا.حضور.سیر کو تشریف لے گئے.اس جلسہ پر کوئی چار ہزار اشخاص حاضر ہوئے تھے.تقریباً اسی قدر اشخاص بھی ساتھ تھے.کچھ ہوا چلی اور کچھ اس قدر آدمیوں کے پاؤں کی گر داڑی.کہ آندھی کی صورت پیدا ہوگئی.تو حضور نے سیر کی تجویز ملتوی کر کے درخت کے نیچے جماعت کو مصافحہ کرنے کا موقع دیا.مولوی محمد علی صاحب اور مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی صدرالدین صاحب دو تین اور اشخاص جن سے میں واقف نہ تھا حلقہ سا بنا کر کھڑے ہو گئے.اور

Page 365

تاریخ احمدیت.جلد 24 347 سال 1967ء باتیں کرنے لگے.میں بھی اس حلقہ میں شامل تھا.یہ یاد نہیں کہ کس شخص نے کہا کہ دیکھولوگوں کی کیا مت ماری گئی ہے.حضرت صاحب تو سیر کو جاتے ہیں.لوگ خوامخواہ ساتھ چلے آئے.تو مفتی محمد صادق صاحب نے فرمایا کہ لوگ بھی کیا کریں.تیراں (۱۳) سوسال کے بعد نبی دیکھا ہے.اس حلقہ نے خاموشی سے اس بات کو تسلیم کیا.اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ حضرت صاحب تو نبی ہونے کا دعویٰ نہیں کرتے.آپ خوامخواہ حضرت صاحب کو نبی کہتے ہیں.اس روایت سے یہ امر بالکل ثابت ہے کہ حضور کی زندگی میں ہی مرید حضرت صاحب کو نبی سمجھتے اور جانتے تھے.اور لاہوری پارٹی نے غیر نبی کا عقیدہ بعد میں ضرورۃ بنایا.جلسہ سالانہ ۱۹۰۷ ء کا واقعہ ہے.جس میں خادم شامل تھا کہ لنگر میں دو ایک دفعہ کھانا کھانے گیا.مگر بوجہ ہجوم موقعہ نہ ملا.دودھ وغیرہ پی کر لیٹ گیا.رات کو دو بجے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منتظمان لنگر خانہ کو بھیجا.جس نے ہم کو بیدار کیا اور کہا کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ بھوکوں کو روٹی کھلاؤ.چنانچہ بہت سے لوگ جنہوں نے روٹی نہیں کھائی تھی لنگر خانہ روٹی کھانے چلے گئے.اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی بھوکے تھے.روٹی کھا کر آئے.مگر میں بوجہ غلبہ نیند روٹی کھانے نہیں گیا.جناب ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے آپ کی وفات پر درج ذیل نوٹ لکھا.ے.102 محترم شیخ صاحب میرے والد محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے بچپن کے دوست تھے.کیونکہ ہمارے آباء واجداد کے محترم شیخ صاحب مرحوم کے آباء واجداد کے ساتھ خاندانی تعلقات پہلے سے چلے آرہے تھے.آٹھویں جماعت تک سکول میں اکٹھے تعلیم حاصل کی.والد صاحب میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ۱۹۰۸ء میں لاہور میں میڈیکل سکول میں داخل ہو گئے اور محترم شیخ صاحب پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدہ پر ریاست پٹیالہ میں ہی متعین ہو گئے.آپ نے اور والد صاحب نے ۱۹۰۵ء میں اکٹھے قادیان کا سفر کیا اور وہاں جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر دستی بیعت کی.اس سے قبل دونوں دوستوں نے بذریعہ خط ۱۹۰۲ء میں حضور علیہ السلام کی بیعت کر لی تھی.ان میں میاں خدا بخش صاحب مرحوم المعروف مومن بی بھی شامل تھے.محترم شیخ صاحب مرحوم اور والد صاحب کی دوستی اخیر وقت تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے قائم

Page 366

تاریخ احمدیت.جلد 24 348 سال 1967ء رہی.شیخ صاحب مرحوم کئی سالوں سے بیمار چلے آرہے تھے.اور لاہور میں صاحب فراش تھے.چنانچہ فروری ۱۹۶۵ میں جبکہ وہ صاحب فراش تھے.والد صاحب مجھے لے کر ان کی عیادت کے لئے لاہور گئے.والد صاحب بھی اُن کی ملاقات کے لئے تڑپتے تھے.اور وہ بھی والد صاحب کی یاد سے رو پڑتے.چنانچہ دونوں دوستوں کی ملاقات ہوئی.پھر والد صاحب نے ان کے لئے علاج تجویز کیا.اور خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت میں ترقی ہونے لگی.ان دوستوں کے باہمی تعلق کا اس سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مرحوم کے لڑکے مکرم امیر احمد صاحب نے بتایا کہ جب سے حضرت ڈاکٹر صاحب فوت ہوئے ہیں.محترم شیخ صاحب مرحوم کو قریب روزانہ ہی خواب میں ملتے تھے.اولاد ا.رشید احمد صاحب ۲.نذیر احمد صاحب ۳.شیخ نار احمد صاحب ۴.خورشید احمد صاحب ۵.امیر احمد صاحب کینیڈا.۶.رشیدہ بیگم صاحبہے.حمیدہ بیگم صاحبہ ۸ - جعفری بیگم صاحبہ ۹ - رابعہ بیگم صاحبہ حضرت ملک نیاز محمد صاحب کسووال ضلع ساہیوال ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۱۲ دسمبر ۱۹۶۷ء 10 آپ کے والد ماجد حضرت ملک برکت علی صاحب ککے زئی افغان متوطن را ہوں ضلع جالندھر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.( بیعت غالبا ۹۸-۱۸۹۷ رجسٹر روایات جلد ۳ صفحه ۲۲۷.حضرت چوہدری برکت علی خاں صاحب آف گڑھ شنکر کا بیان ہے ” میں جب ۱۸۹۸ء میں اپنے ننھیال سے آیا تو آپ اس وقت احمدی تھے) ملک نیاز صاحب طالبعلمی کے دوران ۱۹۰۴ ء کی گرمیوں کی موسمی تعطیلات میں رہنے اپنے بڑے بھائی حضرت حکیم دین محمد صاحب اکاؤنٹنٹ کی تحریک پر پہلی بار قادیان آئے.ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع افراد خاندان و صحابہ باغ میں رونق افروز تھے.آپ نے حضرت اقدس کے دستِ مبارک پر بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے تو آپ کو بھی وہاں جانے کا موقع ملا.آپ کا بیان ہے کہ ۱۹۰۴ء میں جب میں قادیان میں آیا تھا اور حضور مع احباب باغ میں فروکش تھے تو رات کے

Page 367

تاریخ احمدیت.جلد 24 349 سال 1967ء وقت میرے بھائی حکیم دین محمد صاحب بمعیت دیگر طلباء مدرسہ تعلیم الاسلام اور بابا محمد حسن صاحب والد مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا والے رات کو کبھی دار مسیح موعود علیہ السلام کا اور کبھی باغ کے خیموں وغیرہ کے گرد پہرہ دیا کرتے تھے.“ قادیان میں اپنی دوسری بار آمد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.۱۹۰۵ء میں میں جمعیت اپنے والد صاحب مرحوم و برادران حکیم غلام محمد صاحب ( شاگرد حضرت خلیفہ المسح الاول ) وحکیم دین محمد صاحب تقریب نکاح حکیم دین محمد صاحب قادیان گیا تھا.اس موقع پر بعد نکاح ایک نئے رومال میں کچھ اخروٹ وغیرہ باندھ کر مسجد مبارک کی اندر والی سیٹرھیوں سے اوپر چڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے آگے مسجد مبارک کے ساتھ جو چھوٹا سا صحن ہے اس میں کھڑے ہو کر کسی عورت کو بھیج کر حضور کو باہر تشریف لانے کے لئے عرض کیا گیا.تھوڑی دیر کے بعد حضور علیہ السلام دروازے پر تشریف لائے.تو میرے بھائی حکیم غلام محمد صاحب نے وہ اخروٹ والا رومال حضور کے دست مبارک میں پکڑا کر عرض کیا کہ حضور کوئی اپنا پرانا رو مال عنایت فرما دیں.اس پر حضور نے فرمایا.بہت اچھا.حضور اندر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر یاد دہانی کے لئے کسی کو اندر بھیجا.حضور نے ایک رومال بھیج دیا.میرے بھائی صاحب نے اپنی اہلیہ کی فوتیدگی پر وہ رومال اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا.“ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عاشق صادق تھے آپ کو حضرت اقدس کی زیارت کا کس قدر شوق رہتا تھا، اس کا اندازہ درج ذیل واقعات سے بخوبی ہو سکتا ہے.فرماتے ہیں:.۱۹۰۵ء میں ایک دن بوقت عصر ہم کو راہوں ضلع جالندھر کارڈ ملا کہ حضور علیہ السلام دہلی تشریف لے جارہے ہیں اور صبح آٹھ یا نو بجے کی گاڑی سے پھگواڑہ سٹیشن پر سے گزریں گے.حاجی رحمت اللہ صاحب، چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم نے میری ڈیوٹی لگائی کہ تم نوجوان ہو.اس وقت جاؤ اور جماعت کریام کو اطلاع کرو.چنانچہ میں مغرب کے بعد چل کر کر یام پہنچ گیا.جماعت کو اطلاع کی گئی.وہاں سے بھی کچھ دوست ساتھ ہو لئے.ہم سب لوگ اس طرح چل کر پھگواڑہ جو کہ راہوں سے تمہیں (۳۰) میل کے قریب دور ہے.پہنچے اور صبح کی نماز پڑھی.وہاں سٹیشن پر منشی حبیب الرحمن صاحب مرحوم نے حاجی پور والوں کی طرف سے احباب جماعت کے ٹھہرنے کا انتظام کیا ہوا تھا اور دن کے وقت انہی کی طرف سے کھانا آیا.جب گاڑی کا وقت ہوا اور گاڑی آکر گزرگئی.

Page 368

تاریخ احمدیت.جلد 24 350 سال 1967ء تو معلوم ہوا کہ روانگی کی تاریخ تبدیل ہو گئی ہے.جس سے ہم کو بہت صدمہ ہوا.ہم نے تو راتوں رات وفور محبت کی وجہ سے اتنا لمبا سفر کیا تھایا یہ حالت ہوئی کہ ایک قدم چلنا دشوار ہو گیا.پیروں میں چھالے پڑے ہوئے تھے اور ملاقات نہ ہونے کا صدمہ تھا.اس لئے واپسی یکوں پر ہوئی.چند روز کے بعد پھر اطلاع ملی کہ حضور دہلی سے واپسی پر فلاں تاریخ لدھیانہ میں اتریں گے اور قیام فرمائیں گئے.یہ رمضان ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے.پھر میں جمعیت حاجی رحمت اللہ صاحب و حاجی عبداللہ صاحب و چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم و بابا شیر محمد صاحب یکه بان مرحوم ایک بیلی دو بیلوں والی لے کر راہوں سے لدھیانہ کو چلے جو کہ قریباً بیس میل کا فاصلہ ہے.درمیان میں دریا کے ریتلے حصے بھی آتے تھے.اس بیلی پر ہم چڑھتے اتر تے شام کو لدھیانہ پہنچ گئے.حاجی رحمت اللہ صاحب کا ایک تین چار سالہ بچہ بنام غالباً فیض اللہ بھی ساتھ تھا.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کل جو گاڑی نو یا دس بجے آتی ہے.اس پر تشریف لائیں گے.دوسرے روز گاڑی سے گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی ہم سٹیشن پر پہنچ گئے.وہاں خلقت کا بڑا ہجوم تھا.میرے بڑے بھائی حکیم دین محمد صاحب بھی جو ان دنوں حاجی پور میں انٹریس کی تیاری کر رہے تھے.وہاں سے آئے ہوئے تھے.جس وقت گاڑی سٹیشن پر پہنچی حضور علیہ السلام کا ڈبہ جو کہ ریز رو تھا کاٹ کر پیچھے کی طرف دھکیلا گیا.میں اور میرے بھائی حکیم دین محمد صاحب اس ڈبے کے ڈنڈوں کو پکڑ کر پائیدان پر چڑھ کر ڈبے کے ساتھ ہی پیچھے کی طرف چلے گئے.چونکہ میرے بڑے بھائی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب کے کلاس فیلورہ چکے تھے اور ان کے خوب واقف تھے.اور وہ بھی اس ڈبہ میں سوار تھے.اس لئے ڈبہ کے ساتھ ہم کھڑے ہو کر ان سے باتیں کرتے رہے.پھر وہ ڈبہ پلیٹ فارم پر آیا تو حضور اور حضور کی اہلیہ پلیٹ فارم پر اترے اور سٹیشن سے باہر تشریف لائے.سٹیشن سے باہر شکرم دو گھوڑے والی جو کہ بند گاڑی ہوتی ہے، موجود تھی.اس میں حضور سوار ہو گئے اور دروازہ بند کر لیا.اور ہم لوگ اور بہت خلقت اس کے پیچھے پیچھے دوڑے چلے آئے.نہال اینڈ سنز کی دکان کے پاس ایک مکان قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم نے غالبا لے رکھا تھا جو کہ برلب سڑک تھا.اس میں حضور نے قیام فرمایا.برآمدہ میں حضور کرسی پر تشریف فرما ہوئے.عام لوگ آ کر مصافحہ کرتے رہے.حاجی رحمت اللہ صاحب نے اپنے اس تین چار سالہ بچے کے ہاتھ نذرانہ دے کر مصافحہ کرایا.حضور نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ ابت لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں، یہ نسلیں یاد کریں گی.میرے بڑے بھائی جان محمد

Page 369

تاریخ احمدیت.جلد 24 351 سال 1967ء صاحب ریٹائر ڈ سب انسپکٹر پولیس ان دنوں قلعہ پھلور میں قانون کی تعلیم کے لئے گئے ہوئے تھے.وہاں سے بمعہ ایک دوست چوہدری شہاب الدین صاحب آئے اور مصافحہ کیا اور عرض کیا کہ حضور یہ بھائی شہاب الدین بیعت کرنی چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا کہ عصر کے بعد.اس پر میرے بھائی نے عرض کیا کہ حضور ہم پھلور میں تعلیم کے لئے آئے ہوئے ہیں.جمعرات کے روز وہاں چھٹی ہوتی ہے.اور چار بجے شام سے پہلے ہمیں وہاں پہنچنا ضروری ہے.اگر ہم شام تک ٹھہر جائیں تو غیر حاضر ہو جائیں گے.حضور نے فرمایا بہت اچھا.ابھی بیعت لے لیتے ہیں اور اسی وقت بیعت لے لی.رات کے وقت مغرب اور عشاء کے درمیان ایک سٹیشن ماسٹر لدھیانہ کی طرف سے آئے.اور اندر اطلاع بھجوائی.حضور باہر تشریف لائے.انہوں نے عرض کیا.کہ حضور میں فلاں سٹیشن پر سٹیشن ماسٹر ہوں.دس یا بارہ بجے جو گاڑی جاتی ہے اگر اس پر نہ جاؤں تو غیر حاضر ہو جاتا ہوں.بیعت کرنا چاہتا ہوں آپ نے فرمایا بہت اچھا.حضور اور وہ سٹیشن ماسٹر صاحب ، مفتی محمد صادق صاحب اور بعض اور احباب کھڑے تھے.کوئی شخص چار پائی لینے چلا گیا.اتنے میں ایک اندھی بوڑھی جو وہاں بیٹھی تھی.اس کے دریافت کرنے پر کسی نے اس کو بتلایا کہ یہ حضرت صاحب کھڑے ہیں اس پر اس نے حضور کے پاؤں پکڑ لئے.اس پر حضور فوراً پیچھے ہٹ گئے اور فرمایا کہ مائی پیر پکڑ نے گناہ ہے.چار پائی آئی اور بچھائی گئی.حضور نے اس سٹیشن ماسٹر سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ.انہوں نے ادب کی وجہ سے عرض کیا کہ حضور تشریف رکھیں.اس پر حضور نے فرمایا الامر فوق الادب.اس کے بعد وہ بیٹھ گئے اور حضور بھی بیٹھ گئے.اور ان کی بیعت لی.مفتی صاحب جو اکثر انگریزی اخبارات کے خلاصے وقت ملنے پر حضور کی خدمت میں عرض کیا کرتے تھے.اس وقت بھی غالباً چار پائی کے آنے تک کے انتظار میں عرض کرنے لگ پڑے.ایک بات جو یاد ہے وہ یہ ہے کہ مفتی صاحب نے عرض کیا کہ حضور دیسی اشیاء پر بہت زور دیا جاتا ہے.حضور نے فرمایا کہ بات تو اچھی ہے.بشرطیکہ اس میں بغاوت کی بو نہ ہو.عشاء کے بعد نواب ذوالفقار علی صاحب مرحوم مالیر کوٹلہ والے حضور سے ملنے کے لئے آئے.اس مکان کے ہال کمرہ میں حضور علیہ السلام تشریف لے آئے.اور ان سے خیر و عافیت دریافت کرنے کے بعد حضور نے ایک لمبی تقریر فرمائی.جس میں نہ تو نواب ذوالفقار علی صاحب کا نام تھا اور نہ ان کی طرف اشارہ تھا.لیکن ہم جو سننے والے تھے.یہ خیال کرتے تھے کہ تمام نقشہ ان کی روحانی حالت کا کھینچ کر ان کے سامنے رکھ دیا ہے.

Page 370

تاریخ احمدیت.جلد 24 352 سال 1967ء دوسرے دن جمعہ تھا.نہال اینڈ سنز کی دکان کی جانب شمال ایک بہت بڑا احاطہ تھا اس میں حضور علیہ السلام کا لیکچر ہوا.بہت بڑا مجمع سننے والا تھا.مولوی محمد احسن صاحب امروہی بھی موجود تھے.جو کہ حضور علیہ السلام کے نزدیک بیٹھے تھے.جب دوران لیکچر کسی آیت کے حوالے کی ضرورت پڑتی تھی تو حضور فرماتے تھے کہ قرآن شریف میں اس طرح فرمایا گیا ہے.اور مولوی صاحب سے فرماتے کہ مولوی صاحب وہ آیت کیا ہے.وہ جھٹ وہ آیت پڑھ دیتے اور حضور وہ حوالہ دے دیتے.اس احاطہ کے غربی جانب برآمدہ تھا.اس کے آگے حضور کی سٹیج تھی.جس پر حضور کھڑے ہو کر لیکچر دے رہے تھے.برآمدے میں سے چائے کی پیالی گرم گرم حضور کے لئے سٹیج پر بھیجی جاتی تھی.جب ایک گھونٹ دوران لیکچر میں حلق تر کرنے کے لئے حضور اس پیالی میں سے پی لیتے تو وہ پیالی پیچھے واپس آجاتی تھی اور ہم لوگ اس کو بطور تبرک پی لیتے تھے.106 آپ کا بیان ہے کہ:.1904 ء یا ۷ 190 ء میں میں جمعیت چوہدری فیروز خاں صاحب مرحوم و حاجی رحمت اللہ صاحب قادیان گیا.واپس آنے کے وقت میاں بشیر احمد صاحب کے موجودہ مکان (جو اس وقت بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا تھا) میں جا کر اس کی مشرقی سیڑھیوں پر سے اطلاع حضور علیہ السلام کو کروائی گئی.تو حضور ایسی حالت میں تشریف لائے کہ حضور نے میض پر واسکٹ پہنی ہوئی تھی.کوٹ نہیں تھا.حاجی رحمت اللہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں بزازی کی دوکان کھولنے کا ارادہ رکھتا ہوں.حضور کا اس معاملہ میں کیا ارشاد ہے.حضور نے فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے.صحابہ بھی کپڑوں کا بیوپار کیا کرتے 107 آپ مزید فرماتے ہیں :.مئی ۱۹۰۸ء میں ہی میں نے پاکپتن سے سول سرجن صاحب منٹگمری کو اپنی ملازمت کے لئے درخواست بھیجی.جس نے ۶ امئی کو اپنے پیش ہونے کے لئے بلایا.۱۵ مئی کو میں منٹگمری پہنچ گیا.4 مئی کو میں اس کے پیش ہوا.اس نے منظور کر کے مجھے پاکپتن ہسپتال میں کام کرنے کی اجازت دی.وہیں منٹگمری میں معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لا ہور تشریف لائے ہوئے ہیں.چونکہ ان دنوں منٹگمری سے پاکپٹن تک سفر یکوں پر بوجہ کچی سڑک کے نہایت دشواری سے ہوتا تھا.اس لئے یہ خیال کر کے کہ دشوار سفر تو کر چکا ہوں.اب صرف ریل میں بیٹھ کر جانا ہی باقی ہے.حضرت مسیح

Page 371

تاریخ احمدیت.جلد 24 353 سال 1967ء 108 موعود کی زیارت بڑی آسان ہے.اس لئے ۱۶.۱۷ کی رات کی گاڑی پر سوار ہو کرے امئی صبح سویرے لاہور پہنچ گیا.سٹیشن پر اتر کر کیلیاں والی سڑک پر احمد یہ بلڈنگ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام قیام فرما تھے پہنچ گیا.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ حضور کا لیکچر امراء کے لئے مقرر ہے اور صرف امراء کو داخل ہونے کی اجازت ہے.عام لوگوں کو داخل نہیں ہونے دیتے تھے.( یہ لیکچر روسائے لاہور کو دیا گیا تھا.اس مکان کے دروازے پر جہاں لیکچر ہو رہا تھا ، سید محمد اشرف صاحب راہوں والے کھڑے تھے.جو کہ لوگوں کو دیکھ دیکھ کر اندر داخل کرتے تھے.میں ان کی منت کر کے اندر داخل ہو گیا.چوہدری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ اس وقت اسلامیہ کالج میں پڑھتے تھے.وہ اب تک افسوس کیا کرتے ہیں کہ اگر چہ میں اس وقت احمدی نہ تھا تا ہم اس لیکچر کے لئے گیا.مگر سید محمد اشرف صاحب نے ان کو داخل نہ ہونے دیا.اس طرح کے امتی والا لیکچر میں نے سنا...میرے بڑے بھائی حکیم دین محمد صاحب نے میرے لئے پشاور میں ملازمت کی تجویز کر کے غالبا ۲۲ مئی کو وہاں بھیج دیا.۲۳ مئی کو وہاں پہنچا.وہاں کام نہ بنا.۲۴ مئی کو میں واپس لاہور آ گیا.۲۵ کے دن رہنے کے بعد ۲۶ کو حضور کی وفات ہو گئی.میں اپنے بھائی صاحب کے پاس ہربنس سنگھ کی حویلی میں لاہور رہتا تھا.بازار میں میں اور بھائی صاحب کسی کام کے لئے جارہے تھے کہ غالباً چوہدری عبدالحئی صاحب کا ٹھ گڑھ والے نے بتلایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی.یہ خبر سنتے ہی میرا اپنا یہ حال ہوا کہ تمام بدن سُن اور بے حس ہو گیا.کچھ منٹوں کے بعد ہوش ٹھیک ہوگئی.اس وقت تک کہ میرے والد صاحب اور والدہ صاحبہ اور بھائی اور لڑکے اور کئی عزیز فوت ہوئے ہیں.مگر ایسا صدمہ جیسا کہ حضور کی وفات کا سنکر ہوا تھا.کبھی نہیں ہوا.میرے بھائی حکیم محمد دین صاحب کے پاس میرے علاوہ میرے تایا زاد بھائی جو کہ غیر احمدی تھے، اپنی لڑکی کے ساتھ ، جو کہ بیمار تھی، معالجہ کے لئے ٹھہرے ہوئے تھے.بھائی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ان کی خاطر تم یہاں ٹھہرو.اور میں جنازہ کے ساتھ قادیان جاؤں گا.میں نے کہا کہ یہ آپ کے مہمان ہیں.آپ ٹھہریں یا نہ ٹھہریں میں تو جنازہ کے ساتھ ضرور جاؤں گا.ہمارے آپس کے اس تکرار کو دیکھ کر انہوں نے کہا کہ بھائی میں اکیلا ہی رہوں گا.آپ دونوں جائیں.چنانچہ ہم یہ فیصلہ کر کے احمد یہ بلڈ نٹکس میں پہنچے.حضرت ملک صاحب نے اس کے بعد لاہور سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک کے قادیان پہنچنے ، بیعت اولی اور جنازہ کے چشمد ید واقعات بتائے.(حضرت ملک صاحب نے یہ 109

Page 372

تاریخ احمدیت.جلد 24 354 سال 1967ء جملہ روایات ۹ جنوری ۱۹۳۸ کو اپنے فرزند ملک برکت اللہ صاحب کو قادیان میں لکھوائی تھیں) اور اس ضمن میں سید بھی فرمایا کہ:.ا.۲.برف کا وہ صندوق، جس میں آپ کا جسمِ اطہر رکھ کر بٹالہ تک لائے تھے.وہ پھر قادیان باغ میں بمعہ برف کے پڑا تھا.میں نے اس خیال سے کہ حضور کا جسم اس برف سے چھو چکا ہے.تھوڑی سی برف اُٹھا کر کھائی.تب مجھے معلوم ہوا کہ اس میں مشک کا فور ڈال کر بنائی گئی ہے.حضرت خلیفہ اول کھڑے ہو گئے اور ایک تقریر فرمائی جس میں یہ فرمایا کہ یہ بہت بڑا بوجھ ہے.اور اتنا بڑا بوجھ ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جو بوجھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے میرے باپ پر پڑا.اگر کسی پہاڑ پر پڑتا تو وہ چور چور ہو جاتا.یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ میں اسے اُٹھانے کی اپنے میں مطلق طاقت نہیں پاتا.چونکہ آپ سب لوگ اس بات پر متفق ہیں اس لئے میں خدا تعالیٰ کے بھروسہ پر اس بوجھ کو اُٹھاتا ہوں.اس کے بعد وہاں ایک چار پائی پڑی تھی.حضرت میاں محمود احمد صاحب (خلیفہ ثانی ) کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس چار پائی پر آپ جیسے کوئی گر پڑتا ہے، بیٹھ گئے.اور میاں صاحب کو اپنے پاس ہاتھ پکڑ کر بیٹھا لیا.یہ بات خاص طور پر میں نے نوٹ کی کہ سب سے پہلے جس شخص کا ہاتھ بیعت کے لئے آپ نے پکڑا وہ خلیفہ ثانی تھے.اس چار پائی پر بیٹھ کر بیعت لینی شروع کر دی.اس پہلی پارٹی میں احقر نے بھی بیعت کی تھی.غالباً نماز ظہر ( در حقیقت نماز عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت خلیفہ اول نے نماز جنازہ پڑھائی.میاں سلطان احمد صاحب بھی آچکے تھے.اتفاق سے مرزا سلطان احمد صاحب جنازہ میں میرے ساتھ کھڑے تھے.میں نے دیکھا کہ وہ بہت رور ہے تھے.صدر انجمن احمد یہ قادیان کی سالانہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانہ میں آپ انجمن پاکپتن 111 کے سیکرٹری بھی رہے.سالانہ رپورٹ ۲۰- ۱۹۱۹ء کے صفحہ ۱۳۳ پر پاکپتن کے اُن مخلص بزرگوں کی فہرست شائع کی گئی جنہوں نے سب سے زیادہ چندہ دیا تھا.اس فہرست میں آپ کا نام تیسرے نمبر پر درج ہے.۱۹۲۶ء میں آپ جماعت احمدیہ پاکپتن کے محاسب وامین مقرر ہوئے.آپ صاحب کشف و الہام تھے.اور تحریک جدید کی پانچیز اری فوج میں شامل ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے.آپ کے ذریعہ متعددافراد نے احمدیت قبول کی.

Page 373

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 355 سال 1967ء ا.ملک صلاح الدین صاحب ( مولوی فاضل.ایم اے ) در ویش دار مسیح قادیان.۲.ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب ۳.ملک رحمت اللہ صاحب ۴.ملک برکت اللہ صاحب (بی اے آنرز.ایل ایل بی.ایڈووکیٹ) ۵.ملک عصمت اللہ صاحب.۶.ملک حشمت اللہ صاحب.ے.عزیزہ بیگم صاحبہ - ۸ - امتہ الحفیظ صاحبہ.۹.ملک ذکاء اللہ صاحب.حضرت منشی عبد الکریم صاحب بٹالوی ولادت: ۱۸۷۴ء تحریری بیعت ۱۸۹۷ء دستی بیعت : ۱۹۰۲ء وفات: ۳۰ دسمبر ۱۹۶۷ء حضرت منشی صاحب نے اپنی خود نوشت روایات میں لکھا ہے کہ خاکسار کا وطن موضع عثمان پور ریاست جیند تحصیل سنگرور ہے.طالب علمی کے زمانہ میں خاکسار بٹالہ میں پہنچ گیا.مولوی محمد حسین بٹالوی کے شاگرد مولوی شمس الدین تھے.ان کے پاس قرآن کریم کا ترجمہ پڑھتا تھا اور اس جگہ پر مجھے ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علم حاصل ہو گیا.چونکہ میں مولوی محمد حسین کے پیچھے نماز جمعہ پڑھتا تھا انہیں کے رنگ میں رنگین ہو کر اپنے وطن کو واپس ہو گیا.نابھہ ریاست میں ایک مولوی عبدالرحیم صاحب تھے.ان کی صحبت میں رہ کر ۱۸۹۷ء میں بیعت کا خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھ دیا تھا.جنوری ۱۹۰۲ء میں جمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھائی.نماز کے بعد حضور علیہ السلام بیٹھ گئے اور عاجز سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ نے بیعت کرنی ہے.خاکسار نے عرض کیا.حضور بیعت کرنی ہے.حضور نے میرا ہاتھ ہاتھ میں لیکر بیعت شروع کر دی اور بھی بہت سے لوگ بیعت میں شامل ہوئے.اس دن یا اگلے روز حضور سیر کو تشریف لے گئے خاکسار بھی ہمراہ ہو گیا.واپسی میں جو مسجد کی سابقہ سیٹرھیاں ہیں عاجز آگے بڑھ کر وہاں کھڑا ہو گیا.کچھ نذرانہ پیش کیا.حضور نے عاجز کا وطن پوچھا میں نے عرض کی کہ سامانہ کے قریب ایک گاؤں ہے حضور نے فرمایا کہ یوسف بیگ سامانوی کا انتقال کیسے ہو گیا.عاجز نے عرض کیا کہ میں لدھیانہ میں ملازم ہوں.مجھے ان کا کوئی پتہ نہیں.ان کے بعد میاں کرم الہی صاحب لدھیانوی کا ذکر دریافت کرتے رہے.اس کے بعد ایک دفعہ حضور کی خدمت میں قادیان آنے کا موقعہ میسر آیا.اپنی

Page 374

تاریخ احمدیت.جلد 24 356 سال 1967ء بیوی کے ذریعہ سے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ خاکسار کارخانه بیلینا ریاست ناہن شاخ لدھیانہ میں منشی ہے حضور دعا فرما دیں کہ میں کارخانہ کا انچارج ایجنٹ بن جاؤں.سو میرا تبادلہ بٹالہ ہو جاوے تا کہ میں آتے جاتے مہمانوں کی خدمت کیا کروں.حضور نے فرمایا بہت اچھا.ہم دعا کریں گے اگلے روز صبح کے وقت حضور سے اجازت چاہی کہ میں واپس جا رہا ہوں اور یکہ کرایہ پر کر لیا ہے حضور نے فرمایا ابھی ٹھہر و یکہ پھر بھی مل جاویگا.مگر بیوقوفی کی وجہ سے میں نے جانے کا اصرار کیا.حضور نے فرمایا اگر نہیں ٹھہر نا تو کھانا ساتھ لے کر جاؤ.خواہ باسی ہی ہو.حضور نے فوراً کسی خادمہ کو کہہ کر کھانا منگوا دیا.ہم واپس لدھیانہ اپنی جائے ملازمت پر حاضر ہو گئے.ڈاک میں ایک لفافہ ملا.جس میں انسپکٹر صاحب جو کہ ایک انگریز تھے.یہ حکم ملا کہ فور أسمرالہ ضلع لدھیانہ میں جا کر ایجنٹی کا چارج لے لو.اور کام کرو چنانچہ خاکسار سمرالہ چلا گیا.یہ جو دعا کرائی تھی وہ پوری ہوگئی.اور جو تبادلہ بٹالہ کے متعلق تھی وہ ۱۹۱۵ ء میں پوری ہوئی اور سات سال تک بٹالہ میں رہ کر آتے جاتے مہمانوں کی خدمت جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کرتا رہا، ایک دفعہ اپنے والد کو حضور علیہ السلام کی خدمت میں برائے بیعت لے کر حاضر ہوا.مغرب کے بعد حضور کی عادت تھی کہ شاہ نشین پر بیٹھ جایا کرتے تھے.میں حضور کے پاؤں دبا رہا تھا اور میرے والد بھی پاؤں دبا رہے تھے میں نے عرض کیا کہ حضور میرے والد کے درد گردہ ہوتا ہے حضور دعا فرماویں.حضور نے فرمایا کہ آپ کے والد کہاں ہیں.عاجز نے عرض کیا کہ یہ دوسرے جو میرے ساتھ حضور کے پاؤں دبار ہے ہیں.یہی ہیں.۱۹۰۵ء میں حضور دہلی سے تشریف لا رہے تھے اور لدھیانہ میں حضور کا لیکچر ماہ رمضان میں ہوا.لوگوں نے بڑی خوشی سے سنا.اس موقعہ پر عاجز سمرالہ سے لدھیانہ پہنچ گیا.حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میری بیوی کو عرصہ چار سال سے حمل کے نشانات ہیں اور پیدا کچھ نہیں ہوا.حضور دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ اس مرض سے نجات دے.حضور نے فرمایا بہت اچھا ہم دعا کریں گے.اس دعا کے نتیجہ میں لڑکا پیدا ہوا.حضور کو نام کے واسطے خط لکھا گیا.حضور نے اس لڑکے کا نام عبدالعزیز رکھا.ایک دفعہ قادیان میں فنانشل کمشنر صاحب قادیان تشریف لائے.بڑے بڑے معززین احباب کو سلسلہ کی طرف سے بلایا گیا تھا.عاجز بھی حاضر ہوا.سمرالہ میں ان دنوں نعمت اللہ خاں صاحب حج جو کہ آج کل پنشنرز ہیں اور مخلصین میں سے ہیں عاجز ان کو تبلیغ کیا کرتا تھا اور وہ اس وقت غیر احمدی تھے.جب میں نے جج صاحب سے عرض کیا کہ میں قادیان جا رہا ہوں تو انہوں نے فرمایا کہ میرے

Page 375

تاریخ احمدیت.جلد 24 357 سال 1967ء گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے.اس کے لئے دعا کرانا کہ اللہ تعالیٰ اس کو نیک اور صالح بنائے.اور پانچ روپے نذرانہ دیا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دینا.میں نے نذرانہ حضور کی خدمت میں پیش کیا اور حج صاحب کے لڑکے کے واسطے دعا کی درخواست کی.حضور نے فرمایا کہ ان کو کہہ دو کہ وہ خود نیک بنیں.سوخدا کے فضل سے وہ نیک ہی بن گئے اور اعلیٰ درجہ کے نیکوں میں داخل ہیں.ایک دفعہ میں کھنہ ضلع لدھیانہ کے کارخانہ میں لگا ہوا تھا.اس موقعہ پر میاں عبداللہ صاحب سنوری میرے پاس آیا جایا کرتے تھے.خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.جانتے ہو کہ میاں عبد اللہ سنوری کون ہیں.یہ ہمارے اہلِ بیت میں سے ہیں.آپ خلافت ثانیہ کے اوائل میں بٹالہ میں آگئے تھے اور مشینوں کا کاروبار شروع کر دیا.سلسلہ کے افراد کے ساتھ انتہائی محبت سے پیش آتے اور ہر ممکن خدمت بجالاتے.چنانچہ اکثر افراد بٹالہ سے گزرتے وقت ان کے ہاں ٹھہرتے اور گرمی ہو یا سردی اُن کی قیام گاہ پر تھوڑی دیر کے لئے آرام کرتے.16 اولاد اہلیہ اول سے عبدالعزیز صاحب پیدا ہوئے جبکہ اہلیہ دوم سے آپ کی درج ذیل اولا د ہوئی.ا.آمنہ بیگم صاحبہ -۲ عبدالمنان صاحب ۳ عبدالمجید صاحب ۴.عبدالحمید صاحب ۵ عبدالرشید صاحب ۶.عبدالوہاب صاحب آپ کی اولاد میں اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مقام حاصل کرنے والے خوش نصیب بھی پیدا فرمائے جو درج ذیل ہیں.ا.مکرم عباس احمد صاحب پوتے ۱۰ را پریل ۲۰۰۸ء کوئٹہ ۲- مکرم خالد رشید صاحب پوتے ۲۴ جون ۲۰۰۹ء کوئٹہ ۳ مکرم ذوالفقار منصور صاحب پڑپوتے ۱۱/اکتوبر ۲۰۰۹ء کوئٹہ آپ کے ایک پوتے مکرم طارق رشید صاحب سابق قائد ضلع اور ناظم انصار اللہ ضلع کوئٹہ رہے ہیں.

Page 376

تاریخ احمدیت.جلد 24 358 ۱۹۶۷ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت حاجی امیر عالم صاحب آف کوٹلی آزاد کشمیر وفات : یکم جنوری ۱۹۶۷ء سال 1967ء ۱۹۱۸ء میں مولوی عبدالحق صاحب و یار تھی..( غیر مبائع) اور پنڈت رام چندر دہلوی کا راولپنڈی میں مناظرہ ہوا.جس سے آپ کے قلب پر احمدیوں کی قوت گویائی اور خدمتِ اسلام کا گہرا اثر پڑا.۱۹۲۴ء میں آپ نے مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کی.مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بذریعہ خواب راہنمائی کی گئی تو بالآخر حضرت مصلح موعود کی بیعت کا شرف حاصل کر کے داخل جماعت احمد یہ ہو گئے اور جلد جلد اخلاص اور تقویٰ میں ترقی کرنے لگے.آپ کو حضرت مصلح موعود نے آزاد کشمیر کی احمدی جماعتوں کا اولین امیر مقرر فرمایا.مسجد احمدیہ کوٹلی آپ کی اور آپ کے بھائی منشی دانشمند خاں صاحب کی وقف کردہ اراضی پر تعمیر ہوئی.ڈوگرہ حکومت اور بالخصوص آزاد کشمیر کے دور میں آپ کو نہایت شاندار اور بے لوث خدمات کی سعادت حاصل ہوئی.مشہور قومی کارکن خالد کاشمیری پبلسٹی سیکرٹری جموں و کشمیر محاذ رائے شماری نے اخبار ” انصاف‘ ( راولپنڈی ) میں لکھا ہے:.حاجی صاحب ایک انتہائی پر خلوص کارکن، مذہبی عالم اور سماجی بہبود کے داعی تھے.ان کی ساری زندگی ملک اور قوم کی خدمت میں صرف ہوئی.تحریک آزادی کشمیر میں ان کا بھر پور کردار صفحہ تاریخ پر ہمیشہ جگمگاتا رہے گا.انہوں نے انتہائی معمولی حیثیت سے نکل کر اپنی ذاتی محنت اور قابلیت سے بام عروج کو چھو لیا.اور یہ واحد آدمی تھے.جنہیں تمام علاقہ کے مرد عورت اور بچے احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے.“ احمدیت اور حضرت مصلح موعود کے فدائیوں اور عاشقوں میں سے تھے.تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین میں شامل ہونے کا شرف رکھتے تھے اور موصی بھی تھے.آپ کے بارہ میں ایک کتاب ”سیرت و سوانح ماسٹر امیر عالم صاحب مرحوم مرتبہ ڈاکٹر ظفر کلیم بھی شائع ہو چکی ہے.

Page 377

تاریخ احمدیت.جلد 24 359 چوہدری عنایت محمد صاحب آف جاگووال وفات : ۱۰/ ۱۱ جنوری ۱۹۶۷ء کی درمیانی شب سال 1967ء آپ سالہا سال تک جماعت ہائے احمد یہ علاقہ بیت بیاس تحصیل گورداسپور کے امیر جماعت رہے.مرحوم کے ذریعہ ہزاروں افراد تک احمدیت کا پیغام پہنچا اور بہتوں نے احمدیت کو قبول بھی کیا.آپ نے ۱۹۳۰ء میں ایک خواب کی بناء پر احمدیت قبول کی.رشتہ داروں نے شدید مخالفت کی تا کہ احمدیت سے ان کو مرتد کیا جائے مگر آپ احمدیت پر مضبوطی سے قائم رہے.طالبعلمی کے زمانہ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گورداسپور میں دیکھا تھا جب حضور ایک مقدمہ کے سلسلہ میں وہاں تشریف لائے تھے.وہاں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس بیٹھ کر کھانا کھانے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.آپ ایک پُر جوش اور مخلص احمدی تھے.خدمت خلق کا جذ بہ بھی قابل رشک تھا.آپ نے اپنی بیٹھک میں فری ڈسپنسری کھول رکھی تھی اور تعلیم و تدریس کے لئے ایک ہائی سکول بھی قائم کیا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایک دفعہ آپ کے جاری کردہ سکول واقع جا گووال میں تشریف لائے تھے.جہاں آپ نے مڈل سکول کے احاطہ میں خطاب بھی فرمایا تھا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے ارشاد پر آپ بطور مینیجر محمد آباد اسٹیٹ سندھ میں بھی نہایت کامیابی کے ساتھ خدمات بجا لاتے رہے.بعد ازاں جماعت احمد یہ رلیو کے تحصیل ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں عرصہ دراز تک امام الصلوۃ رہے.میجر بشیر احمد صاحب وفات : ۹ فروری ۱۹۶۷ 118 میجر بشیر احمد صاحب بے انتہاء خوبیوں کے مالک تھے.اپنے خاندان میں ایک ممتاز شخصیت کے مالک تھے.خدا تعالیٰ سے اس قدر محبت تھی کہ کبھی صرف خدا کہہ کر بات نہ کرتے بلکہ یہ کہا کرتے تھے کہ میرے پیارے خدا کو منظور ہوا تو یہ کام کروں گا.میرے پیارے خدا تو تکیہ کلام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ، سلسلہ کی کتب رسائل و اخبار کے مطالعہ کا بے حد شوق تھا.مرکز سے شائع ہونے والے رسائل و اخبار ہمیشہ جاری رکھواتے.اکثر دفتر میں سیر میں سفر میں کتب ساتھ رکھتے تھے

Page 378

تاریخ احمدیت.جلد 24 360 سال 1967ء اور مطالعہ میں وقت گزارتے.بزرگان سلسلہ اور درویشان قادیان اور ربوہ سے خاص عقیدت تھی.اکثر جب بھی موقع ملتا تو ربوہ جاتے اور خلیفہ وقت سے ضرور ملاقات کرتے.اکثر اشیاء ربوہ سے خریدتے تا کہ احمدی بھائیوں کو فائدہ پہنچے.اسی طرح جہاد میں جانے کا آپ کو بہت شوق تھا.اس قدر جذ بہ اور ولولہ تھا کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ میں پورے وثوق سے گھر کہہ گئے تھے کہ میری واپسی کا انتظار نہ کرنا میرے وطن کو میری ضرورت ہے.وہاں سے جو خط گھر لکھا اس میں بھی یہی لکھا تھا کہ آج میرے پر یہ راز کھلا ہے کہ وطن کی محبت سب چیزوں سے افضل ہے.اسی طرح راجستھان سیکٹر میں جنگ بندی کے بعد آپ کو لیزاں آفیسر مقرر کیا گیا.آپ یو.این.او.والوں کے ہمراہ ہندوستان اور پاکستان ہر دو جگہ میٹنگز اٹینڈ کرتے تھے.ہندوستانی فوجی افسروں نے پاکستانی فوجی افسروں کو تحفتہ چائے کی پتی پیش کی لیکن آپ نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ پاکستان میں ہر قسم کی چائے مل جاتی ہے.ایک موقع پر کہنے لگے کہ جنگ اسلحے سے نہیں ہوتی جذبے سے لڑی جاسکتی ہے.آپ کا جنازہ سرگودھا سے ربوہ لایا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ پڑھائی.10 محمد عمر خان صاحب یاردانی وفات ۸ مارچ ۱۹۶۷ء بعمر ۷۰ سال آپ سکنہ باٹھی اندر پہاڑ کوہ سلیمان کے رہنے والے تھے.۱۹۲۸ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ ضلع ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ کے سب سے پہلے احمدی تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے عاشق اور احمدیت کے فدائی تھے.وفات سے چند روز پہلے بستی رنداں میں وقف عارضی کر کے آئے تھے.آپ مکرم عبد الماجد امجد صاحب ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ مڈل سکول ہیرو شرقی کے خسر تھے.بیوہ کے علاوہ چار بچے یاد گار چھوڑے.حضرت سیدہ شوکت سلطانہ صاحبہ 120 ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت: ۴ را گست ۱۹۳۸ء 2 وفات : ۲۰ مارچ ۱۹۶۷ء

Page 379

تاریخ احمدیت.جلد 24 361 سال 1967ء آپ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی بڑی بیگم تھیں.مرحومہ حضرت میر صاحب کی پھوپھی زاد تھیں.آپ کے والد صاحب کا نام سید بشیر الدین صاحب تھا جو سکندرہ را وضلع علی گڑھ کے رہنے والے تھے.حضرت میر صاحب کی ان سے ۱۹۰۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پر شادی ہوئی.آپ بہت صابر ، شاکر ، خوش خلق اور ہر ایک کے ساتھ بہت محبت و شفقت سے پیش آنے والی نہایت بزرگ خاتون تھیں.خدائی مقدرات کے ماتحت شادی کے گیارہ سال بعد تک بھی کوئی اولاد آپ کے ہاں نہ ہوئی.۱۹۱۷ء میں حضرت میر صاحب نے دوسری شادی محترمہ سیدہ امتہ اللطیف بیگم صاحبہ سے کی جو حضرت مرزا محمد شفیع صاحب کی صاحبزادی تھیں.ان کے بطن سے تین بیٹے اور سات بیٹیاں خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائیں.حضرت سیدہ شوکت سلطانہ صاحبہ نے خود بے اولاد ہونے کے باوجود ان بچوں کو اپنی اولا دسمجھا اور ان کی تربیت و پرورش میں بڑھ چڑھ کر پورا پورا حصہ لیا.اپنے برتاؤ اور حسن سلوک سے گھر کو نمونہ بہشت بنائے رکھا.حضرت میر صاحب کی دونوں بیویوں کا باہمی سلوک اس قدر اعلیٰ اور مثالی تھا کہ دونوں آپس میں آخر وقت تک نہایت ہی پیار و محبت کے ساتھ رہیں.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں چاردیواری کے اندر حضرت میر صاحب کی چھوٹی بیگم محترمہ سیدہ امتہ اللطیف صاحبہ کے پہلو میں ہوئی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اور بزرگانِ سلسلہ کے علاوہ کثیر تعداد میں احباب آپ کی تجہیز و تکفین میں شامل ہوئے.احمد علی صاحب آف ڈوله مستقیم حجرہ شاہ مقیم وفات ۱۱ را پریل ۱۹۶۷ء 122 احمد علی صاحب ۶۱ - ۱۹۶۰ء میں داخل احمدیت ہوئے.قبول احمدیت کے بعد گاؤں میں شدید مخالفت شروع ہوگی.پٹواری اشتمال کا کورس کر کے محکمہ مال میں بطور اشتمال پٹواری سرکاری ملازم ہو گئے.اور بھائی کوٹ رائے ونڈ میں متعین ہوئے.جہاں اشتمال اراضی کے موقعہ پر اپنے احمدی ہونے کا ذکر کر کے کسی قسم کی بھی رشوت لینے سے انکار کر دیا.رشوت نہ لینے کی وجہ سے مخالفین نے

Page 380

تاریخ احمدیت.جلد 24 362 سال 1967ء ایک دن موقعہ پر کلہاڑیوں کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا.سول ڈسپنسری رائے ونڈ لے جائے گئے مگر شدید زخموں کی تاب نہ لا کر ۲۶ سال کی عمر میں راہ مولیٰ میں قربان ہو گئے.124 سید عبدالباسط صاحب نائب معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز بیہ وفات: ۲۳ / اپریل ۱۹۶۷ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میر مہدی حسین صاحب کے فرزند اصغر تھے.۱۹۳۸ء یعنی مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کے وقت سے دفتر مجلس میں متعین ہونے کے بعد تادمِ آخر لتبی جذبے کے ساتھ نہایت وفاداری سے مفوّضہ فرائض بجالاتے رہے.خدام الاحمدیہ سے طویل وابستگی اور لمبے تجربہ کی بناء پر مجلس کے قواعد وضوابط پر عبور کے ساتھ ساتھ ان کو اس اہم تنظیم کی تاریخ سے گہری واقفیت تھی اور خدام الاحمدیہ کا تمام ریکارڈ ان کی نظر سے گزرا تھا اور وہ گو یا مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک مجسم دائرۃ المعارف تھے.خدام الاحمدیہ کی تدریجی ترقی اور تبدیلیوں کے تمام نقوش واضح طور پر ان کے ذہن پر نقش تھے.جس کی وجہ سے تمام اہم مواقع پر ان کا مشورہ نہایت مفید اور صائب ہوتا تھا.وفات سے کچھ عرصہ قبل مجلس کے ریکارڈ کے قیمتی اجزاء کومحفوظ کرنے کا کام ان کے سپرد کیا گیا.وہ اپنی وفات تک بڑی محنت اور شوق سے اس ریکارڈ کی چھان بین کرتے رہے.اور اس طرح بہت سے قیمتی ریکارڈ کو محفوظ کر دیا.اس دوران انہوں نے اس ریکارڈ پر جابجا مفید نوٹ بھی لکھے.جن سے اس کی افادیت میں بہت اضافہ ہوا.مرحوم کے یہ نوٹ خدام الاحمدیہ کی تاریخ مرتب کرنے والوں کے لئے نہایت مفید ثابت ہوں گے.آپ کو یہ بھی خصوصیت حاصل ہے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو سید نا حضرت مصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کے مجلس سے تعلق رکھنے والے دفتری ارشادات بھی یکجا کرنے کی توفیق عطا فرمائی.مرکزی ہمین کی ہمیشہ اپنے قیمتی مشوروں سے مددفرماتے.آپ کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کے ترجمان رسائل خالد اور تفخیذ کی خدمت کا موقع بھی ملا.اور ہر دور سائل کے ناشر بلکہ ایک لمبا عرصہ تک مینیجر بھی رہے.125 ہاجرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب وفات: ۸ مئی ۱۹۶۷

Page 381

تاریخ احمدیت.جلد 24 363 سال 1967ء آپ کی شادی ۱۹۴۸ء میں جناب ڈاکٹر رشید الدین خان صاحب خلف حضرت نواب اکبر یار جنگ بہادر سے ہوئی.چار بہنوں میں مرحومہ تیسرے نمبر پر تھیں مگر ذوق علم اور شوق خدمت دین میں سب سے آگے تھیں.مرحومہ شادی سے پہلے اور بعد اور دوران علالت مقامی لجنہ کی پر جوش رکن اور کارکن رہیں.اپنی بیماری کے باوجود دینی اجتماعوں اور نماز جمعہ میں شرکت کے لئے خاص اہتمام سے جاتی رہیں.20 126 با جر و بیگم صاحبہ اہلیہ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل وفات: ومئی ۱۹۶۷ باجرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم خواجہ غلام نبی صاحب مرحوم سابق ایڈیٹر الفضل مکرم مرزا محمود بیگ صاحب مرحوم کی چھوٹی بھانجی تھیں.آپ کی شادی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایما پر ہوئی اور آپ حضور کے گھر سے ہی رخصت ہوئیں.حضرت ام ناصر صاحبہ اور حضرت امتہ الحی صاحبہ سے آپ کے بہت گہرے تعلقات تھے.جس کا ذکر آپ اکثر کیا کرتی تھیں.بڑی خوبیوں کی مالک تھیں.صبر وضبط اور دوراندیشی آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.ملک عبد الماجد صاحب شمس وفات: ۴ امتی ۱۹۶۷ء 127 آپ ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں سال سوم کے طالب علم تھے اور بطور معتمد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع لاہور خدمت بجالا رہے تھے.ایک مثالی خادم اور بہت خوبیوں کے مالک تھے.سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر سے حد درجہ شغف تھا اور دعوت الی اللہ کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.ایک عیسائی کو ان کے ذریعے قبول اسلام کی توفیق ملی.چوہدری کرامت اللہ صاحب ( کے سنز ہوزری کراچی ) وفات: ۲۶ مئی ۱۹۶۷ء آپ حضرت با بوا کبر علی صاحب مرحوم آف سٹار ہوزری قادیان کے فرزند اور محترم کرنل عطاء اللہ صاحب وائس چیئر مین فضل عمر فاؤنڈیشن کے بھائی تھے.

Page 382

تاریخ احمدیت.جلد 24 364 سال 1967ء مرحوم بہت خوش اخلاق ، نیک اور فدائی احمدی تھے.خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت و اخلاص کا تعلق تھا.سلسلہ کی مالی تحریکات میں پیش پیش رہے.فٹ بال اور بیڈ منٹن کے نامی کھلاڑی تھے.اور ائل جوانی میں قیام دہلی کے دوران فٹ بال میں بہت نام پیدا کیا.چوٹی کے کھلاڑی شمار ہوتے تھے.اور فائنل مقابلوں میں اکثر گول آپ ہی کیا کرتے تھے.چوہدری غلام حسین صاحب اوورسیر ولادت: ۱۹۰۷ ء بیعت: ۱۹۲۵ء وفات: ۱۹ جولائی ۱۹۶۷ء 129 محترم چوہدری صاحب دنیاوی لحاظ سے کوئی زیادہ تعلیمیافتہ نہ تھے.مگر احمدیت قبول کر لینے کے بعد ان کی ذہنی خفتہ طاقتیں جاگ اٹھی تھیں وہ اعتماد یقین اور شرح صدر کے ساتھ دینی معاملات میں اپنی رائے دیتے اور ان کی رائے بڑا وزن رکھتی تھی.منٹگمری میں جماعتی تنظیم خصوصا نو جوانوں کی تنظیم کا کام ان کے سپرد کیا گیا.تو انہوں نے جماعت کے نوجوانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونک دی.سلسلہ کے ہر کام کے لیے اپنے آپ کو پیش کرتے اور جو کام بھی اُن کے سپرد کیا گیا.پوری ذمہ داری کے ساتھ اس کو پورا کیا.سرکاری ملازمت میں سوائے دنیا داری کے ان کو اور کچھ نظر نہ آیا اس لیے بالآخر ملازمت از خود ترک کردی اور اپنا سارا وقت سلسلہ کے کاموں کے لیے وقف کر دیا.حضرت المصلح الموعود کو ان کے حالات کا علم ہوا اور حضور کی جو ہر شناس نظروں نے ان کی خوبیوں کو بھانپ لیا.حضور نے ان کو مرکز احمدیت قادیان میں آجانے کا ارشاد فرمایا.حضور کئی ذمہ داریوں کے کام ان کے سپرد کرتے.چوہدری صاحب حضور کے ارشاد کو جز و ایمان سمجھ کر ان کی تعمیل کرتے اور حضور کی خوشنودی حاصل کرتے.قادیان میں بیک وقت چھ چھ سات سات عہدے ان کے سپرد رہے.جن کو انہوں نے پورے اخلاص اور ایمانداری کے ساتھ نبھایا.ساتھ ساتھ دین کا علم بھی سیکھتے رہے.ناظم صاحب دارالقضاء حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب فاضل امیر جماعت احمد یہ قادیان کو ایک ایسے شخص کی تلاش تھی جو زمینوں کی پیمائش و رقبہ وغیرہ نکالنے و متعلقہ دیگر امور میں مہارت رکھتا ہو اور وہ بطور قاضی بھی کام کر سکے.حضرت مولانا موصوف کی نظر چوہدری غلام حسین صاحب پر پڑی.چنانچہ حضور کی منظوری سے اُن کو مرکزی قاضی مقرر کیا گیا.ربوہ میں آکر بھی یہ کام اُن کے سپر درہا.اللہ تعالیٰ نے ان کو اتنی فراست دی ہوئی تھی کہ واقعات کو پڑھ اور سنکر حقیقت تک پہنچ جاتے.طرفین میں سے کسی کے بیان سے متاثر ہونا ان کی فطرت میں نہ تھا.فیصلہ مختصر مگر جامع الفاظ میں لکھتے.محترم

Page 383

تاریخ احمدیت.جلد 24 365 سال 1967ء مولا نا تاج الدین صاحب سابق ناظم دارالقضاءر بوہ کا بیان ہے کہ مرحوم ایک نڈر قاضی تھے.مولوی شیخ طاہر الدین صاحب آف کیرنگ وفات : ۲۰ /اگست ۱۹۶۷ء آپ گورنمنٹ ہائی سکول کے ریٹائر ڈ تجربہ کار ٹیچر تھے.جب آپ پینشن پا کر اپنے وطن تشریف لے آئے تو ۱۹۴۷ء میں جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگے اور سیکرٹری مال کا عہدہ آپ کے سپرد کیا گیا.آپ کی مساعی جمیلہ نے جماعت احمدیہ کیرنگ کے ذمہ تمام بقایا صاف کر دیا.آپ جماعت احمدیہ کیرنگ کے سیکرٹری مال ہونے کے ساتھ ساتھ جماعت کے صدر بھی تھے.مرحوم ماسٹر صاحب جہاں علم دوست تھے وہاں روحانیت سے بھی وافر حصہ رکھتے تھے.پروفیسر محمد عطاءالرحمن صاحب آف آسام وفات: ۲۷/ اگست ۱۹۶۷ء 131 آپ حضرت مولوی محمد امیر صاحب کے فرزند ارجمند تھے.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیوی لحاظ سے عروج پر پہنچے اور آپ صوبائی وزیر داخلہ کے ممتاز عہدہ پر بھی فائز رہے.ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) میں آپ کے مطبوعہ رشحات قلم سے آپ کے اعلیٰ علمی معیار کا علم ہوتا ہے.حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے مطابق آپ جب گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو مرحوم اپنے علم وفضل میں شہرت حاصل کر چکے تھے.چنانچہ آپ اس وقت لا ہور تشریف لائے تو آپ کی شہرت کی وجہ سے جوق در جوق لوگ آپ کی تقریر سننے کے لئے پہنچے.آپ نے اپنے اہل وطن کی خدمت و ہدایت کے لئے بغیر کسی خارجی تحریک کے از خود آسامی زبان میں قرآن مجید مع تفسیری حواشی تیار کیا جو بائیسویں پارے تک مطبوعہ صورت میں آچکا تھا.اس کے علاوہ آپ نے ستائیسویں پارے تک یہ ترجمہ مع حواشی مکمل کر لیا تھا.چوہدری بشیر احمد صاحب حقانی (لاہور) وفات: ۸ نومبر ۱۹۶۷ء 132 آپ حضرت مولوی علی احمد صاحب کے صاحبزادے اور ماسٹر نذیراحمد صاحب رحمانی مرحوم کے

Page 384

تاریخ احمدیت.جلد 24 366 سال 1967ء برادر اکبر تھے.آپ کا منظوم کلام اور مضامین سلسلہ کے اخبارات و جرائد میں شائع شدہ ہیں.کچھ عرصہ تک حضرت مصلح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے جہاں جہاں رہے مختلف جماعتی عہدوں پر فائز ہو کر سلسلہ کی عملی اور علمی خدمت میں سرگرم عمل رہے.ملک غلام نبی صاحب ریٹائر ڈاے.ڈی.آئی وفات: ۲۷ نومبر ۱۹۶۷ء پاکستان کے مایہ ناز فرزند میجر جنرل اختر حسین ملک صاحب اور میجر جنرل عبدالعلی صاحب کے والد ماجد تھے.آپ نہایت مخلص بزرگ اور موصی تھے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.184 آپ نے کلریاں ضلع ہوشیار پور میں دو دفعہ وقف ایام کر کے دعوت الی اللہ کا بہت اچھا کام کیا.اور پرائمری سکول کے استاد ہونے کی حیثیت سے ملازمت کا آغاز کیا اور اے، ڈی ،ایم تک ترقی حاصل کی.165 135- آپ کو تبلیغ کا بے حد شوق تھا.اپنے ہم عصر افسران سے سلسلہ کے متعلق بڑی دیر تک گفتگو جاری رکھتے تھے.سلسلہ کا لٹریچر تقسیم کرتے اور پیغام حق ہر جگہ پہنچاتے اور کئی دوستوں کو قادیان اپنے خرچ پر لے گئے.آپ میں چشم پوشی کا مادہ بھی بہت پایا جاتا تھا.آپ ہمیشہ علیحدگی میں سمجھاتے تھے اور یہی کوشش کرتے تھے کہ اصلاح ہو جائے اور کسی کو نقصان نہ پہنچے.ہر بات میں جزئیات کا خاص خیال رکھتے.چنانچہ آپ نے ایک دفعہ پیرمحمد اکبر صاحب سقراط گولیکی کو ایک سرکاری آرڈر کی کا پہیاں کروانے کے لئے دیں اور نصیحت کی کہ نقل ہو بہو ہونی چاہیئے تا کہ کوئی امر وضاحت طلب نہ رہ جائے اور دوسرے کے ذہن پر دباؤ نہ پڑے.خود بھی دین و دنیا دونوں کے کام آئے اور اولادکو بھی اس قابل بنایا کہ وہ بھی سلسلہ کے لئے عزت کا باعث اور ملک کے لئے جان پر کھیل جانے والی بنے.آپ نے اپنے بیٹوں میجر جنرل ملک اختر حسین اور بریگیڈیئر (بعد ازاں جنرل ) ملک عبد العلی دونوں کو قادیان میں تعلیم دلائی.مرز اغلام حیدر صاحب ایڈووکیٹ نوشہرہ وفات: ۱۰ دسمبر ۱۹۶۷ء

Page 385

تاریخ احمدیت.جلد 24 367 سال 1967ء آپ کے پوتے مرزا مبارک احمد صاحب نے آپ کے سوانح حیات اور سلسلہ اور ملک وملت کی خدمات سے متعلق حسب ذیل مفصل مضمون تحریر کیا جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آپ مؤرخہ ۱۳ مارچ ۱۸۹۶ء کو موضع پنڈی لالہ ضلع گجرات کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام اللہ دتہ تھا جو اپنی خوش اخلاقی اور دیانت داری کی وجہ سے گاؤں میں ہر دلعزیز تھے.مرزا غلام حیدر صاحب ان کے بارہ میں اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ علم سے بہت پیار رکھتے تھے.اور آپ کی دلی خواہش تھی کہ میری اولاد علم حاصل کرے.چنانچہ آپ نے تینوں بیٹوں مرزا غلام نبی صاحب ،مرزا غلام رسول صاحب اور مرزا غلام قادر صاحب کو اپنی زندگی میں مدرسہ میں بٹھلایا.حالات زمانہ کچھ زیادہ موافق نہ تھے.باہر سے کسی امداد کی توقع نہ تھی.بے سروسامانی کی حالت میں تنگیوں کا آنا کوئی مشکل امر نہ تھا.لیکن اللہ تعالیٰ نے صبر واستقلال کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا.ایک طرف اگر انتہائی قربانی اور ایثار سے کام لیا.تو دوسری طرف خدائے برتر و بزرگ سے دست بد عار ہے.آپ کی درد بھری دعائیں بارگاہ الہی میں سنی گئیں اور آخر کار رنگ لائیں.آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنے نور چشموں کو علم کے نور سے منور دیکھا.آخری ایام میں بخار سے بیمار ہوئے.آٹھ یوم بیمار رہ کر ۱۵ جون ۱۹۰۳ ء اس دار فانی سے رخصت ہوئے.“ جب مرزا غلام حید ر صاحب کے والد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کی عمر صرف سات سال تھی.آپ کو چند ماہ بعد اپنے دوسرے بھائی غلام قادر صاحب کی وفات کا بھی صدمہ برداشت کرنا پڑا.آپ نے اپنے بڑے بھائی حضرت مرزا غلام نبی صاحب اور پھر حضرت مرزا غلام رسول صاحب کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی.خدا نے آپ کو ایک اچھا ذ ہن عطا کیا تھا.اور پھر آپ کے والد صاحب کی دعا ئیں بھی تھیں.آپ ہمیشہ اپنی کلاس میں اول آتے اور وظیفہ حاصل کرتے.چنانچہ چھٹی سے بی اے تک تعلیمی وظائف حاصل کرتے رہے.بچپن سے ہی ورزش کے عادی تھے اور کھیلوں سے دلچسپی رکھتے چنانچہ سکول میں اور پھر کالج میں آپ گیموں میں حصہ لیا کرتے کالج میں ہا کی ٹیم کے کپتان بھی رہے.یہی وجہ تھی کہ آپ کی صحت شروع ہی سے اچھی رہی.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ گاؤں کے سکول کے لڑکے ہاکی کھیل رہے تھے.اور میں ایک طرف کھڑا ان کو دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا.اتنے میں بڑے بھائی جان کا ادھر سے گزر ہوا انہوں نے سختی سے فرمایا دیکھتے کیوں ہو.کھیلو! فرماتے کہ اسی دن سے میں نے کھیلوں میں حصہ لینا شروع کر دیا.

Page 386

تاریخ احمدیت.جلد 24 368 سال 1967ء 1911ء میں جب کہ آپ چھٹی جماعت میں ہی تھے کہ آپ حضرت امام جماعت (اول) کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ کو پہلی دفعہ ۱۹۱۷ء میں قادیان جانے کا اتفاق ہوا.۱۹۲۳ء میں آپ نے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کر کے سرگودہا میں وکالت کا کام شروع کیا.دوسال بعد نوشہرہ چھاؤنی آگئے.اور تا حیات وہیں وکالت کرتے رہے.آپ اس علاقے کے مشہور وکیل تھے.خاص کر کسانوں کے مقدمات میں آپ بہت مشہور اور قابل وکیل سمجھے جاتے اور وہ آپ ہی کو اپنے مقدمات سپرد کرنا پسند کرتے تھے.۱۹۳۴ء سے بار ایسوسی ایشن نوشہرہ کے پریذیڈنٹ چلے آ رہے تھے.لیکن گزشتہ سال جب جماعت کا کام مقدموں کی وجہ سے بڑھ گیا تو آپ نے بار کی پریذیڈنٹ شپ سے استعفیٰ دے دیا.۱۹۳۰ء میں آپ نوشہرہ چھاؤنی کی احمد یہ جماعت کے امیر مقرر ہوئے اور ۱۹۳۱ء میں پراونشنل انجمن احمد یہ صوبہ سرحد کے وائس پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.آپ نے اور بھی مختلف جماعتی عہدوں پر دین کی خدمت کرنے کی سعادت حاصل کی.نوشہرہ کی جماعت کی تنظیم اور تشکیل آپ ہی کی محنت کا ثمرہ ہے.دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا اور جب بھی موقعہ ملتا احمدیت سے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش فرماتے آپ بہت خوش اخلاق ، ملنسار تھے.کبھی ترش مزاجی سے گفتگو نہ فرماتے.ہمیشہ محبت اور نرمی سے گفتگو کرتے بہت محنتی تھے.کسی کی تکلیف نہ دیکھ سکتے تھے.یہی وجہ تھی کہ محلہ والے آپ کی عزت کرتے اور اپنی مشکلات آپ سے بیان کرتے.اگر چہ خدا نے آپ کو مالی لحاظ سے بہت وسعت دی تھی.لیکن آپ نے کبھی تعیش کو پسند نہ فرمایا اور کبر وغرور کا نام تک نہ تھا.شروع شروع میں جب کہ آپ نوشہرہ آئے تو آپ نے ایک کرایہ کا مکان لیا جو نوشہرہ مین بازار اور فوڈ (سیلابی ندی کے کنارے تھا.وہاں آپ بڑی مدت رہے.قریبی احمدی مغرب کی نماز آپ کے ہاں پڑھتے.پھر جمعہ کی نماز بھی آپ کے مکان پر ہونے لگی.کیونکہ یہاں کوئی احمد یہ مسجد نہ تھی اور احمدی ایک کرایہ کے مکان میں نماز میں ادا کرتے.لیکن بعد میں مخالفین کے اُکسانے پر وہ مکان مالک مکان نے لے لیا.جب آپ نے اپنا مکان تعمیر کیا تو پھر وہاں جماعت کے اجلاس ہوتے اور جمعہ کی نماز پڑھی جاتی رہی.مفسدوں نے کئی بار گھر پر فساد کرنے کی کوشش کی اور آپ کے خلاف کئی سازشیں تیار کیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کی حفاظت کی.شر پسندوں نے آپ کو ڈرانے دھمکانے کے

Page 387

تاریخ احمدیت.جلد 24 369 سال 1967ء لئے کئی خطوط بھیجے لیکن آپ نے کبھی ان لوگوں کی پرواہ نہ کی اور خدا سے دعائیں کرتے رہے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب پروانشنل امیر سابق صوبہ سرحد کی بڑی خواہش تھی کہ کسی طرح نوشہرہ میں احمدیہ مسجد تعمیر ہو جائے چنانچہ آپ تاحیات اس بات کی کوشش کرتے رہے.آپ جماعت کے چندوں کا حساب بہت احتیاط سے رکھتے اور ایک پائی ادھر اُدھر نہ ہونے دیتے.مقامی سیکرٹری صاحب مال کی رپورٹ ہے کہ جس طریق سے آپ حساب رکھتے.مرکز سے آنے والے انسپکٹر ان کو چیک کرنے میں بہت آسانی ہوتی اور وہ آپ کے طریق کو نقل کر کے لے جاتے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب اپنی کتاب تاریخ احمدیت ( ضلع پشاور ) میں لکھتے ہیں:.و جس طرح حکومت کو انکم ٹیکس دیانتداری سے ادا کرتے ہیں اور حکام ان کے حسابات رکھنے کی تعریف کرتے ہیں اسی طرح جماعت کی مختلف مدات میں چندہ ادا کرتے ہیں اور موصی بھی ہیں.“ جب بھی مرکز سے کوئی مربی یا انسپکٹر وغیرہ تشریف لاتے انہیں اپنے ہاں ٹھہراتے اور خوشی محسوس کرتے.مہمان کے آرام کا اور جماعت کی طرف سے کوئی ذمہ داری آپ کو ملتی تو اس وقت تک آپ کو چین نہ آتا جبکہ اس ذمہ داری کو نبھا نہ لیتے.آپ سماجی بہبود کے کاموں میں بھی بہت حصہ لیتے.چنانچہ آپ مختلف سوسائیٹیوں اور انجمنوں کے صدر یا سیکرٹری رہے.اس کے علاوہ آپ انجمن تعلیم القرآن کے سیکرٹری بھی رہے.انہی خدمات کے باعث اہالیانِ نوشہرہ آپ کی عزت کرتے اور حاکم وقت نے آپ کی ان سماجی بہبود کی خدمات کے سلسلے میں تمغہ عطا فر مایا.۱۹۴۴ء میں آپ کو صوبہ سرحد کا (پراونشنل امیر ) مقرر کیا گیا اور چند سال تک آپ کو اس عہدہ پر بھی خدمت دین کی سعادت نصیب ہوئی.اپنے پاس دوائیاں رکھتے اور محلہ کے ضرورتمندوں کو دیتے.اگر کوئی مشکل میں ہوتا اور آپ کو پتہ چل جاتا تو اس کے پاس جاتے اور دلجوئی فرماتے تھے.بچوں سے ہمیشہ نرمی سے پیش آتے تھے.آپ باتوں باتوں میں سمجھاتے اور کام کی بات بتاتے.آپ کا سمجھانے کا ڈھنگ بہت نرالا تھا.حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور آپ کے آئمہ کی کتب اور تقریروں کا غور سے مطالعہ کرتے اور ان کی جلدوں کو سنبھال کر رکھتے.جماعت کے تمام رسائل و اخبار منگواتے.اگر چہ آپ کی نظر آخری چند سالوں میں کمزور ہوگئی تھی.لیکن فجر اور مغرب کی نماز پڑھنے ضرور

Page 388

تاریخ احمدیت.جلد 24 370 سال 1967ء تشریف لے جاتے.مسجد کا راستہ بہت خراب ہے.راستے میں ایک ہلکی سی ندی بھی آتی ہے.کئی دفعہ آپ گر بھی پڑتے.چوٹ بھی آئی لیکن معمول میں کوئی فرق نہ آیا.اور کوشش سے مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتے تھے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۷۲ سال تھی.آپ کی وفات کی خبر فوراً اس علاقے میں پھیل گئی اور بڑی تعداد میں لوگ آپ کا آخری دیدار کرنے آگئے.آپ کی وفات کی خبر صوبہ سرحد کے اخباروں میں نمایاں طور پر چھپی.چنانچہ خیبر میل پشاور نے ۱۵ دسمبر ۱۹۶۷ء پہلے صفحے پرلکھا:.مرز اغلام حیدر صاحب نوشہرہ کے مشہور وکیل اتوار کے روز وفات پاگئے.آپ کی عمر ۷۲ سال تھی.مرزا صاحب شہر کے ایک ممتاز سماجی کارکن تھے.وہ انجمن تعلیم القرآن کے سیکرٹری، اسلامیہ ہائی سکول کے مینیجر ، گرلز ہائی سکول کے سیکرٹری اور نوشہرہ ایسوسی ایشن کے سابق صدر تھے.نوشہرہ کی عدالتیں آپ کے سوگ میں ایک دن بندر ہیں.نوشہرہ چھاؤنی کے ایک ممتاز غیر از جماعت تاجر شیخ محمد یوسف صاحب ایم.اے نے آپ کے 137 سانحہ وصال سے متاثر ہوکر لکھا:.جہاں تک ان کے پیشہ ورانہ مشاغل کا تعلق ہے اس میں ان کی دیانت محنت اور فرض شناسی کا ہر وہ شخص معترف ہے جس کو اُن سے اس سلسلہ میں کبھی تعلق رہا ہو.آپ جب کبھی کسی مقدمہ میں وکالت کا ذمہ اٹھاتے پوری تندہی کے ساتھ اُس کی تیاری کرتے اور ہر مقدمہ کو اپنا ذاتی کام سمجھ کر اُس کی پیروی کرتے.ایسے اوصاف حمیدہ سے متصف شخص کا دنیا سے اُٹھ جانا ہر جاننے والے شخص کے لئے موجب رنج و غم ہے.مگر موت ایک ایسی اہل اجل ہے جس سے کسی شخص کو مفر نہیں.زود یا بدیر ہر شخص کو مرنا ہے.مگر خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو مرنے کے بعد نیک نامی کی اچھی یادگار چھوڑ جاتے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے آپ کا جنازہ پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.السيد رشدى الوسطی صاحب وفات: دسمبر ۱۹۶۷ء 138 محترم مولانا ابو العطاء صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا کہ آپ کا تعلق شام سے تھا.حیفا

Page 389

تاریخ احمدیت.جلد 24 371 سال 1967ء ( فلسطین) میں محکمہ ریلوے میں ملازم ہو گئے تھے.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی دعوت الی اللہ سے احمدی ہوئے تھے.احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے بہت سی مشکلات کا شکار بھی رہے.(۱۹۳۱ء-۱۹۳۶ء) کے دوران جماعت احمدیہ حیفا کے جنرل سیکرٹری اور صدر بھی رہے.خوب خدمت سلسلہ بجالاتے تھے.پادریوں سے مباحثات کرنا ان کو بہت پسند تھا.حلقہ احباب ان کا خاصا وسیع تھا.مقدور بھر مالی قربانی کرنے والے مخلص احمدی تھے.مضمون نویسی کا بھی شوق تھا.رسالہ ”البشری، فلسطین میں گاہے گاہے مضمون لکھے.ربوہ کے رسالہ ”البشری میں بھی ان کے مضامین شائع ہوتے رہے.انتظامی صلاحیت ان میں بہت تھی.ہر کام قرینہ سے کرتے تھے.۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کی وجہ سے ہجرت کر کے ان کو بھی عرب مہاجرین کے ساتھ شام واپس جانا پڑا.آپ نے دمشق میں بھی خدمات سلسلہ جاری رکھیں.اور ہر میدان میں احمد بیت کے لئے سینہ سپر رہے.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے آپ کی وفات پر آپ کے خاندان کو تعزیت کا تار بھی دیا.189

Page 390

تاریخ احمدیت.جلد 24 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 372 حوالہ جات (صفحہ 278تا371) الحکم ۱۰ راپریل ۱۹۰۱ صفحه ۱۴ الفضل ۳ فروری ۱۹۶۷ ، صفحہ ۷ سال 1967ء رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۲۰۹ الفضل ۳ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۷ الفضل ربوه ۳ مارچ ۱۹۶۷ء صفحہ ۱۲.نجم الہدی از رقیه بیگم بقا پوری صفحه ۲۴ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ البدر ( بدر ) ۳ جولائی ۱۹۰۳ ، صفحہ ۱۹۲، الحکم ۱۰ جولائی ۱۹۰۳، صفحہ ۱۶ الفضل یکم مارچ ۱۹۶۷، صفحہ ۸ الفضل یکم مارچ ۱۹۶۷ء صفحہ ۸.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد صفحہ ۴۶.۴۷ الفضل ۲۱ ر ا پریل ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ اصحاب احمد جلد ہشتم صفحریم ۹ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے قادیان الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۲ء صفحه ۳ الفضل ۱۵ سایریل ۱۹۶۷، صفحها اصحاب احمد جلد ہشتم ص ۸۵.مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے یه ۲۰ را گست ۱۹۰۵ء کا الہام ہے بدری ار ا گست ۱۹۰۵ء صفحہ ۲.تذکر و صفحه ۴۷۱ طبع چہارم بدر ۹ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۱ ۳.الحکم ۲ جنوری ۱۹۰۸، صفحه ۵، تذکر طبع چہارم صفحه ۶۳۱ الحکم ۲۱، ۲۸ جنوری ۱۹۳۸ء صفحه ۳، ایضاً الفضل ۴/اکتوبر ۱۹۴۲ء صفحه ۳ دیکھئے تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۲۳۳ تا ۲۳۷ طبع اول الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۱۹ ء صفحه ا الفضل ۸ فروری ۱۹۱۹ء صفحه ا 21 یا محمود صفحه ۱۸۷،۱۸۶ مؤلفہ کریم احمد نعیم صاحب 2 22 23 اصحاب احمد جلد هشتم صفحه ۱۴۶ اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۱۴۸

Page 391

32 33 34 35 2 2 3 10 29 30 31 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 تاریخ احمدیت.جلد 24 24 25 26 27 28 280 373 سال 1967ء اصحاب احمد جلد هشتم صفحه ۱۵ مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایاز محمود جلد اول صفحہ ۱۳۰.مرتبہ عبدالباری قیوم شاھد صاحب خطبہ نکاح ڈاکٹر محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۴۴ صفحه ۳.خطبات محمود جلد سوم صفحه ۵۹۷-۵۹۸ نا شر فضل عمر فاؤنڈیشن ربو طبع دوم تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ایاز محمود جلد ۲، ۶،۵ مولفه عبدالباری قیوم شاہد صاحب الفضل ۱۵ / ا پریل ۱۹۶۷ ء صفحه ۱، ۸.اصحاب احمد جلد ہشتم صفحه ۱۱۸ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے قادیان - ایاز محمود جلد سوم صفحه ۲۷-۲۸ مرتبه شیخ عبد الباری قیوم صاحب شاھد نومبر ۱۹۶۸ء حضرت ڈاکٹر صاحب کے مزید تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ہشتم.ایاز محمود جلد اول تاششم قلمی حالات غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبه تاریخ احمدیت ربوہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ رجسٹر روایات صحابہ جلد ۶ صفحه ۶۳ الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۶۷ صفحه ۸ حیات امین صفحه ۳۳ ۳۴۰ از قریشی عطاء الرحمن سیرت حضرت مسیح موعود صفحه ۱۷۳٬۱۷۲ار از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب حیات امین صفحه ۲۳ الفضل ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ صفحه ۴ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۶۳ ۶۴۰ الفضل ۲۲ را پریل ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۶۳ رپورٹ مجلس شوری ۱۹۶۶ ء صفحہ ۲۷۶ تاریخ احمدیت جلد نمبر ۱۹ صفحه ۱۸۴ الفضل ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ صفحه ۴ اخبار بدر قادیان ۸ جون ۱۹۶۷ ء صفحه ۹ اخبار بدر قادیان ۸ جون ۱۹۶۷ صفحه ۹ ، ایضا گلدستہ درویشان کے وہ پھول جو مُرجھا گئے.صفحہ ۵۳ مؤلفہ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی دسمبر ۱۹۷۶ء اخبار بدر قادیان ۲۷ / اپریل ۱۹۶۷، صفحہ ۲ ، الفضل امئی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۷ ریکارڈ بہشتی مقبرہ الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۷

Page 392

تاریخ احمدیت.جلد 24 47 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۸ ، صفحهیم البدر ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۳ الفضل، امئی ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل ۲۰،۱۹ مارچ ۱۹۶۸ء 374 لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۰۶ از شیخ عبد القادر سابق سوداگرمل 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 ریکارڈ بہشتی مقبرہ الحکم ۲۸ ستمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۲ خودنوشت سوانح حیات غیر مطبوعہ.ریکار ڈ شعبہ تاریخ احمدیت.الفضل ۱۳مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ خودنوشت سوانح غیر مطبوعہ صفحہ ، ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت، رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱ صفحه ۱۳۹ الفضل کے امئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱ ایضا اخبار الحام ۲۸ جولائی ۱۹۳۸ صفحه ۴ ۲۱ /اگست ۱۹۳۸ صفحه ۷ یہ واقعہ شروع ۱۹۰۷ ء کا ہے.ملاحظہ ہو الحکم، ارفروری ۱۹۰۷ ء صفحہ ۱۱ رجسٹر روایات نمبر ۱ صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۳، جلد نمبر ۱۴ صفحه ۴۰ تا ۵۰ خود نوشت سوانح غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت احمدیہ گزٹ قادیان ۲۶ جون ۱۹۲۷ صفحه ۱۳ ۱۴۶ سال 1967ء خود نوشت حالات (مسوده) ایضاً بشارات رحمانیہ جلد دوم صفحه ۲۴۳.۲۴۶ مولفه ابوظفر عبدالرحمن مبشر مولوی فاضل.ناشر مکتبہ ترجمتہ القرآن بطرز جدید بلاک نمبر ۶ ڈیرہ غازی خان طبع اول نومبر ۱۹۵۶ء جامع صحیح مسند بخاری پہلا پارہ ترجمه و شرح صفحه ۳۵ شائع کردہ نظارت تالیف تصنیف قادیان پارہ نمبر ۹ تا ۳۰ کے ترجمے کا مسودہ جماعت کی مرکزی لائبریری میں محفوظ کر دیا گیا جس کا اندراج لائبریری کے رجسٹر کتب ۱۹۵۴ء کے صفحہ ۲۱۷ پر موجود ہے.احمد یہ گزٹ قادیان جلد دوم نمبر ۲ مورخه ۱۱ جون ۱۹۲۷ء صفحه ۲ تاریخ احمدیت جلد سیزدهم صفحه ۱۲۰ خود نوشت سوانح حیات غیر مطبوعہ.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت خودنوشت سوانح غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت جامع صحیح مسند بخاری ترجمہ و شرح جز نہم ، دہم صفحہ ھ، ایڈیشن اول ا لعین اصحاب احمد صفحہ ۳۰۶ طبع سوم.ملک صلاح الدین صاحب 70 ریکارڈ بہشتی مقبره ربوه 71 الحکم ۱۷ جون ۱۹۰۲ صفحه ۳

Page 393

تاریخ احمدیت.جلد 24 72 73 74 75 76 77 78 8 79 80 81 82 83 84 86 889 85 87 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ رجسٹر روایات صحابہ جلد ۸ صفحه ۱۲۷ تا ۱۳۵ الفضل یکم ہم جولائی ۱۹۶۷ء روز نامہ الفضل ربوه ۵ جولائی ۱۹۶۷ ء صفحه ۵ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الحکم ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۶ 375 الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱۲ رجسٹر روایات صحابہ جلد ۸ صفحه ۱۳۶ تا ۱۴۶ الفضل ۱۸ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۶.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ الفضل ۶ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحہ.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل سے استمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۵ ، ۲۶ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۶ لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۶۲ ۲ تا ۲۶۶ الفضل ۷ استمبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۵ لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۶۶ سال 1967ء 88 الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۷، صفحہ تحریری بیان مکرم شکیل احمد قریشی صاحب نائب قائد مجلس اصلاح وارشاد انصاراللہ پاکستان صفحه احمدقریشی نائب قائد وارشاد 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ۱۲.رب ارمھما مرتبہ ڈاکٹر محمد احمد اشرف محمود احمد اشرف صفحہ ۱۰ ریکارڈ بہشتی مقبره الفضل یکم نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۸.ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ خطبات محمود جلد سوم صفحه ۴ ۲۸ تا ۲۸۸ غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت الحکم ۲۰ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۶ الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۶۷ صفحها الفضل ۸ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۶ ، کتاب تحریک جدید کے پانچزاری مجاہدین صفحہ ۲۱۹ الفضل یکم فروری ۱۹۶۸ صفحه ۵

Page 394

تاریخ احمدیت.جلد 24 99 376 مطبوعہ کتاب تحریک جدید کے پانچ بزاری مجاہدین صفحه ۲۰۲ 100 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 101 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۵.ریکارڈ بہشتی مقبرہ 102 رجسٹر روایات صحابہ جلدی صفحہ ۲۱۸ تا ۲۲۴ 103 الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۶۷ صفحه ۵ 104 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ، بد را ۲ دسمبر ۱۹۶۷ صفحہ۲ ، الفضل ۱۷جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ ۵ 105 اصحاب احمد جلد ہفتم صفحه ۲۲۴ 106 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ صفحه ۲۲۷ تا ۲۳۱ 107 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۳ صفحه ۲۳۳ 108 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تا ریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۴۳ ۵ تا صفحه ۵۴۵ طبع دوم 109 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۳ صفحه ۲۳۵ تا ۲۳۶ 110 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۳ صفحه ۲۳۹،۲۳۸ 111 سالانہ رپورٹ ۱۲.۱۹۱۱ء صفحہ ۱۱۳ 112 احمد یہ گزٹ قادیان ۲۶ /اگست ۱۹۲۶ء صفحه ۲ سال 1967ء 113 ماخوذ از مکتوب مؤرخہ ۲۱ جولائی ۱۹۹۱ء.ملک برکت اللہ صاحب ایڈووکیٹ 119.7DR کسووال ضلع ساہیوال، ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 114 ریکارڈ بہشتی مقبره ربوه 115 رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبر ۵ صفحه ۱۵۵-۱۵۷ 116 الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۵ 117 الفضل ۵ فروری ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ ، بشارات رحمانی طبع اوّل صفحہ ۱۴۸-۱۵۱ مولفہ مولوی عبد الرحمن مبشر مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۹ء قادیان - تاریخ احمدیت جموں و کشمیر صفحه ۵۲ ۱ تا صفحه ۱۵۹.مولفه قریشی محمد اسد اللہ صاحب مربی سلسلہ احمدیہ مطبوعه فروری ۱۹۷۳ء ضیاء الاسلام پریس ربوہ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحه ۱۸۱ 118 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۷، صفحه ۵ 119 مصباح ربوہ مئی ۱۹۶۷ صفحه ۳۳ ۳۴ ۳۵ و ستمبر ۱۹۶۷ صفحه ۳۹،۳۸ 120 الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ ء صفحہ ۷ 121 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ 122 الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ ، صفحه ۱ ، ۸ تاریخ احمدیت جلد سوم طبع اول صفحه ۴ ۴۸ 123 روز نامہ مشرق لاہور.ا ار اپریل ۱۹۶۷ء

Page 395

تاریخ احمدیت.جلد 24 377 124 خط بنام مورخ احمدیت از مکرم عبدالمومن محمود سابق قائد علاقه ونگران صوبه سرحد.125 الفضل ۲۶،۲۵، ۲۸ مرا پریل ۱۹۶۷ء، خالد ستمبر ۱۹۶۷ صفحه ۴ 126 مصباح ربوہ جولائی ۱۹۶۷ صفحه ۴۰ 127 مصباح ربوہ جولائی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۳۹ 128 خالد ر بوه اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۴۱ 129 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ 130 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۷۰ء صفحہ ۵ 131 بدر قادیان ۷۵ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۹ 132 بدر قادیان ۵/اکتوبر ۱۹۶۷، صفحه ۹ 133 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۸ 134 مطبوعہ فہرست تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحه ۴ ۳۸ 135 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 136 الفضل ربوه مورخه ۶ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۵ 137 خیبر میل پشاور ۱۵دسمبر ۱۹۶۷ء ، الفضل ۷ افروری ۱۹۶۸ء صفحه ۵، الفضل ۱۲ فروری ۱۹۹۰ء صفحه ۲-۴ 138 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۸ صفحریم 139 الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۸ سال 1967ء

Page 396

تاریخ احمدیت.جلد 24 378 سال 1967ء ۱۹۶۷ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب خدا تعالیٰ کے پاک وعدوں کے مطابق ۱۹۶۷ء بھی مسیح محمدی علیہ السلام کے مبارک خاندان میں اضافے کا موجب ثابت ہوا.اس سال بوستانِ احمد میں جو نئے پھول کھلے ان کے نام یہ ہیں.ا.نصرت جہاں نبیلہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ولادت ۲۳ جنوری ۱۹۶۷ء) ۲.مرزا بشیر احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب ( ولادت ۲۳ جنوری ۱۹۶۷ء).سعدیہ عصمت صاحبہ بنت صاحبزادہ مرز اشیم احمد صاحب ( ولادت ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء) مرز افضل احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ( ولادت ۵ فروری ۱۹۶۷ء) ۵- امتۃ الاعلیٰ صاحبہ بنت شاہد احمد خان صاحب پاشا ( ولادت ۱۸ مارچ ۱۹۶۷ء) ۶.سید عتیق احمد صاحب ابن سید امین احمد صاحب ( ولادت ۹ ستمبر ۱۹۶۷ء) ے.سیدہ عائشہ شمع صاحبہ بنت سید محمد احمد صاحب ( ولادت ۱۰ اکتوبر ۱۹۶۷ء) سید غلام احمد فرخ صاحب ابن سید میر محمود احمد صاحب ناصر ( ولادت ۱۳ را کتوبر ۱۹۶۷ء) ۹ - رملہ صاحبہ بنت مصطفی احمد خان صاحب ( ولادت ۲۸ نومبر ۱۹۶۷ء) احمدیوں کی شاندار کامیابیاں اور اعزازات اس سال بھی احمدی طلباء اور طالبات نے تعلیمی میدان میں شاندار کامیابیاں حاصل کیں اور انہیں مختلف تمغوں اور اعزازات سے نوازا گیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے کھیلوں کے میدان میں بھی انہیں اپنا اعزاز برقرار رکھنے کی توفیق ملی.جس کی تفصیل درج ذیل ہے.ا.جناب اقبال احمد صاحب بسمل ایم.اے اسلامیات سالِ اول کے امتحان میں کراچی یو نیورسٹی میں دوم رہے.اس کامیابی پر ان کو نقرئی تمغہ دیا گیا اور اپنے شعبہ معارف اسلامیہ کا بہترین پارلیمنٹیر مین قرار دیا گیا.

Page 397

تاریخ احمدیت.جلد 24 379 سال 1967ء ۲.انجینئر نگ یونیورسٹی لاہور کے کانووکیشن منعقدہ ۱۸ مئی ۱۹۶۷ء میں گورنر مغربی پاکستان جنرل محمد موسیٰ نے جن طلباء کو ڈگریاں عطا کیں ان میں دس احمدی طلباء بھی شامل تھے.ان دس احمدی طلباء میں سے طاہر احمد ملک صاحب ( حال امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع لاہور) نے چھ گولڈ میڈل اور ایک انعام حاصل کر کے یونیورسٹی میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا.وہ سول انجینئر نگ میں اوّل قرار پائے اور ایک مضمون میں انہوں نے خصوصی امتیاز حاصل کیا.اسی طرح کریم احمد صاحب طاہر نے مائننگ انجینئر نگ کے فائنل امتحان میں اول پوزیشن حاصل کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا.مزید بر آن ظفر احمد صاحب تالپور بھی مکینیکل انجینئر نگ میں طلائی تمغہ کے حقدار ٹھہرائے گئے اور انہوں نے ایک مضمون میں خصوصی امتیاز حاصل کیا.-۳- محمد داؤد طاہر (مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کے بیٹے ، حال ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر انکم ٹیکس ) طالب علم تعلیم الاسلام کالج ربوہ کو بی.اے کے عربی اور انگریزی کے پر چوں میں پنجاب یونیورسٹی میں اول آنے پر دو طلائی تمغوں ، اور گولڈ میڈل اور امرت لعل رائے گولڈ میڈل کا مستحق قرار دیا گیا.اس نمایاں کامیابی پر انہیں کالج کی طرف سے ایک نقرئی تمغہ دیا گیا.۴.محترمہ بشری ذہین صاحبہ بنت مرز انثار احمد صاحب فاروقی آف پشاور نے پشاور بورڈ کے میٹرک کے امتحان میں ۱۳ے نمبر حاصل کر کے جملہ طالبات میں اول پوزیشن حاصل کی.۵.جناب عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے (حال انچارج احمد یہ مشن انگلستان ) ابن مولانا ابوالعطاء صاحب کو فاضل عربی کے امتحان میں پنجاب بھر میں اول آنے پر بورڈ آف سیکنڈری ایجو کیشن لاہور کی طرف سے NATIONAL TALENT SCHOLAR ہونے کا طلائی تمغہ انعام ملا.۶.محترمہ امۃ الحکیم صاحبہ بنت چوہدری سلطان احمد طاہر صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ایم.ایس سی زوالوجی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا.اور یو نیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی.ے.سردار حفاظت احمد صاحب ابن حضرت سردار عبدالرحمن صاحب ( مہر سنگھ ) کو حسن کا کردگی کی بناء پر واپڈا کی طرف سے گولڈ میڈل دیا گیا.۲۴٬۲۳-۸ جنوری ۱۹۶۷ء کو ملتان میں منعقد ہونے والے دوسرے آل پاکستان انٹرسکول مباحثہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے انگریزی اور اردو دونوں مقابلوں میں بخاری رنگ شیلڈز

Page 398

تاریخ احمدیت.جلد 24 380 سال 1967ء جیت لیں.اردو مباحثہ میں بشیر طارق صاحب ابن قاری محمد امین صاحب محاسب اول اور لئیق احمد صاحب عابد ( حال وکیل صنعت و تجارت تحریک جدید) سوم جبکہ انگریزی مقابلہ میں حبیب اللہ صاحب احمدی سابق استاذ جامعہ احمدیہ ابن عنایت اللہ صاحب احمدی سابق مبلغ افریقہ اول اور وسیم احمد صاحب سوم قرار پائے.آل پاکستان مباحثات میں بیک وقت دونوں مباحثات میں ٹرافی جیتنے کا اعزاز سکول کی تاریخ میں پہلی بار حاصل ہوا.۹.سیکنڈری بورڈ کے تقریری مقابلہ منعقدہ ۱۰ فروری بمقام لاہور میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے طالب علم بشیر احمد صاحب طارق ابن قاری محمد امین صاحب محاسب صدرا انجمن احمدیہ نے ضلع جھنگ کی نمائندگی کرتے ہوئے دوسری پوزیشن حاصل کی اور ان کو ۷۵ روپے نقد انعام سے نوازا گیا.۱۰.ڈسٹرکٹ ہائی سکولز ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کی کرکٹ ٹیم ضلع بھر میں اوّل رہی.فائنل میں مخالف ٹیم صرف ۳۵ رنز بنا سکی.اسی ٹورنامنٹ میں سکول ہذا کی باسکٹ بال ٹیم بھی اول آئی.فائنل میں ایم.بی ہائی سکول کی ٹیم تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ۵۲ پوائنٹس کے مقابلہ میں صرف ۲ پوائنٹ بنا سکی.۱۱.بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن لاہور کے انٹر کالجیٹ روئنگ ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے اپنی چیمپیئن شپ برقرار رکھی.۷فروری سے ۱۱ فروری تک دریائے راوی پر منعقد ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ نے BUMPING کی دوڑ اوّل پوزیشن سے شروع کی اور پانچ روز متواتر اپنی پوزیشن برقرار رکھ کر اپنی برتری ثابت کر دی.ٹیم کے ارکان یہ تھے.چوہدری محمد نواز کاہلوں، چوہدری مظفر احمد ، عبدالرحمن، مسعود نیاز.۱۲.سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن کے تحت ہونے والے زونل باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیم نے پہلی پوزیشن حاصل کی.یہ اعزاز مسلسل ۱۹۵۳ء سے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پاس آ رہا تھا.دعوت الی اللہ کا ایک دلچسپ اور نادر طریق ہر طبقہ وعلاقہ کے مخلصین احمدیت قیام جماعت سے ہی دعوت الی اللہ کا فریضہ اب تک مختلف انداز واسلوب سے بجالا رہے ہیں، جن سے وہ لاکھوں سعید روحوں کو آفتاب صداقت سے منور کر چکے ہیں.جنوری ۱۹۶۷ء میں ایک احمدی مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب گلشن اقبال کراچی نے اس میں ایک

Page 399

تاریخ احمدیت.جلد 24 381 سال 1967ء دلچسپ ندرت پیدا کی اور تحریک آزادی کشمیر کے پیش نظر ایک کارڈ بنام کشمیر عید کارڈ شائع کیا.اس سے قبل انہوں نے یہ کارڈ پہلی بارا تو بر۱۹۵۲ء میں شائع کیا تھا.جس میں کشمیر کمیٹی کے پہلے صدر حضرت مصلح موعود کالا الہ الا اللہ کے متعلق پر شوکت شعری کلام جس کا پہلا اور آخری شعر اس طرح ہے ہے درددل کی دوالا الہ الا اللہ ہے دست قبلہ نما لا الہ الا اللہ ہزاروں بلکہ ہیں لاکھوں علاج روحانی مگر ہے روح شغالا الہ الا اللہ اور دوسرے صدر سر محمد اقبال کا لا الہ الا اللہ سے متعلق شعری کلام شائع کیا جو بالترتیب ۱۹۲۰ء اور ۱۹۳۲ء میں اشاعت پذیر ہوا اور جس کے اشعار ، مطلع اور مقطع سے ایک طرف حضرت مصلح موعود کے عارفانہ کلام کی برتری اور فوقیت ثابت ہوتی تھی تو دوسری طرف علامہ سر محمد اقبال کی مشکل پسندی اور فلسفیانہ موشگافی تو صاف عیاں تھی مگر کلمہ طیبہ کی اصل معجزانہ شان و شوکت کی طرف اشارہ تک نہیں ملتا تھا بلکہ اسے اپنی خود ساختہ ”خودی“ کا سرچشمہ بتلایا گیا تھا.مگر نظم میں دو شعر بے مثال تھے جس سے بالواسطہ طور پر حضرت مسیح موعود کی بروقت بعثت کا یقین ہوتا تھا اور مسلم دنیا کی زبوں حالی کا نقشہ کمال بلاغت سے کھینچا گیا تھاوہ شعر یہ تھے.یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں، لا الہ الا اللہ اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں مجھے ہے حکم اذاں، لا الہ الا اللہ دعوت الی اللہ کے اس نادر طریق پر حضرت مصلح موعود اور دوسرے اکابر بزرگوں نے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.ا.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ۲۵ /۱ اکتو بر۱۹۵۲ء کو فرمایا:.(الف) جزاکم اللہ احسن الجزاء.توازن نظموں کا بہت اچھا ہے.(ب) یہ دلچسپ کارڈ۱۹۵۷ء کی عید کے موقع پر دوبارہ ارسال خدمت کیا گیا تو حضور نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.جزاک اللہ آپ نے میری اور اقبال کی نظم اکٹھی چھپوا کر اور کشمیر کمیٹی اصل خط میں دفتر نے سب کشمیر کمیٹی لکھا جو سہو ہے.ناقل ) کا ذکر کر کے بہت عمدہ کام کیا ہے.14 ۲.۱۹۶۱ء میں یہ کارڈ حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں پہنچا تو آپ نے

Page 400

تاریخ احمدیت.جلد 24 382 سال 1967ء ۲۸ مئی ۱۹۶۱ء کا رقم فرمودہ حسب ذیل مکتوب ارسال فرمایا:." آپ کا عید کارڈ پہنچا.جزاکم اللہ خیراً.آپ کا عید کارڈ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کیونکہ آپ نے اس میں ایک دلچسپ ندرت پیدا کی ہے.“.(حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے بذریعہ پوسٹ کارڈ شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا:.میں ممنون ہوں کہ آپ نے عید کے موقع پر مجھے یا درکھا.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضل و کرم سے حقیقی خوشی نصیب فرمائے.“ ازاں بعد میجر صاحب نے کارڈ کا اضافی حصہ بھی بھجوا دیا جس پر حضرت صاحبزادہ صاحب کے دعائیہ ریمارکس یہ تھے:.”خدا کرے کہ اس طریق سے ہی کسی کو سمجھ آ جائے.“ (پوسٹ کارڈ ۱۹ جنوری ۱۹۶۷ء) ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی ملتان آمد جنوری ۱۹۶۷ء میں عید الفطر کے موقع پر مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب ملتان تشریف لے گئے باغ ہائی سکول کے ہال میں علامہ سید شبیر بخاری صاحب انسپکٹر مدارس ملتان کے زیر اہتمام ایک لیکچھ دیا.اس موقع پر آپ کے اعزاز میں ایک دعوت بھی دی گئی جس میں کمشنر ، ڈپٹی کمشنر ز ، اسسٹنٹ کمشنرز، ڈی آئی جی، سپرنٹنڈنٹ پولیس، مجسٹریٹوں ، مولوی نواب الدین صاحب وغیرہ بہت سے معززین شہر نے شرکت کی.پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کے نئے احمدی ممبرز اس سال پاکستان اکیڈمی آف سائنسز PAKISTAN ACADEMY OF SCIENCES نے چوہدری غلام اللہ خان صاحب (فارسٹ انٹو مولوجسٹ FOREST ENTOMOLOGIST ایبٹ آباد) کو اپنا فیلو فار لائف منتخب کیا.ہر سال زیادہ سے زیادہ پانچ ارکان شامل کئے جاتے تھے.اب تک یہ تعداد پینتیس اور چالیس کے گردگھوم رہی تھی.آپ سے پہلے اکیڈمی میں دو احمدی فیلوز پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اور قاضی محمد اسلم صاحب تھے.چوہدری غلام اللہ خان صاحب اس کے تیسرے احمدی ممبر نامزد ہوئے.

Page 401

تاریخ احمدیت.جلد 24 383 سال 1967ء را ولپنڈی ریجن کے ڈائریکٹر تعلیمات ربوہ میں پاکستان کے پرانے اور تجربہ کار ماہر تعلیم اور راولپنڈی ریجن کے ڈائریکٹر تعلیمات جناب پروفیسر خواجہ عبدالحمید صاحب ربوہ کے تعلیمی اداروں کے معائنے کی غرض سے ۵ فروری ۱۹۶۷ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے.اور جامعہ نصرت ، نصرت گرلز ہائی سکول تعلیم الاسلام کالج اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کا معائنہ کرنے کے بعد ان کو ملک بھر کے ممتاز اور منفر تعلیمی ادارے قرار دیا.انہوں نے مختلف تقاریر میں بار بار اس بات پر اظہار خوشنودی فرمایا کہ ربوہ کے تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور طلباء بڑے انہماک اور شغف سے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں.خواجہ صاحب نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اس اقدام کو خاص طور پر بہت سراہا کہ سکول میں میٹرک تک طلباء کو قرآن مجید با ترجمہ مکمل طور پر پڑھا دیا جاتا ہے.اور بعد ازاں نظارت تعلیم ان کا امتحان لے کر سندات عطا کرتی ہے.محترم ڈاکٹر صاحب کا تاثر تھا کہ دینی تعلیم کا جو شوق میں نے یہاں دیکھا ہے وہ مجھے کہیں نظر نہیں آیا اور میں اس دینی شغف کے لئے امام جماعت احمدیہ کو ہدیہ مبارک پیش کرتا ہوں.نواں گل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ ربوہ میں نواں کل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ مورخه ۱۹ تا ۲۱ فروری ۱۹۶۷ء یعنی تین روز جاری رہا.پاکستان ویسٹرن ریلوے، نصر برادرز لاہور، کے سی آرکلب کراچی، ہیلے کالج اولڈ بوائز کلب، ٹی آئی کلب اور دیگر مشہور ٹیموں کے علاوہ پاکستان ائیر فورس کی نامی گرامی ٹیم بھی ٹورنامنٹ میں شامل ہوئی.ٹورنامنٹ کا افتتاح گذشتہ سال کی چیمپئن ٹیم پاکستان ویسٹرن ریلویز کے کپتان جناب جاوید حسن صاحب نے کیا.مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب صدرٹی آئی کالج باسکٹ بال کلب نے تمام مہمان ٹیموں کو خوش آمدید کہا.ٹورنامنٹ کے پہلے دن مجموعی طور پر ۱۸ میچ کھیلے گئے.مورخہ ۲۱ فروری کی شام کو یہ ٹورنامنٹ جوشاندار روایات کی بنا پر ملک گیر شہرت حاصل کر چکا ہے اختتام پذیر ہوا.چیمپئن شپ کا خصوصی اعزاز پاکستان ائیر فورس نے حاصل کیا.

Page 402

تاریخ احمدیت.جلد 24 384 سال 1967ء ٹورنامنٹ کے انعقاد کے موقع پر محترم خان محمد علی خان وزیرتعلیم حکومت مغربی پاکستان محترم شیخ محمد حسین صاحب کمشنر سرگودھا ڈویژن اور دیگر معززین نے خصوصی پیغامات بھجوائے اور ٹورنامنٹ کی کامیابی کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا.جلسہ سالانہ مشرقی پاکستان 19 جماعت احمدیہ مشرقی پاکستان کا سینتالیسواں سالانہ جلسہ دار التبلیغ ہم بخشی بازار روڈ ڈھا کہ میں مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء کو شروع ہو کر ۲۶ فروری ۱۹۶۷ء کو بخیر و خوبی اور کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا.جلسہ کے انعقاد کے متعلق ڈھا کہ اور چٹا گانگ کے تمام اخبارات نے خبر شائع کی.یہ اخبارات جلسہ کے دوران اور بعد میں بھی جلسہ کی روداد شائع کرتے رہے.ساٹھ سے زیادہ احمدی جماعتوں کے تقریباً ایک ہزار احمدی احباب جلسہ میں شریک ہوئے.مرکز کی طرف سے (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور مکرم مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب جلسہ میں شامل ہوئے.یہ سہ روزہ جلسہ کل سات اجلاسات پر مشتمل تھا.جس میں ۲۴ اہم دینی موضوعات پر مدلل و مؤثر تقاریر ہوئیں.مخالفین احمدیت نے جلسہ کے انعقاد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی بہت کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے.اس موقعہ پر دس نئی بیعتیں ہوئیں.مورخه ۲۴ فروری کو اجلاس اوّل محترم مولوی محمد صاحب بی.اے صوبائی امیر مشرقی پاکستان کی زیر صدارت شروع ہوا.تلاوت اور نظموں کے بعد جلسہ کمیٹی کے صدر جناب محمد شمس الرحمان صاحب بارایٹ لاء نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے حاضرین کو خوش آمدید کہا.اس کے بعد صدر جلسہ نے افتتاحی تقریر کی.افتتاحی خطاب کے بعد محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے ”مسئلہ خلافت کے موضوع پر روشنی ڈالی.آپ کے بعد (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ابن مریم کے موضوع پر تقریر کی.آپ نے قرآن و حدیث کی رُو سے حضرت مسیح ابن مریم کا وفات یافتہ ہونا ثابت کیا.اس کے بعد اسلام کے اقتصادی نظام کے موضوع پر مکرم مستفیض الرحمان صاحب ایم.اے نے تقریر کی.اس کے بعد محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری نے تقریر کی.آپ کی تقریر کا موضوع تھا ”موجودہ دنیا میں مذہب کی ضرورت“.

Page 403

تاریخ احمدیت.جلد 24 385 سال 1967ء اجلاس دوم بعد نماز مغرب و عشاء شروع ہوا.صدارت کے فرائض مکرم بدرالدین صاحب پبلک پراسیکیوٹر رنگپور نے سرانجام دیئے.اس اجلاس میں جن بزرگان سلسلہ کی تقاریر ہوئیں ان میں مکرم مولوی محمد صاحب صوبائی امیر مشرقی پاکستان، مکرم شیخ محمود الحسن صاحب سی ایس پی ممبر بورڈ آف ریونیوحکومت مشرقی پاکستان شامل تھے.دوسرے دن جلسہ کی کارروائی سے قبل مجلس شوری کا اہم اجلاس ہوا.جس کی صدارت پراونشل امیر صاحب نے کی.اجلاس میں تمام جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ مربیان سلسلہ اور معلمین وقف جدید شامل ہوئے.اسی دوران خواتین کا علیحدہ اجلاس منعقد ہوا جو نو بجے سے گیارہ بجے تک جاری رہا.خواتین کے پروگرام کے علاوہ مکرم مولانا ابو العطاء صاحب اور مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل نے بھی اس اجلاس میں تقاریر کیں.ان بزرگان سلسلہ کی تقاریر کا بنگلہ ترجمہ مکرم مولانا احمد صادق صاحب محمود مربی سلسلہ نے کیا.بعد دو پہر پروگرام میں مکرم شیخ مبارک احمد صاحب اور مکرم مولانا سید اعجاز احمد صاحب مربی سلسلہ اور مکرم مولا نا ابو العطاء صاحب نے تقاریر کیں.بعد نماز مغرب صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی زیر صدارت ایک اہم تربیتی میٹنگ ہوئی.اس کے بعد اہم جماعتی مقامات، تقاریب اور بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات کے متعلق مختلف سلائڈز اور فلمیں دکھائی گئیں.جن سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے.مورخه ۲۶ فروری یعنی تیسرے دن کے پہلے اجلاس کی صدارت محترم صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بارایٹ لاء نے کی.اس اجلاس میں محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے وقف جدید کی اہمیت کے موضوع پر خطاب فرمایا.آپ کی تقریر کے بعد محترم مولانا ابو العطاء صاحب، مکرم مولوی فاروق احمد صاحب مربی سلسلہ اور مکرم بدرالدین صاحب وکیل آف رنگپور نے تقاریر کیں.آخری اجلاس ۲۶ فروری ۱۹۶۷ء بروز اتوار ڈھائی بجے بعد دو پہر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی زیر صدارت شروع ہوا.اس اجلاس کے مقررین حضرات میں سے مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مکرم مولانا ابو العطاء صاحب، مکرم مقبول احمد صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشن حکومت مشرقی پاکستان ، مکرم محمد مصطفی اعلی صاحب (چیف ٹیکنیکل آفیسرا ایگریکلچرل انفارمیشن سروس ) شامل تھے.

Page 404

تاریخ احمدیت.جلد 24 386 سال 1967ء اس اجلاس میں حضرت مصلح موعود کا ایک پیغام ( ریکارڈنگ مشین پر ریکارڈ شدہ ) سنایا گیا.اس کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی آواز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ٹیپ شده اقتباسات مائیک پر حاضرین کو سنائے گئے.اور آخر میں محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اختتامی خطاب فرمایا.جس کے بعد یہ مبارک جلسہ اپنے اختتام کو پہنچا.جماعت احمد یہ جتند رنگر ( سندر بن ) کا پہلا جلسہ سالانہ 20 جماعت احمدیہ جتندر نگر (سندر بن ) مشرقی پاکستان کا پہلا جلسہ سالانہ ۶ ، ۷ مارچ ۱۹۶۷ء کو منعقد ہوا.یہ جماعت ڈھاکہ سے دریا کے راستے تقریباً ساڑھے تین سو میل کے فاصلہ پر سندر بن سے ملحقہ علاقہ میں واقعہ ہے.یہ جماعت اس وقت ساڑھے پانچ صد نفوس پر مشتمل ہے.جلسہ کی حاضری پانچ ہزار تھی.جن میں زیادہ تر ہندو د دوست شامل تھے.اس دوروزہ سالانہ جلسہ میں دو اجلاس عام سوال وجواب کی صورت میں تین خصوصی اجلاس اور ایک تربیتی اجلاس منعقد ہوا.حضرت مولانا ابو العطاء جالندھری صاحب بطور مرکزی نمائندہ اس جلسہ میں شامل ہوئے.مشرقی پاکستان کے جو احباب اس جلسہ میں شامل ہوئے ان کے نام درج ذیل ہیں.مکرم مولا نا محمد صاحب صوبائی امیر ، مکرم چوہدری احمد توفیق صاحب سابق ریجنل قائد مجلس خدام الاحمدیہ مشرقی پاکستان، مکرم چوہدری محمد شریف صاحب ڈھلوں آف شیخو پورہ حال سلہٹ، مکرم عبدالستار صاحب اور مکرم احمد صادق محمود صاحب مربی سلسلہ مقیم ڈھا کہ.علاوہ ازیں جسور سے مکرم میجر ملک عبد الرحمان صاحب آف دوالمیال مع اہل خانہ شامل جلسہ ہوئے.مرکزی نمائندہ کے علاوہ مکرم مولانا محمد صاحب ، کرم احمد صادق محمود صاحب مربی سلسلہ اور مکرم چوہدری احمد توفیق صاحب نے اس جلسہ میں تقاریر کیں.حکومت پاکستان کے چیف پارلیمنٹری سیکرٹری ربوہ میں حکومت پاکستان کے چیف پارلیمینٹری سیکرٹری اور چیف وہپ اور آل پاکستان کونسل آف تزئین القرآن کے صدر جناب الحاج عبد اللہ ظہیر الدین لال میاں مع اپنی بیگم صاحبہ مورخہ سے مارچ ۱۹۶۷ء کو ربوہ تشریف لائے.آپ نے یہاں امام جماعت احمد یہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے ملاقات

Page 405

تاریخ احمدیت.جلد 24 387 سال 1967ء کرنے کے علاوہ صدرانجمن احمدیہ، تحریک جدید، فضل عمر فاؤنڈیشن اور وقف جدید نیز جماعت کی ذیلی تنظیموں کے دفاتر میں تشریف لے جا کر ان کے طریق کار، کارکردگی اور خاص طور پر بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کے نظام اور مختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اور اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے کام سے تعارف حاصل کیا.آپ جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام کالج اور تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بھی تشریف لے گئے اور وہاں بالخصوص قرآن کریم اور دینی تعلیم کے انتظام کے متعلق معلومات حاصل کیں.مزید برآں آپ نے ادارۃ المصنفین ، خلافت لائبریری اور فضل عمر ہسپتال کا بھی معائنہ کیا.اور دفاتر اور تعلیمی اداروں کا معائنہ فرمانے کے علاوہ آپ زیر تعمیر مسجد اقصیٰ میں بھی تشریف لے گئے.اور عمارت کا نقشہ اور تعمیر کے کام کو دیکھا.آپ ۸ مارچ کو دس بجے ربوہ سے واپس تشریف لے گئے.اس دورہ کے محرک مولوی محمد شفیع صاحب اشرف مربی سلسلہ تھے.جو جناب لال میاں صاحب کے ساتھ اسلام آباد سے ربوہ تشریف لائے تھے.ارکان آل پاکستان طبی بورڈ کی ربوہ تشریف آوری یونانی آیورویدک طریق علاج کے آل پاکستان طبی بورڈ کے تین ارکان جناب حکیم شرف الحق صاحب نیودہلی دواخانہ راولپنڈی، جناب حکیم عبدالمالک صاحب مجاہد آف تخت بائی مردان اور جناب وید محمد اجمل صاحب آف لاہور، جھنگ اور میانوالی کے بعض اطباء کی معیت میں مورخہ، امارچ ۱۹۶۷ء کو چنیوٹ سے ربوہ تشریف لائے.یہ تینوں حکماء بورڈ کے اس گروپ میں شامل تھے جس نے اطباء کی رجسٹریشن کے سلسلہ میں لائل پور (فیصل آباد ) ، جھنگ ، اور سرگودھا کا دورہ کر کے اطباء کے انٹرویو لئے.ربوہ میں آل پاکستان احمد یہ بی ایسوسی ایشن کے صدر جناب حکیم خورشید احمد صاحب شاد، جنرل سیکرٹری حکیم محمد اسلم صاحب فاروقی اور ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیداروں نے آپ کا استقبال کیا.ربوہ پہنچنے کے بعد ہر سہ نامور طبیبوں نے ربوہ کے یونانی دواخانے دیکھنے کے علاوہ فضل عمر ہسپتال بھی دیکھا.وہ ربوہ کے تعلیمی اداروں میں بھی تشریف لے گئے.خاص طور پر جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلباء سے انہوں نے بہت دلچسپی کے ساتھ باتیں کیں.مزید برآں

Page 406

تاریخ احمدیت.جلد 24 388 سال 1967ء انہوں نے تعلیم الاسلام کالج کے نیو کیمپس میں زیر تعمیر عمارت اور جامع مسجد کی زیر تعمیر عمارت بھی دیکھی.نماز عصر کے بعد طبی ایسوسی ایشن نے اطبائے کرام کے اعزاز میں عصرانہ ترتیب دیا.اس کے بعد وہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث سے ملاقات کرنے کے بعد چنیوٹ واپس تشریف لے گئے.تعلیم الاسلام کالج کا جلسہ تقسیم اسناد و انعامات ۲۱ مارچ ۱۹۶۷ء کو تعلیم الاسلام کالج میں نہایت سادہ و پُر وقار طریق پر تقسیم اسناد وانعامات کی تقریب عمل میں آئی.مہمان خصوصی محترم پروفیسر نامدار خان صاحب مشیر تعلیم حکومت مغربی پاکستان تھے.پروفیسر نامدار خان صاحب نے اپنے خطاب میں کالج کی تعلیمی مساعی اور اس کی ترقی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امر پر مسرت اور اطمینان کا اظہار کیا کہ کالج میں بعض تدریسی مضامین مثلاً فزکس، کیمسٹری اور ریاضی پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے.جو قومی نقطہ نگاہ سے بہت ضروری ہے.نیز آپ نے اپنے خطاب میں تعلیم الاسلام کالج کا ذکر کرتے ہوئے کالج کے اساتذہ کی تندہی ، جانفشانی اور فرض شناسی کو بہت قابل تحسین و ستائش قرار دیا.نیز کہا کہ آپ کی یہ عظیم درسگاہ اس ضمن میں منفرد اور دوسروں کے لئے مشعل راہ ہے.آپ رنگ ونسل اور مذہب کی تفریق سے بالا ہو کر جس طرح علم کی ترویج میں کوشاں ہیں وہ قابلِ تو ہے.اس کے لئے میں آپ کو اور انتظامیہ کو اور حضرت امام جماعت احمدیہ کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں.یہ امر بھی میرے لئے بے حد مسرت کا باعث ہوا ہے کہ آپ کے طلباء نظم وضبط کے اعلیٰ معیار قائم کر رہے ہیں.نظم وضبط ہی اعلی تعلیم کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے.جس کے بغیر حصول علم ناممکن ہے.تحسین جامعہ نصرت ربوہ میں شاندار تقریب مورخہ ۴ را پریل ۱۹۶۷ء کو جامعہ نصرت ربوہ کا پانچواں جلسہ تقسیم اسناد و انعامات منعقد ہوا.خطبہ اسناد محترمہ بیگم صدیقی صاحبہ پی.ایچ.ڈی (شکا گو) پرنسپل ہوم اکنامکس کالج پشاور نے پڑھا.یہ تقریب ہر لحاظ سے کامیاب اور علمی لحاظ سے دلچسپ رہی.مدرسہ احمدیہ قادیان کا جلسہ تقسیم انعامات مورخه ۵/اپریل ۱۹۶۷ء کو نو بجے صبح مدرسہ احمدیہ قادیان کا جلسہ تقسیم انعامات منعقد ہوا.محتر.

Page 407

تاریخ احمدیت.جلد 24 389 سال 1967ء صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جلسہ کی صدارت فرمائی اور سالانہ امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کر کے کامیاب ہونے والے طلباء کو اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے اور آخر میں ایک پر لطف اور ولولہ انگیز خطاب فرمایا.اس مبارک تقریب پر مدرسہ احمدیہ کی طرف سے ناظر صاحبان و ممبران صدر انجمن احمدیہ، افسران صیغہ جات کے ساتھ ساتھ مدرسہ میں زیر تعلیم طلباء کے والدین اور سر پرستوں اور دیگر مقامی بزرگان کو بطور خاص مدعو کیا گیا تھا.یہ تقریب مدرسہ احمدیہ کے صحن میں منعقد ہوئی.بھارتی احمد یوں کی دینی سرگرمیاں ا.دکن میں جن قدیم بزرگوں نے اسلام کا نور پھیلایا، ان میں حضرت سید محمدالحسینی الملقب بہ بندہ نواز گیسو دراز ( ولادت ۱۳۲۱ء.وفات ۱۴۲۲ء) کو ایک بلند مقام حاصل ہے.آپ کا مزارِ مبارک حیدر آباد دکن کے شہر گلبرگہ میں واقع ہے.جہاں ۱۵ ذیقعدہ سے آپ کا عرس شروع ہوتا ہے.جس میں ہزار ہا عقیدت مند شامل ہوتے ہیں.حیدر آباد دکن سے پیشل ٹرین بھی چلائی جاتی ہے.اس سال یہ عُرس ۲۶ فروری ۱۹۶۷ء کو شروع ہوا.اس اجتماع سے فائدہ اٹھانے کے لئے جماعت احمد یہ یاد گیر نے ایک شاندار تبلیغی سال قائم کیا.اور اس میں بڑی کثرت سے جماعتی لٹریچر تقسیم کیا گیا.جس کے نتیجے میں نہایت مؤثر انداز میں ہزاروں نفوس تک احمدیت کی آواز پہنچی.۳ مارچ کی شام کو سید شاه محمدحسینی صاحب سجادہ نشین درگاه بنده نو از کواحد یہ بک سٹال میں چائے کی دعوت دی گئی.موصوف دعوت قبول کرتے ہوئے احمد یہ بک سٹال پر تشریف لائے.اس موقعہ پر موصوف کی خدمت میں مقامی مبلغ مولوی فیض احمد صاحب نے قرآن کریم انگریزی تحفہ پیش کیا.عین اُس وقت نشری پروگرام میں یہ نشر ہو رہا تھا کہ حضرت سجادہ نشین صاحب قبلہ احمد یہ بک سٹال میں تشریف فرما ہیں.اور جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن کریم انگریزی اورلٹریچر کا تحفہ پیش کیا جارہا ہے.صاحب موصوف کو جماعت کا تعارف کرایا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا فوٹو بلا کر یہ بات بتلائی گئی کہ یہ قرآن کریم انگر یزی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نگرانی میں شائع ہوا ہے.فوٹو دیکھنے کے بعد سجادہ نشین صاحب نے دریافت فرمایا کہ یہی ہیں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب؟ اس پر ہم نے بتایا کہ یہی ہیں اور ان کا انتقال پچھلے سال ہوا ہے.

Page 408

تاریخ احمدیت.جلد 24 390 سال 1967ء انتقال کا لفظ سنتے ہی سجادہ نشین صاحب نے انا للہ پڑھا اور دعائے مغفرت مانگی.موصوف کافی دیر تک اسٹال میں تشریف فرمار ہے.اسٹال کے باہر عقیدت مندوں کا ہجوم سجادہ نشین صاحب کے احترام میں کھڑا انتظار کر رہا تھا.29 ۲.۳۱ مارچ ۱۹۶۷ء کو بمبئی میں ۲۹ سوٹرز سٹریٹ کے خوشنما ہال میں ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز کا ایک جلسہ منعقد ہوا.جس میں مولوی سمیع اللہ صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی نے وحی والہام کے موضوع پر ایک کامیاب تقریر کی.یہ ایسی مدلل تقریر تھی کہ دوران جلسہ کسی عیسائی دوست کو اس کے کسی پہلو کی تردید کرنے کی جرات نہ ہوئی.البتہ جماعت اسلامی مہاراشٹر اسٹیٹ کے امیر جناب شمس صاحب پیرزادہ نے اس موقع پر اعتراض کرتے ہوئے یہ بے محل اور بے موقع بات کہی کہ خُدا جسے پیار کرتا ہے اس سے بولنا چھوڑ دیتا ہے.انہوں نے ختم نبوت کا مسئلہ بھی چھیڑا.مگر اس پر خود دوسرے مسلمانوں نے انہیں ملامت کی..اس سال نظارت دعوة التبلیغ قادیان کی طرف سے مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی کو دتی کے سفارتخانوں کے لئے جماعت کا خصوصی لٹریچر بھجوایا گیا.جسے آپ نے ایک خاص پروگرام کے تحت سید سعد برکات مسلم بی.اے (ابن سید برکات احمد صاحب دہلوی) کے تعاون سے ۲ مئی سے ۱۲ مئی تک خاص اہتمام کے ساتھ پہنچا دیا.آپ نے جماعتی تعارف کے سلسلہ میں انگریزی زبان میں ایک چٹھی ٹائپ کروائی جو لٹریچر سے قبل پیش کر دی جاتی تھی.اور اس کے بعد زبانی گفتگو کا سلسلہ بھی جاری ہوتا تھا.اور اس طرح جماعت کا تعارف ایک وسیع سفارتی حلقے میں ہوا.سید سعد برکات مسلم کو انگریزی زبان میں لکھنے اور بولنے کی اچھی مہارت تھی.اور انہوں نے اس مہم میں نہایت اخلاص کے ساتھ قابل قدر مدد کی.جن سفارتخانوں میں جماعتی لٹریچر پہنچایا گیا.اس کا تاریخ وار گوشوارہ حسب ذیل ہے.(۲ مئی ۱۹۶۷ء) رومانیہ متحدہ عرب جمہوریہ مصر اور شام ) ، برٹش کونسل ، ملیشیاء (۳ مئی ۱۹۶۷ ء) سیلون ، انڈونیشیا، یوگوسلاویہ، ویسٹ جرمنی، برما (۴ مئی ۱۹۶۷ء) نیپال، فلپائن، نائیجیریا، چائنا، چلتی ، کیوبا (4 مئی ۱۹۶۷ء) کونسیا.چیکوسلواکیہ ، فرانس ، ایران ، رشیا ( ۸ مئی ۱۹۶۷ء) منگولیا، الجیریا، سوڈان،گھانا، بلگریا

Page 409

تاریخ احمدیت.جلد 24 391 سال 1967ء ومئی ۱۹۶۷ء) افغانستان، کیوبا، ڈنمارک، ہنگری، روس (۱۰مئی ۱۹۶۷ء) عراق ، کویت ،سعودی عرب، تنزانیہ، یوگنڈا (۱ امئی ۱۹۶۷ ء ) لبنان ، ترکی ، ویت نام، جارڈن، چین 30 (۱۲مئی ۱۹۶۷ء) پولینڈ ، مراکو، جاپان، امریکہ، کوریا ۴.دکن کے ضلع رائی چور میں حضرت شمس عالم حسینی سرکار کا عرس حسب دستور اس سال مورخه ۱۶،۱۵صفر ۱۳۸۷ھ مطابق ۲۶، ۲۷ مئی ۱۹۶۷ء کو ہوا.یہاں بھی جماعت احمد یہ یاد گیر کے زیر اہتمام مولوی فیض احمد صاحب مبلغ مقامی کی نگرانی میں تبلیغی بکسٹال لگایا گیا اور خاصی تعداد میں تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کی گئی.بعض احباب سے تبادلہ خیالات بھی ہوا اور انہیں مناسب رنگ میں جوابات 31 دیئے گئے.۵.اس سال ۳۱ جولائی سے ۱۰ را کتوبر تک ایک مرکزی وفد نے وادی کشمیر کا تبلیغی دورہ کیا جومندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھا.(۱) مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی (۲) مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ بمبئی (۳) مولوی عبدالحق صاحب فضل مبلغ بہار (۴) مولوی کریم الدین صاحب مدرسه احمدیہ (۵) مولوی بشیر احمد صاحب خادم وفد کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ۳۲ /افراد داخل احمدیت ہوئے.گیارھویں آل کیرالہ احمدیہ کا نفرنس کا کامیاب انعقاد جماعت احمدیہ صوبہ کیرالہ کی گیارھویں سالانہ کانفرنس نہایت شاندار پیمانه پر مورخه ۲۲ ۲۳۰ / اپریل ۱۹۶۷ء بمقام ٹیلی چری مقامی ٹاؤن ہال میں منعقد کی گئی.کانفرنس میں شمولیت اور تقریر کے لئے خاص طور پر کلکتہ سے مکرم مولا نا شریف احمد امینی صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن صوبہ بنگال اور حیدر آباد سے مکرم مولوی محمد عمر صاحب کو مدعو کیا گیا تھا.کانفرنس سے دوروز قبل یعنی ۲۰ اور ۲۱ اپریل کو ٹیلی چری میں نہایت وسیع پیمانے پر تبلیغی مہم بھی جاری کی گئی.دو دن میں تقریبا ساڑھے تین سو روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں.اس مہم میں مختلف جماعتوں کے ۷۰ کے قریب اطفال، خدام اور انصار نے شرکت کی.کانفرنس کے انعقاد کی رپورٹ صوبہ کیرالہ کے مشہور اخبار ماتر و بھومی نے شائع کی.یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ پچھلے سال کی نسبت امسال حاضر ہونے والے احمدی احباب کی تعداد میں ایک سو بیس افراد کا اضافہ تھا.

Page 410

تاریخ احمدیت.جلد 24 392 سال 1967ء ایک سرکاری محکمے کا عدم تعاون 66 جناب عارف زمان ناظر امور خارجہ نے اپنی سالانہ رپورٹ ۶۷.۱۹۶۶ء میں یہ انکشاف کیا کہ:.ربوہ کے ڈاکخانہ کے عدم تعاون کے قصے حسب دستور جاری ہیں.باوجود اس کے کہ خاکسار P.M.G کے دفتر میں ان کے متعلقہ ڈائریکٹر سے ملتا رہا ہے اور وہ ہر معاملہ میں زبانی تعاون کرتے رہے ہیں.اور بعض معاملات میں عملی طور پر تعاون کرتے دکھائی دیئے ہیں.گو نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلا.اس سلسلے میں ایک جدیدترین واقعہ خالی از دیچیپسی نہ ہوگا.مکرم پوسٹ ماسٹر صاحب ربوہ ے تحریر فرمایا کہ اسے تارجن پر پتے خلیفہ مسیح ربوہ ہودہ تار پوسٹ ماسٹر DELIVER نہیں کریں گے.جب تک کہ یہ پتہ خلیفہ اسیح “ رجسٹرڈ نہ کرایا جائے.چونکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حکومت سے تعاون کریں.اس لئے یہ نام رجسٹر کروانے کے لئے درخواست دے دی.اس پر مکرم پوسٹ ماسٹر صاحب نے تحریر فرمایا کہ یہ نام رجسٹر ڈ نہیں ہوسکتا.اس لئے کہ اس میں دس سے زیادہ حروف ہیں.اس پر پوسٹ ماسٹر صاحب نے مزید ہدایات جاری کیں کہ بجائے خلیفہ اسیح “ کے کوئی اور مختلف لفظ رجسٹرڈ کروالیا جائے.جو دس حروف سے کم ہو.اس پر خاکسار DEPUTY P.M.G متعلقہ سے ملا اور ان کو تحریر درخواست بھی دی کہ ایسا کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ خلیفہ مسیح “ کے علاوہ کوئی اور نام دیا جائے.انہوں نے خاکسار کے دلائل تعلیم کئے.معاملہ کی تفتیش کے لئے احکام جاری کئے اور خاکسار کو یقین دلایا کہ خلیفہ اسیح “ بے شک لکھا جائے.آئندہ ڈاکخانہ والوں کو کوئی اعتراض نہ ہوگا.چند ماہ ڈاکخانہ والوں نے کوئی اعتراض نہ کیا مگر اب پھر اعتراض کرنا شروع کر دیا ہے.اور آئے دن نوٹس جاری کرتے رہتے ہیں کہ خلیفہ سیح کے پتہ جو تار یا خط آئیں گے وہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو DELIVER نہیں کئے 66 34 66 جائیں گے.“ ربوہ میں مجلس تلقین عمل حضرت خلیفة المسیح الثالث کی منظوری سے حضور کے سفر یورپ کے دوران مسجد مبارک ربوہ میں بعد نماز مغرب ایک مجلس تلقین عمل کا قیام عمل میں آیا.جس کے زیر انتظام روزانہ پندرہ منٹ کی ایک تربیتی تقریر ہوا کرتی تھی.اس پروگرام کا آغاز ے جولائی سے ہوا اور نہایت دلچسپی اور اضافہ علم کا

Page 411

تاریخ احمدیت.جلد 24 393 سال 1967ء موجب ہوا.اس مجلس میں حسب ذیل اصحاب کی تقاریر ہوئیں.مولا نا دوست محمد شاہد صاحب ، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری ناظر اصلاح وارشاد، مولوی نور محمد نسیم سیفی صاحب، مولوی قمر الدین صاحب فاضل،صوفی غلام محمد صاحب، مولانا ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا، میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر بیت المال، مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب، ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ، حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید، پروفیسر سعود احمد خان صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب،مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل،صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولانا نذیر احمد صاحب مبشر ، چوہدری صلاح الدین صاحب مشیر قانونی، چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ناظر زراعت، گیانی واحد حسین صاحب، میاں محمد ابراہیم صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ،مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری ، سید عبدالحئی صاحب، پروفیسر نصیر احمد خان صاحب، مولوی غلام باری صاحب سیف، صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، ملک حبیب الرحمن صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی انسپکٹر آف سکولز سرگودھا ڈویژن.سید محی الدین صاحب ایڈووکیٹ رانچی کی باعزت برینت 36.رانچی ہندوستان کے صوبہ بہار کا ایک صحت افزاء مقام ہے.جہاں ۱۹۶۷ء کے وسط ستمبر میں ہولناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ، مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو اور اموال و املاک نہایت بے دردی سے تباہ کر دیئے گئے.اس موقعے پر صوبہ بہار کے ممتاز احمدی ایڈووکیٹ سید محی الدین صاحب، جو ہمیشہ ہی ہر تکلیف ، پریشانی اور مشکل کے وقت مسلمانوں کی مدد کے لئے سرگرم عمل رہتے تھے اور اسلامی خدمات بجالانے والے مسلمانوں میں ہمیشہ صف اول میں رہتے تھے، اس موقعے پر بھی میدانِ عمل میں آگئے اور اپنے اخبار THE SENTINEL میں ان فسادات کے پس منظر کو مفصل طور پر پیش کیا.اصل حقائق کے منظر عام پر آجانے کی وجہ سے مقامی حکام نے حق گوئی کو پسند کرنے کی بجائے انہیں گرفتار کر لیا.ان کی گرفتاری کی اطلاع جب مرکز سلسلہ احمدیہ قادیان پہنچی تو مرکز کی طرف سے پرائم منسٹرو ہوم منسٹر گورنمنٹ آف انڈیا اور چیف منسٹرو ہوم منسٹر، آئی جی پولیس صوبہ بہار کو ان کی رہائی کے سلسلہ میں تاریں دی گئیں.

Page 412

تاریخ احمدیت.جلد 24 394 سال 1967ء اور جماعت احمدیہ کے بنیادی عقائد کو پیش کرتے ہوئے تفصیلی چٹھیاں لکھی گئیں.مورخہ ۲۲ ستمبر ۱۹۶۷ء کو پرائم منسٹر کی طرف سے چٹھی ملی کہ اس بارہ میں مؤثر کا روائی عمل میں لائی جارہی ہے.اس سلسلہ میں مرکز کی طرف سے مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ کلکتہ کو بھی ہدایت بھجوائی گئی کہ وہ کسی دوست کے ہمراہ رانچی پہنچیں اور مقامی دوستوں کے ہمراہ رانچی و پٹنہ میں سید صاحب موصوف کی رہائی کی کوششیں کریں.اور اگر اس میں ہائی کورٹ کی طرف بھی رجوع کرنا پڑے تو کارروائی کریں.چنانچہ ۲۴ ستمبر کو دو بجے رات گورنمنٹ صوبہ بہار کا وائرلیس رانچی کے حکام کے نام پہنچا کہ گورنمنٹ ایس.ایم احمد کی نظر بندی کو نامنظور کرتی ہے اور انہیں عزت کے ساتھ رہا کرتی ہے.چنانچہ مورخہ ۲۵ ستمبر کو چھ بجے صبح وکیل صاحب موصوف کو نظر بندی سے آزاد کر دیا گیا.جیل کے جملہ حکام وکیل صاحب کو جیل کے بڑے گیٹ سے باہر کا رتک الوداع کرنے کے لئے آئے.الحمد للہ ان کی بریت کی خبر ملتے ہی شہر بھر کے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان جوق در جوق آکر خوش آمدید و مبارکباد دیتے رہے.ان کی والہانہ مسرت قابلِ دید تھی.37 صدر مملکت اور گورنر مغربی پاکستان کی بشیر ماڈل فارم شیخو پورہ میں آمد صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں اور گورنر مغربی پاکستان جناب محمد موسیٰ ہمراہ صوبائی وزیر زراعت ملک خدا بخش صاحب، چیف سیکرٹری اور کمشنر و دیگر افسرانِ اعلیٰ مورخه ۹ /اکتوبر ۱۹۶۷ء کو بشیر ماڈل فارم کچی کوٹھی مانانوالہ ضلع شیخو پورہ میں مکئی کی فصل ملاحظہ فرمانے کے لئے تشریف لائے.فارم کے مالک چوہدری بشیر احمد صاحب تھے جو ان دنوں زراعت کی ٹریننگ کے لئے امریکہ گئے ہوئے تھے ان کے والد مکرم چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ (امیر جماعت ضلع شیخو پورہ) نے مہمانوں کا استقبال کیا اور فارم میں کاشت کی گئی فصلوں کی تفصیل اور فی ایکٹر پیداوار کی تفصیل بتائی.نیز بتایا کہ فارم کے منتظم بشیر احمد بی اے ایل ایل بی ہیں جنہوں نے وکالت کا پیشہ نظر انداز کر کے زراعت کا کام شروع کیا.جس پر صدر مملکت نے فارم کی طرف اشارہ کر کے کہا.”وکالت کیا چیز 66 ہے یہ تو ریاست ہے.تو 38 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی چیمپین شپ سیکنڈری بورڈ آف ایجو کیشن کے تحت ہونے والا زونل باسکٹ بال ٹورنامنٹ مورخہ ۲۷،

Page 413

تاریخ احمدیت.جلد 24 395 سال 1967ء ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو ربوہ میں منعقد ہوا.اس ٹورنامنٹ میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے علاوہ گورنمنٹ کالج سرگودھا، گورنمنٹ کالج جھنگ اور اسلامیہ کالج چنیوٹ کی ٹیموں نے حصہ لیا.فائنل میچ تعلیم الاسلام کالج ربوہ اور گورنمنٹ کالج جھنگ کے مابین ہوا جو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے ۱۳ کے مقابلہ میں ۷۰ پوائنٹس سے جیت لیا.یا در ہے کہ ۴ اسال سے چیمپئن شپ کا اعزاز تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پاس ہے.گذشتہ سال اس ٹیم کو پنجاب بھر میں اول آنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا تھا.محترم قاضی محمد اسلم صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے انعامات تقسیم فرمائے.39 ملک امیر محمد خاں صاحب کا قتل سابق گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں صاحب اپنے بیٹے محمد اسد خاں کے ہاتھوں جائیداد کے تنازعہ پر مورخہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۷ء کو صبح نو بجے ہلاک ہو گئے.باپ بیٹے میں باہمی ناراضگی پیدا ہوئی.دونوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی.فائرنگ کے نتیجہ میں ایک گولی ملک امیر محمد خاں صاحب کے سینے میں لگی جس سے وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ ایک گولی قاتل کے بائیں کندھے کے نیچے گی.جس سے وہ زخمی ہو گیا.قاتل کو گرفتار کر کے ملک امیر محمد خاں کے مکان میں ہی نظر بند کر کے طبی امداد دی گئی.ان کے زمانہ گورنری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دو کتب کی اشاعت پر پابندی لگائی گئی تھی جو بعد ازاں شدید ملکی اور عالمی احتجاج کے باعث واپس لینا پڑی.جامعہ احمدیہ میں ایک علمی تقریر 40 ۳ دسمبر ۱۹۶۷ء کو الجمیعۃ العلمیہ جامعہ احمدیہ کے زیر اہتمام مکرم یوسف عثمان صاحب افریقی متعلم درجہ سادسہ کی زیر صدارت جناب مولانا عبد الرحمن صاحب طاہر سورتی رکن ادارہ تحقیقات اسلامیہ ومؤسس انجمن ترقی عربی پاکستان نے عربی زبان سیکھنے کے آسان طریق“ کے موضوع پر نصف گھنٹہ تک تقریر فرمائی.آپ نے فرمایا کہ عربی زبان نہایت جامع ہے.مختصر لیکن وسیع زبان ہے.اس ضمن میں آپ نے مثالیں دے کر واضح فرمایا کہ تین حروف پر مشتمل مادہ ہوتا ہے.اس سے ایک ہزار کے قریب ایسے الفاظ بن سکتے ہیں جن کے معنوں کی تعیین کی جاسکتی ہے.آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کل

Page 414

تاریخ احمدیت.جلد 24 396 سال 1967ء امادے ہیں.اگر کوئی شخص بہترین اردو جانتا ہو تو اسے ۱۶۰۰ کے قریب عربی زبان کے مادے آتے ہوں گے.صرف پچاس کے قریب مزید سیکھنے کی ضرورت ہوگی.عربی سیکھنے کے لئے صرف ونحو کا سیکھنا نا گزیر ہے.آپ نے بتایا کہ مخصوص اصطلاحات کو چھوڑ کر بھی صرف و نحو سیکھی جاسکتی ہے.ازاں بعد سوالات کا موقع دیا گیا.ایک سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ میں نے مرزا صاحب علیہ السلام کی کتاب من الرحمن پڑھی ہے.یہ کتاب مجھے بہت پسند ہے.اور میں اسے 41 اپنے ہمراہ رکھتا ہوں.مولا نا عبدالرحمن صاحب طاہر سورتی پاکستان کے محقق علماء میں سے پہلے عالم ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نظریہ ام الالسنہ کی حقانیت کا کھلے بندوں اعلان کیا.چنانچہ آپ نے مصری ادیب استاذ احمد حسین زیات کی کتاب " تاریخ الادب العربی“ کے اردو ایڈیشن کے ابتدائیہ میں تحریر فرمایا کہ عربی زبان کے اُم الالسنہ ہونے میں شک نہیں.مسجد احمد محلہ فیکٹری اسر یار بوہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے فیکٹری امیر یار بوہ کی مسجد نمبرا کا نام مسجد احمد تجویز فرمایا.عالمی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ جماعت احمدیہ جس طرح اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے زمین کے کونے کونے میں مصروف عمل تھی اس کی ایک جھلک ایک غیر احمدی ہفت روزہ نے اپنے ایک مضمون میں بیان کی ہے چنانچہ ہفت روزہ شہاب ۲۵ دسمبر ۱۹۶۶ء دنیا میں مختلف مذاہب کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتا ہے:.قرآن کریم کا بنیادی تقاضا ہے کہ اس کی تعلیمات کو اس انداز سے عام کیا جائے کہ اللہ جلشانہ کا پسندیدہ دین اسلام تمام ادیان پر غالب آجائے.اس عظیم مقصد کے لئے سب سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی جماعت بھیجی گئی.نبوت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد یہ فرض کفایہ ہر مسلمان پر عاید کر دیا گیا.مسلمان جب تک دین سے وابستہ رہے دین اسلام دنیا میں تیزی سے پھیلتا رہا اور جب ان کی دین سے وابستگی کم ہوگئی تو ہر طرف بے دینی پھیلنے لگی اور مسلمانوں کی بجائے دوسرے مذاہب والے تبلیغ کے میدان میں پیش پیش نظر آنے لگے.مسلمانوں کی سستی اور غیروں کی چستی کا اندازہ مندرجہ ذیل اعداد و شمار سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے.

Page 415

تاریخ احمدیت.جلد 24 مسیحیوں کی کوششیں 397 سال 1967ء مسلم ورلڈ مکہ کی اطلاع کے مطابق مسیحی تبلیغی ایجنسیوں کی طرف سے اس وقت تک :.انجیل کا مکمل ترجمہ دنیا کی ۲۵۰ از بانوں میں ہو گیا ہے.ح ان کے بعض ترجمے ایسی زبانوں میں بھی ہوئے ہیں جن کے بولنے والے لاکھوں اور ہزاروں کی تعداد میں نہیں بلکہ صرف چند سینکڑوں کی تعداد میں کسی پہاڑی جنگل یا چھوٹے سے جزیرے میں رہتے ہیں.ٹائمنر امریکہ کی اطلاع کے مطابق:- اپریل ۱۹۶۰ ء تک دنیا میں عیسائیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے ۳۸۶۰۶ اور کیتھولک فرقہ کے ۵۱۰۰۰ مشن عیسائیت کی تبلیغ کے لئے دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے تھے اور اب ان کی تعداد پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے.یہ تبلیغی اغراض کے لئے ہر سال کروڑوں روپیہ دنیا میں مسیحی لٹریچر پھیلانے اور تعلیمی ، رفاہی ادارے قائم کرنے پر خرچ کیا جا رہا ہے.م ان مہمات کے زیادہ تر اخراجات مغرب کے صنعت کار اور سرمایہ دار برداشت کرتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں ان کی پشت پناہی کرتی رہتی ہیں.احمدیوں کی کاوشیں تبلیغی میدان میں مسیحیوں کے بعد احمدیوں کا نمبر آتا ہے.ان کے پاکستانی مرکز ربوہ کے شائع کردہ رسالہ تحریک جدید کی رو سے:.وہ اس وقت تک انگریزی، ڈچ ، جرمن، فرانسیسی ، روی ، انڈونیشی اور فینٹی (FANTE) ( جو گھانا کی زبان ہے ) میں قرآن مجید کا مکمل ترجمہ کر چکے ہیں اور چند تر جمہ تو چھپ بھی گئے ہیں اور باقی زیر طبع ہیں.انہوں نے قرآن کریم کے چند حصوں کا ترجمہ افریقہ کی چار زبانوں ڈینیش، یوگنڈا، کیکویو، یو را با میں بھی شائع کر دیا ہے.غیر ممالک میں ان کے مندرجہ ذیل جرائد ان کے تبلیغی فرائض سرانجام دے رہے ہیں:.

Page 416

تاریخ احمدیت.جلد 24 398 سال 1967ء ا.نائیجیریا سے ہفت روزہ دی ٹروتھ ۲.گھانا سے ماہنامہ گائیڈنس ۳.(سیرالیون مغربی افریقہ ) سے ماہنامہ افریقن کریسنٹ ۴.کینیا سے سہ ماہی ایسٹ افریقن ٹائمنر ۵ سواحیلی ( مشرقی افریقہ) سے مینز یا منگو ۶.موریشس سے انگریزی و فرانسیسی زبان میں ماہنامہ لی میسیج ے.سیلون سے ماہنامہ دی میسج.انڈونیشا سے ماہنامہ سینا ر ا سلام اسرائیل سے عربی زبان میں البشریٰ ۱۰.سوئٹزرلینڈ سے جرمن زبان میں ماہنامہ دیر اسلام ۱۱.لندن سے ماہنامہ مسلم ہیرلڈ ۱۲.ہالینڈ سے ڈچ زبان میں ماہنامہ اسلام ۱۳.ڈنمارک سے ڈینش زبان میں ماہنامہ ایکٹو اسلام حمد ان اخباروں اور رسالوں کے علاوہ لاکھوں روپے کا مختلف نوع کا تبلیغی لٹریچر ہر سال مختلف زبانوں میں شائع کر کے مفت تقسیم کیا جاتا ہے.تبلیغی اغراض کے لئے انہوں نے افریقہ میں ۴۷ سکول اور دنیا کے مختلف حصوں میں ۳۴۳ شاندار مساجد تیار کر رکھی ہیں.ان کی تعمیر کردہ مساجد کی تفصیل یہ ہے.ا.انگلینڈ میں ۴.برما میں ے.ملایا میں ۱۰.موریشس میں 4 ۱۳.سیرالیون میں ۴۰ ۲.ہالینڈ میں ۳.سوئٹزرلینڈ میں 1 ۵.مغربی جرمنی میں 1 ۶.سیلون میں ۲.امریکہ میں ۹ بور نیومیں ۳ 11.مشرقی افریقہ میں ۱۲.نائیجیریا میں ۴۰ ۱۴.انڈونیشیا میں ۶۰ ۱۵.گھانا میں ۱۶۱ ، لکھنو میں جماعت احمدیہ کے ایک ترجمان کا مراسلہ حال ہی میں عالمی جریدہ ”صدق جدید شائع ہوا ہے اس کی رُو سے مٹھی بھر احمدیوں کا سال ۶۷-۱۹۲۶ء کا تبلیغی بجٹ مندرجہ ذیل ہے:.

Page 417

تاریخ احمدیت.جلد 24 399 سال 1967ء آمد وخرچ برائے پاکستان ۹۳،۰۲،۹۶۱ آمد وخرج برائے تبلیغی مشن ہائے بیرون پاکستان ۱۳،۳۸۰، ۳۸ آمد وخرچ برائے دیہاتی تبلیغ ہندوستان کے قادیانی مرکز کا بجٹ اس کے علاوہ ہے.مذکورہ بالا مراسلہ کی رو سے: ۱،۷۷،۰۰۰ ہر احمدی تبلیغی اغراض کے لئے اپنی آمدنی سے کم از کم ایک آنہ فی رو پید لازمی طور چندہ دیتا ہے.ان میں ایک بڑی تعداد ایسے اصحاب کی ہے جو اپنی آمدنی کا کم از کم ۱۰/ ا حصہ اور بعد وفات اپنی جائیداد کا ۱۰/ احصہ بطور چندہ دیتے ہیں.اسلامی لٹریچر کی مانگ ا مسیحیوں اور احمدیوں کی ان تبلیغی سرگرمیوں کے مقابلہ میں اندرون و بیرون ملک، مسلمانوں کی طرف سے لٹریچر کے ذریعہ تبلیغ دین کا کوئی اہتمام ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ :.ہند و پاکستان کی پہلی تاریخی جنگ کے دوران میں محاذ جنگ سے ہمارے مجاہدین نے قرآن کریم کے نسخے بھیجنے کا تقاضا کیا.حیح مسلم ورلڈ مکہ کی رپورٹ کے مطابق، اسلامک ایجوکیشن بورڈ آف امریکہ کے چیئر مین ڈاکٹر چارلس گیڈس نے کہا ہے کہ امریکہ، افریقہ اور جنوبی امریکہ کے لوگ ،مسلمانوں اور اسلام کے متعلق صحیح اور مناسب معلومات کے لئے ترس رہے ہیں.نائیجیریا میں پاکستان کے ہائی کمشنر مسٹر ایچ ایم احسن اور مغربی پاکستان وزیر تعلیم ملک خدا بخش بچہ نے اہل ثروت سے اپیل کی ہے کہ وہ مغربی افریقہ کے ملکوں میں تقسیم کرنے کے لئے قرآن پاک کے نسخے اور انگریزی میں اسلامی لٹریچر بھجوائیں.وائس آف اسلام کو ریا نے لکھا ہے کہ مشرق بعید میں اسلام کی تبلیغ کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں.اسلامک سنٹر ٹوکیو (جاپان) کا بھی یہی تقاضا ہے کہ اسے مختلف زبانوں میں اسلامی لٹریچر بہم پہنچایا جائے.

Page 418

تاریخ احمدیت.جلد 24 افسوسناک پہلو 400 سال 1967ء ایک وقت وہ تھا کہ مسلمان جو دوسروں کو اسلام کی دعوت دینے میں پیش پیش رہتا تھا اور ان کو قرآن کریم کی تعلیمات سے آگاہ رکھتا تھا اور ایک وقت یہ ہے کہ خود مسلمان سے دوسرے تقاضا کر رہے ہیں کہ ہمیں بھی اسلام اور قرآن کے تقاضوں اور تعلیمات سے آگاہ کرو تا کہ ہم بھی دین فطرت کی برکات سے مستفید ہو سکیں.ایسے نازک وقت میں اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کا احساس نہ کرنا بھی عذاب الہی کو دعوت دینا ہے جس کی قرآن کریم نے ان الفاظ میں نشاندہی کی ہے کہ حق تعالیٰ ایسی خدا فراموش اور فرض ناشناس قوم کو فنا کے گھاٹ اتار کر اس کی جگہ دوسری فعال اور متحرک قوم بھیج دیتا ہے.44

Page 419

تاریخ احمدیت.جلد 24 401 سال 1967ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی حلقہ پٹس برگ میں چوہدری عبدالرحمن خان صاحب بنگالی ،حلقہ ڈیٹن میں میجر عبدالحمید صاحب، حلقہ شکاگو میں چوہدری شکر الہی حسین صاحب اور حلقہ واشنگٹن میں سید جواد علی شاہ صاحب اشاعت دین کے لئے سرگرم عمل رہے.سید جواد علی شاہ صاحب ان دنوں سیکرٹری امریکہ مشن کے فرائض انجام دے رہے تھے.مبشرین احمدیت نے (MOUNT JEHOMEN HIGH SCHOOL) (پٹس برگ) ، رومن کیتھولک کیرل ہائی سکول ( ڈیٹن ) ، ورجینیا پولی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کی مسلم ایسوسی ایشن واشنگٹن کی نواحی بستی سلور سپرنگ میں کامیاب لیکچر دیئے.چوہدری عبدالرحمن خان صاحب کا ایک مضمون امنِ عالم کے موضوع پر اخبار پٹس برگ پریس نے اور میجر عبدالحمید صاحب کا ایک آرٹیکل ”اسرائیل اور عرب کے تعلقات پر ڈیٹین ڈیلی نیوز“ نے شائع کیا.ہاورڈ یونیورسٹی واشنگٹن، میری لینڈ سٹیٹ اور واشنگٹن وغیرہ سے پچاس سے زائد غیر مسلم زائرین مشن میں آئے جن سے اسلام واحمدیت و عیسائیت پر گفتگو ہوئی.مشن کی طرف سے اس عرصہ میں ہاورڈ کالج لائبریری ، سنٹرل مشیکن یونیورسٹی ،ہلفٹن کالج لائبریری (اوہایوسٹیسٹ)، پنسلوینیا سٹیٹ 45 کالج سالم ، امریکن یو نیورسٹی واشنگٹن ، نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یو نیورسٹی میں دینی لٹریچر بھجوایا گیا.۱۹۶۷ء کی آخری سہ ماہی میں امریکہ میں مقیم مبلغین کی تبلیغی سرگرمیاں خاصی تیز ہوگئیں.اور انہوں نے سکولوں، کالجوں اور گر جاؤں میں پیغام حق پہنچانے کے علاوہ لٹریچر کی بھی خوب اشاعت کی.امریکہ مشن کے مبلغ انچارج قریشی مقبول احمد صاحب واشنگٹن، نیو یارک، پٹس برگ میں مصروف عمل رہے.علاوہ ازیں اس عرصہ میں آپ کو شکا گو، ڈیٹرائیٹ ، ووکیکن اور ڈوئی کے شہر زائن کا دورہ کرنے کا بھی موقع ملا.اس شہر میں مقامی اخبار (ZION-BENTON NEWS) کے نمائندے نے آپ کا انٹرویو لیا جو ۴ دسمبر ۱۹۶۷ء بروز جمعرات کو تصاویر کے ساتھ شائع کیا.اس کا عنوان یہ رکھا کہ مسلم لیڈر زائن کی زیارت پر اور اس کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کی تفصیل شائع کی کہ کس طرح آپ نے ڈاکٹر ڈوئی کے بارہ میں یہ پیشگوئی فرمائی تھی.66

Page 420

تاریخ احمدیت.جلد 24 اور پھر یہ کس شان سے پوری ہوئی.46 402 سال 1967ء اس طرح اس علاقہ کے لوگوں تک ایک بار پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس پیشگوئی کی حقانیت واضح ہوئی.اس اخبار کے اسی صفحہ کے نیچے ڈاکٹر ڈوئی کی قبر کے کتبہ کی تصویر بھی شائع کی گئی.ZION شہر کے ریڈیو نے بھی اس پر پروگرام نشر کیا.چوہدری شکر الہی صاحب نے روز ویلٹ یونیورسٹی ZION کے طلبہ اور کیتھولک ہائی سکول میں لیکچر دیئے.جس کے بعد سوالات کا دلچسپ سلسلہ جاری ہوا.SEMINARY میں بھی جہاں پادری تیار کئے جاتے ہیں.آپ نے ایک گفتگو کے رنگ میں تین گھنٹے تک ایک علمی پروگرام میں حصہ لیا.اختتام پر سب نے محسوس کیا کہ اس گفتگو میں اسلام کا پلہ بھاری رہا.شکا گوسٹی کالج کے ایک گروپ کے سامنے بھی آپ کو تقریر کرنے کا موقع ملا.یوم التبلیغ کے موقعے پر تین قسم کے یک ورقہ اشتہارات طبع کر کے تقسیم کئے گئے جن کی تعداد چھ ہزارتھی.حلقہ واشنگٹن میں، جس کے انچارج سید جواد علی شاہ صاحب تھے، انفرادی تبلیغ کا کام خدا کے فضل سے زور وشور سے جاری رہا.واشنگٹن میں مختلف شاہراہوں پر اشتہارات اور کتا بچے تقسیم کئے گئے.آپ کو دوران تقسیم کئی تاجر پیشہ احباب، طلباء اور ملازمین سے رابطہ پیدا کرنے کا موقع ملا.جن کو اشتہارات دینے کے علاوہ مختصر گفتگو بھی ہوتی رہی اور مزید معلومات کے لئے ان کو مشن ہاؤس میں آنے کی درخواست کی جاتی رہی.کئی ایک افراد نے ٹیلیفون پر کال کر کے اسلام پر معلومات حاصل کیں اور لٹریچر کی خواہش کی.جن کو لٹریچر بھجوایا گیا.بیرونی شہروں سے واشنگٹن کی سیاحت کے لئے آنے والے لوگوں میں سے کئی ایک نے فون پر کال کر کے اسلام پر سوالات کئے.جن کے جوابات دیئے گئے.اور ان کے دیئے گئے پتہ جات پر لٹریچر بھجوایا گیا.عرصہ زیر رپورٹ میں واشنگٹن سے باہر تقریباً ۹۰ / ا حباب کو مختلف شہروں میں لٹریچر بھجوایا گیا.ان میں سے قابل ذکر ہ ارامریکن ڈاکٹر تھے جن کے پتہ جات ایک پاکستانی احمدی ڈاکٹر نے دیئے.اسی طرح جارجیا سٹیٹ کی ایک یونیورسٹی سے اسلام پر لٹریچر کی مانگ آئی جو بھجوادیا گیا.کیلیفورنیا سٹیٹ سے لاس اینجلس سٹی کالج کی طرف سے بھی لٹریچر کی مانگ آئی.ان کو بھی بھجوایا گیا.کئی ایک ہائی سکول کے طلبہ ( لڑکیوں اور لڑکوں) کی طرف سے بھی فون پر لٹریچر کا مطالبہ آیا جن کولٹریچر بھجوایا گیا.

Page 421

تاریخ احمدیت.جلد 24 403 سال 1967ء ۲۵ کے قریب افراد مشن ہاؤس میں برائے حصول معلومات آئے.ان سب سے اسلام اور عیسائیت پر گفتگو ہوتی رہی جو کافی دلچسپی کا باعث رہی.روانگی کے وقت مزید مطالعہ کے لئے ان کو لٹریچر دیا گیا.مقامی روزانہ اخبار میں ہماری جماعت کے بارے میں ہفت وار اشتہار باقاعدگی سے چھپتا رہا.جس کو پڑھ کر کئی ایک احباب نے فون پر کال کر کے معلومات حاصل کیں.اور کئی دوسرے دوست مشن ہاؤس میں آئے.امریکہ کی احمدی جماعتوں کی طرف سے ایک الوداعی تقریب ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۷ء کو امریکہ کے احمد یہ مشنوں کے انچارج مکرم عبدالرحمن خاں صاحب بنگالی کے اعزاز میں پٹس برگ امریکہ نے ایک الوداعی دعوت کا انعقاد کیا.اس میں امریکہ کی تمام جماعتوں کے نمائندگان کو مدعو کیا گیا تھا.تا کہ وہ خود حاضر ہو کر اپنے سابق انچارج کو الوداع کہ سکیں.تقریب میں شمولیت کے لئے ۲۱ /اکتوبر کو ہی مختلف مقامات سے احباب کرام آنا شروع ہو گئے تھے.رات پونے بارہ بجے اجلاس شروع ہوا جس کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اس کے بعد مکرم احمد شہید صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پٹس برگ نے جلسہ کے انعقاد پر روشنی ڈالی اور مکرم خاں صاحب کی خدمات کو سراہا.اس کے بعد تمام مشنوں سے آئے ہوئے نمائندگان نے باری باری آکر اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کیا.اس کے بعد خاں صاحب نے احباب کا شکریہ ادا کیا اور احباب کو ضروری نصائح فرمائیں.آخر میں صدر صاحب اجلاس نے مختصر خطاب کیا اور اس طرح جلسہ کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی.انڈونیشیا 48 انڈونیشیا میں ۱۹۵۰ء سے قریباً ہر سال سالانہ کا نفرنس منعقد ہوتی چلی آرہی تھی.کانفرنس میں جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت دونوں کا ہی انعقاد ہوتا تھا.لیکن جماعت کی تعداد اور دوسرے امور کو مد نظر رکھتے ہوئے ۱۹۶۴ء کی سالانہ کانفرنس منعقدہ سویابا یا میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مرکز احمدیت کے تتبع میں جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت کے اجتماعات علیحدہ علیحدہ انعقاد پذیر ہوں.اس فیصلہ کے مطابق اس سال اپریل ۱۹۶۷ء کے آخر میں جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا کی پہلی سالانہ مجلس مشاورت منعقد

Page 422

تاریخ احمدیت.جلد 24 404 سال 1967ء ہوئی اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ انڈونیشیا کے احمدیوں کا مستقل پہلا جلسہ سالانہ مغربی جاوا کی ایک بستی مینس لور (MANIS LOR) میں ۲۶، ۲۷ / اگست ۱۹۶۷ء کو منعقد ہو.مینس اور کی بستی چربون (CHERIBON) کے تاریخی اور ساحلی شہر کے جنوب میں پندرہ میل کے فاصلے پر پہاڑی علاقہ میں واقع ہے.مغربی جاوا میں اسلام کی اشاعت میں اس شہر نے عظیم کردار ادا کیا تھا.اس شہر کے ابتدائی مجاہدین کا نام آج تک زبان زد خلائق ہے حضرت فتح اللہ کا شمار جاوا کے نو قدیم اولیائے عظام میں ہوتا ہے آپ کا مزار شہر کے قریب گنگ جاتی نامی ایک پہاڑی پر آج تک موجود ہے لوگ اس کو مسونان گننگ جاتی کہتے ہیں.(انڈونیشیا صفحہ ۴۷ مولفہ شاہد حسین رزاقی ناشر ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور طبع دوم ۱۹۷۴ء) پروفیسر سر تھامس آرنلڈ THOMAS ARNOLD کی کتاب THE PREACHING OF ISLAM سے معلوم ہوتا ہے کہ چر بون CHERIBON حضرت شیخ نورالدین ابراہیم جیسے عظیم بزرگ اور داعی اسلام کا مرکز تھا.جہاں سے پورے مغربی جاوا میں اسلام کا نور پھیلا.محمد عنایت اللہ صاحب دہلوی نے سرسید احمد خان کی ہدایت پر جون ۱۸۹۸ء میں اس محققانہ تالیف کا اردو ترجمہ شائع کیا.تو اصل کتاب کے حوالہ سے یہ بھی لکھا کہ یہ بزرگ مدت تک مجمع الجزائر میں سیر و سیاحت کے بعد ۱۴۲۱ء میں چر بون میں آباد ہو گئے.پروفیسر آرنلڈ کے اصل الفاظ یہ ہیں:.49- "Islam was introduced into the eastern parts of the island some years later, probably in the beginning of the following century, through the missionry activity of Shaykh Nur-al-Din Ibrahim of Cheribon.He won for himself a great reputation by curing a woman afflicted with leprosy, with the result that thousands came to him to be instructed in the tenets of the new faith.At first the neighbouring chiefs tried to set themselves against the movement, but finding that their opposition was of no avail, they suffered themselves to be carried along with the tide and many of them became coverts to Islam.50

Page 423

تاریخ احمدیت.جلد 24 405 سال 1967ء یعنی حضرت شیخ نورالدین ابراہیم آف چر بون کی تبلیغی کاوشوں سے جزیرہ کے مشرقی علاقوں میں اسلام چند سال بعد، غالباً آئندہ صدی کے شروع میں، متعارف کرایا گیا.ایک مبروصہ کی آپ کے ہاتھوں شفایابی سے آپ کو بہت شہرت نصیب ہوئی.نتیجہ ہزاروں لوگ نئے دین (اسلام) کے عقائد سے آگہی حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آگئے.شروع میں قریبی سرداروں نے اس تحریک کی راہ میں روک بننا چاہا.یہ جان کر کہ مخالفت کا کوئی فائدہ نہیں، بالآخر انہوں نے بھی قبولِ اسلام کی لہر کا ساتھ دینا قبول کر لیا.اُن میں سے اکثر مسلمان ہو گئے.“ اس جگہ جماعت احمدیہ کا قیام ۱۹۵۴ء میں عمل میں آیا اور مسجد کی بنیاد بھی اسی سال رکھی گئی.اس جماعت کے قیام میں مولوی عبد الواحد صاحب ( قائم مقام) رئیس التبلیغ ، مولوی محمد زہدی صاحب (مبلغ بانڈ ونگ)، مولوی عبدالرشید صاحب ارشد ( مبلغ پورو کر تو وسطی جاوا ) اور سب سے بڑھ کر دیہاتی مبلغ حاجی بصری صاحب کی کوششوں کا بھاری عمل دخل تھا اس علاقہ میں جس شخص کو سب سے پہلے احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہوئی.وہ اس وقت کے نمبردار صاحب علاقہ بینگ (BENING) تھے.جنہوں نے اپنے زمانہ تعلیم میں گاروت کے ایک مخلص احمدی طہ صاحب سے احمدیت کا ذکر سنا.یہ ذکر ایک بیج تھا جو بعد میں درخت بن گیا.اس گاؤں کی آبادی ۱۹۶۷ء میں قریباً ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل تھی.جن میں سے دو ہزار کے قریب احمدی تھے.جس وقت اس گاؤں کے لوگوں کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی.اس وقت لوگ دینی و دنیاوی لحاظ سے بہت پیچھے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کے بعد انہیں ظاہری اور باطنی ترقیوں سے وافر حصہ ملا.چنانچہ غیر معمولی دینی وروحانی ترقیات پانے کے ساتھ ساتھ دیہی تنظیم میں بھی ان لوگوں نے کافی ترقی کرلی.اس علاقہ میں ان کا گاؤں ایک مثالی گاؤں قرار دیا گیا تھا.سو اس ضمن میں ایک تقریب میں جوان لوگوں کی عزت افزائی کے لئے منعقد کی گئی تھی.انڈونیشیا کے مشہور لیڈر اور سابق نائب صدر ڈاکٹر محمد عطا صاحب بھی آئے تھے.جلسہ کے انتظامات کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی.جس کے بعد مینس اور کی مخلص جماعت نے زور وشور سے تیاریاں شروع کر دیں.مشن کی طرف سے ان کی رہنمائی کے لئے پہلے صدر جناب شکری صاحب پھر جناب سو جاوی صاحب تشریف لے گئے اور قریباً ایک ماہ وہیں رہے.جلسہ سے ایک ہفتہ قبل مولوی محی الدین صاحب مبلغ سلسلہ مع اپنی بیگم کے دن رات انتظامات میں مصروف عمل

Page 424

تاریخ احمدیت.جلد 24 406 سال 1967ء رہے.جلسہ کے اخراجات کے سلسلے میں مقامی جماعت نے قابلِ رشک نمونہ دکھایا جو انڈونیشیا کی تمام جماعتوں کے لئے مشعلِ راہ تھا.اس پہلے جلسہ سالانہ کے کل اخراجات انڈونیشیئن کرنسی کے اعتبار سے قریباً ایک لاکھ میں ہزار روپے ہوئے.جن میں سے انچاس ہزار روپے کی ایشیاء مختلف جماعتوں نے نہایت خوشی اور بشاشت کے ساتھ بطور ہدیہ پیش کیں.انچاس ہزار کی اس رقم میں سے پینتالیس ہزار روپے کی لاگت کی اشیاء صرف مینس اور کی مخلص جماعت نے مہیا کیں.جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے اس پہلے جلسہ سالانہ میں جلسہ سالانہ ربوہ کا رنگ بہت نمایاں تھا.جلسہ گاہ مسجد کے باہر کے میدان میں بنائی گئی تھی.کھانا پکانے کا سو فیصدی انتظام جماعت مینس لور کے ہاتھ میں تھا.جو ہر اعتبار سے تسلی بخش تھا.مہمانوں کو قیام میں بھی ہر طرح سہولت رہی.جلسہ سے قبل بعض مخالفین نے جماعت کے متعلق بدظنی پیدا کرنے کی کوشش کی.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی یہ کوشش ناکام رہی اور علاقہ کے ذمہ دار افراد حکومت نے بھر پور تعاون کیا.لوگوں کی آمد ۲۶/اگست کی دو پہر سے شروع ہوگئی تھی.مہمانوں کی آمد کا نظارہ بڑا دلکش اور ایمان افروز تھا.جلسے کے افتتاحی اجلاس میں احباب جماعت کے علاوہ، جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی ، علاقہ کے سرکاری افسران اور فوج کی نمائندگان بھی شامل تھے.مولوی ابوبکر صاحب ایوب رئیس التبلیغ نے اپنے افتتاحی خطاب میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ایک پیغام کا انڈو نیشی ترجمہ پڑھکر سنایا جو حضور نے نائیجیریا کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ارسال فرمایا تھا.اس کے بعد علاقہ کے محکمہ مذہبیات کے افسر اعلیٰ جناب حاجی منصور صاحب نے حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پر جوش تقریر کی.جس میں پہلے تو جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ پر خوشی کا اظہار کیا اور دعا کی کہ احباب جماعت جس مقصد کیلئے جمع ہوئے ہیں اس میں کامیابی حاصل کریں.اس کے بعد بڑے جوش سے کہا کہ ہم سب مسلمانوں کو آنحضرت ﷺ کی صحیح معنوں میں اتباع کرنی چاہئے تا کہ ہم اپنے عمل سے اسلام کی سچائی کا ثبوت مہیا کرسکیں اور دہریت کے مقابلہ میں اکٹھے ہو جائیں.آپ کی یہ تقریر محض رسمی رنگ نہ لئے ہوئے تھی بلکہ آپ کی تقریر سے سچ سچ اسلامی جذبات مترشح ہو رہے تھے.اور کہا جا سکتا ہے کہ جماعت احمد یہ کے اجلاسوں میں جو مہمانوں کی طرف سے استقبالیہ تقریریں ہورہی ہیں ان میں سے اگر سب سے بہتر نہ تھی تو کم از کم بہترین تقاریر میں سے تھی.اس تاریخی جلسہ میں مولوی ابوبکر صاحب ایوب رئیس التبلیغ کے علاوہ جن احمدی مقررین نے

Page 425

تاریخ احمدیت.جلد 24 407 سال 1967ء خطاب کیا.اُن کے نام یہ ہیں.احمد رشدی صاحب (ذکر حبیب ) ، مولوی عبدالواحد صاحب ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معجزات ) ، راڈن انور صاحب (حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تعارف)، میاں عبدالحئی صاحب (۱.خلافتہ فی الاسلام ۲.نظام نو ) ، سو جاوی مالنگ یوڈ صاحب (معاشرہ اسلامی ) ، مولوی احمد نورالدین صاحب (ا.سلسلہ نبوت.۲.فلسفہ گناہ) ، قریشی دہلان صاحب(مرکز سلسلہ کی برکات) ہادی ایمان صاحب (ہستی باری تعالیٰ)، صالح الشیمی صاحب مبلغ سلسلہ (۱.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے.۲.یورپ میں تبلیغ اسلام کے لئے جماعت احمدیہ کی مساعی اور اس کے شاندار نتائج)، ڈاکٹر احمد دہلان صاحب ( تربیت اولاد)، مولوی محی الدین صاحب مبلغ سلسلہ (اسلام کا مستقبل)، مولوی محمد ایوب صاحب (آخری زمانہ کی نشانیاں).سالانہ جلسہ کی آخری تقریر مولوی ابوبکر ایوب صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا کی رسم ورواج کے خلاف جنگ کے موضوع پر تھی.اس تقریر میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریر ( از حقیقۃ الوحی) کی بعض عبارات کا ترجمہ پڑھ کر سنایا.اور ایمان افروز رنگ میں ان کی وضاحت کی.جس سے احباب کے اندر خوشی اور انبساط کی لہر دوڑ گئی.یہ چند اوراق حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے احباب جماعت انڈونیشیا کو عطا فرمائے تھے.یہ تحریر دوفریموں میں محفوظ کر دی گئی ہے.اتفاق کی بات ہے کہ اسی تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو الہامات انا نبشرك بغلام نافلة لک اور مظهر الحق والعلاء بھی درج ہیں.سو اس تبرک سے جلسہ میں شامل احباب جماعت کے ایمانوں میں مزید تقویت ہوئی کیونکہ اول الذکر الہام خلافت ثالثہ کے مظہر ہمارے موجودہ امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث مرزا ناصر احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں، کا ذکر اور آپ کی 51 بشارت دی گئی تھی.جماعت انڈونیشیا کے اس پہلے جلسہ سالانہ کا ذکر سورابایا (SURABAYA) کے اخبارات نے واضح رنگ میں کیا اسی طرح ریڈیو پر بھی کئی روز تک اس کا چر چا رہا.۲۹ را گست کو چر بون (CHERIBON) میں تبلیغی جلسہ کیا گیا.ابھی تک اس شہر میں کوئی پبلک جلسہ نہیں ہوا تھا.گو تبلیغ ہوتی رہی تھی اور چھوٹے پیمانے پر تقاریر بھی.یہ جلسہ شہر کے وسط میں

Page 426

تاریخ احمدیت.جلد 24 408 سال 1967ء ایک ہال میں ہوا.جس میں خاصی تعداد میں غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوئے.اس جلسہ میں میاں عبدالحئی صاحب نے اسلام موجودہ زمانہ کے مسائل کا کیا حل پیش کرتا ہے“ کے موضوع پر اور رئیس التبلیغ صاحب نے احمدیت کیا ہے؟“ کے موضوع پر پُر اثر خطاب کیا.غیر از جماعت معززین ان تقاریر سے بہت محظوظ ہوئے اور خواہش کی کہ اس قسم کے جلسے آئندہ بھی منعقد کئے جائیں.انگلستان 52 یہ سال تبلیغی تقاریر مختلف ممالک کی سر براہان مملکت کی مسجد فضل میں آمد، جماعتی تنظیم و تر بیت اور وسیع پیمانے پر لٹریچر کی اشاعت کے لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال خان بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے حسب ذیل کلبوں، سوسائٹیوں اور سکولوں سے رابطہ قائم کر کے تقاریر فرمائیں.(۱) روٹری کلب ومبلڈن مورخہ ۳۰ جون ۱۹۶۷ء (۲) ساؤتھ لیوشم ینگ ٹو ریز ایسوسی ایشن ۱۶ جون ۱۹۶۷ ء لیوشم ینگ ٹوریز ایسوسی ایشن نے اسلام میں بہت دلچسپی لی.متعدد سوالات پوچھے اور بعد میں ۳۵ رافراد پر مشتمل ایک وفدمشن ہاؤس میں بھیجوایا.(۳) روٹری کلب آف برائٹن ۲۱ جون ۱۹۶۷ء.یہ مقام لنڈن سے ۶۰ میل کے فاصلہ پر واقع ہے.خوبصورت ساحلی جگہ ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی یہاں تشریف لے گئے تھے.حضور کی خواہش تھی کہ وہاں تبلیغ کے لئے جدو جہد کی جائے.اس خواہش کی تعمیل میں امام صاحب مسجد فضل لنڈن ۱۹۶۰ء،۱۹۶۱ء ۱۹۶۲ء متواتر ہر ہفتہ وہاں تقاریر کا اہتمام فرماتے رہے.اس کے نتیجہ میں وہاں چار افراد داخل سلسلہ ہوئے.(۴) روٹری کلب آف ایشر (ESHER) (۵) روٹری کلب آف ایشر (ESHER) (۶) ومبلڈن گرلز سکول (۷) روٹری کلب ایسٹ برائٹن ۵ جولائی ۲۷ را پریل ۹ استمبر ۲۱ ستمبر (۸) روٹری کلب آف برجس ہل (BURGESS HILL) ۱۹ اپریل

Page 427

تاریخ احمدیت.جلد 24 (۹) مے فیلڈ گرلز سکول 409 (۱۰) روٹری کلب آف محچم (MITCHAM) سال 1967ء ۱۸ / اپریل مکرم عبدالعزیز دین صاحب نے بھی دوبار روٹری کلب میں تقریر کی نیز آپ ہر ہفتہ ایک گرلز سکول میں اسلام سے متعلق تقاریر کرتے رہے.مشن کی طرف سے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا لیکچر A MESSAGE OF PEACE" "AND WORD OF WARNING پچاس ہزار کی تعداد میں اور حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کتاب "ISLAM AND HUMAN RIGHTS ڈیڑھ ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی.لنڈن مشن نے حضور کا خطاب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے احمد یہ مشنوں کو ستائیس ہزار کی تعداد میں ارسال کیا.مشن نے اس کے علاوہ جولٹریچر بذریعہ ڈاک بھیجا اس کی تعداد دو ہزار سے زائد تھی.مشن میں متعدد وفود آئے اور انفرادی طور پر ملکی اور غیر ملکی احباب بھی جنہیں زبانی تبلیغ کے علاوہ لٹریچر بھی پیش کیا گیا.۲۸ جون کولائبیریا کے پریذیڈنٹ مسٹر ٹب مین اور ۳۰ جون کو گیمبیا کے احمدی گورنر جنرل ایف ایم سنگھائے لنڈن مشن میں تشریف لائے.جن کا پر جوش خیر مقدم کیا گیا اور ان کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر استقبالیہ دعوتوں کا اہتمام کیا گیا.مسٹر ٹب میں صدر لائبریا نے ایڈریس کے جواب میں فرمایا کہ جماعت احمد یہ ایک مذہبی جماعت ہے اور میں بھی ایک مذہبی آدمی ہوں.لیکن مجھے سب سے زیادہ اس بات پر مسرت ہے کہ جس بات کو یہ جماعت حق کہتی ہے پھر اس کی اشاعت کے لئے پر جوش جدوجہد کرتی ہے.جماعت کے اس جذبہ کی وجہ سے میرے دل پر اس کا احترام ہے.آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ محترم بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل گورنمنٹ کے خرچ پر لائبیریا 53 تشریف لائیں.خان بشیر احمد خان صاحب نے تین اہم تقریبات میں شمولیت اختیار کی :.(۱) کوئنز گارڈن پارٹی ملکہ انگلستان کی طرف سے یہ پارٹی سال میں ایک دفعہ معززین انگلستان کو دی جاتی ہے.امام صاحب بھی اس میں مدعو تھے.(۲) چیف منسٹر آف منیجی سے ملاقات

Page 428

تاریخ احمدیت.جلد 24 410 سال 1967ء مکرم خان بشیر احمد خان رفیق صاحب امام مسجد فضل، حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی معیت میں چیف منسٹر آف فیجی کی ملاقات کے لئے تشریف لے گئے اور انہیں اسلامی لٹریچر پیش کیا.(۳) ۵ مئی کو آپ نے میئر آف ونڈز ورتھ کی طرف سے دیئے گئے ایک عشائیہ میں شرکت کی.اس موقع پر اہم لوگوں سے ملاقات کا موقعہ ملا.گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی سولہ سے چالیس سال کی عمر کے احباب کے لئے تبلیغی وتعلیمی سیمینار منعقد کیا گیا.جس کے خصوصی نگران ڈاکٹر سفیر الدین صاحب تھے.پوری کا رروائی انگریزی میں ہوئی.حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب نہایت با قاعدگی کے ساتھ اس میں تشریف لاتے رہے اور اپنے علمی اور ادبی خطابات سے محظوظ کیا.سکاٹ لینڈ مشن ، جس کے انچارج بشیر احمد صاحب آرچرڈ تھے اور جس کا مرکز گلاسگو تھا نہایت تندہی سے تبلیغی اور تربیتی خدمات انجام دیتا رہا.مسٹر بشیر آرچرڈ کی تحریک پر احمدیوں نے ایک ماہ تک دعاؤں ، نمازوں اور روزوں پر خصوصی زور دیا تا کہ خدا تعالیٰ ان کی تبلیغی جد وجہد میں برکت ڈالے.جماعت نے ایک سٹال کرایہ پر لے رکھا تھا، جہاں محترم آرچرڈ صاحب ہر ہفتہ اور اتوار کو جماعت کے بعض دیگر مخلصین کے ساتھ تشریف لے جاتے اور دینی کتب کی فروخت کے علاوہ پیغام حق پہنچاتے تھے.آپ نے اس سال ایڈنبرا کا دورہ بھی کیا.برما 54 برما میں ایک کتاب لارنس آف عربیہ شائع ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق بالکل غلط اور بے جاباتیں لکھی تھیں.جس پر خواجہ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ رنگون نے متعلقہ محکمہ جات کو توجہ دلائی اور احتجاج کیا.مصنف نے معذرت چاہی اور قابلِ اعتراض حصہ کو حذف کرنے کا وعدہ کیا.بر مامشن نے اس سال درج ذیل انگریزی و بر می لٹریچر شائع کیا:.سیرت رسول کریم ملی از حضرت مصلح موعود ) چہل احادیث (از حضرت مرزا بشیر احمد 55 صاحب)، اسلام ( خواجہ بشیر احمد صاحب کی دو تقاریر جو انہوں نے ”عالمی امن پگوڈا میں کیں).مسیح کشمیر میں اس رسالہ کو ملک کے طول وعرض میں نہایت دلچسپی سے پڑھا گیا.ہا کا سے مسٹر کپ لوائی نے لکھا کہ یقیناً یہ کتاب دنیائے عیسائیت میں تہلکہ برپا کر دے گی.ایک بدھسٹ

Page 429

تاریخ احمدیت.جلد 24 411 سال 1967ء اوسولائین امیر جماعت احمد یہ رنگون کے پاس آئے وہ اچھے عہدے پر فائز رہ چکے تھے.ایک کتاب طلب کی پھر کہنے لگے دو دے دو پھر چار آخر کہنے لگے اگر آٹھ لوں تو کوئی اعتراض ہے خواجہ صاحب نے فرمایا کہ چشم ما روشن دل ما شا دضرور لے سکتے ہیں پھر چار رسالے لے کر کہنے لگے پھر آ کر تکلیف دوں گا.جرمنی اس سال جرمنی کے دو مشہور شہروں فرینکفورٹ اور ہمبرگ میں عید الفطر اور عیدالاضحیہ کی مبارک تقاریب احمد یہ مشنوں کے زیر اہتمام پورے جوش و خروش سے منائی گئیں.جس کا پریس اور ٹیلیویژن میں خوب چرچا ہوا.یہ تقاریب باالترتیب ۱۲ جنوری اور ۲۱ مارچ کو منائی گئیں.فرینکفورٹ:.عید الفطر کی تقریب سعید پر جماعت کے جرمن اور دیگر نومسلم افراد کے علاوہ پاکستان، ترکی، ایران اور دیگر اسلامی ممالک کے اڑھائی سو افراد نماز عید میں شامل ہوئے.اجتماع کے بعد ٹیلیویژن اور پریس والوں نے مولوی فضل الہی صاحب انوری مبلغ فرینکفورٹ کا انٹرویولیا.آپ نے انہیں دیگر امور کے علاوہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر تبلیغی سرگرمیوں سے مطلع کیا.اسی شام ٹیلیویژن پر نماز عید کے مختلف مناظر تین مختلف اوقات میں دکھائے گئے.اور دوسرے دن فرینکفورٹ کے بااثر اخبار (ALLGEMEINE ZEITUNG) اور دوسرے مقامی اخبارات میں تصاویر کے ساتھ عید کی کارروائی شائع ہوئی.عیدالاضحیہ کی تقریب پر ۲۲ مارچ کو مسلم اور غیر مسلم پچاس سے زائد اصحاب کو مشن کی طرف سے عشائیہ دیا گیا.جس میں مسٹر محمود اسمعیل زوش نے تقریر کی.جس میں عیدالاضحیہ کی غرض وغایت حج کا تاریخی پس منظر حج اور اس کے آداب کی تشریح اور قربانی کا فلسفہ تفصیل سے بیان کیا.تقریر کے بعد میجک لینٹرن کے ذریعہ بیت اللہ ، حج اور دیگر مناظر اور مقامات مقدسہ کی تصاویر دکھائی گئیں.نماز عید اور عشائیہ کا ذکر جن مقامی اخبارات میں شائع ہوا.ان میں اخبار FRANKFURTER) (RUNDSCHAU خاص طور پر قابل ذکر ہے.(اشاعت ۲۲ مارچ ۱۹۶۷ء) فرینکفورٹ سے تقریبا دوصد میل دور ایک جیل خانہ میں کسی طور سے اسلام کا پیغام پہنچا.چنانچہ مکرم مولوی فضل الہی صاحب انوری سے بعض قیدیوں نے خط و کتابت شروع کی جس پر انہیں سلسلہ کا

Page 430

تاریخ احمدیت.جلد 24 412 سال 1967ء لٹریچر مہیا کیا گیا.پھر مولوی صاحب نے مورخہ ۵ فروری ۱۹۶۷ء کو ان سے جیل جا کر ملاقات کی اور انہیں ڈیڑھ گھنٹہ تک اسلام کے بنیادی مسائل، عبادت کی غرض و غایت ،حقوق العباد اور نظام جماعت سے متعارف کروایا.ان میں سے چار نے با قاعدہ بیعت کرلی اور ان میں سے دو نے آمدنی نہ ہونے کے باوجود با قاعدہ چندہ بھی بھجوانا شروع کر دیا.ہمبرگ:.ہمبرگ جہاں انچارج مشنری کے فرائض چوہدری عبداللطیف صاحب انجام دے رہے تھے.عیدالفطر کی تقریب پر جرمن مسلمانوں کے علاوہ پاکستان، ترکی، نائیجیریا، مراکش، الجیریا، سوڈان اور کئی اور اسلامی ممالک کے مسلمانوں نے نماز عید میں شرکت کی.ٹیلیویژن کے نمائندوں نے ساری تقریب کو فلمایا اور شام کو اپنے خاص پروگرام میں ٹیلیویژن پر دکھایا.عیدالاضحیہ کے مبارک موقع پر جرمن احمدی احباب کے علاوہ پاکستان، افغانستان، ترکی ،عرب ممالک، ملائشیا، انڈونیشیا اور مغربی افریقہ کے مسلمانوں نے کثیر تعداد میں نماز میں شرکت کی.۲۱ مارچ کی شام کو ریڈیو سے چوہدری عبد اللطیف صاحب کا انٹرویو نشر کیا گیا.جس میں آپ نے مختصر مگر جامع رنگ میں حج اور عیدالاضحیہ کی غرض وغایت، اسلامی تعلیمات کا خلاصہ،اسلامی مساوات کا تصور، جرمنی میں تبلیغ کا خاکہ اور جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا عالمگیر اثر اور امور وغیرہ پر روشنی ڈالی اس طرح جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کا نظارہ پورے ہمبرگ نے دیکھا.سنگاپور 60 61 مکرم مولوی محمد عثمان صاحب چینی مبلغ انچارج سنگا پور نے ملائیشیا کے مسلمانوں کی ایک کلچرل سوسائٹی کی دعوت پر ان کے ایک اجلاس میں چینی زبان میں اسلام پر تقریر کی جسے لوکل اخباروں نے بعد میں شائع کر کے ایک وسیع حلقہ تک اسلام کے پیغام کو پہنچایا.چینیوں کے رواج کے مطابق مکرم مولوی صاحب موصوف نے ایک کپڑے پر قرآن کریم کی بعض آیات لکھوا کر انہیں تحفہ پیش کیں.اجلاس کے بعد سوسائٹی کے سرکردہ ارکان نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ وہ با قاعدگی کے ساتھ ان کے اخبار The light of Islam کے لئے اسلامی تعلیمات پر مضمون لکھا کریں.سنگاپور میں چینی مسلمان بھی ہیں اس لئے ان مسلمانوں کو ایک جگہ جمع کرنے کے لئے ماہوار جلسے شروع کئے گئے ہیں.ہر جلسہ کسی ایک مسلمان کے گھر پر کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ سنگا پور کی نیشنل لائبریری میں اسلامی لٹریچر رکھنے کا بھی انتظام کیا گیا ہے.

Page 431

تاریخ احمدیت.جلد 24 413 سال 1967ء سوئٹزرلینڈ یورپ کے دوسرے مشنوں کی طرح عیدالفطر اور عیدالاضحیہ کی مبارک تقاریب پر سوئٹزر لینڈ کی مسجد محمود میں بھی مختلف ممالک کے مسلمانوں کا روح پرور اجتماع ہوا.خطبات عید چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی اے ایل ایل بی امام مسجد محمود نے ارشاد فرمائے جو بہت اثر انگیز اور معلومات سے لبریز تھے.عیدالفطر (۱۲ جنوری) میں سفیر جمہوریہ متحدہ عربیہ ہز ایکسی لینسی محمد توفیق بھی اپنی بیگم اور صاحبزادیوں کے ساتھ شامل ہوئے.اس تقریب پر احمد یہ مشن کی طرف سے ریفریشمنٹ کا وسیع پیمانے پر انتظام تھا.مردوں کے لئے لیکچر روم میں اور خواتین کے لئے ڈرائنگ روم اور ملحقہ حصہ میں انتظام کیا گیا.دونوں کی تعداد یک صد سے اوپر ہوگی.تقریب عید میں شرکت کرنے والے غیر مسلم معززین میں سے جرمن قونصل ڈاکٹر نیونکر (NIEMOELER) عملی نفسیات کے ماہر ڈاکٹر ہیز بر (HOESBER)، زیورک کے ایک بااثر دوست جو بلدیہ کے رکن ہیں مسٹر ارنسٹ ڈینز (ERNST DIENER) قابل ذکر ہیں.ان کے علاوہ یو نیورسٹی کے غیر مسلم طلباء اور بعض اور غیر مسلم زیرتبلیغ احباب اور خواتین تھیں.عید کی شام کو سات بجے سوئس ٹیلی ویژن نے ”مسجد محمود زیورک میں عید کی فلم دکھائی.ابتدا میں مسجد کا بیرونی منظر بھی دکھایا گیا.سوئس ٹیلی ویژن نے اس عید کی تقریب میں ہزاروں لاکھوں افراد کو شریک کر لیا.اور فلم ایسے انداز میں تیار کی گئی جو اسلام کے لئے اچھا تاثر پیدا کرنے والی تھی.عید سے اگلے روز ۱۳ جنوری جمعہ کی شام کو ترک احباب نے اپنے رنگ میں تقریب عید منانے کا اہتمام کیا.جس میں چوہدری مشتاق احمد صاحب کو بھی مدعو کیا گیا.اس مجلس کے صدر جناب بے مصطفیٰ یا مسز (BAY MUSTAFA YAMSIZ) ایک ترک انجینئر تھے.انہوں نے چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے تقریر کی خواہش کی.آپ نے روزوں کا مقصد اور عید کی غایت بیان کی آپ کی تقریر کے بعد پھر صاحب صدر نے تقریر کی اور فرمایا کہ ہم اس جماعت سے نہیں تعلق رکھتے جس کے یہ امام ہیں.لیکن ہم ان کے کام کو قدر و عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.یہ دین کی اہم خدمت بجالا رہے ہیں.اور ہمیں ان کے ساتھ تعاون میں خوشی ہے.63

Page 432

تاریخ احمدیت.جلد 24 414 سال 1967ء عیدالاضحیہ کی تقریب میں پاکستان، ترکی اور مصر کے سفرائے کرام نیز تیونس اور نائیجیریا کے سفارتخانوں کے سیکرٹری صاحبان اور دوسرے سفارتی نمائندوں نے شرکت کی.مزید برآں متعدد ممالک کے مسلمان احباب بھی کثیر تعداد میں شریک ہوئے.سوئس ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے عید کی تقریب کا ریکارڈ تیار کیا.یکم ستمبر ۱۹۶۷ء کو چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ایک پادری صاحب ہائن سٹائن (HALLENSTEIN) کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک نہایت دلچسپ اور مفید تبادلہ خیال کیا.آپ نے مسیح کی بن باپ ولادت کے ذکر پر بتایا کہ یہ فضیلت کی دلیل نہیں کیونکہ طبی تحقیق نے ثابت کر دیا ہے کہ نہ صرف ادنی کیڑوں میں بلکہ انسانوں میں بھی بغیر باپ کے بچے پیدا ہو جاتے ہیں اس پر پادری ہائن سٹائن نے کہا کہ ہمارے نزدیک تو مسیح علیہ السلام کی بن باپ ولادت تاریخی لحاظ سے درست نہیں ہے اور ہم اس نظریہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ وہ بن باپ پیدا ہوئے تھے.باجوہ صاحب نے بائبل کی تاریخی حیثیت پر تنقید شروع کی تو انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ اعتراف ہے کہ آپ اس بارے میں ہم سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں.پادری صاحب نے اپنی تعلیم کے دوران کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارا امتحان قریب تھا.ہمارے نصاب کا ایک حصہ بائبل پر تنقید بھی تھا.ہمارے پروفیسر نے کہا کہ اس بارہ میں وسیع لٹریچر موجود ہے.لیکن آپ اس سارے لٹریچر کو کہاں پڑھیں گے میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ جماعت احمدیہ کے شائع کردہ قرآن کریم کے دیباچہ کے قریباً پچاس صفحات جن میں بائبل پر تنقید کی گئی ہے، پڑھ لیں.بس یہی کافی ہوگا.65 اس موقعے پر پادری صاحب اپنے ساتھ پچیس نو جوانوں کو بھی لائے تھے.اس پُر لطف علمی مجلس کے پانچویں روز پانچ ستمبر کو ہوئر گن (HORGEN) کے قصبہ سے ٹمپر لیس سوسائٹی کے ارکان اپنے صدر ڈاکٹر ہوئی (HOEBI) کی قیادت میں آئے.ان میں نوجوان بھی تھے اور بوڑھے بھی.لیکن اسلام کے اس حکم کہ شراب نہ پی جائے، نے ان کی طبائع میں ایک سنجیدگی اور سوچ کا مادہ پیدا کر دیا تھا.اور آپ کی ابتدائی تقریر کے بعد ان کے ساتھ تبادلہ خیالات خاصہ پر لطف رہا.یقیناً شراب کے خلاف جدو جہد کرنے والوں کے لئے یہ امر حیرت کا موجب ہے کہ کس طرح آنحضرت ﷺ نے اسلامی معاشرہ کو شراب سے بالکل پاک کر دیا.یکم ستمبر کی تقریب پر پادری صاحب اور نوجوانوں نے سلسلہ کی کتب خریدیں.لیکن سوسائٹی کے

Page 433

تاریخ احمدیت.جلد 24 415 سال 1967ء ارکان نے اصرار کے ساتھ مسجد محمود کے لئے عطیہ بھی دیا.ایک موضوع ، جو ان دونوں تقاریب میں زیر بحث آیا، مسئلہ فلسطین تھا.چنانچہ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اپنی رپورٹ میں رقمطراز ہیں:.صیہونیت کا ان ممالک میں زبر دست پراپیگنڈہ ہے.عربوں اور یہودیوں کی گزشتہ جنگ کے دوران تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس ملک میں بستے ہی صرف یہودی ہیں.ہر ایک یہودیوں کی حمایت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتا تھا اور یہ مسجد تو کئی لوگوں کی آنکھوں میں خار کی طرح کھٹکنے لگی تھی.جو لوگ ہم مسلمانوں سے ہمدردی رکھتے تھے وہ بھی اس کے اظہار سے ڈرتے تھے.مگر مجھے اس امر کے اظہار میں مسرت ہے کہ انتہائی متعصب طبقہ کے علاوہ عام سوئس جو سرسری طور پر محض یہودی پراپیگنڈہ سے متاثر ہے، بیج واقعات سن کر زیادہ الجھتا نہیں اور بات کو سمجھ جاتا ہے.چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ ایک حد تک عربوں سے ہمدردی کی رواں گفتگوؤں کے نتیجہ میں پیدا ہوگئی.میرے لئے اس معاملہ میں مشعل راہ سید نا حضرت المصلح الموعود کا ایک ارشاد ہے.حضور نے ۱۹۴۵ء میں خاکسار کی انگلستان روانگی سے قبل خاکسار کو یہ ہدایت دی کہ وہاں پر مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے جد و جہد کرتے رہیں کیونکہ ان کے حقوق کی حفاظت کرنے والا وہاں کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ نے وہاں اس ارشاد کی تعمیل کی توفیق بخشی.اب یہی حال اس ملک میں عرب بھائیوں کا ہے.سارا پراپیگنڈہ یک طرفہ جارہا ہے.بہر حال ہم سے جو بن پڑتا ہے وہ کیا جاتا ہے.تیسری تقریب سوئس احمدی رفیق چانن صاحب کے اعزاز میں منعقد ہوئی.آپ کئی سال پاکستان میں قیام اور وہاں پر شادی کے بعد بیگم صاحبہ ، بیٹا سمیت تعطیلات کے دوران سوئٹزرلینڈ تشریف لائے تھے.اسی سہ پہر کو آپ نے ربوہ ایک عالمی تحریک کا مرکز کے موضوع پر از حد دلچسپ اور مفید تقریر کی.آپ نے جماعت احمدیہ کے مرکز کے تعلیمی تبلیغی ، معاشرتی اور تربیتی کام کا ذکر کیا.اور بتایا کہ کس طرح ایک چھوٹا سا قصبہ عالم اسلام میں ایک مثالی حیثیت کا حامل ہے.اور سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی نئی تحریکات کیا انقلاب لا رہی ہیں.آپ نے حاضرین کو خود جا کر ربوہ دیکھنے کی دعوت دی.جہاں سلسلہ احمدیہ کے مہمانخانہ کے دروازے ہر مہمان کے لئے آٹھوں پہر کھلے رہتے ہیں.آپ نے ربوہ کی اتنی دلکش تصویر کھینچی کہ سامعین گہرے طور پر متاثر ہوئے.اس

Page 434

تاریخ احمدیت.جلد 24 416 سال 1967ء تقریر نے جماعت اور مرکز کے بارہ میں مزید معلومات کی خواہش کئی قلوب میں پیدا کر دی.اور مسٹر چانن سوالات کے جوابات دیتے رہے.دیر تک باہمی گفتگو کا یہ مفید سلسلہ جاری رہا.ستمبر میں پانچویں تقریب ڈاکٹر محمد فاضل الجال کی اسلام کا قبلہ اول“ کے موضوع پر تقریر تھی.ڈاکٹر صاحب عراق میں فوجی انقلاب کے وقت وزیر خارجہ تھے.فلسطین پر مجلس اقوام متحدہ میں بحث اور اس کی تقسیم کے وقت وہ وہاں پر عراق کے نمائندہ تھے.اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ساتھ وہ عربوں کے مفاد کی حفاظت کے لئے جد و جہد کرتے رہے.آپ ہمیشہ جذبات تشکر کے ساتھ حضرت چوہدری صاحب کی خدمات کا ذکر کیا کرتے تھے.آپ پاکستان کے خیر خواہوں میں سے تھے.اور اسلام کا در درکھتے تھے.سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے از حد مداح تھے.خود اس مسجد میں ۱۵ جولائی کی شام کی تقریب میں جب مشتاق احمد صاحب باجوہ نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے تعارف کروایا، تو انہوں نے جماعت کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا.یہ تقریب جناب ڈاکٹر محمد حمودی الجاسم ڈپٹی اٹارنی جنرل عراق کے سورہ بنی اسرائیل کے رکوع اول کی تلاوت کے ساتھ شروع ہوئی.جناب مشتاق احمد صاحب باجوہ نے مختصر تعارف کروایا.ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یروشلم عالم اسلام میں کیا اہمیت رکھتا ہے.یہ کن انقلابات میں سے گذرا اور آئندہ کیا خطرات اور مہمات در پیش ہیں.ان کی تقریر کا جرمن ترجمہ جناب ڈاکٹر عزالدین حسن صاحب نے پڑھا.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ نے صدارتی تقریر میں بتایا کہ یہود نا مسعود کے فلسطین میں پھر جمع کئے جانے کی واضح پیشگوئی قرآن کریم میں موجود ہے.لیکن ساتھ ہی الہی وعدہ بھی موجود ہے کہ بالآخر خدا تعالیٰ کے صالح بندے اس کے وارث ہوں گے.مسلمانوں اور خصوصاً عربوں کے لئے ہر قسم کے ماڈی ذرائع استعمال کرنا بے شک ضروری ہے لیکن اس سے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر ایک نیک تبدیلی پیدا کریں.پھر قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑیں اور باہمی اختلاف وافتراق دور کر کے واقعی اپنے آپ کو اس ارض مقدس کا اہل بنائیں.تا یہ موعودہ سرزمین اُن کو مل سکے.اس تقریب میں کئی احباب و خواتین ایسے بھی تھے جو پہلی بار آئے.دفلسطینی ڈاکٹروں نے ، جو اس وقت بے وطن تھے ، بتایا کہ فلسطین کے مسیحیوں کو مسلمان عربوں پر اس قدر اعتماد ہے کہ صدیوں سے میروشلم کے گر جا کی حفاظت نسلاً بعد نسل ایک مسلمان خاندان کے سپر درہی ہے.یہودیوں نے اب قبضہ کے بعد اس خاندان سے چابیاں لے کر پادریوں کے سپر د کیں.ان کی حفاظت سے نکالنے کا

Page 435

تاریخ احمدیت.جلد 24 417 سال 1967ء یہ نقصان ہوا کہ گر جا میں چوری ہو گئی.گر جا کا وہ سونا، جو مسلمانوں کے قبضہ میں صدیوں سے محفوظ تھا، یہودیوں کے قبضہ میں آنے کے چند یوم بعد چوری ہو گیا.اس تقریب میں آکسفورڈ کے ایک گریجویٹ بھی تھے.جنہوں نے اس دن صبح کے وقت اپنے آپ کو فون پر متعارف کیا اور مشتاق احمد صاحب باجوہ نے ان کو مدعو کر لیا.آپ کی دلچسپی اسلامی تصوف میں تھی اور وہ اس بارہ میں بعض معلومات کے حصول کے لئے دیر تک ٹھہرے رہے.جناب ڈاکٹر برکات احمد صاحب اور ڈاکٹر محمد عزالدین صاحب بھی اس بحث میں شریک رہے.ہر ماہ مشن کے زیر اہتمام بچوں کی تربیتی کلاس منعقد ہورہی تھی جو بہت کامیاب رہی.بچوں اور نواحمدیوں نے نماز یاد کی اور قرآن مجید ناظرہ پڑھنا سیکھا.انہیں ترجمہ بھی ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی اور مسائل اور تاریخ کے واقعات ان کو یاد کروائے گئے.ایک ہفتہ وار اخبار DER SONNTAG نے حیات بعد الممات پر مختلف مذاہب کے نمائندگان کے مضامین ایک خاص پرچے میں شائع کئے جن میں جناب باجوہ صاحب کا مضمون بھی تھا.مسجد محمود میں اس سال بھی کثرت سے زائرین تشریف لائے جو سوئٹزرلینڈ ، جرمنی ، آسٹریا، اٹلی، مراکش، اردن، کویت ، یوگوسلاویہ، ترکی اور انگلستان وغیرہ ممالک سے تعلق رکھتے تھے.استنبول کے ایک دوست جو قبل از میں ترکی حکومت کے ممالک بیرون میں ڈپلومیٹ تھے، اس سال بھی آئے ، اور قرآن کریم کے چار نسخے اور ترکی کتب مسجد محمود کے لئے بطور ہد یہ لائے اور جب تک زیورک میں رہے.جمعہ کی نماز اور جماعتی تقاریب میں شامل ہوتے رہے.مراکش کے سرکاری دارالترجمہ کے مہتمم اپنے ایک رفیق اور سوئس میزبان کے ہمراہ آئے اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس کتب کا تحفہ محبت سے قبول کیا.زائرین میں ایک سوئس را ہبہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو رفیق چانن صاحب کی تقریر سننے کے بعد ۲۰ ستمبر کو دوسری بار آئیں.وہ اس تقریر اور باجوہ صاحب کی گفتگو سے بہت متاثر تھیں.اور انہوں نے اپنے مکتوب استمبر ۱۹۶۷ء میں اپنے جذبات تشکر کا ذکر بائیں الفاظ کیا :.وو ” جب سے مسجد میں ہماری ملاقات آپ سے ہوئی ، تقریباً ہر روز مجھے آپ کا خیال آتا رہتا ہے.ہماری گفتگو کا اس دن موضوع وہ عقائد تھے، جو گو یا ہماری زندگی کا مغز ہیں.لیکن مجھے اس امر کا ضرور اظہار کرنا ہے کہ آپ کے ساتھ اس طرح صفائی سے بلا روک گفتگو نے مجھ میں گویا ارتعاش پیدا کر دیا

Page 436

تاریخ احمدیت.جلد 24 418 سال 1967ء تھا.اور ساتھ ہی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتی تھی.گو اس سے قبل مجھے آپ سے ملنے کا اتفاق نہ ہوا تھا.مگر اس گفتگو میں ایک اعتماد کی فضا پیدا ہوگئی.میں نے محسوس کیا کہ آپ اپنے معتقدات میں خلوص و سنجیدگی کے ساتھ میرے ذاتی ایمان کا بھی احترام کرتے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ آپ کی طرح میں اپنی زندگی کو مذہبی اصولوں پر استوار کرنا چاہتی ہوں گو میں ایک مبتدی ہوں اور آپ زندگی کے بہت سے مراحل سے گزر کر تجربہ حاصل کر چکے ہیں.میں سمجھتی ہوں کہ صداقت کی مخلصانہ جستجو نے مجھے آپ کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے.اور میں چاہتی ہوں کہ خدا کی طرف سفر کی ایک منزل آپ اور آپ کی جماعت کے ساتھ باہمی دعا کے ذریعہ طے کرلوں.“ ۲۰ ستمبر کی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ ان کے حلف نے اُن پر کئی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں.اور یہاں آنے کے لئے ان کو خاص اجازت حاصل کرنا پڑی ہے.خط وکتابت بھی جن کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ چاہیں تو کھول کر پڑھ لیں.۲۱ ستمبر ۱۹۶۷ء کو پروٹسٹنٹ گر جاؤں کی کونسل کے صدر رابرٹ کورٹس ROBERT) (KORTZ سے محترم باجوہ صاحب کی گفتگو تثلیث کے مسئلے پر ہوئی اور انہیں لٹریچر پیش کیا گیا.سیرالیون 67 جماعتہائے احمد یہ سیرالیون کا سالانہ جلسہ ۱۰ تا ۱۲ فروری ۱۹۶۷ء احمد یہ سیکنڈری سکول فری ٹاؤن کے احاطے میں منعقد ہوا.افتتاحی تقریر میں مولوی بشارت احمد صاحب بیر امیر ومبلغ انچارج سیرالیون نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کو خوش آمدید کہا.انہوں نے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا.حضور نے اپنے پیغام میں احباب پر واضح فرمایا کہ جماعت احمدیہ کو اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے.اور وہ ہے اس دنیا میں ایک عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا کرنا.چنانچہ جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کو دنیا میں سر بلندی حاصل ہورہی ہے.اور وہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.برخلاف اس کے باطل اور لامذہبیت کی طاقتیں برابر پسپا ہوتی جارہی ہیں.ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پہچا نہیں.اور وقت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسلام کی کامل اور فیصلہ کن فتح کو قریب سے قریب ترلانے کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں.

