Language: UR
’’تاریخ احمدیت‘‘ کی تدوین کا آغاز حضرت مصلح موعود ؓ کی خصوصی تحریک اور روحانی توجہ کی بدولت جون 1953ء میں ہوا۔ اور اس کی پہلی جلد دسمبر 1958ء میں سامنے آئی۔ اس وسیع پراجیکٹ پر کام جاری و ساری ہے۔ مؤلفہ جلد ۱ تا ۲۱ : دوست محمد شاہد ۔ ایڈیشن 2007ء قادیان۔ مؤلفہ جلد ۲۲ تا ۲۸۔۔۔ نوٹ: اس ایڈیشن میں جلدنمبر 1 اور 2 کو ایک جلد (یعنی جلد نمبر 1) میں شائع کیا گیا ہے۔ اس طرح جلد نمبر 3 نئے ایڈیشن میں جلد نمبر 2 ہے ۔ اسی طرح نئے ایڈیشن میں باقی سب جلدوں کے نمبر پہلے ایڈیشن کے بالمقابل ایک نمبر پیچھے ہے۔ اور چونکہ جلد نمبر 20 پرانے نمبر کے مطابق ہے، اس لیے جلد نمبر 19 نہیں ہے۔
تاریخ احمدیت جلد نمبر 23 * 1966-1965
عرض ناشر خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے تاریخ احمدیت کی جلد نمبر 23 ہدیہ قارئین ہے یہ 5 1966ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے.محترم مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت نے تاریخ احمدیت کی 21 جلد میں مرتب فرمائیں.اس سلسلہ میں آپ کی گرانقدر خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی.حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 28 راگست 2009ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: " 1953ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو تاریخ احمدیت مدون اور مرتب کرنے کے لئے مقرر فرمایا.اس کی 20 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور باقی بھی 2004 ء تک مکمل ہیں اور اس کے بعد نوٹس بنا کر چھوڑ گئے ہیں.“.جو بڑی تندہی اور اخلاص سے مصروف کار ہیں.آپ نے جلد 23 کے لئے موجود مواد پر نظر ثانی کی اور بڑی مفید اور وقیع ایزادیاں کی ہیں.آپ کے جن رفقائے کار نے آپ کا ہاتھ بٹایا.اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا فرمائے.ان کاوشوں کا ثمرہ بصورت جلد ہذا پیش ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ۶ / دسمبر ۱۹۶۴ء کو اپنے ایک پیغام میں احباب جماعت کو تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.”سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو چاہیے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.“ (الفضل ، دسمبر ۱۹۶۴ صفحہ۱) امید ہے قارئین کے ذوق اور دلچسپی اور توجہ کا سامان قرار پائے گا.اللہ تعالیٰ زیادہ سے زیادہ احباب کو اس سے استفادہ کی توفیق بخشے.آمین.
پیش لفظ احباب جماعت کی خدمت میں تاریخ احمدیت جلد نمبر ۲۳ پیش کی جار ہی ہے.یہ جلد سال ۱۹۶۵ء اور ۱۹۶۶ء کے حالات و واقعات پر مشتمل ہے.۱۹۶۵ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت درجہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سال حضرت خلیفہ المسیح الثانی لمصلح الموعود اپنے.مولائے حقیقی سے جاملے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی لمصلح الموعود کی ذات والا صفات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی يَتَزَوَّج ويو لدله “ کا حسین مظہر اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاوں کا عظیم ثمر تھی.پیشگوئی مصلح موعود کا ایک ایک لفظ اپنی تمام تر صداقتوں اور عظمتوں کے ساتھ آپ کے وجود باجود میں جلوہ گر رہا.آپ اس دنیا کے لئے رحمت، قربت، فضل اور احسان کا نشان تھے.آپ فتح و ظفر کی کلید اور مظفر و منصور تھے.آپ کی تقاریر و تفاسیر سے کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوا اور دین اسلام کا شرف تمام عالم پر آشکار ہوا حق اپنی تمام تر برکتوں کے ساتھ آگیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا.آپ کلمتہ اللہ تھے جسے خدائے ذوالجلال کی رحمت وغیوری نے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا تھا.آپ عمانوایل اور بشیر تھے.مقدس روح کے حامل اور ہر رجس سے پاک تھے.آپ نور اللہ، مبارک ، صاحب فضل و شکوہ و عظمت و دولت تھے.آپ سخت ذہین و فہیم تھے اور اس فہم و ذکاء کو الہام الہی کی رفاقت حاصل تھی.آپ دل کے علیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر تھے.آپ فرزند دلبند گرامی ارجمند، مظہر الاول والاخر ، مظہر الحق والعلاء تھے.آپ کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب تھا كَانَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ آپ نور علی نور تھے جسے خداوند تعالیٰ نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا تھا.آپ الہام الہی سے مشرف ہو کر جلد جلد خدا کے سایہ تلے بڑھے ، پھولے اور پھلے.جسم و جاں کے ہزاروں مریض آپ کے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے شفایاب ہوئے اور قبروں میں دبے پڑے، موت کے پنجوں میں گرفتار لوگوں نے موت سے نجات پائی.آپ اسیروں کے رستگار تھے اور افراد ہی نہیں اقوام نے بھی آپ کے دم قدم سے رستگاری کا فیض پایا.آپ نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور ایک عالم نے آپ سے برکت حاصل کی.تب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ۷، ۸ نومبر ۱۹۶۵ء
کی درمیانی شب اپنا نہایت درجہ کامیاب باون سالہ دور خلافت گزار کر ۷۶ سال کی عمر میں اپنے نفسی نقطہ ء آسمان کی طرف اٹھائے گئے.وَكَانَ أَمْرًا مَقْضِيًّا اس حادثہ فاجعہ سے عشاق دین حق جب شدت غم سے از خود رفتہ ہو چکے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے دست رحمت سے الہی نوشتوں کے مطابق ۱۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی شب "خلافت ثالثہ " عطا کر کے دلوں میں سکینت اور زخموں پہ مرہم رکھ دی.الحمد للہ علی ذالک.پھر خلافت ثالثہ کے بابرکت دور سے جماعت احمدیہ کی عظمتوں اور رفعتوں کے ایک اور رسفر کا آغاز ہوا جو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی راہبری وراہنمائی میں جون ۱۹۸۲ء تک جاری رہا.جس کی تفصیل اگلی جلدوں میں مرحلہ وار بیان کی جائے گی.انشاء اللہ اس کے علاوہ اس جلد کے دیگر اہم واقعات میں پاک بھارت جنگ اور پاکستانی احمدیوں کی نا قابلِ فراموش جرات و بہادری کی لازوال داستان ہلکی دفاع میں احباب و خواتین کا شاندار کردار، خلافت ثانیہ کے عہد مبارک میں ہونے والی ہے پایاں ترقی کا ایک جائزہ ، حضرت مصلح موعود کی عظیم الشان تحریکات پر طائرانہ نظر، حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی مقدس حیات کا اجمالی خاکہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک اور احباب جماعت کا والہانہ لبیک نیز وقف عارضی کی انقلاب انگیز تحریک کا تذکرہ شامل ہے.اسی طرح سال ۱۹۶۵ء، ۱۹۶۶ء میں وفات پانے والے صحابہ کرام اور مخلصین سلسلہ کے حالات و واقعات بھی درج کئے گئے ہیں.بطور خاص صحابہ کرام کی اولا د و احفاد سے رابطہ کر کے ان کے حالات زندگی حاصل کر کے شامل جلد کئے گئے ہیں.یہ جلد متعلقہ سالوں کے جماعتی اخبارات و رسائل کے علاوہ مطبوعہ وغیر مطبوعہ مواد اور مختلف احباب کرام سے حاصل کردہ بیش قیمت تاریخی نوعیت کی معلومات سے پایہ تکمیل کو پہنچی ہے.- فجزاهم الله احسن الجزاء خاکسار
i عنوان تاریخ احمدیت جلد 23 فهرست مضامین صفحہ عنوان صفحه 36 خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کا آخری سال امریکی رسالہ ”ٹائم کا معذرت نامہ صلح تا نبوت ۱۳۴۴هش/ جنوری تا نومبر ۱۹۶۵ء خدام الاحمدیہ ہال (ایوان محمود ) کی تعمیر کا افتتاح 38 حضرت مصلح موعود کا صدر پاکستان کے نام برقی 1 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ 39 مغربی افریقہ و یورپ پیغام تهنیت پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے سائنسی کارناموں کا 2 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا دورہ 46 تذکره انگلستان کلکتہ کے احمدیوں کا عزم حج ، بھارتی علماء کی فتنہ 5 - جلسہ سالانہ انگلستان انگیزی اور اخبار صدق جدید 46 ڈیٹن میں مسجد کی تعمیر اور ڈیٹن ڈیلی نیوز" کا 48 شاہ ابن سعود کا احمدیوں کو حج کی اجازت دینا 10 تبصرہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کا الوداعیہ 12 - توسیع وتعمیر نو 52 وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی کا جلسہ تقسیم اسناد سے 12 (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 53 مجلس مشاورت ۱۹۶۵ء.پشاور یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب 13 ایک سوئس اخبار میں جماعت احمدیہ کا ذکر 56 58 حضرت مصلح موعود کی صحت سے متعلق رپورٹ 21 ڈاکٹر عبدالسلام کی تقریر ریڈیو پاکستان سے شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی لسانی تحقیق پر اخبار 24 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 60 مجلس انصاراللہ ربوہ سے پُر اثر خطاب پاکستان ٹائمنر کا خراج تحسین واقعہ صلیب پر برطانوی ڈاکٹر کی جدید تحقیق اور 33 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب 60 اس کے خلاف رد عمل ساہیوال میں
ii ==== عنوان صفحہ عنوان جماعت احمدیہ برما کا ایک احتجاجی مراسلہ 62 - کیپٹن نذیر احمد صاحب شہید 3 3 صفحہ 94 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 62 - خلیفہ منیر الدین احمد صاحب شہید کا کارنامہ 97 انصار اللہ ضلع لائلپور کے اجتماع سے خطاب شجاعت رسالہ تحریک جدید کا اجراء 64 |.میجر منیر احمد صاحب شہید جماعت ہائے احمد یہ یورپ و انگلستان کا پہلا 67 |.میجر قاضی بشیر احمد صاحب شہید کامیاب جلسہ 106 113 احمدی جنرل محمود الحسن صاحب کی طبی خدمات 116 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا 67.میجر حمید احمد کلیم صاحب کی خدمات 117.صدر مملکت کی طرف سے قومی دفاعی فنڈ کا قیام 119 دورہ کراچی وسندھ پاک بھارت جنگ.پاکستانی احمدیوں کے 70.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے قومی 120 نا قابل فراموش کارنامے دفاعی فنڈ میں عطیہ.معرکہ رن کچھ معرکہ چھمب و جوڑیاں 72 73 میجر جنرل اختر حسین ملک کو اہل وطن کا 74 شاندار خراج تحسین.ہلال جرأت کا اعزاز 82 اختر حسین ملک کو ذوالفقار علی بھٹو کا خراج 83 تحسین.مغربی پاکستان پر بھارتی فوج کا حملہ 84 ملکی دفاع کے لئے ربوہ میں جوش و خروش 120 صدر لجنہ اماء اللہ کی پاکستانی احمدی خواتین 121 سے اپیل.لاہور میں امدادی مرکز مجلس خدام الاحمدیہ 122 کا قیام ملکی دفاع کے لئے احباب جماعت کو 122 خصوصی تحریک صدر پاکستان کا قوم سے ولولہ انگیز خطاب 84.قومی دفاعی فنڈ کے لئے جماعت احمدیہ 123 حضرت مصلح موعود کا پیغام احباب جماعت 85 پاکستان کے عطیات کے نام حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا منظوم پیغام | 124 معرکہ چونڈہ اور بریگیڈئیر عبدالعلی ملک 85 ربوہ میں سجدات شکر اور خصوصی دعائیں پاک و ہند کی جنگ اور حالات قادیان صاحب کو اہل وطن کا خراج تحسین 124 125
iii عنوان صفحه عنوان صفحہ جنگ ستمبر کے متاثرین کی بے لوث خدمت 128 بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین 159.ڈسکہ کے خدام واطفال کا نمونہ 129 قادیان دارالامان میں اندوہناک خبر کی اطلاع 160.احمدی مستورات کی خدمات.احمدی صحافیوں کا نمائندہ وفد محاذ جنگ پر | 130 | اور نماز جنازہ ریڈیو پاکستان سے وفات ، نماز جنازہ اور 161 اہم شخصیات کے تعزیتی پیغامات 162 131 سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی تدفین کی اطلاعات المصلح الموعود کا وصال - خلافت ثالثہ کا قیام بیماری، آخری لمحات اور وفات 135 مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی ڈائری کا ایک 139 ورق پاکستانی اخبارات میں سانحہ ارتحال اور جلیل القدر 163 خدمات کا تذکرہ - "LIGHT کا تبصرہ اخبار الفضل میں دردناک سانحہ کی مفصل خبر 140 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک 144 نہایت اہم پیغام 146 181 غیر مبائعین کے ترجمان THE" حضرت مصلح موعود کا سانحہ ارتحال اور ہندوستانی 182 روزنامہ حقیقت لکھنو.۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء اخبارات ایک پیغام.آسمانی نصرت کا مجسم نشان عشاق کی دیوانہ وارر بوہ میں آمد.پرسوز و پُر در ددعا ئیں غسل.آخری زیارت کا شرف 147 - روز نامہ ٹریبیون انبالہ.۹ نومبر ۱۹۶۵ء 147 - روز نامہ سماج کٹک ۱۳ نومبر ۱۹۶۵ء 148 - اخبار روشنی سرینگر.نومبر ۱۹۶۵ء 148 سنگاپور پریس میں وفات کی خبر رودا داجلاس مجلس انتخاب خلافتِ احمد یہ 149 جناب دامن ابا سینی کا نذرانہ عقیدت 183 183 184 184 186 186 خلافت ثالثہ کا قیام اور جماعت احمدیہ کی اطلاع 154 نذر حسین اور ٹی.لالیاں کا نذرانہ عقیدت 187 مؤرخ کشمیر جناب کلیم اختر کا زبر دست خراج 188 کے لئے اعلان عام جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے کا منظر نماز جنازہ اور ایک عہد کی تجدید 155 تحسین 158 جناب راغب مراد آبادی کا شذرہ اور اشعار 191
iv عنوان صفحه عنوان صفحہ نا مورادیب ابوظفر نازش رضوی کے قلم سے بلند 192 - وقف جدید انجمن احمدیہ پایہ خدمات کا ایمان افروز تذکره ذیلی تنظیمیں حکیم یوسف حسن ایڈیٹر نیرنگ خیال کا بیان 190.تعلیمی اداروں کے سر براہ سر نامور ادیب، صحافی اور مشہور محقق مولانا غلام 199 - مرکزی اخبار ورسائل رسول مہر کا بیان - نظام امارت اضلاع پاکستان چوہدری محمد اکبر خان بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ 201 تقرر مربیان و معلمین کرام کا خراج تحسین - نظارت اصلاح وارشا د مرکزیہ نامور صحافی ضیاء الدین احمد برنی کا خراج 204 - صیغه اصلاح وارشاد مقامی عقیدت ہفت روزہ لاہور کا اداریہ عمل معلمین اصلاح وارشاد مقامی 224 224 224 224 224 225 225 225 225 205.بیرونی ممالک کے مشن اور ان کے انچارج 225 ایڈیٹر ماہنامہ " رفتار زمانہ کا زبر دست خراج 200 - بیرونی ممالک میں احمد یہ مساجد تحسین بعض زعمائے ملت کے تاثرات 213.بیرونی ممالک میں احمد یہ درسگا ہیں - 227 227 بیرونی ممالک سے شائع ہونے والے 227 غیر از جماعت معززین کے تعزیتی خطوط 216 اخبارات و جرائد صدر پاکستان محمد ایوب خان اور ایک لیبر لیڈر 220.بجٹ سال ۱۹۶۵ء کے تاثرات 228 عظیم الشان روحانی فتوحات اور تحریکات پر 228 عہد خلافت ثانیہ کی عظیم الشان ترقیات پر ایک نظر 221 ایک طائرانہ نظر - صدر انجمن احمد یہ قادیان (شعبہ جات) 222 بعض اہم واقعات کا تذکرہ (۱۸۸۹ء تا ۱۹۲۵ء) 233 |.مبلغین کرام بھارت - صدرانجمن احمد یہ پاکستان ( نظارتیں ).دیگر شعبہ جات مراحمد 222 سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مرزانا صراحمد 222 223 خلیفة اصبح الثالث ( قبل از خلافت کی مقدس حیات) 269.تحریک جدید انجمن احمدیہ 223 اجمالی خاکہ از نومبر ۱۹۰۹ء تا نومبر ۱۹۶۵ء
ولادت باسعادت صفحہ عنوان عنوان 269 | مجلس انصار اللہ کی صدارت حضرت اماں جان کے زیر پرورش 200 صدرا انجمن احمدیہ پاکستان کی صدارت چپن میں بیماری اور شفاء 200 ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ حفظ قرآن اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ 270 افسر جلسہ سالانہ صفحہ قومی و ملی خدمت کا جذ به ریز روفنڈ تحریک کے لئے جد وجہد آپ کی خلافت پر جماعت احمدیہ کا اجماع حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی 275 276 276 276 276 277 مولوی فاضل میں کامیابی حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ایک دُعا بی.اے کی ڈگری 270 270 271 271 خلافت ثالثہ کا پہلا دن اور حضرت خلیفہ المسح 278 الثالث کا تاریخی خطاب مستورات سے پہلی بیعت 283 حضرت خلیفة أسبح الثالث کا احمدی مستورات 283 271 حضرت خلیفہ انسیح الثالث کا ایک اہم خطاب 285 حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کا تحریک جدید کے 285 شادی کی تقریب سفرانگلستان 272 سے پہلا خطاب حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی الوداعی نظم 272 انگلستان کا زمانہ قیام جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی حیثیت سے د 273 273 و مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت و نائب 273 صدارت وقف زندگی پرنسپل تعلیم الاسلام کالج تقسیم ہندوستان کے وقت کا رہائے نمایاں فرقان بٹالین کی کمیٹی میں کشمیر آزاد کرانے کا عزم صمیم سنت یوسفی کے مطابق قید و بند 274 274 274 نام پیغام 286 حضرت خلیق اسی اثاث کا اولین خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ ایسیح الثالث کا جامعہ احمدیہ 290 میں ایک اہم خطاب خلافت ثالثہ کے قیام پر حضرت نواب مبارکہ 296 بیگم صاحبہ کے جذبات تشکر سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا تعلیم الاسلام 208 274 کالج سے روح پرور خطاب 275 275 جلسہ سالانہ کی ارتقائی تاریخ پر ایک بصیرت 306 افروز خطبه جمعه
vi عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا خدام الاحمدیہ سے 311 - حضرت مصلح موعود کے عظیم الشان کارناموں 332 خطاب کا ایمان افروز تذکرہ حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کا شکریہ احباب اور 314 - فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک اور اس پر 345 درخواست دعا والہانہ لبیک حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا روح پرور 316 - ایک عظیم الشان خوشخبری احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ پیغام 346 346 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی فضل عمر جونیئر 318 - حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا روح 347 عمر ما ڈل سکول میں تشریف آوری وزیر تعلیم ہندوستان کو قرآن کریم کا تحفہ ڈنمارک میں کشمیر کمیٹی کا قیام 318 پرور افتتاحی خطاب حضرت سیّدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا 348 319 | اختتامی خطاب ایک عظیم روحانی انقلاب کی خبر 320 - جناب ثاقب صاحب کا پُر سوز اور رقت انگیز 352 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا قادیان کے جلسہ 322 کلام سالانہ پر پیغام بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک.علم انعامی کا اعزاز 324.ریڈیو اور قومی پریس میں جلسے کا ذکر 353 354 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا پیغام احمدی بچوں 325.بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے احباب 354 کے نام دعاؤں اور ذکر الہی کا رُوح پرور ماحول خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا پہلا سالانہ جلسه 326 - انتظامات پر طائرانہ نظر حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی ایمان افروز تقاریر 326.دنیا کی چالیس زبانوں میں تقاریر.افتتاحی خطاب تقریب 354 355 357 327 - بزرگان سلسلہ اور فاضل علماء کی حقیقت افروز 358 احمدی خواتین سے پُر معارف خطاب 329 تقاریر اہم جماعتی اور قومی امور پر بصیرت افروز 330 - خدائی نصرتوں کا غیر معمولی اجتماع حوالہ جات (صفحہ 1 تا 360) 359 361
vii عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر حضرت مولوی محمد افضل صاحب او جلوی دھر مپوره 391 صحابہ کرام کا انتقال لاہور 393 369 حضرت ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب حضرت مولوی ظفر الاسلام صاحب حضرت مولوی الف دین صاحب 369 اسٹنٹ سرجن افریقہ 370 حضرت چوہدری غلام محمد سدھو صاحب آف پریم 398 حضرت مرز امحمد اسماعیل صاحب حضرت حکیم محمد عمر صاحب لدھیانوی حضرت مستری غلام قادر صاحب حضرت مریم بیگم صاحبہ حضرت بابا نور محمد صاحب حضرت چوہدری رحیم بخش صاحب 370 371 371 372 372 حضرت میاں معراج الدین صاحب پہلوان 372 حضرت چوہدری جہان خاں صاحب 374 حضرت چوہدری عبد الحق صاحب کا ٹھ گڑھی 375 حضرت لیفٹیننٹ ڈاکٹر محمد الدین صاحب 375 کوٹ حضرت منشی سر بلند خان صاحب حضرت مولوی احمد علی صاحب دوالمیال ۱۹۶۵ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت خواجہ ظہور شاہ صاحب محمد حیات صاحب ملتانی کیپٹن ڈاکٹر محمد دین صاحب با با جان محمد صاحب در ولیش منشی سید وراثت علی صاحب چوہدری ظفر الحسن صاحب 398 402 405 405 405 406 407 407 حضرت قریشی مولوی عبید اللہ صاحب 377 سید محمد یوسف صاحب ناظم جائیداد 407 حضرت مولوی محمد حسن صاحب مولوی فاضل 377 خان غلام سرور خان صاحب درانی آف چارسده 408 حضرت حاجی محمد الدین صاحب تهالوی درویش 377 میاں محمد ابراہیم صاحب پریذیڈنٹ جماعت 408 قادیان احمد یہ سماعیلہ ضلع گجرات حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب سابق افسر امانت 382 مصلح الدین سعدی صاحب تحریک جدید الشیخ عباس عبدالله عودہ کہا بیر فلسطین 408 409 حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب ( معالج چشم 386 صوبیدار حمید احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت 409 مهاجر دہلوی احمد یہ ہڈیارہ ضلع لاہور
viii عنوان صفحہ عنوان شیخ غلام جیلانی صاحب ساماں ضلع کیمبل پور 409 ۱۹۶۵ء کے متفرق اہم واقعات در ولیش قادیان صفحہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی 421 لطیف احمد صاحب طاہر بی.اے 409 تقاریب الحاج مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل ہائیکورٹ 410.ولادت یاد گیر حیدر آباد دکن.شادی چوہدری غلام احمد صاحب ایم.اے سیکشن آفیسر 411 احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات سول سیکرٹریٹ لاہور سعید داؤ د احمد صاحب کی مراجعت وطن 421 421 422 423 چوہدری فیض عالم صاحب پریذیڈنٹ جماعت 411 تعلیم الاسلام انٹر میڈیٹ کالج گھٹیالیاں میں 423 احمد یہ مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ ماسٹر خدا بخش صاحب کانپوری ایشیا فاؤنڈیشن پاکستان کے ایڈوائزر کی آمد حضرت مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ 411 سماج کی تباہ حالی سابق امیر جماعت احمدیہ حیدرآباد دکن 411 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اور آریہ 424 مسجد قمر دار الصدر غربی ربوہ کا سنگ بنیاد 426 426 چوہدری عبدالمالک صاحب ریٹائر ڈ تحصیلدار 413 مناظرہ ڈاور 427 427 حضرت عبدالوحید خان صاحب سنوری 13 مجلس انصاراللہ ضلع گوجرانوالہ کا تربیتی اجتماع 427 شیخ محمد محبوب صاحب دیودرگ (بھارت) 414 مسجد سیالکوٹ چھاؤنی کی افتتاحی تقریب چوہدری نور محمد صاحب منٹگمری (ساہیوال) 414 | احمد یہ گرلز ہائی سکول لاہور کا افتتاح حضرت میاں محمد یامین صاحب تاجر کتب 414 برطانوی تاریخ دان ربوہ میں ربوہ میں کمیونٹی ہال کی تعمیر قادیان حضرت شیخ رشید احمد صاحب کپور تھلوی 416 بیت الحمد مارٹن روڈ کراچی کا سنگ بنیاد حکیم مولوی عبدالرحیم صاحب ملکانه درویش 416 سالانہ اجتماعات کی منسوخی قادیان بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی حوالہ جات (صفحہ 369 تا 416) 417.امریکہ 427 428 428 430 431
ix عنوان انگلستان.جرمنی سپین سنگاپور - سیرالیون غانا ملائیشیا نائیجیریا.ہالینڈ آمد صفحہ عنوان 432 صلح تا فتح ۱۳۴۵ بهش / جنوری تا دسمبر ۱۹۶۶ ء | 433 ربوہ میں نماز استسقاء 434 کسر صلیب کا ایک اور ثبوت زرعی کمیٹی کا قیام 435 صفحه 447 447 448 437 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا معلمین وقف 448 437 جدید سے خطاب 439 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا درس قرآن اور 450 439 440 اجتماعی دعا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تعلیم 451 مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی الاسلام ہائی سکول کے طلبہ سے خطاب روانگی 442 الرسالہ (جرمنی) میں جماعت احمدیہ کی خدمات 452 442 کا تذکرہ نئی مطبوعات 443 ممبران مجلس افتاء کی منظوری حوالہ جات (صفحہ 421 تا 444) 445 بیوگان کی شادی کی تحریک مسجد اقبال کا افتتاح 453 454 454 حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا 455 ساہیوال میں ورود مشرقی پاکستان کی احمد یہ جماعتوں کا کامیاب 458 جلسہ سالانہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا مجلس 459 خدام الاحمدیہ کی تقریب سے خطاب ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام 460
X عنوان صفحہ عنوان حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام بابت 461 - فاؤنڈیشن کا بلند پایہ لٹریچر - متفرق خدمات صفحہ 486 487 فضل عمر فاؤنڈیشن حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا 463 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام خدام کے نام 487 مکتوب گرامی مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی تعلقات 487 - حضرت خلیفہ المسح الثالث کا اظہار خوشنودی 464 بڑھانے کی تلقین - - حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا 465 تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد 488 466 وانعامات سے خطاب خراج تحسین - فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد کی تعیین وقف عارضی کی انقلاب انگیز تحریک علمی تقاریر کا مبارک سلسله فضل عمر فاؤنڈیشن کے عملی پروگرام کے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے قلیل المیعاد منصوبے: - طویل المیعاد پانچ سالہ منصوبہ - متفرق امور کی انجام دہی - حضرت فضل عمر کی تصانیف کا ریکارڈ 466 467 468 469 بے مثال مالی قربانی.بے مثال جد و جہد 469 - قربانی کے قابل رشک نمونے - بیرون پاکستان وصولی کا جائزہ - مفید اور بلند پایہ مقالے اور انعامات 471 474 478 دوسرا اجلاس - عیسائی دنیا کو چیلنج - طلبائے جامعہ احمدیہ کا امتحان.تیسرا اجلاس چوتھا اجلاس.پانچواں اجلاس چھٹا اجلاس رسالہ ”پیغام عمل‘ اور جماعت احمدیہ 489 493 495 495 496 497 497 498 500 500 ہالینڈ کے ایک کیتھولک رسالہ کی طرف سے 500 احمدیت کا بھر پور دفاع ادارہ کے زیر انتظام تعمیر ہونے والی شاندار عمارات 485 تفسیر صغیر عکسی کی اشاعت خلافت لائبریری.فضل عمر گیسٹ ہاؤس تحریک جدید 485 486 خلافت ثالثہ کے عہد کی پہلی مجلس مشاورت 503 505 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا احمدی ہو میو پیتھ 509 - جلسہ سالانہ پر تر جمانی اور صوتی نظام 486 ڈاکٹروں سے حقیقت افروز خطاب
xi عنوان صفحہ عنوان مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی دینی خدمات کا 513 شاہ فیصل کو برقی پیغام اور اس کا جواب اعتراف صفحہ 527 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے 527 حضرت خلیفہ مسیح الثلث کا پیغام در بارہ سال 514 سفر ڈنمارک کے لیے اجتماعی دعا وقف جدید حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت 528 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا جنوبی ہند کے 515 گلاسگو (انگلستان ) کے نام احباب جماعت کے نام پیغام حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا سفر نخلہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے انعامی چیلنج کے 516 وقف عارضی کا پہلا وفد بارہ میں پادریوں کی بے بسی ڈنمارک کی سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد.تغییر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تدوین و 519 نامساعد ملکی حالات کے باوجود مالی قربانی اشاعت مرکزی تبلیغی منصوبہ بندی کمیٹی کا قیام اور اس کی 520 نصائح 529 529 534 535 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی مبلغین کو اہم 536 علامہ نیاز فتح پوری کی وفات اور احمد یہ پریس 537 سفارشات تبلیغی منصوبہ بندی میں قابل توجہ امور اول:.پیغام عام دوم : بنیادی لٹریچر - سوئم : لٹریچر خاص چہارم: اعتراضات کے جوابات - تربیتی منصوبہ سے متعلق راہنمائی 521 522 522 522 522 523 امام ہمام کا پیغام جماعت احمد یہ نبی کے نام 541 مکرم رستم خان صاحب آف مردان کی شہادت 544 قرآن مجید کے انوار و برکات کے متعلق خطبات 546 حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا مرکزی تربیتی 546 کلاس سے افتتاحی خطاب تاریخ احمدیت جلد ششم پر ہفت روزہ انصاف کا 524 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صدی 547 تبصره تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء قبل کی پیشگوئی کا پہلا شاندار ظہور 526 اخبار حقیقت کا ایک حقیقت افروز شذرہ 550 حضرت خلیفتہ امسح الثالث کا وقف جدید کے 526 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کے تعلیم القرآن 551 متعلق پیغام کلاس سے بصیرت افروز خطابات
xii عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے بیرون ربوہ 551 - واقعہ وفات اور تدفین کے سفر.فلسطین میں خدمات دینیہ - قواعد وضوابط صدرانجمن احمدیہ کی اشاعت 551 - انگلستان میں تبلیغ دین ماہر القادری ایڈیٹر فاران کے ایک دوست کا 553 - خلفائے احمدیت کا اظہار خوشنودی دلچسپ خط حضرت خلیفہ امسح الثالث کا پیغام بر موقع جلسہ 555 سالانہ جماعت احمدیہ کیرنگ - تصانیف اولاد 567 568 572 576 580 581 دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے نئے بلاک کا سنگ 581 لندن میں یوم حسین اور حضرت چوہدری محمد 557 بنیاد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر کینیا کے ممتاز ماہر تعلیم کی ایک تقریر 558 رسوم و بدعات کے خلاف امام وقت کا اعلان 558 جہاد ڈاکٹر مر تو نو آف انڈونیشیا کی مسجد نور راولپنڈی 559 میں آمد زیر تعلیم جمہوریہ صومالیہ کی تقریے 560 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام لجنہ اماءاللہ 560 کے نام وقف جدید دفتر اطفال کا آغاز بعض مبلغین سلسلہ کا ذکر خیر 560 561 مدینہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کے تاثرات 582 پیغام امام مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے نام 582 584 لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا نواں سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ و اطفال الاحمدیہ مرکز یہ کا 585 سالانہ اجتماع حضرت خلیفہ امسح الثالث کا پیغام لجنہ اماءاللہ 566 نوشہرہ ککے زئیاں کے نام مسجد اقصیٰ ربوہ کی بنیاد - اجتماعی دعا.شیرینی کی تقسیم اور گروپ فوٹوز استانی جامعہ احمدیہ کا سفر بیروت اور حضرت 563.تقریب کے دیگر کوائف خلیفہ المسیح الثالث کی نصائح مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع 587 596 597 597 598 خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین 564 ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب 599 صاحب شمس کا وصال کا خدام کے نام پیغام
xiii عنوان صفحہ عنوان ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا 602 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر پیغام اطفال الاحمدیہ کے نام صحابہ کرام کا انتقال صفحہ 604 حضرت میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی 634 تین خوشخبریاں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سفر سندھ 606 حضرت میاں عبد الرحمن صاحب آف جموں 638 حیدر آباد سے ناصر آبا داسٹیٹ تک 606 حضرت میاں فتح دین صاحب آف پیر کوٹ 639 - بشیر آبا داسٹیٹ کوٹ احمدیاں - دیگر اسٹیٹس میں تشریف آوری 607 608 609 حضرت حکیم نور محمد صاحب 641 حضرت چوہدری محمد شفیع صاحب او جلوی او ورسیئر 641 حضرت سکینہ بی بی صاحبہ مراڑہ ضلع سیالکوٹ 642 حضرت حاجی شیخ نصیر الحق خان صاحب 642 محمد آباد سے میر پور خاص اور حیدرآباد 611 | حضرت شیخ مبارک اسمعیل صاحب بی اے بی ٹی 643 تشریف آوری حضرت چوہدری محمد علی صاحب باجوہ آف چونڈہ 649 حیدر آباد سے کراچی تشریف آوری اور واپسی 613 حضرت ملک علی حیدر صاحب آف دوالمیال 651 برائے ربوہ حضرت چوہدری غلام قادر صاحب نمبر دار 651 لاہور اور پھر ربوہ تشریف آوری 616 حضرت چوہدری عبد القادر صاحب آف سجووال 652 | مکرم مولوی عبدالحق نو ر صاحب کی شہادت 617 حضرت مولوی عبد المغنی صاحب برطانوی سائنسدان ڈاکٹر کیون میکوئن ربوہ میں 618 حضرت چوہدری محمد الہ داد صاحب اخبار قادیان 620 حضرت میاں رحم دین صاحب 655 657 658 جلسہ سالانہ قادیان اور حضرت خلیفۃ المسیح 621 حضرت بیگم صاحبه عرف بریگاں آف سرگودھا 659 الثالث کا روح پرور پیغام جلسہ سالانہ ربوہ کا ذکر ہالینڈ کے پریس میں 624 التواء جلسہ سالانہ ربوہ حوالہ جات (صفحہ 447 تا 626) 626 627 660 660 حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب سیالکوٹی حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب حضرت ڈاکٹر گوہر دین صاحب کوٹ فتح خاں 664 حضرت چوہدری محمد شریف باجوہ صاحب حضرت میاں محمد یوسف خان صاحب 666 672
xiv عنوان صفحہ عنوان صفحہ حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کڑیا نوالہ 673 نیک محمد خان صاحب غزنوی ۱۹۶۶ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت حاجی فضل محمد صاحب در ولیش کپور تھلوی 695 699 700 702 مولوی عبدالستار صاحب (ایم اے) کشکی 674 سید سردار حسین شاہ صاحب حاجی جعفر صاحب بن حاجی و انتارا صاحب سنگا پور 674 | حوالہ جات (صفحہ 634 تا 701) الحاج محمد عبد اللہ صاحب سابق ناظر بیت المال 675 | ۱۹۶۶ء کے متفرق اہم واقعات چوہدری محمد اعظم صاحب واقف زندگی 676 خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی 707 ڈاکٹر محمد عبد اللہ خان صاحب امیر جماعت کوئٹہ 676 تقاریب سید فضل الرحمن صاحب فیضی آف منصوری 677 - ولادت قاضی محمد رشید صاحب وکیل المال 677.شادی 679 احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات 707 707 707 سردار بیگم صاحبہ آف کراچی چوہدری فضل الرحمان صاحب مینجر نورنگر فارم 679 دار الرحمت غربی اور وسطی ربوہ کی مساجد کے نام 708 فلائٹ لیفٹیننٹ محمد سلیمان مبشر صاحب 679 آٹھواں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ 709 ڈاکٹر قاضی محمد لطیف صاحب جے پوری 680 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا لا ہور میں ورود مسعود 709 خان بہادر چوہدری نعمت خاں صاحب 680 کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثات 709 الحاج خان بہادر ملک صاحب خان نون صاحب 681 مسعود احمد خان صاحب دہلوی کے مکان کا 710 سنگ بنیاد ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر با با جلال الدین صاحب در ویش قادیان 690 کوئٹہ میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی نمائش سارجنٹ علی حسن صاحب 710 690 جامعہ احمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلہ جات 711 711 فلائٹ لیفٹیننٹ محمد احمد خاں آف لاہور 691 آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ مسٹر بلال نقل صاحب (Bilal Nuttal) 691 حضرت خلیفہ اسیح الثالث سے زرعی یونیورسٹی 711 693 کے وفد کی ملاقات ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب رانجھا مولانا شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سود اگر مل ) 693 غیر مبائعین کی طرف سے اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف 712
عنوان صفحہ 734 736 739 739 740 742 743 746 747 752 754 755 756 758 759 759 760 762 762 764 765 XV عنوان صفحہ ربوہ میں خواتین کا ایک عظیم الشان جلسہ 713 - تنزانیہ راولپنڈی میں فارن مشن کا قیام سلسلہ کے تین بزرگوں کا ذکر 713 - جرمنی (مغربی) 713.ڈنمارک جناب محمد علی کلے مسجد احمدیہ فرینکفورٹ میں 714.سپین جماعت احمدیہ، صومالیہ کے وزیر تعلیم کی نظر میں 714.سنگا پور ایک یورپین دوست کی بیعت گوردوارہ میں سکھوں کو تبلیغ 715.سوئٹزرلینڈ 715 - سیرالیون مرزا عبدالحق صاحب کی خدمات کا ذکر 716 - غانا صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی کوٹھی کا سنگ بنیاد 716 - پیغام امام بزم اردو تعلیم الاسلام کالج کی افتتاحی تقریب 717 - کینیا بھارت کے گئو پوجکوں کو چیلنج - |717 گیمبیا مسجد نصرت دستگیر کراچی کا سنگ بنیاد 718 - لائبیریا جماعت ہائے احمد یہ آزاد کشمیر کا دوسرا سه روزه 719 - ماریشس جلسہ سالانہ ملائیشیا سائنس کانفرنس میں احمدی سائنس دانوں کے 721.نائیجیریا گرانقدر مقالے.ہالینڈ صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی کا ذکر خیر 722.یوگنڈا بھارتی احمد یوں کی جماعتی مساعی 722 مبلغین سلسلہ کی آمد اور روانگی بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی آمد.امریکہ 727 - روانگی.انڈونیشیا انگلستان.برٹش گیانا ( جنوبی امریکہ ) 728 729 733 نئی مطبوعات حوالہ جات (707 تا 764)
تاریخ احمدیت.جلد 23 1 سال 1965ء خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کا آخری سال صلح تا نبوت ۱۳۴۴هش/ جنوری تا نومبر ۱۹۶۵ء حضرت مصلح موعود کا صدر پاکستان کے نام برقی پیغام تہنیت ۱۹۶۵ء کے آغاز میں بنیادی جمہوریت کے ارکان نے محمد ایوب خان کو دوبارہ صدر مملکت منتخب کیا.ایسے محب وطن اور بالغ نظر شخصیت کے انتخاب پر امام جماعت احمد یہ سید نا حضرت مصلح موعود نے مورخہ ۳ جنوری ۱۹۶۵ء کو حسب ذیل الفاظ میں مبارکباد کا برقی پیغام ارسال فرمایا :.فیلڈ مارشل محمد ایوب خان صدر پاکستان.راولپنڈی صدر پاکستان منتخب ہونے پر ازراہ نوازش میری طرف سے انتہائی پُر خلوص مبارکباد قبول فرما ئیں.اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و رحم سے آپ کو طاقت اور ہمت عطا فرمائے تا کہ آپ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں اپنی مساعی کو عزم و اعتماد کے ساتھ جاری رکھ سکیں.وہ آپ کو قوم کی خدمت بجالانے کی توفیق بخشے اور اسی کے فضل سے آپ تحفظ و خوشحالی کی جانب قوم کی راہنمائی کرنے میں کامیاب ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا رہبر ہو اور آپ کو اپنی تائید و نصرت سے نوازے.اور اُن سب پر اپنا فضل نازل فرمائے جو پاکستان اور اسلامی دنیا کی فلاح و بہبود کی جدوجہد میں بے لوثی اور لہیت کے جذبہ کے ماتحت آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوشاں ہیں.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ اس موقع پر صدر صاحب صدر انجمن احمد یہ پاکستان، صوبائی امیر صاحب انجمن احمد یہ مشرقی
تاریخ احمدیت.جلد 23 2 سال 1965ء پاکستان اور صدر عمومی لوکل انجمن احمدیہ مرزا عبد الحق صاحب ایڈووکیٹ علاقائی امیر، مکرم ناظر صاحب اصلاح وارشاد اور بابو شمس الدین صاحب سابق امیر جماعتہائے سرحد نے بھی صدر مملکت کی خدمت میں مبارکباد اور دعا پر مشتمل تار ارسال کئے.ان پیغامات تہنیت کے علاوہ ربوہ کے احمدیوں نے ۳ جنوری کو عصر کی نماز مسجد مبارک میں ادا کی.نماز کے بعد خالد احمدیت مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت کی تقریر کا وہ حصہ جو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری اور اس کے حضور دعا سے متعلق تھا پڑھ کر سنایا اور پھر اپنے محبوب ملک پاکستان کے استحکام اور ترقی نیز صدرمملکت کی مساعی جمیلہ میں برکت کے لئے دعا کی پر زور تحریک فرمائی.جس کے بعد آپ نے ایک لمبی پر سوز دعا کرائی کہ پاکستان کو پہلے سے بڑھ کر استحکام نصیب ہو اور وہ ترقی اور خوشحالی کی منازل بسرعت طے کر کے اقوام عالم میں بلند سے بلند تر مقام حاصل کر لے پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کے سائنسی کارناموں کا تذکرہ برٹش انفارمیشن سروسز کراچی کے پندرہ روزہ رسالہ اطلاعات“ نے ۱۶ جنوری ۱۹۶۵ء کے شمارے میں پاکستان کے شہرہ آفاق سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے متعلق ایک معلوماتی مضمون شائع کیا.جس میں آپ کے سائنسی کارناموں پر روشنی ڈالی.چنانچہ رسالہ مذکور نے عالمی سائنسدانوں میں ایک عظیم شخصیت کے زیر عنوان لکھا:.پاکستان کے شہرۂ آفاق ماہر ریاضیات و سائنسدان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام جوان دنوں لندن کے ایک مغربی ضلع پٹنی میں مقیم ہیں ۳۰ نومبر کو رائل سوسائٹی کا ہیوز میڈل حاصل کرنے والے سب سے کم عمر فرد بن گئے.وہ پہلے ہی سے رائل سوسائٹی کے ایک ”فیلو ہیں برطانوی دنیائے سائنس میں اس اعزاز کی سب سے زیادہ خواہش کی جاتی ہے.مادی ذرات ELEMENTARY ARTICLES) اور مقداری میکانیات (QUANTUM MECHANICS) کے نظریے کے سلسلے میں پروفیسر موصوف کے غیر معمولی کارنامے کو پچھلے دنوں رائل سوسائٹی کے سالانہ عشائیہ میں اس کے آسٹریلوی نژا دصدرسر ہاورڈ فلورے نے خاصا سراہا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 3 سال 1965ء سادہ، ملنسار اور نیک دل پروفیسر عبد السلام کا تعلق پنجاب کی بھٹی برادری سے ہے.ان کا خاندان مغربی پاکستان کے ایک چھوٹے سے وسطی قصبے جھنگ میں آباد ہوا.آپ ضلع ساہیوال کے ایک گاؤں سنتو کچھ داس میں اپنے نتھیال میں ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے.۱۹۴۰ء میں پنجاب میٹرک امتحان میں جب وہ چالیس ہزار امیدواروں میں سر فہرست رہے تو یہیں ان کی صلاحیتوں کا سب سے پہلے اعتراف کیا گیا.انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں جو انہوں نے اپنے قصبے کے کالج سے پاس کیا تھا وہ ایک بار پھر صوبے بھر میں اول آئے.انہوں نے بیچلر آف آرٹس کی سند پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی اور ایک بار پھر سر فہرست رہے.۱۹۴۶ء میں انہوں نے ریاضی میں ماسٹر آف آرٹس کی سند حاصل کی اور دوبارہ امید واروں میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کئے.انعام کے طور پر حکومت پنجاب نے انہیں ایک خصوصی تعلیمی وظیفہ دیا اور وہ اسی سال کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان روانہ ہو گئے.۱۹۴۸ء میں انہوں نے ریاضی میں آنرز حاصل کیا اس کے بعد تین سالہ کام کو صرف ایک سال میں مکمل کر کے کیمبرج میں انہوں نے فزکس ٹرائی پوز (Tripos)‘ حاصل کی ( ٹرائی پوز سے مراد تین مضامین میں ڈگری ہے ) اور ۱۹۴۹ء میں طبیعیات اور ریاضی میں ڈبل فرسٹ“ بن گئے.کیمبرج میں ایک سال کی تحقیق کے بعد ۱۹۵۱ء میں پرنسٹن (امریکہ) کے انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی میں انہیں فیلوشپ دیا گیا.یہاں انہوں نے پروفیسر اوپن ہیمر کے ہمراہ کچھ عرصہ کام کیا.اسی سال وہ اپنے کالج سینٹ جانز واقع کیمبرج میں ” فیلو منتخب ہو گئے.اگلے سال وہ پاکستان آگئے اور پنجاب یونیورسٹی میں انہیں شعبہ ریاضی کا پروفیسر اور صدر مقرر کر دیا گیا.۱۹۵۴ء میں ریاضی کے لیکچرار کی حیثیت سے وہ کیمبرج واپس چلے گئے ۱۹۵۶ء تک اسی عہدے پر فائز رہے.اس دوران میں ۱۹۵۵ء اور پھر ۱۹۵۸ء میں انہیں ایٹم برائے امن سے متعلق اقوام متحدہ کا نفرنس کا سیکرٹری مقرر کیا گیا.جنوری ۱۹۵۷ء میں جب وہ محض ۳۱ سال کے تھے، امپیریل کالج آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی لندن میں پروفیسر کی حیثیت سے اپنا موجودہ عہدہ سنبھالنے کے لئے انہوں نے کیمبرج کو خیر باد کہہ دیا.آج وہ جس عہدے پر فائز ہیں اسے پہلے اطلاقی ریاضیات کہا جاتا تھا لیکن بعد میں مناسب طور
تاریخ احمدیت.جلد 23 4 سال 1965ء اس کا نام نظری طبیعیات رکھا گیا ہے.کالج میں ان کا بیشتر تدریسی کام پوسٹ گریجویٹ ریسرچ سے متعلق ہے اس وقت ۲۵ طلبہ ان کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ آف فلاسفی کے لئے کام کر رہے ہیں.ان میں سے نصف طلبہ سمندر پار ممالک سے آئے ہیں.اور ان میں تقریبا نصف طلبہ پاکستانی ہیں.گذشتہ تین سالوں میں طبیعیات میں سب سے ممتاز دریافت کے سلسلے میں کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے جب ۱۹۵۷ء میں انہیں ہاپکنس پرائز ملاتو پر و فیسر سلام کے کام کو پہلی بار بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا.طبیعیات سے متعلق ایک مبادی ذرے نیوٹرینوں کے جدید نظریے کے وہ خالق ہیں.دوسرے سال کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے انہیں ایڈمز پرائز دیا گیا.۱۹۵۹ء میں انہیں صدر پاکستان کی طرف سے تمغہ خدمت ( پرائڈ آف پر فارمنس ) اور ”ستارہ پاکستان دیا گیا.وہ رائل سوسائٹی کے فیلو بھی منتخب ہوئے.اس اعزاز کو حاصل کرنے والے وہ پہلے مسلمان اور پہلے پاکستانی ہیں.اپنے انتخاب کے وقت وہ سوسائٹی کے سب سے کم عمر ” فیلو تھے.۱۹۶۰ء میں برٹش فزیکل سوسائٹی نے گزشتہ دس سال کے دوران طبیعیات میں اہم ترین دریافت کے لئے ایک تمغہ وضع کیا اور پروفیسر سلام کو ان کے نظریہ مساوات پر پہلا تمغہ ملا.تناسب ذرات سے متعلق ان کا تازہ ترین کام جو طبیعیات کے صف اول کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے، نیوٹن ، آئن سٹائن ، ڈریک اور ہائز نبرگ کی روایت میں شامل ہے.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ۱۹۶۱ء میں پاکستان خلائی کمیٹی کی تشکیل کے وہی ذمہ دار تھے.اس کے بعد سے وہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام پاکستان میں نظری طبیعیات سے متعلق ایک اہم ادارہ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.ایک آزمائشی ادارہ ، جو اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ ہوگا.چار سال کے لئے ایک تجرباتی بنیاد پر اس سال ٹریسٹ میں قائم کیا جا رہا ہے.پروفیسر سلام کو اس ادارہ کا پہلا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا ہے.اس قسم کے ایک ادارے کی تجویز پاکستان نے پیش کی تھی.ایک اور کام جس پر پروفیسر سلام کو بجاطور پر فخر ہے، پاکستان میں جو ہری توانائی کمیشن کا قیام اور فروغ ہے اس کے چیئر مین سے قریبی روابط کے ساتھ انہوں نے کام کیا اور ۱۹۵۹ء سے اس کمیشن کے ایک ممبر ہیں.ان کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں اسلام آباد کے مقام پر پاکستان میں پہلی ٹیکنیکل یو نیورسٹی قائم کی جاسکتی ہے.اپنی متعدد اور متنوع سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ۱۹۶۱ء کے بعد سے وہ حکومت پاکستان کے سائنسی
تاریخ احمدیت.جلد 23 5 سال 1965ء مشیر اعلیٰ (چیف سائنٹیفک ایڈوائزر ) ہیں.سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق اقوام متحدہ کی مشاورتی کمیٹی کے ایک ممبر بھی ہیں.یہ اعلیٰ اختیارات کا ایک ایسا ادارہ ہے جو یونیسکو، ڈبلیو ایچ او ڈبلیوایم او جیسے اقوام متحدہ کے تشکیل شدہ سائنسی اداروں کی سرگرمیوں کا جائزہ لیتا اور ان پر عملدرآمد کرتا ہے.متعدد سائنسدانوں کے برعکس پروفیسر سلام دیگر مضامین خصوصاً تاریخ اور معاشیات نیز مذہبی علوم سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں.ان کا ڈرائنگ روم ایرانی طغروں اور قرآن پاک کی خوبصورت کتابت شدہ آیات سے سجا ہوا ہے.ان کے ذاتی کتب خانے میں سائنسی اور فنی کتابوں کے علاوہ اسلامی تاریخ پر اردو اور انگریزی کی کتابیں نیز مذہب اور احادیث نبوی کی کتا میں موجود ہیں.وہ علی اصبح اٹھتے اور اپنا بیشتر کام صبح کے اوقات میں کرتے ہیں.اور ۹ بجے رات تک سو جاتے ہیں.اپنے کام کے علاوہ ان کا کوئی مشغلہ نہیں ہے اور وہ کوئی کھیل نہیں کھیلتے لیکن ان کے فرصت کے لمحات کا بہترین مصرف قرآن پاک کا مطالعہ ہے وہ اکثر و بیشتر اپنے سائنسی مقالوں میں اس کا حوالہ دیتے ہیں.وہ بہت زیادہ مذہبی رجحان کے آدمی ہیں.اور سائنسی اور مذہبی کتابوں سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں.اپنی پاکستانی بیوی کے ساتھ وہ خوشگوار اور مطمئن زندگی بسر کرتے ہیں ان کے تین لڑکیاں اور چار سالہ لڑکا ہے.کلکتہ کے احمدیوں کا عزم حج ، بھارتی علماء کی فتنہ انگیزی اور اخبار ” صدق جدید اس سال بھارت میں سولہ احمدی احباب کو حج پر جانے کے لئے ویزہ نہ دینے کا ایک تکلیف دہ واقعہ سامنے آیا.غیر احمدی شرفاء اور غیر متعصب افراد نے مخالفین کے اس فعل شنیع کو نہایت مکروہ قرار دیا اور مولا نا عبدالماجد دریا بادی جیسے غیر متعصب غیر احمدی عالم نے اس پر نہایت زور دار بے لاگ تبصرہ کیا.تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی طرف سے حسب ذیل ایک اعلان اخبار بدر ( ۴ مارچ ۱۹۶۵ء) میں شائع ہوا کہ :.کلکتہ سے یہ خوشکن اطلاع موصول ہوئی ہے کہ امسال وہاں سے سولہ احمدی افراد حج بیت اللہ شریف کا عزم رکھتے ہیں.خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے بیت اللہ شریف کے حج اور زیارت سے سرفراز فرماتا ہے اور اس کی برکات سے نوازتا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب احباب و خواتین کو خیر و عافیت کے ساتھ منزل مقصود پر پہنچائے اور انہیں جملہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 6 سال 1965ء مناسک حج صحیح رنگ میں بجالانے کی توفیق بخشے اور خیر وعافیت سے واپس لائے.اور ان کے قلوب کو منور فرمائے.عازمین حج کی فہرست درج ذیل ہے:.مکرم میاں محمد صدیق صاحب بانی مع بیگم صاحبہ وصاحبزادی شکیلہ مکرم میاں محمد یوسف صاحب بانی مع بیگم صاحبہ مکرم میاں محمد عمر صاحب سہگل مع بیگم صاحبہ مکرم میاں محمد بشیر احمد صاحب سہگل مع بیگم صاحبہ مکرم مولوی محمد سلیم صاحب فاضل مع والدہ صاحبہ مکرم میاں محمد حسین صاحب امیر جماعت احمدیہ کلکتہ مکرم میاں عبدالمجید صاحب مکرم میاں محمد ادریس صاحب مکرم با بومحمد شمس الدین صاحب ( حج بدل برائے والد صاحب مرحوم میاں محمد عمر صاحب سہگل ) 66 مکرم مولوی شریف احمد صاحب امینی ( حج بدل برائے عزیز میاں محمد حسین صاحب) “ اس اعلان کے شائع ہوتے ہی بھارتی مولویوں نے جو نہایت قابل مذمت کارروائی کی وہ انہی کے ایک مولوی محمد منظور نعمانی صاحب نے بڑے فخر سے بیان کرتے ہوئے لکھی کہ :.کلکتہ کے قادیانیوں کی ایک جماعت نے حج کو جانے کا پروگرام بنایا.ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اس حج کے ذریعہ کلکتہ اور اس کے نواح میں قادیانیت کی تبلیغ کے لئے زمین ہموار کر سکیں گے وہاں سے واپس آکر وہ مسلمانوں کو بتائیں گے کہ عقائد کی بنیاد پر ہماری مخالفت بس یہ ہندوستان ہی کے مولوی کرتے ہیں مکہ مدینہ میں کسی نے ہماری کوئی مخالفت نہیں کی اور ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا گیا جو ایمان والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے.الغرض وہ اس حج کو اپنے لئے ایک سند اور سر ٹیفکیٹ بنانا چاہتے تھے.اسی لئے انہوں نے اس کا اچھا خاصا پروپیگنڈا بھی کیا تھا.کلکتہ کے چند حساس اور بیدار مسلمانوں نے اس خطرہ کو محسوس کیا اور ایک خط ملک حجاز شاہ فیصل کو لکھا کہ قادیانیوں کی ایک جماعت اس طرح حج کے موقعہ پر حجاز مقدس پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے.یہ اپنے کو مسلمان بتا کر سفر کریں گے حالانکہ یہ قادیانی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اور رسول مانتے ہیں، ان کے یہ یہ نام ہیں.اس خط کی ایک کا پی مملکت سعودیہ عربیہ کے مفتی اکبر کو، ایک رابطہ عالم
تاریخ احمدیت.جلد 23 7 سال 1965ء اسلامی کے جنرل سیکرٹری کو اور ایک ہندوستان کے سعودی سفارتخانہ کو بھی بھیجی گئی.اس کوشش کے نتیجہ میں ان لوگوں کو ویزا نہ دیئے جانے کا حکم آگیا چنانچہ بمبئی کے ویزا آفس نے سولہ آدمیوں کی اس پوری جماعت کو ویزا دینے سے انکار کر دیا.(اگر چہ ان کی سیٹیں ہوائی جہازوں میں ریزرو تھیں) لیکن ہلی (جنوبی ہند کے بعض قادیانی خفیہ طور پر حجاز مقدس پہنچ گئے.دارالعلوم دیو بند کے ایک نوجوان فاضل مولانا ریاض احمد صاحب فیض آبادی ( جو جنوبی ہند میں قادیانی فتنہ کا مقابلہ کر رہے ہیں ) وہ بھی اس سال حج میں تھے انہوں نے حجاز مقدس میں ہبلی کے ان قادیانیوں کا تعاقب کیا اور حکومت حجاز کو اطلاع دی کہ اس طرح چند قادیانی خفیہ طور پر آگئے ہیں.حکومت کی جانب سے ان کی تلاش ہوئی ان میں سے صرف دو (ان کا جماعت احمدیہ سے کوئی تعلق نہیں تھا یہ لوگ دیندار جماعت کے فرد اور مولوی صدیق چن لبویشور کے مرید تھے.ناقل ) کا پتہ چلا اور وہ گرفتار کئے گئے.اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی ملک کے غیر احمدی حلقوں میں ایک ہلچل سی مچ گئی اور بھارتی علماء کے اس کارنامہ پر نفرت و حیرت کا اظہار شروع ہو گیا.اس سلسلے میں مولا نا عبد الماجد صاحب دریا بادی نے ہفت روزہ ” صدق جدید مورخہ ۶ را گست ۱۹۶۵ء کے صفحہ ۸ پر قادیانی اور باب کعبہ کے زیر عنوان حسب ذیل مراسلہ شائع کیا:.پاکستانی اخباروں نے ماہنامہ الفرقان لکھنو کے حوالہ سے یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ کلکتہ کے بعض قادیانیوں نے حج کا ارادہ کیا.وہیں کے مسلمانوں نے شاہ فیصل کولکھا کہ یہ قادیانی جو غلام احمد کو نبی مانتے ہیں حجاز مقدس میں آنے کا ارادہ کر رہے ہیں.وہاں سے حکم آگیا کہ ان لوگوں کو ویزا نہ دیا جائے.مگر ہبلی کے کچھ قادیانی حج کے موقع پر حجاز پہنچ ہی گئے.ایک دیو بندی فاضل نے جو خود بھی حج کو گئے ہوئے تھے حکومت سعودیہ کو ان کی موجودگی کی اطلاع دیدی حکومت نے تلاش کر کے دو قادیانیوں کو گرفتار کر لیا اور تو بہ کرنے کے بعد ان کو حج کرنے کی اجازت دے دی گئی.اس واقعہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حکومت حجاز قادیانیوں کو مسلمان نہیں سمجھتی.بالکل اسی قسم کا واقعہ شاہ فیصل کے والد مرحوم سلطان ابن سعود ( شاہ عبدالعزیز ) کے زمانہ میں بھی پیش آیا تھا.حجرہ نشین مولویوں نے مرحوم سے کہا کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں اس لئے انہیں حجاز مقدس سے نکال دیا جائے.مرحوم نے مولوی صاحبان سے پوچھا کہ قادیانی حج کو اسلام کا رکن اور اس کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ جواب میں انہیں یہ کہتے ہی بنی کہ یہ لوگ حج کو فرض سمجھتے ہیں.اس پر مرحوم
تاریخ احمدیت.جلد 23 8 سال 1965ء نے فرمایا کہ جو شخص حج کی فرضیت کا قائل ہے اور اسے اسلام کا اہم رکن سمجھتا ہے اسے حج سے روکنے کا مجھے کوئی حق نہیں.یہ واقعہ ہم نے مرحوم کی زندگی میں خود بعض مولویوں کی زبانی سنا تھا ممکن ہے بعض اخبارات میں بھی شائع ہوا ہو.ہمارے خیال میں جن قادیانیوں سے توبہ کرائی گئی اگر وہ تو بہ نامہ میں تحریر کر دیتے کہ (۱) ہم مرزا غلام احمد کو نبی اور مسیح موعود ماننے سے انکار کرتے ہیں.ہم یقین رکھتے ہیں کہ خاتم المرسلین کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.خواہ پرانا ہو یا نیا.خالی ہو یا بروزی حقیقی ہو یا مجازی.اسرائیلی ہو یا غیر اسرائیلی.چونکہ آیۂ خاتم النبین میں مطلق نبوت کی نفی کی گئی ہے.(۲) مگریہ مولوی خود مانتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور بحالت نبوت آئیں گے ( ینزل عیسی.نبی اللہ مسلم شریف) یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ان پر وحی بھی نازل ہوگی حدیث مسلم از نواس بن سمعان ) اور یہ بھی کہ وحی لانے والے حضرت جبرئیل ہوں گے.( حج الکرامہ فی آثار القیامہ.از نواب والا جاہ صدیق خاں مرحوم) اور یہ بھی کہ جب حضرت مسیح آئیں گے تو ان کا انکار کرنے والے کافر ہوں گے (فتویٰ دارالعلوم دیو بند نمبر یاد نہیں رہا ) لہذا ہم تو ان تمام باتوں سے تو بہ کرتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح اپنی خصوصیات کے ساتھ آگئے تو باب نبوت مفتوح ہو جائے گا.اب ان مولوی صاحبان سے بھی تو بہ کرانی چاہیئے کہ جو حضرت مسیح کی آمد ثانی تسلیم کر کے اور ان کو نبی مان کر اور ان پر بذریعہ جبرئیل وحی نازل کر کے مرزا غلام احمد قادیانی کے ہاتھوں کو مضبوط کر رہے ہیں.یہی وہ مولوی صاحبان ہیں کہ بام رسالت پر چڑھنے کے لئے غلام احمد کے لئے سیڑھی مہیا کی اور جب وہ چڑھ گئے تو کہنے لگے کہ اس نے نبوت کا دروازہ چوپٹ کھول دیا.ہم نے جہاں تک غور کیا ہے حضرت مسیح کی آمد ثانی بحالت نبوت کے قائل علماء خود ختم نبوت کے منکر ہیں.ان ہی کی استدلالی حدیثوں کا سہارا لے کر مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی مسیح موعود اور نبی ہونے کا دعوی کیا.علماء کو رشک ہے کہ مرزا قادیانی تو بازی لے گیا اور اس نے مسلمانوں کا انتظار ختم کرا دیا اور ہم جونزول مسیح کو عقیدہ میں شامل کرتے رہے ہیں خالی ہاتھ رہ گئے.قادیانیوں کا مسیح موعود آگیا اور ہم ٹکٹکی لگا کر آسمان ہی کو تک رہے ہیں کہ کب حضرت مسیح تشریف لا ئیں اور کب ہم ان کے منکروں کو کا فرقراردیں.یہ قادیانی اور ان کے مخالف علماء دونوں اصولی طور پر ایک ہی عقیدہ رکھتے ہیں اختلاف صرف
تاریخ احمدیت.جلد 23 9 سال 1965ء شخصیت میں ہے.علماء کہتے ہیں کہ بیشک حضرت مسیح بحالت نبوت تشریف لائیں گے ان پر وحی بھی نازل ہو گی وحی لانے والے حضرت جبرئیل ہوں گے مگر نازل ہونے والے مسیح غلام احمد قادیانی نہیں ہیں.وہ تو آئیں گے.گویا فرق یہ ہے کہ قادیانی کہتے ہیں کہ عیسی نبی اللہ تشریف لے آئے مولوی کہتے ہیں کہ نہیں وہ ابھی نہیں آئے مگر آئیں گے ضرور.پھر قادیانیوں اور ان کے مخالف مولویوں میں فرق کیا رہا؟ اصول میں دونوں متفق ہیں.مابہ النزاع صرف شخصیت ہے حیرت ہے کہ ان پرانے قادیانیوں کو کوئی بھی ختم نبوت کا منکر قرار نہیں دیتا یہ نئے قادیانی تو ان ہی مولویوں کے شاگرد ہیں پس غضب یہ ہوا کہ سیڑھی مولویوں نے مہیا کی اور چڑھ گئے بام رسالت پر غلام احمد قادیانی.محنت کس نے کی اور پھل کس نے کھایا.ہم تو دونوں قادیانیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ ختم نبوت کی عمارت میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو سکے.اصولی رنگ میں قادیانیوں کی ہمنوائی کرنے کے بعد ان کو ختم کرنا انتہائی مشکل ہے اسی لئے علامہ سید رشید رضا مصری نے پہلے حیات مسیح اور نزول مسیح سے انکار کیا اور پھر مرزا غلام احمد کے مقابل پر آئے اور ان کی تکفیر کی.علامہ اقبال نے بھی نزول مسیح کو مجوسی سازش سے تعبیر کیا ہے.مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی یہی راہ اختیار کی کیونکہ اس کے بغیر قادیانیت کا استیصال نہیں کر سکتے ہم آخر میں فقہ حنفیہ کے مشہور امام ملا علی قاری کا ایک فیصلہ بھی درج کرنا چاہتے ہیں جس سے شہ پا کر غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعویٰ کیا.ملا صاحب نے ایک موضوع یا ضعیف حدیث کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ ہوتا تو وہ میرے بعد سچا نبی ہوتا“ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اس حدیث کا مفہوم صحیح ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہوتے.اس طرح حضرت عمرؓ نبی بنادئیے جاتے تو وہ دونوں حضور ہی کے متبع ہوتے بس اس کا ہونا خاتم النبین کی نفی نہیں کرتا کیونکہ اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی ایسا نہیں آئے گا جو آپ کی شریعت کو منسوخ کر دے اور وہ آپ کی امت میں سے نہ ہو.( موضوعات کبیر ملاعلی قاری سختی لام) یہی وہ بات ہے جس کا سہارا لے کر غلام احمد قادیانی نے اعلان کیا کہ وہ شریعت محمدی کو منسوخ کرنے نہیں آئے.نیز یہ کہ میں امتی نبی ہوں.غرض مرزا قادیانی کو خود مولویوں نے پیدا کیا اور خود ہی ان کی تکفیر میں لگ گئے.خلاصہ یہ کہ مولوی صاحبان ختم نبوت سے انکار کرنے پر کافر نہیں ہو سکتے تو بیچارے قادیانیوں کو کا فرکیوں قرار دیا جائے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 10 سال 1965ء شاہ ابن سعود کا احمدیوں کو حج کی اجازت دینا مندرجہ بالا سطور میں مولانا عبد الماجد دریا آبادی صاحب نے سعودی عرب کے حکمران شاہ ابن سعود ( عبد العزیز بن عبد الرحمن بن فیصل) کے حوالہ سے تحریر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے میں احمدیوں کو حج کی اجازت دی تھی.اس واقعہ کی تفصیل حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے تحریر فرمائی تھی جو احباب کے ازدیاد علم کے لئے تحریر کی جاتی ہے.آپ اپنے سفر حج سال ۱۹۲۷ء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جلالتہ الملک سلطان ابن سعود سے مجھے تین مرتبہ ملنے کا موقع ملا.دومرتبہ تو میرے ساتھ حضرت الحاج ( عبدالرحیم ) نیر صاحب مبلغ اسلام ( لندن و افریقہ تھے ) اور تیسری مرتبہ مجھے تنہا ان سے ملنے کا اتفاق ہوا.اور یہ ملاقات بہت اہم تھی مکہ معظمہ میں سلطان ابن سعود کے داخلہ کا پہلا سال تھا اور اہل حدیث کے بہت سے لوگ وہاں گئے ہوئے تھے ان میں ایک مولوی صاحب محمد اسماعیل سورتی تھے.میں ان سے قیام بمبئی کے ایام سے واقف اور بے تکلف تھا.وہ مذہباً اہلِ حدیث تھے اور عملاً پکے کانگریسی.معلوم نہیں اس وقت وہ زندہ ہیں یا مر چکے کیونکہ یہ اکیس برس کا واقعہ ہے مولوی اسمعیل صاحب کو مولوی اسمعیل غزنوی ( جو سلطان کے خاص مقربین سے ہیں اور جنہوں نے سلطان کی حکومت کے استحکام کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی ہیں ) سے نہیں معلوم کیوں کچھ رنجش تھی.وہ ان کے اقتدار اور قرب کو دیکھ نہ سکتے تھے.غزنوی صاحب کے نہال سے خاکسار عرفانی کو ارادت و عقیدت تھی اس لئے وہ مجھ سے بھی محبت رکھتے تھے.سورتی صاحب کو یہ اچھا موقع ملا کہ میرے متعلق انہوں نے غزنوی صاحب کو الزام دینے کے لئے ایک حیلہ پیدا کیا اور شکایت کی کہ غزنوی صاحب ان کو سلطان کے پاس لے گئے اور ان کی وجہ سے یہاں ایک فتنہ پیدا ہو جائے گا اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا.سلطان میرے عقائد سے واقف تھے اور انہوں نے شیخ الاسلام عبداللہ بن باہید سے استصواب کیا تھا کہ کیا میں ان سے ملوں؟.یہ لوگ تو مبلغ ہوتے ہیں.شیخ الاسلام نے (خدا اس پر رحم کرے ) نہایت صحیح مشورہ دیا کہ ان لوگوں سے سلطان کو ضرور ملاقات کرنی چاہئے اور جو کچھ وہ کہیں سنا چاہیئے.چنانچہ ہم کو موقع ملا اور ہم نے واضح الفاظ میں اپنے عقائد کو پیش کر دیا تھا.بعد میں جب سورتی صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے میرے لئے دراصل نہیں، غزنوی صاحب سے سلطان کو بدظن کرنے کے لئے یہ فتنہ کھڑا کیا.مگر سلطان نے واقعات کی روشنی میں جواب دیا کہ میرے پاس تو وہ تو فیق شریف کے ساتھ آئے
تاریخ احمدیت.جلد 23 11 سال 1965ء تھے اور میں نے شیخ الاسلام کے مشورہ کے بعد ملاقات کی اور انہوں نے جو کتابیں پیش کیں وہ میں نے قبول کیں.غزنوی کا کچھ تعلق نہیں.اور سورتی صاحب سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں؟ سورتی صاحب نے کہا کہ حج کرنے آئے ہیں.اس پر سلطان نے کہا کہ دیکھو ہم بد ولوگ ہیں ہمارے گھر میں تو دشمن بھی آجاوے تو اس کو پناہ دیتے ہیں وہ تو خدا کے گھر کے لئے آئے ہیں میں یا آپ کون ہیں کہ ان کو خدا کے گھر سے نکال دیں.رہا فتنہ اگر وہ کسی قسم کی خلاف قانون بات کریں گے تو حکومت اس کا انسداد کرے گی.غرض وہ اس منصوبہ میں ناکام ہو گئے.مجھے بھی اس ساری گفتگو کا علم ہوا تو میں نے سلطان سے ملاقات کا انتظام کیا.میں حاضر ہوا تو مندرجہ ذیل گفتگو سلطان سے ہوئی.عرفانی: جلالۃ الملک ! آپ جانتے ہیں حرمین شریفین کی خدمت کا شرف آپ کو کیوں ملا؟ سلطان : ذلك فضل الله يؤتيه من يشاء عرفانی: بے شک یہ فضل تو ہے مگر اللہ تعالیٰ کے فضل کے کچھ اسباب ہوتے ہیں.سلطان : میں کچھ نہیں جانتا.آپ کیا سمجھتے ہیں؟ عرفانی: شریف عون کے زمانہ میں آپ کے جد حج کے لئے آئے تھے مگر شریف عون نے اختلاف عقیدہ کی وجہ سے ان کو روک دیا تھا.اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہ آئی.اس لئے شریف کے خاندان سے یہ شرف نکل گیا اور آپ آل سعود کو دیا گیا.سلطان: مرحبا عرفانی: میں نے یہ واقعہ آپ کو اس لئے یاد دلایا ہے کہ مکہ معظمہ روئے زمین کے مسلمانوں کا مرکز ہے یہاں مختلف عقائد کے لوگ آئیں گے اور آپ کے ساتھ بھی بعض کا اختلاف ہوگا اگر محض عقائد کے اختلاف کی وجہ سے آپ کسی سے تعرض کریں گے تو یادر کھیئے کہ خدا تعالیٰ آپ سے یہ خدمت چھین لے گا اور اس کو دے گا جو اختلاف عقائد کی وجہ سے کسی سے تعرض نہ کرے گا.میرے بیان کا ترجمہ توفیق شریف صاحب جو ان دنوں وزیر معارف تھے، کرتے تھے اور کچھ نہ کچھ میں خود بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں بولتا تھا.سلطان یہ سن کر استغفار کرتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ میں انشاء اللہ کبھی ایسا نہیں کروں گا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ خود موجود ہیں آپ سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا آپ کی شکایت ہوئی اس پر بھی ہم نے توجہ نہیں کی ، اس پر میں نے کہا کہ اسی بات نے مجھے تحریک کی کہ میں یہ حق آپ کو پہنچادوں الحمد للہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 12 سال 1965ء تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کا الوداعیہ • امارچ ۱۹۶۵ء کی شام کو تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے بشیر ہال میں طلباء جماعت دہم کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب منعقد ہوئی.اس موقع پر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں طلباء کو تین زریں نصائح فرما ئیں اول صحت جسمانی دوم علمی ترقی سوم تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قیام کا مقصد پیش نظر رکھنا.آپ نے فرمایا ”حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ سکول ایک خاص مقصد کے پیش نظر قائم فرمایا تھاوہ مقصد یہ ہے کہ اسلام نے انسان کو دینی و دنیوی فلاح کے لئے جو بے مثال اور لازوال تعلیم دی ہے بدل و جان اس کی تحصیل کر کے اپنی زندگیوں میں اس کا عملی نمونہ پیش کیا جائے اور اس شان سے پیش کیا جائے کہ اس مادر علمی سے فیض یافتہ باخدا ہی نہیں بلکہ خدا نما وجود بن کر دنیا کی ہدایت و رہنمائی کا موجب بنیں.ہمارے طلبہ کا فرض ہے کہ وہ اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں اور اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں“.وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی کا جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب ۱۴ مارچ ۱۹۶۵ء کو ساڑھے نو بجے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ میں تقسیم اسناد و انعامات کی تقریب نہایت سادہ اور پُر وقار طریق پر عمل میں آئی.جس میں ایم.اے، بی.ایس سی اور بی.اے کے فارغ التحصیل طلباء کو ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج نے پنجاب یو نیورسٹی سے مفوضہ اختیارات کی بناء پر اسناد تقسیم فرمائیں.بعد ازاں کالج کی سالانہ رپورٹ پیش کی.آپ نے کالج کے شاندار نتائج، اس کی علمی وادبی اور دیگر تعلیمی سرگرمیوں نیز کھیلوں کے میدان میں کالج کی شاندار کامیابیوں پر اختصار سے روشنی ڈالی اور یو نیورسٹی پر زور دیا کہ وہ ملحقہ کا لجوں پر اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند نہ کرے اور عدل و انصاف سے کام لے.آپ نے بتایا کہ حقیقی علم کا ابدی سر چشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس لئے طلباء کو علم کے اس حقیقی سر چشمہ سے مضبوط تعلق پیدا کرنا چاہیئے.آپ کے بعد پاکستان کے بلند پایہ ماہر تعلیم سائنسی علوم جدیدہ کے مشہور محقق اور ممتاز مفکر جناب ڈاکٹر ظفر علی ہاشمی وائس چانسلر مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی لائکپور نے ایک نہایت پر مغز خطبہ اسناد پڑھا جس میں آپ نے پاکستان میں سائنسی علوم کی ترویج اور سائنسی ترقی کی اہمیت واضح کرنے
تاریخ احمدیت.جلد 23 13 سال 1965ء کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج کی مساعی جمیلہ اور کا رہائے نمایاں کو بہت سراہا چنا نچہ فرمایا."آپ کا کالج اور اسی نوعیت کے سینکڑوں ادارے قومی ترقی کی اس بنیادی مہم میں نہایت اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں.تعلیم الاسلام کالج ایک ایسا ادارہ ہے جس کی داغ بیل بھی ملتی ترقی کے اسی مشن کے مطابق رکھی گئی ہے.اس کالج نے پندرہ سال کے قلیل عرصہ میں اپنے حلقہ اثر میں ذہنی اور اخلاقی ترقی کے لئے جو کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.جناب پرنسپل صاحب نے اپنی سالانہ رپورٹ میں جن امور کی نشاندہی کی ہے وہ اس کے شاہد ہیں کہ یہ کالج پاکستان کی ترقی کی شاہراہ پر ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے سامنے بھی وہی مقاصد ہیں جن کا حصول ہمیں ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا کھڑا کرے گا.مجھے یقین واثق ہے کہ سائنس اور سائنسی انداز فکر کا حصول اس ادارہ کے مقاصد میں ممتاز سے ممتاز تر جگہ پا کر قوم کیلئے نشاۃ ثانیہ کا پیش خیمہ ثابت ہوگا“.مجلس مشاورت ۱۹۶۵ء خلافت ثانیہ کے عہد مبارک کی آخری مجلس مشاورت اس سال ۲۶، ۲۷، ۲۸ مارچ ۱۹۶۵ء کو تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ہال میں منعقد ہوئی.حضرت مصلح موعود کے ارشاد مبارک کے مطابق شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمد یہ لائل پور (فیصل آباد ) نے اس کی صدارت فرمائی.مولا نا محمد صادق صاحب سابق مجاہد انڈو نیشیا انچارج صیغہ زود نویسی نے شوری کی مکمل کارروائی قلمبند کی اور قاضی عزیز احمد صاحب نے اسے ریکارڈنگ مشین پر ٹیپ کرنے کی خدمت سرانجام دی.ہال میں نشست گاہ کی ترتیب اور دیگر انتظامات منشی فتح الدین صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ نے دوسرے کارکنوں کے تعاون سے کئے.صدر مجلس شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے افتتاحی خطاب میں فرمایا:.” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ یہ ہماری چھیالیسویں مجلس مشاورت ہے.گزشتہ چھیالیس سال کے اندر جماعت نے روز بروز ، عہد بعہد جو ترقی اور تنظیم کی ہے اور جس طرح سے دوست مشوروں میں شامل ہوتے رہے اور وہ مشورے حضرت صاحب کی منظوری کے بعد نافذ ہوتے رہے.یہ ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہے.ہمارے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ ہم رکیں یا ٹھہریں، ہمارا کام ہے چلتے چلے جانا یہ قافلہ نہ کبھی رکا ہے اور نہ ہی انشاء اللہ بھی رکے گا.یہ چلتا ہی چلا جائے گا.جب تک وہ مقاصد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر کئے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے نوشتوں میں لکھے پورے نہ ہو جائیں.“ پھر آپ نے نمایندگان شوریٰ کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 وو 14 سال 1965ء چند باتیں جن کو آپ جانتے اور سمجھتے ہیں دہرانے اور یاد دلانے کے قابل ہیں کہ اس وقت جو نمائندے ہیں وہ اپنی اپنی جماعتوں کی رائے کے، ان کی ضروریات کے، ان کے خیالات کے نمائندے اور ان کی نیابت کرنے والے ہیں.یہ ان کا پہلا فرض ہے.دوسرا فرض ان کا یہ ہے کہ وہ نیابت کرنے والے ہیں اپنی جماعت کے تحمل کی ، ان کے وقار کی ، ان کے صبر وسکون کی ، اور ان کی خودداری کی، یہ تمام چیزیں بھی نمائندگی میں شامل ہیں.اس لئے جو نمائندے ہیں ان کے لئے یہ لازم ہے کہ تحمل ، سکون ، وقار سے مجلس کی کارروائی میں حصہ لیں.تیسری بات جو ہر ایک نمائندے کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ ہمارے مشورے محض خیالی باتیں نہیں ہوتے.ہمارے مشورے صرف بحث و تمحیص نہیں ہیں کہ جن کے بعد ہم ان سے الگ ہو جائیں بلکہ ہمارے مشورے اس غرض سے ہوتے ہیں کہ جو ہم مشورہ دیتے ہیں یا جو بات یہاں پر طے ہوتی ہے ہم اس پر عمل کریں گے اور اس میں تعاون کریں گے.اس لئے جو بھی مشورہ ہو اس کو اس نیت سے اور اس ارادہ سے دینا چاہیئے کہ یہ مشورہ ایسا ہے جس پر ہم نے عمل کرنا ہے اور یہ عمل کرنے کے قابل ہے.محض ہمارا زبانی جمع خرچ نہیں ہے.بلکہ ہمارے مشورے اپنے ساتھ قوت عمل رکھتے ہیں.اس لئے ہمارا مشورہ بغیر عمل کے نہیں ہوتا جیسے کہ بعض اور جماعتیں اور گروہ ہیں جو محض خیالی باتیں کرتے ہیں اور نشستند و گفتند و برخاستند کے سوا ان کے مشورے کچھ نہیں ہوتے.لیکن ہمارے مشورے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے ساتھ قوت عمل رکھتے ہیں اور دنیا کے اندر عملی تغیر پیدا کرنے والے ہیں.ایک اور بات جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اسلام ایک وسطی مذہب ہے.لہذا جو مشورہ بھی دیا جائے اسلامی تعلیم کی رُو سے بہر طور افراط اور تفریط سے پاک ہونا چاہیئے.جملہ نمائندگان سے درخواست ہے کہ وہ ان امور کو پیش نظر رکھ کر مشورہ دیں.بڑی خوشی اور آزادی سے صحت مند تنقید کریں اور تعمیری تجاویز پیش کریں.آپ کو بلایا ہی اسی لئے گیا ہے کہ آپ مرکز کی ضروریات کو سنیں اور مرکز آپ کی ضروریات سے آگاہ ہو کر آپ کے مشوروں سے فائدہ اٹھائے.ان مختصر گزارشات کے بعد میں حضور کی ہدایت و ارشاد کے ماتحت اس چھیالیسویں مجلس مشاورت کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں بِسْمِ اللهِ مَجْرَبَهَا وَ مُرْسَهَا (هود: ۴۲)
تاریخ احمدیت.جلد 23 15 سال 1965ء مشاورت کے چار اجلاس ہوئے جن میں ایجنڈا کے مطابق متعدد اہم تجاویز زیر غور آئیں اور سفارشات کی گئیں.نمائندگان کی طرف سے سب سے زیادہ تفصیلی بحث صدر انجمن احمد یہ پاکستان کے بجٹ پر کی گئی.بحث کے بعد صدر صدر انجمن احمدیہ ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حسب ذیل تقریر فرمائی:.وو سب سے پہلے تو میرے دل میں جذبات کا ایک شدید ہیجان ہے اس کا اظہار ایک فقرہ میں میں کردوں تو بہتر ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دوستوں نے بڑے ہی پیار اور بڑے ہی درد کے ساتھ مختلف اور کثرت کے ساتھ تجاویز ہمارے سامنے رکھی ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں احباب کا شکریہ ادا کروں اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دے.پہلی بات جو میں تجاویز کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہماری زندگی ، ہماری روح، ہماری جان ہمارا سب کچھ ہے.اور ہر احمدی خواہ وہ بچہ ہو جوان ہو یا بوڑھا ، مرد ہو یا عورت.اس کو قرآن کریم سیکھنا چاہیئے ہمیں ان کو سکھانا چاہیئے اور یہ احساس جماعت میں شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم با ترجمہ جو تفسیر صغیر کی شکل میں حضور نے جماعت کے ہاتھ میں دیا اور قرآن کریم با ترجمہ جو ہر احمدی بچے کے پاس ہونا چاہیئے.وہ مختلف نوع کے ترجمے ہیں.اپنے ترجمہ کے لحاظ سے بھی شاید اور اپنی چھپائی وغیرہ کے لحاظ سے بھی یہ دونوں ضرورتیں ہیں جنہیں جماعت کو پورا کرنا چاہیئے.تفسیر صغیر کے ترجمہ پر نظر ثانی ہو رہی ہے.نظر ثانی کا صرف یہ مطلب ہے کہ جو پہلا ایڈیشن تفسیر صغیر کا شائع ہوا وہ بھی دوست عام طور پر نہیں جانتے ہوں گے کہ وہ ایک ایڈیشن نہیں ہے بلکہ دوران اشاعت یا طباعت حضور اس میں نظر ثانی کرتے اور ترمیم کرتے رہے ہیں اس لئے کہ اسے حضور نے بڑی جلدی طبع کروایا تھا.حضور اس کی اشاعت کرنا چاہتے تھے تو بعض باتیں جو سامنے آئیں حضور نے ان میں ترمیم کی.چنانچہ آپ کو تین یا چار قسم کی تفسیر صغیر ملے گی یعنی بعض میں کوئی بڑی چیز ہے اور بعض میں نہیں.لیکن پھر بھی کا تب صاحب نے جو جرات مندانہ کچھ نامناسب اقدامات اس کے اندر کر دیئے تھے مثلاً کچھ اپنی طرف سے بڑھا دیا تھا.لفظی طور پر ان کو دیکھا جانا ضروری ہے.بعض جگہ کا تب چھوڑ بھی جاتا ہے.صرف یہ نظر ثانی ہو رہی ہے مثلاً حضور کا یہ ایک طریق ہے.میں واضح کر دیتا ہوں تا کہ دوست سمجھ جائیں کہ جہاں قرآن کریم میں اللہ کا لفظ آیا ہے وہاں ترجمہ میں بھی اللہ کا لفظ ہے ” تعالی ساتھ نہیں تھا لیکن کہیں کہیں کا تب صاحب نے ترجمہ کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 23 16 سال 1965ء تعالی لگا دیا ہے تو یا تو ہر جگہ تعالیٰ ہو یا کسی جگہ بھی نہ ہو.یہ چیز ہم چیک کر رہے ہیں کہ کا تب کی غلطیاں دور ہو جا ئیں.اس قسم کی رویژن کو نظر ثانی نہیں کہنا چاہیئے.کتابت کی غلطیاں دور کرنے کی جو کوشش ہے وہ بڑی تیزی سے جاری ہے لیکن کا تب کی کتابت کا جہاں تک سوال ہے چونکہ ایک ہاتھ رہنا چاہیئے ورنہ وہ خوبصورتی نہیں رہتی.اس لئے وہ زیادہ سے زیادہ ایک ماہ میں تین سیپارے کتابت کر سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں.وہ بھی اس صورت میں کہ ہمیں متن کے بلاک مل رہے ہیں جن سے پھر آگے تصویر میں لے کر شائع کی جارہی ہیں.تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابتدائی ٹیکنیکل جو الجھنیں تھیں وہ اب دور ہو گئی ہیں.ان کی تفصیل میں میں نہیں جاتا.اب کتابت تو شروع ہو چکی ہے لیکن کتابت پر دس ماہ کا عرصہ کم از کم خرچ ہوگا.اور پھر اشاعت میں اتنی زیادہ دیر نہیں لگے گی.لیکن اتنی جلدی دوستوں کے ہاتھ میں نہیں آئے گی جتنی جلدی کا بعض تقاریر سے یہاں تاثر پیدا ہوا ہے لیکن ہم انتہائی کوشش کر رہے ہیں کہ جلد سے جلد اور جیسا کہ ایک دوست نے امدا د فرمائی ہے دوستوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے تا کہ اگر دوست چاہیں تو اس کو خرید لیں.یہ چاہنا آپ کی ذمہ داری ہے.امید ہے آپ زیادہ سے زیادہ اس کی طرف توجہ فرمائیں گے.قرآن کریم با ترجمہ بچوں کے لئے نہایت ضروری اور نہایت اہم کام ہے جس کے متعلق میں معذرت کے ساتھ اور معافی کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ ہم سے بڑی کوتاہی ہوئی ہے.بعض تراجم جو اس وقت موجود ہیں ان میں بڑی کثرت کے ساتھ غلطیاں پائی جاتی ہیں.ہم کوشش کریں گے کہ اس سال کوئی معیاری ترجمہ جو موٹا موٹا لکھا ہو جسے چھوٹا بچہ بھی پڑھ سکے جماعت کے بچوں کے ہاتھ میں آسکے.آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے سرانجام دینے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.قواعد صد را انجمن احمدیہ کے متعلق نصیحت کرنا یا تنقید کرنا یہ ضروری بھی ہے لیکن آسان بھی ہے اور یہ کام چونکہ ضروری ہے اس لئے یہ تنقید بڑی ضروری ہے ہونی چاہیئے.لیکن جو مختلف اوقات میں غالباً اگر میری یادداشت ساتھ دیتی ہے تو ۳۵ ء یا ۳۶ء میں وہ قواعد چھپے تھے.اُس وقت سے اس وقت تک سینکڑوں (اگر ہزاروں نہیں ) نئی تبدیلیاں اور حضور کے نئے ارشادات آچکے ہیں.ان سب کو جمع کرنا ہے پھر بھی اس میں کوتا ہی رہ جائے گی پھر بھی ہم تنقید سنیں گے اور بڑی بشاشت سے سنیں گے کہ حضور کا فلاں ارشاد درج ہونے سے رہ گیا کیونکہ ہم انسان ہیں.ہم سے غلطیاں ہوسکتی ہیں اور ہوں گی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 17 سال 1965ء بہت بڑا کام ہے لیکن یہ ایک مسودہ کی شکل اختیار کر چکا ہے.اس پر نظر ثانی کے بعد چھپ جائے گا.مجھے امید ہے کہ آئندہ جلسہ سے پہلے پہلے انشاء اللہ اس کی طباعت اور اشاعت ہو جائے گی.دوست اس کے متعلق زیادہ فکر نہ کریں.ایک تجویز بڑی ہی اہم یہ پیش کی گئی ہے کہ مساجد کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہیئے اس سلسلہ میں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں ، ملفوظات جلد ۴ صفحه ۹۳ میں حضور فرماتے ہیں اور یہ بڑا اہم ارشاد ہے اس کو بھولیں نہیں کبھی بھی.حضور نے فرمایا :.اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے.جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مساجد قائم ہوگئی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں ہو یا شہر جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہوتو وہاں ایک مسجد بنادینی چاہیئے.پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لاوے گا.لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد کی نیت بہ اخلاص ہو محض اللہ اسے کیا جاوے.نفسانی اغراض یا کسی شر کو ہرگز دخل نہ ہو.تب خدا برکت دے گا.پھر حضور فرماتے ہیں:.یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرقع اور پکی عمارت کی ہو“.مجھ پر یہ تاثر ہے کہ ہر جگہ نہیں لیکن بعض جگہ یہ سمجھا جانے لگا ہے اور بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ مسجدان کی ضرورت اور ان کی استطاعت سے بھی زیادہ بڑی اور زیادہ شاندار ہونی چاہیئے.مسجد کی اینٹیں ہماری شان بلند نہیں کرتیں.وہ تقویٰ ہماری شان بلند کرتا ہے جس تقویٰ کی بنیاد پر مسجد کی دیوار میں اٹھائی جاتی ہیں.مثلاً سیالکوٹ کے ایک ضلع سے بار بار اصرار کے ساتھ یہ مطالبہ کیا گیا کہ چونکہ ہم تین یا چار افراد ہیں جماعت کے، اس لئے مسجد بنانے کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے.صدرانجمن احمدیہ ہمیں چھ ہزار روپے دے تا کہ ہم پکی مسجد بناسکیں.حالانکہ وہاں کچھی مسجد بنا کر ان ضرورتوں کو پورا کیا جاسکتا تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بھی یادر کھنے کے قابل ہے:.یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرقع اور پکی عمارت کی ہو.بلکہ صرف زمین روک لینی چاہیئے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیئے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر وغیرہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 18 سال 1965ء ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا“.پھر آپ فرماتے ہیں :.غرضیکہ ہر جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہیئے.جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کو چاہیئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز با جماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہیئے.اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیئے.تو مسجد کے متعلق جو تجویز ہے بڑی اہم ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر نمائندگان اپنے گھروں میں جا کر یہ کوشش کریں کہ جہاں مسجد نہیں وہاں فوری طور پر حضور کی اس ہدایت کے مطابق ایک مسجد تیار ہو جائے.زمین گھیر لیں.کوئی چھپر ڈال لیں.آپ کے کاموں میں خدا تعالیٰ برکت ڈالے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل.سندھ کی زمین کی آمد کے متعلق میں مختصر طور پر ہی کچھ کہنا چاہتا ہوں.تفصیل میں نہیں جانا چاہتا وہ یہ ہے کہ ایک کمیٹی زراعت حضور نے منظور فرمائی ہے وہ زیادہ تفصیل میں جائے گی.لیکن ایک خوشخبری میں ضرور سنا دینا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ اس علاقہ میں عنقریب ایک شوگرمل مکمل ہو رہی ہے.اور جب وہ مکمل ہو جائے گی تو ہمیں امید ہے کہ ہماری سندھ کی زمینوں کی آمد زیادہ نہیں تو کم از کم تین چار گنا بڑھ جائے گی.آپ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ اس شوگر مل کو ہمارے لئے ہی بنائے اور اس میں ہمارے لئے برکت کے سامان بنائے اور اس سے جماعت کی ترقی اور بیرونی ممالک میں اشاعت اسلام کے سامان زیادہ سے زیادہ برکتوں کے ساتھ اور اس کی رحمتوں کے ساتھ پیدا ہوں.مظفر گڑھ کے ایک دوست نے فرمایا تھا کہ ہمارے ہاں دو ضلعوں میں ایک مربی ہے.یہ مسئلہ ہم سے اتنا تعلق نہیں رکھتا.رکھتا تو ہے ضرور لیکن اتنا تعلق نہیں رکھتا جتنا آپ دوستوں سے اور باہر کی جماعتوں سے تعلق رکھتا ہے.میں بڑے دردمند دل کے ساتھ آپ کو یہ حقیقت بتاتا ہوں کہ آئندہ دس سال کے عرصہ میں بھی ایک ہی مبلغ رہے گا.اس لئے کہ آپ اپنے بچے وقف ہی نہیں کر رہے.اس وقت جامعہ احمدیہ (جو مربیوں اور مبلغوں کو تیار کرتا ہے) کی آخری کلاسوں میں (جو چار پانچ سال سے ہمیں نظر آ رہا ہے ) طلبہ کی تعداد اتنی کم ہے کہ ہم اس پر غور کرتے ہیں تو کانپ اٹھتے ہیں.اس کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 19 سال 1965ء علاج دو طرح سے کیا جا سکتا ہے.ایک یہ کہ آپ اپنے دل میں زیادہ جرات پیدا کریں وقف کے لئے.اپنے بچوں کی اٹھان اس طرح کریں کہ وہ خود اپنی زندگیاں وقف کرنے کا عزم پیدا کریں تا یہ اعتراض پھر بعد میں نہ ہو کہ بعض آتے ہیں پھر بھاگ جاتے ہیں.جو بچہ اپنے طور پر اپنے تمام حالات کو سمجھتے ہوئے زندگی وقف کرتا ہے اس کے دوڑنے کا سوال نہیں پیدا ہوسکتا.کیونکہ جب بشاشتِ ایمان دل میں پیدا ہو جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ وہ شخص پھر ہلاک نہیں ہوتا.اور دوسرے یہ کہ ایک وہ زمانہ تھا کہ ہماری جماعت میں کوئی مبلغ نہ تھا لیکن ہمارے مخالفین میں علماء بکثرت تھے مجھے بڑا لطف آتا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ عبارت پڑھتا ہوں جس میں آپ فرماتے ہیں کہ سینکڑوں ہزاروں مولوی میرے خلاف اکٹھے ہو گئے اور ہر طرف سے شورش بر پا ہوگئی تو گو اس وقت اس زمانہ کی طرح ہمارے مبلغ نہ تھے لیکن ہر ایک احمدی مربی اور مبلغ تھا.جو اپنے نیک نمونہ کی وجہ سے مجسم تبلیغ تھا.پس ہماری جماعت کے ہر ایک فردکو اپنے اندر صحابہ کا سا ایمان اور یقین پیدا کرنا چاہیئے اور نیکی اور تقویٰ کی زندہ تصویر ہونا چاہیئے.پھر اس کے دل میں ہمدردی اور غم خواری ہو.اگر اس کو یہ یقین ہو کہ ہر وہ شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتا وہ اللہ تعالیٰ کے قہر کے نیچے اپنی گردن رکھ رہا ہے.اگر آپ چاہتے ہوں کہ وہ خدائی قہر سے بچ جائے اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ خدا کے غضب کے نیچے نہ آئے تو آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کریں.اور آپ کے دل کو اطمینان نہ ہو اور آپ اپنے گھروں میں آرام سے نہ بیٹھیں کیونکہ آپ کو نظر آ رہا ہے کہ یہ لوگ کدھر جارہے ہیں اور ہماری محبت اور ہمارے دل میں جو ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی مددکو آئیں اور ان کو ڈوبنے سے بچائیں کیونکہ وہ ڈوب رہے ہیں.اور ان کو جہنم کی آگ سے بچائیں کیونکہ ان کے اعمال ان کو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں ایک اور ہدایت بھی فرمائی ہے.وہ میں دوستوں کے سامنے جو دو تین فقرے ہیں پڑھ کر سنا دیتا ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ تبلیغ تو کرنی ہے لیکن یہ یاد رکھو پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ.اور جنگ کرنا اس سلسلہ کے خلاف ہے.نرمی سے کام لو اور اس سلسلہ کی سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو یہ میری نصیحت ہے اس کو یا درکھو.اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے“.
تاریخ احمدیت.جلد 23 20 سال 1965ء تو پاک باطنی اور نیک چلنی سب سے بڑا ذریعہ ہے تبلیغ کا اب ہر ایک کو ہم میں سے نمونہ بننا چاہیئے.اس کو ایسا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ جب کوئی اس سے دس منٹ بھی بات کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہے اگر اس کے عقاید میں تبدیلی نہیں آئی تو وہ یہ نہ خیال کرے کہ یہ غلط باتیں مجھے کہہ رہے ہیں.کبھی وہ یہ خیال نہ کرے کہ میری ہمدردی کے بغیر یہ باتیں کہی جارہی ہیں.اس کو یہ یقین ہو کہ جو بات یہ کہہ رہے ہیں وہ میری ہمدردی کے لئے اور میری بھلائی کے لئے ہی کہہ رہے ہیں.پھر آپ سے اس کا تعلق ہو جائے گا.وہ ابتداء ہو گی اس کو راہ راست پر لانے کی اور نتائج کے لئے ہر وقت دعا گور رہنا چاہیئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی توفیق دے.ساٹھ کے قریب یہاں مشورے دیئے گئے تھے وہ میں نے نوٹ کرائے ہیں.ہر ایک پر تنقید کا یہ وقت نہیں ہے.میں نے جناب صدر صاحب سے یہ کہا تھا کہ جس وقت آپ چاہیں گے میں بیٹھ جاؤں گا.لیکن میں آپ کو تسلی دلاتا ہوں کہ شوری کے بعد صدر انجمن احمد یہ اجلاس کرتی چلی جائے گی جب تک کہ تمام باتوں پر غور کر کے وہ کسی نتیجہ تک نہ پہنچے.بجٹ تحریک جدید پر بحث کے دوران نظارت اصلاح وارشاد سے متعلق بھی کئی امور موضوع بحث بنے جن کی وضاحت ناظر اصلاح وارشاد مولانا جلال الدین صاحب شمس نے فرمائی.مجلس شوری کی سفارشات کے تعلق میں حضرت مصلح موعود نے جو فیصلہ جات فرمائے ان میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے.۱.۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کی تاریخیں، رمضان المبارک کے باعث ۱۹.۲۰.۲۱ دسمبر کر دی جائیں.۲ - روز نامہ الفضل کے خطبہ نمبر میں سلسلہ کی ضروری تحریکات اور اہم خبریں بھی درج کی جایا کریں اور انتظامیہ کی طرف سے یہ کوشش کی جائے کہ ہر جماعت میں الفضل کا خطبہ نمبر ضرور جائے جو جماعتیں اس بوجھ کی متحمل نہ ہو سکیں ان کو مفت یا رعایتی قیمت پر بھجوا دیا جائے بہر حال کوئی ایسی جماعت نہ رہے جہاں الفضل کا خطبہ نمبر نہ جاتا ہو.۳.اشاعت لٹریچر کی مد میں دس ہزار روپیہ کا اضافہ کیا جائے.۴.آئندہ جو زیادتی بجٹ آمد میں ہو اس کا بیشتر حصہ اصلاح وارشاد میں اس طور پر خرچ کیا جائے کہ اس میں جامعہ احمدیہ ، مہمان خانہ اور متعلقہ لٹریچر بھی شامل ہو.ممبران شوری نے اتفاق رائے سے صدر انجمن احمدیہ پاکستان تحریک جدید اور وقف جدید کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 21 حسب ذیل بجٹوں کی بغرض منظوری سفارش کی جسے حضرت مصلح موعود نے منظور فرمالیا.بجٹ صدرانجمن احمد یہ پاکستان میزان کل آمد /۳۴٫۲۴۰٫۲۵۳ روپے میزان کل خرچ /۳۴٫۲۴۰٫۲۵۳ روپے بجٹ تحریک جدید آمد کا بجٹ ۳۶,۲۲۲۹۰ روپے سال 1965ء خرچ کا بجٹ ۳۵,۹۱۹۲۰ روپے بجٹ وقف جدید بجٹ آمد و خرچ ۱,۷۰,۰۰۰ (ایک لاکھ ستر ہزار ) حضرت مصلح موعود کی صحت سے متعلق رپورٹ گذشتہ سالوں کے دستور کے مطابق اس مشاورت کے اختتام پر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے حضرت مصلح موعود کی صحت سے متعلق حسب ذیل رپورٹ پیش فرمائی:.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھو الناصر گذشته سال ماه مارچ سے ماہ جون تک حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طبیعت زیادہ خراب رہی جو ہمارے لئے باعث تشویش تھی چنانچہ جون کے آخر میں لاہور کے دو ماہر ڈاکٹر ، کراچی سے ڈاکٹر ذکی الحسن حضور کے معائنہ کے لئے بلوائے گئے اور انہوں نے معائنہ کے بعد کچھ علاج ٹیکے وغیرہ تجویز کئے.اس علاج کے کچھ عرصہ بعد اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور حضور کی صحت جو گر رہی تھی سنبھل گئی.چنانچہ ماہ اگست میں جب ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب کراچی سے حضور کو دیکھنے آئے تو انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ طبیعت پہلے سے بہتر ہے.ماہ اگست میں خاکسار نے ایک رسالہ میں پڑھا کہ رومانیہ میں ایک بہت بڑی انسٹی ٹیوٹ (INSTITUTE) میں ایک دوا تجربہ کے بعد تحقیق ہوئی ہے جس میں حضور کی بیماری کے مریضوں کو بھی بہت فائدہ ہوا ہے چنانچہ خاکسار نے اس دوا کے متعلق کتاب
تاریخ احمدیت.جلد 23 22 سال 1965ء فوری طور پر منگوا کر اس کا مطالعہ کیا اور اس دوا کی موجد پر وفیسر ڈاکٹر اینا آسلان کو بھی حضور کی بیماری کی تفصیل لکھ کر ان سے مشورہ طلب کیا.پروفیسر آسلان صاحبہ کا جواب اکتوبر میں خاکسار کو ملا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ حضور کی بیماری کے بہت سے مریضوں کا علاج ان کی انسٹی ٹیوٹ میں کیا گیا ہے اور ان کو بہت فائدہ ہوا ہے مگر ساتھ ہی انہوں نے لکھا کہ یہ علاج بہت لمبے عرصے تک جاری رکھنا ضروری ہے تبھی اس کا فائدہ ہو سکتا ہے چنانچہ یہ دوا سوئٹزر لینڈ سے مکرم ومحترم مشتاق احمد صاحب باجوہ کے ذریعہ منگوائی گئی اور اکتوبر میں اس کے ٹیکے حضور کو شروع ہوئے اس دوا کے ٹیکے ہفتہ میں تین بار چار ہفتہ تک ہوتے ہیں پھر دس دن کا وقفہ کر کے دوبارہ ٹیکے کئے جاتے ہیں.اس طرح اب تک حضور کو اس دوا کے ٹیکوں کے پانچ کورس مکمل ہو گئے ہیں اس اثناء میں ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب تین بار حضور کو دیکھنے آئے ہیں اور ہر معائنہ کے بعد ان کی تحریری رپورٹ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے حضور کی طبیعت بہتر ہورہی ہے.جیسا کہ خاکسار نے پہلے عرض کیا ہے پروفیسر آسلان کے خیال اور تجربہ کے مطابق یہ دوا لمبے عرصہ تک استعمال کرنی ضروری ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ حضور کی بیماری لمبی ہو گئی ہے.ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب کی رپورٹ کے علاوہ بھی وہ افراد جو با قاعدہ حضور کو ملتے اور دیکھتے ہیں ان کا بھی یہ تاثر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور کی کئی علامات بیماری میں پہلے کی نسبت کمی ہے اور طبیعت بتدریج بہتر ہو رہی ہے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور احسان ہے کہ اس نے ہماری تضرعات کو سنا اور حضور کی بیماری میں بتدریج کمی کر کے شفا کی طرف رخ پھیر دیا مگر یہ بہتری ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور جہاں مسلسل علاج کی ضرورت ہے جیسا کہ ایک مومن پر فرض ہے کہ وہ تدبیر مکمل کرے وہاں اس سے بڑھ کر یہ فرض ہے کہ وہ بھر وسہ صرف اپنے قادر خدا پر رکھے کہ وہی ہے جو کوششوں کے بہتر نتائج پیدا فرماتا ہے.پس اے میرے بزرگو اور میرے بھائیواب حالات ایسے معلوم ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت کے ساتھ رجوع کرنا چاہتا ہے اور یہی دن ہیں جبکہ ہمیں اپنی دعاؤں کو تیز سے تیز تر کر دینا چاہئیے اور اٹھتے بیٹھتے ہر گھڑی اپنے دلوں کو گریہ وزاری کے ساتھ اپنے رب کے حضور پیش کر دینا چاہئیے تا اس کی رحمت جواب بظا ہر حرکت میں آچکی ہے پورے زور کے ساتھ ظاہر ہو اور ہمارے پیارے امام کو جلد ہی کامل شفا عطا ہو اور فعال اور بہت لمبی زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے.آمین یا رب العالمین
تاریخ احمدیت.جلد 23 23 سال 1965ء حضرت اقدس کا ایک رؤیا اپنی بیماری اور پھر شفا کے متعلق ہے...اس رویا سے صاف ظاہر ہے کہ حضور کی بیماری کا علاج دواؤں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے ہو گا.حضور کا یہ رویا الفضل ۲۵ را گست ۱۹۶۴ء میں بالتفصیل درج ہے...اس سے صاف ظاہر ہے کہ احباب جماعت پر حضرت اقدس کی کامل شفایابی کے لئے دعا کی کتنی بھاری ذمہ داری عاید ہوتی ہے.پس خاکسار یہ درخواست کرتا ہے کہ مجلس شوری کے نمائندگان جو در حقیقت تمام جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں وہ اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں اور اپنی جماعتوں میں واپس جا کر خاص اجتماعی دعاؤں اور انفرادی دعاؤں کا اہتمام کریں اور التزام کے ساتھ اس کو جاری رکھیں تا ہما را آسمانی آقا جو اس وقت ہماری طرف رجوع برحمت ہوا ہے ہماری انتہائی گریہ وزاری کو دیکھ کر پورے جوش کے ساتھ اپنی رحمت اور فضل نازل فرمائے اور ہمارے پیارے امام اور محسن کو کامل و عاجل شفا عطا فرمادے.آمین اللهم آمین.خاکسار یہ بھی عرض کرتا ہے کہ جس طرح رویا میں حضور کو دکھایا گیا ہے جماعتیں اسی رنگ میں دعا کا اہتمام کریں اور رؤیا والے الفاظ میں دعا کریں کیونکہ یہ بھی سنت اللہ ہے کہ جب وہ اپنے کسی برگزیدہ کو رویا میں دعا کے الفاظ بتاتا ہے تو پھر وہ اس دعا کو ضرور شرف قبولیت عطا فرماتا ہے وہ یقیناً اپنے بندوں پر رحم فرماتا ہے کہ وہ ہے ہی ارحم الراحمین مگر سوال یہ ہے کہ بندے بھی اپنے آپ کو اس کی رحمت کا اہل بنائیں اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام تعلیم اور نصائح پر پوری طرح کاربند ہونے کی کوشش کریں.آپس میں محبت اور الفت کا سلوک کریں نہ کہ دوسرے کی عیب چینی اور غیبت اور بدگمانی اور بہتان تراشی کرنے والے ہوں اللہ تعالیٰ ہمیں صراط مستقیم پر قائم رکھے اور ہماری دعاؤں کو قبول فرما کر ہمارے محسن امام کو کامل شفا اور فعال زندگی عطا فرمائے.آمین اللهم آمین.“ شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے اجتماعی پُر سوز دعا کرانے سے قبل حسب ذیل الوداعی تقریر فرمائی:.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے لئے یہ معیار مقرر فرمایا ہے کہ اسلام کی زندگی ہم سے ایک فدیہ چاہتی ہے اور وہ کیا ہے؟ ہمارا اس کی راہ میں مرنا.اور فرمایا سے در ره عشق محمدؐ این سرو جانم رود ایس تمنا ایں دعا این در دلم عزم صمیم
تاریخ احمدیت.جلد 23 24 سال 1965ء تمام خیر و برکت حضور نے اسی بات میں مجھی اور اپنی زندگی اس بات میں گزاری کہ اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تمام دنیا میں پھیلایا جائے اور اسی لئے آپ نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد ہم سے لیا.اور حضور کو جو تمنا تھی اسلام پھیلنے کی اس کے لئے حضور نے اپنی زندگی میں تحریر، تصنیف، دعا، مجاہدے وغیرہ سب کچھ کیا لیکن حضور دو دعائیں ہمیشہ کے لئے تا قیامت چھوڑ گئے.ایک دعا منفی ہے اور ایک دعا مثبت منفی دعا یہ ہے.اے خدا ہرگز مکن شاد آں دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست کوئی ہو جسے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے پھیلانے کی خواہش نہیں ہے اور اسے اس بات کا درد نہیں ہے آپ کی دائمی یہ بددعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے شاد کام نہ کرے.اس کے برعکس آپ کی ایک دائمی دعا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور تا قیامت.کریما صد کرم کن بر کسے کو ناصر دین است بلائے او بگرداں گر گہے آفت شود پیدا اے خدا سینکڑوں رحمتیں نازل کر اس شخص پر جو دین کی امداد کر نے والا ہے.اور اگر وہ کبھی مشکل میں پھنس جائے تو تو اپنے فضل سے اس کی مشکل دور کرنا.یہ دونوں دعائیں متقابل ہیں.اللہ تعالیٰ اس پہلی بددعا سے ہم میں سے ہر ایک کو محفوظ رکھے اور اس دوسری دعا سے بہرہ ور کرے اور ہمارے دلوں میں اور ہماری نسلوں کے دلوں میں اسلام کا درد ہو اور ہماری زندگی اسلام کے درد میں اس طرح بسر ہو.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے تھے اور ان کا منشاء تھا.اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ہے.جیسے حضور چاہتے تھے خدا تعالیٰ ہمیں ویسا ہی بنادے“.اس تاریخی مجلس مشاورت میں ۵۶۸ نمائندگان جماعت نے شرکت فرمائی.شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی لسانی تحقیق پر اخبار پاکستان ٹائمنز کا خراج تحسین برصغیر کے ممتاز ماہر لسانیات شیخ محمد احمد صاحب مظہر (امیر جماعت ضلع لائل پور ) ایڈووکیٹ ہائیکورٹ مغربی پاکستان برسوں سے جو لسانی تحقیق فرمارہے تھے اس کا پہلا شیر میں ثمر دسمبر ۱۹۶۳ء میں ایک مستقل انگریزی تصنیف کی شکل میں نمودار ہوا جس کا نام تھا ARABIC THE SOURCE OF ALL THE LANGUAGES.یہ کتاب مکرم سید داؤ د احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 25 سال 1965ء ایڈیٹر رسالہ ریویو آف ریلیجنز ربوہ کی خصوصی توجہ سے اشاعت پذیر ہوئی.محقق عیسائیت جناب شیخ عبدالقادر صاحب نے مطلوبہ لٹریچر کی فراہمی سے فاضل مؤلف کی معاونت فرمائی اور رانا منظور احمد صاحب قائد خدام الاحمدیہ سرگودھا ڈویژن نے مستورہ ٹائپ کیا.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس انکشاف کو سامنے رکھ کر زبانوں پر تحقیق کی گئی تھی کہ عربی ” ام الالسنہ" ہے.یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے.مکرم شیخ صاحب نے اس ارشاد کو سامنے رکھ کر دنیا کی ۵۰ زبانوں پر تحقیق کر کے ثابت کیا کہ وہ عربی زبان سے ہی نکلی ہیں.۲۸مارچ ۱۹۶۵ء کو پاکستان کے مقتدر اور کثیر الاشاعت انگریزی اخبار پاکستان ٹائمنز نے اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر کو ز بر دست خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ لکھا:."ARABIC- The Source of All the Languages"- by Mohammad Ahmad Mazhar, Advocate, Lyallpur.A Review of Religions Publications; Price Rs.35/-; Pages 316 "According to the author, this book is the outcome of sixteen years of patient research in the field of origin of languages.He has briefly, discussed the onomatopoeic, the interjectional, the gesture theories of the origin and with the help of apt quotations from eminent philologists like Herder, Maxmuller, Jesperson etc., proved that these theories carry us nowhere.Having come to a dead end, some of these philologists called the languages illogical and unscientific.Drawing upon the Bible, the Quran and the Encyclopaedia Brittanica, the author, however, joined some others in voicing the theory that God Himself taught a language to Man and that language is the mother of all languges.The commonly held theory is that there are three families of languages - the Indo-European, the Semitic, the Ural Turanian.
*1965J 26 تاریخ احمدیت.جلد 23 Sanskrit has been proved to be the proto-Aryan.For some time, it was being proffered as probably the mother of all due to its grammatical perfection and antiquity.Having failed to prove their theory, the Orientalists and Philologers did not examine the possibility that in fact the three representative groups may really have emanated from the same source and in this way the claim of Arabic was at first by-passed and later not considered at all.Their failure, however, led them, particularly Maxmuller, to think of the monogenesis theory which, he hoped, may one day be proved.The author then dwells upon the following well-known verses of the Quran:- "And among His signs is the creation of the heavens and the earth and the diversity of your tongues and colours.In that, surely are signs for those who possess knowledge." (30:23) This verse has been taken to be a prophecy that behind the diversity of languages will be found a common origin."And God taught Adam all names" (2:32)."The Beneficent (Rahman) taught the Quran.He created man, taught him the mode of expression (Bayan)"- (55:2-5)."This is Arabic tongue, plain and clear"-(16: 104)."These are the verses of the Book that makes things manifest"-(15: 2).It has been argued that these verses put forth the claim of Arabic as the original language of mankind.
1965J 27 تاریخ احمدیت.جلد 23 This leads the author on to consider the peculiarities of Arabic and its perfection (as opposed to the artificialities of Sanskrit and other languages).Its triliteral roots, which number about 25,000 against only 800|2,000 of Sanskrit, its complete independence of prefixes and suffixes, its families of words covering a gradual evolution of meanings, its definite spellings, its brevity, the philosophy and reason behind words etc.It combines economy of words with vastness of meanings.It has very few loan words.In the opinion of the author the homonyms in the other languages are due to the inability of other languages to retain the origional delicate shade of pronunciation of the Arabic alphabet e.g., of -- or 3 - ; - or of the six delicate words 1-2-8 -0- , - 6.He has illustrated how Chinese, Sanskrit, Hindi, Persian, Latin, Italian, Greek, Russian homonyms can be traced back to Arabic originals with the restoration of the appropriate letters.He enumerates what he calls the disease of words in philological terms like Aphesis, Apherisis, Elision, Prosthesis, Metathesis, sound changes etc.He points out that Arabic roots are free from all these diseases of subtraction, addition, suppression, inter-change etc., of letters.Etymology means the origional form and meaning of a word.To trace a word back to its origin requires application of definite laws, which the author illustrates and develops through
سال 1965ء 28 تاریخ احمدیت.جلد 23 comparison of numerous roots of the major languages with those of Arabic to conclude that since the Arabic roots are traceable in all the other languages it must be held to be the Mother of all.According to Mr.Mazhar, the author, the missing link between the Aryan and Semitic languages are the six delicate words - -0- 9 - which were long lost to the Aryan languages but which if restored appropriately to the biliteral roots of those languages would restore the Arabic triliteral root.The second missing link are the letters K, G, Y and S which are to be re-affixed for the same purpose.- A brief summary of the Rules and Formulas and of the steps to be taken to arrive at the original root of Arabic is given at pages 127-128.The third part of the Book (pages 129-316) is a dictionary compiled by the author to trace original Arabic roots from English, French, German, Spanish, Latin, Italian, Greek, Russian, Persian, Aryan roots, Sanskrit, Hindi and even Chinese.In the beginning are given guiding instructions for consultation of this dictionary.The formulas evolved by the author are invariably and sufficiently illustrated by telling examples.The book forms a fascinating reading providing surprises at every page.A considerably long period of intensive comparative study of the major languages and philological treatises have gone into the compilation of this book.It turns a seemingly impossible task
سال 1965ء 29 تاریخ احمدیت.جلد 23 into an easy mathematical one.The philological part covers only a portion.The author has drawn inspiration from Minanur Rehman, a book written by the Founder of the Ahmadiyya Movement, holding the claim of Arabic to be the Ummul Alsena.The broad outlines of that book have been filled in by the present author who has quoted amply from the earlier book.A book of such a scholarly nature could well have been spared a devotional introduction and consclusions to keep it out of the arena of controversy and to be judged purely on its scientific merits.It has been asserted that the author of Minanur Rehman was the first ever to have divined that Arabic was the very first language.Some Philologists like Maxmuller, however, preceded him with the monogenesis theory.The question of the first propounder of the Arabic theory remains open to research and confirmation.The claim of Arabic to be proto-semitic has been established for quite some time as the article on Arabic in the Encyclopaedia and some other books would show.There is no discussion of this stage of recognition of Arabic in the book under review.The emphasis of both the writers is on the claim of the Quran to be Quoting this very claim of the Quran, Alfred Guillaume, the author of the book entitled Islam [and the compiler of the earliest biography of the Prophet by Ibn Ishaq] has cast reflections on the Arabic language by enumerating a few words from the Quran itself which, according to him, are not of
تاریخ احمدیت.جلد 23 30 سال 1965ء Arabic origin.The philological weakness of his objection requires exposition at the hands of scholars like the author of this book.The book is at once a fulfilment and a challenge.One wishes the Islamic Research Institute, Karachi, the compilers of the Urdu Encyclopaedia of Islam and the Oriental College, Lahore, to pick up the thread and weave the entire web." MAQBOOL ELAHI.13 ترجمہ مصنف کا بیان ہے کہ یہ کتاب زبانوں کے آغاز کے مسئلہ کے متعلق مصنف کی سولہ سالہ مسلسل تحقیق کا نتیجہ ہے.آغاز زبان کے متعلق جو مختلف نظریات ہیں.مصنف نے ان پر مختصر بحث کی ہے.اور ماہرین لسانیات مثلاً ہر ڈر، میکس ملر ، جفرسن وغیرہ کی تصانیف سے برجستہ حوالہ جات دے کر ثابت کیا ہے کہ مذکورہ نظریات ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچاتے اس راستے کو بند پا کر بعض علمائے السنہ نے زبانوں کو منطق اور حکمت سے عاری قرار دے دیا.بائیبل ، قرآن مجید اور انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا کے حوالہ جات پیش کر کے مصنف نے ان علمائے السنہ سے اتفاق کا اظہار کیا ہے جن کے نزدیک خدا تعالیٰ نے خود انسان کو زبان سکھائی اور وہی زبان تمام زبانوں کی ماں ہے.عام نظریہ یہ ہے کہ زبانوں کے تین بڑے خاندان ہیں یعنی انڈو یورپین ، سامی اور تو رانی.یہ ثابت ہو چکا ہے کہ سنسکرت آرین زبانوں میں مقدم تر ہے.سنسکرت کی قدامت اور اس کی گرامر کے تر مکمل ہونے کی وجہ سے ایک عرصہ تک یہ ادعا کیا جاتا رہا کہ غالباً سنسکرت تمام زبانوں کی ماں ہے.لیکن جب یہ نظر یہ ثابت نہ ہو سکا تو مستشرقین اور علمائے السنہ نے اس بات پر غور نہ کیا کہ زبانوں کے مندرجہ بالا تینوں خاندانوں کا ایک ہی منبع سے نکلنا ممکن ہے.اس طریق پر شروع میں تو عربی کی طرف سے پہلو تہی اختیار کی گئی اور زاں بعد عربی کے دعوئی پر غور ہی نہیں کیا گیا تاہم اس نا کامی کی وجہ سے بعض علمائے السنہ خصوصاً میکس ملر اس بات کے قائل ہو گئے کہ تمام زبانوں کا منبع ایک ہی ہونا چاہیئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ کسی دن یہ بات ثابت ہو جائے گی.اس کے بعد مصنف نے قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیات سے استدلال کیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 31 سال 1965ء اور اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے.جو لوگ علم رکھتے ہیں ان کے لئے اس میں نشانیاں ہیں“.( ۲۳:۳۰) ظاہر کیا گیا ہے کہ اس آیت میں ایک پیشگوئی ہے کہ زبانوں کے اختلاف کے پیچھے ایک مشترک منبع متحقق ہو جائے گا.وو اور خدا تعالیٰ نے آدم کو تمام اسماء سکھائے“.(۳۲:۲) رحمن خدا نے قرآن سکھایا.اس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا“.(۲:۵۵-۵) یہ عربی زبان ہے جو صاف اور واضح ہے.“ (۱۰۴:۱۱) یہ کتاب کی آیات ہیں جو اپنے بیان میں واضح ہیں“.(۲:۱۵) یہ بحث کی گئی ہے کہ ان آیات میں یہ دعوئی موجود ہے کہ زبان عربی بنی نوع انسان کی پہلی زبان ہے.اس کے بعد مصنف نے عربی زبان کی خصوصیات اور اس کی اکملیت پر بحث کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ بمقابلہ عربی سنسکرت اور دوسری زبانوں میں تصنع اور بناوٹ ہے عربی کے روٹوں کا سہ حرفی ہونا سنسکرت کے ۸۰۰ یا ۲۰۰۰ مادوں کے مقابلہ میں عربی کے تقریباً پچیس ہزار مادے.عربی زبان کا سابقوں اور لاحقوں سے بے نیاز ہونا.عربی زبان کے الفاظ کا مختلف خاندانوں میں تقسیم ہونا اور ان میں معانی کا ارتقاء پایا جانا.عربی الفاظ کا وجہ تسمیہ پر مبنی ہونا.عربی کا تھوڑے الفاظ میں کثیر معانی کو ادا کرنا اس میں دخیل الفاظ کا نہایت قلیل ہونا مصنف نے ان امور پر بحث کی ہے.تجنیس خطی کی وجہ سے دوسری زبانوں کے اندر عربی زبان کے کئی الفاظ مخلوط ہو کر بعض دفعہ ایک لفظ بن گیا ہے.مصنف کی رائے میں اس اختلاط کی وجہ یہ ہے کہ عربی حروف تہجی کے باریک فرق کو غیر زبانیں ادا نہیں کرسکتیں مثلاً ص.ش.ث کا فرق یا ذ.ز.ض.ظ وغیرہ کا امتیاز.علاوہ ازیں چھ نازک حروف یعنی.ح.ع.ه.و.ی کا امتیاز بھی غیر زبانوں میں قائم نہ رہ سکا.مصنف نے مثالیں دے کر واضح کیا ہے کہ چینی زبان سنسکرت، ہندی، فارسی ، لاطینی ، اطالوی، یونانی، روسی زبان کے مخلوط الفاظ کا سراغ عربی زبان کے جدا گانہ ماخذوں تک پہنچایا جا سکتا ہے بشر طیکہ صحیح حروف بحال کئے جائیں.اس کے بعد مصنف نے غیر زبانوں کے الفاظ کے امراض یعنی عیوب پر علم اللسان کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 32 سال 1965ء اصطلاحات کے ذریعہ سے بحث کی ہے یعنی حروف کا گر جانا.حروف کا زیادہ ہو جانا.حروف کا مقلوب ہو جانا.حروف کا بدل جانا وغیرہ.پھر مصنف نے واضح کیا ہے کہ عربی زبان کے الفاظ ان امراض سے بالکل بری ہیں.اور ان میں حروف کی کمی بیشی ، حذف اور ابدال وغیرہ نہیں پائے جاتے.کسی لفظ کے ماخذ سے یہ مراد ہے کہ ابتدائی حالت میں اس کی کیا شکل اور کیا معنے تھے کسی لفظ کا ماخذ دریافت کرنے کے لئے معین قوانین بروئے کار لانے پڑتے ہیں.اس امر کی توضیح کے لئے مصنف نے بڑی بڑی زبانوں کے کثیر روٹوں کی مثالیں دے کر عربی تک پہنچایا ہے اور یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ عربی زبان کے روٹوں کا کھوج باقی تمام زبانوں میں ملتا ہے اس لئے لازماً عربی زبان باقی تمام زبانوں کی ماں ہے.مظہر صاحب کے نزدیک آرین اور سامی زبانوں کے درمیان گم شدہ کڑی چھ نازک حروف ہیں یعنی ا.ح.ع.ه.و.ی اور عرصہ دراز سے آرین زبانیں ان چھ حروف کو گم کر چکی ہیں.لیکن اگر صحیح طریق پر یہ حروف آرین زبانوں کے دو حرفی روٹوں پر بحال کئے جائیں تو عربی زبان کے سہ حرفی روٹ بحال ہو جائیں گے.دوسری گمشدہ کڑی حروف Y, G,K اور S ہیں جو اسی مقصد کے لئے بحال کرنے پڑتے ہیں.جو قواعد اور فارمولے عربی زبان کے روٹوں کا سراغ لگانے کے لئے مصنف نے دریافت کئے ہیں ان کا خلاصہ صفحہ ۱۲۷، ۱۲۸ پر درج ہے.کتاب کا تیسرا حصہ یعنی ۱۲۹ تا ۳۱۶ وہ ڈکشنری ہے جو مصنف نے مندرجہ ذیل زبانوں کے الفاظ کا سراغ عربی مآخذوں تک پہنچانے کے لئے مرتب کی ہے یعنی انگریزی، فرانسیسی، جرمن، سپینش ، لاطینی، اطالوی، یونانی، روسی، فارسی ، آرین روٹ ہنسکرت، ہندی نیز چینی زبان.اس ڈکشنری کے شروع میں قارئین کی راہبری کے لئے ہدایات درج ہیں.جو فارمولے مصنف نے دریافت کئے ہیں ان کی وضاحت برجستہ اور مؤثر مثالوں کے ذریعہ سے بخوبی کی گئی ہے.کتاب کا مطالعہ نہایت دلکش ہے اور اس کا ہر صفحہ حیرت انگیز ہے.اس کتاب کی تالیف دوامور پر بنی ہے یعنی لمبے عرصہ تک بڑی بڑی زبانوں کا موازنہ اور علم السان کی کتابوں کا گہرا مطالعہ.جو بات بظاہر ناممکن تھی اس کتاب کے ذریعہ سے آسان اور ایک حسابی صداقت ہو گئی ہے.کتاب کا لسانیاتی حصہ جزو ا دیا گیا ہے.مصنف کا سر چشمہ فیض کتاب ” من الرحمن“ ہے جو تحریک
تاریخ احمدیت.جلد 23 33 سال 1965ء احمدیت کے بانی کی تصنیف ہے.جس میں عربی زبان کے اتم الالسنہ ہونے کا دعویٰ پیش کیا گیا ہے.منن الرحمن کے چیدہ چیدہ حصے مصنف نے کتاب میں تحریر کئے ہیں اور من الرحمن کے متعدد حوالہ جات درج کئے ہیں.ایسی فاضلانہ کتاب سے ایک پُر اخلاص تعارف نامہ اور اس کے نتائج کو حذف کیا جا سکتا تھا تا کہ بلا حیل و حجت کتاب کی خوبیاں سائنٹفک اصول پر پر کھی جاتیں.کتاب میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ سب سے پہلے من الرحمن کے مصنف نے عربی زبان کے اولین زبان ہونے کا نظریہ پیش کیا تاہم بعض علمائے السنہ مثلاً میکس ملر اس سے پیشتر ایک زبان کا نظریہ اختیار کر چکے تھے.ہاں یہ امر کہ عربی زبان کے متعلق جو نظریہ پیش کیا گیا ہے اس کا بانی کون تھا قابل تحقیق و تصدیق ہے.انسائیکلو پیڈیا میں ایک آرٹیکل موجود ہے کہ عربی زبان سامی زبانوں میں قدیم ترین ہے.بعض اور کتابیں بھی اس کی مظہر ہیں.کتاب زیر نظر میں عربی کے متعلق سامی زبانوں میں قدیم ترین ہونے کی بحث نہیں کی گئی.دونوں مصنفوں کا زور اس بات پر ہے کہ قرآن شریف کی زبان عربی مبین ہے.قرآن شریف کے اس دعویٰ کے متعلق الفریڈ گلیم نے اپنی کتاب موسومہ ”اسلام“ میں عربی زبان پر اعتراضات کئے ہیں اور قرآن شریف کے چند الفاظ کو غیر عربی الفاظ ظاہر کیا ہے.الفریڈ کے اعتراض کے اندر لسانیاتی نقطۂ نظر سے جو کمزوری ہے اس کی تردید فاضل مصنف جیسے اشخاص کی طرف سے تحریر ہونی مناسب ہے.کتاب زیر نظر نے ایک مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے نیز یہ کتاب ایک کھلا چیلنج ہے.ہم چاہتے ہیں کہ اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کراچی، اُردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے مؤلفین اور اور مینٹل کالج لاہور کتاب زیر نظر کا سر رشتہ تحقیق ہاتھ میں لیں اور اس کام کو مکمل کریں.واقعہ صلیب پر برطانوی ڈاکٹر کی جدید تحقیق اور اس کے خلاف رد عمل اس سال برطانیہ میں ایک عجیب و غریب واقعہ ہوا جس نے ملک بھر کے مذہبی حلقوں میں ایک تہلکہ سا مچا دیا.یہ واقعہ اور اس کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہونے والا ہنگامہ اس لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور سلسلہ احمدیہ کی حقانیت کے ایک زبر دست ثبوت کی حیثیت رکھتا ہے.ہوا یوں کہ وہاں کے ایک نامی گرامی طبی ماہر نے امراض غشی کے تعلق میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 34 سال 1965ء اپنے وسیع تجربہ اور جدید تحقیق کی بناء پر اس حتمی اور یقینی رائے کا اظہار کیا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ ان پر اس وقت محض غشی کی حالت طاری ہو گئی تھی جو موت کے مشابہ تھی.فی الاصل وہ زندہ ہی تھے اور زندہ حالت میں ہی صلیب پر سے اتارے گئے تھے.انہوں نے اپنی اس رائے اور نظریہ کوصرف اپنے اور اپنے احباب تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس پر مشتمل ایک مضمون بھی وہاں کے مشہور اخبار سنڈے ٹائمز میں شائع کرا دیا.مضمون کا شائع ہونا تھا کہ ملک کے مذہبی حلقوں میں ایک شور پڑ گیا.اس کی تردید اور تائید میں مضامین اور بیانات شائع ہونے شروع ہو گئے.اس ہنگامہ کی صدائے بازگشت شمالی امریکہ بھی پہنچی.چنانچہ اس مضمون اور اس کے شدید رد عمل پر کینیڈا کے اخبار ٹورانٹو ڈیلی سٹار (TORONTO DAILY STAR) میں امین سپریگٹ (ALLEN SPRAGGETT) نامی کالم نویس کا ایک تفصیلی نوٹ شائع ہوا جس میں انہوں نے اس برطانوی ڈاکٹر کے نظریہ پر روشنی ڈالنے کے علاوہ اس امر کا بھی ذکر کیا کہ ابتدائی زمانہ کا ایک مسیحی فرقہ بھی اسی نظریہ کا حامل تھا کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.پھر انہوں نے یہ بھی لکھا کہ یہ نظریہ اسلام کے بھی عین مطابق ہے کیونکہ قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صلیب پر مسیح علیہ السلام کی موت واقع نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کی حالت اس وقت ایک وفات یافتہ انسان کی سی ہوگئی تھی.امین سپر یکٹ کا یہ نوٹ بہت دلچسپ اور خاص اہمیت کا حامل ہے.اس کا اردو تر جمہ ذیل میں درج ہے.وہ لکھتے ہیں:.کیا فی الواقعہ صلیب پر مسح کی موت واقع ہو گئی تھی؟ اس سوال کے جواب میں ایک برطانوی ڈاکٹر نے اپنا یہ نظریہ شائع کر کے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا تھا اس لئے وہ مرکر جی نہیں اٹھا.برطانیہ میں غیظ و غضب کی ایک لہر دوڑا دی ہے.اس مسئلہ پر سینٹ تھامس ہسپتال لندن میں امراض غشی کے خصوصی ماہر ڈاکٹر ہے.جی.بورن (DR.J.G.BOURN) نے حال ہی میں وہاں کے اخبار ”سنڈے ٹائمز میں اپنے خیالات پیش کئے ہیں.ڈاکٹر بورن ایک راسخ العقیدہ عیسائی کے طور پر مشہور ہیں.انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ صلیب پر لٹکنے کے دوران مسیح پر ایک قسم کی غشی طاری ہو گئی تھی اور جب اسے قبر میں رکھا گیا تھا تو وہ مردہ نہیں تھا.انہوں نے اپنے اس نظریہ کی بنیاد غشی کے بعض مریضوں کے گہرے معائنہ اور تجربہ پر رکھی
تاریخ احمدیت.جلد 23 35 سال 1965ء ہے.ان مریضوں پر بعض دواؤں کے ذریعہ بیہوشی طاری کی گئی تھی.ان کا کہنا ہے کہ بعض مریضوں کو سیدھا کھڑا کر کے بیہوش کیا گیا.ان میں سے بعض غشی اور سکتہ کی حالت میں نصف گھنٹہ رہے.بعض کی یہ حالت کئی گھنٹے اور بعض کی ایک یا دو دن تک جاری رہی.اور ایک مریض تو اس حالت میں مسلسل دو ہفتہ رہا تب کہیں جا کر اسے ہوش آیا.مسیح کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر بوزن نے لکھا ہے..ہوسکتا ہے کہ مسیح کی صلیبی موت پر اعتراض کو بے دینی سے تعبیر کیا جائے.لیکن ایسی وجوہ موجود ہیں جن کی بناء پر یہ گمان کیا جا سکتا ہے کہ فی الحقیقت صلیب پر لٹکی ہوئی حالت میں مسیح پر غشی طاری ہوگئی تھی اور یقین یہ کر لیا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی ہے.بعد ازاں ان کی غشی کی وہ حالت دور ہوگئی اور وہ با قاعدہ ہوش میں آگئے.ڈاکٹر بوزن نے اپنے اس نظریہ کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ اپنے اس نظریہ سے میں عیسائیت کو تباہ کرنا نہیں چاہتا بلکہ میرا احساس یہ ہے کہ میرے نظریہ کے نتیجہ میں ان لوگوں کے لئے عیسائیت میں زیادہ کشش پیدا ہو جائے گی جو مسیح کے مرکز جی اٹھنے کی غیر فطری تو جیبہ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں.فی الحقیقت غشی سے متعلق ڈاکٹر بوزن کا یہ نظریہ نیا نہیں ہے بلکہ اس پر قدامت کی چھاپ لگی ہوئی ہے.ابتدائی زمانہ کے مسیحی کلیسیا میں (ڈومیٹسٹس نامی ایک فرقہ تھا جو یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ مرگیا ہے.یہی نظریہ باضابطہ اسلامی عقیدہ کی بھی حیثیت رکھتا ہے.کیونکہ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن مجید میں لکھا ہے ”یہودیوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا اور نہ انہوں نے اسے صلیب دی وہ ان کے لئے ایک ایسے شخص کے مشابہ ہو گیا کہ جسے صلیب دے دی گئی ہو.“ برصغیر پاک و ہند میں مسلمانوں کا ایک فرقہ یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ مسیح واقعہ صلیب کے بعد ہندوستان آیا اور وہاں چالیس سال تک رہا.یہاں تک کہ اس نے وہیں وفات پائی.اس کا مقبرہ جو کشمیر کے شہر سرینگر میں بیان کیا جاتا ہے خانقاہ کی حیثیت رکھتا ہے.جہاں لوگ زیارت کے لئے 166 جاتے ہیں.آگے چل کر ایلین سپریگیٹ نے اس شدید رد عمل کا ذکر کیا جو ڈاکٹر بوزن کے نظریہ کی اشاعت پر برطانیہ میں ظاہر ہوا.چنانچہ اس نظریہ کے خلاف اور اس کے حق میں انہوں نے متعدد پادریوں کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 36 سال 1965ء بیانات درج کئے ہیں.ان میں سے ڈونلڈ گلینز نامی پادری کا بیان بہت دلچسپ ہے.انہوں نے صاف کہا کہ عیسائیت میں مسیح کی صلیبی موت کو بنیادی حیثیت حاصل نہیں ہے.ایک شخص اس کا انکار کر کے بھی عیسائی رہ سکتا ہے چنانچہ ان کے اس بیان کا ذکر کرتے ہوئے ایلین سپریگٹ نے اپنے نوٹ میں لکھا:.کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص عیسائی رہتے ہوئے یہ اعتقاد بھی رکھے کہ صلیب پر مسیح مرا نہیں تھا بلکہ اس پر صرف بے ہوشی طاری ہوئی تھی ؟ اس سوال کے جواب میں بلورسٹریٹ یونائیٹڈ چرچ کے نائب پادری ریورنڈ ڈونلڈ گلینز DR.DONALD GILLIES, ASSISTANT) (MINISTER, BLOOR STREET UNITED CHURCH نے کہا ہے.یقیناً یہ ممکن ہے.کیونکہ ایک عیسائی کا عیسائی رہنے کے لئے مسیح کی صلیبی موت کی مخصوص نوعیت سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں ہے.مسیح کی صلیب تو صرف اس امر کی ایک علامت ہے کہ انسان اپنی موت تک تسلیم ورضا اور اطاعت کا نمونہ پیش کرتا چلا جائے.امریکی رسالہ ”ٹائم“ کا معذرت نامہ 16.امریکی رسالہ ٹائم نے اپنی اشاعت مورخہ ۱۶ اپریل ۱۹۶۵ء میں حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی قرار دیا تھا.یہ ایک دلخراش بات تھی جس کی کوئی سند نہ تھی اور نہ ہی حقائق کے مطابق تھی.سوضروری تھا کہ اس کی تردید کی جاتی.لہذا محترم کریم اللہ صاحب ایڈیٹر ہفت روزہ آزاد نوجوان مدراس بھارت نے رسالہ مذکور کے نام ایک خط ۱۸ راپریل کو لکھا.جس کا اردو ترجمہ اخبار آزاد نوجوان نے مورخہ ۲۳ را پریل ۱۹۶۵ء میں اپنے اداریہ کے ساتھ شائع کیا.کریم اللہ صاحب تحریر کرتے ہیں کہ:.”ہماری تنقید و تبصرہ کامد عالیہ تھا کہ ام المومنین حضرت ہاجرہ کے اعلیٰ مقام کو معاصر ٹائم پر انجیل کی روشنی میں واضح کیا جائے اور بتایا جائے کہ ایسی قابل احترام مستورات کو قرآن کریم کس قدر بلند مرتبه عطا فرماتا ہے اس بحث کے دوران میں ہم نے قرآن کریم کی اس آیت کو اخلاق کا قابل تقلید نمونہ بنا کر پیش کیا تھا:.النَّبِيُّ أولى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُةً أُمَّهُتُهُمْ (الاحزاب:)
تاریخ احمدیت.جلد 23 37 سال 1965ء مومنوں کے نزدیک خدا تعالیٰ کا نبی اپنی جانوں سے زیادہ عزیز ہوتا ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہوتی ہیں.اسرائیلی روایتوں نے بعض پاکدامن اور قابل احترام خواتین کی گستاخی کرنے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی.کسی نے ہاجرہ پر الزام لگایا تو کسی نے مریم صدیقہ علیھا السلام پر بہتان باندھا.قرآن کریم نے ان اسرائیلیوں کو نیک بیویوں کا احترام سکھایا بلکہ اخلاق کا معیار بھی بتایا اور اگر قرآن کریم کا نزول نہ ہوتا تو حضرت مریم صدیقہ کی ذات بہتان عظیم کا ہمیشہ نشانہ بنی رہتی.عیسائی دنیا پر قرآن کریم کا ایک یہ بھی احسان ہے کہ اس نے مریم صدیقہ کو یہ کہہ کر بری فرمایا وبِكُفْرِهِمْ وَقَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيمًا (النساء :۱۵۷) فطرت انسانی کے اخلاقی تقاضے ہی کچھ ایسے ہیں اور مذہبی شائستگی اسی کا نام ہے کہ پیشوایان مذاہب کا احترام کیا جائے.ان کے گھر بار اور اولاد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے.باقی رہے اختلافی مسائل ان پر شرافت کے دائروں میں رہ کر بحث کی جائے اور فریق ثانی کے دلائل پر انصافاً ٹھنڈے دل سے سوچا جائے اور جب حق ثابت ہو جائے تو شریفوں کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ اپنی ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر صداقت کو تسلیم کر لیں.چنانچہ خوشی کی بات ہے کہ رسالہ ”ٹائم“ نے ہمارے خط کو اس نقطہ نظر سے دیکھا اور پھر بذریعہ ہوائی ڈاک اس کا جواب بھی ہمارے نام ارسال کیا.اس جواب کا ترجمہ درج ذیل ہے:.د’ ٹائم بذریعہ ہوائی ڈاک ان کارپوریٹڈ ) ٹائم اینڈ لائف بلڈنگ.راک فیل سنٹر نیویارک ۱۰۰۲۰.جون ۱۹۶۵/۱۵ء.عزیزم مسٹر کریم اللہ ! براہ کرم ہماری معذرت قبول فرمائیے آپ کے خط کا جواب جلدی نہ دیا جا سکا ایک غیر عادتی ( غیر معمولی ) ڈاک کی بھاری مقدار ہماری خط و کتابت میں دیر کا باعث بن گئی.ہماری ۱۶ را پریل والی اشاعت کے رنگین تصاویر والے مذہبی مضمون ” مسلم دنیا کی جدو جہد برائے رواج جدید سے متعلق آپ کے تعریفی کلمات کا شکریہ.ہم یہ جان کر خوش ہوئے کہ آپ نے ہمارے مضمون کے چند بے لاگ تبصروں کو سراہا ہے اور ہمیں اس امر کی بھی مسرت ہے کہ ہماری رپورٹ بابت اسلام اور آپ کی اس پر گرفت کے سلسلہ میں آپ سے خط و کتابت کرنے کا موقعہ بھی مل رہا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 38 سال 1965ء ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے ہاجرہ کو ابراہیم علیہ السلام کی لونڈی لکھا اور اس وجہ سے آپ کو تکلیف پہنچی.اس نکتہ پر بحث کرنے کا یہ موقعہ پا کر بھی ہم خوش ہیں.اصل عبرانی میں ابراہیم علیہ السلام سے ہاجرہ کی رشتہ داری کی وضاحت کے طور پر ایک لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لفظ کے معنے بیوی“ یا ” لونڈی کے ہو سکتے ہیں.بہر کیف ہم نے بھی یہ لفظ استعمال کرلیا.ہمارا منشاء یہ تھا کہ سارہ اور ہاجرہ میں امتیاز قائم کیا جائے جو سابقہ کی کنیز تھیں اور قانونی سطح کی رو سے اس کے برابر نہ تھیں سارہ ابراہیم کی گھر والی تھیں.اور ہاجرہ پر قانونی حقوق رکھتی تھیں.اب ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ مسلم روایت کی روشنی میں ماضی کے مشہور تعدد ازدواج کے پہلو سے یہی درست ہوتا کہ ہاجرہ کو بیوی کا مقام دیا جاتا.ہم دلگیر ہیں کہ اگر چہ نادانستہ ہی سہی ہم نے ہاجرہ کے ساتھ ایک ایسا برتاؤ نہیں کیا جو آپ کے اعلیٰ مقام ادب کے لئے ضروری تھا.ہمیں آپ سے ہمدردی ہے کہ وہ تصاویر جن میں منی کی قربانی کی وضاحت تھی اور جن میں بکروں کی قربانی کا ذکر تھا اس میں ہم ایک ایسا لفظ استعمال کرتے جو خون خرابہ سے کم وحشت اپنے اندر رکھتا.بہر حال ہمارے الفاظ نے یہ صریح طور پر بتایا ہے کہ یہ خونی قربانی ہے جس کی روایت کو زمانہ کی قبولیت حاصل رہی نسبتی لحاظ سے مغرب میں اس کی واقفیت نہیں.ہمیں افسوس ہے کہ جگہ کی تنگی نے ہمیں آپ کے مکتوب کے شائع کرنے کی اجازت نہیں دی.بخدمت مسٹر نو جوان کریم اللہ.احمد یہ مسلم مشن اسلا ئیڈس روڈ.مدراس ۱۴ انڈیا صدق دل سے آپ کا ( دستخط ) ویر از امر سکی.خدام الاحمدیہ ہال (ایوان محمود ) کی تعمیر کا افتتاح قادیان سے ہجرت کے بعد سے ربوہ میں خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا دفتر بنانے کا معاملہ زیر غور تھا.اس وقت حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے دفتر کے ساتھ ہال اور لائبریری بنانے کا ارشاد بھی فرمایا تھا.چنانچہ ۲۰/ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے ہال کا سنگ بنیاد رکھا.بعض ناگریز وجوہات کی بنا پر تعمیر کا کام شروع نہ کیا جا سکا.۱۸ر اپریل ۱۹۶۵ء کو صدر مجلس محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب نے خدا کے حضور دعاؤں کے ساتھ اینٹ رکھ کر تعمیر کا افتتاح فرمایا.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے از راہ کرم اس اینٹ پر دعا فرمائی اور تعمیر کے آغاز کا سن کر اظہار مسرت
تاریخ احمدیت.جلد 23 39 سال 1965ء فرمایا.اس تقریب افتتاح کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام، علمائے سلسلہ اور بعض دیگر اصحاب نے بھی دعاؤں کے ساتھ اینٹیں نصب کیں.یہ ہال ۱۰۶ فٹ لمبا اور ۶۶ فٹ چوڑا ہوگا جس میں بغلی کمروں اور یک طرفی برآمدہ کے علاوہ بالکونی کی طرز پر ایک گیلری بھی ہوگی.گیلری سمیت ہال میں بیک وقت ۱۸۰۰ افراد کی نشست کا انتظام ہو سکے گا.چوڑائی کے رخ ہال سے ملحق ۲۴ × ۳۷ فٹ کا ایک وسیع کمرہ بھی تعمیر کیا جائے گا جو انٹرنس ہال ( داخل ہونے کا کمرہ) کے طور پر کام آئے گا.اور اس وسیع کمرہ کی بالائی منزل لائبریری کے لئے مخصوص ہوگی.یہ ہال تعمیر کے ایک وسیع تر منصوبے کے پہلے مرحلہ کے طور پر تعمیر کیا جارہا ہے.ہال کے مکمل ہو جانے کے بعد دوسرے مرحلہ میں مجلس خدام الاحمدیہ کے مرکزی دفاتر کی مجوزہ دو منزلہ عمارت میں سے پہلی منزل ( جو ۴۴ ۲۱ فٹ کے رقبہ میں چھ کمروں پر مشتمل ہوگی ) کی تعمیر عمل میں آئے گی.تیسرے اور آخری مرحلہ میں دفاتر کی بالائی منزل مکمل کرنے کے علاوہ ایک طعام گاہ بھی تعمیر کی جائے گی.اس پورے منصوبے پر انداز اساڑھے تین لاکھ روپے خرچ ہوں گے.اس میں سے سر دست پہلے مرحلہ کے طور پر صرف ہال کی تعمیر شروع کی گئی ہے.18 صاحبزادہ مرز امبارک احمد صاحب کا دورہ مغربی افریقہ و یورپ ایک لمبے عرصہ سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ اس بات کی ضرورت محسوس فرمارہے تھے کہ مغربی افریقہ کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر وہاں کے مشنوں کا جائزہ لینے اور اسلام کی اشاعت کے لئے وسیع پروگرام بنانے کی خاطر بنفس نفیس وہاں تشریف لے جائیں.آپ کی اس دیرینہ خواہش کی تکمیل اس سال ہوئی آپ اس لکہی سفر پر ۲۲ را پریل کور بوہ سے روانہ ہوئے اور ۱۰ جون کو واپس مرکز احمدیت ربوہ میں پہنچے.اپنے اس دورہ میں آپ سوئٹزر لینڈ، نائیجیریا، غانا، آئیوری کوسٹ ، سیرالیون ، سپین، انگلستان، ڈنمارک اور مغربی جرمنی میں تشریف لے گئے.اس دورے میں مکرم سید مسعود احمد صاحب مبلغ سکینڈے نیویا نے سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے.علاوہ ازیں صاحبزادہ صاحب کے نائب کی حیثیت سے گیمبیا بھی تشریف لے گئے.صاحبزادہ صاحب کا یہ دورہ ہر اعتبار سے بہت کامیاب رہا.آپ نے ان ممالک کے مشنوں کی سرگرمیوں کا گہری نظر سے معائنہ کیا اور اشاعت احمدیت کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 40 سال 1965ء رفتار ترقی کو تیز تر کرنے کے لئے نہایت اہم اور دور رس فیصلے کئے.سکولوں اور کالجوں کے طلباء سے خطاب کیا استقبالیہ تقاریب میں زندگی کے ہر شعبہ کے رہنماؤں سے آپ متعارف ہوئے اور ان ملکوں کے دینی اور تعلیمی مسائل کا قریبی مطالعہ کرنے کے متعدد مواقع آپ کو میسر آئے.پریس ، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر آپ کی آمد کی خبریں خاص اہمیت کے ساتھ نشر کی گئیں.سوئٹزرلینڈ : اس سفر میں آپ سب سے پہلے اور آخر میں سوئٹزرلینڈ تشریف لے گئے جہاں آپ کے اعزاز میں ایک اہم تقریب منعقد ہوئی.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ اور مسٹر عبدالرشید فوگل نے احمد یہ جماعت کی طرف سے اور البانوی نژاد مسلمان انجینئر ڈاکٹر محمد عز الدین حسن نے غیر از جماعت مسلمانوں کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.جس میں تسلیم کیا کہ ساری دنیا میں احمدیت اسلام کی علمبردار ہے اور اس نے ہر جگہ اسلام کے مراکز قائم کر دیئے ہیں اور قرآن کریم کے بہت سی زبانوں میں تراجم اس کا ایک عظیم الشان کارنامہ ہے.ایک ترک دوست قهرمان تو نہ بوجو نے ترک بھائیوں کی نمائندگی میں ایڈریس پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ یہاں جماعت احمدیہ کی کوشش سے ۲۲ جون ۱۹۶۳ء کو خانہ خدا کی تعمیر مکمل ہوگئی.اب تمام ترک اور دوسرے مسلمان یہاں جمع ہوتے ہیں اور نمازیں ادا کر سکتے ہیں ہمارے امام کے پُر اثر خطابات اور تشریحات نہ صرف میرے لئے بلکہ بہت سے ترک دوستوں کے لئے بہت ممد ثابت ہوئے ہیں.اس ترک بھائی کے بعد ایک کیتھولک دوست اور پھر پاکستان کے انجینئر طاہر عبداللہ حسین نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا.اور اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ مسجد محمود کی تعمیر سے ایک ایسا مرکز معرض وجود میں آ گیا ہے جو نہ صرف وسطی یورپ کے مسلمانوں کے لئے مقام اجتماع ہے بلکہ غیر مسلموں کے لئے تبادلہ خیالات کے ایک ادارہ کا کام دے رہا ہے.نائیجیریا: نائیجیریا میں آپ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا.چیف مجسٹریٹ عبدالرحیم صاحب بکری نے آپ کے اعزاز میں عصرانہ دیا جس میں آپ کو حکومت نائیجیریا کے متعدد افسروں اور لیگوس کے چیدہ چیدہ اصحاب سے ملاقات کا موقعہ ملا.آپ نے گفتگو کے دوران جماعتی نظام اور مشنوں کی سرگرمیوں سے ان سب کو آگاہ کیا.آپ کی ملاقات لیگوس کے مقامی حاکم سے بھی ہوئی.انہوں نے آپ کا گرم جوشی سے استقبال کیا.اور احمد یہ جماعت کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 41 سال 1965ء خدمات کو سراہا اور مبلغین احمدیت سے اپنی دوستی کا محبت بھرے انداز میں ذکر کیا.جماعت احمدیہ نے لیگوس کے سب سے بڑے ہال میں پبلک جلسہ کر کے آپ کو ایڈریس پیش کئے.اس جلسہ کی صدارت لیگوس سٹی قونصل کے چیئر مین الحاج اے ایف ماشا نے کی.انہوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں دل کھول کر تعریف کی.میاں صاحب نے جوابی تقریر میں جماعت احمدیہ کے نظام تبلیغ اور مبلغین احمدیت کی مجاہدانہ اور سرفروشانہ کوششوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اور تمام مسلمانوں کو تبلیغ کے سلسلے میں تعاون کا یقین دلایا.عبدالمجید صاحب بھٹی پرنسپل مسلم ٹیچر ٹرینگ کالج نے بھی عصرانہ پیش کیا.جس میں وزارت تعلیم کے متعدد افسر مختلف کالجوں کے پرنسپل اور سٹاف اور دیگر زعماء شامل ہوئے.سب اس بات سے متاثر تھے کہ مغربی افریقہ کے مسلمانوں میں تعلیم کا رواج دینے کے لئے احمدیہ جماعت نے سب سے بڑھ کر راہنمائی کی ہے.میاں صاحب نے میڈیکل مشن کے اجلاس اور مبلغین کے اجلاس کی الگ الگ صدارت کی.آپ نے کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب اور ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب کی طبی خدمات پر اظہار مسرت کیا.کام کو وسعت دینے کے لئے آپ نے بعض قابل عمل تجاویز پر فوری فیصلے بھی فرمائے.کرنل ڈاکٹر محمد یوسف صاحب نے آپ کے اعزاز میں ایک ہوٹل میں ایک ڈنر کا انتظام کیا تھا اس تقریب میں پاکستانی سفارتخانہ کے افسر، دو پاکستانی میجر ڈاکٹر ، بعض پاکستانی تاجر اور دیگر شعبوں میں کام کرنے والے اصحاب موجود تھے.حضرت میاں صاحب کی گفتگو نہایت دلچسپ رہی.اور بہت سے موضوعات پر احباب نے اظہار خیال کیا.خانا: میاں صاحب نے احمد یہ سیکنڈری سکول کے طلباء سے خطاب فرمایا.علاقائی صدر الحاج الحسن عطاء کے ایڈریس کے جواب میں نہایت مؤثر اور ایمان افروز تقریر فرمائی.الحاج الحسن عطاء صاحب نے ہوٹل میں لنچ دیا.لنچ کے بعد شاہ شانٹی سے ملاقات ہوئی.علاوہ ازیں ملک کے صدر کوامے نکروما (KWAME NKRUMAH) سے بھی ملاقات ہوئی جو نصف گھنٹہ تک جاری رہی.صدر صاحب نے جماعت احمدیہ کی کوششوں کو بہت سراہا اور آپ کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے نمائندے نہایت اچھا کام کر رہے ہیں.انہوں نے میاں صاحب کی گفتگو میں اتنی دلچسپی کا اظہار کیا کہ جب ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے ایک فوجی افسر کی آمد کی اطلاع دی تو انہوں نے بے ساختہ فرمایا Forget him (اسے بھول جاؤ ).آئیوری کوسٹ: میاں صاحب کی آمد پر آئیجان ائیر پورٹ پہنچنے پر میڈیا کی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 42 سال 1965ء coverage کی گئی اور حکومت کے سرکردہ آفیسر آپ کو وی آئی پی لاؤنج میں لے گئے جہاں ریڈیو اور ٹیلی ویژن والوں نے آپ سے انٹرویو کا انتظام کر رکھا تھا.آئیجان میں لبنانی ، سینیگال اور آئیوری کوسٹ کے مسلمانوں کے وفود نے آپ سے ملاقات کی جو آئیوری کوسٹ کی اخبار میں آپ کی آمد کی خبر پڑھ کر حاضر ہوئے تھے.ان میں سے ایک تجائیہ فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.وفد کے ممبروں نے دوران ملاقات بار بار کہا آپ کی جماعت اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور ہر مسلمان جسے اسلام سے محبت ہے اور فی الحقیقت ہر مسلمان کو اسلام سے محبت ہونی چاہئے ، کا فرض ہے کہ آپ کی مدد کرے کیونکہ آپ کی مدد کرنا بھی دراصل اسلام ہی کی مدد کرنا ہے.,, آئیوری کوسٹ پریس میں آپ کے دورہ افریقہ کے متعلق حسب ذیل خبریں شائع ہوئیں.(۱) اخبار FRATERNITE MATIN نے ۱۰مئی ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں زیر عنوان پاکستان سے ایک اسلامی وفد کی آمد لکھا کہ :.(ترجمہ) پاکستان سے ایک اسلامی وفد آج دوپہر بارہ بج کر چالیس منٹ پر آبی جان پہنچ رہا ہے جو کل بتاریخ گیارہ مئی شام کو روانہ ہو جائے گا.مرزا مبارک احمد صاحب جو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے اسلامی مرکز کے قائد ہیں، اپنے سیکرٹری سید مسعود احمد صاحب کے ساتھ سارے مغربی افریقہ کا دورہ کر رہے ہیں تاوہ اسلام کی وسیع تر اشاعت کے بارہ میں تجاویز کا مطالعہ کرسکیں.احمد یہ مسلم مشنز ایک انٹرنیشنل اسلامی تحریک ہے جس کی بنیاد مسیح وقت حضرت احمد علیہ السلام نے ڈالی جس کا مقصد یہ ہے کہ اصل اور صحیح اسلام کو از سر نو دنیا میں اجاگر کیا جاوے اور وسیع پیمانہ پر اس کی تبلیغ واشاعت کی جائے.احمد یہ جماعت نے قرآن کریم کا ترجمہ متعدد زبانوں میں شائع کیا ہے مشہور تراجم یہ ہیں: انگریزی، جرمن، ڈچ ، سواحیلی ، فرنچ اور روسی تراجم بھی بالکل تیار ہیں جو عنقریب شائع ہونے والے ہیں.یہ اسلامی لٹریچر دنیا کے ۳۵ اسلامی مراکز سے مل سکتا ہے.جماعت احمدیہ نے اب تک چار مساجد امریکہ میں ( واشنگٹن، نیو یارک، شکاگو، بالٹی مور کے مقامات پر ) ، ایک بڑی مسجد لندن میں، ایک ہیگ میں، دو جرمنی میں ( ہمبرگ اور فرانکفورٹ کے مقامات پر ) اور ایک مسجد زیورچ میں تعمیر کی ہیں.مشرقی اور مغربی افریقہ میں احمدیہ مسجد کی تعداد تین سو سے بھی زیادہ ہے.جماعت احمدیہ عنقریب ایک فرنچ عربک سکول آئیوری کوسٹ میں کھولنے کا ارادہ رکھتی ہے.“
تاریخ احمدیت.جلد 23 43 سال 1965ء دوسری خبر.” پاکستان سے ایک مذہبی وفد کی آمد کے زیر عنوان لکھا کہ:.( ترجمہ ) ایک اسلامی پاکستانی وفد جو مغربی افریقہ کا دورہ کر رہا ہے کل بارہ بجگر چالیس منٹ پر ائیر پورٹ پر پہنچا یہ وفد جیسا کہ ایک گزشتہ اشاعت میں بیان کر چکے ہیں مرزا مبارک احمد صاحب قائد اسلامی مراکز اور ان کے سیکرٹری سید مسعود احمد صاحب پر مشتمل ہے.اس وفد کے استقبال کے لئے لوکل احمد یہ مشن انچارج قریشی محمد افضل بمع احباب جماعت موجود تھے جب پریس والوں نے آپ سے وفد کی آمد کا مقصد دریافت کیا تو مرزا صاحب نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی بنیاد ۱۸۸۹ء سے قائم ہوئی ہے اس جماعت کی بتلائی ہوئی اسلامی تعلیم ساری دنیا میں قلوب کو جذب کر رہی ہے اور یہ پہلا موقع ہے کہ ہم یہاں آئے ہیں تا کہ جماعت احمدیہ کے افراد سے ذاتی تعلقات قائم کر کے یہاں پر اشاعت اسلام کا وسیع تر منصوبہ بنایا جائے.آبی جان کے بعد آپ لائبیریا، سیرالیون اور یورپین ممالک میں جائیں گے.جب آپ سے احمدیہ فریج عربک سکول کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم دوسرے ممالک میں متعدد انگلش عربک سکولز قائم کر چکے ہیں جو نہایت کامیابی سے مسلمانوں کی خدمت کر رہے ہیں اسی طریق پر ہمارا ارادہ ہے کہ یہاں کے حالات کا جائزہ لے کر یہاں بھی اسی قسم کے سکول مسلمانوں کی بہبودی کی خاطر قائم کئے جائیں.سیرالیون سیرالیون میں تقریباً سارا عرصہ قیام کے دوران براڈ کاسٹنگ اور ٹیلی ویژن والوں نے نہایت ہی اہم کردار ادا کیا.تقریب ہر تقریر کی ریکارڈنگ کی اور ٹیلی ویژن کے لئے تصاویر لیں.میاں صاحب نے وزیر اعلیٰ، وزیر خارجہ اور وزیر مواصلات اور دیگر چوٹی کے لیڈروں سے ملاقاتیں کیں.سب نے ہی جماعت احمدیہ کی ملی خدمات کا کھلا اعتراف کیا.وزیر مواصلات نے کہا اگر احمدی مبلغین ان علاقوں میں آکر تبلیغ اسلام نہ کرتے اور مسلمان بچوں کی تعلیم کے لئے سکولوں کا اجرا نہ کرتے تو اب تک مسلمان ڈھونڈے سے نہ ملتے.آپ نے فرمایا احمد یہ مشن کے قیام سے قبل مسلمان نہایت پسماندہ حالت میں تھے نہ انہیں کوئی سیاسی پوزیشن حاصل تھی اور نہ سماجی.بلکہ وہ ایک قابل نفرت قوم سمجھے جاتے تھے تعلیم تو ان میں تھی ہی نہیں کیونکہ مسلمانوں کے جو بچے عیسائی سکولوں میں تعلیم کے لئے بھیجے جاتے تھے وہ تعلیم ختم کرنے سے قبل بپتسمہ لے کر عیسائی ہو جاتے تھے اور اس طرح تعلیم یافتہ عیسائیوں کی تعداد تو بڑھ رہی تھی لیکن مسلمانوں میں کوئی 19
تاریخ احمدیت.جلد 23 44 سال 1965ء تعلیم یافتہ طبقہ پیدا نہیں ہوا تھا.وزیر مواصلات نے ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کہا حقیقت میں سیرالیون کے مسلمانوں کی آئندہ نسلیں بھی احمدیت کے احسان کی زیر بار ر ہیں گی اور تاریخ کبھی اس بات کو فراموش نہ کر سکے گی که سیرالیون کے مسلمانوں کی بروقت اور صحیح امداد کو اگر کوئی آیا تو وہ صرف احمدی مبلغین تھے.سپین : یہاں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت معززین سے بھی ملاقاتیں کیں.جن میں اسلام پر دو کتابوں کے مصنف اور فوجی افسر SIR FERNANDO FRADE ، غرناطہ کے ایک سپینش مصنف DR.ANTONIO ALARCON اور پرنس عماد الدین خاص طور پر قابل ذکر ہیں.سپین کے ایک کثیر الاشاعت اخبار نے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اور مولانا کرم الہی صاحب ظفر کی فوٹو شائع کر کے لکھا کہ جماعت احمد یہ دنیا میں روحانی انقلاب برپا کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے.انگلستان: ۲۵ مئی ۱۹۶۵ء کو آپ نے ساؤتھ ہال کی نئی مسجد کا افتتاح فرمایا.خدا کے اس گھر کے لئے جماعت احمد یہ انگلستان نے باہمی چندوں کے ذریعہ فنڈ خود فراہم کئے تھے اس موقعہ پر جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن اور حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے حاضرین سے خطاب فرمایا اور حاضرین کو باطنی پاکیزگی حاصل کرنے ، اپنی خدا داد صلاحیتوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور لہی وقف کرنے کی تلقین فرمائی.مغربی جرمنی: ۴ جون ۱۹۶۵ء کو آپ نے ہمبرگ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب فرمایا اور پریس کے نمائندگان کے سوالات کے جوابات دیئے.اس پریس کانفرنس کا ذکر ہمبرگ کی ایک اہم روزنامه اخبار ABENDECHO نے اپنی ۵ جون ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں میاں صاحب کی فوٹو کے ساتھ ہمبرگ میں بطور مہمان“ کے عنوان کے ساتھ ایک اہم نوٹ سپر داشاعت کیا.چنانچہ لکھا:.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشنوں کے پریذیڈنٹ ہیں اس جماعت کے اسلامی مشن تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.اور جماعت کا مرکز ربوہ پاکستان ہے صاحبزادہ صاحب اپنے مشنوں کا اکثر دورہ کرتے رہتے ہیں.۴ جون کو انہوں نے پریس کانفرنس میں اپنے حالیہ دورہ مغربی افریقہ کے خوشکن حالات بیان کئے.انہوں نے اسلامی مشنوں کی کامیابی کے حالات بالخصوص لائبیریا ، نائیجیریا، غانا اور سیرالیون میں جماعت احمدیہ کی کامیابی پر تبصرہ کیا اور کہا
تاریخ احمدیت.جلد 23 45 سال 1965ء میری طبیعت پر ان اسلامی مشنوں کے کامیاب نتائج کا گہرا اثر ہے.ہمارے مبلغین نے سوشل تعلقات کو استوار کرنے اور اسلام کی اشاعت کے سلسلہ میں بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اپنے مشنوں کی کامیابی کے بارہ میں پوری طرح مطمئن نظر آتے تھے جرمنی میں بھی جماعت کی دو مساجد ہمبرگ اور فرینکفورٹ میں موجود ہیں.“ اسی طرح جرمنی کی ایک مشہور پریس ایجنسی DER NORDSPIEGEL نے اس پریس کا نفرنس کا مفصل ذکر اپنے ۱۶ جون ۱۹۶۵ء کے شمارہ میں کیا.جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.صحرائے اعظم مغربی افریقہ میں اسلام کی ہمہ گیر اشاعت جماعت احمد یہ اپنا نصب العین قرار دے چکی ہے ان ممالک میں اس جماعت کی تبلیغی سرگرمیاں ۱۹۲۱ء سے بڑی کامیابی سے جاری ہیں.یہ صراحت جماعت احمدیہ کے تبلیغی ادارے کے سربراہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب نے کی جو حال ہی میں غانا، گیمبیا، نائیجیریا، آئیوری کوسٹ اور سیرالیون میں اپنا تبلیغی دورہ مکمل کر کے آئے ہیں.مغربی افریقہ میں اسلام آٹھویں صدی میں شمالی جانب سے پہنچا.گزشتہ صدی کے نو آبادیاتی دور میں عیسائیت بھی افریقہ کے مغربی اور مشرقی حصوں میں پہنچ گئی اس کے پھیلنے کی زیادہ تر وجہ یہ تھی کہ یہ بیرونی حکومتوں کا مذہب رہا ہے.ان ممالک میں اسلام پھیلانے کا کام سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے منظم طور پر جاری کیا.یہ تحریک جس کا مرکز ربوہ پاکستان ہے اپنے بانی کی اقتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیمات کو دنیا میں پھیلا رہی ہے جس کے نتیجہ میں گزشتہ چند سالوں میں مغربی افریقہ کے متعد بہ حصے نے جو پہلے اپنے آبائی مذہب پر قائم تھا اسلام قبول کر لیا ہے.اسلام کی ترقی کی رفتار عیسائیت کی ترقی کی رفتار سے کہیں بڑھ کر ہے.اسلام کی مقبولیت کی زیادہ تر وجہ اسلام کے اصولوں کا فطرت کے مطابق ہونا ہے خدا تعالیٰ کے متعلق اسلام میں توحید کا تصور عیسائیت کے تثلیث کے تصور کے مقابلہ میں انسانی فطرت سے زیادہ قریب ہے.اعداد و شمار کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی مغربی افریقہ میں ترقی کا جائزہ یوں لیا جا سکتا ہے کہ غانا میں ۲۴۷ تبلیغی مراکز ، سیرالیون میں ۴۴ ، نائیجیریا میں ۳۸ مراکز ہیں.غانا میں ۱۵۱ مساجد، نائیجیریا میں ۱۹ار اور سیرالیون میں ۲۵ مساجد تعمیر کی جا چکی ہیں.غانا میں جماعت احمدیہ کے۲اسکول، نائیجیریا میں ۱۰ راورسیرالیون میں ۴ سکول ہیں.اسی طرح مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز دار السلام اور نیروبی میں ہیں.وہاں
تاریخ احمدیت.جلد 23 46 سال 1965ء بھی جماعت احمدیہ مساجد تعمیر کر رہی ہے اور اب تک ۲۰ مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں.یورپ میں بھی جماعت احمد یہ منظم طور پر تبلیغ کر رہی ہے.انگلینڈ، سیکینڈے نیویا، ہالینڈ، سوئٹزر لینڈ اور جرمنی میں مراکز موجود ہیں.جرمنی میں ہمبرگ اور فرانکفورٹ میں مساجد تعمیر ہو چکی ہیں.نیورمبرگ میں بھی جماعت کا مشن موجود ہے جس کے انچارج ایک جرمن نواحمدی ہیں.صاحبزادہ مرز ا مبارک احمد صاحب کا دورہ انگلستان 20 جماعت ہائے احمد یہ انگلستان کی درخواست پر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر مورخه ۲۷ /اگست کو ساڑھے چار بجے شام پاکستان سے لنڈن تشریف لائے.آپ کے استقبال کے لئے جو دوست ایئر پورٹ پر موجود تھے ان میں محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.محترم میاں صاحب دوستوں سے ملنے کے بعد مشن ہاؤس روانہ ہوئے جہاں دوست کثیر تعداد میں جمع تھے انہوں نے محترم میاں صاحب کو اهلاً و سهلاً ومرحبا کہا.اگلے روز یعنی ۲۸ اگست کو جماعت احمد یہ انگلستان کا دوسرا سالانہ جلسہ شروع ہوا.جلسہ سالانہ انگلستان جلسہ سالانہ کا آغاز شام ساڑھے چار بجے محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر سے ہوا.آپ نے انگریزی میں قریبا ڈیڑھ گھنٹہ تک ” فضائل قرآن“ کے موضوع پر تقریر کی.آپ کی یہ تقر می ریکارڈ کر لی گئی تھی.محترم صاحبزادہ صاحب نے صدارت کے فرائض سرانجام دیئے.آپ نے فاضل مقرر کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا کہ محترم چوہدری صاحب کا مقام خدمت دین اور تقوی اللہ کے لحاظ سے بھی بہت اونچا ہے اور آپ کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی صحابیت کا بھی شرف حاصل ہے.اجلاس کے اختتام پر کثرت سے لوگوں نے محترم میاں صاحب سے شرف ملاقات حاصل کیا.جلسہ سالانہ کا دوسرا دن اردو زبان میں کارروائی کے لئے وقف تھا اس میں افتتاحی تقریر محترم جناب میاں صاحب نے فرمائی.جلسہ کی صدارت محترم جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے کی.محترم میاں صاحب نے اپنی تقریر میں تقوی اللہ اور تعلق باللہ پر زور دیا.آپ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ملفوظات پڑھ کر سنائے.آپ کا یہ خطاب قریبا سوا گھنٹہ تک جاری رہا اور حاضرین ہمہ تن گوش ہوکر اسے سنتے رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 47 سال 1965ء تقریر کے آخری حصہ میں جب آپ نے حضور علیہ السلام کے نصائح پر مشتمل اقتباسات سنائے تو حاضرین پر رقت کی حالت طاری ہوگئی.آپ کے خطاب کے بعد مکرم بشیر احمد رفیق اور مکرم بشیر احمد صاحب شیدا اور مکرم محمود احمد صاحب مختار نے بھی مختصر تقاریر کیں.محمد ادریس صاحب چغتائی اور سید نعیم احمد شاہ صاحب نے نظمیں پڑھیں.نماز دکھانے کے بعد جلسہ کا دوسرا اجلاس زیر صدارت محترم صاحبزادہ صاحب شروع ہوا.مکرم عبدالعزیز دین صاحب کی تقریر کے بعد محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے خطاب فرمایا.آپ نے جماعت کو قربانیوں کے میدان میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی.آپ کی یہ معرکۃ الآراء تقریر بھی ریکارڈ ہے.اگلے دن یعنی مورخہ ۳۰ راگست کو محترم صاحبزادہ صاحب اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے لندن کے چوہدری اعجاز احمد صاحب کی دعوت ولیمہ میں شرکت فرمائی.مورخه ۳ ستمبر کو محترم صاحبزادہ صاحب اور مکرم بشیر احمد رفیق دورہ پر روانہ ہوئے.لندن سے دن کے ایک بجے روانہ ہو کر شام کے آٹھ بجے بریڈ فورڈ پہنچے.بریڈ فورڈ میں خدا تعالی کے فضل سے چھوٹی سی لیکن مخلص جماعت موجود ہے جس کے پریذیڈنٹ چوہدری منصور احمد صاحب تھے.انہی کے ہاں محترم صاحبزادہ صاحب کا قیام بھی تھا.اگلے دن جمعہ تھا.اور اسی دن مانچسٹر کی جماعت کی ملاقات کے لئے جانا تھا.چنانچہ ۱۲ بجے بریڈ فورڈ سے مانچسٹر کے لئے روانہ ہو کر ڈیڑھ بجے وہاں پہنچے.جماعت کے دوست قریشی عبدالرحمن صاحب کے مکان پر جمع تھے.ان کے گھر پر ہی نماز جمعہ پڑھی گئی.محترم صاحبزادہ صاحب نے احباب کو نصائح فرمائیں.لوکل پریس کے رپورٹر بھی آئے ہوئے تھے جن کو محترم صاحبزادہ صاحب نے انٹرویو دیا.انہوں نے تصاویر بھی اتاریں.یہاں سے فارغ ہو کر آپ قریشی صلاح الدین مرحوم کے گھر تشریف لے گئے.اور ان کی اہلیہ کا حال دریافت فرمایا.قریشی صاحب مرحوم بہت مخلص اور تبلیغ دین کا شوق رکھتے تھے.شام کو چار بجے محترم ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب کے ہاں ان کے ہسپتال تشریف لے گئے.رات کو واپس بریڈ فورڈ پہنچے.اگلے دن صبح جماعت احمد یہ ہڈرزفیلڈ کے ہاں جانا تھا.ہڈرزفیلڈ بریڈ فورڈ سے ۱۵ میل کے فاصلہ پر ہے.یہاں امینی خاندان کے پانچ احمدی گھر آباد ہیں اور نہایت مخلص ہیں.محترم کمال الدین صاحب امینی پریذیڈنٹ ہیں.جماعت کی طرف سے کمال الدین صاحب نے محترم میاں صاحب کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس بات پر اللہ تعالی کا خاص شکر ادا کیا کہ انگلستان جیسے دور دراز ملک میں اور پھر
تاریخ احمدیت.جلد 23 48 سال 1965ء ہڈرزفیلڈ کے قصبہ میں ان کو حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے پوتے کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوا.میاں صاحب پر ان کے اخلاص اور محبت کا بے حد اثر تھا.آپ نے جماعت کو خطاب بھی فرمایا جو انہوں نے ٹیپ کر کے محفوظ کر لیا.آپ نے اپنے خطاب میں جماعت ہڈرز فیلڈ کی تربیت اولاد کے بارہ میں مساعی پر اظہار خوشنودی فرمایا.اور ان کو مرکز سے مضبوط تعلق رکھنے صحیح اسلامی نمونہ اس ملک کے لوگوں کے سامنے پیش اور نماز با جماعت کی ادائیگی کی تلقین فرمائی.اسی شام جماعت بریڈ فورڈ کی میٹنگ تھی.چنانچہ ہڈرزفیلڈ سے واپس آکر تھوڑی دیر بعد جماعت بریڈ فورڈ کے دوست آنے شروع ہوئے اور رات دس بجے تک محترم صاحبزادہ صاحب ان کی محفل میں شریک رہے.آپ نے مختلف امور پر روشنی ڈالی اور دوستوں کے سوالات کے جوابات دئے.اگلے دن یعنی مؤرخہ ۵ ستمبر کو شام کے چھ بجے گلاسگو (سکاٹ لینڈ ) پہنچے.یہاں نہایت مخلص جماعت موجود ہے جس کے پریذیڈنٹ ایوب احمد خاں صاحب تھے.محمود احمد صاحب مختار نے جماعت کی طرف سے ایڈریس پیش کیا.صاحبزادہ صاحب نے خطاب فرمایا جو قریبا ایک گھنٹہ تک جاری رہا.گلاسگو میں دو دن قیام کا ارادہ تھا جس کے بعد برمنگھم.ساؤتھ ہال.آکسفورڈ.جلنگھم اور والسال کی جماعتوں کے دورہ کا پروگرام تھا کہ اچانک ہندوستان کی طرف سے پاکستان پر حملہ کی اطلاع موصول ہو گئی.جس کی وجہ سے دورہ کو مختصر کر کے فورا لندن پہنچے اور ہنگامی حالات کی بناء پر مؤرخہ ۸ ستمبر کو آپ عازم پاکستان ہو گئے.21 ڈیٹن میں مسجد کی تعمیر اور ڈیٹن ڈیلی نیوز“ کا تبصرہ حضرت مصلح موعود کے انقلاب انگیز دور خلافت کے آخری سال نئی دنیا کے شہر ڈیٹن (امریکہ ) میں خدا کا ایک عالیشان گھر تعمیر ہوا جو اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا منہ بولتا نشان تھا.اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے میجر عبدالحمید صاحب مبلغ ڈیٹین نے تحریر فرمایا:.آج سے بتیس سال قبل جماعت احمدیہ کی کوششوں سے بعض عیسائی افراد مشرف باسلام ہو گئے تھے اس طرح سے یہاں با قاعدہ جماعت قائم ہو گئی کچھ عرصہ تک تو جماعت کے افراد ماہوار کرایہ پر لئے ہوئے مکان میں نمازوں اور اجلاس میں شمولیت کے لئے جمع ہوتے رہے.آخر کا ر۱۹۵۲ء میں مکرم ولی کریم صاحب مرحوم نے جو یہاں کے باشندہ تھے اپنی واحد ملکیت میں سے ایک قطعہ زمین
تاریخ احمدیت.جلد 23 49 سال 1965ء جماعت کے نام ہبہ کر دیا.جماعت کے ممبران نے مل کر اس قطعہ زمین پر ایک عظیم الشان مسجد کی بنیادیں کھڑی کر دیں.مگر مالی حالت کے کمزور ہونے کی وجہ سے صرف ایک تہ خانہ جس میں دو نسل خانے ایک باورچی خانہ اور ایک اسٹور روم ہی تعمیر کر سکے.مگر اصل مسجد کی عمارت نہ بنا سکے.۷ امئی ۱۹۶۳ء کو اس عاجز ( میجر عبدالحمید ) کو اس شہر میں متعین کیا گیا.ہم نے مکرم وکیل التبشیر صاحب کی خدمت میں درخواست روانہ کی کہ مسجد کی تعمیر کے لئے مرکز سے گرانٹ دی جائے.مگر بعض وجوہات کی بناء پر یہ گرانٹ نہ مل سکی.دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ کیوں نہ جماعت کو تحریک کی جاوے کہ وہ ہل کر اس بوجھ کو اٹھاوے.عمارت پر خرچ کا تخمینہ ۲۵ سے ۳۵ ہزار ڈالر کے درمیان تھا.اور جماعت کی مالی حالت کا یہ عالم تھا کہ با قاعدہ چندہ دہندگان کی تعداد بہت کم تھی.اور ان کا ماہوار چندہ زیادہ سے زیادہ ۶۰ ڈالر تک ہوتا.اندریں حالات جرات نہ پڑتی تھی کہ لوکل جماعت کو اس بارگراں کے اٹھانے کی تحریک کی جاوے.آخر کار اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے اس مبارک تحریک کو جماعت کے سامنے پیش کر دیا.تحریک کرنے سے پہلے حضرت مصلح موعود اطال اللہ بقاءہ کی ایک سالانہ جلسہ کی معرکۃ الآراء تقریر جس میں حضور نے اسلامی اذان کی فلاسفی بیان کی تھی کا شخص اپنی زبان میں پیش کر دیا.ابھی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ فرشتہ سیرت مکرم ولی کریم مرحوم مجلس میں کھڑے ہو گئے.کانپتے ہوئے لبوں کے ساتھ جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر جماعت کے کسی فرد نے بھی میرا ساتھ نہ دیا تو میں خود مسجد کی تعمیر کا سارا خرچ برداشت کروں گا“.یہ کہہ کر انہوں نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور زار و قطار رونے لگے.ان اخلاص بھرے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے وہ برکت ڈالی کہ اسی وقت ایک دوست مکرم عبد القدیر صاحب نے مبلغ ایک ہزار ڈالر کا وعدہ کر دیا.اس کے بعد لجنہ اماءاللہ نے ایک صد ڈالر اور خدام نے ۶۰ ڈالر کے وعدہ جات لکھوائے.چند دنوں کے بعد مکرم عبدالقدیر صاحب نے اپنے وعدہ کی رقم ادا کر دی.اور بعد میں مکرم ولی کریم صاحب نے بھی ایک ہزار ڈالر نقد پیش کر دئیے.چنانچہ ہم نے وکالت تبشیر کی اجازت سے ایک مقامی بنک میں احمدیہ موومنٹ ان اسلام بلڈنگ فنڈ کے نام سے ایک اکاؤنٹ کھول دیا.مکرم ولی کریم صاحب مرحوم سے اس عاجز نے کبھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کس طرح اکیلے مسجد کی تعمیر کا خرچ برداشت کرنے کے لئے آمادگی ظاہر کرتے ہیں.تاہم انہوں نے خود ہی مجھے بتایا
تاریخ احمدیت.جلد 23 50 سال 1965ء تھا کہ ایک قطعہ زمین جس کی قیمت تقریباً چار ہزار ڈالر ہے فروخت کر کے اس رقم کو مسجد کی تعمیر پر خرچ کریں گے مگر پیشتر اس کے کہ وہ اپنی کسی تجویز پر عمل کر سکتے ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۴ء کو ایک ماہ ہسپتال میں بیماررہ کر راہی ملک بقا ہوئے.انا لله و انا اليه راجعون.اس وقت تک مسجد فنڈ میں ۳۳۰۹ ( تین ہزار تین سونو ) ڈالر تک رقم جمع ہو چکی ہے.بظاہر حالات ناسازگار تھے مگر مایوسی کی کوئی وجہ نہ تھی.ہمارے پیارے آقا نے ہمیں پہلے سے یہ تعلیم دے رکھی ہے کہ غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے میرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو عجیب اتفاق ہے کہ ہماری اسٹیٹ اوہایو (OHIO) کا ماٹو (Motto) ہی یہ - With God all things are possible.یعنی خدا تعالیٰ کے آگے ہر بات ممکن ہے.یہ مائو در حقیقت قرآن شریف کی آیت اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر کا ترجمہ ہے.برادرم ولی کریم صاحب مرحوم کی وفات سے یہ عاجز مایوس نہ ہوا.اور مسجد کے لئے چندوں کی تحریک کا سلسلہ جاری رکھا.غیر معمولی طریق سے اللہ تعالیٰ نے مالی امداد بہم پہنچائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ اس موقعہ پر ہم نے اپنی آنکھوں سے اس الہام الہی کو بڑی صفائی کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا.کون کہتا ہے کہ ہم بے سروسامان ہیں.ہمارا زندہ خدا ہمارے ساتھ ہے.اور اس کے فرشتے ہمارے ساتھ ہیں.اگر صرف مرکز کی گرانٹ سے ہم مسجد بناتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی کہ چند غریب افراد کی مالی قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد سے مسجد بنا کر خوشی ہوئی.فالحمد للہ علی ذالک جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ٹھیکیداروں کی طرف سے جو تخمینے وصول ہوئے وہ ۲۵ اور ۳۵ ہزار ڈالر کے درمیان تھے.البتہ ایک ٹھیکیدار نے ہمیں ۱۵ ہزار ڈالر کے قریب تخمینہ پیش کیا بلکہ بعد میں وہ اس رقم کو اور کم کرنے کے لئے آمادہ ہو گیا.مگر اس کا مطالبہ یہ تھا کہ اسے مبلغ ۵ ہزار ڈالر بطور پیشگی ادا کئے جائیں.قریب تھا کہ ہم اس کے چکمہ میں آجاتے.مگر قانونی مشورہ کے لئے ایک وکیل کے پاس گئے تو اس نے بتلایا کہ ٹھیکیدار مذکور قابل اعتبار نہیں ہے.لہذا اتنی بڑی رقم پیشگی ادا کرنا مناسب نہیں.چنانچہ ۱۵ امارچ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کر کے تمام کام اپنی زیر نگرانی کرانے کا فیصلہ کیا.“ 23
تاریخ احمدیت.جلد 23 51 سال 1965ء مقامی احمدی افراد نے غیر معمولی قربانی کا جذ بہ دکھایا اور حسب توفیق رقوم اکٹھی کیں.بعد میں مرکز کی طرف سے بھی پانچ ہزار ڈالر وصول ہوئے اور اس طرح مسجد کی بیسمنٹ کی مرمت اور مسجد کی نئی تعمیر ۱۹۶۵ء میں مکمل ہوئی.اس مسجد میں ایک گنبد اور دو مینار بھی تعمیر ہوئے.اس طرح یہ جماعت احمدیہ امریکہ کی پہلی مکمل تعمیر شدہ مسجد متصور کی جاتی ہے.ستمبر ۱۹۶۵ء میں بھی امریکہ کا جلسہ سالانہ اسی مسجد میں ہوا.اخبار ڈیٹن ڈیلی نیوز (DAYTON DAILY NEWS) نے اپنی ۲۷ اپریل ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں زیر تعمیر مسجد کا چار کالمی فوٹو نمایاں شائع کیا اور اس کے متعلق تبصرہ کے رنگ میں حسب ذیل خبر شائع کی جو اخبار کے سٹاف رائٹر مسٹر باب جانسن (BOB JOHNSON) کے قلم شائع کی جو.سے تھی:.ڈیٹین میں ایک خانہ خدا کی تعمیر شہر کے غربی جانب منارے منظر عام پر آرہے ہیں.ڈیٹن کا شہر جو واشنگٹن سے جانب غرب واقع ہے اس کے مغربی حصے رنڈ الف اسٹریٹ میں ایک نئی عمارت تعمیر ہو رہی ہے جسے مناروں سے مزین کیا جائے گا تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ ہمیں وہاں فضا میں منارے بلند ہوتے نظر آئیں گے.ان مناروں سے مومنوں کو دن میں پانچ مرتبہ نماز کے لئے پکارا جائے گا.وہ یہاں مشرق (یعنی کعبہ) کی طرف مونہہ کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہوئے نماز ادا کریں گے.رنڈالف اسٹریٹ میں اینٹوں سے تعمیر ہونے والی یہ عمارت دوسو مسلمانوں کے چندہ سے تعمیر کی جارہی ہے.اس میں اب صرف تعمیر کے بعض چھوٹے چھوٹے آخری کاموں کی تکمیل باقی ہے اس کی چھت کے عین وسط میں ایک گنبد ہوگا اور اس کے سروں پر منارے تعمیر کئے جائیں گے.منارہ پتلی اور مخروطی شکل میں ایک مسجد کے اوپر تعمیر کیا جاتا ہے اس کے اندر سیڑھیاں ہوتی ہیں اور آخری سرے پر ایک چبوترہ ہوتا ہے.اس چبوترہ پر سے مؤذن اذان دے کر مسلمانوں کو نماز کے لئے پکارتا ہے رنڈ الف اسٹریٹ کے منارے سائز میں چھوٹے ہوں گے اس لئے کسی شخص کے لئے ان پر چڑھنا ممکن نہ ہوگا.یہ اصل مناروں کی بجائے صرف علامت کے طور پر ہوں گے.اس مسجد کی تعمیر کے اصل محرک عبد الحمید نامی ایک مسلمان مبلغ ہیں جور بوہ (پاکستان) سے یہاں
تاریخ احمدیت.جلد 23 52 سال 1965ء آئے ہیں.وہ گزشتہ دو سال سے ڈیٹن میں مقیم ہیں اور مسجد کی تعمیل کے بعد اس سال موسم بہار میں اپنے وطن واپس چلے جائیں گے.ان کا تعلق ” جماعت احمدیہ نامی ایک اسلامی فرقہ سے ہے.یہ ایک تبلیغی جماعت ہے جو دنیا کے دیگر حصوں میں بالعموم اور افریقہ وانڈونیشیا میں بالخصوص دس لاکھ افراد کو اسلام کا حلقہ بگوش بنا چکی ہے.ڈیٹن مسجد کے امام (مسٹر عبدالحمید ) نے ایک ملاقات میں بتایا کہ ہر رنگ ونسل کے لوگوں کے لئے ہمارے دروازے کھلے ہیں.ہم بلا تفریق و امتیاز سب کو خوش آمدید کہتے ہیں.”بلیک مسلمز “ تحریک کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے.ہمارا عقیدہ ہے کہ الـخـلـق عيال اللہ یعنی تمام بنی نوع انسان خدا کے بچوں کی طرح ہیں انہوں نے کہا سروسٹ ڈیٹن کے ملحقہ علاقہ کے جو مسلمان اس میں نماز پڑھتے ہیں وہ سب کے سب حبشی ہیں لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسری نسل کے لوگ یہاں آ کر نماز نہیں پڑھ سکتے.اس کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں ہم سب کو ہی جو یہاں آکر نماز پڑھنا چاہیں خوش آمدید کہتے ہیں.انہوں نے کہا ہمارے بعض ممبران انڈیا نا میں ہیں بعض کینٹکی (KENTUCKY) میں ہیں اور چند ایک کا کیشیز ہیں.ہم اپنے عقیدہ کی رُو سے دن میں پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں جمعہ ہمارا متبرک دن ہے.چونکہ امریکہ میں عام تعطیل اتوار کو ہوتی ہے اس لئے ہم اپنے اجلاس اتوار کو منعقد کرتے ہیں.دوسری نزدیک ترین مسجد واشنگٹن میں ہے.مسٹر حمید نے بتایا کہ امریکہ میں جماعت احمدیہ کے اراکین کی تعداد چار پانچ ہزار کے لگ بھگ ہے.ڈیٹین کی مقامی جماعت کے صدر محمد قاسم ہیں جو ڈیفنس الیکٹرونکس سپلائی سنٹر میں کام کرتے ہیں ان کا انگریزی نام نتھائیل کوار ملے (NATHANIEL QUARMILEY) ہے.جب آج سے تیرہ سال پہلے انہوں نے عیسائیت کو خیر باد کہہ کر اسلام قبول کیا تھا تو جماعت کے دوسرے اراکین کی طرح انہوں نے بھی اسلامی نام اختیار کیا چنانچہ اس وقت سے وہ محمد قاسم کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں.توسیع و تعمیر نو سال ۲۰۱۱ء میں اس مسجد کو وسیع کر کے اس کی تعمیر نو کے کام کا آغاز ہوا.مسجد کی توسیع کیلئے مسجد کے ساتھ ملحقہ دو پلاٹ خریدے گئے اور مسجد کے سامنے ایک بڑا پلاٹ پارکنگ کے لئے خریدا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 53 سال 1965ء اس توسیعی پلان کے تحت دو منزلہ مسجد نئے حاصل کردہ پلاٹس پر تعمیر ہوئی ہے اور مسجد کے سابقہ حصہ کو اس طرح مسجد کے ساتھ ملایا گیا ہے کہ وہاں بوقت ضرورت نماز بھی پڑھی جاسکتی ہے اور یہ حصہ دیگر مختلف پروگراموں کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے.ایک وہ وقت تھا کہ اس مسجد کی مرمت اور بقیہ تعمیر کے لئے جماعت کو ۲۵ سے ۳۵ ہزار ڈالر کی ضرورت تھی لیکن یہ رقم مہیا کرنا جماعت کے لئے مشکل تھا اور آج اسی مسجد کی توسیع کے لئے مزید قطعات زمین کی خرید اور تعمیر پر ۲۵ ملین ڈالرز خرچ ہوئے ہیں جو یوایس اے کی جماعت نے بآسانی مہیا کر دیئے ہیں.اس سے جماعت احمد یہ یوایس اے کی غیر معمولی ترقی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جون ۲۰۱۲ء میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران ۱۸ جون کو مسجد فضل عمر ( ڈیٹن ) کا افتتاح فرمایا.حضور نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب سختی کی نقاب کشائی فرمائی اور اجتماعی دعا کروائی.بعد ازاں حضور نے مسجد اور اس سے منسلکہ ہالوں اور دفاتر کا معائنہ فرمایا.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا پشاور یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب ومئی ۱۹۶۵ء کو احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے زیر انتظام (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے محترم ڈاکٹر غلام اللہ صاحب کے مکان پر پشاور یونیورسٹی کے طلباء سے ایک نہایت بلند پایہ خطاب فرمایا.اس موقع پر پشاور یونیورسٹی کے احمدی طلبہ کے علاوہ بہت سے پروفیسرز اور سٹاف ممبران بھی مدعو تھے.اس تقریب میں ملک عمر حیات سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی بھی تشریف لائے تھے.انہوں نے حضرت میاں صاحب کی تقریرین کر قریب بیٹھے چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان سے فرمایا کہ صاحبزادہ صاحب نے سائنس اور ریاضی کے ایسے ایسے نکات اپنی تقریر میں بیان کئے ہیں جو وہ خود بھی ان علوم پر پوری دسترس رکھنے کے باوجود اس طرح بیان نہ کر سکتے تھے.20 (حضرت) میاں صاحب کا یہ خطاب ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر تھا جس سے حاضرین بہت متاثر ہوئے.محترم صاحبزادہ صاحب نے فرمایا:.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس ترقی یافتہ زمانہ میں خدا کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں حالانکہ اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 54 سال 1965ء زمانے کا ترقی یافتہ ہونا ہی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لایا جائے.آپ نے فرمایا موجودہ زمانے کی ترقی کا ایک پہلو یہ ہے کہ تقریباً ہر علم میں اور ہر علم کی ہر شاخ میں بیسیوں بلکہ سینکڑوں قسم کی Specialisation ہورہی ہے.ڈاکٹری کو دیکھئے کہ اب سے کچھ عرصہ پہلے سرجن اور فزیشن ایک ہی شخص ہوتا تھا لیکن اب سرجری اور فزیشن کے علم اتنے وسیع ہو گئے ہیں کہ سر جن الگ ہونا چاہیئے اور فزیشن الگ.پھر ان دونوں کی شاخوں کو لیجئے تو ان میں بھی یہی حال نظر آئے گا کہ کوئی ڈاکٹر آنکھ، ناک، کان کا ماہر ہے کوئی دل کا کوئی جسم کے کسی اور حصے کا بلکہ دل کے ماہروں کا یہ حال ہے کہ وہ بیماریوں کے لحاظ سے مختلف اقسام میں بٹے ہوئے ہیں.اگر دنیاوی علوم کا یہ حال ہے کہ ہر شخص کو کسی دوسرے کے علم پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے تو یہ کیوں سمجھا جاتا ہے کہ جہاں تک روحانیت یا خدا شناسی کا تعلق ہے اس کے لئے کسی Specialisation کی ضرورت نہیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ ہم تو یہیں چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو بلا واسطہ اللہ تعالی سے تعلق پیدا کرنا چاہیئے.اور خود اس کا عرفان حاصل کرنا چاہیئے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر کوئی خود اس حد تک تجربہ نہ کر سکے تو پھر دوسروں کے علم سے بھی فائدہ نہ اٹھائے.جولوگ خود اللہ تعالیٰ سے اتنا تعلق پیدا نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا انہیں کامل یقین ہو جائے.ان کو ایسے لوگوں کے علم اور ان کی روحانیت سے فائدہ اٹھانا چاہیئے جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کو Specialise کیا ہو.محترم میاں صاحب نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اس زمانہ میں جسے خاص طور پر ترقی یافتہ زمانہ کہا جاتا ہے.سائنسدانوں میں سے بعض لوگ جو اپنے علم کے لحاظ سے چوٹی کے عالم مانے جاتے ہیں اب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا وجود ( یا خدا تعالیٰ کی طاقتوں والی ہستی کا جو بھی وہ نام رکھ لیں ) ضرور ہونا چاہیئے اور حقیقت تو یہ ہے کہ سائنسدان (اور دوسرے لوگ بھی ) عقل کے ذریعہ صرف اس منزل تک پہنچ سکتے ہیں جہاں کہا جا سکے کہ خدا ہونا چاہیئے.جہاں تک ”خدا ہے“ کا تعلق ہے تو یہ عقل کے ساتھ معلوم کیا ہی نہیں جا سکتا.اس کو معلوم کرنے کے لئے عقل نہیں بلکہ روحانیت درکار ہے.بہر حال بعض چوٹی کے سائنسدان اب یہ اقرار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس دنیا کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہونا چاہیئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 55 سال 1965ء اس سلسلہ میں حضرت میاں صاحب نے سائنس آف چانس کا ذکر فرمایا کہ جس چیز نے سائنسدانوں کو اس بات کے اقرار پر مجبور کیا ہے کہ دنیا کا بنانے والا کوئی نہ کوئی ضرور ہونا چاہیئے وہ یہ ہے کہ انہوں نے تجربات کر کے یہ معلوم کیا کہ اگر ہم دس پرزوں پر ایک سے لے کر دس تک ہند سے لکھیں تو دس میں سے ایک چانس یہ ہے کہ ہم پہلی دفعہ ہی جو پرزہ اٹھائیں اس پر ایک لکھا ہوا ہو.اور اگر ہم چاہیں کہ پہلی دفعہ اٹھا ئیں تو نمبر ایک ہو اور دوسری دفعہ اٹھا ئیں تو نمبر دو ہو تو اس بات کا سو میں سے ایک چانس ہے اور اس طرح اگر ہم یہ چاہیں کہ پہلے ایک نمبر نکلے دو اور تین اور یہ تینوں نمبر ٹھیک اس ترتیب سے نکلیں.تو اس کا ہزار میں سے ایک چانس ہے اور اگر ہم چاہیں کہ پہلے ایک پھر دو پھر تین اور پھر چار نکلے.تو اس کا دس ہزار میں سے ایک چانس ہے.گویا ترتیب کے ساتھ نمبر نکالنے کے چانسز ضرب کی صورت میں کم ہوتے چلے جاتے ہیں.اس تھیوری کو جب انہوں نے دنیا کے نظام پر چسپاں کیا تو دیکھا دنیا کے محض اتفاقی طور پر وجود میں آجانے اور اتفاقی طور پر چلتے رہنے کا چانس تو اربوں ارب میں سے ایک ہے کیونکہ دنیا کی ہر چیز دوسری چیز کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے کہ اگر اس وابستگی کی نسبت کو ایک ذرہ بھر بھی کم یا زیادہ کر دیا جائے تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا.مثلاً زمین اور سورج اور چاند کے آپس کے فاصلے اور ایسی ہی دوسری باتیں ہیں.اس تھیوری کے پیش نظر چوٹی کے سائنسدان بھی یہ مانے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ضرور ہونی چاہیئے جو سارے کارخانہ عالم کو پیدا کرنے والی اور چلانے والی ہو.محترم میاں صاحب نے ایک کتاب فلاسفی آف اَیزُ اف Philosophy of Asif کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس کے مصنف نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ دنیا کا ہر علم مفروضات پر مبنی ہے.حتی کہ حساب جیسا یقینی علم بھی اگر مگر ہی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.حضرت میاں صاحب نے فرمایا کہ جہاں تک ” خدا ہے“ کا تعلق ہے.اس سلسلہ میں سب سے مؤثر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو غیب کی خبریں دیتا ہے اور وہ خبریں نہایت مخالف حالات کے باوجود پوری ہو جاتی ہیں.مثال کے طور پر حضرت میاں صاحب نے عبد الکریم صاحب کو باولے کتے کے کاٹنے اور اس کے دنیاوی طور پر لا علاج ہونے کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ کی دعاؤں کے طفیل اور پہلے سے دی گئی خبر کے مطابق صحت یاب ہو جانے کا ذکر فرمایا اور اس بات کو اس امر پر دلیل ٹھہرایا کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے.اور وہ لوگ جو اس علم میں Specialise
تاریخ احمدیت.جلد 23 56 سال 1965ء کرتے ہیں انہیں سے اس کی تفصیل پوچھنی چاہیئے.حضرت میاں صاحب نے اپنے خطاب کے خاتمہ پر طلباء کو اور دیگر حاضرین کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ کا ترقی یافتہ ہونا ہی اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ خدا کے برگزیدوں کی بات کی طرف کان دھریں اور اس سے فائدہ اٹھا ئیں.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر شخص بلا واسطہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرے.ایک سوئس اخبار میں جماعت احمدیہ کا ذکر سوئٹزرلینڈ کے مشہور روزنامه BERNER TAGBLATT نے اپنی اا جون ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں احمدیہ موومنٹ کے زیر عنوان ایک نوٹ شائع کیا.نوٹ میں کئی مقامات پر جانبداری کا رنگ جھلکتا تھا تاہم اس سے یہ حقیقت بالکل کھل کر سامنے آ گئی کہ جماعت احمدیہ کی عظیم الشان جدو جہد نوع انسان کی مذہبی تاریخ میں ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے اور اس کے تصور سے عیسائی دنیا کو سخت پریشانی اور اضطراب لاحق ہے اور جماعت احمدیہ کی دینی مساعی سے چرچ کو بہت زبر دست خطرہ محسوس ہو رہا ہے.اخبار مذکور نے لکھا:.کہیں اس خیال کے پیش نظر کہ تحریک احمدیت کا آغاز (جیسا کہ اس کے عجیب و غریب نام سے ظاہر ہوتا ہے ) ہندوستان ایسے دور دراز ملک سے ہوا.ہم میں سے بعض لوگ یہ نہ سمجھنے لگیں کہ اس تحریک سے ہمیں کیا تعلق یا واسطہ ہو سکتا ہے.اس ضمن میں ہم کو یہ امر فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ آجکل دنیا میں فاصلوں کی دوری اور بعد کا سوال کوئی اہمیت نہیں رکھتا.آجکل تو طویل سے طویل فاصلہ بھی قریب ترین فاصلہ کی صورت اختیار کر سکتا ہے.خود اس ملک میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشن کا وجود اس کا بین ثبوت ہے.کیا اس کے نتیجہ میں زیورک میں ہمارے اپنے درمیان ایک اسلامی عبادت گاہ یعنی مسجد کی تعمیر ممکن ہوتی نہیں دکھائی دے رہی ! پھر آج سے چودہ سال قبل یہ بات کچھ کم سنسنی پھیلانے کا موجب نہیں ہوئی تھی کہ جب ۱۹۴۷ء میں تین ہندوستانی باشندوں نے یہاں زیورک بوائز رائفل شوٹنگ کے موقع پر با تصویر اشتہارات تقسیم کئے تھے.ان اشتہارات کا عنوان تھا مسیح صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے.ہندوستان میں ان کے مقبرہ کی دریافت.اشتہار کے متن میں لکھا تھا کہ مسیح ناصری واقعہ صلیب کے بعد نہایت پُر اسرار طور پر روپوش ہو گئے تھے.یہودیوں کے نزدیک ان کا صلیب دیا
تاریخ احمدیت.جلد 23 57 سال 1965ء جانا ان کے دعوی مسیحیت کے بطلان پر دال تھا.عیسائی کہتے ہیں کہ انہوں نے تو بنی نوع انسان کے گناہوں کی پاداش میں کفارہ کے طور پر اپنی جان دی.اس بارہ میں یہودی اور عیسائی دونوں غلطی پر ہیں.اصل بات یہ ہے کہ مسیح کو اس حال میں صلیب پر سے اتارا گیا تھا کہ ان پر بیہوشی طاری تھی.اس زمانہ کے مامور احمد (علیہ السلام) آف قادیان نے دنیا میں مبعوث ہو کر اعلان کیا کہ مسیح (علیہ السلام) صلیب کے اثرات سے صحت یاب ہو گئے تھے پھر انہوں نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا.وہاں پہنچ کر اپنے پیغام کی اشاعت کی.بالآخر طبعی موت سے وہیں وفات پائی.اور کشمیر میں دفن ہوئے.احمد (علیہ السلام) کو اپنے اس انکشاف کا بآسانی ثبوت بھی مل گیا اور وہ اس طرح کہ آپ قبر مسیح کا پتہ لگانے میں کامیاب ہو گئے.آپ نے یوز آصف نامی ایک مسلمان ولی کی قبر دریافت ہونے پر اس کے نام کو یسوع آصف میں تبدیل کر دیا اور دعویٰ یہ کیا کہ اس کے معنے ہیں یسوع.......لوگوں کو اکٹھا کرنے والا اس طرح جو مقبرہ دریافت ہوا اسے مسیح ناصری کا مقبرہ ثابت کر دیا گیا.احمدیت کی تحریک انگلستان میں ۱۹۱۷ء میں ہی پہنچ گئی تھی.اپنے وطن یعنی ہندوستان میں اسے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.لیکن یہ مخالفت اس کے مزید بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا موجب بنی.۱۹۳۴ء میں اس جماعت کی طرف سے ہندوستان سے باہر کے ممالک میں تبلیغ کی غرض سے طوعی طور پر ایک فنڈ کے قیام میں شمولیت کی اپیل کی گئی.لیکن دوسری عالمی جنگ چھڑ جانے کے باعث مبلغین اسلام کا پہلا گروپ ۱۹۴۵ء سے قبل باہر نہ بھجوایا جاسکا.اس دوران میں یہ جماعت دنیا کے اور بہت سے حصوں میں بھی پھیل گئی ہے.جہاں تک یورپ کا تعلق ہے لندن، ہمبرگ ، فرانکفورٹ ، میڈرڈ ، ہیگ، زیورخ اور سٹاک ہالم میں اس کے با قاعدہ تبلیغی مشن قائم ہیں.امریکہ کے شہروں میں سے واشنگٹن ، لاس اینجلس ، نیویارک ، پٹسبرگ اور شکاگو میں بھی اس کی شاخیں موجود ہیں.اس سے آگے گریناڈائٹرینیڈاڈ اور ڈچ گی آنا میں بھی یہ لوگ مصروف کار ہیں.افریقی ممالک میں سے سیرالیون، گھانا، نائیجیریا اور مشرقی افریقہ میں بھی ان کی خاص جمعیت ہے.مشرق وسطی اور ایشیا میں سے مسقط، دمشق، بیروت، ماریشس، برطانوی شمالی بور نیو، کولمبو، رنگون، سنگا پور اور انڈو نیشیا میں ان کے تبلیغی مشن کام کر رہے ہیں.دوسری عالمگیر جنگ سے قبل ہی قرآن کا دنیا کی سات مختلف زبانوں میں ترجمہ کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا.چنانچہ اب تک ڈچ ، جرمن اور انگریزی میں پورے قرآن مجید کے تراجم عربی متن کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 58 سال 1965ء ساتھ شائع ہو چکے ہیں.عنقریب روسی ترجمہ بھی منظر عام پر آجائے گا.اس جماعت کا نصب العین بہت بلند ہے اور وہ یہ کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام بنی نوع انسان کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا کر انہیں باہم متحد کر دیا جائے.وہ مذہب احمدیت یعنی حقیقی اسلام ہے اس کے ذریعہ یہ لوگ پوری انسانیت کو اسلامی اخوت کے رشتہ میں منسلک کر کے دنیا میں حقیقی اور پائیدار امن قائم کرنا چاہتے ہیں.انہیں توقع ہے کہ بالآخر تمام بنی نوع انسان اسلام کی آغوش میں آکر مسلمان ہو جائیں گے.یہ جماعت خود اور اس کا اپنے مولد و مسکن سے نکل کر پوری دنیا پر اس قدر مضبوطی سے پھیل جانا نوع انسان کی روحانی تاریخ کے دیگر عجیب و غریب واقعات میں سے ایک عجیب و غریب واقعہ اور نشان ہے.جو فی زمانہ بنی نوع انسان کے ذہنی الجھاؤ اور انتشار پر دلالت کرتا ہے.احمدیت اور اسلام کا مسیح کی صلیب کو پوری طرح سے رڈ کر دینا اس امر کا آئینہ دار ہے کہ یہ جماعت بھی نجات کی آسمانی امید سے تہی دست ہے کیونکہ دنیا کے نجات دہندہ کی صلیب انسانیت کی موجودہ پراگندگی اور انتشار کے باوجود مفاہمت کی وہ واحد علامت ہے جو انسانوں کا خدا سے رشتہ جوڑنے کی ضمانت دے سکتی ہے اور آئندہ بھی ہمیشہ دیتی رہے گی.28 ڈاکٹر عبد السلام کی تقر می ریڈیو پاکستان سے اپریل ۱۹۶۵ء کے تیسرے ہفتہ سے قبل اقبال میموریل لیکچرز کا ایک سلسلہ ریڈیو پاکستان نے کراچی سے شروع کیا جس کا افتتاح جناب محمد ایوب خان صدر پاکستان کے سائنسی مشیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی تقریر سے ہوا چنا نچہ اخبار پاکستان ٹائمنر نے اپنی ۲۲ اپریل ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں لکھا:.صدر مملکت کے سائنسی مشیر اعلیٰ محترم پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ آج سے آٹھ سو سال پہلے کے دور فردوسی کی طرح ڈاکٹر اقبال کے دور یعنی موجودہ زمانہ میں ایسے عظیم سائنسدان پیدا ہوں گے کہ جو ذہانت اور روشن دماغی میں ابن سینا اور البیرونی کے ہم پلہ ہوں.آپ نے اس خیال کا اظہار مورخہ ۲۱ را پریل ۱۹۶۵ء کو اقبال میموریل لیکچرز کے سلسلہ میں ریڈیو پاکستان سے تقریر نشر کرتے ہوئے کیا.ریڈیو پاکستان کے قومی پروگرام کے تحت نشر ہونیوالے ان میموریل لیکچرز کا آغاز آپ ہی کے لیکچر سے ہوا.آپ نے اپنے لیکچر میں جو اس سلسلہ کا سب سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 59 سال 1965ء پہلا لیکچر تھا مشرق کے فلسفی شاعر کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.پروفیسر عبد السلام نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ریڈیو پاکستان نے علامہ اقبال کی یاد میں لیکچروں کا سلسلہ شروع کیا ہے.آپ نے کہا ڈا کٹر اقبال ایک سچے فلسفی کی حیثیت سے اس بات کے قائل تھے کہ فلسفیانہ انداز فکر میں حد بست کا سوال پیدا نہیں ہوتا.اس کی ترقی سائنسی میدان میں نت نئی دریافتوں کے ساتھ وابستہ ہے.آپ نے کہا علامہ اقبال نے مذہبی فکر کی تعمیر نو کے موضوع پر اپنے لیکچروں میں بار بار فزکس کے شعبے میں ایسی ترقی پر زور دیا ہے جو فلاسفی میں نیا انداز فکر پیدا کرے.پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام نے کہا کسی تہذیبی نظام میں کسی عظیم شاعر یا عظیم مصنف یا انسانیت کے کسی عظیم علمبر دار کا پیدا ہونا اکیلے واقعہ کے طور پر نہیں ہوتا.اس کے ساتھ ہی ایسے لوگ بھی منصہ شہود پر آتے ہیں جو سائنس اور فلسفہ میں نمایاں حیثیت کے حامل ہوں.آپ نے نیچر کی تفہیم و ادراک میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نیچر میں اتحاد کی تلاش اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسانی تاریخ.تہذیب و تمدن کے آغاز سے ہی انسان ان چیزوں کے بارہ میں جو اس کے گرد و پیش ظہور میں آتی رہتی ہیں حیرت کا اظہار کر کے مختلف قسم کے سوال پوچھتا رہا ہے.ان تمام سوالوں میں قدر مشترک کے طور پر ایک خواہش شروع ہی سے کارفرما رہی ہے اور وہ یہ کہ ان سوالوں کے جواب جب اور جیسے بھی منظر عام پر آئیں چند عمومی اصولوں سے ہی مستنبط ہونے چاہئیں.آپ نے کہا ہمیشہ ہی سے انسان اس بات پر پختہ یقین رکھتا چلا آرہا ہے کہ کائنات کے نظام کو چلانے والے بنیادی قوانین میں لازماً اتحاد، سادگی اور یکسانیت ہونی چاہیئے.فزکس کے بنیادی قوانین میں اتحاد، ہم آہنگی اور حسن کے موجود ہونے پر انسان کا یہ ایمان وایقان اس کے لئے بہت مثمر ثمرات ثابت ہوا ہے.اقبال میموریل لیکچرز کا افتتاح وزیر اطلاعات و نشریات جناب خواجہ شہاب الدین کے خصوصی پیغام سے ہوا.انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ علامہ اقبال کے متعلق لیکچرز کا یہ سلسلہ علامہ کے پیغام کو سمجھنے میں مدد دے گا.جناب خواجہ شہاب الدین نے اپنے پیغام میں پروفیسر ڈاکٹر عبد السلام کو بھی خراج تحسین پیش کیا.انہوں نے کہا ڈاکٹر عبدالسلام (جن کے لیکچر سے ”اقبال میموریل لیکچر کے سلسلہ کا آغاز ہو رہا ہے) نے ایک سائنسدان کی حیثیت سے اپنے درخشندہ کیرئیر
تاریخ احمدیت.جلد 23 60 سال 1965ء میں جو کام کیا ہے اور جدید طبیعیات کے علم میں یادگار اضافہ کر کے ہمیشہ قائم رہنے والا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے قوم کو اس پر فخر ہے“.29 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا مجلس انصار اللہ ربوہ سے پُر اثر خطاب ۷ اجون ۱۹۶۵ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے مجلس انصار اللہ ربوہ کے اجلاس عام سے ایک پُر اثر خطاب فرمایا اور انصار اللہ کو تلقین فرمائی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کریں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اتباع کے لئے صحابہ کے نمونہ کی پیروی کریں تا کہ دنیا ان تعلیمات کی زندہ اور عملی تصویر ہماری زندگیوں میں دیکھ سکے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ساہیوال میں 30 محترم ڈاکٹر عطاءالرحمن صاحب سابق امیر جماعت ضلع ساہیوال تحریر فرماتے ہیں :.۱۴ جون ۱۹۶۵ء کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بطور صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ ساہیوال تشریف لائے.گرمی بہت زیادہ تھی.انہی دنوں رن کچھ کے مقام پر پاکستان اور بھارت کے درمیان فوجوں کی جھڑپ ہو چکی تھی اور سڑکوں پر فوج کی نقل وحرکت کی وجہ سے بڑارش تھا.صاحبزادہ صاحب ساڑھے بارہ بجے دوپہر ربوہ سے روانہ ہو کر تقریبا پانچ بجے بعد دو پہر ساہیوال پہنچے.اسی روز ان کے اعزاز میں خاکسار کے مکان پر عصرانہ کا انتظام تھا.خاکساران دنوں ناظم انصار اللہ ضلع ساہیوال ( بشمول ضلع اوکاڑہ اور ضلع پاکپتن ) تھا اور مکرم و محترم چوہدری محمد شریف صاحب امیر جماعتہائے احمدیہ ضلع ساہیوال کی بیماری کی وجہ سے قائمقام امیر کا کام بھی کر رہا تھا.بہت سے معززین ( جن میں محترم را نا عبدالحمید صاحب مرکزی وزیر اور ضلعی افسران ساہیوال) مدعو تھے.ان کے ساتھ صاحبزادہ صاحب بات چیت فرماتے رہے.بیت الحمد اوّل (اوّل سے مراد وہ مسجد احمد یہ ہے جو ۱۹۸۴ء سے گورنمنٹ کی طرف سے سیل چلی آ رہی ہے ) بڑی فراخ ، رنگ وروغن سے مزین اور بڑی صاف ستھری تھی.اس میں ضلع بھر سے آئے ہوئے انصار حضرات کا اجلاس تھا جس میں صاحبزادہ صاحب نے بھی نصائح فرمائیں.بیت الحمد کی فراخی اور رنگ و روغن دیکھ کر بعد میں جب (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلافت ثالثہ پر متمکن ہوئے تو انہوں نے مرکز ربوہ میں ایک مجلس مجلس عرفان یا ارشاد کے نام سے قائم فرمائی جس
تاریخ احمدیت.جلد 23 61 سال 1965ء کے پروگرام میں علمی تقاریر کروانا تھا اور ساتھ ہی سارے پاکستان کی دس بڑی بڑی جماعتوں کو فرمایا کہ وہاں پر بھی اسی قسم کی مجالس قائم کی جاویں.ان میں ربوہ کے علاوہ لاہور، کراچی، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسی بڑی بڑی جماعتیں بھی شامل تھیں اور انہی میں جماعت احمد یہ ساہیوال کا نام بھی شامل فرما دیا.خاکسار نے اپنے احباب سے کہا کہ ہم لوگوں کی یہ عزت افزائی ہمارے اس بیت الحمد کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس کی طرف پوری توجہ دیتے رہنا چاہیئے ، اس کو ہمیشہ رنگ وروغن کروا کر صاف ستھرا رکھنا چاہیئے، اس کی حفاظت کرنی چاہیئے اور اس کی آبادی کی کوشش کرتے رہنا چاہیئے.( بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ جماعت نے اس بیت الحمد کی پوری پوری حفاظت کی.جن دنوں (۲۶ اکتو بر ۱۹۸۴ء میں ) مخالفین نے اس پر حملہ کیا، ان دنوں بھی اس کی مرمت ہو رہی تھی اور ٹھیکیدار کا سامان ابھی تک اندر ہی پڑا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس بیت الحمد کی وجہ سے شہر ساہیوال کے نام سے تمام دنیا کے احمدیوں کو متعارف کروا دیا.الحمد للہ ).اگلے روز اسی بیت الحمد میں صاحبزادہ صاحب نے لجنہ اماءاللہ ضلع ساہیوال کی مبرات سے تقریر فرمائی اور دو پہر بارہ بجے کے قریب واپس تشریف لے گئے.پردہ کا پورا انتظام تھا.اسی روز صبح کے وقت گورنمنٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل صاحب کی دعوت پر چند منٹ کے لئے گورنمنٹ کالج ساہیوال بھی گئے.پرنسپل صاحب نے ٹھنڈے مشروبات سے تواضع فرمائی.روانگی کے وقت وعدہ فرمایا کہ وہ دوبارہ ضلع ساہیوال آویں گے اور سارے ضلع کا دورہ کریں گے.نومبر ۱۹۶۵ء کے دوسرے ہفتہ میں آپ خلافت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو گئے.جماعت ساہیوال کے افراد نے ربوہ جا کر گذارش کی کہ ساہیوال دوبارہ تشریف لاویں تو فرمایا کہ اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور میری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں اس لئے یہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ ضلع ساہیوال کے دورہ کے لئے وقت نکال سکوں.اگلے سال ماہ فروری میں حضور سندھ تشریف لے گئے اور ربوہ سے براستہ فیصل آباد خانیوال تشریف لے گئے.کراچی سے خاکسار کے نام خط تحریر فرمایا کہ واپسی کا پروگرام بذریعہ تیز گام بنایا گیا ہے اور فلاں تاریخ کو اتنے بجے تیز گام ساہیوال کے ریلوے سٹیشن پر ہوگی احباب ملاقات کر سکتے ہیں.خاکسار نے ضلع بھر کی جماعتوں کے احباب کو حضور کے فرمان سے مطلع کر دیا کہ حضور بذریعہ تیز گام فلاں تاریخ کو سفر فرماتے ہوئے ساہیوال سے گذریں گے.ریلوے سٹیشن پر ملاقات ہو سکے گی.چنانچہ ضلع بھر کی جماعتوں کے احباب سینکڑوں کی تعداد میں اس روز ریلوے سٹیشن ساہیوال
تاریخ احمدیت.جلد 23 62 سال 1965ء پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے منظم طریق سے اور بڑی سہولت کے ساتھ تمام احباب کی ملاقات ہوگئی.تیز گام عام طور پر ساہیوال کے سٹیشن پر پانچ منٹ کے لئے رکتی تھی اس روز ٹرین پندرہ منٹ رکی رہی.جماعت ساہیوال کے احباب نے بھی بڑا تعاون کیا جن میں مکرم محترم اکرام الحق 31 766 جتالہ صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں جو ان دنوں قائد خدام الاحمدیہ ساہیوال تھے.انہوں نے اپنے خدام کے ساتھ بڑا اچھا کام کیا.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر دیوے.آمین.جماعت احمد یہ برما کا ایک احتجاجی مراسلہ جولائی ۱۹۶۵ء کا واقعہ ہے کہ جماعت احمد یہ برما کو علم ہوا کہ برمی زبان میں ایک کتاب انقلابی خیالات‘ چھپی ہے جس میں مصنف نے سید المعصو میں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملہ کیا ہے اور پروفیسر انگرسول کی کسی کتاب سے ایک نہایت نا پاک حوالہ درج کر کے اپنے خبث باطن کا اظہار کیا ہے.جماعت احمد یہ برما کے پریذیڈنٹ خواجہ بشیر احمد صاحب نے ایک طرف مسلم اداروں کو اس کی اطلاع دی اور دوسری طرف ایک احتجاجی مراسلہ کے ذریعہ برما کے ہوم سیکرٹری ، انفارمیشن سیکرٹری اور سنٹرل انقلابی حکومت کے ادارہ کو خبر دار کیا.اس احتجاج کا فوری نتیجہ برآمد ہوا چنانچہ حکومت بر مانے اس دلازار کتاب کے تمام نسخے بحق سرکار ضبط کر لئے اس مستحسن اقدام کی بدولت ملک میں کوئی نا خوشگوار حادثہ پیش نہ آیا.(حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا انصار اللہ ضلع لائلپور کے اجتماع سے خطاب ۲۵ جون ۱۹۶۵ء کو دارالذکر لائلپور میں مجالس انصار اللہ ضلع لائلپور کا ایک روح پرور اجتماع ہوا.جس میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے شرکت فرمائی.اس موقعہ پر پروفیسر شیخ محبوب عالم صاحب خالد ایم اے قائد عمومی ، مولانا ابو العطاء صاحب فاضل قائد تربیت ، مولانا مبارک احمد صاحب قائد اصلاح و ارشاد پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے، مولوی نسیم سیفی صاحب نائب قائد عمومی ، مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نائب قائد اصلاح وارشاد، محمد احمد صاحب انور حیدر آبادی اور میاں مسعود احمد خاں صاحب دہلوی قائد اشاعت بھی حضرت صاحبزادہ صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 63 سال 1965ء موصوف کے ہمراہ لائل پور گئے اور انہوں نے بھی اہم علمی اور تربیتی موضوعات پر تقاریر کیں.اجتماع کے آخر میں (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے صدارتی تقریر ارشاد فرماتے ہوئے انصار کو نہایت بیش قیمت نصائح سے نوازا.آپ نے فرمایا ہم انصار اللہ کہلاتے ہیں.انصار اللہ کی اصطلاح دو طرفی رشتہ پر دلالت کرتی ہے.ایک طرف تو یہ دو لفظ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایک ایسی جماعت موجود ہے جس کے افراد اپنے دلوں میں یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ محض اللہ دین کی خدمت کا فریضہ ادا کریں.دوسری طرف انصار اللہ کی اصطلاح اس امر کا بھی آئینہ دار ہوسکتی ہے کہ ایک ایسی جماعت موجود ہے جس کے افراد کا شعار ہی نصرت دین ہے اور جو خدمت بھی بجالا کر وہ نصرت دین کا فریضہ ادا کر رہے ہیں وہ اللہ کے ہاں مقبول ہے یعنی اسے اللہ تعالی کی سند قبولیت حاصل ہے.اب جہاں تک پہلے معنوں کی رُو سے نصرت دین کی خواہش کا تعلق ہے حقیقی معنوں کی رُو سے یہ انصار اللہ بننے کے لئے ہرگز کافی نہیں کیونکہ محض خواہش کے موجود ہونے سے کسی انعام کا استحقاق لازم نہیں آتا.مثال کے طور پر آٹھ نو ماہ کا طفلِ شیر خوار جب چاند کی طرف دیکھتا ہے تو اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ وہ چاند کو پکڑے.چنانچہ بسا اوقات اس خواہش کے زیر اثر وہ چاند کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے لیکن اُس کی یہ خواہش اسے اس قابل نہیں بنا سکتی کہ فی الواقعہ وہ چاند کو پکڑ لے.چاند کو پکڑنے کی خواہش ویسے ہی امید موہوم کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ فی زمانہ سائنسدان بھی چاند تک پہنچنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں ان پر بھی چاند کو پکڑنے کے سلسلہ میں طفلِ شیر خوار کی خواہش والی مثل صادق آتی ہے اس لئے کہ اب تک وہ جس حد تک بھی خلا میں گئے ہیں اس کرہ ارض پر زندگی کو برقرار رکھنے والے حالات کو اپنے ساتھ ہی لے کر گئے ہیں.ان حالات کی عدم موجودگی میں خلا کے اندر چند سیکنڈ بھی ان کے لئے زندہ رہنا ممکن نہیں ہے.اس میدان میں حیرت انگیز ترقی کے باوجود انہیں نا کامی کا دھڑکا لگا ہوا ہے کہ وہ چاند تک پہنچ بھی پاتے ہیں یا نہیں.اس میں شک نہیں نصرت دین کی محض خواہش کا موجود ہونا انصار اللہ بننے کے لئے کافی نہیں اور یہ کہ نصرت دین کی محض خواہش چاند کو پکڑنے کے تعلق میں طفل شیر خوار کی خواہش سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتی بایں ہمہ یہ خواہش ایسی خواہش نہیں ہے جس کے ساتھ نا کامی کا دھڑکا لگا ہوا ہو.اگر ہم چاہیں تو اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنا کر ہم حقیقی معنوں میں انصار اللہ بن سکتے ہیں اور اپنی نصرت دین کو اس معیار پر پہنچا
تاریخ احمدیت.جلد 23 64 سال 1965ء سکتے ہیں کہ وہ خدا کے ہاں مقبول ٹھہرے.اس کے لئے مجاہدہ کی ضرورت ہے.اگر ہم فی الواقعہ مجاہدہ کریں تو یقینی طور پر ہم نصرت دین کا فریضہ بجالا کر انصار اللہ بن سکتے ہیں مگر یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ ہم مجاہدہ نہ کریں اور محض خواہش کے بل پر انصار دین میں جاشامل ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان قوت قدسی عطا فرمائی تھی.مکہ کے اطراف و جوانب سے لوگ آپ میں اللہ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور آپ ﷺ کی قوت قدسی کے زیر اثر ان میں تبدیلی رونما ہو کر انہیں قبول حق پر آمادہ بھی کر دیتی تھی.اور وہ ایمان بھی لے آتے تھے لیکن اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ میری ایک نظر لوگوں کو ولایت کے مقام تک پہنچا دے گی.چونکہ روحانی ترقی بھی ہمیشہ تدریجی ہوتی ہے اس لئے آپ ﷺ نے ہمیشہ لوگوں سے یہی فرمایا کہ اگر روحانی طور پر ترقی کرنی چاہتے ہو تو مجاہدہ کرو ، قربانیوں اور آزمائشوں میں پورے اترواس کے بغیر تم روحانی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتے.اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ آزمائشوں اور امتحانوں میں پورا اترے بغیر روحانی مدارج نہیں ملتے چنانچہ فرماتا ہے أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا اَنْ تَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت ۳۰) یعنی کیا اس زمانہ کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی ہوگا اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقرة :۱۵۶) یعنی ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی کے ذریعہ سے ضرور آزمائیں گے.پس روحانی مدارج کے حصول کے لئے ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.یہ ابتلاء اور آزمائشیں اپنی ذات میں خود ایک انعام ہوتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں بیدار رکھتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہمیں مجاہدہ کی تو فیق ملتی چلی جاتی ہے.اس پر اثر خطاب کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب موصوف نے انصار اللہ سے ان کا عہد دہر وایا اور پھر ایک پُر سوز اجتماعی دعا کرائی اور اس طرح مجالس انصار اللہ ضلع لائکپور کا یہ اجتماع نہایت کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا پر چھ بجے شام اختتام پذیر ہوا.رسالہ تحریک جدید کا اجراء اگست ۱۹۶۵ء سے مولوی نیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ کی زیر ادارت ایک نیا
تاریخ احمدیت.جلد 23 65 سال 1965ء مرکزی ماہنامہ تحریک جدید " جاری کیا گیا.یہ رسالہ سلسلہ احمدیہ کی روز افزوں ترقی اور بیرونی مشنوں کی مجاہدانہ اور سرفروشانہ جدو جہد کا آئینہ دار ہے.اور اس کے ہر شمارے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کی حقانیت روشن سے روشن تر ہوتی چلی جارہی ہے کہ د میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.وَ اَوْحَى إِلَى رَبِّي وَ وَعَدَنِى أَنَّهُ سَيَنْصُرُنِي حَتَّى يَبْلُغَ أَمْرِى مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا.وَتَتَمَوَّجُ بُحُورُ الْحَقِّ حَتَّى يُعْجِبَ النَّاسَ 35 حُبَابُ غَوَارِبِهَا “.ترجمہ :.میرے رب نے میری طرف وحی بھیجی اور وعدہ فرمایا کہ وہ مجھے مدد دے گا.یہاں تک کہ میرا کلام مشرق و مغرب میں پہنچ جائے گا.اور راستی کے دریا موج میں آئیں گے.یہاں تک کہ اس کی موجوں کے حباب لوگوں کو تعجب میں ڈالیں گے.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا درج ذیل اہم پیغام اس کے پہلے شمارہ میں شائع کیا گیا:.تحریک جدید کے مقاصد ہم پر ایک بھاری ذمہ داری عائد کرتے ہیں ہمیں ساری دنیا میں تحریک جدید کے مقاصد کو پھیلانا اور قائم کرنا ہے.اور یہ بات صرف اور صرف ہماری قربانیوں ہی سے سرانجام دی جاسکتی ہے.اس سلسلہ میں پہلا قدم تو یہ ہونا چاہیئے کہ ہمارے مرکز سے مبلغین اور لٹریچر دنیا کے تمام حصوں کو ایک نہ ٹوٹنے والے تسلسل کے ساتھ فراہم کئے جائیں اور جیسا کہ ظاہر ہے یہ بات تقاضا کرتی ہے روپے کا اور کام کرنے والوں کا.روپیہ جو کافی مقدار میں ہو.اور کام کرنے والے جن کی تعداد بھی کافی ہو.اور جو حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کے اہل ہوں اور اپنے دلوں میں اسلام کی خدمت کا بے پناہ جذبہ رکھتے ہوں.ایسے کام کرنے والے جہاں بھی بھیجے جائیں جانے کے لئے تیار ہوں.چاہے انہیں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں پر بھیجا جائے یا افریقہ کے پتے ہوئے ریت کے علاقوں میں.یہ لوگ نہایت بہادری سے ہر قسم کے پُر خطر حالات اور مشکلات میں سے گزرنے کے لئے تیار ہوں.اور اپنی تمام کوششوں کا حقیقی اجر صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے ہی چاہتے ہوں.ہمیں ایسے رنگ میں کام کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی ضرورت ہے اور یہ جماعت کا کام ہے کہ ایسے کام کرنے والے مہیا کرے.نوجوانوں کو آگے بڑھنا چاہیئے اور اس شاندار کام کے و
تاریخ احمدیت.جلد 23 66 سال 1965ء لئے اپنی زندگیوں کو وقف کرنا چاہیئے اور جماعت کو چاہیئے کہ اپنے بچوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو ہر سال اس کام کے لئے تعلیم و تربیت دلوائیں.تا کہ وہ اس بوجھ کو صحیح معنوں میں برداشت کرنے کے قابل ہو جائیں.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں میں پڑھا ہے کہ اسلام کا مستقبل نہایت شاندار ہے.اور یہ ایسی بات ہے جو کام کرنے والوں کے لئے اس بات کی کافی ضمانت سمجھی جانی چاہیئے کہ نہ صرف ان کی زندگیاں بیکار نہ جائیں گی بلکہ چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح ہمیشہ چمکتی 36 رہیں گی.اخبار بدر قادیان نے اس نئے ماہنامہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے حسب ذیل تبصرہ سپر د قلم کیا.جو فیض احمد صاحب گجراتی کا تحریر کردہ تھا.ضرورت تھی کہ دنیا کے چاروں کونوں میں پھیلے ہوئے جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشنوں کی مساعی کو نشر کرنے کے لئے ایک نقیب ہوتا.اور جماعت کے دلوں کو اس بیحد مبارک تحریک میں حصہ لینے کے لئے گرمانے والی کوئی آواز ہوتی.جو مستقل اور متواتر طور پر اس آفاقی مہم کی اہمیت کو واضح کرتی.سو الحمد للہ کہ تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ نے بروقت اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ماہنامہ تحریک جدید کا اجراء کیا ہے.یہ ماہنامہ دوحصوں پر مشتمل ہے.ایک حصہ اردو میں ہے اور دوسرا انگریزی میں.اس ابتدائی پرچے میں صرف تحریک جدید کے مختصر سے تعارف پر ہی اکتفا کیا گیا ہے اور ابتدائی طور پر یہی ضروری تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید کا ایک مختصر مگر مؤثر پیغام بھی ہے جس میں جماعت کو مالی اور جانی قربانیاں اسلام کی دہلیز پر پیش کرنے کی تحریک فرمائی گئی ہے.تحریک جدید کے ابتدائی دور کی کچھ جھلکیاں محترم مولانا عبدالرحمن صاحب انور نے پیش فرمائی ہیں.ٹائٹل پیج پر حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے کامیاب دورہ افریقہ و یورپ کے دوران کی ایک فوٹو ہے.جس میں آپ گھانا کے صدر مسٹر نکرومہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں...ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ماہنامہ مولانا سیم سیفی جیسے تبلیغی میدان کے آزمودہ اور تجربہ کار مجاہد کی ادارت میں اہم خدمات سرانجام دے گا.رسالہ کی قیمت محض برائے نام رکھی گئی ہے یعنی صرف ڈیڑھ روپیہ سالانہ.نوٹ: بعض وجوہات کی بنا پر ا۱۹۹ ء سے دسمبر ۲۰۰۵ ء تک اس کی اشاعت محدود رہی.جنوری ۲۰۰۶ء سے دوبارہ با قاعدہ اشاعت جاری ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 67 جماعت ہائے احمد یہ یورپ و انگلستان کا پہلا کامیاب جلسہ سال 1965ء یکم اگست ۱۹۶۵ ء کا دن یورپ کے احمد یہ مشنوں کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے.اس روز یورپ اور انگلستان کی احمدی جماعتوں کا پہلا کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا.جلسہ کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس نے کیا اور آپ ہی نے افتتاحی خطاب سے نوازا.اس جلسہ میں جماعت ہائے احمدیہ انگلستان کے احباب کے علاوہ ہالینڈ ، جرمنی ، پین ، ڈنمارک، سویڈن سوئٹزر لینڈ اور فرانس سے ۲۵ مندوبین نے شرکت فرمائی.استقبالیہ ایڈریس بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد فضل (لندن) نے پڑھا.جلسہ میں مندرجہ ذیل مجاہدین احمدیت نے تقاریر فرما ئیں:.چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام مسجد محمود زیورک)، عبدالسلام صاحب میڈسن (ڈنمارک)، حافظ قدرت اللہ صاحب امام مسجد (ہالینڈ)، چوہدری عبداللطیف صاحب امام مسجد (ہمبرگ ).شام کو لجنہ اماءاللہ لندن نے مندوب خواتین کے اعزاز میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد کی جس میں محترمہ طاہرہ چوہدری صاحبہ نے استقبالیہ ایڈریس میں مہمان خواتین کو خوش آمدید کہا.سوئٹزرلینڈ کی مس نصرت نے جوابی تقریر میں لجنہ اماءاللہ لندن کا شکریہ ادا کیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس تاریخی جلسہ کے تمام اجلاسوں میں شمولیت فرمائی اور مختلف مواقع پر زریں نصائح اور ہدایات سے نوازا.38 (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا دورہ کراچی وسندھ (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اس سال ۲۶ /اگست سے لے کر ۵ ستمبر تک کراچی اور اندرون سندھ کا کامیاب دورہ کیا.جو مخلصین جماعت کے از دیادِ ایمان کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوا.حضرت صاحبزادہ صاحب کی مصروفیات کا آغاز ۲۶ راگست کی شام کو ہوا جبکہ آپ نے مجلس انصار اللہ کراچی کی تربیتی کلاس سے خطاب فرمایا.اگلے روز ۲۷ اگست کو آپ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں آپ نے کراچی کے احمدی احباب کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں اور انہیں مرکز کے ہر حکم اور جماعتی نظام کے تحت مقرر کردہ
تاریخ احمدیت.جلد23 68 سال 1965ء عہد یداروں کی ہدایات کی تعمیل کی نصیحت فرمائی.آپ نے فرمایا ہم میں سے ہر شخص کو خواہ وہ ناظر ہو یا امیر جماعت یا کوئی اور عہدیدار تمام اختیارات خلیفہ وقت کی طرف سے تفویض ہوتے ہیں ان میں سے کسی کا اپنا کوئی ذاتی اختیار نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ نظام کی مکمل پابندی کی جائے اور اگر امیر جماعت یا کوئی اور عہدیدار کوئی ہدایت دیتا ہے تو وہ دراصل اس اختیار کے تحت ہوتی ہے جو خلیفہ وقت کی طرف سے تفویض ہے اس لئے عہدیداروں کے احکام کی اطاعت دراصل خلیفہ وقت کی اطاعت ہے اور اسی نقطۂ نظر کے تحت خلیفہ وقت کی اطاعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے.خطبہ جمعہ کے بعد جماعت کراچی کے احباب سے محترم صاحبزادہ صاحب نے ملاقات کی اس کے بعد چونکہ محترم صاحبزادہ صاحب موصوف کو مجلس انصار اللہ کے اجتماع میں شرکت کے لئے رحمن آباد با ندھی تشریف لے جانا تھا لہذا آپ احمد یہ ہال سے سیدھے اپنی رہائش گاہ گئے اور وہاں سے بذریعہ موٹر کار چار بجے سہ پہر عازم حیدر آباد ہوئے.حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ، مکرم چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی ، مکرم مولا نا عبدالمالک خان صاحب مربی سلسله، مکرم محمد شفیع خاں صاحب زعیم اعلیٰ انصار اللہ کراچی، مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب زعیم اعلیٰ مجلس کراچی اور آفتاب احمد صاحب بسمل منتظم عمومی مجلس مقامی ہمرکاب تھے.راستہ میں ٹھٹھہ کے مقام پر نصف گھنٹہ کے لئے ٹھہرے اور اس کے بعد شام کے پونے آٹھ بجے کے قریب حیدر آباد پہنچ گئے.حیدرآباد کے احباب محترم مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ کے ہمراہ پیشوائی کے لئے شہر سے باہر پہنچے ہوئے تھے.رات محترم صاحبزادہ صاحب نے مکرم کرنل ضیاء الحسن صاحب کی کوٹھی پر قیام فرمایا کرنل صاحب موصوف نے رات کا کھانا پیش کیا اور مہمانوں کی آسائش کا خاص انتظام کیا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.اگلے روز نماز فجر ادا کرنے کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب اور آپ کے ہمراہی موٹروں میں نوابشاہ روانہ ہوئے جہاں محترم صاحبزادہ صاحب اور دوسرے دوستوں کو ناشتہ کرایا گیا اس کے بعد آپ کا قافلہ وہاں سے روانہ ہو کر دس بجے کے قریب رحمن آباد با ندھی پہنچا جہاں احباب جماعت نے آپ کا خیر مقدم کیا.کچھ دیر آرام فرمانے کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب انصار اللہ کے اجتماع کا افتتاح فرمانے کے لئے جلسہ گاہ پہنچے.آپ نے احباب سے بڑے مؤثر انداز میں خطاب فرمایا اور **
تاریخ احمدیت.جلد 23 69 سال 1965ء انہیں صحیح معنوں میں انصار اللہ بننے کی تلقین کی.مرکز سے مولانا شیخ مبارک احمد صاحب قائد اصلاح و ارشاد مجلس انصار الله مرکز یہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے دوروزہ اجتماع میں مختلف علماء سلسلہ اور دوسرے دوستوں نے تقریریں کیں اور نظمیں سنائیں ان میں مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب، مولا نا عبدالمالک خان صاحب، مولانا غلام احمد صاحب فرخ ، مکرم چوہدری احمد مختار صاحب، خان محمد شفیع خان صاحب اور مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب خاص طور سے قابل ذکر ہیں.آفتاب احمد بسمل صاحب اور مکرم ماسٹر عبدالرحمن صاحب ناظم اعلی انصار اللہ سابق سندھ نے بھی نظمیں پیش کیں.پہلا اجلاس ڈیڑھ بجے کے قریب ختم ہوا.کھانے اور نمازوں کے بعد دوسرا اجلاس ہوا جو شام چھ بجے تک جاری رہا.رات کو تیسرا اجلاس ہوا جو ساڑھے دس بجے شب اختتام پذیر ہوا.اگلے روز صبح نماز تہجد باجماعت ادا کی گئی.حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری نے کچھ روایات سنائیں جو احباب کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوئیں.اتوار کو اور بہت سے احباب بھی اجتماع میں پہنچ گئے.دوسرے دن کے دوسرے اجلاس میں محترم صاحبزادہ صاحب نے درس قرآن مجید دیا اور اختتامی خطاب اور دعا کے بعد اجتماع ختم ہونے کا اعلان فرمایا.اس اجتماع کا انتظام مکرم حاجی عبدالرحمن صاحب رئیس باندھی نے فرمایا تھا انہوں نے انتہائی اخلاص اور محبت کے جذبے کے ساتھ مہمانوں کی خدمت کی اور انہیں ہر طرح آرام پہنچایا اللہ تعالیٰ انہیں اس کی جزا دے اور بیش از بیش سلسلہ کی خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین ۲۹ اگست بروز اتوار دن کے ڈھائی بجے محترم صاحبزادہ صاحب اور آپ کے ہمرا ہی موٹروں میں واپس روانہ ہوئے اور چار بجے کے قریب نواب شاہ پہنچے.وہاں سے میر پور خاص روانہ ہوئے راستے میں سانگھڑ میں ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب کے ہاں کچھ دیر ٹھہرے اور پھر وہاں سے روانہ ہوکر شام کو میر پور خاص پہنچے.جہاں آپ نے مسجد احمد یہ نیز ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی کے مکان کا سنگ بنیا درکھا.میر پور خاص میں آپ نے ایک دعوت میں شرکت فرمائی جو صو بائی وزیر جناب محمد خان جونیجو ( بعد ازاں وزیر اعظم پاکستان) کے اعزاز میں دی گئی اس موقعہ پر جہاں غیر احمدی معززین کی خاصی بڑی تعداد تھی محترم صاحبزادہ صاحب نے تحریک آزادی کشمیر اور مجاہدین کی کامیابی کے لئے دعا فرمائی.اس کے بعد وہاں سے روانہ ہو کر ساڑھے گیارہ بجے دن کراچی پہنچے.رات کا کھانا مکرم شیخ فیض قادر صاحب نے پیش کیا.یکم ستمبر بروز بدھ محترم صاحبزادہ صاحب مع افراد خاندان ٹھٹھہ تشریف
تاریخ احمدیت.جلد 23 70 سال 1965ء لیے گئے اور وہاں ریسٹ ہاؤس میں قیام فرمایا.آپ نے وہاں مسجد شاہجہان دیکھی اور اس کے فن تعمیر کا تفصیلی معائنہ کیا.۲ ستمبر بروز جمعرات آپ نے احمدیہ ہال ( کراچی ) میں درس قرآن مجید دیا.جس میں آپ نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی آیات کی نہایت حکیمانہ انداز میں تفسیر فرمائی.اگلے روز تین ستمبر بروز جمعہ آپ نے احمدیہ ہال میں خطبہ جمعہ ارشاد فر مایا اور احباب کو نہایت قیمتی نصائح فرمائیں.شام میجر شمیم احمد صاحب کے ہاں کھانا تناول فرمایا.ہفتے کے روز صبح دس بجے کے قریب آپ ہاکس بے تشریف لے گئے افراد خاندان اور بعض احباب جماعت ہمرکاب تھے.اس موقعہ پر مکرم کیپٹن سید افتخار حسین صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے میزبان کے فرائض انجام دیئے.وہاں سے شام سوا پانچ بجے آپ واپس تشریف لائے اور چھ بجے مسجد احمد یہ مارٹن روڈ کی مجوزہ عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لے گئے اس موقعہ پر مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ کراچی نے آپ کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا اس میں بتایا کہ مکرم ڈاکٹر محمد ثناء اللہ صاحب انصاری نے مسجد احمد یہ مارٹن روڈ کی تعمیر خود کرانے کی پیشکش کی ہے جو مکرم ڈاکٹر صاحب اپنے مرحوم والد جناب محمد بقاء اللہ صاحب انصاری کے لئے دعا کی تحریک کی غرض سے ان کی یاد میں تعمیر کرانا چاہتے ہیں.محترم صاحبزادہ صاحب نے سپاسنامہ کے جواب میں مختصر خطاب فرمایا اور مساجد کی تعمیر کے کارخیر میں زیادہ سے زیادہ احباب کو حصہ لینے کی تلقین فرمائی اس کے بعد آپ نے سنگ بنیا درکھا اور دعا فرمائی.نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد آپ نے قرآن کریم کا درس دیا اور پھر نماز عشاء ادا کر کے احباب سے رخصت ہوئے.اگلے روز ۵ ستمبر بروز اتوار صبح ساڑھے نو بجے آپ نے مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کراچی کے اراکین سے خطاب فرمایا.اس روز دو پہر کا کھانا چوہدری عبدالمجید صاحب بھٹی نے پیش کیا.اسی روز شام کو سوا سات بجے محترم صاحبزادہ صاحب مع دیگر افراد بذریعہ چناب ایکسپریس کراچی سے ربوہ واپس تشریف لے گئے.39 پاک بھارت جنگ.پاکستانی احمدیوں کے ناقابل فراموش کارنامے جماعت احمدیہ کا حقیقی اسلامی تعلیمات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ہدایات کی روشنی میں یہ پختہ اور مضبوط عقیدہ ہے کہ دنیا کے ہر احمدی پر اپنے ملک کا وفادار رہنا ایک دینی فرض ہے اور اس فرض
تاریخ احمدیت.جلد 23 71 سال 1965ء کا تقاضا ہے کہ ہر احمدی لازماً اپنے ملک کا وفادار رہے اور اسی طرح اس کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے ملک اور قوم کی بہبود و بھلائی اور دفاع کے لئے سر توڑ کوشش کرتا رہے اور جب بھی اس کے ملک کو جس قربانی کی ضرورت پڑے اس چیز کو قربان کرنے کے لئے سب اہل وطن سے آگے صف اول میں کھڑا نظر آئے.تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس مذہبی فریضہ کے عین مطابق ہر ملک کے احمدی ہمیشہ اپنے وطن کے وفادار رہے ہیں.پاکستان کا احمدی پاکستان کا وفادار، ہندوستان کا احمدی ہندوستان کا اور انگلستان وامریکہ کا احمدی انگلستان و امریکہ کا وفادار ہے.اپنے وطن سے غداری اور بے وفائی کا تصور بھی ایک حقیقی احمدی کے لئے امر محال ہے.حکومتیں یا اہل وطن احمدی کے ساتھ کوئی سا بھی سلوک کریں.بہر حال ہر احمدی کی اپنے ملک و قوم سے وفاداری کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا تر ہے.اسی وفاداری اور وطن سے محبت کی وجہ سے حضرت مصلح موعود نے قیام پاکستان کے بعد بطور ایک پاکستانی شہری کے استحکام پاکستان کے لئے بھی بے انتہا سعی و کوشش فرمائی.چنانچہ آپ نے ایک موقع پر پاکستانی احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.پس راتوں کو اٹھو، خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی اور انکسار کرو.پھر یہی نہیں کہ خود دعا کرو بلکہ یہ بھی دعا کرو کہ ساری جماعت کو دعا کا ہتھیا مل جائے.ایک سپاہی جیت نہیں سکتا.جیتی فوج ہی ہے.اسی طرح اگر ایک فرد دعا کرے گا تو اس کا اتنا فائدہ نہیں ہو گا جتنا ایک جماعت کی دعا سے فائدہ ہوگا.تم خود بھی دعا کرو اور پھر ساری جماعت کے لئے بھی دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہر احمدی کے دل میں یقین پیدا ہو جائے کہ دعا ایک کارگر وسیلہ ہے اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.جماعت کے سب افراد میں ایک آگ سی لگ جائے.ہر احمدی اپنے گھر پر دعا کر رہا ہو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ کا فضل کس طرح نازل ہوتا ہے.خدا کے موعود خلیفہ کی اس عظیم جدو جہد اور اس زبر دست روحانی ٹریننگ کی برکت تھی کہ ۱۹۶۵ء کی پاک و بھارت جنگوں میں جو ن کچھ ، پتھمب جوڑیاں یما حول لاہور اور چونڈہ کے وسیع محاذوں میں لڑی گئیں پاکستان کے جری اور بہ بدر احمدیوں نے ناقابل تسخیر ولولے کے ساتھ جرات و بہادری اور حب الوطنی کا شاندار مظاہرہ کیا اور احمدی جرنیلوں اور احمدی ہوا بازوں نے اپنے خون سے اپنے مقدس وطن کی 40
تاریخ احمدیت.جلد 23 72 سال 1965ء نئی تاریخ لکھی اور اپنی شجاعت و بسالت سے تاریخ دفاع میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا.معرکہ رن کچھ رن کچھ کا علاقہ مغربی پاکستان کی جنوبی سرحد سے ملحق ہے اس صحرائی اور دلدلی علاقے کا رقبہ آٹھ ہزار چار سو مربع میل ہے.رن کچھ اور سابق صوبہ سندھ کی سرحد کے بارے میں تنازعہ برطانوی حکومت کے زمانہ سے چلا آرہا تھا تا ہم عرض بلد تئیس اشاریہ پانچ آٹھ درجے کا علاقہ ، جس کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین ہزار مربع میل ہے ہمیشہ سے حکومت سندھ کے زیرانتظام رہا.۱۹۶۰ء میں سابق صوبہ پنجاب کی سرحدوں کی نشاندہی مکمل ہوگئی تو دونوں حکومتوں نے طے کیا کہ رن کچھ کی سرحد متعین کرنے کے لئے مذاکرات جاری رکھے جائیں.لیکن مذاکرات کی بجائے جنوری ۱۹۶۵ء کے پہلے ہفتہ میں بھارتی فوج متنازعہ علاقے میں پہنچنے لگی.وسط مارچ تک بھارتی فوج نے اپنے دو ڈویژن رن کچھ میں پہنچا دیئے.رن کچھ کے ساحلی بحری اڈے دوارکا میں بحری بیڑے کے سات تباہ کن جہاز لنگر انداز ہو گئے.طیارہ بردار جہاز وکزت پینے کا پانی لے کر کھڑا ہو گیا.جام نگر پر جدید ترین بمبار اور لڑاکوں کے سکواڈرن تیار کر دیئے گئے.اس ماحول میں ۱٫۵،۴ اپریل ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب کو بھارتی فوج پاکستانی مقبوضہ علاقے میں گھس آئی.پاکستان کی سردار نامی پوسٹ پر قبضہ کر کے پاکستانی سرحدی پولیس کی دو چوکیوں پر قبضہ کر لیا.۸-۹ / اپریل کو پاکستانی فوج کی ایک بٹالین نے حملہ کر کے سردار پوسٹ کے علاوہ ایک اور چوکی ان سے چھین لی.۱۴ گھنٹوں کی خونریز لڑائی میں سو سے زیادہ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے.۲۱ فوجی گرفتار کئے گئے.بھارتی فوج نے اس کا بدلہ لینے کے لئے ۱۲ اپریل کو پوری قوت کے ساتھ کا نجر کوٹ پر حملہ کر دیا لیکن بھارت کو زبر دست ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھاری مالی و جانی نقصان اٹھا کر پسپا ہو گیا.اس کے بعد بھارتی فوج نے مشرقی سیکٹر کا رخ کیا مگر وہاں پاکستانی فوج کا ایک اور بریگیڈ پہنچ گیا جس کی کمان احمدی بریگیڈئیر افتخار خاں جنجوعہ کے سپرد تھی.اس معرکہ کی تفصیل جناب خالد محمود نے اپنی کتاب رن کچھ سے چونڈہ تک میں بیان کی ہے اور اس کتاب میں بریگیڈئیر افتخار خاں کی تصویر دی اور اس پر یہ نوٹ درج کیا:.بریگیڈئیر افتخار خاں ہلال جرات کی قیادت میں پاکستانی جوانوں نے بیار بیٹ میں بھارتی فوج کو شرمناک شکست دے کر دشمن کے تمام منصوبے خاک میں ملا دے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 معرکہ چھمب وجوڑیاں 73 سال 1965ء اگست ۱۹۶۵ء میں بھارتی فوجیوں نے آزاد کشمیر کے علاقے میں کرگل کی تین چوکیوں پر قبضہ کر لیا.اس کے علاوہ بھارتی فوج نے گجرات کے علاقہ اعوان شریف پر شدید گولہ باری کی جس سے مکانوں کی چھتوں اور درودیوار کے پر نچے اُڑ گئے اور بہت سے افراد جاں بحق ہو گئے.اس کے بعد بھارت نے آزاد کشمیر کے علاقہ ٹیٹوال میں اپنی فوجیں اتار دیں.بھارت نے یہاں دو بر یگیڈ جمع کر دئے.بھارت کی ان مسلسل کا رروائیوں پر آزاد کشمیر کی فوج نے پاکستانی فوج کی مدد سے بھمبر کے علاقہ میں جنگ بندی لائن عبور کر کے چھمب اور دیوا کی بھارتی چوکیوں پر قبضہ کر لیا.اس لڑائی میں آزاد کشمیر اور پاکستانی فوج نے سات طیارے مار گرائے، پندرہ ٹینکوں پر قبضہ کیا، لا تعداد اسلحہ ہاتھ آیا، سینکڑوں مخالف سپاہی ہلاک ہوئے اور بہت سے گرفتار کئے گئے.چھمب کے اہم اور مضبوط فوجی مقام سے بھارتی فوجوں کی پسپائی کے بعد پاک افواج نے دریائے توی کو عبور کر کے آگے بڑھنا شروع کیا.بھارتی فوج نے کئی بار پاکستانی علاقے پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن پاکستان کی فضائیہ نے اس کی ایک نہ چلنے دی اور دریائے توی کو عبور کر کے پاک آزاد افواج پانچ میں آگے بڑھ گئیں.یہ استمبر ۱۹۶۵ء کا دن تھا.دریائے تو ی عبور کر کے۲۴ گھنٹے کے اندراندر بھارت کے سب سے اہم فوجی مرکز اور دفاعی حصار جوڑیاں پر حملہ کیا گیا.پاکستانی فوج نے مد مقابل کو نقصان پہنچا کر جوڑیاں پر قبضہ کر لیا.بہت سے فوجی قیدی بنائے گئے.جوڑیاں میں بھارت کی زبردست قلعہ بند فوجوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور وہ اپنے ٹینک اور بکتر بند دستے میدان میں لے آئی لیکن وہ پاکستانی افواج کے سامنے نہ ٹھہر سکی.اور زبردست ہزیمت اٹھا کر بھارتی فوج پسپا ہوگئی اور اس طرح یہ اہم دفاعی قلعہ بھارتی فوج کے ہاتھوں سے نکل گیا.جوڑیاں پر قبضہ کرنے کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان کی فوج دریائے چناب کے کنارے اکھنور کے دروازے پر پہنچ گئی.یہاں سے جموں شہر بارہ میل دور مشرق میں واقع ہے.آزاد کشمیر اور پاکستانی فوج کو یہ محیر العقول کا میابیاں احمدیت کے ایک مایہ ناز سپوت میجر جنرل اختر حسین ملک کی ولولہ انگیز قیادت میں نصیب ہوئیں.چنانچہ رسالہ چٹان لاہور کے مدیر شورش کاشمیری صاحب (شدید معاند احمدیت ) نے لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 74 سال 1965ء میدان کارزار پہ چھاتے ہوئے چلو جوش وغا کا نقش بٹھاتے ہوئے چلو دہلی کی سرز میں نے پکارا ہے ساتھیو اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو بھولو نہیں کہ حلقہ بگوش رسول ہو شورش خدا کا خوف جماتے ہوئے چلو وا جگہ کی سر زمیں سے حریفوں کی ٹولیاں اختر ملک کی زیر قیادت چتھاڑ دو بز دل اٹھا چکے ہیں قدم ارضِ پاک پر جس رُخ سے بھی یہ سامنے آئیں پچھاڑ دو میجر جنرل اختر حسین ملک کو اہل وطن کا شاندار خراج تحسین میجر جنرل اختر حسین ملک کی شجاعت پر صدر پاکستان محمد ایوب خان نے ہلال جرأت کا اعزاز دیا.اور ملک کے ہر طبقہ نے ان کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے بطور نمونہ چند اہل قلم اور فن حرب کی ماہر شخصیات کے تاثرات حوالہ قرطاس کئے جاتے ہیں.ا.ملک کے ممتاز مورخ وادیب جناب نسیم کا شمیری نے لکھا:.کشمیر میں جنگ بندی لائن کے یار بھارت کی مسلسل جارحانہ کاروائیوں کے جواب میں میجر جنرل اختر حسین ملک ستارہ قائد اعظم جنرل آفیسر کمانڈنگ پیدل ڈویژن کو بھمبر علاقہ میں حملہ کا کام سونپا گیا تھا.چھمب میں بھارتی مورچے غیر معمولی طور پر مضبوط بنائے گئے تھے اور ایک طاقتور فوج وہاں متعین تھی.میجر جنرل اختر حسین ملک نے ان مورچوں پر حملہ کیا اور بھارتی گیریزن کو اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے پاس جو فوج تھی وہ عموماً ایسی کارروائی کے لئے ناکافی سمجھی جاتی ہے بالکل ختم کر دیا.بھارتی قلعہ بندیوں کو تباہ کن ضربیں لگانے اور انہیں برباد کرنے کی کارروائی جنرل آفیسر کمانڈنگ کے بہادرانہ منصوبے بنانے اور کارروائی میں غیر معمولی قیادت کی رہین منت ہے اس مشکل کام کو دلیرانہ طور پر اور ذاتی جرات کے ساتھ انجام دیا.انہیں بہادری کا اعزاز ہلال جرأت دیا گیا جس کے وہ مستحق تھے.۲.کتاب ” ہمارے غازی ، ہمارے شہید کے مؤلف لکھتے ہیں :.میجر جنرل اختر حسین ملک غازی ہلال جرأت.ان کو چھمب جوڑیاں سیکٹر میں حملہ کا کام سونپا گیا.چھمب میں بھارتی مورچے غیر معمولی طور پر مضبوط بنائے گئے تھے.اختر حسین ملک کی قیادت
تاریخ احمدیت.جلد 23 75 سال 1965ء 46 45- میں ہماری شیر دل فوج نے اس سیکٹر میں دشمن کی قلعہ بندیوں کو پاش پاش کر دیا..جناب شریف فاروق اپنی کتاب "پاکستان میدانِ جنگ میں“ کے صفحہ ۲۴۴ پر رقمطراز ہیں :.کشمیر میں جنگ بندی لائن پر جب بھارتی فوج کی جارحانہ سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں تو میجر جنرل اختر حسین ملک ستارہ قائد اعظم کو جو ایک پیدل ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ ہیں بھمبر کے علاقہ میں حملہ کی کمان سونپی گئی.چھمب کے علاقہ میں بھارتی فوج کی جنگی مورچہ بندیاں بڑی مستحکم تھیں اور ان کا گیریزن بھی بہت مضبوط تھا.میجر جنرل اختر حسین ملک نے نہ صرف بھارت کے اس مورچے پر حملہ کیا بلکہ اس کے گیریزن کو مکمل طور پر تباہ کر دیا.حالانکہ ان کے پاس جو فوج تھی عام حالات میں اس کے لئے اتنا بڑا کام انجام دینا بہت مشکل سمجھا جاتا ہے.صدر ایوب نے اس حملہ کی کامیاب قیادت اور اچھی منصوبہ بندی اور ذاتی شجاعت کے اعتراف میں انہیں ہلال جرأت کا اعزاز عطا کیا.۴.رسالہ سیارہ ڈائجسٹ لاہور نے ستمبر ۱۹۸۲ ء کی اشاعت میں صفحہ ۹۹ پر یہ انکشاف کیا:.”ہماری ہائی کمان نے ایک دوسرا غلط فیصلہ یہ کیا کہ جنرل اختر ملک کو جو یہ منصوبہ بنانے اور اس کو رو بہ عمل لانے کے نگران بھی تھے اچانک تبدیل کر کے ان کی جگہ یحیی خان کو مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا.۳/۲ ستمبر ۱۹۶۵ء کو یہ فیصلہ ہوا.جنرل یحیی خان نے آتے ہی حملہ ایک دن کے لئے روک دیا، کیونکہ وہ منصوبہ سے واقفیت اور فوج کی اب تک کی کارکردگی سے واقف ہونا چاہتے تھے.جنرل اختر ملک نے اس موقع پر ہائی کمان کو ہر ممکن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں منصو بہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے وہاں رہنے دیں لیکن ہائی کمان نے ایک نہ سنی.ہماری اطلاع کے مطابق جنرل اختر ملک نے یہ پیشکش بھی کی کہ وہ جنرل یحییٰ خان کے ماتحت رہ کر اپنے منصوبہ کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں لیکن ان کی یہ پیشکش بھی مسترد کر دی گئی.اس فیصلے سے بھی منفی اثرات مرتب ہوئے.حملے میں ست رفتاری آئی.اس کے باوجود ہم دشمن کو کاٹتے ہوئے اکھنور کے پہاڑوں کے پاس پہنچ گئے جہاں سے ہمیں آگے بڑھنا تھا.یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس سے پہلے والے حملے میں ہم کالی دھار تک پہنچ چکے تھے.اگر ہمیں آگے بڑھنے کی اجازت دے دی جاتی تو ہم ۱۵ راگست سے پہلے کالی دھار سے آگے بڑھتے ہوئے نوشہرہ اکھنور سڑک کاٹ دیتے.اس سے نہ صرف بھارت کی سپلائی لائن کٹ جاتی بلکہ مقبوضہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 76 سال 1965ء کشمیر سے اس کا رابطہ بھی منقطع ہو جاتا.اس کے باوجود ہم ایک بار پھر اکھنور کی پہاڑیوں پر پہنچ چکے تھے اور یہ ۵ ستمبر کی شام تھی.اگلی صبح 4 ستمبر کو ہم نے اکھنور پر حملہ کرنا تھا.ہمیں پورا یقین اور مکمل اعتمادتھا کہ ہم اکھنور کو کاٹ دیں گے.ایک طرف یہ صورتحال تھی یعنی ہم مقبوضہ کشمیر میں دشمن کا ٹینٹوا دبانے کی تیاری کر رہے تھے.جنگ میں شدت بڑھ رہی تھی.بھارت مغربی محاذ پر اپنی توجہ مبذول کر چکا تھا کیونکہ اس کے پاس مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی دباؤ ختم کرنے کا یہی ایک طریقہ رہ گیا تھا.لیکن دوسری طرف اسلام آباد میں تمام بڑے لوگ مطمئن تھے کہ مسٹر بھٹو کو امریکہ نے جو یقین دہانی کرائی ہے کہ بھارت بین الاقوامی سرحد عبور نہیں کرے گا، اس لئے لال بہادر شاستری کی دھمکیوں کا نوٹس لینے کی ضرورت نہیں لیکن ستمبر کو ان کے خواب چکنا چور ہو گئے جب انہیں علم ہوا کہ بھارت نے لا ہور اور سیالکوٹ سیکٹر میں بہت بڑا حملہ کر دیا ہے اور واہگہ میں صرف چند کمپنیاں دشمن کا حملہ روکنے میں بہادری، جرات اور سرفروشی کی لازوال داستانیں رقم کر رہی ہیں.ادھر چونکہ مناسب دفاع کا انتظام نہ تھا اس لئے مقبوضہ کشمیر میں حملہ کو یکدم روک دیا گیا اور کئی بریگیڈ نکال کر سیالکوٹ اور لاہور سیکٹر پہنچائے گئے.یوں مقبوضہ کشمیر میں دفاعی پوزیشنیں اختیار کر لی گئیں.لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر میں بھارت نے حملہ کر کے مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حملے کو روکنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر لی جبکہ پاکستان اپنے دو اہم ترین شہروں کو بچانے کی جنگ لڑنے پر مجبور ہو گیا“.۵.پاکستان کے بااثر اور کثیر الاشاعت اخبار جنگ (لاہور) میں ایس.اے ملک نے میجر جنرل اختر حسین ملک کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا:.صورت حال ایک نیا رخ اختیار کر رہی تھی کہ ایک روز آل انڈیا ریڈیو نے خبر دی کہ بھارت کی پارلیمنٹ میں بھارت کے وزیر دفاع چاون نے ابھی ابھی اعلان کیا ہے کہ بھارت کی افواج نے آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے اور تین چوکیوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں یہ چھمب جوڑیاں کے تاریخی معرکے کی ابتدا تھی اس معرکے کے ہیر و مرحوم اختر حسین ملک تھے جن کی نگرانی میں آزاد کشمیر اور پاکستان کی افواج نے بھارتی فوج کے دانت کھٹے کر دیئے.راقم کی ملاقات جنرل اختر ملک کے ساتھ مری میں ہوئی تھی مرحوم بڑے سمجھدار، مدبر اور معاملہ فہم افسر تھے لیکن حالات اور دوسرے امور پر جب بھی ان سے بات چیت کا موقع ملا یہ محسوس ہوا کہ ان کی سوچ کا انداز مد برانہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 77 سال 1965ء تھا جو لوگ مرحوم کو جانتے ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مرحوم جہاں اپنی فنی صلاحیتوں کو منوانے کی اہلیت رکھتے تھے وہاں وہ دوسرے معاملات میں بھی بڑے عقلمند واقع ہوئے تھے وہ ہر بات کو فورا ہی سمجھ جاتے تھے.اتفاق سے راقم ان دنوں آزاد کشمیر میں صحافتی فرائض انجام دے رہا تھا ان ہی دنوں ایک موقع پر میجر جنرل اختر حسین ملک سے میر پور میں بھی ملاقات ہوئی ان کے عزم اور بہادری ہگن اور اپنے پیشہ سے محبت اور ایثار کی یاد آتی ہے تو دل بے اختیار تڑپ جاتا ہے بہر حال وہ اپنے مشن کی طرف جارہے تھے ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی انہوں نے اپنے ملنے والوں سے صرف اتنا کہا کہ دعا کریں کہ خدا مجھے پاکستان کی خدمت کرنے کا موقعہ دے.میرے لئے دعا کریں کہ خدا مجھے ثابت قدم رہنے کی توفیق دے.اگر میری قسمت میں شہادت لکھی ہے تو میرے جیسا خوش قسمت انسان کون ہوگا.راقم کی طرف مرحوم نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ میر اصحافی دوست ہے.اختر حسین ملک اپنے مشن پر روانہ ہوئے.چھمب اور جوڑیاں میں اتنے زور کا معرکہ ہوا کہ بھارت کی فوج کو اس طرح دبوچا گیا کہ بھارتی حکومت بوکھلا گئی.میجر جنرل اختر حسین ملک بھارت کے لئے ہو ا بن کر اُبھرے ایک طرف بھارت کی قریباً سات ڈویژن فوج تھی اور دوسری طرف اختر ملک کی قیادت میں لڑنے والے چند ہزار سرفروش.ان سرفروشوں کی پیش قدمی سے گھبرا کر بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے بھارتی فضائیہ کے اس وقت کے سر براہ ائیر مارشل ارجن سنگھ کو حکم دیا کہ کسی بھی حالت میں اختر حسین ملک کو نہ چھوڑا جائے.بھارت کے طیارے اختر حسین ملک کی تلاش میں آزاد کشمیر کی سرحدوں پر منڈلانے لگے تھے اختر حسین ملک کا چرچا پاکستان اور آزاد کشمیر ہی میں نہیں بلکہ بھارت میں بھی تھا.انہوں نے جن پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا اس پر ان کو خوب کھل کر داد دی جا رہی تھی.بھارت کی سول اور فوجی قیادت ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں اور زندگی موت اور عزت وذلت کے معاملے میں کسی انسان کا بس نہیں چلتا.بھارت کو اختر حسین ملک کے خلاف اپنی کوششوں میں منہ کی کھانی پڑی کوئی بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا.جب چھمب اور جوڑیاں میں لڑائی زوروں پر تھی تو ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ محسوس ہورہا تھا کہ شاید ہم تھوڑی ہی مدت میں کہاں سے کہاں پہنچنے والے ہیں پاکستان کے عوام اس جنگ کو کبھی فراموش نہیں کریں گے عوام کے حوصلے بلند تھے اور ملک میں اعتماد کی فضا پائی جاتی تھی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 78 سال 1965ء چھمب جوڑیاں کے اس فاتح کے ساتھ بعد میں جو کچھ ہوا اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں وہ سب کے سامنے ہے بہر حال ان کو ستمبر ۱۹۶۵ء کے شروع میں جومشن سونپا گیا تھا اس میں وہ کامیاب اور سرخرو ہوئے.جنگ کے بعد ان کی خدمات سینٹو کے سپر د کر دی گئیں اور وہ اپنے فرائض ادا کرنے کے لئے ترکی چلے گئے.47 56.پروفیسر خان زمان مرزا نے اخبار جنگ لاہور مورخہ ۱۲ اپریل ۱۹۸۳ء صفحہ ۳ میں فاتح چھمب و جوڑیاں میجر جنرل اختر حسین ملک کی فاتحانہ پیشقدمی اور پاکستان کے اس مایہ ناز جنگی ہیرو کے خلاف کی جانے والی افسوسناک سازش پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں :.وادی کشمیر میں اور مقبوضہ کشمیر میں ہر جگہ مسلمانوں نے گوریلوں سے بھر پور تعاون کیا تھا جہاں تک حصول مقصد میں ناکامی کا تعلق ہے اس کی ذمہ داری مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر عائد کرنا نا انصافی کے مترادف ہوگا یہ کہنا بھی حقائق پر مبنی نہیں ہے کہ گوریلوں کو کشمیریوں سے وہ تعاون نہ ملا جس کی توقع تھی بلکہ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ جب پاک اور آزاد افواج جنرل اختر حسین ملک کی کمان میں فتح چھمب کے بعد جوڑیاں کی طرف فاتحانہ پیش قدمی کر رہی تھیں تو جنرل ملک کو منظر سے ہٹا دیا گیا.تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ دوران جنگ کمان تبدیل کرنے سے فوج کے مورال پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں.فتح چھمب کے بعد بھارتی افواج افراتفری کا شکار ہو گئیں اور ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے اور غیر مسلم آبادی ہزاروں کی تعداد میں جموں کی طرف بھاگنے کے لئے بڑی شاہراہوں پر اکٹھی ہو چکی تھی جنرل اختر حسین ملک کی بجائے کمان جنرل یحیی خان کے حوالے کی گئی انہوں نے دو قیمتی دن عیش و عشرت میں ضائع کر دیئے جس کے دوران بھارتی افواج کو دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کا موقع مل گیا حالانکہ فتح چھمب کے بعد جموں کو جانے والی سڑک کا کوئی دفاع نہ تھا.اس ضمن میں یہ بتانا بھی بے جانہ ہوگا کہ قصبہ اکھنور جس پر قبضہ کرنے کے لئے چھمب جوڑیاں میں کارروائی کی گئی تھی دشمن کی پسپائی کے دوران کئی دنوں تک بغیر دفاع کے خالی پڑا رہا جس پر بھارتی فوج کے کمانڈروں نے حیرانی کا اظہار کیا تھا اس بات کے شواہد ایک بھارتی فوجی کمانڈر کی ڈائری کے ذریعے منظر عام پر آئے تھے کشمیر کے محاذ پر جنرل اختر حسین ملک کی جگہ جنرل یحیی خان کو کمان تفویض کرنے کے مضمرات کے بارے میں جسٹس یوسف صراف رقمطراز ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 79 سال 1965ء "And thus the initiative gained at Chumb was foundered on the pride and jealousy of the President and his Commander-in-Chief." 48 اور اس طرح چھمب میں جو (ابتدائی) برتری حاصل ہوئی تھی وہ صدر اور ان کے کمانڈر انچیف کی خود پسندی اور حسد کی نظر ہو گئی.“ ے.پھر روز نامہ امروز مورخہ ۲۵ ستمبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ ایک پر مندرجہ ذیل تفصیل شائع ہوئی انفنٹری ڈویژن کے جنرل افسر کمانڈنگ میجر جنرل اختر حسین ملک کو بھمبر کے علاقے میں بھارتی جارحیت کے خلاف کارروائی کرنے کے فرائض سونپے گئے تھے.چھمب سیکٹر میں بھارتی فوج نہ صرف تعداد اور اسلحہ میں زیادہ تھی بلکہ وہ پورے طور پر کیل کانٹے سے لیس ، مضبوط ٹھکانوں پر قابض تھی.میجر جنرل اختر حسین ملک نے ناکافی فوج اور مشکل حالات کے باوجود بھارتی فوج کا بری طرح قلع قمع کر دیا اور پورے علاقے کو بھارتی فوج کے ناپاک وجود سے صاف کر دیا.میجر جنرل اختر حسین کی ذہانت ، اعلیٰ منصوبہ بندی ، پُر عزم اور ولولہ انگیز قیادت نے اس علاقے میں بھارتی فوج کو عبرت ناک شکست سے دو چار کیا.صدر مملکت نے میجر جنرل اختر حسین کو ان کے عظیم کارنامے پر ہلال جرات کا اعزاز دیا.۸.روزنامہ نوائے وقت نے دو سگے بھائیوں کے لئے اعزازات“ کے عنوان کے ساتھ ان کا 49 تذکرہ یوں کیا: ۲۴ ستمبر آج کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ نے پاکستانی فوج کے اگلے مورچوں پر کسی جگہ افسروں اور جوانوں میں اعزازات تقسیم کئے جو صدر پاکستان نے ان کی بہادری کے صلہ میں دیئے ہیں.اس تقریب میں سب سے دلچسپ اور روح پرور سماں وہ تھا جب دو سگے بھائیوں کو ہلال جرات“ کے نشان پیش کئے گئے.یہ دونوں بھائی میجر جنرل اختر حسین ملک اور بریگیڈیئر عبدالعلی ملک ہیں.جنہیں موجودہ جنگ میں کار ہائے نمایاں دکھانے پر ہلال جرأت کا اعزاز بخشا گیا ہے.ایک پیادہ ڈویژن کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل اختر حسین ملک کو کشمیر میں جنگ بندی لائن کے پار بھارت کی مسلسل جارحانہ کاروائیوں کا منہ توڑ جواب دینے کی غرض سے دشمن پر حملہ کرنے پر مامور
تاریخ احمدیت.جلد 23 80 سال 1965ء کیا گیا تھا.چھمب میں بھارت نے بڑے مضبوط مورچے بنارکھے تھے.اور یہاں فوج کی بھاری جمعیت تعینات تھی.میجر جنرل اختر حسین ملک نے ان مورچوں پر حملہ کر دیا اور بھارتی فوج کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہو گئے.حالانکہ اس مہم کے لئے ان کی فوج کی تعداد عام حالات میں بھی نا کافی سمجھی جاتی.بھارتی فوج پر یہ کاری ضرب لگانے کا سہرا میجر جنرل اختر حسین ملک کے سر ہے جنہوں نے انتہائی جرات سے حملے کا منصوبہ بنایا اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا.اس دلیرانہ کارنامے اور نمایاں ذاتی شجاعت پر انہیں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا.50 ۹.میجر جنرل (ریٹائرڈ) سرفراز خاں ہلال جرات ملٹری کر اس رقمطراز ہیں:.جس ہنر مندی سے اختر ملک نے چھمب پر اٹیک کیا اسے شاندار فتح کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آگے بڑھ کر جوڑیاں پر قبضہ کر لیں کیونکہ چھمب کے بعد دشمن کے قدم اکھڑ چکے تھے اور وہ جوڑیاں خالی کرنے کے لئے فقط پاکستانی فوج کے آگے بڑھنے کے انتظار میں تھے مگر ایسے نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ پکی پکائی پر یحیی خان کو بٹھانے اور کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھنے کا پلان بن چکا تھا لیکن نقصان کس کا ہوا ؟ بھارت کو مکمل شکست دینے کا موقعہ ہاتھ سے نکل گیا.کمانڈ کی تبدیلی میں دو دن ضائع ہوئے اور جوڑیاں پر قبضہ کرنے کے لئے مزید تین دن لگ گئے.جوڑیاں پر قبضہ ۵ ستمبر کو ہوا حالانکہ اگر کمانڈ کی تبدیلی نہ ہوتی تو یہی کام ۲ ستمبر کو مکمل ہو جاتا.ادھر جب بھارت نے لاہور کے محاذ پر حملہ کیا تو باوجود نفری کی کمی کے اس کا منہ توڑ جواب دیا گیا اور پہلے دو دنوں میں اسے اس قدر نقصان اٹھانا پڑا کہ تیسرے روز اس کے حملوں کی شدت میں نمایاں کمی نظر آنے لگی.۸ ستمبر کو جی ایچ کیو نے بڑا جوابی حملہ کھیم کرن کے محاذ سے بھارتی ساتویں ڈویژن اور پندرہویں ڈویژن کے عقب میں جو لاہور کے بر کی سیکٹر اور واہگہ سیکٹر سے ٹکرا رہے تھے امرتسر کی جانب جنگ میں جھونک دیا.بذات خود فوجی سٹریٹجی کے نقطہ نظر سے یہ بہت اعلیٰ چال تھی بشر طیکہ انفنٹری ڈویژن جو اس کا ناگزیر حصہ تھا اس فورس کے ساتھ موجود ہوتا لیکن وہ تو جوڑیاں بیٹھا ہوا تھا آرمرڈ ڈویژن کا ایڈوانس والٹو ہا“ اور ”اصل اتر تک پہنچ گیا.جس کے بعد اس کے بیشتر ٹینک دلدل میں پھنس گئے.یہاں انفنٹری کی ضرورت تھی جو آگے بڑھ کر فتح کئے ہوئے علاقے پر قبضہ جما لیتی اور ٹینکوں کو رات کے وقت مناسب تحفظ مہیا کرتی لیکن انفنٹر کی جوڑیاں میں بیٹھی ہوئی تھی اور پھنسے ہوئے ٹینک دشمن کے ہاتھ لگ گئے یہ سب کے سب پٹیان قسم کے ٹینک تھے.دشمن نے اس علاقے کو پیشسیان
تاریخ احمدیت.جلد 23 81 سال 1965ء کے قبرستان کے نام سے موسوم کیا اس طرح وہ چال جسے کلی طور پر فتح پر منتج ہونا چاہیئے تھا نا کا می کا بدنما 51 داغ لے کر ختم ہو گئی.۱۰.لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) غلام دستگیر پشاور نے ” آپریشن جبرالٹر.حالات وواقعات کی روشنی میں“ کے عنوان سے ایک مقالہ سپر قلم کیا جس میں جنرل اختر حسین ملک صاحب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.و, وہ ایک نہایت مخلص محب الوطن ، قابل اور حقیقت پسند شخصیت تھے.وہ جونیئر افسروں میں زیادہ ہر دلعزیز تھے مگر ان کے سینئر افسران کی قابلیت کی وجہ سے ہمیشہ حسد کرتے تھے وہ ہر مسئلے کو عملی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے.52 ۱۱.بریگیڈئیر (ر) شمس الحق قاضی صاحب تحریر فرماتے ہیں:.جنرل اختر ملک کے سینئر سٹاف کرنل صادق ملک کے مطابق اختر ملک کا پلان صرف اسی قدر تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سپیشل تربیت کے بعد دخل انداز پارٹیاں بھیجی جائیں جو مقامی آبادی کو ساتھ ملا کر وہ کیفیت پیدا کردیں جو آجکل وہاں موجود ہے.یعنی ایک طرف تو انڈین آرمی کو پریشان اور DEMORALISE کرنا تھا تو دوسری طرف مقامی آبادی کو ہتھیار بند کر کے جنگ آزادی کیلئے تیار کرنا تھا.اس کا نام آپریشن جبرالٹر رکھا گیا.لیکن PRESENTATION کے دوران ایوب خان نے اپنی طرف سے یہ نظریہ پیش کیا کہ دخل اندازی کے ساتھ اکھنور کے مقام پر دشمن کو اس کے نرخرے سے پکڑ کر کیوں نہ بے جان بھی کر دیا جائے.اس پر جنرل موسیٰ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ جناب مگر اس کا مطلب تو بھارت کے ساتھ کھلی اور مکمل جنگ ہوگا.اس پر صدر ایوب نے جواب دیا کر نہیں نہیں موسیٰ تم اس کی فکر نہ کرو مجھے وزارت خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ بھارت کبھی بھی بین الاقوامی سرحد کو عبور نہیں کرے گا اور بلکہ یہ معاملہ بھی ۱۹۴۸ء کی طرح کشمیر تک ہی محدودر ہے گا.اب اس بات سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جناب بھٹو نے سوات میں جنرل اختر ملک کے پلان سے بھی بڑھ کر صدر ایوب کو کشمیر پر قبضہ جمانے پر راضی کر لیا تھا.چنانچہ اب اس کے بعد صدر ایوب کے احکام کے مطابق جی ایچ کیو بھی اس آپریشن میں شامل ہو گیا اور اکھنور پر قبضہ کرنے کیلئے جنرل اختر ملک کو فالتو دستے بھی دیئے گئے.یہ غالباً مئی جون کی بات ہے جبکہ اپریل تک تو بھارت اور پاکستان کی افواج رن کچھ کے تنازعہ کی وجہ سے بارڈر پر متعین
تاریخ احمدیت.جلد 23 82 سال 1965ء تھیں.اس وقت رن کچھ کی لڑائی میں بھارت کی شکست کی وجہ سے پاکستانی عوام اور فوج دونوں کا مورال بہت بلند تھا.پھر اسی دوران برطانوی وزیر اعظم کی مداخلت سے رن کچھ کے مسئلہ پر پاک بھارت مصالحت ہو گئی تو جی ایچ کیو نے افواج کو بارڈر سے ہٹا کر واپس چھاؤنیوں میں بھجوا دیا.اور تمام مورچے بند کر کے دشمن کی متوقع گزرگاہوں اور پلوں سے بارودی سرنگیں وغیرہ کو بھی ہٹا دیا گیا.لیکن ساتھ ہی ساتھ جی ایچ کیو، کوہ مری ڈویژن کیلئے آپریشن جبرالٹر اور اکھنور پر حملہ کرنے کی تیاریاں بھی کر رہا تھا.چنانچہ اگست ۱۹۶۵ء میں اکھنور کے محاذ پر پاکستانی دستوں نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ چھمب کے مقام پر دریائے تو ی کو عبور کر کے جوڑیاں کے اہم مقام پر قبضہ کرتے ہوئے بھارتی دفاعی لائن کو تہس نہس کر دیا بلکہ ایک پوری بھارتی آرٹلری رجمنٹ ساری تو پوں اور گولہ بارود سمیت قبضہ میں کر لی اور اب جبکہ دریائے چناب پر اکھنور کا اہم ترین ٹارگٹ صرف چند میل ہی دورہ گیا تھا اور اس پر قبضہ دنوں کی نہیں بلکہ چند گھنٹوں کی بات رہ گئی تھی تو صدر ایوب اور جنرل موسیٰ نے اکھنور پر حملہ جاری رکھنے کی بجائے جنرل اختر ملک کو تبدیل کر کے جنرل یحیی خان جیسے کھلنڈرے جرنیل کو اکھنور آپریشن کا کمانڈر مقرر کر دیا.اور اس انتہائی بد قسمت اور مہلک تبدیلی کا نتیجہ ویسا ہی نکلا جیسا کہ ۱۹۴۸ء میں مجاہدین کے کمانڈرخورشید انور کے بارہ مولا پہنچ کر سرینگر پر حملہ جاری رکھنے کی بجائے آئندہ حکومت میں اپنا حصہ طے کرنے کیلئے کشمیری لیڈروں کی بارہ مولا کا نفرنس ترتیب دینے کا نکلا تھا.ہلال جرات کا اعزاز ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں مقبوضہ کشمیر کے علاقہ چھمب جوڑیاں میں کامیاب یلغار کی بہادرانہ قیادت کرنے پر جنرل اختر ملک کو ہلال جرات سے نوازا گیا جو نشان حیدر کے بعد دوسرا بڑا انعام ہے.اس زمانہ کے معروف اخبار روز نامہ امروز لاہور مورخہ ۸ ستمبر ۱۹۶۵ء کی یہ خبر ملاحظہ فرمائیے : کمانڈر انچیف جنرل محمد موسیٰ نے میجر جنرل اختر حسین ملک کو اس اعزاز پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں آپ کو یہ اطلاع دیتے ہوئے بڑی مسرت محسوس کرتا ہوں کہ آپ نے آزاد کشمیر کی فوجوں کی حمایت اور پاکستان کی علاقائی سالمیت کے تحفظ کے لئے جو شاندار خدمات انجام دیں ہیں ان پر صدر پاکستان نے آپ کو ہلال جرات عطا کیا ہے.میری طرف سے اس اعزاز پر مبارک باد قبول فرمائیں.54
تاریخ احمدیت.جلد 23 83 سال 1965ء اختر حسین ملک کو ذوالفقار علی بھٹو کا خراج تحسین راولپنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو سابق وزیر اعظم پاکستان کی اسیری سے پھانسی تک مارشل لاء انتظامیہ کے نمائندے کرنل رفیع الدین اپنی یادداشتوں میں بیان کرتے ہیں کہ جناب بھٹو نے کرنل صاحب کو جنرل اختر حسین کے متعلق خراج تحسین پر مشتمل ریمارکس دیئے.وہ ریمارکس اخبار دی نیشن نے اپنے ۵ دسمبر ۱۹۹۱ ء کے شمارے میں مندرجہ ذیل الفاظ میں شائع کئے :.General Akhtar Hussain Malik I once asked him why in 1965 had the Foreign Office assured the President that India would not attack us if we launched the Kashmir Operation.He said it was not the Foreign Office view which had estimated otherwise but in a joint meeting it was Field Marshal Ayub who overruled the possibility of India attacking Pakistan.He added that the GHQ had also made the same mistake.He was sure that if Gen.Akhtar Malik's advance had not been halted at the Chamb-Jorian front he would have decimated the Indian army in Kashmir.However, Ayub wanted Yahya to emerge as the hero of the conflict."Gen.Malik was a General of exceptional genius.He was a great commander, a man of courage and guts who understood the art of military strategy.A General of his calibre has not been produced by the Pakistan Army.ترجمه: جرنیل اختر حسین ملک: ایک مرتبہ میں نے ان سے دریافت کیا کہ دفتر خارجہ نے ۱۹۶۵ء میں صدر ( مملکت ) کو کیوں اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ اگر ہم نے کشمیر مہم کا آغا ز کیا تو ہندوستان ہم پر حملہ نہیں کریگا.انہوں نے کہا کہ یہ دفتر خارجہ کا موقف نہ تھا بلکہ انہوں نے تو اس کے برعکس اندازہ لگایا تھا.یہ تو فیلڈ مارشل ایوب تھے جنہوں نے ایک مشترکہ اجلاس میں انڈیا کے پاکستان پر حملہ کے امکان کو سراسر مستر د کر دیا
تاریخ احمدیت.جلد 23 84 سال 1965ء تھا.انہوں نے مزید کہا کہ GHQ نے بھی یہی غلطی کی تھی.ان کو اس بات پر پختہ یقین تھا کہ اگر جنرل اختر ملک کی چھمب جوڑیاں کے محاذ پر پیش قدمی روکی نہ جاتی تو انہوں نے کشمیر میں بھارتی فوج کی اکثریت کو ہلاک کر دینا تھا.مگر ایوب چاہتے تھے کہ بیٹی اس مقابلہ میں ہیرو کے طور پر ابھرے.جنرل ملک غیر معمولی قابلیت کے حامل جنرل تھے.وہ ایک عظیم سپہ سالار تھے اور ایک باہمت اور جرات مند انسان تھے.جو فوجی حکمت عملی کے فن کو اچھی طرح سمجھتے تھے.ان کے پائے کا جنرل پھر کبھی پاکستان کی افواج نے پیدا نہیں کیا.مغربی پاکستان پر بھارتی فوج کا حملہ بھارت نے چھمب جوڑیاں میں اپنی شکست کا انتقام لینے کے لئے ۵-۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب کو مغربی پاکستان پر اچانک حملہ کر دیا.منصوبہ یہ تھا کہ ستمبر کو واہگہ کی طرف سے لاہور پر قبضہ کر لیا جائے.ستمبر کو قصور کی جانب سے بڑھتی ہوئی فوج واہگہ کی طرف سے پیشقدمی کرنے والی فوج کے ساتھ جرنیلی سڑک پر آن ملے عین اس موقع پر آخری کاری ضرب لگائی جائے گی اور سیالکوٹ کی طرف سے بڑھتی ہوئی فوج گوجرانوالہ اور وزیر آباد کے درمیان کسی مقام پر لاہور کی طرف سے بڑھنے والی فوج سے جاملے گی.ہ ستمبر کی رات کو بھارتی سپاہ کی پیشقدمی کے ساتھ ہی دہلی میں جشن فتح کی تیاریاں شروع کر دی گئیں.غیر ملکی اخباری نمائندوں کو لاہور پر قبضہ کی پیشگی اطلاع دے دی گئی حتیٰ کہ لندن کے عالمی نشریاتی ادارہ بی بی سی نے تو لاہور پر قبضہ کی خبر تک شائع کر دی.علاوہ ازیں بھارتی اخباروں مثلاً پرتاپ، ملاپ وغیرہ نے اپنی حکومت کے ایماء پر لاہور کی فتح کی خبر میں بڑے نمایاں رنگ میں شائع کیں.صدر پاکستان کا قوم سے ولولہ انگیز خطاب اس حملہ پر محمد ایوب خان صدر پاکستان نے قوم سے ولولہ انگیز خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حق کی فتح ہوگی دشمن پر کاری ضرب لگانے کے لئے تیار ہو جاؤ کیونکہ شکست اور تباہی اس باطل قوت کا مقدر ہے.جس نے تمہاری سرحدوں پر سر اٹھایا ہے.مردانہ وار آگے بڑھو اور دشمن پر ٹوٹ پڑو.