Page 437

تاریخ احمدیت.جلد 24 419 سال 1967ء جلسہ کے ایام میں ان مربیان کے اعزاز میں ، جنہوں نے دعوت الی اللہ کے میدان میں نمایاں خدمات سرانجام دیں.ایک خصوصی تقریب کا بھی اہتمام کیا گیا.مربیان کو سندات اور جھنڈے عطا کئے گئے.کیلا ہوں ڈسٹرکٹ کی جماعت کو دعوت الی اللہ کی سرگرمیوں کو مستحکم بنانے پر ایک خاص جھنڈا انعام دیا گیا.جس کی سیاہ رنگ کی زمین پر ایک منارہ بنا ہوا تھا.اور منارہ کی آخری منزل سے نور کی شعاعیں مشرق و مغرب میں پھیلتی ہوئی دکھائی گئی تھیں.علاوہ ازیں اس پر چاند تارا بھی بنا ہوا تھا.جناب ایم.ایس مصطفیٰ صاحب نے انعامات تقسیم فرمائے.پیراماؤنٹ چیف جناب ابوبی اومبہ مرحوم کی یاد میں بھی ایک تقریب منعقد کی گئی.جو جماعت احمدیہ کی خدمات کے بڑے مداح تھے.اور جنہوں نے ۱۹۶۶ء کے جلسہ میں ایک اجلاس کی صدارت بھی کی تھی.جلسہ میں ملک کے کونے کونے سے کثیر تعداد میں احباب جماعت کے علاوہ متعدد پیراماؤنٹ چیفس اور ممبران پارلمینٹ نے بھی شرکت فرمائی.جن احباب نے مختلف اجلاسوں کی صدارت کی ان میں پیرا ماؤنٹ چیف جناب ایم.کے گا مانگا، پیرا ماؤنٹ چیف جناب ایم بریوا اور آنر بیل جناب ایم.الیس مصطفیٰ بھی شامل تھے.جلسہ میں مختلف عنوانات پر علمی تقاریر ہوئیں.68- الحاج تیجان صاحب نے اپنے خطاب میں یہ دلچسپ واقعہ سنایا:.” جب جماعت احمد یہ تین سال پہلے اس کوشش میں تھی کہ زمین کا کوئی قطعہ بھی شہر میں مل جائے تو اس پر سکول اور مشن ہاؤس کی عمارت تعمیر کر کے تبلیغی مساعی کو ملک کے شمال مشرقی حصہ میں وسیع کیا جائے.اُس وقت چند ایک مسلمانوں نے اُس کی مخالفت کی.اب جب انہیں معلوم ہوا کہ بواجے بو (Bo) میں احمد یہ سکول اور احمد یہ ہسپتال قائم ہو چکے ہیں اور انہیں بچوں کو داخل کرانے اور علاج کے لئے وہاں جانا پڑتا ہے تو پچھتاتے ہیں.اپریل تا جون کے دوران ۸۲/افراد نے بیعت کا شرف حاصل کیا.جور و مسلمانوں کا علاقہ ہے مگر یہاں میتھوڈسٹ مشن کو مسلمان نسلوں میں نفوذ عیسائیت کے لئے سکول جاری کرنے کی منظوری دے دی گئی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے اس علاقے کے پیراماؤنٹ چیف سے ملاقات کی اور احمد یہ سکول کے اجراء کی خواہش کا اظہار کیا.حکومت کی طرف سے کوئی امداد نہ ملی آخر اللہ تعالیٰ پر

Page 438

تاریخ احمدیت.جلد 24 420 سال 1967ء تو کل کرتے ہوئے 9 مئی ۱۹۶۷ء کو یہاں احمد یہ سکول کا سنگِ بنیاد رکھ دیا گیا.اس تقریب میں جماعت سیرالیون کے سیکرٹری جنرل الحاج بونگے ، اساتذہ کرام اور اہل جو رونے کثیر تعداد میں شرکت کی.تقریب کی خبر اخبار ڈیلی میل (DAILY MAIL) میں شائع ہوئی اور ریڈیو پر نشر ہوئی.احمد یہ مشن کی طرف سے سیرالیون کے لئے ۴۰۰ عربی اور انگریزی کتابوں کا تحفہ محکمہ تعلیم سیرالیون کو پیش کیا گیا.اس سلسلہ میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں انقلابی کونسل میں محکمہ تعلیم کے سربراہ میجر اے آر طورے نے شرکت کی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے ایک مؤثر تقریر کی اور احمد یہ جماعت کی تیس سالہ تعلیمی وتبلیغی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ خدائے قادر کی طرف سے مقدر ہو چکا ہے کہ اسلام افریقہ کے تابناک ماضی کے احیاء میں نمایاں کردار ادا کرے.(اخبار ڈیلی میل نے اس تقریب کی خبر دیتے ہوئے مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے یہ الفاظ نمایاں طور پر شائع کئے.) میجر طورے نے کتابوں کے تحفہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہم ملک میں عربی اور دینیات کو سکولوں میں رائج کرنا چاہتے ہیں.اور اس امر کی کامیاب تکمیل کیلئے ہمیں جماعت احمدیہ کی خدمات مستعار لینا پڑیں گی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ٹیچر ٹریننگ کالج کے بورڈ میں حکومت سیرالیون کی طرف سے نامزد ممبر تھے.اس سال انہوں نے کالج کے طلباء کے لئے مذہبی معلومات (RELIGIOUS KNOWLEDGE) کا پرچہ ڈالا.جماعت احمد یہ سیرالیون کے جنرل سیکرٹری الحاج بونگے اس سال حج بیت اللہ کی سعادت سے مشرف ہوئے اور مقامات مقدسہ کی زیارت کے بعد ربوہ تشریف لے گئے اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی زیارت اور مجلس مشاورت میں شرکت کے بعد اپنے وطن واپس آئے.ان کی کامیاب مراجعت پر فری ٹاؤن میں ایک خاص استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی جس میں غیر از جماعت اصحاب بھی کثرت سے شامل ہوئے.صدارت کے فرائض چیف جسٹس بانجا نتیجان نے کی.اس تقریب کا بہت اچھا اثر ہوا.الحاج بونگے نے فری ٹاؤن کے علاوہ باجے بو، بو ، جورو وغیرہ مقامات کا دورہ کیا اور احباب جماعت کو اپنے مبارک سفر کی تفصیلات اور تاثرات سے آگاہ کیا.اس سال متعدد شخصیات سیرالیون مشن میں آئیں جن میں خاص طور پر قابل ذکر لنڈن یونیورسٹی میں مشرقی اور افریقی علوم کے شعبہ تاریخ کے لیکچرار ڈاکٹر جان ہنری فشر ( آپ نے کئی سال قبل

Page 439

تاریخ احمدیت.جلد 24 421 سال 1967ء احمدیت پر ایک مفصل مقالہ بعنوان AHMADIYYAH: A STUDY IN" CONTEMPORARY ISLAM OF THE WEST AFRICAN "COAST لکھ چکے ہیں.جس پر انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی.یہ مقالہ ۱۹۶۳ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہی نے شائع کیا.) ہیں.جو تقریباً چھ سال بعد سیرالیون آئے تھے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے انہیں ایک روز ظہرانے پر بلایا.ان کی توجہ کتاب کے بعض ایسے حصوں کی طرف مبذول کرائی گئی.جو حقیقت پر مبنی نہ تھے.گفتگو کے تسلسل میں مولوی بشارت احمد صاحب نے ان سے پوچھا کہ آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کا مستقبل مخدوش اور غیر یقینی ہے.اب آپ اتنی مدت بعد تشریف لائے ہیں.جماعت کے بارہ میں آپ کے کیا تاثرات ہیں.اس پر آپ بے اختیار بولے کہ اس میں شک نہیں کہ جماعت نے اس عرصہ میں بہت بڑی اور نمایاں ترقی کی ہے.جو فی الحقیقت میری توقعات سے کہیں زیادہ ہے.ڈاکٹر فنشر نے ۲۸ نومبر کو فورا بے کالج میں مسلم ایجوکیشن پر لیکچر دیتے ہوئے اس امر کا اعتراف کیا کہ جماعت احمدیہ کو مغربی افریقہ میں اسلامی تعلیم کی ترویج میں تقدم حاصل ہے.مسٹر فشر کے علاوہ مدینہ منورہ سے ایک سرکاری وفد سیرالیون آیا.اسے احمد یہ سکول دیکھنے کا موقع ملا.چنانچہ اُس نے لاگ بک LOG BOOK میں اپنے تاثرات کا اچھے الفاظ میں اظہار کیا.ایک اور دوست بھی مدینہ منورہ سے تشریف لائے تھے اور اپنے آپ کو مبلغ اسلام بتاتے تھے.چار روز تک مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کے ہاں قیام کیا.یہ دوست حافظ قرآن بھی تھے.جب انہوں نے ہم سے قرآن مجید کی تفسیر سنی تو بے اختیار بولے کہ اگر کسی نے قرآن مجید کی تفسیر سیکھنی ہو تو پاکستان جائے.اس پر مولوی صاحب موصوف نے بتایا کہ یہ نعمت پاکستان کے شہر ربوہ سے ہی حاصل ہوسکتی ہے.آپ نے بتایا کہ قرآن مجید میں متعدد آیات ایسی پائی جاتی ہیں جن سے زمین کی حرکت ثابت ہے.احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول بو کے لئے عرصہ سے ایک مسجد کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس کی جارہی تھی.سکول کے پرنسپل منور احمد صاحب ایم.ایس سی نے اس کا ایک منصو بہ تیار کیا اور اس کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا.اور اس کی بنیادیں بھر دی گئیں.جس کے جملہ اخراجات ادا کرنے کی سعادت منور احمد صاحب کے حصے میں آئی.بعد میں بعض وجوہ کی بناء پر یہ منصوبہ معرض التوا میں

Page 440

تاریخ احمدیت.جلد 24 422 سال 1967ء چلا گیا.ستمبر ۱۹۶۷ء میں مولوی عبد الشکور صاحب امیر جماعت احمد یہ سیرالیون کی اجازت اور حوصلہ افزائی سے اس منصوبے کا احیاء کیا گیا.اور انومبر ۱۹۶۷ء کو اس کے تعمیری منصوبے کے کام کا افتتاح عمل میں آیا.اس موقعے پر امیر صاحب اور متعدد مبلغین کرام اور مقامی احمدیوں کے علاوہ بوشہر کے ممتاز مسلمان اور سرکاری حکام و افسران بھی تشریف لائے.اس تقریب کی تفصیلی خبر روز نامہ DAILY MAIL میں طبع ہوئی.فری ٹاؤن (سیرالیون) کے اخبار ڈیلی میل نے اپنی ۴ امئی ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں ایک مزید احمد یہ سیکنڈری سکول کھلنے کی خبر کو نمایاں طور پر شائع کیا اور لکھا کہ اس عمارت کی تعمیل سرعت سے جاری ہے.سنگ بنیادرکھنے کی تقریب پر ارد گرد کے مختلف علاقوں سے متعدد مقتدر اصحاب تشریف لائے ہوئے تھے.18 غانا اس سال ۶،۵، ۷ جنوری ۱۹۶۷ء کو جماعت احمد یہ غانا کی بیالیسویں کامیاب سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی.جس میں اسلام واحمدیت کے چھ ہزار پروانوں کا اجتماع ہوا.کانفرنس کے آخری اجلاس میں ایثار و قربانی کے ایمان افروز مناظر دیکھنے میں آئے.اس حقیقت کا کسی قدر اندازہ کانفرنس کی مطبوعہ رپورٹ کے مندرجہ ذیل اقتباس سے ہو سکے گا.چنانچہ لکھا ہے کہ:.جماعتوں نے ایک نئے جوش اور اخلاص سے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر قربانی پیش کرنے کا آغاز کیا.یہ نظارہ دیکھنے سے متعلق تھا کہ مسیح محمدی کے متبعین اور شمع احمدیت کے پروانے کس طرح ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھے.اور قرآنی آیت فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ( البقرہ: ۱۴۹) کا ایک زندہ اور عملی نمونہ پیش کر رہے تھے.نعرے لگ رہے تھے.جوش دلانے والے گیت لوکل زبان میں پڑھے جا رہے تھے.اور قرآن کریم کی آیات اور درود شریف کی تلاوت لاؤڈ سپیکر پر ہو رہی تھی.اور احباب جماعت اشاعت اسلام کی خاطر بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کر رہے تھے.اگر ایک جماعت زیادہ رقم پیش کر کے سبقت لے جاتی تو دوسری جماعت پھر سے اپنے ممبران سے چندہ اکٹھا کرنا شروع کر دیتی اور پہلے سے بھی زیادہ رقم پیش کر کے ان سے بڑھ جاتی پھر تیسری آگے آجاتی.یہ سلسلہ قریباً دو گھنٹہ تک جاری رہا.آخر دو جماعتوں میں مقابلہ تھا اشانٹی اور ا کونفی

Page 441

تاریخ احمدیت.جلد 24 423 سال 1967ء میں.اشانٹی نے اپنا پورا زور لگایا کہ اس سال ان کو اول آنے کا فخر حاصل ہو اور الحاج الحسن عطا صاحب پریذیڈنٹ انشانٹی نے اپنی جماعت کی طرف سے چیک بھی پیش کئے.مگر دوسری جماعت گذشتہ سال کی طرح سبقت لے جانے کا تہیہ کر کے آئی تھی.وہ کس طرح پیچھے رہ سکتی تھی.چنانچہ آخر میدان اسی کے ہاتھ میں رہا.اور اس نے ۱۴۴۶ سیڈی یعنی ۷۸۳۳ روپے سے زائد پیش کر کے اوّل پوزیشن حاصل کی.اور انشانٹی نے ۱۳۷۷ سیڈی ۷۴۵۸ روپے سے زائد رقم پیش کر کے دوئم پوزیشن لی.کل رقم جو مالی قربانی کے طور پر جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی وہ ۹۳۸۳ سیڈی یعنی ۴۴۳۲۵ روپے ہے.“ اس کانفرنس میں ملک کی متعدد اہم شخصیتوں نے شرکت کی.جن میں خاص طور پر قابل ذکر مسٹر بی.اے یعقوبو (MR.B.A.YAKUBU) اور لیفٹینٹ کرنل آر.جے.جی.ڈنڈو (LT.COL.R.J.G.DONTOH) تھے.اول الذکر غانا کی انقلابی حکومت میں واحد مسلمان ممبر تھے اور ان کے پاس وزارت صنعت اور اراضیات کے محکمہ جات تھے.اور موخر الذکر سنٹرل ریجنل ایڈمنسٹریٹو کمیٹی کے چیئر مین تھے.ان کے علاوہ اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس مسٹراے کے لیوی (MR.A.K.LAVIE) بھی شامل جلسہ ہوئے.مسٹر بی.اے یعقو بو نے اپنے صدارتی خطاب میں فرمایا کہ میں غانا میں مسلمانوں کی حالت سے خوب آگاہ ہوں.اور مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اسلام کی خدمت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.میں نے اسی وجہ سے آپ کی دعوت کو قبول کیا.اور مناسب سمجھا کہ یہاں آکر آپ سے خطاب کروں.حکومت کے نمائندہ اور ممبر کی حیثیت سے نہیں بلکہ آپ کے بھائی کی حیثیت سے.آپ نے تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو مشکلات اس وقت ہمیں در پیش ہیں.یہ محض اسی صورت میں حل ہو سکتی ہیں کہ ہم ایک جگہ اکٹھے ہو کر اس بارہ میں کوئی مناسب راہ تلاش کریں.اور سب سے بڑا اور اہم کام جو ہمیں فوری طور پر کرنا ہے وہ ہے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین دلانا.اور پھر اس کی عبادت کی طرف انہیں ترغیب دلانا.اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اسلام کی اشاعت کے لئے آپ ہر ممکن طریق کو عمل میں لانے کی کوشش کریں.مسٹراے.کے لیوی اسسٹنٹ کمشنر آف پولیس نے غانا میں جماعت احمدیہ کی ترقی اور اس کی

Page 442

تاریخ احمدیت.جلد 24 424 سال 1967ء تعلیمی و مذہبی خدمات کو سراہتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمد یہ اس بارہ میں پہلے ہی کوشش کر رہی ہے.اور غانا میں ایک خاصی تعداد میں سکول جاری کر کے اس بات کا زندہ ثبوت بہم پہنچا چکی ہے کہ اس جماعت میں کلام اللہ کی اشاعت کا جذبہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ہر ممکن طریق کو عمل میں لانے کی سعی کر رہی ہے.یہ جماعت ۱۹۲۱ء میں گولڈ کوسٹ میں قائم ہوئی.جبکہ حالات بالکل اس کے ناموافق تھے.مگر آج یہ جماعت اس بات پر فخر محسوس کرنے میں حق بجانب ہے کہ اس کے کافی تعداد میں پاکستانی اور غانین مبلغ گریجویٹ اور غیر گریجویٹ اشاعت اسلام میں مشغول ہیں.ایک احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج قائم ہوا ہے.احمد یہ سیکنڈری سکول، درجنوں مڈل اور پرائمری سکولز قائم ہیں.نیز اس کے متبعین ہزاروں کی تعداد میں غانا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ہیں.لہذا میں جماعت کے ممبران کو اس امر کا یقین دلاتا ہوں کہ جب بھی اور جس رنگ میں بھی انہیں ہماری کسی معاملہ میں ضرورت پیش آئے گی تو ہر ممکن طریق سے ان کی مدد کی کوشش کی جائے گی.لیفٹیننٹ کرنل آر.جے.جی.ڈنڈو نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے لئے یہ نہایت ہی خوشی اور مسرت کا مقام ہے کہ مجھے اس قسم کی مذہبی کا نفرنس میں شرکت کی توفیق مل رہی ہے.جس میں آپ لوگ محض خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے حاضر ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ کی مذہبی اور سماجی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے کرنل صاحب موصوف نے فرمایا کہ اس جماعت کے ممبران جس رنگ میں تبلیغی کام سرانجام دے رہے ہیں وہ قابل قدر ہیں اور مجھے توقع ہے کہ وہ اپنے اس کام کو جاری رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خداتعالی کی آواز پہنچانے کی کوشش کریں گے تا کہ وہ بھی آپ کی طرح نورالہی سے حصہ پاسکیں.وہ زمانہ گذر گیا جبکہ مذہب کو طاقت اور تلوار کے ذریعہ پھیلایا جاتا تھا.اب مذہبی آزادی کا زمانہ ہے.ور ہر شخص کو اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے مختلف مذاہب میں ایک پر امن فضا پیدا ہو سکتی ہے.اور باہم مل کر کام کرنے کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے.جماعت کی تعلیمی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے کرنل صاحب موصوف نے فرمایا کہ میرے لئے یہ بات نہایت ہی خوشی کا موجب ہے کہ جماعت احمدیہ کا کام صرف تبلیغ اور لوگوں کو مذہبی طور پر راہ نجات دکھانے تک ہی محدود نہیں بلکہ ملک کے سوشل اور اقتصادی امور میں بھی اس جماعت نے گرانقدر

Page 443

تاریخ احمدیت.جلد 24 425 سال 1967ء خدمات سرانجام دی ہیں.جیسا کہ تعلیمی میدان میں ان کا کام نمایاں ہے.چنانچہ کماسی میں ایک نہایت ہی شاندار سیکنڈری سکول قائم ہے.جس میں بغیر کسی قسم کے مذہبی امتیاز کے طلبہ کو داخلہ دیا جاتا ہے.یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہ جماعت دوسرے مذاہب کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے ملک کی رُوحانی اور مادی ترقی کے لئے کوشاں ہے.آپ نے فرمایا کہ اب ہر شخص کو مذہبی طور پر مکمل آزادی حاصل ہے.اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ موجودہ حکومت میں آپ مذہبی تبلیغ اور خدائی عبادت کے لحاظ سے پوری طرح آزاد ہیں.مگر اس کے مقابل مذہبی جماعتوں سے حکومت کو بھی یہی توقع ہے کہ وہ دیانت، انصاف اور خاکساری کی تبلیغ کرتے ہوئے حکومت سے تعاون کی تلقین کریں گے.کانفرنس کی کارروائی ریڈیو غانا نے نشر کی.اس کی رپورٹیں اخبار ڈیلی گرافک DAILY) (GRAPHIC اور غانین ٹائمز (GHANIAN TIMES) میں شائع ہوئیں.74 مجی (جزائر ) مولوی نور الحق صاحب انور سابق مبلغ مشرقی افریقہ ۲ مارچ ۱۹۶۷ء کو ناندی کے ہوائی متعقر پر وارد ہوئے.جماعت نبی کا ایک جم غفیر مولانا شیخ عبدالواحد کی قیادت میں پیشوائی کو موجود تھا.آپ فنجی میں وارد ہوتے ہی اشاعت دین میں سرگرم عمل ہو گئے.آپ نے پہلی ششما ہی میں جو خدمات انجام دیں ان کا خلاصہ انہی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے:.۴ مارچ کو ناندی میں ایک ایمان افروز واقعہ یہ ہوا کہ یہاں پہنچتے ہی ہمارے مخلص احمدی دوست برادرم ڈاکٹر شوکت علی صاحب پرنسپل ناندی کالج مجھے اپنے برادرا کبر ( جواس وقت تک احمدی نہ تھے ) سے ملانے ان کے گھر پر لے گئے.اس وقت میرے ساتھ برادرم عبدالواحد صاحب اور بعض دوسرے احباب جماعت تھے.احباب نے رسمی پرسش احوال کے بعد گفتگو کا رُخ تبلیغ کی طرف موڑنا چاہا اور مجھے بھی ترغیب دی کہ میں صاحب خانہ کو تبلیغ کروں.لیکن جب میں نے ڈاکٹر صاحب کے بھائی کا نام پوچھا اور مجھے بتایا گیا کہ ان کا نام ابراہیم ہے تو میں خاموش ہو گیا.اور جب موجود الوقت احباب نے خود بھی تبلیغی گفتگو کرنا چاہی تو میں نے ان کو روک دیا.اس پر دوست بڑے حیران ہوئے کہ نامعلوم یہ کیا چاہتا ہے کہ نہ خود تبلیغ کرتا ہے نہ ہمیں کرنے دیتا ہے جب احباب کی حیرانی کچھ زیادہ ہوگئی تو میں نے انہیں بتایا کہ جب میں مشرقی افریقہ کے علاقہ یوگنڈا میں پہلی مرتبہ گیا تو اس

Page 444

تاریخ احمدیت.جلد 24 426 سال 1967ء وقت میرے ذریعہ سب سے پہلے جو احمدی ہوا اس کا نام بھی ابراہیم تھا اور میں اپنے پیارے آسمانی آقا سے امید رکھتا ہوں کہ یہاں بھی اس کا اعادہ ہوگا اور اگر یہ وہی ابراہیم ہے جسے اللہ تعالیٰ فیجی میں سب سے پہلے احمدی ابراہیم بنانا چاہتا ہے تو پھر بحث کی اور بساط گفتگو پھیلانے کی ضرورت نہیں.انشاء اللہ خود بخود کھنچے چلے آئیں گے اس پر بات ختم ہوگئی.بھائی ابراہیم بھی ہنس کر خاموش ہو گئے.رات کو ناندی کالج میں استقبالیہ تقریب کے بعد جماعت کا جلسہ تھا جب ابھی تقریر کر کے میں بیٹھا تھا کہ بھائی ابراہیم اور ایک دوسرے دوست آگے بڑھے اور خود بخود کہنے لگے ہماری بیعت لے لیں.مارچ کو فیجی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے نمائندہ نے اردو اور انگریزی میں انٹرویو لیا جو انہوں نے اپنے اردو انگریزی سیکشنوں سے نشر کیا.امارچ کو لمباسہ کے شہریوں کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا تین بجے ٹی پارٹی میں شرکت کی.جس میں گورنمنٹ کے سیکنڈری سکول کے پرنسپل نے انگریزی میں خوش آمدید کہا.خاکسار نے انگریزی میں جوابی تقریر کی.ہوٹل کے انگریز مینیجر نے بھی خوش آمدید کہا پھر شام کو الائٹ ہال میں استقبالیہ جلسہ تھا.ایک مقامی معزز وکیل نے صدارت کی.اس میں ایک گھنٹہ تک خاکسار کی تقریر ہوئی.غیر از جماعت لوگ کثرت سے موجود تھے.ان میں لٹریچر بھی تقسیم کیا گیا.مغرب کی نماز کے بعد ایک گھنٹہ تک احباب جماعت میں درس دیا.ان تقریبات سے فارغ ہو کر دوسرے دن پھر مسجد مبارک گئے.مسجد میں پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے فیجی کا پہلا پھل عطا فرمایا.یعنی ایک فیجیئن نو جوان جو نما ز جمعہ میں شامل ہوا تھا اسلام قبول کر کے داخل سلسلہ ہوا.اس کا اسلامی نام محمد نانیاں رکھا گیا.اسی طرح ایک ہندوستانی نوجوان بھی بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوا.مارچ کے آخری ہفتہ میں ایک ہندو ٹیچر بھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے.اسی طرح ایک اینگلو فیجین عیسائی نوجوان جن سے ایک مقامی سفر کے دوران ملاقات ہوئی تھی ، وہ بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.یہ بڑے مخلص نوجوان ہیں چند روز ہوئے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ رمضان کا مہینہ کب آئے گا میں ارادہ کئے ہوئے ہوں کہ سارا رمضان پورے روزے رکھوں گا.اللہ تعالیٰ انہیں اخلاص وایمان میں ترقیات عطا فرمائے.ماہ مارچ میں مجموعی طور پر اکیس افراد بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.

Page 445

تاریخ احمدیت.جلد 24 427 سال 1967ء ماہ اپریل کے ابتداء میں اللہ کا نام لے کر پھر تبلیغی دورہ پر نکلا.حسب سابق اس دفعہ بھی مقامی احباب میں سے حاجی عبد اللطیف صاحب اور بھائی محمد استغفیر خان ( یه مخلص احمدی چند روز بعد فوت ہوگئے تھے.) ساتھ تھے.سووا سے چالیس پچاس میل کے فاصلہ پر ایک مقام پر شب بسر کی اور ہندوؤں ، مسلمانوں میں تبلیغ کی.سگا تو کا (sigatoka) نامی قصبہ میں دو مسلمان نوجوانوں نے بیعت کی اور ایک ہندو نو جوان مشرف بہ اسلام ہوا.ماہ اپریل میں مجموعی طور پر پینتیس افراد بیعت کر کے داخل سلسلہ ہوئے.مئی کے پہلے ہفتہ میں مختصر غیر حاضری کے علاوہ بیشتر وقت مرکز سودا میں گزرا.ماہ اپریل کے آخر میں فیجی ریڈیوٹیشن سے نشر ہونے والے مذہبی پروگرام میں ہماری جماعت کے خلاف ایک تقریر نشر کی گئی.اس پر میں فنجی براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے مینیجر سے ملا اور ان سے احتجاج کرنے کے علاوہ یہ مطالبہ کیا ہمیں ریڈیو پر جوابی تقریر کا موقع دیا جائے.اور تحریری معافی مانگی جائے.مخالفین نے پوری کوشش کی کہ میری جوابی تقریر نہ ہو سکے.یا کم از کم اس کا ایک حصہ نشر نہ ہو سکے.مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دیا.ریڈیو پر میری تقریر بھی ہوئی اور کارپوریشن نے معافی کا خط بھی لکھا اور زبانی بھی اظہار افسوس کیا.فیجی میں تبشیر واشاعت کا کام تیز تر کرنے کے لئے ضرورت محسوس کی گئی کہ ایک تبلیغی و تربیتی جریدہ کا اجراء کیا جائے.اس سے پہلے بھی برادرم شیخ عبدالواحد صاحب اسلام کے نام سے ایک ماہانہ پرچہ سائیکلو سٹائل کر کے شائع کرتے رہے ہیں لیکن مطبوعہ چیز زیادہ دیدہ زیب اور جاذب خاطر ہوتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر فی الحال ایک سہ ماہی رسالہ دی مسلم ہار بنجر ( منادی اسلام) کی بنیا درکھ دی.ماہ مئی میں اس کا مواد تیار کیا اور ملکی قوانین کے مطابق حکومت سے با قاعدہ اجازت کے بعد ماہ جون میں اس کا پہلا ایشوز یور طبع سے آراستہ ہو کر منصہ شہود میں آگیا.اس رسالہ میں انگریزی، فیجیئن اور ہندی تینوں زبانوں میں مضامین شائع ہوتے ہیں.پہلے نمبر کا ہر حلقہ میں خیر مقدم کیا گیا.ایک مسلمان ٹیچر اسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اس قسم کے رسالہ کے اجراء کا میں دیر سے منتظر تھا.اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو اسم بامسٹمی بنائے اور ان دیار میں واقعی یہ اسلام کا منادی ثابت ہو.آمین سووا سے نکلنے والے ایک ہندی اخبار فیجی ساچاڑ کے ایڈیٹر نے دار التبلیغ میں آکر مجھ سے انٹرو یولیا پھر میرے فوٹو کے ساتھ اپنے اخبار کی دو قسطوں میں جماعت احمدیہ اور اس کے وسیع نظام اور

Page 446

تاریخ احمدیت.جلد 24 428 سال 1967ء عظیم الشان کام کے متعلق مضمون شائع کیا.ماہ جون کے پہلے ہفتہ میں بعض نو مبائعین کے گھروں پر جا کر درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا.بعض احباب جماعت کے ساتھ ایک فیجیئن گاؤں میں گیا.اہلِ دیہہ نے بڑا پر تپاک استقبال کیا اور اپنے گرجا گھر میں اسلام پر میر الیکچر کروایا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ جس طرح ان لوگوں نے ظاہری محبت کا ثبوت دیا ہے ان کو اسلام کے عہد اخوت میں شامل ہونے اور احمدیت کے نور سے منور ہونے کی بھی توفیق عطا فرمائے.ماہ جون کے دوسرے ہفتہ میں جماعت احمد یہ مارو نے اپنے ہاں جلسہ کیا.میں نے فیجی کی باقی تمام جماعتوں کا دورہ تو کر لیا تھا لیکن اس جماعت کا دورہ ابھی تک نہ کیا تھا.جلسہ میں برادرم شیخ عبدالواحد صاحب اور خاکسار نے تقریریں کیں.ایک رات یہاں قیام رہا.تین افراد نے بیعت کی.مارو سے ناندی، لوتو کا اور با کا دورہ بھی کیا.ماہ جون میں میری ایک تقریر منجی ریڈیو سے یوم میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر نشر کی گئی.ماہ جولائی کے آخری ہفتہ میں تو یونی TAVEUNI سے خاکسار سووا آیا.اسلامی اخلاق کے موضوع پر ایک تقریر ریڈیو فیجی سے نشر کرنے کے لئے ریکارڈ کروائی.برادرم شیخ عبدالواحد صاحب کے ساتھ ایک فیجیئن گاؤں میں جا کر ایک زیر تبلیغ ٹیچر اور اس کے خاندان کو تبلیغ کی تبلیغ اور ادا ئیگی نماز کے بعد جب ہم رخصت ہونے لگے تو اس ٹیچر کی بیوی نے بتایا کہ اس صبح کو اس نے خواب میں دو ہندوستانی دیکھے جو پگڑی باندھے اس کے گھر میں آئے اور اسے ہار پہنائے.انہی ایام میں ہمارے دار التبلیغ سووا میں ایک یورپین ہمارے ایک احمدی دوست کے ہمراہ آ گیا.اور اس نے بتایا کہ وہ ایک کیس میں ماخوذ ہے.جس کی بناء پر شاید اسے فیجی بدر کر دیا جائے.میں نے اسے تسلی دلائی اور اس کے لئے دعا کی.اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ مقدمہ اس کے حق میں ہوا.مارو کی احمد یہ جماعت خدا کے فضل سے بڑی جماعتوں میں شمار ہوتی ہے.یہاں کی اکثریت احمدی افراد پر مشتمل ہے مارو میں ابھی تک مسجد نہیں تھی.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ۱۹۶۵ء میں جب یہاں تشریف لائے تو آپ نے یہاں مقامی جماعت کی درخواست پر مسجد کی بنیاد رکھی.نقشہ کی منظوری اور دوسرے کاموں کے باعث تعمیر کے کام میں روک رہی.ماہ جولائی تک بفضل خدا سب کام مکمل ہو گئے اور اگست کو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر مسجد کی بنیادوں کی کھدائی کا کام شروع

Page 447

تاریخ احمدیت.جلد 24 429 سال 1967ء کر دیا.برادرم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل اور دوسرے احباب کی معیت میں اس کام کا آغاز دعاؤں کے ساتھ کیا.اب خدا کے فضل سے بنیادیں بھری جاچکی ہیں.دوست اس اللہ کے گھر کی تعمیر میں مزدوروں کی طرح اپنے ہاتھ سے قریباً سب کام کر رہے ہیں.سودا، ناندی کے احباب بھی ہفتہ کے آخر پر آجاتے ہیں.اور سب مل جل کر جلد جلد مسجد کو مکمل کرنے میں کوشاں ہیں.مسجد کے کام کی نگرانی اور احباب جماعت کو تحریک کرنے کے لئے برادرم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل اور خاکسار 766 قریباً ہر ہفتہ یہاں آجاتے ہیں.دوسرے احباب بھی اس کام میں پوری طرح تعاون کرتے ہیں.مولوی نور الحق انور صاحب کی دوسری مطبوعہ رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۶۷ء کے آخر میں مسجد محمود ما رو پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.شیخ عبدالواحد صاحب دوماہ تک جزیرہ VANUA LEVU میں پیغام پہنچانے اور احمدی جماعتوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف عمل رہے.سال کی دوسری ششماہی میں چھوٹے بڑے چالیس نفوس داخل احمدیت ہوئے.کینیا مولوی منیر الدین احمد صاحب مبلغ احمدیت ان دنوں اس مشن کے انچارج تھے.ان کی اوائل ۱۹۶۷ء کی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ عرصہ زیر رپورٹ میں انہوں نے سات تبلیغی لیکچر دیئے.ان میں سے تین لیکچر سکولوں میں اور ایک ٹیچرز ٹریننگ کالج میں دیا گیا.تقریر کے بعد سوال و جواب کی نشستیں بھی منعقد کی گئیں.آپ نے زبانی گفتگو کے ساتھ ساتھ انگریزی وسواحیلی لٹر پچر بھی تقسیم کیا.مختلف تعلیمی اداروں کے سربراہوں ، اساتذہ اور کارکنان نے نہ صرف ادارہ کی لائبریری کے لئے بلکہ ذاتی لائبریریوں کے لئے بھی لٹریچر خریدا.نیروبی کے ایک مخلص احمدی بشیر احمد صاحب حیات (داماد مولوی قمر الدین صاحب فاضل سیکھوانی ) وقف عارضی پر کسموں تشریف لے گئے اور کئی مقامات پر مؤثر طور پر پیغام حق پہنچایا.انہی دنوں تنزانیہ کے شہر ٹانگانیکا میں مسجد احسان پایہ تکمیل تک پہنچی.اس کی تعمیر کے لئے یہاں کے دوستوں نے نہ صرف خود بڑھ چڑھ کر چندہ دیا بلکہ غیر از جماعت دوستوں سے بھی عطایا جات لے کر دئیے.احمدی و غیر از جماعت مستورات نے بھی چندہ میں حصہ لیا.

Page 448

تاریخ احمدیت.جلد 24 گی آنا ( جنوبی امریکہ ) 430 78 سال 1967ء گی آنا (GUYANA) جنوبی امریکہ کے شمال مشرق ساحل پر آباد سوشلسٹ جمہوریہ اور برطانوی دولت مشترکہ کے اندر آزاد، خود مختار مملکت ہے.جو ۲۶ مئی ۱۹۶۶ء کو آزاد ہوا.اس ملک میں افریقن ، ہندوستانی ، پرتگیزی ، چینی اور دوسری قوموں کے لوگ آباد ہیں.ان جزائر میں احمدیت کا پیغام خلافت ثانیہ کے آخری دور میں پہنچا.جبکہ چند نو جوانوں کو بذریعہ لٹریچر حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی توفیق ملی اور انہوں نے مرکز احمدیت سے درخواست کی کہ اس ملک میں کوئی مشنری بھجوایا جائے.جس پر جناب بشیر احمد آرچرڈ کو، جو ان دنوں ٹرینیڈاڈ میں فریضہ تبلیغ بجالا رہے تھے.۱۹۶۰ء میں یہاں بھجوا دیا گیا.جو وسط ۱۹۶۶ء تک مسلسل چھ سال تک جہاد تبلیغ میں مصروف عمل رہے.جون ۱۹۶۶ء میں مرکز کی طرف سے میر غلام احمد صاحب نسیم ایم.اے گیا نا مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے تشریف لے گئے.آپ نے جون ۱۹۶۶ء سے مارچ ۱۹۶۷ء تک کی تبلیغی سرگرمیوں پر مشتمل جو رپورٹ سپر د قلم فرمائی اس کا ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.خاکسار جون ۱۹۶۶ء میں اس ملک میں پہنچا اور مکرم آرچرڈ صاحب کے ساتھ ایک ماہ تک کام کرنے کے بعد مشن کا چارج ان سے لیا.اس دوران جماعت کی طرف سے میری آمد اور آرچرڈ صاحب کی روانگی کے سلسلہ میں کئی تقریبات منعقد کی گئیں.پریس میں بھی خبریں شائع ہوئیں.ریڈیو پر بھی تذکرہ ہوا.عرصہ زیر رپورٹ میں آٹھ دفعہ ریڈیو پر اسلام کی حقانیت کو اجاگر کرنے کی توفیق ملی.ایک دفعہ انٹرویو بھی نشر ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پبلک کو ہمارا پروگرام پسند آتا ہے.چنانچہ عام لوگوں کی طرف سے خطوط موصول ہوتے رہتے ہیں کہ ہمارا پروگرام زیادہ دلچسپ اور معلوماتی ہوتا ہے.اس عرصہ میں مختلف علاقوں کا سفر کر کے پیغام حق پہنچانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی گئی.مساجد میں تقاریر کے مواقع ملتے رہے.یہاں پر رواج ہے کہ شادی وغیرہ اور دیگر ہر قسم کی تقاریب اتوار کو منعقد کی جاتی ہیں اس قسم کی تقاریب میں دعوت ملتی رہی اور تقاریر کے مواقع بھی ملتے رہے.یہاں کے لوگ بحث و تمحیص ، سوال و جواب اور مناظرہ کے دلدادہ ہیں اور اس قسم کی مجالس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں.لوگوں میں عام مذہبی معلومات کی تحصیل کی بھی جستجو ہے اور قرآن ، حدیث یا بائبل کے

Page 449

تاریخ احمدیت.جلد 24 431 سال 1967ء حوالہ سے دلیل دیئے بغیر ان کو تسلی نہیں ہوتی.اس لئے سفروں میں قرآن مجید، بائبل اور بعض دیگر کتب کو ساتھ رکھا جاتا رہا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں سے کچھ فاصلہ پر ایک گاؤں میں بہت سے افراد حال ہی میں احمدیت میں داخل ہوئے ہیں وہاں پر نو جوانوں کی اچھی خاصی تعداد ہے ان کو صحیح اسلامی تربیت دینے کے لئے خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا.ان کے با قاعدہ ہفتہ وار اجلاس ہوتے ہیں.تبلیغی کاموں میں حصہ لیتے ہیں.لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا جارہا ہے.ان کے اجلاسوں میں دو ہفتہ شرکت کی اور ان کو مناسب ہدایات دیں.مجلس اطفال کا قیام بھی عمل میں آیا.اس کے علاوہ نیوا کیمسٹرڈم میں بھی اطفال الاحمدیہ قائم ہے.ان تنظیموں کے اجلاس با قاعدگی سے ہوتے ہیں.مشن کی طرف سے مسلم ٹارچ لائٹ“ کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا جاتا ہے.عرصہ زیر رپورٹ میں اس کے تین شمارے شائع ہوئے ایک شمارہ اخبار کی صورت میں شائع کر کے عیدالفطر کے موقع پر وسیع تعداد میں تقسیم کیا گیا.مرکز اور دیگر مشنوں کی طرف سے موصول ہونے والی کتب، رسائل اور اخبارات بھی کثرت سے تقسیم کئے گئے.یہ رسائل اور اخبار ملک کی دومشہور لائبریریوں کو باقاعدگی سے بھجوائے جاتے رہے.ایک لائبریری کو اسلام اور احمدیت پر مشتمل آٹھ کتب کا سیٹ بھی بطور تحفہ دیا گیا.علاوہ ازیں مشن کی لائبریری سے دوست کتب برابر حاصل کرتے رہے.چار مرتبہ ہسپتالوں میں جا کر بیمار پرسی کی گئی اور وہاں پر بھی کثرت سے لٹریچر تقسیم کیا گیا.احمدی احباب نے بڑے اہتمام سے روزے رکھے.رمضان کے مبارک ماہ میں مشن ہاؤس اور ایک اور گاؤں میں باقاعدہ تراویح ادا کرنے کا انتظام کیا گیا.مشن میں تو میں خود ہی نماز تراویح پڑھا تا رہا اور گاؤں میں ایک دوست کریم اللہ خان صاحب کو تراویح پڑھانے پر مقرر کیا گیا جو با قاعدہ تقریباً آٹھ میل روزانہ سفر کر کے تراویح پڑھانے جاتے رہے.روزوں کے اختتام پر دو جگہ عید الفطر کی نماز ادا کرنے کا انتظام کیا گیا.جارج ٹاؤن میں کھلے میدان میں عید پڑھائی گئی.کہا جاتا ہے کہ یہ گی آنا میں پہلی عید ہے، جو کھلے میدان میں پڑھائی گئی.عید کی نماز میں شامل ہونے والے تو احمدی افراد ہی تھے لیکن خطبہ کے وقت بہت سے لوگ جمع ہو گئے.عید گاہ سے واپسی پر تحمید و تمجید کرتے ہوئے دوست ایک بڑے بازار کے راستہ واپس آئے.سالانہ کانفرنس ۲۹ جنوری ۱۹۶۷ء کو منعقد ہوئی.پریس اور ریڈیو کے ذریعہ پبلک کو اطلاع بہم

Page 450

تاریخ احمدیت.جلد 24 432 سال 1967ء پہنچانے کے علاوہ سرکلر لیٹر کے ذریعہ بھی دعوت نامے بھجوائے گئے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضری توقع سے زیادہ تھی.پروگرام میں متعدد مختلف موضوعات پر تقریریں رکھی گئی تھیں.کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا.آٹھ تقاریر مختلف موضوعات پر ہوئیں.کانفرنس کے اختتام پر چندہ تحریک جدید کی تحریک کی گئی جس میں احباب نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.علاوہ ازیں جماعت احمد یہ گی آنا کے پریذیڈنٹ کی طرف سے مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کے لئے ایک فنڈ قائم کرنے کی تحریک بھی کی گئی جس میں دوستوں نے حسب توفیق حصہ لیا اور وعدے لکھوائے.ملک کے گورنر جنرل دورہ پر جب نیوایمسٹر ڈم آئے تو ان سے ملاقات کا انتظام بصورت وفد کیا گیا.ان کو ایک تبلیغی خط کے علاوہ چند کتب کا سیٹ مشن کی طرف سے بطور تحفہ پیش کیا گیا جس کو انہوں نے بخوشی قبول کرتے ہوئے مشن کا شکریہ ادا کیا.سیٹ میں یہ کتب تھیں (۱) اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) (۲) دیباچہ تفسیر القرآن (انگریزی) (۳) ہمارے بیرونی مشن.گورنر نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسلام کے دنیا پر احسانات کا خاص طور پر ذکر کیا.گی آنا کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ملک کی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت بڑا دخل ہے.نیز انہوں نے کہا کہ احمد یہ جماعت جو اسلام کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے، سے مل کر خوشی ہوئی.آخر میں انہوں نے مشن کی ہر ممکن مددکا وعدہ کیا.بیعتیں : جون ۱۹۶۶ء سے لے کر اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ساٹھ افراد بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.لائبیریا 79 اس سال منرویا ( دارالحکومت لائبیریا سے باہر قریباً ڈیڑھ میل کے فاصلے پر بچانن (BUCHANAN) میں ایک نئی جماعت قائم ہوئی.مارچ کے شروع میں موریطانیہ کے صدر مختار ولد دادا چھ روز کے سرکاری دورے پر لائبیریا آئے.مسلمانانِ لائبیریا نے بڑے پیمانے پر چائے کی دعوت دی.مولوی مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ لائبیریا نے قرآن مجید انگریزی کا نسخہ پیش کیا.جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا.اس موقعے پر لائبیریا کے پریذیڈنٹ ولیم شب مین (WILLIAM TUBMAN)، نائب صدر ، وزراء، نمائندگان اسمبلی اور مختلف ملکوں کے سفراء کے علاوہ کثیر تعداد میں مسلمان بھی موجود تھے.صدر موریطانیہ کے اعزاز میں اور بھی متعدد

Page 451

تاریخ احمدیت.جلد 24 433 سال 1967ء تقریبات ہوئیں.تقریباً سبھی میں ساقی صاحب مدعو تھے.آپ کو مہینہ میں دوبار ٹیلیویژن کے ایک دینی پروگرام میں حصہ لینے کا موقع ملتارہا.مرکزی اخراجات سے شہر منرویا کے وسط میں ایک بلڈ نگ خریدی گئی.اور اس میں مشن ہاؤس قائم کر دیا گیا.ایک روز ایک محلہ میں گیمبیا کے رہنے والے بعض احباب سے تبلیغی گفتگو ہورہی تھی کہ یہودہ وٹنسس (JEHOVAH'S WITNESSES) فرقہ کے دو پادری اصحاب بھی آگئے.80- جن کے ساتھ آپ کی کفارہ کے مسئلے پر بحث ہوئی.جس میں حاضرین نے بہت دلچسپی لی.آپ مبلغ احمدیت کی حیثیت سے گرانقدر خدمات بجالانے کے ساتھ ساتھ مسلم کانگریس پرائمری سکول کے مینیجر کے کامیاب فرائض بھی سرانجام دیتے رہے.اور مسلمان طلبہ کے حقوق کی نگہداشت کے لئے کئی بار محکمہ تعلیم کے افسران سے ملاقات کی.۲۶ جولائی کو لائبیریا کا یوم آزادی تھا.اس موقعے پر صدر مملکت لائبیریا کی طرف سے ایک استقبالیہ کا انتظام تھا.اس تقریب کے لئے احمدی مبلغین بھی موجود تھے.اور ان کے لئے ایک علیحدہ میز جس پر مسلم لیڈر لکھا ہوا تھا ، ریز رو کیا گیا.پریذیڈنٹ ٹب مین ہال میں داخل ہوئے تو احمدی مبلغین کو اپنے سوشل سیکرٹری کے ذریعے کہلا بھیجا کہ احمدیہ مشنری مقیم لائبیریا اور چیف مشنری دونوں ان کے ساتھ آ کر سٹیج پر بیٹھیں.چنانچہ مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب اور مبارک احمد صاحب ساقی دونوں پریذیڈنٹ کے ساتھ بیٹھے.اسی روز ۶ بجے شام مغربی افریقہ کے مبلغین کی تیسری سالانہ کانفرنس کا منرویا میں ہی افتتاح ہوا.کانفرنس ۲۸ جولائی تک جاری رہی.اور اس میں نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ، لائیبر یا سیرالیون اور گیمبیا کے انچارج مبلغین نے شرکت فرمائی.اس کانفرنس کا ذکر متعدد بارلائبیریا کے اخبارات میں آچکا تھا.اور اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا کہ لائبیریا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ چھ ممالک کے (احمدی) مبلغین یہاں اپنی کا نفرنس منعقد کر رہے ہیں.جس میں اسلام کی ترقی اور اس کی وسیع تبلیغ کے بارے میں تجاویز پیش کی جائیں گی.اس تقریب میں بڑے بڑے مسلمان لیڈروں کے علاوہ شامی ، لبنانی اور پاکستانی احباب اور کثیر تعداد میں لائبریرین احباب نے بھی شرکت کی.جن میں پریذیڈنٹ مسلم کمیونٹی آف لائبیریا، پریذیڈنٹ مسلم کانگریس ، مسلم گورنر ، اور منرویا کی دونوں مساجد کے چیف امام خاص طور پر قابل ذکر ہیں.

Page 452

تاریخ احمدیت.جلد 24 434 سال 1967ء یہ تقریب لائبیریا حکومت کے محکمہ خزانہ کی دس منزلہ خوبصورت عمارت کے کانفرنس روم میں منعقد ہوئی جو ائر کنڈیشنڈ تھا اور نہایت خوبصورت فرنیچر سے مزین تھا.لاؤڈ سپیکر کا بھی انتظام تھا.ساڑھے چار بجے کا نفرنس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا.جو یو نیورسٹی آف لائبیریا کے ایک لبنانی طالب علم نے کی.جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ لائبیریا نے ایڈریس پیش کیا.جس میں مبلغین کولائبیریا میں اپنی قسم کی پہلی کانفرنس میں شرکت کے لئے خوش آمد ید کہا اور بتایا کہ جماعت احمد یہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی ازحد ممنون ہے کہ انہوں نے مغربی افریقہ میں مبلغین بھیج کر اسلام کی تبلیغ کا اہتمام کیا.آپ نے جماعت کی تبلیغی اور تعلیمی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ احمدی مبلغین کی آمد سے قبل مسلمانوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا.جو بچے عیسائی سکولوں میں داخلہ لیتے تھے.وہ اسلام کو خیر آباد کہہ دیتے تھے.لیکن جماعت احمدیہ نے مسلمان بچوں کو عیسائیت کی اس یلغار سے نجات دلائی.آپ نے پبلک سے درخواست کی کہ وہ احمدی مبلغین سے پورا پورا تعاون کریں تا اسلام کا بول بالا ہو اور ساری دنیا میں اسلام کا جھنڈا نصب ہو.ایڈریس ایک خوبصورت فریم میں مزین مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم زونل انچارج کی خدمت میں پیش کیا گیا.مبلغین کی طرف سے مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم نے جماعت احمدیہ لائبیریا کا شکریہ ادا کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام يحى الدين ويقيم الشريعة کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اب اسلام کا دوبارہ احیاء جماعت احمدیہ کے ذریعہ مقدر ہو چکا ہے لیکن یہ کام اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے گا.جب تک تمام احمدی احباب اپنے فرائض منصبی کو اچھی طرح سمجھ نہ لیں.آخر میں آپ نے غانا میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ سرانجام دی گئی تعلیمی اور تبلیغی مساعی پر روشنی ڈالی.شیخ نصیر الدین احمد صاحب آف نائیجیریا ، مولانا محمد شریف صاحب گیمبیا اور قریشی محمد افضل صاحب مبلغ انچارج آئیوری کوسٹ نے مختصر لیکن مؤثر اور پُر مغز تقاریر کیں.شیخ نصیر الدین صاحب کی تقریر اتحاد المسلمین کی موضوع پر بہت ہی پسند کی گئی.مولانا محمد شریف صاحب کی تقریر عربی زبان میں تھی.قریشی محمد افضل صاحب نے فرانسیسی زبان میں تقریر کی.ان تقاریر کے علاوہ جماعت احمد یہ آئیوری کوسٹ کے پریذیڈنٹ صاحب، جو قریشی صاحب کے ساتھ ہی تشریف لائے تھے، نے

Page 453

تاریخ احمدیت.جلد 24 435 سال 1967ء مینڈ کو زبان میں مختصر سی تقریر کی جس سے حاضرین بہت محظوظ ہوئے.۲۷ جولائی آٹھ بجے صبح مبلغین کی کانفرنس کیپٹل ہوٹل میں شروع ہوئی.دو بجے تک ایجنڈا میں درج شده امور پر بحث ہوتی رہی.دوسرا اجلاس شام کو تین بجے سے چھ بجے تک جاری رہا.اسی روز شام لائبیریا کے ٹیلی ویژن پر ایک پروگرام ہوا.جس میں سب مبلغین نے شرکت کی.سب سے پہلے مبلغین نے اپنا تعارف کرایا.اس کے بعد جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض وغایت اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق سوالات کئے گئے.ان کا جواب مولانا عطاء اللہ صاحب کلیم رئیس التبلیغ نے دیا.ان کے استفسار پر تمام مبلغین نے اپنے اپنے مشنوں میں کھولے گئے سکول ، مساجد، ڈسپنسریاں، قرآن مجید کے تراجم اور دیگر تعلیمی وتربیتی امور کا ذکر کیا.یہ پروگرام بفضلِ خدا بہت ہی کامیاب رہا.ہزار ہا افراد نے یہ پروگرام دیکھا اور اگلے روز جہاں بھی جاتے اکثر لوگ تعجب سے اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ جماعت احمدیہ اسقدر کام کر رہی.آٹھ بجے شب جماعت احمدیہ لائبیریا کی مجلس عاملہ کی طرف سے دی گئی ایک پارٹی میں مبلغین نے شرکت کی.یہ تقریب احمدیہ مشن ہاؤس میں منعقد ہوئی.تمام مبلغین نے باری باری حاضرین کو نصائح کیں.اور جماعتی کاموں کو زیادہ کامیاب طور پر چلانے کے لئے تجاویز پیش کیں.اسی روز ایک عیسائی جو یہاں کے محکمہ پولیس میں ہیں ، بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.۲۸ جولائی کا نفرنس کے دوسرے دن بھی ایجنڈا میں درج شدہ امور پر بحث ہوئی.نماز جمعہ کے لئے تمام مبلغین مشن ہاؤس پہنچے.شیخ نصیر الدین صاحب احمدی نے خطبہ میں احباب کو بہت زریں نصائح کیں اور بتایا کہ مذہب میں زور اور زبردستی کی بجائے محبت اور ہمدردی کا پہلو زیادہ اثر انداز ہوتا ہے.اس لئے جو دوست جماعتی کاموں میں سستی دکھا ئیں، انہیں محبت سے سمجھانا چاہیئے.شام کو جماعت احمد یہ لائبیریا کے وائس پریذیڈنٹ نے اپنے گھر پر مبلغین کے اعزاز میں پر تکلف دعوت طعام کا انتظام کیا.وائس پریذیڈنٹ نے ایک مختصر تقریر میں مبلغین کو خوش آمدید کہا.اور بتایا کہ مبلغین نے ان کے گھر تشریف لاکر اسلامی اخوت کا ایک زندہ ثبوت پیش کیا ہے.انہوں نے مبلغین کو یقین دلایا کہ وہ جماعت کی ترقی کے لئے ہر ممکن کوشش جاری رکھیں گے.تمام مبلغین نے بھی وائس پریذیڈنٹ صاحب کا شکریہ ادا کیا.اور جماعت احمد یہ لائبیریا کی مساعی کو سراہا.اسی روز رات کو کانفرنس کا آخری اجلاس ہوا تمام فیصلہ جات سیکرٹری کا نفرنس مولوی مبارک احمد

Page 454

تاریخ احمدیت.جلد 24 436 سال 1967ء صاحب ساقی نے ٹائپ کر کے نمائندگان کے سامنے پیش کئے.نمائندگان کے فیصلہ کے مطابق یہ مسودہ جناب زونل انچارج صاحب کو دے دیا گیا تا وہ مرکز میں برائے منظوری ارسال کر دیں.یہ کانفرنس بہت ہی کامیاب رہی.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ لائبیریا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ چھ ممالک کے مسلمان نمائندگان اس ملک میں جمع ہو کر اسلام کی ترقی کے بارہ میں تجاویز پر غور و فکر کرتے رہے.بالخصوص اس لئے کہ یہاں کی حکومت عیسائی ہے.اور عیسائیوں کا اپنار یڈ یوٹیشن ہے.جہاں سے رات دن عیسائیت کی تبلیغ ہوتی ہے.یہ پہلا موقع تھا کہ لائبیریا میں اس قدر وسیع پیمانہ پر احمدیت کی تبلیغ ہوئی.ہزارہا افراد نے ٹیلیویژن پر مبلغین کو دیکھا اور ان کی زبانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام سنا اور جماعت کے ذریعہ کئے گئے کام کی حقیقت کو پہچانا.جتنے روز کانفرنس جاری رہی لائبیریا کے تمام اخباروں نے تقریباً ہر روز تصاویر کے ساتھ خبریں شائع کیں بلکہ کانفرنس کے بعد اخباری رپورٹر مشن ہاؤس آتے رہے اور مزید معلومات حاصل کرتے رہے.جماعت احمدیہ لائبیریا کی پہلی سالانہ کانفرنس پانچ نومبر ۱۹۶۷ء کو منعقد ہوئی.کانفرنس میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت احباب نے بھی شرکت کی.صدر صاحب کے صدارتی خطبہ کے بعد مکرم وکیل التبشیر صاحب کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.جلسہ کے اختتام پر چار افراد بیعت کر کے سلسلہ میں داخل ہوئے.ان میں سے ایک اس گاؤں کے امام تھے جہاں یہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی.ماریشس یکم شوال ۱۳۸۶ ہجری مطابق ۱۳ جنوری ۱۹۶۷ء کو بیت دارالسلام میں عید الفطر کی تقریب خاص اہتمام سے منائی گئی.نماز عید کے بعد احباب نے ظہرانہ میں شرکت کی.مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر مبلغ انچارج کی دعوت پر ریڈیو اور پریس کے نمائندوں اور ٹاؤن کونسل کے متعددممبران نے بھی شرکت کی.مہمانوں کی خدمت میں لٹریچر پیش کیا گیا.اسی شام ریڈیو ماریشس نے عید الفطر کے بارے میں مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کی تقریر نشر کی.اس سال ۱۸ مارچ ۱۹۶۷ء کو ماریشس میں پہلی بار احمد یہ سپورٹس ڈے منایا گیا.جو اپنوں اور

Page 455

تاریخ احمدیت.جلد 24 437 سال 1967ء غیروں کی نظر میں بہت کامیاب رہا.۲۲ مارچ کو عیدالاضحیہ کی مبارک تقریب تھی اس موقع پر عید کی خصوصی دعوت کا انعقاد عمل میں آیا.جس میں وزراء، پارلیمنٹ کے ارکان، غیر ممالک اور ریڈیو اور پریس کے نمائندگان، حکومت کے اعلیٰ افسران ، مسلمان، ہندو، سوامی ، عیسائی الغرض سبھی طبقوں اور مذاہب کے لوگ شامل ہوئے.وزیر تعلیم اور دوسرے مقررین نے احمد یہ مشن کی مساعی کو سراہا.اسی دن شام کو عیدالاضحیہ کے مسائل پر مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مبلغ ماریشس کی گفتگور یڈیو پر نشر ہوئی جسے بہت پسند کیا گیا.بعض مسلمانوں نے بے اختیار کہا کہ اس گفتگو سے ہمیں عید کی فلاسفی سمجھ میں آئی.اسی مضمون پر جناب اسمعیل منیر صاحب کا ایک مضمون ”روز بل ماریشس کے سات روز ناموں میں شائع ہوا.بعد میں عید کی تقریبات کی رپورٹ بھی چھپی.ٹیلیویژن اسٹیشن سے دوسرے دن اس کی فلم بھی دکھائی گئی جس کا لوگوں پر گہرا اثر ہوا.اس سال جماعت احمدیہ ماریشس کے زیر اہتمام نہایت وسیع پیمانے پر ۱۰ فروری سے ۱۷ فروری ۱۹۶۷ ء تک قرآن مجید سے متعلق ایک شاندار تبلیغی نمائش منعقد کی گئی.جس سے احمد یہ مشن ماریشس کی ملک بھر میں بہت شہرت ہوئی.اور ہر طرف سے دلی مبارک باد پیش کی گئی.(اس موقع پر ماریشس کے احمدی رسالہ LE MESSAGE کا نہایت خوبصورت قرآن نمبر شائع کیا گیا.جو روح پرور پیغامات اور قیمتی اور بلند پایہ مضامین اور تبلیغی مساعی کی تصاویر پر مشتمل تھا اور فرینچ زبان میں تھا.) یہ نمائش ماریشس کے بہترین اور مرکزی ہال پلازہ ( PLAZA) میں لگائی گئی.نمائش کی افتتاحی تقریب کے مہمان خصوصی مسٹر بارن شوبے سیکرٹری وزارت تعلیم ماریشس تھے.مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے ایڈریس پیش کیا.مسٹر بارن شوبے نے ایڈریس کے جواب میں نہایت مؤثر تقریر فرمائی اور نزول قرآن کے بعد عربوں کی تاریخ بیان کرتے ہوئے مختلف علوم میں ان کی ترقی اور ان کی لیڈرشپ کو خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں کہا کہ مجھے بالکل تعجب نہ ہوگا.اگر قرآن کریم کی سادہ اور پاک تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کو ماضی کی سی ترقی حاصل ہو جائے.اس افتتاحی تقریب کے معا بعد سب دوستوں نے نہایت ذوق وشوق کے ساتھ نمائش کو دیکھا.اس نمائش میں مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم اور مختلف سائزوں میں قرآن مجید کے ۱۲۵ نہایت دیدہ زیب نسخے پیش کرنے کے علاوہ قرآن

Page 456

تاریخ احمدیت.جلد 24 438 سال 1967ء مجید کی متعدد آیات کے طغروں اور اس تعلق میں مزید ۸۰ چارٹس وغیرہ کی نمائش کی گئی.اسلامی علوم پر مشتمل دنیا کی مختلف زبانوں کی ۳۱۳ کتب اور ۲۸۲ تصاویر اس پر مستزاد تھیں.مزید براں احمدی بچیوں کے تیار کردہ دستکاری کے چوبیس نمونے بھی اس نمائش کی زینت تھے.ہزاروں لوگوں نے اس نمائش کو دیکھا جن میں ماریشس کے بعض سر بر آوردہ حضرات اور اسمبلی کے ممبران بھی شامل تھے.سب ہی اس سے بے حد متاثر ہوئے.اس طرح بحمد اللہ یہ نمائش اسلام اور قرآن مجید کے متعلق مخالفین کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کے خاطر خواہ ازالہ کا موجب ہوئی.وہاں کے نامور اخباروں نے اس نمائش سے متعلق خبریں، تصاویر کے ساتھ نمایاں طور پر شائع کیں اور بعض اخبارات نے نمائش کی افادیت کے متعلق ادارتی نوٹ بھی لکھے.بعض اخباروں کے ادارتی نوٹوں اور خبروں کے اقتباسات کا ترجمہ ذیل میں ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے:.ی ماریشس ٹائمنز نے اپنی ۷ افروری ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں ”امید کی کرن“ کے زیرِ وو عنوان لکھا:.دو عظیم واقعات اس ہفتہ رونما ہوئے جو مختلف فرقوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے سلسلے میں ایک خوشکن علامت ہیں.ان میں سے ایک تو قرآن مجید کی وہ عظیم الشان نمائش ہے جو باہمی رواداری، خیر سگالی، محنت اور ذمہ داری کے پیغام کی حامل تھی.دوسرا واقعہ غیر فرقہ وارانہ بنیادوں پر مسلم گرلز کالج کا افتتاح ہے جس کا قیام تمام تر مسٹر کا تھراڈ ا مرحوم کی مالی امداد کا مرہونِ منت ہے.“ مزید براں ماریشس ٹائمن نے اپنی اسی اشاعت میں نمائش کے افتتاح کا ایک نمایاں فوٹو درج کرتے ہوئے نمائش کے متعلق جلی حروف میں جو خبر شائع کی اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.نمائش جس نے زائرین کو بے حد متاثر کیا "MR.D.BURRENCHOBAY" نے ۱۰ فروری کو پلازہ ہال میں قرآن مجید سے متعلق ایک نمائش کا افتتاح کیا.افتتاحی تقریب کو یہ برکت نصیب ہوئی کہ اس کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت اور اردو کی ایک دینی نظم سے ہوا.قرآن مجید کی عظمت وشان پر روشنی ڈالتے ہوئے ( جماعت احمدیہ کے مبلغ مولانا محمداسمعیل منیر نے استقبالیہ ایڈریس پڑھا جس کے بعد مسٹر ڈی.بر نچو بے نے موقع کے مناسب حال افتتاحی تقریر کی.نمائش میں قرآن مجید کے نسخے اور دیگر اشیاء جس عمدگی اور خوبصورتی سے ترتیب دی گئی تھیں.

Page 457

تاریخ احمدیت.جلد 24 439 سال 1967ء ان سے تمام زائرین بہت ہی متاثر ہوئے.ہاتھ کے بنے ہوئے مناظر ، نقشے ، چارٹس، تصاویر، مختلف سائزوں اور دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن مجید کے نسخے ، اسلامی علوم کی کتب، بچیوں کی دستکاری کے نمونے وغیرہ.الغرض نمائش میں زائرین کے لئے خوشکن کشش کا بہت کچھ سامان موجود تھا.وہ سب اس اظہار رائے پر متفق تھے کہ ہم نے ایسی نمائش پہلے کبھی نہیں دیکھی.زائرین میں سے قریباً تمام ہی نامور شخصیتوں نے کتاب زائرین میں اپنے تاثرات رقم کئے.اس یادگار موقع پر ( جماعت احمد یہ ماریشس کے اخبار) را میسیج (Le Message) نے ایک خاص قرآن مجید نمبر شائع کیا.“ حیا اسی طرح ایک غیر مسلم زائر کے تاثرات ماریشس کے اخبار "Le Citoyen" کی ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں شائع ہوئے.انہوں نے لکھا:.66 قارئین اخبار کے افادہ کی غرض سے میں بڑی مسرت کے ساتھ قرآن مجید کی اس عظیم الشان نمائش کے متعلق اپنے تاثرات رقم کرتا ہوں جو پلازہ میں ۱۰ فروری سے ۷ افروری تک منعقد ہوئی.یہ اپنی نوعیت کی پہلی نمائش تھی جس کا انعقاد ماریشس میں عمل میں آیا.نمائش کے ہال کو۲۸۲ تصاویر، دنیا کی مختلف زبانوں کی ۳۱۳ / اسلامی کتب، ۸۰ چارٹس، آیات قرآنی کے سات طغروں، مختلف سائزوں کے قرآن مجید کے ۲۵ انسخوں اور احمدی بچیوں کی دستکاری کے ۴ نمونوں سے مزین کیا گیا تھا.یہ سب چیزیں بلاشبہ ان غلط فہمیوں کو بڑی حد تک دور کرنے میں بہت ممد ثابت ہوئیں جو اسلام اور اس کی مقدس کتاب کے بارہ میں بالعموم غیر مسلموں میں پھیلی ہوئی ہیں.جب میں ۷ ا تاریخ کی شام کو پلازہ کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے اس کے بڑے دروازہ پر پہنچا تو میری نظریں ایک بورڈ سے دو چار ہوئیں جس پر مختصر الفاظ میں نمائش کا اعلان لکھا ہوا تھا.اور جب میں ہال کمرہ تک لے جانے والی سیڑھیوں کے قریب پہنچا تو ایک اونچی اور زیادہ نمایاں جگہ پر نمائش کے متعلق ایک پہلے سے بھی بڑا اور روشن اعلان مجھے نظر آیا.اسے پڑھ کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ نمائش ایک عظیم مقصد کو پورا کرنے کا موجب ثابت ہورہی ہے.جو نہی میں نمائش کے ہال میں داخل ہوا تو بہت ہی خلیق اور ہمد ر قسم کے لوگوں نے میرا استقبال کیا.وہ نمائش میں پیش کی جانے والی تصاویر، چارٹس اور کتابوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں میری امداد کے لئے پوری طرح مستعد تھے.ان میں سے بہت سی میرے لئے وضاحت طلب تھیں.

Page 458

تاریخ احمدیت.جلد 24 440 سال 1967ء ان کی توجہ فرمائی سے متاثر ہوکر میں اس حصہ میں پہنچا جہاں دیواروں، میزوں اور دوسرے نظر فریب مقامات پر نمائش کی چیزیں بھی ہوئی تھیں اور جن کے متعلق اس بات کا اہتمام کیا گیا تھا کہ لوگوں کو وہ چیز میں اچھی طرح نظر آسکیں.سب سے پہلی چیز جو زائرین کو اپنی طرف متوجہ کرتی تھی وہ ایک چارٹ تھا جس پر قرآن مجید کی وہ سات آیات لکھی ہوئی تھیں جنہیں مسلمان روزانہ اپنی نمازوں میں بار بار پڑھتے ہیں اور جو قرآن مجید کا خلاصہ بیان کی جاتی ہیں.یہ آیات اس کیفیت کی آئینہ دار ہیں جو خدائے قدوس کی جناب حاضر ہوتے وقت ایک مسلمان کی ہوتی ہے.ایک مسلمان پہلے اپنی خالق کی چار صفات رب العالمین، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین کا ذکر کر کے اس کی حمد بیان کرتا ہے اور پھر احترام اور محبت کے جذبات سے لبریز ہو کر اس کے حضور میں اپنی روح کی یہ تمنا پیش کرتا ہے کہ وہ اسے ٹھوکروں سے محفوظ رکھتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اس کا تمام تر بھروسہ اسی پر ہے.زائرین کی سہولت اور ان کے افادہ کی غرض سے ان آیات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ساتھ ہی آویزاں تھا.میں ان آیات پر غور کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر ان آیات کے قریب ہی اخبار کے ایک تراشہ پر پڑی جو ایک عظیم جرمن سکالر کے اس بیان پر مشتمل تھا کہ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جو انسانی دست برد اور تحریف سے مبرا ہوتے ہوئے چودہ سو سال سے اپنی اصل شکل میں قائم چلی آرہی ہے.مسلمانوں کے لئے جرمن سکالر کا یہ بیان قرآن مجید کی آیت ( الحجر :۱۰) میں بیان کردہ اس صداقت کے حق میں ایک زبردست شہادت ہے کہ ”یقیناً ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ وار ہیں.یقیناً جرمن سکالر کا یہ بیان قرآن پر ان کے ایمان کو اور زیادہ مضبوط کرنے والا ہے.اور یقیناً ان کے اس اعتقاد کو اور زیادہ تقویت پہنچانے والا ہے کہ قرآن مجید آج بھی اصل شکل میں اپنے باطنی کمالات کے ساتھ من وعن موجود ہے اور دور لی دنیا کی دکھ بھری زندگی میں یہی ہمارا حقیقی رہنما ہے.اپنی طرف متوجہ کرنے والے ایک اور چارٹ کا عنوان تھا: ” ایٹم بم کا دھما کہ اس عنوان کے تحت قرآن کی یہ آیات درج تھیں.( یہ مصیبت جب آئے گی ) اُس وقت لوگ پراگندہ پروانوں کی طرح ہو جائیں گے.اور پہاڑ اس ریشم کی طرح مانند ہو جائیں گے جو دھنکی ہوئی ہوتی ہے.“ (القارعہ : ۶۵)

Page 459

تاریخ احمدیت.جلد 24 441 سال 1967ء اس کے بعد جو چارٹ آویزاں تھا اس میں یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن کس نوع کی خاندانی منصوبہ بندی کا حامی ہے.اُس پر قرآن کی یہ آیت درج تھی اور ہم نے انسان کو اپنے والدین سے احسان کی تعلیم دی کیونکہ اس کی ماں نے اس کو تکلیف کے ساتھ پیٹ میں اٹھایا تھا اور پھر تکلیف کے ساتھ اُس کو جنا تھا اور اُس کے اٹھانے اور دودھ چھڑانے پر تمیں مہینے لگے تھے.“ (الاحقاف :۱۶) اگر واقعی دنیا اس آیت میں بیان کردہ نکتہ کی پابندی اختیار کرے تو آبادی میں اضافہ کی رفتار خوفناک صورت کبھی نہ اختیار کرے.“ اخباروں کے ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن مجید کے تراجم ، ان کی تعلیمات اور اسلامی کتب کی یہ نمائش نہایت درجہ کامیاب رہی.ہزاروں لوگوں نے یہ نمائش اور اس میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا.اسلام اور قرآن مجید کے متعلق غیر مسلموں میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں ان کا بڑی حد تک ازالہ ہوا اور ان تک بہت احسن طریق پر اسلام کا پیغام پہنچا.اور یہی اس نمائش کی غرض تھی جو بہ تمام پوری ہوئی.۲۱ سے ۲۷ اگست ۱۹۶۷ء تک ماریشس بھر کے احمدی نوجوانوں اور احمدی بچوں کے ایک نہایت کامیاب تربیتی کیمپ کا انعقاد ہوا.اس کیمپ نے زائرین خصوصاً صحافیوں کو کس درجہ متاثر کیا؟ اس کا اندازه روز نامہ ایکشن (ACTION ) کے درج ذیل شذرہ ( مجریہ ۲۸ اگست ۱۹۶۷ء) سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے.روز نامہ ایکشن نے ایک کیمپ جو دوسرے کیمپوں کی طرح نہیں ہے“ کے زیر عنوان لکھا:.گذشتہ جمعرات کے دن پریس کے نمائندگان کو مجلس خدام الاحمدیہ کے چوتھے سالا نہ کیمپ کو دیکھنے کی دعوت دی گئی تھی.اخبار نویسوں کا استقبال مولانا منیر اور کیمپ کے دیگر آفیسران نے صحیح اسلامی طریق سے کیا جس سے دوسرے مذاہب والوں کو دعوت دی جاتی ہے.کیمپ ۲۱ /اگست سوموار کے دن شروع ہوا تھا اور اس میں اس جزیرہ کے سبھی علاقوں سے آئے ہوئے اطفال وخدام تھے.اس قسم کے تربیتی کیمپ لگا نا مجلس خدام الاحمدیہ کے پروگرام کا ایک ضروری حصہ ہے یہ مجلس نوجوانوں کی ایک بین الاقوامی انجمن ہے جسے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹۳۸ء میں جاری فرمایا.آپ حضرت احمد علیہ السلام کے دوسرے جانشین تھے.حضرت احمد علیہ السلام نے

Page 460

تاریخ احمدیت.جلد 24 442 سال 1967ء ایک دوسرے سے محبت کرنا سکھایا ہے اور خدمت انسانی کرنا اپنا فرض قرار دیا ہے اور یہی چیزیں ایک اچھے شہری کی نشانی ہوتی ہیں.مہمانوں کو بہترین ماحول میں لے جا کر صرف ما حضر ہی نہیں دیا بلکہ اسلامی معاشرہ کے مطابق بہترین کھانا کھلایا گیا.قرآن مجید کے حکم کے مطابق شراب کی کلی ممانعت تھی.گفتگو کے دوران بڑی مفید باتیں زیر بحث آئیں.پھر علمی اور ورزشی مقابلہ جات میں انعامات حاصل کرنے والوں میں انعامات تقسیم کئے گئے ملائیشیا 86 مولوی بشارت احمد صاحب امروہی انچارج ملائیشیا مشن نے اس سال کے وسط میں راناؤ، منکفن بیفرٹ، لابوان ، سنڈا کن ، برہالہ وغیرہ مقامات کا دورہ کیا اور غیر از جماعت دوستوں اور غیر مسلم حضرات تک پیغام حق پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی.سنڈا کن میں ایک ماہ کے لئے قرآن کریم کلاس کا اجراء کیا گیا.ملازم پیشہ احباب بھی شریک ہوتے رہے.وہ احباب جو قبل ازیں مطلقاً قرآن کریم نہ پڑھ سکتے تھے.خدا کے فضل سے اس قلیل عرصہ میں اس قابل ہو گئے کہ قرآن کریم کے ابتدائی حصے پڑھ سکیں.اس سال ۲۳ ا حباب نے صداقت کو قبول کیا.آپ اپنی سہ ماہی تبلیغی رپورٹ بابت جولائی تا ستمبر ۱۹۶۷ء میں تحریر فرماتے ہیں.سنڈا کن قیام کے دوران جماعت کے بعض عہدیداران کی معیت میں باسل مشن کے امریکی پادری صاحب سے ان کے آفس میں کئی گھنٹہ تک تفصیل سے گفتگو ہوئی.اس کے بعد انہوں نے اس چرچ کے تحت سکول اور اس کی کلاسز کا معائنہ کرایا.اتوار کے روز چرچ میں عبادت کے موقع پر آنے کی دعوت دی.چنانچہ اس دعوت سے بھی فائدہ اٹھایا گیا.اس موقع پر عبادت کروانے والے لوکل پادری اور انتظامیہ کمیٹی کے عہدیداران سے بھی ملاقات ہوئی اور پھر پادری صاحب کی قیام گاہ پر ایک بار پھر تفصیل سے گفتگو ہوئی.اسلامی تعلیمات، عقائد پر روشنی ڈالی گئی.کیتھولک مشن کے انچارج پادری صاحب سے بھی ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور کئی گھنٹہ تک ان سے گفتگو ہوئی.چرچ مشن آف انگلینڈ کے تحت سکول کے پادری ٹیچر ( آسٹریلین ) سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی لیکن انہوں نے اپنے لاٹ پادری کے احکامات سنا کر کہ مسلمانوں کو تبلیغ نہ کی جائے.گفتگو سے انکار کرنا چاہا.جس پر ہم نے یہ کہہ کر آپ ہمیں بے شک تبلیغ نہ کریں لیکن ہمیں تو تبلیغ کر لینے دیں.اس بارہ میں تو کوئی

Page 461

تاریخ احمدیت.جلد 24 443 سال 1967ء ہدایت آپ کو مانع نہیں.چنانچہ تفصیل سے اسلام، اسلامی تعلیمات پر روشنی ڈالی.انہوں نے متعدد سوالات کئے جن کے تسلی بخش جوابات دئے گئے.بڑے خوشگوار ماحول میں گفتگور ہی اور انہوں نے دلچپسی سے سنی اس کے بعد اسی مشن کے ایک دوسرے انگریز ٹیچر اور ان کی چینی بیوی سے ان کی رہائش گاہ پر گفتگو ہوئی.بعض پادریوں نے تو برملا کہا کہ مذہب پر بحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آنکھیں بند کر کے اور بغیر کچھ سوچے سمجھے عمل ہونا چاہئے.ایک مقامی انگریزی اخبار ”سبا ٹائمنز کے مینیجنگ ڈائریکٹر مسٹر لو پنگ سے ان کی آفس میں ملاقات کی.اور دیر تک اسلام پر روشنی ڈالی.اسی محکمہ کے اسسٹنٹ ڈائر یکٹر سے بھی ملاقات کی.پہلے دفتر میں اور بعدہ ان کی قیام گاہ پر.ان صاحب نے حال ہی میں اسلام قبول کیا ہے.انہیں اسلام کے متعلق تفصیل سے معلومات بہم پہنچائیں.مطالعہ کے لئے لٹریچر دیا.ایسی ایک ملاقات ڈویزنل انجینئر گنگا ؤ ( پی.ڈبلیو.ڈی) سے ہوئی، وہ بھی اسلام قبول کر چکے ہیں.انہیں بھی تفصیلاً اسلام اور اس کی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا اور لٹریچر دیا گیا.بیفرٹ لنکنفن ، ساما گا سا پنگ سٹیٹ ہیم ، کنگاؤ، بنکور اور تمالانگ، کابایو(تیسیوک) مقامات کا سفر بذریعہ ریل، موٹر، پیدل کیا گیا.جماعتوں میں قیام کر کے احباب کی تعلیمی، تربیتی اور تنظیمی امور پر راہنمائی کی گئی اور غیر از جماعت دوستوں سے ملاقات کر کے پیغام حق پہنچایا گیا.ہالینڈ 88 166 ہالینڈ مشن میں عید الفطر (۱۲ جنوری ) اور عیدالاضحیہ (۲۱ مارچ) کی مبارک تقاریب پوری شان و شوکت سے منائی گئیں.عید الفطر میں شامل ہونے والوں کی تعداد قریباً ڈیڑھ ہزار تھی.حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج مشن نے اس دفعہ بھی پورے قرآن مجید کا درس دینے کی سعادت حاصل کی.عیدالاضحیہ کی تقریب میں جرمنی، پاکستان، ایران، ترکی، مصر، سوڈان ، اردن، سعودی عرب، تنزانیہ، نائیجیریا، سورینام اور ہالینڈ کے لوگ شامل تھے.سفارت خانہ پاکستان ، نایجیریا اور تنزانیہ کے کئی سرکردہ احباب بھی تشریف لائے.کل حاضری ایک ہزار کے لگ بھگ تھی.عید کی خبر اسی روز ریڈیو پر نشر ہوئی اور اخبارات نے تصاویر کے ساتھ رپورٹ شائع کی.ہیگ کے محکمہ ٹرانسپورٹ نے اس موقعہ پر ٹریفک کا خاص بندوبست کیا.جس سے مہمانوں کی آمد ورفت میں بہت سہولت پیدا ہوئی بلکہ اس محکمہ کے ایک آفیسر اعلیٰ خود مشن میں تشریف لائے اور مزید امداد کے لئے اپنی خدمات پیش ہیں.89

Page 462

تاریخ احمدیت.جلد 24 444 سال 1967ء تعلیمی وتربیتی مقاصد کے پیش نظر ہفتہ وار اجلاس با قاعدگی سے جاری رہے.یہ پروگرام مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل کی نگرانی میں انجام پاتا رہا.اس سال بھی ملک کی مختلف تنظیموں اور سوسائٹیوں نے لیکچروں کے لئے حافظ قدرت اللہ صاحب کو مدعو کیا.چنانچہ حافظ صاحب اور بعض مواقع پر جناب اکمل صاحب کو ملک کے دور دور کے حصوں تک پہنچنے کا موقعہ ملا اور بہت سی تنظیموں اور انجمنوں میں اسلام پر پر از معلومات لیکچر ہوئے اور سوالات کے تسلی بخش جوابات دئے گئے.بہت سی تنظیموں نے اپنے ممبروں کو مشن ہاؤس بھجوایا اور لٹریچر اور معلومات حاصل کیں.چنانچہ اس سال ۲۱ و فود پہنچے جو مختلف سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طرف سے تھے.جن میں اساتذہ ٹریننگ کالج ، طلباء ڈ لفٹ یونیورسٹی، پبلک یونیورسٹی ہیگ کے وفودخاص طور پر قابل ذکر ہیں.اس سال حافظ قدرت اللہ صاحب نے ملک کی متعدد انجمنوں کے جلسوں میں شرکت کر کے اسلام اور احمدیت میں دلچسپی لینے والے حلقوں میں مزید وسعت پیدا کی.چندانجمنوں کے نام یہ ہیں (1) LEVENSVRAGEN تنظیم.یہ ایک مذہبی عیسائی تنظیم ہے جو مذ ہبی، اخلاقی اور سائنسی موضوعات پر تقاریر کا انتظام کرتی ہے.(۲) ورلڈ کانگریس آف فیتھس ایمسٹرڈیم (۳) ڈیبیٹنگ کلب تبلیغی سفر:.امسال ہالینڈ اور بیلجئیم میں تبلیغی اغراض سے تیرہ بارسفر اختیار کیا.چنانچہ محترم امام صاحب کو ہالینڈ کے مشرقی اور جنوبی حصہ میں متعدد مقامات جانے کا موقع ملا جہاں آپ نے تین ترک مزدوروں کے کیمپوں کو بھی دیکھا اور لوگوں کو جماعت اور مشن ہاؤس سے متعارف کرایا.بیلجئیم میں آپ کو BRUSSELS کا دورہ کرنے کا موقع ملا جہاں آپ نے مسلم طلبہ کے قائم کردہ ایک اسلامی مرکز کو دیکھا اور ان سے مل کر تعلقات پیدا کئے.نیز بعض ممبران اور دوستوں سے ملاقات کی.ترکی میں زلزلہ کے حادثہ پر ایک خاص اجلاس منعقد کر کے مصیبت زدہ لوگوں کے لئے دعا کی گئی نیز نقدی سے بھی مدد کی گئی.اس کی رپورٹ پریس میں بھی آئی.ایک خط جناب سفیر صاحب ترکی کی خدمت میں بھجوایا گیا.جس میں زلزلہ سے متاثر احباب کے لئے ہمدردی کا اظہار کیا گیا اس خط کے جواب میں جناب سفیر صاحب موصوف کی طرف سے شکریہ کا خط موصول ہوا.90

Page 463

تاریخ احمدیت.جلد 24 445 سال 1967ء اس سال کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ ہالینڈ کے کثیر الاشاعت روزنامہ ”ڈیلی روٹرڈ م“ نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ عیسائی مشنری کسی جگہ بھی احمدی مبلغین کا مقابلہ نہیں کر سکے اور انہیں ہر جگہ خفت اٹھانی پڑتی ہے.چنانچہ پاکستان کے اخبار مغربی پاکستان نے ۱۲ مارچ ۱۹۶۷ء کی اشاعت میں لکھا:.ہالینڈ سے شائع ہونے والے ایک کثیر الاشاعت روزنامہ ”ڈیلی روٹرڈم مر“ اپنی قریبی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ یورپ ، ایشیا اور دنیا بھر میں عیسائی مشنری اداروں کو جماعت احمدیہ کے مبلغین کی اعلیٰ تعلیم اور بھر پور نشر و اشاعت کے سامنے کافی خفت اٹھانی پڑ رہی ہے.اخبار لکھتا ہے کہ جب سے جماعت احمدیہ کے مبلغین نے ہند و پاکستان سے نکل کر یورپ کا رخ کیا ہے اس وقت سے عیسائی مشنری لوگ ان کا کہیں بھی ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکے.اور یہ کتنے دکھ کا مقام ہے کہ بڑے بڑے پادری تک ان کی دعوت مناظرہ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.اخبار آگے چل کر لکھتا ہے کہ جہاں اسلام یا احمدیت کا نام تک لوگوں نے نہیں سنا تھا اور جہاں عیسائی مشنری اپنی مرضی کے عین مطابق کام کرتے تھے.وہاں اب عیسائیت سے ان کی نفرت اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب وہی لوگ اس کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے.ڈیلی روٹرڈ مر نے لکھا ہے کہ احمدیہ جماعت کے لوگ لاکھوں میل دور سے آکر عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور وہ لوگ اپنے وطن سے دور اپنے دوست احباب اوراہل وعیال سے دوررہ کر نہایت کٹھن مراحل سے دو چار ہوتے ہوئے بھی اپنے مذہب کا پراپیگنڈہ کرتے ہیں لیکن ہمارے پادری اور مشنری ادارے جنہیں حکومتوں کی سر پرستی تک حاصل ہے وہ اپنے فرائض سے کوتاہی برت رہے ہیں.اخبار مغربی پاکستان کے ایک شہر ربوہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ مسلمانوں کے ترقی یافتہ گر وہ جماعت احمدیہ کے لئے جنوری کا مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے جبکہ یہ جماعت اپنے نئے امام مرزا ناصر احمد صاحب کی قیادت میں جمع ہوئی ہے تاکہ ساری دنیا میں ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی تبلیغ جاری رکھ سکے.اس کے سالانہ اجتماع پر لاکھوں مسلمان اپنے امام کے خطاب کو سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں جن کا کہنا ہے کہ خدا ان سے کلام کرتا ہے.اس جماعت کی بنیاد موجودہ امام کے دادا نے رکھی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ خدا نے...خودان سے کلام کیا.وہ اپنے اس دعوی کے بعد پوری طرح

Page 464

تاریخ احمدیت.جلد 24 446 سال 1967ء اپنے کام میں سرگرم عمل ہو گئے مگر اس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں سے ان کے اختلاف بڑھ گئے عوام نے ان کے دعوی کو ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ ان کے نزدیک محمد (رسول اللہ ) آخری نبی ہیں مگر عوام کی مخالفت انہیں اپنے مشن کی تبلیغ سے باز نہ رکھ سکی.چنانچہ یہ جماعت اب بہت سے ممالک میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکی ہے.اخبار لکھتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کی عمر ۵۷ سال ہے اور وہ آکسفورڈ یونیورسٹی آف لندن کے فارغ التحصیل ہیں.اگر چہ وہ بظاہر کوئی صوفی منش نظر نہیں آتے لیکن ان کا اکثر وقت دینی امور کی انجام دہی اور عوام کی خدمت اور عبادت گزاری ہی میں صرف ہوتا ہے اور بہت ہی سادہ غذا پر بسر اوقات کرتے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق وہ چار بیویاں رکھ سکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی پہلی بیوی سے ہی وفاداری کا اظہار کئے ہوئے ہیں.انہیں الہام ہوا ہے کہ ان کی جماعت ساری دنیا کو اسلام کی روشنی سے منور کر دے گی.غانا کے ملک میں اس جماعت کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے خصوصاً ان لوگوں میں جو مشرک ہیں اور سیرالیون میں اس جماعت کی کوششوں کا ہی اثر ہے کہ وہ لوگ جو عیسائیت سے وابستہ ہوتے تھے اب اپنے مذاہب سے برگشتہ ہو رہے ہیں.انڈونیشیا اور نائیجیریا میں ان کی جماعت میں شامل ہونے والے اکثر لوگ پہلے عیسائی تھے.اخبار آگے چل کر لکھتا ہے کہ اس جماعت کے امام نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کے مشن کو زیادہ کامیابی پروٹسٹنٹ لوگوں کے علاقوں میں حاصل ہوئی ہے.اخبارلکھتا ہے کہ ایسا کبھی نہیں دیکھا یا سنا گیا ہوگا کہ کوئی اس جماعت کا فرد کبھی عیسائی ہوا ہو حالانکہ ہزاروں لاکھوں عیسائی اس جماعت میں داخل ہوچکے ہیں.اس جماعت نے یورپ کے ممالک میں درجنوں شان دار مساجد اور مدر سے اور ہسپتال قائم کر دیئے ہیں.اخبار آخر میں رقمطراز ہے کہ اس جماعت کا خیال ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ صلیب پر مرے اور نہ ہی بعد میں وہ زندہ اٹھائے گئے بلکہ انہیں فلسطین سے ہجرت کرنی پڑی اور بعد میں وہ پھر کشمیر میں دفن ہوئے.موجودہ امام صاحب کے دادا صاحب نے دعوی کیا تھا کہ وہ مسیح موعود ہیں.مذکورہ اخبار ہالینڈ کا ایک با اثر اخبار ہونے کے علاوہ وسیع اشاعت کا حامل بھی ہے.اخبار نے اپنے اداریہ میں جو کچھ لکھا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ عیسائیت کا پرانا اور روائتی تعصب بدرجہ اتم جھلک رہا ہے لیکن پھر بھی وہ صحیح حقائق کو مسخ کرنے میں ناکام رہا ہے ہمارا مقصد ہرگز کسی بھی فرقہ یا

Page 465

تاریخ احمدیت.جلد 24 447 سال 1967ء جماعت کے جذبات کو مجروح کرنا نہیں مذکورہ اخبار کے اداریہ کا ترجمہ کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ اہالیان پاکستان کو معلوم ہو سکے خصوصاً ان علماء کرام کو جن کا کام ہمیں مذہب کی آڑ لے کر آپس میں لڑانا یا ہمارے درمیان اختلافات کو جنم دینا ہے وہ جماعت احمدیہ کی کار کردگی اور دینی خدمات کو سامنے رکھ کر اتنا فیصلہ ضرور کریں کہ کیا ان پر خدا اور اس کے رسول اکرم ﷺ کی طرف سے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں.یوگنڈا 9 کمپالا شہر میں عرصہ سے بشیر ہائی سکول جاری تھا اس سکول کی عمارت ایک لاکھ شلنگ کی لاگت ے ۱۹۶۷ء کے آغاز میں پایہ تکمیل کو پہنچی.مرزا محمد ادریس صاحب شاہد تعمیر کے کام کی نگرانی کرتے رہے عمارت کا افتتاح محکمہ تعلیم کے ایجوکیشن افسر مسٹر بنیا (MR.BANYA) نے ۲۲ فروری ۱۹۶۷ء کو کیا.سب اخبارات نے اس خبر کو شائع کیا.ریڈیو یوگنڈا نے بھی اسے نشر کیا اور ٹیلیویژن پر اس کا افتتاحی منظر دکھایا گیا.اس موقع پر مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ہمارے مقدس امام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی سکیم تھی کہ مشرقی افریقہ میں افریقی بھائیوں کی تعلیمی ترقی کے لئے متعد د سکول کھولے جائیں.اس سکیم کے ماتحت ہمارا یہ پہلا قدم ہے ایک لاکھ شلنگ کا یہ پروجیکٹ تھا.مرکز سلسلہ نے اس کی تعمیل کے لئے گراں قدر عطیہ دیا تھا.مقامی طور پر اس غرض کے لئے فنڈ جمع کیا گیا.ڈاکٹر مختار احمد صاحب نے پانچ ہزار شلنگ کی رقم دی.ان کے علاوہ کمپالا میں چوہدری چراغ دین صاحب اور مسٹر ایم.اے نصیر اور جنـجہ میں بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر ، عبدالمجید صاحب بٹ اور محمد امین صاحب جنجوعہ اور مبالی میں چوہدری عطاء الرحمن صاحب نے اپنے حلقہ احباب سے عطیہ جات حاصل کئے.مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے مسجد مساکا میں علاقہ کے افریقی بھائیوں کی میٹنگ بلائی.ان سے تبلیغی حالات سنے.اگلے روز پانچ افریقی احمدیوں کو ساتھ لے کر کالا سیز واور چو تیرا تشریف لے گئے اور پیغام حق پہنچایا.چو تیرا کے قریب انہی دنوں ایک گاؤں کے قریب ایک نئی نئی جماعت قائم ہوئی تھی اور اس کی مخالفت ہورہی تھی مگر نئے مبائعین کو استقلال بنے ہوئے تھے اور انہوں نے ایک چھوٹی سی مسجد بھی بنالی تھی.

Page 466

تاریخ احمدیت.جلد 24 جــنجـــه 448 سال 1967ء 4 کے ستائیس میل کے فاصلے پر کسانمبیر ا میں ایک بڑی جماعت ہے جہاں مولوی عبدالکریم صاحب شرما کا عیسائیوں سے الوہیت مسیح پر ایک کامیاب مباحثہ ہوا.پچھلے سال یہاں مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح کی زیر نگرانی خدا کا ایک گھر تعمیر ہو چکا تھا.اس سال مبلغ کا رہائشی مکان بھی بن گیا.جناب شر ما صاحب نے مبلغین کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تین سال قبل جنجہ میں لوکل مبلغین کی ٹرینگ کلاس کا آغاز کیا تھا.حاجی ابراہیم سنفو نا صاحب اس کلاس کو قرآن کریم اور دینی علوم پڑھاتے رہے اور جناب شرما صاحب نے موازنہ مذاہب، تاریخ احمدیت اور تاریخ اسلام وغیرہ مضامین پڑھائے.سات نو جوان یہ تبلیغی ٹریننگ مکمل کر چکے ہیں جنہیں اس سال ماہ مارچ میں مختلف مقامات پر متعین کر دیا گیا.ان کے تبلیغی میدان میں آنے سے بہتر نتائج نکلنے شروع ہو گئے.یوگنڈا مشن نے اس سال نشر و اشاعت کی طرف خاص توجہ دی.چنانچہ لو گنڈ ا زبان میں تین پمفلٹ ساٹھ ہزار کی تعداد میں شائع کئے.رسالہ WHY ISLAM پانچ ہزار کی تعداد میں چھپوایا گیا.آنحضرت ﷺ کی چالیس احادیث پر مشتمل ایک کتا بچہ لوگنڈا زبان میں ترجمہ اور مختصر تشریحی نوٹوں کے ساتھ شائع ہوا.جو بہت مقبول ہوا.اس کے علاوہ لوگنڈا زبان میں نماز کا تیسرا ایڈیشن پانچ ہزار کی تعداد میں طبع ہوا.جہ کی میونسپل لائبریری میں اسلامی لٹریچر کا فقدان تھا اور آنحضرت ﷺ کی لائف پر وہاں صرف ایک کتاب تھی جو ایک پادری کی تصنیف تھی جس میں آپ کی ذات پر ناپاک حملے کئے گئے تھے.چنانچہ جہ اور کمپالہ کی میونسپل لائبریریوں اور مکرے رے (Makerere) یو نیورسٹی کالج کی لائبریری کو ۳۵ کتب کا ایک ایک سیٹ پیش کیا جس میں سیرت النبی ﷺ کی کتب بھی شامل تھیں.ریڈیو یوگنڈا نے اس خبر کو نشر کیا اور یوگنڈا ارگس (Uganda Argus) نے جنجہ میں کتب کی پیشکش کے موقع کی تصویر اخبار میں شائع کی.93

Page 467

تاریخ احمدیت.جلد 24 449 سال 1967ء آمد مبلغین سلسلہ کی آمد اور روانگی اس سال درج ذیل مبلغین سلسله سالہا سال تک بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کا فریضہ بجالانے کے بعد مرکز احمدیت میں واپس تشریف لائے.حملا مولانا غلام احمد صاحب بد و ملهوی میجر عبدالحمید صاحب مولوی منیر احمد عارف صاحب جدید شکر الہی صاحب د مقبول احمد ذبیح صاحب 94 از گیمبیا ۲ جنوری) (از امریکہ ۴ مارچ) (از نائیجیر یا ۴ را پریل) (از امریکہ مئی) (از یوگنڈا مئی) 96 داؤ د احمد انور صاحب (از غانا ۲۱ مئی) ه مولوی غلام باری سیف صاحب ( از لبنان ۱۹ جولائی ) ( آپ عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لئے گئے تھے.) ملا مولوی امام الدین صاحب م مولوی بشارت احمد بشیر صاحب چوہدری عبد الرحمان صاحب بنگالی جمله مولوی محمد منور صاحب حافظ قدرت اللہ صاحب از انڈونیشیا یکم ستمبر) (از سیرالیون ۷ استمبر ) از امریکہ سے نومبر) 99 از تنزانیه ۹ نومبر ( 100 از ہالینڈ ۲۱ دسمبر ) 0 97 روانگی مولوی فضل الہی انوری صاحب (از جرمنی ۲۸ ستمبر ) از یوگنڈا ۲۸ دسمبر ) مرزا اور لیس احمد صاحب 103 ۱۹۶۷ء میں جو مبلغین سلسلہ غیر ممالک میں اعلائے کلمۃ اللہ کی غرض سے ربوہ سے بھجوائے گئے.ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں :.

Page 468

تاریخ احمدیت.جلد 24 450 سال 1967ء چوہدری محمد شریف صاحب مرز الطف الرحمن صاحب مولوی نورالحق انور صاحب قریشی فیروز محی الدین صاحب ملک غلام نبی صاحب قریشی محمد افضل صاحب قریشی مبارک احمد صاحب (برائے گیمبیا ۳ فروری ) (برائے غانا.افروری ) 0 (برائے نجی ۲۶ فروری) برائے نائیجیر یا ۲ مارچ) 106 (برائے غانا - ۲۶ مارچ ) 108 (برائے آئیوری کوسٹ.۲۸ مارچ) 100 برائے غانا - ۲۸ مارچ ) 110 مولوی جمیل الرحمن رفیق صاحب (برائے تنزانیہ.۳ مارچ) چوہدری محمود احمد صاحب بی.اے.بی.ایڈ (برائے کمپالہ یوگنڈا یہ مئی 12 مولوی کرم الہی ظفر صاحب (برائے سپین - ۱۵ جون ) جناب لئیق احمد طاہر صاحب قریشی مقبول احمد صاحب مولوی جلال الدین قمر صاحب حمد چوہدری عنایت اللہ صاحب مولوی محمد سعید انصاری صاحب حمد مولوی بشیر احمد اختر صاحب مولوی اقبال احمد شاہد صاحب حمد محمد اسمعیل وسیم صاحب ایم.اے حافظ بشیر الدین عبید اللہ صاحب (برائے انگلستان.جولائی ) (برائے امریکہ.۵ جولائی ) 114 115 برائے مشرقی افریقہ.4 اگست ) برائے مشرقی افریقہ.4 اگست ) (برائے ملایا.۲۳ستمبر ) برائے مشرقی افریقہ - ۵/اکتوبر) برائے سیرالیون ۳۱ /اکتوبر) 20 برائے سیرالیون ۲۶ نومبر ) (برائے کینیا.۳۰ نومبر ) چوہدری صلاح الدین خان صاحب بنگالی ( برائے ہالینڈ ے دسمبر ( 2 116 117

Page 469

تاریخ احمدیت.جلد 24 451 نئی مطبوعات سال 1967ء ملک صلاح الدین صاحب) ملک صلاح الدین صاحب) جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ شیخ خورشید احمد صاحب اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل) اصحاب احمد جلد ۱۳ تابعین اصحاب احمد جلد چهارم و پنجم و ششم فضل عمر هجری شمسی دائمی تقویم مجمع البحرین ( جمعدار فضل دین صاحب) (جمعدار فضل دین صاحب) ترجمہ و شرح بخاری شریف آٹھواں حصہ (حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) برہانِ احمدیت تاریخ احمدیت جلد ہفتم خلافت ثالثہ کی تحریکات رمضان المبارک کے احکام وفضائل مقام خاتم النبین علی مولوی ابو ضیاء مشتاق احمد ( مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر ) (مولا نا دوست محمد شاہد صاحب) ( مولانا ابوالعطاء صاحب ) شیخ نوراحمد صاحب منیر) (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) مقام مسیح موعود علیہ السلام بزرگانِ امت کی نظر میں ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں (مولانا جلال الدین صاحب تمس) (مولانا جلال الدین صاحب تمس) رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم ایاز محمود جلدا یاد محمود المصابیح اسلامی نماز (حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ) ( عبدالباری قیوم صاحب) مرتبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ ) حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی تقاریر لجنہ میں ) مولوی محمد اجمل صاحب شاہد ایم.اے مربی سلسلہ کراچی ) مرأة الحق ایک شیعہ عالم السید خادم حسین شیرازی گورسائی کی کتاب ”عرفان الحق“ کے اعتراضات کا جواب ) از خواجہ محمد صدیق خانی صدر جماعت احمد یہ پونچھ )

Page 470

تاریخ احمدیت.جلد 24 نغمه المل سود بینیئر نمبر ۳ 452 اسلام اور دیگر مذاہب ( حضرت مصلح موعود کی کتاب کا سواحیلی ترجمہ ) کلام حسن رہتاسی گرونانک کا گرو سال 1967ء (مرتبہ جنید ہاشمی صاحب) ( خدام الاحمدیہ لاہور ) از جمیل الرحمن رفیق صاحب) (حسن رہتاسی صاحب) (گیانی عباداللہ صاحب) مراکز کی کارکردگی کی مختصر رپورٹ ) Our Foreign Missions ENGLISH TRACED TO ARABIC BY SH.MOHAMMAD AHMAD MAZHAR حديقة الصالحين مفتی سلسلہ ملک سیف الرحمن صاحب نے حضرت امام محی الدین ابوزکریا یحیی بن شرف النووی.( ولادت محرم ۶۳۱ ھ ، وفات ۲۴ رجب ۶۷۶ ھ ) کی کتاب ریاض الصالحین کی تقریباً چار سو احادیث کا انتخاب کر کے اُن کا نہایت سلیس اور با محاورہ ترجمہ فرمایا.علاوہ ازیں دیگر کتب احادیث سے ۲۱۱ / احادیث شامل کر کے ”حدیقہ الصالحین کے نام سے ایک اہم تالیف سپر وقلم فرمائی.جو جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں بیش بہا اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید نے اس کتاب کی نسبت تحریر فرمایا:.احباب جماعت یقیناً یہ خبر سن کر خوشی محسوس کریں گے کہ وقف جدید انجمن احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ احادیث حضرت نبی کریم ﷺ کا ایک دلکش مجموعہ شائع کرے.یہ کتاب جوا منتخبہ احادیث پر مشتمل ہے.مفتی سلسلہ مولا نا ملک سیف الرحمن صاحب کی تالیف ہے.آپ نے ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد حدیث کی مشہور کتاب ریاض الصالحین میں سے تقریباً ۴۰۰ صد احادیث منتخب فرما کر ان کا نہایت ہی سلیس، آسان اور با محاورہ اُردو میں ترجمہ فرمایا ہے.جس کے نتیجے میں مفہوم اتنا واضح ہو جاتا ہے کہ الا ماشاء اللہ کی تشریحی نوٹ کی ضرورت نہیں رہتی.اس کے باوجود بعض جگہ جہاں تشریح ضروری سمجھی گئی وہاں حاشیہ میں تشریحی نوٹ بھی دے دیا گیا.

Page 471

تاریخ احمدیت.جلد 24 453 سال 1967ء ریاض الصالحین سے منتخب کردہ احادیث کے علاوہ دیگر کتب احادیث سے ۲۱۱ / احادیث بھی منتخب کی گئی ہیں.حتی المقدور یہ کوشش کی گئی ہے کہ عقائد، عبادات، معاملات وغیرھم ہر نوع سے تعلق رکھنے والی احادیث یکجا کر دی جائیں تا کہ یہ کتاب عوام الناس کی روزمرہ کی ضرورت کو بہت حد تک پورا کر سکے...124

Page 472

تاریخ احمدیت.جلد 24 1 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۷ ، صفحه ۱۲ الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ صفحه ا الفضل سے فروری ۱۹۶۷ ، صفحہ ۱ 454 حوالہ جات (صفحہ 378تا453) سال 1967ء 3 4 5 CO 6 7 8 9 10 11 12 شجرہ مبشرہ مرتبہ نسیم احمد خان صاحب پروپراکٹ نیم سٹیل فکسر ٹرینگ سنٹر اندرون موچی گیٹ لاہور الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۶۷ء صفحہ ، الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۷ صفحها الفضل ۶ استمبر ۱۹۶۷ء صفحه ا الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحها ، ایضاً شجره مبشره الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ ، ایضاً شجره مبشره الفضل ۵ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ، ایضاً شجره مبشره الفضل ۳ ، ۱۶ ۲۲ فروری ۲۱٬۱۸، ۲۷ مئی ۱۴ جون ۱۵، ۱۹ ستمبر ، ۳۱ /اکتوبر ۲۳ نومبر ۱۳دسمبر ۱۹۶۷ء گلدسته احمدیہ حصہ دوم ۱۵ فروری ۱۹۲۰ء بحواله کلام محمود صفحه ۴۸ ضرب کلیم صفحه ۲ مطبوعہ ۱۹۹۱ء پبلشر غلام علی اینڈ سنز انارکلی لاہور 13 پوسٹ کارڈ نمبر ۷۶۶۲۰ از قلم مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعود جناب خادم حسین صاحب پرائیویٹ سیکرٹری کے قلم سے مراسلہ D.P۲۰۹۲ مور محه ۱۶ جولائی ۱۹۵۷ ماخوذ از مکتوب جناب میجر (ر) سید محمود احمد شاہ صاحب گلشن اقبال کراچی مورخه ۳۱ اگست ۱۹۹۳ء.ریکارڈ شعبه 14 15 16 17 تاریخ احمدیت ملخص غیر مطبوعہ خط مکرم چوہدری محمد حسین صاحب والد بزرگوار ڈ اکٹر عبدالسلام صاحب.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خان صاحب صفحہ ۱۰۸ مؤلفہ ڈاکٹر چوہدری غلام اللہ خان صاحب مطبوعہ مارچ ۱۹۸۶ء 18 19 20 الفضل ۲۳ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ۵ الفضل ۲۳٬۲۱ فروری ۱۹۶۷ء الفضل ربوہ ۱۲ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۱۴،۵ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۵ 21 الفضل ربوه ۲ را پریل ۱۹۶۷، صفحه ۵

Page 473

تاریخ احمدیت.جلد 24 22 23 24 25 26 27 28 29 2 2 2 2 2 2 2 2 3 3 3 3 1 O 30 31 32 33 34 35 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۷ صفحه ۸ الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۷ صفحه ۸ الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۷ ، صفحه ۸ مصباح ربوہ مئی ۱۹۶۷ء صفحه ۲ اخبار بدر قادیان ۱۳ را پریل ۱۹۶۷ صفحه ۱ آپ کوثر از شیخ محمد اکرم صفحه ۳۶۶، ۳۶۷ اخبار بدر۲۳ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۱ اخبار بدر ۲۰ ر ا پریل ۱۹۶۷ صفحه ۸،۱ اخبار بدر قادیان ۲۷ جولائی ۱۹۶۷ء صفحه ۱۲ اخبار بدر قادیان ۱۵ جون ۱۹۶۷ صفحه ۶ اخبار بدر قادیان ۱۰ را گست تا ۲۳ نومبر ۱۹۶۷ء اخبار بد ر قادیان ۱۸ مئی ۱۹۶۷ ء صفحه ۱۰۱ 455 سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۱۹۶۷.۱۹۶۶، صفحہ ۱۳۵، ۱۳۶ ملاحظہ ہو الفضل ا جولائی ۱۹۶۷ صفحه اتا اکتوبر ۱۹۶۷ء سال 1967ء 36 " کچھ باتیں کچھ یادیں ، صفحه ۱۲۸ از شیخ عبدالحمید عاجز واقف زندگی قادیان - طبع دوم جنوری ۱۹۹۱ء مطبع جے کے آفسٹ پر لیس دہلی اخبار بدر قادیان ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ا 37 38 39 40 41 الفضل ۲۰ را کتوبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۵ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۸ الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۷، صفحه ۸ 42 الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۷ کتاب تاریخ الادب العربی صفحہ ۲۶ نا شر شیخ غلام اینڈ سنز لا ہور جون ۱۹۶۱ء 43 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۶ 44 45 46 47 48 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۷ ، صفحہ ۷ الفضل ۲۱،۱۸ جولائی ۱۹۶۷ء تفصیل تاریخ احمدیت جلد سوم ۲۴۷ تا ۲۶۴ الفضل ۲۷، ۲۸ مارچ ۱۹۶۸ء الفضل مورخه ۱۳ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۵

Page 474

تاریخ احمدیت.جلد 24 456 دعوت اسلام طبع دوم صفحه ۹۴۹۰ ناشر مسعود پبلشنگ ہاؤس بلاسیس سٹریٹ کراچی نمبر ۱۹۶۴ء 49 The Preaching of Islam.page 285 50 51 سال 1967ء الفضل ۹ ۱۱ نومبر ۱۹۶۷ء 52 الفضل 11 نومبر ۱۹۶۷ صفحه یم 53 54 جناب بشیر احمد خان رفیق اگلے سال جولائی ۱۹۶۸ء میں لائبیریا تشریف لے گئے.آپ کے کامیاب دورہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ۱۸ میں صفحہ ۳۴۰.۳۴۱ میں آچکی ہے.الفضل ۱۶، ۱۹،۱۷دسمبر ۱۹۶۷ء 55 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۶۷ء صفحه ۵ 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۸، صفحه ۳ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۸ الفضل ممئی ۱۹۶۷ء صفحه ۵ تحریک جدید ر بوه مئی ۱۹۶۷ء صفحه ۱۴، ۱۵ الفضل ۳ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ۵ الفضل ۶ را پریل ۱۹۶۷ء صفحه ۳ تحریک جدید ربوہ مئی ۱۹۶۷ء صفحه ۳ او نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲۰ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۶۷ء صفحه ۵ الفضل ۱۲ سراپریل ۱۹۶۷، صفحه ۸ الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۷، صفحہ ۷ الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۷ء صفحہ ۸،۷ الفضل ۱۸۰۱۷ نومبر ۱۹۶۷ء الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۸ 69 الفضل ۷ اپریل ۱۹۶۷، صفحہ ۵ 70 الفضل 9 جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ ۹۸ 71 الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۶۷ء صفحہ ۹ الفضل ۷ امارچ ۱۹۶۸ء صفحہ ۴،۳ 72 73 74 تحریک جدید ربوہ جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ الفضل ۲۸ فروری یکم ۴۰ مارچ ۱۹۶۷ء 75 الفضل ۱۵،۱۴۰۱۳ / اکتوبر ۱۹۶۷ء

Page 475

سال 1967ء تاریخ احمدیت.جلد 24 76 لا لا له لا 77 78 الفضل ۱۵ ۱۶ مارچ ۱۹۶۸ء الفضل ۴ را پریل ۱۹۶۷ء صفحه ۵ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 79 الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ ء صفحه ۳ 80 81 82 83 الفضل سے جون ۱۹۶۷ ء صفحہیم الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ تحریک جدید ربوہ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۲۰،۱۹ الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۷ صفحه ۸ 84 الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۶۷ ، صفحه ۸ 85 86 457 انصار اللہ مئی ۱۹۶۸ء صفحہ ۴۲ تا ۴.اس نمائش کی تفصیلی رپورٹ الفضل ۵ اور ۹ جون میں شائع ہوئی تھی.الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 87 الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۶۷، صفحه ۳، ۲۰/اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحه ۳ 88 الفضل ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۳ 89 الفضل ۲۱ فروری ۱۹۶۷، صفحه ۴، ۶ را پریل ۱۹۶۷، صفحیم 90 91 92 93 الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۷ صفحه ۳ ہم روزنامه مغربی پاکستان ۱۲ مارچ ۱۹۶۷ء بحوالہ الفضل ۳ مئی ۱۹۶۷ء صفحه ۴ ، ۵ الفضل ۹ / اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۹۰۸ تحریک جدید ر بوه جون ۱۹۶۷ء صفحه ۱۳،۱۲ 94 الفضل ۴ جنوری ۱۹۶۷ صفحه ا 95 96 97 الفضل سے مارچ ۱۹۶۷، صفحہ ۸ رسالہ تحریک جدید مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ۱۷ الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۷ ، صفحہ ۸ 98 الفضل 9 ستمبر ۱۹۶۷ء صفحہ 1 99 الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 100 الفضل اا نومبر ۱۹۶۷ صفحه ا 101 الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ۱ 102 الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۶۷، صفحه ۸ 103 الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۶۷ ، صفحه ۸

Page 476

تاریخ احمدیت.جلد 24 104 الفضل ۵ فروری ۱۹۶۷ ، صفحه ۱ 105 الفضل فروری ۱۹۶۷ ، صفحہ 1 106 الفضل ۷ مارچ ۱۹۶۷ ء صفحہ ۸ 107 الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ا 108 الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۷ء صفحه ا 109 الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ صفحہ۱ 458 110 الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۶۷ء صفحها 111 الفضل ۳ مئی ۱۹۶۷ء صفحه ا 112 الفضل بہ مئی ۱۹۶۷ء صفحہ ، رسالہ تحریک جدید جون ۱۹۶۷ء حصہ انگریزی صفحہ ۶ 113 الفضل ۲۰ جون ۱۹۶۷ء صفحه ا 114 الفضل نے جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ 1 115 الفضل اا جولائی ۱۹۶۷ء صفحہ 1 116 الفضل ۶ را گست ۱۹۶۷ ء صفحه ۱ 117 الفضل ۶ راگست ۱۹۶۷، صفحه ۱ 118 الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 119 الفضل ۷ اکتوبر ۱۹۶۷ء صفحہ 120 الفضل ۴ نومبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 121 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۷ء صفحها 122 الفضل ۲ دسمبر ۱۹۶۷ء صفحه ا 123 الفضل 9 دسمبر ۱۹۶۷ صفحہ۱ 124 الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۷ء صفحه ۸ سال 1967ء

Page 477

PHOTO Datel دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ کا افتتاح حضرت خلیفة المسیح الثالث خطاب فرماتے ہوئے جلسہ سالانہ ربوہ 1966ء کا ایک منظر (منعقدہ جنوری 1967) جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی زیر صدارت اجلاس میں مولانا نذیر احمد مبشر صاحب تقریر کرتے ہوئے

Page 478

جلسہ سالانہ ربوہ 1966ء کے چند مناظر (منعقدہ جنوری 1967) Dater ORE حضرت خلیفة المسیح الثالث جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب فرماتے ہوئے جلسہ سالانہ کے حاضرین کا ایک منظر

Page 479

حضرت خلیفة المسیح الثالث کے ہمراہ بعض غیر ملکی سفیر.راولپنڈی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث پر یس کا نفرنس میں.راولپنڈی

Page 480

MAKHZAN--TASAWEER حضرت خلیفة المسیح الثالث مسجد نصرت جہاں کو پن ہیگن کے افتتاح کے موقع پر

Page 481

MAKHZAN-E-TASAWEER MAKHZAN-L-TASAWEER حضرت خلیفة المسیح الثالث کو پن ہیگن کی میئر کو قرآن مجید کا تحفہ عطا فرمارہے ہیں حضرت خلیفة المسیح الثالث ، دائیں طرف مسٹر بیج نمائندہ حکومت مغربی جرمنی، بر موقع استقبالیہ مسجد فضل ہیمبرگ

Page 482

حضرت خلیفة المسیح الثالث فرینکفرٹ کے میئر کو تحالف عطافرماتے ہوئے حضرت خلیفة المسیح الثالث مسجد نور فرینکفرٹ میں.آپ کے دائیں طرف جرمنی میں پاکستان کے سفیر مکرم سجاد حیدر صاحب DMAKHZAN-E-TASANEER

Page 483

MAKIZA Jesus OMAKHZAN-E-TASAWEER SAWEFR حضرت خلیفة المسیح الثالث ایک پر یس کا نفرنس کے دوران ( مغربی جرمنی) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث فرینکفرٹ جماعت کے ایک مخلص جرمن احمدی مکرم محمود داسماعیل صاحب کے ہمراہ محو گفتگو

Page 484

NNNNNاله الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله : MAKHIAN I-TASANTER حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مسجد ہیگ ہالینڈ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے BEING حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو دو بچے زیورچ ائر پورٹ پر گلدستہ پیش کرتے ہوئے

Page 485

حضرت خلیفة المسیح الثالث زیورچ میں ایک تقریب سے خطاب فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ہمراہ وانڈ زور تھے ٹاؤن ہال کے میٹر *OMAITHZAN-E-TASAWEER

Page 486

MARZAN-E-TASAWEER MANILZAN-T-TASAWEER حضرت خلیفة المسیح الثالث کی لندن تشریف آوری کے مناظر PAN 412 PAN 000

Page 487

تقریب سنگ بنیاد محمود بال لندن

Page 488

اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ 1967ء (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مقام اجتماع میں خیمہ جات کا ایک منظر جان

Page 489

جلسہ سالانہ 1967 کے بعض مناظر (منعقدہ جنوری1968) K

Page 490

جلسہ سالانہ 1967 کے بعض مناظر (منعقدہ جنوری 1968)

Page 491

جلسہ سالانہ 1968 کے بعض مناظر (منعقدہ دسمبر 1968)

Page 492

جلسہ سالانہ 1967 کے بعض مناظر (منعقدہ جنوری 1968)

Page 493

مسجد جماعت احمد یہ ڈائمنڈ ہار برانڈیا حضرت خلیفة المسیح الثالث کراچی ریلوے اسٹیشن پر

Page 494

دورہ کراچی کے دوران احمد یہ ہال میں منعقدہ تقریب کا منظر

Page 495

دورہ کراچی کے دوران احمدیہ ہال میں منعقدہ تقریب کا منظر

Page 496

000 نمائش تراجم قرآن کریم کا ایک منظر مکرم ڈاکٹر ممتاز حسین صاحب گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جماعت احمدیہ کراچی کے زیر اہتمام تراجم قرآن کریم کی نمائش کا افتتاح کرنے کے بعد تراجم قرآن کریم ملاحظہ فرمارہے ہیں

Page 497

اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ 1968ء کے چند مناظر

Page 498

اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ 1968ء کے چند مناظر

Page 499

تاریخ احمدیت.جلد 24 459 سال 1968ء سلح تا فتح ۱۳۴۷هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۸ء سال نو کے آغاز پر اجتماعی دعا سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث یکم جنوری ۱۹۶۸ء بمطابق یکم صلح ۱۳۴۷ ہجری منشی نماز فجر پڑھانے کے بعد مسجد مبارک میں رونق افروز ہوئے اس دن حسن اتفاق سے ۲۹ رمضان المبارک کا دن تھا آپ نے فرمایا کہ آج کسی ہجری سال کا پہلا دن ہے.رمضان المبارک کے مبارک اور قبولیت دعا کے خاص دنوں میں سے بھی ایک دن ہے.سب بھائیوں اور بہنوں کو نیا سال مبارک ہو.آؤ آج اس وقت مل کر سب اجتماعی دعا کریں.اس میں سب صرف ایک ہی دعا کریں اور وہ یہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی عظمت اور اس کے جلال سے اس کے بندے واقف ہو جائیں اور ساری دنیا میں اس کی توحید پھیل جائے.نیز سب انسان اباء و استکبار کے جہنم سے بچ جائیں اور اپنے رب کو پہچاننے لگ جائیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی قربانی کی توفیق بخشے.اس لحاظ سے یہ سال ہمارے لئے مبارک ہو.آمین حضور نے نہایت رقت اور درد سے پُر اثر الفاظ میں یہ بات بیان فرمائی اور پھر سب حاضرین سمیت حضور نے بھی دعا کی.دعا کے وقت سب احباب پر رقت طاری تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا درس قرآن اور اجتماعی دعا یکم رمضان المبارک سے نظارت اصلاح وارشاد کے زیر اہتمام مسجد مبارک ربوہ میں پورے قرآن مجید کے خصوصی درس کا سلسلہ جاری رہا جو ۲۹ رمضان المبارک مطابق یکم جنوری ۱۹۶۸ء نماز مغرب سے قبل مکمل ہو گیا.آخری روز تین سورتوں کا درس سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے دیا جو قریبا پچاس منٹ تک جاری رہا.حضور نے ان سہ سورتوں کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی.بعد ازاں حضور نے نہایت پرسوز اجتماعی دعا کرائی جس میں حاضر الوقت ہزاروں احباب شریک ہوئے.اس کے علاوہ جن علمائے کرام نے اس درس میں حصہ لیا ان میں علی الترتیب محترم مولانا غلام احمد صاحب

Page 500

تاریخ احمدیت.جلد 24 460 سال 1968ء آف بدوماهی سابق مبلغ گیمبیا، محترم مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل سابق مبلغ بلا دعربیه، محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحبہ لائل پوری ناظر اصلاح و ارشاد اور محترم مولانا ظہور حسین صاحب سابق مبلغ بخارا شامل ہیں.ربوہ میں عید الفطر کی نہایت بابرکت تقریب مورخہ ۲ جنوری ۱۹۶۸ء یکم شوال بروز منگل ربوہ میں اسلامی شعار کے مطابق عیدالفطر منائی گئی.اہل ربوہ نے ہزاروں کی تعداد میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی اقتداء میں مسجد مبارک میں نماز عید ادا کی.اس کے علاوہ دور ونزدیک سے آئے ہوئے کثیر التعداد احباب نے بھی شرکت کی.حضور نے نماز پڑھانے کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا.حضور نے قرآن مجید کی رو سے عید کے فلسفہ پر ایک نئے زاویہ نگاہ سے روشنی ڈال کر اس امر کو واضح فرمایا کہ اگر ہر ایک مسلمان قرآن مجید کی ایک خاص ہدایت پر عمل کرے تو اس کے لئے ہر روز روز عید ثابت ہوسکتا ہے.خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ایک پر سوز اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد حضور نے مسجد میں موجود جملہ احباب کو از راہ شفقت مصافحہ کا شرف عطا فرمایا.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا تیسرا جلسہ سالانہ سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے رمضان المبارک اور عید الفطر کی وجہ سے ۱۹۶۷ء کا جلسہ سالانہ مؤخر فر ما دیا تھا پھر ۱۹۶۷ء کا یہ مؤخر کردہ جلسہ سالانہ ۱۱ تا ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء انعقاد پذیر ہوا.اس جلسہ میں قریباً ایک لاکھ فرائی پاکستان کے کونے کونے سے اور دنیا کے دور دراز ممالک مثلاً امریکہ، برطانیہ، مغربی جرمنی ، ہالینڈ، مشرقی افریقہ ، ماریشس، دبئی ، جزائر فجی اور بھارت وغیرہ سے بھی تشریف لائے تھے.معاینه انتظامات جلسه سالانه جلسہ سالانہ کے آغاز سے قبل سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے مورخہ ۸ جنوری ۱۹۶۸ء کو ایک گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جلسہ کے ان انتظامی شعبوں کا معاینہ فرما کران شعبہ جات کے متعلق افسران کو بیش قیمت ہدایات سے نوازا.حضور نے تین نئے سٹوروں کا معاینہ بھی فرمایا جو دفتر جلسہ سالانہ کے قریب ہی تعمیر کئے گئے تھے.بعد ازاں حضور نے دفتر جلسہ سالانہ کے برآمدہ میں تشریف

Page 501

تاریخ احمدیت.جلد 24 461 سال 1968ء لا کر اجتماعی دعا کروائی.انتظامی شعبوں کے معاینہ سے فارغ ہونے کے بعد حضور دار الصدر کے مرکزی لنگر خانہ نمبر اتشریف لے گئے.جہاں لنگر خانہ کے ناظم محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ایم اے ( حال ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمدیہ ) اور دیگر منتظمین نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے نصف گھنٹہ سے زائد عرصہ تک لنگر خانہ کے جملہ شعبوں اور انتظامات کا معاینہ فرما کر منتظمین کو قیمتی ہدایات سے نوازا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ایمان افروز خطابات اس جلسہ کے تینوں دن حضور انور نے احباب جماعت سے خطاب فرمایا.اس کے علاوہ علماء کرام کی بھی تقاریر ہوئیں.حضور انور نے جلسہ سالانہ کے پہلے دن یعنی 11 جنوری کو دس بجے جلسہ گاہ تشریف لاکر ایک دعائیہ خطاب اور پر سوز اجتماعی دعا سے جلسہ سالانہ کا افتتاح فرمایا.افتتاحی خطاب حضور انور نے اپنے افتتاحی خطاب کا آغاز سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پُرسوز دعاؤں سے فرمایا جو حضور علیہ السلام نے اس لکھی جلسہ میں شمولیت کی غرض سے سفر اختیار کرنے والوں کے حق میں کی ہیں اور جو اشتہارے دسمبر ۱۸۹۲ء کے آخر میں درج ہیں.بعد ازاں حضور نے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو خاص اس ضمن میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.چنانچہ اس تعلق میں ہماری سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ جلسہ کے ایام میں ہمارا سارا وقت دعاؤں میں بسر ہو.پس ان بابرکت ایام میں اپنے اوقات کو دعاؤں سے معمور رکھیں اپنے لئے بھی دعائیں کریں اور اپنے ہم وطنوں اور دنیا کے سب مکینوں کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور خاص طور پر یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ملک کو مستحکم سے مستحکم تر بناتا چلا جائے اور اس کے اس استحکام کو غلبہ اسلام میں مد بنائے.اس جلسہ سالانہ کے اُن چھ اجلاسوں کے علاوہ جو دن کے اوقات میں منعقد ہوئے ، ۱۱ اور ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء کی درمیانی شب نماز عشاء کے بعد مسجد مبارک میں ایک خصوصی اجلاس بھی منعقد ہوا اس میں بھی احباب اس کثرت اور شوق و ذوق کے ساتھ شریک ہوئے کہ مسجد مبارک میں تل دھر نے کو جگہ نہ تھی.

Page 502

تاریخ احمدیت.جلد 24 مستورات سے خطاب 462 سال 1968ء دوسرے دن کے پہلے اجلاس میں حضور انور جلسہ گاہ مستورات تشریف لے گئے اور احمدی خواتین سے خطاب فرمایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے لئے سال رواں کا اہم ترین واقعہ مسجد نصرت جہاں کا افتتاح ہے.یہ مسجد جس کی بناء خلافت ثانیہ میں رکھی گئی اور تکمیل خلافت ثالثہ میں ہوئی جماعت احمدیہ کی مستورات کی قربانی کا مظہر ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں اور قربانیوں کو قبول کر کے اس مسجد کو تبلیغ دین کا ایک مؤثر ذریعہ بنا دیا ہے.اس قربانی کی قبولیت کے سینکڑوں نشانات ظاہر ہوئے.اس سلسلہ میں حضور نے وہاں کی نو مسلم احمدی خواتین کے قابل رشک اخلاص کی متعدد مثالیں بیان فرمائیں اور بتایا کہ یہ تربیت محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہو سکتی ہے اس میں کسی انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے.فرشتوں نے ان کے دل کو دھو کر صاف کر دیا ہے اور شیطانی خیالات نکال کر ان میں خدا کی محبت بسادی ہے.حضور نے فرمایا کہ ہماری قربانیوں کے پیچھے ایک چیز کام کر رہی ہوتی ہے وہ اخلاق حسنہ ہیں.جب تک یہ اخلاق پوری طرح مضبوط نہ ہو جائیں کامیابی کا تصور محال ہے.حضور انور نے مزید فرمایا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک ہر احمدی مرد و عورت کے دل میں نبی کریم ﷺ سے شدید جذبہ محبت وعقیدت پیدا نہیں ہو جاتا اس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.تمہارے دلوں میں کسی بھی رشتہ دار یا دنیا کی محبت خدا اور اس کے رسول سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیے.سو آج سے یہ عہد کر لو کہ تمہارے تمام تعلقات کی بنیاد محبت رسول پر ہوگی.اگر یہ محبت تمہارے دلوں میں پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بے شمار انعامات اور فضلوں کا وارث کرے گا.ایسے انعامات جن سے ہم بھی اور دنیا والے بھی حیران رہ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس کی اور اس کے رسول کی محبت کے مقابلے میں دنیا کی تمام محبتیں سرد ہو جائیں.دوسرے دن کا خطاب ۱۲ جنوری ۱۹۶۸ء کے دوسرے اجلاس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل مجالس انصار اللہ اور مجالس خدام الاحمدیہ میں سے اول آنے والی مجالس کو اپنے دستِ

Page 503

تاریخ احمدیت.جلد 24 463 سال 1968ء مبارک سے علم انعامی عطا فرمائے.اس موقع پر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے مولانا ابو العطاء صاحب نے اعلان فرمایا کہ کارکردگی کے لحاظ سے مجلس انصاراللہ پشاور اور مجلس انصار اللہ کراچی دونوں علم انعامی کی مستحق قرار دی گئی ہیں.لہذا علم انعامی پہلے چھ ماہ مجلس انصار اللہ پشاور کے پاس رہے گا اور سال کے بقیہ چھ ماہ کراچی کی مجلس انصار اللہ کے سپر د ر ہے گا.چنانچہ اس اعلان کے بعد حضور نے قائد صاحب مجلس پشاور اور قائد صاحب مجلس کراچی کو حکم انعامی عطا فرمایا.اس کے بعد (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اعلان فرمایا کہ ۶۷ ،۱۹۶۶ء میں بہترین کام کرنے کے لحاظ سے مجلس خدام الاحمدیہ لائکپور (فیصل آباد ) اول رہی ہے اور مجلس خدام الاحمدیہ کراچی دوم اور مجلس خوشاب سوم رہی ہے لہذا مجلس فیصل آباد کو علم انعامی کا مستحق قرار دیا گیا.آپ نے اعلان فرمایا کہ مجلس کراچی، مجلس خوشاب اور مجلس پنڈی بھا گوضلع سیالکوٹ کوسندات خوشنودی کی مستحق قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضور نے فیصل آباد کو اپنے دستِ مبارک سے علم انعامی عطا فرمایا اور مجلس کراچی، مجلس خوشاب اور مجلس پنڈی بھا گو کوسندات خوشنودی کا اعزاز حاصل ہوا.اس کے بعد حضور انور نے تشھد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد دوران سال کی جماعتی سرگرمیوں جن میں اشاعتی ، مالی اور تبلیغی سرگرمیوں کا بطور خاص اپنے خطاب میں ذکر فرمایا.سب سے پہلے حضور انور نے اشاعتی کام کا جائزہ پیش فرمایا جس میں جماعتی ادارہ جات اور تنظیموں کی طرف سے بعض کتب کی دوبارہ اشاعت کی گئی تھی.دفتر اصلاح وارشاد کی طرف سے حضور انور کے بعض خطبات اور مضامین کو شائع کیا گیا.جن میں تین اہم امور، قرآنی انوار تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد اور مضمون امن کا پیغام شامل ہیں.حضور انور نے جماعتی رسائل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ احمدی احباب نوجوانوں اور بچوں کو ان سے فائدہ اٹھانا چاہئیے.پھر تحریک وقف عارضی کے تحت ہونے والے کام کا ذکر فرمایا کہ ۲۰ ماہ پہلے میں نے یہ تحریک شروع کی تھی اور اب تک پانچ ہزار احباب جماعت نے وقف عارضی کی اور دو ہفتے کم از کم جماعتوں میں گزارے.حضور نے تحریک وقف عارضی کو تربیتی لحاظ سے بڑا اہم منصوبہ قرار دیا اور فرمایا کہ اس طرف جماعت کو توجہ دینی چاہیئے اور آئندہ سال کے لئے کم از کم سات ہزار واقفین جماعت نے مجھے دینے ہیں.اس کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن منصوبہ کے تحت جماعت کی طرف سے کی جانے والی مالی قربانیوں کا حضورانور

Page 504

تاریخ احمدیت.جلد 24 464 سال 1968ء نے تذکرہ فرمایا.نیز اس ادارہ کے تحت ہونے والے کاموں کی تفصیل بیان فرمائی.اسی طرح حضور انور نے صدرانجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے تحت ہونے والے کاموں کا جائزہ پیش کیا.صدرانجمن احمدیہ کے متعلق آپ نے بتایا کہ یکم مئی سے ۳۱ دسمبر تک صدرانجمن کی طرف سے جو کتب اور پمفلٹ شائع ہوئے ان کی مجموعی تعداد ۲٬۸۷،۰۰۰ ہے.متفرق امداد جو مختلف ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے گزشتہ سال دی گئی ہے اس کی رقم اسی ہزار روپے بنتی ہے.تعلیمی امداد اس کے علاوہ ہے جو ۲۸,۲۴۵ روپے ہے.تحریک جدید کے تحت نئے مشنوں اور جماعتوں کے قیام ،سکولوں کے اجراء، تراجم قرآن کریم، کتابوں کی اشاعت اور مساجد کی تعمیر اور دیگر دینی سرگرمیوں کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا نیز اپنے دورہ کے دوران ہونے والے افضال الہی کا بھی ذکر فر مایا..اختتامی خطاب مورخه ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء کو حضور انور نے احباب کو اختتامی خطاب سے نوازا.حضور کا یہ خطاب تقریب دو گھنٹے تک جاری رہا.حضور نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ گزشتہ سال میں نے چند خطبات میں ان مقاصد پر روشنی ڈالی تھی جن کا تعلق خانہ کعبہ کی از سرنو تعمیر سے تھا اور کسی قدر تفصیل کے ساتھ یہ بتایا تھا کہ یہ تمام مقاصد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کو حاصل ہوئے تھے.خیال تھا کہ آج کے دن اس تمہید کے بعد میں ایک عملی منصوبہ جماعت کے سامنے رکھوں گا لیکن ایک دن قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے میری توجہ اس طرف پھیری کہ ان مقاصد کے حصول کے لئے قوم میں بہت سی باتوں کا پایا جانا ضروری ہے.میں نے غور کیا تو اس سلسلہ میں نو باتیں میرے ذہن میں آئیں جن پر عمل کرنے اور ان کو اپنی زندگیوں میں پختہ کرنے کے بعد جماعت اس منصو بہ پر جو میں ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں زیادہ بہتر طریق پر عمل کر سکے گی.نو بنیادی باتیں یہ ہیں.ا.اللہ تعالیٰ کی محبت ذاتی.۲.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت.۳.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع کی جائے.۴.اس عقل کا پیدا ہونا اور اسے منور اور روشن کرنا جو برائیوں سے روکتی ہے.۵.تدبیر کو اس کے کمال تک پہنچانا.۶.مسابقت کی روح پیدا کرنا یعنی ہر شخص کوشش کرے کہ وہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر قربانیاں دینے والا بن جائے...یہ جذ بہ جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہو کہ ہم نے ساری دنیا میں پھیل جانا ہے.۸.رضا کارانہ طور پر خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے.۹.تو کل کواس

Page 505

تاریخ احمدیت.جلد 24 465 سال 1968ء معیار پر پہنچایا جائے کہ جہاں صرف اور صرف خدا تعالیٰ پر ہی بھروسہ ہو اور دل اس یقین سے پُر ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمارا کارساز ہے اور وہ ہمارے سب کام کر سکتا ہے.آخر میں حضور انور نے فرمایا کہ ہم سب کو دعا کرنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے ہر فرد میں یہ خوبیاں پیدا کرے.اس جلسہ سالانہ پر جن بزرگان سلسلہ نے تقاریر کیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے: معرفت الہی اور اس کے حصول کے طریق مکرم مرزا عبدالحق صاحب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم مکرم پر و فیسر قاضی محمد اسلم صاحب حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع الی اللہ مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری احمدیت پر اعتراضات کے جوابات مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ذكر حبيب احمدیت نے دنیا کو کیا دیا برکات خلافت یا جوج ماجوج اور ان کا انجام مکرم حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحہ مکرم مولانا غلام باری سیف صاحب مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب بیرونی ممالک میں اسلام کی اشاعت مکرم صاحبزادہ مرزا ا مبارک احمد صاحب اقتصادی مشکلات کا حل اسلام میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ایثار و قربانی کی ایک درخشندہ مثال اس جلسہ سالانہ پر دو بہت تاریخی واقعات بھی رونما ہوئے ان میں سے پہلے واقعہ میں احباب جماعت نے ایثار و قربانی اور اطاعت و خدمت کی ایک ایسی مثال قائم کی جو مدتوں یادر ہے گی.ہوا یوں کہ ار اور ا ا جنوری ۱۹۶۸ء کی درمیانی شب کو اچانک لنگر خانہ نمبر یعنی مرکزی لنگر خانہ دار الصدر کے نانبائیوں نے کام کرنے سے انکار کر دیا جس کی وجہ سے 11 جنوری کی صبح کو ہزاروں ہزار مہمانوں کے واسطے روٹیاں مہیا کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی.اس پر محترم سید میر داؤ د احمد صاحب افسر جلسہ سالانہ اور ان کے بارہ تیرہ سو مقامی کارکنان کا پریشان ہونا لازمی تھا.انہیں فکر یہ تھا کہ کہیں مہمانوں کو بر وقت کھانا نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ وقت پر شروع نہ ہو سکے اُس رات لنگر خانہ نمبرا

Page 506

تاریخ احمدیت.جلد 24 466 سال 1968ء میں صرف نو ہزار روٹیاں پک سکیں جبکہ ضرورت پوری کرنے کیلئے ۳۵ ہزار روٹیوں کی ضرورت تھی.جب اس صورتحال کا سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کو علم ہوا تو حضور نے 11 جنوری کو نماز فجر کے بعد مسجد مبارک میں احباب کو اس صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ ہر شخص خواہ وہ مقامی ہو یا با ہر سے آیا ہو، خواہ وہ جماعتی قیام گاہوں میں مقیم ہو یا کسی پرائیویٹ مکان میں وہ اس دن صبح صرف ایک روٹی پر ہی اکتفا کرے.یعنی صرف ایک روٹی کھائے اس سے زیادہ نہیں.نیز ربوہ کے مقامی باشندوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کے ہاں جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں وہ ایک روٹی فی کس کے حساب سے ان کے لئے گھروں میں روٹیاں پکوائیں اور اس سے زائد جو روٹیاں پکواسکیں انہیں سید میر داؤد صاحب کے دفتر میں پہنچوا دیں.تا کہ وہ روٹیاں جماعتی قیام گاہوں میں ٹھہر نے والے مہمانوں کو مہیا کی جاسکیں.دفتر معلومات نے جیپوں پر لاؤڈ سپیکر نصب کر کے اور انہیں سارے شہر میں گھما کر حضور کا یہ ارشاد فورا ہی ربوہ کے کونہ کونہ میں نشر کروایا.ادھر سید میر داؤ د احمد صاحب نے سرگودھا، لائل پور اور بعض دوسرے مقامات کی طرف جیپیں بھجوا کر نئے نانبائی منگوانے کا انتظام کیا.آن کی آن میں جلسہ پر آئے ہوئے ہزاروں ہزار احباب اور اہل ربوہ اپنے امام ہشام کے اس ارشاد پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اطاعت کا نہایت اعلیٰ نمونہ پیش کرنے کیلئے تیار ہو گئے.اُدھر دوسرے نگر خانوں کے کارکنان اور معاونین نے لنگر خانہ نمبر میں روٹی کی اس کمی کو پورا کرنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.اور خدمت و فدائیت کی نہایت اعلیٰ مثال قائم کر دکھائی.دوسری طرف گھروں سے بھی محترم میر داؤ د احمد صاحب کے دفتر اور لنگر خانہ نمبر میں پکی پکائی روٹیاں پہنچنی شروع ہو گئیں.چنانچہ 11 جنوری کی صبح کو مہمانوں اور اہل ربوہ نے اپنے امام ہمام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صرف ایک ایک روٹی ہی کھائی.جن کے سامنے میز بانوں کی طرف سے زیادہ روٹیاں پیش بھی کی گئیں انہوں نے ایک روٹی سے زیادہ کھانے سے انکار کر دیا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کا افتتاح حسب پروگرام بر وقت عمل میں آیا اور انتظامات میں جو رخنہ واقع ہوا تھا وہ مہمانوں کے قربانی و ایثار اور جذبۂ اطاعت نیز میزبانوں کے جذبہ خدمت کی بدولت بر وقت دور ہو گیا.اس طرح سب نے مل کر یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر انہیں یکسر بھوکا بھی رہنا پڑتا تو بھی وہ جلسہ کے انعقاد میں کوئی روک برداشت نہ کرتے اور خالی پیٹ بھی اس میں شامل ہوتے.اس طرح سب نے مل کر قربانی و ایثار اور اطاعت و خدمت کی نہایت ہی درخشندہ مثال قائم کر دکھائی.

Page 507

تاریخ احمدیت.جلد 24 ایک ایمان افروز تاریخی واقعہ 467 سال 1968ء دوسرے ایمان افروز واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ جلسہ سالانہ کے دوسرے روز حضرت خلیفة المسیح الثالث کے سٹیج پر رونق افروز ہونے کے بعد حضور کی اجازت سے احباب ماریشس، جزائر فجی اور امریکہ کے نمائندگان نے حضور کی خدمت میں اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے ایڈریس پیش کئے.اس موقعہ پر ہر فر د جماعت نے ایک گہرا تاثر لیا اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکریہ ادا کیا کہ کس طرح یہ الہی جماعت دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئی ہے اور اس جماعت کا اب اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سے اس قدر وسیع پھیلاؤ ہو چکا ہے کہ اس پر آفتاب عالمتاب چوبیس گھنٹوں میں کسی وقت بھی غروب نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو اکناف عالم میں تبلیغ اسلام کی توفیق عطا فرمائی جس کے نتیجہ میں یاتِینَكَ سَعَیا کا نظارہ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح ہزارہا میل کے فاصلے طے کر کے طیور ابراہیمی مرکز احمدیت میں اپنے امام عالی مقام کے اردگرد پروانوں کی طرح اکٹھے ہو گئے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک جلسه سالانه مستورات انہی ایام میں مستورات کا جلسہ بھی انعقاد پذیر ہوا جس میں ہزاروں خواتین نے شرکت کی سعادت پائی.خواتین کے پنڈال میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی تینوں تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے براہ راست سنی گئیں نیز مولانا عبدالمالک خان صاحب شیخ مبارک احمد صاحب، حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی تقاریر بھی مردانہ جلسہ گاہ سے سنائی گئیں.۱۲ جنوری کو حضور نے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر خواتین سے خطاب فرمایا.جس کا خلاصہ پچھلے صفحات پر دیا جا چکا ہے.جلسہ مستورات میں ہونے والی تقاریر کی تفصیل حسب ذیل ہے:.خطاب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاح (صدر لجنه مرکزیہ ) خلافت سے وابستگی اور اس کی اہمیت حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ انسان کامل مبارکہ نیر صاحبہ

Page 508

تاریخ احمدیت.جلد 24 468 اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور ہماری ذمہ داریاں مختصر خطاب سلیمہ اختر صاحبه خطاب سال 1968ء مکرمه فاطمه اسامه صاحبه از امریکہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث آیت خاتم النبین ﷺ کا صح مفہوم صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ تحریک تعلیم القرآن عہد رسالت ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی مسلمان عورت ٹاؤن ہال ایلنگ انگلستان میں ایک مجلس مذاکرہ امة المالک صاحبہ سیده نیم سعید صاحبه 14 ۱۹۶۸ء کے اوائل کا واقعہ ہے کہ انگلستان کے بہائی سنٹر آف ایلنگ (EALING) کے زیر انتظام ایلنگ شہر کے ٹاؤن ہال میں ایک مجلس مذاکرہ بعنوان ”مذہب میں عبادت بجا لانے کی آزادی“ کا انعقاد ہوا جس میں یہودی، عیسائی، بدھسٹ ، ہندو، بہائی اور زرتشتی مندوبین نے حصہ لیا.اسلام کی نمائندگی کا شرف جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لنڈن کو حاصل ہوا.عیسائی مندوب نے اپنی تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا کہ ”ہمارے مذہب میں آزادی ہرگز موجود نہیں اگر یہ آزادی ہوتی تو کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ایک دوسرے کا گلا کیوں گھوٹتے“.اسی طرح ہندو مذہب جس میں برہمن اور شودر کے مقام میں زمین آسمان کا فرق ہے.بھلا اس موضوع کے متعلق کیا کہہ سکتا تھا.یہودی ، بدھ اور بہائی مندوبوں نے اپنے دلائل کو اس حد تک ہی رکھا کہ ہمارے مذہب اس بات کی تعلیم دیتے ہیں کہ سب سے محبت اور شفقت کا سلوک کیا جائے.محترم امام صاحب نے فرمایا کہ باقی مذاہب تو اس بات کی تعلیم دیتے ہوں گے کہ آپس میں محبت و شفقت کا سلوک کیا جائے اور عبادات بجالانے میں آزادی دی جائے لیکن اسلام جہاں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مذہبی عبادت بجالانے میں مسلمانوں کو آزادی حاصل ہے وہاں ساتھ ہی اس بات کی تلقین بھی کرتا ہے کہ غیروں کی مذہبی آزادی کی حفاظت بھی کی جائے.

Page 509

تاریخ احمدیت.جلد 24 469 سال 1968ء آپ نے فرمایا کہ فتح یروشلم کے موقع پر حضرت عمر جب ایک فاتح جرنیل کے طور پر اس تاریخی شہر میں داخل ہوئے تو آپ نے سب سے پہلے یہ خطبہ دیا کہ گو آج اسلام کا پرچم اس ملک میں لہرا رہا ہے لیکن ہر یہودی اور عیسائی کو اس بات کی کامل آزادی حاصل ہو گی کہ وہ اپنے اپنے طریق کے مطابق عبادات بجالائیں.ان کے گرجوں اور کلیساؤں کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچایا جائے.آپ نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ نبوت میں نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مسجد نبوی میں حاضر ہوا.ان کے دورانِ قیام میں ان کا مذہبی دن بھی آگیا اور انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی اجازت طلب کی کہ وہ باہر صحرا میں جا کر اپنی عبادت بجالائیں اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں اسی ہماری مسجد میں اپنے طریق کے مطابق عبادت کر لو.آپ نے فرمایا یہ مثالیں محض ماضی کی بھولی بسری ہوئی داستانیں ہی نہیں ہیں.اس زمانہ میں اس کی یاد پھر تازہ کی گئی.مسجد فضل لنڈن کے افتتاح کے موقع پر ہمارے امام اور خلیفہ سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ میں اس مسجد کا افتتاح کرتا ہوں جہاں ہماری جماعت کے لوگ اس میں عبادت کریں گے وہاں ہر مذہب وملت کے پیروؤں کو بھی اس بات کی عام اجازت ہوگی کہ وہ جب چاہیں ہماری مسجد میں آکر اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر سکیں.محترم بشیر احمد صاحب رفیق نے اس موقع پر حاضرین سے پھر کہا کہ میں اس وقت امام مسجد لنڈن ہونے کی حیثیت سے آپ سب کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ جب چاہیں ہمارے ہاں حاضر ہو کر مسجد کا احترام قائم رکھتے ہوئے عبادت کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تقریر کا سامعین پر خاص اثر ہوا اور مسٹر آر.ڈی.ای نے جو اس وقت صدارت کر رہے تھے مقررین کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ اسلام کی طرف سے پیش کردہ خیالات کامل و اکمل ہیں اور یہی تقریر سب پر غالب رہی ہے.اس موقع پر انفرادی طور پر بھی ہمیں تبلیغ کا موقع ملا.تمام مقررین سے ملاقات کی گئی.اور ان کے پتے حاصل کر کے انہیں مشن ہاؤس میں آنے کی دعوت دی گئی.مقررین کے علاوہ دیگر انگریز دوستوں سے بھی ملاقات کی اور اسلام سے متعلق ان کے ساتھ گفتگو کی اور انہیں اپنا اور لنڈن مشن کا تعارف کرایا گیا.

Page 510

تاریخ احمدیت.جلد 24 470 سال 1968ء ایک غیر احمدی عالم کا اعتراف حق مولا نا محمد یوسف صاحب آف اکوڑہ خٹک پشاور کی ایک تصنیف اعتراضات کا علمی جائزہ جماعت اسلامی کے ایک ادارہ اسلامک پبلیکیشنز لمیٹڈ لاہور نے شائع کی.دیگر علمی مباحث کے علاوہ مولانا موصوف نے یہ تحقیق بھی کی کہ حضرت عیسی کے رفع جسمانی الی السماء کی بنیا د دوسرے دلائل اور قرائن پر تو رکھی جاسکتی ہے لیکن قرآن سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہے کہ حضرت مسیح زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں.مولانا موصوف کے اصل الفاظ ملا حظہ ہوں :.رہا یہ کہ رفع جسمانی قرآن کریم کی کسی آیت سے مصرح بھی ہے اور قرآن ہی نے یہ تصریح کی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جسم و روح سمیت آسمانوں پر زندہ اٹھائے گئے ہیں تو اس پر نہ امت کا اجماع ہوا ہے اور نہ اس طرح کی کوئی تصریح قرآن کریم میں کہیں پائی جاتی ہے.اور نہ آج تک اس کا کوئی قائل معلوم ہوا ہے اجماع اور تو اتر تو در کنار رہا اس طرح کی کوئی تصریح اگر قرآن میں کہیں آئی ہوتی تو لازمی طور پر قرآن میں کوئی آیت بھی ایسی ملتی جس کے الفاظ یہ ہوتے کہ ان الله قد رفع عيسى حيا بجسده العنصري الى السماء اور اس طرح کے الفاظ کی کوئی آیت قرآن کریم میں موجود نہیں ہے نہ آج تک کوئی عالم ایسا معلوم ہوا ہے جس نے یہ کہنے کی جرات کی ہو کہ قرآن کریم میں لفظ جسم وروح کی تصریح کی گئی ہے.کیونکہ اس طرح جرات کرنے کے معنی صاف یہی ہیں کہ قرآن میں کوئی آیت ایسی بھی ہے جو آج تک پوری امت کو نظر نہیں آئی ہے.میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے ایک ترک صحافی کی ملاقار 66 16 مورخه ۳ فروری ۱۹۶۸ ء کو ایک ترک صحافی نے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور انور جابہ جانے کے لئے بالکل تیار تھے.سامان کاروں میں رکھا جا چکا تھا لیکن ترک صحافی کی درخواست ملاقات پہنچتے ہی حضور نے انہیں شرف ملاقات بخشا اور ان کی خواہش پر ان کے ساتھ تصاویر بھی اتروا ئیں.اس انٹرویو کے وقت مکرم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر اور مکرم نسیم سیفی صاحب بھی موجود تھے.انٹرویو کے دوران حضور انور نے فرمایا کہ اسلام جلد ہی دیگر تمام مذاہب پر غالب آجائے گا.اس غلبہ کے آثار نمایاں ہونے شروع ہو گئے ہیں.مسلمانوں کے فرائض کا ذکر فرماتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ میری طرف سے سب مسلمانوں کو پیغام دے دیا جائے کہ اب

Page 511

تاریخ احمدیت.جلد 24 471 سال 1968ء وقت آ گیا ہے کہ سب مسلمان جس قدر بھی ہو سکے اسلام کی خدمت میں مصروف ہو جائیں.آپس میں مناقشت رکھنے کی بجائے انہیں چاہئیے کہ اپنی ساری طاقتوں کو اسلام کی برتری ثابت کرنے میں صرف کریں.دسواں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے زیر اہتمام انعقاد پذیر ہونے والا دسواں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ تین روز جاری رہنے کے بعد، افروری ۱۹۶۸ء کی شام کو بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.کلب سیکشن میں ریلوے کالج سیکشن میں تعلیم الاسلام کالج اور سکول سیکشن میں تعلیم الاسلام ہائی سکول نے چیمپیئن شپ جیتی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی ٹیم نے پچھلے سال بھی یہ چیمپیئن شپ حاصل کی تھی.18 پیغام امام بر موقع ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نے فروری ۱۹۶۸ء کو دسویں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کے نام مندرجہ ذیل پیغام ارسال فرمایا :.- ” مومن ہر اس کام کو جو کیا جانا چاہیئے ،سنوار کر پورے رکھ رکھاؤ ،سلیقے اور سنجیدگی سے کرتا ہے.کھیل بھی ایسا کام ہے جو موجودہ معاشرہ اور تہذیبی ہما ہمی کے تقاضوں کے پیش نظر کیا جانا چاہئیے.ضروری ہے کہ آپ کا جسم صحت مند، ذہن روشن اور روح پاکیزہ ہو.اس لئے میری نصیحت ہے کہ جب کھیلیں تو سنوار کر کھیلیں اور کھیل کے پورے حقوق ادا کریں.لیکن یاد رکھیں کہ کھیل ہمارا مقصد نہیں ، یہ ایک ذریعہ ہے.مومن ذرائع کی طرف تو پوری توجہ دیتا ہے لیکن اپنے مقاصد کو کبھی نہیں بھولتا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے نوجوانوں کو اچھا کھلاڑی بنائے.جو جسمانی، اخلاقی اور روحانی صحت کے زیور سے آراستہ ہوں اور نہ صرف کھیل کے میدان میں بلکہ زندگی کے میدان میں بھی صحت مند صالح اور ارفع صلاحیتوں کا مثالی مظاہرہ کرنے والے ہوں.اللہ تعالیٰ اس ٹورنامنٹ کو ہر جہت سے کامیاب اور

Page 512

تاریخ احمدیت.جلد 24 472 سال 1968ء با برکت فرمائے.اور اس میں حصہ لینے والوں کو اسلام کی زندگی بخش قدروں کا حامل بنائے.آمین میری طرف سے مہمانوں اور مقامی کھلاڑیوں اور کارکنان کو السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.افسوس ہے کہ ربوہ سے باہر ہوں اور آپ کی ملاقات اور آپ کی کھیل دیکھنے سے محروم ہوں“.19.بین الاقوامی اسلامی کانفرنس میں نائیجیریا کا احمدی مندوب ۱۰ سے ۱۴ فروری ۱۹۶۸ء کو راولپنڈی میں ادارہ تحقیقات اسلامی کے زیر انتظام ایک بین الاقوامی اسلامی کا نفرنس منعقد ہوئی.یہ چار روزہ کانفرنس چودہ سو سالہ جشنِ نزول قرآن کی تقریبات کا ایک حصہ تھی.اور اس کا افتتاح پاکستان اسمبلی کے سپیکر مسٹر عبدالجبار خان نے کیا.کانفرنس کے نام جن مختلف اسلامی ملکوں کے سربراہوں نے پیغامات بھیجے ان کے نام یہ ہیں.شہنشاہ ایران محمد رضا شاہ پہلوی ،شاہ افغانستان ظاہر شاہ ، انڈونیشیا کے قائمقام صدر جنرل سوہار تو متحدہ عرب جمہوریہ کے صدر ناصر، تیونس کے صدر حبیب بورقیہ ،سوڈان کے صدر اسمعیل الا زہری اور امیر کویت - کا نفرنس میں شرکت کے لئے سترہ اسلامی ممالک کے ستر ۷۰ کے قریب معز ز نمائندے تشریف لائے.اس کا نفرنس میں جن موضوعات پر علماء کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی وہ تھے (۱) اسلام میں عقل کا کردار (۲) اسلام اور امنِ عالم (۳) اسلام کا معاشرتی عدل.نائیجیریا (مغربی افریقہ) میں جب مسلم کونسل آف نائیجیریا نے اپنا نمائندہ منتخب کرنے کے لئے وہاں کے علماء کو ان موضوعات پر مضامین لکھنے کی دعوت دی اور بہترین مضمون کا انتخاب کرنے کے لئے ایک بورڈ مقرر کیا.تو محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمد یہ جماعت نائیجیریا کے ایک ممبرمسٹرالیں.بی گیوا کا مضمون سب سے اچھا قرار پایا.جب اس کا نفرنس کے لئے مکرم گیوا صاحب پاکستان تشریف لائے تو راولپنڈی جانے سے قبل چند روز آپ نے ربوہ میں قیام کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا، جماعت کے ادارے دیکھے.علماء، ماہرین تعلیم اور صحافیوں سے ملاقاتیں کیں.اور جامعہ احمدیہ میں نائیجیریا کے طلباء کے موضوع پر ایک لیکچر دیا.بیرونی ممالک سے آئے ہوئے طلباء میں انہوں نے خاص دلچسپی لی اور اپنے فارغ وقت کا ایک خاصہ حصہ ان کے ساتھ گذارا.

Page 513

تاریخ احمدیت.جلد 24 473 سال 1968ء فروری کو گیوا صاحب راولپنڈی کے لئے روانہ ہو گئے.راستے میں کچھ دیر جابہ میں قیام کیا اور حضرت خلیفة المسیح الثالث سے دوبارہ ملاقات کا شرف حاصل کیا.اسی روز شام کے وقت راولپنڈی پہنچ گئے.وہاں آپ نے مختلف ممالک سے آمدہ مندوبین سے ملاقاتیں کیں.اور دس فروری کو اپنا مقالہ پڑھ کر سنایا.گیوا صاحب ۱۹۴۸ء میں جماعت احمدیہ میں شامل ہوئے تھے اس وقت آپ ایک گورنمنٹ سکول میں استاد تھے.بعد میں ہیڈ ماسٹر بھی ہو گئے.گورنمنٹ سکول سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آپ نے فضل عمر احمد یہ سکول لیگوس میں ہیڈ ماسٹری کے فرائض سرانجام دیئے.(ان دنوں بھی آپ اسی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے ) کچھ عرصہ کے لئے آپ نے مسلم ٹیچرز ٹریننگ کالج میں بھی پڑھایا.آپ ایک نہایت اچھے اور کامیاب براڈ کاسٹر تھے.اور ایک عرصہ سے آپ اسلام اور طلباء کے موضوع پر با قاعدہ تقاریر براڈ کاسٹ کرتے رہے.جن کا مسلمان طلباء پر بلکہ عیسائی طلباء پر بھی بہت اچھا اثر تھا.راولپنڈی میں تراجم قرآن مجید کی کامیاب نمائش 21 اس بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر جماعت احمد یہ راولپنڈی نے مسجد نور میں ایک نمائش کا انتظام کیا جس میں بیرونی ممالک میں قرآن کریم کے شائع شدہ تراجم، جو مختلف زبانوں پر مشتمل تھے سجائے گئے.جس کے ساتھ ہی تعمیر مساجد بیرون، سکول اور کالجز اور مجاہدینِ احمدیت کی شبانہ روز مصروفیات کے مناظر کے فوٹوز اور تحریک جدید کی مختلف مساعی کے چارٹ بھی پیش کئے گئے.جن سے اسلام کی عالمگیر اشاعت پر روشنی پڑتی تھی.نمائش کا افتتاح صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب ڈپٹی چیئر مین منصو بہ بندی کمیشن حکومتِ پاکستان نے متضرعانہ دعاؤں کے ساتھ ۱۳ فروری ۱۹۶۸ء کو بعد نماز عصر فر مایا.جس کے بعد آپ نے اس شو کیس کی نقاب کشائی فرمائی جس میں کلام پاک کے مختلف زبانوں کے تراجم نہایت عمدگی کے ساتھ مزین کئے گئے تھے.اور اس کے ساتھ ہی غیر از جماعت معززین نے تمام ہال میں جماعت احمدیہ کی عالمگیر دینی خدمات کی تصویروں کو دیکھنا شروع کیا.اور مختلف تراجم قرآن کی زیارت سے مشرف ہوئے.ان معززین میں خدا کے فضل سے بیرونی ممالک سے تشریف لائے ہوئے بین الاقوامی کانفرنس کے چند نمائندے بھی شامل تھے.ان کو چوہدری احمد جان صاحب امیر جماعت

Page 514

تاریخ احمدیت.جلد 24 474 سال 1968ء احمد یہ راولپنڈی نے باری باری سب ضروری مطبوعات دکھا ئیں.عربی ترجمان کے فرائض مولانا غلام باری صاحب سیف نے ادا کئے.نمائندگان نے بڑی دلچسپی کے ساتھ ان مبلغین اسلام کی خدمات اسلامی کی تصویروں کو ملاحظہ فرمایا اور قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم کی زیارت کے بعد ان تراجم کو بہت سراہا.نیز جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے وزیٹرز بک (VISITORS' BOOK) پر یہ الفاظ لکھے:.إِنَّا كُنَّا فِي جَمِيعَةِ أَحْمَدِيْن بَاكِسْتَانَ الْمَحْبُوب و تَعَرَّفْنَا بِأَعْنَاءِ هِ الْكِرَامِ وَنَطْلُبُ مِنَ اللهِ التَّوْفِيقِ فِى اَعْمَالِهِم الَّتِي يَبْدُلُونَ فِي سَبِيلِ الْإِسْلَامِ.ترجمہ:.پاکستان میں ہم احمدیوں کے اجتماع میں شریک ہوئے اور ہمیں اس جماعت کے معزز کارکنوں سے تعارف کا موقع ملا.ہم اللہ تعالیٰ سے توفیق طلب کرتے ہیں کہ ہمیں ان کاموں میں حصہ لینے کا شرف عطا ہو.جو یہ لوگ اسلام کی راہ میں کر رہے ہیں.یہ نمائش ایک ہفتہ تک جاری رہی.اور دوسرے ایام میں بے شمار معززین اس نمائش کو دیکھنے کے لئے مسلسل روزانہ تشریف لاتے رہے.دو دن مستورات کے لئے مخصوص تھے.اخبارات اور ریڈیو پر اس نمائش کی اشاعت ہوتی رہی.جس کے نتیجہ میں جوق در جوق احباب کو تشریف لا کر نمائش اور جماعت کی خدمات کو دیکھنے کا موقع ملا.کئی احباب نے وزیٹر بک (VISITORS' BOOK) میں اپنے تاثرات کو بھی سپرد قلم کیا.چند ایک کا نمونہ درج ذیل ہے:.ا.میں اس احمدیہ مرکز میں آیا.اور متعدد زبانوں میں قرآنِ مجید کے تراجم دیکھ کر نہایت مسرت ہوئی کہ جماعت احمدیہ نے کس قدر خلوص کے ساتھ خدمت اسلام سرانجام دی ہے.۲ غیر ممالک میں اسلام کو پھیلانے کے لئے بیرونی زبانوں میں قرآنِ پاک کا ترجمہ انتہائی ضروری ہے.بلاشبہ اس سے بہت زیادہ دین کی اشاعت میں مدد ملے گی“.۳.غیر ممالک میں ان ہی ممالک کی زبان میں تبلیغ کا جو سلسلہ جماعت احمدیہ نے اختیار کیا ہے وہ قابل تعریف ہے.غیر ممالک میں جماعت احمدیہ کے مبلغوں نے جو خدمت سرانجام دی ہے.وہ قابل تقلید ہے اور دین کی بڑی خدمت ہے.جشن نزول کی نمائش بھی قابل تحسین کام ہے.خدا ان کونیک جزا دے.جناب مولوی غلام باری صاحب سیف کے ایک غیر مطبوعہ نوٹ مورخہ ۴ ستمبر ۱۹۹۱ء سے کانفرنس

Page 515

تاریخ احمدیت.جلد 24 475 سال 1968ء اور نمائش کی مزید تفصیلات کا علم ہوتا ہے.جس کے مطابق بین الاقوامی اسلامک کانفرنس جو فروری ۱۹۶۸ء میں راولپنڈی میں منعقد ہوئی اس میں شرکت کیلئے اگر چہ نائیجیریا سے نمائندہ مسٹر گیوا احمدی تشریف لائے تھے.اور مرکز کی طرف سے مولوی محمد اجمل صاحب اور مولوی غلام باری سیف صاحب بھی شریک ہوئے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث ان دنوں جابہ میں تھے.آپ نے فرمایا وفد یہاں سے ہوتا ہوا جائے.چنانچہ وفد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اور پھر حضور کی ملاقات کے بعد راولپنڈی گیا.اس کا نفرنس میں مسٹر گیوا نے بھی اپنا مقالہ پڑھا.احمد یہ وفد نے جو دو مقالے الگ الگ عناوین پر تیار کئے تھے (۱) اسلام کا معاشرتی عدل.جس کے ذیلی عناوین تھے.اسلام کا تصور اخوت و مساوات.استحصال کا بکلی استیصال.دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم.اور دوسرا مقالہ اسلام کے عائلی قوانین پر تھا.یہ دونوں مقالے چھپوا کر کا نفرنس کے سٹال پر رکھ دیے گئے ، جو ہاتھوں ہاتھ لئے گئے.اس موقعہ پر روس کے مفتی ضیاء الدین بابا خانوف ان کے نائب اسرار بن عبدالمولی (مولا نفولف) جو قازاغستان کے دینی ادارہ کے سربراہ تھے، سے بھی وفد کی ملاقات ہوئی.شام کے مفتی گفتارو، دمشق کے منیر الحصنی مفتی فلسطین اور دوسرے نمائندوں سے نیز بیروت سے صدر ایوب کی کتاب ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی کا عربی ترجمہ کرنے والے استاد عمر فروخ جو جامعہ بیروت العربیہ کے استاد تھے، سے بھی ملاقات ہوئی.کانفرنس کا جو فوٹو جنگ افروری ۱۹۶۸ء راولپنڈی میں شائع ہوا اس میں مفتی روس اور استاد عمر فروخ کے درمیان مولوی غلام باری سیف صاحب بیٹھے ہوئے تھے.اخبار تعمیرا افروری ۱۹۶۸ء میں کانفرنس کے مندوبین کی جو تصویر شائع ہوئی اس میں مولانا محمد شفیع صاحب اشرف جوان دنوں راولپنڈی کے مربی تھے اور مولانا محمد اجمل صاحب اور گیوا صاحب کا فوٹو بھی شائع ہوا.کانفرنس کے موقعہ پر استاد عمر فروخ نے اپنے قلم سے مولوی غلام باری سیف صاحب کی نوٹ بک میں لکھا.عرفت السيد غلام باری سيف في بيروت اديباً مفكراً و كان من تلامذلي في جامعه بيروت العربيه ثم رأيته فى باكستان و قد ازداد ادباً و حكمة.دستخط عمر فروخ ۱۰/۲/۲۸ میرا جناب غلام باری سیف کے ساتھ بیروت میں ایک مفکر ،ادیب کی صورت میں تعارف

Page 516

تاریخ احمدیت.جلد 24 476 سال 1968ء ہوا.وہ بیروت یو نیورسٹی میں میرے شاگردوں میں سے تھا.پھر میں نے اسے پاکستان میں دیکھا جبکہ وہ ادب اور حکمت میں ترقی کر چکا تھا.عمر فروخ ، ۱۰/۲/۶۸ اس موقعہ پر مسجد نور راولپنڈی میں جماعت احمدیہ نے قرآن مجید کے تراجم کی نمائش کا انتظام کیا.جس کا افتتاح صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب نے کیا.بعض عرب مند و بین اور اسرار بن عبد المولیٰ اس موقعہ پر مسجد نور پنڈی میں آئے اور انہوں نے ایک رجسٹر میں اپنے تاثرات بھی قلمبند کئے.مشرقی پاکستان کی جماعتوں کا جلسہ سالانہ 23 جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان کا اڑتالیسواں جلسہ سالانہ دارالتبلیغ واقع هم بخشی بازار روڈ ڈھا کہ میں مورخہ ۱۶ تا ۱۸ فروری ۱۹۶۸ء بروز جمعہ ہفتہ و اتوار منعقد ہوا.جلسہ کی تیاری کافی عرصہ پہلے ہی شروع کر دی گئی تھی.اخبارات میں اس کے متعلق اطلاعات بھی شائع ہوئیں.ستر سے اوپر جماعتوں سے تقریبا ڈیڑھ ہزار احمدی افراد جلسہ میں شامل ہوئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے از راه شفقت مرکز سے جلسہ میں شرکت کے لئے محترم قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اصلاح وارشاد اور مکرم مولوی سلطان محمود انور صاحب مربی سلسلہ کو بھیجا.یہ مرکزی وفد مورخہ ۱۴ فروری ۱۹۶۸ء کو بذریعہ ہوائی جہاز ڈھا کہ پہنچا.اس سہ روزہ جلسہ میں جو خواتین کے اجلاس سمیت پانچ اجلاسوں پر مشتمل تھا، با ئیس اہم دینی و تربیتی موضوعات پر مدلل و موثر تقاریر ہوئیں.مجلس ارشاد مرکزیہ کے تاریخی اجلاسات امارچ ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسجد مبارک ربوہ میں نماز مغرب کے بعد علمی تقاریر کا ایک نہایت ہی مبارک سلسلہ شروع فرمایا تھا.اس سال بھی علمی تقاریر کا یہ سلسلہ جاری رہا.ذیل میں ان اجلاسات کی مختصر کارروائی تحریر ہے.مورخه ۱۷ فروری ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں سیدنا حضرت خليفة أمسیح الثالث کی زیر صدارت مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا.اجلاس میں علی الترتیب مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل نے رؤیا و کشوف اور الہام ووحی کی لغوی تعریف کے موضوع پر اور مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے وحی کی اقسام کے موضوع پر تقاریر کیں.جن میں قرآن مجید کی آیات، آنحضرت ﷺ کی احادیث ، آئمہ سلف کی کتب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی

Page 517

تاریخ احمدیت.جلد 24 477 سال 1968ء میں ثابت کیا کہ دین کے مکمل ہو جانے کے باعث وحی شریعت بند ہو چکی ہے لیکن اتمام نعمت کے نتیجہ میں بغیر شریعت کے وحی جاری ہے.ان دو تقریروں کے بعد مکرم مولا نا عبد اللطیف صاحب بہاولپوری نے اپنی تقریر میں اس امر کے ثبوت کے طور پر کہ رویا و کشوف نیز الہام اور وحی مطلق کا سلسلہ امت مسلمہ میں شروع سے جاری ہے.ائمہ سلف اولیاء اللہ اور بزرگان دین کی کتابوں میں سے ان سے ان کے رویا وکشوف اور الہامات پڑھ کر سنائے.آخر میں سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے احباب کو اپنے ارشادات سے نوازا.حضور نے رویا وکشوف اور الہام ووحی کے مضمون کے سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ ایک لطیف نکتہ پر اپنے الفاظ میں روشنی ڈالی.حضور نے اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے مثالیں دے دے کر بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مادی دنیا میں انسان کی حاجتوں اور خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی بے شمار اور غیر محدود نعمتیں پیدا کی ہیں اور نہایت ہی پر حکمت سامان فراہم کئے ہیں.تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس نے رضائے الہی کے جذبہ اور اس سلسلہ میں بشارتوں کے حصول کی خواہش کی تکمیل کا بھی ضرور انتظام فرمایا ہے.یہ منطقی نتیجہ رویائے صادقہ اور کشوف والہامات کی نعمت کے عطا ہونے اور ہر زمانہ میں اس نعمت کے جاری رہنے پر دال ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے لاکھوں برگزیدہ اور خدارسیدہ انسانوں کا تجربہ اس پر شاہد ہے.مجلس ارشاد کے اس پروگرام میں پنجاب یونیورسٹی اور انجینئیر نگ یونیورسٹی اور لاہور کے متعدد کالجوں کے قریباً ساٹھ غیر از جماعت طلباء نے بھی شرکت کی.یہ طلباء ربوہ کی زیارت کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی زیر صدارت مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اہل ربوہ کے علاوہ بعض بیرونی مقامات کے احباب بھی شریک ہوئے.جلسہ میں علی الترتیب مکرم محمد منور صاحب ،مکرم مولوی فضل الہی صاحب بشیر اور مکرم ڈاکٹر سید سلطان محمود صاحب شاہد ایم.ایس سی ، پی.ایچ.ڈی پروفیسر تعلیم الاسلام کالج نے (۱) پیشگوئی تزلزل در ایوان کسری فتاد(۲) پیشگوئی مصالح العرب مسیر العرب ، اور (۳) پیشگوئی مصلح موعود کے نہایت مہتم بالشان ظہور پر مبسوط مقالے پڑھے.انہوں نے بعض تاریخی شواہد اور نہایت ایمان افروز واقعات بیان کر کے ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ ہرسہ پیشگوئیاں بھی نہ صرف نہایت شان سے پوری ہوئیں بلکہ ان کے مختلف پہلوؤں کا ظہور

Page 518

تاریخ احمدیت.جلد 24 478 سال 1968ء گزشتہ چالیس پچاس سال سے مسلسل ہوتا چلا آ رہا ہے.آخر میں حضور انور نے احباب سے خطاب فرما کر زریں ارشادات سے نوازا.حضور نے اپنے خطاب میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن تین الہامات پر اس وقت مقالے پڑھے گئے ہیں وہ گزشتہ نصف صدی سے نہایت مہتم بالشان طریق پر پورے ہوتے چلے آرہے ہیں.ان کے اثرات ایک طویل زمانے پر پھیلے ہوئے ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان الہامات کو نازل کرنے والا علام الغیوب ہے اس کا علم ماضی، حال اور مستقبل سب پر محیط ہے.کوئی چیز اس کے علم اور قبضہ قدرت سے باہر نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اس علام الغیوب ہمہ قدرت زندہ خدا سے ہمارا تعلق قائم ہوا ہے.ہمیں پوری کوشش اور پوری جد و جہد اور مسلسل مجاہدہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس تعلق کو قائم رکھنا چاہیئے.اس روح پرور خطاب کے بعد حضور نے دعا کرائی اور یہ با برکت اجلاس اختتام پذیر ہوا.حمله مورخہ ۲۷ را پریل ۱۹۶۸ء کو مسجد مبارک ربوہ میں بعد از نماز مغرب مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمائی.تلاوت و نظم کے بعد محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے ( کینٹب) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں“ کے موضوع پر محترم میر محمود احمد صاحب ناصر پروفیسر جامعہ احمدیہ نے تحریف بائیل کی تاریخ کے موضوع پر اور محترم عبدالحق صاحب رامہ نے ” ہمسایہ کے حقوق از روئے اسلام کے موضوع پر ٹھوس اور پر مغز مقالے پڑھے.آخر میں سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے حاضرین کو زریں ارشادات سے نواز کر انہیں ان کی اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور نے فرمایا جب قاضی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے تعلق میں خدائی بشارتوں کا ذکر کر رہے تھے.میں سوچ رہا تھا کہ کیسی اہم اور عظیم ذمہ داریاں ہیں جو ان بشارتوں کی وجہ سے ہم پر عائد ہوتی ہیں.اس الہام میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ بعض خفیہ نوعیت کی تنظیمیں خفیہ سازشوں اور خفیہ ہتھیاروں سے اسلام پر حملہ آور ہوں گی لیکن خدا اپنے فضل سے انہیں نا کام کر کے تباہ و برباد کر دے گا.اس ضمن میں ہم پر یہ اہم اور عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اپنی قربانیوں کو انتہائی معیار تک پہنچائیں اس کے بغیر ہم خدائی افضال کو جذب کرنے کے اہل نہیں بن سکتے.اسی طرح ابھی تحریف بائیبل کی تاریخ مختصر طور پر بیان کر کے اس ضمن میں بعض

Page 519

تاریخ احمدیت.جلد 24 479 سال 1968ء نئے انکشافات پر روشنی ڈالی گئی.جن سے بائبل کا محرف ومبدل ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا افضل ہے کہ ایک طرف اس نے آج سے ستر اسی سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کا سر صلیب کی حیثیت سے مبعوث فرمایا اور دوسری طرف اس نے ایسی بے شمار تاریخی صداقتیں اور شواہد مہیا کرنے شروع کر دیئے جن سے بائبل کا محرف و مبدل ہونا اور مروجہ عیسائی عقائد کا غلط ہونا ثابت ہوتا چلا گیا.جدید انکشافات کا یہ سلسلہ برابر جاری ہے اس ضمن میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان نئے علوم سے جو اس ضمن میں روز بروز ظاہر ہورہے ہیں پوری پوری واقفیت حاصل کریں اور پھر ان کی مدد سے بھی اسلام کی صداقت کو دنیا پر آشکار کریں.اسی طرح ابھی آپ نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمسایہ کے کتنے زبر دست حقوق مقرر فرمائے ہیں ان حقوق کی ادائیگی بجائے خود ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ یہ سب ذمہ داریاں ہماری طاقت اور استعداد سے زیادہ نہیں ہیں.خدا تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ہمیں چاہئیے کہ ہم اپنی ان ذمہ داریوں کو نہایت احسن طریق پر ادا کریں.آخر میں حضور انور نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مورخه ۲۵ مئی ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی صدارت میں مجلس ارشاد کا اجلاس منعقد ہوا.بعد از تلاوت ونظم محترم شیخ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ نے عربی ام الالسنہ ہے“ کے موضوع پر اور مکرم حافظ قدرت اللہ صاحب سابق مبلغ ہالینڈ نے حدیث ان لمهدينا أیتین کے موضوع پر مقالے پڑھے.ہر دو تقاریر کے بعد حضور انور نے دعا کروائی.اس اجلاس میں ربوہ کے علاوہ سرگودہا اور لائل پور کے احباب بھی شریک ہوئے.مورخہ ۱۳ جولائی ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشاد مرکز یہ کا اجلاس منعقد ہوا.جس میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.اہل ربوہ اس اجلاس میں بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.علاوہ ازیں سرگودہا اور بعض قریبی مقامات کے احباب نے بھی شرکت کر کے استفادہ کیا.بعد از تلاوت ونظم مکرم ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ نے ”عربی زبان کی خصوصیات کے موضوع پر مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی سابق مبلغ امریکہ نے بنگالیوں کی دلجوئی سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام پر اور مکرم چوہدری انور حسین صاحب امیر.

Page 520

تاریخ احمدیت.جلد 24 480 سال 1968ء جماعت ہائے احمد یہ ضلع شیخوپورہ نے زراعت قرآن کریم کی روشنی میں“ کے موضوع پر تقاریر فرمائیں.آخر میں حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور یہ بابرکت اجلاس اختتام پذیر ہوا.مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشاد مرکزیہ کے اجلاس کا انعقاد ہوا.جس میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.بعد از تلاوت و نظم مکرم سید محمود احمد صاحب ناصر پر و فیسر جامعہ احمدیہ مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کالج اور مکرم جناب مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمدیہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور نے علی الترتیب حسب ذیل موضوعات پر نہایت ٹھوس اور قیمتی مقالے پیش کئے.ا.اقتصادی مشکلات کا حل اسلامی نقطہ نظر سے ۲.انسان کے بنیادی حقوق اور ان کی ادائیگی.خلفائے راشدین کے تجدیدی کارنامے آخر میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حاضرین کو ایک مختصر خطاب سے نوازتے ہوئے انہیں قرآنی تعلیم پر غور و فکر سے کام لینے اور ہمیشہ ہی قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور ہوتے چلے جانے کی تلقین فرمائی.حضور نے فرمایا جب ہم اسلام کی روشنی میں حقوق انسانی کا تذکرہ کرتے ہیں تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہئیے کہ اسلام نے انسان کے علاوہ دوسری مخلوق کے حقوق کی حفاظت نہیں کی.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خلق کے جتنے جلوے بھی ظاہر فرمائے ہیں اور اس کے نتیجہ میں قسم ہا قسم کی جو مخلوق بھی معرض وجود میں آئی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی پیدائش کے مقصد کو واضح کر کے اس کے حقوق متعین کئے ہیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کی تاکید فرمائی ہے.مثال کے طور پر حضور انور نے اسلامی تعلیم کی روشنی میں غذا کے طور پر کام آنے والی مخلوق اور درختوں وغیرہ کے حقوق پر روشنی ڈال کر واضح فرمایا کہ اسلام نے کس طرح ان کی حفاظت فرمائی ہے.آخر میں حضور نے احباب کو توجہ دلائی کہ وہ اسلامی تعلیم پر گہرا غور و فکر کیا کریں.اگر وہ تدبر سے کام لیں گے اور جس طرح پھول کی ہر پتی کے نیچے حسن تلاش کیا جاتا ہے.اسی طرح وہ اسلامی تعلیم کے محاسن تلاش کریں گے تو ان کے دل میں اسلام کی شیریں اور حسین شریعت کے لئے محبت پیدا ہوگی اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والے علوم و معارف سے بہرہ ور ہوتے چلے جائیں گے.اس پر معارف خطاب کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.

Page 521

تاریخ احمدیت.جلد 24 481 سال 1968ء مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۶۸ء بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مجلس ارشاد کا اجلاس منعقد ہوا.حضور علالت طبع کے باعث اجلاس میں شرکت کے لئے تشریف نہ لا سکے.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں صدارت کے فرائض محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے ادا کئے.بعد از تلاوت ونظم مکرم چوہدری خالد سیف اللہ صاحب لائل پور مبلغ مشرقی افریقہ مکرم مولوی محمد منور صاحب اور مبلغ نائیجیریا مکرم شیخ نصیر الدین صاحب ایم اے نے علی الترتیب ا.دنیا کی عمر ۲.اشاعت اسلام کے ذرائع ۳.قرآنی پیشگوئی و اذا الصحف نشرت کے موضوعات پر ٹھوس اور پر مغز مقالے پڑھے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا اہم خطاب ۲۴ فروری ۱۹۶۸ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے نو جوانانِ احمدیت سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.جس میں آپ نے خدام الاحمدیہ کو ان کی عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اس عظیم بار کو اٹھانے کے لئے ناقابل تسخیر عزم ، ہمت ،استقلال اور فدائیت کی ضرورت ہے.اگر ہم زندگی کا ہرلمحہ، ہر لحظہ، ہر پیسہ اور جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے ہم کو عطا کیا ہے اس کے لئے صرف نہیں کرتے تو یہ امانت میں خیانت ہے.آپ نے سگریٹ نوشی ، آٹوگراف ، اندھا دھند مغربی تقلید اور دوسری لغویات سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن کو کسی ایسی بات میں اپنا مال، وقت اور قوتیں صرف نہیں کرنی چاہئیں جن میں اثباتی فائدہ نہ ہو.آج دنیا تیزی کے ساتھ ہلاکت اور بربادی کی طرف جارہی ہے.کئی مقامات پر آگ لگی ہوئی ہے اور اس سے بھی بڑی آگ کے سامان کئے جارہے ہیں.جماعت احمدیہ نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ دنیا کو اس تباہی اور ہلاکت سے بچائے.اس صورت میں ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں.حضرت چوہدری صاحب کی تقریر کے بعد صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے دومنٹ تک خدام سے خطاب فرمایا.آپ نے خدام کو چوہدری صاحب موصوف کی نصائح پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور ان کے لئے دعا کی تحریک کی.حضرت چوہدری صاحب کا یہ خطاب اخبار مشرق (لاہور) نے آپ کی تصویر کے ساتھ حسب ذیل الفاظ میں شائع کیا:.

Page 522

تاریخ احمدیت.جلد 24 482 صحیح اسلامی معاشرہ ہی دنیا کوحقیقی امن بخش سکتا ہے سوشلزم کو اسلام کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا: چوہدری محمد ظفر اللہ خاں سال 1968ء ر بوه ۲ مارچ ( نامہ نگار ) عالمی عدالت انصاف کے حج اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے کہا ہے کہ صحیح اسلامی معاشرہ ہی دنیا کو حقیقی اور پائیدار امن بخش سکتا ہے کیونکہ اسلامی ضابطہ حیات ہی ایک مکمل ضابطہ حیات ہے سوشلزم کو اسلام کا متبادل قرار دینا دانشمندی نہیں ہے اور ہر غیرت مند مسلمان اس کی مذمت کرے گا.آپ گذشتہ روز ربوہ میں نوجوانوں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے.جو مجلس خدام الاحمدیہ کے زیر اہتمام منعقد ہوا.چوہدری ظفر اللہ خاں نے کہا اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو دنیا میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ظہور میں لانے کے لئے قائم کیا ہے اس لئے پاکستانی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیاں اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے بسر کریں اور دوسری قوموں کے سامنے اچھی مثال قائم کریں تا کہ پوری دنیا امن و ترقی کے راستے پر گامزن ہو.آپ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نو جوان طبقہ میں بے راہروی اور جرائم کا رجحان بڑھ رہا ہے والدین کو ایسے رجحان کی مؤثر روک تھام کے لئے فعال کردارادا کرنا چاہیئے کیونکہ وہی اپنی اولاد پر جائز اور نا جائز دباؤ ڈال کر اسے راہ راست پر لا سکتے ہیں.اسلام اور سوشلزم کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا بے شک سوشلزم کی کچھ قدریں اسلام سے ملتی ہیں لیکن سوشلزم ایک مکمل ضابطہ حیات پیش نہیں کرتا بلکہ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں کڑی پابندیاں عائد کرتا ہے.اسلام نے انفرادی طور پر جائز ذرائع سے حصول دولت پر کوئی پابندی عائد نہیں کی لیکن دولت اور جائیداد کے حصول میں اخلاقی اور روحانی قدروں کو بہر حال پیش نظر رکھنا چاہیئے.سوشلزم انفرادی دولت اور جائیداد پر کٹڑی پابندیاں عائد کرتا ہے.اسلام نے دولت کے جائز ذخیرہ سے بھی ضرورت مندوں، ناداروں، بیواؤں اور ہمسایوں کی امداد اور دادرسی کی بار بار تلقین کی ہے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی مظفر آباد میں آمد اور تاریخی لیکچر 32 ۲ مارچ ۱۹۶۸ء (بروز ہفتہ ) کا دن مظفر آباد آزاد کشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد گار رہے گا.کیونکہ اس روز حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے جناب عبدالحمید خاں صاحب صدر حکومت آزاد کشمیر کی صدارت میں ایک بصیرت انگیز لیکچر دیا.یہ لیکچر بزم فکر و دانش کے زیر اہتمام کلب ہوٹل میں

Page 523

تاریخ احمدیت.جلد 24 483 سال 1968ء ہوا.اور اس کا موضوع تھا.موجودہ بین الاقوامی حالات کے پس منظر میں مسئلہ کشمیر کا مستقبل“.ب سے پہلے سیکرٹری صاحب بزم فکر و دانش نے حضرت چوہدری صاحب کی طویل اور بے لوث قومی خدمات اور علمی اور سیاسی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے اس امر پر اظہار مسرت کیا کہ آج آپ جیسی معزز و مقتدر شخصیت خطاب کرنے کے لئے ہمارے درمیان تشریف فرما ہے.حضرت چوہدری صاحب کا خطاب اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا.اور نہایت درجہ انہماک ، توجہ اور دلچسپی سے سنا گیا.آپ نے مسئلہ کشمیر کے مختلف ادوار کے آغاز سے لیکر اب تک تفصیلاً ذکرفرمایا اور بتایا کہ کس طرح حکومت اور اہلِ پاکستان تمام کٹھن اور صبر آزما گھڑیوں میں فرزندانِ کشمیر کے شانہ بشانہ تحریک آزادی میں شریک رہے اور اس مسئلہ کو کس انداز میں اقوام عالم کے سامنے پیش کیا گیا.اس مسئلہ میں کون کون سے نازک لمحات آئے اور موجودہ صورتحال کیا ہے؟ آخر میں آپ نے اس قضیہ کے منصفانہ اور آبرومندانہ حل کے لئے از بس ضروری قرار دیا کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں.اور اپنے عجز و نیاز کو اس درجہ تک پہنچادیں کہ احکم الحاکمین خدائے قادر و توانا اُن کی تفرعات کو سن کر رجوع برحمت ہو.آپ نے فرمایا دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس مسئلہ کے منصفانہ حل کی راہ میں روک نہیں بن سکے گی.مگر شرط یہی ہے کہ ہم زندہ خدا پر زندہ ایمان پیدا کر کے اسی کے آستانہ پر گر جائیں.یہی وہ کلید ہے جس سے عقدہ کشائی ہوگی.انشاء اللہ العزیز تقریر کے اختتام پر سامعین نے متعدد سوالات دریافت کئے جن کے آپ نے معلومات افروز جواب دیئے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ نصف گھنٹہ تک جاری رہا.آخر میں صدر مجلس جناب عبد الحمید خاں صاحب صدر حکومت آزاد کشمیر نے حضرت چوہدری صاحب کی آزادی کشمیر کے سلسلہ میں گرانقدر اور بے لوث خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے آپ کی بصیرت افروز تقریر پر اُن کا دلی شکر یہ ادا کیا.اور یہ یادگار اجلاس بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.بزم فکر و دانش کے اس اجلاس میں محترم چوہدری صاحب کی تقریر سننے کے لئے مظفر آباد اور نواحی علاقوں کے سینکڑوں افراد موجود تھے.جو ہر طبقہ زندگی، انتظامیہ، عدلیہ اور افواج کی نمائندگی کرتے تھے.روزنامہ نوائے وقت میں خبر روز نامہ نوائے وقت (لاہور) نے اپنی ۴ مارچ ۱۹۶۸ء کی اشاعت کے صفحہ اول پر

Page 524

تاریخ احمدیت.جلد 24 484 سال 1968ء چوہدری صاحب کی اس معرکۃ الآراء تقریر کی خبر مع آپ کی تصویر کے حسب ذیل الفاظ میں شائع کی:.مقبوضہ کشمیر میں جرائم کا ارتکاب اقوام متحدہ کے منشور پر کلنک کا ٹیکہ اور انسانی ضمیر کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے“ مظفر آباد ۳ مارچ (اپ) بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے حج چوہدری محمد ظفر اللہ خاں نے کل یہاں کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جن جرائم کا مسلسل ارتکاب کیا جا رہا ہے وہ اقوام متحدہ کے منشور پر کلنک کا ٹیکہ اور انسانی ضمیر کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں.وہ انجمن فکر و دانش کے زیر اہتمام تعلیم یافتہ افراد کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے.اس تقریب کی صدارت کے فرائض آزاد کشمیر کے صدر مسٹر عبدالحمید خاں نے انجام دیئے.چوہدری صاحب نے اس یقین کا اظہار کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر اپنی گرفت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکے گا.اللہ تعالیٰ کسی ظالم کو ہرگز معاف نہیں کرتا.یہ اور بات ہے کہ اس کی رسی دراز کر دے.آپ نے بھارت کے اس دعوی کی تردید و تکذیب کی کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے.آپ نے کہا ”بھارتی حکمران یہ بخوبی سمجھتے ہیں کہ ان کا دعویٰ محض جھوٹ ہے.لیکن وہ اس امید کے سہارے بار بار اس کا اعادہ کر رہے ہیں کہ شاید اسے سچ سمجھ لیا جائے.چوہدری ظفر اللہ خاں نے بھارت کے اس دعویٰ کا ذکر کیا کہ وقت گذرنے کے ساتھ حالات بدل چکے ہیں.آپ نے کہا ” اس تاخیر کی ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے.اور کسی کو اپنی غلطی سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے.اگر بحث کی خاطر یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ جو الزام عائد کیا جاتا ہے.اس کی ذمہ داری پاکستان پر عائد ہوتی ہے تو اس سے بھی کام نہیں بنتا اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسروں کی غلطی کا خمیازہ کشمیری کیوں بھگتیں“.چوہدری صاحب نے ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاکستان بھارت جنگ کے بارے میں سلامتی کونسل کی قرار داد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا فرض ہے کہ وہ کونسل کو جنگ کی وجہ کے تصفیہ کے لئے کہیں.چوہدری صاحب سے دریافت کیا گیا کہ کیا بین الاقوامی عدالت انصاف تنازعہ کشمیر کے تصفیہ میں مفید ثابت ہو سکتی ہے.اس پر آپ نے کہا اگر چہ اس عدالت میں کوئی سیاسی تنازعہ تصفیہ کے لئے پیش نہیں ہو سکتا.لیکن اگر طرفین کی باہمی رضامندی سے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت قبول کردہ ذمہ داری سے انحراف کا تعین مقصود ہو تو یہ معاملہ عدالت میں پیش ہو سکتا ہے“.صدر آزاد کشمیر مسٹر عبدالحمید خاں نے صدارتی تقریر میں کشمیری حریت پسندوں سے کہا کہ وہ

Page 525

تاریخ احمدیت.جلد 24 485 سال 1968ء پُر اعتما در ہیں انجام کا رفتح ان ہی کی ہوگی.آپ نے کہا بھارت اپنی عسکری قوت میں چاہے جتنا اضافہ کر لے.ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق مقدر ہو چکا ہے.صدر آزادکشمیر نے پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے کی حیثیت میں کشمیری عوام کی جدوجہدِ آزادی میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کے کردار کی ستائش کی.اجلاس میں آزاد کشمیر ہائی کورٹ کے جوں، بار ایسوسی ایشن کے ارکان اور اساتذہ کے علاوہ متعددافراد نے شرکت کی.34 حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی احمد یہ نماز سنٹر پر آمد جناب مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کا بیان ہے کہ اپنی تقریر کے بعد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب سرکاری مہمان خانہ پہنچے.جہاں سے تیاری کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق آپ نے مکرم راجہ عطاء اللہ خاں صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ آزاد کشمیر کے ہاں نماز مغرب و عشاء کی باجماعت ادا ئیگی اور احباب جماعت سے ملاقات کی غرض سے تشریف لے جانا تھا.اس مرحلہ پر ضلع آزاد کشمیر کے ڈپٹی کمشنر اور پولیس سربراہ نے مجھے بلا کر علیحدگی میں کہا کہ شہر میں بہت شور وشر ہے اور مخالفانہ تقریریں مساجد میں ہو رہی ہیں.کہیں ایسا نہ ہو کہ جب چوہدری صاحب شہر جائیں تو انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچے.اس لئے آپ چوہدری صاحب سے اس پروگرام کو منسوخ کرنے کیلئے عرض کریں.اپنے انقباض کے باوجود افسران کے اصرار پر خاکسار نے ان کی درخواست حضرت چوہدری صاحب کی خدمت میں پہنچادی تو آپ نے بڑے وقار تحمل اور خدا تعالیٰ پر توکل کے ساتھ فرمایا میں اپنے احباب سے وعدہ کر چکا ہوں اور اب میں لوگوں کے ڈر سے جانے سے نہیں رک سکتا.بہر حال اس تقریب کے بعد حضرت چوہدری صاحب راجہ عطاء اللہ خاں صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ کے گھر واقعہ نیا محلہ تشریف لے گئے.جہاں آپ نے احباب جماعت کی معیت میں مغرب وعشاء کی نمازیں ادا کیں.اور پھر احباب جماعت کے درمیان تشریف فرما ہو کر ان کے سوالات کے جوابات دینے کے علاوہ ایمان افروز نصائح فرمائیں.نیز سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی دفعہ زیارت کے سلسلہ میں بتایا کہ کس طرح ۲ ستمبر ۱۹۰۴ء کو آپ کو پہلی بارلاہور میں مسیح دوراں علیہ السلام کی اولین زیارت کا شرف نصیب ہوا.اور آپ کے دل پر آپ کی پُر نور اور ارفع اور اعلیٰ خدا داد شخصیت کا گہرا اور پائیدار نقش ہمیشہ کے لئے مثبت ہو گیا.آپ نے اپنی بزرگ والدہ صاحبہ اور

Page 526

تاریخ احمدیت.جلد 24 486 سال 1968ء والد بزرگوار حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے قبول احمدیت کے واقعات دلنشیں و ایمان افروز انداز میں بیان فرمائے اور آخر میں اسلام اور احمدیت کی سر بلندی کے لئے دعا کرائی.تقریباً پون گھنٹہ کی اس ایمان افروز نشست کے بعد آپ آٹھ بجے شب سرکاری مہمان خانہ تشریف لے گئے.جہاں صدر حکومت جناب عبدالحمید خان صاحب کی طرف سے آپ کے اعزاز میں عشائیہ کا اہتمام تھا.اگلے روز یعنی ۳ مارچ کو نو بجے صبح حضرت چوہدری صاحب بذریعہ کار واپس راولپنڈی تشریف لے گئے.جہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز اسی روز شام کو لاہور روانہ ہو گئے.مولوی عطاء الکریم صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ مظفر آباد نے بھی مظفر آباد سے راولپنڈی تک آپ کی مشایعت کی اور ہوائی اڈہ پر لاہور کے لئے رخصت کیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی مظفر آباد میں تشریف آوری اہل مظفر آباد کے لئے ایک تاریخی یادگار کی حیثیت رکھتی ہے.مظفر آباد کے عوام حضرت چوہدری صاحب جیسے عظیم انسان جنہوں نے کشمیر اور اہل کشمیر کی اس قدر خدمت کی ہے ایک جھلک دیکھ لینے کو اپنے لئے سعادت خیال کرتے ہیں.اسی طرح مقامی احباب جماعت کی مسرت کی بھی کوئی انتہا نہ تھی کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی ، سلسلہ احمدیہ کے ایک عظیم فدائی اور ملک وملت کے ایک عظیم رہنما کی صحبت اور گفتگو سے فائدہ اٹھایا.35 ربوہ میں عید الاضحیٰ کی نہایت بابرکت تقریب مورخہ ۱۰ ذی الحج ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۰ مارچ ۱۹۶۸ء بروز اتوار ربوہ میں عیدالاضحی کی مبارک تقریب اسلامی شعار کے مطابق اہتمام سے منائی گئی.نماز عید کا وقت ۸ بجے مقرر کیا گیا تھا.اس روز اچا نک طبیعت ناساز ہونے کے باعث حضرت خلیفہ المسیح الثالث نماز عید نہ پڑھا سکے.علالت طبع کے باوجود حضور انور بر وقت مسجد میں تو تشریف لے آئے لیکن حضور نے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کو نماز عید پڑھانے اور خطبہ دینے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ حضورانور کے ارشاد کی تعمیل میں نماز عید محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے پڑھائی.نماز کے بعد محترم مولانا صاحب موصوف نے عید الاضحی کا خطبہ پڑھا.خطبہ کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دعا کرانے کی

Page 527

تاریخ احمدیت.جلد 24 487 سال 1968ء درخواست کی.چنانچہ حضور نے دعا کرائی جس میں سب احباب شریک ہوئے.پاکستان ٹائمنٹر میں ماریشس کے احمدیوں کا ذکر 36.روز نامہ پاکستان ٹائمنر (لا ہور ) ۱۲ مارچ ۱۹۶۸ء میں ماریشس کی آبادی کے تعارف کے سلسلہ میں احمدیوں کا بھی ذکر کیا گیا تھا چنانچہ اخبار لکھتا ہے کہ:.’یہاں تقریباً ۱۱،۰۰۰، مسلمان آباد ہیں (سنی حنفی ہیں ہزار، شافعی ایک ہزار دوسو، احمدی ایک ہزار، شیعہ تین سو اور تقریباً ۸۸،۵۰۰ مسلمان جو کسی خاص مکتب فکر سے تعلق نہیں رکھتے ).اوّلین مسلمان صناع تقریباً ۱۷۴۰ء میں ماریشس پہنچے.اگر چہ ان کی تہذیب، زبان اور روایات فرانسیسیوں سے متاثر ہوئیں مگر انہوں نے اپنے مذہبی عقائد کو محفوظ و مصئون رکھا.ماریشس کی پہلی مسجد ۱۸۰۵ء میں مسلمانوں نے تعمیر کی.دوسرے مسلمان جزیرہ پر انگریزوں کے بعد یہاں وارد ہوئے.ہندوستان سے مزدور طبقہ کی آمد کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان یہاں پہنچے جو آج مختلف پیشوں میں بٹے ہوئے ہیں.ماریشس کا پہلا جشن آزادی اور جماعت احمد یہ ماریشس بحر ہند میں متعدد چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ایک ملک ہے.جس پر ۱۷۱۳ء میں فرانس نے ملکیت کا دعویٰ کیا.اور اس کا نام جزیرہ فرانس رکھا.۱۸۱۰ء میں اسے انگریزوں نے فتح کیا اور ۱۲ مارچ ۱۹۶۸ء کو اسے مکمل طور پر آزاد کر دیا.جماعت احمدیہ ماریشس نے اپنے ملک کا پہلا جشن آزادی کس شان سے منایا اس کی تفصیلات مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مجاہد ماریشس نے تحریر فرمائی تھیں جس کے مطابق آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ۱۲ مارچ ماریشس کا یوم آزادی تھا مگر آزادی کی تقریبات ۹ مارچ سے ہی شروع ہو گئی تھیں.۸ مارچ کو بیرونی ملکوں سے پریس کے نمائندگان کافی تعداد میں پہنچ گئے تھے.چنانچہ وزیر اطلاعات نے پریس کانفرنس بلائی جس میں بیرونی اور ملکی اخبارات کے نمائندے شامل تھے.احمد یہ مشن کے اخبار Le Message کے نمائندے بھی موجود تھے.ایک اور احمدی دوست بھی ایک اخبار Le Progress Islamique کئی سال سے نکال رہے ہیں ان کا احمدی نمائندہ بھی موجود تھا.حکومت نے پریس کو جملہ سہولتیں بہم پہنچائیں جس کی وجہ

Page 528

تاریخ احمدیت.جلد 24 488 سال 1968ء سے کام میں بہت سہولت رہی.دوسرے دن یعنی 9 مارچ کو پریس کے نمائندگان کی ملاقات گورنر جنرل اور انتھونی گرین ووڈ وزیر برطانیہ ولیڈ روفد برطانیہ سے گورنمنٹ ہاؤس میں ہوئی اور اسلامی تعلیم پر گفتگو ہوتی رہی.گورنر اور وزراء کے علاوہ دوسرے نمائندگان سے بھی احمدیت کی عالمگیر حیثیت اور کارگزاری پر باتیں ہوتی رہیں.۹ مارچ کی شام کو وزیر اطلاعات نے پریس کے نمائندگان کو ایک بڑے ہوٹل میں دعوت دے رکھی تھی جس میں احمدی احباب بھی مدعو تھے.گورنمنٹ آفیسرز اور مقامی جرنلسٹوں کے علاوہ چیکو سلواکیہ، چینی، برٹش ، بی.بی سی U.S.IS فرینچ اخبارات کے نمائندگان سے بھی افراد جماعت کو متعارف ہونے کا موقع ملا.۱۰ مارچ کو ملک بھر میں دعاؤں کا دن منائے جانے کا حکومت نے فیصلہ کیا تھا.مرکزی طور پر تین عیسائی چر چوں، چار ہندو مندروں اور دو مساجد میں اہم دعاؤں کا سرکاری طور پر انتظام کروایا گیا تھا.اس انتظام کے ماتحت احمد یہ مرکزی مسجد دار السلام روز بل میں بھی یوم تشکر منایا گیا جس میں وزیر اعظم خود تو شامل نہ ہو سکے انہوں نے اپنے تین نمائندے (۱) آنریبل مسٹر RINGADOO وزیر زراعت و جنگلات (۲) آنریبل مسٹر GHURBURRON وزیر سوشل سیکورٹی (۳) آنریبل مسٹر مدن ممبر لیجسلیٹو اسمبلی بھجوائے.علاوہ ان کے جماعت کی درخواست پر روزہل کی Inter Religions کمیٹی (جس کے سیکرٹری مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب تھے ) کے ممبران میں سے تین عیسائی پادری اور ایک ہندو پنڈت صاحب بھی شامل ہوئے.احمدی احباب باوجود یکہ اسی دن صبح نماز عید کے لئے مسجد میں حاضر تھے.پھر اس دعا میں شامل ہونے کیلئے دوبارہ بھی بکثرت موجود تھے.تلاوت اور نظم کے بعد احمد عبداللہ صاحب نبولی نے ” آزادلوگوں کی ذمہ داریوں پر تقریر کی اور احمد حسن صاحب سوکیہ نے احمدی جماعت نے ماریشس کے لئے کیا کیا اور کیا کرے گی پر تقریر کی.پھر ایک کیتھولک پادری مشقوں (SOUCHON) صاحب نے تقریر کی اور بتایا کہ وہ اسلامی رواداری سے بے حد متاثر ہوا ہے اور اس کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ وہ مسجد میں تقریر کر رہا ہے.پھر وزیر زراعت نے تقریر کی اور بتایا کہ آج وہ کئی چرچوں، مندروں اور مساجد میں گئے مگر یہ پہلی مسجد ہے جہاں انہیں بولنے کے لئے دعوت دی گئی ہے.آخر میں مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب نے بتایا کہ آپ لوگوں نے یہ تو سن لیا ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے لئے دعا کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟ باقی رہ

Page 529

تاریخ احمدیت.جلد 24 489 سال 1968ء گیا کہ دعا کیسے کرنی چاہیئے ؟ پس دعا میں جذبہ اور جوش ہو اور مستقل مزاجی سے دعا کرتے چلے جائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ناممکن کو ممکن سے بدل دے گا.جیسے حضرت ابراہیم ، حضرت یونس ، حضرت عیسی اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.اس کے بعد قرآن مجید میں سے ( موقع کی موزونیت کے مطابق ) ۱۲ دعا ئیں جو سائیکلو ٹائل کر کے ہر ایک کو دیدی گئی تھیں دہرائی گئیں.بالآخر ایک لمبی دعا میں سب شامل ہوئے.رخصت ہونے سے قبل آزادی کی مٹھائی سے سب کی تواضع کی گئی.6 مارچ کو ماریشس کے ایک کھلے میدان Champ de Mars میں سکول کے طلبہ اور نو جوانوں کی Rally تھی.معززین کو نہایت سلیقہ سے جگہ دی گئی.ہزاروں بچے کھلے میدان میں اس طرح کھڑے تھے کہ ماریشس کا نقشہ بنا ہوا نظر آتا تھا.ماریشس کا نیا جھنڈا جو سرخ، نیلا، زرد اور سبز چار رنگوں کا ہے.بچوں نے بڑی نفاست سے بنایا.نوجوانوں نے لاریوں پر جلوس نکالا جس میں ماریشس کی ۵۰۰ سالہ تاریخ کے مختلف ادوار کا نمونہ پیش کیا اور بتایا کہ کس طرح آزادی سے پہلے اکثر لوگ غلامی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اب سب برابر ہونگے.۱۲ مارچ کی صبح گورنر جنرل اور وزراء نے حلف اٹھائے اور پھر شان وے مار کے وسیع گھوڑ دوڑ کے میدان میں سب پہنچے.حاضرین کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی.ٹھیک دس بج کر پچاس منٹ پر کارروائی شروع ہوئی.پولیس بینڈ اور پولیس کے دستوں کی مارچ پاسٹ ہوئی.پولیس کے موٹر سائیکلسٹ نے اپنے کرتب پیش کئے.ہیلی کا پڑ بھی آئے اور چند منٹ تک حاضرین کو محظوظ کیا.چینی، ہندوستانی اور کر یوں لوگوں نے بھی مظاہرے پیش کئے.آخر میں سوا بارہ بجے گورنر جنرل اور وزیر اعظم تشریف لائے.برطانوی جھنڈا / ۱۵۸ سال بعد سرنگوں کر دیا گیا اور اس کی جگہ ماریشس کا قومی جھنڈا لہرایا گیا.۳۱ توپوں کی سلامی ہوئی اور مبارکباد دیتے ہوئے یہ شاندار جلسہ ختم ہوا.احمد یہ وفد کو بھی وزیر اعظم کی خدمت میں حاضر ہو کر جماعت کی طرف سے مبارکباد پیش کرنے کا موقع ملا.جس کے جواب میں وزیر اعظم صاحب نے فرمایا شکریہ بہت شکریہ.ایک اہم پریس کانفرنس اسی دن شام کو گورنمنٹ پریس سنٹر میں ہوئی جس میں وزیر اعظم صاحب نے اپنی جد و جہد آزادی اور آئندہ حکومت کی وضاحت کی.اس میں بھی احمدی نمائندے موجود تھے.