تاریخ احمدیت.جلد 23 85 سال 1965ء حضرت مصلح موعود کا پیغام احباب جماعت کے نام حضرت خلیفہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے احباب جماعت کے نام خصوصی پیغام دیا کہ وہ اپنی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے ہر قسم کی قربانیاں بشاشت کے ساتھ پیش کریں اور اپنی دعاؤں اور قربانیوں کے ساتھ اپنے محبوب وطن کو متحکم اور نا قابل تسخیر بنادیں.اس تاریخی پیغام کا مکمل متن یہ ہے."بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر احباب جماعت! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته آپ کو علم ہے کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور پاکستان میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا ہے.میں پاکستان کے تمام احمدیوں کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے حکومت پاکستان سے ہرطرح تعاون کریں اور استحکام پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بشاشت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے حب الوطنی کا ثبوت دیں اور اپنے رب رحیم سے دعائیں بھی کرتے رہیں کہ ہمارا وہ مہربان خداحق وصداقت اور انصاف کی فتح کا دن ہمیں جلد تر دکھائے.کوئی احمدی مرد اور عورت اپنے شہر قصبہ یا گاؤں کو ہرگز نہ چھوڑے سوائے اس کے کہ حکام وقت دفاعی مصالح کے پیش نظر مقامات کو خالی کروانا چاہتے ہوں.دعاؤں اور قربانیوں کے ساتھ اپنے محبوب وطن کو مستحکم اور نا قابل تسخیر بنادیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام میرزا بشیر الدین محمود احمد معرکہ چونڈہ اور بریگیڈئیر عبدالعلی ملک صاحب کو اہل وطن کا خراج تحسین لاہور پر حملہ کے چوبیس گھنٹے بعد بھارتی فوج نے پہلے سیالکوٹ اور پھر ۶ ، ستمبر کی درمیانی شب کو چونڈہ پر بھی حملہ کر دیا.بھارتی جرنیلوں نے کم و بیش پانچ سو ٹینک اور پچاس ہزار فوج کے ساتھ بھر پور حملہ کیا.یہ دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ تھی جو میجر جنرل اختر
تاریخ احمدیت.جلد 23 86 سال 1965ء حسین ملک کے بھائی اور نامور احمدی جرنیل بریگیڈئیر (بعد ازاں لیفٹیننٹ جنرل ) عبدالعلی ملک کے زیر کمان فوج نے نہایت بے جگری ، حوصلہ مندی اور فرض شناسی کے ساتھ لڑی اور پوری شان کے ساتھ جیتی اور بھارتی فوج کے پہلے آرمرڈ ڈویژن کو شکست فاش دے کر اسے چونڈہ ہی کے میدان میں دفن کر دیا.معرکہ چونڈہ میں اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور مظاہرہ کرنے پر بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کو بھی ہلال جرأت عطا کیا گیا.اس مرد مجاہد کی شجاعت و بسالت کی عظیم داستانیں بھی یقیناً صدیوں تک زندہ و تابندہ رہیں گی.دفاع پاکستان کے اس شاندار کارنامے کی مزید تفصیلات پاکستان کے مؤرخوں ،مصنفوں اور ادیبوں کے قلم سے پڑھئے.ا.جناب نسیم کا شمیری نے اپنی کتاب میں خطہ سیالکوٹ کے غازیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کو لے اور ۸ ستمبر کی رات کو دشمن کے خلاف جوابی کارروائی کا حکم ملا اور وہ اپنی مختصر فوج کے ساتھ دشمن پر اس طرح جھپٹے کہ اس کی پیشقدمی روک کر شدید نقصان پہنچایا.اس کے ٹینکوں اور پیدل فوج کو تہس نہس کر دیا.دشمن تازہ کمک کے ساتھ تین دن تک آگے بڑھنے کے لئے زور لگاتا رہا لیکن ہر بارا سے اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اس معر کے پر جس دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا ہے اس پر انہیں ہلال جرأت کا اعزاز ملا ہے.۲.جناب شریف فاروق صاحب رقمطراز ہیں:.فورس کمانڈر بریگیڈئیر عبد العلی ملک نے دشمن کی بہت بڑی اور مضبوط وطاقتور فوج کے مسلسل حملوں کے باوجود پاکستانی علاقہ چونڈہ کا بڑی دلیری اور شجاعت سے دفاع کیا.دشمن نے پاکستانی فوج کی پوزیشن پر کئی دن تک متواتر گولہ باری کی جس سے خوفناک تباہی پھیلی.عام حالات میں فوج اس تباہ کن گولہ باری کا مقابلہ نہ کرسکتی تھی لیکن بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اپنی ذاتی مثالی جرأت اور لیاقت سے نہ صرف فوج میں ڈٹے رہنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ پیدا کیا بلکہ دشمن پر مہلک ضربات لگائیں اور اسے مفلوج کر دیا.صدر نے انہیں ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کے اعتراف کے طور پر ہلال جرأت کا اعزاز عطا کیا“.۳.جناب کلیم نشتر صاحب نے حسب ذیل الفاظ میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے:.چونڈہ کے محاذ پر ٹینکوں کی جو عظیم جنگ لڑی گئی.اس جنگ میں بریگیڈئیر عبدالعلی نے پاکستانی افواج کی کمان کی اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے کہ تاریخ حرب کے ماہرین حیران و ششدر رہ 59 66 58
تاریخ احمدیت.جلد 23 87 سال 1965ء گئے.بریگیڈئیر عبدالعلی نے دشمن کے ٹینکوں کے پر خچے اڑا دئیے.ان سیاہ ہاتھیوں کے پر نچے چونڈہ کے میدان میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں.دشمن یہ ٹینک ڈویژن جھانسی سے سیالکوٹ پر قبضہ جمانے کے لئے لایا تھا لیکن پاکستانی جیالوں نے ان ٹینکوں کے پر خچے اڑا دئیے.۷، ۸ستمبر کی رات کو دشمن نے چارواہ، معراجکے اور نخنال پر حملہ کیا.دشمن نے اس حملہ میں ۱۵۰ توپ خانہ کی چار رجمنٹیں اور ۲۵ ہزار پیدل سپاہ استعمال کی.پاکستانی جانبازوں نے دنیا کی دور حاضرہ میں ٹینکوں کی اس سب سے بڑی جنگ میں راکٹ برسا کر دشمن کے ٹینکوں کے پر خچے اڑا دیئے اور دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچادی.شکست خوردہ دشمن نے ۱۸ اور ۱۹ ستمبر کی درمیانی رات کو ایک بار پھر قسمت آزمائی کرنے کی کوشش کی لیکن بر یگیڈ ئیر عبدالعلی ملک کی شاندار قیادت میں پاکستانی افواج نے دشمن کونا قابل فراموش نقصان پہنچایا.جانبازی و سرفروشی کے یہ عدیم النظیر کارنامے اس شاندار قیادت کے مرہون منت ہیں جو بریگیڈئیر عبدالعلی کی فرض شناسی اور بلند ہمتی نے اس محاذ پر سرانجام دی.بریگیڈئیر عبدالعلی نے اپنے جانثار ساتھیوں کے ساتھ عصر حاضر کی اس عظیم ترین جنگ میں موجودہ دور کے سب سے ذلیل حملہ آور پر اتنی تباہ کن ضر میں لگائیں جسے وہ اور اس کی آنے والی نسلیں ہمیشہ یا درکھیں گی.انہوں نے اپنی جرات ایمانی کے سہارے مردانگی اور فرض شناسی کے جو دیپ روشن کئے وہ پاکستانی تاریخ میں عزم و ہمت کا ایک روشن مینار بنے رہیں گے.جن سے مستقبل کے پاکستانی نشانِ 66 راہ پائیں گے.بریگیڈئیر عبدالعلی ضلع کیمپلپور کے رہنے والے ہیں.اور میجر جنرل اختر حسین ملک کے بھائی ہیں ان دونوں بھائیوں کو ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا ہے.۴.پاک بھارت جنگ کے جنگی وقائع نگار جناب اسلم ملک لکھتے ہیں:.و ٹینکوں کی دوسری بڑی تاریخی جنگ میں چونڈہ کو عالمگیر شہرت حاصل ہوگئی.اس جنگ میں سپاہی سے لے کر افسر تک ہر ایک قوم کا ہیرو تھا.ہر ایک اپنی جگہ ایک تاریخ تھا.ہر ایک اندھیروں کے جگر چھلنی بنانے والا روشنی کا مینار تھا.پھر بھی جن ہاتھوں میں کمان تھی ، جنہوں نے پہلی ٹینکوں کی عظیم جنگ کی مانند تاریخی کارنامے سرانجام دیئے تھے.ان میں بریگیڈئیر عبدالعلی ملک، بریگیڈئیر امجد علی خان چودھری ، اور میجر جنرل ابرار حسین کے نام ہمیشہ زندہ رہیں گے.اس لڑائی کے دوران میں تمام
تاریخ احمدیت.جلد 23 88 سال 1965ء دنیا کی نظریں اس پر مرکوز رہیں.ایک طرف وہ بے حد و حساب فوج آہنی ہاتھیوں کا لاؤ لشکر تھا جسے طویل مدت کی تیاری اور منصوبہ بندی کے بعد میدان میں لایا گیا تھا.اور دوسری طرف مٹھی بھر فوج تھی جس کا جنگی ساز و سامان بھی کم تھا لیکن جو ایک قوم کی آزادی اور وطن کے ناموس کی حفاظت کے لئے لڑ رہی تھی.اور جس کی وجہ سے غیور قوم کی تاریخ کا روشن ترین باب تحریر ہو چکا تھا.پاکستانی توپ خانہ نے سات بھارتی طیارے مار گرائے تھے.دشمن کے دوسو ٹینک اور ہزاروں فوجی گاڑیاں تباہ ہو چکی تھیں.دشمن کے سینکڑوں سپاہی اور افسر قیدی بنائے گئے تھے اور مرنے والوں کی لاشوں کا کوئی شمار ہی نہ تھا.اس کے بعد ممتاز غازیوں اور مجاہدوں کا تذکرہ کرنے کے بعد فرماتے ہیں:.ے ستمبر کو فضا میں طیاروں کی گڑگڑاہٹ سنائی دی.اور ساتھ ہی توپوں کے دھماکوں سے سرزمین سیالکوٹ لرز اٹھی.بھارت نے جموں کی طرف سے اپنی ساری فوج کو چونڈہ کے مقام پر لڑائی میں جھونک دیا.اور چونڈہ مغربی پاکستان سے کٹ گیا.تمام مواصلاتی ذرائع ختم ہو چکے تھے.۱۲ ستمبر تک یہی عالم رہا.اور قصبہ دشمن کے گولوں کی زد میں آچکا تھا.حفاظتی اقدامات کے تحت شہر خالی ہورہا تھا اور دوسری صبح تک چونڈہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ کا میدان بن گیا.سیالکوٹ کے کامیاب دفاع پر جن کمانڈروں اور جرنیلوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے ان میں عبدالعلی ملک کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے گا.فوجی ماہرین جنگ کا کہنا ہے کہ اتنی زبر دست گولہ باری میں کسی بھی فوج کے لڑنے کی صلاحیتیں جواب دے سکتی ہیں لیکن بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے کمال جرأت ایمانی سے اپنی فوجوں میں فولادی عزم کے ساتھ قربانی کا جذبہ پیدا کر دیا تھا.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے عہدِ حاضر کے مہلک ترین ہتھیاروں سے مسلح بھارتی فوجوں کے ایک ڈویژن کے حملے کو روکا اور اس ترتیب سے اپنے دستوں کی پوزیشنیں قائم کیں کہ دشمن چند گھنٹوں میں اس وہم میں مبتلا ہو گیا کہ وہ ایک زبر دست فوج کے گھیرے میں آچکا ہے.دونوں طرف زبر دست گولہ باری جاری تھی.فضا دھماکوں سے گونج رہی تھی کہ دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے.اس کے چھ سو سپاہی موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے اور دشمن کی بھاگتی ہوئی فوج اپنے ہی سورماؤں کی لاشوں کو روندتی ہوئی چلی گئی.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اس جنگ کا تجزیہ کر کے کہا کہ بھارتی فوج کے ٹینکوں نے بھارتی
تاریخ احمدیت.جلد 23 89 سال 1965ء فوج کے ساتھ وہی کچھ کیا جو پورس کے ہاتھیوں نے اپنی فوج کے ساتھ کیا تھا.یہ ٹینک روشنی کے گولے پھینکتے تھے اور پھر گولیاں چلاتے تھے.مگر اس روشنی نے انہیں مغالطے میں ڈالا اور انہوں نے اپنے ہی فوجیوں کو ہلاک کر دیا.اس محاذ پر شکست خوردہ دشمن نے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کی.اور 19 ستمبر کو رات کی تاریکی میں چونڈہ پر حملہ کر دیا.یہ حملہ بھی چار روز کی خوفناک جنگ کے بعد بری طرح پسپا کر دیا گیا.اس لڑائی میں دست بدست جنگ بھی ہوئی.بہت گھمسان کا رن پڑا.اور صبح کو لاشیں شمار کی گئیں تو یہ کم وبیش چھ سوتھیں جنہیں بھارتی فوج مسلسل آٹھ روز تک اٹھاتی رہی.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک علم و ادب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں.جنگ ،امن ، معاشیات، مذہب، سائنس تاریخ ، صحافت اور تعمیر نو کے علوم میں دسترس رکھتے ہیں.62 ۵.جناب بی.اے ریٹائر ڈ بریگیڈئیر نے روزنامہ نوائے وقت میں زیر عنوان ” جنگ ۱۹۶۵ء.سیالکوٹ محاذ کی روداد میں لکھا:.۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں سیالکوٹ کے محاذ پر بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کے ۲۴ بر یگیڈ کو جو اس وقت چارواہ میں دفاعی پوزیشن سنبھالے ہوئے تھے.یہ حکم دیا گیا کہ وہ فوراً جسٹر کی طرف کوچ کرے.جہاں بھارتی فوج کا زور بڑھ رہا تھا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے اس حکم پر سخت احتجاج کیا.اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ چارواہ کا علاقہ نہایت اہم ہے اور اسے کسی حالت میں خالی نہ چھوڑنا چاہیئے.لیکن ان کی کچھ پیش نہ گئی اور وہ اپنے بریگیڈ کے ساتھ نارووال کی طرف کوچ کر گئے.( آدھا راستہ طے کرنے کے بعد انہیں فوراوا پس آنے کا حکم دیا گیا.کیونکہ بھارتی فوج کا بڑا حملہ چارواہ کے علاقے میں شروع ہو چکا تھا ) ۲۴ بر یگیڈ ۵ ڈویژن کا حصہ تھا.اور اس کے جانے کے بعد اس ڈویژن میں انفنٹری کی صرف چار پلٹنیں بچ گئی تھیں.بھارتی فوج کا بڑا حملہ سات اور آٹھ ستمبر کی درمیانی رات کو چار واہ پر شروع ہوا.جہاں ۲۴ بر یگیڈ تعینات تھا اور جس کو خالی کرنے پر بریگیڈئیر ملک نے سخت احتجاج کیا تھا.اب وہاں صرف ایک آدھ کمپنی کی نفری رہ گئی تھی جو بریگیڈئیر ملک اپنے طور پر چھوڑ گئے تھے ) یہاں پر اس منصوبے کو زیادہ تفصیل میں بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اس بڑی لڑائی میں جنرل ٹکا خان نے کوئی اہم فوجی کردار ادا نہیں کیا.کیونکہ بھارتی منصوبے میں سیالکوٹ پر قبضہ کرنا بعد کی بات تھی.بھارت کے بڑے حملے کا اصل زور پہلے دوروز تک ۲۴ بر یگیڈ نے کامیابی سے برداشت کیا اور بعد میں جنرل ابرار حسین کے چھ ڈویژن نے.بریگیڈئیر
تاریخ احمدیت.جلد 23 90 سال 1965ء عبدالعلی ملک ہی اس لڑائی کے اصل ہیرو تھے.بھارتی منصوبے کو خاک میں ملانے میں ان کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہوگی.یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ اول تو ان کے کردار کو چند مصلحتوں کی وجہ سے جان بوجھ کر گھٹا کر پیش کیا گیا اور بعد میں جب ٹکا خان بھٹو کے دور حکومت میں چیف آف آرمی سٹاف بنے ، جنرل عبدالعلی ملک کو ۳۰ سال کی سروس پوری ہوتے ہی ریٹائر کر دیا.حالانکہ عمر کے لحاظ سے ابھی وہ کئی سال تک فوج میں خدمت انجام دے سکتے تھے.لیکن چونکہ اپنی ذہانت اور اعلیٰ کردار کی بدولت وہ ٹکا خاں کو ان کے منہ پر کھری کھری سنا دیا کرتے تھے لہذا فوج کو ایک نہایت قابل افسر سے محروم ہونا پڑا.اس کے برعکس نکا خان کے دور میں کئی ایسے افسر نوکریاں کرتے رہے جو اپنی میعاد ملازمت پوری کر چکے تھے.بہر کیف ۶۵ ء کی لڑائی میں ۸ ستمبر کو دوپہر کے بعد جنرل ٹکا خان نے ۱۵ ڈویژن کی کمان سنبھالی.اس وقت سارے محاذ پر پوزیشن یہ تھی کہ بھارت کا بڑا حملہ چارواہ کے علاقے میں ہو چکا تھا.اور ۲۴ بر یگیڈ اسے کامیابی سے روک رہا تھا.نارووال اور سیالکوٹ چھاؤنی پر بھارتی حملے بڑی معمولی نوعیت کے تھے اور اپنا اصل مقصد حاصل کر چکے تھے.جس کا ذکر اوپر آچکا ہے.جنرل ٹکا خان کے پاس انفنٹری کی صرف چار پلٹنیں اور پرانے قسم کے ٹینکوں کی ایک رجمنٹ تھی.لیکن چونکہ اس سیکٹر میں سے ستمبر کی رات کے بعد کوئی حملہ نہیں ہوا اور لڑائی کے ختم ہونے تک یہ پوزیشن برقرار رہی.جنرل ٹکا خان اپنی فوجی صلاحیتوں کے کوئی جو ہر نہ دکھا سکے.(صاحب تحریر انہی دنوں شائع ہونے والے ایک مضمون کا تعاقب کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں ) جہاں تک مضمون نگار کے اس دعوے کا تعلق ہے کہ جنرل ٹکا خان نے سیالکوٹ شہر کو خالی ہونے سے بچالیا.تو یہ سراسر ان کے دماغ کی اختراع ہے جنرل ٹکا خان کے آنے سے پہلے ہی زیادہ تر شہر بھارتی گولہ باری کی وجہ سے خالی پڑا تھا.اس وقت جنرل ٹکا خان کا کام اپنے محاذ کی دیکھ بھال کرنا تھا نہ کہ شہر کو خالی ہونے سے بچانا.ویسے بھی ان کے ذرائع اس قدر محدود تھے کہ اگر وہ چاہتے بھی تو شہر کو خالی ہونے سے نہیں روک سکتے تھے.مضمون نگار نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جنرل ٹکا خان نے ڈویژن ہیڈ کوارٹر کو پیچھے ہٹانے کا کرنل سٹاف (کرنل غفار مهدی) کا مشورہ قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا.حالانکہ حقیقت اس کے برعکس
تاریخ احمدیت.جلد 23 91 سال 1965ء ہے.سترہ روز لڑائی کے درمیان ۱۵ ڈویژن نے دو بار اپنا ہیڈ کوارٹر پیچھے ہٹایا اور جس وقت لڑائی ختم ہوئی اس وقت یہ ہیڈ کوارٹر اپنے مقام سے تقریباً تین میل پیچھے وزیر آباد روڈ پر آچکا تھا.ویسے بھی جنگ بند ہونے سے کئی روز پہلے جنرل ٹکا خان بیمار ہو کر صاحب فراش ہو چکے تھے.اور جسمانی طور پر کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے تھے.البتہ جنرل ٹکا خان کی کمان کے دور میں سیالکوٹ چھاؤنی کے شمال میں ایک چھوٹے سے مقام پر جس پر بھارتی فوج سے ستمبر کو ہی قابض ہو چکی تھی ایک جوابی حملے کا منصوبہ بنایا گیا.اس کے لئے بڑی تیاری کی گئی اور جنرل ٹکا خان اپنی بساط کے مطابق اس منصوبے کے خالق تھے.اصل مقصد یہ تھا کہ اس مقام پر دوبارہ قبضہ کر کے اسے ایک فوجی کارنامے کے طور پر پیش کیا جائے.کیونکہ ان کی ذمہ داری کے علاقے میں اور کوئی فوجی سرگرمی نہیں ہو رہی تھی.بدقسمتی سے یہ حملہ بری طرح ناکام ہوا.میجر رضوی ( جو بلوچ رجمنٹ کی ایک کمپنی کو کمان کر رہے تھے ) خود تو ہدف پر پہنچ گئے لیکن جنرل ٹکا خاں کی منصوبہ بندی اس قدرنا کارہ اور بریک تھی کہ حملے کرنے والی فوج کا کوئی اور حصہ وہاں تک نہ پہنچ سکا اور میجر رضوی اپنے بہت سے ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے.چنانچہ اس مقام پر بھارتی قبضہ بدستور قائم رہا.سیتھی جنرل ٹکا خان کی کارکردگی !.۶.اخبار نوائے وقت میں ایک ریٹائرڈ افسر نے ایک مضمون تحریر کیا جن کے نام کا اخبار نے اخفاء کیا تھا.مضمون نگار ۶۵ء کی پاک بھارت جنگ...چند واقعات کے زیر عنوان لکھتے ہیں:.نوائے وقت ۱۸ فروری میں ریٹائرڈ کرنل مہدی صاحب کا مضمون زیر عنوان Facts, Fibs and Fictions of The Tragedy of 1971 War And its Forerunner سے گزرا.مضمون نگار نے جو انکشافات کئے ہیں وہ اگر چہ نئے نہیں لیکن پہلی بار منظر عام پر لائے گئے ہیں.چونکہ پاک فوج کے رکن کی حیثیت میں خود بھی ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران میں سیالکوٹ کے محاذ پر موجود تھا.اس لئے مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ ریٹائرڈ کرنل مہدی صاحب نے سیالکوٹ کے محاذ کا جو نقشہ پیش کیا ہے وہ درست ہے اس سلسلے میں چند اور واقعات کا ذکر بے جانہ ہوگا.(۱) ہندوستان کا مین اٹیک“ جو ۸ اور ۹ ستمبر کی درمیانی شب کو چارواہ، چونڈہ کے علاقے میں ایک آرمرڈ اور دو انفنٹری ڈویژنوں سے کیا گیا تھا اور جس کا مقصد پسرور کے راستے گوجرانوالہ جی ٹی
تاریخ احمدیت.جلد 23 92 سال 1965ء روڈ پر آنا تھا.اس کو روکنے کا سہرا ۲۴ بر یگیڈ گروپ اور اس کے کمانڈر بریگیڈیئر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل ) عبدالعلی ملک ہلال جرات کے سر ہے.پاکستان کا ۶ آرمڈ ڈویژن دوروز بعد میدان جنگ میں پہنچا.اگر ۲۴ بر یگیڈ یہ حملہ نہ روکتا تو بلا مبالغہ انڈین آرمی 9 ستمبر کی شام تک جی ٹی روڈ پر پہنچ جاتی اور اس کا ایک کالم وزیر آباد اور دوسرا شاہدرہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنے اپنے ہدف تک پہنچ جاتا اور پھر شاید اس خطے کی تاریخ مختلف ہوتی.میں ۶ آرمڈ ڈویژن اور اس کے کمانڈر میجر جنرل ابرار حسین ہلال جرات کی کارکردگی اور کردار کی تخفیف نہیں کرنا چاہتا.لیکن یہ حقیقت ہے کہ ۸، ۹ ستمبر کو بھارتی افواج کے حملے کو ۲۴ بریگیڈ نے تنہا روکا.(ب) بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کے شاندار کردار کو جان بوجھ کر پس منظر میں ڈال دیا گیا.ان کے بڑے بھائی میجر جنرل اختر حسین ملک کو عین اس وقت چھمب میں کمانڈ سے ہٹایا گیا جب وہ اکھنور پر قبضہ کرنے والے تھے.ان کی جگہ کمان جنرل یحیی خان کے سپر د کر دی گئی.ایوب خان یہ سمجھتے تھے کہ اگر اکھنور کی فتح جنرل اختر ملک کے حصے میں آئی تو وہ بیٹی خان کو پاکستان آرمی کا کمانڈر انچیف نہیں بناسکیں گے.وہ بیٹی خان کو فاتح اکھنور کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے.یہ الگ بات ہے کہ جنرل یحی اکھنور پر قبضہ نہ کر سکا اور اسی دوران بھارت نے لاہور پر حملہ کر دیا اور چھمب سے کافی تعداد میں توپ خانہ اور فوج کو واپس بلانا پڑا.اگر وزیر خزانہ شعیب نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے دو مزید ڈویژنوں کے لئے رقم فراہم کر دی ہوتی تو پھر یحیی خان کی کمانڈ میں بھی اکھنور پر قبضہ ہو جاتا اور بھارت کا لا ہور کے محاذ پر مقابلہ بھی ہوسکتا تھا.( ج ) جنرل ٹکا خان کا سیالکوٹ کے محاذ پر حصہ صفر کے برابر تھا لیکن انہیں چونڈے کا ہیرو بنا کر پیش کیا گیا.یہی حالت رن کچھ میں بھی ہوئی.وہاں بھارتی فوجوں کو بھگانے کا کام بر یگیڈ ئیر (بعد میں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید نے کیا اور جنرل ٹکا خان نے ان کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے کورٹ مارشل تک کی دھمکی دے دی تھی لیکن وہاں بھی جنرل ٹکا خان کو ہیرو بنا کر پیش کیا گیا اور اصل ہیروکو پس منظر میں ڈال دیا گیا.کرنل مہدی اس بات کے گواہ ہیں کہ جب جنرل ٹکا خان نے سیالکوٹ میں ۸ ستمبر کی دو پہر کے بعد نمبر ۱۵ ڈویژن کی کمان سنبھالی اس کے بعد سیالکوٹ کے محاذ پر بھارتی فوج کا چھوٹا سا حملہ بھی نہ ہوا اس کے برعکس ٹکا خان کے حکم پر سیالکوٹ شہر کے شمال میں ایک چھوٹے سے ٹیلے پر جس پر بھارتی فوج قابض ہو چکی تھی ایک حملہ کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا اور ایک پاکستانی کمپنی
تاریخ احمدیت.جلد 23 93 سال 1965ء 64 کمانڈر اور کئی جوان شہید ہوئے.بعد میں جنرل ٹکا خان کو مشرقی پاکستان میں گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا کر بھیجا گیا.۲۵ مارچ کے ملٹری ایکشن میں ان کا کردار بھی منظر عام پر آنا چاہیئے.ے.روز نامہ امروز“ نے آپ کو ہلال جرأت کا اعزاز ملنے کا تذکرہ یوں کیا: فورس کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی ملک نے چونڈہ میں دشمن کی اسلحہ اور افرادی طاقت میں کہیں زیادہ فوج کو نا پاک ارادوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا.دشمن نے چونڈہ پر قبضے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کئے بے تحاشہ گولہ باری اور بمباری کی اور ہر طرف سے یلغار کر کے قبضہ جمانے کی کوشش کی لیکن فرض شناس اور پر عزم بریگیڈیئر عبدالعلی ملک کی قیادت میں پاکستانی جانبازوں نے دشمن کو پسپائی پر مجبور کر دیا.دشمن نے مسلسل کئی روز تک اندھا دھند گولہ باری کی اور ہر طرف سے زور ڈالا جو کسی بھی فوج کی ہمت شکنی کے لئے کافی تھا.لیکن بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کی دلاوری، ہمت اور سوجھ بوجھ نے دشمن کو کاری ضر میں لگائیں.دشمن کو سخت نقصان اٹھا کر پسپا ہونا پڑا.بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کو ان کی عظیم خدمات کے صلے میں ہلال جرات کا اعزاز دیا گیا.“ محترم لیفٹینٹ جنرل گل حسن خاں کا چشم دید بیان ہے:.66 65 میں یہاں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اگر ۱۲ ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل اختر حسین ملک کا اس موقع پر ذکر نہ کیا جائے تو بات ادھوری رہ جائے گی.جبرالٹر فورس کی تربیت اور مہم کا آغاز کرنے کے سلسلے میں ان کا تعاون نہایت سود مند تھا.انہوں نے ہی گرینڈ سلیم آپریشن کا منصوبہ تیار کیا تھا.ابتدائی مرحلے میں موصوف نے جس طرح اس کی کمان کی تھی، وہ قابل ستائش تھی.جنرل ملک پرکشش شخصیت کے انسان تھے.ان کی صلاحیتیں خدا داد تھیں.نوجوان افسروں اور جوانوں کے خیالات پر ان کی گرفت خاصی نمایاں تھی.موصوف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل اور ذمہ دار سپاہی تھے.“ پھر جنرل عبدالعلی ملک کی پیشہ وارانہ مہارت اور ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے جنرل گل حسن نے لکھا کہ:.یہ کریڈٹ بریگیڈئیر عبدالعلی ملک کو ہی جاتا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ اس کی کچھ فوج جسٹر کی طرف روانہ ہوگئی تھی، وہ اندھی جلد بازی سے آگے نہ بڑھے.میں قاری کو بتانا چاہوں گا کہ یہ سب کچھ تاریکی کے دوران ہوا جب انتشار کی کیفیت بے طرح بڑھ جاتی ہے.جیسا کہ ہم جلد دیکھیں
تاریخ احمدیت.جلد 23 94 سال 1965ء گے ، یہ علی ملک کے وجدانی شعور کا نتیجہ تھا جس نے ہمیں خطرے سے بچالیا.66 ان احمدی جرنیلوں کی جرات جو جوانمردی اور ان کے بارے میں غیر جانبدار مبصرین کی آراء کے بیان کے بعد ان احمدی سپوتوں کی جاشاری کا دلگد از تذکرہ ضبط تحریر میں لایا جاتا ہے جنہوں نے جان جیسی قیمتی متاع وطن کی عزت و حفاظت کے لئے قربان کر کے ہمیشہ کی زندگی پالی.کیپٹن نذیر احمد صاحب شهید آپ چک نمبر ۸۲ جنوبی ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.مکرم ناصر احمد صاحب باجوہ سابق صدر محلہ دارا نیمن شرقی ربوہ کے پھوپھی زاد بھائی تھے.آپ ۸ ستمبر ۱۹۶۵ء کو کھیم کرن کے محاذ پر شہید ہوئے.اور قصور میں امانتاً دفن کئے گئے.۱۸ فروری ۱۹۶۶ ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 68 نماز جمعہ کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ قطعہ شہداء میں سپردخاک کر دیئے گئے.چوہدری محمد حسین صاحب باجوہ اسٹیشن ماسٹر سکھیکی ضلع گوجرانوالہ تحریر فرماتے ہیں:.”میرے بھتیجے کیپٹن چوہدری نذیر احمد صاحب ۸ ستمبر کو کھیم کرن کے محاذ پر وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے شہادت کے رتبہ پر فائز ہوئے.سات ستمبر کو بھارتی افواج نے قصور پر تین اطراف سے سخت حملہ کیا تھا.جسے ہماری فوج کے شیر دل مجاہدوں نے نہ صرف پسپا کر دیا بلکہ کھیم کرن کو فتح بھی کر لیا.انہی بہادروں میں عزیز کیپٹن نذیر احمد صاحب بھی تھے.جو ۸ ستمبر کو زخمی ہوئے اور اسی روز شہادت کا جام نوش کیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کھیم کرن کے فاتح کی حیثیت سے عزیز نذیر احمد کا نام ہمیشہ زندہ جاوید رہے گا.عزیز نذیر احمد کے دادا اور راقم الحروف کے والد چوہدری نتھو خاں صاحب بہت مخلص احمدی ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) تھے.آپ جب احمدی ہوئے تو شروع شروع میں آپ کی بہت مخالفت کی گئی لیکن آپ نے ہر تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا.جلدی ہی آپ کے حسن اخلاق اور پاکبازی کی وجہ سے گاؤں کے تمام لوگ آپ کے گرویدہ ہو گئے اور آج تک اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اعلیٰ اخلاق میں احمدی سب سے بڑھ کر ہیں.آپ کی اولا دچار بیٹوں اور دو بیٹیوں پر مشتمل ہے.نذیر احمد آپ کے سب سے بڑے بیٹے چوہدری امام الدین صاحب کے فرزند تھے.نذیر احمد سے پہلے بھائی کے تین بیٹے بچپن میں فوت ہو گئے جس کی وجہ سے ہماری بھاوج بہت غمگین
تاریخ احمدیت.جلد 23 95 سال 1965ء رہتیں.انہی دنوں میں انہوں نے کسی کے بتانے پر حضرت خلیفہ اول کا نسخہ جب اٹھراء استعمال کیا جس کے بعد ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں.عزیزم نذیر احمد ہمارے آبائی گاؤں چک ۸۲ جنوبی ضلع سرگودھا میں ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے.ا شروع ہی سے خوش شکل اور صحت مند تھے.جب چھوٹے ہی تھے تو ان کی والدہ انہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں لے کر گئیں.حضور انور نے ان کے سر پر دست مبارک پھیرا اور دعا فرمائی.بچپن سے ہی آپ بے حد ذہین ، خوش خلق اور شریف تھے.خاندان کے ہر فرد کے ساتھ انہیں پیار اور ہمدردی تھی میری بیوی جو کہ محترم بھائی محمود احمد صاحب ودود میڈیکل سروس سرگودھا کی صاحبزادی ہیں.ان کے ساتھ انہیں خصوصیت سے انس اور خلوص تھا اس کا اظہار وہ اکثر کیا کرتے تھے اور اپنے ہر کام میں ان سے مشورہ لیتے تھے اب جبکہ یہ خیال آتا ہے کہ ہماری ہر تکلیف پر بے قرار ہو جانے والا وجود آج ہم میں نہیں ہے تو دل کو ٹھیس سی لگتی ہے مگر پھر بھی یہ بات ہمارے زخمی دلوں پر مرہم لگاتی ہے کہ وہ ملک وقوم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں.اس لئے ان کا رتبہ اعلیٰ اور بلند ہے.جب وہ آخری مرتبہ اپنی والدہ صاحبہ سے مل کر جانے والے تھے تو والدہ نے فکر کا اظہار کیا.اس پر انہوں نے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر میں آپ کے پاس بیمار ہو کر وفات پا جاؤں تو آپ کیا کرسکیں گے کیا اس سے بہتر یہ بات نہیں کہ میں ملک کی حفاظت کرتا ہوا مارا جاؤں.نذیر احمد صاحب نے ۱۹۵۲ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی اور ۱۹۵۳ء میں انہیں فوج میں کمیشن ملا.۱۹۵۹ء میں ان کی شادی ان کے حقیقی چا برادرم چوہدری حاتم علی صاحب ڈویژنل اکاؤنٹنٹ انہار کی بیٹی سے ہوئی.اب ان کے دو بیٹے ہیں جن کی عمریں علی الترتیب ۵ سال اور دس ماہ ہیں.69 روز نامہ مشرق“ نے ۲ دسمبر ۱۹۶۵ء کو اپنے نامہ نگار رضا جعفری کے قلم سے بیگم نذیر شہید کا ایک انٹرویو بھی شائع کیا.اخبار نے انٹرویو کے ساتھ شہید نذیر اور ان کے صاحبزادوں نوید نذیر اور ہمایوں نذیر کی تصویر بھی زیب قرطاس کی.روز نامہ امروز ۲ ستمبر ۱۹۶۶ء رقمطراز ہے:.کیپٹن نذیر احمد صاحب شہید چک ۸۲ جنوبی ضلع سرگودھا میں ۱۹۳۲ء میں پیدا ہوئے.بی.اے کرنے کے بعد ۱۹۵۲ء میں بچپن کی خواہش کی تکمیل کے لئے پاک فوج میں کمیشن لیا.آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 96 سال 1965ء نے بریگیڈئیر شامی شہید کے ساتھ بطور سٹاف کیپٹن کام کیا رن کچھ کے معرکہ میں آپ کے ذمہ ایک اہم ڈیوٹی تھی جس کو بڑی تن دہی اور بہادری سے پورا کیا جب ہندوستان نے پاکستان کی سرحدوں پر حملہ کر دیا تو ان کی توپ خانہ رجمنٹ کو قصور کے دفاع کے لئے بھیجا گیا.دشمن نے بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کی ایک آہنی دیوار کھڑی کر دی تھی لیکن ان جاں نثاروں کے قدموں کو روکا نہیں جا سکتا تھا.وہ گولوں کی بارش سے فولادی دیواروں کو پاش پاش کرتے دشمن کے پر نچے اڑاتے اور اسے کیفر کردار تک پہنچاتے موت سے کھیلتے بڑھتے چلے گئے.۸ ستمبر کو دشمن کو اپنے علاقے سے نکال کر کھیم کرن فتح کر لیا.اس روز وہ دشمن سے برسر پر کار تھے اور اپنے جوانوں کو اسلحہ سے لیس کر رہے تھے اور شاباش کی بلند آواز سے اپنے جوانوں کی ہمت بڑھارہے تھے کہ اچانک دشمن کے طیارے نے گولیاں برسانی شروع کر دیں ایک گولی آپ کے سینے میں پیوست ہوگئی.اور وہ شہداء کی صف میں شامل ہو گئے.شاید اس محاذ پر ان کی منزل کھیم کرن تھی.اس کے بعد اس نے اپنی اصل منزل کی طرف رخت سفر باندھ لیا.شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن شہادت سے چند روز قبل خط میں انہوں نے اپنے والد محترم کو لکھا کہ مجھے فخر ہے کہ میں فرض تندہی سے پورا کر رہا ہوں آپ کسی قسم کا فکر نہ کریں موت کا ایک دن معین ہے.اگر وہ مجھے آنی ہے تو وہ آپ کے پاس بیٹھے ہوئے بھی آجائے گی.فکر نہ کریں.ہاں اگر میں مقررہ تاریخوں پر نہ بھی آسکوں تو بہن کی رخصتی ضرور کر دیں.اس کے بعد پھر ان کی شہادت کی تار موصول ہوئی جس پر ان کے ماں باپ کا تاثر یہ تھا کہ اگر لخت جگر کی قربانی سے قوم کی کروڑوں ماؤں، بہنوں اور وطن کی عزت بچ گئی ہے تو یہ ہمارے لئے باعث اطمینان وصد افتخار ہے.خدا اس کے درجات بلند کرے.کیپٹن نذیر شہید کی بیوہ کو رجمنٹ کے کمانڈر نے یہ خط لکھا کہ آپ کے بہادر شوہر نے بے مثال شجاعت اور اعلیٰ احساس فرض کا ثبوت پیش کرتے ہوئے شاندار قربانی پیش کی ہے ہمیں اس پر فخر ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کے لئے صبر جمیل عطا فرمائے.آمین ان کے دو بہت ہی پیارے لڑکے نوید نذیر اور ہمایوں نذیر ہیں جن کی عمر بالترتیب چھ سال اور ڈیڑھ سال ہے.نوید نذیر کے الفاظ ہیں کہ میں ڈیڈی کی طرح بہادر کیپٹن بنوں گا “.
تاریخ احمدیت.جلد 23 97 سال 1965ء خلیفہ منیر الدین احمد صاحب شہید کا کارنامہ شجاعت خلیفہ منیر الدین احمد ایک معزز و معروف خاندان کے چشم و چراغ تھے.ان کے والد حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب ( صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) لاہور کے میوہسپتال میں ایک عرصہ تک سرجن انچارج رہے.(حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب انجمن حمایت اسلام لاہور کے بانی خلیفہ حمید الدین کے بیٹے تھے.) آپ ۸ ستمبر ۱۹۲۵ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.ان کی خوش بختی ہے کہ اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے ان کے کان میں اذان کہی.آپ حضرت مصلح موعود کے برادر نسبتی تھے.زمانہ طالب علمی ہی سے انہیں ائیر فورس میں شامل ہو کر خدمت قوم و وطن کا شوق تھا.اسی شوق کے تحت تعلیم الاسلام کالج سے ایف اے پاس کرنے کے بعد انہوں نے ۱۹۴۹ء کے آخر میں فلائنگ کلب لا ہور میں داخلہ لے لیا.اس وقت اس کلب میں تربیت حاصل کرنے والوں کی تعداد اٹھارہ تھی.امتحان ہوا.تو صرف چھ نوجوان کامیاب ہوئے.خلیفہ منیر الدین ان سب میں اول آئے تھے.۱۹۵۱ء میں وہ ائیر فورس کے لئے منتخب ہوئے اور کراچی اور رسالپور میں کچھ عرصہ بطور فلائٹ لیفٹیننٹ خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے.۱۹۶۳ء میں ترقی دے کر انہیں سکواڈرن لیڈر بنادیا گیا.اور اُس وقت سے تادم آخر وہ سرگودھا میں سکواڈرن لیڈ ر ہی کی حیثیت سے ائیر فورس کی خدمت بجالاتے رہے.فرائض منصبی کی ادائیگی میں مستعدی اور باقاعدگی ان کا طرہ امتیاز تھا.ان کے دل کو تو خلوص و محبت کا روشن دیا جائیے.جنگ کے ایام میں گھڑی دو گھڑی کے لئے گھر آتے.تو انہیں یہی احساس مضطرب رکھتا کہ کہیں ڈیوٹی پر پہنچنے میں تا خیر نہ ہو جائے.سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد شہید (ستارہ جرات) جانباز قوم کا ایک نڈر جیالا سپوت تھا.ایک ایسا دلیر ہوا باز جس کی نگاہوں میں عقاب کی لپک اور سینے میں شیر کا دل تھا.پاک فضائیہ کا یہ جیالا جوا استمبر ۱۹۶۵ء کو دشمن کی ہوائی طاقت کے ایک قریبی مرکز کو بالکل نہیں نہیں کرتے ہوئے موت سے ہنستا کھیلتا جامِ شہادت پی گیا.اس وقت اس کی عمر ۳۸ سال تھی.اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جن دنوں دشمن کے بزدل ہوا باز سر گودھا کے ہوائی ٹھکانے
تاریخ احمدیت.جلد 23 98 سال 1965ء پر بمباری کی ناکام کوشش کر رہے تھے.خلیفہ منیر الدین کے سپر د پلاننگ کی ڈیوٹی تھی.دشمن کے ہوائی حملوں کو روکنے کے لئے امرتسر کے ریڈار اسٹیشن کو مسمار کرنا ضروری تھا.اس سلسلہ میں کئی کوششیں کی گئیں مگر ان میں سے کوئی بھی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوسکی.دشمن کے طیارے روزانہ سرگودھا کے آسمان پر منڈلاتے اور ادھر اُدھر بے نشانہ بم گرا کر بھاگ جاتے.یہ دیکھ کر خلیفہ منیر الدین کے دل میں دشمن کے ہوش ٹھکانے لگانے کا جذبہ موجزن ہوا اور انہوں نے بڑے پُر جوش انداز میں کہا.اب میں جاؤں گا اور دشمن کے ریڈار کو تباہ کر کے ہی آؤں گا.“ اور پھر وہ سچ مچ اپنے ساتھ تین اور شاہینوں کو لے کر آواز کے دوش پر پرواز کر گئے.آن کی آن میں امرتسر پہنچ کر جب وہ ریڈار پر لپکے.تو منیر الدین احمد ہی ان کی (بطور ڈپٹی لیڈر ) قیادت کر رہے تھے.ان کے ہمراہ جانے والے ایک ہوا باز نے بتایا کہ پہلے غوطے میں ریڈار ان کی زد میں نہیں آیا.اس پر خلیفہ منیر الدین نے گرج کر اپنے ساتھیوں سے کہا میں نے ریڈار کو تاڑ لیا ہے.اب میں دوبارہ جاؤں گا اور اس کا قلع قمع کر کے ہی آؤں گا“.اور اب کے جو پاکستان کا یہ دلیر شاہین تنہا اس ریڈار پر بے مثال برق رفتاری سے جھپٹا تو دیکھتے ہی دیکھتے دشمن کا بے حد محفوظ اور مخفی ریڈار آگ کے ہولناک شعلوں کی لپیٹ میں تھا.لاہور کے مقالہ نگار صلاح الدین خاں رقمطراز ہیں :.خلیفہ منیر الدین شہید ) اصول وقواعد کے معاملہ میں بڑے رکھ رکھاؤ سے کام لیتے تھے.مخلص اور ہمدرد دوست ہونے کے باوجود دفتری معاملات میں کبھی لچک نہ آنے دیتے.بے حد ملنسار اور ڈیوٹی کے معاملہ میں بے حد سنجیدہ تھے.لیکن اس کے باوجود طبیعت مزاح لطیف سے بے گانہ نہ تھی.گو اس میں بھی ذاتی وقار کو مجروح کرنے والے رخ سے ہمیشہ مجتنب رہے.خلیفہ منیر الدین ایک اچھے ہوا باز ہی نہیں ہاکی اور گالف کے بھی بہترین کھلاڑی تھے اور کھیل کے میدان میں تو ان کی لپک اُچک دیکھنے کی ہوتی تھی.گالف کے تو وہ اتنے رسیا تھے کہ اس میں ناغہ کو اصل ڈیوٹی میں ناغہ سمجھتے تھے.خلیفہ منیر الدین احمد نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور ایک تین سالہ پیاری سی بچی زاہدہ اپنے رب کی پناہ میں چھوڑیں.منفی زاہدہ جو ایک عرصہ تک ٹیلیفون اٹھا کر بڑی بے قراری سے پوچھتی رہی ابو! آپ کب......
تاریخ احمدیت.جلد 23 99 سال 1965ء آئیں گے.جلدی آجائیے نا“.مگر اس معصوم کو کون بتائے کہ زندگی کی سرحدوں کو پھلانگ کر خدا تعالیٰ کی گود میں چلے جانے والے کوٹ کر کبھی نہیں آیا کرتے.البتہ ان کی جان سپاریوں کے نقوش ننھی زاہدہ کے دل کی طرح تاریخ کے دل پر ابد الآباد تک مرتسم و تا بندہ رہیں گئے.لکھتے ہیں:.73- آپ کے حالات تحریر کرتے ہوئے مکرم سردار رحمت اللہ صاحب محلہ دارالرحمت ربوہ ستارہ جرات سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد صاحب شہید ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین صاحب مرحوم سول سرجن جو کہ اولین صحابہ کرام میں سے تھے اور حضرت مصلح موعود کے خسر تھے، کے چشم و چراغ تھے اور خلیفہ صلاح الدین احمد مرحوم کے سب سے چھوٹے بھائی تھے.گھر میں سب سے چھوٹے ہونے اور خوبصورت اور نہایت اچھی عادات کی وجہ سے اپنے پرائے سبھی ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے.ان کے بہنوئی مرزا گل محمد صاحب مرحوم رئیس قادیان کی اس وقت کوئی اولاد نہ تھی انہوں نے ان کو اپنا بیٹا بنالیا اور نہایت ناز و نعمت سے آخیر دم تک ان کی پرورش کی.ان کی والدہ محترمہ جو کہ ہماری پھوپھی تھیں قادیان میں نہایت قابل احترام بزرگ خواتین میں سے تھیں.بہت عقلمند منتظم اور لجنہ اماءاللہ کی سرگرم رکن تھیں.خلیفہ منیر الدین احمد مرحوم میں بچپن سے ہی شرافت، ہمدردی ، ادب، حب الوطنی ، دلیری اور خدمت کا خاص جذبہ پایا جاتا تھا.سیر و سیاحت اور شکار کا بڑا شوق تھا یہی شوق بڑے ہو کر انہیں ۱۹۴۹ء میں ائیر فورس میں لے گیا.نشانہ بازی میں ہمیشہ ممتاز رہتے تھے.ایک مرتبہ میں نے انہیں باتوں باتوں میں کہا کہ منیر احمد ائیر فورس میں کیا کرتے ہوگے.وہاں تو بڑے بڑے بہادر انسان ہوں گے.کہنے لگے بھائی جان! اگر کبھی موقعہ آیا تو آپ مجھے انشاء اللہ سب سے آگے پائیں گے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کر دکھلایا.میری ان سے آخری ملاقات 9 ستمبر ۱۹۶۵ء یعنی ان کی شہادت سے صرف دو دن پہلے ان کی کوٹھی نمبر ۳ ، ائیر فورس سرگودھا میں ہوئی.قریباً ایک بجے دن کا وقت تھا جب کہ میں ان کی کوٹھی پر پہنچا.اس وقت دو پہر کا کھانا کھا رہے تھے.حسب معمول نہایت ادب اور محبت سے ملے.کہنے لگے کہ بھائی جان کیا آپ ربوہ سے آرہے ہیں.گھر تو خیریت ہے نا.بچوں اور بھا وجہ کا کیا حال ہے.آپا جان خیریت سے ہیں.مجھے بھا وجہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 100 سال 1965ء صاحبہ ( ان کی بیگم ) نے بتایا کہ یہ آج دو دن کے بعد ا بھی گھر آئے ہیں.کہنے لگے کہ آجکل جنگ کے دن ہیں ہماری دن رات ڈیوٹی رہتی ہے.میں ابھی صرف تھوڑی دیر کے لئے گھر آیا ہوں اور ابھی پھر جا رہا ہوں.وہ جلد جلد باتیں کر رہے تھے اور میں محسوس کر رہا تھا کہ آج انہیں ڈیوٹی پر جانے کی بہت جلدی ہے.میں نے دریافت کیا کہ سنائیے آج کل جنگ کا کیا حال ہے.پاکستان کی کیسی پوزیشن ہے.بڑے جذ بہ اور جوش سے کہنے لگے.خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم بہت کچھ کر رہے ہیں.بس آپ لوگوں کی دلی دعائیں ہمیں درکار ہیں.مزید گفتگو سے اجتناب کرتے ہوئے مجھ سے ہاتھ ملایا اور چلے گئے.میں ان کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا.خدا جانے میرے دل کو اس وقت کیا ہورہا تھا.میرا دل چاہتا تھا کہ میں دوڑ کر انہیں گلے لگالوں.یہ 9 ستمبر کی بات ہے اس سے دوسرے دن یعنی.استمبر کو انہوں نے دشمن کے علاقہ میں جا کر سخت لڑائی کے دوران دشمن کا ایک طیارہ مار گرایا.مرحوم بہترین نشانچی شمار ہوتے تھے.تیسرے دن ا استمبر کو وہ پھر حملہ کرنے کے لئے گئے مجھے ان کے دو ساتھیوں نے بتایا کہ وہ ہم سے یہ کہہ کر گئے تھے.اچھا خدا حافظ آج میں انشاء اللہ دشمن کے اڈہ کو تباہ کر کے آؤں گا اور اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ کروں گا.یہ اس جانباز بہادر اور مجاہد وطن کے آخری الفاظ تھے.اس مرد مجاہد نے جو کچھ کہا تھا بالکل وہی کر کے دکھا دیا.اس دلیر اور بہادر نوجوان نے دشمن کی آگ برساتی ہوئی تو پوں کے درمیان اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پے در پے سخت حملے کئے یہاں تک کہ دشمن کے اڈہ کو تہس نہس کر دیا اور خود بھی وہیں شہید ہو گیا.اناللہ وانا الیہ راجعون.ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں شہید کی روح پر.اس سے قبل انہوں نے دشمن سے آٹھ مقابلوں میں حصہ لیا اور نہایت دلیری اور جرات کا نمونہ دکھلایا.166 تیسرا ہوا باز تو میں ہوں جناب! سکوارڈن لیڈر منیر الدین احمد شہید کسی نہ کسی طرح ہر حملے میں شامل ہو جاتے تھے ذیل کا مضمون روزنامہ مشرق ۶ ستمبر ۱۹۶۶ء میں مندرجہ بالا عناوین کے ساتھ شائع ہوا:.’ جنگ چھڑے چھ روز گزر چکے تھے اور میدان جنگ کے ہنگاموں سے بہت دور فضائیہ کے ایک اڈے پر اترنے اور چڑھنے والے لڑا کا بمباروں کی گرج سے ظاہر ہوتا تھا کہ پرسکون مقام پر سرگرمی حالات کی نزاکت کی علامت ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 101 سال 1965ء دو پہر ہو چلی تھی.اڈے کے آپریشن روم میں ونگ کمانڈ رمحمد انور شمیم اس روز کی انتہائی اہم اور خطرناک مہم کے لئے ہوابازوں کو ہدایت دینے والے تھے.اس مہم کا نشانہ امرتسر کا ریڈار سٹیشن تھا.شمیم نے اس مشن کے لئے تین ہوا باز منتخب کئے تھے.انہوں نے پکارا تو ان میں سے صرف دو آئے.تیسرے کے متعلق انہوں نے ونگ آپریشن آفیسر سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد صاحب سے دریافت کیا انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ” تیسرا تو میں ہوں جناب“.د ولیکن میں نے تو آپ کا نام اس مہم میں نہیں رکھا تھا.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے فلائنگ آفیسر مسعود کو منتخب کیا تھا.یہ ٹھیک ہے سرا لیکن مسعود تو پہلے ہی ایک مہم پر گیا ہوا ہے منیر نے جواب دیا.اور شمیم اب کچھ نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ پہلا موقع نہ تھا.اس ریڈار سٹیشن پر پہلے جتنے حملے ہوئے تھے ان میں بھی سکواڈرن لیڈر منیر ضرور شامل ہوئے تھے.منیر کو اس دنیا میں یا تو اپنے بال بچوں سے الفت تھی یا پرواز سے، جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک وہ آٹھ مرتبہ زمینی فرائض دوسرے ساتھیوں کے سپرد کر کے فضائی حملوں میں شریک ہو چکے تھے.اس مرتبہ پھر وہ تیار ہو گئے تھے اور ونگ کمانڈر شمیم بولے ”اچھا بھئی تم ہی سہی.اسکے بعد انہوں نے ہدایات جاری کیں.تقریباً نصف گھنٹے بعد پاک فضائیہ کے چار سیر دشمن کی تباہی کا سامان بازوؤں میں دبائے پرشکوہ انداز میں اڈے سے اڑے اور نشانے کی طرف روانہ ہو گئے.دس منٹ بعد وہ دشمن کے علاقے پراڑ رہے تھے.وہ کم بلندی پر امرتسر کی طرف جارہے تھے کہ اچانک دشمن کی توپوں کے دہانے کھل گئے.پہلے تو اکا دُکا گولہ آیا لیکن رفتہ رفتہ تانتا بندھ گیا.ہلکی بھاری ہر قسم کی طیارہ شکن تو ہیں آگ اُگل رہی تھیں.ہمارے طیاروں کے چاروں طرف گولے پھٹ رہے تھے لیکن آگ کے اس کھیت میں وہ گویا ہل چلاتے ہوئے منزل کی جانب بڑھتے رہے.منیر اس دستے کے ڈپٹی لیڈر تھے.انہوں نے نشانے پر جھپٹنے کی تیاری مکمل کی.دوسرے طیارے اوپر اٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگے ادھر دشمن کے سارے تو بچیوں نے اپنا رخ منیر کی طرف کر دیا تھا.دھماکوں کے ارتعاش سے ان کا طیارہ ڈول رہا تھا لیکن وہ پورے انہماک کے ساتھ
تاریخ احمدیت.جلد 23 102 سال 1965ء نشانے کی طرف بڑھ رہے تھے.ریڈارٹیشن کے قریب پہنچ کر ایک گولہ منیر کے سیبر کو لگا.انہوں نے جلدی سے ونگ کمانڈر شمیم کو پکارا مجھے گولہ لگ گیا ہے اور پھر ان کا ریڈیو خاموش ہو گیا.شمیم نے جو اس مہم کی قیادت کر رہے تھے دوبارہ ان سے رابطہ پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی جواب نہ ملا.فضا میں چاروں طرف دیکھا لیکن منیر کا کہیں نشان نہ تھا.ایک عظیم ہوا باز شہید ہو چکا تھا.یہ ۳۶ سالہ جیالا ہوا باز قادیان ضلع گورداسپور میں پیدا ہوا تھا اس کی ہر دلعزیز اور ہنس مکھ شخصیت ساری فضائیہ میں مشہور تھی.منیر ہر وقت لطیفہ گوئی کرتے تھے.ماہر نشانچی تھے اور تھوڑاتھوڑا مسکراتے تھے.ان کے لئے زندگی پرواز سے عبارت تھی چنانچہ انہوں نے کبھی ترقی کی خواہش نہ کی.کیونکہ اس طرح ان کی ڈیوٹی زمین پر لگ جاتی.انہوں نے اس جنگ میں پہلا مشن چھمب میں پورا کیا.جہاں ۴ ستمبر کو دشمن کے کئی ٹینک تباہ کئے اور اس کے بعد وہ استمبر کو اپنی شہادت کے روز تک روزانہ فضائی حملوں میں شریک ہوتے رہے.ابتداء میں انہیں یہ حسرت رہی کہ فضاء میں دشمن سے روبرو مقابلہ نہیں ہوا.یہ حسرت • استمبر کو پوری ہوئی جب انہوں نے فیروز پور سے ۲۰ میل جنوب مشرق میں بھارت کے ایک ناٹ کو مار گرایا.شہادت کے بعد سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد کو ستارہ جرات کا اعزاز دیا.جناب خالد محمود صاحب نے اپنی کتاب ”رن کچھ سے چونڈہ تک“ کے صفحہ ۱۹۳ تا ۱۹۶ میں شہید پاکستان خلیفہ منیر الدین کا تذکرہ درج ذیل الفاظ میں کیا ہے:..استمبر کو سکواڈرن لیڈر منیر الدین نے کھیم کرن سیکٹر میں دشمن کا ایک ناٹ طیارہ مار گرایا.اسی دن امرتسر میں دشمن کے طاقتور ریڈار کو تباہ کرنے کے لئے ۱۲ سیبر طیاروں اور ۲ سٹار فائٹرز کا ایک مشن بھیجا گیا.یہ ریڈارسٹیشن شہری آبادی کے بیچوں بیچ واقع تھا.اور کمال ہوشیاری کے ساتھ چھپایا گیا تھا.اس کی حفاظت کے لئے بھی زبر دست انتظامات کئے گئے تھے.ان سب رکاوٹوں کے باوجود پاکستانی ہوا باز اس ریڈار سٹیشن کو خاموش کر آئے.اسی دن سیالکوٹ سیکٹر میں زمینی فوج کو مدددی گئی لیکن صرف ۵ ٹینک اور ۱۰ گاڑیاں تباہ کی جاسکیں.البتہ گدرو سیکٹر میں دشمن کی ۱۵ گاڑیاں اور ۴ ریلوے ویگن تباہ کئے گئے.مصنف کتاب نے آگے چل کر صفحہ ۲۱۴ پر شہید کی تصویر دیتے ہوئے لکھا:.ہنس مکھ سکواڈرن لیڈر منیر کی جان ہوا بازی میں تھی.انہوں نے سب سے پہلے ہ ستمبر کو چھمب
تاریخ احمدیت.جلد 23 103 سال 1965ء کے محاذ پر حصہ لیا.دشمن کی کئی گاڑیاں اور ٹینک تباہ کئے.• استمبر کو فیروز پور کے ۲۰ میل جنوب مشرق میں دشمن کے ایک ناٹ طیارے کو مار گرایا.بھارتی فضائیہ نے امرتسر میں ایک طاقتور ریڈارٹیشن نصب کر رکھا تھا.اسے تباہ کرنا بہت ضروری تھا اسے چند روز پہلے زبر دست نقصان پہنچایا گیا تھا لیکن دشمن نے اسے پھر ٹھیک کر لیا تھا.استمبر کو ونگ کمانڈ رشیم کی قیادت میں تین طیارے امرتسر بھیجے گئے تھے.ان میں منیر بھی شامل تھے.وہ اس سے پہلے تمام حملوں میں بھی موجود رہے تھے لیکن اس دن انہوں نے جان پر کھیل کر یہ ٹنٹا ( جھگڑا، فساد ) ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے کا عزم کیا ہوا تھا.انہوں نے اسی مشن میں شہادت دی لیکن دشمن کا یہ ریڈارسٹیشن ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا تھا.منیر کی پرواز کا مشن پورا ہو گیا تھا.اس سلسلہ میں سترہ روزہ جنگ ستمبر پر اخبارات میں چھپنے والے ایک مضمون میں زاہد ☆ یعقوب عامر جنگ کا ایک نقشہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.امرتسر کا ریڈار پاک فضائیہ کے اڑنے والے طیاروں کے لئے ایک اہم مسئلہ تھا.جس کو ختم کرنے کے لئے ونگ کمانڈر انور شمیم نے سرگودھا ائیر بیس سے ہوا بازوں کے ایک گروپ کو حملہ کے لئے منتخب کیا.اس حملہ میں سکوارڈن لیڈر منیر احمد نے رضا کارانہ طور پر اپنے آپ کو پیش کیا.پاک فضائیہ کے دستے نے دشمن کے اندرا ہم ریڈار کو تباہ کر دیا.مگر اس حملہ میں سکواڈرن لیڈر منیر احمد دشمن کی زمینی تو پوں کا نشانہ بن گئے اور شہادت کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوئے“.پروفیسر (ر) منور شمیم خالد صاحب روز نامہ جنگ کے مندرجہ بالا مضمون پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:.جنگ اخبار کا مضمون پڑھا تو آج سے دو عشرے قبل لاہورہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے ایک واقعہ کی یاد تازہ ہوگئی جس کے چشم دید راوی سینئیر ایڈووکیٹ چوہدری غلام مجتبی ہیں جو ایوان عدل کے اندر انسانی بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے عدلیہ کے محاذ پر تادم واپسیں سرگرم عمل رہے.انہوں نے راقم الحروف کو بتایا کہ بار کے اجلاس عام میں سینکڑوں وکلاء کو پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائیر مارشل (ر) محمد اصغر خان صاحب نے خطاب کیا.خطاب کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ چلا.کسی وکیل نے نہ جانے کس مقصد اور کس قسم کا جواب حاصل کرنے کے لئے مہمان خصوصی سے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے احمدی / قادیانی ملک وقوم کے وفادار ہو سکتے ہیں؟ اس طرح کے سوال کا مطلب یہی ہو
تاریخ احمدیت.جلد 23 104 سال 1965ء سکتا ہے کہ جس قسم کا سلوک احمدیوں سے ہوتا رہا ہے، اُس سلوک کے ہوتے ہوئے فوج یا فضائیہ میں خدمات سرانجام دینے والے احمدیوں سے وفاداری یا جان شاری کی توقع کی جاسکتی ہے؟ یہ سوال سن کر جناب اصغر خان صاحب نے جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کا ایک حقیقی واقعہ ذاتی تجربہ بیان کر کے اس نہایت ہی چھنے والے سوال کا جواب دیا.ائیر مارشل (ر) اصغر خان نے بتایا کہ جنگ کے دوران دشمن کی فضائی برتری نے ہمارا ریڈار سسٹم منجمد (جام) کر دیا تھا تو اس نازک صورتحال سے نمٹنے کا صرف ایک ہی طریق تھا کہ جس بھارتی ہوائی اڈہ امرتسر سے دشمن کے جہاز اڑ کر پاکستان پر حملہ آور ہورہے ہیں اُس کو تباہ کر دیا جائے.اس واضح اور معین مقصد کے لئے ، جناب اصغر خان نے بتایا کہ پاک فضائیہ کے ہوا بازوں کو ایک جگہ طلب (اکٹھا) کیا گیا اور جنگ کی نازک صورتحال سے آگاہ کر کے سب پائلٹوں سے کہا گیا کہ اس قومی دفاعی مقصد کے حصول کے لئے جان کی بازی لگا کر دشمن کا ہوائی اڈہ تباہ کرنا ضروری ہے.لہذا ہوا باز از خود، رضا کارانہ طور پر اس ناگزیر مشن کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.جناب اصغر خان نے ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن کے اجلاس عام میں اراکین کو یہ بتایا کہ سب سے پہلے جس پائلٹ نے اپنے آپ کو رضا کا رنہ طور پر پیش کیا وہ پائلٹ احمدی قادیانی تھا.جی ہاں ! یہ وہی ۳۶ سالہ اسکوارڈن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد تھے جن کا ذکر صاحب مضمون نے اخبار جنگ میں کیا اور جن کو شہادت کا رتبہ پانے پر ستارہ جرات عطا کیا گیا.جناب زاہد ملک صاحب سینئر صحافی ایڈیٹر "حرمت نے امریکہ میں جناب ایم ایم احمد صاحب سابق مشیر صدر پاکستان و نائب صدر ورلڈ بنک کا انٹرویو کیا.اس میں مکرم ایم ایم اے صاحب نے ۱۹۶۵ء کی جنگ کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر پاکستان جنرل محمد ایوب کی ایک فیصلہ کن رائے مکرم منیر الدین احمد صاحب کے بارے میں بیان فرمائی جو یہ ہے:.اگر کوئی چیخ چیخ کر سو دفعہ کہے کہ یہ جو احمدی ہیں یہ ملک کے خلاف ہیں تو میں اس پر ایک سیکنڈ کے لئے بھی یقین نہیں کروں گا.کیونکہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے دوران میں نے ایک بہت ہی خطرناک مشن پر بھیجنے کے لئے دس آدمیوں کو بلایا اور کہا کہ جس مشن پر آپ کو بھیجا جا رہا ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اس میں زندہ بیچ کر واپس آنے کا امکان صرف ۱۰ فیصد ہے جبکہ ۹۰ فیصد امکان یہی ہے کہ وہ واپس نہیں آئیں گے تو پہلا آدمی جس نے اثبات میں فور کہا تھا اٹھایا وہ احمدی تھا.میں نے پوچھا اس کا نام؟ تو کہا! اس کا نام پائلٹ منیب تھا“.
تاریخ احمدیت.جلد 23 105 سال 1965ء ( منیب غلطی سے درج ہو گیا ہے یہ منیر ہے یعنی سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد ) 79 محترم محمد اسلم لودھی صاحب نے اپنی محققانہ تصنیف پاک فضائیہ تاریخ کے آئینہ میں اس بطل پاکستان کی تصویر دے کر لکھا:.سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد شہید (ستارہ جرات) ۱۹۶۵ء کی جنگ شروع ہوئے چھ دن گزر چکے تھے.زمین ، فضا اور سمندر میں جنگ پوری طرح زوروں پر تھی.دشمن کے ہوائی جہازوں کے غول کے غول حملہ آور ہونے کیلئے آتے اور ہمارے فضائی مستعد نگہبانوں کی بہتر نگہبانی کی بدولت اپنے مشن میں نا کام ہو کر واپس لوٹ جاتے.استمبر کو سرگودھا میں کے ایک آپریشن روم میں امرتسر ریڈار سٹیشن کو تباہ کرنے کی حکمت عملی زیر بحث تھی.ونگ کمانڈر انور شمیم اپنے ہوا بازوں کو اس خطرناک مہم کیلئے بریفنگ دے رہے تھے.در اصل امرتسر کا یہ حساس ریڈار مضبوط دفاعی حصار میں تھا اردگرد حفاظت کیلئے بھاری طیارہ شکن تو ہیں نصب تھیں.جن سے بچنا کسی بھی حملہ آور جہاز کیلئے مشکل تھا.ونگ کمانڈر انور شمیم نے سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد کو تین مزید پائلٹ اس مشن میں شمولیت کیلئے بلوانے کیلئے بھیجا.چند منٹ بعد دو پائلٹ آگئے.ونگ کمانڈ رانور شمیم نے منیر الدین احمد سے مخاطب ہو کر تیسرے پائلٹ کے بارے میں پوچھا منیر الدین نے اپنی طرف اشارہ کر کے کہا کہ سر تیسرا پائلٹ میں حاضر ہوں.چونکہ منیر الدین احمد کئی خطرناک مشنوں پر پہلے ہی اپنی بہادری کے جو ہر دکھا چکے تھے.اس لئے ونگ کمانڈر انور شمیم نے انہیں رکنے کیلئے کہا لیکن آپ اس خطرناک مشن پر روانگی کیلئے ذہنی طور پر تیار ہو چکے تھے.اس لئے ونگ کمانڈر انور شمیم بھی آپ کو فضائی معرکے میں شریک کرنے پر آمادہ ہو گئے.بریفنگ کے کچھ ہی دیر بعد چار سیبر طیارے سرگودھا میں سے امرتسر پر حملہ آور ہونے کیلئے اڑے.امرتسر پہنچنے میں انہیں صرف دس منٹ لگے ہوں گے.چاروں سیر جونہی امرتسر کی فضا میں پہنچے تو شہر کی حفاظت کیلئے لگی ہوئی طیارہ شکن گنوں نے فائرنگ شروع کر دی.فضا میں ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دیتی تھی.سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد دشمن کی زبر دست فائرنگ سے مرعوب ہونے کی بجائے ریڈار پر حملہ کرنے کیلئے نشانہ لے چکے تھے.جو نہی آپ کا طیارہ ریڈار کے روبرو آیا تو آپ نے بمباری کر کے ریڈار سٹیشن کے پرخچے اڑا دیئے لیکن جب آپ جہاز کو بلندی کی طرف لے
تاریخ احمدیت.جلد 23 106 سال 1965ء جارہے تھے بھاری طیارہ شکن توپ کا گولہ آپ کے جہاز کو لگا.آپ اپنے لیڈر کوصرف یہی اطلاع دے سکے کہ سر مجھے گولہ لگ چکا ہے اور جہاز آگ کے تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا.اس طرح آپ نے اپنی آنکھوں سے اپنی کامیابی دیکھتے ہوئے جام شہادت نوش کیا.اس سے پہلے بھی آپ ۶ ستمبر کو چھمب جوڑیاں کے محاذ پر بھارت کے کئی جنگی طیارے تباہ کر چکے تھے اور بھارتی ٹینکوں اور توپوں کو اپنا شکار بنا چکے تھے.آپ ۶ ستمبر ۱۹۲۷ء کو بھارت کے شہر امرتسر قادیان ضلع گورداسپور.ناقل ) میں پیدا ہوئے.مڈل تک تعلیم امرتسر شہر (اصل قادیان ) میں ہی حاصل کی.۱۹۴۴ء ( قیام ربوہ ۱۹۴۸ء) میں آپ کا خاندان ربوہ ضلع جھنگ میں آکر آباد ہو گیا.آپ کے والد ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین پیشے کے اعتبار سے قابل احترام تھے اور دور ونزدیک کے لوگ شفا کی تلاش میں ان کے در دولت پر حاضری دیتے.منیر الدین احمد نے میٹرک کا امتحان پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا.۲۲ دسمبر ۱۹۵۱ء کو با قاعدہ کمیشن لیا.آپ کی شادی ۲۲ اکتو بر ۱۹۵۸ء کو خانقاہ ڈوگراں میں شاہدہ بیگم سے ہوئی.آپ کے آنگن میں ایک ہی پھول کھلا جو بیٹی زاہدہ منیر کے نام سے تھا.پاک بھارت جنگ کے دوران آپ نے آٹھ انتہائی اہم معرکوں میں شرکت کی اور دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا.امرتسر کے ہائی پاور ریڈار کی تباہی کی ذمہ داری جب آپ کو سونپی گئی تو آپ نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنا مشن مکمل کیا لیکن مشن کی کامیابی کے ساتھ ہی آپ کو شہادت کا عظیم مرتبہ حاصل ہوا.جرات اور بے مثال بہادری کے عوض آپ کو ستارہ جرات سے نوازا گیا.آپ برج کے اعلیٰ کھلاڑی تھے.اعلیٰ ہوا بازی اور بہترین نشانہ بازی کی بدولت آپ کو پاک فضائیہ میں بزرگ کا درجہ حاصل تھا.جن کیڈٹوں نے ان کی شاگردی میں کام کیا وہ آج بھی ان کا نام بڑے فخر سے لیتے ہیں“.اسی طرح مکرم سکواڈرن لیڈر منیر الدین احمد صاحب شہید ”ستارہ جرات کی بے مثال اور عظیم جرات و بہادری پر کتاب ”ہمارے غازی ہمارے شہید میں زبر دست خراج تحسین پیش کیا گیا ہے.میجر منیر احمد صاحب شہید 80 آپ مکرم خواجہ عبدالقیوم صاحب آف جمیل لاج محلہ دارالرحمت وسطی ربوہ کے فرزند تھے.آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 107 سال 1965ء نے محاذ جنگ پر نماز پڑھتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی.روزنامہ مشرق (لاہور) نے اپنی ۵ نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں پاکستان کی جنگی تاریخ کے اس اہم واقعہ پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا:.میجر منیر احمد محاذ پر نماز پڑھتے ہوئے شہید ہو گئے انہوں نے پروردگار کی بارگاہ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی.کاش میں اس مقدس جنگ میں شہادت کا رتبہ حاصل کر سکوں.یہ الفاظ میجر منیر احمد (انجینئر کور ) نے شہادت سے چند گھنٹے قبل اپنے ایک ساتھی میجر سے گفتگو کرتے ہوئے کہے.میجر منیر احمد کو کیا معلوم کہ چند ساعتوں کے بعد ہی بارگاہ رب العزت میں ان کی یہ دعا شرف قبولیت حاصل کر لے گی.اور انہیں مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہونے کی سعادت حاصل ہو جائے گی.میجر منیر احمد لاہور کے محاذ پر مسلسل دو دن اور دو راتیں دشمن کا مقابلہ کرتے رہے.۲۱ ستمبر کو دشمن کی طرف سے گولہ باری تھی تو انہیں ہدایت ملی کہ وہ پچھلے مورچوں میں جا کر آرام کر لیں، میجر منیر احمد بادل نخواستہ اپنے مورچے سے نکلے اور مورچے کے قریب ہی نماز عشاء کی ادائیگی میں مصروف ہو گئے.ابھی وہ نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ دشمن کی طرف سے گولہ باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور میجر منیر احمد دشمن کا گولہ لگنے سے شہید ہو گئے.میجر منیر احمد کی شہادت کی اطلاع بذریعہ ٹیلیفون دی گئی تو اس وقت ان کے والد خواجہ عبدالقیوم گھر پر موجود نہیں تھے ان کی ضعیف العمر والدہ نے اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سنتے ہی بارگاہ ایزدی میں ہاتھ اٹھا دئے اور کہا کہ میرے مولا! تو نے میرے لختِ جگر کی شہادت قبول کر لی اور اسے اس شرف سے نوازا کہ وہ دس کروڑ مسلمانوں کے ملک کا دفاع کر سکے اور اسی نیک مقصد میں جان کی بازی لگادی.میجر منیر احمد صاحب نے رن کچھ کے محاذ پر بھی دشمن کے خلاف جنگ میں حصہ لیا.اور یہاں بھی دشمن کو ذلت آمیز شکست دی اور اب یہ قوم کا جیالا سپوت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور کے محاذ پر دشمن کے خلاف نبرد آزما تھا.میجرمنیر احمد ۱۹۲۷ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.۱۹۴۳ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے.۱۹۴۶ء میں جنگ کے اختتام پر انہیں جمعدار کے عہدہ سے سبکدوش کر دیا گیا.اس کے بعد منیر احمد شہید پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان آرمی میں شامل ہو گئے اور کمیشن حاصل کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 108 سال 1965ء خواجہ منیر احمد شہید کے بڑے بھائی خواجہ جمیل دوسری جنگ عظیم میں شہید ہوئے اور چھوٹے بھائی کیپٹن محمد طیب سیالکوٹ کے محاذ پر دشمن سے برسر پیکار ہیں.خواجہ منیر احمد شہید کے پسماندگان میں تین بیٹے اور ایک بیوی شامل ہیں.میجر منیر احمد شہید کی اہلیہ نے بتایا کہ ان کے شہید شوہر کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ وہ کشمیر کی آزادی، مادر وطن کی حفاظت اور اسلام کی سربلندی کے لئے جام شہادت نوش کریں.انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گی اور اپنے بچوں کو بھی فوج میں شامل کرا دیں گی تاکہ وہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک اور قوم کی حفاظت و خدمت کر سکیں“.محترمه حسن آرا منیر صاحبہ بیگم میجر منیر احمد صاحب شہید تحریر فرماتی ہیں کہ میرے شو ہر محترم میجر منیر احمد صاحب شہید جنوری ۱۹۲۷ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے.۱۹۵۰ء میں فوج میں کمیشن حاصل کیا.۱۹۵۹ء میں میجر کے عہدہ پر فائز ہوئے.۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ء کو وطن عزیز کی عزت و ناموس کی خاطر جان کی بازی لگا کر اپنے مالک حقیقی کے حضور سرخرو ہو کر جا پہنچے اور شہادت کا بلند مرتبہ حاصل کیا اور ربوہ کی مقدس سرزمین میں خاص ” قطعہ شہیداں میں دفن ہونے کی سعادت حاصل کی.آپ مزید کھتی ہیں کہ شہید کی زندگی اطاعت وخدمت والدین کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھی.اور خدمت والدین کو اپنی زندگی کا اہم فریضہ سمجھتے تھے اور فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفُّ (بنی اسرائیل:۲۴) کی عملی تفسیر تھے.کوئی اپنی مرضی یا خیالات کے خواہ کتنے ہی خلاف کیوں نہ ہو، والدین کی خواہش اور رضا کو مقدم رکھتے تھے.یہی وجہ ہے کہ ایک حد درجہ اطاعت و خدمت گزار بیٹے کی جدائی بوڑھے والدین پر بہت شاق گزری ہے.لیکن ساتھ ہی یہ امر باعث مسرت ہے کہ والدین کے دل سے نکلی ہوئی دعائیں ان کے درجات کو ہمیشہ بلند کرتی رہیں گی.۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خاص توجہ، دعا اور منشاء سے میرا رشتہ شہید مرحوم ومغفور سے طے پایا اور ۱۹۵۶ء میں رخصتا نہ ہوا.میں اس نو سالہ رفاقت کی زندگی پر جب نگاہ دوڑاتی ہوں تو مجھے کوئی ایسا موقع یا ایسا لمح نظر نہیں آتا جس کے متعلق میں کہہ سکوں کہ شہید کی طرف سے مجھے کسی قسم کی پہنی یا جذباتی تکلیف پہنچی ہو.کبھی غصہ کا اظہار نہ کیا.کبھی ماتھے پر بل نہ آیا.ہنستے ہوئے گھر سے نکلے
تاریخ احمدیت.جلد 23 109 سال 1965ء اور ہنستے ہوئے داخل ہوئے.زندگی میں بہت دفعہ پریشانی کے لمحات اور دور آئے لیکن اپنی پریشانیوں کو خود پر حاوی نہ ہونے دیا.اپنی مشکلات کا تذکرہ بھی گھر میں نہ کیا تا کہ گھر کا ماحول مکڈ رنہ ہو.بیوی بچوں پر اثر نہ ہو.کئی مرتبہ اس بات پر میں نے اظہار ناراضگی کیا کہ اپنی پریشانی یا تکلیف کا تذکرہ گھر میں کیا کریں.ہمیشہ یہی کہا کرتے کہ میں کہتا ہوں تمہیں کیوں پریشان کروں.طبیعت میں شگفتگی بہت تھی.بعض اوقات میں نے کسی بات پر ناراضگی کا اظہار کرنا چاہا تو فوراً لاحَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ پڑھ کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے تاکہ بات وہیں ختم ہو جائے.غرضیکہ ہر وقت یہی کوشش ہوتی کہ گھر کا ماحول نہایت خوشگوار ہو.میں خدا تعالیٰ سے اکثر دعا مانگا کرتی تھی.شادی سے پہلے بھی اور شادی کے بعد بھی کہ ”ہمارا گھر ہومثل باغ جنت سو شہید کے بابرکت وجود کی وجہ سے فی الحقیقت ہماری گھر یلو زندگی مثل باغ جنت تھی.بچوں سے والہانہ محبت کرتے تھے اور بچے بھی مجھ سے زیادہ اپنے ”ابی جان“ کے ساتھ لگاؤ رکھتے تھے لیکن ساتھ ہی ساتھ بچوں کی تربیت کا بہت خیال رکھتے تھے اور اس مقصد کے لئے چھوٹے چھوٹے انعام مقرر کر دیتے تا کہ اچھے کام کرنے کا جذبہ اور عادت بچوں میں راسخ ہو جائے.اس بات کی بہت خواہش اور کوشش تھی کہ بچوں میں اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت پیدا ہو اور اس بارے میں سختی اور سرزنش سے بھی گریز نہ کرتے تھے.شہادت سے کچھ ماہ قبل شہید نے اپنی عادت بنالی تھی کہ صبح کی نماز پڑھنے کے بعد دونوں بچوں کی (جن کی عمریں ۸ اور ۶ سال ہیں ) چار پائیوں کے قریب جاتے اور سوئے ہوئے بچوں کے کانوں میں آہستہ آہستہ تلاوتِ قرآن کریم کرتے.بچے مسکراتے ہوئے جاگ جاتے.پھر انہیں پیار کرتے اور کہتے اٹھو بیٹا نماز پڑھ لو.اپنے ماتحت عملہ اور ریلو ملازموں سے نہایت نرمی اور محبت کا سلوک کرتے تھے.اسی طرح بچوں کو بھی تلقین کرتے رہتے تھے کہ غریب لوگوں کے ساتھ نرمی سے اور آہستہ آواز سے بولنا چاہیئے.غریب نواز بہت تھے.طبیعت میں حد درجہ انکساری تھی.باوجود اپنی سرکاری مصروفیات کے ایک مرتبہ بہت سے احمدی طالب علموں کو جو کہ صاحب حیثیت نہ تھے گھر پر کئی ماہ تک شارٹ ہینڈ سکھاتے رہے تا کہ انہیں اچھی ملازمت مل جائے.گھر پر ایسے نادار لوگوں کا تانتا لگارہتا جو کہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں ہوتے.اکثر کو دوڑ دھوپ کر کے ان کے حسب لیاقت ملازمت دلوا دیتے اور اس امر کے لئے جہاں جہاں بھی جانا پڑتا جاتے.اور بالفرض کسی کے لئے اگر ملازمت مہیا نہ کر سکتے تو
تاریخ احمدیت.جلد 23 110 سال 1965ء بہت گڑھتے اور کئی دفعہ گھر میں ذکر کرتے کہ دیکھو غریب مارا مارا پھرتا ہے.نوکری نہیں ملتی.اور مجھے کہتے کہ جب بھی ایسے لوگ آئیں ان کو چائے پانی ضرور پوچھ لیا کرو.بعض اوقات ایسا ہوتا کہ صبح سے شام تک دفتری کام کر رہے ہیں.گھر پر آئے ہیں تو پیچھے پیچھے ایسے لوگ جو روزگار کے متلاشی ہوتے آ جاتے.گھنٹوں کھڑے ہو کر ان کی مشکلات کا حال سنتے کئی دفعہ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس نوکریاں ہوتی ہیں؟ کہتے میرے پاس نوکریاں کہاں ہوتی ہیں بس ادھر اُدھر کہہ سن کر کوشش کرتا رہتا ہوں کسی کو مل جاتی ہے کسی کو نہیں بھی مل سکتی.بعض دفعہ ایسا بھی موقع آجاتا کہ کسی نجی ملازم کی شکایت کرنی پڑ جاتی کہ اسے تنبیہ کریں زور سے نام لے کر آواز دیتے، میں سمجھتی کہ اب سرزنش کریں گے.لیکن جب وہ شخص سامنے آجاتا تو نہایت نرمی سے کہتے دیکھو جس طرح بیگم صاحبہ کہیں اسی طرح کر لیا کرو“ اور بس بات ختم ہو جاتی.ہمارے بنگلہ کے پچھواڑے ملازموں کے کوارٹرز میں دو میاں بیوی رہتے تھے جو ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے.ایک مرتبہ اس کی بیوی شکایت لے کر شہید مرحوم کے پاس آئی.کہنے لگے اچھا میں اسے ڈانٹوں گا.اس کے خاوند کو بلایا اسے سمجھایا کہ عورتوں کے ساتھ لڑنا جھگڑنا ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ.گھر میں اچھا کھانا پکا ہوا تھا اسے پلیٹ بھر کر دیا اور کہا جاؤ دونوں میاں بیوی مل کر کھاؤ.گھر میں اگر ملاقات کے لئے نہایت درجہ معمولی آدمی یا دفتر کا چپڑاسی بھی آجاتا تو ساتھ ہی کرسی منگوا کر بٹھا لیتے اور فوراً چائے کی پیالی اس کے لئے منگوا لیتے.غرضیکہ حد درجہ غریب نواز اور غریب الطبع تھے.بزرگوں کی خدمت اور ان سے دعائیں کروانے اور دعائیں لینے کا غیر معمولی شوق تھا.بزرگوں کی خدمت میں مسلسل اور مستقل نذرانے بھیجتے رہتے تاکہ وہ انہیں دعاؤں میں ہر وقت یادرکھیں اور خود بھی درجنوں خطوط دعا کے لئے لکھتے اور مجھ سے بھی لکھواتے رہتے.چنانچہ سلسلہ کے بہت سے بزرگوں کے ساتھ انہیں خاص تعلق تھا جن میں سے حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ وفات پاچکے ہیں.محترمہ بھا بھی زینب صاحبہ نے تو انہیں بیٹا بنایا ہوا تھا اور وہ بھی ان کی عزت اور خدمت بیٹوں کی طرح کرتے تھے اور بھا بھی صاحبہ بھی انہیں دن رات دعاؤں میں یاد رکھتی تھیں.سرگودھا اور سیالکوٹ میں جب ملازمت کے سلسلہ میں مقیم تھے تو انہیں ربوہ سے اپنے گھر خود جا کر لے آتے اور پھر دن رات ان کی خدمت کرتے اور دعائیں کرواتے.شہادت سے کچھ عرصہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 111 سال 1965ء قبل جبکہ کوئٹہ میں مقیم تھے حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری سے تعلقات محبت بڑھائے اور ان کی بھی دعائیں لیں.کوئٹہ کی مسجد میں نماز مغرب ادا کرنے جاتے.میں پوچھتی آپ بہت دیر سے گھر آئے ہیں کہتے بس نماز پڑھ کر حضرت مولوی صاحب کے گھٹنے کے پاس بیٹھ جاتا ہوں.اللہ میاں کہتا ہے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ (التوبہ: ۱۱۹) صادقوں کی صحبت اختیار کرو.سو میں بھی اسی لئے گھٹنا پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں کہ شاید میرا شمار بھی صادقوں میں ہو جائے.اس کے علاوہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری سے بھی خط و کتابت رہتی تھی.آج بھی حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کا سلوک میرے ساتھ بیٹیوں جیسا ہے اور انہوں نے میرے اس غم کو اپنا غم سمجھا ہے اور مجھے اپنے قیمتی مشوروں اور دعاؤں سے نوازتے ہیں.الحمد للہ.خود بھی بہت دعا کرتے تھے اور خدا تعالیٰ پر توکل اور دعاؤں پر اعتماد بہت تھا.رن کچھ کے محاذ سے واپسی پر مجھ سے اکثر ذکر کیا کرتے تھے کہ میں وہاں ساری ساری رات دعائیں کرتا تھا اور مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے تمہارے لئے اور بچوں کے لئے بھی بہت دعا کی توفیق ملی ہے.مجھے سردرد کی تکلیف لمبے عرصے سے ہے.مجھے کہا کرتے تھے کہ میں نے اس قدر دعا تمہارے اس مرض کی دوری کے لئے کی ہے کہ یہ اب انشاء اللہ بغیر دوا کے رفع ہو جائے گی.اسی طرح چھوٹا بچہ پیٹ کی خرابی سے بہت بیمار رہتا تھا.میں نے ایک مرتبہ کہا کہ اسے با قاعدہ ہسپتال میں داخل کروا کے اب اس کا علاج کراؤں گی.کہنے لگے ابھی ٹھہر جاؤ مجھے کچھ عرصہ با قاعدگی اور زور سے دعا کر لینے دو.اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس قدر دعاؤں میں شغف اور اعتماد تھا.سوخدا تعالیٰ کے فضل سے بغیر ہسپتال داخل کرائے بچہ ٹھیک ہو گیا.بچے خواب بھی بہت دیکھتے تھے اور اپنے خواب اکثر مجھے سناتے رہتے تھے جو کہ اپنے وقت پر پورے بھی ہو جاتے.عبادت گزار تھے.نماز تہجد ایک لمبے عرصے سے با قاعدگی کے ساتھ پڑھتے تھے.نماز باجماعت کا اس قدر شوق تھا کہ کوئٹہ چھاؤنی سے ۳ میل دور مسجد احمد یہ میں نماز مغرب ادا کر نے باقاعدگی سے جاتے.گرم سرد ہوائیں ان کے راستہ میں حائل نہ ہوتیں اور جاتے بھی سائیکل پر تھے.عشاء کی نماز پڑھ کر ۶ میل کا راستہ سائیکل پر طے کر کے آتے.بعض اوقات مجھے کہتے سب دوست کہتے ہیں کہ اتنی دور سے نماز باجماعت پڑھنے آتا ہے.بڑا مخلص ہے اللہ بہتر جانتا ہے میں کیسا ہوں اور کیسا نہیں.یہ ان کی انکساری تھی.قرآن کریم کی تلاوت سے عشق تھا.اور بہت خواہش رکھتے تھے کہ تمام قرآن کریم کسی سلسلہ کے عالم سے با ترجمہ پڑھیں اس مقصد کے لئے دوماہ کی رخصت بھی ایک دفعہ لی اور محترمہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 112 سال 1965ء استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی صاحب سے قرآن کریم با ترجمہ پڑھنا شروع کیا آدھا ہی پڑھا تھا کہ چھٹی سرکاری کام کی وجہ سے منسوخ ہو گئی جس کا انہیں بہت افسوس ہوا اور اکثر کہتے کہ کاش ایسا موقع ملے کہ کبھی رمضان شریف ربوہ میں گذرے وہاں روزے رکھوں اور قرآن کریم با ترجمہ پڑھوں.گھر میں دن میں کئی مرتبہ تلاوت کرتے.کھانے کے میز پر بھی صبح قرآن کریم لے بیٹھتے تا کہ جب تک چائے نہیں آتی تلاوت کرتا رہوں.باہر جانا ہوتا اور ابھی ۱۰/۵ منٹ باقی ہوتے تو قرآن کریم نکال لیتے تا کہ وہ وقت بھی تلاوت میں صرف ہو.تبلیغ احمدیت کا شوق انتہا تک پہنچا ہوا تھا.بوجہ سرکاری ملازم ہونے کے تبلیغ احمدیت نہ کر سکتے تھے لیکن سلسلہ کی تمام کتب گھر میں منگوا کر رکھی ہوئی تھیں اور سلسلہ کا کوئی رسالہ ایسا نہ تھا جو ہمارے گھر نہ آتا ہو.سلسلہ کی کتب کثرت سے دوستوں کو پڑھنے کو دیتے بعض دفعہ میں کہتی کہ کچھ عرصہ کے بعد کتاب واپس لے لیا کریں وگرنہ گم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے.کہتے چلو کوئی بات نہیں کسی کے گھر میں پڑی رہے گی کبھی تو اسے توفیق ملے گی کہ اس پر نظر ڈالے ہم ربوہ سے اور منگوالیں گے.مجھ سے کئی دفعہ اظہار کیا کہ میرا دل چاہتا ہے جب میں ریٹائر ڈ ہو جاؤں اور اللہ میاں مجھے روپیہ دے تو میں سب سے پہلے ایک بہت بڑی لائبریری سلسلہ کی کتب کی بناؤں اور پھر ذاتی تنخواہ سے ایک ایسا مبلغ وہاں رکھوں جو کہ ہر وقت سلسلہ کی تبلیغ کرے.اور ان کا تمام خرچ خودا ٹھاؤں اور لوگ دن رات لائبریری میں آکر سلسلہ کی کتب پڑھیں اور ہمارے مبلغ سے تبادلہ خیالات کریں.صدقہ و خیرات بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر کرتے تھے.ہر مشکل پیش آنے پر بجائے ادھر اُدھر دوڑ دھوپ کرنے کے دعا اور صدقہ خیرات پر زور دیتے.اگر کوئی منذر خواب دیکھ لیتے تو اسی وقت بکرا منگوا کر صدقہ دے دیتے.بعض اوقات دو دو تین تین بکرے اکٹھے منگوا کر گوشت غرباء میں تقسیم کروا دیتے اور بہت خوشی محسوس کرتے اور مستحقین کے نام یاد کر کر کے بتاتے کہ فلاں جگہ ضرور بھجوانا.اپنی تنخواہ کا خاصہ معقول حصہ صدقہ و خیرات، چندوں ، بزرگوں کی خدمت میں نذرانوں اور سلسلہ کے رسائل اور کتب کی خریداری میں صرف کرتے.خود سادہ اور تکلف سے مبر ازندگی بسر کرتے اور اس طریق سے جو بچت ہوتی اسے خدا تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے خرچ کرتے.اگر کسی کو ادھاریا قرض دیتے تو باوجود اس کے کہ خود روپے کی ضرورت ہوتی کبھی واپس نہ مانگتے.اگر کوئی قرض لینے والا غریب آدمی ہوتا تو مجھے کہتے کہ اسے قرض کی واپسی پر اصرار نہ کرنا جب بھی ہوگا دے جائے گا اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 113 سال 1965ء اگر نہ بھی دے گا تو کوئی حرج نہیں.اپنے محکمانہ فرائض کی ادائیگی میں نہایت درجہ فرض شناس اور محنتی افسر تھے.کبھی اس بات کا لحاظ نہ رکھتے تھے کہ کتنا وقت میں نے دفتر میں صرف کیا ہے بلکہ یہ دیکھتے تھے کہ جو کام میرے ذمہ ہے وہ مکمل ہوا ہے یا نہیں.خواہ صبح سے شام تک دفتر میں بیٹھا رہنا پڑتا ایسے موقعوں پر کھانے کی بھی پرواہ نہ کرتے بلکہ کھانا بھول ہی جاتے.اور جب فارغ ہو کر گھر آتے تو کبھی مجھے یہ محسوس نہ ہوتا کہ وہ مسلسل بارہ گھنٹے فائلوں پر جھکے رہنے کے بعد گھر لوٹے ہیں.چہرہ پر وہی تازگی ، وہی شگفتگی، وہی مسکراہٹ.ایسے لگتا جیسے سیر سے واپس آرہے ہوں.تینوں بچے دائیں بائیں سے گھیر لیتے کوئی شانوں پر جا چڑھتا.کبھی نہ جھڑکتے ہمیشہ پیار سے سمجھاتے اور کہتے بیٹا ٹھہر جاؤ وردی اتارلوں.نماز پڑھ لوں.پھر آپ سے کھیلوں گا.وہ دلکش مسکراہٹ ، شگفتہ باتیں، دلنشیں عادتیں اور دلفریب چہرہ ہر وقت آنکھوں کے سامنے گھومتا ہے.دل خلش محسوس کرتا ہے لیکن پھر سوچتی ہوں کہ ہر ایک کوجلد یا بدیر یہی راہ اختیار کرنا ہے.مبارک ہیں وہ جو جئے تو خدا کی رضا کے حصول میں کوشاں رہے اور مرے تو شہید کی موت.یعنی مرکز بھی زندہ رہے.جنت کا پھول تھے.خدا تعالیٰ نے جنت کے گلدستے میں لگانے کو چن لیا لیکن ایسے گوہر نایاب کو کھو دینے کے بعد کونسی آنکھ ہے جو پر نم نہ ہو.9 سالہ رفاقت کی زندگی میں نیکیاں ہی نیکیاں یادگار چھوڑ گئے.دل خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہے.لیکن ساتھ ہی یہ صدا بھی نکلتی ہے.حیف! در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شد میجر قاضی بشیر احمد صاحب شہید 83 دفاع وطن میں جو احمدی مجاہد کام آئے ان میں میجر قاضی بشیر احمد صاحب شہید بھی تھے.جناب نصیر احمد صاحب شاد راولپنڈی آپ کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ عزیزم میجر قاضی بشیر احمد صاحب شہید ۲۰ ستمبر ۱۹۲۶ء کو حضرت قاضی محمد یوسف صاحب سابق امیر جماعتہائے احمد یہ سرحد کے ہاں بمقام ہوتی مردان میں پیدا ہوئے.میٹرک سے قبل تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تعلیم پائی.عرصہ زیر تعلیم بورڈنگ ہاؤس قادیان میں مقیم رہے.۱۹۴۶ء میں پنجاب
تاریخ احمدیت.جلد 23 114 سال 1965ء یو نیورسٹی سے میٹرک پاس کیا.۱۶ جون ۱۹۵۰ء کو او.ٹی.ایس کو ہاٹ سے کمیشن حاصل کیا اور فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں بطور سیکنڈ لیفٹینٹ پوسٹ ہوئے.اس کے بعد مختلف عہدوں پر مختلف مقامات پر کام کرتے رہے کچھ عرصہ سٹاف میں بھی کام کیا اور کچھ عرصہ سکاؤٹس میں بھی.جہاں بھی سروس کی بڑے مقبول ہوئے اور ہر دلعزیز رہے.طبیعت میں خدمت خلق اور حسن سلوک کا جذ بہ نمایاں تھا.دراصل یہ قادیان ہی کی تعلیم اور تربیت کا اثر تھا.۳۱ را گست ۶۵ ء کی شب کو محاذ جنگ پر بطور کمپنی کمانڈر روانہ ہوئے.۵ رات دن متواتر دشمن کے ساتھ بڑی جانفشانی کے ساتھ لڑتے رہے اور بالآخر ۵ ستمبر ۱۹۶۵ء کو دن کے گیارہ بجے دشمن کی پوزیشن پر بڑھتے ہوئے ایک توپ کے گولہ کے پھٹنے کی وجہ سے شہید ہو گئے.انا للہ و انا اليه راجعون.مرحوم بڑے نڈر اور دلیر تھے.عزیز مرحوم ہمیشہ سب سے اگلے دستے کے ساتھ ہی رہا کرتے تھے اور کئی دفعہ تنہا بلا خوف و خطر آگے نکل جاتے تھے اور مناسب دیکھ بھال کرنے کے بعد کمپنی کو آگے لے آتے تھے.انہیں ہمیشہ اپنے جوانوں کی بہت فکر رہتی تھی.یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت پر نہ صرف ان کی کمپنی کا ہر جوان بلکہ یونٹ کا ہر افسر اور جوان اور اس کے علاوہ آرمرڈ کور اور تو پخانے کی وہ یونٹس جوان کے ساتھ اس محاذ پر لڑتی رہیں بڑی ہی غمزدہ ہوئیں اور یونٹس کے کمانڈنگ آفیسر ز جب بھی قاضی بشیر کا نام لیتے ہیں تو بڑے ہی فخر سے ان کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی شہادت کی وجہ سے ایک ایسا خلا محسوس کرتے ہیں جو پُر نہ ہو سکا.مرحوم کی جرات اور بے مثال دلیری کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ محاذ جنگ کے ایک مقام پر ان کی کمپنی دشمن کی کئی گنا تعداد فوج سے گھر گئی.شہید مرحوم خود اس جگہ پہنچ گئے جہاں حملے کا خطرہ بہت زیادہ تھا اور کمپنی کے جوانوں کو حکم دیا کہ تم ایک ایک کر کے پہاڑی کے پیچھے نالے سے پرے جمع ہوتے جاؤ.میرا وہیں انتظار کرنا میں پہنچ جاؤں گا.کمپنی کے جوان اپنے محبوب کمانڈر کو اس طرح سے تنہا نہ چھوڑنا چاہتے تھے مگر انہیں تعمیل کرنا پڑی.بشیر مرحوم جمع کردہ گرنیڈوں کو دشمن پر برابر پھینکتے رہے.یہاں تک کہ ساری کمپنی اور وہ خود بسلامت پیچھے پہنچ گئے اور پھر وہاں سے انہوں نے بائیں عقب سے دشمن پر پُر جوش حملہ کر کے اسے مار بھگایا.جس روز بشیر کی شہادت ہوئی ایک مقام پر ہمارے ٹینک آگے بڑھنے سے کچھ رک گئے.کیونکہ راستہ ہر طرف سے محدود ہی نظر آتا تھا.ایسے پُر خطر مقام پر میجر بشیر نے اپنے آپ کو پیش کیا.چنانچہ وہ گئے اور کچھ دیر کے بعد کامیابی کے ساتھ واپس آئے اور ایڈوانس کی قیادت کرنے لگے.تھوڑی دور
تاریخ احمدیت.جلد 23 115 سال 1965ء گئے تھے کہ اچانک دشمن کی توپوں نے گولے برسانے شروع کر دیے ایک گولہ ان کے پاس پھٹا جس کا ایک ٹکڑا ان کی پسلیوں کے نیچے دائیں جانب لگا اور ایک چھوٹا ٹکڑا دائیں طرف چہرے پر لگا.عزیز و ہیں فوراً شہید ہو گئے.اور اپنے پیچھے ایک نہ مٹنے والی یاد چھوڑ گئے.عزیز کی نعش کو اگلے روز مردان پہنچایا گیا جہاں انہیں ان کے والد بزرگوار کے پہلو میں دفنادیا گیا.عزیزم نے اپنی یادگار ایک بیوہ ( عزیزہ مجیدہ بیگم صاحبہ بنت مکر می خواص خاں صاحب ) اور تین چھوٹے کمسن بچے زاہدہ، مبشر اور ثمینہ عمر پونے چھ سال، چارسال اور دوسال چھوڑے ہیں.عزیز بڑے ہی ملنسار تھے.ان کا حلقہ احباب بڑا ہی وسیع تھا.یہ سب لوگ جہاں اس بات پر بہت غمزدہ ہیں کہ ان کا ایک نہایت عزیز اور خلیق دوست ہمیشہ کے لئے ان سے رخصت ہو گیا وہاں انہیں اس بات کا بھی بڑا فخر ہے کہ وہ اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت کے ارفع درجے کو پا گیا.عزیزم مرحوم کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی سے بڑی ہی عقیدت تھی اور ہر جلسہ پر ہمیشہ ہی کوشش ر کرتے کہ انہیں حفاظت خاص کی ڈیوٹی مل جائے تا کہ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک اپنے محبوب آقا کے پاس رہ سکیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سرحد کی جماعت کا بڑا ہی خیال رکھتے تھے اور اس طرح یہاں والے بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کا خاص احترام کیا کرتے تھے.چنانچہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب اور عزیز قاضی بشیر مرحوم بھی ہمیشہ حضرت صاحبزادہ صاحب کو بڑے ہی تپاک اور گرمجوشی سے ملتے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات کے چند روز قبل قاضی بشیر مرحوم آپ سے مری میں ملنے گئے.اور باوجود بیماری اور ممانعت ملاقات حضرت صاحبزادہ صاحب نے بشیر کو اپنے پاس بلوالیا اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے سینے پر رکھ کر بڑی دیر تک دعا کرتے رہے.اس واقعہ کا اثر قاضی بشیر مرحوم پر بہت تھا اور اسے وہ بڑے فخر سے یاد کیا کرتے تھے.جب بشیر محاذ جنگ پر جانے لگے تو میری اہلیہ نے انہیں بطور تبرک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی قمیص کا ایک ٹکڑا دیا.اسے پا کر وہ بڑے ہی خوش ہوئے جیسے دنیا جہاں کی نعمت مل گئی.اور پھر اسے اپنے ساتھ ہی رکھا.یہاں تک کہ وہ اپنے وطن کے دفاع کی خاطر اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ کو پیارے ہوئے.84
تاریخ احمدیت.جلد 23 116 سال 1965ء احمدی جنرل محمود الحسن صاحب کی طبی خدمات بریگیڈئیر ریٹائر ڈ نصرت جہاں سلیم صاحبہ تمغہ امتیاز (ملٹری) نے ”جنگ ستمبر کی یاد میں“ کے عنوان سے ایک زخمی سپاہی کی بہادری کا ذکر کیا اور احمدی جنرل ڈاکٹر محمودالحسن صاحب کی خدمات کے بارے میں بھی تحریر کیا چنانچہ لکھتی ہیں:.” مجھے وہ سپاہی کیسے بھول سکتا ہے جو آپریشن ٹیبل پر لیٹنے سے پہلے افسوس سے کچھ ماں کا نام لے کر کہہ رہا تھا.ماں جی! معاف کرنا ماں جی معاف کرنا.میں نے پوچھا کیا بات ہے کیوں ایسے کہہ رہے ہو.کہنے لگا کچھ نہیں بہن جی قسمت خراب ہے.ماں نے کہا تھا بیٹا جارہے ہو.اللہ تمہارا نگہبان ہو جاؤ لیکن جانے سے پہلے ایک وعدہ کرو کہ دشمن سے گولی پیٹھ پر نہ کھانا بلکہ سینے پر کھانا مجھے تو گولی ٹانگ پر لگ گئی ہے.ماں کو کیا جواب دوں گا.میں نے کہا ہم تمہیں انشاء اللہ جلد ٹھیک کر دیں گے اور تم واپس جا کر بہادری سے مقابلہ کرنا.کہنے لگا نہیں بہن جی میرا یہ ارمان ہی رہے گا نہ تو میں اتنی جلدی ٹھیک ہوسکوں گا نہ ہی یہ لڑائی اتنی دیر جاری رہے گی.میں نے اسے تسلی دی اور اس کا آپریشن شروع کر دیا اس کے کو لہے کے پاس سے گولی اندر کو گئی تھی جب زخم کھولا تو گولی سینے کی طرف نکل گئی تھی.پیٹ بند کیا تو سینہ کھولا.گولی سینے میں محفوظ بیٹھی تھی اس سپاہی کے دعوے کی شہادت کیلئے پڑی ہوئی تھی.اس تمام عرصے میں جو کچھ دیکھتی رہی اور اپنی آنکھوں سے بہتے اشکوں کی دھند میں غرق تصور میں اس ماں سے باتیں کرنے لگی کہ اے میرے سپاہی کی شہادت پانے والی ماں تیرے بیٹے نے گولی سینے میں ہی کھائی ہے اور آج تک تصور میں ہی اس ماں کو تلاش کرتی رہی ہوں اس سارے عرصہ میں کافی خون بہہ جانے کی وجہ سے جنرل محمود الحسن کی بے حد کوشش کے باوجود ہم اسے نہ بچا سکے.جنرل محمود الحسن کیا کمال انسان ہے.درد دل رکھنے والا بھوکا رہ کر زخمیوں کا مسیحا اپنے آرام کی نہ پرواہ کرتے ہوئے ہر دم زخمی مجاہدوں کے زخم سیتا رہتا اور زندگیاں بانٹتا اور اپنی ٹیم کے جذبوں کو جوان رکھتے ہوئے شبانہ روز اپنے فرائض کی بجا آوری میں کوتا ہی نہ کرتا.انہی خدمات کے صلے میں پوری ٹیم کو حکومت کی طرف سے اعزازات سے نوازا گیا.جس میں میں بھی شامل تھی اور ان ہی شبانہ روز خدمات کے اعتراف میں تمغہ قائداعظم سے نوازا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 117 سال 1965ء میجر حمید احمد کلیم صاحب کی خدمات مکرم میجر حمید احمد کلیم صاحب سابق ناظم جائیداد صدرانجمن احمد یه ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء کوضلع فیصل آباد میں پیدا ہوئے.۱۹۴۰ء میں آرمی جوائن کی.۱۹۴۵ء میں بطور افسر کمیشن حاصل کیا.جنگ کشمیر، فرقان فورس ، جنگ ستمبر ۱۹۶۵ ء اور جنگ ۱۹۷۱ء میں مختلف مقامات پر بہادری کے جوہر دکھائے.فوج سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے وقف بعد ریٹائرمنٹ کے تحت اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی.اور مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۹۹ء کو وفات پاگئے.ان کی فوجی زندگی کے ایک یادگار باب یعنی جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء سے کچھ دلچسپ اور ایمان افروز واقعات پیش خدمت ہیں.یہ واقعات آپ کے روز نامہ الفضل کو دیئے گئے ایک انٹرویو سے لئے گئے ہیں.یہ انٹرویو مکرم یوسف سہیل شوق صاحب نے لیا تھا.جس میں آپ نے بتایا کہ ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ میں میں نے چونڈہ کے محاذ پر خدمات انجام دیں.یہ وہ جگہ تھی جہاں دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی جنگ لڑی گئی اور بھارت زبردست عددی اکثریت کے باوجود آگے بڑھنے میں کامیاب نہ ہو سکا.حالانکہ بھارتی فوجیوں کو امید تھی کہ وہ ایک ہی ہلے میں سیالکوٹ پر قبضہ کر لیں گے اور گوجرانوالہ کے مقام پر پہنچ کر جی ٹی روڈ کو کاٹ دیں گے.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ سارے منصوبے ناکام رہے.احمدی جرنیل لیفٹینٹ جنرل عبد العلی ملک جو اس وقت بریگیڈئیر تھے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہوں نے جنگوں کی تاریخ میں ایک انوکھی اور غیر معمولی حکمت عملی سے کام لیا.ٹینکوں کی لڑائی کا طریق یہ ہوتا ہے کہ ایک ٹینک آگے ہوتا ہے اور دو ٹینک اس کو کو ر دیتے ہوئے اس کے پیچھے چلتے ہیں لیکن بریگیڈئیر عبدالعلی ملک نے ایک انوکھا طریق اختیار کیا جو مشہور جرنیل طارق بن زیاد کے کشتیاں جلا کر آگے بڑھنے کی یاد تازہ کر دیتا ہے.طارق بن زیاد نے یہی کیا تھا کہ اپنا پیچھا (BACK) ختم کر دیا تھا.جس کا مطلب یہ تھا کہ پیچھے ہٹنے کا سوال ہی نہیں ،صرف اور صرف آگے جانا ہے یا مر جانا ہے.جنرل ملک صاحب نے بھی ایسا ہی کیا انہوں نے ایک ٹینک آگے اور دو پیچھے رکھنے کے مسلمہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے زبر دست جرات و بہادری کا یہ فیصلہ کیا کہ اپنے تمام ٹینکوں کو ایک سیدھی افقی قطار میں دفاع کا حکم دیا اور اس طرح اپنی پشت بالکل غیر محفوظ کر دی.مقصد
تاریخ احمدیت.جلد 23 118 سال 1965ء یہی تھا کہ آگے بڑھو اور پیچھے ہٹنے کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ.اس غیر معمولی بہادرانہ فیصلے کا دشمن پر یہ اثر پڑا کہ وہ ہمارے ٹینکوں کی تعداد کو اصل سے تین گنا سمجھ بیٹھا.دشمن کا خیال یہی تھا کہ ہر ایک ٹینک کے پیچھے دو، دو ٹینک اسے گور کر رہے ہیں.اس زبر دست حکمت عملی سے دشمن شکست کھا گیا اور آگے نہ بڑھ سکا.جنگی نقطہ نگاہ سے یہاں دفاع کرنا نا ممکن نظر آ رہا تھا.ایسی خطرناک صورتحال میں بڑے سے بڑے جرنیل بھی حواس کھو بیٹھتے ہیں.لیکن جنرل عبد العلی ملک صاحب چہرے پر بے انتہا اطمینان لئے پورے سکون کے ساتھ اپنے بریگیڈ کولڑاتے رہے.جنرل ملک بے حد متحمل مزاج آدمی تھے.جنگوں کی تاریخ میں بلا شبہ وہ ایک نا قابل فراموش ہیرو کی طرح یا در کھے جائیں گے.چونڈہ کی جنگ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.چونڈہ کی جنگ کتنی شدید تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دن جب بہت شدید بمباری ہوئی تو ہمارے تو پخانے کے ایک ماہر افسر نے بیان کیا کہ ہماری بٹالین کے ہیڈ کوارٹر کے علاقے میں چند گھنٹوں کے اندر کوئی ۴۵ ہزار گولے پھینکے گئے ہیں.اس شدید بمباری کے دوران جبکہ میں اور دواور افسران میجر سعید اور کیپٹن عبد الباسط مورچے کے اندر تھے.بم کا ایک دہکتا ہوا سرخ ٹکڑا ہمارے مورچے کے اندر گرا.ہم دم بخود ہو کر اس ٹکڑے کو دیکھ رہے تھے.اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل کیا کہ مورچے کے اندر گرنے والا یہ بم کا ٹکڑا بغیر کسی نقصان کے ہی ٹھنڈا ہو گیا.ایک مورچہ قریباً چھ فٹ لمبا اور دوفٹ چوڑا اور پھر اس مورچے میں تین افراد بھی ہوں اور تھوڑی سی جگہ خالی ہو.دراصل ہمارا مورچہ چھت سے محروم تھا کیونکہ ہم نے اپنے جوانوں کے مورچوں پر چھت ڈلوائی تھی کہ پہلے ان کے مورچے محفوظ ہو جائیں ہم بعد میں دیکھیں گے.شاید اللہ تعالیٰ کو ہماری یہی قربانی پسند آ گئی ہو! ہماری بٹالین جنگ کے آغاز میں جہاں تھی خدا کے فضل وکرم سے ہم جنگ بندی تک وہیں جسے رہے اور ساری بٹالین میں صرف گیارہ افرادکو نقصان پہنچا.باقی سب محفوظ رہے.اس ضمن میں ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے.ایک دفعہ رات کے وقت دشمن نے کئی اطراف سے حملہ کیا.ہماری بٹالین کے سامنے کچھ دور اسلامی نعروں کی آوازیں آئیں.ان میں یا علی اور نعرہ تکبیر کے الفاظ نمایاں تھے.میں نے بڑی جلدی سمجھ لیا کہ یہ اپنے فوجی نہیں ہیں بلکہ دشمن کے فوجی ہیں.اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 119 سال 1965ء ہمیں دھوکہ دینے کے لئے اسلامی نعرے لگا رہے ہیں.میں نے ٹیلیفون پر فوراً اپنے آگے والے کمپنی کمانڈر سے مشورہ کیا.اب یہ بڑی ذمہ داری کی بات تھی کیونکہ اگر وہ اپنے فوجی تھے تو ان کا نقصان ہمارے لئے تباہ کن ہوتا اور اگر وہ دشمن تھا تو ان کا نقصان ہمارے لئے بہت فائدے کا سبب ہونا تھا.خیر! میرے کمپنی کمانڈر نے میری بات سے اتفاق کیا اور میں نے اپنے تو پخانہ کے افسر کی مدد سے مذکورہ جگہ پر فائز کا حکم دیا.فائر کی درستی کروانے کے بعد اس جگہ کافی مقدار میں گولے پھینکے گئے.میجر مظہر نے بعد میں رپورٹ دی کہ وہ واقعی دشمن کے سپاہی تھے.اور ہماری بروقت گولہ باری سے اس جگہ ہندوستانیوں کے دو سے ڈھائی سوسپاہی ہلاک ہو گئے.بھارتی فوجی ان کی لاشیں بھی نہ اٹھا سکے.غرضیکہ چونڈہ کا محاذ میری فوجی زندگی کا یاد گار معرکہ تھا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہمیں نمایاں فتح حاصل ہوئی.یہ محض مولا کریم کی غیبی امداد تھی.ورنہ بظاہر حالات میں اس محاذ کو بچانے کی امید بہت ہی کم تھی.صدر مملکت کی طرف سے قومی دفاعی فنڈ کا قیام استمبر کوصدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے قومی دفاعی فنڈ قائم کیا اور قوم سے اپیل کی کہ وہ پاکستان کی بہادر مسلح افواج کی امداد کے لئے نہایت فراخدلی سے بڑھ چڑھ کر مالی قربانیاں پیش کر کے اس فنڈ میں حصہ لیں.صدر مملکت نے اپنی اپیل میں فرمایا کہ ہماری تاریخ کے اس انتہائی نازک مرحلہ میں جبکہ ہم ایک ظالم دشمن کے جابرانہ حملہ کے خلاف اپنے وطن عزیز کا دفاع کر رہے ہیں.آپ میں سے ہر ایک کو اپنا مفوضہ فرض ادا کر کے ایک اہم کردار ادا کرنا ہے.ہماری بہادر مسلح افواج میدان جنگ میں اپنے جو ہر دکھارہی ہیں قوم کو بھی اپنے تمام وسائل کو مجتمع کر کے اپنی مسلح افواج کا ہاتھ بٹانا چاہیئے اور ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیئے.دن رات ہر لمحہ اور ہر لحظہ آپ میں سے ہر ایک کو خود اپنے دل سے یہ سوال کرنا چاہیئے کہ قومی دفاع کی جدوجہد میں میرا اپنا حصہ کیا ہے.آپ اس سوال کا جواب مختلف طریقوں سے دے سکتے ہیں.فضول خرچی سے بچ کر پیداوار کو بڑھا کر اور کم خرچ کر کے بھی آپ قومی دفاع کی جدو جہد میں حصہ لے سکتے ہیں.یادرکھیں وطن عزیز کی حفاظت کی خاطر کوئی مالی اعانت اور کوئی قربانی بھی بڑی نہیں کہلا سکتی.اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی بھی حقیر شمار ہونی چاہیئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 120 سال 1965ء صدرانجمن احمدیہ پاکستان کی طرف سے قومی دفاعی فنڈ میں عطیہ صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی طرف سے قومی دفاعی فنڈ کے قیام پر جماعت احمدیہ نے والہانہ رنگ میں لبیک کہا.چنانچہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے فوری طور پر قومی دفاعی فنڈ میں ایک لاکھ روپیہ بھجوا دیا اور صدر مملکت کو یہ یقین بھی دلایا کہ پاکستان کی احمدی جماعتیں اور افراد قومی دفاع کی خاطر مطلوبہ قربانیوں کے ساتھ مالی قربانیاں پیش کرنے میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے 87 چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا اور پوری جماعت نے نہایت فراخدلی کے ساتھ مالی قربانیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.ملکی دفاع کے لئے ربوہ میں جوش و خروش اخبار الفضل نے ۷ استمبر ۱۹۶۵ء کو اپنے صفحہ اول پر مرکز احمدیت ربوہ کے باشندوں کی دفاعی اور ملتی سرگرمیوں کی تفصیلی اطلاعات دیتے ہوئے لکھا:.ر جس دن سے بھارت کے جارحانہ حملہ کی وجہ سے ملک میں صدر مملکت کی طرف سے ہنگامی حالات کا اعلان ہوا ہے ربوہ کے جملہ باشندگان ملکی دفاع اور استحکام کی خاطر پورے جذ بہ وجوش اور زور شور سے شب و روز خدمات بجالا رہے ہیں.چنانچہ افسران ضلع کی طرف سے جاری شدہ تمام احکام کی پوری پوری تعمیل نہایت مستعدی اور تندہی سے کی جا رہی ہے.اور روزانہ ہی انہیں مختلف دفاعی ضرورتوں کے لئے مطلوبہ تعداد میں رضا کار مہیا کئے جا رہے ہیں.ایک خاص سکیم کے تحت نوجوان بڑی کثرت سے شہری دفاع اور فرسٹ ایڈ وغیرہ کی تربیت حاصل کر رہے ہیں.ہوائی حملے سے بچنے کی تدابیر پمفلٹوں کی صورت میں شائع کر کے انہیں شہر بھر میں گھر گھر تقسیم کیا جا چکا ہے.اور حفاظتی خندقیں بھی کھدوائی گئی ہیں.حکام نے دفاعی مصالح کے پیش نظر جن علاقوں کو خالی کروانا ضروری سمجھا ہے وہاں سے آئے ہوئے لوگوں کی رہائش اور خوراک کے سلسلہ میں ہر ممکن امداد مہیا کی جارہی ہے.صدر مملکت کے قومی دفاعی فنڈ میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے اہل ربوہ کے ہر طبقہ کی طرف سے زبر دست جد و جہد عمل میں لائی جارہی ہے.صدرانجمن احمد یہ تحریک جدید مجلس انصاراللہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 121 سال 1965ء مرکز یہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے جملہ کارکنان، ربوہ کے جملہ تعلیمی ادارہ جات کے ممبران اسٹاف ، دکاندار اور دیگر پیشہ ور حضرات الغرض آمد پیدا کرنے والے جملہ افراد نے اپنی ایک ماہ کی آمدنی کا تیسرا حصہ قومی دفاعی فنڈ میں بطور چندہ پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے.چنانچہ جملہ شہریوں سے رقوم جمع کرنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے.امید ہے کہ بہت جلد اس طرح ایک لاکھ روپے کی رقم جمع ہو جائے گی.رقم جمع ہوتے ہی اس رقم کو قومی دفاعی فنڈ میں ارسال کر دیا جائے گا.یادر ہے یہ رقم اس ایک لاکھ روپے کے علاوہ ہو گی جو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت سے صدر انجمن احمد یہ پاکستان پہلے ہی اس فنڈ میں جمع کرا چکی ہے.مزید برآں اہل ربوہ نے متعلقہ حکام کو باضابطہ طور پر پیشکش کی ہے کہ زخمی فوجی بھائیوں کے واسطے خون دینے کے سلسلہ میں ان کی طرف سے جو مطالبہ بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ اسے پورا کیا جائے گا.چنانچہ ربوہ کے جو احباب اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کرنے کے لئے تیار ہیں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے.اسی طرح ہر محاذ پر پاکستان کی نمایاں اور عظیم الشان فتح کے لئے ربوہ کی مرکزی مسجد یعنی مسجد مبارک اور شہر بھر کی جملہ دیگر مساجد میں خصوصی دعاؤں اور نوافل کی ادائیگی کا سلسلہ برابر جاری ہے.علی الخصوص گزشتہ جمعہ (۱۰ ستمبر ) اور پیر (۱۳ستمبر ) کے روز جب محاذ پر گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی.ربوہ کی جملہ مساجد میں اشراق کے وقت سے لے کر نماز عصر سے قبل تک احباب بڑی تعداد میں مساجد میں جا کر نوافل ادا کرتے رہے اور فتح یابی کے لئے دعائیں مانگتے رہے.نیز پیر کے روز نماز عصر کے بعد محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے مسجد مبارک میں احباب سے خطاب کرتے ہوئے دعا کی پُر زور تحریک کی اور پھر ایک پُر سوز رقت آمیز اجتماعی دعا کرائی.یہ دعا سوز و گداز اور دردو الحاح کے لحاظ سے ایک خاص شان کی حامل تھی.آج کل گھر گھر نماز تہجد اور نوافل ادا کرنے کے علاوہ بڑی کثرت سے دعائیں کی جا رہی ہیں.اللہ تعالیٰ یہ دعائیں قبول فرمائے اور پاکستان کو اپنے فضل سے فتح عظیم بخشے.آمین اللهم آمین صدر لجنہ اماءاللہ کی پاکستانی احمدی خواتین سے اپیل حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے پاکستانی احمدی خواتین سے اپیل کی کہ وہ موجودہ ملکی حالات میں اپنے فرائض کی طرف فوری توجہ فرما ئیں چنا نچہ آپ نے لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 122 سال 1965ء اس وقت جبکہ ہندوستان نے ہماری مقدس سرزمین پر حملہ کیا ہوا ہے.ہماری پاکستانی خواتین پر ملک کی حفاظت اور دفاع کا اہم فریضہ عائد ہوتا ہے.تاریخ سے ثابت ہے کہ ہمیشہ ہی مسلمان خواتین نے اسلام کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں.(۱) سب سے بڑی ذمہ داری جو مستورات کو انجام دینی ہے وہ یہ ہے کہ بڑے سے بڑے خطرہ کے وقت بھی نہ گھبرائیں.مومن کی نگاہ صرف خدا تعالیٰ کی طرف رہتی ہے.خود دلوں میں کسی قسم کا خوف نہ پیدا ہونے دیں اور اپنے بچوں کو دلیر بنائیں.کسی قسم کی افواہ کو نہ پھیلنے دیں.عورتوں میں عموماً یہ عادت پائی جاتی ہے کہ بات سنی اور دوسری جگہ کر دی.اس عادت کو قطعاً چھوڑ دیں.موجودہ حالات میں افواہوں کا پھیلنا ہمارے ملک کے لئے مضر بر سکتا ہے.(۲) تمام لجنات اپنی اپنی جگہ پر ابتدائی طبی امداد کے مراکز قائم کر کے عورتوں اور لڑکیوں کو تربیت دیں تا کہ ضرورت پڑنے پر قوم کے کام آسکیں.اپنی رپورٹوں میں اس کا ذکر بھی کریں.(۳) تمام لجنات مجاہدین کے لئے سویٹر بننے کا انتظام کریں.چندہ جمع کر کے اون خرید کر ہر ممبر 88 کی طرف سے کم از کم ایک سویٹر بنوا کر دیا جائے.یہ کام عورتیں آسانی سے کرسکتی ہیں.میں امید کرتی ہوں کہ تمام لجنات جلد از جلد ان کاموں کو شروع کر کے اطلاع دیں گی.لاہور میں امدادی مرکز مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ہنگامی صورتحال کے پیش نظر جسونت بلڈنگ لاہور میں امدادی مرکز مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا اور امدادی اور رفاہی خدمات کی بہ سہولت انجام دہی کے لئے لاہور کو دس سیکٹرز میں تقسیم کر دیا گیا.امدادی مرکز میں دو مشاورتی اور امدادی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں.امدادی کمیٹی کے جنرل سیکرٹری شیخ مبارک محمود پانی پتی تھے جنہوں نے امدادی مرکز سے متعلق ایک مفصل چارٹ شائع کیا.جس میں مشاورتی کمیٹی ، امدادی کمیٹی اور سیکٹرز کے نام دے کر ایک با قاعدہ مربوط نظام قائم کیا گیا تھا.(اس چارٹ کی کاپی شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے.) ملکی دفاع کے لئے احباب جماعت کو خصوصی تحریک محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور عامہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان کی طرف سے الفضل ۸ ستمبر ۱۹۶۵ء میں حسب ذیل اعلان شائع ہوا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 123 سال 1965ء بعض افراد اور جماعتوں نے نظارت ہذا سے چند امور کی وضاحت چاہی ہے.ہر چند کہ یہ امور واضح ہیں اور اکثر احباب کو پہلے ہی ان کا علم ہے.تاہم احباب کی یاد دہانی کے رنگ میں اعلان کیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے جو مجاہد فورس قائم ہوئی ہے اور نیشنل گارڈز وغیرہ کی تنظیمیں جو اس وقت ملک کے دفاع کے واسطے قائم کی جارہی ہیں.احباب جماعت ان میں نہ صرف خود حصہ لیں بلکہ اپنے دوست و احباب کو بھی اس میں شمولیت کی تحریک کریں.بری، بحری اور فضائی فوج میں خود بھی بھرتی ہوں اور دوسرے احباب کو بھی شامل ہونے کی ترغیب دیں.فی الحال گورنمنٹ کو کوئی ایسی ضرورت نہیں جس کے لئے مرکز کی طرف سے کوئی علیحدہ تنظیم قائم کی جائے.حکومت نے ایک قومی دفاعی فنڈ قائم کیا ہے، احباب جماعت کو چاہیئے کہ مقامی طور پر اس میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.خود بھی چندہ دیں اور دوسرے افراد کو بھی اس بات کی تلقین کریں کہ وہ اس قومی ضرورت کے پیش نظر قربانی اور ایثار کا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح نمونہ پیش کریں.اپنی جماعت میں چندہ اکٹھا کر کے پریذیڈنٹ کی معرفت دیا جائے اور نظارت ہذا کو بھی اطلاع دی جائے تا کہ مرکز کو بھی معلوم ہو سکے کہ جماعت کس حد تک اس کارِ خیر میں حصہ لے رہی ہے.ربوہ آنے کے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تازہ ارشاد یہ ہے کہ کوئی احمدی مرد اور عورت اپنے شہر قصبہ یا گاؤں کو ہرگز نہ چھوڑے سوائے اس کے کہ حکام وقت دفاعی مصالح کے پیشِ نظر ان مقامات کو خالی کروانا چاہتے ہوں.دعاؤں اور قربانیوں کے ساتھ اپنے محبوب وطن کو مستحکم اور نا قابل تسخیر بنادیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.قومی دفاعی فنڈ کے لئے جماعت احمدیہ پاکستان کے عطیات ان دنوں قومی دفاعی فنڈ میں جماعت احمدیہ پاکستان کے ادارے، مقامی جماعتیں اور افراد دل کھول کر چندہ دے رہے تھے.جماعت کی طرف سے پیش کئے جانے والے بعض عطیہ جات کی تفصیل روز نامہ امروز‘ لاہور مورخہ ۹ را کتوبر ۱۹۶۵ء میں بھی شائع ہوئی جو درج ذیل ہے:.کارکنان صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے ۳۵ ہزار روپے دیئے ہیں.جامعہ نصرت (برائے خواتین ) کے اسٹاف نے دو ہزار پانچ سوروپے، طالبات جامعہ نصرت نے ۱۳۷ روپے نقد ، ہیں سیر صابن، ایک کنستر تیل اور چوبیس اونی سویٹر اپنے ہاتھوں سے بن کر دیئے ہیں.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے سٹاف نے بھی ۱۲ ہزار روپے قومی دفاعی فنڈ میں دیئے ہیں.مقامی خواتین کی مجلس لجنہ اماءاللہ ربوہ
سال 1965ء تاریخ احمدیت.جلد 23 124 نے بھی دس ہزار روپے کا عطیہ دیا ہے.امام جماعت احمدیہ نے ایک لاکھ روپے قومی دفاعی فنڈ میں دیئے ہیں.فضل عمر ہسپتال، تعلیم الاسلام ہائی سکول، فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ، نصرت انڈسٹریل سکول اور جامعہ احمدیہ کے اسٹاف نے بھی اپنی ایک ماہ کی تنخواہ کا تیسرا حصہ قومی دفاعی فنڈ میں دیا ہے.جونیئر ماڈل سکول ربوہ کے بچوں نے ۱۰۰ روپے جیب خرچ سے دیئے ہیں.حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا منظوم پیغام خواتین احمدیت اپنے محبوب وطن کی حفاظت و دفاع کے لئے کس درجہ بے پناہ جذبہ سے سرشار تھیں اس کا کسی قدر اندازه حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے حسب ذیل منظوم پیغام سے بخوبی لگ سکتا ہے جو آپ نے اُن دنوں پاکستان کے سرفروش مجاہدین کے نام دیا.آپ کا یہ پیغام ہمیشہ آب زر سے لکھا جائے گا.آپ نے فرمایا:.مومن قدم بڑھا کے ہٹاتے نہیں ان کو قضا کے تیر ڈراتے نہیں کبھی کبھی بڑھتے چلو کہ منزلِ مقصد قریب ہے بڑھتے چلو کہ نصرت حق ہے تمہارے ساتھ رحمت خدا کی آئے گی خود پیشوائی کو مردانہ وار بڑھتے ہیں سینہ سپر کئے غازی عدد کو پیٹھ دکھاتے نہیں کبھی 66 اپنے خدا کا ہاتھ دکھا دو خدائی کو جنت کے در کھلے ہیں شہیدوں کے واسطے بڑھتے چلو کہ منزل مقصد قریب ہے 20 ربوہ میں سجدات شکر اور خصوصی دعائیں ۲۴ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ربوہ کے مخلص احمدی خدائی تائید و نصرت پر سجدات شکر بجالائے اور انہوں نے پاکستان کے لئے خصوصی دعائیں کیں.چنانچہ الفضل اپنی ۲۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں لکھتا ہے :.
تاریخ احمدیت.جلد 23 125 سال 1965ء کل یہاں پر اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کی غرض سے کہ اس نے پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کو دشمن کے جارحانہ حملہ کو ناکام بنانے اور ہر محاذ پر اسے شکست دینے کا عزم وحوصلہ اور ہمت و طاقت عطا فرمائی اہل ربوہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالائے اور انہوں نے پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لئے اور وطن عزیز کی خاطر آئندہ پہلے سے بھی بڑھ کر قربانیاں بجالانے کی توفیق ملنے کے لئے خصوصی دعائیں کیں.کل یہاں مسجد مبارک میں نماز جمعہ محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھائی.خطبہ جمعہ میں آپ نے قرآن مجید کی روشنی میں اس امر پر روشنی ڈالی کہ جہاں اسلام نے حملہ آور دشمن کا پوری قوت کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی تعلیم دی ہے وہاں یہ بھی حکم دیا ہے کہ اگر دشمن صلح کا طالب ہو تو پھر جنگ بند کر دینی چاہیئے اور آئندہ کے لئے اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتے ہوئے اس کی مدد و نصرت کا طالب ہونا چاہیئے.پاکستان نے ہر محاذ پر کامیاب اور فتحیاب ہونے کے باوجود اقوام متحدہ کی مداخلت پر فائر بندی کا حکم دے کر اسلامی تعلیم پر عمل کیا ہے.اور دنیا پر ثابت کر دکھایا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا بلکہ امن کا علمبر دار ہے.جنگ اس نے نہیں چھیڑی بلکہ اس پر ٹھونسی گئی تھی.اللہ تعالیٰ نے اہل پاکستان کو اپنا دفاع کرنے میں اپنی مدد و نصرت سے نوازا.اور کئی گنا طاقتور دشمن کو شکست دینے کی غیر معمولی توفیق عطا فرمائی.اس غیر معمولی کامیابی پر ہم پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے.آپ نے آئندہ بھی مددو نصرت حاصل ہونے کے لئے دعا کی پر زور تحریک کی.چنانچہ نماز جمعہ کے سجدوں میں درد و سوز کے ساتھ دعائیں کی گئیں.نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ کی اقتدا میں تمام حاضرین نے ایک علیحدہ سجدہ شکرانہ بھی ادا کیا.“ پاک و ہند کی جنگ اور حالات قادیان ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران قادیان ( بھارت) کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے مکرم عبدالحمید عاجز صاحب تحریر فرماتے ہیں: مورخه ۲ ستمبر ۱۹۶۵ء کو بذریعہ ہوڑہ میل مکرم مولوی جلال الدین صاحب انسپکٹر بیت المال کے ہمراہ چندہ جات کے سلسلہ میں کلکتہ کے لئے روانہ ہوا اور احمد یہ مشن ہاؤس میں قیام کیا.۵ ستمبر ۱۹۶۵ء کو مقامی عہدیداران کی میٹنگ میں شرکت کی اسی روز قریباً تین بجے بعد دو پہر میاں محمد بشیر صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 126 سال 1965ء سہگل مرحوم گھبراہٹ کی حالت میں مشن ہاؤس تشریف لائے اور ہندو پاکستان کی لڑائی کی خبر سنائی.مورخہ سے ستمبر ۱۹۶۵ء کو جماعت کلکتہ کے ذمہ دار احباب کے مشورہ سے یہ طے پایا کہ خاکسار اور مکرم مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی کلکتہ سے قادیان خیریت معلوم کرنے کے لئے فوراً دہلی جائیں.ڈی سی اور ایس پی گورداسپور کو تاریں بھی دی گئیں.چنانچہ استمبر ۱۹۶۵ء کو دہلی جانے کے لئے ہوائی جہاز میں سیٹیں بک کروائی گئیں.مکرم مولوی بشیر احمد صاحب جو ان دنوں کلکتہ میں مبلغ تھے وہ بھی میرے ہمراہ آئے نیز مکرم مظہر احمد صاحب بانی اور مکرم محمد سلیم پسر مکرم محمد عمر صاحب سہگل بھی ساتھ نئی دہلی تشریف لائے کیونکہ مورخہ ۹ ۱۰ستمبر ۱۹۶۵ء کی رات کو کلکتہ میں میاں محمد عمر صاحب سہگل اور مکرم فضل کریم صاحب مرحوم اور مکرم مولوی عبدالمجید صاحب ووہرا کو وہاں کی حکومت نے ڈی.آئی.آر کے ماتحت کئی اور افراد کے ساتھ نظر بند کر لیا تھا.مکرم سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی بھی خطرہ کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے بیٹے عزیز منیر احمد صاحب بانی کے ساتھ خاموشی سے مدراس نقل مکانی کر گئے.دہلی پہنچ کر ہم نے قادیان خیریت معلوم کرنے کی تاریں بھجوائیں اور اپنے حلقہ کے ممبر پارلیمنٹ شری.ڈی سی.شر ما ، مرکزی وزیر جنرل شاہنواز خان صاحب محترم میر مشتاق احمد صاحب چیئرمین میٹرو پول کونسل اور شری ایم ایل مسراڈ پٹی ہوم منسٹر سے ملے.ڈپٹی ہوم منسٹر صاحب نے پنجاب کے ہوم منسٹر سر دار در باراسنگھ سے فون پر بات کر کے جماعت قادیان کے متعلق خصوصی حفاظتی اقدام کی بات کی چونکہ قادیان ہندوستان کی تمام جماعتوں سے کٹ چکا تھا.اس لئے خاکسار اور مولوی بشیر احمد صاحب نے دہلی سے ہی تمام جماعتوں کو سر کولر لیٹ بھیجوائے.مورخہ ۶ استمبر ۱۹۶۵ء کو ہمیں یہ اطلاع ملی کہ وہاں سے بعض فیملیز کوحکومت پنجاب قید کر کے لدھیانہ جیل میں لے گئی ہے.یہ فیملیز قادیان میں مقیم ہندوستانی شہریوں کی تھیں.جو پاکستانی پاسپورٹوں پر قادیان مستقل رہائش کے لئے آئی ہوئی تھیں اور جن کی شہریت کی منظوری کے کاغذات زیر کارروائی تھے.اندریں بارہ مرکزی حکومت کے انڈر سیکرٹری اور جوائنٹ سیکرٹری سے ملاقاتیں کی گئیں اور انہوں نے جلد حکومت پنجاب سے رپورٹ حاصل کر کے کارروائی کرنے کا وعدہ کیا.مورخہ ۱۸ ستمبر ۱۹۶۵ء کو خاکسار اور مکرم مولوی بشیر احمد صاحب لال بہادر شاستری پرائم منسٹر ہند کی کوٹھی پر گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 127 سال 1965ء فیملیز کے متعلق آمدہ تار اور وضاحتی چٹھی تیار کر کے ساتھ لے گئے.پرائم منسٹر صاحب کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری شری آر کے گوئل صاحب سے ملے.انہوں نے ہماری چٹھی اور آمدہ تا روز یر اعظم کی خدمت میں پیش کر کے ہمیں بتانے کو کہا.چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ کے انتظار کے بعد انہوں نے بتایا کہ فیملیز کی رہائی کے متعلق ہمیں ہوم منسٹر شری گلزاری لال نندہ سے ملنا چاہئے.مورخہ ۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ کو اس معاملے کے تعلق میں ہم میر مشتاق احمد صاحب اور پروفیسر ڈی سی شر ما ایم پی شری جے سکھ لال ہاتھی سٹیسٹ منسٹر ہوم اور وزارت داخلہ کے ڈپٹی منسٹر شری للت نرائن مسرا سے بھی ملے.اس تعلق میں ہماری ملاقات مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۶۵ء کو نمبر صفدر جنگ کوٹھی پر شریمتی اندرا گاندھی سے بھی ہوئی وہ اس وقت پہلی مرتبہ محکمہ اطلاعات و نشریات کی وزیر بنی تھیں.ان کو ہم نے فیملیز کے متعلق قادیان سے آمدہ تار دکھایا اور پنڈت نہرو کی ہمد در دانہ توجہ کے حوالے سے اور اس لحاظ سے کہ یہ معاملہ عورتوں اور بچوں سے تعلق رکھتا ہے اور وہ ایک عورت ہونے کے ناطے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں.انہوں نے ہماری بات سن کر اس معاملہ میں مدد کرنے کا وعدہ کیا.اگلے روز مورخہ ۲۳ ستمبر ۱۹۶۵ء کو ہمیں وزیر داخلہ شری گزاری لال نندہ سے ملاقات کرنے کا وقت مل گیا.ہمارا وفد خاکسار، مکرم مولوی بشیر احمد صاحب فاضل ،کرم محمد سلیم صاحب سہگل، مکرم رحمت اللہ صاحب پر مشتمل تھا ).پروفیسر دیوان چند شر ما صاحب نے ہمارے وفد کا اور جماعت کا تعارف کروایا.نندہ جی نے حکومت پنجاب کو جلد ضروری ہدایات بھجوانے کا وعدہ فرمایا.چنانچہ مورخہ ۲۳ستمبر ۱۹۶۵ء کو ہمیں شری شر ما صاحب کے ذریعہ معلوم ہو گیا کہ ہماری حد یہ فیملیز کو لدھیانہ سے واپس قادیان بھجوانے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے.ایک دو روز بعد ہم کو قادیان سے بھی بذریعہ تار یہ اطلاع مل گئی کہ فیملیز واپس قادیان بھجوادی گئیں ہیں.چونکہ انڈو پاک جنگ کی وجہ سے حالات مخدوش تھے اس لئے خاکسار کو مرکز قادیان سے یہ ہدایت تھی کہ جب تک آمد و رفت کے متعلق مجھے قادیان سے تسلی بخش اطلاع نہیں مل جاتی اس وقت تک دہلی میں ہی قیام کروں.تین چار روز بعد خاکسار کو قادیان سے بذریعہ تا را طلاع ملنے پر خاکسار مورخہ ۲۹ ستمبر ۱۹۶۵ء کو دہلی سے روانہ ہو کر مکرم مولوی جلال الدین صاحب کے ہمراہ بخیریت امرتسر اور وہاں سے بذریعہ ٹیکسی قادیان پہنچا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 128 سال 1965ء روانگی سے قبل خاکسار نے ہندوستان کی جماعتوں کو فیملیز کے تعلق میں اور اپنی واپسی کے تعلق میں بذریعہ سرکلر اطلاع کر دی.میری دہلی سے روانگی سے ایک روز قبل مکرم میاں محمد عمر صاحب سہگل کی کلکتہ میں رہائی کے متعلق بھی اطلاع مل گئی.امرتسر کے اسٹیشن پر قادیان سے مکرم مولوی برکت علی صاحب انعام خاکسار کو رسیو کرنے کے لئے جماعت کی طرف سے آئے ہوئے تھے.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان نازک حالات میں کچھ خدمت کی توفیق بخشی.جنگ ستمبر کے متاثرین کی بے لوث خدمت 91 ستمبر ۱۹۶۵ء میں پاکستان اور بھارت میں جو جنگ ہوئی تھی وہ اگر چہ سترہ دن جاری رہ کر ختم ہو چکی تھی لیکن جنگ سے متاثرہ بہت سے لوگوں کی امداد اور بحالی کا کام ایک لمبے عرصہ تک جاری رہا.اسی جنگ کی وجہ سے لاہور اور سیالکوٹ کے سرحدی متاثرہ علاقوں کے بہت سے لوگ ان دنوں ربوہ میں پہنچ گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لنگر خانہ سے اُن کے لئے کھانے کا تسلی بخش با قاعدہ انتظام کیا گیا.اس طرح اُن کی رہائش کا بھی یہ انتظام اس وقت تک برابر جاری رہا.جب تک کہ حکومت پاکستان کی طرف سے اُن کی مستقل آباد کاری کا انتظام نہیں کر دیا گیا.ان مظلوم اور ستم رسیدہ لوگوں کو نظارت امور عامہ کی زیر نگرانی جو پار چات تقسیم کئے گئے ان کی تفصیل یہ تھی مکمل بستر ، جن میں سے ہر بستر میں لحاف ، تو شک کھیں، چادر اور تکئے شامل ہیں ۳۹۵.اور پہننے کے پار چات ۲۵۴۵.ان سلا کپڑا ۳۰۰ گز.اس کے علاوہ گرم سو میٹر اور جوتے وغیرہ بھی شامل تھے.اس کے علاوہ نظارت امور عامہ صدرا مجمن احمدیہ پاکستان نے ریاست جموں وکشمیر کے بے خانماں مہاجرین کے لئے ۲۲۷ مربع فٹ کی ریلوے ویگن ربوہ سے آزاد کشمیر بھجوانے کے لئے بک کرائی.جس میں حسب ذیل سامان تھا.۲۷۰ مکمل بستر (مشتمل برلحاف توشک، تکیہ کھیں) سویٹر، پتلون کوٹ وجیکٹ ،لوئی وکمبل، قمیص زنانہ و مردانہ اور بچگانہ کپڑے ۵۰۰۰.اس کے علاوہ برتن ، ادویہ، جوتے ،صابن و کنگھیاں وغیرہ سامان بھی کافی تعداد میں بھجوایا گیا.اس سامان میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور وقف جدید کی طرف سے جمع کردہ اشیاء بھی شامل تھیں.نیز صدرانجمن احمد یہ پاکستان و اہالیان ربوہ کی طرف سے ایک لاکھ چھیاسی ہزار روپی دفاعی فنڈ
تاریخ احمدیت.جلد 23 میں داخل کروایا گیا.93- 129 سال 1965ء ڈسکہ کے خدام واطفال کا نمونہ پاکستان بھر کے احمدی احباب نے اس موقعہ پر اپنی بساط سے بڑھ کر خدمت خلق کی توفیق پائی اور ہر جماعت نے اس موقعہ پر بے نظیر نمونے قائم کرتے ہوئے اپنے ملک اور قوم کی خدمت کی.ان دنوں میں تمام جماعتی اخبارات و رسائل احمد یہ جماعتوں کی ان بے لوث قربانیوں کے ذکر سے بھرے ہوئے تھے.ان بہت سی جماعتوں میں سے بطور نمونہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کی ایک رپورٹ درج کی جارہی ہے.چنانچہ جناب بشیر احمد صاحب صراف قائد مجلس خدام الاحمدیہ ڈسکہ وسیکرٹری مرکزی خدمت خلق کمیٹی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ تحریر کرتے ہیں کہ : جماعت احمد یہ سنٹر ڈسکہ کے خدام واطفال ومعہ دیگر احباب کے متاثرہ احباب کی امداد کے لئے ایک مؤثر مہم چلائی.۷۵ خاندانوں کی رہائش کا انتظام کیا گیا.قومی دفاعی فنڈ میں۵۰۰ روپیہ ڈسکہ کی دفاعی کمیٹی کو پیش کیا گیا.ڈسکہ کے امدادی کیمپ میں ۳۵ مختلف قسم کی ادویات گولیاں جو ہزاروں کی تعداد میں تھیں ٹیکے جات ڈسپنسری انچارج کو دی گئیں.ہنگامی حالات کے پیش نظر جناب S.D.M صاحب ڈسکہ نے لاریوں کے اڈوں کو شہر سے باہر منتقل کر دیا تھا.اس لئے خدام الاحمدیہ نے صورت حال کو دیکھ کر باہر اڈوں پر ایک کیمپ بنا دیا جس میں ایک ماہ تک روزانہ ۵ سے ۱۰ خدام واطفال متاثرہ سواریوں کا سامان اتارنے اور چڑھانے کا کام کرتے رہے.علاوہ ازیں کیمپ میں ٹھنڈا پانی پلانے کا انتظام تھا.ہر لاری بس جب اڈہ پر پہنچتی تھی تو اطفال وخدام ہاتھ میں جنگ اور گلاس لے کر آوازیں دے دے کر سوار یوں کو ٹھنڈا پانی پلاتے.ایک ماہ میں ۶۳ من برف خرچ ہوئی جس سے ہزاروں مسافروں کو پانی پلایا گیا.ہر خادم وطفل کے کندھے پر خدمت خلق کا نشان ہوتا تھا لوگ بے حد متاثر ہوتے اور دعائیں دیتے.ان ایام میں یہ سنہری خدمت کا موقع اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ہمارے خدام واطفال کو ہی میسر فرمایا.خاکسار کی سرکردگی میں روزانہ امدادی کیمپوں کا جائزہ لیا جاتا اور متاثرہ احباب کی ضروری امداد کی جاتی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 130 سال 1965ء اب تک ۱۵۶ رضائیاں.۱۰۸ تلائیاں.۲۲۵ کھیس دریاں.۱۱۵ تکئے.۱۳۷ قمیص مردانہ ۱۲۸ قمیص زنانه ۱۵۴ فراک ۷۰ شلواریں.۶۵ پتلون ۳۲ پاجامے.۴۰ دو بیٹے.۹۰ گرم کوٹ.۶۲ بوشرٹ.۰ کمبل.ے لوئیاں.۱۹ جرسیاں.۹ سویٹر گرم ۱۲ بنیان ۳ شال.۴۰ جوڑے جوتے.کھلا کپڑا سوتی ۱۵۰ گز.کھلا کپڑا ریشمی ۵۰ گز - ۲۰۹ برتن مفلر۱۱.بر فقے ۲.گندم ۱۳من ۳۰ سیر.چاول ۲ من ۱۰ سیر - مونجی سے من.۸۰ بھری پر الی ۱۰۰ من توڑی.صابن تیل نقدی.( نیز ) کرایہ وغیرہ کے لئے ۵۱۱ روپے تقسیم کئے جاچکے ہیں.اور ابھی بفضل ایزدی کام جاری ہے.“ احمدی مستورات کی خدمات ملکی خدمت کے اس اہم موقع پر احمدی مستورات کی مساعی بہت گراں قدر تھیں.لجنہ اماءاللہ مرکز یہ نے دس ہزار روپے کا عطیہ دیا اور طبی امداد کے لئے کلاسز لگائیں.علاوہ ازیں لجنہ اماءاللہ نے مختلف شہروں اور دیہات میں بھر پور سرگرمیوں کا مظاہرہ کیا.جس کا اندازہ صدر لجنہ مرکزیہ کی حسب ذیل مختصر رپورٹ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے یہ رپورٹ الفضل کے دسمبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ ۶ پر اشاعت پذیر ہوئی: ۲.لجنہ اماءاللہ چک نمبر ج ۳۳ ضلع سرگودہا:۱۲.۱۹۳ دفاعی فنڈ کے طور پر جمع کرائے.لجنہ اماءاللہ چک E.B/543 ضلع ملتان : ضروری پارچات دیئے گئے.ہر گھر سے آنا جمع کر کے دیا گیا..لجنہ اماءاللہ مردان : ۱۳ عدد چھوٹے بڑے کوٹ.جوتے۲۲ جوڑے چھوٹے بڑے.اسی طرح دو عدد لحاف.ایک جوڑا کپڑے.دو گریلے.اسی طرح دو بوری اشیاء جن میں برتن، بستر اور کپڑے تھے دیئے گئے.۲۳ سویٹر بن کر دیئے.چند جوڑے اور ۲۰ گز مارکین جمع کی گئی.لجنه ننکانہ صاحب ضلع شیخو پورہ:.ننکانہ صاحب میں حکومت نے مہاجرین کا کیمپ کھول دیا تھا.لجنہ نے۵۰-۶ کی رقم دفاعی فنڈ میں جمع کرائی.چھوٹی بچیاں قرآن مجید پڑھتی تھیں انہوں نے آٹھ روپے دئے تھے یہ روپے دفاعی فنڈ میں جمع کرائے مہاجرین کو کھانا کھلایا گیا.کپڑے سی کر دئے.لحاف فراہم کئے.لجنہ لاہور : لجنہ لاہور کی طرف سے مبلغ / ۸۰۰ روپے نقد.ایک انگوٹھی طلائی وزنی قریباً چھ ماشہ ۵ مرلے زمین واقعہ لکھپت پلاٹ نمبر ۴ لاہور.دو عدد قرآن مجید.۵.
تاریخ احمدیت.جلد 23.131 سال 1965ء لجنہ اماء اللہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ : - آٹھ عد دسویٹر دفاعی فنڈ میں دئے گئے.لجنہ منٹگمری :- (i) دفاعی فنڈ کے لئے نقد رقوم اکٹھی کر کے ۲۵۳۵۰ لجنہ مرکزیہ کو بھجوائے.(ii) سویٹروں کے بننے کا کام تقسیم کیا گیا اور پرانے کپڑے اکٹھے کئے جارہے ہیں.(iii) ملیشیا خرید کر مجاہدین کے لئے سوٹ تیار کئے جارہے ہیں.(iv) فرسٹ ایڈ کے لئے مختلف سنٹروں میں احمدی مستورات نے حصہ لیا.(v) ہوائی حملہ سے بچاؤ کی تدابیر سے آگاہ کیا گیا اور ابھی مزید تربیت لے رہی ہیں.رائفل کی ٹرینگ کا انتظام بھی جہاں جہاں ہے احمدی مستورات شریک ہوتی ہیں.لجنہ ملتان شہر :.خدام الاحمدیہ کی معرفت دفاعی فنڈ میں ۲۱۶/۳۸ دئے گئے اس کے علاوہ گدے.۲ رضائیاں.ایک واسکٹ.۲عدد دھوتی.ایک عدد چادر ۹ عدد پتلون گرم ی۴ گرم کوٹ.سویٹر.ایک عدد مبل نیا ۲۲ عدد متفرق پار چات ربوہ بھجوائے گئے.علاوہ ازیں جو خواتین ملازمت کر رہی ہیں انہوں نے ماہوار اپنی تنخواہوں میں سے رقم اس فنڈ کے لئے ادا کی.لجنہ کریم نگر فارم : دوکھیں.ایک رضائی.ایک تکیہ اور دو گریلے دئے ہیں.۲۰ روپے بھی دفاعی فنڈ میں دئے ہیں.مزید کوششیں جاری ہیں.ا.11- لجنہ کو ہاٹ :.- ۱۰۰ روپیہ دفاعی فنڈ میں دیا گیا کپڑے جمع کئے.لجنہ مظفر گڑھ : - - ۱۵۵ روپے جمع کر کے دئے گئے.پارچات جمع کئے جارہے ہیں.احمدی صحافیوں کا نمائندہ وفد محاذِ جنگ پر 94 ڈپٹی کمشنر صاحب ضلع جھنگ کی تحریک پر صحافیان ربوہ کا ایک نمائندہ وفد نومبر، دسمبر ۱۹۶۵ء میں پہلے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر اور پھر چونڈہ کے محاذ پر گیا.وفد میں مولانا ابوالعطاء صاحب، جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی، جناب مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی ، مولانا ملک سیف الرحمن صاحب، مکرم محمد شفیق قیصر صاحب، مکرم عطاء المجیب صاحب راشد اور جناب چوہدری علی محمد صاحب بی ٹی شامل تھے.مولانا ابوالعطاء صاحب مدیر الفرقان اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : دونوں محاذوں کی حالت مختلف تھی یعنی اول الذکر محاذ پر ہماری فوجیں مفتوحہ علاقے پر قابض تھیں اور دشمن کے مورچوں کے مقابل پر سینہ سپر تھیں.اور دوسرے محاذ پر ہماری جانباز فوجوں نے ,,
تاریخ احمدیت.جلد 23 132 سال 1965ء دفاع کی وہ شاندار مثال قائم کی ہے جو ہماری تاریخ میں ایک سنہری باب کی حیثیت رکھتی ہے گجرات سے چھمب جوڑیاں کے محاذ پر جاتے ہوئے جذبات کا اور رنگ تھا اور چونڈہ پر مناظر کو دیکھتے ہوئے اور رنگ.مگر ایک بات ہر جگہ اور ہر محاذ پر مشترک تھی اور وہ یہ کہ پاکستانی افواج نے اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے جرات و شجاعت کا پورا پورا حق ادا کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان فوجوں کی غیر معمولی تائید فرمائی ہے.جہاں پاکستانی فوجیں آگے بڑھی ہیں وہاں بھی اللہ تعالیٰ کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے.اور جہاں انہوں نے اپنے خون سے پاکستانی سرحدوں کی حفاظت کی ہے وہاں بھی نصرت ایزدی نے ان کی دستگیری فرمائی ہے جب ہماری جیپ پاکستانی سرحد سے آگے بڑھتے ہوئے اس مقام پر پہنچی جہاں لکھا تھا کہ اس سے آگے مفتوحہ علاقہ شروع ہوتا ہے تو عجیب کیفیت تھی.ہمارا تصور مسلمانوں کی ماضی کی فتوحات میں کھو گیا اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی اندوہناک حالت کے خیال سے ہمارے دل مجروح تھے.دعا کی گئی کہ وہ دن جلد طلوع کرے جب کشمیری مسلمان آزادی اور حریت کو حاصل کر سکیں اور ان کے مظالم کا خاتمہ ہو.....چھمب جوڑیاں کے محاذ پر ہماری فوجوں نے شاندا ر اقدام کیا.ان علاقوں کو ایک نظر دیکھنے سے معلوم ہو جا تا تھا کہ دشمن کی فوجیں پاکستانی افواج کے سامنے بے تحاشا بھاگی تھیں.انہیں اتنی بھی مہلت نہ ملی تھی کہ اپنی تعمیرات اور پلوں وغیرہ کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بناسکیں.جن پاکستانی افسروں اور فوجیوں سے ہمیں ملنے اور گفتگو کرنے کا موقعہ ملا سب کے حوصلے انتہائی طور پر بلند اور ان کے عزائم قابلِ رشک تھے.وہ سب تو فاتحانہ طور پر آگے جانے کے لئے ہمہ تن تیار تھے.واقعات سے ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ ہمارے فوجی افسر جو بے خوف و خطر اگلی لائنوں میں ہدایات دے رہے تھے اللہ تعالیٰ کے خاص تصرف سے دشمن کے گولوں سے محفوظ رہے ہیں گولےان کے دائیں اور بائیں گرتے رہے مگر وہ محفوظ رہے.چونڈہ محاذ پر ایسے مقامات اور ایسے جان نثار خدامِ وطن کو دیکھ کر اور ان کی داستانیں سُن کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے.ایک اور خاص قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے جس طرح اپنی فوجوں کے کارناموں کو سراہا ہے اور جس طرح انہیں داد شجاعت دی تھی اس کا بڑا گہرا اثر فوجی افراد پر تھا.وہ بار بار اس کا شکر یہ ادا کرتے اور اہلِ پاکستان تک اپنے محبت بھرے جذبات پہنچانے کی تاکید کرتے تھے.فوجوں اور عوام میں یہ ذہنی قربت پاکستان کے درخشندہ مستقبل کے لئے بھاری ضمانت ہے.عوام کی طرف
تاریخ احمدیت.جلد 23 133 سال 1965ء سے اپنی محبت اور قدردانی کے اظہار کے طور پر جو تحائف فوجیوں کو پہنچتے وہ ان کا شکریہ تو ضرور ادا کرتے مگر کہتے کہ ہمارے لئے تو حکومت کی طرف سے ہر چیز فراوانی سے میسر ہے.اگر یہ سامان اور یہ اشیاء ان مہاجرین میں تقسیم کر دی جائیں جو کشمیر اور دوسرے علاقوں سے لٹ پٹ کر آئے ہیں تو ہماری عین مراد ہے.غرض دونوں طرف مومنانہ اخوت کے جذبات نمایاں تھے.95 766
تاریخ احمدیت.جلد 23 134 سال 1965ء سید نا حضرت خلیفة المسح الثاني لمصلح الموعود کا وصال خلافت ثالثہ کا قیام اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے سید نا حضرت خلیفہ محی الثانی الصلح الموعود ایک عرصہ سے بیمار چلے آرہے تھے.آخرے- ۸نومبر ۱۹۶۵ء کو وہ قیامت خیز گھڑی آن پہنچی جب خدا کے اس محبوب بندے کو جو ہزاروں سالوں کے انتظار کے بعد خدا کی مجسم رحمت بن کر آسمان سے نازل ہوا تھا جو قدرت رحمت اور قربت کا نشان تھا جو فتح و ظفر کی کلید تھا جس نے اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کیا.جو سخت ذہین و فهیم، دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی کی کائنات کا تاجدار تھا.جو دنیا کی بہت سی اسیر قوموں کی رستگاری کا موجب بنا.جس کے بے مثال کارناموں کی دنیا کے کناروں تک دھوم مچ گئی.جس کی مبارک اور مقدس روح سے قوموں نے برکتوں کا تاج پہنا، اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا.یعنی مہدی موعود کے فرزندار جمند حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے ڈلا رے اور مسند خلافت کے آسمانی تاجدار سید نا محمود الصلح الموعود تقریباً ۵۲ سال کی حیات آفریں ضیا پاشیوں کے بعد اپنے آسمانی آقا کے دربار میں پہنچ گئے.فَإِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ گو حضور نے خدا سے علم پا کر مدتوں قبل بتارکھا تھا کہ میں جانے والا ہوں.مگر کب یقین آ سکتا تھا کہ یہ بے بہا نعمت جو ہزاروں سال کے بعد غریبوں اور بے کسوں کو عطا ہوئی ہے اتنی جلدی چھن جائے گی.چنانچہ حضور نے اپنے وصال سے تقریباً اکیس برس قبل ۲۳ را پریل ۱۹۴۴ء کوارشاد فرمایا :- آج میں نے ویسا ہی ایک رؤیا دیکھا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک رؤیا ہے کہ خواب میں آپ نے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کو دیکھا اور ان سے کہا آپ میرے واسطے دعا کریں کہ میری عمر اتنی ہو کہ سلسلہ کی تکمیل کے واسطے کافی وقت مل جائے.اس کے جواب میں انہوں نے کہا تحصیلدار.میں نے کہا یہ آپ غیر متعلق بات کرتے ہیں جس امر کے واسطے میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 135 سال 1965ء نے آپ کو دعا کے لئے کہا ہے آپ وہ دعا کریں تب انہوں نے دعا کے واسطے سینہ تک ہاتھ اٹھائے مگر اونچے نہ کئے اور کہا ” کیس“ میں نے کہا کھول کر بیان کرو مگر انہوں نے کچھ کھول کر نہ بیان کیا اور بار بار اکیس اکیس کہتے رہے اور پھر چلے گئے.( حضور فرماتے ہیں کہ یہ ساری رؤیا تو نہیں مگر آج رات ایک لمبے عرصہ تک یہی رؤیا ذہن میں آکر بار بار یہ الفاظ جاری ہوتے رہے.اکیس اکیس.چنا نچہ ۱۹۴۴ء سے ٹھیک اکیس سال بعد حضور کا وصال مبارک ہوا اور خدا کی بات لفظاً لفظاً پوری ہوئی.اس رؤیا سے دو سال قبل خدائے ذوالعرش کی طرف سے اکتوبر ۱۹۴۲ء میں حضور کو مندرجہ ذیل الہام ہوا:.موتُ حَسَنٍ موتٌ حَسَنٌ فِي وَقتٍ حَسَنٍ“ کہ حسن کی موت بہترین موت ہوگی اور ایسے وقت میں ہوگی جو بہتر ہوگا.اس الہام کی تشریح میں حضرت المصلح الموعود فرماتے ہیں کہ :.اس الہام میں مجھے حسن رضی اللہ عنہ کا بروز کہا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری ذات کے ساتھ تعلق رکھنے والی پیشگوئی کو پورا کرے گا اور میرا انجام بہترین ہوگا اور جماعت میں کسی قسم کی خرابی پیدا نہ ہوگی.“ بیماری ، آخری لمحات اور وفات 98 حضرت مصلح موعود کی صحت کچھ سالوں سے مسلسل خراب رہ رہی تھی.اور اس وجہ سے حضور نماز پڑھانے اور خطبات دینے کے لئے تشریف نہیں لا سکتے تھے.اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ علاج معالجہ کی ہر ممکن کوششیں جاری رہیں.اکتوبر ۱۹۶۵ء کے آخری دنوں میں حضور کو بخار کی شکایت شروع ہوگئی.ضعف کے علاوہ غنودگی بھی شروع ہو جاتی.خون کے ٹسٹ میں انفکشن کی علامات پائی گئیں.لاہور سے ایک ماہر ڈاکٹر صادق حسن صاحب نے ربوہ آکر حضور کا معائنہ کیا.پہلے کی طرح حضور کے صاحبزادے مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب حضور کے علاج میں روز و شب مصروف تھے.۳۰ /اکتوبر کوخون کے ٹسٹ بلڈ کلچر کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ حضور کو Staphylococci کی انفیکشن ہے.یکم نومبر سے بخار کم ہو گیا.مگر
تاریخ احمدیت.جلد 23 136 سال 1965ء ۴ نومبر کوخون کے ٹسٹ پر یہ قابلِ فکر بات سامنے آئی کہ ابھی انفیکشن موجود ہے.نومبر کی رات کو لاہور سے ڈاکٹروں کا ایک بورڈ آیا جس میں مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب، ڈاکٹر عبدالرؤف صاحب، ڈاکٹر رستم نبی صاحب اور ڈاکٹر عشرت صاحب شامل تھے.بورڈ نے حضور کا معائنہ کیا اور ECG اور ایکس رے لے کر رائے دی کہ دل اور سینہ پر کوئی اثر معلوم نہیں ہوتا.اگلے روز حضور کو تھوڑی دیر حرارت ہوئی.پھر ٹمپریچر نسبتا نارمل ہو گیا مگر ضعف اور سانس کی تکلیف رہی.۶ نومبر کو حضور کی طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہوئی.کھانسی شروع ہونے کے علاوہ ضعف میں اضافہ ہو گیا اس کے ساتھ سانس کی تکلیف بھی پہلے کی طرح برقرار تھی.لاہور سے آئے ہوئے ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور ڈاکٹر صادق حسن صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب نے حضور کا معائنہ کیا اور رائے دی کہ حضور کی حالت گذشتہ چوبیس گھنٹے میں بہت تشویشناک ہو گئی ہے.ملک کی معروف پتھالوجسٹ محترمہ ڈاکٹر زینت حسن صاحبہ نے خون کا معائنہ کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ خون میں انفیکشن بڑھ گئی ہے.نومبر کی صبح الفضل کے ضمیمہ میں مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کا اعلان شائع ہوا، جس کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مصرعہ درج تھا حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے ریڈیو پاکستان پر بار بار آپ کی علالت کی خبر نشر ہو رہی تھی.اور آپ کے عشاق بڑی تعداد میں دعائیں کرتے ہوئے ربوہ پہنچ رہے تھے.ے نومبر کی شام تک آپ کی طبیعت بہت خراب ہو چکی تھی.مکرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب، لاہور کے احمدی ڈاکٹر مکرم مسعود احمد صاحب اور کراچی سے آئے ہوئے مکرم ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب علاج میں مصروف تھے.لیکن حضور انور کی طبیعت مسلسل تشویشناک صورت اختیار کرتی جا رہی تھی.ان انتہائی دلگد از لمحات کا ذکر کرتے ہوئے (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.شام سے طبیعت زیادہ خراب تھی اور مسلسل سانس کو درست رکھنے کے لئے آکسیجن دی جا رہی تھی.چھاتی میں رسوب زیادہ بھر رہا تھا جسے بار بار نکالنے کی ضرورت پیش آتی تھی اور مکرم محترم ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب اور برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب بار بار معائنہ فرماتے اور رسوب کا اخراج خود اپنے ہاتھوں سے کرتے رہے.بچوں میں سے دو تو ڈیوٹی پر تھے اور باقی تمام ویسے ہی جمع
تاریخ احمدیت.جلد 23 137 سال 1965ء تھے.خاندان کے چھوٹے بڑے سبھی کے دل اندیشوں کی آماجگاہ بنے ہوئے تھے تاہم زبان پر کوئی کلمہ بے صبری کا نہ تھا اور امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا تھا.اندیشے دھوئیں کی طرح آتے اور جاتے تھے.تو کل علی اللہ اور نیک امید غیر متزلزل چٹان کی طرح قائم تھے.وہ جو صاحب تجر بہ نہیں شاید اس بظاہر متضاد کیفیت کو نہ سمجھ سکیں لیکن وہ صاحب تجر بہ جو اپنے رب کی قضا کے اشاروں کو سمجھنے کے باوجوداس کی رحمت سے کبھی مایوس ہونا نہیں جانتے میرے اس بیان کو بخوبی سمجھ جائیں گے.پس افکار کے دھوئیں میں گھری ہوئی ایک امید کی شمع ہر دل میں روشن تھی اور آخر تک روشن رہی تاہم کبھی کبھی یہ فکر کا دھواں دم گھونٹنے لگتا تھا.دعا ئیں سب ہونٹوں پر جاری تھیں اور ہر دل اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا.حضور پر کبھی غنودگی طاری ہوتی تو کبھی پوری ہوش کے ساتھ آنکھیں کھول لیتے اور اپنی عیادت کرنے والوں پر نظر فرماتے.ایک مرتبہ بڑی خفیف آواز میں برادرم ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو بھی طلب فرمایا لیکن جیسا کہ مقدر تھا رفتہ رفتہ یہ غنودگی کی کیفیت ہوش کے وقفوں پر غالب آنے لگی اور جوں جوں رات بھیگتی گئی غنودگی بڑھتی رہی.اس وقت بھی گو ہماری تشویش بہت بڑھ گئی تھی لیکن یہ تو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ حضور کی یہ آخری رات ہے جو آپ ہمارے درمیان گزار رہے ہیں.تقریباً گیارہ بجے شب ذرا ستانے اور ایک لاہور سے تشریف لائے ہوئے مہمان کو گھر چھوڑنے گیا اور عزیزم انس احمد کو تاکید کر گیا کہ اگر ذرا بھی طبیعت میں کمزوری دیکھو تو اسی وقت بذریعہ فون مجھے مطلع کر دو.نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر بستر پر لیٹے ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ فون کی دل ہلا دینے والی گھنٹی بجنے لگی.مجھے فوری طور پر پہنچنے کی تاکید کی جا رہی تھی.اُسی وقت جلدی سے وضو کر کے ایک نا قابلِ بیان کیفیت میں وہاں پہنچا.قصر خلافت میں داخل ہوتے ہی مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب اور مکرم ڈاکٹر ذکی الحسن صاحب کے پژمردہ چہروں پر نظر پڑی جو باہر برآمدے میں کرسیوں پر بیٹھے تھے.حضور کے کمرہ میں پہنچا تو اور ہی منظر پایا.کہاں احتیاط کا وہ عالم کہ ایک وقت میں دو افراد سے زائد اس کمرہ میں جمع نہ ہوں اور کہاں یہ حالت کہ افراد خاندان سے کمرہ بھرا ہوا تھا.حضرت سیدہ ام متین اور حضرت سیدہ مہر آپا بائیں جانب سرہانے کی طرف اداسی کے مجسمے بنی ہوئی پٹی کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں.برادرم (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب دائیں طرف سرہانے کے قریب کھڑے تھے اور حضرت بڑی پھوپھی جان اور حضرت چھوٹی پھوپھی جان بھی چارپائی کے پہلو میں ہی
تاریخ احمدیت.جلد 23 138 سال 1965ء کھڑی تھیں.میرے باقی بھائی اور بہنیں بھی جو بھی ربوہ میں موجود تھے سب وہیں تھے اور باقی اعزاء و اقرباء بھی سب ارد گرد اکٹھے تھے.سب کے ہونٹوں پر دعا ئیں تھیں اور سب کی نظریں اس مقدس چہرے پر جمی ہوئی تھیں.سانس کی رفتار تیز تھی اور پوری بے ہوشی طاری تھی.چہرے پر کسی قسم کی تکلیف یا جدوجہد کے آثار نہ تھے.میں نے کسی بیمار کا چہرہ اتنا پیارا اور ایسا معصوم نظر آتا ہوا نہیں دیکھا.میں نہیں جانتا کہ اس حالت میں ہم کتنی دیر کھڑے رہے اور سانس کی کیفیت میں وہ کیا تبدیلی تھی جس نے ہمیں غیر معمولی طور پر چونکا دیا.اُس وقت مجھے پہلی مرتبہ یہ غالب احساس ہوا کہ گو خدا تعالیٰ قادر مطلق اور حی و قیوم ہے اور ہر آن اپنی تقدیر کو بدل سکتا ہے لیکن وہ تقدیر جس سے ہمارے نادان دل گھبراتے تھے وہ تقدیر آ پہنچی ہے.پس اُسی وقت میں نے قرآن کریم طلب کیا اور اُس مقدس وجود کی روحانی تسکین کی خاطر جس کی ساری زندگی قرآن کریم کے عشق اور خدمت میں صرف ہوئی سورہ یسین کی تلاوت شروع کر دی.یہ ایک مشکل گھڑی تھی اور سر سے پاؤں تک میرے جسم کا ذرہ ذرہ کانپ رہا تھا.اس وقت مجھے صبر کی طنا میں ڈھیلی ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں.اس وقت میں نے اپنے چاروں طرف سے گھٹی گھٹی سیکیوں کی آوازیں بلند ہوتی ہوئی سنیں.لیکن خدا گواہ ہے کہ ہر سکی دعا میں لپٹی ہوئی اور ہر دُعا آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی.سورۃ بین کی تلاوت کے دوران ہی میں سانس کی حالت اور زیادہ تشویشناک ہو چکی تھی.اور تلاوت کے اختتام تک زندگی کی کشمکش کے آخری چند لمحے آپہنچے تھے.میں نے قرآن کریم ہاتھ سے رکھ دیا اور دوسرے عزیزوں کی طرح قرآنی اور دیگر مسنون دعاؤں میں مصروف ہو گیا.حضور نے ایک گہری اور لمبی سانس لی جیسے معصوم بچے روتے روتے تھک کر لیا کرتے ہیں اور ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے یہ آپ کی آخری سانس ہے.اسی وقت میں نے ایک ہومیو پیتھک دوا کے چند قطرے پانی میں ملا کر اپنی تشہد کی انگلی سے قطرہ قطرہ حضور کے ہونٹوں میں ٹپکانے شروع کئے اور ساتھ ہی بے اختیار ہونٹوں پر یہ دعا جاری ہوگئی کہ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيْتُ.اس وقت سانس بند تھی اور جسم ٹھنڈا ہو رہا تھا اور بظاہر زندگی کا رشتہ ٹوٹ چکا تھا لیکن اچانک ہم نے حتی وقیوم خدا کا ایک عظیم معجزہ دیکھا.مجھے حضرت پھوپھی جان کی بے قرار آواز سنائی دی کہ دیکھو بھی پاؤں میں حرکت ہوئی تھی ، اور ان الفاظ کے ساتھ ہی ہونٹوں میں بھی خفیف سی حرکت ہوئی اور سانس لینے کا سا اشتباہ ہوا.معاً شدید
تاریخ احمدیت.جلد 23 139 سال 1965ء کرب اور بے چینی سکینت میں بدل گئے اور ہر طرف سے یا حی یا قیوم“ کی صدائیں بلند ہونے لگیں.اور جوں جوں ہم دعا کرتے رہے حضور کے سانس زیادہ گہرے ہوتے چلے گئے.یہاں تک کہ وہ ڈاکٹر بھی جو جسم کو بظاہر مردہ چھوڑ کر چلے گئے تھے واپس بلائے گئے اور بڑی حیرت سے اس معجزانہ تبدیلی کا مشاہدہ کرنے لگے.مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور کی زندگی کا بظاہر جسم کو چھوڑ دینے کے بعد معجزانہ طور پر پھر واپس لوٹ آنا محض ہمارے دلوں کو سکینت عطا کرنے کی خاطر تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے گویا ایک فضل واحسان کا بھا یہ تھا جو ہمارے قلوب پر رکھا گیا.چنانچہ اس کے تقریباً بیس منٹ کے بعد حضور کو اپنے آسمانی آقا کا آخری بلا وا آ گیا.اس وقت کا منظر اور کیفیت نا قابل بیان ہے.ہم نے آسمان سے صبر اور سکینت کو اپنے قلوب پر نازل ہوتے ہوئے دیکھا اور یوں محسوس ہوا جیسے ضبط و تحمل کی باگ ڈور رحمت کے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہے.آنکھوں سے آنسو ضرور جاری تھے اور دلوں سے دعا ئیں بھی بدستور اٹھ رہی تھیں مگر سب دل کامل طور پر راضی برضا اور سب سراپنے معبود خالق و مالک کے حضور جھکے ہوئے تھے.ہم ٹکٹکی لگا کر اسی طرح خدا جانے کب تک اُس پیارے چہرے کی طرف دیکھتے رہے جسے موت نے اور بھی زیادہ معصوم اور حسین بنا دیا تھا.اُس نقدس کے ماحول میں جس کی فضا ذ کر الہی سے معمور تھی اور جس کی یاد کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی.حضور کی نعش مبارک نور میں نہائی ہوئی ایک معصوم فرشتے کی طرح پڑی تھی.دل بے اختیار ہم سب کے دل و جان سے زیادہ پیارے آقا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے بعد یہ کہتا تھا یا يَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَجِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً : مولوی عبدالرحمن صاحب انور کی ڈائری کا ایک ورق 99 مولوی عبد الرحمن صاحب انور جو ان دنوں پرائیویٹ سیکرٹری تھے نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے:.سات آٹھ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب کو رات گیارہ بجے کے قریب حضور کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو خاص دعاؤں کے لئے محلہ جات ربوہ میں اعلان کرایا گیا.اور ایک جانور صدقہ بھی کیا گیا.اس سے دو دن پہلے اونٹ بطور صدقہ ذبح کیا گیا تھا.جو - ۶۵۰ روپے میں آیا تھا اور ایک دن پہلے ایک گائے اور بچھڑے کا صدقہ بھی کیا گیا تھا.اس سے پہلے ایک دن میں سات جانور صدقہ کے طور پر ا کٹھے ذبح کئے گئے تھے نیز عرصہ تقریباً ایک ماہ سے روزانہ ایک جانور بطور صدقہ ذبح کیا جاتا رہا
تاریخ احمدیت.جلد 23 140 سال 1965ء اور نقدی بھی صدقہ کے طور پر دی گئی.۶۵ -۲۱-۱۱ کو جب حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ حضور کی بیماری پر ہے جانور صدقہ کے طور پر ذبیح کئے گئے جن میں ایک اونٹ اور ایک بچھڑا شامل تھا.- ۴۰۰ روپے نقد صدقہ کئے گئے.لوگوں نے ۳۸۰۰ روپے صدقہ کے لئے دفتر میں دئے.بالآخر شب ایک بج کر بیس منٹ پر ۶۵ -۱۱-۸ کو حرکت قلب بند ہو گئی سورہ پین سنادی گئی تھی.اسی دوران چند منٹوں کے بعد ہونٹ ہلے پھر سینہ ابھرا، پھر پیٹ پر بھی اثر دیکھا گیا اس طرح سے جسم میں بھی گرمی آگئی لیکن کوئی علاج کارگر نہ ہوا.اور حضور ۲:۲۰ پر ۶۵ -۱۱-۸ کو اپنے مالک حقیقی کے پاس چلے گئے.اس ایک گھنٹہ کے اندر جو چہرے پر بیماری کے اثرات تھے وہ دور ہو کر چہرہ شگفتہ ہو گیا.وفات کے چند منٹ بعد خاکسار کو بھی حضور کی زیارت کا موقعہ ملا.حضور اوپر کی منزل کے شرقی جانب کے لمبے کمرے میں تھے.۶۵ -۱۱- ۸ کوساری رات دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کھلا رہا اور فون پر احباب کے استفسارات کے جوابات دیئے گئے.حضور کے صندوق کے لئے سرگودھا آدمی بھجوایا گیا.اگلے دن تک جنازہ محفوظ رکھنے کے لئے برف کے ہیں بلاکوں کا انتظام کیا گیا.اس سے اگلے دن پھر ۲۰ بلاک منگوائے گئے جس کمرہ میں حضور کا جسدِ اطہر تھا وہاں پنکھے چلتے رہے جس سے کمرہ بہت ٹھنڈا رہا.اس صندوق کے اندر ایسی مصالحہ دار چادر لگائی گئی جو دیمک وغیرہ سے محفوظ رکھتی ہے اور اوپر جستی چادر لگا کر چادر پر سفیدہ کیا گیا.جہاں صندوق قبر میں رکھا جانا تھا اس جگہ کے گرد سیمنٹ سے ساڑھے چار انچ کا پردہ پختہ اینٹوں سے بنایا گیا جس کے اوپر لکڑی کے بالے رکھے گئے اور اندر صندوق کو رکھ کر چپ بورڈ کا فریم لگایا گیا.اور اسے ریت سے بھر دیا گیا.اور پھر اوپر تختہ دے کر اور مضبوط بالے لگا کر سب حصے کو " ریت سے بھر دیا گیا.100 اخبار الفضل میں درد ناک سانحہ کی مفصل خبر اخبار الفضل نے ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کے پرچہ میں اس نہایت لرزہ خیز اور دردناک سانحہ ارتحال کی مفصل خبر حسب ذیل الفاظ میں شائع کی:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 141 سال 1965ء بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزیہ ولید گرامی ارجمند مظہر الاول والآخر مظہر الحق واهلاء سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الثانی المصلح الموعود کا وصال إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ربوه ۸ نومبر بروز دوشنبہ.خدائی مقدرات کے ماتحت بالآخر وہ المناک گھڑی آن پہنچی جس کے تصور سے مومنوں کے دل لرز رہے تھے، جسموں پر کپکپی طاری تھی اور آنکھیں آنسو بہا رہی تھیں.یعنی سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ مسیح الثانی الصلح الموعود قریب ستر ۷۷ سال تک بفضل اللہ تعالیٰ دنیا کو بیشمار فیوض و برکات سے نواز نے علوم و معارف سے مالا مال کرنے تبلیغ و اشاعتِ اسلام کے ایک عالمگیر نظام کے ذریعہ دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کا جھنڈا لہرانے اور اطراف و جوانب عالم میں لاکھوں انسانوں کو حلقہ بگوش اسلام بنانے اور دنیا کو ایک عظیم الشان روحانی انقلاب سے ہمکنار کرنے کے بعد مورخہ ۷، ۸ نومبر ۱۹۶۵ء مطابق ۱۳ ۴ ارجب ۱۳۸۵ھ کی درمیانی شب جو دوشنبہ کی رات تھی ۲ بجگر ۲۰ منٹ پر اس جہانِ فانی سے رحلت فرما کر اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُوالْجَلْلِ وَالْإِكْرَامِ - (الرحمن: ۲۸،۲۷) اس میں شک نہیں کہ ہمارے لئے یہ انتہائی روح فرسا اور جگر پاش خبر ہے جس کو سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور دل و دماغ کو ایک بجلی کا سا دھکا لگتا ہے.مگر حقیقت بہر حال حقیقت ہے.ہم اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہیں.ہم عظیم صدمہ کی اس گھڑی میں اپنے پیارے امام نو راللہ مرقدہ کے مبارک الفاظ میں احباب جماعت کو یہ کہتے ہیں:.ابتلاؤں کا آنا ایسی ضروری بات ہے کہ نبیوں کی کوئی جماعت ایسی نہیں ہوئی کہ جس پر ابتلاء نہ آئے ہوں.ابتلاء تمہارے لئے خوف و خطر کا باعث نہیں ہو سکتے.مومن کو کبھی ڈر نہیں ہوتا.اس پر جب ابتلاء آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس ابتلاء کے ساتھ ہی خدا کی مدد بھی آ رہی ہے“.101
تاریخ احمدیت.جلد 23 142 سال 1965ء نیز اس موقعہ پر ہم حضور پر نور کی انتہائی درد دل سے کی ہوئی ایک نصیحت اور دعا بھی احباب جماعت تک پہنچانا ضروری سمجھتے ہیں.جو حضور نے ۱۹۵۵ء میں اپنی بیماری کے آغاز میں فرمائی تھی.حضور نے فرمایا:.ہر انسان جو پیدا ہوا ہے اس نے مرنا ہے.ان گھڑیوں میں جب میں محسوس کرتا تھا کہ میرا دل ڈوبا کہ ڈوبا مجھے یہ غم نہیں تھا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں.مجھے ی غم تھا کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ رہا ہوں.اے میرے وفادار آقا! میں تجھے تیری ہی وفاداری کی قسم دیتا ہوں.ان کمزوروں نے اپنی کمزوریوں کے باوجود تجھ سے وفاداری کی.تو طاقتور ہوتے ہوئے ان سے بیوفائی نہ کیجیو.یہ بات تیری شان کے شایان نہیں اور تیری پاکیزہ صفات کے مطابق نہیں.میں ان لوگوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں.اے سب امینوں سے بڑے امین اس امانت میں خیانت نہ کیجیو.اور اس امانت کو پوری وفاداری کے ساتھ سنبھال کر رکھی.اے میرے عزیز و! تم سے کوتاہیاں بھی صادر ہوئیں تم سے قصور بھی ہوئے مگر میں نے یہ دیکھا کہ ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کی آواز پر تم نے لبیک کہا.تم موت کی وادیوں میں سے گزر کر بھی خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے رہے ہو.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ تمہیں (اکیلا ) نہیں چھوڑے گا..ہمارا خدا سچا خدا ہے، زندہ خدا ہے، وفا دار خدا ہے.تم ہمیشہ اس پر تو کل رکھو اور اپنی اولا دکو بھی اس پر توکل رکھنے کی تلقین کرو میں نے ساری عمر جب بھی اس رنگ میں اخلاص کے ساتھ دعا کی ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اُس دعا کے قبول ہونے میں دیر ہوئی ہو.اگر تم اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کرو گے اور اس کی طرف جھکو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اترتا رہے گا.ایک دولت میں تمہیں دیتا ہوں ایسی دولت جو کبھی ختم نہیں ہوگی.ایک علاج میں تمہیں بتاتا ہوں وہ علاج جو کسی بیماری میں خطا نہیں کرے گا، ایک عصا میں تمہارے حوالے کرتا ہوں ایسا عصا جو تمہاری عمر کی انتہائی کمزوری میں بھی تمہیں سہارا دے گا.اور تمہاری کمر کو
تاریخ احمدیت.جلد 23 سیدھا کرے گا.143 سال 1965ء اے میرے خدا! تُو اپنے ان بندوں کے ساتھ ہو.جب انہوں نے میری آواز پر لبیک کہی تو انہوں نے میری آواز پر لبیک نہیں کہی بلکہ تیری آواز پر لبیک کہی.اے وفادار اور صادق الوعد خدا اے وفادار اور سچے وعدوں والے خدا تو ہمیشہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ساتھ رہیو اور ان کو کبھی نہ چھوڑ یو.دشمن ان پر کبھی غالب نہ آئے اور یہ کبھی ایسی مایوسی کا دن نہ دیکھیں جس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں سب سہاروں سے محروم ہو گیا ہوں.یہ ہمیشہ محسوس کریں کہ تو ان کے دل میں بیٹھا ہے، ان کے دماغ میں بیٹھا ہے اور ان کے پہلو میں کھڑا ہے اللهم آمين....خدا کرے کہ میری عدم موجودگی میں تم غم نہ دیکھو ہم سب خدا کی گود میں ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس کھڑے ہوں“.حضور پر نور اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان بشارتوں اور مہتم بالشان آسمانی پیشگوئیوں کے بموجب ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام خاص سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر انکشاف فرمایا کہ آپ ہی مصلح موعود کی عظیم الشان پیشگوئی کے مصداق اور اولوالعزم فرزند موعود ہیں.جس کے ذریعہ دنیا بھر میں غلبہ اسلام کی مہتم بالشان بشارتیں پوری ہونی مقدر ہیں.ان پیشگوئیوں کے بموجب آپ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو خلیفتہ اسیح الثانی کی حیثیت سے خلافتِ احمدیہ کی مسندِ جلیلہ پر متمکن ہوئے.آپ کے ۵۲ سالہ عظیم الشان اور موعود عہد خلافت کا ہر دن اور ہرلمحہ اللہ تعالیٰ کے مہتم بالشان نشانوں غیر معمولی فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں سے معمور رہا اور خدا تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے بموجب اسلام کو چار دانگ عالم میں عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئیں اور ساری دنیا نے اس امر کا مشاہدہ کیا کہ آپ واقعی ایک خدائی نور تھے جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.خدا کا سایہ ہر آن آپ کے سر پر رہا آپ جلد جلد بڑھے اور اسیروں کی رستگاری کا موجب بنے.آپ نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور دنیا کی قوموں نے آپ سے برکت پائی.اور بالآخر آپ کے متعلق تمام آسمانی پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے بعد آپ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھائے گئے.دنیا نے دیکھ لیا اور اس امر کی گواہی دی کہ آپ واقعی ایک نہایت ہی بابرکت وجود اور آسمانی نور
تاریخ احمدیت.جلد 23 144 سال 1965ء تھے جس نے کرہ ارض کو کم و بیش ۵۲ برس تک منور اور خدا کی برکتوں سے معمور کئے رکھا.خدائی مقدرات کے ماتحت یہ آسمانی وجود بظاہر ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو کر مولائے حقیقی سے جاملا ہے لیکن اس کے انوار و برکات اب بھی جاری و ساری ہیں اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک جاری وساری رہیں گے.ذلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (الانعام: ۹۷) حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا ایک نہایت اہم پیغام ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی شب مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد نے ربوہ کی مسجد مبارک میں نما ز عشاء پڑھائی اور پھر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا حسب ذیل پیغام پڑھ کر سنایا:.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آج ہمارا محبوب آقا جو رحمت کا نشان تھا ، رحمت بن کر آیا.رحمت بن کر رہا اور عالم کے گوشے گوشے میں جس کے دوران خلافت میں اس کی کوشش سے رحمت للعالمین ﷺ کا جھنڈا گاڑا گیا سلامتی کا پیغام پہنچایا گیا وہ مصلح موعود خلیفہ ہم سے جدا ہو کر اپنے پیارے اللہ تعالیٰ کے حضور میں سرخرو ہو کر حاضر ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ہمارے دل غم سے بھر گئے ہیں.یہ جدائی برداشت سے باہر نظر آتی ہے مگر یہ نازک وقت رونے سے بڑھ کر دعاؤں کا وقت ہے جماعت احمدیہ کے لئے یہ تیسرا زلزلہ ہے جو بوجہ کثرت جماعت اور قلت صحابہ کے، جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ دیکھا اور صحبت اٹھائی تھی بہت بڑا ہے کیونکہ جب زمانہ گزرتا ہے الہی سلسلہ پھیل جاتا ہے تو بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور اس وقت تو ہر وقت کے ناصح خلیفہ کی لمبی علالت بھی بعض غفلتوں اور کمزوریوں کو بیمار طبائع میں پیدا کرنے کی وجہ بن گئی.اس وقت جبکہ آپ سب کے دل دردمند ہیں اور ایک اہم فیصلہ کا وقت ہے ہم سب کو اپنا دکھ بھول کر دعا میں لگ جانا چاہیئے اور صدق نیت سے اپنی کمزوریوں کا جائزہ لے کرسچا عہد خدا تعالیٰ سے کرنا چاہیئے کہ ہم اپنے قلوب کو صاف کریں گے اور نیک نمونہ احمدیت کا بننے میں کوشاں رہیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش حضرت خلیفہ اول کی تمنا اور اس ہمارے تازہ زخم جدائی دے
تاریخ احمدیت.جلد 23 145 سال 1965ء 103 166 جانیوالے موعود خلیفہ کی تڑپ تھی.پس دعا کریں اور بہت دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم کو پاک کرے جیسا کہ پاک کرنے کا حق ہے.ہم فتنوں سے بچیں صادق ہوں اور صادقوں کے ساتھ رہیں خلافت سے وابستہ رہیں ہمیں خدائے کریم و رحیم ایسا بننے سے بچائے کہ ہم شماست اعداء کا موجب بن جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک انداری الہام ہے انى مهين من اراد اهانتک | دریدہ دہن مخالفین کے لئے اس کا بڑی شان سے پورا ہونا آپ سب کے علم میں ہے اور بعض افراد کو ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جو حد سے بڑھا اور آپ کی اہانت کی وہ ذلیل ہوا.مگر آپ صرف یہ سوچ کر مطمئن نہ ہوں کہ یہ دشمنان اسلام و احمدیت کے لئے ہی تنبیہ ہے بلکہ ڈریں اُس خدائے غالب سے جس کو ہرگز پروا نہیں کہ وہ اہانت کرنے والا دشمن ظاہر کے لباس میں ہے یا اپنا ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے.اگر آپ خدانخواستہ تقویٰ کی راہوں سے دور جا پڑے یا نفاق وفساد اختیار کیا یا اپنے قول و فعل سے کسی رنگ میں بھی ظاہر کر دیا کہ آپ وہ نہیں جو آپ کو ہونا چاہیئے تھا اور آپ کے دل روحانیت سے خالی ہو رہے ہیں آپ کی زبانیں بے لگام ہو رہی ہیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نور کا پر تو آپ پر نمایاں پڑا ہوا نظر نہیں آرہا اور زمانہ دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ یہ لوگ تو وہی نام نہاد مسلمان نظر آتے ہیں.جس خصوصیت کا دعوی تھا وہ کہاں ہے؟ تو آپ یاد رکھیں کہ اسی ذیل میں آجائیں گے اور اپنے آقا کی اہانت کرنے والے ٹھہریں گے.اگر ایسا ہوا اور خدا نہ کرے کہ ہو تو ہمارا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ کہیں کے نہ رہیں گے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو دعاؤں سے نصرت طلب کرنے کی توفیق بخشے اور نیک ارادوں میں استقامت عطا فرمائے.اس وقت ایک بڑی چوٹ آپ کو لگی ہے.آپ کے دل درد سے بھرے ہوئے اور نرم ہیں اس وقت سے فائدہ اٹھا ئیں اور تڑپ تڑپ کر اپنے مولا کو پکار ہیں.وہی ہمارا حافظ و ناصر ہو جائے.ہماری کمزوریوں کو معاف فرمائے.ہمارے گناہوں پر ہمارا غفار وستار خداستاری کی چادر ڈال دے اور بخشش سے نوازے.اے ہمارے ازلی ابدی خدا بیٹیاں پکڑ کر آ اور ہماری خاص نصرت فرما.اپنا دست رحمت پھر ہماری جانب بڑھا اور ہم کو اسے مضبوطی سے تھامے رکھنے کی توفیق بخش.ہمیں وہ نمونہ بنا جو ہمارے سردار ہمارے آقا چاہتے تھے.نیکی اور تقویٰ کے بیج ہمارے دلوں اور گھروں میں ڈال دے اور ناپاکیوں، بداخلاقیوں سے پاک فرما.اے ہمارے قادر وقد مر و مقتدر
تاریخ احمدیت.جلد 23 146 سال 1965ء خدا قریب و مجیب خدا سمیع و بصیر خدا ہماری دعاؤں کوسن اور ہم کو غلط قدم اٹھانے سے بچا لینا.یہ نازک وقت ہم پر آیا ہے دستگیری فرما را ہنمائی فرما اور ہم کو مبارک فیصلہ کی توفیق بخش.تو ہی بہتر جاننے والا ہے.ربنا اهدنا الصراط المستقيم ربنا انا نعوذ بك من جهد البلاء ودرك الشقاء وسوء القضاء و شماتة الاعداء.ایک پیغام.آسمانی نصرت کا مجسم نشان یا اللہ مددفرما.آمین مبارکہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا یہ پیغام خدا تعالیٰ کی آسمانی نصرت کا مجسم نشان تھا جس کا ظہور حضرت مصلح موعود کے وصال کے معا بعد ہوا.کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور انور کے اس حادثہ جانگداز کا سب سے نمایاں اثر آپ ہی کے نازک وجود پر ہوا اور اپنے مقدس و مبارک بھائی کی نعش کو دیکھ کر سچ مچ آپ کی آنکھوں میں پورا جہان تاریک ہو گیا.بایں ہمہ اللہ تعالیٰ کی غیبی قوت نے اپنے فضل سے آپ کو فوری سہارا دیا آپ کی ایسی دستگیری فرمائی کہ آپ کے قلم سے نہایت مختصر وقت میں ایسی اثر انگیز تحریریکلی جس نے لاکھوں غمزدہ دلوں کو طمانیت اور تسکین سے بھر دیا یقینا یہ روح القدس کا کرشمہ بلکہ مجزہ تھا.چنانچہ آپ خود فرماتی ہیں:.ر جس وقت میرے محبوب بھائی سید نا خلیفہ اسیح الثانی نے اس جہان میں آخری سانس لیا اور وہ اپنے محبوب حقیقی کے حضور میں حاضر ہو گئے.ایک لمحہ کے لئے محسوس ہوا کہ میں گری جارہی ہوں.دنیا میری نظروں میں اندھیر ہو گئی.مگر اس وقت گویا ایک دست رحمت نے مجھے سہارا دیا.میرے دل کو سنبھال لیا اور ایک غیبی طاقت نے مجھے کھڑا کر دیا.اندرونِ قلب سے ایک آواز نکلتی معلوم ہوئی کہ ایسے مبارک اور مفید وجود جب دنیا سے جاتے ہیں تو یہ وقت مہجور پسماندگان کے لئے محض رونے کا وقت نہیں ہوتا.بلکہ خود کو سنبھالنے اور جتنی بھی طاقت اللہ تعالیٰ کسی کو بخشے دوسروں کو سنبھالنے اور دعاؤں کا وقت ہے.اور یہی ان کے لئے محبت کا بہترین اظہار اور ان کے احسانوں کا بدلہ ہے کہ دعا سے ان کی تمناؤں اور مقاصد کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ سے نصرت طلب کریں اور اس وقت کی یہ تڑپ اس ولی درفیق ونصیر کو پکارنے میں صرف ہونی چاہیئے تا کہ اس کا ہاتھ ہمیں سنبھال لے.گمراہی سے غلط قدم
تاریخ احمدیت.جلد 23 147 سال 1965ء اٹھانے سے بچالے ہمارا نا صر ہو جائے اور اس عاشق ربّ کریم کو اس دنیا سے جنت اعلیٰ میں بشارتیں ہی ہمارا خدا پہنچاتا رہے.غرض میں نے اسی جذبہ کے ماتحت اس وقت جسدِ مبارک کے گرد کھڑے ہوئے لڑکوں کو بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں اس وقت کی خاص اہمیت کو پیش نظر رکھ کر دعا ئیں کرنے اور اپنے فرائض کو سمجھنے اور رخصت ہونے والے پیارے کے عہد جو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے موقعہ پر آپ کے پاس کھڑے ہو کر کئے تھے ان کی یاد دلا کر اس طرح سے ان سب کو بھی عہد واثق کرنے اور ہمیشہ خدمات دین کے لئے کمر بستہ رہنے کی تلقین کی اور کچھ بعد میں لکھ کر باہر بھی بھیجا جو مسجد میں سنایا گیا اور الفضل میں چھپ چکا ہے.گو ہر وقت میرا دل ڈوب جاتا تھا.مگر اپنے آپ کو سنبھالے رکھا.105 عشاق کی دیوانہ وارر بوہ میں آمد مورخہ سے نومبر کو تاروں، ٹیلیفون اور ریڈیو پاکستان سے سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تشویشناک علالت کی خبر سننے کے بعد سے ہی بیرون جات کے احباب ہوائی جہازوں، ریلیوں، موٹروں اور بسوں وغیرہ کے ذریعہ بہت کثیر تعداد میں ربوہ پہنچنے شروع ہو گئے تھے.اور پھر ۸ نومبر کو ریڈیو پاکستان سے حضور کے وصال کی خبر نشر ہونے کے بعد سے تو باہر سے آنے والے احباب کا ایک تانتا بندھ گیا.ہوائی جہازوں اور ریل گاڑیوں کے علاوہ موٹروں اور بسوں وغیرہ سے اس کثرت سے احباب آ رہے تھے کہ ایک حد تک جلسہ سالانہ پر آنے والے مہمانوں کی آمد کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ گیا.ایک اندازہ کے مطابق مورخہ ۸ نومبر کی سہ پہر تک بیرون جات کے پندرہ اور بیس ہزار کے در میان احباب ربوہ پہنچ چکے تھے.اس کے بعد سے بھی احباب کی آمد کا سلسلہ برابر جاری رہا.ملک کے کونہ کونہ سے احباب کھنچے چلے آرہے تھے.ان میں دور و نزدیک شہر ودیہات ہر علاقہ اور ہر طبقہ کے لوگ شامل تھے.پُرسوز و پُر درد دعائیں سید نا حضرت خلیلة اصبع الثانی کے وصال کے وقت جو کہ موراد ۸ نومبر بروز دوشنبه صبح دو بیچ کر ۲۰ منٹ پر ہوا تھا.احباب کثیر تعداد میں احاطہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں موجود تھے اور سب غم واندوہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 148 سال 1965ء کی تصویر بنے ہوئے تھے.وصال کے معاً بعد احباب ہزاروں کی تعداد میں مسجد مبارک میں آ جمع ہوئے اور فجر تک نوافل ادا کرتے رہے.احباب کی کثرت کی وجہ سے مسجد میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی.نماز فجر پڑھانے سے قبل محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے احباب سے خطاب کرتے ہوئے احباب کو بکثرت دعائیں کرنے کی تحریک کی.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا محبوب بندہ محمود (اللہ آپ سے راضی ہو ) اپنے پیارے آقا سے جاملا - إِنَّا لِلهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.حضور نے اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ خدمت اسلام کے لئے وقف رکھا.ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی حضور کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف رکھیں اور دنیا میں اسلام کو سر بلند کرنے کے لئے قربانیاں پیش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں.ان ایام میں ہمیں خصوصیت سے بکثرت استغفار کرنی چاہیئے اور خاص طور پر سورہ فاتحہ کو کثرت سے پڑھنا چاہیئے.اُس وقت جملہ حاضرین پر خاص رقت کا عالم طاری تھا.نماز فجر میں رکوع کے بعد قیام اور سجدوں کے دوران بہت گریہ و زاری سے دعا کی گئی.ان دعاؤں کے دوران لوگوں کی چیخیں نکل نکل گئیں اور ہچکیوں اور سسکیوں کی درد ناک آوازوں سے مسجد گونج اٹھی.غسل نماز فجر کے معا بعد سید نا حضرت خلیفہ لمسیح الثانی کو نسل دیا گیا.غسل حضرت مرزا عزیز احمد نا خلیفۃالمسیح صاحب ناظر اعلیٰ ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب، محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح و ارشاد، مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب، مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب مربی سلسلہ مقیم کراچی، مکرم صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال اور مکرم مولوی محمد احمد صاحب جلیل نے دیا.مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کی روایت کے مطابق اس میں محترم سید داؤد احمد صاحب بھی شامل تھے.آخری زیارت کا شرف ہزاروں کی تعداد میں احباب بیرون جات سے ربوہ پہنچ رہے تھے اور ان کی آمد کا سلسلہ ہرلمحہ جاری تھا اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ حضور کے چہرہ مبارک کی زیارت کا موقع دینے کا انتظام اولین فرصت میں کیا جائے تا کہ سب احباب زیارت کا شرف حاصل کر سکیں اور کوئی فرد بھی ایسا نہ ہو کہ جو اپنے آقا کی آخری زیارت کے شرف سے محروم رہ جائے.چنانچہ ۸ نومبر کو ساڑھے سات بجے صبح سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 149 سال 1965ء ہی زیارت کا سلسلہ شروع کر دیا گیا جو تمام دن اور پھر رات کو نصف شب کے بعد تک جاری رہا.باری باری کچھ وقت کے لئے مستورات کو زیارت کا موقع دیا گیا اور کچھ وقت کے لئے مردوں کو.جملہ احباب باری باری ایک قطار کی شکل میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے جنازہ کے پاس سے گزر کر زیارت کا شرف حاصل کرتے رہے.زیارت حاصل کرنے والوں کی قطاریں قصر خلافت کے اندر سے شروع ہو کر باہر سڑک پر دور دور تک پھیلی ہوئی نظر آتی تھیں.کسی وقت بھی ان طویل قطاروں میں کمی نہیں آئی باہر سے آنے والے احباب ربوہ پہنچتے ہی ان قطاروں میں آ آ کر شامل ہو جاتے رہے قطار میں اس قدر طویل تھیں کہ بعض احباب کو اپنی باری کے لئے کئی کئی گھنٹے کھڑے رہ کر انتظار کرنا پڑا.اس موقع پر احباب کی بے تابی اور اضطراب کی حالت قابل دید تھی اور ایک نشان کا درجہ رکھتی تھی ہر شخص اس انتظار میں بے حال ہوا جار ہا تھا کہ اسے اپنے جان و دل سے عزیز محسن آقا کے چہرہ مبارک کی آخری بار ایک جھلک نصیب ہو جائے احباب جب آخری زیارت کا شرف حاصل کر کے قصر خلافت سے باہر آتے تھے تو ان کی حالت ہی اور ہوتی تھی.ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل فگار نظر آتا تھا.بعض احباب کی تو شدت غم سے چھینیں بھی نکل جاتیں اور بعض بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے باہر آتے.100 رودادا جلاس مجلس انتخاب خلافتِ احمدیہ سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے وصال کے بعد قواعد مقررہ انتخاب جانشین کے مطابق نئے خلیفہ کا انتخاب عام حالات میں ۲۴ گھنٹے کے اندر اندر ہونا چاہیئے تھا.چنانچہ اراکین مجلس انتخاب کو اطلاع دی گئی اور اخبار الفضل میں بھی اعلان کیا گیا.مورخہ ۸-۹ نومبر کی درمیانی شب بعد نماز عشاء مسجد مبارک میں مجلس انتخاب خلافت کا با قاعدہ اجلاس منعقد ہوا.سیکرٹری مجلس مشاورت نے ضابطۂ انتخاب منظور شدہ مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء پڑھ کر بتایا اور کارروائی اجلاس زیر صدارت حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ شروع ہوئی.ہر رکن مجلس انتخاب سے مقررہ حلف نامہ پر دستخط بھی لئے گئے.اور صدر مجلس نے زبانی طور پر بھی حلف لیا.حلف کے مقررہ الفاظ حسب ذیل ہیں:.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر اعلان کرتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی
تاریخ احمدیت.جلد 23 150 سال 1965ء ایسے شخص کو ووٹ نہیں دونگا جو جماعت مبایعین میں سے خارج کیا گیا ہو یا اس کا تعلق احمدیت یا خلافت احمدیہ کے مخالفین سے ثابت ہو“.پھر تلاوت قرآن مجید ہوئی جو محترم صدر مجلس کے ارشاد پر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے کی.بعد ازاں حضرت صدر مجلس نے سب حاضرین سمیت دعافرمائی اور پھر فرمایا کہ: ”ہمارے پیارے امام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی آج صبح دو بجکر بیس منٹ پر اپنے حقیقی مولا سے جاملے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اب حضور کے بعد جانشینی کا سوال در پیش ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی زندگی میں انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن مجلس مشاورت ۱۹۵۷ء نے پاس کیا تھا جسے حضور نے منظور فرماتے ہوئے مجلس انتخاب خلافت مقرر فرما دی تھی جس کے اراکین کی فہرست مطابق ریزولیوشن مرتب کر کے امراء جماعت احمدیہ کو بھجوادی گئی تھی.آپ وہ اراکین مجلس انتخاب خلافت ہیں جن کا کام اپنے حلف کے مطابق جو آپ نے ابھی اٹھایا ہے نئے خلیفہ کا انتخاب کرنا ہے.سواب آپ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے جو امانت انتخاب خلیفہ کی آپ کے سپرد کی گئی ہے اسے پوری دیانت کے ساتھ ادا کریں اور اپنی رائے پیش فرمائیں.اس مختصر مگر پر اثر خطاب کے بعد حضرت صاحب صدر نے انتخاب کرایا اور اراکین کی بہت بھاری اکثریت کی آراء کے مطابق حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ رتبہ کے خلیفہ ثالث منتخب ہونے کا اعلان فرمایا.اس مرحلہ پر محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے صاحب صدر کی اجازت سے جماعتی اتحاد کی برکات اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے انتخاب میں خدائی ہاتھ کا ذکر کرتے ہوئے پُر اثر مختصر تقاریر فرمائیں.اس موقعہ پر جملہ اراکین پر آسمانی سکینت کے نزول کا ایمان افروز منظر نظر آرہا تھا.ہر دل اس انتخاب پر مطمئن تھا اور ہر زبان پر الحمدللہ کا کلمہ جاری تھا.احباب نے اصرار فرمایا کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث ابھی ہماری بیعت قبول فرما ئیں.آپ اس وقت پچھلی صفوں پر مسجد کے شمالی جانب تشریف فرما تھے.احباب کی درخواست پر آپ صدر مجلس ، سیکرٹری مشاورت اور محترم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب سلمہ رتبہ اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سلمہ رتبہ کی معیت میں مسجد مبارک کے محراب میں تشریف لائے وہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 151 سال 1965ء عجیب سماں اور نہایت پر کیف نظارہ تھا.اپنے پیارے امام سید نا حضرت المصلح الموعود خلیفہ امسیح الثانی کی جدائی کے احساس سے دل زخمی تھے.آنکھوں سے آنسو جاری تھے مگر جماعتی اتفاق و اتحاد اور مومنوں کے قلوب کی اس یگانگت کو دیکھ کر کہ سب کے سب رکن منتخب خلیفہ کی بیعت کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے تھے.نفوس میں اطمینان پیدا تھا یوں محسوس ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے نزول فرمارہے ہیں.اب نہ کوئی اختلاف رائے تھا اور نہ کسی قسم کی کشمکش تھی.ربیعت لینے سے پہلے منتخب خلیفہ کے لئے قواعد مقررہ کے مطابق ضروری تھا کہ وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے تجویز فرمودہ الفاظ ذیل میں قسم کھائے کہ :.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان لاتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا“.چنانچہ سیدنا حضرت خلیفہ اسح الثالث نے کھڑے ہو کر تشہد اور سورۂ فاتح کی تلاوت کے بعد رفت بھرے الفاظ میں اس عہد کو دہرایا.عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا کہ:.یہ ایک عہد ہے جو صمیم قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ عالم الغیب ہے.میں نے آپ لوگوں کے سامنے دہرایا ہے.میں حتی الوسع تبلیغ اسلام کے لئے کوشش کرتا رہوں گا.اور آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کروں گا.چونکہ آپ نے مجھ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی ہے اس لئے میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی اپنی دعاؤں اور مشوروں سے میری مدد کرتے رہیں گے کہ خدا تعالیٰ میرے جیسے حقیر اور عاجز انسان سے وہ کام لے جو احمدیت کی تبلیغ ، اسلام کی اشاعت اور توحید الہی کے قیام کے لئے ضروری ہے.اور اپنی رحمت فرماتے ہوئے میرے دل پر آسمانی نور نازل فرمائے اور مجھے وہ کچھ سکھائے جو انسان خود نہیں سیکھ سکتا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 152 سال 1965ء میں بڑا ہی کم علم ہوں ، نا اہل ہوں، مجھ میں کوئی طاقت نہیں، کوئی علم نہیں.جب میرا نام تجویز کیا گیا تو میں لرز اٹھا اور میں نے دل میں کہا کہ میری کیا حیثیت ہے پھر ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہمارے پیارے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی بہت سی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا تھا فرمایا ہے.کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں جب ہمارے پیارے امام نے ان الفاظ میں اپنے خدا کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے حضور اپنے آپ کو کرم خاکی قرار دیا ہے تو میں تو اس اپنے آپ کو کرم خاکی“ کہنے والے سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا.لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ میں بے شک نا چیز ہوں اور ایک بے قیمت مٹی کی حیثیت رکھتا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ مٹی کو بھی نور بخش سکتا ہے اور اس مٹی میں بھی وہ طاقتیں اور قو تیں بھر سکتا ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں وہ اس مٹی میں ایسی چمک دمک پیدا کر سکتا ہے جو سونے اور ہیروں میں نہ ہو.غرضیکہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن سے میں اپنی کمزوریوں کو بیان کر سکوں.اس لئے آپ دعاؤں سے میری مدد کریں.جہاں تک ہو سکے گا میں آپ میں سے ہر ایک کی بھلائی کی کوشش کروں گا.اختلاف تو ہم میں بھی ہوسکتا ہے.لیکن اختلاف کو انشقاق اور تفرقہ اور جماعت میں انتشار کا موجب نہیں بنانا چاہیئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات کے وقت اور بعد میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ہر فرد نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہونے دیں گے اور اس کے لئے جو قربانی ہمیں دینی پڑے ہم دیں گے.یہ ہرگز نہ ہوگا کہ ہم اپنے مفاد کی خاطر جماعت کے مفاد کو قربان کر دیں بلکہ بہرصورت ہم جماعت کے مفاد کو مقدم کریں گے.سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو اللہ تعالیٰ نے بڑی کامیابی عطا فرمائی اور جو کام خدا تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا تھا انہوں نے پوری طرح نبھایا.اب ہمارا فرض ہے کہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 153 سال 1965ء ہم اس کو ترقی دیں اور اس میں کمزوری نہ آنے دیں.اس بارے میں کل ایک دوست نے مجھ سے بات کرنا چاہی تو میں نے کہا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہمارے خاندان میں کوئی فرد اپنے مفاد کے لئے جماعت کے مفاد کو قربان نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا ہر فرد خدا کا ہے مسیح موعود کا ہے جماعت کا ہے.ہماری طرف سے کوئی کمزوری اور فتنہ نہ ہوگا.پس اب خدا تعالیٰ نے جو یہ ذمہ داری میرے کندھوں پر ڈالی ہے اور اس کام کے لئے آپ نے مجھے منتخب کیا ہے.میں بہت کمزور انسان ہوں.اس لیے آپ کا فرض ہے کہ آپ دعاؤں سے میری مدد کریں کہ خدائے تعالیٰ مجھے توفیق بخشے کہ میں اس ذمہ داری کو پوری طرح ادا کر سکوں اور خدمت دین اور اشاعت اسلام میں کوئی روک پیدا نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ کام ترقی کرتا چلا جائے حتی کہ دنیا کے تمام ادیان باطلہ پر غالب آجائے.آپ مجھے اپنا ہمدرداور خیر خواہ پائیں گے کیونکہ سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ہماری اسی طرح تربیت کی ہے.میں چھوٹا تھا اور اب اس عمر کو پہنچا ہوں ہم نے یہی محسوس کیا کہ حضور کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میرے بچے دنیا کے لئے خیر کا منبع ہوں کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے.اسی خواہش کا حضور نے اپنے ایک شعر میں یوں اظہار فرمایا ہے بے الہی خیر ہی دیکھیں نگاہیں پھر مجھے جو ماں ملی ( یعنی حضرت اماں جان ) جس نے میری تربیت کی ویسی ازواج مطہرات کے بعد ماں کسی کو نہیں ملی.یعنی حضرت اماں جان.وہ ایسی تربیت کرتی تھیں کہ دنیا کا کوئی ماہر نفسیات ایسی تربیت نہیں کر سکتا.“ فرمایا.” مجھے یاد ہے کہ ایک دو یتیم بچوں ( بہن بھائی ) کو حضرت اماں جان نے پالا تھا آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے نہلایا دھلایا اور ان کی جوئیں خود نکالیں.مجھے وہ کمرہ بھی یاد ہے جہاں دستر خوان بچھا تھا اور جس پر حضرت اماں جان نے اپنے ساتھ ان بچوں کو کھانے کے لئے بٹھایا.لیکن معلوم نہیں مجھے اس وقت کیا سوجھی کہ میں ان کے ساتھ نہ بیٹھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دن مجھے حضرت اماں جان نے
تاریخ احمدیت.جلد23 154 سال 1965ء کھانا نہیں دیا.یہاں تک کہ شام کو میں نے خود مانگ کر کھانا کھایا.اس میں ایک سبق تھا کہ جس کو دنیا یتیم کہتی ہے مسکین کہتی ہے.خدائے تعالیٰ کے بندے سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی حفاظت کریں اور ان کے نگران بنیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے عہد دہرانے اور دردمندانہ خطاب فرمانے کے بعد تمام اراکین نے بیعت کی اور کسی ایک فرد نے بھی تامل نہیں کیا.الفاظ بیعت کے ہر جملہ دہرانے پر دردوکرب کے ساتھ ساتھ دلوں پر سکینت نازل ہورہی تھی ایک یقین اور قربانی کا جذبہ ابھر رہا تھا.دل دھل کر پاک و صاف ہورہے تھے اور خدا کی جماعت بُنْيَانٌ مَّرْصوص (الصف:۵) کا نظارہ پیش کر رہی تھی.اس موقعہ پر مجلس انتخاب کے ۲۰۶ را راکین حاضر تھے باقی ۳۵ را راکین پاکستان سے باہر ہونے کے باعث اور بعض بیمار و معذور ہونے کے باعث اجلاس میں ظاہری طور پر شامل نہیں ہو سکے.یہ ساری کارروائی ساڑھے دس بجے شب تک ختم ہو گئی.مسجد مبارک کے باہر ہزار ہا احمدی ماہی بے آب کی طرح منتظر تھے.ان کا اصرار تھا کہ ان کو بھی بیعت کرنے کا ابھی موقعہ دیا جائے.چنانچہ حضور کی اجازت سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا گیا.مسجد کھچا کھچ بھر گئی اور جملہ حاضرین نے پگڑیوں وغیرہ کو پکڑ کر الفاظ بیعت دہرا کر خلیفہ وقت کی بیعت کی.پھر ایک لمبی اور پُر سوز دعا ہوئی اور مصافحہ وملاقات کے بعد جملہ احباب مسجد سے روانہ ہوئے.ہر احمدی کا دل زخمی تھا مگر اس کے باوجود اس کی روح اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر سجدہ ریز تھی کہ اس نے محض اپنے فضل سے جماعت کو کامل اتحاد اور مکمل پیجہتی کی نعمت سے نوازا ہے اور دشمنانِ سلسلہ کی جھوٹی خوشیوں اور توقعات کو پامال کر دیا ہے.فلله الحمد ربّ السموات ورب الارض و رب العالمین.خلافت ثالثہ کا قیام اور جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے اعلانِ عام مولوی عبدالرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری وسیکرٹری مجلس مشاورت کی طرف سے الفضل ۱۰نومبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ اول پر نہایت جلی قلم سے حسب ذیل اعلان شائع کیا گیا:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود خلیفہ اسیح الثالث کا انتخاب
تاریخ احمدیت.جلد 23 155 سال 1965ء تمام احباب جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ آج مورخہ ۸ نومبر ۱۹۶۵ء بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی مقرر کردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بصدارت جناب مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ منعقد ہوا جس میں حسب قواعد ہر مہر نے خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ رتبہ کو آئندہ کیلئے خلیفہ اسی منتخب کیا.اراکین مجلس انتخاب نے اُسی وقت آپ کی بیعت کی جس کے بعد آپ نے خطاب فرمایا اور پھر تمام موجود احباب نے جن کی تعداد انداز پانچ ہزار تھی رات کے ساڑھے دس بجے آپ کی بیعت کی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انتخاب کومنظور فرما کر نہایت بابرکت فرمائے.اس طرح ہم ایک دفعہ پھر ایک نازک دور میں سے گزر کر الوصیت کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے ہیں.والحمد للہ سیکرٹری مجلس مشاورت“ جنازہ اٹھانے اور کندھا دینے کا منظر خلافت ثالثہ کے قیام کے اگلے روز ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کو حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں حضرت مصلح موعود کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں ربوہ اور پاکستان کے طول و عرض سے قریباً پچاس ہزار احباب نے شرکت کی جس کے بعد غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے ہزار ہا قلوب، غمناک و اشکبار آنکھوں اور عاجزانہ و دردمندانہ دعاؤں کے درمیان خدا کے اس مقدس اور موعود خلیفہ کا جسد اطہر سپردخاک کر دیا گیا.اس کی خبر دیتے ہوئے اخبار الفضل نے تحریر کیا کہ:.ر بوده انمبر سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحم خلف اسی اثنا الصلح الموعود کا سد اطہر کل مورخہ ۹ نومبر ۱۹۶۵ء بروز سه شنبہ ساڑھے چھ بجے شام غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے ہزار ہا قلوب، غمناک واشکبار آنکھوں ، سوز و گداز سے معمور عاجزانہ و دردمندانہ دعاؤں کے درمیان بہشتی مقبرہ میں حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کے مزار اقدس کی چار دیواری کے اندر سپردخاک کر دیا گیا.اس طرح وہ نہایت ہی مقدس و مطہر اور سراپا خیر و برکت وجود جس کی ولادت باسعادت ، خدمت اسلام کے محیر العقول کارناموں سے معمور زندگی اور خدائی مقدرات کے ماتحت جس کا وصال ان گنت اور مہتم بالشان خدائی نشانوں کا مظہر تھا بستر سال تک جس نے دنیا کو بے شمار فیوض و برکات سے نوازا،
تاریخ احمدیت.جلد 23 156 سال 1965ء جو علم و معرفت کا ایک بحر ذخار تھا جو علوم ظاہری و باطنی کا مخزن و معدن تھا.جو قدرت اور رحمت اور قربت اور فضل اور احسان کا نشان تھا.جسے خدا نے اپنے الہام خاص میں فتح و ظفر کی کلید قرار دیا اور فی الواقعہ جس نے اسلام کو دنیا بھر میں فتح یاب کر دکھایا.جوستر سال تک تشنگان روحانیت کو سیراب کرتا اور ان کے دل و دماغ پر بڑی شان اور محبت و شفقت کے ساتھ حکمرانی کرتا رہا.جس نے دنیا میں شرق سے لے کر غرب تک ایک عظیم الشان روحانی انقلاب برپا کر دکھایا.منشائے خداوندی اور تقدیر الہی کے ماتحت اس جہانِ فانی سے ہمیشہ ہمیش کے لئے روپوش ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ نماز جنازہ سہ پہر کے وقت ۴ بجکر ۴۰ منٹ پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الثالث نے بہشتی مقبرہ کے وسیع وطویل احاطہ میں پڑھائی جس میں ربوہ کے مقامی احباب سمیت ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے قریب ۵۰ ہزار مومنوں نے شرکت کی سعادت حاصل کی.شمع احمدیت کے یہ پروانے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے وصال کی خبر سن کر کمال درجہ غم واندوہ ، اور بے تابی کے عالم میں اپنے جان و دل سے بڑھ کر عزیز آقا اور نہایت ہی مشفق و محسن اور عظیم روحانی باپ کے آخری دیدار کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے ملک کے کونہ کونہ سے دیوانہ وار کھینچے چلے آئے تھے.ان کی آمد کا سلسلہ نماز جنازہ شروع ہونے تک مسلسل جاری رہا.ہونٹوں پہ آہ سرد جبینوں پہ غم کی دھول آنکھوں میں سیل اشک چھپائے ہوئے چلا دن ڈھل چلا تو درد نصیبوں کا قافلہ کاندھوں پہ آفتاب اٹھائے ہوئے چلا آخری زیارت کا سلسلہ جو مورخہ ۸ نومبر بروز دوشنبه صبح ساڑھے سات بجے شروع ہوا تھا مورخہ ۹ نومبر کو اڑھائی بجے بعد دو پہر جنازہ اٹھانے کے وقت تک مسلسل ۳۱ گھنٹے جاری رہا کیونکہ آخر وقت تک احباب ریل گاڑیوں، موٹروں اور بسوں کے ذریعہ برابر ربوہ پہنچ رہے تھے.آخر جنازہ اٹھانے کے مقررہ وقت یعنی ۲:۳۰ بجے بعد دو پہر آخری زیارت کے سلسلہ کو مجبوراً بند کرنا پڑا اور آخری وقت میں پہنچنے والے بہت سے احباب کو آخری زیارت کے شرف سے محروم رہنا پڑا.اس موقعہ پر محرومِ دیدار احباب کی بے تابی اور اضطراب کی حالت قابل دید تھی وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے اور ڈیوٹی پر مقر را فراد کی منتیں کرتے بے حال ہوئے جا رہے تھے کہ انہیں اپنے جان و دل سے عزیز آقا
تاریخ احمدیت.جلد 23 157 سال 1965ء کے پُر نور اور مبارک چہرہ کی آخری بار ایک جھلک نصیب ہو جائے.ایسے احباب کو سمجھانے اور تسلی دینے میں کچھ وقت لگا اور جنازہ قصر خلافت سے (ظہر اور عصر کی باجماعت نمازوں کے بعد جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مسجد مبارک میں اکٹھی پڑھائیں ) ۲۰:۳۰ کی بجائے پونے تین بجے سہ پہر اٹھایا گیا.قصر خلافت کے اندر سے جنازہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائے اور چار پائی پر رکھا.جس کے ساتھ بہت لمبے لمبے بانس لگے ہوئے تھے تا کہ ہزاروں ہزار احباب بآسانی کندھا دینے کا شرف حاصل کر سکیں.جنازہ کے قصرِ خلافت کے اندر سے باہر آنے کے بعد احاطہ قصر خلافت میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدیدا انجمن احمدیہ کے ناظر و وکلاء صاحبان اور ہر دو انجمنوں کے دیگر ارکان، افسران صیغہ جات، مبلغین سلسلہ، ممبران انجمن احمد یہ وقف جدید، امرائے اضلاع، مجالس عاملہ انصار اللہ و خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اراکین اور غیر ملکی طلباء نے جنازہ کو کندھا دینے کا شرف حاصل کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بھی قصر خلافت کے احاطہ میں تمام وقت جنازہ کو کندھا دیا.جنازہ قصر خلافت کے غربی دروازہ سے محلہ دارالصدر غربی کی کوٹھیوں کی جانب سے باہر سڑک پر لایا گیا اور پھر نصرت گرلز ہائی سکول سے ملحق ٹیوب ویل والی سڑک پر پہنچا وہاں سے سیدھا دفاتر صدرانجمن اور تحریک کی درمیانی سڑک پر سے ہو کر بائیں جانب گول بازار میں سے گزرا اور فضل عمر ہسپتال کی بڑی سڑک پر سے ہوتا ہوا بہشتی مقبرہ پہنچا.نصف میل کے اس راستہ کو چار بلاکوں (صدر بلاک، رحمت بلاک، برکات بلاک اور یمن بلاک) میں تقسیم کر کے سڑک کے دونوں طرف احباب کو جماعت وار کھڑا کیا گیا تھا اور یہ تمام راستہ قطار وار کھڑے ہوئے انسانوں سے پٹا پڑا تھا.جنازہ کے آگے آگے حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد تھے.دور و یہ کھڑے ہوئے احباب اس حال میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے بلند آواز سے درود شریف پڑھتے جاتے تھے.اور جوں جوں جنازہ آگے بڑھتا جاتا تھا دو رویہ کھڑے ہوئے احباب ایک خاص نظام اور ترتیب کے ماتحت جنازہ کو کندھا دینے کی سعادت حاصل کرتے جاتے تھے.لوگوں کی بے پناہ کثرت اور ان کی وارفتگی کے باعث جنازہ کو بار بار روک کر اور ترتیب بحال کر کے آگے بڑھنا پڑتا تھا اس طرح نصف میل کا یہ فاصلہ پونے دو گھنٹوں میں طے ہوا.اس عرصہ میں ہزاروں ہزار افراد نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں لاکھ مرتبہ درود بھیجا اور مسلسل پونے دو گھنٹے
تاریخ احمدیت.جلد 23 158 سال 1965ء تک ربوہ کی فضا درود کی آوازوں سے گونجتی رہی.نماز جنازہ اور ایک عہد کی تجدید جنازہ کے بہشتی مقبرہ پہنچنے پر مقبرہ کے وسیع وعریض احاطہ میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں ربوہ کے مقامی احباب سمیت ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے قریباً پچاس ہزار افراد نے شرکت کی.صرف مردوں کی ہی لمبی لمبی ے ے صفیں بنیں.مستورات جو بہت کثیر تعداد میں بیرون جات سے ربوہ آئی تھیں.نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئیں البتہ انہوں نے اپنے آقا کے چہرہ مبارک کی آخری زیارت کا شرف حاصل کیا.صفوں کی ترتیب کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھانے سے قبل حضرت خلیفة المسیح الثانی کے جنازہ کے سامنے قبلہ رخ کھڑے ہوکر لاؤڈ سپیکر پر احباب جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:.میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے رب رؤوف کو گواہ بنا کر اس مقدس مونہہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے ایک عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سر بلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گے.اس موقع پر ہم اپنے ایک اور عہد کی تجدید بھی کرتے ہیں.اگر چہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں یہ بہشتی مقبرہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے ظل کی حیثیت سے ان تمام برکات کا حامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُس بہشتی مقبرہ کے ساتھ وابستہ کی ہیں لیکن حضرت اماں جان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ اولا د جو پنجتن کہلاتی ہے اور ان میں سے جو وفات یافتہ یہاں مدفون ہیں اور خاندان کے دوسرے وفات یافتہ افراد بھی جن کا مدفن اس مقبرہ میں ہے ہم ان کے تابوتوں کو مقدر وقت آنے پر قادیان واپس لے جائیں گے اور ان تمام امانتوں کو جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اولین وقت میں ان جگہوں پر پہنچا دیں گے جن کی طرف وہ حقیقی طور پر اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے اور جہاں انہیں پہنچانا ضروری ہے اور جس کا ہم نے عہد کیا ہوا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 159 سال 1965ء اس عہد کی تجدید کے وقت صفوں میں کھڑے ہوئے احباب پر ایسا رقت اور سوز و گداز کا عالم طاری ہوا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں اور انشاءاللہ انشاء اللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں.درد و سوز اور رقت کے عالم میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۴ بجگر ۴۰ منٹ پر نماز جنازہ پڑھائی.جس میں تکبیر تحریمہ سمیت چھ تکبیریں تھیں نماز کے دوران سوز و گداز کی حالت میں بعض احباب کی چیخیں نکل گئیں اور فضا ہچکیوں اور سسکیوں کی درد ناک آواز سے گونج اٹھی.بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین نماز کے بعد ۴ بجگر ۴۵ منٹ پر جنازہ حضرت اماں جان تو راللہ مرقدہا کے مزار اقدس کی چار دیواری کے اندر لے جایا گیا.چار دیواری کا احاطہ محدود ہونے کے باعث خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے علاوہ صرف ان احباب کو ہی جنہوں نے قصر خلافت کے احاطہ میں جنازہ کو کندھا دیا تھا جنازہ کے ہمراہ چار دیواری کے اندر جانے کی اجازت دی گئی.باقی ہزاروں ہزار افراد چار دیواری سے باہر بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں دعائیں کرتے اور درود شریف پڑھتے رہے کہ تابوت کو قبر کے اندرا تارنے میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث اور سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے دیگر فرزندان اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد اورصحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے علی الخصوص حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دیرینہ طبی خادم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے بھی حصہ لیا.بعد ازاں چار دیواری کے اندر موجود افراد نے لحد کومٹی دی جس کے بعد شام کو بجگر ۳۵ منٹ پر تد فین مکمل ہوئی.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے جسد اطہر کو حضرت اماں جان نوراللہ مرقدہا کے مزار اقدس کے پہلو میں جانب شرق دفن کیا گیا ہے.قبر تیار ہونے پر حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے ایک پُر سوز رقت آمیز دعا کرائی.یہ دعا بھی دردو سوز اور تضرع ابتہال کے لحاظ سے ایک خاص شان کی حامل تھی.(اس کے بعد ) ہزاروں ہزار سوگوار احباب ۲ بجگر ۴۰ منٹ پر بہشتی مقبرہ سے واپس ہوئے.108 6 ، مولا نا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے اپنے مؤقر جریدہ ” صدق جدید لکھنو میں ایک تجدید عہد کے زیر عنوان حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے نماز جنازہ سے قبل تجدید عہد کئے جانے کے واقعہ کو بیان کیا اور پھر یہ عہد شائع کرنے کے بعد اپنے قارئین سے ایک سوال کیا ہے جو یہ تھا کہ:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 160 سال 1965ء ”یہ تقریر جماعت احمدیہ ( قادیانی) کے نئے امام نے سابق امام کے جنازے کے سامنے لاؤڈ سپیکر پر کی.اس بحث میں نہ الجھئے کہ عہد لینے والا کون تھا اور اس کے عقیدے کیا ہیں اور کیا نہیں.نظر صرف اس پر جمائیے کہ خود یہ عہد کیسا ہے اور ہم کو اور آپ کو اس سے کوئی سبق ملتا ہے یا نہیں ؟ قادیان دارالامان میں اندوہناک خبر کی اطلاع اور نماز جنازہ 109 نومبر کی صبح قادیان دارالامان میں حضرت مصلح موعود کے وصال مبارک کی خبر سنتے ہی مقامی طور پر قادیان کے احمد یہ محلہ میں غم واندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے.اشکبار آنکھوں اور نمکین دلوں اور لڑکھڑاتے قدموں سے بھی اہالیان احمد یہ محلہ دار امیج میں محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہونے شروع ہو گئے.کچھ دیر بعد احباب جماعت کثیر تعداد میں مسجد مبارک میں جمع ہوئے.اس جانکاہ صدمہ کے سبب سبھی بے حال ہوئے جارہے تھے.محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ آگے بڑھے اور محراب میں کھڑے ہو کر بڑے ہی مؤثر اور دلنشیں انداز میں اس صدمہ عظیمہ پر احباب جماعت کو اسلامی صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھانے اور غیر معمولی دعاؤں پر زیادہ زور دینے اور کثرت سے استغفار کرنے کی طرف توجہ دلائی.رقت سے پُر بھتر ائی ہوئی آواز میں آپ نے حاضر الوقت احباب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا یہ وقت ہر انسان پر آنا ضروری ہے.آپ میں سے ہر شخص اپنے اُس گہرے روحانی تعلق کی وجہ سے اس صدمہ کی وجہ سے اندوہنگیں ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضور نے اپنے ا۵ سالہ دورِ خلافت میں جس طرح جماعت کے سروں پر ایک مشفق باپ کی طرح اپنا مبارک ہاتھ رکھا.اور ہر موقعہ پر جماعت کی بہترین رہنمائی فرمائی.وہ ایک کھلی کتاب ہے.آپ نے فرمایا جماعت کے ہر فرد کوحضورانور سے جو والہانہ عقیدت اور سچی محبت تھی وہ کسی پر پوشیدہ نہیں.مجھے اس کا احساس ہے.اور حضور کے ساتھ احباب جماعت کا یہ گہر ا روحانی تعلق ہی ہے کہ اب حضور کے مقدس وجود کو اپنے اندر نہ پا کر اور حضور کی جدائی سب پر شاق گزرتی ہے.آپ نے فرمایا اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنے سروں سے حضور کے بابرکت سایہ کے اٹھ جانے سے آج ہم اپنے تئیں گویا یتیم محسوس کرتے ہیں لیکن برگزیدہ اور باخدا روحانی جماعت کے افراد ہونے کی وجہ سے ہمارے دل اس یقین سے معمور ہونے چاہئیں کہ ہمارا زندہ خدا ہمیں ہمیشہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 161 سال 1965ء کے لئے یتیم نہیں رہنے دے گا.وہ اپنی خاص حکمتوں کے تحت ایسے افراد کو کھڑا کرتا چلا جائے گا جو جماعت کی صحیح قیادت کرتے چلے جائیں.اس لئے احباب جماعت کو سب سے پہلے تو اس صدمہ عظیمہ کو اعلیٰ درجہ کے اسلامی صبر کے ساتھ برداشت کرنا چاہیئے.بوجہ تقاضا فطرت بے شک اس وقت ہماری آنکھیں آنسو بہاتی ہیں.اور دل نہایت درجہ غمگین ہیں لیکن ہماری زبانوں پر کوئی ایسی بات یا کلمہ نہیں آنا چاہیئے جو اسلامی تعلیمات اور احمدیت کی روایات کے خلاف ہو اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے منافی ہو.آپ نے فرمایا دوسرے نمبر پر اس وقت ہمیں بہت زیادہ استغفار کرنا چاہیئے.اور خاص دعاؤں میں لگ جانا چاہیئے.کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی خاص راہنمائی فرمائے.اور جماعت کی صحیح قیادت کے سامان فرمائے.آپ نے فرمایا اس وقت جماعت پر نئے خلیفہ کے انتخاب کی ایک بھاری اور نازک اہم ذمہ داری آن پڑی ہے.دوست دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انتخاب میں حصہ لینے والوں کی اپنے فضل سے خود را ہنمائی فرمائے اور اس شخص کو سامنے لائے جو اس کی نظر میں موزوں اور اس اہم ذمہ داری کے قابل ہو.اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور جماعت کی وحدت کو قائم رکھے.محترم صاحبزادہ صاحب کی تقریر کے بعد حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار فرمایا.بعدہ ایک پُر سوز اجتماعی دعا کی گئی جس میں مردوں کے علاوہ مستورات اور بچوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی.مستورات مسجد مبارک کے شمالی طرف بیت الفکر اور دالان حضرت اماں جان میں جمع تھیں.نظارت علیا کی طرف سے ملک کی بڑی بڑی جماعتوں کو بذریعہ تار اس اندوہناک خبر سے آگاہ کیا گیا.بعد نماز عصر مسجد مبارک میں حضور کی نماز جنازہ غائب ادا کی گئی.ریڈیو پاکستان سے وفات ، نماز جنازہ اور تدفین کی اطلاعات 110 ریڈیو پاکستان نے ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو اپنے مختلف نیوز بلیٹوں میں چار مرتبہ حضرت مصلح موعود کی وفات کی اطلاع نشر کی اور اگلے روزنماز جنازہ اور تدفین کی بھی خبر نشر کی گئی.111
تاریخ احمدیت.جلد23 اہم شخصیات کے تعزیتی پیغامات 162 سال 1965ء حضرت مصلح موعود کے وصال پر نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کی اہم شخصیات نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث کے نام دلی ہمدردی اور تعزیت کے برقی یا تحریری پیغامات ارسال کئے جن میں سے چند بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں.صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا پیغام تعزیت Mirza Nasir Ahmad Sahib Rabwah I am grieved to learn of sad demise of Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad.May his soul rest in peace and God grant you and members of your family and his followers courage to bear this loss.Mohammad Ayub Khan ترجمہ مرزا ناصر احمد صاحب ربوہ مجھے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی افسوسناک وفات کی خبر سن کر سخت صدمہ پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی روح پر سکینت نازل فرمائے اور آپ کو اور آپ کے افراد خاندان کو اور مرزا صاحب مرحوم کے متبعین کو اس نقصان کے برداشت کرنے کا حوصلہ عطا کرے.محمد ایوب خان (صدر پاکستان) جناب ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان کا پیغام تعزیت Mirza Nasir Ahmad Rabwah Deeply grieved to learn of sad (demise) news of your revered father Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad.Please accept yourself and convey to other members of family and Ahmadia Community my heartfelt condolences and sympathies in this great loss.May the departed soul rest in peace.Malik Amir Mohammad Khan Governer West Pakistan
تاریخ احمدیت.جلد 23 163 سال 1965ء ترجمہ مرزا ناصر احمد.ربوہ آپ کے واجب الاحترام والد مرزا بشیر الدین محمود احمد کی افسوسناک وفات کی خبر سے مجھے شدید صدمہ ہوا.براہ کرم اس صدمہ عظیم پر میری طرف سے دلی تعزیت اور ہمدردی قبول فرما ئیں اور تعزیت اور ہمدردی کا یہ پیغام دوسرے افراد خاندان اور جماعت احمد یہ تک بھی پہنچا دیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کی روح پر سکینت نازل فرمائے.ملک امیر محمد خاں گورنر مغربی پاکستان 1 صدر لائبیریا ولیم وی ایس ٹب مین کا تعزیتی مکتوب 112 صدر لائبیریا نے انچارج لائبیریا مشن مبارک احمد صاحب ساقی کو حسب ذیل تعزیتی مکتوب لکھا:.” جناب ساقی صاحب! میں نے ابھی ابھی حضرت محمود احمد صاحب جماعت احمدیہ کے سربراہ کی وفات کے متعلق پڑھا.میں جماعت احمدیہ لائبیریا کو دلی تعزیت پیش کرتا ہوں اور ان کے روحانی سربراہ کی وفات پر گہری ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں.مہربانی کر کے میرے ان جذبات کو اپنے مرکز تک بھی پہنچادیں.آپ کا مخلص ولیم وی.الیس ٹب مین (صدرمملکت لائبیریا.مغربی افریقہ ) (حضور کے وصال کی خبر ریڈیولائبیریا پر تین بار ٹیلیویژن پر دو بار نشر کی گئی اور لائبیریا کے تمام روز ناموں میں یہ خبر اشاعت پذیر ہوئی.113 پاکستانی اخبارات میں سانحہ ارتحال اور جلیل القدر خدمات کا تذکرہ پاکستانی اخبارات نے سیدنا حضرت مصلح موعود کی رحلت کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.علاوہ ازیں تصاویر دے کر حضور کی گراں بہا دینی، قومی اور ملکی خدمات بالخصوص تحریک آزادی کشمیر اور قیام و استحکام پاکستان میں حضور کی زریں مساعی کا پوری فراخدلی سے تذکرہ کیا جیسا کہ درج ذیل فصیل سے معلوم ہوگا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ☆ 164 اخبار دی لیڈر کراچی ۸ نومبر ۱۹۶۵ء سال 1965ء THE LEADER MONDAY, NOVEMBER 8, 1965 "Mirza Bashiruddin Passes Away LAHORE Nov, 8: Mirza Bashiruddin, spiritual leader of the Ahmadi Community, died in Rabwah this morning, reports reaching here said.He was seriously ill for the last three weeks - PPA" مرزا بشیر الدین صاحب وفات پاگئے لاہور.۸ نومبر.موصولہ رپورٹس کے مطابق مرزا بشیر الدین صاحب ، احمد یہ جماعت کے روحانی پیشوا، آج صبح ربوہ میں وفات پاگئے.آپ گذشتہ تین ہفتوں سے شدید بیمار تھے.پی پی اے روزنامہ ڈان ۹ نومبر ۱۹۶۵ء Tuesday, November 9, 1965 DAWN "Head of Ahmadiyya community dies RABWAH.Nov 8: Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad, Head of the Ahmadiyya community, passed away here at 12:15 a.m.today after a protracted illness.He was 77.Members of the Ahmadiyya community are pouring in from all parts of Pakistan and from many foreign countries to pay their last homage to their departed leader.The body will be laid to rest tomorrow after the new chief has (been) named by the electoral college meeting here for the purpose." ربوہ.۸ نومبر.میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمد یہ آج صبح سوا بارہ بجے ایک
سال 1965ء 165 تاریخ احمدیت.جلد 23 لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے.آپ کی عمرے ۷ سال تھی.جماعت احمدیہ کے افراد پاکستان کے تمام حصوں اور متعدد بیرونی ممالک سے ربوہ پہنچ رہے ہیں تا کہ اپنے امام کو آخری خراج عقیدت پیش کر سکیں.آپ کو کل نئے خلیفہ کے انتخاب کے بعد دفن کیا جائے گا اور خلیفہ کے انتخاب کے لئے انتخاب خلافت کمیٹی کا اجلاس ہورہا ہے.جو مارننگ نیوز کراچی ۹ نومبر ۱۹۶۵ء Tuesday, November 9, 1965.Rajab 14, 1385.Ahmadiyya Chief Passes Away RABWAH, Nov.8: Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad, head of the Ahmadiyya sect passed away here early this morning after a protracted illness He was 77.Members of the Ahmadiyya community are pouring in from all parts of Pakistan and from many foreign countries to pay their last homage to their departed leader.The body will be laid to rest tomorrow after the new Chief (has been) named by the electoral college meeting here for the purpose.AYUB'S MESSAGE President Mohammad Ayub Khan in a condolence message to Mirza Nasir Ahmad has said: "I am grieved to learn of the sad demise of Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad.May his soul rest in peace and God grant you and members of your family and his followers courage to bear this loss".Late Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad was born at Qadian (India), the pre-independence headquarters of the Ahmadiyya movement in Januray 1889.He has left behind 13.
تاریخ احمدیت.جلد 23 166 سال 1965ء sons and 9 daughters besides over 3 million followers and a network of missions all over the world according to a Press release of the Ahmadiyya Jamaat here.114 وو ترجمہ: جماعت احمدیہ کے سربراہ وفات پاگئے ر بوه ۸ نومبر: احمدیہ فرقہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد آج صبح یہاں لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے.آپ کی عمرے ۷ سال تھی.احمد یہ فرقہ کے ارکان پاکستان کے ہر گوشہ سے اور متعدد بیرونی ممالک سے اپنے جدا ہونے والے سر براہ کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بڑی تعداد میں یہاں آرہے ہیں.آپ کا جسد خاکی کل نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد دفنایا جائے گا.اس غرض کے لئے انتخاب خلافت کمیٹی کا اجلاس یہاں منعقد ہو رہا ہے.صدر ایوب کا پیغام صدر مملکت محمد ایوب خان صاحب نے ایک تعزیتی پیغام میں مرزا ناصر احمد صاحب کو لکھا ہے:.مجھے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی وفات حسرت آیات کا سن کر سخت صدمہ پہنچا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی روح کو امن عطا کرے اور خدا تعالیٰ آپ کو اور آپ کے افراد خاندان کو اور مرزا صاحب مرحوم کے متبعین کو اس نقصان کے برداشت کرنے کا حوصلہ عطا کرے“.احمد یہ جماعت کے پریس ریلیز کے مطابق مرزا بشیر الدین محمود احمد مرحوم جماعت احمدیہ کے آزادی سے پہلے کے مرکز قادیان ( انڈیا ) میں جنوری ۱۸۸۹ ء میں پیدا ہوئے.آپ نے اپنے بعد تیرہ بیٹوں ، نو بیٹیوں کے علاوہ تمہیں لاکھ سے زائد متبعین اور دنیا بھر میں احمد یہ مشنوں کا ایک جال چھوڑا ہے.“ حميد اخبار امروز ۹ نومبر ۱۹۶۵ء: مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے لا ہور.۸ نومبر.جماعت احمدیہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد آج صبح ربوہ میں انتقال کر گئے.انہیں کل صبح دس بجے جماعت کے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد ر بوہ میں دفن کیا جائے گا.انتقال کے وقت مرزا صاحب کی عمرےے برس تھی وہ ۱۹۱۴ء میں اپنی جماعت کے خلیفہ مقرر
تاریخ احمدیت.جلد 23 167 سال 1965ء ہوئے وہ دو مرتبہ یورپ بھی گئے.انہوں نے افریقہ یورپ اور امریکہ میں جماعت کی طرف سے تبلیغی مشن قائم کرنے میں گہری دلچسپی لی.انہوں نے دوسرے ملکوں میں ۹۶ مشن قائم کئے.اس وقت تک جماعت کی طرف سے ۵۲ امشن قائم کئے جاچکے ہیں.انہوں نے ۱۹۲۲ء میں شدھی تحریک کی مخالفت کی اور آریہ سماجیوں کے خلاف مناظرے کئے.۱۹۳۱ء میں کل ہند کشمیر کمیٹی کی قیادت کی.تحریک پاکستان میں مسلم لیگ کا ساتھ دیا اور ۱۹۴۸ء میں احمدی رضا کاروں کی ایک بٹالین تیار کر کے کشمیر میں لڑنے کے لئے بھیجی ان کے ماننے والوں کی تعداد میں لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور دنیا میں ۲۹۱ مساجد تعمیر کرنے کے علاوہ تبلیغی اداروں کا جال پھیلایا.ان کی جماعت نے کلام پاک کا جرمن ولندیزی، انڈونیشین اور سواحیلی زبان کے علاوہ اور کئی زبانوں کے ترجمے شائع کئے.ان کی جماعت کے ارکان ان کے جنازے میں شریک ہونے کے لئے پاکستان کے مختلف حصص اور بیرونی ملکوں سے ربوہ پہنچ رہے ہیں.“ اخبار مشرق ۹ نومبر ۱۹۶۵ء: ”مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے صدر کی طرف سے اظہار تعزیت راولپنڈی، پیر.صدر ایوب خان نے جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد کے انتقال پر تعزیت کا اظہار کیا ہے انہوں نے مرحوم کے بیٹے مرزا ناصر احمد کے نام ایک پیغام میں دعا کی ہے کہ خدا مرحوم کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.مرزا بشیر الدین محمود احمد کا انتقال اتوار کو رات کے دو بجگر میں منٹ پر ہوا تھا.وہ سپٹی سیمیا کے عارضہ میں مبتلا تھے اور گذشتہ تین روز سے ان کی حالت تشویشناک تھی.مرحوم کی رسم تدفین منگل کی صبح کور بوہ میں ادا کی جائے گی.اس سے قبل جماعت احمدیہ کے نئے خلیفہ کا انتخاب عمل میں آئے گا.مرزا بشیر الدین ۵۱ سال تک جماعت کے سربراہ رہے ہیں انہوں نے ۷۶ سال کی عمر میں انتقال کیا ہے.ان کی وفات کی خبر سن کر احمد یہ فرقہ کے ارکان بڑی تعداد میں ربوہ پہنچنا شروع ہو گئے ہیں.غیر ممالک سے بھی احمدی پاکستان پہنچ رہے ہیں.“ لیا نوائے وقت لاہور ۹ نومبر ۱۹۶۵ء: احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے
تاریخ احمدیت.جلد 23 168 سال 1965ء لاہور ۸ نومبر.احمدیہ فرقہ کے مذہبی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد کا آج صبح ربوہ میں انتقال ہو گیا.آپ عرصہ دراز سے بیمار تھے آپ کی عمرےے سال تھی اور آپ کی تدفین ربوہ میں کل ہوگی.احمد یہ فرقہ کے نئے مذہبی سربراہ کے انتخاب کے لئے ربوہ میں انتخابی کونسل کا اجلاس ہو رہا ہے اور نئے سربراہ کا انتخاب مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تدفین سے پہلے کیا جائے گا.آپ کو ۱۹۱۴ء میں جماعت کا سر براہ منتخب کیا گیا تھا.آپ نے ساری دنیا میں بالعموم اور افریقہ یورپ اور امریکہ میں بالخصوص احمد یہ مشن کھولے اس سلسلہ میں آپ دو مرتبہ خود یورپ گئے.آپ نے کل ۹۶ مشن قائم کئے یہ مشن افریقہ کے مغربی ساحل کے ملکوں میں خصوصیت سے عیسائی مشنوں کے مقابلے میں کام کر رہے ہیں.تحریک پاکستان کے دوران مرحوم مرزا بشیر الدین محمود نے مسلم لیگ کی حمایت کی.۱۹۲۲ء میں آریہ سماجیوں نے یوپی میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم شروع کی تو مرزا صاحب نے ارتداد کو روکنے کے لئے کافی کام کیا.آپ نے قرآن پاک کا ایک درجن سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرایا.جن میں ڈچ ، جرمن، انڈونیشین اور سواحیلی شامل ہیں.آپ ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر بھی تھے.۱۹۴۸ء میں آپ نے جہاد کشمیر میں حصہ لینے کے لئے رضا کاروں کی فرقان بٹالین تیار کر کے ہائی کمان کے سپردکر دی.مرزا بشیر الدین محمود احمد کے جنازہ میں شرکت کے لئے احمد یہ فرقہ کے لوگ ربوہ پہنچ رہے ہیں ان میں سے کئی سمندر پار ملکوں سے آرہے ہیں.“ ہ ہر پاکستان ٹائمنر لاہور ۹ نومبر ۱۹۶۵ء: امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد سوموار کی صبح کو ربوہ میں ایک لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئے.آپ کی عمرے ے سال تھی.آپ کو منگل کو صبح دس بجے ربوہ میں ہی دفن کیا جائے گا.آپ کی تدفین سے قبل انتخاب خلافت کمیٹی کا اجلاس منعقد ہو گا.جس میں نئے خلیفہ کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا.ربوہ سے موصول ہونے والی اطلاع سے مظہر ہے کہ جماعت احمدیہ کے افراد پاکستان کے تمام حصوں سے بہت بڑی تعداد میں ربوہ میں اپنے جدا ہونے والے امام کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پہنچ رہے ہیں.مرزا بشیر الدین محمود احمد کو ۱۹۱۴ء میں خلیفہ منتخب کیا گیا تھا آپ نے تمام دنیا میں اور خاص طور پر افریقہ، یورپ اور امریکہ میں مشن کھولے اس سلسلہ میں آپ نے دو دفعہ یورپ کا دورہ بھی کیا آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 169 سال 1965ء نے بیرونی ممالک میں ۹۶ مشن قائم کئے اور اب ان کی تعداد ۱۵۲ ہوگئی ہے.جماعت احمدیہ کے مشن کو افریقی ممالک میں اور خاص طور پر مغربی ساحل پر بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے.جہاں پر انہیں عیسائی منادوں کی شدید مخالفت کے مقابلہ میں بڑی جانفشانی سے کام کرنا پڑا ہے.جبکہ تحریک پاکستان اپنے پورے زور پر تھی تو مرزا صاحب نے مسلم لیگ کی پُر زور تائید کی.اس سے قبل ۱۹۲۲ء میں آپ نے آریہ سماج کی طرف سے شدھی تحریک کی جو مسلمانوں کو بڑی تعداد میں ہندو بنانے کے لئے یوپی کے علاقہ میں بڑے زور سے شروع کی گئی تھی.بڑی جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا.قرآن کریم کی تقریباً ایک درجن سے زائد زبانوں میں تراجم اور تفاسیر کے علاوہ آپ نے اپنے بعد علمی لٹریچر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے.“ روزنامہ جنگ راولپنڈی ۹ نومبر ۱۹۶۵ء: لا ہور ۸ نومبر.احمدیہ فرقے کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ربوہ میں آج صبح وفات پاگئے.ان کی عمرے ۷ سال تھی.وہ تین ہفتے سے بیمار تھے ان کو کل دفنانے سے پہلے ربوہ میں احمدیہ فرقے کا انتخابی ادارہ ان کی جگہ فرقے کے نئے خلیفہ کا انتخاب کرے گا.بشیر الدین محمود احمد کو ۱۹۱۴ء میں خلیفہ منتخب کیا گیا تھا انہوں نے افریقہ یورپ اور امریکہ میں احمدیہ فرقے کے مشن قائم کئے اس سلسلے میں انہوں نے دو مرتبہ یورپ کا سفر بھی کیا تھا غیر ممالک میں انہوں نے جو احمد یہ مشن قائم کئے تھے ان کی کل تعداد ۹۶ سے ۱۵۲ تک پہنچ چکی ہے.احمد یہ مشن کو خاص طور پر افریقہ کے مغربی ساحلی علاقوں میں کافی کامیابی ہوئی.جہاں انہوں نے عیسائی مشنریوں کی زبر دست مخالفت کی موجودگی میں بڑی محنت سے کام کیا.تحریک پاکستان کے دوران مرزا صاحب نے اپنی جماعت کی پوری طاقت مسلم لیگ کے ساتھ شامل کر دی.۱۹۲۲ء کے دوران یوپی میں انہوں نے ہندوؤں کی شدھی تحریک کے چیلنج کا مقابلہ کیا شدھی تحریک کے تحت بہت سے مسلمانوں کو آریہ سماجیوں نے ہندو بنانا شروع کر دیا تھا.مرزا صاحب کی نگرانی میں ایک درجن سے زیادہ غیر ملکی زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم ہوئے اور تفسیر میں لکھی گئیں.ان زبانوں میں ڈچ، جرمن، انڈونیشین اور سواحیلی بھی شامل ہیں.انہوں نے ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی سربراہی بھی کی.انہوں نے کشمیر کی جنگ آزادی میں حصہ لینے کے لئے ۱۹۴۸ء میں احمد یہ رضا کاروں کی ایک پوری بٹالین تیار کی اور بلا معاوضہ اس کی خدمات تحریک کی ہائی کمان کے سپرد کر دیں.مرزا صاحب نے اپنے پیچھے قریباً ۳۰لاکھ عقیدتمند، بیسیوں مشن
تاریخ احمدیت.جلد 23 170 سال 1965ء اور تمام دنیا میں ۲۹۱ مساجد چھوڑی ہیں.اپنے خلیفہ کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پاکستان اور دنیا کے مختلف حصوں سے ان کے پیرور بوہ میں جمع ہورہے ہیں.“ روزنامه حریت کراچی ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء: ”مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے لاہور ۸ نومبر (اے پی پی+ پی پی اے) جماعت احمدیہ کے راہنما مرزا بشیر الدین محمود احمد کا گذشتہ رات ربوہ میں ۲ بجکر ۲۰ منٹ پر انتقال ہو گیا.وہ پانچ چھ سال سے علیل تھے اور پچھلے دو تین ہفتے سے ان کی طبیعت زیادہ خراب تھی.۷۷ سالہ مرزا بشیر الدین محمود جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے بیٹے اور جماعت کے دوسرے خلیفہ تھے وہ مرزا صاحب کے پہلے خلیفہ حکیم نورالدین کی وفات پر ۴ ۱ مارچ ۱۹۱۴ء میں خلیفہ دوم منتخب ہوئے تھے.احمد یہ جماعت کے اراکین انتقال کی خبر سن کر پاکستان کے گوشے گوشے سے اور بیرونی ملکوں سے ربوہ پہنچ رہے ہیں تا کہ اپنے مرحوم را ہنما کا آخری دیدار کر سکیں.مرزا صاحب کو کل فرقے کے نئے راہنما کے انتخاب کے بعد سپرد خاک کیا جائے گا.جماعت کی مجلس شوریٰ کا اجلاس اس کا انتخاب کرے گی.انہوں نے بیرونی ملکوں میں احمدیہ فرقے کی نشر و اشاعت کے لئے جو مراکز قائم کئے تھے ان کی تعداد ۹۶ اور مشنریوں کی تعداد ایک سو باسٹھ ہے.ہزاروں عورتیں، بچے اور مرد مرزا صاحب کے آخری دیدار اور ان کی تجہیز وتکفین میں شرکت کے لئے ربوہ پہنچ رہے ہیں.علالت شدید ہو جانے کی خبر سن کر ہی بہت سے معتقدین ربوہ روانہ ہو گئے تھے.مرزا صاحب کی نماز جنازہ کل صبح دس بجے بہشتی مقبرہ گراؤنڈ میں ہوگی.یہیں انہیں سپردخاک کیا جائے گا.نماز جنازہ احمدیہ جماعت کے نئے قائد پڑھائیں گے جن کا انتخاب آج رات کیا جائے گا.مرزا صاحب نے تیرہ بیٹے اور نو بیٹیاں چھوڑی ہیں.روز نامہ جنگ کراچی، انومبر ۱۹۶۵ء: احمدیہ فرقے کے پیشوا مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے آج صبح انہیں ربوہ میں دفن کیا جائے گا.آج ہی نئے پیشوا کا اعلان کر دیا جائیگا.لاہور ۸ نومبر ( پ پا.اپپ) احمدی فرقہ کے مذہبی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد کل رات
تاریخ احمدیت.جلد 23 171 سال 1965ء سوا بارہ بجے ربوہ میں انتقال کر گئے.وہ گزشتہ تین ہفتوں سے بیمار تھے ان کی عمرے ۷ سال تھی.انہیں کل صبح ربوہ میں دفن کیا جائے گا.تمام دنیا میں مرحوم کے ۳۰ لاکھ معتقدین ہیں اور ان کے مبلغوں اور داعیوں کا جال بچھا ہوا ہے.پاکستان کے کونہ کونہ اور دنیا کے مختلف حصوں سے احمدی اپنے مرحوم رہنما کی تجہیز و تکفین میں شرکت کے لئے بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے ہیں.ان کی تدفین سے پہلے فرقہ کے نئے رہنما کا نام اعلان کیا جائے گا.اس مقصد کے لئے احمدیوں کی مجلس انتخاب کا اجلاس شروع ہو گیا ہے.مرزا بشیر الدین محمود نے جو ۱۹۱۴ء میں اپنے فرقہ کے خلیفہ منتخب کئے گئے تھے بڑی پُر مشقت زندگی گزاری.انہوں نے یورپ، امریکہ اور افریقہ میں خاص طور پر زبر دست تبلیغی مساعی کیں اور اس مقصد کے لئے دوبار مغربی ممالک کا دورہ بھی کیا.احمد یہ تبلیغی وفود کو افریقہ کے مغربی ساحل پر واقع ممالک میں خاصی کامیابی بھی ہوئی.مرزا صاحب نے اپنی یادگار کے طور پر خاص مذہبی لٹریچر چھوڑا ہے.انہوں نے سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.۱۹۲۲ء میں انہوں نے یوپی میں آریہ سماجیوں کی شدھی سنگھٹن تحریک کا مقابلہ کیا اور ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور ۱۹۴۸ء کی تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے کے لئے احمد یہ رضا کاروں کی ایک بٹالین کی خدمات حکومت کو پیش کیں.مرحوم کی نماز جنازہ کل صبح بہشتی مقبرہ گراؤنڈ میں ہوگی اور انہیں ۱۰ بجے کے قریب وہیں دفن کیا جائے گا.نماز جنازہ ان کے جانشین پڑھائیں گے.مرزا صاحب جنوری ۱۸۸۹ء میں قادیان میں پیدا ہوئے تھے انہوں نے اپنے پسماندگان میں تیرہ بیٹے اور ۹ بیٹیاں چھوڑی ہیں.ڈھا کہ میں آج انجمن احمد یہ ڈھا کہ تیچگاؤں اور نرائن گنج کا ایک اجلاس ہوا جس میں احمدیوں کے مذہبی رہنما مرزا بشیر الدین محمود کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور پسماندگان سے دلی ہمدردی کا اظہار کیا گیا.“ روزنامه انجام“ کراچی مورخه انومبر ۱۹۶۵ء: احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا بشیر الدین محمود انتقال کر گئے ۵۱ سال تک احمدی فرقہ کی قیادت کی ،۷۷ سال کی عمر میں وفات ربوہ ۸ نومبر ( پ پ + پ پ 1) کل نصف شب کے بعد ۲ بجکر ۲۰ منٹ پر جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد ے ے سال کی عمر میں وفات پاگئے وہ ایک عرصہ سے سخت علیل تھے.احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستان کے مختلف علاقوں اور بعض دوسرے ممالک سے بھی
تاریخ احمدیت.جلد 23 172 سال 1965ء یہاں پہنچ رہے ہیں تا کہ اپنے امام جماعت کی آخری رسوم میں شریک ہوسکیں.جماعت کے نئے سربراہ کے انتخاب کے بعد کل مرزا بشیر الدین کو سپردخاک کر دیا جائیگا.وہ جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے اور جماعت کے خلیفہ ثانی تھے وہ خلیفہ اول حافظ حاجی حکیم نورالدین کی وفات پر ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو خلیفہ دوئم منتخب ہوئے تھے.اس طرح انہوں نے مسلسل ۵۵ سال احمدی فرقے کی قیادت کی اس وقت اس فرقے کے پیروکار ساری دنیا خاص طور پر افریقہ، یورپ اور امریکہ میں موجود ہیں جن کی تعداد تقریباً تمیں لاکھ بتائی جاتی ہے مرزا بشیر الدین نے اپنی کوششوں سے ۲۹۱ احمدی مساجد بھی قائم کی ہیں.وہ کئی کتابوں کے مصنف، اچھے مقرر اور شاعر تھے.جماعت احمدیہ کے ایک پریس ریلیز کے مطابق انہوں نے تحریک آزادی کشمیر میں نمایاں خدمات انجام دیں وہ ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے صدر تھے.پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا ہے کہ مرزا بشیر الدین نے قیام پاکستان کی تحریک میں بھی نمایاں حصہ لیا.یوپی میں اوائل ۱۹۲۲ء میں آریہ سماج نے جب شدھی تحریک چلا رکھی تھی اس وقت انہوں نے اس تحریک کو کچلنے میں بھی کافی سرگرم حصہ لیا.مرزا بشیر الدین کی نماز جنازہ بہشتی مقبرہ گراؤنڈ میں کل صبح دس بجے پڑھائی جائے گی اور وہیں انہیں دفن کیا جائے گا.نماز جنازہ منتخب خلیفہ سوم پڑھائیں گے.صدر محمد ایوب خان نے مرزا بشیر الدین کی وفات پر مرزا نصیر ( ناصر ) احمد کو ایک تعزیتی پیغام بھیجا ہے جس کا متن حسب ذیل ہے مجھے مرزا بشیر الدین محمود کی وفات پر صدمہ پہنچا ہے اللہ انہیں سکون عطا کرے خدا آپ کو ، ان کے پسماندگان کو اور پیروکاروں کو صبر جمیل عطا کرے.“ ہ نئی روشنی کراچی، انومبر ۱۹۶۵ء: لاہور 9 نومبر.احمدیہ فرقے کے پیشوا مرزا بشیر الدین محمود کو آج صبح ربوہ میں سپرد خاک کر دیا گیا.مرحوم کے جنازے میں شرکت کے لئے دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے معتقدین آئے تھے.مرزا بشیر الدین محمود نے جو ۱۹۱۴ء میں اپنے فرقہ کے خلیفہ منتخب کئے گئے تھے بڑی پر مشقت زندگی گزاری.انہوں نے یورپ امریکہ اور افریقہ میں خاص طور پر زبر دست تبلیغی مساعی کیں اور اس مقصد کے لئے دو بار مغربی ممالک کا دورہ بھی کیا.احمدیہ تبلیغی سینٹ کو افریقہ کی مغربی ساحل پر واقع ممالک میں خاصی کامیابی بھی ہوئی.مرزا صاحب نے اپنی یادگار کے طور پر خاص مذہبی لٹریچر چھوڑا ہے.انہوں نے سیاسی تحریکوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.۱۹۲۲ء میں انہوں نے یوپی میں آریہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 173 سال 1965ء سماجیوں کی شدھی سنگھٹن تحریک کا مقابلہ کیا اور ۱۹۳۱ء میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی قیادت کی اور ۱۹۴۸ء کی تحریک آزادی کشمیر میں حصہ لینے کے لئے احمد یہ رضا کاروں کی ایک بٹالین کی خدمات حکومت کو پیش کیں.مرحوم مرزا بشیر الدین محمود کے فرزند اکبر مرز نصیر الدین ( ناصر ) احمد کو کل رات احمدیوں کا نیا خلیفہ منتخب کیا گیا.مرزا نصیر (ناصر) احمد جو مرزا غلام احمد کے پوتے ہیں ۱۵ نومبر ۱۹۰۹ء کو پیدا ہوئے.انہوں نے آکسفورڈ سے ایم اے کیا.مرزا بشیر الدین محمود مرحوم کی نماز جنازہ ربوہ میں آج صبح ہوئی.صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے مرزا بشیر الدین محموداحمد کے صاحبزادے کو مندرجہ ذیل تعزیتی پیغام ارسال کیا ہے.مرزا بشیر الدین محمود احمد کی وفات کی خبر سن کر مجھے دلی صدمہ پہنچا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی روح کو سکون اور آپ کو آپ کے متعلقین کو اور ان کے پیروؤں کو اس عظیم نقصان کو برداشت کرنے کی ہمت اور قوت عطا فرمائے.“ روزنامہ مشرق لاهوره انومبر ۱۹۶۵ء : مرزا بشیر الدین محمود کور بوہ میں سپردخاک کر دیا گیا جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود کو کل بعد نماز عصر ربوہ کے بہشتی مقبرہ میں ان کی والدہ کے پہلو میں امانتا سپر د خاک کر دیا گیا.نماز جنازہ میں پچاس ہزار افراد نے شرکت کی.یہ لوگ اپنے روحانی پیشوا کی آخری زیارت کے لئے پاکستان کے ہر خطے سے آئے ہوئے تھے.بہت سے حضرات غیر ممالک سے یہاں پہنچے تھے.مرزا صاحب نے یہ وصیت کی تھی کہ جب بھی موقع ملے ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ قادیان (مشرقی پنجاب) میں دفن کیا جائے چنانچہ انہیں ربوہ میں امامتنا دفن کیا گیا ہے.مرزا بشیر الدین محمود کی تجہیز و تکفین کی رسومات میں شرکت کے لئے سوگوار احمدیوں کی آمد کا سلسلہ پیر کی صبح سے ہی شروع ہو گیا تھا.اور جنازہ کے وقت تک آنے والوں کا تانتا بندھا رہا.تدفین کے لئے منگل کی صبح دس بجے کا وقت مقرر تھا لیکن مشرقی پاکستان اور غیر ممالک سے آنے والے احمدیوں کے انتظار میں تدفین میں تاخیر ہوتی رہی اور بالآخر عصر کے بعد تد فین ہوئی.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ۵۱ سال بعد یہ مرحلہ آیا کہ وہ اپنے رہنما سے محروم ہوگئی اور اسے نئے رہنما کے انتخاب کا مسئلہ در پیش آیا.بانی جماعت مرزا غلام احمد کی وفات کے بعد پہلے خلیفہ مولوی نورالدین منتخب ہوئے تھے.وہ اپنی وفات تک چھ سال اسی منصب پر رہے.ان کے بعد مرزا غلام احمد
تاریخ احمدیت.جلد 23 174 سال 1965ء کے بڑے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود ۱۹۱۴ء میں خلیفہ ثانی منتخب ہوئے.اب سے چند سال قبل جب مرزا صاحب کی صحت خراب ہوئی تو انہوں نے اپنے جانشین کے انتخاب کے لئے قواعد وضوابط مرتب کر دیے تھے.احمد یہ جماعت کی مجلس شوری نے ۱۹۵۷ء میں ان قواعد وضوابط کی منظوری دے دی تھی.احمد یہ جماعت کی مجلس انتخاب خلافت کا کل رات ربوہ میں اجلاس جس میں ۳۸۲ میں سے ۲۰۵ ارکان شریک ہوئے ( یہ اعداد و شمار درست نہیں.اصل تعداد ۲۴ تھی جس میں سے ۲۰۶ رارکان حاضر تھے.ملاحظہ ہو الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۵ء) جوار کان مجلس کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکے ان میں سے بیشتر غیر ملکی ارکان ہیں.یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے دوامیدوار تھے.اکثریت نے مرزا ناصر احمد کو ووٹ دیا.یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دوسرا نام کس کا تھا.“ (نوٹ: اخبار کی خبر میں دو امیدوار لکھنا درست نہیں ہے.مجلس انتخاب خلافت کمیٹی میں کوئی بھی امیدوار نہیں ہوتا.کمیٹی کے ممبران اپنے نام کے سوا کسی دوسرے کا نام تجویز کرتے ہیں.) ہے د تعمیر راولپنڈی.۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء: لا ہور ۸ نومبر.احمد یہ فرقہ کے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا آج صبح ربوہ میں انتقال ہو گیا ان کی عمرے سے سال تھی وہ کافی عرصہ سے علیل تھے انہیں کل ربوہ میں سپر د خاک کیا جائے گا.وہ ۱۹۱۴ء میں احمدیہ فرقہ کے خلیفہ منتخب ہوئے تھے.انہوں نے دنیا کے بیشتر ممالک اور خاص طور پر افریقہ، یورپ اور امریکہ میں احمدیہ مشن قائم کئے.اس سلسلہ میں انہوں نے دوبار یورپ کا دورہ کیا.انہوں نے بیرونی ممالک میں ۹۶ احمد یہ مشن قائم کئے اور اس طرح دنیا بھر میں احمدیہ مشنوں کی کل تعدا د۱۵۲ تک پہنچ گئی ہے.انہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ۱۹۳۱ء میں شدھ تحریک کی سخت مخالفت کی تھی.انہوں نے قرآن پاک کا ایک درجن سے زائد زبانوں میں ترجمہ کیا.اور اس کے علاوہ بھاری تعداد میں گرانقدر ادبی سرمایہ چھوڑا.اس کے علاوہ انہوں نے ۱۹۴۸ء میں کشمیر میں لڑنے کے لئے احمد یہ رضا کاروں کی ایک بٹالین تیار کی تھی.پاکستان اور دنیا کے بیشتر ممالک سے جماعت کے ارکان اپنے امام کو آخری خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے بڑی تعداد میں ربوہ پہنچ رہے ہیں.“ ہو نوائے وقت.۱۰نومبر ۱۹۶۵ء: مشہور کالم نویس مش ( محمد شفیع ) لاہور کی ڈائری میں لکھتے ہیں:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 175 سال 1965ء ےے سال کی عمر میں ربوہ (مغربی پاکستان) میں سوموار کی صبح کو مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کے انتقال سے تاریخ احمدیت کا ایک دور ختم ہو گیا.ان کی جگہ ان کے سب سے بڑے بیٹے ۵۶ سالہ مرزا ناصر احمد کو جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں ، جماعت کا تیسرا خلیفہ منتخب کیا گیا ہے.انتقال سے بہت عرصہ پہلے خلیفہ دوم نے خلیفہ سوم کے انتخاب کیلئے ایک انتخابی ادارہ قائم کر دیا تھا، جس میں بانی سلسلہ احمدیہ کے خاندان کے افراد کے علاوہ صدر انجمن کے عہدہ دار اور اضلاعی شاخوں کے امیر شامل تھے ، ایک مقامی روز نامہ کی اطلاع کے مطابق مقابلہ دو امیدواروں میں تھا.(نوٹ: خاندان سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حقیقی بیٹے تھے جو انتخاب خلافت ثالثہ کے وقت وفات پاچکے تھے.) مرزا بشیر الدین محمود احمد نے ۱۹۱۴ء میں خلافت کی گدی پر متمکن ہونے کے بعد جس طرح اپنی جماعت کی تنظیم کی اور جس طرح صدر انجمن احمدیہ کو ایک فعال اور جاندار ادارہ بنایا اس سے ان کی بے پناہ تنظیمی قوت کا پتہ چلتا ہے.اگر چہ ان کے پاس کسی یو نیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی لیکن انہوں نے پرائیویٹ طور پر مطالعہ کر کے اپنے آپ کو واقعی علامہ کہلانے کا مستحق بنالیا تھا.انہوں نے ایک دفعہ ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا.میں نے انگریزی کی مہارت ”سول اینڈ ملٹری گزٹ“ کے با قاعدہ مطالعہ سے حاصل کی.ان کے ارشاد کے مطابق جب تک یہ اخبار خواجہ نذیر احمد کے دور ملکیت میں بند نہیں ہو گیا.انہوں نے اس کا با قاعدہ مطالعہ جاری رکھا.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے اپنی عمر میں سات شادیاں کیں.جن سے ۲۳ بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہوئے.وہ تعدد ازدواج کے زبر دست حامی تھے.اور سالانہ جلسہ کے موقع پر عورتوں اور مردوں کے اجتماع میں کھلے بندوں تعدد ازدواج کی ضرورت اور اہمیت بیان کرتے تھے.مرزا صاحب ایک نہایت سلجھے ہوئے مقر ر اور منجھے ہوئے نثر نگار تھے اور ہر ایک موقع کو بلا دریغ استعمال کرتے تھے جس سے جماعت کی ترقی کی راہیں کھلتی ہوں.جماعتی نقطہ نگاہ سے ان کا یہ ایک بڑا کارنامہ تھا کہ تقسیم برصغیر کے بعد جب قادیان ان سے چھن گیا تو انہوں نے ربوہ میں دوسرا مرکز قائم کر لیا ان کا یہ یقین واثق تھا کہ فتح کے ذریعے انہیں ان کا مرکز اول یعنی قادیان مل کر رہے گا.یہ ایک وجہ تھی کہ نہ تو خود انہوں نے اور نہ ان کی جماعت کے لوگوں نے قادیان کے مکانوں کے کلیم داخل کئے.“
تاریخ احمدیت.جلد 23 176 سال 1965ء مشرق.۱۰نومبر ۱۹۶۵ء: میں نے ربوہ میں کیا دیکھا کے زیر عنوان مشرق کے وقائع نگار خصوصی نے لکھا:.تالمود میں یہ پیشگوئی آئی ہے کہ مسیح کا جب دوبارہ ظہور ہوگا تو اس کے بعد ہی اس کا بیٹا خلیفہ بنے گا اور پھر اس کے بعد مسیح موعود کا پوتا خلیفہ بنے گا.یہ بات جماعت احمدیہ کے ایک رکن نے میرے اس سوال کے جواب میں کہی کہ مرزا بشیر الدین محمود کے انتقال کے بعد کسی شخص کے خلیفہ منتخب ہونے کا امکان ہے.کون کون حضرات امیدواروں میں شامل ہیں.انہوں نے واضح جواب دینا مناسب خیال نہیں کیا.کہنے لگے ہمارے ہاں کوئی امیدوار نہیں ہوتا.اور پھر وہ انتخاب کے پیچیدہ ضوابط بیان کرنے لگے.میں نے پھر اصرار کیا کہ آخر لوگوں کے ذہن میں کچھ نام تو ہوں گے، جن میں سے کوئی ایک منتخب ہو جائے گا ؟ انہوں نے کہا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا.البتہ تالمود میں یہ پیشگوئی آئی ہے کہ “ اور اس پیشگوئی کی تعبیر یوں نکلی کہ اس گفتگو کے دو گھنٹے بعد ی مجلس انتخاب کا اجلاس ختم ہوا تو احمد بیت کے بانی مرزا غلام احمد کے پوتے مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث منتخب ہو چکے تھے.اس اجلاس کی روئداد منظر عام پر نہیں لائی گئی.کیونکہ بعد میں جب فرقے کے عام لوگ اپنے نئے خلیفہ کی بیعت کے لئے جمع ہوئے تو صرف اتنا اعلان کیا گیا کہ خلیفہ کے انتخاب کے جو قواعد مرزا بشیر الدین محمود نے اپنی زندگی میں مرتب کر دیے تھے ان کے مطابق مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس ہوا.اس میں دوسو پانچ نمائندے حاضر ہوئے اور انہوں نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ وقت مقرر کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے.یہ مجلس ۱۹۵۷ء میں بنائی گئی تھی اور اس میں بارہ مختلف زمروں کے لوگ نامزد کئے گئے تھے اس کے تین سو بیاسی ارکان میں سے قریباً ساٹھ تو احمدی فرقے کی مختلف تنظیموں کے عہدیدار تھے اور ۸۸ رکن ایسے افراد تھے جو کم از کم ایک سال کسی بیرونی ملک میں تبلیغ کے فرائض انجام دے چکے ہیں.مجلس کے ارکان کی باقی تعداد تمام تر مرزا غلام احمد کے پرانے ساتھیوں پر مشتمل تھی اور ان کے بھی دو درجے تھے ایک تو وہ لوگ جو مرزا صاحب کی زندگی میں ان پر ایمان لے آئے تھے اور ان کی وفات کے وقت تک جن کی عمر کم از کم بارہ سال تھی احمدی فرقے کی اصطلاح میں ان حضرات کو صحابہ“ کہا جاتا ہے.مجلس انتخاب خلافت کی فہرست میں ایک سوا کا نوے نام درج تھے.ان کے علاوہ چھپیں حضرات اس وصف کی بناء پر مجلس میں شامل کئے گئے کہ وہ مرزا غلام احمد کے ان رفقاء کے سب سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 177 سال 1965ء بڑے لڑکے تھے جن کا ذکر مرزا صاحب نے ۱۹۰۱ء سے قبل اپنی کتابوں میں کیا تھا.اس طرح اس مجلس کے ارکان کی کل تعداد تین سو بیاسی بنتی تھی لیکن ان میں سے ۱۷۷ یعنی ۳۸ فیصد سے زائد ارکان شریک اجلاس نہیں ہوئے.جماعت احمدیہ کے ذمہ داران اس کی توجیہہ یہ کرتے ہیں کہ بیرونی ممالک میں جوار کان مقیم تھے وہ پہنچ نہیں سکے اور باقی لوگ بیمار تھے.( یہ اعدادو شمار درست نہیں.اصل تعداد ۲۴۱ تھی جس میں سے ۲۰۶ حاضر تھے اور باقی ۳۵ افراد بیرون ملک ہونے یا بیمار و معذور ہونے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے تھے.ملاحظہ ہو الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۵ء) مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس ربوہ کی مسجد مبارک میں ۸ نومبر کو رات کے نو بجے شروع ہوا.اس وقت مرزا بشیر الدین کے انتقال کو صرف انیس گھنٹے گزرے تھے اور ان کی میت مسجد کے قریب ہی قصر خلافت کے ایک کمرہ میں پڑی ہوئی تھی.باہر ان کی زیارت کرنے والے عقیدتمندوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں اور ادھر مسجد کے ایک عقبی دروازے پر مجلس انتخاب کے ارکان کا ایک ہجوم تھا.ایک ایک شخص کی با قاعدہ شناخت ہوتی تھی اور پھر اس کو اندر جانے کی اجازت دی جاتی تھی.یہ سلسلہ تقریباً سات بجے سے شروع تھا اور دو گھنٹے جاری رہا.اس دوران اور اجلاس کے اختتام تک مسجد کے تمام دروازے بند تھے کھڑکیاں اور روشن دان بھی بند تھے.اور رائفلوں سے مسلح خدام پہرہ دے رہے تھے.اجلاس ۵۵ منٹ جاری رہا.اس دوران کیا کچھ ہوا اس کا علم مجلس کے ارکان کے سوا کسی کو نہیں اتنا معلوم ہوسکا کہ مرزا ناصر احمد کے علاوہ ایک نام اور تجویز کیا گیا تھا لیکن دوسو پانچ میں سے واضح اکثریت نے فیصلہ دیا کہ خلافت مرزا غلام احمد کے پوتے ہی کا حق ہے اس فیصلے کا جب اعلان کیا تو مجھے معاً تالمود کی پیشگوئی یاد آئی جس کے متعلق مجھے بتایا گیا تھا کہ مرزا غلام احمد نے اپنی کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا تھا.پیشگوئیاں درست ثابت کرنا احمدیہ فرقے کا بنیادی مشن ہے اور اس مشن کی وضاحت خود مرزا ناصر احمد صاحب نے انتخاب سے اگلے روز ایک مختصر ملاقات میں کی.ان کا کہنا ہے کہ پیشگوئیوں کی سچائی منطق یا دلیل سے نہیں بلکہ معجزہ سے ثابت ہوتی ہے اور یہ سامان جماعت احمدیہ کے پاس موجود ہے.مرزا صاحب نے کہا ہماری تحریک اس عقیدے پر قائم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانے میں اسلام کے دوبارہ غلبہ پانے کی پیشگوئی کی تھی اور اس کی تکمیل کے لئے ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 178 سال 1965ء اسلام کے دوبارہ غلبہ پانے کی پیشگوئیوں پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اللہ نے احمد یہ جماعت کو اس مقصد کے لئے کھڑا کیا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے تلوار یا طاقت کی ضرورت نہیں کیونکہ انسان اس غلطی کو تسلیم کر چکا ہے کہ تلوار کے ذریعہ غلبہ پانے کی کوشش ہمیشہ نا کام ہوئی ہے.شیطان نے اس زمانے میں اسلام کے خلاف دجل کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے چنانچہ اس کے مقابلے کے لئے دلائل کی نہیں بلکہ "معجزات‘ اور نشانیوں کی ضرورت ہے یہ دونوں چیزیں جماعت احمدیہ کو دی گئی ہیں.ہم دنیا کے سامنے یہی چیز پیش کرتے ہیں، کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ہم اپنا کام جاری رکھیں گے.اور مرزا صاحب نے ایک روسی سائنسدان کا قصہ سنایا کہ وہ پاکستان سائنس کا نفرنس میں شرکت کے لئے آیا تھا.میں نے اس کو ربوہ بلایا اور اس کے سامنے دعوت پیش کی.”معجزات بیان کئے پیشگوئیاں سنائیں اور جب میں نے اس کو بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالشویک انقلاب سے کئی سال پہلے روس کے زوال کی پیشگوئی کر دی تھی تو وہ حیران رہ گیا.وہ جب واپس گیا تو اس پر مذہب کا اتنا اثر ہو چکا تھا کہ روسی حکومت نے اس کو معتوب ٹھہرایا.مرزا ناصر احمد گفتگو کر رہے تھے اور ان کے خدام قریب کھڑے اپنی پگڑیوں کے پلوسنبھالے یہ اہتمام کر رہے تھے کہ کوئی مکھی ان کے قریب نہ آجائے.ان کے والد کی تدفین کا وقت قریب آرہا تھا لیکن وہ بڑے سکون کے ساتھ یہ نکتہ میرے ذہن نشین کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ دہریت کا مقابلہ فلسفیانہ دلائل سے نہیں کیا جا سکتا.کیونکہ فلسفے کی سطح پر ہر دلیل کا جواب دیا جا سکتا ہے.دہریے کو صرف معجزہ قائل کر سکتا ہے.اس نقطہ نظر کے درست ہونے کا ثبوت انہوں نے یہ پیش کیا کہ آجکل اسی وجہ سے عیسائی ممالک میں اسلام پھیل رہا ہے.اس ملاقات کے بعد میں نے بہشتی مقبرہ کا رخ کیا.جہاں تھوڑی دیر بعد ہی مرزا بشیر الدین محمود کو سپرد خاک کیا جانے والا تھا.یہ وسیع قبرستان فرقے کے ان ارکان کے لئے وقف ہے جو اپنی جائیداد کا کچھ حصہ احمدیت کی تبلیغ کے لئے وصیت کر جاتے ہیں اور پھر اس کے اندر ایک چھوٹا سا احاطہ ہے جو مرزا غلام احمد کے خاندان کے افراد کے لئے مخصوص ہے.اس احاطے میں مرزا بشیر الدین محمود کی والدہ کے پہلو میں ایک پختہ لحد تیار تھی.لیکن احاطے میں سب سے نمایاں چیز ایک سائن بورڈ تھا.جس پر احمدی فرقے کے لئے یہ ہدایت درج تھی کہ جب بھی
تاریخ احمدیت.جلد 23 179 سال 1965ء موقع ملے ” حضرت مسیح موعود کے خاندان کے افراد کی میتیں یہاں سے نکال کر قادیان لے جا کر دفن کی جائیں.اس ہدایت کے مطابق مرزا بشیر الدین محمود کو بھی پاکستان کی خاک میں امانت دفن کیا گیا ہے.روزنامه انجام ۱۱ نومبر ۱۹۶۵ء: احمدیہ فرقہ کے نئے سربراہ 115- احمدیہ فرقہ کے ۷۷ سالہ سربراہ مرزا بشیر الدین محمود کے انتقال کے بعد خلافت کے ارکان انتخابی ادارہ نے ان کے ۵۶ سالہ بڑے صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد کو ان کا جانشین منتخب کر لیا.مرزا بشیر الدین محمود سپر د خاک کر دیئے گئے لاہور ۹ نومبر.آج ربوہ کے بہشتی مقبرے میں احمدی فرقے کے ۷۷ سالہ سر براہ مرزا بشیر الدین محمود کو اندرون و بیرون ملک کے ۲۰ ہزار غمگساروں کی موجودگی میں سپردخاک کر دیا گیا.نماز جنازہ کی قیادت احمدی فرقے کے نئے منتخب سر براہ حافظ ناصر احمد نے کی.نماز جنازہ کا وقت ٹھیک دس بجے مقرر کیا گیا تھا لیکن اس میں شرکت کی خاطر آنیوالوں کا پانچ گھنٹے تک انتظار کیا گیا.ان کے مکان سے بہشتی مقبرے کی سڑک کے دونوں طرف ہزاروں افراد چار گھنٹے تک ان کے انتظار میں چشم پرنم کھڑے رہے.ان میں مرد عورتیں بچے اور بوڑھوں کی تعداد کافی تھی جو اپنی جماعت کے سربراہ کا آخری دیدار کرنے کے لئے پوری متانت اور سنجیدگی کے ساتھ مختلف دعاؤں کا ورد کر رہے تھے.“ انصاف راولپنڈی ۱۱ نومبر ۱۹۶۵ء: ہفت روزہ انصاف راولپنڈی 1 نومبر میں لکھتا ہے:.فرقہ احمدیہ کے پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد بڑا عرصہ علیل رہنے کے بعد وفات پاگئے ہیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.مرزا صاحب فرقہ احمدیہ کے امام ہونے کے علاوہ کشمیر کے تعلق میں ایک بڑی سیاسی اہمیت کے مالک تھے آپ کو اگر کشمیر کی تحریک آزادی کے بانیوں میں سے قرار دیا جائے تو کوئی مبالغہ نہیں ہو گا.مرزا صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے بانی اور صدر اول تھے.اب سے پینتیس سال قبل اسی کمیٹی نے جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کو فروغ دیا.اور اس کی آبیاری کی.۱۹۳۱ء میں اور اس کے بعد جو ریاست گیر ایجی ٹیشن کئی بار ظہور پذیر ہوئی اس کی قیادت اور حمایت کشمیر کمیٹی کرتی رہی.دیگر تحریکوں کی طرح سیاسی تحریکیں بھی مالی امداد کے بغیر نہیں چل سکتیں.چنانچہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 180 سال 1965ء ۱۹۳۱ء میں کشمیر کمیٹی اور جماعت احمدیہ نے کشمیر کی ایجی ٹیشن کے لئے بھاری رقوم خرچ کیں اور درجنوں احمدی وکلاء نے مفت خدمات ریاستی عوام کے لئے پیش کیں.چنانچہ جہاں بھی کشمیر کا ذکر آتا ہے مرزا صاحب کا ذکر خیر بھی لازمی طور پر آتا ہے.۱۹۳۱ء کے بعد ڈوگرہ حکومت کی شہ پر شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ پر بعض رجعت پسند ریاستی حضرات نے الزام لگایا کہ وہ بھی احمدی ہو گئے ہیں اور ان کے ذریعہ احمدی فرقہ ریاست کشمیر کے مسلمانوں کو ہی احمدی بنانا چاہتے ہیں.اس طرح سے ریاستی مسلمانوں میں پھوٹ کی ابتدا پڑ گئی جو کہ سالہا سال تک جاری رہی لیکن اس الزام تراشی کے باوجود کشمیر کے معاملات میں مرزا صاحب کی دلچسپی اس سے کم نہیں ہوئی.116 766 روزنامہ نئی روشنی کراچی ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء: ”امام جماعت احمدیہ کا انتقال امام جماعت احمد یہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد فضل عمر کا بعمر ۷۷ سال ربوہ کے مقام پر انتقال ہو گیا.اختلاف عقائد کے باوجود اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ پاکستان کی ایک منظم وفعال جماعت کے سربراہ تھے اور اس جماعت نے مختلف فلاحی کاموں اور ملکی مسائل میں حصہ لینے سے کبھی اور نظر انداز نہیں کیا ہے.۱۹۳۱ میں جب تحریک آزادی کشمیر کا عملی آغاز ہوا.برصغیر کی سیاسیات پر بھی اس کا گہرا اثر پڑا تو ڈوگرہ شاہی ظلم و تشدد کے خلاف جو پہلی آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تھی اس کے صدر بھی جناب مرزا بشیر الدین احمد ہی مقرر ہوئے تھے اور بعد میں دوسرے صدر حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال منتخب کئے گئے.جنلی مقاصد حالیہ کے فنڈ میں بھی مرزا صاحب نے حال ہی میں ایک لاکھ روپیہ کا عطیہ دیا.اپنی جماعت کی فلاح اور بہبود کے لئے انہوں نے جماعت داؤدی بوہرہ کے داعی سیدنا مولانا طاہر سیف الدین صاحب اور جماعت اسماعیلیہ کے امام ہر رائل ہائنس کریم آغا خاں کی مانند اپنی جماعت کے لئے انہوں نے تعلیمی، تربیتی ، اصلاحی معاشرتی ادارے قائم کئے.اور ایک جماعتی فنڈ قائم کیا جس میں ہر رکن جماعت بلا چون و چرا مقررہ رقم دیتا ہے جس سے جماعت کے تمام کام چلتے ہیں.فری ہسپتال اور ڈسپنسریاں بھی قائم کی جاتی ہیں.عقائد سے قطع نظر اس قسم کے رفاہی تنظیمی کام دوسروں کے لئے قابل تقلید ہیں.بہر حال مرزا صاحب ایک طبقہ کے امام اور بڑے پاکستانی تھے.ان کا انتقال ان کی جماعت کے لئے ناقابل تلافی نقصان ہے.اللہ تعالیٰ ان کی جماعت و پسماندگان کو صبر عطا فرمائے.“
تاریخ احمدیت.جلد 23 181 غیر مبائعین کے ترجمان "THE LIGHT" کا تبصرہ سال 1965ء غیر مبائعین کے انگریزی ترجمان "THE LIGHT" نے ۱۶ نومبر ۱۹۶۵ء کے شمارہ میں لکھا:."A Great Nation-Builder The death of Mirza Bashiruddin Mahmud Ahmad, Head of the Ahmadiyya Movement (Rabwah) rang the curtain down on a most eventful career, packed with a multitude of far-reaching enterprises.A man of versatile genius and dynamic personality, there was hardly any sphere of contemporary thought and life during the past half century, from religious scholarship to missionary organisation, even political leadership, on which the deceased did not leave a deep imprint.A whole network of Islamic missions and mosques scattered over the whole world, the deep penetration of Islamic preaching in Africa transplanting the long-entrenched Christian missions are a standing monument to the deceased's imaginative planning, organisational capacity and unflagging drive.There has hardly been a leader of men in recent times who commanded such deep devotion from his followers, not only when alive, but even after death, when 60,000 people rushed from all parts of the country to pay their last homage to their departed leader.In the story of the Ahmadiyya Movement the Mirza Sahib's name will go down as a great Nation Builder, who built up a well-knit community in the race of heavy odds, making it a force to be counted with.We offer the bereaved family our deep condolences in this great loss."