Page 530

تاریخ احمدیت.جلد 24 490 سال 1968ء دعوت خاص: اسی دن شام کو وزیر اعظم نے ملک کے بہترین باغ Pamplemousses Garden میں دعوت دی جس میں کم و بیش پانچ ہزار ملکی اور غیر ملکی معززین شامل ہوئے.یہ نظارہ بھی خوب تھا.جس میں احمدی نمائندگان کو تبلیغ کا خوب موقع ملا.۱۳ مارچ کو اردو اکیڈیمی ( جو مکرم مولانا اسماعیل منیر صاحب کی تحریک پر چند مقامی احباب نے قائم کی تھی ) نے ایک مجلس مشاعرہ منعقد کی جس میں عوام کے علاوہ پاکستان کے ہائی کمشنر مکرمی مرزا رشید احمد صاحب بھی شامل ہوئے.مکرم مولوی اسماعیل منیر صاحب نے بھی اردو کی اہمیت پر تقریر کی.مکرم مولانا صاحب کو اسی دن شام کو ہندوستان کے وزیر برائے امور خارجہ مسٹر بھگت صاحب کی دعوت استقبالیہ میں شمولیت کا موقع ملا.جہاں مقامی اور غیر ملکی افسران اور عوام سے ملاقاتوں کا بھی موقع ملا.روس کے نمائندے سے بھی بات چیت ہوئی.مکرم مولانا صاحب نے اسے بتایا کہ احمدیوں کو روس سے کیوں خاص محبت ہے؟ اس لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں ”زار کے متعلق پوری ہو چکی ہیں اور اب روس میں احمدیت کی ترقی کی پیش خبری بھی جلد ہی پوری ہونے والی ہے.آپ کی مقامی محکمہ موسمیات کے یورپین آفیسر انچارج سے عید کے چاند کی رؤیت کے بارہ میں مفید اور دلچسپ گفتگو ہوئی.۱۴ مارچ کو بیرونی نمائندگان سے ملنے کیلئے احمد یہ وفد ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا اور ہر ایک کی میز پر اسلامی اصول کی فلاسفی وغیر ہ احمدیہ لٹریچر پڑا ہوا تھا.انہیں جب پتہ چلا کہ یہ لٹریچر اس احمدیہ وفد کے ہی مشن کی طرف سے تحفہ پیش کیا گیا ہے تو وہ اور بھی خوش ہوئے.( جماعت نے ایک سو خوبصورت پارسل بنا کر ہر مہمان کو اس کی رہائش گاہ پر پہنچا دیا تھا.ہر پارسل میں احمد یہ اخبار Le Message کا آزادی نمبر ، خاص قرآن نمبر، اسلامی اصول کی فلاسفی اور حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کا لنڈن کا خطاب شامل تھے ).اسی دن شام کو الوداع کہنے کے لئے جماعتی وفد ہوائی اڈہ پر بھی موجود تھا.بیرونی نمائندگان اس سے بہت ہی متاثر ہوئے.ان میں سے اکثر نے برملا اعتراف کیا کہ احمدیہ مسلم مشن نہ صرف ماریشس میں خوب کام کر رہا ہے بلکہ ان کے ملکوں میں بھی اسی طرح کام کر رہا ہے اور ملکی خدمات بجالا رہا ہے مثلاً نائیجیریا، گھانا، تنزانیہ، سیلون، نجی، گی آنا، ٹرینیڈاڈ، پاکستان، انڈیا.علاوہ ازیں روس، چین، جاپان، انگلستان، کینیا، ملاوی، زیمبیا، گنی ، سوازی لینڈ ، چیکوسلواکیہ وغیرہ کے نمائندگان سے بھی تفصیلی

Page 531

تاریخ احمدیت.جلد 24 491 سال 1968ء ملاقاتیں کرنے کا موقعہ ملا.نبی کے نمائندہ مسٹر رام رکھا (.M.L.C) کو دعوت طعام بھی دی گئی.وہ احباب جماعت سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور بتایا کہ نبی کے احمدی ان کے گہرے دوست ہیں.مثلاً حاجی عبد القدوس صاحب وغیرہ.نمائش میں شرکت : مقامی یوتھ فیڈریشن نے اس موقعہ پر نمائش کا انتظام کیا جس میں خدام الاحمدیہ اور لجنہ نے بھی اپنے ممبروں کی بنی ہوئی چیزیں بھجوائیں جو نمائش میں رکھی گئیں.اس موقعہ پر بھی مولا نا محمد اسماعیل منیر صاحب حاضر ہوئے اور ان کو وزیر صحت اور دیگر افسران سے ملنے کا موقع ملا.تہنیت نامے: وزیر اعظم کے نام بیرونی ممالک سے پہنچے والی مبارکباد کی تاریں مقامی روز ناموں میں شائع ہوئیں جن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی تار کے علاوہ کینیا احمد یہ مسلم مشن کی تار بھی شائع ہو چکی ہے.قادیان اور تنزانیہ سے بھی آنے والی تاریں تھیں.اخبار کا آزادی نمبر : ہمارے اخبار Le Message کا آزادی نمبر سب سے پہلے شائع ہوا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریرات کی روشنی میں آزاد حکومت اور آزاد لوگوں کی ترقی کے بارہ میں اسلامی تعلیم پیش کی گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا ایک خاص پیغام بھی شائع ہوا جو حضور نے اس موقع کے لئے بھجوایا تھا اور آنریبل ڈاکٹر سرسیوسا گر رام غلام صاحب وزیر اعظم کا ایک خاص پیغام بھی شائع ہوا.جو انہوں نے اس اخبار کے لئے بھجوایا تھا جس کا ترجمہ یہ ہے:.میں خوشی سے احمد یہ ایسوسی ایشن آف ماریشس کو مبارکباد اور نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں.جماعت احمدیہ کے ممبران نے ماریشس کی ترقی اور بہتری کے لئے بہت کچھ کیا ہے.میں نے یہ بھی خوشی کے ساتھ سنا ہے کہ احمد یہ جماعت اپنے اخبار کا ایک خاص نمبر جشن آزادی کے موقع پر نکال رہی ہے.( دستخط ) رام غلام عظ وزیرا حکم ۱۴ مارچ ۱۹۶۸ء اس کے بعد مکرم مولانا محمد اسماعیل منیر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ ہمارا خدا جوتی و قیوم ہے اس نے ان سارے حالات کی خبر پہلے سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو دیدی تھی.مثلاً حضور نے اپریل ۱۹۶۶ میں رویا دیکھی تھی کہ (۱) خاکسار یہاں پہنچا ہے (۲) بڑے زبردست انقلابات آئیں

Page 532

تاریخ احمدیت.جلد 24 492 سال 1968ء گے (۳) اور یہ انقلابات جماعت کے لئے مفید ثابت ہوں گے.پھر ۳۰ جنوری ۱۹۶۸ء کو حضور کو الہام ہوا:.نشان فتح نمایاں....برائے ماباشد حضور نے فرمایا کہ شاید یہ ماریشس کے متعلق ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں ۱۹۶۶ ء سے ہی بابرکت انقلابات آ رہے ہیں.اس مختصر عرصہ میں خدام الاحمدیہ اور لجنہ کے شاندار کارناموں نے ملک میں احمدیت کی دھاک بٹھا دی ہے.قرآن پاک کی نمائش جو فروری ۱۹۶۷ء میں ہوئی اس نے جماعت کے تبلیغی کاموں کا چرچا ہر گھر میں پھیلا دیا.پھر جنوری ۱۹۶۸ء میں تعلیم الاسلام احمد یہ کالج کے افتتاح نے محکمہ تعلیم کو خوب متاثر کیا کہ انہوں نے پہلے دوماہ میں ہی ہمارے ساتھ وہ حسن سلوک کیا کہ دوسرے اداروں کے ساتھ سالوں میں بھی نہیں ہوتا.اسی دوران عیسائیت کی کھلم کھلا شکست ہوئی.ایک پادری جو دعا سے بیماروں کو اچھا کرنے کا مدعی تھا ہمارے چیلنج کی تاب نہ لا کر میدان چھوڑ کر بھاگ نکلا.۶۳ -۱۹۶۱ء میں دار السلام جیسی شاندار مسجد کی تکمیل کے بعد اب جماعت کو دو منزلہ مشن ہاؤس بنانے کی توفیق مل رہی ہے.ملکی لحاظ سے بھی انقلابات آئے اور آرہے ہیں جن کو ملک کی تاریخ میں اور بعض کو دنیا کی تاریخ میں یکتا قرار دیا گیا ہے.مثلاً مئی ۱۹۶۶ء میں مقامی سیاسی مشکلات کا حل یہاں ہی برطانیہ کے وزیر مسٹر John Stonehouse نے کیا اور بتایا کہ اس قسم کا تصفیہ دنیا میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ملک کی سیاسی گتھیوں کو اس ملک کی سرزمین میں ہی سلجھا دیا جائے.پھر گزشتہ سال ۳۰ جولائی کو ماریشس کے تمام مذہبی لیڈروں نے ایک کانفرنس کو خطاب کیا اور دعاؤں میں شریک ہوئے.ایسا نظارہ ماریشس میں پہلی بار دیکھنے میں آیا اور شاید دنیا میں بھی پہلی بار ایسا ہوا ہو.پھر جنوری ۱۹۶۸ء میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان زبردست فسادات ہوئے جن کی نظیر یہاں کی تاریخ میں نہیں ملتی.۱۲ مارچ کو آزادی آئی حالانکہ ملک کے ب٪۴۴ ووٹروں نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا.آزادی کے موقع پر ہر ملک میں علم آزادی رات کے بارہ بجے لہرایا جاتا رہا مگر یہاں یہ دن کے بارہ بجے لہرایا گیا.پھر حکومت برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہونے والا یہ پہلا ملک ہے جہاں ملکہ کا کوئی نمائندہ نہ پہنچ سکا اور خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ حضور کی راہنمائی میں ہم نے جشنِ آزادی کا پروگرام جنوری ۱۹۶۸ء کے پہلے ہفتے میں اخباروں میں شائع کروا دیا تھا.مخالف پارٹی کے لوگوں نے اس پر طعنے کسے مگر جنوری

Page 533

تاریخ احمدیت.جلد 24 493 سال 1968ء کے فسادات وغیرہ نے انہیں بھی مجبور کر دیا کہ وہ بھی اپنی طرف سے جشنِ آزادی کا پروگرام بنا ئیں.ادھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے پروگرام کی وجہ سے نہ صرف ہندوؤں کی حمایت دلوا دی بلکہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے کا موقع ملا اور عیسائی چرچوں کو باوجود مخالفت کے ہمارے پیچھے آنا پڑا اور ہرسہ طبقات کے عوام و خواص میں احمدیت کا وقار بڑھا.پھر غیر ملکی نمائندوں کو اتنی کثرت سے پہلی بار ملنے اور مؤثر رنگ میں تبلیغ کرنے کا موقع ملا.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی صداقت کو چار چاند لگانے کیلئے کیا ہے.تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی خصوصی تحریک 66 38 ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے تسبیح وتحمید اور درود شریف پڑھنے کی خصوصی تحریک فرمائی.چنانچہ فرمایا:.آج میں جماعت کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ سارے کے سارے آئندہ پورے ایک سال تک جو یکم محرم سے شروع ہوگا کم از کم مندرجہ ذیل طریق پر خدا تعالیٰ کی تسبیح، تحمید اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہام یہ بتایا تھا کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِّنْ مُحَمَّدٍ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم (براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۳۹ حاشیہ در حاشیہ نمبر.طبع اول سفیر ہند پریس امرتسر ۱۸۸۵ء) ہر برکت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اور آپ کی اتباع سے حاصل کی جاسکتی ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً ایک ایسی تسبیح اور تحمید اور درود کی راہ بھی دکھائی کہ جو ذ کر بھی ہے.درود بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما یہ دعا سکھلائی سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ “ (ترياق القلوب صفحہ ۳۷.طبع اول تصنیف ۱۸۹۹ء) اس میں تسبیح تجمید اور درود ہر سہ آجاتے ہیں.میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح، تحمید اور درود شریف پڑھنے والی بن جائے.اس طرح پر کہ ہمارے بڑے، مرد ہوں یا عورتیں کم از کم دو سو بار یہ تیج تحمید اور درود پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا

Page 534

تاریخ احمدیت.جلد 24 494 سال 1968ء ہے.یعنی سبحان الله وبحمده سبحانَ اللهِ العظيم اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ “ اور ہمارے نوجوان بیچے پندرہ سال سے ۲۵ سال کی عمر کے ایک سو بار یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک ۳۳ دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں ( پہلے بھی بچے اور بچیاں ہیں ) جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ا بھی پڑھنا بھی نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سر پرست اگر والدین نہ ہوں ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے.لفظ اٹھانے لگ گئی ہے.سات سال کی عمر تک ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درود کہلوایا جائے.اس طرح پر بڑے (۲۵ سال سے زائد عمر کے ) دوسو دفعہ، جوان کم از کم ایک سو بار اور بچے تینتیس بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں.پس جماعت کو چاہیئے اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور کم از کم مذکورہ تعداد میں ( زیادہ سے زیادہ جس کو جتنی بھی توفیق ملے ) اس ذکر و درود کو پڑھے اور اس احساس کے ساتھ پڑھے کہ بڑی ذمہ داری ہے ہم پہ تسبیح و تحمید اور درود پڑھنے کی.انسان اس وقت بڑے نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کیلئے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے اور آپ کی رحمتوں اور برکتوں کو کھینچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا لازمی ہے.نیز فرمایا:.ساری جماعت پر میں فرض قرار دیتا ہوں کہ اس طریق پر کہ بڑے کم از کم دوسو بار، جوان سوبار، بچے تینتیس بار اور جو بہت ہی چھوٹے ہیں وہ تین دفعہ دن میں تحمید اور درود پڑھیں.اس طرح کروڑوں صوتی لہریں خدا تعالیٰ کی حمد اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے نتیجہ میں فضا میں گردش کھانے لگ جائیں گی.ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگنی چاہیئے کہ اے خدا! ہمیں تو فیق عطا کر کہ ہماری زبان سے تیری حمد اس کثرت سے نکلے اور تیرے محبوب محمد ﷺ پر ہماری زبان سے درود اس کثرت سے نکلے کہ شیطان کی ہر آواز ان کی لہروں کے نیچے دب جائے اور تیرا ہی صل الله

Page 535

تاریخ احمدیت.جلد 24 495 سال 1968ء نام دنیا میں بلند ہو اور ساری دنیا تجھے پہچاننے لگے.اورسار 39- حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی طرف سے بہائی لیڈرکو دعوت مقابلہ مورخہ ۱۷ مارچ ۱۹۶۸ء کا واقعہ ہے کہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے چند دوستوں سے بہائیت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے زندہ مذہب کی حقیقی روح اور اس کی علامت کا تذکرہ کیا اور فرمایا:.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ علامت اس وقت بھی موجود ہے اگر بہائیوں کے لیڈر جو قرآن مجید کو منسوخ کتاب کہتے ہیں مجھ سے قبولیت دعا کے نشان میں مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ میدان میں آئیں.اللہ تعالیٰ ثابت کر دے گا کہ اس مقابلہ میں اللہ تعالیٰ میری دعا سنے گا اور بہائیوں کی دعا قبول نہ کی جائے گی کیونکہ میں بچے اور زندہ مذہب اسلام کا پیرو ہوں اور بہائی باطل پر ہیں“.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی یہ پُر شوکت دعوت مقابلہ انہی دنوں مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے شائع کر دی تھی مگر آج تک کسی بہائی لیڈرکو یہ جرات نہ ہو سکی کہ یہ قبول کر سکے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا خطاب 40 ۲۰ مارچ ۱۹۶۸ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے چوہدری احمد مختار صاحب کی زیر صدارت احمد یہ ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ عام سے روح پرور خطاب فرمایا.اس خطاب میں حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا:.اس وقت دنیا ترقی پذیر ہے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض علوم یعنی فلسفہ، سائنس اور ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی کر لی ہے.جو گزشتہ پچاس سال کی نسبت بہت زیادہ ہے.ہر قسم کے علم میں اضافہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے.اور خدا تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کے متعلق یہ اصول بیان فرمایا ہے" لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم : ۸ ) یعنی اگر تم میری نعمتوں کی قدر کرو گے تو اور زیادہ دوں گا لیکن اگر تم کفرانِ نعمت کرو گے تو میرا عذاب بھی شدید ہے.

Page 536

تاریخ احمدیت.جلد 24 496 سال 1968ء اس لحاظ سے جس قدر بڑی نعمت ہو گی اسی قدر اس کا صحیح استعمال ضروری ہے اور اس کا غلط استعمال دکھ اور عذاب کا باعث ہوگا.اس لئے جس قدر دنیا ترقی کر رہی ہے تو اتنا ہی زیادہ امتحان کا بھی وقت ہے.ایسے نازک وقت میں ہماری ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے جن اراکین نے اس بات کا بیڑہ اٹھایا ہے کہ وہ اپنے قول وفعل میں مطابقت رکھتے ہیں.اس لئے جن کے کندھوں پر اس قدر ذمہ داری ہو وہ کیسے چین سے بیٹھ سکتے ہیں.جہاں تک اسلامی فرائض کا تعلق ہے وہ تو ہر احمدی ضرور بجالاتا ہو گا.لیکن جہاں ہمارا عمل مشکوک ہو جاتا ہے وہ مقام ہے جہاں ہم اندھا دھند دوسروں کی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں.اور محض اس لئے کرتے ہیں کیونکہ ماحول اور معاشرہ میں وہ چیزیں موجود ہیں.اور صرف دوسروں کے ڈراور خوف سے ہم ان کو بجالاتے ہیں.یہ امر خطرناک ہے اور ہمارے اس اقرار کے خلاف ہے کہ ”ہم دین کو دنیا پر مقدم کریں گئے.اس لئے ہمیں یہ عزم کرنا چاہیئے کہ ہم اپنے ساتھیوں اور ماحول سے ہرگز متاثر نہیں ہوں گے.اور وہ کام نہیں کریں گے جو تقویٰ کے مطابق نہ ہو.ہمیں اپنے اندر وہ مومنانہ فرقان پیدا کرنا چاہیئے جو مومنانہ زندگی کا امتیاز ہے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے خاص طور پر بچنا چاہیئے جو شیطانی ہیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے:.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ (العصر : ۲ تا ۴) اس میں بتایا گیا ہے کہ عمل صالح ہی انسان کو خسر ان سے بچا سکتا ہے.اس لئے ہمارا ہر عمل صالح ہونا چاہیئے.اس وقت دو باتوں کی خاص طور پر ضرورت ہے.اس میں سے ایک علمی ہے اور ایک عملی ہے.علمی بات تو یہ ہے کہ ہم اس ہدایت پر عمل پیرا ہوں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں مرحمت فرمائی ہے.فلاح کا راستہ اس ہدایت میں مضمر ہے.جو قرآن کریم کی صورت میں ہم کو ملی ہے.ہمیں قرآن کریم پڑھنا چاہیئے اور اس کا ترجمہ سیکھنا چاہیئے اور پڑھتے وقت جس قدر احکام ہیں.ہم اپنی طبیعت کو ٹو لیں.کہ کیا ہم ان پر عمل کر رہے ہیں؟ اور جہاں نبی کا حکم ہے کیا ہم اس سے بچتے ہیں؟ انسان اس وقت تک تسابق فی الخیرات اختیار نہیں کر سکتا اور منکر سے اس وقت تک نہیں بچ سکتا جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جائے.اگر اس طریق کو اختیار کر لیا جائے تو وہ فرقان پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جو ضروری اور لازمی ہے.دوسری بات جو عملی ہے اس میں خاص طور پر وہ امور ہیں جو بظاہر چھوٹے نظر آتے ہیں.کیونکہ

Page 537

تاریخ احمدیت.جلد 24 497 سال 1968ء بعض چھوٹی باتیں اختیار نہ کرنے سے بڑی خرابیاں دخل پا جاتی ہیں.مثلاً سید نا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کام دائیں طرف سے کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.اس طرح کھانے پینے میں طیب چیزوں کا لحاظ رکھا جائے.پڑوسیوں کے حقوق کے متعلق حضور علیہ السلام نے واضح ارشادات فرمائے ہیں.اسی طرح ہمیں اپنی شکلوں کو بھی مومنانہ بنانا چاہیئے.کیونکہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت پر عمل کر کے مومنانہ شکل نہیں بناتا تو اس سے یہ توقع کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ مومنانہ کردار ادا کر سکتا ہے.یہ امور اگر چہ چھوٹے ہیں.مگر ان کو اختیار کرنے سے وہ حوصلہ پیدا ہو جائے گا جس سے بڑے بڑے کام سرانجام دیئے جا سکتے ہیں.41 اہل ربوہ کو روح مسابقت پیدا کرنے کی تحریک ۲ مارچ ۱۹۷۸ء کوسیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث نے اہل ربوہ کوعموما اور سلسلہ احمدیہ کے کارکنوں کو خصوصاً تحریک فرمائی کہ وہ دنیا بھر کے احمدیوں کیلئے نمونہ بنیں.اور روحِ مسابقت میں بھی اپنی مثال آپ ثابت ہوں.انہیں بڑی سہولتیں ربوہ میں میسر ہیں اور ربوہ کے غرباء پر تو بہت ہی دنیوی انعامات ہیں.اس لئے انہیں اپنے فرائض کی بجا آوری اور نیکیوں میں بھی آگے بڑھنا چاہیئے ورنہ وہ خدا کے غضب کا مورد ٹھہریں گے.چنانچہ حضور نے فرمایا :.” مومنوں میں روح مسابقت کا پایا جانا ضروری ہے یہ افراد میں بھی ہوتی ہے اور جماعتوں میں بھی اور سب سے زیادہ اس کی طرف مرکز کو متوجہ ہونا چاہیئے.پس پہلی ذمہ داری ربوہ پر ہے کہ وہ سب سے آگے نکلے.کیونکہ ان کو اللہ تعالیٰ نے نیکیوں کے سننے کے مواقع بھی زیادہ دیئے ہیں.اور نیکی بجالانے کی سہولتیں بھی بہت میسر کی ہیں.اور دوسروں کی نسبت دنیوی انعامات بھی ان کے اوپر بہت زیادہ ہیں.مثلاً دنیوی انعامات میں سے ایک مال کا انعام ہے.اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک لاکھ سے زائد کی رقم ربوہ کے مستحقین پر ہر سال خرچ کی جاتی ہے.اتنی رقم باہر کی جماعتوں پر خرچ نہیں ہوتی.مثلاً کراچی میں قریبار بوہ جتنی آبادی ہے احمدیوں کی.کراچی کی آبادی تو زیادہ ہے لیکن جتنی احمدی آبادی ربوہ میں ہے قریباً اتنی ہی آبادی کراچی میں پائی جاتی ہے اور قریباً اتنی ہی آبادی لاہور میں پائی جاتی ہے.کم و بیش اتنی آبادی ممکن ہے بعض دوسرے شہروں میں بھی پائی جاتی

Page 538

تاریخ احمدیت.جلد 24 498 سال 1968ء ہو.لیکن ان دو شہروں کے متعلق تو میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی احمدی آبادی ربوہ کی آبادی کے کم و بیش برابر ہے لیکن وہاں کے ضرورت مند بڑی تکلیف میں بعض دفعہ ہوتے ہیں.ایک حد تک جماعتیں ان پر خرچ بھی کرتی ہیں لیکن اتنی رقم ایک لاکھ سے زائد رقم ) وہاں کے ضرورتمند احمد یوں پر خرچ نہیں ہو رہی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا فضل ہے جو بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے لیکن اگر ربوہ کے مکین اپنی ضرورتوں کے وقت جماعت سے یہ تو کہیں کہ وَفِي أَمْوَالِهِم حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کے ماتحت ہماری ضرورتوں کو پورا کرو.لیکن جب انہیں یہ کہا جائے کہ روح مسابقت دوسروں کی نسبت تم میں زیادہ ہونی چاہیئے.نیکیوں کی طرف تمہیں زیادہ متوجہ ہونا چاہیئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں زیادہ خلوص کے ساتھ اور زیادہ خشوع کے ساتھ اپنی زندگیاں تمہیں گزارنی چاہئیں دوسری جماعتوں کی نسبت کیونکہ تمہارا ماحول ان کے مقابلہ میں زیادہ پاکیزہ اور نیکیوں کے بجالانے کی یہاں زیادہ سہولت ہے.تو تم سنتی دکھاؤ تو یہ اللہ کو پسند نہیں کہ اس کے دنیوی فضلوں میں تو حصہ لینے کی تم کوشش کرو اور عملا لو بھی.لیکن اس کی راہ میں جب قربانیوں کا وقت آئے تو تم کہو کہ کراچی یہ قربانی دے.لاہور یہ قربانی دے یا سیالکوٹ یہ قربانی دے.یا پنڈی یہ قربانی دے یا پیشاور یہ قربانی دے ہم نہیں دیں گے تو یہ درست نہیں.جو اخلاق غرباء سے تعلق رکھتے ہیں وہ نہایت حسین رنگ میں نمایاں طور پر ربوہ کے غریب احمدیوں میں نظر آنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ کے اموال میں سے تو حصہ لیں لیکن اپنے بچوں کی تربیت ایسے رنگ میں نہ کریں جو انہیں کرنی چاہیئے.مثلاً ان کے بچے دوسروں کی نسبت زیادہ گندہ دہن ہوں.گالیاں ان کی زبان پر ہوں یا تو فیق رکھنے کے باوجود اپنے کپڑوں کو زیادہ غلیظ رکھنے والے ہوں یا اپنے ماحول میں گند کو زیادہ پھیلانے والے ہوں تو یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا.جب وہ اللہ تعالیٰ کی دنیوی نعمتوں میں حصہ دار خدا کے فضل سے بنائے جاتے ہیں تو جو قربانیوں کا وقت ہے جو ان پر ذمہ داریاں ہیں ربوہ کے شہری کی حیثیت سے یار بوہ کے شہریوں میں سے غریب طبقہ ہونے کی حیثیت سے (غریب طبقہ جماعت کے

Page 539

تاریخ احمدیت.جلد 24 499 سال 1968ء اموال میں حصہ دار بنتا ہے اور ہر قسم کا ان کا خیال رکھا جاتا ہے ) تو وہ ذمہ داریاں ان کو نباہنی چاہئیں.اگر وہ نہیں نباہیں گے تو اللہ تعالیٰ کے غضب کا مورد ٹھہریں گے اس سے بہتر ہے کہ پھر وہ ربوہ کو چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں.اسی تعلق میں حضور نے بعض اہم مثالیں دینے کے بعد مزید فرمایا:." آج میں چاہتا ہوں کہ اہل ربوہ کو اپنا پہلا مخاطب بناؤں (ویسے تو سارے احمدی ہی میرے مخاطب ہیں ) اور ان کو اس طرف متوجہ کروں کہ دوسروں کی نسبت آپ پر زیادہ ذمہ داری ہے.دوسروں کی نسبت اللہ تعالیٰ نے دنیوی سہولتیں آپ کو زیادہ دی ہیں اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ سب سے زیادہ نیکیوں میں آپ آگے بڑھیں لیکن آپ تو بہتوں سے پیچھے رہ رہے ہیں اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ربوہ کو بڑی قربانیاں دینے کی توفیق دی ہے لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ جہاں اکثریت مالی قربانیوں میں آگے ہی آگے بڑھنے والی ہے.کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنی آمد کی صحیح تشخیص نہیں کرتے اور خصوصاً دکاندار ربوہ کے ماحول میں مہنگی اشیاء بیچتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں لیکن اپنے رب کی راہ میں زیادہ مال خرچ کرنے کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے.اگر وہ خدا کی راہ میں خدا کے لئے غلبہ اسلام کی خاطر ان اموال کا ایک بڑا حصہ خرچ کر دیتے تو ان کی بہت سی کمزوریاں بھی سَارِعُوا إِلى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَّبِّكُمُ (آل عمران : ۱۳۴ ) کے ماتحت خدا تعالیٰ کی مغفرت کی چادر میں ڈھانپ دی جاتیں لیکن وہ اس طرف متوجہ نہیں.بچوں کی تربیت کی طرف بعض باپ اور مائیں متوجہ نہیں بہت سی رپورٹیں آتی ہیں کہ راستوں پر بچے گالیاں دیتے سنے گئے.احمدی بچہ ربوہ کے ماحول میں تربیت یافتہ ، اگر گلیوں میں گالیاں دیتا ہے تو اس کے ماں باپ کو یہ جگہ چھوڑ دینی چاہیئے.ماؤں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ بعض کمزوریاں ان میں ایسی ہیں کہ ان کو مردوں کی نسبت زیادہ توجہ دلانے کی ضرورت ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کو مال دیتا اور اولا د دیتا ہے تو ہزار قسم کی سہولتیں آپ کیلئے پیدا کرتا ہے تو ہزار قسم کی ذمہ داریاں بھی آپ پر عائد کرتا ہے محض ربوہ کی رہائش محض جماعت احمدیہ کا کارکن ہونا کافی نہیں.

Page 540

تاریخ احمدیت.جلد 24 500 سال 1968ء پھر میں ربوہ میں جو ہمارے کارکن ہیں ان کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کچھ ہیں ( بہت سے ہیں جو بڑی دیانتداری کے ساتھ ، بڑے خلوص کے ساتھ دفتر کے جو اوقات ہیں ان سے زیادہ وقت صرف کرتے ہیں دین کے کاموں کیلئے لیکن کچھ ایسے بھی تو ہیں ) جو پورا وقت نہیں دیتے.ان کو یہ سوچ کر شرم آنی چاہیئے کہ انہوں نے دوسروں کیلئے ایک نمونہ بننا تھا.اس مسابقت کے میدان میں لیکن اس سے زیادہ وقت دیتے ہیں کراچی کے بعض احمدی جو دفاتر وغیرہ میں سات آٹھ گھنٹے لگانے کے بعد چھ سات گھنٹے جماعت احمدیہ کے کاموں پر خرچ کرتے ہیں.اور ہمارے بعض کلرک ربوہ میں رہتے ہوئے گزارہ لے کر چھ گھنٹے کام نہیں کرتے.اور ان کا بھائی کراچی میں جن سے گزارہ لیتا ہے ان کا آٹھ گھنٹے کام کرتا ہے اور جس رب کریم کے پیار میں وہ اپنی زندگی گزار رہا ہے اس کے لئے اس کے علاوہ چھ سات گھنٹے وہ کام کرتا ہے.ہمارے اس کلرک سے زیادہ وقت دے رہا ہے.ایسا ایک کلرک بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا.اور ایسا کوئی ناظر اور وکیل ہو تو اس کو بھی برداشت نہیں کرنا چاہیئے جماعت کو.دنیا کے سامنے بعض دفعہ بڑے فخر سے تم بیان کرتے ہو کہ ہم خدا کی خاطر خدا کے اس شہر میں مقیم ہیں لیکن خدا کے فرشتے جب تمہاری کا رروائی لے کر تمہارے رب کے حضور پہنچتے ہیں تو تمہارے کھاتے میں دین کے لئے خرچ ہونے والا اتنا وقت بھی درج نہیں ہوتا جتنا وقت ایک رضا کار کراچی میں خدا کے دین پر خرچ کر رہا ہے.ڈوب مرنے کا مقام ہے فخر سے گردن اونچی کرنے کا مقام نہیں! بعض نوجوان ایسے بھی ہیں (چند ایک ہی سہی مگر ہیں تو ) جو قصداً اور عمداً مسجدوں میں نماز کیلئے نہیں آتے.اگر کوئی سستی کے نتیجہ میں نہیں آتا.اگر کوئی غفلت کے نتیجہ میں نہیں آتا.اگر کوئی مسجد میں اس لئے نہیں آتا کہ اس کی ماں بیوقوف ہے نماز کے وقت وہ سویا ہوا تھا اور اس نے اسے جگایا نہیں تو وہ اور بات ہے لیکن وہ نوجوان جو عمد أنماز کو چھوڑتا ہے وہ ربوہ میں کیا کر رہا ہے؟ اور آپ کیوں اس کو برداشت کر رہے ہیں؟ اسی طرح دوسری نیکیاں ہیں ایک نیکی ربوہ سے تعلق رکھنے والی خاص طور پر یہ ہے کہ یہاں کسی قسم کی لڑائی اور جھگڑا نہ ہو اور گالی گلوچ نہیں

Page 541

تاریخ احمدیت.جلد 24 501 سال 1968ء ہونا چاہیئے.اگر گولبازار یا غلہ منڈی یا کسی اور بازار میں یہاں لڑائی ہوتی ہے تو سارا ربوہ خاموش کیوں رہتا ہے؟ کیا بھڑوں جیسی غیرت بھی تمہارے اندر نہیں ہے کہ جب بھڑ کے چھتہ کے قریب سونٹی کریں تو ساری بھڑیں اس چھتنہ کی بڑی عریض اور بڑے غصہ کا اظہار کرتی ہیں.اور ایک آواز پیدا ہوتی ہے ان کی غصہ سے.تو جتنی غیرت بھڑوں کے چھتہ میں ہے کیا اتنی غیرت بھی اہل ربوہ میں باقی نہیں رہی؟ یہ امن کا ماحول تھا اور امن کا ماحول قائم رکھنا چاہیئے.میرے پاس رپورٹ کیوں آئے؟ مجھے کسی قسم کا اقدام کرنے کی ضرورت کیوں پیش ہو ؟ اگر سب لوگوں کو یہ پتہ ہو کہ ربوہ ان چیزوں کو برداشت نہیں کرتا.ربوہ میں برسر عام سگریٹ نہیں پیا جا سکتا.ربوہ کے بازاروں میں گالی نہیں دی جاسکتی.ربوہ کے بازاروں میں لڑائی جھگڑا نہیں کیا جاسکتا.ربوہ کے مکانوں میں نمازوں کے اوقات میں مسجدوں کو معمور کرنے کی بجائے ٹھہر انہیں جاسکتا.تو پھر ہمارا ماحول جنت کا ماحول ہو جائے.اور جنت ہی پیدا کرنے کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے..پس اے میرے عزیز ربوہ کے مکینو! اپنے سستوں کو چست کرو اور کمزوروں کو مضبوط بناؤ اور غافلوں کو بیدار کرو کیونکہ اس قسم کی کمزوریاں ربوہ میں برداشت نہیں کی جاسکتیں.42 مستورات کے لئے خصوصی درس قرآن پیارے امام سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث قرآن مجید کے عاشق صادق تھے.اور آپ اپنے مبارک دورِ خلافت میں شب و روز کوشاں رہے کہ جماعت کا ہر فرد بالخصوص احمدی مستورات انوار قرآنی سے منور ہوں اور ہر احمدی گھرانہ قرآنی علوم و معارف کا گہوارہ بلکہ درسگاہ بن جائے.اسی دلی تمنا کی تکمیل کے لئے حضور نے اس سال ۲۳ مارچ ۱۹۶۸ء کی صبح سے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے گھر مستورات میں درس قرآن کا آغاز فرمایا.اس روز حضور نے سورۃ بقرہ کی تیرہویں اور چودھویں آیت کی تفسیر فرمائی.مورخہ ۳۰ مارچ کی صبح کو بھی حضور نے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے گھر مستورات میں قرآن مجید کا درس دیا.کثیر تعداد میں مستورات حضور کے درس سے مستفیض ہوئیں.43 44

Page 542

تاریخ احمدیت.جلد 24 502 سال 1968ء حضرت خلیفة المسیح الثالث کا اہم خطاب جامعہ نصرت ربوہ میں ۲۴ مارچ ۱۹۱۸ ء کو جنہ اماءاللہ مرکز یہ ربوہ کے ہال میں جامعہ نصرت کی تقریب تقسیم اسناد کا انعقاد ہوا.اس موقع پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ایک اہم خطاب فرمایا.حضور نے اپنے بصیرت افروز خطاب کے آغاز میں جامعہ نصرت کے شاندار نتائج پر اظہارِ خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا:.دو پہلی بات جس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ نتائج کے خوشکن ہونے کے متعلق ہے.نتائج خدا کے فضل سے بہت اچھے ہیں لیکن نتائج اس سے بھی اچھے ہو سکتے ہیں.عمل کے مختلف میدان ہیں.بعض میدان عورتوں کے ہیں اور بعض میدان مردوں کے ہیں اور بعض میدان مردوں اور عورتوں کے سانجھے ہوتے ہیں.سانجھے میدانوں میں مسلمان عورت نے کبھی مرد کے مقابلہ میں شکست کا اعتراف نہیں کیا.شکست کھانا یا نہ کھانا اور بات ہے.لیکن مسلمان عورتوں نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے.اور ہمیشہ عورتیں ایسے میدانوں میں مردوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں جیسا کہ ایک شاعرہ (جو عائشہ تیموریہ نام کی عرب میں گذری ہیں) کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے، وہ کہتی ہیں:.مَا عَاقَنِي خَجَلِى عَنِ الْعُلْيَا وَلَا سَدْلُ الْحِمَارِ بِلِمَّتِي وَنِقَابِي عَنْ طَيِّ مِضْمَارِ الرِّهَانِ إِذَا شُتَكَتْ صَعُبَ الرِّبَاقِ مَطَامِحُ الرُّكَّابِ کہ مجھ میں ایک مسلمان عورت کی حیا بھی موجود ہے اور ایک مسلمان عورت کی طرح ہی پردہ بھی کرتی ہوں لیکن اس نقاب اور اس حیا نے مجھے اس بات سے نہیں روکا کہ میں ان میدانوں میں جو خدا نے عورتوں اور مردوں کے لئے سانجھے بنائے ہیں مردوں کا مقابلہ کروں اور اُن سے اس وقت آگے بڑھوں جب بڑے بڑے سور ما مرد مقابلہ کی سختی کا اظہار کر رہے ہوں.یہ ایک شاعرانہ خیال ہے کیونکہ شعروں

Page 543

تاریخ احمدیت.جلد 24 503 سال 1968ء میں اسی کا اظہار کیا گیا ہے.لیکن حقیقتا یہ ایک شاعرانہ خیال نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ کے ہر ورق پر ایک واضح اور ظاہر تنقید ہے.تاریخ کے ان اوراق پر جوان عمل کے میدانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو مرد اور عورت میں سانجھے ہیں.آپ نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ مردوں سے آگے بڑھ سکتی ہیں.بہت دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ یو نیورسٹی بھر میں اس کالج کی ایک طالبہ لڑکوں سے آگے نکل گئی اور اس نے اول پوزیشن لی.پس ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ آپ مردوں سے بھی اور دوسری مد مقابل لڑکیوں سے بھی آگے بڑھیں.اس جدوجہد کو قائم رکھنا اور اس احساس کو بیدار رکھنا بڑا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے اچھے نتائج آپ کیلئے اور اس ادارہ کیلئے مبارک کرے اور آپ کے بعد آنے والیوں کو بھی توفیق دے کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھے نمبر لیں اور اس ادارہ کو توفیق دے کہ اس سے بھی زیادہ اچھے نتائج نکالے“.اس تمہید کے بعد حضور نے اس مرکزی ادارہ کی ترقی کیلئے بعض نہایت ضروری ہدایات دیں.چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا کہ اکتوبر ۱۹۶۸ء سے پہلے پہلے ڈسپنسری کا انتظام کیا جائے.ہر سال کالج کی طرف سے علوم قرآن اور علوم کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی مقابلہ کیا کریں.اول پوزیشن حاصل کرنے والی لڑکی کو ایک سال کی فیس بطور انعام میں دیا کروں گا.اور سال میں دوبار یوم والدین منایا جائے تا والدین کو یہ احساس ہو کہ تربیت کی ذمہ داری کالج یا جماعت کی ذیلی تنظیموں کی نہیں بلکہ والدین پر عائد ہوتی ہے.ان اہم ہدایات کے بعد قرآن کریم کی روشنی میں نہایت وجد آفرین پیرا یہ میں اس لطیف مضمون پر روشنی ڈالی کہ قرآن کریم نے بھی ایک کا نووکیشن (یوم موعود ) کا ذکر کیا ہے جبکہ انسانی اعمال کا نتیجہ ظاہر ہو گا.اُس امتحان کے دس پرچے ہیں جو اس کے مکمل نصاب قرآن کریم میں بتائے گئے ہیں.اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیوی امتحانات کی نسبت بہت زیادہ محنت اور جدوجہد کی ضرورت ہے.یہاں کا نو و کیشنز تو امتحان کے نتائج کے کئی ماہ بعد انعقاد پذیر ہوتے ہیں لیکن اس یومِ موعود کا نتیجہ اسی وقت نکلے گا جب امتحان ختم ہوگا اور سند اُسی وقت دے دی جائے گی جب نتیجہ کا اعلان ہوگا اور عمل ختم ہوگا.پھر نوکری تلاش کرنے یا اپنا گھر بسانے کیلئے کوئی پریشانی نہیں ہوگی بلکہ اسی وقت جزا شروع ہو جائے گی.اسی ضمن میں حضور نے فرمایا:.

Page 544

تاریخ احمدیت.جلد 24 504 سال 1968ء ایک طالب علم جو دنیا کی کسی یونیورسٹی میں فرسٹ آتا ہے اگر دو ہزار روپے کی نوکری بھی اس کو مل جائے اور وہ تمیں سال نوکری کرے تو اس کی ساری عمر کی کمائی سات لاکھ بیس ہزار بنتی ہے لیکن وہاں جو انعام ملے گا اس کی قیمت عَرْضُهَا السَّمواتُ وَالْاَرْضُ ہے.اس سارے آسمان اور زمین کا اندازہ کریں.انسان ششدر اور حیران رہ جاتا ہے کہ ان کی کیا قیمت ہوگی.زمین میں جتنے جواہرات ہیں، ہیرے ہیں، سونا، چاندی اور دوسری دھاتیں ہیں ان کی ٹوٹل والیوایشن (Total Valuation) ہمارے دماغ کیلئے ممکن ہی نہیں.پھر صرف یہ زمین ہی نہیں بلکہ ساری زمینیں ، آسمان اور ان میں جو سب کچھ ہے وہ اس میں شامل ہے.ان سب کی جو قیمت بنتی ہے اتنی قیمت اس جنت کی ہے.قرآن کریم کے آسمانی کانووکیشن سے متعلق امتحان کے دس پرچے کون سے ہوں گے.ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلا پرچہ ہے نفس کی قربانی یعنی اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر اپنی گردن رکھ دینا اور اس کی رضا اور قضاء وقد ر کو دلی بشاشت سے قبول کرنا.دوسرا پر چہ ہے زبان کا اقرار، دل کا اعتقاد اور عملی زندگی میں صدق وصفا اور وفا کا ثبوت دینا.تیسرا پر چہ ہے اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت ایسے رنگ میں کہ اس کی عظمت اور ہیبت دل پر طاری ہو اور اپنی پستی اور تواضع کا احساس زندہ رہے.چوتھا پر چہ تین حصوں پر منقسم ہے.زبان حق گو، دل حق پرست اور جوارح عمل سے حق پر صداقت کی مہر لگانے والے.پانچواں پر چہ ہے صبر سے کام لینا یعنی جن چیزوں سے روکا جائے ان چیزوں سے رک جانا اور اللہ کی رضا کے حصول کے لئے نفسانی خواہشات کو دبائے رکھنا نیز رازوں کو افشاء نہ کرنا.چھٹا پرچہ ہے عاجزانہ راہوں کو اختیار کرنا.ساتواں پر چہ ہے حاجتمندوں کی حاجت روائی کرنا اور ربّ کی خاطر صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دینا.آٹھواں پرچہ ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے جائز چیزوں سے بھی رُکے رہنا.نواں پرچہ اس نصاب کا اپنی عصمت اور عفت کی حفاظت کرنا ہے.اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ جتنے بھی حواس اور طاقتیں ہیں ان کو غلط استعمال سے بچائے رکھنا.دسواں پر چہ یہ ہے کہ اپنی زندگی کے ہرلمحہ کو یاد الہی میں گزارنا ( یہ ذکر کا پرچہ ہے ) اور ذکر عرفان اور بصیرت سے کرنا علی وجہ البصیرت خدا تعالیٰ کو ہر عیب سے پاک سمجھتے ہوئے اور یقین رکھتے ہوئے اس کی تسبیح کرنا.

Page 545

تاریخ احمدیت.جلد 24 پھر حضور نے فرمایا:.505 سال 1968ء پس یہ دس پرچے ہیں جن میں پاس ہونے کیلئے انتہائی جدوجہد کی ضرورت ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا ہے کہ پنجاب یونیورسٹی یا دوسری یو نیورسٹیوں کی طرح نتیجہ کمزور جوابات کے معیار پر نہیں ہوگا یعنی جو سوالات تم کمزور کرو گے وہ تمہاری ڈویژن کو کمزور نہیں کریں گے بلکہ جو سوالات تم اچھے کرو گے وہ تمہاری ڈویژن کو اونچا کر دیں گے.پس یہ بڑی نعمت ہے، بڑی عطاء ہے خدا کی.غرض یہ دس پرچے ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے.یہ سلیبس ہے اور اس کیلئے کونسی کتاب پڑھنی ہے؟ قرآن کریم.یعنی ان دس پر چوں کا نصاب ہمیں قرآن کریم میں ملتا ہے.اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے متعلق ہمیں بتایا ہے کہ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ فی یہ ایک کامل نصاب ہے جو تمہارے ہاتھ میں دیا گیا ہے.ایک اکمل ہدایت نامہ ہے جو قیامت تک تمہارے کام آنے والا ہے.اس میں تمام وہ باتیں نصاب کے متعلق پائی جاتی ہیں 66 جن کا ذکر ان دس پر چوں میں کیا گیا ہے.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کا خطبہ صدارت ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء کو تعلیم الاسلام کالج کا سالانہ جلسہ تقسیم اسناد و انعامات انعقاد پذیر ہوا.اس مبارک تقریب پر شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ ماہر لسانیات نے ایک پر مغز خطبہ صدارت ارشاد فرمایا جس میں طلبہ کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ ایھا الاحباب :.اس مبارک تقریب میں طلبہ سے خطاب کرنے کے لئے تعلیم الاسلام کا لح کی منتظمہ نے اس ناچیز کو جو اعزاز بخشا ہے اس کے لئے خاکسار تہ دل سے شکر گزار ہے.جو منتظمین اپنے عزم و ہمت سے ربوہ کے بیابان میں ایک اعلیٰ درجے کا کالج تعمیر کر سکتے ہیں اور اسے مثالی یق پر چلا سکتے ہیں ان کی کرم فرمائی سے یہ کرامت بھی مستبعد نہیں کہ ایک ذرہ بے مقدار سے یہ خوشگوار کام لے سکیں.آنانکه خاک را به نظر کیمیا آیا بود که گوشه چشم بما کنند کنند

Page 546

تاریخ احمدیت.جلد 24 506 سال 1968ء اس موقعہ پر خاکسار رسماً اور تکلفا نہیں بلکہ خلوص اور دردمندی کے ساتھ چندایسی باتیں بیان کرنا چاہتا ہے جو میرے نزدیک کالج کے طلباء کے لئے اور نیز فارغ التحصیل دوستوں کے لئے مفید ہوسکتی ہیں.وَ بِالله التَّوْفِيقِ ہر ایک درسگاہ کے ساتھ کچھ روایات اور اغراض وابستہ ہوتی ہیں.جو اس کو زندہ رکھتی ہیں.تعلیم الاسلام کالج کے ساتھ جو روایات اور اغراض وابستہ ہیں وہ یا درکھنے کے قابل ہیں.اس کا لج کا ماحول بفضل خدا ہمیشہ اسلامی رہا ہے.اور اس میں کبھی غیر اسلامی اثرات داخل نہیں ہو سکے علاوہ ازیں ہمارے ملک کے نامور ماہر ان تعلیم اور ممتاز مشاہیر کی تقریریں اور مشورے اس کالج کی ترقی کا باعث رہے ہیں.اور صحت مند ورزشی اور علمی مقابلے پہلو بہ پہلو جاری رہے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امتحانوں کے نتائج اور ورزشی کھیلوں کے نتائج دونوں لحاظ سے یہ کالج ممتاز اور نمایاں رہا ہے اور ان سب باتوں سے بڑھ کر کثیر اشخاص اس کالج نے پیدا کئے جو تبلیغ اسلام کے لئے بیرونی ممالک میں گئے یا ملک و ملت کی خدمت میں مصروف رہے.طلباء کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جہاں دن رات اللہ اور رسول کا ذکر بلند ہوتا رہا ہے.قرآن و حدیث کا درس، نمازوں کی پابندی، اخلاق و آداب کی نگہداشت دستور العمل رہا ہے.اس ماحول میں طلباء تعلیم پاتے رہے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ نظارہ ہمیشہ رہا ہے کہ شاید ہی کوئی ہفتہ یا مہینہ خالی جاتا ہو جبکہ کوئی نہ کوئی احمدی مبلغ بیرونی ممالک میں کئی برس تک تبلیغ اسلام کر کے مرکز سلسلہ میں واپس نہ آتا ہو.اور ایک دوسرا مبلغ اس کی جگہ پر کرنے کے لئے سفر پر روانہ نہ ہوتا ہو.استقبال اور الوداع کے یہ نظارے ہمیشہ ایمان افروز رہے ہیں جن سے ایثار ، عزم اور ہمت کا سبق ملتا رہا ہے.اگر آپ قرآن شریف کو حرز جاں بنائیں گے تو احساس کمتری کی بجائے احساس برتری آپ کے شامل حال رہے گا اور موجودہ زمانے کے غلط فلسفے آپ کی نظر میں بیچ ثابت ہوں گے.تاریخ شاہد ہے کہ قرآن شریف نے گذشتہ چودہ سو سال میں غلط فلسفوں، غلط تعلیمات اور غلط قوانین کو ہمیشہ شکست دی ہے.اس بیان سے یہ غرض ہے کہ ہم قرآنی تعلیمات اور اسلامی تمدن کو ہر حال میں اختیار کریں.زمانے کے حالات سے عبرت حاصل کریں.تاکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہمارے ساتھ پورا ہو کہ

Page 547

تاریخ احمدیت.جلد 24 507 سال 1968ء وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ - اس تعلیم پر کامل ایمان ہونا چاہیئے اور مشکلات کا حل مشکلات میں داخل ہونے پر منحصر ہے نہ کہ ان سے کنارہ کشی کرنے پر.مشکلات کے وقت تنہائی میں خدا سے دعا کرنا اور اسی سے مدد چاہنا اور اس میں استقامت دکھانا مومن کا شیوہ ہے.حضور کی کتابیں ظاہری اور باطنی علوم سے پُر ہیں اور ان کا مطالعه از بس ضروری ہے.ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں.فرض کی ادائیگی میں راحت اور یادِ خدا میں اطمینان ہے.سادہ زندگی، دیانت وامانت کی ضامن ہے.اور خوف خدا د نیوی واخروی زندگی میں جنت پانے کی علامت ہے.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتُنِ “.46- 66 سفارتخانہ فلپائن کی طرف سے خدام الاحمدیہ ملتان کے لئے اظہار تشکر اس سال کے اوائل میں فلپائن میں ایک آتش فشاں پہاڑ کے لاوا اگلنے سے بہت نقصان ہوا.مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے ایک خط کے ذریعہ پاکستان میں فلپائن کے سفیر سے ہمدردی کا اظہار کیا.فلپائن کے سفیر کی جانب سے ایک سفارتی نمائندہ نے مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب قائد اخوند ریاض احمد صاحب اکبر کے نام جو خط لکھا اس کا ترجمہ درج ذیل ہے:.”جناب اکبر صاحب! آپ کے ۲۹ اپریل کے اس خط کا شکریہ جس میں فلپائن کے کوہ آتش فشاں مالیون کے حادثہ سے متاثر لوگوں کے متعلق ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے.یہ امر پاکستان اور فلپائن کی دوستی کا مظہر ہے کہ آپ جیسے اچھے لوگ وقت کو صرف کر کے اور تکلیف اٹھا کر اس قسم کا خط لکھیں.جس قسم کا خط مجھے آپ نے ارسال کیا ہے.آپ کے لئے میری بہترین تمنائیں! اور آپ کے لئے تمام کاموں میں کامیابی چاہتے ہوئے! آپ کا مخلص.ڈلجن.ایف گمبوا DELJIN F.GAMBOA برائے سفیر پاکستان اسی طرح ان دنوں میں مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے ملتان میں نہایت تندہی سے وقار عمل کیا.جس پر علاقہ کے چیئر مین بنیادی جمہوریت میاں نثاراے شیخ صاحب نے اس وقار عمل سے خوش ہو کر درج ذیل سند خوشنودی سے نوازا :.

Page 548

تاریخ احمدیت.جلد 24 وو 508 سال 1968ء بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم مجھے یہ بیان کرتے ہوئے قلبی مسرت ہوئی ہے کہ مجلس خدام الاحمدیہ ملتان کے اراکین نے کمال تندہی اور محنت سے میرے حلقہ بنیادی جمہوریت میں صفائی کی مہم کو چلایا.تعلیم یافتہ نو جوانوں کو خصوصاً نشتر میڈیکل کالج کے پڑھے لکھے باشعور طلباء کو کام کرتے دیکھ کر گونہ مسرت ہوئی.اگر نو جوانوں کی دیگر انجمنیں بھی اسی طرح کام شروع کر دیں تو بیشتر معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں.میں اپنی طرف سے اور دیگر اہل محلہ کی طرف سے مجلس کا مشکور ہوں“.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی تیسری مجلس مشاورت خلافت ثالثہ کے نئے مبارک دور کی تیسری مجلس مشاورت ایوان محمو در بوہ میں ۷،۶،۵ ا پریل ۱۹۶۸ء کو منعقد ہوئی.جس میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی جماعتہائے احمدیہ، صدرانجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید فضل عمر فاؤنڈیشن اور ذیلی تنظیموں کے۴۶۲ نمائندگان شریک ہوئے.نیز ۶۵۰ مقامی زائرین اور ۳۱۸ مہمانوں نے بھی شمولیت کی سعادت حاصل کی.مشاورت کے ایجنڈا پر غور کرنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نمائندگان کے مشورے سے حسب ذیل تین سب کمیٹیوں کی تشکیل منظور فرمائی.(۱) سب کمیٹی برائے تجاویز متعلقہ صدرانجمن احمدیہ.تعداد اراکین ۴۷.صدر: جناب مرزا عبد الحق صاحب.سیکرٹری نمبر 1: میاں عبد الحق صاحب رامہ ناظر بیت المال ( آمد ).سیکرٹری نمبر۲ : مولانا ابوالعطاء صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد.(۲) سب کمیٹی برائے تجاویز متعلقہ تحریک جدید - تعداد اراکین : ۳۵ صدر: شیخ محمود الحسن صاحب آف مشرقی پاکستان سیکرٹری: حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال (ثانی) تحریک جدید.(۳) سب کمیٹی برائے تجاویز متعلقه وقف جدید - تعداد اراکین :۲۲ صدر : مولوی محمد صاحب بی اے امیر جماعتہائے احمدیہ مشرقی پاکستان.سیکرٹری: (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.سب کمیٹیوں نے پہلے روز رات گئے تک جملہ تجاویز پر غور کر کے اپنی سفارشات مرتب کیں.اور

Page 549

تاریخ احمدیت.جلد 24 509 سال 1968ء ۶، ۷ را پریل کو شوری کے باقی تین اجلاسوں میں سب کمیٹیوں کی رپورٹیں زیر غور آئیں.جن میں صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور وقف جدید کے سالانہ بجٹ ہائے آمد وخرچ بھی شامل تھے.یہ تینوں بجٹ مجموعی طور پر ۵۴۸، ۸۹،۷۷ روپے کی آمد اور اتنی ہی رقم کے اخراجات پر مشتمل تھے (میزان بجٹ صدر انجمن احمدیه: ۴۳٬۸۳٬۴۴۸ میزان بحث وقف جدید : ۲٬۵۰٬۰۰۰ میزان بجٹ تحریک جدید : ۱۰۰ ۴۴۰ ۴۳ ).سب کمیٹیوں اور ان کے بعد شوری نے تفصیلی بحث کے بعد ان ہرسہ بجٹوں کو منظور کئے جانے کی سفارش کی.تینوں بجٹوں کی یہ مجموعی رقم سال گزشتہ کی مجموعی رقم سے بقد ر۲ لاکھ روپے زیادہ تھی.شوری کے چار اجلاسوں میں حضور کی زیر ہدایت باری باری مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور، شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع لائکپور اور رانا محمد خاں صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ ضلع بہاولنگر کو صدارت کے فرائض کی سرانجام دہی میں حضور کا ہاتھ بٹانے کا خصوصی شرف حاصل ہوا.شوری میں کرنل عطاء اللہ صاحب نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی سالانہ رپورٹ اور مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نائب ناظر اصلاح وارشاد نے وقف عارضی اور اس سے متعلق کاموں کی سال گزشتہ کی کارگذاری بھی نمائندگان کے سامنے رکھی.چنانچہ نمائندگان نے اس بارہ میں پیش آمدہ بعض مشکلات کے حل سے متعلق مشورے پیش کئے.اور اس بارہ میں حضور نے بعض نہایت اہم فیصلوں کا اعلان فرمایا.اور جماعتوں کو اس بارہ میں ان کی نہایت اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے شوری کے ان چاروں اجلاسوں میں بنفس نفیس شرکت فرمائی.اور ہمہ وقت تشریف فرمارہ کر صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.حضور نے نمائندگان کو افتتاحی اور اختتامی خطابات کے علاوہ مختلف اجلاسوں کے دوران بیسیوں مرتبہ نہایت بیش قیمت اور زریں ہدایات سے سرفراز فرمایا.حضور نے واٹر سپلائی ربوہ کے چندہ کی فراہمی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کرنے کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی.حضور نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ مجلس شوریٰ میں جماعتوں کے نمائندگان کی جو تعداد مقرر کی جاتی ہے ان سب کو شوری میں شریک ہونا چاہیئے.حضور نے الفضل کی توسیع اشاعت کے لئے مختلف ذرائع سوچنے کے لئے مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ کی صدارت میں ایک سب کمیٹی مقرر فرمائی.جسے ایک ماہ کے اندر

Page 550

تاریخ احمدیت.جلد 24 510 سال 1968ء اندر تحقیق کر کے بتانا تھا کہ ایسی جماعتوں میں کس طرح الفضل جاری کیا جائے جہاں پر الفضل کا ایک بھی پر چہ نہیں جاتا.حضور نے جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس امر کی نگرانی کریں کہ ان میں کوئی ایسا فرد نہ ہو جو بھی بھوکا رہے.اس کے ساتھ ساتھ افراد جماعت بھی حتی الامکان خود کمائیں اور کسی پر بار نہ بنیں.حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر از جماعت دوستوں کو ر بوہ لانے کی ضرورت وافادیت پر زور دیا.رشتہ ناطہ کے بارے میں ایک رڈ شدہ تجویز پڑھے جانے کے موقع پر حضور نے ارشاد فرمایا کہ رشتہ حتی الامکان کفو میں کرنا چاہیئے.فریقین کے معیار زندگی، رہن سہن اور دیگر حالات میں یکسانیت ہونی چاہیئے.ایجنڈے کی تجویز نمبر ۳ پر غور کر کے سب کمیٹی نے موصی کی جائیداد کی جو تعریف کی ،حضور نے شوری کی سفارش پر اسے منظور فرمایا.تعریف یہ تھی ایسی جائیداد جو موصی کے گزارہ کے لئے کافی ہو یا کافی ہوسکتی ہو.“ حضور نے سب کمیٹی کی اس رائے کو بھی منظور فرمایا کہ انیس بڑے شہروں میں نظارتوں کی طرح سیکرٹری صنعت و تجارت مقرر کئے جائیں.سب کمیٹی وقف جدید نے ایجنڈے کی تجویز نمبرے پر غور کیا.تجویز دی تھی کہ حضرت خلیفتہ المسح الثالث کے اس منشاء کو پورا کرنے کے لئے کہ جماعت کے اطفال وقف جدید کا مالی بوجھ اٹھا لیں.سب کمیٹی کی جن سفارشات کو حضور نے منظور فرمایا.ان کا خلاصہ یہ ہے.اطفال سے چندہ کی فراہمی کے لئے مرکزی نظامت مال وقف جدید میں ایک نائب ناظم مال برائے اطفال مقرر کیا جائے.اسی طرح جماعتوں میں ایک نائب سیکرٹری وقف جدید برائے اطفال مقرر کیا جائے.لجنات پر ناصرات سے اور امراء پر اطفال سے چندہ کی وصولی کی ذمہ داری ڈالی گئی.نیز جماعتوں کو اس مئی ۱۹۶۸ ء تک تمام اطفال کی نام بنام مکمل فہرستیں مرتب کر کے حضور اقدس کی خدمت میں بھجوانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا.حضور نے وقف جدید کے معلمین کی کمی کا ذکر فرماتے ہوئے جماعتوں کو زیادہ سے زیادہ مخلص اور قابل واقفین بھجوانے کی تاکید فرمائی.دفتر وقف عارضی کی سالانہ رپورٹ پیش ہونے پر حضور نے فرمایا کہ قرآن کے بغیر ہماری زندگی بے مزہ اور بے نتیجہ ہے.اس میں شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلے میں بہت سی جماعتوں اور افراد نے بہت اچھا کام کیا ہے.لیکن جس تحریک کا تعلق ہر فر د جماعت سے ہوا اور جس کا

Page 551

تاریخ احمدیت.جلد 24 511 سال 1968ء دائرہ بہت وسیع ہو اس میں بعض اوقات عملی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں.ایسی ہر مشکل کو دور کرنے کے لئے دوست مشورہ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں.حضور کے اس ارشاد پر نمائندگان شوری نے جو مشورے دیئے ان میں سے حضور نے قرآن مجید پڑھانے کی ٹریننگ کے سلسلہ میں مرکز میں تجربہ ایک کلاس کے اجراء، مرکزی فضل عمر تعلیم القرآن کلاس، وقف بعد از ریٹائرمنٹ کے حسب نصاب اسباق، وقف عارضی کے تحت سات ہزار واقفین کی فراہمی ، وقف عارضی برائے خواتین نیز شوری کے موقع پر لنگر خانہ کے انتظام سے متعلق بعض اہم فیصلوں کا اعلان فرمایا.اور اس ضمن میں امراء کرام، مربیان سلسلہ، کارکنان دفتر وقف عارضی اور افسر صاحب لنگر خانہ کوتفصیلی ہدایات سے نوازا.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اپنے اختتامی روح پر ور خطاب میں فرمایا.آپ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے اپنے فضل سے مقام امین میں رکھا ہے.اور آپ کو خلافت کی نعمت عطا کی ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد کر کے اس کا شکریہ ادا کرتے رہیں اور یہ دعا کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ جماعت احمدیہ میں خلافت تا قیامت قائم رہے.اور جماعت اس ڈھال کے پیچھے رہ کر اور ابتلاؤں اور امتحانوں میں سے کامیابی کے ساتھ گذر کردن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی جائے.حضور نے خلافت کی عظیم الشان برکات پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریک جدید ایسی آسمانی تحریک کے ذریعہ جماعت احمدیہ کے دنیا بھر میں پھیل جانے کا ذکر فرمایا.اور احباب جماعت کو نصیحت فرمائی کہ اب انہیں اپنے انداز فکر کو بدلنا چاہیئے.اور بین الاقوامی نقطہ نگاہ سے سوچنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنی چاہیئے.حضور نے بیرونی ممالک اور بالخصوص مغربی ممالک میں اسلام کی روز افزوں ترقی اور وہاں کے نہایت مخلص اور فدائی احمدیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر جب وہاں غلبہ اسلام کے آثار اور نمایاں ہوں تو وہاں کے نو مسلم احمدیوں کو بعض ابتلاؤں میں سے گذرنا اور عیسائیوں کی طرف سے تعصب کے اظہار کے نتیجہ میں مشکل حالات سے دو چار ہونا پڑے وہاں کے نو مسلم احمدیوں کو چاہیئے کہ خدا تعالیٰ اس کے شر سے بچنے کی جو تدابیر سمجھائے ان کو اختیار کریں.ان کے لئے ایک ضروری اور بنیادی تعلیم یہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا، تمسخر کے مقابلہ میں تمسخر نہیں کرنا.مظلومیت کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے.اس وقت تمام دنیا کے احمدی میرے مخاطب ہیں میں ان پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ ظالم نہیں بنیں گے اور

Page 552

تاریخ احمدیت.جلد 24 512 سال 1968ء مظلوم بن کر رہیں گے اس وقت تک خدائی نصرتیں اور رحمتیں آپ کے شامل حال رہیں گی.دنیا میں جہاں کہیں بھی تعصب کا اظہار ہو اس کے لئے ہمارے پاس ایک ہتھیار مظلومیت کا ہے.دوسرا ہتھیار اسلامی اخلاق کا ہے.اور تیسرا ہتھیار بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ہے.جب تک ہم بشاشت کے ساتھ حصول رضائے الہی کی خاطر مظلوم بنے رہیں گے.اسلامی اخلاق کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں گے.اور بنی نوع انسان کی ہمدردی کو اپنا شعار بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں گے.اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہماری مدد اور حفاظت کے لئے آسمان سے اترتے رہیں گے.پس ہماری جماعت دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ہو.اسے مظلوم رہ کر خدا تعالیٰ کی نصرت کو جذب کرنا چاہیئے.اگر ہم انتہائی قربانیاں دینے کے لئے تیار ہوں جو خدا ہم سے لینا چاہتا ہے.تو دنیا کے ہر حصے میں خواہ وہ مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب، ہمارے لئے کامیابی ہی کامیابی مقدر ہے.یہ خدائی وعدہ ہے جو ہر روز پورا ہوتا چلا آرہا ہے اور آئندہ بھی پورا ہوتا چلا جائے گا.48.کیرنگ کے جلسہ سالانہ کے لئے حضرت خلیفہ المسح الثالث کا پیغام اس سال ۱۳ ۱۴ را پریل ۱۹۶۸ء کو جماعت احمدیہ کیرنگ ( اڑیسہ بھارت ) کا سالانہ جلسہ انعقاد پذیر ہوا.مبلغ کیرنگ مولوی سید محمد موسیٰ صاحب کی درخواست پر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا:.وو بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر عزیز بھائیو اور بزرگو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانه مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی ہے کہ آپ آج یہاں جماعت احمدیہ کیرنگ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ یہ اجتماع با برکت کرے.آپ سب کے اخلاص میں برکت ڈالے اور اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.یہ دن اور راتیں ذکر الہی اور دعاؤں میں صرف کریں.اللہ تعالی آپ کے ساتھ ہو.آمین اس موقع پر مجھ سے دوستوں کے نام پیغام کی خواہش کی گئی ہے.اس لئے

Page 553

تاریخ احمدیت.جلد 24 513 سال 1968ء میں آپ سب دوستوں کی خدمت میں یہ عرض کرتا ہوں کہ:.وہ خدا جس کے ہاتھ میں نجات اور جس کی رضا میں انسان کی دائمی خوشحالی ہے.وہ قرآن کی اتباع کے بغیر ہرگز نہیں مل سکتا.پس قرآن کریم کا پڑھنا اور اس کا سیکھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارے لئے از حد ضروری ہے.ہمیں چاہیئے کہ اپنی کوشش، اپنی جدوجہد اور مجاہدات کو کمال تک پہنچائیں.اور جو منصو بہ قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کا جماعت میں جاری کیا گیا ہے.اس سے غفلت نہ برتیں.فقط والسلام مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث ۱۷ مارچ ۱۹۶۸ء آرچ بشپ آف کنٹر بری اور رومن کیتھولک آرچ بشپ ویسٹ منسٹر کو 49 روحانی مقابلہ کی دعوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کے سوا تمام دیگر مذاہب کے پیروؤں کو دعوت دی تھی کہ وہ آپ کے مقابلہ میں کسی ایک امر کے بارہ میں دعا کریں تا دنیا پر آشکار ہو کہ خدا کس کی دعا سنتا ہے اور یہ کہ اسلام اور دیگر مذاہب میں سے وہ کس کے ساتھ ہے لیکن کسی کو آپ کی یہ دعوت قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.یہ دعوت اُس وقت سے قائم چلی آرہی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء اسے دنیاکےسامنے پیش کرتے چلے آرہے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسے پورے شدومد کے ساتھ پھر دُہرایا.چنانچہ آپ کی زیر ہدایت اپریل ۱۹۶۸ء میں امام مسجد لندن مکرم بشیر احمد خان رفیق صاحب نے انگلستان کے دولاٹ پادریوں یعنی آرچ بشپ آف کنٹر بری اور رومن کیتھولک آرچ بشپ ویسٹ منسٹر کو ایک خط لکھ کر انہیں قبولیت دعا کا نشان دکھانے کے تعلق میں مقابلہ کی دعوت دی.اس خط کے جواب میں ہر دولاٹ پادری صاحبان کی طرف سے جو خطوط موصول ہوئے وہ خود اس امر کا بین ثبوت ہیں کہ مروجہ عیسائیت ایک زندہ مذہب نہیں ہے کیونکہ وہ زندگی کے آثار سے عاری ہے.جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نے یہ دعوت ایک انگریزی مکتوب کے ذریعے دی.جس کا ترجمہ مع اس کے جواب کے درج ذیل کیا جاتا ہے:.

Page 554

تاریخ احمدیت.جلد 24 514 سال 1968ء واجب الاحترام لاٹ پادری صاحب! جناب والا کی خدمت میں اس خط کے لکھنے کی غرض آپ تک یہ خوشخبری پہنچانا ہے کہ وہ موعود جس کا عیسائی اور مسلمان عرصہ ہائے دراز سے انتظار کرتے چلے آ رہے ہیں ظاہر ہو گیا ہے اُس نے اس دنیا کو آسمانی نور سے منور کر کے برکات سماوی سے معمور کر دکھایا ہے.مسیح علیہ السلام کی پیشگوئی کے بموجب آج قوم قوم کے خلاف چڑھائی کر رہی ہے.دنیا میں قحط ، جنگوں، زلزلوں ، وباؤں اور نا انصافی کا دور دورہ ہے.حسب پیشگوئی سورج پر تاریکی آچکی اور چاند پر بھی وہ وقت گزرا کہ اس نے روشنی دینی ترک کر دی.ستارے آسمان سے گرے، آسمانوں کی قو تیں ہلائی گئیں اور اس طرح ابنِ آدم کا نشان آسمان میں ظاہر ہوا.جیسے بجلی کوند کر پورب سے پچھتم تک دکھائی دیتی ہے بعینہ اسی طرح ابنِ آدم کا ظہور عمل میں آیا.مسیح برصغیر میں ظاہر ہوا جو فی الواقعہ مشرق میں ہی واقع ہے اور جو زمانہ قدیم سے علوم وفنون کا مرکز ہے.اور بہت جلد اس کے پیغام کی اشاعت زمین کے انتہائی دور دراز کونوں تک ہوئی یہاں تک کہ اب اس کے پیرو ایشیاء، افریقہ، یورپ، امریکہ وغیرہ دنیا کے تمام براعظموں میں پائے جاتے ہیں.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام (۱۸۳۵ تا ۱۹۰۸ء) مسیح علیہ السلام کے مثیل کی حیثیت سے برصغیر میں مبعوث ہوئے اسی طرح جس طرح کہ حضرت یحیی علیہ السلام حضرت الیاس علیہ السلام کے مثیل کی حیثیت سے مبعوث ہوئے تھے.چنانچہ ہر بات جو مسیح کی آمد ثانی کے متعلق صُحف سابقہ میں لکھی ہوئی تھی پوری ہو چکی ہے حتی کہ فلسطین میں یہودیوں کا پھر آ جمع ہونا بھی منصہ شہود پر آچکا ہے.میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے ایک ادنی ترین پیر و اور غلام کی حیثیت سے جناب والا کی خدمت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور منجانب اللہ بعثت کو پر کھنے کا ایک معیار پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ جناب والا پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کریں گے اور اس معیار کو آزمانا قبول فرمالیں گے مسیح علیہ السلام نے کہا ہے:.کوئی اچھا درخت نہیں جو برا پھل لائے اور نہ کوئی برا درخت ہے جو اچھا پھل لائے.ہر درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے“.انہوں نے مزید فرمایا ہے:.

Page 555

تاریخ احمدیت.جلد 24 515 سال 1968ء ”اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی“.اور پھر انہوں نے یہ بھی فرمایا ہے:.”اور تم جو کچھ دعامیں ایمان کے ساتھ مانگو گے وہ سب تم کو ملے گا“.جناب والا! یہ بالکل سچ ہے کہ زندہ ایمان سے زندگی کے آثار ظاہر ہونے چاہئیں.ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو ہیں اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ہمارا مذہب یعنی اسلام ایک زندہ مذہب ہے.ہم اس بات پر بھی پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگر جناب والا کلیسیائے انگلستان کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے اسلام اور عیسائیت کی صداقت کو پر کھنے کے لئے تیار ہوں تو خدا یقیناً ایسا ہی کرے گا کہ اچھا درخت اچھے پھل لائے.وہ اپنے پیارے بیٹے کو مچھلی کی بجائے سانپ نہیں دے گا اور روٹی کی بجائے پتھر نہیں عطا کرے گا.وہ اس کے لئے قبولیت کے دروازہ کو کھولے گا اور اس کی دعاؤں کو ضرور سنے گا.ہم نے بارہا عیسائی بزرگوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس امتحان میں پورا اترنے کے لئے مقابلہ میں آئیں لیکن ابھی تک کسی نے آگے آنے کی جرات نہیں کی.لہذا میں آپ کی خدمت میں اور آپ کی وساطت سے دنیا کے ہر سر بر آوردہ عیسائی بزرگ کی خدمت میں یہ التماس کرتا ہوں کہ ہم سب اپنے اپنے مذہب کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے کسی مشکل امر کے بارہ میں دعا کریں.مثال کے طور پر ہم ایک خاص تعداد میں ایسے بیمار لیں جن کے زندہ رہنے کی ڈاکٹروں کے نزدیک کوئی امید نہ ہو اور پھر قرعہ کے ذریعہ انہیں آپس میں تقسیم کر لیں.عیسائی کلیسا اپنے حصہ کے مریضوں کی شفایابی کے لئے دعا کرے اور ہم اپنے حصہ کے مریضوں کی شفایابی کے لئے دعا کریں اور پھر دنیا خدا کے فضل اور رحم کا یہ نشان دیکھے کہ وہ اپنے ان بندوں کی دعاؤں کو جو صداقت پر ہیں کس طرح سنتا ہے.مسیح علیہ السلام کے مقرر کردہ معیار کے مطابق صاحب ایمان بندوں کی دعائیں خدا کی جناب میں قبول ہوں گی اور ان کے حصہ میں آنے والے مریضوں کی اکثریت شفایاب ہو جائے گی جبکہ دوسری پارٹی کے حصہ میں آنے والے مریضوں کی اکثریت حسب معمول اُس انجام سے ہمکنار ہوگی جس کا اظہار طبی ماہر پہلے کر چکے ہوں گے.آخر میں جناب والا کی خدمت میں میں یہ التماس کرتا ہوں کہ آپ اس پیشکش پر پوری سنجیدگی

Page 556

تاریخ احمدیت.جلد 24 516 سال 1968ء سے غور فرمائیں.میں نے آسمانی بادشاہت کی یہ بشارت پورے خلوص اور محبت کے ساتھ جناب تک پہنچائی ہے کیونکہ خدا کی نگاہ میں ہم سب برابر ہیں.آرچ بشپ آف کنٹر بری کا جوابی مکتوب محترم امام صاحب کے اس مکتوب کا آرچ بشپ آف کنٹر بری کی طرف سے جو جواب موصول ہوا اس کا متن درج ذیل ہے:.ددلیم بتھ پیلیس، الیس.ای1 ۲۲ اپریل ۱۹۶۸ء جناب عالی ! آرچ بشپ آف کنٹر بری نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو اطلاع دوں کہ آرچ بشپ کے نام آپ کا خط محرره ۱۵ را پریل ۱۹۶۸ء انہیں موصول ہو گیا ہے.خط کے مندرجات ان کے لئے خاص دلچسپی کا موجب ہوئے ہیں.آپ کا مخلص دستخط دی ریورنڈ جان انڈریوز رومن کیتھولک آرچ بشپ ویسٹ منسٹر کا جوابی مکتوب چیپلن ٹو دی آرچ بشپ“ رومن کیتھولک آرچ بشپ صاحب نے تو امام صاحب کے خط کے جواب میں صرف ان چند سطور پر ہی اکتفا کیا.آرچ بشپ ہاؤس ، ویسٹ منسٹر لندن.ایس.ڈبلیو1 ۲۳ را پریل ۱۹۶۸ء کارڈینل ہینان نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں آپ کو اطلاع دوں کہ آپ کا ارا پریل کا خط موصول ہو گیا ہے.آپ کا مخلص دستخط ( مان سگنور ڈیوڈ نورس) پرائیویٹ سیکرٹری 50

Page 557

تاریخ احمدیت.جلد 24 517 سال 1968ء کتاب ”المذاہب الاسلامیہ اور ماہنامہ ”فکر و نظر کا دلچسپ تبصرہ جامعہ قاہرہ کے پروفیسر اشیخ المحترم محمد ابوزہرہ نے ایک کتاب المذاہب الاسلامیہ نامی عربی زبان میں شائع کی.اس کا اردو ترجمہ پروفیسر غلام احمد صاحب حریری ایم اے لائل پور نے کیا.کتاب اسلامی مذاہب کے آخری حصہ میں جماعت احمدیہ کا بھی ذکر کیا.اس کتاب میں مصنف نے جماعت احمد یہ اور ختم نبوت کے بارہ میں بحث کرتے ہوئے بعض خلاف واقعہ باتیں بھی تحریر کیں.اس پر ماہنامہ فکر ونظر راولپنڈی کے فاضل مدیر جناب پروفیسر محمد سرور صاحب نے مذکورہ کتاب اسلامی مذاہب پر تبصرہ کے ذیل میں تحریر فرمایا کہ ”جہاں تک ہم جانتے ہیں قادیانی یا احمدی جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان اجماعی عقائد میں سے صرف نوعیت نبوت کے متعلق اختلاف ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبین ہونا احمدی بھی مانتے ہیں اور بقول ان کے مرزا صاحب نے اپنے آپ کو جن معنوں میں نبی کہا وہ نبوت محمدی کا ایک فیض اور ظل ہے.چنانچہ خود شیخ ابوزہرہ نے اس سلسلہ میں مرزا صاحب کا ایک اقتباس دیا ہے جو یہ ہے کہ اگر میں آپ کی امت میں سے نہ ہوتا اور آپ ﷺ کے طریقہ کی پیروی نہ کرتا تو مکالمہ ربانی سے مشرف نہ ہو پاتا اگر چہ میرے اعمال پہاڑوں کے برابر ہوتے.اس لئے کہ نبوت محمدی ﷺ کے سوا سب نبوتیں منقطع ہو چکی ہیں.لہذا آپ کے بعد کوئی صاحب شریعت نبی نہ ہوگا البتہ غیر تشریعی نبی آسکتے ہیں لیکن ان کا آپ کی امت میں ہونا ضروری ہے.مرزا صاحب نے تشریعی نبوت اور غیر تشریعی نبوت کی جو تقسیم کی ہے اس سے خواہ ہمیں لاکھ اختلاف ہولیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب اور ان کے تتبع احمدی، رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کو خاتم النبیین نہیں مانتے ، یا وہ توحید کے منکر ہیں ، یا ان کا عقیدہ قرآن اور احادیث پر نہیں.بلکہ جہاں تک ہم جانتے ہیں مرزا صاحب نے اپنی جماعت سے یہاں تک کہا تھا کہ وہ فقہ میں حنفی کی پابندی کریں.غرض نبوت کو اس طرح ماننے پر ہم انہیں بیشک مؤول ( تاویل کرنے والے ) کہہ سکتے ہیں جیسا کہ مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی رائے تھی لیکن انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دینا جیسا کہ شیخ ابو زہرہ نے دیا ہے ہمارے نزدیک زیادتی ہے.51

Page 558

تاریخ احمدیت.جلد 24 518 سال 1968ء مباحة متقی وسط اپریل ۱۹۶۸ء میں ہندوستان کے مشہور پادری عبدالحق صاحب مجھی کونسل آف چرچز کی دعوت پر نبی آئے.اور اپنی پلک تقریروں میں اسلام کو خاص طور پر اعتراضات کا نشانہ بنایا.جس پر جزیرہ کے بعض غیور مسلمانوں نے مولانا نور الحق صاحب انور انچارج بھی مشن سے پر زور درخواست کی کہ اس پراپیگنڈا کا دفاع ضروری ہے اور یہ کام آج دنیا میں صرف احمدی کر سکتے ہیں.افہام و تفہیم کے بعد مندرجہ ذیل آٹھ مضامین پر تحریری مناظرہ قرار پایا:.(۱) توحید (۲) کیا مسیح ناصری الہ مجسم ہے؟ (۳) کیا بائبل خدا کا کلام ہے؟ (۴) کیا قرآن شریف کامل الہامی کتاب ہے؟ (۵) کیا مسیح ناصری صلیب پر فوت ہوئے؟ (۶) کیا حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ ( ۷ ) کیا مسیح ناصری“ نجات دہندہ تھے؟ (۸) کیا اسلام میں نجات ہے؟ یہ بھی طے پایا کہ ہر مضمون پر سات سات پرچے ایک ایک گھنٹہ کے ہوں.اور مناظرہ ۱/۲۲اپریل سے شروع ہو کر ۲۵ را پریل چار دن تک جاری رہے.ہر روز دومضامین پر بحث لکھی جائے.اور روزانہ شام کو ساڑھے سات بجے چرچل پارک لوتو کا میں پبلک کو فریقین اپنے اپنے تحریری پرچے سنا دیا کریں.چنانچہ اسی کے مطابق شرائط ضبط تحریر میں آگئیں.اور باہمی رضامندی سے فریقین کے دستخط شرائط نامہ پر ثبت ہو گئے.بعد ازاں پادری صاحب کی درخواست پر مقام مناظرہ لوتو کا کی بجائے صودا تجویز ہوا.اور قرار پایا کہ اس کا آغاز 4 مئی ۱۹۶۸ء کو ہو.جس کا اعلان نجی ریڈیو اور اخبار نجی ٹائمنز میں با قاعدہ طور پر ہو گیا.اس عظیم الشان مباحثے میں اسلام کو عظیم الشان فتح نصیب ہوئی اور حامیان تثلیث کو کھلی شکست سے دو چار ہو کر راہ فرار اختیار کرنی پڑی.چنانچہ جناب شیخ عبدالواحد صاحب مبلغ نجی تحریر فرماتے ہیں:.طریق کار یہ تھا کہ فریقین صبح ساڑھے آٹھ بجے سے شام چھ بجے تک متواتر سوائے دو پہر کے وقفہ کے آمنے سامنے بیٹھ کر مقررہ مضمون پر پرچے لکھتے اور شام کو ساڑھے سات بجے ڈڈلی سکول

Page 559

تاریخ احمدیت.جلد 24 519 سال 1968ء کے ہال میں ہی یہ پرچے حاضرین کو، جن کی تعداد ایک سو تک محدود کر دی گئی تھی سنا دئیے جاتے.شرائط کے مطابق دونوں مناظرین کو کسی مددگار کے رکھنے کی اجازت نہ تھی.بوقت تحریر مباحثہ صرف فریقین کی طرف سے نگران مقرر تھا.اہلِ اسلام کی طرف سے جملہ ایام کے لئے خاکسار شیخ عبدالواحد فاضل نگران رہا.عیسائیوں کی طرف سے گو بیشتر وقت پادری سحر دل جونا گپور ہندوستان میں چار پانچ سال رہ چکے ہیں اور اردو پر عبور رکھتے ہیں اور بڑی مرنجان مرنج طبیعت کے مالک ہیں ، بطور نگران رہے.ان کی مصروفیات کے باعث بعض دوسرے عیسائی حضرات بھی اس ڈیوٹی کو سرانجام دیتے رہے.مئی کی شام کو پہلے دن کے مباحثہ کی تحریر بخیر و خوبی ختم ہوئی.موضوع مباحثہ تھے نمبر.توحید نمبر ۲.بائبل کا الہام الہی ہونا.پادری عبدالحق صاحب نے توحید کے مضمون میں حسب معمول اپنی ساحرانہ فریب کاری سے کام لیا اور اپنی منطقیانہ ادق اصطلاحوں کی بھرمار سے حاضرین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ گویا وہ بہت بڑے فلاسفر اور علامہ دہر ہیں.گو حاضرین ان کی باتوں کو ذرہ بھی نہ سمجھتے تھے لیکن کسی حد تک ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پادری صاحب کا سحر سامری ناواقف پبلک پر چھا رہا ہے.ہمارے مناظر نے بائبل سے یہ پیش کیا کہ جس حکمت و فلسفہ پر تم اتنا ناز کرتے ہوا سے تو انجیل میں بیوقوفی، چالا کی، باطل خیالات اور لا حاصل فریب اور دنیوی ابتدائی باتیں کہا گیا ہے (عہد نامہ جدید کی کتب اور کلسیوں) تاہم اُس روز بعض پادری صاحب کی چالا کی کا کسی حد تک شکار معلوم ہوتے تھے لیکن دوسرے دن اللہ تعالیٰ نے اس پر فریب جادو کو محض اپنے فضل سے دھوئیں کی طرح اڑا دیا.ے مئی کے مباحثہ کے لئے دو مضمون مقرر تھے نمبرا کیا مسیح ناصری الہ مجسم ہے.نمبر ۲ کیا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مسیح موعود ہیں؟ چونکہ معلوم ہوتا ہے پادری صاحب کی کاپیوں میں محفوظ شدہ منطقیانہ نوٹ ختم ہو گئے تھے اور کوئی خاص ٹھوس بات کرنے کی بجائے ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارنے لگے.گو بوقت تحریر بھی ان کا حال دیکھنے والا تھا.جبکہ بلا مبالغہ ان کو ہوش نہ تھی کہ وہ کیا لکھ رہے اور کس طرح لکھ رہے ہیں.مگر شام کے اجلاس میں پرچے سناتے ہوئے تو نظارہ قابل دید تھا.پادری صاحب کے واسطے اپنے ہاتھوں کا لکھا بھی پڑھنا مشکل تھا.وہ شکستہ دل کھڑے ہوئے ، اُن کی زبان لڑکھڑاتی اور آواز لرزتی تھی.یہ مباحثہ بفضل خدا ایک خاص کامیابی اور فتح کا دن ہمارے واسطے لایا.اس کی ایک خاص الخاص خصوصیت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی حضور کے اپنے ہی مبارک الفاظ میں پیش کرنے

Page 560

تاریخ احمدیت.جلد 24 520 سال 1968ء کی توفیق بلیغ احمدی مناظر کو اللہ تعالیٰ نے بخشی اس کی زبان میں برکت عطا ہوئی اور آواز میں شوکت دی.جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُر شوکت عبارت پڑھتے تو حاضرین پر ایک کیف طاری ہو جاتا.بہر حال بفضلہ تعالیٰ دوسرے دن کے مباحثہ میں بھی پادری صاحب کا سارا طلسم ٹوٹ گیا.اور حاضرین پر ان کے علم کا جو غلط اثر تھا وہ بالکل زائل ہو گیا.اس اثر کو زائل کرنے کے لئے پادری صاحب نے بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے.شرائط کے سراسر خلاف، کہ پر چہ سناتے ہوئے کسی کو زبانی ایک لفظ بھی کہنے کی اجازت نہ ہوگی.پادری صاحب نے احمدی مناظر کی تقریر میں شور مچانا شروع کر دیا.جس پر دونوں طرف کے نگرانوں کو انہیں ڈانٹ کر چپ کرانا پڑا.اختتام مناظرہ پر غیر مسلم حاضرین نے بھی اسلام اور احمدیت کے متعلق بہت اچھا اثر لینے کا اقرار کیا اور بوقتِ رخصت بلا تفریق مذہب و ملت سب احمدی مناظر سے ہاتھ ملانے کے لئے ٹوٹ پڑتے تھے.اس ہجوم میں جب غیر مسلم عورتوں نے بھی خراج تحسین کے طور پر احمدی مناظر مولانا نور الحق صاحب انور سے مصافحہ کی کوشش کی تو برادرم موصوف نے نہایت ملاطفت اور محبت سے یہ مسئلہ سمجھایا کہ اسلام میں عورتوں سے مصافحہ کی اجازت نہیں اور با اخلاق طور پر ہاتھ اٹھا کر ان کے سلام کا جواب دیا.۸ مئی ۱۹۶۸ء کو حسب معمول مباحثہ کا تیسرا دن شروع ہوا.اس دن کے لئے مضمون نمبرا کیا مسیح ناصری علیہ السلام صلیب پر فوت ہو گئے.نمبر ۲ کیا قرآن شریف الہامی کتاب ہے مقرر تھے.قبل از دو پہر چار گھنٹے فریقین اطمینان سے پرچے لکھتے رہے.گو گذشتہ دن کی شکست کا اثر پادری صاحب کو مضطرب کئے ہوئے تھا.جس کا اظہار ان کی حرکات و سکنات سے نمایاں ہورہا تھا.لیکن قبل از دو پہر کے آخری پر چہ میں جب احمدی مناظر نے قرآن شریف سے یہ نا قابلِ تردید ثبوت پیش کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام صلیب کی لعنتی موت کی بجائے اللہ تعالیٰ کے وعدہ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ الى یعنی طبعی معجزانہ موت کے وعدہ الہی کے مطابق کشمیر میں فوت ہوئے ، نیز ہمارے مناظر نے بڑی تحدی سے لکھا کہ:.خدا تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق عبد الحق صاحب کو دعوت دیتا ہوں وہ اگر سچے ہیں تو اپنے ساتھیوں سمیت میدان مباہلہ میں آئیں اسے پڑھتے ہی پادری صاحب کے ہاتھ پاؤں پھول گئے.میں خود عینی گواہ ہوں اور اس نظارہ کو کبھی نہیں بھول سکتا.کہ ان الفاظ کے پڑھتے ہی پادری صاحب کے چہرہ پر موت کی سی زردی چھائی معلوم ہونے لگی.اور ہاتھ پاؤں کانپنے لگے.بالآخر

Page 561

تاریخ احمدیت.جلد 24 521 سال 1968ء اندرونی کشمکش سے مغلوب ہو کر انہوں نے قلم ہاتھ سے رکھ دیا.کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور بے قراری میں ٹہلنا اور احمدی مناظر کو کوسنا اور گالیاں دینا شروع کر دیا.ہم نے ہرلمحہ تحمل سے کام لیا.اور بخدا ان کی گالیوں کا کچھ بھی جواب نہ دیا.اس پر پادری صاحب نے جل بھس کر ہمارے دل و جان سے پیارے آقا علی پر حملے شروع کئے.پھر بھی ہم نے صبر کیا.تا کہ وہ اس بات کی آڑ لے کر فرار کا راستہ اختیار نہ کریں لیکن پادری صاحب تو بھاگنے کی پوری طرح ٹھان چکے تھے.(اور عجیب بات ہے کہ دوسرے دن کے مناظرہ کے اختتام پر بہت سے لوگوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ غالبا پادری صاحب کل میدان مناظرہ میں نہیں آئیں گے ) پادری صاحب نے دشنام دہی کو کافی نہ سمجھ کر ہاتھا پائی کی نوبت پہنچادی.لیکن الحمد للہ کہ ہم ہر طرح پر سکون رہے.اور پادری صاحب کو نہایت ملاطفت سے اصل کام جاری رکھنے کی طرف توجہ دلائی.لیکن پادری صاحب کسی طرح نہ مانے.اور صاف کہہ دیا کہ میں اب کسی صورت میں مناظرہ نہیں کروں گا اور چلنے کو تیار ہو گئے.احمدی مناظر نے عیسائی نگران اور دوسرے حاضر الوقت دو تین عیسائی نمائندوں سے کہا کہ کم از کم آج شام کو یہ پرچے سنا تو دیئے جائیں.کیونکہ لوگ دور دور سے خرچ کر کے سماعت کے لئے آتے ہیں.پہلے تو پادری صاحب سنانے پر بھی راضی نہ ہوتے تھے لیکن بالآخر جب احمدی مناظر نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ پادری صاحب آئیں نہ آئیں میں تو شام کے اجلاس میں آؤں گا.اور اپنے پرچے ضرور سناؤں گا.تب پادری صاحب رات کے پروگرام میں آنے پر راضی ہوئے.اس کے بعد سارے معاہدے ساری شرائط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مناظرہ درمیان ہی میں چھوڑ کر چلے گئے.احمدی مناظر نے اپنا سارا وقت لیا اور وہیں بیٹھ کر پادری صاحب کے پرچہ کا جواب لکھ دیا.رات کے ساڑھے سات بجے حسب پروگرام کا رروائی منعقد ہوئی.اور فریقین نے اپنے اپنے پرچے سنائے لیکن احمدی مناظر جب اپنا آخری پرچہ سنانے لگے تو پادری صاحب جو شروع اجلاس سے ہی گھبراہٹ اور اضطراب کا مجسمہ تھے آپے سے باہر ہو گئے اور کہا کہ وہ احمدی مناظر کو آخری پر چہ نہیں سنانے دیں گے.کیونکہ احمدی مناظر نے یہ پرچہ میری عدم موجودگی میں لکھا ہے.ان کو بہتیرا کہا گیا کہ اگر آپ خلاف شرائط اور دیانتداری سے ہٹ کر میدانِ مناظرہ سے چلے گئے تو اس میں آپ کا اپنا قصور ہے.احمدی مناظر کو کیوں اس کے حق سے محروم رکھتے ہیں.حتی کہ اس عیسائی نے بھی جس نے آخری پر چہ پر دستخط کرنے تھے، کہا کہ احمدی مناظر کو ان کا حق ملنا چاہیئے.چند منٹ کی بات ہے.

Page 562

تاریخ احمدیت.جلد 24 522 سال 1968ء ان کا پر چہ سن لیا جائے.لیکن پادری صاحب نے شور سے آسمان سر پر اٹھا لیا.جس پر غیر مسلم صاحب صدر کو مجبور جلسه برخاست کرنا پڑا.نجی میں یہ اپنی طرز کا پہلا مباحثہ تھا، جس کے نتیجے میں ملک کے طول و عرض میں جماعت احمدیہ کا چرچا ہوا.اور ہر طبقہ کے لوگوں نے اس میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا.مولانا نورالحق صاحب انور پر چہ سناتے وقت جب نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف کی تلاوت کرتے تو حاضرین پر خدا کے پاک کلام کا ایک عجیب اثر پڑتا.کلام اللہ کی تلاوت کے وقت غیر مسلم تک بھی بے اختیار جھوم رہے ہوتے تھے.یہ مباحثہ نبی کے احمدیوں کے اضافہ علم اور ازدیاد ایمان کا باعث بنا.احباب کو اس کے دوران کثرت سے دعائیں کرنے کا موقع ملا.اور نہ صرف مولانا نورالحق صاحب انور بلکہ سید صابرحسین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ صوا اور سید احمد حسین صاحب مخلص نو مبائع اور بعض دیگر مخلصین جماعت کو مناظرہ کی کامیابی کے متعلق قبل از وقت مبشر خوا ہیں آئیں.ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ دہلی میں ایک تقریر ۱۸ اپریل تا ۲۶ را پریل ۱۹۶۸ء ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک سیمینار.Y.M.C.A ٹورسٹ ہوٹل نئی دہلی میں منعقد ہوا.جس میں متعد د عیسائی سکالرز اور پروفیسرز کے علاوہ مولوی بشیر احمد صاحب فاضل انچارج احمد یہ مشن دہلی نے بھی پر از معلومات لیکچر دیا.جس کا عنوان تھا 'تحریک احمدیت آپ نے اپنے لیکچر میں پہلے احمدیت کا علمی و عملی اعتبار سے تعارف پیش کیا.بعد ازاں اس کی چھ عظیم الشان خصوصیات بیان فرما ئیں.لیکچر ایک گھنٹہ تک جاری رہا.جس کے بعد نہایت ہی خوشگوار ماحول میں پون گھنٹہ تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.ہفت روزہ چٹان پر پابندی حکومت مغربی پاکستان نے ۲۵ / اپریل ۱۹۶۸ء کو جماعت احمدیہ کے شدید مخالف شورش کا شمیری صاحب کے ہفت روزہ 'چٹان'' (لاہور) کا ڈیکلریشن منسوخ اور پریس اور چٹان کا شمارہ ۲۲ اپریل ۱۹۶۸ء ضبط کر لیا.یہ اقدامات ۲۲ / اپریل کے چٹان میں ایک شذرہ بعنوان "الحمد للہ شائع کرنے کی وجہ سے کئے گئے.اس موقعہ پر حکومت نے جو اعلامیہ شائع کیا اس کے الفاظ یہ ہیں:.

Page 563

تاریخ احمدیت.جلد 24 523 سال 1968ء حکومت فرقہ وارانہ اور طبقاتی ہم آہنگی برقرار رکھنے کو انتہائی اہمیت دیتی ہے تا کہ کسی بھی عقیدے کے مدرسہ فکر کو کسی دوسرے فرقہ سے خوف واند پیشہ لاحق نہ ہو.نتیجتا حکومت برسوں سے اس امر کو یقینی بنانے کے لئے مختلف اقدامات کر رہی ہے کہ کوئی شخص امن عامہ اور کسی فرقہ کی آزادی عقیدہ میں تقریر یا تحریر کے ذریعہ خلل نہ ڈالے.گذشتہ سال دفاعی قوانین کے تحت ایک حکم جاری کیا گیا تھا جس کے ذریعہ ے جریدوں پر کوئی ایسی چیز شائع نہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی جس سے فرقہ وارانہ اختلافات بھڑک اُٹھیں.ہفتہ وار چٹان لاہور بھی ان جریدوں میں شامل تھا.لیکن حکومت کو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس پابندی کی مدت جو نہی ختم ہوئی ہفتہ وار چٹان نے اپنا پرانا لب ولہجہ اختیار کر لیا.اور ایک مخصوص فرقے اور اس کے عقائد کے خلاف نہایت تلخ انداز میں مستقل طور پر لکھنا شروع کر دیا.یکم اپریل ۱۹۶۸ء کو حکومت نے دفاعی قوانین کی دفعہ ۵۲ کے تحت تمام چھاپہ خانوں اور ناشرین اخبارات کو ایک حکم جاری کیا جس کے ذریعہ ان پر کوئی ایسا مواد جس میں اسلام کے کسی فرقہ کی تاریخ ، عقائد، پیشگوئیوں اور الہامات پر اعتراضات کئے گئے ہوں یا کوئی ایسا مواد جس سے مختلف فرقوں کے درمیان دشمنی کے جذبات بھڑک سکتے ہوں یا بدظنی اور نفرت پیدا ہوسکتی ہو، شائع نہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی تھی.54.مقدمہ چٹان اور فیصلہ ہائیکورٹ مغربی پاکستان وو 66 چٹان پر اس پابندی کے خلاف آغا شورش کا شمیری نے مغربی پاکستان کی ہائیکورٹ میں مقدمہ کر دیا.یکم جولائی سے ۸ جولائی ۱۹۶۸ء تک پنجاب ہائیکورٹ کے ایک سپیشل بینچ نے جو جسٹس محمد گل اور جسٹس کرم الہی چوہان پر مشتمل تھا، چٹان کیس کی سماعت کی.کیس میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ آیا احمدی اسلام کا ایک فرقہ ہیں یا نہیں؟ درخواست دہندگان آغا شورش صاحب کا شمیری اور خواجہ صادق صاحب کا شمیری کے وکلاء کو اس بنیادی نکتہ کی تیاری کرانے میں مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے بھر پور حصہ لیا.اور اس غرض کے لئے مولوی محمد علی صاحب جالندھری مع مولوی محمد حیات عرف فاتح قادیان ، مولوی عبدالرحیم اشعر اور مولوی نور الحق صاحب ملتان سے لاہور آئے اور دن رات ایک کر کے مواد تیار کیا.جسے درخواست دہندگان کے وکلاء صاحبان کی معرفت عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا.جماعت کے ایک اور مخالف رسالہ لولاک کے مطابق سماعت کے آخری دو دن ۸،۵ جولائی کو ایڈووکیٹ جنرل راجہ سید اکبر اور اٹارنی جنرل شیخ غیاث الدین نے صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی

Page 564

سال 1968ء 524 تاریخ احمدیت.جلد 24 طرف سے اپنے اپنے دلائل دیئے.ایڈووکیٹ جنرل نے احمدیوں کے متعلق حکومت کا یہ موقف پیش کیا کہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.لہذا وہ مسلمان ہیں.اور انہیں مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے کا حق حاصل ہے.فیصلہ ہائی کورٹ مغربی پاکستان مع ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.ہائیکورٹ کے فاضل جج صاحبان نے ۲۲ جولائی ۱۹۶۸ء کو جو فیصلہ صادر فرمایا.اس کا مکمل متن P.L.D.1969 Lahore 289 Before Muhammad Gul and Karam Elahee Chauhan, JJ AGHA ABDUL KARIM SHORISH KASHMIRI AND OTHERS-Petitioners Versus PROVINCE OF WEST PAKISTAN Respondent writ petition No.937 of 1968, decided on 22nd July 1968.The whole burden of argument of petitioners' learned counsel was that Ahmadis are not a sect of Islam and the petitioners' right to say so is guaranteed by the Constitution.But learned counsel overlooks the fact that Ahmadis as citizens of Pakistan are also guaranteed by the Constitution the same freedom to profess and proclaim that they are within the fold of Islam.How can the petitioners deny to others what they claim for themselves is beyond our comprehension.Certainly not by terrorising them.The question at the root is how far the petitioners and others like-minded can in law prevent the

Page 565

سال 1968ء 525 تاریخ احمدیت.جلد 24 Ahmadis from professing that notwithstanding any doctrinal differences with the other sects of Islam they are as good followers of Islam as anybody else who calls himself a Muslim.We are obliged to consider this aspect of the matter, because the petitioners' learned counsel in the course of his argument referred to certain parts of Munir's Enquiry Report on Punjab Disturbances of 1953 high-lighting the doctrinal differences between the Ahmadis and other sects among Muslims and to certain incidents where certain persons professing to be Ahmadis were dubbed as 'Murtads' and in some cases killed.Two judgements, one of a subordinate court in the former Punjab and the other from a district court in what was once Bahawalpur State, wherein it was held that Ahmadis are not a sect of Islam were also placed within record.We wonder how these instances are relevant.The judgements are of subordinate courts and they are not relevant even under section 13 of the Evidence Act, 1872.As to instances of Ahmadis being dubbed as 'Murtads' and done to death, all that we need to say is that these are sad instances of religious persecution against which human conscience must revolt, if any decency is left in human affairs.How far these instances are opposed to the true Islamic precepts and injunctions would be manifest from Chapter 2; 256 of the Holy Quran which guarantees freedom of conscience in clear mandatory terms which are translated thus:-

Page 566

تاریخ احمدیت.جلد 24 526 سال 1968ء "Let there be no compulsion in religion"."Freedom of thought and conscience could not have been پی.ایل.ڈی.۱۹۶۹ ء لا ہو ر ۲۸۹ guaranteed in clearer terms".با اجلاس مسٹر جسٹس محمدگل و مسٹر جسٹس کرم الہی چوہان بمقدمه آغا عبدالکریم شورش کشمیری اور دیگر درخواست دهندگان بنام صوبه مغربی پاکستان.اس مقدمہ میں یہ امر واضح طور پر زیر تنقیح تھا کہ آیا احمدی مسلمان ہیں.اس تنقیح پر عدالت موصوف کا فیصلہ حسب ذیل ہے:.) سائل کے وکیل کی بحث کا تمام تر انحصار اس بات پر تھا کہ احمدی مسلمانوں کا ایک فرقہ نہیں ہیں اور یہ کہ دستور پاکستان سائل کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اس بات کا اظہار کر سکے لیکن فاضل وکیل نے اس امر کو نظر انداز کر دیا ہے کہ احمدیوں کو بحیثیت پاکستان کے شہری ہونے کے دستور پاکستان کی رُو سے اُسی قسم کی آزادی حاصل ہے کہ وہ اس بات کا اقرار و اعلان کریں کہ وہ اسلام کے دائرہ کے اندر ہیں.یہ امر ہمارے نزدیک بعید از فہم ہے کہ سائل دوسروں کو وہ حق دینے سے انکار کرے جس حق کا وہ خود کو تحق قرار دیتا ہے.یقیناً احمدیوں کو خوفزدہ کر کے ایسا نہیں کیا جاسکتا.اصل سوال یہ ہے کہ کس حد تک سائل اور اس کے دوسرے ہم خیال لوگ قانون کی رو سے احمدیوں کو اس امر کے اظہار سے روک سکتے ہیں کہ احمدی اسلام کے ایسے ہی اچھے پیرو ہیں جیسا کہ کوئی دوسرا شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہو خواہ احمدیوں کو اسلام کے دوسرے فرقوں سے بعض مسائل میں اختلافات ہوں.ہمارے لیے معاملہ کے اس پہلو کو زیر غور لانا لازمی ہے کیونکہ سائل کے فاضل وکیل نے اپنی بحث کے دوران میں منیر کی تحقیقاتی رپورٹ بابت فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء کا حوالہ دیا ہے جس میں احمدیوں اور مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے درمیان اختلافی مسائل کو نمایاں کیا گیا ہے اور بعض واقعات کا ذکر کیا گیا ہے.جن میں احمدی کہلانے والے لوگوں پر مرتد ہونے کا الزام لگایا گیا تھا اور بعض کو قتل کیا گیا تھا.مثل پر دو فیصلہ جات لائے گئے ہیں جن میں سے ایک فیصلہ سابق پنجاب کی ایک ماتحت عدالت کا ہے اور دوسرا فیصلہ سابق ریاست بہاولپور کی ایک ضلعی عدالت کا ہے.ان فیصلہ

Page 567

تاریخ احمدیت.جلد 24 527 سال 1968ء جات میں قرار دیا گیا تھا کہ احمدی مسلمانوں کا فرقہ نہیں ہے.ہمیں حیرت ہے کہ یہ فیصلہ جات کس طرح امر متعلق ہو سکتے ہیں.یہ فیصلہ جات ماتحت عدالتوں کے ہیں اور زیر دفعہ نمبر ۱۱۳ یکٹ شہادت ۱۸۷۲ء یہ فیصلہ جات غیر متعلق ہیں.ایسی نظائر کے متعلق جن میں احمدیوں کو مرتد قرار دے کر قتل کیا گیا ہمارے لیے صرف اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ یہ افسوسناک نظائر مذہب کے نام پر ظلم کو ثابت کرتی ہیں.اور جب تک کہ انسانی معاملات میں کوئی شرافت باقی ہے انسانی ضمیر ان کے خلاف ہمیشہ بغاوت کرتی رہے گی.علاوہ از میں یہ مثالیں حقیقی اسلام کے ارشادات و احکام کے قطعی منافی ہیں جیسا کہ قرآن مجید کی دوسری سورۃ کی آیت نمبر ۲۵۶ سے ظاہر ہے جس میں انسانی ضمیر کی آزادی کے تحفظ کے متعلق واضح حکم دیا گیا ہے.جس کا ترجمہ یہ ہے: ”دین کے معاملہ میں کسی قسم کا جبر روا نہیں“ فکر و ضمیر کی آزادی کا تحفظ اس سے زیادہ واضح الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا تھا.فیصلہ کے خلاف نامناسب مظاہرہ 57 ہائیکورٹ مغربی پاکستان کے اس فیصلے پر احراری حلقوں میں زبردست احتجاج کیا گیا.بلکہ چنیوٹ میں شرمناک مظاہرہ ہوا اور اشتعال انگیز نعرے لگائے گئے.اخبار المنبر (۱۱اراکتو بر ۱۹۶۸ء) نے اس فیصلہ کے ایک حصہ کو نقل کر کے علماء وقت کو اکسایا کہ وہ انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں سے اس پر غور کریں اور اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوں.جس پر راولپنڈی کے ایک دردمند پاکستانی نے ہوم سیکرٹری مغربی پاکستان کی خدمت میں حسب ذیل مکتوب مفتوح لکھا:.جناب مدیر محترم.سلام مسنون ! پچھلے دنوں مجھے ایک کاروباری غرض سے سرگودھا سے چالیس میل دور لائکپور کی جانب چنیوٹ کے شہر میں جانے کا اتفاق ہوا.بدقسمتی سے قصبے میں ہمارے ورود کا دن وہی تھا جسے چند تخریب کاروں نے سالمیت وطن کے خلاف تخریبی حرکات کے الزام میں ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت ایک گرفتار کی رہائی کے لئے احتجاجی مظاہرہ کرنے کی غرض سے منتخب کیا تھا.اور ایک بڑا ہی اشتعال انگیز قسم کا جلوس نکالا گیا تھا.اور جس دن شہر کے ایک حصے سے غنڈہ پن، ماؤں بہنوں کی گالیوں اور پتھراؤ کے بل پر بالجبر جزوی ہڑتال کرائی گئی تھی.اس جلوس کی قیادت ( جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا ) پولیس کے منظور نظر ڈاڑھی دار ٹاؤٹ نے کی تھی.

Page 568

تاریخ احمدیت.جلد 24 528 سال 1968ء اس جلوس نے لگے ہاتھوں اپنی شورش پسندی کو اسلامی بنانے کے لئے ایک مذہبی جماعت کے افراد پر بھی دست درازیاں کیں.ان کے گھروں پر بغیر کسی اشتعال کے پتھراؤ کیا.ان کی دوکانوں کے چھتے ، شوکیس اور بینچ وغیرہ توڑے اور منہدم کئے گئے.ان کی ماؤں بہنوں اور روحانی بزرگوں کو سر عام غلیظ گالیاں دی گئیں.اس کے بعد جلوس اپنے اصل مقصد کی طرف مائل ہوا.دو ہائی سکولوں اور بعض سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے شیشے، کھڑکیاں اور دروازے توڑے.صدر ایوب کو ( فیملی پلاننگ کی آڑ لے کر ) غلیظ ترے سنائے گئے.اُس ہائیکورٹ کو مغلظ گالیاں دی گئیں جس نے پچھلے دنوں اپنے کسی فیصلے میں یہ قرار دیا تھا کہ:.آئین پاکستان کی رُو سے ہر شہری کے حقوق برابر ہیں اور ہر ایک کو ( جو بھی اُسے اپیل کرے) مذہب اختیار کرنے کا حق حاصل ہے.کسی بھی پاکستانی شہری کا یہ آئینی حق دہشت پسندی یا شوره پیشتی سے چھینا نہیں جاسکتا“.مجھے تو یہ ساری بلہ بازی دیکھ کر یوں محسوس ہوا جیسے کسی خاص بیرونی ادارے نے ان لوگوں کو شریف طبائع میں اسلام سے نفرت پیدا کرنے کا ٹھیکہ دے کر بھیجا ہو.ورنہ مذہب اور اس قدر شرافت و انسانیت دشمنی ! شام کے وقت جو ہمیں اپنے کام ہی کے سلسلہ میں شہر کے مختلف حصوں میں جانا پڑا.تو ہم نے شہر کے ہر محلہ کی دیواروں اور مکانوں پر ایک مذہبی فرقے کے خلاف نہایت اشتعال انگیز نعرے لکھے ہوئے دیکھے.یہاں تک کہ یہ خطرناک انسانیت دشمن نعرے سرکاری دفاتر ، اعلیٰ سرکاری افسروں کے بنگلوں حتی کہ تھانے کی دیواروں پر بھی لکھے ہوئے تھے.دل نے کہا.یہ تو واقعی مشکل کام ہے کہ ہر گھر پر ایک پولیس کانسٹیبل کا پہرہ ہو.جو کسی کو رات کی تاریکی میں بھی دیواروں پر لکھنے نہ دے اور نہ تاریکی کے ایسے سپوتوں کا پکڑنا ہی آسان ہے لیکن ان غلیظ اور اشتعال انگیز نعروں کے سرکاری عمارتوں پر لکھے جانے کا مطلب؟ کیا یہ سرکاری حکام کی شہ پر لکھے گئے ہیں؟ اور ان کی مرضی اور منشاء کے ماتحت لکھے گئے ہیں؟ کیا یہ جلوس بھی انہی کے ایماء پر ہی نکالا گیا تھا.ورنہ جلوس والے کسی گھر پر یا دوکان پر خوامخواہ پتھراؤ کریں اور پولیس والوں کی انتظامیہ غیرت صرف دیکھتی رہے؟ یہ کیونکر ممکن ہوسکتا ہے جبکہ جلوس میں ایک بھی معتبر آدمی نہ تھا اور سب اسی قماش اور معیار کے افراد تھے جن کے لئے کسی ذمہ دار وفرض شناس تھانیدار کی صرف ایک ہی گھر کی کافی ہوتی ہے.سرکاری عمارتوں پر لکھے ہوئے یہ تبرے تو یہاں کے افسر اعلیٰ کو بھی اپنے بنگلے سے نکلتے اور عدالت کو جاتے وقت دکھائی

Page 569

تاریخ احمدیت.جلد 24 529 سال 1968ء دیتے ہوں گے.پھر بھی ان کی انتظامیہ حس بیدار نہیں ہوئی !.ہمارے اندازے کے مطابق متذکرہ مذہبی جماعت کے افراد کا نقصان پانچ حد چھ سوروپے کے لگ بھگ کا ہوا ہوگا اور سرکاری و نیم سرکاری اداروں کا کم و بیش پانچ چھ ہزار.کیا یہی بات یہ بھانپ جانے کے لئے کافی نہیں کہ جلوس کس کے خلاف تھا.پھر چنیوٹ کی انتظامیہ منہ میں گھونگھیاں ڈالے کس شوق میں بیٹھی رہی.اور شرافت دشمن پولیس کے سامنے شہری امن کو کس طرح بر باد کرتے رہے رات تک سوچ بچار کے بعد ہم تو اسی نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ یہاں شاید اپوزیشن کے حامی اور اس سے در پردہ ملے ہوئے سرکاری افسروں کا راج ہے.جس کے باعث اپوزیشن نے اپنی تخریبی سرگرمیوں کا آغاز یہاں سے کیا ہے.ورنہ حکومت کے پکڑے ہوئے ایک شخص کے حق میں اس قدر تخریبی مظاہرہ اور حکومت کے کارندوں کی طرف سے اتنی ڈھیل اور مہلک چشم پوشی.اس سے پہلے تو اتنی دیدہ دلیری کبھی سننے میں نہ آئی تھی.ہم پر یہ راز اُسی دن کھلا کہ اپوزیشن صوبے کی انتظامیہ عمارت میں کہاں تک نقب لگا چکی ہے.بسا ممکن ہے کل کلاں کو کسی سرکاری تقریب یا جشن کا آغاز کرتے ہوئے یہاں کے افسر اعلیٰ بھی ”ہمارے محبوب صدر کے الفاظ ہی سے اپنی تقریر کا آغاز کریں.لیکن جتنی گالیاں اُن کی مہلک چشم پوشی نے ان خوردہ پشتوں سے حکومت اور سر براہ حکومت کو اس جلوس والے دن دلوائی ہیں ان کی تو نظم و نسق کی سہل انگاری کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی.عتیق الرحمن ( شیخ ) از راولپنڈی مجلس خدام الاحمدیہ کی پندرھویں مرکزی تربیتی کلاس 58 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مورخہ ۲۶ را پریل ۱۹۶۸ء کو ساڑھے پانچ بجے شام ایوان محمودر بوہ میں تشریف لا کر مجلس خدام الاحمدیہ کی پندرھویں مرکزی تربیتی کلاس کا افتتاح فرمایا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے خدام کو افتتاحی خطاب سے نوازتے ہوئے انہیں اپنی زندگیوں میں اسلام کا اعلی نمونہ پیش کرنے کی تلقین فرمائی حضور نے فرمایا اگر احمدی نوجوان صحیح معنوں میں اسلام کے مطابق زندگیاں گزارنے والے ہو جائیں تو دنیا میں ایک انقلاب عظیم رونما ہوئے بغیر نہ رہے گا.مجلس خدام الاحمدیہ کی یہ پندرھویں مرکزی تربیتی کلاس دو ہفتہ جاری رہنے کے بعد مورخہ امئی ۱۹۲۸ء کوکامیابی اور خیر وخوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے امئی 59

Page 570

تاریخ احمدیت.جلد 24 530 سال 1968ء کی شام ایوان محمود میں تشریف لاکر کلاس کے امتحانات میں امتیاز حاصل کرنے والے خدام میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے اور انہیں اختتامی خطاب سے نواز کر بیش قیمت نصائح سے سرفراز فرمایا.حضور انور نے خدام کو اپنی زندگیوں میں اسلام کا عملی نمونہ پیش کر کے حیات طیبہ کا وارث بنے کی تلقین فرمائی.حضور نے ان پر واضح فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے سب حکموں پر عمل پیرا ہوئے اور اعمال صالحہ بجالائے بغیر اور دعاؤں کے ذریعہ اس کے فضل کو جذب کئے بغیر اس حیات طیبہ کے وارث نہیں بن سکتے جو اس دنیا میں شروع ہوتی ہے اور پھر جہان اخروی میں ہمیشہ ہمیش جاری رہتی 60- ہے.۱۹۶۸ء کی اس تربیتی کلاس میں مغربی پاکستان کی ۷۲ مجالس کے ۷۰ اخدام نے شرکت کی.حضور انور کی ایک خواہش کا اظہار اور اس کی تکمیل حضور انور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کی پندرھویں سالانہ مرکزی تربیتی کلاس کے ہر طالب کے پاس تفسیر صغیر کا اپنا نسخہ ہو.حضور نے اس خواہش کا ہی اظہار نہیں فرمایا بلکہ از راہ شفقت اس غرض کے لئے تین صد ر و پے مرحمت فرمائے.چنانچہ اس رقم سے رعایتی قیمتوں پر کلاس کے بیشتر طلباء کو تفسیر صغیر کے نسخے مہیا کئے گئے اور جو طلباء رہ گئے تھے ان کے لئے حضور نے ۱۰ مئی کو اختتامی تقریب کے موقع پر مزید یک صد روپے عنایت فرمائے اور ہدایت فرمائی کہ ان سب کو بھی تفسیر صغیر کے نسخے فراہم کئے جائیں.ایک استفسار اور اس کا جواب 61 ایک احمدی دوست نے تسبیح و تحمید اور درود شریف کی تحریک کے سلسلہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث سے تحریری استفسار کیا کہ درود شریف میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علیحدہ نام لے کر حضور کے لئے دعا کرنے کے بارہ میں کیا ارشاد ہے؟ حضور نے سائل کے جواب میں تحریر فرمایا:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آل میں ہی شامل ہیں.62 سوسائٹی آف سرونٹس آف گاڈ میں احمدی مبلغ کی تقریر بمبئی کے مشہور مذہبی اداروں میں ایک ادارہ سوسائٹی آف سرونٹس آف گاڈ ہے.اس سوسائٹی کے زیر اہتمام ماہانہ اجلاسات ہوا کرتے تھے اور گاہے گاہے جماعت احمدیہ کو بھی اس میں اپنے خیالات کا اظہار کا موقع ملتا تھا.اس سوسائٹی کے زیرا نتظام ایک بہت بڑا ادارہ این سی

Page 571

تاریخ احمدیت.جلد 24 531 سال 1968ء کارپوریشن بھی چلتا ہے.اس کارپوریشن کے وسیع و عریض فلیٹ میں ایک اجتماع بلایا گیا تھا جس میں شرکت کے لئے جماعت احمدیہ کو بھی دعوت دی گئی.یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جماعت احمدیہ کا شائع کردہ انگریزی ترجمہ قرآن اس سوسائٹی کی چاروں لائبریریوں میں ہے.۵ جون کو اس سوسائٹی کا اجتماع منعقد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مکرم مولوی سمیع اللہ صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی کو شرکت کی دعوت دی گئی جس میں انہوں نے تو حید اور رسالت کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کیا.آپ کی تقریر سے ہر طبقہ کے لوگ بہت متاثر ہوئے.اس سوسائٹی کے بانی ڈاکٹر دین شاہ مہتہ نے کہا کہ یہ تقریر ایسی ہے کہ اس سے آج کا اجتماع کامیاب ہو گیا ہے.پشاور یونیورسٹی میں قاضی محمد اسلم صاحب کا لیکچر 63.قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ( کینٹب ) پرنسپل تعلیم الاسلام کا لج ربوہ ایک ممتاز ماہر نفسیات تھے.آپ نے پشاور یونیورسٹی کے فارسٹ انسٹیٹیوٹ (FOREST INSTITUTE) کی سٹاف کلب میں.اجون ۱۹۶۸ء کو ایمان باللہ کے موضوع پر انگریزی میں فاضلانہ لیکچر دیا.اور نہایت وضاحت کے ساتھ بتایا کہ وجو دباری کے حق میں یہ ایک نہایت وزنی اور قوی دلیل ہے کہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونے والے انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی غیر محدود طاقتوں اور قدرتوں اور اس کی صفات کے متعلق شہادت دیتے چلے آئے ہیں.اور ہر زمانہ کے لوگ ان کی اس شہادت کو دل سے قبول کرتے ہوئے عقیدہ وجود باری پر ایمان لائے اور ان کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیوں میں تغیر پیدا کرتے چلے آئے ہیں.سامعین نے حضرت قاضی صاحب کی تقریر کو بہت توجہ اور دلچسپی کے ساتھ سنا.تقریر کے بعد دیر تک سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا.اس تقریر کا اہتمام مجلس خدام الاحمدیہ پشاور یونیورسٹی نے کیا تھا.جلسہ کا اہتمام ڈاکٹر غلام اللہ صاحب آف انٹا مالوجی ڈیپارٹمنٹ نے کیا.اور صدارت کے فرائض پر و فیسر عبدالحی علوی صاحب نے ادا فرمائے.اس موقعہ پر پشاور یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے پروفیسر صاحبان اور دیگر اہلِ علم حضرات موجود تھے.64 مشرقی پاکستان میں سترھویں تربیتی کلاس کا انعقاد مشرقی پاکستان میں سکولوں اور کالجوں کے طالب علموں کے لئے ایک تربیتی کلاس کا انتظام کیا

Page 572

تاریخ احمدیت.جلد 24 532 سال 1968ء گیا جو دار التبلیغ ڈھا کہ میں ۱۱ تا ۳۰ جون ۱۹۶۸ء کامیابی کے ساتھ جاری رہی.کلاس میں حصہ لینے والوں کو قرآن وحدیث کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نماز باترجمہ اردو زبان فقہی اور تبلیغی مسائل کی تعلیم دی گئی.اس تربیتی کلاس میں امجالس میں سے ۶۰ خدام نے شرکت کی.کلاس کا اختتام صدر مجلس خدام الاحمدیہ (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے ایک پیغام کے ذریعہ کیا گیا.جس کو مکرم شہید الرحمان صاحب قائد ضلع ڈھا کہ نے پڑھ کر سنایا.کلاس ہر لحاظ سے کامیاب رہی.کراچی میں تراجم قرآن کریم کی مثالی نمائش چودہ سو سالہ جشنِ نزول قرآن کریم کے مبارک موقعہ پر پاکستان میں جو تقریبات منعقد کی گئیں ان میں اپنی انفرادی اور ممتاز نوعیت کی حامل وہ تقریب تھی جو دنیا کی مختلف اور اہم زبانوں میں تراجم قرآن مجید کی نمائش کے طور پر کراچی میں منعقد کی گئی.اس نمائش کا انعقاد ۱۵ جون سے ۲۸ جون ۱۹۶۸ ء تک دو ہفتہ کے لئے احمد یہ دارالمطالعہ بندر روڈ کراچی کے ہال میں کیا گیا تھا.ہال کو ایک بڑے محراب کے ساتھ مزین کیا گیا، روشنی کا خاطر خواہ انتظام کیا گیا اور باہر بندر روڈ پر ایک بڑا بینر لگوایا گیا جس کی وجہ سے نمائش کو بہت شہرت حاصل ہوئی اور لوگوں کے لئے خاصی دلکشی کا باعث ہوئی.اخبارات میں بھی نمائش کی خبر متعدد مرتبہ شائع ہوئی.اور ریڈیو سے بھی نشر ہوئی.معززین کراچی کو بذریعہ دعوتی کارڈ مد عو کیا گیا.۱۵ جون کو نمائش کے افتتاح کے لئے چھ بجے شام کا وقت مقرر تھا.افتتاحی تقریب کے لئے احمد یہ دارالمطالعہ کے سامنے شامیانوں کے نیچے حاضرین کے لئے کرسیوں پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا.عین وقت مقررہ پر ملک کی علم دوست اور نامور شخصیت جناب ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب ستارہ پاکستان سابق مینیجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنک آف پاکستان اس مبارک نمائش کے افتتاح کے لئے تشریف لائے.اس موقعہ پر علمی حلقوں کی کثیر تعداد موجود تھی.افتتاحی تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن مجید اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم ” جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے“ سے ہوا.اس کے بعد محترم امیر جماعت احمدیہ کراچی چوہدری احمد مختار صاحب نے اس نمائش کے انعقاد کی غرض و غایت بیان کی.آپ نے تراجم قرآن کریم کی مختصر تاریخ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ کے مستشرقین نے صلیبی جنگوں کے بعد جو تراجم قرآن کریم شائع کئے وہ ان کے متعصبانہ اور معاندانہ

Page 573

تاریخ احمدیت.جلد 24 533 سال 1968ء المصل رویہ کے آئینہ دار ہیں اس لئے اس امر کی ضرورت تھی کہ قرآن مجید کے ایسے تراجم شائع کئے جائیں جو صحیح اسلامی تعلیمات کی عکاسی کرنے والے ہوں.چنانچہ وقت کی اس اہم ضرورت کے پیش نظر حضرت امام جماعت احمد یہ الصلح الموعود نے تراجم قرآن کریم کا جامع منصوبہ مرتب فرمایا اور لاکھوں روپے کے صرف سے دنیا کی اہم زبانوں میں تراجم کروائے جس میں سے دس گلی یا جزوی طور پر اشاعت پذیر ہو چکے ہیں اور باقی کے لئے کام جاری ہے.اور جماعت احمدیہ کا پروگرام یہ ہے کہ دنیا کی تمام اہم زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع کر دیئے جائیں تا کہ اقوامِ عالم اس صحیفہ خداوندی سے مستفید ہوسکیں.آپ کے بعد مکرم ڈاکٹر ممتاز حسن صاحب نے اپنے عالمانہ خطاب میں تراجم قرآن کریم کی نمائش کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کی کیونکہ قرآن مجید ہی ایسی کتاب ہے جو ہماری تمام فلاح و بہبود کا سر چشمہ ہے اور اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ قرآنی پیغام کو اقوام عالم تک پہنچایا جائے.آپ نے فرمایا کہ جو لوگ اور جو جماعتیں اس کا عظیم میں مصروف ہیں وہ تعریف و تحسین کی مستحق ہیں.اس کے بعد نمائش کا افتتاح عمل میں آیا.دنیا کی تقریباً اکیس زبانوں کے تراجم اور نادر نسخے بڑی ترتیب کے ساتھ رکھے گئے تھے.معزز مہمانوں نے سب سے پہلے بِسْمِ اللهِ اور اِقْرَأْ بِاسْمِ رنگ کے چارٹس کو دیکھا اور اس کے ساتھ ہی دو قرآن مجید تھے جن میں سے ایک پاکستان اور ایک جرمنی کا مطبوعہ تھا.اس کے بعد انگریزی تراجم میں جماعت احمدیہ کا مطبوعہ قرآن کریم انگریزی تھا جس کا دیباچہ اور با محاورہ ترجمہ بہت دلکشی کا باعث ہوا.اس کے ساتھ ہی مولوی محمد علی صاحب اور پکھل کے تراجم تھے.اسی طرح مستشرقین یورپ آر بیری، راڈویل، پامر اور این.جے داؤد کے تراجم تھے اور ان کے اوپر قرآنی انگریزی تراجم کا سن وار چارٹ آویزاں تھا.اس کے بعد فرنچ تراجم تھے جن میں ایڈورڈلانتے اور سواری اور جماعت احمدیہ کے زیر اشاعت ترجمہ کا ایک ورق تھا.اس کے بعد ڈ بینش ترجمہ کا تین جلدوں میں خوبصورت سیٹ تھا.پھر سپینش ترجمہ کا ایک ورق تھا.اس زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو چکا تھا اور اس کی اشاعت عنقریب ہونے والی تھی.اس کے ساتھ ہی جرمن اور ڈچ کے خوبصورت تراجم تھے.معزز مہمانوں نے ان تراجم اور ان کے ساتھ ٹیکسٹ کو بہت پسند فرمایا.اس کے بعد ٹرکش ترجمہ تھا جو ڈوگرل کا تھا اس کے بعد ملائی زبان کا غیر مطبوعہ ترجمہ تھا جو ابھی شائع نہیں ہوا ( یہ ترجمہ مولوی محمد صادق صاحب سابق مبلغ انڈونیشیا نے کیا تھا).

Page 574

تاریخ احمدیت.جلد 24 534 سال 1968ء اردو تراجم میں سے حضرت شاہ عبد القادر ، حضرت شاہ رفیع الدین، ڈپٹی نذیراحمد تفسیر صغیر مؤلفہ حضرت المصلح الموعود، تفسیر ماجدی، ترجمہ مولوی اشرف علی تھانوی، ترجمہ مولوی محمود الحسن صاحب، ترجمہ مولوی فرمان علی صاحب اور ترجمہ مولوی مقبول احمد صاحب وغیرہ موجود تھے.اس کے ساتھ ہی شاہ ایران کا مطبوعہ خوبصورت قرآن مجید تھا اور فقیر وحید الدین صاحب کا مطبوعہ خوبصورت قرآن کا نسخہ موجود تھا.نیز قرآن مجید کے پانچصد پرانے نسخے اور عہد مغلیہ کے بعض نادر قلمی نسخے بھی موجود تھے اور ان کے پیچھے دنیا کا رنگدار نقشہ آویزاں تھا جس میں ان تمام زبانوں کو دکھایا گیا تھا جن میں تراجم اشاعت پذیر ہو چکے ہیں.ان تمام تراجم کو یکجائی طور پر دیکھ کر جناب ممتاز حسن صاحب نے بے اختیار اس امر کا اظہار کیا کہ یہی فرقان مجید تمام مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتا ہے اور جماعت نے یہ کام کر کے بہت عمدہ نمونہ پیش کیا ہے.اس کے بعد معزز مہمان پھر ہال میں داخل ہوئے جہاں سندھی زبان کا پرانا تر جمہ تھا جس کے ساتھ ہی فارسی ترجمہ بھی تھا.اس کے بعد ہندی ترجمہ کا پارہ تھا جو انہی دنوں قادیان سے شائع ہوا تھا.اس کے ساتھ ہی چینی، جاپانی اور روسی تراجم تھے.اس کے بعد گجراتی زبان کے تین مختلف تراجم تھے.اس کے ساتھ افریقہ کی تین مشہور زبانوں یعنی سواحیلی ، یوروبا اور یوگنڈی تراجم تھے.یہ تراجم مہمانوں کے لئے بڑی دلکشی کا باعث ہوئے.اس کے بعد شاعر آغا قزلباش اور سیماب اکبر آبادی کے منظوم تراجم کے دو پارے تھے.اس کے ساتھ ہی وہ قرآن مجید تھا جو میں اوراق میں ہے اور اس کی ہر ابتدائی سطر حرف واو سے شروع ہوتی ہے.یہ قرآن مجید کلکتہ سے شائع ہوا تھا اور سٹیٹ بنک کی لائبریری سے لیا گیا تھا.اس کے بعد حضرت سردار محمد یوسف صاحب کا گورمکھی ترجمہ تھا جو قادیان سے شائع ہوا تھا.آخر میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف من الرحمن کا ایک اقتباس چارٹ پر مندرج تھا اور اس کے نیچے مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی عربی زبان کے اُم الالسنہ ہونے کے متعلق دو کتب تھیں.یہ دلچسپ انکشاف کتب بھی مہمانوں کے لئے گہری دلچسپی کا باعث ہوا.اس کے علاوہ قرآن مجید کے متعلق خوبصورت معلوماتی چارٹس اور کچھ فوٹو (جن میں احمدی مجاہدین بیرونی ممالک کی معزز شخصیتوں کو قرآن مجید پیش کر رہے ہیں ) ہال کی رونق میں اضافہ کر رہے تھے.معزز مہمان خصوصی تراجم کی اس قدر کثرت کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور وزیٹر بک میں تحریر فرمایا:.

Page 575

تاریخ احمدیت.جلد 24 535 سال 1968ء قرآن کریم کے ترجموں کی یہ نمائش ایک نہایت ہی مستحسن اقدام ہے.اس سے لوگوں کو اور زبانوں میں ترجمہ کرنے اور انہیں دنیا میں پھیلانے کی ترغیب ہوگی.خدا کرے یہ کام آگے بڑھے.اضعف العباد.ممتاز حسن اس موقعہ پر تمام ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ بڑی محبت اور عقیدت سے تراجم قرآن کریم کو دیکھ رہے تھے اور اس امر پر شاداں و فرحاں تھے کہ قرآنی پیغام دنیا کی بیشتر زبانوں میں منتقل ہو چکا ہے.ہال سے باہر سینکڑوں افراد اس انتظار میں تھے کہ اندر گنجائش ہو اور وہ بھی اس نظارہ سے لطف اندوز ہوں.چنانچہ رات کے گیارہ بجے تک زائرین کا تانتا بندھا رہا اور قرآن کریم سے عشق و محبت اور دلی شیفتگی اور روحانی تشنگی کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے میں آیا.نمائش کے افتتاح کی خبر ریڈیو پاکستان کے نیوز ریل پروگرام سے اسی روز رات کو نشر ہوئی اور افتتاحی تقریب میں تقاریر کے جستہ جستہ حصے پیش کئے گئے.اسی طرح محکمہ ٹیلیویژن نے اس تقریب کو ریکارڈ کیا اور اپنے شب و روز کے اور نیوز ریل کے پروگرام میں دو مرتبہ دکھایا جس میں مختلف تراجم کو دکھانے کے علاوہ تراجم قرآن کریم کی اہمیت کو دلکش انداز میں پیش کیا.افتتاحی تقریب کے موقعہ پر پریس کے نمائندگان بھی موجود تھے.چنانچہ اگلے روز تمام اخبارات میں نمائش کے افتتاح کی خبر اور فوٹو شائع ہوئے.چونکہ ریڈیو، ٹیلیویژن اور اخبارات میں نمائش کا چرچا اچھی طرح ہوا اس لئے زائرین نمائش کی تعداد ترقی پذیر رہی اور زائرین کی اس قدر کثرت رہی کہ انتظامیہ کو مزید ایک ہفتہ کے لئے وقت بڑھانا پڑا اور لوگوں کا اصرار ابھی بھی اس کو جاری رکھنے کے لئے تھا.۱۶ جون کو صبح کا وقت مستورات کے لئے رکھا گیا تھا جس میں بڑی کثیر تعداد میں عورتیں اور بچیاں دیکھنے کے لئے آئیں.صبح 9 بجے سے ایک بجے تک یہ سلسلہ جاری رہا.چونکہ یہ وقت عورتوں کے لئے ناکافی تھا اس لئے دو دن مزید عورتوں کے لئے رکھے گئے جس میں کثیر تعداد نے اس سے استفادہ کیا.محترمہ صدر صاحبہ لجنہ کراچی اور جنرل سیکرٹری صاحبہ نے بذریعہ دعوتی کارڈ مستورات کو مدعو کیا تھا اور نمائش کی نگرانی اور مستورات کو دکھانے کا کام خود جنرل سیکرٹری صاحبہ اور دیگر کارکنوں نے کیا.۲۰ جون شام کا وقت خاص طور پر پریس کے نمائندگان کے لئے رکھا گیا اور تمام نمائندگان کو ایک کارڈ کے ذریعہ مدعو کیا گیا.چنانچہ کراچی کے تقریباً تمام اخبارات کے نمائندگان تشریف لائے اور

Page 576

تاریخ احمدیت.جلد 24 536 سال 1968ء انہوں نے نمائش کو دیکھا اور اس کے فوٹو لئے.روسی پریس اتاشی ا کا نوچ بھی تشریف لائے اور انہوں نے اپنے تاثرات یوں تحریر کئے :.قرآن مجید کی اس نمائش کو میں بہت پسند کرتا ہوں.جس تنظیم نے اس نمائش کا انتظام کیا ہے وہ انتہائی مخلص مسلمان جماعت ہے.مجھے اس امر سے بھی مسرت ہوئی ہے کہ روسی قرآن کریم کا ترجمہ بھی رکھا گیا ہے.۲۱ جون بروز جمعہ صبح ساڑھے دس بجے مکرم الطاف گوہر صاحب جنرل سیکرٹری وزارتِ اطلاعات و نشریات نمائش کو دیکھنے کے لئے تشریف لائے.آپ کے ہمراہ ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان بھی تھے.کراچی میں آپ کا پروگرام انتہائی مصروف تھا لیکن آپ نے اس کے لئے وقت نکالا.اور تراجم قرآن کو توجہ سے دیکھا اور ان کے متعلق معلومات حاصل کیں.آپ نے نمائش دیکھنے کے بعد ان خیالات کا اظہار فرمایا:.اس نمائش کو دیکھ کر ایک نہایت ہی قیمتی اور پر اثر تجربہ حاصل ہوا ہے.دیگر اہم زائرین کے تاثرات جماعت احمدیہ کراچی کی نمائش تراجم قرآن کریم میں زائرین کی تعداد نصف لاکھ سے زائد تھی.تمام زائرین نے ہی اس نادر نمائش کے انعقاد پر اپنی دلی خوشی اور مسرت کا اظہار فرمایا.اور منتظمین کو مبارکباد پیش کی.ان میں سے ہزاروں افراد نے اپنے دلی تاثرات کا اظہار زبانی اور تحریری طور پر فرمایا.چونکہ زائرین ہر طبقہ خیال کے تھے اس لئے وزیٹر ز بک میں انہوں نے اپنے تاثرات انگریزی، گجراتی ، سندھی، چینی، کورین، پشتو اور اردو میں تحریر کئے.ان تمام کو درج کرنا ممکن نہیں نمونہ صرف چند تاثرات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.تا یہ اندازہ ہو سکے کہ اس نمائش نے زائرین پر کیا اثر قائم کیا.ا.مکرم انعام اللہ خان صاحب جنرل سیکرٹری مؤتمر عالم اسلامی اپنے انڈو نیشین مہمانوں کے ہمراہ تشریف لائے اور تحریر فرمایا:.نہایت عمدہ اور کامیاب کوشش ہے“.۲- مکرم مولوی عبد الکریم صاحب خطیب ترک مسجد نے تراجم کو دیکھ کر تحریر کیا.66 کام بہت نیک اور مبارک ہے.

Page 577

تاریخ احمدیت.جلد 24 537 سال 1968ء مکرم ظفر حسین صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان نے نمائش دیکھنے کے بعد سیماب اکبر آبادی کا قرآن مجید کا منظوم ترجمہ وحی منظوم نمائش کے لئے دیا اور تحریر فرمایا:.قرآن مجید کے تراجم کا ایک بے مثال مجموعہ ہے.اسے دیکھ کر میری روح پر وجد کی حالت طاری ہو گئی.۴.کرنل فقیر وحید الدین صاحب نے نمائش میں گہری دلچسپی کا اظہار فرمایا اور آئندہ کے لئے مفید تجاویز پیش کیں اور تحریر فرمایا:.خدا تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عنایت فرمائے.۵.نائیجیرین ہائی کمشنر نے اپنی طرف سے اپنے پرسنل سیکرٹری الحاج بالوگن کو بھجوایا.انہوں نے افریقی زبانوں کے تراجم میں بہت دلچسپی کا اظہار فرمایا اور نائیجیریا کی زبان یوروبا میں ترجمہ قرآن کو غور سے پڑھا اور تحریر فرمایا :.مجھے اس نمائش میں آکر غیر معمولی فائدہ پہنچا ہے اور آپ لوگوں نے عجیب وغریب کار کردگی کا ثبوت دیا ہے.۶.کراچی کی مشہور شخصیت اور سابق سفیر پاکستان متعینہ انڈونیشیا جناب حاتم علوی صاحب نے تمام تراجم کو دیکھا اور چارٹ پڑھے اور متعدد معلومات حاصل کیں اور اس قدر گہری دلچسپی کا اظہار فرمایا کہ اگلے روز اپنے تمام افراد خانہ کو نمائش دیکھنے کے لئے بھجوایا.آپ نے نمائش کے متعلق اپنے تاثرات یوں تحریر فرمائے :.نمائش تراجم قرآن کریم جس کا انتظام جماعت احمدیہ کی شاخ کراچی نے کیا ہے نے مجھ پر بہت گہرا اثر کیا ہے.جہاں تک پاکستان کے اس اہم شہر کراچی کا تعلق ہے اس میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی کامیاب کوشش ہے جس کے لئے ہم نمائش کے منتظمین کے بہت ممنون ہیں.یہ نمائش قابل دید ہے اور مجھے امید ہے کہ اہالیانِ کراچی کی کثیر تعداد قرآن مجید کے دنیا کی اہم زبانوں میں تراجم کے اثر انگیز مجموعہ کو اس کے مختلف دلکش ایڈیشنوں میں دیکھ کر محظوظ ہوں گئے“.ے.مکرم خان غلام محی الدین خان صاحب آف سردار گڑھ سٹیٹ نے تحریر فرمایا:.اسلام کے متبعین میں سے جماعت احمدیہ نے تمام اکناف عالم میں جو عجیب وغریب کا رنامہ سرانجام دیا ہے اس سے میں انتہائی طور پر متاثر ہوا ہوں“.

Page 578

تاریخ احمدیت.جلد 24 538 سال 1968ء الحاج رئیس احمد اللہ خان صاحب صدر انٹر نیشنل سیرت النبی ﷺ کانفرنس نے آخری روز نمائش کو دیکھ کر تحریر فر مایا: - جماعت احمدیہ کا قرآن پاک اور قرآن پاک کے مختلف زبانوں میں تراجم کا جذبہ و ذوق حد درجہ ضرورت کے مطابق ہے.خدا کا رکنان کو جزائے خیر عنایت فرمائے“.مکرم عبدالحمید صاحب شملوی نے نمائش دیکھ کر نئی روشنی میں ایک ایڈیٹوریل نوٹ لکھا اور فرمایا:.نمائش کا اندرونی ماحول اس قدر روحانیت سے پر اور اثر انگیز تھا کہ انسان پر وجد کی حالت طاری ہو جاتی تھی“.۱۰.رضا حسین صاحب رضوی نائب صدر یونائیٹڈ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے لکھا:.نمائش تراجم قرآن مجید و نسخہ جات قرآنِ حکیم واقعی ایک قابلِ قدر اور مستحسن اقدام ہے جو مذہبی اور علمی معلومات میں بیش بہا اضافہ کا باعث بھی ہے.۱۱.کرار نوری صاحب آف ریڈیو پاکستان.عقائد میں اختلاف سہی لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ احمدی حضرات اپنے عقائد کی روشنی میں بھی ٹھوس کام کر رہے ہیں.ان حضرات میں باہمی ربط و ضبط کے علاوہ اخلاقی رچاؤ بھی بہت خوبصورت ہے.۱۲ کلیم سرور صاحب آف ریڈیو پاکستان کراچی.قرآن حکیم کی نمائش دیکھی اور خوشی اس بات کی ہوئی کہ یہ ایک نیک کام ہے اور اس میں جو نادر نمونے جمع کئے گئے ہیں وہ بہت اچھے ہیں.خاص طور پر قلمی نسخے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی“.۱۳.جناب آزادا کبر آبادی.جماعت احمدیہ کے دفتر والوں نے اس نمائش کا انتظام کر کے پیاسی روحوں پر اور تشنہ نگاہوں پر احسانِ عظیم فرمایا ہے.خصوصاً مجھ جیسا رند خراباتی بے حد متاثر ہوا ہے اور خداوند عالم کے کلام پاک کی تفسیر و آیات به هر انداز نگاہ و قلب کے لئے طمانیت کا باعث ہوئی ہیں.خداوند عالم اپنے حبیب کے صدقے میں ان حضرات کی کوششوں میں لا زوال اضافہ عطا کرے.آمین.۱۴.انعام اللہ صاحب صدیقی بوہرہ پیر کراچی.

Page 579

تاریخ احمدیت.جلد 24 539 سال 1968ء میں آپ لوگوں کو اس مبارک کتاب کی خدمت کرنے پر داد تحسین دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو مزید قرآن پاک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا کرے.آجکل ہماری قوم اشتراکیت کی طرف مائل ہو رہی ہے اگر ہمارے علماء اس کو عوام تک پہنچانے میں صحیح معنوں میں کامیاب ہو جائیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قوم کے نوجوان اشتراکیت کی طرف جھکنے کے بجائے اسلام کی طرف مائل ہو جائیں گئے“.۱۵ اعجاز ملک صاحب ایڈیٹر ” پنکو ما“ کراچی.” خدا کی قسم میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں جن سے میں جماعت احمدیہ کی اس بیش بہا جد وجہد کی تعریف کر سکوں.صرف یہی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت دنیا میں اگر کوئی صحیح مذہبی جماعت اسلام کی خدمت کر رہی ہے وہ یہی جماعت ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کا راکھی ہو جس نے یہ قابلِ تحسین نمائش منعقد کی ہے“.اخبارات کی آراء تراجم قرآن کریم کی اس مثالی نمائش کا کراچی پریس میں خوب چرچا ہوا.اس سلسلہ میں چند اخبارات کی آراء سپر دقر طاس کی جاتی ہیں:.ا.روزنامہ نئی روشنی کراچی اپنی ۱۹ جون ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں اپنے اداریہ زیارتِ فرقان“ اور ” قرآن کا پیغام گھر گھر گوشہ گوشتہ پہنچا دو میں لکھتا ہے:.مستحق مبارکباد ہیں وہ تمام مسلمان اور ادارے جو جشنِ نزولِ قرآن کے سلسلہ میں متحرک اور باعمل منصوبوں پر عامل ہیں.چودہ سو سالہ جشنِ نزول قرآن کے سلسلہ میں ایک اور کام کی بات اس ”پاکیزہ نمائش کا انعقاد ہے جو جناب علامہ احمد مختار صاحب امیر کی توجہ، اور مرزا عبدالرحیم بیگ ایڈووکیٹ ، علامہ اجمل شاہد ایم.اے اور چوہدری ظفر اللہ خاں جیسے احباب کے جوشِ تعاون سے ۱۵ جون کو کراچی میں منعقد ہوئی اور جس کا افتتاح ڈاکٹر ممتاز حسن ستارہ پاکستان جیسے فاضل نے کیا.اس نمائش میں جسے ” زیارت فرقان کا مقدس اجتماع کہنا چاہیئے انگریزی، ہندی، گورکھی ، جرمنی، ولندیزی، فرانسیسی ، انڈونیشی فلیپینی، جاپانی، ترکی، ہسپانوی، سواحیلی ، روسی زبانوں میں مترجم نسخہ جات وزیر ترتیب و تدوین نسخہ جات کے علاوہ تفسیر محمودی تفسیر و ترجمہ ولی اللہی ، عصر حاضرہ کی سائنسی ایجادات ومعلومات کے بارہ میں دس قرآنی پیشگوئیاں وارشادات،شہنشاہ ایران کی جانب سے

Page 580

تاریخ احمدیت.جلد 24 540 سال 1968ء مطبوعہ نسخہ قرآن پاک اور احمد یہ مشن تبلیغ القرآن کی بصیرت افروز متر جمہ مساعی اور اقوام عالم میں تعلیمات قرآنی کی روشناسی کے مختلف اسلوب ونسخہ جات، بعض قلمی نوادرات قرآنی، کتبات، طغرے، حرم نبوی و کعبتہ اللہ کے عکس منور بھی اس طرح پیش کئے گئے تھے کہ ۱۴ سو برس قبل نزولِ قرآن کی جلالت و عظمت کا منظر آنکھوں میں پھر جاتا تھا“.۲.روزنامہ مشرق کراچی اپنی ۱۷ جون ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں رقمطراز ہے:.پاکستان کے ممتاز دانشور جناب ممتاز حسن نے کہا ہے کہ قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں زیادہ سے زیادہ ترجمے کئے جائیں تا کہ بیرونی دنیا کے لوگ قرآن حکیم سے استفادہ کریں اور اسلام صحیح صورت میں ان تک پہنچ سکے.انہوں نے کہا اس طرح بین الاقوامی سطح پر قرآن کی تفہیم کی راہ ہموار ہو جائے گی.وہ آج شام چودہ سو سالہ جشنِ نزول قرآن کریم کے سلسلے میں احمد یہ دارالمطالعہ بندر روڈ پر تراجم قرآن کریم کی نمائش کا افتتاح کر رہے تھے.جناب ممتاز حسن نے کہا اُن تراجم کی نمائش بھی ضروری ہے جو غیر مذاہب کے عالموں نے کئے ہیں.تا کہ صحیح تراجم کے تقابلی مطالعہ کے بعد ان غلطیوں کی نشاندہی کی جاسکے جن کی وجہ سے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں.قبل ازیں تراجم قرآن کی نمائش کرنے والی تنظیمی کمیٹی کے چیئر مین جناب احمد مختار نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ اس نمائش کا مقصد لوگوں کو قرآن کی عظمت صلى الله سے آگاہ کرنا ہے.انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کا یہ آخری پیغام جو نبی آخر الزمان ﷺ کے توسط سے پہنچا، نسلِ انسانی کی تمام روحانی بیماریوں کا علاج اور تزکیہ و تصفیہ نفس اور اخلاق فاضلہ کے حقائق کا سچا بیان ہے..روز نامہ ”جنگ“ کراچی نے اپنی ۷ اجون کی اشاعت میں فوٹو کے ساتھ نمائش کے افتتاح کی حسب ذیل خبر شائع کی:.مسٹر ممتاز حسن نے کہا کہ قرآن پاک صداقت اور ہدایت کا سرچشمہ ہے.اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسے صحیح متن اور بلا کم و کاست ترجمہ کے ساتھ ساری دنیا میں پہنچادیں.وہ آج شام یہاں ۱۴ سو سالہ جشن نزول قرآن کے سلسلہ میں مقامی جماعت احمدیہ کے زیر اہتمام قرآن پاک کے ترجموں کی ایک نمائش کا افتتاح کر رہے تھے.انہوں نے کہا قرآن پڑھی جانے والی کتاب کو کہتے ہیں اس لئے ہمیں چاہیئے کہ اسے پڑھیں.اسے بالائے طاق رکھنا کلام پاک کے ساتھ سب سے بڑی

Page 581

تاریخ احمدیت.جلد 24 541 سال 1968ء ناانصافی ہے.قبل ازیں چیئر مین تنظیمی کمیٹی تراجم قرآن کریم مسٹر احمد مختار نے اپنی تقریر میں بتایا کہ یورپ اور اقوام عالم کو قرآن کریم سے روشناس کرانے کے لئے جماعت احمدیہ کے سربراہ نے تراجم کا جامع منصوبہ بنایا جس کے مطابق انگریزی، جرمن، ڈچ، ڈینش، سواحیلی ، یوروبا، یوگنڈی، ہندی ، گور لکھی اور اردو میں ترجمے ہو چکے ہیں.فرانسیسی ترجمہ پریس میں ہے.اسپینی، ملائی، پرتگیزی ، اطالوی، پولش ، روسی ، انڈونیشی فیٹی، چینی اور آسامی زبانوں میں ترجمے قریب قریب مکمل ہو چکے ہیں“.انگریزی روزنامہ ڈان کراچی نے اپنی ۷ اجون کی اشاعت میں لکھا:.برصغیر پاک و ہند میں قرآن کریم کا پہلا ترجمہ دوسری صدی ہجری میں سابق صوبہ سندھ کے ہندو راجہ کے ایماء پر کیا گیا تھا کیونکہ وہ قرآنی تعلیمات سے روشناس ہونا چاہتا تھا.یہ بات کل مکرم ممتاز حسن صاحب سابق مینجنگ ڈائریکٹر نیشنل بنک پاکستان نے فرمائی.وہ دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کریم کی نمائش کا افتتاح احمد یہ دارالمطالعہ بندر روڈ پر کر رہے تھے.مکرم ممتاز حسن صاحب نے منتظمین کی عمدہ اور دلکش نمائش کے انعقاد کیلئے بہت تعریف فرمائی.آپ نے مزید فرمایا کہ جو لوگ قرآن کریم اور اسلام کی اشاعت اور تبلیغ کے نیک کام میں مصروف ہیں وہ انتہائی تعریف کے مستحق ہیں.اس سے قبل چوہدری احمد مختار صاحب چیئر مین انتظامیہ کمیٹی نے اپنے استقبالیہ خطاب میں مختصر طور پر اس نمائش کے انعقاد کے مقصد اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی.افتتاحی تقریب کے بعد مکرم ممتاز حسن صاحب اور دیگر متعدد مہمانوں نے دنیا کی متعدد زبانوں میں تراجم کو جو بہت ہی عمدہ طور پر لائبریری کے کمرہ میں شیلف کے اوپر سجائے گئے زیارت فرمائی.حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے ارشادات بابت نمائش سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے نمائش تراجم قرآن میں نہایت گہری دلچسپی کا اظہار فرمایا اور اس کی کامیابی اور بابرکت ہونے کے لئے جناب الہی میں بہت دعا کی.چنانچہ حضور نے ۶ اور ۸ جون کے خطوط کے جواب میں نمائش کے پروگرام کے متعلق تحریر فرمایا:.(1) اللہ تعالی با برکت کرئے“.(۲) اللہ تعالیٰ آپ کو اور جملہ احباب جماعت کو زیادہ سے زیادہ خدمت سلسلہ کی توفیق دے.اور نمائش کی تقریب ہر لحاظ سے بابرکت کرئے.

Page 582

تاریخ احمدیت.جلد 24 542 سال 1968ء (۳) ۲۴ را حسان کو نمائش کی رپورٹ کے متعلق فرمایا:.الحمد للہ.جزاکم اللہ تعالیٰ.اللہ تعالیٰ آپ سب کو ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.بیش از بیش خدمت دین کی توفیق دے اور نمائش تراجم قرآن مجید کے بہترین نتائج پیدا فرمائے“.(۴) ۳۰ راحسان کے خط کی رپورٹ کے متعلق فرمایا:.فرمائی."الحمد للہ.جزاکم اللہ احسن الجزاء.گجراتی لٹریچر تیار کرنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت ڈالے اس نمائش کے بہترین نتائج ظاہر فرمائے آمین.چنانچہ یہ حضور کی دعاؤں ہی کا اثر تھا کہ خدا تعالیٰ نے نمائش میں غیر معمولی کامیابی اور برکت عطا 66 فرانسیسی پروفیسر کا لیکچر کراچی وسط ۱۹۶۸ء میں عربی زبان کے مشہور فرانسیسی پروفیسر اور مستشرق ونسینٹ مونٹیل ( VINCENT MONTEIL) نے کراچی یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس آڈیٹوریم میں اسلام اور جدید دنیا کے موضوع پر فاضلانہ لیکچر دیا.پروفیسر موٹیل نے بتایا کہ میں دنیا کے تقریباً ہر اسلامی ملک میں گھوم پھر چکا ہوں اور میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی وہاں کے مسلمان باشندوں سے ضرور ملتا ہوں یہاں تک کہ جاپان، برازیل اور ارجنٹائن کے مسلمانوں سے بھی ملا ہوں.جاپان میں ٹوکیو اور کوبے میں کافی مسلمان موجود ہیں.میں سنگا پور اور ملائیشیا بھی گیا ہوں.پروفیسر ونسینٹ مونٹیل نے اپنے لیکچر میں اسلام کے کئی ایک فرقوں کا تذکرہ بھی کیا.آپ نے جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام میں احمدیہ جماعت ایک کافی بڑی جماعت ہے جو اس وقت دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پھیل رہی ہے.اس جماعت کی بنیا د مرزا غلام احمد صاحب (علیہ السلام) نے رکھی تھی.ان کا انتقال ۱۹۰۸ء میں ہوا.ان کے بعد اس جماعت میں خلافت قائم ہوئی.یوں تو اس جماعت کی شاخیں ساری دنیا میں قائم ہیں لیکن افریقہ میں جماعت احمدیہ کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے.سیرالیون کی حکومت کی کابینہ میں ( مختلف اوقات میں ) تین احمدی وزیر ر ہے ہیں.اس موقعہ پر پروفیسر موصوف نے توضیح کی کہ منسٹر سے میری مراد منسٹر آف فیتھ یا مبلغ سے نہیں بلکہ ویٹیکل وزیر مراد ہے ).

Page 583

تاریخ احمدیت.جلد 24 543 سال 1968ء پروفیسر ونسینٹ موٹیل نے مسلمانوں کے متعدد فرقوں پر تبصرہ کیا لیکن سنی ، نقشبندی ، اسماعیلی اور جماعت احمد ی کا ذکر تفصیل سے کیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مری میں ورود مسعود 68 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کچھ دن کے لئے مری کے لئے ربوہ سے مورخہ ۱۰ جون ۱۹۶۸ء کو روانہ ہوئے.حضور انور نے اس عرصہ کے لئے ربوہ میں حضرت مرز ا عزیز احمد صاحب کو امیر مقامی اور محترم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری کو امام الصلوۃ مقررفرمایا.حضور انور جون کو ساڑھے سات بجے صبح جہلم میں کچھ دیر قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر ساڑھے نو بجے اسلام آباد پہنچے جہاں شاہراہ کشمیر پر لطیف چیمبرز میں راولپنڈی ،اسلام آباد اور نواحی جماعتوں کے بہت سے احباب نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے یہاں نصف گھنٹہ قیام کیا اور احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا.اس موقع پر حضورا نور کی زیارت اور حضرت بیگم صاحبہ کی ملاقات کے لئے مستورات بھی کثیر تعداد میں جمع تھیں.حضور نے روانگی سے قبل اجتماعی دعا کروائی اور وہاں سے روانہ ہوکر ساڑھے گیارہ بجے قبل دو پہر مری پہنچے.حضور دیگر مصروفیات کے علاوہ روزانہ نمازوں کے لئے باہر تشریف لاتے اور احباب کو ملاقات کا شرف بخشتے رہے.۱۴ جون کو حضور انور نے مسجد احمد یہ کلڈ نہ میں نماز جمعہ پڑھائی اور ایک روح پرور خطبہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا انسان کی فلاح اور خوشحال زندگی کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کو جاننا اور ان کی صحیح معرفت حاصل کرنا ضروری ہے.حضور نے سورہ فاتحہ میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کی چار امہات الصفات میں سے ربوبیت اور مالکیت یوم الدین کی صفات کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے مورخہ ۲۱ جون ۱۹۶۸ء مسجد احمد یہ مری میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.جس میں مری اور اس کے گردو نواح کے احباب کے علاوہ راولپنڈی سے بھی بہت سے دوستوں نے مری پہنچ کر حضور کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کی.خطبہ جمعہ میں حضور نے سورہ فاتحہ کی لطیف تفسیر 69 بیان فرمائی.ایڈیٹر ہفت روزہ اخبار دی لائٹ“ کی حضور انور سے ملاقات غیر مبایعین کے ہفت روزہ انگریزی اخبار دی لائٹ کے ایڈیٹر محترم مولانا محمد یعقوب خاں

Page 584

تاریخ احمدیت.جلد 24 544 سال 1968ء صاحب نے ۲۵ جون ۱۹۶۸ء کو ایبٹ آباد سے بذریعہ موٹر کار مری پہنچ کر حضور انور سے ملاقات کا خصوصی شرف حاصل کیا.اس ملاقات کے متعلق آپ نے اپنے قلبی تاثرات لکھوانے اور ان پر اپنے قلم 70 سے دستخط فرمانے کے بعد بغرض اشاعت الفضل کو ارسال فرمائے جو اگلے صفحات پر درج ہیں.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مورخہ ۲۸ جون ۱۹۶۸ء بمقام مسجد احمد یہ مری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں حضور انور نے اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا تذکرہ فرمایا.نیز حضور انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات سے فیوض حاصل کرنا اور اللہ تعالیٰ سے قرب کا تعلق پیدا کرنا ضروری ہے.حضور انور نے مورخہ یکم جولائی ۱۹۶۸ء کو چھ بجے شام اپنی قیام گاہ پر مجلس عاملہ جماعت احمد یہ راولپنڈی کے اراکین سے خطاب فرمایا.حضور نے مختلف امور کا جائزہ لینے کے بعد نہایت بیش قیمت اور اہم نصائح فرمائیں اور آخر میں اجتماعی دعا کروائی.حضور نے اپنے خطاب سے قبل ایک نکاح کا اعلان بھی فرمایا.مورخہ ۲ جولائی کو حضور انور کچھ دیر کے لئے مری کے مضافات میں سیر کے لئے تشریف لے گئے اور اسی روز شام چھ بجے حضور نے باہر سے تشریف لانے کے بعد دوستوں کو ملاقات کا شرف بخشا اور کافی دیران کے درمیان تشریف فرمار ہے.پھر حضور نے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.حضور انور کی ربوہ کے لیے واپسی حضور انور مورخہ ۳ جولائی ۱۹۶۸ء کو رات ساڑھے نو بجے مری سے بخیر و عافیت ربوہ تشریف لے آئے.حضور انور مری سے مورخہ ۲ جولائی کو چھ بجے روانہ ہوئے تھے.وہاں سے روانہ ہو کر حضور صبح ۷ بجے مسجد نور راولپنڈی میں تشریف لائے.جہاں پر راولپنڈی ،اسلام آباد اور مضافات کے احباب کثرت سے آئے ہوئے تھے.حضور نے جملہ حاضر ا حباب کو مصافحہ اور ملاقات کا شرف بخشا.مستورات بھی خاصی تعداد میں آئی ہوئی تھیں.وہ حضور انور کی زیارت اور حضرت بیگم صاحبہ کی ملاقات سے مشرف ہوئیں.راولپنڈی سے روانگی سے قبل حضور نے اجتماعی دعا کرائی.ساڑھے نو بجے صبح حضور راولپنڈی سے روانہ ہو کر بارہ بجے دوپہر چواسیدن شاہ تشریف لائے.وہاں حضور نے ریسٹ ہاؤس میں چند گھنٹے قیام فرمایا.وہاں سے حضور ۵ بجے شام روانہ ہو کر رات ساڑھے نو بجے ربوہ تشریف لائے.

Page 585

تاریخ احمدیت.جلد 24 545 سال 1968ء مولا نا محمد یعقوب خاں صاحب کے قلبی تاثرات جیسا کہ پچھلے صفحات پر ذکر آچکا ہے کہ ماہ جون ۱۹۶۸ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث بنگلہ بھور بن قرب مری میں قیام فرما تھے تو غیر مبایعین کے ہفت روزہ انگریزی اخبار (The Light) کے ایڈیٹر محترم مولانا محمد یعقوب خاں صاحب نے ۲۵ جون ۱۹۶۸ء کو ایبٹ آباد سے بذریعہ موٹر کارمری پہنچ کر حضور سے ملاقات کا خصوصی شرف حاصل کیا.اس ملاقات کے قلبی تاثرات آپ نے ”بھوربن میں ایک روح پرور نظارہ “ کے عنوان سے بایں الفاظ رقم فرمائے :.ایک عزیز کی تحریک پر جو جماعت احمد یہ ربوہ سے تعلق رکھتے ہیں میں نے جماعت احمد یہ ربوہ کے امام سے مستفید ہونے کا ارادہ کیا.چنانچہ ایک دن چل پڑا.بھور بن مری کے مضافات میں ایک جگہ ہے معلوم ہوا کہ حضرت صاحب وہاں کے ریسٹ ہاؤس میں مقیم ہیں.چنانچہ ہم راستہ دریافت کرتے کرتے سیدھے وہاں پہنچے.جب حضرت صاحب کو علم ہوا تو وہ اپنی قیام گاہ سے نکل آئے.میں نے انہیں آتے ہوئے دیکھا تو میرا احساس یہ ہوا ان کے نورانی چہرے کو دیکھ کر کہ گویا افق سے روحانیت کا چاند طلوع ہوا ہے اور اسی وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ میں جماعت احمد یہ ربوہ کے دوستوں کو مبارکباد دوں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا بلند پایہ امام دیا ہے.چنانچہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے مجھے اس سے بہتر ذریعہ نہیں نظر آیا کہ الفضل کے کالموں کا رہین منت ہو جاؤں اس لئے یہ چند سطور بغرض اشاعت لکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ احمدیت کا درخت ابھی پھل دے رہا ہے اور ایسی ہستیاں پیدا کرتا ہے کہ جن کو ایک نظر دیکھ کر ہی انسان کا دل نور ایمان سے پُر ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولا د سے بہت توقعات وابستہ کی ہیں کہ سلسلہ کے فروغ و ترقی میں ان کو بہت دخل ہوگا.حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب یقیناً ان توقعات کو پورا کرنے والے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے عہد خلافت میں احمد یہ تحریک کو بہت عروج حاصل ہوگا.موجودہ دور کے انسان کو ایک زندہ خدا کی تلاش ہے اور حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے محض چہرے پر ایک نظر ڈالنے سے انسان محسوس کرتا ہے کہ زندہ خدا موجود ہے.ان چند سطور کے پیچھے میرا جذبہ یہ ہے کہ میں جماعت احمدیہ کو مبارکباد دوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ان کو ایسا لیڈر عطا کیا ہے جس کی شخصیت ہر قسم کے تصنع سے بالا تر ہے.میں نے

Page 586

تاریخ احمدیت.جلد 24 546 سال 1968ء بہت سے مذہبی پیشوا د یکھے ہیں جو ہفتے کے سات دنوں میں سے چھ دن اپنے جبہ و دستار اور ریش کے میک اپ پر صرف کرتے ہیں یہاں میں نے اس کے الٹ سادگی دیکھی جو حقیقی روحانیت کی روح ہے.بناوٹ اور میک اپ کہیں کوسوں بھی ان کے نزدیک نہیں گئی اور اس لئے ان کو محض دیکھنا ہی انسان کے اندر نور ایمان پیدا کرتا ہے.حضرت صاحب نے مجھے بتایا کہ یورپ کے دورے میں لوگوں نے ان سے کیا کیا سوالات کئے اور انہوں نے کیا کیا جوابات دیئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ ان کے دورے کی کامیابی کا راز ان کی اپنی شخصیت میں تھا.یورپ کے لوگ بڑے قیافہ شناس بھی ہیں جس چہرے پر اتنی طمانیت برس رہی ہو اور اس قدر تقدس ہو جو میں نے حضرت صاحب کے چہرے پر دیکھا اس سے زیادہ مؤثر تبلیغ یورپ میں اور کوئی نہیں ہو سکتی.غیر مبایعین کی تنقید کا جواب ان قلبی تاثرات کی اشاعت پر اخبار ”پیغام صلح لا ہور نے مولا نا صاحب محترم اور جماعت مبائعین کے خلاف متعدد مضامین لکھے.جن کے جواب میں آپ نے ۵ ستمبر ۱۹۶۸ء کوایڈیٹر افضل کے نام حسب ذیل مکتوب سپر د قلم فرمایا:.0/9/71" مکرم محترم جناب ایڈیٹر صاحب الفضل آپ کے موقر جریدہ میں میرا جو بیان شائع ہوا تھا جس میں میں نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے ملاقات کے متعلق اپنے تاثرات قلمبند کئے تھے اس سے جماعت لاہور کے حلقوں میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑ گئی اور چاروں طرف سے مجھ پر دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ میں اس کی وضاحت کروں.لفظ تو وضاحت استعمال کیا جاتا ہے مگر منشاء یہ ہے کہ اس کی تردید کروں.بعض دوستوں نے اپنی طرف سے مجھے ایک معقول تو جیہ بھی لکھ بھیجی ہے اور وہ یہ کہ مجھ سے وہ بیان بعض احباب نے دباؤ ڈال کر یا اثر ڈال کر لکھوایا ہے.اس مطالبہ کی تعمیل میں یہ بیان ارسال خدمت ہے.پیغام صلح میں اس واسطے نہیں بھیجتا کہ مجھے اندیشہ ہے وہ لوگ اس وضاحتی بیان کو بھی توڑ مروڑ کر شائع نہ کر دیں.والسلام خاکسار محمد یعقوب خاں میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جو بیان میں نے لکھا تھا بلکہ لکھوایا تھا اس میں کسی بیرونی اثر یا دباؤ کا قطعا دخل نہ تھا اور خود میرا تاثر یہ تھا کہ تصرف الہی نے وہ بیان مجھ سے لکھوایا تھا.

Page 587

تاریخ احمدیت.جلد 24 547 سال 1968ء ایک آواز لا ہوری حلقوں سے یہ بھی اٹھی ہے کہ مجھے ملازمت سے علیحدہ کر دیا جائے.اس کے متعلق میں صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے علیحدہ بھی کر دیا جائے تو بھی میرے دلی تاثر کو نہیں مٹایا جا سکتا جو میرے قلب پر نقش ہے.عقائد کے متعلق حضرت صاحب سے میری کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور نہ انہوں نے اس بحث کو چھیڑا.میرے عقائد وہی ہیں جو تھے البتہ ایک اضافہ اس میں یہ ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہر ایک آیت اللہ کی حیثیت رکھتا ہے اور برکات سماوی جو حضرت صاحب لے کر آئے تھے آپ کی اولاد کو بھی ورثہ میں ملی ہیں.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے نورانی اور پُرسکون چہرہ کی بھی محض یہ وجہ ہے کہ وہ حضرت صاحب کی نسل سے ہیں اور حضرت صاحب کی دعا اپنی اولاد کے حق میں کہ با برگ و بارہوویں مولی کے یار ہوویں حرف بہ حرف پوری ہوئی ہے.ایک مرکب روحانی نسخہ والسلام خاکسار محمد یعقوب خاں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۱ جون ۱۹۶۸ء کو روحانی امراض کے لئے ایک تیر بہدف روحانی نسخہ بیان فرمایا جس کی تفصیل مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل جالندھری نائب ناظر اصلاح و ارشاد کے الفاظ میں درج کی جاتی ہے:.مجھے ۱۶ سے ۲۲ جون ۱۹۶۸ء تک بعض ضروری کاموں کے سلسلہ میں مظفر آبا داور مری جانے کا اتفاق ہوا.۲۱ جون کی نماز جمعہ مسجد احمدیہ مری میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اقتداء میں ادا کی.حضور نماز سے فارغ ہو کر زمرہ احباب میں کچھ دیر کیلئے تشریف فرما رہے.ایک نوجوان عزیز نے اپنی بیماری کیلئے حضور سے دوا پوچھی.حضور نے اس سلسلہ میں روحانی امراض کیلئے ایک مرکب نسخہ بھی بیان فرمایا.حضور نے فرمایا:.انسان کو چاہیئے کہ بکثرت استغفار کرے.اس سے نفس کی اندرونی بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کی سپر بن جاتا ہے کیونکہ مومن استغفار کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آجاتا ہے.بیرونی حملوں کیلئے مومن کو لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ العلى العظيم بكثرت

Page 588

تاریخ احمدیت.جلد 24 548 سال 1968ء پڑھنا چاہیئے.اس میں یہ اقرار ہے کہ دشمنوں کے شر سے بچنے اور شیطانی مکروں کا مقابلہ کرنے کی مجھے میں طاقت نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب کچھ ہو سکتا ہے وہی شیطان کے مقابلہ میں طاقت بخشتا ہے اور مومن کو اس کے شر سے محفوظ رکھتا ہے.حضور نے فرمایا کہ جو لوگ استغفار اور لاحول کو توجہ سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اندرونی روحانی بیماریوں سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور شیطان اور دشمنوں کے شر سے بھی بچائے جاتے ہیں.یہ گویا ایک مرکب روحانی نسخہ ہے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ایک یاد گار تحریر ماڈل ٹاؤن لاہور کی معروف احمد یہ مسجد بیت النور کے سنگ بنیاد کے لئے مکرم عطاءالرحمن صاحب چغتائی جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ ماڈل ٹاؤن لاہور نے ۲۶/۶/۱۹۶۸ کو حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی خدمت میں بنیادی اینٹ کو دعا کیلئے پیش کیا.حضرت سیدہ صاحبہ نے دعا کے بعد اینٹ عطا فرما دی اور ان کی درخواست پر حسب ذیل تاریخی فقرات تحریر فرمائے:.درد دل سے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اس مسجد کو بھی مبارک فرمائے اور ہماری مساجد ایمان کامل اور محبت الہی سے معمور سجدوں سے ہمیشہ آبادر ہیں.اور خدائے کریم ہمارے دلوں اور گھروں میں نیکی تقویٰ کے بیج اپنے دست کرم سے ڈال دے اور ہم سب ہماری اولادیں نسلیں ہمیشہ کیلئے سچی احمدیت حقیقی اسلام کے نیک نمونے بنے رہیں.آمین.مبارکہ میرے مولا ہمارے دل تیرے عشق سے بھرے رہیں.ہمارے سر تیرے در پر جھکے رہیں آمین مبارکہ ثم آمین.نوٹ :.یہ وہی تاریخی مسجد ہے جہاں ۲۸ مئی ۲۰۱۰ کو ۲۷ احمدیوں نے جان کی قربانی پیش کر کے ہمیشہ کیلئے اسے یاد گار بنا دیا ہے.فضل عمر تعلیم القرآن کلاس مورخہ یکم جولائی ۱۹۶۸ء کو مسجد مبارک ربوہ میں صبح ے بجے فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کا افتتاح عمل میں آیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ارشاد کی تعمیل میں کلاس کا افتتاح محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے اجتماعی دعا سے کیا.اس کلاس میں مغربی پاکستان کے مختلف اضلاع سے آئے ہوئے ساڑھے چار صد سے زائد طلباء اور طالبات نے شرکت کی اور یہ کلاس ایک ماہ تک جاری رہی.

Page 589

تاریخ احمدیت.جلد 24 549 سال 1968ء حضور انور کا پُر معارف خطاب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ے جولائی ۱۹۶۸ء کو مسجد مبارک میں نماز مغرب سے قبل فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کے طلباء سے پُر معارف خطاب فرمایا جس میں حضور نے طلباء کو نصیحت فرمائی کہ اگر آپ روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر کے قرب الہی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ قرآن مجید کی اسی تفسیر سے اور ان قرآنی علوم سے استفادہ کریں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں ملے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض برابر جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان فیوض پر بند باندھ کر ان کی نہریں جاری کر دی ہیں اور پہلے جہاں جہاں یہ فیوض نہیں پہنچ رہے تھے وہاں بھی انہیں پہنچانے کا سامان کر دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بے پایاں فیوض کے نتیجہ میں جو قر آنی علوم ہمیں عطا کئے ہیں وہ ختم ہونے والے نہیں ہیں.وہ علوم اور ان کی زندہ تاثیرات ہمیشہ ہمیش چلتی چلی جائیں گی اور ہر زمانہ میں دنیا ان سے فیض یاب ہوتی چلی جائے گی.مثال کے طور پر حضور نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پُر معارف تحریرات اور ارشادات کی روشنی میں قرآن مجید کی آیت اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَام کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی اور بتایا کہ اس دعوی کے ثبوت میں کہ اسلام کی روحانی تاثیرات اور انوار و برکات جاری وساری ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے وجود کو پیش کیا اور تمام دوسرے مذاہب کو نشان نمائی میں مقابلہ کی دعوت دی.یہ دعوت مقابلہ حضور علیہ السلام کے خلفاء کی طرف سے آپ کے وصال کے بعد بھی جاری رہی اور جاری ہے.حضور نے فرمایا اسلام کی روحانی تاثیرات اور انوار و برکات دکھانے کے لئے میں کھڑا ہوں.دوسرے مذاہب کا کوئی پیر و مقابل پر آکر دیکھ لے.حضور نے اسی ضمن میں انگلستان کے لاٹ پادریوں کو مقابلہ کی حالیہ دعوت اور ان کی طرف سے عجز کے اظہار نیز متعد دوسرے تازہ بتازہ نہایت ہی ایمان افروز نشانوں کا ذکر فر مایا.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے فضل عمر تعلیم القرآن کے طلباء سے اس مندرجہ بالا خطاب کے علاوہ مورخہ ۲۲،۱۵،۱۱،۹ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ تواریخ کو مسجد مبارک میں بعد از نماز مغرب خطاب فرمایا جس میں حضور انور نے طلباء کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں اور اسی طرح قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ کی تفاسیر بھی بیان فرمائیں.

Page 590

تاریخ احمدیت.جلد 24 550 سال 1968ء فضل عمر تعلیم القرآن کلاس کی اختتامی تقریب 78.یہ کلاس ایک ماہ تک جاری رہنے کے بعد بہت کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ مورخہ ۳۰ جولائی ۱۹۶۸ء کو اختتام پذیر ہوئی.اس کلاس کی اختتامی تقریب 4 بجے شام دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے لان میں منعقد ہوئی.کلاس کے طلباء، اساتذہ اور بعض دیگر احباب کے علاوہ از راہ شفقت سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بھی شرکت فرمائی.سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے کلاس کے امتحانات نیز تقریری مقابلہ جات میں اول ، دوم اور سوم آنے والے طلباء میں اپنے دستِ مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.پھر حضور انور نے طلباء سے خطاب فرماتے ہوئے انہیں قرآنی نور سے حصہ لینے اور قرآنی ہدایت پر بہ دل و جان عمل پیرا ہونے کی تلقین فرمائی.حضور نے انہیں باور کروایا کہ ہم قرآن کریم کا علم اس لئے حاصل نہیں کرتے کہ ہمیں کچھ علم حاصل ہو جائے بلکہ ہمیں قرآنی نور سے حصہ ملے.ہمارے لئے عمل کی راہیں روشن ہو جائیں.اور اس طرح قرآنی ہدایات پر عمل پیرا ہونا آسان ہو جائے.حقیقی فلاح وہی پاتا ہے جو قرآنی نور سے حصہ لیتا ہے اور دلی تڑپ پورے جوش اور ذوق و شوق کے ساتھ قرآنی ہدایات پر عمل پیرا رہتا ہے.حضور نے انہیں نصیحت فرمائی کہ وہ محض قرآن کا علم ہی حاصل نہ کریں بلکہ قرآنی نور سے حصہ لینے اور قرآنی ہدایات پر دل و جان کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں.اس بصیرت افروز خطاب کے بعد حضور نے ایک دفعہ پھر دُعا کرائی اور اس طرح یہ با برکت کلاس اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں پر اختتام پذیر ہوئی.(حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور آپ کے رفقائے کار کو خراج تحسین نگر پارکر ضلع تھر پارکر میں ایک دور افتادہ مقام ہے جو تھر کے صحرا کے پر لے کنارے پر واقع ہے.وہاں پہنچنا خاصہ جان جوکھوں کا کام تھا اس علاقہ میں سب سے پہلے ۱۹۶۳ء میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی مشن ایک آنریری معلم مکرم سعید احمد صاحب ڈسپنسر کے ذریعے قائم کیا گیا جن کو صرف اخراجات سفر ادا کئے گئے اور سخت نا مساعد حالات میں انہوں نے وہاں بڑی ہمت سے خود روزی کما کے تبلیغ اسلام کے فرائض سرانجام دیئے.یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہندو آبادی غالب اکثریت میں ہے.یہاں تک کہ اکثر دیہات میں

Page 591

تاریخ احمدیت.جلد 24 551 سال 1968ء مسلمان نام کو بھی نہیں ملتا.مکرم سعید احمد صاحب کی تبلیغ کے نتیجہ میں دو تین سال کے اندر وہاں تین چار ہندوؤں نے اسلام قبول کر لیا.بعد ازاں مکرم سعید احمد صاحب کے چلے جانے پر کچھ عرصہ تک اس علاقے سے تبلیغی تعلق ٹوٹ گیا.البتہ نو مسلموں سے بذریعہ خط و کتابت کبھی کبھار رابطہ رکھا جاتا رہا.پھر وہاں پر وقف جدید کا ایک با قاعدہ مشن ۱۹۶۶ء میں قائم کیا گیا اور اس تمام عرصہ میں یہ تمام نو مسلم خدا تعالیٰ کے فضل سے باوجود مخالفت کے ایمان پر قائم تھے.یہاں تک کہ پھولپورہ میں جو اچھوت قوم کا ایک گاؤں تھا ایک نو مسلم دوست کے ساتھ ایسا نفرت کا سلوک کیا گیا کہ اس کا مکان گاؤں سے باہر لگ کروا دیا تا کہ گاؤں کی دوسری آبادی بزعم خود اس نو مسلم کے وجود سے نجس نہ ہو جائے.بہر حال جب یہاں با قاعدہ مشن کے ذریعہ از سر نو کام شروع کیا گیا تو گوابتدائی دو تین سال تک سخت مشکلات در پیش رہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر ان لوگوں کے دل ایسے بدلے کہ اسی گاؤں پھولپورہ میں جہاں صرف ایک نو مسلم سالہا سال تک اپنی برادری سے منقطع زندگی بسر کرتا رہا.اب صرف چند ایک ہندو گھرانے باقی رہ گئے ہیں بقیہ تمام گاؤں خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمان ہو چکا ہے اور وہ لوگ جو پہلے مسلمانوں کو نجس سمجھ کر اُن کے ساتھ کھانا پینا پسند نہ کرتے تھے اب اپنے ہندو رشتہ داروں کے ساتھ کھانے پینے سے اس بناء پر کراہت محسوس کرتے ہیں کہ وہ بوجہ شرک کی آلودگی کے روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے ناپاک ہیں.چنانچہ اس گاؤں میں جہاں کبھی ایک نو مسلم کا بائیکاٹ کیا گیا تھا ایک پانچ سالہ بچی نے اپنے نانا کے گھر کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور جب اس سے پوچھا گیا تو بتایا کہ میں اس لئے اس کے گھر کھانا نہیں کھاتی کہ وہ ابھی تک بتوں کی پوجا 80 کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی تائید میں جو زندگی بخش ہوا وہاں چلائی ہے وہ اب ایک گاؤں تک محدود نہیں رہی بلکہ بفضلہ تعالیٰ اس وقت وہاں بہت سے دیہات میں نومسلم جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.احمدیت نے اس علاقہ میں جو یہ انقلاب برپا کیا تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے ایک غیر احمدی دوست جناب اکرم سرحدی صاحب رقمطراز ہیں کہ پل پورہ ضلع تھر پارکر میں ایک چھوٹی سی بستی کا نام ہے جو تحصیل نگر پارکر سے تقریباً ۱۵میل مشرق کی طرف ریت کی لمبی لمبی ویران چٹانوں میں واقع ہے.۵ سال پہلے میں نے اس بستی کو دیکھا تھا وہاں گندگی اور بد بو کے سوا کچھ نہیں تھا.میں منہ اندھیرے وہاں پہنچا تھا.ہر شے پر موت کی سی

Page 592

تاریخ احمدیت.جلد 24 552 سال 1968ء خاموشی طاری تھی.راستہ میں کبھی کبھار کتے بھونکنے لگ جاتے تھے اور یوں فضا میں کچھ ارتعاش پیدا ہو جاتا تھا.اس وقت صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا.مجھے زور کی پیاس لگی تھی اور وضو کے لئے پانی بھی درکار تھا مگر وہاں تو سب بت پرست ہندو ہی ہندو نظر آتے تھے.پانی مانگتا تو کس سے؟ اس وقت میرے تصور میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ کسی روز یہ گندی اور غلیظ بستی جس کو لوگ پل پورہ کہتے ہیں پھول پورہ “ بن جائے گی.اکتوبر ۱۹۶۷ء میں جب میں دوبارہ پل پورہ پہنچا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ وہی پل پورہ جو گندگی اور غلاظت کا مرکز تھا اب پاکیزگی کا مرکز بن چکا ہے.جہاں کتوں کی آوازیں آتی تھیں وہاں اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں کانوں سے ٹکرانے لگیں.جہاں پینے اور وضو کے لئے پانی تک نصیب نہیں وہاں ایک بڑی کشادہ مسجد تعمیر ہو چکی تھی.میں نے اپنی آنکھوں سے کافی تعداد میں لوگوں کو نماز پڑھتے بھی دیکھا.اس کے بعد میں نے اپنے کانوں سے قرآن شریف کی تلاوت سنی.میرا دل خوشی سے جھومنے لگا اور میرے لب پر ظفر وارثی کا یہ شعر آ گیا ے جو بہاروں سے سجا دیتے ہیں ویرانوں کو یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو پل پورہ کو بہاروں سے کس نے سجایا ؟ یہاں کے بدنصیب انسانوں کو جن سے کوئی ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتا تھا گلے سے لگانے کے قابل کس نے بنایا ؟ میرے ضمیر نے ان سوالوں کا مجھے ایک ہی جواب دیا اور وہ یہ کہ اس کارِ خیر میں یوں تو بہت سے دوست شامل ہیں مگر اس کا اصلی سہرا موجودہ امام جماعت احمدیہ کے بھائی صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور ان کے رفقائے کار کے سر ہے.جن کے بلند اخلاق وسیع القلمی اور بے داغ کیریکٹر سے یہاں کے لوگ اور خصوصاً پل پورہ کے عوام متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.ان صاحبان نے جو کارنامے یہاں سرانجام دیئے ہیں وہ پل پورہ کی تاریخ کا ایک ایسا نقش ہے جو کبھی نہیں مٹے گا.مسلمانوں کو جب کبھی اسلام کی تبلیغ واشاعت کی ضرورت پڑے گی تو ایسے وجود ہی کارآمد ثابت ہوں گے.ان صاحبان نے اپنے کردار، جرات، استقلال اور خداداد ذہانت سے پل پورہ میں وہ مقام حاصل کیا ہے جس پر سارے مسلمان بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں.یہاں یہ بات بتانا بھول گیا ہوں کہ میاں طاہر احمد صاحب اور ان کے رفیق عبدالستار ناصر صاحب نے اسلامی تعلیمات کے فروغ کی جو

Page 593

تاریخ احمدیت.جلد 24 553 سال 1968ء شمع یہاں روشن کی تھی اس کی روشنی اب پل پورہ کی حدود سے نکل کر آس پاس کی بستیوں میں بھی دکھائی دینے لگی ہے.مجھے امید ہے کہ ان صاحبان کے جانشین بھی ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور اس مہم کو سرد نہ ہونے دیں گے.81 مشہور امریکن پادری اورل رابرٹس کا روحانی مقابلہ سے کھلا فرار ۱۹۶۱ء میں امریکہ کے مشہور فصیح البیان لیکچرار پادری بلی گرام مسیح علیہ السلام کے نام پر شفائی معجزہ دکھانے کا ادعا لے کر مشرقی افریقہ میں پہنچے تھے.مگر مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے جب انہیں دعوت مقابلہ دی تو وہ ساکت و صامت رہ گئے.اور مشرقی افریقہ میں دوبارہ انہیں قدم رکھنے کی جرات نہ ہو سکی.اسی نوعیت کا واقعہ سات سال بعد دوبارہ مشرقی افریقہ میں رونما ہوا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امریکہ کے ایک پُر جوش مبلغ اور مشہور پادری اورل رابرٹس ( ولادت ۲۴ جنوری ۱۹۱۸ء.وفات ۱۵ دسمبر ۲۰۰۹).۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۶ء تک دو یونیورسٹیوں سے تعلیم پائی اور مختلف چرچوں سے وابستہ رہے.۱۹۴۷ء میں انہوں نے طویل دوروں کا آغاز کیا.۱۹۴۸ء میں اورل را برٹس مشنری ایسوسی ایشن اور اورل را برٹس یونیورسٹی قائم کی.ریڈیو اور ٹیلیویژن اور لٹریچر کے ذریعہ سے اپنے خیالات و افکار کا بھر پور طریقے پر اظہار آپ کا طرہ امتیاز تھا.اٹھارہ پادریوں کا ایک لشکر لئے ہوئے ۱۶ جولائی ۱۹۶۸ء کو نیروبی کے ہوائی مستعفر پر اترے.اور ایک نہایت اعلیٰ درجہ کے ہوٹل میں قیام پذیر ہوئے.گذشتہ ایک ماہ سے ان کی زبر دست پلیسٹی کی جارہی تھی.اور کینیا کے ہر بڑے شہر میں بڑے سائز کے پوسٹر آویزاں کئے گئے تھے.جن کا عنوان تھا ” معجزہ دیکھنے کی امید پر آؤ علاوہ ازیں ملک کے ہر اہم اخبار میں ان کے اشتہار متواتر شائع ہورہے تھے اور ریڈیو اور ٹیلیویژن پر بھی ان کے اعلانات روزانہ نشر ہو رہے تھے.اور پبلک کی توجہ ان کی طرف لگی ہوئی 83 مولوی عبد الکریم صاحب شر ما مشنری انچارج و امیر جماعتہائے احمد یہ کینیا نے پادری صاحب کے نیروبی پہنچتے ہی دعوت مقابلہ دی کہ آئیے جماعت احمدیہ کے ساتھ روحانی مقابلہ کر لیجئے تا دنیا پر یہ عیاں ہو جائے کہ سچا مذہب عیسائیت ہے یا اسلام.اس سلسلے میں انہوں نے ایک مفصل مکتوب پادری صاحب موصوف کے نام لکھا کہ:.

Page 594

تاریخ احمدیت.جلد 24 554 سال 1968ء اسلام ہی زندہ مذہب ہے جو ہر زمانہ میں شیریں پھل دیتا ہے.اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کو تاریک پا کر اسلام کی ترقی کے لئے حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے.آپ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے بہت سے نشانات دکھائے ہیں جن سے ان کے پیروؤں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی ذات پر نیا ایمان اور مستحکم یقین پیدا ہوا ہے.حضرت مرزا صاحب نے بارہا مذاہب عالم کے لیڈروں کو دعوت دی کہ اپنے اپنے مذہب کی صداقت قبولیت دعا کے نشان سے ثابت کریں لیکن کسی کو حوصلہ نہ ہوا کہ اس چیلنج کو قبول کرے.شر ما صاحب نے لکھا کہ دعا کے ذریعہ نشان نمائی کی یہ دعوت حضور علیہ السلام کے وصال کے بعد ختم نہیں ہوگئی بلکہ آپ کے بعد آپ کے خلفاء کی طرف سے متواتر یہ دعوت دی جاتی رہی ہے.ابھی گذشتہ سال ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے یورپ کے دورہ کے دوران پھر اسے دہرایا تھا.آخر میں انہوں نے کہا کہ میں اسلام کا خادم اور اس ملک میں جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اور آپ کے ساتھی اور دوسرے عیسائی راہنما عیسائیت کی نمائندگی کرتے ہوئے احمد یہ جماعت کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت میں مقابلہ کر لیں.آپ نے پادری صاحب کے سامنے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیش کردہ یہ تجویز بھی رکھی کہ کچھ لا علاج مریض منتخب کر کے قرعہ اندازی کے ساتھ فریقین میں تقسیم کر لئے جائیں اور پھر ہر فریق اپنے حصہ کے مریضوں کی شفایابی کے لئے دعا کرے تا دنیا پر واضح ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اور رحم اور اس کی تائید کس فریق کے ساتھ ہے.اخبارات میں چیلنج کا ذکر مسٹر اورل را برٹش کو ایسے مقابلہ کی توقع نہ تھی.جب انہیں یہ چیلنج ملا تو حیران ہوکر رہ گئے.خدا کی شان ہے کہ ادھر جماعت نے چیلنج دیا اور ادھر یہاں کے پریس کا ( جواب تک ان کے پراپیگنڈا میں مصروف تھا) یکلخت رویہ بدلا اور ان کی اس مہم کے خلاف مضامین اور خطوط شائع ہونے لگے.شرما صاحب کے خط کی نقول جو نہی اخبارات کو گئیں اخباری نمائندے مسٹر رابرٹس سے جواب لینے کے لئے نیوسٹینلے ہوٹل میں پہنچ لیکن انہوں نے اخباری نمائندوں سے گفتگو کرنے سے صاف انکار کر دیا.نیروبی کے اخبار ”ڈیلی نیشن نے ان کی بوکھلاہٹ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:.کینیا میں احمدیہ مسلم مشن کے انچارج مولانا عبدالکریم صاحب شرما نے ایک اثر انگیز خط نشان نمائی کے لئے دعویدار پادری اور ل رابرٹس کے نام لکھا تھا.انہوں نے ایک نقل ہمیں بھی بھجوائی

Page 595

تاریخ احمدیت.جلد 24 555 سال 1968ء ہے.خط میں روحانی مقابلے کا چیلنج تھا جواب لینے کے لئے جب ہم ہوٹل میں گئے اور کمرہ نمبر ۴۳۱ کے ساتھ جس میں مسٹر رابرٹس مقیم تھے ہم نے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ قائم کیا.تو پہلے ایک مرد کی آواز آئی.جب ہم نے مقصد بتایا تو فوراً ٹیلیفون ایک عورت کو دیدیا گیا جس نے کہا کہ مسٹر رابرٹس موجود نہیں ہیں.نیز لکھا:.” جب نچلی منزل میں آکر میں ان کے پریس سیکرٹری مسٹر رابنسن سے جو خود بھی صحافی ہیں ملا اور ان سے درخواست کی کہ وہ مسٹر رابرٹس سے ملاقات کروا دیں تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کسی صورت میں مسٹر رابرٹس کو آپ سے ملاقات کرنے کا مشورہ نہیں دے سکتے کیونکہ آپ مسٹر رابرٹس کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں.میں نے احمد یہ مسلم مشن کے چیلنج کا ذکر کیا تو کہنے لگا کہ ہم اسے قبول نہیں کر سکتے.ایسے مقابلوں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.ہم ایک خاص مقصد لے کر آئے ہیں.ہم اپنے مقصد سے ہٹ کر غیر اہم باتوں میں نہیں پڑ سکتے.اخبار مذکور کار پورٹر لکھتا ہے:.میں نے پھر درخواست کی کہ مسٹر رابرٹس سے ملاقات کا ضرور انتظام کر دیں.انہوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کی کچھ مدد نہیں کر سکتا آپ خواہ مخواہ انہیں ذلیل کرنے پر آمادہ ہیں“.باتوں باتوں میں مجھے معلوم ہوا کہ معجزے دکھانے والا یہ سیجی مناد ہوٹل کے ایک ایسے کمرہ میں مقیم ہے جس کا کرایہ میں پونڈ روزانہ ہے.اور یہ بھی پتہ لگا کہ ۱۸ منادوں کے اس گروپ کا ایک ہفتہ قیام کا خرچ قریب دو ہزار پونڈ ہوگا.ایک افسر نے مجھے بتایا کہ یہ خرچ اتنا ہے کہ جس سے پانچ ہزار طلباء کو تین ماہ تک خوراک مہیا کی جاسکتی ہے.پھر اس نے طنز ا لکھا وو یہ ہیں وہ معجزات جن کے لئے ہم سب عیسائیوں اور گناہگاروں کو احتراماً کھڑے ہو جانا چاہیئے.ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ مشرقی افریقہ کا سب سے بڑا اخبار ہے.وہ اپنے ۱۹ جولائی ۱۹۶۸ء کے پرچہ میں صفحہ اول پر تین کالمی سرخی دعا کے مقابلہ کا چیلنج نا منظور ہو گیا‘ کے تحت رقمطراز ہے کہ ایسٹ افریقن احمدی مشن کے چیف مشنری مولا نا عبد الکریم صاحب شرمانے کل امریکن پادری اورل

Page 596

تاریخ احمدیت.جلد 24 556 سال 1968ء را برٹس کو چیلنج کیا تھا کہ وہ قبولیت دعا میں ان کا مقابلہ کریں.مسٹر رابرٹس خود تو ہمیں نہیں مل سکے لیکن ان کی اہلیہ نے کہا ہے کہ یہ مقابلہ ہمیں منظور نہیں ہے.مزید لکھا کہ کل پھر لوگوں کا جم غفیر کا موکونجی کے وسیع پنڈال میں معجزہ دیکھنے کی آرزو لئے ہوئے جمع ہوا.مسٹر رابرٹس نے اپنے وعظ میں اس بات پر زور دیا کہ وہ خود بیماروں کو شفا دینے کی طاقت نہیں رکھتے مگر یسوع مسیح ان کے ہاتھ پر شفا بخشتے ہیں.انہوں نے حاضرین کو کہا کہ جو اس بات کا پختہ عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنی زندگیوں میں بچی تبدیلی پیدا کریں گے اور یسوع مسیح کو اپنے دلوں میں جگہ دیں گے وہ اپنے ہاتھ بلند کریں.ہزاروں ہاتھ بلند ہوئے.بے شمار لولے لنگڑے، اندھے اور بہرے شفایابی کی امید پر سٹیج کے قریب جمع تھے.جلسہ ختم ہوا اور یہ مریض اسی طرح لڑکھڑاتے ہوئے گھروں کو واپس چلے گئے.انہیں کہہ دیا گیا کہ جاؤ اور مسیح پر سچا ایمان پیدا کرو“.ایک اور نامہ نگار نے لکھا:.شاید ہی نیروبی میں کوئی ایسا شخص ہو جسے اس بات کا علم نہ ہو کہ اورل را برٹس شہر میں آئے ہوئے ہیں.جس طرف نگاہ اٹھاؤ شہر میں ان کے بڑے بڑے پوسٹر نظر آتے ہیں جو ہمیں ان کے معجزات دکھانے کے وعدے یاد دلاتے ہیں.ان کا کردار مسیح کے کردار سے کتنا مختلف ہے.مسیح شہر میں خاموشی سے داخل ہوتے تھے اور اپنے اقتداری معجزات دکھا کر چلے جاتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو تلقین کرتے تھے کہ ان معجزات کی تشہیر نہ کر نالیکن مسٹر رابرٹس اور ان کے ساتھی شہر بہ شہر پھرتے ہیں اور ہزاروں پونڈ خرچ کر کے پراپیگنڈا کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو ان کی طرف توجہ پیدا ہو اور پھر مسیح کے طریق کے برعکس جب وہ کسی بیمار کو تندرست کرنے سے عاجز آجاتے ہیں تو اس بہانہ کی آڑ لیتے ہیں کہ مریض میں سچا ایمان نہ تھا.مزید لکھا کہ:.کئی سال سے امریکہ کے ایک چرچ نے ان کے لئے ایک ہزار ڈالر انعام مقرر کر رکھا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ کسی ایسے مریض کو پیش کریں جس کی شفایابی کی تصدیق تین ڈاکٹروں کی کمیٹی کر دے تو وہ اس انعام کو حاصل کرنے کے حقدار ہوں گے.لیکن مسٹر رابرٹس نے باوجود اس دعوی کے کہ انہوں نے ہزاروں مریضوں کو شفا دی ہے ابھی تک اس انعام کو وصول نہیں کیا.ہمارے لئے خوشی کی بات ہوگی اگر مسٹر رابرٹس یہاں بھی کسی مشہور ڈاکٹر کی تصدیق کے ساتھ شفاء کا معجزہ دکھائیں“.

Page 597

تاریخ احمدیت.جلد 24 557 سال 1968ء اخبار سنڈے پوسٹ“ نے اپنے ۲۱ جولائی ۱۹۶۸ء کے اداریہ میں لکھا: ”دنیا میں کسی خطہ میں امریکہ سے زیادہ مذہب کو جلب زر کا ذریعہ نہیں بنایا گیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ امریکی عوام دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ گھٹیا قسم کی عبادت کرتے ہیں.ایسا نہیں ہے کہ گرجوں میں جانے والوں کی معقول تعداد ایسی ہے جو مذہب کے متعلق سچے جذبات رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلی گراہم“ اور ”ایسے سیمپل میک پرسن“ جیسے کئی مسیحی مناد اور ریفارمرامریکہ میں ایسے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا کر بڑی دولت کمائی ہے.اب اورل را برٹس ان کی ہمسری کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں.بدقسمتی کی بات ہے کہ انہوں نے اس وقت کینیا کو اپنا اکھاڑہ بنایا ہوا ہے.مسٹر اورل رابرٹس کی مہم کی خصوصیت ان کے بلند بانگ دعاوی اور بے پناہ پراپیگنڈہ ہے جو ان سے پہلے امریکی منادوں کو میسر نہ تھا.ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کی اس مہم کے پیچھے جلب زر کا جذبہ کارفرما نظر آتا ہے.کا موکونجی کے میدان میں اگر چہ معجزات کا فقدان تھا لیکن چندہ کے تھیلوں کی فراوانی تھی.یہ امر پبلک کی دلچسپی کا باعث ہوگا اگر وہ ہمیں یہ بتائیں کہ انہیں کس قدر آمد ہوئی ہے.پھر اس اخبار نے ایک دوسری اشاعت میں مسٹر رابرٹس کی مہم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”ان کی یہاں آمد ہمارے لئے کوئی عجوبہ نہیں ہے.اس سے پہلے بھی کئی آئے ، اس قسم کے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں وہ ہم سے نجات اور ہماری روحانی ترقی اور منجزات دکھانے کے وعدے کرتے ہوئے آتے ہیں اور ہمیں مایوسی میں دھکیل کر چلے جاتے ہیں.اور ل را برٹس کہتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے نفرت چھوڑ دینی چاہئے اور بغیر رنگ ونسل کا امتیاز کئے باہمی محبت اور دوستی کے تعلقات کو استوار کرنا چاہیئے.ان کا یہ وعظ خوب ہے لیکن مسٹر رابرٹس ہمیں معاف کریں اگر ہمارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو کہ یہ شخص یہاں کینیا میں کیا کرنے آیا ہے جبکہ اس کے اپنے ملک میں اور اس کی اپنی قائم کی ہوئی یو نیورسٹی کے دروازوں پر رنگ ونسل کے امتیاز کی وجہ سے تلخیاں موجود ہیں.مسٹر رابرٹس خود اپنے لوگوں میں معجزات کیوں نہیں دکھاتے اور کیوں ان کے دلوں میں تبدیلیاں پیدا نہیں کرتے.دنیا کے تمام بڑے مذاہب فروتنی کی تلقین کرتے ہیں.مسیح خود مجسم فروتنی تھے.پادریوں اور عیسائی منادوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ لوگوں کے لئے فروتنی کا نمونہ بنیں لیکن مسٹر را برٹش کا طریق اس کے برعکس ہے.ان کی ہیجان خیز پہلیٹی اور مجزات دکھانے کے بلند بانگ دعاوی

Page 598

تاریخ احمدیت.جلد 24 558 سال 1968ء فروتنی کی روح کے منافی ہیں ہم محض فصاحت سے متاثر نہیں ہو سکتے ہم ان کے اور ان کے اٹھارہ ہمراہیوں کے معجزات کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں.اگر وہ فی الحقیقت ایسی کرامات دکھا سکتے ہیں جن کا وہ دعوی کرتے ہیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ انہیں کینیا میں آکر نیروبی کی دیواروں کو اپنے اشتہاروں سے سیاہ کرنے کی ضرورت نہ تھی.ہم خود چل کر امریکہ جاتے اور ان سے درخواست کرتے کہ وہ ہم پر رحم کریں اور ہمیں برکت دیں“.کینیا کے علاوہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے اخبارات نے بھی ہماری دعوت مقابلہ کو نمایاں جگہ دی ہے.ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ نے اپنے ایک اداریہ میں جماعت احمدیہ کی دعوت کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:.کیفیا میں صرف عیسائی مذہب ہی نہیں ہے بلکہ اور بھی مذاہب پائے جاتے ہیں بالخصوص اسلام.مسٹر رابرٹ کو اس مذہبی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اگر وہ اپنے یہاں آنے سے قبل یہاں کی عیسائی تنظیموں کے ساتھ رابطہ قائم کرتے اور ان کے صلاح و مشورہ سے ایسے طریق پر منادی کرتے جس سے دوسرے مذاہب سے ٹکراؤ نہ ہوتا“.بعض اخباروں میں گاہے گاہے بیماروں کی شفایابی کا ذکر بھی آجا تا تھا لیکن چونکہ ان کے پتے معلوم نہ ہوتے تھے اس لئے تحقیق مشکل تھی.ایک دن ایک اخبار نے ایک اسمعیلی نوجوان مسٹر عظیم قاسم کے متعلق لکھا کہ وہ آٹھ ماہ سے ایک ہسپتال میں صاحب فراش تھے اور چل پھر نہیں سکتے تھے.ان کو ایمبولینس میں پنڈال میں لے جایا گیا اور مسٹر رابرٹس کے ہاتھ رکھنے سے وہ تندرست ہو گئے اور چلنے پھرنے لگ گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اب وہ عیسائی ہو جائیں گے.یہ خبر پڑھتے ہی محترم مولا نا عبدالکریم شر ما صاحب اور مکرم مولوی محمد عیسی صاحب مبلغ اسلام نیروبی مشرقی افریقہ تحقیق کے لئے ہسپتال میں گئے.وہاں جا کر دیکھا کہ مریض کو خون دیا جا رہا ہے اس کی والدہ نے بتایا کہ ہم پادری کے پاس گئے ضرور تھے لیکن میرے بیٹے کو کچھ فائدہ نہیں ہوا بلکہ اس کی حالت کل سے زیادہ خراب ہے اس نے کہا میرے لڑکے نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ وہ عیسائی ہو جائے گا.مکرم شر ما صاحب نے ہسپتال کے ڈاکٹروں کو اخبار دکھایا اور کہا کہ وہ اس خبر کی تردید کریں.چنانچہ ڈاکٹروں نے اسی وقت اخبار کوٹیلیفون کیا اور بتایا کہ مریض کا حال تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہے اور یہ خبر جو شائع ہوئی ہے غلط ہے اور سراسر دھوکہ ہے.