تاریخ احمدیت.جلد 23 182 سال 1965ء ترجمہ: امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کی وفات انتہائی طور پر پُر از واقعات ایک ایسی زندگی کے اختتام پر منتج ہوئی ہے جو دور رس نتائج کے حامل بے شمار عظیم الشان کارناموں اور مہمات سے لبریز تھی.آپ علوم وفنون پر حاوی ایک نابغہ روزگار وجود اور بے پناہ قوت عمل سے مالا مال شخصیت تھے.گزشتہ نصف صدی کے دوران دینی علم وفضل سے لے کر تبلیغ واشاعت اسلام کے نظام تک اور مزید برآں سیاسی قیادت تک فکر و عمل کا بمشکل ہی کوئی ایسا شعبہ ہو گا جس پر مرحوم نے اپنے منفر دانہ اثر کا گہرا نقش نہ چھوڑا ہو.دنیا بھر میں پھیلا ہوا اسلامی مشنوں کا ایک جال، اطراف و جوانب میں تعمیر ہونے والے مساجد اور عرصہ دراز سے قائم شدہ عیسائی مشنوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی تبلیغ اسلام کا افریقہ میں وسیع و عمیق نفوذ.یہ وہ کار ہائے نمایاں ہیں جو مرحوم کی تخلیقی منصوبہ بندی، تنظیمی صلاحیت اور انتھک جدوجہد کے حق میں ایک مستقل اور پائیدار یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں.حالیہ زمانہ میں بمشکل ہی انسانوں کا کوئی اور ایسا لیڈر ہوا ہو گا جو اپنے متبعین کی اتنی پُر جوش محبت اور جاں نثاری کا مستحق ثابت ہوا ہو.پھر آپ کے متبعین کی طرف سے پُر جوش محبت اور جاں نثاری کا اظہار صرف آپ کی حیات تک ہی محدود نہ تھا.بلکہ اس کے بعد بھی اس کا اظہار اسی شدت سے ہوا جبکہ ملک کے تمام حصوں سے ۶۰ ہزار لوگ اپنے جدا ہونے والے امام کو آخری نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے لئے دیوانہ وار دوڑے چلے آئے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں مرزا صاحب کا نام ایک ایسے عظیم معمار قوم کے طور پر زندہ رہے گا جس نے شدید مشکلات کے علی الرغم ایک متحد و مربوط جماعت قائم کر دکھائی اور اسے ایک ایسی قوت بناڈالا کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.ہم اس عظیم نقصان پر آپ کے سوگوار خاندان کی خدمت میں دلی تعزیت پیش کرتے ہیں.حضرت مصلح موعود کا سانحہ ارتحال اور ہندوستانی اخبارات بھارت کے مسلم اور غیر مسلم پریس نے بھی حضرت مصلح موعود کے سانحہ ارتحال کی خبر میں شائع کیں.مولا نا عبدالماجد صاحب دریا آبادی نے اپنے اخبار ” صدق جدید“ کی ۱۸نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں ایک تعزیتی شذرہ سپر د قلم فرمایا.جس میں حضرت مصلح موعود کی عظیم الشان اسلامی اور علمی خدمات پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 183 سال 1965ء عقیدے ان کے جیسے بھی ہوں قرآن و علوم قرآنی کی عالمگیر اشاعت اور اسلام کی آفاق گیر تبلیغ میں جو کوششیں انہوں نے سرگرمی اور اولوالعزمی سے اپنی طویل عمر میں جاری رکھیں ان کا صلہ اللہ انہیں عطا فرمائے اور ان خدمات کے طفیل میں ان کے ساتھ عام معاملہ در گذر کا فرمائے.علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح تبیین اور ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی ایک بلند وممتاز مرتبہ ہے“.روزنامہ حقیقت لکھنو ، انومبر ۱۹۶۵ء امام جماعت احمدیہ کی رحلت مندرجہ عنوان کے تحت روز نامہ حقیقت لکھنو مجریہ نومبر میں جناب ایڈیٹر صاحب مکرم انیس احمد صاحب عباسی بی.اے کا کوروی کا حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی رحلت اس اعتبار سے ایک بڑا سانحہ ہے کہ ایک بہت ہی قابل اور ممتاز ہستی بر صغیر سے اٹھ گئی.مذہبی اختلافات سے قطع نظر مرزا صاحب مرحوم کی ذات بہت سی صفات کی حامل تھی.ان کا تبحر علمی، حیرت انگیز ذہانت اور سیاسی فراست کا بہت سے ممتاز غیر احمدی افراد کو بھی اعتراف تھا.چنانچہ آج سے تقریبا تمہیں سال قبل مرزا صاحب مرحوم نے یوپی کے دورہ میں ایک روز دن بھر خان بہادر حافظ ہدایت حسین صاحب ایم.ایل.سی بیرسٹر مرحوم کے یہاں کانپور میں قیام کیا تھا.حافظ صاحب سے چند روز بعد جب ملاقات ہوئی تو راقم السطور نے ان کو مرزا صاحب کا بہت معترف پایا.حافظ صاحب فرماتے تھے کہ ایسے قابل و فاضل دماغ لیڈ راگر مسلمانوں میں چند ہی پیدا ہو جائیں قوم کی حالت سنبھل جائے.راقم السطور کو خود بھی کئی دفعہ مرزا صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوا.اور ہر دفعہ وہ ان کی غیر معمولی قابلیت ، سیاسی بصیرت و فراست سے بہت متاثر ہوا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان میں وہ تمام جو ہر تھے جو ایک بڑے قائد میں ہونے چاہئیں.مذہبی عقائد سے اختلاف رکھنے کی بناء پر کسی بڑی شخصیت کی اعلیٰ صفات اور اس کی قومی خدمات کی قدرو وقعت نہ کرنا بہت ہی افسوسناک کمزوری ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے.روزنامہ ٹریبیون انبالہ.۹ نومبر ۱۹۶۵ء جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا کی وفات 118- روز نامہ ٹریبیون انبالہ مورخہ ۶۵-۱۱-۹ میں مندرجہ عنوان سے جو خبر شائع ہوئی اس کا ترجمہ ذیل
تاریخ احمدیت.جلد 23 میں درج کیا جاتا ہے:.184 سال 1965ء کراچی ۸ نومبر مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمد یہ آج جماعت کے مرکز ربوہ میں وفات پاگئے.موصوف کے دفن کرنے سے پہلے جماعت کے نئے خلیفہ (روحانی پیشوا ) کا جماعت کی طرف سے انتخاب کیا جائے گا.مرزا صاحب موصوف کے مرید احمدی“ کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں.جو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.ان میں ایک قابل قدر شخصیت سر محمد ظفر اللہ خاں ہیں جو اس وقت انٹرنیشنل عدالت کے جج اور قبل از میں یونائیٹڈ نیشنز جنرل اسمبلی کے صدر رہ چکے ہیں.روزنامه سماج کٹک ۱۳ نومبر ۱۹۶۵ء جماعت احمدیہ پر غم کے بادل 119 کٹک (اڑیسہ) کے اڑیسہ زبان میں شائع ہونے والے روزنامہ ”سماج کٹک میں حضور کے فوٹو کے ساتھ مندرجہ بالا عنوان سے ایک تفصیلی نوٹ شائع ہوا.جس کا اردو تر جمہ مکرم مولوی سید محمد موسیٰ صاحب مبلغ سلسلہ نے ارسال فرمایا ہے.جو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:.جماعت احمدیہ کے لیڈر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ۸ تاریخ کو جماعت کے مرکز ربوہ میں رحلت فرما گئے.آپ کی تدفین سے قبل جماعت احمدیہ کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد منتخب ہوئے.مرزا بشیر الدین محموداحمد کے مختصر سوانح حیات مرزا بشیر الدین محمود احمد مرزا غلام احمد صاحب کلنکی اوتار کے بڑے صاحبزادے تھے آپ ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء میں قادیان کی سرزمین میں پیدا ہوئے اور ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء میں خلیفہ اُسیح الثانی منتخب کئے گئے.آپ کی زندگی میں جماعت احمدیہ کو انتہائی ترقی حاصل ہوئی اور امریکہ، افریقہ، انگلینڈ، جرمنی ، سپین، انڈونیشیا، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ وغیرہ دنیا کے مختلف حصوں میں احمد یہ مشن قائم ہوئے.رحلت کے وقت آپ کی عمرے ۷ سال کی تھی.مکرم مولوی محمد موسیٰ صاحب نے یہ اطلاع دی ہے کہ اسی طرح کے نوٹ روزانہ مانتر و بھومی“ روزانه تنستر، روزانہ کلنگ میں بھی شائع ہوئے ہیں.نیز اُڑ یہ زبان میں ریڈیو کے ذریعہ بھی حضور انور کی رحلت کی خبر نشر ہوئی.حليه اخبار روشنی سرینگر.نومبر ۱۹۶۵ء 120 اخبار روشنی سرینگرا انومبر میں بعنوان ” آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اولین صدر جناب مرزا بشیر الدین
تاریخ احمدیت.جلد 23 185 سال 1965ء محمود صاحب کی وفات حسرت آیات“ کے تحت حسب ذیل نوٹ شائع ہوا:.”ہم نے یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ سنی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ ۸ نومبر کی صبح کو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کو سدھار گئے.انا للہ و انا اليـه راجعون.آپ حضرت مرزا غلام احمد صاحب مجد دو مہدی چہار دہم کے فرزند تھے اور ایک جید عالم اور مفکر تھے.تقریر کرنے میں شاید ہی کوئی آپ کا ثانی تھا یہاں تک کہ اسلام کا اقتصادی نظام اور اسلام کا نظام نو“ جیسے دقیق موضوعات پر ایک ایک ہی صحبت میں جو تقاریر ہوئیں وہ کتابی صورت میں شائع ہوکر مقبولِ عام ہو چکی ہیں.آپ کے عالم و فاضل ہونے کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس سر ظفر اللہ خاں صاحب بھی آپ کے مریدوں میں سے ہیں اور انہی کے الفاظ میں آپ کی ذات صفات حسنہ کا ایک ایسا دلکش مجموعہ پیش کرتی ہے جس کا ایک شخص کے وجود میں ہونا بہت نادر ہے.ظاہری اور باطنی علوم کا سر چشمہ بھی ہیں.آپ تخیل اور عمل کے میدانوں کے یکساں شہسوار ہیں.آپ کی زندگی کا بہت سا حصہ ذکر و فکر میں گذرتا ہے لیکن میدان عمل میں آپ ایک اولوالعزم اور جری قائد بھی ہیں.لیکن افسوس آپ بھی وہیں چل دئیے جہاں ایک نہ ایک دن سبھوں نے چلنا ہے.جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا ہر کشمیری دل سے مداح ہے کیونکہ تحریک حریت کشمیر میں آپ کا بہت بڑا حصہ ہے.۱۹۳۱ء میں جب تحریک کشمیر شروع ہوئی تو آپ ہی آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے اولین صدر تھے اور یہ آپ ہی کی کوششوں کا ثمرہ تھا کہ تحریک پروان چڑھی اور اس کا غلغلہ چار دانگ عالم میں ہوا.باوجود اس امر کے کہ ہم آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہیں پھر بھی آپ روشنی کے آغاز ہی سے ۱۹۵۸ء تک برابر اس کا شوق سے مطالعہ فرماتے تھے.آپ کی ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی تھی.۱۹۴۸ء میں قادیان سے ہجرت کرنے کے بعد آپ نے ضلع جھنگ میں ”ربوہ“ کے نام سے ایک نئی بستی بسائی تھی.گزشتہ کچھ عرصہ سے آپ بیمار تھے اور بالآخر وہیں مولا سے جاملے.آپ کی تجہیز و تکفین اطلاع کے مطابق 9 نومبر کی صبح کو ربوہ میں عمل میں لائی گئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 186 سال 1965ء ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے سارے ممالک میں جہاں جہاں کہ جماعت احمدیہ ( قادیانیہ ) کے مشن ہیں آپ کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا گیا.اس المناک حادثہ میں ہمیں آپ کے فرزند جناب مرز او سیم احمد صاحب ناظر امور عامه، دوسرے متعلقین اور افراد جماعت سے دلی ہمدردی ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر جمیل عطا کرے اور مرحوم کو سایہ رحمت میں جگہ دے.آمین.سنگا پور پریس میں وفات کی خبر 121 سنگا پور کے ایک روز نامہ ملائشیا ملیالی (MALAYSIA MALAYALI) نے اپنی ۱۷ نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں حضرت مصلح موعود کے وصال کی خبر حسب ذیل الفاظ میں دی:.احمد یہ مسلم روحانی لیڈر مرزا بشیر الدین محمود احمد جماعت کے مرکز ربوہ (پاکستان) میں ۸ نومبر کو وفات پا گئے ہیں.جماعت کے نئے خلیفہ یا روحانی لیڈر کا انتخاب کیا جائے گا.مرزا صاحب احمد یہ جماعت کے بانی حضرت مرزا غلام احمد (صاحب) کے خاص موعود بیٹے تھے.جو ااجنوری ۱۸۸۹ء کو قادیان پنجاب میں پیدا ہوئے.اور ۱۹۱۴ ء کو اپنی جماعت کے دوسرے خلیفہ منتخب کئے گئے.آپ اپنی خلافت میں تقریباً نصف صدی تک اپنی جماعت کی قیادت فرماتے رہے.آپ کا اہم ترین کام یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں مذہب اسلام کی تبلیغ کے کام کو دنیا بھر میں زمانہ کے موجودہ تقاضوں کے مطابق ایک نئے اسلوب اور جدید طریق پر کامیابی سے چلایا.جناب دامن اباسینی کا نذرانہ عقیدت جناب دامن اباسینی صاحب گلار چی براستہ بدین ضلع حیدر آباد تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سانحہ ارتحال صرف جماعت احمدیہ کے لئے جگر خراش نہیں ہے بلکہ ان بیشمار ارباب نظر کے لئے بھی پیغام درد ہے جو ان کے افکار و اعمال سے ذہنی و روحانی فیضان حاصل کرتے تھے.یقین کیجئے میں ایک غیر احمدی ہوں مگر ریڈیو پر حضور کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر چونک پڑا.فرط جذبات سے فراموشی کا عالم طاری ہو گیا.اس وقت ایک شاعر پر کیا گذرتی ہے.اسے آپ کا دل جانتا ہوگا.ساز روح کے تار جھنجھنا اٹھے.ڈوبی ہوئی کے میں ایک ٹوٹا پھوٹا نغمہ اُبھرا.جسے نذرِ عقیدت کے طور پر ارسال کر رہا ہوں.“
شور ہے، میر کارواں اُٹھا؟ محفل ذکر و فکر ویراں ہے تاریخ احمدیت.جلد 23 ذرے ذرے میں انتشار ہے چھن گئی کیا امانت کبری؟ 187 سال 1965ء آج آج؟ روح کونین بے قرار ہے آج قوم کی قوم سوگوار کل کی آنکھوں میں اشک شبنم ہیں گیسوئے روزگار برہم ہیں؟ آسماں تک اداس ہیں، گویا چاند تارے شریک ماتم ہیں راز گن محرم راز کن فکاں اُٹھا دین فطرت کا ترجماں اُٹھا عشق رسول رکھتا تھا؟ میکشی کے اصول رکھتا تھا ایل کا تارا تھا ثانی قبول رکھتا تھا پاک کی نشانی تھا تھا حبت پاک روح عزم و عمل کا فتویٰ ہے اک نئے دور کا ایک دانا فقیر تھا، ایک روشن ضمیر تھا، نہ رہا عام وہ بانی تھا کارواں کو خدا چھوڑ گیا کارواں کا امیر تھا، رہا 123 نذرحسین او.ٹی.لالیاں کا نذرانہ عقیدت نذرحسین صاحب او.ٹی.لالیاں لکھتے ہیں کہ: راقم امام جماعت احمدیہ (ثانی) سے ایک ملاقات کے دوران ان کے بلند اخلاق سے بہت متاثر ہوا.اور ان کی بزرگانہ شخصیت کے ماتحت ان سے ایک دنیوی الجھن کے متعلق طالب دعا ہوا.ان کی دعا سے وہ عقدہ لا نخل سلجھ گیا.ان کی وفات پر اس نظم میں اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے.کس لیے وقف الم ہے آج ربوہ کی زمیں ناصبور ومحو غم ہے آ ج ربوہ کی زمیں کس لیے نالہ بدم ہے آج ربوہ کی زمیں نوحہ خواں با چشم نم ہے آج ربوہ کی زمیں ہیں زبانیں دم بخود اظہار کی طاقت نہیں حکم قدرت سے مگر انکار کی طاقت نہیں ہے کہاں جو سیر روحانی کراتا تھا ہمیں اور معارف دین و دنیا کے بتاتا تھا ہمیں بہر تالیف قلوب اکثر بلاتا تھا ہمیں نصرتِ اسلام کے خطبے سناتا تھا ہمیں وادی ارواح میں خود آج محو سیر ہے ہر نشان زندگی جس کا نشان خیر ہے
تاریخ احمدیت.جلد 23 188 سال 1965ء تو نے اے فضل عمر ہم کو دیا درس حیات سیف حق تیری زباں تیرا قلم شاخ نبات جوئے کوثر ہر سخن ،سلک دُور ہر ایک بات تھی سراپا تیری ہستی پیکر عزم وثبات فیض صحبت سے تری کھلتے تھے اسرار نہاں تھی گریزاں تیرے دم سے جہل کی تاریکیاں جب تلک ہو گی صدا تہلیل اور تکبیر کی جب تلک محتاج ہو گی ہر دعا تاثیر کی جب تلک سنت ادا ہو گی یہاں شبیر کی اور محو سجدہ پیشانی جوان و پیر کی کارنامے تیرے پائندہ رہیں گے دہر میں تیرے فرمودات بھی زندہ رہیں گے دہر میں 124 مورخ کشمیر جناب کلیم اختر کا زبر دست خراج تحسین مورخ کشمیر جناب کلیم اختر نے حضرت امام جماعت احمد یہ خلیفہ امسیح الثانی کی عظیم شخصیت کو زبر دست خراج عقیدت پیش کیا.اور اس ضمن میں حسب ذیل مقالہ سپر قلم کیا:.سیاسیات کشمیر کا بانی اور کشمیریوں کا محسن و غمگسار رہنما حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لیم ,, تو نے یہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کہئے؟ (غالب) دو کسی انسان کی عظمت و شوکت اور خلوص و انسانیت کا پتہ اُس وقت لگتا ہے جب وہ مشیت ایزدی کے مطابق اس بھری دنیا کو چھوڑ کر دور بہت دُور فلک کی نیلگوں وسعتوں میں گم ہو جاتا ہے.اور اُس جانے والے سے وابستہ افراد اُس کی زندگی کے نقوش کے درخشندہ چراغوں کی روشنی کو ڈھونڈتے بھی ہیں.اور اس کے جلائے ہوئے چراغوں کی کو تیز تر کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں.وہ لوگ خوش بخت اور عظیم ہوتے ہیں جن کے بعد ان کے معتقدین اُسی تڑپ اور ولولے سے اُن کے مشن کو چلاتے ہیں.اور میری ادنیٰ سی دانست میں میرزا بشیر الدین محمود احمد کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی عقل و فراست ، حکمت و تدبر اور محنت اور جرات سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے عمر عزیز صرف کر دی.میرزا بشیر الدین محمود احمد.ایک فرقہ کے خلیفہ اور امام تھے.انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی جماعت کی تنظیم و تربیت ، ضبط و نظم ، نشر و اشاعت کے لئے جو کچھ کیا ہے اُس سے انکار ممکن نہیں ہے.گو
تاریخ احمدیت.جلد 23 189 سال 1965ء ان کے لئے ان کا یہ کام مذہبی فریضہ، دینی عقیدہ اور ایمان کی حیثیت رکھتا تھا.مگر دینی و مذہبی مصروفیات کے علاوہ انہوں نے ہندی مسلمانوں کی سماجی تعلیمی اور معاشرتی زندگی کے سنوارنے کے لئے جو کچھ کیا وہ لائق صد تحسین ہے.میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ان میدانوں میں جو کچھ کیا ہے اس کی تحقیق اور اس کا جائزہ مجھ ایسے عامی کا کام نہیں ہے.میں تو اس مختصر سے مضمون میں صرف اس عظیم المرتبت انسان کی جدائی کا سوگ اور غم منا رہا ہوں.جس نے ہندوستان میں سب سے پہلے میری جنم بھومی (ریاست جموں و کشمیر کے عوام کی محکومی و مظلومی کے خلاف آواز بلند کی.نہ صرف آواز بلند کی بلکہ اس کے لئے عملی جدوجہد کی ایک ایسی روشن مثال قائم کی جو آج تاریخ کشمیر کا ایک درخشندہ اور روشن باب بن چکی ہے.کشمیر کمیٹی کی تشکیل کشمیری عوام کے لئے جب بھی ہندوستان اور اب پاکستان سے آواز بلند ہوئی.حقیقت یہ ہے کہ اس میں میرزا صاحب ( مرحوم و مغفور ) کا ہمیشہ عمل دخل رہا.انہوں نے ۱۹۳۱ء میں تحریک حریت کشمیر کے آغاز سے بہت پہلے کشمیری عوام کی رستگاری کے لئے کوششیں کیں.اور برطانوی حکومت کو مہاراجہ کشمیر کے ناروا مظالم و تشدد سے آگاہ کیا.اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر کے مسئلہ آزادی کو غیر ممالک میں سب سے پہلے میرزا صاحب نے ہی پیش کیا.یہ درست ہے کہ جماعت احمدیہ کی کتابوں اور حضرت میرزا غلام احمد صاحب کی تصانیف میں کئی مقامات پر کشمیریوں کی رستگاری اور آزادی کے واضح اشارے ملتے ہیں.بلکہ انہوں نے کئی مقامات پر ایسی پیشگوئیاں بھی کی ہیں جن کی رو سے کشمیری عوام کی آزادی ضروری ہے.چنانچہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا تڑپتا ہوا دل عملی کام کے لئے مچلا.آپ نے علامہ اقبال کی رفاقت سے کشمیر کمیٹی کی تشکیل کی.اس میں ہندوستان کے چوٹی کے لیڈروں کو جمع کیا.کشمیریوں کے لئے وظائف مقرر کئے.رضا کاروں کی دیکھ بھال کا انتظام کیا.کشمیر کے سیاسی لیڈروں اور کارکنوں کو فکر معاش سے آزاد کیا اور میں ایک مصدقہ اطلاع کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ کشمیر کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو میرزا صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 190 سال 1965ء مرحوم و مغفور سے جماعتی رنگ میں بھی اور ذاتی طور پر بھی امداد حاصل ہوئی.کشمیر کے ہر مکتب فکر کے سیاسی لیڈر کو میرزا صاحب کی اس ہمدردی اور کوشش کا اعتراف ہے.اور تا زیست رہے گا.دو بار شرف گفتگو کشمیر سے میرزا صاحب کو جو محبت و عقیدت تھی.اس کے اظہار اور بیان کے لئے کئی کتابیں درکار ہیں.راقم الحروف کو ان سے گفتگو کرنے کا دوبار شرف حاصل ہوا.دونوں مرتبہ اس عظیم اور محبوب انسان نے اپنی علالت طبع کے باوجود کئی کئی گھنٹے قصر خلافت میں ملاقات کا وقت دیا.ایک بار ہم بہت سے دوست مشہور اور مقتدر صحافی مولوی ظہور الحسن صاحب ( جو میرے بڑے واجب الاحترام دوست اور بزرگ ہیں) کی وساطت سے ملے.میرزا صاحب...سوئٹزر لینڈ سے تشریف لائے تھے.ڈاکٹروں نے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا.ہم نے ان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی.جو آپ نے قبول فرمائی.ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا کہ ملاقات صرف دس منٹ کے لئے ہو گی.مگر جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ان میں سے بہت سے لڑکے کشمیر کی ریاست کے رہنے والے ہیں.تو انہوں نے وقت کی پابندی ختم کر دی.آپ نے ہمیں کشمیر کی ریاست کی کہانی اور سیاست کے سارے اسرار و رموز سے آگاہ کیا.ان کا پُر نور چہرہ کشمیر کا نام سنتے ہی سرخ اور پُر جلال ہو گیا.آنکھوں میں چمک تھی.مگر ایسے معلوم ہوتا تھا کہ آبدیدہ ہیں.شیر کشمیر کا ذکر بڑی محبت سے کیا.اس کی مشکلات کا تذکرہ کیا.اور وہ باتیں بتائیں جو انہوں نے اُس وقت کے وزیر اعظم چودھری محمد علی کو کشمیر سے متعلق کہی تھیں.اس ملاقات کے دوران میں فرمایا کہ کشمیر کے متعلق جو کچھ پوچھنا ہے.مجھ سے کیا پوچھتے ہو.(اور پھر مولوی ظہور الحسن صاحب کی طرف اشارہ کر کے کہا) اس سے پوچھو.جس نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ اس تحریک میں گزارا ہے.کشمیر کے لئے انہوں نے کشمیر کمیٹی بنائی.چودھری ظفر اللہ خاں، شیخ بشیر احمد اور دیگر وکلاء کو کشمیریوں کے مقدمات کے لئے بھیجا اور جنگِ کشمیر کے دوران جماعت احمدیہ کی ”فرقان فورسز“ محاذ پر لڑتی رہیں.سیاسیات کشمیر کا بانی میرزا صاحب کو کشمیریوں کے مقدمہ میں جو دلچسپی اور اُنسیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے ہی
تاریخ احمدیت.جلد 23 191 سال 1965ء لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اس مسئلہ کو اولیت دی.اس کے لئے قربانیاں دیں اور اس کے لئے وہ وہ کچھ سنا.اور برداشت کیا جو صرف اُن جیسے بڑے ظرف والا انسان ہی سن کر برداشت کر سکتا تھا.میرزا صاحب عملاً گزشتہ کئی سالوں سے جماعتی سرگرمیوں سے علیحدہ تھے.مگر مجھے یقین ہے کہ وہ اس گوشہ نشینی میں بھی کشمیر کی صورتحال سے باخبر رہتے ہوں گے.جماعت احمدیہ سے وابستہ لوگوں کو تو اس بات پر غم اور افسوس ہے کہ ان کا عظیم رہنما اور مذہبی پیشوا ان سے بچھڑ گیا ہے.اور میں آج حیران و غمگسار ہوں کہ سیاسیات کشمیر کا بانی کشمیریوں کا حسن اور ہمدرد اور ایک عظیم انسان جو مرد مومن بھی تھا اور مرد مجاہد بھی اس دنیا سے اٹھ گیا ہے.میں سوچتا ہوں.کیا اُن کے جانے کے بعد بھی ربوہ سے کشمیریوں کے لئے آواز اٹھتی رہے گی؟ جماعت احمدیہ کے کارکن اور ایثار پیشہ نو جوان اب بھی ” فرقان فورسز میں حصہ لیں گے؟ کیونکہ کشمیر جل رہا ہے.کشمیر کی آزادی کی منزل قریب ہے.کشمیریوں کو اس منزل کا راستہ میرزا بشیر الدین محمود احمد نے دکھایا تھا.مگر افسوس کہ وہ جس نے اس چراغ کو روشن کیا تھا.کشمیریوں کی آزادی کا دن دیکھنے سے پہلے ہی چل بسا.انا لله و انا اليه راجعون.اس لئے ہم سب کا اور بالخصوص جماعت احمدیہ کا فرض اولین ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تحریک کشمیر میں دلچسپی لیں.کیونکہ یہ وہ امانت ہے جو ان کا عظیم المرتبت قائد ان کے سپر د کر گیا ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور جنت الفردوس میں جگہ بخشے.آسماں اس کی لحد پر شبنم افشائی کرے سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے سوگوار کلیم اختر.لاہور سناب راغب مراد آبادی کا شذرہ اور اشعار 125 موت العالم ، موت العائم امام جماعت احمدیہ مرزا بشیر الدین محمود احمد اتوار اور پیر کی درمیانی شب کو تقریباً سوا دو بجے اس عالم فانی سے راہگزار ائے عالم جاودانی ہوئے.انا للہ و انا اليه راجعون.ت سے کس کو رستگاری ہے آج وہ کل ہماری باری ہے موصوف کی عمر بوقت سفر آخرت ۷۷ برس تھی.آپ نے بقید حیات نہایت خلوص، محبت ، فکر و موت
تاریخ احمدیت.جلد 23 192 سال 1965ء تدبر، عزم و ہمت اور بے لوثی سے جماعت احمدیہ کی ہر جہتی خدمات انجام دیں.دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسیحیوں کے خلاف باقاعدہ اور نہایت منظم طریقے پر خصوصاً بلاد عرب و امریکہ میں مساجد تعمیر کرائیں.اور دنیا کی قریب قریب ہر معروف و مقبول زبان میں قرآن مجید کے تراجم شائع کرائے.قیام پاکستان کی تحریک میں بھی نمایاں حصہ لیا.بھارت کے حالیہ جارحانہ حملہ کے خلاف آپ نے ایک لاکھ روپیہ کا گراں قدر عطیہ اپنی طرف سے اور کئی لاکھ روپے کا عطیہ صدرانجمن ربوہ کی طرف سے صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے قائم کردہ دفاعی فنڈ میں دیا.9 نومبر کو جماعت احمدیہ کے نئے منتخبہ صدر اور (امام) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے نماز جنازہ پڑھائی اور لاکھوں دل شکستہ و اشکبار سوگواروں کے ہجوم میں مرحوم کو سپر د خاک کیا گیا.ہوئے پیارے خدائے لم یزل کو انیس دین بشیر الدین محمود مگر محسوس ہوتا ہے یہ دل کو کہ ہیں مرحوم جیسے اب بھی موجود تاریخیں:.آسوده گوشه خموشی محمود ۱۳۸۵ تھے رونق کل حضرت محمود احمد ۱۹۶۵ء اے خاک بسیط اب شاہاں مثال شاه ۱۳۸۵ه ملے گا تجھ کو محمود احمد ربوہ کی فضا میں اب نہ ہوگا کوئی گوہر افشاں مثال محمود احمد ۱۳۸۵ه ادارہ ”سفینہ اس سانحہ عظیم میں جماعت احمدیہ کا شریک رنج و غم.ہے.نامور ادیب ابوظفر نازش رضوی کے قلم سے بلند پایہ خدمات کا ایمان افروز تذکرہ از راغب مراد آبادی (کراچی) 126 پاکستان کے مشہور و معروف ادیب و فاضل اور محقق جناب ابوظفر نازش صاحب رضوی نے
تاریخ احمدیت.جلد23 193 سال 1965ء حضرت مصلح موعود کی شاندار دینی خدمات پر حسب ذیل مقالہ میں تفصیلی روشنی ڈالی :.اظہار حقیقت.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی زندگی کا ایک ایک سانس اسلام کی سربلندی کیلئے وقف تھا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے میری پہلی ملاقات دسمبر ۱۹۳۹ء کے پہلے ہفتہ میں بمقام قادیان ایک خاص صورتحال کے تحت ہوئی.اور وہاں میرا قیام دسمبر کے اخیر تک رہا.اس عرصہ میں مجھے حضرت صاحب سے تین بار شرف ملاقات حاصل ہوا اور ہر بارمیں ان کی مقناطیسی کشش سے نہایت متاثر ہوا.میں ایک پشتنی پختہ کا ر شیعہ ہوں اس لئے بظاہر میرا قادیان جانا اور پھر مہینہ بھر وہاں قیام کرنا ایک عجیب سی بات تھی مگر حالات کچھ ایسے تھے کہ میرا قادیان جانے کے بغیر چارہ کار نہ تھا.میں اُس زمانہ میں دہلی میں مستقل طور سے مقیم تھا.بات یہ ہوئی کہ ان دنوں میری کچھ نظمیں یکے بعد دیگرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئیں جن سے انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت کا پہلونکلتا تھا.اس پر حکومت کی طرف سے میرے خلاف خفیہ تفتیش ہونے لگی اور مقدمات مرتب کئے جانے لگے.اسی اثناء میں میرا ایک نہایت معزز غیر مسلم دوست اپنے بعض دیگر اسی نوعیت کے افعال پر حکومت کے زیر عتاب تھا.اُس سلسلہ میں میرا نام بھی خفیہ طور پر شامل تفتیش کر لیا گیا.چنانچہ میرے اُس غیر مسلم دوست کی گرفتاری عمل میں آئی مگر میری گرفتاری کسی وجہ سے چند گھنٹوں کے لئے ملتوی کر دی گئی.اس پر میرے چند بااثر اور مخلص شیعی وسنی دوست جو ملکی حالات سے زیادہ باخبر اور جماعت احمدیہ سے حسنِ ظن رکھتے تھے دہلی میں اکٹھے ہوئے اور میرے بچاؤ کی تدابیر پر بحث ہونے لگی.انہوں نے طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ حکومت کے اعلیٰ ارکان سے مل کر میرا معاملہ رفع دفع کرانے کی کوشش کریں.مگر مجھے فوراً دہلی کو چھوڑ دینا اور چند دن کسی ایسے مقام پر چلا جانا چاہیئے جہاں کسی قسم کی چالا کی شرارت اور جاسوسی کا امکان نہ ہو.اس سلسلے میں ان کی نظر قادیان پر پڑی اور مجھے مشورہ دیا کہ میں چند دن کے لئے وہاں چلا جاؤں.چنانچہ میں کسی دوسرے دوست یا عزیز کو بتائے بغیر قادیان پہنچ گیا اور وہاں میں نے یہ ظاہر کیا کہ وہاں کی عظیم الشان لائبریری سے استفادہ کرنے کی غرض سے آیا ہوں.چونکہ اس مقصد کے لئے اکثر اعلی علمی ذوق رکھنے والے افراد وہاں پہنچ جایا کرتے تھے اس لئے میری بات پر یقین کر لیا گیا اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 194 سال 1965ء سچ سچ کسی نے زیادہ ٹوہ لگانے کی کوشش نہ کی.میں پہلے دن ہی مطمئن ہو گیا میرا قیام مہمان خانے میں ہوا.وہاں مجھے پتہ چلا کہ امام صاحب جماعت احمدیہ کے پرائیویٹ سیکرٹری جناب چوہدری بشیر احمد خان بی.اے.ایل ایل.بی ہیں (جو آجکل لاہور میں اوتھ کمشنر ہیں) وہ نہ صرف میرے شناسا تھے بلکہ میرے استاد بھی رہ چکے تھے.میں ان سے ملا تو وہ بے حد خوش ہوئے.میری خواہش پر انہوں نے حضرت صاحب سے میری ملاقات کا فوراً انتظام کر دیا.ملاقات کا انتظام ہوتے ہی میں دارالخلافت پہنچا اور جب چند سیٹرھیاں طے کر کے اندر پہنچا تو حضرت صاحب گاؤ تکئے سے ٹیک لگائے قالین سے مفروش کمرے میں تشریف فرما تھے.میں رسم سلام ادا کر کے جب مصافحہ کر چکا تو مختصر سے وقفہ کے بعد آپ نے فرمایا:.قادیان دارالامان ہے یہاں آپ کو سو فیصد امن اور سکون میسر رہے گا“ حضرت صاحب کے اس فقرے پر مجھے بہت تعجب ہوا.قادیان کو دارالامان تسلیم کر کے ہی میرے شیعی اور سنی دوستوں نے مجھے وہاں بھیجا تھا مگر حضرت صاحب کا میرے حالات سے قطعاً ناواقف ہوتے ہوئے مجھے خاص طور پر امن کا یقین دلانا بڑی ہی استعجاب انگیز بات تھی.قادیان کے سالانہ جلسے تک میرا معاملہ سلجھ چکا تھا مگر میں مزید چند روز قادیان میں قیام پذیر رہا.اس موقع پر میرے چند احمدی دوست بھی قادیان پہنچ گئے تو باقی دنوں کے لئے میری رہائش کا انتظام محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے دولت کدہ پر ہو گیا.جہاں میں نے خلوص اور عقیدت کا بے نظیر نظارہ دیکھا.ان دنوں حضرت صاحب بے حد مصروف تھے پھر بھی میری ضروریات کے متعلق آپ دریافت فرماتے رہے.دوسری مرتبہ ۱۹۴۰ء میں مجھے ایک سیاسی مشن پر قادیان جانا پڑا.اس زمانے میں ہندوا پی سنگھنی شرارتوں کا ایک خاص منصوبہ بنارہے تھے.اس موقع پر مرحوم و مغفور امام صاحب جامع مسجد دہلی اور سیدی و مولائی خواجہ حسن نظامی صاحب اعلیٰ اللہ مقامہ اور دیگر چوٹی کے مسلم اکابر نے مجھے نمائندہ بنا کر بھیجا کہ حضرت صاحب سے اس باب میں تفصیلی بات چیت کروں اور اسلام کے خلاف اس فتنے کے تدارک کے لئے ان کی ہدایات حاصل کروں.یہ مشن بہت خفیہ تھا کیونکہ ہندوستان کے چوٹی کے مسلمان اکابر جہاں یہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں کے اُس ناپاک منصوبے کا موثر جواب مسلمانوں کی طرف
تاریخ احمدیت.جلد 23 195 سال 1965ء سے صرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی دے سکتے ہیں.وہاں وہ عام مسلمانوں پر یہ ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کو اپنار ہر تسلیم کر چکے ہیں.میں اس سلسلے میں قادیان تین دن مقیم رہا.اور حضرت صاحب سے کئی تفصیلی ملاقاتیں کیں.ان اس سلسلے میں اور سے کئی ملاقاتوں میں دو باتیں مجھ پر واضح ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت صاحب کو اسلام اور حضور سرور کائنات علیہ السلام سے جو عشق ہے اس کی مثال اس دور میں ملنا محال ہے.دوسرے یہ کہ تحفظ اسلام کے لئے جو اہم نکات حضرت صاحب کو سو جھتے ہیں وہ کسی دیگر مسلم لیڈر کے ذہن سے مخفی رہتے ہیں.میرا یہ مشن بہت کامیاب رہا اور میں نے دہلی جا کر جور پورٹ پیش کی اس سے مسلم زعماء کے حوصلے بلند سے بلند تر ہو گئے.اس کے بعد حضرت صاحب سے میری ایک ملاقات شملہ میں ہوئی.اس ملاقات کے دوران میں نے محض اپنی ذاتی حیثیت سے یہ تجویز پیش کی کہ کوئی ایسا فارمولا تلاش کر لیا جائے جس سے شیعہ اور احمدی فرقوں کے درمیان اشتراک عمل کی کوئی راہ پیدا ہو جائے.پھر رفتہ رفتہ اسلام کے دوسرے چھوٹے فرقوں کو شامل کر لیا جائے.یہاں تک کہ بالآخر اختلاف عقائد کے باوجود تمام مسلم فرقوں میں تعمیری کاموں کے لئے اتحاد و اتفاق ہو جائے.میرے نزدیک اس کے دو فائدے تھے ایک یہ کہ اس طرح مسلمانانِ ہند بحیثیت مجموعی دشمنانِ اسلام کا ہر پہلو سے موثر اور نتیجہ خیز مقابلہ کر سکیں گے.اور دوسرے یہ کہ اسلام کے مختلف فرقے خدا اور رسول ﷺ کا نام درمیان میں لا کر ایک دوسرے پر جو کیچڑ اچھالتے ہیں وہ بند ہو جائے گا.حضرت صاحب نے اصولی طور پر میری یہ تجویز بہت پسند فرمائی لیکن وہ ان دنوں بہت مصروف تھے اور یہ مسئلہ وقت طلب تھا اس لئے آپ نے مجھے قادیان آنے کی دعوت دی تا کہ وہاں اطمینان سے اس تجویز کے تمام پہلوؤں پر غور و خوض کیا جاسکے.میں نے یہ دعوت قبول کر لی مگر میری مصروفیتوں نے بعد میں مجھے قادیان جانے کی اجازت نہ دی.تشکیل پاکستان کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب درد مرحوم کی دعوت پر میں ربوہ میں ایک سالانہ جلسہ میں شریک ہوا اور کئی دوستوں سے ملاقی ہوا.اس موقع پر بھی حضرت صاحب سے میری ایک مختصر سے ملاقات ہو گئی مگر کوئی خاص گفتگو نہ ہوسکی.فروری ۱۹۵۶ء کے پہلے ہفتے میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب موجودہ امام جماعت احمدیہ کے ارشاد پر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے پروفیسر خان نصیر احمد خان لا ہور تشریف لائے اور مولا نا عبدالمجید سالک مرحوم مغفور، چوہدری عبدالرشید تبسم ایم.اے اور مجھے موٹر کار میں ربوہ لے گئے کہ وہاں ایک
تاریخ احمدیت.جلد 23 196 سال 1965ء انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرہ کا انعقاد تھا جس میں ہماری شرکت ضروری سمجھی گئی.ربوہ میں اس روز شام کو پہلے انعامی مقابلہ تقاریر ہوا جس میں ہم تینوں نے حج کے فرائض انجام دیئے اور پھر مولانا عبدالمجید سالک مرحوم و مغفور کی زیر صدارت مشاعرہ ہوا.یہ دونوں تقریبیں بہت کامیاب رہیں.دوسرے دن حضرت صاحب نے بعد دو پہر ہم تینوں کو چائے پر یا دفرمایا.میں حضرت صاحب سے گزشتہ ملاقاتوں میں ان کی بے مثال سیاسی بصیرت اور اسلام سے متعلق انتہائی غیرت کا نہ دل سے قائل ہو چکا تھا.لیکن اس چائے پر ان کی زندگی کا ایک اور گوشہ میرے سامنے آیا جس سے میں ابھی تک ناواقف تھا.اس گوشے کا تعلق لطافت طبع اور ذوق ادب سے تھا.چائے شروع ہوئی تو چند نوجوانوں نے مودی کیمرہ سے حضرت صاحب سمیت ہم سب کی تصاویر لیں.اور چند منٹ تک یہ نوجوان اس کمرے میں موجود رہے پھر معلوم نہیں.وہ از خود ہی چلے گئے یا حضرت صاحب نے اشارہ فرما دیا کہ وہ چلے جائیں.بہر حال اب ہم تینوں ادیب تھے اور حضرت صاحب.اور کوئی نہ تھا.باتوں باتوں میں گزشتہ رات کے انعامی مقابلہ تقاریر اور مشاعرے کا ذکر آ گیا.مولا نا سالک مرحوم نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی غیر معمولی انتظامی قابلیت کو بہت سراہا اور کہا کہ اگر اسی قسم کی متانت اور شائستگی قائم رہے تو ایسے ادبی اجتماع اکثر منعقد ہوتے رہنے چاہئیں ان کی افادیت بہت ہے.حضرت صاحب نے سالک صاحب مرحوم کی یہ تجویز پسند فرمائی.پھر ادبیات پر گفتگو شروع ہوگئی مجھے اس بات سے سخت حیرت ہوئی کہ حضرت صاحب کا ادبی ذوق نہایت منجھا ہوا اور انتہائی دقیقہ رس ہے.ادب کی نازک لطافتوں کا ذکر آیا تو معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کو ان پر صرف عبور ہی حاصل نہیں بلکہ یہ خود اُن کی طبیعت کا حصہ ہیں.کسی نظام کا سربراہ یا کسی قوم کا پیشوا ہونا جدا بات ہے اور انتہائی لطیف ادبی ذوق کا حامل ہونا قطعی طور پر دوسری چیز ہے.پھر آپ کا اپنا کلام بھی بہت ہی بلند پایہ ہے.حضرت صاحب نے خواہش فرمائی کہ سالک صاحب اپنا کلام سنائیں.سالک صاحب نے پہلے تو معذرت چاہی.پھر امتثال امر کے طور پر انہوں نے اپنے نہایت بیش قیمت اور پاکیزہ اشعار سنائے جو مکمل دو غزلوں پر مشتمل تھے.سالک صاحب کا کلام حضرت صاحب نے بہ دل پسند فرمایا.پھر مجھے ارشاد ہوا میں نے بھی دو غزلیں پیش کیں.حضرت صاحب نے ان پر بھی اپنی خاص پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے میری حوصلہ افزائی فرمائی.بعدہ تبسم صاحب کی باری آئی انہوں نے اپنی ایک دو غزل پیش کی جس کا مصرعہ اولیٰ سماعت
تاریخ احمدیت.جلد 23 197 سال 1965ء فرماتے ہی حضرت صاحب نے پہلو بدلا اور بالخصوص توجہ مبذول فرمائی.غزل کا مطلع یہ تھا اُسے کام کیا ہے سلوک سے کہ جو فیضیاب شہور ہے جو نگاہ جلوہ شناس ہو تو نفس دلیل صعود ہے تبتسم صاحب نے یہ مطلع پڑھا تو حضرت صاحب بہت محظوظ ہوئے اور مکرر پڑھنے کو فرمایا.پھر ہم نے حضرت صاحب سے درخواست کی کہ وہ اپنے کلام سے ہمیں مستفیض فرما ئیں اس پر حضور نے فرمایا:.آپ حضرات شاعری کی نیت سے شعر کہتے ہیں اس لئے آپ شاعر ہیں.ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ تبلیغ کی خاطر ہوتا ہے ہم اُسے شاعری نہیں سمجھتے.سالک صاحب یہاں بھی مزاح سے نہ چھو کے فوراً بول اٹھے :.میں اور نازش غیر احمدی ہیں آپ ہمیں تبلیغ فرمائیے.اس پر حضرت صاحب مسکرائے اور از راہ کرم اپنے چند بلیغ اشعار فرما دیئے جنہیں سن کر ہم سب بہت لطف اندوز ہوئے.میری درخواست پر حضرت صاحب نے اپنی چھوٹی تقطیع کی ایک کتاب ” کلام محمود اپنے دستخط ثبت فرما کر مجھے مرحمت فرمائی جواب تک میرے پاس محفوظ ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے میری آخری ملاقات ۱۹۶۰ء میں ہوئی.اُس وقت محترم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر نیرنگ خیال بھی میرے ہمراہ تھے.ہم محض حضرت صاحب سے ملاقی ہونے ربوہ گئے تھے.ربوہ میں داخل ہوتے ہی ہم نے حضرت صاحب کے سیکرٹری کو ٹیلیفون پر اپنی آمد کی اطلاع دی تو چند ہی منٹ میں شیخ روشن دین صاحب تنویر ایڈیٹر ” الفضل“ ہمارے پاس پہنچے گئے.شیخ صاحب انتہائی مخلص آدمی ہیں.یہ جمعرات کا دن تھا.معلوم ہوا کہ حضرت صاحب کی طبیعت ناساز ہے آج ملاقات نہیں ہو سکے گی اور جمعہ کے دن ویسے ہی ملاقاتیں بند ہیں.ہم نے سیکرٹری صاحب سے عرض کیا کہ ہماری آمد کی اطلاع بہر حال حضرت صاحب تک پہنچا دیں.انہوں نے ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا.ہم نماز عصر سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ سیکرٹری صاحب نے آکر فر مایا کہ کل یعنی جمعہ کی صبح ہمیں حضرت صاحب نے چائے پر یاد فرمایا ہے.چنانچہ جمعہ کو صبح آٹھ بجے ہم حضرت صاحب کی خدمت میں پہنچا دیئے گئے.اس وقت حضرت صاحب علیل الطبع اور بہت کمزور تھے.آپ ایک بے بستر کی چار پائی پر استراحت فرما تھے.ہم کمرے میں داخل ہوئے تو آپ نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 198 سال 1965ء اٹھنے کی کوشش کی.میں نے عرض کیا کہ آپ یہ تکلیف نہ فرمائیں اور آرام فرمار ہیں.اس پر آپ لیٹے رہے.ہم قریب ہی ایک صوفے پر بیٹھ گئے.مزاج پرسی کے بعد آپ نے حکیم یوسف حسن صاحب سے فرمایا:.آپ کا رسالہ نیرنگ خیال مدت سے ہمارے مطالعہ میں ہے آپ اسے زندہ رکھنے اور ترقی دینے کے لئے بڑے عزم و استقلال سے کام لے رہے ہیں جو قابلِ تعریف ہے“.حکیم صاحب نے حضور کا بہت بہت شکریہ ادا کیا کہ آپ نیرنگ خیال میں بڑی دلچسپی لیتے ہیں.پھر حضور نے حکیم صاحب سے فرمایا:.آپ نے ایک دفعہ قادیان آکر ہماری بچی کا علاج کیا تھا اس وقت بڑے بڑے ڈاکٹر اور حکیم مرض کی تشخیص نہیں کر سکے تھے.ہم نے آپ کو لاہور سے بلوایا تو آپ کے علاج سے بچی تندرست ہو گئی.یہ سب خداوند تعالیٰ کا فضل تھا.اب یہ اتنے لمبے عرصہ کا واقعہ تھا کہ اسے خود حکیم یوسف حسن صاحب بھی بھول چکے تھے.حضرت صاحب کے ارشاد پر حکیم صاحب نے حافظے پر زور دیا تو انہیں یہ واقعہ بمشکل یاد آیا.حکیم صاحب اور میں حضرت صاحب کی غیر معمولی قوت حافظہ پر سخت حیران ہوئے بالخصوص اس لئے کہ اب حضرت صاحب بیمار بھی تھے.پھر حضرت صاحب میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور حکیم صاحب سے فرمایا:.نازش صاحب احمدی شیعہ ہیں.یہ ہمارے پرانے مخلص دوستوں میں سے ہیں.انہوں نے اپنا قلم ہمارے حق میں استعمال کیا ہے اس لئے کہ ہمارے مخالف ہم سے مخالفت محض برائے مخالفت کرتے رہے ہیں اور ہم ہمیشہ حق پر ہوتے رہے ہیں.نازش صاحب نے حق کی حمایت میں کوتاہی نہیں کی.حضرت صاحب اب مجھ سے مخاطب ہوئے فرمایا:.”آپ کے کتنے بچے ہیں؟ وہ کیا کیا کرتے ہیں؟ اگر وہ زیر تعلیم ہیں تو ان سب کور بودہ بھیج دیں ہمارے یہاں ان کی رہائش اور خوراک کا سب انتظام ہو جائے گا.وہ شیعہ رہتے ہوئے یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے“.میں حضور کی اس انتہائی مخلصانہ پیشکش سے بے حد متاثر ہوا اور صمیم قلب شکریہ بجالایا.افسوس کہ وہ وجود جو انسانیت کے لئے سراپا احسان و مروت تھا آج اس دنیا میں نہیں.وہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 199 سال 1965ء عظیم الشان سپر آج پیوند زمین ہے جس نے مخالفین اسلام کی ہر تلوار کا وار اپنے سینے پر برداشت کیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ اسلام کو گزند پہنچے.حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد کی وفات سے جماعت احمد یہ یقیناً بہت غمگین ہے کیونکہ اس کا وہ امام اور سر براہ رخصت ہو گیا جس نے اس جماعت کو بنیان مرصوص بنا دیا.لیکن اس جماعت سے باہر بھی ہزاروں ایسے افراد موجود ہیں جو اختلاف عقائد کے باوجود آپ کی وفات کو دنیائے اسلام کا ایک عظیم سانحہ سمجھ کر بے اختیار اشکبار ہیں.آپ نے دنیا کے بیشمار ممالک میں چارسو کے قریب مساجد تعمیر کرائیں.تبلیغ اسلام کیلئے تقریباً یکصد مشن قائم کئے جو عیسائیت کی بڑھتی ہوئی رو کے سامنے ایک آہنی دیوار بن گئے.مختصر یہ کہ حضرت صاحب نے اپنی زندگی کا ایک ایک سانس اپنے مولیٰ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی کیلئے وقف کر رکھا تھا.خدا ان سے راضی ہوا وہ خدا سے راضی ہوئے.اگر میں ایک شیعہ ہوتے ہوئے انہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھتا ہوں تو یہ ایک حقیقت کا اظہار ہے محض اخلاقی رسم نہیں.حکیم یوسف حسن ایڈ میٹر نیرنگ خیال کا بیان 127 مکرم نازش رضوی کے ساتھ مکرم حکیم یوسف حسن صاحب ایڈیٹر نیرنگ خیال لاہور بھی شرف ملاقات سے مشرف ہوئے تھے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ : اس کے بعد ہم رخصت ہوئے.نازش رضوی اور میں میرزا صاحب کے حافظہ اور اخلاق کی تعریف میں رطب اللسان تھے.مرزا صاحب یقینا بڑے علم دوست علم نواز اور صلح کل کی طبیعت کے مالک تھے.ہر شخص کی قابلیت اور خدمت کے مطابق اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور سر پرستی فرماتے تھے.‘ 128 نامورادیب،صحافی اور مشہور محقق مولا نا غلام رسول مہر کا بیان جناب شیخ عبدالماجد صاحب لاہور سے تحریر فرماتے ہیں کہ : مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کے مصور مجلہ فاروق سووینئر “۱۹۶۵ء،۱۹۶۶ء،۱۹۶۷ء کی ترتیب و تدوین میرے سپر در ہی ہے.اس سلسلہ میں مجھے گذشتہ جماعتی سرگرمیوں کے نقوش کی تلاش تھی.میں اخویم برادرم محمود احمد صاحب ( ابن مکرم و محترم عبد الجلیل صاحب عشرت) کے ہمراہ ۱۲۰ اور ۲۵ دسمبر ۱۹۶۶ء مولانا غلام رسول مہر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.پتہ چلا تھا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی
تاریخ احمدیت.جلد 23 200 سال 1965ء کے چند خطوط آپ کے پاس محفوظ ہیں جو جماعت کی ملتی سرگرمیوں پر روشنی ڈال سکتے ہیں.خطوط کے تذکرہ پر فرمانے لگے مختلف نامور شخصیات کے خطوط میرے پاس محفوظ ہیں جن سے گذشتہ تاریخ کی تصحیح میں مددمل سکتی ہے ان میں حضرت صاحب کے بھی خط ہیں.میرا ارادہ ہے کہ ان تمام خطوط پر مشتمل مع مناسب حواشی کی ایک کتاب تالیف کروں.مگر موجودہ کام میں اتنا مصروف ہوں کہ پرانے ذخیرہ کی چھان بین کر کے ”خطوط نکالنا میرے بس کی بات نہیں.کئی صندوق اور الماریوں میں پرانے مسودات پڑے ہیں معلوم نہیں کس صندوق یا الماری کے کس خانہ میں یہ خطوط مل سکیں گے.جب کبھی فرصت ہوئی آپ کے حوالہ کر دیے جائیں گے.فرمانے لگے مولوی محمد اسماعیل صاحب پانی پتی میرے محترم ہیں وہ بھی متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں.مجھے ندامت محسوس ہوتی ہے کہ یہ مطالبہ اب تک پورا نہیں کر سکا.لا چار ہوں اتنا وقت نہیں نکال سکتا.میرے ہاتھ میں تاریخ احمد بیت جلد ششم مؤلفہ مولانا دوست محمد شاہد تھی جس میں مربوط اور مبسوط طور پر آزادی کشمیر اور جماعت احمدیہ کا تذکرہ حضرت اقدس مصلح موعود کی زیر ہدایت وکلاء کی قربانیاں.کشمیر کے لیے عالمی پروپیگنڈا.احمد یہ فرقان فورس وغیرہ امور کا تذکرہ تقریباً تین صد صفحات پر محیط ہے.یہ کتاب مولانا کو پیش کی.خوش ہوئے.سرسری طور پر کہیں کہیں سے پڑھنے لگے.کہنے لگے.آپ لوگوں کی کسی کتاب میں اس عظیم الشان انسان کے عظیم کارناموں کی مکمل عکاسی نہیں ملتی.ہم نے انہیں قریب سے دیکھا ہے، کئی ملاقاتیں کی ہیں، پرائیویٹ تبادلہ خیالات کیا ہے.مسلم قوم کے لیے تو ان کا وجو د سرا پا قربانی تھا.فرمایا.ایک رات مجھے راتوں رات قادیان جا کر حضرت صاحب سے مشورہ کرنا پڑا.وہ سفراب بھی آنکھوں کے سامنے ہے.انسانیت کے لیے اس شخص کے دل میں بڑا درد تھا اور جہاں کہیں مسلم قوم کی بہتری اور بہبودی کا معاملہ در پیش ہوتا آپ کی قابل عمل تجاویز ہمارا حوصلہ بڑھانے کا موجب بنتیں.ایسے موقع پر آپ کا رواں رواں قومی درد سے تڑپ اٹھتا تھا.فرقہ بازی کا تعصب میں نے اس وجود میں نام کو نہیں دیکھا.مرزا صاحب بلا کے ذہین تھے.سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:.میں نے پاک و ہند میں سیاسی نہ مذہبی لیڈر ایسا دیکھا ہے جس کا دماغ ( PRACTICAL پریکٹکل پالیٹکس میں ایسا کام کرتا ہو جیسا مرزا صاحب کا کام کرتا تھا.بےلوث (POLITICS
تاریخ احمدیت.جلد 23 201 سال 1965ء مشورہ، واضح تجویز اور پھر صحیح خطوط پر لائحہ عمل.یہ انکی خصوصیت تھی.مجھے ان کی وفات پر بڑا صدمہ ہوا.کہنے لگے.میں نے محترم محمد اسماعیل صاحب پانی پتی کو تعزیت کا خط لکھا ہے.اور اس خط میں یہ بھی لکھ دیا ہے کہ وہ حضرت صاحب سے متعلقہ تعزیتی فقرات کو شائع بھی کرا سکتے ہیں.افسوس ! مسلمانوں نے مرزا صاحب کی قدر نہیں کی سخت مخالفت کی آندھیوں کے باوجود میں نے مرزا صاحب کو کبھی افسردہ اور سرد مہر نہیں دیکھا.مرزا صاحب کے دل کی شمع ہمیشہ روشن رہی.ہم یاس و افسردگی کی تصویر بنے ان سے ملاقات کے لیے جاتے اور جب باہر آتے تو معلوم ہوتا کہ نا امیدی کے بادل چھٹ گئے ہیں.اور مقصد میں کامیابی سامنے نظر آ رہی ہے.وزنی دلیل دیتے اور قابل عمل بات کرتے اور پھر اس پر بس نہیں ہر نوع کی قربانی اور تعاون کی پیشکش بھی ساتھ ہوتی.جس سے ہم میں جرات اور حوصلہ کے جذبات پیدا ہوتے.129 چوہدری محمد اکبر خان بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا خراج تحسین ایک اور غیر احمدی دوست چوہدری محمد اکبر خان بھٹی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور تحریر کرتے ہیں: ’” جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی ذات مرجع خلائق تھی.وہ جب بھی لاہور آتے ان کی تقریر سننے والوں میں غیر احمدی، ہندو مسلم سامعین کی تعدا د احمدی حضرات کے مقابلہ میں کم نہ ہوتی تھی.خاص طور پر ان کا دلکش انداز تقریر دلوں کو مسخر کئے بغیر نہ رہتا تھا.مجھے بالخصوص ان کی ایسی تقریروں کا سماں یاد ہے جو احمد یہ ہوٹل ڈیوس روڈ کے وسیع صحن میں شامیانے تلے ہوتی تھیں.وجیہہ مقر رمسلمان شرفاء کے مقبول لباس میں سفید پگڑی ، لمبا کوٹ اور شلوار میں ملبوس جب لب کشائی کرتا تو ایک عجیب شان بے نیازی سے کھڑا ہو جاتا.بایاں ہاتھ کمر کے پیچھے رکھ لیتا اور سوائے کبھی کبھی پگڑی کے شملے کو چھو لینے کے اس سے کوئی ایسی حرکت دیکھنے میں نہ آتی جو عام طور پر بولنے والوں سے اپنی بات پر زور دینے کے سرزد ہوتی رہی.وہ آواز کے نمایاں اتار چڑھاؤ کے بغیر روانی سے بولتا جاتا.اہم مسائل پر یوں گفتگو کرتا جیسے وہ انہیں زندگی کے عام مسائل (PROBLEMS) سمجھتا ہو.ایک مسئلے کو اٹھا کر دوسرے مسئلے میں پیوست نہ کرتا.بلکہ ایک بات پر سیر حاصل تبصرہ کرنے کے بعد پھر دوسری بات کرتا نہ آنکھیں مٹکا تا، نہ کو ہے ہلاتا، نہ ہاتھ اور بازؤں سے بے پناہ فلک شگاف اشارے کرتا بس یہ کیفیت ہوتی جیسے کوئی اسے پیغام دے رہا ہو، اور وہ یہی پیغام سامعین تک بے کم و کاست پہنچارہا ہو.وہ مخالفین پر رکیک حملے نہ کرتا ، نہ شعر خوانی کرتا، نہ چھیڑ خانی کرتا، تین تین چار چار گھنٹے اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 202 سال 1965ء ربط اور ضبط سے بولتا جیسے کوئی کتاب پڑھ کر سنا رہا ہو.فقرے مکمل ، دلائل معقول ، احساس ذمہ داری حد کو پہنچا ہوا، تجاویز تعمیری، نکتہ چینی جائز ، ہر تقریر میں ایک پیغام ہوتا اور ہر پیغام پر عمل پیرا ہونے کے لیے واضح ہدایات سن کر مزا ہی آجاتا.بے اختیار دل میں یہ کیفیت پیدا ہوتی الحمد للہ ایک معقول اور فاضل آدمی کی باتیں سنے کا موقع ملا.مجھے اس کے مخالف مقررین کی مقررانہ حرکات سکنات کبھی بھی اتنی زیادہ مضحکہ خیز معلوم نہ ہوئیں جتنی کہ اس کی تقریر کو سننے کے فوراًبعد.ایک دفعہ میں دتی دروازہ کے باہر ایک مسجد میں جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریر سننے گیا.نماز تو ان کے پیچھے نہ پڑھی کیونکہ سا تھا کہ وہ عامتہ المسلمین کے ساتھ مل کر نماز نہیں پڑھتے.مگر نماز کے بعد ان کی تقریر نہایت غور سے سنی.عالمی مسائل سے لے کر ملکی مسائل تک ایسے انداز میں زیر بحث آئے کہ باید شاید.اصل میں ان کی شخصیت ایسی جاذب تھی کہ آدمی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا.میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے مخصوص حلقہ کے علاوہ بھی ان کی تجاویز عام مسلمانوں کے لیے مفید ہوسکتی تھیں.اور اگر انکو محض تعصب کی بناء پر قیادت کا وسیع میدان نہیں ملا تو اس سے ملت اسلامیہ اور ملک دونوں کو نقصان ہی ہوا ہے.اس سلسلہ میں اس امر کا تذکرہ خاص طور پر ایک تلخی اپنے اندر رکھتا ہے کہ کشمیر کمیٹی کی قیادت ان سے چھین لی گئی اس کے بعد مسئلہ کشمیر کا جو حشر ہوا و محتاج بیان نہیں.اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا بھی شاید بے محل نہ ہو گا.ہفتہ وار پارس“ کے ایڈیٹر لالہ کرم چند ایک دفعہ اخبار نویسوں کے وفد کے ساتھ قادیان کے سالانہ اجلاس میں شامل ہوئے وہاں سے واپس آئے تو یکے بعد دیگرے کئی مضامین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی قیادت، فراست اور شخصیت کا ذکر ایسے پیرائے میں کیا کہ مخالفوں میں کھلبلی مچ گئی.مجھے خود کہنے لگے ہم تو ظفر اللہ کو بڑا آدمی سمجھتے تھے.( سر ظفر اللہ ان دنوں وائسرائے کے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر تھے ) مگر مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سامنے اس کی حیثیت طفل مکتب کی ہے.وہ ہر معاملے میں ان سے بہتر رائے رکھتا ہے اور بہترین دلائل پیش کرتا ہے اس میں بے پناہ تنظیمی قابلیت ہے.ایسا آدمی بآسانی کسی ریاست کو بام عروج تک لے جاسکتا ہے.لالہ کرم چند پارس کے یہ مضامین پارس میں شائع ہوئے تو ایک آریہ سماجی شاعر نے جل کر اپنے اخبار میں لکھا:.تیرے گیت گائے ہوئے آ رہے ہیں عجیب شے ہے مرزا تیری مہمانی
تاریخ احمدیت.جلد 23 203 ظفر اللہ ہے قادیانی جنم کا کرم چند لالہ کرم چند نے سن کر کہا:.چند دو دو روز کا قادیانی شنیدہ کے بود مانند دیدہ سال 1965ء تقسیم ملک کے بعد مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے لاء کالج لاہور کے مینارڈ ہال میں ملکی ترقی کے امکانات پر چند تقریریں کی تھیں.ان تقریروں میں انہوں نے ایک فاضل یو نیورسٹی لیکچرار کی طرح نقشہ جات ، بلیک بورڈ اور گراف کی امداد سے بعض نکات کی وضاحت کی تھی.مجھے ایک نکتہ یاد ہے اور وہ یہ کہ افسوس ہے کہ تقسیم ملک سے پہلے ان جزائر کی طرف توجہ نہ دی گئی جو ساحل ہند کے ساتھ ساتھ واقع ہیں.کاریپ اور سرندیپ بالا دیپ وغیرہ ان ساحلی جزیروں کی آبادی اکثر و بیشتر مسلمانوں پر منحصر ہے اور ان کی اہمیت دفاعی نقطہ نگاہ سے بہت زیادہ ہے.ارشادات سن کر سامعین میں عام تاثریہ پایا جاتا تھا کہ کاش تقسیم کی کارروائی کے وقت خلیفہ صاحب کا اشتراک عمل حاصل کر لیا جاتا.بے جا تعصب اور خود فریبی نے قومی سطح پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کی خداداد صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ سے کھو دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ حقیقت مجھ پر طالبعلمی کے زمانہ میں ہی منکشف ہو گئی تھی کہ آدمی کو دشمنوں کے پروپیگنڈے سے اندھا دھند متاثر نہیں ہونا چاہیے.میں مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے متعلق جن باتوں کو ان کے کارنامے سمجھنے پر علی وجہ البصیرت مجبور ہوں وہ مختصراً یہ ہیں.اول ہائی کورٹ میں مخالف احمدیت کے تحقیقات کے سلسلے میں ان کا کردار اور فاضل حج کے سوالات کے جواب میں ان کی توضیحات ، لوگ حیران تھے کہ وہ ایسے ماحول کی مشکلات سے کیسے عہدہ بر آہوں گے مگر انہوں نے دیگر مسائل کے علاوہ وحی کی حقیقت جیسے مافوق الفطرت مسائل پر ایسی توضیحات پیش کیں کہ سننے والے انگشت بدنداں رہ گئے.ایک جج نے نجی صحبت میں اعتراف کیا کہ انہیں اپنی ساری فضیلت کے باوجود ان مافوق الفطرت مسائل کے متعلق رتی بھر واقفیت نہیں تھی.مرزا محمود احمد کی توضیحات کو سن کر ان کے چودہ طبق روشن ہو گئے اور پہلی بار بعض اسلامی نظریات کا صحیح صحیح علم ہوا.ان کا دوسرا کارنامہ یہ ہے کہ وہ انگلستان کے سفر پر اپنی بیگمات کو ساتھ لے کر گئے اور جب تعدد ازدواج کے اسلامی نظریہ کے مخالف عیسائیوں نے بیویوں کے ساتھ انصاف کے امکانات کا مسئلہ اٹھایا تو اس شیر نے مردانہ وار جواب دیا کہ اخبار
تاریخ احمدیت.جلد23 204 سال 1965ء نویس خواتین فرد فرد میری بیگمات سے ہی پوچھ کر دیکھ لیں.میں نے اپنی شعوری زندگی میں بڑے بڑے مسلمان لیڈروں اور قائدین فکر کو بنیادی اسلامی نظریات کے متعلق معذرت کے انداز میں باتیں کرتے دیکھا ہے مگر خدا کی قدرت دیکھیے کہ مہذب اور متمدن دنیا کے مرکز لندن میں بیٹھ کر اپنے قول وفعل سے اسلامی نظریات کی مردانہ وار حمایت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی کے حصے میں آئی.ان کا تیسرا کارنامہ جسے ان کا آخری پیغام سمجھا جانا چاہیے یہ ہے کہ انہوں نے اہل مذہب کو عام اس سے کہ وہ عیسائی ہوں ، یہودی ہوں، ہندو ہوں یا سکھ اس خطرے سے آگاہ کیا جو خدا پرستوں کو خدا کے نام سے بیزار تحریک کے ہاتھوں در پیش ہے.انہوں نے پکار کر کہا اے خدا پرستو! اے خدا کو ماننے والو! خدائی مذہب کے سر پر جو مہیب خطرہ منڈلا رہا ہے وہ ایک ایسی تحریک کا بنیادی اصول ہے جو اپنے خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہو کر خدا پر ایمان کی بنیاد ہی کو ڈھا دینے پر آمادہ ہے.اس تحریک نے تمہارے اندر اس حد تک نفوذ کر رکھا ہے کہ اب مسلمانوں کے بیٹے بیٹیاں مسلمان گھروں میں اور مسلمان کے دانشور مسلمانوں کی مجلسوں میں خدا ہی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور جب خدا ہی کے وجود کا انکار ہو گیا تو نبوت شریعت کے نقوش کس طرح دلوں میں قائم رہ سکتے ہیں.آؤ سب اہل مذہب لامذہبیت کے اس طوفان کا مقابلہ مل کر کریں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا پر یقین رکھنے والے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی اس آواز پر انکی زندگی میں کان دھرتے تو خدا جانے اس شخص کی قائدانہ صلاحیت اور قوت تنظیم اس خطرے کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کی کیسی کیسی مؤثر تجاویز کو جامعہ عمل پہناتی.اے بسا آرزو کہ خاک شده المختصر ان کی زندگی ، ان کی وضع قطع ، ان کے لباس، ان کی تحریر و تقریر میں بے شمار خصوصیات ایسی تھیں جن پر اسلامی تحریک اور اسلامی معاشرہ بجاطور پر فخر کر سکتا ہے.“ نامور صحافی ضیاء الدین احمد برنی کا خراج عقیدت 130 ملک کے نامور صحافی جناب ضیاء الدین احمد برنی نے ماہنامہ ”کتابی دنیا دسمبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ نمبرا اپر حسب ذیل نوٹ سپر و قلم فرمایا:.مرزا بشیر الدین محمود احمد کوئی پچپن سال پہلے کی بات ہے کہ سنگم تھیڑ دہلی میں میں نے مرزا صاحب کی پہلی اور آخری تقریرینی تھی.مجمع بہت صاف ستھرا تھا.اور تقریر بھی سورہ فاتحہ کی تفسیر سے متعلق تھی.تقریر بہت
تاریخ احمدیت.جلد23 205 سال 1965ء اعلیٰ پایہ کی تھی.کراچی میں آکر ان سے ملاقات بھی ہوگئی.یہ ملاقات بین اسلامک اسٹیم شپ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر مسٹر عبدالمجید اسمعیل (مرحوم) کے یہاں دعوت کے موقع پر ہوئی تھی.مرزا صاحب بڑے پر مذاق اور متواضع بزرگ تھے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بہت بڑے عالم بھی تھے مگر ان کی ساری زندگی کافی ہنگامہ خیز رہی ہے..مرحوم کی خلافت کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے غیر ممالک میں اپنے مشن قائم کئے.اور تبلیغ کی نئی راہیں نکالیں.ان کے زمانہ میں دنیا کی متعدد زبانوں میں قرآن مجید کا ترجمہ بھی ہوا.مرحوم خود بھی کئی کتابوں کے مصنف تھے.ان کی موت ایک لحاظ سے بہت بڑا سانحہ ہے اور نقصانِ عظیم.باوجود خلیفہ ہونے کے وہ بھی ہماری طرح اللہ کی مغفرت کے محتاج ہیں.اور اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا ان کی مغفرت فرمائے.ان کے صاحبزادے مرزا ناصر احمد صاحب اور دیگر اعزا کی خدمت میں دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں“.حیح ہفت روزہ لا ہور کا اداریہ "جس نے ہر سانس لیا دین محمد کے لئے“ 131 جناب ثاقب صاحب زیر وی مدیر لاہور نے ۱۵ نومبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں حسب ذیل اداریہ لکھا:.اس ہفتے ۸ نومبر ۶۵ء ( بروز پیر ) کو ایک ایسی پاکیزہ روح اپنے قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملی.دین ربانی (اسلام) کے ایک ایسے مخلص دردمند خادم اور انسانیت کے ایک ایسے بچے سر پرست نے اس دار فانی کو خیر باد کہا.جس کے دل و دماغ عمر بھر اسلام ہی کے چہرے کی چمک دمک کو بڑھانے اور اُسی کی رعنائی و دلفریبی میں اضافہ کرنے میں کوشاں رہے.وہ جاں نثار اسلام جو دنیا کے کسی بھی خطے میں نہ صرف ضعف دینِ مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) دیکھ نہ سکتا تھا.ہر جگہ اس کا جھنڈا نصب کرنے کی فکر میں بھی رہتا تھا.جس کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ،سونا اور جاگنا صرف اور صرف خدمت دین محمد اللہ کے لئے وقف تھا.اور جس نے اسلام کے پرستاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت کے دلوں میں خدمت دینِ متین کی ایسی شمعیں روشن کیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک نور اسلام کی تنویر لا زوال پھیل گئی اور اسلام کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 206 سال 1965ء جیالے مجاہدوں نے تثلیث اور الحاد پر اس شان سے یلغار کی کہ باطل ہر محاذ پر حق سے پچھاڑ کھا کر بھاگنے لگا اور افریقہ کے پتے ہوئے صحراؤں سے لے کر یورپ و امریکہ کے رفیع الشان ایوانوں تک اسلام کے براہین قاطعہ کی عظمت اور ہیبت چھا گئی.وہ بلند کردار انسان جو صحت و توانائی کے اعتبار سے کسی مضبوط اور مستحکم جتنے کا انسان نہیں تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کی آواز کو ایسی گرج، گونج، تاثیر بلکہ سحر ودیعت فرمائے تھے کہ اس کے حق پرستانہ نعرے معاندینِ اسلام کولرزہ براندام کر دیتے تھے.وہ صاحب علم روحانیت جوکسی یو نیورٹی کا فارغ التحصیل نہ تھا.جس کے پاس کسی قسم کی نصابی علم کی کوئی سند نہیں تھی.لیکن اُس کے دل میں اپنے دین کے لئے درد دیکھ کر انعام کے طور پر خدائے ذوالجلال نے اسے ایسا علم لدنی عطا کیا تھا اور اپنے کلام پاک ( قرآن کریم ) کے رموز و معانی سمجھنے اور سمجھانے کی ایسی معرفت اور صلاحیتیں عطا کی تھیں کہ وہ دنیا بھر کے علوم وفنون سے متعلق سوالات کا جواب اور دنیا و جہان کے علمی، سیاسی، اقتصادی صنعتی عنصروں اور اُلجھنوں کا حل قرآن کریم ہی سے پیش کرنے پر قادر تھا.جسے ناز تھا تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآن کریم کا فہم عطا فرمایا ہے اور جو ہمیشہ اپنے رب کی اس عطا کو اپنا نایاب سرمایہ حیات تصور کرتا رہا.وہ شیدائے اسلام جس نے ایک مختصر اور غریب جماعت کے دلوں میں اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے حصول کی ایسی سچی تڑپ پیدا کی کہ وہ ہمہ وقت اس کے دین کے لئے اپنی ہر شے کو قربان کر دینے کے لئے مستعد رہنے لگی.یہاں تک کہ افریقہ، یورپ اور امریکہ میں اسلام کے ایک سو کے لگ بھگ ایسے مستحکم تبلیغی واشاعتی مشن قائم ہو گئے جن کے ذریعہ مادیت پرست اور تعیش پسند ملکوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں ایسے انسان پیدا ہوئے جو آج صبح و شام اپنی مساجد کے بلند میناروں سے اللہ اکبر اور اشهد أن لا إله إلا الله کی بابرکت صدائیں بلند کرتے اور اٹھتے بیٹھتے محسن انسانیت سید ولد آدم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں.اسلام کا وہ فتح نصیب جرنیل جس نے اسلام کے مبلغوں کو دلائل و براہین قاطعہ کے جدید اسلحہ سے لیس کر کے اہل فرنگ اور الحاد پرستوں پر انہی کے مرغوب ہتھیاروں سے حملہ کیا اور پچھاڑا.و غمگسار دین محمد اللہ جس کی راتوں کی نیند اور دنوں کا چین حرام ہو گیا تھا.جب اس نے دیکھا کہ متحدہ ہندوستان کے علاقہ ملکانہ میں ہندو پر چارکوں اور آریوں نے شدھی کی تحریک سے کمزور طبائع
تاریخ احمدیت.جلد 23 207 سال 1965ء مسلمانوں کو دین حقہ سے منحرف کرنے کی ہمہ گیر مہم شروع کر دی ہے.اس نے دشمنانِ اسلام کو للکارا اور اس للکار کے ساتھ ہی ان مادہ پرستوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنے سینکڑوں شیر میدان میں اتار دیئے جو اس وقت تک دشمن سے جنگ آزما ر ہے جب تک آریہ مت کا قافیہ پوری طرح تنگ نہ ہو گیا.اور اسلام اپنی پوری صلاحیتوں کے ساتھ قلوب واذہان پر پھر مستولی نہیں ہو گیا.وہ عاشق کلام پاک جس نے اللہ تعالیٰ کے حمید و مجید کلام ( قرآن ) کے انوار کو اقصائے عالم میں پھیلانے کے لئے اس کا ایک درجن سے زائد زبانوں میں ترجمہ کرا کے اسلام کی اساسی تعلیم کو تثلیث و دہریت کے نرغہ میں آئی ہوئی انسانیت کے قلوب میں جاگزیں کیا.وہ دردمند انسانیت جس کی نگاہ نکتہ شناس نے ۳۱ء میں سب سے پہلے خطہ جنت نظیر کشمیر کے باسیوں کے ہاتھوں سے جبر و تشدد اور اُس محکومی و مجبوری کو پڑھا جو صدیوں سے ان کے ضمیروں، روحوں اور دلوں کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھی اور جس نے اس در دو کرب کو پڑھتے ہی ان اسیروں کی رستگاری و رہائی کے لئے ایک ایسی ملک گیر سیاسی و اخلاقی مہم شروع کی کہ اس کی قائم کردہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے چند ہی مہینوں میں کشمیر کے کونے کونے میں جذب حریت کی چنگاریاں سُلگا دیں.جن کے شعلے آج ایسے خطرناک الاؤ کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں کہ بھارت کی جابر اور وسیع ذرائع والی حکومت بھی اس میں جل کر بھسم ہوا چاہتی ہے.وہ جیدا اور باعمل جلیل القدر فرزند اسلام جو گفتار نہیں کردار کا غازی تھا اور جس نے جنگ کشمیر شروع ہونے پر صرف جہاد کے کاغذی فتوؤں اور تائیدی بیانوں ہی پر اکتفا نہ کیا بلکہ اپنے خرچ پر فوراً اس مہم کو سر کرنے کے لئے باقاعدہ ایک فورس قائم کر کے اسے سر براہانِ وقت کے حوالے کر دیا اور پھر اس عاشق قرآن کی قائم کردہ فرقان فورس نے میدانِ جنگ میں ایسے کا رہائے نمایاں انجام دیئے کہ تاریخ استحکام پاکستان اور تاریخ جنگ آزادی کشمیر انہیں ہمیشہ اپنے سینے کے ساتھ لگا کر رکھے گی.وہ نکتہ رس اور نکتہ پرور مذہبی رہنما جس کی قیادت کی انگلیاں ہمیشہ قلوب و ضمائر کی نبض پر رہتی تھیں اور جس کی ایک آواز پر اور جس کی انگلی کے ایک اشارے پر بڑے بڑے سکالر، سائنسدان، پروفیسر، قانون دان یہاں تک کہ دنیوی زندگی سے وابستہ اس کا ہر ارادت مند ہر وقت اپنے سارے دنیوی تانے بانے سے منہ موڑ کر خدمتِ اسلام کے لئے نکل پڑنے کو تیار رہتا تھا.امریکہ و یورپ کی عیسائی حکومتوں ہی کو اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ جب وہ کسی ملک کو اپنے حکومتی مذہب کی تبلیغ کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 208 سال 1965ء لئے چنتی ہیں تو انہیں اپنے ملکی میز انیوں کا کتنا بڑا حصہ علیحدہ کر دینا پڑتا ہے.لیکن اسلام کی تاریخ ہمیشہ اس بات پر مفتخر و نازاں رہے گی کہ اس کے اس صاحب نظر فرزند نے ان وسیع الذرائع حکومتوں کے سرکاری مذہب پر حملہ کرنے کے لئے اپنے صرف گزارہ الاؤنس پر آئے ہوئے متوکل علی اللہ شیروں کے ذریعہ اس بصیرت، حکمت اور جو رسی سے بھر پور وار کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہر مقام سے تثلیث کا خیمہ اکھڑنے لگا.یہاں تک کہ اسلام کے دیوانوں نے مادیت پرست فرزانوں کے ہر مرکز پر اسلام کا جھنڈ ا نصب کر دیا.وہ رضائے خداوندی کے عطر سے ممسوح وجود جس کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا کہ ہر طرف اسلام کا نور پھیلے.ہر طرف قرآن کریم کی تنویر نظر آئے اور ہر ملک، ہر قریہ اور ہر بستی میں اُسی کے محبوب و مقبول رسول اور آقا ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر درود بھیجا جائے.وہ ماہر نفسیات سلطان البیان جو روحوں کے رباب پر اس حسن سے نغمہ زنی کرتا تھا کہ روحیں اور دل جھنجھنا کر اپنے آپ کو بے تابانہ خدمت دین یزدانی کے لئے پیش کر دیا کرتے تھے.وہ شہسوار ملک روحانیت جو سرتا پا شفقت تھا.سراپا محبت تھا.دلداری و دلنوازی جس کی طبیعت ثانیہ تھی.اگر اسلام کے اس بلند حوصلہ اور جلیل القدر فرزند کے نگاہوں سے اوجھل ہو جانے پر بھی روحیں سو گوارا اور آنکھیں اشکبار نہ ہوتیں تو یقیناً مہر و وفا اور احسان شناسی کی اقدار سر پیٹ کر رہ جاتیں.اور انسانیت اپنے آپ کو بے سہارا اور لاوارث محسوس کرنے لگتی.اگر الہی تقدیروں کا رخ موڑا جا سکنا ممکن ہوتا.اگر قضا و قدر کے فیصلوں کے لئے کسی قسم کی التجاو گزارش کی گنجائش ہوتی تو ہم اپنی زندگی کا نذرانہ پیش کر کے بھی اپنے رب سے التجا کرتے کہ وہ صرف ستر سال ہی کی عمر میں اسے اپنے پاس نہ بلالے.لیکن اس قادر و توانا کے حضور ایسے کسی قیاس کی بھی کہاں گنجائش و مجال ہے.اور یوں بھی ایک سچے مسلمان کے لئے جو اسلام ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھتا ہو.اپنے جلیل و قدیر خدا کی رضا کے حصول سے بڑھ کر کونسی شے ہے.لہذا ہم اُسی کے ارشادِ پاک کے تحت انا لله و انا الیه راجعون پڑھتے ہوئے اُس سے یہی التجا کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں کہ اے ہمارے مالک و مختار خدا! تو اپنے اس محبوب بندے کو اس کی نیکیوں کے بہترین اجر دیتے ہوئے اسے اس کے حبیب پاک (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قربت خاص سے نواز ئیو.اور اس کی امنگوں اور آرزوؤں کو اپنے فضل سے شرف قبولیت بخشتے ہوئے اس کے تمام ارادتمندوں کے دلوں
تاریخ احمدیت.جلد 23 209 سال 1965ء میں ایسی چنگاریاں سُلگا دیجیو کہ ان میں سے ہر ایک جب تک زندہ رہے میرزا بشیر الدین محمود احمد ہی کا مشن اور اشاعت و عظمت اسلام کی وہی تڑپ لے کر زندہ رہے.وہ جب تک جئے اقصائے عالم پر اسلام اور اس کے نقیب و داعی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی کا جھنڈا گاڑنے کے لئے جئے حتی کہ اسلام کے اُس بطل جلیل کا مشن پایہ تکمیل تک پہنچ جائے.اس طرح کہ دنیا میں صرف ایک ہی مذہب ہو اسلام.اور دنیا بھر میں صرف ایک ہی رسول ہو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ).اے ہمارے عظیم و کریم خدا تو ایسا ہی کر.محبانِ اسلام کے لئے یہ حقیقت سکون بخش ہی نہیں حد درجہ اطمینان آفرین بھی ہے کہ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی غریب جماعت کو خدائے قدوس و عظیم کی عطا کردہ بصیرت کے طفیل اپنے اس عظیم و محبوب رہنما کے بعد ایک ایسا قائد و رہنما ( حافظ میرزا ناصر احمد ) چننے کی سعادت و توفیق ملی.جسے اپنے پیشرو والی آفاقی اور لازوال تڑپ خون میں عطا ہوئی ہے.اور جس کی رگ رگ میں اسی جذب و عزم کے جو ہروں سے مملو خون موجزن ہے جسے اپنی آکسفورڈ کی سند فضیلت سے کہیں زیادہ نازاس سعادت واعزاز پر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرآن کا حافظ ہے.جسے انگریزی زبان پر عبور و دسترس سے کہیں زیادہ فخر اس بات پر ہے کہ وہ اُس اُم الالسنہ عربی کا ماہر ہے.وہ پاکیزہ زبان جس میں اس کا حبیب و مطاع ( صلی اللہ علیہ وسلم ) گفتگو فرمایا کرتا تھا.اور جسے خدائے عظیم و برتر نے اپنے آخری اور مکمل و جامع صحیفے کے لئے منتخب کیا.جسے قومی تعلیم و تربیت کے بے پناہ تجربہ کے ساتھ ساتھ درس و تدریس اور قومی تنظیم و تعمیر کے شعبوں پر بھی کامل عبور و دسترس حاصل ہے اور جس کی آنکھوں پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کا ایسا چشمہ چڑھایا ہوا ہے کہ وہ بھی ہر دینی و دنیوی عقدہ کا حل قرآن کریم ہی سے پیش کرنے پر ایمان ویقین رکھتا ہے.لاریب ! وہ کامگار جماعت جسے یکے بعد دیگرے ایسے دردمند اور رہنما نصیب ہوں.وہ اپنے مقدر کی بلندی اور سرفرازی پر جتنا بھی ناز کرے کم ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے اس ناز کی لاج رکھے.آمین ثم آمین !“ ایڈیٹر ماہنامہ رفتار زمانہ کازبر دست خراج تحسین محترم مبارک احمد صاحب ایمن آبادی ایڈیٹر ماہنامہ رفتار زمانہ (لاہور) نے دسمبر ۱۹۶۵ء کے شمارہ میں حسب ذیل افتتاحیہ شائع کیا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 210 سال 1965ء برصغیر پاک و ہند کی ایک مایہ ناز شخصیت اٹھ گئی قادیانی جماعت کے مشہور مذہبی و روحانی پیشوا مرزا بشیر الدین محمود احمد کا المناک انتقال اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے مرزا بشیر الدین محمود احمد بانی سلسلہ احمدیہ کے فرزندار جمند اور جماعت کے دوسرے خلیفہ تھے آپ کی پیدائش ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی.احمدی لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے آپ کی پیدائش سے پہلے ہی لوگوں کو بتلا دیا تھا کہ اللہ تعالی آپ کو ایک ایسا لڑکا عطا فرمائے گا.(۱) جس کا نام محمود ہوگا.وہ اولوالعزم ہوگا اور حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا.(۲) اس کے ذریعہ سے حق ترقی کرے گا اور بہت سے لوگ سچائی کو قبول کریں گے.آپ ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کے زمانہ خلافت میں جو اکاون سال تک ممتد ہے دنیا کے ہر ایک حصہ میں تبلیغی مراکز قائم کئے گئے چنانچہ انگلستان، امریکہ، جرمنی ، ہالینڈ ، مغربی افریقہ، مشرقی افریقہ، بلاد عربیہ اور انڈونیشیا وغیرہ ممالک میں نوے سے زائد تبلیغی مراکز قائم ہو چکے ہیں جہاں تبلیغ اسلام کا کام وسیع پیمانہ پر ہورہا ہے.علاوہ از میں آپ کے زمانہ میں متعدد غیر ملکی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع ہوئے اور بیرونی ممالک میں سینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں.آپ نے اپنے پیچھے ہزار ہا صفحات کا ایک عظیم الشان لٹریچر یادگار چھوڑا ہے جو قریباً پونے دو سو کتب و رسائل پر مشتمل ہے اور جس میں تفسیر ، کلام، فقه، اخلاق، روحانیات، سیاسیات وغیرہ اہم مضامین پر مشتمل ہے.اور نہایت قیمتی معلومات سے لبریز ہے.آپ نے تبلیغ اسلام کے عظیم الشان کام کے ساتھ ساتھ دوسرے اہم امور میں بھی مسلمانوں کی بیش بہا خدمات انجام دی ہیں اور ہر موقعہ پر مسلمانوں کی دینی اور دنیوی بہبودی میں رہنمائی کی تدابیر اختیار کی ہیں.۱۹۲۲-۲۳ء میں جب یو.پی کے علاقہ میں فتنہ ارتداد کا زور ہوا.اور آریہ سماج نے وہاں پر لاکھوں مسلمانوں کو شدھ کر کے ہندو بنایا.تو آپ ہی نے اس تحریک کا مقابلہ کر کے آریوں کو شکست دی.آپ نے اپنی جماعت کے سینکڑوں افراد کو اس علاقہ میں بھجوایا.جنہوں نے ہر طرح کی تکلیف برداشت کر کے آریہ سماج کی تحریک کو نا کام کیا.اور وہ مسلمان جو ہندو ہو چکے تھے انہیں دوبارہ اسلام کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 211 سال 1965ء حلقہ بگوش بنایا.آپ کی اس انمول اسلامی خدمت کا اعتراف دوسرے مسلمانوں نے بھی کیا.مسلمانوں کی اقتصادی حالت کو درست اور مضبوط کرنے کے لئے بھی آپ نے نہ صرف نیک تحریکیں کیں بلکہ عملی طور پر تدابیر اختیار کرنے میں ان کی مدد کی.مسلمانوں کو آپ نے توجہ دلائی کہ چونکہ ان کی اقتصادی حالت کمزور ہے اس لئے دوسری قومیں ان کی عزت نہیں کرتیں انہیں چاہیئے کہ وہ تجارت کی طرف زیادہ توجہ کریں اور ہر شہر اور ہر قصبہ میں اپنی دکانیں کھولیں اور جس طرح ہندو لوگ صرف اپنے لوگوں سے سودا خریدتے ہیں مسلمانوں کو بھی یہ طریق اختیار کرنا چاہیئے کہ ان کی تجارت کامیاب ہو اور ان کی مالی حالت مضبوط ہو.ہندوستان کے طول و عرض میں مبلغین بھیج کر جگہ جگہ مسلمانوں کی قومی غیرت وحمیت کے جذبات کو ابھارا اور ان میں زندگی کی رو چلائی.اس تحریک سے مسلمانوں نے اپنی دکانیں کھولیں اور ہند وسرمایہ داروں اور بیوپاریوں کا مقابلہ کیا.امام جماعت احمدیہ کا ایک زریں کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی بنیاد ڈالی.۱۹۲۷ء کے قریب بعض ہندوؤں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت دلآ زار کتب لکھیں.جس میں اس مجسم پاک زندگی پر ناپاک حملے کئے گئے تھے آپ نے اس کے تدارک کے لئے سیرۃ النبی ﷺ کے جلسوں کو قائم کیا.تا کہ اسی ذریعہ سے تمام لوگوں کو معلوم ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کتنی پاکیزہ اور اعلیٰ تھی اور انبیاء علیہم السلام کی پاکیزہ جماعت کے سرخیل تھے.۱۹۲۴ء میں آپ انگلستان تشریف لے گئے.تاکہ ان ممالک میں تبلیغی جد و جہد کا بنفس نفیس مشاہدہ کریں.انہیں ایام میں آپ نے انگلستان میں ایک شاندار مسجد کا سنگِ بنیا درکھا.جو اس وقت مبلغین اسلام کا مرکز ہے اور اس میں دن رات اعلاء کلمۃ اللہ کا مقدس کام ہو رہا ہے.۱۹۳۱ء میں کشمیر کے متعلق یہ تحریک پیدا ہوئی کہ وہاں کے مسلمان جو تعداد کے لحاظ سے بڑی بھاری اکثریت رکھتے ہیں لیکن حکومت میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ان کے حقوق کی حفاظت کی جائے.اور ریاست کے مظالم سے انہیں نجات دلائی جائے اس کام کیلئے شملہ میں ایک کانفرنس ہوئی.جس میں مسلمانوں کے بڑے بڑے لیڈر شامل ہوئے اور ایک آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم کر کے حضرت امام جماعت احمدیہ کو متفقہ طور پر اس کا صدر منتخب کیا گیا.آپ نے اہل کشمیر کے لئے اس تندہی اور خوش اسلوبی سے کام کیا کہ خدا کے فضل سے کشمیری مسلمانوں کے اکثر مطالبات تسلیم کر لئے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 212 سال 1965ء یہاں تک کہ آپ کی براہ راست کوششوں کے ماتحت ۱۹۳۴ء میں وہاں پر اسمبلی قائم ہوئی.۱۹۴۸ء میں آپ کی کوشش سے احمدیوں کی ایک رضا کار بٹالین قائم ہوئی جس نے دو برس تک محاذ کشمیر میں نا قابل فراموش خدمات انجام دیں.اس وقت بھی جماعت احمدیہ اہل کشمیر کی بہبودی کے لئے برابر کام کر رہی ہے.۱۹۴۷ء میں جب ملکی تقسیم کا سوال پیدا ہو کر باؤنڈری کمیشن کا تقرر ہوا.تو آپ نے مسلمانوں کی بہبودی کے لئے ہر ممکن کوشش کی.اس اہم کام کے لئے قادیان سے لاہور آ کر کئی دن رہے اور بڑی تگ و دو کر کے باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایسا مواد فراہم کیا جو مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لئے زیادہ سے زیادہ مفید تھا.اور اس موقع پر انگلستان سے اپنے خرچ پر ایک ماہر فن مسٹر سپیٹ (SPATE) کو بلوایا کہ حد بندی کے کام میں وہ مسلمانوں کے نمائندہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی امداد کرے.اس سے قبل مسلم لیگ اور اس کے مخالف پارٹیوں کے درمیان جو کشمکش تھی اسے دور کرنے کے لئے بھی امام جماعت احمدیہ نے انتھک کوشش فرمائی.اور دہلی میں جا کر تمام مسلمان لیڈروں سے مل ملا کر اس کام کو انجام دیا.۱۹۴۷ء کے قیامت خیز انقلاب میں جماعت احمدیہ کو بھی اپنے مرکز قادیان سے نکلنا پڑا.لیکن آپ کے تدبر اور اولوالعزمی نے نہ صرف قادیان کے مرکز کو سنبھالا بلکہ باوجود سخت مشکلات کے جماعت کے لئے ایک نئے مرکز کی طرح ڈالی.آپ نے ضلع جھنگ میں ربوہ نام سے ایک بستی آباد کی ہے جس میں جماعت کے تمام دفاتر قائم ہو چکے ہیں اور اس کی آبادی بڑی سرعت سے بڑھ رہی ہے.مملکت پاکستان میں آپ نے یہ ایک مثال قائم کی ہے کہ بلند ہمت انسان حکومت پر بوجھ نہیں ہوتے.وہ دوسروں کے سہارے کی بجائے خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر سر بلند ہوتے ہیں.جماعت احمدیہ کی ترقی اور وسعت کے پیش نظر آپ نے جماعتی نظام کی سہولت کے لئے مختلف صیغہ جات قائم کئے ہیں.ہر محکمہ کو نظارت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.۱۹۵۵ء میں آپ دوسری بار بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے جہاں آپ کی صدارت میں مغربی دنیا میں تبلیغ اسلام کی مہم تیز کرنے کے لئے ایک اہم کا نفرنس منعقد ہوئی اس سفر میں متعدد انگریز آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل اسلام ہوئے.۱۹۵۷ء میں آپ نے شدید بیماری کے باوجود قرآن مجید کی ایک مختصر مگر جامع اور معرکۃ الآرا
تاریخ احمدیت.جلد 23 213 سال 1965ء تفسیر نہایت قلیل عرصہ میں لکھی جو تفسیر صغیر کے نام سے شائع ہوئی.سنا ہے کہ اس کا تیسرا ایڈیشن بلاک پر شائع ہورہا ہے.بہر حال اس محنت شاقہ کے بعد آپ کی صحت پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ آپ اس کے بعد بستر علالت سے اٹھ نہ سکے اور بالآخرے، ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی شب کو انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون آپ کی بے مثال شخصیت عالمگیر شہرت کی حامل تھی.چنانچہ آپ کی وفات پر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرونی ممالک کے پریس نے بھی گہرے رنج وغم کا اظہار کیا ہے جو آپ کی بلند پایہ عظمت کا واضح ثبوت ہے.بعض زعمائے ملت کے تاثرات بالآخر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشہور زعمائے ملت و عمائد قوم کی چند آراء و تاثرات ہدیہ قارئین کر دی جائیں:.ہ برصغیر ہند و پاکستان کے مشہور مسلم لیڈر اور شاعر حضرت مولانا ظفر علی خانصاحب ایڈیٹر ”زمیندار احرار کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کان کھول کر سن لوتم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے.مرزا محمود کے پاس قرآن ہے اور قرآن کا علم ہے.تمہارے پاس کیا دھرا ہے..تم نے کبھی خواب میں بھی قرآن نہیں پڑھا..مرزا محمود کے پاس ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے اشارے پر اس کے پاؤں پر نچھاور کرنے کو تیار ہے..مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں.مختلف علوم کے ماہر ہیں.دنیا کے ہر ملک میں اس نے اپنا جھنڈا گاڑ رکھا ہے.لا مصور فطرت شمس العلماء حضرت خواجہ حسن نظامی صاحب نے آپ کی قلمی تصویر 132 ان الفاظ میں کھینچی :.اکثر بیمار رہتے ہیں مگر بیماریاں ان کی علمی مستعدی میں رخنہ نہیں ڈال سکتیں.انہوں نے مخالفت کی آندھیوں میں اطمینان کے ساتھ کام کر کے اپنی مغلئی جوانمردی کو ثابت کر دیا.اور یہ بھی کہ مغل ذات کارفرمائی کا خاص سلیقہ رکھتی ہے.سیاسی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور مذہبی عقل و فہم میں بھی قوی ہیں اور جنگی ہنر بھی جانتے ہیں یعنی دماغی اور فلمی جنگ کے ماہر ہیں.☆ 1919ء میں لاہور میں مورخ اسلام پروفیسر سید عبدالقادر صاحب ایم.اے کی صدارت میں مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کا جلسہ منعقد ہوا.اس میں خلیفہ صاحب نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 214 سال 1965ء اسلام میں اختلافات کا آغاز“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.اس جلسہ میں پروفیسر صاحب نے آپ کا تعارف کرواتے ہوئے کہا:.حضرات ! عام طور پر قاعدہ ہوتا ہے کہ جب کوئی صاحب لیکچر کے لئے تشریف لائیں تو صدر انجمن حاضرین سے ان کا تعارف کرواتا ہے.لیکن آج کے لیکچرار اس عزت ، اس شہرت اور اس پایہ کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب نا واقف ہوں.آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچادیا تھا.134- پروفیسر صاحب مذکور نے تقریر کے اختتام پر فرمایا:.میں نے بھی کچھ تاریخی اور اق کی ورق گردانی کی ہے.اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس لیمپ (جو میز پر تھا) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ کی روشنی سے ( جواو پر آویزاں تھا) ہے.حضرات ! جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے اور یہاں بہت کم لوگ ہوں گے جو ایسے ادق باب کو بیان کر سکیں.میرے خیال میں تو لاہور میں بھی ایسا کوئی شخص نہیں ہے...میں خواہش کرتا ہوں کہ ایسے ایسے قابل انسان ہماری سوسائٹی میں ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اگر ایسی زبر دست علمیت اور شخصیت کا انسان ہماری سوسائٹی کا ممبر بن جائے تو سوسائٹی کو چار چاند لگ جائیں گے.“ ☆ آپ کے بارہ میں میاں سلطان احمد صاحب وجودی کے تاثرات بھی کچھ کم دلچسپی کے حامل نہیں وہ لکھتے ہیں :.”مرزا بشیر الدین محمود احمد میں کام کرنے کی قوت حد سے زیادہ ہے وہ ایک غیر معمولی شخصیت کے انسان ہیں.وہ کئی گھنٹوں تک رکاوٹ کے بغیر تقریر کرتے ہیں.ان کی تقریر میں روانی اور معلومات زیادہ پائی جاتی ہیں.وہ بڑی بڑی مضخیم کتابوں کے مصنف ہیں ان کو مل کر ان کے اخلاق کا گہرا اثر ملنے والوں پر ہوتا ہے.تنظیم کا ملکہ ان میں موجود ہے وہ پچاس سال کی عمر میں کام کرنے کے لحاظ سے نو جوان معلوم ہوتے ہیں.اور اردو زبان کے ایک بڑے سر پرست ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 215 سال 1965ء حضرت مولانا محمد علی جوہر نے اپنے اخبار ”ہمدرد“ میں لکھا:.ناشکری ہوگی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور ان کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں، جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم تبلیغ و تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرز عمل سواد اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور ان اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیچ دعاوی کے خوگر ہیں مشعل راہ ثابت ہوگا.جن اصحاب کو جماعت احمدیہ قادیان کے اس جلسہ عام میں جس میں مرزا صاحب موصوف نے اپنے عزائم اور طریق کار پر اظہار خیالات فرمایا شرکت کا شرف حاصل ہوا ہے وہ ہمارے خیال کی تائید کئے بغیر نہیں رہ سکتے“.مدیر سیاست فدائے ملت جناب سید حبیب صاحب نے اپنی اشاعت ۱۶ دسمبر ۱۹۳۰ء میں لکھا:.مذہبی اختلافات کی بات چھوڑ کر دیکھیں.تو جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے میدانِ تصنیف میں جو کام کیا ہے وہ بلحاظ ضخامت و استفادہ ہر تعریف کا مستحق ہے.اور سیاسیات میں اپنی جماعت کو عام مسلمانوں کے پہلو بہ پہلو چلانے میں آپ نے جس عمل کی ابتدا کر کے اس کو اپنی قیادت میں کامیاب بنایا ہے وہ بھی ہر منصف مزاج اور حق شناس انسان سے خراج تحسین وصول کر کے رہتا ہے.آپ کی سیاست کا ایک زمانہ قائل ہے.اور نہرور پورٹ کے خلاف مسلمانوں کو مجتمع کرنے میں سائمن کمیشن کے روبرو مسلمانوں کا نقطہ نگاہ پیش کرنے میں مسائل حاضرہ پر اسلامی نقطہ سے مدلل بحث کرنے اور مسلمانوں کے حقوق کے متعلق استدلال سے مملو کتا بیں شائع کرنے کی صورت میں آپ نے بہت ہی قابل تعریف کام کیا ہے.اسی طرح ایڈیٹر اخبار مشرق“ گورکھپور مولاناحکیم سید ابراہیم برہم نے لکھا ہے:.” جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں.آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا.آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا.سرفروشی کی اور جیل خانہ جانے سے خوف نہ کھایا.آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر کو عدل و
تاریخ احمدیت.جلد 23 216 سال 1965ء انصاف کی طرف مائل کیا.اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں کے ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں اور خاص اسلامی کام سرانجام 66 دے رہی ہے.135 لکھتے ہیں:.مشہور صحافی وقار انبالوی اپنے روز نامہ ”سفینہ کی ۱۳ نومبر ۱۹۴۸ء کی اشاعت میں گزشتہ اتوار کوامیر جماعت احمدیہ نے لاہور کے اخبار نویسوں کو اپنی نئی بستی ربوہ کا مقام دیکھنے کی دعوت دی اور انہیں ساتھ لے کر وہاں کا دورہ کیا.اس دورے کی تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں.ایک مہاجر کی حیثیت سے ربوہ ہمارے لئے ایک سبق ہے ساٹھ لاکھ مہاجر پاکستان آئے لیکن اس طرح کہ وہاں سے بھی اجڑے اور یہاں پر بھی کسمپرسی نے انہیں منتشر کر رکھا.یہ لوگ مسلمان تھے.رب العالمین کے پرستار اور رحمتہ للعالمین کے نام لیوا، مساوات واخوت کے علمبر دار لیکن اتنی بڑی مصیبت بھی انہیں یکجا نہ کر سکی اس کے برعکس ہم اعتقادی حیثیت سے احمدیوں پر ہمیشہ طعنہ زن رہے ہیں لیکن ان کی تنظیم، ان کی اخوت اور دکھ سکھ میں ایک دوسرے کی حمایت نے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک نیا قادیان آباد کرنے کی ابتدا کر دی ہے مہاجر بن کر وہ لوگ بھی آئے جن میں خدا کے فضل سے ایک ایک آدمی ایسی بستیاں بسا سکتا تھا لیکن ان کا رو پید ان کی ذات کے علاوہ کسی غریب مہاجر کے کام نہ آسکا.ربوہ ایک اور نقطہ نظر سے بھی ہمارے لئے محلِ نظر ہے.وہ یہ کہ حکومت بھی اس سے سبق لے سکتی ہے اور مہاجرین کی صنعتی بستیاں اس نمونے پر بسا سکتی ہے.اس طرح ربوہ عوام اور حکومت کے لئے ایک مثال ہے اور زبان سے کہہ رہا ہے کہ لمبے چوڑے دعوے کرنے والے منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں اور عملی کام کرنے والے کوئی دعوی کئے بغیر کچھ کر دکھاتے ہیں“.غیر از جماعت معززین کے تعزیتی خطوط 136 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے وصال پر غیر از جماعت اصحاب نے بھی دلی صدمہ محسوس کیا.چنانچہ ان کی طرف سے بکثرت ہمدردی اور تعزیت کے خطوط موصول ہوئے.ایسے چند ایک خطوط درج ذیل کئے جاتے ہیں :.
تاریخ احمدیت.جلد23 217 سال 1965ء مظفر علی صاحب قریشی شجاع آباد ضلع ملتان شجاع آباد ضلع ملتان کے ایک معزز غیر احمدی نوجوان مظفر علی صاحب قریشی نے اا نومبر ۶۵ ء کو مولا نا دوست محمد شاہد صاحب کے نام مندرجہ ذیل مکتوب تحریر فرمایا ہے:.محترم و مکرم قبله مولوی صاحب سلام مسنون حضرت مرزا صاحب کی رحلت کی خبر سن کر از حد افسوس ہوا.آپ میرے نزدیک اس صدی کی بزرگ ترین ہستی تھے.آپ نے دین اسلام کی اشاعت کے لئے جو کچھ کیا وہ غیر جانبدار مبصر کے لئے ایک خزینہ کی حیثیت رکھتا ہے.وہ آپ کے روحانی پیشوا تھے.جو صدمہ آپ کو پہنچ سکتا ہے اس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے.بہر حال اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور آپ لوگوں کو صبر جمیل عطا کرے.فقط مظفر علی شجاع آباد حمد خان نذرمحمد خانصاحب ایڈووکیٹ جھنگ جھنگ کے ممتاز ایڈووکیٹ خان نذر محمد خان صاحب نے ملک ولایت خان صاحب ربوہ کو مندرجہ ذیل مکتوب لکھا ہے:.صدر جھنگ ۹/۱۱/۲۵ مکرم معظم برادر وو م.کر السلام علیکم.جناب حضرت خلیفہ اسیح الثانی صاحب کی وفات کی خبر سن کر افسوس ہوا ہے.جلسہ ربوہ سالا نہ میں دو مرتبہ ان کے ارشادات عالیہ سننے کا مجھے شرف حاصل ہے.پہلے ایام تعلیم میں بمقام بریڈ لا ء ہال لاہور میں صاحب موصوف کی بلند پایہ تقریر سنے کا اتفاق ہوا ان کی وفات سے ان کا خلا پُر کرنا بہت مشکل امر ہے ایک برگزیدہ ہستی دنیا سے اٹھ گئی ہے.انا للہ و انا اليه راجعون.خدا حضرت صاحب مرحوم کو غریق رحمت فرما دے اور ہمیں اور آپ سب کو صبر جمیل عطا فرمائے.احمد نگر کی یونین کونسل نے لکھا کہ : بخدمت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ یو نین کو نسل کا یہ خاص اجلاس حضرت امام جماعت احمدیہ کی وفات پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں اپنے سابقہ تعلقات کی وابستگی کا اظہار کرتا ہے آپ کا اس یونین کے ساتھ خاص
تاریخ احمدیت.جلد 23 218 سال 1965ء تعلق ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو صبر جمیل عطا فرما دے.اور آپ کے والد محترم مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے.آمین.“ (چیئر مین یونین کونسل نمبر ۳۹.احمد نگر ) سید غلام شبیر شاہ صاحب میر پور آزاد کشمیر میر پور آزاد کشمیر کے ایک غیر از جماعت معزز دوست سید غلام شبیر شاہ صاحب نے ایک احمدی مکرم منشی علم الدین صاحب کے نام یہ خط لکھا:.دد مگر می جناب منشی علم الدین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.آج کی ریڈ یونشریات انتہائی رنج وغم کے عالم میں سنی گئیں جبکہ یہ خبر نشر ہوئی کہ آج جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا ربوہ میں انتقال ہو گیا ہے.صاحب موصوف ایک بلند اخلاق غریب پرور و دیگر کئی صفات کے علاوہ تنظیم احمدیہ کے علمبردار تھے انہوں نے نمایاں طور پر قومی و مذہبی خدمات انجام دی ہیں.مجھے صاحب کی وفات سے دلی دکھ ہوا ہے اور دعا کرتا ہوں کہ انہیں اللہ تبارک اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے.انا للہ و انا اليه راجعون.آپ اپنے تمام ہم خیال حضرات کو میری دلی ہمدردیوں کا اظہار فرما دینا.راقم سید غلام شبیر شاہ آف نار“ مشتاق احمد قریشی راولا کوٹ آزاد کشمیر مشتاق احمد قریشی نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ”جناب ایڈیٹر صاحب الفضل ربوہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پرسوں کا اخبار دیکھ کر بڑی ذاتی کوفت ہوئی جس میں حضرت خلیفہ صاحب کی اچانک وفات کا لکھا ہوا تھا.دل میں رنج والم لے کر بار بار پڑھا مگر بحیثیت ایک فوجی کرافٹ E.M.E میں ہونے سے کچھ بھی نہ کر سکا.البتہ اتنا ضرور کیا کہ حضرت صاحب کی روح مبارک کو لاکھوں درود بھیجنے اور ان کی روح کے لئے قرآن مجید پڑھنے کا مصمم وعدہ کیا خداوند کریم حضرت صاحب کو اپنے خاص بندوں میں جگہ دے.آمین ثم آمین.میں چند ایک کتابیں پڑھنے سے احمدیت کے اتنا قریب ہو چکا ہوں.گو میں ابھی تک اس دائرہ سے محروم ہوں مگر انشاء اللہ جلد وہ دن آئے گا جب میں بھی ایک احمدی کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 219 سال 1965ء حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر سکوں گا.آپ بھی دعا کیا کریں کہ خدائے برتر مجھے جلد از جلد اس جماعت کا رکن بنائے.آمین.آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ صاحب کو جنت میں جگہ دے.اور ان کے طفیل جماعت احمدیہ کو دنیا میں سرفراز کرے.(آمین ثم آمین ) حید محمد ارشادخان لائکپور سی ایف این الیکٹریشن مشتاق احمد قریشی راولا کوٹ آزاد کشمیر می کنز انریشن ، ڈسٹرکٹ ۳۰۵ مغربی پاکستان کے زون چیئر مین ( زون نمبر ۲) لائل پور جناب محمد ارشاد خان صاحب سیدنا حضرت الصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی کے وصال پر گہرے غم والم اور تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے مکتوب میں رقمطراز ہیں :.محترم مدیر صاحب الفضل ربوہ.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت امام جماعت احمدیہ ( خدا تعالیٰ ان کی مقدس روح پر کروڑوں رحمتیں اور اربوں فضل نازل فرمائے ) آسمانِ انسانیت کے وہ درخشندہ و تابندہ قمر تھے کہ جن کے بغیر آج انسانیت تہی داماں و سربگر یہاں ہو کے رہ گئی ہے.ایک موقعہ پر آپ نے نعرہ تکبیر، اسلام اور آقائے مدنی ﷺ کے بعد انسانیت زندہ باد کا نعرہ لگوایا تھا.اور میرا ایمان ہے کہ اُسی روز سے انسانی بلند قدروں کا صحیح شعور قلوب میں زندہ ہوا اور یہی شعور و احساس آنے والی بے شمار نسلوں کے لئے روشنی کے مینار کا کام دیتا رہے گا.حضرت اقدس کا ایک شعر آج بار بار زبان پر آیا ہے عمل میں کامیابی موت میں ہے زندگی جالپٹ جا لہر سے دریا کی کچھ پرواہ نہ کر آپ نے ایک بھر پور عملی زندگی گزارتے ہوئے واقعی طوفانِ حوادث اور حالات کے تھیٹروں کی کبھی پرواہ نہیں کی.اور یہی وجہ ہے کہ آج جب میں نے اس جری قائد اور اس عظیم رہنما کے انتقال کی خبر سنی تو دل بے اختیار بھر آیا.میری طرف سے ان سب دوستوں تک ہمدردی کا پیغام پہنچا دیجئے جو اس صدمہ کو اپنے دلوں کی دھڑکنوں میں محسوس کر رہے ہیں.خدا حافظ.
تاریخ احمدیت.جلد 23 220 سال 1965ء صدر پاکستان محمد ایوب خان اور ایک لیبر لیڈر کے تاثرات حضرت مصلح موعود کے ایک صاحبزادے مرزا رفیق احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: ۱۹۶۲ء کا ذکر ہے مجھے گردہ کی شدید تکلیف ہوئی اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے کہا کہ ربوہ میں گرمی بہت ہے آپ مری چلے جاؤ، کیونکہ گرمی کا اثر بھی گردہ پر ہوتا ہے.میں اس ڈاکٹری مشورہ کے بعد مری چلا گیا.ان دنوں سابق صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم بھی مری آئے ہوئے تھے.میں نے ان کو خط لکھا کہ میں ملنا چاہتا ہوں.میں نے اپنا تعارف بھی کروایا اور یہ بھی لکھا کہ یہ ملاقات جماعتی طور پر نہیں بلکہ میری ذاتی خواہش کے پیش نظر ہے.چند دنوں کے بعد ان کا جواب آیا کہ آکر مل لیں.ان کے دیے ہوئے دن اور وقت پر میں پریذیڈنٹ ہاؤس پہنچا.میری ان سے تقریباً سوا گھنٹہ ملاقات رہی ، میں نے اس دوران میں انہیں حضور کی تصنیف ” دیباچہ تفسیر القرآن“ پیش کی جسے انہوں نے بڑے احترام سے قبول کیا اور چند منٹ اسے پڑھا اور پھر کہنے لگے : ” میں آپ کو حضور کا ایک واقعہ سناتا ہوں.۱۹۵۰ء میں اپنے کوئٹہ کے قیام کے دوران حضرت صاحب نے سٹاف کالج کے تمام افسران کی دعوت کی میں بھی مدعو تھا، چائے ختم ہوئی تو حضور تقریر کے لیے کھڑے ہوئے اور ابتداء اس طرح کی کہ پاکستان کو جغرافیائی اور فوجی نقطہ نظر سے کہاں کہاں سے اور کس طرح خطرہ ہوسکتا ہے.میرے دل میں خیال آیا کہ اب تو وقت کا ضیاع ہو گا کیونکہ ایک مذہبی راہنما کو فوج کے نقطہ نظر کی کیا خبر اور خطرات کی نشاندہی سے کیا کام.دراصل میں اپنے آپ کو اس علم کا ماہر سمجھتا تھا اس لیے طبیعت میں اکتاہٹ محسوس ہوئی لیکن جب انہوں نے یہ مضمون ختم کیا اور اپنی تقریر ختم کی تو مجھے یوں محسوس ہوا کہ آج پہلے دن میں نے سٹاف کالج میں داخلہ لیا ہے.جس شخص کو خدا نے ایساز بر دست دماغ دیا ہو اور غیر متعلقہ علوم میں اس کی دسترس اس غضب کی ہو، دینی علوم میں اس کے ادراک کا کیا عالم ہوگا.“ اسی طرح مکرم صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں: ”ہمارے ایک احمدی دوست ڈاکٹر لطیف صاحب سرگودھا نے فرمایا ایک دفعہ ایک لیبر لیڈر میرے پاس آئے.وہ ساری دنیا کا دورہ کر کے آئے تھے اوراپنے سفر کےحالات سنارہے تھے کہ میں امریکہ کے صدر نکسن سے بھی ملا، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے سربراہوں سے بھی ملاقات کی.چواین
تاریخ احمدیت.جلد 23 221 سال 1965ء لائی کو بھی دیکھا، ان سب میں ماؤزے تنگ حیرت انگیز دماغی صلاحیتوں کا مالک ہے.اس فقرہ کے بعد اچانک خاموشی چھا گئی.اس کی نگاہیں ٹکٹکی باندھے ایک جانب دیکھ رہی تھیں.میں نے دیکھا تو کارنس پر پڑی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تصویر پر ان کی نگاہیں جمی ہیں جس کو غالباً شروع میں میرے گھر آ کر انہوں نے نوٹ نہیں کیا تھا.میں نے ان کی محویت توڑتے ہوئے پوچھا، کیا ہوا.کہنے لگے یہ سچ ہے کہ ماؤزے تنگ عظیم شخصیت ہے لیکن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سے ان کی زندگی میں ایک بار میری ملاقات ہوئی جس کو تا دم آخر نہ بھول سکوں گا، اس دماغ کا انسان روئے زمین پر ندیل سکے گا، افسوس نادر روزگار ہستی بہت جلد ہم سے جدا ہوگئی." عہد خلافت ثانیہ کی عظیم الشان ترقیات پر ایک نظر 139 66 جماعت احمدیہ کے مرکزی نظم و نسق اور عالمی وسعت اور بین الاقوامی نظام تبلیغ پر ایک طائرانہ نظر حضرت مصلح موعود خدا کی قدرتوں کا مجسم اور چلتا پھرتا نشان اور ایک عہد آفریں اور تاریخ ساز شخصیت تھے جو مطلع عالم پر صدیوں بلکہ ہزاروں سال کے بعد نمودار ہوتی ہے.آپ نے ۱۴مارچ ۱۹۱۴ ء کو جب مسند خلافت پر قدم رکھا تو خلافت احمدیہ کے خلاف باغیانہ تحریک پورے زور سے اٹھ کھڑی ہوئی جس نے سلسلہ احمدیہ کا پورا نظام تہ و بالا کر کے رکھ دیا اور اس خدا کی پاک جماعت کی نتباہی اور بربادی کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا.خلافت ثانیہ کے آغاز میں صدرانجمن احمدیہ کے مقتدرممبروں نے اپنی ایک متوازی انجمن بنالی تھی.مرکزی خزانہ خالی ہو چکا تھا اور بیرون ہند کوئی با قاعدہ جماعتی مشن موجود نہیں تھا (اگر چہ حضرت فتح محمد سیال صاحب بطور پہلے مبلغ جولائی ۱۹۱۳ء میں لندن پہنچ چکے تھے ) ان حالات میں آپ نے ۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کی پہلی شوری میں قبل از وقت پیشگوئی فرما دی کہ میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں اس لئے کہ یہ میرا کام ہے کہ تبلیغ کروں.میں جانتا ہوں کہ یہ بڑا ارادہ ہے اور بہت کچھ چاہتا ہے مگر اس کے ساتھ میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا ہی کے حضور سے سب کچھ آوے گا....کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود سے خود وعدہ کیا ہے کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُّوْحِی إِلَيْهِمْ تیری مددوه لوگ کریں گے جن کو ہم وحی کریں گے“ 140
تاریخ احمدیت.جلد 23 222 سال 1965ء چنانچہ ایسا ہی ظہور میں آیا جس کا اندازہ کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود کی رحلت کے وقت دنیائے احمدیت کے نقشہ پر صرف ایک طائرانہ نظر ڈالنا کافی ہوگا.اس نقشہ سے جماعت کے مضبوط و متحكم نظم و نسق ، اس کی عالمی وسعت اور اس کے عالمگیر تبلیغی نظام کی ایک جھلک نمایاں ہوتی ہے.صدر انجمن احمد یہ قادیان (شعبہ جات) ا.امیر جماعت قادیان و ناظر اعلیٰ ۲.ناظر دعوة و تبلیغ و ناظر تعلیم ۳.ناظر بیت المال ۵.ایڈیٹر بدر ۴.ایڈیشنل ناظر امور عامه ۶.ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان ے.ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام مڈل سکول قادیان ۸- صدر خدام الاحمدیہ مرکز یہ قادیان مبلغین کرام بھارت ا.مبلغ مقیم سرینگر مبلغ مقیم شیموگہ ۵- انچارج احمد یہ مشن حیدرآباد مبلغ دہلی ۷.انچارج مبلغ کیرالہ و مبلغ کالی کٹ 11 مبلغ کو ٹار ۲ مبلغ مظفر پور (بہار) ۴.انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی.انچارج کلکتہ مشن ۱۰ مبلغ ضلع کیرنگ ۱۲.مبلغ سونگڑہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان (نظارتیں) صدر - صدرانجمن احمدیہ پاکستان ا.نظارت علیاء ۳ نظارت دیوان ۵- نظارت بیت المال ۲- نظارت تعلیم ۴.نظارت صنعت و تجارت ( الف ) نظارت بیت المال آمد (ب) نظارت بیت المال خرچ ۶ - نظارت امور خارجہ نظارت زراعت نظارت اصلاح و ارشاد و نظارت امور عامه
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۰.نظارت بہشتی مقبرہ ۱۲.نظارت تعمیرات 223 ۱۱.نظارت ضیافت ۱۳- نظارت جائیداد و املاک ۱۴.نظارت وظائف وصدقات ۱۵- نظارت تالیف و تصنیف ۱۶- نظارت صحت ۱۷.نظارت افتاء ۱۸- نظارت خدمت درویشاں ۱۹.ناظر شبان ۲۰ ممبران صدرانجمن احمد یہ دیگر شعبہ جات.پرائیوٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسی ۲- افر جلسہ سالانہ ۳.اصلاح وارشاد مقامی ۴.دار القضاء ۵.انچارج صیغه زود نویسی ے.محاسبہ کمیٹی ۶.انچارج خلافت لائبریری فضل عمر ہسپتال ۹.چیف میڈیکل آفیسر ا.محاسب ۱۳.پراویڈنٹ فنڈ ۱۰.امانت و خزانه ۱۲.انچارج شعبہ رشتہ ناطہ ۱۴.مشیر قانونی ۱۵.آڈیٹر 141 تحریک جدید انجمن احمدیہ ا.وکالت علیاء ۱۶.شعبہ تاریخ احمدیت ۲.وکالت دیوان ۳.وکالت تبشیر ۵.وکالت مال ثانی ے.وکالت تعلیم ۹.وکالت اشاعت ا.وکالت تجارت ۱۳.دفتر کمیٹی آبادی ۴.وکالت مال اول ۶.وکالت جائیداد ۸.وکالت طباعت ۱۰.وکالت صنعت و حرفت ۱۲.وکالت قانون ۱۴.امانت تحریک جدید سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 224 سال 1965ء وقف جدید انجمن احمد سید ناظم وقف جدید ذیلی تنظیمیں ا.صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ -۲ صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ۳.صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ تعلیمی اداروں کے سربراہ ا.پرنسپل جامعہ احمدیہ ۲ پر نیل تعلیم الاسلام کالج ربوده ہیڈ ماسٹرتعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ۴.پرنسپل جامعہ نصرت گرلز کالج ربوہ ۵.ہیڈ مسٹرس نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ ۶.پرنسپل انٹر میڈیٹ کالج گھٹیالیاں ے.ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول گھٹیالیاں ہیڈ مسٹرس احمدیہ گرلز ہائی سکول سیالکوٹ شہر مرکزی اخبار ورسائل ا.ریویو آف ریلیجنز ۲- روزنامه الفضل ربوه ۳.ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ۴.ماہنامہ خالد ر بوه ۵.ماہنامہ الفرقان ربوہ ۶ - ماہنامہ مصباح ربوہ ے.ماہنامہ تشخیذ الا ذہان ربوه - ماہنامہ تحریک جدید ر بوه نظام امارت اضلاع پاکستان صوبہ پنجاب: امیر ضلع سرگودھا وا میر صوبائی صوبہ پنجاب و بہا ولپور امیر ضلع راولپنڈی امیر ضلع جہلم امیر ضلع گجرات امیر ضلع لاہور امیر ضلع گوجرانوالہ امیر ضلع سیالکوٹ برضلع شیخو پوره امیر ضلع جھنگ امیر ضلع ملتان امیر ضلع لانکیپور امیر ضلع ساہیوال امیر ضلع بہاولپور امیر ضلع بہاولنگر امیر ضلع رحیم یارخان میر ضلع مظفر گڑھ امیر ضلع ڈیرہ غازی خان صوبہ سندھ امیر ضلع تھر پارکر وحیدر آباد ڈویژن
تاریخ احمدیت.جلد 23 225 سال 1965ء امیر ضلع حیدر آباد امیر ضلع خیر پورڈویژن امیر ضلع نواب شاہ امیر ضلع پشاور امیر ضلع مردان امیر ضلع کیمبل پور صوبہ سرحد صوبہ بلوچستان امیر ضلع کوئٹہ وقلات ڈویژن کراچی: امیر ضلع کراچی مشرقی پاکستان: امیر مشرقی پاکستان تقرر مربیان و معلمین کرام ۱۹۶۵ء تک درج ذیل اضلاع اور مقامات میں با قاعدہ مربیان و معلمین کام کر رہے تھے.نظارت اصلاح وارشاد مرکزیہ: لا ہور، راولپنڈی، ملتان، کراچی، پشاور، بہاولنگر ، جہلم، کیمبل پور، ڈیرہ اسماعیل خاں، رحیم یار خان، خان پور، جہلم (چکوال)، نواب شاہ، ساہیوال، اوکاڑہ، گجرات، تھر پارکر (کنری)، سکھر ( شکار پور ) ، ڈیرہ غازی خاں، گجرات (چک ۲۰)، ڈھاکہ، چٹا گانگ، دیناج پور، کومیلہ (ٹمس پور )، کشتی ( اتھامی)، کوٹلی آزاد کشمیر، حیدرآباد، بہاولپور.صیغه اصلاح وارشاد مقامی لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ، سیالکوٹ ،سرگودھا،سمندری، شیخوپورہ، گوجرہ، گوجرانوالہ، ڈسکہ، چک منگلا.عمله معلمین اصلاح وارشاد مقامی پاکستان کے درج ذیل مقامات میں معلمین سلسلہ کام کر رہے تھے.گوجرانوالہ و چنڈ ،گھوگھیاٹ، کوٹ سلطان، چونڈہ، ڈاہرانوالی، سانگلہ ہل، روڈہ ، کنتھو والی ، جھنگ، بیداد پور، بدوملہی ، پکا نسوانه، بھڑتا نوالہ، پھا ہے والی ، آنبه ، چک ۳۳ جنوبی (سرگودھا) بیرونی ممالک کے مشن اور ان کے انچارج 143 ا.انگلستان مشن انچارج بشیر احمد رفیق صاحب ۲.ماریشس مولوی فضل الہی بشیر صاحب ۳.نائیجیریا مشن شیخ نصیر الدین احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد23 ۴.امریکہ مشن ۵.غانامشن 226 چوہدری عبدالرحمن صاحب بنگالی مولوی عطاءاللہ کلیم صاحب ۶.شام مشن السید منیر الحصنی صاحب ے.انڈونیشیا مشن سید شاہ محمد صاحب فلسطین مشن مولوی جلال الدین قمر صاحب ۹.ٹانگانی کا مشن مولوی محمد منور صاحب ۱۰.ملا یا مشن مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۱.بور نیومشن مولوی بشارت احمد نسیم صاحب ۱۲.سیرالیون مشن مولوی بشارت احمد بشیر صاحب ۱۳.سنگاپور مشن مولوی محمد زہدی صاحب ۱۴.عدن مشن عبدالله الشبوطی صاحب ۱۵.سپین مشن مولوی کرم الہی ظفر صاحب ۱۶.ہالینڈ مشن حافظ قدرت اللہ صاحب ۱۷.سوئٹزرلینڈ مشن چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ۱۸.فرانکفرٹ مشن (جرمنی) چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ ۱۹.ہمبرگ مشن (جرمنی) مولوی فضل الہی انوری صاحب ۲۰ نورمبرگ مشن (جرمنی) مسٹر عمرها فر صاحب ۲۱.ٹرینیڈاڈ مشن بشیر احمد آرچرڈ صاحب ۲۲.لائبیریا مشن مولوی مبارک احمد ساقی صاحب ۲۳.سکینڈے نیویا مشن سید کمال یوسف صاحب ۲۴.ملائیشیا مشن مولوی بشارت احمد نسیم صاحب امروہی ۲۵.ٹو گولینڈ مشن مرز الطف الرحمن صاحب ۲۶.کینیا مشن الحاج مولوی نور الحق انور صاحب ۲۷.آئیوری کوسٹ مشن مولوی محمد افضل صاحب قریشی ۲۸.گیمبیا مشن مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 227 سال 1965ء بیرونی ممالک میں احمدیہ مساجد نام ملک انگلستان ہالینڈ یونائیٹڈ سٹیٹ امریکہ تعداد 1 نام ملک مغربی جرمنی سوئٹزرلینڈ انڈونیشیا تعداد ۶۰ ۲ ملایا برما ماریشس سیرالیون غانا ۲ ۶ ۱۶۱ سیلون بور نیو مشرقی افریقہ نائیجیریا کل تعداد ۲۰ ۴۰ ۳۴۴ بیرونی ممالک میں احمد یہ درسگاہیں تعداد نام ملک نائیجیریا ۱۰.سکول غانا سیرالیون ۱۶.پرائمری سکول.۲.مڈل سکول.ا.سیکنڈری سکول.۱.عربی سکول ۱۵.پرائمری سکول.۲.سیکنڈری سکول مشرقی افریقہ.سکول کل تعداد بیرونی ممالک سے شائع ہونے والے اخبارات و جرائد ملک امریکہ جرمنی انڈونیشیا اخبار AHMADIYYA GAZETTE THE MUSLIM SUNRISE DER ISLAM SINAR ISLAM
تاریخ احمدیت.جلد 23 نائیجیریا سیلون مشرقی افریقہ کو پن ہیگن ہالینڈ ( ہیگ) کیپ ٹاؤن (جنوبی افریقہ ) سیرالیون غانا ماریشس بجٹ سال ۱۹۶۵ء 228 سال 1965ء THE TRUTH THE MESSAGE ( سواحیلی ) MAPENZI YA MUNGU EAST AFRICAN TIME (لوگنڈا) VOICE OF ISLAM THE MUSLIM HERALD AKTIVE ISLAM AL ISLAM AL-ASR THE AFRICAN CRESCENT THE GUIDANCE LE MESSAGE حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وفات کے سال تک جماعت احمد یہ کاسالانہ مجموعی بجٹ ۷۲۱۹،۱۷۳ بہتر لاکھ انیس ہزار ایک صد تہتر روپے) تک پہنچ چکا تھا.تفصیل درج ذیل ہے.بجٹ صدرانجمن احمدیہ ۳۴،۲۴،۲۵۳ بجٹ تحریک جدید انجمن احمدیه ۳۶،۲۴۹۲۰ بجٹ وقف جدید انجمن احمدیه ۱۷۰۰۰۰ 144 عظیم الشان روحانی فتوحات اور تحریکات پر ایک طائرانہ نظر 100 کے قریب علمی، تربیتی اور روحانی تحریکات.ممالک بیرون میں ۳۱۱ مساجد کی تعمیر.۴۶ ممالک میں احمد یہ مشنوں کا قیام.۱۶۴ واقفین زندگی نے بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 229 ازبانوں میں تراجم قرآن کی اشاعت.۲۴ ممالک میں ۴ے تعلیمی مراکز کا قیام.۲۸ دینی مدرسوں اور ۱۷ ہسپتالوں کا قیام.۴۰ کے لگ بھگ اخبارات و رسائل کا اجراء.حضور کی ۲۲۵ کتب و رسائل کی تصنیف.اہزار صفحات پر پھیلی ہوئی قرآنی تفسیر.حضرت مصلح موعود کی تحریکات ۱۹۱۶ء تا ۱۹۲۵ء نومبر ۱۹۱۶ء.آنریری مبلغین کے لئے تحریک.دسمبر ۱۹۱۶ء.خواتین کو تبلیغ فنڈ کی پہلی تحریک.دسمبر ۱۹۱۷ء تحریک وقف زندگی.مئی ۱۹۲۲ء.حفظ قرآن کی تحریک.مارچ ۱۹۲۳ء.شدھی کے خلاف جہاد کی تحریک.فروری ۱۹۲۵ء.چندہ خاص کی تحریک.فروری ۱۹۲۵ء.تبلیغ احمدیت کی خاص تحریک.۱۹۲۸ء جولائی ۱۹۲۸ء.لاوارث بچوں اور عورتوں کی خبر گیری کی تحریک.خصوصی جلسہ ہائے سیرت النبی ﷺ کی تحریک.دسمبر ۱۹۲۸ء.گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک تعلیم نسواں کی خاص تحریک.۱۹۲۸ء.جہاد بالقرآن کی خصوصی تحریک.١٩٣٠ء ۱۹۳۰ء نفلی روزوں کی خاص تحریک.خود حفاظتی کی تحریک.۱۹۳۱ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرز تحریرا اختیار کرنے کی تحریک.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 230 اتحاد بین المسلمین کی تحریک.صنعت و حرفت کی طرف توجہ کی تحریک.خواتین میں بہادری پیدا کرنے کی خاص تحریک.مسلم کا نفرنس کے قیام کی تحریک.فروری.اہل کشمیر کے لئے مالی و جانی قربانیوں کی پر زور تحریک.دسمبر.قادیان میں مکان بنانے کی تحریک.۱۹۳۲ء ۱۹۳۳ء جنوری ۱۹۳۲ء.پیغام احمدیت پہنچانے کی زبر دست تحریک.جنوری ۱۹۳۲ء - تحریک مصالحت.۱۹۳۳ء.اردو سیکھنے کے لئے کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پڑھنے کی تحریک.۱۹۳۴ء جنوری.احمدیوں کی تربیت کے لئے تحریک سالکین.نومبر.تحریک جدید کا اجراء.١٩٣٧ء عالمگیر جنگ کی خبر اور خاص دعاؤں کی تحریک.نومبر.روایات صحابہ بانی سلسلہ احمدیہ محفوظ کرنے کی تحریک.دسمبر.مستقل وقف کی تحریک.۱۹۴۰ء غیر مبائعین کو تبلیغ کی خاص تحریک.مارچ.صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کو تبلیغ احمدیت میں سرگرم عمل ہونے کی تحریک.۱۹۴۲ء ۱۹۴۳ء مئی ۱۹۴۲ء.قادیان کے غرباء کے لئے غلہ کی تحریک.جون ۱۹۴۲ء.مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے دعا کی تحریک.جولائی ۱۹۴۲ء.احمدی نو جوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 231 ستمبر ۱۹۴۲ء.بیرونی مبلغین کے لئے خصوصی دعا کی تحریک.ستمبر ۱۹۴۲ء.مربیان کو ذکر الہی کی اہم تحریک.اکتوبر ۱۹۴۲ء.ہندوستان میں دعوت الی اللہ کی خاص تحریک.اکتوبر ۱۹۴۳ ء.دعوت الی اللہ کی خاص تحریک اور مباحثات سے ممانعت.وقف زندگی برائے دیہاتی مربیان.۱۹۴۴ء مارچ.خاندان مسیح موعود علیہ السلام کو وقف کی خاص تحریک.مارچ.وقف جائیداد کی تحریک.مارچ.وقف زندگی کی وسیع تحریک.مارچ تعلیم الاسلام کالج کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی تحریک.ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک.اپریل.حفاظ پیدا کرنے کی تحریک.مئی.رضا کارانہ دعوت الی اللہ کی ولولہ انگیز تحریک.مئی تسبیح وتحمید اور درود شریف کی اہم تحریک.مئی.بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک.جون.نوجوانوں کو بالالتزام نماز تہجد کی تحریک.جولائی.ہندوستان میں سات مراکز اشاعت اسلام کی تحریک.اگست.بیویوں میں عدل وانصاف کی تحریک.اکتوبر.مشہور زبانوں میں تراجم قرآن اور لٹریچر کی تحریک.دسمبر.کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کرنے کی تحریک.جماعت کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے فائدہ اٹھانے کی تحریک.۱۹۴۵ء،۱۹۴۶ء ۱۹۴۵ء.جماعت میں اعلی تعلیم کی توسیع کیلئے سکیم.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد23 232 ۱۹۴۵ء.خاندانی وقف کی تحریک.۱۹۴۵ء تحریک وقف تجارت.۱۹۴۶ء.مسلمانان عالم کے لیے دعائے خاص کی تحریک.۱۹۴۶ء.نوجوانان احمدیت کو قربانیوں کی تحریک.۱۹۴۷ء تا ۱۹۵۱ء فروری.حفاظت مرکز کیلئے مالی قربانیوں، روزوں اور دعاؤں کی خاص تحریک.احمدی مہاجرین کے لئے کمبلوں لحافوں اور تو شکوں کی تحریک.اکتوبر.احمدیوں کو حفاظتی فنون سیکھنے کی تلقین.اکتوبر.ذکر الہی کی تحریک.انڈونیشیا، ایسے سینیا اور سعودی حکومت سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی تحریک.اشاعت اسلام کے لئے فقیرانہ رنگ پیدا کرنے کی ہدایت.۱۹۴۸ء.فتنہ صیہونیت کے مقابلہ کے لئے زبردست تحریک.جولائی ۱۹۴۹ء.قرآن کا اردو تر جمہ سیکھنے کی پُر زور تحریک.نومبر ۱۹۴۹ء.منافق طبع لوگوں کی اصلاح کی تحریک.۱۹۵۰ء تبلیغ کے لئے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک.۱۹۵۰ء.دفاع وطن کی تیاری کی پُر زور تحریک.فروری ۱۹۵۱ء.دعاؤں کے چلہ کی خاص تحریک.مارچ ۱۹۵۱ء تبلیغ کا حلقہ وسیع کرنے کی تحریک.۱۹۵۲ء تا ۱۹۵۴ء جنوری۱۹۵۲ء.محاسب نفس کی دعوت.فروری ۱۹۵۲ء.قوم کی بے لوث خدمات بجالانے کی تلقین.۱۹۵۲ء.عالم اسلام کو دعوت اتحاد.اء تعلق باللہ اور دعاؤں کی خاص تحریک.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 233 جولائی ۱۹۵۲ء.صبر و صلوۃ کی پر زور تحریک.اگست ۱۹۵۲ء.مساجد کو ذکر الہی سے معمور کرنے کی تحریک.ستمبر ۱۹۵۲ء تحریک حج.۱۹۵۲ء.خدمت پاکستان کی خصوصی تحریک.۱۹۵۳ء.سات روزے رکھنے کی تحریک.۱۹۵۳ء.سچائی اختیار کرنے کی تحریک.دسمبر ۱۹۵۳ء - تحریک جدید میں شمولیت کی خاص تحریک.اکتوبر ۱۹۵۴ء.پاکستان کے لئے تحریک دعا.۱۹۵۵ء تا ۱۹۶۰ء ۲۸ جنوری ۱۹۵۵ء.فارغ التحصیل شاہدین کے لئے نئی سکیم.۱۹۵۵ء.ضرورت زمانہ کے مطابق لٹریچر تیار کرنے کی تحریک.فروری ۱۹۵۵ء.صدرانجمن احمدیہ کے لئے واقفین کی تحریک.۱۹۵۵ء.مسلم فرقوں سے مغربی ممالک میں تبلیغ کی پُرزور اپیل.۱۹۵۶ء.امریکہ میں نظام وصیت کے نفاذ کی پر زور تحریک.۱۹۵۶ء.قادیان کے لئے تحریک وقف زندگی.۱۹۵۸ء.وقف جدید کی تحریک.جنوری ۱۹۵۸ء.صد سالہ جو بلی منانے کی تحریک.جولائی ۱۹۵۸ء.نو جوانان احمدیت کو سر گرم عمل رہنے کی تحریک.اگست ۱۹۵۸ء سینما بینی کے خلاف مؤثر آواز.نومبر ۱۹۶۰ء.ایک الہامی دعا پڑھنے کی تحریک.بعض اہم واقعات کا تذکرہ (۱۸۸۹ء سے ۱۹۶۵ء) ١٨٨٩ء ۱۲ جنوری کو آپ کی ولادت باسعادت ہوئی.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 234 سال 1965ء ۱۸ جنوری بروز جمعہ آپ کا عقیقہ ہوا.۱۸۹۵ء آپ کی تعلیم القرآن کی ابتدا ہوئی.مکرم حافظ حمداللہ صاحب نے آپ کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا.۱۸۹۷ء ے جون کو آپ کے ختم قرآن کے موقع پر آمین کی یاد گار تقریب ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موقعہ پر ایک نظم بعنوان ”محمود کی آمین تحریر فرمائی.۱۸۹۸ء آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر با قاعدہ بیعت کی.آپ نے مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخلہ لیا.١٨٩٩ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ کے گروپ فوٹو میں پہلی دفعہ شامل ہوئے.١٩٠٠ء آپ نے انجمن تشحیذ الا ذہان کی بنیا د رکھی.١٩٠٢ء اکتوبر میں آپ کا پہلا نکاح حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ (ام ناصر ) بنت حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب سے ہوا.١٩٠٣ء اکتوبر میں حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کا رخصتانہ عمل میں آیا.۱۹۰۵ء مارچ میں آپ نے میٹرک کا امتحان امرتسر میں دیا، نیز حضرت مولانا نورالدین (خلیفۃ المسیح الاول) سے قرآن مجید کی تعلیم حاصل کی.١٩٠٦ء جنوری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپ صدر انجمن احمدیہ کی مجلس معتمدین میں بطور ممبر نامزد ہوئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 235 سال 1965ء مارچ میں آپ کی ادارت میں رسالہ تشحیذ الا ذہان کا اجراء ہوا.۲۶ مئی کو آپ کے ہاں پہلے بیٹے صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی جن کی جلد ہی وفات ہوگئی.جلسہ سالانہ میں پہلی دفعہ آپ نے پر معارف تقریر کی.١٩٠٧ء ایک فرشتہ نے رویا میں آپ کو سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی.١٩٠٨ء ۲۷ را پریل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمراہ لاہور کا سفر کیا.۲۶ مئی کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آپ کی نعش مبارک کے سامنے آپ نے تاریخی عہد کیا.ے مئی کوحضرت خلیفہ المسیح الاول کی بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کی پہلی تصنیف ” صادقوں کی روشنی کوکون دور کر سکتا ہے“ شائع ہوئی.مدرسہ احمدیہ کی بقاء کے لئے زبردست جد و جہد فرمائی.١٩٠٩ء دہلی ، کپورتھلہ ، لاہور، قصور اور فیروز پور میں پبلک لیکچر دیئے.جولائی میں سرزمین کشمیر کی طرف پہلا سفر کیا.۱۵ نومبر کو آپ کے ہاں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ لمسیح الثالث) کی ولادت ہوئی.١٩١٠ء فروری میں قادیان میں نماز مغرب کے بعد درس قرآن دینا شروع کیا.احمدی طلباء کے لئے تربیتی کلاس کا اجرا کیا.۲۴ جولائی کو حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے سفر ملتان کے دوران پہلی مرتبہ امیر مقامی مقرر ہوئے.۲۹ جولائی کو پہلی بار آپ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.۲۶ / اگست کو حضرت خلیفتہ المسیح الاول نے آپ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا فرمائی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۹۱۱ء 236 سال 1965ء انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا.( یہ دعوت الی اللہ اور تربیت و اصلاح کے لئے پہلے ایک انجمن بنائی گئی تھی ) پادری ینگسن سے مدلل و مسئلت مذہبی گفتگو فرمائی.۲۵ستمبر کو پہلا خطبہ عیدالفطر ارشاد فرمایا.اکتوبر میں آپ کے ہاں حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی.۱۹۱۲ء ہندوستان کی مشہور اسلامی درسگاہوں کا دورہ کیا نیز سفر بلا د عرب اور حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی.۶ تا ۱/۸اپریل ۱۹۱۲ء کو آپ مولانا شبلی نعمانی کے اصرار پر ندوۃ العلماء کے سالانہ جلسہ میں شامل ہوئے.١٩١٣ء ۱۸ جون کو اخبار الفضل کا اجراء فرمایا.۱۹۱۴ء جنوری میں انجمن ترقی اسلام قائم فرمائی.۱۳ مارچ کو خلافت اولی کے زمانہ کا آخری خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.۱۴ مارچ کو بعد نماز عصر مسجد نور قادیان میں خلافت ثانیہ کا انتخاب ہوا اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا جنازہ اور تدفین عمل میں آئی.مسجد اقصیٰ قادیان میں درس القرآن کا آغا ز فرمایا.حضور کی طرف سے ایک زبر دست اشتہار شائع ہوا.”کون ہے جو خدا کے کام روک سکے ۱۰ را پریل ۱۹۱۴ء کو خلافت ثانیہ میں صدرانجمن احمدیہ کا پہلا اجلاس آپ کی صدارت میں ہوا.اس دور کی پہلی مجلس شوری ہوئی.جماعت احمدیہ کے نمائندوں کو خطاب کرتے ہوئے حضرت خلیفہ لمسیح الثنی نے اپنا پروگرام بیان فرمایا ( یہی تقریر منصب خلافت کے عنوان سے کتابی شکل میں طبع ہوئی ).احمد یہ مشن لندن کا مستقل صورت میں قیام ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 237 نظام دکن کو تبلیغ کی خاطر تحفۃ الملوک“ شائع فرمائی.سال 1965ء صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت میر حامد شاہ صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی.(۱۹۱۴ء میں اختلاف کے موقع پر غیر مبائعین نے ۴ احباب کے نام جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والوں سے بیعت لینے کے لئے پیش کئے.(۱) حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب.(۲) حضرت سید حامد شاہ صاحب.(۳) حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری.(۴) جناب خواجہ کمال الدین صاحب.صرف خواجہ صاحب محروم رہے باقی دو احباب نے بھی حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی بیعت کر لی تھی ).حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے والی کبھو پال نواب سلطان جہاں کو احمدیت کی دعوت پر مشتمل خط رقم فرمایا.ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تبلیغی وفود نے دورے کئے.منارة امسیح کی دوبارہ تعمیر کا آغاز.قدرت ثانیہ کے دوسرے دور کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حضور کی تقاریر برکات خلافت کے عنوان سے شائع ہوئیں.جلسہ سالانہ خلاف معمول پانچ دن جاری رہا.۱۹۱۵ء حضور نے ”القول الفصل، تصنیف فرمائی.حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے سیلون میں احمد یہ مشن قائم کیا.حضور کی تصنیف ”حقیقۃ النبوۃ “ شائع ہوئی.حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے ماریشس میں احمد یہ مشن قائم کیا.قادیان میں مبلغین کلاس کا اجرا.حضور کی بیان فرمودہ قرآن کریم کے پہلے پارہ کی تفسیر اردو اور انگریزی زبان میں شائع ہوئی.مشہور مخیر خادم سلسلہ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب آف سکندر آباد دکن کی بیعت.قادیان سے ہفت روزہ فاروق کا اجرا.١٩١٦ء مسٹر والٹر ( سیکرٹری سینگ مین کرسچن ایسوسی ایشن لاہور ) قادیان آئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 238 سال 1965ء حضرت بانی سلسلہ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر کی بیوہ حرمت بی بی ( تائی صاحبہ ) نے بیعت کر لی.اور تائی آئی“ کا الہام پورا ہوا.حضور نے مسلم شریف کا درس عام جاری فرمایا.لاہور میں احمدی طلباء کی سہولت کے لئے ہوٹل کا قیام.انجمن ترقی اسلام قادیان کی طرف سے قرآن مجید کے پہلے پارہ کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت.قادیان میں منارۃ المسیح کی تعمیر مکمل ہوگئی.آکسفورڈ یونیورٹی کے پروفیسر مارگولیت کی قادیان میں آمد اور حضرت خلیفۃ المسیح سے ملاقات.قادیان میں مستقل مرکزی ”صادق لائبریری قائم ہوئی.اسی سال حضور نے خواتین کے لئے تبلیغی فنڈ کی پہلی تحریک کی.۱۹۱۷ء نور ہسپتال قادیان کی تکمیل.حضور نے زندگی وقف کرنے کی پہلی تحریک فرمائی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا عزم انگلستان برائے تبلیغ.لائبیریا میں پہلی باراحمد بیت کا پیغام پہنچا.سیلون سے انجمن احمد یہ کولمبو کی طرف سے اینگلو تامل میں ہفتہ واری اخبار The Message کا اجراء.آسٹریلیا میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت.پنجاب کے سابق چیف جسٹس اور یوپی کے سابق گورنر کو انگلستان مشن کی طرف سے تبلیغ اسلام.۱۹۱۸ء حضور کے دفتر میں ڈاک کا مستقل صیغہ پہلی بار قائم کیا گیا.پہلے افسر ڈاک مولوی عبد الرحیم صاحب نیر مقرر ہوئے.حضور نے شدید بیماری کے عالم میں وصیت تحریر فرمائی.حضور نے جنگ عظیم میں کام آنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے لنڈ میں 20 ہزار روپیڈیا.انفلوئنزا کی عالمگیر وہا کھیل جانے پر حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت خلق کے بارے میں ہدایت
تاریخ احمدیت.جلد 23 239 سال 1965ء کے تحت احمدی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے خلق خدا کی بے لوث خدمات سرانجام دیں.تحریک ”وقف زندگی کا احیاء حضرت خلیفہ اسیح کی طرف سے اس پر خاص زور.جنگ عظیم کے خاتمہ پر دنیا کے ۱۸ مختلف حکمرانوں کو جماعت احمدیہ کی طرف سے تحفۃ الملوک کے انگریزی ترجمہ کی پیشکش کے ساتھ تبلیغ.١٩١٩ء صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ نظارتوں کے متوازی نظام کا قیام.حضور نے حبیبیہ ہال لاہور میں اسلام میں اختلافات کا آغاز کے موضوع پر تقریر فرمائی.حضور نے ہندوستان میں سول نافرمانی کی تحریک اور اس کے نتائج سے متعلق مسلمانان ہند کی راہنمائی فرمائی.قادیان میں یتیم خانہ قائم کیا گیا.حضور نے آل انڈیا مسلم کانفرنس کے لئے ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض“ کے موضوع پر کتابچہ تصنیف فرمایا.گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کے مقام پر تعلیم الاسلام سکول کا اجراء.جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے گورنر پنجاب سے ملاقات کر کے تبلیغی لٹریچر پیش کیا.نیز ترکوں سے معاملہ کرتے وقت مسلمانان عالم کے جذبات کا خیال رکھنے کی اپیل کی.۱۹۲۰ء حضور نے بریڈ لاء ہال میں مستقبل میں امن کا قیام اسلام سے وابستہ ہے“ کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضور نے بندے ماترم ہال امرتسر میں صداقت اسلام وذرائع ترقی اسلام پر لیکچر دیا.نیو یارک مشن کا آغاز.مولوی عبدالباری فرنگی محل کی درخواست پر الہ آباد میں معاہدہ ترکیہ کے متعلق منعقد ہونے والی کا نفرنس کے لئے حضور نے مضمون لکھا.جسے احمد یہ وفد نے وہاں پیش کیا ( معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ ).146-
تاریخ احمدیت.جلد 23 240 سال 1965ء ہندوستان کے مختلف مقامات پر حضور نے متعدد معرکۃ الآراء لیکچر ارشاد فرمائے.خاتم النبین ملے کی شان کا اظہار.دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا وغیرہ.حضور نے مسجد لندن کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی.پہلی یادگار مبلغین کلاس جاری ہوئی.مسجد لنڈن کے لئے قطعہ اراضی خریدا گیا.حضور کی تصنیف ”ترک موالات و احکام اسلام“ شائع ہوئی.۱۹۲۱ء حضور کا نکاح حضرت سیّدہ ام طاہر صاحبہ سے ہوا.افریقہ کے ممالک سیرالیون، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں تبلیغ اسلام کا آغاز.شکا گوامر یکہ میں احمدیہ مشن کا آغاز مشن کی طرف سے انگریزی جریدہ سن رائز“ کا آغاز.حضور نے لاہور میں دو تقاریر فرمائیں.ضرورت مذہب حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے طریق 66 حضرت خلیفہ مسیح کا سر کشمیر تبلیغی جلوں کا انعقاد اور کشمیر میں حمد بیت کی ترقی کا آغاز.کاسفر حضور نے تحفہ شہزادہ ویلز تصنیف فرمائی.حضور کی تصنیف ” آئینہ صداقت“ شائع ہوئی.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی طرف سے مسلمانان ہند کی تحریک ترک موالات میں راہنمائی.شاہ کیجیئم اورصدر برازیل کو اسلامی لٹریچر کی مزید پیشکش اور دعوت اسلام.سرزمین حجاز میں حضرت میر محمد سعید صاحب کے ذریعہ احمدیت کے پیغام کی اشاعت.افریقہ کی فیٹی قوم ، سالٹ پانڈ اور لیگوس کے علاقہ میں احمدیت کی معجزانہ اشاعت، شاہ لیگوس کو تبلیغ ہزار ہا افراد کی اجتماعی بیعت.١٩٢٢ء مصر میں مشن قائم کرنے کے لئے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی قادیان سے روانہ ہوئے.جماعت کے وفد نے شہزادہ ویلز (ایڈورڈ ہشتم ) کوتبلیغی کتاب تحفہ شہزادہ ویلز پیش کی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 241 سال 1965ء جماعت احمدیہ میں با قاعدہ مجلس مشاورت کا آغاز.حضور نے ایک سکیم کے مطابق پنجاب کی اچھوت اقوام میں تبلیغ شروع فرما دی.حضور نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی.قادیان سے انگریزی اخبار ” البشری“ کی اشاعت شروع ہوئی.امریکہ میں مسجد شکا گو کا قیام.مجلس حسن بیان کا قیام ( نوجوانوں میں انگریزی اور عربی میں تقریر کا ملکہ پیدا کرنے کی منظم کوشش ).احمد یہ گرلز سکول سیالکوٹ کا اجرا.احمدی مستورات کی تنظیم ”لجنہ اماءاللہ کا قیام.١٩٢٣ء حضور نے تحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.جماعت احمدیہ کے زبردست حملوں کے نتیجہ میں آریوں نے تحریک شدھی کو بند کرنے کا اعلان کر دیا.مسجد برلن کیلئے احمدی مستورات نے ایک لاکھ روپیہ فراہم کیا.بعض مجبوریوں کی بنا پر مسجد برلن تو تعمیر نہ کی جاسکی مگر یہ رو پید احمدی خواتین کے مشورہ سے اہم دینی اغراض پر صرف کیا گیا.(اب اللہ تعالیٰ سے فضل سے خلافت خامسہ میں یہاں مسجد خدیجہ کے نام سے ایک عظیم الشان مسجد تعمیر ہو چکی ہے).مسجد اقصیٰ قادیان میں توسیع.قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ کا اجراء ہوا.محترم ملک غلام فرید صاحب جرمنی میں مشن قائم کرنے کے لئے برلن پہنچے.مجلس مشاورت نے ادنی اقوام میں تبلیغ اسلام کی اہمیت پر زور دیا.اور ایک ٹھوس قابل عمل سیکیم تیار کی گئی.۱۹۲۴ء یوپی کے علاقہ ملکانہ میں شدھی اور ارتداد کے فتنہ کا سدِ باب کیا گیا.جماعت کے ہر طبقہ سے مجاہدین نے اس جہاد میں حصہ لیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 242 سال 1965ء ہوئی.حضور نے ۲۴ مئی کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام پر کتاب لکھنی شروع کی.یہ کتاب ۶ جون کو مکمل امریکہ کے معروف مستشرق زو یمر قادیان آئے.حضور اپنے پہلے سفر یورپ پر قادیان سے روانہ ہوئے.حضور دمشق پہنچے.اور ایک پیش گوئی ظاہری طور پر پوری ہوئی.حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے ملاقات کی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ویمبلے کا نفرنس میں شرکت کرنے کے لئے لنڈن تشریف لے گئے.درجن بھر علماء اور بزرگان سلسلہ بھی اس سفر میں ساتھ گئے تھے.حضور نے ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین کے اجلاس میں پہلا انگریزی لیکچر دیا.ویمبلے کا نفرنس میں حضور کا مضمون ” احمدیت یعنی حقیقی اسلام حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا.ایران اور شام میں تبلیغی کوششوں کا آغاز.حضور نے ۱۹ اکتو بر ۱۹۲۴ء کومسجد فضل لندن کی بنیاد رکھی.روس اور بخارا میں احمدی مبلغین کا داخلہ.افغانستان میں حضرت مولانا نعمت اللہ خان صاحب کو امیر کابل کے حکم پر شہید کر دیا گیا.اس ظالمانہ اقدام کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب اور حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ (حرم حضرت خلیفۃالمسیح الثانی) کا انتقال پر ملال.حضور نے جلسہ سالانہ پر ”بہائی ازم کی تاریخ و عقائد کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضور نے امیر امان اللہ خان شاہ افغانستان پر اتمام حجت کے لئے دعوۃ الامیر شائع فرمائی.۱۹۲۵ء جماعت کی مالی حالت اور دیگر اشاعت اسلام کے کاموں کے پیش نظر حضور کی طرف سے جماعت کو ایک لاکھ روپیہ چندہ جمع کرنے کی کامیاب تحریک.
تاریخ احمدیت.جلد 23 243 سال 1965ء احمدی لڑکیوں اور خواتین کی خصوصی تعلیم کے لئے قادیان میں مدرسہ خواتین کا اجراء.۱۹۱۹-۲۰ء میں نظارتوں کے جس متوازی نظام کا اجراء ہوا تھا اسے صدر انجمن احمدیہ میں مدغم کر دیا گیا.حضور نے علمائے دیو بند کو تفسیر نویسی میں مقابلہ کا چیلنج دیا.حضور نے آل مسلم پارٹیز کانفرنس کے لئے " آل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر تصنیف فرمائی.مولانا جلال الدین صاحب شمس اور سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب شام میں مشن قائم کرنے کے لئے دمشق پہنچے.محکمہ قضا کا اجراء.جاوا، سماٹرا میں تبلیغی مراکز کا قیام اور عیسائیت کی شکست.کلکتہ سے ماہوار رسالہ احمدی بنگلہ زبان میں جاری ہوا.افغانستان کے مظلوم احمدی شہیدوں کے ظالمانہ قتل پر لیگ آف نیشنز سے احتجاج.مسجد فضل لندن کی تعمیر کا آغاز.لندن کے لاٹ پادری کو تبلیغ اور دعوت مباہلہ.ایک کارٹون میں آنحضرت عاللہ کی توہین کرنے کے خلاف لندن مشن کی طرف سے احتجاج.مدینہ منورہ پر نجدیوں کے حملہ اور مزار اقدس حضرت سیدنا محمد رسول اللہ علیہ کی بے حرمتی کے خلاف جماعت کی طرف سے شدید احتجاج.مزار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چاردیواری کی تعمیر.شیخ عبدالقادر صاحب سابق سوداگر مل جماعت میں داخل ہوئے.١٩٢٦ء قادیان میں پہلی بار ایک جلسہ میں ۲۴ زبانوں میں تقریریں کی گئیں.قادیان میں تار گھر کا افتتاح ہوا.پہلا تار حضور کی طرف سے ہندوستان کی بعض مشہور جماعتوں کے نام تھا.قادیان میں غرباء اور یتامیٰ کیلئے دارالشیوخ قائم کیا گیا.حضور نے قادیان میں قصر خلافت کی بنیاد رکھی.قادیان سے احمد یہ گزٹ“ جاری ہوا.مسجد فضل لندن کی تکمیل.سر شیخ عبدالقادر صاحب نے افتتاح کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 244 سال 1965ء حضور نے بچوں اور نو جوانوں کی تربیت کے لئے انجمن انصار اللہ قائم فرمائی.افغانستان میں احمدیت کا چرچا.عراق میں احمدیت کی عام تبلیغ کی اجازت مل گئی ( بعض غلط فہمیوں کی بناء پر حکومت عراق نے احمدیت کی تبلیغ پر پابندی عائد کر دی تھی.حضور کی ہدایت کے مطابق حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ارباب اختیار کی غلط فہمیوں کا ازالہ کر کے اجازت حاصل کی ).لجنہ اماءاللہ کے تحت رسالہ ” مصباح “ شائع ہونا شروع ہوا.قادیان سے انگریزی اخبار سن رائز جاری ہوا.احمدی مستورات کے سالانہ جلسہ کا آغاز.پہلی بار جلسہ سالانہ کا اعلان اور پروگرام بڑے بڑے پوسٹروں پر شائع کیا گیا.حضور نے ”حق الیقین، تصنیف فرمائی.سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام سکول کی بنیا د رکھی گئی.۱۹۲۷ء رنگیلا رسول نامی دلآزار کتاب کے ناشر کی بریت پر احتجاجی تحریک چلائی گئی.رسالہ ”ورتمان امرتسر کی تو ہین اسلام کے خلاف احتجاج ( حکومت نے اسے ضبط کر لیا).حضور کی اپیل پر مسلمانان ہند نے سارے ہندوستان میں یوم تحفظ رسول کریم یہ منایا.مذہبی پیشواؤں کی حفاظت ناموس کے لئے جدو جہد کا آغاز.ذی اثر اصحاب اور برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان سے رابطہ قائم کر کے تعزیرات ہند میں نئی دفعہ ایزادی کرائی گئی.مسلمانان ہند کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کیلئے حضور انور کی طرف سے ایک مؤثر مہم کا آغاز ( تجارت اور باہمی اتحاد پر غور ).قادیان کو سمال ٹاؤن کمیٹی کی حیثیت مل گئی.سیرالیون میں با قاعدہ مشن کا اجرا.حضور نے ہندو مسلم اتحاد کا نفرنس سے جس میں چوٹی کے مسلم لیڈر موجود تھے ، خطاب فرمایا.مسلمانان ہند کے حقوق کیلئے محضر نامہ پیش کیا گیا.جماعت احمدیہ کی کوششوں سے اس پر ہزاروں مسلمانوں نے دستخط کئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 245 سال 1965ء مشہور مسلمان را ہنما مولا نا محمد علی جوہر کی قادیان میں آمد.حضرت منشی عبداللہ صاحب سنوری کا انتقال.جو سرخی کے چھینٹوں والے نشان کے گواہ تھے.مستریوں کا منافقانہ حرکتوں کی وجہ سے اخراج اور ان کے ناپاک فتنے کا آغاز.قادیان میں امتہ الحی لائبریری کا افتتاح ہوا.حضور نے ہندوستان میں سائمن کمیشن کی آمد پر مسلمانان ہند کے امتحان کا وقت تصنیف فرمائی.شام میں مولانا جلال الدین صاحب شمس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا.حضور نے جلسہ سالانہ پر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے کارنامے کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس جلسہ پر حضور کی حفاظت کا پہلی بار خاص انتظام کیا گیا.شام میں السید منیر الحصنی جماعت میں داخل ہوئے جو بعد میں شام کے امیر ومر بی بنے.۱۹۲۸ء حضور نے جامعہ احمدیہ کا افتتاح فرمایا.حضور کی تجویز اور اپیل پر ہندوستان میں جلسہ ہائے سیرۃ النبی ﷺ کا آغاز.حضور نے پہلی دفعہ ۴۵ کے قریب عربی اشعار کہے.حیفا مشن (فلسطین) کا اجرا.۱۸ دسمبر کو صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب (خلیفہ ب (خلیفہ مسح الرابع ) کی ولادت ہوئی.۱۹ دسمبر کو قادیان میں ریلوے لائن پہنچ گئی ( پہلی گاڑی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور بزرگان جماعت امرتسر سے سوار ہو کر قادیان تشریف لائے اور دعاؤں سے افتتاح فرمایا ).ہندی رسالہ ” شدھی سماچار کے خلاف شدید احتجاج.١٩٢٩ء گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس اور احمد یہ تحریک سے تعارف.حضور نے انقلاب افغانستان پر تبصرہ کیا اور مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی.حضور نے اشاعت لٹریچر کے ضمن میں کتابوں کی قیمتوں میں کمی اور اخبارات کی توسیع کی طرف توجہ دلائی.حضور کشمیر تشریف لے گئے اور اہل کشمیر کو اخلاقی ، پہنی اور روحانی تغیر پیدا کرنے کی دعوت دی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 246 سال 1965ء حفیظ جالندھری کی قادیان آمد پر مجلس مشاعرہ ہوئی جس میں حضور نے بھی شرکت فرمائی.حضور نشاط باغ میں خواجہ کمال الدین کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.سائمن کمیشن کی رپورٹ پر حضور کا تبصرہ شائع ہوا جسے بہت سراہا گیا.نصرت گرلز سکول قادیان کا اجرا ( اس سکول کی ایک شاخ خصوصی دینی تعلیم کیلئے وقف کی گئی).آسٹریلیا میں جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ.قادیان میں سکھوں کا حملہ.مذبح خانہ کا انہدام اور مسلمانان ہند کی طرف سے شدید احتجاج.اس مقدمے میں مسلمانوں کی آئینی فتح.ذبیحہ گائے کے موضوع پر حضور کا مکتوب ، ہند وسکھ اور مسلمان لیڈروں کے نام.حضرت مولانا حافظ روشن علی صاحب کا انتقال پر ملال.١٩٣٠ء مشہور مسلم لیگی لیڈرشوکت علی قادیان آئے.حضور نے ”ندائے ایمان کے نام سے اشتہارات کا مفید سلسلہ شروع فرمایا.ڈچ حکومت کی ہدایت پر سماٹرا کے ڈچ کونسل مسٹر انڈریاسا کی قادیان میں احمدیت کے مطالعہ کیلئے آمد.اخبار ٹریبیون نے حضور کی وفات کی جھوٹی خبر شائع کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لخت جگر صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.اس سال سے لجنہ اماءاللہ کو جلس شوریٰ میں نمائندگی کا حق ادا کیا گیا.سیاسی معاملات میں حضور کی طرف سے مسلمانوں کی راہنمائی اور سیاسی حلقوں میں مقبولیت.مستریوں کے فتنہ کا عروج.امرتسر سے دلآزار لٹریچر کی اشاعت، حضرت خلیفہ اسیح کا عدیم المثال صبر اور احباب جماعت کو صبر کی تلقین.جماعت کی طرف سے حضور سے والہانہ عقیدت کا اظہار.جماعت قادیان کی طرف سے ”مستریوں کو مباہلہ کی دعوت.مقدمہ بلوہ قادیان کی سماعت.١٩٣١ء مولا نا رحمت علی صاحب نے جاوا میں مشن قائم کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 247 سال 1965ء لار ڈارون وائسرائے ہند کو جماعت احمدیہ کے وفد نے تبلیغی رسالہ تحفہ لا رڈارون “ پیش کیا.مولا نا جلال الدین شمس نے کہا بیر میں فلسطین کی پہلی احمد یہ مسجد سید نامحمود کا سنگ بنیا درکھا.حضور نے الفضل میں کشمیر کے متعلق ایک سلسلہ مضامین کا آغاز فرمایا.حضور نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے قرآن ختم کرنے کے سلسلہ میں تقریب منعقد کی اور اس موقع پر ایک نظم بھی کہی جو کلام محمود میں شامل ہے.مردم شماری کے مطابق قادیان میں احمدیوں کی تعداد ۵۱۹۸ تھی.حضرت خلیفتہ المسیح کو کشمیر کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا.جماعت کے وکلاء، رضا کاروں اور کارکنوں نے کشمیری مسلمانوں کے مفادات کے لئے انتھک کوششیں کیں.۱۴ اگست کو مسلمانان ہند اور جماعت ہائے احمدیہ نے حضرت صاحب کی اپیل پر یوم کشمیر منایا.گول میز کانفرنس لنڈن میں شامل ہونے والے وفد کے مسلمان ممبروں کی لنڈن مسجد میں آمد.علامہ اقبال کی طرف سے مشن کی خدمات کا اعتراف.۱۹۳۲ء حضور نے مسلمانان کشمیر کے لئے ایک پائی فی روپیہ چندہ دینے کی تحریک فرمائی.کشمیر میں کشمیر کمیٹی کی کوششوں سے کشمیری مسلمانوں کو بنیادی حقوق مل گئے.حضرت امام جماعت احمدیہ کی گراں قدر خدمات کا اعتراف احمد یہ ٹریننگ کو ر کا قادیان میں اجرا.لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس کے متعلق حضور نے مسلمانوں کو اپنی رائے سے نوازا.حضور نے قادیان میں اپنی کوٹھی دار الحمد کی بنیا د رکھی.قادیان میں حضور اور چند ناظران کے دفاتر میں ٹیلیفون لگا.۱۸اکتوبر کو ہندوستان میں پہلا ملک گیر یوم تبلیغ منایا گیا.مردوں ، عورتوں، بچوں، بوڑھوں سے نے اس میں حصہ لیا.قادیان کے مشرق میں آبادی کی ترقی محلہ دارالانوار کا افتتاح.١٩٣٣ء قادیان میں پہلی بار ہوائی جہاز کی آمد حضور اور کئی دیگر احباب نے تفریحی پرواز کی.ڈیٹن (امریکہ ) میں مشن کا قیام.
تاریخ احمدیت.جلد 23 248 سال 1965ء قادیان میں حضور نے اپنی کوٹھی دارالحمد کا افتتاح فرمایا.حضور نے حضرت اماں جان کی کوٹھی بیت النصرت کا سنگِ بنیا د رکھا.جو انہوں نے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے لئے تعمیر کروائی تھی.قائد اعظم محمد علی جناح نے مسجد فضل لندن میں تقریر فرمائی.افغانستان کے ظالم شاہی خاندان کے خاتمہ کے بعد نادر شاہ کا عروج اور اس کا قتل ( آہ! نادر شاہ کہاں گیا“ کی پیشگوئی پوری ہوئی).احراریوں کی فتنہ انگیزی پر حضور کشمیر کمیٹی سے مستعفی ہو گئے.کانفرنس اتحاد مذاہب شکاگو کے لئے حضور نے افتتاحی پیغام ارسال کیا.حضرت سیده ساره بیگم صاحبہ حرم حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا انتقال پر ملال.فلسطین کی پہلی احمد یہ مسجد سید نا محمود کا افتتاح ہوا.۱۹۳۴ء حضور نے تربیت و اصلاح کی خاطر ایک اہم تحریک تحریک سالکین“ کے نام سے جاری فرمائی.یہ تحریک ۳ سال کے لئے تھی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات ، رویا اور کشوف کی جمع و تدوین کا کام شروع ہوا.مسجد فضل لائل پور (فیصل آباد) کا افتتاح حضور نے فرمایا اور ایک پبلک لیکچر ہال میں اہل لائکپور (فیصل آباد ) پر صداقتِ احمدیت واضح فرمائی.کشمیری مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے آل انڈیا ایسوسی ایشن کا قیام.جماعت احمدیہ میں مسلمانان کشمیر کی امداد کے لئے کشمیر فنڈ کا اجراء.مصیبت زدگان بہار کی جماعت کی طرف سے امداد.حضور کی ہدایت پر مسلمانان کشمیر کے حقوق و مفادات کی حفاظت کرنے کے لئے سرینگر سے سہ روزہ اصلاح “ جاری کی گیا.لیگوس ( نائیجیریا) میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.احرار کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف شورش بر پا کی گئی.حکومت کی طرف سے احراریوں کی پشت پناہی.قادیان میں احرار کی کانفرنس قادیان کے قریب موضع رجادہ میں منعقد ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 249 سال 1965ء تحریک جدید کا آغاز.حضور نے جماعت کے سامنے ۱۹ مطالبات پیش فرمائے.مشرقی افریقہ، برما، نائیجیریا میں تبلیغی مشنوں کا قیام.۱۹۳۵ء حضور نے تحریک جدید کا مستقل دفتر قائم کیا.مولوی عبد الرحمن صاحب انور پہلے انچارج تحریک جدید بنے.حضور نے سکھوں کے ایک گوردوارہ کے لئے پانچ سوروپے کی رقم عطا فرمائی.ہندوستان سے باہر سب سے پہلے بلاد عربیہ کے احمدیوں نے تحریک جدید پر لبیک کہا.عت فلسطین کی طرف سے چارسوشلنگ کے وعدے موصول ہوئے.قادیان میں حضور نے دار الصناعۃ کا افتتاح فرمایا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب پر قادیان میں قاتلانہ حملہ.احراری شورش اپنے جو بن پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کے ہاتھوں نا کام ہوئی.سنگا پور ، ہانگ کانگ، بر ما اور جاپان میں تبلیغی کوششوں کا آغاز.تحریک جدید کا پہلا بجٹ ۷۸۲، ۶۱ روپے کا تھا.تحریک جدید کے تحت ۳ مربیان کا پہلا قافلہ قادیان سے بیرون ممالک روانہ ہوا.حضور پہلے سفر سندھ پر روانہ ہوئے.شاہ فیصل مسجد فضل لندن میں تشریف لائے.حبشہ میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب بلال کے توسط سے تبلیغی مساعی کا آغاز.قادیان میں بجلی پہنچ گئی.قادیان اور دوسرے مقامات پر جماعت ہائے احمد یہ میں حضور کی اجازت سے ”نیشنل لیگ کو“ کی تاسیس.زلزلہ کوئٹہ کے مصیبت زدگان کی جماعت کی طرف سے امداد.حضور کا نکاح سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سے ہوا.تذکرہ مجموعہ الہامات رؤیا وکشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام پہلی دفعہ شائع ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ١٩٣٦ء 250 ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے.ارجنٹائن میں احمدیہ مشن کا قیام.سال 1965ء بوڈاپسٹ (ہنگری) میں احمدیہ مشن کا قیام تحریک جدید کے تحت یہ یورپ میں پہلا احمد یہ مشن تھا.ملک محمد شریف صاحب گجراتی سپین میں احمدیہ مشن قائم کرنے کے لئے میڈرڈ پہنچے.قادیان میں پہلا اجتماعی وقار عمل ہوا.البانیہ میں مولوی محمد دین صاحب نے احمد یہ مشن کی بنیا د رکھی.شیخ امری عبیدی صاحب ( مشرقی افریقہ ) کا قبول احمدیت.جلسہ سالانہ پر حضور نے فضائل القرآن“ کے سلسلے کا آخری لیکچرارشاد فرمایا.اسی سال یوگوسلاویہ میں احمد یہ مشن قائم ہوا.قادیان میں دار الصناعۃ کا اجراء ( لو ہے، لکڑی اور چمڑے کا کام سکھایا جاتا تھا).راجہ پونچھ کو اسلامی لٹریچر کی پیشکش.مقدمه قبرستان قادیان اور مخالفین کی فتنہ انگیزی.١٩٣٧ء سنگا پور میں پہلے فرد حاجی جعفر صاحب احمدیت میں داخل ہوئے.پیل یو نیورسٹی امریکہ کے شعبہ مذاہب کے پروفیسر جان کلارک آرچر کی قادیان آمد و حضور سے ملاقات.سیرالیون میں با قاعدہ تبلیغی مرکز کا قیام.تحریک جدید کے پہلے تین سال کے اختتام پر حضور نے اسے مزید سات سال کے لئے بڑھانے کا اعلان فرمایا اور یہ پہلا دس سالہ دور دفتر اول کے نام سے موسوم کیا گیا.حضور نے تحریک جدید کے پہلے ۱۹ مطالبات میں مزید ۵ مطالبات شامل کئے.اٹلی اور پولینڈ میں تبلیغی کوششوں کا آغاز.مطالبہ وقف زندگی کے ضمن میں احمدی نوجوانوں کا قابل تعریف نمونہ.مصری صاحب کا فتنہ اور بانیان فتنہ کا جماعت سے اخراج.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۹۳۸ء مسجد اقصیٰ میں لاؤڈ سپیکر کا آغاز.251 مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام اور ان کے منشور اور دستور کی تیاری.حضور نے مسجد اقصیٰ کی توسیع کے لئے نئے حصہ کا سنگِ بنیا درکھا.ایک زرتشتی ایرانی سیاح منوچهر آرین کی قادیان آمد اور قبول احمدیت.سال 1965ء ایک رؤیا کی بناء پر حضور کا سفر حیدر آباد دکن شروع ہوا.یہی سفر ”سیر روحانی“ کے علمی مضمون کا باعث بنا.تحریک جدید کے تحت واقفین زندگی کی تربیت کے لئے قادیان میں دار الواقفین کا قیام.اُردو کے ممتاز ادیب مرزا فرحت اللہ بیگ کی قادیان آمد.مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے اجتماع ( منعقدہ مسجد النور ) سے حضور کا خطاب.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر سیر روحانی“ کے ایمان افروز سلسلہ تقاریر کا آغاز فرمایا.حضرت مولانا عبید اللہ صاحب بسمل کا انتقال.١٩٣٩ء حضور نے پندرہ سال سے کم عمر بچیوں کی تنظیم مجلس ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائی.لوائے احمدیت ( جماعتی پرچم کے لئے کمیٹی کا تقرر.تعلیم ناخواندگان کی تحریک کا اجرا ( خدام الاحمدیہ کے تحت قادیان کے 9 محلہ جات میں ناخواندگی ختم کرنے کی مہم ).سعودی عرب کے امیر فیصل اور مندوبین فلسطین کا نفرنس کے نام حضرت امام جماعت احمدیہ کا پیغام.احمد یہ دار البیعت لدھیانہ کی تعمیر.قرآن کریم کے گورمکھی اور ہندی تراجم کی اشاعت.سر جان ڈگلس بینگ چیف جسٹس پنجاب ہائیکورٹ کی قادیان میں آمد اور حضور سے ملاقات.دنیا بھر میں جماعت کی طرف سے پہلا یوم پیشوایان مذاہب نہایت جوش و خروش سے منایا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 252 سال 1965ء خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی منائی گئی.تین لاکھ روپیہ حضور کی خدمت میں جماعت کی طرف سے نذر کیا گیا جس سے حضور نے جماعتی ترقی کیلئے خلافت جو بلی فنڈ قائم فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح نے اپنے دست مبارک سے پہلی مرتبہ لوائے احمدیت اور لوائے خدام الاحمدیہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر لہرایا.خدام الاحمدیہ کا علم انعامی پہلی دفعہ مجلس کیرنگ اڑیسہ نے حاصل کیا.۱۹۴۰ء حضور کی قائم کردہ ہجری شمسی تقویم پہلی دفعہ الفضل میں شائع ہوئی.اور پھر یہ کیلنڈر جماعت میں رائج ہو گیا.یوپی اور سی پی میں احمدی علماء کے وفد نے خاص طور پر تبلیغ کی.بمبئی ریڈیو سے حضور کی تقریر میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں“ نشر ہوئی.بلا دعر بیہ میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دی گئی.البشری کی وسیع اشاعت.غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے ۳ مارچ کو یوم تبلیغ منایا گیا.حضرت مولانا غلام حسن صاحب پشاوری نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی.نواب بہادر یار جنگ نے قادیان میں حضور کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.قادیان میں اجتماعی وقار عمل کا سلسلہ شروع ہوا.حضور اور بزرگان سلسلہ بھی اس میں شریک ہوئے.اس نمونہ سے ساری جماعت میں ایک نئی فعالیت پیدا ہوئی.چیف جسٹس آف انڈیا اور کمال یار جنگ ایجوکیشن کمیشن کی قادیان آمد.مصیبت زدگان ترکی کی امداد.حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل حلالپوری کا انتقال.حضور نے مجلس انصار اللہ قائم کی.پہلے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحب تھے.انگلستان میں پہلا مناظرہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ایک پادری سے کیا.سرینگر میں احمدیہ مسجد کی تعمیر کا آغاز.١٩٤١ء سلطان زنجبار کو احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 253 سال 1965ء حضور نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے عراق کے حالات پر تبصرہ “ کے موضوع پر تقریر فرمائی.جسے دہلی اور لکھنو کے ریڈیو اسٹیشنوں سے بھی نشر کیا گیا.مسجد احمد یہ کوئٹہ کی بنیا درکھی گئی.حضور نے رؤیا بیان فرمائی جس میں بتایا گیا تھا کہ حضور کومستقبل میں ہجرت کر کے پہاڑوں کی وادی میں تنظیم کی غرض سے نیا مرکز قائم کرنا پڑے گا.متعدد اہم شخصیات ( سر فریڈریک جیمز ، سری جی ہورد، مہاراجہ آف پٹیالہ وغیرہ) کی مرکز سلسلہ آمد، حضور سے ملاقات اور مقامی صنعتی اور تعلیمی اور تنظیمی اداروں کا معائنہ.جنگ کے باعث بیرونی ممالک میں تبلیغ کی راہ میں مشکلات.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بزرگ صحابی حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کا انتقال.جلسہ پر حضور نے قادیان کے غرباء کے لئے ملکی قحط کے پیش نظر غلہ کی تحریک فرمائی.۱۹۴۲ء مصر کے علامہ محمود شلتوت کا فتویٰ وفات مسیح کے بارہ میں ہفتہ وار ” الرسالۃ میں شائع ہوا.چینی مسلمانوں کی تنظیم نیشنل اسلامک سالویشن کے نمائندے شیخ عثمان کی قادیان آمد.پٹنہ کے مشہور ادیب سید اختر احمد اور نیوی کی قادیان آمد اور اشتراکیت اور اسلام کے معاشی نظام کے متعلق حضور سے استفادہ.قادیان کے اردگرد کے دیہات میں تبلیغی کوششیں تیز تر کی گئیں.متعدد بزرگوں نے اعزازی طور پر پیغام حق کی اشاعت میں حصہ لیا.حضرت سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب آف دکن نے صداقت اسلام اور صداقت احمدیت کے متعلق ساری دنیا کے مذاہب کو ایک لاکھ روپیہ کا انعامی چیلنج دیا.(جو آج تک کسی نے قبول نہ کیا ).ٹانگانیکا کے گورنر اور کمانڈرانچیف کو احمدیت کی تبلیغ.١٩٤٣ء حضور نے وقف زندگی اسکیم برائے دیہاتی مربیان جاری فرمائی.مقامی تبلیغ کے دائرے کو امرتسر، سیالکوٹ ، جالندھر اور ہوشیار پور کے اضلاع تک وسیع کیا گیا.نائیجیریا میں لیگوس کے مقام پر مسجد احمدیہ کی تعمیر اور افتتاح.
تاریخ احمدیت.جلد 23 254 سال 1965ء حضور نے مجلس مشاورت کے دوران مخلوط تعلیم کی ممانعت فرمائی.قرآن کریم کا سواحیلی ترجمہ مکمل ہو گیا.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا دستور اساسی حضور نے منظور فرمالیا.پنجاب کے ممبران اسمبلی کو حضور نے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے بارے میں مشورہ دیا.قادیان سے غیر مبائعین کے وساوس کے ازالہ کے لئے مجلس رفقائے احمد کی طرف سے ماہنامہ الفرقان کا اجراء.۱۹۴۴ء اللہ تعالی سے بر پا کر حضرت خلیفہ مسیح اثانی نے لمصلح الموعودہونے کا دعوئی فرمایا اور ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں عظیم الشان پبلک جلسوں میں اس دعویٰ کا اعلان فرمایا.۲۹ جنوری کو قادیان میں پہلی بار یوم مصلح موعود منایا گیا.فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی بنیا درکھی.قادیان میں تعلیم الاسلام کالج کا اجراء.حضور نے الہام کی بناء پر معاہدہ حلف الفضول کا اجراء فرمایا.مسجد مبارک قادیان کی توسیع.مرکزی لائبریری کی ترقی کے لئے ٹھوس اقدامات.البانیہ کے بادشاہ کنگ زوغو کو دعوت اسلام دی گئی.قادیان میں فیڈرل کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس کی آمد.حضرت میر محمد اسحق صاحب اور حضرت سیدہ ام طاہر کا انتقال پر ملال.حضور نے تحریک جدید کے پہلے دس سالہ دور کے اختتام پر دفتر دوم کی بنیاد رکھی.مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا پہلا بجٹ منظور کیا گیا.مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے پہلے سالانہ اجتماع کا افتتاح مسجد اقصی قادیان میں حضور نے فرمایا.حضور نے اپنا آخری نکاح سیدہ بشری بیگم صاحبہ مہر آپا سے پڑھا.۱۹۴۵ء مبلغین کے وفود کی یورپ کو روانگی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 255 سال 1965ء اٹلی اور جزیرہ سسلی میں تبلیغ اسلام کا آغاز.قادیان سے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ترجمان طارق کا اجراء.قادیان میں سرکاری تربیتی سکاؤٹنگ کیمپ کا اہتمام.حضور نے لاہور میں اسلام کا اقتصادی نظام کے موضوع پر خطاب فرمایا.حضور نے بیرون ہند کے جملہ تبلیغی مشن تحریک جدید کے سپر د کر دیئے.حضور نے ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں مساجد قائم کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے جاپان میں ایٹم بم کے استعمال کے خلاف زبردست احتجاج کیا.قادیان میں نظارت تعلیم اور مجلس خدام الاحمدیہ کے تعاون سے پہلی تعلیم القرآن کلاس کا انعقاد.حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی وفات.مسجد احمد یہ ٹیبو را اور مسجد احمد یہ ESSIAH کا افتتاح.اسی سال ضلع وارنظام کے تحت پہلی دفعہ حضور نے آٹھ امراء اضلاع مقرر کئے.۱۹۴۶ء قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح ڈاکٹر سر شانتی سروپ بھٹنا گر نے کیا.صوبائی اور مرکزی انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی اور پاکستان کے قیام کیلئے جماعت احمدیہ کی طرف سے سرگرم تعاون اور گراں قدر خدمات.سیرالیون کی پہلی مجلس مشاورت منعقد ہوئی.فرانس میں احمد یشن کا قیام.سپین میں احمدیہ مشن کا احیاء ہوا.تحریک جدید کی رجسٹریشن ہوئی.اس کا پورا نام تحریک جدید انجمن احمد یہ رکھا گیا.مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا قادیان میں آخری سالانہ اجتماع منعقد ہوا.۱۷۵ بیرونی خدام شریک ہوئے.جنوبی افریقہ میں مشن کی بنیاد.تعلیم الاسلام کالج قادیان میں ڈگری کلاسز کا اجرا.متحدہ ہندوستان کا آخری جلسہ سالانہ منعقد ہوا.حاضرین کی تعداد ۷۰۰، ۳۹ تھی.جلسہ کے موقعہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 256 سال 1965ء پر حضور کی طرف سے دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کی تکمیل کا مژدہ جانفزا.قادیان میں صنعتی اداروں کی ترقی.اسی سال سوئٹزرلینڈ میں مشن قائم ہوا.۱۹۴۷ء حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے سکھوں کو بھی پاکستان کی حمایت کی اپیل.باؤنڈری کمیشن کے سامنے پاکستان کے کیس کو مضبوط کرنے کیلئے مسلم لیگ کی درخواست پر جماعت احمدیہ کی اپیل اور گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کی بھر پور جد و جہد.ہالینڈ اور ملائشیا مشنوں کا قیام.قادیان میں پراونشل ایجوکیشنل ایسوسی ایشن کا نفرنس کا انعقاد.مشہور ریاضی دان ڈاکٹر ہارڈل ایف آرایس اور جرمن فلاسفر ڈاکٹر آر بروناز کی قادیان آمد.ہجرت کا ابتلا، قادیان پر سکھوں کا حملہ اور متعد داحمدیوں کی شہادت.سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر مسلمانوں کا قادیان میں اجتماع.بھارتی پولیس کے ایما پر بعض احمدی احباب کی گرفتاری.احمدیوں کی بخیریت پاکستان میں آمد - ۳۱۳ در ولیش مقامات مقدسہ کی حفاظت کیلئے مولا نا عبدالرحمن صاحب جٹ کی زیر امارت وہیں مقیم رہے.عارضی مرکز کا لا ہور میں قیام.مختلف مقامات پر ذیلی اداروں ( سکول، جامعہ، کالج وغیرہ) کا اجراء.لا ہور سے الفضل کا اجراء.آزادکشمیر حکومت کی بنیا درکھی گئی.پہلے صدر غلام نبی گلکار صاحب انور بنے.جواحمدی تھے.مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور وزیر داخلہ سے اس علاقہ میں مسلمانوں کی حفاظت کے سلسلہ میں جماعت احمدیہ کے وفد کی ملاقات.شاہ انگلستان، ،شہزادی الزبتھ ، ولی عہد مراکش اور دیگر اہم شخصیات کو تبلیغ اسلام.اس سال متعدد بزرگان سلسله مثلاً حضرت میر محمد اسمعیل صاحب، حضرت صوفی غلام محمد صاحب آف ماریشس اور حضرت مولانا شیر علی صاحب نے وفات پائی.لاء کالج لاہور میں حضرت خلیفہ اسیح نے پاکستان کے استحکام کے متعلق تقاریر کا سلسلہ شروع فرمایا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 257 پاکستان میں جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ لا ہور میں منعقد ہوا.١٩٤٨ء اُردن میں احمد یہ مشن کا قیام.کشمیر میں افواج پاکستان کی امداد کیلئے فرقان بٹالین کا قیام اور خدمات کا آغاز.حضور نے ۲۰ ستمبر کو نئے مرکز ربوہ کا افتتاح فرمایا.ربوہ میں ممتاز صحافیوں کی آمد.اہل سیالکوٹ پر حجت ، حضور کا مقالہ احمدیت کا پیغام جلسہ عام میں پڑھا گیا.مرکزی تعلیم القرآن کلاس کا احمد نگر میں انعقاد.شاہ عبداللہ والی شرق اردن کو تبلیغ.حضور نے شاہ کے نام خصوصی پیغام ارسال فرمایا.دیباچہ تفسیر القرآن انگریزی کی اشاعت.حضور کا سفر کوئٹہ، مخالفین کی شورش ، ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی شہادت.فرانس میں جماعت احمدیہ کا پہلا پبلک جلسہ منعقد ہوا.ربوہ میں پہلی عارضی عمارت کی بنیا د رکھی گئی.۱۹۴۹ء جرمن مشن کا قیام.ربوہ کا نقشہ تیار کیا گیا.مسقط میں تبلیغی مشن کا آغاز.حضور فرقان فورس کے مجاہدوں کا جائزہ لینے کیلئے محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے.گلاسگومشن کا قیام.ربوہ میں پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.فرانس میں پہلی سعید روح نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.جماعت احمدیہ نائیجیریا کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.لبنان میں احمدیہ مشن کا قیام.حضرت خلیفہ المسیح الثانی مستقل رہائش کے لئے ربوہ تشریف لائے.حضور نے مسجد مبارک کا سنگ بنیا د نصب فرمایا.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 258 سال 1965ء مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا ربوہ میں پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.حضور نے صدر مجلس کی حیثیت سے مجلس خدام الاحمدیہ کی براہ راست نگرانی شروع فرمائی.فری ٹاؤن مشن مغربی افریقہ کا قیام.ربوہ میں ڈاکخانہ کا اجرا.تعلیم الاسلام سکول گھٹیالیاں کی ہائی سکول کے درجہ تک ترقی.سرگودھا کے کمپنی باغ میں حضور کا اہل سرگودھا سے خطاب.ربوہ میں جامعۃ المبشرین کا قیام.سلسلہ احمدیہ کے ممتاز خادم حضرت نواب محمد الدین صاحب کا انتقال.۱۹۵۰ء بیرون پاکستان جماعت کا پہلا کالج گولڈ کوسٹ میں جاری ہوا.حضور کی تصنیف ”اسلام اور ملکیت زمین“ شائع ہوئی.حضور نے تحریک جدید کے مختلف شعبوں کے لئے مفصل دستورالعمل تجویز فرمایا.ربوہ با قاعدہ ریلوے اسٹیشن بن گیا.بور نیومشن کی طرف سے احمدیت اور اسلام پر مشتمل لٹریچر کی اشاعت.امریکن مشن کا ہیڈ کوارٹر واشنگٹن منتقل ہوا.مسجد واشنگٹن کا قیام.اہم مرکزی عمارات دفاتر صدر انجمن احمد یہ تحریک جدید تعلیم الاسلام ہائی سکول ، دفتر لجنہ اماءاللہ اور قصر خلافت کا حضور نے سنگ بنیا د نصب فرمایا.گلاسگو مشن سے ماہوار رسالہ 'The Muslim Herald“ جاری ہوا.ربوہ میں سٹیٹ بنک کے گورنر ڈاکٹر زاہد حسین کی آمد.تعلیم الاسلام کالج لاہور کی پہلی کا نووکیشن اور حضور کا پُر اثر خطاب.سیلاب زدگان کی جماعت احمدیہ کی طرف سے امداد.فرقان بٹالین کی کشمیر سے کامیاب مراجعت.احرار کی اشتعال انگیزی کی وجہ سے متعدد احمدی پاکستان کے مختلف مقامات پر شہید ہوئے.حضور نے حیدرآباد کے تھیو سافیکل ہال میں ”اسلام اور کمیونزم“ کے موضوع پر لیکچر دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 259 سال 1965ء حضور کا سفر بھیرہ اور اہل بھیرہ سے خطاب.۱۹۵۱ء عراق کی طرف سے مؤتمر عالم اسلامی کے نمائندہ عبدالوہاب عسکری ربوہ آئے.چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ اعلیٰ ( آرچ بشپ آف کنٹر بری ) ڈاکٹر فیشر کو سیرالیون مشن کی طرف سے مقابلہ کی دعوت دی گئی.حضور نے مسجد مبارک ربوہ میں پہلا خطبہ ارشاد فرما کر افتتاح کیا.جامعہ نصرت ( گرلز کالج ) کار بوہ میں حضور نے افتتاح فرمایا.سیلون میں با قاعدہ مشن کا اجرا.حلب میں نئے مشن کا قیام.ٹرینیڈاڈ میں احمدیہ مشن قائم ہوا.ڈچ ترجمہ قرآن پر نظر ثانی.ربوہ میں تار گھر کا قیام.سمندری لائل پور ( حال فیصل آباد ) میں جماعت احمدیہ کی مسجد کو احراریوں نے نذرآتش کر دیا.۱۹۵۲ء حضور نے افتاء کمیٹی کا احیاء کیا.یہ پہلے ۱۹۴۳ء میں قائم ہوئی تھی.دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ کا سنگ بنیاد حضور نے نصب فرمایا.حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کا انتقال پر ملال.خلافت لائبریری کا قیام عمل میں آیا جو قصر خلافت کے ساتھ ایک پختہ عمارت میں قائم کی گئی.بر مامشن کا تحریک جدید کی طرف سے احیاء اور استحکام.خدام الاحمدیہ کے ترجمان خالد کاربوہ سے اجرا.صدر انڈونیشیا اور صدر لائبیریا کو انگریزی ترجمہ قرآن کریم کا تحفہ اور تبلیغ اسلام.جماعت ہائے احمدیہ نے یوم مراکش اور تیونس منایا جس میں ان اسلامی ممالک کی آزادی کا مطالبہ کیا گیا.علامہ محمد بشیر الجزائری نمائندہ احتفال العلماء کی ربوہ آمد.یونیورسٹیوں کے متعد د امتحانات میں احمدی طلباء اول رہے.حضور کا اظہار خوشنودی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۹۵۳ء 260 سال 1965ء اسلامی لٹریچر کی اشاعت کے لئے ربوہ میں الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹیڈ کا قیام عمل میں آیا.احرار کی اینٹی احمدیہ تحریک کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گرفتار کر لیا گیا.جماعت احمدیہ کے خلاف ملک دشمن عناصر کی شدید فتنہ انگیزی ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بابرکت راہنمائی اور دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جماعت کی معجزانہ حفاظت کا سامان.حضور نے صدرانجمن احمد یہ کراچی کے قیام کا اعلان کیا.دی اور ینٹیل اینڈریلیجس پبلشنگ کمپنی کا قیام.حضور نے فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فرمایا.حضور نے مولوی دوست محمد شاہد صاحب کو تاریخ احمدیت لکھنے کا ارشاد فرمایا.فسادات پنجاب کے تحقیقاتی کمیشن کا قیام (ستمبر۱۹۵۳ء).قرآن کریم کے جرمن اور سواحیلی تراجم کی اشاعت.لمصل الفضل کی ایک سال کیلئے جبری بندش اور کراچی سے روز نامہ اصلح کا اجرا.جامعہ نصرت ربوہ میں ڈگری کلاسز کا اجرا.حضور نے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ اور اس کے ہوٹل کا سنگِ بنیا درکھا.اور کالج کی بنیاد میں دار مسیح قادیان کی اینٹ نصب فرمائی.حضور نے صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کے نئے دفاتر کا افتتاح فرمایا.اسی سال بر ما میں احمدیہ مشن قائم ہوا.۱۹۵۴ء حضرت مصلح موعود کی طرف سے جماعت کے ایک وفد نے گورنر جنرل پاکستان غلام محمد صاحب کو ولندیزی ترجمہ قرآن کا تحفہ پیش کیا.حضور نے دارالذکر لا ہور کاسنگ بنیادرکھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا مسجد مبارک میں قاتلانہ حملہ سے شدید زخمی ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت اور معجزانہ شفایابی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 261 سال 1965ء فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں جماعت احمدیہ کی بطور فریق شرکت اور ملک کے اخبارات کے ذریعہ سے وسیع تبلیغ.سیرالیون سے اسلامی اخبار ” افریقن کریسنٹ کا اجرا.ہالینڈ مشن کی طرف سے جریدہ الاسلام کا اجرا.جڑونگ انڈو نیشیا میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شریک ہونے والے ۲۹ وزرائے اعظم کو اسلامی لٹریچر کی پیشکش.مسجد احمد یہ سالٹ پانڈ کا افتتاح.گولڈ کوسٹ کے وزیر اعظم نکرومہ نے کیا.اخبار الفضل ربوہ سے شائع ہونا شروع ہوا.چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب عالمی عدالت کے صدر منتخب ہوئے.قرآن کریم کے ڈچ ترجمہ کی اشاعت.ضیاء الاسلام پر یس کا ربوہ میں قیام.حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا صدر مقررفرمایا.تعلیم الاسلام کا لج لاہور سے ربوہ منتقل ہوا.حضور نے نئی عمارت کا افتتاح فرمایا.سیلاب زدگان کی آمد.حضور نے بنفس نفیس لاہور کے متاثرہ علاقوں کا دورہ فرما کر خدام اور جماعت کے کارکنوں کو ہدایات دیں.جاپان میں منعقد ہونے والی مذاہب عالم کا نفرنس میں جماعت احمدیہ کے مبلغ نے اسلام کی نمائندگی کی.ہالینڈ کے وزیر اعظم، وزیر تعلیم ، جرمنی کے صدر، انڈونیشیا کے صدر، پاکستان کے گورنر جنرل اور دیگر شخصیات کو جرمن ترجمہ قرآن مجید کی پیشکش.۱۹۵۵ء حضور نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصنیف ”حقیقۃ الوحی کے اصل قلمی مسودہ کے آٹھ صفحات ابطور تبرک جماعتہائے احمد یہ انڈونیشیا کو بجھوائے.حضرت خلیفہ اسیح نے دوسری مرتبہ یورپ کا سفر اختیار فرمایا.حضور کی صدارت میں لبنان میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 262 سال 1965ء مبلغین یورپ کی کانفرنس تبلیغ کے متعلق اہم فیصلے.متعدد یورپین احباب نے حضور کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا.جرمنی کے ایک بہت بڑے مستشرق Kamaour نے حضور کے ہاتھ پر احمدیت قبول کی.حضور نے ان کا نام زبیر رکھا.لندن میں مرتبیان کی عالمی کانفرنس حضور کی زیر صدارت شروع ہوئی.مالٹا کے ایک انجنیئر نے حضور کی بیعت کر کے مالٹا میں جماعت احمدیہ کی بنیا د رکھی.حضور نے لندن میں ڈسمنڈشا سے ملاقات فرمائی.کالی منتن مشن (انڈونیشیا) کا قیام.حضرت اماں جی سیدہ صغری بیگم صاحبہ (حرم حضرت خلیفہ امسح الاول ) کا انتقال پر ملال.سیلاب زدگان کی امداد ( صدرانجمن احمدیہ نے بھی پندرہ ہزار روپی ریلیف فنڈ میں دیا ).ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کانووکیشن.وائس چانسلر پنجاب یو نیورسٹی کی آمد.مسجد ہیگ (ہالینڈ) کی بنیاد تعمیر اور افتتاح.اسی سال سوئٹزرلینڈ میں تحریک جدید کے تحت مشن قائم ہوا.۱۹۵۶ء برما میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ سے مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر.لائبیریا اور فلپائن میں تبلیغی مراکز کا قیام.سپین میں تبلیغ اسلام پر حکومت سپین کی پابندی کے خلاف اکناف عالم میں پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں کی طرف سے شدید احتجاج اور اس ظالمانہ حکم کی واپسی.حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ کا موجودہ عہد نامہ تجویز فرمایا.دفتر انصار اللہ مرکزیہ اور فضل عمر ہسپتال کا سنگ بنیاد حضور نے نصب فرمایا.حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد اور صاحبزادہ میاں عبدالسلام صاحب عمر ( فرزند حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ) کا انتقال.فتنہ منافقین کا سد باب.افراد جماعت کی طرف سے خلافت سے وابستگی کے عہد کی تجدید.۱۹۵۷ء سیلون کے طلباء کے وفد کی ربوہ میں آمد.