Page 599

تاریخ احمدیت.جلد 24 559 سال 1968ء المختصر اس معرکہ میں عیسائیت کو شکست فاش ہوئی اور اسلام فتح یاب ہوا جس پر مشرقی افریقہ کے مسلمانوں نے جماعت احمدیہ کو مبارک باد دی.84 یورپ سے وقف عارضی کی ایک مثالی رپورٹ اس سال حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے یورپ میں وقف عارضی کے مبارک ایام گزارنے کا فیصلہ کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ارشاد فرمایا کہ آپ اس سال کا عرصہ وقف کو پن ہیگن میں گزاریں اور آئندہ سال آئرلینڈ میں حضور انور کے اس حکم کی تعمیل میں حضرت چوہدری صاحب ۱۶ سے ۲۷ جولائی ۱۹۶۸ء تک کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں قیام فرما رہے اور مراجعت پر مرکز میں حسب ذیل مفصل رپورٹ ارسال فرمائی جو مثالی بھی ہے اور متعدد ایمان افروز امور پر مشتمل اور یورپین ممالک کے واقفین کے لئے مشعل راہ ہے.چنانچہ حضرت چوہدری پر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :.”خاکسار جماعتہائے برطانیہ کے پانچویں سالانہ جلسے منعقدہ ۱۳ ۱۴ جولائی ۱۹۶۸ء میں شرکت کے لئے ۱۳ جولائی کی صبح کولندن پہنچا.۱۶ کی شام کو لندن سے روانہ ہو کر ۱۷ کی شام کو بفضل اللہ کوپن ہیگن پہنچا.اسٹیشن پر جناب سید کمال یوسف صاحب امام اور چند دیگر احباب سے ملاقات ہوئی.خاکسار کے قیام کا انتظام مسجد میں تھا.اخراجات طعام وغیرہ خاکسار کے ذمہ تھے.۱۸ کی سہ پہر کو بجے خاکسار کی تقریر ایسی نور (Elsinor) کے بین الاقوامی کالج میں اسلام اور حقوق انسانی کے موضوع پر ہوئی.یہ مقام کوپن ہیگن سے قریب چالیس میل شمال کی جانب ہے.یہاں سے سویڈن کا ساحل ایک تنگ آبنائے کے دوسری طرف صاف نظر آتا ہے.سویڈن کے شہر Helsingor(میلسنگور) کے مکانات اور وہاں کے بازاروں میں آمد ورفت کا سلسلہ بھی نظر آتا ہے.ایسی نور کے کالج میں تقریر کے بعد سوال جواب ہوئے اور بعد میں بھی یہ سلسلہ پر پل صاحب کے مکان پر جاری رہا.قریب پونے چھ بجے کوپن ہیگن وا پسی ہوئی.۱۹ قبل دو پہر مشنری سوسائٹی کے سات افراد (پانچ مرد اور دوخواتین ) ملاقات کے لئے آئے.سلسلہ کے متعلق سوال جواب ہوتے رہے.جناب امام صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں جمعہ کی نماز کا خطبہ خاکسار نے گزارش کیا.مشنری سوسائٹی کے وفد کی دونوں خواتین بھی مسجد میں موجود تھیں.

Page 600

تاریخ احمدیت.جلد 24 560 سال 1968ء ۱۹ سے شروع کر کے ۲۴ تک اور پھر ۲۶ کو ہر شام سات بجے سے پونے نو بجے تک سوال و جواب کی مجلس قائم ہوتی رہی جس میں شمولیت عام تھی.19 کی صبح کو جناب نور احمد بولستاد صاحب ناروے سے تشریف لائے اور ۲۲ کی سہ پہر کو واپس تشریف لے گئے.۲۰ کی دو پہر کو جناب محمود ایرکسن صاحب سٹاک ہالم (سویڈن ) سے تشریف لائے اور چند گھنٹے قیام کیا.۲۱ کو ایک خصوصی اجلاس جماعت کے احباب کا ہوا جس میں خاکسار نے عبادات کے کما حقہ ادائیگی کی طرف توجہ دلائی.۲۳ کو بعد دو پہر ایک عیسائی مشنری جریدے کے نمائندے نے جو ہندوستان میں بھی رہ چکے ہیں خاکسار سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ تفصیلی گفتگو ہوئی.ان کی رپورٹ ان کے جریدے میں شائع ہو چکی ہے.۲۵ کی دو پہر کو ڈاکٹر لنگ (Dr.Lanning) نے خاکسار کی کھانے کی دعوت کی.یہ معروف ڈینش سیاستدان ہیں اور ہر سال اقوام متحدہ کی اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں ڈینش وفد کے رکن کے طور پر شمولیت کرتے رہے ہیں.خاکسار کے ساتھ عرصے سے ان کے دوستانہ تعلقات ہیں.اسی شام مسٹر سوین ہینسن (Sven Hansson) نے جناب امام صاحب کی اور خاکسار کی کھانے کی دعوت کی.یہ ڈینیش قوم کے ماہر کیمیائی انجینئر ہیں.۳۹ سال عمر ہے بارہ سال سے مسلمان ہیں.ان کی بیوی ملایا (Malaya) کی مسلمان ہیں.اور غالباً وہی ان کے اسلام قبول کرنے کا باعث ہوئیں.میاں بیوی محض رسمی مسلمان نہیں مخلص اور پابندِ صوم وصلوٰۃ ہیں.خاکسار نے کم کسی مغربی مسلمان کو اسلام کی اقدار میں اس قدر رچا ہوا دیکھا ہے جیسے مسٹر ہینسن رچے ہوئے ہیں.ہماری شام کی مجلس میں شامل ہوتے.قرآن کریم کا ڈینیش ترجمہ ساتھ لاتے اور جہاں کسی آیت کا ذکر آتا تر جمہ نوٹ کرتے.مجلس کے بعد نماز مغرب میں شامل ہوتے اور ایسے انکسار اور اخلاص سے نماز پوری کرتے اور ایسے اطمینان اور وقار سے اور اس قدرسنوار کر پڑھتے کہ رشک ہوتا.ان کے چار بچے ( تین فرزند اور ایک بیٹی ) ہیں.گھر کا ماحول اسلامی ہے.بیوی بالکل سادہ طبیعت کی ہے اور خواتین کے ساتھ نماز میں شامل ہوتیں.کھانے کے بعد مسٹر مہینسن نے سلسلے کے متعلق گفتگو شروع کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی اور صداقت اور مرتبے کے قائل اور موید ہیں.بیعت میں ابھی تامل ہے.آخر میں فرمایا میری بیوی اگر مجھے بیعت کے لئے کہے تو میں کل صبح

Page 601

تاریخ احمدیت.جلد 24 561 سال 1968ء ہی بیعت کرلوں.خاکسار نے کہا آپ کی بیوی کے آپ پر بہت احسانات ہیں.ان کا بہترین بدلہ یہ ہے کہ آپ خود بھی بیعت کریں اور انہیں بھی بیعت کی تحریک کریں.۲۶ کو بھی جناب امام صاحب کی ہدایت کے مطابق خطبہ جمعہ خاکسار نے دیا.شام کی مجلس میں خاصی حاضری تھی.تین چار عرب احباب بھی موجود تھے.مسٹر ہینسن بھی آئے تھے.خاکسار نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کی طرف توجہ دلائی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ رشتہ عبودیت کو مضبوط کرنے کی تحریک کی.مغرب کی نماز کے بعد مسٹر مینسن سے رخصت ہونے پر انہوں نے فرمایا میں کل صبح فجر کی نماز میں بھی شامل ہوں گا چنانچہ وقت سے پہلے ہی کوئی سوا تین بجے سائیکل پر ۸-۹ میل کا فاصلہ طے کر کے پہنچ گئے.موٹر میں تو ان کے پاس ایک چھوڑ دو ہیں لیکن امام صاحب سے کہا یہ وقت ایسا سہانا ہے کہ میں نے لطف اندوز ہونے کے لئے سائیکل سے آنا جانا پسند کیا.اب کی بار خاکسار سے رخصت ہو کر گئے لیکن ۹ بجے پھر ہمارے رخصت ہونے کے وقت الوداع کہنے کے لئے تشریف لے آئے.فَجَزَاءَ اللَّهُ آخر ستمبر میں ایک سال کے لئے اقوام متحدہ کے اقتصادی اعانت کے پروگرام کے سلسلے میں بیوی بچوں کے ساتھ سیلون جا رہے ہیں.خاکسار نے تحریک کی کہ سردیوں کے موسم میں ربوہ بھی جائیں.کہنے لگے ضرور کوشش کروں گا.۲۷ کی صبح کو خاکسار کو ایک مقام مسلیو (Haslev) پر ایک عیسائی مذہبی کا نفرنس میں مغرب میں اخلاقی اقدار کے انحطاط، اس کے بواعث اور اس کے علاج پر تقریر کے لئے حاضر ہونا تھا.اس کانفرنس میں پانچ صد نمائندگان شامل تھے.یہ مقام کو پن ہیگن سے ۴۰ میل جانب جنوب واقع ہے.کانفرنس کی طرف سے امام صاحب کے لئے اور خاکسار کے لئے کار بھیج دی گئی تھی.ہمارے سات آٹھ دیگر احباب ڈینش اور پاکستانی بشمول جناب عبد السلام میڈسن صاحب کے دوکاروں میں ہمارے ہمراہ گئے.سوا نو بجے کوپن ہیگن سے روانہ ہو کر سوا دس بجے ہم ہسلیو پہنچ گئے.گھنٹہ بھر کا نفرنس کے صدر، نائب صدر اور سیکرٹری کے ساتھ گفتگو رہی.سوا گیارہ بجے کانفرنس کا اجلاس شروع ہوا.خاکسار نے حسب توفیق مجوزہ موضوع پر گزارش کی.علاج کے سلسلے میں اس بات پر زور دیا کہ انسان اپنے خالق کی طرف رجوع کرے اور اس سے تعلق مضبوط کرے اور اس نے جو ہدایت اس زمانے

Page 602

تاریخ احمدیت.جلد 24 562 سال 1968ء کے لئے قرآن کریم میں سے جَرِيُّ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کے ذریعے منکشف کی ہے اسے قبول کر کے اس پر عامل ہو.خاکسار کی تقریر قریب ایک گھنٹہ جاری رہی اور بحمد اللہ توجہ سے سنی گئی.دو پہر کا کھانا ہم سب نے وہیں کھایا.کھانے کے بعد ظہر اور عصر جمع کیں.جناب امام صاحب اور خاکسار تو وہیں سے جنوبی جانب کو ہیمبرگ کے سفر کے لئے روانہ ہوئے اور ہمارے احباب کو پن ہیگن کو واپس ہوئے.امام صاحب اور خاکسار ۸ بجے شام ہیمبرگ پہنچے.جناب چوہدری عبداللطیف صاحب اور احباب سے سٹیشن پر ملاقات ہوئی.ان کے ہمراہ مسجد حاضر ہوئے اور یہیں قیام ہوا.آج سہ پہر استقبالیہ دعوت ہے.کل صبح انشاء اللہ خاکسار یہاں سے ۸ بجے ریل پر روانہ ہو کر ڈیڑھ بجے بعد دو پہر ہیگ پہنچ جائے گا.کوپن ہیگن کا قیام خاکسار کے لئے بفضل اللہ بہت سبق آموز رہا.جناب کمال یوسف صاحب کے تقویٰ اور اخلاص کا پہلے ہی گہرا نقش خاکسار کے دل پر تھا یہ اور بھی گہرا ہوا.مسجد اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب آباد ہے.پانچوں وقت نماز با جماعت کا التزام ہے اگر چہ ان ایام میں فجر کی نماز کے ابتداء کا وقت سوا تین بجے سے لے کر آہستہ آہستہ ساڑھے تین بجے تک رہا لیکن نماز بہت با قاعدگی کے ساتھ با جماعت ادا ہوتی رہی اور یہی معمول تمام وقت جاری ہے.مسجد میں دو چار مہمان ہر وقت ٹھہرے ہوتے ہیں.جناب امام صاحب اپنے مقررہ کمرے میں کم ہی سو سکتے ہیں جس کمرے میں جگہ مل گئی رات بسر کر لیتے ہیں.ان کی آخری پناہ گاہ دفتر کا کمرہ ہوتی ہے.وہیں لکڑی کے فرش پر بستر بچھ جاتا ہے.کھانے میں سب سے آخر شامل ہوتے ہیں اور سب سے اول فارغ ہو جاتے ہیں.نہایت معمور الاوقات ہیں لیکن چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ اور بشاشت رہتی ہے.یہ احباب کی تواضع بلکہ ناز برداری سے نہیں تھکتے.اور احباب کے دلوں میں ان کی گہری محبت اور مخلصانہ عظمت رچی ہوئی ہے.فَجَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور تحریک احمدیت کا ذکر جامعہ ملیہ کی ایک کتاب میں جولائی ۱۹۶۸ء میں جامعہ ملیہ (دہلی) نے "THE INDIAN MUSLIMS" کے نام سے مسٹر محمد مجیب کی ایک مبسوط کتاب شائع کی.پروفیسر محمد مجیب ۱۹۰۲ء میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور جنوری ۱۹۸۵ء میں دہلی میں وفات پائی.آپ کے والد کا نام محمد نسیم تھا اور وہ ایک کامیاب وکیل

Page 603

تاریخ احمدیت.جلد 24 563 سال 1968ء تھے.آپ نے آکسفورڈ سے تاریخ میں گریجویشن کی.آپ نے اردو کے علاوہ انڈین تہذیب پر بھی کام کیا.مجیب صاحب نے اپنی کتاب کے صفحہ ۵۴۲-۵۴۴ پر تحریک احمدیت کے بارے میں ایک عمدہ نوٹ لکھا جس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے:.اس تحریک کے بانی مرزا غلام احمد (علیہ السلام) (۱۸۳۵-۱۹۰۸ء) ایک مشہور عالم تھے جنہوں نے اچا نک نبوت کا دعوی کر دیا.آپ ایک متوسط طبقہ کے رئیس خاندان کے فرد تھے.جو خاندانی تنازعات اور مقدمات میں ملوث تھا لیکن آپ خود مطالعہ اور تنہائی پسند طبیعت کے مالک تھے.اور بظاہر اپنے خاندان کے افراد سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ہر دلعزیز نہ تھے.۱۸۷۶ء میں اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے آریہ سماج اور عیسائیوں کو للکارنا شروع کر دیا.یہ دونوں فرقے اپنے مذہبی عقائد کو پھیلانے میں جوش و خروش سے مصروف عمل تھے.۱۸۸۹ء میں آپ نے مسیح موعود اور مہدی معہود کا دعویٰ کر دیا جس کی آمد کی الہامی کتب میں پیشگوئیاں موجود ہیں اس دعوے کی وجہ سے انہیں بہر حال بے حساب تلخ مخالفت اور لعن طعن برداشت کرنا پڑی لیکن وہ ایک جماعت قائم کرنے میں کامیاب و کامران رہے.ایک ایسی جماعت جس نے اپنی وحدت اور کثرت کو برقرار اور دائم رکھا.یہ جماعت مسلمانوں کے اندر ایک باعمل اور مستعد تبلیغی جماعت ہے.ہم یہاں مرزا غلام احمد (علیہ السلام) کی ان پیشگوئیوں اور الہامات کے پورا ہونے کی چھانٹ پھٹک نہیں کر سکتے جو آپ نے اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں کیں.تاہم ایسی نشانیاں جن سے آپ کی شناخت ہوئی تھی آپ میں موجود تھیں مثلاً یہ کہ آپ کو دو بیماریاں دوران سر اور ذیا بیطیس تھیں.آپ کے بال سیدھے اور رنگ گندم گوں تھا اور آپ بولتے وقت خفیف لکنت کرتے تھے.آپ کو مسیح موعود تسلیم کرنے کے لئے کافی تھا.ایک غیر جانبدار کی نظر میں جو بات آپ کے اثر و رسوخ کے پھیلنے کی وجہ جواز بن سکتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ نے آریہ سماج اور عیسائیت کے ان اعتراضات کا ڈٹ کر اور بھر پور مقابلہ کیا جو یہ دوفر قے اسلام اور رسول پاک ﷺ پر کرتے تھے نیز آپ نے تجدید دین کا وہ صحیح راستہ اور سیدھی نہج بتائی جس پر چل کر دنیا کے موجودہ حالات اور سائنسی و صنعتی ترقی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے.آپ کی اس بات کا تصادم اور اثر اور بھی واضح ہو جاتا ہے جب ہم موجودہ زمانہ کے سائنسی انکشافات اور ایجادات کے بارے میں علماء زمانہ کے مخالفانہ بلکہ احمقانہ رویہ کو دیکھتے ہیں اور اس کے مقابل میں آپ ایسی تمام

Page 604

تاریخ احمدیت.جلد 24 564 سال 1968ء ایجادات و انکشافات کو دین اسلام کی تجدید کی نشانی قرار دیتے ہیں.اس بات کو قبول کر لینا جماعت کی وحدت و تنظیم کا باعث بنا.جماعت نے افراد کی اور افراد نے جماعت کی امداد و معاونت کی جس کی وجہ سے جماعت نے پاکیزگی کا بلند معیار قائم کیا اور دیگر امور سرانجام دیئے ہیں.مستعدی اور جوش عمل کا نمونہ دکھایا“.86 مسجد اقصیٰ کی تاسیس کی ایک اور مبارک تقریب اکتوبر ۱۹۶۶ء میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہا نے مسجد اقصیٰ ربوہ کی بنیاد میں اینٹیں نصب فرمائی تھیں تو اس وقت خواتین کی نمائندگی نہ ہو سکی تھی.اس کمی کو محسوس کرتے ہوئے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض بزرگ خواتین کی خدمت میں درخواست کی گئی تھی کہ احمدی خواتین کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ بھی زیر تعمیر مسجد کی بنیاد میں اپنے مبارک ہاتھوں سے اینٹیں نصب فرما کر اس مسجد کے ہر لحاظ سے بابرکت ہونے کے لئے دعا کریں جسے انہوں نے از راہ شفقت قبول فرمالیا چنانچہ ۱۹ جولائی ۱۹۶۸ء بروز جمعتہ المبارک پونے سات بجے شام حضرت سیدہ نواب مبارکه بیگم صاحبہ، حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکز یہ اور حضرت منصورہ بیگم صاحبہ نے زیر تعمیر مسجد میں تشریف لے جا کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اسی ترتیب سے باری باری بنیاد کے اُس حصہ میں جہاں حضور نے دو سال قبل بنیا د رکھی تھی اینٹیں نصب فرما ئیں.یہ حصہ کرسی (plinth) تک ہی تعمیر ہوا تھا.اس موقع پر حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ربوہ میں موجود نہ ہونے اور حضرت سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ اپنی علالت کے باعث تشریف نہیں لاسکیں تاہم وہ اینٹ جس پر حضرت سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ نے دعا کی ہوئی تھی حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے بیٹے شاہد احمد خان پاشا صاحب نے نصب کی.سورہ احزاب کی چند آیات کی پُر معارف تفسیر 87 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۲، ۲۳، ۲۴ جولائی ۱۹۶۸ء کو تعلیم القرآن کلاس خطاب کرتے ہوئے سورہ احزاب کی آیات ۱۸ تا ۲۰ و ۶۱ ۶۲ کی پُر معارف تفسیر بیان فرمائی.ان قرآنی آیات کے نہایت لطیف مطالب اور اسرار پر روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے متعدد اہم نکات بیان فرمائے مثلاً :.

Page 605

تاریخ احمدیت.جلد 24 565 سال 1968ء نمبرا انتخابات کے وقت بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ فلاں عہدہ دوسرے کو نہ ملے مجھے ضروریل جائے.اور خدا تعالیٰ کی یہ تعلیم ان کی آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ عہدہ اس کے اہل کو ملنا چاہیے اور عہدہ لینے کی خواہش نہیں ہونی چاہیئے.جن کے ذمہ یہ فرض لگایا گیا ہے کہ وہ کیس کو عہدہ دیں ان کو اس تعلیم کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیئے.عہدے دوطریقوں سے دئے جاتے ہیں.کبھی وہ مرکز کے مشورہ سے دئے جاتے ہیں اور کبھی وہ جماعت کے مشورہ سے دئے جاتے ہیں اور جو بھی عہدہ دینے کا ذمہ وار ہوا سے چاہیئے وہ اہلیت کو مدنظر رکھے“.نمبر۲ ” وہ لوگ جو خلفاء اور اولیاء اور مجد دین سے دشمنی اور عنا در کھنے والے ہیں اور تکبر اور اباء سے ان کے سامنے اپنی گردنوں کو اونچا کرنے والے ہیں وہ قرآن کریم کی اس آیت اِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مهينا (احزاب: ۵۸) کی رو سے ملعون اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں.خود کو وہ جو مرضی ہے سمجھتے رہیں.اس سے کیا حاصل؟ دوسرے میرا ذہن اس طرف گیا تھا کہ يُؤْذُونَ اللہ میں ایک بڑا وسیع مضمون خدا تعالیٰ نے بیان کیا ہے.یعنی تمام بنی نوع انسان کا اس میں ذکر ہے اور یہ قید نہیں کہ کوئی مسلمان ہے یا نہیں کوئی اہل کتاب ہے یا نہیں، کوئی مشرک ہے یا غیر مشرک کوئی صحیح مذہب والا ہے یا بد مذہب ہے.نمبر ۳ ہر وہ شخص جو خدا کے بتائے ہوئے اصول اور تعلیمات کے خلاف اس کے بندوں کو خواہ وہ کوئی ہوں ان حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا پہنچانے والا ہے.مثلاً ہمسایہ کے حقوق ہیں.اہل محلہ کے حقوق ہیں.نظام کے حقوق ہیں.نظام کے اندر پھر بیسیوں حقوق ہیں مثلاً موصی ہیں ان پر وصیت کا حق ہے.اور یہ بڑا ہی اہم حق ہے اور اس کو پوری طرح ادا کرنا چاہیئے.پھر امراء کی اطاعت اور ان کے ساتھ تعاون ہے.ان کے کاموں میں ان کا محمد ہونا ہے.تو نظام سلسلہ مضبوط بنیادوں پر مستحکم ہو جائے تا ہمارا مقصود ہمیں مل جائے اور اسلام ساری دنیا میں غالب ہو جائے.غرض جتنے حقوق اللہ تعالیٰ نے قائم کئے ہیں وہ رسول کے ہوں یا دوسرے بندوں کے ہوں جو شخص ان حقوق کو توڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچتی ہے یا اللہ کے کسی اور بندہ کو ایذاء پہنچتی ہے.حق تلفی بھی ایذاء کا موجب بنتی ہے.غرض جو بھی ان حقوق کو توڑتا ہے جن کے متعلق حکم

Page 606

تاریخ احمدیت.جلد 24 566 سال 1968ء ہے کہ انہیں ادا کرو.وہ يُؤْذُونَ اللہ کا مصداق ہے.یا وہ ان حقوق کو توڑتا ہے جس کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچتی ہے.یہ وہ لوگ ہیں لَعَنَهُمُ الله جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں.نمبر ۴ ”ہماری جماعت کو بھی یہ بنیادی چیز یا د رکھنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے سُوء کا ارادہ کرتا ہے اس کے غضب سے اس کو کوئی نہیں بچا سکتا.اور اللہ تعالیٰ جب کسی شخص یا کسی قوم یا سلسلہ یا جماعت کیلئے رحمت کا ارادہ کرتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس جماعت کو خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم نہیں کر سکتی.اور خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو چونکہ غلبہ اسلام کیلئے پیدا کیا ہے.اس لئے اس نے بڑی بشارتیں دی ہیں.لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیں دکھ دے رہے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارے اموال لوٹ رہے ہیں.ایذائیں پہنچارہے ہیں.ساری دنیا میں اب احمدیت پھیل چکی ہے اور ساری دنیا میں ہمیں تعصب نظر آ رہا ہے.یورپ میں بھی نظر آ رہا ہے.افریقہ میں بھی نظر آ رہا ہے.جزائر میں بھی نظر آ رہا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں کے احمدیوں کے دل مضبوط ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ تکلیفیں الہی سلسلوں میں شامل ہونے والوں کو پہنچتی ہی رہتی ہیں لیکن ان معمولی معمولی دنیا کی تکلیفوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس قدر انعام دیتا ہے کہ وہ تکلیف تکلیف نہیں رہتی اور آخری کامیابی اسی کی ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کامیابی دینا چا ہے اور اس کے نصیب میں اُسے کرے.چھوٹی نسل جو میرے سامنے بیٹھی ہے اس نکتہ کو یادر کھے کہ آپ معمولی بچے نہیں نہ آپ کی نسل معمولی ہے.آپ کی نسل غیر معمولی ہے.دنیا میں ہزاروں تو میں ہیں.افریقہ کے ایک ایک ملک میں بیسیوں سینکڑوں قبائل ہیں.ان کا اپنا ایک نام ہے تا باقیوں کے مقابل ان کا تعارف ہو.ان کی بھی ایک نسل ہے.ان کی عمریں بھی آپ جتنی ہیں.لیکن ان ہزاروں نسلوں کو اللہ تعالیٰ نے وہ بشارتیں نہیں دیں جو آپ کو دی گئی ہیں.یعنی آپ کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام غالب آئے گا اور آپ جس یقین کے مقام پر کھڑے ہیں یا جس یقین کے مقام پر آپ کو کھڑا ہونا چاہیئے وہ یقین کا مقام ان کے حصہ میں نہیں“.ایک مبشر خواب بابت حضرت خلیفہ المسیح الثالث جولائی ۱۹۶۸ ء کی بات ہے کہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح

Page 607

تاریخ احمدیت.جلد 24 567 سال 1968ء الثالث کی خدمت میں لکھا کل جناب مولوی عبدالرحمن صاحب نے خواب میں دیکھا گویا دوا صحاب کہہ رہے ہیں کہ بشارت ملی ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور کے متعلق فرماتے ہیں جتنا ساڈے ایس لعل نے 89 ای ائے ( یعنی جیتے گا تو ہمارا یہ عمل ہی).حضرت اقدس کو اس خط کے موصول ہونے پر بے انداز مسرت ہوئی اور حضور نے ۲۳ جولائی ۱۹۶۸ء کو مسجد مبارک میں اس کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا :.”ہمارے لنڈن کے ایک احمدی کو ایک بشارت ملی ہے.مجھے وہ پڑھ کر بڑا لطف آیا ہے.وہ ایک بشارت بھی ہے اور مجھ عاجز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے پیار کا اظہار بھی ہے.میری تو یہ حالت ہے کہ اسے پڑھ کر میرا سر اُس کے آستانہ پر اور بھی جھک گیا ہے کہ کس طرح وہ اس گنہ گار اور نا کارہ انسان کے ساتھ پیار کرتا ہے.لیکن جماعت کے لئے بھی وہ ایک بڑی بشارت ہے.میں وہ بشارت کل سناؤں گا.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے خط میں اس کا ذکر ہے اور وہ خط اس وقت میرے پاس نہیں“.چنانچہ اگلے روز حضور نے حضرت چوہدری صاحب کے خط کا متن سناتے ہوئے فرمایا:.یہ خواب بڑی مبارک ہے.میری روح عاجزانہ اپنے رب کے حضور جھکی ہوئی ہے.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نا کام بنانے کی کوششیں بھی ہوں گی لیکن خدا کے فضل اور رحم سے نہ ہماری کسی خوبی کے نتیجہ میں وہ نا کام ہوں گی.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی ایک تحریر 90 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے قلم سے الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۸ء کے صفحہ ۵ پر احمدی والدین سے ایک ضروری گذارش کے زیر عنوان ایک نہایت اہم مضمون اشاعت پذیر ہوا.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے درج ذیل ارشاد مبارک کی روشنی میں لکھا گیا تھا.مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَة فَاَبَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ اَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِ.....الخ اس حدیث کو درج کرنے کے بعد آپ نے تحریر فرمایا کہ

Page 608

تاریخ احمدیت.جلد 24 568 سال 1968ء مذکورہ بالا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاں یہ امر بالبداہت ثابت ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بچپن کی تربیت انسانی زندگی پر بہت گہرے اور بنیادی اہمیت کے نقوش چھوڑ جاتی ہے وہاں اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ اس تربیت کی اولین ذمہ داری والدین پر ہے اور اگر نعوذ باللہ تربیت کے فقدان یا غلط تربیت کے نتیجہ میں کوئی بچہ دین فطرت سے ہٹا تو اس کی اولین ذمہ داری والدین پر عائد ہوگی جیسا کہ فرمایا کہ والدین بچے کو دین فطرت سے ہٹا کر یہودی، عیسائی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.اس اصول کو ذہن نشین کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ بچوں کی بیرونی تربیت اہمیت کے لحاظ سے ثانوی درجہ رکھتی ہے اور کوئی بیرونی تربیت کا انتظام فی الحقیقت کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک والدین کا مکمل تعاون حاصل نہ ہو.پس میں مذکورہ امور کی روشنی میں جملہ احمدی والدین سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دین فطرت یعنی دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر قائم رکھنے کے لئے غیر معمولی توجہ دیں اور اسے کوئی معمولی امر نہ سمجھیں ورنہ ان کی اولاد کی غلط روی کے بارہ میں سب سے پہلے ان سے پوچھا جائے گا.دوسرے میری عاجزانہ درخواست یہ ہے کہ تنظیموں سے پُر خلوص تعاون فرمائیں جو تربیت اولاد کے سلسلہ میں محض اللہ والدین کے ہاتھ بٹا رہی ہیں.بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں مجالس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ کی طرف سے جو پروگرام تجویز کئے جاتے ہیں وہ والدین کے پُر جوش اور پر خلوص تعاون کے بغیر ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.اور جو والدین بچپن ہی میں اپنی اولاد کے دلوں میں نظام سلسلہ کا احترام اور اس سے محبت اور وفاداری کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے وہ یقینا اپنی اولا دکو ایک بڑی سعادت اور خوش بختی سے محروم رکھنے والے ہوتے ہیں“.( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا پیغام ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے اگست ۱۹۶۸ء میں ”جام خالی ہیں کے زیر عنوان قائدین خدام الاحمدیہ کو جوعظیم الشان پیغام بھجوایا.اس کا متن درج ذیل ہے:.امسال ایک معقول تعداد ایسی مجالس کی سامنے آرہی ہے جن کا قبل ازیں مرکز سے کبھی کوئی رابطہ قائم نہیں ہوا.لیکن قائدین ضلع اور ان کے رفقائے کار کی انتھک محنت کو نوازتے ہوئے اللہ تعالیٰ

Page 609

تاریخ احمدیت.جلد 24 569 سال 1968ء نے ان میں زندگی کی رمق پیدا فرما دی ہے.اور اب وہ مرکز کو اپنی رپورٹیں بھجواتی اور مرکز کے خطوط کا جواب دینے لگی ہیں.الحمد للہ علی ذالک وَ جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ ان مجالس کا مرکز سے رابطہ یقیناً خوشی کا موجب ہے مگر یہ خوشی باقی نہیں رہ سکتی جب تک یہ مجالس نیک اعمال نہ بجالانے لگ جائیں.جن کے ذکر کے بغیر رپورٹ فارم خالی خالی اور بے رونق نظر آتے ہیں.بعض ایسی ہی ماہانہ رپورٹیں دیکھ کر دل متفکر ہوا اور ذیل کے دوشعر بلا تکلف موزوں ہوئے.جام خالی ہیں ! قائدینِ کرام! ان کو بھرنے کا انتظام کریں حسب توفیق ربّ ذی الاکرام کچھ کریں کام، کچھ تو کام کریں مجلس اطفال الاحمد ی ربوہ کی دوسری سالانہ تربیتی کلاس 92 ماه اگست ۱۹۶۸ء میں مجلس اطفال الاحمد یہ ربوہ کی دوسری تربیتی کلاس منعقد ہوئی اس کلاس کا افتتاح مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نے کیا.یہ کلاس ایک ہفتہ تک مسجد محمود میں روزانہ صبح ساڑھے سات بجے سے ساڑھے دس بجے تک جاری رہی جس میں سلسلہ کے مختلف علماء اور عہد یداران اطفال کو قرآن کریم، احادیث، عام دینی مسائل، تاریخ احمدیت اور نماز سادہ و ترجمہ پڑھاتے رہے.اس کلاس کا اختتامی اجلاس زیر صدارت محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ منعقد ہوا.آپ نے اپنے خطاب میں اطفال کو بچپن سے نماز با جماعت ،سچائی ، دیانت جیسی نیکیاں بجالانے اور عمدہ اوصاف پیدا کرنے کی طرف مختلف مثالوں کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے توجہ دلائی نیز تربیتی اجلاس کے انعقاد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خواجہ عبدالمومن صاحب ناظم اطفال الاحمدیہ ربوہ کی توجہ سے اب ربوہ کے اطفال میں رونق نظر آتی ہے.اختتامی اجلاس میں ۲۵۰ / اطفال نے شرکت کی.اس کلاس میں ربوہ کی ۱۷ مجالس کے۷۰ نمائندگان شریک ہوئے.۶۰ / اطفال نے امتحان دیا جن میں سے ۵۷ کامیاب ہوئے.ڈاکٹر عبد السلام صاحب کا حکومت پاکستان کو قیمتی مشورہ نامور فرزندِ احمدیت اور صدر مملکت پاکستان کے اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اگست ۱۹۶۸ء کے دوسرے ہفتے میں حکومت پاکستان کو مشورہ دیا کہ ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے

Page 610

تاریخ احمدیت.جلد 24 570 سال 1968ء فروغ کے لئے مرکز میں سائنسی امور کے لئے ایک علیحدہ وزارت قائم کی جائے.منصوبہ بندی کمیشن میں سائنسدانوں کو بھی نمائندگی دی جائے.اور بنیادی تحقیق کے لئے ایک کونسل قائم کی جائے.انہوں نے سائنسی تحقیق کے کام کو صحیح خطوط پر چلانے کے لئے یونیورسٹیوں اور تحقیقی اداروں کے درمیان تعاون پر بھی زور دیا.94 ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی کراچی ریڈیو سے تقریر ڈاکٹر صاحب نے چند روز بعد کراچی ریڈیو سے عالمی سائنسی نشریات کے پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملکی زبانوں میں سائنسی تعلیم ممکن ہے.بہت سے ممالک اپنی ملکی زبان میں سائنسی تعلیم دے رہے ہیں.البتہ چونکہ انگریزی زبان میں سائنسی علوم کے متعلق الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے اس لئے ابھی یہ ممکن نہیں کہ انگریزی زبان کو بالکل ترک کر دیا جائے.جن ممالک میں ملکی زبان میں سائنسی تعلیم دی جاتی ہے ان میں بھی سائنسی اصطلاحات انگریزی زبان کی ہی مستعمل ہوتی ہیں.یہی طریق اردو میں بھی اختیار کیا جا سکتا ہے.آپ نے کہا پاکستان میں زراعت کی ترقی کے لئے بہترین بیج استعمال کرنا چاہئیے یہ خوشی کی بات ہے کہ پاکستان میں اس سلسلہ میں جو تجربے کئے گئے ہیں ان کے نتائج بہت خوشکن نکلے ہیں.حیدر آباد دکن کے ایک معزز مسلمان ربوہ میں جناب میر اسد علی صاحب بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ حیدر آباد دکن (بھارت ) پاکستان کے مشہور شیعہ لیڈر علامہ رشید ترابی صاحب مرحوم ( وفات ۱۸ دسمبر ۱۹۷۳ء) کے قریبی عزیزوں میں سے تھے.حکومت نظام کے زمانہ میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز رہے.اس سال انہیں سفرِ پاکستان کے دوران جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ربوہ جانے کا بھی اتفاق ہوا.واپسی پر موصوف نے اپنے تاثرات جماعت احمدیہ حیدرآباد (دکن) کے جلسہ میں بیان فرمائے اور ساتھ ہی ضبط تحریر میں لا کر نظارت دعوت و تبلیغ قادیان کے توسط سے مدیر بدر مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری کو بھی ارسال کر دئیے.جنہیں درج ذیل کیا جاتا ہے.ان تاثرات سے ۱۹۶۸ء کے ربوہ کا ایک حسین اور ولولہ انگیز نقشہ آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ” مجھے ربوہ جانے کا اتفاق ہوا.میں نے جو چیزیں عام افواہ کے خلاف دیکھیں ان کا اظہار سطور ذیل میں کر رہا ہوں

Page 611

تاریخ احمدیت.جلد 24 571 سال 1968ء تا کہ اسلامی فرقوں میں اتحاد ہو اور دیگر فرق اسلامی اس اعلیٰ درجہ کی عملی زندگی تنظیم اور تبلیغ کو اپنائیں.وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا البَلاغ ربوہ کی بستی ”ربوہ“ لاہور سے تقریباً ایک سومیل بجانب جنوب مغرب شہر سرگودھا سے قریب دریائے چناب کے کنارے تین جانب چھوٹی پہاڑیوں سے گھرا ہوا واقع ہے جو جماعت احمدیہ کا صدر مقام ہے.یہاں اندرونِ پاکستان اور مغربی ممالک کی احمدی جماعتوں کے تنظیمی اور تبلیغی شاندار دفاتر ہیں جو سلیقہ سے تعمیر ہوئے ہیں اور خوبصورت لانس اور پھلواریوں سے مزین ہیں.اس کی آبادی پندرہ ہزار بتلائی جاتی ہے.تقریباً کئی سو مکانات پختہ اور دیدہ زیب ہیں جن میں عصری ضروریات مہیا ہیں.باقی مکانات اوسط درجہ کے مگر پختہ ہیں.آبادی کو ایک پلان کے تحت بسایا گیا ہے.اس کو بسانے کی ابتداء پندرہ برس اُدھر کی گئی اور اس قلیل عرصے میں اس قدر ترقی کارکنان جماعت احمدیہ کی سلیقہ شعاری اور انتھک کوششوں کی دلیل ہے.تقسیم ہند کے فوراً بعد بنظر تحفظ قادیان کی احمدی آبادی کو بہ ہزار دقت لاہور منتقل کیا گیا.حضرت امام صاحب جماعت احمد یہ کوفکر دامنگیر ہوئی کہ اپنی جماعت کو لا ہور کی رنگینیوں سے دور رکھا جائے.حضرت موصوف نے اس منتقلی آبادی سے پہلے خواب دیکھا تھا کہ وہ ایک ایسے مقام پر ہیں جو بلندی پر واقع ہے اور اس کے ایک جانب دریا بہہ رہا ہے اور تین جانب چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں ہیں.لاہور آنے کے بعد ایسے مقام کی تلاش کرائی گئی.ایک سال کی جستجو کے بعد اس مقام کو بعد معاینہ پسند فرمایا اور حکومت سے تقریباً بارہ سوا ایکڑ اراضی جو ہمیشہ سے ویران رہتی تھی خرید لی.زمین بہت شور ہے اور بیشتر مقامات پر کھاری پانی دستیاب ہوتا ہے جو پینے کے لئے ناموزوں اور دیگر ضروریات کے لئے بھی غیر مطبوع ہے.اس کے باوجود موجودہ لانس اور پھلوار یوں کو دیکھ کر بے ساختہ زبان سے نکل جاتا ہے ہے زمین شور سنبل بر نیارد کون کہتا ہے“ ربوہ قرآن کا لفظ ہے اور بلندی کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.چونکہ یہ مقام بلندی پر واقع ہے اور قرآن میں حضرت عیسی علیہ السلام کے تعلق سے مستعمل ہوا ہے.ہوسکتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ( جنہیں مسیح موعود علیہ السلام مانا جاتا ہے ) کے خلفاء نے ادبی نقطہ نظر سے بھی یہ نام پسند کیا ہو.

Page 612

تاریخ احمدیت.جلد 24 572 سال 1968ء ربوہ کی آبادی لاہور سرگودھا کی شاہراہ پر واقع ہے.اس آبادی سے دو تین میل کے فاصلہ پر دریائے چناب بہتا ہے جس پر ریل کا پل ہے جس کے اوپر موٹروں اور دیگر سواریوں کے گزرنے کیلئے سڑک تعمیر کی گئی ہے.یہ پل لاہور، لائکپور جیسے مقامات کو سرگودھا سے جو ایک مقام ہے ملاتا ہے.اس آبادی کی خصوصیت یہ ہے کہ بغیر حکومت کی امداد کے جماعت احمدیہ نے اس بستی کو اپنے فنڈ سے بسایا ہے.سڑکیں ، مکانات، بازار وغیرہ جماعت کے ذاتی تعمیر کردہ ہیں.اس آبادی میں بھی جیسا کہ پنجاب بھر میں قدم قدم پر ہینڈ پمپس ہیں، پانی ہینڈ پمپس سے کثیر مقدار میں فراہم ہوتا ہے.انسانی اور حیوانی ضروریات کے علاوہ باغبانی کی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں.حکومت کی جانب سے دریائے چناب سے سر براہی آپ کی کوششوں کے آثار پائے جاتے ہیں.جس کی تکمیل کے لئے کچھ مدت درکار ہوگی.آمد ورفت کی سہولتیں شاہراہ پر ہر وقت بسیں چلتی ہیں.جو سر گودھا اور لائکپورکو ملاتی ہیں.بسیں آرام دہ اور تیز رفتار ہیں کرائے کم ہیں.اس کے علاوہ یہاں ریلوے اسٹیشن بھی ہے جو حال میں تعمیر ہوا ہے.اور مقامی ضروریات کے لئے کافی ہے.ریلوے لائن آبادی کو دوحصوں میں تقسیم کرتی ہے جس پر تیز رفتارٹرینیں بھی چلتی ہیں اور یہاں سے لاہور اور کراچی کو بھی آسانی سے جایا جا سکتا ہے.اس لائن پر درمیانی اسٹیشنوں کے لئے ریل کاریں بھی چلائی جاتی ہیں.ایک ڈاکخانہ اور تار گھر بھی ہے.جماعت کے اخراجات سے ایک اچھا ہاسپٹل بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں اطراف واکناف کے لوگ بغرض علاج آتے ہیں.یہ دواخانہ قابل ڈاکٹروں کی زیر نگرانی ہے.آبادی کے وسط میں ایک گول بازار ہے جس میں سے پانچ چھ سڑکیں نکلتی ہیں اور ان سڑکوں کے بازوؤں میں مکانات و دفاتر تعمیر کئے گئے ہیں.۲۳ محلے ہیں اور ہر محلے میں ایک مسجد ہے.ایک کمیٹی ہے جو آپسی جھگڑوں کے علاوہ محلے کے لوگوں کے نماز و روزہ کی بھی نگرانی کرتی ہے.آبادی میں اگر چہ پولیس کی چوکی بھی ہے مگر یہاں کے لوگ اپنے تصفیے محلے کی کمیٹی سے طے کراتے ہیں جس کا مرافعہ جماعت کی ایک اعلی کمیٹی کرتی ہے جس میں جماعت کے زعماء ہوتے ہیں.سڑکوں کے ہر دو طرف درخت لگائے گئے ہیں جو یہاں کی شدید گرمی میں بہت آرام دہ ثابت ہوتے ہیں.گرمیوں میں سخت گرمی اور سردیوں میں سخت سردی ہوتی ہے اور کچھ عرصے سے درختوں کی وجہ سے بارش کی اوسط میں اضافہ ہوا ہے.

Page 613

تاریخ احمدیت.جلد 24 573 سال 1968ء اخلاق و آداب سڑک سے آبادی میں داخل ہونے کے راستہ پر ایک تختی لگی ہے کہ اندرونِ آبادی سگریٹ نوشی نہ فرمائیے کوئی شخص سڑکوں پر یا بازاروں میں سگریٹ پیتا ہوا دکھائی نہیں دیتا اور نہ بازار میں کسی دوکان پر سگریٹ فروخت ہوتے ہیں.آبادی میں منشیات کی دوکانیں نہیں ہیں.حتی کہ ایک سینما گھر بھی نہیں.اس جماعت کے لوگ سینما نہیں دیکھتے اور اگر کوئی شخص کسی دوسرے مقام پر سینما دیکھتے ہوئے پایا جائے تو اسے تو بہ اور استغفار کی سزا بھگتنی پڑتی ہے.ریڈ یوگھر میں ہیں مگر گانا سننے کی ممانعت ہے.اگر کوئی شخص سننا بھی چاہے تو اپنے گھر میں اس قدر آواز سے سن سکتا ہے کہ ہمسائے کے گھر میں آواز سنائی نہ دے.خوش اخلاقی، ہمدردی اور دیانتداری یہاں کے لوگوں کا شعار ہے.دنیوی معاملات میں بھی راستباز ہیں.احکام خدا اور سنتِ رسول پر چلنے کی ہر شخص کوشش کرتا ہے اور ہر کام اور ہر بات میں خدا کا ذکر کرتا ہے.اس آبادی میں جرائم نہیں ہوتے عورتیں خواہ کسی عمر کی ہوں بر فعے اور نقاب میں دکھائی دیتی ہیں.کالج کی طالبات بھی شعار اسلامی کی پابند ہیں.چست لباس کہیں دیکھنے میں نہیں آتا.ربوہ پہنچنے سے پہلے دوست احباب اور ساتھ کے مسافروں نے بتلایا کہ ربوہ میں جنت بنائی گئی ہے جس میں حور میں روشوں پر ٹہلتی اور جھولوں پر جھولتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر یہاں صرف اسلام کی پابندی ہی دکھائی دی! تعلیمی حالت جماعت احمدیہ کئی لاکھ اشخاص پر مشتمل ہے جو دنیا کے ہر حصے میں پھیلے ہوئے ہیں زیادہ تر تجارت و زراعت پیشہ اور ملازمین ہیں جن میں سے بعض نہایت اہم عہدوں پر فائز ہیں.اس جماعت کا تعلیمی معیار دیگر جماعتوں سے بہت اونچا ہے جس کی وجہ ان کی تنظیم ہے اکثر و بیشتر افراد انگلستان اور امریکہ کے تعلیم یافتہ ہیں جو ملک اور جماعت کی خدمت میں منہمک ہیں.مقامی طور پر مدارس ثانوی کے علاوہ مردوں اور عورتوں کے ڈگری کالج ہیں جن کے طلباء امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں.عورتوں کے لئے دستکاری کا مدرسہ بھی ہے.عمارتیں پختہ اور عمدہ ہیں.تعلیم دینے والے قابل لوگ ہیں.آجکل مغربی اعلیٰ تعلیم کے بعد مذہبی رجحان اور عمل مفقود ہے لیکن اس جماعت کا ہر وہ شخص بھی جس نے مغربی اعلی تعلیم انگلستان اور امریکہ میں پائی ہے نہایت خوش خلق اور پابند مذہب ہے اور کہیں سے بھی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ شخص امریکہ یا انگلینڈ زدہ ہے.باوجود اعلی

Page 614

تاریخ احمدیت.جلد 24 574 سال 1968ء تعلیم اور اعلی خدمات پر فائز ہونے کے رعونت و تکبر مزاج میں نہیں پایا جاتا.اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو بھی خدا اور مذہب کی ویسی ہی ضرورت ہے جیسے متوسط طبقے کو ہوتی ہے.اس آبادی کا چھوٹا بڑا ہر شخص پابند صوم وصلوٰۃ ہے.پنج وقت مسجد میں نمازیں ہوتی ہیں اور محلے کا ہر شخص ان میں شرکت کرتا ہے اور یہاں کا بازار نماز عشاء کے لئے بند ہوتا ہے تو صبح ہی کھلتا ہے.جمعہ کی نماز واقعی ایسی ہوتی ہے جیسے نماز عید ہوتی ہے.کثیر تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہیں.عورت مرد سبھی نماز میں شریک ہوتے ہیں.مسجد میں ایک چوتھائی حصہ عورتوں کے لئے مختص ہے.مردانہ اور زنانہ حصہ کے درمیان قنات ہوتی ہے.حضرت امام صاحب خود پنجوقتہ نماز پڑھاتے ہیں.ماہ رمضان میں عبادت کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی بیان کی جاتی ہے.رسومات سے اجتناب یہ کام عام طور پر مسلمانوں میں نہ صرف خوفناک بلکہ تباہ کن ہوتا ہے.کئی مسلمانوں کے خاندان ایسے ہیں جو شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور ان کی لڑکیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں.مگر جماعت احمدیہ نے اس کام کو نہایت آسان کر دیا ہے.ان کے یہاں نہ جوڑے گھوڑے کے بارے میں تکرار ہوتی ہے اور نہ جہیز کے متعلق سوال و جواب.دلہن والے اپنی حیثیت سے جو بھی دیں قابل قبول.جو کچھ دیا جاتا ہے وہ دلہن کو نہ کہ دولہے کو.نکاح کی تاریخ اور وقت کا اعلان ہو جاتا ہے.مکان پر دوست احباب جمع ہو جاتے ہیں.نکاح ہونے کے بعد شرکاء عقد دونوں کو دعا دے کر رخصت ہو جاتے ہیں.البتہ ولیمہ حسب حیثیت ضرور کیا جاتا ہے.کسی قسم کی رسومات شادی سے پہلے اور بعد میں نہیں کئے جاتے.عقد کو ضرورت شرعی تصور کیا جاتا ہے اور اس طرح سے اسراف سے چھٹکارا ہو جاتا ہے.شادی کے بعد نہ قرض خواہوں کے تقاضے ہوتے ہیں اور نہ عدالتی ڈگریوں کے ماتحت گھر کا اسباب نیلام ہوتا ہے.موت واقع ہو جانے کی صورت میں مسجد میں اعلان ہو جاتا ہے.دوست احباب اور عزیز و اقارب پر سہ کے لئے گھر پر جمع ہو جاتے ہیں.صرف مرنے والے کے لئے کفن اور قبر کے اخراجات حب حیثیت کئے جاتے ہیں جو زیر بارگن نہیں ہوتے.البتہ مرنے والے کے عزیز واقارب قبر پر جا کر مرنے والے کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں.چہلم کے روز چالیس قسم کے کھانوں سے یہ حضرات محروم ہیں.

Page 615

تاریخ احمدیت.جلد 24 575 سال 1968ء اس جماعت کی عورتیں پردہ کی پابندی کرتی ہیں گھر سے باہر برقعے کے بغیر کوئی عورت دکھائی نہیں دیتی.اردو زبان باوجود پنجابی ہونے کے اس آبادی کے چھوٹے بڑے کی زبان اردو ہے اور شستہ اردو بولتے ہیں.نے کا استعمال کافی تعداد میں اردو گرامر کے خلاف ہوتا ہے.بایں ہمہ اردو میں مروجہ فارسی و عربی کے الفاظ گفتگو میں صحیح طور پر استعمال کئے جاتے ہیں.قرآن مجید کی تفسیر اردو میں کئی جلدوں میں لکھی گئی ہے اور بیشتر تصنیفات اردو ہی میں ہیں.جذبہ ایثار و قربانی یہ جذبہ اس جماعت میں درجہ کمال کو پہنچا ہوا ہے.جب کبھی جماعت کو اپنی جماعت کے کسی شخص کی خدمات کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ حضرت امام صاحب کے حکم کی تعمیل میں فوراً اپنے نفع و نقصان کا خیال کئے بغیر جماعت کی خدمت کے لئے حاضر ہو جاتا ہے.اس وقت ربوہ میں کئی ایسے افراد ہیں جو بڑی بڑی ملازمتیں چھوڑ کر جماعت کی خدمت کر رہے ہیں گو جماعت ان کی خدمت کا قلیل معاوضہ دیتی ہے.کئی اشخاص ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جائدادیں جماعت کے حق میں ہبہ کر دیں.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے ایثار اور قربانی کی مثال نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ ہر فرقہ کے صاحب جاہ وثروت کے لئے قابل تقلید ہے.ان کی جائداد کا اکثر حصہ جماعت کے حق میں وقف ہے اور آمدنی کا بھی بڑا حصہ جماعتی کاموں پر صرف ہو رہا ہے.انہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ جماعت کے بڑے سے بڑے آدمی پر لازم ہے کہ وہ کم از کم پندرہ روز مواضعات میں جا کر درس کلام مجید دے اور وہ بھی اپنے صرفہ پر.جائے غور ہے کہ ہر سال اپنے کاروبار کو چھوڑ کر خدمت دین کرنا کس قدر بڑا ایثار و قربانی ہے.کیا اس کی مثال کسی دوسرے فرقہ میں مل سکتی ہے.دینی کارنامے اس جماعت نے اپنے ۲۳ محلوں میں ہر محلہ کے لئے ایک ایک مسجد تعمیر کروائی ہے اور ایک بہت شاندار مسجد جس کا نام مسجد اقصیٰ ہے سالانہ اجتماع کے میدان میں زیر تعمیر ہے.جس کی تعمیر کے اخراجات ایک صاحب خیر نے اپنے ذمے لئے ہیں جس کا اندازہ پانچ چھ لاکھ روپیہ ہے اور اس نے اپنا نام پردہ اخفا میں رکھنے کی خواہش کی ہے.ربوہ کے علاوہ بیرون ملک مثلاً امریکہ، انگلستان ، ڈنمارک،

Page 616

تاریخ احمدیت.جلد 24 576 سال 1968ء جرمنی، جنوبی افریقہ کے بیشتر مقامات میں مساجد تعمیر کروائی ہیں.بیرونی ممالک میں کس قدر اخراجات ہوئے ہوں گے ہر پڑھا لکھا شخص اندازہ کر سکتا ہے.کلام مجید کے یورپ کی چودہ زبانوں میں ترجمے کئے گئے ہیں.ہندی کا ترجمہ ابھی زیر تکمیل ہے اسلامیات پر کئی کتا بیں مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور ان کے لئے ایک بڑی شاندار لائبریری کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کیا جا رہا ہے.اسلامیات پر مبلغین کو تعلیم دے کر مختلف ممالک کو روانہ کیا جاتا ہے اور وہاں کے طلباء ربوہ مذہبیات میں درس لینے آتے ہیں جن کے اخراجات جماعت برداشت کرتی ہے اور انہیں سکالر شپ دئے جاتے ہیں.تنظیم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے بڑے تعمیراتی کام، تراجم، تبلیغی اخراجات اور کتب کی طباعت وغیرہ کس فنڈ سے کی جاتی ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ جماعت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ وہ سواچھ فیصد سے لے کر دس فیصد تک اپنی آمدنی بطور چندہ جماعت کو دے جس کا اندازہ تقریباً ایک کروڑ روپیہ سالا نہ ہوتا ہے.ان تنظیمی کاموں کے انصرام کے لئے متعدد دفاتر قائم کئے گئے ہیں.جن کی شاندار عمارتیں ہیں اور ان میں کام انجام پاتا ہے.مختلف محکمہ جات ہیں جن میں اردو عربی اور انگریزی جاننے والے اہلکار اور عہدہ دار ہیں.اور اپنے فرائض منصبی فرض شناسی سے انجام دیتے ہیں.اگر کوئی رکن چھ ماہ تک چندہ ادا نہ کرے تو آئندہ اس کا چندہ قبول کرنے سے انکار کیا جاتا ہے جو اس کے لئے جسمانی سزا سے کہیں بدتر ہے.اس کو تو بہ و استغفار کی سزا بھگتنی پڑتی ہے.جس کے بعد اس کی کوتاہی کو معاف کیا جاتا ہے.احکام کی خلاف ورزی کی صورت میں سزائیں بھی دو قسم کی دی جاتی ہیں ایک یہ کہ چندہ لینے سے انکار کیا جاتا ہے دوسرے یہ کہ بلحاظ نوعیت جرم کرنے والے کو مسجد میں چند دن تو بہ و استغفار کرنی پڑتی ہے.قابلِ صد آفرین ہیں وہ لوگ جو جماعت کے احکام کی پابندی کرتے ہیں کیونکہ حکومتوں کی عبرتناک سزاؤں کے باوجود بھی لوگ جرم کرنے کی جسارت کرتے رہتے ہیں.سالانہ اجتماع سالانہ اجتماع ماہ دسمبر کے آخری ہفتہ میں ہوتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ستر اسی ہزار آدمی

Page 617

تاریخ احمدیت.جلد 24 577 سال 1968ء شرکت کے لئے جمع ہوتے ہیں.سمجھ میں نہیں آتا اس قدر کثیر تعداد میں لوگ اس چھوٹی سی بستی میں کیونکر ٹھہرائے جاتے ہیں جبکہ سردیاں اپنے شباب پر ہوتی ہیں.علاوہ ازیں اتنے اشخاص کے کھانے پینے کا انتظام کیونکر کیا جاتا ہے.بیان کیا جاتا ہے ہر ایک کو گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں کھانا تقسیم کر دیا جاتا ہے.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس جماعت میں کس قدر منظم طریقہ پر کام ہوتا ہے اس اجتماع میں امیر سے امیر اور غریب سے غریب کھانا لنگر خانہ سے کھاتا ہے اور ان میں ہزاروں افراد ایسے ہوں گے جو اپنے گھروں میں نفاست سے کھانے کے عادی ہوں گے.مهمان خانه یانگر خانه ایک وسیع کمپونڈ میں پختہ عمارت ہے جس کے جانب مغرب طویل اور وسیع ڈائننگ ہال ہے اور جانب شمال کئی کمرے ہیں جن میں مہمان ٹھہرائے جاتے ہیں.جانب جنوب بڑے بڑے ہال اور جانب مشرق پانچ چھ فیملی کوارٹر ہیں جن میں ایسے مہمان جن کے ساتھ اہل وعیال ہوں مقیم رہ سکتے ہیں.بیان کیا جاتا ہے کہ اسی لنگر خانہ سے سالانہ اجتماع کے خوردنوش کا بھی انتظام کیا جاتا ہے.ملازمین مہمان خانہ منکسر المزاج، ہمدرد اور فرض شناس ہیں جو مہمان کی ضروریات کی فوری تکمیل کرتے ہیں.اس لنگر خانے کا سالانہ بجٹ ایک لاکھ روپے بیان کیا جاتا ہے.قبرستان آبادی کے جانب مشرق سڑک کے اس پار پہاڑیوں کے دامن میں قبرستان کے لئے ایک وسیع میدان ہے جس میں موجودہ امام صاحب کے پیشرو کی قبر ہے مزار مبارک کے اطراف دیگر قبریں ہیں جن کی خصوصیت یہ ہے کہ کتبہ پر مرنے والے کی زندگی کے اہم واقعات کندہ ہیں.قبریں سلیقہ سے بنائی گئی ہیں اور قطار در قطار ہیں.اس کو خوبصورت بنانے کے لئے پھولوں کے اور سایہ دار درخت لگائے جارہے ہیں.حضرت امام جماعت احمدیہ حضرت صاحب علوم مشرقیہ کے ماہر ہیں اور علوم مغربی کی تعلیم انگلستان میں پاکر فارغ التحصیل ہونے پر امامت پر فائز ہونے سے پیشتر درس و تدریس میں مشغول رہے.مقامی کالج کے پرنسپل تھے.اس وقت سن شریف ساٹھ ، دراز قامت، گٹھیلا جسم ، خوبصورت ہنس مکھ چہرہ جس سے تقدس ٹیکتا

Page 618

تاریخ احمدیت.جلد 24 578 سال 1968ء ہے.اپنی جماعت کے تقریبا ہر فرد کی نجی زندگی سے واقف اور اس کے اچھے برے حالات میں اس کے ساتھی ہیں.آپ کی رہائش گاہ کے متصلہ بڑی مسجد ہے اس میں پانچ وقت نماز پڑھاتے ہیں.اور باقی وقت انتظامات مقامی و ممالک بیرونی میں مشغول رہتے ہیں.مبلغین کی ساری رپورٹیں بذاتِ خود ملاحظہ فرما کر ہدایات تحریر فرماتے ہیں.ملاقات کے متمنی اشخاص سے خوش اخلاقی سے پیش آتے ہیں.وسیع معلومات سے ان کے علمی تبحر کا پتہ چلتا ہے.علاوہ دنیوی اور دینی کے علم الا بدان سے واقف ہیں.طب یونانی اور انگریزی بھی جانتے ہیں.باوجود کثیر جائداد کے مالک ہونے کے نہایت سادہ زندگی بسر کرتے ہیں.اور اپنی جائداد کا معتد بہ حصہ جماعت کی فلاح و بہبود پر صرف فرماتے ہیں.کئی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں.ان کی مقناطیسی شخصیت اور کردار نے ساری جماعت کو مسحور کر رکھا ہے اور ان کی رہنمائی اور قیادت میں ساری جماعت شرع محمدی پر کار بند اور عامل ہے.جماعت کا اخلاقی معیار بہت بلند ہے اور احکام اسلام کی پابندی کا فیصد تقریباً صد فی صد ہے جس کی نظیر نہیں ملتی.ہر فرقے میں خال خال شخصیتیں پابندِ شرع ہوتی ہیں مگر پوری جماعت کو اسلامی تعلیمات کا نمونہ بنانا آپ کی ایک کرامت ہے.میری تمام فرقوں سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اپنے اندر جماعت احمدیہ کی سی تنظیم ، احکام شرع کی پابندی اور تبلیغ اسلام کا جذبہ پیدا کریں اور اپنے عالم دین کی اطاعتِ مطلقہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اسلام کا کیوں نہ دنیا میں بول بالا ہو.اور اسلام تمام روئے زمین کے انسانوں کا چہیتا مذہب ہو جائے.ترک دنیا کے علائق تو کئے سب زاہد گر مناسب ہو تو اک ترک ریا اور سہی کوئٹہ و قلات ڈویژن کا سالانہ اجتماع انصار اللہ 96 مورخه ۱۷، ۱۸ را گست ۱۹۶۸ء کو مجلس انصار اللہ کوئٹہ کا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.اس اجتماع میں قلات ، سبی اور دیگر مجالس کے اراکین بھی شامل ہوئے.مرکز کی طرف سے محترم شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے قائد عمومی مجلس انصار اللہ مرکز یہ محترم مولا نا دوست محمد شاہد صاحب فاضل اور محترم ابوالعطاء صاحب کو ئٹہ تشریف لے گئے.اس موقع پر نو جوانوں کا تقریری مقابلہ بھی ہوا.انصار کے ورزشی مقابلہ جات بھی کروائے گئے اور اول و دوم آنیوالوں کو انعامات دیئے گئے.اجتماع کا اصل

Page 619

تاریخ احمدیت.جلد 24 579 سال 1968ء افتتاح سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے نہایت موثر ٹیپ شدہ پیغام سے ہوا جسے جملہ حاضرین نے ہمہ تن گوش بن کر سنا.مقررین کی تقاریر میں انصار اللہ کو اپنے فرائض اور بچوں کی تربیت تعلیم قرآن جمید اور وقف عارضی کی طرف خاص توجہ دلائی گئی.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا دورہ کراچی سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث ۳۱ جولائی ۱۹۶۸ء بروز بدھ پونے دس بجے صبح کچھ عرصہ کے لئے بذریعہ چناب ایکسپریس کراچی تشریف لے گئے.اہل ربوہ نے بہت کثیر تعداد میں ریلوے اسٹیشن پر حاضر ہو کر اپنے آقا کو نہایت پر خلوص طور پر دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے کی سعادت حاصل کی.گاڑی میں سوار ہونے سے قبل حضور نے ایک لمبی پر سوز اجتماعی دعا کرائی جس میں جملہ احباب شریک ہوئے.دعا سے فارغ ہونے کے بعد جب حضور ریل گاڑی میں سوار ہوئے تو اسٹیشن کی فضا اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، حضرت خلیفہ المسیح زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھی.گاڑی روانہ ہونے تک فضا ان پر جوش اسلامی نعروں سے گونجتی رہی.حضور انور کا کراچی میں ورود مسعود 98 مورخہ یکم اگست ۱۹۹۸، کوسیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کراچی پہنچ گئے.حضور کی آمد کے موقع پر کینٹ ریلوے اسٹیشن پر جماعت احمدیہ کراچی نے حضور انور کا والہانہ استقبال کیا.حضور اقدس کراچی میں ایک ماہ سات دن قیام فرمانے کے بعد ے ستمبر ۱۹۶۸ء بوقت ساڑھے سات بجے شام بذریعہ ب ایکسپریس ربوہ واپس تشریف لے آئے.حضور انور نے اپنے قیام کے دوران پانچ خطبات بمقام احمد یہ ہال کراچی میں ارشاد فرمائے.( مورخہ ۳۰ /اگست ۱۹۶۸ء کا خطبہ صیغہ زود نویسی کے ریکارڈ کے مطابق حضور نے ارشاد فرمایا تھا جو تا حال دستیاب نہیں ہو سکا ).اس کے علاوہ حضور انور نے مجلس انصار اللہ کراچی کے آٹھویں سالانہ تربیتی اجتماع اور مجلس خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے اجلاسات سے بھی بصیرت افروز خطابات ارشاد فرمائے.حضور کی قیام گاہ پر عموماً روزانہ مجلس عرفان ہوتی رہی.حضور انور کی بعض مصروفیات کی تفصیل درج ذیل ہے.99-

Page 620

تاریخ احمدیت.جلد 24 580 سال 1968ء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب یکم ستمبر ۱۹۶۸ء کوسید نا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے احمد یہ ہال میں مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے ایک پُر معارف خطاب فرمایا جس میں حضور انور نے فرمایا کہ اس زمانہ میں اس عہد بیعت کی وجہ سے جو اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان میں اہم کام غلبہ اسلام کے لئے ہرممکن کوشش ہے.ہمارا تعلق صرف آسمانی حکومت کے ساتھ ہے اور اس حکومت کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.اسی لئے ہمارا اصول یہ ہے کہ ہم حکومت کے قانون کی پوری پابندی کریں اور کسی معمولی حکم کو بھی توڑنے والے نہ ہوں.غلبہ اسلام کے لئے یہ اصول بہت اہم اور شاندار ہے اور اسی وجہ سے تمام دنیا میں احمدیت ترقی کی راہ پر گامزن ہے.دوسری اہم بات جو اس عہد بیعت سے تعلق رکھتی ہے وہ قرآن کریم کے علوم سے واقفیت اور اس پر عمل کرنا ہے.اصل زندگی وہی ہے جو قرآن کریم کی تابع اور اس کے عین مطابق ہو.اس لئے قرآن کریم سے عشق و محبت کا تعلق ہونا چاہیئے.اور ہماری سب زندگی اس کے مطابق بسر ہونی چاہیئے.تیسرا امر جو عہد بیعت کی وجہ سے ہم پر عائد ہوتا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہے.کیونکہ در حقیقت یہ کتب بھی قرآن کریم کے علوم کی تفسیر کے طور پر ہیں.ان میں بہت عمدہ معارف بیان کئے گئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو قدرت ثانیہ کی بشارت دی.جس سے مراد خلافت حقہ ہے.اور اس خلافت کی حفاظت کے جو ہم اقرار کرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ہم اپنی عملی حالت میں تبدیل کریں گے اور اعمال صالحہ کو اختیار کرنے والے ہوں گے.اسی طرح دوسرا امر یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں ان کو ہم پوری تندہی کے ساتھ نباہنے والے ہوں کیونکہ جماعت کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت ہمارے سامنے موجود ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے والوں کو تدریجی ترقی عطا فرمائی.چنانچہ ہمیں خلافت کی برکات حکمت عملی کے ساتھ پیش کرنی چاہئیں.بعض وساوس و شبہات اور غلط نظریات کا ازالہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس میں شک نہیں کہ خلیفہ وقت عاجزی اور انکساری کے مقام پر ہوتا ہے اور معجب اور خود پسندی سے دور ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس کے شامل حال ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے

Page 621

تاریخ احمدیت.جلد 24 581 سال 1968ء نمونے اس کے ذریعہ ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے ایسے لوگوں کے غلط نظریات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے.حضور نے خدام کو نصیحت فرمائی کہ جب آپ نظام خلافت کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہیں تو اس کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ خلافت کے بارہ میں پیدا کی جانے والی ہر غلط فہمی کا ازالہ کریں اور نظام خلافت سے پوری وابستگی اختیار کریں اور اگر ایسی کوئی صورت پیدا ہو تو اسے فرو کرنے کی کوشش کریں.10 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا مجلس انصاراللہ کراچی سے خطاب مجلس انصاراللہ کراچی کا آٹھواں سالانہ تربیتی اجتماع یکم ستمبر ۱۹۶۸ء بروز اتوار احمد یہ ہال میں سوا نو بجے شروع ہوا.مجلس انصاراللہ کراچی کی خوش قسمتی تھی کہ سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث أن دنوں کراچی میں تشریف فرما تھے اور حضور نے ازراہ عنایت اجتماع کا افتتاح فرمایا.انصار نے حضور انور کی قیادت میں اپنا عہد دہرایا.اس کے بعد حضور انور نے انصار اللہ سے خطاب فرمایا.حضور نے فرمایا انصاراللہ پر بڑی ذمہ داری اپنے نفسوں کی اصلاح اور ماحول کی تربیت ہے.اگر انصاراللہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے ان وعدوں کو پورا کرے گا جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کئے.یہ ضروری ہے کہ نسلاً بعد نسل جماعت کی تربیت ہوتی رہے کیونکہ صرف اسی صورت میں اللہ تعالیٰ اسلام کو غالب کرے گا.لیکن اگر ہم آئندہ نسلوں کی تربیت نہ کر سکے تو پھر غیر تربیت یافتہ نسل اسلام کی کامیابیوں کی وارث نہیں ہوسکتی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو موعود سرزمین کی بشارت دی گئی تھی لیکن جب ان کے ماننے والوں نے ویسی قربانیاں پیش نہ کیں جن کا مطالبہ کیا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کو چالیس سال تک التواء میں ڈال دیا اور اس کے بعد اگلی نسل کو وہ تربیت حاصل ہوئی جو اس کے لئے ضروری تھی اور اس دوسری نسل کے ذریعہ یہ وعدہ پورا.حضور انور نے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اہل وعیال کی تربیت کے اصولوں کی تشریح فرمائی اور احباب کو توجہ دلائی کہ انہیں اپنے اہل و عیال کی تربیت اور آئندہ نسلوں کی اصلاح کیلئے خاص کوشش کرنی چاہیئے.حضور انور نے فرمایا کہ ہر مربی کو خود نمونہ پیش کرنا چاہیے کیونکہ اسی صورت میں دوسروں کی تربیت کی جاسکتی ہے.حضور کا یہ ایمان افروز خطاب ۵۵ منٹ تک جاری رہا اور اس کے بعد حضور مقام اجتماع سے

Page 622

تاریخ احمدیت.جلد 24 582 سال 1968ء تشریف لے گئے اور اجتماع کی کارروائی جاری رکھنے کا ارشاد فرمایا.پروگرام کے مطابق باقی تقاریر ہوئیں اور آخر میں چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت کراچی نے انعامات تقسیم کئے اور دعا پر سالانہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا لجنہ اماءاللہ کراچی سے خطاب سید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے دیستمبر ۱۹۶۹ء کو لجنہ اماءاللہ کراچی سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.جس میں حضور نے حیات طیبہ کے قرآنی تخیل کی وجد آفریں تشریح کرتے ہوئے احمدی خواتین کو نصیحت فرمائی کہ حقیقی عزت وہی ہوتی ہے جو انسان اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حاصل کرتا ہے دنیا کی نگاہیں بدل جاتی ہیں.اور وہی انسان جو ایک وقت میں معزز سمجھا جاتا ہے یا کہلاتا ہے اسی کو لوگ گالیاں دینے لگ جاتے ہیں.بڑے بڑے جابر بادشاہ جنہوں نے اپنی ہی قوم کو نہیں بلکہ دنیا کے ایک بڑے حصہ کو اپنی مٹھی میں لے لیا اور بظاہر بڑی شان سے ان پر حکومت کی.وہ بعد میں ذکر خیر سے یاد نہیں کئے گئے.مجھے یاد ہے کہ جب ہٹلر عروج پر تھا اور میں آکسفورڈ میں پڑھتا تھا تو کئی بار مجھے جرمنی جانے کا اتفاق ہوا.وہاں میں نے دیکھا کہ اس کی قوم اسے بڑی محبت اور عزت سے دیکھتی اور یاد کرتی ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی گرفت نے اسے پکڑا تو اوروں کو تو چھوڑ و خود اس کی قوم کی زبان پر اس کے لئے سوائے لعنت کے اور کوئی لفظ نہیں تھا.غرض دنیا کی فانی اور عارضی عزتیں ایک عارضی وقت کیلئے ایک نا سمجھ اور جاہل آنکھ کو دھوکہ دے سکیں.لیکن ایسی عزتوں کو حقیقی اور ابدی عزتیں نہیں کہا جاسکتا.لیکن وہ اخروی زندگی جو اس زندگی کے بعد ان کو ملے گی جن پر اللہ تعالیٰ اپنا فضل کرے گا اس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک ایسی عزت پائیں گے جس پر کوئی زوال نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کا سچا ہے اور اس کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ ہمارا تخیل بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيوةً طَيِّبَةً (الحل: ۹۸) میں فرمایا ہے کہ کوئی مرد ہو یا عورت جو بھی اعمال صالحہ بجالائے تو اسے اس دنیا میں ایک ایسی حیاۃ طیبہ دے دی جائے گی کہ جس کے نتیجہ میں اسے ایک ایسی بقا ملے گی جس پر فنا نہیں.اسے خدا کی نگاہ میں ایک ایسی عزت ملے گی کہ وہی حقیقی عزت ہے.اور اس پر کوئی زوال نہیں.اور اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے ایسی دولتیں اس کو دی جائیں گی کہ دنیا کی دولتیں اس کے مقابل

Page 623

تاریخ احمدیت.جلد 24 583 سال 1968ء میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں.یہ وعدہ ان کو دیا گیا ہے جو اعمال صالحہ بجالاتے یا لاتی ہیں.اور ایمانی حالت پر پختگی اور ثبات قدم کے ساتھ قائم رہتی ہیں.اگر آپ میں سے کوئی دنیا سے متاثر ہو کر بے پردگی کی راہوں کو اختیار کرے.اگر وہ نمائش کے طریق کو پسند کرے اور قناعت اور عاجزی کی راہوں کو اختیار نہ کرے تو اس کے لئے خدا تعالیٰ نے حیات طیبہ کا وعدہ نہیں دیا.محض احمدی ہو جانا.محض احمدی کہلا نا محض خود کو احمدی سمجھنا تو کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.یہ دعویٰ بے نتیجہ ہے یہ لیبل بے معنی ہے.یہ طریق اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والا ہے.اسے خوش کرنے والا نہیں.پس جس حیات کیلئے آپ میں سے ہر ایک کو پیدا کیا گیا ہے یعنی حیات طیبہ (وہ زندگی جو خدا کے سائے میں گزرے) آپ کو چاہیئے کہ آپ اسے تلاش کریں.آپ اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں آپ اسے پائیں اور اگر آپ اسے پالیں تو پھر آپ یقین رکھیں کہ یہ زندگی ان تمام لوگوں کی زندگیوں کے مقابلہ میں جو اس دنیا میں اپنی ساری کوششوں کو ضائع کر دیتے ہیں جو خدا کی طرف رجوع کرنے والے نہیں.خدا کا قرب پانے والے نہیں.اس کی رضا کو حاصل کرنے والے نہیں.ہزار درجہ نہیں.کروڑ درجہ نہیں ارب گنا زیادہ نہیں بلکہ ان گنت اور بے شمار درجہ بڑی اور اچھی اور حسین اور مسرتوں والی اور لذتیں دینے والی زندگی ہے.پس آپ اپنے مقام کو پہچانیں اور ان وعدوں کے وارث بنے کی کوشش کریں جو وعدے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ سے کئے ہیں اور بہت اور عظیم ہیں.خوش زندگی کے ہیں.منور زندگی کے ہیں اللہ تعالیٰ کے عضو سے منسوب ہونے والی زندگی کے ہیں ایک ایسی زندگی کے ہیں که ساری دنیا اس پر رشک کرے کہ آپ کو کیا مل رہا ہے.اور کیا ملنے والا ہے.حضور انور کا سفر ٹھٹھ مکرم آفتاب احمد بل صاحب حضور انور کے کراچی تشریف لانے کے بعد سفر ٹھٹھہ کا ذکر کر تے ہوئے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی معیت میں ٹھٹھہ جانے کا موقع ملا.وہاں حضور نے مسجد شاہجہان کا معاینہ فرمایا اور اس کے بعد ٹھٹھہ کے مشہور مقابر دیکھنے گئے.حضور نے مسجد کی تصاویر لیں.حضرت بیگم صاحبہ وصاحبزادیاں بھی ہمراہ تھیں اور قافلے کے کچھ دوسرے لوگ بھی ہمرکاب تھے.یہ وہی مسجد ہے جس کی تعمیر کچھ اس طرح ہوئی ہے کہ امام خطبہ اور نماز کے وقت جو کچھ بولتا تھا وہ اتنی بڑی مسجد کے ہر حصہ میں سنا جا سکتا تھا.چنانچہ حضور نے خود بھی منبر پر کھڑے ہو کر سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی اور اس کی گونج پوری مسجد میں سنائی دی.حضور نے اس موقع

Page 624

تاریخ احمدیت.جلد 24 584 سال 1968ء پر مسجد کے مشرقی حصہ کے دروازے پر کندہ قطعہ کی طرف خاکسار کو توجہ دلائی اور فرمایا کہ اسے لکھ لیں تا کہ یہ سلسلے کے ریکارڈ میں محفوظ ہو جائے.دراصل اس قطعہ میں مسجد کی تاریخ تکمیل بحروف ابجد بتائی گئی ہے اور اس میں اسے مسجد اقصیٰ کہا گیا ہے.قطعہ یہ ہے:.وہ یہ تھا: چوں زصاحب قراں شاہ جہاں یافت ترتیب مسجد اعلی ہا تھم گفت سال اتمامش کشت زیبا چو مسجد اقصی ۱۰۵۷ ہجری اس کے بعد جب مقابر دیکھنے گئے وہاں شرفا خان کے مقبرے کے اندر ایک اور شعر کندہ پایا اور ہست تاریخ ایں بنائے شریف باصفا مثل مسجد اقصی ۱۰۵۲ ہجری 104 حضور انور کی بخیریت ربوہ واپسی سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث مع حضرت بیگم صاحبہ وبعض دیگر افراد خاندان کراچی میں پانچ ہفتہ قیام فرمانے کے بعد مورخہ ۸ ستمبر ۱۹۶۸ء کو شام ساڑھے چھ بجے بذریعہ چناب ایکسپریس بخیر و عافیت ربوہ واپس تشریف لائے.اہل ربوہ نے کثیر تعداد میں ریلوے اسٹیشن پر حاضر ہو کر حضور کو خوش آمدید کہنے کی سعادت حاصل کی.صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، صدرانجمن احمدیہ کے ناظر ، وکلاء صاحبان ممبران صدر انجمن احمد یہ مجلس تحریک جدید اور صدر صاحبان محلہ جات نے ایک خاص نظام کے تحت پلیٹ فارم پر کھڑے ہو کر اور دیگر مقامی احباب نے اسٹیشن سے باہر سڑک پر دور تک دورویہ کثیر تعداد میں ایستادہ ہو کر حضور انور کے والہانہ استقبال میں حصہ لیا.جونہی گاڑی پلیٹ فارم پر پہنچی اسٹیشن اور اس کا ماحول اللہ اکبر اور حضرت خلیفتہ المسیح زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھا.حضور کے گاڑی سے باہر تشریف لانے پر امیر مقامی محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد نے آگے بڑھ کر حضور سے مصافحہ کا شرف حاصل کیا.اسٹیشن سے حضور انور کی موٹر کار جوق در جوق سڑک پر دور و یہ کھڑے ہوئے احباب کے درمیان سے آہستہ آہستہ گزرتی ہوئی قصر خلافت روانہ ہوئی.احباب پر جوش اسلامی نعرے لگاتے اور بلند آواز

Page 625

تاریخ احمدیت.جلد 24 585 سال 1968ء سے السلام علیکم کہتے جاتے تھے اور حضور زیر لب تبسم فرماتے ہوئے ہاتھ ہلا ہلا کر ان کے سلام کا جواب دیتے جاتے تھے.105 مری لٹریری سرکل کے زیر اہتمام ایک لیکچر مری لٹریری سرکل کے زیر اہتمام ۱۸ ستمبر ۱۹۶۸ء کو ساڑھے پانچ بجے شام اقبال میونسپل لائبریری میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب سابق مجاہد بلاد عر بیہ و مدیر الفرقان“ ربوہ نے مسئلہ فلسطین پر ایک نہایت فاضلانہ لیکچر دیا اس کی صدارت مشہور شاعر چوہدری منظور احمد صاحب منظور نے کی.اجلاس کے آغاز پر لٹریری سرکل کے سیکرٹری جناب بصیر قریشی صاحب ایڈووکیٹ نے حاضرین مجلس سے فاضل مقرر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب مدیر ماہنامہ الفرقان ربوہ کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ محترم مولانا ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۶ء تک فلسطین میں مقیم رہے ہیں اور انہوں نے وہاں پر یہود کی آمد اور مسلمانوں کی بے بسی کو خود مشاہدہ کیا ہے.مکرم مولا نا صاحب نے اپنی تقریر میں فلسطین نام کی وجہ تسمیہ اور ابتدائی تاریخ کی طرف مختصراً اشارہ کرنے کے بعد معاہدہ بالفور کا ذکر کیا.جس کی رُو سے برطانیہ نے یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کا بیڑا اٹھایا.یہود سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر فلسطین میں قدم جمانے میں کامیاب ہو گئے.جب مالدار یہودیوں نے فلسطین کے مسلمان جاگیر داروں کو بنجر اور بے آباد زمینوں کے عوض خطیر رقم پیش کی تو انہوں نے قومی و دینی مفادات کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ان کے ہاتھ اپنی زمینیں فروخت کر دیں.یہودیوں کے بڑھتے ہوئے خطرہ کو دیکھتے ہوئے ایک ممتاز ترین خادمِ اسلام بزرگ نے ہندوستان کے متمول والیان ریاست کو توجہ دلائی کہ وہ مرکز اسلام کو یہود نامسعود کے ہاتھوں در پیش خطرہ سے بچانے کے لئے فلسطین میں زمین خریدیں تا یہودی مسلمانوں کو وہاں سے بے دخل نہ کر سکیں.لیکن محض انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر یہ تجویز قبول نہ کی گئی.جس کے نتیجہ میں آج عالم اسلام کے سینہ پر اسرائیل کا رستا ہوا ناسور مسلط کیا جا چکا ہے.مولانانے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا یہود ونصاری سے اسلام اور مرکز اسلام کو در پیش خطرات کا مقابلہ قرآنی ہدایات وارشادات کو اپنا کر ہی کیا جا سکتا ہے.مسلمانانِ عالم اور خاص طور پر عربوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدائی وعدہ کے پیش نظر اعمال صالحہ بجالائیں اور ہر قسم کی سرکشی کو

Page 626

تاریخ احمدیت.جلد 24 586 سال 1968ء ترک کر دیں آزادی فلسطین کی کوئی تحریک اس وقت تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی جب تک وہ قومیت اور نسل پرستی کی بجائے اسلام کی وسیع تر اور بابرکت بنیاد پر قائم نہ ہو.بعد ازاں لٹریری سرکل کے سیکرٹری جناب بصیر قریشی صاحب ایڈووکیٹ نے مولانا صاحب کی سیر حاصل تقریر پر تہہ دل سے شکر یہ ادا کیا.صاحبزادہ مرزا ا مبارک احمد صاحب کا دورہ مشرق بعید 107 ۱۹۶۸ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید نے (۹ اکتو برتا ۱۶ نومبر ۱۹۶۸ء) مشرق بعید کا نہایت کامیاب دورہ کیا.اس سفر میں آپ جاپان تشریف لے گئے تا کہ وہاں مستقل مشن ہاؤس کھولنے کا جائزہ لے سکیں اس کے بعد آپ ملائیشیا، سنگا پور اور انڈونیشیا تشریف لے گئے.انڈونیشیا کے تفصیلی حالات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ:.انڈونیشیا میں جاوا اور سماٹرا کے علاوہ بعض اور جزائر میں بھی جماعتیں ہیں اور یہ سب حتی الوسع تبلیغ اور تربیت کے کام میں مشغول رہتی ہیں.ملیشیا اور انڈونیشیا میں بعض مذہبی اور سیاسی لیڈروں سے بھی ملاقات کا موقع ملا ان میں سے دو کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.ان میں سے ایک ڈاکٹر محمد حشی صاحب ہیں جنہوں نے تحریک آزادی میں بہت نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں اور جب انڈو نیشیا کو آزادی ملی تو ڈاکٹر صاحب موصوف حکومت انڈونیشیا کے نائب پریذیڈنٹ مقرر ہوئے اور اس عہدہ پر چند سال کام کرتے رہے لیکن ڈاکٹر سوکا رنو صاحب سے بعض اختلافات کی وجہ سے یہ حکومت سے علیحدہ ہو گئے.یہ علمی آدمی ہیں اور مذہب میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں.ہماری جماعت کا لٹریچر بھی شوق سے پڑھتے ہیں.ملاقات کے وقت ڈاکٹر صاحب نے ذکر کیا کہ ہماری جماعت کی طرف سے شائع کردہ تفسیر قرآن انگریزی کی ان کے پاس ایک جلد کے سوا سب جلدیں موجود ہیں اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ ان کو یہ جلد بھی اگر ہو سکے تو بھجوا دی جائے.ربوہ واپس آتے ہی ان کو یہ جلد بھجوا دی گئی تھی جو ان کو پہنچ چکی ہے اور اس کی رسیدگی کی اطلاع بھی ان کی طرف سے مجھے مل گئی ہے.ڈاکٹر صاحب موصوف جماعت کی علمی خدمات کے بھی معترف ہیں اور بہت شوق سے تفسیر کا مطالعہ کرتے ہیں جس کا خود انہوں نے ذکر کیا.

Page 627

تاریخ احمدیت.جلد 24 587 سال 1968ء دوسرے لیڈر جن کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ جنرل ناسوتین صاحب ہیں جو انڈونیشیا کی قانون ساز اسمبلی کے صدر ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ملک کے اندر ان کا بہت اثر ہے.ان سے ملاقات کے دوران انڈو نیشیا میں کمیونسٹ پارٹی کی کوششوں اور اثر کا بھی ذکر ہوا تو کہنے لگے کہ ہم نے ایسے قوانین وضع کر دیئے ہیں کہ کمیونزم کو اس ملک میں پہنچنے کا موقع نہیں ملے گا.میں نے ان سے کہا کہ یہ درست ہے لیکن یہ اصل علاج نہیں.قوانین سے ظاہر میں تو یہ لوگ دب جائیں گے لیکن دل کے خیالات کو قوانین نہیں بدلا کرتے.کمیونزم ایک Idealogy ہے اور اس کا توڑ اور اس کا مقابلہ تو ایک بہتر Idealogy ہی کر سکتی ہے اور وہ اسلام ہے.اگر صحیح اسلام اور صحیح اسلامی تعلیم لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کمیونزم سے بیزار نہ ہو جائیں.اس لئے اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہماری جماعت اس بارہ میں پورے تعاون کے لئے تیار ہے اور ہم ایسا لٹریچر مہیا کر سکتے ہیں جو اس زہر کا تریاق ہے.اور بھی بعض لیڈروں سے ملاقاتیں ہوئیں لیکن جن دو کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اس غرض سے کہ دو کیا جماعتی لحاظ سے یہ دونوں جماعت کی دلچسپی کا موجب ہوں گی.ملاقاتوں کے علاوہ پریس اور ٹیلیویژن کے ذریعہ جماعت کے خیالات اور تعلیم پہنچانے کا بھی موقع ملا.بانڈ ونگ میں جو جاوا کا ایک مشہور شہر ہے پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں جماعت احمدیہ کے معتقدات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوی، جماعت کی اسلامی خدمات اور دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے اسلامی مشنز کے متعلق تفاصیل بیان کی گئیں.پریس کے نمائندوں نے متعد دسوالات بھی کئے جن میں ایک سوال یہ تھا کہ آپ ۱۹۶۳ء میں انڈونیشیا آئے تھے اُس وقت سے لے کر اب تک کے عرصہ میں آپ کو انڈونیشیا میں مذہبی رواداری میں کچھ فرق لگا ہے یا نہیں ؟ میں نے جواب میں کہا کہ یقینا لگا ہے اور اس کا ایک ثبوت تو آپ لوگ ہیں جو پریس کے نمائندے ہیں اور اس کانفرنس میں شریک ہوئے ہیں کیونکہ ۱۹۶۳ء میں کوئی پریس کانفرنس منعقد نہیں کی جاسکی تھی.بعض اخبارات نے اس پر یس کا نفرنس کو شائع کیا اور اس طرح محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا پیغام بہت سے لوگوں تک پہنچا.یہ پہلا موقع تھا کہ انڈونیشیا کے ٹیلیویژن پر جماعت کی کسی تقریب کو ٹیلی وائز کیا گیا.جماعت ہائے احمدیہ انڈونیشیا کا جلسہ سالانہ ۲۱ ۲۲ ۲۳ اکتوبر کو جاکر تہ میں منعقد ہوا.۲۳ تاریخ کی شام کو

Page 628

تاریخ احمدیت.جلد 24 588 سال 1968ء جماعت کی طرف سے استقبالیہ دیا گیا جس میں بعض غیر ملکی سفارتی نمائندے اور دوسرے غیر از جماعت دوست بھی شامل ہوئے.اس تقریب پر ایڈریس کے بعد میری انگریزی میں تقریر تھی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوئی اور تعلیم نیز جماعت احمدیہ کی مختلف ممالک میں تبلیغی کوششوں کا اختصار سے ذکر تھا.اس تقریب کو ٹیلیویژن کے محکمہ نے ریکارڈ کیا.تقریر کے بعد اسی ہال میں اس موقع پر بعض دوستوں نے بیعت کی اور بیعت کا یہ نظارہ بھی ٹیلیویژن والوں نے ریکارڈ کیا اور یہ ساری فلم ۲۴ تاریخ کی شام کو ۸ بجے اس ہفتہ کے اہم واقعات کے پروگرام کے تحت ٹیلی وائز کی گئی.ٹیلیویژن پر جب یہ الفاظ کہ اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ نیز یہ الفاظ کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کروں گا“ نیز یہ کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ بیعت کے نظارہ کے ساتھ گونج رہے ہوں گے تو آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ان ہزاروں بلکہ لاکھوں انسانوں تک جنہوں نے یہ پروگرام دیکھا ایک نہایت مؤثر رنگ میں احمدیت کی تعلیم اور معتقدات پہنچے.اور اس طرح بہت سے دلوں سے ان غلط فہمیوں کے ازالہ کا موجب ہوئے جو معاندین کی طرف سے ہمارے خلاف پھیلائی جاتی ہیں.اس کے بعد ۲۹ اکتوبر کو دوبارہ یہی پروگرام ”گزشتہ ہفتہ کے اہم واقعات کے پروگرام کے تحت نشر کیا گیا.اس مرتبہ پہلے پروگرام کی نسبت زیادہ دیر تک میری تقریر کا حصہ دکھایا گیا.جس کے ساتھ اناؤنسر کی طرف سے یہ ریمارکس تھے :.۲۳ اکتوبر کو جماعت احمدیہ کی Reception میں وکیل التبشیر نے علاوہ اور امور کے یہ بیان کیا کہ جماعت احمدیہ کے بانی نے قرآن کریم سے یہ ثابت کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اپنے وقت پر دنیا کی ہر قوم میں اپنے نبی اور پیغمبر مبعوث فرماتا رہا ہے اور ایسے فرستادہ خدا کی طرف سے دنیا کے لئے بھلائی کا پیغام لاتے رہے ہیں.پس اسلام نے یہ نکتہ پیش کر کے دنیا میں ایک بین الاقوامی اخوت قائم کی ہے اور مختلف انبیاء کی عزت واحترام قائم کر کے ایک بین الاقوامی امن کی بنیاد رکھی ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ مذہب کی بناء پر ایک دوسرے سے جھگڑے کئے جائیں اور فسادات کئے جائیں.وکیل التبشیر نے مزید کہا کہ اسلام مذہبی رواداری کی تعلیم دیتا ہے.انڈونیشیا میں قیام کے دوران جا کرتہ کے علاوہ بعض اور شہروں کے دورہ کا بھی موقع ملا جن میں

Page 629

تاریخ احمدیت.جلد 24 589 سال 1968ء بوگور، چی آنجور، بانڈ ونگ، گاروت، چی ماہی، دانہ سگرا، سنگا پر نا اور تاسک ملایا کی جماعتیں شامل ہیں.سنگا پر نا کی جماعت ڈسٹرکٹ تا سک ملایا کی ابتدائی جماعت ہے.یہاں کے احمدی احباب کو قبول حق کے بعد شدید مصائب کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا تھا.جاپانی حکومت کے دور میں علماء کی طرف سے جاپانی حکام کو متواتر شکایات پہنچائی گئیں کہ یہ لوگ انگریزوں کے جاسوس ہیں اور اس علاقہ میں ایک منظم سازش کے ذریعہ بغاوت کرانے کا پروگرام مرتب کر رہے ہیں.اس بناء پر جاپانی حکومت نے سنگا پر نا اور تا سک ملایا کے چیدہ چیدہ احمدی احباب اور مبلغین جماعت کو جو اس علاقہ میں کام کر رہے تھے یعنی ملک عزیز احمد صاحب مرحوم اور مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری کو قید کر لیا اور بانڈ ونگ کے اُس جاپانی قید خانہ میں ڈالا گیا جس کے متعلق اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جو شخص بھی وہاں قید کیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے لاپتہ ہو گیا.اس قید خانہ میں جو مظالم ڈھائے جاتے تھے ان کوسن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے مسیح کے یہ غلام باوجود ان سب مصائب کے خیر و عافیت کے ساتھ اس قید خانہ سے رہا کئے گئے.اس کے بعد بھی عوام کی طرف سے بائیکاٹ اور دیگر مختلف مصائب اور تکالیف کا سلسلہ برابر جاری رکھا گیا لیکن یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص اور قربانی میں برابر ترقی کرتی رہی.اس جماعت کے اکثر احباب موصی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو باعزت اور وافر رزق سے حصہ عطا فرمایا ہے.اسی طرح دانا سگرا جو ڈسٹرکٹ تا سک ملایا کا ایک موضع ہے اور جس کی اکثریت احمدی ہے اس جماعت کے افراد کو بھی محض احمدیت کے باعث متواتر مظالم کا نشانہ بننا پڑا.۱۹۵۲ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ گاؤں دار السلام والوں کے مظالم کا تخیہ مشتق بنارہا ( یادر ہے کہ دارالسلام کی تحریک وہ تھی جو اسلام کے نام پر قتل و غارت اور لوٹ مارکو عین اسلام بجھتی تھی ) دومرتبہ اس گاؤں کو جلایا گیا.متعدد بار ان کے اموال لوٹ کر انہیں خالی ہاتھ گاؤں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا.مالی نقصان کے علاوہ یہاں جماعت کو جانی قربانیاں بھی دینی پڑیں.مگر یہ مخلص جماعت پورے عزم اور استقلال اور صبر سے ہر مصیبت کا مقابلہ کرتی رہی.اللہ تعالیٰ نے جہاں ان کے ایمان اور اخلاص میں بے حد ترقی عطا فرمائی وہاں ان کو دنیاوی رنگ میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رکھا.اسی طرح چی آنجور کے نواحی علاقہ میں بھی دار السلام والوں نے محض احمدیت کی وجہ سے احمدیوں کو شہید کیا مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے پائے استقلال میں کبھی کوئی ڈگمگاہٹ پیدا نہیں ہوئی.

Page 630

تاریخ احمدیت.جلد 24 590 سال 1968ء مكرم وكيل التبشیر صاحب نے مزید فرمایا کہ اس دورہ کے موقع پر تقریب ۱/۲۷افراد نے احمدیت قبول کی.بیعت کرنے والوں میں سے دو تین کا ضمنا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے.بانڈ ونگ میں پریس کانفرنس کے موقع پر جو ایک دوست کے گھر پر منعقد کی گئی تھی ایک عیسائی دوست نے بیعت کی.یہ چند ماہ سے زیر تبلیغ تھے لیکن مسلمان ہونے پر ابھی یہ آمادہ نہ تھے لیکن اس موقع پر پریس کانفرنس کے معابعد انہوں نے خواہش کی کہ میری ابھی بیعت لے لی جائے.چنانچہ ان کی بیعت لی گئی اور مزید اس کا یہ فائدہ بھی ہوا کہ پریس کے جملہ نمائندگان نے بھی بیعت کا نظارہ دیکھا اور بیعت کے الفاظ سنے.دوسرا بیعت کا واقعہ جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ بانڈ ونگ میں ایک بڑے تاجر کی بیعت کا واقعہ ہے.ان کے ایک لڑکے اور ان کی بیوی نے تین ماہ قبل بیعت کی تھی لیکن یہ صاحب ابھی مائل نہ تھے.بانڈ ونگ میں جمعہ کا خطبہ میں نے دیا جس میں یہ موجود تھے.جمعہ کے بعد مجھ سے ملے تو میں نے ان سے عرض کی کہ آپ دعا اور استخارہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کو انشراح عطا فرمائے گا.چنانچہ دوسرے ہی روز انہوں نے بیعت کرنے کی خواہش کی اور ان کی بیعت لی گئی.یہ صاحب بااثر ہیں.ان کی اہلیہ صاحبہ جو ان سے قبل احمدی ہو چکی تھیں جنرل امیر محمود کی اہلیہ کی بہن ہیں اور ان کی بیعت کی وجہ سے جنرل صاحب کے رویہ میں بھی خوشگوار تبدیلی نظر آتی ہے.تیسرا بیعت کا واقعہ جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ مرتو لو صاحب کی اہلیہ صاحبہ کا ہے.مرتو لو صاحب گزشتہ چند سال سے احمدی ہیں اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل کے عہدہ پر فائز ہیں.بہت مخلص دوست ہیں لیکن ان کی اہلیہ صاحبہ نہ صرف یہ کہ احمدی نہ ہوئیں بلکہ وہ احمدیت کے متعلق کوئی بات سننے کے لئے بھی تیار نہ تھیں اور اس بات کا ان کے شوہر محترم پر بہت اثر تھا.کیونکہ ان کی بیوی کا رویہ معاندانہ اور متعصبانہ تھا اور اس طرح وہ سمجھتے تھے کہ اس وجہ سے وہ جماعت کی بہت سی خدمات سے محروم رہتے ہیں.امسال جب مرکزی عہدیدارانِ اعلیٰ کے انتخابات ہوئے تو مسٹر مرتو لو صاحب جماعت ہائے احمد یہ انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ منتخب ہوئے.میں جب جا کرتہ پہنچا تو میں نے مرتو لو صاحب سے پوچھا کہ اب آپ کی بیگم کا احمدیت کے متعلق کیا رویہ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ اُسی طرح کی سختی ہے اور وہ اس طرف بالکل مائل نہیں.میں نے ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں بھی حسب توفیق دعا کروں گا آپ بھی دعا کریں مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس دورہ کے دوران ہی

Page 631

تاریخ احمدیت.جلد 24 591 سال 1968ء ان کو بیعت کی توفیق عطا فر مائے گا.باہر کی جماعتوں کے دوروں کے بعد جب میں جا کر تہ واپس آیا تو اگلے دن رات کے کھانے کی دعوت مرتو لو صاحب کے ہاں تھی.وہ صبح مجھے ملنے آئے اور آتے ہی کہا کہ میری بیوی نے از خود بیعت کی خواہش کی ہے اس شرط پر کہ آپ آج شام جب کھانے پر آئیں گے تو وہاں ان کی اور بچوں کی بیعت لے لیں.مرتو لو صاحب کے چہرہ پر اس قدر خوشی اور طمانیت کے آثار تھے کہ ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا.مکرم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہوکر وہ ہزاروں ہزار انعام اور افضال جو ہر احمدی اپنی زندگی میں مشاہدہ کرتا ہے ان میں سے ایک بڑی نعمت وہ نعمت ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا کے الفاظ میں ذکر فرمایا ہے.یہدا خوت و محبت اللہ تعالیٰ کے خاص انعاموں میں سے ایک انعام ہے اور یہ وہ چیز ہے جو غیروں پر بھی بلکہ شدید معاندین پر بھی اثر کئے بغیر نہیں رہ سکتی.اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہتا ہوں.بوگور کی جماعت میں ایک نوجوان نے چند سال قبل بیعت کی تھی.یہ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان ہے.بہت ہی چھوٹی عمر میں اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ سعادت نصیب کی.اس نے اپنے ایک چھوٹے بھائی کو بھی جو ابھی میڈیکل کالج کی دوسری کلاس میں ہے احمدی کر لیا ہے اور یہ نوجوان بھی بہت مخلص ہے لیکن ان کے والدین شدید معاند ہیں.مجھے اس امر کا علم بعد میں ہوا.یہ نو جوان مجھے جا کر نہ میں ملے اور کہا کہ آپ جب بو گور آئیں گے تو چند منٹ کے لئے ہمارے گھر بھی ضرور آئیں.میں نے ان سے وعدہ کر لیا.گو مجھے اس وقت ان تفاصیل کا علم نہ تھا جو میں بیان کر رہا ہوں جب میں ان کے گھر پہنچا تو ملاقات کے کمرہ میں ان کے والد اور والدہ اور بہن بھی موجود تھے.میرے ساتھ ہی کرسی پر ان کے والد بیٹھ گئے.میں نے ان سے کہا مجھے آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے کیونکہ آپ کے دو بچے میرے احمدی بھائی ہیں اور طبعا مجھے ان سے محبت ہے تو وہ فوراً کہنے لگے کہ مجھے تو بڑی تکلیف ہے کہ میرے یہ بچے ضائع ہو گئے.اتنے میں یہ نوجوان کھڑا ہوا اور مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں چند الفاظ میں ایڈریس دینا چاہتا ہوں.یہ انگریزی زبان میں لکھا ہوا تھا اور اس کا مضمون یہ تھا کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے احمدیت کی سعادت نصیب ہوئی ہے لیکن میرے والدین اب تک

Page 632

تاریخ احمدیت.جلد 24 592 سال 1968ء اس سے محروم ہیں اور اس وجہ سے میرا دل سخت دیکھی ہے اور میں شدید کرب میں ہوں.یہ ایڈریس پڑھتے ہوئے سارا وقت اس نوجوان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار بہہ رہی تھی.انہوں نے ایڈریس ختم کیا اور مجھ سے خواہش کی کہ آپ بھی کچھ کہیں.میں بولنے ہی لگا تھا کہ ان کے والد مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ ذرا ٹھہریں اور وہ اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے معا بعد ہی واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک ٹیپ ریکارڈر تھا.وہ ٹیپ ریکارڈر لے کر میرے پاس بیٹھ گئے اور مائیک میرے منہ کے سامنے کر کے کہا کہ اب آپ جو کہنا چاہتے ہیں کہیں.میں نے انگریزی زبان میں ہی بچہ کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارے دل کے اندر جو آگ سلگ رہی ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا اور مجھے یقین ہے کہ جلد یا بدیر تمہارے والدین کو حق کی پہچان کی توفیق ملے گی.یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیریں ہیں اور اللہ تعالیٰ جس طرح چاہتا ہے اپنی تقدیروں کو جاری فرماتا ہے.کبھی تو والدین کو حق کی پہچان کی پہلے سعادت نصیب ہوتی ہے اور اولادکو بعد میں اور کبھی اولا د سابقون میں شامل ہوتی ہے اور والدین ان کے پیچھے آتے ہیں.اس لئے گھبراؤ نہیں.تم بھی دعا کرو اور میں بھی دعا کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو حق پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے گا.ان کے مکان سے رخصت ہو کر ہم لوگ مسجد گئے جہاں جماعت کی طرف سے استقبالیہ تھا.وہاں میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ اس نوجوان کے والد بھی اجتماع میں بیٹھے ہوئے ہیں.استقبالیہ کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے ذکر کیا کہ ہمیں ان کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی ہے کیونکہ یہ تو جماعت کے کسی فرد کے قریب جانا بھی برا سمجھتے ہیں یہ یہاں کیسے آگئے.جماعت نے اس موقع پر جو ایڈریس دیا اس میں اپنی محبت اور اخوت کا اظہار تھا.میں نے اپنے جواب میں بھی اپنی قلبی کیفیت کا اظہار کیا.بعد میں یہ صاحب ہمارے ایک احمدی دوست کو کہنے لگے کہ میری سمجھ میں تو نہیں آتا کہ ایک شخص جس کا ہم سے نہ نسلی تعلق ہے نہ تمدنی ، نہ زبان ہماری ایک ہے لیکن یہاں کے لوگوں کا اس سے اور اُس کا یہاں کے لوگوں سے اس قدر پیار اور محبت کا سلوک ہے.اس واقعہ کے اظہار سے میرا یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے جو ہم پر ہیں یہ بھی ایک بڑی نعمت ہے کہ غیروں میں سگے بھائی بہنوں میں بھی شاید ایسی اخوت نہ نظر آتی ہو جو احمدیت کی سلک میں منسلک ہو کر ہم میں ہے.سو اس کی قدر کرنی چاہیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کو ہمیشہ جماعت کو سامنے رکھنا چاہیئے جو حضور نے اس بارہ میں فرمائے ہیں.بعد میں ہمارے اس نوجوان نے مجھے بتایا کہ آپ کے جانے کے بعد میری والدہ کہنے لگیں کہ

Page 633

تاریخ احمدیت.جلد 24 593 سال 1968ء ان سے ملنے کے بعد میں تو احمدیت کی طرف مائل ہو چکی ہوں تمہارے والد کا انتظار ہے تاہم اکٹھے ہی جماعت میں شامل ہوں......بیرونی ملکوں کی جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے لئے اور احمدیت کی خاطر ہر قسم کی قربانیاں پیش کر رہی ہیں.جانی بھی اور مالی بھی.اپنے اوقات کو بھی اور اپنی استعدادوں کو بھی.مالی قربانیوں کا اندازہ آپ اس امر سے لگا سکتے ہیں کہ گو اس وقت انڈونیشیا کی اقتصادی حالت کچھ اچھی نہیں اور اس کا اثر تقریباً ہر شہری پر ہے لیکن جلسہ کے آخری دن میں نے جماعت میں تحریک کی کہ چند دن میں حضرت خلیفتہ المسیح تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز فرما ئیں گے.آپ لوگ سابقون میں شامل ہوں اور اعلان سے قبل ہی حضور کی خدمت میں اپنے وعدے بھجوانے شروع کر دیں.اس طرح غیر ممالک میں سے سب سے آگے آنے کا آپ کو موقع مل جائے گا.چنانچہ اس تحریک کے بعد صرف جاکر تہ شہر کی ہی جماعت کے وعدوں میں گزشتہ سال کی نسبت ایک سو اٹھائیس فیصد کی زیادتی ہوئی.یعنی گزشتہ سال کی نسبت انہوں نے دو چند سے بھی زائد کے وعدے پیش کئے ہیں.ایک دوست جن کا وعدہ گزشتہ سال ۱۵ ہزار روپیہ کا تھا امسال انہوں نے اپنا وعدہ ۶۰ ہزار کا کر دیا.اسی طرح تقریباً سب دوستوں نے ہی اضافہ کیا ہے.کوالا لمپور میں ہمارے ایک مخلص احمدی دوست محمد یوسف صاحب ہیں ۱۹۶۳ء میں جب میں پہلی مرتبہ ان علاقوں کے دورہ پر گیا تھا تو اس وقت انہوں نے مجھ سے اپنے مکان پر جو بھی بنیادوں تک ہی تعمیر ہوا تھا دعا کی خواہش کی اور میں نے دوستوں کے ساتھ مل کر وہاں دعا بھی کی تھی.میں نے دعا کے بعد ان کو تحریک کی کہ گو مجھے یہ علم ہے کہ آپ کا اپنا ذاتی کوئی مکان نہیں اور آپ اپنی ذاتی ضروریات کے لئے یہ بنارہے ہیں لیکن اگر آپ یہ مکان سلسلہ کے لئے وقف کر دیں کیونکہ یہاں ابھی تک جماعت کا اپنا کوئی مشن ہاؤس نہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کےاموال میں بہت برکت ڈالے گا.۱۹۶۶ء میں انہوں نے یہ مکان سلسلہ کے لئے وقف کر دیا اور مزید ایک بھاری رقم اس پر خرچ کر کے مسجد اور مشن ہاؤس میں تبدیل کر دیا جو اب ایک وسیع مسجد اور مشن ہاؤس کی شکل میں ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کی اس قربانی کو ایسا نوازا کہ اب وہ کئی مکانوں کے مالک ہیں اور تجارت میں بے حد ترقی کی ہے.108

Page 634

تاریخ احمدیت.جلد 24 594 ڈاکٹر عبد السلام صاحب کیلئے ایٹم برائے امن ایوارڈ سال 1968ء ملک وقوم کے مایہ ناز سپوت، فرزندِ احمدیت ڈاکٹر عبدالسلام صاحب خدا کے فضل و کرم سے سائنسی ترقیات کے زینے نمایاں برق رفتاری سے طے کر رہے تھے اور اب ان کا شمار دنیا کے چوٹی کے سائنسدانوں میں ہونے لگا تھا.چنانچہ آپ کو اس سال ایک اور اعزاز عطا ہوا.جس کے لئے ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو نیویارک میں ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی.جس میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اوتھانٹ نے صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ اور انٹرنیشنل سٹڈی سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس، ٹریسٹ (اٹلی) کے ڈائریکٹر جناب پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کی خدمت میں، ایٹم کے پُرامن استعمال کی امریکی فاؤنڈیشن کی طرف سے تیس ہزار ڈالر کے عطیہ کی رقم پیش کی.فاؤنڈیشن کی طرف سے جناب ڈاکٹر صاحب موصوف کے لئے اس عطیہ کا اعلان ایٹم کے پرامن استعمال کے سلسلہ میں گرانقدر ریسرچ اور خدمات کی بنا پر اگست ۱۹۶۸ء میں کیا گیا تھا.ڈاکٹر صاحب نے اس اعزاز پر حسب ذیل الفاظ میں اپنے جذبات تشکر کا اظہار کیا :.میں اللہ تعالیٰ کا، جس نے مجھے اپنے خاص فضلوں اور انعاموں سے نوازا ہے، شکر ادا کر نے کے علاوہ اپنے ان تمام احباب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میرے لئے دعائیں کیں.ان دعاؤں کے طفیل ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے وہ انعام عطا فر مایا ہے.جس کا ذکر احباب پچھلے دنوں الفضل میں پڑھ چکے ہیں.احباب کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل سے یہ تو فیق بھی ارزانی فرمائی ہے کہ میں اس انعام کی رقم کو ملک و قوم کے نوجوان سائنسدانوں کی مزید تعلیم وتربیت کیلئے وقف کروں.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میرے اس ارادہ میں برکت ڈالے اور ملک وقوم کے حق میں اس کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا کرے نیز یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ قریب مستقبل میں اور اس کے بعد بھی مجھے اپنے غیر معمولی فضلوں اور انعاموں سے نوازے تا کہ آئندہ بھی مجھے قوم و ملک کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق اس کے فضل سے حاصل ہو.آمین 10 اس سلسلہ میں پاکستان ٹائمنز میں حسب ذیل خبریں شائع ہوئیں.(i)- "New York, Aug, 21: Prof.Abdul Salam and two others

Page 635

تاریخ احمدیت.جلد 24 595 سال 1968ء scientists will share the Eighth Annual Atoms for Peace Award for contribution to the peaceful uses of Nuclear energy, it was announced here yesterday.Each recipient will receive, a Gold Medallion and a $30,000 Honorarium......The awards were announced yesterday by Dr.James R.Killian JR.Chairman of the trustees of Atoms for Peace Awards" 110 نیویارک.۲۱ /اگست.پروفیسر عبدالسلام اور دیگر دو سائنسدانوں کو مشترکہ طو پر ایٹمی توانائی کے پُرامن استعمال کے لئے ان کی کارکردگی کی بناء پر آٹھواں سالانہ ایٹم برائے امن ایوارڈ دیا جائے گا.اس بات کا اعلان کل یہاں کیا گیا.ہر انعام یافتہ کو ایک ایک طلائی تمغہ اور تمیں ہزار ڈالر بطور نقد انعام ملیں گے.ان انعامات کا اعلان ”ایٹم برائے امن انعامات کے ٹرسٹیز کے جونیئر چیئر مین ڈاکٹر جیمز.آر کلین نے کل یہاں کیا.(ii)."New York, Oct.15: Prof.Abdus Salam of Pakistan and two other physicists were decorated here yesterday by United Nations secretary General U Thant for their work for the peaceful uses of the atom.Besides prof.Salam scientific advisor to the president of Pakistan and director of the international study centre for theoretical physics at Trieste (Italy).The other two physicists who were decorated were Mr.Sigvard Eklund, director-general of the international atomic energy agency in Vienna, and Mr.Henry DeWolf Smyth, U.S.Representative in the agency.111 نیویارک ۱۵ ۱۷ اکتوبر : پاکستان کے پروفیسر عبدالسلام اور دو دوسرے ماہرین طبیعات کو ایٹم کے

Page 636

تاریخ احمدیت.جلد 24 596 سال 1968ء پُرامن استعمال کیلئے ان کی تحقیق پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل او تھان نے کل اعزازات سے نوازا.مزید برآں پروفیسر عبدالسلام صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اور نظری طبیعات کے عالمی مطالعاتی مرکز ٹریسٹ اٹلی کے ڈائر یکٹر بھی ہیں.اعزازات سے نوازے جانے والے دوسرے دو ماہرینِ طبیعات جناب سگورڈ ایکلنڈ ڈائریکٹر جنرل انٹرنیشنل اٹیمک ایجنسی ، وی آنا اور جناب ہنری ڈی ولف سمتھ نمائندہ حکومت امریکہ برائے اٹامک ایجنسی ہیں.ایٹم برائے امن ایوارڈ کی رقم پاکستانی سائنسدانوں کیلئے مختص ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے لندن میں اعلان کیا کہ عطیہ کی رقم سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے گا جو اس کو پاکستان کے سینئر طلبہ طبیعات اور سائنسدانوں کی انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ ) Institute for Advanced Theoretical Physics Treaste Italy ) اٹلی میں اعلیٰ تعلیم پر صرف کرے گا.اس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائر یکٹر آپ ہی تھے.ان دنوں اس انسٹی ٹیوٹ میں پانچ پاکستانی پروفیسر سہ ماہی کورس کے لئے موجود تھے.پاکستانی اخبارات کا شاندار خراج تحسین آپ کے اس نیک عزم اور حب الوطنی پر پاکستان اور بیرون ممالک کے اخبارات نے خراج تحسین پیش کیا.پاکستانی پریس کے چند نوٹ درج ذیل کئے جاتے ہیں :.ا.ڈاکٹر عبدالسلام کا نمونہ اس عنوان سے پاکستان ٹائمنر نے لکھا کہ عملا صدر پاکستان کے سائنسی مشیر پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اعلان کیا ہے کہ جو گرانقدر عطیہ انہیں ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن کی طرف سے ملنے والا ہے اسے وہ ان منتخب پاکستانی سائنسدانوں کی اعلیٰ سائنسی تعلیم کیلئے وقف کر دیں گے جو بیرون پاکستان حاصل کریں گے.ڈاکٹر سلام کے اس اعلان سے ظاہر ہے کہ آپ پاکستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا خاص احساس رکھتے تھے.آپ کا یہ قابل قدر جذ بہ اس وقت بھی ظاہر ہوا تھا جبکہ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں سائنسی ترقی کے متعلق آپ نے ٹھوس اور تعمیری تجاویز پیش کی تھیں.افسوس ہے کہ ملک وملت نے ان تجاویز کی طرف کماحقہ توجہ نہیں دی.

Page 637

تاریخ احمدیت.جلد 24 597 سال 1968ء پروفیسر عبدالسلام نے اپنے بیان میں اس توقع کا بھی اظہار کیا ہے کہ ہمارے ملک کے دولتمند افراد آگے آئیں گے اور سائنس کے میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی کی جدوجہد میں حکومت کا ہاتھ بٹائیں گے.ملک وملت کو دولتمند افراد سے ایک عرصہ سے یہ توقع رہی ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ توقع ابھی پوری نہیں ہوئی حالانکہ تجارت اور صنعت کے میدان میں دولتمند افراد کی کوئی کمی نہیں ہے.اس وقت تک سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے جو تھوڑی بہت ترقی کی ہے یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا معیار زندگی کچھ بلند ہوا ہے.یہ امر بالکل واضح ہے کہ مستقبل میں تجارت وصنعت اور ادویات کی تیاری میں ملک جو ترقی کرے گا اس کا زیادہ تر انحصار اسی امر پر ہو گا کہ ہمارے نوجوان سائنس کے میدان میں کتنی ترقی کرتے ہیں.ہمیں سائنسی تعلیم وتحقیق کے میدان میں اعلیٰ ساز و سامان اور بہترین سائنسدانوں کی ضرورت ہے اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں بہت سے ایسے فیاض اور وسیع الحوصلہ افراد کی ضرورت ہوگی جن کی راہنمائی پروفیسر عبدالسلام نے کی ہے.اس سلسلے میں ان بڑے بڑے صنعتکاروں کو آگے آنا چاہیئے جو ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلابی دور سے سب سے زیادہ مستفید ثابت ہوں گے.۲.مرحبا! پروفیسر عبدالسلام اس خوبصورت عنوان کے تحت اخبار حریت کراچی نے لکھا صدر مملکت کے سائنسی مشیر پروفیسر عبد السلام کو حال ہی میں امریکہ کی ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن کی جانب سے تمیں ہزار ڈالر (تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ) کا انعام دیا گیا ہے.اہالیان پاکستان کے لئے ان کے ایک سائنسدان کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر یہ اعتراف یقینا فخر وانبساط کا سبب ہے لیکن اس سے بھی زیادہ خوشی اس مخلصانہ پیشکش پر ہوئی جو پاکستان کے اس نامور فرزند، پروفیسر عبد السلام نے ملک میں سائنسی تحقیقی کاموں میں امداد دینے کے لئے کی ہے.پروفیسر سلام نے اعلان کیا ہے کہ وہ یہ انعامی رقم پاکستانی سائنسدانوں کو وظائف دینے میں صرف کریں گے.پروفیسر عبدالسلام کوئی خاندانی رئیس ، صنعت کاریا تا جر نہیں ہیں.ان کا شمار اعلیٰ متوسط طبقے میں بھی مشکل سے ہی کیا جا سکے گا.لیکن وہ پاکستانی عوام کی طرح غریب ہوتے ہوئے بھی فراخدل بلند حوصلہ

Page 638

تاریخ احمدیت.جلد 24 598 سال 1968ء انسان ہیں ان کے دل میں ملک کی ترقی اور ناموری کے اسباب مہیا کرنے کی سچی لگن ہے اور انہوں نے اپنی بساط بھر دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا اور جب دنیا نے ان کی اہلیت ، قابلیت اور اعلیٰ سائنسی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں امن کے انعامی اعزاز سے نوازا تو انہوں نے یہ انعامی رقم بجنسم اپنے ملک میں سائنسی تعلیم کے فروغ کے لئے پیش کر دی.پروفیسر عبدالسلام اپنی قوم کے پہلے ہی محبوب ہیں ان کے اس ایثار نے ان کو قوم کی نظروں میں عزیز تر کر دیا ہے اور ایک معیار قائم کر دیا ہے کہ بے لوث اور مخلصانہ حب الوطنی کے تقاضے کیا ہیں.لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے کچھ زیادہ نہیں ہوتے لیکن متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے یہ خاصی بڑی رقم ہوتی ہے لیکن اس ایثار نے ہماری قوم کے متمول حضرات کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کر دی ہے.امید ہے کہ سائنسی تعلیم کے فروغ کے لئے پروفیسر عبدالسلام کے دئے ہوئے ڈیڑھ لاکھ روپے کچھ ہی دن کے اندر کروڑوں اور اربوں روپے کے تعلیمی فنڈ کی صورت اختیار کر لیں گے اور ہمارے صنعتکار، تاجر علم پرور اور مخیر اصحاب اس کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے.114 66 ۳.شاندار اعزاز اس سرخی کے تحت اخبار آغاز کراچی نے درج ذیل خبر دی کہ صدر کے سائنسی مشیر پروفیسر عبد السلام کو امریکی حکومت نے تمغہ امن دیا ہے اس کے علاوہ انہیں تمہیں ہزار ڈالر کا نقد انعام بھی دیا گیا ہے.یہ اعزاز بلا شبہ عظیم اعزاز ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے اس مایہ ناز فرزند کی خدمات کا اعتراف اب امریکہ میں بھی ہونے لگا ہے.پروفیسر عبدالسلام بلاشبہ ایک عظیم سائنسدان ہیں اور ایٹمی طبیعات میں ان کی تحقیقات سے خود مغربی ملکوں نے بہت کچھ حاصل کیا ہے.اس امریکی اعزاز کے پس منظر میں بھی یہ ہی بات نمایاں نظر آتی ہے.اس کے علاوہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پروفیسر عبدالسلام سے قبل اتنا بڑا اعزاز کسی ایشیائی سائنسدان کو حاصل نہیں ہو سکا ہے.اس پر پاکستانی عوام جتنا بھی فخر کریں کم ہے اس سے وہ فرسودہ نظریہ بھی خود اپنی موت آپ مر گیا ہے کہ مشرقی سائنسدان ابھی مغربی سائنسدانوں کے ہم پلہ نہیں ہو سکے ہیں دماغ اور ذہن خدا کی دین ہے اور انسان کی اپنی محنت اس کو اور جلا دیتی ہے.پروفیسر عبدالسلام عرصہ دراز سے مغربی ملکوں امریکہ اور برطانیہ کی کئی یونیورسٹیوں میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں خود پاکستان میں بھی محض ان کی اور ان کے رفیق ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کی کوششوں

Page 639

تاریخ احمدیت.جلد 24 599 سال 1968ء کی وجہ سے ایٹمی توانائی کے میدان میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے لیکن ہمیں اس ضمن میں اور بہت کچھ کرنا ہے یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ایک نامور سپوت کی خدمات کو دوسرے ملکوں میں تو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے لیکن خود پاکستان میں اس سلسلے میں کبھی کچھ نہیں ہوا.اس سلسلے میں پروفیسر عبدالسلام ہی تنہا نہیں پاکستان میں اب متعدد ہونہار اور قابل سائنسدان ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سب کی خدمات کو سراہا جائے.اور وقتا فوقتا ان کی ہمت افزائی کی جاتی رہے.اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ملک میں سائنسی اور فنی امور کے بارے میں ایک علیحدہ وزارت قائم کی جائے تاکہ ترقی پذیر معاشرے میں زندگی کے سبھی شعبوں کو سائنس کی جدید تحقیقات اور فنی تکنیک سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے ہم ابھی منصوبہ بندی کے اہم مرحلے میں ہی ہیں اس لئے اگر ہم زراعتی صنعتی اور دوسرے شعبوں کو سائنس اور فن کے تجربوں کے مطابق رکھ سکیں تو اس سے ہماری ترقی میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا.“ ۴.ارباب ثروت بھی سوچیں 115 مشرق اخبار نے درج بالا عنوان کے تحت لکھا کہ لی ڈاکٹر عبدالسلام کوئی سرمایہ دار نہیں.ان کے پاس اگر کوئی سرمایہ ہے تو وہ ان کا علم اور ذوق تجس ہے.صاحب علم کبھی تنگ دل نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ پروفیسر عبدالسلام نے اعلان کیا ہے کہ انہیں ایٹم برائے امن فاؤنڈیشن کی طرف سے تمہیں ہزار ڈالر کا جو انعام ملے گا وہ اسے پاکستانی سائنسدانوں کو وظائف دینے کے لئے صرف کریں گے تاکہ وہ اپنا تحقیقاتی کام جاری رکھ سکیں.یہ رقم ڈاکٹر عبدالسلام اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل پر بھی صرف کر سکتے تھے لیکن انہوں نے قومی ترقی کے مقاصد کو اپنی انفرادی آسائش پر ترجیح دی ہے.ان کے فکر و عمل کا یہ انداز ہمارے ملک کے 116 ارباب ثروت سے کتنا مختلف ہے.“ ۵.روزنامہ ”غریب لائل پور نے لکھا کہ ڈاکٹر عبد السلام ۱۹۵۴ء میں برطانیہ جانے سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کے سربراہ تھے.بعد ازاں وہ کیمبرج یونیورسٹی میں لیکچرار مقرر کئے گئے.۵۶-۱۹۵۴ء تک وہ دو ہفتے امپریل کالج میں گزارتے تھے.ڈاکٹر سلام اقوام متحدہ کی ایڈوائزری کمیٹی برائے سائنس وٹیکنالوجی کے ممبر ہیں.ڈاکٹر سلام ہو پلنگ پرائز ، آدم پرائز لیکسول میڈل، اور بگز میڈل حاصل کر چکے ہیں.

Page 640

تاریخ احمدیت.جلد 24 600 سال 1968ء حال ہی میں انہوں نے ایٹم برائے امن کا انعام حاصل کیا ہے.۱۹۵۹ء میں وہ رائل سوسائٹی کے ممبر مقرر ہوں گئے.ایک سائنسی اعزاز کے عنوان کے تحت مولانا عبدالماجد صاحب مدیر صدق جدید لکھنو نے لکھا:.اول تو انعام ایک مسلمان کو بجائے رقص ، موسیقی ، مصوری، نقاشی ، سنگ تراشی اور آرٹ اور کلچر کے کسی شعبہ کے سائنس کے شعبہ میں (اور وہ بھی جنگ کی نہیں امن کی مد میں ) ملنا اور پھر اس ماہر سائنس کو اسے بجائے اپنی ذات پر صرف کرنے کے دوسرے طلبہ کے لئے وقف کر دینے کی مثال ایثار کی پیش کرنا خبر کے یہ دونوں پہلو ندرت سے لبریز ہیں.مصر، عراق اور شام، ایران، ترکی، افغانستان کتنے ہی مسلم ملوں کے لئے ایک نظیر و شع راہ کا کام دے سکتی ہے.118- اجتماع خدام الاحمدیہ سے حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے روح پر ور خطابات اس سیال خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ۱۸، ۱۹ اور ۲۰ را کتوبر ۱۹۶۸ء کو محلہ دارالعلوم کے شمال میں واقع میدان میں منعقد ہوا جس میں ۲۳۵ مجالس کے۲۸۵۴ خدام نے شرکت کی.حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے اپنے افتتاحی خطاب میں نوجوانانِ احمد بیت کو ہدایت فرمائی کہ اپنے مقام کو پہچانیں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور پورے طور پر نبھانے کی طرف متوجہ ہوں.اس ضمن میں حضور نے قرآنی آیت اِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْآمِينُ (القصص: ۲۷) کی روشنی میں واضح فرمایا:.لغت اور قرآن کریم کی اصطلاح کی رُو سے القوۃ کے تین معنی ہیں.نمبر ا جسم کی قوت نمبر ۲ دل کی مضبوطی.نمبر ۳ خارجی طاقت.اور الامین کے معنی اس نوجوان کے ہیں جس میں اصولی طور پر تین قسم کی امانتیں نمبر.اللہ کی امانت نمبر ۲.رسول کی امانت اور نمبر ۳.آپس کی امانت.القوۃ کے پہلے معنی کی تشریح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ خادم اپنی زندگی اسی طرح گزارے کہ مناسب وقت میں ورزش کرے.کھانے میں محتاط ہو اور مناسب آرام کرے.دل کی مضبوطی کے ضمن میں فرمایا کہ اس کیلئے تقویٰ کی ضرورت ہے جس سے انسانی قلب میں بزدلی اور کمزوری پیدا نہیں ہو سکتی.نیز فرمایا کہ دل کی مضبوطی کیلئے تو کل چاہیئے.تو کل یہ ہے کہ تدبیر میں کوشش کو انتہا تک پہنچانا اور نتیجہ خدا پر چھوڑنا.اور فرمایا کہ ایمان کا کمال انسان کے دل کو مضبوط کرتا

Page 641

تاریخ احمدیت.جلد 24 601 سال 1968ء ہے اور ایمان کو صحیح تربیت دینے کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا ضروری ہے.خارجی طاقت اور قوت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مال کمانے میں بھی تقویٰ مدنظر ہو اور خرچ کرنے میں بھی تقویٰ کا خیال رہے.مال حلال ہی نہ ہو بلکہ طیب بھی ہو.اور اس امر کا فیصلہ کہ مال صرف صالح نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پسندیدہ بھی ہو انسان نہیں کر سکتا.پس اس غرض کیلئے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی ضرورت ہے.اس کے بعد حضور نے الامین کے تینوں معنوں کی لطیف تشریح فرمائی.اللہ تعالیٰ کی امانت کے ذکر میں فرمایا کہ اللہ کی امانت میں خیانت نہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو حقوق اللہ کو پوری طرح ادا کرتے ہیں.انسان کا فرض ہے کہ وہ عبودیت کے مقام کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے پر بنیادی حق ہے.دوسرا حق حقوق العباد کا ہے جس کے تحت پہلا حق نفس کا ہوتا ہے.ہدایت کے اوپر اپنے نفس کو قائم رکھنا بنیادی حق ہے.انسان کو کوشش کر کے یہ عادت ڈالنی چاہیئے کہ وہ ہوائے نفس کو جب چاہے دبا لے.دوسرا حق اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے.فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بھی نفس کا حق ہے کیونکہ عزت نفس حاصل نہیں ہوسکتی جب تک انسان اخلاق کے اعلیٰ مقام پر کھڑا نہ ہو.تیسرے جسم اور روح کو پاک صاف رکھنا ہے.روح کی پاکیزگی میں خیالات کی پاکیزگی مقدم ہے.آپس کی باہمی امانت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ آپس کی امانتوں کو ادا کرنے کے لئے معاشرے اور شہریت کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے.معاملات میں اسلامی تعلیم کی باریکیوں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیئے.اگر اسلامی تعلیم پر عبور حاصل نہ ہو تو جنہیں علم حاصل ہے ان کی باتوں کو تسلیم کر کے دین العجائز اختیار کیا جائے.رسول معہ کی امانت میں خیانت نہ کرنے کے ذکر میں فرمایا کہ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو قائم کیا جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں قرآنی اصول اپنائے.پس اتباع سنت اور اجرائے سنت ضروری ہے.جب تک احمدی نوجوان ان ہر سہ امانتوں کو اختیار نہیں کرتا وہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور فضلوں کا وارث نہیں بن سکتا جس کے وعدے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیے گئے ہیں.آخر میں حضور نے اپنے خطاب کا مشخص بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ سے بنیادی

Page 642

تاریخ احمدیت.جلد 24 602 سال 1968ء طور پر جماعت احمد یہ اور خلفائے احمد یہ دو مطالبے کرتے ہیں، اول القوی ہونا ، دوم الا مین ہونا.اختتامی خطاب 119 حضور کا اختتامی خطاب نہایت ولولہ انگیز تھا جس نے خدام میں ایمان و معرفت کی ایک نئی روح پھونک دی.حضور نے اپنی روح پرور تقریر کے آغاز میں خدائی بشارتوں کا ذکر کیا اور بتایا کہ ہمیں ان کا وارث بننے کے لئے صحابہ نبوی کی طرح بشاشت قلبی کے ساتھ مصائب و مظالم کو برداشت کرنا ہوگا.اس بنیادی نکتہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا:.دنیا اس وقت بھی اسلام پر بڑی طاقت سے حملہ آور ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تلخیاں اور رنگ کی تھیں.اب اور رنگ کی ہیں.اب دنیا دجل کے ہتھیاروں کے ساتھ اسلام پر حملہ آور ہے.ہزاروں میل دور ایذا پہنچانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے ایسے الزام لگاتے ہیں جن سے ہمارے دل چھلنی ہو جاتے ہیں اور آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں لیکن ہمیں گالی کے مقابل گالی کا حکم نہیں بلکہ ہر ایڈا کے مقابل صبر کی تعلیم ہے.گالیاں سن کر دعائیں دینے کا حکم ہے اور دکھ پہنچانے والوں کو آرام دینے کی تعلیم ہے.حضور نے خدام سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم اسی مقام پر قائم رہو تا خدا تعالیٰ اپنی بشارتوں کے وعدے پورے کرے.فرمایا کہ میں تو دیکھ رہا ہوں کہ وہ وقت بڑا قریب ہے جب اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.جب ہر دل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت قائم ہو جائے گی، جب تمام دہر یہ اور بت پرست اور بدھ مذہب اپنی بدیوں اور بت پرستیوں اور شرک کو چھوڑ کر خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کرنے لگیں گے.فرمایا کہ کامیابی بہر حال اسلام کو ہونی ہے ، غلبہ بہر حال اسلام کا ہے.سارے معاند ناکام رہیں گے اور یہ غلبہ خدائی وعدہ کے مطابق جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو گا.پھر وہ ہمارے بھائی جو ہم سے ناراض ہیں ہم سے گلے مل جائیں گے.اس وقت ہم بھی خوش ہوں گے اور وہ بھی خوش ہوں گے.فرمایا کہ دنیا جاہل اور کم علم ہے.ہم اس سے ناراض نہیں کیونکہ ہم ظالم کے دشمن نہیں بلکہ اس کے ظلم کے دشمن ہیں“.120

Page 643

تاریخ احمدیت.جلد 24 603 سال 1968ء سالانہ اجتماع اطفال الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع مورخه ۱۸ تا ۲۰ / اکتوبر ۱۹۶۸ ء ربوہ میں ایوان محمود کے وسیع لان میں منعقد ہوا.جس میں ۶۲ مجالس کے ۱۶۳۳ ار اطفال نے شرکت کی.محترم صاحبزادہ (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے افتتاح فرمایا.اجتماع کے آخری روز حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے تشریف لا کر اطفال سے اختتامی خطاب فرمایا.حضور نے بچوں کو صفائی کی طرف خصوصی توجہ دلائی.حضور نے فرمایا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے مبعوث ہونے کا مقصد یہ نہ تھا کہ ایک نسل کی صحیح تربیت کی جائے.تربیت کا سلسلہ قیامت تک کے لئے تھا.پھر حضور نے فرمایا کہ آپ نبی ریم ع کے بچے ہیں آپ کو کوشش کرنی چاہیئے کہ آپ عملی نمونہ کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ کی ذریت طیبہ بن جائیں.خطاب کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا گیارھواں سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے زیر انتظام منعقد ہونے والے ناصرات الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع کا سہ روزہ پروگرام خالص دینی ماحول میں ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۸ء بروز جمعۃ المبارک شروع ہوکر ۲۰ اکتوبر ۱۹۶۸ء بروز اتور نہایت درجہ کامیابی و کامرانی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.اس اجتماع میں ۸۶ مجالس کی ۶۲۴ نمائندگان نے شرکت کی.ربوہ کی خواتین کی تعداد اس کے علاوہ تھی.122 حضور انور کا اجتماع سے روح پرور خطاب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۱۹ اکتو بر ۱۹۶۸ء کو لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے ایک نہایت روح پرور خطاب فرمایا جس میں خواتین احمدیت کو اشاعت دین اور توحید باری کے قیام کے سلسلے میں اہم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور خوشخبری دی کہ اگر ہم ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کریں تو اللہ تعالیٰ سے ہمارا زندہ تعلق پیدا ہو جائے گا.حضور نے یہ حقیقت بھی پوری وضاحت کے ساتھ نمایاں کی کہ ایک مومن اور مومنہ کا مقام خوف ورجاء کے درمیان ہوتا ہے.اس تعلق میں حضور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۴۹ ،۳۵۰ کا درج ذیل اقتباس پڑھا اور اس کی حقیقت افروز انداز میں تشریح بھی فرمائی کہ:.

Page 644

تاریخ احمدیت.جلد 24 604 سال 1968ء دد مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا.اور میرے کلام کو سنا.اور اس میں غور کی تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہو گئے.میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کیلئے اپنی 123 ،، مرضی کو چھوڑتا ہے.ازاں بعد حضور نے امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک الفاظ میں بشارت دی کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر فیصلہ کیا ہے کہ تمام ادیان باطلہ کو مٹادیا جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں پیدا کر دی جائے گی.اور تمہاری زندگی کا مقصد تمہیں مل جائے گا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ:.یقیناً سمجھو کہ نصرت کا وقت آ گیا اور یہ کا روبار انسان کی طرف سے نہیں اور نہ کسی انسانی منصوبے نے اس کی بنا ڈالی.بلکہ یہ وہی صبح صادق ظہور پذیر ہو گئی ہے جس کی پاک نوشتوں میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.خدائے تعالیٰ نے بڑی ضرورت کے وقت تمہیں یاد کیا.قریب تھا کہ تم کسی مہلک گڑھے میں جا پڑتے.مگر اس کے با شفقت ہاتھ نے جلدی سے تمہیں اٹھا لیا سو شکر کرو اور خوشی سے اچھلو جو آج تمہاری تازگی کا دن آ گیا.خدائے تعالیٰ اپنے دین کے باغ کو جس کی راستبازوں کے خونوں سے آبپاشی ہوئی تھی کبھی ضائع کرنا نہیں چاہتا.وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ غیر قوموں کے مذاہب کی طرح اسلام بھی ایک پرانے قصوں کا ذخیرہ ہو.پھر حضورانور نے یہ اقتباس بھی پڑھ کر سنایا سچائی کی فتح ہوگی اور اسلام کیلئے پھر اس تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے رو کے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کیلئے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے.وہ کیا ہے؟ ہمارا اُسی

Page 645

تاریخ احمدیت.جلد 24 605 125- سال 1968ء راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی حتی موقوف ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی طرف سے خصوصی دعاؤں کی تحریک لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع ( منعقده ۲۰،۱۹،۱۸ /اکتوبر ۱۹۶۸ء) کے لئے حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ذکر حبیب کے موضوع پر ایک معلومات افروز مضمون رقم فرمایا.جس کے پڑھنے کی سعادت حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کو حاصل ہوئی.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت و شمائل پر مشتمل ایمان افروز واقعات پر روشنی ڈالنے کے بعد تحریر فرمایا:.اپنے اور اپنی اولادوں کے نیک ہونے ، نیک انجام پانے اور دینی دنیوی روحانی جسمانی تمام حسنات و برکات کے حصول کی دعاؤں کے علاوہ اول ایک خاص دعا پر زور دیں.یعنی حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے لئے کہ صحت و اعضاء کی سلامتی کے ساتھ بابرکت زندگی عمر میں برکت عطا ہو.اللہ تعالیٰ ان کا عہد خلافت بے حد مبارک فرمائے.ان پر ہمارے مولا کا سایہ رحمت رہے.وہ ایک عالم کے لئے سایہ رحمت ہمیشہ ہوں.ہر گام ہر قدم پر خدا تعالیٰ کا فضل اور نصرت ان کے شامل حال رہے.برکات خلافت کا خاص ظہور ہو.ہر میدان ہر مقابل میں خدا تعالیٰ خدائے ناصر ونصیر ہمارے خلیفہ کا معین ورفیق و نصیر ہو.یادر ہے کہ خلیفہ کے وجود میں ہی کل جماعت بھی شامل ہے.بچے خلیفہ کی فتح، جماعت کی فتح، اسلام کی فتح، احمدیت کی فتح ہے.ہم جو مانگتے ہیں خدا سے خدا کے دین کے لئے ہی مانگتے ہیں.شکر نعمت کے لئے اس کے عطا کردہ انعام کو اس کے لئے مانگتے ہیں.تعلق محبت سے اس نعمت کی قدر پہچانتے ہوئے خلیفہ اسیح کے لئے بہت دعا کریں.اور سب دعاؤں میں آپ کے لئے اور احمدیت کے غلبہ اور علم اسلام کے آپ کے ہاتھوں سے تمام عالم کے چپہ چپہ سے بلند ہونے کی دعا کرتی رہیں.پھر خادم دین اولا دوں اور نسلوں کے لئے بھی دعا پر آجکل خصوصیت سے زور دیں.ہمارے نیک انجام ہوں اور نیک ہی سلسلہ چلے تا قیامت.مخالفت بھی آجکل بہت پھیل رہی ہے دعاؤں سے فتح کے دن قریب لائیں کیونکہ ہر مخالفت کے شور وشر کے بعد احمدیت کی ترقی ہوتی ہے.

Page 646

تاریخ احمدیت.جلد 24 606 سال 1968ء اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں کی جانب سب کو بہت متوجہ کیا ہے.اور کثرت سے جماعت کو دعاؤں کی تاکید کی ہے.احمدیوں کو دعا کرنے کی عادت ، دعا کی اہمیت کو واضح فرما کر جو آپ نے عطا فرمائی وہ بھی ان خزانوں میں ایک بڑا بھاری خزانہ ہے.جو مہدی آخر زماں علیہ السلام نے لٹانا تھا.خود مجھے دعاؤں پر آپ کا اکثر بے حد زور دینا یاد آتا ہے.معلوم ہوتا تھا کہ یہ بھی آپ کے مشن کا ایک خاص اور اہم رکن ہے.مجھے اکثر فرمایا کہ جب رات کو آنکھ کھلے تو دعا کیا کرو تمہاری تہجد ہو جائے گی.اب تک جب کروٹ لوں، آنکھ ذرا کھلے، تو دعا ئیں اسی بچپن کی عادت کے مطابق میری زبان پر ہوتی ہیں“.126 حضرت خلیلہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے نام جماعت احمدیہ انڈونیشیا کا انیسواں جلسہ سالانہ جا کرتا کے ایسٹو راسٹیڈیم میں ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو منعقد ہوا.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اس کے لئے ایک خصوصی پیغام بھجوایا.اس خصوصی پیغام کا انڈونیشیا زبان میں ترجمہ پریذیڈنٹ مسٹر مور تو لو نے پڑھ کر سنایا.حضور نے اپنے روح پرور پیغام میں جماعت انڈونیشیا کو تلقین فرمائی:.ان ایام میں خصوصیت کے ساتھ اپنے دن اور رات بکثرت ذکر الہی اور دعاؤں میں بسر کریں.کیونکہ دنیا میں غلبہ اسلام کے دن اب بالکل قریب ہیں.اسلام کا یہ موعودہ غلبہ جو بہر حال رونما ہو کر رہے گا اور ہو گا بھی بہت جلد ہم سے اس امر کا متقاضی ہے کہ ہم جان و مال کی قربانی، وقت کی قربانی، ذاتی مفاد کی قربانی، الغرض کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کریں.حضور نے اپنے پیغام میں احمدی احباب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا پس حالات کے تقاضوں کو پہچانتے ہوئے اپنی کمر ہمت گس لو.اسلام کی اشاعت میں اپنا تن من دھن لگاؤ اور سستیوں اور غفلتوں کو ترک 66 کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں ایک ہمہ گیر پاک تبدیلی پیدا کرو.“ حضور کے اس ایمان افروز پیغام کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ نے ایک پر اثر افتتاحی خطاب فرمایا.جس میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقصد بعثت یہ ہے کہ پورے کرہ ارض پر ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہو.اس مقصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی

Page 647

تاریخ احمدیت.جلد 24 607 سال 1968ء زندگیوں میں اسلام کی بے مثال اور لازوال تعلیم کا عملی نمونہ پیش کریں.اس جلسہ میں ملک کے طول و عرض سے دو ہزار احباب نے شرکت فرمائی.جلسہ گاہ سے باہر ایک تبلیغی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا.یہ نمائش دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی مساعی کی آئینہ دار تھی اور اس میں اسلامی لٹریچر تصاویر اور چارٹس کے ذریعہ اسلام کی روز افزوں ترقی کو واضح کیا گیا تھا.لوگوں نے اس نمائش میں بہت دلچسپی لی.اور وہ اس سے بہت متاثر ہوئے.انصار اللہ کا تیرھواں سالانہ اجتماع مورخه ۲۵ /اکتوبر ۱۹۶۸ء بروز جمعۃ المبارک انصار اللہ مرکزیہ کا تیرھواں سالانہ اجتماع احاطه دفتر انصار اللہ مرکزیہ میں منعقد ہوا.اس اجتماع میں ۳۱۲ مجالس کے ۶۷۵ نمائندگان ،۱۲۲۱ راراکین اور ۹۰۲ زائرین کل ۲۷۹۸ را حباب نے شرکت کی.اسی روز ساڑھے تین بجے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تشریف لائے.اجتماع کے منتظم اعلیٰ محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور دیگر قائدین مجلس انصار اللہ نے آگے بڑھ کر حضور کا خیر مقدم کیا.جونہی حضور سٹیج پر تشریف لائے حاضرین نے اللہ اکبر، اسلام زندہ باد، احمدیت زندہ باد، حضرت خلیفتہ المسیح زندہ باد کے نعروں کے ساتھ حضور کا استقبال کیا.تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے اپنا افتتاحی خطاب شروع فرمایا.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مبارک ارشادات پڑھ کر اس امر کو واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا نور پھیلے اور غالب آئے.یعنی قرآن مجید کی دنیا میں وسیع اشاعت ہو اور لوگوں کے قلوب میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی محبت پیدا ہو جائے کہ وہ حضور کے نقش قدم پر چل کر اللہ تعالی کا وہ قرب اور اس کے وہ انعامات حاصل کریں جو پہلی امتیں حاصل نہ کر سکیں.حضور نے فرمایا کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں جو اس سلسلے میں اللہ تعالی ہم سے طلب کرے.حضور نے اپنے افتتاحی خطاب کے بعد اجتماعی دعا کرائی اور پھر نعرہ ہائے تکبیر کے درمیان حضور واپس تشریف لے گئے.128 مسئلہ خلافت و مجد دیت پر معرکہ آراء خطاب اسی طرح مورخہ ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو اجتماع کے آخری دن حضور انور اجتماع سے اختتامی خطاب

Page 648

تاریخ احمدیت.جلد 24 608 سال 1968ء فرمانے کے لئے تشریف لائے.حاضرین مجلس نے کھڑے ہو کر پُر جوش نعروں کے ساتھ حضور انور کا خیر مقدم کیا.گیارہ بجگر پینتیس منٹ پر حضور نے اپنی تقریر شروع فرمائی.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں ایک نئے زاویہ نگاہ سے آیت استخلاف کی نہایت پر معارف تفسیر بیان فرمائی اور اس ضمن میں خلافت راشدہ اور مجددیت کی اقسام اور ان کے باہمی تعلق کو نہایت اچھوتے رنگ میں واضح فرمایا.وو اس امر کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ خلافت ثالثہ کے آغاز میں بعض ذہنوں میں اس مسئلہ سے متعلق زبر دست بہیجان پیدا ہو گیا کہ کیا خلیفہ کی موجودگی میں مجدد آ سکتا ہے یا نہیں ؟ اگر چہ اس سے قبل ۱۹۴۷ء میں حضرت مصلح موعود ایسے ہی ایک سوال کے جواب میں واضح فرما چکے تھے کہ ” خلیفہ تو خود مجدد سے بڑا ہوتا ہے.اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا ہوتا ہے.پھر اس کی موجودگی میں مجد دکس طرح آ سکتا ہے؟ مسجد دتو اس وقت آیا کرتا ہے جب دین میں بگاڑ پیدا ہو جائے“.بہر حال اس سوال کے جواب سے متعلق سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع میں ایک معرکہ آراء خطاب ارشاد فرمایا.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کی روشنی میں ثابت کیا کہ آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ سے مختلف شکلوں میں قیامِ خلافت کا وعدہ کیا ہے.مجد دیتِ عظمی اور خلافتِ عظمیٰ اب تا قیامت صرف حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبع اور کامل امتی ہونے کی حیثیت میں امت محمدیہ کا آخری خلیفہ قرار دیا ہے.نئی صدی کے سر پر پہلے مجددین کی طرح کسی نئے مجدد کی آمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.البتہ خلافت راشدہ اور خلافت آئمہ کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا.اس لطیف اور بصیرت افروز خطاب کا آخری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل اقتباسات پڑھتے ہوئے اس معاملہ کو نہایت احسن رنگ میں احباب جماعت کے سامنے واضح فرما دیا چنانچہ حضور انور نے اقتباسات پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.خدا تعالیٰ اس امت کے لئے خلافت دائمی کا صاف وعدہ فرماتا ہے.اگر

Page 649

تاریخ احمدیت.جلد 24 609 سال 1968ء خلافت دائمی نہیں تھی تو شریعت موسوی کے خلیفوں سے تشبیہہ دینا کیا معنی رکھتا تھا چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف واولی ہیں خالی طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے.سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے اور پھر یہ آیت خلافت آئمہ پر گواہ ناطق ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ - کیونکہ یہ آیت صاف صاف پکار رہی ہے کہ اسلامی خلافت داعی ہے اس لئے کہ يَرتُهَا کا لفظ دوام کو چاہتا ہے.وجہ یہ کہ اگر آخری نوبت فاسقوں کی ہو تو زمین کے وارث وہی قرار پائیں گے نہ کہ صالح.اور سب کا وارث وہی ہوتا ہے جوسب کے بعد ہو.پھر اس پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ جس حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک مثال کے طور پر سمجھا دیا تھا کہ میں اسی طور پر اس امت میں خلیفے پیدا کرتا رہوں گا جیسے موسیٰ علیہ السلام کے بعد خلیفے پیدا کئے تو دیکھنا چاہیئے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا تو پھر کیونکر ہو سکتا تھا کہ حضرت موسیٰ کے خلیفوں کا چودہ سو برس تک سلسلہ ممتد ہو اور اس جگہ صرف تمہیں برس تک خلافت کا خاتمہ ہو جاوے.اور دوسری جگہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ امت موسویہ میں ہزار ہا خلفاء اس سلسلہ میں پیدا ہوئے.ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی بھی ہوتا تھا جو تجدید دین کے لئے آتا تھا مثلاً جب موسیٰ علیہ السلام کی امت پھیل گئی تو اس زمانہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنا یا ان کی تربیت کرنا بڑا مشکل تھا.تو جب بنی اسرائیل مختلف علاقوں میں پھیل گئے اور مختلف قبائل اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے تو ان کو خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ اور بشارت کے مطابق سینوار نا تھا ایسی حالت میں چار چار سو نبی کی بھی ضرورت پیدا ہوئی.جتنے کی ضرورت تھی اور جس رنگ میں ضرورت تھی خدا نے جو وعدہ کیا تھا وہ اس نے پورا کیا کیونکہ وہ سچے وعدوں والا ہے.

Page 650

تاریخ احمدیت.جلد 24 آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :.610 سال 1968ء برائے خدا سوچو کہ اس آیت کے یہی معنی ہیں کہ ہمیشہ قیامت تک تم میں روحانی زندگی اور باطنی بینائی رہے گی اور غیر مذہب والے تم سے روشنی حاصل کریں گے اور یہ روحانی زندگی اور باطنی بینائی جو غیر مذہب والوں کو حق کی دعوت کرنے کے لئے اپنے اندر لیاقت رکھتی ہے یہی وہ چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں.پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:.132- در آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا سلسلہ جاری ہے مگر آپ ﷺ میں سے ہو کر اور آپ ماہ کی مہر سے.اور فیضان کا سلسلہ جاری ہے کہ ہزاروں اس امت میں سے مکالمات اور مخاطبات کے شرف سے مشرف ہوئے اور انبیاء کے خصائص ان میں موجود ہوتے رہے ہیں.سینکڑوں بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں جنہوں نے ایسے دعوے کئے.چنانچہ حضرت عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی کی ایک کتاب فتوح الغیب کو ہی دیکھ لو.پھر آپ علیہ السلام نے تحفہ گولڑویہ میں یہ فقرہ بھی لکھا ہے جسے پڑھ کر بڑی لذت آتی ہے.وہاں بحث یہ ہے جہاں سے میں نے یہ فقرہ لیا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تھی کہ پہلی تین صدیاں انتہائی بزرگی ، تقدس اور قرب الہی پانے والوں کی ہوں گی اور اسلام اپنی روحانیت کے کمال کو پہنچا ہوا ہو گا لیکن پھر اس کے بعد ایک تنزل کا دور آئے گا جو ہزار سالہ دور ہے اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصطلاح میں اس دور کو فی اعوج کا زمانہ کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اس غیرت کی وجہ سے جو اسلام کے لئے آپ کو تھی اور اس شدید محبت کی وجہ سے جو آپ کے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تھی یہ خیال پیدا ہوا کہ معترض یہ اعتراض کرے گا کہ پہلی تین صدیوں کے بعد پھر اندھیرا چھا گیا یہ کیا ہوا، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض آتا ہے تو آپ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ:.

Page 651

تاریخ احمدیت.جلد 24 611 سال 1968ء وه گو دوسرے فرقوں کی نسبت درمیانی زمانہ کے صلحاء امت محمدیہ بھی باوجود طوفانِ بدعات کے ایک دریائے عظیم کی طرح ہیں.133 پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بتایا ہے کہ آیت استخلاف میں كَمَا کے لفظ کے ساتھ ایک اور سلسلہ خلافت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ دوسرا سلسلہ خلافت ہے کیونکہ پہلے دو سلسلہ ہائے خلافت دراصل ایک ہی سلسلہ کی دو شاخیں ہیں ان کو میں نے خلافت راشدہ کا نام دیا ہے یہی نام میرے خیال میں زیادہ مناسب ہے.تو ایک تو خلافت کا وہ سلسلہ ہے جو دوشاخوں پر مشتمل ہے اور جسے میں خلافت راشدہ کا نام دیتا ہوں.اور ایک دوسری خلافت کا وعدہ ہے جو خلافت ائمہ ہے اور اس کا وعدہ بھی کما کے لفظ میں ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت سے یہ وعدہ کیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو اس رنگ میں پورا کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی امت کو اپنے مذہب اور ہدایت اور تورات سے دور جانے سے بچانے کے لئے حسب ضرورت ایک ایک وقت میں چار چار سو نبی پیدا کئے اسی طرح امت محمدیہ سے یہ وعدہ ہے کہ وہ امت محمدیہ میں قرآن کریم کے انوار کی شمع کو روشن رکھنے کے لئے ہر زمانہ میں ہر ملک میں ہر قریہ اور شہر میں ایسے لوگ پیدا کرتا رہے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء اور اس دوسرے سلسلہ خلافت کی کڑیاں ہوں گے وہ دنیا کو صحیح قرآنی تفسیر کی طرف بلانے والے ہوں گے اور اسلام کے چہرہ کو روشن رکھنے والے ہوں گے اور یہ وہ نجوم ہیں جن کا وعدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دیا ہے اور ان کی کثرت بھی اُن نجوم کی کثرت کی طرح ہی ہے جو آسمان پر ہمیں چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں.پس اس سلسلۂ خلافت میں دو یا چار یا بارہ کا سوال نہیں ہزاروں لاکھوں ہیں جو امت محمدیہ میں پیدا ہوئے اور ہزاروں لاکھوں ہیں جو امت محمدیہ میں پیدا ہوں گے اور اسلام کے چہرہ کو روشن رکھیں گے اور ان کی مثال نجوم کی مثال ہے اور ان کی تعداد کی کوئی حد بست نہیں خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنے پیدا ہو گئے اور کتنے پیدا ہوں گے.جیسا کہ امت موسویہ میں ہزار ہا اس قسم کے خلفاء پیدا ہوئے اسی طرح امت محمدیہ میں ہزار ہا بلکہ کھوکھا شاید کروڑہا اس قسم کے خلفاء پیدا

Page 652

تاریخ احمدیت.جلد 24 612 سال 1968ء ہوں کیونکہ امت محمدیہ اپنی وسعت مکانی اور وسعتِ زمانی میں امت موسویہ سے بہت بڑھ کر ہے.ایک سوال رہ جاتا ہے کہ اس دوسری قسم کے خلفاء کا رشتہ اور تعلق پہلی قسم کے خلفاء سے کیا ہے کیونکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر ایک ہی وقت میں یہ خلفاء پیدا ہو گئے تو کہیں انار کی تو نہیں ہو جائے گی.یعنی ہر ایک اپنی چلائے تو اس کے متعلق اسلام نے ہمیں یہ بتلایا ہے کہ پہلا سلسلہ تو وہ ہے کہ جس سلسلہ کا خلیفہ اپنے وقت کے تمام خلفاء کا سردار ہوتا ہے اور وہ اس کے اجزاء ہوتے ہیں یہ کہنا کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت میں حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ، حضرت علی اور دوسرے بزرگ صحابہ میں رُشد و ہدایت نہیں تھی غلط ہے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ تمام بزرگ صحابہؓ جن میں سے بعض کو بعد میں خلافت ملی گوا کثر کو نہیں ملی اس دوسرے وعدہ کے مطابق جس کا میں نے اب آخر میں ذکر کیا ہے امت محمدیہ کے خلفاء کے زمرہ میں ہی تھے.وہ مصلح اور ائمہ تھے مگر وہ شریعت کے استحکام اور اشاعت قرآن کی مہم میں خلیفہ وقت کی مدد کرنے والے تھے اور خلافت کے ماتحت تھے.اگر خلافتِ راشدہ سے اپنا تعلق قطع کر لیتے تو وہ خدا کی نگاہ میں خدا سے دور ہو جاتے اور تمام برکتیں ان سے چھین لی جاتیں جیسا کہ ان لوگوں سے برکتیں چھین لی گئیں جنہوں نے ظاہری طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کیا لیکن حضرت ابوبکر سے علیحدہ ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کی بات نہیں مانتے.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مانتے تھے آپ ﷺ ہم میں نہیں رہے تو ہم آزاد ہو گئے.بعض ایسا کہنے والے بھی تھے لیکن ساری برکتیں ان سے چھین لی گئیں.آج ان کے ناموں سے بھی آپ واقف نہیں لیکن اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء امت، صلحاء امت، ائمہ امت خلافتِ راشدہ کے ماتحت ہوتے ہیں.اگر اس سے اپنا رشتہ قطع کر لیں تو بلعم باعور بن جاتے ہیں خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق قطع ہو جاتا ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں لیکن جب تک ان کا رشتہ قائم رہتا ہے خلافت راشدہ کا خلیفہ ان تمام کا سردار ہوتا ہے اور بڑا خوش قسمت ہے وہ خلیفہ وقت جس کے ماتحت دوسروں کی

Page 653

تاریخ احمدیت.جلد 24 613 سال 1968ء نسبت زیادہ اس دوسرے سلسلہ کے خلفاء و ائمہ موجود ہوں کیونکہ اس کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی طاقت دی ہے ایسے ہتھیار دیئے ہیں جو بعض دوسروں کو نہیں دیئے.اسی لئے ایک موقع پر حضرت علی کو یہ کہنا پڑا جس وقت کسی نے اعتراض کیا تو آپ نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خدا نے میرے جیسے انسان دیئے تھے اور مجھے تمہارے جیسے انسان دیئے ہیں.تو یہ سلسلہ خلافت تو ہزاروں خلفاء پر مشتمل ہے لیکن جب تک خلافتِ راشدہ کسی شکل میں رہے یا ر ہی یہ ہزاروں خلفاء خلیفہ راشد کے ماتحت ہوں گے.پہلے سلسلۂ خلافت کی ایک شاخ تو جو بعد میں بھی مقبول صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ خلفاء ومجددین پر مشتمل تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ختم ہوگئی.اگلی صدی کے مجدد کی ہر ایک کو تلاش کرنی چاہیئے لیکن ہر آنے والی صدی کے سر پر جو شخص مجدد کی تلاش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( جو آخری ہزار سال کے مجدد ہیں ) کے علاوہ کوئی ایسا چہرہ دیکھتا ہے جو آپ کے خلیفہ کا نہیں آپ کے ظل کا نہیں وہ بچے مجدد کا چہرہ نہیں دیکھتا لیکن پہلے سلسلۂ خلافت کی دوسری شاخ اور وہ بھی خلافت راشدہ کا حصہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اظلال کی شکل میں جاری ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تم ایمان کی اور اعمال صالحہ کی شرط پوری کرتے رہنا تمہیں قدرتِ ثانی کے مظاہر یعنی خلافت راشدہ کا اللہ تعالیٰ قیامت تک وعدہ دیتا ہے.خدا کرے کر محض اسی کے فضل سے جماعت عقائد صحیحہ اور پختہ ایمان اور طیب اعمال کے اوپر قائم رہے تا کہ اس کا یہ وعدہ قیامت تک جماعت کے حق میں پورا ہوتا رہے اور جب تک یہ سلسلہ خلافت جاری رہے گا اور قائم رہے گا وہ ہزاروں لاکھوں خدا کرے کہ کروڑوں خلفاء جو دوسرے سلسلۂ خلافت میں منسلک ہیں یعنی سلسلہ خلافتِ آئمہ میں خلیفہ راشد کے ماتحت ہوں گے اور اس کی اطاعت میں اپنا فخر سمجھیں گے اور اس کی اطاعت سے ہر برکت اور فیض حاصل کریں گے وہ اس حقیقت پر قائم ہوں گے اور ان کو ان کا رب سمجھا دے گا کہ جو شخص وقت کے امام کو پہچانتا نہیں اور اس سے روگردانی کرتا ہے وہ اللہ کے حکم سے روگردانی کرنے والا ہے.پس اے میرے عزیز بھائیو! جو مقامات قرب تمہیں حاصل ہیں اگر انہیں

Page 654

تاریخ احمدیت.جلد 24 614 سال 1968ء قائم رکھنا چاہتے ہو اور روحانیت میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رکھنا کیونکہ اگر یہ دامن چھوٹا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن چھوٹ جائے گا کیونکہ خلیفہ وقت اپنی ذات میں کوئی شے نہیں اسے جو مقام بھی حاصل ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیا ہوا مقام ہے نہ اس میں اپنی کوئی طاقت نہ اس میں اپنا کوئی علم.پس اس شخص کو نہ دیکھو اس کرسی کو دیکھو جس پر خدا اور اس کے رسول اللہ نے اس شخص کو بٹھا دیا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے جس خلافت راشدہ کے وقت میں جتنے زیادہ خلفاء اس دوسرے سلسلہ کے ہوں گے یعنی سلسلہ خلافت آئمہ کے جو مضبوطی کے ساتھ اس کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں گے اور جن کے سینہ میں وہی دل جو خلیفہ وقت کے سینہ میں دھڑک رہا ہے دھڑک رہا ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ ان کو طاقت بخشتی رہے گی.آپ ے کے روحانی فیوض سے وہ حصہ لیتے رہیں گے اتنا ہی زیادہ اسلام ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا میں غالب آتا چلا جائے گا اور غالب رہتا چلا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کے فضلوں کو انسان حاصل کرتا چلا جائے گا لیکن جو شخص خلافتِ راشدہ کے دامن کو چھوڑتا اور خلافتِ راشدہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس شخص پر خدا تعالیٰ اپنی حقارت کی نظر ڈالتا ہے اور وہ اس کے غضب اور قہر کے نیچے آجاتا ہے.اللہ تعالیٰ ایسا سامان پیدا کرے کہ ہم میں استثنائی طور پر بھی کوئی ایسا بد قسمت 66 پیدا نہ ہو.184 حضور انور کی یہ تقریر ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی.اس کے بعد حضور نے انصار سے ان کا عہد دہرایا اور پھر اجتماعی دعا کرائی.135- حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی قبولیت دعا کا نشان خلفاءاس زمین پر خدا تعالیٰ کے نائب ہوتے ہیں اور ان کی زبان خدا کی زبان ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ انہیں قبولیت دعا کے بکثرت اعجازی نشانات کے ساتھ بھیجا جاتا ہے.خلافت ثالثہ کے عہدِ مبارک میں بھی ہمیں ان نشانوں کا ایک غیر معمولی تسلسل نظر آتا ہے.اسی سلسلہ میں ۱۹۶۸ء کا ایک

Page 655

تاریخ احمدیت.جلد 24 615 سال 1968ء اور اعجازی نشان خاص عظمت و اہمیت کا حامل ہے جس کی تفصیل صادقہ مقصود حید ر صاحبہ، لندن کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتی ہیں کہ :.عاجزہ ایک لمبے عرصہ سے ایسے عوارض میں مبتلا تھی کہ لندن کے ماہر ترین ڈاکٹروں کے غور وفکر اور علاج کے باوجود مرض سے چھٹکارا حاصل نہ کر سکی.گزشتہ سال جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث لندن تشریف لائے اس وقت بیماری اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی.پیٹ کے سات آپریشن ہو چکے تھے جن میں سے دو بڑے اور پانچ چھوٹے تھے.ہر آپریشن کے بعد ڈاکٹر کا خیال ہوتا تھا کہ یہ آپریشن کامیاب رہے گا اور اس کے بعد ہونے والا بچہ یا تو اپنے وقت پر پیدا ہو کر زندہ رہے گا یا پھر وہ مرض جس کی تکلیف تھی وہ ختم ہو جائے گی لیکن ہر آپریشن کے بعد یہ امید کم ہوتی گئی.پانچ سال کے بار بار آپریشن اور بے شمار مختلف علاج معالجوں کے بعد ایک دن میں حسب معمول اسپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر کے پاس ہسپتال گئی جو میرے علاج میں شریک رہی تھی اس نے کہا مسٹر حیدر آج میں مختلف علاج ٹیسٹ اور ایکسرے کے بعد جو کچھ تمہیں بتلانا چاہتی ہوں مجھے افسوس ہے کہ وہ تمہارے لئے بہت رنج و غم کا باعث ہوگا.میری آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں.وہ مجھے تسلی دینے کی کوشش کرتی رہی لیکن ساتھ ہی بار بار یہ بات بھی کہتی تھی کہ کاش میں تمہاری مدد کر سکتی.ہمارے ڈاکٹروں کے بورڈ کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ ہم آپ کے لئے کچھ نہیں کر سکتے.ان الفاظ سے میری بچیکی بندھ گئی.میں حیران تھی کہ یہ دنیا کے قابل ترین ڈاکٹر اس طرح کا مایوس کن جواب دے رہے ہیں اور ان کی تمام سمجھ بوجھ اور سائنس کی موجودہ ترقی میرے لئے بے کار ثابت ہو رہی ہے لیکن مشیت ایزدی کسی اور رنگ میں اپنی شان دکھانا چاہتی تھی.چند منٹ کی نہایت تکلیف دہ اضطراری کیفیت کے بعد ڈاکٹر نے اپنا فیصلہ واضح الفاظ میں بیان کیا اور کہنے لگی کہ تمہارے اندر کے اعضاء جل کر سیاہ ہو چکے ہیں اور بعض ٹیوب بلاک ہو چکی ہیں.جس کی وجہ سے آئندہ بچہ حاصل کرنے کی تگ و دو برکار ہوگی.میں نے ہمت کر کے پھر سوال کیا کہ کیا کسی مزید آپریشن سے ٹیوب کھولی جاسکتی ہیں؟ اس پر وہ حیران رہ گئی اور کہنے لگی کیا تم اپنی جان خطرہ میں ڈال کر پیسٹ کے تیسرے بڑے آپریشن کے لئے بھی تیار ہو؟ میں نے اس کا جواب بغیر سوچے سمجھے دے دیا کہ ہاں تیار ہوں.وہ کہنے لگی کیا تم ایسی صورت میں بھی تیار ہو جبکہ ہم تمہیں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ تیسرے آپریشن کے بعد بھی شاید تم بچہ حاصل نہ کرسکو کیونکہ تمہارا ایکسرے صاف ظاہر کرتا ہے کہ ایک ٹیوب مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے اور دوسری قریب الاختتام ہے.میں نے کہا کہ میں

Page 656

تاریخ احمدیت.جلد 24 616 سال 1968ء آپریشن کے لئے تیار ہوں.اس نے جواب دیا کہ اس صورت میں تمہیں چیف میڈیکل آفیسر کے سامنے اپنے خاوند کے ہمراہ جا کر اس امر کا اظہار کرنا ہو گا کہ تم اپنی مرضی سے آخری بار آپریشن کے لئے تیار ہولیکن میں پھر تمہیں بتلا دیتی ہوں کہ یہ آپریشن تمہاری جان کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے میں خوب جانتی ہوں کہ میرا پیٹ مختلف آپریشنوں سے اس قدر نازک ہو چکا ہے کہ اب ڈاکٹر ہمت ہار چکے ہیں.اعضاء اس قدر مضمحل ہو چکے ہیں کہ ڈاکٹروں کے نزدیک ان میں زندگی کے آثار ختم ہیں.ڈاکٹر نے مجھے اگلے ہفتہ اپنے خاوند کے ہمراہ آنے کے لئے کہا تا کہ اگر میں آپریشن کے لئے تیار ہوں تو یہ جلد ہو جائے اور آپریشن ملتوی کرنے سے اعضاء مزید نا کارہ نہ ہو جائیں.میں اثبات میں جواب دے کر گھر چلی آئی.ہمت جواب دے چکی تھی امید کا چراغ گل ہوا جاتا تھا.بڑی مشکل سے گھر تک پہنچ سکی.جذبات پر قابو محال تھا.کسی طرف کوئی سہارا نظر نہ آتا تھا اب صرف ایک راہ تھی وہ یہ کہ خوش قسمتی سے ان دنوں میرے آقا حضرت خلیفہ المسیح الثالث لندن میں قیام فرما تھے.گلاسگو کے دورہ سے واپس تشریف لا چکے تھے اور بے حد مصروف تھے اور میں اپنے میاں سید حیدر شاہ صاحب کی معیت میں حضور سے ملاقات کر چکی تھی.اور قاعدہ یہ تھا کہ جس کی ملاقات پہلے ہو چکی ہوا سے دوبارہ ملاقات کا موقع نہیں دیا جا تا تھا.گو اس وقت بھی اپنے لئے دعا کی درخواست کی تھی لیکن اپنے طور پر یہ امید تھی کہ علاج ہو رہا ہے.انشاء اللہ خدا تعالیٰ فضل فرمائے گا اس لئے زیادہ زور اس بات پر نہ دیا تھا بلکہ مجموعی طور پر دعا کے لئے درخواست کرتی رہی.اب جبکہ دنیا آنکھوں میں تاریک نظر آرہی تھی یہ ایک در تھا جس پر دھونی رمانے سے خدا تعالیٰ تک فریاد پہنچائی جاسکتی تھی.حیران اور سوچنے سمجھنے سے لاچار کہ خاص ملاقات کے لئے کیسے اجازت حاصل کی جائے ناگاہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کا خیال آیا کیونکہ وہ میرے شہید بھائی میجر منیر احمد مرحوم اور میرے والد بزرگوار خواجہ عبدالقیوم صاحب کو خوب جانتے تھے.لہذا فوراً اسی بے کلی کی کیفیت میں انہیں فون کیا وہ میری بھرائی ہوئی آواز کی وجہ سے فون پر اس سے زیادہ نہ سمجھ سکے کہ مجھے حضرت صاحب کی ملاقات کی سخت ضرورت ہے.آپ نے فرمایا کل آجانا میری ملاقات کا وقت ہے اس وقت تمہاری ملاقات میں خود کروا دوں گا.تمام رات آنکھوں میں کاٹنے کے بعد اگلے دن حضرت اقدس کی خدمت میں جناب سنوری صاحب کی وساطت سے حاضر ہونے کی توفیق ملی.از راہ شفقت

Page 657

تاریخ احمدیت.جلد 24 617 سال 1968ء حضور اقدس نے پیش کردہ خط پڑھنے کے بعد فرمایا کہ دعا کروں گا ڈاکٹروں سے کہہ دو کہ آپریشن کے متعلق ۶ ماہ بعد جواب دوں گی.عاجزہ نے عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپریشن جلد ہونا چاہیئے.آپ نے مکر را ز راہ شفقت فرمایا کہ بیٹی گھبراتی کیوں ہو دعا کروں گا انشاء اللہ خد افضل فرمائے گا.میں نے سوچا کہ حضور اقدس کو میری بیماری کی نوعیت کا غالبا اندازہ نہیں ہوسکا میرے ہاتھ میں سیاہ رنگ کا پرس تھا میں نے عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر تو کہتے ہیں کہ تمہارے اندرونی اعضاء اس پرس کی طرح سیاہ ہو چکے ہیں تا ہم حضور نے نہایت تسلی آمیز اور پُر سکون لہجہ میں فرمایا.ہاں ! ہاں ! میں دعا کروں گا بلکہ پاکستان جا کر ہومیو پیتھک ڈاکٹروں سے مشورہ کر کے دوائی بھی بھیجوں گا.عاجزہ نے جرات سے کام لے کر عرض کیا حضور ابھی دعا فرما دیں اس پر حضور اقدس نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.حضرت سنوری صاحب نے عرض کیا کہ حضور دو بیٹوں کے لئے دعا فرمائیں لیکن جڑواں نہ ہوں ایک ایک کر کے ہوں.دعا شروع ہوئی تو میں نے حسب معمول سورۃ فاتحہ، درود شریف خاندان حضرت مسیح موعود ومصلح موعود کے لئے دعا کے بعد اپنے تمام خاندان بہن بھائیوں کے لئے دعا کی.ذہن میں یہ خیال تھا کہ میرے لئے تو حضور خود ہی دعا فرمارہے ہیں میں انہیں بھی یاد کر لوں جو مجھے عزیز ہیں اور ساتھ یہ خوف بھی دامنگیر تھا کہ کہیں اپنے لئے دعا مانگنے سے پہلے حضور آمین نہ کہ دیں لیکن خدا تعالیٰ کی شان سب کے لئے دعا کرنے کے بعد مجھے اپنے لئے بھی دعا کرنے کا اتنا موقع مل گیا کہ مجھے تسلی ہو گئی.اب حضور کے آمین کہنے کی آواز آئی یہ اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا کہ لمبی دعا کا موقع اس عاجزہ کو حضرت اقدس کی روانگی سے قبل میسر آ گیا.فالحمد للہ.خدا کی قسم وہ یقیناً قبولیت دعا کی گھڑیاں تھیں.اس دعا کے بعد میں خاک سے اکسیر ہوگئی اور میرا دل نور ایمان سے بھر گیا اے میرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو اب حضور واپس تشریف لے جاچکے تھے واپسی پر کام کی زیادتی کی بناء پر تین ماہ تک دوائی نہ آئی گو حضرت اقدس کو یہ عاجزہ برابر یا تھی.وہ اس طرح کہ میری والدہ صاحبہ مع میری بیٹی کے حضور اقدس کی ملاقات کو حاضر ہوئیں.حضرت اقدس نے از راہ شفقت حضرت بیگم صاحبہ کو جو سفر لندن میں ساتھ تھیں مخاطب ہو کر خود ہی فرمایا ” صادقہ کو دوائی بھجوانے کا کہا تھا بھجوا دیتے“.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور انور کو برابر میری فکر تھی.عاجزہ ہومیو پیتھک کی دوا کی منتظر تھی.مکرمی ڈاکٹر داؤ د احمد صاحب ایک دن کہنے لگے ہومیو پیتھک علاج بھی کروا دیکھیں.میں نے کہا بات تو ٹھیک ہے حضرت

Page 658

تاریخ احمدیت.جلد 24 618 سال 1968ء اقدس نے بھی تو ہومیو پیتھک دوا بھجوانی ہے اور یہاں کے ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوا وہاں کے ڈاکٹروں کی تجویز کردہ دوا سے بہتر ہو گی.چنانچہ مکرمی ڈاکٹر صاحب نے جو خود بھی رائل ہومیو پیتھک ہاسپٹل میں کام کرتے ہیں اپنی ایک تجربہ کا رسپیشلسٹ لیڈی ڈاکٹر سے معاینہ کے لئے وقت مقرر کروا دیا چنانچہ عاجز ۱۳۰ نومبر ۱۹۶۷ء کو ان کے پاس گئی بعد معاینہ اور تمام رپورٹ سن کر وہ کہنے لگی مجھے افسوس ہے مسز حیدر ہمارے پاس تمہاری تکلیف کا کوئی علاج نہیں.میری حیرت کی انتہا نہ رہی میں نے کہا ” عام طور پر یقین کیا جاتا ہے کہ ہومیو پیتھک بہت اعلیٰ درجہ کا علاج ہے اور اکثر لوگ ایلو پیتھی سے ناامید ہو کر اس طرف رجوع کرتے ہیں.کہنے لگی کہ ہاں لیکن مجھے بے حد افسوس ہے کہ تمہاری بیماری کا میڈیکل علاج نہیں.میں نے کہا کسی قیمت بھی علاج نہیں ہوسکتا؟ اس نے جواب دیا کہ ابھی سائنس اس درجہ ترقی پر نہیں پہنچ سکی کہ تمہاری بیماری کا علاج کیا جاسکے.اس لئے تمہیں آئندہ معاینہ کی تاریخ دینا بھی بیکا ر ہے اس وقت ڈاکٹر کے پاس بیٹھے ہوئے میں نے خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر عہد کیا کہ اے میرے مولا آئندہ تیرے در پر آنے کے سوا اور حضرت اقدس کی خدمت میں بار بار دعا کی درخواست کرنے کے سوا کسی لائق ترین ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں جاؤں گی.چنانچہ یہ عہد کرنے کے بعد واپس چلی آئی اور بار بار حضرت اقدس کی خدمت میں دعا کے لئے عریضے ارسال کرتی رہی اس یقین کے ساتھ کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق تو میں لا علاج ہو چکی اب صرف اور صرف اپنے آقا کی پُرسوز دعاؤں کا ہی سہارا ہے قادر ہے وہ بارگہ ٹوٹا کام بناوے اس اثناء میں خدا تعالیٰ کا فضل ہو چکا تھا.حیرت اور تعجب ہے کہ چار ماہ تک ڈاکٹر یہی کہتے رہے کہ شاید False alarm ہے یا مرض کا ایک حصہ ہے جو عود کر آیا ہے.عاجزہ بار بار ٹیسٹ کے لئے ہسپتال جاتی رہی اب علاج نہ تھا صرف ٹیسٹ تھے جو چار ماہ تک جاری رہے ایک دن ڈاکٹر نے کہا کہ مسر حیدرتم خیال کرتی ہو کہ تم امید سے ہو؟ میں نے کہا میرے حالیہ ٹیسٹوں کا رزلٹ کیا کہتا ہے؟ کہنے لگی ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے.میں نے کہا تو میں کیسے کہہ سکتی ہوں.پورے چار ماہ بعد اگلی معاینہ کی تاریخ پر ڈاکٹر نے کہا کہ ”مسز حید ر تم خوش ہو جاؤ کہ تم واقعی امید سے ہو اور یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے.جب میں باہر آئی تو دیکھا میرے پیچھے وہ معمر نرس دوڑی چلی آ رہی ہے جو عرصہ چار پانچ سال سے میرے علاج معائنے کے دوران وہاں موجود ہوا کرتی تھی کہنے

Page 659

تاریخ احمدیت.جلد 24 619 سال 1968ء وو لگی ”مسٹر حیدر! کیا تمہیں وہ دن یاد ہے جب ڈاکٹر Botwell نے کہا تھا کہ ڈاکٹروں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تم بانجھ ہو چکی ہو.میں نے کہا ہاں یاد ہے.کہنے لگی دیکھو آج خدا تعالیٰ نے تم کو یہ امید افزا وقت دکھلا دیا ہے.میں نے کہا دوا سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ایک برگزیدہ بندے کی دعا کا نتیجہ ہے.کہنے لگی یہ حیران کن بات ہے.اس کے بعد ڈاکٹروں نے ہسپتال میں داخل ہونے کے لئے کہا کیونکہ وہ اپنی زیر نگرانی رکھنا چاہتے تھے.اس دوران میں مجھے پھر خاص قسم کی تکلیف شروع ہو چکی تھی دوران معاینہ چیف آفیسر میڈیکل ہسپتال اپنے دوسرے ڈاکٹروں کو میری بیماری کی نوعیت سمجھاتے ہوئے کہنے لگا کہ ایسی حالت میں بچہ کا رکنا بہت مشکل ہے اور جب تک سات ماہ مکمل نہ ہو جائیں بچہ خطرہ سے خالی نہیں.یہ سنتے ہی عاجزہ نے حضرت اقدس کی خدمت میں تحریر کیا کہ ڈاکٹروں کا یہ خیال ہے اور ساتھ ہی یہ عرض کیا کہ حضور ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ شاید جڑواں بچے ہیں.اس کے جواب میں حضرت اقدس کا مجھے گرامی نامہ موصول ہوا کہ خدا تعالیٰ آپ کو بیٹا دے گا انشاء اللہ.یہ کس قدر خدا تعالیٰ کا احسان اور فضل پر فضل ہے کہ ڈاکٹر جن کے پاس سائنس کے نت نئے آلہ جات ہیں کہتے تھے کہ ہمیں پیٹ میں دو بچے معلوم ہور ہے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ کہ میری جیسی حالت میں بچہ کا رکنا بہت مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے اور دوسری طرف میرا آقا جو مغرب کی مادیت کے پرستاروں سے دور ربوہ کی سرزمین میں جلوہ افروز ہے اپنے خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق اور زندہ دعا کی قبولیت کا نشان حاصل کر چکا ہے ارشاد فرماتا ہے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ تمہیں بیٹا دے گا انشاء اللہ.اور بارہا حضور اقدس کی طرف سے مجھے یہی تسلی ملتی رہی کہ خدا تعالیٰ انشاء اللہ فضل کرے گا اور نرینہ اولاد سے نوازے گا آخر وہ دن بھی آگیا جب یہ خدا تعالیٰ کا نشان با وجود ظاہری روکوں کے آپہنچا اور خدا تعالیٰ نے صحت و سلامتی سے اس عاجزہ کو بچہ ودیعت فرمایا الحمدللہ ثم الحمد للہ اور حضور اقدس نے بچے کا نام ” صادق احمد تجویز فرمایا.بچہ کی ولادت نو ہفتہ قبل از وقت ہو چکی تھی بچہ بظاہر ٹھیک تھا مگر خون میں نقص پیدا ہونے کی وجہ سے دوسرے دن نومولود کے جسم کا تمام خون بدلنا پڑا.اور پھر دوسری دفعہ اگلے دن بھی.چنانچہ اگلے دن حضور کی خدمت میں بذریعہ تار دعا کی درخواست کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا.اس کے بعد یہ تکلیف بھی خدا تعالیٰ نے دور فرما دی.ہرلمحہ صحت یابی کی طرف بچہ کو لے جاتا رہا.اور اب خون بھی درست اور صحیح پیدا ہورہا ہے الحمد للہ الحمد للہ.ان سطور کو تحریر کرتے وقت تک بچہ پونے چار ماہ کا ہے

Page 660

تاریخ احمدیت.جلد 24 620 سال 1968ء اور وزن ۱۶ پونڈ ہو چکا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی دعا کے طفیل خدا تعالیٰ نے مجھ ایسی عاجزہ کو اپنے فضل سے نوازا جبکہ ابھی حضور اقدس کی مقرر کردہ معیاد چھ ماہ جو ڈاکٹروں کو آپریشن کا فیصلہ دینے کے لئے تجویز فرمائی تھی میں سے نصف عرصہ باقی تھا.میرے آقا کی دعا کی قبولیت کا نشان اور احمدیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہے“.136 انصار اللہ پر دفتر دوم کی ذمہ داری کا اعلان سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۲۵ اکتو بر ۱۹۶۸ء کوخطبہ جمعہ میں تحریک جدید دفتر دوم کی ذمہ داری انصار اللہ پر ڈالتے ہوئے اعلان فرمایا کہ:.آئندہ سال جو یکم نومبر (۱۹۶۸ء) سے شروع ہو رہا ہے جماعت کے انصار کو....جماعتی نظام کی مدد کرتے ہوئے ( آزادانہ طور پر نہیں ) یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ دفتر دوم کے معیار کو بلند کریں اور اس کی اوسط انیس روپے سے بڑھا کر تھیں روپے فی کس پر لے آئیں.میں سمجھتا ہوں کہ چونسٹھ روپے فی کس اوسط پر لانا ابھی مشکل ہوگا اور یہ ایسا بار ہو گا جسے شاید ہم نبھا نہ سکیں.لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ہم کوشش کریں تو اس معیار کو دفتر اول کے چونسٹھ روپے فی کس کے مقابلہ میں انیس روپے سے بڑھا کر تمیں روپے تک پہنچا سکتے ہیں.پھر اللہ تعالی ہمت اور توفیق اور مالوں میں برکت دے اخلاص میں برکت دے تو یہی لوگ تمہیں سے چالیس اوسط نکالیں گے.پھر پچاس اوسط نکالیں گے.پھر ساٹھ اوسط نکالیں گے.پھر ستر اوسط نکالیں گے اور دفتر اول سے بڑھ جائیں گے.لیکن آئندہ سال کے لئے میں یہ امید رکھتا ہوں کہ جماعتیں اس طرف متوجہ ہوں گی اور میں حکم دیتا ہوں کہ انصار اپنی تنظیم کے لحاظ سے جماعتوں کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں اور کوشش کریں کہ آئندہ سال دفتر دوم کے وعدوں اور ادائیگیوں کا معیار انہیں روپیہ فی کس اوسط سے بڑھ کر تھیں روپیہ فی کس اوسط تک پہنچ جائے.اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سال رواں کے جو تین لاکھ چون ہزار روپے کے وعدے ہیں وہ پانچ

Page 661

تاریخ احمدیت.جلد 24 621 لاکھ چالیس ہزار روپیہ تک پہنچ جائیں گے.احمدی زمینداروں کو قرآنی دعا کی تلقین 137.سال 1968ء ۲۵ /۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء کے خطبہ جمعہ میں ہی حضور انور نے فرمایا کہ میرے ذاتی علم میں بعض ! زمیندار ہیں جن کی آمدنیاں دو گنا ، تین گنا، چار گنا یا پانچ گنا ہوگئی ہیں اگر کسی زمیندار کو اب دگنی آمد ہو رہی ہے اور اس زائد آمد سے اس نے اگر پہلے تحریک جدید میں کچھ نہیں دیا تھا تو وہ اب اس چندہ میں کچھ دے اور اگر اس نے پہلے کم دیا تھا تو اب کچھ زیادہ دے دے اللہ تعالیٰ فضل کرے تو ان کی فصلیں بہت اچھی ہو سکتی ہیں اور اس طرح ان کی آمد اور بڑھ سکتی ہے.اس کے لئے حضور نے تلقین فرمائی کہ:.”زمینداروں کو چاہیئے کہ وہ اپنے کھیتوں میں جا کر ضرور دعا کیا کریں اور خصوصاً وہ دعا کریں جو قرآن کریم نے سکھائی کہ ماشاء الله لا قوة الا بالله یہ دعا جو قرآن کریم میں آتی ہے یہ زمینداروں اور باغوں کے مالکوں کی دعا ہے.اگر آپ یہ دعا کریں تو اللہ تعالیٰ چاہے گا کہ وہ آپ کے مال میں برکت دے آپ کی قربانیوں میں بھی برکت دے اور آپ کی اولادوں میں بھی برکت دے.ساری برکتوں سے آپ مالا مال ہو جائیں پھر دل میں یہ سوچیں کہ حقیر سی قربانیاں پیش کی تھیں اور ہمارا رب کتنا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور اس نے کتنے ہی اچھے اور اعلی نتایج انکے نکالے ہیں دل میں تکبر اور ریا نہ پیدا ہو.138 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا شاہجہانپور کانفرنس کے نام روح پرور پیغام ی.پی کے مشہور شہر شاہجہانپور میں ۵،۴ نومبر ۱۹۶۸ء کو نہایت کامیاب احمدیہ صوبائی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ڈیڑھ ہزار نفوس نے شرکت کی.پہلے روز جلسه پیشوایان مذاہب میں غیر مسلم و دیوانوں اور دوسرے روز گوردوارہ سنگھ سبھا میں مولوی بشیر احمد صاحب فاضل اور مولوی شریف احمد صاحب امینی کی تقاریر ہوئیں ، جو بیحد پسند کی گئیں.یہ کا نفرنس اسلامیہ ہائر سیکنڈری سکول شاہجہانپور کے ہال اور بیرونی میدان میں ہوئی.دونوں روز صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے صدارت کے فرائض انجام دیئے.لاؤڈ سپیکر کا عمدہ انتظام تھا.جلسہ گاہ خاطر خواہ طریق پر سجائی گئی تھی.139-

Page 662

تاریخ احمدیت.جلد 24 622 سال 1968ء اس تقریب پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جو روح پرور اور ایمان افروز پیغام ارسال فرمایا اس کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے:."بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر پیارے بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکان مجھے اس امر سے بیحد مسرت ہے کہ آپ یہاں پر ایک بار پھر خدا تعالیٰ کی باتیں سننے اور ذکر الہی اور نوافل میں دن رات گزارنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع میں برکت ڈالے اور اس کے نتیجہ میں محض اپنے فضل سے آپ سب کے اندر ایک نیک تغیر اور پاک تبدیلی پیدا کر دے.اس طرح کہ آپ واپس جائیں تو وہ نہ ہوں جو اس سے قبل تھے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے اندر ایک نمایاں تغیر محسوس کرتے ہوئے جائیں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے دو عظیم مقاصد تھے.اول:.دنیا میں توحید کا قیام اس طرح کہ اس کے بندے اس کی حقیقی معرفت حاصل کر کے اس کے حضور جھک جائیں.دوم :.سیدنا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہواس طرح کہ حضور کی محبت دلوں میں جاگزیں ہو جائے.اور دنیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں گم ہو کر اللہ تعالیٰ کی ہستی میں فنا ہو جائے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:.”میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ 140 خدائے تعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو.دنیا آج مادہ پرستی اور دہریت کا شکار ہے اللہ تعالیٰ اس کی نظروں سے اوجھل ہے.اسے خدا کی طرف متوجہ کرنا اور اسی کے حضور سربسجو دکر دینا بظاہر حالات بیحد مشکل نظر آتا ہے مگر قادر وتوانا خدا کے لئے یہ کام کوئی مشکل نہیں.اللہ تعالیٰ اگر رجوع برحمت ہونے کا فیصلہ کر لے تو ایک لمحہ میں دنیا اور دنیا والوں کو اپنی مغفرت کی چادر میں چھپالے.اپنی محبت کی آغوش میں لے لے اور اپنی حقیقی معرفت عطا فرما دے.

Page 663

تاریخ احمدیت.جلد 24 623 سال 1968ء پس اس کے لئے دعائیں کریں.دعائیں کریں.دعا ئیں کریں.سیدنا حضرت مسیح 141 موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.مبارک تم جو دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے.اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینہ میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کوٹھڑیوں ،سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے.اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا“.پس اُس دن کو قریب تر لانے کے لئے جس دن صرف ایک خدا.خدائے واحد کی پرستش ہو گی اور دنیا میں صرف ایک مذہب.مذہب اسلام ہو گا.اور دنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چل کر بکمال و بجز و نیاز خدائے واحد کے آستانہ پر جھک جائے اور اسی میں فنا ہو جائے دیوانہ وار دعاؤں میں مشغول ہو جاؤ یہاں تک کہ تمہاری گریہ وزاری کو سن کر اللہ تعالیٰ دنیا پر رجوع برحمت ہونے کا فیصلہ کرلے، اُسے اپنی آغوش محبت میں لے لے اور اس طرح ہلاکت سے بچالے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.فقط والسلام مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث - ربوہ تاریخ ۲۶ را خاء ۱۳۴۷ بهش مطابق ۲۶ راکتو بر ۱۹۶۸ ڈیرہ اسماعیل خاں میں ایک افسوسناک سانحہ اس دلخراش واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ مورخہ 9 نومبر ۱۹۶۸ء کو بھاٹیہ بازار ڈیرہ اسماعیل خاں میں مذہبی انتہا پسندوں کے ایک جلوس نے احمدیہ مسجد اور دار المطالعہ کو آگ لگا دی.جس سے عمارت کے سمیت وہاں پڑی ہوئی متفرق مذہبی کتب کے علاوہ قرآن کریم اور کتب احادیث بھی جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے.اس شرمناک واقعہ کی وہاں کے متعدد شرفاء نے شدید مذمت کی اور اس سانحہ پر دلی رنج وغم اور دُکھ کا اظہار کیا.ان میں سے چند تاثرات درج ذیل ہیں.

Page 664

تاریخ احمدیت.جلد 24 624 سال 1968ء نمبر 1: مکرم عبد الحق صاحب سابق عربی مدرس ڈیرہ اسماعیل خاں لکھتے ہیں:.مورخہ 9 نومبر ۱۹۶۸ء کو جماعت احمدیہ کی مسجد واقعہ بھاٹیہ بازار ڈیرہ اسماعیل خاں کو جلایا گیا تھا.دو تین روز کے بعد میں نے اسی مسجد میں قرآن کریم کے جلے ہوئے اوراق دیکھے تو بے ساختہ یہی آواز دل سے نکلی.انما اشکو بتی و حزني الى الله ے اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے افسوس صد افسوس...کیا مخالفت میں مسلمان اتنا اندھا ہوا کہ خانہ خدا اور قرآن مقدس کو جلا ڈالا....اور وعید خداوندی و سعی فی خرابھا کی بھی کچھ پروا نہیں کرتا.“ نمبر ۲: مکرم محمد بشیر صاحب مالک یونین جنرل سٹور ڈیرہ اسماعیل خاں لکھتے ہیں.”میں نے اپنی آنکھوں سے قرآن مجید جلے ہوئے ، اسی طرح کتب حدیث اور دیگر اسلامی لٹریچر کو جلا ہوا دیکھا.قرآن مجید اور خانہ خدا کی اس قدر بے حرمتی مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں دیکھ کر میرے دل کو سخت صدمہ ہوا.اور دل نے کہا افسوس آج کا مسلمان نہ قرآن مجید کی عزت اور نہ خانہ خدا کا احترام مدنظر رکھتا ہے.جماعت احمدیہ ڈیرہ اسماعیل خاں کی مسجد کو ویران کرنے والے اور خانہ خدا کو آگ لگانے والے یقیناً قرآنی وعید میں آئیں گے.کاش یہ دین کے ٹھیکیدار اپنے اس بُرے فعل پر نادم ہوں.میری یہ تحریر ایک سچی بات کے اظہار کے لئے اور دل کی تکلیف کو ظاہر کرنے کے لئے ہے.نمبر ۳ : مکرم فضل داد روزی صاحب ممبر ڈویژنل کونسل صدر تحریک جمہوریت پاکستان ڈیرہ اسماعیل خاں لکھتے ہیں :.ہمارے سر شرم و ندامت سے جھک جاتے ہیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ فروعی مذہبی اختلافات کی بنا پر مذہب ہی کے ٹھیکیداروں کی انگیخت پر ۹ نومبر ۱۹۶۸ء کوکوئی ساڑھے بارہ بجے دن ایک مخصوص فرقہ کا دارالمطالعہ اور اس کی ملحقہ مسجد کو آگ لگا کر وہاں پڑے ہوئے قرآن حکیم کو جلا دیا اور احادیث کی کتابوں کو ورق ورق کر کے باہر بازار کے فرش پر بکھیر دیا.موقعہ واردات پر جو کچھ میں نے دیکھا وہ صرف شرمناک ہی نہ تھا بلکہ نا قابل بیان بھی ہے.قرآن حکیم جلا پڑا تھا.اور احادیث و دیگر کتب مقدسہ کے اوراق بازار کے غلیظ نالے میں پڑے ہوئے ہماری مسلمانی کا زبانِ حال سے ماتم کر رہے تھے." 143 صاحبزادہ مرزا اوسیم احمد صاحب کی دہلی میں تشریف آوری صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مع بیگم صاحبہ محترمه و عزیز مرزا کلیم احمد صاحب مورخه ۱۰ نومبر

Page 665

تاریخ احمدیت.جلد 24 625 سال 1968ء ۱۹۶۸ء کو قادیان سے دہلی تشریف لائے.دوران قیام دہلی بعض اہم ملاقاتیں آپ نے کیں.سب سے پہلے آپ سے ڈاکٹر ناصرالدین صاحب ملاقات کے لئے تشریف لائے.زاں بعد ویسٹ نظام الدین سے مسٹر چوہدری اپنے بچے انیل کے ساتھ ملاقات کے لئے تشریف لائیں.۱۰ نومبر کو آپ سے گھانا سفارت خانہ کے سیکنڈ سیکرٹری محترم کنجو احمد کیونو مع اپنی اہلیہ ملاقات کے لئے تشریف لائے.اسی روز شام ۴ بجے احباب جماعت دہلی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی زیر صدارت ایک تربیتی جلسہ منعقد ہوا.اس کے علاوہ آپ نے راشٹرپتی بھارت جناب ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب سے ملاقات کی.آپ کی خدمت میں جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع شدہ تمہیں کے قریب کتب پیش کی گئیں.مورخہ ۱۲ نومبر کو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے جناب حکیم عبدالحمید متولی ہمدرد دواخانہ سے ملاقات کی.حکیم صاحب سے ملاقات کے بعد چیف ایڈیٹر لجمیعتہ محترم محمد عثمان صاحب فارقلیط سے ان کے دفتر میں ملاقات کی.ان ملاقاتوں سے فارغ ہو کر آپ کی روانگی قادیان کے لئے ہوئی.فیصلہ مسئلہ انشورنس اور ایک ضروری اعلان اخبار الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۸ء کے صفحہ اول پر مجلس افتاء کی طرف سے مسئلہ انشورنس سے متعلق ایک فیصلہ سپر داشاعت ہوا جس کے ساتھ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی طرف سے ایک ضروری اعلان بھی شائع کیا گیا.فیصلہ مسئلہ انشورنس اور ضروری اعلان حسب ذیل تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے فتاوی ( جن میں سے متعلقہ دو اقتباس ذیل میں درج ہیں ) کے مطابق جب تک معاہدات ، سود اور قمار بازی سے پاک نہ ہوں.بیمہ کمپنیوں سے کسی قسم کا بیمہ کرانا جائز نہیں ہے.یہ فتاویٰ مستقل نوعیت کے اور غیر متبدل ہیں.البتہ وقتا فوقتاً اس امر کی چھان بین ہو سکتی ہے کہ بیمہ کمپنیاں اپنے بدلے ہوئے قوانین اور طریق کار کے نتیجہ میں قمار بازی اور سود کے عناصر سے کس حد تک مبر اہو چکی ہیں.مجلس افتاء نے اسی پہلو سے بیمہ کمپنیوں کے طریق کار پر نظر کی ہے اور اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ اگر چہ رائج الوقت عالمی مالیاتی نظام کی وجہ سے کسی کمپنی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے

Page 666

تاریخ احمدیت.جلد 24 626 سال 1968ء کاروبار میں کلیۂ سود سے دامن بچا سکے لیکن اب کمپنی اور پالیسی ہولڈر کے درمیان ایسا معاہدہ ہونا ممکن ہے جو سود اور قمار بازی کے عناصر سے پاک ہو اس لئے ایسی بیمہ کمپنیوں سے جو امداد باہمی کے اصول پر قائم ہوں اور پالیسی ہولڈرز سے یہ معاہدہ کرنے پر آمادہ ہوں کہ وہ نفع و نقصان میں شریک ہوگا بیمہ کا معاہدہ ہوسکتا ہے بشرطیکہ یہ معاہدہ اپنی ذات میں سود کی شرائط کا حامل نہ ہو.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ امسح الثانی کے ارشادات درج ذیل ہیں:.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انشورنس اور بیمہ کے سوال پر فرمایا:.وو سود اور قمار بازی کو الگ کر کے دوسرے اقراروں اور ذمہ داریوں کو شریعت نے صحیح قرار دیا ہے.قمار بازی میں ذمہ واری نہیں ہوتی.دنیا کے کاروبار 66 میں ذمہ داری کی ضرورت ہے“.(۲) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا:.اگر کوئی کمپنی یہ شرط کرے کہ بیمہ کرانے والا کمپنی کے فائدہ اور نقصان میں شامل ہوگا تو پھر بیمہ کرانا جائز ہوسکتا ہے.(دستخط ) مرزا ناصراحمدخلیفہ امسح الثالث ضروری اعلان منجانب سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث " 146 مجلس افتاء کا بیمہ سے متعلق تازہ فتویٰ افراد جماعت کو اس بات کا مجاز نہیں بنا تا کہ وہ از خوداس امر کا فیصلہ کریں کہ کونسی کمپنی نفع و نقصان میں شامل کرتی ہے اور کن شرائط کے ساتھ کوئی معاہدہ سودی یا غیر سودی قرار دیا جا سکتا ہے.لہذا میں درج ذیل ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر کرتا ہوں.(۱) مکرم ملک سیف الرحمن صاحب صدر (۲) مکرم ابوالعطاء صاحب.(۳) مکرم مرزا طاہر احمد صاحب.جو احباب بعض مجبوریوں کی بناء پر بیمہ کروانے کے خواہشمند ہوں ان کا فرض ہو گا کہ مجوزہ معاہدات کی تفاصیل سے کمیٹی کو آگاہ کر کے اس کی منظوری حاصل کر لیں.(مرزا ناصر احمد ) خلیفة المسیح الثالث 147

Page 667

تاریخ احمدیت.جلد 24 627 سال 1968ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے لئے کمرے پیش کرنے کی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۹ نومبر ۱۹۶۸ء کواہل ربوہ کوتحریک کی کہ وہ جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کیلئے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کریں نیز تحریک فرمائی کہ وہ اپنے مکانات کا ایک حصہ بھی حسب دستور مہمانوں کی رہائش کیلئے مخصوص کر دیں.چنانچہ فرمایا :.ربوہ کے قریباً ہر گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ٹھہرتے ہیں.اور جن گھروں میں رشتہ دار یا دوست یا واقف یا ان واقفوں کے واقف آکر ٹھہرتے ہیں.گھر والے ان کے لئے اپنے گھر کے بعض کمرے یا کمروں کے بعض حصے خالی کرتے ہیں.اور پھر ان کا خیال رکھتے ہیں کہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہو.اور اسی طرح وه يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا کے مطابق خفیہ طور پر خدا تعالیٰ کے حضور قربانی دے رہے ہیں.جماعت کو اس کا کوئی علم نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ان کو بہت جزا دے.کیونکہ یہ بھی بڑی قربانی ہے جو ربوہ کے مکین خدا تعالیٰ کی راہ میں پیش کرتے ہیں.اور بڑی بشاشت سے پیش کرتے ہیں.لیکن ہمیں صرف سراً یعنی خفیہ طور پر ہی خرچ کرنے کا حکم نہیں ملا بلکہ علامیہ خرچ کرنے کا حکم بھی ہے.اس لئے اگر اور جہاں تک ممکن ہو سکے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے لئے اپنے گھروں کے بعض حصوں کو خالی کروتا کہ يُنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا ہی پر آپ ٹھہر نہ جائیں بلکہ علانیہ طور پر خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والوں میں شامل ہو جائیں.تا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی کامل نعمتوں کے وارث بنیں.جلسہ سالانہ کے دنوں میں یہ ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس دو کمرے ہیں تو وہ اور اس کی بیوی اور اس کے پانچ یا سات بچے ایک ہی کمرہ میں سمٹ سمٹا کر زمین پر سونے لگ جاتے ہیں.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دار مسیح ( قادیان) بہت بڑی حویلی ہے لیکن جلسہ سالانہ کے دنوں میں حضرت اماں جان (جن کے پاس میں رہا اور جنہوں نے میری پرورش اور تربیت کی ) اکثر اوقات ضرورت کے وقت ہمیں زمین پر سلا دیتی تھیں.اور اس میں ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی ہمیں ایک مزہ آتا تھا.پانچ سات سال کی عمر میں اصل روحانی

Page 668

تاریخ احمدیت.جلد 24 628 سال 1968ء لذت کا تو شعور نہیں ہوتا.کیونکہ بچہ بلوغت کو نہیں پہنچا ہوتا.لیکن اس فضا کے اثر کے نتیجہ میں بڑی بشاشت پیدا ہوتی تھی کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ایسا ہوتا ہے کہ اگر ایک شخص کے پاس دو کمرے ہیں تو وہ ایک کمرہ میں پرالی بچھا کر زمین پر سمیٹ سمٹا کرسو جاتے ہیں اور دوسرا کمرہ مہمانوں کو دے دیتے ہیں.ضمنا میں یہ بات بھی کہہ دوں کہ باہر سے آنے والے بھی بڑی محبت اور فدائیت کا مظاہرہ کرتے ہیں.ایک دفعہ میں افسر جلسہ سالا نہ تھا.رپورٹ کرنے والوں نے مجھے رپورٹ دی کہ فلاں گھر میں صرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے.اور چالیس یا پچاس ( صحیح تعداد مجھے یاد نہیں ) کا کھاناوہ لے کر گیا ہے کہیں اس نے بددیانتی نہ کی ہو.میں نے کہا چلو چیک کر لیتے ہیں.چنانچہ رات کو ہمارے آدمی پتہ لینے کے لئے گئے تو جتنے لوگوں کے متعلق رپورٹ تھی اس سے زیادہ آدمی وہاں لیٹے ہوئے تھے.یہ باہر سے آنے والوں کی قربانی ہے.اور پھر اللہ تعالیٰ کی یہ شان بھی ہمیں نظر آتی ہے کہ عام حالات میں اس تعداد کا چوتھا حصہ بھی اس کمرہ میں نہیں ہو سکتا تھا.پتہ نہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کمرہ کو بڑا کر دیتے ہیں یا جسموں کو نقصان پہنچائے بغیر انہیں برکتوں سے بھر کر وقتی طور پر سکیٹر دیتے ہیں.غرض باہر سے آنے والے بھی عشق اور فدائیت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں.اور یہاں کے مکین بھی عشق اور فدائیت کا نمونہ پیش کر رہے ہوتے ہیں.لیکن اس عشق اور فدائیت کے جوش میں اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ صرف سر ا یعنی خفیہ طور پر ہی قربانی پیش کرنے کا حکم نہیں بلکہ علانیہ طور پر قربانی دینے کا حکم بھی ہے.پس اگر آپ کے پاس گنجائش ہو.خواہ ایک غسل خانہ ہی کیوں نہ ہو تو ثواب کی خاطر نظام سلسلہ کو وہ غسل خانہ ہی دے دیں یا ایک کمرہ یا دو کمرے جتنی گنجائش ہو دے دیں.تا کہ آپ سارے کے سارے انعامات کے وارث ہوں“.درس قرآن کی آخری دعا سے متعلق اعلان خلفاء راشدین نے ہمیشہ بدعتوں کے خلاف علم جہاد بلند رکھا ہے اور جب کہیں کوئی شائبہ یا

Page 669

تاریخ احمدیت.جلد 24 629 سال 1968ء خدشہ بھی بدعت کے پیدا ہونے کا ہو جائے تو خلفائے کرام فوری طور پر اپنے قول وفعل سے اس کا سد باب کرنے کی کوشش فرماتے ہیں چنانچہ اس حقیقت کا ایک نمونہ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۸ء کو بھی نظر آیا جب ۲۹ رمضان (۱۳۸۸ھ ) کی تاریخ تھی اور اس مبارک مہینہ کا آخری جمعہ تھا.اس روز نماز عصر کے بعد درس قرآن کی آخری اجتماعی دعا ہونے والی تھی مگر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اعلان فرمایا:.جس طرح رمضان کے آخری جمعہ (جس کو جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے) کے ساتھ بہت سی بدعات لگ گئی ہیں.اسی طرح یہ ہو سکتا ہے کہ درس القرآن کی جو آخری دعا ہے وہ بھی ایک بدعت نہ بن جائے لہذا اس سال اس رنگ کی دعا نہیں ہو گی بلکہ جب درس ختم ہو گا تو اس وقت دومنٹ کی دعا کر دیں.دعا کے بغیر تو ہماری زندگی ہی نہیں اس لئے میرا یہ مطلب نہیں کہ ہم دعا کے بغیر بھی ایک سانس لے سکتے ہیں.ہماری تو زندگی ہی دعا پر منحصر ہے لیکن دعا پر زندگی کا یہ انحصار تقاضا کرتا ہے کہ ہم ان چیزوں کو بدعت کا رنگ نہ دیدیں اور اس سے بچتے رہیں.اس سال یہ بات نہیں ہوگی لیکن ایک اور رنگ میں دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.اسلام نے اجتماعی دعا کا بھی حکم دیا ہے اور انفرادی دعا کا بھی حکم دیا ہے اس لئے آج عصر اور مغرب کے درمیان یعنی روزہ کھولنے تک جس حد تک ممکن ہو سکے انفرادی دعاؤں میں لگے رہیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کے لئے اپنی رحمت کے سامان پیدا کرے اور زندگی اور بقا کے چشمہ سے جو دوری ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو تعلق وہ اللہ تعالیٰ سے پیدا کر سکتے ہیں وہ پیدا نہیں کر رہے.اللہ تعالیٰ اس دوری کو قرب میں تبدیل کرنے کے سامان پیدا کر دے اور انسان اپنے خالق اور اپنے رب کو پہچاننے لگے اور وہ روحانی اور جسمانی خزائن جو اسلام کے ذریعہ انسانیت کو ملے ہیں ان روحانی اور جسمانی خزائن سے انسان فائدہ اٹھانے لگے اور ان کی قدر کو پہچاننے لگے اور جماعت کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنی پناہ میں ان کو رکھے اور خود ان کی سپر ہو جائے اور دشمن کا ہر وارا اپنی قدرت پر ہے.پس ہر احمدی جس تک میری یہ آواز پہنچے ہر مرد اور عورت ہر بڑا اور بچہ آج عصر اور مغرب کے درمیان کا وقت جس حد تک ممکن ہو سکے تنہائی میں گزار دے اور

Page 670

تاریخ احمدیت.جلد 24 دعاؤں میں مشغول رہے.149 630 سال 1968ء جلسہ سالانہ کے معزز مہمانوں کی خدمت کیلئے خصوصی تحریک اسی روز حضرت سید ناخلیفہ المسح الثالث نے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے ایک ولولہ انگیز تحریک فرمائی اور بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری فلاح کیلئے جو احکام دیئے ہیں ان میں مسافروں اور مہمانوں کے حقوق بھی شامل ہیں.ہمارا جلسہ سالانہ ان حقوق کی ادائیگی کا ایک خاص موقعہ ہوتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے تئیں مہمانوں کی خدمت کیلئے وقف کر کے خود کو چوبیس گھنٹے کیلئے ڈیوٹی پر سمجھنا چاہیئے.اسی ضمن میں حضور نے پُر جوش لب ولہجہ میں جلسہ سالانہ کی تاریخ کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات و مشاہدات بھی بیان فرمائے جو رہتی دنیا تک مینار نور کا کام دیں گے.حضرت امام حمام نے ارشاد فر مایا:.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ جو اموال بھی تم میری راہ میں میری رضا کے حصول کے لئے خرچ کرو اس میں مسافر کا بھی حق ہے.تم اس حق کو ادا کرو.اور صرف اس کا حق ہی ادا نہ کرو بلکہ اس پر احسان کرو.اور یہ وہ مسافر ہے جو میرا یا تمہارا مہمان بنتا ہے.ہمیں سوچنا چاہیئے کہ اس مسافر کا کیا حق ہوگا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کا مہمان بنتا ہے.اس کے حقوق تو ایک عام مسافر سے بہر حال زیادہ ہوں گے.اب ان حقوق کی ادائیگی کا ایک موقع جلسہ سالانہ پر آ رہا ہے.میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں جذبہ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھے ہیں.ایک دو نظارے میں نے دوستوں کے سامنے ایک دفعہ بیان بھی کئے تھے.نظارے اتنے حسین ہیں کہ انہیں بار بار بیان کرنا چاہیئے تا ہماری جو چھوٹی پور ہے نئی نسل ہے ان کو بھی پتہ لگے کہ مہمان کی خدمت کیسے کی جاتی ہے.ایک دفعہ میں بہت چھوٹی عمر کا تھا.مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخل ہوا تھا یا شاید پانچویں جماعت میں ہوں گا یعنی یہ قرآن کریم حفظ کرنے کے معا بعد کی

Page 671

تاریخ احمدیت.جلد 24 631 سال 1968ء بات ہے ہمارے چھوٹے ماموں جان (حضرت میر محمد الحق صاحب) افسر جلسه سالا نہ ہوا کرتے تھے.آپ ہماری تربیت کی خاطر ہمیں اس عمر میں اپنے ساتھ لگا لیتے تھے.آپ ہر لحاظ سے ہمارا خیال بھی رکھتے تھے اور پورا وقت ہم سے کام بھی لیتے تھے چاہے وہ دفتر میں بٹھائے رکھنے کا ہو یا خطوط وغیرہ فائل کرنے کا ہو.ان کے علاوہ دوسرے تمام کام جو اس عمر کے مطابق ہوں ہم سے لیتے تھے.ایک دن آپ نے مجھے کہا ( رات کے کوئی نو دس بجے کا وقت ہوگا ) کہ مدرسہ احمدیہ میں جو مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں انہیں دیکھ کر آؤ کہ کسی کو کوئی تکلیف تو نہیں.آپ میں سے بہتوں کے ذہن میں مدرسہ احمدیہ کا نقشہ نہیں ہو گا.مدرسہ احمدیہ میں دو صحن تھے.ایک بڑا صحن تھا اس کے ارد گرد رہائشی کمرے تھے چند ایک کلاس روم بھی تھے لیکن زیادہ تر رہائشی کمرے تھے.ایک چھوٹا صحن تھا جس کے اردگرد چھوٹے کمرے تھے اور وہاں کلاسیں ہوا کرتی تھیں.جلسہ کے دنوں میں ان کمروں میں مہمان ٹھہرا کرتے تھے.حضرت میر صاحب نے کہا کہ ان چھوٹے کمروں کا چکر لگا کر آؤ اور دیکھو کہ کسی مہمان کو تکلیف تو نہیں کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں.اس دن حضرت میر صاحب نے معاونین میں چائے تقسیم کروائی تھی.جلسہ کے دنوں میں ایک یا دو دفعہ رات کے دس بجے کے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی.اس چائے میں دودھ اور میٹھا سب کچھ ملا ہوا ہوتا تھا اور نیم کشمیری اور نیم پنجابی قسم کی چائے ہوتی تھی بہر حال اس دن وہ چائے تقسیم ہوئی تھی.میں وہاں جا کر کمروں میں پھر رہا تھا.دوستوں سے مل رہا تھا اور ان سے ان کے حالات دریافت کر رہا تھا.ایک کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا میں اس میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ ہمارا ایک رضا کار جو چھوٹی عمر کا تھا.وہ آبخورے میں چائے لے کر باہر سے آیا.کمرے میں ایک مہمان کو بخار چڑھ گیا تھا اس نے یہ سمجھا کہ یہ رضا کار میرے لئے گرم چائے اور دوائی وغیرہ لے کر آیا ہے مجھ سے چند سیکنڈ ہی قبل وہ دروازہ میں داخل ہوا تھا اُس مہمان نے غلط فہمی میں ( کیونکہ ہمارے احمدی مہمان بھی بڑی عزت والے ہوتے ہیں اس مہمان کو اسی شام کو بخار چڑھ گیا تھا اور بڑا تیز بخار تھا اس کو غلط نہی ہو گئی تھی ) اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا

Page 672

تاریخ احمدیت.جلد 24 632 سال 1968ء وو 66 تم میرے لئے گرم چائے لائے ہو تم بڑے اچھے اور بیسے “ بچے ہو ( اسی قسم کا کوئی فقرہ اس نے کہا ) اب یہ اس بچہ کے لئے انتہائی امتحان اور آزمائش کا وقت تھا.اگر اس بچے کے چہرہ پر ایسے آثار پیدا ہو جاتے جن سے معلوم ہوتا کہ یہ اس کیلئے چائے نہیں لا یا بلکہ اپنے لئے لایا ہے تو اس مہمان نے کبھی چائے نہیں لینی تھی.میں باہر کھڑا ہو گیا اور خیال کیا کہ اگر میں اندر گیا تو نظارہ بدل جائے گا میں نے چاہا کہ دیکھوں یہ کیا کرتا ہے.اس رضا کار نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اصل حقیقت کا ذرہ بھر اظہار کئے بغیر اس کو کہا ہاں تم بیمار ہو میں تمہارے لئے چائے لے کر آیا ہوں.اور اگر کوئی دوائی لینا چاہتے ہو تو لے آؤں.اب یہ خدمت ایسی تو نہیں کہ ہم کہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی سر کی لیکن کتنا پیار اور حسن تھا اس بچے کے اس فعل میں.اس نے اپنے نفس پر اتنا ضبط رکھا اس لئے کہ اس کی یہ خواہش اور جذبہ تھا کہ میں نے مہمان کی خدمت کرنی ہے.اگر یہ جذ بہ نہ ہوتا تو اس کی ہلکی سی ہچکچاہٹ بھی اس مہمان کو شرمندہ کر دیتی اور اس نے کبھی چائے نہیں پینی تھی.لیکن اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کسی اظہار کے کہا ہاں میں آپ کے لئے ہی لے کر آیا ہوں....پس یہ جذبہ ہے خدمت کا جس کا مطالبہ خدا اور اس کا رسول ﷺے اور اس رسول ﷺ کے عظیم روحانی فرزند آپ سے کر رہے ہیں.جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی خدمت کیلئے یہ جذبہ ہم میں ہونا چاہیئے.ہم نے بچپن کی عمر میں بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کرو اور باقی وقت تم آزاد ہو.ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس گیارہ بجے گھر میں واپس آتے تھے.وہ فضا ہی ایسی تھی اور ساروں میں ہی خدمت کا یہ جذبہ تھا.کوئی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھا.مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ماموں جان ( حضرت میر محمد الحق صاحب) کہتے تھے کہ اب تم تھک گئے ہو گے کھانے کا وقت بھی ہو گیا ہے اب تم جاؤ لیکن ہمارا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا.بس یہ ہوتا تھا کہ دفتر میں بیٹھے ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے جو کام ملتا ہے وہ کر رہے ہیں.

Page 673

تاریخ احمدیت.جلد 24 633 سال 1968ء جلسہ گاہ کی توسیع خدمت کا یہ جذبہ اس قدر تھا کہ آپ میں سے اکثر کو ( گو بہتوں کو نہیں ) یاد ہوگا کہ ایک دفعہ جلسہ گاہ چھوٹی اور تنگ ہوگئی تھی اور حضرت مصلح موعود شدید ناراض ہوئے تھے.لوگ جلسہ گاہ میں سمانہیں سکتے تھے.قادیان میں جلسہ گاہ کے چاروں طرف گیلریاں بنی ہوتی تھیں ان پر لوگ بیٹھتے تھے.اینٹوں کی سیڑھیاں سی بنا کران پر لکڑی کی شہتیر یاں رکھی جاتی تھیں.بہر حال اس سال جلسہ گاہ چھوٹی ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعود بہت ناراض ہوئے.تمام کارکن بڑے شرمندہ پریشان اور تکلیف میں تھے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ہمت کریں تو اس جلسہ گاہ کو راتوں رات بڑھا سکتے ہیں.لیکن میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے میں نے خیال کیا کہ میری اس رائے میں کوئی وزن نہیں ہوگا.ہمارے ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحب بھی دفتر میں کام کرتے تھے میں نے انہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم راتوں رات میں جلسہ گاہ کو بڑھا دیں گے.آپ ماموں جان ( حضرت میر محمد الحق صاحب افسر جلسہ سالانہ ) کے سامنے یہ تجویز پیش کریں.وہ کہنے لگے یہ خیال تمہیں آیا ہے اس لئے تم ہی یہ بات پیش کرو.مجھے یاد ہے کہ میری طبیعت میں یہ احساس تھا کہ چھوٹی عمر کی وجہ سے میری رائے کا وزن نہیں ہو گا لیکن یہ کام ضرور کرنا چاہئے.ماموں جان سید محمود اللہ شاہ صاحب کو خیال تھا کہ چونکہ یہ خیال مجھے نہیں آیا اس کو آیا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ میں کیوں لوں.لیکن میں نے کہا میں نے یہ بات پیش نہیں کرنی آپ ہی کریں اور ضرور کریں.میں نے کچھ لاڈ اور پیار سے ان کو منالیا.چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی.حضرت ماموں جان ( حضرت میر محمد الحق صاحب نے دوستوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور بالآخر یہ رائے پاس ہو گئی.اور سارا دن کام کرنے کے بعد سینکڑوں رضا کاروں نے ساری رات کام کیا.ریتی چھلہ سے شہتیر یاں اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے گئے جو ہمارے کالج کی عمارت (جس میں پہلے ہائی سکول ہوتا تھا) کے پاس تھی.ایک طرف کی ساری سیڑھیاں جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں توڑی گئیں اور دوسری سیڑھیاں بنائی گئیں.

Page 674

تاریخ احمدیت.جلد 24 634 سال 1968ء رضا کار مزدوروں کا کام کرتے رہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جا چکی تھی بس آخری شہتیری رکھی جارہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے اللہ اکبر کی آواز آئی (وہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے ) صبح کی اذان کے وقت وہ کام ختم ہوا.اور جب حضرت مصلح موعود تشریف لائے تو آپ جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے سارے لوگ اس جلسہ گاہ میں سما گئے اور جتنی ضرورت تھی اس کے مطابق جلسہ گاہ بڑھ گئی.میں اس وقت یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو تربیت ہمیں دی گئی تھی وہی تربیت سب احمدی نو جوانوں کو ملنی چاہیئے.یہ خیال ان میں پیدا نہ ہو کہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں ہم نے پانچ یا سات گھنٹے ڈیوٹی دینی ہے اور اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے ان کی اس رنگ میں تربیت ہونی چاہیئے یہ جذبہ ہونا چاہیئے کہ صبح سے لے کر رات کے دس بجے تک کام کریں گے اور جب ڈیوٹی ختم ہو اور پھر کوئی اور کام پڑ جائے تو ہم ساری رات کام کریں گے اور پھر اگلے دن بھی کام کریں گے.آرام نہیں کریں گے.پھر حضور انور فرماتے ہیں کہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۱۹۴۷ء کی بات ہے اس وقت جسم میں زیادہ طاقت تھی.میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ میں اس سال ایک دو ماہ متواتر نہیں سویا.سارے علاقہ میں آگ لگی ہوئی تھی احمدی اور دوسرے تمام مسلمان مصیبت میں مبتلا تھے.ہمیں تو کبھی بھی یہ بات یاد نہیں آئی لیکن اس وقت کسی کو بھی یہ یاد نہیں تھا کہ وہ کون سے فرقہ کی طرف منسوب ہوتا ہے.سارے مسلمان تھے اور اسلام کا دشمن ان کو تنگ کر رہا تھا.ان دنوں ایک دو ماہ متواتر میں اس معنی میں نہ سویا کہ میں چوبیس گھنٹے دفتر ہی میں رہتا تھا.اگر ایک بجے رات کو لیٹتا تھا تو ڈیڑھ بجے میرے ساتھی مجھے جگا دیتے تھے اور کہتے تھے فلاں کام پڑ گیا ہے.فلاں جگہ سے یہ خبر آئی ہے.اس طرح پندرہ پندرہ منٹ یا آدھا آدھا گھنٹہ کر کے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ کی نیند لیتا تھا.ایک مہینہ لگا تار میں نے اس مشقت کو برداشت کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تربیت ہی ایسی ہوئی تھی اور پھر خالی میری ہی مثال نہیں تھی بلکہ سب کا یہی حال تھا بلکہ ممکن ہے

Page 675

تاریخ احمدیت.جلد 24 635 سال 1968ء کہ بعض ایسے ساتھی بھی ہوں جو مجھ سے بھی کم نیند لیتے ہوں کیونکہ وہ میرا بڑا خیال رکھتے تھے اور میں کئی دفعہ اس کے متعلق سوچ کر شرمندہ بھی ہوتا تھا.اب اگر یہ کہا جائے کہ پانچ گھنٹہ کی ہماری ڈیوٹی لگا دو اس کے بعد ہم آزاد ہوں گے یہ ذہنیت قابل برداشت نہیں.ہمارے رضا کار چوبیس گھنٹہ ڈیوٹی پر ہیں ہاں جو جائز ضرورتیں ہیں وہ پوری ہونی چاہئیں مثلاً انسان نے غسل خانہ میں بھی جانا ہے.اس نے روٹی بھی کھانی ہے.اگر ایک نوجوان خدمت کے جذ بہ اور شوق کے ساتھ گھر سے آیا ہے اور گھر میں اسے ایک گھنٹہ کا کام ہے تو اس کو ایک گھنٹہ کی اجازت ملنی چاہیئے.گھر جا کر بھی تو اس نے مہمانوں کا کام ہی کرنا ہے.لیکن ڈیوٹیاں وغیرہ جو لگائی جاتی ہیں یہ سرے سے ختم ہونی چاہئیں پتہ نہیں یہ برائی ہمارے اندر کب سے پیدا ہوگئی ہے.ہمارے آقا کے ان مہمانوں کے حقوق اگر ادا کرنے ہوں تو ہمارے رضا کاروں کو چاہیئے کہ وہ بر وقت حاضر ہوں اور سارا وقت حاضر ر ہیں.،، خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا چوتھا جلسہ سالانہ خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا چوتھا جلسہ سالانہ ربوہ میں ۲۶ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء میں انعقاد پذیر ہوا جس میں ایک لاکھ فرزندانِ احمدیت نے شرکت فرمائی.اس جلسہ میں پاکستان کے علاوہ انگلستان ، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ، کینیا، تنزانیہ، گھانا، سیرالیون، دبئی ، کویت، بھارت اور دیگر کئی ممالک سے احمدی احباب شرکت کے لیے تشریف لائے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اس نہایت مقدس و مبارک اجتماع سے تین بار خطاب فرمایا.اس کے علاوہ مستورات کی جلسہ گاہ میں بھی تشریف لے جا کر ایک روح پرور خطاب ارشاد فرمایا.حضور کے بیان فرمودہ حقائق و معارف حاضرین کے لئے علم و عرفان میں اضافہ کا موجب بنے اور ان کے ایمان وایقان میں بے پناہ ترقی ہوئی.حضور انور کا افتتاحی خطاب حضور نے اپنے افتتاحی خطاب میں بہت ہی دردمندانہ اور اثر انگیز الفاظ میں دعائیں پڑھ کر سنائیں.جو روح قرآن اور عجز و انکسار کا بہترین امتزاج تھیں.ان دعاؤں کے آخری حصہ میں دعا کرتے ہوئے فرمایا:.

Page 676

تاریخ احمدیت.جلد 24 636 سال 1968ء و, اے ہمارے رب! اپنے قہر کی گرفت سے ہمیں محفوظ رکھیو.تیرے غصہ کی ہمیں برداشت نہیں.تیری گرفت شدید ہے.کچل کر رکھ دیتی اور ہلاک کر دیتی ہے.ہم عاصی ہیں ہمیں معاف فرما.ہم سے گناہ پر گناہ ہوا، کوتاہی پر کوتاہی.اپنی رحمت کی وسیع چادر میں ہماری سب کمزوریوں کو چھپالے.ہمیں اپنی رحمتوں سے ہمیشہ نواز تارہ تو ہمارا محبوب آقا ہے، تیرے دامن کو ہم نے پکڑا.دامن جھٹک کے ہمیں پرے نہ پھینک دینا.ہماری پکار کوسن اور اسلام کے ناشکرے منکروں کے خلاف ہماری مدد کو آ اور ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ.اے ہمارے رب! تیری راہ میں جو بھی سختیاں اور آزمائشیں ہم پر آئیں ان کے برداشت کی قوت اور طاقت ہمیں بخش اور سختیوں اور آزمائشوں کے میدان میں ہمیں ثبات قدم عطا کر ، ہمارے پاؤں میں لغزش نہ آئے اور اپنے اور اسلام کے دشمن کے خلاف ہماری مدد کر اور ہماری کامیابیوں کے سامان تو خود اپنے فضل سے پیدا کر دے“.جب حضور نے یہ دعا پڑھی تو ہزاروں ہزار احباب پر جو پہلے ہی سراپا عجز و نیاز اور مجسم دعا بنے ہوئے تھے ایسا وارنگی کا عالم طاری ہوا کہ ان میں سے بعض کی چھینیں نکل گئیں.جب حضور یہ دعائیں پڑھ رہے تھے تو جلسہ گاہ پر ایک عجیب کیفیت چھائی ہوئی تھی.کوئی آنکھ نہ تھی جو آنسو بہا رہی ہو اور کوئی دل نہ تھا جو پکھل کر آستانہ الوہیت پر نہ بہہ رہا ہو.اس وقت جبکہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ برحق اور ہزارہا مومنوں کے دلوں کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ پُر سوز دعائیں بلند ہو ہو کر عرش معلی سے ٹکرا رہی تھیں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بارش کے قطروں کی طرح سامعین پر برس رہی ہیں اور روحوں کو ایک نئی بالیدگی نصیب ہو رہی ہے.دل سے نکلی ہوئی ان دعاؤں کے اختتام پر حضور نے اجتماعی دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے.ساتھ ہی ہزاروں ہزار ہاتھ دعا کیلئے اٹھ گئے.چنانچہ کمال سکوت کے عالم میں پر سوز اجتماعی دعا ہوئی اور اس طرح ہمارے ےے دیں للہی جلسہ سالانہ کا افتتاح عاجزانہ دعاؤں کے درمیان عمل میں آیا.یہ ایک عجیب پر کیف منظر تھا کہ خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ خلیفہ برحق ہزاروں ہزار احباب کے درمیان کھڑا انہیں اثر و جذب میں ڈوبی ہوئی دعاؤں سے نواز رہا تھا اور احباب عرش کی طرف بلند ہونے والی ان عظیم الشان دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو اپنے گرد و پیش بارش کی

Page 677

تاریخ احمدیت.جلد 24 637 سال 1968ء طرح نازل ہوتے اس حال میں مشاہدہ کر رہے تھے کہ ان کے قلوب پر اطمینان و سکینت کا نزول ہور ہا تھا.152 حضور انور کا دوسرے روز کا خطاب اگلے روز ۲۷ دسمبر کو حضور نے ایک نہایت ہی ایمان افروز تقریر ارشاد فرمائی جو دو گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جاری رہی.حضور کی یہ تقریر اول سے آخر تک جماعت احمدیہ پر پیہم نازل ہونے والے افضال وانعامات اور تائید و نصرت الہی کے بعض تازہ واقعات کے تذکرہ جمیل پر مشتمل تھی.تقریر کے آغاز میں حضور نے فرمایا کہ مامور کا زمانہ در اصل عید کا زمانہ ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے مبعوث کردہ مامور پر ایمان لانے والوں کو اپنی غیر معمولی نصرتوں اور تائیدات سے نواز کر ان کیلئے عید کی خوشیوں کے سامان پیدا کرتا چلا جاتا ہے.اس میں شک نہیں الہی جماعتوں کو بہت سی مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں نا مساعد حالات میں سے گذرنا پڑتا ہے لیکن ان مشکلات و مصائب اور نامساعد حالات کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کیلئے عید کی خوشیوں کے سامان بھی ہورہے ہوتے ہیں.دراصل یہ تکلیفیں انہیں پہنچتی ہی اس لئے ہیں تا کہ انہیں عید کی خوشیوں اور مسرتوں کا مزہ آ سکے.حضور نے یہ واضح فرما کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے نتیجہ میں مسلمانوں کے لئے دائگی عید مقدر ہو چکی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا.متعدد واقعات کی روشنی میں آپ نے بتایا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں صحابہ کرام کو بار بار اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نواز کر ان کے لئے عید کی خوشیوں کے سامان کئے اور وہ اللہ تعالیٰ کے اس فضل واحسان اور محبت و پیار کے سلوک پر اس کے حضور سجدات شکر بجالائے.اس کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے نتیجہ میں اس دائمی عید کی ایک نئے رنگ میں پھر تجدید ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ آپ کی قائم کردہ جماعت کو مشکلات و مصائب اور نامساعد حالات کے باوجود عید کی خوشیاں دکھاتا چلا آرہا ہے.اس کے ثبوت میں حضور نے اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کے بعض نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرما کر غلبہ اسلام کی جدو جہد میں حاصل ہونے والی بعض نئی کامیابیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ خدا تعالیٰ محض اپنے فضل کے نتیجہ میں ہمیں کامیابیوں سے نواز کر ہمارے لئے عید کی خوشیوں کے سامان کرتا چلا آ رہا ہے.

Page 678

تاریخ احمدیت.جلد 24 638 سال 1968ء حضور نے فرمایا اگر چه گذشتہ سال نامساعد حالات اور بعض لوگوں کے مخالفانہ طرز عمل کی وجہ سے بظاہر مشکلات کا سال تھا.ہمیں بہت سی دل آزار باتیں سننا پڑیں اور شہروں میں جگہ جگہ دیواروں پر لکھے ہوئے بہت سے ناگوار فقرات سے بھی ہماری نگاہیں دو چار ہوتی رہیں لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی غیر معمولی تائید و نصرت سے نواز کر اس سال کے دوران ہمارے لئے پہلے سے بھی بڑھ کر عید کی خوشیوں کے سامان مہیا فرمائے.خاص اس سال کے دوران جبکہ ہمارے لئے بظاہر نا مساعد حالات پیدا کئے جا رہے تھے یورپین ممالک میں پہلے سالوں سے زیادہ بیعتیں ہوئیں.چنانچہ اس عرصہ میں ۱۲۲ یورپی باشندے احمدیت میں داخل ہوئے.اسی طرح عرب ممالک میں چالیس افراد کو قبولِ حق کی سعادت ملی.مختلف ممالک میں آٹھ نئی مساجد کی تعمیر عمل میں آئی.غانا میں ایک اور سیکنڈری سکول کا قیام عمل میں آیا.سیرالیون کے سیکنڈری سکول میں سائنس بلاک کا اضافہ ہوا.کمپالہ ( یوگنڈا) کے سکول کی عمارت میں توسیع ہوئی.تنزانیہ میں دو پرائمری سکول کھولے گئے.گیمبیا اور گھانا میں میڈیکل سنٹر کھلنے کے سامان ہوئے.افریقہ میں بعض مسلمان اداروں نے اپنے سکول ہمارے سپرد کرنے کی پیشکش کی تا کہ انہیں کامیابی سے چلایا جا سکے.غیر ملکی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کے کام میں مزید وسعت پیدا ہونے سے نمایاں ترقی ظہور میں آئی.فضل عمر فاؤنڈیشن میں اگر چہ ابتداء پچیس لاکھ روپیہ کی تحریک کی گئی تھی تاہم اس کے مقابل پر چھتیس لاکھ کے وعدے وصول ہوئے اور ۲۶لا کھ ۲۳ ہزار تو نقد رقم کی صورت میں جمع ہو گئے.الغرض خدا تعالیٰ نے اس سال کے دوران ہمارے ساتھ پہلے سے بڑھ کر محبت اور پیار کا سلوک کر کے ہمیں بار بار اور بہ تکرار عید کی خوشیوں سے ہمکنار فرمایا.حضور نے جب اللہ تعالیٰ کے ان غیر معمولی احسانوں اور فضلوں کا علیحدہ علیحدہ تفصیل سے ذکر فرمایا تو احباب اللہ تعالیٰ کے ہر احسان کے ذکر پر بے اختیار ہو کر بار بار نعرہ ہائے تکبیر اور اسلام زندہ باد اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث زندہ باد کے پُر جوش نعرے بلند کرتے رہے.حضور انور کا تیسرے روز کا خطاب 153 تیسرے روز یعنی ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء کو حضور نے حقیقت محمدیت کے نہایت ہی علمی موضوع پر بصیرت افروز خطاب ارشاد فرمایا جو مسلسل اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا جس میں حضور نے سورہ النجم کی آیات وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْ يَوْحَى عَلَمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى

Page 679

تاریخ احمدیت.جلد 24 639 سال 1968ء ذُومِرَّةٍ فَاسْتَوى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلى عَبْدِهِ مَا اَوْحَى (النجم : ۴ تا ۱۱) کی نہایت پر معارف اور لطیف تفسیر بیان فرمائی جس کے دوران حضور نے کائنات کی پیدائش کے نہایت درجہ بلیغ نظام اور اس کے مقصد کو واضح فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، آئمہ سلف کی تحریرات، انبیاء سابقہ کی شہادات اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پر معارف حوالہ جات کی رُو سے حقیقت محمدیہ پر نئے اور ا چھوتے انداز میں روشنی ڈالی اور حکیمانہ انداز میں واضح فرمایا کہ عالمین کی پیدائش کی وجہ اور اس کی علت غائی در حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ہے.اس لئے آپ ہی اشرف المخلوقات ، نبیوں کے سردار اور خاتم النبیین ہیں اور اس وقت سے ہیں جبکہ ابھی نہ کائنات بنی تھی اور نہ آدم علیہ السلام کی تخلیق عمل میں آئی تھی.دنیا میں مبعوث ہونے والے سب انبیاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باوجود سے فیض یافتہ تھے.اگر عالم قضا و قدر میں اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسا وجود باجود جو صفات الہیہ کا مظہر اتم ، کامل ترین انسان، نبیوں کا سردار، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور اولین و آخرین کا مربی ومحسن ہے پیدا کرنے کا فیصلہ نہ فرماتا تو عالم موجودات جو عالم قضاو قدر ہی کا عکس ہے کبھی معرض وجود میں نہ آتا، یہ کائنات پیدا ہوتی اور نہ کوئی نبی مبعوث ہوتا.یہ کائنات محض اس لئے معرض وجود میں آئی کہ عالم قضا و قدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود با جود پہلے سے موجود تھا.اس لئے آپ کا وجود عالم موجودات پر ازل سے مؤثر ہے اور تا قیامت رہے گا.حضور نے حقیقت محمدیہ کے اس اظہار کے بارہ میں پیدا ہونے والے بعض اشکال اور الجھنوں کا تجزیہ کر کے انہیں بھی بڑے حسین پیرایہ میں حل کیا اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسانی فہم و ادراک سے بالا مقام اور انتہائی ارفع و اعلیٰ شان کو واضح کر کے بڑی عمدگی کے ساتھ حقیقت محمدیہ کو ذہن نشین کرایا.حضور کی یہ نہایت درجہ پر مغز علمی تقریر سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے شدید الله محبت کے زیر اثر سامعین بار بار حضرت محمد مصطفی ﷺ زندہ باد اور اسلام زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے اور آپ ﷺ سے اپنے دلی عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے زیر لب آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجتے رہے.154

Page 680

تاریخ احمدیت.جلد 24 بزرگان سلسلہ کی تقاریر 640 سال 1968ء جن بزرگان سلسلہ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقاریر کیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:.حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بلحاظ تربیت اولاد خلافت راشدہ اور تجدید دین مکرم مولانا ابوالعطاءصاحب مکرم پروفیسر چو ہدری محمد علی صاحب سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ( مکی دور ) مکرم شیخ مبارک احمد صاحب احمدیت اسلام کی نشاۃ ثانیہ مکرم قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری نبوت محمدیہ کی تاثیرات مکرم مرزا عبدالحق صاحب منکرین ہستی باری تعالیٰ کے شکوک کا ازالہ ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب فلسفہ دعا مکرم میر محمود احمد ناصر صاحب بلا د عر بیہ میں عیسائیوں کے جدید رحجانات مکرم مولوی غلام احمد صاحب فرخ صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے قرآن مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مشرق بعید کا تبلیغی جائزہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اسلامی نماز اور دیگر مذاہب کی عبادتیں جلسه سالانه مستورات حضرت خلیفہ اسی المالک کی تمام تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے براہ راست سنی گئیں.نیز (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.مولانا ابوالعطاء صاحب.مولوی غلام احمد فرخ صاحب اور شیخ مبارک احمد صاحب کی تقاریر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں.۲۶ دسمبر کو جلسہ کے پہلے دن حضور نے زنانہ جلسہ گاہ میں تشریف لا کر مستورات سے خطاب فرمایا.حضور نے قرون اولیٰ کی خواتین کی عظیم قربانیوں کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ” اے احمدی خواتین اگر آپ نے بھی صحیح معنوں میں مومنہ ، قامتہ ، تائبہ، عابدہ اور صائمہ بنتا ہے تو صحیح معنوں میں اسلام اور احمدیت کے لئے قربانیاں پیش کرنے کو تیار ہو جائیں.اسلام کے معنی پورے طور پر اپنی گردن کو خدا کے سامنے پیش کر دینے اور قرآنی احکامات کی مکمل پیروی کرنا ہیں.لہذا ضروری ہے کہ ہم خدا کے فیوض کو حاصل کریں اپنی زندگیوں کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ڈھال کر اور محبت کے تمام لوازم کے

Page 681

تاریخ احمدیت.جلد 24 641 سال 1968ء ساتھ خدا اور اس کے رسول سے محبت کریں.“ جلسہ خواتین میں ہونے والی تقاریر کی تفصیل درج ذیل ہے.حضرت سیدہ مریم صدیقہ.صدر لجنہ مرکزیہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ امتة الممالک صاحبہ افتتاحی خطاب سیرت حضرت خلیفہ امسیح الاول تعلق باللہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جمیلہ عرفانی صاحبہ بشری بشیر صاحبه حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ حضرت مصلح موعود کے کارنامے اسلام اور تزکیہ نفس حضرت سید ہ منصورہ بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ امسح الثالث احمدی خواتین کی ذمہ داریاں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنه مرکزیہ پاکستانی پریس میں جلسہ سالانہ کا ذکر اختتامی خطاب 155 پاکستانی پریس نے اس تاریخی جلسہ سالانہ کی خبر میں حسب ذیل الفاظ میں شائع کیں.روزنامہ نوائے وقت لاہور ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ ء نے صفحہ آخر پر لکھا:.لاہور ۲۶ دسمبر.احمد یہ جماعت کے سر برا مرزا ناصر احمد نے ربوہ میں ۷۷ ویں احمدیہ کا نفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی فلاح صرف اس راز میں ہے کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور قرآنی احکام کا بول بالا کیا جائے.آپ نے کہا دنیا میں اسلام کی اشاعت کا راز بھی یہی ہے.آج دنیا روحانی ، معاشرتی اور سیاسی تباہی کے غار کے کنارے کھڑی ہے اسے بچانے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیئے.کانفرنس میں دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے احمدیوں نے شرکت کی.آج کے اجلاس سے پروفیسر چوہدری محمدعلی ، شیخ محمد احد مظہر، جناب ابوالعطاء، شیخ مبارک احمد اور جناب قاضی محمد نذیر نے بھی خطاب کیا.روز نامه امروز لا ہور ۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء لکھتا ہے:.ر بوه ۲۶ دسمبر.جماعت احمدیہ کے ۷۷ ویں سالانہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے حافظ مرزا

Page 682

تاریخ احمدیت.جلد 24 642 سال 1968ء ناصر احمد نے کہا کہ دنیا کی نجات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور قرآن مجید کے مسلمہ اصولوں پر عمل کرنے میں ہے.نوائے وقت لاہور ۲۹ دسمبر ۱۹۶۸ ء نے صفحہ آخر پر لکھا:.ر بوه ۲۸ دسمبر.گزشتہ روز احمدیوں کی ۷۷ ویں سالانہ کانفرنس میں ہیں غیر ملکی زبانوں میں قرآن شریف کے ترجموں کی ایک نمائش کی گئی.ان میں روسی ، فرانسیسی ، ہسپانوی، جرمن اور ڈچ زبان کے ترجمے بھی شامل ہیں.نمائش کے افتتاح کے بعد غیر ممالک میں پچاس زبانوں میں تبلیغی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کی گئیں اور بتایا گیا کہ جماعت غیر ممالک میں پچاس زبانوں میں تبلیغ کا کام کر رہی ہے.کانفرنس میں شرکت کرنے والوں کیلئے کوئٹہ، کراچی، لاہور، راولپنڈی، سیالکوٹ اور گجرات سے میں پیشل ٹرینیں چلائی گئیں اور یہ پہلا موقعہ تھا کہ کا نفرنس میں پی.آئی.اے نے بھی بلنگ کے لئے کیمپ آفس قائم کیا.ایک اندازے کے مطابق اب تک ایک لاکھ احمدی ربوہ پہنچ چکے ہیں.روزنامہ نوائے وقت لاہور ۳۰ دسمبر ۱۹۶۸ ء نے صفحہ آخر پر لکھا:.ربوہ ۲۹ دسمبر.احمد یہ جماعت کی ۷۷ ویں سالانہ کا نفرنس جس میں پاکستان اور غیر ممالک سے تقریباً ایک لاکھ افراد نے شرکت کی، گزشتہ روز ختم ہوگئی.آخری اجلاس میں جماعت احمدیہ کے سر براہ حافظ ناصر احمد نے اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کس اعلیٰ ترین روحانیت کے حامل تھے.آپ نے قرآن مجید اور احادیث کے کئی حوالے دیئے اور کہا کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور تھا.جنہیں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز دیا گیا.یہ حضور ﷺ ہی کا خاص امتیاز تھا.ان پر ام الکتاب قرآن مجید نازل ہوا جو تا حشر ہدایت کا سر چشمہ رہے گا.آپ نے کہا قرآن کریم کے ارشادات ہی سے آنحضرت ﷺ نے خدا کی حقیقی بزرگی کا صحیح احساس دلایا اور نوع انسان کو تمام اعلیٰ انسانی قدریں سکھلائیں.مرزا ناصر احمد نے کہا کہ دنیا میں تمام پیغمبروں کا نزول بھی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی وجہ سے تھا.حضور علیہ الصلواۃ والسلام کا ظہور مسلمانوں کے لئے تا قیامت ایک مسلسل عید بنا رہے گا.آپ نے اخیر میں آزادی کشمیر اور پاکستان کے اتحاد و استحکام کے لئے دعا کی اور کہا کہ اگر خدانخواستہ اس موقعہ پر پاکستان کو کسی قسم کا نقصان پہنچا تو وہ ساری دنیائے اسلام کے حق میں نقصان دہ ثابت ہوگا.

Page 683

1 2 3 < 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 تاریخ احمدیت.جلد 24 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۸ الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۸ء صفحها الفضل، ۱جنوری ۱۹۶۸ء صفحها 643 حوالہ جات (صفحہ 459 تا642) الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۸ء صفحہ ا مکمل متن کیلئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۲ تا ۴ الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۸ تاریخ لجنه جلد سوم صفحه ۵۲۹ ،۵۳۰ الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ا خطابات ناصر جلد اول صفحه ۷ ۱۸ تا ۲۲۳ الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۸ ، صفحه ۸ المحمر اب ۱۸۹۱ء تا۱۹۹۱ء برموقع سوواں جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ عالمگیر مجله لجنہ اماءاللہ کراچی صفحه ۱۱ الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۶۸ء صفحه۸،۱ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۶ المحراب ۱۸۹۱ تا ۱۹۹۱ء، بر موقع سوداں جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ عالمگیر مجله لجنہ اماءاللہ کراچی صفحه ۱۱ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۵ اعتراضات کا علمی جائزہ صفحه ۱۸۳ بحواله الفضل ۴ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۶ ماہنامہ تحریک جدید.مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۱۹،۱۸ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۸ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۸ روز نامہ جنگ راولپنڈی ۱۱ فروری ۱۹۶۸ صفحه ا ماہنامہ تحریک جدید - مارچ ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۹،۱۷ الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۵ غیر مطبوعہ نوٹ 68-02-10 سال 1968ء

Page 684

تاریخ احمدیت.جلد 24 له له له 25 الفضل سے مارچ ۱۹۶۸ ، صفحہ ۵ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۱۲ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 نه له 43 44 45 46 47 48 49 50 51 الفضل ۳۰ را پر میل صفحه ا، ۸ و ۲۸ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ا الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۲۴ ستمبر ۱۹۶۸، صفحه ۱، ۸ الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۶۸، صفحه ۱۲ ماہنامہ خالد مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۴۱ مشرق لاہور ۳ مارچ ۱۹۶۸ء صفحہها الفضل ۴ رابریل ۱۹۶۸ء صفحه ۵ روزنامہ نوائے وقت لاہور ۴ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ا و آخر الفضل ۴ را پریل ۱۹۶۸ء صفحه ۵ الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 644 پاکستان ٹائمنر لا ہور ۱۲ مارچ ۱۹۶۸ء بحوالہ الفرقان اپریل ۱۹۶۸ء سر ورق نمبر ۲ الفرقان - ستمبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۲۶ تا است تلخیص اور ترمیم کے ساتھ الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۲ ،۴،۳ رساله الفرقان مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۲ ماہنامہ خالد مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۴۳ ۴۴ رپورٹ عبدالرشید صاحب سماٹری نامہ نگار خصوصی خالد مقیم کراچی الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۶،۳ الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ا الفضل ۲۰ / اپریل ۱۹۶۸، صفحه ۲ تا ۹ رسالہ المنار مئی جون ۱۹۶۸، صفحه ۱۵ تا ۲۰ ماہنامہ خالد - جون ۱۹۶۸ء صفحه ۴۱ الفضل ۷ تا ۱۳ را پریل، ۲۹ مئی ۱ استمبر ۱۹۶۸ء بدر ۹ مئی ۱۹۶۸ء ماہنامہ انصار اللہ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۴۰ تا ۴۳ ماہنامہ الفرقان جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۵ تا ۸.ماہنامہ فکر و نظر مئی ۱۹۶۸ء سال 1968ء

Page 685

تاریخ احمدیت.جلد 24 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 75 76 77 78 79 بدر ۳۰ مئی ۱۹۶۸، صفحه ۱ ، ۱۰،۹ 645 سال 1968ء بدر ۶ امئی ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۱،۱.۳۰ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۸،۷ دلچسپ سوالات و جوابات روز نامہ جنگ ۲۷ / اپریل ۱۹۶۸ء حوالہ ہفت روزہ لولاک ۲ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۳ ہفت روزہ لولاک لائل پور شمارہ ۱۲ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ سے کالم نمبر ۲ ہفت روزہ لولاک شماره ۱۲۰ جولائی ۱۹۶۸ ، صفحه ۱۲ کتا بچہ.عدالت کا فیصلہ کیا احمدی مسلمان ہیں؟ نقوش پریس لاہور ناشر عبدالحق ، رحمان بلڈنگ مغل پورہ لاہور رسالہ لاہور ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحهیم الفضل هم مئی ۱۹۶۸ ء صفحه ۱۲ الفضل و امئی ۱۹۶۸، صفحه ۱۲ الفضل هم مئی ۱۹۶۸ ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۸ صفحه ۲ بدر ۱۱ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۲،۱ الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۶۸ ، صفحه ۵ الفرقان اگست ۱۹۶۸ صفحه ۹ تا ۴۱ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۳ الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۱۳ جون صفحه ۱ ۲۲ جون صفحه ۱۲، ۲۸ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ الفضل اا جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۳ خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۰۱ الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۸ ، صفحہ ۱ الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۵ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ۱ الفضل 11 جولائی ۱۹۶۸ صفحه ۳ الفضل ۲۷ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۴ الفضل 9 جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۹ ستمبر ۱۹۶۸، صفحه ۳ الفضل یکم اگست ۱۹۶۸ء صفحه ۱ - ۸

Page 686

تاریخ احمدیت.جلد 24 646 سال 1968ء 80 81 82 83 الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۹ صفحه ۷ الفضل 9 جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۷ تاریخ احمدیت جلدے صفحہ ۲۸۸، ۲۸۹ 242 LEXICON UNIVERSAL ENCYCLOPEDIA.PAGE مطبوعہ نیویارک 84 85 86 87 88 89 90 91 ORAL ROBERTS, 1941 الفضل ۲۵ را گست ۱۹۶۸، صفحه ۴۰۳ الفضل ۱۰راگست ۱۹۶۸ء صفحه ۴۷۳ الفضل ۴ فروری ۱۹۶۸، صفحه ۵ الفضل ۳ راگست ۱۹۶۸ ، صفحه ۸ الفضل ۳۱ اکتوبر، یکم نومبر ۳ نومبر ۱۹۶۸ء الفضل ۳ نومبر ۱۹۶۸، صفحه ۲ الفضل یکم نومبر ۳ نومبر ۱۹۶۸ء بخاری کتاب التفسیر تفسیر سوره روم باب قول لَا تَبْدِيلَ لِخَلق الله.صحیح بخاری شریف مترجم صفحه ۹۶۳ علامہ وحید الزماں ناشر مکتبہ رحمانیہ اردو بازار لاہورستمبر ۱۹۸۵ء ماہنامہ خالد - اگست ۱۹۶۸ء صفحه ا ماہنامہ تفخیذ الاذہان ربوہ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵۴۵۳ 92 93 94 95 96 97 98 99 الفضل، ار اگست ۱۹۶۸ء صفحه ۸ الفضل ۱۴ / اگست ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ بدر ۲ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۷، ۲۴۸ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۶ تا ۸ الفرقان ستمبر ۱۹۶۸، صفحه ۲۴ الفضل ۲ اگست ۱۹۶۸ء صفحها خطبات ناصر جلد دوم صفحه ۲۷۱ 100 کراچی تاریخ احمدیت حصہ اول صفحه ۴۲۵ 101 102 103 104 ماہنامہ خالد نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۸،۷ الفضل ۱۸ستمبر ۱۹۶۸ء صفحهیم ماہنامہ مصباح جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۱۱۰۹ الفرقان اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۴۲،۴۱ 105 الفضل ، استمبر ۱۹۶۸ ء صفحه۱ ، ۸ ۸،۱

Page 687

تاریخ احمدیت.جلد 24 106 الفضل ۱۳ را کتوبر ۱۹۶۸، صفحه یم 647 سال 1968ء 107 108 الفضل ۱۰ اکتوبر و ۶ ، ۱۷، ۱۹ نومبر ۱۹۶۸ء والفضل ۲۱ ،۲۳ جنوری ۱۹۶۹ء.ماہنامہ تحریک جدید.نومبر ۱۹۶۸ء سر ورق نمبر ۲ مشرق بعید کا تبلیغی جائزہ ، صفحہ ۶ ۲ تا ۴۳ تقریر جلسه سالانه ۱۹۶۸ء ناشر مهتم نشر واشاعت ربوه 109 الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۶۸، صفحه ۱ ا The Pakistan Times, Aug.22, 1968.Page:1 110 The Pakistan Times, Oct.16, 1968 Page: 14 111 الفضل ۲۸ /اگست ۱۹۶۸ صفحه ۸ 112 113 پاکستان ٹائمنر ۲۷ / اگست ۱۹۶۸ء 114 115 116 حریت کراچی ۲۷ را گست ۱۹۶۸ء آغاز کراچی ۲۴ را گست ۱۹۶۸ء مشرق لاہور ۲۷ اگست ۱۹۶۸ء بحواله الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 117 روزنامه غریب لائل پور فیصل آباد ۳ ستمبر ۱۹۶۸ 118 119 صدق جدیدا کتوبر ۱۹۶۸ء بحوالہ ماہنامہ الفرقان نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۳۹ الفضل ۲۰ / اکتوبر ۱۹۶۸ ء صفحه ۸،۱ 120 الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ، ۸ 121 ماہنامہ تحمید الاذہان نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳۱، ۳۶، ۳۸ 122 تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد سوم صفحه ۵۵۳٬۵۵۲ 123 124 125 126 127 128 129 130 آئینہ کمالات اسلام صفحه ۳۵۰،۳۴۹ طبع اول فروری ۱۸۹۳ء مطبع ریاض ہند قا دیان ازالہ اوہام صفحه ۴ ، ۵ طبع اول مطبع ریاض ہند قا دیان جولائی ۱۸۹۱ء فتح اسلام صفحہ ۱۵ تا ۷ اطبع اول مطابق جنوری ۱۸۹۱ء مطبع ریاض ہند الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸، صفحریم الفضل ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۸ صفحه ا الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳۱،۸ را کتوبر ۱۹۶۸، صفحریم الفضل ۸ رابریل ۱۹۴۷ صفحهیم شہادت القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵،۳۵۴٬۳۵۳ 131 شہادت القرآن روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۵۵ 132 الحکم ۱۷ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۸ کالم ۳

Page 688

تاریخ احمدیت.جلد 24 133 134 135 136 648 تحفہ گولڑ و به طبع اول صفحه ۸۱ روحانی خزائن جلدی اصفحہ ۲۲۶ الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۸ صفحه ۴۰۳ 137 الفضل مورخه ۲ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 138 139 الفضل ۲ نومبر ۱۹۶۸ صفحه ۶ بدر۴ ۱نومبر ۱۹۶۸ء صفحها،۱ او ۲ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ تا ۱۲ 140 الحکم ۳۱ مئی ۱۹۰۲ ء صفحه ۸ 141 لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۲۷ طبع اوّل 142 بدر ۲۸ نومبر ۱۹۶۸ ء صفحه ا 143 144 145 146 مکاتیب ریکارڈ شعبه تاریخ احمدیت ربوہ بدر ۵ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۱۱،۱ البدر ( بدر ) ۲۷ مارچ ۱۹۰۳ صفحہ ۷۶ - الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ا الفضل ے جنوری ۱۹۳۰ء صفحہ ۴ 147 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۸ صفحها سال 1968ء 148 149 150 الفضل الدسمبر ۱۹۶۸، صفحه ۵ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ صفحہ ۷ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ صفحه ۳ تا ۷ 151 جلسہ سالانہ کی دعائیں از حضرت خلیفہ مسیح الثالث صفحه۳۲۲۹ ناشر نظارت اشاعت لٹریچر وتصنیف صدرانجمن 152 احمدیہ پاکستان ربوہ مطبع پینکو پریس، لاہور مطبوعہ جون ۱۹۷۶ء الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۹ء صفحه ۸ 153 الفضل هم جنوری ۱۹۶۹ صفحه ، ۸ ۴ صفحها،۸ 154 الفضل ۳ جنوری ۱۹۶۹ صفحه ۸،۱ 155 الحراب بر موقع سوواں جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ عالمگیر مجله لجنہ اماءاللہ کراچی ۱۸۹ ۱۹۹۱ صفحه ۱۱

Page 689

تاریخ احمدیت.جلد 24 649 سال 1968ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال سال ۱۹۶۸ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد صحابہ کرام رحلت فرما گئے جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:.حضرت مولوی حکیم نظام الدین صاحب آف بیگم کوٹ مبلغ کشمیر ولادت: قریباً ۱۸۸۷ء تحریری بیعت : ۱۹۰۲ء زیارت و دستی بیعت : اگست ۱۹۰۳ء وفات : ۷ جنوری ۱۹۶۸ء آپ کے والد کا نام عبد الکریم تھا جو کہ آپ کی صغرسنی میں ہی وفات پاگئے تھے.حضرت حکیم صاحب اپنے قبول احمدیت کے واقعات تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ :.میں موضع کھیر انوالی متصل کپورتھلہ کا رہنے والا ہوں.میرے استاد صاحب جو قریب کے گاؤں کے تھے وہ کھیر انوالہ کے سکول میں مدرس تھے.میں ان کے پاس ابتدائی جماعتوں میں پڑھا کرتا تھا اور وہ عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کا مطالعہ کرتے رہتے تھے.میں ان کے پاس بیٹھ کر حضرت صاحب کی کچھ کچھ باتیں سنتا رہتا تھا.انہی دنوں میں انہوں نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچے ہیں.ان کی بیعت کر لینی چاہیئے.آپ نے بیعت کا خط لکھ دیا.ان کا نام مولوی عبداللہ صاحب تھا.اور اس خط میں ایک دوسرے صاحب جن کا نام میاں مہتاب الدین تھا اور پہلے وہ اہل حدیث تھے ، ان کا نام اور میرا نام بھی لکھ دیا.میرے استاد نے مجھے فرمایا کہ احوال الآخرۃ میں جو یہ شعر ہے ”بولن لگا اڑ کے بولے، پٹاں تے ہتھ مارے“ یاد کر لیں اور جب قادیان چلیں گے تو آپ اسی بات کو دیکھتے رہیں.فرصت کے وقت ہم جب تینوں قادیان آئے تو میں راستہ میں اس مصرعہ کو بار بار یاد کرتا رہا.قادیان میں دس یا پندرہ دن ہم رہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز عصر کے بعد تشریف رکھتے تو میں آپ کے چہرہ اور آپ کے جسم کی طرف اچھی طرح دیکھتا رہتا اور مندرجہ بالا مصرعہ میرے دماغ میں ہوتا.میں بڑے غور سے دیکھتا کہ حضور جب بولتے تو خفیف سی بولنے میں روک معلوم ہوتی.سرسری طور پر کوئی اس روک کو محسوس نہ کرتا اور جب بولتے تو ساتھ ہی آپ کا دایاں ہاتھ جوران پر ہوتا تھاوہ خفیف سی حرکت کرتا تھا.

Page 690

تاریخ احمدیت.جلد 24 650 سال 1968ء (۲) میری بیوی کے دادا صاحب منشی عبدالرحمن صاحب کپور تھلوی نے احتکار ( ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنا.اجناس کا ذخیرہ کرنا) کے مسئلہ کے متعلق حضور سے دریافت کیا.حضور نے جواب میں خط لکھا جو میرے پاس کافی عرصہ تک محفوظ رہا مگر اب گم ہو گیا ہے.حضور نے تحریر فرمایا تھا کہ احتکار نا جائز ہے.غالباً اس کے آگے احتکار والی حدیث بھی درج فرمائی تھی.(۳) میرے استاد مولوی عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ اس دفعہ آپ تو قادیان نہیں گئے.میں گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد کے اوپر کے حصہ میں تشریف رکھتے تھے اور آپ کے پاس چند مجلدات حقیقۃ الوحی پڑی تھیں.میں نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا تو حضور نے میری طرف دیکھا.السلام علیکم کا جواب دیا اور فرمایا کہ مولوی صاحب آپ بڑی دیر کے بعد آئے ہیں.میں اپنے دل میں بہت شرمندہ ہوا اس بات پر کہ میں تو یہی خیال کرتا تھا کہ حضرت صاحب مجھے پہچانتے نہیں.اس کے بعد حضور نے ایک جلد حقیقۃ الوحی کی اپنے ہاتھ مبارک سے مجھے دی اور فرمایا کہ یہ آپ کے لئے تحفہ ہے.اس کو خوب پڑھو.ابتداء سے لے کر آخر تک پڑھو اور اس کے بعض مطالب مخالفوں کو سناؤ.(۴) جب حضرت صاحب کا لیکچر لاہور میلا رام کے منڈ وہ میں ہوا ہے اس وقت میں پولیس سواروں میں ملازم تھا اور میری ڈیوٹی بھی اس موقعہ پر لگی ہوئی تھی.جب حضرت صاحب لیکچر سے فارغ ہو کر واپس آرہے تھے اور آپ بند گاڑی میں سوار تھے.اس وقت میں نے سڑک کے کنارے پر ایک مولوی دیکھا جس کے سر کے بال بہت لمبے تھے اور داڑھی بھی لمبی تھی.ننگے سر تھا.جب حضرت صاحب کی گاڑی وہاں سے گزری تو وہ عورتوں کی طرح پیٹ رہا تھا اور اپنے سر کے بال نوچ رہا تھا اور کہتا تھا ”ہائے ہائے مرزا.جس سڑک پر سے حضرت صاحب نے گذرنا تھا اس پر پولیس کا بڑا مضبوط پہرہ تھا.آپ کے نواسہ امین الدین صاحب طاہر کا بیان ہے:.قادیان کے سفر کے بعد آپ لمبا عرصہ قادیان نہ جا سکے.اسی اثنا میں پولیس میں ملازمت اختیار کر لی.جب ملازمت کو تھوڑا عرصہ گذرا آپ کو لاہور میں متعین کر دیا گیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لاہور ۱۹۰۸ء میں وفات ہوئی تو اس وقت آپ بھی لاہور تھے اور روزانہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.جب آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کا علم ہوا تو آپ نے افسر

Page 691

تاریخ احمدیت.جلد 24 651 سال 1968ء اعلیٰ سے رخصت طلب کی تو اس نے رخصت دینے سے انکار کر دیا.جب جنازہ قادیان روانہ ہوا تو دوبارہ آپ نے افسر اعلیٰ سے رخصت طلب کی اور کہا میرے آقا فوت ہو گئے ہیں، میں ضرور قادیان جاؤں گا.مگر افسر نہ مانا.اس پر آپ نے اسی وقت ملازمت سے استعفیٰ دیدیا اور فرمایا کہ مجھے ایسی نوکری کی ضرورت نہیں.اس کے بعد آپ قادیان چلے گئے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور حضرت خلیفتہ المسح الاول کے ہاتھ پر بیعت کی.پھر دوبارہ لاہور کا رخ کیا اور شاہدرہ میں طبیہ کالج میں داخلہ لے لیا.کچھ عرصہ یہاں پر تعلیم حاصل کرتے رہے.پھر قادیان میں مستقل رہائش اختیار کر لی اور دینی علوم سے فیضیاب ہوتے رہے اور طب کا کچھ علم حضرت حاجی الحرمین خلیفہ المسیح الاول سے بھی حاصل کیا.۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ ع الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے انتخاب خلافت میں حصہ لیا اور بیعت کی.آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ایماء پر پہلا تبلیغی سفر امکپور (موجودہ نام فیصل آباد) کا کیا.یہاں پر کافی عرصہ قیام کیا.آپ نے چنیوٹ کے علاوہ دوسرے علاقوں میں بھی تبلیغی فرائض انجام دیئے.پھر آپ کو دھرم کوٹ بگہ اور زیرہ میں تبلیغی فرائض انجام دینے کا موقع ملا.اس کے بعد آپ کو مستقل طور پر آنریری مبلغ بناکر کشمیر بھیج دیا گیا.وہاں پر چودہ سال کا طویل عرصہ کام کیا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق ایک کتاب ہمسیح الموعود والامام المهدی المسعودعلیہ السلام نامی تحریر فرمائی یہ کتاب ۱۹۳۲ء میں تحریر کی اور چار ہزار کی تعداد میں شائع ہوئی.اس کے بعد قادیان تشریف لے آئے.وہاں پر حکمت کی دکان رہی.۱۹۴۷ء کے لرزہ خیز انقلاب کے بعد قادیان سے ہجرت کر کے بیگم کوٹ شاہدرہ میں رہائش اختیار کر لی.یہاں آپ جماعت کے صدر منتخب ہوئے.آپ کے بیٹے مکرم ضیاء الدین حمید صاحب نے اپنی کتاب ”سعادتیں ، یادوں کے آئینہ میں میں آپ کے متعلق بعض دیگر تفصیلات اور ایمان افروز واقعات بھی تحریر فرمائے ہیں.تصانیف: مسیح الموعود والامام المهدى المسعو دحصہ اول ( تاریخ اشاعت ۷ اربیع الاول ۱۳۴۱ھ مطابق ۲ دسمبر ۱۹۲، مطبع وزیر ہند پر لیں امرتسر.ناشر سیکرٹری انجمن احمد یہ موضع ناسنور ڈاکخانہ شوپیاں کشمیر).۲.سرمہ چشم بے نمازاں.۳.مباحثہ امرتسر ۱۸۹۳ء.

Page 692

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 652 سال 1968ء (۱) صو بیدار ریٹائرڈ صلاح الدین صاحب مرحوم سابق صدر محله دارالصدر جنوبی ربوه (۲) خدیجہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ چوہدری رحمت علی صاحب ٹھیکیدار مرحوم (۳) ضیاء الدین حمید صاحب (۴) حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمد اسحاق صاحب انور مرحوم براد را صغر مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر حضرت چوہدری نوراحمد صاحب آف سٹروعه ولادت: قریباً ۱۸۹۰ء زیارت: ۱۹۰۵ء بیعت تحریری: ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء وفات : ۸جنوری ۱۹۶۸ء حضرت چوہدری صاحب نے ۲۹ نومبر ۱۹۳۷ء کو اپنے قلم سے حسب ذیل روایات قلمبند فرمائیں:.میں نے ۱۹۰۲ء/۱۹۰۳ء کے درمیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی ہے جہاں تک مجھے یاد ہے.بعد ازاں مجھے اتفاقیہ جہلم جانا پڑا.اس وقت جناب مولوی برہان الدین صاحب جہلمی زندہ تھے.ان کے ساتھ ملاقات کا اتفاق ہوا.سن یاد نہیں رہا.جہلم سے واپسی پر میں قادیان آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کی.اس وقت مہمان خانہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے گھر تھا.حاجی غلام احمد صاحب سکنہ کر یام میرے ساتھ مہمان خانہ میں ٹھہرے ہوئے تھے.حضور کے گھر سے خادم یا خادمہ آئی کہ حضور فرماتے ہیں کہ ہماری بھینس بچہ دینے والی ہے.مہمان خانہ میں کوئی دو آبہ یعنی ضلع جالندھر یا ہوشیار پور کا مہمان ہو تو اس کو کہو کہ بھینس بچہ دینے والی ہے ، اس کو دیکھ لیں کہ دو آبہ کے لوگ عموماً بھینس رکھتے ہیں.اس وقت میری عمر تقریبا پندرہ سولہ سال تھی.حضور کے ساتھ گفتگو کرنے کی جرات نہ تھی.صرف ایک ہفتہ ٹھہرنے کا اتفاق ہوا.دوبارہ پھر قادیان آنے کا اتفاق ہوا.اس وقت حضور اپنے باغ میں رہائش رکھتے تھے.( یہ ۱۹۰۵ء معلوم ہوتا ہے ).حضور زلزلہ کی وجہ سے باغ میں رہتے تھے.میں رات کو باغ میں پہرہ دینے کیلئے جاتا تھا.میاں نجم الدین صاحب مہتم مہمان خانہ مجھے جسم دیکھ کر روزانہ پہرے کے لئے بھیج دیتے تھے.ایک رات اتفاق سے سید احمد نور کا بلی بھی میرے ساتھ پہرے پر تھے.نصف رات کے قریب ایک سکھ چور باغ میں آیا.اس وقت میں اور سید احمد نور صاحب پہرہ پر تھے.خاموشی سے باغ کے کناروں پرگشت

Page 693

تاریخ احمدیت.جلد 24 653 سال 1968ء کر رہے تھے.اچانک آدمی کی آہٹ ہوئی.دیکھنے پر معلوم ہوا کہ ایک قد آور چور حضور علیہ السلام کے تنبو کے قریب ہے.فور اسید احمد نور صاحب جو اس وقت جوان تھے چور کی طرف دوڑے اور چور بھی دوڑ پڑا.باغ سے کچھ فاصلہ پر سید احمد نور نے چور کو پکڑ لیا.فورا باقی پہریدار بھی وہاں پہنچ گئے.چور کے ہاتھ پاؤں وغیرہ باندھ کر باغ میں بٹھا دیا.صبح ہوئی.وہ چور حضور کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے زبانِ مبارک سے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو، غریب آدمی ہے.اس وقت شیخ یعقوب علی صاحب اور حاکم علی سپاہی بھی موجود تھے.انہوں نے چور کے متعلق حضور کی خدمت میں عرض کی کہ حضور اگر چور کو بغیر سزا دلوانے کے چھوڑ دیا جائے تو یہ پھر آئے گا اور پہلے سے زیادہ دلیر ہو جائے گا.پھر یاد نہیں کہ حضور نے کیا فرمایا تھا.میں اس وقت موجود تھا.اس کے بعد مجھے جلسہ سالانہ پر آنے کا اتفاق ہوا.دو به یعنی ضلع جالندھر اور ہوشیار پور کے تمام احمدی ایک ہی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے.ہمارے ساتھ چوہدری غلام احمد صاحب رئیس کا ٹھ گڑھ بھی تھے.رات کو قادیان پہنچے تھے.کمرہ میں بسترے رکھ کر تمام دوست بیٹھ گئے مگر نصف رات تک کھانا نہ ملا.لوگ بہت بھو کے تھے اور بار بار چوہدری صاحب مذکور کے پاس شکوہ کرتے تھے کہ ابھی تک کھانا نہیں ملا.اخیر چوہدری صاحب نے کہا کہ بازار میں جا کر کچھ دودھ پی لومگر اتنی بے چینی پیدا نہ کرو، کھانامل جائے گا.لوگ کھانے کا انتظار کر کے تھک گئے.اخیر بہت دوست بھوکے سو گئے.رات نصف سے زیادہ گذر چکی تھی.اچانک چند آدمی نمودار ہوئے کہنے لگے کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا ہے کہ مہمان بھوکے ہیں ، ان کو کھانا کھلاؤ.بدیں وجہ لوگ کمروں میں جگا جگا کر کھانا دے رہے ہیں.ہمارے کمرہ میں بھی چند آدمی کھانا لے کر آئے.چوہدری صاحب نے تمام دوستوں کو جگا کر کھانا کھلایا.ہمارے ساتھ چوہدری غلام قادر صاحب سٹروعہ والے بھی تھے.انہوں نے کہا کہ یہ کھانا خدا نے جگا کر دیا ہے.وہ بقیہ ٹکڑے بطور تبرک کہ یہ الہامی کھانا ہے، اپنے پاس سٹر وعہ لے گئے.سنہ یاد نہیں رہا.( یہ واقعہ ۱۹۰۷ء کے جلسہ سالانہ کا ہے) آپ فرمایا کرتے تھے کہ ۱۹۰۵ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زلزلہ کی وجہ سے اپنے باغ میں مقیم تھے میں اور میرا چچا زاد بھائی اخلاص خاں مرحوم ہم دونوں حضور کے پہرہ پر مقرر تھے.جوانی کا عالم تھا.ہم دونوں پہرہ کی ڈیوٹی خوب دیتے.تقریباً ڈیڑھ ماہ کے بعد ہم واپس سٹروعہ آ گئے اور اپنے بڑے چازاد بھائی کے ساتھ کھیتی باڑی کا کام شروع کر دیا.ہمارے علاقہ میں زمین کا بندو بست ہو رہا تھا اور میں بندو بست میں بطور پٹواری کام کرنے لگ گیا.پٹوار سے دل برداشتہ ہو گیا

Page 694

تاریخ احمدیت.جلد 24 654 سال 1968ء تو قادیان شریف چلا گیا اور دفتر بہشتی مقبرہ میں بطور کلرک ملا زم ہو گیا.قادیان شریف میں ہی محلہ دار الفضل میں اراضی خرید کر اپنا مکان تعمیر کرایا اور وہاں سکونت اختیار کر لی.پھر میرا تبادل لنگر خانہ میں ہو گیا.جن دنوں حضرت میر محمد اسحاق صاحب افسر لنگر خانہ تھے میں ان کے ماتحت بطور منشی کام کرتا تھا.چوہدری صاحب حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے اوصاف حمیدہ میں سے خصوصاً مہمان نوازی اور علمی قابلیت کا کثرت سے ذکر کیا کرتے تھے.حضرت مصلح موعود، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے دیگر بزرگان سے بیحد عقیدت و محبت رکھتے تھے.بعد ازاں چوہدری صاحب کی تقرری لنگر خانہ سے بطور خزانچی دفتر محاسب میں ہو گئی.آپ نے اپنے فرائض منصبی کو ہمیشہ نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا.اس کے بعد آپ کی پنشن ہوگئی.۱۹۴۴ء میں فصلح موعود کے جو جلسے لدھیانہ اور ہوشیار پور میں ہوئے ان کے انتظامات میں حصہ لیا.اولاد از اہلیہ اول محترمه سکینه بی بی صاحبہ: ا.چوہدری محمد احمد خاں صاحب در ولیش قادیان 1 ۲.سلطان احمد صاحب (مرحوم) 10 ۳.احمد جان صاحبہ اہلیہ چوہدی بوٹے خاں صاحب ۴.غفوراں بی بی صاحبہ اہلیہ مہدی خاں صاحب مرحوم ۵.الفت بی بی صاحبہ اہلیہ چو ہدری عبد الغنی مرحوم از اہلیه دوم نعمت بی بی صاحبہ: ا فضل احمد خاں صاحب مرحوم ۲.سلیم احمد خاں صاحب مرحوم لطیف احمد خاں صاحب (لندن) ۴.رفیع احمد خاں صاحب (لندن) ۵.نعیم احمد خاں صاحب ملتان ۶ - امۃ اللطیف صاحبہ اہلیہ چوہدری محمد منصف خاں صاح ے.امہ الحمید صاحبہ اہلیہ نصر اللہ خاں صاحب جرمنی

Page 695

تاریخ احمدیت.جلد 24 655 سال 1968ء حضرت حکیم محمد رمضان صاحب تلا کو ضلع انبالہ (بھارت) ولادت : ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات :۲ فروری ۱۹۶۸ء آپ نہایت پارسا، پابند صوم وصلوٰۃ اور سلسلہ کے نہایت مخلص بزرگ تھے.تلاکور میں آپ نصف صدی تک مقیم رہے.اور صرف آپ ہی کا خاندان تقسیم ملک ۱۹۴۷ء کے بعد احمدی تھا.آپ کی دو بچیاں اور ایک نواسی قادیان میں بیاہی گئی.اولاد 12 ا.بشارت احمد صاحب جو کہ کرنال ہر یا نہ میں مقیم ہیں.۲.برکت بی بی صاحبہ مرحومہ زوجہ بشیر احمد صاحب مرحوم آف تلا کو ضلع انبالہ.۳- صغری بیگم صاحبه زوجه محترم مستری دین محمد صاحب مرحوم در ولیش قادیان.۴.منورہ بیگم صاحبہ پاکستان میں ہیں.۵- اقبال بیگم صاحبہ خرودی ہریانہ میں ہیں.محترمہ صغری بیگم صاحبہ کا کہنا ہے کہ موصوفہ کی پانچ بہنیں بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں.محترم حکیم محمد رمضان صاحب کی قبر تلا کو ضلع انبالہ میں ہے.حضرت سیدمحمود عالم صاحب سابق آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ ولادت : ۱۸۸۹ء دستی بیعت: ۱۹۰۷ء تحریری بیعت : ۱۹۰۵ء وفات: ۲۶ فروری ۱۹۶۸ء حضرت سید محمود عالم صاحب کے قلم سے ان کے خاندانی اور قبول احمدیت اور سکونت قادیان کے حالات درج ذیل کئے جاتے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ:.”میرا آبائی وطن موضع لرسا ڈاکخانہ جہاں آباد ضلع گیا صوبہ بہار ہے.میرا آبائی خاندان حسینی سید ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت امام حسین کی اولاد سے ہے.اس اطراف میں دس بیس کوس تک میرے خاندان کے لوگ پھیلے ہوئے ہیں.اور سب کے سب اپنے آپ کو سید ہی کہتے ہیں.میرے قریب کے بزرگوں میں بہت نیک لوگ بھی گزرے ہیں.میرے نانا صاحب حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج جن کی قبر پاکپتن میں ہے کی اولا د سے تھے.

Page 696

تاریخ احمدیت.جلد 24 656 سال 1968ء میرے خاندان کے لوگ ننھیال ہوں یا ددھیال صاحب جائیداد اور بااثر لوگ تھے.مگر گردش زمانہ کی وجہ سے دونوں طرف کی جائیداد میں جاتی رہیں.دادا صاحب کی جائیداد تو اس طرح پر گئی کہ وہ ایک مرتبہ سخت بیمار ہوئے اور زیست کی امید نہ رہی.ان کی بیماری میں ایک عزیز رشتہ دار نے دادا صاحب کی طرف سے جعلی طور پر ساری جائیداد فروخت کر دی.مگر دادا صاحب جن کا نام یاور حسین تھا بیماری سے صحت یاب ہو گئے.اور باوجود جائیداد کے ضائع ہونے کے خاموش رہے کہ مقدمہ کرنے میں ایک عزیز جیل خانہ میں جاتا ہے اور خاندان کی بدنامی ہوتی ہے.میرے والد صاحب کا نام تبارک حسین تھا جو نیک اور رحم دل طبیعت کے تھے.ایک رات میں انہیں کے ساتھ سویا ہوا تھا کہ اتفاق سے جب رات کے وقت آنکھ کھلی تو والد صاحب موجود نہ تھے.والدہ کو آواز دی تو فرمایا وہ اپنے ایک دشمن جسے لوگ نشہ پلا کر فلاں مقام پر قتل کرنے کے لئے لے گئے ہیں، اس کے حال پر رحم کھا کر اس تاریک رات میں تن تنہا اسے چھڑانے کے لئے چلے گئے ہیں.چنانچہ تھوڑی دیر بعد اپنے دشمن کو اس کے دشمنوں کے پنجہ سے چھڑا کر لے آئے.والد صاحب کی وفات سے چند دن پہلے میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کی قبر کھود نے کے لئے ایک شخص حکیم فضل الرحمان مقرر کیا گیا ہے.حالانکہ مجھے ان کی بیماری کی خبر بھی نہ تھی.خواب کے دو تین دن بعد بڑے بھائی صاحب کا خط آیا کہ والد صاحب سخت بیمار ہیں.چنانچہ اسی بیماری میں والد صاحب فوت بھی ہو گئے.میری والدہ صاحبہ کا یہ حال تھا کہ ہمیشہ دعا کرتی تھیں کہ خدایا بچوں کو نیک بنانا.اور اگر ان کے مقدر میں نیکی نہیں تو ان کی بیدینی سے ان کی موت میرے لئے زیادہ پسندیدہ ہے.جب سے میں نے ہوش سنبھالا اس وقت سے والدین کو صوم وصلوٰۃ کا پابند پایا.۱۹۰۲ء میں پٹنہ شہر میں پڑھنے کے لئے آیا.جس جگہ میں رہتا تھا وہاں ایک بزرگ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ پنجاب میں ایک بہت بڑا عالم ہے ایک عیسائی اس کی دعا کے مقابلہ میں آیا تھا جو مرگیا.اس لئے اب کوئی عیسائی اس سے مقابلہ میں نہیں آتا.مجھے بغیر نام اور کیفیت معلوم ہوئے محبت ہوگئی.غالبا ۱۹۰۳ء میں میرے بڑے بھائی صاحب جن کا نام محبوب عالم ہے پٹنہ شہر کی طرف جا رہے تھے کہ دو شخص آپس میں کہتے ہوئے گزر گئے کہ پنجاب میں کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.بھائی صاحب سن کر حیران رہ گئے کہ پوچھوں تو کس سے پوچھوں.کہنے والے تو چلے گئے.

Page 697

تاریخ احمدیت.جلد 24 657 سال 1968ء شاید سٹیشن ماسٹر کو علم ہو.چنانچہ ان کا خیال درست نکلا.نام و پستہ وغیرہ دریافت کر کے مکان پر آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک خط لکھا کہ مجھے آپ کے حالات معلوم نہیں صرف نام سنا ہے.اگر براہ کرم اپنی تصانیف بھیج دیا کریں تو پڑھ کر واپس کر دیا کروں گا.چنانچہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کتابیں بھجواتے رہے اور بھائی صاحب پڑھ پڑھ کر واپس کرتے رہے.لوگوں نے اسی وقت سے مخالفت شروع کر دی.مگر بھائی صاحب نے استقلال سے کام لیا.اور کچھ عرصہ بعد بیعت کر لی.میں نے بھی کچھ عرصہ بعد بھائی صاحب کے ذریعہ کتابیں پڑھیں اور بیعت کر لی.احمدیت سے کچھ عرصہ پہلے شہر سے گھر گیا اور اتفاق سے والد صاحب ہی کے ساتھ سویا.خواب میں والد صاحب کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا تیرا یہ لڑکا جو تیرے ساتھ سویا ہوا ہے بہت بڑا وکیل ہوگا.والد صاحب بہت خوش ہوئے.لیکن جب میں احمدی ہو گیا اس وقت والد صاحب سے کہا کہ آپ کے خواب کی تعبیر میرا احمدی ہونا ہے.احمدی ہونے سے چند ماہ پہلے ایک خواب دیکھا کہ میں مر گیا ہوں اور نہلا دھلا کر کفن پہنا دیا گیا ہے.مگر چہرہ کفن سے خالی ہے.گھر کے سب لوگ رو پیٹ رہے ہیں میں انہیں سمجھا تا ہوں کہ میں تو اچھا بھلا ہوں.مجھے تو کوئی تکلیف نہیں.آپ لوگ روتے کیوں ہیں.مگر میری آواز کو لوگ نہیں سنتے.پھر میں دل میں کہتا ہوں کہ سنا تھا کہ مردہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے اور بولتا بھی ہے مگر اس کی آواز دوسرے نہیں سنتے.سو یہی حال یہاں ہے.چنانچہ میرے احمدی ہونے اور خاص کر قادیان آنے پر بہت کچھ رونا پیٹنا ہوا.مگر میری آواز پر کسی نے کان نہیں دھرا.احمدی ہونے کے بعد ایک مرتبہ گھر پر شمالاً وجنوباً برآمدہ میں سویا ہوا تھا کہ دیکھا کہ شمال مغرب میں (میرے گھر سے قادیان بالکل شمال مغرب میں ہے) آسمان میں زمین سے چند نیزہ اوپر چاند ہلال کی شکل میں ہے.میرے دیکھتے دیکھتے چاند بڑی تیزی سے نیچے جاتا ہے.اور پھر جب اپنے مقام پر آتا ہے تو بجائے ہلال کے پورا چاند ہوتا ہے.اور میری پیشانی میں داخل ہو جاتا ہے.اسی طرح پانچ مرتبہ ہوا اور میں نے بہت شور مچایا کہ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بدولت میری پیشانی کیسی روشن ہے کہ میری پیشانی کی روشنی سے در و دیوار بھی روشن ہیں.رسالہ الوصیت شائع ہوتا ہے بھائی صاحب منگواتے ہیں.میں پڑھ کر کہتا ہوں کہ اس رسالہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کے ایک زبر دست اعتراض کو خاک میں ملا دیا ہے.بھائی صاحب نے پوچھا کہ وہ

Page 698

تاریخ احمدیت.جلد 24 658 سال 1968ء کیا؟ میں نے جواب دیا کہ یہاں دشمنوں کے دو اعتراض تھے ایک تو یہ مولوی نورالدین صاحب بہت بڑے عالم ہیں.ان کی وجہ سے لوگ مرزا صاحب کو مان رہے ہیں.جس کا جواب ہماری طرف سے یہ تھا کہ ہم تو جانتے بھی نہیں کہ وہ کون صاحب ہیں.جس طرح ہم نے بیعت کی ہے.بیعت کرنے میں سب برابر ہیں.اور دوسرا اعتراض یہ تھا کہ مرزا صاحب نے مولوی نور الدین صاحب سے وعدہ کیا ہے کہ وفات کے وقت تم کو خلیفہ مقرر کر جاؤں گا.چنانچہ اسی لالچ پر مولوی نورالدین صاحب نے مرزا صاحب کی بیعت کی ہے جس کا جواب ہماری طرف سے یہ تھا کہ یہ کس کو معلوم ہے کہ کون پہلے مرے گا اور کون پیچھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوبکر کی مثال دے کر فرمایا حضرت ابوبکر کی طرح میرے بعد بھی ایک خلیفہ ہوگا.اور وہ بھی اس طرح کہ جس پر کم از کم چالیس احمدیوں کا اتفاق ہو.پھر ان الفاظ سے زید و بکر کی شخصیت کو باطل کر دیا.کچھ دنوں بعد جبکہ میں دوسال کی متواتر اور خطرناک بیماری سے پورے طور پر صحت یاب بھی نہیں ہوا تھا کہ میرے دل میں قادیان آنے کا شوق بلکہ جنون پیدا ہوا.بھائی صاحب نے اصرار کیا کہ قادیان میں خزانہ نہیں رکھا ہوا کم از کم انٹرنس پاس کر کے جانا تا کہ وہاں تکلیف نہ ہو.والدین غیر احمدی تھے.الغرض کسی نے زاد راہ نہ دیا.بیماری کی وجہ سے میرا جسم بہت کمزور وضعیف ہو رہا تھا.مجھ میں دو چار میل بھی چلنے کی طاقت نہیں تھی مگر خدا نے دل میں جوش ڈال دیا اور حالت صحت سے بدل دی اور پیدل سفر کرنے کے لئے تیار ہو گیا.اس وقت میں پٹنہ میں تھا چلتے وقت لوگوں نے مشورہ دیا کہ والدین سے مل کر جاؤ.مگر میں نے انکار کر دیا کہ ممکن ہے والدہ کی توجہ و فریاد سے میری ثبات قدمی جاتی رہے اور قادیان جانے کا ارادہ ترک کر دوں.بہر حال میں چلا.چلتے وقت ایک کارڈ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا کہ میرے لئے دعا کی جاوے.میرے حالات سفر یہ ہیں اور ایک کارڈ بھائی صاحب کو لکھا کیونکہ اس وقت وہ دوسری جگہ پر تھے کہ میں جارہا ہوں اگر قادیان پہنچا تو خط لکھوں گا.اور اگر راستہ میں مرگیا تو میری نعش کا کسی کو پتہ نہ لگے گا.میں نے سفر کے لئے احتیاطی پہلو اختیار کر لئے تھے اور ریلوے لائن کا نقشہ رکھ لیا تھا (۲) جلدی جلدی چند درسی کتب فروخت کر کے کچھ پیسے رکھ لئے تھے.تا کہ راستہ میں گدا گری نہ کرنی پڑے.(۳) کمزور بہت تھا اور مسافت دور کی تھی.پچاس ساٹھ میل تک ریل پر سفر کیا.تا کہ اگر صحت ہار دے تو لوٹنے کی ہمت نہ ہو.اور بجائے واپس ہونے کے آگے ہی آگے چلتا رہوں.میں برابر تھیں تھیں میل

Page 699

تاریخ احمدیت.جلد 24 659 سال 1968ء روزانہ چلتا رہا.جہاں رات ہوئی وہاں ٹھہر گیا.کبھی سٹیشن پر اور کبھی کمیٹیوں میں.پاؤں کے دونوں تلوے زخمی ہو گئے تھے خدایا آبرورکھیو میرے پاؤں کے چھالوں کی جب رات بسر کرنے کے لئے کسی جگہ ٹھہرتا تو شدت درد کی وجہ سے پاؤں اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا تھا.جب صبح ہوتی تو نماز پڑھتا اور چلنے کیلئے قدم اٹھاتا تو پاؤں اپنی جگہ سے نہیں ملتے تھے ہزار دشواری انہیں حرکت دیتا.اور ابتداء میں بہت ہی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا.اور چند منٹ بعد اپنی پوری رفتار میں آجا تا.جوتا پہننے کے قابل پاؤں نہیں رہے کیونکہ تلوے چھالوں سے پر تھے.اس لئے بھی روڑے اور کبھی ٹھیکریاں چھ چھ کر بدن کولر زادیتیں کبھی ریل کی پٹڑی پڑی چلتا.اور کبھی عام شاہراہ پر اتر آتا.بڑے بڑے ڈراؤنے راستہ سے گذرنا پڑتا.ہزاروں کی تعداد میں بندروں اور سیاہ منہ والے لنگوروں سے واسطہ پڑا.جن کا خوفناک منظر دل کو ہلا دیتا ہے.علی گڑھ شہر سے گذرا مگر مجھے خبر نہیں کہ شہر کیسا ہے.اور کالج وغیرہ کی عمارتیں کیسی ہیں.البتہ چلتے چلتے دائیں بازو پر کچھ فاصلہ پر سفید عمارتیں نظر آئیں.اور پاس کے گذرنے والے سے صرف یہ پوچھ کر کہ یہ عمارت کیسی ہے اور اس کے یہ کہنے پر یہ کالج کی عمارت ہے آگے چل پڑا.دہلی شہر سے گذرا اور ایک منٹ کے لئے بھی وہاں نہ ٹھہرا.کیونکہ میرا مقصود کچھ اور تھا.وہاں کے بزرگوں کی قبروں کی زیارت میرا مقصود نہیں تھا اس لئے ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنے مقصود سے باہر نہیں ہونا چاہتا تھا.زخمی پیروں کے ساتھ قادیان پہنچا اور مہمان خانہ میں ٹھہرا.چند منٹ کے بعد حضرت حافظ حامد علی صاحب نے دودھ کا ایک گلاس دیا.میری جیب میں پیسے نہیں تھے.پینے سے انکار کر دیا آخر ان کے کہنے پر کہ خرچ سے نہ ڈریں.آپ کو پیسے نہیں دینے ہوں گے پی لیا سبحان الله والحمد لله قادیان میں پہلی غذا دودھ ہی ملی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملا.حضور حالات دریافت کرتے رہے.خلیفہ اول نے زخموں کا علاج کیا اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو تعلیم کے لئے مقرر کر دیا اور بعد میں خود تعلیم دیتے رہے.مئی ۱۹۰۸ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لے گئے تو بعد میں حضرت خلیفہ اول کو بھی بلوا لیا.حضرت خلیفہ اول کے ساتھ میں بھی لاہور گیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت میں دائیں بازو میں کھڑا تھا.لاہور سے آنے پر باغ میں حضرت خلیفہ اول نے لوگوں سے بیعت لی.بیعت کے وقت میں حضرت خلیفہ اول کے ساتھ چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا.حضرت خلیفہ

Page 700

تاریخ احمدیت.جلد 24 660 سال 1968ء اول نے جو خطبہ پڑھا وہ میرے دماغ میں اب تک گونج رہا ہے.لاہور سے آتے ہی ایک جلد رسالہ الوصیت کی بھائی صاحب کو بھیج دی.جس کا جواب بھائی صاحب نے جود یاوہ یہ ہے:.مجھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے انبیاء ایک لڑی میں پروئے ہوئے نظر آتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چھوڑ کر سوائے دہریت کے درمیان میں اور کوئی مقام نظر نہیں آتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے چند دنوں بعد ایک رؤیا دیکھی کہ مہمان خانہ میں وضوکر رہا ہوں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بعض نامکمل کتابوں کی بنا پر اعتراض کرنا درست نہیں.خدا تعالیٰ نے جتنا کام ان سے لینا تھالیا.کیا اگر قرآن شریف بجائے تمیں سپارے کے کچھ کم نازل ہوتا تو کس کا حق تھا کہ اعتراض کرے کہ اتنا کیوں نازل ہوا.اتنا کیوں نازل نہ ہوا.یا یہ کہ تمیں ہی سپارے کیوں نازل ہوئے.زیادہ کیوں نہ ہوئے.خدا تعالیٰ نے جتنی ضرورت سمجھی نازل کیا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے جتنا کام ان سے لینا تھا لیا.چنانچہ چند دنوں بعد میرے بھائی صاحب کا خط آیا کہ یہاں دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیا جاوے میں نے اپنی یہی رؤیا لکھ کر بھیج دی.پٹنہ آنے سے پہلے نانا صاحب ودیگر استادوں سے فارسی کی درسی کتابیں پڑھیں.پٹنہ آ کر بھائی صاحب سے سکول کی درسی کتابیں پڑھ کر اعلیٰ جماعت میں نام لکھوایا.جب فورتھ ہائی میں پہنچا تو سالانہ امتحان سے پہلے بیمار ہو گیا.بیماری ہی میں امتحان دے کر پاس ہوا.مگر ففتھ ہائی میں بیماری کی شدت کے باعث پڑھ نہیں سکا.بلکہ شفا خانہ میں زیر علاج رہا.ایک لمبے عرصہ کے بعد شفاخانہ کے ڈاکٹروں نے بیماری کو لا علاج کہہ دیا.خدا کی شان اچھا تو ہوا مگر ایک یکہ بان کی دوا سے.اور بیماری کا کچھ حصہ باقی تھا کہ قادیان کی طرف چل پڑا اور راستہ ہی میں بیماری جاتی رہی.قادیان پہنچ کر حضرت خلیفہ اول اور دوسرے بزرگوں سے عربی کی کتابی پڑھیں.مگر علم طب کے قریب نہ گیا.جس کی وجہ یہ تھی کہ میں نے اپنے دماغ میں علم طب کے ساتھ مناسبت نہیں پائی اور ڈرا کہ مخلوق خدا کی ہلاکت میرے جیسے نالائق کی عاقبت نہ خراب کر دے.دنیا میں روزی کمانے کے ہزاروں ذرائع ہیں.خدا جس طرح چاہے گا روزی کا سامان کر دے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ کلر کی کے ذریعہ روزی دے رہا ہے.آپ حضرت خلیفہ اول اور علماء سلسلہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صدر انجمن احمد یہ

Page 701

تاریخ احمدیت.جلد 24 661 سال 1968ء قادیان میں ملازم ہو گئے.ابتداء کلرک بنے اور پھر اپنے اخلاص، محنت و استقلال کی بدولت خزانچی اور محاسب اور بالآخر آڈیٹر کے عہدہ پر فائز ہوئے.آپ بہت دیندار، دعا گو اور صاحب رؤیا و کشوف بزرگ تھے.وفات: آپ نے مورخہ ۲۶ فروری ۱۹۶۸ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے لاہور میں وفات پائی.آپ کا جنازہ اسی روز شام کو لاہور سے ربوہ لایا گیا.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بعد از نماز عشاء آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.بعد میں جنازہ بہشتی مقبرہ لے جا کر آپ کی تدفین قطعہ صحابہ میں کی گئی.اولاد (۱) سید محمد احمد صاحب.بی.اے ایل ایل بی وکیل (۲) ڈاکٹر رشید عالم صاحب (۳) میمونہ صاحبه (۴) بشری صاحبہ (۵) حمیدہ صاحبہ (۶) صادقہ صاحبہ حضرت غلام فاطمہ صاحبہ بیعت سن کی تعیین نہیں ہوسکی وفات یکم مئی ۱۹۶۸ء آپ حضرت میاں احمد دین صاحب زرگر صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہلیہ تھیں.آپ نہایت مخلص ، نیک صوم و صلوۃ کی پابند اور مہمان نواز نیز امام وقت کی آواز پر لبیک کہنے والی تھیں آپ کے والد حضرت احمد جان صاحب پشاوری بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.حضرت میاں محمد حسین صاحب کشمیری بیعت : سن کی تعیین نہیں ہو سکی وفات: ۵ مئی ۱۹۶۸ء 18 آپ نے 10 سال کی عمر پانے کے بعد گھٹیالیاں میں وفات پائی.آپ بڑے دلیر، نڈرا ورصوم و صلوۃ کے پابند تھے.آپ کی کوئی نرینہ اولا د ی تھی.حضرت میاں اللہ دتہ صاحب آف ماہل پور ضلع ہوشیار پور ولادت: ۱۸۸۸ء بیعت تحریری: ۱۹۰۰ء ١٩٠٠ء بیعت دستی: اپریل ۱۹۰۵ ء وفات: ۱۴مئی ۱۹۶۸ء

Page 702

تاریخ احمدیت.جلد 24 662 سال 1968ء آپ کے بیان کے مطابق حضرت اقدس ان دنوں اپریل ۱۹۰۵ء میں اپنے باغ میں ٹھہرے ہوئے تھے.جمعہ کے دن آپ نے بیعت کی درخواست کی اور حضور نے اسے قبول فرماتے ہوئے اسی روز عصر کے وقت بیعت کا شرف عطا فرمایا.آپ کا تحریری بیان ہے کہ ہمارے گاؤں میں ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر شیخ شہاب الدین کی معرفت پہنچا.1900ء میں ماہل پور سے قریباً چالیس بیعت کنندگان کی فہرست جو چالیس افراد پر مشتمل تھی حضرت اقدس کی خدمت میں بھیجی گئی.اپریل ۱۹۰۵ء میں آپ نے پہلی بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا.آپ کے ہمراہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی علی بخش صاحب، چا زاد بھائی کریم بخش صاحب اور بچپن کے دوست بابو محمد نظام الدین صاحب تھے.حضور ان دنوں زلزلہ کانگڑہ کے باعث اپنے باغ میں قیام فرما تھے.دستی بیعت کے وقت آپ حضور ہی کے پاس بیٹھے ہوئے تھے.الفاظ بیعت دہراتے ہوئے جب حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا تو ایک شخص کی چیخ نکل گئی اور لوگوں پر لرزہ طاری ہو گیا.حضور علیہ السلام نے بیعت کے بعد دعا کی جس کے بعد اپنی قیامگاہ میں تشریف لے گئے.دوسرے دن حضور علیہ السلام ظہر کی نماز کے واسطے تشریف لائے تو حضور علیہ السلام کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا جو حضور علیہ السلام نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کو دے کر فرمایا کہ یہ اشتہار لے جائیں اور لاہور سے چھپوا لائیں.جناب مفتی صاحب ایک سادہ لباس میں ہی وہ کاغذ لے کر اڈاخانے کو چلے گئے.بیعت سے دوسرے دن کا ذکر ہے کہ میں باہر کھڑا کچھ نظارہ دیکھ رہا تھا.جب میں نے اپنے بائیں طرف دیکھا تو کچھ فاصلہ پر کچھ آدمی کھڑے ہیں.معلوم ہوا کہ حضور اقدس باہر تشریف لائے ہیں.میں یہ کہہ کر بے تحاشا اسی طرف دوڑ پڑا اور میں ابھی چند قدم پیچھے تھا کہ حضور علیہ السلام اس جمگٹھے سے نکل کر میری طرف دو تین قدم آگے تشریف لائے.میں نے حضور علیہ السلام سے مصافحہ کیا.آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے عہد کا ایک واقعہ بھی اپنے بیان میں بتایا کہ جس سال حضرت خلیفہ المسیح سے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب قرآن کریم بطور درس پڑھتے تھے ( یہ فروری ۱۹۱۳ء کا واقعہ ہے.اس کے بارہ میں اخبار بدر قمطراز ہے "حضرت صاحبزادہ بشیر احد صاحب کو ایک جماعت کے ساتھ صبح بعد نماز فجر حضرت خلیفہ المسیح نے ایک درس قرآن شریف کا دینا شروع کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بیرونی اصحاب جو اس موقعہ پر آسکتے ہیں آکر شامل ہو جائیں.دور کوع روزانہ ہوتے

Page 703

تاریخ احمدیت.جلد 24 663 سال 1968ء ہیں.بدر ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۸ ۱۹ میں یہ اعلان ہوا کہ جو دوست اس درس میں شامل ہونا چاہتے ہیں ، ہو سکتے ہیں ).میں بھی داخل ہو گیا.ان دنوں میں مسجد مبارک میں اذان دیا کرتا تھا اور اذان کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی خدمت میں نماز کی اطلاع دینے جایا کرتا تھا.ایک دن کا ذکر ہے جایا کہ جب میں حضور کو نماز کی اطلاع دینے کیلئے گیا تو وہاں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب بیٹھے ہوئے تھے.بندہ حضور کے پاس بیٹھ گیا اور عرض کیا کہ اذان ہو چکی ہے.حضور نے فرمایا بہت اچھا.ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے دعا کیلئے عرض کیا کہ حضور ہمارے لئے دعا فرمائیں.حضور نے بڑے جذبہ سے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے دعا نہیں کریں گے جب تک تم ہمارا دل راضی نہیں کرو گے.اس وقت میری جو حالت ہوئی بیان نہیں کرسکتا.خلیفہ وقت کی زبان سے ایسے الفاظ کا نکلنا معمولی بات نہیں.یہ الفاظ میں نے بہت دیر تک پوشیدہ رکھے.پھر میں نے گھر (ماہل پور ضلع ہوشیار پور ) پہنچ کر اپنے ایک عزیز دوست منشی غلام نبی صاحب سے بیان کیا.تو انہوں نے کہا کہ یہ لوگ میاں محمود احمد ( فضل عمر ) کی در پردہ مخالفت کرتے ہیں جس کی وجہ سے خلیفہ وقت کے دل کو بہت تکلیف پہنچی اور حضور نے یہ الفاظ کہے.ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے بندہ سے کسی چندہ کے لئے امداد چاہی تو بندہ نے دس آنے کا ٹکٹ لفافہ میں بند کر کے بھیج دیئے.اس کے بعد میں نے خواب میں دیکھا کہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب لوگوں سے روٹیاں لیکر کوئیں ( کنواں ) میں پھینک رہے ہیں اس کے بعد میں نے انہیں چندہ نہیں دیا.اولاد: 22 امتہ اللہ صاحبہ زوجہ محمد یوسف خان صاحب ڈر بن.امتہ الکریم بٹ صاحبہ زوجہ عبدالرزاق بٹ صاحب لندن (امتہ الکریم بٹ صاحبہ کے بیٹے عبدالوہاب بٹ صاحب ڈنمارک میں مقیم ہیں ) حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل و مشیر قانونی صدرانجمن احمدیه ولادت: ۱۸۸۶ء بیعت : ۱۹۰۱ء وفات : ۲۹ مئی ۱۹۶۸ء 23 حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل سلسلہ احمدیہ کے قدیم اور بے نفس بزرگ، تبحر عالم، ممتاز قانون دان اور نامور محقق و مؤلف تھے.آپ کے داماد شیخ منور شمیم صاحب خالد ایم اے تحریر

Page 704

تاریخ احمدیت.جلد 24 664 سال 1968ء فرماتے ہیں کہ موضع نون ضلع گجرات کے ایک شریف اور پابند صوم وصلوٰۃ گھرانے میں پیدا ہوئے.تین بھائیوں میں سے آپ بڑے تھے.والد گاؤں میں پٹواری تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ ان کا بڑا فرزند بھی ضروری تعلیم حاصل کر کے اسی محکمہ میں ملازمت اختیار کرے اس زمانہ میں مساجد میں حاصل کردہ ابتدائی دینی تعلیم کو ہی کافی سمجھا جاتا تھا.دنیاوی تعلیم کی طرف رجحان مسلمانوں میں نہ ہونے کے برابر تھا.چنانچہ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد آپ نے گاؤں میں ہی پرائمری تک تعلیم حاصل کی اور مزید تعلیم کے لئے گجرات جانا پڑا.جب مڈل کر چکے تو اب والدین کے ارادے کچھ اور تھے لیکن آپ کو مزید تعلیم کے حصول کا بہت شوق تھا.آخر یہی شوق انہیں چودہ پندرہ سال کی عمر میں ریاست بھوپال میں لے گیا.وہاں ایک سال کے لگ بھگ قیام کیا.اسی دوران آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بارہ میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری کی وساطت سے آگاہی حاصل ہوئی.مذہب سے آپ کو فطری لگاؤ تھا.دینی علم کی طرف آپ شروع سے ہی رغبت رکھتے تھے.اسی علمی ذوق و شوق کے باعث آپ ہمیشہ جرات و کاوش سے علمی تشنگی بجھانے اور تلاش حق کی جستجو پر ہر آن مائل رہتے تھے.۱۹۰۰ ء کے اواخر میں آپ بھوپال سے لاہور پہنچے اور ایک مسجد میں قیام کیا.لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سخت مخالفت تھی.آپ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے خلاف مذموم حرکات اور دشنام طرازیاں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا لیکن آپ اس وقت تک تسلی نہیں پاسکتے تھے جب تک کہ خود مطالعہ کر کے حقیقت حال معلوم نہ کر لیں.چنانچہ آپ قادیان پہنچے مسجد میں حضور علیہ السلام کے دیدار سے شرف یاب ہوئے.مجلس علم و عرفان میں بیٹھ کر حضور علیہ السلام کے ارشادات عالیہ سے مستفیض ہوئے اور جلد ہی حق و صداقت آپ پر ظاہر ہو گئی.آپ نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شمولیت کا اعزاز پایا.حصول علم کا شوق اتنا تھا کہ آپ واپس اپنے وطن صرف اس خدشہ کے باعث نہ گئے کہ کہیں ان کے والد انہیں و ہیں نہ روک لیں اپنی تعلیم قادیان میں جاری رکھی اور انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا.تب آپ کو مدرسہ احمدیہ میں بطور عربی استاد کے خدمت کا موقع ملا.شروع ہی سے آپ اپنے فرائض انتہائی احتیاط اور احساس ذمہ داری سے ادا کرنے کے عادی تھے.طالب علمی کے زمانہ ہی سے آپ مختلف النوع علمی مشاغل میں مصروف و منہمک رہتے.جب کبھی سلسلہ کے بزرگ مناظروں اور مباحثوں میں شریک ہوتے آپ بھی بڑے شوق سے حوالہ کی کتب باندھ کر ان کے ہمراہ ہو لیتے اور مناظروں کے دوران

Page 705

تاریخ احمدیت.جلد 24 665 سال 1968ء مختلف کتب میں سے ضروری حوالہ جات ڈھونڈ ڈھونڈ کر پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے.با موقع و بر محل ضروری حوالے نکال کر فریق مخالف کو لاجواب کرنے میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا.ذہن بہت باریک بین اور یادداشت بہت تیز تھی.بعض دفعہ تو مناظروں میں حصہ لینے والے بزرگ بھی حیرت کا اظہار کرتے کہ کس طرح آپ بحث کا رخ دیکھ کر از خود موقع محل کے مطابق موزوں حوالے سامنے رکھ دیتے تھے.ستمبر ۱۹۰۷ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وقف زندگی کی تحریک فرمائی.واقف زندگی کے لئے ایک شرط یہ تھی کہ کوئی معاوضہ نہ لوں گا چاہے مجھے درختوں کے پتے کھا کر گزارا کرنا پڑے میں گزارہ کروں گا اور تبلیغ کروں گا.اس عہد آفرین تحریک پر لبیک کہنے والے اولین گروہ میں آپ بھی شامل تھے.وقف کے لئے پیش کرنے والوں کی ابتدائی فہرست جو حضور علیہ السلام کی خدمت اقدس میں پیش کی گئی اس میں آپ کا گیارہواں نمبر تھا.مدرسہ احمدیہ قادیان میں دو اڑھائی سال آپ تعلیم و تدریس کی خدمت سے منسلک رہے اس کے بعد لاہور جا کر قانون کا امتحان پاس کرنے کی غرض سے پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا.خدا تعالیٰ نے کچھ وظیفہ کا بھی انتظام کر دیا.قانون کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ نے پریکٹس شروع کی اور ابتداء میں ہی اچھی خاصی کامیابی حاصل ہوئی.مقدمات کی پیروی اور قانونی امور میں آپ بہت احتیاط اور انہماک کے ساتھ پوری ذمہ داری سے اپنے فرائض تقویٰ کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر سرانجام دیتے.غلط مقدمات اور جھوٹی گواہیوں کا تصور بھی آپ اپنے ذہن میں نہ لاتے تھے.اس سلسلہ میں آپ کے اخلاق و کردار اور پیشہ وارانہ قابلیت پر آپ کے بعض بزرگ رفقائے کار کے الفضل میں مضامین شائع ہو چکے ہیں.۱۹۱۲ء کے لگ بھگ آپ بہت بیمار ہو گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الا ول آپ کو بہت عزیز رکھتے تھے.جب آپ کو اس بیماری کا علم ہوا تو مسجد میں آپ کے لئے دعا کی خاص تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک کام کا آدمی ہمارے ہاتھ سے جا رہا ہے.دوست ان کی صحت کے لئے دعا کریں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی رنگ میں صحت عطا فرمائی.خلافت ثانیہ کا بابرکت دور شروع ہوا تو حضرت مصلح موعود نے ۱۹۱۶ء میں آپ کو قادیان میں طلب فرمایا.آپ فوراً اپنی پریکٹس کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہ کر قادیان آگئے اور پھر عمر بھر خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہے.یکم جنوری ۱۹۱۹ء کو جب صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کا قیام عمل میں آیا تو

Page 706

تاریخ احمدیت.جلد 24 666 سال 1968ء حضور نے آپ کو قضا میں مقرر فرمایا.بعد ازاں آپ مشیر قانونی کے عہدہ پر ممتاز ہوئے اور سالہا سال تک اس نہایت اہم اور نازک فریضہ کو انتہائی بے جگری کے ساتھ والہانہ انداز میں انجام دیتے رہے.مقدمات کی تیاری کے سلسلہ میں آپ کی توجہ، محنت اور انجاک ضرب المثل تھا.آپ کسی مقدمہ کے مثبت اور مضبوط پہلوؤں پر ہی نگاہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہمیشہ یہ کوشش کرتے کہ مقدمہ کے کمزور پہلوؤں کو ثبوت اور دلائل سے مضبوط کر کے کمرہ عدالت میں داخل ہوں.آپ مقدمہ کی تیاری اور پیروی کرتے ہوئے اپنی کلی توجہ اور انہماک کے باعث مقدمہ سے یوں چمٹ جاتے تھے کہ فریق مخالف کے بڑے قابل اور ہوشیار وکیل بھی آپ کی بحث اور دلائل سے بچ کر نہیں نکل سکتے تھے.غالبا ۱۹۳۷ء میں ایک مقدمہ بٹالہ کی عدالت میں پیش تھا.صرف ایک سال کے عرصہ میں ایک سو گیارہ دفعہ عدالت کی نشست ہوئی.باوجود یکہ آپ کا قادیان میں مکان اسٹیشن سے بہت دور تھا لیکن ہر صبح پانچ بجے کی گاڑی سے بٹالہ جانے کے لئے بر وقت پہنچ جاتے.شام چار بجے جب عدالت برخواست ہوتی تو ساڑھے چار بجے کی ٹرین سے واپس قادیان آتے.اگر کبھی گاڑی چھوٹ جاتی تو پھر رات نو بجے والی گاڑی سے واپسی ہوتی لیکن آپ کبھی لیٹ یا بغیر تیاری عدالت میں نہیں گئے.حضرت مولوی صاحب بہت وضعدار نفاست پسند ، اپنوں اور غیروں کے کام آنے والے تھے.مہمان نوازی سے بہت خوشی محسوس کرتے تھے.ہر چھوٹے بڑے سے بہت پیار سے اور عزت سے ملتے.سنجیدہ علمی ذوق اور مشاغل کے ساتھ ساتھ آپ کی گفتگو زندہ دلی کی حامل بھی ہوتی تھی.بہت حلیم الطبع تھے.کسی کی ذراسی تکلیف بھی بے چین کر دیتی تھی.بہت صابر بزرگ تھے.چہرہ پر ہمیشہ اطمینان اور صبر وسکون کی جھلک نمایاں رہتی.ابتداء میں پرائیویٹ وکالت شروع کی تو بھی اپنا قومی لباس پہنتے اور چار پانچ پگڑیاں تیار رہتیں جو آپ صبح و شام اہتمام سے بدلتے.بعد میں جب حضرت المصلح الموعود نے قادیان طلب فرمایا اور مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے تو آپ کے پاس اگر چہ ایک ہی عمامہ ہوتا لیکن اسے رات کو دھلوا ر کھتے تھے.بہت غیرت مند اور بے نفس انسان تھے.دنیا داری کی کوئی بات ان میں نہ تھی.صدر انجمن کی ملازمت سے جب ریٹائر ہونے کے قریب تھے تو اس وقت آپ کی تنخواہ ڈیڑھ صد روپیہ کے لگ بھگ تھی.حضرت امصلح الموعود کو جب آپ کی اتنی کم تنخواہ کا علم ہوا تو حیران ہوئے اور اس تنخواہ کو تقریباً دگنا کرنے کا حکم ارشاد فرمایا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کی

Page 707

تاریخ احمدیت.جلد 24 667 سال 1968ء سہولت کے لئے ایسے سامان پیدا کر دئے کہ تھوڑے عرصہ بعد جب آپ ریٹائر ہوئے تو جتنی تنخواہ آپ لیتے رہے تھے اتنی ہی پنشن مقرر ہو گئی.اس پر آپ نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا لیکن اپنی قلیل تنخواہ ہونے کا اظہار کبھی نہ کرتے تھے.اپنے جائز حق کے حصول کے لئے بھی اپنی زبان کھولنا گوارا نہ کرتے تھے.“ 26 حضرت مولوی فضل الدین صاحب حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی کے داماد اور حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے ہم زلف تھے.حضرت شیخ محمد دین صاحب سابق مختار عام صدرانجمن احمد یہ تحریر فرماتے ہیں:.مکرم مولوی صاحب مرحوم احمدیت کے لئے خاص غیرت، محبت اور عقیدت رکھتے تھے.مطالعہ کا بڑا شوق تھا.غیر معمولی دماغ کے مالک تھے.کسی چیز کی تہہ تک پہنچنے کا ان کو فطرتی ملکہ حاصل تھا.گوقوت بیانیہ زیادہ نہ تھی مگر اپنے مافی الضمیر کو احاطہ تحریر میں لانے کی ان میں بدرجہ اتم استعداداور قابلیت موجود تھی.جماعت میں ان کو ایک عالم اور محقق کی حیثیت بھی حاصل تھی.مکرم مولوی صاحب مرحوم طویل عرصہ تک صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی رہے ہیں اور خاکسار انجمن کا مختار عام تھا.اس لئے مکرم مولوی صاحب اور خاکسار کا تعلق چولی دامن کا تھا.صدر انجمن کے اکثر مقدمات و تنازعات میں مکرم مولوی صاحب اپنی قانونی رائے پیش کرتے اور اس کے لئے ضروری مواد جمع کرتے تھے.مقدمہ کے مالہ وما علیہ اور جملہ مواد انتہائی محنت سے تیار کرتے تھے.بعض اہم مقدمات میں مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور، مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ اور مکرم شیخ ارشد علی صاحب ایڈووکیٹ سیالکوٹ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے مقدمات کی پیروی کیا کرتے تھے اور مشیر قانونی کی حیثیت سے کیس کے لئے جملہ مواد مہیا کرنا مکرم مولوی صاحب مرحوم کے سپرد ہوتا تھا.مندرجہ بالا وکلاء صاحبان مولوی صاحب مرحوم کے تیار کردہ مواد اور ریکارڈ سے استفادہ کر کے عدالت میں بحث کیا کرتے تھے.مقدمات کے مواد اور ریکارڈ کے تیار کرنے میں خاکسار بھی مولوی صاحب کی مدد کیا کرتا تھا.میں اس امر کی شہادت دیتا ہوں کہ میں نے مکرم مولوی صاحب کو بہت ہی محنتی انتھک اور وفادار خادم سلسلہ پایا.مرحوم مقدمات کا تاریخی مواد اور اس سلسلہ میں تمام مسلوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرتے تھے.مطالعہ اور ورق گردانی کرتے وقت مکرم مولوی صاحب کو بہت ہی انہماک ہوتا تھا.

Page 708

تاریخ احمدیت.جلد 24 668 سال 1968ء تقسیم ملک سے پہلے بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ وکلا ء صاحبان کسی مقدمہ کے سلسلہ میں عدالت کے رویہ اور فریق ثانی کی ذہنیت کے پیش نظر نیا ریکارڈ تیار کرنے کا مشورہ دیتے.ان کے ایماء پر اور سلسلہ کے مفاد کی خاطر جبکہ مقدمہ کی تاریخ دوسرے دن ہوتی ،مولوی صاحب نیاریکارڈ تیار کرنے میں منہمک ہو جاتے.بعض اوقات رات کے بارہ بجے تک ہم دونوں اس سلسلے میں کام کرتے تھے لیکن پھر بھی اگلے دن مولوی صاحب مرحوم گورداسپور جانے کے لئے صبح ریلوے اسٹیشن قادیان پر مجھ سے پہلے پہنچے ہوتے تھے جبکہ مولوی صاحب کا گھر محلہ دارالرحمت میں اور عاجز کا گھر محلہ دار البرکات میں ریلوے سٹیشن کے نزدیک ہی تھا.۱۹۳۴ء و ۱۹۳۵ء جماعت احمدیہ کی تاریخ میں خاص سال تھے.اس وقت کی انگریزی حکومت اور گورنر مسٹر ایمرسن اپنے زعم میں جماعت احمدیہ کو ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے.ہر قسم کے معاندانہ اور مخالفانہ حربے جماعت کے خلاف استعمال کئے گئے مگر تائید ایزدی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی قیادت ، ذہانت اور آپ کی روحانیت نے سفینہ احمدیت کو ان متلاطم امواج میں سے ساحلِ سمندر پر بتمام حفاظت پہنچادیا.مقدمہ عید گاہ ، مقدمہ ریتی چھلہ اور مقدمہ قبرستان ایک منظم اور سوچی سمجھی سازش کے ماتحت کئے گئے اور یہ مقدمات تاریخ احمدیت میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں جبکہ انگریزی حکام کی پالیسی سراسر مخالفانہ تھی.ایک واقعہ بھی نہیں بھولتا.قادیان کی قدیم عید گاہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کی مقبوضہ تھی اور قادیان کے مغرب کی طرف واقع ہے.اس عید گاہ کے پاس ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندانی قبرستان موجود ہے جس میں حضور علیہ السلام کی والدہ ماجدہ، حضور علیہ السلام کے بھائی مرزا غلام قادر صاحب اور حضور علیہ السلام کے پردادا مرزا گل محمد صاحب وغیر ہم مدفون ہیں.ہمارے لئے یہ ایک تاریخی مقام ہے اس عیدگاہ کی زمین کی پیمائش اور بعض جگہوں کو ہموار کرنے کیلئے میں کام کی نگرانی کر رہا تھا.قادیان کے ایک سب انسپکٹر سردار خوشحال سنگھ نے مجھے ہتھکڑی لگالی اور اس کے علاوہ آٹھ اور احمدیوں کو بھی ہتھکڑی لگا لی.مہتہ عبدالرزاق صاحب ابن حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اس منظر کا فوٹو لے رہے تھے ان کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور ہمیں عمداً قادیان کے ہند و بازار کا طویل راستہ اختیار کرتے ہوئے ہتھکڑیوں سمیت لایا گیا.مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت ڈاکٹر سیف الدین صاحب کچلو بھی قادیان آئے تھے اور اس مقدمہ میں بھی وہ پیش ہوئے.اس وقت مرحوم مولوی صاحب نے اس مقدمہ اور عید گاہ کی اراضی کا

Page 709

تاریخ احمدیت.جلد 24 669 سال 1968ء ریکا رڈ اس محنت اور قابلیت سے تیار کیا کہ دل عش عش کرتا تھا.آپ کا نام منارہ مسیح کے کتبہ پر ۲۰۷ نمبر پر درج ہے.27 جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مولف اصحاب احمد قادیان کے قلم سے رسالہ البصیرت (بریڈ فورڈ) اگست ۱۹۸۹ء کے صفحہ ۴۴ تا ۴۹ میں حضرت مولوی فضل الدین صاحب کے حسب ذیل حالات و خدمات اشاعت پذیر ہوئے جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :.حضرت مولوی فضل الدین صاحب سالہا سال تک مدرسہ احمدیہ میں عربی کے مدرس رہے.صدر انجمن احمدیہ نے یونیورسٹی کی طرز پر مدرسہ احمدیہ کی بعض کلاسوں کا امتحان لینے کا انتظام مقرر کرنے کے لئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور تین اور بزرگان کو مقرر کیا.جن میں مولوی صاحب بھی شامل تھے.پندرہ منتوں میں بھی آپ کو شامل کیا گیا.1919ء میں آپ افسر صیغہ تھے ای سال صدر انجمن احمد یہ میں نظارتوں کے قیام پر آپ ناظم قضاء مقرر ہوئے.29 سلسلہ احمدیہ کی مرکزی لائبریری جو حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے کتب خانہ ، صادق لائبریری و تشخیز در یویو وقفہ لائبریری کی ہزار ہا بیش قیمت کتب پر مشتمل تھی.کچھ عرصہ آپ کی زیر نگرانی رہی.بعض اوقات تبلیغی میدان میں آپ کو بھجوایا جاتا رہا مثلاً آپ اور ایک شخص سکندر آباد تشریف لے 30 گئے جہاں مولوی ثناء اللہ صاحب گئے ہوئے تھے اور تبلیغ کا اچھا موقع نکل آنے کی توقع تھی.ناظر امور عامه و خارجہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی پیش کردہ سالانہ رپورٹ بابت ۲۹ - ۱۹۲۸ء میں مذکور ہے کہ بمقد مہ احمدیہ مسجد شاہجہانپور، ڈسٹرکٹ جج کی عدالت میں دائر شدہ اپیل کے لئے مولوی فضل الدین صاحب مشیر قانونی و مولوی محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ نے وہاں آٹھ دس دن ٹھہر کر تیاری کی.عدالت ماتحت کی سماعت کے سلسلہ میں حضرت مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر اعلیٰ نے سلسلہ ذیل کی رپورٹ مجلس معتمدین وصدر انجمن احمد یہ میں پیش کی کہ :.مقدمہ مسجد احد یہ شاہجہانپور میں مولوی فضل دین صاحب وکیل نے تقریباً ۳ ماہ مسلسل محنت کی ہے اور اسی طرح محمد احمد صاحب پلیڈر نے ایک ماہ چند روز ، اور مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل نے بھی محنت کی ہے اور چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مقدمہ میں خوب بحث کی ہے.سلسلہ کے وقار کو ان حضرات کی کوشش جانکاہ اور محنت عظیم سے بہت نفع پہنچا ہے.سید مختار احمد صاحب لکھتے ہیں

Page 710

تاریخ احمدیت.جلد 24 670 سال 1968ء که مولوی فضل دین صاحب اور محمد احمد صاحب نے دن کو دن اور رات کو رات نہیں سمجھا ، دن رات لگا تار محنت کی ہے.اللہ تعالیٰ ہی انہیں جزائے خیر دے سکتا ہے پس...مجلس ان چاروں احباب کی محنت کے اعتراف کا اور شکریہ کا ووٹ پاس کرے.پیش ہو کر فیصلہ ہوا کہ واقعی مولوی فضل دین صاحب اور محمد احمد صاحب اور مولوی غلام احمد صاحب نے جس محنت اور جانفشانی سے اس مقدمہ کی پیروی میں کوشش کی ہے وہ خاص طور پر قابل شکریہ ہے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از پیش خدمات بجالانے کی توفیق رفیق بخشے.ناظر اعلی مجلس کی طرف سے ان ہر سہ احباب کا تحریری شکر یہ ادا کریں.مولوی فضل دین صاحب خصوصیت کے ساتھ اس شکریہ کے حقدار ہیں.اسی طرح چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے جس طرح اپنا قیمتی وقت دے کر نہایت قابلیت کے ساتھ مقدمہ کی بحث کی ہے وہ انہی کا حصہ ہے.ان کی خدمت میں بھی شکریہ کا خط لکھا جائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں ان چہار احباب کے لئے دعاؤں کی تحریک کی جائے.آپ کی علمی و قلمی خدمات آپ اس طبقہ کے علماء سلسلہ میں سے تھے جو سلسلہ اور مخالفین دونوں کے لٹریچر پر گہری نظر رکھتے ہیں.نئی تصانیف کی منظوری دینے سے پہلے ہمیشہ نظر ثانی کسی عالم سے کرائی جاتی ہے.آپ کے سپرد بھی بعض دفعہ ایسا کام ہوا مثلاً ایک نہایت تکلیف دہ فتنہ کے اعتراضات کے جواب کے مسودہ کی 34 33 نظر ثانی آپ نے کی.آپ کے اعلی پایہ کے تحقیقی مضامین آپ کی یادگار ہیں.چنانچہ بہائیت کے بارے میں تحقیقات کا سہرا آپ کے سر پر ہے.الفضل میں ستمبر تا نومبر ۱۹۲۷ء میں متعدد اقساط میں ”بہائی مذہب کے چند الہامی معمے اور مئی ۱۹۲۸ء میں بہائیت میں فرقہ بندی" پر آپ کے انمول مضامین درج ہیں.الفضل ۲ دسمبر ۱۹۲۷ء میں سلسلہ کے بک ڈپو قادیان کی طرف سے حضرت مولوی فضل الدین صاحب کی بہائیت سے گہری واقفیت کا ذکر کر کے بتایا گیا ہے کہ آپ کے مضامین ” مرزا حسین علی المعروف بہ بہاء اللہ کے دعویٰ مسیحیت پر ایک نظر“ کے نام سے شائع کئے گئے ہیں.مولوی صاحب کی طرف سے ان میں نہایت ہی شرح وبسط سے روشنی ڈالی گئی ہے.اور ہر ایک کا ثبوت خودا نہی کی مسلمہ کتابوں سے دیا گیا ہے.تاریخ احمدیت جلد سوم کے مطابق آپ کی مشہور تصانیف یہ ہیں:.

Page 711

تاریخ احمدیت.جلد 24 671 سال 1968ء جماعت مبائعین کے عقائد صحیحہ نعم الوکیل.التشریح صحیح.جواب کلمہ فضل رحمانی اور بہائی مذہب کی حقیقت.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف شدید گندی کتاب شائع ہونے پر ہندو مسلم تعلقات میں بھاری کشیدگی پیدا ہوئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے وائسرائے ہندلا رڈارون کو ہندو مسلم اتحاد کے بارے مفصل تجاویز پیش کیں.سر شفیع کی صدارت میں لاہور میں تقریر فرمائی.شملہ میں چوٹی کے ہندو اور مسلم لیڈروں سے ملاقاتیں کیں.ابتدا مئی ۱۹۲۷ء میں لاہور میں دوصد معصوم مسلم افراد شہید کئے جاچکے تھے.آپ نے اس موقعہ پر فوری طور پر بزرگان علی برادران کے بڑے بھائی ذوالفقار علی خاں صاحب ناظر اعلیٰ مفتی محمد صادق صاحب ناظر امور خارجه و عامه ، مولوی فضل الدین صاحب اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کو بھجوایا.مسجد احمدیہ میں شعبہ اطلاعات قائم کر کے مقتولین اور ان کے پسماندگان اور زخمیوں کے متعلق اطلاعات حاصل کرنے کا کام پندرہ گھنٹے روزانہ کیا گیا.حکام سے ملاقاتیں ہوئیں.زیر حراست مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی اور ان کے اقلاب کو انہوں نے تسلی دی.احمدی ڈاکٹروں کا زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے ہسپتال جانے کا اہتمام کیا.مسلم ریلیف کمیٹی کے مطالبہ پرتفصیلی کوائف فراہم کرنے کے لئے (اسلامیہ کالج) کے برکت علی ہال میں دفتر کھولا گیا.ابتداء میں ہی حضور کے پوسٹر ” فسادات لاہور پر تبصرہ شائع کرنے سے اور اس کی تقلید میں مسلمانوں اور ہندو اور سکھوں کی طرف سے پوسٹر شائع کرنے سے ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشتعل طبائع میں تسکین پیدا ہوئی.یہ چاروں بزرگان خدمت کے لئے کئی ماہ تک لاہور میں مقیم رہے.اس ہندو مسلم کشیدگی کا ایک باعث لاہور ہائیکورٹ کے ایک حج کا یہ فیصلہ بھی ہوا کہ:.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک گندی کتاب شائع کرنے والے کو قانون کے مطابق سزا نہیں دی جاسکتی“.ایسے حالات کے باعث مسلمانوں کی انتہائی پسماندگی اور پنجاب ہائیکورٹ کے مسلمان ججوں کی صورت میں کم نمائندگی تھی.چنانچہ حضور نے پنجاب اور صوبہ سرحد میں ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو جلسے منعقد کرنے کی تلقین فرمائی.تاکہ مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو.ان جلسوں میں یہ قراردادیں منظور کی گئیں کہ اسلام اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جو گندہ اور دل آزارلٹریچر شائع ہورہا

Page 712

تاریخ احمدیت.جلد 24 672 سال 1968ء ہے اس کے انسداد کا انتظام کیا جائے“.پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے لاہور ہائیکورٹ میں مسلم جوں کی تعداد کم ہے.اس میں اضافہ کیا جائے“.کنور دلیپ سنگھ کے فیصلہ سے تو دیگر انبیاء علیہم السلام اور بزرگان دین کی عزتیں بھی محفوظ نہیں رہتیں، کنور مذکور کے بارے میں مسلم آؤٹ لگ کے ایڈیٹر سید دلاور شاہ اور پرنٹر پبلشر نے جو کچھ لکھا ہے وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور جوش کی وجہ سے لکھا ہے ان کو اور دیگر افراد کو قید سے رہا کیا جائے.کنور مذکور کے عارضی تقریر میں توسیع نہ کی جائے کہ اس نے واضح قانون کے بارے میں غلطی کھائی.اور پنجاب کے صوبہ کے مسلم طبقہ کو جوا کثریت میں ہے کنور پر اعتماد نہیں رہا.مسلمان با ہم اتحاد قائم کریں.سود پر روپیہ نہ لیں.سرکاری بنک کھلوا کر ان سے قرض لیں“ اور اپنی اقتصادی بہتری کی طرف توجہ دیں“.اس روز مسجد اقصیٰ قادیان میں یہ جلسہ حضور پُر نور کی صدارت میں منعقد ہوا.جس میں قادیان و مضافات کے ہر عقیدہ کے مسلمانوں نے شرکت کی اور چودہ قرارداد میں متفقہ طور پر منظور کی گئیں.ایک قرار داد مولوی فضل الدین صاحب نے پیش کی تھی.حضور کی بھر پور کوشش سے گورنمنٹ مجبور ہوئی اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کو جو رخصت پر انگلستان جارہے تھے بمبئی سے واپس بلا کر تحفظ ناموس کے سلسلہ میں قانون میں ترامیم کرائی گئیں.اس زمانہ میں حضور کی ایسی تحریکات کو مسلم اعلیٰ طبقہ اور عوام بے مثال سمجھتے تھے اور مسلم اخبارات بڑی باقاعدگی سے ان کو شائع کرتے تھے اور حضور کی مدح میں رطب اللسان تھے.اس زمانہ سے ہی متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت سدھرنے لگی تھی.مجلس مشاورت میں شرکت مجلس مشاورت کا آغاز حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے ۱۹۲۲ء میں فرمایا تھا.اس کی اہمیت اور علق شان آپ نے کئی بار بیان کی تھی مثلاً آپ نے فرمایا:.

Page 713

تاریخ احمدیت.جلد 24 673 سال 1968ء اس مجلس کی ممبری...اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ 38 کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا ، اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گئے.سرسری جائزہ سے حضرت مولوی فضل الدین صاحب کا ۱۹۲۲ تا ۱۹۲۴ء، ۱۹۲۷ء تا ۱۹۲۹ء، ۱۹۴۳ ء اور ۱۹۴۴ء کی گویا آٹھ مجالس میں شرکت کی سعادت پانے کا علم ہوتا ہے.آپ کا انتقال و تدفین الفضل اس مئی ۱۹۶۸ء جلد ۵۷ شمارہ ۱۲۰ نے نہایت رنج اور افسوس کے ساتھ یہ خبر شائع کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی، سلسلہ عالیہ احمدیہ کے قدیم خادم، نہایت پاکباز، بےنفس بزرگ، اور متجر عالم حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل ۲۹ (هجرت) مئی ۱۹۶۸ء کو اندازاً پچاسی سال کی عمر میں رحلت فرما گئے.دوسرے روز سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.مقبرہ بہشتی کے قطعہ صحابہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.حضور انور نے جنازہ کو کندھا دیا اور مقبرہ بہشتی میں قبر تیار ہونے پر حضور نے ہی دعا کرائی.اولاد 39 (۱) چوہدری صلاح الدین صاحب راولپنڈی.(۲) چوہدری عمادالدین صاحب کینیڈا (۳) چوہدری شاہد احمد صاحب شمیم.لندن.(۴) چوہدری طاہر احمد صاحب جاوید.پاک نیوی.(۵) خورشید صاحبہ.(۶) کشور صاحبہ.(۷) بشری بیگم صاحبہ اہلیہ منور شیم خالد صاحب.ت لیفٹیننٹ ملک مظفر احمد صاحب آف لاہور ولادت: ۸۹-۱۸۸۸ء دستی بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۶ / ۷ جون ۱۹۶۸ء آپ کا اصل وطن دھرم کوٹ رندھا و اضلع گورداسپور ہے.آپ کی پیدائش بدوملہی ضلع سیالکوٹ میں ہوئی جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی.پھر کچھ عرصہ کیلئے اپنے چچا صاحب کے ہاں ایبٹ آباد چلے گئے.۱۹۰۳ء میں آپ اپنے والد ملک علی محمد صاحب پٹواری کے حکم سے قادیان چلے گئے اور چھٹی جماعت میں داخلہ لیا اور ۱۹۰۷ء میں وہاں سے میٹرک پاس کیا.اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا لیکن ۱۹۰۸ء میں اپنے والد صاحب کی وفات کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے.اس لئے

Page 714

تاریخ احمدیت.جلد 24 674 سال 1968ء ملازمت کر کے اپنی والدہ صاحبہ اور بہن بھائیوں کی خدمت کا بیڑا اٹھا لیا.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں ۱۹۰۳ء میں قادیان کیلئے روانہ ہوا تو بٹالہ پہنچ کر اڈہ میں کسی ٹانگہ کی انتظار میں کھڑا تھا.جہاں مجھے حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہی مل گئے.وہ بھی قادیان تشریف لے جارہے تھے.انہوں نے مجھ سے پوچھا بیٹا کہاں جاؤ گے؟ میں نے جواب دیا کہ قادیان تعلیم حاصل کرنے کے لئے جا رہا ہوں.حضرت مولوی صاحب بہت خوش ہوئے اور انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ ہی ٹانگہ میں بٹھا لیا.جب ٹانگہ مسجد مبارک کے چوک میں پہنچا تو حضرت مولوی صاحب مجھے بھی مسجد میں لے گئے اور دروازہ پر دستک دی.اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود تشریف لائے.حضور نے دروازہ کھولا تو فرمایا السلام علیکم اور پھر حضور نے فرمایا تشریف رکھئے میں ابھی آتا ہوں.چند منٹ بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں دو پیالے دودھ کے تھے.ایک پیالہ حضور نے مجھے دیا اور ایک حضرت مولوی صاحب کو دیا اور فرمایا پی لیں.دودھ پینے کے بعد حضور نے میرے متعلق دریافت فرمایا تو حضرت مولوی صاحب نے تعارف کرایا کہ لڑکا مجھے بٹالہ ملا تھا اور تعلیم کیلئے قادیان آیا ہے.حضور خوش ہوئے.اس دن سے حضور کے ساتھ ایسا تعارف پیدا ہو گیا کہ حضور مجھے اچھی طرح سے پہچان لیتے تھے.کئی دفعہ حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہوتا اور حضور ہر طرح سے میرا خیال رکھتے.ملک صاحب کو حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید عزیز اللہ شاہ صاحب کے کلاس فیلو ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.بعض اوقات جب یہ بزرگ چھٹیوں میں قادیان سے آتے تو بدوملہی سے آپ کے والد ملک علی محمد صاحب پٹواری گھوڑیوں کا انتظام فرما کران کو رعیہ بھجوا دیتے جہاں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب قیام فرما تھے.آپ ۱۹۰۸ء سے لے کر ۱۹۳۱ء تک ایبٹ آباد کے ایک فوجی دفتر میں بطور کلرک ملازم ہو کر بعہدہ انڈین آفیسر ریٹائر ہوئے.۱۹۴۰ء میں دوسری عالمگیر جنگ کے دوران آپ کو پھر فوج میں بلالیا گیا اور وہاں سے بعہدہ لیفٹیننٹ جنوری ۱۹۴۹ء میں سیالکوٹ سے ریٹائر ہوئے.آپ نے تقسیم ملک کے بعد حلقہ سول لائنز لا ہور میں کئی سال تک بطور سیکرٹری امور عامہ قابل قدر کام کیا.حفاظت مرکز میں بھی جبکہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا دفتر لاہور میں تھا آپ نے کئی سال تک حضرت صاحبزادہ صاحب کا ہاتھ بٹایا.ملک صاحب صاحب کشف و رؤیا ، شب بیدار اور بلند اخلاق کے مالک تھے.تبلیغ کا بہت شوق

Page 715

تاریخ احمدیت.جلد 24 675 سال 1968ء اور خاص ملکہ رکھتے تھے.ڈاکٹر فضل کریم صاحب قادیان ، کیپٹن مرزا عمر حیات صاحب آف بنوں اور دیگر کئی افراد آپ کے ذریعہ سے داخلِ احمدیت ہوئے.آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا.حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل سے آپ بہت محبت رکھتے تھے اور اکثر ان کی صحبت میں بیٹھتے تھے.شیخ عبدالحمید صاحب عاجز سابق ناظر جائیدادوناظر تعلیم کا بیان ہے کہ:.محترم ملک مظفر احمد صاحب مرحوم کے ایک چچا مکرم حسین بخش صاحب مرحوم خاکسار کے حقیقی نانا تھے.ملک صاحب مرحوم کے والد علی محمد صاحب بدوملہی میں پٹواری تھے اور محترم ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب مرحوم رعیہ میں ڈاکٹر تھے.ہر دو کے دوستانہ تعلقات تھے.اور محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنے تین بیٹے محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب، سید حبیب اللہ شاہ صاحب ،سید عزیز اللہ شاہ صاحب قادیان میں تعلیم کیلئے بھجوائے.اس طرح یہ اصحاب بھی محترم ملک مظفر احمد صاحب کے دوست تھے.ملک صاحب مرحوم حضرت مولوی شیر علی صاحب کے شاگرد تھے.اور انگریزی میں ان کو عموماً ۹۵ فیصد نمبر ملا کرتے تھے.جب ۳۳-۱۹۳۲ء میں مکرم ملک صاحب ملٹری سے ریٹائر ڈ ہو کر قادیان آئے ان دنوں حضرت مولوی شیر علی صاحب ترجمۃ القرآن انگریزی کا کام کر رہے تھے.انہوں نے ملک صاحب کو فرمایا کہ وہ بھی اس کام میں حصہ لینے کیلئے آیا کریں.چنانچہ مکرم ملک صاحب کئی ماہ حضرت مولوی صاحب کے دفتر میں با قاعدگی سے جانے لگے.....تقسیم ملک کے بعد جبکہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا دفتر لاہور میں تھا آپ کافی عرصہ حضرت میاں صاحب کے ساتھ حفاظت مرکز کا کام کرتے رہے.ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ مظفر احمد تو میرے ملٹری سیکرٹری ہیں.۱۹۳۱ء میں آپ نے اپنے بال بچے قادیان میں مستقل رہائش کیلئے بھجوا دئیے تا کہ وہ اس ماحول میں تعلیم و تربیت حاصل کر سکیں.۱۹۳۴ء کا زمانہ مالی مشکلات کے دور کا تھا.اور قدرے بیکاری کا وقت تھا.احمد نگر میں ایک آفیسر ز سمال آرمز سکول کھلا جس کے انتظام کیلئے ایک ایماندار اور قابل آدمی کی ضرورت تھی.اس آسامی کیلئے اخبار میں اشتہار بھی حکومت کی طرف سے دیا گیا.ایک انگریز کرنل جو آپ کے بڑے مداح تھے نے مکرم ملک صاحب مرحوم کو لکھا کہ درخواست بھیج دو.اور خود اس درخواست پر زور دار سفارش بھی کر دی.اس کام کیلئے کئی سو درخواستیں تھیں.جب انگریز افسروں کے

Page 716

تاریخ احمدیت.جلد 24 676 سال 1968ء بورڈ کے سامنے ملک صاحب مرحوم کی درخواست کرنل صاحب کی سفارش کے ساتھ پیش ہوئی تو بورڈ کے ممبروں نے ملک صاحب کا انتخاب کر لیا.اس ملازمت کے متعلق انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا.ملک صاحب مرحوم عرصہ پانچ سال تک احمد نگر میں ملازم رہے.اور ۱۹۳۹ء میں واپس قادیان آ گئے.۱۹۴۰ء میں جنگ کی وجہ سے ان کو پھر فوج میں جانا پڑا.آپ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب کتب گھر میں رکھتے اور ان کا بغور مطالعہ کرتے.کتب پر جابجا نوٹ لکھے ہوتے.یہ نشان میرے سامنے پورا ہوا اس نشان کا میں خود گواہ ہوں “ وغیرہ.آپ کو فارسی زبان پر بہت عبور تھا.حضرت مولوی عبید اللہ صاحب بسمل مرحوم جو فارسی کے عالم فاضل اور شاعر تھے اور ان کے نہال سے قریبی رشتے دار تھے.اکثر ان کی صحبت میں بیٹھتے تھے.آپ آخری عمر میں بھی نمازوں کیلئے جو دھامل بلڈنگ نماز با جماعت ادا کر نے کیلئے باقاعدہ جاتے.اولاد ,9966, (۱) ڈاکٹر ملک ممتاز احمد صاحب (فیصل آباد ).(۲) ملک منور احمد صاحب.(۳) لیفٹینینٹ کرنل اعجاز احمد صاحب.(۴) ملک ذکاء اللہ صاحب.(۵) ملک سلیم احمد صاحب وکیل لاہور.(۶) قمر النساء صاحبہ بی.اے، بی.ٹی.(۷) ضیاء النساء صاحبہ ایم.اے لیکچرار گورنمنٹ کالج سرگودھا.I حضرت سید محمد اکبر شاہ صاحب ولادت: ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۹۰۵ء 2 وفات: ۲۰ جون ۱۹۶۸ء 41 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور پھلدر ضلع جالندھر کے رہنے والے تھے.بوقت وفات آپ کی عمر سو سال کے لگ بھگ تھی.آپ کی نماز جنازہ قاضی محمد نذیر لائنکپوری صاحب نے پڑھائی اور قبر تیار ہونے پر حضرت حکیم عبدالرحمن صاحب آف ماچھی واڑہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعا کروائی.آپ مکرم سید محمد رفیق شاہ صاحب نقشہ نویس دارالرحمت کے تایا تھے.اولاد ذکر یہ صاحبہ ، عزیز فاطمه صاحبه حضرت مولوی عبدالواحد خان صاحب میرٹھی ولادت: فروری ۱۸۷۱ء بیعت : ۱۸۹۶ء وفات: ۲۱ جون ۱۹۶۸ء آپ کے والد محترم کا نام محمد رمضان تھا.آپ فروری ۱۸۷۱ء میں پیدا ہوئے.میٹرک پاس کیا

Page 717

تاریخ احمدیت.جلد 24 677 سال 1968ء اور مولوی عالم تک تعلیم حاصل کی.آپ سیالکوٹ میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے درس میں شامل ہوتے تھے.اسی طرح بعض اور احمدی بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملتا رہا.نیک صحبت، درس میں شمولیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند کتب کا مطالعہ آپ کے شرح صدر اور آپ کی سعید فطرت میں تخم ریزی اور آبپاشی کا موجب بنا.آپ نے بیعت کے متعلق کسی سے مشورہ نہیں لیا اور مکرم مولوی مبارک علی صاحب کے ہمراہ دسمبر ۱۸۹۶ء میں قادیان پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے.حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے از راہ شفقت آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گرم واسکٹ بطور تبرک عنایت فرمائی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعوت الی اللہ کا ایک خاص شوق عطا فرمایا تھا.آپ جہاں ملازمت کرتے تھے وہاں اپنے انگریز افسر کو دعوت الی اللہ کرتے رہے اسی طرح آپ کے سسرال کے چالیس افراد آپ کی دعوت سے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ ایک دعا گو بزرگ تھے.آپ کی قبولیت دعا کے کئی واقعات مشہور ہیں.آپ ۲۱ جون ۱۹۶۸ء کو فوت ہوئے اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے.آپ کئی سال احمد یہ ہال کراچی میں رہائش پذیر رہے.- اولاد ۱.عبدالحئی خان صاحب ۲.اقبال احمد خان صاحب مرحوم حضرت حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی ولادت قریباً ۱۸۸۰ء بیعت تحریری: ۹۵-۱۸۹۴ء بیعت دستی : ۱۸۹۷ء وفات: ۱۴ جولائی ۱۹۶۸ء حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے بڑے بھائی تھے.آپ اپنے برادر اکبر حضرت محمد یوسف صاحب خرامی کے ذریعہ داخلِ احمدیت ہوئے.پہلی بار آپ وسط ۱۸۹۷ء میں زیارت مسیح موعود علیہ السلام کی غرض سے قادیان پہنچے اور جلسہ احباب ( منعقدہ ۲۲ جون ۱۸۹۷ء) میں شرکت فرمائی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شامل جلسہ ہونے والے مخلصین کی مفصل فہرست شائع فرمائی اور ۸۷ نمبر پر محمد یوسف صاحب کا اور ۸۸ نمبر پر آپ کا نام درج ہوا.حضرت حافظ صاحب بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس کے بعد میں متعدد بار قادیان گیا لیکن واقعات یاد نہیں رہے.مسجد مبارک میں نماز پڑھنا یاد ہے جس میں ایک صف میں بمشکل چھ آدمی کھڑے ہو سکتے تھے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے.حضرت مولوی

Page 718

تاریخ احمدیت.جلد 24 678 سال 1968ء صاحب کی خوش الحانی اور آواز کی بلندی دل پر خاص اثر کرتی تھی.آپ بیان کرتے تھے کہ ۱۹۰۷ء کے جلسہ سالانہ پر مجھے اور بھائی محمد یوسف صاحب کو اور چھوٹے بھائی ( حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب) کو قادیان آنے کا موقعہ ملا.ہم پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہوا کہ ہم گھر سے اس گاڑی سے بارہ گھنٹے پہلے روانہ ہو گئے جس گاڑی پر پٹیالہ سے را جپورہ اور راجپورہ سے امرتسر تک جایا کرتے تھے.اس لئے بفضلہ تعالیٰ ہم اس حادثہ سے بچ گئے جو کہ دوٹرینوں کے تصادم سے لا ہو وال اسٹیشن کے قریب ہوا تھا.اس جلسہ سالانہ میں جمعہ کی نماز کیلئے مسجد اقصیٰ میں پچھلی صف میں (حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کی ) قبر کے قریب ہم تینوں بھائی بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے سامنے اگلی صف میں آکر بیٹھ گئے.میری دلی خواہش تھی کہ حضور کو قریب سے دیکھ لوں.سو یہ خواہش پوری ہوگئی.فالحمد للہ.جس وقت حضور سامنے بیٹھے تھے تو مہمان دوستوں میں سے بعض نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ حضور ہم سات احمدی بھائیوں پر خاص فضل ہوا ہے اور وہ اس طرح سے کہ ہم ساتوں احمدی بھائی دہلی کی طرف سے امرتسر کی طرف قادیان کیلئے سفر کر رہے تھے.جب ہماری گاڑی لدھیانہ پہنچی تو ہم اس خیال سے وہاں اتر گئے کہ لدھیانہ کے احباب کے ساتھ مل کر قادیان چلیں گے.جب ہماری چھوڑی ہوئی گاڑی آگے گئی تو لا ہو وال اسٹیشن کے قریب اس کا تصادم ہو گیا اور سینکڑوں جانیں ضائع ہو گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پگڑی کا سر ادہنِ مبارک کے آگے کرلیا اور فرمایا 46 اللہ تعالیٰ نے ہمارے دوستوں کی حفاظت فرمائی.آپ بیان کرتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمر بھر تبلیغ کا موقعہ ملتا رہا.چھ ماہ تک آنریری طور پر ملکانوں میں تبلیغ کی توفیق ملی.میرے ذریعہ سے بہت سے لوگ داخلِ احمد بیت ہوئے.صرف علاقہ ملکانہ میں باون مرد وزن میرے ذریعہ سے احمدی ہوئے.ملکانوں میں تین لوگوں کو میں نے قرآن مجید بھی پڑھایا.جب میرے ذریعہ احمدی ہونے والے قادیان آتے تو مجھے کندھوں پر اٹھا لیتے.باوجود یکہ میری تعلیم بہت تھوڑی تھی مگر احمدیت کے طفیل مجھے باعزت روزگار نصیب ہوا.ریاست پٹیالہ کے ناظم صاحب مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے اور مجھ پر بہت اعتبار کرتے تھے.اس لئے میری ملازمت قائم رہی اور آمدنی بھی گزارہ کے لائق ہوتی رہی.حضرت حافظ صاحب قرآن کریم بہت خوش الحانی اور صحت کے ساتھ تلاوت فرمایا کرتے تھے.

Page 719

تاریخ احمدیت.جلد 24 679 سال 1968ء چنانچہ جب نومبر ۱۹۵۰ء میں ڈاکٹر سلیمہ بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی تقریب رخصتانہ پر حضرت حافظ صاحب نے تلاوت فرمائی تو حضرت مصلح موعود نے فرمایا اتنا صحیح قرآن میں نے آج تک کسی کو پڑھتے نہیں دیکھا اور حافظ صاحب سے دریافت فرمایا کہ آپ نے اتنی صحت کے ساتھ قرآن پڑھنا کس سے سیکھا؟ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے عرض کیا کہ دہلی سے خاص قاری منگوائے گئے تھے.انہی سے حافظ صاحب نے قرآن کریم پڑھا اور حفظ کیا تھا.اولاد:.ا.عبدالرحمان خان صاحب.۲.عبد الواحد خان صاحب.۳.عبدالحفیظ خان صاحب.عبد الغفار خان صاحب حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ولادت: ۱۸۸۴ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۳۰ را گست ۱۹۶۸ء 47 حضرت شیخ فضل احمد صاحب نے ۲۷ /۱اپریل ۱۹۳۸ء کو اپنے ابتدائی واقعات تحریر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.۱۹۰۴ء میں برادرم ماسٹر محمد طفیل خان صاحب یاد میرے پاس انگریزی اخبار آبزرور لاہور (THE OBSERVER, LAHORE) کے دفتر میں جہاں میں ملازم تھا تشریف لائے اور مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر کر کے بیعت کی تحریک کی.اس پر میں نے حضرت اقدس کی خدمت مبارک میں عریضہ لکھا کہ مجھے ریویو اردو کے اس وقت تک کے تمام شائع شدہ پرچے بھیج دیئے جائیں.حضور نے وہ تمام پرچے بغیر وصولی قیمت کے مجھے بھجوا دئیے.ان ہی ایام میں میں نے تحریری بیعت کر لی مگر میں لاہور سے باہر جا کر مختلف مقامات میں سرکاری ملازمت کی تلاش میں رہا یہاں تک کہ دسمبر ۱۹۰۴ء میں انبالہ چھاؤنی میں سرکاری ملازم ہو گیا اور میں نے ایک احمدی دوست مولوی محمد علی صاحب وٹرنری دفعدار کی تحریک پر مذہب کی طرف زیادہ توجہ دینی شروع کی اور تبلیغ میں بھی سرگرمی دکھلائی جو خدا کے فضل اور احسان سے بہت بار آور ثابت ہوئی اور میری تحریک پر مندرجہ ذیل احباب نے بیعت کی.ان کے ساتھ میں نے بھی دوبارہ بیعت کی : نمبر (۱) ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب VAS امرتسر.نمبر (۲) ماسٹر عبد العزیز صاحب نوشہرہ، سیالکوٹ.(۳) برادرم عطاء اللہ خان صاحب دھرم کوٹ بگہ.

Page 720

تاریخ احمدیت.جلد 24 680 سال 1968ء انبالہ میں مجھے خوش نصیبی سے حضرت چوہدری رستم علی صاحب مرحوم کی پاکیزہ صحبت نصیب ہوئی جس کا میرے دل پر گہرا نقش ہے.اللہ تعالیٰ ان پر اپنے خاص برکات نازل فرمائے.آمین ۱۹۰۷ ء کے ابتداء میں خاکسار کو اپنی ملازمت کے سلسلہ میں انبالہ سے کا کا جانا پڑا جہاں سے میں نے سید نا حضرت خلیفہ امسیح الاول کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور غالبا اگست ۱۹۰۷ء یا اس کے قریب قادیان آیا اور حضرت خلیفتہ المسیح الاول سے عرض کیا کہ میں دستی بیعت آپ کی وساطت سے کرنی چاہتا ہوں.اس پر حضور مجھے مسجد مبارک میں نماز ظہر کے وقت اپنے ساتھ لے گئے.مسجد میں داخل ہوتے وقت حضرت خلیفہ المسیح الاول نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا مگر جب حضور نے دیکھا کہ بعض احباب بیعت کر رہے ہیں تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول آگے محراب کے پاس تشریف لے گئے اور میں مسجد مبارک میں بیعت کرنے والوں کے پاس بیٹھ گیا.اس وقت کسی دوست ( غالباً اکمل صاحب) نے مجھے کہا کہ آپ نے بیعت کرنی ہے؟ میرے اثبات میں جواب دینے پر کہا کہ اپنے آگے بیٹھے ہوئے کسی بیعت کرنے والے دوست کی کمر پر ہاتھ رکھ دو اور بیعت کے الفاظ دہراتے جاؤ ، جس کی میں نے تعمیل کی.بیعت ختم ہونے پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الاول نے میرا ہاتھ پکڑا اور حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ یہ دوست حضور کی بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں.حضور نے میری طرف نظر کی اور فرمایا کہ کیا آپ نے بیعت نہیں کی؟ میں نے عرض کیا کہ حضور کر لی ہے.اس بات کا مجھے اب تک قلق ہے کہ میں نے کیوں پہلے احباب کے ساتھ بیعت کی، کیوں نہ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ارشاد کا منتظر رہا؟ اگر حضرت اقدس کے ہاتھ پر علیحدہ بیعت کرتا تو بہت بہتر ہوتا مگر میری غفلت کی وجہ سے ایسا ہی ہونا بہتر تھا.اس کے بعد میں اس جگہ بیٹھا رہا اور حضور کا چہرہ مبارک دیکھ دیکھ کر درود شریف پڑھتا رہا.اس وقت حضور مولوی محمد علی صاحب سے انگریزی اخبار (غالباً سول اینڈ ملٹری گزٹ، لاہور) کی خبریں سن رہے تھے.اس کے بعد میں انبالہ واپس آگیا اور ۱۹۰۸ء میں کسولی (KASAULI) پہاڑ پر چلا گیا جہاں مجھے بابو عبدالحمید صاحب ریلوے آڈیٹر ملے جنہوں نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کی خبر سنائی.ستمبر ۱۹۱۰ء میں بعض مشکلات کے پیش نظر اور سلسلہ کی خدمت کے لئے استعفیٰ دے دیا مگر ۱۹۱ء کے آخر میں حضرت خلیفہ اول نے پھر ملا زمت سرکار کے دوبارہ حصول کیلئے ارشاد فرمایا اور دعا کا وعدہ بھی فرمایا.حضور کی دعا کی برکت سے مجھے جلدی پھر ملازمت مل گئی اور میں نے آخر ۱۹۳۵ء تک ملازمت ختم کر کے پیشن حاصل

Page 721

تاریخ احمدیت.جلد 24 681 سال 1968ء کر لی اور اس کے بعد اسی جگہ ( قادیان دارالامان ) میں مقیم ہو گیا.حضرت شیخ صاحب کی دینی خدمات کا آغاز تحریک شدھی کے خلاف جہاد سے ہوا چنانچہ آپ خود تحریر فرماتے ہیں:.۱۹۲۳ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ارشاد پہنچا کہ احمدی احباب رخصت لے کر آگرہ آ جائیں جہاں آریہ قوم نے بہت سے مسلمانوں کو شدھ کر لیا ہے.مجھے اس ارشاد کے ملنے سے خوشی بھی ہوئی لیکن فکر بھی.اس وجہ سے کہ کوہ مری میں اکیلا میں کمانڈنگ آفیسر میجر را برٹسن کے ساتھ تھا اور دفتر کا کام کمان افسر صاحب خود نہ کرتے تھے.ان کا کام محض دستخط کرنے کا تھا.میں نے ڈرتے ڈرتے افسر موصوف سے ذکر کیا کہ یہ مذہبی معاملہ ہے اور میرے مرشد کا حکم آیا ہے کہ میں بھی آگرہ جاؤں اور ایک ماہ تک وہاں کام کرو.افسر نے کہا کہ آپ کے سوا اور کوئی کلرک بھی یہاں نہیں ، دفتر کا کام کون کرے گا؟ میں نے کہا مجبوری ہے، یہ مذہبی معاملہ ہے.افسر نے سوچ سوچ کر کہا اچھا چلے جاؤ مگر اس شرط پر کہ جب مجھے ضرورت پڑے گی تو آپ کو تار دیا جائے گا.آپ کو واپس آنا ہوگا.میں نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے واپس بلایا تو کرایہ آمد ورفت آپ کے ذمہ ہونا چاہیئے.افسر نے یہ منظور کر لیا.سو میں آگرہ گیا اور واپس بلایا گیا.اپنے مرشد کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں میں نے کام کا ثواب بھی حاصل کر لیا اور میرا خرج کچھ بھی نہ ہوا بلکہ سفرالا ونس کی وجہ سے مجھے فائدہ رہا.فالحمد للہ.آگرہ جانے کے لئے میں قادیان پہنچا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر آگرہ گیا تو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے جو مالکانہ کیمپ کے انچارج تھے مجھے حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ساتھ ریاست بھرت پور بھیجا، جہاں دونوں بزرگوں نے مہاراجہ کے وزیر اعظم سے ملاقات کی.میں ان کے ہمراہ رہا اور مفت کا ثواب حاصل کیا.ہند و وزیر اعظم نے بڑی عہد شکنی کی تھی اور بے اعتنائی بھی.آگرہ میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے پاس کچھ نہیں تھا اور وہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تنگ تھے.مجھے انہوں نے قادیان بھیجا کہ میں ان کی طرف سے عرض کروں کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے، حضور اخراجات کیمپ کے لئے مزید رقم عنایت کریں.حضور نے مجھے فرمایا کہ چوہدری صاحب پہلے روپے کا حساب دیں کہ کہاں کہاں خرچ ہوا، پھر ہم مزید رقم دیں گے.میں نے عرض کی کہ حضور وہ تو سخت تنگ آئے ہوئے ہیں، حضور ضرور کچھ رقم عنایت فرمائیں.حضرت نے

Page 722

تاریخ احمدیت.جلد 24 682 سال 1968ء فرمایا کہ ہم اس شرط پر ایک ہزار روپیہ دیتے ہیں کہ وہ پچھلا حساب دیں اور آپ جا کر اور کوئی کام نہ کریں، محض ان سے حساب لے کر پڑتال کریں اور ہمیں رپورٹ کریں.آج سے آپ اُن کے ماتحت نہیں رہیں گے براہ راست ہمارے ماتحت ہوں گے اور ہمارے احکامات کی تعمیل کریں گے ورنہ یہ ایک ہزار روپیہ آپ سے لیا جائے گا.میں روپیہ لے کر آگرہ پہنچا اور چوہدری صاحب کو حضرت کا ارشاد سنایا اور حساب مانگا.انہوں نے مجھے کاغذات حساب دے دئے جو میں نے پڑتال کر کے حضرت کے حضور پیش کئے مشکل حل ہوئی.حسابات دیکھنے سے معلوم ہوا کہ حضرت چوہدری صاحب موصوف کی رقم بیچ میں خرچ ہو چکی ہے جو چوہدری صاحب کو یاد نہیں رہی تھی اور وہ رقم میں نے ان کو واپس دلائی.یک صد سے زیادہ تھی.انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک احمدی دوست کسی گاؤں میں ملکانہ کی شدھی روکنے کے لئے متعین تھے.وہاں دیوبند کے علماء کی طرف سے کوئی چپڑاسی یا چوکیدار بھی تھا جو ہمارے مخالف مسلمانوں کو جوش دلا کر جھگڑا پیدا کر دیا ( کرتا ) تھا.مجھے چوہدری صاحب موصوف نے حکم دیا کہ میں دہلی جا کر مولانا کفایت اللہ صاحب سے جو علماء دیوبند کے سرگروہ تھے ملوں اور ان سے ذکر کروں کہ وہ اپنے آدمی کو سمجھا دیں کہ وہ ہمارے کام میں رکاوٹ نہ ڈالے.میں دہلی پہنچا.وہاں ایک احمدی دوست عبد الرحمن صاحب فرنیچر ڈیلر کو ہمراہ لے کر مولانا صاحب سے ملاقات کی.وہاں سعید احمد صاحب یا احمد سعید صاحب سے بھی ملا.مولانا کفایت اللہ صاحب نے حالات سن کر مولوی سعید احمد صاحب کو کہا کہ اپنے آدمی کو تنبیہ کر دیں کہ وہ جھگڑا نہ کریں.انہوں نے مجھے فرمایا کہ فلاں بازار میں ہمارا دفتر ہے اور فلاں مولوی صاحب دفتر کے انچارج ہیں، آپ ان کو یہ رقعہ دے دیں.ہم دونوں وہاں جانے لگے تو مولانا احمد سعید صاحب کہنے لگے کہ یہ شدھی کا قصہ ختم ہوئے تو ہم تمام احمد یوں کے خلاف ایک محاذ قائم کریں گے اور آپ لوگوں کی ایسی خبر لیں گے کہ آپ کو ہوش آ جائے گی.میں نے جوش سے عرض کیا کہ مولانا ہم تو خدا تعالیٰ سے چاہتے ہیں کہ آپ ہماری مخالفت میں سارا زور لگا لیں اور پھر آپ بھی دیکھیں گے اور ہم بھی دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کس کی مدد کرتا ہے.مولانا کفایت اللہ صاحب بھی میری بات سن رہے تھے مگر انہوں نے کوئی بات نہ کہی.راستہ میں مجھے عبدالرحمن صاحب نے کہا کہ خدا نے ہی تصرف کیا ورنہ یہ احمد سعید صاحب بڑے جوشیلے اور لڑا کے ہیں.خدا جانے یہ سب کچھ سن کر خاموش کیسے رہے؟ ہم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ بات نے طول نہ پکڑا

Page 723

تاریخ احمدیت.جلد 24 683 سال 1968ء اور قصہ و ہیں ختم ہو گیا.جب ہم دونوں دفتر علمائے دیو بند پہنچے اور وہاں کے انچارج مولوی صاحب کو پیغام دیا تو انہوں نے کہا کہ میں اس چوکیدار کو ہدایت کر دوں گا کہ وہ جھگڑا نہ کرے.وہاں بہت سے علماء جمع تھے اور وہ ان کی دعوت وغیرہ کا انتظام کر رہے تھے مگر وقت بچا کر ہمیں کہنے لگے ایک بات تو آپ لوگ بتلائیں.ہم حیران ہیں کہ جس کسی مولوی کو کسی گاؤں میں شدھی وغیرہ روکنے کے لئے بھیجتے ہیں اس کو معقول تنخواہ دیتے ہیں.سفر خرچ دیتے ہیں.کسی گاؤں میں رہنے کے دیگر اخراجات بھی دیتے ہیں مگر وہ مولوی تھوڑے دنوں کے بعد ہمیں کہتا ہے کہ میں وہاں نہیں رہ سکتا، وہاں یہ آرام نہیں ہے فلاں سہولت نہیں، فلاں تکلیف ہے، یہ ہے ، وہ ہے.غرض وہ وہاں نہیں رہتا.اور ناراض ہو کر چلا آتا ہے آپ لوگوں کے پاس وہ کون سا جادو ہے جس کے اثر سے آپ کے آدمی اپنی تنخواہ اور اپنا کرایہ خرچ کر کے اپنے خرچ پر گاؤں گاؤں پھرتے ہیں.بھوکے پیاسے رہتے ہیں.ماریں کھاتے ہیں.دکھ اٹھاتے ہیں پھر بھی خوش بخوش ہیں.اس میں کیا راز ہے؟ ہم تو آپ لوگوں کے متعلق سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں.یہ بات کہنے والے بڑے عالم تھے.ہم نے کہا آپ دانا ہیں خود ہی سوچ لیں.وہ مسکرا پڑے اور ہم چلے آئے.اسی ذکر میں کہ احباب نے علاقہ ملکانہ کے جہاد میں کیسی کیسی جاں نثاری دکھلائی اور کیسی مشکلات کی زندگی کائی ، میں حکیم فضل حق صاحب بٹالوی مرحوم کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.میں جن دنوں میں آگرہ میں حسابات تیار کر رہا تھا حکیم فضل حق صاحب مرحوم آگرہ آئے.انہوں نے مجھے بتلایا کہ میں الور میں متعین ہوں جو اس پہاڑ کے دامن میں ہے جہاں حضرت کرشن جی مہاراج عبادت کیا کرتے تھے.وہاں بے شمار سانپ ہیں اور کہتے تھے کہ ہم لوگ نماز عشاء پڑھ کر جب چار پائیوں پر جا کر سو جاتے ہیں تو صبح تک چار پائی سے نیچے نہیں اترتے کہ مبادا نیچے سانپ ہو اور وہ ہمیں کاٹ کھائے“.حضرت شیخ صاحب ملازمت سے پنشن پانے کے بعد خدمات سلسلہ اور جناب الہی کی طرف 50- سے رزق غیب کے سامانوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مزید لکھتے ہیں:.غالباً آخر ۱۹۳۴ء میں مجھے پھر لاہور چھاؤنی تبدیل کر دیا گیا.بار بار کے تبادلوں سے میری طبیعت اکتا گئی تھی.میں چاہتا تھا کہ کسی طرح مجھے پنشن مل جائے اور میں قادیان میں بقیہ زندگی گزاروں.سو اللہ تعالیٰ نے میری خواہش پوری کر دی اور طبی لحاظ سے نا قابل ملازمت قرار دیا.جا کر لاہور چھاؤنی سے غالبا سمبر ۱۹۳۵ء میں قبل سبکدوشی طویل رخصت پر اپنے گھر قادیان آگیا.مجھے یاد

Page 724

تاریخ احمدیت.جلد 24 684 سال 1968ء ہے کہ میں نے کمرہ بند کر کے دعا مانگی کہ اے الہی ! تو مجھے اپنے رحم خاص سے میری خواہش کے مطابق قادیان لے آیا ہے اب ایک اور نظر رحم کر کہ مجھے کسی کے در پر رزق اور ملازمت وغیرہ کیلئے جانا نہ پڑے.حتی کہ خلیفہ کے در بھی نہ لے جائیو.اور اپنے فضل سے میرے رزق کے سامان کر یو.دعا کے بعد میں نے کمرے کا دروزہ کھولا تو ایک احمدی بھائی کو کھڑا پایا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی چٹھی لائے تھے.جس میں مرقوم تھا کہ آپ مجھے کسی وقت آکر ملیں.میرے دل میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات ڈالی کہ یہ قبولیت دعا کا نشان ہے.ملاقات میں آپ نے فرمایا کہ میں احمد آباد سنڈیکیٹ کا سیکرٹری ہوں.میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے دفتر میں کام کریں.میں نے خوشی اور شکریہ کے ساتھ تعمیل ارشاد کی.مجھے علاوہ پنشن کے تمیں روپے ماہوار الاؤنس ملنے لگا.نیز مجھے احمد یہ سٹور کا مینیجر مقرر کیا گیا اور پندرہ روپے الاؤنس مقرر ہوا اور مجھے اتنی ہی آمدنی ہونے لگی جتنی پنشن سے پہلے تھی.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے دعا سن کر میری دستگیری فرمائی.احمد آبادسنڈیکیٹ میں ۱۹۳۶ء اور چند ماہ ۱۹۳۷ء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ماتحت اور پھر جنوری ۱۹۴۱ ء تک محترم خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے ماتحت میں نے کام کیا.حضرت میاں صاحب نے آکر کبھی ایک لفافہ بھی ذاتی طور پر کسی کے نام لکھا تو اپنے پاس سے ڈاک خرچ دیا اور اپنا حساب اتنا پاک صاف رکھا کہ مجھے اس پاکیزگی کا علم ہو کر بے حد خوشی ہوئی.اور کیوں نہ ہو آخر کس کے صاحبزادہ تھے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سبحان اللہ ! فروری ۱۹۴۱ء میں محترم مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صد را انجمن احمدیہ نے بطور نگران افسر امانت مجھے لگانا چاہا.لیکن ۱۹۴۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مجھے علاقہ ناگپور میں پنڈھورنا مقام پر بھجوا دیا.پھر ۱۹۵۰ء میں مجھے افسر امانت بنا دیا گیا.اس وقت مکرم مرزا عبد الغنی صاحب مرحوم محاسب تھے.چونکہ آنکھوں میں موتیا اتر رہا تھا اس لئے ۱۹۵۰ء میں ہی درخواست دے کر میں نے فراغت حاصل کر لی اور چنیوٹ میں خانہ نشین ہو گیا.گویا ۱۹۳۶ء سے ۱۹۵۰ء تک خدمت کی توفیق پائی.“ 51 آپ خلفاء احمد بیت اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عاشقانہ تعلق رکھتے تھے.آپ کا اور آپ کی اہلیہ کا نام منارة امسیح پر کندہ ہے.صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰-۱۹۱۹ء سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے طلباء مدرسہ احمدیہ کے لئے فنڈ میں حصہ لیا.آپ کو تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شمولیت کا اعزاز بھی حاصل تھا.

Page 725

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 685 سال 1968ء (۱) صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ قریشی عبدالمنان صاحب لاہور (۲) ملک محمد احمد صاحب سابق نائب افسرامانت تحریک جدید ونائب وکیل تعمیل و تنفیذ (۳) صالح اختر صاحبه (۴) بشری بیگم اہلیہ ملک رشید احمد صاحب لاہور (۵) ملک مبارک احمد صاحب، ٹیکسٹ بک بورڈ لاہور (۲) ملک لطیف خالد صاحب مینیجر اسلامک بک ڈپو، فری ٹاؤن ، سیرالیون (۷) ملک رشید نا صر صاحب، العین، ابوظہبی (۸) امینہ خالدہ صاحبہ اہلیہ نعیم اللہ خان صاحب خالد ، لاہور (۹) لئیق احمد صاحب طاہر مربی سلسلہ انگلستان حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب وفات : ۳۱ /اگست ۱۹۶۸ء آپ حضرت مولوی جلال الدین صاحب کے فرزند تھے.آپ نو جوانی کے عالم میں اپنے بزرگ والد کے ساتھ پیر کوٹ سے قادیان جانے والے پہلے وفد میں شامل تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت قبول کی.آپ کو دین کی خدمت کرنے کی بہت توفیق ملی.جماعتی نظام قائم ہونے پر پیر کوٹ ثانی کی جماعت کے صدر منتخب ہوئے.اور ۲۵ سال سے زیادہ عرصہ تک اس عہدہ پر فائز رہے.کچھ عرصہ کے لئے آپ مرکز سلسلہ کی طرف سے علاقائی آنریری انسپکٹر بیت المال اور پھر انسپکٹر دعوت و تبلیغ مقرر ہوئے.آپ حضرت مولوی غلام رسول را جیکی صاحب کے برادر نسبتی تھے.وو حضرت حکیم صاحب بڑی پُر وقار شخصیت کے مالک تھے ہمیشہ کلاہ پر پگڑی باندھتے.اور کندھے پر سفید صافہ“ رکھتے.آپ کا پیشہ طبابت تھا لیکن کوئی باقاعدہ مطلب نہ تھا.مریض دیکھنے جاتے تو تبلیغ کی غرض سے چند روز قیام کرتے.مریضوں کا علاج بھی کرتے مگر تبلیغ کا مقصد مقدم رکھتے.حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب نے اپنے حالات مکرم مبشر احمد صاحب را جیکی کو قلمبند کروائے جو غیر مطبوعہ ہیں.ان حالات میں سے بعض روایات درج ذیل ہیں.حضرت حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ

Page 726

تاریخ احمدیت.جلد 24 686 سال 1968ء ایک دفعہ حضور سیر سے واپس آتے ہوئے رستہ میں ٹھہر گئے اور جھاؤ کی کونپلیں سونگھ کر فرمایا یہ بھی بہت مفید چیز ہے.اگر اطباء اس کا عرق کشید کر کے استعمال کرائیں تو کئی امراض دور ہو سکتی ہیں.“ ایک اور روایت میں درج ہے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ برادرم حکیم محمد حیات ، چوہدری الہی بخش صاحب موہل اور میاں حامد صاحب پیش امام قادیان جارہے تھے کہ بٹالہ کے اسٹیشن پر مولوی محمد حسین صاحب سے ملاقات ہو گئی.دوران گفتگو میں انہوں نے کہا کہ آپ لوگ قادیان جا کر کیا لینگے؟ مرزا صاحب نے تو دکان کھول رکھی ہے.یہ سن کر چوہدری الہی بخش صاحب کے دل میں طرح طرح کے وساوس پیدا ہونے لگے.خیر جب قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوران تقریر از خود فرمایا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے دکان کھول رکھی ہے.یہ ٹھیک ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ لون تیل کی دکان نہیں.بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی معرفت اور محبت کی دکان ہے جہاں اس کے وصال کا سودا ہوتا ہے.یہ سن کر چوہدری الہی بخش صاحب کے تمام وساوس دور ہو گئے.چنانچہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس کرامت کا لوگوں سے اکثر ذکر کرتے رہتے تھے کہ اعتراض کئے بغیر ہی حضور نے اعتراض کا جواب دیدیا.ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ ۱۹۰۴ء کا ذکر ہے کہ میرے ساتھ برادرم میاں عبد اللہ خان صاحب برادرم میاں محمد دین صاحب، عزیزم میاں غلام محمد صاحب اور میاں حامد صاحب پیش امام بھی قادیان گئے.وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف فرما ہیں.چنانچہ ہم لوگ سولہ میل کا سفر طے کر کے قادیان سے پا پیادہ گورداسپور پہنچے.حضرت اقدس ایک بالا خانہ میں فروکش تھے.اطلاع ملنے پر حضور نے ہمیں وہیں بلا لیا.میں نے دست بوسی کے بعد اپنے ساتھیوں کا تعارف کروایا.حضور نے مولوی یار محمد صاحب کو ارشاد فرمایا کہ یہ پیدل سفر کر کے آئے ہیں انہیں کھانا کھلا کر چار پائیاں دید و تا کہ یہ آرام کرلیں.دوسرے دن بعد نماز فجر حضور دیر تک دعا میں مشغول رہے.ازاں بعد ہمیں یاد فرمایا.چنانچہ ہم حضور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.میرے پاس جو چندہ جات کا روپیہ تھا حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.اور چونکہ والد ماجد کو فوت ہوئے تھوڑا عرصہ ہی ہوا تھا اور ابھی ان کی وفات کا صدمہ تازہ تھا حضور کی غیر معمولی شفقت دیکھی تو دل بھر آیا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے.میری دردمندانہ حالت دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی محبت سے فرمایا:.

Page 727

تاریخ احمدیت.جلد 24 687 سال 1968ء آپ کے والد صاحب بہت ہی مخلص احمدی تھے.میں نے ان کا جنازہ بھی پڑھایا ہے آپ کو چاہئے کہ ان کے نقش قدم پر چلیں.مجھے خوب یاد ہے کہ بہت ہی مخلص کے الفاظ حضور نے تین دفعہ دہرائے تھے.گورداسپور میں ہم پانچ روز ر ہے اور جب حضور واپس تشریف لائے تو ہم بھی آپ کے ہمراہ قادیان آگئے.“ حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۶۷ء میں دورہ یورپ سے قبل جماعت کے بعض بزرگان کو استخارہ کرنے کے لئے فرمایا.ان بزرگان میں حضرت حکیم محمد اسماعیل صاحب بھی شامل تھے.آپ کے بیٹے ملک حمید احمد صاحب کا بیان ہے کہ حضرت مصلح موعود نے ایک مرتبہ آپ سے تین جگہوں کا ذکر کیا جن میں کھیوڑہ کا بھی ذکر کیا اور فرمایا کہ ایسی جگہوں پر ہفتہ دس دن قیام کیا کریں چنانچہ آپ حضور کے ارشاد کی تکمیل میں اپنے ایک احمدی دوست کے ہمراہ کھیوڑہ گئے.وہاں پر ایک مخلص احمدی دوست مکرم ملک ہاشم صاحب کے مہمان ہوئے اور ایک ماہ تک قیام کر کے تربیت اور تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیتے رہے.آپ اچھے طبیب تھے.مشہور تھا کہ آپ سانپ ڈسنے کا کامیاب علاج کرتے تھے.پیر کوٹ اول کی جماعت آپ کی ہی کوشش کے نتیجہ میں قائم ہوئی.اس جماعت کے بزرگ احمدیت قبول کرنے سے پہلے اہل حدیث مسلک کے تھے.اس لئے شرک اور بدعات ورسوم سے بہت پر ہیز کرتے.آپ بھی اس عقیدہ کے پابند تھے.آپ احمدی نو جوانوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے.بجائے سختی کے آپ بڑی محبت اور شفقت سے انہیں سمجھاتے.جب حکیم صاحب گاؤں میں ہوتے اور خطبہ جمعہ دیتے جوا کثر حضرت مصلح موعود کا ارشاد فرمودہ ہوتا تو اکثر آپ پر رقت طاری ہو جاتی.حضرت حکیم صاحب نے ۳۱ راگست ۱۹۶۸ء کو وفات پائی اور پیر کوٹ ثانی مقامی قبرستان میں دفن ہوئے.اولاد حضرت حکیم صاحب نے دو شادیاں کیں.پہلی بیوی سے دو بیٹے پیدا ہوئے.پہلے بیٹے محمد خاں صاحب تعلیم کے دوران قادیان میں فوت ہو گئے.دوسرے بیٹے احمد خاں صاحب گاؤں میں وفات پاگئے تھے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کی چھوٹی بیٹی احمد خاں صاحب کے عقد میں آئیں.

Page 728

تاریخ احمدیت.جلد 24 688 سال 1968ء دوسری بیوی مکر مہ رحمت بی بی صاحبہ سعد اللہ پور ضلع گجرات کی رہنے والی تھیں.آپ سے درج ذیل اولا د ہوئی..مکرم حمید احمد صاحب ۲.زینب بی بی صاحبہ زوجہ ملک عطاء اللہ صاحب 54 حضرت میاں علی گوہر صاحب ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۴ ستمبر ۱۹۶۸ء آپ ۱۹۰۴ ء میں دستی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۰ سال تھی.آپ کے چارٹر کے اور پانچ لڑکیاں تھیں.آپ کی رہائش ربوہ میں تھی اور یہیں پر وفات پائی.۵ ستمبر کو آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ نمبر ۸ میں عمل میں آئی.اولاد ا محمد علی صاحب ۲.احمد علی صاحب ۳.سلطان احمد صاحب ۴.سعادت علی صاحب بیٹیاں: ۱.آمنہ بی بی صاحبہ زوجہ شیر علی صاحب.۲.امتہ اللہ بیگم صاحبہ زوجہ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب ابن حضرت مولوی رحیم بخش صاحب.۳.امۃ الرشید صاحبہ زوجہ محمد عالم صاحب باڈی گارڈ حضرت خلیفة المسیح ۴.امۃ الرحیم صاحبہ زوجہ نیاز علی صاحب.۵.امتہ النصیر صاحبہ حضرت شیخ محمد بخش صاحب 55 وفات: ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء ولادت: قریباً ۱۸۸۰ بیعت : ۱۸۹۵ء آپ دھرم کوٹ بگہ گورداسپور کے رہنے والے تھے.آپ کو ۱۶، ۷ اسال کی عمر میں حضرت مولوی فتح دین صاحب کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کا علم ہوا.جس پر آپ نے قادیان جا کر دستی بیعت کی.آپ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت و ملاقات کے لئے قادیان جایا کرتے تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر قادیان حاضر ہوئے اور آپ نے بتایا کہ تدفین سے پہلے حضور کا چہرہ مبارک دیکھنے کا موقع بھی ملاس چرہ پر نور اورسورج کی طرح چمک رہا تھا.آپ حضرت خلیفہ المسیح الاول اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نماز جنازہ و تدفین میں شامل ہوئے.فہرست انتخاب خلافت جماعت احمدیہ میں بھی آپ کا نام شامل تھا.۱۹۶۸ء کی مجلس مشاورت میں بھی آپ کو بطور صحابی مدعو کیا گیا.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہوئی.

Page 729

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد 689 سال 1968ء ا.عطاء اللہ صاحب ۲.رحمت اللہ صاحب : ان کے ایک بیٹے نعیم اللہ صاحب آجکل فضل ہسپتال میں فارمیسی کا کام کر رہے ہیں.۳.اللہ رکھی صاحبہ ۴.ہاجرہ صاحبہ ۵.حضرت چوہدری غلام حسین صاحب آف سرگودھا ولادت: ۱۸۷۸ء بیعت : ۱۹۰۵ء 56 وفات: ۵ نومبر ۱۹۶۸ء عمر ۱۹۰۵ء میں آپ نے تحریری بیعت کی تحریری بیعت کے پندرہ دن بعد گاؤں میں طاعون پھوٹ نکلی.بیوی اور بیٹے محمد یار کو بخار اور پھنسیاں نکل آئیں.لوگوں نے مسجد سے نکال دیا کہ تم نے بیعت کی ہے اس لئے سب سے پہلے تمہاری بیوی اور بچے کو طاعون ہوئی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام کو دعا کا خط لکھا.آپ علیہ السلام نے تحریر فرمایا کہ آپ ان کو ہوادار جگہ میں رکھیں اور استغفار کریں اللہ تعالیٰ آ کی بیوی اور بچہ دونوں کو انشاء اللہ تندرست کر دے گا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دونوں صحت یاب ہو گئے لیکن اعتراض کرنے والوں پر اس قدر تباہی آئی کہ چک میں، ۷ آدمی طاعون سے تباہ ہوئے اور دو دو آدمی ایک ایک قبر میں دفنائے گئے.اس نشان کے بعد پانچ گھروں نے بیعت کی اور ان سب گھروں میں بیعت سے پہلے طاعون سے وفا تیں ہو چکی تھیں اور بیعت ایک سال کے اندراندر کی.آپ بیان کرتے ہیں کہ : ۱۹۰۷ء میں میں قادیان گیا.میرا ارادہ تھا کہ حضور کی دستی بیعت بھی کر لوں.اس وقت حضور کا لنگر میاں بشیر احمد صاحب کے مکان میں تھا اور مبارک احمد کے بیمار ہونے کی وجہ سے تین دن تک حضرت صاحب باہر تشریف نہ لا سکے اور ہماری بیعت نہ ہوسکی.ہم نے عرض کی کہ ہم کو دو تین دن ہو گئے ہیں حضور بیعت قبول فرمائیں.چنانچہ حضور نے دوسری چھت پر بلایا اور دو چار پائیاں پڑی تھیں.ایک تو اچھا پلنگ تھا لیکن دوسری چارپائی بہت چھوٹی سی نحیف سی تھی.جب حضور تشریف لائے تو ہم تین آدمیوں کو تو پلنگ پر بٹھایا لیکن خود اس کمزور چار پائی پر بیٹھ گئے اور بیعت لی.“ جماعت احمد یہ چک نمبر ۹۸ شمالی سرگودھا آپ کی قابل قدر تبلیغی مساعی سے قائم ہوئی.آپ یہاں آباد ہونے والے اولین گھرانوں میں سے تھے.جانفشانی اور سچی لگن سے اشاعت احمدیت کے لئے آپ کی کاوشوں کی بدولت تقریباً نصف گاؤں احمدی ہو گیا.غیر احمدی دوست بھی آپ کی حسنِ سیرت، عالی ظرفی ، حلم اور احسان کے مداح تھے.بنیادی جمہوریت کے ممبر ایک غیر احمدی دوست کی 58

Page 730

تاریخ احمدیت.جلد 24 690 سال 1968ء ہمشیرہ کی شادی کے موقعہ پر جبکہ نکاح خواں مولوی سمیت تمام انتظامات ہو چکے تھے، بچی کے والد نے کہا کہ میں اپنی بچی کا نکاح جسم نیکی و طہارت چوہدری غلام حسین صاحب سے پڑھاؤں گا.اگر چہ وہ غیر احمدی تھے مگر آپ کی نیکی نے ان کو مجبور کر دیا کہ آپ سے اپنی بچی کا نکاح پڑھوائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خاندان سے خاص محبت اور عقیدت رکھتے تھے.اپنے آخری ایام میں بھی جبکہ آپ بیحد کمزور ہو گئے تھے الفضل سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی صحت کے متعلق تازہ اطلاع ضر ور دریافت فرماتے.اولاد حضرت چوہدری غلام حسین صاحب نے تین شادیاں کیں تھیں.جن میں سے دو کے ہاں اولاد پیدا ہوئی.جن کے اسماء درج ذیل ہیں.اہلیہ اول جنت بی بی صاحبہ جن سے آپ کے درج ذیل بچے تھے.۱.مکرم مولوی محمد یار عارف صاحب ( والد مکرم طاہر عارف صاحب ریٹائر ڈ انسپکٹر جنرل پولیس) ۲.امۃ الحفیظ صاحبہ ۳.رحمت بی بی صاحبہ ۴.امۃ العزیز صاحبہ اہلیہ دوم محترمہ حسین بی بی صاحبہ جن سے آپ کے درج ذیل 9 بچے تھے.۱.عبدالرب صاحب ۲.عبدالخالق صاحب ۳ - محمود احمد صاحب ( ان کے بیٹے مکرم عابد محمود صاحب مربی سلسلہ ہیں) ۴.صدیق احمد صاحب ۵.عبدالواسع صاحب ۶.منور احمد صاحب ۷.زینب بیگم صاحبه ۸ - منظور بیگم صاحبه ۹- رشید بیگم صاحبه الحاج حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ولادت: قریباً ۱۸۸۲ء دستی بیعت: ۱۸۹۸ء وفات: ۱۹ نومبر ۱۹۶۸ء حضرت مولوی صاحب سنور کے قدیم مخلص اور فدائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کا شمار سلسلہ احمدیہ کے ان بزرگوں میں ہوتا ہے جو صاحب کشف والہام، خدمت دین کے والہ وشیدا اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے اور جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضور سے براہ راست فیضان اور برکت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ بہت سے دوسرے احمدیوں کی طرح آپ پر بھی خلافت ثانیہ کے مظہر کے بارہ میں قبل از وقت جناب الہی کی طرف سے انکشاف کیا گیا.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:.

Page 731

تاریخ احمدیت.جلد 24 وو.محمود 691 سال 1968ء ۱۹۱۳ء میں تہجد کے وقت تلاوت قرآن مجید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ظاہر فرمایا کہ وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا میں نشان ہیں.وہ یہ کہ اس میں تاریخ ہے.میں نے اعداد اسی وقت نکالے.وَمِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدُ حکم کو نکال کر باقی میں ۱۹۱۴ء تاریخ نکلی.مجھے گھبراہٹ ہوئی کہ سن عیسوی کیوں ہے؟ فورا دل میں ڈالا گیا کہ محمود تو دنیا میں سینکڑوں ہوں گے مگر جس محمود کے وجود میں رسول کریم ﷺ کھڑے ہوں گے وہ عیسی کا لخت جگر ہے.سن عیسوی کے تعلق کے یہ معنی ہیں.میں نے اسی وقت کا غذ اٹھا کر حضرت فضل عمر کی خدمت میں یہ لکھ دیا.میں ظاہر ا اس کے معنی یہ سمجھا کہ اخبار الفضل کے ذریعہ چونکہ حضرت میاں صاحب نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف اور سوانح لکھنی شروع کی ہے اس طرح سے آپ کے وجود میں یعنی رسول کریم ﷺ اس وجود میں ظاہر ہوں 61 صلى الله گے.۱۹۱۴ء میں خلافت ہونے پر یہ راز کھلا کہ یہ مطلب تھا.حضرت مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گرانقدر خدمات کی توفیق عطا فرمائی.۱۹۱۵ء میں آپ نے حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چھبیس بلند پایہ صحابہ کرام کی ایمان افروز روایات اپنے الفاظ میں قلمبند کیں جو آپ نے دسمبر ۱۹۶۲ء میں سیرتِ احمد کے نام سے شائع کر دیں.آپ ۱۹۳۵ء سے ۱۹۴۷ء تک حضرت مصلح موعود کی اراضی سندھ کے مینیجر کے فرائض انجام دیتے رہے.اس سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی لمصلح الموعود نے فرمایا:.ناصر آباد میں میری زمینوں پر ایک دوست قدرت اللہ صاحب سنوری مینیجر تھے.ایک دفعہ ہم زمین دیکھنے گئے.چونکہ سندھ میں صدرانجمن احمدیہ کی زمین تھی اس لئے میرے ساتھ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم.اے اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی تھے.وہاں ان دنوں گھوڑے کم ملتے تھے.انہوں نے میرے لئے گھوڑا کسی سے مانگ لیا تھا اور دوسرے ساتھی میرے ساتھ پیدل چل رہے تھے.منشی قدرت اللہ صاحب نے باتوں باتوں میں بتایا کہ انہیں اس قدرآمد کی امید ہے.اس پر چوہدری صاحب اور مرزا بشیر احمد صاحب نے اس خیال سے کہ منشی قدرت اللہ صاحب کو ان باتوں کا علم ہو کر تکلیف نہ ہو آپس میں انگریزی میں باتیں کرنی شروع

Page 732

تاریخ احمدیت.جلد 24 692 سال 1968ء کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ شخص گپ ہانک رہا ہے.اتنی فصل کبھی نہیں ہو سکتی.ان کا یہ خیال تھا کہ منشی قدرت اللہ صاحب سنوری انگریزی نہیں جانتے مگر دراصل وہ اتنی انگریزی جانتے تھے کہ ان کی باتوں کو خوب سمجھ سکیں.مگر وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے رہے.جب انہوں نے باتیں ختم کر لیں تو منشی صاحب کہنے لگے.آپ لوگ خواہ کچھ خیال کریں دیکھ لینا میری فصل اس سے بھی زیادہ نکلے گی جو میں نے بتائی ہے.آپ کو کیا علم ہے میں نے ہر کھیت کے کونوں پر سجدے کئے ہوئے ہیں اور یہ فصل میری محنت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ میرے سجدوں کی وجہ سے ہوگی.میں نے ہر کو نہ پر دو دو رکعت نماز پڑھی ہے اور چار چار سجدے کئے ہیں.اس پر ان دونوں کا رنگ فق ہو گیا کیونکہ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کا انہیں پتہ نہیں لگ سکتا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.صدر انجمن احمدیہ کو اس سال گھاٹا رہا لیکن منشی قدرت اللہ صاحب نے کئی ہزار روپیہ مجھے بھجوایا.میں نے سمجھا کہ یہ صدر انجمن کا روپیہ ہے جو غلطی سے میرے نام آ گیا ہے لیکن دیکھا تو معلوم ہوا یہ میرا ہی روپیہ ہے.ساتھ ہی منشی قدرت اللہ صاحب نے لکھا کہ میرا اندازہ ہے کہ اتنی ہی آمد اور ہو جائے گی.میں نے جو پیداوار ابھی تک اٹھائی ہے وہ میں نے ایک ہندو تاجر کے پاس بھیج دی ہے.آٹھ ہزار روپیہ میں بطور پیشگی لے کر بھیج رہا ہوں اور میں ابھی اور رو پیدا ارسال کروں گا.حالانکہ میری زمین صدرانجمن احمدیہ کی نسبت بہت تھوڑی تھی لیکن اس سال صدر انجمن احمد یہ کوگھاتا رہا لیکن مجھے نفع آیا.یہ محض منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کے سجدوں کی برکت تھی.اپریل ۱۹۶۲ء میں آپ نے اپنے خرچ پر مشرقی پاکستان کی مخلص جماعتوں کا ایک ماہ تک دورہ کیا.آپ کے نیک نمونہ اور پاکیزہ روح پرور باتیں ان جماعتوں میں ازدیاد ایمان اور ترقی کا باعث ہوئیں اسی دوران آپ کو بذریعہ ریڈیو ٹیلی گرام یہ پیغام پہنچا کہ آپ کی بیوی سخت بیمار ہے اور حالت تشویشناک ہے یہ اطلاع ملتے ہی فرمایا میں مرکز کے حکم کے بغیر یہاں سے ایک قدم بھی ہل نہیں سکتا ہو سکتا ہے کہ میں بیوی کو دیکھنے کے لئے واپس چلا جاؤں اور مرکز کی حکم عدولی کے باعث خدا تعالیٰ جواب طلبی کر لے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرکز کے حکم کی فرمانبرداری بھی کروں اور بیوی بھی بچ جائے.62

Page 733

تاریخ احمدیت.جلد 24 693 سال 1968ء اس کے بعد انہوں نے اپنا دورہ بدستور جاری رکھا اور مرکز کی طرف سے باقاعدہ حکم آجانے کے بعد اپنے دورہ کو تقریباً مکمل کر کے وہ واپس تشریف لے گئے.واپس جا کر انہوں نے اپنی بیوی کو رو بصحت پایا.۱۹۶۵ء میں آپ نے انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے آنریری طور پر پاکستان کی مختلف جماعتوں کا دورہ کیا اور نہ صرف انصار اللہ کے تعمیر فنڈ کے لئے روپیہ جمع کیا بلکہ جماعتوں کی تربیت واصلاح کا فریضہ بھی انجام دیا.۱۹۶۶ء میں آپ کی جدو جہد سے جماعت احمدیہ کراچی میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے سابقہ وعدہ جات میں نمایاں اضافہ ہوا.۱۹۶۷ء میں آپ دوسری مرتبہ حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد لندن تشریف لے گئے اور ۲۰ ستمبر ۱۹۶۷ ء تک تقریباً چھ ماہ قیام کر کے فضلِ عمر فاؤنڈیشن کے سابقہ وعدہ جات میں کئی ہزار کا اضافہ کرایا.عمر کے آخری دور میں آپ نے محلہ دار النصر غربی میں جہاں آپ قیام فرما تھے خدا کا ایک گھر بھی تعمیر کرایا.تصنیفات (۱) سیرت احمد.(۲) تجلی قدرت.اولاد (۱) محمود احمد صاحب (وفات بعمر آٹھ ماہ).(۲) محمودہ بیگم صاحبہ.(۳) مسعودہ بیگم صاحبہ (۴) حمیدہ بیگم صاحبہ - (۵) سعیدہ بیگم صاحبہ (وفات بعمر سولہ سال).(۶) محمود احمد صاحب.(۷) رشیدہ بیگم صاحبہ.(۸) مسعود احمد صاحب خورشید.کراچی.(۹) داؤد احمد صاحب گلزار - لندن - (۱۰) نعمت اللہ صاحب.(۱۱) میمونہ صاحبہ - (۱۲) رقیه بیگم صاحبہ - 63 مکرم صفی الرحمن خورشید صاحب مربی سلسلہ حضرت مولوی صاحب کے نواسے اور محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ کے بیٹے ہیں.حضرت مولوی عبد المنان صاحب کا ٹھگڑھی ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات: ۱۰نومبر ۱۹۶۸ء آپ کے بڑے بھائی حضرت مولوی عبد السلام صاحب کا ٹھ گڑھی جو حضرت مصلح موعود کے کلاس فیلو تھے ، آپ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے.دونوں بھائی حضور علیہ السلام کے سچے عاشق تھے اور احمدیت کے فدائی تھے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے ہر قربانی کرنے

Page 734

تاریخ احمدیت.جلد 24 694 سال 1968ء والے تھے.باوجود صاحب جائیداد اور راجپوت زمیندار ہونے کے جن کو اپنی قوم کے وقار کا بڑا خیال ہوتا ہے آپ.پ کے اندر عاجزی و انکساری اپنے کمال کو پہنچی ہوئی تھی.احمدیت کا ایک کامل نمونہ تھے.آپ کے علاقہ کے مسلمان ہندوؤں سے بہت دبے ہوئے تھے اور تعلیم میں بہت ہی پیچھے تھے.مسلمانوں کی اس حالت کو دیکھ کر مرحوم نے اپنے خرچ پر اپنے گاؤں کا ٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور میں پرائمری سکول جاری کیا جس کو بعد میں ترقی دے کر ہائی سکول بنادیا گیا.اس کے تمام اخراجات خود برداشت کئے.پارٹیشن کے وقت تک سکول نہایت کامیابی سے چلتا رہا اور تمام گرد و پیش کے علاقہ کے مسلمانوں کے بچے جو ہندوؤں کے سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگے جس سے مسلمانوں کو بہت دینی و دنیوی فائدہ پہنچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد ان کے اندر خاص تغییر پیدا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام، حضرت مصلح موعود اور آپ کے صاحبزادگان و دیگر افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت زیادہ محبت اور عقیدت تھی.جس کا اندازہ آپ کے ایک انٹرویو سے بھی ہوتا ہے جو آپ نے اپنے نواسے مکرم مظفر احمد صاحب کو دیا جس میں آپ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفتہ امسح الاول کی خلافت کے پہلے سال میں مولوی عبد السلام مرحوم نے جو میرے حقیقی بھائی تھے، حضرت خلیفہ اسی الاول کے شاگرد تھے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے کلاس فیلو بھی تھے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی خدمت میں درخواست گزاری تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو ہمارے ہاں آنے کی اجازت فرمائیں اور ساتھ میر محمد اسحاق صاحب بھی آئیں کیونکہ افراد جماعت کا ٹھگڑھ کی خواہش ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب ہمارے گھروں میں پاؤں رکھیں.تا ہمارے گھروں میں برکت ہو جائے.حضور نے منظور فرمایا.حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور صاحبزادہ صاحب کو اجازت دے دی اور فرمایا جانا چاہئیے مخلص جماعت ہے چونکہ جلسہ سالانہ ۱۹۰۸ء کی تاریخیں قریب تھیں اور کا ٹھگڑھ دور تھا.حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کر یام کو اطلاع دے دی کہ صاحبزادگان کا ٹھگڑھ جانے کے لئے آرہے ہیں آپ انتظام کریں.اس وقت ہمارے نزدیک پھگواڑہ اسٹیشن ہی تھا.الغرض حضرت صاحبزادہ صاحب اور حضرت میر اسحاق صاحب ۱۶ دسمبر ۱۹۰۸ء کو بٹالہ اسٹیشن سے سوار ہو کر امرتسر سے گاڑی بدل کر پھگواڑہ اسٹیشن پر اتر کر تانگہ پر سوار ہوکر بنگہ ضلع جالندھر جہاں ہماری جماعت تھی ، رات کو آگئے.رات وہیں قیام کیا اور وہاں سے ایک مخلص

Page 735

تاریخ احمدیت.جلد 24 695 سال 1968ء احمدی دوست شیر محمد صاحب جو نواں شہر تک اپنا تانگہ چلایا کرتے تھے ان کے تانگہ میں سوار ہوکر کا ٹھگڑھ کو روانہ ہو گئے اور چند آدمی بنگہ سے بھی آپکے ہمراہ چل پڑے.راستے میں حضرت حاجی غلام احمد صاحب بھی آپ کو مل گئے.راستہ میں چوہدری غلام قادر صاحب رئیس آف لنگڑ وعہ بھی کسی ذریعہ سے اطلاع پاکر مل گئے.راستہ میں ہی ایک جاڈلہ قصبہ (حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کا قصبہ ) سے حاجی غلام احمد صاحب نے اپنے رشتہ داروں سے گھوڑی لے لی.حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب گھوڑی پر سوار ہو کر اکیلے ہی کا ٹھگڑھ کا راستہ پوچھ کر کاٹھگڑھ پہنچ گئے.گاؤں میں آکر دریافت کیا کہ عبدالسلام صاحب کا مکان کہاں ہے؟ پوچھتے ہوئے جہاں ہماری حویلی تھی اور ہمارے مہمان ٹھہر ا کرتے تھے گھوڑی باندھ کر اکیلے ہی مسجد احمد یہ جو بہت اونچی جگہ پر واقع تھی ،پہنچ گئے.نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ ہمارے چچا زاد بھائی بابو عبدالحئی خانصاحب جو ان دنوں اپنی ملازمت سے رخصت پر آئے ہوئے تھے بے اختیار بول اٹھے کہ عبدالسلام ! میاں صاحب آگئے ہیں.پھر میں اور میرے بھائی عبدالسلام صاحب، عبدالحئی خانصاحب اور دیگر افراد آپکے گرد جمع ہو گئے.( آپ کو ساتھ لیکر اپنے پختہ مکان میں جہاں صرف ابھی دو کمرے ہی تیار ہوئے تھے، آئے.جب وہاں آئے تو ہمارے والد چوہدری محمد حسین صاحب اور ایک رشتہ دار احمدی وہاں بیٹھے ہوئے تھے.حضور کو دیکھ کر حیران رہ گئے.کھڑے ہو گئے.حضور سے مصافحہ کیا.کچھ دیر کے بعد حضرت میر محمد الحق صاحب، حاجی غلام احمد صاحب، چوہدری غلام قادر صاحب آف لنگڑ وعہ و دیگر افراد قریبا پندرہ کس مع بھائی شیر محمد تانگہ والے آگئے.۱۸ دسمبر ۱۹۰۸ء کو جہاں حضور کی تقریر کے لئے دریاں وغیرہ بچھائی گئیں تھیں اور اہل کا ٹھگڑھ کے بیٹھنے کا انتظام تھا.تقریر کرنے کے لئے تشریف لے گئے.وہاں بہت ہندورؤساء دوکاندار اور مسلمان غیر از جماعت اور احمدی احباب کا ایک خاص مجمع ہو گیا.حضور نے الحمد شریف کے بعد فرمایا کہ ہر ایک چیز جس کو ہم چھو سکتے ہیں یا ہر ایک چیز جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے یا ہر ایک چیز جس کو ہمارے ناک سونگھ سکتے ہیں وہ تمام ایک صانع خدا کی ہستی کا ثبوت دے رہے ہیں.اس سے آگے کے الفاظ یاد نہیں.اخویم چوہدری عبدالحئی خان صاحب نے تقریرلکھنی شروع کی اور جلد ہی بند کر کے بیٹھ گئے.میں نے کہا آپ لکھتے کیوں نہیں؟ کہنے لگے کہ تقریر سننے میں زیادہ لذت آتی ہے.اس جلسہ میں چوہدری غلام احمد صاحب چیف نمبر دار رئیس جو ہمارے تایا بھی تھے ، موجود تھے.اسی طرح میرے والد محمد حسین

Page 736

تاریخ احمدیت.جلد 24 696 سال 1968ء صاحب بھی تھے.جلسہ خوب با رونق رہا.پھر ہم واپس اپنے مکان میں آگئے.جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب بھی ٹھہرے ہوئے تھے.اس دروازہ پر اخویم مولوی عبدالسلام صاحب نے لکھا ہوا تھا ” بیت الحمود “ گویا اس کمرہ کا ( نام ) ہی بیت محمود تھا اور اندر دیوار پر لکھا ہوا تھا.۱۸،۱۷دسمبر ۱۹۰۸ء کو حضرت مرزا محمود احمد صاحب اس مکان میں رونق افروز ہوئے.یہ الفاظ جب تک وہاں رہے بدستور لکھے رہے.۱۹ دسمبر ۱۹۰۸ء کی صبح کو نماز فجر کے بعد جماعت کا ٹھگڑھ کی خواہش کے مطابق حضور مع میر اسحق صاحب و دیگر افراد جماعت جن کی تعداد میں پچیس کے قریب ہوگی کا ٹھگڑھ کے ہر ایک احمدی کے گھر 65 تشریف لے گئے.“ حضرت خلیفہ المسیح الثانی جب مسند خلافت پر متمکن ہو گئے تو آپ کا جو بھی ارشاد پہنچتا فورا اس پر عمل کرتے اور تمام جماعت کو اس پر عمل کرانے کی کوشش کرتے.باوجود اس کے کہ آپ کی صحت کمزور تھی آپ قرآن مجید پڑھانے میں بہت کوشش فرماتے.احمد یہ جماعت چک ۴۹۷ کے پریذیڈنٹ بھی تھے اس لئے اس ذمہ واری کے احساس سے بہت فکر مند ہوتے تھے.آپ نے بیسیوں بچوں کو قرآن مجید پڑھایا.آپ کے دل میں سلسلہ کا بہت درد تھا.جو بھی مرکز کی طرف سے جاتا اس کے ساتھ نہایت اکرام کے ساتھ پیش آتے.نہایت کھلے دل سے مہمان نوازی کے فرائض ادا کرتے اور مہمان کی خاطر اپنی کسی تکلیف کی پروانہ کرتے.انتخاب خلافت کمیٹی کے ممبر کے طور پر آپ کا نام تاریخ احمدیت جلد ۱۹صفحہ ۱۹۲ پر نمبر ۲۵ کے تحت درج ہے.آپ جماعت احمدیہ کا ٹھ گڑھ کے سالہا سال تک امیر جماعت رہے.قیام پاکستان کے بعد آپ نے چک ۴۹۷ ج.بضلع جھنگ میں بود و باش اختیار کی اور یہیں آپ نے وفات پائی.آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی زیر ہدایت مورخہ ۱۲ نومبر ۱۹۶۸ء کومحترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے جنازہ پڑھایا.جس کے بعد قطعۂ صحابہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.اولاد آپ نے تین شادیاں کیں.

Page 737

تاریخ احمدیت.جلد 24 697 سال 1968ء اہلیہ اول: محترمہ عصمت بی بی صاحبہ جن سے دو بیٹیاں پیدا ہوئیں.ایک بیٹی بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی.دوسری کا نام آمنہ بیگم صاحبہ تھا جو کہ مکرم چوہدری عبدالرحیم خاں صاحب کا ٹھگڑھی سابق آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی اہلیہ تھیں.ان کی وفات ۱۹۸۴ء میں ہوئی.اہلیہ دوم محترمہ الفت بی بی صاحبہ جن سے ایک بیٹی حفیظہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں.اہلیہ سوم : محترمہ جنت بی بی صاحبہ بنت عبدالواحد صاحب جن سے مندرجہ ذیل اولاد پیدا ہوئی.(۱) چوہدری عبداللطیف خان صاحب.واقف زندگی (سابق آڈیر تحریک جدید ربوہ ) ان کے ایک بیٹے مکرم عبد الحمید خان صاحب مربی سلسلہ اس وقت نائب ناظم مال وقف جدیدر بوہ ہیں.(۲) چوہدری عبدالوحید خان صاحب.(۳) چوہدری عبد الحلیم خان صاحب مولوی فاضل ( سابق انسپکٹر وقف جدید و انسپکٹر تحریک جدید ) (۴) چوہدری عبد الرب خان صاحب ٹیچر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ حضرت چوہدری کرم الہی صاحب گرد اور قانون گو ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۱ء زیارت :۱۹۰۴ء بمقام سیالکوٹ وفات : ۱۳ دسمبر ۱۹۶۸ء حضرت چوہدری کرم الہی صاحب نے ۲۴ دسمبر ۱۹۳۹ء کو مولانا شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل مربی سلسلہ احمدیہ کو بیان دیتے ہوئے فرمایا:.”میرے ایک دوست مستری اللہ رکھا صاحب ساکن تر گڑی تھے.ان کی تبلیغ سے مجھے احمدیت کا خیال پیدا ہوا.“ (۱) ۱۹۰۸ء میں جب حضرت اقدس لا ہور تشریف لے گئے.تو خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کی اوپر کی چھت پر تشریف فرما تھے.ایک پٹھان جو اعلیٰ عہدیدار تھے اور پنشن پر جانے کے لئے تیار تھے.ملاقات کے لئے تشریف لائے.دوران گفتگو میں حضور نے انہیں فرمایا کہ آپ کا اب کیا شغل ہو گا.خان صاحب نے عرض کیا کہ نماز روزہ وغیرہ میں مشغول ہوں گا.فرمایا.دنیا کے کاموں سے فارغ ہو کر آخری عمر میں تو ہر قسم کے لوگ عبادت کی طرف توجہ کرنے لگ جاتے ہیں.لیکن کیسا ہی بابرکت انسان ہے جو جوانی میں اس طرف توجہ کرے.69

Page 738

تاریخ احمدیت.جلد 24 698 سال 1968ء حضرت چوہدری صاحب کے فرزند مولانا فضل الہی بشیر صاحب (مجاہد افریقہ، ماریشس و بلاد عربیہ ) تحریر فرماتے ہیں:.” جب آپ تین سال کے ہوئے تو اپنے ننھیال بدوملہی ضلع سیالکوٹ اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ گئے تھے.آپ کی عمر سات سال کی ہوئی تو آپ کے والد ماجد نے آپ کو سکول میں داخل کرا دیا جو گاؤں میں عیسائیوں کا پرائمری سکول تھا.پانچویں پاس کی اور دوروپے وظیفہ حاصل کیا اور گوجرانوالہ مشن ہائی سکول میں داخل ہوئے.یہاں مڈل انگریزی کا امتحان پاس کیا.پھر اسلامیہ ہائی سکول میں نویں کلاس میں داخلہ لے لیا.مگر افسوس گاؤں کے دوسرے لڑکے تعلیم چھوڑ گئے تو آپ نے بھی تعلیم چھوڑ دی.اس کے بعد موضع نت میں مشن سکول میں دو سال بطور استاد کام کیا.اس کے بعد اپنے ننھیال بدوملہی گئے اور چوہدری سرفراز خان صاحب سے سفارشی چٹھی لکھوا کر چوہدری سلطان احمد صاحب افسر مال گوجرانوالہ کے پاس لائے.انہوں نے مہتمم صاحب بند و بست گوجرانوالہ کے پاس سفارش کر کے آپ کا نام پٹوار میں درج کرایا.سیالکوٹ میں اپنے ماموں کے چچازاد بھائی چوہدری عنایت اللہ صاحب بیرسٹر کے گھر میں رہے.سید حامد شاہ صاحب نے آپ کو پٹوار کے سکول میں داخل کروا دیا.آپ سکول میں پڑھتے بھی تھے اور بیرسٹر صاحب کا کام بطور ایجنٹ بھی کرتے تھے.پٹوار کا امتحان پاس کر کے گاؤں آگئے اور ہری چند پٹواری ساکن تلونڈی راہوالی کے پاس ہر روز جاتے اور عملی تجربہ حاصل کرتے اور اس کے بعد مہتمم صاحب بندو بست کے پاس حاضر ہو کر ملازمت کی درخواست دی.صاحب بہادر نے آپ کو پاکھڑے والی خورد تحصیل گوجرانوالہ میں پٹواری بندو بست لگا دیا.آپ فرماتے تھے کہ اس کے بعد میں پندرہ سال پٹواری رہا.ایام پٹوار میں دیانتداری سے کام کرتا رہا.کسی غریب اور بیوہ کا نقصان نہ کیا اور کسی بڑے آدمی کے رعب میں آکر حق کو نہیں چھوڑا.اس کے بعد میں ۱۹۲۲ء میں قانون گوبھرتی ہو گیا.پندرہ سال تک قانون گورہا.ان ایام میں بڑے بڑے آدمی خواہش رکھتے تھے کہ کمزوروں اور غریبوں کا حق مار کر فائدہ اٹھائیں لیکن میں نے کسی کی پرواہ نہ کی اور حق کو نہ چھوڑا.جس کی وجہ سے سب افسروں کے دل میں میری عزت تھی.رشوت خور افسر اور بڑے آدمیوں کا لحاظ کرنے والے افسر مجھ سے ناجائز کام کرنے کیلئے کہتے تو میں ایسے افسروں کی بات بھی نہ مانتا تھا.جس کے سبب غریب پبلک میں بڑی عزت قائم ہوگئی اور بڑے آدمیوں پر میرا رعب قائم ہو گیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام عمر نوکری میں میرے پر کوئی الزام نہ آیا اور سرخروئی سے ۱۹۴۰ء میں میں

Page 739

تاریخ احمدیت.جلد 24 699 سال 1968ء ریٹائر ہوا.حضرت چوہدری صاحب کی پہلی شادی ۱۹۰۱ء میں موضع منچر چٹھہ میں ہوئی.تیرہ چودہ سال تک کوئی اولاد نہ ہوئی.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل سے دعا کروائی.آپ کے والد صاحب بھی دعا کرتے رہے آپ نے خود بھی بڑی دعا کی.آپ نے خواب میں دیکھا کہ ایک لڑکا تین سال کا آپ کی گود میں ہے اور باتیں کرتا ہے.یہ خواب آپ نے جماعت کے دوستوں کو سنادی.بیوی ایسی بیمار تھی ڈاکٹروں نے اور دیہاتی دائیوں نے کئی بار ملاحظہ کرانے سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہو سکتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور فضل کا ہاتھ دکھایا اور ظاہری حالات کے خلاف خواب کے ایک سال بعد ماہ اپریل ۱۹۱۴ء میں لڑکا عطا فرمایا جس کا نام بشیر احمد ہے.بچہ کے پیدا ہونے سے پہلے والدہ دو ماہ بخار سے بیمار رہی اور اس بیماری میں اس کی آنکھیں بند ہو گئیں.یہ خدا تعالیٰ کی ہستی اور احمدیت کی صداقت کا نشان بن گیا اور چوہدری صاحب کا دل کامل یقین سے بھر گیا.یہ بیوی ۱۹۲۰ء میں فوت ہوگئی تھیں.بیوی کی اس معذوری کی وجہ سے آپ نے غالباً ۱۹۱۸ء جنوری یا فروری میں دوسری شادی مسماة عمر بی بی صاحبہ ساکنہ کوٹ امرسنگھ نزد گوجرانوالہ سے کی اور دسمبر ۱۹۱۸ ء میں آپ کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا جس کا نام فضل الہی رکھا گیا.اس کے علاوہ پانچ لڑکے اور چارلڑکیاں پیدا ہوئیں.۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا اور حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اول ہوئے حضرت چوہدری صاحب نے فوراً بیعت کر لی.آپ فرماتے تھے کہ :.حضرت مولوی صاحب بڑے سادہ اور نہایت خلیق اور بڑے بارعب تھے.لمبا قد اور نورانی چہرہ تھا.داڑھی کو مہندی لگاتے تھے.پھر ۱۹۱۴ء میں حضرت خلیفہ اول کا وصال ہو گیا اور حضرت میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادہ ہیں خلیفہ ہوئے.میں نے اس بناء پر فوراً بیعت کر لی کہ میں نے حضرت مولوی صاحب کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا تھا کہ صاحبزادہ صاحب خلیفہ مقرر ہوئے ہیں.اور ہاتھ میں سونا تھا“.غالباً ۱۹۲۰ء میں آپ نے گاؤں میں جلسہ کرایا.اس کے بعد سید رمضان شاہ صاحب نے غیر احمدی علماء کو تلونڈی کھجور والی بلوالیا جو تعداد میں سات تھے.ایک ان میں وکیل تھا.غیر احمدی پبلک نے احمد یہ مسجد میں آکر مجبور کیا کہ ان علماء سے بحث کرو.جماعت کے پاس کوئی عالم نہ تھا.وقت تنگ تھا.قادیان سے منگوا نا نا ممکن تھا.حضرت چوہدری صاحب فرماتے ہیں:.