تاریخ احمدیت.جلد 23 263 سال 1965ء سفیر انڈونیشیا متعینہ پاکستان کا دورہ ربوہ.مسجد احمد یہ دار السلام ( تنزانیہ ) کا افتتاح.مسجد ہمبرگ (جرمنی) کا افتتاح.تفسیر صغیر کی اشاعت.ادارة المصنفین کاربوہ میں قیام.مشرقی افریقہ مشن کی طرف سے ایسٹ افریقن ٹائمنز کا اجرا.جرمنی کے چانسلر، ڈچز آف کینٹ، لائبیریا کے وزیر دفاع اور شام کے صدر کو تر جمہ قرآن کریم اور اسلامی لٹریچر کی پیشکش.سکنڈے نیویا میں مشن کا قیام.فلپائن میں احمدیت کی اشاعت ہوئی.ماہنامہ تفخیذ الا ذہان کا ربوہ سے اجراء.جامعة المبشرین کو جامعہ احمدیہ میں مدغم کر دیا گیا.یوگنڈا میں مسجد احمد یہ جنجہ اور مسجد احمد یہ کمپالا کاسنگ بنیا درکھا گیا.انتخاب خلافت کے متعلق ایک ضروری ریزولیوشن کی منظوری.حضرت مفتی محمد صادق صاحب، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا انتقال پر ملال.۲۷ دسمبر کو حضور نے وقف جدید کی تحریک کا اعلان کیا.۱۹۵۸ء فضل عمر ہسپتال ربوہ کا افتتاح.حضرت مریم صدیقہ صاحبہ نے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی صدارت سنبھالی.مسجد نور فرینکفرٹ (جرمنی) کا افتتاح ہوا.سیرالیون میں مختلف مقامات پر تین مساجد کی تعمیر.حضور کی طرف سے تحریک ”وقف جدید کا آغاز.سیرالیون میں نذیر احمد یہ پرنٹنگ پریس“ کا اجراء.رومن کیتھولک فرقے کے نئے پوپ جان پال کو تبلیغ اسلام.
تاریخ احمدیت.جلد 23 264 سال 1965ء سعودی عرب کے شہزادہ فواد الفیصل اور ہالینڈ کی ولی عہد شہزادی Beatrix کو تر جمہ قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کا تحفہ.ربوہ میں مشہور روسی سائنسدان Dr.Leonid Sedov ، برطانوی سائنسدان.Dr Benneth اور اطالوی پروفیسر بار طولینی کی آمد.حضرت سیدہ ام ناصرمحمودہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی اور جماعت کے مشہور مناظر مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم کا انتقال.۱۹۵۹ء تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی فہرست شائع ہوئی.سورابایا چری بون (انڈونیشیا)، فرانکفورٹ (جرمنی) اور سیرالیون میں عظیم الشان مساجد کی تعمیر.جنجه ( یوگنڈا ) میں مسجد احمد یہ اور مشن ہاؤس کی تعمیر.قرآن مجید کے جرمن ترجمہ کے دوسرے ایڈیشن کی اشاعت.جامعہ احمدیہ سے عربی جریدہ ”البشری کا اجراء.سکنڈے نیویا مشن سے ایک تبلیغی جریدہ کا اجراء.انڈونیشین زبان میں ترجمہ قرآن کی تکمیل.فضل عمر ہسپتال کی یادگاری مسجد کی تعمیر.نائیجیریا کے گورنر جنرل سر جیمز رابرٹس، بھارتی لیڈر اچار یہ ونود بھاوے اور تبت کے مذہبی جلا وطن را ہنما دلائی لامہ کو تبلیغ اسلام.ترجمہ قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی پیشکش.ربوہ میں مشہور مصری صحافی السید محمد عودہ کی آمد.افریقہ کے نو آزاد ممالک کے ستر را ہنماؤں کو اسلامی لٹریچر کا تحفہ.١٩٦٠ء فینٹی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا آغاز.برٹش گی آنا میں اصلاحی مشن کا آغاز.پندرہ روزہ مسلم ٹارچ لاٹرے کا برٹش گی آنا سے اجراء.
تاریخ احمدیت.جلد 23 265 سال 1965ء اکرا ( Accra) گھانا میں مشن ہاؤس کی نئی عمارت کی تعمیر.مسجد احمد یہ Atum اور مسجد احمد یہ Wa (افریقہ ) کا افتتاح.رنگون میں مشن ہاؤس اور مسجد کی تعمیر.جامعہ نصرت ربوہ میں ڈگری کلاسز کا اجراء.امریکہ کے صدر آئزن ہاور ہم شولڈ (سیکرٹری جنرل اقوام متحده)، شاه حسین (والی اردن)، آسٹریا کے صدر را ڈلف شیرف، کانگو کے وزیر اعظم پڑک لومبا اور دیگر اہم شخصیات کو قرآن مجید کا تحفہ.چیف جسٹس ایم آر کیانی ، سر دارد یوان سنگھ مفتون (ایڈیٹر ریاست) کی ربوہ میں آمد.١٩٦١ء مگر ان بورڈ کا قیام - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اس کے پہلے صدر مقرر ہوئے.اس کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد اس کے صفحہ ۱۵۲۱۵۱ار اور ۱۵۷ تا ۱۶۰ میں بیان ہو چکی ہے.) آئیوری کوسٹ میں احمد یہ مشن کا اجراء.ماریشس مشن کی طرف سے پندرہ روزہ فرانسیسی جریدہ Le Message کا اجراء.سیرالیون کے قبیلہ کر انکو کے ۱۳۰۰ / افراد نے ایک ہی دن میں احمدیت قبول کی.گھانا میں احمدیہ مشن نے حکومت سے تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کو عیسائیت کی تعلیم نہ دینے کے احکام جاری کروائے.ڈینش ترجمہ قرآن کریم کے حصہ اول کی اشاعت کیکمہ اور لوئین زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی تکمیل.شہنشاہ حبشہ، صدر لائبیریا ، صدر صومالیہ، صدر برطانیہ کی خدمت میں ترجمہ قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کا تحفہ.نیروبی ( کینیا ) میں شیخ مبارک احمد صاحب کی طرف سے ڈاکٹر بلی گراہم کو روحانی مقابلہ کا چپہنچے.جامعہ احمدیہ کی نئی عمارت کا افتتاح.گھٹیالیاں سیالکوٹ میں تعلیم الاسلام کالج کا اجرا.حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 266 سال 1965ء انتقال پر ملال.١٩٦٢ء رشتہ ناطہ کمیشن کا قیام.یتامی مساکین کے لئے اقامۃ النصرت کا قیام.نائیجیریا میں مسلمان طلباء کی دینی تربیت کے لئے ریلیجس ٹرینگ سنٹر کا اجرا.ماریشس میں فضل عمر سیکنڈری کالج کا اجرا.جرمن مستشرق Kurt Frischler کی دل آزار کتاب "عائشہ کے خلاف سیرالیون مشن کی طرف سے بھر پور احتجاج ( حکومت کی طرف سے کتاب کی اشاعت پر پابندی).ربوہ میں بی کلاس ریلوے اسٹیشن کی تکمیل.ربوہ ریلوے اسٹیشن پر صد رایوب کا استقبال.جماعتی تاریخی میوزیم کمیٹی کا قیام.مسجد محمودز یورک کاسنگ بنیاد از دست مبارک حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.مسجد نور راولپنڈی کی تعمیل ، مسجد احمد یہ کلکتہ کی تعمیر کا آغاز.مشرقی پاکستان میں مجالس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع.تعلیم الاسلام کا لج میں ایم.اے عربی کا اجراء.نصرت گرلز سکول کی نئی عمارت کی تعمیر.خدام الاحمدیہ کے مرکزی ہال کا سنگ بنیاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے رکھا.ربوہ میں آل پاکستان فضل عمر بیڈ منٹن ٹورنامنٹ کا آغاز.تھائی لینڈ کے بادشاہ اور ملکہ الزبتھ کو تبلیغ اسلام اور ترجمہ قرآن کریم اور اسلامی لٹریچر کی پیشکش.دفتر وقف جدید کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد اور تعمیر.حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے انتقال فرمایا.١٩٦٣ء سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب کی ضبطی کے خلاف شدید احتجاج.کتاب کی بحالی اور وسیع اشاعت.
تاریخ احمدیت.جلد 23 267 سال 1965ء صدر مملکت کے ریلیف فنڈ میں صدرانجمن احمدیہ کا چھ ہزار کا عطیہ.مینڈے زبان میں ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت.بہشتی مقبرہ قادیان کی چار دیواری ، تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے بشیر ہال اور تعلیم الاسلام کالج گھٹیالیاں کے ہوسٹل کی تکمیل.سیرالیون میں اسلامک بک ڈپو کا اجراء.دی ڈیوک آف ایڈنبرا، شاہ کمبوڈیا کو تبلیغ اسلام، اسلامی لٹریچر اور قرآن مجید کی پیشکش.محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب جنرل اسمبلی کے صدر منتخب ہوئے.وزیرتعلیم مغربی پاکستان کی ربوہ میں آمد.کراچی میں تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول کا اجرا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرزند ارجمند حضرت مسیح موعود علیہ السلام، حضرت سیدہ عزیزہ بیگم ام وسیم صاحبہ زوجہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کا انتقال پر ملال.١٩٦٤ء دفتر وقف جدید کی نئی عمارت کا افتتاح.جزائر فجی میں مشن ہاؤس کی تعمیر.قمر الانبیاء فنڈ کا اجراء.شمالی بور نیومیں سر بر آوردہ اصحاب کو تبلیغ اسلام.قرآن مجید اور اسلامی لٹریچر کی پیشکش.خلافت ثانیہ کے پہلے پچاس سال پورے ہونے پر اظہار مسرت، اکناف عالم میں پھیلے ہوئے احمدیوں کی طرف سے تجدید عہد.۱۹۶۵ء مسجد احمد یہ ٹا نگانیکا کا سنگِ بنیاد.خلافت ثانیہ کی آخری عید الفطر مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھائی.خلافت ثانیہ کی آخری مجلس مشاورت تعلیم الاسلام کالج کے ہال میں منعقد ہوئی.خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع ملکی حالات کی وجہ سے نہ ہوسکا.اسکی تمام رقم قومی دفاعی فنڈ
تاریخ احمدیت.جلد 23 268 سال 1965ء میں دے دی گئی.ربوہ سے ماہنامہ تحریک جدید کا اجراء ہوا.فری ٹاؤن ( سیرالیون ) میں مشن ہاؤس کا سنگِ بنیا درکھا گیا.۷، ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب حضرت مصلح موعود کا انتقال پر ملال ہوا اور ۹ نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 269 سال 1965ء سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ ان حمد صاحب خلیفة المسیح الثالث ( قبل از خلافت کی مقدس حیات ) ولادت با سعادت اجمالی خاکه از نومبر ۱۹۰۹ ء تا نومبر ۱۹۶۵ء) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احد صاحب خلیفہ امسیح الثالث ۱۵، ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کی درمیانی شب قادیان میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ المعروف ام ناصر کے ہاں پیدا ہوئے.حضرت اماں جان کے زیر سایہ پرورش ابتدائی عمر میں آپ کی دادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ (حضرت اماں جان ) نے آپ کو اپنے زیر سایہ پرورش اور تربیت کے لئے گود لے لیا.وہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی روشنی میں اپنے چوتھے بیٹے مبارک احمد کا نعم البدل اور اپنا (پانچواں ) بیٹا خیال فرماتی تھیں.اس کا کچھ تذکرہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے ایک خط میں بھی کیا ہے جو اگلے صفحات پر دیا جا رہا ہے.10 بچپن میں بیماری اور شفاء آپ کی عمر ایک سال سے کچھ زیادہ ہوگی جب آپ سخت بیمار ہو گئے.آپ کے مقدس والد حضرت سید نامحمود حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے پاس تشریف فرما تھے کہ کئی بار پیغام آیا کہ میاں ناصر احمد تشویشناک طور پر بیمار ہیں مگر حضرت سید نا محمود خود تو حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے باعث احتراماً یہ سنکر خاموش ہو گئے مگر حضرت خلیفہ اول نے فرمایا میاں، تم گئے نہیں ، تم جانتے ہو یہ کس کی بیماری کی اطلاع دے کر گیا ہے.وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا بھی ہے اس پر حضرت سید نا محمود کو بادل ناخواستہ اٹھنا پڑا.ڈاکٹر بلایا گیا اور خدا تعالیٰ نے چند دنوں کے بعد آپ کو شفا بخش دی.150
تاریخ احمدیت.جلد 23 حفظ قرآن اور مدرسہ احمدیہ میں داخلہ 270 سال 1965ء ۱۷ را پریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر تیرہ برس کی تھی آپ کو تکمیل حفظ قرآن کی سعادت نصیب ہوئی جس کی تاریخ ” حافظ قرآن کے الفاظ میں نکلی.محترم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی مرحوم کو آپ کے استاد ہونے کا شرف حاصل ہوا.حفظ قرآن کریم کی تکمیل کے بعد آپ پہلے حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سے پرائیویٹ طور پر عربی اور اردو وغیرہ پڑھتے رہے ازاں بعد دینی علوم کی تحصیل کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.قومی وملی خدمت کا جذ به جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء کے دوسرے روز ۲۷ دسمبر کو جلسہ گاہ بالکل ناکافی ہوگئی جس پر راتوں رات اسے وسیع کر دیا گیا.مدرسہ احمدیہ کے طلبہ اور دیگر اصحاب ساری رات مصروف عمل رہے.شہتیر یاں اٹھا کر لانے، اینٹیں اور گارا بہم پہنچانے میں پوری توجہ خلوص اور محنت سے کام کیا.ان رضا کار طلباء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی شامل تھے جو ساری رات یہ خدمت بجالاتے رہے.دو ریز روفند تحریک کے لئے جد وجہد سید نا حضرت خلیفہ المسح الثانی نے تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کی اقتصادی وسماجی ترقی و بہبود کے لئے ۱۹۲۷ء میں ایک ریز روفنڈ جاری فرمایا تھا اس تحریک میں دوسرے احمدی طلبہ کے دوش بدوش حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد نے بھی سرگرم حصہ لیا.چنانچہ سید نا المصلح الموعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء پر فرمایا: اس سال چھٹیوں کے ایام میں ہمارے سکولوں کے طلباء ڈیڑھ ہزار روپیہ کے قریب چندہ جمع کر کے لائے....چندہ لانے والے طلباء میں میرالڑ کا ناصر احمد بھی تھا جو ایک سو چھتیں روپیہ لایا تھا حالانکہ اسے کبھی اس سے پہلے دوسرے لوگوں سے چندہ لینے کا موقع نہ ملا تھا.مولوی فاضل میں کامیابی 152 جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے جامعہ احمدیہ قادیان سے پنجاب یونیورسٹی کا امتحان ”مولوی فاضل“ پاس کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 271 سال 1965ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ایک دُعا سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جولائی ۱۹۳۱ء کو اپنے بعض صاحبزادوں اور صاحبزادیوں کے قرآن مجید ناظرہ کی تکمیل پر آمین لکھی.جس میں اپنے فرزند اکبر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.الہی مرا ناصر - مرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر پھر سب کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:.دور ہوں ان کی بلائیں ہوں بحر معرفت کے ہی اس کی جفائیں سمائے پڑیں دشمن شناور کے ہوں مہر انور الہی تیز ہوں ان کی نگاہیں قصر احمدی کے پاسباں ہوں نظر آئیں سبھی تقویٰ کی راہیں یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں ثریا سے پھر ایمان لائیں بی.اے کی ڈگری پھر واپس ترا قرآن لائیں مولوی فاضل پاس کرنے کے بعد آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۳۴ء میں بی.اے کی ڈگری حاصل کی.شادی کی تقریب اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی صاحبزادی حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.بارات ۴ راگست ۱۹۳۴ء کو قادیان سے مالیر کوٹلہ گئی جس میں حضرت اماں جان، حضرت ام ناصر صاحبہ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب تشریف لے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 272 سال 1965ء ۵ اگست ۱۹۳۴ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی مالیر کوٹلہ میں رونق افروز ہوئے اور یہ مقدس قافلہ ۶ را گست ۱۹۳۴ء کو قادیان واپس پہنچ ؟ سفرانگلستان حضرت خلیفتہ اسی الثانی کے حکم سے آپ ستمبر ۱۹۳۴ء کو انگستان تشریف لے گئے.حضرت خلیفہ اسی الثانی نے اس موقعہ پر آپ کو اپنے دست مبارک سے مفصل اہم اور ضروری نصائح تحریر فرما کر دیں.ابتدائی نصیحت یہ تھی کہ: میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس غرض سے جس غرض سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ رضوان اللہ علیھم کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھیجوایا کرتے تھے.میں اس لیے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو تو اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جاؤ جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے.غرض تمہارا کام یہ ہے 66 کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے سامان جمع کرو.“ آخر میں سب نصیحتوں کا خلاصہ حضور ہی کے الفاظ میں یہ تھا کہ : ”خدا کے بنو خدا کے.ہم سب فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو.اپنی زندگی کو اسی کے لئے کر دو.ہرسانس اسی کے لئے ہو، وہی مقصود ہو، وہی مطلوب ہو، وہی محبوب ہو جب تک اُس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو ، جب تک اس کی حکومت دُنیا میں قائم نہ ہو تم کو آرام نہ آئے ہم چین سے نہ بیٹھو.153 حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی الوداعی نظم آپ کے سفر یورپ کے لئے روانگی پر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے ایک دعائیہ نظم لکھی جس کے چند اشعار بطور نمونہ درج ذیل ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 273 سال 1965ء جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر والی بنو امصار علوم دو جہاں کے اللہ نگہبان خدا حافظ و ناصر ائے یوسف کنعان خدا حافظ و ناصر پہرہ ہوفرشتوں کا قریب آنے نہ پائے سر پاک ہواغیار سے دل پاک نظر پاک ڈرتا رہے شیطان، خدا حافظ و ناصر اے بندہ سبحان خدا حافظ و ناصر محبوب حقیقی کی امانت“ سے خبردار انگلستان کا زمانہ قیام اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ستمبر ۱۹۳۴ء سے لے کر نومبر ۱۹۳۸ء تک انگلستان میں قیام پذیر رہے.اس دوران آپ ایک بار جولائی ۱۹۳۶ء میں قادیان تشریف لائے اور ۷ استمبر کو واپس انگلستان تشریف لے گئے.انگلستان میں آپ آکسفورڈ سے بی.اے کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ تبلیغ اسلام میں بھی مصروف رہے ایک رسالہ الاسلام بھی جاری فرمایا اور واپسی پر مصر میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ قیام فرمانے اور عربی تہذیب و تمدن اور طرز تعلیم وغیرہ کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ ۹ نومبر ۱۹۳۸ء کو بانیل مرام واپس قادیان دارالامان تشریف لائے.جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کی حیثیت سے یورپ سے آتے ہی آپ جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر کئے گئے.حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب کے ریٹائر ڈ ہونے پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کو جامعہ احمدیہ کا پرنسپل مقررفرمایا.پھر جون ۱۹۳۹ء سے اپریل ۱۹۴۴ء تک احمدیت کا یہ مرکزی ادارہ آپ کی نگرانی میں ترقی کی منازل طے کرتا رہا.در مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت و نائب صدارت فروری ۱۹۳۹ء سے لے کر اکتوبر ۱۹۴۹ء تک آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے اور اکتوبر ۱۹۴۹ء سے نومبر ۱۹۵۴ء تک نائب صدر کا عہدہ سنبھالا جبکہ اس دوران حضرت خلیفۃالمسیح الثانی بنفس نفیس صدر تھے.آپ نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی زیر نگرانی نوجوانان احمدیت کے محبوب
تاریخ احمدیت.جلد 23 274 سال 1965ء قائد کی حیثیت سے شاندار خدمات انجام دیں.لوائے خدام احمدیت کی تیاری مجلس کے اساسی لٹریچر کی اشاعت ، نوجوانان احمدیت میں عملی انقلاب، باؤنڈری کمیشن کے لئے فراہمی مواد ، حفاظت مرکز قادیان کی جدو جہد تحریک آزادی کشمیر میں شمولیت، پاکستان میں مجلس کی سرگرمیوں کا احیاء رسالہ خالد کا آغاز وغیرہ آپ کے عہد صدارت کے زندہ و تابندہ کارنامے ہیں جو تاریخ خدام الاحمدیہ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھے جائیں گے.وقف زندگی ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء کو آپ نے اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کر دی.پرنسپل تعلیم الاسلام کالج مئی ۱۹۴۴ء سے لے کر نومبر ۱۹۶۵ء ( تا انتخاب خلافت ) تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے قوم وملت کے نونہالوں کی تعلیمی رہنمائی فرماتے رہے.اگست ۱۹۴۷ء میں ملک کی تقسیم عمل میں آئی مگر آپ کی ہمت و کوشش سے اس کالج کا دوبارہ قیام لاہور میں ہوا اور پھر آپ کی بے نظیر اور شبانہ روز محنت و کاوش کے نتیجہ میں ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کی شاندار عمارت کی تعمیر ہوئی اور اس عظیم الشان کالج نے آپ کی رہنمائی میں ایسی نمایاں ترقی کی کہ اسے ملک کے مشہور کالجوں میں نمایاں مقام حاصل ہو گیا.قسیم ہندوستان کے وقت کا رہائے نمایاں اگست ۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے کے بعد آپ کچھ عرصہ قادیان میں مقیم رہے.اور اس دوران قادیان کی حفاظت کا مقدس فریضہ سر انجام دیا.علاوہ ازیں ہزار ہالٹے پٹے بے خانماں مسلمانوں کے لئے قادیان میں رہنے کا انتظام و انصرام فرماتے رہے جو کہ تاریخ کا ایک یادگار باب ہے.آپ ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان کی مقدس بستی سے ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے.فرقان بٹالین کی کمیٹی میں جون ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۵۰ ء تک فرقا بٹالین سرگرم عمل رہی جس میں احمدی مجاہدوں نے محاذ کشمیر پر شجاعت و بہادری کے بے مثال جو ہر دکھائے اس بٹالین کے لئے حضرت سیدنا لمصلح الموعود نے جو
تاریخ احمدیت.جلد 23 275 سال 1965ء کمیٹی مقرر فرمائی اس کا ایک ممبر آپ کو بھی نامزد فرمایا.فرقان فورس کے فوجی اشارات میں آپ فاتح الدین کے نام سے موسوم ہوتے تھے.کشمیر آزاد کرانے کا عزم صمیم فرقان بٹالین کو جب پہلی جنگ بندی کے بعد جون ۱۹۵۰ء میں دوسرے رضا کار مجاہدوں کی طرح سبکدوش کر دیا گیا تو آپ نے پر شوکت اعلان فرمایا : ”ہم نے کشمیر میں اپنے شہید چھوڑے ہیں جگہ جگہ ان کے خون کے دھبوں کے نشان چھوڑے ہیں ہمارے لئے کشمیر کی سرزمین اب مقدس جگہ بن چکی ہے ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنالیں اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ آنے دیں.اگر چہ کامیاب جدو جہد کے بعد فرقان“ کو سبکدوش کیا جارہا ہے لیکن جس جہاد کا ہم نے خدا سے وعدہ کیا ہے اس میں سبکدوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں کا یہ دور چلتا چلا جائے اور اس نیت کی ہر قربانی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کا موجب ثابت ہوتی رہے.154 سُنت یوسفی کے مطابق قید و بند ۱۹۵۳ء میں احرار کی اینٹی احمد یہ تحریک کے نتیجہ میں لاہور میں مارشل لاء لگا دیا گیا.اسی مارشل لاء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور آپ کو سنت یوسفی کے مطابق قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو گرفتاری ہوئی اور ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو ان بزرگوں کی رہائی عمل میں آئی.مجلس انصار اللہ کی صدارت ۱۹۵۴ء میں آپ بطور نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ مقرر ہوئے (اس دوران حضرت خلیفہ المسیح الثانی بطور صدر مجلس انصاراللہ نگرانی فرمارہے تھے ) پھر ۱۹۵۹ء سے آپ کو مجلس انصاراللہ کی زمام قیادت سپرد کی گئی.(منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد پھر آپ نے یہ عہدہ ۱۹۶۸ء تک اپنے پاس
تاریخ احمدیت.جلد 23 276 سال 1965ء رکھا.جب آپ نے ابتدائی طور پر مجلس کی ذمہ داریاں سنبھالیں تو ایک مرحلہ پر کسی خادم نے عرض کیا کہ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ بوڑھے ہو گئے ہیں.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں بوڑھا نہیں ہو گیا.دراصل مجلس انصاراللہ جوان ہو گئی ہے.چنانچہ خدا کے فضل سے ایسا ہی ہوا اور آپ کی روحانی توجہ کی بدولت اس مجلس میں بیداری کی حیرت انگیز برقی رو پیدا ہوگئی اس کا وسیع دفتر اور ہال تعمیر ہوا، رسالہ انصار اللہ جیسے بلند پایہ تربیتی ماہنامہ کا اجراء ہوا اور عمر رسیدہ بزرگوں کی یہ تنظیم مضبوط اور مستحکم بنیا دوں پر قائم ہو کر عالم شباب میں آگئی.صدر انجمن احمد یہ پاکستان کی صدارت مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت طلیقہ اسیح الثانی المصلح الموعود نے آپ کو صد را محسن احمد یہ پاکستان کا صدر مقرر فرمایا.اس طرح اس نہایت اہم جماعتی ادارہ کی باگ ڈور آپ کو سونپ دی گئی اور یہ انتخاب بہت مبارک ثابت ہوا اور یہ ادارہ ہر جہت سے شاہراہ ترقی پر گامزن رہا.ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ ۱۹۵۸ء میں آپ کی کوششوں سے آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنا منٹ کا آغاز ہوا جو ۱۹۶۶ء میں آپ کے نام سے موسوم ہوا، یعنی ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ.افسر جلسه سالانه ۱۹۵۹ء میں آپ افسر جلسہ سالانہ بنے اور نومبر ۱۹۶۵ء تک اس عہدہ پر فائز رہے.آپ کی خلافت پر جماعت احمدیہ کا اجماع حضرت سید نا لمصلح الموعود کے وصال پر ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو جماعت احمدیہ کا آپ کی خلافت سیدنا پر اجماع ہوا اور ہزاروں سال کی یہ پیشگوئی ( جو قدیم اسرائیلی احادیث کے مجموعہ طالمود میں چلی آرہی تھی ) پوری ہوئی کہ : "It is also said that he (The Messiah) shall die and وو his kingdom descend to his son and grandson." 155 یعنی یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسیح کے انتقال کے بعد اس کی بادشاہت اسکے بیٹے اور پوتے کومل جائے گی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 277 سال 1965ء اس قدیم نوشتہ کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اکتوبر ۱۹۰۷ء میں الہامی بشارت دی گئی کہ: " آپ کے لڑکا پیدا ہوا ہے ( یعنی آئندہ کسی وقت لڑکا پیدا ہو گا ) ا.۲." إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِیم ( ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں) يَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَكِ ( وہ مبارک احمد کی شبیہ ہوگا ) 156 مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں اپنی کتاب تفہیمات ربانیہ صفحہ ۱۳۶ پر لکھا کہ: ’صاف کھل گیا کہ شبیہ مبارک احمد آپ ( مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے صلب سے نہ ہوگا بلکہ آپ کا پوتا ہوگا.اے منکرین سنو اور گوشِ ہوش سے سنو کہ مبارک احمد کا قائمقام اور شبیہ ۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو پیدا ہونے والا مولود مسعود ہے جس کا نام صاحبزادہ ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ ہے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا فرزندار جمند ہے.کیا کوئی ہے جو ایمان لائے.“ حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی حضرت مصلح موعود نے اپنے ایک مکتوب میں یہ پیشگوئی تحریر فرمائی: مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا 157- ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا“.حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۵۶ء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خلیفہ ثالث کی نسبت یہ عظیم الشان خوشخبری دی که: ” جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے.میں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ بچنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو، ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا.“ نیز فرمایا: پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے.ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا....اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرلیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ 158
تاریخ احمدیت.جلد 23 278 خلافت ثالثہ کا پہلا دن اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تاریخی خطاب سال 1965ء نومبر کی شب نماز عشاء کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انتخاب خلافت ثالثہ کی کارروائی عمل میں آچکی تھی اور یوں ۹ نومبر ۱۹۶۵ء خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا پہلا دن تھا اس روز حضرت خلیفة المسیح الثالث نے مسجد مبارک میں نماز فجر پڑھانے کے بعد حسب ذیل تاریخی خطاب فرمایا: ”میرے پیارے بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ساری جماعت جانتی ہے کہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے ۱۹۵۷ء میں بعض حالات کے پیش نظر خلافت کے متعلق ایک مجلس انتخاب خلیفہ اور اس کے قواعد منظور فرمائے تھے.ان قواعد کی روشنی میں کل شام اسی جگہ ہماری اسی مسجد (مبارک) میں وہ دوست جمع ہوئے جو اس مجلس کے رکن ہیں.اور جن کا فرض تھا کہ وہ ان مقررہ اور منظور شدہ قواعد کے مطابق آئندہ خلیفہ کے متعلق سوچ و بچار اور دعا کے ساتھ فیصلہ کریں.اور انہوں نے اپنے اس اجلاس میں (جس کی کارروائی کا بہت سا حصہ بوجہ مختلف جذبات کے میرے کانوں میں نہیں پڑسکا) یہ بارگراں خلافت میرے ان کمزور کندھوں پر رکھ دیا ہے اس لئے اب اس فرض کی تعمیل کے لئے جو کل شام سے شروع ہو چکا ہے، میں اپنے احمدی بھائیوں سے تجدید بیعت کراؤں گا.میں الفاظ بیعت دہرا تا جاؤ نگا میرے پیچھے آپ بھی دہراتے جائیں.آپ ایک دوسرے کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لیں ، ایک دوسرے کو دھکا نہ دیں اور اپنی توجہ کو اپنے رب کی طرف مرکوز رکھیں اور اسی سے مدد چاہیں کہ وہ آپ سب کو اپنا یہ عہد بیعت نبھانے کی توفیق بخشے اور ان منافقوں کی طرح آپ کو نہ بنائے جن کے متعلق قرآن کریم نے یہ کہا ہے کہ وہ پیٹھ دکھا کر میدانِ جنگ سے بھاگ جاتے ہیں حالانکہ انہوں نے اپنے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دین کی جنگوں میں خواہ وہ کسی ہی نوعیت کی کیوں نہ ہوں اپنی پیٹھ نہیں دکھائیں گے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ كَانُوْا عَاهَدُوا اللهَ مِنْ قَبْلُ لَا يُوَتُونَ الْأَدْبَارَ (احزاب : ١٦) اب پہلے بیعت ہوگی.اس کے بعد میں چند الفاظ میں اپنے بھائیوں سے خطاب کرونگا“
تاریخ احمدیت.جلد 23 279 سال 1965ء (اس کے بعد بیعت ہوئی اور پھر دعا کی گئی جس میں گریہ وزاری اور آہ و بکا کا عجیب نظارہ دیکھنے میں آیا ).پھر حضور نے تشہد، تعوذ اور فاتحہ شریف کی تلاوت کے بعد فرمایا.آپ سب دوست جانتے ہیں کہ کل صبح سویرے دو بجکر ہیں منٹ پر ہمارے پیارے امام اور مطاع کا وصال ہو گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کے مطابق جو آپ نے اپنے موعود بیٹے مصلح موعود کے لئے کی تھیں.آپ کا وجود جن برکات کا حامل تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.جماعت کے جس فرد بشر سے بھی آپ بات کریں.اسے بے شمار احسان یاد کرتے پائیں گے جو حضور نے وقتاً فوقتاً اس پر کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جماعت کے دلوں میں آپ کے لئے بے انتہا محبت اور روحانی تعلق پیدا کیا ہوا تھا.آپ اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اپنے محبوب سے جاملے اور کچھ عرصہ یعنی چند گھنٹوں کے لئے یہ جماعت بظاہر لاوارث رہ گئی ( آہ وزاری کی آواز میں بلند ہوئیں اور کچھ لمحوں کے لئے آپ بھی رُک گئے ) پھر فرمایا: یہ وقت الہی جماعتوں کے لئے بڑا نازک وقت ہوتا ہے گویا ایک قسم کی قیامت بپا ہو جاتی ہے.ایسے وقت میں جہاں اپنے گھبرائے ہوئے ہوتے ہیں وہاں اغیار برائی کی امیدیں لئے جماعت کو تک رہے ہوتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ شاید یہ وقت اس الہی جماعت کے انتشار یا اس میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے یا اس کے اتحاد، اس کے اتفاق اور اس کی باہمی محبت میں رخنہ پڑنے کا ہولیکن جو سلسلہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کیا جاتا ہے وہ ایسے نازک دوروں میں اپنی موت کا پیام نہیں بلکہ اپنی زندگی کا پیام لے کر آتا ہے.اور اللہ تعالیٰ قیادت کا انتقال ایک کندھے سے دوسرے کندھے کی طرف اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا ایک بندہ بوڑھا اور کمزور ہو گیا.اور وہ اس کو طاقتور اور جوان رکھنے پر قادر نہیں.کیونکہ ہمارا پیارا مولیٰ ہر شے پر قادر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ دنیا پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہر نگاہ میری طرف ہی اٹھنی چاہیے.بندہ بڑا ہو یا چھوٹا آخر بندہ ہی ہے، تمام فیوض کا منبع اور تمام برکات کا حقیقی سرچشمہ میری ہی ذات ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 280 سال 1965ء یہ توحید کا سبق دلوں میں بٹھانے کے لئے وہ اپنے ایک بندے کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور ایک دوسرے بندہ کو جو دنیا کی نگاہوں میں انتہائی طور پر کمزور اور ذلیل اور نااہل ہوتا ہے، کہتا ہے کہ اٹھ اور میرا کام سنبھال، اپنی کمزوریوں کی طرف نہ دیکھ ، اپنی کم علمی اور جہالت کو نظر انداز کر دے، ہاں میری طرف دیکھ کہ میں تمام طاقتوں کا مالک ہوں.میرے سے ہی امید رکھا اور مجھ پر ہی تو کل کر ، کہ تمام علوم کے سوتے مجھ سے ہی پھوٹتے ہیں، میں وہ ہوں جس نے تیرے آقا کو ایک ہی رات میں چالیس ہزار کے قریب عربی مصادر سکھا دیئے تھے اور میری طاقتوں میں کوئی کمی نہ آئی تھی ، میں وہ ہوں جس نے نہایت نازک حالت میں سے اسلام کو اٹھایا تھا.اور جب انسان نے اپنی تلوار سے اسے مٹانا چاہا، تو میں اس تلوار اور اسلام کے درمیان حائل ہو گیا.اس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں موجود تھیں.لیکن دنیا کی کوئی طاقت خواہ کتنی ہی بڑی تھی اسلام کو نہ مٹاسکی.ہمارا رب کہتا ہے کہ آج پھر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا اور اسلام دنیا پر غالب ہوکر رہے گا اور ان کمزور ہاتھوں کے ذریعہ سے غالب ہوکر رہے گا.ہم اپنی کمزوریوں کو کیا دیکھیں ، ہماری نظر تو اُس ہاتھ پر ہے جو ہمیں اپنے کمزور ہاتھوں کے پیچھے جنبش کرتا نظر آتا ہے.ہم اپنی کم طاقتی کا خیال کیوں کریں کیونکہ ہمارا تو کل تو اُس طاقت پر ہے کہ جس نے دنیا کی ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے اور اس کا احاطہ کیا ہوا ہے.کل شام کو اس مجلس انتخاب نے خاکسار کومنتخب کیا ہے اور خدا شاہد ہے کہ آج صبح بھی میری حالت ایسی تھی جیسے اُس شخص کی ہوتی ہے کہ جس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو اس کو یقین نہیں آتا کہ اس کا وہ عزیز اس سے جدا ہو چکا ہے.مجھے بھی یقین نہیں آتا.میں سمجھتا ہوں کہ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں یہ کیا ہوا ( لوگوں کی آہ وزاری کی آوازیں) جس کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ڈھال بنایا تھا اس ڈھال کو اُس نے ہم سے لے لیا اور اس نے مجھے آگے کر دیا میں بہت ہی کمزور ہوں ، بلکہ کچھ بھی نہیں.شاید مٹی
تاریخ احمدیت.جلد 23 281 سال 1965ء کے ایک ڈھیلے میں مدافعت کی قوت مجھ سے زیادہ ہو، مجھ میں تو وہ بھی نہیں.لیکن جب سے ہمیں ہوش آئی ہے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اگر یہ سچ ہے اور یقینا یہ سچ ہے تو پھر نہ مجھے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ آپ میں سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت ہے.جس نے یہ کام کرنا ہے وہ یہ کام ضرور کرے گا.اور یہ کام ہوکر رہے گا.لیکن کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں آپ پر.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر آپ لوگوں کو گواہ ٹھہراتا ہوں اس بات پر کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی ہے، جہاں تک اُس نے مجھے توفیق عطا کی ہے، جہاں تک اُس نے مجھے طاقت دی ہے، آپ مجھے اپنا ہمدرد پائیں گے.میں ہر لمحہ اور ہر لحظہ دعاؤں کے ساتھ اور اگر کوئی اور وسیلہ بھی مجھے حاصل ہو تو اس وسیلہ کے ساتھ آپ کا مددگار رہوں گا.اور میں اپنے رب سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ کو بھی یہ توفیق دے گا کہ آپ صبح وشام اور رات اور دن اپنی دعاؤں سے اپنے اچھے مشوروں سے،اپنی ہمدردیوں سے اور اپنی کوششوں سے میری اس کام میں مدد کریں گے کہ خدا تعالیٰ کی تو حید دنیا میں قائم ہو، اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا میں لہرانے لگے.(نعرہ ہائے تکبیر ) آج دنیا آپ کو بھی کمزور بجھتی ہے اور مجھے بھی ، بہت ہی کمزور لیکن ایک دن آئے گا کہ لوگ حیران ہوں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کتنی بڑی طاقت تھی کہ بظاہر کمزور نظر آنے والا ، مال سے محروم، وسائل سے محروم، دنیا کی عزتوں سے محروم ، ہر طرف سے دھتکارا جانے والا ، ذلیل کیا جانے والا ، اور وہ سلسلہ جس کو دنیا نے اپنے پاؤں کے نیچے مسلنا چاہا، خدا تعالیٰ کے فضل نے اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور قرآن کریم جو کسی وقت صرف طاق کو سجاوٹ دے رہا تھا.اس نے دلوں میں گھر کر لیا ہے اور پھر انسان کے دل سے علم کا بھی ، نیکی و تقویٰ کا بھی اور دنیا کی ہمدردی اور غمخواری کا بھی ایک چشمہ بہ نکلا ہے، اسی طرح جس طرح ایک موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے بوقت ضرورت پانی کا چشمہ بہہ نکلا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 282 سال 1965ء دنیا انشاء اللہ تعالیٰ یہ نظارے دیکھے گی.مگر ہم میں سے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے.ہر ایک نے دنیا سے بہر حال چلے جانا ہے.آج ہم یہاں ہیں کل کا کچھ پتہ نہیں کہ کہاں ہوں گے.ہمیں دعا کرتے رہنا چاہئے کہ ہم یہاں ہوں یا کسی اور دنیا میں، خدا تعالیٰ اس سلسلہ کو ایسے وجود بخشا رہے جو پورے زور کے ساتھ ، جو پورے تو کل کے ساتھ ، جو بکثرت دعاؤں کے ساتھ ، اور جو پورے انابت الی اللہ کے ساتھ دین کے غلبہ کے لئے اور اس سلسلہ کے مقصد کے حصول کے لئے کوشاں رہنے والے ہوں اور یہ ذلیل سمجھا جانے والا گر وہ خدا کی نگاہ میں ہمیشہ عزت پانے والا گروہ رہے جب ایسا ہو جائے گا تو پھر دنیا کی کوئی نظر ہمیں ذلیل نہیں کر سکتی اور یہ کمزور سمجھا جانے والا گروہ ، خدائے عزوجل کے نزدیک جو کامل طاقتوں والا ہے، طاقتور گروہ قرار دیا جائے گا تا پھر دنیا کی طاقتیں ہمارا کچھ نہ بگا ڑسکیں.خدا کرے کہ ہمارا خدا ہمیشہ ہمارے ساتھ ہو خدا کرے کہ اس کی نصرت ہمیشہ ہمارے شامل حال رہے خدا کرے کہ ہمارے کمزور طاقتوروں پر ہمیشہ بھاری رہیں خدا کرے کہ ہمارے جاہل جب اچھے پڑھے لکھے لوگوں کے مقابل پہ آئیں تو انہیں شرمندہ کرنے والے ہوں.خدا کرے کہ ہمارے وجود میں خدا کا جلوہ دنیا کو نظر آنے لگے خدا کرے کہ ہمارے چہروں سے اسلام کا نور اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی جھلک دنیا کو دکھائی دے.خدا کرے کہ ہماری زندگیوں میں ہی اسلام کا غلبہ دنیا میں قائم ہو جائے اللھم امین.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ رہے.“ یہ خطاب ختم ہونے پر نعرہ ہائے تکبیر سے فضاء گونج اٹھی اور آپ السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہہ کر واپس تشریف لے گئے ) 15
تاریخ احمدیت.جلد 23 283 سال 1965ء مستورات سے پہلی بیعت حضور انور ۸ نومبر کی شب انتخاب خلافت کی کارروائی اور حاضر احباب سے بیعت لینے کے بعد مسجد مبارک سے قصر خلافت تشریف لے گئے اور ایک بند کمرہ میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک دعاؤں میں مصروف رہے.جب حضور باہر تشریف لائے تو بہت سی عورتوں نے جو وہاں موجود تھیں بیعت لینے کی درخواست کی چنانچہ سینکڑوں خواتین نے اس وقت پہلی بیعت کا شرف حاصل کیا.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا احمدی مستورات سے پہلا خطا 160.خطاب اگر چہ ۸ نومبر کی شب سینکڑوں خواتین بیعت سے مشرف ہو چکی تھیں تاہم 9 نومبر کی صبح ساڑھے دس بجے کے قریب دوبارہ مستورات کو بیعت کا موقع دیا گیا.جہاں پر ہزاروں خواتین نے بیعت کا شرف حاصل کیا.یہ تقریب حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کے گھر میں عمل میں آئی.اس بیعت کے بعد اسی جگہ پر آپ نے مستورات سے پہلا خطاب فرمایا.اپنے اس خطاب میں تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے۱۹۱۴ء میں انتخاب خلافت ثانیہ کے حالات بیان فرمائے.اور خلافت کے منکرین کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ:.ان حالات میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس ذمہ داری کو اٹھایا.جو ذمہ داری کہ ایک الہی سلسلہ میں سب سے مشکل اور سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے.پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اپنے رحم سے اور اپنی محبت کے طفیل حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو یہ توفیق عطا کی کہ آپ اس فتنہ کو مٹادیں.آپ نے جماعت میں ایک ایسا اتفاق ، ایک ایسا اتحاد، ایک ایسی پجہتی ، ایک ایسی اخوت اور ایک ایسی برادری قائم کر دی کہ اس کا نظارہ ہمیں سگے رشتوں میں بھی نظر نہیں آتا.“ پھر ا تفاق واتحاد کی برکات اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والی فتوحات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ:.آپ میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لئے پوری کوشش کرے.اور اگر ضرورت ہو تو اس کے لئے ہر قسم کی قربانی دے.اپنے بچوں
تاریخ احمدیت.جلد 23 284 سال 1965ء کو، اپنی بچیوں کو اور اپنے تمام رشتہ داروں کو سمجھائے کہ قوم کا اتحاد ہر قیمت پر ملحوظ رکھا جائے گا.اگر آپ نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور اسے پوری طرح نبھایا تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی کوئی طاقت ہمارے اس اتحاد واتفاق میں رخنہ پیدا نہ کر سکے گی.ہم لوگوں نے بہر حال اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا ہے.ہم موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ جاتو اور تیرا رب لڑے.ہم تو یہاں آرام سے بیٹھے ہیں.ہمیں ان فدایان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نمونہ دکھانا ہوگا.جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.آگے بھی لڑیں گے.اور پیچھے بھی لڑیں گے.اور دشمن کو آپ تک ہرگز نہیں پہنچنے دیں گے جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ بڑھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات تو ایک اسوہ تھی ایک نمونہ تھی آپ نے اسلام کی مکمل تعلیم پیش فرمائی اور ساتھ ہی اس تعلیم کی اشاعت کی ذمہ داری آپ نے اپنے اوپر اور دیگر فدایان اسلام پر ڈالی.وہ زمانہ بیت گیا.اب اس آخری زمانہ میں یہ ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے متبعین پر ڈالی گئی.ہاں یہ ذمہ داری مجھ پر اور آپ میں سے ہر ایک پر ڈالی گئی ہے.اور ہم میں سے ہر ایک نے اپنے رب سے یہ عہد باندھا ہے کہ ہم اپنی عزتوں کو قربان کر کے، اپنی جانوں کو قربان کر کے ، اپنی خواہشات کو قربان کر کے، اپنے بچوں اور بچیوں کو قربان کر کے اور ہر قسم کی قربانی دے کر اس دین کی حفاظت کریں گے.اور اسلام کے غلبہ کی کوششوں کو جاری رکھیں گے.یہ ہے ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری !!! پس اس ذمہ داری کو سمجھیں اور دل میں پختہ عہد کریں کہ خواہ کچھ ہو جائے دعاؤں کے ذریعہ اور ہر قسم کی تدبیروں کے ذریعہ ہم قومی اتحاد کو قائم رکھیں گے اور اس فرض کو حتی الوسع احسن طور پر نبھانے کی کوشش کریں گے جو ہم پر خدائے تعالیٰ کی طرف سے ڈالا گیا ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی توفیق عطا کرے اور ہم پر وہ تمام فضل نازل فرمائے جن فضلوں کا وارث اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کو بنایا اور جن کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 285 سال 1965ء بشارات آپ کو دی گئیں.آپ کو بہت بڑی بشارات دی گئی ہیں.کوشش کریں کہ آپ اُن بشارات اُن برکات اور اُن فیوض سے حصہ لے رہے ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو ، ہر آن آپ کی مدد کرے ہمیشہ آپ کی حفاظت کرے اور ہمیشہ ہی آپ کو اپنی پناہ میں رکھے اللهم آمين 161 766 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا ایک اہم خطاب ۹ نومبر ۱۹۶۵ ء ہی کا واقعہ ہے کہ حضور نے ظہر کے وقت بیعت کے بعد ہزار ہا مبائعین سے ایک اہم خطاب فرمایا جس میں بتایا کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے اس وقت تک مختلف ہاتھوں میں ہاتھ رکھ کر خدا تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے.اگر دین کے معاملے میں دنیا کی ملاوٹ نہ ہو اور فی الواقعہ ہمارا اتحاد، ہمارا اتفاق ، ہماری بیجہتی وایثار و قربانی میں ہماری یک رنگی اور خدا تعالیٰ اور اس کے منشاء کے مطابق ہم سب کا ایک ہو جانا ناممکن نہیں رہتا.نیز فرمایا: میں نے آج سجدہ میں خاص طور پر یہ دعا کی کہ اے میرے رب ! یہ احمدی جو میرے بھائی اور بزرگ ہیں.ان پر تو اتنی رحمتیں نازل کر اور انہیں اتنی برکتیں عطا فرما کہ وہ اندازہ نہ کر سکیں اور انہیں ہر آن اپنی پناہ میں رکھ حتی کہ وہ یہ سمجھیں اور یقین کریں کہ تیری فوجوں کے کیمپ اور خیمے ان کے چاروں طرف لگے ہوئے ہیں.آپ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ میری ان دعاؤں کو قبول فرمائے اور مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے.اب میں رخصت ہوتا ہوں.( نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے اور حضور اللهُمَّ صَلِّ عَلی محمد و علی آل محمد کو دہراتے ہوئے واپس تشریف لے گئے ).162 66 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تحریک جدید کے نام پیغام حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اا نومبر ۱۹۶۵ء کو جملہ کارکنان تحریک جدید کو شرف ملاقات ،
تاریخ احمدیت.جلد 23 286 سال 1965ء مصافحہ و معانقہ عطا فرمایا.ملاقات کے بعد مجلس تحریک جدید کے اراکین، وکلاء اور نائب وکلاء کی وساطت سے تحریک جدید کے تمام کارکنوں کو اسلام کو چار دانگ عالم میں پھیلاتے چلے جانے کا پیغام دیا.حضور نے فرمایا کہ عربی زبان میں نثر اور خاص طور پر نظم میں ہندی تلوار کی بہت تعریف کی گئی ہے.اب اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ہاتھ میں ایک ہندی تلوار دی ہے اور وہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت.حضور کا کام اب ہندی تلوار کی طرح اپنے جوہر دکھا رہا ہے.ہم سب کا یہ فرض ہے کہ اس تلوار کی دھار کو کند نہ ہونے دیں اور اس بات کا اہتمام کرتے رہیں کہ ہمیشہ اسلام کی یہ ہندی تلوار اپنی کاٹ سے کفر کو نیست و نابود کرتی رہے اور اس کے ذریعہ اسلام کا جھنڈا بلند سے بلند تر لہرا تار ہے.حضور نے فرمایا کہ اس وقت تو میرا یہی مختصر سا پیغام ہے.حقیقت یہ ہے کہ اگر چہ الفاظ کے لحاظ سے تو یہ پیغام مختصر ہے لیکن معنوی حیثیت سے یہ ہر احمدی کی ساری زندگی پر حاوی پروگرام کا خاکہ ہے آخر احمدی اپنی زندگیوں کا اور کیا مصرف چاہتے ہیں.ان کا یہی تو بہترین مصرف ہے کہ ان کا ہر ہر لمحہ اسلام کی تبلیغ میں گزارا جائے.اور دنیا کے ہر چہار اطراف بھٹکتی ہوئی روحوں کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر لا ڈالا جائے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اولین خطبہ جمعہ لمصله قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ امسح الثالث نے ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ء کو اپنے عہد خلافت کا پہلا خطبہ جمعہ مسجد مبارک میں ارشاد فرمایا.حضور کا منشاء مبارک تو ایک اور مضمون بیان کرنے کا تھا مگرا نومبر کی شب کو ۱۹۱۴ء کی الفضل کے مطالعہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ کی توجہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی ایک تقریر کے اقتباس کی طرف مبذول فرمائی.اس اقتباس میں ایک زبر دست پیشگوئی کا ذکر تھا جو چند دن پیشتر پر امن ماحول میں خلافت ثالثہ کے قیام سے پوری ہوئی تھی.اس پر آپ نے ارادہ فرمایا کہ دوسرے مضمون کو چھوڑ کر اس پیشگوئی کے ظہور کا تذکرہ کیا جائے جو صداقت احمدیت کا تازہ نشان تھا.چنانچہ حضور نے سب سے پہلے اس پیشگوئی کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ کس طرح انجمن کے بعض عمائدین نے حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد یکے بعد دیگرے تین موقف اختیار پہلے کہا جماعت احمدیہ میں خلافت ہونی ہی نہیں چاہیے پھر یہ رائے دی کہ کوئی شخص خلیفہ مقرر
تاریخ احمدیت.جلد 23 287 سال 1965ء ہو جائے مگر اسکی بیعت جماعت پر لازمی نہ قرار دی جائے آخر میں یہ موقف اختیار کیا کہ بے شک خلیفہ کا انتخاب کر لو اور اس کی بیعت بھی لازم قرار دے لو ہم اُسکی بیعت کرلیں گے لیکن وہ خلیفہ صدرانجمن احمدیہ کا حاکم نہیں بلکہ ماتحت ہوگا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو جو اس محاذ پر استحکام خلافت کی جنگ لڑرہے تھے یہ زبر دست بشارت دی کہ ہم تمہیں یہ توفیق دیں گے کہ تم خلافت کو جماعت احمدیہ میں اسقدر مستحکم کر دو گے کہ آئندہ اس قسم کا فتنہ جو مارچ ۱۹۱۴ء میں جماعت احمدیہ میں پیدا ہوا پھر کبھی پیدا نہ ہوگا.ان تاریخی واقعات کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے حضرت مصلح موعود کے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰ مارچ ۱۹۱۴ء کا حسب ذیل اقتباس پڑھ کر سنایا: اس وقت دشمن خوش ہے کہ احمدیوں میں اب تفرقہ پڑ گیا ہے اور یہ جلد تباہ ہو جائیں گے.اور اس وقت ہمارے ساتھ زُلْزِلُوا زِلْزَ الَّا شَدِيدًا والا معاملہ ہے یہ آخری ابتلاء ہے جیسا کہ احزاب کے موقعہ کے بعد دشمن میں یہ جرأت نہ تھی کہ مسلمانوں پر حملہ کرے ایسے ہی ہم پر یہ آخری موقع اور دشمن کا (آخری) حملہ ہے.خدا تعالیٰ چاہے ہم کامیاب ہوں تو پھر دشمن ہم پر حملہ نہ کرے گا.بلکہ ہم دشمن پر حملہ کریں گے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب ( کے موقع پر فرمایا تھا کہ اب ہم ہی دشمن پر حملہ کریں گے اور شکست دیں گے اور دشمن اب ہم پر کبھی حملہ آور نہ ہوگا.یہ ایک آخری ابتلا ہے.اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں محفوظ رکھے.دشمن کو پھر کبھی خوشی کا موقع نہ ملے گا.“ پھر اقتباس کا اگلا حصہ حضور نے پڑھ کر سنایا جس میں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں:.جنگیں تو احزاب کے بعد میں بھی ہوتی رہی ہیں لیکن پھر دشمن کو یہ حوصلہ نہیں ہوا کہ مسلمانوں پر حملہ آور ہو.اسی طرح یہ آخری فتنہ ہے.پس تم دعاؤں میں لگ جاؤ.یہ فتنہ احزاب والا ہے جس طرح وہاں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی حالت تھی وہی اب یہاں ہماری حالت ہے.اور جو اُس وقت دشمن کی حالت ہوئی.وہی اب ( ہمارے) دشمن کے ساتھ ہوگی.تمہیں چاہیے کہ تم آگے بڑھو اور دعا میں لگ جاؤ.یہ پر شوکت اقتباس سنانے کے بعد فرمایا: 164 66
تاریخ احمدیت.جلد 23 288 سال 1965ء - اب جب خود آپ کا وصال ہوا.تو ہم اس کے بعد کے دنوں کے حالات کو دیکھتے ہیں.ہر احمدی ایک موت کی سی حالت دیکھتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ہر ایک احمدی کے دل میں حضرت خلیفہ ثانی کی اتنی محبت پیدا کی تھی اور پھر آپ کو احباب جماعت پر اس کثرت اور وسعت کے ساتھ احسان کرنے کی ، ان کے غموں میں شریک ہونے کی ، ان کی خوشیوں میں شامل ہونے کی ، ان کی ترقیات کے سامان پیدا کرنے کی ، کوشش کرنے کی اس قدر توفیق دی تھی کہ ہر شخص سمجھتا تھا کہ گویا آج میری ہی موت کا دن ہے.بعض احمدی حضور کی اس بیماری کے دوران اپنی کم عقلی کی وجہ سے بعض نادانی کی وجہ سے بعض کمزوری کی وجہ سے اور شاید بعض شرارت کی وجہ سے بھی اس قسم کی باتیں کیا کرتے تھے.جو ہمارے کانوں میں بھی پڑتی تھیں کہ گویا جماعت میں بڑا تفرقہ پیدا ہو چکا ہے لیکن یہ باتیں اس وقت سے پہلے تھیں.جب اس موہومہ تفرقہ نے اپنا چہرہ دنیا کے سامنے دکھانا تھا جب وہ وقت آیا تو وہ لوگ جو یہاں تھے وہ گواہ ہیں اور ان میں سے ہر ایک شخص شاہد ہے اس بات کا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیجی ہے.اور اس نے جماعت احمدیہ پر قبضہ کر لیا ہے اور جس طرح گڈریا بھیڑوں کو گھیر لیتا ہے.اسی طرح اس فوج نے ہم سب کو گھیرے میں لے لیا ہے.اور کہا کہ ہمیں اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ہم تمہیں بھٹکنے نہ دیں.اس وقت کسی کے دماغ میں خیال نہ تھا کون خلیفہ منتخب ہوتا ہے یا کون نہیں.لیکن ہر دل یہ جانتا تھا کہ خلافت قائم رہے گی اور خلیفہ منتخب ہوگا اور خلافت کی برکات ہم میں جاری وساری رہیں گی.چند دن پہلے ہماری ایک احمدی بہن نے خواب دیکھی.غالباً حضور کی وفات سے دو دن یا تین دن پہلے کی بات ہے.یعنی اُس شام سے پہلی رات جب یہاں اجتماعی دعا ہوئی ہے اس بہن نے خواب یہ دیکھی کہ مسجد مبارک میں بہت سے احمدی جمع ہیں اور بڑی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کر رہے ہیں.وہ کہتی ہے کہ جب میں نے مغرب کی طرف نگاہ کی تو میں نے دیکھا کہ سینکڑوں ہزاروں فرشتے سفید لباس میں ملبوس بڑی تیزی کے ساتھ دوڑتے چلے آرہے ہیں اور وہ دعا کرنے والے انسانوں کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 289 سال 1965ء ساتھ شامل ہو گئے ہیں اور اس طرح اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنے لگ گئے ہیں.اس دن تو ہم نے یہ خیال کیا کہ اگر خدا چاہے.اور ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے تو وہ حضور کو صحت عطا کر سکتا ہے.وہ بڑی طاقتوں اور قدرتوں والا ہے.چنانچہ یہاں اجتماعی دعا کا انتظام کیا گیا.اور بڑی گریہ وزاری کے ساتھ دعا کی گئی.لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ جو نظارہ اُس دن اس کو دکھایا گیا.وہ اُس اجتماعی دعا کے وقت کا نظارہ نہ تھا.بلکہ اس شام کا نظارہ تھا.(مغرب کے بعد کا ) جس شام کو مجلس انتخاب کے ممبر مسجد مبارک کے اندر مشورہ کر رہے تھے.اور بوجہ ممبر ہونے کے میں اور خاندان کے بعض دوسرے افراد بھی اس میں شامل تھے.لیکن خدا شاہد ہے کہ اس کا رروائی کا بیسواں حصہ بھی میرے کان میں نہیں پڑا.کیونکہ ہم لوگ پیچھے بیٹھے یہ دعا کر رہے تھے کہ اے خدا! جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنا.اور خلافت کو قائم رکھ اور دل میں یہ عہد کیا تھا کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہوگا.ہم اس سے کامل اتباع اور اطاعت کا حلف اٹھائیں گے اور جماعتی اتحاد اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھ دیکھ کر خوشی خوشی ، ہم واپس جائیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں تفرقہ پیدا نہیں ہوا.اور ہمارا جو فرض تھا آرام کے ساتھ ہم اس سے سبکدوش ہو گئے.اس مسجد میں جو لوگ بھی اس اجلاس میں شامل تھے.میرا یہی احساس تھا کہ ان میں سے کوئی شخص بھی وہ نہ رہا تھا جو پہلے تھا.یعنی اس کے دماغ پر بھی اللہ تعالیٰ کا تصرف تھا.اس کی زبان پر بھی خدا تعالیٰ کا تصرف تھا نہ کوئی بحث ہوئی اور نہ ہی کوئی جھگڑا.سب ایک نتیجہ پر پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری کی کہ یہ آخری ابتلاء ہے.دشمن اس قسم کی خوشی پھر نہ دیکھے گا.چنانچہ بعض غیر مبائع اکابر کو یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ سچی بات یہی ہے کہ خلافت کے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی اور اگر حضرت خلیفہ اول انتخاب خلافت کے متعلق اس قسم کے قواعد بنا جاتے جو حضرت خلیفہ ثانی نے جماعت پر احسان کرتے ہوئے بنائے.تو پھر ۱۹۱۴ ء والا تفرقہ پیدا ہی نہ ہوتا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 290 سال 1965ء تو حضرت خلیفہ ثانی کو جو اللہ تعالیٰ نے بتایا وہ ایک زبردست پیشگوئی تھی کہ ہم تجھے توفیق دیں گے کہ تم جماعت کی تربیت ایسے رنگ میں کر سکو کہ جب تمہیں ہمارا بلاوا آوے تو تمہیں یہ غم اور فکر نہ ہو کہ جب میں اس گھر میں داخل ہوا تھا تو اس وقت بھی ایک فتنہ تھا اور جب میں اس گھر سے جا رہا ہوں تو اس وقت بھی ایک فتنہ چھوڑ کے جا رہا ہوں.بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو یہ تسلی دی تھی کہ جب تم اس دنیا کو چھوڑو گے تو یہ فتنہ کبھی پیدا نہ ہوگا.جس کو تم نے شروع میں دیکھا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ کی قدرتوں نے اپنا کام دکھایا.اور جماعت کو اس طرح متحد اور متفق کر دیا کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مصرع کہا ہے.”ہر سینہ شک سے دھو دیا.ہر دل بدل دیا.یہ وہ نظارہ تھا.جو ہمیں اس وقت نظر آ رہا تھا.مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بھی اور باہر بیٹھے لوگوں میں بھی.ہر آدمی کی اپنی طبیعت ، اپنا خیال اپنی سوچ و بچار، اپنا فکر و تدبر ہوتا ہے لیکن وقت انتخاب وہ اپنا وجود کلیۂ کھو بیٹھے تھے اور کسی اور کی گرفت میں تھے.اور وہی کچھ کر رہے تھے جو خدا اُن سے کروانا چاہتا تھا.165 حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا جامعہ احمدیہ میں ایک اہم خطاب سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء سے بروز ہفتہ بتاریخ ۱۳ نومبر ۱۹۶۵ ء جامعہ کے ہال میں ایک اہم خطاب فرمایا.مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جامعہ احمدیہ سے یہ سب سے پہلا خطاب تھا.اجلاس کی کارروائی شروع ہونے پر پہلے لئیق احمد صاحب طاہر نے سورۃ نور کے ساتویں رکوع کی تلاوت کی.اس کے بعد مکرم و محترم سید داؤ د احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ نے حضور کی خدمت میں سپاسنامہ پیش کیا.سپاس نامہ کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”میرا اس جامعہ سے بڑا دیرینہ اور گہرا تعلق ہے.جب میں نے ہوش سنبھالی یا
تاریخ احمدیت.جلد 23 291 سال 1965ء شاید اس سے بھی پہلے تو حضور خلیفتہ اسیح الثانی کے ارشادات ، ہدایات اور نصائح اور تربیت کے جو طریق تھے ان سے دل نے تاثر لیا تھا کہ یہی (جامعہ) وہ جگہ ہے جہاں علم کو حاصل کرنا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے علم حاصل کرنے کے بعد اس کے استعمال کا طریق سیکھنا ہے.حفظ قرآن مجید کے بعد میں جامعہ احمدیہ میں آیا.اس وقت یہ مدرسہ احمدیہ کہلاتا تھا.میں چوتھی جماعت میں داخل ہوا تھا کیونکہ قرآن کریم کے حفظ کی وجہ سے اپنی عمر کے چند سال میں پہلے ہی خرچ کر چکا تھا.اور علاوہ حفظ قرآن کریم کے کچھ اور بھی پڑھتا رہا تھا.لیکن چوتھی جماعت میں داخل ہو کر بھی مجھے یہ احساس تھا کہ میں اپنے ہمجولیوں سے پیچھے رہ گیا ہوں یعنی عمر کے لحاظ سے جو میرے ساتھی بننے چاہئیں تھے وہ آگے ہیں اور میں پیچھے ہوں.اس احساس کے نتیجہ میں میں نے اپنے دل میں اس بچپن کے زمانے میں یہ فیصلہ کیا کہ میں اگلی جماعت کے لیے ایک سال کا انتظار نہیں کروں گا بلکہ جہاں تک ہوسکا پوری محنت اور کوشش کر کے ایک ایک سال میں ایک سے زائد امتحان پاس کرنے کی کوشش کروں گا اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس وقت کے اساتذہ میری تعلیم پر بڑی محبت سے توجہ دیتے رہے.اور میں نے کافی حد تک اس کمی کو پورا کرلیا.اور دو دفعہ میں نے ایک کی بجائے دوسالوں کا امتحان دیا.اور اس طرح دو سال جو میں پیچھے تھا اپنی عمر کے لحاظ سے اپنی جگہ پر پہنچ گیا اور زندگی کی بہترین اور معصوم گھڑیاں جو بچپن کی ہوتی ہیں.میں نے اسی درس گاہ میں گزاریں اور بہترین دوست اسی درسگاہ میں پائے.جن پر میں اب بھی فخر کر سکتا ہوں.ان میں سے صرف پاکستانی ہی نہ تھے بلکہ میرے بڑے گہرے اور پیارے دوستوں میں سے انڈونیشیا ( جاوا، سماٹرا ) میں رہنے والے بھی بعض طلباء تھے جن میں ایک ابوبکر ایوب صاحب بھی ہیں.اُس وقت انڈونیشیا سے کافی طلباء مدرسہ احمدیہ میں پڑھنے آئے تھے.قریباً سب سے میری دوستی تھی لیکن گہری دوستی ایک طالب علم کی اسی سے ہو سکتی ہے ، جس کا مزاج اور افتاد اس کی طبع کے مناسب ہو.ابوبکر ایوب صاحب بڑے ذہین بڑے شگفتہ دل طالب علم تھے اور ایک دو اور بھی تھے.جن میں ایک ہمارے مولوی محمد صادق صاحب (سابق مبلغ سماٹرا ) جو یہاں بیٹھے ہیں اسی زمانہ کے ہیں، اور بعض دفعہ مجھے مزاحاً کہا کرتے کہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 292 سال 1965ء میں آپ سے ایک سال آگے نکل گیا تھا جو درست ہے.کیونکہ اس سال غالباً صرف انہوں نے ہی مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا تھا اس کے بعد پھر جامعہ علیحدہ ہوا اور جامعہ کی بلڈنگ عمارت میں منتقل ہوئی جہاں بعد میں فضل عمر ہوٹل بنا.وہ عمارت تو قابل استعمال تھی.لیکن اس کی چار دیواری کھنڈرات معلوم ہوتی تھی.میں نے اور میرے بعض دوستوں نے اپنے طور پر یہ سکیم تیار کی کہ ہم ہر جمعہ کے روز وہاں اکٹھے ہوا کریں گے اور وقار عمل کے ذریعہ اس کی اصلاح کریں گے.اس وقت ابھی اس قسم کا وقار عمل تو شروع نہیں ہوا تھا جس طرح خدام الاحمدیہ کے بننے کے بعد ہوا ہے لیکن ہم نے وقار عمل کا طریق بنایا اور ہم جمعہ والے دن وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور گھنٹہ دو گھنٹے بیرونی دیوار کے ان کھنڈرات کو درست کرنے کی کوشش کرتے تھے.ہمارے اساتذہ کے تعلق اور پیار کا یہ حال تھا کہ جب ہم پہلی دفعہ وہاں گئے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب کو یہ علم ہوا کہ بعض طلبہ یہاں جمع ہوتے ہیں اور گھنٹہ دو گھنٹے وقار عمل کرتے ہیں تو اس کے بعد سے بلا ناغہ وہ بھی وہاں پہنچ جاتے اور چار پائی پر بیٹھ جاتے ہمیں کام کرتے دیکھتے اور نیکی کی باتیں بھی ہمارے کانوں میں ڈالتے جاتے.اس طرح وہ وقت بھی ایک قسم کا تعلیمی اور تدریسی وقت ہی بن جاتا تھا.ہمارے معیار زندگی کا یہ حال تھا کہ میں دونی یا چوٹی کے میٹھے چنے خرید کر لے جا تا تھا اور ہم سب دوست وقار عمل کے بعد وہ میٹھے چنے کھایا کرتے تھے اور بڑے خوش ہوا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے اس انٹرٹین منٹ ( تفریحی موقع ) کا انتظام کیا ہے.اب تو حالات بہت بدل گئے ہیں.ان دنوں میں ہم نے بہت سادہ زندگی گزاری ہے اور اسی میں لطف بھی ہے.اب بھی میری رائے اور میرے ذہن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.میں سمجھتا ہوں کہ جولطف اس سادگی میں تھا وہ اس آج کے تکلف میں نہیں ہے.یہ میرا پر انا تعلق آپ طلبہ سے ہے چونکہ آپ میں سے ہر ایک میرا جامعہ احمدیہ کا فیلو ہے اس لیے میں اور آپ ایک ہی ادارہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.اس کے بعد حضور نے مجھے دوسری تعلیم بھی دلوائی.اور جب میں ۱۹۳۸ء میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 293 سال 1965ء انگلستان سے واپس آیا تو حضور نے مجھے جامعہ احمدیہ میں بطور لیکچرار مقرر فر مایا آپ میں سے جو آج اسا تذہ ہیں ان کے ساتھ بھی اس جہت سے میرا بڑا قریبی رشتہ ہے کیونکہ وہ میرے کو لیگ ہیں.اور ہم ایک ہی درس گاہ کے اساتذہ ہیں.ہاں کچھ پہلے آئے کچھ بعد میں آئے.اور قیامت تک انشاء اللہ تعالیٰ آتے رہیں گے.یہ سب بھی ایک خاندان ہے.اساتذہ جامعہ احمدیہ کا !!! اس لیے میرے دل کی گہرائیوں میں آپ کی یاد بھی تازہ رہتی ہے اور آپ سے پیار بھی ہمیشہ بڑی شدت کے ساتھ میرے دل میں موجزن رہتا ہے آج میں ایک دردمند دل کے ساتھ بڑے واضح ، غیر مبہم اور سادہ الفاظ میں بعض ضروری باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے علموں کا نہ ختم ہونے والا خزانہ ہمارے ہاتھ میں دیا ہے.کسی طرف سے بھی کوئی اسلام پر حملہ آور ہو ہم اس حملہ کا جواب نہایت خوبی سے دے سکتے ہیں.اگر ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور ہے.اگر ہم محنت کریں اور غور کریں تو ہمیں کسی بھی حملے کو دیکھ کر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہو سکتی کیونکہ ہمیں پوری طرح مسلح کر دیا گیا ہے لیکن مذہب پر حملہ صرف علمی محاذ سے نہیں ہوتا.اور نہ سب دنیا کی طبیعتیں علمی دلائل سے بدلی جاسکتی ہیں کیونکہ دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دلائل کو جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن ان کی طبائع میں تبدیلی نہیں ہوتی.چنانچہ اسی سرگودھا کے علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار ایک دفعہ مجھے ملنے آئے.اس وقت میری طبیعت میں تبلیغ کرنے کا بڑا جوش تھا.میں نے انہیں تبلیغ شروع کی.ابھی چند منٹ ہی میں نے ان سے بات کی تھی کہ وہ کہنے لگے ” میاں صاحب اتسی مینوں کی سمجھاؤ دے ایھ گلاں تے میں پہلے ہی جاندا ہاں.مجھے کہنے لگے کہ قادیان سے لے کر اس وقت تک کوئی ایسا جلسہ نہیں جس میں میں نے شمولیت نہ کی ہو.ہر جلسہ میں ہر تقریر کو سنا ہے.جہاں تک آپ کے موقف اور اس موقف پر دلائل کا سوال ہے میں خوب جانتا ہوں اور مجھے از بریاد ہے.یہ باتیں میں بھی اتنے دلائل کے ساتھ بیان کر سکتا ہوں لیکن اس کے باوجود میں احمدیت کو قبول کرنے کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 294 سال 1965ء لیے تیار نہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے علاقہ کا سردار ہوں.ہماری اپنی عادتیں ہیں.ہمارے اپنے طریق ہیں.اگر ہم ان طریقوں کو چھوڑ دیں تو ہماری سرداری اور ہماری چو ہدر قائم نہیں رہ سکتی.کہنے لگا کہ ہم چوریاں بھی کرواتے ہیں.ڈا کے بھی ڈلواتے ہیں.ہم قتل بھی کرواتے ہیں.ہم لڑکیوں کو اغوا بھی کرواتے ہیں اس کے بغیر ہماری چو ہدر قائم نہیں رہ سکتی.آج اگر میں بیعت کرلوں تو اسی وقت آپ کا انگوٹھا میری گردن پر ہوگا اور آپ کہیں گے کہ اب چوری نہ کرنا.اب ڈا کہ نہیں ڈالنا ہوگا.اب قتل نہیں کرنا ہو گا اور کسی لڑکی کو بے عزت نہ کرنا ہوگا.اس وقت ہماری سرداری تو ختم ہو گئی.پس میں کیسے مان لوں احمدیت کو ؟ میں احمدیت میں داخل نہیں ہوسکتا !!!.اس قسم کے مسلمان اس وقت میرے اندازہ کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں ہمارے ملک میں موجود ہیں جو احمدیت کو خوب سمجھتے ہیں.اس کو سچا جانتے ہیں.اسکی صداقت کے دل سے قائل ہیں مگر دنیا اور دنیا کی محبت انہیں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے سے روکے ہوئے ہے.یہ لوگ سلسلہ احمدیہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتے جب تک ان کے دلوں میں ایک نیک تبدیلی پیدا نہ ہو یہ نیک تبدیلی محض دلائل سے پیدا نہیں ہوسکتی بیشک دلائل بھی بڑے ضروری ہیں.ان کا جاننا بھی بہت ضروری ہے لیکن محض دلائل کافی نہیں ان کے ساتھ کچھ اور بھی چاہیے اور وہ ہے تعلق باللہ جب تک ہمارے مربی کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم نہیں ہوگا وہ عوام کے دلوں میں اس قسم کی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا.اور اس شعبہ کی طرف ہمارے اسا تذہ کو بھی اور ہمارے عزیز بچوں کو بھی توجہ دینی چاہیے ورنہ وہ اس مقصد میں جس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کی ہیں اور اپنے اوقات عزیز کو خرچ کر رہے ہیں کامیاب نہیں ہو سکتے.ایک نوجوان ہیں، بائیس سال کا چھپیں سال کا اس درس گاہ سے نکلتا ہے اور وہ بطور مربی کے اس ملک میں یا بیرونی ممالک میں متعین ہو جاتا ہے اور اسے کام کرنا پڑتا ہے.یہ نو جوان دلائل کے میدان میں بڑی عمدگی کے ساتھ بڑے حسن وخوبی
تاریخ احمدیت.جلد 23 295 سال 1965ء کے ساتھ اپنے حریف کو شکست دے سکتا ہے اور دیتا ہے لیکن یہ تمام شکستیں جو مخالف اس کے ہاتھ سے اُٹھاتا ہے وہ میرے نزدیک وہ نتیجہ پیدا نہیں کرسکتیں جو نتیجہ ہم پیدا کرنا چاہتے ہیں.اگر یہ بائیس سالہ نوجوان ایسا ہو کہ خدا تعالیٰ کے حضور اس کا سجدہ ریز ہونا گودنیا سے پوشیدہ ہو لیکن اثر السجود سے اس کے چہرہ پر نور نظر آئے تو لوگ اس کی طرف جھکنے کے لیے مجبور ہو جائیں گے پہلے ڈرتے ڈرتے اپنے شبہات کے ساتھ اپنی ضرورتوں کے وقت وہ اس کے پاس آئیں گے.اور خواہ تکلف سے کہیں لیکن کہیں گے کہ ہمیں یہ یہ تکلیف لاحق ہے.ہم اس مصیبت میں گرفتار ہیں.ہمارے لیے دعا کرو.جب ہمارا وہی نوجوان خدا تعالیٰ کے حضور تنہائی کی گھڑیوں میں جھکے گا اور اپنے رب کے حضور یہ دعا کرے گا کہ اے میرے خدا!! مجھے ہی تیری رضا کی خواہش نہیں ان کو بھی ہے.اور میرے دل میں تڑپ ہے کہ یہ تیرے حضور میں جھکیں.یہ ایک موقع ہے تو انہیں اپنا چہرہ دکھا سکتا ہے میری دعا کو قبول کر اور انہیں یہ سمجھ عطا کر کہ وہ کام جو دعا سے ہو سکتا ہے وہ کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتا.کیونکہ کوئی دوسرا تیری قدرتوں اور طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب اس کی دعائیں اپنے ماحول میں پوری ہونا شروع ہو جائیں گی تو لوگ صرف یہ نہیں کہیں گے کہ یہ احمدی نوجوان علمی دلائل سے پوری طرح مسلح ہے بلکہ وہ یہ بھی کہیں گے کہ وہ عام انسان جیسا نہیں ہے وہ ایک ایسا نوجوان ہے جس میں پتہ نہیں کیا رکھا ہے کہ جب وہ دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے تو پھر ان کے دلوں کے اندر نیک تبدیلی پیدا ہوسکتی ہے.اگر ہم تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مثلاً ہندوستان میں مسلمانوں نے جو تبلیغ کی اس میں کم از کم ۸۰ فیصدی اس قسم کے نمونہ کا اثر ہے اور شاید باقی ۲۰ فیصدی دلائل کا (اثر ) ہے.صوفی لوگ آتے تھے.فقیرانہ زندگی بسر کرتے ہوئے کسی ایسی ایک جگہ کو منتخب کرتے جو شرک کا گڑھ ہوتا اور وہاں وہ بیٹھ جاتے اور اپنے رب کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے کہ اے خدا! تیرے یہ بندے تجھ سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 296 سال 1965ء دور ہیں ایسا سامان پیدا کر کہ یہ تیرے قریب ہو جائیں.خدا تعالیٰ الہامات کے ذریعہ، کشوف کے ذریعہ اور رویا صالحہ کے ذریعہ ان کے اثر کے نفوذ کے سامان پیدا کر دیتا.اور وہ مشرک بتوں کی پوجا کرنے والے.سانپوں کی پرستش کرنے والے.درختوں کی عبادت کرنے والے حیرت میں پڑ جاتے کہ ہم غیر اللہ کو پکارتے تو ہیں لیکن جواب کچھ نہیں پاتے اور ایک غیر مرئی ہستی کو یہ (مسلمان ) لوگ پکارتے ہیں تو نہ صرف یہ کہ ان کو جواب ملتا ہے بلکہ تقدیر کی تاریں کچھ اس طرح ہلتی ہیں کہ اگر وہ کہیں کہ ایسا ہو جائے تو ویسا ہو بھی جاتا ہے.اس ہتھیار کے ساتھ انہوں نے ان مشرکین کو اپنی طرف کھینچا.پھر بعض علاقے ان میں سے اسلام پر قائم رہے اور بعض علاقے جب بعد میں ان صوفیاء کے نقش قدم پر چلنے والے پیدا نہ ہوئے پھر شرک میں مبتلا ہو گئے.میں نے خود ہوشیار پور میں ایک مسلمان بزرگ کا مزار دیکھا جہاں اس وقت شولنگ کی پوجا ہورہی تھی حالانکہ وہ تو حید کا گڑھ تھا پس انسان خدائے واحد کی طرف نمونہ کے ساتھ خدائے واحد کی طرف تقویٰ کے ساتھ ، خدائے واحد کی طرف تزکیہ نفس اور دعا کے ساتھ کھینچا جا سکتا ہے اس کے بغیر نہیں.166 66 خلافت ثالثہ کے قیام پر حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے جذبات تشکر حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے خلافت ثالثہ کے قیام پر جذبات تشکر کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: خلافت ثالثہ کا قیام جس احسن طریق پر ہوا جیسا فضل اور کرم خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر شر سے بچا کر نصرت فرما کر خیر کا در کھول دیا.اس کے لیے جتنا بھی ہم شکر بجالائیں کم ہے.ہماری کمزوریوں اور کوتاہیوں پر اس نے اپنی ستاری کی چادر ڈال دی اور ہماری مدد کو ہمارا مولا خود آگے بڑھا ورنہ ہم کیا چیز ہیں.کمزور انسان کو ذراسی ٹھو کر بہت ہے.اگر اس کی رحمت اور اس کا فضل شامل حال نہ ہو.اس احسانِ عظیم کے لیے بھی ہم سب کو بہت شکر گزار ہونا اور رہنا چاہیئے اور درد دل کی دعاؤں سے ہرامر میں تعاون سے اطاعتِ کامل سے خلیفہ وقت کی مدد کرنا بھی ضروری ہے کہ ہم سب اپنا فرض اولین سمجھتے رہیں.167
تاریخ احمدیت.جلد 23 297 سال 1965ء اسی طرح آپ نے ماہنامہ الفرقان کے ”فضل عمر نمبر کے لیے ایک مضمون سپرد قلم کرتے ہوئے تحریر فرمایا.”جو اس نے عطا کی تھی وہ نعمت اسے پہنچی رویا کئے ہم ، اس کی امانت اسے پہنچی دنیوی محبت ، جسمانی تعلقات کے میل کی محبت، اغراض مشترکہ کی محبت سب فانی ہیں ، بجز ایک محبت کے جو خدائے باقی ولم یزل ولا یزال سے کی جائے.اور اس میں بھی وہ خاص الخاص محبت جس کے لیے خود خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو منتخب فرما کر اپنے لیے پچن لیتا ہے وہ سب سے بڑھ کر پائیدار اور اس کی رحمتوں کی جاذب بن جاتی ہے.وہی محبت الہی ہمارے پیارے، ہمارے خلیفہ مصلح موعود کو ودیعت فرمائی گئی تھی.انہوں نے اپنے مالک، اپنے خالق کے عشق میں، اس کے محبوب رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے عشق، اس محبوب کے عاشق صادق مسیح موعود علیہ السلام کے عشق اور ان کے دین کے لئے تڑپ میں اپنے وجود کو فنافی اللہ کر دیا.اس کی مخلوق سے بھی بہت محبت کی مگر محض اللہ.تو خدائے کریم ان کی جانب جھک آیا اور ان کو اپنی جانب کھینچ لیا.خدا تعالیٰ جس کو اپنی محبت کی کشش سے کھینچ لیتا ہے مخلوق خود بخود اس کی جانب کھینچی چلی آتی ہے.یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ سعید روحوں میں اپنے آقا، اس مبارک وجود کی محبت اور تعلق اس قدر شدت سے پیدا ہوا کہ آج ایک ایک فرد جماعت ان کی جدائی سے تڑپ اٹھا ہے، بیقرار ہے، اشکبار ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے جب تک ان کے کام پورے ہوئے اس دنیا میں رکھا اور آخر وہ وقت آگیا کہ وہ اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھائے جائیں اور وہ و دود کریم خدا اپنی آغوش رحمت میں اٹھا کر لے گیا.انا للہ و انا اليه راجعون ہم روتے ہیں وہ خوش ہیں.وہ اپنی مراد کو پہنچ گئے.ہم یہاں تڑپتے رہ گئے.اب ان کی محبت ، ان کی خدمات ، ان کے احسانوں کا بدلہ یہی ہے کہ ہم آپ سب ان کے درجات کے بلند تر ہونے کی دعاؤں میں تازیست لگے رہیں اور نیکی و تقویٰ اور خدمات دینی میں صدق نیت سے ترقی کریں.ہر قدم آگے بڑھے اور بڑھ کر کبھی پیچھے نہ ہٹے تا کہ بعد مر دن اور روز محشر میں ہم ان کے اور اپنے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رو بروجن کی دعاؤں کا وہ ثمرہ تھے.اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جن کی روح اقدس کی اسلام کی زبوں حالی کے لیے تڑپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہمارے درمیان مبعوث فرما کر ہم پر احسان فرمایا.سرخرو ہوکر حاضر
تاریخ احمدیت.جلد23 298 سال 1965ء ہوں.اے محسن خدا ! ہمارے رحمان و رحیم خدا ہم کو تو فیق بخش.آمین پھر خدا تعالیٰ ایک بار ہماری دستگیری کے لیے آگے بڑھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اس مرحوم وجو د مبارک کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے ہماری کمزوریوں کے باوجود گر تے ہوؤوں کو تھام لیا، زخمی دلوں پر رحمت کے دستِ کرم سے مرہم لگا دیا اور ہم کو ایک مبارک ہاتھ پر جمع کر دیا.اور اسی کے لخت جگر کی صورت میں گویا ان کو ہمیں واپس بخش دیا.الحمد لله ربّ العالمین ہم سب کو دعاؤں میں لگے رہنا چاہیے اپنے مولا کے احسانِ عظیم کی یاد تازہ رکھنے کو اور اس کی نصرت مزید کے حصول کے لیے کہ یہ تیسر ا ظہور قدرت ثانیہ کا بہت بہت مبارک ثابت ہو اور اس عہد کو خدائے کریم بہت بابرکت بنادے.اس سایہ رحمت کو بہت وسیع کر دے احمدیت ترقی کرے.ہم وہ بن جائیں جو ہم کو بنا چاہیئے.تمام عالم کے لئے ہم نیک نمونہ ہوں اور وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے حضرت مسیح موعود تشریف لائے اور جس کے لئے ہمارے مرحوم محبوب خلیفہ ثانی نے عمر بھر اپنی جان کی بازی لگا کر اپنی تمام طاقتیں صرف کر دیں.اسلام کا جھنڈا بلند ہو ، تو حید کا ڈنکا تمام عالم میں گونج اٹھے.اب ہمارے خدا! ایسا ہی کر، ہم تیرے دامنِ کرم سے وابستہ رہیں اور تو ہم کو بھی نہ چھوڑ ، ہم کو اپنا ہی بنا لے.آمین.66 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا تعلیم الاسلام کالج سے روح پر ور خطاب حضرت خلیفہ المسیح الثالث جامعہ احمدیہ کے اسا تذہ اور طلبہ کو بیش قیمت نصائح کرنے کے بعد ۲۵ نومبر ۱۹۶۵ء کو تعلیم الاسلام کالج میں بھی تشریف لے گئے اور اپنے روح پرور خطاب سے نوازا.اس روز حضور از راہ شفقت اسا تذہ اور طلباء کی درخواست پر ٹھیک ۱۱:۳۰ بجے کالج میں تشریف لائے.مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ حضور انور کالج میں تشریف لائے تھے.اس کالج میں کہ جس کی ایک ایک اینٹ حضور کی نگرانی میں رکھی گئی تھی.اُس کالج میں کہ جس کی تعمیر کے وقت گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ سے بے نیاز اور جاڑوں کی سرد یخ بستہ ہواؤں سے بے پروا ہو کر حضور چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کام کی نگرانی خود فرمایا کرتے تھے.اُس وقت حضور کی تشریف آوری سے کالج کی فضا پر عجیب سر و دو کیف کا عالم طاری تھا.ہال کے سامنے اساتذہ اور طلباء کے بعض نمائندوں نے حضور کا استقبال کیا اور مصافحہ کا شرف
تاریخ احمدیت.جلد 23 299 سال 1965ء حاصل کیا اس کے بعد حضور کالج ہال میں تشریف لائے.جہاں طلباء اپنے محبوب آقا کے لیے چشم براہ تھے.حضور کے کرسی صدارت پر تشریف فرما ہونے کے بعد تلاوت کلام پاک سے اجلاس کا آغاز ہوا.جس کے بعد مکرم پروفیسر میاں عطاء الرحمن صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج نے کالج کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے سپاسنامہ پیش کیا.ازاں بعد حضور نے ایک روح پرور تقریر فرمائی.حضور انور نے اس خطاب میں نہایت بلیغ انداز میں زمانہ طالب علمی سے لیکر تعلیم الاسلام کا لج کی سر براہی تک کے واقعات اور تعلق باللہ کے ذاتی مشاہدات پر بصیرت افروز رنگ میں روشنی ڈالی.چنانچہ فرمایا.د میں اس درس گاہ سے قبل مختلف دوروں سے گزرا ہوں.طالب علمی کے زمانہ میں پہلے میں نے قرآن کریم حفظ کیا.پھر دینی اور عربی تعلیم حاصل کی.اور پھر دنیوی تعلیم کے حاصل کرنے کی کوشش کی.گورنمنٹ کالج میں پڑھا.پھر انگلستان گیا اور آکسفورڈ میں بھی پڑھا.جب میراتعلیمی زمانہ ختم ہوا اور میں انگلستان سے واپس آیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مجھے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد کے لگا دیا.اس وقت مجھے عربی تعلیم چھوڑے قریباً دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا.اس لیے میرے دماغ نے کچھ عجیب ہی کیفیت محسوس کی.کیونکہ وہ علوم جو میرے دماغ میں اب تازہ نہیں رہے تھے.وہی علوم مجھے پڑھانے پر مقرر کر دیا گیا.اور میں نے دل میں کہا کہ اللہ خیر کرے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نبھا سکوں.تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے جامعہ احمدیہ کا پرنسپل بنادیا گیا.اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے پیار اور حسن کا عجیب تجربہ ہوا.وہ یہ کہ مولوی فاضل میں ایک پرانا فلسفہ پڑھایا جاتا رہا ہے ( شاید اب بھی پڑھایا جاتا ہے) آج سے ہزاروں سال پہلے اس دنیا کے متعلق انسانی دماغ جس طرح سوچتا رہا ہے وہی فکر و تدبر (بالفاظ دیگر فلسفہ ) جن کتابوں میں درج کیا گیا ہے وہی مولوی فاضل کے کورس میں شامل تھیں اب دنیا بدل چکی، حقیقتیں نئے رنگ میں ہمارے سامنے آگئیں اس لیے اس زمانہ کے انسانی دماغ کی سوچ ہمارے دماغ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں.لیکن ان کو بطور حقائق کے پڑھایا جاتا تھا.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس پر چہ کو جامعہ میں مشکل ترین پر چہ سمجھا جاتا تھا اور اکثر
تاریخ احمدیت.جلد 23 300 سال 1965ء طلباء اس پر چہ میں فیل ہو جاتے تھے اپنے طالب علمی کے زمانہ میں بھی میں بڑا پریشان ہوتا تھا اور کڑھتا تھا کہ ایک چیز جو مشکل نہیں اسے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے، کیونکہ آج آپ کسی بچے کو یہ کہیں کہ آسمان ٹھوس ہیں اور ان میں ستارے اس طرح لکے ہوئے ہیں جس طرح ایک دلہن کے دوپٹے پر سونے کے ستارے لگائے ہوتے ہیں.تو اگر چہ کتابی علوم پر اس بچے کو اتنا عبور نہ بھی ہو.لیکن جس ماحول میں وہ پیدا ہوا اور اس نے پرورش پائی.اس کی وجہ سے اس بچے کا دماغ بھی ان باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا.میں حیران ہوتا تھا کہ یہ ذراسی مشکل ہے اور اس کے لیے تھوڑے سے زاویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے.مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیوں استاد اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.چنانچہ جب میں پرنسپل بنا تو یہ پرچہ پڑھانے کا ذمہ میں نے خود لے لیا.ہمارے ایک بزرگ استاد تھے مولوی ارجمند خان صاحب آپ میں سے بھی اکثر انہیں جانتے ہیں کیونکہ وہ یہاں بھی کام کرتے رہے ہیں.انہوں نے بڑی محنت سے ان کلاسز سے نوٹ تیار کئے تھے جنہیں ہمارے محترم بزرگ سید سرور شاہ صاحب یہ علم پڑھایا کرتے تھے ، خان صاحب کا خیال یہ تھا کہ اگر کبھی موقعہ ملا تو وہ صحیح رنگ میں اس پر چہ کو پڑھایا کریں گے.جب انہیں یہ پتہ چلا کہ ایک نوجوان جوان مضامین سے دس سال تک آؤٹ آف بیچ ( غیر متعلق ) رہا ہے.اب ہمارا پر سیل لگا دیا گیا ہے.اور پھر یہ جو فلسفہ کا مشکل ترین پرچہ ہے اس نے خود اپنے ذمہ لے لیا ہے تو وہ کچھ گھبرائے...اور ایک دفعہ مجھے ملے تو کہنے لگے میاں صاحب! آپ نے کیا ظلم کیا ہے یہ پر چہ آپ کیسے پڑھائیں گے.میں نے اس علم کے متعلق بڑی محنت سے نوٹ تیار کئے ہیں.آپ یہ پرچہ مجھے دے دیں.میں نے کہا نہیں میں نے نیت کر لی ہے کہ یہ پرچہ میں خود ہی پڑھاؤ نگا باقی دیکھیں کہ اب اللہ تعالی کیا کرتا ہے چنانچہ جب فلسفہ کا مضمون میں نے پڑھانا شروع کیا تو مجھے طلباء کوصرف یہ بات سمجھانے کے لیے کہ یہ مضمون آسان ترین مضمون ہے دو تین لیکچر دینے پڑے اور بتایا کہ یہ فلسفہ کا مضمون نہیں بلکہ تاریخ فلسفہ کا مضمون ہے جو آپ لوگ یہاں پڑھتے
تاریخ احمدیت.جلد 23 301 سال 1965ء ہیں اور آپ کو اس امر کے معلوم کرنے کی کوشش کی ضرورت نہیں کہ آسمان ٹھوس ہے یا نہیں بلکہ صرف اتنا سمجھنا ہے کہ انسانی دماغ پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جس میں وہ ان باتوں کو صحیح تسلیم کرتا تھا.لیکن بعد میں جب سائنس اور دیگر علوم نے ترقی کی اور ساتھ ہی انڈسٹری نے بھی ترقی کی.اور وہ دور بہنیں جن تک پہلے کی تخیل کی رسائی نہ تھی بنے لگیں اور انسان کو اس عالم کے متعلق نئے نئے انکشاف ہوئے تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ پُرانے خیالات ان نئے علوم میں فٹ ان ( fit in) نہیں کرتے لیکن پہلے زمانہ میں لوگ اسی طرح سوچا کرتے تھے.پس اس رنگ میں میں نے انہیں وہ فلسفہ پڑھایا.اسی طرح منطق کے متعلق میں نے انہیں کہا کہ اصطلاحیں ہیں اور کوئی چیز نہیں اگر منطق واقعی اس طریق فکر کا نام ہے جس کے مطابق ہمارا دماغ کام کرتا ہے اور اصطلاحوں میں طریق بیان کا نام ہے تو ایک بچہ بھی اسی طرح سے سوچتا ہے.اگر ایک بچہ کے سامنے دو چیزیں رکھی جائیں خواہ وہ گنتی نہ جانتا ہو اور خواہ زبان سے چار نہ کہہ سکے لیکن اس کی سمجھ اور عقل میں یہی ہوگا کہ یہ چار چیزیں ہیں.یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ انہیں چار کی بجائے آٹھ سمجھنے لگ جائے.تو دن رات صبح شام ہمارا دماغ ان طریقوں پر کام کرتا ہے.صرف ہم نے کچھ اصطلاحیں بنالی ہیں اور اس علم کو منطق کا نام دے دیا ہے.اس میں کوئی مشکل نہیں ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ میری کلاس جب پہلی دفعہ یو نیورسٹی میں گئی تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سارے کے سارے طلبہ پاس ہو گئے اس وقت مجھے اپنے رب کی قدرتوں کا مزید یقین ہوا اور میں نے سمجھا کہ علوم کا سیکھنا اور سکھانا بہت حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری کوششوں میں جو کمی رہ جاتی ہے.اس کمی کو ہم اپنی دعاؤں سے پورا کر سکتے ہیں.یہ تجربہ ۴۱.۱۹۴۰ء سے اب تک مجھے رہا ہے.آپ جانتے ہیں کہ اس کالج میں بھی سب سے کم لیکچر دینے والا میں ہی تھا.اگر دوسرے اساتذہ سوسولیکچر دیتے تو میں چالیس پچاس سے زیادہ لیکچر نہ دے سکتا تھا.شاید کچھ غفلت کی وجہ سے اور کچھ اپنی
تاریخ احمدیت.جلد23 302 سال 1965ء دیگر ذمہ داریوں کی وجہ سے.بہر حال یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کے حضور دعائیں کرنے کی وجہ سے یہ اللہ تعالیٰ کا فضل رہا ہے کہ جو پر چہ بھی میں پڑھا تا رہا ہوں (اکنامکس اور پولیٹیکل سائنس پڑھاتے تھے ) اس کے بڑے اچھے نتائج نکلتے رہے ہیں ایک کلاس میری ایسی تھی کہ جس کے متعلق ایک دفعہ مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں نے کچھ حصے اس کو صحیح رنگ میں نہیں پڑھائے اور اس میں طلبہ کمزور ہیں.امتحان سے پندرہ میں دن پہلے مجھے خیال آیا کہ ایک عنوان ایسا ہے کہ اگر میں اس کے متعلق ان کو نوٹ تیار کر کے دے دوں تو خدا کے فضل سے یہ طلبہ بڑا اچھا نتیجہ نکال لیں گے.چنانچہ میں نے ایک نوٹ تیار کیا اور کوشش کر کے میں نے خود طالب علموں کے پاس پہنچایا اور ان کو کہا کہ اس کو یاد کر لو.چنانچہ جب پر چہ آیا تو اس میں تین سوال ایسے تھے جو میرے اس نوٹ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور چونکہ وہ مختصر اور کمپری ہینسو (مکمل) تھا اور تازہ تازہ ان کے ذہن میں تھا اس لیے میرا خیال ہے کہ اس سال نصف سے زیادہ طلبہ نے اس پر چہ میں فرسٹ ڈویژن حاصل کیا.اس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرما دیا.پس میرا اپنے سارے زمانہ میں یہ تجربہ رہا ہے کہ جب ہم اپنے رب کی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکتے ہیں تو وہ اپنے فضل اور رحم کی بارشیں ہم پر کرتا ہے.ہمارا خدا بخیل نہیں بلکہ بڑا دیا لوخدا ہے.اگر کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم بعض دفعہ لا پرواہی سے کام لیتے ہیں اور اس کی طرف جھکنے کی بجائے دوسرے دروازوں کو کھٹکھٹانے کی کوشش کرتے ہیں.اور وہ دروازے کھولے نہیں جاتے.تو اُس زمانہ میں جب میں جامعہ میں تھا میں نے اپنا دل و دماغ اس ادارے کو دے دیا تھا اور بڑی محنت سے اس کی نشو و نما کی طرف توجہ کی تھی اور اس زمانہ میں جب میں نے حساب لگایا تو مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ پہلے یا دوسرے سال جتنے جامعہ احمدیہ کے واقفین زندگی تبلیغ اسلام کے میدان میں اترے اس سے پہلے پانچ یا سات سال کے طلبہ کی مجموعی تعداد بھی اتنی نہ تھی.اور اس زمانہ کے بہت سے طالب علم ہیں جو اس وقت تبلیغی میدان میں کام
تاریخ احمدیت.جلد 23 کر رہے ہیں.303 سال 1965ء پھر ۱۹۴۴ء میں جب میں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے ان کے علاج کے لیے دہلی گیا ہوا تھا اچانک ایک دن ڈاک میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا خط مجھے ملا کہ یہاں قادیان میں ایک کالج کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے اور حضرت صاحب نے تمہیں اس کالج کا پرنسپل مقرر فرمایا ہے.میں بڑا پریشان ہوا کہ پہلے جب میں عربی قریباً بھول چکا تھا مجھے جامعہ میں لگا دیا گیا اب جب میرا ذ ہن کلی طور پر اس چیز کی طرف متوجہ ہو چکا ہے تو مجھے وہاں سے ٹرانسفر کر کے ایک انگریزی ادارے کا پرنسپل بنادیا گیا.اس وقت صرف انٹر میڈیٹ کالج تھا.خیر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھانے کی توفیق دے.اور ہماری کوششوں میں برکت ڈالے.ابتداء بالکل چھوٹے سے کام سے ہوئی.اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں جو ساتھی ملتے ہیں وہ بڑے پیار سے کام کرنے والے اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں.گو بہت سے میری طرح بالکل raw (خام) تھے.میں اس وجہ سے raw تھا کہ اس میدان سے بالکل ہٹ چکا تھا.اور عربی کی طرف متوجہ ہو چکا تھا اور اکثر ان میں سے وہ تھے جو ایم اے پاس کرتے ہی وہاں آگئے تھے.انہیں کوئی تجربہ نہ تھا بلکہ صرف آپ کے افیشیئیٹنگ پرنسپل میاں عطاء الرحمن صاحب ہی ہیں جنہیں کچھ تجربہ تھا.باقی سب raw ہی تھے.ہم نے جو کوششیں کیں وہ تو کیں ہمارے جو وسائل تھے شاید آپ ان کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.ایک چھوٹی سی مثال سے اس کو واضح کر دیتا ہوں وہ یہ کہ ایک لمبے عرصہ تک پرنسپل کے دفتر کے سامنے چک بھی نہ تھی.دروازہ یونہی گھلا رہتا تھا.پھر ان چکوں کے حصول کے لیے محترم قاضی محمد اسلم صاحب کو سپیشل سفارش کرنی پڑی تب جا کر اس دفتر کو چکیں نصیب ہوئیں اور ایک حد تک اطمینان اور پرائیویسی جو کام کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے میسر آئی.پھر مالی لحاظ سے بھی خُد اتعالیٰ کا میرے ساتھ عجیب سلوک رہا ہے کہ میں نے کبھی نہیں سوچا اور نہ دیکھا اور نہ پتہ کیا کہ ہمارے کھاتوں میں کتنی رقم ہے.ہمیشہ یہ سوچا
تاریخ احمدیت.جلد 23 304 سال 1965ء کہ جو خرچ آپڑا ہے وہ ضروری ہے کہ نہیں.اور اس خرچ میں کوئی فضول خرچی تو نہیں، ناجائز حصہ تو نہیں.اگر جائز ضرورت ہوتی تو پھر یقین ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کرتے ہوئے اس جائز ضرورت کو پورا کرنے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے.پھر جب سال گزرتا حساب کرتے تو ساری رقوم ایڈجیسٹ ہو جا تیں اور کبھی فکر یا تر ددکرنا نہیں پڑ اور نہ یہ کالج جس میں آپ اس وقت بیٹھے ہیں کبھی نہ بنتا.جب میں نے اس کالج کا نقشہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور پیش کیا تو آپ مُسکرائے اور فرمایا کہ اتنا بڑا کالج بنانے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں.میں تمہیں ایک لاکھ روپیہ کالج کے لیے اور پچاس ہزار روپیہ ہوٹل کے لیے دے سکتا ہوں اور یہ نہیں کرنے دونگا کہ کالج کی بنیادیں اس نقشہ کے مطابق بھر لو اور پھر میرے پاس آجاؤ کہ جی ! آپ کا دیا ہوالا کھ روپیہ خرچ ہو گیا ہے.کالج کی صرف بنیاد میں بھری گئی ہیں.تکمیل کے لیے اور پیسے دو.پس انجینئر سے مشورہ کر کے اس نقشہ پر سُرخ پنسل سے نشان لگواؤ کہ ایک لاکھ.سے بلڈنگ کا اتنا حصہ بن جائے گا.وہ میں نے تم سے بنا ہوا لے لینا ہے.میں نے اس وقت حجرات سے کام لیتے ہوئے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ٹھیک ہے.میں حضور سے پیسے مانگنے نہیں آیا نقشہ منظور کرانے آیا ہوں اس کے لیے حضور دعا فرماویں.میں لکیریں لگوا کر لے آؤں گا لیکن مجھے اجازت دی جائے کہ جماعت سے عطا یا وصول کرسکوں.حضور نے فرمایا: ٹھیک ہے عطا یا وصول کرو لیکن وہ لکیریں ڈلوا کر لاؤ.میں نے نقشہ پر مشورہ کرنے کے بعد لکیریں ڈالیں پھر حضور نے منظوری دی کہ کام شروع کر دو لیکن اس کے بعد نہ مجھے یا درہا کہ وہ لکیریں کس حصہ پر ڈالی گئی تھیں نہ حضور کو یہ کہنے کی ضرورت پڑی کہ لکیریں کہیں اور ڈالی گئی تھیں اور کالج کا پھیلاؤ زیادہ ہو گیا ہے اور رقم کا مطالبہ کر رہے ہو.تو اللہ تعالیٰ ہر مرحلہ پر آگے بڑھنے کی توفیق دیتا چلا گیا.جب ہم ایک جگہ پہنچتے تو میں اپنے ساتھیوں کو جو تعمیر کا کام کر رہے تھے کہ دیتا کہ اگلا کام بھی شروع کرا دو
تاریخ احمدیت.جلد 23 305 سال 1965ء جب وہ حصہ بن جاتا تو پھر میں کہتا کہ اب اگلا حصہ بھی بنالو.میں شاہد ہوں اس بات کا اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ آپ کو یہ بات بتارہا ہوں کہ آج تک مجھے (جو خرچ کرنے والا تھا) پتہ نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی.جیسا کہ آپ جانتے ہیں.سب آمد خزانہ میں جاتی ہے اور سب خرچ چیکوں کے ذریعہ ہوتا ہے لیکن کبھی ہم نے اس کو سمیٹا نہیں.یہ کالج کی عمارت ہوسٹل اور دوسری جو بلڈنگیں ہیں وہ سب ملا کر ایک لاکھ مربع فٹ سے اوپر ہیں.اور میرارف اندازہ ہے کہ ان پر چھ اور سات لاکھ روپیہ کے درمیان خرچ آیا ہے.بعض دفعہ اچھے پڑھے لکھے غیر از جماعت دوست آتے ہیں اور ان سے بات چیت ہوتی ہے تو وہ یقین نہیں کرتے کہ اتنی تھوڑی رقم میں اتنی بڑی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید ہم ان سے کوئی چالا کی کر رہے ہیں صحیح رقم بتانے کے لیے تیار نہیں.تو جہاں تک ضروریات اور اسباب کا سوال ہے اللہ تعالیٰ نے ۴۴ ء سے ہی اس ادارے پر اپنا خاص فضل کیا ہے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں اسے رکھا ہے.وہ ہماری کمزوریوں کو اپنی مغفرت کی چادر سے ڈھانپ دیتا ہے اور نتائج محض اس کے فضل سے اچھے نکلتے ہیں.میرے دل میں کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا.اور مجھے یقین ہے کہ میرے ساتھیوں کے دل میں بھی کبھی یہ خیال پیدا نہیں ہوا ہوگا کہ یہ سب کچھ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے.کیونکہ ہم اپنی کوششوں کو خوب جانتے ہیں اور ہم سے زیادہ ہمارا رب جانتا ہے جس ادارے پر اللہ تعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ اپنے فضل اور احسان کئے ہوں اس ادارہ کی طرف منسوب ہونے والے خواہ وہ پروفیسر ہوں یا طلبہ، ان سب کا یہ فرض ہے کہ وہ ہر وقت اپنے رب کی حمد کرتے رہیں تا کہ اس کے فضلوں کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے.جہاں تک میرے جذبات کا سوال ہے تو جو میرے جذبات پہلے جامعہ احمدیہ کے متعلق تھے وہی جذبات میرے دل میں اس ادارہ کے متعلق پیدا ہوئے اور میں نے اپنے دل کو ، اپنے دماغ کو اور اپنے جسم کو اس ادارہ کے لیے خدا کے حضور بطور وقف پیش کر دیا اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ اس کو چلانے کی کوشش کی.اور ان طلباء کو
تاریخ احمدیت.جلد 23 306 سال 1965ء جو یہاں تعلیم پاتے تھے میں نے اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھا.بے شک میں نے جہاں تک مناسب سمجھا سختی بھی کی لیکن اس وقت سختی کی جب میں نے اسے اصلاح کا واحد ذریعہ پایا اور بعد میں مجھے اس دکھ کی وجہ سے راتوں جاگنا پڑا کہ کیوں میرے ایک بچے نے مجھے اس سختی کے لیے مجبور کر دیا حتی کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا.کئی راتیں ہیں جو میں نے آپ کی خاطر جاگتے گزار دیں اور ہمیشہ ہی آپ کے لیے دُعائیں کرتا رہا.اور پھر میں نے اپنے رب کا پیار بھی محسوس کیا کیونکہ وہ اپنے فضل سے میری اکثر دُعائیں قبول کرتا رہا اور کبھی کسی موقع پر بھی میرے دل میں ناکامی و نامرادی یا نا امیدی کا خیال تک پیدا نہیں ہوا اور نہ ہی اُن دلوں میں پیدا ہونا چاہیئے جنہوں نے اس کام کو کرنا ہے.میری ایک ہی خواہش ہے اور ایک ہی تڑپ ہے وہ یہ کہ آپ اپنے دلوں کی کھڑکیاں اپنے رب کی طرف کھولیں اور اسی کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں اور ضرورت اور احتیاج کے وقت اسی کی طرف رجوع کریں ہمارا خدا زندہ خدا ہے اور بڑی طاقتوں والا ہے.اگر آپ کے دل اس نہج پر نشو ونما پانے لگیں تو پھر ساری دنیا آپ کے قدموں پر آگرے گی.مگر پھر بھی آپ اس پر کوئی فخر نہ کریں گے کیونکہ جو چیز آپ کو مل چکی ہوگی وہ ساری دنیا اور اس کے تمام مال و اسباب سے زیادہ قیمتی ہوگی.170 166 جلسہ سالانہ کی ارتقائی تاریخ پر ایک بصیرت افروز خطبہ جمعہ جلسہ سالانہ کے مبارک ایام قریب تر آچکے تھے اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو اس عظیم روحانی اجتماع سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کا متن پڑھا بعد ازاں جلسہ سالانہ کی ارتقائی تاریخ اور جماعتی ذمہ داریوں پر بصیرت افروز رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا.ان مبارک اور دعاؤں بھرے الفاظ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کی ابتداء کی.اور خدا تعالیٰ کا فعل یہ گواہی دیتا ہے اس نے جو کچھ بتایا تھا وہ اپنے وقت پر پورا ہوا.اور جب ہم گزشتہ جلسوں کی حاضری پر طائرانہ نظر ڈالتے
تاریخ احمدیت.جلد 23 307 سال 1965ء ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ایک ابتلاء کے سال کے کوئی جلسہ ایسا نہیں گزرا جس میں آنے والوں کی تعداد، حضرت مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہنے والوں کی تعداد، اُن برکتوں اور رحمتوں اور فضلوں سے حصہ پانے والوں کی تعداد، جو فضل اور رحمت اور برکت اللہ تعالیٰ نے جلسہ میں شمولیت کرنے والوں کے لئے مقدر کر رکھی ہے بڑھتی نہ چلی گئی ہو.البتہ میں نے بتایا ہے کہ ایک سال چھوٹے سے ابتلاء کا دور جماعت پر ضرور آیا.اس سے بھی آج ہمیں سبق لینے کی ضرورت ہے.دیکھئے پہلے جلسہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مشاورت کے لئے منعقد فرمایا تھا ٫۷۵ا حباب شریک ہوئے اور پھر یہ تعداد ان تمام مخالفتوں کے باوجود اور ان تمام کوششوں کے باوجود جو جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے مخالف کرتے رہے سال بسال بڑھتی ہی چلی گئی.حتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ ۱۹۰۷ء میں ہوا اس میں بدر ۹ جنوری ۱۹۰۸ء کے مطابق حاضرین کی تعداد تین ہزار تھی.اب اگلے جلسہ سے ابتلاء کا دور شروع ہوا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ۱۹۰۸ء میں جو پہلا جلسہ ہوا ، یا یوں کہیے کہ خلافت اولی کے زمانہ کا پہلا جلسہ اس میں یہ تعداد گر کر دو ہزار پانچ سو (۲٬۵۰۰) پر آگئی.کچھ تو شاید اس وجہ سے کمی ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر بہت سے لوگ دیوانہ وار قادیان کی طرف دوڑے.ممکن ہے انہوں نے یہ سمجھ لیا ہو کہ ہم نے اس سال قادیان کی زیارت تو کر ہی لی ہے دوبارہ جانے کی ضرورت نہیں.کچھ شاید اس لئے کمی ہوئی ہو کہ بعض لوگ دوبارہ سفر کرنے کی استطاعت نہ رکھتے ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ اس کمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض لوگوں نے جماعت کے ایک حصہ میں یہ خیال پیدا کر دیا تھا کہ مرکز کے ساتھ وابستگی ( چونکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ نہیں رہے.صرف خلافت ہی ہے ) ضروری نہیں رہی.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو اپنی خلافت کے سارے عرصہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 308 سال 1965ء میں استحکام جماعت کی طرف ہی ساری توجہ دینی پڑی کیونکہ جماعت کو سنبھالنا بہت ضروری تھا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد عرب میں ارتداد کا ایک سیلاب امڈ آیا تھا اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں بھی بعض کمزوریاں ظاہر ہونے لگی تھیں.پس حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی ساری توجہ اور کوشش اور ساری جد و جہد یہی رہی کہ جماعت کو سنبھالا جائے اور جماعت کا استحکام مضبوط کیا جائے اور اس امر کا ثبوت ہمیں جلسوں کی تعداد سے ملتا ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ۱۹۱۳ء میں ہوا اس میں الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۳ء کے مطابق حاضرین کی تعداد پھر تین ہزار تک پہنچ گئی گویا حضور نے جو استحکام جماعت کی طرف توجہ دی اس کا نتیجہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ خلافت کے آخری جلسہ میں بھی حاضری ۱۹۰۷ء کے جلسہ کی تعداد تک پہنچ گئی.گویا وہ کمزوریاں اور خامیاں جو اس وقت حضور کی دور بین اور باریک بین نگاہ دیکھ رہی تھی انہیں حضور ( حضرت خلیفہ اول) دُور کرنے میں کامیاب ہو گئے اور جماعت کو پھر سے مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا.اور پھر جلسہ میں حاضری کی تعداد تین ہزار تک پہنچ گئی.اس کے بعد خدا تعالیٰ کی برکات اور اسکے فضلوں کا ایک دھارا تھا جو ۱۹۱۴ء سے بہنا شروع ہوا اور جماعت کو کہیں سے اُٹھا کر کہیں تک لے گیا.چنانچہ ۱۹۱۴ء کا جلسہ جو خلافت ثانیہ کا پہلا جلسہ تھا اس میں حاضری کی تعداد گری نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھی حالانکہ یہ جلسہ ایسے وقت میں منعقد ہوا جبکہ ایک گروہ جماعت سے علیحدہ ہو گیا تھا، خلافت کا منکر ہو چکا تھا.یہ جلسہ ایسے وقت میں ہوا جبکہ سینکڑوں آدمی خلافت سے منحرف ہو کر خلافت کی تنظیم سے باہر نکل چکے تھے.بظاہر ۱۹۱۴ء کے جلسہ کی حاضری کم ہو جانی چاہیے تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ یہ تعداد گری نہیں بلکہ بڑھی.چنانچہ الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۱۴ء کی رپورٹ کے مطابق اس جلسہ میں ۳۲۵۰ مہمان باہر سے شامل ہوئے.اس طرح اڑھائی سو کی حاضری زیادہ ہوئی.اڑھائی سو کی اس زیادتی کا مطلب یہ ہے کہ ان نامساعد حالات میں بھی 9 فیصدی کا اضافہ ہوا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے زمانہ کے آخری
تاریخ احمدیت.جلد 23 309 سال 1965ء جلسه ۱۹۶۴ء میں حاضری کا انداز ۸۰۰ ہزار اور ایک لاکھ کے درمیان کا ہے.یعنی بعض لوگوں کا تو خیال ہے کہ اس جلسہ پر حاضری ایک لاکھ تھی اور غالبا اخبار میں بھی یہی چھپا ہے لیکن بعض لوگ جو کنزرویٹو خیال کے ہیں یعنی بہت محتاط اندازہ لگانے والے ہیں.وہ مردوں اور عورتوں کی حاضری کا انداز ۸۰۰ ہزار بتاتے ہیں.پس خلافت ثانیہ کے زمانہ میں جماعت نے جو ترقی کی اس سے وہ بشارتیں پوری ہوئیں جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی تھیں.ایک سرسری اور طائرانہ نظر آپ تمام گزشتہ جلسوں پر ڈالیں تو آپ کے سامنے گراف کی شکل میں ایک تصویر آجاتی ہے کہ کس طرح یہ جماعت چھوٹی سی بلندی سے تیزی کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھتی گئی اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اندازہ کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی وفات کے موقع پر ۳۵ ہزار اور ۴۵ ہزار کے درمیان دوست باہر سے ربوہ تشریف لائے تا کہ حضور کا دیدار کر سکیں اور جنازے میں شامل ہوسکیں.اس طرح ایک بڑا مالی بار جماعت کے کندھوں پر پڑا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر مسیح موعود کے مشن کی کامیابی کی خاطر اور الہی برکات کے حصول کی خاطر جن کے ہمیں وعدے دیئے گئے ہیں.ہمیں اپنے مالوں کو بہر حال قربان کرنا پڑے گا کیونکہ مومن اپنے کو خدا کے فضلوں سے محروم کرنا ہر گز پسند نہیں کرتا.اس لئے تمام احباب جماعت کو درد بھرے دل کے ساتھ نہایت محبت اور پیار کے ساتھ اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ آئندہ جلسہ سالانہ پر پہلے کی نسبت زیادہ تعداد میں آئیں تا دُنیا بھی یہ دیکھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی پیشکر دہ بشارات کے پورا ہونے میں کوئی وقفہ نہیں ہوا.اور یہ جماعت خدا تعالیٰ کے ہاتھ نے کچھ اس طرح تیار کی ہے کہ وہ ہر گز گوارا نہیں کرتی کہ اس کی زندگی کا ایک منٹ بھی ایسا گزرے جس میں اس نے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کو جذب نہ کیا ہو اور تاد نیا مشاہدہ کرے کہ ہر قسم کی رحمتیں، ہر قسم کے فضل اور ہر قسم کی بشارتیں دین کے لئے اور دنیا کے لئے اس جماعت کو دی گئی ہیں..پس ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک بشارت سے ہم وافر حصہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 310 سال 1965ء لینے والے ہوں.اور اس میں شک نہیں کہ اس کے لئے آپ کو اس سال زیادہ مالی قربانی دینی پڑے گی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ مالی قربانی کئے بغیر آپ ان فضلوں کے وارث بھی نہیں بن سکتے جن فضلوں کا وارث آپ کو خدا تعالیٰ بنانا چاہتا ہے.وہ دن قریب ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو خارق عادت طور پر ترقی بخشے گا اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ اس میں شامل ہوں گے لیکن ان دنوں کو قریب تر لانے کے لئے ہمیں بھی بہت کچھ قربانیاں دینی ہوں گی.جب قربانی کا لفظ منہ سے نکلتا ہے تو شرم محسوس ہوتی ہے کیونکہ جو کچھ خدا سے ہمیں ملا اس میں سے ایک حصہ کو پھر اسی کی طرف واپس لوٹا دینے کو ہم کس منہ سے قربانی کہہ سکتے ہیں؟ بہر حال جو کچھ اس نے ہمیں دیا ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیئے کہ اسکے حضور ہم واپس کر دیں اور اس کی رضا کی خاطر اس کی راہ میں خرچ کر دیں اپنے اوقات عزیزہ کو بھی، اپنے مالوں کو بھی ، اپنی دلچسپیوں اور خواہشات کو بھی اور اپنے آراموں کو بھی.تاہم اس کے فضلوں کے زیادہ سے زیادہ وارث بنیں.اوّل تو تمام جماعت کو جوا کناف میں پھیلی ہوئی ہے آج میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ خدا کے فضلوں کو جذب کرنے کے لئے آپ اپنے سالانہ جلسہ پر ضرور آئیں.ممکن ہو اور جہاں تک اللہ تعالیٰ آپ کو طاقت اور استطاعت بخشے آپ اس میں شمولیت کی کوشش کریں.دوسرے میں ان احباب جماعت کی خدمت میں جور بوہ سے باہر رہتے ہیں یہ کہتا ہوں کہ اب جلسہ کے ایام میں مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے کام اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ربوہ کے رضا کا راس تمام کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام نہیں دے سکتے.اس لئے اے نو جوانانِ احمدیت ! اے خدام الاحمدیہ جلسہ کے کام کے لئے اپنی خدمات پیش کرو اور بطور رضا کار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت کرو.ان دنوں میں دراصل کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کون میزبان اور کون مہمان ہے.کیونکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم سب ہی مہمان ہیں اور ہمارا میز بان اللہ کا وہ صحیح ہے جس نے اس لنگر کو جاری کیا جہاں خدا کے فرشتوں کی لائی ہوئی روٹی تقسیم ہوتی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 311 سال 1965ء اہالیان ربوہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنی خدمات کو رضا کارانہ طور پر پیش نہ کرے.بے شک بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں.پس جہاں تک جائز مجبوری اور ضرورتوں کا تعلق ہے کوئی قابل اعتراض بات نہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو معاف کرے اور باوجود یہ کہ آپ ان مجبوریوں کی وجہ سے اس خدمت سے محروم ہوجائیں پھر بھی اپنے فضلوں میں آپ کو برابر کا شریک ٹھہرالے.لیکن جن کو کوئی مجبوری نہیں ان میں سے ہر ایک کو چاہیے کہ وہ جلسہ کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرے.66 اس ولولہ انگیز خطبہ نے پوری جماعت خصوصاً اہل ربوہ میں زبر دست جوش وخروش پیدا کر ڈالا اور اسی ہزار سے زائد فدائی ربوہ کی مقدس سرزمین میں جمع ہو گئے.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا خدام الاحمدیہ سے خطاب اسی روز سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کے عہد یداران کے ریفریشر کورس کے موقعہ پر جامعہ احمدیہ ہال میں ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کو خدام الاحمد یہ ربوہ سے پہلی بار خطاب فرمایا.جس میں نو جوانانِ احمدیت کو نہایت پُر زور الفاظ میں تلقین فرمائی کہ خدام الاحمدیہ اس لائحہ عمل کو اپنائے جو حضرت مصلح موعود نے اُن کے سامنے رکھا تھا نیز بتایا کہ احمدیت کو ایسے خدام کی ضرورت ہے جن کے دلوں میں اسلام کی محبت رچی ہو.اپنے عمل، اپنی ادا، اپنے فکر اور اپنے تدبر کو احمدیت کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرو.حضور نے ہدایت فرمائی کہ خدام الاحمدیہ سے متعلق حضرت مصلح موعود کے خطبات وارشادات کتابی شکل میں شائع کئے جائیں.(چنانچہ حضور کے اس ارشاد کی تعمیل میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے مشعل راہ کے نام سے ایک مبسوط کتاب ۱۹۷۰ء میں شائع کرنے کی سعادت پائی.) حضور نے اپنے خطاب میں وقار عمل کی اہمیت و ضرورت اور افادیت پر بھی خاص زور دیا.اور تاکیدی ہدایت فرمائی کہ وقار عمل جس رنگ اور جس شکل میں اور جس جذبہ اور ذوق وشوق کے ساتھ قادیان میں منایا جاتا تھا.اسی جوش و خروش کے ساتھ اب بھی منایا جانا چاہئیے.اس ضمن میں حضور نے
تاریخ احمدیت.جلد23 312 سال 1965ء بعض چشم دید واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ابتدا میں خدام الاحمدیہ کے پاس سامان نہیں ہوتا تھا.ہم محلے میں مختلف دوستوں سے کدالیں ، ٹوکریاں وغیرہ جمع کرتے اور ان پر نشانی لگا لیتے اور وقار عمل کے بعد پھر انہیں واپس پہنچا دیتے تھے.اس لئے وقار عمل کے بعد بھی کئی گھنٹے تک مجھے وہاں ٹھہر نا پڑتا تھا.تا کہ کوئی چیز ضائع نہ ہو.اس سے عزت اور اعتماد قائم رہتا ہے.اگر کوئی چیز ضائع ہو جاتی یا ٹوٹ جاتی تو ہم اسکی قیمت ادا کر دیتے تھے.پھر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ کئی سو کرالیں اور کئی سوٹو کریاں جو وقار عمل کے لئے ضروری تھیں خدام الاحمدیہ نے خود خرید لیں.وقار عمل میں حصہ لینے کیلئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی بسا اوقات خود بھی تشریف لاتے.کدال کا استعمال کرتے اور ٹوکری بھی اٹھاتے تھے.وہ ایک عجیب سماں ہوتا اور ساری جماعت اس سے حظ اُٹھا رہی ہوتی تھی.اور ان حالات میں کوئی شخص بھی اپنے گھر بیٹھے رہنے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا.ایک جذبہ تھا.جو قادیان کےسارے احمدیوں میں پیدا ہو جاتا.اور وہ اپنے ضروری کا روبار کو چھوڑ کر بھی وقار عمل میں حصہ لینے کے لئے نکل پڑتے جن لوگوں کو لاہور جانا ہوتا اور وہ صرف آدھا گھنٹہ کام کر سکتے تو وہ آدھ گھنٹہ کے لئے ہی آجاتے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم نے دار الانوار میں وقار عمل منایا.اس دن محترم ملک غلام فرید صاحب نے ریویو کی طباعت کے سلسلہ میں لاہور جانا تھا.گاڑی چلنے سے پہلے ان کے لئے صرف نصف گھنٹہ تک وقار عمل میں حصہ لینے کا موقع تھا.وہ آکر شامل ہو گئے.جب وہ آدھ گھنٹہ کے بعد جانے لگے.تو ہمارے نوجوانوں میں سے بعض نے انہیں روکا کہ آپ باہر کیوں جارہے ہیں؟ انہوں نے اسے دھکا دیا.اور چلے گئے.میرے پاس شکایت پہنچی تو میں نے سوچا کہ انہیں واقعی کوئی ضروری کام ہوگا.ورنہ وہ نہ جاتے.اور وہ تھے بھی انصار میں سے.لیکن ان کو خوف لاحق ہوا کہ میں کہیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ان کی شکایت نہ کر دوں وہ میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ حالات تھے.مجھے صرف آدھ گھنٹہ کا وقت ملتا تھا.میں نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 313 سال 1965ء مناسب نہ سمجھا کہ میں اس وقار عمل میں حصہ لینے سے محروم رہوں.پس میں تو اپنی محبت اور شوق سے اس میں شامل ہوا تھا.اور آخری وقت تک کام کرتا رہا.اگر میں حلقہ تو ڑ کر نہ جاتا تو گاڑی نہ ملتی اور جماعتی کام کو نقصان پہنچتا.ان کی اس معذرت خواہی کو سن کر میں مسکرایا اور کہا کہ میں نے آپ کی شکایت نہیں کی.شکایت تو آخری مرحلہ ہے.اگر آپ غلطی کرتے تو پہلے میں خود آپ کو سمجھا تا اور اگر میں سمجھتا کہ سمجھانے کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تب میں آپ کی شکایت کرتا.یہ مثال بیان کرنے سے میرا مطلب یہ ہے کہ پہلے لوگوں کے دلوں میں وقار عمل کا بڑا شوق اور جذبہ تھا.وقار عمل کے پیچھے جو روح ہے وہ اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ہے.اور وہ یہ کہ کسی جائز کام کرنے سے ہمیں عار نہیں.اور یہ روح کوئی معمولی چیز نہیں.یہ عادت ایسی ہے کہ دنیا اسے دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے.اور پھر اکثر امور میں انسان کسی دوسرے کا محتاج نہیں رہتا.اور جہاں تک اور جس وقت اور جو کام وہ اپنے ہاتھ سے کر سکتا ہے.وہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اور شخص یہ کام اس کے لئے کرے.میں حضرت (اماں جان) کی تربیت میں رہا ہوں اور چھٹین کے زمانہ سے ہی میں نے خاص طور پر یہ نوٹ کیا ہے کہ بیماری کے دنوں میں بھی جب آپ کو پیاس لگتی تو تین چار خادمائیں موجود ہونے کے باوجود اٹھ کر خود جاتیں اور پانی کا گلاس بھرتیں اور پی لیتیں ، بعض دفعہ یہ دیکھ کر ہمیں تکلیف بھی ہوتی کہ آپ کمزور ہیں بیمار ہیں کیوں ایسا کرتی ہیں.لیکن وہ کہتی تھیں کہ طاقت رکھتے ہوئے کیوں میں کسی دوسرے سے ایسا کام کرواؤں.بچپن کا یہ سبق میری طبیعت میں غیر شعوری طور پر راسخ رہا.“ حضور نے اپنے خطاب کے آخر پر فرمایا: یہی چیزیں سکھانے کے لئے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا گیا ہے.پس جس غرض سے خدام الاحمدیہ کو قائم کیا گیا ہے اس غرض کو مد نظر رکھ کر اپنے عمل ، اپنی ادا، اپنے فکر اور تدبر کے طریق کو اس طرح ڈھالیں کہ آپ سمجھیں نہ سمجھیں لیکن غیر یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ یہ احمدی لوگ ہم سے بہت اونچے اور بہت بلند ہیں.ان کی قیادت
تاریخ احمدیت.جلد 23 314 سال 1965ء ہمارے لئے فخر کا باعث ہے.اور ان کے پیچھے چلنا ہمارے لئے عزت کا موجب ہے اگر آپ لوگ احمدیت کا یہ رُعب اور اثر قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو انشاء اللہ دنیا خود بخود احمدیت کی طرف ھنچتی چلی آئے گی اور خدائے تعالیٰ نے جو فیصلہ آسمان پر کیا ہے وہ زمین پر بھی عملاً ہمیں پورا ہوتا نظر آئے گا.حضرت سیدہ مہر آیا صاحبہ کا شکریہ احباب اور درخواست دعا الفضل مورخہ یکم دسمبر ۱۹۶۵ء کے صفحہ پر حضرت سیدہ بشری بیگم مہر آپا صاحبہ حرم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا درج ذیل مکتوب شائع ہوا.«اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عزیز ترین احباب جماعت ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته حضرت مصلح موعود خلیفتہ ایسیح الثانی کے وصال پر جس کا كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن (۲۸) کے مطابق واقع ہونا ایک دن مقدر تھا آپ سب میں سے ہزاروں نے خود آ کر مجھ سے تعزیت فرمائی جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے.اسی طرح اس ضمن میں سینکڑوں تاریں ، خطوط اور ریزولیوشن بھی وصول ہو چکے ہیں اور ہورہے ہیں.آپ سب کے اس اظہارِ خلوص و محبت اور ہمدردی پر میرا مغموم ومهجور دل بے اختیار آستانہ الوہیت پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہزاروں سلام اور درود بھیجتے ہوئے جھک جاتا ہے.آپ ہی کی بدولت اللہ تعالیٰ نے باہمی محبت و خلوص کا بیج بویا ہے اور آج آپ ہی کی برکت سے ہر احمدی ایک دوسرے کے لئے بے لوث محبت رکھتا ہے.ہزاروں ہزار سلام اُس محسن پر جس کے طفیل ہمیں یہ انعام ملا.الحمد للہ علی ذالک حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی کو جماعت کے ہر فرد سے اس قدر گہری محبت اور عشق تھا کہ بعض اوقات یہ محبت، یہ تعلق اپنے بیوی بچوں پر بھی سبقت لیجا تا ہوا نظر آتا.اس روحانی اولاد کی فلاح
تاریخ احمدیت.جلد 23 315 سال 1965ء و بہبود کے لئے اکثر و بیشتر میں نے آپ کو کرب کی سی کیفیت میں مبتلا دیکھا.اگر چہ میرا حال قلبی یحزن و العین تدمع کا آئینہ دار ہے لیکن جب میں آپ سب کے دُکھ دیکھتی ہوں تو آپ کا دردوکرب اپنے در دو کرب سے سبقت لے جاتا ہوا نظر آتا ہے.اُس وقت میرا دل آپ سب کے لئے شدید محبت و رحم کی وجہ سے تڑپنے لگتا ہے.پھر میں اپنے غم کو چھپانے کی کوشش کرتی ہوں اس لئے کہ ہر آنے والی عزیز بہن اور بھائی کو میں کسی طرح تسکین دے سکوں اور ان کا حوصلہ بندھا سکوں.اس سے کسے انکار کہ یہ غم اور دکھ اپنے رنگ میں عجیب ہے جو انفرادی بھی ہے اور مجموعی بھی.میں دل سے چاہتی ہوں کہ ہر عزیز بہن اور بھائی کو ان کی ہمدردی واخلاص کے مظاہرے پر جو اُنہوں نے اپنے تاروں اور خطوط میں کیا ہے خود انفرادی طور پر جواب دوں لیکن فی الحال ایسا کرنا میری طاقت سے باہر ہے، اِس لئے اِس نوٹ کے ذریعہ آپ سب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر دے.آمین جماعت کا ہر فرد مجھے بیحد عزیز ہے اور میرے لئے قابلِ احترام ہے انشاء اللہ ہمیشہ ہی میری دُعاؤں میں مقدم ہوگا.آپ ہمیشہ انشاء اللہ مجھے اپنے دُکھ سکھ میں اپنا شریک پائیں گے.وماتوفيقى الا بالله آج میں بھی اس مقدس و معصوم تعلق کی وساطت سے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے میرے اور آپ کے درمیان بنارکھا ہے آپ سب کی خدمت میں نہایت دردمند دل کے ساتھ دُعا کی درخواست کرتی ہوں.آپ میرے لئے دُعا فرما دیں کہ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رکھے صحیح معنوں میں خدمت دین کی توفیق دے.میں اسکی مخلوق کی حقیقی معنوں میں مونس و غمخوار بنوں.میرا وجود نافع الناس ہو.میرا انجام ہر جہت سے بخیر ہو.اور جب میں اس فانی دنیا سے اُٹھوں تو اللہ تعالیٰ کے حضور اور اس کے رسول اور خلفاء کے سامنے میں اس حال میں پہنچوں کہ میں ہر لحاظ سے سرخرو ہوں.اللهم ربنا امین اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.محتاج دعائے خاص محزون و دلفگار مہر آیا 66 ۲۸/۱۱/۱۹۶۵
تاریخ احمدیت.جلد 23 316 سال 1965ء حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ کا روح پرور پیغام حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا یہ پیغام جلسہ سیرت حضرت فضل عمر منعقدہ مورخہ یکم دسمبر ۱۹۶۵ء بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں چوہدری عبدالعزیز صاحب مہتمم مقامی خدام الاحمدیہ مرکز یہ نے پڑھ کر سُنایا: "بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم ۲۷/۱۱/۱۹۶۵ ( بوقت ۴:۳۰ بجے شام ) برادران خدام الاحمدیہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته کیا لکھوں کیونکر لکھوں دل و دماغ نظر سب کمزور ہورہے ہیں.وہ میرے سب سے زیادہ پیارے بھائی مجھے ہمیشہ بہت چاہنے والے بھائی ، میرے محسن بھائی عمر میں بہت کم فرق ہونے کے باوجود بچپن سے گودوں میں اُٹھانے والے میرے ناز بردار بھائی تھے.آج ان سے جُدا ہوکر مجھے معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت اماں جان ) کی بھی جُدائی دراصل گویا اب ہوئی ہے.اب کون ہمارے بچپن کی باتیں کرے گا ! کون ان مشتر کہ یادوں کے ذکر تازہ کرے گا.اور کون کرسکتا ہے؟ جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا ہی نہیں وہ بجز کتابی علم اور ذہن میں نقشہ تصور میں لانے کے اور کیا سوچ اور کہہ سکتے ہیں.گویا ہمارا زمانہ تو ختم ہو گیا اب آپ لوگوں کا ہے.آپ نے ان کی شان دیکھی ان کے کام دیکھے ان کی برکات سے ان کی نصائح سے مستفید ہوئے.ان کا جمال بھی دیکھا جلال بھی دیکھا.یہ سب باتیں اظهر من الشمس ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ محمود کا نام محمود کے کام تا قیامت تمام دنیا میں سورج کی طرح روشن نظر آتے رہیں گے.اور تاریخ عالم کا بہت نمایاں سنہری باب ہوں گے.اللہ تعالیٰ کی نصرت فضل و کرم اور رحمت سے جو کار ہائے نمایاں اس مُبارک وجود نے سرانجام دئے ، دنیا نے دیکھے اور دیکھتی رہے گی.یہ تو سب کچھ سب پر ظاہر ہی ہے میں نے ان کی کم عمری کا زمانہ دیکھا.آپ تو میں بچہ ہی تھی مگر یا د اس وقت کی بفضل خدا تازہ رہی اور ہے تیرہ چودہ سال کی عمر سے ایک نمایاں شخصیت نظر آنے لگی تھی.سنجیدگی سے کتب کا مطالعہ بغور کرتے ، دینی
تاریخ احمدیت.جلد 23 317 سال 1965ء باتوں دینی علوم اور تحقیق کا شوق تھا.میز پر ایک طرف قرآن کریم ہے.اپنی دینی کتب و احادیث رکھی ہیں تو دوسری جانب انجیل بھی رکھی ہے اور دیگر مذاہب کے کتب ورسائل بھی.آنکھیں اکثر آشوب کر آتی تھیں مگر پڑھتے رہتے تھے.عجیب شخصیت تھی کہ ساتھ ہی دل بہلانے کے سامان بھی مہیا رہتے.کشتی چلانا.نشانہ اندازی وغیرہ علیل سے بہت ایک زمانہ میں شغف رہا جس سے نشانے باندھ کر مشق کیا کرتے پر مذاق باتیں کرتے تو دل سنکر باغ باغ ہو جاتا.مگر یہ سب ایک وقتی تفریح اور ذرا آرام لینے کی خاطر ہوتا تھا.ہرگز کبھی انہوں نے کسی اصل کام میں حرج نہیں آنے دیا.اس عمر میں بھی نہ وہ کبھی خشک مزاج ہوئے نہ سرد مہر.بہت با محبت بہت پیار کرنے والے رہے گھر کی رونق بھی تھے اور روشنی بھی جس کو اللہ تعالیٰ نے ایک زمانہ کے لئے روشن نشان بنانا مقدر فر مایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور میری ہوش کے زمانہ میں آپ بہت مؤدب رہتے تھے اور بچپن کی بے تکلفی کو ختم کر چکے تھے.آپ کا مقام خوب پہچان چکے تھے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا برتاؤ ان کے ساتھ اپنی یاد کے زمانہ سے میں نے ایسا ہی دیکھا جیسا بڑے جوان بیٹوں سے ہوتا ہے.باہر بھیجنایا کوئی کام سمجھانا غرض کچھ کہنا ہو تو ان سے بات کا طریق آپ کا ایسا تھا کہ اب اس عمر کے چودہ پندرہ سال کے لڑکوں سے نہ والدین کرتے ہیں نہ لڑکوں میں اتنی ذمہ داری کا احساس اور فراست نظر آتی ہے مگر وہ زمانہ اور تھا مسیح موعود علیہ السلام کے نور کا اثر تھا اور خدا تعالیٰ کی مشیت اپنی نصرت سے ان کو جس مقام پر کھڑا کرنا تھا اس کے لئے تیار کرنے میں خود مد تھی آپ لوگوں کے لئے عمر پندرہ سال خدام میں شمولیت کی جو وہ مقرر فرما گئے انہوں نے اس وقت کی اپنی سمجھ عقل دور اندیشی دینی جوش وغیرہ کا اندازہ لگا کر بہت ٹھیک مقرر فرمائی ہے اور اس کو ایک نیک فال بنایا ہے خدا تعالیٰ آپ کو ہمیشہ راستی پر قائم رکھے اور نیکی میں قدم بڑھتے رہیں.آپ سب کے ارادے نیک نیتوں کے ساتھ مبارک اور صادق ہوں اور خدا تعالیٰ آپ کا ناصر رہے.خدام الاحمدیہ خدام احمد اور فدائے دین احمد ہیں.خلافت سے وابستہ رہیں.اس غم میں بھی ہم کو جو خوشی خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت سے بخشی اس کا نیچے دل سے شکر گزار عملاً بھی اور قولاً بھی ہم سب کو ہونا اور رہنا چاہئیے.کیسا کرم فرمایا کیسا ہاتھ تھام کر بیڑا پار لگایا ہے کہ اس کے احسان کو سوچ کر ایک لرزہ آ جاتا ہے کہ شکریہ بھی تو ادا نہیں کر پاتے ، جو شکریہ کا حق ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر فتنہ سے بچالیا