Page 740

تاریخ احمدیت.جلد 24 700 سال 1968ء میں خود ہی ان کے ساتھ بحث کرنے کیلئے تیار ہو گیا.شرائط طے کیں.گاؤں کے معتبروں سے دستخط لئے گئے.رات آٹھ بجے سے ایک بجے تک اندر کے دارہ میں جہاں اب بہاری لال کا مکان ہے مباحثہ ہوا.عورتوں اور مردوں سے دارہ بھرا ہوا تھا.اور اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر بھی لوگ جمع تھے.وفات مسیح اور امکانِ نبوت پر بحث ہوئی اور یہ طے پایا کہ صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر کل رات بحث ہو گی.غیر احمدی علماء پر ہمارا ایسا رعب طاری ہوا اور اس قدر نمایاں فتح ہوئی کہ صبح سورج نکلنے سے پہلے تمام غیر احمدی علماء تلونڈی چھوڑ کر چلے گئے.صبح رمضان علی شاہ صاحب کے مکان پر گاؤں کے ملاں جمع ہوئے.میں بھی وہاں چلا گیا.چونکہ بحث امن اور صلح سے ہوئی تھی اس لئے آپس میں طے پایا کہ ایک بڑی بحث کا انتظام کیا جائے جس میں فریقین کے علماء کو دعوت دی جائے اور اکٹھی مہمان نوازی کی جائے اور دو دن میں تمام متنازعہ مسائل پر بحث کی جائے.گاؤں کی بدقسمتی سے ایک نیلا جبہ پوش لمبی ٹوپی فقیرانہ پہنے ہوئے نور اللہ شاہ جوسید کہلاتا تھا اور سیالکوٹ کا رہنے والا تھا وہاں آ گیا.اس کو دیکھ کر سب خوشی سے اچھل پڑے.مجھے وہاں سے اٹھنا پڑا.جمعہ المبارک تھا نماز جمعہ کے موقعہ پر اس نے سلسلہ احمدیہ کے خلاف سخت بد زبانی کی.اور رات اسی دارہ میں جہاں ہمیں فتح ملی تھی تقریر کی اور بڑا گند اُچھالا.میرے پر اصرار مطالبہ کے باوجود بولنے کا موقعہ نہ دیا گیا.اس کے بعد میں نے قادیان آدمی بھیج کر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے درخواست کی کہ احمدی علماء بھیجیں.حضور نے حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کو تلونڈی بھیجا.وہ تشریف لائے.غیر احمدی معززین سے وعدہ لیا گیا کہ امن قائم رکھا جائے گا.اسی دارہ میں رات جلسہ شروع ہوا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی نے ابھی پندرہ منٹ تقریر کی تھی کہ اردگرد کے مکانوں سے پتھر برسنے شروع ہو گئے اور غلام نبی نمبر دار صاحب نے للکارا کہ جلسہ بند کر دو ورنہ ہم فساد کریں گے.پولیس کا انتظام نہ تھا اور رات کا وقت تھا ہم نے جلسہ کی کارروائی روک دی.اور ایک احمدی دوست حکیم رحیم بخش صاحب ( والد ماجد میاں عطاء اللہ صاحب وکیل) کے مکان پر جلسہ شروع کیا جس میں کافی تعداد میں غیر احمدی شرفاء شامل ہوئے.“ حضرت چوہدری صاحب کی ان تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے غیر احمد یوں نے افسران بالا سے مل کر گاؤں سے دور تبادلہ کروادیا.آپ ملازمت کے سلسلہ میں پٹواری تھے یا قانون گو جہاں بھی رہے تبلیغ احمد بیت کرتے رہے اور خدا کے فضل سے آپ کے ذریعہ بہتوں کو احمدیت کی نعمت نصیب ہوئی.

Page 741

تاریخ احمدیت.جلد 24 701 سال 1968ء اور جن لوگوں نے آپ کو دکھ دئے ان کے بدانجام کو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.۳۴-۱۹۳۲ء میں احرار زور پکڑ رہی تھی.سید فیض الحسن صاحب آلو مہاری نے تلونڈی آکر سخت بدزبانی کی.حضرت چوہدری صاحب نے راتوں رات گھڑ، فیروز والا ، گوجرانوالہ ، تر گڑی، گجو چک کے احمدیوں کو پیغام بھیجا کہ وہ صبح نو بجے تلونڈی کھجور والی پہنچ جائیں اور گاؤں میں پیشگی اشتہار لکھ کر لگوا دئے کہ کل فیض الحسن صاحب کے اعتراضوں کا جواب دیا جائے گا.اپنی مسجد میں جلسہ منعقد کیا گیا.سب انسپکٹر پولیس جو احرار کے جلسہ میں تھا اس نے گوجرانوالہ سے مزید پولیس منگوالی ہمارے جلسہ میں آ گیا.ہمارا اپنا انتظام تھا.مسجد کے اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر پہرے بٹھا دیے اور جلسہ گاہ کے آگے نو جوانوں کر مداد اور سکندر کو پہرہ پر لگا دیا گیا کہ اگر احراری حملہ آور ہوں تو روکیں.جلسہ صبح ۹ بجے سے ۵ بجے شام تک ہوتا رہا.دو پہر کے وقت مہمانوں کو کھانا کھلایا جو دوصد تھے.ہندو، سکھ اور معزز مسلمان جلسہ میں کثرت سے موجود تھے.ان لوگوں نے اعلانیہ کہا کہ احمدی علماء نے نہایت متانت اور شرافت سے معقول جوابات دیئے ہیں.لیکن احراری مولویوں نے سوائے بدزبانی کے کچھ نہیں کیا.اس قسم کے جلسے گاؤں میں کئی دفعہ کروائے گئے.آپ کو کثرت سے کچی خوا میں آتی تھیں جو پوری ہو کر از دیا دایمان کا موجب بنتی تھیں.آپ بڑے دعا گو، تہجد گزار بزرگ تھے اور سب کے ہمدرد تھے.غریب نواز اور صلہ رحمی میں ممتاز.گاؤں میں آپ کو بڑی عزت سے دیکھا جاتا.جب آپ نے وفات پائی اور آپ کا جنازہ ربوہ لایا جارہا تھا، تو ٹرک کے پاس آکر ایک اشد دشمن احمدیت نے آپ کے بچوں سے تعزیت کی اور کہا ” اس گاؤں میں ایک ہی مرد با اصول تھا وہ بھی چلا گیا ہے.جلسہ سالانہ پر باقاعدگی سے جاتے.تقریروں کے نوٹس لیتے بالخصوص حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے نوٹس لیتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے.گاؤں آکر جماعت کو سناتے.کئی دفعہ اپنے خرچ پر غیر از جماعت دوستوں کو جلسہ سالانہ پر لے جاتے تھے.جلسہ سالانہ پر جاتے تو جو بھی کتا ہیں اور لٹریچر جماعت کی طرف سے شائع ہوتا ضرور خریدتے اور تبلیغ کی غرض سے لوگوں میں تقسیم کر دیتے.آپ کی عادت تھی کہ گھر پر ہوتے تو صبح با قاعدگی سے خود بھی تلاوت قرآن مجید کرتے اور بچوں سے بھی تلاوت کرواتے.والدہ صاحبہ نے کئی بچے بچیوں کو قرآن مجید پڑھایا.رات کو نماز عشاء کے بعد والد صاحب سارے کنبہ کو جمع کر کے نظمیں سنتے یا سلسلہ کی کتب پڑھواتے.اور انعامات الہیہ کا ضرور تذکرہ

Page 742

تاریخ احمدیت.جلد 24 702 سال 1968ء فرماتے.قبول احمدیت کی برکات اور قبولیت دعا کے واقعات سناتے.اسی ماحول کی وجہ سے ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی اور صداقتِ احمدیت اور قبولیت دعا پر ایمان مضبوط ہوا اور خلافت احمدیت سے عقیدت اور وابستگی پیدا ہوئی.الحمدللہ.اخبار الفضل با قاعدگی سے منگواتے خود بھی پڑھتے دوسروں کو پڑھنے کے لئے دیتے.آخری عمر میں جب بینائی کمزور ہوگئی تو الفضل کسی سے پڑھوا کر سنتے.گاؤں کی مسجد کی توسیع ہو رہی تھی.آپ ریٹائر ہو چکے تھے.آپ نے اپنے مکان کا چوبارہ گرا کر ساری اینٹیں مسجد کے لئے دے دیں.جب کبھی گاؤں میں جلسہ کرواتے اس کے بیشتر اخراجات خود برداشت کرتے.مرکز سے آنے والے علماء کرام اور خدام سلسلہ کی مہمان نوازی کا شرف بھی آپ کے حصہ میں آتا رہا.والدہ صاحبہ ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھانہ رکھتیں.بڑی بشاشت سے ان کے آرام اور خوراک کا خیال رکھتی تھیں اور ہم بچوں کو بڑی خوشی ہوتی تھی کہ ہمارے گھر میں قادیان سے بزرگ تشریف لائے ہیں.خاندان میں آپ سب سے بہتر حالت میں تھے.سب کی مدد کرتے رہے.دل میں کسی شخص کے بارے میں کینہ نہ رکھتے تھے.ادھر ناراض ہوئے اور تھوڑی دیر کے بعد اس کے پاس جا کر نا راضگی دور کر دی.دشمنی اور انتقام کا جذبہ بالکل ہی نہ تھا.دشمنوں سے بھی احسان کا سلوک کرتے دیکھا ہے.بڑے مہمان نواز تھے.میری والدہ صاحبہ آپ کی عدم موجودگی میں بھی مہمانوں کی بڑی خدمت کرتی تھیں.اسی وجہ سے ہمارا گھر مہمانوں کے لئے ہمیشہ کھلا رہتا.بڑے شریف النفس اور بہادر تھے.دیانتدار قانون گو تھے.رمضان المبارک کے روزے آخری عمر تک رکھتے رہے.آپ روزہ سے تھے.آپ کا معمول تھا کہ روزہ رکھ کر فجر کی نماز مسجد میں ادا کرتے اور پھر وہیں چٹائی پر لیٹ جاتے.آپ چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے دسمبر کی سردی تھی ایک پہلو پر لیٹے لیٹے سردی لگ گئی.اسی کے نتیجہ میں آپ کی وفات ہوئی.جنازہ ربوہ لایا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مسجد مبارک میں نماز جنازہ ادا فرمائی.اعتکاف اور درس القرآن کی وجہ سے احباب کثرت سے جنازہ میں شریک تھے.اس کے بعد بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی اور مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے دعا کرائی.

Page 743

تاریخ احمدیت.جلد 24 اولاد از زوجه اول (۱).بشیر احمد صاحب از زوجه دوم 703 (۱) مولوی فضل الہی صاحب بشیر مجاہد افریقہ و بلا دعربیه و ماریشس (۲) چوہدری غلام محمود صاحب سابق صدر جماعت تلونڈی کھجور والی (۳) چوہدری محمد صادق صاحب.(۴) چوہدری صغیر احمد صاحب چیمہ سیکرٹری وصایا جماعت احمدیہ کراچی (۵) ماسٹر عزیز احمد صاحب صدر جماعت تلونڈی کھجور والی (۶) چوہدری منیر احمد صاحب (۷) فاطمہ بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری چراغ دین صاحب لدھڑ (۸) بشیراں بی بی صاحبہ زوجہ چوہدری عنایت اللہ صاحب گورائیہ (۹) رحمت بی بی صاحبہ زوجہ ملک محمد شریف صاحب مرحوم معلم وقف جدید پیر کوٹ (۱۰) خورشید بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری دوست محمد صاحب چیمہ کر تو حضرت مرز اعبدالکریم صاحب ولادت: ۱۸۷۸ء سال 1968ء بیعت دسمبر ۱۹۰۳ء وفات: ۲۱ دسمبر ۱۹۶۸ء آپ حضرت مولوی مرزا محمد اسماعیل صاحب مصنف چٹھی مسیح کے فرزند اکبر تھے.آپ کے پر دادا مرزا غلام قادر صاحب دلی سے ہجرت کر کے وزیر آباد ( پنجاب ) محلہ شیخاں میں آباد ہوئے جہاں سے آپ کے دادا مرزا محمد عثمان صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ میں منتقل ہوئے.یہیں آپ کی وفات ہوئی.آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اور قرآن شریف اور کریما اور گلستان اور بوستان (فارسی کتب ) پڑھیں.موضع بلہے والا ضلع گوجرانوالہ سے پرائمری پاس کی اور اسلامیہ ہائی سکول سے مڈل تک تعلیم پائی.یہ ستمبر ۱۹۰۵ء کو جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کا آپریشن ہوا تو

Page 744

تاریخ احمدیت.جلد 24 704 سال 1968ء آپ قادیان میں ہی تھے.آپ ڈسپنسری سے ایک اور صاحب کے ہمراہ انگریزی ادویہ کے نسخے بنا کر لاتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی مرہم پٹی میں حصہ لیتے تھے.آپ نے پہلے شیخ عبدالرحیم صاحب کے پاس لاہور میں کام کیا پھر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ کے دفتر میں ملازم رہے.ازاں بعد ریلوے ہسپتال لاہور میں بطور ڈسپنسر طبی خدمات بجالانے لگے.۱۹۰۰ء میں آپ لاہور سے لائکپور اور ۱۹۰۲ء میں لائکپور ( حال فیصل آباد ) سے تبدیل ہو کر ریلوے ہسپتال جنید چلے گئے.۱۹۳۲ء میں والٹن ٹرینینگ سکول سے ہجرت کر کے قادیان میں قیام پذیر ہوئے اور دارالفضل میڈیکل ہال قائم کیا.آپ قادیان میں عرصہ تک مربی اطفال رہے.مسجد مبارک قادیان میں اکثر التزام سے نمازیں ادا کرتے تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.اپنی اولا د کو پابندی صلوۃ، نظام سلسلہ سے وابستہ رہنے کی بہت تلقین فرماتے تھے.قادیان سے ہجرت کے بعد کیمل پور قیام کیا اور ۱۹۶۵ء میں جب آپ کے فرزند مرزا عبدالسمیع صاحب سٹیشن ماسٹر کار بوہ میں مکان تعمیر ہو گیا تو آپ مرکز احمدیت میں تشریف لے آئے.خلافت ثالثہ کے انتخاب میں شامل ہوئے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں سے تھے.اولاد: (۱) ڈاکٹر مرزا عبدالقیوم صاحب نوشہرہ چھاؤنی (۲) ڈاکٹر مرزا عبدالرؤف صاحب سابق امیر جماعت ضلع کیمل پور (اٹک) (۳) فلائنگ آفیسر مرزا عبدالقدیر صاحب (۴) مرزا عبدالسمیع صاحب سابق سٹیشن ماسٹر ر بوه

Page 745

تاریخ احمدیت.جلد 24 705 سال 1968ء ۱۹۶۸ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت اس سال صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ سلسلہ احمدیہ کے متعددممتاز خلصین جماعت نے وفات پائی جن کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے:.چوہدری محمد شریف صاحب آف فیروز والا وفات: ۱۱جنوری ۱۹۶۸ء جنوری ۱۹۰۳ء میں آپ کو گوجرانوالہ سٹیشن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.فرمایا کرتے تھے کہ حضور کے چہرہ مبارک سے اس وقت نور کی کرنیں نکل رہی تھیں.۱۹۱۸ء میں داخل احمدیت ہوئے اور مخالفت کے باوجود آخر دم تک کو ہ ثبات و استقلال بنے رہے.ملازمت کے ابتدائی سالوں میں قانون گوگرد اور رہے اور پھر ریڈر ڈپٹی کمشنر بنے.آپ کی پرکشش شخصیت سے انگریز افسران تک بہت متاثر ہوتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ شخص بڑا ایماندار اور فرض شناس ہے.ایک لمبا عرصہ تک جماعت فیروز والا کے پریذیڈنٹ رہے.مولوی محمد مراد صاحب آف پنڈی بھٹیاں وفات: ۳فروری ۱۹۶۸ء مارچ ۱۹۱۰ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عالم رویا میں زیارت کی جس پر آپ کو صداقت احمدیت پر غیر متزلزل یقین ہو گیا.خواب کے دوسرے تیسرے روز آپ نے اپنے والدین اور اپنے چھوٹے بھائی میاں احمد دین صاحب (ساکن موضع کوٹ شاہ عالم خاں ڈاکخانہ پنڈی بھٹیاں) کو یہ خواب سنائی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی مامور زمانہ کی صداقت پر شرح صدر عطا فرمایا.ازاں بعد آپ اپنے چھوٹے بھائی اور اپنے استاذ مکرم میاں علی محمد صاحب کھرل کے ساتھ قادیان تشریف لے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے دست مبارک پر بیعت کر لی.آپ کو قبل از وقت کشفی طور پر دکھایا گیا کہ حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوگئی ہے اور ان کی جگہ حضرت سید نا محمود خلیفہ ثانی مقرر ہوئے ہیں.آپ ہی کے ذریعہ شیخ عبد القادر صاحب ( سوداگرمل ) وقبول اسلام کا شرف حاصل ہوا جس پر آپ کو شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ اگر آپ کے پائیز استقلال

Page 746

تاریخ احمدیت.جلد 24 706 سال 1968ء میں ذرہ برابر فرق نہ آیا.کشمیر کمیٹی کے زمانہ میں آپ کی جدو جہد سے پنڈی بھٹیاں جو آریہ سماج کا گڑھ تھا ایک سال میں دو تبلیغی جلسے کرائے جن میں مبلغین احمدیت نے آریہ سماج پر اتمام حجت کر دی.اس عظیم کارنامہ پر شہر کے رئیس اعظم و ذیلدار میاں دوست محمد صاحب بھٹی نے کہا ” بھلا ہو جماعت احمدیہ کا جس نے آریہ سماج کے ہیں سالہ اعتراضات کا قرضہ آج اتار دیا بلکہ فاضلہ قرضہ بھی آج آریہ سماج پر چڑھا دیا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اپنی تالیف حیات قدی جلد سوم صفحہ ۲۹ پر آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.پنڈی بھٹیاں کے احمدی میاں محمد مراد صاحب درزی نہایت ہی مخلص اور جو شیلے احمدی اور تبلیغ کے دیوانے اور شیدائی ہیں اور جن کی تبلیغ اور عمدہ نمونہ سے عزیزم شیخ عبدالقادر صاحب مبلغ سلسلہ اور ان کے خسر ( یعنی حضرت شیخ عبدالرب صاحب سابق لالہ شیو رام داس والد ماجد جناب شیخ عبدالقادر صاحب محقق ) ہندوؤں سے اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے تھے.آپ نے احمدیت کی خاطر بہت سے ظلم و ستم بھی برداشت کیے جن کی ایک مختصر جھلک الفضل ۱۹ را پریل ۱۹۳۶ء کے صفحہ ۴ ، ۵ پر بیان کی گئی ہے.حکیم سید محمد یعقوب شاہ صاحب آف لگو ضلع منتگمری وفات: ۲/۱۱ فروری ۱۹۶۸ء ۱۹۳۶ء میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.موصی بھی تھے اور تحریک جدید کی پنج ہزاری فوج کے سپاہی بھی.فسادات ۱۹۵۳ء میں بڑی بہادری سے ڈٹ کر اپنے مطب میں بیٹھے رہتے تھے.غرباء اور مساکین کو مفت دوا دیا کرتے تھے.علاقہ کے غیر از جماعت لوگ بھی آپ کے حسن سلوک اور باوقار زندگی کے بہت مداح تھے.چوہدری غلام احمد صاحب آف مانچسٹر، انگلستان وفات: ۱۸ فروری ۱۹۶۸ء آپ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چوہدری غلام محمد صاحب کے صاحبزادہ تھے.۱۹۳۴ء میں بمبئی میں جابسے اور ایک لمبے عرصہ تک جنرل سیکرٹری کے فرائض ادا

Page 747

تاریخ احمدیت.جلد 24 707 سال 1968ء کرتے رہے.آپ ہی کی کوشش سے احمدیوں کیلئے علیحدہ قبرستان کا قطعہ زمین حاصل ہوا جس پر حضرت مصلح موعود نے بھی اظہار خوشنودی فرمایا.۱۹۵۹ء کے لگ بھگ مانچسٹر میں مقیم ہو گئے.آپ کی زندگی کی اہم ترین خصوصیت تبلیغ اسلام کا جذبہ تھا.ان کی مساعی سے مانچسٹر میں تین افراد داخلِ احمدیت ہوئے.۱۹۶۵ء میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور خان بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن مانچسٹر تشریف لے گئے اور تحریک کی کہ لائبریری اور نمازوں کے لئے مستقل کمرہ کا با قاعدہ انتظام ہونا چاہئے جس پر آپ نے فوراً اپنے مکان کا سب سے بڑا کمرہ اس غرض کیلئے وقف کر دیا اور پیشکش کی کہ نمازوں میں تشریف لانے والے تمام دوستوں کی مہمان نوازی کا فریضہ وہ خودسرانجام دیں گے.چنانچہ ایک لمبے عرصہ تک آپ یہ خدمت بجالاتے رہے اور آپ کا کمرہ نمازوں کے لئے زیر استعمال رہا.حضرت مصلح موعود سے والہانہ عشق تھا.کوئی بات ہوتی آپ حضور کا ذکر ضرور فرماتے.مانچسٹر کے لوکل مسلمان قبرستان میں سپردخاک کئے گئے.سکواڈرن لیڈ رسید محمدنواز احمد صاحب وفات: ۳ مارچ ۱۹۶۸ء بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے.راولپنڈی میں قیام کے دوران حلقہ صدر کی جماعت کے اور کراچی میں حلقہ ڈرگ روڈ کے صدر رہے.آپ سید محمد حسین شاہ صاحب کے بیٹے تھے.حافظ محمد رمضان صاحب فاضل مربی سلسلہ احمدیہ وفات : ۱۳ مارچ ۱۹۶۸ء آپ باوجود نا بینا ہونے کے بلند پایہ عالم دین تھے.قرآن مجید اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بہت عبور حاصل تھا.حضور علیہ السلام کا عربی اور اردو منظوم کلام بکثرت یاد تھا جنہیں اپنے وعظوں اور درسوں میں نہایت بلند آہنگی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے.آپ کا شمار خوش الحان واعظوں میں ہوتا تھا.تقسیم ہند سے پہلے حیدر آباد دکن میں رمضان المبارک میں نماز تراویح کے دوران قرآن کریم سنانے کے کئی مواقع آپ کو میسر آئے.جماعت کے خلاف اعتراضات کا جواب دینے میں ید طولی حاصل تھا.خندہ پیشانی اور علمی کمالات کے باعث آپ کے تعلقات کا حلقہ بہت وسیع تھا.خالد احمدیت مولا نا ابوالعطاء صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا:."محترم حافظ محمد رمضان صاحب

Page 748

تاریخ احمدیت.جلد 24 708 سال 1968ء اپنے ظرف کے مطابق حضرت حافظ روشن علی صاحب کے قدم پر چلے ہیں.اور انہوں نے کافی حد تک اس رنگ کو اپنا لیا تھا جس سے طبیعت میں خوشی ہوتی تھی.ان کی قرآت قرآن پاک کو سننے کے لئے خاص اہتمام سے دوست حاضر ہوتے تھے.حافظ صاحب مرحوم عالم باعمل تھے.بہت دعا گو تھے.سلسلہ کے لئے بہت غیرت مند تھے.کلمہ حق کہنے میں بڑی جرات رکھتے تھے.طبیعت میں بڑی ظرافت تھی.موقعہ کے مناسب بہت سے لطائف بھی سنایا کرتے تھے.حافظہ غیر معمولی تھا.اور قوت لمس بھی بلا کی تھی.ہاتھ ٹول کر بتادیتے کہ کون ہے.کتاب مفتاح القرآن ( شائع کردہ کتاب گھر قادیان) کی تدوین میں آپ نے بھی حصہ لیا تھا.آپ کے زمانہ طالبعلمی میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بزم احمد کے نام سے ایک انجمن کی بنیاد رکھی جس کے پریذیڈنٹ حافظ بشیر احمد صاحب جالندھری اور مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر اور سیکرٹری مولوی محمد اسماعیل صاحب ذبیح تھے.حافظ صاحب اس انجمن کے روح رواں تھے.بیناؤں کا نا بینا راہبر اخبار ” نوائے وقت“ ۲۰ فروری ۱۹۶۸ء میں حافظ محمد رمضان صاحب مرحوم کی نسبت حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.”ہمارے وطن عزیز میں کثرت سے معذور افراد پائے جاتے ہیں.بہت ہی کم معذور ہوں گے جنہیں مختلف حرفے سکھا کر اس قابل بنا دیا گیا ہو کہ وہ باعزت روزی کما سکتے ہوں اپنے دیش میں اکثر جب معذوروں کو بھیک کے لئے ہاتھ پھیلاتے دیکھتی ہوں تو مجھے اپنے گاؤں کا ایک واقعہ یاد آجاتا ہے واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک روز جب لوگ اپنے گاؤں کی مسجد میں نماز ادا کر رہے تھے تو یکدم کیا دیکھتے ہیں کہ تیز آندھی چلنے لگی ہے اور آندھی بھی ایسی کہ آج تک زندگی میں میں نے ایسی آندھی نہیں دیکھی اس وقت آنافا نا مکمل اندھیرا ہوگیا اور اتناسخت اندھیرا تھا کہ بلا شبہ اپنی انگلی بھی نظر نہیں آتی تھی اس وقت بس نمازی بہت گھبرائے اور فکر مند ہوئے کہ اب گھر کیسے پہنچیں گے اتنے میں ایک نابینا حافظ قرآن محمد رمضان نامی کھڑے ہو گئے اور لوگوں سے کہا کہ سب میرے پیچھے کھڑے ہو کر لائن بنا لیں اور پشت سے ایک دوسرے کو پکڑ لیں میں سب کی رہنمائی کروں گا اور بس اپنا اپنا نام بولتے جائیں میں سب کو ان کے گھروں تک پہنچا دوں گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا حافظ صاحب لائن کے آگے گاڑی کے انجن کی طرح چل پڑے اور سب لوگ حافظ صاحب کے پیچھے ایک دوسرے کو پکڑے

Page 749

تاریخ احمدیت.جلد 24 709 سال 1968ء ہوئے چلتے رہے جس کا گھر آجاتا حافظ صاحب دروازہ پر دستک دیتے اور اس سے کہتے کہ بھٹی لو ! اپنے گھر میں داخل ہو جاؤ اس طرح حافظ صاحب نے تمھیں کے قریب آدمیوں کو ان کے گھروں میں پہنچا دیا اور ایک جگہ بھی غلطی نہ کی حافظ صاحب کی یہ خوبی دیکھ کر اب بھی مجھے خیال آتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان میں بہت سی طاقتیں ودیعت کی ہیں انسان ایک طاقت کے ضائع ہونے پر دوسری طاقتوں سے کام لے سکتا ہے.“ ڈاکٹر سید سفیرالدین بشیر احمد صاحب وفات: ۲۶ مارچ ۱۹۶۸ء بمقام لندن جنوری ۱۹۵۰ء سے جولائی ۱۹۵۶ء تک گولڈ کوسٹ ( گھانا) میں سرگرم عمل رہے اور احمد یہ سیکنڈری سکول میں شاندار خدمات بجالاتے رہے.ازاں بعد انگلستان تشریف لے آئے اور ایک عرصہ تک مجلس خدام الاحمدیہ لندن کے عہدہ دار رہے.عیدین کے موقعہ پر فروخت لٹریچر کا کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے تھے.لندن مشن میں سیمینار کے پروگراموں کا آغاز ہوا تو اس کی نگرانی بھی آپ کے سپرد کی گئی.آپ انتہائی باقاعدگی سے مشن میں سیمینار کے انعقاد کا اہتمام فرماتے رہے اور یہ سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے پہلے دورۂ انگلستان کے موقعہ پر آپ نے اپنے وقت کا بیشتر حصہ مشن کے سپرد کر دیا.اس دوران حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ان کے گھر کو بھی برکت بخشی اور دعا سے نوازا.عبد اللطیف صاحب خوشنویس.ربوہ وفات: ۴/۳ را پریل ۱۹۶۸ء 78 ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد گھل گھوٹیاں جماعت احمد یہ سیالکوٹ کے سیکرٹری مال رہے پھر ربوہ میں آبسے اور الفضل، تحمیذ الاذہان اور الفرقان کی کتابت کی خدمت بجالاتے رہے.محلہ دار النصر شرقی میں سیکرٹری امور عامہ تھے اور اس عہدہ پر تادم واپسیں کام کرتے رہے.نہایت مخلص ، کم گو سلجھی ہوئی 79 طبیعت کے مالک اور منکسر المزاج تھے اور خدمت سلسلہ بجالانے میں راحت محسوس کرتے تھے.مرحوم کی نماز جنازہ حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مورخہ ۴ را پریل ۱۹۶۸ء بعد نماز ظہر پڑھائی.آپ موصی تھے.بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.

Page 750

تاریخ احمدیت.جلد 24 ملک مولا داد خان صاحب وفات: ۳ مئی ۱۹۶۸ء 710 سال 1968ء ملک مولا داد خان صاحب چک بهبل پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.آپ نے تقریباً ۹۵ سال کی عمر میں وفات پائی.آپ نے اگر چہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت تو نہیں کی تھی لیکن آپ کی کئی روح پرور مجالس میں شریک ہونے کا شرف حاصل تھا.حضور علیہ السلام کی وفات کے تھوڑے عرصہ بعد آپ بیمار ہو گئے اور ناک میں رسولی ہو گئی.جب مرض سے افاقہ نہ ہوا تو کسی نے قادیان جانے کا مشورہ دیا.قادیان میں آپ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے زیر علاج رہے اور اللہ تعالی نے آپ کو معجزانہ طور پر شفادی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روح پرور کلمات تو پہلے ہی سن چکے تھے.اب حضرت ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ معجزانہ شفایابی اور آپ کے اس مشفقانہ سلوک کے نتیجہ میں سارے شکوک مٹ گئے.چنانچہ آپ نے فوراً حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے ہاتھ پر بیعت کر لی.آپ عام طور پر بٹالہ میں کورٹ بیلف رہے.حضور جب کبھی مقدمات کی پیروی کے سلسلہ میں بٹالہ تشریف لے جاتے تو آپ حضور سے مصافحہ کرتے اور حتی المقدور حضور کی خدمات بجالاتے.آپ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے دو جوں کی بیگمات نہر پر سیر کرنے گئیں.مجھے بھی بغرض حفاظت ساتھ جانا پڑا.باتوں باتوں میں ان میں سے ایک کہنے لگی کہ مرزا غلام احمد قادیانی (علیہ السلام) کا مقدمہ میرے خاوند کی عدالت میں آج کل زیر سماعت ہے.بڑے بڑے لوگ آرہے ہیں کہ ان کو ضرور سزادی جائے.دوسری بولی دیکھنا تمہارا خاوند کہیں غلطی نہ کر بیٹھے.میرے خاوند نے ان کو سزا دی تھی تو ہمارے دونوں بیٹے یکے بعد دیگرے مرگئے تھے ( شاید یہ وہی مقدمہ ہے جس میں حضور کو جرمانہ کی سزا ہوئی تھی اور بعد میں اپیل کرنے پر معاف ہو گئی تھی.) چنانچہ اس حج نے حضور کو بری کر دیا تھا.آپ کی مرکز سلسلہ سے دلی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ اپنے تمام بچوں کو قادیان میں تعلیم دلوائی.اگر کبھی تنگدستی کی وجہ سے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی ادائیگی میں مشکل دیکھی تو فوراً اپنی گائے یا بھینس وغیرہ فروخت کر کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ منقطع نہ ہونے دیا.آپ کو ۱۹۵۷ء میں فریضہ حج ادا کرنے کی بھی سعادت نصیب ہوئی.آپ نہایت نیک اور دعا گوانسان تھے.اکثر کچی خوا میں آیا کرتی تھیں.نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے اور چندوں کی ادائیگی

Page 751

تاریخ احمدیت.جلد 24 کا بڑا خیال رکھتے.80 711 سال 1968ء سید محمد امین شاہ صاحب معلم اصلاح وارشاد وفات: ۱۰مئی ۱۹۶۸ء حضرت سید ولایت حسین شاہ صاحب مرحوم انسپکٹر وصایا آف شاہ مسکین کے لخت جگر تھے.۱۹۴۴ء میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی خدمتِ سلسلہ کے لئے وقف کی اور تادم واپسیں سرگرم عمل رہے.میاں محمد اسماعیل صاحب لائل پوری وفات: ۱۶مئی ۱۹۶۸ء میاں محمد اسماعیل صاحب مرحوم جماعت شہر لائل پور کے ایک مخلص اور وفادار کارکن تھے.۱۹۴۷ء میں وہ دارا پور ضلع گورداسپور سے لائل پور آئے.اس وقت وہ بالکل تہی دست اور بے ذریعہ شخص تھے لیکن تجارت کرنے میں انہیں پہلے سے ہی مہارت تھی.محنت اور مشقت کر کے انہوں نے لائکپور میں اپنا کاروبار چلایا اور۱۹۵۲ء میں وہ پورے طور پر اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے تھے.مرحوم نے ۱۹۴۱ء میں بیعت کی تھی.۱۹۵۲ء میں ان کی گھی کی دکان سر بازار لوٹی گئی.اس نقصان کو مرحوم نے بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کبھی کوئی شکایت زبان پر نہ لائے اور اپنے کام کو زیادہ محنت سے جاری رکھا.اس کے بعد ۱۹۵۳ء میں اس سے بھی زیادہ نامساعد حالات سے انہیں دو چار ہونا پڑا لیکن مرحوم نے ان تمام مصیبتوں اور شدتوں کو جو انہیں پہنچیں بخوشی برداشت کیا.اللہ تعالیٰ ذرہ نواز ہے اور اس کے راستہ میں قربانی کر کے کوئی شخص گھاٹے میں نہیں رہ سکتا چنانچہ ۱۹۵۳ء کے بعد روز بروز مرحوم کی تجارت ترقی کرتی گئی یہاں تک کہ ان کی کئی دکانیں قائم ہو گئیں.آپ بہت ملنسار، بہادر، متوکل اور صابر تھے.فقیر محمد صاحب آف علی پور ضلع مظفر گڑھ شہادت: مئی ۱۹۶۸ء آپ خلافت ثانیہ میں ۱۹۲۸ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ سلسلہ کے

Page 752

تاریخ احمدیت.جلد 24 712 سال 1968ء نہایت فدائی احمدی تھے.اور اسی وجہ سے آپ کی مخالفت ہوئی یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمایا آپ پنجابی کے بہت اچھے شاعر تھے اور جگر اؤں ضلع لدھیانہ سے ہجرت کر کے آئے تھے.مولویوں کا مطالبہ تھا کہ آپ تبلیغ سے باز آجائیں مگر آپ نے کہا میں اس کام سے ہرگز باز نہیں رہ سکتا.تبلیغ احمدیت ان کی روح کی غذا تھی.آپ حکمت کا کام کرتے تھے اور ساتھ اشتہار لکھ کر لگاتے تھے.ایک دفعہ اپنے لڑکے حبیب اللہ کو کہنے لگے کہ مولوی مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دیتے ہیں کہ اگر تم تبلیغ سے باز نہ آئے تو ہم تمہیں مار دیں گے.کہنے لگے میں تو باز نہیں آسکتا.جو ہوگا دیکھیں گے.اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا.چنانچہ مئی ۱۹۶۸ء میں جام شہادت نوش فرمایا.آپ نے اپنی یادگار میں ایک بیٹا حبیب اللہ اور پانچ لڑکیاں یادگار چھوڑے.سیدلال شاہ صاحب امیر جماعت احمد یه آن به وکرم پورہ ضلع شیخو پوره وفات: ۳ جون ۱۹۶۸ء آپ کا اصل وطن موضع چکریاں نزد سعد اللہ پور ضلع گجرات تھا.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے حقیقی چا زاد بھائی اور سعد اللہ پور سکول کے اول مدرس حضرت مولوی غلام علی صاحب کے ذریعہ آپ کو احمدیت کا نور پہنچا اور آپ نے خلافت ثانیہ کے اوائل میں قبولِ احمدیت کی سعادت پائی جس پر آپ کا سارا خاندان شدید مخالف اور معاند ہو گیا حتی کہ آپ کو قتل کرنے کے منصوبے بھی بنائے گئے مگر آپ انتہائی مخالف حالات کے باوجود کو استقلال بن کر احمدیت پر ڈٹے رہے اور اس کی خاطر بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا.حضرت مصلح موعود کے مشورہ سے آپ نے مدرسی اختیار کی اور ابتدا موضع مانگٹ اونچے ضلع گوجرانوالہ اور ازاں بعد موضع میراں پور ضلع شیخو پورہ میں تعینات ہوئے.کچھ عرصہ بعد آپ کی تبدیلی میراں پور سے پانچ میل پر واقع گاؤں آنبہ میں ہوئی اور یہیں سے ریٹائر ہوئے.شاہ صاحب کا سکول سالہا سال تک ضلع بھر میں اول آتا رہا.افسرانِ تعلیم ہمیشہ آپ سے خوش اور مداح تھے.سکول کا درسی سبق ہو یا کوئی عام نصیحت یا تربیتی مسئلہ آپ تمثیلات کے ذریعہ اس پیارے انداز میں سمجھاتے تھے کہ سننے والے کے دل میں گھر کر جا تا تھا.ملازمت کے بعد منڈی واربرٹن میں رہائش پذیر ہوئے اور تجارت کا مشغل اختیار کیا لیکن وقت زیادہ تر جماعتی کاموں میں ہی صرف ہوتا تھا.جماعت آنبہ کے چالیس سال تک امیر رہے.علاوہ ازیں شیخوپورہ کے نائب امیر اور ناظم انصار اللہ ضلع شیخو پورہ کے فرائض بھی انجام دیتے رہے.

Page 753

تاریخ احمدیت.جلد 24 713 سال 1968ء ۳۶ - ۱۹۳۵ء میں آپ اور محمد دین صاحب سیکرٹری مال جماعت احمدیہ آنبہ تحریک جدید کے مکیریاں مرکز میں بغرض تبلیغ تشریف لے جاتے رہے.محمد الدین صاحب رقمطراز ہیں :.۱۹۳۵ء کا واقعہ ہے کہ موضع میت پور میں ہم نے نماز ظہر ادا کی اور دعا کی کہ اللہ کریم اس گاؤں میں بھی احمدیت کا بیج لگائے.وہاں صرف ایک دوست عزیز الدین صاحب احمدی تھے.اگلے سال ۱۹۳۶ء میں ہم وہاں گئے تو اللہ کریم نے اپنے فضل سے وہاں جماعت قائم کر دی.رات کے وقت چوہدری حاکم علی صاحب کے مکان پر اذانیں دے کر نمازیں پڑھا کرتے تھے.شاہ صاحب کسی دوست کی تکلیف دیکھ کر برداشت نہ کرتے تھے.موضع سہونہ میں چوہدری فضل الدین صاحب احمدی کی برادری نے عین گندم کی کٹائی کے موقع پر مقدمہ دائر کر دیا.ادھر گندم زیادہ پک کر خراب ہو رہی تھی.علاقہ میں اردگرد تمام کٹائی ہو چکی تھی.چوہدری فضل الدین صاحب کی گندم کھڑی خراب ہو رہی تھی.رات کو شاہ صاحب نے مکیریاں کے ایک دوست چوہدری نور محمد صاحب سے گندم کاٹنے کیلئے درانتیاں طلب کیں.صبح ہم آٹھ احمدی وہاں پہنچے.چھ تو گندم کاٹنے لگے اور دو دوست (شیخ نورالدین صاحب اور بابو فقیر اللہ صاحب ) چونکہ بوڑھے اور کمزور تھے وہ پانی وغیرہ پلاتے رہے.چھ ایکڑ گندم ہم نے دو یوم میں کاٹ کر ایک جگہ کھلیان لگا دیا.شاہ صاحب نے بھی اپنے سر پر گندم اٹھا کر ہمارے ساتھ لگائی.اس کارروائی کی رپورٹ مرکز میں خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں گئی تو حضور نے اپنے دست مبارک سے کام کر نیوالوں کوخوشنودی کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا.84- ۱۹۴۷ء میں ہندوستان سے ہجرت کرنے والے احمدی مہاجرین کی آباد کاری میں نمایاں حصہ لیا.۱۹۴۸ء میں آپ نے اپنے دونوں بیٹوں سید سعید احمد شاہ صاحب اور سید مجید احمد شاہ صاحب کو فرقان بٹالین میں بھیجا.ایک دفعہ خطرہ پیدا ہوا تو حضرت شاہ صاحب فرمانے لگے ہم کیسے خوش قسمت ہوں گے اگر ہمارے دونوں لڑکے اس جنگ میں شہید ہو جائیں.فسادات ۱۹۵۳ء میں آپ نے مومنانہ شجاعت کا نمونہ دکھایا.ان دنوں ایک غیر مبائع دوست وار برٹن کے سٹیشن ماسٹر تھے جو بہت گھبرائے ہوئے تھے ، حضرت شاہ صاحب نے ان کو کافی حفاظت سے رکھا.وفات کے روز آپ نے نماز تہجد میں معمول سے زیادہ سجدات کئے اس وقت آپ پر غیر معمولی گریہ وزاری اور رقت طاری تھی.بار بار جناب الہی میں عرض کرتے رہے میرے مولا مجھ سے حساب نہ لینا اور بغیر حساب ہی بخش

Page 754

تاریخ احمدیت.جلد 24 714 سال 1968ء دینا.تمام دن چشم پر آب رہے.مغرب کی اذان کے وقت آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.حضرت شاہ صاحب ایک بے مثال داعی الی اللہ تھے جن کے ذریعہ سینکڑوں نہیں ہزاروں نفوس احمدی ہوئے.سیرت وصورت میں اپنی مثال آپ تھے.نہایت بارعب اور نورانی چہرہ تھا.تہجد گزار دعائیں کرنے والے بزرگ تھے.سلسلہ کیلئے بہت غیرت رکھتے تھے.کوئی شخص آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے کی جرات نہ کر سکتا تھا.آپ احمدیت کی چلتی پھرتی تصویر تھے.آپ کے تقویٰ کا اثر غیروں پر بھی بہت تھا.جو شخص بھی آپ سے ملتا گرویدہ ہو جاتا.قریشی یونس احمد صاحب اسلم درویش قادیان وفات: ۱۵ جون ۱۹۶۸ء 85 آپ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (امیر المجاہدین) کے صاحبزادہ اور ماسٹر قریشی حبیب احمد صاحب آف بریلی کے داماد تھے.آپ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تحریک پر سب سے پہلے وفد میں جو کہ کراچی سے قادیان حفاظت مرکز کے لئے گیا تھا، میں شامل ہو کر قادیان پہنچے.پہلے حضور کی سکیم یہ تھی کہ تین تین ماہ کے لئے دوست اپنے نام دیں.بعد میں یہ سکیم بدل دی گئی.یونس احمد صاحب پہلے وفد میں ۳ ماہ کے لئے ہی گئے تھے.وہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے والد صاحب کو لکھا کہ آپ مجھے مستقل طور پر قادیان رہنے کی اجازت دے دیں.چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی.پھر آپ نے لکھا میں زندگی وقف کرنا چاہتا ہوں ، آپ اجازت دے دیں.والد صاحب نے کہا میری طرف سے اجازت ہے مگر تم پہلے سوچ لو.اس راہ میں بڑی مشکلات آئیں گی.مگر انہوں نے زندگی وقف کر دی اور درویشوں کے ابتدائی مصائب اور مشکلات میں شریک رہے اور شدید مصائب میں بڑے استقلال سے کام کرتے رہے اور ذرہ بھر بھی متزلزل نہ ہوئے.زمانہ درویشی میں سلسلہ عالیہ احمدیہ کی طرف سے جس ڈیوٹی پر متعین ہوئے خوب محنت اور تندہی سے کام کیا.لمبا عرصہ تک دفتر بیت المال قادیان میں خدمت کی.آخری ایام میں اخبار بدر کے دفتر میں مینیجر مقرر کئے گئے.آپ کچھ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے مگر اپنی ذاتی قابلیت کے باعث دفتری کاموں کا ایک سلیقہ رکھتے تھے.جس دفتر میں بھی کام کیا اپنے افسران کو مطمئن رکھا.کثیر العیال تھے.اقتصادی حالت بھی اچھی نہ تھی اور صبر آزما مہنگائی کا دور تھا مگر ہمیشہ صابر وشا کر رہتے.ہر نوع کی جائز تدابیر اختیار کیں مگر خود داری پر آنچ نہیں آنے دی.

Page 755

تاریخ احمدیت.جلد 24 715 سال 1968ء حضرت خواجہ عبد الواحد صاحب پہلوان گوجر ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ ولادت: ۱۸۸۴ء تحریری بیعت : ۱۸۹۶ء وفات: ۱۸ جون ۱۹۶۸ء آپ کے آباؤ اجداد ۱۸۵۷ء میں جموں کشمیر سے ہجرت کر کے گوجرہ ، ٹو بہ ٹیک سنگھ میں آباد ہوئے.آپ کے والد خواجہ عمد و صاحب نے انہیں اور ان کے بھائی کو وصیت کی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہدی موعود سے متعلق کسوف و خسوف کی پیشگوئی پوری ہو تو اس وقت تم مہدی موعود کے دعویدار کی بیعت کر لینا اور میر اسلام عرض کر دینا.۱۸۹۴ء میں جب یہ عظیم الشان نشان ظاہر ہوا تو خواجہ عبدالواحد صاحب نے ۱۸۹۶ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا مگر حضور علیہ السلام کی زندگی میں زیارت نہ کر سکے اور حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد قادیان جا کر حضرت خلیفہ امسیح الاول کی بیعت کی.احمدیت سے قبل آپ اہل حدیث مسلک رکھتے تھے اور مخالفین میں خوب تبلیغ کرتے تھے.گوجرہ میں آپ نے ہی جگہ لے کر مسجد تعمیر کرائی.بازار میں جا کر جماعت کے جلسوں کی منادی کیا کرتے تھے اور مرکز سلسلہ سے علماء کرام مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم، محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس، مکرم گیانی عباداللہ صاحب، حضرت مولوی محمد حسین صاحب سبز پگڑی والے، مکرم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری کو تبلیغ کے لئے بلاتے تھے.مناظرے بھی کروائے.علماء سلسلہ کے قیام وطعام کا اپنے ہاں ہی انتظام کرتے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات پر خواب دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام محمود کی سواری کے لئے رستہ صاف کر رہے ہیں.چنانچہ آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی.ایک دفعہ عطاء اللہ شاہ بخاری کے جلسہ میں چلے گئے ان کے غلط حوالہ پر خواجہ صاحب نے شور مچا دیا اور جلسہ درہم برہم ہو گیا.۱۹۵۳ء میں خواجہ صاحب ، ماسٹر محمد الدین صاحب اور چوہدری عبداللہ ساکن گوکھوال پر مخالفین نے مقدمہ قتل بنوا دیا.موخر الذکر مقامی عدالت اور خواجہ عبدالواحد صاحب ہائیکورٹ سے بری ہو گئے.شدید مخالفت کی وجہ سے قادیان چلے گئے اور دودھ دہی کا کاروبار شروع کر دیا.تقسیم ملک کے بعد ۱۹۴۷ء میں پھر گوجرہ میں آباد ہو گئے اور اپنے ایک بیٹے خواجہ عبد الکریم صاحب کو حفاظت مرکز کے

Page 756

تاریخ احمدیت.جلد 24 716 سال 1968ء لئے قادیان بطور درویش بھجوا دیا.۱۹۳۵ء میں گوجرہ میں تین احمدیوں پر جن میں خواجہ عبدالواحد صاحب پہلوان بھی تھے احراریوں نے مقدمہ کر دیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے سب کو بری کر دیا.مکرم خواجہ عبدالواحد صاحب پہلوان کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت قطعہ صحابہ میں تدفین کی اجازت مرحمت فرمائی.پروفیسر محمد ابراہیم صاحب نا صر سابق مجاہد جهنگری وفات: ۶ جولائی ۱۹۶۸ء آپ حضرت مولوی فخر الدین صاحب آف گھوگھیاٹ متصل میانی ضلع شاہ پور ( حال سرگودھا) کے صاحبزادے، مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کے بھائی تھے.تحریک جدید کے مجاہدین دور اول ۱۹۳۵ء میں سے تھے.ہنگری میں پونے دو سال خدمت سرانجام دی ، کئی سعید روحوں کو قبول حق کی توفیق ملی.محترم محمد ابراہیم صاحب جمونی سابق ہیڈ ماسٹر کا بیان ہے کہ آپ نے بارہ سال تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں بطور استاد کام کیا.اور دیگر جماعتی اداروں میں بھی خدمت کی.ریاضی کے ماہر تھے اس طرح پڑھاتے کہ ایک ایک لفظ طلباء کے ذہن میں اترتا چلا جاتا کہ پھر دماغ سے محو نہ ہوتا تھا.ریاضی کا شوق ان میں پیدا کر دیا.سکول ٹائم کے علاوہ بھی طلباء کو سکول کے مفاد کی خاطر پڑھایا کرتے تھے.کمزور بچوں کو گھر بلا کر ریاضی کی تعلیم دیتے تھے.اسی طرح مکرم صوفی بشارت الرحمن صاحب نے تحریر کیا کہ ۱۹۵۴ء میں جب تعلیم الاسلام کا لج لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تو آپ کا لج سٹاف میں شامل کئے گئے اور پھر مختلف حیثیتوں سے کام کے علاوہ کالج میں ریاضی کی تدریس کرتے رہے.نہایت خوشخط تھے.رجسٹر کے ہر قسم کے اندراجات نتائج کارڈز وغیرہ خود اپنے ہاتھ سے خوشخط درج کرتے تھے.کالج کی تفریحی انفارمل مجلس کے صدر اور سر براہ تھے.مرنجان مرنج طبیعت کے مالک تھے.جلسہ سالانہ کے کارکنان کا نقشہ فرائض تیار کرنے کا سالہا سال تک کام کیا.مکرم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے تحریر کیا کہ کامیاب رجسٹرار امتحانات تھے فیسوں کی معافی کے معاملہ میں آپ کی رائے اور سفارش معین ہوتی تھی.احمد یہ ہوٹل ایمپرس روڈ لاہور کے زمانہ میں تبلیغ کے لئے بہت وقت دیتے تھے اور ملک

Page 757

تاریخ احمدیت.جلد 24 717 سال 1968ء عبدالرحمن صاحب خادم کے دست راست تھے.اس زمانہ میں فیلوشپ آف یوتھ کالجیٹ انجمن نے خادم صاحب کی قیادت میں نہایت عمدہ کام کیا.پروفیسر محمد ابراہیم ناصر صاحب تعلیم الاسلام کالج کی ہومیو پیتھک ڈسپنسری کے انچارج اور اس طریقہ علاج میں خاصی دسترس بھی رکھتے تھے.سینکڑوں بندگان خدا نے آپ سے فیض اٹھایا.مجلس انصار اللہ مرکزیہ میں قائد مال، تعلیم خدمت کا موقع پایا اور ایک چوہیں صفحات کا کتا بچہ خلافت سپرد قلم کیا جو ۱۹۶۱ء میں مجلس کی طرف سے شائع ہوا.دارالصدر شرقی میں بھی سیکرٹری مال نائب زعیم مال، سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن کے طور پر فرائض انجام دیئے.آپ کی وفات پر کالج کے مجلہ "المنار" نے ایک شمع اور بھی“ کے عنوان سے اداریہ لکھا کہ :.”ہمارے مرحوم پروفیسر سادہ زندگی ، سادگی، وقار، انکساری ، تواضع ، شرم و حیا کا پیکر ، بے حد رحم دل اور فرض شناس انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں ہو میو پیتھک طریقہ علاج میں دست شفا عطا کیا تھا اس عطیہ سے ہزاروں بیماروں کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دیں.کبھی بھی ادائیگی فرض میں کوئی روک پیدا نہ ہونے دی.کیپٹن سید محمد اکمل صاحب وفات: ۷ جولائی ۱۹۶۸ء آپ سید محمد افضل صاحب مرحوم کے صاحبزادہ تھے جو ایک ٹریفک کے حادثہ میں مولائے حقیقی سے جاملے.آپ بہت مخلص، باہمت، فرض شناس اور بہت خوبیوں کے مالک نوجوان تھے.آپ نہایت ہی ہنس مکھ، ملنسار اور ہمدرد شخصیت کے مالک تھے.جہاں جاتے اپنی خوش خلقی سے لوگوں کو گرویدہ کر لیتے.ان کی وفات پر بے شمار دوستوں اور بزرگوں نے ان کے گھر آ کر تعزیت کی.امریکن کونسل جنرل اور.M.S.I.S کے عملہ نے (جہاں مرحوم فوج سے ریٹائر منٹ کے بعد کام کرتے رہے تھے ) اپنے نمائندے تعزیت کیلئے ربوہ بھجوائے جو عزیز مرحوم کی ہر دلعزیزی کا ثبوت تھا.بابا محمد دین صاحب در ویش قادیان وفات: ۷ جولائی ۱۹۶۸ء 91 آپ کا اصل وطن موضع بدو کے گوسیاں ضلع گوجرانوالہ تھا.بڑے مستقل مزاج ، خوددار، بہت

Page 758

تاریخ احمدیت.جلد 24 718 سال 1968ء محنتی اور تہجد گزار بزرگ تھے.ایسے باہمت تھے کہ پیرانہ سالی کے باوجود جوانوں کے جوان دکھلائی دیتے تھے.ابتدائے درویشی سے ہی آپ کا فی معمر تھے اور دنوں مہینوں اور سالوں کے بوجھ نے ان کی کمر کو خمیدہ کر رکھا تھا.لیکن اس ضعف پیری اور خمید گئی کمر کے باوجود وہ اس قدر با ہمت واقع ہوئے تھے کہ درویشی کے ۲۱ سالہ طویل دور میں اپنے ہاتھ سے اپنا سارا کام کرتے رہے.اور اپنی روزی خود کماتے رہے.آپ کو بھینس پالنے کا شوق تھا.چنانچہ اپنی ساری درویشی میں بھینس پالنے کا شوق اور شغل جاری رکھا.دن بھر کھر پاہاتھ میں لئے بہشتی مقبرہ کی کسی سڑک پر کھودتے نظر آتے.یہی وہ سخت قسم کی محنت اور ورزش تھی جو بڑھاپے کے باوجود ان کی صحت کی ضامن بنی رہی اور ایک غیور انسان کی طرح انہیں کسی کا محتاج ہونے نہ دیا.ے جولائی ۱۹۶۸ء کی ایک دو پہر کو ان کی وفات اس شان سے واقع ہوئی کہ جھلستی دو پہر میں گھاس کھود کر واپس آئے اور اپنے کوارٹر کی ڈیوڑھی میں اسی گھاس کی گٹھڑی سے پیٹھ لگا کر نیم دراز ہو گئے اور اسی حالت میں ان کی روح قفس عنصری سے آزاد ہو کر اپنے مولی کے پاس پہنچ گئی.اپنا کھانا تو اپنے ہاتھ سے پکاتے ہی تھے لیکن ہمت کی انتہاء یہ تھی کہ اپنے رہائشی مکان میں ہر قسم کی تعمیر کا کام بھی اکیلے اور اپنے ہاتھ سے کر لیتے تھے.اپنی ضعیفی اور خمیدہ کمر کے باوجود اپنی ڈیوڑھی کی چھت خود اتاری اور خود ہی گارا وغیرہ بنا کر خود ٹائلیں چھت پر پہنچا ئیں اور یوں ہمت مرداں مدد خدا کا مظاہرہ کیا.بابا جی مرحوم بے حد سادہ اور خاموش طبع درویش تھے.بڑے ہی صبر وسکون کے ساتھ درویشی کے دور کو گزارا.سفید ریش بابا جی منحنی قد و قامت اور سرخ و سپید رنگت رکھتے تھے.مرحوم کے والد کا نام بھولا تھا.آپ موصی تھے اس لئے آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر 1 میں ہوئی.سیدہ بی بی صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب وفات: ۸ جولائی ۱۹۶۸ء آپ حضرت شاہزادہ عبداللطیف صاحب شہید کابل کی سب سے بڑی بہو اور وہ آخری خاتون تھیں جنہوں نے حضرت شہید مرحوم کا پُر نور چہرہ دیکھا اور آپ کی پاکیزہ صحبت میں ایک لمبا عرصہ رہ کر آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا.سید ہبتہ اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سرائے نورنگ بنوں نے آپ کے وصال پر لکھا:

Page 759

تاریخ احمدیت.جلد 24 719 سال 1968ء ”ہمارے دادا حضرت شہید مرحوم کی شہادت کے بعد ہمارے خاندان پر جو انقلابات آئے ان میں مرحومہ برابر کی شریک تھیں.حضرت شہید مرحوم کی شہادت کے فوراًبعد ہمارے خاندان کے تمام افراد کو جن میں بچے بوڑھے اور مستورات شامل تھیں علاقہ خوست سے کابل بلایا گیا.چنانچہ پچاس کے قریب مسلح سپاہیوں کے پہرے میں ہمارے خاندان کے افراد کابل پہنچے.خوست سے کابل تک کا فاصلہ تقریباً ۲۴۰ میل ہے اور تمام راستہ خطرناک پہاڑوں سے پُر ہے اور اکثر پہاڑ برف سے ڈھکے رہتے ہیں.ایسے دشوار گذار اور خطرناک راستے کو طے کرتے ہوئے خاندان کے افراد ایک ماہ کے عرصہ میں کابل پہنچے تھے.کابل پہنچ کر ہماری حالت اور بھی قابل رحم تھی کیونکہ وہاں پر دو تین سال تک ہمیں سخت مالی پریشانیوں سے دو چار ہونا پڑا.اس دشوار گزار سفر میں تائی صاحبہ مرحومہ ہمارے ساتھ تھیں.کابل سے ہمیں پھر ترکستان بھیج دیا گیا.ترکستان کے راستے کی تکلیفوں اور وہاں کے مصائب کا خیال کر کے اب بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.وہاں دوسرے گوناگوں مصائب کے علاوہ سب سے بڑی تکلیف مالی پریشانی تھی.ایک دولتمند اور صاحب حیثیت خاندان کو اگر ایک دم مالی پریشانی لاحق ہو جائے اور ان کے بچے اور مستورات نان شبینہ کے محتاج ہو جائیں تو اس تکلیف کا احساس ہر ذی شعور انسان کر سکتا ہے.احمدیت قبول کرنے سے پہلے ہمارے خاندان کا اوڑھنا بچھونا ریشم وکخواب تھا مگر ترکستان میں ان کو سر چھپانےکو بھی جگہ نہیں ملتی تھی.ایک پرانے سے کھنڈر میں انہوں نے چند ماہ گزارے.منجملہ دوسرے افراد کے ان میں مرحومہ بھی تھیں جنہوں نے کمال صبر سے یہ مصائب برداشت کئے.ترکستان سے واپسی پر ہمیں پھر کابل شہر میں رکھا گیا اور ہمارے بڑے چچا صاحب ( مرحوم ) ہر ہفتے تھانے جا کر رپورٹ دیتے تھے کہ ہم سب کا بل میں موجود ہیں.یہ زمانہ ہمارے خاندان پر نہایت کٹھن تھا.ہر آن ہماری گرفتاری اور موت کا خطرہ تھا.ہمارے تایا جان مرحوم صاحبزادہ محمد سعید جان صاحب انہی مصائب کو جھیلتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے اور ہماری تائی صاحبہ (مرحومہ) تو جوانی ہی کی عمر میں بیوہ ہو گئیں.مرحومہ کی سب سے بڑی خوبی احمدیت کے ساتھ گہرا لگاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خاص عقیدت تھی ورنہ مرحومہ کے لئے اس قسم کے حالات موجود تھے کہ اگر وہ چاہتیں تو اپنے متمول بھائیوں کے ساتھ جا سکتی تھیں.ان کے بھائی اچھے خاصے دولتمند تھے.انہوں نے کئی دفعہ مرحومہ سے

Page 760

تاریخ احمدیت.جلد 24 720 سال 1968ء درخواست کی کہ وہ احمدیت کو چھوڑ دیں اور ان کے ساتھ چلی جائیں لیکن مرحومہ نے کمال صبر سے یہ تمام تکلیفیں برداشت کیں.اپنے بھائیوں کی بات کو ہمیشہ رڈ کیا.امیر حبیب اللہ خان کی وفات پر جب اس کا بیٹا امان اللہ خان تخت نشین ہوا تو افغانستان کے بعض سرکردہ افراد نے اس سے درخواست کی کہ شہید مرحوم کے خاندان کو ان کے آبائی گاؤں سید گاہ واپس جانے کی اجازت دی جاوے چنانچہ ان کی اجازت سے ہم اپنے گاؤں سید گاہ شریف علاقہ خوست میں واپس آگئے.ایک دو سال کے بعد احمدیوں کے خلاف پھر ایک عام مخالفت کی رو شروع ہو گئی اور اس نے اتنی شدت اختیار کر لی کہ ایک دفعہ پھر ہمارے خاندان کو بے سروسامانی کی حالت میں اپنے گھروں سے نکلنا پڑا اور علاقہ درگئی میں پناہ لینا پڑی.اس مخالفت کے طوفان میں ہمارے مکانات ، باغات اور تمام اثاثہ لوٹ لیا گیا، ہمارے گھروں کو آگ لگا دی گئی.ہمارے دادا حضرت شہید مرحوم کی قیمتی لائبریری کو جس میں ایک اندازہ کے مطابق پانچ ہزار کے لگ بھگ کتا میں تھیں نذر آتش کر دیا گیا.ہمارے باغات کو جس میں ہزاروں قسم کے پھلدار درخت تھے کاٹ دیا گیا.چند ماہ کے بعد ہمارے خاندان کے افراد نے یہ فیصلہ کیا کہ اب افغانستان میں ہمارا رہنا ممکن نہیں ہے.اس لئے ہمیں ہندوستان کے علاقہ میں ہجرت کرنی چاہیئے.اس فیصلہ کے مطابق ہم ہندوستان کی طرف روانہ ہوئے لیکن ہمیں راستہ سے ہی پھر واپس کر دیا گیا.خاندان کے تمام مردوں کو جیل میں ڈالا گیا اور مستورات کو درگئی کے ایک معزز آدمی کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا.اس قافلہ میں ہماری تائی صاحبہ مرحومہ بھی شامل تھیں.چونکہ ان کے بھائی احمدی نہ تھے اس لئے انہوں نے ضمانت دے کر اپنی ہمشیرہ اور بھانجی کو رہا کرا لیا اور ان دونوں کو وہ اپنے ساتھ لے گئے.کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر کے جب ہمارے خاندان کے افراد کو رہا کیا گیا تو انہوں نے دوبارہ افغانستان سے ہجرت کا ارادہ کیا.اس موقع پر مرحومہ نے کمال جرات اور دلیری کا ثبوت دیا.ان کے بھائی احمدیت کے شدید مخالف تھے.انہوں نے مرحومہ کو طرح طرح کے لالچ دیئے اور بعد میں ان کو ڈرایا دھمکایا بھی کہ تم ان کے ساتھ نہ جاؤ ورنہ ہم تم سے ہمیشہ کے لئے قطع تعلق کر لیں گے لیکن آفرین ہے اس مجاہدہ پر جس نے ان تمام باتوں کو ر ڈ کیا اور محض احمدیت کی خاطر ہمارے ساتھ افغانستان سے بنوں کا سفر اختیار کیا.حالانکہ بظاہر اس میں ان کا سراسر نقصان تھا کیونکہ افغانستان میں ہماری جائیداد کا سرسری اندازہ بھی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آجکل بھی اس کی آمد نوے ہزار روپے سالانہ ہے جبکہ یہاں بنوں میں ہماری زمین کی سالانہ آمد چھ سات ہزار روپے

Page 761

تاریخ احمدیت.جلد 24 721 سال 1968ء سالانہ سے تجاوز نہیں کرتی.۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۴۴ ء تک ان کی مالی حالت نہایت ہی خستہ تھی لیکن مرحومہ اتنی بلند ہمت اور صبر کرنے والی خاتون تھیں کہ ان کے منہ سے سوائے صبر اور شکر کے کوئی کلمہ نہیں نکلا.مرحومہ موصیبہ تھیں اور نماز روزہ کی سختی سے پابندی کرتی تھیں.باقاعدہ تہجد کی نماز پڑھتی تھیں.ہر وقت خدا اور اس کے رسول کا نام ان کی زبان پر جاری رہتا.صاحبزادہ احمد لطیف صاحب ابن صاحبزادہ محمد طیب صاحب نے مرحومہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھا: کہ مرحومہ کی شادی غالباً ۱۸۹۴ء میں ہوئی.حضرت شہید مرحوم نے خود اپنے خاندان میں ہی اپنے سب سے بڑے فرزند سے ان کی شادی کرائی.۱۹۱۸ء میں نظر بندی ہی میں مرحومہ کے شوہر صاحبزادہ محمد سعید صاحب فوت ہو گئے اور مرحومہ کو بیوہ اور تین معصوم بچے (دو صاحبزادیاں ایک بیٹا ) یتیم چھوڑ گئے.۱۹۰۳ء میں حضرت شہید مرحوم کے ذریعہ بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئیں اور با وجود سخت نا موافق حالات کے مرتے دم تک نہایت استقامت سے احمدیت پر قائم رہیں.حضرت شہید مرحوم کی شہادت کے ساتھ ہی افغان حکومت نے ہمارے خاندان کو افغانستان کے دوسرے کونے ترکستان میں بھیج دیا.ترکستان جانے والے اس قافلہ کی آپ دوسری بزرگ خاتون تھیں جنہوں نے چھوٹوں بڑوں کو ہر گھڑی صبر و استقامت کی عملی تلقین فرمائی.ہمارا خاندان سات سال کا لمبا عرصہ نظر بندی کی حالت میں ترکستان میں رہا جو مصائب مرحومہ نے خاندان کے ساتھ وہاں برداشت کئے وہ ایک طویل درد بھری کہانی ہے.مرحومہ بڑے ہی فخریہ انداز میں فرمایا کرتی تھیں کہ اگر احمدیت حق نہ ہوتی تو افغانستان کی اس وقت کی ظالمانہ حکومت میں شہید مرحوم کے بے سہارا خاندان کی مستورات الہی حفاظت میں ہرگز نہ رہ سکتیں.رب العزت نے تئیس سال تک ان کی غیر معمولی حفاظت فرمائی.مرحومہ فرمایا کرتی تھیں کہ ترکستان میں سات سال کے عرصہ میں ہم نے لگاتار جو کی روٹی کھائی.ہمارے معصوم بچے گندم کی روٹی کو ہمیشہ ترستے رہے.چند بچے تو صدموں کی تاب نہ لا کر فوت ہو گئے.جب مرحومہ یہ ذکر کرتیں تو بار بار فرماتیں الحمد للہ، الحمد للہ ہم نے صبر سے وہ دن کاٹے.ہمیں بے حد خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حضرت شہید مرحوم کی قربانی کے بعد شرمندہ نہیں کیا.بلکہ ہر قدم پر استقامت اور صبر کا نمونہ دکھانے کی توفیق بخشی.نماز ، روزہ ، تلاوت قرآن کریم اور دعاؤں میں آپ نمونہ تھیں.میں نے اپنی زندگی میں اتنا اہتمام نماز کے ادا کرنے میں اور کسی میں نہیں دیکھا.نہایت عمدہ اور صاف لباس پہنتیں.نہایت عمدہ

Page 762

تاریخ احمدیت.جلد 24 722 سال 1968ء جائے نماز پر جب نماز ادا کرتیں تو سارا ماحول نورانی معلوم ہوتا تھا.آپ کے چہرہ پر اتنا خشوع و خضوع نظر آتا کہ انسان کو یقین ہو جاتا کہ واقعی مرحومہ خدا تعالیٰ کے حضور کھڑی ہیں.آپ کی پاک زبان پہ ہمیشہ تسبیح وتحمید کا ور در بہتا.سخاوت آپ کو خاندانی ورثہ میں ملی تھی.شفقت و بزرگی کا یہ عالم تھا کہ ہمارے خاندان میں نہ آپ کسی سے ناراض ہوئیں اور نہ کبھی کوئی آپ سے ناراض ہوا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خاندان کا ہر فرد یہ محسوس کرتا تھا کہ گویاوہ میری ماں ہے اور مجھ پر بہت مہربان ہے.مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والی ہیں.۱۹۲۶ء میں ہمارے خاندان نے ہجرت کی اور سرائے نو رنگ ضلع بنوں میں آباد ہوا.یہ اس تھکے ماندے بے سہارا خاندان کے لئے ایک اور آزمائش کا وقت تھا.ناداری، بے کسی ہر طرف سے دشمن کے حملے تھے.ہماری زمین کے قریب ہی دوسرے غیر احمدی رشتہ داروں کے گاؤں ہیں جو افغانستان میں ہماری جائیدادوں کے کچھ حصہ پر قابض ہو گئے ہیں.ان میں ایک گاؤں مرحومہ کے بھائیوں کا ہے.مرحومہ کے دس بھائی تھے.بڑے متمول اور بارسوخ، احمدیت کے شدید مخالف تھے.یہاں بھی انہوں نے مرحومہ کو ورغلانے کی ناکام کوشش کی لیکن مرحومہ کا ایمان اس قدر مضبوط تھا کہ سب کو صاف الفاظ میں کہا کہ احمدیت کی خاطر میں تم سب بھائیوں کو چھوڑ سکتی ہوں چنانچہ ان کی مخالفت کے سبب ان سے تعلقات قطع کر لئے اور احمدیت کی تعلیم پر مضبوطی سے قائم رہیں.آپ کو کچی خوا میں بھی آتی تھیں.وفات سے تین چار ماہ قبل خاندان میں ایک رشتہ کے بارہ میں آپ سے دعا اور مشورہ کے لئے عرض کیا گیا.آپ نے فرمایا میں ایک خواب کی بناء پر کہتی ہوں کہ ہرگز یہ رشتہ نہ کرو.ہم سب بظاہر اچھے حالات پر نظر رکھتے ہوئے حیران ہوئے کہ تائی جان کیوں اتنے اصرار سے منع فرماتی ہیں.ایک ہفتہ میں ہی مزید معلومات حاصل کرنے سے معلوم ہوا کہ اگر خدانخواستہ وہ رشتہ ہو جاتا تو خاندان کے لئے شر کا باعث ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ، حضرت اماں جان، حضرت خلیفۃ المسیح الاول اور حضرت مصلح الموعود سے والہانہ محبت اور عقیدت تھی.وفات سے دور وز قبل محترم والد صاحب کو جو مرحومہ کی عیادت کی غرض سے گئے تھے اپنے پاس بلا کر نہایت کمزوری کی حالت میں فرمایا دیکھنا! میں بہشتی مقبرہ سے محروم رہ نہ جاؤں.والد صاحب بتاتے ہیں کہ اس دار فانی میں یہی ان کی آخری تمنا تھی.اس کے بعد اور کوئی خواہش نہیں کی اور جان خداوند کریم کے حضور پیش کر دی.الحمد للہ کہ مرحومہ کی یہ خواہش خدا

Page 763

تاریخ احمدیت.جلد 24 723 سال 1968ء تعالیٰ نے بہ احسن طریق پر پوری فرما دی.آپ کے ۳/ احصہ کی وصیت قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے کا شرف بخشا.خاندان میں ایک دو بار آپس میں ناراضگی پیدا ہوئی تو آپ نے ہر بار ایک شفیق ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے فور اصلح کرائی اور بات کو بڑھنے سے روکا.یہ دراصل آپ کے بلند کردار، بزرگی اور بے لوث محبت کا اثر تھا کہ آپ کی بات کو کوئی ٹال نہ سکتا تھا.مجھ سے بھی تائی جان کا غیر معمولی شفقت کا سلوک تھا.بنوں شہر میں وفات پانے کے بعد آپ کا جنازہ اپنے گاؤں سرائے نورنگ لایا گیا جہاں بنوں شہر سے، نورنگ سے اور قریبی گاؤں سے احمدی احباب نماز جنازہ کیلئے تشریف لائے.اسی طرح غیر احمدی دوست بھی کثیر تعداد میں افسوس کیلئے تشریف لائے.آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.9 جولائی ۱۹۶۸ء کو محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.چوہدری اللہ بخش صاحب پریذیڈنٹ جماعت کنڈ یوالی ضلع رحیم یارخان وفات: ۱۷ جولائی ۱۹۶۸ء سلسلہ سے والہانہ محبت تھی.ان کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں متعدد افراد داخل احمدیت ہوئے.خدمت خلق کے باعث غیر از جماعت دوستوں میں بھی مقبول تھے.عبدالشکور صاحب پراچہ وفات: ۲۱ جولائی ۱۹۶۸ء مکرم عبد الشکور صاحب جو صوفی عبدالرحیم پراچہ صاحب کے فرزند تھے.ایک حادثہ میں سلانگ سے کابل آتے ہوئے گلہ مراد کے مقام پر وفات پاگئے.آپ کے والد محترم افغانستان میں تجارت کرتے تھے اور شاہی دربار میں باعزت رسائی رکھتے تھے.۵ فروری ۱۹۲۵ء کو جب دو احمدیوں کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا تو پتھر مارنے والوں میں صوفی صاحب بھی شامل تھے.تاہم اس حادثہ کے بعد آپ کے قلب و نظر کی حالت بدل گئی اور حکومت افغانستان کا یہ ظالمانہ اور بزدلانہ فعل آپ کے قبول احمدیت کا باعث بن گیا اور آپ احمدی ہونے کے بعد بھیرہ آگئے.عبدالشکور نے بی.اے ٹی آئی کالج ربوہ سے کیا.چند سال کے بعد افغانستان چلے گئے.احمدیت ، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ربوہ کی بستی سے خاص انس تھا.محترم صاحبزادہ مرزا.96

Page 764

تاریخ احمدیت.جلد 24 724 سال 1968ء منور احمد صاحب مع اہل و عیال کا بل گئے تو ان کے ہاں ہی ٹھہرے تھے.جس کو وہ بہت بڑی سعادت سمجھتے تھے کہ یہ نور ہمارے گھر آیا اور برکت سے نوازا.مرحوم کے آخری خط میں یہ تاکید تھی کہ حضور کی خدمت میں میرا السلام علیکم پہنچانا اور دعا کے لئے عرض کرنا.97.چوہدری رحمت خاں صاحب سابق امام مسجد فضل لندن وفات: ۳۰/۲۹ جولائی ۱۹۶۸ء آپ حضرت چوہدری خوشی محمد صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے بڑے صاحبزادہ تھے اور موضع دھیر کے کلاں تحصیل گجرات میں پیدا ہوئے.۱۹۲۲ء میں زمیندارہ ہائی سکول گجرات میں ملازمت اختیار کی اور ۱۹۵۴ء میں اسی سکول سے بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے.چوہدری صاحب اپنے شاگردوں کو بڑی محبت اور شفقت سے پڑھاتے تھے.اسی طرح شاگر د بھی آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے.سکول میں آپ کو ہمیشہ ایک خاص مقام حاصل رہا.زمیندارہ ہائی سکول سے پنشن یاب ہونے کے بعد آپ موضع دھور یہ ضلع گجرات کے ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے لیکن ۱۹۶۰ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو تبلیغ دین کے لئے انگلستان جانے کا حکم صادر فرمایا تو ملازمت سے مستعفی ہو کر انگلستان تشریف لے گئے اور ۱۹۶۴ء تک نہایت اخلاص سے امام مسجد فضل کے فرائض انجام دیتے رہے اور بعد ازاں تا دمِ واپسیں احمد یہ ہوٹل لاہور میں سپر نٹنڈنٹ کے منصب پر فائز رہے.جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے آپ کی وفات پر لکھا: ” مرحوم کو احمد یہ ہوٹل کے دور جدید میں پہلا سپرنٹنڈنٹ مقرر ہونے سے نئی خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا جس سے وہ احسن طور پر عہدہ برآ ہوئے.اس تاریخی ادارہ کی از سر نو تنظیم اور اس سے متعلق نگرانی ، تربیت اور حسابات وغیرہ نہایت اہم فرائض تھے.بیشتر طلباء(ساکنین ہوٹل یونیورسٹی کلاسز سے تعلق رکھتے ہیں.ہوٹل کی پرانی شاندار روایات کو از سرِ نو قائم کرنا اور پاکیزہ اسلامی ماحول میں زندگی بسر کرنا وہ نصب العین ہے جو ہمیشہ ان کے مدنظر رہا.ہوٹل کے لئے ایسی کوٹھی کا کرایہ پر دستیاب ہونا جہاں سے اولڈ اور نیو کیمپس کو جانے اور واپسی پر آسانی کی سواری میسر ہو، ایک نا قابل حل عقدہ رہا ہے.بنا بریں مستقل ہوٹل کی عمارت کی جو موزوں جگہ پر ہو ضرورت شدت سے محسوس ہوتی رہی ہے اور اس کے پیش نظر ہوٹل کے لئے موزوں قطعہ اراضی کی تلاش میں محترم چوہدری صاحب نے مسلسل محنت سے حصہ لیا.بالآخر ایک موزوں پلاٹ انتخاب میں

Page 765

تاریخ احمدیت.جلد 24 725 سال 1968ء آیا جو نیو کیمپس کے بالکل قریب ہے اسے صدر انجمن نے خرید لیا.امسال مرحوم نے حضرت اقدس خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں گذارش کی کہ خرید کردہ پلاٹ میں ہوٹل کی عمارت کا کام شروع کیا جائے جس پر حضور نے نقشہ کی تیاری کا ارشاد فرمایا، پھر ہدایات دیں جن کی روشنی میں مرحوم نے بلو پرنٹ (BLUE PRINT) تیار کرایا اور ابھی یہ حضور کے سامنے آخری منظوری کے لئے پیش نہ کرنے پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.اناللہ وانا الیہ راجعون.نمازوں، درس قرآن، تنظیم ، خدام الاحمدیہ کے تربیتی جلسوں ، تقاریر، کھیلوں اور جماعتی کاموں میں شرکت سے ہوٹل میں محترم چوہدری صاحب کی زیر نگرانی ایک خوشگوار اسلامی ماحول پیدا ہوا.احمد یہ ہوٹل کو یو نیورسٹی کے منظور شدہ اداروں کی فہرست میں شامل کرانے کے لئے بھی مرحوم کو کافی تگ و دو کرنی پڑی تا وظیفہ لینے والے لڑکے بھی ہوسٹل میں رہائش سے محروم نہ رہیں.ہوٹل میں کلرک نہ ہونے کے باوجود مرحوم ہر قسم کے حسابات صاف اور مکمل رکھنے کے عادی تھے.اردو اور انگریزی خوشخطی میں ان کو امتیاز حاصل تھا.مرحوم نہایت بلند اخلاق، مہمان نواز ، تہجد خواں، قرآن مجید پڑھنے پڑھانے اور اس کے معارف سمجھنے اور سمجھانے کے شائق تھے.ہوسٹل میں درس دیتے ، قرآن پاک پڑھاتے ، نمازوں کی امامت کراتے، باجماعت نماز کیلئے ہر ایک بورڈرکو پابند کرتے.اسلامی شعار کی پابندی اور اخلاق حسنہ میں ان کا نمونہ قابل تقلید تھا.بورڈروں میں نہایت درجہ ہر دلعزیز تھے اور وہ ان کا غیر معمولی احترام کرتے تھے.الغرض چوہدری صاحب مرحوم نے بحیثیت سپر نٹنڈنٹ احمد یہ ہوٹل لاہور قریباً چار سال شاندار خدمات سرانجام دیں.مولانا ابوالعطاء صاحب کے قلم سے ایک مخلص مجاہد کی رحلت کے زیر عنوان حسب ذیل نوٹ اخبار الفضل مورخہ ۱۸ اگست ۱۹۶۸ء سپر داشاعت ہوا جس میں آپ کے اوصاف حمیدہ کا بڑا دلنشیں تذکرہ کیا ہے.اسی طرح آپ کے صاحبزادے محترم منیر احمد خاں صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ ضلع گجرات نے الفضل مورخہ ۱/۸اپریل ۱۹۹۰ء میں بھی آپ کے بعض حالات شائع کروائے ہیں.میاں محمد سعید صاحب ناظم انصار اللہ ضلع ملتان وفات: یکم اگست ۱۹۶۸ء 98.آپ سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خادم اور نہایت مخلص احمدی تھے.مولانا ابوالعطاء صاحب نے ان

Page 766

تاریخ احمدیت.جلد 24 وو 726 سال 1968ء کے انتقال پر لکھا: ” مرحوم بہت خوبیوں کے مالک تھے.سلسلہ کے فدائی بزرگ تھے.اسی سال کی عمر نیکی و تقوی میں بسر کی تبلیغ احمدیت کا انہیں بہت شوق تھا.ان کے ذریعہ سے متعدد افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.شروع میں ڈاکخانہ میں پوسٹل کلرک تھے.کافی عرصہ تک سرگودھا میں متعین رہے.مختلف جماعتی عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں.صدارت اور امارت کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے ہیں اب کافی سالوں سے ملتان میں انصار اللہ کے زعیم اور ناظم ضلع تھے.انہیں اپنے فرائض کی ادائیگی کا خاص شغف تھا.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات پر ہمیشہ عمل پیرار ہے.ان کی مساعی کی وجہ سے ایک دفعہ مجلس انصار اللہ ملتان کو علم انعامی بھی ملا تھا.خان عبد الاحد خان صاحب افغان در ولیش وفات: ۳/۲ /اگست ۱۹۶۸ء آپ بہت دعا گو، مخلص اور غیرت مند بزرگ تھے.افغانستان کے باشندہ تھے.کابل کے قریب رہائش رکھتے تھے.بارہ سال کی عمر میں احمدیت سے آگاہی ہوئی اور اپنے ہم عمر خان میر خان صاحب افغان کے ہمراہ پنجاب آئے اور خلافتِ اولی کے زمانہ میں قادیان ایسے وارد ہوئے کہ پھر یہیں کے ہور ہے اور ساری زندگی درویشانہ حالت میں گزار دی.خاندان سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بالخصوص حضرت مصلح موعود سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے.سالہا سال تک حضرت مصلح موعود کے آنریری پہرہ دار رہے اور بڑی ہوش مندی سے یہ خدمت انجام دیتے رہے حتی کہ چند بار مشکوک افراد کو عین موقعہ پر پکڑ لینے میں بھی کامیاب ہوئے جو قتل کر دینے کے ارادہ سے آئے تھے جنہوں نے پکڑے جانے پر اس امر کا اقرار بھی کیا.جلسہ سالانہ پر حضرت مصلح موعود کی تقریر کے وقت حضور کے لئے سٹیج پر قہوے اور چائے کا انتظام بھی ان کے سپر د ہوتا جو بہت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے.جہیر الصوت اور بات چیت میں خاص افغانی انداز رکھتے تھے.ایک لمبا عرصہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت ورفاقت میں رہنے اور حضور کی مجلس میں باعث رونق بننے کی سعادت پائی تقسیم ملک کے بعد حضور نے اپنے اس دیرینہ خادم کو ہمیشہ یادرکھا.انہی ذرہ نوازیوں کا نتیجہ تھا کہ باوجود پیرانہ سالی کے حضور کی خاص توجہ اور کرم فرمائی سے شادی ہو گئی.مکرم عبد الرحمن صاحب پونچھی کی بیٹی محترمہ خدیجہ بیگم صاحبہ آپ کے نکاح میں آئیں جنہوں نے بڑی سعادت مندی کے ساتھ اپنے شوہر کی آخری وقت تک خدمت کا حق ادا کیا.100

Page 767

تاریخ احمدیت.جلد 24 727 سال 1968ء محمد یسین صاحب سابق محر لنگر خانہ قادیان کا بیان ہے:.مرحوم اکثر سنایا کرتے تھے کہ جب حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب کو سنگسار کر کے شہید کر دیا گیا تو اسی دن میرے بڑے بھائی کی ڈیوٹی دوسرے کئی سپاہیوں کے ہمراہ حضرت شہید مرحوم کی نعش کی حفاظت پر لگی ہوئی تھی.ایک وسیع میدان میں حضرت صاحبزادہ کو سنگسار کیا گیا تھا.اُسی دن شام کے بعد سخت بارش ہونے لگی اور شدید آندھی آگئی.تمام سپاہی میدان چھوڑ کر قریبی برآمدہ میں چلے گئے.برآمدہ کے اندر اُس وقت دوسرے سپاہیوں کے ہمراہ میرے بڑے بھائی صاحب نے بھی یہ نظارہ دیکھا کہ ایک بجلی کا ستون حضرت شہید مرحوم کے سر کے اوپر کے پتھر کے ڈھیر سے نکلا ہے اور آسمان کی طرف بلند ہونا شروع ہوا اور اسی طرح کا ایک بجلی کا ستون آسمان کی طرف سے حضرت شہید مرحوم کے سر پر اترنا شروع ہوا.آخر زمین اور آسمان کے درمیان یہ دونوں بجلی کے ستون مل گئے.گویا کہ زمین سے آسمان تک بجلی کا ایک بڑا ستون تیار ہو گیا اور اس وقت بہت زیادہ روشنی پھیل گئی.یہ نظارہ تھوڑی دیر رہا.مگر اس سے وہاں موجود تمام سپاہیوں کے دل سہم گئے اور وہ بہت ڈر گئے اور کہنے لگ گئے کہ سنگسار کیا جانے والا تو کوئی ولی اللہ اور بزرگ معلوم ہوتا ہے.خان عبدالاحد خان صاحب کو تبلیغ کا بہت شوق تھا.جب سید نا حضرت اقدس المصلح الموعود نے دعوۃ الا میر کتاب لکھی تو اس کا اردو مضمون خان صاحب مرحوم ہی حضور سے لا کر حضرت مولوی غلام احمد خان صاحب احمدی آف اوچ شریف کو دیتے تھے.ان دنوں حضرت مولوی صاحب مہمان خانہ کے ایک خام چوبارہ میں رہائش پذیر تھے.وہ فارسی میں ترجمہ کرتے تھے.پھر حضرت مولانا حکیم عبید اللہ صاحب بسمل اس پر نظر ثانی فرماتے تھے.جب یہ کتاب فارسی میں چھپ گئی تو محترم خان صاحب ہی یہ کتاب لے کر کابل تشریف لے گئے اور محمود طرزی صاحب وزیر خارجہ افغانستان کی خدمت میں پیش کی اور انہوں نے وہ کتاب شاہ کا بل کی خدمت میں پیش کی اور اس کی اطلاع خان صاحب مرحوم کومل گئی.پھر آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.مرحوم کے پاس اس کتاب کا اردو مستو وہ بطور تبرک عرصہ تک محفوظ رہا.آپ کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی.آپ تین سو تیرہ درویشان قادیان میں سے تھے اور قادیان کی مقدس بستی میں جاں جان آفرین کے سپر د کر کے بہشتی مقبرہ قادیان میں سپردخاک ہوئے.

Page 768

تاریخ احمدیت.جلد 24 728 سال 1968ء میاں محمد ادریس صاحب چنیوٹی آف کلکتہ وفات: ۳ /اگست ۱۹۶۸ء مرحوم ماه فروری ۱۹۶۳ء میں سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.باوجود اندرونی و بیرونی مخالفت کے ایمان میں استقامت و استقلال کا مظاہرہ کیا اور وہ اپنے اخلاص میں ترقی کرتے چلے گئے.وہ احمدیت میں اگر چہ پیچھے آئے مگر اپنے اخلاص میں بہتوں سے آگے نکل گئے.سلسلہ کی نہر تحریک میں لبیک کہا اور مالی قربانی کی.اپنی اولاد کو بھی سلسلہ کی تحریکات اور مساعی میں شامل کرنے کی سعی فرماتے تھے.سلسلہ کے اخبارات و رسائل کو اپنے نام جاری کروایا.خود پڑھتے اور افراد خاندان کو بھی پڑھوانے کی کوشش فرماتے.بہت ہی سنجیدہ مزاج، با اخلاق اور سکبھی ہوئی طبیعت رکھنے والے تھے.نظام سلسلہ کے پابند تھے.حضرت خلیفہ اسیح اور سلسلہ کے بزرگان اور خادموں سے محبت و عقیدت رکھتے تھے.ہر موقعہ پر انہوں نے خندہ پیشانی سے سلسلہ کی مختلف تحریکات میں حصہ لیا اور سلسلہ کی خدمت و اشاعت کو اپنے لئے موجب سعادت و برکت سمجھتے تھے.اسی طرح غریبوں اور مسکینوں کی امداد کر کے دل میں بشاشت و فرحت محسوس کرتے.مولوی کمال الدین صاحب امینی 102 وفات: ۱۲ اگست ۱۹۶۸ء بمقام ہڈرزفیلڈ انگلستان مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ سلسلہ احمدیہ قادیان کے چچا زاد بھائی اور بہنوئی تھے.اصل وطن بنگہ ضلع جالندھر تھا.ہجرت کے بعد اپنے دیگر بھائیوں کے ساتھ راولپنڈی میں قیام پذیر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد انگلستان کے شہر ہڈرز فیلڈ میں بود و باش اختیار کر لی.آپ جماعت ہڈرزفیلڈ کے اولین پریذیڈنٹ تھے.اس مخلص جماعت کو معیاری اور مثالی جماعت بنانے کے لئے آپ نے زندگی کے آخری سانس تک دیوانہ وار جد و جہد فرمائی.جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے آپ کو مردِ مجاہد قرار دیتے ہوئے ایک مفصل نوٹ میں لکھا: مرحوم کی کس کس خوبی کا تذکرہ کیا جائے.ان کا سارا وجود ہی برکت سے پُر تھا.چہرہ ایسا روحانی کہ دیکھنے سے ہی روحانی سرور آئے.باوجود کم علم ہونے کے روحانی اثر کی وجہ سے بڑے

Page 769

تاریخ احمدیت.جلد 24 729 سال 1968ء بڑے عالموں سے زیادہ کام کر گئے.خاکسار کی ان سے پہلی ملاقات ۱۹۶۵ء میں ہوئی جبکہ خاکسار جمعیت مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ان کی جماعت کے دورہ پر گیا.مرحوم نے اپنی جماعت کی کارگذاری پیش کی.اس کا اثر جو مکرم و محترم چوہدری صاحب پر ہوا اس کا ذکر انہوں نے اخبار احمدیہ مورخہ ۳۰ مارچ ۱۹۶۵ء میں بایں الفاظ فرمایا' ہڈرزفیلڈ کی یہ خصوصیت بھی قابل ذکر ہے کہ جناب مولوی کمال الدین امینی کے اخلاص ، تقویٰ اور خشیت اللہ اور توجہ کواللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم سے خاص طور پر شرف قبولیت سے نوازا ہے اور وہاں کی تمام جماعت ان کے رنگ میں رنگین ہے.خاکسار کو جو مختصر سا عرصہ ان صاحبان کی صحبت میسر آئی تمام وقت خاکسار کا دل ایک وجد کی کیفیت میں رہا اور بہت دعا ئیں ان سب کیلئے دل سے نکلتی رہیں.آئندہ پود کی دینی تربیت اس ماحول میں جس طور پر وہ سرانجام دے رہے ہیں وہ ایک اعجازی رنگ رکھتی ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ فِي الدَّارَيْنِ خَيْرًا - کمال الدین صاحب امینی مرحوم کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ اس دنیا کے باسی ہی نہیں ہیں.اُن کی روحانیت، نمازوں میں التزام، دعاؤں میں شغف، سلسلہ سے محبت، خلافت سے وابستگی ،مغربی دجالی ماحول سے بیزاری اور تعلق باللہ غیر معمولی رنگ کے تھے.پچھلے سال جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی انگلستان تشریف آوری کا سنا تو بار بار خطوط اور فون وغیرہ کے ذریعہ مجھے لکھا کہ حضور کی خدمت میں ان کی جماعت کی طرف سے درخواست کریں کہ حضور ہڈرزفیلڈ کو بھی دورہ میں شامل کر لیں.حضور پُر نور کی ربوہ سے روانگی سے قبل ایک ٹیپ اپنی جماعت کی طرف سے ریکارڈ کر کے حضور کی خدمت میں بھجوائی جس میں یہ درخواست دہرائی گئی تھی.پھر حضور اقدس کی تشریف آوری سے قبل ایک خواب کا مجھ سے ذکر کیا جس میں ان کو بتایا گیا تھا کہ حضور انشاء اللہ ہڈرز فیلڈ تشریف لے آویں گے.حضور اقدس نے لندن میں ان کی درخواست کو جب شرف قبولیت بخشا توان کا خوشی کے مارے عجیب حال تھا.حضور اقدس جب ہڈرز فیلڈ پہنچے تو امینی صاحب مرحوم نے سارا علاقہ خوش نما رنگ برنگی جھنڈیوں سے سجایا ہوا تھا اور بڑے قطعات پر اهلا و سهلا و مرحبا اور خوش آمدید و غیرہ لکھ کر سڑک پر لگائے ہوئے تھے.حضور پر نور جب کار سے باہر تشریف لائے تو مرحوم امینی صاحب کی وارفتگی کا یہ عالم تھا کہ حضور کے پُر نور چہرہ کو دیکھا گئے ،مصافحہ بھی نہ کیا.اور یوں محسوس ہوتا تھا گویا مدہوش ہو گئے ہیں.حضور نے بھی ان کے اس عشق کو محسوس فرمایا اور خاکسار سے ان کی وارفتگی کی طرف اشارہ فرمایا.مرحوم امینی صاحب شاید ابھی مزید کچھ عرصہ اسی حالت میں رہتے اگر

Page 770

تاریخ احمدیت.جلد 24 730 سال 1968ء خاکساران کو جا کر نہ جھنجھوڑتا.پھر دوڑتے ہوئے آئے اور حضور پُرنور کے ہاتھوں کو بوسے دئے اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے شروع کئے.حضور اقدس کے تشریف لے جانے کے بعد خاکسار نے مکرم امینی صاحب کو لکھا کہ چونکہ مسجد احمد یہ ہڈرز فیلڈ میں حضور کے مبارک قدم پڑگئے ہیں اس لئے اس کا نام بدل کر اب مسجد احمد یہ ناصر رکھ لیں.مرحوم نے فوراً اس نام کو رجسٹر کروالیا اور مسجد کے سامنے خوشنما موٹے حروف میں یہ نام لکھوا بھی لیا.اس سال کے اوائل میں خاکسار نے یہ فیصلہ کیا کہ لندن کے جلسہ سالانہ میں چونکہ دور دراز کے سارے دوست شامل نہیں ہو سکتے اس لئے حلقہ یارک شائر کی پانچ جماعتیں ہر سال ریجنل کانفرنس منعقد کر لیا کریں.مکرم امینی صاحب نے فوراً یہ پیشکش کی کہ پہلی کانفرنس ان کے ہاں ہو.خاکسار نے ان کو لکھا کہ میرا ارادہ ہے کہ لندن سے بھی چالیس افراد پر مشتمل ایک قافلہ اس موقع پر جائے.مرحوم نے فوراً لکھا کہ سب دوستوں کی رہائش و خوراک کا انتظام ہماری جماعت کرے گی.اور پھر جس خوش خلقی، اعلیٰ مہمان نوازی اور اسلامی اخوت کا انہوں نے اور ان کی مخلص جماعت نے مظاہرہ کیا وہ الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے.بچوں کی تربیت کا تو مرحوم کو گو یا جنون تھا.ہر شام کام سے تھکے ماندے واپس آتے ہی مسجد میں بچوں کی کلاسز لگواتے اور سب کو دینیات کی تعلیم دیتے.اپنی جیب سے رقوم خرچ کر کے بچوں میں انعامات تقسیم کرتے تھے.ان کی اس بے لوث محنت کا ایک نتیجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی دیا کہ ان کے اس سکول میں سولہ غیر از جماعت بچے بھی زیر تعلیم ہیں اور باوجود بعض مخالفین کے اصرار کے ان کے والدین اس بات پر راضی نہ ہوئے کہ ان کو ہمارے سکول سے اٹھالیا جائے.دینی غیرت کا یہ عالم تھا کہ کچھ عرصہ قبل ان کی ایک بھتیجی کو سکول میں ایسا لباس پہننے کو کہا گیا جو غیر اسلامی تھا نیز نارچ کرنے پر مجبور کیا گیا.مرحوم نے فورا سکول کے محکمہ کو خط لکھا لیکن جب شنوائی نہ ہوئی تو بچیوں کو سکول جانے سے روک دیا.یہاں چونکہ پندرہ سال تک کے بچوں کی تعلیم لازمی ہے اس لئے چند دن کے بعد محکمہ تعلیم کے لوگ ان کے گھر آئے اور بچیوں کے نہ جانے کی وجہ دریافت کی.مرحوم نے کہا کہ وہ ہرگز اپنی بچیوں کو ناچ و گانا اور غیر اسلامی لباس نہ پہننے دیں گے خواہ اس کی خاطر ان کی بچیاں بے علم رہ جائیں یا ان کو صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.محکمہ تعلیم کے افسران پر ان کے اس عزم کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے نہ صرف ان کے بچوں کیلئے بلکہ ہڈرزفیلڈ کے علاقہ کے جملہ سکولز میں سرکلر کر دیا کہ مسلمان بچیوں کو شلوار پہننے کی اجازت ہوگی اور ڈانس کلاسز میں ان کا شامل ہونا ضروری نہ ہوگا.یہ ان کا ایک

Page 771

تاریخ احمدیت.جلد 24 66 زندہ جاوید کارنامہ ہے.100 ڈاکٹر سید جنوداللہ صاحب وفات : ۲۳ /اگست ۱۹۶۸ء 731 سال 1968ء مکرم ڈاکٹر سید جنود اللہ صاحب ڈینٹل سرجن سرگودھا مورخہ ۲۳ راگست ۱۹۶۸ء میں وفات پاگئے.مرحوم بہت مخلص احمدی تھے.آپ روس ( ترکستان) بخارا کے باشندہ تھے.جو بعد ازاں کاشغر میں قیام پذیر ہوئے.یہاں پر ایک احمدی دوست کے ذریعہ پیغام حق قبول کرنے کی توفیق ملی اور آپ پھر عملاً برف کی سلوں کے اوپر سے گذرتے ہوئے قادیان کی مقدس بستی پہنچے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی فَإِذَا رَ ايَتُمُوهُ فَبَايِعُوهُ وَلَوْ حَبُوا عَلَى التَّلْحِ کو ظاہری طور پر بھی پورے کرنے کی سعادت پائی.آپ نے ۱۹۳۹ء میں احمدیت قبول کی اور پھر ہجرت کر کے قادیان آگئے.قیام پاکستان سے تا وفات سرگودھا میں مقیم رہے اور پریکٹس کرتے رہے.آپ سرگودھا شہر میں ایک اعلیٰ معالج ہونے کی حیثیت سے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.آپ محترم میاں عبدالرحیم صاحب مرحوم مالیر کوٹلوی کے داماد تھے اور پروفیسر مسعود احمد صاحب عاطف اور حمید اختر صاحب کے بہنوئی تھے.105 مہاشہ محمد عمر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ وفات: ۲ ستمبر ۱۹۶۸ء سلسلہ احمدیہ کے دیرینہ خادم اور نامور مناظر تھے جو پندرہ سال کی عمر میں ہندو دھرم ترک کر کے مشرف بہ اسلام ہوئے.پہلا نام یوگندر پال تھا.حضرت مصلح موعود نے محمد عمر نام رکھا.قبول احمدیت کے بعد قادیان میں مستقل سکونت اختیار کر لی.۱۹۲۲ء سے ۱۹۳۰ء تک عربی اور دینی علوم کی تحصیل مکمل کی.اور جامعہ احمدیہ قادیان سے مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ، شیخ مبارک احمد صاحب ، مولوی عبدالواحد صاحب ، مولوی عبد الرحمن صاحب انور اور مولوی چراغ الدین صاحب کے کلاس فیلو تھے.۱۹۳۱ء سے اخیر دم تک مربی سلسلہ احمدیہ کی حیثیت سے گرانقدر خدمات بجالاتے رہے.متحدہ ہندوستان میں ہندو اور اچھوت اقوام تک نہایت کامیابی سے پیغام حق پہنچایا.اور آریہ سماج اور سناتن دھرم و دوانوں سے کامیاب مناظرے کئے.بہت سے مناظرات میں آپ کو

Page 772

تاریخ احمدیت.جلد 24 732 سال 1968ء مولانا ابوالعطاء صاحب سے رفاقت کا شرف بھی حاصل ہوا.مہاشہ محمد عمر صاحب اپنے خودنویس سوانح ( جیون یا ترا) میں تحریر فرماتے ہیں:.” میرا جنم آج سے تقریباً چھپن برس پہلے ضلع گورداسپور تحصیل شکر گڑھ کے ایک گاؤں دو دھو چک میں ہوا.میرے پتا جی کا نام پنڈت دھنی رام کروا دادا جی کا نام پنڈت جگت رام تھا.میرے پتا جی جیوتش کا کام کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کا اثر دور دراز علاقوں تک تھا مجھے انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں گورول کانگڑی ہر یہور میں داخل کرایا.وہاں پر سنسکرت کے سوا اور کوئی زبان نہیں پڑھائی جاتی تھی.میں نے بھی وہاں آٹھویں کلاس تک پڑھا.جولائی ۱۹۲۲ء تک میں گور وکل کے وڈیاں تھی ، اپنے گوروگل گروجی کے ساتھ پہاڑ کی یاترا کیلئے چلے اور بٹالہ میں آریہ سماج کے جلسہ میں شمولیت کے لئے اترے.بٹالہ کا جلسہ ختم ہونے پر ہم گوروکل کے ودیارتھی اپنے گرو پنڈت بودھ دیو جی کے ساتھ قادیان سالانہ جلسہ پر آئے.قادیان میں قیام کے دوران ہم اپنے گرو جی کے ساتھ حضرت امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کیلئے مسجد میں گئے.اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی رہی.دوسرے دن پھر آپ سے مسجد میں ہی ملے.دوران ملاقات میں حضرت امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ میں ایک آسان بات پیش کرتا ہوں اور وہ یہ کہ آپ ہمیں اپنے طالب علم دیں جن کے اخراجات پڑھائی اور رہائش اور کھانے وغیرہ کا میں ذمہ دار ہوں گا.لیکن ہمارے استاد جی نے اس کو منظور نہیں کیا.میرے اور دوسرے دوست نے ارادہ کیا کہ ہم اس شرط پر عربی پڑھیں گے.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد صرف میں ہی اس شرط پر عربی پڑھنے کے لئے قادیان آیا.اور آ کر حضرت امام جماعت احمدیہ سے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے ایک وفد سے بعض شرائط پر عربی پڑھانے کے لئے کہا.آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے یاد ہے.پھر میں نے عرض کیا کہ میں عربی پڑھنے کے لئے آیا ہوں.آپ میری پڑھائی کا انتظام فرماویں.چنانچہ آپ نے میرے لئے کھانے کا علیحدہ انتظام کیا جس کو ایک ہندو پکا تا تھا.اور عربی کی پڑھائی کے لئے بھی میرا انتظام کر دیا.اور پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اپنا فضل و کرم کیا کہ اس نے مجھے اسلام میں داخل ہونے کی توفیق دی.فالحمد للہ علی ذالک.اسلام میں داخل ہونے کے بعد مجھے سب سے پہلے ملکانہ یو.پی میں تحریک شدھی کی روک تھام کیلئے جانا پڑا.وہاں پر اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صداقت میں بے شمار معجزات اور نشانات دکھائے.چنانچہ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ہمارا ایک وفد فرخ آباد سے نگر یا جواہر جا رہا تھا کیونکہ ہمیں معلوم ہوا تھا

Page 773

تاریخ احمدیت.جلد 24 733 سال 1968ء کہ یہ گاؤں مرتد ہو رہا ہے وہاں پر جا کر معلوم ہوا کہ وہاں کے تمام مسلمان مرتد ہو گئے ہیں اور گاؤں والوں نے ہم سے کہا کہ آپ لوگ یہاں سے نکل جائیں ورنہ آپ کو جبراً نکال دیا جائے گا.چنانچہ ہم وہاں سے رات کے گیارہ بجے کے قریب نکلے.راستہ دریائے گنگا کے کنارے کنارے تھا.ایک مقام پر جب ہم آئے تو وہاں راستہ نہایت ہی خطر ناک تھا.رات اندھیری تھی جس کی وجہ سے راستہ کی تلاش میں کافی دقت ہوئی تھی.مجھے یاد ہے کہ چوہدری وزیر محمد صاحب آگے آگے جا کر کھڑے ہو کر آواز دیتے تھے کہ آجاؤ راستہ ٹھیک ہے تو ہم سب آگے چل دیتے تھے.ایک مقام پر جب ہم آئے تو وہ راستہ نہایت خطر ناک تھا.کیونکہ وہاں پر ایک نالہ گنگا میں آکر گرتا تھا جس کی وجہ سے خطرہ تھا کہ کہیں ہم میں سے کوئی دریا میں نہ گر جائے.اسی اثنا میں دریائے گنگا سے ایک چراغ نمودار ہوا جو کہ بڑھتے بڑھتے اونچے منارے کے برابر ہو گیا.اور وہ بالکل ہمارے قریب آ گیا جس کی وجہ سے ہم نے وہ خطرناک راستہ آسانی کے ساتھ طے کر لیا.میں چونکہ نیا نیا مسلمان ہوا تھا اس لئے میں ڈر گیا کہ شاید کوئی بھوت چڑیل نہ ہو میں ڈر کر میاں محمد یا مین صاحب مرحوم کتب فروش کے ساتھ چمٹ گیا.میری گھبراہٹ کو دیکھ کر آپ نے کہا ”میاں فکر نہ کرو یہ خدائی آگ ہے جو کہ تمہاری راہنمائی کے لئے 66 خدا تعالیٰ نے بھیجی ہے.یہ پہلا نشان تھا کہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے صداقتِ اسلام کا دکھایا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر بے شمار انعامات کئے جن کا ذکر کرنا بڑا وقت چاہتا ہے مسلمان ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ اس کے فضل و کرم سے میں نے مولوی فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا.اور اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تبلیغ اسلام کے لئے میرا وقف منظور فرمایا.اور اس وقت سے لے کر اب تک میں حتی المقدور اشاعتِ اسلام کے لئے کوشش کر رہا ہوں.میری زندگی کے بہت سے واقعات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر مخالفین کے ساتھ گفتگو میں میری مددفرمائی.107 تصانیف: (۱) ہندو دھرم میں کثرت ازدواج.(۲) بھرم نوارن (ہندی).(۳) ورتمان بیگ کا اوتار (ہندی).(۴) زمانہ کا مصلح (اردو).(۵) تبلیغی ٹریکٹ نمبرا ( زمانہ کو صلح کی ضرورت ہے).(1) شری کرشن اوتار.(۷) ست سندیش (ہندی).(۸) بھگوان کرشن کا اوتار ( ٹریکٹ نمبر 4 اور نمبر ۸ کا مضمون ایک ہی ہے صرف عنوانوں میں فرق ہے ) (۹) بھگوان کرشن کا اوتار.(۱۰) ورتمان ینگ کا

Page 774

تاریخ احمدیت.جلد 24 734 سال 1968ء اوتار (اردو).(۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عقیدہ ویدوں کے بارہ میں.مولوی بی محمد عبد اللہ صاحب مالا باری وفات : 9 ستمبر ۱۹۶۸ء آپ حضرت مولوی شیخ محی الدین صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے فرزند اور علاقہ مالا بار میں احمدیت کے نڈر سپاہی تھے ، جن کی للکار کے سامنے کوئی مخالف مقابل پر آنے کی جرأت نہیں کرتا تھا.حضرت مولوی صاحب ۱۹۲۷ء میں قادیان سے فارغ التحصیل ہو کر مالا بار میں بطور مبلغ متعین ہوئے جبکہ پینگاڈی اور کینا نور دو شہروں میں گنتی کے چند احمدی تھے.مولانا صاحب کی چالیس سالہ انتھک اور شبانہ روز تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں ملک میں ۲۱ مخلص اور سلسلہ کی فدائی جماعتیں قائم ہو گئیں.اور آپ کی پرکشش اور مقناطیسی شخصیت نے احمدیت کے ہزاروں فدائی پیدا کر دیئے.علاقہ کیرالہ کے علاوہ آپ صوبہ مدراس اور سیلون میں بھی نہایت کامیابی سے تبلیغی فرائض سرانجام دیتے رہے.آپ مالا یار عالم دین مولانا مولوی بی عبداللہ صاحب ایچ اے (۷۳ سال کی عمر میں ) آج اپنے وطن پین گاڑی میں وفات پاگئے.مرحوم کئی زبانوں کے ماہر، مصنف اور مناظر تھے.اسلامی فلسفہ کے علاوہ ہندی ، ملیالم اور تامل زبانوں کے مایہ ناز مقرر تھے.ان زبانوں میں آپ نے بلند پایہ لٹریچر شائع کیا.جس میں آپ کی ضخیم کتاب "النبوت فی الاسلام خاص طور پر قابل ذکر ہے.متعدد کتابوں اور پمفلٹوں کے علاوہ ماہنامہ ستیا دوتن“ میں آپ کے قلم سے بہت سے معرکۃ الآرا مضامین نکلے.علاقہ مالا بار میں چوٹی کے مناظر تسلیم کئے جاتے تھے.آواز میں ایسا سوز و گداز تھا کہ لوگ آپ کی زبانِ مبارک سے تلاوت قرآن کریم سن کر وجد میں آجاتے تھے.آپ کی وفات کی خبر آل انڈیاریڈیو نے نشر کی اور مالا بار کے تمام مشہور اخبارات نے بھی نمایاں رنگ میں اسے شائع کیا.مالا بار کے کثیر الاشاعت اخبار روزنامہ مانتر و بھومی نے اپنی.استمبر ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں آپ کی تصویر کے ساتھ حسب ذیل خبر شائع کی:.کالیکٹ 9 ستمبر جنوبی ہند کے رئیس التبلیغ اور مشہوسکھ، عیسائی، بدھ، بہائی فلسفوں پر بھی آپ کو عبور حاصل تھا.مرحوم نے دین اسلام کے علاوہ وید ، بائبل ، سری کرشن ، سری بدھ کے بارے میں بھی متعدد کتب و مضامین تالیف فرمائے.پچھلے ۴۵ سال سے آپ جنوبی ہند کے مشنری انچارج تھے.وو

Page 775

تاریخ احمدیت.جلد 24 735 سال 1968ء سیلون میں بھی بطور مبلغ آپ خدمات سرانجام دیتے رہے.پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں مولوی فاضل کی ڈگری کے علاوہ احمدی مرکز قادیان (پنجاب) سے مبلغین کا کورس مکمل کرنے کے بعد اپنی زندگی وقف کر کے وطن واپس آئے.اور دینی خدمات میں منہمک ہو گئے.مالایالم کے علاوہ عربی، انگریزی، اردو، فارسی اور تامل زبانوں میں بھی آپ کو اچھا ملکہ حاصل تھا.آپ کا شمار جنوبی ہندوستان کے مشہور علماء میں ہوتا تھا.۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۵ء تک کیرالہ، مدراس اور سیلون میں منعقدہ مناظرات میں جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ نمائندہ تھے.ہندوستان وسیلون میں متعدد ہونے والے دیگر مذاہب کے جلسوں میں بھی آپ اکثر اوقات مدعو ہوتے تھے.مدینہ ہسپتال کے سرجن اور اب لندن میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمدعبداللہ محترم مولوی صاحب کے داماد اور پینگاڈی کے ایڈووکیٹ مکرم بی عبد الرحیم صاحب آپ کے برادر اصغر ہیں.108- 66 مولانا ابوالعطاء صاحب نے مجاہد احمدیت حضرت مولانا محمد عبد اللہ صاحب مالا باری کا ذکر خیر کے عنوان سے تحریر کرتے ہوئے فرمایا کہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرا کہ اتنے دور دراز علاقے کا ایک بچہ تعلیم دین سیکھنے کے لئے قادیان میں آیا تھا.اسے اپنے وطن پینگا ڈی مالا بار میں ”بی عبداللہ کہتے تھے قادیان میں وہ عبداللہ مالا باری کے نام سے مشہور ہوا.نہایت ہونہار اور محنتی نو جوان تھا.قادیان کے مقدس علمی ماحول نے اس نوجوان کو خاص رنگ سے رنگین کر دیا.مسافت کے دور ہونے کے باعث مدرسہ کی ہر سال کی تعطیلات میں گھر جانے کا موقعہ نہ ہوتا تھا کئی سال کے بعد اپنے وطن جاتے تھے ورنہ تعطیلات بھی مطالعہ اور تحصیل معلومات میں ہی قادیان میں بسر ہوتی تھیں.انہیں مطالعہ کا غیر معمولی شوق تھا.ہم نے ۱۹۲۴ء میں مولوی فاضل کا امتحان دیا.ہم سات طالب علم تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم ساتوں ہی کامیاب ہو گئے اور میرے نمبر یو نیورسٹی میں کامیاب ہونے والوں میں سے سب سے زیادہ تھے.مولوی صاحب جماعت میں نہایت ہوشیار اور ذہین طالب علم تھے.مولوی صاحب موصوف کی طبیعت ابتداء سے ہی ایسی سلجھی ہوئی تھی کہ کسی سے لڑائی جھگڑا کی کبھی نوبت نہ آتی تھی بلکہ آپ بعض طلبہ کے باہمی تنازعات کا نہایت خوش اسلوبی سے سمجھوتہ کر دیا کرتے تھے.طبیعت نہایت محققانہ تھی بات کی تہ تک جاتے تھے اور سطحی وسرسری معلومات پر قانع نہ ہوتے تھے.مولوی فاضل کے

Page 776

تاریخ احمدیت.جلد 24 736 سال 1968ء بعد کچھ عرصہ ہمارے ساتھ حضرت حافظ روشن علی صاحب کے پاس بھی تعلیم پاتے رہے.ان دنوں مبلغین کلاس کے لئے ہمہ وقت اور جملہ مضامین کے حضرت حافظ صاحب ہی استاد ہوتے تھے.آپ کی طرز تعلیم نہایت دلر با اور دلنشین تھی اور طلبہ کو نہایت بے تکلفی سے آپ پڑھاتے تھے.مولانا محمد عبداللہ صاحب مالا باری نے بھی اس آخری کلاس سے کافی استفادہ فرمایا.ان دنوں مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ بھی اپنی نظیر آپ تھے.حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب، حضرت قاضی امیر حسین صاحب، حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب اور حضرت میر محمد الحق صاحب ان میں نمایاں تر تھے.ان جملہ اساتذہ کی تدریسی کاوشوں سے اخویم مولا نا محمد عبد اللہ صاحب مالا باری نے بہت فائدہ اٹھایا تھا اور وہ علوم کی دولت سے مالا مال ہو کر اپنے وطن کو واپس ہوئے.عالم تو دنیا میں بہت ہیں مگر مرحوم مولا نا ایک بلند پایہ روحانی عالم تھے.تقویٰ سے زندگی بسر کرنے والے عالم تھے.تعلیمی میدان میں مسابقت اور مقابلہ بھی ہوتا تھا.کھیل کے میدان میں بھی مقابلے ہوتے تھے.مولوی صاحب موصوف ہاکی کے اچھے کھلاڑی تھے مگر اس سارے عرصہ میں ہر پہلو سے موصوف ایک تقوی شعار احمدی عالم تھا.دین سے ان کو شغف تھا اور تحقیق اور ریسرچ ان کی غذا تھی.انہوں نے تحصیل علم کے بعد پوری زندگی خدمت دین میں صرف کی ہے.مالا بار میں عربی زبان کا خاصہ رواج ہے اس لئے مخالفین کے مقابلہ کے لئے مرحوم کو بھی خاص تیاری کرنی پڑتی تھی.گھنٹوں تقریر کر سکتے تھے.دشمنانِ حق کے مقابلہ میں پورے جوش اور کامل قوت ایمانی کے ساتھ ڈٹ جاتے تھے.تحریر کا بھی خوب ملکہ تھا.انہیں اس وقت تک چین نہ پڑتا تھا جب تک دشمن کے تحریری حملہ کا مسکت جواب تحریر سے نہ دے لیتے تھے.انہیں نادر اور علمی کتابوں کے حصول کا بہت شوق تھا.مالی تنگی کے باوجود اس شوق کو پورا کرتے تھے.ملیالم میں ایک رسالہ ایڈٹ کرتے تھے.پورا تبلیغی کام کرتے تھے.اپنے علاقہ کی تمام جماعتوں کی تربیت کا پورا اہتمام فرماتے تھے.مالا بار میں اردو کم سمجھی جاتی ہے اس لئے گویا مولا نا ہی اس علاقہ کے احمدیوں کے لئے مشعل راہ اور واسطہ تھے.ایک عظیم اور قابل تقلید خوبی مولانا مرحوم میں یہ تھی کہ وہ بالکل بے نفس تھے.انہیں ایسے لوگوں سے طبعی طور پر نفرت ہوتی تھی جن میں ریاء یا تکلف نظر آتا ہو.ان کی زندگی بالکل درویشی کی زندگی تھی.وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں دیکھ کر خدا یاد آ جاتا ہے.ان کے اپنے علاقہ کے لوگوں پر ان کا خاص روحانی اثر تھا.109

Page 777

تاریخ احمدیت.جلد 24 مولوی ابوالفضل محمود صاحب وفات: ۲۹ ستمبر ۱۹۶۸ء 737 سال 1968ء (اصل وطن پر یا یو.پی بھارت تھا).دینی تعلیم دتی اور دیو بند میں حاصل کی.آپ نے عمدہ واعلی ، دیدہ زیب طباعت و کتابت کے ساتھ سلسلہ کا بہت سالٹریچر بکثرت شائع کیا.خصوصاً در مشین، کشتی نوح اور الوصیت تو کئی مرتبہ چھپوا کر برائے نام قیمت پر ہر شخص تک پہنچانے کی کوشش کی.آپ نے یہ کام عرصہ تک انتھک محنت ، جوش اور بڑے انہماک سے کیا.لکھنو ، دہلی ، امرتسر ، لاہور، کراچی، مدراس، بنگلور، بمبئی ، کلکتہ اور حیدر آباد وغیرہ شہروں میں اکثر گھومتے رہے اور بڑے بڑے معزز افراد کو ملتے اور انہیں پیغام حق پہنچاتے تھے.جارج پنجم کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر آپ نے Teaching" "of Islam اور چند اور کتب انہیں تحفہ بھجوائیں جس کے جواب میں انہیں شکریہ کا خط بھی موصول ہوا.ایک دفعہ آپ ریاست میسور کے وزیر اعظم سر مرزا اسماعیل کے ہاں گئے اور پندرہ بیس دن ان کے پاس رہے اور ان کو پیغام حق پہنچایا اور کئی ایک کتب بھی دیں.مولوی محمد علی اکبر صاحب بنگالی معلم اصلاح وارشاد وفات ۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء 110 آپ مشرقی پاکستان کی سرزمین میں فجر احمدیت کے ایک شیریں پھل تھے.آپ نے صرف بارہ سال کی عمر میں برما میں حضرت مصلح موعود کی بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کو قبول احمدیت کے بعد اپنے رشتہ داروں اور گرد و پیش کے لوگوں سے شدید مخالفت سے دو چار ہونا پڑا یہاں تک کہ آپ پر چاقو سے قاتلانہ حملہ بھی کیا گیا مگر آپ کے پائے ثبات میں ذرا لغزش نہ آئی.برما سے آپ کلکتہ آگئے اور ملازمت اختیار کر کے پورے زور وشور سے احمدیت کا پیغام پہنچانا شروع کیا جلد ہی بعض تعلیم یافتہ افراد سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.جس پر مخالفین نے آپ کو نہایت بیدردی سے مارا پیٹا اور آپ کو مردہ سمجھ کر بھاگ گئے.آپ کچھ دن ہسپتال میں رہے اور صحت یاب ہو کر پہلے سے بڑھ کر جوش و خروش کے ساتھ تبلیغ میں مشغول ہو گئے اور اپنے آبائی گاؤں احمد پور ضلع نواکھالی میں رہنے لگے.یہاں بھی مخالفین نے عوام کو آپ کے خلاف سخت مشتعل کر دیا اور ایک روز سب مل کر رات کی تاریکی میں آپ کے گھر پر حملہ آور ہو گئے.اس وقت کچھ احمدی معززمہمان بھی موجود تھے.

Page 778

تاریخ احمدیت.جلد 24 738 سال 1968ء ان ظالموں نے ان مہمانوں کو بھی مارا پیٹا اور آپ کو بھی سخت اذیت پہنچائی لیکن اسی دوران ایک کٹر مخالف جو مخالفت میں پیش پیش تھا گھر کے سامنے ہی ایک گڑھے میں جا گرا.ان لوگوں نے سمجھا یہ بھی کوئی احمدی ہے جو اچھی طرح قابو آ گیا ہے.سب نے اس کو بری طرح مارنا شروع کر دیا اور وہ چلا تا ہی رہ گیا کہ میں تو فلاں ہوں لیکن جب انہوں نے لالٹین کی روشنی میں اپنے ساتھی کو نیم مردہ حالت میں دیکھا تو کف افسوس ملتے رہ گئے اور سخت شرمندہ ہوئے.مولوی صاحب کو ان کی زندگی کے آخری دو مہینوں میں نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے مشرقی پاکستان کی احمدی جماعتوں میں رشتہ و ناطہ جیسے اہم کام پر لگایا گیا.اس نہایت اہم ذمہ داری کی بجا آوری کے لئے سر دھڑ کی گویا بازی لگا دی اور عہد کیا کہ اس معاملہ کو سلجھانے کے لئے مجھے میرے خون کا آخری قطرہ بھی قربان کرنا پڑے تو میں اس کے لئے تیار ہوں.انہوں نے جو کچھ کہا اسے عملی طور پر پورا کر دکھایا اور وہ رشتہ و ناطہ کی کوششوں کے دوران اچانک بیمار ہو گئے اور ڈھا کہ میڈیکل کالج ہسپتال میں صرف دو روز زیر علاج رہنے کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ شیخ عبدالحمید صاحب نے نعش کو بذریعہ ہوائی جہاز ربوہ پہنچانے کے اخراجات کا بار اٹھایا.اور چوہدری شریف احمد صاحب ڈھلوں ان کی نعش کور بوہ لائے اور اگر چہ حصہ جائیداد کے تعلق میں ان کے ذمے ایک خاصی رقم بقایا تھی حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے از راہ شفقت اس مخلص خادم سلسلہ اور مجاہد کا سارا بقایا خود ادا کر کے ان کی نماز جنازہ پڑھائی.اور مرحوم کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ مربیان میں دفن کیا گیا.111 مولوی سید صمام الدین صاحب سونگھڑوی وفات: ۵/اکتوبر ۱۹۶۸ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی مولوی سیدا کرام الدین صاحب کے منجھلے بیٹے تھے.بہت دیندار اور متوزع تھے.آپ ایک عرصہ تک صد را انجمن حد یہ کی ملازمت میں رہے اور کر ڈاچی ، پنکال، کیندرا پاڑا، بھدرک، رانچی، بسنہ وغیرہ کے مقامات پر مبلغ و معلم کی حیثیت سے خدمات بجا لاتے رہے.112

Page 779

تاریخ احمدیت.جلد 24 لیڈی ڈاکٹر غلام فاطمہ صاحبہ وفات: ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء 739 سال 1968ء آپ مکرم چوہدری محمد تقی صاحب ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر صاحب کی اہلیہ تھیں.جماعت احمدیہ کی مستورات میں سے اولین لیڈی ڈاکٹر تھیں.جنہوں نے ۱۹۲۷ء میں لیڈی براؤن میڈیکل سکول لدھیانہ سے ڈاکٹری کا آخری امتحان پاس کیا تھا.جہاں مسلمان خواتین کے لئے پردے کا خاطر خواہ انتظام تھا.اور آپ ساری عمر پردہ کے اعلیٰ حکم کی پابندی کے ساتھ ساری عمر ڈاکٹری کا کام کرتی رہیں.گورنمنٹ سروس کے دوران انہیں میڈیکولیگل کیسز کی گواہی کے لئے عدالت میں بھی جانا پڑتا تھا وہاں بھی آپ باقاعدہ برقع میں جایا کرتی تھیں.ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد وہ قادیان آئیں اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے بہت کچھ ڈاکٹری کا تجربہ حاصل کیا.وہ جب کبھی رخصت پر قادیان آتیں تو نور ہسپتال میں اپنی خدمات پیش کر دیتیں.دسمبر ۱۹۴۳ء میں جب حضرت سیدہ ام طاہر شدید طور پر بیمار ہوئیں تو حضرت مصلح موعود کے حکم سے آپ کو بغرض علاج بلایا گیا.آپ ان دنوں لیڈی ایچی سن ہاسپٹل لاہور میں کام کرتی تھیں.اگست یا ستمبر ۱۹۴۴ء میں آپ حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر گورنمنٹ سروس سے استعفیٰ دے کر نور ہسپتال میں طبی خدمات بجالانے لگیں.اور پہلے قادیان میں اور پھر لاہور اور ر بوہ میں ۱۹۵۹ء تک پوری اطاعت، اخلاص و قربانی اور تعاون کے جذبہ سے سرشار ہو کر احمدی مستورات کی خدمت میں سرگرم عمل رہیں.مرحومہ دیندار اور متقی خاتون تھیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انتہائی عقیدت رکھتی تھیں.زندگی بھر سلسلہ کی خدمت کرنا ان کا مقصد تھا.15 113 الحاج محمد عبد القادر اسحق غانا وفات: ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۸ء آپ جماعت احمد یہ غانا کے پرانے ممبر تھے.آپ نے مختلف مبلغین کے ساتھ تر جمانی کا فریضہ سرانجام دیا اور مجلس عاملہ میں بھی مختلف عہدوں پر فائز رہے.

Page 780

تاریخ احمدیت.جلد 24 سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی وفات: ۲۲/اکتوبر ۱۹۶۸ء 740 سال 1968ء محترم سیٹھ محمد یوسف صاحب بانی چنیوٹ کے مشہور شیخ تاجر خاندان کے ایک فرد تھے.کلکتہ میں ان کا کاروبار تھا.آپ اپنے بیٹے محمود احمد بانی کی شادی کے سلسلہ میں کلکتہ سے چنیوٹ آئے ہوئے تھے کہ حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے مورخہ ۱/۲۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو وفات پاگئے.سیٹھ صاحب کا جنازہ ربوہ لایا گیا اور۲۳/اکتوبر بعد نماز عصر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور مرحوم کو عام قبرستان میں دفن کیا گیا.سیٹھ صاحب موصوف بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.آپ ذیا بیطس کے مریض تھے.تاہم بڑی ہمت کے ساتھ اپنے کاروبار میں مصروف رہے.آپ سلسلہ کی مالی تحریکات میں بھی نمایاں حصہ لیتے تھے.حضرت شیخ محمد دین صاحب مختار عام صدرانجمن احمدیه 117 وفات: ۲۱/۲۰ نومبر ۱۹۶۸ء حضرت شیخ صاحب سلسلہ احمدیہ کے ان ممتاز خدام میں سے ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تحریری بیعت کرنے کی سعادت میسر آئی.آپ کے فرزند اکبر جناب شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کے قلم سے حضرت شیخ محمد دین صاحب کے ہجرت قادیان تک کے حالات الفضل کی تین قسطوں میں شائع شدہ ہیں جن کا خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب کی زندگی کے حالات قابل تذکرہ ہیں اپنی ساری برادری میں احمدیت قبول کرنے اور پھر قادیان ہجرت کر آنے میں فرد واحد تھے.آپ کی پیدائش ضلع ملتان کے معروف قصبہ تلمبہ کے نواح میں ۱۸۹۱ء میں ہوئی.اس قصبہ میں والد صاحب نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی.مدل آپ نے سرائے سدھو تحصیل کبیر وال ضلع ملتان میں جا کر پاس کیا.یہ ۱۹۰۵ء کی بات ہے آپ کو تعلیم کا شوق تھا.لائل پور میں ۱۹۰۶ء میں پٹوار کا امتحان بہت امتیازی نمبروں کے ساتھ پاس کیا.تعلیم سے فراغت پر آپ بطور نائب مدرس تحصیل ملتان کے ایک مقام مٹرل میں ملازم ہو گئے.کچھ عرصہ گذرنے پر شجاع آباد میں محکمہ نہر میں بطور پٹواری ملازم ہو گئے.حسنِ اتفاق سے ان دنوں شجاع آباد میں محکمہ نہر میں حضرت منشی عمر دین صاحب آف کوٹلہ افغاناں ضلع گورداسپور

Page 781

تاریخ احمدیت.جلد 24 741 سال 1968ء بھی ملازم تھے.حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں تھے اور نیک سیرت صحابی تھے.والد صاحب کو حضرت منشی صاحب نے اپنے مکان پر اپنے ساتھ ٹھہرایا.محکمہ میں حضرت منشی عمر دین صاحب نیک شہرت رکھتے تھے.احمدیت کے رنگ نے انہیں ایک خاص انسان بنا دیا تھا.نمازوں کی پابندی ، قرآن کریم کی تلاوت ، تہجد سے شغف ، آپ کا ابتدائی جوانی کے دنوں سے ہی تھا.اس نیک صحبت نے آپ پر بہت نیک اثر ڈالا.حضرت منشی صاحب کے پاس قادیان سے سلسلہ کے اخبارات اور کتب آتیں والد صاحب بھی ان کا مطالعہ کرنے لگے.نیک صحبت اور خاموش تبلیغ کا سلسلہ جاری رہا.پہلی مرتبہ والد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور آپ کی بابرکت ذات کے حالات اور دعویٰ سے علم حضرت منشی صاحب مرحوم سے ہوا.انہی دنوں تازہ وحی کے زیر عنوان سلسلہ کے اخبار میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تازہ الہام "تزلزل در ایوان کسری فتاد (اخبار بدر ۱۹ جنوری ۱۹۰۶ ء صفحه ۲) شائع ہوا.یہ ۱۵ جنوری ۱۹۰۷ء کی بات ہے.کچھ عرصہ بعد یہ الہام پورا ہونے کے کوائف اخبار میں شائع ہوئے.اور باتوں کے علاوہ اس نشان کے پورا ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور حقانیت آپ کے دل میں گھر کر گئی اور خدا کے مسیح کے دامن سے وابستہ ہونے کیلئے آپ کی روح میں ایک خاص گرمی پیدا ہوئی.چنانچہ فروری ۱۹۰۷ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ کر قبولیت بیعت اور دعا کی درخواست کی.حضور نے از راہ شفقت بیعت قبول فرمائی اور دعا سے نوازا.اخبار بدر ۴ ۱ مارچ ۱۹۰۷ء کے پرچہ میں ”سلسلہ حقہ کے نئے ممبر آپ کا نام شائع ہوا ( صفحہ۱۱).شجاع آباد میں آپ تقریباً سات برس تک رہے.یہاں حضرت منشی عمر دین صاحب کے علاوہ دو ایک اور احمدی دوست بھی محکمہ نہر میں آشامل ہوئے جن میں ایک حضرت منشی سر بلند خان صاحب بھی تھے.ان احمدیوں کا ان دنوں آپس میں مل جل کر رہنا، نیکی کے تذکرے، دعاؤں کا شغف، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات و کلمات کا ذکر خصوصی مشغلہ تھا.جس سے روحوں کی صفائی اور تزکیۂ نفس کے مراحل طے ہوتے تھے.شجاع آباد سے والد صاحب کی تبدیلی چاھاں میراں چڑھر رانہ واھن میں ہوئی.اس علاقہ میں دو سال رہنے کے بعد آپ کی تبدیلی خاص ملتان شہر میں ہوگئی ملتان میں اس وقت ایک مختصر جماعت تھی.میاں عبدالرحمن صاحب و میاں محمد عبد اللہ صاحب رنگریز دو احمدی بھائی تھے والد صاحب اپنے سرکاری فرائض کے بعد اکثر وقت ان احمدی بھائیوں کے ساتھ گزارتے.انفرادی و اجتماعی رنگ

Page 782

تاریخ احمدیت.جلد 24 742 سال 1968ء میں جماعتی کاموں میں حصہ لیتے.انہی دنوں کی بات ہے کہ قادیان سے حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب ملتان تشریف لے گئے.والد صاحب نے ان بزرگوں کے لیکچروں کے لئے خود شہر میں پھر کر منادی کی اور منادی میں یہ الفاظ کہہ کر کہ حضرت امام مہدی کے حواری ملتان میں آئے ہیں اور وہاں فلاں وقت پر جلسہ ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مختصر الفاظ میں ذکر کرتے اور پھر ان بزرگوں کے لیکچروں کا اعلان جب ملتان میں بڑی شان سے ہوا کثرت سے لوگ اس جلسہ میں شریک ہوئے.جلسہ کے بعد ملتان کے لوگوں میں احمدیت کا چرچا ہونے لگا.مخالفت بھی بھڑک اٹھی.ملتان سے بنگل دار نز دریلوے سٹیشن کوٹ میلا رام سابق رشیدہ آپ کی تبدیلی ہو گئی.یہاں آپ کا دو سال قیام رہا.علاقہ کے زمینداروں اور معززین میں بوجہ نماز کی پابندی نمازی پٹواریوں میں مشہور ہو گئے.اپنے حسن سلوک کے ساتھ ساتھ حق و حکمت کے ساتھ تبلیغ کے فریضہ کو کبھی نظر انداز نہ کیا.بعض خاص زمینداروں میں آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا.( آپ کو مارچ ۱۹۱۴ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے خلیفہ برحق ہونے کی قبل از وقت بذریعہ رویا خبر دی گئی.چنانچہ اخبار الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ا پرلکھا ہے اس عاجز نے حضرت صاحبزادہ حاجی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو خواب میں دیکھا کہ خلافت کا تاج سر پر رکھے ہوئے آسمان سے زمین کی طرف اتر رہے تھے.عاجز نے خواب میں میاں صاحب کو اچھی طرح پہچانا ہے.بیعت کے واسطے تحریری درخواست بھیج چکا ہوں.محمد دین احمدی پٹواری نہر 118 بنگل دار).۱۹۱۴ء میں لوٹھر سے قادیان پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے گئے.قادیان کے ماحول، بزرگوں کی ملاقات، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ اور حضرت خلیفہ ثانی کی زیارت سے بہت متاثر ہو کر واپس آئے.قادیان کے متعلق پہلے غیر از جماعت کی زبان سے جو نیک تاثرات لئے تھے اب خود دیکھ کر قادیان جا کر واپس جانے کی خواہش میں خاص هدت اور تیزی پیدا ہوگئی.آخر حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کی اجازت سے قادیان ہجرت کر گئے.حضرت شیخ محمد دین صاحب ۱۹۱۸ء میں ہجرت کر کے قادیان آئے اور ابتد لنگر خانہ، دفتر ریویو آف ریلیجنز ، بہشتی مقبرہ، نظارت دعوت و تبلیغ اور نظارت امور عامہ میں متعین کئے گئے اور آخر میں طویل عرصہ تک مختار عام صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت سے نہایت اہم اور شاندار خدمات بجالاتے 119

Page 783

تاریخ احمدیت.جلد 24 743 سال 1968ء رہے.بہت دعا گو مخلص اور فدائی بزرگ تھے.اپنے دوفرزندوں مولوی شیخ مبارک احمد صاحب ( سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ اور شیخ نور احمد صاحب مجاہد بلا دعر بیہ کو دینی تعلیم دلوانے کے بعد خدمت دین کے لئے وقف کیا.20 ۱۹۲۳ء میں علاقہ ملکانہ میں آریہ سماج کی طرف سے شدھی کی خطرناک تحریک شروع ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس شدھی اور ارتداد کو روکنے کے لئے جماعت کے سامنے ایک سکیم پیش کی.اس سلسلہ میں ایک وفد قادیان سے زیر قیادت حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب روانہ ہوا.اس میں آپ بھی شامل تھے.آپ نے چار سال علاقہ ملکانہ میں قیام کیا.پندرہ ایام کے بعد آپ کو فتح پور سیکری کے قریب ایک گاؤں سکرا را نامی میں بھجوایا گیا.کیونکہ وہاں آریہ سماج نے شدھی کی مہم چلانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا.چنانچہ آپ اس گاؤں میں تشریف لے گئے.وہاں ایک مسجد تھی جو بالکل بند تھی.آپ نے مسجد کی دیوار پر کھڑے ہو کر پُر شوکت آواز سے اذان دے دی.آپ کی اذان پر سارے گاؤں میں کھلبلی سی مچ گئی.وہ مسلمان جو اضطراری حالات میں مرتد کر لئے گئے تھے اور ہندو سب اکھٹے ہو گئے چند منٹوں میں مسجد کے ارد گر د سینکڑوں آدمیوں کا اجتماع ہو گیا.مسلمانوں کے چہروں پر اطمینان کے آثار تھے.آپ نے کہا کہ مسجد کی چابیاں لاؤ.آپ نے مسجد کے دروازوں کو کھولا اور درخت کی ٹہنیوں کے جھاؤ بنا کر مسجد کے اندر اور باہر صفائی کرنی شروع کر دی اور نماز پڑھائی.نماز کے بعد آپ نے اسلام کی خصوصیات اور صداقت اسلام کے دلائل پر مؤثر لیکچر دیا.مسلمان بچوں کو آپ نے کلمہ سکھایا.گاؤں کے نمبردار مچھمن داس نے خود ایک بڑے تھال میں پر تکلف کھانا لا کر پیش کیا اور کہا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں.آپ کے آرام کے لئے گھر میں پلنگ وغیرہ رکھ دیا گیا ہے.آپ نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم کو ہمارے مرشد نے ہدایت کی ہوئی ہے کہ مفت کھانا نہ کھائیں.اگر آپ اس کی قیمت مجھ سے لے لیں تو میں کھا سکتا ہوں.وہ قیمت نہ لیتا تھا اور آپ کھانا نہ کھاتے تھے.آخر آپ نے اس کھانے کی قیمت بڑی حکمت عملی سے تحفہ کے رنگ میں ادا کر دی.آپ نے کہا کہ میں مسجد میں ہی آرام کروں گا اور یہاں ہی میری رہائش ہوگی.آپ پانچ وقت اذان دیا کرتے.وہاں اکیلے تھے مگر حق و صداقت سے سرشار تھے.آپ نے اس گاؤں کے باہر درختوں کے سایہ کے نیچے لیکچر دینے شروع کر دئے.بڑے جوش اور جذ بہ سے اسلام کی خصوصیات اور صداقت کو بیان کرتے.مسلمان بچوں اور بڑوں کو کہتے کہ وہ قرآن پڑھیں.آپ نے کئی بچوں اور

Page 784

تاریخ احمدیت.جلد 24 744 سال 1968ء نوجوانوں کو تیار کیا کہ میری اذان کے بعد وہ بھی اذان دیا کریں.بلکہ ایک وقت میں چار چار آدمی مسجد کے چاروں کونوں میں کھڑے ہو کر اذان دیا کرتے اور سارے گاؤں میں اللہ اکبر کی آواز گونجتی.آپ کے وہاں قیام کرنے اور رات دن صداقت اسلام پر لیکچرز کی وجہ سے مسلمان دلیر ہو گئے.صوفی عبدالحکیم صاحب وفات: ۱۱دسمبر ۱۹۶۸ء آپ پیدائشی احمدی تھے.بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف حاصل کیا.ستر برس عمر پائی.۲۲-۱۹۲۱ء سے کراچی میں مقیم تھے.چندہ جات اپنی حیثیت سے بڑھ کر دیتے رہے.سلسلہ کی کتابوں کا پورا سیٹ خریدا ہوا تھا.جو کہ اکثر پڑھتے رہتے.گھر میں بچوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرواتے.روزے کثرت سے رکھا کرتے تھے.جب بھی رات کو دیکھا گیا یا تو نوافل ادا کرتے یا تلاوت قرآن کریم میں مشغول ہوتے.میاں محمد اشرف صاحب وفات: ۱۲ دسمبر ۱۹۶۸ء آپ مارچ ۱۹۰۸ء میں بذریعہ خط بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.بہت متقی اور دعا گو بزرگ تھے.احمدیت سے بڑی محبت تھی.نماز اور روزے کے بہت پابند تھے.اکثر قرآن مجید کی آیات کی تلاوت کرتے رہتے.حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی تحریک تسبیح و تحمید اور درود شریف پر خود بھی عمل کرتے اور ہر ملنے والے کو بھی اس تحریک سے آگاہ کرتے.آپ اکثر اوقات حضرت خلیفہ المسیح کی صحت کے متعلق دریافت فرماتے کہ الفضل میں کیا اطلاع ہے اور الفضل میں شائع شدہ مضامین کے متعلق بھی دریافت فرماتے رہتے.آپ ٹانگوں سے معذور تھے.کمزور ہونے کے باوجود آہستہ آہستہ بیٹھ بیٹھ کر بازار میں آجاتے اور ایک دوکان پر بیٹھ جاتے.مکرم محمد انور حق از گنج مغلپورہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ جمعہ کے دن خاکسار مسجد میں صفائی کی غرض سے آرہا تھا تو آپ دکان پر بیٹھے ہوئے تھے میں نے جا کر السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا تو فرمایا.آج جمعہ ہے میرے لئے دعا کرنا.میں نے جانے کی اجازت طلب کی تو فرمایا اتنی جلدی ابھی تو آئے ہوئے بہت تھوڑا وقت ہوا ہے تو میں نے عرض کیا کہ مسجد کی صفائی کے لئے آیا ہوں.آپ نے فرمایا ” مجھے بھی مسجد کی صفائی کا

Page 785

تاریخ احمدیت.جلد 24 745 سال 1968ء بہت خیال رہتا ہے.لوگ اپنے گھروں کو تو سجا کر رکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے گھر کی طرف دھیان بہت کم کرتے ہیں.ایک دن خاکسار آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوا اور دعا کی درخواست کی تو فرمایا.میں بھی دعا کرتا ہوں لیکن حضور انور کو بھی ضرور خط لکھو کیونکہ خلیفہ وقت کا مقام بہت بلند ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت دعا کے مقام پر کھڑا کیا ہے اور وہ ضرور آپ کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے.اس لئے حضور کوضرور خط لکھنا چاہیئے.حاجی عبد الکریم صاحب آف کراچی وفات: ۲۰ دسمبر ۱۹۶۸ء 123 آپ بہت ہی دعا گو اور تہجد گزار بزرگ تھے.پہلی جنگ عظیم میں آپ سویز میں ڈیوٹی پر مقیم تھے تو وہاں پر انگریزوں کو اسلام کی تبلیغ کیا کرتے تھے چونکہ یہ مصر کا علاقہ تھا.آپ کو عربی بولنے کی بھی مشق ہو گئی تھی.آپ مصری لوگوں کو بھی عربی زبان میں تبلیغ کرتے تھے.چنانچہ آپ کی تبلیغ کے نتیجہ میں ایک دو مصری دوست جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے تھے.آپ انگریزی میں بہت عمدہ تبلیغی لیکچر دیا کرتے تھے.آپ نے حیدر آباد سندھ میں’Beauties Of Islam‘اور Simplicity Of Islamic Marriage “ کے عناوین پر دو لیکچر دیئے جن کا حیدر آباد میں بہت دیر تک چر چا رہا.جہاں جہاں بھی آپ اپنی ملازمت کے سلسلہ میں مقیم رہے آپ تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے.آپ بہت ہی مہمان نواز تھے.آپ کا پورا نام سرکاری دفتروں میں حاجی عبدالکریم احمدی درج تھا دفتر والے آپ کو مسٹر احمدی کے نام سے ہی پکارا کرتے تھے.آپ کی عادت تھی کہ جلد سو جاتے اور پھر رات کو بارہ بجے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح کی نماز تک تہجد پڑھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے تھے.رمضان میں اعتکاف بیٹھنا آپ کا معمول تھا.چالیس سال سے آپ باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف بیٹھے.جب تک مرکز قادیان رہا اکثر مسجد مبارک قادیان میں اعتکاف بیٹھتے تھے.فروری ۱۹۳۶ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الثانی کراچی تشریف لے گئے تو آپ اس وقت جماعت احمد یہ کراچی کے صدر تھے اور حضور انور کے ساتھ کراچی میں ہر جگہ تشریف لے جاتے.

Page 786

تاریخ احمدیت.جلد 24 746 سال 1968ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے پہلے سفر یورپ کے بعد ایک لاکھ روپیہ چندہ کی تحریک فرمائی تھی.ان دنوں حاجی صاحب مرحوم کی ملازمت چھوٹ چکی تھی.مرحوم نے چندہ میں حصہ لینے کی غرض سے اپنے گھر کا تمام اثاثہ سڑک پر رکھ کر فروخت کر دیا اور رقم چندہ میں دے دی.بعدہ ایک کھجور کے پتوں کی چٹائی خرید کر لائے اور اپنی بیوی سے کہنے لگے اس پر بچوں کو سلا دو.مرحوم کی صاحبزادی کا بیان ہے کہ میرا پہلا بچہ پیدا ہونے والا تھا.تو والدہ نے مجھے پہلی زچگی کے لئے گھر پر بلا لیا.اس وقت حاجی صاحب مرحوم لکھنو میں رہتے تھے.چند ہی روز میں گھر میں راشن ختم ہو گیا اور فاقوں کی نوبت آگئی.شام چار بجے بچہ پیدا ہوا.اور صبح آٹھ بجے تک میں فاقہ سے لیٹی رہی.امی جان نے سیٹھ خیر دین صاحب مرحوم کے ہاں سے ایک پیالی شکر کی منگائی اور مجھے چائے بنا کر دی اور ابا جان کے ہاتھ پر قرآن مجید رکھدیا اور رو کر کہنے لگیں کہ آپ سے کئی دن سے پوچھ رہی ہوں کہ تنخواہ کب لائیں گے آپ کہتے ہیں آجائے گی.آخر کیا بات ہے؟ آپ پر رقت طاری ہو گئی انہوں نے بتایا کہ میں نے تین ماہ کی تنخواہ پیشگی لے کر چندہ میں دے دی تھی.چنانچہ تنخواہ آنے تک آلو ابال ابال کر کھائے.مورخہ ۲۰ دسمبر ۱۹۶۸ء کو پونے دو بجے دن آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے.اسی دن مغرب کی نماز کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں سپردخاک کئے گئے.125-

Page 787

تاریخ احمدیت.جلد 24 747 سال 1968ء 1 2 4 LO CO 6 7 8 9 حوالہ جات (صفحه 649 تا746) رجسٹر روایات صحا به غیر مطبوعہ جلده ۱ صفحه ۳۶۲، مرتبہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب ترتیب ۱۲ جون تا ۱۲ اگست ۱۹۳۹ء الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۶ رجسٹر روایات صحابه جلده اصفحه ۳۶۲ تا ۳۶۴ الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ رسالہ ”واذ الصحف نشرت صفحه ۴۵ مرتبہ میاں عبد العظیم صاحب درویش پروپرائٹر احمد یہ بک ڈپو قا دیان ماخوذ از مکتوب صو بیدار ریٹائرڈ صلاح الدین صاحب مورخه ۱/۲۱ اکتوبر ۱۹۹۱ء الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۵ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۲۷۱ تا ۲۷۴ مرتبہ مولانا شیخ عبد القادر صاحب ايضا رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۱۰۰-۱۰۱ الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۵ 10 الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۵ 11 تاریخ احمدیت سر وہ ضلع ہوشیار پور ومضافات صفحه ۴۹ مرتبہ مکرم را نامحمد احمد خاں صاحب اشاعت اپریل ۲۰۰۸ء 12 بدر ۱۵فروری ۱۹۶۸ صفحه ۸ 13 مکتوب مکرم محمدحمید کوثر صاحب صدر کمیٹی شعبہ تد وین تاریخ احمد بیت بھارت ۳۰ جنوری ۲۰۱۳ء 14 الفضل ۲۹ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۸ 15 الحکم ۷ اگست ۱۹۳۴ صفحه ۸،۷ 16 الفضل ۲۹ فروری ۱۹۶۸، صفحه ۸ 17 الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۷۲ء صفحه ۵ 18 الفضل مورخہ ۶ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۶ 19 الفضل مورخه ۶ امئی ۱۹۶۸ء صفحه ۶ 20 رجسٹر روایات صحا به غیر مطبوعه جلد ۲ صفحه ۴۹ مرتبہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل ۱۹۳۹ء 21 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۷ امئی ۱۹۶۸ء صفحہ ۸ 22 رجسٹر روایات صحابه نمبر ۴ صفحه ۴۹-۵۴ تلخیص 23 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره ربوه

Page 788

تاریخ احمدیت.جلد 24 748 24 الفضل ۲۸ ، ۲۹ ستمبر ۱۹۶۸ء.تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۱۱ ۵ طبع اول 25 تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۲۴۲ طبع اول 26 الفضل ۲۸، ۲۹ ستمبر ۱۹۶۸ء 27 الفضل ۲ جون ۱۹۶۸ ء صفحه ۵ احمدی جنتری ۱۹۳۷ء صفحه ۳۹ مرتبه محمد یامین تاجر کتب قادیان مطبوعہ الہ بخش سٹیم پر یس قادیان 29 تاریخ احمدیت جلد سوم صفحه ۲۰۶ 30 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد به ۳۲-۱۹۳۱ صفحه ۸۲ 31 الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۳ وز یر ندی یه امسیح ، 32 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ صفحه ۲۳۳ 33 الفضل ۲ جنوری ۱۹۸۹ صفحه ۳ ۴۰ 34 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۳۲-۱۹۳۱ء میں مندرجہ رپورٹ شعبہ تالیف و تصنیف صفحه۸۰ 35 تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۲۰۶ 36 الفضل امارچ ، ۶ ۲۴ مئی ، ۶ استمبر ۱۹۲۷ء.ور پورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹، صفحہ ۱۹ 37 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۲۷ء 38 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸، صفحه ۱۵ 39 البصیرت بریڈ فورڈ.اگست ۱۹۸۹ء جشن تشکر نمبر 40 بدر یکم اکتوبر ۱۹۹۸ صفحه ۱۲ سال 1968ء 41 الفضل ۱۳ جون و ۲۷، ۲۸ راگست ۱۹۶۸ء.لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۳۲۲ تا۳۲۴ مؤلفه مولانا شیخ عبدالقادر صاحب 42 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 43 الفضل ۲۶ جون ۱۹۶۸ ، صفحه ۸ 44 کراچی تاریخ احمدیت صفحه ۹۷۰،۹۶۹ - الفضل ربوہ مورخه ۲۵ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 45 رساله جلسه احباب صفحه ۲۰ تاریخ اشاعت ۲۸ جون ۷ ۱۸۹ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس قادیان 46 دتی کے اخبار مارننگ پوسٹ Morning Post کی خبر کے مطابق یہ خوفناک حادثہ ۲۵ دسمبر ۱۹۰۷ء کو پیش آیا جس میں ڈھائی سو افراد ہلاک ہوئے الحکم ۶ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۷.۸ 47 الفضل ۱۶ جولائی و ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۸ء 48 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ 49 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۲۶۸ تا ۲۷۱، مرتبہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحب ۱۹۳۹ء 50 اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۱۴۲ - ۱۴۵

Page 789

تاریخ احمدیت.جلد 24 749 سال 1968ء 51 اصحاب احمد جلد سوم صفحه ۱۴۶، ۱۴۷ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے 52 پانچ ہزاری مجاہدین صفحہ ۳۱ مرتبہ چوہدری برکت علی خان صاحب قادیانی 53 اصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۱۲۹.مزید حالات کیلئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳۷۱، ۱۵ ستمبر اور ۵، ۶، ۸/اکتوبر ۱۹۶۸ء واصحاب احمد جلد سوم صفحہ ۶۷ تا ۱۷۶ 54 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آبادصفحه ۳۷،۳۶،۳۵ مرتبه مولانا سلطان احمد صاحب پیر کوئی 55 کوائف وفات یافته موصیان ۱۹۰۵ء تا ۲۰۰۷ صفحه ۱۳۳- الفضل ربوہ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه۱۰۱۲ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 56 الفضل یکم نومبر ۱۹۶۸ صفحه ۸ غیر مطبوعہ ریکارڈ تاریخ احمدیت از قلم عطا اللہ صاحب پسر حضرت شیخ محمد بخش صاحب 57 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبره ربوه الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 58 روایت غلام حسین بھٹی صاحب رجسٹر روایات صحابہ نمبر صفحه ۲ ۲۳ ملة 59 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۸ ء صفحه ۵ مشخص از مضمون چوہدری طاہر عارف صاحب ابن مولانا محمد یا ر صاحب عارف 60 سیرت احمد صفحه ۲۴۰ و ۲۴۲ از حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری مطبع ضیاء الاسلام پریس طبع اول دسمبر ۱۹۶۲ ء و تجلی قدرت صفحہ ۱۷ا مؤلفہ الحاج مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری.مطبع ضیاءالاسلام پریس 61 اخبار فاروق ، قادیان صفحه ۷، ۸ یکم فروری ۱۹۱۷ء 62 رپورٹ مجلس شوری ۱۹۵۶ء صفحه ۶۵-۶۶- ناشر سیکر ٹری مجلس مشاورت مطبوعہ ضیاءالاسلام پریس ربوہ 63 تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو اخبار الفضل ۲۱ نومبر ۲۳ نومبر ۴،۷ دسمبر ۱۹۶۸ء والفضل ۱۲، ۱۵، ۱۶، ۲۰،۱۹، ۲۲ فروری ۱۹۶۹ء.سیرت احمد مرتبه وتجلی قدرت ) مرتبہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری).ضمیمہ تجلی قدرت مرتبه مسعود احمد صاحب خورشید 64 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ 65 مضمون مکرم عبدالسمیع خاں صاحب سینئیر ہیڈ ماسٹر.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 66 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۸ ء صفحیم 67 تاریخ احمدیت سروعه صفحه ۳۲۱،۳۲۰_ الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۸، صفحه یم 68 ریکارڈ دفتر بہشتی مقبرہ ربوہ درجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ صفحه۹۰-۹۱ 69 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۳ صفحه ۹۰-۹۱ 70 تحریری بیان ۱۳ نومبر ۱۹۹۱ء.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 71 الفضل ا فروری ۱۹۶۹ صفحہ ۵ مضمون مرزا عبدالسمیع صاحب سے تلخیص 72 الفضل ۲۷ فروری صفحه ۷ و ۶ را پریل ۱۹۶۸، صفحه ۶ 73 تابعین اصحاب احمد جلد اول با راول صفحه ۲۳ حاشیه

Page 790

تاریخ احمدیت.جلد 24 750 سال 1968ء 74 الفضل ۹ فروری ، ۱۳۱۰ مارچ ۱۹۶۸ ء - بدر ۶ جون ۱۹۶۸ء " تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۸ تا ۲۶ مؤلفه ملک صلاح الدین صاحب قادیان، ناشر احمد یہ بلڈ پور بوہ ، بار اول دسمبر ۱۹۶۱ء 75 الفضل ۱۶ار اپریل ۱۹۶۸ صفحه ۵ 76 الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۵ 77 الفضل ۱۵ تا ۱۹ و ۲۸ مارچ و ۱۶ راپریل ۱۹۶۸ء 78 الفضل ۲۷ را بریل ۱۹۶۸ صفحه ا 79 الفضل ۱۳ را پریل ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 80 الفضل ۱۹ جون ۱۹۶۸ صفحه ۵ 81 الفضل ۴ امئی ۱۹۶۸ ، صفحه ۸ 82 الفضل ۳۰ مئی ۱۹۶۸ء صفحریم 83 غیر مطبوعہ مکتوب ۱۲ جنوری ۱۹۹۰ء بنام مؤلف کتاب ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 84 الفضل ۲۵ را گست ۱۹۶۸، صفحه ۵ 85 الفضل ۲۶ ، ۲۷ ، ۲۹ جون ،۱، ۲۵ راگست ۴ را کتوبر ۱۹۶۸ء 86 الفضل ۲ جولائی ۱۹۶۸ ، صفحه ۵ 87 بدر ۱۱ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ 9 88 شخص خود نوشت حالات خواجہ عبدالواحد صاحب پہلوان ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 89 تاریخ احمدیت جلد هشتم صفحه ۲۹۰ تا ۲۹۲ طبع اول ایضاً جلد ۸ صفر ۴ ۳۳۶۷۷-۳۳۸ طبع دوم 90 الفضل ۱۱،۱۰، ۱۴۱۲، ۱۸ ،۱۹، ۲۸ جولائی ۴، ۳۱ اگست د ۳ ستمبر ۱۹۶۸ء - مجلہ المنارا کتوبر.دسمبر ۱۹۶۸ء 91 الفضل، ۱، ۱۱ جولائی ۱۹۶۸ صفحیم 92 بدرا ا جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 93 وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ اول صفحہ ۱۰۹،۱۰۸ 94 الفضل ۸ ستمبر ۱۹۶۸ ، صفحه ۵ 95 الفضل ۲۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحریه صفحیم 96 تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحه ۴۷۵ طبع اول 97 الفضل ۱۷ اگست ۱۹۶۸ ، صفحه ۵ 98 الفضل ۲۳ / اگست ۱۹۶۸ صفحه یم وو الفضل ۷ اگست ۱۹۶۸ ، صفریم 100 بدر / اگست ۱۹۶۸، صفریم

Page 791

سال 1968ء تاریخ احمدیت.جلد 24 101 الفضل 9 ستمبر ۱۹۶۸ صفحه ۵ 102 بدر ۲۲ / اگست ۱۹۶۸ صفحه ۸ 103 الفضل ۳۰ /اگست ۱۹۶۸ء صفحه ۴ ، ۵ 751 104 سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن باب خروج المهدی جلد ۲ صفحہ ۱۳۶۷ 105 الفضل ۲۵ /اگست ۱۹۶۸ ، صفحه ۸ 106 الفضل ۵ ستمبر ۱۹۶۸ ، صفحہ ۱.رسالہ الفرقان ستمبر ۱۹۶۸، صفحہ ۳۲ 107 برہان ہدایت صفحه ۳۵۵ تا ۳۵۷ مرتبه عبدالرحمن مبشر صاحب 108 بدر ۱۲ ، ۱۹ ستمبر ۱۹۶۸ ء - الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 109 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۸ صفحه ۴۰۳ 110 الفضل یکم اکتوبر و ۲۷ نومبر ۱۹۶۸ء 111 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۶۸ء صفحریه و۱۲ جنوری ۱۹۶۹ صفحه ۵ 112 بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۷ 113 الفضل ۱۷ ، ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء 114 الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۶۸ صفحه ا 115 الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸ صفحه ۸ 116 بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 117 الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۸ ء صفحه ۸ 118 بشارات رحمانیہ صفحه ۲۶۷-۲۶۸ مولفه مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مطبوعہ ۱۹۳۹ء الله بخش سٹیم پر لیس قادیان 119 الفضل ۲۲،۲۰۱۹ جولائی ۱۹۶۹ء 120 الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۶۹ ، صفحریم 121 الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۶۹ صفحه ۵ 122 الفضل، اجنوری ۱۹۶۹، صفحہ ۶ 123 الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۶۹ء صفحہ ۶ 124 الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۹ صفحه ۵ 125 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۹ ء صفحه ۵

Page 792

تاریخ احمدیت.جلد 24 752 سال 1968ء ۱۹۶۸ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت: اللہ تعالیٰ کے پاک وعدوں کے مطابق اس سال بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک خاندان میں متعدد نئے وجودوں کا اضافہ ہوا.جن کے نام یہ ہیں:.(۱) محمودہ احمد صاحبہ بنت مرزار فیق احمد صاحب (۱۰/۱۱فروری ۱۹۶۸ء) | (۲) امته اللطیف شہرہ صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب (۸ جولائی ۱۹۶۸ء) (۳) سید محمود احمد صاحب ابن سید مسعود احمد صاحب ( ۹ ستمبر ۱۹۶۸ء) (۴) شمیم احمد صاحب ابن مرزا نعیم احمد صاحب (۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۸ء) (۵) عامر احمد صاحب طارق ابن شاہد احمد صاحب پاشا (۲۴ نومبر ۱۹۶۸ء) نکاح (۶) شمائلہ انس صاحبہ بنت مرزا انس احمد صاحب (۲۹ نومبر ۱۹۶۸ء) (۷) امتہ العلیم عطیہ صاحبہ بنت مرزا انور احمد صاحب (۶ دسمبر ۱۹۶۸ء) | سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے ۱۳ جنوری ۱۹۶۸ء کو حسب ذیل نکاحوں کا اعلان فرمایا.صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب ابن صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ہمراہ صاحبزادی امتہ الرقیب صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا اور میں احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ہمراہ صاحبزادی عقیقہ فرزانہ صاحبہ بنت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب.ملک فاروق احمد صاحب ابن ملک عمر علی صاحب مرحوم ہمراہ صاحبزادی در شہوار در دانه صاحبه بنت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب.

Page 793

تاریخ احمدیت.جلد 24 تقاریب شادی: 753 سال 1968ء ۱۹۶۸ء میں اس مبارک خاندان میں حسب ذیل تقاریب شادی عمل میں آئیں:.ملک فاروق احمد صاحب ہمراہ عزیزہ در شہوار در دانه صاحبہ (۲ مارچ)، صاحبزادہ مرزا اور لیس احمد صاحب ہمراہ عزیزہ عتیقہ فرزانہ صاحبہ (۷ مارچ ) محمود احمد خان صاحب ابن نواب محمد احمد خان صاحب ہمراہ صاحبزادی امتہ الشافی صاحبہ (۳۱ مارچ)، ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب ہمراہ صاحبزادی امۃ الرقیب صاحبہ (۱۴ اپریل )، میر داؤد احمد صاحب ہمراہ صاحبزادی امتہ البصیر بیگم صاحبه دختر مکرم میاں عبد الرحیم احمد صاحب و صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ (۴) جولائی ) نمایاں اعزازات ۱۹۶۸ ء کا سال بھی احمدی نوجوانوں کی نمایاں ترقی کا آئینہ دار ثابت ہوا.جس میں پاکستان اور غیر ممالک کے احمدیوں نے مختلف میدانوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کی.(۱) امۃ الرفیق صاحبہ بنت قریشی فضل حق صاحب گولبازار بوہ نے بی.اے عربی کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی.(۲) بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری سکول سرگودھا کے طالبات کے انگریزی مقابلہ تقریر میں جامعہ نصرت ربوہ کی طالبہ امتہ النصیر قریشی صاحبہ اول اور بشری بٹ صاحبہ دوم رہیں.جبکہ اردو میں بھی جامعہ نصرت ہی کی طالبہ طیبہ صدیقہ صاحبہ اول رہیں.(۳) ناصر پرویز پروازی صاحب ابن مولا نا احمد خان صاحب نسیم کو پنجاب یونیورسٹی نے پی.ایچ.ڈی کی ڈگری کا مستحق قرار دیا.(۴) کریم اللہ صاحب زیر وی ابن صوفی خدا بخش صاحب زیروی نے امریکہ سے فارماکالوجی (PHARMACOLOGY) ( علم الادویہ ) میں پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کی.(۵) رشید احمد خان صاحب ابن ڈاکٹر غلام احمد صاحب نے لندن سے ایف.آر سی ایس کیا.(۶) ظفر احمد صاحب وینیس ابن ولی محمد صاحب وینیس نے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کیا.(۷) چوہدری محمد احمد صاحب ابن چوہدری عبد الحق صاحب ورک نے پشاور یونیورسٹی کے ایم.اے زوالوجی کے امتحان میں لڑکوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی.16

Page 794

تاریخ احمدیت.جلد 24 754 سال 1968ء (۸) مبشر احمد صاحب ابن چوہدری محمد صادق صاحب لاہور حیدر آباد یونیورسٹی کے ایم.ایس سی فزکس کے امتحان میں اول آئے.(۹) ظفر اقبال صاحب پراچہ کو ڈلہوزی یو نیورسٹی کینیڈا نے اکنامکس میں ڈاکٹریٹ کرنے کے 18 لئے وظیفہ کا مستحق قرار دیا.(۱۰) ڈاکٹر طاہرہ نسرین صاحبہ پی.ایچ.ڈی سینٹر لیکچرار فرکس ڈیپارٹمنٹ پشاور یونیورسٹی بنت شار احمد صاحب فاروقی کو اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو (U.N.E.S.CO) نے مزید اعلیٰ تعلیم کے لئے اپنے دو وظائف میں سے ایک وظیفہ عطا کیا.(۱۱) عبدالرشید صاحب چارٹرڈ آرکیٹیکٹ لندن میں پاکستانی آرکیٹیکٹوں کی ایسوسی ایشن کے 19 صدر مقرر ہوئے.20 (۱۲) مبشر احمد صاحب شاہد ابن لعل دین صاحب کو انجینئر نگ کی اعلیٰ ٹرینگ کے دوران امریکن سوسائٹی (ASHRAE) نے اپنا ایسوسی ایٹ ممبر منتخب کیا.(۱۳) قومی باسکٹ بال چیمپیئن شپ برائے سکولز منعقدہ ایبٹ آباد میں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے کھلاڑی سید شمیم احمد صاحب نے سرگودھا ڈویژن سکولز ٹیم کی طرف سے راولپنڈی ڈویژن کے خلاف کھیلتے ہوئے ۴۹ پوائنٹس کر کے قومی مقابلوں میں انفرادی سکور کا ریکارڈ قائم کیا.ربوہ میں اجتماعی وقار عمل مورخه ۵ جنوری ۱۹۶۸ء بوقت سوا آٹھ بجے صبح مسجد القمر محلہ دارالصدر غربی الف (قمر) کے پاس مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کا اجتماعی وقار عمل جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی سہولت کے پیش نظر منایا گیا.وقار عمل کا یہ پروگرام تلاوت قرآن کریم سے شروع ہوا جو مکرم قاری محمد عاشق صاحب نے کی.بعد ازاں (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے عہد دہرایا.عہد کے بعد صدر محترم نے وقار عمل کی اہمیت کو واضح فرمایا اور خدام کو نصیحت فرمائی کہ وہ محنت ، مشقت اور ہاتھ سے کام کرنے کی عادت اپنے اندر پیدا کریں.سوا آٹھ بجے وقار عمل شروع کیا گیا جو ساڑھے نو بجے تک جاری رہا.مختلف محلہ جات کے چار سو پچپیں خدام نے وقار عمل میں حصہ لیا اور نہایت جوش اور مستعدی سے اپنے حصہ کے کام کو ختم

Page 795

تاریخ احمدیت.جلد 24 755 سال 1968ء کیا.صدر محترم کا ذاتی نمونہ بھی خدام کے لئے جوش و خروش کا موجب بنتا رہا.آخر پر صدر محترم نے اجتماعی دعا کروائی اور وقار عمل کے اختتام کا اعلان فرمایا.مدراس میں احمد یہ انٹر نیشنل تبلیغی سٹال فروری ۱۹۶۸ء میں حکومت مدر اس نے سرکاری سطح پر نہایت وسیع پیمانے پر ایک عالمی نمائش کا اہتمام کیا.تبلیغی نقطہ نگاہ سے یہ ایک زریں موقع تھا.جس سے احمد یہ جماعت نے بھر پور فائدہ اٹھایا.اور نمائش میں احمدیہ انٹرنیشل تبلیغی سٹال کھول کر تحریک جدید کے بیرونی مشنوں اور مرکز سلسلہ ربوہ کی طرف سے شائع شدہ قیمتی لٹریچر کو اس سلیقے سے سجایا کہ دیکھنے والے عش عش کر اٹھے.اس موقع پر دینی لٹریچر کی بکثرت اشاعت اور تقسیم بھی ہوئی.اور ہزاروں افراد اسلام اور احمدیت کے بارے میں قیمتی معلومات کا خزانہ لے کر گئے.اس طرح یہ سٹال تبلیغ حق کا نہایت موثر اور کامیاب ذریعہ ثابت ہوا.جو خلافت حقہ کی حقانیت کا بھی ایک نشان تھا.وجہ یہ کہ ابتدا میں وہاں بے سروسامانی کا عالم تھا.مگر حضرت خلیفة المسیح الثالث نے قبل از وقت خوشخبری دی کہ ” آسمان سے برکتوں کا نزول ہوگا.انشاء اللہ “.چنانچہ ایسا ہی عمل میں آیا.مدراس کے کثیر الاشاعت انگریزی روزنامہ ”ہندو نے اپنی امئی ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں لکھا کہ تحریک احمدیت کی مرکزی تنظیم نے جس کا مرکز قادیان ( مشرقی پنجاب انڈیا) ہے، مدراس کی عالمی نمائش میں احمدیہ انٹرنیشنل“ کے عنوان سے ایک سٹال قائم کیا ہے.جس میں نقشوں اور چارٹس کے ذریعہ اس عظیم مشنری تنظیم نے مفادِ اسلام کے لئے دنیا میں جو خدمات سرانجام دی ہیں ان کا اظہار کیا گیا ہے اور پوری صراحت سے واضح کیا گیا ہے کہ دور حاضر کی تمام برائیوں کا علاج صرف اورصرف مذہب ہی ہے.اسی طرح ٹریجی کے ہفت روزہ کالا ملر چی“ نے بھی جو تامل ہفت روزہ ہے احمدیہ انٹرنیشنل تبلیغی سٹال کا فوٹو شائع کر کے اسے دوبارہ وضاحت سے شائع کیا.نمائش کے آخری دنوں میں سیٹھ محد معین الدین صاحب کی آمد پر چونکہ کار کا انتظام بھی ہو گیا تھا.اس لئے مدراس کی اہم شخصیت اور معززین سے ملاقاتوں کا پروگرام بنایا گیا.جن اصحاب سے تبلیغی ملاقاتیں ہوئیں ان کے نام درج ذیل ہیں:.

Page 796

تاریخ احمدیت.جلد 24 756 ا.قاضی حبیب احمد صاحب مہتم مدرسہ محمد یه و چیف قاضی مدراس ۲.پروفیسر سید عبدالوہاب صاحب بخاری سر پرست و منتظم دارالعلوم جمالیه ۳.مسٹر صادق پاشا صاحب ( ڈی ایم کے وزارت کے ایک مسلم منسٹر ) ۴.ڈاکٹر یوسف حسین صاحب کو کن صدر شعبہ عربی مدراس یونیورسٹی ۵.حیدر خاں صاحب صدر شعبہ فارسی مدراس یونیورسٹی ۶.اشرف خاں صاحب صدر شعبہ اردو مدراس یونیورسٹی سال 1968ء ے.اے.این حافظ محمد یوسف صاحب فاضل با توی ایڈیٹر تامل ہفت روزہ ” نور الاسلام دراس.ان ملاقاتوں میں پیغام حق کا فریضہ مندرجہ ذیل مخلصین نے انجام دیا:.حکیم مولوی محمد دین صاحب انچارج مبلغ میسور سٹیٹ، محمد کریم اللہ صاحب مدیر آزاد نو جوان“ سیٹھ محمد معین الدین صاحب، مولوی محمد عمر صاحب مبلغ مدراس محی الدین صاحب سیکرٹری تبلیغ جماعت احمد یہ مدراس، عبدالقادر صاحب سابق مئیر مدراس.غیر مبائعین کے دو کنگ مشن کا عبرتناک حشر اس زمانہ میں قافلہ احمد بیت جس شان کے ساتھ خلیفہ راشد حضرت خلیفة المسیح الثالث کی قیادت میں ترقی اور رفعت کی شاہراہ پر گامزن تھا اسی نسبت سے منکرین خلافت زوال اور نکبت کا شکار ہو رہے تھے.انجمن اشاعت اسلام لاہور کے اکابر دوکنگ مشن کو ایک بھاری کارنامہ قرار دیتے آرہے تھے.اور اسے بیرونی ممالک میں تبلیغ کا ایک قلعہ تصور کرتے تھے مگر یہ قلعہ اس سال ۱۱ فروری ۱۹۶۸ء کو پاش پاش ہو گیا.جب مشہور غیر مبائع لیڈر مولوی عبد الرحمن صاحب مصری کے بیٹے حافظ بشیر احمد صاحب مصری نے احمدیت سے ارتداد کا اعلان کر کے دو کنگ مسجد دشمنانِ احمدیت کے سپردکر دی.مولوی دوست محمد صاحب (غیر مبائع) نے دسمبر ۱۹۱۹ء میں ووکنگ سے ایک چٹھی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان کو طعنہ دیا تھا کہ لندن میں تمہاری کوئی مسجد نہیں.جبکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مبائعین کے پاس تو اب بہت سی مساجد ہیں لیکن غیر مبائعین کے پاس جو تھی وہ بھی گنوادی.

Page 797

تاریخ احمدیت.جلد 24 757 سال 1968ء سنٹرل زونل باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں فضل عمر کلب کی شاندار کامیابی مورخه ۱۳ تا ۱۵ فروری ۱۹۶۸ء سنٹرل زونل باسکٹ بال چیمپیئن شپ لاہور میں منعقد ہوئی.اس میں فضل عمر کلب ربوہ نے شاندار کامیابی حاصل کی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے موقع پر سنٹرل زونل باسکٹ بال کی ٹیم کے لئے ربوہ کے دس کھلاڑی منتخب کئے گئے تھے.یہ نمایاں اعزاز ہے جو اس ٹورنا منٹ کے موقع پر شاندار کھیل کا مظاہرہ کرنے کے نتیجہ میں ربوہ کے کھلاڑیوں کو حاصل ہوا.تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے بارہ میں ڈائر یکٹر تعلیمات کے تاثرات پروفیسر محمد رشید صاحب ڈائریکٹر تعلیمات راولپنڈی ریجن نے ۲۰ فروری ۱۹۶۸ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے سالانہ جلسہ تقسیم انعامات میں شرکت کی اور سکول کی لاگ بک میں حسب ذیل تاثرات درج فرمائے:.و تعلیم الاسلام ہائی سکول میں قابل قدر علمبردارانہ جذبہ دیکھ کر میں بہت خوش ہوا ہوں.پوری جماعت میں یہ جذبہ اور روح رچی ہوئی ہے.اور اس کے مفید نتائج برآمد ہور ہے ہیں.یہاں مستحکم بنیا دوں پر نو جوانوں کی اخلاقی نشو و نما پر خاص زور دیا جاتا ہے.اور یہ ایک ایسی چیز ہے جسے تمام تعلیمی اداروں کو اختیار کرنے اور پورے جوش کے ساتھ اس کی نقل اور پیروی کرنے کی ضرورت ہے.ربوہ کے تعلیمی اداروں میں سادگی اور محنت رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتے ہیں.اس کے بالآخر نہایت شاندار نتائج رونما ہونے لازمی ہیں.اور بالآخر یہ صفات معاشرہ میں قائم رہنے والے استحکام کے لئے ضروری ہیں بھی ناگزیر.میں انتہائی طور پر متاثر ہوا ہوں.ایم رشید ۲۰ فروری ۱۹۶۸ء (انگریزی سے ترجمہ) احمد یہ شفا خانہ قادیان سے متعلق تاثرات 28 ۲۹ فروری ۱۹۶۸ء کو جناب وی.کے گپتا صاحب چیف میڈیکل آفیسر گورداسپور نے قادیان کا دورہ کرتے ہوئے احمد یہ شفاخانہ کا بھی معاینہ فرمایا.انہیں بتایا گیا کہ تمام عملہ اور ادویات کا خرچ صدر انجمن احمدیہ قادیان برداشت کرتی ہے.مریضوں کا عام علاج مفت کیا جاتا ہے.نیز یہ کہ جنوری

Page 798

تاریخ احمدیت.جلد 24 758 سال 1968ء ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۶۷ء کے دوران ۳۷۰۹۷۸ مسلمانوں اور ۲۷۳۷۹۰ غیر مسلموں کا علاج کیا گیا.ڈاکٹروی.کے گپتا صاحب نے شفا خانہ کے تمام شعبوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور عملہ کی خدمت خلق کی ان بہترین مساعی پر جو وہ بلا تفریق مذہب و ملت انیس برس سے انجام دے رہا تھا ، اظہار پسندیدگی کیا.اور معاینہ بک پر انگریزی میں اپنے تاثرات بھی درج فرمائے جن کا اردو تر جمہ یہ ہے:.ہسپتال کا معاینہ کیا گیا اور اسے مسلمانوں اور غیر مسلموں میں یکساں طور پر بہت زیادہ مقبول پایا.ان ایام میں ڈاکٹر غلام ربانی صاحب شفا خانہ میں انچارج کے فرائض سرانجام دے رہے تھے.سینئر ڈپٹی جنرل میجر ریلوے قادیان میں 29 اس سال کے شروع میں بھارت کی لوک سبھا میں یہ معاملہ زیر بحث آیا کہ محکمہ ریلوے غیر منافع بخش لائنوں کو بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.اور ان میں بٹالہ قادیان ریلوے لائن بھی شامل ہے.اس پر جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے آنریبل ریلوے منسٹر صاحب گورنمنٹ آف انڈیا کی خدمت میں جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے میمورنڈم بھجوایا گیا تھا کہ قادیان ھو لی شرائن میں سے ہے جماعت احمدیہ کا مرکز ہے.اور انٹرنیشنل شہرت کا حامل ہے.ریلوے بند ہونے سے جہاں عوام کو پریشانی ہوگی وہاں غیر ممالک سے آنے والے اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے قادیان آنے والے زائرین کو بہت تکلیف ہوگی.جب حکومت اپنی شہرت اور نیک نامی کے لئے پلیٹی پر لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے تو اپنی نیک نامی اور شہرت کی خاطر بٹالہ قادیان ریلوے لائن کو بھی قائم رکھ سکتی ہے.اگر صیح لائنوں پر یہ ریلوے کام کرے تو نقصان کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا.جبکہ عرصہ چالیس سال سے یہ ریلوے قائم ہے.اس لئے اس کو وقتی طور پر خسارہ کے عذر پر بند کر دینا مناسب نہیں ہے.اس سلسلہ میں چوہدری مبارک علی صاحب ایڈیشنل ناظر امور عامه صدر انجمن احمد یہ قادیان چندی گڑھ اور دہلی بھی تشریف لے گئے اور صوبائی و مرکزی حکومتوں کے ذمہ دار افسران اور محکمہ ریلوے کے افسران سے ملے.اس موقعہ پر یہ معاملہ بھی زیر غور آیا کہ ریلوے کا کوئی اعلیٰ افسر قادیان بھجوا کر دوبارہ حالات کا جائزہ لیا جائے.چنانچہ مورخہ ۱۲ مارچ کو شری ایل ڈی پنے صاحب سینئر جنرل مینجر ناردرن ریلوے نئی دہلی سے قادیان تشریف لائے.ان کی آمد پر تمام اہالیانِ شہر نے سکھ نیشنل کالج کی عالیشان عمارت میں ان کا

Page 799

تاریخ احمدیت.جلد 24 759 سال 1968ء استقبال کیا اور تشریف آوری پر انہیں خوش آمدید کہا اور احباب کا ان سے تعارف کرایا گیا.اس موقعہ پر شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے نے ان کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ قادیان عالمگیر شہرت کا مالک ہے.اور مقدس مقامات میں سے ہے.تمام دنیا میں بسنے والے احمدیوں کا صدر مقام ہے.غیر ممالک اور ہندوستان کی چہار اطراف سے لوگ برکت اور زیارت کے لئے قادیان آتے ہیں.ریلوے نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کو آمدورفت کی تکلیف ہوگی.جہاں حکومت اپنی شہرت کے لئے پبلسٹی پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتی ہے.تو قادیان کے مذہبی سنٹر اور عالمگیر شہرت کی وجہ سے اس کی خاص اہمیت کے پیش نظر ریلوے لائن قائم رکھنی چاہیئے.جناب سردار پر یتم سنگھ صاحب بھائیہ اور شری رام پر کاش صاحب پر بھا کرنے بھی آپ کی تائید کی.ازاں بعد سینئر ڈپٹی مینجر احمد یہ ایریا میں تشریف لائے.جہاں جماعت احمدیہ کے چیف سیکرٹری اور معزز عہدیداران نے ان کا خیر مقدم کیا.احمد یہ گیسٹ ہاؤس میں ان سے حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب فاضل ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ، شیخ عبدالحمید صاحب عاجز بی.اے، ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے اور مولوی عبد القادر صاحب دہلوی پر مشتمل وفد نے ملاقات کی.اور قادیان کی عالمی اہمیت اور آئندہ ترقی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ غیر ممالک اور ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے لوگ بکثرت زیارت اور جلسوں میں حصول برکت کے لئے آتے ہیں.ریلوے نہ ہونے کے باعث یقیناً ان کو تکلیف ہوگی.اور یہ بھی بتایا کہ فرسٹ سیکنڈ کلاس اور دوسرے درجوں کے ٹکٹ امرتسر سے بنتے ہیں.اور ریز رویشن بھی وہیں سے ہوتی ہے.حالانکہ یہ قادیان کی سواریاں ہوتی ہیں.اس طرح بجٹ آمد میں اس کا شمار نہیں کیا جاتا.حالانکہ ان کا شمار قادیان کے ریلوے بجٹ آمد میں ہونا چاہیئے.جس سے انہوں نے اتفاق کیا.ان کو قرآن کریم انگریزی تبلیغ اسلام دنیا کے کناروں تک اور دوسرا لٹریچر پیش کیا گیا.انہیں یہ بھی بتایا گیا کہ قادیان کی عالمی حیثیت کے پیش نظر تقسیم ملک سے قبل اور بعد ہندوستان کی بڑی بڑی شخصیات قادیان آتی رہی ہیں.ہندوستان کے مختلف صوبوں سے قادیان آ کر یہاں کی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے سٹوڈنٹس بھی کافی تعداد میں ان کے سامنے پیش کئے گئے.جن سے انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کس کس صوبے سے تعلق رکھتے ہیں.جنرل مینجر صاحب نے یقین دلایا کہ تمام ضروری امور کو ریلوے منسٹری کے ذمہ دار اراکین تک پہنچا دیا جائے گا.تا کہ وہ فیصلہ کرتے وقت ان باتوں کو مد نظر رکھیں.30

Page 800

تاریخ احمدیت.جلد 24 کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثات 760 سال 1968ء تعلیم الاسلام کالج اسٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام چودھویں کل پاکستان بین الکلیاتی انگریزی وارد و مباحثات مورخہ ۱۵، ۱۶ مارچ ۱۹۶۸ء کو کالج ہال میں منعقد ہوئے.اردو مباحثہ میں گورنمنٹ کالج جہلم نے اور انگریزی مباحثہ میں گورنمنٹ کالج لاہور نے جیتی.آل پاکستان والی بال ٹورنا منٹ کا انعقاد مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ شعبہ صحت جسمانی کے زیر اہتمام آل پاکستان والی بال ٹورنا منٹ مورخه ۳۰/ ۳۱ مارچ ۱۹۶۸ ء ر بوہ میں منعقد ہوا.اس ٹورنامنٹ میں لاہور، سیالکوٹ ،سرگودہا، جھنگ اور ربوہ کی دس ٹیموں نے حصہ لیا.۳۰ مارچ کو ساڑھے نو بجے صبح ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب میں ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے اپنے مختصر خطاب میں فرمایا کر مجلس خدام الاحمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مختلف کھیلوں کی سر پرستی کر رہی ہے.امسال اس نے آل پاکستان والی بال ٹورنا منٹ کا انعقاد کیا ہے.چونکہ اس ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لئے وقت بہت تھوڑا تھا.اس تھوڑے سے وقت میں جن ٹیموں نے ہمارے ساتھ تعاون کیا اور اس ٹورنامنٹ کو کامیاب بنانے میں حصہ لیا وہ تمام ٹیمیں ہماری شکریہ کی مستحق ہیں.فائنل میچ سٹار کلب اور اسلم کلب سرگودہا کے مابین ہوا.جس میں سٹار کلب سیالکوٹ نے کامیابی حاصل کی.مورخہ ۳۱ مارچ کو ہم بجے تلاوت قرآن کریم کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے مختصر خطاب کے بعد انعامات تقسیم فرمائے اور دعا کرائی.قبر مسیح اور حکومت کشمیر 32 روز نامہ ” آفتاب سری نگر نے اپنی ۷ اپریل ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر شائع کی:.سری نگر میں یسوع مسیح کی قبر حکومت کشمیر نے تحقیقات کیلئے پندرہ ہزار روپے منظور کئے" سری نگر ۶ را پریل سٹاف رپورٹر.شہر میں مسیحی مذہب کے بانی یسوع مسیح کی قبر کی موجودگی نے اب ایک بین الاقوامی اہمیت حاصل کر لی ہے.حکومت کشمیر نے اسی بات کے پیش نظر پندرہ ہزار روپے کی ابتدائی رقم اس بات کے لئے منظور کی ہے تا کہ اس قبر کی موجودگی کے متعلق تاریخی شواہد اور

Page 801

تاریخ احمدیت.جلد 24 761 سال 1968ء ثبوت ایک مستند کتاب کی شکل میں شائع کئے جائیں.یہ روپیہ محکمہ ریسرچ میں جمع کروا دیا گیا ہے اور امکان ہے کہ موجودہ مالی سال میں اس غرض کے لئے ایک بڑی رقم اور وقف کر دی جائے گی.اطلاع کے مطابق حکومت بین الاقوامی اور ملکی ماہرین کی ایک سرکردہ کمیٹی کو اس سلسلے میں چھان بین کا کام سونپ رہی ہے.بتایا جاتا ہے کہ سر محمد ظفر اللہ خاں کے انکشاف کے بعد کہ یہ قبرسرینگر میں ہے مغربی ممالک میں اس میں زبردست دلچسپی پیدا ہو گئی ہے.اطلاع کے مطابق امریکی اور برطانوی حکومتوں نے اس سلسلے میں حکومتِ ہند سے صورتحال کو واضح کرنے کی درخواست کی ہے.خیال ہے کہ مسیحی دنیا کے عالموں کا ایک وفد جلد ہی سرینگر آئے گا.اگر ثبوت وغیرہ فراہم ہو گئے تو سرینگر کو عیسائیت کی ایک بین الاقوامی زیارت گاہ بنانے کی تجویز پر سنجیدگی سے غور ہوگا تا کہ ہر سال یہاں لاکھوں عیسائی اس قبر کی زیارت کیلئے آئیں.مجلس خدام الاحمدیہ ملتان کی طرف سے خدمت خلق کی قابل قدر مساعی ماہ اپریل مئی ۱۹۶۸ء میں ملتان ہیضہ کی وبا کا شکار رہا.کئی سو افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے.تحقیقات کے بعد حکام اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس وباء کی بڑی وجہ شہر میں ناقص صفائی کا انتظام ہے.اس پر مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے شہر بھر میں صحت و صفائی کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا.حکام بلدیہ نے خدام کی اس پیش کش کو خوش آمدید کہا.چنانچہ اس سلسلہ میں ملتان شہر میں صفائی کے لئے مختلف علاقوں میں تین منتظم وقار عمل کئے گئے.مختلف اخبارات نے مجلس خدام الاحمدیہ کی مساعی کا ذکر کیا.جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: روزنامہ نوائے ملتان اپنی ۲۹ اپریل کی اشاعت میں لکھتا ہے:.مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے ہیضہ کی روک تھام کے لئے ملتان شہر میں صفائی کی مہم کا آغاز کر دیا ہے.مجلس کے قائد محمد انور ہاشمی نے بتایا کہ گذشتہ روز اندرون حرم گیٹ صابن والی گلی اور بھجتی محلہ کے علاقے میں چونا، فینائل اور دیگر جراثیم کش ادویات چھڑ کی گئی ہیں.بدھ کی شام کو عزیز ہوٹل کے قرب و جوار کے علاقے میں صفائی کی مہم شروع کی جائے گی اور اس طرح بتدریج شہر بھر میں یہ سلسلہ جاری رہے گا.انہوں نے بتایا کہ مجلس کے ایک وفد نے چیئر مین بلد یہ اور ہیلتھ آفیسر سے ملاقات کی تھی اور انہیں بتایا تھا کہ مجلس شہر میں صفائی کی مہم شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.بلدیہ کے اراکین نے اس پر مسرت کا اظہار کیا اور بخوشی اجازت دی تھی.“ 66

Page 802

تاریخ احمدیت.جلد 24 762 سال 1968ء اسی روز کی اشاعت میں روز نامہ امروز “ لکھتا ہے:.در مجلس خدام الاحمدیہ ملتان نے ہیضے کے خلاف صفائی کی مہم کا آغاز کر دیا ہے.اس سلسلے میں آج اندرون حرم گیٹ اور گلی صابن والی میں فینائل، چونا اور دیگر جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا گیا.بدھ کے روز شام کو عزیز ہوٹل کے قرب و جوار میں صفائی کی مہم شروع کی جائے گی اور اس طرح بتدریج مہم کو پورے شہر میں پھیلایا جائے گا.مجلس کے ایک وفد نے اس سلسلے میں بلدیہ کے حکام سے ملاقات کی تھی اور انہوں نے مجلس کی مساعی کو خوش آمدید کہا تھا.شام کو چیف آفیسر بلدیہ نے علاقہ کا معاینہ کیا اور نو جوانوں کی کارکردگی پر خوشنودی کا اظہار کیا.66 مسجد ڈائمنڈ ہاربر کا افتتاح کلکتہ سے قریباً ۳۰ میل کے فاصلے پر بستی حاجی پورہ سے متصل ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہے جسے ڈائمنڈ ہاربر کہتے ہیں.حاجی پورہ میں عرصہ سے جماعت قائم تھی مگر چند سالوں سے ڈائمنڈ ہار بر اور اس کے ماحول میں کئی احباب احمدیت میں داخل ہوئے.مولوی شریف احمد صاحب امینی انچارج احمد یہ مشن کلکتہ کی تحریک پر چوہدری داؤ د احمد صاحب و منیر احمد صاحب TOPSIA) (RUBBER WORKS نے حاجی پورہ میں مسجد اور مبلغ کے کوارٹر کے لئے مناسب قطعہ زمین خرید کر دیا.اور اس کے تعمیری اخراجات میاں محمد حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ کلکتہ اور ان کے بھائی محمد شفیع صاحب نے برداشت کئے.۲۶ /اپریل ۱۹۶۸ء کو اس کا افتتاح عمل میں آیا.اس علاقہ کے پہلے مبلغ مولوی عبید الرحمن صاحب فانی مقرر ہوئے.34 رحمت بازار مئی ۱۹۶۸ء کے آخر میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسح الثالث نے غلہ منڈی ربوہ کا نام رحمت بازار تجویز فرمایا.وزیر بنیادی جمہوریت مغربی پاکستان کی ربوہ میں آمد محترم جناب محمد یسین خان صاحب وٹو وزیر بنیادی جمہوریت مغربی پاکستان نے ۵ مئی کو سرگودہا سے لا ہو ر جاتے ہوئے ربوہ میں مختصر قیام کے دوران زیر تعمیر واٹر سپلائی ربوہ اور کمیونٹی ہال کا معاینہ

Page 803

تاریخ احمدیت.جلد 24 763 سال 1968ء کیا.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب چیئر مین ٹاؤن کمیٹی ربوہ کی زبانی واٹر سپلائی سکیم کی تفصیل معلوم کر کے جناب وٹو صاحب نے منصوبہ آب رسانی کی اہمیت کے پیش نظر اس کی جلد از جلد تکمیل کے لئے موثر کارروائی کرنے کا وعدہ فرمایا نیز کمیونی ہال اور دفتر ٹاؤن کمیٹی کی خوبصورت عمارت دیکھ کر اظہار مسرت فرمایا.(یادر ہے کہ اس کمیونٹی ہال کی بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ۳ جولائی ۱۹۶۵ء کو رکھی تھی.36 جلسہ سالانہ احمد نگر ( ضلع دینا جپور ) مشرقی پاکستان مورخه ۱ را ور ا امئی ۱۹۶۸ء کو جماعت دینا جپور کا دسواں سالانہ جلسہ منعقد ہوا.جس میں مقامی احباب کے علاوہ ضلع رنگ پور اور ضلع دینا جپور کی جماعتوں سے احباب نے اس میں شرکت کی.اس جلسہ میں غیر از جماعت کی ایک معقول تعداد نے بھی شرکت کی.مختصر رو داد حسب ذیل ہے.اس جلسہ میں کل ۳ را جلاس ہوئے جن کی صدارت مکرم مولوی محمد صاحب صوبائی امیر اور مولوی سلطان محمود انور صاحب مربی سلسلہ نے فرمائی.اس جلسہ میں کئی علماء نے تقاریر کیں.تیسرے اجلاس کے آخر میں محترم مولوی سلطان محمود انور صاحب مربی سلسلہ نے اعتراضات کے جوابات کے موضوع پر تقریر کی.یہ دوروزہ جلسہ سالانہ بفضلہ تعالی بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.3 مولا نا صلاح الدین احمد صاحب کی یاد میں ایک خصوصی نشست مولا نا صلاح الدین احمد صاحب (ولادت ۲۵ مارچ ۱۹۰۲ ء وفات ۱۴ جون ۱۹۶۴ء) اردو زبان وادب کے ایک منفرد، صاحب طرز ادیب تھے.پاکستان میں اردو کی ترویج و ترقی میں آپ کا بہت بڑا حصہ تھا.اسی لئے بعض لوگ آپ کو پنجاب کا بابائے اردو بھی کہتے تھے.مولانا صاحب جماعت احمدیہ کی عظیم الشان ادبی خدمات کے دل سے معترف تھے.اور تعلیم الاسلام کالج سے آپ کا خصوصی تعلق تھا.چنانچہ کالج کے جلسہ تقسیم اسناد و انعامات (مورخہ ۹ جون ۱۹۶۳ء) کے مہمانِ خصوصی آپ ہی تھے.اور اس تقریب میں آپ نے ایک فاضلانہ خطبہ بھی ارشاد فرمایا.اردو کے اس عظیم محسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بزمِ اردو تعلیم الاسلام کالج کی ایک خصوصی نشست کالج کے پرنسپل پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ( کینٹب) کی زیر صدارت منعقد ہوئی.اس نشست میں قرآن مجید کی تلاوت اور ترجمہ کے بعد کالج کے طالب علم منور احمد

Page 804

تاریخ احمدیت.جلد 24 764 سال 1968ء صاحب انیس نے مولانا صلاح الدین احمد صاحب کی یاد میں ایک مشہور کالم نویس انتظار حسین صاحب کا ایک مضمون پڑھ کر سنایا.بعدہ بزم اردو کے نگران ڈاکٹر ناصر احمد صاحب پروازی نے اردو کو اس کا صحیح مقام دلانے کے متعلق مولانا مرحوم کی خدمات پر اپنا معلومات افروز مقالہ پیش کیا.جس میں انہوں نے مولانا کی نہایت قابل قدر مساعی اور تعلیم الاسلام کالج سے ان کے خصوصی تعلق کا ذکر کرتے ہوئے کہا مولانا کی یاد ہر اس شخص کی دھڑکنوں میں شامل ہے جسے اردو اور اردو کے مقام سے دلچسپی ہے.بعد ازاں پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے نے اپنے پر مغز مقالہ میں مولانا کے ساتھ اپنی بعض ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے اردو اور اردو ادب کی ترقی کے لئے مولانا کی بے لوث خدمات اور ان کے قابل ستائش کردار پر روشنی ڈالی.نیز بعض ایسے واقعات بیان کئے جو اس امر کے آئینہ دار تھے کہ وہ اردو کی ترقی کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کی خدمات کے دل سے معترف تھے.بعد ازاں منور احمد صاحب انیس نے مولانا کے ایک ادبی شاہکار کے طور پر اس خطبہ کا مکمل متن پڑھ کر سنایا جو مولا نا مرحوم نے 9 جون ۱۹۶۳ء کو تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں پڑھا تھا.آخر میں اس خصوصی نشست کے صدر پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب نے حاضرین سے خطاب فرما کر مولا نا صلاح الدین احمد مرحوم سے اپنے ذاتی مراسم کا کسی قدر تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا.اور ان کے قابل ستائش کردار اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہوئے ثابت کیا کہ مولانا صلاح الدین احمد اردو کے ایک بہت بلند پایہ ادیب ، اس کے ایک عظیم خدمتگار، بہت مخلص، شریف النفس اور کمال درجہ بے خوف ، نڈر اور بے باک انسان تھے.انہوں نے اردو کو اس کا صحیح مقام دلانے کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا اور پھر اس مقصد کے حصول کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دکھائی.(مولا نا صلاح الدین احمد صاحب کی ایک نواسی عاصمہ جہانگیر صاحبہ انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر معروف ہیں.مدراس میں عیسائی کانفرنس اور جماعت احمدیہ مدراس کے وسیع و عریض شہر میں ۳۰ جون ۱۹۶۸ء سے لے کر ایک ماہ تک عیسائی کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں حضرت یسوع کی آمد ثانی، آخری زمانہ کی علامات، یسوع مسیح کی حقیقت وغیرہ

Page 805

تاریخ احمدیت.جلد 24 765 سال 1968ء عناوین پر تقاریر کی گئیں.کانفرنس کے دوران جماعت احمد یہ مدر اس نے مولوی محمد عمر صاحب مبلغ انچارج کی زیر قیادت اپنی تبلیغی سرگرمیاں عروج پر پہنچا دیں.اور شہر میں انگریزی اور تامل لٹریچر وسیع پیمانے پر تقسیم کیا.مثلاً (1) LATEST FINDINGS ABOUT JESUS CHRIST.(2)MESSAGE OF PEACE AND A WORD OF WARNING.(۳) یسوع مسیح کون ہیں؟ احمدیوں کی ان تبلیغی سرگرمیوں سے عیسائی حلقوں میں خاصی ہلچل ہوئی اور جماعت احمدیہ کے متعلق خوب چرچا ہوا.وزیر اعلیٰ میسور سٹیٹ کو دینی لٹریچر کی پیشکش ۶ راگست ۱۹۶۸ء کو وزیر اعلی میسورسٹیسٹ جناب شری ویریندر پائل صاحب ( VERANDRA PATIL) کے دورہ یاد گیر کے موقع پر مولوی فیض احمد صاحب مبلغ یاد گیر اور محمد رحمت اللہ صاحب غوری آپ کی قیامگاہ پر پہنچے.اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروانے کے بعد مندرجہ ذیل لٹریچر پیش کیا.(۱) قرآن کریم انگریزی.(۲) اسلامی اصول کی فلاسفی.( بزبان کنٹری) (۳) WHAT AHMADIYYA MOVEMENT IN (۴)IS AHMADIYYAT ? INDIA.وزیر موصوف نے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے.بتایا گیا کہ یہ مقدس قرآن کریم اور احمد یہ لٹریچر ہے.موصوف نے احترام سے یہ تحفہ ہاتھ میں لیا.شیند رو ضلع پونچھ میں علمی مذاکرہ 40 وسط ۱۹۶۸ء میں شیند رہ ضلع پونچھ میں جماعت احمدیہ کا کامیاب جلسہ منعقد ہوا.جس کے بعد شیخ حمید اللہ صاحب مبلغ پونچھ کو ایک عالم مولوی شیر محمد صاحب طالبعلم دیو بند سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا.اس علمی مذاکرہ میں مولوی صاحب موصوف کے سوالات کے واضح اور مدلل جوابات دیئے گئے.جن کا سامعین پر اچھا اثر ہوا.

Page 806

تاریخ احمدیت.جلد 24 766 سال 1968ء کراچی میں تصویری نمائش مجلس خدام الاحمد یہ ڈرگ روڈ کراچی نے اپنے سالانہ اجتماع منعقدہ ۱۵ تا ۱۷ستمبر ۱۹۶۸ء سے ایک شاندار تصویری نمائش کا آغاز کیا.یہ نمائش ایک خادم مکرم را نا ظفر احمد صاحب کی ذاتی کوششوں کا نتیجہ تھی جس پر وہ پچھلے کئی سالوں سے کام کر رہے تھے.کراچی میں ۱۹۷۲ء تک وہ مختلف مواقع پر اس نمائش کا اہتمام کرتے رہے.اس کے علاوہ جلسہ ہائے سالانہ ربوہ کے موقع پر بھی اس نمائش کا اہتمام کیا جاتا رہا جسے ہر سطح پر بہت پسند کیا گیا.جماعت اسلام آباد کا قیام 42 اسلامی جمہوریہ پاکستان کے موجودہ دارالحکومت اسلام آباد کا تعمیراتی آغاز ۱۹۶۱ء میں ہوا اور اسی سال یہاں مرکزی حکومت کے دفاتر کراچی سے منتقل ہونا شروع ہوئے.اسلام آباد میں مقامی جماعت کا قیام حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی منظوری سے اکتوبر ۱۹۶۸ء میں ہوا.اور اس کے پہلے پریذیڈنٹ چوہدری عبدالحق صاحب ورک مقرر کئے گئے.اس سلسلہ میں چوہدری صاحب نے الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۸ء میں اعلان فرمایا کہ جو احباب جماعت، اسلام آباد تشریف لائیں.وہ مکان 519/1 سیکٹر 6/2-G اسلام آباد سے رابطہ قائم کریں جو کہ چوہدری صاحب کی رہائش گاہ تھی.ابتدائی تاریخ جب حکومت پاکستان نے دارالحکومت کو کراچی سے اس جدید شہر میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو ملکہ کو ہسار مری اور راولپنڈی کے درمیان یہ شہر ایک سرسبز و شاداب اور صحت افزا قطعہ زمین پر تعمیر کیا گیا.اس خوبصورت شہر کی تعمیر اکتو بر ۱۹۶۱ء میں شروع ہوئی.کچھ سرکاری دفاتر کی عمارات اور رہائشی مکانات کی تعمیر مکمل ہوتے ہی سرکاری ملازمین کی پہلی کھیپ اسلام آباد پہنچی.اس میں احمدی احباب بھی شامل تھے.جوں جوں شہر کی تعمیر میں اضافہ ہوتا گیا یہاں منتقل ہونے والے سرکاری دفاتر اور کچھ نچی اداروں کے عملے اور احمدیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا.جو احباب جماعت اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے وہ اس وقت انتظامی لحاظ سے جماعت احمدیہ راولپنڈی کے ساتھ منسلک تھے اور اس کا ایک حلقہ تصور ہوتے تھے.اگست ۱۹۶۸ء میں قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کے فیصلہ کے مطابق جماعت احمد یہ اسلام آباد میں علیحدہ امارت کا قیام عمل میں آیا اور

Page 807

تاریخ احمدیت.جلد 24 767 سال 1968ء مکرم چوہدری عبدالحق صاحب ورک پہلے امیر جماعت منتخب ہوئے.موصوف یکم اگست ۱۹۶۸ء تا وفات دسمبر ۱۹۷۵ء امارت کے فرائض بطریق احسن سرانجام دیتے رہے.ان کی رحلت کے بعد مارچ ۱۹۷۶ء تک مکرم چوہدری اعجاز نصر اللہ خان صاحب نائب امیر قائمقام امیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے.ازاں بعد مکرم لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالعلی ملک صاحب دوسرے امیر منتخب ہوئے.انہوں نے مارچ ۱۹۷۶ء تا مارچ ۱۹۸۰ ء تک تقریباً ۴ سال امارت کے فرائض سرانجام دیئے اور ان کے بعد تیسرے امیر مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب منتخب ہوئے.آپ اپریل ۱۹۸۰ء تا اپریل ۱۹۹۱ ء تک امارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے.آپ کے بعد چوتھے امیر مکرم چوہدری علیم الدین صاحب امیر مقرر ہوئے جو اپریل ۱۹۹۱ء تا اگست ۱۹۹۸ء تک امارت کے فرائض سرانجام دیتے رہے.آپ کے بعد مکرم انجینیر منیر احمد فرخ اگست ۱۹۹۸ء میں امیر مقرر ہوئے اور اکتوبر ۲۰۱۳ء سے مکرم ڈاکٹر عبدالباری صاحب امیر منتخب ہوئے.اسلام آباد میں نئی جماعت قائم ہونے کے بعد اس کی اولین اور اہم بنیادی ضرورت ایک مسجد کی تعمیر تھی.جہاں نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ تربیتی امور کے لئے اجلاس منعقد کئے جاسکیں.شروع شروع میں گھروں میں ہی مرا کز قائم کئے گئے.اسی طرح نماز جمعہ بھی اجتماعی طور پر ایک گھر میں ادا کی جاتی رہی.مگر احباب کی تعداد میں روز افزوں اضافہ کے باعث یہ امر نا گزیر تھا کہ جلد از جلد زمین حاصل کر کے مسجد کی تعمیر شروع کی جائے.چنانچہ ترجیحی بنیادوں پر پلاٹ کے حصول کی کوشش شروع کی گئی.اس مساعی کے نتیجہ میں غالبا ۱۹۶۷ء میں جی ۶/۲ میں انتظامیہ نے جماعت کو مسجد کے لئے ایک پلاٹ الاٹ کیا اس پر ایک کمرہ اور چھپر ڈالا گیا اور چاردیواری کے لئے کھدائی کی گئی مگر مخالفت کے باعث شر پسند عناصر نے اسے آگ لگا کر جلا دیا.بعد ازاں مقامی لوگوں نے اس پر قبضہ کر لیا.اس کے بعد حکام نے مجبوراً ایک پلاٹ الیف ۷/۳ میں الاٹ کیا.اس پلاٹ کی زمین ہموار نہ تھی بلکہ اس میں جا بجاوسیع اور عمیق گڑھے تھے اور ایک بہت بڑا نالہ بھی اس سے ملحق تھا.پلاٹ کا قبضہ حاصل کرنے کے بعد فوری طور پر چار دیواری تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا جس کے لیے نقشہ کی منظوری بنیادی قدم تھا چنانچہ قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کی خصوصی توجہ اور راہنمائی کے تحت نقشہ تجویز کیا گیا اور اس کی منظوری محکمہ متعلقہ سے حاصل کی گئی.اس وقت کے امیر جماعت مکرم عبد الحق صاحب ورک کی نگرانی

Page 808

تاریخ احمدیت.جلد 24 768 سال 1968ء میں چاردیواری تعمیر کی گئی.اس کی تعمیر کے دوران بہت سی مشکلات سد راہ بنیں.مگر احباب جماعت کے اخلاص اور جذبہ خدمت کے باعث تمام مشکلات پر قابو پالیا گیا اگر چہ اس میں بہت زیادہ وقت لگا کیونکہ جنوبی جانب ملحق نالہ کے باعث ۲۷۰ فٹ لمبی اور کم و بیش ۱۴ فٹ گہری دیوار بطور پشتہ کے تعمیر کرنا پڑی.اس کے ساتھ ساتھ مشرقی جانب فوری طور پر عارضی مسجد ، وقار عمل کے ذریعہ تعمیر کی گئی اور بنیا دی اور اصل کام یعنی نماز با جماعت اور نماز جمعہ کی ادائیگی کا سلسلہ شروع کیا گیا.۱۹۷۶ء میں مکرم لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالعلی ملک صاحب امیر جماعت منتخب ہوئے.مسجد کی چھت انہیں کے دور امارت میں ڈالی گئی.اس میں راولپنڈی اسلام آباد کے خدام وانصار نے تین دن مسلسل وقار عمل کے ذریعہ چھت کا کام مکمل کیا.مارچ ۱۹۷۶ء میں تعمیر کا کام ایک عدالت کے حکم پر روکنا پڑا.مارچ ۱۹۷۸ء میں جماعت کی طرف سے اپیل کی گئی.مستقل مسجد کا کام اگر چہ انتظامیہ کی منظوری سے شروع کیا گیا.لیکن مخالفین ہر قدم پر مخالفت کے باعث معاندانہ کارروائیاں کر دیتے اور ہر تعمیر کے کام میں روک ڈالتے رہے اس وقت تک جس قدر تعمیر ہو چکی تھی وہ ایک عدالت سے دوسری عدالت کے حکم امتناعی کے وقفہ کے دوران ہوئی.مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب اور مکرم چوہدری محمد علیم الدین صاحب کی امارت میں بقیہ ضرورت کے لئے تعمیر کے عارضی کام ہوئے ۸۲-۱۹۸۱ء میں مخالفین نے ہائی کورٹ سے Stay Order لے لیا.جب پہلے اور دوسرے Stay Order کے دوران دو تین روز کا وقفہ ملتا تو بقیہ ادھورے کام مکمل کئے جاتے.شب و روز کی محنت کے بعد ور انڈہ اور سائیڈ ہالز کی چھتوں کے کام مکمل ہوتے رہے.۱۹۹۵ ء تک یہ سلسلہ جاری رہا.اس کے بعد لجنہ ہال کو بڑھایا گیا.کانفرنس ہال اور اس کے نیچے دو مہمان خانے اور کچن وغیرہ بھی مکمل کئے گئے اور ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے دروازے، کھڑکیاں اور شیشے وغیرہ کا کام بھی ہوتا رہا.مکرم شیخ عبدالوہاب صاحب اور مکرم چوہدری محمد علیم الدین صاحب کی امارت میں بڑھتی ہوئی جماعتی ضروریات کے پیش نظر اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کے لئے نئے سرے سے ایک تعمیر مسجد کمیٹی کا قیام عمل میں آیا.اس وسیع تر منصوبہ کے لئے آرکیٹیکٹ اور انجینئیر ز کے مشوروں سے چھ فیروں پر مشتمل ایک ماسٹر پلان تیار کیا گیا.ان فیزوں میں تعمیر کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی.کافی لمبے عرصے کے بعد مکرم منیر احمد فرخ صاحب کی امارت میں ہائی کورٹس سے Stay Order

Page 809

تاریخ احمدیت.جلد 24 769 سال 1968ء اپریل ۲۰۰۱ء کو خارج ہو گیا.اس وقت کو جماعت اسلام آباد کسی طرح پر ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی.سو کام کے آغاز کی منصوبہ بندی جو پہلے سے کی گئی تھی.اس کے مطابق تعمیر جاری رکھی گئی.فیر ز میں کام کی تفصیل مندرجہ ذیل تھی : فیز (۱) میں:.مربی ہاؤس، لائبریری، گیسٹ ہاؤس اور سٹاف کوارٹرز وغیرہ شامل تھے.جون ۲۰۰۱ ء میں مکمل ہوا.فیر (۲) میں :.باتھ رومز ، آفس بلاک اور چار دیواری وغیرہ.فیر (۳) میں :.آفس بلاک، مسجد کے مین ہال کو شمال کی جانب بڑھنا، کانفرنس ہال، ڈسپنسری اور کمپیوٹر ہال وغیرہ.فیر (۴) میں :.لجنہ کے لئے تین بڑے ہال جنوبی سائیڈ اور ان کے دفاتر.(یہ CDA نے منظوری میں دو کر دیئے) نیز (۵) میں :.مردوں کے لئے ہال کی توسیع اور اس میں بیسمنٹ اور ہال.فیر (۶) میں:.دوسرے شہروں سے جو طالب علم آتے ہیں ان کی ضرورت کے لئے ہاسٹل بنانا.ان تمام فیرز کا تخمینہ تقریباً چار کروڑ روپے تھا.جس کی منظوری حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے از راہ شفقت عطا فرمائی.۲۰۰۰.۱۰.۱۰ کو فیر (۱) کی تعمیر کے کام کا آغاز با قاعدہ دعاؤں اور صدقات سے صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ ربوہ (حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) نے اپنے دست مبارک سے فرمایا.اتنے عرصہ بعد جب تعمیر کا کام شروع ہوا تو حفاظتی نقطہ سے قناتیں لگا کر کام کیا جا تارہا.اس فیز کی تکمیل کے بعد ۲۰۰.۱۰.۱۴ کو اس کا افتتاح بھی (حضرت) صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ ربوہ (حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ہی فرمایا.فیروں کی تکمیل کے ساتھ ہی جون ۲۰۰۱ء میں پہلی دفعہ کسی مربی صاحب کی مسجد میں با قاعدہ رہائش کا انتظام ہو سکا.اس بلاک میں مکرم مربی صاحب کے علاوہ سٹاف کو کوارٹرز کی سہولت بھی دی گئی.مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس اور لائبریری بھی اس کی نمایاں تعمیرات میں شامل ہیں.تعمیرات کے چھوٹے چھوٹے کام بھی ساتھ جاری رہے جس میں MTA روم Extend کرنا شامل تھا.