تاریخ احمدیت.جلد 23 318 سال 1965ء قلوب کو اپنے قبضہ میں کر لیا دلوں کی آنکھیں کھول دیں اور جس کو اس نے چنا اس کے ہاتھ پر ہم سب کو جمع کر دیا.الحمد للہ رب العالمین دُعاؤں میں لگے رہیں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ سے نصرت طلب کرتے رہیں وہ جماعت کو بڑھائے تعداد کے لحاظ سے بھی مگر سب سے بڑھ کر روحانی ترقی عطا فرماتا جائے ہمیشہ ہمارے قدم آگے بڑھ کر پیچھے نہ ہٹیں وہی ہمارا دستگیر ہوراہنمائی فرما تار ہے.آمین.مبارکه 124 حضرت خلیفتہ امسح الثالث کی فضل عمر جونیئر ماڈل سکول میں تشریف آوری سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث انتخاب خلافت کے بعد پہلی بارہ دسمبر ۱۹۶۵ء کو فضل عمر جونیئر ماڈل سکول میں تشریف لائے.حضور نے اپنے خطاب میں پیاری احمدی بچیوں اور بچوں کو بتایا کہ آپ جب بڑے ہوں گے تو یہ دنیا بہت بدل چکی ہوگی.احمدیت دُنیا میں پھیل جائینگی.اُس وقت کام بھی بہت زیادہ کرنا ہو گا.آج سے بیس سال کے بعد آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی.اس کے لئے آپ کو ابھی سے تیار ہونا چاہیے.سکول کے سٹاف کو نصیحت فرمائی کہ جغرافیہ پڑھاتے وقت اُنہیں وہ ملک نقشے پر دکھائے جائیں.جن میں احمدیوں کی کثرت ہے.ایک زبردست ہتھیار تیار کرنے کے لئے ان کے ہاتھ میں یہ بچے دیئے گئے ہیں.بڑے پیار اور محبت سے انہیں دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دی جائے.اسلامی باتیں اُن کے کانوں میں ڈالی جائیں تا جب اُن کے سکھانے کا وقت آئے.تو یہ واقعی اس کے اہل ثابت ہوں.وزیر تعلیم ہندوستان کو قرآن کریم کا تحفہ مکرم عبدالحمید عاجز صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ :.مورخہ ۴ دسمبر ۱۹۶۵ء کو شری ایم سی چھا گلا وزیر ہند گورداسپور تشریف لائے.محترم مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ (اور) محترم صاحبزادہ صاحب ( مرزا وسیم احمد ) کے ہمراہ (خاکسار) ان سے ملنے کے لئے گیا.محترم میاں صاحب نے چائے کے موقعہ پر ان کی خدمت میں ایک انگریزی نسخہ قرآن مجید کا پیش کیا.176
تاریخ احمدیت.جلد23 319 سال 1965ء ڈنمارک میں کشمیر کمیٹی کا قیام ڈنمارک کے احمدی احباب نے دسمبر ۱۹۶۵ء میں کشمیریوں کی جد وجہد آزادی کی حمایت کے لئے کشمیر کمیٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی.جس کے روح رواں ڈنمارک کے نامور نو احمدی جناب عبدالسلام میڈسن صاحب تھے.اس بارہ میں اخبار پاکستان ٹائمنز (لاہور) نے اپنی ۱۴ دسمبر ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر شائع کی:.(انگریزی متن ) Danish Muslims form Kashmir Committee KARACHI, Dec.13: Danish Muslims have formed a Kashmir Committee to support the freedom struggle of the Kashmiris, according to information reaching here.They propose to collect funds for the Kashmiris besides starting a campaign to enlighten the Danish people about the righteousness of the freedom fight of Kashmiri people.Recently Mr.Abdus Salam Madsen, a Danish Muslim and member of the organising committee of the movement, appeared thrice on the Danish television with an Indian journalist and explained the genesis of the Kashmir problem besides rebutting the arguments of the Indian journalist.About the 'dialogue' between the Indian and Mr.Madsen, 'Folkeskolen', a Danish weekly, wrote that Mr.Madsen was the winner as he had all the arguments on his side.In Finland, the National Finnish Radio and Television Company recently posed a question about Kashmir to elicit the opinion of its listeners whether they favoured Kashmir joining Pakistan or India.The overwhelming majority of replies from the people gave the verdict that Kashmir should go to Pakistan.This
تاریخ احمدیت.جلد 23 320 سال 1965ء was widely publicised in Finland through the National Press.PPA.(ترجمہ) ڈنمارک کے مسلمانوں نے کشمیر کمیٹی بنالی کراچی.یہاں پہنچنے والی اطلاعات کے مطابق ڈنمارک (سکنڈے نیویا ) کے مسلمانوں نے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے کے لئے ایک کشمیر کمیٹی تشکیل دی ہے.یہ کمیٹی کشمیریوں کی امداد کے لئے چندہ اکٹھا کرے گی.اور ڈنمارک کے لوگوں کو کشمیریوں کی جنگ آزادی سے متعارف کرانے کے لئے ایک تحریک چلائی جائے گی.حال ہی میں ڈنمارک کے ایک مشہور مسلمان جناب عبدالسلام میڈسن (احمدی) نے جو اس تحریک کی مجلس منتظمہ کے رکن بھی ہیں.ڈنمارک ٹیلی وژن پروگراموں میں تین دفعہ ایک بھارتی صحافی کے ساتھ شرکت کی اور مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی.انہوں نے بھارتی صحافی کے (بودے ) دلائل کا مسکت جواب بھی دیا.جناب میڈسن اور بھارتی صحافی کے درمیان اس مکالمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈنمارک کے ایک ہفتہ وار اخبار FOLKESKOLEN نے لکھا ہے کہ اس مباحثہ میں میدان جناب میڈسن کے ہاتھ رہا.کیونکہ ان کے دلائل ہمہ پہلو حاوی نظر آتے تھے.کچھ دن پہلے فن لینڈ میں قومی ریڈیو اور ٹیلی وژن نے سامعین کے سامنے کشمیر کا سوال رکھتے ہوئے اس کے پاکستان یا بھارت سے الحاق کے بارے میں رائے معلوم کرنا چاہی تھی.لوگوں کی غالب اکثریت نے یہ فیصلہ دیا کہ کشمیر پاکستان کو ملنا چاہیئے.فن لینڈ کے قومی پریس میں اس فیصلہ کی وسیع اشاعت ہوئی ہے.177 ایک عظیم روحانی انقلاب کی خبر خبر دی: ۱۰دسمبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفہ المسح الثالث نے القائے ربانی کے تحت خطبہ جمعہ کے دوران یہ میں جماعت کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ چھپیں تھیں سال جماعت احمد یہ کے لئے نہایت ہی اہم ہیں.کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب عظیم پیدا ہونے والا
تاریخ احمدیت.جلد 23 321 سال 1965ء ہے.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کونسی خوش بخت قو میں ہوں گی.جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہونگی.وہ افریقہ میں ہونگی یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں.لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ دن دُور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک اور علاقے پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کر لے گی اور وہاں کی حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرُ (الـمـدثـر : ۸) خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ جب میں تمہیں ان نعمتوں سے نوازوں تو تمہارا فرض ہوگا کہ تم بنی نوع انسان سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو.اور ان کی ایذاء دہی کو خدا کی خاطر سہہ لو.اگر ان کے منہ سے سخت کلمات نکلیں.اگر وہ بے ہودہ حرکتیں کریں.اگر وہ تمہیں چڑا ئیں تو باوجود اس کے کہ تم انہیں اپنی طاقت سے خاموش کرا سکتے ہو.اور انہیں بے ہودہ حرکتوں سے باز رکھ سکتے ہو.ہم تمہیں یہی کہتے ہیں کہ ہماری رضا کی خاطر صبر سے کام لینا.اور ان پر سختی نہ کرنا.پس اپنے رب کو خوش کرنے کے لئے ، اسکی برکات کے حصول کے لئے اسکی رحمتوں کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ تم صبر سے کام لو ٹھیٹھے کے مقابلہ میں ٹھٹھا اور ہنسی کے مقابلہ میں ہنسی اور ظلم کے مقابلہ میں ظلم نہ کرو.وہ زمانہ چونکہ قریب ہے اس لئے میں آپکو پھر تا کید سے کہتا ہوں.کہ جب کسی قوم پر اس قسم کی عظیم نعمتیں نازل ہورہی ہوں تو اس قوم کو بھی ایک عظیم قربانی دینی پڑتی ہے پس اپنے نفسوں کو اس قربانی کے لئے تیار کرو.اپنی طبیعتوں کو اس طرف مائل کرو کہ ہم احمدیت کے لئے ، اسلام کے لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں گاڑنے کے لئے خدائے قادر و توانا کے جلال اور عظمت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے کسی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے.ہماری جانیں ، ہمارے مال اور ہماری عزتیں سب خدا کے لئے ہیں.اور خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہیں.اگر ہماری جماعت ایثار اور فدائیت کا یہ نمونہ دکھائے تو اللہ تعالیٰ اس جماعت کو دین و دنیا کی حسنات سے کچھ اس طرح نوازے گا.کہ دنیا کے لئے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ ہو جائے گی.“
تاریخ احمدیت.جلد 23 322 سال 1965ء اس ضمن میں مزید فرمایا: دم ابھی ابھی مجھے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کا وہ کشف یاد آ گیا.جس میں ان کو دو تین سو سال بعد کا نظارہ دکھایا گیا کشف میں انہوں نے دیکھا.کہ بعد میں آنے والے لوگ آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ کس قدر احمق تھے وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا.اتنی بڑی صداقت، اتنے روشن اور واضح دلائل ، خدا کی نصرت کے اتنے نمایاں نمونے دیکھنے کے بعد کیا وجہ ہوسکتی تھی کہ انہوں نے مسیح محمدی کے قبول کرنے سے انکار کر دیا.مطلب یہ کہ آنے والی نسلیں نہ ماننے والوں کو بڑی تعجب کی نگاہ سے دیکھ رہی تھیں.ایسا ہی ہوگا.یہ ایک حقیقت ہے.جس کور ڈ نہیں کیا جا سکتا.اور وہ وقت قریب آ رہا ہے.جب دنیا انکار مہدی معہود کو حیرت و استعجاب سے دیکھے گی اگر چہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی فتح نصرت اور کامیابی کا انتہائی زمانہ تین سوسال تک بتایا ہے لیکن حضور کے بعض کشوف اور الہامات یہ بتاتے ہیں کہ وہ آخری فتح جس میں اسلام دنیا پر غالب آجائیگا شائد کچھ دیر چاہتی ہو.لیکن ان آنیوالے چھپیس تمہیں سالوں میں بعض ممالک اور علاقوں میں احمدیت کو کثرت حاصل ہو جائے گی.(انشاء اللہ ) اور وہاں کے رہنے والے اپنی زندگیاں تعلیم احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے مطابق گزارنے والے ہوں گے مگر اس انقلاب عظیم کے لئے جو دروازہ پر کھڑا ہے.کتنی ہی قربانیاں ہیں جو آپ کو دینی ہوں گی.پس آپ کو وہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش آپ پر کرنا چاہتا ہے.لیکن پہلے وہ دیکھے گا کہ آپ ان فصلوں کے متحق بھی ہیں یا نہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا قادیان کے جلسہ سالانہ پر پیغام 178 ۱۱ ۱۲ ۱۳ دسمبر ۱۹۶۵ء کو قادیان دارالامان میں ۷۴ ویں جلسہ سالانہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 323 سال 1965ء ہندوستان کے طول وعرض سے شمع احمدیت کے پانچو پروانے جمع ہوئے.جلسہ کے پہلے اور دوسرے روز جالندھر ریڈیو کے نمائندے بھی موجود تھے.۱۵ دسمبر کو جلسہ کی کارروائی کا ایک حصہ نشر کیا گیا.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اس روح پرور اجتماع کے لئے نہایت اہم پیغام ارسال فرمایا جو احمد یہ مشن رنگون کے توسط سے بذریعہ تار قادیان پہنچا.یہ پیغام حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر جماعت قادیان نے اپنی افتتاحی تقریر کے بعد پہلے اجلاس میں پڑھ کر سنایا.پیغام کا انگریزی متن معہ ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر MESSAGE Dwellers on Sacred and Holy Soil and Ardent Pilgrims flocking there.Assalam-o-Alaikum-wa-Rahmatullah-wa-Barakatohu.God grant that you always live under angels' protection.May Allah's mercy and blessings remain over you like cool shielding shadow and turn you all into noble and worthy models for others to follow.May your hearts be properly moulded for Divine Light to shine therefrom.May you be invested with attraction and charm to draw whole world unto you.May you live always in perfect peace and unity well always occupied with sympathy, loving service and desire for welfare of mankind so that world around you be in deep gratitude to you.May you never feel need knocking other doors than of the Beneficent Lord.Always
تاریخ احمدیت.جلد 23 324 سال 1965ء remember us in your prayers.Allah be with you all.Amen Mirza Nasir Ahmad Khalifatul Masih III Imam Jamat Ahmadiyya ترجمہ: اے ارض پاک کے رہنے والو، اور اے جلسہ سالانہ میں شامل ہونے والے مشتاق زائرین السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.خدا کرے آپ ہمیشہ فرشتوں کی حفاظت میں رہیں اور خدا تعالیٰ کا رحم اور اس کا فضل ہمیشہ آپ پر ایک ٹھنڈے اور محافظ سامیہ کی طرح قائم رہے.خدا تعالیٰ آپ تمام کو نیک اور دوسروں کے لئے قابل تقلید اعلیٰ نمونہ بنائے.خدا کرے آپ کے دل ایسے بن جائیں کہ ان سے ہمیشہ روحانی شعاعیں پھوٹتی رہیں.اور خدا تعالیٰ آپ کو ایسی دلکشی اور حسن عطا کرے کہ ساری دنیا آپ کی طرف کھینچتی چلی آئے.خدا کرے آپ ہمیشہ مکمل امن اور اتحاد کے ساتھ رہیں.اور آپ کے دلوں میں انسانیت کے لئے ہمدردی، بہبود اور پُر خلوص خدمت کا جذبہ موجزن رہے.تا کہ دُنیا آپ کی ہمیشہ ممنون اور شکر گزار رہے.اللہ کرے آپ کو رحیم وکریم خدا کے دروازے کے سوا کسی اور کا دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت پیش نہ آئے.آپ ہمیشہ ہمیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.خدا تعالیٰ آپ تمام کے ساتھ ہو.آمین.مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث - امام جماعت احمدیہ ( مورخه ۹ نومبر ۱۹۶۵ء - براستہ رنگون احمد یہ مشن ) بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک 179 ۷ دسمبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اپنے عہد خلافت کی پہلی تحریک فرمائی جو بھوکوں کوکھانا کھلانے سے متعلق تھی.چنانچہ فرمایا: آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا.دیکھو میں یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا.اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کرنے کے قابل نہ ہو تو
تاریخ احمدیت.جلد 23 325 سال 1965ء آپ کا فرض ہے کہ مجھے اطلاع دیں.میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں.کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کردوں.انشاءاللہ تعالیٰ یہ ایک بڑی اہم ذمہ داری ہے.آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو ہر وقت یا درکھیں اور اس کے متعلق ہر وقت سوچتے رہیں.کیونکہ یہ ایک ایسی بات ہے.جس پر عمل کرنے سے بڑے خوش کن نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.وہ قوم جس کے ہر فرد کو معلوم ہو کہ میری ذمہ داری ساری قوم نے اپنے سر پر اٹھائی ہوئی ہے.اس کے دل میں کتنا سکون اور کتنا اطمینان ہوگا.اور اپنے رب کی حمد کے کتنے گہرے جذبات اس کے دل میں موجزن ہوں گے.اور اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کتنی محبت جوش میں آئیگی؟ ایک پر امن ، پُرسکون ، اخوت والا، محبت والا ، پیار والا معاشرہ قائم ہو جائیگا.جس پر دنیا رشک کرنے لگے گی“.مخلصین جماعت نے اپنے پیارے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس فریضہ کی طرف خصوصی توجہ دی.جس تک بھی یہ آواز پہنچی اس نے شاندار طرز عمل اور مظاہرہ کرتے ہوئے لبیک کہا اور اپنے ماحول میں تمام احمدی احباب کا جائزہ لے کر ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی.اس عظیم تحریک کا فیض صرف احمدی احباب تک ہی محدود نہ رہا بلکہ اس کے فیض واثرات سے غیر احمدی بھی متع ہونے لگے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام احمدی بچوں کے نام حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے دسمبر ۱۹۶۵ء کے آخر میں احمدی بچوں کی عالمی تنظیم اطفال الاحمد یہ کے نام بھی ایک روح پرور پیغام دیا.جس کا متن درج ذیل ہے.پیارے بچو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا.اور دنیا کی سب قومیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.اور یہ کام خدائے غفور ورحیم نے جماعت احمدیہ کے سپرد کیا ہے.اور آپ اس جماعت کے اطفال ہیں.بڑے ہو کر آپ نے تبلیغ اسلام اور قوموں کی تربیت کی ذمہ داری
تاریخ احمدیت.جلد 23 326 سال 1965ء سنبھالنی ہے.اس لئے ضروری ہے کہ آپ اسی عمر میں دین کی باتیں سیکھیں.اور خدا اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیارا اپنے دلوں میں پیدا کریں.آپ کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی گئی.امید ہے کہ آپ اس کے پروگرام میں شوق سے حصہ لیتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا کرے.آمین مرزا ناصر احمد خلیفة أسبح الثالث ا 181 حضور کا یہ پیغام کتاب طفل امروز قائد فردا میں اشاعت پذیر ہوا.جو جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء کے موقع پر مجلس اطفال الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے چھپی تھی.اور مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر کی تالیف تھی.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا پہلا سالانہ جلسہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی لمصلح الموعود نے رمضان المبارک کے پیش نظر جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء کے لئے انیس ، ہیں ، اکیس دسمبر کی تاریخوں کی منظوری عطا فرمائی تھی.چنانچہ خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا پہلا جلسہ سالانہ انہی تواریخ پر انعقاد پذیر ہوا.اور یہ حقیقت ہے کہ اس جلسہ کی راہ میں بہت سی مشکلات تھیں.اول تو پاکستان اور بیرونی ممالک سے پچاس ہزار مخلصین ۸ نومبر کو حضرت مصلح موعود کے وصال پر ربوہ تشریف لا چکے تھے.دوسرے اس جلسہ کے ایام میں عام تعطیلات نہ تھیں.تیسرے پاکستان کے تعلیمی اداروں میں امتحانات ہورہے تھے.چوتھے تازہ پاک بھارت جنگ کے نتیجہ میں ہنگامی حالات رُونما ہو چکے تھے.اور لوگوں کے لئے فراغت کا حصول نہایت درجہ مشکل ہو چکا تھا.لیکن ان تمام رکاوٹوں کے باوجود اس عظیم الشان اور تاریخ ساز انقلاب آفریں روحانی اجتماع میں اتنی ہزار سے زائد طیورا برا نہی شامل ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ایمان افروز تقاریر اس جلسہ کی رونق حضرت خلیفہ المسیح الثالث کاوجود مقدس اور اس کی روح رواں حضور کی حقائق و معارف سے لبریز اور وجد آفریں تقاریر تھیں.جن کی مسحور کن کیفیت نے ایک کیف آور سماں باندھ دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 327 سال 1965ء ایمانوں کو ایک نئی تازگی اور قلوب واذہان کو ایک نئی جلا بخشی.روحوں کو نئی بالیدگی سے ہمکنار کیا.اور ہر دل زبانِ حال سے پکار اٹھا کہ فی الواقعہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے.اور پھر جسے خلافت کے منصب جلیلہ پر فائز فرماتا ہے.اس کو علوم و معارف کے بے شمار خزانے بھی عطا کر دیتا ہے.اس کی زبان اور بیان کو غیر معمولی اعجاز سے نوازتا ہے.وہی اسے جذب وکشش اور قوت قدسی سے مالا مال کرتا ہے.وہی مومنین کے قلوب پر تصرف کر کے اسے اس کی بے پناہ محبت و عقیدت اور جانثاری اور فدا کاری کا مستحق ثابت کر دکھاتا ہے.اور پھر اس کے لئے آسمانی نصرتوں اور تائیدوں کے لاتعداد دروازے کھول دیتا ہے.یہی آسمانی نشان ۱۹۶۵ء کے اس تاریخی جلسہ کے موقع پر چشم فلک نے دیکھا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی اس مبارک تقریب پر افتتاحی خطاب کے علاوہ بھی درج ذیل تین نہایت ہی ایمان افروز اور روح پرور تقاریر ہوئیں..احمدی خواتین سے پر معارف خطاب (۲۰ دسمبر.اجلاس اوّل) اہم جماعتی اور قومی امور پر بصیرت افروز تقریر ( ۲۰ دسمبر.اجلاس دوم ).حضرت مصلح موعود کے عظیم الشان کارناموں کا ایمان افروز تذکرہ.(۲۱ دسمبر ) افتتاحی خطاب حضور نے تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.اے خدائے بزرگ و برتر کی برگزیدہ اور محبوب جماعت : خدا کرے کہ اس کے قرب کی راہیں آپ پر ہمیشہ کھلی رہیں..اے نور محمدی کے پروانو! خدا کرے کہ دنیا کی کوئی شمع کبھی تمہیں اپنی طرف مائل نہ کر سکے..اے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت گزار جماعت اور آپ کے جاشارو! خدا آپ کے نفوس اور اموال میں برکت ڈالے اور آپ ہمیشہ ان بشارتوں کے وارث بنے رہیں جو آسمان سے آپ کے لئے نازل کی گئی ہیں.اے مسیح موعود کے فیوض اور قوت قدسی سے تربیت یافتہ جماعت ! خدا کرے مصل
تاریخ احمدیت.جلد 23 328 سال 1965ء کہ آپ اس مقام تربیت سے کبھی نیچے نہ گریں..اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے.اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی.کہ آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور نا کارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے.کہ قیام تو حید اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جد و جہد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے شروع کی تھی.اور جسے حضرت مصلح موعود نے اپنے آرام کھو کر، اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے، اکناف عالم تک پھیلایا ہے.آپ اس جدو جہد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں گے.میری دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں.اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھوکا ہوں.میں نے آپ کی تسکین قلب کے لئے ، آپ کے بار ہلکا کرنے کے لئے ، آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے ، اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے.اور مجھے پورا یقین اور پورا بھروسہ ہے اُس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رو نہیں کرے گا.“ ان پُر درد اور نہایت درجہ اثر انگیز کلمات طیبات کے بعد حضور نے احباب جماعت کو تحریک فرمائی کہ ہم خدا تعالیٰ کی محبت کی تلاش میں یہاں جمع ہوئے ہیں پس اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ دعاؤں میں خرچ کریں.جلسہ کے دوران بے آرامیاں بھی سہنی پڑیں تو بشاشت کے ساتھ برداشت کریں.اپنی دعاؤں میں اکناف عالم میں پھیلے ہوئے خدامِ دین ، اپنے لاکھوں ہموطن بھائیوں اور کشمیر کے مسلمان بھائیوں کو ضرور یادرکھیں کہ ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں.وہ قیدیوں کی طرح ہیں.اور راہ نجات ان پر بند نظر آ رہی ہے.لیکن ہمارا خدا بڑی طاقتوں والا اور بڑی قدرتوں والا خُدا ہے.وہ اگر چاہے تو ایک آن میں اُن کے حالات کو بدل سکتا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 آخر میں فرمایا: 329 سال 1965ء پچھلے دنوں ہر نماز میں اپنے رب سے خاص طور پر میں یہ دعا کرتا رہا ہوں کہ اے خدا! تو ہمارے کمزوروں کو طاقت بخش اور ہمارے بیماروں کو شفا دے.اور ہم سب کی پریشانیوں کو دُور فرما.اور ہمارے اندھیروں کو ٹور سے بدل دے.اور ہم پر اپنی بڑی رحمتیں نازل کر اور ہمارے دلوں کو اپنی محبت سے بھر دے.اور احمدیت کو جس مقصد کے لئے قائم کیا گیا ہے.ہمیں اس مقصد میں جلد تر کامیابی عطا فرما تا کہ ہم اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھ لیں کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہوگئی ہے.183 احمدی خواتین سے پُر معارف خطاب حضور کا یہ خطاب نہایت بیش قیمت ہدایات اور نصائح پر مشتمل تھا جس میں حضور نے احمدی خواتین کو تاکید فرمائی کہ اپنے اوقات کو ضیاع سے بچانے اور اعمال صالحہ سے معمور کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں.بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت سمندر کی طرح موجزن ہو.اور وہ دین کی خاطر ہر وقت ہر قربانی کرنے کے لئے تیارر ہیں.حضور نے خواتین کو اپنے شب وروز دعاؤں سے معمور رکھنے کی زبر دست تلقین فرمائی.اور اس ضمن میں اُن کے سامنے اپنی ایک مثال بیان فرمائی اور بتایا کہ: ایک دن میں اپنے کالج کے دفتر میں بیٹھا تھا.طالب علموں کے فارم یونیورسٹی میں جانے تھے.دفتر کے ایک کلرک نے ڈیڑھ دوسو فارم میرے سامنے رکھ دیئے.ان فارموں پر میں نے دستخط کرنے تھے.اور یہ کام قریباً پندرہ بیس منٹ کا تھا.دستخط کرنے کا کام ایسا نہیں جس کے لئے ذہنی طور پر توجہ کی ضرورت ہے.اس لئے میں ان فارموں پر دستخط بھی کرتا رہا.اور ساتھ ساتھ درود بھی پڑھتا رہا.دو تین منٹ کے بعد مجھے خیال آیا کہ میں اپنے ایک بھائی کو نیکی سے محروم کر رہا ہوں.چنانچہ میں نے اس کلرک کو جو میرے پاس کھڑا تھا.کہا.دیکھو میں فارموں پر دستخط کر رہا ہوں اور درود بھی پڑھ رہا ہوں.تمہیں اس وقت کوئی کام نہیں تم صرف میرے دستخطوں کے بعد فارم اٹھا رہے ہو.تم فارم بھی اٹھاتے رہو اور ساتھ ساتھ مختصر سا درود اللهم صلّ
تاریخ احمدیت.جلد23 330 سال 1965ء علی محمد و آل محمد بھی پڑھتے رہو.تو تمہیں اس میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوگی.کام بھی کرتے رہو گے اور درود بھی پڑھتے رہو گے چنانچہ اس کلرک نے درود پڑھنا شروع کر دیا اور جب میں نے فارموں پر دستخط کئے.تو اس نے بڑا بشاش چہرہ بنا کر مجھے بتایا کہ میاں صاحب! میں نے اتنی بار ( اس نے دو تین سو کے درمیان مجھے کوئی عدد بتایا ) درود پڑھ لیا ہے.184 166 اہم جماعتی اور قومی امور پر بصیرت افروز تقریر حضرت مصلح موعود کے اسوۂ حسنہ کے مطابق حضور نے ۲۰ دسمبر کو جلسہ کے دوسرے دن کے اجلاس دوم میں اس ایمان افروز تقریر میں عمومی رنگ کے بعض اہم امور پر روشنی ڈالی.اور سب سے پہلے سلسلہ کے نئے مطبوعہ لٹریچر خرید نے اور اس سے استفادہ کی تحریک کرتے ہوئے سب سے اوّل یہ اصولی وضاحت فرمائی کہ : ”ہمارے لٹریچر میں بنیادی اہمیت کی حامل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہیں.اور ان کے بعد خلفاء کی کتب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوعلم کا اتنا بڑا اخزانہ عطا کیا گیا تھا کہ اس میں قیامت تک پیدا ہونے والے مسائل حل کرنے کے لئے ضروری مواد موجود ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بعد علم کا دروازہ بند ہو گیا ہے.اللہ بڑا دیالو ہے.اس نے چاہا ہے کہ علم کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں.چنانچہ ہر سال ایسی کتب شائع ہوتی ہیں.جو واقعی بڑی کارآمد اور مفید ہوتی ہیں.جن کو خدا نے توفیق دی ہے.انہیں نئی کتب تصنیف کرنے میں پوری جد و جہد کرنی چاہئیے.درجنوں کتب اعلی علمی معیار کی ہر سال شائع ہونی چاہئیں جو حضور کے پیش کردہ دلائل پر مشتمل ہوں.ان میں نیا مواد شائع نہ بھی ہو.تو بھی وہ دنیا پر یہ ثابت کریں گی کہ جس طرح قرآن مجید ایک زندہ کتاب ہے اسی طرح حضور کی کتب بھی ایک زندہ لٹریچر کی حیثیت رکھتی ہیں.جس میں سے نئے نئے معارف نکلتے چلے آتے ہیں اور ان کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا.“ ازاں بعد حضور نے سلسلہ احمدیہ کے نظام، صدرانجمن احمد یہ اور اس کے دائرہ کار تحریک جدید
تاریخ احمدیت.جلد 23 331 اور اس کے قیام کی غرض ، وقف جدید اور اسکی اہمیت پر روشنی ڈالی.اور فرمایا: سال 1965ء اگر آپ تحریک جدید، وقف جدید اور صد را مجمن احمدیہ کے لئے حسب ضرورت مبلغین مہیا کرنے کی ذمہ داری اُٹھا لیں تو خدا تعالیٰ تھوڑے ہی عرصے میں دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دے گا.“ ازاں بعد حضور نے جماعت کی ذیلی تنظیموں کے فرائض بیان فرمائے اور انہیں توجہ دلائی کہ آئندہ سال وہ اپنی تمام مجالس کو باقاعدہ منظم اور فعال بنائیں.علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کو حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حسب ذیل الہام بطور ماٹو عطا فرمایا: تیری عاجزانہ راہیں اس کو پسند آئیں.حضور نے تاکیدی الفاظ میں فرمایا.66 خدام الاحمدیہ کو عجز وانکسار، تذلل اور تواضع کا نمونہ ہونا چاہئیے.یہ کوئی دنیوی جماعت نہیں.یہ ایک دینی جماعت ہے.اس کے ہر فرد کا عجز وانکسار، تذلل اور تواضع کے اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے.جب خدا کے مسیح کو عاجزانہ را ہیں اختیار کرنے کی ضرورت تھی تو ہم متبعین کو بدرجہ اولیٰ عاجزانہ راہوں کی ضرورت ہونی چاہیے اور ہے.66 ان اہم جماعتی امور پر بلیغ روشنی ڈالنے کے بعد حضور نے پاک بھارت جنگ کے دوران ظاہر ہونے والی خدائی قدرتوں اور نصرتوں کے عظیم الشان جلووں کا اس ولولہ انگیز انداز میں تذکرہ فرمایا کہ فضانعروں سے گونج اٹھی.پھر حضور انور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ان پیہم اور مسلسل افضال پر اگر ہم قیامت تک اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں تو بھی شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا.جماعت احمدیہ کو اور پوری پاکستانی قوم کو ان غیر معمولی افضال پر جو اللہ تعالیٰ نے اس پر نازل کئے ہیں صحیح معنوں میں اس کے شکر گزار بندے بننے کی کوشش کرنی چاہیے.ضمناً میں یہ بتا دیتا ہوں کہ شکر کس طرح ادا کیا جاتا ہے.شکر کا پہلا اور سب سے مقدم طریق یہ ہے کہ ہم کامل تو کل صرف اللہ تعالیٰ پر ہی
تاریخ احمدیت.جلد 23 332 سال 1965ء رکھیں.مادی طاقتیں اور ان کے مادی اسباب و وسائل کتنے ہی زیادہ اور عظیم کیوں نہ ہوں ہم ان سے کبھی مرعوب نہ ہوں.وہ خدا کے مقابلہ میں اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتیں جتنی حیثیت مٹی کا ایک ذرہ رکھتا ہے.شکر کا دوسرا طریق یہ ہے کہ ہم اپنی مادی کمزوری اور قلت تعداد کی وجہ سے کبھی مایوس نہ ہوں وہ خدا جس کے گن کہنے سے دنیا پیدا بھی ہو جاتی اور فنا بھی ہو جاتی ہے.چشم زدن میں ہماری کمزوری کو طاقت میں اور قلت کو کثرت میں بدل سکتا ہے.جیسا کہ اس نے حالیہ جنگ میں کر کے دکھا دیا.پس شکر کا ایک طریق یہ ہے کہ ہم مایوسی کو قریب نہ آنے دیں اور خدا پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے اس بات پر یقین رکھیں کہ ہمارا خدا ضرور ہماری مدد کرے گا اور ہمیں کامیابی عطا فرمائے گا.شکر کا تیسرا طریق ہمارے خدا نے ہم کو یہ بتایا ہے کہ مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمُ يَشْكُرِ الله کہ جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار نہیں ہوتا.پس ہم پر اللہ تعالیٰ ہی کا نہیں بلکہ اپنے محسنوں کا شکر بھی واجب ہے.اس لئے ہم کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہر وہ فرد اور ہر وہ ملک جس نے اس نازک موقع پر پاکستان کی مدد کی ہے ہم ان کے شکر گزارر ہیں گے اور کبھی ان سے بے وفائی نہیں کریں گے.اگر ہم اس طرح اور اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کے احسانوں پر اس کے شکر گزار بنیں گے تو وہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : ۸) کے وعدہ کے مطابق پہلے سے بھی زیادہ فضل کے ساتھ ہم کو نوازے گا اور آئندہ ہمیں پہلے سے بھی بڑھ کر کامیابیاں عطا فرمائے گا.اے خدا تو ہمیں صحیح معنوں میں اپنے شکر گزار بندے بنا اور ہم کو اپنے اُن فضلوں سے نواز جن سے تو اپنے شکر گزار بندوں اور قوموں کو ہمیشہ نوازتا چلا آیا ہے.(آمین) 187 حضرت مصلح موعود کے عظیم الشان کارناموں کا ایمان افروز تذکرہ حضور نے اس تاریخی جلسہ سالانہ کے آخری اجلاس میں پیشگوئی مصلح موعود کی ایک ایک صفت کو بیان کر کے ثابت فرمایا کہ وہ لفظاً لفظاً پوری ہو چکی ہے.اور ہم سب اس کے شاہد ہیں.حضور نے اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 333 سال 1965ء ایمان افروز تقریر میں حضرت مصلح موعود کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ اس درجہ شرح وبسط سے فرمایا کہ گویا دن ہی چڑھا دیا.اس یاد گار تقریر کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا:.اس پیشگوئی میں جو دوسری بات ہمیں مصلح موعود کے متعلق بتائی گئی ہے یہ ہے کہ: وہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“ اور یہ اس لیے کہ ” تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں“ ہم میں سے ہزاروں لاکھوں نے خود مشاہدہ کیا کہ قرآن کریم کی کچی متابعت اور اس مطہر صحیفہ سے کامل محبت اور اخلاص کے فیض سے اس پاک وجود مصلح موعود کی نظر اور فکر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو تمام فیوض کا سر چشمہ ہے ایک نورعطا ہوا جس سے علم الہی کے عجیب وغریب لطائف اور نکات جو کلام الہی اور کتاب مکنون میں پوشیدہ تھے اس پر کھلنے لگے اور دقیق معارف ابر ئیساں کے رنگ میں اس پر برسنے لگے اور خدائے وہاب نے اپنی رحمانیت سے اس کے فکر اور نظر کو ایک ایسی برکت عطا کی کہ اس کے آئینہ فکر ونظر پر کامل صداقتیں منکشف ہونے لگیں ، سو جو جو علوم ومعارف اور دقائق و حقائق اور لطائف و نکات اور ادلّہ وبراہین اسے سو جھے اور جنہیں اس نے تفسیر کبیر اور اپنی دوسری کتب میں بیان کیا وہ اپنی کمیت اور کیفیت میں ایسے کامل مرتبہ پر واقع ہیں کہ جو یقیناً خارق عادت ہے اور جس کا مقابلہ کسی دوسرے کے لیے ممکن نہیں کیونکہ تفسیر کا خارق عادت معجزہ اس کی کسی ذاتی خوبی کی وجہ سے نہیں تھا.بلکہ اسے غیبی تفہیم اور خدائے صدر اور قدوس کی تائید سے اس نے لکھا تھا اور یہی خوارق اس کا عالی منزلت اور حسن و احسان میں مسیح محمدی کا تمثیل ہونا ثابت کرتے ہیں اور خدائی بشارات والہی تفہیم کے مطابق دین و دنیا کے علوم و نکات کے بیان میں وہ اپنے ہم عصروں سے اس قدر سبقت لے گیا کہ اس کی تقریروں کو سن کر اور اس کی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد اپنے اور پرائے اس اعتراف پر مجبور ہوئے کہ اس کے بیان کردہ علوم و معارف ایک دوسرے ہی عالم سے ہیں جن کا دنیوی تعلیم و تدریس
تاریخ احمدیت.جلد 23 334 سال 1965ء سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور جو تائیدات الہیہ کے خاص رنگ سے رنگین ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت نے حضرت مصلح موعود کو علوم ظاہری اور باطنی میں جو برتری عطا کی تھی اور اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنے کے لیے جو قو تیں آپ کو بخشی گئیں ان کو دنیا پر ثابت کرنے کے لیے آپ نے متعدد بار للکارا.مگر کوئی نہ تھا جو آپ کے مقابلہ پر آنے کی جرات کرتا.۱۹۱۷ء میں آپ نے تمام دنیا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں چیلنج دیا: میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد تمام دنیا کو پہینچ دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور آکر ہم سے مقابلہ کرے.مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ خدا تعالیٰ ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جب کہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوتے ہیں اور یہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے.اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو آئے اور آزمائے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.اگر کوئی ایسے لوگ ہیں جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں.ان کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں.اگر خدا کو ان سے محبت ہوگی تو وہ مقابلہ میں ضرور ان کی مدد اور تائید کرے گا.میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ مقابلہ پر آئیں تا کہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس کی دعا سنتا ہے.آپ لوگوں کو چاہیے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کے لیے کھڑا کریں.لیکن اس کے لیے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کھڑا ہوکر کہہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں.بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہیے جو کسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں.اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہوگی افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں.اگر وہ مقابلہ کیلئے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کرنے کی انہیں جرات ہی نہ رہے گی.188
تاریخ احمدیت.جلد 23 335 سال 1965ء ۱۹۳۶ء میں آپ نے فرمایا: قرآن کریم کو وہ عظمت حاصل ہے جو دنیا کی اور کسی کتاب کو حاصل نہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کی مذہبی کتاب بھی اس فضیلت کی حامل ہے تو میں چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی وید کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی توریت کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے.اگر کوئی انجیل کا پیرو ہے تو وہ میرے سامنے آئے اور قرآن کریم کا کوئی ایسا استعارہ میرے سامنے رکھ دے جس کو میں بھی استعارہ سمجھوں.پھر میں اس کا حل قرآن کریم سے ہی نہ پیش کر دوں تو وہ بیشک مجھے اس دعویٰ میں جھوٹا سمجھے.لیکن اگر پیش کر دوں تو اسے ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں قرآن کریم کے سوا دنیا کی اور کوئی کتاب اس خصوصیت کی حامل نہیں.189 166 ۱۹۳۴ء میں آپ نے فرمایا: صرف یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہی یہ بات تھی بلکہ آپ آگے بھی یہی چیز دے گئے ہیں.اور آپ کے طفیل مجھے بھی ایسے قرآن کریم کے معارف عطا کیے گئے ہیں کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی علم کا جانے والا ہو اور کسی مذہب کا پیرو ہو، قرآن کریم پر جو چاہے اعتراض کرے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قرآن سے ہی اس کا جواب دونگا.میں نے بار ہا دنیا کو چیلنج کیا ہے کہ معارف قرآن میرے مقابلہ میں لکھو.حالانکہ میں کوئی مامور نہیں ہوں مگر کوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوا.اور اگر کسی نے اسے منظور کرنے کا اعلان بھی کیا تو بے معنی شرائط سے مشروط کر کے ٹال دیا.مثلاً یہ کہ بند کمرہ ہو.کوئی کتاب پاس نہ ہو.مگر اتنا نہیں سوچتے کہ اگر خیال ہے کہ میں پہلی کتب اور تفاسیر سے معارف نقل کرلوں گا.تو وہی کتب تمہارے پاس بھی ہوں گی.تم بھی ایسا ہی کر سکتے ہو.پھر اگر میں دوسری کتب سے نقل کرونگا.تو خود اپنے ہاتھ سے اپنی ناکامی ثابت کر دونگا.کیونکہ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ نئے معارف بیان کرونگا.لیکن مقابلہ کے وقت جب پرانی تفاسیر سے نقل کرونگا تو خود ہی میرے لیے شرمندگی اور ندامت کا موجب ہوگا.مگر میں جانتا ہوں یہ سب بہانے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ کسی کو سامنے آنے کی جرات ہی نہیں.190 66
تاریخ احمدیت.جلد 23 336 پھر مارچ ۱۹۴۴ء میں آپ نے دنیا کوللکارا اور چینج کیا کہ: سال 1965ء اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے کہ جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی نجی مل چکی ہے.دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کرسکوں.یہ لاہور شہر ہے یہاں یو نیورسٹی موجود ہے.کئی کالج یہاں کھلے ہوئے ہیں.بڑے بڑے علوم کے ماہر اس جگہ پائے جاتے ہیں میں ان سب سے کہتا ہوں دنیا کے کسی علم کا ماہر میرے سامنے آجائے.دنیا کا کوئی پروفیسر میرے سامنے آجائے ، دنیا کا کوئی سائنس دان میرے سامنے آجائے اور وہ اپنے علوم کے ذریعہ قرآن کریم پر حملہ کر کے دیکھ لے.میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ایسا جواب دے سکتا ہوں کہ دنیا تسلیم کرے گی کہ اس کے اعتراض کا رد ہو گیا.اور میں دعویٰ کرتا ہوں کہ میں خدا کے کلام سے ہی اس کو جواب دونگا اور قرآن کریم کی آیات کے ذریعہ سے ہی اس کے اعتراضات کو رد کر کے دکھا دونگا.پھر فرمایا: ایسا انسان جس کی صحت کبھی ایک دن بھی اچھی نہیں ہوئی.اس انسان کو خدا نے زندہ رکھا اور اس لیے زندہ رکھا کہ اس کے ذریعہ اپنی پیشگوئیوں کو پورا کرے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت کا ثبوت لوگوں کے سامنے مہیا کرے.پھر میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا.مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی انسان کے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے.وہ علم جو خدا نے مجھے عطا فرمایا اور وہ چشمہ روحانی جو میرے سینہ میں پھوٹا وہ خیالی یا قیاسی نہیں ہے بلکہ ایسا قطعی اور یقینی ہے کہ میں ساری دنیا کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر اس دنیا کے پردہ پر کوئی شخص ایسا ہے کہ جو یہ دعویٰ کرتا ہو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے قرآن سکھایا گیا ہے تو میں ہر وقت اس سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں.لیکن میں جانتا ہوں آج دنیا کے پردہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 337 سال 1965ء پر سوائے میرے اور کوئی شخص نہیں جسے خدا کی طرف سے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا گیا ہو.خدا نے مجھے علم قرآن بخشا اور اس زمانہ میں اس نے قرآن سکھانے کے لیے مجھے دنیا کا استاد مقرر کیا ہے.خدا نے مجھے اس غرض کے لیے کھڑا کیا ہے.کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیا کے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں.دنیا زور لگالے.وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمیعتوں کو اکٹھا کر لے.عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں.یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہو جائے.دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتور قو میں اکٹھی ہو جائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں نا کام کرنے کے لیے متحد ہو جائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی.اور خدا میری دعاؤں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کر دے گا.اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے طفیل اور صدقے اسلام کی عزت کو قائم کرے گا.اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گا جب تک اسلام پھر اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہو جائے اور جب تک محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے...میں اس سچائی کو نہایت کھلے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرتا ہوں یہ آواز وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی آواز ہے یہ مشیت وہ ہے جو زمین و آسمان کے خدا کی مشیت ہے یہ سچائی نہیں ملے گی.نہیں ملے گی اور نہیں ملے گی.اسلام دنیا پر غالب آکر رہے گا.مسیحیت دنیا میں مغلوب ہوکر رہے گی.اب کوئی سہارا نہیں جو عیسائیت کو میرے حملوں سے بچا سکے.خدا میرے ہاتھ سے اس کو شکست دے گا.اور یا تو میری زندگی میں ہی اس کو اس طرح کچل کر رکھ دے گا کہ وہ سراٹھانے کی بھی تاب نہیں رکھے گی.یا پھر میرے بوئے ہوئے پیج سے وہ درخت پیدا ہوگا.جس کے سامنے عیسائیت ایک خشک جھاڑی کی طرح مرجھا کر رہ جائے گی.اور دنیا میں چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا انتہائی بلندیوں پر اڑتا ہوا
تاریخ احمدیت.جلد 23 دکھائی دے گا.166 پھر آپ نے فرمایا: 338 سال 1965ء خدا تعالیٰ کی صفت علیم جس شان اور جس جاہ وجلال کے ساتھ میرے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئی.اس کی مثال مجھے خلفاء کے زمرہ میں اور کہیں نظر نہیں آتی.میں وہ تھا جسے کل کا بچہ کہا جاتا تھا، میں وہ تھا جسے احمق اور نادان قرار دیا جاتا تھا مگر عہدہ خلافت کو سنبھالنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجھ پر قرآنی علوم اتنی کثرت کے ساتھ کھولے کہ اب قیامت تک امت مسلمہ اس بات پر مجبور ہے کہ میری کتابوں کو پڑھے اور ان سے فائدہ اٹھائے.وہ کون سا اسلامی مسئلہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اپنی تمام تفاصیل کے ساتھ نہیں کھولا مسئلہ نبوت ، مسئلہ کفر، مسئلہ خلافت، مسئله تقدیر، قرآنی ضروری امور کا انکشاف، اسلامی اقتصادیات اسلامی سیاسیات اور اسلامی معاشرت وغیرہ پر تیرہ سو سال سے کوئی وسیع مضمون موجود نہیں تھا.مجھے خدا نے اس خدمت دین کی توفیق دی، اور اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہی ان مضامین کے متعلق قرآن کے معارف کھولے جن کو آج دوست دشمن سب نقل کر رہے ہیں.مجھے کوئی لاکھ گالیاں دے.مجھے لاکھ برا بھلا کہے.جو شخص اسلام کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے لگے گا.اسے میرا خوشہ چین ہونا پڑے گا.اور وہ میرے احسان سے کبھی باہر نہیں جا سکے گا، چاہے پیغامی ہو یا مصری، ان کی اولاد میں جب بھی دین کی خدمت کا ارادہ کریں گی وہ اس بات پر مجبور ہوں گی کہ میری کتابوں کو پڑھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں بلکہ میں بغیر فخر کے کہہ سکتا ہوں کہ اس بارہ میں سب خلفاء سے زیادہ مواد میرے ذریعہ سے جمع ہوا ہے اور ہو رہا ہے.پس مجھے یہ لوگ خواہ کچھ کہیں خواہ کتنی بھی گالیاں دیں ان کے دامن میں اگر قرآن کے علوم پڑیں گے تو میرے ذریعہ ہی.اور دنیا ان کو یہ کہنے پر مجبور ہوگی کہ اے نادانو! تمہاری جھولی میں تو جو کچھ بھرا ہوا ہے وہ تم نے اسی سے لیا ہے پھر اس کی مخالفت تم کس مونہہ سے کر رہے ہو.خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اس کے متعلق 193
تاریخ احمدیت.جلد 23 339 سال 1965ء میں نے بہت سی تفصیلات جمع کی تھیں لیکن اس وقت میں صرف وہ نقشہ ہی پیش کر سکتا ہوں جو میں نے اس غرض کے لئے تیار کروایا ہے.اور وہ یہ ہے.ا.تفسیر.اس سلسلہ میں حضور کی ایک کتاب تو تفسیر کبیر ہے جو خود اتنی عجیب تفسیر ہے کہ جس شخص نے بھی غور سے اس کے کسی ایک حصہ کو پڑھا ہوگا.وہ یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوگا.کہ اگر دنیا میں کوئی خدا رسیدہ بزرگ پیدا ہوتا.اور وہ صرف یہ حصہ قرآن کریم کا تفسیری نوٹوں کے ساتھ شائع کر دیتا.تو یہ اس کو دنیا کی نگاہ میں بزرگ ترین انسانوں میں سے ایک انسان بنانے کے لئے کافی تھا.لیکن اس پر ہی بس نہیں.قرآن کریم پر اور بہت سی کتب لکھیں اور میرا خیال ہے کہ حضور نے صرف قرآن کریم کی تفسیر پر ہی آٹھ دس ہزار صفحات لکھے ہیں.تفسیر کبیر کی گیارہ مجلدات اب دس جلدیں) بھی ان میں شامل ہیں.۲.کلام کے اوپر حضور نے دس کتب اور رسائل لکھے.۳.روحانیات، اسلامی اخلاق اور اسلامی عقائد پر اکتیس کتب اور رسائل تحریر فرمائے.۴.سیرت وسواخ پر تیرہ کتب ورسائل لکھے.۵.تاریخ پر چار کتب ورسائل.۶.فقہ پر تین کتب ورسائل..سیاسیات قبل از تقسیم ہند ۲۵ کتب و رسائل.سیاسیات بعداز تقسیم ہندو قیام پاکستان ۹ کتب ورسائل.۹.سیاسیات کشمیر پندرہ کتب اور رسائل.۱۰.تحریک احمدیت کے مخصوص مسائل و تحریکات پر ایک کم سو کتب ورسائل.ان سب کتب و رسائل کا مجموعہ ۲۲۵ بنتا ہے تو جیسا کہ فرمایا تھا کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا.ان پر ایک نظر ڈال لیں تو ان میں علوم ظاہری بھی نظر آتے ہیں اور علوم باطنی بھی نظر آتے ہیں اور پھر لطف یہ کہ جب بھی آپ نے کوئی کتاب یا رسالہ لکھا.ہر شخص
تاریخ احمدیت.جلد 23 340 سال 1965ء نے یہی کہا کہ اس سے بہتر نہیں لکھا جا سکتا.سیاست میں جب بھی آپ نے قیادت سنبھالی یا جب بھی آپ نے سیاست کے بارہ میں قائدانہ مشورے دیئے بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی بے مثال قابلیت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا.غرض حضور کے علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے متعلق ایک بڑی تفصیل ہے جس کے ہزارویں حصہ میں بھی میں نہیں جاسکتا.صرف ایک سرسری سی چیز آپ کے سامنے رکھ کر اس حصہ کو ختم کرتا ہوں.پھر دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ اقوام عالم پر ظاہر کرنے کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ علوم و معارف جو اللہ تعالیٰ کی موہبت سے آپ کو عطا ہوئے ان کا ترجمہ مختلف زبانوں میں کیا جائے اگر خالی اردو میں ہی وہ علوم لکھے جاتے تو آپ کا دعویٰ بے معنی بن کر رہ جاتا کیونکہ غیرممالک اور غیر اقوام اس سے فائدہ حاصل نہ کر سکتیں.پس اگر اس مصلح موعود کے ذریعہ سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ تمام اقوام عالم پر ظاہر ہونا تھا.تو اس کے ذریعہ ظاہر ہونے والے علوم و معارف کا ترجمہ تمام دنیا کی زبانوں یا دنیا کی ان زبانوں میں ہونا ضروری تھا جو دنیا کے اکثر حصوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں.مجھے ابھی خیال آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو تدبیر کی کہ دنیا کے بہت سے ممالک صرف دو تین قوموں کے سیاسی اقتدار کے نیچے آگئے.اس میں دنیا کے لئے ایک بڑا روحانی فائدہ مضمر تھا اور وہ فائدہ یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کو بھیجے تو اشاعت اسلام کا کام آسان ہو جائے ورنہ مسیح محمدی کے زمانہ میں اس وقت تک آپ کا پیغام تمام دنیا میں نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک دنیا کی ساری زبانوں میں اس کا ترجمہ نہ کیا جاتا.چونکہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت دنیا کی اقوام میں سے کچھ قومیں انگریزوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں کچھ فرانسیسیوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں اور کچھ جرمنوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں.اس لیے ہم اسلام کا پیغام ان تین زبانوں کے ذریعہ اقوام عالم کی خاصی بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں.اگر روسی اور چینی بھی شامل کر لئے جائیں تو میرا خیال ہے کہ ۹۰،۸۰ فیصدی آبادی کو ہمارا پیغام پہنچ جاتا ہے ورنہ ہمارے لئے بہت زیادہ جد و جہد اور کوشش اور قربانیوں اور مال خرچ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے.اللہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 341 سال 1965ء تعالیٰ کے سارے ہی کام حکمت سے پُر ہوتے ہیں.غرض یہ ضروری تھا کہ ان علوم و معارف کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کروایا جاتا چنانچہ اس کی طرف حضور نے خاص توجہ دی.اور بڑی کوشش فرمائی.سب سے ضروری کام تو قران کریم کے صحیح تراجم کا دنیا میں پھیلانا تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے جو کام شروع کروائے ان میں سے کچھ تو پورے ہو گئے ہیں اور کچھ پورے ہونے والے ہیں.انگریزی زبان میں ترجمہ قرآن کریم جیسا کہ آپ جانتے ہیں شائع ہو چکا ہے.اسی طرح انگریزی زبان میں تفسیر القرآن بھی شائع ہو چکی ہے.جرمن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.نیز سورہ کہف کی تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے.ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.ڈینش زبان میں قرآن کریم کے پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.مشرقی افریقہ کے لیے سواحیلی زبان میں ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.لوگنڈی زبان میں قرآن کریم کے پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.مغربی افریقہ کے لیے مینڈی زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.اس کے علاوہ کئی تراجم کیسے جارہے ہیں.فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.نظر ثانی ہورہی ہے.ہسپانوی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہورہی ہے.اٹالین زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے.نظر ثانی ہو رہی ہے.روسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.پرتگیزی زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.ڈینش زبان میں بقیہ تئیس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ تیار ہے.طباعت کا انتظام کیا جارہا ہے.مشرقی افریقہ کے لیے گلو یو زبان میں ترجمہ تیار ہے.نظر ثانی کروانی باقی ہے.لکمبا زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.مغربی افریقہ کے لیے مینڈی زبان میں بقیہ ۲۹ پاروں میں سے ۲۰ پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے ۹ پاروں کا ترجمہ کروایا جارہا ہے.انڈونیشین زبان میں دس پاروں کا ترجمہ مع مختصر تفسیری نوٹ مکمل ہے.بقیہ زیر تکمیل ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 342 سال 1965ء تراجم قرآن کریم کے علاوہ بہت سی کتب کا حضور نے مختلف زبانوں میں ترجمہ کروایا.اور ان کی اشاعت کروائی.مثلاً احمدیت یعنی حقیقی اسلام.اسلامی اصول کی فلاسفی وغیرہ.جن کتابوں کا ترجمہ دوسری زبانوں میں کروایا گیا ہے ان کی فہرست بڑی لمبی ہے تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی.غرض قرآن کریم کے علوم اور معارف جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائے تھے ضروری تھا کہ ان کو کثرت سے دنیا میں پھیلایا جاتا اور یہ کام ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ ان کے تراجم دوسری زبانوں میں نہ کرائے جاتے.اور اس کام کو بڑی حد تک حضرت مصلح موعود نے پورا کیا.اور بہت سا کام جو باقی ہے وہ انشاء اللہ اپنے وقت پر ہو جائے گا.پھر دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ بنی نوع انسان پر ظاہر کرنے کے لیے تمام دنیا میں مساجد کا ایک جال پھیلایا جانا ضروری تھا.حضور نے اس کی طرف بھی خاص توجہ دی.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک کئی ممالک میں مساجد تعمیر کروائی جاچکی ہیں.مساجد کے متعلق یا درکھنا چاہیے کہ مساجد دینی علوم سیکھنے کے لیے درس گاہوں کا کام دیتی ہیں اور تربیت کے لیے مساجد کا ہونا نہایت ضروری ہے.اگر مسجد کو اخلاص نیک نیتی اور أُيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ اَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ (التوبه : ۱۰۸) کے طور پر بنایا جائے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اگر ایک نمازی بھی نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس قسم کی مساجد کے لیے نمازی پیدا کر دیتا ہے.غرض مساجد انسانی معاشرہ کے اندر بڑا ضروری کردار ادا کرتی ہیں.حضرت مصلح موعود نے اس طرف خاص توجہ دی اور آپ کے مبارک عہد میں جو مساجد تعمیر ہوئیں ان کی فہرست درج ذیل ہے: سوئٹزرلینڈ امریکہ انگلستان ہالینڈ فلسطین ماریشس ۶ انڈونیشیا سیرالیون ۳۰ نائیجیریا 2 بر ما غانا یوگینڈا ۱۶۲ と
تاریخ احمدیت.جلد 23 کینیا شمالی بور نیو ۳ کل ۳۱۱ ٹانگانیکا 343 سال 1965ء جرمنی ان کے علاوہ مندرجہ ذیل مقامات پر مساجد زیر تعمیر ہیں: ا.ہمالے (غانا) ۲- مساکا ( یوگنڈا) ۳.ٹانگا ( تنزانیہ) ۴.گیمبیا (جس کے گورنر جنرل جیسا کہ میں نے شروع میں بتایا تھا کہ ایک احمدی دوست مقرر ہوئے ہیں ) ۵.فری ٹاؤن ( سیرالیون )۶.نائیجیر یا میں اس وقت پانچ مساجد زیر تعمیر ہیں ے.ڈنمارک میں احمدی بہنوں کی کوشش اور چندہ سے ایک مسجد بنانے کا فیصلہ ہو چکا ہے.اور اس کا انتظام کیا جارہا ہے.پھر دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ اقوام عالم پر ظاہر کرنے کے لیے یہ بھی نہایت ضروری تھا کہ ایسےمخلصین کا ایک گروہ تیار کیا جائے جو نا مساعد حالات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اکناف عالم میں پھیل جائیں اور ملک کے قریہ قریہ میں اسلام کی نورانی شمعیں فروزاں کرتے چلے جائیں.حضور کی توجہ سے ۱۶۴ را ایسے واقفین پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے اپنے وقتوں میں مندرجہ ذیل ممالک میں اسلام کی اشاعت کا فریضہ ادا کرنے کی سعادت حاصل کی.ا.انگلستان ۲.فرانس ۳.سوئٹزر لینڈ ۴.ہالینڈ ۵.سپین ۶.ڈنمارک ۷.سویڈن ہنگری و نجی ۱۰.اٹلی ۱۱.روس ۱۲.جرمنی ۱۳.انڈونیشیا ۱۴.سنگا پور ۱۵.ملائشیا -۱۶ جزائر فجی ۱۷.بورنیو ۱۸ برما ۱۹ ہانگ کانگ ۲۰.ایران ۲۱.جاپان ۲۲.فلپائن ۲۳ سیلون -۲۴.شام -۲۵ - لبنان -۲۶.عدن ۲۷.دوبئی ۲۸.فلسطین ۲۹ اردن ۳۰ - مسقط ۳۱ - مصر ۳۲- غانا ۳۳ - سیرالیون ۳۴.ٹو گولینڈ ۳۵.لائبیریا ۳۶.آئیوری کوسٹ ۳۷.نائیجیر یا ۳۸ گیمبیا ۳۹.کینیا ۴۰.یوگنڈا ۴۱ - تنزانیہ ۴۲.ماریشس ۴۳.برٹش گی آنا ۴۴.ٹرینی ڈاڈ ۴۵.ڈچ گی آنا ۴۶.ارجنٹائن گویا حضور نے اپنے عہد مبارک میں ۴۶ ملکوں میں اپنے مشن قائم کیسے اور ان مشنوں نے جو کام کیا وہ اتنا زیادہ ہے کہ اسے مہینوں میں بھی بیان نہیں کیا جاسکتا.غیر ممالک میں ہماری جماعتیں بڑی ہی مخلص ہیں.ان کے ممبران نام کے احمدی یا
تاریخ احمدیت.جلد 23 344 سال 1965ء مسلمان نہیں.بلکہ وہ تو حید باری پر پختگی سے قائم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں سرشار ہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوتا ہے انہیں سچی خوا ہیں آتی ہیں.اور ہر رنگ میں وہ روحانی نعمتوں سے مالا مال ہیں.حضور کے وصال پر ان احباب کی طرف سے جو خطوط مجھے موصول ہوئے ہیں.ان سے ان کے اخلاص کا علم ہوتا ہے.ان خدا رسیدہ اور خدا کے جاں نثاروں میں سے ایک کا ایک خواب میں بطور نمونہ سناتا ہوں.تا وہ دوستوں کے از دیا دایمان کا موجب ہو.وہ خدا رسیدہ اور دین اسلام کا شیدائی ایک حبشی تھا.جس کا رنگ سیاہ اور ہونٹ لٹکے ہوئے تھے.دنیا کی مہذب قومیں اسے حقارت سے دیکھتی تھیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل خدا تعالیٰ کی نظر کرم اس پر پڑی اور وہ اس سے ہم کلام ہوا.یہ ہیں ہمارے دوست امری عبیدی اور ان کا انتخاب میں نے اس لیے بھی کیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ ہوا جوانی کی عمر میں فوت ہو گئے ہیں.یہ دوست احمدیت کے شیدائی اور فدائی تھے.ربوہ میں کچھ عرصہ رہ کر گئے تھے.وہ خواب بین انسان تھے انہیں بڑی واضح اور سچی خوا ہیں خدا تعالیٰ نے دکھا ئیں.ایک دفعہ انہوں نے سنایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مسٹر جولیس نیر میرے کرسی پر بیٹھے ہیں مجھے دیکھ کر وہ کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسی کرسی پر مجھے بٹھا دیا.کچھ عرصہ تک وہ اس خواب کی کوئی اور تعبیر سمجھتے رہے لیکن یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ آزادی کے بعد جو لیجسلیٹو کونسل بنی.اس کے افریقن ممبران کی ایک سوسائٹی تھی اور جو لیس نیریرے جو ٹانگا نی کا افریقن نیشنل یونین کے پریذیڈنٹ ہونے کے باعث لیجسلیٹو کونسل کی افریقن پارٹی کے لیڈر تھے.اس سوسائٹی کے صدر تھے.دوسرے سال جب اس سوسائٹی کا انتخاب ہوا.تو مسٹر جولیس نیر میرے کو دوبارہ صدر چن لیا گیا.سوسائٹی کے اس اجلاس میں مسٹر جولیس نیر یرے موجود نہیں تھے.انہیں اطلاع بھجوائی گئی چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے شیخ امری عبیدی کو جو اس وقت لیجسلیٹو کونسل کے ممبر بن چکے تھے کو بازو سے پکڑا
تاریخ احمدیت.جلد 23 345 سال 1965ء اور کرسی پر بٹھا دیا اور کہا یہ آپ کے چیئر مین ہیں.گویا خواب میں جو کچھ انہوں نے دیکھا تھا خدا تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کر دیا.اور یہ اسلام اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا نتیجہ تھا.جسے دیکھ کر دوسرے لوگ اسلام کے گرویدہ ہور ہے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی طرف مائل ہورہے ہیں.خالی دلائل کے ساتھ یہ اخلاص پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے قوت قدسیہ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے اس نور کی ضرورت تھی جور بوہ میں بیٹھا تھا اور اس کی نورانی کرنیں ایک طرف افریقہ کے ممالک میں پہنچ رہی تھیں تو دوسری طرف یورپ اور امریکہ کے ممالک کو روشن کر رہی تھیں.اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو کچھ کہا تھا وہ لفظ بلفظ پورا ہوا کہ: وہ اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.“ وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے 194 گا.اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک اور اس پر والہانہ لبیک حضرت چو ہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نبی عالمی عدالت نے حضرت خلیفہ اسی انالٹ کے چوہدری حج این اثاث ارشاد کی تعمیل میں 19 دسمبر کو جلسہ میں احباب کے سامنے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان ان گنت احسانوں کی یادگار کے طور پر ۲۵لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے اور اس کے لئے بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر افراد اور جماعتوں نے جس طرح والہانہ لبیک کہا اس کا پتہ دو روز بعد چلا.جب مورخہ ۲۱ دسمبر کو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے اختتامی خطاب میں اس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس فنڈ سے فضل عمر فاؤنڈیشن“ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جائیگا.اور اس سے جو آمد پیدا ہوگی وہ غلبہ دین کے ان عظیم الشان کاموں کی تکمیل پر خرچ ہوگی جنہیں حضرت فضل عمر نے جاری فرمایا نیز حضور نے تحدیث نعمت کے طور پر بھی اعلان فرمایا کہ اس تحریک کے پیش ہونے کے بعد ایک دن کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد اور جماعتوں کی طرف سے فوری طور پر پندرہ لاکھ روپے کے وعدے پیش کر دیئے گئے..195
تاریخ احمدیت.جلد 23 346 سال 1965ء جس سے اُن بے پناہ جذبات عقیدت و فدائیت کا پتہ چلتا تھا.جو حضرت مصلح موعود کی خدا نما شخصیت کے لئے مخلصین جماعت کے دلوں میں بحرز خار کی طرح موجزن تھے.ایک عظیم الشان خوشخبری حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنی اختتامی تقریر میں اللہ تعالیٰ کے پیہم نازل ہونے والے فضلوں اور اس کے ان گنت احسانوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ خوشخبری سنائی کہ مغربی افریقہ کے ملک گیمبیا، جو اسی سال آزاد ہوا ہے، کے قائمقام گورنر جنرل کی تقرری کے لئے چار نام پیش ہوئے تھے ان چار ناموں میں سے جناب الحاج ایف ایم سنگھیٹے (سنگھائے ) کا بطور قائمقام گورنر جنرل تقرر منظور ہوا ہے.جو وہاں کے مشہور قومی لیڈر ہونے کے علاوہ نہایت مخلص احمدی ہیں.اور جماعت احمد یہ گیمبیا کے پریذیڈنٹ ہیں.یہ خوشخبری سنکر احباب پر ایسی ابتزاز کی کیفیت طاری ہوئی کہ فرطِ مسرت سے جھوم اُٹھے.وہ خلافت ثالثہ کے نئے مبارک دور کے خوشکن آغاز اور اس میں ملنے والی اس مسترت انگیز خبر پر ایک دفعہ پھر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجالائے.اور انہوں نے جذباتِ تشکر سے لبریز ہو کر اللہ اکبر احمدیت زندہ باد، حضرت خلیفہ اسیح الثالث زندہ باد کے پُر جوش و فلک شگاف نعرے عجیب والہانہ انداز میں بلند کئے.جس سے ربوہ کی ساری فضا ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کی تحمید و تمجید سے گونج اُٹھی.پھر ایک اور مسرت انگیز خبر جو احباب کے لئے اور بھی از دیا ایمان وایقان کا موجب ہوئی ، یہ تھی کہ خلافت ثالثہ کے قیام کے بعد سے جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء تک کے مختصر سے عرصہ میں بیرونی ملکوں سے پچاس افراد کے قبول احمدیت کی اطلاع موصول ہوئی.یہ خوشخبریاں غلبہ دین کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان کو پختہ سے پختہ تر کرنے اور خدمت دین کے عزائم اور حوصلوں کو بلند سے بلند تر کرنے کا موجب بنیں.120 احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ احمدی خواتین کا جلسہ سالانہ مورخہ ۱۹ دسمبر کو شروع ہو کر دعاؤں اور ذکر الہی کے روح پرور ماحول میں تین روز تک جاری رہ کر مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء کو نہایت کامیابی اور خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا.اس جلسہ میں صدارت کے فرائض مختلف اوقات میں حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ محترمہ سیده نصیرہ بیگم صاحبہ اور محترمہ مجیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری شاہنواز صاحب نے انجام دیئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 347 سال 1965ء حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا رُوح پر ور افتتاحی خطاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لخت جگر حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ پر حسب ذیل افتتاحی خطاب فرمایا.«اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ یہ جلسہ پہلا جلسہ ہے جس میں آپ سب بہنیں اپنے محبوب خلیفہ مصلح موعود کی جدائی کے بعد شامل ہورہی ہیں.گو وہ ایک عرصہ سے خود تشریف لا کر بظاہر شرکت جلسہ نہیں فرماتے تھے مگر ان کی برکات ان کی دُعائیں ہر لمحہ آپ کے شامل حال ہوتی تھیں اور انکے وجود کا اس دنیا میں اور اس شہر میں موجود ہونا ہی بڑی خوشی اور تسکین کا موجب ہوتا تھا.اس وقت ہم سب کے دل آپ کی فرقت کو بیشک بہت دُکھ سے محسوس کر رہے ہیں اور قدرتنا غمگین ہیں مر اللہ تعالیٰ کے احسان و کرم کو دیکھ کر اور اس پہلوکو سوچ کر خوشی بھی اس غم میں شامل ہے اور ہونی چاہئیے کہ اس نے کیسا فضل فرمایا ہے کہ بغیر کسی اختلاف و شقاق کے خلافت کا قیام فرمایا اور ہم سب کو ایک ہاتھ پر جمع فرما دیا.شماتت اعداء سے جماعت کو بچالیا اور قدرت ثانیہ کے سلسلہ کو تیسری بار پھر بہت بابرکت بنا کر اپنی نصرت سے جاری فرما کر ہمارے زخمی دلوں پر رحمت کا ہاتھ رکھ کر سکون بخشا.اس احسان کو یاد رکھیں اور دعاؤں میں مشغول رہیں کہ خدا تعالیٰ تمام جماعت کو نیکی اور تقویٰ میں ترقی بخشے ہمارے دلوں اور گھروں میں نیکی تقوئی اور ایمان کامل کے بیج بودے اور بدیوں ، ناپاکیوں ، بداخلاقیوں سے پاک فرمائے ہم ایسے نیک نمونے احمدیت کے بنیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو جس مقام پر بھی ہوں دیکھ کر ہی لوگ احمدیت کی طرف مائل ہوتے جائیں.تبلیغ محض اتنا اثر نہیں کر سکتی جب تک نمونہ اعلیٰ اخلاق اور اعمال صالح کا دُنیا کو نظر نہ آجائے.پس نیکیوں میں اخلاق حسنہ میں ترقی کریں.کوشش اصلاح نفس اور دُعا سے نصرت طلب کرنے کے ساتھ کہ وہ آپ کو ایسا ہی نمونہ بنادے کہ جیسا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمنا اور اس ابھی تازہ رخصت ہونے والے آپ کے پیارے خلیفہ کی خواہش اور تڑپ تھی.اور ان ارواح پاک کو بشارتیں ہی اللہ تعالیٰ پہنچاتا رہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 348 سال 1965ء آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے محبت کر نیوالوں کیلئے یہ قیام خلافت دو ہرا احسانِ الہی ہے.ایک تو خلافت کا احسن طریق سے قیام پھر یہ کہ وہ شخص آپ کو دیا جو آپ کے محبوب خلیفہ کا لخت جگر ہے گویا اسی کا وجود دوسری صورت میں آپ کو دوبارہ بخش دیا گیا یہ بالکل درست ہے کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہوتا سب کے سراسی طرح جھکتے ہم سب کے دل اسی طرح شرح صدر سے اس کو قبول کرتے مگر یہ کیسا احسان مزید ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص موعود بیٹے کو جب اس نے واپس بلایا تو اسکے چاہنے والوں کیلئے اسکی نشانی آپ کا موعود پوتا جس کی خاص بشارت آپکو حق تعالیٰ نے دی تھی آپ کے لئے کھڑا کر دیا کہ لو یہ تمہارے پیارے کا پیارا اسی مبارک وجود کا حصہ اسی کا لخت دل تمہارے دلوں کی تسکین تمہاری رہنمائی اور احمدیت کی خدمت کے لئے تم کو دیا جاتا ہے پس ہمیں اس پہلو سے بھی بیحد شکر یہ درگاہ الہی میں زبان سے بھی اور عمل سے بھی ہر وقت بڑھ چڑھ کر ادا کرنا چاہیئے تا کہ شکر گزار بندے بہنیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت و نصرت اور اُس کے فضل کے ہر قدم پر ہر کام میں ان کے ساتھ رہنے کے لئے بھی دُعائیں کرنا ہمیشہ فرض جانیں.یہ دُعائیں شکر نعمت ہو کر خود آپ سب کے لئے بھی افضال الہی کی جاذب بنیں گی.دُعاوہ تم ہے جس کو بونے والا کبھی گھاٹے میں نہیں رہتا.یہ وہ پودا ہے جو کبھی بے ثمر نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ آپ کے اس سفر کو جو محض اللہ آپ نے اختیار کیا ہے آپ کے لئے مبارک کر دے اور آپ یہاں سے فیض یاب ہو کر جائیں آپ کے دل نور ایمان سے پیشتر سے بڑھ کر منور ہوں.خیر سے رہیں خیر کی واپسی ہو اور خیر سے پھر خدا آپ سب کو ملائے.آمین.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا اختتامی خطاب ۲۱ دسمبر کو احمدی خواتین کے جلسہ سالانہ کے آخری اجلاس میں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا اختتامی خطاب ایک خاص شان کا حامل تھا.جس کا مکمل متن سپر وقر طاس کیا جاتا ہے.بسم اللہ الرحمن الرحیم.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ابھی کل کی بات ہے کہ یہاں ہر فرد کی زبان پر یہی ذکر تھا کہ جلسہ قریب ہے ” جلسہ آ رہا ہے“ خدام دین اور تمام کارکن آپ کی آمد کے متعلق انتظاموں میں مشغول تھے.آخر وہ دن آپہنچا اور یہ مبارک اجتماع جس کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس ہاتھوں سے رکھی گئی تھی اس کے لئے 9966
تاریخ احمدیت.جلد 23 349 سال 1965ء روحانی غذاؤں کا افتتاح ہوا.تین روز آنکھ جھپکتے میں گزر گئے اور آج اختتام بھی ہو گیا.رخصت کی گھڑی آگئی اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور پھر جماعت کو روحانی و جسمانی ہر قسم کی ترقیوں کے ساتھ مرکز میں آنا زیادہ سے زیادہ تعداد میں نصیب ہو.ہر سال یہ مجمع بڑھتا چلا جائے.آپ کے خادم میزبان بھی صحت اور سلامتی سے اسی طرح اخلاص اور صدق و خلوص سے ہمیشہ اس خدمت کے لئے کمر بستہ رہیں اور آپ بھی ان مقاصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس کے لئے یہ سالانہ ملاقات خصوصی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مقرر فرمائی تھی ایمان و اخلاص کی دولت پیشتر سے بڑھ کر اپنے دلوں میں لے کر آئیں اور برکات مزید حاصل کر کے روحانی خزانوں سے اپنی جھولیاں بھر بھر کر لے جائیں.آپ کے دامن ان خزائن کو سمیٹنے کے لئے وسیع تر ہوتے جائیں اور ان کی حفاظت کی خدا تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرماتا رہے.آمین.آپ میری بہنیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں.غور کریں کہ آپ کو دینی پہلو سے بھی کتنی اہمیت حاصل ہے اور پھر اپنے آپ کو اس قابل بنانے میں کوشاں رہیں کہ جو فرض خدا تعالیٰ نے آپ کے کاندھوں پر ڈالا ہے وہ بخوبی ادا ہو.آپ آنے والی نسلوں کی مائیں ہیں.آپ احمدیت کی عمارت کی بنیادیں ہیں.آپ خود سوچ سکتی ہیں کہ اگر خدانخواستہ بنیاد کھوکھلی ہو تو عمارت کا کیا بنے گا؟ پس اپنے گھروں کا ماحول دینی بنا ئیں.اپنی اولاد کی نیک تربیت کریں ان میں روحانیت پیدا کریں.دعاؤں سے مولا کریم سے نصرت چاہتے ہوئے اپنی تمام طاقت اور کوشش اس امر کے لئے صرف کریں کہ آپ کے بچے خدائے واحد کے پرستار تو حید کو مضبوطی سے پکڑنے والے اسلام واحمدیت کے شیدائی ہوں فدائی ہوں.بچے مخلص خدامِ دین بنیں.اگر آپ نے نیک اولا داور نسل چھوڑی تو آپ اپنے مولا کے حضور میں سرخرو ہو کر حاضر ہوں گی ورنہ بصورت دیگر خدا نہ کرے کہ ایسا ہو لیکن خوف سے لرزتے ہوئے دل کیسا تھ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ بدراہ اولاد بھی خود حشر میں آپ کی دامنگیر ہوگی کہ اے ماں تُو نے ہم کو تباہ کر دیا.علاوہ دیگر نتائج کے.اللهم احفظنا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو نیک توفیق اور نیکی میں استقلال بخشے اور آپ سب میں حقیقی احمدیت کا نُور چمکتا اور جھلکتا نظر آئے اور ہم آپ سب کبھی اس فہرست میں نہ آئیں جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بڑے تہدیدی الفاظ میں ”فتح اسلام میں فرماتے ہیں کہ بعض خشک ٹہنیوں کی طرح نظر آتے ہیں جن کو میرا خداوند جو میرا متوتی ہے مجھ سے کاٹ کر جلنے والی لکڑیوں میں پھینک دے گا“.خدا تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے اور ہمیں اپنا ہی بنالے.آمین.ذکر الہی میں مشغول رہ کر اس
تاریخ احمدیت.جلد23 350 سال 1965ء کے احسانوں کو یاد کر کے دُعا سے اس کی محبت کی بھیک اسی سے مانگ کر اس کی محبت کو دلوں میں پیدا کریں اس کے عشق کی آگ سے زہریلے شیطانی درخت کی جڑیں تک جلا کر پھینک دیں تا کہ روح اور دل پاک ہو کر اس کی نذر کرنے کے بکلی قابل ہو جائیں اس آئینہ حق نما نور خدا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت.آپ کے بروز مہدی آخرالزمان مسیح دوراں کی محبت.پھر ان کی عطا کردہ روشنی تمام عالم میں پھیلانے والے خلفاء کی محبت آپ کے دلوں میں رچ جانی چاہیئے اور تمام احکام شریعت حلقہ پر عاشقانہ رنگ میں عمل پیرا ہوں نہ کہ محض گلے پڑا ڈھول سمجھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت.پھر اس نورانی چہرے کو دوبارہ دکھانے والے ثریا سے پھر ایمان لانے والے محسن مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ہی آپ کا اصل مقصود یعنی آپ کے خالق و مالک ذاتِ باری تک پہنچا سکتی ہے.اسی نے یہ نو را پنا پیام دے کر آپ کی رہنمائی کے لئے دنیا میں بھیجے.اس نے اپنی رحمت سے یہ روشنی کے مینار آسمان سے زمین پر اُتارے کہ آپ راہِ ہدایت پائیں اور اس زینہ سے بام مراد وصل پر پہنچ سکیں.غیر احمدی بھی اس بات کے قائل ہیں اور اکثر اس کا اظہار کرتے بھی سنے گئے ہیں کہ احمدی دعا بہت کرتے ہیں.“یہ بفضلہ تعالیٰ درست ہے مگر ہم کو اور بھی زیادہ دعاؤں پر زور دینا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں کے معجزات آپ کے سامنے پیش کئے اور اپنی تعلیم میں دعا پر بے حد زور دیا ہے اور دعا کی بہت تلقین کی ہے.بار بار اور تکرار سے کثرت سے اس نعمت الہی سے مستفیض ہونے کی جانب جماعت کو توجہ دلائی ہے.پس ہماری تو غذا بھی دُعا اور ہمارا عصا بھی دعا ہی ہونا چاہیئے.درود ہماری سب دعاؤں کی سردار دُعا ہے.یہ وہ کلید ہے جس سے دراجابت وا ہوگا.کیونکہ جب ہم خدا تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب بندے اس کے پیارے اپنے محسن نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجیں گے.ہمارے صلوٰۃ وسلام ان کے لئے آسمان پر ہماری جانب سے ہدیہ محبت بن کر پہنچیں گے تو ہم پر بھی آسمان سے سلامتی کیسے نہ اُترے گی؟ ہمیشہ کثرت سے درود پڑھ کر سورۂ فاتحہ پڑھ کر دُعائیں کریں اور اس وقت بھی سب دُعا کریں جس کے بعد یہ مجلس اِس سال کیلئے برخاست ہوگی اور آئندہ کے لئے ہم خُدائے کریم سے خیر کے امیدوار اور طلب گار ہیں.اب آپ دُعا کریں پہلے تو اُس آپ سے رخصت ہو کر اپنے مولا کے حضور پہنچنے والے پیارے خلیفہ کے درجات کے بلند سے بلند تر ہونے کے لئے اس جلسہ میں خصوصاً یہ دُعا کرنا ضروری ہے کیونکہ اس وقت آپ کے دل دردمند ہیں.دُعائے دردِ دل بہت اثر رکھتی ہے.اور ایک خاص عرض
تاریخ احمدیت.جلد 23 351 سال 1965ء میری جانب سے ہے کہ یہ بھی دُعا کریں کہ جیسے ہم پانچوں بہن بھائی ایک سایہ میں پہلے، ایک گود میں پرورش پائی اور کافی عرصہ تک ایک کمرے میں فرشتوں کے پہرے میں حضرت اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آرام کرتے تھے اسی طرح ہمارا خدا ہمیں اپنی آغوش رحمت میں بے حساب مغفرت فرما کر ہمارے آقا کے قدموں میں ہمارے والدین کے پاس پھرا کٹھا کر دے.اس وقت وہ وقت وہ زمانہ میری نظروں میں پھر رہا ہے جب گویا ہر دم نور ہی نور برستا رہتا تھا.ایک رحمتوں بھر اسکون دلوں کو حاصل تھا.صبح و شام تازہ الہام اور بشارتیں کانوں میں پڑتیں اور مسرت بخش غذائے روحانی بن جاتیں.وہ روز وشب جنہوں نے دیکھے گردشِ لیل و نہار کبھی ان کو ان کے دلوں سے بھلا دینے پر قادر نہ ہوسکی.پھر دعا کریں اپنے موجودہ خلیفہ مسیح الثالث کے لئے کہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل اور نصرت ان کے ہر قدم پر ہر کام میں شاملِ حال رہے.ان کے دل و جان و دماغ زبان و قلم کو اپنی جناب سے آسمانی ٹو ر اور برکات عطا فرمائے.خدمات دین کی توفیق بیش از پیش عطا ہو.صحت والی لمبی عمر کے ساتھ ان کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ برکتیں دے.ان کا عہد مُبارک کر دے.ان پر ان کے ربّ کا سایہ رحمت رہے اور وہ کریم و رحیم خدا ان کو جماعت کے لئے رحمت کا سایہ بنادے.ان کو دُعاؤں کی توفیق دے اور ان کی دُعاؤں کو خاص طور پر شرف قبولیت بخشتار ہے.وہ اپنے مصلح موعود محترم باپ کے نقش قدم پر چلنے والے بن کر ان کی زندہ تصویر بن جائیں اور تمام عالم کے لئے خداوند کریم کا ایک اعلیٰ انعام ثابت ہوں.آمین.نیز احمدیت کی ترقی کے لئے خصوصیت سے جماعت کی روحانی ترقیوں کے لئے دنیا کے ہر گوشہ بلکہ چپہ چپہ پرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اور توحید کے پرچم کے بلند ہونے کے لئے دعائیں کریں.ساتھ ہی مبلغین کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ صحت جسمانی وروحانی اور صدق و ثابت قدمی کے ساتھ ان کو خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے کاموں کے با برکت نتائج پیدا ہوں.اپنے لئے اپنی اولادوں اپنی نسلوں کے لئے دُعا دینی ودنیوی روحانی و جسمانی ہر خیر کی کریں.اسی طرح اس جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے اور جو نہیں آسکے ان کے لئے.درویشوں اور ہندوستان کے تمام احمدیوں کے لئے اور دور ونزدیک کے تمام احمدی بہن بھائیوں کے لئے دُعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور ہر خیر بخشے.مُرادیں برآئیں.تمام تکالیف
تاریخ احمدیت.جلد 23 352 سال 1965ء پریشانیاں ہر قسم کی دُور ہوں.نیکی تقومی تعلق باللہ ہمیشہ کے لئے عطا ہو کبھی زوال نہ آئے.انجام بخیر ہوں.نیک نسلیں چلیں جو ذکر خیر اور بلندی درجات کی مغفرت کا موجب بنیں.نیز یہ دعا ہر گز نہ بھولیں کہ فتح و نصرت عزت و وقار کے ساتھ قادیان کی واپسی خدا تعالیٰ دکھائے اور وہ دن آئے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی امانتوں کو سب اہلِ خاندان ( خاندان حضرت مسیح موعود ) اور اہل جماعت آپ کے جسدِ مبارک کی آرام گاہ کے قریب لٹا کر اپنے فرض سے عہدہ بر آہو کر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں.آمین.جناب ثاقب صاحب کا پُر سوز اور رقت انگیز کلام ۲۰ دسمبر کے دوسرے اجلاس کے آغاز میں جبکہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کرسی صدارت پر رونق افروز تھے.شاعر احمدیت جناب ثاقب زیروی صاحب کے تازہ کلام نے پورے مجمع کو نہ پا دیا.ثاقب زیروی صاحب نے اپنی تازہ نظم پیمان شاعر - به روح مصلح موعود نہایت پر در دلیجه میں خوش الحانی سے پڑھ کر سنائی.اس نظم میں مکرم ثاقب صاحب نے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے وصال پر غم واندوہ سے مملود لی جذبات کا اظہار کرنے کے علاوہ خلافت ثالثہ کے قیام اور شدید خوف کے بعد آسمانی سکینت کے نزول کے پُر کیف منظر کا وجد آفرین نقشه عجب دلکش انداز میں پیش کیا تھا.آپ کی اس نظم نے پہلے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے وصال کے ذکر پر احباب کے مجروح دلوں کے زخموں کو تازہ کر کے ان پر در دو کرب ، سوز و گداز اور رقت کا عالم طاری کر دیا اور پھر خلافت ثالثہ کے قیام پر آسمانی سکینت کے نزول کے ذکر پر ا حباب کو جذبات تشکر سے لبریز کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز کرا دیا.جب آپ نے حضرت المصلح الموعود کے وصال کا ذکر کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے.اب نگاہیں تجھے ڈھونڈمیں بھی تو رکس جاپائیں جانے کب پائے سکوں پھر دل ویراں پیارے کون افلاک یہ لے جائے یہ روداد الم تیرا متوالا ابھی تک ہے پریشاں پیارے تو احباب کا غم تازہ ہوگیا اور ہر طرف سے ہچکیوں اور سسکیوں کی آوازیں بلند ہونے لگیں.عجب پُر دردمنظر تھا.احباب جان و دل سے اپنے عزیز آقا سید نا حضرت المصلح الموعود کے حسن و احسان
تاریخ احمدیت.جلد 23 353 سال 1965ء کو یاد کر کے ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہے تھے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں تھا اور احباب اپنے جذبات پر قابو پانے اور قلوب مضطر کو سنبھالنے کی کوشش میں دبی دبی آوازوں میں سسکیاں بھر رہے تھے اور دل ہی دل میں حضور کی بلندی درجات کے لئے دعائیں کرنے میں مصروف تھے.اس کے بعد ثاقب صاحب خلافت ثالثہ کے قیام کی طرف آئے اور آپ نے یکے بعد دیگرے حسب ذیل اشعار پڑھے شکر ایزد تری آغوش کا پالا آیا اپنے دامن میں لئے دولت عرفاں پیارے دیکھ کر اس کو لگی دل کی بجھا لیتا ہوں جس کی ہر ایک ادا نافله لک کی جس کی ہر ایک نوا درد کا عنواں پیارے 199 آنے والے پہ نہ کیوں جان ہو قرباں پیارے اس پر غم واندوہ میں ڈوبے ہوئے ہزاروں ہزار احباب کے چہروں پر یکدم امید اور مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ خدائے حی و قیوم اور رحمن ورحیم کے احسانوں کو یاد کر کے جھوم اٹھے ایک ایک شعر پر مرحبا اور جزاک اللہ کی آوازیں بلند ہونے لگیں.احباب پر ایسا وارفتگی کا عالم طاری ہوا کہ ساری فضا دیکھتے ہی دیکھتے حضرت خلیفہ اسیح الثالث زندہ باد، اسلام زندہ باد، احمد بیت زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھی اُس وقت چند لمحوں کے اندراندرا حباب پر غم اور خوشی کے باہمی امتزاج کی ایک ایسی نا قابل بیان کیفیت وارد ہوئی جسکی یاد کبھی فراموش نہیں ہو سکتی.علم انعامی کا اعزاز ۱۹۶۵ء میں علم انعامی حاصل کرنے کا اعزاز گذشتہ سال کی طرح مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کو حاصل ہوا.اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۰ دسمبر کے اجلاس دوم کے آغاز میں چوہدری عبدالعزیز صاحب ڈوگر مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ کو اپنے دست مبارک سے عطا فرمایا.اور بارک اللہ لکم کی دعا سے بھی نوازا.اطفال کا علم انعامی ہر سال خدام الاحمدیہ کے مرکزی اجتماع کے موقع پر دیا جاتا تھا.مگر اس سال ہنگامی حالات کی وجہ سے اجتماع منعقد نہ ہوسکا.اس لئے حضور -
تاریخ احمدیت.جلد 23 354 سال 1965ء نے اس موقع پر یہ علم اول رہنے والی مجلس یعنی مجلس احمد نگر کے قائد محمد اسلم صاحب کو مرحمت فرمایا.20 ریڈیو اور قومی پریس میں جلسے کا ذکر یہ پہلا جلسہ سالا نہ تھا جس کے موقع پر ریڈیو اور ٹیلی وژن کے نمائندوں نے لاہور سے ربوہ آکر جلسہ سالانہ کی ویڈیوریکارڈنگ بھی کی.اور مختلف مناظر کی تصاویر اتاریں.چنانچہ ریڈیو پاکستان کی قومی خبروں کے بلیٹن میں جلسہ کے افتتاحی اجلاس اور بالخصوص سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی افتتاحی تقریر کی خبر نشر ہوئی.نیز قومی پریس میں بھی جلسہ کی کارروائی کی خبر میں جلسہ کے ایام میں مع تصاویر شائع ہوتی رہیں.201 بیرونی ممالک سے تشریف لانے والے احباب اس بابرکت اور تاریخی جلسہ سالانہ پر بہت سے احباب بیرون ملک سے بھی تشریف لائے تھے جن میں معروف اصحاب درج ذیل ہیں:.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت ہیگ عبدالستار صاحب سوکیہ.جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ماریشس مع اہلیہ وصاحبزادی صاحبہ، محمد واسواکز بٹ ( یوگنڈا)، چوہدری مختار احمد صاحب ایاز ( یوگنڈا)، اللہ دتہ صاحب گنائی ( یوگنڈا)، حاجی عبدالحمید صاحب (نیروبی).دعاؤں اور ذکر الہی کا رُوح پرور ماحول 202 جلسہ میں شمولیت اختیار کرنے والے مخلص احباب نے تقاریر جلسہ سے استفادہ کرنے کے علاوہ حتی الوسع اپنے اوقات ذکر الہی کے ماحول میں گزارے اور راتیں عبادات اور ذکر الہی میں بسر کیں.جلسہ کے مبارک ایام کے دوران مسجد مبارک میں با قاعدگی کے ساتھ نماز تہجہ باجماعت ادا کی جاتی رہی.جو حافظ قاری محمد عاشق صاحب نے پڑھائی.احباب علی الصبح چار بجے سے ہی مسجد میں پہنچنے شروع ہو جاتے یہاں تک کہ ساڑھے چار بجے تک مسجد اور اس کا صحن ہی نہیں بلکہ بیرونی احاطہ بھی نمازیوں سے پُر ہوجاتا.بہت سے احباب مسجد کے اندر جگہ نہ ملنے کے باعث شدید سردی کے باوجود کھلے میدان کی ٹھنڈی زمین پر ہی کمال محویت کے عالم میں نماز ادا کرتے.نماز کے دوران نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ دنیا بھر میں غلبہ اسلام پاکستان کی سالمیت و استحکام کامیابی و کامرانی نیز کشمیر کی آزادی کے لئے دعائیں مانگی گئیں.نماز تہجد
تاریخ احمدیت.جلد 23 355 سال 1965ء کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی اقتداء میں نماز فجر ادا کی جاتی اور پھر محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس قرآن مجید کا درس دیتے.قرآنی علوم و معارف سے مستفیض ہونے کے بعد احباب بکثرت بہشتی مقبرہ جا کر حضرت اماں جان ، سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے مزارات مقدسہ اور دیگر وفات یافتہ بزرگوں کے مزاروں پر جا کر دعا کرتے.ر وہاں دعا کرنے والوں کا ایک تانتا بندھا رہتا.بالخصوص حضرت اماں جان اور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے مزارات مقدسہ پر تو دعا کرنے والوں کا اتنا ہجوم ہو جا تا کہ بعض احباب کو ان تک رسائی کے لئے ان مزارات مقدسہ کے گرد چاردیواری کے باہر ا نتظار کرنا پڑتا.جلسہ کے ایام میں ان مزارات پر بھی اللہ تعالی کے حضور اس کثرت سے دعائیں کی گئیں کہ وہاں کی فضا بھی ہمہ وقت درودو سلام اور تحمید و تمجید سے معمور رہی.سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے مزار پر انوار پر تو دعا کرتے وقت بعض احباب شدت جذبات کی وجہ سے بچوں کی طرح روتے اور بلکتے ہوئے بھی دیکھے گئے.بہشتی مقبرہ میں مزارات مقدسہ پر دعا سے فارغ ہونے کے بعد احباب بعجلت کھانے وغیرہ سے فارغ ہوکر جوق در جوق جلسہ گاہ میں پہنچ کر وہاں سارا دن اہم علمی اور دینی موضوعات پر علماء سلسلہ کی تقاریر سننے میں مصروف رہتے.اس طرح ان ایام میں ان کے شب و روز عبادات دعاؤں اور ذکر الہی میں ہی بسر ہوتے رہے.چنانچہ اس کثرت سے ذکر الہی بلند ہوا کہ تین دن اور تین رات تک ربوہ اور اس کا ماحول محبت الہی اور محبت رسول کے اذکار مقدس سے گونجتا رہا.انتظامات پر طائرانہ نظر جلسه سالانه ۱۹۶۵ ء کا رنگ ڈھنگ ہی بالکل نرالہ تھا.اس کے جملہ انتظامات ایک نئے جوش و خروش کے آئینہ دار تھے.اور ان میں سلیقہ شعاری ، نفاست، خدمت اور فرض شناسی کی ایک مثالی روح کارفرما نظر آتی تھی.جلسہ سالانہ کی اصل کارروائی ، تقاریر اور جلسہ گاہ کے جملہ انتظامات مولا نا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد کے سپرد تھے اور استقبال اور قیام و طعام اور دیگر جملہ ضروریات کو پورا کرنے کی اہم ذمہ داریاں افسر جلسہ سالانہ سید داؤد احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ کے فرائض میں شامل تھیں.حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بھٹی، صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد 203
تاریخ احمدیت.جلد 23 356 سال 1965ء صاحب باجوہ ، پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر اور صوفی بشارت الرحمن صاحب آپ کے نائبین تھے.جلسہ سالانہ کی قدیم روایات کے مطابق جلسہ کا کام مختلف شعبوں میں منقسم تھا.جس کے لیے الگ الگ ناظم مقرر تھے.جس کی تفصیل یہ ہے.ناظم سپلائی (پروفیسر حمید اللہ صاحب) ناظم سٹور (پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب) ناظم طبی امداد (صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب) ناظم انسپکشن ( میاں عبدالرحیم احمد صاحب) ناظم مکانات (پروفیسر حبیب اللہ صاحب ناظم معلومات ( محمد ارشد صاحب ایم ایس سی ) ناظم استقبال والوداع مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب ناظم حاضری معاونین ( پروفیسر نصیر احمد خان صاحب) منتظم صفائی مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر ) منتظم تعمیرات ( خواجہ عبید اللہ صاحب) منتظم لکڑی ( مولوی سلطان محمود صاحب انور مربی سلسلہ ) منتظم بازار (عبدالرزاق صاحب جامعہ احمدیہ) منتظم روشنی ( محمد احمد صاحب انو رحیدر آبادی) ناظم پر چی خوراک (صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب) ناظم مہمان نوازی حلقہ دارالصدر ودار الرحمت (سید مسعود احمد صاحب) ناظم مہمان نوازی حلقہ دارالعلوم ( صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب) مرکزی شعبہ جات کے لئے کھانا تیار کرنے کے لئے حسب معمول تین لنگر جاری کئے گئے.علاوہ ازیں بیمار اور عمر رسیدہ احباب کے لئے پر ہیزی کھانا تیار کرنے کے لئے پہلی بار نیا نگر بھی جاری کیا گیا.ان لنگروں میں ناظم کے فرائض حسب ذیل حضرات نے ادا فرمائے.ملک سیف الرحمن صاحب فاضل ( نظامت دار الصدر النگر خانہ نمبرا) (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ( نظامت دار العلوم لنگر نمبر ۳) قریشی مقبول احمد صاحب (ناظم انتظام پر ہیزی) افسر رابطہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب مقرر تھے.جلسہ سالانہ کے مرکزی دفاتر ، دفتر وقف جدید کے عقب میں دفاتر انصار اللہ سے متصل میدان میں قائم کئے گئے تھے ( یہاں اب جلسہ سالانہ کی نئی خوبصورت بلڈنگ تعمیر ہو چکی ہے ).حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کے قیام کا وسیع پیمانے پر ضلع وارا نتظام تھا.دفتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ، جامعہ نصرت اور نصرت گرلز ہائی سکول کی عمارات مستورات کی قیام گاہیں تھیں.اور مرد جامعہ احمدیہ، ہوٹل جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول معہ بورڈنگ ہاؤس نیز تعلیم الاسلام کالج اور فضل عمر ہوسٹل میں قیام فرما تھے.205.204
تاریخ احمدیت.جلد 23 357 سال 1965ء دنیا کی چالیس زبانوں میں تقاریر ۱۹ دسمبر کی شب کو (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی زیر صدارت دنیا کی چالیس زبانوں میں تقاریر ہوئیں اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جو مکرم عبد الغنی صاحب کریم انڈونیشین نے کی بعدۂ دنیا کی چالیس زبانوں میں تقاریر ہوئیں.ان میں اردو، بنگالی اور پشتو کے علاوہ بھارت کی زبانوں میں سے ہندی ، گورمکھی اور سنسکرت ، یورپ کی زبانوں میں سے انگریزی، جرمن، ڈچ، فرانسیسی اور اطالوی مشرق وسطی کی زبانوں میں سے عربی اور فارسی، مشرقی افریقہ کی زبانوں میں سے سواحیلی اور لوگنڈی ، مغربی افریقہ کی زبانوں میں سے فینٹی ، اشانٹی چوٹی، جنوب مشرقی ایشیا کی زبانوں میں سے انڈونیشین اور ملائی نیز چینی، ماریشس کی زبان کریول، جزائر فجی کی زبان نجی اور بعض دوسرے ممالک کی زبانیں شامل تھیں.ان تقاریر میں بیرونی ممالک سے تشریف لائے ہوئے احباب کے علاوہ ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ اور مبلغین اسلام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.ان تقاریر کے لئے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ایک پُر معارف تقریر کا حسب ذیل اقتباس منتخب کیا گیا تھا: میں خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا.اور گو میں مرجاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا....خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف کتنی بھی گالیاں دیں، مجھے کتنا بھی برا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے ، آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ سوسال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا وہ صحیح کہا تھا یا غلط.میں بے شک اُس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مورخ اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اُس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے.اگر وہ میرے نام کو اُس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا.ایک بہت بڑا خلا واقع ہو جائے گا جس کو پُر کرنے والا کوئی نہیں
تاریخ احمدیت.جلد 23 ملے گا.206- 358 سال 1965ء مقررین نے حضور کی تقریر کے اقتباس کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ سنایا.جن غیر ملکی اصحاب اور غیر ملکی طلبہ نے اس پروگرام میں حصہ لیا ان کے اسماء یہ ہیں.ماریشس کے عبدالستار سوکیہ اور جناب احمد شمشیر سوکیہ ،گھانا مغربی افریقہ کے جناب یوسف یاسن ، جناب عبدالمالک اور جناب عبد الواحد، یوگنڈا مشرقی افریقہ کے جناب احمد وا سوا کز نیٹو انڈونیشیا کے جناب حسن بصری ، جناب سفنی ظفر، اور جناب عبدالکریم غنی چین کے جناب محمد عثمان اور جزائر فجی کے جناب عبدالرؤف.یہ اجلاس اس حقیقت کا ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی یہ بشارت کہ: میں تیری تبلیغ کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“ 207 بڑی شان سے پوری ہوئی ہے اور اشاعت اسلام کے نظام کے وسیع سے وسیع تر ہونے کے ساتھ روز بروز پوری ہوتی چلی جارہی ہے چنانچہ اس میں شمولیت احباب کے لئے بہت از دیاد ایمان کا موجب ہوئی اور انہوں نے بہت ذوق وشوق اور گہری دلچسپی کے ساتھ اس کی کارروائی کوسن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کیا.آخر میں تحریک جدید کی اہمیت سے متعلق سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی ایک پر معارف تقریر کا ریکارڈ بھی سنایا گیا.حضور کی تقریر خود حضور ہی کی آواز میں سُن کر احباب پر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی.انہوں نے یہ تقریر محبت و حقیقت کے بے پناہ جذبات سے سرشار ہوکر کمال محویت کے عالم میں سنی جو ان کے لئے بہت از دیا ایمان اور ازدیاد علم وعرفان کا موجب ہوئی.بزرگان سلسلہ اور فاضل علماء کی حقیقت افروز تقاریر سلسلہ احمدیہ کے جن بزرگوں اور فاضل علماء نے اس موقع پر جلسہ سے خطاب فرمایا.اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں.(۱۹دسمبر ) حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری ( تحریری پیغام.آپ کا پیغام مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا ) ، مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقام)، شیخ محمد احمد صاحب مظہر ( حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ )، مرزا عبدالحق صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 359 سال 1965ء ایڈووکیٹ ( مغربی تہذیب کا بڑھتا ہوا اثر اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داریاں ) ،مولانا جلال الدین صاحب شمس ( اسلام کا عالمگیر غلبہ ) ، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت ہیگ 208 (اشاعت اسلام کے وسائل ) اسی تقریر کے آخر میں آپ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک فرمائی.(۲۰ دسمبر ) جناب قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے سابق صدر شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اسلام اور دنیا کے دیگر مذاہب)، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں ) ، شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ (حقیقت جہاد ).(۲۱ دسمبر ) مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری (اسلامی عقائد )، جناب عبدالستار صاحب سوقیہ جنرل پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ماریشس ماریشس میں تبلیغ احمدیت ) ، صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ (افریقہ میں تبلیغ اسلام ).یہ سب پر از معلومات اور عالمانہ وفاضلانہ تقریر میں اپنے اپنے موضوع کے اہم پہلوؤں پر حاوی اور دلنشین تھیں.جو اوّل سے آخر تک گہری توجہ اور کامل دلچسپی سے سنی گئیں.خدائی نصرتوں کا غیر معمولی اجتماع 209 الغرض خلافت ثالثہ کا یہ پہلا مبارک جلسہ تاریخ احمدیت میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت سے ہمیشہ یادگار رہے گا.یہ تاریخی جلسہ اپنے دامن میں عظیم الشان نفرتوں اور کامرانیوں کو سمیٹے ہوئے شروع ہوا اور کامیابیوں کے نئے دروازے کھول کر بخیر و خوبی اختتام پذیر ہو گیا.متعدد مشکلات اور قسما قسم کی دقتوں کے باوجود ( جن کی موجودگی میں اس اجتماع کی کامیابی کے امکانات بہت مخدوش نظر آ رہے تھے ) خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ جلسہ ہر لحاظ اور ہر جہت سے خارق عادت طور پر کامیاب رہا.شمع احمدیت کے پروانوں کا ہجوم، غیر از جماعت احباب کی بکثرت آمد، بلند پایہ اور علمی تقاریر، پریس اور ریڈیو کی غیر معمولی دلچسپی، انتظامات جلسہ کا معیاری رنگ اور سب سے بڑھ کر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی وجد انگیز ، روح پرور اور انقلاب انگیز تقریریں اور فضل عمرفاؤنڈیشن کا قیام اس جلسہ کی ایسی خصوصیات ہیں جن کی یاد قلوب واذہان میں ہمیشہ تازہ رہے گی.یہ جلسہ احمدیت کی صداقت کا ایک تازہ اور خارق عادت نشان تھا جس کے اندر خدائی نصرتوں کے بہت ایمان افروز نظارے ہزاروں نفوس نے بچشم خود دیکھے.اس جلسہ نے ثابت کر دیا کہ اسلام
تاریخ احمدیت.جلد 23 360 سال 1965ء زندہ مذہب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے زندہ نبی.نیز احمدیت آسمانی تحریک ہے اور نظام خلافت بڑا ہی بابرکت اور اعجاز نما نظام ہے جس کے ساتھ پوری امت مسلمہ کی تمام تر فلاح و بہبود اور عروج و اقبال وابستہ ہے.اس جلسہ نے یہ حقیقت بھی پوری طرح واضح کر دی کہ خلیفہ اللہ ہی بناتا ہے اور وہ جسے خلعت خلافت سے نوازتا ہے اس کے پاک لبوں پر روحانی و مادی علوم اور فیضان و عرفان کے غیبی چشمے جاری فرما دیتا ہے.اس کی زبان پر خالق کا ئنات کے خالص تصرف سے معارف و حقائق سے لبریز کلمات جاری ہوتے ہیں.الفاظ اس کے مگر بلا وا خدا کا ہوتا ہے بالفاظ دیگر اس کی پوری شخصیت کوثر و تسنیم کے انوار سے دھل کے ایک نئے رنگ میں جلوہ گر ہوتی اور ایک جدید قالب میں ڈھل جاتی ہے اور احمدی خدائے ذوالجلال کی قسم کھا کر یہ شہادت دیتے ہیں کہ یہ انقلاب روحانی انہوں نے خود مشاہدہ کیا یہی نہیں بلکہ احمدیوں کی آنکھوں نے سید نا اصلح الموعود کوخلافت ثالثہ کے تاجدار کی صورت میں دیکھ لیا اور اس مقدس وجود کے ذریعہ سے ان کے کانوں نے سید نام مصلح الموعود کی پیاری اور دلکش آواز سنی وہی عکس جمال محمد! وہی خلق جلال الہی جس کا نظارہ دیکھنے کو وہ ترس گئے تھے مولا نے اپنے فضل سے ان کو دکھا دیا.الحمد للہ علی ذالک
تاریخ احمدیت.جلد 23 1 2 3 361 حوالہ جات (صفحه 1 تا360) الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۵ صفحہ اسے جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۹ جنوری ۱۹۶۵ ، صفحه ا الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۸ کتاب عبد السلام مؤلفه عبدالحمید چوہدری صفحه ۲۴.ناشر Ahmad Salam,8,Campion Road, SW15 6NW, London 4 5 6 7 8 رسالہ ” اطلاعات“ کراچی ۱۶ جنوری ۱۹۶۵ء بحواله الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ ماہنامہ الفرقان لکھنو بحوالہ رسالہ المنبر ، فیصل آبا د۲ جولائی ۱۹۶۵ء بحواله بدر ۱۹ /اگست ۱۹۶۵ء صفحه ۸ کتاب الحج از حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صفحه ۵ ۲۷ تا ۲۷۸ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۶۵ء صفحه ۸ سال 1965ء 9 الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۶۵ صفحه ۸ و ۱۹ مارچ ۱۹۶۵ صفحه ۳ 10 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۵ صفری۴ - ۵ ناشر مولوی عبد الرحمن صاحب انو رسیکرٹری مشاورت 11 الفضل ۲۱ / اپریل ۱۹۶۵، صفحه ۵ 12 13 رپورٹ مشاورت ۱۹۶۵ء صفحه ۲۰۵ تا ۲۰۸ پاکستان ٹائمنر لاہور ۲۸ مارچ ۱۹۶۵ ، صفحریه 14 تبصرہ نگار: مقبول الہی بحواله الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۶۵ء صفحه ۴۰۳ 15 ٹورانٹو ڈیلی سٹار ۱۰ ر ا پریل ۱۹۶۵ء صفحه ۶۳ 16 رسالہ انصار الله ر بوه جون ۱۹۶۵ صفحه ۳۱ تا ۳۴ 17 آزاد نوجوان مدر اس ۲۵ جون ۱۹۶۵ء بحوالہ الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۶۵ صفحہ۸ 18 ماہنامہ خالد ر بوه مئی ۱۹۶۵ء 19 بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان ۲۶ جولائی ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 20 اخبار الفضل ۲۳ را پریل ۲۷ مئی.۳۰ مئی ۳ جون ۱۲ جون ۲ جولائی.۳ جولائی.۱۸ جولائی ۲۴، ۲۵ جولائی.۲۹ جولائی ۱۹۶۵ء.رسالہ تحریک جدید ربوہ اگست ۱۹۶۵ء صفحه ۹،۸، ۱۶،۱۵.اخبار بدر قادیان ۸.۱۵.۲۲.۲۹ جولائی.۵-۱۲/اگست ۱۹۶۵ء 21 اخبار الفضل ۲۵-۲۶ اگست ۲۲ ستمبر.۶ نومبر ۱۹۶۵ء.ماہنامہ تحریک جدیدر بوه اکتوبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱۱-۱۲
تاریخ احمدیت.جلد 23 362 22 تذکرہ صفحہ ۳۹.ایڈیشن ۲۰۰۴ء - الهام مارچ ۱۸۸۲ء 23 الفضل ۱۳ مئی ۱۹۶۵ ء صفحه ۳-۴ 24 ترجمہ از رسالہ انصار اللہ ربوہ مئی ۱۹۶۵ء صفحه ۴۳ ۴۴ 25 ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل ۲۷ جولائی ۲۰۱۲ صفحه ۲ 26 سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خاں اور ان کی اولاد - صفحہ ۱۰۳،۱۰۲.مؤلفہ ڈاکٹر غلام اللہ صاحب 27 الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۵ء صفحه ۳ 28 ترجمہ.بحوالہ الفضل یکم تمبر ۱۹۶۵، صفحہ ۸ 29 پاکستان ٹائمنز ۲۲ /اپریل ۱۹۶۵ء 30 الفضل ۲۶ جون ۱۹۶۵ ، صفحه ۳ ۴۰ 31 " شکر نعمت از ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب.مطبوعہ کینیڈ ۲۰۰۴۱ء 32 الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۵ صفحه ۸ 33 الفضل ۴ جولائی ۱۹۶۵ء صفحہ ۳ تا ۵ 34 تذکرہ صفحہ ۲۶۰.ایڈیشن ۲۰۰۴ سال 1965ء 35 لُجَّةُ النُّور صفحه ۶۷ مطبوعہ فروری ۱۹۱۰ ء روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحه ۴۰۸ تذکره صفحه ۲۶۰.ایڈیشن ۲۰۰۴ء.الہام ۱۸۹۸ء 36 ماہنامہ تحریک جدید اگست ۱۹۶۵، صفحریه 37 ہفت روزه بدر قادیان ۲۶ /اگست ۱۹۶۵ء صفحیم 38 الفضل ۱۸ / اگست ۱۹۶۵ء صفحہ ۸ - ماہنامہ تحریک جدید ر بوه ستمبر ۱۹۶۵ صفحہ۱۱-۱۲ 39 انصار الله ر بوه ستمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲۴ 40 الفضل ۷ انومبر ۱۹۵۵ء صفحه ۳ ۴۰ 41 رن کچھ سے چونڈ ہ تک.ناشر مقبول اکیڈمی لاہور طبع نم ۱۹۸۳ء صفحہ ۳۰ تا ۳۴ 42 رن کچھ سے چونڈہ تک صفحہ ۳۵ 43 " تاریخ پاک بھارت جنگ صفحہ ۲۱.۲۸ تلخیص.ناشر مکتبہ عالیہ اا.ایک روڈلاہور طبع سوم اکتوبر ۱۹۶۵ء 44 حق کے پرستار صفحه ۸۸۴، ناشر تعمیر ادب لاہور طبع اول اکتوبر ۱۹۶۶ء 45 ہمارے غازی ہمارے شہید.ناشر مکتبہ میری لائبریری - ۱۲۳.لاہور 46 پاکستان میدان جنگ میں صفحہ ۲۴۴، ناشر بساط ادب.چوک انار کلی لاہور 47 روزنامه جنگ ۱۶ فروری ۱۹۸۳ء صفحه ۵ KASHMIRIS FIGHT FOR FREEDOM, VOL.II, PG 1175, BY MUHAMMAD YUSUF SARAF 48
تاریخ احمدیت.جلد 23 50 روزنامه امروز ۲۵ستمبر ۱۹۶۵ ، صفحه او آخر نوائے وقت مورمحہ ۲۵ ستمبر ۱۹۶۵ء 51 جنگ لاہور ۶ ستمبر ۱۹۸۴ء صفحه ۳ 52 جنگ ۱۰ ستمبر ۱۹۸۴ء صفحه ۳ 53 ” نوائے وقت“ ۲۰ ستمبر ۲۰۰۵ء 54 روزنامه " امروز لاہور مورخہ ۸ ستمبر ۱۹۶۵ء 363 سال 1965ء 55 رن کچھ سے چونڈہ تک صفحہ ۷۲ تالیف خالد محمود ناشر مقبول اکیڈمی ادبی مارکیٹ چوک انار کلی لاہور طبع ستمبر ۱۹۸۳ء 56 رن کچھ سے چونڈہ تک صفحه ۲۸۶ تالیف خالد محمود ناشر مقبول اکیڈمی ادبی مارکیٹ چوک انار کلی لاہور طبع ستمبر ۱۹۸۳ء 57 الفضل ، استمبر ۱۹۶۵ صفحه 58 حق کے پرستار صفحہ ۳۷، ناشر تعمیر ادب چوک انار کلی لاہور طبع اول اکتوبر ۱۹۶۶ء 59 پاکستان میدان جنگ میں صفحہ ۲۴۵، ناشر بساط ادب چوک انار کلی لا ہور نمبر ۲ 60 وطن کے پاسبان ، صفحہ ۱۱۳ تا ۱۱۶ 61 سیالکوٹ زندہ رہے گا.صفحہ ۱۰۶.از اسلم ملک.ناشر اردوادب اکیڈمی سیالکوٹ 62 ” سیالکوٹ زندہ رہے گا صفحہ ۳۰۹ تا ۳۱۱- از اسلم ملک.ناشر اردو ادب اکیڈمی سیالکوٹ 63 نوائے وقت لاہور ۲۵ اگست ۱۹۷۷ء حوالہ لاہور ۸ ستمبر ۱۹۷۸ء صفحه ۸ 64 65 نوائے وقت لاہور.۱۰ مارچ ۱۹۷۸ء روزنامه امروز مورخه ۱۹۶۵-۹-۲۵ صفحه او آخر 66 ”آخری کمانڈر انچیف“ مصنف لیفٹینٹ جنرل گل حسن خاں مترجم ڈاکٹر محمود الرحمن.دوست پہلی کیشنز اسلام آباد صفحہ ڈاکٹرمحمود پلی 20 67 ۲۲۴ تا ۲۴۲ مكتوب جناب ناصر احمد صاحب باجوہ.صدر محلّہ دارالیمن شرقی ربوہ.مورخه ۱۵ ستمبر ۱۹۹۸ء ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 68 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۶ ، صفحه ۸ 69 الفضل ۲۲ فروری ۱۹۶۶ ، صفریم 70 بحواله الفضل ا استمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۵ 71 بمطابق الفضل ۱۵ستمبر ۱۹۲۵ صفحه ۱ 72 رسالہ لاہور لاہور ۸ ستمبر ۱۹۸۴ء صفحه ۵ 73 لاہور ۸ ستمبر ۱۹۸۴ء صفحه ۵ 74 الفضل ۴ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۵
تاریخ احمدیت.جلد 23 75 الفضل کے تمبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ 76 رن کچھ سے چونڈہ تک صفحه ۲۱۴ 364 77 روزنامه جنگ لاہور ۶ ستمبر ۲۰۰۳ء 78 79 ماہنامہ خالد جنوری ۲۰۰۴ ء صفحه ۱۷ ہفت روزه حرمت ۲۷ دسمبر ۹۶ تا ۱۰۲.جنوری ۱۹۹۷ء سال 1965ء پاک فضائیہ تاریخ کے آئینہ میں صفحہ ۲۴۴ تا ۲۴۶.ناشر و علم و عرفان پبلشر ز مال روڈ لاہور اشاعت اپریل ۲۰۰۱ء 81 ہمارے غازی ہمارے شہید.ناشر ادارہ میری لائبریری سلسلہ نمبر ۱۲۳ لاہور 82 روزنامه مشرق لاہور ۵ نومبر ۱۹۶۵ء بحوالہ الفضل ربوہ کے نومبر ۱۹۶۵ء 83 الفضل ۵ جنوری ۱۹۶۶، صفحہ ۷۶ 84 الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ۶ 85 روز نامہ جنگ لاہور اشاعت خاص.صفحہ الوئر ہاف کالم نمبر 4 86 الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۹۲ء صفحریم ۵ 87 الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۵ء 88 الفضل ۶ استمبر ۱۹۶۵ء صفحه ا 89 اخبار امروز لاہور مورخہ ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۵ء بحواله الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۵ صفحها 90 الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۵ء صفحها 91 کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں صفحہ نمبر ۱۱۲ تا ۱۱۶ 92 الفضل ۱۲نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۶ 93 الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۶۵ صفحه ا 94 رپورٹ از صدر لجنہ مرکز یہ بحوالہ کے دسمبر ۱۹۶۵ء 95 الفرقان فروری ۱۹۶۶ صفحه ۴۳ تا ۴۵ 96 تذکرہ صفحہ ۴۹۰ - ۴۹۱.ایڈیشن ۲۰۰۴ء.الہام نومبر ۱۹۰۵ء 97 الفضل ۲۹ اپریل ۱۹۴۴ء صفحه ۲ کالم ۲ 98 رؤیا و کشوف سید نا محمود صفحه ۱۷۵ 99 الفضل ۳۰ را اکتوبر ،۵، ۶ نومبر ۱۹۶۵ء- الفرقان فضل عمر نمبر، دسمبر ۱۹۶۵ء جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۱۱ ۱۳ 100 غیر مطبوعہ ڈائری مولانا عبدالرحمن صاحب انور 101 خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۲۲، مطبوعه الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۳ء 102 الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۵۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 103 تذکرہ صفحہ ۲۷.ایڈیشن ۲۰۰۴ء - الهام ۱۸۸۰ء 104 الفضل، انومبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲ 105 الفضل الدسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱-۲ 106 الفضل، انومبر ۱۹۶۵ء صفحریم 365 107 الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۱ تا ۳ 108 الفضل اا نومبر ۱۹۶۵ ء صفحہ ۱ - ۶ 109 اخبار صدق جدید ید لکھنو.جلد ۶ انمبر ۷ بابت ۱۴ جنوری ۱۹۶۶ء 110 بدراا نومبر ۱۹۶۵ء صفحه ا 111 الفضل ۱۳ نومبر ۱۹۶۵ء صفحه یم 112 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ صفحہ۱ 113 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۸ Morning News Nov 9, 1965 114 115 مشرق ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء بحوالہ افضل ۱۱ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحریم.۵ 116 بحواله الفضل ۲ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۶ 117 اخبار صدق جدید لکھنو ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ ء بحواله الفضل ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ ص ۸ 118 روزنامہ حقیقت لکھنو ، انومبر ۶۵ ء 119 ٹریبیون انبالہ ۹ نومبر ۶۵ء 120 روز نامه سماج کٹک ۱۳ نومبر ۶۶۵ 121 بحوالہ بدر قادیان ۱۸ نومبر ۱۹۶۵ء صفحریم 122 الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۶۶ ء صفحہ ۶ 123 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۶۵ء 124 ماہنامہ انصار اللہ حضرت خلیفہ المسیح الثنی نمبر ما ئی ، جون ، جولائی ۲۰۰۹ء 125 اخبار لاہور ۲۲ نومبر ۱۹۶۵ء 126 ماہنامہ سفینہ نومبر دسمبر ۱۹۶۵ء بحوالہ ہفت روزہ لاہور ۲۴ جنوری ۱۹۶۶ء 127 الفضل ۱۴ ر ا پریل ۱۹۶۶ء صفحه ۳ تا ۵ 128 روزنامه الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۶۶ء 129 ماہنامہ خالد ربوہ ماہ نومبر دسمبر ۱۹۷۸ ، صفحہ ۶۹-۷۱ 130 سوانح فضل عمر جلد پنجم صفحه ۵۵۵ تا ۵۵۹ سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 131 بحوالہ الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۶۷، صفحہ ۹ 366 132 ” ایک خوفناک سازش صفحه ۱۹۶ مصنفہ مظہر علی اظہر 133 اخبار عادل د بلی ۲۴ را پریل ۱۹۳۳ء 134 تاثرات قادیان صفحه ۱۶۱ 135 تاثرات قادیان بحوالہ مشرق مورخہ ۲۲ ستمبر ۱۹۲۷ء 136 " سفینہ لاہور ۱۳ نومبر ۱۹۴۸ء 137 الفضل ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء صفحیم 138 الفضل ۱۲ نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۶ 139 ملت کا فدائی صفحہ ۷۳ تا ۷۵.مرتبہ مرزار فیق احمد صاحب 140 تذکره صفحه ۱۳۹ رایڈیشن چهارم ۲۰۰۴ء.منصب خلافت - صفحہ ۱۶-۱۹ سال 1965ء 141 قواعد وضوابط صدر انجمن احمدیہ پاکستان مرتبه ۱۹۲۶، سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۶۶-۱۹۲۵ء، رجسٹر غ_م ریزولیوشن نمبر ۱۹۶۴-۷ - ۱۸/۹ 142 خط نمبر ۲۰۱۳-۷-۲۵/۴ بنام انچارج شعبه تاریخ احمدیت از وکیل الدیوان تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان 143 رپورٹ سالانہ صد را مجمن احمد یه سال ۶۶-۱۹۶۵ء صفحه ۱۳۰، ۱۶۷، ۱۶۸ 144 رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۵ صفحہ ۷ ۲۰۴،۱۹۷،۷ 145 ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی ۲۰۰۸ صفحه ۳۰۴٬۳۰۳ 146 مطبوعہ الفضل سے مئی ۱۹۶۰ء 147 ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا مصلح موعود نمبر جون، جولائی ۲۰۰۸ ، صفحہ ۲۷۹ تا ۲۸۹.جماعت احمدیہ سے متعلق تاریخی معلومات صفحه ۶۳ تا ۱۰۹.مرتبہ عبدالسمیع خان صاحب 148 الحکم خصوصی پر چه ۶ نومبر ۱۹۰۹ 149 حیات ناصر جلد اوّل صفحہ ۲۶ 150 الفضل استمبر ۱۹۳۴، صفحہ ۷ 151 الفضل 3 جنوری ۱۹۲۸ء 152 تقریر دلپذیر صفحه ۴۰ طبع اوّل 153 الفضل الاستمبر ۱۹۳۴ء 154 الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ ء صفحه ۸ 155 طالمود.جوزف بار کلے باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۸ء 156 تذکر طبع چہارم ۲۰۰۴ء - صفحه ۶۲۰۶۱۹
تاریخ احمدیت.جلد 23 367 157 چر به مکتوب الفضل ۱/۸ اپریل ۱۹۱۵ء صفحه ۵ 158 خلافت حقه اسلامیه صفحه ۱۶ تا ۱۸ 159 الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۱.۸ 160 تاریخ لجنہ جلد سوم صفحه ۲۹۶ 161 الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۲-۳ 162 الفضل ۱۲دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۳ 163 ماہنامہ تحریک جدیدر بوه دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۶ 164 الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۱۴ء صفحه ۱۶ 165 الفضل ۱۸ نومبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲ تا ۴ 166 الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲-۴ 167 الفضل الدسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۲ 168 الفرقان ربوہ فضل عمر نمبر دسمبر ۶۵ وجنوری ۶۶ء - صفحہ ۱۰،۹ 169 الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء صفحه ا 170 الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۳-۴ 171 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۶۵ ء صفحه ۳-۴ 172 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ا 173 الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۶ صفحه ۳ ہم 174 الفضل ۷ دسمبر ۱۹۶۵، صفحہ ۳ 175 مصباح فروری ۱۹۶۶، صفحه یم ۳ تا ۳۶ 176 کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ رواں صفحہ ۱۱۹ 177 ترجمه از الفضل ۱۷ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 178 الفضل 9 جنوری ۱۹۶۶ ، صفحریم 179 بدر ۲۳ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲ 180 الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۶ء صفحریم 181 الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۶ 182 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۵ صفحہ۱ 183 الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۲ 184 الفضل ۲ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۶،۵ سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 368 185 تذکره طبع چہارم صفحه ۵۹۵ - الهام ۱۸ مارچ ۱۹۰۷ ء 186 الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ۴۰۳ 187 الفضل ۱۸ جنوری ۱۹۶۶، صفحه ۳ ۴۰ 188 زندہ مذہب صفحہ ۲۹.انوار العلوم جلد ۳ صفحه ۶۱۲ ۶۱۳ 189 فضائل القرآن صفحه ۴۳۹ 190 الفضل ۲۴ را پریل ۱۹۳۴ء صفحه ۸ 191 الفضل ۱۸ فروری ۵۸ صفحه ۳ 192 الموعود صفحه ۲۱ تا ۲۱۴.انوار العلوم جلدی اصفحہ ۶۴۸،۶۴۷ 193 خلافت راشدہ انوار العلوم جلد ۵ اصفحہ ۵۸۸،۵۸۷ 194 الفضل فضل عمر نمبر مارچ ۱۹۶۶ صفحه ۹ تا ۱۲ 195 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۵ صفحه ۲ 196 الفضل ۲۴ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۲ 197 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۳ 198 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۳ ۴۰ 199 روزنامه الفضل ۲ جنوری ۱۹۶۵ء یا ظلم ۲۹ دسمبر کے الفضل کے صفحہ پر چھپ چکی ہے.200 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 201 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 202 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۸ 203 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 204 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۵، صفحه ۲ تا ۵ 205 الفضل ۱۸ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱ تا ۸ 206 تقریر بر موقعه جلسه سالانه ۱۹۶۱ء 207 الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 208 تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو اخبار الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۶ 209 روداد کی تفصیل دسمبر ۱۹۶۵ء ، جنوری ۱۹۶۶ء کے الفضل میں موجود ہے.سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 369 سال 1965ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال جیسے جیسے ماہ و سال آگے بڑھتے جارہے تھے اسی نسبت سے قدوسیوں کا یہ گروہ کم ہوتا چلا جارہا تھا.بہت سے پاک وجود جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست فیض پایا اپنی چمک اور نور سے ایک عالم کو منور کرتے رہے اور پھر سال ۱۹۶۵ء میں ایک کامیاب دور حیات گزار کر اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.ان کا تذکرہ ذیل میں دیا جاتا ہے.حضرت مولوی ظفر الاسلام صاحب ولادت : ۱۸۹۹ء بیعت : ۰۸.۱۹۰۷ء وفات : ۸جنوری ۱۹۶۵ء آپ کو بچپن میں اپنے والدین کے ہمراہ چھ ماہ قادیان میں رہنے اور اس دوران بار بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا اعزاز حاصل ہوا.آپ نے ربوہ میں وفات پائی.آپ صاحب قلم تھے.فضل عمر کے زریں کارنامے آپ کی یاد گار تالیف ہے.اس کے علاوہ انسپکٹر بیت المال کے طور پر خدمت بجالانے کی توفیق بھی ملی.آپ کی کوئی اولاد نہ تھی.حضرت مولوی الف دین صاحب ولادت : ۱۸۸۲ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات : ۹ جنوری ۱۹۶۵ء آپ کی عمر چاند گرہن اور سورج گرہن ( مارچ ۱۸۹۴ء) کے وقت ۴ اسال کی تھی.آپ کو تبلیغ حضرت مولوی فیض الدین صاحب اور مہر غلام حسین صاحب کے ذریعہ ہوئی.اس اثر کے بعد آپ قادیان روانہ ہوئے.تین اشخاص تھے ایک ان میں برہمن بھی تھا.برہمن کو راستے میں عیسائیوں نے روک لیا.وہ پہلے تو رک گیا.لیکن ایک دن کے وقفہ کے بعد آخر قادیان آہی پہنچا.جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس برہمن نے نجات کا مسئلہ پوچھا.حضور نے فرمایا کہ: سناتن ۳۶ کروڑ دیوتاؤں اور آریہ تین خداؤں اور عیسائی بھی تین خداؤں کے قائل ہیں.آپ یہاں ہمارے پاس ٹھہریں اور تحقیقات کریں.(جو کہ توحید پرست ہیں ) آپ سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 370 سال 1965ء اولاد: سیف الدین سیف صاحب نورالدین صاحب، ابراہیم ظفر صاحب، غلام محی الدین صاحب، سکینہ بی بی صاحبہ، زینب بی بی صاحبہ، رحمت بی بی صاحبہ، آمنہ بی بی صاحبہ، مبارکہ بیگم صاحبہ حضرت مرز امحمد اسماعیل صاحب ولادت : ۱۸۸۳ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات : ۲۱ جنوری ۱۹۶۵ء آپ پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم تھے جب آپ کے ماموں حضرت مرزا خدا بخش صاحب مصنف عسل مصفی آپ کو قادیان لے گئے اور آپ نے بیعت کی سعادت حاصل کی.میٹرک تک قادیان ہی میں تعلیم حاصل کی.آپ جھنگ سائل کے رہنے والے تھے.۱۹۰۳ء میں لاہور آگئے.اور یہاں ہی ملازمت اختیار کی.اندرون بھاٹی گیٹ میں آپ کی سکونت تھی.بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.بہت نیک اور متقی انسان تھے.اولاد: محمد احمد صاحب، صلاح الدین صاحب، محمد افضل نسیم صاحب، سلیمہ صاحبہ، طاہرہ صاحبہ.محموده صاحبه حضرت حکیم محمد عمر صاحب لدھیانوی ولادت : ۱۸۸۶ءاندازاً وفات : ۸ فروری ۱۹۶۵ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور مخلص صحابی حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی کے فرزند تھے.آپ کی کوئی اولاد نہ تھی.عرصہ ہوا آپ نے اپنی تمام جائیداد جماعت کے نام وقف کر دی ہوئی تھی.غرباء کے ساتھ ہمدردی آپ کا خاص وصف تھا.چہرہ وجیہہ، انداز گفتگو پر شوکت اور قد لمبا تھا.حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب الکمل نے آپ کی وفات پر لکھا کہ: حکیم صاحب سلسلہ کے انتظامی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے.لنگر خانہ مہمان خانہ آپ ہی کے زیر انتظام رہا.اور خلافت اولیٰ میں خوب بخوشی اسلوب خدمات بجالائے.پھر میاں غلام رسول صاحب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کے زیر ہدایت ڈاکوؤں کے ایک گروہ کو نہایت حکمت عملی سے پکڑوا کر زمین کے مربعے انعام پائے.اور آخران کو فروخت کر کے قادیان میں بڑی بلڈنگ بنوائی اور اسے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور سلسلہ کے لیے پیش کر دیا.اور وہاں نصرت گرلز سکول رہا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 371 سال 1965ء پھر ہجرت کے بعد سندھ میں قیمتی زمین حاصل کی.اور اسے آبا دکر کے سب سلسلہ کے مفاد میں پیش کر دی.آپ ہر چند تین بیویاں حبالہ نکاح میں لائے مگر پھر بھی کوئی اولاد نہ ہوئی.ربوہ میں رہائش تھی اور حضور پر نور کی جانب سے ہر قسم کی ضرورت کے لیے آسائش مہیا کر دی گئی تھی.آپ تبلیغ احمدیت میں بہت حصہ لیتے رہے.حیدر آباد دکن میں اپنی ایک فتنی ایجاد (پارہ کا گلاس) کے ذریعہ کئی ایسے رؤسا کے پاس پہنچے جہاں باریابی حاصل کرنے کے لیے ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا اور جہاں ان سے مالی معاوضہ حاصل کرتے وہاں کھل کر احمدیت کا پیغام بھی پہنچاتے جو اصل مقصود تھا.حضرت مستری غلام قادر صاحب ولادت : ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۶ء وفات : اافروری ۱۹۶۵ء آپ کا تعلق سیالکوٹ سے تھا.سالہا سال تک مسجد احمد یہ سیالکوٹ میں بطور خادم خدمات بجا لاتے رہے.آپ نہایت مخلص اور فدائی احمدی تھے.۱۹۴۷ء کے فسادات میں آپ کے ایک فرزند مکرم غلام محمد صاحب نے قادیان میں شہادت کا رتبہ حاصل کیا.جس کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ا ا صفحہ ۱۸۸ تا ۹۰ اوپر موجود ہے.حضرت مستری صاحب نے یہ صدمہ بڑے حوصلہ اور صبر سے برداشت کیا.۱۲ فروری ۱۹۶۵ء کو آپ کا جنازہ ربوہ لایا گیا.نماز جمعہ کے بعد محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت فرمائی.بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد : غلام محمد صاحب عبد العزیز صاحب، رشیدہ بیگم صاحبہ، امتہ القدیر صاحبہ، زینب بی بی صاحبہ، امتہ القیوم صاحبہ حضرت مریم بیگم صاحبہ ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۱ء وفات: ۱۱فروری ۱۹۶۵ء آپ مکرم حاجی محمد اسماعیل صاحب (ریٹائر ڈاسٹیشن ماسٹر لاہور ) کی اہلیہ اور حضرت میاں محمد یوسف صاحب آف مردان کی صاحبزادی تھیں.۱۲ فروری ۱۹۶۵ء کومحترم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے بعد نماز جمعہ آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.اولاد: فضل حق غازی فضل الرحمن غازی مرحوم، سکینہ بیگم، طاہرہ بیگم ، ناصرہ بیگم نصیرہ بیگم !