Page 810

تاریخ احمدیت.جلد 24 770 سال 1968ء ۱۸ فروری ۲۰۰۲ء کو فیر دوم پر کام کا آغاز کیا گیا جس میں باتھ رومز اور دفاتر شامل تھے.ان کی تکمیل کے بعد ہاتھ رومز کی ایک دیرینہ ضرورت پوری ہوگئی.اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ جات کے لئے دفاتر اور تنظیموں کی ضرورت کے لئے دفاتر کی کمی کو بھی کسی حد تک پورا کیا گیا.فیز تین پر کام کا آغا ز ۱۳ مارچ ۲۰۰۳ء کو ہوا.اس بلاک میں دفاتر امیر صاحب، ڈسپنسری، کانفرنس ہال اور مسجد کے شمالی ہال کی Extension تھی اس کے ساتھ ساتھ باؤنڈری وال کی بھی Extension کی گئی.مسجد کے باہر سیکورٹی کے لئے پول نصب کئے گئے نیز حفاظت کے طریق کے مزید بہتر بنانے کے لئے سیکورٹی کیمروں کی تنصیب بھی اس میں شامل تھی.فیز چہارم کے کام کا افتتاح ۲۰۰۳.۷.9 میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے فرمایا.بدقسمتی سے ابھی کھدائی کا کام مکمل ہی ہوا تھا کہ ۲۰۰۳-۱۲-۲۲ کو CDA کی مداخلت پر کام روکنا پڑا کہ نقشوں کی منظوری سے قبل کوئی تعمیر یا Extension نہ کی جائے.اس سلسلہ میں کافی مشکل پیش آئی.طویل صبر اور جد و جہد کے بعد CDA نے بالآخر تین سال کی مسلسل جدو جہد کے بعد نقشوں کی منظوری دے دی.تمام عارضی روکیں جو اس کام میں حائل تھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہو گئیں.اس بلاک کی سنگِ بنیاد کی تقریب دوبارہ ۲۰۰۷-۶.۱۷ کو ہوئی.محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمدیہ نے اینٹ رکھ کر دعا کے ساتھ اس کام کا باقاعدہ آغاز فرمایا.اسلام آباد میں صدر انجمن احمدیہ کی ملکیتی دو عمارات اور تحریک جدید کی ایک عمارت ہے جو مقامی جماعت کی زیر نگرانی ہیں.ان میں سے ایک کا نام ”بیت الفضل“ ہے جو کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی قیامگاہ کے طور پر استعمال ہوتی ہے.قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو اسلام آباد بہت پسند تھا اور حضور سال میں تین چار مرتبہ ضرور اسلام آباد میں رونق افروز ہوتے تھے.اس وقت مقامی جماعت کے علاوہ دیگر علاقوں اور شہروں سے بھی احباب جماعت والہانہ طور پر اپنے امام کی زیارت و ملاقات اور نمازوں کے لیے جوق در جوق اسلام آباد آتے تھے.شمع احمدیت کے پروانے شوق دیدار میں کھنچے چلے آتے تھے اور یوں مقامی جماعت کی ذمہ داریوں میں خوشگوار اضافہ دیا ہونے کے علاوہ ایک عید کا سماں ہو جاتا تھا.مئی ۱۹۸۲ء میں حضور اسلام آباد میں تشریف لا کر رونق افروز تھے.یہیں بیمار ہوئے اور ۸ ۹ جون کی درمیانی شب کو وصال ہو گیا.ہجرت سے قبل حضرت

Page 811

تاریخ احمدیت.جلد 24 771 سال 1968ء خلیفہ المسیح الرابع اپریل ۱۹۸۴ء میں یہاں تشریف لائے.حضور نے واپسی پر جن الفاظ میں جماعت احمد یہ اسلام آباد کو مخاطب فرمایا وہ اس کی تاریخ کی سنہری یادگار ہیں.جو کہ درج ذیل ہیں.حضور نے امیر ضلع شیخ عبدالوہاب صاحب کو اپنے خط ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء میں تحریر فرمایا :.آنے سے پہلے اسلام آباد کی جماعتوں کے ساتھ جو دن گذرے وہ تو اس وقت ( بھی ) خواب دکھائی دیتے تھے.جب حقیقت تھے.آپ کے پیار، آپ کی لہی محبت ، خلافت احمدیہ کے لئے آپ کے جذبہ فدائیت نے مجھے ایک مے سی پلا رکھی تھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب دن آیا اور کب رات گزر گئی.اب جبکہ وہ دن خواب بن چکے ہیں.ان خوابوں میں اب بھی آپ سب مجھے ملتے ہیں.دنیا کی محبتوں کو بھلا راہ خدا کی محبتوں سے کیا نسبت، ان محبتوں کی خشت اول ہی آسمان کی رفعتوں میں رکھی جاتی ہے.مختصراً میرا یہ پیغام سب کو دے دیں کہ آپ سب مجھے بہت یاد آتے ہیں اور بسا اوقات دعا کے آنسوؤں میں جھلکنے والی تصویر میں بن جاتے ہیں.اللہ میرے ہر آنسو کو آپ کے لیے رحمتوں اور برکتوں کی برسات بنادے.خدا حافظ فی امان اللہ.اللہ مجھے آپ کی طرف سے ہمیشہ خیر کی خبر سنائے.اور احمدیت کے لیے آپ سب کی اور میری بے قراری کو لازوال طمانیت میں بدل دے“.دار الحکومت ہونے کی وجہ سے جماعت احمد یہ اسلام آباد کو تنظیمی شعبہ جات کے امور کے علاوہ رابطے کے بہت سے امور بھی سرانجام دینے ہوتے ہیں جس کی تفصیل مناسب نہیں.بہر حال مرکز کے لیے مقامی جماعت ایک رابطہ کا ذریعہ ہے اور حتی المقدور جملہ امور، کماحقہ ادا کیے جاتے ہیں.ستمبر ۱۹۸۸ء کے اختتام تک احمدیوں اور مسلمان بھائیوں کے لئے ایک ہی قبرستان تھا جو انتظامیہ کی طرف سے معین تھا.لیکن اکتوبر ۱۹۸۸ء میں بعض مخالفین کے معاندانہ رویہ اور مطالبہ پر انتظامیہ نے ایک مدفون شدہ احمدی کی نعش کو مسلمانوں کے قبرستان سے نکال کر کسی اور جگہ دفن کرنے کیلئے کہا جس پر حکام سے درخواست کی گئی کہ احمدیوں کے لیے الگ قبرستان کے لیے پلاٹ دیا جائے ، جس پر انتظامیہ نے احمدیوں کے لیے علیحدہ قبرستان کی زمین الاٹ کر دی.جس کا رقبہ پونے چارا یکڑ ہے.۱۹۹۰ء میں اس کے گرد چاردیواری تعمیر کر دی گئی.

Page 812

تاریخ احمدیت.جلد 24 772 سال 1968ء ۱۹۸۸ء میں ہی بعض شر پسند اور مخالفانہ رنگ رکھنے والے لوگوں کے مطالبہ پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے مسجد سے کلمہ طیبہ مٹایا گیا اور رات کے وقت مسجد میں سوئے ہوئے بے گناہ احباب کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا.اس کے علاوہ مقامی جماعت کے ایک صاحب شادی کے دعوت نامہ پر بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ السلام علیکم لکھنے پر مور دعتاب ہوئے اور ان کے خلاف مقدمہ بنایا گیا.جماعت کے دو خدام مباہلہ کا پمفلٹ تقسیم کرنے پر زیر عتاب آئے اور ان پر مقدمہ درج کیا گیا اور اسیر ہوئے.بہر حال خدا تعالیٰ نے ہر رنگ میں جماعت کو آزمائش میں پورا اترنے کی توفیق بخشی.الحمد للہ اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے جماعت نے مکمل حسابات رکھنے کے لئے ۱۹۸۸ء میں کمپیوٹر نصب کیا جس کا افتتاح مکرم ناظر صاحب بیت المال ( آمد ) ربوہ نے کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی ایک تاریخی قدم ہے اور اس طرح پاکستان میں جماعت احمد یہ اسلام آباد نے اس کام میں اولیت اختیار کی ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی ڈاکٹروں کی تنظیم ”احمد یہ میڈیکل ایسوسی ایشن (اسلام آباد Chapter)۱۹۸۸ء میں قائم ہوئی ، اس کے پریذیڈنٹ مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب، وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر امۃ الحفیظ خیر البشر صاحبہ اور سیکرٹری مکرم ڈاکٹر شمیم احمد قاضی صاحب منتخب ہوئے.اس ایسوسی ایشن نے اسلام آباد کے گردونواح کے دیہاتوں میں غرباء کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی ٹیم کیمپنگ کی.اس مختصر تاریخ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام آباد کی جماعت ہر لحاظ سے ترقی کرتی چلی جارہی ہے.15 چوتھا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ شعبہ صحت جسمانی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر انتظام آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ مورخہ ۴ تا ۶ را کتوبر ۱۹۶۸ء کو منعقد ہوا.۶ اکتوبر کو ٹورنامنٹ کا فائنل میچ ہوا.اس روز ربوہ کے سب انتظامی اور تعلیمی ادارہ جات میں عام تعطیل تھی.اس تقریب کے مہمان خصوصی جناب ظفر چوہدری صاحب اسٹیشن کمانڈر سرگودہا تھے.فائنل میچ ریلوے اور بوہ کی ٹیم کے درمیان ہوا.جس میں پاکستان ویسٹرن ریلوے کی ٹیم نے چیمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا.

Page 813

تاریخ احمدیت.جلد 24 773 سال 1968ء تقسیم انعامات سے قبل محترم (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مختصر خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ ٹورنامنٹ منعقد کرنے اور خوشگوار ماحول میں بخیر و خوبی مکمل کرنے کی توفیق عطا کی ہے.آپ نے باہر سے آنے والے مہمان کھلاڑیوں اور جملہ منتظمین کا بھی شکریہ ادا کیا اور مہمانوں کو پھر ربوہ آنے کی دعوت دیتے ہوئے الوداع کہا.بعد ازاں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید نے کھلاڑیوں میں انعامات تقسیم کئے.محمود الخطیب صاحب اُردنی کی تقریر 46 جناب محمود الخطیب صاحب آف اردن کسی نجی کام کے سلسلہ میں پاکستان تشریف لائے تھے.چونکہ انہیں احمدیت سے لگاؤ تھا.اس لئے ربوہ کی زیارت کے لئے بھی تشریف لائے.الجمعیۃ العلمیة کی درخواست پر انہوں نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو طلبائے جامعہ احمدیہ سے عربی میں خطاب فرمایا جس میں تفصیل سے بتایا کہ کس طرح اسرائیل قائم ہوا اور پھر اس نے طاقت حاصل کی.نیز بتایا کہ مسلمان باہم متحد ہو کر ہی مقابلہ کر سکتے ہیں.مسئلہ کشمیر کے بارے میں مقر رموصوف نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ عرب ممالک اس مسئلہ میں پہلے بھی پاکستان کی حمایت کرتے رہے ہیں.اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے.کمشنر سرگودھا کا تعلیم الاسلام کالج میں خطاب ۱۴ راکتو بر ۱۹۶۸ء کی شام کو تعلیم الاسلام کالج میں عشرہ ترقیات ( یہ عشرہ ان دنوں سرکاری طور پر ملک بھر میں منایا گیا تھا) کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی مجلس مذاکرہ میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے جناب سید قاسم رضوی صاحب کمشنر سرگودھا ڈویژن نے اس امر پر زور دیا کہ ان مادی ترقیات کی رو میں جو گزشتہ دس سال میں حاصل ہوئی ہیں.ہمیں انسان کی تہذیب و تزئین اور انسانیت کے نشو ونما ارتقا کو کسی حال میں بھی فراموش نہیں ہونے دینا چاہیئے.کیونکہ سچی خوشی اور خوشحالی محض مادی ترقی کو مطمح نظر بنانے سے نہیں بلکہ اخلاقی اقدار اور انسانیت کے نشو ونما ارتقا کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.آپ نے فرمایا اگر ہم مادی لحاظ سے ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ اس ارفع مقصد میں کامیاب ہو

Page 814

تاریخ احمدیت.جلد 24 774 سال 1968ء جائیں اور اس قابل ہو جائیں کہ ہم عشرہ انسانیت بھی اسی اہتمام سے منائیں.تو ہمارے سر فخر سے اور بھی بلند ہو جائیں گے.اس تقریب میں کالج کے ممبران سٹاف، طلباء اور دیگر مقامی احباب کے علاوہ جناب ہمایوں فیض رسول صاحب ڈپٹی کمشنر جھنگ جناب ارشد ملک صاحب ڈپٹی کمشنر سرگودھا، ایس.ڈی.ایم صاحب چنیوٹ ، ریذیڈنٹ مجسٹریٹ صاحب چنیوٹ ،تحصیلدارصاحب چنیوٹ اور محکمہ اطلاعات کی لائکپور شاخ کے بعض افسروں نے بھی شرکت کی.48- غزہ میں جماعت احمدیہ کا قیام جزیرہ نمائے سینا کے ساحل کے قریب ایک مشہور قصبہ ہے.جو حضرت امام شافعی کا مولد بھی ہے.یہ پہلے مصر کی تحویل میں تھا مگر جون ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے اس کو ہتھیا لیا.۱۹۶۸ء کے آخر میں غزہ شہر میں جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.جبکہ چالیس کے قریب دوستوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.بیعت کرنے والوں میں تاجر، انجینئر، علماء، اطباء آفیسر، اساتذہ اور طلباء شامل تھے.سب سے پہلے جماعت میں شمولیت کا شرف حاصل کرنے والے الشیخ الا زھری احمد حسین ابوسر دانہ الفالوجی تھے.ربوہ میں پندرھویں قومی باسکٹ بال چیمپئین شپ مورخه ۱ تا ۶ ۱نومبر ۱۹۶۸ء پندرھویں باسکٹ بال چیمپیئن شپ کے مقابلے سات روز جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہوئے جس میں ملک بھر سے سول آرمی، ایئر فورس، ریلوے اور پولیس سمیت ۱۰ ٹیموں نے حصہ لیا.افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی جناب سید قاسم رضوی صاحب سی ایس پی کمشنر سرگودہا تھے.اس موقع پر باسکٹ بال کے سر بر آوردہ حضرات اور متعدد انٹر نیشنل ریفریز بھی ربوہ تشریف لائے مثلاً جناب ہمایوں فیض رسول صاحب ڈپٹی کمشنر جھنگ ، جناب میاں محمد اشرف صاحب ایس ڈی ایم چنیوٹ، جناب ڈاکٹر حمید الدین صاحب چیئر مین سرگودہا ایجوکیشن بورڈ ، جناب غالب احمد صاحب سیکرٹری سرگودہا ایجو کیشن بورڈ ، جناب خواجہ سعید احمد صاحب کنٹرولر امتحانات سرگودہا ایجوکیشن بورڈ ، جناب امان اللہ ظفر صاحب صدر پاکستان امیچور باسکٹ بال فیڈریشن، جناب پروفیسر غلام صادق صاحب ٹریز پاکستان امیچور باسکٹ بال فیڈ ریشن سرگودہا وغیرہ.اختتامی تقریب

Page 815

تاریخ احمدیت.جلد 24 775 سال 1968ء کے مہمان خصوصی ایئر کموڈور مکرم ظفر چوہدری صاحب اسٹیشن کمانڈر پاکستان ایئر فورس سرگودہا تھے جنہوں نے اعزاز پانے والوں میں انعامات تقسیم کئے.ترکی کے ماجد بے نی جے کی قبول احمدیت ۱۹۶۸ء میں ترکی کے ماجد بے نی ہے (MACIT BENICE) نے قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.آپ نے ترکی زبان میں اپنے حالات تحریر کئے ہیں جن کا اردوترجمہ جناب ڈاکٹر محمد جلال شمس صاحب نے کیا ہے.مکرم ماجد بے نی بے تحریر فرماتے ہیں کہ :.۱۹۶۵ عیسوی کا ذکر ہے میں نے انگلستان کا سفر اختیار کیا.میں بھی بہت سے مسلمانوں کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ دنیا میں آکر پچیس سال حکومت کرنے اور اسلام کے راستہ میں جہاد کے ذریعہ حکومت کرنے کا قائل تھا.ان ایام میں استنبول سے روزانہ شائع ہونے والے ایک اخبار نے قارئین کو قرآن مجید کا ایک ترجمہ تحفہ پیش کیا تھا.اس میں کلام الہی فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ (المائدہ: ۱۱۸) کا ترجمہ اس وقت تک مروج ترجمہ سے ہٹ کر اور مختلف رنگ میں ترکی زبان میں وفات کے لفظ کے ساتھ کیا گیا تھا.اور یہ بیان کیا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.اس وقت مجھے اس ترجمہ پر سخت افسوس ہوا تھا اور میرا خیال تھا کہ کسی عیسائی پبلشر نے جان بوجھ کر یہ تبدیلی کی ہے.اسی خیال کے ساتھ میں سفر پر روانہ ہوا.انگلستان میں جن مذہبی لوگوں سے میری ملاقات ہوئی ان کے ساتھ میرا مباحثہ ہوتا تھا تو وہ کہتے:.جبکہ آپ لوگ بھی ہماری طرح حضرت عیسی علیہ السلام کی دوبارہ آمد کے قائل ہیں تو اس صورت میں بحث مباحثہ کی کیا ضرورت ہے.جب حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے تو ہم بھی اور آپ بھی دیکھ لیں گے کہ وہ کونسا عقیدہ پیش کرتے ہیں “.میں ان کی اس منطق کے سامنے بحیثیت ایک مسلمان کے اپنے آپ کو پورے طور پر مضبوط اور طاقتور محسوس نہیں کرتا تھا.حتی کہ بعض اوقات مباحثہ میں مجھے شکست خوردہ ہونے کا احساس ہوتا تھا.ایک دن لیور پول شہر (LIVERPOOL) کے ہوٹن (HUY TON) نامی محلہ کے ایک گرجے میں جانے کے لئے مجھے دعوت دینے والی اور گر جا کی عبادت کے بعد پادری صاحب کے ساتھ میرا تعارف کرانے والی ایک مخلص انگریز عورت نے تعارف کے وقت یہ صاحب ترک ہیں.حضرت

Page 816

تاریخ احمدیت.جلد 24 776 سال 1968ء عیسی علیہ السلام ) کی بجسده العنصر کی آمد ثانی) پر ایمان رکھتے ہیں.گویا کہ ایک لحاظ سے عیسائی ہی ہیں“ کے الفاظ استعمال کئے.بے چاری عورت نے قبل از میں جو کچھ میں نے اسے بتایا تھا اس کو اور بالخصوص میرے ان الفاظ کو یاد کر کے کہ ”ہم مسلمان بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے دوبارہ آنے کے قائل ہیں، مجھے ایک لحاظ سے عیسائی کے طور پر متعارف کرانے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی تھی.لیکن کیا عملاً ایسا نہیں ہے؟ کیا ہم مسلمان بھی ان عیسائیوں کی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے (بجسده العنصری ) دوبارہ آنے پر ایمان نہیں رکھتے ؟ ہمارے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ عیسائیوں کے مشابہ مت بننا.لیکن ہم نے زیادہ تر شکلی اور سطحی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر صدیوں عمل کیا اور رسم و رواج اور عادات کے لحاظ سے عیسائیوں سے مختلف رویہ اپنانے کی کوشش کرتے رہے مگر حضرت عیسی علیہ السلام کی (بجسده العنصری ) دوبارہ آمد جیسے بے حد خطرناک عقیدہ میں نادانستہ طور پر ان کے ہم آواز بن گئے.آج پادری صاحب کے ساتھ ایک لحاظ سے عیسائی کے طور پر متعارف کرائے جانے کے دن کو یاد کر کے نیز یہ سوچ کر مجھے سخت افسوس ہوتا ہے کہ اس دن میں اپنے پیارے دین کی حفاظت نہ کر سکا اور کس طرح اس خوبصورت دین کو صحیح رنگ میں پیش نہ کر سکا.اور کیسے ایک مثالی مسلمان نہ بن سکا لیکن ساتھ ہی آج میں یہ یاد کر کے کہ حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وفات پاچکے ہیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح میدان میں آکر اور یہ اعلان کر کے کہ یاد رکھو کہ حضرت عیسی علیہ السلام وفات پاچکے ہیں.یہ دیکھو ان کی قبر یہاں (کشمیر میں ) ہے.ابدیت صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، ہمیں نصاریٰ کی مشابہت سے بچالیا ہے.یہ سب کچھ یاد کر کے اور اس آواز کو میرے کانوں تک پہنچانے والے جناب حق تعالیٰ کو یاد کر کے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے جملہ اہل ایمان بھائیوں کو بھی حقیقی ہدایت نصیب کرے.آمین.جتنا عرصہ میں انگلستان میں رہا.میں اپنے علوم قرآنیہ میں اضافہ کی کوشش کرتا رہا.سڑکوں پر یسوع اب آنے ہی والا ہے (CHRIST IS RISING NOW) قسم کے گر جا کے نعروں کو دیکھ کر ان نعروں پر ایمان رکھنے والا ایک مسلمان ہونے کے باوجود میرا دل ایک عجیب احساس سے بھر جاتا تھا.

Page 817

تاریخ احمدیت.جلد 24 777 سال 1968ء ۱۹۶۶ء میں انگلستان میں کام کرنے والے غیر ملکیوں کے خلاف سخت تدابیر اختیار ہونی شروع ہو گئی تھیں ہم بمعہ اہل وعیال ترکی واپس کو ٹنے ہی والے تھے کہ بالکل ہی خلاف امید جگہ پر یعنی ناروے میں مجھے کام ملنے کی صورت پیدا ہو گئی اور ہم اوسلو (OSLO) روانہ ہو گئے.ایک دن میری بیوی نے ناروے کا سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اخبار AFTENPOSTEN میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا یہ دیکھئے ایک نارویجین دین اسلام کی مدافعت کر رہا ہے“.۲۰ جنوری ۱۹۶۸ء کی تاریخ کے اس اخبار کے ضمیمہ میں ٹرولس بولسٹاڈ (TRULS BOLSTAD) نام کے ایک نارو یحین نے اخبار میں اس سے پہلے شائع ہونے والے ایک مضمون میں دین اسلام کے بارہ میں غلط اور نا تمام معلومات کے موجود ہونے کی نشاندہی کی ہوئی تھی.نیز یہ بیان کیا ہوا تھا کہ :.دین اسلام صاحب مضمون کے دعوئی کے مطابق مختلف مذاہب اور ادیان کے مجموعہ کا نام نہیں.ہم مسلمانوں کے نزدیک دیگر ادیان، انسانوں کو ایک مکمل دین کی خاطر تیار کرنے والے ہیں.بذات خود یه ادیان مکمل دین یعنی دینِ اسلام تک پہنچنے کے لئے ایک زینہ کی حیثیت رکھتے ہیں.اس کے علاوہ مسلمانوں کی تعداد دوصد یا تین صدملین نہیں ہے بلکہ یونیسکو (UNESCO) کی آخری (۱۹۶۷ء کی ) سالانہ رپورٹ کے مطابق ہم مسلمانوں کی تعداد چھ صد چھیاسٹھ ملین ہے.ان مسلمانوں میں سے ہر سو ملین کے حساب سے ایک مسلمان ناروے میں موجود ہے.میرے دل میں دین اسلام کا اس طرح دفاع کرنے والے اس نارویجین کے ساتھ متعارف ہونے کا بے حد شوق پیدا ہوا.موصوف کے بیان کے مطابق دنیا کے مسلمانوں میں سے ہر سوملین کے حساب سے ایک مسلمان ناروے میں رہتا ہے.اس کا مطلب یہ ہوا کہ ناروے میں چھ یا سات مسلمان موجود ہیں میں نے اخبار کے مدیر التحریر کو ایک خط لکھا.اس خط میں ہی ایک خط میں نے نارویجین مسلمان بھائی کے نام لکھ کر رکھ دیا.اور مدیر صاحب سے گذارش کی کہ یہ خط مرسل الیہ تک پہنچا دیں کیونکہ اخبار میں ان کا پتہ موجود نہیں.چند ہفتوں کے بعد نارویجین مسلمان بھائی (جن کا پرانا نام ٹرولس بولٹا ڈ TRULS BOLSTAD اور اسلامی نام نوراحمد ہے ) کا ایک خط مجھے ملا.سولہ سال کی عمر میں اسلام کی نعمت سے مشرف ہونے والے اس بھائی کے ذریعہ پہلی بار مجھے اسلام میں احمدیہ تحریک کے بارہ میں علم ہوا.اور میں نے ان کتب اور رسائل کا مطالعہ شروع کر دیا جو اس بھائی نے مجھے بھیجے تھے.اسی اثناء میں میں نے ترکی میں اپنے ایک دوست کو خط لکھ کر مسیح موعود علیہ السلام کا 66

Page 818

تاریخ احمدیت.جلد 24 778 سال 1968ء ذکر کیا اور اسے پوچھا کہ کیا مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی نشانی کے طور پر رمضان کے مہینہ میں سورج کو بھی اور چاند کو بھی گرہن لگنے کے بارہ میں کوئی حدیث موجود ہے یا نہیں.اس کے جواب میں میرے دوست نے مجھے لکھا کہ میں نے حکومت ترکی کے دفتر امور دینیہ کے ساتھ رابطہ قائم کر کے اس بارہ میں معلومات حاصل کی ہیں.ان کے بیان کے مطابق ایسی ایک حدیث واقعی مروی ہے.مگر یہ ضروری ہے کہ رمضان کے پہلے دن چاند گرہن نہیں بلکہ سورج گرہن ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے اس سوال کا دل و دماغ کے لئے مناسب ترین جواب مل گیا جس نے کئی سال تک مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور جس کی وجہ سے میرا آرام اُڑ چکا تھا.اس طرح مجھے سکون نصیب ہوا.مگر میں یقین کے مقام تک پہنچنا چاہتا تھا.ایک دن میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کے مطابق اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حقیقت حال کو مجھ پر واضح کرے.اس کے بعد میں سو گیا.خواب میں میں نے دیکھا کہ چار ہندوستانی ایک لمبے تابوت میں ایک نعش کو اٹھا کر لے جا رہے ہیں.تابوت کے اندر موٹے کپڑے میں موجود ی نعش حضرت عیسی علیہ السلام کی مبارک نعش ہے.اس خواب کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی باقی تمام انبیاء علیہم السلام کی طرح، نیز ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح وفات پاچکے ہیں.اس بات کا دعویٰ کرنے اور اس کو ثابت کرنے کا مطلب فی الواقع کسر صلیب ہے.ورنہ گر جاؤں کی چھتوں پر چڑھ کر صلیب کو توڑنا قرآن کریم اور سنت رسول کے خلاف ہے.یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ حق تعالیٰ نے مسلمانوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے.ایسا خیال قبول نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ ضروری ہے کہ ہماری صدی کا بھی ایک امام ہو.مگر وہ امام ہے کہاں؟ لیجئے وہ امام آ بھی چکا اور کسر صلیب کر بھی چکا.آپ نے یہ اعلان کیا کہ میں ہی مسیح اور مہدی ہوں.رسل و رسائل اور مطبوعات کی ترقی والی اس صدی کے سر پر ساری دنیا کی آنکھوں اور کانوں کے سامنے آپ نے اس پادری کو للکارا جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا وقت اب قریب ہے اور میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کی خوشخبری دینے والا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں.اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے دعوی کو حیرت انگیز طور پر جیتا.آپ نے اسی کے قریب بہت ہی قیمتی کتا بیں لکھیں اور یہ ثابت کیا کہ آپ ایک زبر دست عالم دین ہیں.آپ نے ماحول پر بے حد اثر کیا.لاکھوں لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے.آپ نے اسلام میں حقیقت کی طرف یعنی قرآن کریم

Page 819

تاریخ احمدیت.جلد 24 779 سال 1968ء اور سنت رسول کی طرف رجوع کی تحریک کو شروع فرمایا.اور شروع ہی سے یہ اعلان فرمایا کہ یہ تحریک تمام دنیا میں پھیل جائے گی.اور حال میں قطب شمالی کے بہت نزدیک ( جہاں چار ماہ کی رات ہوتی ہے ) ایک چھوٹے سے قصبہ سے آنے والے ایک خط کے ذریعہ اس امام کے نام کو پہلی دفعہ سن رہا تھا.ہمارے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق کہ ایک وقت آئے گا کہ مسلمان تہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے اور ان میں سے صرف ایک فرقہ صراط مستقیم پر ہو گا.ہمارے زمانہ میں یہ فرقہ واحدہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہی ہو سکتی تھی جن کا ایک امام تھا.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چودھویں صدی اختتام کے قریب تھی.اس لئے ضروری تھا کہ مسیح اور مہدی آپ کا ہو.میں نے چودھویں صدی کے اختتام کا انتظار نہ کیا.اپنے اہل وعیال کے ساتھ تر کی واپس آتے ہوئے کوپن ہیگن میں احمد یہ سنٹر کی زیارت کی اور امام کمال یوسف صاحب کے ساتھ متعارف ہوا.نہایت درجہ سادہ اور نمود و نمائش سے دور عاجزانہ طور پر بنائی گئی خوبصورت مسجد میں، میں نے اپنے چھوٹے بچے کو پہلی دفعہ نماز پڑھائی.اس کے اسی طرح سادہ، صاف ستھری اور شیریں (اور پیاری) مسجد میں پہلی دفعہ نماز پڑھنے پر میں بے حد خوش تھا.کیونکہ حقیقی اسلام کا عقیدہ، طرز رہائش اور عبادت سادہ، صاف ستھری اور پیاری ہے.اور نمود و نمائش سے بہت دور ہے.کوپن ہیگن سے وطن واپس آتے ہوئے راستہ میں کار چلاتے ہوئے مجھے یہ احساس تھا کہ میں اپنے دین میں صراط مستقیم پر آگے بڑھ رہا ہوں.اس سے مجھے حقیقی خوشی نصیب ہوئی.INVITATION کا ترکی زبان میں ترجمہ کرنے والے، گہرا دینی مطالعہ رکھنے والے اور صاحب علم ہمارے قابل صد احترام بزرگ جناب شناسی سی بر صاحب (SINASI SIBER) کے ساتھ از میر میں ہماری پہلی ملاقات کے موقع پر انہوں نے مجھے خلاصہ یوں فرمایا :.”بیٹا ! میں قبرص میں پیدا ہوا اور بڑا ہوا.اپنے ماحول سے، نیز غیر ملکی زبان کے طور پر انگریزی زبان اور اس کے لٹریچر سے میں نے مغربی کلچر حاصل کیا.ہمارے دین کی تفسیر اور تدقیق کرنے والے بعض تنگ نظر اہل دین محققین کے بیانات اور اعمال کو دیکھ کر قریب تھا کہ میں عیسائی ہو جاؤں.خدا تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام نے مجھے اس بد انجام سے بچالیا ہے“.کچھ عرصہ کے بعد مکرم و محترم جناب مرزا مبارک احمد صاحب انقرہ تشریف لائے اور ہمارے گھر کو بھی شرف بخشا.ہوائی اڈہ پر موصوف کو رخصت کرتے ہوئے میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر کیا کہ اس نے

Page 820

تاریخ احمدیت.جلد 24 780 سال 1968ء مجھے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ پر قدم مارنے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور خوشخبری کے مطابق آنے والے مسیح موعود اور مہدی علیہ الصلوۃ والسلام کے پوتے سے گلے ملنے کا شرف عطا فرمایا ہے.کیونکہ وہی ہے جو ، جس بندے کو چاہتا ہے بلند کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نیچا کر دیتا ہے.ہم اس کے غضب سے اسی کی ہی پناہ مانگتے ہیں اور اسی سے ہدایت اور مدد کے طلبگار ہیں.51

Page 821

تاریخ احمدیت.جلد 24 781 سال 1968ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی جناب سید جواد علی صاحب سیکرٹری امریکہ مشن نے ۳۲ مارچ ۱۹۶۸ء کو آکسفورڈ شہر کے ویسٹرن کالج میں متعد دلیکچر دئیے اور اسلام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.نیز سوالات کے جوابات دیئے.طلباء اور پروفیسروں نے گہری دلچسپی کا اظہار کیا.ازاں بعد ڈیٹن کے ایک چرچ میں بھی ان کا لیکچر ہوا.ڈیٹن کے قریب ایک اور چرچ کے طلباء کی طرف سے آپ کو مدعو کیا گیا.طلباء کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی.یہاں بھی آپ نے اسلام کا تعارف کرایا.ڈیٹن انٹر نیشنل کلب کے ایک اجلاس میں آپ نے قرآن مجید اور احادیث کی دعاؤں کا متن اور ان کا انگریزی ترجمہ سنایا.اسلامی دعاؤں کی جامعیت اور افادیت سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.اخبار ڈیٹن ڈیلی نیوز نے آپ کا انٹرویو تصویر دے کر شائع کیا.خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشان دربارہ ڈاکٹر ڈوئی کو اس اخبار نے نمایاں جگہ دی.جس کے نتیجہ میں بعض احباب مزید معلومات کے حصول کے لئے مشن میں تشریف لائے.جناب سید جواد علی صاحب نے اپنی سہ ماہی رپورٹ (جنوری تا مارچ ۱۹۶۸ء) میں لکھا کہ:.”بہائی مذہب کے دو جلسوں میں مجھے شرکت کے لئے دعوت دی گئی.یہ جلسے شکاگو میں منعقد ہوئے اور ان کی اچھی طرح پہلیٹی کی گئی.ان جلسوں میں وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ تمام مذاہب بے کار ہو گئے ہیں اور اب بہائیت ہی نئے زمانے کی ضروریات پورا کر سکتی ہے.میں نے پہلی میٹنگ میں تعدّ دازدواج اور اسلام میں عورت کے مقام پر لیکچر دیا جو بہت کامیاب رہا.اس مذہب کے اکثر ممبر یہ نہیں جانتے کہ خود عبد البہاء کی دو بیویاں تھیں اس حقیقت کے اظہار پر وہ بہت حیران ہوتے ہیں.دوسرے اجلاس میں پہلے اجلاس میں کی گئی تقریروں پر سوالات اور ان کے جوابات پر وقت دیا گیا تھا.عام لوگ اس اجلاس میں مدعو نہیں کئے گئے تھے.علاوہ ازیں بہائیوں نے اپنے مرکزی مقام لمیٹ سے ایک خاص مقر ر اس موقع پر بلایا.جب ہماری بولنے کی باری آئی تو ہم نے دوبارہ اسلام میں عورت کا مقام“ کو پیش کیا اور یہ ثابت کیا کہ اب اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جو مستقبل میں

Page 822

تاریخ احمدیت.جلد 24 782 سال 1968ء انسانوں کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے.اس موقع پر کثرت سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے اس پیغام سے حوالے دیئے گئے جو کہ حضور نے یورپ کے سفر کے دوران دیا.بہائی مقرر بہت گھبرایا اس نے تیار شدہ نوٹس پھینک دیئے.سوالوں کے وقت احمدیوں نے مقرر سے ان کی کتاب اقدس پر سوالات کئے.(اقدس کا پہلا مستند ایڈیشن خالد احمدیت ابو العطاء صاحب جالندھری نے دسمبر ۱۹۴۰ء میں اپنی کتاب بہائی تحریک پر تبصرہ میں شائع کیا اور اس کے عربی متن کے ساتھ ترجمہ بھی سپرد قلم کر کے بہائی شریعت کو ساری دنیا پر بے نقاب کر دیا.یہاں کی بہائی جماعت کے ممبر بہت پریشان نظر آتے ہیں.66 مشن کی طرف سے اس سال تھیں ہزار اشتہارات شائع کر کے شکا گو، سینٹ لوئیس اور ملوو کی وغیرہ مشنوں میں تقسیم کئے گئے.مشن میں آنے والے زائرین اور ذاتی ملاقاتوں کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچانے کا سلسلہ اس سال بھی جاری رہا.اسی طرح ٹیلیفون کے ذریعے اسلام پر معلومات پہنچانے کا بھی.چنانچہ جولائی تا ستمبر ۱۹۶۸ ء تک جن متلاشیان حق سے بذریعہ ٹیلیفون رابطہ کیا گیا ان کی تعداد ۵۰ کے قریب ہے.جماعت احمد یہ امریکہ کی ایسویں سالانہ کانفرنس ڈیٹن میں ۳۱ راگست و یکم ستمبر کومنعقد ہوئی.جس میں امریکہ کے طول و عرض سے احمدی نمائندگان تشریف لائے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس مبارک تقریب پر نہایت ایمان افروز پیغام دیا.جس میں امریکن احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.آپ سچائی کے محافظ ہیں.انسانیت کی مشکلات و مصائب کو دور کرنے کی چابی آپ کے ہاتھ میں ہے.آپ نے نسل دورنگ کا امتیاز دور کرناہے اور لوگوں کو ان کے خالق سے ملانا ہے اسی کنجی کیلئے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کرام کے نقش قدم پر چل کر ہی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.آپ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق قائم کرنے کی سعی کریں اور اسی کی راہنمائی چاہیں.آپ نے دلوں کو فتح کرنا اور روحوں میں انقلاب پیدا کرنا ہے اور بنی نوع انسان کو تباہ ہونے سے بچانا ہے.اس لئے آرام کرنے اور ستی کا یہ وقت نہیں بلکہ ہمت و کوشش کر کے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کریں اور پھر دوسروں

Page 823

تاریخ احمدیت.جلد 24 783 سال 1968ء کی اصلاح کریں.گو ہم کمزور ہیں مگر الہی سکیم کا حصہ ہیں اگر ہم اپنے آپ کو اس کے اعتماد کے اہل ثابت کر دیں تو انشاء اللہ روحانی انقلاب پیدا کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا ہمارا انعام ہوگا“.حضور کا یہ روح پرور پیغام قریشی مقبول احمد صاحب انچارج احمد یہ مشن امریکہ نے پڑھ کر سنایا.کانفرنس سے خطاب کرنے والے بعض ممتاز مقررین کے نام یہ ہیں.سید جواد علی صاحب (حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے متعلق پیشگوئیاں ).ڈاکٹر ناصر احمد صاحب خلیل (ذکر حبیب ).احمد شہید صاحب امیر پٹس برگ اسلامی نظریہ اخلاق اور اس کا حصول ).بشیر افضل صاحب امیر نیویارک ( حضرت مصلح موعود ) - محمد قاسم صاحب امیر ڈیٹن (اسلام اور مسئلہ نسل ).قریشی مقبول احمد صاحب ( ہماری گذشتہ تاریخ اور اس کا اثر ).عبدالرحمن صاحب امیر بالٹی مور (اسلام اور شادی ).محمد صادق صاحب امیر و وکیگن ( مسیح موعود کے متعلق ویدوں میں پیشگوئی ).عبدالکریم صاحب امیر شکاگو (پڑوسیوں کے حقوق ).منیر احمد صاحب امیر سینٹ لوئیس (ترقی احمدیت).سلیم احمد صاحب امیر لوئی ول ( محبت اور جماعتی اتحاد ).کانفرنس کے دوران جماعت احمدیہ کی ذیلی تنظیموں کے الگ الگ اجتماعات ہوئے.نیز مجلس مشاورت کا انعقاد ہوا.اس کانفرنس کی خبر اخبار ڈیٹن ڈیلی 54 نیوز میں باتصویر شائع ہوئی.اخبار ڈیٹن ڈیلی نیوز نے اپنے ۲۷ جون ۱۹۶۸ء کے اداریہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس ناموں کا غیر مناسب رنگ میں استعمال کیا.جس کے خلاف سید جواد علی صاحب نے زبر دست احتجاج کیا.اور اللہ اور محمد کے ناموں کا غلط استعمال کے زیر عنوان ایک نوٹ سپرد قلم کیا جو اس اخبار نے ۱۰ جولائی ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں دیا.سید جواد علی صاحب نے اس نوٹ میں لکھا:.مذکورہ پیرا میں اللہ اور محمدعلی اللہ کے الفاظ ایسے غیر موزوں طور پر استعمال کئے گئے کہ انہیں ایک مسلمان پڑھ کر اس احساس کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ لکھنے والا ان لوگوں کے جذبات سے کھیل رہا ہے جو انہیں تمام چیزوں سے زیادہ محبوب سمجھتے ہیں.اللہ کا لفظ اسلام میں اس کے ذاتی نام کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ اس کے دوسرے اسماء اس کی صفات ہیں.اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے بانی کا نام ہے اور انہیں مسلمان باقی انبیائے کرام جیسے حضرت عیسی ، حضرت موسیٰ ، حضرت ابراہیم ، حضرت یعقوب علیہم السلام سے زیادہ مقدس گردانتے ہیں.دراصل ان انبیاء کرام کی سچائی کی تصدیق بھی

Page 824

تاریخ احمدیت.جلد 24 784 سال 1968ء آنحضرت ﷺ نے ہی کی ہے ورنہ بائیل نے ان میں سے ہر ایک کی نسبت کوئی نہ کوئی گناہ کے ارتکاب کا تحریر کیا ہے اس لئے میں ان اسماء کا اس رنگ میں استعمال ( جو لوکل محاورہ کے نام پر کیا گیا ہے) پر سخت احتجاج کرتا ہوں اور معزز اخبار سے امید رکھتا ہوں کہ وہ اس پر معذرت کریں گے اور آئندہ ایسے استعمال سے گریز کریں گئے.پٹس برگ کی لجنہ کی طرف سے ۳۰ جون ۱۹۶۸ءکو یوم التبلیغ منایا گیا.اس کے علاوہ یونیورسٹی آف ڈیٹن انٹر نیشنل کلب کی میٹنگ میں مکرم مولوی مقبول احمد قریشی مبلغ انچارج نے شرکت کی.اس میں طلبہ وطالبات کو اور خصوصا طلباء کے صدر کو تبلیغ کی گئی.56 انگلستان جماعت ہائے احمد یہ انگلستان نے عیدالاضحیہ کی مبارک تقریب مورخه ۱ مارچ ۱۹۶۸ء بروز اتوار پورے اہتمام سے منائی.لنڈن کے علاوہ ہڈرزفیلڈ ، گلاسگو، بریڈفورڈ اور لیڈز میں علی الترتیب مکرم بشیر احمد صاحب آرچرڈ مبلغ سکاٹ لینڈ ، کرم کمال الدین صاحب امینی ، مکرم میر ضیاء اللہ صاحب اور مکرم سید ناصر احمد صاحب نے نماز عید پڑھائی اور حاضرین کی مشروبات سے تواضع کی.لنڈن میں نماز عید بیٹری (Battersea) ٹاؤن ہال میں مکرم بشیر احمد صاحب امام مسجد لنڈن نے پڑھائی.اسی روز شام ساڑھے سات بجے شیلٹن ہال ساؤتھ آل میں جماعت احمد یہ مڈل سیکس نے ایک عید ملن پارٹی کا اہتمام کیا جس میں ڈیڑھ صد کے قریب انگریز اور غیر مسلم معززین مدعو تھے.اجلاس کے اختتام پر میئر آف ایلنگ نے قرآن کریم لینے کی خواہش ظاہر کی جس پر لنڈن مسجد کی طرف سے انہیں قرآن کریم بطور تحفہ پیش کیا گیا.اس سال جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لنڈن نے احباب جماعت کے مشورہ سے ایک نو نکاتی پروگرام پیش کیا.اور طے پایا کہ سال میں کم از کم چار یوم التبلیغ منعقد کئے جائیں.غیر مسلموں خصوصاً انگریزوں کو مدعو کر کے جلسے منعقد کئے جائیں.انگلستان کی لائبریریوں میں لٹریچر بھجوایا جائے.رسالہ مسلم ہیرلڈ“ کی اشاعت وسیع کی جائے.کم از کم پچاس ہزار پمفلٹ شائع کر کے تقسیم کئے جائیں.پریس اور ٹیلیویژن سے خصوصی رابطہ قائم کیا جائے.پروگرام کے مطابق پہلا یوم التبلیغ ۱۷ مارچ ۱۹۶۸ء کو پُر جوش انداز میں منایا گیا.اس موقع پر

Page 825

تاریخ احمدیت.جلد 24 785 سال 1968ء پمفلٹ "?WHAT IS ISLAM" پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا.علاوہ ازیں نمائشی چارٹ تیار کر کے لنڈن اور دیگر مقامات پر آویزاں کئے گئے.انگلستان کے احمدی اس روز شہر شہر میں سارا دن گھوم پھر کر لٹریچر تقسیم کرتے اور تبلیغ کرتے رہے.اس طرح ایک دن میں انگلستان کے لاکھوں انسانوں تک حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمانی پیغام پہنچ گیا.اس تقریب کو کامیاب بنانے میں غلام احمد صاحب چغتائی نے غیر معمولی جدوجہد فرمائی.جماعت کے مخلص دوست عبد العزیز دین صاحب اس روز بعض اور دوستوں کے ساتھ ہائیڈ پارک تشریف لے گئے.اور دو گھنٹے تک انگریزوں کو تبلیغ کی.اسی روز ایک احمدی وفد جناب لئیق احمد صاحب طاہر مبلغ انگلستان کی قیادت میں، اڈاؤننگ سٹریٹ پہنچا.اور وزیر اعظم برطانیہ مسٹر ولسن کے لئے ان کے نمائندے کو دینی لٹریچر کا تحفہ پیش کیا.شام چار بجے اور پھر چھ بجے بی بی سی ریڈیو نے جماعت احمدیہ کے یوم التبلیغ اور مسٹر ولسن کولٹر پچر پیش کئے جانے کی خبر نشر کی.اخبار دی گارڈین (THE GUARDIAN) نے ۱۸ مارچ ، وانڈ ز ورتھ بارو نیوز (WANDSWORTH BOROUGH NEWS) نے ۲۲ مارچ اور ڈیلی میل(DAILY MAIL) نے بھی مندرجہ بالاخبر شائع کی.اس پہلے یوم التبلیغ کے آٹھ نمایاں اثرات ظاہر ہوئے.(۱) جماعت کے افراد میں پہلے سے کہیں بڑھ کر اعتماد اور تبلیغ اسلام کا جوش پیدا ہو گیا.(۲) جماعت تنظیمی اعتبار سے مشن سے زیادہ وابستہ ہوگئی.(۳) متعدد انگریزوں نے اسلام سے متعلق بذریعہ خطوط و ٹیلی فون مزید لٹریچر کا مطالبہ کیا.(۴) مارمن چرچ کے ایک انگریز پادری حلقہ بگوش اسلام ہوئے.(۵) متعدد انگریز مشن کے ماہنامہ مسلم ہیرلڈ کے خریدار بن گئے.(۶) غیر از جماعت مسلمانوں میں سے سعید فطرت لوگوں نے جماعت کی پُر خلوص خدمات کا کھلا اعتراف کیا.(۷) مشن میں آنے والے انگریزوں اور مسلمانوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا.(۸) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جماعت کے متعددافراد کو اپنی علمی اور روحانی قابلیت کا احساس ہوا.دوسرا یوم تبلیغ ۱۸ مئی کو منعقد ہوا.لنڈن کی جماعت کے لئے ۵۰ خوبصورت Placards تیار کروائے گئے.دوصد اخبارات کو یوم تبلیغ کے انعقاد سے قبل اس کی ضرورت اور اہمیت اور جماعت

Page 826

تاریخ احمدیت.جلد 24 786 سال 1968ء احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں سے متعلق تفصیلی سرکر بھجوایا.اور یوم تبلیغ کے بعد اس کی کامیابی اور مفید اثرات پر مشتمل سرکلر دوصد ملکی اور لوکل اخبارات کو ارسال کیا گیا.انگلستان کے دس اخبارات نے جلی سرخیوں کے ساتھ یوم تبلیغ کی خبریں شائع کیں.جن میں اخبار ”ٹائمنز بھی ہے.دوسرے یوم تبلیغ کے موقع پر مشن نے احباب جماعت کو یہ خصوصی ہدایت کی تھی کہ وہ انگریزوں سے زیادہ سے زیادہ پتہ جات حاصل کرنے کی کوشش کریں.چنانچہ متعدد دلچسپی رکھنے والے انگریزوں کے پتہ جات مشن کو موصول ہوئے جنہیں مزید لٹریچر ارسال کیا گیا.دوسرے یوم تبلیغ میں موسم بہت خراب رہا.سارا دن بارش ہوتی رہی.لیکن ہمارے احمدی دوست اس کی پرواہ کئے بغیر ہر جگہ تبلیغ کرتے رہے.ان کی اس قربانی کا انگریزوں اور مسلمانوں پر بہت اثر ہوا.متعدد افراد جماعت نے اس روز انگریزوں کو اپنے ہاں مدعو کر کے انہیں پیغام حق پہنچایا.انگلستان کے مندرجہ ذیل اخبارات نے یوم تبلیغ کا ذکر کیا.(1) SOUTHALL POST.(2) SOUTHALL CHRONICLE.(3) SOUTHALL NEWS.(4) MIDDLESEX COUNTY TIMES.(5) MIDDLESEX ADVERTISER.(6) MIDDLESEX CHRONICLE HOUNSLOW.(7) THE WIMBLEDON NEWS (MAY 24, 1968).(8) LANCASHIRE EVENING POST.(MAY 20, 1968).اس سال انگلستان کی جماعتوں نے متعدد تبلیغی جلسے منعقد کئے.جن میں خاص طور پر انگریزوں کو مدعو کیا گیا.ان جلسوں کی رپورٹیں جن اخبارات میں شائع ہوئیں ان کے نام یہ ہیں.(1) HILLINGDON MIRROR (MARCH 5, 1968).(2) COUNTY TIMES AND GAZETTE (MARCH 15, 1968) (3) SOUTHALL CHRONICLE.(MARCH 21, 1968) (4) BALHAM AND TOOTING NEWS.(MARCH 22, 1968) (5) THE POST AND MERCURY (MARCH 20, 1968) نو نکاتی پروگرام کی ایک شق یہ تھی کہ اس سال کثرت سے برطانوی پریس سے خصوصی رابطہ قائم کیا جائے اور اسلام سے متعلق مضامین اور جماعت احمدیہ کی کارگذاری کی خبریں چھپوائی جائیں.اس

Page 827

تاریخ احمدیت.جلد 24 787 سال 1968ء مقصد میں بہت کامیابی ہوئی.چند اخبارات کے اقتباسات کے خلاصے درج ذیل کئے جاتے ہیں.(۱) اخبار BECKENHAM AND PENGE ADVERTISER نے اپنے شماره ۲۲ فروری ۱۹۶۸ء میں جلی عنوان کے ساتھ لکھا:.اسلام باوجود ایک تاریخی مذہب ہونے کے بھی مغرب میں متعدد غلط فہمیوں کا شکار ہے.ان الفاظ کے ساتھ لنڈن مشن کے امام نے جور و ٹیرین بھی ہیں، اپنی تقریر کا آغا ز کیا.اس کے بعد اخبار نے تفصیلی طور پر اس تقریب کی رپورٹ شائع کی اور اسلامی تعلیمات دربارہ تعد دازدواج، اسلام میں عورت کا مقام وغیرہ کا تفصیل سے ذکر کیا.(۲) اخبار THE LONDON ROTARIAN نے اپنے مارچ ۱۹۶۸ء کے شمارہ میں اسلام کی جلی سرخی کے ساتھ امام صاحب کی پوری تقریر ایک صفحہ پر مشتمل شائع کی.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت، قرآن کے منجانب اللہ ہونے کے ثبوت وغیرہ کا تفصیلی ذکر کیا.(۳) اخبار THE GUARDIAN اور DAILY MAIL نے اپنی ۱۸ مارچ ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں اور اخبار WANDSWORTH BOROUGH NEWS نے اپنی ۲۲ مارچ کی اشاعت میں ذکر کیا کہ لئیق احمد صاحب طاہر نے ۰ا ڈاؤننگ سٹریٹ میں قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب پیش کیں.پہلے یوم تبلیغ کا بھی ذکر کیا.(۴) اخبار SOUTH WESTERN STAR نے اپنی اشاعت ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء میں مسلم کمیونٹی کی عظیم الشان ترقی کے عنوان سے امام صاحب مسجد فضل لنڈن کا ایک انٹرویو شائع کیا.(۵) اخبار WANDSWORTH BOROUGH NEWS نے اپنی ۱۵مارچ ۱۹۶۸ء کی اشاعت میں عید الاضحیہ کی تقریب کی رپورٹ شائع کی.(1) اخبار THE TIMES نے اپنی اشاعت ۷ امئی ۱۹۶۸ء میں جماعت احمد یہ برطانیہ کے دوسرے یوم تبلیغ کا ذکر کیا.اور اس کی سرگرمیوں کو سراہا.اس اخبار کی لندن سے روزانہ کئی لاکھ کی تعداد میں اشاعت تھی.۲۵ راگست ۱۹۶۸ء کو انگلستان کی احمدی جماعتوں کا بہت کامیابی کے ساتھ تیسرا یوم التبلیغ منایا گیا اور اسلام کا پیغام غیر مسلموں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیا گیا.تبلیغ کے لئے روانہ ہونے سے

Page 828

تاریخ احمدیت.جلد 24 788 سال 1968ء احباب مسجد فضل لندن میں جمع ہوئے جہاں اجتماعی دعا ہوئی اور انہیں مناسب ہدایات دی گئیں.اس کے بعد احباب روانہ ہوئے انہوں نے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے جن پر صداقت اسلام کے متعلق مختلف فقرات درج تھے.اس موقع پر تمیں ہزار اشتہارات بھی تقسیم کئے گئے.احباب دن بھر سڑکوں گلیوں کو چوں میں پھر کر تبلیغ اسلام کرتے رہے اور لٹر پھر بھی تقسیم کیا نیز لوگوں کے سوالات کے جوابات دے کر انہیں اسلام کے متعلق معلومات بہم پہنچا ئیں گئیں.مختلف طبقات اور مختلف ممالک کے افراد نے اسلام میں گہری دلچسپی لی.احمدی بچوں نے بھی بڑے جوش سے تبلیغ اسلام میں حصہ لیا.58 سال ۱۹۶۸ء کا چوتھا اور آخری یوم التبلیغ و راکتو بر کو پر جوش طریقے سے منایا گیا.اسلام کے خوبصورت پیغام پر مبنی ایک سو کے قریب بڑے بڑے چارٹس اور پلے کارڈ ز تیار کئے گئے.احباب کو گروپوں میں تقسیم کر کے مسجد فضل سے اجتماعی دعا کے ساتھ رخصت کیا گیا.اس دن ہزاروں کی تعداد میں لٹریچر کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچایا گیا.حلقہ ساؤتھ ہال میں جب دوست پلے کارڈ اٹھائے ہوئے روانہ ہوئے تو ایک انگریز نے جو پاس سے گزر رہا تھا بڑے غصہ سے کہا کہ اگر تم نے یہ پلے کارڈ کہ Jesus did not die on the cross دکھانا بند نہ کیا تو فساد ہو جائے گا.تب ان کو سمجھایا گیا کہ میچ کے صلیب سے بچ جانے میں تو ان کی عزت ہے.صلیب پر وفات پا جانا تو لعنتی موت ہے اور ہم ایک لحظہ کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے کسی برگزیدہ بندہ کولعنتی قرار نہیں دے سکتے.ایک پادری صاحب نے ایک گروپ لیڈر سے دوران بحث کہا کہ تمہاری یہ بات کہ مسیح مصلوب نہیں ہوئے مان لی جائے تو پھر عیسائیت کا خاتمہ ہو جاتا ہے.ساؤتھ ہال کے متعدد اخبارات میں یوم التبلیغ کی کارگزاری شائع ہوئی.دو اخبارات Southall Post اور Hayes Post نے پہلے صفحہ پر تصویر کے ساتھ اس دن کی مفصل کارروائی شائع کی.ہڈرزفیلڈ جنھم کرائیڈن، گلاسگو، برمنگھم، برسٹل اور بریڈفورڈ کی جماعتوں نے بڑھ چڑھ کر پیغام حق پہنچایا.چاروں ایام التبلیغ کے نتائج ان ایام التبلیغ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اخبارات کی توجہ اسلام کی طرف ہوئی.

Page 829

تاریخ احمدیت.جلد 24 789 سال 1968ء ۴۴ راخبارات میں اسلام احمدیت اور مسجد کا اچھے رنگ میں تعارف کروایا گیا.بعض اخبارات نے تصاویر بھی شائع کیں.انگلستان کے سب سے بڑے اخبار The Times نے بھی خبر شائع کی.ایک اخبار نے ایک احمدی دوست عبدالحمید غازی صاحب کے پانچ مضامین اسلام پر شائع کئے.اگر ان اخبارات کی مجموعی اشاعت کو دیکھا جائے تو وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس ایک سال میں انگلستان کے لاکھوں افراد تک اسلام کا مقدس پیغام پہنچایا گیا.قریباً ایک لاکھ کی تعداد میں لٹریچر مفت تقسیم کیا گیا.جس سے اسلام کی شہرت میں خاص اضافہ ہوا.59 ۲۵مئی ۱۹۶۸ء کو یارک شائر ریجن کی پہلی کانفرنس منعقد ہوئی.کانفرنس کا پہلا حصہ انگریزی زبان میں تھا اور انگریزوں کو تبلیغ اسلام کے لئے مختص تھا جس میں خان بشیر احمد خان صاحب رفیق نے عیسائی حضرات کے سوالات کے دلچسپ انداز میں جوابات دیئے.جس کا ذکر مقامی اخبار ہڈرز فیلڈ ایگزامینر HUDDERSFIELD EXAMINER نے شام کی اشاعت میں کیا.کا نفرنس کا دوسرا حصہ اردو پروگرام پر مشتمل تھا.جس میں لئیق احمد صاحب طاہر اور خان بشیر احمد خان صاحب رفیق نے خطاب فرمایا.کمال الدین صاحب امینی پریذیڈنٹ ہڈرز فیلڈ نے رپورٹ کارگذاری سنائی.نیز بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ جلسے کا اہتمام کیا.لنڈن سے چھتیس افراد شامل جلسہ ہوئے.اس سال کا ایک یادگار واقعہ مناظرہ ساؤتھ آل ہے.جو خان بشیر احمد خان صاحب رفیق سے ایک پادری صاحب کا ہوا.موضوع مناظرہ وفات مسیح اور رفع الی السماء تھا.تقریباً پچاس افراد اس مناظرے کے لئے چرچ ہال میں جمع ہوئے.مبلغ احمدیت نے انجیل کی رُو سے ثابت کر دکھایا کہ مسیح علیہ السلام اپنی پیشگوئی کے مطابق صلیب سے زندہ اتار لئے گئے.پادری صاحب آپ کے برجستہ دلائل کا کوئی جواب نہ دے سکے.البتہ آخر میں کھڑے ہو کر صرف یہ کہا کہ میں اقرار کرتا ہوں کہ امام صاحب کئی پوائنٹس میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں.ہم دوبارہ ان کو بلا کر اس قسم کی محفل منعقد کریں گے.60 جماعت احمد یہ انگلستان کا پانچواں سالانہ جلسہ ۱۳ ۱۴ جولائی ۱۹۶۸ء کو وائنڈ رز ورتھ ہال لنڈن میں منعقد ہوا.جس میں ایک ہزار احمدی و غیر احمدی اصحاب نے شرکت کی.جلسہ کے پہلے دن کی صدارت کے فرائض سر ڈنگل فٹ کی سی.ایم.پی.پی سی نے انجام دیئے.جناب بشیر احمد صاحب

Page 830

تاریخ احمدیت.جلد 24 790 سال 1968ء آرچرڈ اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خطاب فرمایا.حضرت چوہدری صاحب کی تقریر کا عنوان تھا ”اسلام اور انسانی حقوق.آپ کے بعد صاحب صدر نے تقریر کی.جلسہ کے دوسرے روز جن فاضل مقررین نے لیکچر دئیے ان میں خان بشیر احمد خان صاحب رفیق اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت چوہدری صاحب نے سورہ فتح کے آخری رکوع کی تفسیر فرماتے ہوئے احباب جماعت کو تلقین فرمائی کہ وہ اسوہ رسول ﷺ اختیار کریں.صحابہ کرام کی مثالوں کو مد نظر رکھیں.اس راستے پر مت چلیں جس پر چل کر آج مغربی اقوام تباہ ہو رہی ہیں.کانفرنس کے آخر میں جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق نے اختصار کے ساتھ انگلستان مشن کی سالانہ رپورٹ پیش فرمائی.اور تحریک کی کہ احباب جماعت مشن کے پروگرام کو کامیاب بنانے کے لئے مال اور وقت کی قربانی پیش کریں.کانفرنس میں انگلستان کے دور ونزدیک سے جماعتوں کے تقریباً ایک ہزار افراد نے شرکت کی.لنڈن کے علاوہ کرائڈن ، ساؤتھ آل جل گھم، برمنگھم ، آکسفورڈ، لیڈز، لیمنگٹن سپا، مانچسٹر، بریڈ فورڈ ، گلاسگو، برسٹل، پریسٹن ، ہڈرزفیلڈ وغیرہ سے بھی احباب تشریف لائے.مہمانوں کی رہائش کا انتظام مختلف گھروں میں کیا گیا.اور کھانے کا انتظام بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے گذشتہ سالوں سے بہتر رہا.لجنہ اماءاللہ لنڈن نے خالد احمد صاحب اختر ناظم خوراک کی ہدایت کے مطابق ایک ہزار افراد کے لئے کھانا پکایا.خواجہ رشید الدین صاحب قمر قائد مجلس لنڈن نے جلسہ کے دیگر امور نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے.ان کی مجلس عاملہ نے پورا پورا تعاون کیا.جلسہ کے انتظامات کے لئے ایک کمیٹی مقرر کر دی گئی تھی.جس نے نہایت خوش اسلوبی سے سارے کام سرانجام دیئے.رجماعتہائے احمد یہ انگلستان کے لئے جوا مرسب سے زیادہ خوشی کا موجب ہوا.وہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا پیغام تھا جو حضور نے اس خاص موقع کے لئے ارسال فرمایا.حضور نے احباب جماعت کو سلام کا تحفہ بھیجا، جلسہ کے کامیاب ہونے اور حاضرین جلسہ کے لئے برکت کی دعا کی.اس دفعہ مشن کی طرف سے جلسہ کے موقع پر انفرادی طور پر انگریزوں کو اسلام سے متعلق تفصیل سے معلومات بھی بہم پہنچائی گئیں.ہال میں ایک نمائش کا انتظام بھی کیا گیا تھا.جس میں انگریزوں نے بہت دلچسپی لی.ایک حصہ میں قرآن مجید کے اردو، انگریزی ، ڈینیش، جرمن، سواحیلی ، ڈچ اور چند دیگر افریقی زبانوں کے تراجم رکھے گئے.اسی طرح تمام مشن ہاؤسز، ان کی مساجد اور مبلغین کی

Page 831

تاریخ احمدیت.جلد 24 791 سال 1968ء تصاویر اور ان کی دیگر تصانیف اور مطبوعات بڑی عمدگی کے ساتھ رکھی گئی تھیں.لنڈن مشن کی مطبوعات کا علیحدہ سٹال تھا.مرکز سلسلہ سے چھپنے والے تمام رسائل، اردو، انگریزی اور بنگالی بڑے قرینے سے سجائے گئے تھے.اسی طرح مرکز سے چھپنے والی تمام کتب روحانی خزائن ملفوظات ، تاریخ احمدیت ، شرح بخاری و غیرہ کتب بھی نمائش میں پیش کی گئیں.ایک نقشہ میں عالمگیر جماعتہائے احمدیہ کی نشاندہی کی گئی تھی.وزیر اعظم ماریشس ( Sir Seewoosagur Ramgoolam) کی انگلستان آمد پر مکرم جناب بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد لندن نے ان کی خدمت میں اسلامی لٹریچر پیش کیا.امام صاحب نے مختلف کلبوں میں جا کر تقاریر کیں جن کے نتیجہ میں ایک انگریز عیسائی نے اسلام قبول کیا اور اس کا نام محمد ناصر احمد رکھا گیا.62 61 عید الفطر کی مبارک تقریب انگلستان میں جماعت ہائے احمدیہ نے عید الفطر مورخہ ۲۲ دسمبر ۱۹۶۸ء بروز اتوار منائی.لندن کے علاوہ بریڈفورڈ، ہڈرزفیلڈ جنکھم ، پریسٹن ، برشل، لیڈ ز اور گلاسگو میں بھی نماز عید ادا کی گئی.لندن میں جماعت کے پاکستانی اور ہندوستانی افراد کے علاوہ متعدد انگریز ، عرب اور افریقن مسلم و غیر مسلم احباب نے شرکت کی.نماز عید لئیق احمد طاہر صاحب نے پڑھائی اور خطبہ عید حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے دیا.آپ نے اپنے خطبہ میں فرمایا کہ روزوں اور دیگر عبادات کا مقصد خدا تعالیٰ کی اطاعت اختیار کرنا ہے.اگر یہ روح ہم میں پیدا ہو جائے کہ ہم خدا اور اس کے رسول اور اس کے خلفاء کے احکامات پر فوری توجہ دیں اور کامل توجہ اور انہماک کے ساتھ اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں تو خدا تعالیٰ کی برکات سے زیادہ سے زیادہ تمتع ہوسکیں گے.خطبہ کے بعد مکرم لئیق احمد طاہر صاحب نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا عید مبارک پر مشتمل وہ تار پڑھ کر سنایا جو عید سے ایک روز قبل مشن میں موصول ہوا تھا.ازاں بعد محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے دعا کروائی اور یہ مبارک تقریب اختتام پذیر ہوئی.برما 63 اس مشن کی ۱۹۶۸ء کے بارے میں تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کی صرف ایک ہی مطبوعہ رپورٹ

Page 832

تاریخ احمدیت.جلد 24 792 سال 1968ء ملتی ہے جو اس سال کے آخری حصہ سے متعلق ہے اور جس سے جماعت احمد یہ برما کی دینی خدمات کی ایک جھلک سامنے آتی ہے.یہ رپورٹ خواجہ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ رنگوں کی تھی جس میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میسرنا القرآن اور پارہ اول کی ڈیمانڈ مائنڈ لے، کلو اور ٹونجی سے آئی ہے.ٹونجی میں ایک پرانے احمدی بزرگ امیر علی خان صاحب مرحوم کی صاحبزادی نے ۵۰ کاپی کا آرڈر دیا اور بعض دوسرا انگریزی لٹریچر اپنے عزیزوں کے لئے منگوایا.پاکستان میں پہلے برمی سفیر او پے کھن امیر علی صاحب مرحوم کے صاحبزادے ہیں.ان کے چھوٹے بھائی اوموں ملون صاحب بھی مشن میں تشریف لاتے ہیں اور اپنے ہمراہ دوسرے احباب کو بھی لاتے ہیں.مؤلمین کالج کے ایک سینئر طالب علم عبد الحمید صاحب تشریف لائے اور مشن کے متعلق معلومات حاصل کیں نیز ضروری لٹریچر لے کر گئے ہیں تا کہ مولمین کالج کے مسلم طلباء کو روشناس کیا جا سکے اور ان کی تنظیم کی جاسکے.مانڈے کے جلال الدین صاحب ایک ہفتہ سے با قاعدہ مشن میں تشریف لا کر جماعتی معلومات حاصل کرتے رہے.وہ برما کی ایک سیاسی پارٹی کے اعلیٰ ورکر بھی ہیں اور مختلف طبقوں میں ان کے لئے تبلیغ کا موقع ہے.موہیئے میں ایک مخلص دوست محمد شفیع صاحب اور پھارن میں عبدالحکیم صاحب نہایت جوشیلے احمدی ہیں.حال ہی میں جماعت برما نے دوبارہ کسوف و خسوف والی پیشگوئی کو برمی میں شائع کیا ہے اور ان احباب کے ذریعہ سینکڑوں لوگوں تک یہ پیغام ملک کے طول و عرض میں پہنچایا.مکرم ڈاکٹر محمد جمیل صاحب نے اپنے گھر سفیر پاکستان اور بعض دوسرے احباب کو مدعو کیا.محترم حسن امام صاحب سفیر پاکستان نے جماعت کی برما میں تنظیم پر مسرت کا اظہار فرمایا اور کہا کہ کلکتہ میں آپ کے مبلغ صاحب کے ساتھ اچھے مراسم تھے.پھر کمبوڈیا میں مسلمانوں کی پوزیشن اور تنظیم کے متعلق معلومات سے نوازا.ایک جاپانی ڈاکٹر مسٹر ابارا بھی جماعت کے متعلق دلچسپی لیتے رہے.ہستی باری تعالیٰ ، روزے 64.کی فلاسفی ، نمازوں میں تنظیم کا پہلو وغیرہ موضوعات پر نہایت دلچسپ تبادلۂ خیالات رہا.امسال بر مامشن کو لٹریچر کی وسیع اشاعت کی توفیق ملی جس میں ۴۸ صفحات پر مشتمل ایک کتاب مسیح کشمیر میں مولفہ خواجہ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمد یہ رنگون کو دو ہزار کی تعداد میں شائع

Page 833

تاریخ احمدیت.جلد 24 793 سال 1968ء کروایا گیا اور اس کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کی گئی.اسی طرح رسالہ البشرا ی کو بھی دوبارہ شائع کیا گیا.دوران سال رمضان المبارک کے دوران مسجد میں افطاری کا با جماعت انتظام رہا.اسی طرح برمی مسلم تعلیم یافتہ طبقہ کے کچھ افراد نے رمضان کے بعد یہاں نزول قرآن پر چودہ سو سال پورے ہونے پر تقاریر اور قرآن کریم کے نسخوں کی نمائش کا اہتمام کیا.اس نمائش میں برمامشن اور مولوی محمد علی صاحب مرحوم کا نسخہ قرآن کریم بھی رکھا گیا.۱۴ جنوری کو جماعت احمدیہ کا جلسہ سالانہ منعقد کیا گیا جس میں چنیدہ حضرات کو دعوتی کارڈ بھی دیئے گئے.امسال رنگون یو نیورسٹی کے اکثر مسلمان اور چند غیر مسلم طلباء کی ایک خاصی تعداد شامل ہوئی.۱۴ جنوری ۱۹۶۸ ء کو برما کی احمد یہ جماعت نے جلسہ سالانہ منعقد کیا.رنگون یونیورسٹی کے مسلمان اور غیر مسلم طلباء کی کافی تعداد جو نہ صرف رنگوں بلکہ باہر کے باشندوں پر مشتمل تھی جلسہ کی کارروائی میں شریک ہوئی.ڈاکٹر ایم جمیل صاحب نے جلسہ کی صدارت کی.اس جلسہ میں مختلف موضوعات پر تقاریر ہوئیں.تنزانیہ 66- 65 عیسائیوں کا ایک فرقہ سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹس ہے اس فرقہ کا تعلق عیسائیوں کے قدامت پرسر بازو سے ہے جس کے بانی امریکہ کے ولیم مگر تھے.اپنے عقیدہ کے مطابق یہ کوئی نیا چرچ نہیں اور اس کی حیثیت محض ایک تحریک کی ہے جس کا بنیادی مقصد بائبل کی پیشگوئیوں کے مطابق بنی نوع انسان کو یسوع مسیح کی آمد ثانی کے لئے تیار کرنا ہے.اس مکتبہ فکر کی طرف سے انیسویں صدی کے اوائل میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ یسوع مسیح کی آمد ثانی ۱۸۴۳ء میں ہوگی.بعد ازاں اس میں ترمیم کر کے آمد ثانی کا وقت ۲۲ را کتوبر ۱۸۴۴ء قرار دیا گیا.دسمبر ۱۹۴۶ء کے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ، کینیڈا اور دنیا کے دوسرے ممالک میں ان کے بالغ ممبران کی تعداد ۹۸۶۸۳ ۵ تھی جبکہ ۹۳۲۱ چرچ ، ۱۶۷ طبی ادارے اور ا ۵ دارالاشاعت کام کر رہے تھے.اس فرقہ کے ایک عیسائی آسٹریلین پادری اے.ای.تک (A.E.COOK) نے کئی روز تک تبلیغی لیکچر دئیے.۲۴ جولائی ۱۹۶۸ء کو اپنی تقریر میں یسوع مسیح کی تعریف میں بہت غلو کیا نیز کہا کہ مسلمانوں کے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی اقرار کیا ہے کہ مسیح تمام انبیاء ورسل سے افضل ہیں.67

Page 834

تاریخ احمدیت.جلد 24 794 سال 1968ء یہ بھی ذکر کیا کہ مسیح کی آمد ثانی کی بہت سی علامتیں پوری ہو چکی ہیں تاہم تیسری عالمی جنگ ہونے والی باقی ہے.اس کے بعد مسیح کی آمد متوقع ہے.انہوں نے شام کو یہ تقریر کی اور مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق انچارج تنزانیہ مشن نے ۲۵ جولائی کی صبح کو اشتہار کی صورت میں اس پر تبصرہ کیا جو دار السلام میں کثرت سے تقسیم کیا گیا اور اس کی ایک کاپی پادری صاحب کو بھی ارسال کر دی.اس اشتہار میں آپ نے انہیں چیلنج کیا کہ وہ اپنے ان الفاظ کے ثبوت میں کسی اسلامی کتاب کا حوالہ پیش کریں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تمام انبیاء ورسل سے افضل و برتر ہیں.کوئی نبی حضور ﷺ کے ساتھ رتبہ میں برابر نہیں ہوسکتا...نیز مسیح کی آمد ثانی کی علامتوں کے بارہ میں آپ نے لکھا کہ یہ علامتیں بے شک آہستہ آہستہ ظاہر ہونی مقدر تھیں اور سلسلہ وارظاہر ہوئیں مگر ان علامتوں میں سے سورج و چاند کوگر ہن لگنے کی علامتیں ایسی ہیں کہ جن کے متعلق انجیل میں صریح طور پر لکھا ہے کہ اس وقت مسیح آجائیں گے.چنانچہ متی نمبر ۲۹-۲۴/۳۰ میں لکھا ہے: اور فوراً ان دنوں کی مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قو تیں چھاتی پیٹیں گی اور ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گے...اس عبارت سے بالکل عیاں ہے کہ سورج و چاند کو گرہن لگنا مسیح کی آمد ثانی کی حتمی نشانی ہے.مسیح کی آمد اس علامت سے تجاوز نہیں کر سکتی.لہذا تیسری عالمی جنگ کا انتظار فضول اور عبث ہے.مذکورہ گرہن انیسویں صدی کے اواخر میں لگ چکا ہے اور آپ لوگ اس کا اقرار کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے اپنی کتاب SIGNS OF CHRISTS COMING ( مسیح کی آمد کی علامات) میں تحریر کیا ہے.مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق نے مزید لکھا کہ ان علامات کے پورا ہونے کے دنوں میں فی الواقع مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی ذات میں پوری ہو چکی ہے.سب جانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد کے وقت بائبل کے مطابق یہودی تین انبیاء کا انتظار کر رہے تھے.(۱) ایلیا نبی کا جو ان کے عقیدہ کے مطابق آسمان پر چلا گیا تھا اور مسیح علیہ السلام کی آمد سے قبل اس نے آسمانوں سے نزول کرنا تھا.(۲) مسیح.(۳) وہ نبی“.مسیح جب 66 وو 66 تشریف لائے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ سے قبل تو ایلیا نبی نے آسمان سے نازل ہونا تھا.اس پر مسیح

Page 835

تاریخ احمدیت.جلد 24 795 سال 1968ء نے جواب دیا کہ ایلیا جو آنے والا تھا یہی ہے جس کے سننے کے کان ہوں وہ سن لے.(متی ۱۴- ۱۱/۱۵) مگر یہودیوں نے نہ مانا اور کہا کہ ہم تو اصل ایلیاء ہی کا آسمان سے نازل ہونا مانتے ہیں نہ کہ اس کے مثیل کا مبعوث ہونا.مولوی صاحب موصوف نے لکھا کہ یہودی گمراہ اور ہٹ دھرم تھے اس لئے انہوں نے انکار کر دیا.بالکل اسی طرح اس زمانہ میں مسیح کا نزول حضرت احمد علیہ السلام کی بعثت کے ذریعہ ہو چکا ہے.جس کے کان سننے کے ہوں سنے.اگر آپ انکار کریں گے تو آپ فریسیوں کے قدم بقدم چلنے والے ہوں گے.اس اشتہار کا پادری صاحب کے پاس پہنچنا تھا کہ وہ بہت ناراض ہو گئے.انہوں نے اپنے لیکچر کے دوران بار بار زور دار الفاظ میں اعلان کیا کہ رنگین کا غذ والے اشتہار میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں آپ ان کو پڑھ کر ہر گز نہ گھبرا ئیں.میں کل ان تمام باتوں کا جواب دوں گا.لوگوں پر اشتہار کا بہت اثر ہوا.عیسائیوں میں گھبراہٹ کے آثار بھی تھے جس کا اظہارانہوں نے خود اپنی زبانوں سے بھی کیا مگر پادری صاحب کے اعلان سے کہ ان تمام باتوں کا کل میں جواب دوں گا عیسائیوں کو کچھ تسلی ہوئی اور لوگ جوابات سننے کے لئے خیمہ میں حاضر ہوئے مگر ان کی مایوسی کی انتہا نہ رہی جبکہ پادری صاحب نے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ میں ان باتوں کا ہرگز جواب نہ دوں گا.جس نے کوئی سوال پوچھنا ہو وہ چٹ پر لکھ کر میرے لیٹر بکس میں ڈال دے.اگلے دن اس کے جوابات دیئے جائیں گے یا سائل میرے پاس آئے اور زبانی گفتگو کرے.اگلے ہی دن ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی گئی کہ ان کے ساتھ زبانی گفتگو کی جائے.شروع میں پادری صاحب نے چابکدستی دکھائی مگر چند ہی منٹ میں ان کی بوکھلاہٹ صاف ظاہر ہو گئی.جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس قول کا حوالہ دیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو تمام انبیاء سے افضل قرار دیا ہے تو کہنے لگے کہ میں نے اپنی تقریر میں ایسی بات ہرگز نہیں کہی حالانکہ اس کے گواہ موجود تھے.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پادری صاحب کہنے لگے آج مجھے فرصت نہیں کل چار بجے بعد دو پہر مجھے فرصت ہوگی اس وقت مزید گفتگو ہوگی.اگلے روز وقتِ مقررہ پر انہوں نے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا اور کام وغیرہ کا عذر کر کے ٹال دیا.اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ وہ گفتگو نہیں کرنا چاہتے.

Page 836

تاریخ احمدیت.جلد 24 796 سال 1968ء اس پر مولوی جمیل الرحمن صاحب رفیق نے ایک اور اشتہار لکھا جس میں بائیبل کے اختلافات بیان کر کے پادری صاحب سے ان کا حل دریافت کیا.نیز کفارہ پر جرح کی.اس اشتہار کے آخری حصہ کا ترجمہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے:.اگر مسیح نے تمام لوگوں کے سب گناہ اٹھالئے تو اس طرح مسیح کی گردن پر گناہوں کا انبار عظیم جمع ہو گیا.اس لئے اب مسیح کی نجات کیلئے کسی دوسرے منجھی کو آنا چاہیئے.اگر آپ کہیں کہ مسیح نے تمام گناہ نہیں اٹھا لئے بلکہ صرف بنیادی اصل گناہ جو آدم سے بنی نوع انسان کو ورثہ میں ملا اسی گناہ کو انسانوں سے دور کیا ہے تو اس پر سوال ہے کہ اس اصلی بنیادی گناہ کی سزا کیا تھی اور آیا وہ سزا کفارہ پر ایمان لانے والوں سے دور ہوگئی ہے یا نہیں.بائیل کی رُو سے حوا کو یہ سزا ملی تھی ” تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہوگی ( پیدائش ۳/۱۶).کیا مسیح کے کفارہ ہو جانے کے بعد اب عیسائی خواتین سے یہ سزا دور ہوگئی ہے اور کیا اب وہ دردزہ سے آزاد ہیں اور کیا ان کی رغبت اپنے شوہروں کی طرف نہیں ؟...اور آدم کو یہ سزا دی گئی تھی کہ چونکہ تو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اس درخت کا پھل کھایا...اس لئے...مشقت کے ساتھ تو عمر بھر اس (زمین) کی پیداوار کھائے گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اگائے گی اور تو کھیت کی سبزی کھائے گا.تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا“.( پیدائش ۱۷-۳/۱۹).کیا عیسائی مردوں سے یہ سزا اب ساقط ہو چکی ہے؟ کیا وہ مشقت کے ساتھ زمین کی پیداوار نہیں کھاتے؟ کیا زمین ان کیلئے اونٹ کٹارے اور کانٹے اب نہیں اگاتی ؟ کیا وہ کھیت کی سبزی نہیں کھاتے ؟ کیا وہ اپنے منہ کے پسینے کی روٹی نہیں کھاتے؟ اور ہم اس سانپ کے بارہ میں بھی آپ سے دریافت کرتے ہیں جس نے کہ شروع میں حوا کو گمراہ کیا تھا.اس سانپ کو یہ عذاب ملا تھا کہ تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور اپنی عمر بھر خاک چاٹے گا اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا.وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تو اس کی ایڑی پر کاٹے گا.( پیدائش ۳/۱۵) اس پر ہمارا سوال یہ ہے کہ مسیح نے صلیب پر جان دے کر اس بیچارے سانپ کا گناہ بھی دور کیا ہے یا نہیں ؟ اگر مسیح سانپ کے گناہ کا بھی کفارہ ہو گئے ہیں تو کیا اب سانپ پیٹ کے بل نہیں چلتا؟ کیا اب وہ خاک نہیں چاہتا ؟ کیا اب سانپ اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ختم ہو چکی ہے؟ کیا اب عورت کی نسل سانپ کا سر نہیں

Page 837

تاریخ احمدیت.جلد 24 797 سال 1968ء کچلتی اور کیا سانپ نسل عورت کی ایڑی پر نہیں کا شما؟ یا مسیح پھر کسی وقت آ کر سانپ کو عذاب سے بچانے کی خاطر ایک بار پھر سولی پر چڑھے گا؟ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مسیح تو صرف بنی نوع انسان کیلئے نجی ہیں تو سوال یہ ہے کہ اس تمیز کی کیا وجہ ہے جبکہ سانپ بھی خدا کی مخلوق ہے اور وہ بھی ہمدردی ونجات کا مستحق ہے.پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سزا ملنے سے قبل سانپ ” پیٹ کے بل نہیں چلتا تھا بلکہ اس کے پاؤں تھے؟ اگر تو واقعی پہلے پاؤں تھے تو اس کا ثبوت آپ کے ذمہ ہے.اور اگر نہیں تھے بلکہ پہلے بھی سانپ پیٹ کے بل ہی چلتا تھا تو یہ سزا کیا ہوئی کہ تو پیٹ کے بل چلے گا درانحالیکہ وہ پہلے سے ہی پیٹ کے بل چلتا ہے؟ اور یہ کیا بات ہے کہ جب آپ تصاویر میں سانپ کو حوا کو گمراہ کرتے دکھاتے ہیں تو وہاں بھی سانپ کے پاؤں نہیں ہوتے حالانکہ ابھی اسے پیٹ کے بل چلنے کا عذاب نہیں ملا ہوتا ؟“ اس اشتہار کا شائع ہونا تھا کہ عیسائیوں کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی.پادری صاحب چیخ چیخ کر کہنے لگے کہ یہ سوالات بے معنی ہیں اور ان کے جوابات دینا مفید نہیں.آپ اس اشتہار کی طرف توجہ ہی نہ کریں.مگر لوگ کب مطمئن ہونے والے تھے.لوگوں نے یہی سوالات الگ الگ کا غذات پر لکھ کر پادری صاحب کے لیٹر بکس میں ڈالنے شروع کر دیئے اور پادری صاحب کی لاچاری لوگوں پر اور بھی واضح ہوگئی.اس طرح محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے احباب جماعت اہل تنزانیہ نے کسر صلیب کا ایک تازہ نظارہ اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا.ایک دوروز بعد اسی فرقہ (S.D.A) کے ایک افریقن پادری سے ملاقات ہوئی تو جناب رفیق صاحب نے انہیں مذکورہ اشتہار دیا مگر انہوں نے لینے سے انکار کر دیا اور زمین پر پھینک دیا اور کہنے لگے کہ ایسے سوالات کا نجات سے کوئی تعلق نہیں.پھر کہنے لگے کہ آپ نے ہمارے پروگرام میں خلل ڈالنے کے لئے یہ اشتہارات ہمارے خیمے میں تقسیم کئے.مکرم رفیق صاحب نے کہا کہ ہم نے ہرگز ہرگز آپ کے خیمے یا آپ کی حدود میں اشتہارات تقسیم نہیں کئے بلکہ آپ کی حدود سے باہر تقسیم کئے ہیں اور لوگوں نے شوق سے لئے ہیں اور اس کے نتیجے میں کوئی فساد گڑ بڑ یا خلل واقع نہیں ہوا.ہم نے تو آپ سے محض استفسارات کئے ہیں بس.مجھے تعجب ہے کہ آپ محض اتنی سی بات پر ناراض ہو گئے ہیں.کیا آپ کو یسوع کے بارہ میں یاد نہیں کہ یہودیوں سے مذہبی اختلاف کی وجہ سے اس نے ہیکل میں داخل ہو کر گڑ بڑ کی ، صرافوں کی نقدی بکھیر دی اور ان کے تختے الٹ دیئے؟ ( یوحنا ۱۳-۲/۱۶) ہم

Page 838

تاریخ احمدیت.جلد 24 798 سال 1968ء نے تو آپ کے خیمے میں داخل ہو کر آپ کی کرسیاں اور میزیں نہیں الٹی تھیں.محض اشتہارات تقسیم کئے تھے اور وہ بھی آپ کی حدود سے باہر! پادری صاحب کہنے لگے کہ یسوع کو تو مسلمان بھی نبی مانتے ہیں.نبی ایسا کر سکتا ہے مگر غیر نبی کو میزیں الٹنے کا اختیار نہیں.خاکسار نے کہا کہ نبی لوگوں کے لئے نمونہ ہوتا ہے اور یسوع کا نمونہ ہمارے سامنے ہے.آپ تو محض اشتہارات کی اشاعت سے ناخوش ہیں.اگر ہم یسوع کے نمونے کے مطابق کرتے تو معلوم نہیں آپ کیا کچھ کہتے !! بفضلہ تعالیٰ احمد یہ مشن کے ان دونوں اشتہارات کا پبلک پر بہت گہرا اثر ہوا.مسلمانوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.عام عیسائی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.مکرم چودھری عنایت اللہ صاحب مبلغ تنزانیہ نے تنزانیہ کے ایک قومی تہوار کے موقع پر مورد گورو کے مقام پر ایک بک سٹال لگایا جس کے ذریعہ ہزاروں لوگوں کو سلسلہ کے لٹریچر سے تعارف کا موقع ملا.اس بک سٹال میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر اور خلفاء کی تصاویر کو بھی آویزاں کیا گیا تھا.اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض الہامات کا سواحیلی زبان میں ترجمہ بورڈ پر آویزاں بھی کیا گیا تھا.نمائش ختم ہونے کے بعد دوسرے ہی دن صبح رمضانی جمعہ صاحب بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.مولوی عبدالرشید صاحب رازی احمدی مبلغ نے تنزانیہ کے سیکنڈ وائس پریذیڈنٹ مسٹر رشیدی کو اوا کی آمد پر پنگا لے سکول ان کو دکھایا.سکول کے بچوں نے معمول کے مطابق قومی ترانے اور دیگر تعلیمی دلچسپی کی نظموں سے آپ کا استقبال کیا.آپ نے جماعت احمدیہ کی تبلیغی اور تعلیمی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا اور فرمایا کہ وہ جماعت کے کام سے بہت متاثر ہیں.مسلمانوں کی دوسری جماعتوں کو بھی چاہئیے کہ وہ حتی المقدور اور اپنے اپنے رنگ میں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کا بیڑہ اٹھائیں.جرمنی عیدالفطر کی تقریب مورخہ ۲ جنوری ۱۹۶۸ء کو عمل میں آئی.یہ تقریب خدا تعالیٰ کے فضل - 70 ނ ہر لحاظ سے کامیاب رہی.عید کی تیاری کا کام ایک ماہ قبل شروع کر دیا گیا تھا.۶۰۰ کی تعداد میں دعوت نامے طبع کر کے بذریعہ ڈاک بھجوائے گئے.عید کی تقریب کا اعلان ہمبرگ کی تمام اخبارات نے کیا BILD ZEITUNG نے اپنے ایڈیٹوریل کالجوں میں خاص طور پر اس کا اعلان شائع کیا.صبح ساڑھے دس بجے مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ جرمنی نے نماز عید پڑھائی.بعد از نماز دعوت

Page 839

تاریخ احمدیت.جلد 24 799 71 سال 1968ء طعام کا پروگرام رکھا گیا تھا جس میں ۳۰ معزز مہمانوں کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۶۸ء کو مسجد نور فرانکفورٹ جرمنی میں عید الاضحیہ کی تقریب اسلامی روایات کے ساتھ منائی گئی.مسلمانوں کے علاوہ مشن سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم جرمنوں کو بھی دعوت نامے بھجوائے گئے.مکرم مسعود احمد صاحب جعلی مبلغ مغربی جرمنی نے نماز عید پڑھائی اور خطبہ دیا.خطبہ کے بعد غلبہ اسلام کے لئے اجتماعی دعا کی گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کا ربوہ سے عید مبارک کا پیغام بذریعہ تار بھی بھجوایا گیا.عید کے اگلے روز شام کو ایک وسیع دعوت عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مسلمانوں کے علاوہ متعدد جر من احباب نے بھی شرکت کی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی ونڈ زورتھ والی شہرۂ آفاق تقریر کا جرمن ترجمہ چھپوا کر ملک کے تمام 72 معززین تک پہنچایا گیا.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی ہمبرگ آمد محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب وقف عارضی کے سلسلہ میں مورخہ ۱۶ جولائی تا ۲۷ جولائی ۱۹۶۸ء تک کوپن ہیگن (ڈنمارک) میں مقیم رہے.اس پروگرام کے اختتام پر ہالینڈ واپس جاتے ہوئے مکرم چوہدری صاحب ایک دن کیلئے ہمبرگ میں قیام فرما ہوئے.آپ کے اس قیام کے دوران ہمبرگ میں احمدیہ جماعت نے ایک جلسہ مورخہ ۲۸ جولائی ۱۹۶۸ء کو منعقد کیا.جس میں عوام الناس کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں کے عمائدین کو بھی مدعو کیا.آپ نے اپنی تقریر میں حاضرین کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کروائی کہ تمام مذاہب میں قدر مشترک خدا تعالی کی عبادت ہے اور اس کی بناء پر تمام مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے.اگلے روز اخبارات نے محترم چوہدری صاحب کی تقریر کو نمایاں طور پر اپنے کالموں میں جگہ دی اور اس طرح اسلام کی آواز کو دور دور تک پہنچایا.مورخه ۹ استمبر تا ۲۴ ستمبر ۱۹۶۸ء موسم خزاں میں جرمنی کے اہم ترین شہر فرانکفورٹ میں اٹھاون ممالک کے ۳۰۱۳ پبلشنگ اداروں کی طرف سے ایک لاکھ اسی ہزار کتب کی نمائش ہوئی.اس سال شرکت کرنے والے ۳۰۱۳ پبلشنگ اداروں میں سے ۱۹۶۶ار انفرادی ادارے تھے جن میں سے ۸۳۰ مغربی جرمنی اور ۴۴ مشرقی جرمنی سے تعلق رکھتے تھے.باقی ۱۰۷۲ غیر ملکی تھے.اس سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی ایک لاکھ اسی ہزار کتب میں سے ساٹھ ہزار سال رواں کی ہی مطبوعہ تھیں.نمائش ایک لاکھ دس ہزار مربع فٹ رقبہ کے دو وسیع وعریض ہالوں پر مشتمل تھی.جسے ادب لطیف ، مذہب ، 74

Page 840

تاریخ احمدیت.جلد 24 800 سال 1968ء بچوں کے لئے تعلیم و تدریس، آرٹ، تکنیکی کتب و نقشہ جات اور متفرق کے حساب سے آٹھ گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا.اس نمائش میں عمدہ و بیش قیمت کاغذ پر طبع شدہ قرآن پاک کا جرمن زبان میں ترجمہ اس کے عربی متن کے ساتھ موجود تھا جس کی اشاعت کی سعادت جرمنی کے احمد یہ مشن کے حصہ میں آئی تھی.مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب ایم اے مبلغ مغربی جرمنی اور مکرم محمود اسماعیل زولش کو اسلام کے بارہ میں بہت سی تقاریر کرنے کا موقع ملا.سیکنڈری سکولوں میں موازنہ مذاہب پر لیکچر دیئے.تین ماہ میں لیکچر مختلف اسکولوں میں دیئے گئے.لیکچرز کے بعد سوالات کا موقع بھی دیا جا تا رہا.ایک سکول میں طالبات نے مزید ایک لیکچر کا مطالبہ کیا جو کہ مسجد میں دیا گیا جس میں لڑکیوں کی دوکلاسوں کی پچاس طالبات شامل ہوئیں.رمضان المبارک اور عیدالفطر رمضان المبارک شروع ہوتے ہی اس موضوع پر ایک پریس نوٹ شائع کر کے ملک بھر کے ایک سو سے زائد اخبارات کو برائے اشاعت ارسال کیا گیا.اس نوٹ کے ملنے پر ریڈیو فرانکفورٹ نے رمضان کے آغاز پر ایک خاص پروگرام نشر کرنے کا فیصلہ کیا.مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب ایم اے مبلغ مغربی جرمنی کو ریڈیو اسٹیشن پر آنے کی دعوت موصول ہوئی اور انٹرویو کا وقت مقرر ہوا.چنانچہ یکم رمضان المبارک کو یہ انٹرویو ریڈیو سے نشر ہوا.اسی طرح پر غیر زبانوں میں نشریات کرنے والے ریڈیو اسٹیشن 'وائس آف جرمنی نے جو کہ کولون میں ہے مبلغ انچارج سے رابطہ کر کے رمضان کے آغاز پر اردو اور عربی زبانوں میں تقاریر کی فرمائش کی.چنانچہ آٹھ آٹھ منٹ کی تقاریر کے ریکارڈ فرانکفورٹ ریڈیو اسٹیشن والوں نے تیار کر کے کولون بھجوائے جو کیم رمضان المبارک کو وائس آف جرمنی کے اردو اور عربی پروگراموں میں نشر ہوئے.رمضان المبارک کے آغاز پر مسجد میں ایک افطار پارٹی کا انتظام کیا گیا.اس موقع پر ملائیشیا کے سفیر جناب عبدالخالد آوانگ نے قرآن کریم کی اہمیت کے موضوع پر تقریر کرنا تھی لیکن بوجہ بیماری تشریف نہ لا سکے اور اپنے دو نائبین کو بھجوا دیا.چنانچہ ان کے نائب سفیر صاحب موصوف کی لکھی ہوئی تقریر جرمن زبان میں حاضرین کو پڑھ کر سنائی گئی.رمضان کے بعد عیدالفطر کی تقریب پورے اسلامی وقار کے ساتھ منائی گئی.مختلف مسلم ممالک کے ۲۰۰ کے قریب مسلمانوں نے نماز عید میں شرکت کی

Page 841

تاریخ احمدیت.جلد 24 801 سال 1968ء جن میں مصر، شام، عراق، اردن، الجیریا ، مراکش، تونس، ایران ، تھائی لینڈ، یوگوسلاویہ، پاکستان اور بھارت شامل تھے.فرانکفورٹ کے تینوں اہم اخبارات نے خطبہ عید کا خلاصہ شائع کر کے عید کی نمایاں خبریں شائع کیں.سینیگال کے صدر سینگور فرانکفورٹ میں منعقدہ کتابوں کی عالمی نمائش کے موقع پر انعام امن حاصل کرنے کے لئے آئے تھے.مکرم مسعود احمد جہلمی صاحب ایم اے مبلغ مغربی جرمنی نے ان کی قیام گاہ میں دس منٹ تک ان سے ملاقات کی اور فرانسیسی زبان میں جماعت کی طرف سے شائع کردہ لٹریچر دیا.مغربی افریقہ اور خصوصاً جرمنی میں جماعت کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں انہوں نے بڑی دلچسپی ظاہر کی.فرانس کے صدر ڈیگال کچھ ماہ قبل جب دوروزہ دورہ پر جرمنی آئے تو فرانسیسی سفارت خانہ کے ساتھ ٹیلی فون کے ذریعہ رابطہ پیدا کر کے انہیں فرانسیسی زبان میں اسلامی لٹریچر بھیجا گیا جس میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھی شامل تھا.مکرم چوہدری عبد اللطیف صاحب مبلغ انچارج جرمنی اور مسعود احمد جہلمی صاحب مبلغ انچارج مغربی جرمنی نے انڈونیشیا، ملائیشیا، اردن اور تونس کے سفراء سے ملاقاتیں کیں اور انہیں انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا ایک ایک نسخہ بھی دیا.مسجد فضل عمر ہمبرگ میں عید الفطر کی مبارک تقریب مورخه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۸ء بروز ہفتہ مسجد فضل عمر ہمبرگ میں عیدالفطر کی تقریب منعقد ہوئی.پانچ سو کی تعداد میں دعوت نامے چھپوائے گئے اور سب ریڈیو اور ٹیلیویژن والوں سے رابطہ قائم کیا گیا.انہیں دعوت نامے بھجوائے گئے.ان مسائی کے نتیجہ میں پریس میں خاص بیداری پیدا ہوئی.روز نامہ Die Welt جرمنی کا مشہور ترین اخبار ہے.اس اخبار کے لوکل ایڈیٹر نے ٹیلیفون پر رمضان المبارک کی برکات اور عید الفطر کی اہمیت کے بارہ میں معلومات حاصل کیں.مورخہ ۲۱ دسمبر کو ساڑھے دس بجے نماز عید مکرم چودھری عبداللطیف صاحب انچارج مشن جرمنی نے پڑھائی اور جرمن زبان میں خطبہ دیا جس میں رمضان المبارک کی برکات اور فضائل کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلام اخوت، رواداری، امن عالم اور مساوات کا علمبر دار ہے.پریس کے نمائندوں نے تقریب کے فوٹو لئے.آخر میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی عید مبارک پر مشتمل تار پڑھ کر سنائی گئی اور اس کا جرمن ترجمہ بھی پڑھ کر سنایا گیا.خطبہ کے بعد دعا ہوئی.بعد ازاں تمام

Page 842

تاریخ احمدیت.جلد 24 802 سال 1968ء احباب کی کافی اور چائے سے تواضع کی گئی.عید کی تقریب کے بعد ۲۳ دسمبر کو ہمبرگ کے ایک وسیع الاشاعت اخبار Bild Zeitung نے ایک فوٹو دیتے ہوئے عید کی تقریب کا ذکر شائع کیا اور لکھا کہ اسلامی دنیا میں یہ تقریب ایک خاص اہمیت رکھتی ہے.جنوبی افریقہ ۳۵ افراد نے مشن ہاؤس میں آکر اسلام کے بارہ میں معلومات حاصل کیں.۳۶۴ تبلیغی کتب تقسیم کی گئیں.قرآن کریم کے انسخے مطالعہ کے لئے دیئے گئے.جنوبی افریقہ سے شائع ہونے والے اخبارات العصر (انگریزی) اور البشریٰ (انگریزی) کے آٹھ ہزار نسخے تقسیم کئے گئے.اس کے علاوہ مختلف دیگر جماعتی رسائل بھی کثیر تعداد میں تقسیم کئے گئے.قرآن مجید اور ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا درس باقاعدگی سے ہوتا رہا.ہر سوموار کو بچوں اور نو جوانوں کے لئے تعلیمی کلاس منعقد ہوتی رہی.یوم والدین کی تقریب بھی منائی گئی جس میں اسناداور انعامات تقسیم کئے گئے.جماعت کی اپنی لائبریری قائم ہے جس میں امسال ۳۱ کتب کا اضافہ ہوا.دوران سال مختلف تقاریب منعقد ہوتی رہیں جن میں مختلف احباب نے تقاریر کیں.سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر جناب ایم.جی ابراہیم صاحب نے تقریر کی.جناب ای ابراہیم صاحب صدر جماعت احمدیہ نے والدین اور بچوں کے حقوق اور غلبہ اسلام کے لئے قربانیاں“ کے موضوع پر خطاب کیا.ڈچ گی آنا ڈچ گی آنا ( سورینام ) جنوبی امریکہ کے شمال مشرق میں واقع ہے.یہاں کے بعض افراد کی درخواست پر مرکز سے ۱۹۵۶ء میں با قاعدہ مشن کھولنے کے لئے مبلغ بھجوایا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں جماعت قائم ہوگئی.مکرم میر غلام احمد صاحب نیم ایم اے تحریر کرتے ہیں کہ ستمبر ۱۹۶۷ء میں یہاں عارضی طور پر وارد ہوا اور ایک ہفتہ قیام کیا.اس قیام کے دوران جماعت کے دوست اکھٹے ہوئے اور ان کی تنظیم نو کی گئی.آپ دوبارہ مئی ۱۹۶۸ء میں تشریف لائے.شہر پیرا ماریو میں چار ریڈیو اسٹیشن سے آپ نے رابطہ کیا.ان میں سے تین نے ہمیں نہیں منٹ کا وقت پیغام حق کے نشر کرنے کے لئے دیا.چنانچہ بہت سے احباب مزید معلومات کے لئے آتے رہے.

Page 843

تاریخ احمدیت.جلد 24 803 سال 1968ء ڈچ گیانا کے قیام کے دوران آٹھ جلسوں کا انتظام کیا گیا.علاوہ ازیں عام جلسوں کے ، متعدد نجی محفلوں کا انعقاد عمل میں آتا رہا.اس سلسلہ میں ہمارے ایک احمدی دوست نے نئی کار خرید کر اس تبلیغی کام کے لئے وقف کر دی اور خود بھی اپنا قیمتی وقت خرچ کرتے رہے.مخالف حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے ایسے افراد پیدا کر دیئے جو اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے ہر دم تیار رہتے ہیں.ان کے قیام کے عرصہ تک ۲۵ را فراد بیعت کر کے سلسلہ حقہ سے وابستہ ہو چکے 79 سیرالیون جماعتہائے احمد یہ سیرالیون کا انیسواں سالانہ جلسہ ۱۵، ۱۶، ۷ افروری ۱۹۶۸ء کو بو (Bo) کے مقام پر منعقد ہوا.یہ جلسہ احمدیہ سکول کے زیرتعمیر وسیع و عریض مسجد میں ہوا.خواتین کے لئے پرائمری سکول میں پردہ کا معقول انتظام تھا.جلسہ کے دوران انیس افراد نے قبول حق کا اعلان کیا.افتتاحی نشست کی صدارت الحاج خطیب سکندری صاحب سابق سفیر متعینہ نائیجیریا نے کی.مولوی عبدالشکور صاحب امیر و مشنری انچارج نے جلسہ سالانہ کی اہمیت واضح کرنے کے بعد احمد یہ مشن کے مکمل شدہ یا زیر تعمیر تین منصوبوں کا ذکر کیا یعنی جو رو میں احمدیہ سیکنڈری سکول اور نیر مسجد کی تعمیر ، بواجے بو کے مقام پر احمد یہ سیکنڈری سکول کی عمارت جو تعمیر کے آخری مراحل میں ہے نیز بو (Bo) میں احمد یہ سیکنڈری سکول کے احاطہ میں مسجد کی تعمیر.جلسہ کے دیگر قابل ذکر مقررین میں وی.وی.کاہلوں صاحب نائب صدر جماعت سیرالیون، محمد کمانڈا صاحب بونگے سیکرٹری جنرل جماعت سیرالیون علی روجرز صاحب صدر جماعت بو (Bo)، لطف الرحمن صاحب محمود، معلم عباس کمارا صاحب، مولوی نظام الدین صاحب مہمان، مولوی نصیر احمد خان صاحب، ایم اے بنگو را صاحب ، مولوی ناصر احمد صاحب، مبارک احمد صاحب نذیر اور مولوی اقبال احمد صاحب شاہد شامل تھے.جولائی ۱۹۶۸ء سے پہلے مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری غانا میں احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.اگست ۱۹۶۸ء میں آپ نے مرکز کی ہدایت پر سیرالیون مشن کا چارج سنبھالا.آپ نے فری ٹاؤن میں کچھ عرصہ قیام کے بعد مولوی عبدالشکور صاحب کے ہمراہ بو (Bo) کا سفر اختیار کیا اور وہاں جماعت سے خطاب کیا.اس علاقہ کے پاکستانی اور لوکل مبلغین کی ایک میٹنگ بلا کر تبلیغی کام کو وسعت دینے کیلئے باہمی مشورہ سے بعض اہم

Page 844

تاریخ احمدیت.جلد 24 804 سال 1968ء 81 تجاویز سوچی گئیں.نیز احمد یہ سیکنڈری سکول کے اساتذہ کو بھی ایک میٹنگ کے دوران ان کی ذمہ واریوں کی طرف توجہ دلائی.واپسی پر پہلے، مالڈ کا اور مگبور کا وغیرہ جماعتوں کا مختصر دورہ بھی کیا.فری ٹاؤن کے قریب لسٹر اور لنگٹن کی جماعتوں کے دورہ کے دوران جہاں جماعت کی مساجد زیرتعمیر تھیں، متعلقہ جماعتوں کو ان کی جلد تکمیل کی طرف متوجہ کیا.آپ کا دوسرا دورہ اکتوبر ۱۹۶۸ء میں جنوبی اور مشرقی صوبوں کی جماعتوں کا ہوا.مغربی صوبہ کے دورہ کے دوران مولوی عبدالشکور صاحب اور مولوی نصیر احمد خان صاحب ہمراہ تھے.مشرقی صوبہ کے دورہ میں مولوی ناصر احمد صاحب ساتھ تھے.اس طرح مولوی محمد صدیق صاحب کو قریباً نہیں جماعتوں کے دورہ کی توفیق ملی جہاں آپ نے ہر مقام پر جماعتوں سے اجتماعی رنگ میں خطاب کرتے ہوئے ان کی ذمہ واریوں کی طرف توجہ دلائی.اس سال سیرالیون میں احمدیہ مشن کے زیر اہتمام چار سیکنڈری سکول اور ہمیں پرائمری سکول چل رہے تھے جن میں ملک کے قریباً چار ہزار بچے اسلامی ماحول میں زیر تعلیم تھے.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے جنرل سپرنٹنڈنٹ آف سکولز کی حیثیت سے ان سکولوں کا معاینہ کیا اور ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل صاحبان سے مل کر سکولوں کی ترقی اور بہبود کیلئے بعض مناسب اقدامات کئے.علاوہ ازیں احمدیہ سیکنڈری سکول جورو کے نئے سائنس بلاک کا افتتاح کیا.اس تقریب میں گاؤں کے پیراماؤنٹ چیف، معززین، اساتذہ اور طلباء شامل تھے.آپ نے بواجے بواحمد یہ سیکنڈری سکول کے سائنس بلاک کی بنیاد بھی رکھی جو اس سال پایہ تکمیل تک پہنچ گیا.اس سکول نے گذشتہ سال کی طرح ۱۹۶۸ء میں بھی صوبائی فٹ بال میچز میں چیمپیئن شپ جیت کر ٹرافی حاصل کی.مولوی محمد صدیق صاحب احمد یہ سیکنڈری سکول بو (Bo) میں روزانہ با قاعدہ چار گھنٹے بڑی کلاسوں کو دینیات کا نصاب بھی پڑھاتے رہے.چنانچہ آپ اپنی ایک مطبوعہ رپورٹ میں رقمطراز ہیں:.وو یہ نصاب افریقن ایگزامینیشن کونسل ( AFRICAN EXAMINATION COUNCIL) کی طرف سے مقرر کردہ ہے جس میں قرآن کریم کی تفسیر، فقہ مالکیہ اور احادیث کا کورس شامل ہے.اس کے علاوہ متعدد مضامین مقرر ہیں جن کو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق لکھوانا ہوتا ہے.یہ نصاب کافی تشریح اور تفصیل سے طلباء کو پڑھانا پڑتا ہے.اس نصاب کے علاوہ مشن نے کچھ مزید د مینیات کا نصاب بطور تعلیم و تربیت اور تبلیغ مقرر کیا ہوا ہے.جس میں کلاسوں کے لحاظ سے

Page 845

تاریخ احمدیت.جلد 24 805 سال 1968ء درجہ بدرجہ کتب مقرر ہیں.چھوٹی کلاسوں میں کشتی نوح (انگریزی) ، لائف آف محمد علی ، نماز (انگریزی)، یسرنا القرآن، چالیس جواہر پارے، حضرت احمد ( انگریزی) اور بڑی کلاسوں میں اسلامی اصول کی فلاسفی اور دیگر کتب شامل ہیں.چنانچہ اس نصاب کو پڑھاتے وقت مختلف مسائل اور عبادات کی کافی تشریح و تفصیل کر کے سمجھانا پڑتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے روزانہ ہی سکول کے طلباء کو تعلیم وتربیت اور تبلیغ اسلام واحمد بیت کا نہایت عمدہ موقع میسر آتا رہتا ہے.یہ نصاب چونکہ سکول کے تمام طلباء پڑھتے ہیں لہذا اس طرح عیسائی طلبہ کو اسلام سے روشناس کرانے اور اس کی امتیازی خصوصیات اور اعلیٰ صداقتوں سے مطلع کرنے کی خدمت بھی سکول کے 66 82 ذریعہ سرانجام پاتی ہے.اس سال جور وسیکنڈری سکول میں خدا کا ایک گھر تعمیر ہوا جس کا نام حضرت خلیفہ لمسیح الثالث نے مسجد غیر تجویز فرمایا.کالج کے پرنسپل مبارک احمد صاحب نذیر نے اس کے لئے چندہ جمع کرنے اور اس کی تعمیر میں نہایت محنت اور جانفشانی سے کام لیا.کینیما (KENEMA) میں جو مشرقی صوبہ کا ہیڈ کوارٹر ہے حکومت کی طرف سے مشن اور سکول کے لئے ایک موزوں قطعہ زمین حاصل ہوا.اس سلسلہ میں مولوی محمد صدیق صاحب شاہد نے پیراماؤنٹ چیف اور ان کی قبائلی انتظامیہ سے متعدد بار ملاقات کی اور ڈسٹرکٹ کمشنر سے بھی ملے.احمدیہ مشن نے اس سال ملک کی ایک کثیر تعداد کو پاکستان سے متعلق معلومات بہم پہنچائیں کیونکہ اکثر لوگ پاکستان کے حالات سے آگاہ نہیں تھے.احمدیہ مسلم سیکنڈری سکول بو (سیرالیون ) کی نمایاں کامیابیاں فٹ بال میں صوبائی چیمپین شپ کا اعزاز اس سال احمدیہ مسلم سکول بو نے جنوبی صوبے کے ۱۶ راسکولوں کی چنیدہ ٹیموں کے باہمی مقابلے میں شرکت کی اور اپنے گروپ میں سے سب ٹیموں کو شکست دے کر سیمی فائنل میں پہنچا اور فائنل میں بوسکول ( جو چیفس کالج کی طرز کا قدیمی ادارہ ہے ) کی ٹیم کو دوبارہ شکست دے کر چیمپیئن شپ جیت لی.۶ نومبر کو کاروینشن فیلڈ میں صوبے کے سربراہ پراونشل سیکرٹری جناب ایم.ایل.صدیقی نے یہ کپ احمد یہ سکول کی فاتح ٹیم کو ہزاروں مداحوں کے سامنے دیا.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ریڈیو

Page 846

تاریخ احمدیت.جلد 24 806 سال 1968ء اور پریس میں احمد یہ سکول کے متعدد میچوں اور سیمی فائنل، فائنل وغیرہ میں کامیابی کا بہت چرچا ہوا.تحدیث نعمت کے لئے سکول کے طلبہ نے گذشتہ سال کی روایت کے مطابق بوشہر کی اہم سڑکوں پر نہایت منظم اور باوقار جلوس نکالا.احمد یہ سیکنڈری سکول بو کا طالب علم اولمپک مقابلے میں ایک اور قابل ذکر امر یہ ہے کہ سکول کی ٹیم کا گول کیپر عزیز مارکونی طورے سیرالیون کا مشہور کھلاڑی ہے.اس نے ہائی جمپ میں سیرالیون کا قومی ریکارڈ قائم کیا ہوا ہے.اس سال میکسیکو میں منعقد ہونے والے مقابلوں میں وہ سیرالیون کی طرف سے شامل ہوا.عزیز طورے نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ اسے احمد یہ سکول بو اور احمد یہ مشن سے بڑی محبت ہے.عزیز کی شہرت کی وجہ سے سیرالیون کے کئی سکولوں نے اسے اپنے ہاں بلانے کے لئے بڑے جتن کئے ہیں لیکن طورے نے ان تمام دعوتوں کو ٹھکرا دیا.وہ کہتا ہے کہ احمد یہ سکول کی محبت کے اٹوٹ رشتے نے اس کے پاؤں میں زنجیر ڈال رکھی ہے طورے کا کہنا ہے کہ وہ تعلیم کی تکمیل تک اسی سکول سے وابستہ رہے گا.مورخه ۳۰ را گست ۱۹۶۸ء کو وزیر اعظم سیرالیون کی آمد پر ایک استقبالیہ کا انتظام کیا گیا جس میں احمدی مبلغ مکرم مولوی نظام الدین صاحب مہمان کو شمولیت کی دعوت دی گئی.آپ نے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران انہیں اسلامی لٹریچر پیش کیا جس میں لائف آف محمد ، The Message of Peace جیسی کتب شامل تھیں جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.غانا جماعت احمدیہ غانا کی تینتالیسویں سالانہ کا نفرنس ۱۳،۱۲،۱۱ جنوری ۱۹۶۸ء کو انعقاد پذیر ہوئی 86 جس میں پانچ ہزار سے زائد ممبران شریک کا نفرنس ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس موقع پر حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا جومولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعت ہائے احمد یہ غانا نے پڑھ کر سنایا:.پیغام امام همام جان سے عزیز بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج آپ سب ایک بار پھر خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے اور اس علاقہ کے

Page 847

تاریخ احمدیت.جلد 24 807 سال 1968ء کناروں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی تدابیر سوچنے کی غرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو آپ سب کے لئے ہر لحاظ سے با برکت ثابت کرے اور ازدیاد و تقویت ایمان کا موجب بنائے اس طرح کہ جب آپ یہاں سے واپس جائیں تو اس علاقہ میں بسنے والے ہر فرد بشر تک اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچانے کے ایک نئے عزم کے ساتھ جائیں اور آپ کے دل خدمت دین کے ایک نئے جوش اور ولولہ کے ساتھ معمور ہوں.آمین یہ دن اور یہ راتیں ذکر الہی ، عبادت، نوافل اور دعاؤں میں صرف کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.یہ امر ہمیشہ یادرکھیں کہ اسلام سلامتی ، امن اور عافیت کا علمبردار ہے.تا امن کی فضاؤں میں انسان اپنے خدا کی رضا کی راہوں کو تلاش کرے.اور اللہ تعالیٰ سے اس پر گامزن ہونے کی توفیق چاہے.اسلام فتنہ و فساد کو پسند نہیں کرتا.چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرہ:۱۹۲).پس اپنے گرد و پیش امن کی فضا قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں.اس کے لئے اپنے رب کے حضور دعا ئیں بھی کریں.نیز اس امر میں اپنی حکومت سے ہر طرح تعاون کیجئے تا اس ملک کے باشندے اچھے شہری بن کر سلامتی کے ماحول میں اپنے رب کی طرف قدم بڑھا سکیں.آپ پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ اس نے آپ کو احمدیت و اسلام کو قبول کرنے کی سعادت نصیب کی.جس پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ اسلام کا پیغام ہر فرد بشر تک پہنچانے اور اپنے دیگر ہموطنوں کو بھی اس نعمت سے بہرہ ور کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں.آپ میں سے ہر شخص اسلام کا مبلغ ہے.ہر شخص بنی نوع انسان کا سچا خادم ہے اور اس کا فرض ہے کہ وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک وہ اپنے ہموطنوں میں سے ہر فرد تک اسلام کا امن، صلح اور محبت کا پیغام نہ پہنچا دے.پس اٹھیں اور اس علاقہ کے ہر فرد بشر کو اسلام کے خدا کا حسین چہرہ دکھا کر اس کا گرویدہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں.اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے

Page 848

تاریخ احمدیت.جلد 24 808 سال 1968ء 87 لئے دیوانہ وار آگے بڑھیں.اور اس کی راہ میں اپنا سب کچھ نثار کر دیں تا آپ کے ہموطن حقیقی خدا کو پہچان کر اس کے غضب سے بچ جائیں اور اس کی محبت اور اس کی رحمت کی آغوش میں پناہ لے لیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین کا نفرنس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے اس روح پرور خطاب کے علاوہ حضور کی تقریر لنڈن کے بعض حصے ٹیپ ریکارڈ کی صورت میں سنائے گئے.اصل تقریر انگریزی میں تھی.جس کا لوکل زبان میں ترجمہ غانا کے لوکل مبلغ مسٹر محمد جبرائیل سعید نے کیا.اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں حکومت غانا کے دو احمدی وزراء شریک ہوئے.اور دو اجلاسوں کی صدارت کے علاوہ حاضرین سے خطاب بھی فرمایا.ان وزراء کے نام یہ تھے.(۱) مسٹر یوسف علی صاحب کمشنر برائے وزارت مکانات و تعمیرات.(۲) مسٹر ابراہیم ماہاما کمشنر برائے وزارت جنگلات حکومت غانا.اس کانفرنس سے جن مقررین نے خطاب فرمایا ان کے نام یہ ہیں مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم.سعود احمد خان صاحب دہلوی ایم.اے ٹیچر احمد یہ سیکنڈری سکول کماسی.قریشی محمد افضل صاحب انچارج احمد یہ مشن آئیوری کوسٹ.مرزا لطف الرحمن صاحب.قریشی مبارک احمد صاحب.مولوی عبدالوہاب صاحب آدم.مسٹر یوسف ایڈوسی.مسٹر ابراہیم مانو.مولوی عبدالحق صاحب ایم.اے.مسٹرایم.جی روکسن.مسٹر جبریل بن آدم ( آپ کی تقریر کا عنوان تھا ”احمدیت کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ آپ کی تقریر لوکل زبان میں تھی جو ریڈ یو غانا نے ریکارڈ کر کے ملک بھر میں نشر کی.) مسٹر محمد آرتھر پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ غانا.جبریل سعید مبلغ غانا.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری پرنسپل احمد یہ مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پانڈ معلم مومن، مسٹر اسمعیل آڈو.اس موقع پر جب چندہ کی تحریک کی گئی تو افریقن احمدیوں کی طرف سے اڑتالیس ہزار روپیہ پیش کرنے کا ایمان افروز منظر دیکھنے میں آیا.اشانٹی ریجن نے اس بارسب سے زیادہ مالی قربانی کر کے میدان جیت لیا.اور اس کو اول انعام کا مستحق قرار دیا گیا.اور دوسرا انعام اگونا سرکٹ کے حصہ میں آیا.کانفرنس کی خبر اخبارات نے تصاویر کے ساتھ شائع کی اور ریڈ یو غانا نے متعدد بار نشر کیں.علاوہ از میں مرزا الطف الرحمن صاحب نے کانفرنس میں حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی نظم ” سلام بحضور خیر الا نام خوش الحانی سے پڑھی اور تمام حاضرین علیک الصلوۃ علیک السلام کا پیارا مصرعہ بار بار دہراتے

Page 849

تاریخ احمدیت.جلد 24 809 سال 1968ء رہے.یہ نظم اور بعض جماعتوں کے لوکل گانے جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کے بارے میں تھے.خصوصاً اسمعوا صوت السماء جاء المسيح جاء المسیح کا لوکل زبان میں ترجمہ بھی ریکارڈ کیا گیا.اور اس پروگرام کو تین یوم تک یعنی مورخہ ۱۶، ۱۸ اور ۲۰ جنوری ۱۹۶۸ء کو مختلف اوقات میں نشر کیا گیا.تعلیم الاسلام ثانوی سکول کماسی میں ایک خصوصی تقریب مورخه ۲۲ جون ۱۹۶۸ء کو تعلیم الاسلام احمد یہ ثانوی سکول کماسی (غانا.مغربی افریقہ ) کا پہلا جلسہ تقسیم انعامات و اسناد کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا.صدارت کے فرائض جناب ابراہیم محمد وزیر اطلاعات حکومت غانا نے ادا کئے.جناب یوسف علی صاحب وزیر تعمیرات حکومت غانا نے اپنے خصوصی خطبہ میں سکول کے کارکنان کو مبارک باد پیش کی کہ مشکلات کے باوجود سکول باحسن کام کر رہا ہے.انہوں نے سکول کو دوسروں کے لئے بطور نمونہ پیش کیا.صوبہ اشانٹی کے ایڈمنسٹریٹر جناب کرنل یا ربوئے نے کامیاب ہونے والے طلباء میں سندات اور انعامات پیش کئے.آخر میں الحاج عطاء اللہ کلیم صاحب امیر جماعت احمدیہ غانا نے اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد معزز مہمانوں نے سکول کی سائنس لیبارٹری اور آرٹ روم میں ایک نمائش کا مشاہدہ کیا.سکول کے اس پہلے جلسہ تقسیم انعامات کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی شہرت ملی.چنانچہ درج ذیل اخبارات نے اس تقریب کی خبر نشر کی.ا.اخبار دی پائنیر The Pioneer ۲.خانین ٹائمنر Ghanaian Times.ڈیلی گرافک Daily Graphic 89.ریڈ یوغا نا نے بھی دو مرتبہ اپنے نیوز بلیٹن میں خبر دی.غانا میں مقامی مبلغین کیلئے ایک ریفریشر کورس کا انتظام کیا گیا.اس کورس کے دوران تبلیغ اسلام کے متعلق مختلف ضروری ہدایات دی گئیں.مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم مبلغ انچارج اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب نے درس کتب کے اسباق دینے کے علاوہ متعدد موقعوں پر تقاریر کر کے مقامی مبلغین کو طریق تبلیغ کے متعلق اہم ہدایات دیں.ریفریشر کورس کے دوران مقامی مبلغین نے بھی مقررہ موضوعات پر تقاریر کیں.غانا میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی سکیم کے تحت تعلیم القرآن کی کلاسیں نہایت کامیابی سے مصروف عمل رہیں.غانا میں اخبار Guidance میں اسلامی تعلیمات کی

Page 850

تاریخ احمدیت.جلد 24 810 سال 1968ء وضاحت کرنے کے علاوہ مکرم مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم دوسرے اخبارات میں بھی مضامین شائع کرواتے رہے.فنجی یکم جنوری ۱۹۶۸ء کو مسجد محمود (مارو) کا افتتاح عمل میں آیا.اس کی بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے نومبر ۱۹۶۵ء میں رکھی تھی اور اس کی تکمیل مولوی نورالحق صاحب انور اور شیخ عبدالواحد صاحب، محمد ایوب خان صاحب (صدر جماعت احمد یہ مارو) اور جماعت احمد یہ مارو کے تمام مخلصین کی مخلصانہ کوششوں اور قربانیوں سے ہوئی.احباب جماعت نے مزدوروں کی طرح کام کیا اور اس کی تعمیر میں ذوق و شوق سے حصہ لیتے ہوئے رقوم کے علاوہ تعمیراتی سامان کی صورت میں بھی امداد کی.اسی طرح مبارک احمد خان صاحب آف ناندی اور فیروز خاں صاحب صووا نے بھی جماعت کی سرگرمیوں میں والہانہ حصہ لیا.مسجد محمود کے افتتاح کے موقعہ پر مولوی نورالحق صاحب انور انچارج احمد یہ مشن نبی نے احباب جماعت کو ناندی میں بھی خدا کا گھر تعمیر کرنے کی تحریک فرمائی.جس پر ڈاکٹر شوکت علی صاحب پی ایچ ڈی پرنسپل ناندی کالج نے کالج کے ماحول میں ایک نہایت موزوں اور وسیع قطعہ زمین فوراً پیش کر دیا.یہ پلاٹ انہوں نے پرنسپل لان کیلئے رکھا ہوا تھا لیکن انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کیا حالانکہ وہ ان دنوں اپنے اہل وعیال سمیت ایک نہایت تنگ جگہ میں گزارہ کر رہے تھے.اس پلاٹ کے جماعت کے نام منتقل ہونے اور نقشہ کی تیاری کے بعد مولوی نور الحق صاحب انور نے ۱۴ جنوری ۱۹۶۸ ء کی سہ پہر کو اس خانہ خدا کا سنگ بنیاد رکھا.سال کے شروع میں شیخ عبدالواحد صاحب جزیرہ ونیوالیو (VANUA LEVU) میں پیغام حق پہنچانے اور جماعتوں کی تعلیم وتربیت کیلئے تشریف لے گئے جس سے احمدیوں میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی.فنجی کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو قرآن مجید اور اس کا ترجمہ اردو زبان اور د مینیات کی کتب پڑھانے کے لئے مندرجہ ذیل آٹھ مراکز قائم کئے گئے (۱) وائی لیو و (۲) وونی مولی (۳) سیگا نگا (۴) حلقہ مسجد مبارک (۵) بالے لاوا (۶) ناسروانگا (۷) بولیلی کا (۸) ناسیا ٹاؤن.

Page 851

تاریخ احمدیت.جلد 24 811 سال 1968ء مولوی نور الحق صاحب انور ایک ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ :.یہ واقعہ ان ایام سے تعلق رکھتا ہے جبکہ یہ عاجز بطور مبلغ اسلام وہاں مقیم تھا اور سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور احمدیت کی حقانیت کا چمکتا ہوا نشان ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس کی کچھ تفصیل دے دی جائے.یہ نشان ۱۹۶۸ء میں ’با (BA) کے مقام پر ظاہر ہوا.جو جزیرہ وٹی لیوو (VITI LEVU) کا مسلمان اکثریت رکھنے والا اہم قصبہ ہے.میرے نجی پہنچنے سے قبل اس علاقہ میں جماعت کا قیام نہ ہوا تھا.۱۹۶۸ء میں خاکسار نے وہاں کا تبلیغی دورہ کرنے کا پروگرام بنایا.اس سفر میں برادرم شوکت علی صاحب پی.ایچ.ڈی پرنسپل ناندی کالج میرے ہمراہ تھے.جب ہماری کار دریا کے کنارے باکے اس مقام پر پہنچی جہاں سے اس کی حد شروع ہوتی ہے تو میں نے بستی میں داخلہ سے قبل مسنون دعا مانگنے کی غرض سے بھائی شوکت علی کو رکنے کے لئے کہا.جونہی ہم نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کرم نوازی سے وہ کیفیت بھی میسر فرما دی جو قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے.اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا کس زبان سے شکر ادا کروں کہ اس پہلے دورہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی فتح مبین کے آثار ظاہر فرما دیے.با کے باسیوں نے ہمارا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک استقبالیہ کا پروگرام بنایا.اس موقع پر خاکسار کی تقریر بھی ہوئی اور اس کے جلد بعد ایک خاندان جو ناندی کے احمدیوں سے تعلق رشتہ داری رکھتا تھا احمدیت کے قریب آ گیا اور تھوڑے عرصہ بعد ایسا فضل ہوا کہ قصبہ کے عین وسط میں مسجد اور دار التبلیغ کے طور پر لکڑی کا ایک بنا بنایا نہایت عمدہ اور فراخ مکان خریدنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے دے دی.اس طرح بفضل خدا ہمارا مرکز وہاں قائم ہو گیا.اس کے بعد میں اکثر کوشش کرتا کہ وہاں جا کر قیام کروں.لیکن ہجوم کار اور مصروفیت کے باعث اس کا کم ہی موقع ملتا.اور ہمارا دار التبلیغ اکثر خالی رہتا.اس سے فائدہ اٹھا کر مخالفین احمدیت نے اس کو آگ لگانے کا ناپاک منصوبہ بنایا.جس کی ہمیں کچھ خبر نہ تھی اور ایک رات جب کہ کوئی متنفس اس مکان میں موجود نہ تھا نصف شب کے قریب اس کے چوبی ستون سے مٹی کے تیل میں بھیگا ٹاٹ باندھ کر اسے تیلی دکھا دی.مقصد یہ تھا کہ راتوں رات لکڑی کی عمارت جل کر بھسم ہو جائے گی اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی.لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر ہمارے مرکز کی حفاظت فرمائی اور وہ اس طرح کہ جو نہی آگ لگائی گئی پہرہ پر متعین سرکاری چوکیدار کا گذرا دھر سے ہوا اور آگ دیکھ کر وہ فورا وہاں پہنچا.اور قبل اس کے کہ آگ پھیلے اس نے اس پر قابو پا

Page 852

تاریخ احمدیت.جلد 24 812 سال 1968ء کر اسے بجھا دیا.جب مجھے اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو میں فوراً وہاں پہنچا اور دیکھا کہ آگ سے بفضل خدا سوائے ایک آدھ تختے جل جانے کے کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا.میں پولیس اسٹیشن گیا جہاں چوکیدار نے رپورٹ درج کرادی تھی وہاں پولیس آفیسر نے از خود مجھے کہا کہ انہیں قریبا علم ہو چکا ہے کہ کون اس گھناؤنے فعل کا ذمہ دار ہے لیکن ابھی وہ اس کا نام ظاہر نہیں کر سکتا.کچھ عرصہ بعد ہمیں بتا دیا جائے گا.لیکن اس کے بعد باوجود دریافت کرنے کے اس نے بالکل چپ سادھ لی.میں سمجھ گیا کہ اس کے پیچھے جا کے کسی سرکردہ معاند کا ہاتھ ہے اس لئے صبر و دعا ہی بہتر ہے اور وہی ہمارا اصل ہتھیار ہے.اس کے تھوڑا عرصہ بعد جب میں برادرم شیخ عبدالواحد صاحب کی معیت میں ہا گیا.جب ہماری موٹر اس مقام پر پہنچی جہاں ہم نے کھڑے ہو کر چند ماہ پہلے خیر و برکت کی دعا مانگی تھی تو بائیں طرف کی بیرونی آبادی میں احمدیت کے ایک شدید سر کردہ مخالف ابوبکر کو یا کو حسرت و یاس کی تصویر بنے اس حال میں اپنے مکان کے ملبہ پر کھڑے دیکھا کہ اس کا سارا مکان بمعہ سامان کے جل کر راکھ 92 اور خاک ہو چکا تھا اور اس کے سیمنٹ کے سفید بنیادی ستونوں کے علاوہ کچھ نظر نہ آتا تھا.یہ تو ظاہری طور پر اس کے مکان سے سلوک ہوا.روحانی طور پر اس کا دل جلنے کے سامان پہلے ہی سے پیدا ہو چکے تھے وہ یہ کہ اس کا سگا بھانجا عزیز حنیف کو یا احمدیت کی آغوش میں آکر ہمارے لئے دلی راحت کا موجب بن گیا.عزیز حنیف کو یا بفضل خدا بہت نیک اور مخلص نوجوان ثابت ہوا.میرے عرصہ قیام نجی کے دوران وہ بڑے ذوق و شوق سے قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسباق لیتا رہا.دینی تعلیم کے حصول اور تبلیغ کا اسے از حد شوق ہے“.اس سال کی پہلی سہ ماہی میں ماسٹر محمد حنیف صاحب کو یا کے وقف کو قبول فرما کر انہیں نجی کے پہلے مقامی واقف زندگی کا اعزاز بخشا اور ارشادفرمایا کہ انہیں نجی میں ہی دینی تعلیم دی جائے.چنانچہ وہ اپنی ملازمت ترک کر کے مولوی نور الحق صاحب انور کی خدمت میں حاضر ہو گئے.آپ نے انہیں دن رات ایک کر کے قرآن کریم، حدیث ، عربی، اردو اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اسباق دے کر بہت جلد اس قابل بنادیا کہ انہوں نے قرآن مجید ناظرہ پڑھنے کے علاوہ اس کے ابتدائی حصہ کا ترجمہ بھی سیکھ لیا.عربی سے خاصہ میں ہو گیا اور اردوزبان روانی کے ساتھ پڑھنے لگے.

Page 853

تاریخ احمدیت.جلد 24 813 93 سال 1968ء ناندی کالج کے ایک نئے سیکشن کا افتتاح گورنر نے کیا.اس تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مولوی نور الحق صاحب انور نے کی.یہ حصہ ان قرآنی آیات کا تھا جن میں سید نا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں مانگی تھیں.تلاوت کے بعد جب آپ نے ان کا انگریزی ترجمہ پیش کیا تو حاضرین اس سے بیحد متاثر ہوئے.خود گورنر صاحب نے فرمایا کہ ایسی اچھی آواز میں کلام پاک کی تلاوت میں نے پہلے کبھی نہ سنی تھی.مولوی صاحب نے ان کے ان تاثرات پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مختصر الفاظ میں تبلیغ کی.اس طرح انہیں سینکڑوں لوگوں تک پیغام حق پہنچانے کا موقعہ ملا.۲۷ جنوری ۱۹۶۸ء کی درمیانی شب کو مرکز سے سید ظہور احمد شاہ صاحب نجی کے ہوائی اڈہ ناندی پر پہنچے جہاں مبلغین احمدیت احباب جماعت کے ساتھ استقبال کیلئے موجود تھے.شاہ صاحب لٹو کا، با اور مارو سے ہوتے ہوئے یکم فروری ۱۹۶۸ء کو احمد یہ مشن کے ہیڈ کوارٹر ساما بولا میں پہنچے اور ۲۶ مارچ ۱۹۶۸ء کو نجی مشن کا چارج لیا.ریڈ یونی نے انگریزی، ہندوستانی اور مقامی زبانوں میں دو دن آپ کی آمد کا تعارفی اعلان نشر کیا.محترم سید ظہور احمد شاہ صاحب ۲۵ را پریل ۱۹۰۷ء کو پیدا ہوئے اور آپ کے والد حضرت سید غلام حسین شاہ صاحب بھیروی کی درخواست پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کانام ظہور احم رکھا.۱۹۶۰ء میں آپ نے زندگی وقف کی اور حضرت خلیفہ المسح الثالث کے ارشاد کی تعمیل میں ملازمت سے ریٹائر ہو کر ۳۱ مارچ ۱۹۶۶ء کور بوہ پہنچ گئے.وقف کی منظوری کے بعد ایک سال دس ماہ تک مجوزہ کورس کے مطابق مختلف اساتذہ کرام سے تحصیل علم کیا.شاہ صاحب نے چارج سنبھالتے ہی پبلک تقریروں کا سلسلہ شروع کر دیا.آپ کی پہلی تقریر ایک سکول کے ہال میں ہوئی جبکہ آپ کو نبی آئے ہوئے دو روز ہی ہوئے تھے.دوسری تقریر سکول آف ایگریکلچر میں اور تیسری ٹیچرز ٹرینگ سکول میں.تقاریر کے ساتھ ہی آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری کیا اور پہلی بار جماعتہائے ناصوری، مارو، ناندی لٹو کا اور جزیرہ وینوالیو کی جماعتوں کے دورہ پر تشریف لے گئے.۱۳ را پریل ۱۹۶۸ء کو جماعت احمد یہ نبی کا جلسہ سالا نہ مارو میں منعقد ہوا اور اس میں صودا اور ناصواں کے احباب بھی شامل ہوئے.مستورات کیلئے پردہ کا انتظام تھا.94 ۲۵ اگست ۱۹۶۸ء کو پہلی بارنجی ریڈیو سے آپ کی تقریر نشر ہوئی.پندرہ منٹ کی یہ تقریر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات پر مشتمل تھی.95

Page 854

تاریخ احمدیت.جلد 24 814 سال 1968ء نومبر ۱۹۶۸ء میں چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں آف ڈھاکہ وقف عارضی کے سلسلہ میں سڈنی (آسٹریلیا) سے نجی تشریف لائے اور حسب قواعد وقف ایک ہوٹل میں ہی اپنی رہائش اور کام کا انتظام کیا.سید ظہور احمد شاہ صاحب ان کے ہمراہ مختلف جماعتوں میں گئے جہاں چوہدری صاحب نے تربیتی امور پر جماعت سے خطاب کیا نیز انفرادی ملاقاتوں میں احباب کو مناسب نصائح سے نوازا.اپنے دس روزہ وقف کا عرصہ انہوں نے دورہ میں ہی گزارا اور نمازیں اکثر و بیشتر احباب کے ساتھ باجماعت ادا کرتے رہے.۲۷ دسمبر ۱۹۶۸ء کولٹو کا میں جماعت احمدیہ کے پہلے پرائمری سکول کی بنیاد دعاؤں کے ساتھ سید ظہور احمد شاہ صاحب نے رکھی.اس موقعہ پر احمدی احباب کے علاوہ محکمہ تعلیم کے افسران اور نجی کے قدیم اخبار نجی ٹائمنز کے رپورٹر بھی موجود تھے.فی ٹائمنز نے اپنی یکم جنوری ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں اس کی رپورٹ بمعہ فوٹو شائع کی.یہ سکول ماسٹر محمد حسین صاحب صدر حلقہ لٹو کا کی زیر نگرانی بنا اور ان کے اہل و عیال اور دیگر احمدی احباب نے وقار عمل کے ذریعہ اس کو پایہ تکمیل تک پہنچایا.کینیا مارچ ۱۹۶۸ء میں کسوموں سے ۹۰ میل کے فاصلے پر ایلڈوریٹ شہر میں محکمہ زراعت کی زراعتی نمائش منعقد ہوئی.اس موقع پر مبلغ کسوموں مولوی منیر الدین احمد صاحب ایم.اے نے احمد یہ مشن کا سٹال لگایا.یہ سٹال اپنی نوعیت کا واحد سٹال تھا جہاں دو دنوں میں طلباء، اساتذہ، دکاندار، دفتری کارکن ، کسان اور پادری صاحبان غرضیکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لوگ سٹال پر آئے.اور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر اور تبلیغی چارٹس دیکھے.نمائش کی اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی ایلڈوریٹ کے میئر تھے.جو سوسائٹی کے صدر اور سیکرٹری کے ہمراہ احمدیہ سٹال پر بھی تشریف لائے.اور اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اسلام سے لوگوں کو متعارف کرانے کیلئے جماعت احمدیہ جس رنگ میں کوشش کر رہی ہے وہ قابل قدر ہے.ماہ اپریل میں احمد یہ مشن کو کینیاٹا کالج نیروبی کی طرف سے اسلام پر تقریر کرنے کی دعوت ملی.احمد کی یہ کالج کینیا میں سب سے بڑا ٹیچر ٹریننگ کالج ہے.جہاں اس زمانہ میں سات سو طلباء تعلیم پار ہے تھے چنانچہ مولوی عبدالکریم شر ما صاحب امیر ومبلغ انچارج کینیا نے کالج کے ہال میں لیکچر دیا.جس میں آپ نے جامع رنگ میں اسلامی تعلیم کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی.بعد میں قریباً سوا گھنٹہ تک

Page 855

تاریخ احمدیت.جلد 24 815 سال 1968ء طلباء نے سوالات کئے.جن کے نہایت تسلی بخش جواب دیئے.طلباء بہت خوش ہوئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تقریر بہت کامیاب رہی.صدر جلسہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس تقریر سے ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے.ہم دوبارہ جلد ہی دوسری تقریر کروانے کا انتظام کریں گے.جلسہ کی کارروائی کے بعد کالج لائبریری کو اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی) کے متعدد نسخے تحفہ پیش کئے گئے.اسی طرح ایسٹ افریقن پاور اینڈ لائٹنگ سکول نیروبی میں اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر ایک مذاکرہ ہوا.جس میں اسلام کی نمائندگی کے لئے احمد یہ مشن کو دعوت دی گئی.چنانچہ مشن کی طرف سے شرما صاحب اور عثمان کا کو ریا صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ نیروبی اس میں شامل ہوئے.عیسائیت کی نمائندگی دو عیسائی پادریوں نے کی.طلباء نے اس موقع پر اسلام و عیسائیت کے متعلق نہایت دلچسپ سوال کئے جن کے جواب ہماری طرف سے نہایت مدلل طریق پر دیئے گئے.اپریل کے آخر میں کینیاٹا کالج نیروبی میں وسیع پیمانے پر پادریوں کی کانفرنس ( PASTORAL CONFERENCE) ہوئی جس میں ایک ہزار سے زائد مندوبین نے شرکت کی.امریکہ سے ورلڈ ویژن انٹر نیشنل کے وائس چیئر مین بھی اس کانفرنس میں شمولیت کے لئے آئے.احمد یہ مشن نے منتظمین کو لکھا کہ ہمیں بھی بطور زائر شمولیت کی اجازت دی جائے لیکن کر سچن کونسل نے معذرت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کا نفرنس صرف عیسائی پادریوں کے لئے ہے.تاہم انہوں نے ہمیں اجازت دی کہ آپ جائے رہائش پر مقررین سے ملاقات کر سکتے ہیں.اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے شرما صاحب امیر جماعت کینیا، مولوی محمد عیسی صاحب، چوہدری محمد اسلم صاحب اور خاکسار مولوی بشیر احمد صاحب اختر کے ساتھ ملاقات کے لئے اس ہوٹل میں جہاں وہ مقیم تھے تشریف لے گئے.وائس چیئر مین ڈاکٹر پاؤل ریس کے علاوہ تنزانیہ کے بشپ، شمالی کوریا کے پادری صاحب موجود تھے.مزاج پرسی کے بعد شر ما صاحب نے خود ہی تثلیث پر گفتگو شروع کر دی.جب ان کے دلائل پر شرما صاحب نے جرح کی تو گھبرا گئے اور کہنے لگے کہ تثلیث کا مسئلہ ایک راز ہے جو انسانی عقل و فہم سے بالا ہے.نیز کہا کہ وقت بہت تھوڑا ہے اور ہم بہت مصروف ہیں اس لئے زیادہ گفتگو نہیں کر سکتے.شرما صاحب نے فرمایا کہ مسئلہ تثلیث پر گفتگو کا تو ہمارا ارادہ نہیں تھا.اس بارہ میں عیسائیت کی لاچاری کا ہمیں علم ہے ہمارا منشاء یہ تھا کہ مسیح کی صلیبی موت پر گفتگو کی جائے.اس مسئلہ پر ایک کتاب (?Where did Jesus Die ہم لائے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ اسے پڑھ کر اپنے

Page 856

تاریخ احمدیت.جلد 24 816 سال 1968ء خیالات کا اظہار کریں.تنزانیہ کے بشپ صاحب نے کتاب لے لی اور وعدہ کیا کہ مطالعہ کے بعد جلد ہی تنقید لکھ کر بھجوائیں گے.مگر ان کی طرف سے جواب تک نہ آیا.کینیا میں کیتھولک اور دوسرے عیسائی فرقوں کی طرف سے مذہبی نصاب موجود تھا.اور ملک بھر کے سکولوں میں پڑھایا جارہا تھا.لیکن اسلام کے متعلق کوئی ایسا نصاب سکولوں میں رائج نہیں تھا.مسلمان طلباء دینیات کے پیریڈ میں عیسائیت کی تعلیم حاصل کرتے تھے یا بیکار بیٹھے رہتے تھے.جو ایک پریشان کن صورت تھی.مولوی عبد الکریم صاحب شرما نے اس پہلو کی طرف خصوصی توجہ دی.اور کینیا کے وزیر تعلیم کو لکھا کہ ملکی سکولوں میں اسلام کے متعلق نصاب رائج کیا جائے.وزیر موصوف نے یہ تجویز منظور کر لی اور احمد یہ مشن سے ہی فرمائش کی کہ وہ پرائمری اور سیکنڈری سکولوں کیلئے اسلامی نصاب تیار کرے.چنانچہ خدا کے فضل و کرم سے احمد یہ مشن نے دوسرے اسلامی فرقوں کے بھر پور تعاون سے یہ اسلامی خدمت بھی سرانجام دی.۱۹۶۸ء میں حکومت کینیا نے وراثت ، شادی ، طلاق اور عورتوں کے حقوق کے متعلق چھان بین کرنے کے لئے دو کمیشن مقرر کئے تھے.اور پبلک کا نقطہ نگاہ معلوم کرنے کے لئے ایک سوالنامہ بھی جاری کیا.اسلامی نقطہ نگاہ کی وضاحت کیلئے حکومت کی طرف سے احمد یہ مشن کو بھی دعوت دی گئی تھی.سوالات کے جوابات بھیجوانے کے علاوہ اس دعوت پر مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے کمیشن کے رو برو پیش ہو کر شہادت دی اور متذکرہ بالا امور کے متعلق اسلامی نقطہ نگاہ پیش فرمایا.اسی طرح وراثت کے متعلق قائم کردہ کمیشن کے سامنے مولوی نورالدین احمد صاحب مبلغ کسوموں نے اسلامی نقطۂ نظر کی 98 97 وضاحت کی.اکتوبر ۱۹۶۷ء سے کینیا مشن کو حکومت کی طرف سے ریڈیو پر دینی نشریات کی اجازت مل چکی تھی.اور مشن کی طرف سے با قاعدہ ہر جمعہ اسلام پر ایک تقریر نشر ہونے لگی پھر ماہ رمضان میں ( ۳ دسمبر ۱۹۶۷ء تا ۲ جنوری ۱۹۶۸ء) تقریر کے علاوہ روزانہ صبح شام ریڈیو پر سواحیلی میں درس قرآن بھی ہوتا رہا.ریڈیو پر تقاریر کی سعادت بالعموم کینیا کے مخلص احمدی عثمان کا کوریا صاحب کے حصہ میں آئی.جنوری ۱۹۶۸ ء کے آخر میں مولوی عبدالکریم صاحب شرمانے کینیا ممباسا، کوالے اور ٹا ویٹا ریجن کا دورہ کیا.اور احمدیوں کو تربیتی امور کی طرف توجہ دلائی.عیسائی سرکاری افسران تک اسلام کا پیغام پہنچایا اور سکولوں کے طلباء سے خطاب کیا.

Page 857

تاریخ احمدیت.جلد 24 817 سال 1968ء.یکم سے پانچ اکتوبر ۱۹۶۸ء تک ملک کے دارالحکومت نیروبی میں بین الاقوامی نمائش ہوئی.نمائش میں مقابلے کے لئے جرمنی، انگلستان اور ہالینڈ نے گائیں اور بھیڑیں بذریعہ ہوائی جہاز بھجوائیں.جانوروں کے مقابلہ کے لئے جاپان اور کینیڈا سے حج بلائے گئے.احمد یہ مشن کی طرف سے اس میں پہلی دفعہ تبلیغی سٹال لگایا گیا.سٹال کی تیاری کے لئے مولوی نور الدین صاحب کسوموں سے اور مولوی محمد عیسی صاحب ٹا ویٹا سے نیرو بی تشریف لائے مبلغین کے علاوہ نیروبی کے دوستوں نے بھی ان کا پورا پورا ہاتھ بٹایا اور اخراجات بھی بر دلٹریچر فروخت ہوا.قطعات میں سب سے زیادہ دلچسپی اور توجہ کا مرکز حضرت عیسی علیہ السلام کی تصاویر والا قطعہ رہا.ایک امریکن پادری صاحب نے شرارت کرنا چاہی.مگر لوگوں نے اسے ملامت کی کہ دوسروں کے سٹال پر جا کر کیوں شور ڈالتے ہو.شر ما صاحب نے انہیں مناظرہ کی بھی دعوت دی مگر انہوں نے ٹال مٹول سے کام لیا.قرآن کریم کے مختلف تراجم بھی لوگوں کی توجہ کا موجب بنے رہے.غیر احمدی مسلمان انہیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے اور کہتے کہ صرف جماعت احمدیہ فی الحقیقت بڑا کام کر رہی ہے.ایک صاحب کہنے لگے.عیسائیوں کے سٹالوں کو دیکھ کر ہمیشہ شرمندگی ہوتی تھی.اس سال ہم بھی فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی سٹال بھی موجود ہے.ایک صاحب نے کہا کہ یہاں سٹال لگا کر آپ نے مسلمانوں کی لاج رکھ لی ہے.سٹال پر آنے والوں میں ہر قسم کے لوگ شامل تھے.افریقن ، ایشین، یورپین، تاجر، وزراء، ممبر پارلیمنٹ، سرکاری عہدہ دار، غیر ملکی زائرین، طلباء، مرد و عورتیں وغیرہ.الغرض اس سٹال کے ذریعہ جماعت احمدیہ کینیا کو ہزاروں افراد سے رابطہ کرنے کا موقع ملا.اور ان تک احمدیت کا پیغام پہنچایا.عام حالات میں اتنے تھوڑے عرصہ میں اور ایک جگہ پر اتنے لوگوں سے ملنا اور انہیں تبلیغ کرنا ممکن نہ تھا.نمائش کے بعد لائبیریا کے سفیر کی طرف سے صدر ڈاکٹر ولیم ٹب مین کے اعزاز میں دی جانے والی ایک پارٹی میں مولوی عبدالکریم صاحب شرما نے بحیثیت امیر جماعتہائے کینیا صدر لائبیریا کو خوش آمدید کہا.اور ان کی خدمت میں قرآن کریم انگریزی اور احمدیت کتاب بزبان انگریزی پیش کی.صدر معظم نے خوشی سے کھڑے ہو کر بڑے احترام کے ساتھ یہ تحفہ قبول کیا اور شکریہ ادا کیا.اس موقعہ پر حکومت کینیا کے وزراء، سرکاری عہد یدار اور دیگر ممالک کے سفراء موجود تھے.امیر صاحب کے ہمراہ جماعت نیروبی کے جنرل سیکرٹری عثمان کا کو ریا صاحب بھی 100.

Page 858

تاریخ احمدیت.جلد 24 818 سال 1968ء مولوی منیر الدین احمد صاحب نے مغربی صوبے کے متعدد مقامات کے دورے کئے.نکور وشہر کے سرکاری دفاتر میں جا کر افسران حکومت سے ملاقات کی.اور انہیں اسلامی لٹریچر دیا.اس شہر میں چھ روز قیام کر کے آپ نے متعدد لوگوں کو پیغام حق پہنچایا.اس طرح دو دفعہ کا کا میگا جو کہ مغربی صوبے کا صدر مقام ہے گئے.یہاں پر بھی سرکاری افسران اور کارکنان دفاتر سے مل کر انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا.101 یہاں کے کاؤنٹی کونسل کے چیئر مین نے جو کہ پادری ہیں تبادلہ خیالات کے لئے آپ کو دعوت دی.چنانچہ آپ مقررہ دن وہاں گئے.پادری صاحب کے ساتھ ایک گھنٹہ تک مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت اور دوبارہ جی اٹھنے پر گفتگو ہوئی.آخر پادری صاحب نے یہ کہہ کر گفتگو کا سلسلہ ختم کر دیا کہ میرے مذہب کے مطابق انجیل کے واقعات پر سوال یا تنقید نہیں ہوسکتی اس لئے میں مزید گفتگو نہیں کر سکتا.مشن نے اس سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا معرکتہ الآراء لیکچر امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ کا سواحیلی ایڈیشن نہیں ہزار کی تعداد میں شائع کیا.سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا رمضان المبارک کے متعلق خطبہ جمعہ فرمود ۲۴۵ نومبر ۱۹۶۷ء بھی سواحیلی میں ترجمہ کر کے نشر کروایا گیا.اسی طرح حضور کے ایک اور خطبہ جمعہ " قرآن کریم کی چار عظیم الشان خصوصیات کا سواحیلی ترجمہ بھی نیروبی ریڈیو سے براڈ کاسٹ کیا گیا.افریقنوں میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک جلسہ کا انتظام بھی کیا گیا جو نیروبی میں "پاموانی میموریل ہال میں منعقد ہوا.جلسہ کی صدارت محترم مولانا عبدالکریم شر ما صاحب انچارج کینیا مشن نے کی.جلسہ میں متعدد موضوعات پر تقاریر ہوئیں.جلسہ کی کارروائی تین گھنٹہ تک جاری رہی جو ساری کی ساری سواحیلی زبان میں تھی.جلسہ کے اختتام پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی تقریر جو سواحیلی زبان میں بصورت پمفلٹ چھپوائی گئی تھی تقسیم کی گئی.گیمبیا انگریزی عہد حکومت میں گیمبیا کی حکومت کی طرف سے عیدالفطر کے دن صرف عام تعطیل ہوتی تھی اور اس سے مسلمانوں کو واجبی سہولت حاصل نہیں ہوتی تھی کیونکہ عید الفطر کے دن کی تاریخ غیر یقینی ہوتی ہے.چوہدری محمد شریف صاحب انچارج احمد یہ مشن گیمبیا نے ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل صاحب سے درخواست کی کہ عید الفطر کے موقعہ پر دودن کی تعطیل عام دی جائے تا کہ اگر انتیس رمضان کے

Page 859

تاریخ احمدیت.جلد 24 819 سال 1968ء بعد عید ہو تو اس کے بعد ایک اور دن خوشی کے لئے مسلمانوں کو میسر آجائے اور اگر رمضان میں دن کا ہو تو رمضان کی تیسویں تاریخ کا دن انہیں تیاری کیلئے مل جائے.گورنر جنرل صاحب نے یہ درخواست منظور کر لی اور عید الفطر کے لئے دو دن کی عام تعطیل کا اعلان کر دیا.اور اس کا نفاذ اسی سال ۱۹۶۸ء کی عیدالفطر سے ہوا.عیدالفطر کے دو روز بعدم جنوری ۱۹۶۸ء کواللہ تعالیٰ نے ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل صاحب گیمبیا الحاج سرسنگھائے صاحب کو اپنے وعدہ کے موافق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس کپڑے کی برکت سے ایک اور برکت عطا فرمائی یعنی ان کی بڑی بیگم صاحبہ الحاجہ ہاجرہ لیڈی مانٹا سنگھاٹے سے ایک اور فرزند ایک عرصہ کے بعد عطا فرمایا جس کا نام ہز ایکسی لینسی نے فواد مبارک سنگھاٹے تجویز فرمایا.فواد عزیز کے دادا صاحب کا نام تھا اور مبارک محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کے نام سے بطور تبرک لیا اور سنگھائے ان کا خاندانی نام (SURNAME) تھا.جنوری ۱۹۶۸ء کو ہز ایکسی لینسی نے اپنے نومولود فرزند کا عقیقہ اپنے ذاتی مکان اور گورنمنٹ ہاؤس میں کیا.گورنمنٹ ہاؤس میں سرکاری طور پر تقریب عقیقہ منعقد کی گئی جس میں وزیر اعظم صاحب گیمبیا اور دس بارہ دیگر عمائدین ملک وملت مدعو تھے.ہز ایکسی لینسی کے ارشاد کے مطابق چوہدری محمد شریف صاحب نے رسم عقیقہ ادا کی یعنی عزیز نو مولود کے کانوں میں اذان واقامت کہی.عزیز کے نام کا اعلان کیا اور دعا کروائی جس میں حاضرین شریک ہوئے.بعد ازاں دو بکرے ذبح کئے گئے.جنوری ۱۹۶۸ء کے پہلے ہفتہ میں باتھرسٹ ( دار الحکومت گیمبیا ) میں اچانک یعنی بغیر کسی اعلان وغیرہ کے بشپ صاحبان سینیگال، مارٹی نیا، مالی اور گیمبیا کی ایک خاص کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں بقول گیمبیا گورنمنٹ نیوز بلیٹن میں یہ بات بھی زیر بحث تھی کہ اب جبکہ پوپ نے یہ اجازت دے دی ہے بلکہ تاکید کی ہے کہ دیگر مذاہب عالم کے ساتھ مذہبی گفتگو و مباحثات و مناظرات وغیرہ کئے جائیں.(یادر ہے اس سے پہلے رومن کیتھولک کے لئے دیگر مذاہب کی کوئی مذہبی بات سننا یا ان کی کوئی کتاب و رسالہ یا اشتہار پڑھنایا ان سے مناظرہ و مباحثہ کرنا منع تھا ) اس بارہ میں کیا طریقے اور کیا وسائل اختیار کرنے چاہئیں وغیرہ.گیمبیا مشن کو ان کے اس خفیہ کا نفرنس کا علم اس دن ہوا جب ان کی کانفرنس کا صرف ایک دن باقی تھا.اور دوسرے دن وہ اپنے اپنے ہیڈ کوارٹروں کو واپس جانے والے تھے.لہذا چوہدری شریف

Page 860

تاریخ احمدیت.جلد 24 820 سال 1968ء صاحب نے اپنے احمدی برادران کے ایک وفد کے ذریعہ ایک مختصر سے خط کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعوت نامہ (A Review of Christianity مرسلہ وکالت تبشیر ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں پہنچا دیا.گیمبیا کی جماعت کے ایک مخلص احمدی لیمن جوارا (پرائم منسٹر صاحب کے بھتیجے تھے.اور ایک اچھی پوسٹ پر کام کرتے تھے.) کے دماغ میں ماہ نومبر میں خطرناک طور پر خلل واقع ہو گیا علاج و معالجہ بے سود واقع ہوا.ایک دن گیمبیا کی جماعت کے چند خلصین نے چوہدری محمد شریف صاحب سے یہ الحاح اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس عزیز کی شفایابی کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا جائے.چنانچہ چوہدری محمد شریف صاحب نے حضور کی خدمت میں درخواست بھیج دی.حضور نے چوہدری صاحب کی درخواست منظور فرمالی اور عزیز کے لئے دعا فرمائی.اور ایک دوائی بھی از راہ شفقت بذریعہ ہوائی ڈاک ارسال فرمائی.حضور کی دعا سے عزیز موصوف ایک ماہ کے اندر اندر ہی خدا تعالیٰ کے فضل سے معجزانہ طور پر شفایاب ہو گیا.یہاں کے سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر انچارج نے لیت و لعل سے کام لیا.اس پر عزیز کو ڈاکار (سنیگال) برائے معاینہ بھیجا گیا.وہاں کے ڈاکٹر امراض دماغیہ نے عزیز کوسر ٹیفکیٹ صحت دے دیا.اور ساتھ ہی ایک چٹھی بھی انچارج ڈاکٹر گیمبیا کے نام لکھدی کہ آپ بھی اس کی تصدیق کر دیں.اس پر یہاں کے ڈاکٹر انچارج نے بھی مکمل شفایابی کا سر ٹیفکیٹ دے دیا اور یہ احمدی یکم فروری سے اپنے پہلے کام پر لگ گئے.قبولیت دعا کے اس نشان سے گیمبیا کی جماعت کے احمدی دوستوں کے ایمانوں میں اضافہ ہوا.اس سال کا اہم واقعہ یہ ہے کہ فروری ۱۹۶۸ء میں حکومت نے احمد یہ میڈیکل سنٹر قائم کرنے کی اجازت دے دی.۱۰ جون کو پاکستان سے ڈاکٹر سعید احمد صاحب میڈیکل مشنری ہاتھرسٹ میں تشریف لے آئے اور احمد یہ میڈیکل مشن گیمبیا میں خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم ہو گیا.محترم ڈاکٹر صاحب کی ملاقاتیں اور تعارف محکمہ صحت کے افسرانِ بالا اور بعض متعلقہ وزراء حکومت اور ہز ایکسی لینسی گورنر جنرل صاحب گیمبیا سے کروایا گیا.یہاں کا مرکزی ہسپتال (رائل وکٹوریہ ہسپتال ) بھی انہوں نے دیکھ لیا.مرکزی ہسپتال کے انچارج ڈاکٹر صاحب نے محترم ڈاکٹر صاحب کو اپنے سٹاف ڈاکٹر ان رائل وکٹوریہ ہسپتال ) کے ہمراہ ٹی پارٹی بھی دی.

Page 861

تاریخ احمدیت.جلد 24 821 سال 1968ء 104 احمد یہ میڈیکل سنٹر کا ہیڈ کواٹر گیمبیا کے عین وسط میں ایک اہم مقام کا دور (Kaur) میں تجویز کیا گیا تھا.۶ نومبر ۱۹۶۸ء کو اس مقام پر دعا کر کے احمد یہ میڈیکل سنٹر کا افتتاح کیا گیا اور ے نومبر سے ڈاکٹر صاحب نے علاج معالجہ کا کام شروع کر دیا.جبکہ احمدیہ مشن باتھرسٹ کے لئے ماہ جون میں مرکز کی غیر معمولی امداد سے ایک قطعہ زمین شہر کے عین وسط میں حاصل کیا گیا.نقشہ بنوایا گیا اور یہاں کے قواعد کے مطابق باتھرسٹ سٹی کونسل اور P.W.D سے اس کی منظوری حاصل کی گئی.چوہدری محمد شریف صاحب نے اس سال مشن کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ سالکینی ، فرافینی ، بانسانغ ، سیف، کنٹاٹور، منسا جنگ اور مضافات باتھرسٹ وغیرہ کے دورے کئے.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ انچارج نے برٹش کونسل سنٹر کے ہال میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر لیکچر دیا.اسی طرح مکرم چوہدری صاحب گیمبیا کے ہائی سکولوں کے گورنر ، پرنسپل اور اشاعت کی ایک میٹنگ میں شامل ہوئے.گیمبیا مشن میں سینیگال کے بعض افراد تشریف لائے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتب دی گئیں.مکرم داؤد حنیف صاحب نے Kuntar کے چیف سے ملاقات کر کے سلسلہ کا لٹریچر پیش کیا.اسی طرح اسسٹنٹ کمشنر صاحب کو بھی لٹریچر دیا گیا.سات احباب کو قبول اسلام کی سعادت حاصل ہوئی.مکرم چودھری محمد شریف صاحب نے پاکستانی سفیر برائے گیمبیا سین گال سے ملاقات کر کے ان کو اسلامی لٹریچر بطور تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے خوشی سے قبول کیا.10 عیدالفطر مورخه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کو منائی گئی.باتھرسٹ میں نماز عیدالفطر اور خطبہ عیدالفطر کو شروع سے لیکر آخر تک ریڈیو گیمبیا نے ریکارڈ کیا اور اسی شام کو اپنے پروگرام کے مطابق پہلے جامع مسجد باتھرسٹ سے نماز عید اور خطبہ نشر کیا اور اس کے بعد احمدیہ مشن سے نماز عید اور خطبہ عیدالفطر ۴۵ منٹ تک نشر کیا.لائبیریا اس سال کا ایک اہم اور یادگار واقعہ پریذیڈنٹ لائبیر یا عزت مآب شب مین کی دعوت پر امام مسجد فضل لندن کی تقریب یوم آزادی میں شمولیت ہے جس کا اجمالی تذکرہ تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحہ ۳۴۰، ۳۴۱ میں گزر چکا ہے.اس واقعہ کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تفصیلات جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق کے الفاظ میں سپرد قلم کی جاتی ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں:.

Page 862

تاریخ احمدیت.جلد 24 822 سال 1968ء سیرالیون سے صبح ساڑھے دس بجے روانہ ہو کر قریباً ساڑھے بارہ بجے لائبیریا کے ائیر پورٹ را برٹس فیلڈ پر جہاز اترا.میں نے کھڑکی سے باہر نظر کی تو سینکڑوں لوگوں کو جہاز کے بالکل قریب کھڑے دیکھا.خیال کیا کہ شاید اس جہاز سے کوئی اور شخص آرہا ہے جس کے استقبال کے لئے یہ سب لوگ جمع ہیں.جہاز سے باہر نکلے تو مکرم مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ انچارج لائبیریا آگے آکر ملے اور انہوں نے بتایا کہ یہ تمام لوگ آپ کے استقبال کے لئے منرو یا سے جو ائیر پورٹ سے ۴۵ میل کے فاصلہ پر ہے آئے ہیں.حکومت کے نمائندے بھی استقبال کے لئے موجود تھے.مکرم ساقی صاحب کی معیت میں ان سے مصافحہ شروع ہوا اور قریباً ایک گھنٹہ اس میں صرف ہوا.استقبال کرنے والوں میں منرویا کے مساجد کے دونوں امام مسلمان گورنر چیف صومومو مو پریذیڈنٹ مسلم کانگرس آف لائبیریا.اور دیگر سرکردہ ارکان بھی شامل تھے.دل خدا تعالیٰ کے شکر سے لبریز رہا.یہ لوگ احمدی نہ تھے اور نہ ہی مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے.محض اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے اور اسلام کی خدمت کی برکت کے نتیجہ میں آج جمع تھے پھر ایک خاص بات جو فوری طور پر میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ باوجود اجنبیت کے ان میں سے ہر مسلمان کو اخوت اسلامی کے جذبہ سے سرشار پایا.استقبال کے مراحل سے فارغ ہو کر گورنمنٹ کی طرف سے مہیا کردہ ائر کنڈیشنڈ کار میں سوار ہو کرمنرویا کی طرف چل پڑے باہر دن خاصا گرم تھا.دھوپ چمک رہی تھی.لیکن کار کے اندر یوں محسوس ہوتا تھا کہ گویا سردیوں کے دن ہیں.حکومت کا ایک نمائندہ بھی کار میں ساتھ تھا.سارا راستہ خوبصورت اور سر سبز مناظر سے پُر تھا.ربڑ کے درختوں کے کھیت کے کھیت نظر آتے تھے.ایک گھنٹہ کے سفر کے بعد ہم شہر میں داخل ہوئے.ہماری رہائش کا انتظام انٹر کانٹینینٹل ہوٹل میں کیا گیا تھا.ہوٹل میں پہنچ کر اپنے کمروں میں گئے.یہ ہوٹل لائبیریا کا سب سے بڑا ہوٹل ہے اور پوری طرح ائر کنڈیشنڈ ہے.عین سمندر کے کنارے پر ہے اور بڑی اونچائی پر بنایا گیا ہے.رات کے وقت شہر کا نظارہ بے حد دلفریب ہوتا ہے.ہمیں دو الگ الگ حصے رہائش کے لئے ملے تھے.یعنی ایک حصہ جس میں بیڈ روم اور ڈرائنگ روم وغیرہ کا پورا سیٹ تھا مجھے اور میری بیوی کو ملا اور دوسرا سیٹ میرے لڑکے منیر احمد کو.کمروں میں قیام پذیر ہونے کے چند منٹ بعد حکومت کی طرف سے پروگرام ملا.دو پہر کے کھانے اور آرام کے بعد شام کو ایک سکول کے ہال میں حج پر فلم دکھانے کا پروگرام مکرم ساقی صاحب

Page 863

تاریخ احمدیت.جلد 24 823 سال 1968ء نے بنایا تھا جس میں خاکسار بھی شامل ہوا.اس فلم کو دیکھنے کے لئے کثیر تعداد میں لوگ جمع تھے اور ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.مکرم ساقی صاحب کے ارشاد پر میں نے مختصر احج کی فلاسفی ، اسلامی اخوت اور اپنے لائبیریا کے دورہ کے محرک پریذیڈنٹ ٹب مین کے شکریہ پر مشتمل تقریر کی جس کا ترجمہ دوزبانوں میں ساتھ ساتھ ہوتا رہا.اگلے دن یعنی مورخہ ۲۵ جولائی کو جناب پریذیڈنٹ ٹب مین صاحب سے ملاقات کا وقت مقرر تھا.دس بجے خاکسار مکرم ساقی صاحب کے ہمراہ پریذیڈنٹ ہاؤس میں پہنچا.جناب پریذیڈنٹ صاحب سے ملاقات کی.انہوں نے خاکسار کو خوش آمدید کہا اور انگلستان میں مسجد آنے کے واقعہ کا ذکر فرمایا.نیز یوم آزادی کے سلسلہ میں منعقد ہونے والی جملہ تقریبات میں شمولیت کی دعوت دی.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ان کے ذاتی فارم کو دیکھنے کا بھی وقت نکال کر اس کو ضرور دیکھنے جاؤں.پریذیڈنٹ صاحب نہایت خلیق انسان ہیں اور جو خوبی ان کی سب سے زیادہ مجھے متاثر کرتی رہی وہ ان کی منکسر المزاجی ہے...اسی روز شام کو احمد یہ مشن ہاؤس میں مجلس عاملہ کے احباب سے ملنے کا موقع ملا.مکرم ساقی صاحب نے جملہ احباب کا تعارف کرایا.خاکسار نے لنڈن مشن کے طریق کار اور جماعت لنڈن کے احباب کے اخلاص کا تذکرہ کیا.اور اسلام کے لئے قربانیوں کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی.نیز جماعت ہائے احمد یہ انگلستان کے ایام تبلیغ کی کامیابی کا ذکر کیا.جمعه مورخہ ۲۶ جولا ئی لائبیریا کا یوم آزادی تھا.صبح ساڑھے آٹھ بجے فوجی پریڈ تھی.میں بھی مدعو تھا.شامیانے کے نیچے جہاں پریذیڈنٹ صاحب کی کرسی تھی اس سے تیسرے نمبر پر خاکسار کو جگہ دی گئی جو پریذیڈنٹ صاحب کی طرف سے خاکسار کا خاص اعزاز تھا.غیرممالک کے سفراء اور وزراء ملک وغیرہ سب کو پیچھے نشستیں دی گئی تھیں.پریذیڈنٹ صاحب جب تشریف لائے تو سب لوگ احتراماً کھڑے ہو گئے.پریذیڈنٹ صاحب جب کرسی پر رونق افروز ہوئے تو ان کی نظر خاکسار پر پڑی.دوبارہ اٹھ کر میرے پاس آئے اور مصافحہ کیا اور پوچھا کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے.یہ بھی ان کے حسنِ اخلاق کا ثبوت تھا.پریڈ شروع ہوئی اور قریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جاری رہی.ایک بجے دوپہر مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گئے.مکرم ساقی صاحب کے ارشاد پر خطبہ جمعہ میں نے دیا.اڑھائی بجے بعد دو پہر پریذیڈنٹ صاحب کی طرف سے استقبالیہ تھا جس میں

Page 864

تاریخ احمدیت.جلد 24 824 سال 1968ء خاکسار بھی مدعو تھا.ہمیں نماز جمعہ کی وجہ سے کچھ دیر ہوئی.جب ہم ہال میں پہنچے تو سیکرٹری آف سٹیٹ ہال کے دروازہ پر ملے اور کہا کہ پریذیڈنٹ صاحب آپ کا انتظار کر رہے ہیں.چنانچہ وہ فوراً مجھے اسٹیج پر لے گئے جہاں میں نے پریذیڈنٹ صاحب سے وقت پر بوجہ نماز جمعہ نہ پہنچنے کی وجہ سے معذرت کی.یہاں بھی اسٹیج پر پریذیڈنٹ صاحب کے قریب ہی خاکسار کو جگہ ملی.خاکسار کے ساتھ لائبیریا کے چیف جسٹس اور دوسری طرف آئیوری کوسٹ کے نائب صدر بیٹھے تھے.پریذیڈنٹ صاحب نے تھوڑی دیر کے بعد قوم کے نام پیغام پڑھنا شروع کیا یہ پیغام ساتھ ہی ساتھ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر نشر بھی کیا جارہا تھا.پیغام کے آخر میں جناب پریذیڈنٹ صاحب نے خاکسار کو خوش آمدید کہا اور اشارہ سے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا.کھڑے ہونے پر سارا ہال تالیوں سے گونج اٹھا.پیغام سے فارغ ہو کر پریذیڈنٹ صاحب اپنی نشست کی طرف آئے تو وزراء اور سفراء نے مصافحہ شروع کیا.چونکہ خاکسار بھی ان کے قریب ہی کھڑا تھا اس لئے ان کے بعد یہ تمام مدعوین خاکسار سے بھی مصافحہ کرتے رہے.اس موقع پر برطانوی سفیر نے مصافحہ کرتے ہوئے خاکسار کو برطانوی سفارت خانہ میں کھانے کی دعوت دی اور پریذیڈنٹ صاحب کی طرف سے میرے غیر معمولی اعزاز پر حیرت کا اظہار کیا اور مبارکباد دی.اسی روز یعنی مورخہ ۲۶ جولائی کی شام کو ساڑھے سات بجے ٹیلیویژن پر Be My guest نامی پروگرام میں خاکسار نے شرکت کی اور سوالات کے جوابات دیئے.اس موقع پر اسلام کی حقانیت پر تفصیل سے بات کرنے کا موقع ملا.فالحمد للہ.خاکسار کا ٹیلیویژن پر آنے کا یہ پہلا موقع تھا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے انٹرویو بڑا کامیاب رہا.خاکسار سے پہلے مشہور عیسائی پادری مسٹر رابرٹ ہاول کا انٹرویو تھا.انہوں نے بعد میں مجھے کہا کہ تم نے اسلام کی بہت اچھی نمائندگی کی ہے.ہفتہ مورخہ ۲۷ جولائی کو مسلمانانِ لائبیریا نے خاکسار کے اعزاز میں ایمبیسیڈ رہوٹل میں عصرانہ کا انتظام کیا.پریذیڈنٹ صاحب بھی اس میں شریک ہوئے.اس موقع پر وزیر خارجہ کے علاوہ برطانوی سفیر بھی مدعو تھے.دعا کے بعد مکرم ساقی صاحب نے خاکسار کا تعارف کرایا.اور مسجد لندن اور جماعت احمدیہ کا تفصیلی ذکر فرمایا.مسلم کانگرس آف لائبیریا کے جنرل سیکرٹری نے ایڈریس پڑھتے ہوئے خاکسار کو

Page 865

تاریخ احمدیت.جلد 24 825 سال 1968ء خوش آمدید کہا.اس کے بعد منرویا کے مسلمان گورنر نے مسلمانانِ لائبیریا کی طرف سے خاکسار کو لائبیریا کا خاص لباس جو ایک چغہ اور ٹوپی کی صورت میں تھا پہنایا.یہ لباس یہاں کے رواج کے مطابق خاص خاص لوگوں کو پہنایا جاتا ہے.اس کے بعد خاکسار نے تقریر میں حدیث نبوی مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهِ مَا حوالہ دیتے ہوئے جناب پریذیڈنٹ صاحب کا شکریہ ادا کیا نیز مسلمانانِ لائبیریا کا بھی شکریہ ادا کی.اس تقریر میں خاکسار نے خصوصیت سے ہستی باری تعالیٰ اور وحدانیت پر زور دیا.اور اس بات کا ذکر کیا کہ موجودہ لادینی دور میں تمام مذاہب کا اشتراک اگر اس ایک امر پر ہو جائے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں تو دنیا ممکن ہے پھر مذہب کی طرف راغب ہو جائے.خاکسار نے بتایا کہ امن صرف مذہب کے ذریعہ ہی قائم ہو سکتا ہے.جب تک لوگ اپنے خالق سے رابطہ پیدا نہ کریں گے ہرگز اطمینان اور سکون کا منہ نہ دیکھیں گے.خاکسار کی تقریر کے بعد جناب پریذیڈنٹ صاحب نے تقریر کی.پریذیڈنٹ صاحب نے خاکسار کو خوش آمدید کہا اور اس بات پر زور دیا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار اطمینانِ قلب کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہے اور یہ ان کا خدا تعالیٰ پر پکا ایمان ہے.آپ کی یہ تقریر بہت جذباتی اور خدا خوفی سے پر تھی جس کا حاضرین پر بھی بہت اثر تھا.اس دعوت کے موقع پر جناب پریذیڈنٹ صاحب نے پوچھا کہ آپ کی اہلیہ نظر نہیں آئیں.خاکسار نے جواب دیا کہ وہ تو پردہ دار ہیں.پریذیڈنٹ صاحب نے فرمایا کہ ان کو مسز ٹب مین سے ملنے کے لئے کل بھجوا دیں.اس وقت کوئی مرد نہ ہو گا.چنانچہ اگلے دن خاکسار کی اہلیہ مسز ٹب مین کی ملاقات کے لئے گورنمنٹ ہاؤس گئیں.مسز ٹب میں بہت تپاک سے پیش آئیں.میری اہلیہ کو گلے سے لگایا اور پاکستان اور مسجد لندن کے بارہ میں کافی دیر تک گفتگو کرتی رہیں.اور میری بیوی کی دعوت پر لندن مسجد میں آنا منظور کیا.اسی دن مکرم ساقی صاحب کے ارشاد پر ہم ایک گاؤں گئے جہاں حال ہی میں ہماری ایک مخلص جماعت قائم ہوئی ہے.ایک بات نے یہاں طبیعت پر اتنا اثر کیا کہ بیان سے باہر ہے.گاؤں کے وسط میں ایک کچے مکان کی طرف مکرم ساقی صاحب نے اشارہ کیا کہ یہ اس گاؤں کی جماعت کے پریذیڈنٹ ہیں.بے حد غریب آدمی نظر آتے تھے.مکان خستہ اور کچا اور صرف ایک کمرہ اور برآمدہ پر

Page 866

تاریخ احمدیت.جلد 24 826 سال 1968ء مشتمل تھا.جونہی ہم برآمدہ میں داخل ہوئے سامنے دیوار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر نظر پڑی.بس جو دل کی کیفیت ہوئی وہ نا قابل بیان ہے.کہاں قادیان سے حضور علیہ السلام کی دعوتِ اسلام کی آواز کا اٹھنا اور کہاں افریقہ کے ایک گاؤں کے ایک کچے مکان میں حضور علیہ السلام سے ایک غریب افریقن کی محبت کا یہ نظارہ.ایک زمانہ تھا کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر لیکن آج دنیا کے کونے کونے میں آپ کا نام نہ صرف پہنچ چکا ہے بلکہ آپ پر جانیں نچھاور کرنے والی جماعتیں پیدا ہو چکی ہیں.اتوار کے دن صبح پریذیڈنٹ صاحب کی طرف سے مہیا کردہ کار میں ہم ان کے فارم کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے.یہ فارم منر و یا سے ۶۵ میل کے فاصلہ پر ہے.سولہ سوا یکڑ کا یہ رقبہ ربڑ اور کافی کے بڑے بڑے باغات پر مشتمل ہے.فارم کے مینجر کو خاص ہدایات پریذیڈنٹ صاحب کی مل چکی تھیں اس لئے انہوں نے فارم کی خوب سیر کرائی اور پریذیڈنٹ صاحب کی ذاتی رہائش گاہ بھی دکھائی یہاں پر ایک چڑیا گھر بھی ہے.دو پہر کے کھانے کا انتظام بھی فارم پر ہی کیا گیا تھا.دو شام کو مسلمانان لائبیریا کے ایک اجتماع کو خاکسار نے خطاب کیا اور رات کے گیارہ بجے تک دلچسپ سوالات و جوابات کا سلسلہ جاری رہا.اگلے روز یعنی سوموار مورخہ ۲۹ جولائی کی شام کو روانگی تھی.دو پہر کو برطانوی سفیر صاحب کے ہاں کھانے پر گئے.بڑے تپاک سے پیش آئے.انہوں نے چند دیگر مسلمانوں کو بھی مدعا کیا ہوا تھا.انگلستان کی موجودہ گرتی ہوئی حالت کا ذکر بھی ہوتا رہا.شام کو ائیر پورٹ پہنچے تو کثیر تعداد میں مسلمان رخصت کرنے کے لئے موجود تھے.V.I.P کمرہ میں ہم سب کو لے جایا گیا.ایئر پورٹ پر وزیر خارجہ اور ایک اور وزیرو پولیس اور فوج کے نمائندگان، مسلم کانگرس کے گورنر صومومومو اور درجنوں اور احباب موجود تھے.اس سال میں مکرم مولوی مبارک احمد صاحب ساقی احمدی مبلغ کی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ریڈیولائبیریا پر اسلامی تعلیم کے متعلق مضامین کے پڑھے جانے کا بھی آغاز ہوا.اس سے قبل عیسائی ریڈیو سے فائدہ اٹھاتے تھے لیکن اسلام کے متعلق کوئی ایسا انتظام موجود نہ تھا کہ اس کی

Page 867

تاریخ احمدیت.جلد 24 827 سال 1968ء تعلیم کو بھی پیش کیا جا سکتا.اس کے علاوہ ایک اور بابرکت قدم یہ اٹھایا گیا کہ ہر جمعہ کے روز ریڈیو پروگرام تلاوت قرآن کریم سے شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا.108 منروویا لائبیریا میں سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کامیاب جلسہ مغربی افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح لائبیریا میں بھی عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم اہتمام سے منائی جاتی ہے جس کا طریق یہ ہے کہ عید میلاد کی شام کو لوگ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور ساری رات محفل لگی رہتی ہے.مورخہ 9 جون ۱۹۶۸ء کو عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر جماعت لائبیریا نے جلسہ سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اہتمام کیا.ڈیڑھ صد سے زائد احباب جلسہ میں شامل ہوئے.جلسہ کی صدارت ڈیپارٹمنٹ آف انفارمیشن کے نائب وزیر بائی ٹی مور (HON.BAL,T.MOORE) نے کی.آپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہی وہ وقت ہے جب ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے روحانی رہنماؤں کی تعلیمات کو اپنانا چاہئیے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب خدا تعالیٰ کے فرستادوں کی کہی گئی باتوں پر عمل کرے بغیر ہلاکت سے نجات نہ ہوگی.جلسہ میں مختلف موضوعات پر تقاریر ہوئیں.اس جلسہ کا ذکر تمام اخبارات میں ہوا.ایک اخبار نے تصاویر بھی شائع کیں.جلسہ میں جمہوریہ عربیہ متحدہ، نائیجیریا، سیرالیون اور مالی کے سفارتخانوں کے نمائندگان نے بھی شرکت کی.100 ماریشس ۲۱ جنوری ۱۹۶۸ء کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اچانک فسادات کی آگ بھڑک اٹھی اور ملک کا دارالحکومت پورٹ لوئیس ان کی لپیٹ میں آ گیا.پورٹ لوئیس کے بعد ماریشس کا دوسرا بڑا شہر روز ہل ہے جہاں عیسائیوں کی کثرت ہے اور مسلمان قلیل تعداد میں ہیں.یہاں فسادات پھیلنے کی صورت میں خطرہ تھا کہ خدانخواستہ جزیرہ بھر میں مسلمانوں کا قتل عام ہو جاتا.چنانچہ حالات کی سنگینی کو بر وقت بھانپ کر مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر انچارج احمد یہ مشن ماریشس نے تین ممتاز پادریوں، تین مساجد کے ائمہ اور تین ہندو لیڈروں کو ساتھ ملا کر ایک امن کمیٹی قائم کی اور خود بطور سیکر ٹری کمیٹی قیام امن کیلئے اہم خدمات بجالاتے ہوئے روزبل کے مختلف حلقوں میں امن کمیٹی کی شاخیں قائم کرائیں اور طرفین کے منتشر دعناصر کو سمجھا بجھا کر نیز پولیس کے افسران سے رابطہ قائم کر کے فسادات

Page 868

تاریخ احمدیت.جلد 24 828 سال 1968ء کی روک تھام اور قیام امن کیلئے بعض ضروری اقدامات کئے.ایک مرتبہ گورنر صاحب سے بھی ملاقات کی اور بعض اہم مسائل کی طرف ان کی توجہ دلائی گئی جس پر فوری اقدام کیا گیا اور روز ہل میں راتیں خوف سے جاگ کر گزارنے والے خدا تعالیٰ کے فضل سے امن و چین کی نیند سونے لگے.اچانک ایک رات عیسائیوں کے علاقہ میں تین چار مسلمانوں کے گھروں پر حملہ ہوا اور پتھروں سے مکانوں کے شیشے وغیرہ تو ڑ دیئے گئے.دوسرے دن وہ مکان خالی تھے اور مسلمان خوفزدہ کہ اب کیا ہوگا ؟ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر فوری طور پر امن کمیٹی کے صدر سے ملے جو کیتھولک پادری ہیں اور انہیں تجویز پیش کی کہ مسلمانوں کے ان مکانوں کی مرمت خود اس علاقہ کے عیسائیوں سے کروائی جائے اور دوسرے یہ تجویز ہوئی کہ اتوار کے دن چرچ میں ریزولیوشن پاس کر کے اس غنڈہ گردی کی مذمت کی جائے.ہر دو امور پر فوراً عمل ہو گیا اور فساد رک گیا.اپنے مکان چھوڑ کر بھاگنے والے مسلمان اپنے گھروں میں واپس لوٹ آئے.اور اس کی خبر اور تصاویرا اکثر روز ناموں میں شائع ہوئیں اور سارے ملک نے اس کو سراہا گو ایک عیسائی اخبار نے مسلمانوں کی مدد کرنے پر پادری صاحب کی مذمت بھی کی.پورٹ لوئیس میں فسادات کی وجہ سے سینکڑوں خاندانوں کو مجبور ہو کر اپنے گھروں سے نکل کر مسلمانوں کے علاقہ میں پناہ لینی پڑی.قریباً ایک سو خاندان روز ہل چلے آئے.دوسری طرف یہی حال عیسائیوں کا تھا مگر کئی عیسائی ادارے ان کی مدد کیلئے مصروف عمل تھے نیز حکومت بھی ان کی ہر ممکن مدد کر رہی تھی.پورٹ لوئس میں مسلمان مہاجرین کی مدد کیلئے فوری طور پر چند نو جوانوں نے مل کر کمیٹی بنائی اور کام شروع ہو گیا.روزہل میں عیسائیوں کی مدد تو ہو رہی تھی مگر مسلمانوں کا پرسان حال کوئی نہ تھا.چنانچہ مولوی صاحب نے خطبہ جمعہ میں احمدی احباب کو اس ضمن میں تحریک کی اور انہوں نے کپڑے اور کھانے پینے کا سامان جماعت کے مرکز دار السلام بھجوانا شروع کر دیا اور جماعت نے پندرہ روز تک ۵۰۰ سے زائد مہاجرین کو کھانا فراہم کیا.ہر خاندان کو پہنے کے لئے کپڑے مہیا کئے.نیز گورنمنٹ کے افسران اور وزیر متعلقہ سے مل کر ان کو مالی امداد بھی دلوائی.جماعت کے ذریعہ انجام پانے والے اس کار خیر سے متاثر ہو کر بہت سے ہمدرد دوستوں نے نقدی اور سامان بھی بھجوایا.مقامی ٹاؤن کونسل سے بھی مدد حاصل کی گئی جو اس سے پہلے صرف عیسائیوں کی مدد کر رہی تھی.ریڈ کر اس نے بھی کچھ رقم بھجوائی نیز بعض عیسائی دوستوں نے خود دار السلام آکر امدادی رقوم کے چیک پیش کئے.

Page 869

تاریخ احمدیت.جلد 24 829 سال 1968ء الغرض ان دنوں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی نصرت کا نظارہ جماعت نے اپنی آنکھوں سے دیکھا.خدمت خلق کا یہ کام روز بروز ترقی کر رہا تھا کہ بعض حاسدوں نے ماریشس کے سب سے بڑے اخبار لی ماریشین (LE MAURICIEN) کے ایڈیٹر آندرے میسن (ANDRE MASON) سے ایک نوٹ لکھوا دیا کہ مسلمان (احمدی) تو عیسائیوں کو خنزیر سمجھتے ہیں.ان سے ہمارا با ہمی تعاون کیسے ہوسکتا ہے.جس سے ایک نفرت کی لہر احمدیوں کے خلاف ملک بھر میں پھیل گئی.اس کی وضاحت مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے ایک مفصل مضمون میں کی جس پر یہ تبلیغی سلسلہ چل نکلا اور ہر دس پندرہ دن میں ایک آدھ مضمون احمد یہ مشن کی طرف سے بھی چھپتا رہا.مئی سے شروع ہو کر اگست ۱۹۶۸ ء تک یہ سلسلہ چلتا رہا.10 ۸ جون ۱۹۶۸ء کو اس سال کا پہلا یوم التبلیغ منایا گیا.چنانچہ روز ہل، تریولے، پائی، مونٹا ئیں بلانش، سینٹ پیٹر فینکس ، پورٹ لوئیس، مونٹا ئیں لانگ وغیرہ سب جماعتوں کے انصار، خدام اور اطفال نے تقریباً سارے ملک میں پھر کر ۷۰۰۰۰ اشتہارات مفت تقسیم کئے اور کئی ہزار کتابچے مبلغ ۷۰۰ روپے کے فروخت بھی کئے.جن احباب کے پاس کار میں تھیں انہوں نے کاریں پیش کیں.بعض سائیکلوں پر گئے اور باقی پیدل.اس موقع کیلئے ایک خاص پمفلٹ بھی تیار کیا گیا تھا جس میں مساوات، انصاف اور مذہبی رواداری کے متعلق قرآن مجید کی تعلیم بیان کر کے لوگوں کو اسلام کے مطالعہ اور اس کے ذریعہ سے قومی مشکلات کو دور کرنے کی ترغیب دلائی گئی تھی.ملک بھر میں ایک ہی دن میں تبلیغ کرنے کا اس قسم کا پروگرام ۱۹۶۶ء میں پہلی بار منایا گیا تھا.۱۹۶۷ء میں بھی یہ پروگرام کامیاب رہا.اب یہ اس سلسلہ کا تیسرا پروگرام تھا جسے عوام نے گرمجوشی سے خوش آمدید کہا.۱۰ جون ۱۹۶۸ء کو سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نفرنس منعقد ہوئی.ملکی فسادات کے بعد یہ پہلا موقع تھا جس میں ہندو، عیسائی اور مسلمان شامل ہوئے.جلسہ کی صدارت روز ہل میونسپل کمیٹی کے میئر جناب سی لیکنگ (MR.C.LECKNING) ممبر قانون ساز اسمبلی نے کی.ایک ہندو سوامی وینکاٹاسانندا (VENKATASANANDA) نے اپنی تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی غرض اور ضرورت بیان کی.پھر ایک کیتھولک عیسائی جناب ایڈون.ڈی.رو بیالا رڈ ایم.بی.ای (.EDWIN de ROBIALLARD M.B.E) کی تقریر کے بعد ملک کے اہم اخبار ماریشس ٹائمز کے ایڈیٹر اور قومی اسمبلی کے ممبر جناب رام لالہ (RAM LALLAH)

Page 870

تاریخ احمدیت.جلد 24 830 سال 1968ء نے اپنی تقریر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی عملی مساوات اور زبردست کامیابی کا اعتراف کیا.اس کے بعد ایک ہندو دوست جناب گا گا (GAGA) نے اپنی نظم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں سنائی.بعد ازاں ایک مشہور و معروف کیتھولک عیسائی پادری جناب ایچ سوشون (H.SOUCHON) نے اپنی تقریر میں اسلام کی بعض خوبیوں کو پیش کرنے کے بعد بتایا کہ اسلام اشتراکیت کے مقابلہ کی قوت سے متصف ہے.اس جلسہ کے انعقاد سے پہلے ملکی اخبارات میں اعلان ہوتے رہے.پھر جلسہ کی رپورٹ تصاویر سمیت شائع ہوئی نیز ٹیلیویژن کے ذریعہ بھی ملک بھر کے لوگوں نے اس بابرکت تقریب کو دیکھا اور سنا.111 ان دنوں جماعت احمدیہ ماریشس کے زیر اہتمام آٹھ مدارس کام کر رہے تھے جن میں بچوں کو قرآن مجید پڑھانے اور دینی تعلیم دینے پر نو اساتذہ مامور تھے.ان سکولوں میں درجنوں مسلمان بچے بھی زیر تعلیم تھے.امسال چار سیمینار بھی سکولوں کی تنظیمی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لئے منعقد کئے گئے.تعلیم الاسلام احمد یہ کالج بھی اس سال کے دوران جاری ہوا اور رجسٹر ڈ بھی کر لیا گیا.احمد حسن صاحب سوکیہ (ریٹائر ڈ گورنمنٹ ہیڈ ماسٹر ) اس کے پرنسپل تھے.اسی طلباء نے اس میں داخلہ لیا.ملک کی آزادی کے بعد ” ہم اور ہمارا مستقبل کے موضوع پر مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کو بارہ تقاریر کا ایک سلسلہ ریڈیو پر نشر کرنے کا موقع ملا.پھر ۱۹۶۸ء کی آخری سہ ماہی میں وقت کی آواز کے عنوان سے آپ کی تقاریر ہر پندرہ دن کے بعد ریڈیو پر نشر ہوئیں.جن میں آپ نے ملکی حالات پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے تبصرہ کیا.مثلاً ایک مرتبہ کا لجوں کے طلباء کی طرف سے یہ آواز اٹھی کہ ہمیں ایک نئے عالمگیر مذہب کی ضرورت ہے.چنانچہ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے اپنی ریڈیو تقریر میں اس امر پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ جو خوبیاں یہ طلباء نئے مذہب میں دیکھنا چاہتے ہیں وہ سب کی سب اسلام میں موجود ہیں.دیگر تقاریر میں خدمت ملک و قوم ، شادی بیاہ ، فیشن، حقوق نسواں ، چاند کے سفر اور دور حاضر کی ایجادات کی تفصیل قرآن کریم کی رُو سے پیش کرنے کا موقع ملا جسے مسلمان بھائیوں کے علاوہ ہندوؤں میں بھی مقبولیت حاصل ہوئی.۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء کو محکمہ تعلیم کے تحت یونیسکو کی راہنمائی میں ایک جلسہ عام ہوا جس میں گورنر جنرل، وزراء اور غیرممالک کے سفراء کے علاوہ مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کی تقریر بھی ہوئی جس میں

Page 871

تاریخ احمدیت.جلد 24 831 سال 1968ء قرآنی تعلیم اور مساوات کے موضوع پر خاص طور پر روشنی ڈالی گئی.جلسہ کے بعد ا کثر دوستوں نے مبارکباد دی اور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا.یہ تقریب ٹیلیویژن پر دکھائی گئی جس میں خاص مدعوین کی تعداد پانچ سو سے زائد تھی.دوسری تقریر جنوب مشرقی علاقہ کے شہر ماہی برگ (MAHEBOURG) میں کرنے کا موقع ملا جس کا انتظام وہاں کے طلباء کی ایک انجمن نے کیا تھا.اس جلسہ میں حاضرین کی تعداد کم و بیش دو ہزار تھی.ڈیوائن لائف سوسائٹی (DIVINE LIFE SOCIETY) نے اپنے نئے آشرم کے افتتاح کے موقع پر وزراء حکومت، ممبران پارلیمنٹ، غیر ملکی سفراء، اعلیٰ سرکاری عہد یداران، تجار، اساتذہ اور طلباء کو مدعو کیا.سوسائٹی کے عالمی صدر بھی رشی کیش (بھارت) سے آئے ہوئے تھے.تقریب کا آغاز سورۃ مومنون کے پہلے رکوع کی تلاوت سے ہوا جو تعلیم الاسلام احمد یہ کالج کے ایک طالبعلم نے کی.پھر کالج کے طلباء نے مل کر ایک دعائیہ نظم پڑھی.آخر پر مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر نے تلاوت قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر بیان کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام کے نزدیک عبادت گاہ کی تعمیر کی کیا اغراض ہیں اور پھر چھ منازل کو طے کرتے ہوئے انسان روحانیت کو کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تقریب میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی نمائندگی پوری شان سے ہوئی.اس تقریب کی تفصیل مقامی اخبارات میں شائع ہوئی اور ٹیلیویژن پر یہ تقریب ملک بھر میں بار بار دکھائی گئی.جماعت احمدیہ کے ایک دوست نے ایم.بی.ای (M.B.E) کا خطاب ملنے پر خوشی کی ایک تقریب منعقد کی جس میں ہندو، مسلمان اور عیسائی بھی مدعو تھے.اس موقع پر بھی مولانا موصوف کو خطاب کرتے ہوئے اسلامی تعلیم پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.اسی طرح ہند ولٹریری سرکل نے اپنے سالانہ جلسہ میں آپ کو تقریر کی دعوت دی.چنانچہ آپ نے سینکڑوں حاضرین کو اسلام کی دلکش تعلیم سے آگاہ کیا.مسلم سپر کلب (MUSLIM SPUR CLUB) نے انچارج احمد یہ مشن ماریشس کو اپنی دسویں سالانہ تقریبات میں شمولیت کی دعوت دیتے ہوئے انسانی حقوق“ کے موضوع پر مذاکرہ میں تقریر کی درخواست کی جس میں آپ کے علاوہ دوسرے مقررین میں یونیورسٹی آف ماریشس کے

Page 872

تاریخ احمدیت.جلد 24 832 سال 1968ء پروفیسر، مقامی بیرسٹر نیز امریکہ اور بھارت کے سفراء بھی شامل تھے.آپ نے اسلامی تاریخ کے واقعات پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام نے نہ صرف انسانی حقوق کے بارہ میں اعلی تعلیم پیش کی ہے بلکہ اس تعلیم پر عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے.ان اہم پبلک تقاریر کے علاوہ مولوی صاحب موصوف کو ۱۹۶۸ء کی آخری سہ ماہی میں مختلف جماعتی اجتماعات میں پندرہ تقاریر کا موقع ملا.جماعت احمدیہ ماریشس کو فرانسیسی زبان میں مندرجہ ذیل کتب شائع کرنے کا موقع ملا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی کتاب ”احمدیت کا پیغام حضرت محمد علہ عورت کے نجات دہندہ“.سیرت و سوانح حضرت مسیح موعود علیہ السلام.کامیابی کی راہیں ( ہر چہار حصص ) ماریشس کے اخبارات میں جماعت احمدیہ کی کارگزاری کی اشاعت کے علاوہ پانچ مضامین پر مشتمل ایک سلسلہ مضامین شائع ہوا یعنی نمبر وفات مسیح علیہ السلام نمبر ۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین.نمبر ۳ کسر صلیب نمبر ۴ قتل خنزیر اور نمبر ۵ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات.ان مضامین کی اشاعت سے عیسائیوں میں اسلام اور احمدیت کے متعلق دلچسپی میں نمایاں اضافہ ہوا.ماریشس کے جنوبی علاقہ میں احمدیہ جماعت کے دو اہم پبلک جلسے منعقد ہوئے.پہلے جلسہ کا انتظام وہاں کے غیر مسلموں نے کیا.دوسرا جلسہ سوشل سنٹر میں ہوا جس میں ہندو اور مسلمان شامل ہوئے.ایک لائبریری کو ۲۵ / اسلامی کتب بطور تحفہ دی گئیں.درس قرآن کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری رہا.وقف عارضی کی نہایت اہم اور نتیجہ خیز تحریک میں کئی دوستوں نے حصہ لیا اور مختلف علاقوں میں گروپ بھجوائے گئے.Le Message (اخبار) با قاعدگی سے شائع ہو رہا ہے.اس کے علاوہ ایک غلطی کا ازالہ کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا گیا.پبلک میں امن قائم کرنے کے سلسلہ میں اخبارات نے احمد یہ مشن کی مساعی کو سراہا اور دوسرے لوگوں کو بھی تلقین کی کہ جماعت احمدیہ جس جذ بہ کے ساتھ کام کر رہی ہے اس کو بروئے کارلانے سے امن و امان قائم کیا جا سکتا ہے.پاکستانی ہائی کمشنر کی آمد نومبر ۱۹۶۸ء میں مرزا رشید احمد صاحب دار السلام سے بطور پاکستانی سفیر ماریشس تشریف لائے.مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر انچارج احمد یہ مسلم مشن ماریشس نے اطلاع ملتے ہی مختلف دوستوں کو ٹیلیفون پر اطلاع دی اور آپ کا ائیر پورٹ پر شاندار استقبال کیا.ایک ہفتہ کے دوران آپ

Page 873

تاریخ احمدیت.جلد 24 833 سال 1968ء کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کیا گیا.آپ کے اعزاز میں ماریشس پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن اور حبیب بینک کی طرف سے دعوتیں دی گئیں.ماریشس اردو اکیڈمی کی طرف سے بھی آپ کو جلسہ عام میں welcome کیا گیا.اس کے علاوہ آپ کو مسلمانوں کے ایک عظیم جلسہ عام سے بھی خطاب کرنے کا موقع ملا.ان دونوں مواقع پر مکرم مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر انچارج احمد یہ مسلم مشن ماریشس کو اہم کام سرانجام دینے کا موقع ملا.تربیتی اجتماعات ۶۸ء میں تیسرا مرکزی اجتماع دار السلام روز بل میں منعقد ہوا.خدام نے کئی اہم تربیتی پروگرام پیش کئے.اطفال نے بھی حصہ لیا.نمازیں مع تہجد باجماعت ادا ہوئیں.لجنہ اماءاللہ کی ۸ ویں مرکزی سالانہ تقریب بھی نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہوئی.دار السلام کے وسیع مرکز میں یہ تقریب منعقد ہوئی.پھر ناصرات کا پروگرام ہوا.اس پروگرام کے بعد ان کی صنعتی نمائش اور مینا بازار کا افتتاح ہوا.خدام اور لجنہ کے اجتماعات کی پبلسٹی اخبارات اور ریڈیو پر ہوئی اور بعد میں رپورٹیں بھی مقامی پریس میں شائع ہوئیں.عید الفطر مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کو منائی گئی.۸ مراکز میں نماز عید ادا کی گئی.خطبہ عید مکرم مولوی محمد اسماعیل منیر صاحب انچارج احمدیہ مسلم مشن ماریشس نے پڑھا اور دعا سے قبل حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا برقی پیغام پڑھ کر سنایا گیا.ملائیشیا 113 جماعت احمد یہ سبا کی سالانہ کانفرنس اور شوری ۲۶ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء کو منعقد ہوئی جس میں احباب جماعت ملک کے مختلف حصوں سے شامل ہوئے.کانفرنس کا افتتاح مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہی انچارج مشن نے کیا.ڈینٹل مورا یوسف صاحب آف سنڈا کن، منصور بن سلیم شاہ صاحب، تو انکو شریف حمید صاحب، حسین رائے آمل صاحب، ٹیچر حمید صاحب اور میمون مجیدہ صاحبہ کی تقاریر ہوئیں.تیسرا دن مجلس شوری کیلئے مخصوص تھا جس میں مرکزی انتخاب، بجٹ ۶۹ - ۱۹۶۸ء اور دیگر انتظامی امور زیر بحث آئے جن پر نمائندگان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.احباب نے سال کے دوران تبلیغ کیلئے پندرہ ایام وقف کرنے کا عہد بھی کیا.114

Page 874

تاریخ احمدیت.جلد 24 834 سال 1968ء نائیجیریا جماعت احد بی نایجیریا کا سالانہ جلسه ۱۲ ۱۳ ۱۴ جنوری ۱۹۶۸ء کو نہایت کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس موقع پر ایک خصوصی پیغام ارسال فرمایا.حضور کے علاوہ جلسہ میں سر براہ مملکت نایجیریا، نائیجیریا کے وزیر امور داخلہ الحاج کالم سالم، انسپکٹر جنرل پولیس نائیجیر یا نیز اسلامی ممالک کے چار سفارتخانوں کے نمائندوں کی طرف سے اپنی اپنی حکومتوں کی طرف سے پیغامات تہنیت پڑھ کر سنائے گئے جن کے دوران جلسہ گاہ نعروں سے گونجتی رہی.شمالی نائیجیریا کی ریاستوں کی عبوری کونسل کے صدر حسن عثمان کشسینا (KATSINA) کا پیغام جسے وزیر رفاہِ عامہ و ادیان آنریبل فیمی اکونو (ON.FEMI OKUNNA) نے پڑھا خاص اہمیت رکھتا تھا.انہوں نے اپنے پیغام میں جماعت احمدیہ کے جذبۂ اسلامی اور دینی سرگرمیوں کو سراہا اور مسلمانوں کو اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ دلائی.مسلم سفارتخانوں کے نمائندوں نے بھی احمد یہ مشن کی کوششوں کو بہت سراہا.مجلس مشاورت کے اجلاس کے علاوہ مردوں کے چار اور مستورات کا ایک اجلاس ہوا.جلسہ سے جن مقررین نے خطاب کیا ان میں ظفر اللہ الیاس صاحب ، الحاج اے.کے لیگوڈ (ALHAJ A, K, LEGUDE) سیکرٹری جنرل نائیجیر یا مسلم کو نسل ، سردار حمید احمد صاحب (کینیڈا)، قریشی فیروز محی الدین صاحب، اور جناب فیمی اولیوا (FEMI OLEUWA) وزیر رفاه عامه و آبادیات خاص طور پر قابل ذکر ہیں.شیخ نصیر الدین احمد صاحب ایم.اے انچارج احمد یہ مشن نائیجیریا نے اس پر رونق اور کامیاب جلسه سالانہ کی مفصل رپورٹ میں تحریر فرمایا:.گذشتہ سال کے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا گیا تھا کہ آئندہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر نائیجیریا کے مشنوں کے آٹھوں سرکٹس میں متعین لوکل مبلغین کی تبلیغی سرگرمیوں کا مقابلہ ہو گا.چنانچہ سال کی رپورٹوں اور دیگر کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد مکرم محمد بشیر صاحب شاد کی زیر نگرانی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ اس مرتبہ ABEOKUTA CIRCUIT کے لوکل مبلغ MR.M.A.SALMAN اول رہے اور چونکہ مبلغ کی کامیابی میں جماعتوں کے تعاون کو بہت زیادہ دخل ہوتا ہے لہذا اس سرکٹ کے چیئر مین کو بھی ان کے ساتھ شامل کیا گیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ جماعت احمدیہ کا ایک چھوٹے سائز

Page 875

تاریخ احمدیت.جلد 24 835 سال 1968ء کا جھنڈا سارے ABEOKUTA CIRCUIT کو انعام میں دیا جاتا ہے.چنانچہ سرکٹ چیئر مین الحاج ابی اولا ALHAJ A A BEOLA کو سٹیج پر بلایا گیا اور ان کو یہ جھنڈا ALHAJ S.B.DAHIRA نے دیا.یہ ریٹائر ڈ سینٹر ایجوکیشنل آفیسر ہیں.ہماری جماعت سے ان کو گہری عقیدت ہے.جب جناب وکیل التبشیر صاحب ۱۹۶۵ء میں یہاں تشریف لائے تھے اس وقت آپ نے ایک انگوٹھی الیس الله بکاف عبدہ والی ہدیہ انہیں عطا فرمائی تھی.یہ انگوٹھی انہوں نے ہمیشہ پہنی ہوتی ہے.جلسہ سالانہ شروع ہونے سے ایک روز قبل ریڈیو کی خبروں میں اس کا اعلان ہوتا رہا اور جمعہ کے روز جس دن جلسہ سالانہ کا آغاز ہوا ہماری مسجد سے خطبہ جمعہ ریڈیو پر نشر ہوا ٹیلیویژن والوں نے ہمارے جلسہ سالانہ کے مختلف اجلاسوں کے دوران تصاویر لیں....MUSLIM HALF HOUR کے پروگرام میں ٹیلیویژن پر اس نصف گھنٹے کے پروگرام میں احمدی بچوں سے اطفال الاحمدیہ کی کتب LESSONS ON ISLAM میں سے سوالات کئے گئے.برادرم مکرم فیروز می الدین صاحب بھی اس پروگرام میں شامل تھے.پروگرام CONDUCT کرنے والے(جواحمدی ہیں )ALHAJ ABDUS SALAM نے پروگرام کا تعارف کراتے ہوئے کہا ”بچو! اس سے پہلے پروگراموں میں سب بچے تالیاں بجایا کرتے تھے.لیکن آپ چونکہ فضل عمر احمد یہ سکول کے بچے ہیں جو تالیاں نہیں بجاتے.لہذا تم ان کی حوصلہ افزائی کے لئے بجائے تالی بجانے کے بلند آواز سے حبذا کہنا.چنانچہ بچے جو مقابلہ میں شامل ہوئے ان سے معلوماتی سوالات اسلام اور احمدیت پر پوچھے گئے.بچوں نے جواب بڑے عمدہ طریق پر دئیے.ایک پروگرام ہر جمعہ کے روز FOCUS ٹیلیویژن پر آتا ہے.یہ بھی معلوماتی پروگرام ہوتا ہے جس میں نصف گھنٹے تک کسی خاص موضوع پر کسی تجربہ کار شخص سے سوالات پوچھے جاتے ہیں.اس روز اس کا موضوع بھی احمدیت تھا.اس پروگرام میں خاکسار سے اخباری نمائندوں نے سوالات کئے.یہ پروگرام بھی بہت دلچسپ رہا اور اس طرح نائیجیریا میں لوگوں کو ٹیلیویژن کے ذریعہ عام معلومات بہم پہنچائی گئیں.ٹیلیویژن کے ان دونوں پروگراموں کا انتظام برادرم مکرم قریشی فیروز محی الدین صاحب نے کیا.تقریباً تمام اخبارات میں ہمارے جلسہ سالانہ کے بارہ میں خبریں شائع ہوئیں.مہمانوں کی رہائش اور خوراک کے انتظامات ایک بڑی بلڈنگ میں کئے گئے جو پانچ روز کیلئے خاص طور پر کرایہ پر لی گئی تھی.بلڈنگ کے باہر ایک

Page 876

تاریخ احمدیت.جلد 24 836 سال 1968ء کپڑے پر احمدیہ کا نفرنس کے مہمانوں کے لئے رہائش گاہ لکھا ہوا تھا.اور جس وسیع ہال میں اجلاس منعقد ہوئے ان میں رنگ برنگ کپڑوں پر بڑے بڑے عربی کے قطعات لکھے ہوئے تھے.ہمارے جلسہ سالانہ کا اس قدر خوشکن نظارہ شاید یہاں کی جماعتوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا.خود ہمارے لئے یہ جلسہ (پاکستانی مبلغین کے لئے ) قادیان اور ربوہ کے جلسہ سالانہ کی جھلک دکھا رہا تھا.نائیجیرین اطفال کا ٹیلی ویژن پر پروگرام وو 115- جماعت احمدیہ نائیجیریا کے سالانہ جلسہ کے موقع پر یہاں کے اطفال نے ایک خاص پروگرام پیش کیا جو نائیجیریا کے سرکاری ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا اور لاکھوں افراد نے اسے گھر بیٹھے بھی دیکھا.Muslim Half Hour“ کے نام سے ٹیلی ویژن پر اس نصف گھنٹے کے پروگرام میں احمدی بچوں سے اطفال الاحمدیہ کے نصاب کی کتب ” کامیابی کی راہیں سے سوالات کئے گئے.اس پروگرام میں قریشی فیروز محی الدین صاحب مبلغ سلسلہ بھی شریک ہوئے.اپر وولٹا جمہوریہ میں احمد یہ مشن کا قیام 116 ری پبلک آف اپروولٹا ( موجودہ برکینا فاسو ) مغربی افریقہ کی ایک ریاست ہے جو ساحل سمندر سے دور مالی، نائیجر ، آئیوری کوسٹ، گھانا، ٹوگو اور بین سے گھری ہوئی ہے.دارالحکومت اوگا دوگو (OUAGADOUGOU) ہے جو آبی جان سے بذریعہ ریل ملا ہوا ہے.اپر وولٹا فرانسیسی کالونی تھی جو ۱۹۶۰ء میں آزاد ہوئی.ملک کا سب سے بڑا قبیلہ موشی ہے.فرانسیسیوں کے آنے سے پہلے موشی لوگوں کی اپنی نہایت منظم اور قدیم حکومت تھی جو نو سو سال سے چلی آرہی تھی.موشی لوگ کئی سو سال تک اسلام سے دور رہے جبکہ دونوں ہمسایہ ممالک یعنی مالی اور نائیجر خالص اسلامی ممالک ہیں.اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ امر مقدر تھا کہ موشی لوگوں میں اسلام سید نا حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے زمانہ میں پھیلے.بیسویں صدی کے شروع میں موشی لوگ اسلام کی طرف مائل ہونے شروع ہوئے اور اس صدی کی ساتویں دہائی میں اس قبیلہ میں مسلمانوں کی تعداد دوسروں سے کہیں زیادہ ہوگئی.اپر وولٹا میں سب سے پہلے احمدیت کا پیغام وا (WA) غانا کے احمدی احباب کے ذریعہ پہنچا.وا کے قدیم احمدی الحاج معلم صالح محترم نذیر احمد صاحب علی مرحوم کے ذریعہ احمدی ہوئے تھے.یہ لوگ تجارت کی غرض سے ”بو بوجولا سو کے علاقہ میں بھی جایا کرتے تھے.اسی میل

Page 877

تاریخ احمدیت.جلد 24 " 837 سال 1968ء ملاقات کے نتیجہ میں اس علاقہ میں دو احمدی جماعتیں قائم ہوئی تھیں یعنی وا گا دو گواور بو بو جولا سو.۱۹۶۷ء میں مغربی افریقہ کے مبلغین کی زونل کا نفرنس منعقدہ منروویا، لائبیریا میں فیصلہ کیا گیا کہ مرکز کی منظوری سے سابق فرانسیسی افریقی ممالک میں بھی احمد یہ مشن کھولے جائیں.مشن کے قیام کے لئے اپر وولٹا کے دوسرے بڑے شہر بو بو جولاسو“ کا انتخاب کیا گیا.چنانچہ وہاں مبلغ بھجوانے اور متعلقہ انتظامات قریشی محمد افضل صاحب مبلغ انچا رج آئیوری کوسٹ کے سپرد کئے گئے کیونکہ آپ کے پاس ۱۹۶۳ء ہی سے مسلمان نوجوان بغرض تعلیم مقیم تھے جو آپ سے قرآن کریم معہ تفسیر ، کتب عربی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور عربی ادب پڑھتے تھے نیز تعلیم کے ساتھ ساتھ تبلیغی دورے، جماعت کا انتظام اور چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا بھی تجربہ حاصل کرتے تھے.اپر وولٹا کے سب سے پہلے مبلغ عبدالحمید صاحب تھے جو اپر وولٹا کے رہنے والے اور موشی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے.موصوف پانچ برس تک قریشی محمد افضل صاحب کے زیر تعلیم و تربیت رہے.اس نئے مشن کے جملہ انتظامات کے لئے جماعت احمدیہ آئیوری کوسٹ کے پریذیڈنٹ صاحب بھی تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ بو بو جولا سو“ کے عین وسط میں ایک وسیع مکان ستے کرایہ پر مل گیا جس میں مدرسہ، مسجد اور مبلغ کی رہائش کیلئے خاصی گنجائش تھی.مشن کا اولین ایڈریس یہ تھا: LE CENTRE ISLAMIQUE D'AHMADIYYA B.P.152, BOBOOU LASSO, REP HAUTE VOLTA اپروولٹا کی قدیم احمدی جماعتوں کا پہلی مرتبہ دورہ کرنے کی سعادت جماعت احمدیہ آبی جان کے پریذیڈنٹ عبد اللہ صاحب اور عبدالحمید صاحب کو حاصل ہوئی اور اس طرح افریقہ کے سابق فرنچ علاقوں میں احمدیت کے لئے ایک نیا دروازہ کھل گیا.117 احمدیہ ہسپتال کانو (Kano) نائیجیریا احمد یہ ہسپتال کانو (Kano) نائیجیریا کی بنیاد ۲۸ دسمبر ۱۹۶۸ء کو رکھی گئی.سنگ بنیاد کی تقریب میں کمشنرز، کونسلرز اور دیگر معزز مہمانان نے شرکت فرمائی.اس موقع پر کانو ریاست کے ملٹری گورنر عزت مآب الحاجی Audu Bako نے نیک خواہشات پر مبنی اپنا پیغام بھی بھیجا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اس ملک میں احمدیہ مشن نے اسلامی تعلیمات کو ترویج دینے کے ساتھ ساتھ اب انسانیت کی

Page 878

تاریخ احمدیت.جلد 24 838 سال 1968ء خدمت کرنے کے میدان میں بھی نمایاں قدم رکھا ہے.ایسا اچھا قدم اٹھانے پر ہم آپ کے بہت مشکور ہیں مجھے امید ہے کہ اس کلینک کی بنیاد ایک مکمل ہسپتال کے قیام کی جانب ایک اہم پیش قدمی ہو گی.مجھے امید ہے کہ آپ تعلیم کے میدان میں بھی ہماری مدد کرتے ہوئے جلد از جلد ایک سیکنڈری سکول قائم کریں گے.میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ ہماری حکومت آپ سے ہر طرح کا تعاون کرے گی.اس ہسپتال کے قیام کی خبر وہاں کے اخبار The New Nigeria نے ۳۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کے اشاعتی پر چہ میں بھی دی.ہالینڈ 118- ہالینڈ میں یکم جنوری ۱۹۶۸ء کو عید الفطر منائی گئی.خطبہ عید انچارج مشن عبدالحکیم صاحب اکمل نے مسجد احمد یہ ہیگ میں دیا.اس دفعہ ڈچ احمدیوں کے علاوہ سات آٹھ سو کے قریب دوسرے مسلمان بھائی بھی تشریف لائے.ان میں اکثریت ترک مسلمانوں کی تھی.مصر سعودی عرب، شام، پاکستان، انڈونیشیا، سورینام، اردن اور دوسرے ممالک کے متعد د مسلمان بھی شامل تقریب ہوئے.شام کے پروگرام میں ٹیلیویژن پر نماز عید کا منظر پیش کیا گیا.ریڈیو نے اس ضمن میں ایک خاص انٹرویو نشر کیا.جو کہ مسجد احمد یہ ہیگ میں لیا گیا تھا.ملک کے چھ اخبارات میں عید کی خبریں شائع ہوئیں.ہیگ کے سے کثیر الاشاعت عوامی اخبار ان ہاگس کو رانٹ (HAAGSCHE COURANT) 119 نے امام صاحب کے خطبہ پڑھنے کی تصویر کے علاوہ خطبہ کے بعض حصے بھی شائع کئے.یہ سال اس اعتبار سے بہت خوشگوار تھا کہ اس میں گذشتہ سالوں سے بڑھ کر ہالینڈ کے مختلف طبقوں میں اسلام سے متعلق معلومات حاصل کرنے اور اس سلسلے میں تقاریر کرانے کا واضح رجحان پیدا ہو گیا.چنانچہ مختلف مجالس کی دعوت پر مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے مختلف تنظیموں اور سوسائٹیوں میں متعدد تقاریر کیں مثلاً (۱) بریسکن (BRESKEN) میں ایک دو روزہ مذاہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی.پہلا دن خالص اسلام کے لئے رکھا گیا.مولوی عبدالحکیم صاحب نے جو تقریر کی وہ بہت کامیاب رہی.آپ نے اسلام پر کئے جانے والے سوالات کا بھی جواب دیا.دوسرے روز چرچ میں حضرت ابراہیم

Page 879

تاریخ احمدیت.جلد 24 839 سال 1968ء علیہ السلام کی شخصیت پر اسلامی نقطۂ نگاہ سے روشنی ڈالی.ازاں بعد تیسرے اجلاس میں امنِ عالم اور میرا مذہب کے موضوع پر اظہار خیال کیا جس کی وجہ سے حاضرین میں بہت دلچسپی پیدا ہوئی.اور انہوں نے احمد یہ مشن کا بہت سالٹر پچر خریدا.(۲) بل فرسم (HILVERSUM) کے ٹیچر ز ٹریننگ کالج میں جناب اکمل صاحب نے اسلام پر لیکچر دیا.(۳) بتسم (BUSSUM) میں اکمل صاحب نے ریفارم چرچ کے زیر اہتمام چرچ کی زیر اہتمام چریق کی عمارت میں اسلام پر تقریر کی.حاضرین کی تعداد پانچ سو سے زائد تھی.(۴) واخـنـنـگن (WAGENINGEN) کی انٹر نیشنل ایسوسی ایشن کے زیرانتظام چوہدری صلاح الدین خاں صاحب بنگالی مبلّغ ہالینڈ کا اسلام پر کامیاب لیکچر ہوا.جس کے بعد آپ نے سولات کے نہایت تسلی بخش جوابات دیئے.(۵) روٹرڈم (ROTTERDAM) میں عورتوں کی ایک سوسائٹی سے جناب اکمل صاحب نے خطاب فرمایا اور سوالوں کے مؤثر جوابات دیئے.(1) اوترخت ( UTRECHT کی ڈیبیٹ ایسوسی ایشن DEBATE) (ASSOCIATION کے زیر انتظام جناب اکمل صاحب نے اسلام پر لیکچر دیا.(۷) لیتے ( LISSE) کی کلب نشمج کی ایک تقریب میں جناب اکمل صاحب کی تقریر ہوئی.اخبارات نے تقریر کا تذکرہ کیا.(۸) آمرسفورٹ (AMERSFOORT) کی ایک سوسائٹی کی دعوت پر جناب اکمل صاحب نے اسلام پر تقریر کی.(۹) خروننگن (GRONINGEN) میں امام صاحب نے تین صد حاضرین کے سامنے اسلام کے موضوع پر اظہار خیال کیا.اخبارات میں یہ تقریر شائع ہوئی.اس سال مشن ہاؤس میں ملک کے کونے کونے سے آنے والے جن وفود تک پیغام حق پہنچایا گیا ان میں سے مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں.ٹیچرز ٹریننگ کالج لائیڈن (LEIDEN) کا وفد، شہر بیوروج (BEVERWIJK) کا وفد ، سینٹ جو کو بوسکرنگ (ST.JUCOBOSKRING) کا گروپ، مڈل سکول بیوروج (BEVERWIJK)، ہیگ سے طالبات اور ڈاکٹرز اسٹنٹ

Page 880

تاریخ احمدیت.جلد 24 840 سال 1968ء (DOCTOR'S ASSISTANTS) کا وفد ، نیدرلینڈ ہرور مڈ چرچ NEDERLAND) (HERVORMDE کے پادریوں کا گروپ اور اوستروج (OOSTERWIJK) سے ایک وفد.ان وفود کے علاوہ مشن ہاؤس میں زائرین کی آمد کا سلسلہ زور شور سے جاری رہا.اور ہالینڈ میں پھیلے ہوئے سکولوں اور کالجوں کے اساتذہ ، طلباء اور دیگر بہت سے ڈچ لوگ اسلام واحمدیت سے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے پہنچے.بلکہ دوسرے یورپین ممالک نیز امریکہ، سورینام، اردن ، سعودی عرب، کویت، تیونس، مراکش، مصر، ایران، افغانستان ، ترکی ، عراق اور پاکستان کے احباب مشن ہاؤس میں تشریف لائے.اور مطلوبہ معلومات اور لٹریچر حاصل کیا.زائرین میں ہیگ کی سول کورٹ کے ایک حج اور پاکستان کے ایک اہم سرکاری محکمہ کے انچارج اور مصر کے بعض انجینئرز کے علاوہ ہالینڈ کی صوفی جماعت کے نئے لیڈر ڈاکٹر فضل عنایت خاں صاحب بھی تھے.جو اس جماعت کے مرحوم لیڈر مشرف خاں صاحب ( اصل وطن ریاست بڑودہ.جماعت احمدیہ سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے.۱۹۶۷ء میں جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث ہالینڈ تشریف لے گئے تو انہوں نے اپنی بیگم کے ہمراہ حضور سے شرف ملاقات حاصل کیا) کے بھتیجے ہیں.اور کیلیفورنیا یو نیورسٹی امریکہ سے تعلیم یافتہ.ڈاکٹر موصوف کو جناب اکمل صاحب اور مولوی صلاح الدین خاں صاحب بنگالی نے خوش آمدید کہا اور تبادلہ خیالات کیا.نیز مشن کی طرف سے ان کی خدمت میں کتاب ”احمدیت پیش کی.روٹرڈم (ROTTERDAM) کی ایک جہاز ساز فرم کی دعوت پر مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے ایک بحری کرین کے سمندر میں اتارنے کا افتتاح قرآنی آیات کی تلاوت اور دعاؤں سے کیا.یہ کرین مشرقی پاکستان میں استعمال کے لئے خریدی گئی تھی.قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد چوہدری صلاح الدین خان صاحب بنگالی نے حاضرین سے انگریزی میں خطاب کیا.اس موقع پر کئی انجینئر زو کمپنی کے مالک، افسران اور ان کے دوست وغیرہ بھی موجود تھے.بعد میں جب کمپنی کے ڈائریکٹر نے پاکستانی انجینئروں کو بعض تحائف دیئے تو انہیں احمدیہ مشن ہالینڈ کی طرف سے اسلامی اصول کی فلاسفی اور جماعت احمدیہ کے تعارف سے متعلق لٹریچر پیش کیا گیا.جناب عبدالحکیم صاحب اکمل انچارج ہالینڈ مشن کو جمہور یہ انڈونیشیا کے سفیر صاحب کی طرف سے دی گئی ایک دعوت میں شرکت کا موقع ملا.جس کے دوران آپ کی انڈو نیشیا کے کیتھولک بشپ

Page 881

تاریخ احمدیت.جلد 24 841 سال 1968ء صاحب سے بھی خاصی دیر تک گفتگو ہوتی رہی.انہوں نے برسبیل تذکرہ اسلام سے متعلق محمڈن ازم اور مسلمانوں کے لئے محمڈن کے الفاظ استعمال کئے تو عبدالحکیم صاحب نے ان غلط اصطلاحوں کی نشاندہی کی.اور بتایا کہ مسیح الفاظ اسلام اور مسلمان ہیں.محکمہ تعلیم کے زیر انتظام قائم شدہ ہیگ شہر کے ایک میوزیم کے ڈائریکٹر صاحب نے مشن ہاؤس آ کر قرآن کریم کی آیات کے قطعات حاصل کرنے کی درخواست کی.تا کہ میوزیم میں آنے والے طلبہ کی معلومات میں اضافہ ہو.مشن نے نہایت خوشخط قیمتی قطعات ڈائریکٹر صاحب کو مہیا کئے.جنہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کئے اور ان کا ترجمہ کروا کے میوزیم میں آویزاں کر دیا.کیتھولک سنٹرا پاسٹولاٹ نجمیگن (APOSTOLAAT NIJMEGEN) کی ایک اشاعت میں ایک مستشرق نے اسلام کے متعلق لکھا کہ یہ تلوار کا مذہب ہے.جس پر احمد یہ مشن کی طرف سے ایک مکتوب مفتوح کی شکل میں اس کی ٹھوس دلائل سے تردید کی گئی اور مقالہ نگار کو چیلنج کیا گیا.نیز کیتھولک سنٹر سے درخواست کی گئی کہ یہ خط بھی شائع کریں مگر نہ مستشرق کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات ہوئی اور نہ کیتھولک سنٹر کو اسے شائع کرنے کا حوصلہ ہوا.بعد ازاں اس خط کومزید دلائل کے ساتھ ماہنامہ الاسلام میں شائع کر دیا گیا.ہالینڈ کی متعدد تنظیموں نے بھی احمدی مبلغین کو تقاریر کے لئے مدعو کیا.چنانچہ مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل نے TILBURG شہر کے کیتھولک مشنری کا لج میں ان کیتھولک مشنریز سے خطاب کیا جو تکمیل تعلیم کے بعد بیرون ملک بھجوائے جارہے تھے.حاضرین میں کالج کے ڈائر یکٹر بھی شامل تھے.ہالینڈ کی کیتھولک سوسائٹی نے مختلف مذاہب کے بارے میں معلومات پر مبنی ایک کتاب (CATECHISMUS) میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی.مولانا موصوف نے نہ صرف ایک گھنٹہ تک حاضرین کے سامنے اس پر تبصرہ کیا بلکہ کتاب شائع کرنے والی کمیٹی کو خط بھی لکھا.اور اس کا جواب نہ آنے پر مشن کے اخبار الاسلام میں ان غلط باتوں کو ثابت کرنے کا چیلنج بھی دیا.مگر ان کو چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوئی.حدیث نبوی ہے حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الإِيمَان نمبر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے اس 20 پیغمبر مبارک ارشاد کو دنیا بھر کے سب احمدی مشن بلکہ سب احمدی ابتدا ہی سے پیش نظر رکھتے چلے آ رہے ہیں.بلکہ حق یہ ہے کہ حب الوطنی کا وصف آج ہر احمدی کا ملی شعار اور پہچان بن چکا ہے.اس سلسلے

Page 882

تاریخ احمدیت.جلد 24 842 سال 1968ء میں استحکام پاکستان کے نقطۂ نگاہ سے ہالینڈ مشن کی خدمت کو کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا جس کے دارالحکومت ہیگ میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۱۵ سال سے زائد عرصہ تک انصاف کے 121 C جج کے طور پر مقیم رہے.مبلغ ہالینڈ چوہدری صلاح الدین خاں صاحب نے انہی دنوں مشن کی رپورٹ میں لکھا:.ہالینڈ کے سماجی اور ثقافتی معاملات کے وزیر کی طرف سے ایک عظیم تاریخی استقبالیہ میں شرکت کے لئے مکرم امام صاحب کو دعوت دی گئی.یہ ملک بھر کے صحافیوں کے اعزاز میں پہلا تاریخی استقبالیہ تھا.اور شہر ہیگ کی صحافتی ایسوسی ایشن کی ۷۵ ویں سالگرہ کی تقریب تھی.صحافیوں کے علاوہ وزراء اور دوسرے معززین مدعو کئے گئے تھے.اس موقعہ پر وزیر موصوف نے تقریر بھی کی.خاکسار نے بھی اس میں شرکت کی.تین مختلف مدیران سے مسجد اور جماعت کا تعارف کرایا.اس کے علاوہ کشمیر کے مسئلہ پر دیر تک گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ جغرافیائی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنا چاہیئے کیونکہ پاکستان کے اہم دریا جن پر ملک کی زرعی زندگی کا دارو مدار ہے ہمالیہ کے دامن سے پھوٹ کر کشمیر کے راستے بہتے ہوئے پاکستان پہنچتے ہیں.تقسیم برصغیر سے قبل کشمیر کی تجارت اور ملکی پیداوار کی برآمد کے لئے پاکستان کا راستہ ہی سب سے آسان راستہ تھا.اور پھر چونکہ کشمیر کی اکثریت مسلم آبادی پر مشتمل ہے اس لئے ان کا ثقافتی اور برادرانہ تعلق بھی مسلمانوں کے ساتھ ہے.لیکن قطع نظر اس ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر کے اس مسئلہ کو ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور اس نقطہ نگاہ کو دنیا کی کوئی قوم ، جس کے ضمیر میں زندگی کا شعلہ ابھی فروزاں ہے نظر انداز نہیں کر سکتی.اور وہ ہے انصاف کا نقطۂ نظر.اقوام متحدہ سے بھارت یہ وعدہ کر چکا ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا حق صرف کشمیر کے باشندوں کو حاصل ہے.اور انہیں اس حق کو استعمال کرنے کا موقع دیا جائے گا.اب زیادتی کس کی ہے؟ مظلوم کشمیریوں کے بارے میں ان کے حقوق کی پامالی کون کر رہا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کی ضرورت نہیں.ہر صاحب نگاہ بخوبی دیکھ سکتا ہے.ان صحافیوں نے کہا ہمیں تو ان حقائق کا علم ہی نہیں تھا.اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمیں اپنے ملکی نقطہ نظر کو عام کرنے کی کس قدر ضرورت ہے.بہر حال خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے مبلغین جہاں اپنے مفوضہ کام، اشاعت اسلام کے لئے کوشاں ہیں وہاں موقع کے مطابق اپنے وطن عزیز کی

Page 883

تاریخ احمدیت.جلد 24 843 سال 1968ء ساکھ کے لئے بھی پوری کوشش کرتے ہیں.اسی طرح مکرم امام صاحب نے بھی اپنی مختلف و متعدد تقاریر میں مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین پر بھی روشنی ڈالی ہے.122 جنوبی افریقہ کا ایک مسلمان ملاح روٹرڈم کی بندرگاہ میں ڈوب کر فوت ہو گیا.جہاز کے عملہ میں اور بھی مسلمان تھے.میت کو واپس افریقہ لے جانے کی بجائے اس کی تدفین کا انتظام بندرگاہ کے قریب ایک عیسائی قبرستان میں کیا گیا.تدفین کے موقع پر احمد یہ مسجد ہیگ کے نمائندہ کو بھی بلایا گیا.تا کہ اس امر کو ملحوظ رکھا جائے کہ اس کی تدفین اسلامی طریق پر ہو.چنانچہ چوہدری صلاح الدین خان صاحب مبلغ ہالینڈ نے اسلامی طریق پر اس کی تدفین کی نگرانی کی.جہاز کے مسلمان عملہ کا نمائندہ جماعت کی مسجد میں بھی آیا.اور احمد یہ جماعت کے بارے میں گفتگو کی.وہ جماعت کے مشنوں کی سرگرمیوں سے بہت متاثر ہوا اور اس نے مسجد کے لئے کچھ چندہ بھی دیا.ہالینڈ میں اس سال کیتھولک اور پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی ہفت روزہ مذاہب عالم کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں متعدد مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذہب کی خصوصیات پر روشنی ڈالی.اسلام کی نمائندگی کا شرف مولوی عبدالحکیم صاحب اکمل کو حاصل ہوا.مولوی صلاح الدین صاحب بنگالی نے کا نفرنس کے متعلق لکھا:.اجلاس میں سامعین کی تعداد خاصی تھی.اس موقع پر عوام الناس کے علاوہ کیتھولک پادری صاحبان اور پروٹسٹنٹ چرچ منسٹر بھی تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ اس نے اتنے بڑے مجمع کے سامنے اسلام کا پیغام پہنچانے کا موقع پیدا کر دیا.امام صاحب کی تقریر کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاضرین پر بہت اچھا اثر ہوا.شاید یہی وجہ ہے کہ وقفہ ہوتے ہی حاضرین اس میز کی طرف لیکے جہاں ہماری کتب رکھی ہوئی تھیں اور انہوں نے باوجود پادریوں کی طرف سے اس سلسلہ میں ہمت شکن رویہ اختیار کرنے کے ساری کی ساری کتابیں خرید لیں.ایک پروٹسٹنٹ منسٹر تو اس قدر متاثر ہوئے کہ اجلاس کے اختتام پر خود اٹھ کر امام صاحب سے ملنے آئے اور دوستانہ جذبات کا اظہار کیا.اور امام صاحب کو اپنی کار میں منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں.حالانکہ دورانِ سوالات ان کا انداز گفتگو جارحانہ تھا.مگر اپنے سوالوں کا معقول جواب سن کر یکدم نرم پڑ گئے.Wageningen کے دو طلباء اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے دار التبلیغ تشریف لائے تو محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے قریباً ایک گھنٹہ تک ان سے گفتگو فرمائی اور 124-

Page 884

تاریخ احمدیت.جلد 24 844 سال 1968ء ان کے سوالات کے جواب دیئے.یوم پاکستان کے موقع پر پاکستانی سفیر کی جانب سے منعقد کردہ تقریب میں مکرم عبدالحکیم صاحب مبلغ انچارج نے شرکت کی.اخبارات نے امام احمد یہ مسجد کی اس تقریب میں شمولیت کو نمایاں طور پر 126- 127- شائع کیا.20 مکرم صلاح الدین صاحب مبلغ ہالینڈ نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا کہ اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لئے مشن ہاؤس میں زائرین آتے رہے جن میں ایک قابل ذکر ڈچ وکیل بھی تھے.اس کے علاوہ Doetinchem سے ٹیچر ٹریننگ کالج کے آخری سال کا طالبعلم جو اسلام پر مقالہ لکھ رہا ہے سوالنامہ تیار کر کے لایا اور دیر تک اس سے گفتگو کی گئی.ہالینڈ میں عید الفطر کی تقریب مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۸ء کو منائی گئی.عید الفطر کے موقع پر بہت سے غیر مسلم معززین کو بلانے کے لئے ایک عمدہ طبع شدہ دعوت نامہ تیار کروا کے بھجوایا گیا.ہالینڈ میں مقیم مختلف اسلامی ممالک کے لوگوں نے احباب جماعت کے دوش بدوش شامل ہو کر مسجد میں نماز عیدا دا کی.جن میں ایران، ترکی، پاکستان ، ڈچ گی آنا ، مرا کو ، انڈونیشیا ، ہندوستان ، افغانستان ،مصر، نائیجیریا، غانا اور تنزانیہ وغیرہ شامل ہیں.نماز عید مکرم عبد الحکیم المل صاحب انچارج احمد یہ مشن ہالینڈ نے پڑھائی اور بعد ازاں خطبہ عید پڑھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا عید مبارک کا پیغام احباب جماعت کے نام بھی پڑھ کر سنایا گیا.عید کی خبر پریس میں شائع ہوئی.ہیگ میں شائع ہونے والے سب سے بڑے اخبار Haagsche Courant نے عید کی کارروائی کا خلاصہ شائع کیا.Brabant Pers کے ایک نمائندہ نے مکرم عبد الحکیم المل صاحب انچارج احمد یہ مشن ہالینڈ کا انٹرویو لیا.یہ پریس جنوبی ہالینڈ کا ہے.اس کے تحت سات اخبارات شائع ہوتے ہیں.چنانچہ یہ انٹرویو حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تصویر کے ساتھ Brabant Dagblad میں شائع ہوا.حضور انور کی تصویر دے کر نیچے اخبار والوں نے لکھا مسجد مبارک ہیگ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ ا احد خلیفہ المسح الثالث کی راہنمائی اور آپ کی قیادت میں مصروف عمل ہے.“ مکرم عبدالحلیم المل صاحب انچارج احمد یہ مشن ہالینڈ کو ایک کیتھولک تنظیم کے رسالہ De Heraut میں ” قرآن کریم میں مسیح ابن مریم کا ذکر“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھنے کا موقع ملا تھا.

Page 885

تاریخ احمدیت.جلد 24 845 سال 1968ء اس کا بہت اچھے رنگ میں ردعمل ظاہر ہوا.اس مضمون کو پڑھ کر ایک ڈچ انجنیئر Mr.P.A.Van Diease نے مکرم عبدالحکیم المل صاحب کو یہ خط لکھا کہ " آپ کا مضمون پڑھ کر اور یہ معلوم کر کے بڑا تعجب ہوا ہے کہ قرآن کریم نے مسیح ابن مریم کے صلیبی موت سے بچ جانے کی خبر دی ہے.میں نے بھی اس موضوع پر مطالعہ کیا ہے جس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.میں نے اپنے مطالعہ کے نچوڑ کو جمع کر کے ایک پمفلٹ کی صورت میں تیار کر لیا ہے جس کی ایک کاپی آپ کو بھجوا رہا ہوں.“ ہفتہ وار مجالس کا انعقاد بھی ہوتا رہا جس کیلئے ہفتہ کا دن مقرر کیا گیا.ایک مجلس میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے بھی شمولیت اختیار کی.احباب جماعت کے علاوہ بہت سے غیر از جماعت احباب بھی آپ کے ایمان افروز کلمات سے مستفید ہوئے.آپ نے ایک گھنٹہ تک ممبران سے خطاب فرمایا اور سوالات کے جوابات دیئے.یوگنڈا صوفی محمد اسحاق صاحب انچارج احمد یہ مشن یوگنڈا نے اس سال مسا کہ، کسمبیا اور مبالی کے علاقوں کا دورہ کیا.اس دوران آپ مجیر ابھی گئے جہاں یوگنڈا کی سب سے پرانی افریقن جماعت ہے اور جہاں مولوی جلال الدین صاحب قمر نہایت محنت سے پیغام حق پہنچارہے تھے.آپ نے پنجہ ڈے کے مقام پر مسلمان بچوں کو دینیات پڑھانے کے لئے ایک تربیتی کلاس بھی کھول رکھی تھی.ان دنوں اس میں تقریباً پچیس احمدی اور غیر احمدی بچے پڑھ رہے تھے.صوفی محمد اسحاق صاحب مشن کے ہیڈ کوارٹر جنجہ میں مقیم تھے جہاں سے آپ تقریباً ہر ہفتہ جماعت احمدیہ کمپالہ کے سیکنڈری سکول (بشیر ہائی سکول) کی نگرانی اور مشن کے دیگر کاموں کے لئے کمپالہ تشریف لے جاتے تھے.اس اثناء میں یوگنڈا میں کامن ویلتھ پارلیمینٹری ایسوسی ایشن کی ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا.آپ نے اس زریں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان اور ملائیشیا کے نمائندوں کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی دی جس میں جزیرہ ٹونگا (TONGA) واقع بحر الکاہل جنوبی کے ایک عیسائی نمائندہ نے بھی شرکت کی.صوفی صاحب نے ان اصحاب کو جماعت احمد یہ اور اس کی دینی مساعی سے متعارف کرایا.مشرقی پاکستان اور ملائیشیا کے نمائندوں نے مشن کا شکریہ ادا کیا اور جزیرہ ٹونگا کے نمائندہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے

Page 886

تاریخ احمدیت.جلد 24 846 سال 1968ء اسلام کا پیغام سنا ہے اور وہ اپنے ملک میں جا کر اس بات کا ضرور ذکر کریں گے.اس کے بعد سب نمائندگان کو یوگنڈا مشن کا شائع کردہ انگریزی، سواحیلی اور یوگنڈ الٹریچر دکھایا گیا اور کچھ مطالعہ کے لئے بھی دیا گیا.اس موقع پر ایک فوٹوگرافر نے تصاویر لیں.ان میں سے ایک گروپ فوٹو دوسرے روز علی الصبح کثیر الاشاعت انگریزی روز نامہ یوگنڈا آرگس میں شائع ہوا.ایک یادگار تبلیغی مجلس کمپالہ میں ہوئی جبکہ ایک عیسائی مشنری ادارہ کے سات طلباء اپنے دو یورپین اساتذہ کے ساتھ مشن ہاؤس میں نماز جمعہ دیکھنے کے لئے آئے.ان کی آمد پر نماز سے پہلے صوفی محمد اسحاق صاحب نے انہیں اذان کے ترجمہ اور اس کی فلاسفی سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے سوالات کے جواب دیئے.ان مہمانوں کی خواہش پر آپ نے خطبہ جمعہ انگریزی میں دیا جس کا ترجمہ زکریا کزیٹو صاحب نے لوگنڈی زبان میں کیا.ڈاکٹر لعل دین صاحب نے ان کو حج کے فلسفہ سے آگاہ کیا نیز ان کے دیگر سوالوں کے جوابات بھی دیئے گئے.انہوں نے بڑے ذوق وشوق سے ہمارا مطبوعہ لٹریچر ملاحظہ کیا اور کچھ لٹریچر خریدا.چند روز بعد عیسائی اخبار نیوڈے (NEW DAY) میں ان طالبعلموں میں سے ایک نے اس دورہ کے متعلق ایک تعریفی مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ” مسلمان ہمیں سکھا سکتے ہیں.اس مضمون میں مذکورہ طالب علم نے پہلے ہماری نماز کا نقشہ کھینچا پھر خطبہ کو سراہتے ہوئے اسلام کی عالمگیر اخوت اور انسانی مساوات کو پیش کر کے لکھا کہ اسلام اب پھر بیدار اور سرگرم عمل ہے.مزید لکھا کہ اگر عیسائیت نسلی امتیاز کو کچل نہ سکی تو خطرہ ہے کہ کہیں اسلام عیسائیت ہی کو کچل نہ دے.اس تبلیغی مجلس کا اہتمام چوہدری محمود احمد صاحب پر نسپل بشیر ہائی سکول کمپالہ نے کیا.جماعت احمد یہ یوگنڈا کی روحانی تربیت کا ایک اور سامان اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ پیدا کیا کہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اکتوبر ۱۹۶۸ء میں جنوبی افریقہ جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لئے ڈاکٹر لعل دین صاحب کے ہاں قیام پذیر ہوئے.اس روز جمعہ تھا چنانچہ آپ جمعہ میں شرکت کے لئے مسجد احمد یہ کمپالہ میں تشریف لائے.نماز جمعہ کے بعد صوفی محمد اسحاق صاحب انچارج احمدیہ مشن یوگنڈا نے آپ کو جماعت کی طرف سے خوش آمدید کہا اور پھر آپ سے جماعت کو اپنے خطاب سے نوازنے کی درخواست کی جس پر حضرت چوہدری صاحب نے جماعت کو نہایت ہی بیش قیمت نصائح سے نہایت دلر با انداز میں نوازا اور جماعت کو خلافت حقہ کے ساتھ دلی وابستگی کی تلقین کی.تقریر کے بعد آپ نے دعا بھی کرائی.بعد ازاں بشیر ہائی سکول کمپالہ کا مختصر دورہ کرتے ہوئے طلباء کو 129

Page 887

تاریخ احمدیت.جلد 24 847 سال 1968ء بھی اپنے خطاب سے نوازا.اسی روز شام کو احباب جماعت نے حضرت چوہدری صاحب کو ائیر پورٹ پر الواداع کیا.آپ کی آمد پر سب احباب جماعت شاداں و فرحاں نظر آتے تھے.اس سال یوگنڈا مشن کے پہلے سیکنڈری سکول کو ملک بھر میں بہت مقبولیت حاصل ہوئی گذشتہ سال سکول کے طلباء کی تعداد ۲۲۵ کے قریب تھی جو اس سال ۳۵۰ تک پہنچ گئی اور وزارت تعلیم نے خود بعض طلباء کو بھجوانا شروع کر دیا.اس سال سکول کا نیا بجٹ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ شلنگ تجویز ہوا.سکول کو چلانے کے لئے مشن پر بھی کوئی بوجھ نہیں ہوا کیونکہ سکول کے سبھی اخراجات سکول کی فیسوں سے فراہم کئے جانے لگے.زائد طلباء کے باعث سکول کے لئے نئے فرنیچر کی ضرورت تھی جس پر کم و بیش ساڑھے تین ہزار شلنگ کا اندازہ تھا.جناب صوفی محمد اسحاق صاحب اور بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ جنجہ ایک مخیر سکھ دوست سر دار اندرسنگھ گل کے پاس گئے.سردار صاحب عرصہ سے احمد یہ مشن کی خدمت کرتے آرہے تھے.جماعت احمد یہ جنجہ کے مشن اور مسجد کے لئے سب لکڑی انہوں نے مفت سپلائی کی تھی.چنانچہ اس دفعہ بھی سکول کے فرنیچر کے لئے لکڑی مفت دیدی اور بنوائی کی اجرت بھی بالکل معمولی وصول کی.10

Page 888

تاریخ احمدیت.جلد 24 848 سال 1968ء مبلغین سلسلہ کی آمد اور روانگی ۱۹۶۸ء میں جو مبلغین سلسلہ بیرونی ممالک میں اعلائے کلمتہ اللہ کے فریضہ کی ادائیگی کے بعد واپس تشریف لائے یا مرکز احمدیت سے روانہ ہوئے اُن کے نام یہ ہیں.آمد مولوی روشن دین احمد صاحب (از کینیا ۳۰ مارچ ) B شیخ نصیر الدین احمد صاحب (از نائیجیر یا ۲۲ جولائی ) مولانا بشیر احمد خان صاحب رفیق (از انگلستان اا نومبر ) بشارت احمد بشیر صاحب از انڈونیشیا انومبر) چوہدری عبدالشکور صاحب ( سیرالیون ۲۰ نومبر ) BB 132 روانگی ڈاکٹر ظہور احمد شاہ صاحب (برائے نبی ۲۳ جنوری) مسعود احمد صاحب جہلمی (برائے جرمنی.۲۷ جنوری ) 0 سید جواد علی صاحب یوسف عثمان صاحب ( برائے امریکہ ۴ مارچ ) (برائے تنزانیہ ۱۲ مارچ ) مولوی فضل الہی صاحب انوری (برائے نائیجیریا.۶ جون)

Page 889

تاریخ احمدیت.جلد 24 849 سال 1968ء احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ یا جوج و ماجوج نئی مطبوعات ((حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) ( مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ) کشمیر کی کہانی ( چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر ) نور فطرت مسیح موعود اور جماعت احمد یہ ! انصاف پسند اصحاب کی نظر میں (مولوی عبدالمنان صاحب شاہد ) ( جناب نور محمد صاحب نیم سیفی ) قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ) ( فضل کریم صاحب پراچہ ) (سوانح حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس از عبدالباری صاحب قیوم شاہد ) بد رسوم کے خلاف جہاد سرا پا عشق انگیز خالد احمد بیت جلدا ایاز محمود جلد ۳،۲ مہدی موعود کے علمی خزانے جامع صحیح مسند بخاری مترجم جز نہم و دہم دستور اساسی مجلس احمدی وکلاء (سوانح حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب از عبدالباری صاحب قیوم شاہد ) ( عبدالباری صاحب قیوم شاہد ) ( ترجمه و شرح حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب) ( ناشر وقف جدید انجمن احمدیہ پاکستان ) مقام مسیح موعود بزرگانِ امت کی نظر میں (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل) تعلیمی پاکٹ بک حصہ اول امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل) ( سواحیلی ترجمه) اسلام اور مسیحیت بزبان انگریزی ( میجر عبدالحمید صاحب سابق امام مسجد ڈیٹن اوہایو.امریکہ ) سفر یورپ نمبر اسلامی دعائیں نماز مترجم (ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ کا خاص نمبر ) ( مولانا محمد اجمل صاحب شاہد ایم.اے) (ماسٹر حمید احمد سنیاسی واقف زندگی)

Page 890

تاریخ احمدیت.جلد 24 850 1 الفضل ۱۳ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ا 2 الفضل ۱۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۸ 3 الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۸ ، صفحه ا 4 الفضل ۷ ارا کتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ا 5 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۸ء صفحها 6 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۸ صفحه ا 7 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحها 8 الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۶۸، صفحه ۸ حوالہ جات (صفحہ 752 تا 849) الفضل ۵، ۸، ۹ مارچ ۲ اپریل، ۶ جولائی ۱۹۶۸ء 10 الفضل ۱۴ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 11 الفضل ۷ / اپریل ۱۹۶۸، صفحه ۸ 12 الفضل ۱۵ مئی ۱۹۶۸ء صفحا 13 الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۸ صفحها 14 الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۸ء صفحه 15 الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۸ء صفحه ا 16 الفضل ۱۰ اگست ۱۹۶۸ء صفحهیم 17 الفضل ۴ دسمبر ۱۹۶۸، صفحریم 18 الفضل ۱۶ اگست ۱۹۶۸ ، صفریم 19 الفضل ۱۸دسمبر ۱۹۶۸ء صفحهیم 20 الفضل ۱۵ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 21 الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۶۸ ، صفحها 22 الفضل ۲۴ اگست ۱۹۶۸ء صفحه ۶ 23 الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۶۸ ء صفحہ ۷ 24 تلخیص مطبوعہ رپورٹ بدرے مارچ تا ۱۸ار اپریل ۱۹۶۸ء مرتبہ حکیم محمد دین صاحب مبلغ میسورسٹیٹ سال 1968ء

Page 891

تاریخ احمدیت.جلد 24 851 25 تفصیل کے لئے ملاحظہ ہورسالہ ” المنبر لائکپور ۲۹ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۹ و بدرا اراپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۲ 26 پیغام صلح ۴ جنوری ۱۹۲۰، صفحہ ۴ کالم ا.پیغام صلح ۱۷دسمبر ۱۹۳۸ء صفحه ۵۴ 27 الفضل ۲۸ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۸ 28 الفضل ۲۳ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۸ 29 بدرے مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 30 بدر ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲۱ 31 الفضل ۱۹ مارچ ۱۹۶۸ ء صفحہ ۸ 32 الفضل ۴ را پریل ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 33 الفضل ۲۴ مئی ۱۹۶۸ صفحه ۵ 34 بدر ۶ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۹ 35 الفضل ۲۸ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۸ 36 الفضل امئی ۱۹۶۸ ، صفحہ ۸ 37 الفضل ۲۱ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 38 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۸ء صفحہ ۸ 39 بدر ۵ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۶ 40 بدر ۲۹ / اگست ۱۹۶۸ صفحه ا 41 بدرا جولائی ۱۹۶۸ء صفحها 42 کراچی تاریخ احمدیت حصہ اول صفحہ ۴۲۸ 43 الفضل ۲۵ / اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ۱ 44 خلافت احمدیہ صد سالہ جوبلی سو یٹر جماعت احمد یہ اسلام آباد صفحه ۱۰۴ تا ۱۰۶ 45 خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی سود بیشتر جماعت احمدیہ اسلام آباد صفحه ۱۳ تا ۱۶ 46 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۸ ، صفحه ۸، ۸/اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ۸ 47 الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۷ 48 الفضل ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 49 ماہنامہ البشری حصہ جنوری ۱۹۶۹ ء صفحه ۱۴ 50 الفضل ۱۴،۱۰، ۱۶، ۱۷، ۱۹نومبر ۱۹۶۸ء 51 ماہنامہ انصار الله - اپریل ۱۹۸۳، صفحہ ۲۱ تا ۲۵ 52 الفضل ۵ جون ۱۹۶۸ء صفحه ۴ 53 الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ سال 1968ء

Page 892

تاریخ احمدیت.جلد 24 54 الفضل ۲۶ ستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 55 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 56 ماہنامہ تحریک جدید - اکتوبر ۱۹۶۸ صفحه ۱۸ 57 الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۸، صفحه ۵ 58 الفضل ۳۱ راگست ۱۹۶۸ صفحه ۸ 59 الفضل ۵ نومبر ۱۹۶۸، صفحه ۳ 60 الفرقان مئی ۱۹۶۹ء صفحه ۱۸ تا ۲۲ 852 61 الفضل ۲ اپریل ، ۲۵ مئی ، ۲۷ جون ،۲۱ جولائی، یکم اگست ۱۹۶۸ء 62 ماہنامہ تحریک جدید جون ۱۹۶۸ء صفحه ۱۲ 63 الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه ۵ 64 الفضل ۱۸دسمبر ۱۹۶۸ ء صفحه م 65 الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۸، صفحه ۳ هم 66 ماہنامہ تحریک جدید - اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۱۴ 67 انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا مطبوعہ انگلستان ۱۹۵۱ء صفحه ۳۸۳ تا ۳۸۵ 68 الفضل ۱۳ ستمبر ۱۹۶۸، صفحه ۳-۴ 69 ماہنامہ تحریک جدید - نومبر ۱۹۶۸ء صفحه ۹، ۱۳،۱۰ 70 ماہنامہ تحریک جدید.اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۱۳ 71 الفضل ۱۸ فروری ۱۹۶۸ صفحه ۳ 72 الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۸ ، صفحہ ۷ 73 ماہنامہ تحریک جدید - جون ۱۹۶۸ ء صفحہ ۱۱ 74 ماہنامہ تحریک جدید - اکتوبر ۱۹۶۸ء صفحه ۱۸،۱۷ 75 ہفت روزہ لا ہو ر ا ۲ تا ۲۷ اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ۱۴۵ 76 الفضل ۱۶ فروری ۱۹۶۹ ء صفحه ۳ ۴ 77 الفضل 9 جنوری ۱۹۶۹ ، صفحه یم 78 ماہنامہ تحریک جدید.جولائی ۱۹۶۹ء صفحہ ۲۲ 79 الفضل ۳ جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 80 الفضل ۵ر اپریل ۱۹۶۸ صفحه ۳-۴ 81 الفضل ۵ مارچ ۱۹۶۹ صفحه ۸ 82 الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۶۹ ء صفحه ۴۳ سال 1968ء

Page 893

تاریخ احمدیت.جلد 24 83 الفضل ۲۱ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۳-۴ 84 الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۶۸ء صفحریم 85 ماہنامہ تحریک جدید.نومبر ۱۹۶۸ء صفحہ ۹۷۸ 86 الفضل ۱۸ راگست ۱۹۶۸، صفحه ۳ 87 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۳ 88 الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۶۸ ، صفحه ۳ 89 الفضل ۲۷ اگست ۱۹۶۸ صفریم 90 ماہنامہ تحریک جدید.جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۵،۱۴ 91 الفضل ۲۳ فروری و ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء 92 الفضل ۲۲ فروری ۱۹۸۴ء صفحه ۵ 3 الفضل ۲۷ / اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۴۳ 94 الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۶۸ء صفر ۳ 95 الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ۳ 96 الفضل ۲ فروری ۱۹۶۹ ، صفحہ ۴۰۳ 97 الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۸ء صفر ۳ ہم 98 الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۶۸ ، صفح۳ و الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۶۸ء صفر ۳ 100 الفضل ۱۴نومبر ۱۹۶۸ ء صفحه ۹۸ 101 الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۶۸ صفحه ۳ 102 ماہنامہ تحریک جدید - مئی ۱۹۶۸ صفحه ۲۱،۲۰ 103 الفضل ۲۹ مئی ۱۹۶۸ء صفحه ۴۰۳ 853 104 الفضل ۲۷ اگست ۱۹۶۸، صفحہ ۳.الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۶۹، صفحہ ۳ 105 ماہنامہ تحریک جدید.جولائی ۱۹۶۸ء صفحه ۱۵ 106 الفضل ۳۱ جنوری ۱۹۶۹، صفحه ۳ 107 چند خوشگوار یادیں صفحہ ۲۶۰ 108 ماہنامہ تحریک جدید.اپریل ۱۹۶۸ء صفحه ۱۴ 109 تحریک جدید ر بوه تمبر ۱۹۶۸، صفحه ۱۴۱۳ 110 غیر مطبوعه خط مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر بنام مولف ۲۱/۸/۹۱.ریکارڈ شعبہ تاریخ.ربوہ 111 الفضل ۳۱ راگست ۱۹۶۸ء صفحه ۳ سال 1968ء

Page 894

تاریخ احمدیت.جلد 24 112 ماہنامہ تحریک جدید.جولائی ۱۹۶۸ء صفحہ ۱۶ 113 الفضل ۱۵ فروری ۱۹۶۹ صفحه ۳ هم 114 الفضل ۱۹ فروری ۱۹۶۹، صفحریم 115 الفضل ۸ مارچ ۱۹۶۸ءصفحہ۵-۶ 116 ماہنامہ تشحیذ الاذہان ربوه مارچ ۱۹۶۸ صفحه ۴۳ 854 117 الفضل ۶ اکتوبر ۱۹۹۸ صفحهیم رپورٹ قریشی محمد افضل صاحب مبلغ انچارج آئیوری کوسٹ 118 ماہنامہ تحریک جدید.مارچ ۱۹۶۹ء صفحہ ۸.انگریزی حصہ 119 الفضل ۸ فروری ۱۹۶۸ء صفحه ۵ 120 موضوعات کبیر صفحه ۳۸ از علامہ علی القاری ناشر جامع شریفی کتب خانہ سال 1968ء 121 تحدیث نعمت از حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تتمہ صفحہ ۷۴۵.ایڈیشن دوم ناشر اعجاز احمد صاحب، بشیر احمد صاحب تاریخ اشاعت دسمبر ۱۹۸۲ء 122 الفضل ۲۹ اگست ۱۹۶۸ صفحه ۳ 123 الفضل ۱۰، ۱ امئی ۳۰ /اگست ۱۲،۱۰،۹ نومبر ۱۹۶۸ء 124 ماہنامہ تحریک جدید - اکتوبر ۱۹۶۸، صفحه ۱۶-۱۷ 125 ماہنامہ تحریک جدید - دسمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۱۰ 126 ماہنامہ تحریک جدید - جون ۱۹۶۸ صفحه ۱۰ 127 ربوه جون ۱۹۶۸ء صفحه ۱۶ 128 الفضل ۱۲ فروری ۱۹۶۹ ء صفحه ۴،۳ 129 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۸، صفحه ۴۲۳ 130 الفضل ۲۵ جون ۱۹۶۸ ، صفحه ۳ ۴۰ 131 الفضل ۴ را پریل ۱۹۶۸ء صفحها 132 الفضل ۲۴ جولائی ۱۹۶۸ ء صفحها 133 الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۸ صفحه ۸ 134 ریکارڈ وکالت تبشیر تحریک جدیدر بوہ 135 ماہنامہ تشحید الاذہان دسمبر ۱۹۶۸ صفحه اسم 136 الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۸ صفحه ا 137 الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۸ صفحه ا 138 الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۶۸ء صفحها 139 الفضل ۸ جون ۱۹۶۸ صفحه ۱۲

Page 895

اشاریہ مکرم فراست احمد راشد صاحب، مکرم و قاص عمر صاحب مکرم اولیس احمد نوید صاحب، مکرم بلال احمد قمر صاحب اسماء....مقامات کتابیات 3 41 59

Page 896

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 3 اشاریہ اسماء آ الف ابارا، مسٹر آدم علیہ السلام، حضرت اسماء ابراہیم ( برادر ڈاکٹر شوکت علی ) 578, 585, 626, 640, 792 آر بیری 308, 639, 796 533 آر.ہے.جی.ڈنڈو ابراہیم سنفونا ابراہیم، شاہزادہ 448 ابوالفرج، سید 284 ابوالکلام آزاد، مولانا 641, 696, 707, 725, 732, 735, 782, 849 425, 426 319 517 423, 424 ابراہیم علیہ السلام ، حضرت 339 ابوالمنیر نورالحق ، مولانا آر.ڈی.ای مسٹر 538 ابراہیم مانو مسٹر آزادا کبر آبادی آفتاب احمد ابن ڈاکٹر عبدالحمید آفتاب حسن، میجر 250-247 ابراہیم ناصر مولوی 264 | ابوبکر کویا ابراہیم.یوگنڈا 426 | ابوبی اومبه آمنہ بی بی بنت میاں علی گوہر ابوالحمید آزاد، مولانا 2628 الى اولا ، الحاج 688 ابو العطاء ، مولانا ,522 احسان اللہ چوہدری ,63 ,32,51 330 احسان اللہ.ممباسہ آمنہ بیگم اہلیہ چو ہدری عبدالرحیم 697 817 خاں کا ٹھگر ھی آمنہ بیگم بنت منشی عبدالکریم 357 ,2041120224 احمد توفیق چوہدری ,71,159,162,168 احمد اللہ خان ، الحاج رئیس 538 آمنه طیبه آندرے میسن 71,168,255 829 ,264,267 ,238 ,234 احمد جان بنت چوہدری نوراحمد ,370,384,385,386 | سروعہ آنسه شاه بنت سید ولی اللہ شاہ ,393,451,460,463 احمد جان پشاوری 386 654 661 808 ابوبکرایوب، مولوی 406,407 808 | ابوبکر، حضرت ابراہیم ما ہا ما، مسٹر 299 | ابرا ہیم محمد آفتاب احمد بسمل 583 612, 613, 658, 776 809 812 419 835 39 18, 198, 321, 393, 460 489, 783, 813, 839 469 آئی ایچ عثمانی ، ڈاکٹر ,495 ,481,486 ,465 احمد جان، چوہدری 322 208, 210, 211, 473 508, 509, 547, 548, 598

Page 897

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 4 اشاریہ اسماء احمد حسن داماد میر محمد جی ہزاروی احمد عبد اللہ نبولی 488 | اریبہ خانم بنت میر محمد جی ہزاروی 333 احمد علی آف ڈولہ مستقیم حجرہ شاہ مقیم احمد حسن سوکیہ 488830 333 361 اسحاق ، مولوی (مفتی پٹیالہ (322 74 احمد حسین ابوسردانہ الفالوجی ، الشیخ احمد علی ابن میاں علی گوہر 688 اسد اللہ خان، چوہدری 774 احمد لطیف ، صاحبزاده 721 اسد علی ، میر (حیدر آباد دکن ) 570 الازہری احمد حسین زیات 396 احمد مختار، چوہدری احمد حسین ، سید 73, 159, 495, 532, 522 اسرار بن عبد المولى (مولانفولف) احمد حسین منشی 337,338 41,582 40 39 اسمعیل آڈو، مسٹر آڈو،مسٹر 539, 540, احمد خاں ابن حکیم محمد اسماعیل 687 احمد نورالدین، مولوی 407 اسماعیل از هری 282 | اسماعیل حسن، ڈاکٹر احمد خاں، پر دادا ڈاکٹر حشمت اللہ احمد نور ، سید خاں 201 احمد نور کابلی سید 53 652 اسماعیل، مرزا سر 475, 476 احمد خاں نسیم ،مولانا 753 اختر بنت میاں عبدالرشید 337 اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر احمد دہلان ، ڈاکٹر 407 اختر حسین (صدرا انجمن ترقی اردو) احمد دین ابن اللہ بخش اٹھوال 339 246 اشتیاق حسین سید احمد دین ( ڈوری باف) 335 اختر حسین ملک، میجر جنرل 366 اشرف خاں احمد دین زرگر، میاں 661 | اخلاص خاں احمد دین ، میاں کوٹ شاہ عالم خاں اور لیس احمد ، صاحبزادہ مرزا احمد رشدی 705 808 47,472 86 737 247-250 46 756 653 اشرف علی تھانوی ، مولوی 534 اعجاز احمد ، سید 385 53 752 اعجاز احمد ، لیفٹیننٹ کرنل ابن ملک 407 ادیب یار جنگ بہادر، نواب 28 مظفر احمد احمد سرہندی ، شیخ ( مجددالف ثانی) ارشد علی ، شیخ 667 اعجاز ملک 281 | ارشد ملک 676 539 774 | اعجاز نصر اللہ خاں ، چوہدری 767 احمد شہید.پٹس برگ 403,783 ارنسٹ جی رینک 94 اعزاز نیاز ، شیخ احمد صادق محمود، مولانا ارنسٹ ڈینز 386 385 | ارون ، لارڈ 413 افتخار حسین ، سید 46 74 671 اقبال احمد ابن میاں نور محمد 280

Page 898

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 اقبال احمد بسمل 5 378 اللہ بخش، چوہدری اشاریہ اسماء 328, 627, 677, 722 723 اقبال احمد خان ابن مولوی عبد الواحد اللہ داد خان ،عارف ملک ابن ملک امتۃ الاعلیٰ بنت شاہد احمد خان 378 خان میرٹھی 677 محمد عالم اقبال احمد شاہد ،مولوی 450,803 | عالم 279 امتہ الاکرام بنت میاں عبد الغنی اللہ دتہ خان، ملک ابن ملک محمد انجینئر 334 279 امتہ البصیر ، صاحبزادی اہلیہ میر داؤد اقبال بیگم بنت حکیم محمد رمضان اللہ دتہ ولد مرزا غلام حیدر 367 احمد 655 اللہ دتہ، میاں 536 اللہ رکھا، مستری 753 661 | امۃ الحفیظ بنت چوہدری غلام حسین 697 690 523 اللہ رکھا ملہی داماد میاں اللہ بخش امتة الحفیظ بنت خواجہ محمد عثمان 295 339 امة الحفيظ بنت ملک نیاز محمد 355 اللہ رکھی بنت شیخ محمد بخش 689 امتہ الحفیظ خیر البشر ، ڈاکٹر 772 ا کا نوچ اکبر، راجہ سید اکبر علی ، بابو 363 | اٹھوال اکبر یار جنگ بہادر، نواب 2863 الہ دین فلاسفر اکرام الدین ، سید اکرم سرحدی الحسن عطاء الحاج الطاف احمد خاں، شہزادہ 306 امتة الحفیظ سیده ، نواب 738 الہی بخش موہل ، چوہدری 686 امتہ الحکیم 551 الیاس علیہ السلام، حضرت (ایلیا) امتہ الحمید بنت چوہدری نور احمد 423 514, 794, 795 338 امام الدین ، مولوی.انڈونیشیا امتہ الحئی ، صاحبزادی الطاف احمد قریشی ابن ڈاکٹر عبد الحکیم 343 | امام الدین، میاں 564 379 654 363 26449 امتہ الرحمن طیبہ بنت میاں خدا بخش 279 328 الطاف گوہر 536 امام دین گجراتی ، مولانا 241 امتہ الرحیم بنت میاں علی گوہر 688 الفت بی بی اہلیہ چوہدری عبد الغنی امان اللہ خان 720 | امتۃ الرشید بنت میاں علی گوہر 654 امان اللہ ظفر 774 الفت بی بی اہلیہ مولوی عبد المنان اماں جان حضرت (نصرت جہاں کا ٹھگڑھی اللہ بخش اٹھوال ، میاں 72, 261, 284, ( 697 300, 302, 305, 311, 338 امتة الرفیق بنت قریشی فضل حق امت الرقیب بنت مرزا حمید احمد 688 753 752, 753

Page 899

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 6 اشاریہ اسماء امتہ الرؤف بنت ڈاکٹر عبدالحمید امتہ اللہ اہلیہ ڈاکٹر عبدالرحمن را نجھا امیر احمد ابن شیخ محمد افضل پٹیالوی 299 279 348 امتہ السمیع بنت میاں عبد الغنی انجینئیر امتہ اللہ بنت میاں اللہ دتہ 663 امیر بیگم ہمشیرہ ملک محمد فقیر اللہ خاں 334 امتہ اللہ بیگم بنت میاں علی گوہر 688 | امیرحسین، قاضی امته المالک 668641 امیر عالم ، حاجی 201 امتہ المجید بنت چوہدری عبد اللطیف امیر علی خان 108 امیر محمد خاں، ملک 334 امتہ المومن بنت میاں خدا بخش امیر محمود، جنرل امۃ الشافی اہلیہ محمود احمد خان 753 امت الشکور ، صاحبزادی امتہ الصفیہ بنت میاں عبدالغنی انجینئیر امتہ العزیز بنت چوہدری غلام حسین امتہ العليم عطیہ بنت مرزا انور احمد امتة النصیر قریشی امتہ القدوس بیگم، صاحبزادی 328 | امین الدین طاہر 690 امتة النصير بنت میاں علی گوہر 688 امینہ 340 736 358 792 395 590 650 46 753 امینہ بنت میاں عبدالرشید 337 752 امتہ الواسع بنت میاں عبد الغنی انجینئر امینہ بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں 334 288 205,468,641 امتہ الوہاب بنت میاں خدا بخش امینہ خالدہ بنت شیخ فضل احمد بٹالوی امة القدير بنت میاں عبدالغنی انجين 328 334 ام طاہر، سیدہ مریم بیگم) 287 انتظار حسین امتہ الکریم بٹ بنت میاں اللہ دتہ ام متعین ، سیدہ (مریم صدیقہ ) 663 امتة اللطیف بنت چوہدری نوراحمد 654 انتھونی گرین ووڈ ,129 128 111127 اندر سنگھ گل 205501,564 | اندرا گاندھی، مسٹر 685 764 488 847 267 ام مظفر احمد ، سیدہ (سرور سلطان) انس احمد، صاحبزادہ مرزا 73 امته اللطیف بیگم، سیدہ اہلیہ میر محمد اسماعیل 361 378, 393, 480, 752 564 ام ناصر ، سیده ( محمودہ خاتون ) امته اللطیف شہرہ بنت صاحبزاده مرزا رفیع احمد 752 انعام اللہ خان 363 انعام اللہ صدیقی 536 538

Page 900

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 انگرؤلف 7 134 ایڈون.ڈی.روبیا لارڈ 830 | اے.وحید انوار اللہ خاں، مولانا 26 ایس.اے رشید، پیر انوار حسین خانیوال، حکیم 341 ایس ایم مصطفیٰ 46,47 ایس.بی گیوا مسٹر 262 40 472, 473, 475 814 ایطا لو کیوسی ( عبد الہادی کیوسی ) انور احمد انور احمد کاہلوں ، چوہدری.ڈھاکہ انوراحمد، مرزا 752,763 انور حسین ایڈووکیٹ، چوہدری انیل 30, 394, 479 625 او پے کھن 792 بارن شو بے بالوگن،الحاج بانجا تیجان بائی ٹی مور بدرالدین عامل،حکیم اشماریہ.اسماء 60 60 437 537 419,420 827 385 10 390 417 اوتھانٹ ، جنرل 5594595 553-558, 646 اورل را برٹس او سولائن اوموں ملون اے.آر.خان بنگالی اے آر طورے، میجر 79,80 62409819 بدرالدین عامل حکیم ایف ایم سنگھائے ایل ڈی اپنے 758 برکات احمد دہلوی ، سید ایم اے بنگو را 803 برکات احمد ، ڈاکٹر ایم.ایس مصطفیٰ 419 | برکت اللہ ، حاجی 329 ایم.ایل صدیقی 805 برکت اللہ ، ملک ابن ملک نیاز محمد ایم.اے نصیر ایم بریوا 411 ایم جمیل، ڈاکٹر 792 235 420 447 354, 355, 376 419 برکت بی بی بنت حکیم محمد رمضان 793 655 ایمرسن ، مسٹر 668 | برکت علی خان قادیانی، چوہدری ایم.کے گا مانگا 419 ایم.جی ابراہیم 802 برکت علی خان 749 283 اے آرکا نیلیٹس جسٹس 246 ایم.جی روکسن ، مسٹر 808 برکت علی خاں آف گڑھ شنکر ، چوہدری اے.ای.تک 793 این.جے داؤد 533 348 ایچ ایم احسن ، ہائی کمشنر 399 اے کے لیگیوڈ ،الحاج 834 برکت علی گلے زئی ، ملک 348 ایڈو آسٹ شواٹمز ، ڈاکٹر ایڈوائر ،سر ایڈورڈلانے 94 اے کے لیوی (A.K.Lavie) برکت علی ، مرزا 314 423 برک ہولٹر ،مسٹر 312 115 533 ایسے سیمپل میک پرسن 557 برہان الدین جہلمی ، مولوی 652

Page 901

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 8 بسم اللہ بیگم بنت ڈاکٹر عبدالحمید بشیر احمد ابن چوہدری انور حسین بشیر احمد، صاحبزادہ مرزا 299 ایڈووکیٹ اشاریہ.اسماء 72, 282, 285, 323, 394 بشارت احمد ابن حکیم محمد رمضان بشیر احمد ابن چوہدری کرم الہی گرد اور 33033352381 655 386, 410, 491, 652, 699, 703 654, 662, 669, 674, 675, 684, 689, 691 450, 815, 817 بشارت احمد بشیر ، مولوی 41 بشیر احمد اختر ، مولوی 418-421, 449, 848 بشیر احمد تارڑ ، چوہدری بشارت احمد نسیم امروہی 442, 834 بشیر احمد ( متلاکور ) 227, 229 655 بشارت الرحمن صوفی 14,716 بشیر احمد جالندھری، حافظ 708 753 بشیر احمد حقانی، چوہدری 365 بشری بٹ بشری بشیر 255,641 بشیر احمد حیات بشری بیگم بنت شیخ فضل احمد بٹالوی بشیر احمد خادم ، مولوی 429 391 685 بشیر احمد خان رفیق 161,62 بشری بیگم بنت مولوی فضل الدین - -17608-114973 410, 468, 469, 513, 673 بشیر احمد ، مرزا ابن مرزا نسیم احمد بشیر احمد مصری، حافظ 378 756 بشیر احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد 302 بشیر احمد ، مولوی.مبلغ دہلی 390, 391, 522, 621 بشیر احمد ، ملک (داماد ڈاکٹر عبدالسلام) بشیر احمد ، میجر 56, 272 359 بشری بیگم بنت میاں نور محمد 70772878489280 بشیر افضل (امیر نیویارک) 783 790, 791, 822, 848 بشری بیگم، سیدہ ( مهر آپا) 1655467,641 بشیر احمد خواجہ.رنگون بشری ذہین بنت مرز انتشار احمد فاروقی بشیر احمد ، ڈاکٹر 410, 792 772 بشیر الدین ،سید بشیر الدین عبید اللہ ، حافظ 361 220, 263, 450 بشیر احمد شیخ (سابق حج ہائیکورٹ بشیر الدین محمود احمد، صاحبزادہ مرزا (حضرت خلیفہ امسیح الثانی) 30, 51, 667 لاہور ) بشیر احمد شمس، مولوی 3,9,22-24,29, 33-35, 72, 145, 191, 104, 106, 113 379 331, 332 بشن سنگھ بشیر احمد آرچرڈ 151, 410, 430, 784

Page 902

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 9 اشماریہ.اسماء ,202,248,255 201 بوئے خاں، چوہدری 654 | تبارک حسین ,284-288,291,292 | بورے خان ,261,280 260 259 بودھ دیو جی ، پنڈت 732 | تفاوا بلیو، الحاج 278 تو انکو شریف حمید ,318,334 314,317 بھولا ,2999311,313 بھگت ،مسٹر 490 تھامس آرنلڈ ،سر 718 | تیمور احمد ، شیخ 656 40 834 404 310,312 ,3740,350,362 بی.اے یعقوبو ,363,381,386,389 بي عبد الرحیم ,408,633,634,651 بی محمد عبد اللہ ، مولوی 423 735 734 ٹ ٹرولس بولسٹاڈ ( نور احمد ) 777 ٹی ڈے مان 111 ,679,687 ,672 ,671 بیگم سلطان بنت آغا عبدالوہاب ,688,691,696,699 | خال ,701707712,713 بیگم صدیقی 726, 737, 742, 745 328 388 413 ثمینہ بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ ے مصطفیٰ یا مستر خاں 289 بشیراں بی بی بنت چوہدری کرم الہی ثناء اللہ، مولوی 669 گرداور بشیر طارق بصری ، حاجی بصیر قریشی بلعم باعور 703 380 405 585, 586 612 ج پامر پاؤل ریس، ڈاکٹر 533 815 جارج پنجم جان انڈریوز ، ریورنڈ پرویز احمد داماد سید زین العابدین ولی اللہ شاہ جان محمد 322 پرویز پروازی ( ناصر احمد ) جان ہنری فشر بلقیس مبارکہ بنت ڈاکٹر عبدالحمید 465364 جاوید حسن، کیپٹن 299 پریتم سنگھ بھائیہ 759 جبریل بن آدم، مسٹر بلقیس مطہرہ بنت ڈاکٹر عبدالحمید پاستل 533 جعفر صادق - بغداد 737 516 350 420 383 808 317 299 | پیارا رام 267 | جعفری بیگم بنت شیخ محمدا فضل بلی گرام ، پادری 555357 پٹیالوی بنیا (Banya) 447 تاج الدین، مولانا جگت رام، پنڈت 348 732 365

Page 903

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 جگجیت سنگھ چوہان، ڈاکٹر 267 جواد علی ،سید 10 اشاریہ - اسماء ,401 حبیب الرحمن ، ملک جلال الدین رومی (مولانا روم ) 848 ,402781,783 حبیب الرحمن منشی 267 حبیب اللہ ابن فقیر محمد 241 جوگندر سنگھ ، سردار جلال الدین شمس، مولوی 314 جیمز.آرکلین ، ڈاکٹر 595 حبیب الله احمدی 371, 451, 715, 849 چ حبیب اللہ خان ، امیر 393 349 712 380 720 جلال الدین شیخ 322,323 چارلس گیڈس، ڈاکٹر 399 | حبیب اللہ خاں، پروفیسر 29, 15 جلال الدین.مانڈے 792 چراغ الدین ، مولوی 731 | حبیب اللہ شاہ ،سید جلال الدین قمر ، مولوی چراغ دین ما بو 332 303, 307, 674, 675 45 450 چراغ دین ، چوہدری 447 | حبيب بورقيبه جلال الدین ،مولوی ( والد حکیم محمد چراغ دین لدھڑ ، چوہدری 703 حسن آراء بنت ڈاکٹر عبدالحکیم اسماعیل) 685 چراغ دین ، میاں 296334 جلال الدین، مہر 201 | چومتے خاں 472 364 | حسن امام جمال دین ، بابا جمال شاه 326 | حاتم علوی 280 حسن رہتاسی حسن عثمان کٹسینا جمیل الرحمن رفیق ،مولوی حاکم علی 450452,794,796 حاکم علی ، چوہدری علی، 537 653 713 حسن ولاڈی ،مسٹر حسین جمیلہ بنت بشیر احمد رفیق 175 | حامد شاہ ،سید 641 | حامد علی ،حافظ جمیلہ عرفانی جنت بی بی اہلیہ چوہدری غلام حسین ،حامد مهر 291,294-289 حسین بی بی اہلیہ چوہدری غلام 659 698 سین ، امام حسین بخش 342 792 452 834 106 690 655,657 675 690 حامد، میاں جنت بی بی اہلیہ مولوی عبدالمنان حبیب احمد ، قاضی 697 | حبیب احمد، قریشی کا ٹھگر بھی 686 756 714 حسین ذوقی ،سید حسین رائے آمل حسین زین ، السید 29 834 120 جنود اللہ ، سید 731 حبیب الرحمن دا ما دمیاں خدا بخش حسین علی ، مرزا ( بہاءاللہ ) 670 جنید ہاشمی 452 328 سینی مسٹر 106

Page 904

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 11 اشاریہ.اسماء حشمت اللہ خاں پٹیالوی، ڈاکٹر حمیدہ بنت سید محمود عالم 661 خالد رشید پوتانشی عبدالکریم بٹالوی ,281,282,285,288 | حمیدہ بی بی 338 357 ,19923324,343 حمیدہ بیگم بنت شیخ محمد افضل پٹیالوی خالد سیف اللہ، چوہدری 481 344,345,347,677, 348 خالد کاشمیری 358 96787939849 حمیدہ بیگم بنت مولوی حکیم نظام خالدہ خانم بنت میر محمد جی ہزاروی حشمت اللہ ، ملک ابن ملک نیاز محمد الدین 652 حفاظت احمد ، سردار 355 379 حمیدہ بیگم بنت مولوی قدرت اللہ خدا بخش بچه، ملک 333 399 سنوری 693 حفیظہ بیگم بنت مولوی عبدالمنان کا ٹھگر ھی حمید احمد خالد حمید احمد ، سردار حمید احمد سنیاسی ، ماسٹر 697 18 834 849 حمیدہ بیگم ہمشیرہ ڈاکٹر عبدالسلام خدا بخش زیروی، صوفی 753 خدا بخش، ملک 394 خدا بخش ، میاں المعروف مومن جی 56,272 حنیف احمد، صاحبزادہ مرزا 322 282, 322-328, 343, 347 حنیف کو یا حمید احمد ، صاحبزادہ مرزا 752 حمید احمد ، ملک ابن حکیم محمد اسماعیل حیدرالدین، سلطان حیدرخاں 687, 688 حمید اختر حیدر شاہ ، سید 731 حمیدالدین ، ڈاکٹر (سرگودہا ) 774 حیدرعلی مولوی (سرگودہا)774 حمید اللہ ، چوہدری 15,166 خ حمید اللہ خان، پروفیسر 246 خادم حسین (پرائیویٹ سیکرٹری) خلیل احمد ، چوہدری داماد سید زین | حمید اللہ ، شیخ 765 454 العابدین ولی اللہ شاہ حمید اللہ ، مرزا ادا ما دمیاں نور محمد خادم حسین شیرازی 451 خلیل الرحمن، شیخ 280 | خالد احمد اختر حمید، ٹیچر 834 خالد بینرجی ، مسٹر 790 28 سیل Stommel ، مسٹر خلیل 322 75 812 796,797 24 756 616 29 خدیجہ بیگم بنت عبدالرحمن پونچھی 726 خدیجہ بیگم بنت مولوی حکیم نظام الدین 652 خدیجہ زینب بنت حضرت مولوی شیر علی خطیب سکندری الحاج 279 803 106, 111

Page 905

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 12 خواجہ علی ، قاضی 350 داؤد احمد گلزار ابن مولوی قدرت ڈنگل فٹ کیوسی ،سر خورشید احمد ابن شیخ محمد افضل پٹیالوی اللہ سنوری خورشید احمد، چوہدری 693 ڈوگرل 348 داؤ د احمد ، میرابن میر مشتاق احمد ڈوئی ( جان الیگزینڈر ) 341 خورشید احمد شاد، حکیم 387 | داؤ د حنیف 753 821 ڈی.این جلالی اشاریہ - اسماء 789 533 401, 402, 781 267 438 خورشید احمد، شیخ 451 در شہوار در دانه بنت مرزا عزیز احمد ڈی.برنچو بے خورشید احمد ،صاحبزادہ مرزا 18,461,770 دلاور شاہ ، سید خورشید بنت مولوی فضل الدین دوست محمد بھٹی ، میاں 752, 753 672 706 ڈیگال ڈینٹل مورا یوسف ز 801 834 673 | دوست محمد چیمہ ، چوہدری 703 خورشید بیگم بنت کرم الہی گر داور دوست محمد شاہد ، مولانا ذاکر حسین ، ڈاکٹر 267,625 703 393, 451, 578 خورشیدہ بنت میاں عبدالرشید دوست محمد ، مولوی ( غیر مبائع ) 337 خوشحال سنگھ ، سردار 668 دوست محمد یوسف خوشی محمد ، چوہدری 724 دہلان، قریشی خیر الدین منگلی ، بابا 341 دھنی رام کروا، پنڈت خیر دین ،سیٹھ 746 دین شاہ مہتہ ، ڈاکٹر دین محمدا کا ؤنٹنٹ ، حکیم داد واحمد، چوہدری , 762 داؤ د احمد انور ، سید 264,449 ذکاء اللہ ، ملک ابن ملک مظفر احمد 756 ذکاء اللہ ، ملک ابن ملک نیاز محمد 593 407 ذوالفقار علی خاں گوہر، مولوی 676 355 29, 283, 669, 671 732 531 ذوالفقار علی مالیر کوٹلہ نواب 351 ذوالفقار منصور پڑپوتامنشی عبدالکریم 348-350, 353 دین محمد ، مستری (درویش) 655 بٹالوی 357 681 418 825 داؤ داحمد ، ڈاکٹر داؤ داحمد ، سید میر دیوان چند شرما، پروفیسر 267 617 را برٹسن، میجر 10, } رابرٹ کورٹس 113111112165 ڈلجن.ایف گمبوا( DELJIN رابرٹ ہاول، مسٹر 507 (F.GAMBOA 220, 264, 465, 466

Page 906

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 13 اشاریہ اسماء رابعہ بیگم بنت شیخ محمد افضل پٹیالوی رحمت بی بی بنت کرم الہی گرداور رشید احمد، مرزا ( پاکستانی سفیر ) 348 رابنسن ،مسٹر 555 رحمت خاں، چوہدری راؤن انور 407 (امام مسجد لندن) را ڈویل 533 رحمت علی، چوہدری را شده مارٹن 703 724 490 رشید احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد 302 652 رشید احمد ، ملک (لاہور) 685 رشیدالدین، چوہدری 114 | رحمت علی ، مولوی ( مبلغ سماٹرا ) رام پر کاش پر بھا کر ، شری 759 رام چندر دہلوی، پنڈت 358 رام رکھا، مسٹر رام لاله رجب علی شاہ 491 830 322, 323 رحیم اللہ، مولوی 349 336 264 رشیدالدین خان ، ڈاکٹر 363 رشید الدین قمر ، خواجہ 790 رحیم بخش حکیم ( والد میاں عطاء اللہ ) رشیدالدین، خلیفہ.ڈاکٹر 285 رشید بیگم بنت چوہدری غلام حسین رحیم بخش ، مولوی 700 رحمت اللہ ابن شیخ محمد بخش 689 رحمت اللہ ابن مہر قطب الدین 294 ( والد ڈاکٹر عبدالرحیم) 688 رحیم بخش والد ڈاکٹر حشمت اللہ خاں 690 570 رشید ترابی ، علامه رشید عالم، ڈاکٹر ا بن سید محمود عالم 661 رحمت اللہ ، حاجی 349, 350, 352 331 رحمت اللہ خان رحمت اللہ شیخ.کراچی رستم حیدر رستم علی ، چوہدری 281,324 316,317 680 31 رسول بی بی زوجہ حکیم شیر محمد 279 رشدی البسطى ، السيد رحمت اللہ ، ملک ابن ملک نیاز محمد رحمت بی بی اہلیہ حکیم محمد اسماعیل 355 رشید ناصر ، ملک ابن شیخ فضل احمد بٹالوی 685 رشیدہ بنت میاں عبدالرشید 337 رشیده بی بی 338 370 رشیدہ بیگم بنت شیخ محمد افضل پٹیالوی رشید احمد ابن شیخ محمد افضل پٹیالوی 348 348 رشیدہ بیگم بنت مولوی قدرت اللہ 688 رشید احمد چغتائی ، مولوی 264 سنوری رحمت بی بی بنت چوہدری غلام حسین رشید احمد خان ابن ڈاکٹر غلام احمد رشیدی کو ا وا مسٹر 690 753 رضا حسین رضوی 693 798 538

Page 907

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 رضیہ بیگم بنت خواجہ محمد عثمان 295 رضیه درد 6 رضیه کوثر بنت ملک عزیز احمد 302 14 ز زار ( نکولس روم ) 51 اشاریہ اسماء سرفراز خان، چوہدری سرور شاہ ، مولانا سید 698 736 سعادت علی ابن میاں علی گوہر زبیدہ بنت میاں عبدالرشید 337 رفیع احمد خاں ابن چوہدری نوراحمد زرتشت علیه السلام 654 ذکر یا گزیٹو رفیع احمد ، صاحبزادہ مرزا ذکر یہ بنت سید محمد اکبر 12 زینب بنت شیخ محمد بخش رفیع الدین شاہ 534 93 846 676 689 سعد اللہ ، مولوی سعد برکات مسلم ،سید سعدی ، شیخ 688 325 390 298 رفیعہ بنت میاں عبدالرشید 337 رفیق احمد ، مرزا رفیق چانن سعدیہ عصمت بنت مرزا شمیم احمد زینب بی بی بنت حکیم محمد اسماعیل 688 752 زینب بیگم بنت چوہدری غلام حسین 415-417 690 رقیہ اہلیہ محمد اسحاق 279,372 زینب بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ رقیه بیگم بنت مولوی قدرت اللہ سنوری 693 رمضان شاہ، سید 699,700 288 سعود احمد خان، پروفیسر سعید احمد سعید احمد ، خواجہ سعید احمد ، ڈاکٹر زینب بیگم بنت میاں نور محمد آف 378 393, 808 682 774 821 713 پیرکوٹ 280 سعید احمد شاہ ، سید رمضانی جمعه 798 رملہ بنت مصطفیٰ احمد خان 378 س سعید احمد معلم 550551 سعید احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد روڈلف ٹیفس روشن دین احمد ، مولوی روشن علی ، حافظ ساره بیگم سیده 287 82 848 312, 659, 708, 736, 742 سارہ جبیں بنت ڈاکٹر عبدالحمید ستنام سنگھ باجوہ ،سردار روم ، مولانا ( جلال الدین محمد رومی ) سراج الدین ، صو بیدار 299 49 22 741 سعید احمد ، مولوی سعید kratzchmar 302 682 ریاض احمد اکبر 241 507 سر بلند خاں منشی سرسیوسا گر رام غلام، ڈاکٹر 791 سعیدہ بیگم بنت مولوی قدرت اللہ 693 سعیده بی بی 106, 111 338 سنوری

Page 908

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 سفیر الدین بشیر احمد ، سید 709 سلمی جبیں سفیرالدین ، ڈاکٹر 410 | سلیم احمد سکندر سکندر اعظم 15 6 سولے ڈیڈے کولو،الحاج 783 701 سلیم احمد ابن ڈاکٹر حشمت اللہ خاں سوہار تو ، جنرل 281 اشاریہ اسماء 91, 94 472 288 | سوین مینسن ،مسٹر ( Sven سکندر علی بھینی والے ، مولوی 302 سلیم احمد خاں ابن چوہدری نوراحمد | Hansson) سیکینہ بی بی اہلیہ چوہدری نور احمد سگور ڈایکلنڈ 654 کی لیکنگ 654 سلیم احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد سیاره حکمت، سیده 596 302 سید احمد خان ،سر 560 830 316 404 سلطان احمد ابن چوہدری نوراحمد سلیم احمد ، ملک ابن ملک مظفراحمد سیدہ بی بی اہلیہ صاحبزادہ محمد سعید جان 654 676 سلیم الجابی ،سید 319 | سیف الاسلام ارکسن 718 118 سلطان احمد ابن میاں علی گوہر 688 سلطان احمد پیر کوئی ، مولانا سلیم اللہ مفتی ، حکیم سلیمان، قاضی 296 346 468 سیف الدین کچلو، ڈاکٹر 668 سیف الرحمن، ملک 279, 749 سلطان احمد ،صاحبزادہ مرزا ابن سلیمہ اختر سلیمہ بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خان 15, 393, 452, 626 سیماب اکبر آبادی 534,537 14, حضرت مسیح موعود علیہ السلام 248 288,679 سمیع اللہ ، مولوی 801 261, 287, 308, 354 390, 391, 531 ش سلطان احمد، چوہدری سلطان احمد ملک 698 22 سنجر سلطان محمود انور، مولوی 19, 64, 476, 763 سلطان محمود شاہد،ڈاکٹرسید 240 | شادی خان سوات اکتم ،مسٹر 86 | شافعی،امام سو جاوی مالنگ یوڈ 405,407 شاہد احمد خان پاشا، نواب سوشوں ( Sochon)، پادری 330 774 378, 564, 752 488,830 شاہد احمد شمیم، چوہدری ابن مولوی 586 فضل الدین 20477 سوکارنو ، ڈاکٹر 673

Page 909

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 شبیر احمد ، چوہدری 16 شمس عالم حسینی سرکار 391 | شیر علی ، مولوی اشاریہ اسماء 4,208,220 شمیم احمد ابن مرزا نعیم احمد 752 | 279,306,314,675 شبیر بخاری، سید 382 شمیم احمد ، سید 754 شیر محمد ، بابا شرافت جہاں بنت ملک محمد فقیر اللہ خاں شمیم احمد قاضی ، ڈاکٹر 772 شیر محمد، حکیم مولوی 341 شمیم احمد ، مرزا شرف الحق ، حکیم 387 شمیم احمد، میجر شرفاخان 350,695 279 378 شیر محمد ، مولوی (دیوبند) 765 73,75 584 شناسی سیبر (Sinasi Siber) شریف احمد ابن میاں نور محمد 280 شریف احمد امینی، مولوی 391 شورش کا شمیری، آغا 394, 621, 728, 762 779 522, 523, 526 شریف احمد ڈھلوں، چوہدری 738 شوکت جہاں بنت ملک محمد فقیر اللہ خاں شریف احمد ، مرزا 654 340 ص صابر حسین ،سید 522 صادق احمد ابن سید حیدرشاہ 619 صادق پاشا صادق کا شمیری، خواجہ 756 523 صادقہ بنت سید محمود عالم 661 صادقہ بیگم بنت شیخ فضل احمد بٹالوی شعبان احمد نسیم داماد میاں خدا بخش شوکت حسین شاد، مولوی 338 328 شوکت سلطانہ، سید 360,361 شکر الہی حسین، چوہدری شوکت علی ، ڈاکٹر 401, 402, 449 425, 810, 811 685 صادقہ مقصود حیدر 615,617 صالح الشبيبي صالح محمد 407 332 شکری.انڈونیشیا 405 شہاب الدین، چوہدری 351 شکیل احمد قریشی 375 شہاب الدین خان ابن میاں خدا بخش صالحہ اختر بنت شیخ فضل احمد بٹالوی شمائلہ انس 752 328 685 شمس الدین خان ، خان شہاب الدین، شیخ 662 صبیحہ بیگم بنت سید زین العابدین 234 169,233 شہاب الدین ، ملک 339 ولی اللہ شاہ 322 شمس الدین ، مولوی شاگردمولوی شہید الرحمن 532 | صداقت جہاں بنت ملک محمد فقیر محمد حسین بٹالوی شمس پیر زاده 355 شیرازی ، حافظ 298 | اللہ خاں 390 شیر علی داماد میاں علی گوہر 688 صدرالدین، مولوی 341 346

Page 910

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 17 اشاریہ اسماء صدیق احمد ابن چوہدری غلام حسین صلاح الدین خان بنگالی ، چوہدری 151,169,230,233 690 صغری بیگم (ماں جی ) حرم حضرت 234, 254, 262, 382, 450, 839, 840, 841, 384, 385, 386, 393, 842, 843, 844 452, 463, 465, 481, خلیفہ اصیح الاول 328 | صلاح الدین صو بیدا را بن مولوی صغری بیگم بنت حکیم محمدحسین 328 حکیم نظام الدین 652747 508,532,550,552 صغری بیگم بنت حکیم محمد رمضان صمام الدین سونگھڑوی، سید 738 655 مومو ض 822 567, 568, 569, 603, 626, 640, 754, 760, 773, 849 صغیر احمد چیمہ، چوہدری ابن چوہدری صفی اللہ شاہ ،سیدا بن سید زین العابد بین ولی اللہ شاہ کرم الہی گرد اور 703 | ضیاءالحسن ابن حکیم انوار حسین 341 26 ضیاء الدین بابا خانوف مفتی 475 صفدر حسین ،سید صفی الرحمن خورشید 693 ضیاء الدین، چوہدری صفی اللہ خاں ابن ملک محمد فقیر اللہ خاں ضیاء الدین حمید 651,652 ضیاء الدین مولوی حکیم 296 340 ضیاءالدین ضیاء اللہ، میر طاہر احمد ملک 379 طاہرالدین آف کیرنگ، مولوی 365 310 طاہر عارف ابن محمد یار عارف 690, 749 طاہرہ شاہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا 784 حنیف احمد ضياء النساء بنت ملک مظفراحمد 676 322 طاہرہ نسرین،ڈاکٹر 322 754 b طوبی مشین بنت ڈاکٹر عبدالحمید صلاح الدین احمد ، مولانا 248, 763, 764 صلاح الدین ایم اے ، ملک 355 طارق رشید پوتامنشی عبدالکریم بٹالوی طالعه بی بی 35 337, 338 299 طوبی قدسیہ بنت ڈاکٹر عبدالحمید 372, 373, 374, 451, 669, 749, 750, 759 صلاح الدین، چوہدری 393 طاہر احمد، صاحبزادہ مرزا (حضرت صلاح الدین، چوہدری ابن مولوی خلیفہ المسیح الرابع ) فضل الدین طاہر احمد جاوید، چوہدری ابن مولوی فضل الدین طہ گاروت 673 طیبہ صدیقہ ظ 673 1, 4, 20, 21, 51, 52, ظاہر شاہ 299 405 753 472

Page 911

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 ظفر احمد تالپور 18 اشاریہ.اسماء 379 ظہور احمد شاہ، ڈاکٹر سید عباس احمد پوتانشی عبدالکریم بٹالوی ظفر احمد خاں داماد ملک محمد فقیر اللہ خاں 263,813,814,848 ظفر احمد ، رانا 341 ظہور الدین خاں داماد ملک محمد فقیر عباس کمارا ( معلم ) 766 | اللہ خاں 357 803 340 عبدالاحد خان خان 726,727 ظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 385 ظہور اللہ احمد ، ڈاکٹر سید 28 عبدالباری داماد ملک محمد فقیر اللہ خاں ظفر احمد کپور تھلوی منشی 1241,242 ظہور حسین ، مولانا ظفر احمد وینس 753 ظفر اقبال پراچہ 754 ظہور علی ،سید ظفر اللہ الیاس ظفر اللہ خاں، چوہدری محمد 834 393,460 264 عبدالباری ، ڈاکٹر 341 767 26 | عبدالباری قیوم شاہد 373, 451, 849 عبدالباسط ابن میاں عبد الغنی انجینئر ع عابد علی عابد ،سید 4, 11, 12, 45, 62, 135, 144, 149, 150, 155, 229, 244, 264, 248, 249, 250 عابد محمود بھٹی ابن محمود احمد 690 عبدالباسط، سید عبد البهاء عادل ذوالفقار پاسک 410, 416, 428, 791, 799, 810, 845 ظفر علی ہاشمی ، ڈاکٹر 247,248 ظفر چوہدری 772, 775 عارف زمان عاصمہ جہانگیر 679 عامر احمد طارق ابن شاہد احمد پاشا عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا 530 86 392 764 عبدالجبار خان ، مسٹر 334 362 781 472 عبد الحفیظ خان ابن حافظ ملک محمد پٹیالوی ظفر حسن، ڈاکٹر 339340 ظفر حسین ظفر کلیم، ڈاکٹر 537 358 752 52, 165, 177, 223, 225, 227, 465, 480, 502 508, 509, 640, 667 عائشہ بیگم بنت شادی خان 330 عائشہ تیموریہ ظہور احمد باجوہ، چوہدری عائشہ شمع بنت سید محمد احمد 378 عبد الحق ایم.اے مولوی 808 14169264,393 عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا 354 عبدالحق، پادری 518,519,520 ظہور احمد، چوہدری (آڈیٹر ) عباداللہ ، شیخ 849 عباداللہ، گیانی 322 عبدالحق، چوہدری 45 715 عبد الحق.ڈیرہ اسماعیل خان 624

Page 912

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 عبد الحق رامه عبدالحمید خاں 19 اشاریہ - اسماء عبدالخالد آوانگ 800 508 ,478 ,393 ,166 484,486 483 482 | عبد الخالق ابن چوہدری غلام حسین عبدالحق عبد الحق فضل مولوی - مبلغ بہار عبد الحمید خان ابن مولوی 391 عبدالمنان کا ٹھگڑھی 697 عبد الخالق بنگالی عبد الحق و دیار تھی ، مولوی 358 عبدالحمید ، خواجہ 690 168 383 عبدالرب ابن چوہدری غلام حسین عبد الحق ورک، چوہدری عبدالحمید Dunker ،مسٹر 106 767 ,753766 عبدالحمید شملوی عبدالحق ، نومسلم ( آریہ) عبدالحمید، شیخ 538 690 عبدالرب خان، چوہدری ابن مولوی عبدالمنان کا ٹھگڑھی 697 282,32345 675,738,759 ,455 عبدالرب، شیخ (سابق لالہ شیورام عبد الحکیم اکمل، مولوی 94 عبدالحمید غازی 789 ,96,444,838,839 عبدالحمید (غانا) 38 837 841, 843, 844, 845 عبدالحکیم بکٹ گنج مردان ، ڈاکٹر عبدالحکیم.پھارن عبدالحکیم ،صوفی 342 792 744 عبدالحمید، میجر 401, 449, 849 واس) عبدالرحمن عبدالرحمن امرتسری ، خواجہ 706 380 309, 310 عبدالحی ابن میاں عبدالغنی انجینئر عبدالرحمن (امیر بالٹی مور ) 783 334 عبدالرحمن انور مولوی عبد الحئی خان ابن مولوی عبدالواحد خان میں ٹھی عبد الحلیم خان، چوہدری 697 عبدالرحمن بھٹی ، میاں عبد الحئی خان، بابو عبدالحمید ابن منشی عبدالکریم بٹالوی عبدالرحمن پونچھی عبد الحئی ، سید عبدالحمید ، بابو عبدالحمید.برما 357 680 792 عبدالرحمن، حاجی 30, 71, 454, 731 677 262 695 726 393 74 عبدالحی علوی، پروفیسر 531 عبدالرحمن، حکیم ( ماچھی واڑہ) عبد الحئی کا ٹھگڑھی، چوہدری 353 676 عبدالحئی ، میاں 407,408 عبدالحمید چغتائی، ڈاکٹر 296 عبدالرحمن خادم، ملک عبد الحئی ، میاں داماد ملک عزیز احمد عبدالحمید ، حکیم 715, 717 625 302

Page 913

عبدالرحمن خاکی ، حکیم عبد الرحمان خان ابن حافظ ملک محمد عبد الرحمن، میجر ملک پٹیالوی عبدالرحمن خان بنگالی تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 20 20 عبدالرحمن، مولوی 567 عبد الرزاق، مہتہ اشاریہ اسماء 668 43 38 عبدالرحمن ، میاں 741 عبدالرشید ابن منشی عبدالکریم بٹالوی 386 357 679 عبدالرحیم آف نابھہ ، مولوی عبدالرشید ارشد ، مولوی 405 263, 355 عبدالرشید اشک میر 40103,449,479 عبدالرحیم احمد ، میاں 225, 227, 229 عبدالرحمن ، خواجہ 3067 عبدالرحیم اشعر، مولوی 168 523 عبدالرحمن دہلوی ، قریشی 71 عبدالرحیم بیگ ایڈووکیٹ ،مرزا عبدالرحمن رانجھا،ڈاکٹر 279 عبدالرشید (چارٹرڈ آرکیٹیکٹ ) عبدالرشید ، خواجہ 754 238 عبدالرحمن ،سردار عبد الرحمن صدیقی ، ڈاکٹر 379 عبدالرحیم پراچہ، صوفی 539 723 عبدالرشید رازی ، مولوی 798 29, 288 عبدالرحمن طاہر سورتی ، مولانا 395, 396 عبدالرحیم خاں کا ٹھگڑ بھی، چوہدری عبدالرشید سماٹری عبدالرشید غنی 644 19 697 عبدالرشید ، میاں 335,336 عبدالرحیم ، ڈاکٹر ا بن مولوی رحیم عبدالرشید ، میاں (چیف ڈرافٹسمین) 688 334 عبدالرؤف ، مرزا ابن مرزا عبدالکریم 305, 667, 743 عبدالستار.ڈھاکہ 704 386 عبدالرحمن فاضل جٹ ،مولانا عبدالرحیم ، شیخ (لاہور) 704 2129,364,759 عبدالرحیم قادیانی، بھائی عبدالرحمن ( فرنیچر ڈیلر) 682 عبدالرحمن قادیانی، بھائی عبدالرحیم مالیر کوٹلوی ، میاں 731 عبدالستار شاہ ، ڈاکٹر سید 302 284, 309, 668, 671 عبدالرحیم نیر ، مولانا عبدالرحمن کپور تھلوی منشی 650 41 ,40 ,37 ,29 عبدالستار، مستری عبدالرحمن مبشر ،مولوی 374, 376, 451, 708, 751 3 303, 320, 674, 675 278 552 عبدالرحیم ( یکه بان) 305 | عبدالستار ناصر عبد الرزاق عبدالرحمن مصری، شیخ 313,756 عبدالرزاق بٹ 20 عبد السلام ابن ڈاکٹر عبدالحمید چغتائی 663 299

Page 914

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 21 24 اشاریہ اسماء عبدالسلام ابن میاں عبدالرشید عبدالشکور، مولوی (امیر سیرالیون) عبد القادر دہلوی ، مولوی 759 337 | 422,803,804,848 | عبدالقادر ( سابق مئیر مدراس) عبد السلام، پروفیسر ڈاکٹر 56 عبدالعزیز ابن منشی عبدالکریم بٹالوی 57, 199, 382, 454, 357 356 عبد القادر، شاہ 756 534 ,570,594,595 56 عبد العزیز، پسروری، حکیم 308 عبدالقادر، شیخ ( سابق سوداگر مل) 96597,598,599 عبد العزیز دین عبد السلام، حافظ 393508 عبد العزیز ، ماسٹر 299, 374, 697, 705, 409,785 706, 747, 748 706 679 عبدالسلام خورشید، ڈاکٹر عبدالعظیم درویش، میاں 747 عبدالقادر، شیخ (محقق) 250 249 | عبدالعلی ملک، لیفٹیننٹ جنرل عبد القادر لدھیانوی، مولوی 281 عبد السلام کا ٹھگڑھی ، مولوی عبد السلام میڈسن 768 ,767 ,366 | عبدالقدوس ، حاجی 491 696 ,6934,695 عبد الغفار خان ابن حافظ ملک محمد عبدالقدیر، مرزا ابن مرزا عبدالکریم | 118 پٹیالوی 191,561 ,111 عبدالغفور گریپین تھیں عبدالسمیع خان ابن میاں خدا بخش 328 عبد الغنی انجینئر ، میاں 679 106, 111 704 عبدالقیوم، میاں داماد بیگم سلطان 328 334 عبد القدیر ہارون ابن ڈاکٹر عبدالحمید عبدالسمیع خاں 749 عبدالغنی، چوہدری داماد چوہدری نور عبدالسمیع، مرزا 704,749 | احمد 296, 298, 299 654 عبدالقیوم ، خواجہ 616 عبدالشکور اسلم ابن میاں خدا بخش عبد الغنی ( دار الرحمت شرقی) 17 عبدالقیوم، مرزا ابن مرزا عبدالکریم 198 عبدالغنی، مرزا ( محاسب) 684 عبدالشکور اسلم ابن میاں عبدالغنی عبد القادر 335 عبدالکریم 334 | عبدالقادر اعوان، قریشی 45 عبدالکریم بٹالوی منشی 704 306, 307 355 عبدالشکور پراچہ 723 | عبدالقادر جمال پوری ،مولوی عبدالکریم ، حاجی.کراچی 745 عبدالشکور، چوہدری دامادڈاکٹر حشمت اللہ خاں 281 عبدالکریم ، خواجہ 715 289 عبد القادر جیلانی، حضرت 610 عبدالکریم داماد طالعه بی بی 338

Page 915

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 22 اشاریہ اسماء عبد الکریم ڈنگر 108110 | عبد اللطیف داماد میاں عبدالغنی عبدالمالک ابن میاں عبدالرشید عبدالکریم سیالکوٹی ،مولوی 334 337 ,278,283,332,345 عبداللطیف شہید، صاحبزادہ سید عبد المالک خان، مولانا64,75 355, 657, 677, 703 عبدالکریم شرما، مولوی 158, 159, 465, 467 336, 718, 727 عبداللہ.آبی جان 838 عبدالمالک مجاہد، حکیم 387 ,448,553,554 447 عبد اللہ بھائی الہ دین ہیٹھ عبدالمجید بن منشی عبدالکریم بٹالوی 555, 558, 814, 816, 24, 27, 362 19 18 17 عبد اللہ، چوہدری.گوکھو وال 715 عبدالمجید بٹ عبدالکریم ( امیر شکاگو) 783 عبداللہ، حاجی 350 عبدالحی ،سید 357 447 282 308 عبدالکریم ،مرزا 703 عبداللہ خاں ، مولوی 343 عبد المغنی خان ، مولوی عبدالکریم ، مولوی خطیب ترک مسجد عبداللہ خان ، میاں 686 عبدالمنان ابن منشی عبدالکریم بٹالوی 536 عبد اللہ ، ڈاکٹر 306 عبد الکریم.والد مولوی حکیم نظام عبداللہ ، ڈاکٹر سید 450 عبدالمنان دہلوی الدین 649 عبد اللہ سنوری ، میاں 357 168 357 عبدالمنان شاہد ، مولوی 849 عبداللطیف بہاولپوری، مولوی عبد اللہ ظہیر الدین (لال میاں) عبدالمنان صدیقی ، ڈاکٹر (شہید) 393, 477 386 288 عبداللطیف، چوہدری ( مبلغ جرمنی) عبداللہ قادیانی ، میاں 289 عبدالمنان کا ٹھگڑھی ، مولوی 693 ,107 106 77105 عبد اللہ ، مولوی 323 عبدالمنان ، قریشی ,115,412 ,108113 | عبد اللہ ، مولوی 650 649 عبدالمومن، خواجہ (ناظم اطفال) 685 801 ,562,798 | عبدالماجد امجد عبداللطیف، حاجی 427 | عبدالماجد شمس 360 363 عبد المومن محمود 168, 569 عبداللطیف خان، چوہدری 697 عبد الماجد ، مولانا ( مدیر صدق جدید) عبدالواحد پہلوان، خواجہ عبد اللطیف خوشنویس 709 600 377 715, 716, 750

Page 916

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 23 اشاریہ.اسماء عبدالواحد خان ابن حافظ ملک محمد عبد الوہاب خان ابن میاں خدا بخش عزیز احمد، ماسٹرابن چوہدری کرم پٹیالوی 679 328 الہی گرد اور 703 عبدالواحد خان میرٹھی ، مولوی 676 عبدالوہاب خاں لدھیانوی 328 عزیز احمد ملک 299,300,301 عبد الواحد ( خسر مولوی عبد المنان عبدالوہاب شیخ 767,768,771 عزیز احمد ، ملک ( مبلغ انڈونیشیا) کا ٹھگڑھی) 697 عبید الرحمن فانی مولوی 762 | عبیدالرحمن عبدالواحد دھار یوال 339 عبید اللہ بسمل ، مولانا 238 عزیز الدین عبیداللہ ، | 589 713 عبدالواحد سماٹری، مولوی 727 ,240,675,676 | عزیز اللہ شاہ ، سید 674,675 405,407,589 | عتیق احمد ، سید ابن امین احمد 378 عزیز فاطمہ بنت سید محمد اکبر 676 عبدالواحد، شیخ عتیق الرحمن ، شیخ ,429 428 425,427 | عتیقہ فرزانہ بنت مرزا عزیز احمد 518, 519, 810, 812 عبدالواحد ، مولوی 731 | عثمان ، حضرت 529 عزیزہ اختر بنت ملک عزیز احمد 302 53 752 عزیزہ بنت میاں عبدالرشید 337 612 عزیزہ بیگم بنت ملک نیاز محمد 355 عبدالواسع ابن چوہدری غلام حسین عثمان علی خاں ، نواب میر عصمت اللہ ، ملک ابن ملک نیاز محمد 690 23, 24, 25, 26 عبدالوحیدا بن ڈاکٹر عبدالحمید عثمان فشر ، مسٹر 299 | عثمان کا کوریا 355 28 | عصمت بی بی اہلیہ مولوی عبد المنان کا ٹھگر ھی 697 548 447 عبدالوحید خان 697 | 818 ,817 ,815,816 عطاءالرحمن چغتائی عبدالوحید دامادمیاں عبد الغنی انجینئر عزالدین حسن، ڈاکٹر 416 عطاءالرحمن، چوہدری 334 عزیز احمد ابن میاں عبدالرشید عطاء الرحمن قریشی 45,373 عبدالوہاب آدم ، مولوی 808 عبدالوہاب ابن منشی عبدالکریم بٹالوی عزیز احمد، صاحبزادہ مرزا عبدالوہاب بٹ 337 عطاءالکریم شاہد ،مولوی 485, 486 20,58,59,236,238,357 | عطاء اللہ ابن شیخ محمد بخش 689 663 340543752 عطاء اللہ خان.دھرم کوٹ بگہ 679 عبدالوہاب بخاری، سید 756 عزیز احمد ، قاضی 165 | عطاءاللہ خاں، راجہ 485

Page 917

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 عطاء اللہ ،ڈاکٹر ابن ملک نیاز محمد عمد و، خواجہ عطاء اللہ شاہ بخاری 24 اشاریہ اسماء 715 | غفوراں بی بی بنت چوہدری نوراحمد 355 عمر بی بی اہلیہ چوہدری کرم الہی گرد اور 715 عطاء اللہ، کرنل 36309 | عمر حیات، مرزا عطاء اللہ کلیم ، مولوی 654 699 غلام احمد ایڈووکیٹ، چوہدری 353 51, 449, 459 675 غلام احمد بد و ملی ، مولانا عمر حیات ملک ، ڈاکٹر 234,235 298 غلام احمد، بر یگیڈ ئیر ڈاکٹر 740,741 غلام احمد چغتائی ,434,435,806 433 عمر خیام 808,809,810 | عمردین منشی 28 785 688 عمر رضی اللہ عنہ، حضرت 469,612 غلام احمد، چوہدری (چیف نمبردار ) عطاء اللہ، ملک عطاء اللہ ، میاں (وکیل) 700 عمر علی ، ملک عطاء المجیب راشد 16,379 عمر فروخ 330 | عنایت اللہ احمدی عطاء محمد خان، راجہ 752 695 475 غلام احمد، چوہدری ( رئیس کا ٹھ گڑھ ) 380 653 عظیم قاسم،مسٹر 558 عنایت اللہ (بیرسٹر )، چوہدری 698 | غلام احمد ، چوہدری (مانچسٹر) 706 علی احمد ، مولوی 365 عنایت اللہ ، چوہدری ( مبلغ تنزانیہ) غلام احمد ، حاجی 652,694,695 450798 غلام احمد حریری، پروفیسر 517 علی القاری، علامہ علی بخش 854 662 عنایت اللہ خان، خان 227 غلام احمد خان، مولوی علی برادر ملک فیصل 317 عنایت اللہ گورایہ، چوہدری 703 غلام احمد خان، نواب علی،حضرت علی روجرز 727 28 753 242 غلام احمد ، ڈاکٹر 13 612 عنایت علی لدھیانوی 803 عنایت محمد آف جا گودال 359 غلام احمد ، صاحبزادہ مرزا 17,378 علی شیر بیگ، مرزا 303,309 عیسی علیہ السلام، حضرت غلام احمد فرخ ،سید ابن میر محموداحمد ناصر علی گوہر، میاں علی محمد کھرل ،میاں 81, 283, 470, 489, 688 705 378 ,571,691,775,776 | غلام احمد فرخ ، مولوی 162,640 778,783,817 غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت مرزا علی محمد ، ملک 673,674,675 عمادالدین، چوہدری ابن مولوی فضل الدین غ 673 غالب احمد.سرگودہا 11, 12, 83, 86, 91, 93, 238, 514, 518, 774

Page 918

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 25 اشاریہ - اسماء ,55194254,563 غلام رسول را جیکی ، مولانا 38 غلام محد حق ، ڈاکٹر 571,710,794 ,685 ,241,280 240 غلام محمد حکیم غلام احمد ، مولوی 669,670 غلام احمد ، میاں 13 غلام احمد نسیم، میر 430,802 712 ,706 ,687700 غلام محمد خان، چوہدری 22 349 454 غلام رسول ، مرزا ابن اللہ دتہ 367 غلام محمد درویش، بابا ( بابا حویلی) غلام رسول وزیر آبادی، حافظ 700 غلام صادق ، پروفیسر غلام اکبر خاں ،مولوی ( نواب اکبر یار جنگ بہادر ) غلام اللہ خان، ڈاکٹر 28,363 774 712 غلام علی، مولوی غلام فاطمہ بنت احمد جان پیشاوری 661 غلام محمد ، صوفی غلام محمد ، میاں 294, 295 330, 393 686 غلام محمود، چوہدری ابن چوہدری 234382454531 غلام فاطمہ ، لیڈی ڈاکٹر 739 غلام باری سیف ، مولانا 393 غلام فرید ملک 51 475 449,465,474 غلام قادر، چوہدری ( سٹروعہ ) 653 غلام بی بی بنت میاں اللہ بخش اٹھوال غلام قادر، چوہدری ( لنگڑوعہ) 695 غلام حسن، میاں 339 338 غلام قادر، مرزا ابن اللہ دتہ 367 278 غلام قادر، مرزا ( برا در حضرت مسیح غلام حسین اوورسیئر ، چوہدری 364 موعود علیہ السلام) 668 غلام حسین بھٹی، چوہدری غلام قادر، مرزا ( دادا مرزا محمد اسماعیل 689, 690, 749 مصنف چٹھی مسیح) غلام حسین شاہ بھیروی ، سید 813 غلام محمد ابن مهر قطب الدین غلام حیدر ایڈووکیٹ ، مرزا 366, 367, 370 غلام حیدر قریشی ، ڈاکٹر داماد ڈاکٹر حشمت اللہ خاں 288 703 293, 294 کرم الہی گرد اور غلام محی الدین، حافظ 703 300 غلام محی الدین خان، خان 537 غلام مرتضی ، مرزا غلام م مصطفیٰ خان ، ڈاکٹر 678 248, 249, 250 679 363 غلام مصطفی ، ڈاکٹر غلام نبی ، خواجہ غلام نبی ، مرزا ابن اللہ دتہ 367 غلام نبی مصری ، مولوی غلام نبی ، ملک 664 450 غلام محمد اختر ، میاں 169 64 غلام نبی، ملک (ریٹائر ڈالے.ڈی آئی) غلام محمد امرتسری ، مولوی 285 غلام محمد ٹھیکیدار 294 293 غلام نبی بنشی غلام محمد ، چوہدری ( والد چوہدری غلام نبی نمبردار غلام ربانی ، ڈاکٹر 758 غلام احمد آف مانچسٹر ) 706 غیاث الدین، شیخ 366 663 700 523

Page 919

فضل احمد داماد میاں نور محمد 280 فضل داد خان ، ملک اشاریہ.اسماء 29 683 28 753 279 624 451 فاروق احمد ، ملک 752,753 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 ف 26 فریڈ ریش کارل 82 فضل الہی بشیر ، مولانا فضل احمد بٹالوی، شیخ 477, 698, 699, 703 679 فضل احمد چوہدری ( ناظر دیوان ) فضل حسین ، ملک فاروق احمد ، مولوی فاطمہ اسامہ امریکہ 385 468 408 فضل حق بٹالوی ، حکیم فاطمہ بی بی بنت چوہدری کرم الہی گرداور فضل احمد خاں ابن چوہدری نوراحمد فضل حق خاں ، مولوی 654 فضل حق قریشی فتح اللہ.جاوا فتح دین جہلمی ، میاں فتح دین ،مولوی 703 404 278 688 فتح محمد ٹوانہ ، ملک 227,229 فتح محمد، چوہدری فتح محمد سیال، چوہدری 310 فخر الدین احمد 314, 681, 691 267 فخر الدین ، مولوی گھوگھیاٹ 716 82 فضل احمد ، مرزا ( ابن حضرت مسیح فضل دا دروزی موعود علیہ السلام) 309 | فضل دین، جمعدار فضل احمد ، مرزا ( ابن صاحبزاده فضل دین، مولوی ( معاند ) 331 مرزا غلام احمد ) 378 | فضل عنایت خاں، ڈاکٹر 840 فضل الدین احمدی ، چوہدری 713 فضل کریم پراچہ فضل الدین بھیروی ، حافظ حکیم مولوی فضل کریم ، ڈاکٹر 295 فضل کریم ، شیخ فضل الدین ، مولوی ( مشیر قانونی ) فضیلت جنگ ،نواب ,670 ,669 663,667 | فقیر اللہ بابو 671,672,673 | فقیر محمد لدھیانہ فرٹز فائل، ڈاکٹر فرحت جہاں بنت ملک محمد فقیر اللہ خاں 341 فضل الرحمن بحكيم فضل ال 849 675 28 26 713 711 الدین ، ویٹرنری ڈاکٹر 305 فقیر وحیدالدین، کرنل 534,537 656 | فواد مبارک سنگھاٹے 819 فرزند علی ، مولوی 295 فضل الرحمن سعید ، ملک 262 فہمیدہ بنت حکیم انوار حسین 341 فرمان علی ،مولوی 534 | فضل الرحمن ہمفتی 285 | فیروز الدین (صحابی) فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر فضل الرحمن، مولانا حکیم 40,41 فیروز خاں، چوہدری 250 249 248 فضل الہی انوری ، مولوی 291 349, 350, 352 810 فرید الدین گنج شکر ) 655 48 77411449 فیروز خاں نجی

Page 920

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 27 اشاریہ اسماء فیروز محی الدین قریشی 338,450 قطب الدین ، مہر ,289 کریم احمد طاہر 379 فیصل ، شاه 47,313 294 293 292 291 کریم احمد نعیم ابن ڈاکٹر حشمت اللہ فیمی اکونو فیمی اولیوا العابدین ولی اللہ شاہ فیض محمد خان ، مرزا 24 کالم سالم ، الحاج 834 کپ لوائی کرار نوری 834 فیصل، ملک 316 | قمر الدین فاضل، مولوی خاں فیض احمد گجراتی، چوہدری 294,373 93,429 کریم الدین ، مولوی فیض احمد ،مولوی 389,391,765 قمر النساء بنت ملک مظفر احمد 676 کریم اللہ خان کریم اللہ زیروی فیض الحسن آلومباری، سید 701 فیض الرحمن فیضی داما دسید زین کا تھر اڈا کریم بخش 288, 372 391 431 753 662 کشور بنت مولوی فضل الدین 322 کارل کیٹرر ق کرامت اللہ ، چوہدری کرامت اللہ ، مولوی 438 94 834 410 538 363 325 کفایت اللہ، مولانا کفتار و ( مفتی شام) 673 682 475 کلثوم بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں قاسم رضوی، سید 177374 کلیم احمد ، مرزا کرشن، حضرت 683,734 قائد اعظم کلیم سرور 288 624 538 229 کرم الہی آف محمود آباد 278 کمال الدین امینی ، مولوی 176 قدرت اللہ ، حافظ 95182 کرم الہی چوہان ، جسٹس 443, 444, 449, 479 کمال الدین ، خواجہ 728, 729, 784, 789 523, 526 343 27, 283, 309, 697 450 کرم الہی ، شیخ قدرت اللہ سنوری ، مولوی ,690 ,135,149,616 | کرم الہی ظفر قدسیه با نو 691,692,749 کرم الہی گرداور، چوہدری 697 کمال یوسف، امام 155 کرم الہی لدھیانوی، میاں 355 کر مداد قدسیه شاه بنت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ قزلباش، آغا 701 322 کرم دین بھیں ، مولوی 348 534 127, 140, 192, 196, 559, 562, 776 کنجو احمد کیونو کنور دلیپ سنگھ کرم دین ، میاں 241 240 کنبے ، ریورنڈ 625 672 82

Page 921

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 28 اشاریہ - اسماء لطیف خالد ، ملک ابن شیخ فضل احمد مبارک احمد شیخ مولانا 15384 گاگا گل حسن خان 830 330 بٹالوی لعل دین 385, 393, 465, 467, 476, 553, 640, 641, 702, 731, 740, 743 685 754 96, 99, 108, 168, 177, 210, 255, 465, 467, 586, 606, 640, گلزار احمد، بریگیڈیئر 3940 گل محمد ، مرزا گل محمد ، مولوی لعل دین، ڈاکٹر 846847 لو پنگ 443 لیق احمد طاہر 450,685 مبارک احمد ،صاحبزادہ مرزا 71 668 22 785, 787, 789, 791 443 168, 380 773, 779, 819 82 820 لیق احمد عابد لی پال ویرینٹس لیمن جوار 93,734 291 450, 808 79 گنگاؤ گوتم بدھ گوہردین ،ڈاکٹر گوئٹے گیان سنگھ کاہلوں ، سردار 267 ماجد بے نی جے گیان سنگھ راڑ یوالا ، سردار 267 ل 775 مبارک احمد قریشی ( مبلغ ) مبارک احمد ، ملک ابن شیخ فضل احمد بٹالوی 685 مارکونی طورے 806 مبارک احمد، ملک (قائد) 74 مان سگنور ڈیوڈ نورس 516 مبارک احمد نذیر 803805 لال شاہ ، سید 712 مبارک احمد ابن حضرت مسیح موعود مبارک علی، چوہدری لڑ گارڈن نیلر 246 علیہ السلام 261,302,689 743 مبارک احمد پوتا مرزا غلام حیدر مبارک علی ، مولوی لچھمن داس لطافت جہاں اہلیہ ملک ظفر احمد خاں لطف الرحمن محمود 9, 49, 758 677 367 مبار که بیگم بنت خواجہ محمد عثمان 295 341 مبارک احمد، پروفیسر جامعہ احمدیہ مبارکہ بیگم بنت ڈاکٹر ظفر حسن 803 479 لطف الرحمن ، مرزا 45008 مبارک احمد خان.آف ناندی مبارکه بیگم، سیده نواب لطیف احمد آف میلسی 338 810 340 6, 72, 75, 156, 210, لطیف احمد خاں ابن چوہدری نور مبارک احمد ساقی ، مولوی 432 ,259 ,255 ,211,220 احمد 433, 435, 822, 827 654 548, 564, 605

Page 922

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 29 مبارکه نیر 467 | محمد اجمل شاہد،مولانا اشاریہ - اسماء محمد ادریس چنیوٹی 728 مبشر احمد ابن چوہدری محمد صادق 451475539849 | محمد ادریس شاہد، مرزا 447,449 754 | محمد احسن امروہی ، سید مبشر احمد را جیکی 685 محمد استفیر خان محمد اسحاق 427 279 352,674 مبشر احمد، صاحبزادہ مرزا مبین الحق شمس، حافظ 337 مبشر احمد شاہد ابن لعل دین 754 محمد احمد ابن ڈاکٹر حشمت اللہ خاں محمد اسحاق ابن خواجہ محمد عثمان 295 288, 347, 373 75253 محمد احمد ابن شیخ فضل احمد بٹالوی محمد اسحق انور محمد اسحق ، صوفی محمد الحق ، میر 652 845-847 مجیب اللہ خاں ابن ملک محمد فقیر اللہ محمد احمد اشرف،ڈاکٹر 685 631, 632, 633, 654, 694, 736, 742 375 خاں مجید احمد شاہ سید 340 713 محمد احمد انور محمد احمد جلیل ، مولوی محبوب عالم ابن مبارک حسین 656 محبوب عالم خالد شیخ عبد الحق ورک 71,165,578 162 محمد اسد اللہ کاشمیری، قریشی 476 376,849 محمد احمد، چوہدری ابن چوہدری محمد اسد خاں ابن محمد خاں 395 753 محمد اسلم ابن خواجہ محمد عثمان 295 محمد احمد خاں ابن چوہدری نور محمد محمد اسلم ایم.اے، پروفیسر قاضی محبوب علی خاں، نواب میر 25 محکم الدین آرائیں محمد آرتھر مسٹر محمد ابراہیم جمونی 289 808 716 محمد احمد خاں، رانا محمد احمد خان، نواب محمد احمد ، سید 246, 382, 395, 465, 654 747 478, 531, 716, 724, 753 763, 764 815 محمد اسلم ، چوہدری 378 28 محمد ابراہیم قادیانی در ولیش ، مولانا محمد احمد، سید ابن سید محمود عالم 661 محمد ابراہیم ، میاں محمد ابراہیم ناصر، پروفیسر محمد ابوزہرہ 291 محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ ، شیخ 30, 66, 164, 238, 241, 242, 465, 467, 479, 505, 509, 534, 640,641,669,670 393 14,716,717 517 محمد اسلم خاں ، کیپٹن 387 محمد اسلم فاروقی ، حکیم محمد اسماعیل ابن خواجہ محمد عثمان 295 محمد اسماعیل حکیم 685,687 محمد اسماعیل داماد طالعه بی بی 338

Page 923

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 30 اشاریہ.اسماء 810 محمد اسماعیل دیا لگڑھی 271 | 450,808,837,854 | محمد ایوب خان (صدر جماعت احمدیہ محمد اسماعیل ذبیح ، مولوی 708 محمد اقبال ایڈووکیٹ ، ملک 227 مارو) محمد اسماعیل لائکپوری ، میاں 711 محمد اقبال پراچہ، شیخ 224 محمد ایوب خان، فیلڈ مارشل محمد اسماعیل ،مولوی ( چٹھی مسیح) محمد اقبال (علامه) 298,381 703 محمد اکبر داماد میاں عبد الغنی انجینئر محمد ایوب ، مولوی محمد اسمعیل منیر، مولوی 437 436 334 محمد باقر ، آغا 491,652,833 488 محمد اکبر سقراط، پیر 366 محمد بخش، شیخ محمد بشیر شاد محمد اسماعیل ، میر.ڈاکٹر محمد اکبر، سید 676 241,361,710 | محمد اکرم ابن خواجہ محمد عثمان 295 محمد اسماعیل وسیم 450 محمد اکرم شاہ، سید داماد ڈاکٹر حشمت محمد اشرف راہوں ، سید 353 اللہ خاں محمد اشرف ، شیخ ابن خواجہ محمد عثمان محمد اکرم شیخ محمداکرم، 295 محمد اکمل ،سید 289 455 717 محمد اشرف، میاں 744 محمدالحسینی الملقب به بندہ نواز گیسو محمد اشرف، میاں.ایس ڈی ایم دراز چنیوٹ 774 | محمد الدین محمد اعظم، سیٹھ محمد الدین، ماسٹر محمد افضل 323 | محمد امیر، مولوی 389 713 715 365 447 57-59, 394 407 249,250 688,749 835 محمد بشیر.ڈیرہ اسماعیل خان 624 محمد بی اے، مولوی (امیر مشرقی پاکستان) 508 739 413 808 775 792 محمدتقی ، چوہدری محمد توفیق محمد جبرائیل سعید ، مسٹر محمد جلال شمس ، ڈاکٹر محمد جمیل، ڈاکٹر محمد جی ہزاروی ، مولوی میر 329 محمد حتی ، ڈاکٹر 586 محمد افضل پیالوی ، حکیم شیخ 343 محمد امین جنجوعہ محمد افضل ،سید 717 محمد امین ، حافظ 289 محمد حسن، بابا محمد افضل، شیخ 22 محمد امین شاہ ،سید 711 محمد حسین بٹالوی ، مولوی محمد افضل صابر 77 محمد امین، قاری محمد افضل قریشی ( انچارج احمدیہ محمد انور حق 380 349 355,686 744 محمد حسین، چوہدری ( والد مولوی مشن آئیوری کوسٹ) 434 محمد انور ہاشمی 761 عبدالمنان کا ٹھگڑھی ) 695

Page 924

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 31 اشاریہ اسماء محمد حسین حکیم مرہم عیسی محمد خاں ، رانا 509 محمد زہدی ، مولوی 405 296,328 | محمد داؤد طاہر 379 | محمد سرور، پروفیسر 517 محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید 663 محمد دین.آنبہ 713 محمد سعید انصاری ، مولوی 450 محمد حسین شاہ، سید 707 محمد دین احمدی - بنگل دار 742 محمد سعید بٹ محمد حسین ، شیخ 384 محمد دین بابا، در ولیش 717 محمد سعید جان ،صاحبزاده محمد حسین کشمیری ، میاں 661 محمد دین حکیم 353 50 718,719,721 725 محمد حسین کھوکھر 447,847 محمد دین، شیخ 667,740 | محمد سعید، میاں محمد حسین ، ماسٹر ( لٹو کا ) 814 محمد دین، مولوی صدرصد رانجمن محمد سلیمان ابن خواجہ محمد عثمان 295.محمد حسین منشی 337 احمدیہ پاکستان 166 165 محمد شاہ آف شاه مسکین محمد حسین ، مولوی.سبز پگڑی والے محمد دین کشمیری 240,241 محمد شریف، چوہدری ( مبلغ سلسلہ) 715 محمد دین، مولوی ( مبلغ میسور ) محمد حسین، میاں ( کلکتہ ) 762 محمد حسین والد ڈاکٹر عبدالسلام محمد دین، میاں 334 434, 450, 819-821 756851 محمد شریف، چوہدری.فیروز والا 686 56,454 محمد رحمت اللہ غوری 765 محمد شریف ڈھلوں 705 386 محمد حسین والد حکیم انوار حسین 341 محمد رشید، پروفیسر 757 محمد شریف ، ملک ( معلم وقف جدید) محمد حسینی سید 389 | محمد رضا شاہ پہلوی محمد حفیظ بقا پوری ، مولوی 570 محمد رضوی، سید 472 26 محمد شریف ، میاں محمد حمودی اجسیم ، ڈاکٹر 86,416 محمد رفیع، صوفی 74,162 محمد شفیع اسلم ، ماسٹر 747 محمد رفیق شاہ ، سید 676 محمد شفیع اشرف ، مولانا محمد حمید کوثر محمد حنیف، شیخ 74 محمد رمضان، حافظ 707,708 محمد حنیف کو یا 812 محمد رمضان، حکیم 655 | محمد شفیع ( کلکته ) محمد حیات ، حکیم 686 محمد رمضان والد عبد الواحد خان محمد شفیع ،سر میرٹھی 676 703 309 714 338, 387, 475 762 671 361, 684 792 محمد حیات ، مولوی 523 میر محمد خاں ابن حکیم محمد اسماعیل 687 محمد زمان خان ، میر 329 محمد شفیع.موئے

Page 925

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 محمد شفیع محمد شمس الرحمن 32 254,269,326,468,762 محمد عبد اللہ ، مولوی پٹیالہ 489, 565, 566, 568, 220,384 محمد صادق ( امیر و ولیکن) 604607,608,611,783 محمد عثمان بھیروی، خواجہ محمد صادق، چوہدری ابن چوہدری 623 ,614,622 ,612 کرم الہی گرد اور 776,703 ,63040-642 محمد عثمان چینی محمد صادق.لاہور 754 | 779,783,785,793 | محمد عثمان فارقلیط محمد صادق مفتی محمدطفیل خان یاد ,347,351,662 346 | محمد طیب، صاحبزادہ 669, 671, 756 محمد صادق، مولوی ( مبلغ انڈونیشیا) محمد عاشق ، قاری اشاریہ.اسماء 282,291 295,296 412 625 679 محمد عثمان ، مرزا ابن مرزا غلام قادر 721 754 محمد عزالدین حسن ، ڈاکٹر 264460,533 محمد عاصم ، میجر ابن میر محمد جی ہزاروی محمد عطا ، ڈاکٹر 333 محمد عطاء الرحمن محمد صدیق ابن میاں بخش اٹھوال 339 338 محمد عالم (باڈی گارڈ حضرت خلیفہ محمد عطاء اللہ، کرنل محمد صدیق امرتسری، مولانا 41 ایج) 703 86,417 405 365 65 688 محمد علی ابن میاں علی گوہر 688 محمد محمد صدیق ، حاجی 282323 محمد عالم ، ملک 278 محمد علی اکبر، بنگالی 737 محمد صدیق شاہد گورداسپوری، مولوی محمد عبد الحئی مچھلی بندری 29 محمد علی جالندھری، مولوی 523 03-805,808,809 محمد عبد العظیم ، ڈاکٹر 247 محمد علی، چوہدری (پرائیویٹ 451 محمد عبد القادر استحق.غانا 739 سیکرٹری) 20, محمد صدیق فانی محمد صدیق، چوہدری ( صدر عمومی) محمد عبد القادر صدیقی ، مولوی 51,71,163,16829 166,193,263 165, 16 محمد عبد اللہ بی ایس ای محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت 69 محمد عبد اللہ بھٹی، قاضی 169, 172, 179, 181, 29 383, 640, 641, 764 14 ,120 ,93 ,85 701 محمد عبد اللہ ، ڈاکٹر ( داماد مولوی بی محمد محمد علی خان.وزیر تعلیم محمد علی خان.وزیرتعلیم 384 ,121,138,141,154 عبد الله ) 735736 محمد علی خان نواب ,178,199,253 158 محمد عبد اللہ رنگریز ، میاں 741 محمد علی شاہ ، سید 286 307

Page 926

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 33 محمد علی ، مولوی ,346 محمد مسعود احمد ابن میر محمد جی ہزاروی محمد نواز کاہلوں 358, 533, 680, 793 محمد علیم الدین 767,768 | محمد مشتاق ، مولوی محمد علی ، مولوی ( وٹرنری دفعدار ) محمد مصطفیٰ علی اشاریہ اسماء 380 333 محمد نواز مومن داماد میاں خدا بخش 49 328 385 محمد یار عارف ابن چوہدری غلام 679 محمد معین الدین سیٹھ 755,756 | حسین 689,690,749 محمد عمر خان یاردانی 360 محمد منصف خاں، چوہدری 654 محمد یسین - سابق محر ر لنگر خانہ 727 162 | محمد منور 477 محمد یسین خان وٹو 250762 محمد عمر ، مولوی محمد عمر ، مولوی ( مبلغ مدراس) محمد منور، مولوی 449 | محمد یامین، میاں ( تاجر کتب) 391,756,765 محمد موسی ، گورنر مغربی پاکستان محمد عمر، مہاشہ ( یوگندر پال) 731,732 محمد موسی ،سید محمد عنایت اللہ دہلوی 733,748 58,379,394 محمد یعقوب خاں ایڈیٹر لائٹ 512 543, 545-547 404 محمد مولوی (امیر مشرقی پاکستان) محمد یعقوب شاہ، سید محمد عیسی، مولوی ( مبلغ مشرقی افریقہ) ,386 385 384 220 محمد یعقوب طاہر ،مولوی 558, 815, 817 محمد فاضل الجمالی ، ڈاکٹر محمد نانیا 508, 783 706 299, 379, 716 426 محمد یوسف با توی ، حافظ 91,416 محمد نذیر احمد ( فری ٹاؤن) 108 محمد یوسف تاجر محمد فقیر اللہ خاں ، ملک 339 محمد نذیر لائلپوری، قاضی 551 محمد یوسف خان محمد قاسم.امیر ڈیٹن محمد کریم اللہ.مدیر آزاد نوجوان ' 756 370 663 271,208,393,783 محمد یوسف خرامی 677,678 ,451,460,465,476 محمد یوسف، سردار 54369,584,640,756 محمد یوسف بانی ہیٹھ محمد کما نڈا بونگے 37,420,803 641676715,723 محمد یوسف، شیخ محمد گل، جسٹس 523,526 محمد نسیم محمد مجیب ، مسٹر 5623 محمد نظام الدین ، بابو 562 محمد یوسف، شیخ پوتا شیخ محمد عثمان 662 محمد مراد، مولوی 705,706 | محمد نواز احمد سید 707 محمد یوسف، قاضی 534 740 29 296 3, 369

Page 927

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 34 اشاریہ.اسماء محمد یوسف (کوالا لمپور ) 593 محمود احمد، مرزا ( فرینکفرٹ) 77 محی الدین ابو زکریا یحیی بن شرف محمد یوسف ، مولانا ( غیر احمدی عالم ) محمود احمد ناصر، سید میر محمود، ابوالفضل النووى 470 ,378 ,166 ,32 5 محی الدین ایڈووکیٹ ، سید 737 478, 480, 640 محمود احمد ابن چوہدری غلام حسین محمود اسماعیل زولش 690 محی الدین، شیخ 77,411,800 محی الدین.مدراس 452 393, 394 734 756 محمود احمد ابن حکیم انوار حسین 341 محمود الحسن شیخ 385508 محی الدین ، مولوی 407 405 محمود احمد ابن مولوی قدرت الله محمود الحسن ، مولوی ( مترجم ) 534 مختار احمد ، ڈاکٹر سنوری 693 محمود احمد ابن میاں عبدالرشید 337 محمود احمد اشرف محمود احمد بانی 375 740 محمود احمد چوہدری بی اے 450 محمود الخطیب اردنی 773 مختار احمد ، سید محمود اللہ شاہ، سید 633 مختار ولد دادا 560 مدن، مسٹر محمود امیرکسن 447 669 432 488 محمود بیگ مرزا 363 مرتضی خاں ابن عبداللہ خاں 343 محمود خالد زیبر 80 | مرتولو ( مورتولو) محمود احمد، چوہدری.کمپالہ 846 محمود سلیم ربانی 100 محمود احمد، حکیم 22 محمود طرزی 727 | مردان علی ، میر محمود احمد خان ابن نواب محمد احمد خان 590, 591, 606 26 753 محمود عالم ،سید 655 مرلی دھر، پنڈت 296 محمود احمد داماد میاں عبد الغنی انجینئر محمودہ احمد بنت مرزار فیق احمد مریم بنت ڈاکٹر عبدالحمید 299 محمود احمد ، ڈاکٹر 334 752 مریم بیگم (سیده ام طاہر ) 287 334 محمودہ بنت حکیم انوار حسین 341 مریم صدیقہ ، سیده ( ام متین ) 61 محمود احمد ،سید ابن سید مسعود احمد محمودہ بنت میاں عبد الرشید 25437 ,129,205-127 752 محمودہ بیگم بنت مولوی قدرت اللہ 451,501,564,641 محمود احمد شاہ سید ( گلشن اقبال) سنوری 693 مریم ، مس 120 380,454 محموده خالده 80 | مستفیض الرحمن ایم اے 384

Page 928

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 35 اشماریہ.اسماء مسرت جہاں بیگم اہلیہ ثار احمد قریشی 46547048914 مقبول احمد.ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک 158-520,553,341 ریلیشن مشرقی پاکستان ) مسرور احمد، صاحبزادہ مرزا ( حضرت 56577160 مقبول احمد قریشی خلیفه امسیح الخامس) 764, 765, 775, 776, 769 385 18, 401, 450, 783, 784 534 مسعود احمد ابن ڈاکٹر حشمت الله 77883788789 مقبول احمد ، مولوی خاں مسعود احمدی 793-795, 797, 798, 288 817, 818, 832, 845 مقبول احمد، میجر ملک محمد پٹیالوی، حافظ 210 677 799,800,801,848 | مشتاق احمد باجوہ 77,862 ممتاز احمد ، ملک ابن ملک مظفر احمد مسعود احمد ، حافظ ڈاکٹر 223 417-413 ,180,203 مشرف خاں 840 18152 مصطفی احمد خان ، نوابزاده 378 مسعود احمد ، سید میر مسعود احمد خان دہلوی 275 مظاہر حسین، میر 676 ممتاز حسن ، ڈاکٹر 3233 534, 535, 539-541 مسعود احمد خورشید ابن مولوی قدرت | مظفر احمد، چوہدری اللہ سنوری 693,749 | مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا مسعوداحمد عاطف، پروفیسر 731 229 380 208, 473, 476 مسعود احمد.قائد پشاور 234 | مظفر احمد ، ملک 673,675 ممتاز حسین منصور احمد اقبال 246 338 منصور احمد شاہ، سید داماد سید زین العابدین ولی اللہ شاہ 322 منصور احمد، صاحبزادہ مرزا 71, 141, 165-168, 694 منصور بن سلیم شاہ مسعود نیاز 380 مظفر احمد نواسه مولوی عبدالمنان مسعودہ بیگم بنت مولوی قدرت اللہ کا ٹھگردی سنوری 693 مظهر جمال ، مولانا 240 332 مسیح علیہ السلام ، حضرت معراج دین 211, 393, 752 834 406 212 منصور، حاجی منصور قیصر ,134,171 معلم صالح ، الحاج 837 منصورہ بنت حکیم انوار حسین 341 118118212283 مقبول احمد ذبیح سردار 168 منصورہ بیگم اہلیہ شہزادہ الطاف احمد 201, 264, 448, 449 384, 414, 446, 448, U 338

Page 929

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 36 اشاریہ اسماء منصوره بیگم سیده ( حرم حضرت منیر احمد عارف 449 مهر آپا، سیده ( بشری بیگم ) خلیفة أسبح الثالث) منیر احمد فرخ 767, 768 6, 255, 467, 641 291 ,211 210 71,168 منیر احمد کلکتہ 762 | مہرالدین، میاں 484,641 منیر احمد محمود، ڈاکٹر 22 مہردین گجراتی ، مولوی 278 منظور احمد منظور، چوہدری 585 منیر احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد میڈیسین دھون ، ڈاکٹر 106 منظور بیگم بنت چوہدری غلام حسین 690 منیر احمد، میجر 302 | میرخان، خان 616 | میمون مجیده 726 834 منور احمد ابن چوہدری غلام حسین منیر الحصنی 31975 میمونہ بنت سید محمود عالم 661 میمونہ بنت مولوی قدرت اللہ 690 | منیر الدین احمد ، مولوی منور احمد ایم ایس سی 421 814,817,818 | سنوری 693 منور احمد انیس 763,764 | موسی خان 278 منور احمد جاوید، ملک 339 موسیٰ علیہ السلام، حضرت 81 منور احمد ، ڈاکٹر مرزا 581, 609, 611, 783 168, 288,607,242 | مولا بخش، دادا حضرت حشمت اللہ منور احمد ، ملک ابن ملک مظفر احمد خاں 676 مولاداد خان ، ملک منور شمیم خالد، شیخ 66373 مومن ( معلم ) منورہ بیگم بنت حکیم محمد رمضان مہتاب الدین ، میاں 281 710 808 649 655 مہتاب بی بی اہلیہ مہر قطب الدین منیر احمد (امیر سینٹ لوئس) 783 292 587 82 ناسوتین، جنرل ناصر محمود ناصر احمد ابن ڈاکٹر عبدالحمید 299 ناصر احمد، ڈاکٹر (پرویز پروازی) ناصر احمد، پریذیڈنٹ ناصر احمد حلیل، ڈاکٹر ناصر احمد ، سید 246,753,764 142 783 784 منیر احمد ابن بشیر احمد رفیق 823 مہتاب بی بی اہلیہ میاں اللہ بخش ناصر احمد قریشی ابن ڈاکٹر عبدالحکیم منیر احمد، چوہدری ابن چوہدری کرم اٹھوال الہی گرداور منیر احمد خاں 725 | مهدی خاں 338 343 703 | مهدی حسین ، میر 362 | ناصر احمد ، مولوی 803,804 654 ناصر الدین ، ڈاکٹر 625

Page 930

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 ناصرہ بیگم بنت خواجہ محمد عثمان 295 نسیم احمد ، مرزا 37 اشاریہ اسماء 378 نصیر الدین ایم.اے شیخ 434 ناصرہ بیگم 338 نسیم احمد ، ملک ابن ملک عزیز احمد 435, 481, 835, 848 ناصره گرپین تھین 111 نصیر الدین مولوی 41 نامدارخان، پروفیسر 388 | نسیم سعید، سیده شار احمد ابن شیخ محمد افضل پٹیالوی نصر اللہ خان، چوہدری شار احمد فاروقی 302 468 486 348 | نصر اللہ خاں داماد چوہدری نوراحمد 379,754 شار احمد قریشی داماد ملک محمد فقیر اللہ خاں نصر اللہ خاں ملہی 654 339 نصیر اللہ خاں ابن ملک محمد فقیر اللہ خاں 340 نصیرہ بیگم اہلیہ صاحبزادہ مرزا عزیز احمد 20 نصیرہ فردوس بنت طالحہ بی بی 338 339 شاراے شیخ ،میاں نجم الدین تجل نجم الدین ،میاں 341 507 نظام الدین ، ملک نصرت احمد داماد میاں عبدالغنی انجینئر نظام الدین مهمان ، مولوی 334 803, 806 91 نصرت جہاں بنت حکیم انوار حسین نظام الدین مولوی حکیم 649 652 341 نظام الدین، میاں 334 نذیر احمد ابن شیخ محمد افضل پٹیالوی نصرت جہاں بیگم ( حضرت اماں جان) نظیر بیگم ہمشیرہ ملک محمد فقیر اللہ خاں 348 72, 261, 284, 300, نذیر احمد ، چوہدری ( محکمہ انہار ) 263 نذیر احمد، خواجہ 27 340 ,305,311,328 ,302 نعمت اللہ خاں، حج سمرالہ 356 627, 677, 722 نعمت اللہ ابن مولوی قدرت اللہ نذیر احمد ، ڈاکٹر سید 250-247 نصرت جہاں نبیلہ بنت مرزا انس احمد سنوری 693 378 نعمت بی بی اہلیہ چوہدری نوراحمد نذیر احمد ، ڈپٹی نذیر احمد رحمانی ، ماسٹر 534 365 نصیر احمد خان، پروفیسر 393 نعیم احمد نصیر احمد خان ،ڈاکٹر نذیر احمد علی، مولانا 38,41,837 نصیر احمد قریشی 16 343 نعیم احمد.حیدر آباد 654 155 74 نذیر احمد مبشر ، مولانا 5, نعیم احمد خاں ابن چوہدری نوراحمد نصیر احمد خان ، مولوی 41, 393, 470, 731 نسیم احمد خان 454 803,804 نعیم احمد ، مرزا 654 752

Page 931

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 38 اشاریہ.اسماء نعیم اللہ ابن رحمت الله 665689 641,651,663 وسیم احمد 380 نعیم اللہ خان خالد 685 | 669,680,694,715 وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا 49 نعیمہ بیگم بنت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں نورالدین ، شیخ 389, 621, 624, 625 713 بیگم 289 نورالدین ملک (منشی جی ) 299 وسیمہ بیگم اہلیہ فیض الرحمن فیضی | نواب الدین ، مولوی 382 | نور اللہ شاہ 700 نوح علیہ السلام ، حضرت 140 نور محمد، چوہدری | 713 وقار عظیم، پروفیسرسید نور احمد بولستاد 118,560 | نور محمد ، حافظ 282 ولایت حسین شاہ ،سید 322 250 711 785 نور احمد، چوہدری 652 نور محمد ، ماسٹر ( صدر بھکر) 263 ولسن، مسٹر نور احمد، حافظ نوراحمد ، شیخ.بلاد عر بید 323 نور محمد ، میاں ابن میاں امام الدین ولی اللہ شاہ سید 743 نوراحمد منیر، شیخ 451 نور محمد نسیم سیفی نور الحق انور مولوی 302, 307, 312, 316, 319, 279 320, 674, 675, 849 41,160,393,470,849 ولیم ٹب مین ، ڈاکٹر ,425,429,450,518 | نیاز علی 520,522,810-813 نیاز محمد ساہیوال، ملک نور الحق ، مولوی.ملتان 523 نیک محمد خان نیموںکر ، ڈاکٹر نورالدین ابراہیم، شیخ نورالدین احمد ، مولوی 404, 405 61, 409, 432, 433, 688 348 818, 822, 823 308 ولی محمد ابن مولوی شیر محمد 279 413 ولی محمد و نفیس و ولیم ملر 753 793 واحد حسین، گیانی 393 ونسینٹ مونٹیل 54243 ( مبلغ کسوموں) 817 816 والٹر ہلزے ( ناصر محمود ) 82 وید محمد اجمل نورالدین حکیم مولوی حضرت وحید الزماں،علامہ 646 ویر ندر پائل ، شری خلیفة اسح الاول) 387 765 31 وحید قریشی، ڈاکٹر 250 249 وی.کے گپتا ، ڈاکٹر 757,758 ,2278,283,289 وررڈ، مسٹر 41 وینکاٹا سانندا، سوامی ,29298,300,311 وزیر آغا ، ڈاکٹر 248 وی.وی.کاہلوں ,312333,338,389 وزیر محمد ، چوہدری 733 وی وی گری 830 803 267

Page 932

اشماریہ.اسماء 39 English 304 Abdus Salam Alhaj | 516 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 0 ہیگو ، ڈاکٹر 835 82 Audu Bako 838 Binder 106 686 Birckholtz 108, 116 809 Botwell, Dr 619 656 Brachwoldt 106 99 Coulay, Father 99 D.C.Pavate 267 Franz 106 G.F Pijper 99 29, 286, 290, 292, Ghurburron 488 373, 653, 681, 695 Henry Dewolf Smyth 595 808 James R.Killian, Dr 355 ہاجرہ اہلیہ سنگھائے 819 | ہیلینان، کارڈینل ہاجرہ بنت شیخ محمد بخش 689 | ہینس ویرنر شنائڈر ہاجرہ بیگم اہلیہ خواجہ غلام نبی 363 یے ہاجرہ بیگم بنت سیٹھ عبداللہ الہ دین یار محمد مولوی 362 بار ہوئے، کرنل ہاجرہ بیگم بنت میاں بخش اٹھوال یا ورحسین بھی پینو ہادی ایمان ی علیہ السلام، حضرت 514 ہارون رشید یعقوب بیگ، ڈاکٹر 278,663 ہاشم، ملک یعقوب علی عرفانی ، شیخ ہالن سٹائن ہستہ اللہ ، سید ہٹلر 79582 یعقوب علیہ السلام، حضرت 783 ہربنس سنگھ ہری چند 353 یوسف ایڈوی ، مسٹر 698 یوسف بیگ سامانوی 339 407 272 687 414 718 595 756 John Henry Fisher 395, 848 421 J.P.Thijssen 99,104 808, 809 414 Kerrutt 106 80 ہمایوں فیض رسول 774 | یوسف حسین کو کن ہنری ڈی وولف سمتھ 596 یوسف عثمان ہوئی،ڈاکٹر ہوئرگن 414 یوسف علی، مسٹر ( کمشنر ) ہیرالڈ ہیو جینکنز 135 یولیا، مستر Lanning, Dr 560 714 M.A.Salman 835 ہیرلڈ شوبرٹ مسٹر 135 یونس احمد اسلم ، قریشی ہیز بر ، ڈاکٹر 413 یونس علیہ السلام، حضرت 489 Masood Ahmad 232

Page 933

اشاریہ.اسماء 40 40 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 Omar Huybrechts 97 P.A.Van Diease 845 Ringadoo 488 John Stonehouse 492 S.B.Dahira 835 Sieg, Dr 105 Sigvard Eklund 595 Thomas Arnold 404

Page 934

اشاریہ.مقامات 39,40, 41 مقامات اٹلی ,79 | افریقہ 94, 122, 138, 85, 92, 142, 417, 594, 596 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 T 836,837 235, آبی جان آزاد کشمیر 318, 331, 358, 381, 482-484,486,842 148, 214, 215, 220, 684 267, 380, 397-399, 420, 514, 534, 542, 208,675,676,763 566, 638, 698, 703, 737 826, 838, 843 542 37.,419,443 افریقہ (مغربی) احمد آباد احمدنگر ( مشرقی پاکستان) 365 | احمد پور ارجنٹائن اردن 38, 39, 41, 42, 43, 773, 801, 838, 840 417 814 79, 90, آسام آسٹریا آسٹریلیا آکسفورڈ 176, 212, 781, 790 94, 135, 196, 198, 398, 399, 412, 421, 54, 267, 272, 512 433, 434, 472, 801, 779 809, 827, 836, 837 417,775 اڑیسہ 681,682, 683 افریقہ (مشرقی) از میر استنبول اسرائیل 840 712, 713 559 41, 198, 264, 398, 57, 58, 112, 123, 142, آگرہ آمر سفورٹ آنبه آئرلینڈ آئیوری کوسٹ 425, 447, 450, 460, 125, 170, 371, 398, 433, 434, 450, 808, 481, 553, 555, 558, 401, 585, 773, 774 824, 836, 837, 854 559, 702, 740, 743 141,164, اسلام آباد 339, 391, ,209,211,387,543 | افغانستان 412, 472, 600, 726, 544, 766-772, 851 720-723, 726, 727 اشانٹی ریجین 470 اکوڑہ خٹک 685 836-838 ابوظہبی اپروولٹا اٹک ( کیمبل پور ) 422, 423, 808, 809 209, 278, 704

Page 935

اشاریہ.مقامات 42 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 اکوفی 422 انڈونیشیا 756, 775, 776, 777, 98, 784, 785, 786, 787, 99, 264, 302, 390, 808 789, 790, 791, 817, 398, 403, 404-407, 92, 106 823, 827, 848, 852 412, 446, 449, 472, 142, 404 اگونا سرکٹ البانية الجزائر 839 727 840 777 779 | اوسلو 82 الجيريا 412801 ,588,390-533537586 اوترخت 590593,606,801,685 | اوچ شریف امرتسر 243,311,325 838,841,844,848 اوستروج اوفن برگ انگلستان (برطانیہ.انگلینڈ) 683 العین الور انقره 164 836 401, 849 ,62 ,61 2829 | اوکاڑہ ,98 ,68,593 | اوگادوگو ,134,135,142,144 اوہایو 335, 493, 651, 678, 67, 679, 694, 737, 759 118, 89, 98, 110, امریکہ 164, ,145,149,151,153 ایبٹ آباد 118, 136, 139, 145, 199, 200, 217, 226, 209, 329, 382, 544, 170, 171, 173, 175, 235, 236, 322, 391, 545, 673, 674, 754 176, 185, 187, 190 394, 397-399, 401, 151, 410 88, 92, 93, 238, 240, 390, 411, 409, 415, 417, 442, 443, 472, 534, 539, 450, 460, 468, 488, 600, 801, 840, 844 490, 492, 513, 515, 408 ,20313245,314 | ایڈنبرا ,322,379,398,408 | ایران 403, 449, 450, 460, 549, 559, 573, 575, 92, 139, 467, 468, 479, 514, 553, 556-558, 573, 575, 596-598, 753, 781-783, 793, 815, 1577, 585, 598, 599, 832, 840, 848, 849 215, 226, 445, 514 635, 672, 685, 706, امریکہ (جنوبی) 430,802 559 709, 724, 728,729, 655, 679, 680 انبالہ

Page 936

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 ایلینگ ایمسٹرڈیم 43 717 بلگریا 468784 | بدو کے گوسیاں ,102 | بدوملہی 460,673-675,698 103, 431, 432, 444 بل ہے والا بمبئی اشاریہ.مقامات 390 703 240, 267, 390, 391, 530, 29 برار 531, 672, 706, 737 542 443 391 742 737 بنکور بنگال جنگل دار بنگلور 408 164 یا 428,811-813 | برازیل 820-822 | برائٹن باتھرسٹ باٹھی اندر پہاڑ کوہ سلیمان 360 برج 408 788, 790, 791 694, 695, 728 390, 398, 675, بنوں 718, 720, 722, 723 421, 422, 803-806788, 790 410, 737, 791-793 442 بوا جے بو 419,803,804 بور نیو باره مولا 307 برجس بل باسل 442 برسٹل بالٹی مور 783 برما بالفور بالے لاوا 585 810 باندھی بانڈ ونگ برمنگھم 74 برہالہ بریڈ فورڈ 587,589,590 ,67,152,669,748,405 | بوگور 821 | 784,788,790,791 بولیلی کا با نسانغ بٹالہ 398 589, 591 810 بر یسکنز 839 | بہار 394,655-67,391 بریلی 714 بہاولپور 165,223 163 227, 480, 509, 526 840 227, 509 710 بهبل پور 360 بہاولنگر ,686 ,357666674 بستی رنداں 278, 284, 300, 305, 99% 311, 354, 355, 356, 839 F 694, 710, 732, 758 بیچانن بخارا 432 بسته بغداد 264, 393, 460, 731 738 بھارت ( انڈیا.ہندوستان) 9, 24, 25, 40, 54, 313, 316, 317 93, 121, 144, 220, 342

Page 937

اشاریہ.مقامات 44 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 234, 264, 267, 274, 394, 656, 658, 660 352, 354, 655 292 281,282, پٹھانہ والہ پٹیالہ پاکستان 339, 360, 393, 399, 460, 484, 485, 487, 490, 518, 519, 560, 284-286, 322, 324- 98, 101, 103, 121, 327,344-347,678 161, 187, 215, 216, 737 790, 791 پریا پریسٹن پیشاور 9, 11, 38, 90, 92, 585, 713, 720, 731, 734, 735, 755, 758, 759, 778, 844 399, 411, 412, 414, 287 421, 443, 460, 482, 361 551-553 156, 169, 177, 209, 230, 234, 275, 333, 353, 369, 370, 377, 379, 388, 463, 470, 498, 531, 753, 754 698 484, 485, 528, 569, 642, 805, 842, 844 21, 64, 65, 208, 220, 384-386, 476, 508, 531, 692, 737, 240, 664 545 پھڑے والی خورد پل پوره (پھولپورہ) پاکستان (مغربی),21,30,58 295,723 738, 763, 841, 846 313 359 65, 105, 115, 220, 784 247, 379, 384, 388, 272, 738 681 پاکستان ( مشرقی) 262, 263 پنجاب 49, 74, 165, 177, 204, 223, 225, 227, 238, 246, 248, 267, 306, 314, 329, 395, 480, 509, 523, 526, 572, 656, 671, 672, 703, 726, 763 394, 395, 508, 522, 524, 530, 548, 762 285 پانی پت پٹسبرگ 442,443 649,651 390, 444 836 401, 403, 783, 784 840 بھاگلپور بھائی گوٹ بھدرک بھرت پور بھکر بھوپال بھوربن بھیرہ بیت المقدس بیت بیاس بیٹرسی بیروت 476 ,313,475 بیفرٹ بیگم کوٹ بینین بیوروج

Page 938

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 پنجاب (مشرقی.انڈیا) 755 پنڈ ھورنا پنڈی بھاگو 684 463 تا سک ملایا تذمر 45 589 316 پنڈی بھٹیاں 705706 ترکستان 71971731 اشاریہ.مقامات تھر پارکر 1516255051 تیسیوک تونس 443 414, 472, 801, 840 پنڈی لالہ پنسلوینیا پنکال پنگالے 367 | ترکی 88, 91, 121,401 ,929899 ٹانگانیکا 313,391,411,412,738 ٹاویٹا پولینڈ 414,417,443,444,798 ٹریجی 731,775,828,829 ,539,600 ٹریسٹ پورٹ لوئیس 405 | 777-779,840,844 | ٹرینیڈاڈ پورو کر تو 199391 ترگڑی 697701703 ٹوبہ ٹیک سنگھ 332,451,765 تریولے 829 | ٹورانٹو متلا کور پھارن پھگواڑہ پھلدر بطور 792 349, 694 676 351 655 | ٹوکیو تامیه 740 | ٹوگو تمالانگ 443 | ٹونجی تنزانیہ ٹونگا پھولپوره ( پل پوره) 98, 142, 391, 429, ٹھٹھ ,450 43,449 ٹیلی چری پیرکوٹ اول پیرکوٹ ثانی پیرا مارییبو تویونی پیلے تهران پینگا ڈی 734,735 تھائی لینڈ 490, 551-553 491, 558, 635, 638, 687 793, 794, 797, 798, 470, 473, 475 685 815, 816, 844, 848 98, 391, 399, 802 428 490, 542, 586, 817 804 76, 77 695 801 429 816, 817 755 594, 596 430, 490 163, 715 244, 245 399, 542 39, 41, 836 792 846 583 391 ج جابه جایان جادلہ

Page 939

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 46 اشاریہ.مقامات ,587,588 جسور جاکر نہ 590591593,606 جگراؤں 281 391 جڑانوالہ جارج ٹاؤن جارجیا جارڈن 386 711 788, 790, 791 359 756 235, جمالیہ جموں، کشمیر جا گووال جالندھر 281, 348, 349, 652, 267, 330, 358, 376, 391, 410, 446, 484, 653, 676, 694, 728 177,228,390,398,431 | جیند 355 460, 799, 800, 801 402 چ چاھاں میراں چڑھر رانہ واھن چٹا گانگ پنجیرا 741 438 845 چربون 407 ,404,405 چشمہ بیراج چک ۹۸ شمالی جاوا ,48520649,651 چک جھمره 715, 760, 776, 792 404, 405, 586, 587 262 689 164 696 جتندر نگر جده 386 پنجہ چک ۴۹۷ ج ب چک D.R۱۱۹.۷کسووال ,264 | چکریاں 447, 448, 846, 847 46 348, 376 712 164 390 845 758 ,7100104 جنوبی افریقہ جرمنی ,116 ,109 ,107 106 | 576,802,843,847 | چکوال ,118,142,184 117 | جورو ,419 | چتی ,190,195,213,217 | 804,805 ,420,803 | پنجہ ڈے 655 چندی گڑھ ,334,411,412,417 جہاں آباد ,164208 | چنگا بنگیال 208 443, 449, 533, 539, 162, 164, 387, 388, 395, 527, 529, 209, 211, 227, 278, 576, 582, 654, 798, 279, 543, 652, 760 799, 800, 817, 848 651, 680, 740, 774 17, 164, 194, 114 544 227, 247, 380, 387, 799 جرمنی (شمالی) جرمنی ( مشرقی) چواسیدن شاہ جرمنی (مغربی) 112,121 | 770 ,395,696,760 | چو تیرا 447

Page 940

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 47 چهور پرگنہ 331 خانیوال 163341 | دودھو چک اشاریہ.مقامات 732 چی آنجور 589 | خرودی 655 | اوستروج چی ماہی 589 خرو نکن 840 | دیلی چیکوسلواکیہ خوست 390,488,490 | خوشاب چین 234,390 | خیبر (عرب) حاجی پور (بہار) حافظ آباد 279, 280, 372, 749 خیر پور 349 حاجی پورہ (مغربی بنگال) 762 دانه 329,330 | دھرم کوٹ بگہ ,164 دار السلام (تنزانیہ) 651, 679, 688 794,829 دھرم کوٹ رندھاوا 361 | دارا پور 711 840 24,224, 267, 324, 341, 349, 719-720 350, 356, 364, 390, 327, 463 455, 522, 562, 624, 120 625, 659, 678, 679, 682, 737, 748, 758 280 339, 673 267 724 724 763 279 دار البرکات ( قادیان) 313 دھنو والی 340,668 | دھوریہ 316 | دار الرحمت ( قادیان) 668 | دھیر کے کلاں دار الفضل ( قادیان) 654 | دینا جپور دانہ سگرا ویی 589 دیوبند حجرہ شاہ مقیم حجن حلب حمص حیدرآباد (دکن) 23-29,240,267,389, 391, 570, 707, 737 682, 683, 737, 765 460, 635 720 حیدر آباد (سندھ) ,74 درگئی 820 762 ڈاکار ڈائمنڈ ہاربر 314, 315, مشق 156, 161, 162, 745 851 316, 319, 371, 475 785-787 1438 | ڈاؤننگ سٹریٹ 1 652, 653 دوالمیال دوا به 163 خان پور

Page 941

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 48 48 ڈیرہ نواب ڈچ گی آنا ( سورینام ) 163 | ربوه اشاریہ.مقامات 5, 9, 11, 12, 17, 64, 70, 105, 145, 224, 678 248, 280, 371, 387, 360 392, 415, 460, 486, 240, 241 497, 498, 545, 561, 267 570-578, 619, 754 29, 240 رحیم یارخان 442 163, 227, 341, 723 393,394,738 831 742 303,304 359 763 رشی کیش رشیده رعیہ رلیو کے رنگ پور رنگون را جپوره ڈرین 663 راجستھان ڈرگ روڈ 707,766 | راجیکی ڈسکہ ڈلہوزی ڈنمارک 359 210,331,754 7,51, راڑ یوالا رام پور رانا ؤ 99, 443, 802, 803, 838, 840, 844 67, 94, 95, 118-128, راولپنڈی 17, 50, 59, 157, 134, 140, 142, 178, 191, 195, 196, 205, 213, 214, 218, 219, 164, 208-212, 227, 228, 391, 398, 559, 243, 247-250, 277, 575, 663, 799 306, 358, 383, 387, 361 472-475, 486, 517, 410, 411, 792, 793 50, ڈولہ مستقیم ڈھاکہ 527, 529, 543, 544, ,642,673,707 | روٹرڈم 1839,840,843 64, 208, 384, 386, 728, 437, روز ہل 476, 532, 738, 814 754, 757, 766, 768 488, 828-830, 833 698 51, 89, 98, 103, 391 110, 136, 195, 199, 361, 362 را ہوالی ، تلونڈی رائچور رائے ونڈ 401 ڈیٹرائٹ ڈیٹن 401, 781-784, 849 390, 475, 490, 731 ڈیرہ اسماعیل خاں 623,624 را ہوں 390 162,163 رومانیہ روہڑی 348, 349, 350, 353 227, 360, 374 ڈیرہ غازی خاں

Page 942

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 49 11842,450 | سعودی عرب ریتی چھلہ 301,633,668 | سپین اشاریہ.مقامات 47, 121, 205, 217, 334, 364, 560 391, 443, 838, 840 814 151, 152, 171, 186, 410, 784 سٹاک پالم سڈنی 401 651 سرائے سدھو 740 | سکاٹ لینڈ 490 سرائے نورنگ ز زائن زیره زیمبیا 151 718,722,723 | سکاچ کارنر 86-90, 92, 94, şi 743 28 361 74 سرحد سکرا را ,368-370377 | سکندر آباد 537 | سکندره راؤ سردار گڑھ سٹیٹ سرگودھا 103, 177, 179, 180, 671 184, 194, 203, 206, 228, 273, 413, 417 427 (sigatoka)617, 50, 52, 164, 723 401 386 349,460, 586 356 163 386 ,177,209,223,225 | سلانگ ,227-230247-250 | سلور سپرنگ ,368,384 360 279 | سلہٹ ,387,393,395,466 | سماٹرا ,479,527,571,572 | سمرالہ ,676,689,716,726 | سمہ سٹہ ,731,753,754,760 | سندر بن سندھ 808 821 813 س سالٹ یا نڈ سالکینی ساما بولا ساما گا سا پنگ سٹیٹ ٹیم 443 سامانه ساؤتھ آل ( سوڈتھ ہال) 355 142-144,784,788, 789, 790 762, 773, 774, 775 408 ساؤتھ لیوشم 74, 248-250, 280, 281 288, 289, 338, 340, 761 359, 541, 691, 745 747, 749 442, 834 589 79 سنڈا کن 688,712 | سنگا پرنا سعد اللہ پور سر ہند سرینگر سر وعہ سسلی ساہیوال ( منٹگمری 0348 352, 364, 376, 706 834 578 سبا سی

Page 943

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 412542,586 | سیرالیون سنگاپور منگرور سنور سوازی لینڈ سوڈان 50 شاہدرہ 37-41106,108,355 | شجاع آباد اشاریہ.مقامات 651 740, 741 388, 135, 142, 217, 398, 690 401, 402, 781-783 418, 420-422, 433, 490 209 732 ,47 ,450,542 446,449 | شکر پڑیاں 635, 638, 685, 803- 390, 412, 443, 472 806, 822, 827, 848 403, 407 شکر گڑھ شمله سورابايا سووا سوویٹ سوئٹزرلینڈ 821 شوپیاں 427,428,429 سیف گیمبیا) 319 سیف آباد ,67,86-88 | سیگانگا 281 | شورکوٹ 810 | شیخوپوره 671 651 163,194 164, 227, ,91-94112,128 سیلون 386, 394, 480, 712 390, 398, 765 ,177,213,228,398 | 735 490,561,734 | شیندره 413,415,417,635 سینا ص صووا 518,522,810,813 سویڈن 11833 سینٹ پیٹر 205,219,559,560 سینٹ جو کو بوسکرنگ سوویز (مصر) 745 سینٹ لوئیس 774 829 840 782,783 سہونہ 713 سینیگال 801,820,821 سیالکوٹ 17, 313-316, شام 39, 50, 164, 216, 318, 370, 371, 475 227, 294, 304, 359, 463, 498, 642, 667, 673, 674, 677, 679, 697-700, 709, 760 720 سیدگاه شاہ پور شاه مسکین شاہجہانپور b 316 طرابلس ع 163 355 314 86, 88, 91, عثمان پور عدن عراق 716 334, 711 92, 316, 320, 391, 621, 669 416, 600, 801, 840

Page 944

اشاریہ.مقامات 164, 227, 236, 242, 247, 248, 250, 270, 281, 295, 387, 463, 466, 479, 481, 509, 517, 527, 572, 599, 51 460, 467, 490, 491, 518, 522, 810, 811, 812, 813, 814, 848 821 142, 647, 651, 704, 711, 740, 774 829 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 57-60, 92, 98, 123, 125, 126, 170, 196, ,476 371,412,415 فرافینی 502,561,638,773 فرانس 487, 801 316, 390, 711 ,330 | فرانکفورٹ ( فرینکفورٹ) علی پور علی گڑھ 67, 76, 77, 79, 339, 340, 361, 659 ق 82-86, 90, 92, 117, 128, 177, 179, 180, غ 49, قادیان 220, 238, 239, 240, 264, 274, 285, 303, 304, 323, 491, 571, 633, 668, 735, 755, 757, 758, 759, 826 475 قازاغستان 190, 228, 334, 411, 799, 800, 801 732 فرخ آباد فری ٹاؤن 1,108,418,420 غانا ( گھانا.گولڈ کوسٹ ) 38, 40, 41, 88, 92, 142, 217, 264, 390, 397, 398, 422, 423, 424, 425, 433, 434 422, 685, 803, 804,446, 449, 450, 490, 390, 507 58,93, 371,739, 803, 806, 808, قاہرہ 57,91,313,314 ,625,635,638,709 فلپائن 779 295, 296 578 443 332, قبرص قصور کا بایو کابل 415, 416, 446, 475, 809, 836, 837, 844 514, 585, 586, 843 774 90,92 295 701, 705 فورخ روڈ فیروزپور فیروز والہ فیصل آباد (لائل پور ) 743 341 144, غزه ف فتح پور فتومنڈ 11, 13, 18, 49, 50, 147, 267, 425, 450,

Page 945

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 ,719 ,3363718 کرم پوره 52 اشاریہ.مقامات 712 | کننگاؤ 443 593 655 کوالا لمپور 723,724,726,727 کرنال کا ٹھ گڑھ کرونڈی 280 | کوالے 448 کوپن ہیگن 349, 652, 694 353, 653, 694, 696 کاشغر 32931 کسانمیرا کا کا میگا 818 كسمبيا.کالا سیزد 447 کسولی کا لکا 816 542 67, 90, 94, 102, 69, 85, 845 103, 105, 114, 116, 307,680 680 کسوموں 124,814,816,817 118,121,123 734 کلڈ نہ کالیکٹ (کیرالہ ) 55657 کلرسیداں کا موکونجی 134, 143, 179, 184, 211, 543 185, 194, 206, 207, 303 کانگڑہ 306,662 | کاریاں 217, 218, 226, 227, 366 کانو 838 | کلکتہ (مغربی بنگال) کادور 391,394,534,728,821 کوٹ امر سنگھ کبیر والا 740 | 792 ,762 ,737740 کوٹ رادھا کشن کپورتھلہ کلو 792 کوٹ میلا رام 242649,669 241 کلوٹن 92 | کوٹری کراچی 5073 کمبوڈیا 333 کماسی 425,808,809 | کوٹلہ افغاناں ,1756156,463 کمپالہ 264,448,450 | کوریا ,498,500,532 497 638,846,847 کو کمنگ 821 كولون 579,693,714,766 کنٹاٹور کرائیڈن 788,790 | کنٹربری کرتو 703 | کندیاں کرڈاچی 738 کنڈ یوالی 792 | کوٹلی 559, 561, 562, 799 699 340 742 161 740 358 391, 399 329 800 390 6, 74, کونسیا 62 | کوئٹہ 513, 516 156, 357, 578, 642 723

Page 946

53 اشاریہ مقامات 703, 705, 712, 717 754, 793, 817, 834 100, 391, 805 گوجره 163,715,716 417,472,635,840 کینیما تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 کویت کہوٹہ کھاریاں کھجور والی ، تلونڈی 303 کیوبا 164, 211 گاروت 699,700-703 | گجرات 93,238, 239, 390, 391 274, 330, 332, 339, 348, 359, 668, 673, 405, 589 680, 687, 688, 710, کھیر انوالہ کھیر انوالی کیلا ہوں 419 | گڑھ شنکر 711, 732, 740, 757 17, 50, 164, 211, 357 715 661 709 716 99, 430, 227, 240, 241, 247, 649 331, 367, 642, 664, 649 گھل گھوٹیاں کیرالہ 688,712,724,725391734735 کیرنگ 5436512 گجوچک گوکھو وال گھٹیالیاں 701 گھوگھیات 348 گی آنا کیلیاں 353 لگکھڑ 431, 432, 490, 802 701 کیلیفورنیا 402,840 | گگو 706 گیا (بہار) 655 کیمبل پور (اٹک) گا اسگو کینانور کینیا 433, 434, 449, 450, 784, 788, 790, 791 734 460, 638, 819-822 389 738 گلبرگه کیندرا پاڑا 404 ,398 | گنگ جاتی 51,61, 62, 140, 142, 409, 177, 179, 194, 410, 209, 278, 704 گیمبیا 67, 151, 152, 429, 450, 490, 491, ,557,558 54 53 گوجر خان 490 | لابوان 208 | لاس اینجلس ,160,164 | لالیاں ,635,814,815,816 گوجرانوالہ 442 402 72 211,227, 250, 328, 817, 818, 819, 848 50, 93, 146, 284, 341, 698, 699, 701, 244, 348, 673,

Page 947

اشاریہ مقامات 790 775 لیمنگٹن سپا 54 156, 172, 173, 174, 177, 179, 186, 187, 193, 194, 199, 214, 225, 228, 264, 287, 398, 408, 409, 420, تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 287, 293, 299, 300, 309, 332, 353, 485, 497, 498, 571, 650, 659, 671, 697, 725 820 676 334,548 مار ٹیانیا ماچھی واڑہ ,490,513,516 | ماڈل ٹاؤن ,567,596,615,616 | مارو 678 429, 446, 468, 469, 559, 61, لا ہو وال لائبیریا 409, 432-436, 456, 428, 429, 810, 813 617, 693, 707, 709, 818, 822-827, 837 220, 330, 398, 436-441, 460, 467, 487-492, 698, 703, 791, 828-833 ,729,730 724728 ماریشس 840 735, 753, 754, 756, 784, 785, 787, 788, 789, 790, 791, 808, 391, 449 813, 814 لائیڈن لبنان لٹوکا لدھیانہ 76 822, 823, 825, 826 324, 325, 328, 350, 267, 734-736 804 مالا بار 695 مالڈ کا 336 | مالی 443 لنكنفن 351, 355, 356, 357, 654,678,711,739 لنگڑو 655 لنگے منڈی 804 لوتو کا 428, 518 820, 827, 836, 837 لے 839 لودھراں لكهنة 320 لوئی ول 163 | مالیر کوٹلہ 351 783 مانانوالہ چک ۲۰۳ رب (فیصل آباد) 562, 600, 737, 746 لیاقت آباد 163 لمباسه لندن 426 1, 27, 56, 61, 62, 63, 67, 68, 128, 135, 141, 142, 144, 148, 149, 152, 155, ليبيا 142 | مانٹریال 49, 50 244, 246 لیڈز 784,790,791 | مانچسٹر 706,707,790 لیک ڈسٹرکٹ 151 مانڈلے لیگوس 42,473 ,40 مانسہرہ 792 209, 329

Page 948

اشاریہ.مقامات 55 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 مانگا 294 | مساكه 845 مانگٹ اونچے 72 | مصر ملووکی ملیر ہالٹ 782 مانانواله ( شیخوپورہ) 57, 205, 313, 745, 394 272 390, 586 ماہل پور ما ہی برگ مبالی 661-663 | 774,804,840,844 ممباسا (ممباسه ) 816,817 831 | مظفر گڑھ 22711 | منچر چٹھہ 699 447,845 | مظفر آباد ,116431 منروویا 432,433,822 مٹرل 825, 826, 827, 837 482-484, 486, 547 740 مچم 409 محمد آباد مغل پوره 359 مکہ 645 | منسا جنگ 46, منکفن بیفرٹ محمود آباد مدراس 279 278 | 399 ,474,397 منگلا ڈیم 29 مکیریاں 713 منگولیا ,267734735,737 مگبور 804 | موہیئے 755,756,764,765 ملاوی 490 | مورو(سندھ) مدینہ ملائیشیا مور وگورو ( تنزانیہ) 46,120,421 ,34 ,33 ,542,586 ,412442 موریطانیہ 784 | 800,801,834,846 | مونٹا ئیں لانگ مڈل سیکس مراکش ( مراکو) ملایا 398450560 مونٹا ئیں بلانش ,196,391,412 121 ملتان 1803227 میانوالی 821 442 211 390 792 340 798 432 829 829 164, 227, 262, 387 247, 248, 338, 379, 417, 801, 840, 844 716 713 712 مردان ,209 ,382,507,508,523 میانی 740,233,342,343,387 ,726 ,654,725 میت پور مری 741,742,761,762 | میراں پور ,211,543-545 210 | ملکانہ 342,678,681 | میر پور خاص 176, 288, 289, 338 682, 683, 732, 743 547, 585, 681, 766

Page 949

اشاریہ.مقامات 390 56 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 میری لینڈ سٹیٹ 401 | نائن 356 نیپال میسور نائیجر 83637 | نیروبی 429, 553, 554, 556, 558, 38, 737,756,765,851 نائیجیریا 814, 815, 817, 818 40, 41, 42, 88, 91, 806 82 142,742 ,498 92 نیورمبرگ 401, نیویارک 338 196, 217, 264, 390, 594, 595, 646, 783 398, 399, 406, 412, 404, 405,406 و 414, 433, 434,443, 1, 446, 449, 450, 472, 355 837 839, 844 712, 713 401, 402 837 میکسیکو میلارام میلسی نابھہ نارتھ کوریا 1,475, 481, 490, 537, 815 نارووال 17,304 ,803,827,834,835 | واربرٹن ناروے 836, 838, 844, 848 118, 168, 205, 560, 777 واشنگٹن 698 | وا گادوگو 810 120,469 | والی لیوو 278 | نجران 22 وانڈ زور تھ 144, 173, 174, 410 281 نخله نکودر 810 651 164 811 335 401 732 وٹی لیوو 737 | وچھو والی 695 | ورجينيا 550551 | واہ کینٹ 810 نگر پارکر 691 نگر یا جواہر ناصر آباد (سندھ) ناڑہ ناسر وانگا ناسنور ( آسنور ) ناسیا ٹاؤن 813 | نواکھالی 813 | نواں شہر 17, 703 248 781 664 | ولمیٹ 1984 نوشہرہ20936638 | وزیر آباد ناندی42628 425 36970679,704 | وزیر کوٹ 429,810,811,813 | نون ناصواں نا صوری ناگپور

Page 950

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 لنگٹن ومبلڈن 804 ہزارہ 408 | مسلیو 57 1516 | هل فرسم ونڈر میر اشاریہ مقامات 331 پارک شائر 561 یاری پورہ 839 | یاغستان 730, 789 330 329 416, 469 47 42910 ہنگری 264,391,716 | پیرو 756 | ہوٹن 775 یمن 40173 ہوشیار پور 366,652,653 یو.پی 267,732,737 596 654,661,663,694 | یورپ ونیوالیوو وو کنگ و د لیگن وی آنا وی ڈورا 132 | ہورگن ویت نام 391 ہیرو شرقی ویسٹ منسٹر J513, 516 وینس 79 بیگ 63, 67-71, 81, 85, 414 87, 90-92, 102, 103, 360 105, 111, 115-117, 797 121, 124, 126-128, 62, 100-104, 133, 139, 151, 155, 128, 171, 179, 182, 157-161, 167-173, 194, 215, 443, 444, 410 176-179, 182, 186, 562, 838, 840-845 67, 90, ہا کا ہالینڈ 188-190, 193, 195, 559 199, 200, 201, 205, ہیلسنگور ہیمبرگ 94-104, 112, 149, 150, 177, 213, 228, 209, 212, 214-216, 67, 90, 104-112, 398, 443-446, 449, 114-118, 128, 169, 450, 460, 479, 635, 218, 222, 223, 225-228, 245, 251-253, 287, 407, 413, 445, 446, 532, 533, 541, 546, 554, 559, 566, 576, 687, 746, 782 177, 179, 183, 184, 190, 194, 195, 228, 411, 412, 562, 798, 799, 801, 802 799, 817, 838-845 785 ہائیڈ پارک ہڈرزفیلڈ 67, 152, 728, 729, 730, 784, 788-791 ی 655 یاد گیر 389,391,765 ہریانہ

Page 951

اشاریہ.مقامات Tilburg 841 59 58 انگریزی تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 142, 264, 391, Trieste 595 397, 425, 447-450, Abeokuta 835 Vienna 595 558, 638, 845-847 Brussels 444 Vanva Levu یوگوسلاویہ Doetinchem 844 429, 810 86, 390, 417, 801 Harrogate City 56 Wageningen Kuntar 821 843,839 Oostduinlaan 104

Page 952

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 59 59 اشاریہ.کتابیات آب کوثر کتابیات آ.الف ارجح المطالب یعنی سیرت امیر اسلامی اصول کی فلاسفی (انگریزی 455 المومنین (حضرت علی) 240 ترجمہ ) 432, 815 آزاد، روزنامہ.بنگلہ دیش 208 اردو جامع انسائیکلو پیڈیا 25 | اسلامی اصول کی فلاسفی (عربی ترجمہ) آزادنوجوان 756 | ازالہ اوہام 26,329,647 آغاز (اخبار) 598647 اسباق القرآن (حصہ اول، دوم، اسلامی دعائیں آفتاب (روز نامه) 760 | سوم ) 321 اسلامی مذاہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسلام ( تقاریر خواجہ بشیر احمد ) 410 اسلامی معاشرہ پیشگوئیوں کی امتیازی حیثیت 320 اسلام، ماہنامہ.نجی 427 | اسلامی نماز 320 849 517 321 451 آئینہ کمالات اسلام 603,647 اسلام، ماہنامہ ( ڈچ زبان ) اسمه احمد ( حصہ اوّل و دوم) 321 اتالیق فارسی 240 398 اشاعت اسلام کے ذرائع ( مقالہ ) اچھوت بھائیوں کے نام احمدیت کا اسلام اور دیگر مذاہب ( حضرت مصلح پیغام احمد امسیح الموعود 320 موعود کی کتاب کا سواحیلی ترجمہ ) اصحاب احمد جلد ۳ 320 452 | اصحاب احمد جلدے 481 749 376 احمدی جنتری ۱۹۳۷ء 748 اسلام اور مسیحیت ( بزبان انگریزی اصحاب احمد جلد 8 373 372 | 840 849 | اصحاب احمد جلد ۱۳ 832 اسلام کا معاشرتی عدل ، مقالہ اصول شاشی احمدیت احمدیت کا پیغام احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ 849 472 اظہار حقیقت احمدیت یعنی حقیقی اسلام 315 اسلام کے عائلی قوانین ( مقالہ) اعتراضات کا علمی جائزہ احمد یہ گزٹ قادیان 374376 475 احوال الآخرة 649 اسلامی اصول کی فلاسفی 179 افادة الافہام 451 312 241 470, 643 26 اخبار احمدیہ 729 | 490,801,805,841 افریقن کریسنٹ، ماہنامہ 398

Page 953

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 60 60 اشاریہ.کتابیات اقتصادی مشکلات کا حل اسلامی 322337,363,451 انڈس ٹائمنر ، روزنامہ نقطہ نظر سے (مقاله) 480 ,544,545 509,510 انڈونیشیا (از شاہد حسین رزاقی) الاقدس 546, 567, 594, 625, 782 161 404 الاسلام، ماہنامہ 841,842 | 665,670,690,691 | انسان کے بنیادی حقوق اور ان کی البشری ، ماہنامہ فلسطین ,709,725 ,702,706 | ادائیگی (مقاله) 371,398,851 766 ,740742,744 انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا 480 852 البشری، رسالہ.ربوہ 371 274, المحراب 27064348 انصار الله ، ماہنامہ 275, 457, 644, 851 517 358 البشری (انگریزی) 802 المذاهب الاسلامیہ البصیرت 669748 امسیح الموعود والامام المهدی المسعود انصاف (راولپنڈی) التشريح اصیح لالهامات المهدی و علیه السلام 651 انقلاب عظیم کے متعلق انذار و المسیح علیہ السلام 671 | المصابيح 451 بشارات ,56 | المنار، رسالہ 644,717,750 | ان لمهدينا ايتين (مقاله) الحکم، اخبار ,337 ,272,300 271 | المنبر ، ہفت روزہ 11,12, 321 479 271 ,375 ,338,372,374 1370527,851 انوار العلوم جلد 748 ,747 ,647,648 | المودودی فی المیزان 319 | انوار قرآنی الخطاب الجلیل ( عربی ترجمہ اسلامی النبوت فی الاسلام 734 ایاز محمود ( کریم احمد نعیم صاحب) اصول کی فلاسفی ) 320 | امروز ، روزنامه العصر (اخبار) الفرقان (ماہنامہ) 802 224, 238, 276, 277, 224,276,641,762 | ایاز محمود جلدا امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ایاز محمود جلد ۲-۳ 118754518 ایپاسٹولاٹ نجمین ,646 ,645 ,585644 انبیاء کی آسمانی بادشاہت 321 ایسٹ افریقن ٹائمنر 647,709,751,852 | انجام الفضل،اخبار 12,66 | انجیل 146 372 373,451 849 841 398 325 ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ ، اخبار 397, 555, 558 ,259,299,307 ,179 ,197899418 ایکشن، روز نامہ.ماریشس 441

Page 954

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 61 ایک غلط فہمی کا ازالہ 321 بھرم نوارن ایک غلطی کا ازالہ 833 | بھگوان کرشن کا اوتار اشاریہ.کتابیات 733 پیشگوئی نشانِ رحمت.نشانِ رحمت 733 کا انذاری حصہ کیونکر پورا ہو 321 ایکٹوا سلام (ماہنامہ ) 398 بیاض حمید انجکشن بک پیغام صلح (اخبار) 54651 بائبل (بائیبل ) 131, ,431,478 1430 پاکستان ٹائمنر 296, 298 تابعین اصحاب احمد جلد اول 374, 749, 750 ,277,487,594,518,519,734,479 ,249 تابعین اصحاب احمد جلد چہارم، پنجم، 784, 793, 794, 796 596, 644, 647 ܀܀ 451 بخاری27512 | پرورش اطفال 296 | تاریخ الادب العربي 396,455 318, 320, 321, 646 پینکوما 539 | تاریخ احمدیت جلدا بدر، اخبار 271,277 270 پٹس برگ پریس 401 | تاریخ احمدیت جلد ۳ ,282,295,338,373 پیشگوئی تزلزل در ایوان کسری فتاد ,377,455,570,644 (مقاله) 278 376, 455, 670, 748 477 | تاریخ احمدیت جلد ۵ 287, 372, 748, 750 ,648,662 ,645,646 پیشگوئی مصالح العرب - مسیر ,663,714,741,747 | العرب (مقاله) 477 | تاریخ احمدیت جلد ۶ 751,851 ,4850 پیشگوئی مصلح موعود ( مقاله ) 477 تاریخ احمدیت جلدے بد رسوم کے خلاف جہاد 849 پیشگوئی نشانِ رحمت کا انذاری حصہ 333,493 محکمات و متشابہات کی کسوٹی پر تاریخ احمدیت جلد ۸ 318 451, 646 750 374 287 براہین احمدیہ برہان احمدیت 451 321 تاریخ احمدیت جلد ۱۳ برہان ہدایت 751 پیشگوئی نشان رحمت کے تعلق میں تاریخ احمدیت جلد ۱۷ بشارات رحمانیہ چمکتے ہوئے بیسیوں نشان فاتوا تاریخ احمدیت جلد ۱۸ 137437651 بمثله ان كنتم مومنین 321 بوستان 703 پیشگوئی نشان رحمت.قہری نشان کا تاریخ احمدیت جلد ۱۹ بہائی تحریک پر تبصرہ 782 | دوسرا نمونه 321 456, 822 373, 696

Page 955

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 62 اشاریہ.کتابیات تاریخ احمدیت پیشاور 369 | تذکرہ شعرائے پنجاب تاریخ احمدیت جموں و کشمیر 376 ٹائمنز،اخبار.امریکہ 277 238,276 | ٹائمنز، اخبار.برطانیہ تاریخ احمد بیت سڑوہ ضلع ہوشیار پور ترجمان پارسی 397 176, 186, 187, 786 240 747,749 | ترجمہ و شرح بخاری شریف آٹھواں و مضافات حصہ ج 451 جامع انسائیکلو پیڈیا جلداول 271 643647 تریاق القلوب 333493 جامع صحیح مسند بخاری مترجم جز بنهم و تاریخ لجنه ( جلد سوم ) تبلیغی ٹریکٹ نمبر ا ( زمانہ کو مصلح کی تسھیل العربية تشخیز الا ذہان ضرورت ہے) تجلی قدرت تحدیث نعمت 333 733 277, 362, 646, 647, 669, 709, 854, 855 693 ) 271,854 | تعلیمی پاکٹ بک حصہ اول 849 تحریف بائیل کی تاریخ ( مقالہ تعمیر ، روزنامه 24977 478 تفسیر القرآن انگریزی تحریک جدید کے پانچ ہزاری 51, 586 د ہم 374, 849 جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی 475 جلسہ سالانہ کی دعائیں 648 جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ 451 جماعت مبائعین کے عقائد صحیحہ مجاہدین377 4376 تفسیر صغیر 53034 جنگ (روزنامه) 749 تفسیر ماجدی 671 248, 277, 475, 643, 645 534 539 جواب کلمہ فضل رحمانی اور بہائی مذہب تحریک جدید (ماہنامہ) 270 تفسیر محمودی ,277 ,275 ,271,273 تفسیر و ترجمه ولی اللهی 539 کی حقیقت 671 ,458 457 397,456 تنقيد الحقائق 241 جہاد کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ ,643647,849,852 توحید باری تعالیٰ 853,854 | تورات 241 تحفہ گولر و یہ 610,648 تیسری بار کی چمک کی گھڑی بھی تحفة الملوک 271 قریب آن پہنچی 611 | جیون یا ترا چ 321 چالیس جواہر پارے 321 732 805 تذکره تذکرہ افریقہ 48, 110, 372 39 ٹاگس انسا ئیگر 90, 273 چٹان ، ہفت روزہ 522,523 چٹھی مسیح 703

Page 956

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 چرچ بلیٹن.ڈنمارک 218 63 65 خ اشاریہ.کتابیات دعوت اسلام | 456 727 481 چند خوشگوار یادیں 27453 خادم وطن (روزنامه) 161 دعوة الامیر چہل احادیث حديقة الصالحين 410 | خالد احمدیت جلدا 849 دنیا کی عمر (مقاله) خالد (ماہنامہ) 276 275 دی گارڈین ، اخبار انگلستان 362, 377, 644, 646 452 حریت (اخبار) 597,647 خدائے خشمگین کی قہری تجلی دی لائٹ ، اخبار حضرت احمد (انگریزی) 805 321 دی مسلم بار بنجر (منی) 785 543 427 398 321 حضرت آدم از روئے قرآن 321 خطابات ناصر جلد اول 4,643 دی میسج ، ماہنامه حضرت محمد صلی اللہ عورت کے نجات خطبات محمود جلد 373,375 دنیا میں ایک نذیر آیا 832 خطبات ناصر (جلد دوم) دیباچہ تفسیر القرآن (انگریزی) دہندہ حضرت مسیح موعود کا عقیدہ ویدوں کے بارہ میں 734 خلافت (کتابچہ ) 645, 646 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی 717 451 سووینئیر جماعت احمد یہ اسلام آباد پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود کے رفقائے کرام 851 پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد خلافت ثالثہ کی تحریکات 451 حق الیقین حقیقة الوحی 372,749 240 226, 274, 407, 650 دی ٹروتھ (ہفت روزہ ) دیر اسلام (ماہنامہ) ڈان (روزنامه) ڈیٹن ڈیلی نیوز خلفاء راشدین کے تجدیدی کارنامے (مقاله) خیبر میل (اخبار) , 480 432 398 398 541 401, 781, 783 445 425,809 785 ڈیلی روٹرڈ مر 6230, 276, 370, 377 حيات الآخرة 321 حیات بسمل 240 | در مین حیات عثمانی 29 | درد و درماں ڈیلی میل.انگلستان 238, 239, 737 242 ڈیلی میل.سیرالیون 241 دستور اساسی مجلس احمد یہ وکلاء 849 ڈیلی نیشن ، اخبار.کینیا 554 حیات قدی | 420, 422

Page 957

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 64 اشاریہ.کتابیات رب ارحمهما رجسٹر روایات صحابہ جلد ۵ 376 ریویو آف ریجنز 375 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۶ 322, 365, 669, 679 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ 373,747,748 | رسالہ الوصیت ۳۲-۱۹۳۱ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء 748 رجسٹر روایات صحابہ جلدے 372, 376, 747 657, 660, 737 ز 271 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۸ 375 زار بھی ہوگا تو ہو گا اس گھڑی باحال رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء رجسٹر روایات صحابه جلد ۱۰ 747 | زار ۲۱ 748 321 رجسٹر روایات صحابہ جلد 374 زراعت قرآن کریم کی روشنی رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء رجسٹر روایات صحابہ جلد ۱۳ 749 میں (مقالہ ) 480 748 رحمت کے بیسیوں چمکتے ہوئے زمانہ کا مصلح س 733 نشانات اور اس کا انذاری حصہ 271 قانون الہی کی روشنی میں 321 سالانہ رپورٹ ۱۲.۱۹۱۱ء 376 الہی سالانہ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۶ء 749 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء 373 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۷ء 271 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۸ء رجسٹر روایات صحابہ جلدا 272 749 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ رساله جلسه احباب 748 سالانہ رپورٹ ۲۰.۱۹۱۹ء رسالہ واذا الصحف نشرت 747 354, 9 رسومات کے متعلق اسلامی تعلیم سالانہ رپورٹ ۶۷-۱۹۶۶ء 684 392 451 سالانہ رپورٹ صدر انجمن ااحمدیہ رمضان المبارک کے احکام وفضائل پاکستان ربوہ ۶۷-۱۹۶۶ء 270 روحانی خزائن جلد ۲ روحانی خزائن جلد ۶ 451 274 647 سبا ٹائمنز (اخبار) ست سند لیش روحانی خزائن جلد ۷ 648 ۱۷ ستیا دوتن (ماہنامہ ) 455 443 733 734 روحانی خزائن جلد ۲۰ 273 348, 376 45253 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۴ 747 ریاض الصالحين 453 452 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 131

Page 958

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 سراپا عشق انگیز 849 | شری کرشن اوتار 733 65 سرمه چشم آرید 274 شعله ( روزنامہ225227 فارما کو پیا یونانی ف سرمہ چشم بے نمازاں 651 230,276 229 228 فارما کو پیاڈاکٹری سعادتیں، یادوں کے آئینہ میں شهاب ، ہفت روزه 396 فتح اسلام سفر یورپ نمبر سکندرنامه 651 شہادت القرآن 849 647 فتوح الغیب اشاریہ.کتابیات 296 296 271, 647 610 شہباز (روزنامه) 177,275 نجی ٹائمنر (اخبار) 14 518 201 | شیعہ صاحبان سے گزارش 321 نجی سماچار 4041 سنڈے پوسٹ (اخبار) 557 صیض سنن ابن ماجہ 751 سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خان صاحب سول اینڈ ملٹری گزٹ 454 551814 427 فروعی اختلافات ختم کرنے کا سیاسی ڈھکوسلہ( پمفلٹ) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام صدق جدید ضرب کلیم ع غ عبرت ( روزنامه ) 451 398,600 454 225 فری میسن مسلط نہیں کیے جائیں 478 سود بینیر نمبر۳ سیرت احمد 680, 704 452 693, 749 سیرت حضرت مسیح موعود 373 161 گے کہ اس کو ہلاک کریں (مقالہ) فرینکفورٹ رنڈ شاؤ 85,411 فضل عمر هجری شمسی دائمی تقویم عدالت کا فیصلہ کیا احمدی مسلمان فکر ونظر (ماہنامہ) 645 | فوز الكبير سیرت رسول کریم ع 410 ہیں؟ ( کتا بچہ ) سیرت و سوانح حضرت مسیح موعود عربی ام الالسنہ ہے (مقالہ (479 451 517 312 سیرت وسوانح ماسٹر امیر عالم صاحب مرحوم سینا ر اسلام (ماہنامہ) ش شجره مبشره 832 358 398 454 ق عربی زبان کی خصوصیات (مقالہ) قادیانی مسئلے کے جواب 319 عرفان الحق علمی ارد ولغت 479 451 64 تبریح قرآن مجید ترجمه آسامی 321 541 قرآن مجید ترجمه اردو عیسائی صاحبان غور فرمائیں 321 534, 541, 792 79 غریب (روزنامه) 59947 قرآن مجید ترجمه اسپرانتو

Page 959

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 66 99 اشاریہ.کتابیات قرآن مجید ترجمہ انڈونیشی قرآن مجید ترجمه سواحیلی کراچی تاریخ احمدیت 397, 541 قرآن مجید تر جمہ انگریزی قرآن مجید ترجمه فارسی 534, 541 534 ,61,397,531,533 قرآن مجید ترجمه فرانسیسی 541, 801 397, 541 قرآن مجید ترجمه پرتگیزی 541 قرآن مجید تر جمہ فینٹی 397,541 قرآن مجید ترجمه پولش 541 قرآن مجید ترجمہ گجراتی 534 قرآن مجید تر جمہ ٹرکش 533, 539 قرآن مجید تر جمه گورمکھی 29, 534, 541 قرآن مجید ترجمہ لو گنڈا قرآن مجید ترجمہ جاپانی 534 کریما کشتی نوح 646, 748, 851 703 737 کشتی نوح (انگریزی) 805 کشتی نوح ( عربی ترجمه ) کشمیر کی کہانی کلام حسن رہتاسی کلام محمود 315, 320 کوائف وفات یافته موصیان 849 452 454 534, 541 قرآن مجید ترجمه جر من 1397 ۱۹۰۵ء تا ۲۰۰۷ء قرآن مجید ترجمه یوروبا 533, 541,642, 800 کوہستان (روزنامه) 534, 537, 541 749 250, 277 قرآن مجید ترجمه چینی قرآن مجید ترجمہ ڈچ قرآن مجید ترجمہ ڈینش قرآن مجید ترجمه ملائی کیوں غضب بھڑ کا خدا کا مجھ سے 534, 541 533, 3341 پوچھونا فلو 321 قرآن مجید ترجمہ ہندی گ 397, 533, 541 3441 گائیڈنس، ماہنامہ قرآنی پیشگوئی گرو نانک کا گرو 191, 533, 541, 560 واذا الصحف نشرت (مقاله) گزشتہ عالمگیر جنگ قرآن مجید ترجمه روسی 481 گلدستہ احمدیہ حصہ دوم 398 452 321 454 397, 534, 536, 541 گلدستہ درویشان کے وہ پھول جو قرآن مجید ترجمه سپینش کامیابی کی راہیں ( ہر چہار حصص ) مرجھا گئے 533, 541 832, 836 گلستان 373 703 قرآن مجید ترجمه سندھی 534 کچھ باتیں کچھ یادیں 455 گورو نانک کیا فرماتے ہیں؟321

Page 960

تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 مرأة الاسلام لارنس آف عربیہ 410 مرأة الحق لی ماریشین لاہور تاریخ احمدیت 67 اشاریہ.کتابیات 240 مقدمه کتاب حیات اصیح و وفاته 451 | (عربی) 320 829 مسلم آؤٹ لک 672 مقام مسیح موعود بزرگان امت کی نظر مسلم ٹارچ لائٹ 431 میں 451 748 ,375 299374 مسلم ورلڈ مکہ 397,399 منصب خلافت اور اس کی خصوصیات لا ہور (ہفت روزہ ) 212, 276, 645, 852 مسلم ہیرلڈ ،رسالہ 398,784,785 | منن الرحمان 321 396, 534 لائف آف محمد الله مسیح کشمیر میں 410,792 جسٹس منیر کی تحقیقاتی رپورٹ بابت 805806 | مسیح کی آمد کی علامات 794 | فسادات پنجاب ۱۹۵۳ء 526 مسیح موعود اور جماعت احمدیہ انصاف موجودہ خطرہ سے نجات کیونکر ہوگی؟ 246,523,645 پسند ا حباب کی نظر میں لولاک (ہفت روزہ) لیکچر سیالکوٹ لیکچر لاہور 849 648 مسیح ہندوستان میں 778 | موضوعات کبیر 273 مشرق بعید کا تبلیغی جائزہ 647 موطا امام مالک 321 854 312 مشرق (روزنامه) 376 مولوی ابو ضیاء مشتاق احمد 451 481,599,644,647 مہدی موعود کے علمی خزانے 849 ماتر و بھومی (روزنامه) 391 438,830 مشعل راه جلد دوم 277 میپنزی یا منگو 755 مصباح (ماہنامہ ) 277, 398 279 296 نشانان رحمت کے بیسیوں چمکتے ہوئے ماریشس ٹائمر مالا ملر چی مباحثہ امرتسر مثنوی 455, 646 651 241 377 376 نجم الہدی معالجات اطفال مجمع البحرین مجموعہ اشتہارات جلد اول 2724 | مفتاح القرآن 451 مغربی پاکستان (روزنامه) نشانات 321 3945457 نشان رحمت کی عظیم الشان پیشگوئی 708 محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی پر مفردات راغب 333 نعم الوکیل ایک نظر 320 مقام خاتم النبین سال 451 نغمه المل | 321 671 452

Page 961

اشاریہ.کتابیات Ahmadiyyah: Study تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 880 68 نماز (انگریزی) 805 وصیت حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ in contemprary Islam 320 of 750 the West African Coast نماز مترجم 849 | صاحب نواء سندھ، روزنامه 161 | وہ پھول جو مرجھا گئے نوائے ملتان ، روزنامه 761 نوائے وقت.راولپنڈی 11 | ہماری ہجرت اور قیام پاکستان 549, 270, 277, 708 نوائے وقت.لاہور ہمارے بیرونی مشن 421 321 Ahm adiyya Movement in India | 432 4834164244 ہمبرگر مارگن پوسٹ 109,115 5 نوٹس برائے جلسہ ہائے سیرۃ النبی ہمدرد، ہفت روزہ 7 6 Aktuelt 124 176 Algemeen Dagblad 101 478 320 ہمسایہ کے حقوق از روئے اسلام نور، اخبار.قادیان 29 | ( مقاله) نور الاسلام، ہفت روزہ 756 ہندو دھرم میں کثرت ازدواج نور فطرت 849 Algemeen Handelsblad 101,102 733 Allgemeine Zeitung 411 41 نئی روشنی 39 38 ہندو (انگریزی روزنامہ) 755 نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا اگر داب ہیرلڈ ، اخبار.نائیجیریا ہے 321 نیوڈے (اخبار) 846 | یاجوج و ماجوج ی Apostolaat Nijmegen 841 849 A Review of 451 Christianity 805 یا د محمود یسرنا القرآن و وانڈز ورتھ بارو نیوز 820 765 Balham and Tooting 846 News 786 178587 یسوع مسیح کون ہیں؟ وائس آف اسلام 399 یوگنڈا آرگس Beckenham and Penge English 537 Advertiser 787 | Aftenposten 777 733 وحی منظوم ورتمان یگ کا اوتار

Page 962

اشاریہ.کتابیات 69 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 Lexicon Universal Hamburger Morgen Berlingske Tidende Encyclopedia 646 Post Lollands Tidende 126 Hayes Post A Message of Peace Het Parool and A Word of Het Vaderland Warning Middlesex Advertiser Het Vrije Volk 409,765 109,115 123 788 Bild Hamburg 115 101 Bild Zeitung 116,798 Brabant Dagblad 845 845 101,103,104 Brabant Pers 102 Catechismus 842 Hillingdon Mirror 786 County Times and 786 Huddersfield Examiner Gazette 786 Middlesex Chronicle 789 De Heraut 845 Hounslow 786 Islam and Human Der Sonntag 417 Middlesex County Rights 409 Die Welt Times 786 Kristeligt Dagblad 122 109, 112, 116, 801 Morning Post 748 Lancashire Evening English Traced to Neue-Zurcher Zeitung Post 786 Arabic 452 91 Latest Findings About Frankfurter Nieuwe Haagsche Jesus Christ 765 Rundschau 85, 411 Courant 101 Le Citoyen 439 Ghanaian Times Our foreign missons Le Mauricien 829 425, 809 452 Le Message 437, 439, Haagsche Courant Signs of Christ's 487, 490, 491, 833 101, 103, 838, 844 Coming 794 Le Progres Islamique Hamburger The Pioneer 809 487 Abendblatt Politiken 134 Lessons on Islam 835 109, 115, 117

Page 963

اشاریہ.کتابیات 70 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 24 The Preaching of Southall Chronicle Islam 404 786 The Sentinel 393 Southall News 786 South Western Star Southall Post 786, 788 787 Svendborg Avis 126 The Wimbledon News Tages-Anzeiger 786 90,273 Toronto Star 245 Teachings of Islam What is Ahmadiyyat? 737 765 The Guidance 809 Where did Jesus die? The Indian Muslims 815 562 Why Islam? 448 The light 545 Zion-Benton News The Light of Islam 401 412 The London Rotarian 787 The Message of Peace 806 The New Nigeria 838 The Observer, Lahore 679 The Post and Mercury 786

Page 963