تاریخ احمدیت.جلد 23 372 حضرت بابا نور محمد صاحب ولادت : اندازاً ۱۸۶۵ء بیعت: ۱۹۰۰ء سال 1965ء وفات: ۲۷ فروری ۱۹۶۵ء آپ کا تعلق ڈہرانوالی ضلع گوجرانوالہ سے تھا.آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی.حضرت چوہدری رحیم بخش صاحب 10 ولادت: ۱۸۷۵ء قریباً بیعت دستی : ۱۹۰۷ء وفات : ۱۴ مارچ ۱۹۶۵ء آپ مولوی عطاء اللہ صاحب فاضل سابق مبلغ فرانس کے والد ماجد تھے.آپ ابتداء ہی سے پابند صوم وصلوۃ اور کم گو تھے.اکثر خدا کے گھر میں بیٹھے تلاوت قرآن میں مصروف رہتے تھے.دنیوی مجالس میں بہت کم حصہ لیتے.سچی بات بڑی جرات سے بیان کرتے اور مقامی جماعت میں ایک نمایاں اور با اثر وجود تھے.آپ چک چھورے مغلیاں ضلع شیخو پورہ کے رہنے والے تھے.اولاد.ا.مولوی عطاء اللہ صاحب مولوی فاضل سابق مبلغ فرانس چک چھورے اضلع شیخو پورہ.چوہدری مشتاق احمد صاحب آکسفورڈ.چوہدری اسحاق منصور صاحب بی.اے لاہور ۴.رابعہ بی بی صاحبہ زوجہ محمد عبد اللہ صاحب چک چهور ۵- خورشید بیگم صاحبہ زوجہ محمد اسحاق ساقی صاحب ۶ - آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری مجید احمد کا ہلوں صاحب آف جہانیاں حضرت میاں معراج الدین صاحب پہلوان ولادت : ۱۸۸۰ء بیعت قبل ۱۹۰۰ ء یا ۱۹۰۱ء وفات :۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء آپ بھائی دروازہ محلہ پٹڑ نگاں لاہور کے رہنے والے تھے.آپ حضرت حکیم سراج الدین صاحب کے بھائی تھے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی بار زیارت قتل لیکھرام کے کچھ عرصہ بعد لاہور میں کی.جبکہ حضور بھائی دروازے میں کوئی تھیں کے قریب مخلصین کے جلو میں تشریف لے جا رہے تھے.آپ کے ساتھ اس وقت میاں مولا بخش صاحب دکاندار بھی تھے.جنہوں نے حضور کو دیکھتے ہی بے ساختہ کہا سبحان اللہ! یہ منہ جھوٹوں کا نہیں ہو
تاریخ احمدیت.جلد 23 373 سال 1965ء سکتا.مولا بخش صاحب احمدی نہیں ہوئے مگر مخالفت بھی نہیں کی.آپ کو لیکچر لاہور کے سننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.یہ لیکچر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے بیرون بھائی دروازہ عقب مزار حضرت علی ہجویری داتا گنج بخش کے ایک منڈوہ (میلا رام ) میں ایک عظیم الشان مجمع کے سامنے پڑھا تھا.جلسہ میں حاضری کے بعد آپ گورداسپور بھی پہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ کی پیشی کے لیے تشریف لے گئے تھے.عدالت کے باہر ایک گراؤنڈ میں کھانا کھانے کے لیے دستر خوان بچھایا گیا اور حضرت مع اپنے خدام کے تشریف فرما ہوئے تو آپ بھی حضرت امام علیہ السلام کے سامنے ایک یا دو حضرات کے فاصلہ سے کھانا کھانے کے لیے بیٹھے تھے.آپ کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ حضور بالکل چھوٹا سا ٹکڑا روٹی کا توڑتے اور ذرا سا سالن لگا کر دہن مبارک میں ڈالتے اور دیر تک اسے چباتے رہتے چنانچہ اسی طرح تمام احباب کے کھانا کھا لینے کے بعد تک حضور علیہ السلام کھاتے رہے.جب سب خدام کھانا کھا چکے تو آپ نے بھی کھانا چھوڑ دیا.میں نے خیال کیا کہ اس عرصہ میں شاید آپ نے روٹی کا ۱/۴ حصہ ہی کھایا ہوگا.صل علی نبینا صل علیٰ محمد میری عمر اس وقت تخمیناً پندرہ سولہ سال کی ہوگی.آپ حضرت مسیح موعود کے الہام إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَک کے تحت دو عظیم الشان نشانات کے عینی شاہد تھے.جن کی تفصیل آپ ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہے.ایک شخص مولوی شہلی (شیشم کا درخت) کے نام سے مشہور تھا.یہ میاں عبدالعزیز صاحب مغل کے مکان کے سامنے شیشم کے درخت پر چڑھ کر بکو اس کیا کرتا تھا.ہم نے اسے دیکھا کہ وہ ایسا ذلیل ہوا کہ بالکل مخبوط الحواس ہو کر پرانے کپڑوں کی گانٹھ پیٹھ کے پیچھے اُٹھائے پھرتا تھا اور سر پر بھی چیتھڑے ہوتے تھے اور پاگلوں کی طرح پھرا کرتا تھا.اسی حالت میں مر گیا.ایک شخص پیر بخش نام ہوا کرتا تھا.رسالہ تائید الاسلام کا ایڈیٹر تھا.ایک دفعہ اس نے ہماری دکان پر کہا کہ تم کہا کرتے ہو إِنِّي مُهِينٌ مَنْ اَرَادَ اهَانَتَكَ مرزا صاحب کا الہام ہے.میں ایک لمبے عرصہ سے تو ہین کر رہا ہوں مجھے کچھ نہیں ہوتا.شیخ عطاء اللہ صاحب نے ہمیں کہا کہ آج کی تاریخ نوٹ کرلو.شخص پکڑا گیا ہے.بڑا امیر آدمی تھا.اس کا لڑکا حکومت افغانستان کی طرف سے ولایت میں مشینری خریدنے گیا تھا کہ وہاں ہی مر گیا.جب اس کی وفات کی خبر پیر بخش کو پہنچی تو وہ خبر اس پر بجلی بن کر گری.چنانچہ اُسے فالج ہو گیا اور اسی مرض میں مبتلا ہو کر وہ مر گیا.13
تاریخ احمدیت.جلد 23 اولاد 374 سال 1965ء ا.ظہور دین صاحب ۲.بختاور صاحبہ ۳.سلیمہ صاحبہ حضرت چوہدری جہان خاں صاحب مانگٹ آف مانگٹ اونچے تحریری بیعت : اپریل ۱۹۰۷ ء دستی بیعت مئی ۱۹۰۸ ء وفات : ۲۳ مارچ ۱۹۶۵ء آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری و دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ اپنے ساتھیوں (حضرت چوہدری محمد خان صاحب اور محترم چوہدری سردار محمد خان صاحب) کی طرح ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت سے مشرف ہوئے آپ کو یہ خیال تھا کہ شاید آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیعت کرنے والوں میں سب سے آخری آدمی تھے.شاید آپ کو اپنی بیعت کا سال یاد نہیں رہایا آپ حضور کے آخری سفر لا ہور میں آپ کی زیارت کے لئے گئے اور اس کا تاثر آپ کے دماغ پر غالب رہا.جبکہ درست بات یہ ہے کہ اخبار بدر کے مطابق آپ کی بیعت ۱۹۰۷ ء کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت سے وابستہ ہو گئے اور تا وفات اس پر بڑے اخلاص سے قائم رہے.خلافت سے بہت محبت تھی ۱۹۴۷ء میں ملک میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خواہش کے عین مطابق حافظ آباد کے سب احمدی گھرانوں کی حفاظت میں کامیاب ہو گئے.آپ مانگٹ اونچا کے صدر جماعت بھی رہے.بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.بڑے سخی ، فراخ دل اور مہمان نواز تھے.سلسلہ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کیا.احمدیت پر 66 دل و جان سے فدا تھے.نظام جماعت کی خوش دلی سے پابندی فرماتے.آپ نے اپنے ایک بیٹے محمد اسلم کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان بھیجا.۱۹۴۸ء میں اسی بیٹے کو فرقان بٹالین میں بھرتی کروا دیا.باغسر کے مقام پر آپ کا بیٹا دفاع وطن کا جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا.آپ نے اس صدمہ کو بڑے حوصلہ سے برداشت کیا اور لوگوں کو کہا کہ میرا بیٹا شہید ہوا ہے اس لئے کسی نے رونا نہیں.غرضیکہ آپ نے اسلام احمد بیت کی خاطر اپنے مال و اولا د تک کو قربان کر دیا.اولاد آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.بیٹوں کے نام یہ ہیں:.راسلم مانگٹ شہید.چوہدری سلطان احمد مانگٹ.چوہدری محمدافضل مانگٹ سابق امیر ضلع حافظ آباد
تاریخ احمدیت.جلد 23 375 سال 1965ء حضرت چوہدری عبدالحق صاحب کا ٹھ گڑھی ولادت: تقریباً ۱۸۹۳ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۲۶ مارچ ۱۹۶۵ء ۱۵ آپ کا ٹھ گڑھ ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.آپ کے والد کا نام حضرت چوہدری غلام نبی صاحب تھا.آپ کے والد صاحب اور دادا حضرت چوہدری غلام احمد صاحب بھی صحابی تھے.غالبًا ۱۹۰۷ء میں آپ خواجہ کمال الدین صاحب کے ہاں احمد یہ بلڈنگز لا ہور میں ملازم رہے.وہاں آپ کو پہلی بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت و خدمت کا موقع ملا.آپ بہت نیک اور پابند صوم وصلوۃ تھے.تقسیم ہند کے بعد چک TDA-2 خوشاب میں باقی بھائیوں کے ساتھ رہائش اختیار کی.۲۶مارچ ۱۹۶۵ء کو آپ کی وفات ہوئی.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے.بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ صحابہ میں تدفین ہوئی.اولاد بیٹے: مکرم را نا سیف الرحمن خاں صاحب، مکرم را نا عزیز الرحمن خاں صاحب، رانا رشید الرحمن خاں صاحب رانا مشتاق احمد خاں صاحب ( چاروں بیٹے وفات پاچکے ہیں ) بیٹی محترمہ سروری بیگم صاحبہ بیوہ مکرم را نا عبد الغفور خاں صاحب سابق پہرہ دار قصر خلافت ربوه - 19 حضرت لیفٹیننٹ ڈاکٹر محمد الدین صاحب ولادت : ۱۸۸۲ء بیعت : ۱۹۰۵ء وفات : ۲۲ مئی ۱۹۶۵ء آپ ظفر وال ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے.آپ کا بیان ہے کہ: (جہاں تک مجھے یاد ہے ) اپریل ۱۹۰۵ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی، دستی بیعت ماہ دسمبر ۱۹۰۵ء بر موقعہ جلسہ سالانہ کی تھی اس وقت میری عمر بیس سال کی تھی اور میں میڈیکل کالج لاہور میں سب اسٹنٹ سرجن کلاس میں پڑھتا تھا.بیعت کرنے کے وقت بہت سے لوگ تھے چنانچہ ایک لمبی پگڑی پھیلا دی گئی تھی جس پر لوگوں نے ہاتھ رکھے ہوئے تھے بیعت کنندگان میں شیخ تیمور صاحب بھی تھے شیخ صاحب نے پہلے بھی بیعت کی ہوئی تھی مگر ہمارے ساتھ بھی شامل ہو گئے تھے.حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر شیخ صاحب کا ہاتھ تھا اور شیخ صاحب کے ہاتھ پر میرا ہاتھ تھا.حضور الفاظ بیعت فرماتے جاتے تھے اور ہم سب بیعت کنندگان ان کو دہراتے جاتے تھے بیعت کے بعد حضور علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 376 سال 1965ء جلسہ کے اختتام پر ہم پانچ ڈاکٹر کلاس کے طالب علموں نے حضور سے واپسی کے لیے اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ رسالہ الوصیت چھپ رہا ہے اس کو لے کر جاویں.چنانچہ ہم ٹھہر گئے اس کے دوسرے یا تیسرے روز رسالہ الوصیت چھپ کر آ گیا.ابھی گیلا ہی تھا کہ ہم کو اس کی ایک ایک کاپی عنایت کر دی گئی اور ساتھ ہی حضور نے ہم کو واپسی کی اجازت بھی دے دی.چنانچہ ہم رسالہ الوصیت لے کر واپس لاہور آگئے.لاہور میڈیکل کالج کے ہاسپیٹل اسٹنٹ کلاس نے (جن میں میں بھی شامل تھا ) ۱۹۰۶ء کے آغاز میں بعض مشکلات کی بناء پر سٹرائیک کر دی تھی اس میں احمدی میڈیکل طلباء بھی شامل تھے.حضور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اس کا علم ہوا تو حضور نے ازراہِ کرم ایک تاکیدی حکم ہم کو بھیجا کہ ایسی تحریکات میں حصہ لینا اسلام کے خلاف ہے اور جماعت احمدیہ کی بھی روایات کے خلاف ہے.اس لیے تم سب پرنسپل صاحب سے معافی حاصل کر کے کالج میں پھر داخل ہو جاؤ.ساتھ ہی پرنسپل صاحب میڈیکل کالج کو بھی لکھا اور ساتھ ہی سفارش بھی کی کہ ہماری جماعت کے طلباء کو معافی دے کر پھر داخل کر لیویں.چنانچہ ہم پانچوں احمدی طلباء معافی لے کر پھر داخل ہو گئے اس پر پیسہ اخبار لاہور نے مسیح کے پانچ حواری“ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدی جماعت پر بہت اعتراض کئے اس کے بعد باقی سارے لڑکے بھی معافی مانگ کر داخل ہو گئے.حضور کے بہت سے خطوط بھی میرے پاس تھے مگر افسوس ہے کہ میں بوجہ جنگ عظیم پر جانے کے محفوظ نہ رکھ سکا.بہت نیک مخلص اور عبادت گزار بزرگ تھے عرصہ دراز تک علی الترتیب فوج، پولیس اور محکمہ جیل خانہ جات میں ملازم رہے.ریٹائرڈ ہونے کے بعد قادیان میں سکونت اختیار کر لی اور محلہ دار البرکات میں صدر کی حیثیت سے انتظامی ذمہ داریاں بجالاتے رہے علاوہ ازیں کئی سال تک نور ہسپتال میں آنریری طور پر طبی خدمات انجام دیں.خدمت خلق کا جذ بہ آپ میں بدرجہ اتم پایا جاتا تھا.خود اپنے گھر اور دوسروں کے گھروں پر جاجا کر بھی مریضوں کو دیکھتے اور نہایت بشاشت کے ساتھ بلا معاوضہ ان کا علاج کرنے کے لیے ہر وقت مستعد رہتے تھے.20 آپ نے تین شادیاں کیں.وفات کے وقت آپ نے پانچ لڑکیاں اور چار لڑکے چھوڑے.پہلی شادی مسماة آمنہ بی بی صاحبہ بنت سر بلند خان صاحب ساکن ریاست جموں ، دوسری مسماۃ فاطمہ بی بی بنت حاجی محمد اسماعیل صاحب اور تیسری شادی مسماۃ امتہ ائی بیگم بنت میاں محمد یوسف صاحب (مردان) سے کی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 377 سال 1965ء بیٹے : شریف احمد ایم.اے سکواڈرن لیڈرائیر فورس ، ڈاکٹر عزیز احمد مرحوم ، مبارک احمد لیفٹینٹ کرنل واہ فیکٹری ، سعید احمد کلرک گورنمنٹ ٹرانسپورٹ راولپنڈی، لئیق احمد حضرت قریشی مولوی عبید اللہ صاحب ولادت : ۱۸۸۲ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات: ۲۷ مئی ۱۹۶۵ء (رجسٹر روایات جلد ۱۳ صفحہ ۱۳ ، رجسٹر میں آپ کا سال بیعت ۱۹۰۳ء درج ہے.) آپ لائل پور کے رہنے والے تھے.آپ فرماتے ہیں: میر ناصر نواب صاحب کے ذریعہ مجھے قادیان تعلیم کے لیے بھیجا گیا.حضور کی محبت کا اثر تھا کہ میں احمدی ہو گیا.ایک دفعہ حضور سیر کے لیے تشریف لے گئے کسی نے سوال کیا کہ حضور کی وفات کے بعد آپ پر درود پڑھنا ہو تو کس طرح پڑھیں تو آپ نے فرمایا اللهــم صــل عـلـی ہی پڑھنا چاہیے کیونکہ میں بھی اس میں شامل ہوں علیحدہ کی ضرورت نہیں.“ اولاد قریشی محمد عبد اللہ صاحب، قریشی عبدالحق صاحب، قریشی رحمت اللہ صاحب، قریشی محمد نصر اللہ صاحب، رشیدہ بیگم صاحبہ، حمیدہ بیگم صاحبه، برکت بیگم صاحبہ حضرت مولوی محمد حسن صاحب مولوی فاضل ولادت : ۱۸۹۶ء بیعت : ۱۹۰۵ء وفات : ۳ جون ۱۹۶۵ء آپ جڑانوالہ ضلع لائل پور کے رہنے والے تھے.حضرت مولوی نور محمد صاحب مانگٹ ( جو ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست ۳۱۳ / اصحاب کبار میں شامل تھے ) کے صاحبزادے تھے اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے ابتدائی فارغ التحصیل طلباء میں سے تھے.نہایت مخلص نیک اور سلسلہ کے فدائی بزرگ تھے.اولاد عبدالمجید صاحب، عبد الحفیظ صاحب، عبد الوحید صاحب، وحیدہ لطیف صاحبہ، مبارکه احسن صاحبه حضرت حاجی محمد الدین صاحب تهالوی در ویش قادیان ولادت : ۱۸۸۱ ء اندازاً بیعت: ۱۷ یا ۱۸ جنوری ۱۹۰۳ء وفات : ۱۷ جون ۱۹۶۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 378 سال 1965ء حضرت حاجی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ایک مقدمہ کے سلسلہ میں حضور علیہ السلام ۱۹۰۳ء میں جہلم میں تشریف لائے.تو پہلی مرتبہ میں نے آپ کی زیارت کی.جبکہ عدالت سے باہر احاطہ کچہری میں جہاں کثرت سے لوگ جمع تھے.آپ حلقہ خدام کے اندر کرسی پر بیٹھ کر تقریر فرما رہے تھے اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید آپ کے کلمات سن کر زار زار رور ہے تھے.وہ نظارہ عجیب پر کیف تھا.اب بھی جب یاد آتا ہے تو رقت طاری ہو جاتی ہے.زبان اس کے بیان کرنے سے قاصر ہے.دل چاہتا تھا کہ جان و مال سب حضور پر شمار کر دوں.اس زمانہ کے احمدیوں کی مخالفت کا سماں بھی مدنظر تھا.مگر حضور کی تقریر اور اس نظارہ سے میں ایسا متاثر ہوا کہ بیعت کیے بغیر لوٹنا محال ہو گیا.بیعت کر لینے پر بعض شریروں نے رستہ میں ہی قتل کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں.مگر خدا کے فضل اور آپ کی دعاؤں کے طفیل سخت سے سخت مخالفتوں میں بھی کبھی پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی بلکہ اخلاص میں ترقی ہوئی.شرف بیعت حاصل کرنے کے بعد آپ نے سیالکوٹ میں بھی خدا کے مقدس مہدی کی زیارت کی سعادت حاصل کی.اس ایمان افروز واقعہ کا ذکر آپ کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے.ایک مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خاکسار کو علم ہوا کہ کسی تقریب پر سیالکوٹ تشریف لا رہے ہیں.تاریخ مقررہ پر میں بھی بشوق زیارت وہاں پہنچا.حضور ایک مکان کی اوپر کی منزل پر تشریف فرما تھے اور حاضرین ایک ہجوم کی صورت میں نیچے منتظر دیدار کھڑے تھے کہ اتنے میں حضرت نیچے تشریف لے آئے اور شرفِ زیارت سے حاضرین کو بہرہ اندوز فرمایا.ایک بڑھا جب حضور سے ملا تو دھاڑیں مار کے رونے لگا.حضور نے اسے تسلی دیتے ہوئے حالات دریافت فرمائے اس نے عرض کی.حضور میں حضرت امام مہدی کی آمد تک زندہ رہنے کی دعا کیا کرتا تھا.حضرت نے فرمایا بابا پھر تو آپ کی دعا کو خدا نے قبول فرمایا.اس پر وہ بہت خوش ہوا اور اپنا ایک پوتا حضرت کو پیش کر کے عرض کی کہ اس پر اپنا ہا تھ مبارک پھیریں اور اس کے حق میں دعا فرماویں.حضور نے دعا فرمائی اور اوپر تشریف لے گئے.جاتے وقت اتفاق سے آپ کا ایک جوتا جو بالکل سادہ تھا پاؤں سے اتر کر نیچے آ رہا جسے خاکسار نے اٹھا کر اپنے ہاتھ سے آپ کے پاؤں میں پہنا دیا.جس پر حضور نے متبسم صورت میں محبت بھرے الفاظ میں فرمایا.جزاک اللہ.25
تاریخ احمدیت.جلد 23 379 سال 1965ء حضرت حاجی صاحب کی پوری زندگی خدمت دین میں گزری.آپ جماعت احمد یہ تہال متصل کھاریاں کے روح رواں اور ممتاز رکن تھے اور علاقہ بھر میں اُن کی بزرگی اور پارسائی کی شہرت تھی.تقسیم ہند کے بعد سے ۱۹۶۴ء کے آخر تک بطور درویش قادیان مقیم رہے.اپنے خلوص، محبت، نیکی اور ریاضت کے اعتبار سے درویشان قادیان میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا.آپ ایک نہایت بزرگ شخصیت تھے اور آپ کا وجود درویشوں کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا.آپ کو حج بیت اللہ اور زیارت مدینہ کی توفیق بھی ملی تھی.آپ اس کمرہ میں سالہا سال تک مقیم رہے جو مسجد مبارک سے ملحق ہے.آپ کی زندگی اپنے کمرے سے مسجد مبارک بہشتی مقبرہ، بیت الدعا اور مسجد اقصیٰ تک جانے اور نہایت رقت کے ساتھ دعائیں کرنے اور پھر واپس اپنے گوشہ تنہائی میں پہنچ کر تلاوت اور دعاؤں میں مصروف ہو جانے سے ہی عبارت تھی.نہایت تیز آنچ پر ابلتی ہوئی ہنڈیا کی طرح رقت قلبی سے دعاؤں کے اوقات میں آپ کی آواز بے اختیار صبر و ضبط کے دائرے سے باہر ہو جاتی تھی.بڑھاپے کے باوجود آپ بڑی باقاعدگی کے ساتھ مسجد مبارک میں نماز تہجد ادا کرتے اور پھر نماز فجر اور درس سے فارغ ہو کر بہشتی مقبرہ چلے جاتے.اکثر اوقات صبح کے وقت بہشتی مقبرہ میں پہنچنے والے پہلے خوش نصیب آپ ہی ہوتے.آپ ناشتہ سے فارغ ہو کر دفتر زائرین میں تشریف لے جاتے اور اپنے فرائض منصبی بجالانے میں منہمک ہو جاتے.بڑھاپے میں آپ کو اپنے فرزند ڈاکٹر محمد احمد صاحب آف عدن کی وفات کا صدمہ سہنا پڑا.مگر آپ نے صبر وثبات کا وہی بے مثال نمونہ دکھایا جو خدا والوں کا طرہ امتیاز ہے.چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی اس دردناک خبر کی اطلاع پہنچانے کے لیے مسجد مبارک گئے جہاں آپ ٹہل رہے تھے اور تار کے مضمون سے اطلاع دی.آپ نے انا لله و انا الیه راجعون پڑھا اور فرمایا اچھا خدا کی مرضی.اُن کے چہرے پر حزن و ملال کی پر چھائیاں ضرور تھیں کیونکہ جگر کا ٹکڑا دائمی جدائی دے کر چل بسا تھا.لیکن آپ نے زبان سے وہی ادا کیا جس کا مولائے 26 حقیقی کی طرف سے حکم تھا.جناب چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی نے آپ کے تفصیلی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: حضرت حاجی صاحب موضع تہال متصل کھاریاں ضلع گجرات و حال مغربی پاکستان کے رہنے والے تھے اور اسی نسبت سے وہ تہالوی کہلاتے تھے.میں انہیں ۲۹.۱۹۲۸ء سے جانتا تھا جبکہ میں اپنے ماموں چودھری لعل خاں صاحب ( مرحوم ) جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ کھاریاں کے گھر پر رہ کر
تاریخ احمدیت.جلد 23 380 سال 1965ء تعلیم حاصل کر رہا تھا.حضرت حاجی صاحب میرے ماموں صاحب مرحوم کے ہاں اکثر آیا کرتے تھے لیکن اس زمانہ میں میں چونکہ احمدی نہ تھا اور شعور بھی کم تھا اس لیے میں صرف یہی جانتا تھا کہ یہ تہال والے میاں محمد الدین صاحب ہیں.میرے ماموں صاحب اکثر اوقات حاجی صاحب کے اخلاص تقویٰ اور نیکی کا ذکر کیا کرتے تھے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ایام میں مجھے ان الفاظ کا مفہوم بھی معلوم نہ تھا.البتہ اتنا یاد ہے کہ حضرت حاجی صاحب کا جو لباس ۱۹۲۹ء میں تھا وہی لباس اور وضع قطع ۱۹۶۵ء میں تھی....ایک سعادت انہیں یہ بھی حاصل تھی کہ مسجد مبارک میں ایک لمبے عرصہ تک روزانہ دو تین نمازوں میں امام الصلوۃ ہوتے رہے اور پھر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر جو اجتماعی دعائیں ہوا کرتی تھیں وہ اکثر طور پر آپ ہی کروایا کرتے تھے.آپ نے ابلتی ہوئی ہنڈیا کی آواز سنی ہوگی حضرت حاجی صاحب فجر کی نماز کے بعد مزار مبارک پر جا کر دعا کرتے تھے اس وقت ان کی وہی کیفیت ہوتی تھی.اس وقت دعا کی طوالت اور قلبی رقت کا ایک عجیب منظر ہوتا تھا.یوں تو درویش بھائی بھی اکثر ان کی خدمت میں دعا کے لیے درخواست کرتے رہتے تھے.لیکن حاجی صاحب کی بزرگی کی ایک بہت بڑی سند یہ تھی کہ سیدی حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب قادیان کے جن چند بزرگوں کو جماعتی ترقیات کے لیے دعاؤں کے خطوط تحریر فرمایا کرتے تھے ان میں سے ایک حضرت حاجی صاحب بھی تھے.حاجی صاحب بڑے فروتن اور سادہ طبع بزرگ تھے.ان کا لباس سادہ اور صاف ستھرا ہوتا تھا.سادگی ، خود فراموشی اور تعلق باللہ میں گم رہنے کے باعث بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا کہ پاؤں میں مختلف قسم کے جوتے پہنے ہوتے تھے.یعنی دائیں پاؤں میں گر گالی اور بائیں پاؤں میں دیسی وضع کا جوتا.سوئی ہمیشہ ہاتھ میں رکھتے اور تیز تیز چلتے تھے اور نگا ہیں ہمیشہ نیچی رکھتے تھے.اپنے اپنے ذوق کی بات ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب حضرت ام ناصر والے مکان میں مقیم ہیں وہ جب مسجد میں تشریف لاتے ہیں تو اپنا جوتا یا چپل مسجد مبارک کے ساتھ والے مسقف حصہ میں اتارتے ہیں.حضرت حاجی صاحب ہمیشہ تاک میں رہتے جب صاحبزادہ صاحب جو تا اُتار کر مسجد میں تشریف لے آئے تو حاجی صاحب جوتے یا چپل کو جوڑ کر سیدھا کر کے پیچھے کی طرف موڑ کر رکھ دیتے یہ ایک چھوٹی سی بات ہے.لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان
تاریخ احمدیت.جلد 23 381 سال 1965ء بزرگوں کے دلوں میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کے لیے احترام و عقیدت کے کتنے گہرے جذبات تھے.66 ایک ایمان افروز واقعہ آپ نے اس زمانہ میں بیعت کی جبکہ ہر طرف مخالفت کا بازار گرم تھا اور احمدی ہونا گویا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا.لیکن آپ نے ان تمام حالات کا بڑی جرات اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا.آپ کی بہادری اور ثبات قدم کا ایک ایمان افروز واقعہ آپ کی نواسی محترمہ صائمہ مریم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ آپ اکثر یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مخالفت میں اردگرد کے بارہ دیہات سے لوگ اس عزم کے ساتھ اکٹھے ہوئے کہ مجھے ختم کر کے دم لیں گے.حاجی صاحب نے ان سے کہا کہ آپ نے مجھے مارنا تو ہے ہی لیکن مجھے دو نفل نماز پڑھنے کی اجازت دے دیں.چنانچہ آپ قریب کی مسجد میں چلے گئے اور عبادت میں مصروف ہو گئے اور آپ کو وقت کا احساس نہیں رہا.باہر لوگوں نے چہ مگوئیاں شروع کر دیں کہ لگتا ہے کہ حاجی صاحب ڈر گئے ہیں.چنانچہ آپ فورا باہر آئے.آپ کے باہر آنے کی دیر تھی کہ ایک گھڑ سوار اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑا تا ہوا قریب آیا اور للکار کر بڑے رُعب سے بولا کہ کوئی بھی اس شخص کو ہاتھ نہ لگائے.چنانچہ اس کے اس رُعب اور دبدبے کی وجہ سے کسی کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ آپ کے قریب آتا.لہذا تمام مجمع منتشر ہو گیا.آپ بتایا کرتے تھے کہ تبلیغ کے سلسلہ میں میں اردگرد کے قریباً سب دیہات میں گیا ہوں مگر میں نے انی کو اپنی زندی میں دوبارہ بھی نہیں دیکھا جسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یقین خداتعالی کی طرف سے غیبی مدد تھی.صاحب حضرت اماں جان کی شفقت و محبت حضرت اماں جان آپ سے بے حد شفقت کا سلوک فرمایا کرتی تھیں.آپ کی نواسی صائمہ مریم لکھتی ہیں کہ نانا جان آپ کی شفقت و محبت کا ایک نہایت ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میری پہلی بیوی کے بطن سے میرے دو بچے ایک ہی دن میں فوت ہو گئے ، اس نیک بی بی نے قابل تقلید نمونہ دکھایا.قطعا جزع فزع نہ کی بلکہ تسبیح وتحمید میں لگی رہیں.ایک طرف اس کی یہ حالت تھی اور دوسری طرف وہ بیعت بھی نہ کرتی تھی.بالآخر میں اسے قادیان لے آیا.حضرت اماں جان نے دوعزیز بچوں کے انتقال کا سنا تو آپ نے اس قدر شفقت اور محبت کا برتاؤ کیا اور اس قدر تسلی دی کہ جس سے اس کو اطمینان حاصل
تاریخ احمدیت.جلد 23 382 سال 1965ء ہوا اور وہ اپنے گھر جا کر بھی حضرت اماں جان کے محبت بھرے کلمات کا ذکر کرتی رہی.بار بار یہ کہتی کہ حضرت اماں جان تو سگی ماں سے بھی زیادہ اچھا سلوک کرتی ہیں.آپ کی اس محبت اور شفقت نے اس کی طبیعت کو بدل دیا اور اسی کے نتیجہ میں اس نے بالآخر احمدیت بھی قبول کر لی.“ وفات عام طور پر آپ کی صحت ہمیشہ اللہ کے فضل سے اچھی رہی لیکن آخری ایام میں بندش پیشاب کے مرض نے ایسا غلبہ پایا کہ آپ لمبا عرصہ صاحب فراش رہے.۱۹۶۵ء میں جب آپ قادیان سے بیوی بچوں کو ملنے پاکستان آئے تو بیماری اور زیادہ شدت اختیار کر گئی.چنانچہ آپ کو میوہسپتال لاہور میں داخل کرایا گیا جہاں وے سال کی عمر میں آپ کا انتقال ہو گیا.حاجی صاحب اللہ کے فضل سے موصی تھے اس لیے آپ کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ خاص میں دفن کیا گیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ہم سب کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے.آمین اولا دز وجه اولی حسین بی بی صاحبہ مرحومه غلام فاطمہ صاحبہ، ڈاکٹر محمد احمد صاحب عدنی ( مکرم اکبر احمد عدنی صاحب حال ناظم جائیداد صدر انجمن احمد یہ ان کے پوتے ہیں)، امتہ اللہ صاحبہ محمد عبد اللہ صاحب، امۃ اللہ صاحبہ عرف عنایت، میجر سلطان احمد صاحب اولا در وجہ ثانی عائشہ بی بی صاحبہ بشیر احمد صاحب، سکینہ عثمان صاحبہ، سلیمہ بیگم صاحبہ ، مبارک احمد اعجاز صاحب، سلیمہ مبارک صاحبہ، صفیہ بیگم صاحبہ، نعیم احمد وسیم صاحب، لطیف احمد عارف صاحب، حلیمہ لطیف صاحبه، رفیق احمد طارق صاحب، رشید احمد راشد صاحب، آمنه طیبه صاحبه، وسیم احمد صاحب، بشری صادقہ صاحبہ حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب سابق افسرامانت تحریک جدید 29 ولادت : ۲۴ جون ۱۸۷۶ء بیعت: ۱۸۹۶ ء وفات : ۹ را گست ۱۹۶۵ء آپ پشاور میں پیدا ہوئے قرآن شریف ختم کرنے کے بعد ابتدائی تعلیم مشن سکول میں حاصل کی.عنفوانِ شباب میں آپ کا رجحان تصوف کی طرف ہو گیا اور چورا شریف ضلع اٹک میں میاں نور محمد صاحب کی بیعت کر کے نقشبندی سلسلہ میں داخل ہو گئے.۱۸۹۶ء میں حضرت مولانا غلام حسن خان
تاریخ احمدیت.جلد 23 383 سال 1965ء صاحب پشاوری کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود کی مشہور تصنیف ”ازالہ اوہام ملی.جسے پڑھ کر آپ نے حضرت اقدس کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا.جس کا جواب مولا نا عبدالکریم صاحب کے قلم سے لکھا ہوا موصول ہوا کہ حضرت صاحب بیعت قبول فرماتے ہیں.(الحمد للہ ) استغفار بہت پڑھا کریں.آپ ابتدا ہی سے نماز کے پابند تھے.بیعت کے بعد نماز میں خاص روحانی لذت محسوس کرنے لگے.۸ دسمبر ۱۸۹۹ء کو مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان آگئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں ریاضی کے اول مدرس مقرر ہوئے.اسی زمانہ میں آپ کو حضرت مصلح موعود، قمر الا بنیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ شریف احمد صاحب اور حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے اساتذہ میں شمولیت کا خصوصی شرف حاصل ہوا.۲۲ جولائی ۱۹۰۶ء کو آپ کا تقر ر بطور ہیڈ کلرک رسالہ ریویو آف ریلیجنزار دو و انگریزی عمل میں آیا.دونوں رسالوں کی طباعت اور خریداروں سے خط و کتابت کے فرائض آپ ہی انجام دیتے تھے.یکم جولائی ۱۹۰۷ء کو آپ نائب ناظم میگزین اور صدر انجمن احمدیہ کی انتظامیہ کمیٹی کے مبر مقرر ہوئے.۳۱ / اگست ۱۹۰۷ ء سے ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ آپ تعلیم الاسلام ہائی سکول کی دسویں جماعت کو ریاضی پڑھاتے رہے.۱۵ فروری ۱۹۰۸ء کو آپ مدرسہ میں مدرس ریاضی مقرر ہوئے.صدر انجمن احمد یہ قادیان کا قیام ہوا تو انجمن کی نقدی رکھنے کے لیے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے لوہے کی ایک الماری انجمن کو دی.اس الماری کی ایک چابی حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفتہ امسیح الاوّل) کے پاس رہتی اور ایک آپ کے پاس.انجمن کی ہدایت تھی کہ الماری دونوں کی موجودگی میں کھولی جائے.۲۸ فروری ۱۹۰۷ء کی صبح کو حضرت اقدس کو الہام ہوا ’سخت زلزلہ آیا اور آج بارش بھی ہوگی.یہ پیشگوئی جو تین دن میں پوری ہوگئی.قبل از وقوع جن خوش نصیبوں نے حضرت اقدس کی زبان مبارک سے سنی اُن میں آپ بھی شامل تھے.خلافت اولی کے عہد میں آپ نے قادیان کے تقریباً تمام شعبوں میں خدمات سرانجام دیں.جون ۱۹۰۹ء تک آپ مدرس ریاضی رہے.جون سے آخر اگست ۱۹۰۹ ء تک دفتر محاسب میں، جون ۱۹۱۰ء سے اگست ۱۹۱۱ ء تک بطور سپرنٹنڈنٹ دفاتر ، اگست ۱۹۱۱ء سے مئی ۱۹۱۴ء تک اسسٹنٹ مینیجر میگزین کی حیثیت سے کام کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل آخری ایام میں جب زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ اپنے مکان پر ہی نماز پڑھتے تھے.کبھی کبھی نماز مغرب یا عشاء کے وقت آپ حضور کے پاس ہوتے تو فرماتے مجھے نماز پڑھاؤ اور حضور آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتے.انہی ایام میں آپ نے 31
تاریخ احمدیت.جلد 23 384 سال 1965ء خواب میں دیکھا کہ حضرت خلیفہ اول فوت ہو گئے ہیں اور حضرت میاں محمود احمد صاحب ان کی جگہ خلیفہ ہوئے ہیں.آپ کو حضرت مولانا غلام حسن خان صاحب پشاوری اور مولانا محمد علی صاحب سے بہت حُسنِ عقیدت تھی.ان دونوں صاحبوں نے چونکہ خلافت ثانیہ کی بیعت نہیں کی تھی اس لیے آپ نے بھی بیعت کرنے سے انکار کر دیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے فرمایا کہ آپ نے تو خواب میں بھی دیکھا تھا کہ حضرت میاں صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں.آپ نے یہ جواب دیا کہ میرا خواب تو بالکل سچا تھا جس کے مطابق حضرت میاں صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں مگر اس میں یہ تو نہیں بتایا گیا تھا کہ حضرت میاں صاحب کے عقائد بھی صحیح ہیں یا میں نے بیعت بھی کر لی ہے.آپ کی بی بی نے بیعت کر لی اور گو آپ اپنے موقف پر قائم رہے لیکن ان کو آپ نے منع بھی نہیں کیا.احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے قواعد اساسی آپ نے تجویز کیے.یکم اکتوبر ۱۹۱۴ء سے یکم نومبر ۱۹۴۳ء یعنی ۲۹ سال تک اس انجمن کے ماتحت کام کیا.ابتدا میں آپ اکیلے ہی انجمن کا سارا کام کرتے تھے.مینجر اخبار پیغام صلح، مینیجر مطبع، پریس کیپر، سیکرٹری، محاسب، خزانچی، آڈیٹر، مہتم تصنیفات بمحرروں کو بھی کام سکھایا.عرصہ تک آپ احمد یہ بلڈنکس کے امام الصلوۃ رہے.جہاں مولوی محمد علی صاحب بھی آپ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے.آپ کو خدا نے لحن داؤدی عطا فرمایا تھا.آپ قرآن شریف کی تلاوت نہایت دلکش انداز میں فرماتے.ازل سے حضرت ماسٹر صاحب چونکہ نیک فطرت لے کر آئے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ ثانی کے دعوی مصلح موعود کے ابتدائی ایام میں ہی آپ پر نظام خلافت کی حقانیت منکشف فرما دی اور آپ نے ۱۰ مارچ ۱۹۴۴ء کو فریق لاہور کے ایک اور بہت بڑے ذمہ دار رکن خان بہادر میاں محمد صادق صاحب کے ساتھ حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کر لی.یہ بیعت نماز جمعہ کے بعد مسجد اقصیٰ میں ہوئی.حضرت مصلح موعود نے بیعت کے بعد آپ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ مجھے آپ کی بیعت سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ آپ میرے استاد ہیں اور میری ہمیشہ خواہش رہتی تھی کہ آپ بیعت کر لیں.حضرت مصلح موعود نے ۲۸ دسمبر ۱۹۴۴ء کو اپنی معرکہ آراء تقریر کے دوران مصلح موعود کے علوم ظاہری سے پر کیے جانے کے پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ کا بھی بطور خاص ذکر کیا.چنانچہ فرمایا:
تاریخ احمدیت.جلد 23 385 سال 1965ء ”میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا.میرے اساتذہ میں سے بعض زندہ ہیں اور بعض فوت ہو چکے ہیں.ماسٹرفقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.وہ ہمارے حساب کے استاد تھے اور لڑکوں کو سمجھانے کے لیے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے.لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے کیونکہ جتنی دُور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا کیونکہ نظر تھک جاتی.اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا.کبھی جی چاہتا تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا.ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ پڑھتا نہیں کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا.مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا.آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدر سے چلا جاتا ہے.ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے.پھر ہنس کر فرمانے لگے اس سے ہم نے آٹے دال کی دوکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے حساب آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ نے کونسا حساب سیکھا تھا.اگر یہ مدرسہ چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہیے.یہ سنکر ماسٹر صاحب واپس آگئے.میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا اور پھر مدرسہ میں جانا ہی چھوڑ دیا.کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی.غرض اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی.اگست ۱۹۴۷ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کے سپر د دفتر وکیل المال تحریک جدید میں مشنہائے بیرونِ ہند کا بجٹ تیار کرنے کا کام فرمایا اور آپ ۳۱ جنوری ۱۹۴۹ء تک تحریک جدید میں مفوضہ 32
تاریخ احمدیت.جلد 23 386 سال 1965ء فرائض سرانجام دیتے رہے.چند ماہ تک آپ نے محاسب صدر انجمن احمدیہ کے فرائض بھی سرانجام دیئے.بعد ازاں آپ حضور کے ارشاد پر لاہور میں بیرونی جماعتوں کا ریکارڈ اکٹھا کرتے رہے.۱۳ دسمبر ۱۹۵۰ء تک اس عہدے پر خدمت سلسلہ بجالاتے رہے.آپ بہت نیک متقی اور خدا ترس موصی بزرگ تھے.قیام پاکستان کے بعد جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعود کی تقریر سے قبل آپ تلاوت فرمایا کرتے تھے.اسی طرح مشاورت میں بھی.آپ کو تحریک جدید ( دور ثانی) کے مجاہد ہونے کا شرف بھی حاصل تھا.اولاد ا.ولی اللہ صاحب.فورمین اٹک آئل کمپنی کھوڑ ۲.ہدایت اللہ صاحب.سیکرٹری مرچنٹ نیوی کلب کراچی عبداللہ صاحب.سٹیشن ماسٹر ہارون آباد ۴.عطاء اللہ صاحب.ایجنٹ موٹرز.لاہور ۵.لیفٹیننٹ نعمت اللہ صاحب.(پاکستان نیوی) ۶.رضاء اللہ صاحب.الیکٹریکل سپر وائزر سرگودھا ۷.خیرالنساء صاحبہ.(اہلیہ بابو عبد القادر مرحوم اوورسیئر گوجر خان آپ ماسٹر صاحب کے بھانجے تھے.) برکت النساء صاحبہ (اہلیہ میاں محمد اسلم صاحب انسپکٹر پولیس لاہور پسر میاں محمد صادق صاحب) ۹.نورالنساء صاحبہ (اہلیہ بابوعبدالقیوم صاحب خزانچی واہ سیمنٹ کمپنی.آپ ماسٹر صاحب کے بھانجے تھے ) ۱۰.قمر النساء صاحبہ.(اہلیہ میاں محمد اعظم صاحب ولد میاں محمد صادق صاحب سپر نٹنڈنٹ دفتر امور خارجہ راولپنڈی).ا.طاہرہ اختر النساء صاحبہ (اہلیہ عطاء اللہ صاحب نیم پسر میاں خدا بخش صاحب بھیروی کلرک ملٹری انجنیئر نگ سروسز لا ہور چھاؤنی ).34- حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب ( معالج چشم ) مهاجر دہلوی ولادت : ۱۸۸۶ء بیعت تحریری: ۱۹۰۰ ء بیعت دستی: ۱۹۰۱ء وفات : ۱۰ / اگست ۱۹۶۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 387 سال 1965ء حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب قریشی الاصل تھے.والد ماجد کا نام قریشی مولا بخش تھا.دہلی کے مشہور فراش خانہ احاطہ جن صاحب محلہ رود گروں میں بود و باش رکھتے تھے.(مولوی بشیر الدین صاحب دہلوی کی کتاب ”واقعات دار الحکومت دہلی حصہ دوم صفحہ ۲۰۴ پر اس احاطہ کا ذکر ملتا ہے.مطبوعہ شمس مشین پریس آگرہ ۱۳۳۷ھ ۱۹۱۹ ء ) حضرت منشی عبدالعزیز صاحب دہلوی مصنف حیرت کی حیرانی (جن کا ذکر حضرت مسیح موعود نے آئینہ کمالات اسلام صفحه ۶۲۴ زیر نمبر ۲۲۰ اور ضمیمہ انجام آتھم صفحه ۴۲ زیر نمبر ۵۴ میں فرمایا ہے ) آپ کے سگے ماموں تھے.ڈاکٹر صاحب دہلی سے ہجرت کر کے ۱۹۳۰ء سے لے کر تقسیم ملک تک قادیان میں قیام پذیر رہے.آپ تحریک جدید کی پانچہزاری فوج میں شامل ہونے کا اعزاز رکھتے تھے.36 حضرت ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی حلفیہ بیان دیتے ہوئے فرماتے ہیں:.میں خداوند پاک کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ ذیل میں جو خواب میں درج کر رہا ہوں وہ بالکل صحیح اور درست ہے.میں ۱۹۰۱ء کے ابتدائی مہینوں میں احمدیت میں داخل ہوا.احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق اس طرح سے ہوئی کہ میں ریاست کپورتھلہ میں پڑھتا تھا چونکہ وہاں احمدی بہت تھے اور ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ہوتا رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر جب میں سنتا تو اپنے پرانے خیالات کی بناء پر چنداں خیال نہ کرتا.لیکن خداوند پاک کے فضل سے دو احمدی دوست مجھے ایسے ملے کہ میرے پیچھے ہی پڑ گئے اور جب میں ان سے ملتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کا ذکر کرتے رہتے.آخر میرا دل بھی کچھ اس طرف ہونے لگا اور میں بہت دعائیں کرتارہتا.ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنگل میں جا رہا ہوں وہاں کوئی آبادی نظر نہ آئی.لیکن اسی جنگل میں مجھ کو جھونپڑا نظر آیا.اس جگہ بہت سے مسلمان جمع ہیں.میں بھی وہاں چلا گیا.معلوم ہوا کہ یہاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لانے والے ہیں اور آپ کی آمد کی بہت خوشیاں ہورہی ہیں.میں بھی ٹھہر گیا.وہاں اس جھونپڑے کے باہر ایک پلنگ بچھا ہوا ہے اس پر بچھونا بچھایا گیا اور اس بچھونے پر سرہانے سے پائنتی تک کانچ کے ٹکڑے پھیلا دیئے گئے ہیں اور پھر اس پر سفید چادر بچھا دی اور کہنے لگے کہ اس پر حضور بیٹھیں گے.اسی اثناء میں حضور تشریف لائے.چہرہ بہت ہشاش ہے.نہایت ہی خوبصورت جوان ہیں اور اچھے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سر پر ٹوپی ہے.لیکن حضور کھڑے ہیں اور اس پلنگ پر نہیں بیٹھے.اسی وقت نظارہ بدل گیا.اب دیکھتا ہوں کہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 388 سال 1965ء 37 میں قادیان کی طرف جارہا ہوں راستہ میں آموں وغیرہ کے باغات ہیں اور میں خوشی سے قدم بڑھاتے چلا جارہا ہوں اور دل میں کہتا ہوں کہ ان باغات کے پیچھے قادیان ہے.بعد میں آنکھ کھل گئی.اس خواب کو دیکھ کر میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ موجودہ مسلمان ویسے تو حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے بے حد شیدائی نظر آتے ہیں لیکن دراصل یہ حضور کی پیشگوئی کی بناء پر جو شخص آنے والا تھا وہ یہی حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.لہذا میں نے فوراً حضور کو بیعت کا ایک خط روانہ کر دیا اور جب خود بعد میں قادیان پہنچا تو خواب کے آخری حصہ والا نظارہ ہو بہو جا کر دیکھ لیا.جناب صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی رقمطراز ہیں: ”میرے والد بزرگوار ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی فرمایا کرتے تھے کہ میں دہلی سے ریاست کپورتھلہ میں اپنے نانا جان کے پاس تعلیم کی غرض سے آکر رندھیرا کالج میں داخل ہو گیا.مجھے قرآن پاک پڑھنے کا شوق پیدا ہوا.میرے بزرگوں نے حضرت مولوی عبدالقادر صاحب کے پاس جو کہ محترم حکیم محمد عمر صاحب مرحوم کے والد تھے پڑھنے کے لیے بھیج دیا.حضرت مولوی صاحب کی تبلیغ کے زیراثر میں مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گیا.انہوں نے فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے اپنے نام پر بیعت لینے کی اجازت دی ہوئی ہے اور ۱۹۰۰ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریری بیعت بھی کر لی.جنوری ۱۹۰۱ ء کے پہلے ہفتہ میں قادیان آکر حضرت مسیح موعود کے دست مبارک پر بھی بیعت کا شرف حاصل ہوا.بعد میں آپ کے والد صاحب نے بھی تحریری بیعت کر لی.آپ کی والدہ محترمہ نے ۳۷.۱۹۳۶ء میں قادیان آکر ایک سال رہائش رکھنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے دستِ مبارک پر بیعت کی.میرے بڑے بھائی عبدالرحمن صاحب دادی اماں کو بیعت کے لیے تحریک کرتے رہتے تھے.آخر کار دادی اماں نے فرمایا.اگر تمہارے حضرت صاحب سچے ہیں تو دعا کریں.میرالڑ کا عبداللطیف جو کئی سال سے لا پتہ ہے وہ مجھے یہاں آکر ( قادیان ) مل جائے.اس صورت میں میں احمدیت کو سچا مان لوں گی.خدا کا کرنا ایسا ہوا ادھر حضور کو خط لکھا اور ادھر کچھ دنوں بعد چچا جان قادیان آگئے.ان کے واپس جانے کے بعد دادی اماں مرحومہ نے بیعت کر لی اور کچھ دن بعد وفات پاگئیں.والد صاحب کے دو چھوٹے بھائی ابھی حیات ہیں ایک نے بیعت کر لی تھی مگر اب مدت سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 389 سال 1965ء خاموش ہیں.آپ کی چھوٹی ہمشیرہ سے تین لڑکے اور ایک لڑکی موجود ہیں.والد صاحب فرماتے کہ میں بیعت کے بعد کپورتھلہ واپس آ گیا.ایک دن مہاراجہ صاحب اپنے باورچی خانہ کے قریب سے گزر رہے تھے.حقہ پڑا دیکھ کر ناراض ہوئے.باورچی نے اپنی جان بچانے کے لیے میرا نام لگا دیا.میں اس وقت مہاراجہ کے باورچی خانہ کے حساب کتاب پر ملازم تھا.مہاراجہ نے فرمایا تم غلط کہتے ہو.عبدالرحیم قادیان والے مرزا صاحب کے مرید ہیں اور احمدی حقہ نہیں پیتے.اس لیے یہ عبدالرحیم کا حقہ نہیں ہو سکتا.والد صاحب نے کبھی احمدیت کو نہیں چھپایا.اپنے خاندان پر حجت قائم کر دی.بڑے سے بڑے افسر کو بھی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں جھجکتے تھے.عاجز جب ۱۹۳۶ء میں بند را بن گیا تو وہاں کی مسجد کے امام صاحب کو تبلیغ شروع کر دی وہ میری باتیں بڑے غور اور دلچپسی سے سنتے رہے.میں جب بات ختم کر چکا تو انہوں نے مجھے بتایا میں تو پہلے ہی احمدی ہوں.آپ ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب دہلوی سے معلوم کر لیں.میں نے آکر والد صاحب سے ذکر کیا تو والد صاحب نے بتایا وہ تو میرے ذریعے بیعت کر چکے ہیں.دہلی اور بندرا بن میں ہندوؤں کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے.ہندوؤں کو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے.بلکہ لٹریچر مہیا کر کے ان میں تقسیم کرتے تھے.ہندو آپ کے بہت معتقد تھے بڑے بڑے پنڈت والد صاحب کو بند را بن کے ان مندروں میں بلا لیتے تھے جن کے باہر بورڈ آویزاں تھے کہ یہاں مسلمان داخل نہیں ہو سکتا.ان کی وجہ سے باقی ہندو بھی آپ کا بڑا احترام کرتے تھے.والد صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسجد احمد یہ لنڈن کے لیے تحریک فرمائی اس پر تمہاری والدہ نے اپنا سارا زیور اتار کر حضور کی خدمت میں اسی وقت پیش کر دیا.جب جلسہ سے تمہاری والدہ گھر آئیں تو مجھے سے پوچھنے لگیں کہ یہ میر از یور کس کا ہے؟ میں نے کہا تمہارا.اس پر کہنے لگیں.اگر یہ میں کسی کو دے دوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہ ہوگا.میں نے جواب دیا نہیں.اس پر فرمانے لگیں میں نے چندہ مسجد لندن میں حضور کی خدمت میں پیش کر دیا ہے.والد صاحب فرماتے ہیں مجھے اس سے بڑی خوشی ہوئی.۱۹۳۰ء میں والد صاحب نے ہم تین بھائیوں مکرم عبدالرحمن صاحب، مکرم عبد المنان صاحب و مکرم عبدالقادر صاحب کو قادیان مدرسہ احمدیہ میں اس غرض سے داخل کیا کہ یہ مولوی فاضل پاس کر
تاریخ احمدیت.جلد 23 390 سال 1965ء کے مبلغ کے طور پر کام کریں.اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کی اس خواہش کو اس رنگ میں پورا کیا کہ آج جبکہ والد صاحب وفات پاچکے ہیں آپ کے یہ تینوں لڑکے مرکز احمدیت قادیان ، ربوہ میں سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہیں.والد صاحب کی یہ خواہش بھی ان کی زندگی میں ہی پوری ہو گئی.مکرم عبد الرحمن صاحب دہلوی کے ذریعہ مکرم لیفٹینٹ بشیر احمد صاحب آرچرڈ نے اسلام قبول کیا.مولوی عبدالقادر صاحب فاضل حال درویش نے ایام جنگ میں اٹلی میں جا کر پوپ کو مسیح کی آمد ثانی کی اطلاع دی.اسی طرح اس عاجز کو بھی تبلیغ کی توفیق ملتی رہی.چنانچہ ۱۹۴۴ء میں پانچ اور ۱۹۴۷ء میں سات کس کو بیک وقت بیعت کروائی.والد صاحب فرماتے تھے کہ جب تک میں تمام دنیا کے لوگوں کے لیے دعا نہیں کر لیتا میں رات کو نہیں سوتا.عاجز اس بات کا شاہد ہے کہ خواہ بیمار ہوں یا کتنی ہی سردی کیوں نہ ہو اس ضعیف العمری میں بھی ہر وقت باوضور ہتے تھے.اکثر ٹھنڈا پانی استعمال کرتے تھے پاکی کا بڑا خیال رکھتے تھے جب بھی میں رات کو باہر سے آتا یا سوئے ہوئے میری آنکھ ھلتی خواہ گرمی ہو یا سردی.نوافل، تہجد یا قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے دیکھا.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فارسی کلام بڑے ترنم سے پڑھتے تھے.وفات سے تین دن قبل بھی یہ شعر بڑے ترنم سے پڑھ رہے تھے.امروز قومِ من، نشناسد مقام من روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم تقسیم ملک کے بعد والد صاحب قادیان سے آکر نمک میانی ( نز د بھیرہ ضلع سرگودھا) میں آباد ہوئے.عاجز کے بار بار لکھنے پر کہ اب آپ اپنی باقی زندگی مرکز ربوہ میں بسر کریں ۱۹۶۱ء سے میانی کو خیر آباد کہہ کر ربوہ تشریف لے آئے.پھر باوجود وہاں کے لوگوں کے پیغامات، خطوط اور خود آ کر والد صاحب سے واپس میانی چلنے کی درخواست کرنے کے آپ یہی جواب دیتے اب میں ربوہ میں ہی رہنے کا ارادہ کر کے آیا ہوں.زندگی کا کچھ پتہ نہیں.یہاں پر ہی انجام بخیر ہو تو بہتر ہے.۲۶، ۲۸،۲۷ مارچ ۱۹۶۵ء کو تینوں دن بڑے شوق سے باوجو د ضعیف العمری کے قصر خلافت سے چل کر تعلیم الاسلام کالج کے ہال میں جا کر مجلس مشاورت میں شمولیت فرماتے رہے.سلسلہ کی تقریبات میں شمولیت کا خاص شوق تھا.اکثر فرماتے میں نے آج تک ایک بھی جلسہ سالانہ نہیں چھوڑا.مشاورت
تاریخ احمدیت.جلد 23 391 سال 1965ء کے ختم ہونے کے اگلے دن صبح تقریباً آٹھ نو بجے والد صاحب کی طبیعت میں اچانک خاص قسم کا ضعف پیدا ہوا.وہ گھر میں گر پڑے.عاجز اسی وقت گھر پہنچا.ڈاکٹر صاحب کو دکھا یا علاج شروع ہو گیا سب بہن بھائی معہ اہل و عیال پہنچ گئے.اس عرصہ میں کثرت پیشاب کی تکلیف شروع ہوگئی.نیند بالکل اڑ گئی.جمعہ کی نماز میں دعا کی تحریک کی گئی.نماز جمعہ کے معا بعد ڈیڑھ بجے نیند آئی اور پھر آنکھ کھل گئی.پھر متواتر نیند آنے لگی اور اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا یہ نشان ہمیں دکھایا.الحمد للہ علاج ابتداء میں محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب پھر مسلسل محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے دو ماہ تک والد صاحب کا علاج کیا.جس سے آرام آگیا.مگر اس دوران کافی کمزور ہو چکے تھے.۱۰ را گست ۱۹۶۵ء کو طبیعت بہتر معلوم ہوتی تھی.مگر پانچ بجے شام اچانک اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا.آپ کے منہ میں پانی ڈالا گیا.دو گھونٹ پینے کے بعد اپنے مولیٰ کے دربار میں تشریف لے گئ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وفات پر سب بہن بھائی پہنچ گئے.سوائے مولوی عبد القادر صاحب درویش قادیان کے جو نہ پہنچ سکے.اولاد از اہلیہ اول 38 عبدالرب صاحب، عبدالرحمن ، ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب، صوبیدار عبدالمنان صاحب، مولوی عبدالقادر صاحب دانش درویش قادیان، عبدالستار صاحب،عبدالرشید صاحب، امتہ العزیز بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ شفیق احمد صاحب نجیب آبادی ، عبدالسلام صاحب اولاد از اہلیہ دوم محمد عبدالشکور صاحب (المعروف شکور بھائی چشمے والے) ، امتہ الرشید بیگم صاحبہ اہلیہ محد یمین خان پیام شاہجہانپوری، امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی، امتہ اللطیف بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالکریم شاد صاحب نیلہ گنبد، امتہ الحی صاحبہ 39 حضرت مولوی محمد افضل صاحب اوجلوی دھرمپورہ لاہور ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت : ۱۹۰۳ء 10 وفات : ۵ نومبر ۱۹۶۵ء میاں محمد افضل صاحب سکنه او جله ضلع گورداسپور حال مکان نمبر ے گلی نمبر ۵۷ نیا دھرم پورہ لا ہور
تاریخ احمدیت.جلد 23 392 سال 1965ء نے ۱۸۹۴ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی.ان ایام میں گو آپ بچے ہی تھے اور پانچویں جماعت کے طالب علم تھے.مگر چونکہ آپ کے تایا حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی پٹواری اور آپ کے حقیقی چامنشی عبدالمجید صاحب بیعت کر چکے تھے اور ۳۱۳ صحابہ کرام میں شامل تھے اسی طرح آپ کے والد ماجد منشی عبدالحق صاحب پٹواری بھی بیعت کر چکے تھے.اس لئے آپ کا بیعت کر لینا آسان تھا.آپ فرماتے ہیں کہ جن ایام میں کرم دین سکنہ بھیں کے ساتھ مقدمات چل رہے تھے.ان ایام میں میری بیوی نے بھی بیعت کر لی تھی گو وہ ان ایام میں بہت کم عمر تھی مگر بڑی عورتوں کے ساتھ مل کر اس کے لئے بھی بیعت کرنا آسان تھا.آپ فرماتے ہیں:.وو.42 ” جب میں نے سکول چھوڑا تو اس وقت سب سے پہلامنشی رسالہ تحیۃ الاذہان کا میں ہی مقرر ہوا تھا اور میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا تھا آپ کے بھتیجے فیض الرحمان صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ان کو میں نے ایک درویش کی حالت میں پایا.وہ اپنے کام میں مگن رہتے تھے.دنیا داری سے بے رغبتی تھی.نہایت کم گو تھے.صرف ضرورت کے وقت بات کرتے تھے.کسی کے کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے.بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے.خود نماز فجر کے بعد قرآن مجید کی تلاوت بلند آواز سے کیا کرتے تھے.انکی ایک مختصر سی لائبریری بھی تھی.اس میں بیشتر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف تھیں.ان کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہتے الفضل اخبار باقاعدگی سے منگواتے اور اس کا ایسے مطالعہ کرتے تھے جیسے کوئی درسی کتاب توجہ سے پڑھی جاتی ہے.الفضل کے ابتدائی لفظ سے شروع کرتے اور آخری لفظ تک نہایت انہماک سے مطالعہ کرتے تھے.ہر معاملہ میں وقت کی سخت پابندی کرتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کا پابند بنانے کی کوشش کرتے.آپ نے نہایت تنگ دستی کی زندگی بھی گزاری لیکن کبھی اس تنگی کا شکوہ نہ کیا.اپنی آمدنی کے مطابق چندہ با قاعدگی سے آخری وقت تک ادا کرتے رہے.ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی شکر گذاری کے کلمات ہی زبان سے ادا کیے.ان کی اپنی اولاد کو ئی نہیں تھی.انکی اہلیہ کا نام سردار بیگم تھا.آپ کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بڑی ہو کر فوت ہوگئی.اسکے بعد آپ کی کوئی اولاد نہ ہوئی.آپ کے ایک ربیب تھے جن کا نام احمد جان تھا.ان کی اولا داس وقت موجود ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 393 سال 1965ء حضرت ڈاکٹر سید ولایت شاہ صاحب سب اسٹنٹ سرجن افریقہ ولادت قریباً: ۱۸۷۹ء بیعت : ۱۸۹۹ ء وفات : ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء بمقام نیروبی آپ ضلع سیالکوٹ کے مشہور قصبہ سمبڑیال کے ماحول میں واقع ایک گاؤں میں پیدا ہوئے.جہاں آپ کا خاندان ایک گدی کا مالک تھا.اس گدی کے بعض مرید اس وقت بھی مشرقی افریقہ میں پائے جاتے ہیں.آپ اپنے خاندان میں اکیلے ہی احمدی تھے.بیعت کرتے ہی آپ کے خاندان کے سب لوگ آپ کے مخالف ہو گئے اور آپ نے بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ان سے قطع تعلق کر لیا.حضرت ڈاکٹر صاحب نے نیروبی میں اپنی بیعت اور مسیح موعود علیہ السلام کے حالات سنائے.جو بہت ایمان افروز تھے.جس کے مطابق: حضرت ڈاکٹر صاحب نے کئی سال تک ہندوستان میں ملازمت کی پھر ۱۹۱۳ء کے لگ بھگ دوسرے ڈاکٹروں کے ساتھ جن کو ہندوستان سے بھرتی کیا گیا تھا، مستقل طور پر مشرقی افریقہ تشریف لے گئے اور کینیا کے متعدد شہروں میں طبی خدمات بجالاتے رہے اور بالآخر ریٹائر ڈ ہوکر نیروبی میں آباد ہو گئے اور اپنی پریکٹس شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوب کمایا اور بڑی جائیداد پیدا کی اور اپنے فن میں اس درجہ کامیاب ہوئے کہ ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ: افریقہ کی کمائی صرف ڈاکٹر ولایت شاہ صاحب نے کھائی ہے.وجہ یہ کہ اور احمدی ڈاکٹر جو افریقہ پہنچے ان میں سے بعض تو کامیاب ہی نہ ہوئے اور واپس چلے آئے اور بعض کو اللہ تعالیٰ نے مال تو خوب دیا.لیکن اُن کو اولا د ایسی ملی جس کو دین سے محبت نہ تھی.مگر حضرت ڈاکٹر ولایت شاہ صاحب مشرقی افریقہ کے وہ ممتاز بزرگ تھے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مال و جائیداد سے بھی نوازا اور نیک اولاد سے بھی.چنانچہ آپ کے بڑے صاحبزادے سید محمد اقبال شاہ صاحب نیروبی کے پریذیڈنٹ بنے اور قابل رشک خدمات انجام دیں.حضرت ڈاکٹر صاحب کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی نصیب ہوئی.آپ ہر مالی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.آپ نے ۱/۴ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.آپ کا جنازہ صوفی محمد اسحاق صاحب امیر و مبلغ انچارج کینیا نے پڑھایا اور آپ نیروبی کے احمد یہ قبرستان ( قطعہ موصیان ) میں دفن کیے گئے.حضرت شاہ صاحب کے قبول احمدیت کا واقعہ آپ ہی کے قلم سے درج ذیل کیا جاتا ہے.آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 394 سال 1965ء تحریر فرماتے ہیں کہ:.میں نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار سے سنا ہوا تھا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں ایک شخص مرزا غلام احمد صاحب نے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے.لیکن بعد ازاں آپ کے مخالفین سے ہے.لیکن عجیب عجیب باتیں سنیں.کوئی کہتا تھا کہ امام مہدی عرب میں پیدا ہوں گے.اُن کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ ہو گا.مرزا صاحب پنجاب میں پیدا ہوئے والدین کے نام بھی عبد اللہ اور آمنہ نہیں ہیں.کوئی کہتا امام مہدی وہ ہو گا جس کو بچپن میں سال پاکس کا ٹیکا کیا جائے گا تو اس کے بازو سے خون کی بجائے دودھ نکلے گا.اس کو اسی وقت مروا دیا جائے گا تا کہ وہ عیسائیوں کی نہ صلیبیں توڑ سکے نہ اُن سے جنگ کر سکے.کوئی کہتا تھا مرزا صاحب ہر وقت دستانے پہنے رہتے ہیں کیونکہ اُن کو کوڑھ کی بیماری ہے.کوئی کہتا کہ مرزا صاحب بجائے محمد کے اپنا کلمہ پڑھواتے ہیں.کوئی کہتا کہ مرزا صاحب کوئی بڑے عالم بھی نہیں.مولوی نور دین صاحب سے مضامین لکھوا لیتے ہیں.انگریزی مضامین لکھوانے کے واسطے ایک انگریز چھپا کر رکھا ہوا ہے.مسلمان علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا ہوا ہے.ایسے بیانات نے مجھے احمدیت سے اس قدر بدظن کر دیا کہ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی احمدی ہو جاؤں گا.لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے نواز ا اور محض اپنے فضل و کرم سے ایسے اسباب پیدا کر دیئے کہ میں آخر کا ر احمدی ہو گیا.میں امریکن مشن ہائی سکول سیالکوٹ کی پانچویں جماعت میں تھا کہ ماسٹر بدر دین صاحب نے مجھے آغا محمد باقر خان قزلباش رئیس اعظم و میونسپل کے ہاں ان کے دو چھوٹے بھائیوں کا ٹیوٹر مقرر کروا دیا اور مجھے بورڈنگ ہاؤس چھوڑ کر آغا صاحب کے ہاں رہنا پڑا.ایک دن میں اُن کی بیٹھک کے باغیچہ میں کھڑا تھا کہ سامنے بازار سے کثیر التعدادار تھیاں اور جنازے گذر رہے تھے جو طاعون کی وباء سے ہلاک ہوئے تھے.انہیں دیکھ کر میرا دل کانپ اٹھا.خیال آیا کہ جب شہر میں اتنے لوگ مر رہے ہیں تو خدانخواستہ مجھ پر بھی تو اس مرض کا حملہ ہو سکتا ہے.اتفاقا مجھے قرآن کریم کے بارہ میں خیال آ گیا جو میں نے گاؤں میں پڑھا تھا لیکن تلاوت جاری نہ رکھنے کی وجہ سے وثوق سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ میری تلاوت صحیح ہے.اگر خدانخواستہ اس حالت میں فوت ہو جاؤں تو قیامت کے روز پہلا سوال قرآن کریم کے بھولنے کے بارہ میں ہوگا.جس کا کوئی معقول جواب نہیں دے سکوں گا.پھر سوچنے لگا کہ صحیح تلاوت کہاں سے اور کس سے سیکھی جاوے.اگر کسی مسجد کے مُلا سے پوچھوں تو وہ کہے گا اتنے بڑے ہو
تاریخ احمدیت.جلد 23 395 سال 1965ء کر تم کو قرآن شریف بھی پڑھنا نہیں آتا.آخر کار یہ تدبیر سوجھی کہ کہیں درس ہوتا ہو تو اس میں شامل ہو کرسنوں.اس طرح میری کمزوری پر بھی پردہ پڑا رہے گا اور صحیح تلاوت بھی سیکھ جاؤں گا.آخر کار یہی تدبیر میری ہدایت کا موجب ہوئی.چنانچہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سارے شہر میں آجا کر صرف ایک جگہ قرآن شریف کا درس ہوتا ہے اور وہ بھی احمدیوں کے ہاں یعنی میر حامد شاہ صاحب مغرب کی نماز کے بعد درس دیتے ہیں.میں نے کہا کہ میری اصل غرض صحیح تلاوت سیکھنا ہے ترجمہ تفسیر اور مرزا صاحب کے بارہ میں دلائل کی طرف توجہ نہیں دوں گا.اگلے دن جب میں احمدیہ مسجد کی طرف روانہ ہونے لگا تو آغا صاحب نے دیکھ لیا.پوچھنے لگے.شاہ صاحب آج تم کہاں چلے ہو.میں نے کہا احمدیہ مسجد میں درس سننے کے واسطے جانا چاہتا ہوں.کہنے لگے درس سُن کر تم مرزائی ہو جاؤ گے.میں نے کہا میں نے صرف تلاوت سنی ہے.ان کے خصوصی عقائد کی طرف دھیان نہیں دوں گا.انہوں نے کہا یا درکھو تم پر ضرور اثر ہوگا.لہذا بہتر یہی ہے کہ تم وہاں نہ جاؤ.اگلے دن آغا صاحب پھر باغیچہ میں ہی بیٹھے تھے.اس لیے اس دن بھی نہ جا سکا.تیسرے دن خوش قسمتی سے موقع مل گیا اور میں درس میں شامل ہو گیا.آغا صاحب کو بھی پتہ لگ گیا.لیکن انہوں نے مجھے جانے سے منع نہ کیا.میں ہر روز بلا ناغہ درس میں شامل ہوتا رہا.مجھے سوال یا اعتراض کرنے کی ضرورت نہ پڑی.ترجمہ اور تفسیر سن کر میرے شکوک اور شبہات خود بخود رفع ہو گئے.مخالفین کے سب افتراء فاسد علی الفاسد ثابت ہوئے اور میں نے انشراح صدر سے ۱۸۹۹ء میں بیعت کر لی.ایک پادری صاحب نے جو ہمیں انجیل پڑھایا کرتے تھے.مجھے بہکانے کی بہت کوشش کی.لیکن میں اپنے سلسلہ کا لٹریچر پڑھ کر ان کے قابو میں نہ آیا.بلکہ ان کو لا جواب کر دیا.آخر کار ایک دن کہنے لگے کہ مجھے پتہ لگ گیا ہے تم مرزائی ہو گئے ہو.میں نے کہا ہاں! وہی لوگ تو ہیں جن کے سامنے تم لوگ نہیں ٹھہر سکتے.766 46 حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ :.اب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات جو حضرت کی زبان مبارک سے سنے کی نسبت کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۱۹۰۶ء میں جب میں بلوچستان سے سکول ماسٹری چھوڑ کر لاہور میڈیکل سکول میں داخل ہونے کے لیے آیا تو داخلہ ہو چکا تھا لیکن ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کی سفارش سے ڈاکٹر پیری نے ملٹری کلاس میں داخل کرنا منظور کر لیا پڑھائی شروع ہوئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ سیکنڈ تھرڈ اور فورتھ ایئر والوں نے بعض شکایات کی وجہ سے ہڑتال کر دی اور سکول جانا
تاریخ احمدیت.جلد 23 396 سال 1965ء چھوڑ دیا جب میں نے کہا کہ ہم فرسٹ ایئر والوں کو کوئی شکایت نہیں تو ہم کس طرح ہڑتال میں شامل ہوں تو وہ قہر کی نظروں سے دیکھنے اور دھمکانے لگے.اس پر ہمیں بھی شمولیت کے لیے مجبور ہونا پڑا کیونکہ نہ شامل ہونے والوں کے ساتھ بہت ہی برا سلوک کیا جاتا تھا.پرنسپل صاحب نے جب بورڈ نگ ہاؤس سے نکال دیا تو رائے میلا رام صاحب نے ہم کو اپنی ایک کوٹھی رہنے کے واسطے دے دی.جب ہڑتال طول پکڑ گئی تو میں نے اور شیخ عبد الحکیم صاحب بہل نے جو میرے ہم جماعت تھے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب سے پوچھا کہ داخل ہو جا ئیں یا نہ ؟ وہ کہنے لگے کہ ہم کچھ نہیں کہتے بڑے گھر جاؤ اور اور پوچھ آؤ ہم رات کے دو بجے چوری چوری کوٹھی سے بھاگے اور اگلی صبح قادیان روانہ ہو گئے مسجد مبارک میں پہنچے تو اپنا ماجرا بیان کیا حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی گئی تو حضور تشریف لائے اور ہمیں مخاطب کر کے فرمایا کہ میں ہڑتال کو بغاوت خیال کرتا ہوں اگر تم لوگوں کو کچھ شکایات ہیں تو لکھ کر با ادب پیش کرو.تم میرے مرید ہو تو واپس جاؤ اور سکول میں داخل ہو جاؤ.ہم دونوں واپس آگئے اور اگلے دن کالج کے احاطہ کی پچھلی دیوار پر چڑھ کر اندر داخل ہوئے اور اپنے نام پھر درج رجسٹر کرائے.سامنے پھاٹک سے اندر جانا ناممکن تھا اگر کوئی بند گاڑی میں بھی بیٹھ کر جاتا تھا تو پکٹنگ والے ڈنڈوں سے گھوڑے کو چوان اور سواریوں کا منہ توڑ دیتے تھے چند دنوں کے بعد سارے طلباء داخل ہو گئے سرغنے اور مانیٹر سکول سے نکال دیئے گئے اور پڑھائی پھر شروع ہوگئی یہ ہڑتال کامیاب ہوئی سب شکایات رفع کر دی گئیں.مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ نے حسب ذیل نوٹ سپر قلم فرمایا: ابتداء میں سکول ماسٹر تھے بعد میں ذاتی محنت اور جد و جہد سے ڈاکٹری کی طرف توجہ کی اور ڈاکٹری کا امتحان پاس کر کے مشرقی افریقہ میں ۱۹۱۳ء میں پہنچے.ان دنوں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے علاوہ اور بھی کئی احمدی بزرگ اور صحابہ اس ملک میں موجود تھے.مشرقی افریقہ میں مختلف اوقات میں کم از کم دو درجن کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اپنے کاموں کے سلسلہ میں تشریف لے گئے.ان میں سے ہر ایک بزرگ نے اسلام کی تبلیغ اور اسلام کی اشاعت کے لیے جدوجہد میں ہر طرح اور ہر ممکن طریق سے حصہ لیا.حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم بھی کینیا کے مختلف شہروں، کسموں، نیری، مچاکوس، ممباسہ، نیروبی اور نکورد وغیرہ میں مقیم رہے اور اس عرصہ میں سلسلہ کا لٹریچر جہاں بھی رہے تقسیم کرتے رہے اور اپنے ملنے جلنے والوں میں اسلام کی تبلیغ اور احمدیت کا تذکرہ کرتے رہے ہر
تاریخ احمدیت.جلد 23 397 سال 1965ء جگہ اپنے نیک نمونہ سے خیر سگالی کی فضا پیدا کرنے میں کوشاں رہے.سلسلہ کے جس کام اور جس ضرورت کے لیے جب بھی اور جس وقت بھی تحریک کی گئی برابر حصہ لیتے اور بڑے شوق سے حصہ لیتے.چندوں کی ادائیگی کا عرصہ دراز تک یہ طریق رہا کہ جنوری یعنی سال کے شروع میں سال کا پیشگی چندہ ادا کر دیتے.وصیت کا، تحریک جدید کا اور اسی طرح بعض دوسرے چندے بھی مقامی ضروریات تبلیغ، تعمیر مساجد اور مشن ہاؤسز کی تعمیر میں دل کھول کر مالی امداد دیتے رہے.گورنمنٹ کینیا کے محکمہ میڈیکل سے اسسٹنٹ سرجن ہو کر ریٹائر ڈ ہوئے اور ریٹائر ہونے کے بعد نیروبی میں پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دی.اپنے بیماروں کو معمول کے مطابق جا کر دیکھتے اور پھر ایک خاص وقت میں گھر پریکٹس کے لیے بیٹھتے.بیماروں کو دیکھنے جب جاتے تو پیدل سارا سفر کرتے.اپنے گھر میں پودوں کی دیکھ بھال خاص شغف سے کرتے.اس سے ان کی ورزش بھی ہو جاتی اور صحت کے قائم رکھنے میں مدر ہی.اپنے عرصہ ملا زمت میں جہاں جہاں بھی مقیم رہے ڈاکٹر صاحب موصوف شجر کاری کا خاص خیال رکھتے ان کا یہ محبوب مشغلہ تھا.بلکہ بعض ایسے درخت جو حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ہسپتالوں اور ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے مکانوں کے آس پاس لگوائے ، ان کے لڑکوں نے ان کے پھل بھی کھائے.ایک دفعہ نیروبی سے سومیل کے فاصلہ پر ایک نہایت ہی پر فضا جگہ نیری Nyeri میں ان کے لڑکے مرحوم ڈاکٹر سید انورشاہ صاحب کو ملنے گیا وہ اس جگہ کے ہسپتال کے انچارج لگے ہوئے تھے انہوں نے بتایا کہ حضرت ڈاکٹر صاحب نے یہ لوکاٹ کے درخت لگائے تھے اور اب میں اس کے پھل کھاتا ہوں.سلسلہ کے لٹریچر میں جو مشرقی افریقہ میں تبلیغی لحاظ سے اور اسلام کی برتری و عظمت کو قائم کرنے میں بہت ہی مفید ثابت ہوا.آپ اس کی اشاعت میں مالی امداد آپ دیتے رہے.قرآن مجید کے سواحیلمی ترجمہ کشتی نوح کے سواحیلی ترجمہ میں آپ نے اور آپ کے بیٹوں نے بلکہ بعض بیٹیوں نے بھی حصہ لیا.پرانے بزرگوں کی بالخصوص ان کے دل میں بہت قدر و عظمت تھی.ان کا اکثر ذکر خیر کرتے.سلسلہ کے خدام سے اختلاف ہوتا تو خاموشی سے اصلاح حال کی کوشش فرماتے.پابند شریعت تھے.بچوں کی دینی تعلیم و تربیت ذاتی توجہ اور کوشش سے کی ہے اور اپنے لڑکوں کو بچپن میں ہی قادیان بھجوا دیا.چنانچہ قادیان کی تعلیم و تربیت کی برکت سے سب بچے سلسلہ کے خادم اور سلسلہ سے اخلاص رکھنے والے ہیں.“
تاریخ احمدیت.جلد 23 اولاد 398 سال 1965ء سید محمد اقبال شاہ صاحب.ڈاکٹر سید انور شاہ صاحب.(الفضل ۵ فروری ۱۹۶۶ ء کے مطابق حضرت ڈاکٹر صاحب کے چار لڑکے اور دولڑکیاں ہیں.) حضرت چوہدری غلام محمد سد حو صاحب آف پریم کوٹ ولادت :۱۸۶۳ء بیعت: (سن کی تعیین نہیں ہوسکی ) وفات : ۷ دسمبر ۱۹۶۵ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور احمدیت کے شیدائی اور بہت مخلص وجود تھے.اولاد چوہدری محمد اسماعیل سدھو صاحب حضرت منشی سر بلند خان صاحب 49 ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۹۰۴ء وفات : ۹ دسمبر ۱۹۶۵ء حضرت منشی صاحب کو احمدیت سے دلچسپی پیدا کرنے کا موجب آپ کے چچا حضرت منشی گوہر علی صاحب تھے اور آپ کو بیعت کی تحریک حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی نے کی.آپ نے ۲۶ اکتوبر ۱۹۳۸ء کو، جبکہ آپ ہیڈ منشی دفتر نہر ڈویژن مظفر گڑھ کے عہدے پر فائز تھے، اپنے قلم سے قبول احمدیت کے حالات لکھے.جن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک کے بعض اہم واقعات بھی تھے.آپ اپنی اس غیر مطبوعہ تحریر میں فرماتے ہیں کہ اس عاجز نے ور ٹینکر مڈل سکول ۱۹۰۱ء میں پاس کیا تھا اور اس کے بعد میں اپنے چچا صاحب مرحوم منشی گو ہر علی صاحب احمدی ( جو نہر سدھنائی تحصیل کبیر والا ضلع ملتان میں پٹواری تھے ) کے پاس چلا گیا.چا صاحب مرحوم اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی تھے اور ان کے پاس اخبار الحکم، آیا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف کردہ کتب بھی تھیں.جن کو میں مطالعہ کیا کرتا تھا.گومیں اصل باشندہ خاص کوٹلہ افغاناں تحصیل شکر گڑھ ضلع گورداسپور کا تھا اور صرف اتنا سنا ہوا تھا کہ امام مہدی علیہ السلام آگئے ہوئے ہیں.مگر یہ کوئی پتہ نہیں تھا کہ کہاں آئے ہوئے ہیں؟ اور نہ ہی کوئی مذہبی معاملات سے دلچپسی تھی.اخبار الحکم اور کتب کے مطالعہ سے چونکہ طبیعت میں انکساری اور خوف خدا کا مادہ تھا، دل یہی چاہتا تھا کہ فورا بیعت کر لینی چاہیے.دوسری طرف ملانوں کا شور و غوغا اور مخالفت بھی زوروں پر تھی اور چنداں مذہب کی واقفیت نہ تھی اور قرآن شریف سے اس سے پہلے بالکل نا آشنا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 399 سال 1965ء میرے چچا صاحب مرحوم نے ایک ملاں ضعیف العمر اپنی لڑکیوں کی تعلیم کے واسطے رکھا ہوا تھا.جس کو اردو پڑھنا نہیں آتا تھا اس کے ساتھ میں نے سمجھوتہ کر لیا کہ میں آپ کو اردو پڑھایا کروں گا آپ مجھے قرآن شریف پڑھایا کریں.چنانچہ میں مکتب میں چلا جاتا اور چھوٹے چھوٹے بچوں سے قرآن شریف سنتا رہتا اور خود بھی ملاں صاحب سے پڑھتا رہتا.چنانچہ میں نے قرآن شریف ختم کر لیا اور حضرت چچا صاحب مرحوم کے پاس تفسیر محمدی حافظ محم لکھو کے والے کی تصنیف تھی اس کو مطالعہ کرتارہتا اور کچھ فقہ کی کتب حضرت چچا صاحب مرحوم نے لڑکیوں کو پڑھانے کے واسطے منگوائی ہوئی تھیں، ان کو پڑھتا رہتا.حتی کہ مجھے دینی شوق دن بدن بڑھتا گیا اور جوں جوں سلسلہ احمدیہ سے واقفیت ہوتی گئی.توں توں خیالات بھی وسیع ہوتے گئے اور ملانوں کے ساتھ تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور اگر میرے دل میں کوئی اعتراض پیدا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اخبار الحکم میں انہی اعتراضات کا حل آجا تا اور میرا ایمان مضبوط ہوتا گیا.سال ۰۲-۱۹۰۱ء میں بے کار رہا اور کوئی ملازمت کا سلسلہ بھی نہ بنا اور یہی شوق مطالعہ کتب و اخبار رہا.گویا میرا حافظہ ایسا نہیں تھا کہ ہر ایک بات کو یاد رکھتا اور باوجوداس کے کہ میراعلم کچھ بھی نہ تھا مگر مخالفوں کی باتوں کا اس پر بالکل اثر نہیں ہوتا تھا.غالباً شروع سال ۱۹۰۳ء میں میں نے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا اور بیعت بھی کی تھی جس سے شوق زیارت بڑھتا گیا اور میرے چچا مرحوم نے کوشش کر کے محکمہ نہر میں بعہدہ پٹواری نہر سال ۱۹۰۳ء میں ملتان میں ملازم کرا دیا اور میری تقرری بعہدہ پٹواری نہر شجاع آباد میں جولائی ۱۹۰۳ء کو ہو گئی.اتفاق سے میں ملازم پٹوار ہی تھا کہ حکم آگیا کہ ان کو ٹرینگ پٹوار نہر کے لیے امرتسر بھیجا جائے اور میں سال ۱۹۰۱ء سے ۱۹۰۳ء تک گھر بھی نہیں گیا تھا اور قادیان جانے کا شوق بھی ضرور تھا.چنانچہ احکام جاری ہو گئے اور مجھے امرتسر دوم ڈویژن میں غالباً ماہ نومبر کے اخیر میں جبکہ ماہِ رمضان المبارک تھا.بھیجا گیا اور دوم ڈویژن اپر باری دوآب اُن دنوں گورداسپور سے لاہور تک تھا.میری تقرری جناب ڈپٹی کلکٹر صاحب بہادر میر عبدالوحید صاحب نے لاہور ڈویژن میں فرمائی.مگر میر صاحب بہت ہی نیک طبیعت کے تھے اور نمازی تھے اور قادیان میں بھی ان کا آفس تھا.میں نے عرض کی کہ حضور میری تقرری تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور میں فرماویں تا کہ میں آسانی سے گھروں میں آجاسکوں.چنانچہ جناب میر صاحب نے میرے عرض کرنے پر میری تعیناتی تحصیل بٹالہ ضلعداری سیکشن کنجر متصل دھر کوٹ بگہ فرمائی اور میں نے شکریہ ادا کیا.سیکشن کنجر سے ضلعد ارصاحب لالہ ڈوگر مل صاحب نے جو
تاریخ احمدیت.جلد 23 400 سال 1965ء بہت نیک اور اچھے آدمی تھے میری تقرری دھار یوال کے نزدیک بیری ننگل میں فرمائی.وہاں میرے کئی ایک ہم قوم لوگ تھے جو میرے ساتھ بہت محبت کرتے تھے اور جس پٹواری کے ساتھ مجھ کو لگایا تھا وہ مسلمان امرتسر کا باشندہ تھا مگر احمدیت کا سخت دشمن تھا اور میرے ساتھ اس کا برتا ؤ ا چھا نہ تھا.ماہ دسمبر میں موقعہ عید پر اور جمعتہ الوادع پر میں پہلی دفعہ قادیان گیا مگر افسوس کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان دنوں اکثر گورداسپور مقدمات کی وجہ سے رہا کرتے تھے.میں زیارت سے مشرف نہ ہو سکا اور واپس بیری نگل آگیا.چونکہ پٹواری نہر سخت مخالف تھا.اس واسطے میں ضلعدار صاحب لالہ ڈو گریل صاحب کی خدمت میں قلعہ لال سنگھ پہنچا اور عرض کی کہ مجھے بجائے مسلمان پٹواری کے کسی ہندو پٹواری کے ساتھ لگایا جاوے.چنانچہ ضلعد ا ر صاحب نے میری درخواست کو قبول فرما لیا اور مجھے ریلوے اسٹیشن چھینہ کے پٹواری منشی نتھو رام صاحب کے ساتھ لگا دیا اور چھینہ سے تھوڑی دور میری چازاد ہمشیرہ موضع شیر پور متصل ہر سیاں رہتی تھی.جو قادیان سے ۴ یا ۵ میل کا فاصلہ ہے.یہاں سے مجھے موقع مل گیا اور میں ہر جمعہ کو قادیان چلا جاتا اور شام کو واپس آجاتا اور اردگرد کے احمدی دوست بھی واقف ہو گئے.خصوصاً سیکھواں والے مولوی امام الدین صاحب وغیرہ جنہوں نے مجھے ترغیب دی کہ جلدی بیعت کر لو.چنانچہ ایک جمعہ پر قادیان پہنچ کر مولوی امام الدین صاحب یا جمال الدین صاحب نے میرے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بعد نماز جمعہ عرض کی کہ اس لڑکے کی بیعت لی جاوے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ عصر کی نماز کے بعد اور دیگر دوستوں کو کہہ دیا جاوے پھر عصر کی نماز کے بعد فرمایا کہ شام کی نماز کے بعد اور پھر شام کی نماز کے بعد فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد.چنانچہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں جہاں عام طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام شد نشین ہوا کرتے تھے ، بیعت کنندگان کو بلایا.میں آگے بڑھا اور حضور کے دست مبارک پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور کئی اور دوست بھی تھے جن کا نام یاد نہیں اور بیعت لی اور بیعت کے بعد میرے اندر کوئی ایسی لہر دوڑ گئی جیسے بجلی اثر کرتی ہے.اس کے بعد میں ٹرینینگ پٹوار نہر پوری کر کے امتحان امرتسر دے کر واپس ملتان چلا گیا اور میرے چچا صاحب مرحوم نے میرے نام اپنے خرچ پر رسالہ ریویو آف ریجنز جاری کرا دیا جودوسال برابر ان کے خرچ پر میرے نام آتا رہا.اس کے بعد میں خود اپنے خرچ پر مستقل خریدار ہو گیا اور اخبار بدر کا بھی خریدار بن گیا اور پھر عام طور پر جلسہ سالانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جاتا رہا اور فیضیاب ہوتا رہا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 401 سال 1965ء ایک جلسہ سالانہ غالب ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ ء کا تھا جس میں مسجد اقصیٰ میں سیڑھیوں کے پاس جنوب مشرق ایک کونے پر مکان تھا جو غیر احمدیوں کا تھا جن کے مکان پر چند ایک دوست بوجہ کثرت ہجوم چڑھ گئے اور مکان والوں نے برا بھلا کہا.اس برا بھلا کہنے کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کانوں سے سنا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نماز باجماعت فرض ظہر و عصر ادا کر کے تقریر شروع فرمائی.اس وقت وہ تقریر ایسی جلالی رنگ رکھتی تھی جس میں حضور نے قادیان کے لوگوں پر احسانات کا تذکرہ فرمایا اور ان کی مخالفت کا ذکر فرمایا.جس سے معلوم ہوتا تھا کہ اس وقت کوئی غضب الہی نازل ہونے والا ہے.بعد خاتمہ تقریر جلسہ برخاست ہوا اور میں مسجد سے نکل کر چوک بازار میں مسجد کے پاس ہی آیا تھا کہ دو سکھ سردار جو ان پڑھ معلوم ہوتے تھے مگر تقریرین کر آئے تھے اور ذکر کر رہے تھے کہ بڑی عجیب تقریرتھی.اگر ہم کو خبر ہوتی تو ہم ہر روز سننے کے لئے آتے.اسی طرح ایک دن صبح کو میں اور میرے چچا زاد بھائی ( جہاں اب محلہ دارالرحمت ہے) جنگل گئے اور واپسی پر ہمارا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کبھی بازار کی طرف سیر کو جاویں.تو کیا خوب ہو.چنانچہ ہم مسجد مبارک کے نیچے والے دروازے میں جا کھڑے ہوئے کیونکہ حضرت مسیح موعود عام طور پر صبح کو سیر کے لیے جایا کرتے تھے اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم وکیل بھی دروازہ پر کھڑے تھے اور عام طور پر حضرت صاحب باہر کی طرف سیر کو جایا کرتے تھے مگر اس دن خواجہ صاحب نے فرمایا کہ حضرت! آج بازار کے راستہ سیر کو چلیں.چنانچہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ بازار کے راستہ چلو.جب حضرت چوک بازار میں پہنچے اور لوگ آگے پیچھے دوڑتے ہوئے آگئے.ایک شخص نے جو کسی دوسرے ملک کا باشندہ معلوم ہوتا تھا.قدم بوسی کے لیے جھک گیا مگر میں پاس ہی کھڑا تھا.حضرت صاحب نے اس کو کاندھے سے پکڑ اوپر اٹھا لیا اور فرمایا کہ دیکھومصافحہ کرنا چاہیے.“ پھر حضرت صاحب بڑے بازار سے ہو کر شمال کی طرف کو سیر کو چل دیے.بازار سے نکل کر دو رویہ قطاریں بنائی گئیں.کیونکہ راستہ مشکل سے ملتا تھا.ریتی چھلہ میں جہاں اب مشین یعنی کارخانہ ہے ایک درخت کھڑا ہے.ان کے نیچے حضور آکر ٹھہر گئے اور آگے چلنے سے رُک گئے اور فرمایا کہ آج میں جماعت پر خوش ہوں.اس کے بعد بمعہ خدام واپس آگئے.حضرت منشی صاحب نے اپنی تمام زندگی داخل سلسلہ ہونے کے بعد جماعت کی خدمت میں گزار دی.۱۹۳۸ء تک آپ محکمہ انہار میں ملازم تھے اس عرصہ میں ملتان، ڈیرہ غازیخان اور 51
تاریخ احمدیت.جلد 23 402 سال 1965ء مظفر گڑھ کے علاقے میں جماعتی خدمات انجام دیتے رہے.ریٹائر ڈ ہونے کے بعد آپ نے مستقل رہائش قادیان میں اختیار کرلی اور محلہ دار الفتوح میں پریذیڈنٹ حلقہ مقرر ہوئے اور تقریباً ۱۸ برس تک صدر انجمن احمد یہ قادیان کے دفتر جائیداد، پراویڈنٹ فنڈ میں مصروف عمل رہے.آپ ملنساری اور خوش مزاجی کے باعث اپنے تمام حلقہ احباب میں مقبول تھے.ہجرت کے بعد لاہور تشریف لے آئے اور عرصہ تک جودھامل بلڈنگ میں فرائض امامت سرانجام دیتے رہے.نیز نماز فجر کے بعد درس قرآن دیتے اور شام کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات پڑھ کر سناتے تھے.تلاوت پُر سوز لہجے میں کرتے.اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی میں مصروف رہتے تھے.اگر چہ آپ کی دنیوی تعلیم صرف مڈل تک تھی مگر عربی زبان اور دیگر دینی علوم میں سلسلے کا لٹریچر اپنے ذاتی شوق سے مطالعہ کر کے کافی مہارت پیدا کر لی تھی.گفتگو کے دوران بڑے عالمانہ طریق سے جواب دیتے تھے اور امتحان انصار اللہ میں ہمیشہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے تھے.آپ لاہور میں اپنے بیٹے چوہدری محمد افضل صاحب کے ہاں مقیم تھے.۶ ستمبر ۱۹۶۵ء کو آپ ربوہ تشریف لے آئے اور ے دسمبر ۱۹۶۵ء کو انتقال فرمایا اور مقبرہ بہشتی میں سپردخاک کیے گئے.اولاد مولوی نور احمد صاحب ریٹائر ڈ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ، چوہدری محمد اسلم صاحب، چوہدری محمد اکرم صاحب، چوہدری محمد افضل صاحب، مولوی محمد اجمل صاحب شاہد، چوہدری محمد ارشد صاحب، اقبال بیگم صاحبہ، سعیدہ بیگم صاحبہ، رفیقہ بیگم صاحبہ - حضرت مولوی احمد علی صاحب دوالمیال 53 ولادت: تقریباً ۱۸۷۰ء بیعت ستمبر ۱۹۰۳ء وفات: ۱۰دسمبر ۱۹۶۵ء دوالمیال ضلع جہلم میں میاں محموداحمد صاحب کے ہاں پیدا ہوئے آپ کے خاندان کا بیشتر حصہ اس بستی سے دو میل جانب غرب ڈہری سیداں میں آباد ہے.بیعت سے قبل آپ اہلِ حدیث فرقہ سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی ابتدائی تعلیم پرائمری تھی.کچھ عرصہ بھیرہ میں رہ کر علم حاصل کیا.گلستان و بوستان پڑھی اور صرف و نحو اور عربی کا علم مولوی خان ملک صاحب کھیوالی سے سیکھا.تعلیم کے بعد چند سال سکول میں مدرس رہے.بعد ازاں کچھ عرصہ محکمہ پٹوار میں ملازمت کی اس پیشہ میں رشوت عام تھی.ایک مرتبہ آپ کو سانپ نے ڈس لیا.مگر خدا تعالیٰ نے رحم فرمایا دوسری مرتبہ ہیضہ سے بیمار ہو گئے
تاریخ احمدیت.جلد 23 403 سال 1965ء 56 اور صدقہ و خیرات سے جان بچی.آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان حوادث کا حقیقی سبب رشوت ہے.اس لیے پٹوار کو چھوڑ دیا اور محکمہ کالرکی ڈنڈوت ضلع جہلم میں بحیثیت منشی ملازم ہو گئے.حضرت مولوی صاحب کی قبول احمدیت اور پہلے سفر قادیان اور بیعت کے روح پرور حالات آپ ہی کے قلم سے درج ذیل کیے جاتے ہیں.میں ڈنڈوت میں محکمہ کالری میں ملازم تھا.وہاں مولوی عطا محمد صاحب جہلمی اوورسیئر تھے ان کے پاس سے اخبار الحکم کا پرچہ ملا.جس میں حضرت صاحب کی تفسیر سورۃ فاتحہ درج تھی.میں نے اُس کا مطالعہ کیا بعد میں دل میں نماز پڑھنے کا خیال پیدا ہوا.اُسی وقت کپڑے دھلائے اُن کو پہنا نماز پڑھی.بعد ۂ روٹی کھائی.شام کو ان کے پاس گیا مزید معلومات حاصل کیں ایام الصلح اور ضرورت الامام کتاب دی.آخر تاکید کی کہ اس شخص کو دیکھنا چاہیے.میں نے چھٹی کی درخواست دے دی.انیس روز کی رخصت منظور ہوئی قادیان گیا.جب ملکوال گیا تو ایک ہندو نے مجھے کہا کہ ”مرزے کی شکل تبدیل شدہ ہے.چہرہ کسی کو دکھاتے نہیں“.مجھے غصہ آیا.قریب تھا کہ لڑائی ہو جاوے لیکن لوگوں نے لڑائی رکوا دی اس نے مجھ سے پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا کہ لاہور سے آگے.اُس نے کہا کہ قادیان جاتے ہو.میں نے کہا، ہاں.تو اس نے پہلی بات کو پھر دھرایا.جب میں بٹالہ آیا تو ایک مولوی صاحب کو دیکھا کہ وعظ کر رہے ہیں کہ قادیان نہ جانا.لیکن میں اس طرف متوجہ نہ ہوا.آخر دیوانی وال کے تکیے پر گیا.وہاں مسجد میں نماز پڑھی.ان ملنگوں نے جو چوپٹ کھیل رہے تھے.پوچھا کہ کہاں سے آتے ہو.میں نے کہا کہ ضلع جہلم سے.اس نے کہا کہ مرزے نے بڑا کام کیا کہ چاروں کونوں سے سب کو اکٹھا کیا.آخر وہاں سے چل کر عصر کے وقت قادیان آیا.اتفاقاً بھیرہ کے نجم الدین صاحب مل گئے.جو دو ایک دفعہ ہمارے گاؤں میں کتا بیں بیچتے ہوئے آئے تھے.وہ مجھے مسجد مبارک میں جو ان دنوں چھوٹی تھی لے گئے.اس وقت سورج غروب ہور ہا تھا.حضرت صاحب بمع احباب وہاں تشریف رکھتے تھے.مجھے ان کے چہرے کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سورج کی کرنوں سے ان کے چہرے کی کرنیں زیادہ روشن ہیں.میں نے چونکہ احوال الآخرت (از حافظ محم لکھو کے ) پڑھی ہوئی تھی جب میں نے حضرت صاحب کا حلیہ ملایا تو بالکل اس کے موافق تھا.اتنے میں خواجہ کمال الدین صاحب نے اعلان کیا کہ اگر کسی نے بیعت کرنی ہو تو کر لے.چنانچہ میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 404 سال 1965ء نے اور دو آدمیوں نے حضرت صاحب کی بیعت کر لی.بعدہ حضرت صاحب نے دعا مانگی.حضرت صاحب نے خواجہ صاحب سے (ایک مقدمہ کے ) حالات دریافت فرمائے.خواجہ صاحب نے کہا کہ حضور کوئی صورت بچاؤ کی نظر نہیں آتی.حضور نے مسکرا کر فرمایا کہ خواجہ صاحب میں آپ کا کہا مانوں یا عالی بارگاہ کا ، ادھر سے تو مجھے آواز آتی ہے کہ تم بری ہو.آپ سمجھتے ہیں کہ بچاؤ کی کوئی صورت نہیں.آخر کار مقدمہ خارج ہوا اور آپ بری ہو گئے.ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور میں بہت تنگ ہوں سارا گاؤں مخالف ہے.صرف دو بیل رہ گئے تھے وہ بھی چوری ہو گئے.ایک دوسرے نے بھی اپنی مصیبت کا ذکر کیا.فرمایا: ”اے بھائیو ! تم ابھی بچوں کی مانند ہو تم پر مصائب آئیں گے.تم کو چاہیے کہ خدا کی درگاہ میں گڑ گڑا کر دعائیں مانگو.وہ وقت قریب ہے کہ جب تم ان پر غالب آ جاؤ گے.تمہاری درخواست بارگاہ الہی میں ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے.بلکہ ابھی تم کو بہت سی قربانیاں کرنی پڑیں گی.وہ کیا؟ خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک سکول بنانا چاہتا ہوں تم کو اولادیں وقف کرنی پڑیں گی.تم سے اولا دطلب کروں گا.جن کو اس سکول میں تعلیم دوں گا.پھر ان کو تعلیم حاصل کرا کے غیر ممالک میں بھیجوں گا تا کہ وہ دوسرے ملکوں میں اسلام کی اشاعت کریں.“ میں ۱۷.۱۸ روز تک رہا.حضرت اقدس کی مٹھی چاپی بھی کی.جب میں جانے لگا تو خود ہی فرمایا کہ میں تیرے واسطے پھر بھی دعا کروں گا.اس وقت میری داڑھی اور مونچھ کچھ نہ تھی.اس کے علاوہ کوئی بات یاد نہیں“.اولاد ۲.اللہ دتہ صاحب(بغیر شادی کے جوانی میں ہی فوت ہو گئے ) غلام محمد صاحب مرحوم شریف بی بی صاحبہ مرحومہ اہلیہ صوبیدار غلام حسین صاحب 58
تاریخ احمدیت.جلد 23 405 سال 1965ء ۱۹۶۵ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام کے علاوہ ۱۹۶۵ء میں تابعین کی صف اول سے تعلق رکھنے والے کئی ایسے مخلصین وفات پاگئے جن میں علمی اور قلمی جہاد کرنے والے مشاہیر بھی شامل تھے.مثلاً مولانا محمد اسماعیل صاحب یادگیری ، حضرت سید بشارت احمد صاحب، جناب محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان وغیرہ تفصیل ذیل میں دی جاتی ہے.خواجہ ظہور شاہ صاحب (وفات :۳ جنوری ۱۹۶۵ء) مولا نا جلال الدین شمس صاحب کے خسر اور حضرت خواجہ عبیداللہ صاحب ریٹائر ڈ الیس ڈی او کے بھانجے تھے.تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.محمد حیات صاحب ملتانی (وفات : ۱۵-۱۶ جنوری ۱۹۶۵ء) 59 آپ مولوی محمد منور صاحب مجاہد مشرقی افریقہ کے خسر تھے.۱۹۱۵ء میں بیعت کی.۱۹۵۰ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے قریباً ۳۰ سال تک ملتان میں سیکرٹری مال اور محاسب کی خدمات بجالاتے رہے.بعد ازاں کچھ عرصہ آنریری انسپکٹر بیت المال کی حیثیت سے بھی کام کیا.کیپٹن ڈاکٹر محمد دین صاحب (وفات : ۱۷ جنوری ۱۹۶۵ء) 60 آپ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ میر پور آزاد کشمیر تھے.تہجد گزار، مالی جہاد میں سرگرم، مہمانوں اور غریبوں کے خادم تھے اور سلسلہ احمدیہ کی خدمت کے لیے دل و جان سے مستعدد رہتے تھے.۱۹۲۹ء سے مارچ ۱۹۶۰ء تک سرکاری ملازمت کے دوران شملہ، امرتسر، گجرات، پونچھ، تراڑکھیل، کوٹلی ، ڈھڈیال بھمبر اور میر پور میں طبی خدمات بجالاتے رہے اور مختلف عہدوں پر فائز رہ کر خدمت سلسلہ کی سعادت بھی حاصل کی.حکومتِ پاکستان کی طرف سے مرحوم کو تمغہ خدمت پاکستان ملا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 406 سال 1965ء ماسٹر خیر الدین صاحب مرحوم سابق نائب ناظر تعلیم قادیان کے چھوٹے بھائی تھے.با با جان محمد صاحب در ولیش (وفات قادیان : ۲۲ جنوری ۱۹۶۵ء) 62 61 معمر اور موصی بزرگ تھے.کئی سال تک مختلف مقدس مقامات پر اخلاص و وفا سے پہرا کی ڈیوٹی پر متعین رہے.کئی سال دارا سیخ میں حضرت اماں جان کے کنویں والے محن کے حصے میں قیام فرمار ہے.رُكَعًا سُجَّدًا کی تصویر تھے.مکرم چوہدری فیض احمد گجراتی صاحب اپنی تالیف وہ پھول جو مرجھا گئے، میں محترم بابا جان محمد صاحب گھٹیالیاں کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابتدائے درویشی میں سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد کی تعمیل میں جو لوگ اپنے اہل و عیال اور مال و منال کی محبتوں اور قربتوں کو ترک کر کے درویشانہ زندگی کے ذریعہ سے رضائے الہی کے حصول کے لئے قادیان تشریف لائے تھے.انہی میں سے ایک ہمارے بزرگ اور درویش بھائی بابا جان محمد صاحب بھی تھے.آپ کا اصل وطن موضع گٹھیالیاں ضلع سیالکوٹ (مغربی پاکستان ) تھا اور اسی نسبت سے آپ ”بابا جان محمد گٹھیالیاں“ کہلاتے تھے.باباجی نے اپنی درویشی کے کئی سال حضرت اماں جان کے کنویں والے محن کے حصے میں گزارے.باباجی اسی صحن میں تنگی کھری چار پائی پر بیٹھ کر ایک تکیے کے اوپر بڑی تقطیع اور جلی حروف والا قرآن کریم رکھ کر بہت بلند آواز میں تلاوت کرتے رہتے تھے.اور نمازوں کے اوقات میں مسجد کا رخ کرتے تھے یا پھر اپنا مخصوص ایلمونیم کا پیالہ لئے کھانا لینے لنگر خانہ جایا کرتے تھے.درویشی کے ابتدائی ایام میں آپ مختلف مقامات پر پہرہ وغیرہ کی ڈیوٹی پر متعین رہے.لیکن جب بڑھاپے نے توانائیاں چھین لیں اور بہت ضعیف ہو گئے تو ڈیوٹیاں معاف ہوگئیں.اور تلاوت قرآن کریم، نمازیں اور دعائیں ہی اجزائے زندگی ہو گئیں.بابا جی کی درویشی کے طفیل ان کی اہلیہ زینت بی بی صاحبہ کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ نومبر ۱۹۵۳ء میں پاسپورٹ اور ویزا لے کر قادیان کی زیارت اور بابا جی سے ملاقات کے لئے قادیان آئیں.اور نہایت مختصر سی علالت کے بعد ۲ دسمبر ۱۹۵۳ء کو وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئیں.اور اس طرح وہ خوش قسمت خاتون درویشی کے لئے اپنے خاوند کی قربانی دے کر اس قربانی کا اجر پاگئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 منشی سید وراثت علی صاحب (وفات : ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء) 407 سال 1965ء سونگھڑہ کے مشہور ولی اللہ اور صاحب کشف حضرت حاجی حسن علی صاحب کے پوتے تھے.جنہوں نے فرمایا تھا کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پیدا ہو گئے ہیں.مگر ہنوز ظہور فرما نہیں ہوئے.چوہدری ظفر الحسن صاحب 64 ( وفات : ۳ فروری ۱۹۶۵ء) آپ کے بیٹے مکرم چوہدری ندیم احمد صاحب ایڈووکیٹ کے مطابق آپ ۱۳۲۹ھ (۱۹۱۱ء) میں تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کے قدیم گاؤں پہیلاں کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام مولوی فضل الرحمن صاحب تھا.۱۹۳۲ء میں فوج میں ملازمت اختیار کی.آپ کو بہت سی پیشہ وارانہ اسناد اور ملٹری ایوارڈز جن میں بر ماسٹار اور دوسری جنگ عظیم کا وار میڈل شامل تھے ، ملے.آپ کی پہلی شادی محترمہ امتہ الحفیظ صاحبہ بنت محترم حافظ عبید اللہ صاحب مجاہد ماریشس سے ہوئی جو کہ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کی پوتی تھیں.جو ایک حادثہ میں وفات پاگئیں تھیں.دوسری شادی محترمہ نسیم ظفر صاحبہ سے ہوئی.پہلی شادی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی جبکہ دوسری بیوی سے دو بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں.مر بیان کرام کا بہت احترام کرتے تھے.دینی احکام کی انتہائی سختی سے پابندی کرتے اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دیتے.بہت سی خوبیوں کی بنا پر اپنوں اور غیروں میں بہت مقبول تھے.آپ زعیم انصار اللہ حلقہ رام سوامی کراچی اور تادم آخر اسی حلقہ کے جنرل سیکرٹری بھی رہے.سید محمد یوسف صاحب ناظم جائیداد (وفات:۱۹فروری ۱۹۶۵ء) 65 آپ نے ۱۶ برس کی عمر میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.ملازمت کو خیر باد کہہ کر شدھی کے خلاف جہاد میں شامل ہو گئے اور اپنی ملازمت کے دوران سفارش نہ ہونے کے باوجود اپنے ہمعصر تمام اہلکاروں سے زیادہ ترقی پائی.۱۹۵۴ء سے آخر دم تک صدرانجمن احمدیہ کے مختار عام کی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمت سرانجام دی.66-
تاریخ احمدیت.جلد 23 408 سال 1965ء خان غلام سرور خان صاحب درانی آف چارسده (وفات: ۲۰ فروری ۱۹۶۵ء) ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر لکھا.مرحوم سلسلہ احمدیہ کے ساتھ اخلاص رکھنے والے تھے اور جماعتی خدمات بجالانے کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے تھے.مرحوم میں بعض مخصوص صفات اور خوبیاں تھیں.بہت نڈر اور بہادر تھے.ہر مجلس میں احمدیت کا پیغام پہنچاتے بے حد مہمان نواز اور ہمدرد تھے، غرباء اور مساکین کی امداد کرتے اور سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے حد درجہ محبت رکھتے.بلکہ سب خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام لیتے وقت ضرور علیہ الصلوۃ والسلام کہتے.مجھے ان کی وفات پر بے حد رنج ہے.میاں محمد ابراہیم صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سماعیلہ ضلع گجرات 67 (وفات : ۲۳ فروری ۱۹۶۵ء) احمدیت کی جیتی جاگتی تصویر اور پر اثر اور باوقار شخصیت تھے.موصی تھے اور تحریک جدید کی پانچہزاری فوج کے مجاہد تھی.فصل تیار ہوتی تو مقررہ چندہ نکال کر علیحدہ رکھ لیتے اور پھر باقی کو استعمال کرتے ایک بیگہ زمین وقف جدید کے لیے وقف کر رکھی تھی اور تبلیغ کا زبردست جذ بہ رکھتے تھے.مصلح الدین سعدی صاحب (وفات : ۲۵ فروری ۱۹۶۵ء) حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد کے چھوٹے بھائی اور ایک مخلص زندہ دل اور غیور احمدی تھے.خدمت خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.چٹا گانگ کے Lion کلب اور رائفل کلب کے سرگرم رکن تھے اور کئی سال تک متعدد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے.چٹا گانگ میں ۱۹۶۰ء کے قیامت خیز سیلاب میں کلب کی طرف سے خدمت خلق کے عظیم کارنامے سرانجام دیئے.چٹا گانگ کے اعلیٰ سرکاری حکام آپ کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.مشرقی پاکستان کے گورنر جنرل اعظم خان نے آپ کی شاندار مساعی کو بہت سراہا اور اُن کے کارناموں کی وجہ سے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے آپ کی خصوصی ملاقات ہوئی.چٹا گانگ پریس نے آپ کی وفات کی خبر شائع کرتے ہوئے آپ کی ملی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.69
تاریخ احمدیت.جلد 23 الشیخ عباس عبد الله عودہ کبابیر فلسطین (وفات: ۷ مارچ ۱۹۶۵ء) 409 سال 1965ء چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد بلاد عر بیہ و مغربی افریقہ کے خسر محترم تھے.حضرت مصلح موعود سے والہانہ عشق رکھتے تھے.70 صوبیدار حمید احمد صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ہڈیارہ ضلع لاہور (وفات : ۲۲ مارچ ۱۹۶۵ء) بچپن میں جب اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ مسیح محمدی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے آپ کے سر پر ہاتھ پھیر کر برکت بخشی.تبلیغ کا از حد شوق تھا.شیخ غلام جیلانی صاحب سامان ضلع کیمبل پور در ویش قادیان ( وفات : ۶ امئی ۱۹۶۵ء) بہت ہی کم گواور صوفی منش بزرگ تھے.مسجد مبارک قادیان میں ”دار الفکر سے ملحق ان کی ایک مخصوص نشست گاہ تھی.جہاں وہ گھنٹوں بیٹھے ذکر الہی میں مشغول رہتے تھے.آپ نے درویشی کا اکثر حصہ دار مسیح کے اندر رہ کر گزارا.پہلے آپ مسجد مبارک سے ملحق حضرت اماں جان کے دالان میں مقیم رہے اور پھر حضرت اماں جان کے کنویں والے صحن کے غربی جانب والے ایک حجرے میں گوشہ نشین رہے.اور نہایت خاموشی اور صبر وسکون کے ساتھ درویشی کے پندرہ سال گزار کر اپنی منزل مقصود کو پاگئے.آپ کا تعلق کیمبل پور (اٹک) سے تھا.وفات سے قریباً دو سال قبل آپ اپنے وطن گئے تھے وہاں آپ سرطان کے مرض میں مبتلا ہو گئے.واپس قادیان آئے.احمد یہ ہسپتال میں زیر علاج رہے.آخر کار آسمانی بلاوا آ گیا اور آپ ۶ امئی ۱۹۶۵ء کو اپنے مالک حقیقی کے حضور ہو گئے.بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.73 لطیف احمد صاحب طاہر بی.اے ( وفات : ۲۰ مئی ۱۹۶۵ء )
تاریخ احمدیت.جلد 23 410 سال 1965ء چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر مجاہد امریکہ کے منجھلے بھائی تھے.تقسیم ملک سے قبل کئی سال تک خدام الاحمدیہ دہلی کے سرگرم ممبر رہے.تقسیم کے فوراً بعد پُر آشوب ماحول میں حفاظت قادیان کے لیے کراچی کے احمدی نوجوانوں کے گروپ کو لے کر مرکز میں پہنچے اور قیمتی خدمات سرانجام دیں.کراچی میں بھی کئی اہم عہدوں پر فائز رہے.ڈھا کہ میں کئی سال تک خدام الاحمدیہ کے قائد کا فریضہ بجالاتے رہے.حتی کہ جب ان کی عمر چالیس سال سے متجاوز ہوگئی تو صدر خدام الاحمد یہ مرکز یہ کی استثنائی ہدایت کے ماتحت قیادت انہی کے سپر در ہی.عمر کے آخری ایام میں قریباً آٹھ مہینے تک جماعت ڈھاکہ کے قائم مقام امیر بھی رہے.۲۰ مئی ۱۹۶۵ء کو قاہرہ کے قریب پی.آئی.اے کے ایک المناک حادثے کا شکار ہوئے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے ایک تعزیتی خط میں رقم فرمایا :.برادرم لطیف طاہر سے میرے گہرے مخلصانہ تعلقات تھے ان کا ذہن ایک خاص جلا اور کشش رکھتا تھا.اخلاق بہت پیارے اور دلکش تھے.ان کی صحبت میں کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں ہوئی.بلکہ اختتام پرشنگی کا احساس باقی رہتا تھا.اللہ تعالیٰ انہیں اعلی علیین میں اپنے برگزیدہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں جگہ دے.اس سے زیادہ کیا دعا ہم ان کے لیے کر سکتے ہیں.اُن کے انخلا سے دل کا ایک خانہ مستقلاً خالی ہو گیا.الحاج مولوی محمد اسماعیل صاحب وکیل با ئیکورٹ یاد گیر حیدر آباد دکن ( وفات : ۲۰ مئی ۱۹۶۵ء) حضرت الحاج سیٹھ حسن صاحب کے داماد تھے اور انہی کے خرچ پر قادیان میں دینی تعلیم حاصل کی.ان کا وجود جنوبی ہند کی احمدی جماعتوں کے لیے بہت مفید تھا.ساری عمر قلمی ولسانی جہاد میں گزری.کامیاب مناظر تھے.دینی کتابوں سے والہانہ عشق تھا.اُن کا سرمایہ کتا بیں ہی تھیں.کتب کو جمع کرنے اور سلیقہ سے سجانے کے خوگر تھے جو نہی فرصت ملتی تصنیف و تالیف میں منہمک ہو جاتے.آپ کے قلم سے ۱۶ کے لگ بھگ علمی رسائل اور کتب شائع ہوئیں.جن میں خطبات جمعہ، عیدین و نکاح بہت مشہور ہے.جو حضرت مصلح موعود کے ۱۹۱۴ء تا ۱۹۵۴ء یعنی چالیس سالہ خطبات کا نہایت گرانقد رانڈیکس ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 411 سال 1965ء یاد گیر کی احمد یہ لائبریری آپ ہی کی یاد گار ہے.تو کل، صوم وصلوٰۃ کی پابندی عشق رسول، جوشِ تبلیغ اور خاندان مسیح موعود سے محبت ان کی سیرت و شمائل کے جزواعظم تھے.چوہدری غلام احمد صاحب ایم.اے سیکشن آفیسر سول سیکرٹریٹ لاہور (وفات: ۲۹ مئی ۱۹۶۵ء) آپ چوہدری فضل احمد صاحب ناظر تعلیم کے برادر اصغر تھے.قریباً چھ سال احمدی ہوٹل لاہور کے آنریری سپرنٹنڈنٹ رہے.نیز لاہور میں متعدد جماعتی خدمات بجالانے کی سعادت نصیب ہوئی.چوہدری فیض عالم صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ مالو کے بھگت ضلع سیالکوٹ (وفات: ۵ جولائی ۱۹۶۵ء) آپ کو ذاتی مطالعہ، غور وفکر کی عادت اور قدرتی ذہانت کے سبب کتاب اللہ سے مضامین و مسائل دینیہ کے استخراج و استنباط کا خاص ملکہ حاصل تھا.بارعب شخصیت کے حامل تھے.انداز گفتگو سادہ لیکن بہت دلکش تھا.پُر جوش داعی الی اللہ تھے.گاؤں کے اعلیٰ نمبردار تھے.سرکاری افسروں تک حق کی آواز پہنچانے میں ید طولی حاصل تھا.ماسٹر خدا بخش صاحب کانپوری ( وفات : ۲۹ جولائی ۱۹۶۵ء) صاحب رویا اور نافع الناس بزرگ تھے تبلیغ کا بہت شوق اور ملکہ تھا انہوں نے کانپور میں تبلیغ کا حق ادا کر دیا.کامیاب مناظرے بھی کیے جن سے کئی سعید روحوں پر حق کھل گیا.بابوعبدالغفار صاحب (شہید احمدیت) مالک فوٹوسٹیٹ کمپنی حیدر آباد آپ کے بڑے صاحبزادے تھے.حضرت مولوی سید بشارت احمد صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ حیدر آباد دکن ولادت: دسمبر ۱۸۸۵ء بمطابق یکم ربیع الاول ۱۳۰۲ هجری بیعت تحریری : ۱۹۰۶ء وفات : ۵ ستمبر ۱۹۶۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 412 سال 1965ء آپ کا خاندان برہان پور سے حیدر آباد دکن آکر قیام پذیر ہوا تھا.آپ کے والد صاحب کا نام میر احمد علی صاحب تھا.آپ کی والدہ سردار بیگم صاحبہ حیدر آباد دکن کی معروف و مشہور شخصیت امیر محمد شکور جمعدار صاحب کی صاحبزادی تھیں.آپ کی ایک بہن غریب النساء بیگم عرف حاجی بیگم صاحبہ اور دو بھائی میر فضل علی عرف فضل احمد اور میر سعادت علی عرف سید علی احمد تھے.آپ کے والد صاحب کی وفات ۳۸ سال کی عمر میں ۱۸۹۱ء میں ہوئی جبکہ آپ کی اس وقت عمر ساڑھے سات آٹھ سال کی تھی.آپ کی قبول احمدیت کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک مسلمان مولوی عبدالغفور دھرمپال نے ارتداد اختیار کیا اور ”ترک اسلام کتاب لکھی.آپ کو شدید خواہش پیدا ہوئی کہ اگر کسی نے اس کا جواب لکھا ہے تو وہ بھی پڑھا جائے.آپ کو ایک احمدی بزرگ مولوی بہاؤ الدین خاں صاحب سے پتہ چلا کہ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب نے ”ترک اسلام کا جواب ”نورالدین نامی کتاب میں لکھا ہے جس کو پڑھ کر مولوی عبد الغفور دھر مبال دوبارہ مسلمان ہو گیا ہے اور اُس نے اپنا نام غازی محمود رکھ لیا ہے.آپ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا.اس سے قبل آپ نے اپنے استاد محترم مولوی عبدالمقتدر صدیقی صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان کا ذکر سنا ہوا تھا.ایک رات اس کتاب کا مطالعہ شروع کیا اور رات کے تین بجے تک اس کو پڑھ لیا.اس کتاب کے مطالعہ کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ جو نہی یہ کتاب آپ نے پڑھی تو آپ نے صبح تک سات فل سکیپ سائز کے کاغذات پر اپنے بچپن سے لیکر اب تک کے تمام حالات لکھے اور حضور سے اپنے دامن کو باندھتے ہوئے استدعا کی کہ حضور میرے لئے دُعا فرمائیں.آپ کی اس تحریری بیعت کا سن ۱۹۰۶ ء ہے.آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کا با وجود شدید خواہش اور کوشش کے بوجوہ موقعہ نہ ملا.ابتدائی دینی تعلیم کے بعد آپ نے دار العلوم کالج سے مولوی اور مولوی عالم تک تعلیم حاصل کی.اور پنجاب یونیورسٹی سے فارسی کے امتحانات دیئے.آپ کی شادی حضرت مولوی میر محمد سعید صاحب آف حیدرآباد دکن کی صاحبزادی سے ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 413 سال 1965ء ۱۴،۱۳ را کتوبر ۱۹۱۰ء کو حیدرآباد دکن میں حضرت میر ناصر نواب صاحب نے آپ کے نکاح کا اعلان کیا جس کا تفصیلی ذکر سفر نامہ ناصر میں درج ہے.آپ کی اہلیہ محترمہ کا نام امتہ اللہ بشیر صاحبہ تھا.آپ کے بھائی میر فضل علی عرف فضل احمد صاحب کی شادی حضرت مولوی سید محمد رضوی صاحب کی صاحبزادی سے ہوئی اور چھوٹے بھائی میر سعادت علی عرف سید علی احمد صاحب نواب سراج الدین خاں صاحب کے داماد تھے.جو رشتہ میں ان کے ماموں تھے اور آپ کی اکلوتی بہن غریب النساء بیگم صاحبہ عرف حاجی بیگم کی شادی نواب اکبر یار جنگ سے ہوئی جو نامور وکیل ہونے کے علاوہ حیدرآباد ریاست کے ہوم سیکرٹری کے معزز عہدہ پر فائز تھے.اس وقت بعض لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ احمدی ہونے کے بعد لوگ آپ سے رشتہ داریاں نہ کریں گے.خدا تعالیٰ نے اپنی تائید و نصرت کے نشان دکھلا کر ان کے مونہہ بند کر دیئے.آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کی خصوصی خدمات کی توفیق عطا فرمائی.جماعت احمدیہ حیدر آباد کے طویل المدت آپ امیر رہے.نیز چالیس سال تک تنظیمی اور تبلیغی خدمات بجالاتے رہے.19 تصانیف: بشارت احمد ، خاتمہ بشارت احمد 0 تصدیق احمدیت اور عقائد احمد یہ جیسی بلند پای علمی وتحقیقی کتا ہیں آپ کی یادگار ہیں.چوہدری عبدالمالک صاحب ریٹائر ڈا تحصیلدار (وفات : ۲۴ ستمبر ۱۹۶۵ء) بہت نیک مخلص اور فدائی احمدی تھے.آپ نے ۱/۸ حصہ کی وصیت کی ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک صاحبزادی اور آٹھ فرزند عطا فرمائے.جن میں میجر حمید احمد کلیم سابق پرائیویٹ سیکرٹری خلیفہ امسیح و ناظم جائیداد بھی ہیں.آپ کا تعلق بہلول پور چک ۱۲۷ ر.تحصیل وضلع فیصل آباد سے تھا.حضرت عبدالوحید خان صاحب سنوری (وفات: یکم را کتوبر ۱۹۶۵ء)
تاریخ احمدیت.جلد 23 414 سال 1965ء ۱۹۰۳ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.گو حضور کی زندگی میں شرف زیارت حاصل نہ کر سکے.احمدیت کے لیے بہت غیرت اور جوش رکھتے تھے.۱۹۱۴ء سے با قاعدہ جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے رہے.شیخ محمد محبوب صاحب دیودرگ ( بھارت) (وفات : ۲۸ /اکتوبر ۱۹۶۵ء) پُر جوش داعی الی اللہ تھے اور مہمان نوازی کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.چوہدری نور محمد صاحب منٹگمری (ساہیوال) (وفات : ۹ دسمبر ۱۹۶۵ء).84- مرحوم پاکپتن کے رہنے والے تھے.آپ نے ۱۹۱۵ء میں احمدیت کی نعمت حاصل کی اور پاکپتن کی جماعت کے صف اول کے مخلصین میں رہے.صوم وصلوٰۃ کے پابند اور اکثر نماز تہجد ادا کرتے تھے کوشش کرتے تھے کہ مسجد میں آکر باجماعت نماز ادا کریں.اصلاح وارشاد کا کام بڑی گرم جوشی سے کرتے تھے.چندہ با قاعدگی سے ادا کرتے اور اپنی تنخواہ میں سے سب سے پہلے چندہ ہی ادا فرمایا کرتے..کچھ عرصہ سے آپ جماعت احمد یہ منٹگمری میں ضلعوار نظام کے کلرک تھے.بڑی محنت اور دیانتداری سے اپنے فرائض ادا کرتے تھے.۱۹۵۳ء کے فسادات میں مرحوم کی شدید مخالفت ہوئی.ان دنوں آپ ماڑی، ہزارہ، قبولہ میں پٹواری کے طور پر کام کر رہے تھے.مختلف قسم کی ایذا ئیں پہنچا کر احمدیت سے انکار پر مجبور کیا گیا.مرحوم کے پائے ثبات میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی.تکالیف کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور نہایت صبر و استقلال کے ساتھ تمام حالات کا مقابلہ کیا.حضرت میاں محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان (وفات: ۱۰ دسمبر ۱۹۶۵ء) ۱۸۸۷ء میں پیدا ہوئے.اپریل ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھا.۱۹۰۹ء کے قریب اپنے بڑے بھائی محمد یاسین صاحب کے ساتھ مستقل طور پر ہجرت کر کے قادیان آگئے.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل نے فرمایا:
تاریخ احمدیت.جلد 23 415 سال 1965ء خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ آپ دونوں اس جگہ دکان کھولیں.اور ساتھ ہی ایک دن مولوی محمد علی صاحب کے ذریعہ مبلغ ۱۰ روپے بغرض تجارت عطا فرمائے.مولوی صاحب موصوف نے فرمایا یہ ۱۰ روپے نہیں ہیں بلکہ (۱۰۰۰) ہزار روپیہ بلکہ اس بھی زیادہ.چنانچہ آپ نے قادیان میں کتابوں کی دکان شروع کر دی اور سلسلہ کا لٹریچر وسیع پیمانے پر شائع کرنے کا بیڑا اٹھالیا.متعددٹریکٹ اور رسائل جن میں قادیان گائیڈ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے خود مرتب کیے اور ہزاروں کی تعداد میں ملک بھر میں پھیلا دیئے.اس طرح متعدد بزرگوں اور اہلِ قلم سے بھی کتب اور رسائل لکھوائے.آپ نے بچوں بڑوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ کتب ہزاروں کی تعداد میں شائع کیں جو بہت مقبول ہوئیں.بعض کتب کے پندرہ بلکہ ہیں ایڈیشن چھاپے گئے.آپ تبلیغی جذبہ سے سرشار تھے.آپ کی زندگی کا مایہ ناز شاہکار احمدی جنتری“ ہے.جو آپ نے ۱۹۱۸ء میں جاری فرمائی اور باوجود نامساعد حالات کے ۱۹۶۶ء تک اپنی نگرانی میں شائع کرتے رہے.اس جنتری میں تاریخوں اور مہینوں کے اندراج کے علاوہ اسلام کی فضیلت اور احمدیت کے مخصوص مسائل پر دلچسپ اور سیر حاصل مضمون اور اعتراضات کے جوابات بھی ہوتے تھے.علاوہ ازیں اہم دینی مباحث پر دلچسپ نوٹ اور لطائف و ظرائف بھی درج کیے جاتے تھے.الغرض یہ جنتری معلومات کا ایک مرقع تھی.قادیان میں آپ کی دکان مین بازار میں تھی اور سلسلہ کے بعض بزرگ مثلاً حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب بالالتزام آپ کی دکان پر تشریف رکھتے تھے.ربوہ میں آپ کی با قاعدہ دکان نہ تھی.مگر اشاعت کا شوق بدستور کارفرما تھا.درنتین، کلام محمود، ادعیۃ الفرقان، ادعیۃ الرسل اور ادعیہ مسیح الموعود کی اشاعت خاص اہتمام سے فرماتے تھے.ان کی سادگی اور دینداری کی وجہ سے خالد احمدیت ، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کو ان کے ساتھ خاص محبت تھی اور وہ آپ کو حدیث نبوی’ التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأمين “ کا مصداق سمجھتے تھے.معاملہ کے نہایت صاف تھے.رزق حلال کے لیے کوشاں رہتے.بہت متوکل تھے.اللہ تعالیٰ کا بھی اُن سے خاص سلوک تھا.دعا اُن کی روح کی غذا تھی.وفات سے ایک ہفتہ قبل انہیں جناب الہی کی طرف سے بتا دیا گیا کہ بعد نماز جمعہ میرا جنازہ ہوگا.انتقال سے تین روز قبل آپ نے اپنا علاج بند کروا دیا اور فرمایا اب میں اس دنیا میں رہنا نہیں چاہتا.مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آ گیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 416 سال 1965ء آپ کے ایک پوتے مکرم فخر الحق شمس صاحب مربی سلسلہ اس وقت اسٹنٹ ایڈیٹر الفضل ربوہ کے طور پر خدمت بجالا رہے ہیں.حضرت شیخ رشید احمد صاحب کپورتھلوی ولادت : ۱۹۰۰ ء بیعت: پیدائشی احمدی وفات: ۱۲۰۱۱ دسمبر ۱۹۶۵ء حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کے فرزند ، جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کے بھائی اور شیخ کظیم الرحمن صاحب ریٹائرڈ ہیڈ کلرک نظارت اصلاح وارشاد کے بہنوئی تھے.مرحوم بہت نیک مخلص پابند صوم و صلوۃ ، خاموش طبیعت، ملنسار اور خوش خلق بزرگ تھے.( اولا دکوئی نہیں 88 حکیم مولوی عبدالرحیم صاحب ملکانه در ویش قادیان (وفات : ۲۸ دسمبر ۱۹۶۵ء) موضع صالح نگر ضلع آگرہ آپ کا اصل وطن تھا.آپ بچپن ہی سے قادیان چلے آئے تھے اور یہیں رہ کر مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پاتے رہے.تقسیم ملک کے بعد آپ کو انسپکٹر بیت المال مقرر کیا گیا.آپ نے اپنے فرض کو اتنے خلوص اور خوش اسلوبی سے ادا کیا کہ ہندوستان بھر کی جماعتیں ان کے اس امتیاز کا ذکر کرتی ہیں.جماعتی مسائل سے واقفیت اور اپنی دینداری کے باعث وہ ایک کامیاب انسپکٹر کی حیثیت سے جماعت کی خدمت کرتے رہے اور آخری چند سالوں میں مرکز ہی میں رہ کر نظارت علیاء کے دفتر میں کام کرتے رہے اور ساتھ ہی طباعت کا کام جاری رکھا.89
تاریخ احمدیت.جلد 23 417 سال 1965ء حوالہ جات (صفحہ 369 تا 416) 1 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ، الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۵ء 2 رجسٹر روایات صحابه نمبر ۳ صفحه ۱۵۶ 3 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۵، صفحہ ، لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۲۲۹ 4 الفضل ۱۰فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 6 آپ کے والد صاحب کا نام ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں ۱۳۱ نمبر پر درج ہے.ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۲.تاریخ وفات ۳۱ دسمبر ۱۹۲۰ء الفضل ۶ جنوری ۱۹۲۱ ، صفحه ۱ بدر قادیان ۱ مارچ ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 7 الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 8 الفضل ۱۶ فروری ۱۹۶۵ صفحه ۸ 9 لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۶۲ 10 الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۶۵ صفحه ۶ 11 الفضل ۷ اپریل ۱۹۶۵، صفحه ۵ 12 رجسٹر روایات صحابہ نمبرے صفحہ ۲۱۶، ۲۱۷ 13 رجسٹر روایات صحابه جلد ۷ صفحه ۲۱۵ تا ۲۱۷، الفضل ۲۶ مارچ ۱۹۶۵ ء صفحہ ۸.لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۵۲ ۲۵۳.مؤلفه شیخ عبد القادر صاحب فاضل مطبوعہ فروری ۱۹۶۶ء 14 بدر ۲۵ / اپریل ۱۹۰۷ ء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقاء کرام پیر کوٹ نانی ضلع حافظ آباد از مولانا سلطان احمد پیر کوئی صفحہ ۹۲ تا ۹۶ 15 حیات قدسی صفحہ ۲۷۷ 16 اخبار بدر قادیان ۲۵ ر ا پریل ۱۹۰۷ ء 17 الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۵، صفحها، الفضل ۶ امئی ۱۹۶۵ء صفح یہ مضمون محترمہ صادقہ قمر صاحبہ ایم.اے 18 الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۵ء صفحریم 19 الفضل ۵ جوان ۲۰۱۰ صفحه ۶ 20 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ا صفحه ۵۴۵۳ 21 الفضل ۲۷ مئی ۱۹۶۵ ء صفحه ۸
تاریخ احمدیت.جلد 23 418 22 تاریخ احمد یه سر حد صفحه ۱۳۰۷، از قاضی محمد یوسف فاروقی احمدی ، مردان ۱۹۵۹ء 23 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۴ جون ۱۹۶۵ء 24 الفضل 9 جون ۱۹۶۵ء صفحها 25 رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ صفحه ۱۸۳٬۱۸۲، الفضل ۲۳ جون ۱۹۶۵ صفحریم 26 بدر ۲۴ جون ۱۹۶۵ء صفحه ۲ ، ۲ ستمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۹ 27 اخبار بدر ۲ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱۰،۹ 28 الفضل انٹر نیشنل ۲۷ ستمبر ۲۰۰۲ تا ۳ را کتوبر ۲۰۰۲ صفحه ۱۱ 29 فہرست اولا دمرتبہ جناب مبارک احمد اعجاز صاحب ۱۱۹ ادار الصدر غربی ربوه ۱۹۹۱-۰۲ - ۱۸ 30 ریکارڈ بہشتی مقبره ر بوه ، الفضل اار اگست ۱۹۶۵ صفحه ۸، اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۵ اطبع اوّل ۱۹۶۱ء 31 تتمہ حقیقت الوحی صفحہ ۵۷ 32 الموعود صفحہ ۷۸ ۷۹ طبع اول ناشر الشرکۃ الاسلامیہ 33 اصحاب احمد جلد دہم طبع اول ۱۹۶۱ء صفحه ۱۴ تا ۴۰ ، الفضل اار اگست ۱۹۶۵ء سال 1965ء 34 اصحاب احمد جلد دہم طبع اول ۱۹۶۱ء صفحه ۲۳ 35 ریکارڈ بہشتی مقبره الفضل ۱۳ اگست ۱۹۶۵ء صفحه ۸ - الفضل ۱۲ اگست ۱۹۶۵ء صفحہ اپر آپ کی عمر ۶ ۸ سال درج ہے.36 تحریک جدید کے پانچ زاری مجاهدین از وکالت مال اول تحریک جدید ر بوہ، صفحہ ۱۵۷ نمبر ۳۱۲۴، کمپیوٹر کوڈ ۲۹۷۸ 37 بشارات رحمانیہ صفحہ ۱۳۹،۱۳۸ مرتبہ مولاناعبد الرحمن صاحب مبشر مطیع اللہ بخش سٹیم پر یس قادیان بار اول ۱۵دسمبر ۱۹۳۹ء 38 الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۶۵ صفحه ۵ - عالمگیر برکات مامور زمانه صفحه ۱۸۷ تا ۱۹۲.مولا نا عبدالرحمن صاحب مبشر 39 احمدی بچہ مرتبہ صوبیدار عبدالمنان صاحب محلہ دار الصدرر بوه 40 ریکارڈ بہشتی مقبرہ 41 الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۶ 42 لا ہور تاریخ احمدیت صفحہ ۱۸۹ 43 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۶۵، صفحهیم 44 الفضل ۵ فروری ۱۹۶۶ ء صفحه ۶ 45 افضل ۵ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۶ مضمون صوفی محمد اسحاق صاحب امیر و مبلغ انچارج کینیا ۵ 46 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت مکتوب محرره ۱۵ جنوری ۱۹۶۰ء 47 رجسٹر روایات صحابہ جلد نمبرا - صفحه ۱۷۳ تا ۱۷۷ 48 الفضل ۵ دسمبر ۱۹۶۵ء 49 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۶
تاریخ احمدیت.جلد 23 419 سال 1965ء 50 رجسٹر روایات صحا بہ نمبر ۳ صفحه ۱۷۹، ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۶۵ء 51 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ صفحه ۱۷۸ تا ۱۸۳ 52 الفضل ۱۲ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۸ ، الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۶ صفحہ۵، لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۴۲۰۳۴۱ از مولانا شیخ عبدالقادر صاحب 53 لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۱۳۴۲ از مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ لاہور.اشاعت ۲۰ فروری ۱۹۶۶ء 54 رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ صفحه ۱۴۰،۱۳۹ 55 الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۶۵ء 56 بیان غیر مطبوعہ مؤرخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۹ء بیان نولیس مرزا نثار احمد صاحب ولد صو بیدار غلام حسین صاحب ڈیری سید ریکارڈ شعبه تاریخ احمدیت ربوہ 57 الحکم ۲۱ جولائی ۱۹۳۵ء صفحه ۶ مرتبہ مولوی عبد الرحمن صاحب انور 58 غیر مطبوعہ مکتوب ملک حبیب اللہ خاں صاحب امیر جماعتہائے احمد یہ چکوال مؤرخہ ۲۱ فروری ۱۹۹۱ء.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ 59 الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۵ء 60 الفضل ۱۹، ۲۱ جنوری ۱۹۶۵ء 61 الفضل ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ ۱۳ فروری ۱۹۶۵ء صفحهیم 62 اخبار بدر ۲۸ جنوری ۱۹۶۵، صفحہ ۲.۲۹ جولائی ۱۹۶۵ ، صفحہ ۹ 63 وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ اول صفحہ ۸۷، ۸۸ 64 بدر یکم اپریل ۱۹۶۵ ء صفحه ۶ 65 الفضل ۱۳ فروری ۱۹۹۰ صفحه ۶ 66 الفضل ۲۴ فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 67 الفضل ۴ مارچ ۱۹۶۵، صفحه ۸ 68 الفضل ۱۸ مارچ ۲۰ مئی ۱۹۶۵ صفحه ۶ ، کتاب پانچیزاری مجاہدین صفحه ۳۵۶ مرتبہ حضرت چوہدری برکت علی خان صاحب گڑھ شنکری ناشر تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ 69 الفضل ۲۸ فروری ۲۴ / اپریل ۴ امئی ۱۹۶۵ء.الفرقان ستمبر ۱۹۶۵ء 70 الفضل ۱۷ مارچ ۱۹۶۵ء صفحہ ۸ 71 الفضل یکم اپریل ۱۹۶۵ء 72 اخبار بدر ۲۰ مئی ، ۲۹ جولائی ۱۹۶۵ ء - بدر در ویشان قادیان نمبر ۲۰۱۱ صفر ی۱۶۴ 73 وہ پھول جو مرجھا گئے، حصہ اوّل صفحہ ۸۹٬۸۸ 74 الفضل ۲۶ مئی ، ۲۵ جولائی ۱۹۶۵ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 420 سال 1965ء 75 اخبار بدر ۲۷ مئی ، ۲، ۱۰،۳ جون ۱۹۶۵ء - الفرقان تمبر ۱۹۶۵، صفحه ۳۲، کتاب وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت صفحه ۳۵ 76 الفضل ۲ جون ۱۹۶۵، صفحه ۵ 77 الفضل ۱۰ اگست ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 78 الفضل ۲۴ / اگست ۱۹۶۵ء 79 تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب حیدر آباد دکن کی تاریخ احمدیت مؤلفہ سید جہانگیر علی صاحب صفحہ ۸۶ تا صفحه ۱۷۷ 80 ” قادیانی مذہب مؤلفہ پروفیسر الیاس برنی کا مفصل و کمل جواب 1 بدر ۲۱ اکتوبر ۱۹۶۵ء صفحه ۱۰، کتاب وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت صفح ۱۲ 82 الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۵ ، صفحہ ۶ 83 الفضل ۱۹ را کتوبر ۱۹۶۵، صفحریم 84 بدر۴ نومبر ۱۹۶۵ء صفحه ۵ 85 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۵ ء صفحه ۶ 86 قادیان گائیڈ مطبوعه ۲۵ نومبر ۱۹۲۰ء، دیگر کتابوں کی فہرست کے لیے ملاحظہ ہور سالہ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت ، صفحہ ۴۲ ۴۳ از میاں عبد العظیم صاحب درویش قادیان 87 الفضل ۱۴دسمبر ۱۹۶۵ء ، الفضل ۴ تا ۸ فروری ۱۹۶۶ء مضمون حافظ مبین الحق صاحب شمس ابن حضرت میاں محمد یا مین صاحب، احمدی جنتری ۱۹۶۷ء صفحه۲ مرتبہ حافظ مبین الحق صاحب 88 الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۵ء 89 وہ پھول جو مرجھا گئے حصہ اول صفحہ ااا
تاریخ احمدیت.جلد 23 421 سال 1965ء ۱۹۶۵ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب ولادت.۴..شادی ا.مرزا توصیف احمد صاحب ابن مرزا رفیق احمد صاحب (۷ فروری ۱۹۶۵ء) نواب ساجد احمد خان صاحب ابن نواب زاده حامد احمد خان صاحب (۱۸ فروری ۱۹۶۵ء) امة السمیع صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب ( ۲۸ مارچ ۱۹۶۵ء) صوفیہ احمد صاحبہ بنت چوہدری ناصر محمد سیال صاحب (۱۵اگست ۱۹۶۵ء) فائزہ احمد صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ( ۲۰ ستمبر ۱۹۶۵ء) مرزا محمود احمد صاحب ابن مرزا نسیم احمد صاحب (۱۷نومبر ۱۹۶۵ء) صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ہمراہ صاحبزادی امتہ الحسیب صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب.تقریب شادی مورخه ۲۱ فروری ۱۹۶۵ء بروز اتوار عمل میں آئی.۲.سید امین احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب ہمراہ محترمہ راشدہ مبارکہ صاحبہ بنت نواب محمد احمد خاں صاحب.تقریب شادی مورخه ۱۴/اکتوبر ۱۹۶۵ء بروز جمعرات عمل میں آئی.مرزا شمیم احمد صاحب ابن مرزا رشید احمد صاحب ہمراہ محترمہ فوزیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب.شادی کی تقریب مورخہ ۲۷ را کتوبر ۱۹۶۵ء کو عمل میں آئی.سید نسیم احمد شاہ صاحب ابن حضرت سید عزیز اللہ شاہ صاحب ہمراہ مہ رخ پروین ۴.صاحبہ بنت مکرم سید بشیر احمد شاہ صاحب سابق مینجر دواخانه خدمت خلق ربوہ.شادی کی تقریب مورخہ ۲۳ دسمبر ۱۹۶۵ء کو منعقد ہوئی.6
تاریخ احمدیت.جلد 23 422 سال 1965ء احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات 66 ا.صوفی کریم اللہ صاحب زیر وی ابن صوفی خدا بخش صاحب عبد زیروی انسپکٹر وقف جدید ربوہ ۱۹۶۴ء میں PHARMACOLOGY ( علم ادویہ ) میں پی.ایچ.ڈی کرنے امریکہ گئے تھے.انہیں وہاں پر ایک گھاس جسے ”SPIRIT WEED کہتے ہیں تجزیہ کے لئے دی گئی تھی.یہ ایک پودا ہے جو امریکہ میں ہوتا ہے اور جسے جانور کھا لیں تو مر جاتے ہیں اس پر پہلے تحقیقات نہیں ہوئی تھیں صوفی کریم اللہ صاحب کو اس تجزیہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.جس پران کے پروفیسر نے ریمارکس دیئے کہ: میں خوش ہوں کہ آپ نے اس مسئلہ پر جو آپ کو تفویض کیا گیا تھا.اتنے قلیل عرصہ میں اس قدر اہم کام کر لیا ہے.۲.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے پوتے جناب سید جمیل لطیف صاحب نے ڈویژنل مباحثات سرگودھا میں اردو مباحثہ میں اوّل انعام اور نسیم احمد صاحب سیفی نے انگریزی مباحثہ میں دوسرا انعام حاصل کیا.تعلیم الاسلام کالج کی کشتی رانی ٹیم نے پنجاب یو نیورسٹی کے مقابلہ جات میں چیمپین شپ جیت لی.۴.قامته شاهده صاحبه ( بنت قاضی محمد رشید صاحب وکیل المال اوّل ) یونیورسٹی کی طرف سے ڈین مالیر کوٹلہ گولڈ میڈل، محمد حسین مبارک علی گولڈ میڈل، خلیفہ محمد حسین جو بلی گولڈ میڈل کی مستحق قرار 10 پائیں.۵- امة الواحد صاحبه ( بنت گیانی واحد حسین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ) نے جغرافیہ میں یو نیورسٹی بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور ڈاکٹر قاضی سعید الدین سلور میڈل کی حقدار یا ئیں.۶.مرزا منیر احمد صاحب ( ابن محترم مرز انصیر احمد صاحب سپرنٹنڈنٹ جنرل ہائی کورٹ پشاور ) پشاور یونیورسٹی سے انجینئر نگ سال سوم الیکٹریکل کے امتحان میں دوم رہے.ے.حبیب کمال الدین صاحب ابن مولوی روشن دین صاحب مجاہد مسقط ) نے ایم ایس سی آنرز کے امتحان میں یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی.13.
تاریخ احمدیت.جلد 23 423 سال 1965ء فیروزه فائزه صاحبه ربوہ ( بنت عبدالرحمن صاحب جنید ہاشمی سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج 14 ربوہ ) بی.اے کے امتحان میں یو نیورسٹی بھر میں اول رہیں اور پانچ تمغوں کی مستحق قرار پائیں.۹.قریشی مقبول احمد صاحب ( مبلغ انگلستان) کو پنجاب یونیورسٹی کانووکیشن میں ایم.اے عربی 15 میں اول آنے پر دو تمغے دیئے گئے.۱۰ کل هند مجلس تعمیر ملت حیدر آباد کے زیر اہتمام یوم رحمہ للعالمین ﷺ کے تحت تحریری انعامی مقابلہ میں جامعہ احمدیہ قادیان کے طالب علم مولوی خورشید احمد صاحب انو راول قرار پائے.سعید داؤ داحمد صاحب کی مراجعت وطن 16 سیرالیون کے مخلص احمدی نوجوان سعید داؤ د احمد صاحب نے جامعہ احمد یہ ربوہ میں اڑھائی سال تک دینی تعلیم کا مقررہ کورس مکمل کر لیا.جس پر ۲۴ جنوری ۱۹۶۵ء کو بعد نماز مغرب اُن کے اعزاز میں وسیع پیمانے پر ایک عشائیہ دیا گیا.جس میں جامعہ احمدیہ کے طلباء ممبران سٹاف اور بعض مرکزی بزرگ علماء کے علاوہ (حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید نے بھی شرکت فرمائی.جامعہ احمدیہ کی طرف سے جناب عطاء الکریم صاحب ( ابن مولانا ابوالعطاء صاحب) نے الوداعی ایڈریس پیش کیا.اور وہ اگلے روز ۲۵ جنوری کو بذریعہ چناب ایکسپریس واپس اپنے وطن کی طرف روانہ ہو گئے.ریلوے اسٹیشن پر مقامی احباب کی ایک کثیر تعداد نے انہیں نہایت گرم جوشی اور دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.تعلیم الاسلام انٹر میڈیٹ کالج گھٹیالیاں میں ایشیا فاؤنڈیشن پاکستان کے ایڈوائزر کی آمد مکرم عبدالسلام اختر صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کا لج گھٹیالیاں نے تحریر فرمایا کہ مورخہ ۲۷ جنوری ۲۵ ء کو مسٹر درانی جو ایشیا فاؤنڈیشن (پاکستان) کے پروگرام ایڈوائزر ہیں انٹر میڈیٹ کالج گھٹیالیاں میں تشریف لائے اور آپ نے کالج کی لائبریری کا ملاحظہ فرمایا.اس سے قبل ایشیا فاؤنڈیشن کی طرف سے کالج کو تین مقسطوں میں بعض نہایت بیش قیمت کتب بطور پیشکش دی جاچکی ہیں.جو طلباء اور اساتذہ کے لئے نہایت مفید ثابت ہوئیں.ایشیا فاؤنڈیشن کے نمائندے لائبریری کی ترتیب و تزئین کو دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور آپ نے مزید کتب بھی دینے کا وعدہ فرمایا.تین بجے کے قریب
تاریخ احمدیت.جلد 23 واپس تشریف لے گئے.“ 18 424 سال 1965ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی اور آریہ سماج کی تباہ حالی ۱۹۰۳ء میں جبکہ دیانندی تحریک زوروں پر تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیشگوئی فرمائی: یہ خیال مت کرو کہ آریہ یعنی ہندو د یا نندی مذہب والے کچھ چیز ہیں جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق وصفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اُس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اُس کے پاس نہیں وہ مذہب مُردہ ہے، اس سے مت ڈرو ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لو گئے.اس پیشگوئی کے عین مطابق شری ویریندر جی ایڈیٹر اخبار پرتاپ ( جالندھر) نے اپنے اخبار کی ۷ فروری ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں آریہ سماج کی تباہ حالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے بیان دیا کہ: کوئی وقت تھا کہ پنجاب میں اس کا طوطی بولتا تھا، لیکن آج یہ ایک بے جان لاش بن گیا ہے“ ’وہ دن دور نہیں جب اس کا کہیں نام ونشان تک نظر نہ آئیگا“ ایڈیٹر صاحب پرتاپ کے اس بیان کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے.آریہ سماج بڑھ رہا ہے.لیکن کدھر؟ تباہی اور بربادی کی طرف پچھلے آٹھ برس میں پنجاب میں آریہ سماج کی سرگرمیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو کوئی بھی بے لاگ شخص یہ کہے بغیر نہ رہ سکے گا کہ جہاں تک اس صوبہ کا تعلق ہے آریہ سماج ایک بے جان جماعت بن گیا ہے کوئی وقت تھا کہ پنجاب میں اس کا طوطی بولتا تھا.کوئی تحریک پنجاب میں ایسی نہ چل سکتی تھی جس پر آریہ سماج اثر انداز نہ ہوتا تھا.اسے ایک زبر دست طاقت سمجھا جاتا تھا.دوسرے صوبوں کی آریہ سماجیں بھی رہنمائی کے لئے پنجاب کی طرف دیکھا کرتی تھیں اور سمجھا یہ جاتا تھا کہ اس دیش میں آریہ سماج کا کوئی مرکز ہے تو پنجاب.لیکن آج حالت کیا ہے؟ یہ ایک بے جان لاش بن گیا ہے.وہ اس لئے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں گزشتہ آٹھ برس سے اس کی باگ ڈور چلی آرہی ہے وہ اسے اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرنا چاہتے ہیں.آریہ سماج کا ہت ان کے سامنے نہیں ہے.ان کا صرف ایک ہی نشانہ ہے کہ کسی طرح آریہ سماج ان کے قبضہ میں رہے.جب تک آریہ پرتی ندھی سبھا پنجاب پر ان کا قبضہ نہ ہوا تھا نہیں کوئی نہ پوچھتا
تاریخ احمدیت.جلد 23 425 سال 1965ء تھا.کوئی ان کی ایسی سنتھا ( تنظیم ) نہ تھی جس کے ذریعہ ان کی چودھر قائم ہوسکتی.نہ ہی ان کے پاس کوئی ایسی جائدا تھی جس کے ذریعہ وہ اپنے محل کھڑے کر سکتے.آریہ پرتی ندھی سبھا ، پنجاب پر قابض ہونے کے بعد کئی شکھنا سنتھا ئیں ان کے تحت آگئیں ان آٹھ برس میں وہ خود ایک بھی نئی سنتھا کھڑی نہیں کر سکے لیکن جو پرانی سنتھا ئیں تھیں ان پر کسی نہ کسی طرح اپنا قبضہ قائم رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں گو یہ اسی صورت میں رکھ سکتے ہیں.اگر آریہ سماج میں دھڑے بندی پیدا کر دیں تاکہ مختلف دھڑوں کی لڑائی سے وہ اپنا الو سیدھا کر سکیں.چنانچہ ان کی یہ کوشش کامیاب ہو رہی ہے.آج حالت یہ ہے کہ شملہ، بٹالہ، موگہ میں آریہ سماج کے جھگڑے عدالتوں تک جاپہنچے ہیں.اب نوا شہر کے بھی جانے لگے ہیں.پٹھانکوٹ میں بھی آریہ سماج کے حالات افسوسناک شکل اختیار کر رہے ہیں.آریہ سماجوں میں دھڑے بندی تو پہلے بھی ہوا کرتی تھی لیکن اس وقت آریہ سماج کے نیتا اسے سلجھانے کی کوشش کیا کرتے تھے.آج اس کے نیتا اسے ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں.چنانچہ ہر سماج میں دھڑے بنائے جارہے ہیں.جس وقت موجودہ دھڑے کا آریہ پرتی ندھی سمجھا پر قبضہ ہوا تھا تو اس کے ایک سرکردہ رکن نے کہا تھا کہ وہ پنجابی ریجن میں ایسے حالات پیدا کر دیں گے کہ وہاں کے آریہ سماجی کبھی بھی اکٹھے ہو کر ان کے ہاتھ سے پھر سبھا نہیں چھین سکیں گے.آج یہی ہورہا ہے.جتنے لڑائی جھگڑے ہیں وہ سب پنجابی ریجن میں ہیں.اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہریانہ میں بیشتر آریہ سما جیں بالکل بوگس ہیں اس لئے وہاں کسی میں دھڑے بندی پیدا کرنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا.پنجابی ریجن کی آریہ سما جیں اس وقت تک کافی سرگرم رہی ہیں.لیکن اب حالات ایسے پیدا کئے جارہے ہیں کہ وہ بھی خاموش ہو جائیں.لوگوں کو اب ان سماجوں کے جلسوں میں دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے.جتنا دان (چندہ ) لوگ پہلے آریہ سماج کیلئے دیا کرتے تھے اب نہیں دیتے.دیں بھی کیوں جبکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آریہ سماج کی کیا حالت ہو رہی ہے؟ جبکہ اس کے ادھیکاری اس نئی جائداد کو خود ہی بانٹنے کو تیار ہو جائیں تو لوگوں میں ان کیلئے وشواش کیسے پیدا ہو سکتا ہے؟ آریہ سماج کی کچھ پرانی روایات ہیں آج انہیں بھی مٹی میں ملایا جا رہا ہے.خبر شائع ہوئی ہے کہ لدھیانہ میں دیا نند کالج کے لئے چندہ جمع کرنے کیلئے بمبئی سے فلمسٹار منگوائے جارہے ہیں.آج رشی دیانند کی آتما ان تمام واقعات کو دیکھ کر تڑپ رہی ہوگی اور سوچ رہی ہوگی کہ کیا انہوں نے آریہ سماج اسی لئے قائم کیا تھا کہ اس کا آخر میں یہی حشر ہو جواب ہو رہا ہے.آریہ سماج ایک نہایت ہی شاندار سنتھا رہی ہے لیکن جو حشر آج اسکا ہورہا ہے
تاریخ احمدیت.جلد 23 426 سال 1965ء اسے دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اس کا کہیں نام ونشان تک نظر نہ آئیگا.خانہ جنگی بڑی سے بڑی سنستھا کو بھی لے ڈوبتی ہے اور جب اسے ہوا دینے والے وہی لوگ ہونگے جن کے ذمہ اسکی پرورش ہو تو وہ تباہی سے کیسے بچ سکتی ہے کاش کہ پنجاب کے آریہ سماجی آج بھی آنکھیں کھولیں اور دیکھیں کر لیکھرام اور شردھانند کی آریہ سماج کا کیا انجام ہورہا ہے.مسجد قمر دار الصدر غربی ربوہ کا سنگ بنیاد 166 ۵ فروری ۱۹۶۵ء کو بعد نماز جمعہ (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ربوہ کے محلہ دار الصدر غربی الف کی مسجد کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا.پہلے آپ نے وہ اینٹ نصب کی جس پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی سے دعا کروائی گئی تھی.بعد ازاں آپ نے اپنی طرف سے ایک اینٹ نصب فرمائی.بعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے حضرت میاں محمد بوٹا صاحب موذن اور حضرت مستری عبدالعزیز صاحب نے اینٹیں رکھیں.اس کے بعد بعض اور احباب نے بھی اینٹیں رکھیں.ان میں علی الترتیب حسب ذیل احباب شامل تھے مکرم چوہدری محمد صدیق صاحب صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ مکرم ملک محمد رفیق صاحب صدر محله دارالصدر غربی ، مکرم چوہدری محمد حسین صاحب امام الصلوۃ مسجد هذا، مکرم صوبیدار غلام رسول صاحب سیکرٹری تعمیر کمیٹی ہمکرم کیپٹن شیر ولی صاحب ، مکرم ملک عطاء الرحمن صاحب ایس.ڈی.او اور رمکرم چوہدری محمد شریف صاحب خالد ایم.اے، آخر میں حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف نے اجتماعی دعا کرائی.جس کے بعد جملہ حاضرین میں شیرینی تقسیم کی گئی.مناظرہ ڈاور اراپریل ۱۹۶۵ء کور بوہ کے ماحول میں واقع بستی ڈاور میں ختم نبوت کے موضوع پر مولانا قاضی محمد نذیر صاحب اور سائیں لال حسین صاحب اختر کے مابین ایک مناظرہ ہوا.یہ مناظرہ ۵ گھنٹے کے قریب نہایت پر امن طریق سے جاری رہا.سی آئی ڈی کے نمائندے بھی موجود تھے.اس مناظرہ میں خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کوعظیم الشان فتح دی اور شرفاء اورسنجیدہ طبع لوگ اس کے بعد سلسلہ احمدیہ کی تحقیقات کی طرف مائل ہونے لگے.جماعت کی طرف سے پیش کئے گئے قرآن کریم اور احادیث نبویہ کے دلائل کا جواب دینا تو بہت دور کی بات ہے فریق ثانی احمدی مناظر کے بہت سے عام
تاریخ احمدیت.جلد 23 427 سال 1965ء مطالبات کا جواب دینے سے سراسر قاصر رہا.جس کی وجہ سے اس کے آس پاس کے تمام علاقے میں حمد یہ علم الکلام کی دھاک بیٹھ گئی.احمدیہ اگلے روز ۲۰ را پریل کو دو مسئلوں پر مناظرہ مقرر تھا کہ ۲۰،۱۹ را پریل کی درمیانی شب کو پولیس کی طرف سے ڈاور میں ڈھول پیٹ کر یہ اعلان کیا گیا کہ تحصیل چنیوٹ میں پندرہ روز کے لئے دفعہ ۱۴۴ نافذ کر دی گئی ہے اسلئے کوئی مناظرہ اور جلسہ نہیں ہوسکتا.مجلس انصار اللہ ضلع گوجرانوالہ کا تربیتی اجتماع 22 ۱۸ را پریل ۱۹۶۵ء کو احمدیہ مسجد گوجرانوالہ میں (حضرت ) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی صدارت میں اس ضلع کی مجلس انصار اللہ کا نہایت کامیاب تربیتی اجتماع منعقد ہوا.مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لانکپوری، مولوی محمد صادق صاحب مجاہد سماٹرا، مولوی نسیم سیفی صاحب سابق رئیس التبلیغ مغربی افریقہ اور جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے تقاریر فرمائیں.آخر میں (حضرت) صاحبزادہ صاحب نے تو حید حقیقی کے موضوع پر ایمان افروز خطاب فرمایا.مسجد سیالکوٹ چھاؤنی کی افتتاحی تقریب گذشتہ سال ۱۹۶۴ء کے آخر میں احمدیہ مسجد سیالکوٹ چھاؤنی کی بنیاد رکھی گئی تھی.اس سال یہ پایہ تکمیل کو پہنچی.اور اسکی افتتاحی تقریب اا ا پریل ۱۹۶۵ء کو حضرت بابو قاسم الدین صاحب امیر جماعت احمد یہ ضلع سیالکوٹ کی زیر نگرانی عمل میں آئی.احمد یہ گرلز ہائی سکول لاہور کا افتتاح ۲۳ را پریل ۱۹۶۵ء کو چوہدری اسد اللہ خاں صاحب امیر جماعت احمد یہ لاہور نے مکرم قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے ( کینٹب) کی معیت میں اور دیگر احباب اور مستورات کی ایک بھاری تعداد کی معیت میں لاہور میں جماعت احمدیہ کے پہلے گرلز ہائی سکول کا افتتاح فرمایا اور دعا کرائی.برطانوی تاریخ دان ربوہ میں 25 مشہور برطانوی تاریخ دان پی.ہارڈی ایم.اے کمینٹب.پی.ایچ.ڈی لندن مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے ۲ مئی ۱۹۶۵ء کو بذریعہ موٹر کا رلاہور سے ربوہ تشریف لائے.آپ لندن سکول
تاریخ احمدیت.جلد 23 428 سال 1965ء آف اورینٹیئل اینڈ افریقن افیئزز LONDON SCHOOL OF ORIENTAL AND AFRICAN AFFAIRS سے وابستہ تھے.اور گذشتہ دو سال سے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں بطور پروفیسر کام کر رہے تھے.اور عنقریب انگلستان جانے والے تھے.آپ کو متعد د مسلم ممالک کی سیاحت کا موقع ملا.آپ کی خواہش تھی کہ پاکستان میں اپنے قیام کے دوران آپ جماعت احمدیہ کا مرکز بھی دیکھیں.چنانچہ اپنے وطن واپس جانے سے قبل اپنی اس خواہش کی تکمیل کے سلسلہ میں ہی آپ یہاں تشریف لائے تھے.آپ نے ربوہ میں تعلیمی ادارہ جات اور خلافت لائبریری دیکھنے کے علاوہ صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر بھی دیکھے.اور علی الخصوص بیرونی ممالک میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے بارہ میں معلومات حاصل کیں.اور ان میں خاص دلچسپی کا اظہار فرمایا.آپ نے بعض بزرگانِ سلسلہ اور تعلیمی ادارہ جات کے اساتذہ سے تبادلہ خیالات بھی کیا.اور اس امر پر بھی خاص خوشی کا اظہار فرمایا کہ ربوہ ایک نئی اور دور افتادہ بستی ہونے کے باوجود تعلیم اور تبشیر کا ایک اہم مرکز ہے.اور اس سلسلہ میں ہر طرح خود کفیل واقع ہوا ہے.آپ نے خاص طور پر تعلیم الاسلام کا لج میں سائنسی علوم کی تدریس کے وسیع انتظامات کے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا میں یہاں سائنسی علوم میں گہری دلچسپی اور ان کی ترویج و ترقی سے متعلق مساعی سے بہت متاثر ہوا ہوں.آپ ربوہ میں چند گھنٹہ قیام کرنے اور نہایت مصروف وقت گذارنے کے بعد چار بجے سہ پہر لاہور واپس تشریف لے گئے.- ربوہ میں کمیونٹی ہال کی تعمیر مورخه ۳ جولائی ۱۹۶۵ کو ٹاؤن کمیٹی ربوہ کی طرف سے ایک کمیونٹی ہال کی تعمیر کا آغاز ہوا.محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیا درکھا.بیت احمد مارٹن روڈ کراچی کا سنگ بنیاد ۱۹۴۸ء میں مکرم چوہدری محمد حسین صاحب والد مکرم چوہدری عبدالمجید صاحب نے بیت الحمد مارٹن روڈ کی بنیاد ڈالی.ابتداء میں مکرم چوہدری محمد حسین صاحب اکیلے ہی اس مقام پر چٹائی بچھا کر
تاریخ احمدیت.جلد 23 429 سال 1965ء نماز پڑھ لیتے اور چٹائی لپیٹ کر سامنے چوہدری رشید احمد صاحب کے کوارٹر میں رکھ دیتے.کچھ عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا.اس کے بعد اور احمدی احباب بھی شامل ہونے لگے.بعد ازاں چھپر ڈال کر اور رسیاں باندھ کر حد بندی کی گئی جو پولیس نے ہٹا دی.دو تین مرتبہ ایسا ہوا.لیکن عبادت کا سلسلہ جاری رہا.اس دوران مکرم چوہدری محمد حسین صاحب کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حکومت کی طرف سے نماز با جماعت پڑھنے کی اجازت مل جائے.چنانچہ اللہ تعالی کے فضل سے ۱۹۴۹ء میں ڈپٹی کمشنر کراچی جناب محمد الحق صاحب، جو مشہور قانون دان خالد الحق صاحب کے والد تھے، نے عارضی شیڈ بنا کر نماز پڑھنے کی اجازت دے دی.مکرم چوہدری صاحب نے اس زمین کی الاٹمنٹ کیلئے کوششیں شروع کر دیں.چونکہ مساجد کی الاٹمنٹ کے متعلق حکومت کی پالیسی ایسی تھی جس کے تحت زمین کی الاٹمنٹ ناممکن تھی تاہم مکرم چوہدری صاحب نے ہمت نہ ہاری اور بالآخر انتہائی نامساعد حالات سے گزر کر وزارت محنت حکومت پاکستان سے با ضابطہ الاٹمنٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے.مکرم چوہدری صاحب یہ خوشخبری لے کر جب مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی کے پاس پہنچے تو آپ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ مجھے علم تھا کہ یہ امر محال ہے بلکہ ناممکن ہے لیکن آپ کے انہماک کو دیکھ کر آپ کی دل شکنی کے خوف سے منع نہیں کرتا تھا.یہ الاٹمنٹ آپ کی کوششوں کا اللہ تعالی کی طرف سے انعام اور دعاؤں کا ثمرہ ہے.بیت الحمد مارٹن روڈ کے پلاٹ کی الاٹمنٹ ۱۹۵۱ء میں ہوئی.اسکی چار دیواری کی تعمیر کا سنگ بنیا د ۲۳ مارچ ۱۹۵۲ء کو رکھا گیا.یہ سنگ بنیاد مکرم چوہدری عبداللہ خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی نے نصب فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی جب ۱۹۵۳ء میں کراچی کے دورہ پر تشریف لائے تو اس وقت اس مسجد کی تعمیر جاری تھی.حضور نے ۲۸ راگست ۱۹۵۳ء کو اس زیر تعمیر مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.حضور نے فرمایا کہ: وو سب سے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا اس امر پر شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہماری جماعت کو یہاں ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی.خصوصاً جبکہ پہلے بھی جماعت ایک وسیع ہال بنا چکی ہے جس میں نمازیں ادا کی جاتی ہیں.(حضور کا اشارہ احمد یہ ہال کراچی کی طرف تھا.مؤلف ) گو وہ ہال کراچی کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 430 سال 1965ء ضروریات کے لحاظ سے کافی نہیں.بہر حال اب اللہ تعالی نے جماعت کو یہاں بھی (یعنی مارٹن روڈ میں.مؤلف ) ایک مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آج ہی مجھے جماعت کی طرف سے ایک چٹھی ملی تھی کہ اس مسجد کا نام رکھ دیا جائے.مسجد کا نام تو مسجد ہی ہے.یہی نام اللہ تعالی نے رکھا ہے.باقی محلوں کے لحاظ سے اور شہروں کے لحاظ سے اگر اس مسجد کا بھی کوئی نام رکھ لیا جائے تو کوئی حرج نہیں.لیکن اس کا نام مسجد کراچی رکھنا مناسب نہیں کیونکہ ابھی جماعت نے بڑھنا اور ترقی کرنا ہے اور یہ مسجد اتنی وسیع نہیں کہ سارے کراچی کے احمدی یہاں نماز پڑھ سکیں.درحقیقت مسجد کراچی وہی کہلائے گی جس میں کراچی کے تمام موجودہ اور آئندہ آنے والے احمدی سما سکیں.“ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے اپنے دورہ کراچی اگست ۱۹۶۵ء کے موقع پر اس مسجد کی تعمیر نو کا سنگ بنیادرکھا.اس کی موجودہ عمارت کی تعمیر کا آغاز ۱۹۷۷ء میں ہوا.اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم ہوئی جس نے فنڈز کے حصول کے لیے کام شروع کیا.۱۹۷۸ء میں اس کی عمارت کی تعمیر مکمل ہوئی جبکہ فنشنگ کا کام بعد میں مکمل ہوا.28 سالانہ اجتماعات کی منسوخی ۱۹۶۵ء میں پاک بھارت جنگ کی وجہ سے ہنگامی حالات تھے جن کی بناء پر انصار اللہ مرکزیہ، لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماعات منسوخ کر دیے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 431 سال 1965ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی سید جواد علی صاحب واشنگٹن سے چار سو میل دور البانیہ کے مسلمانوں کے کئی آباد خاندانوں کی دعوت پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے جہاں تین دن تک تبلیغی گفتگو جاری رہی.یہ سفر بہت کامیاب رہا.واشنگٹن میں ٹیلی وژن اور براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن کے نمائندوں کا ایک بڑا اجتماع ہوا.آپ نے اس اجتماع میں مدعو امریکن نمائندوں میں بکثرت لٹریچر تقسیم کیا.اور کئی ایک سے تبلیغی گفتگو کی.اس کے علاوہ واشنگٹن میں مدیران جرائد ایسوسی ایشن کی ایک اعلیٰ پیمانے کی کانفرنس ہوئی.آپ نے اس کانفرنس سے پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے احمدیت پر گفتگو کرنے کے علاوہ نمائندگان میں سینکڑوں کی تعداد میں اشتہارات تقسیم کئے.نوے طلباء کا ایک گروپ مشن ہاؤس واشنگٹن میں آیا.آپ نے اسلام اور احمدیت کے موضوع پر لیکچر دیا.اور طلباء کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیئے.چند دن بعد طلباء اور اساتذہ کی طرف سے شکریہ کا حسب ذیل خط موصول ہوا.ایولان ہائی سکول کے دسویں جماعت کے طلباء کی طرف سے ہم آپ کا ۲۸ اپریل کے پیچر کا بہت شکریہ ادا کرتے ہیں.آپ نے اسلام کے بارے میں تاریخ اور اعتقادات پر جو دلچسپ معلومات بہم پہنچائی ہیں.بڑی معلومات افزاء ہیں.نوجوان ہونے کی حیثیت سے ہم علم کے بہت مشتاق ہیں.خاص طور پر وہ علم جو انسانیت سے تعلق رکھتا ہے.آپ کے لیکچر سے ہمیں بہت علم حاصل ہوا ہے.اس کے علاوہ آپ نے ایک اور نمونہ ہمارے سامنے پیش کیا ہے وہ یہ کہ خدا اور انسان کی خدمت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کر دیا ہے.ہم دوبارہ آپ کا دلی شکر یہ ادا کرتے ہیں.“ جنوبی فلوریڈا میں ایک مذہبی کا نفرنس ہوئی.اس میں سید جواد علی صاحب نے اسلام کی نمائندگی کی.اسلام کے علاوہ یہودی، پروٹسٹنٹ اور رومن کیتھولک نمائندوں نے حصہ لیا.اس کانفرنس میں شامل ہونے والے پانچ صد کے قریب کالج اور ہائی سکول کے طلباء تھے.یہ نوجوان امراء کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور فلوریڈا کے مختلف مقامات سے آئے تھے.تین دن مختلف پروگراموں میں حصہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 432 سال 1965ء لیا.خدا کے فضل سے اسلام کی تعلیم کی برتری کا شامل ہونے والوں کی اکثریت نے اعتراف کیا.عیسائیت کے نمائندوں نے نوجوانوں کے سوالات خاص کر خدا کی ذات، گناہ، کفارہ، جزا سزا وغیرہ سے تعلق رکھنے والوں کے جوابات دینے سے گریز کیا.انہوں نے اقرار کیا کہ عیسائیت کے عقائد عقل کے خلاف ہیں.مگر ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ اپنی نجات کے لئے ان پر ایمان لائے.اس سے نوجوانوں کی کب تسلی ہو سکتی تھی.کئی طلباء نے ان عقائد کے متعلق مختلف پیرایہ میں سوالات کئے.مگر ہر بار پادریوں نے ٹال دیا.یہی وجہ ہے کہ عام عیسائی نوجوان عیسائیت سے بغاوت کر کے لامذہب ہو جاتے ہیں.اس کی ساری ذمہ داری عیسائیت کے غیر فطری عقائد اور پادریوں پر ہے.اس کا نفرنس میں اسلام کا بول بالا رھا.اس سال الیگزینڈر ڈوئی کے شہر زائن ZION میں ایک ذیلی مشن کا قیام جماعت احمدیہ کی 31 طرف سے عمل میں آیا.جماعت احمدیہ کی سالانہ کنونشن ۴، ۵ ستمبر کو ڈیٹن میں منعقد ہوئی جس میں دوسو نمائندگان شریک ہوئے.کنونشن کا ذکر مقامی پریس میں بھی ہوا.حلقہ پٹس برگ میں ایک شہر ہنٹنگٹن کے ایک کالج میں مکرم عبد الرحمن خان صاحب بنگالی اور سید جواد علی صاحب نے اسلام کے موضوع پر نہایت پر اثر اور معلومات افزا لیکچر دیئے.اور حاضرین کے سوالات کے نہایت تسلی بخش جوابات دیئے.جن سے پروفیسرز اور طلباء بہت محظوظ ہوئے.مبلغین احمدیت نے کالج کے وائس پریذیڈنٹ تک بھی پیغام حق پہنچایا اور دینی لٹریچر پیش کیا.مکرم عبدالرحمان خان صاحب بنگالی مبلغ انچارج امریکن مشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا:.پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع ہونے پر تمام جماعت ہائے احمد یہ امریکہ اور افراد کو پاکستان کی حفاظت ، سلامتی اور جنگ میں کامیابی کے لئے دعا پر مشتمل سرکلر بھجوایا گیا.اس آزمائشی وقت پر جناب صدر صاحب حکومت پاکستان اور امریکہ میں پاکستانی سفیر صاحب کو ہمدردی، دلی دعاؤں اور پوری مدد دینے پر مشتمل مضمون پی بھجوائے گئے.جناب صدر صاحب حکومت پاکستان کی طرف سے اس خط کے جواب میں جو خط موصول ہوا.اللہ تعالیٰ کے شکریہ کے جذبات سے پر تھا.انگلستان ۱۹۶۵ء میں سیرالیون کے وزیر اعظم انگلستان تشریف لائے.مکرم بشیر احمد صاحب رفیق نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 433 سال 1965ء ان کے ہوٹل پر ان سے ملاقات کی اور انہیں مسجد تشریف لانے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی.چنانچہ آپ سیرالیون کے سفیر اور سٹاف کے ساتھ مسجد تشریف لائے جہاں ان کے اعزاز میں ڈنر کا انتظام کیا گیا تھا.اس موقعہ پر مکرم بشیر احمد صاحب رفیق نے انہیں جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے خوش آمدید کہا اور سیرالیون میں تعلیم کے میدان میں جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں کا تفصیلی تذکرہ کیا.وزیر صاحب نے جواباً فرمایا کہ وہ سیرالیون میں جماعت کے مبلغ انچارج جناب بشارت احمد صاحب بشیر کے ذاتی دوستوں میں سے ہیں اور جماعت احمد یہ سیرالیون نے تعلیم کے میدان میں جو خدمات کی ہیں ان کے معترف ہیں اور اپنے ملک کی طرف سے جماعت کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.۱۹۶۵ء میں ماریشس کے پہلے وزیر اعظم سر رام غلام انگلستان تشریف لائے.مکرم بشیر احمد صاحب رفیق نے ان سے ہوٹل میں ملاقات کی.بڑی تپاک سے پیش آئے اور ماریشس میں جماعتی خدمات کو بڑے زور دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.اس موقعہ پر ماریشس کے سفیر بھی موجود تھے.آپ نے سفیر صاحب کو ہدایت کی کہ آئندہ ماریشس ایمبیسی کی طرف سے جو بھی تقریبات لندن میں منعقد ہوں، ان میں امام صاحب کو ضرور بلایا جائے.جرمنی ۱۹۶۵ء کی دوسری سہ ماہی میں تین جرمن دوست مسٹر ہاٹ موٹ ہنزے، مسٹر شمٹ SCHMIDT اور ڈاکٹر کونگ KONIG حلقہ بگوش اسلام ہوئے.مسٹر ہاٹ کچھ عرصہ تک پاکستان میں بھی رہے.اور پھر وطن آکر فرنکفورٹ مشن سے رابطہ قائم کیا.حضرت مصلح موعود نے ان کا نام حفیظ احمد تجویز فرمایا.مسٹر شمٹ بون میں وزرات خارجہ کے دفتر میں ملازم تھے بعض مسلمان افریقن دوست اُنہیں مولوی محمود احمد صاحب چیمہ مبلغ جرمنی کے پاس لائے.پہلی ملاقات میں ہی ان پر حق کھل گیا اور اگلے ہفتہ انہوں نے بیعت کر لی.حضرت مصلح موعود نے ان کا نام فرید احمد تجویز فرمایا.ڈاکٹر کونگ ( بشیر عبداللہ ) ایک ماہر قانون تھے موازنہ مذاہب پر اُن کی گہری نظر تھی.عیدالاضحیہ کے موقع پر جرمنی اور پاکستانی پریس دونوں نے احمد یہ مشن میں منعقد ہونے والی اس مبارک تقریب کی تصاویر شائع کیں.اور نمازیوں اور خطبہ کا منظر دکھایا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 434 سال 1965ء مولوی فضل الہی صاحب انوری انچارج فرانکفورٹ مشن اور چوہدری محمود احمد صاحب چیمہ کو 35 بہت سے جرمن ، عرب، افریقن ، ترک اور ایرانی دوستوں تک پیغام احمدیت پہنچانے کا موقع ملا.نومبر ۱۹۶۵ء کے ابتدا سے نومسلم جرمن نوجوان مسٹر محمود اسمعیل کی طرف سے اسلام کے اہم بنیادی مسائل پر مشتمل تقریروں کا ایک نہایت مفید اور دلچسپ سلسلہ جاری کیا گیا.وسط نومبر میں مولوی فضل الہی صاحب انوری مبلغ فرانکفورٹ کو ڈسلڈورف (DUSSELDORF) کے کلب کی طرف سے اسلام میں عورت کا مقام“ کے موضوع پر تقریر کے لئے مدعو کیا گیا.حاضرین آپ کی تقریر سے بہت محظوظ ہوئے.تقریر کے بعد سوال و جواب کا ایک لمبا اور دلچسپ سلسلہ شروع ہوا.ایک صاحب نے کہا کہ یہ مجلس شام ایک دلچسپ ترین مجلس تھی.اس سفر کے دوران مولوی فضل الہی صاحب انوری کو جرمنی کی بون اور کولون کی عظیم یونیورسٹیوں کے ڈائریکٹر ان اور پروفیسران کو ملنے اور تبادلہ خیالات کا بھی موقعہ ملا.50 بون (جرمنی) کے ہفت روزہ عربی اخبار "الرسالة" نے ۵ مارچ ۱۹۶۵ء کی اشاعت میں مسجد فرانکفورٹ کی دو تصاویر شائع کیں.ایک میں مسلمانوں کے عظیم اجتماع کی منظر کشی کی گئی تھی.مولوی کرم الہی صاحب ظفر مبلغ سپین نے اس سال اعلیٰ حکام اور معززین سے ملاقاتوں کے ساتھ ساتھ دینی لٹریچر کی وسیع پیمانے پر تقسیم کی.اس سلسلہ میں آنریبل SIR D.RAFAEL CASTE JON پریذیڈنٹ رائل اکیڈمی آف قرطبہ کے نام ایک خط کے ذریعہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا تحفہ بھجوایا تھا.ان کی طرف سے حسب ذیل جواب ملا.قرطبہ ۳۰ نومبر ۱۹۶۵ء مسٹر کرم الہی ظفر مشن پین.میرے نہایت ہی مکرم و معظم دوست! آپ کے خط کے ساتھ مجھے اسلامی اصول کی فلاسفی مؤلفہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب ( علیہ السلام) کی ایک کاپی ملی ہے.میں نے کتاب بڑے گہرے شوق سے پڑھی ہے اس کتاب کی پُر معارف تعلیم سے میں بے حد متاثر ہوا ہوں.یہ حقیقی طور پر روحانی علم وعرفان کا خزانہ ہے.اس کتاب کے مطالعہ سے واقعی میرا دل و دماغ معطر ہو گیا.میں نے یہ کتاب ڈائریکٹر آف انسٹی ٹیوٹ کو بھی مطالعہ کے لئے دی.ان کا بھی کتاب کے متعلق یہی تاثر ہے.اور انہیں بھی کتاب بہت پسند آئی ہے.بلکہ ۲۰ نومبر کو انہوں نے ایک پبلک
تاریخ احمدیت.جلد23 لیکچر اسی کتاب کے تعلق میں دیا.37 435 سال 1965ء سنگاپور امسال آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بھی بعض خطوط کے ذریعے احمد یہ لٹریچر کے حصول کا مطالبہ کیا گیا چنانچہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے چھ یو نیورسٹی کی لائبریریوں میں اہم لٹریچر ارسال کیا گیا.ان سب کی طرف سے کتب کی وصولی پر شکریہ کے خطوط بھی موصول ہوئے.آسٹریلیا سے پارلیمنٹ کا وفد بھی سنگا پور آیا.اس موقعہ پر بھی ایک تفصیلی خط کے ذریعہ احمدیت کا پیغام ان تک پہنچایا اور اسلام کے متعلق ضروری کتب بھی پیش کی گئیں.اسی طرح امریکہ کے سینیٹر ایڈورڈ ایم کینیڈی بھی سنگا پور تشریف لائے.انہیں بھی جماعت کا تعارف کروایا گیا.38.ٹوکیو جاپان سے بھی احمدی نوجوانوں پر مشتمل ایک وفد سنگا پور آیا.ان میں بعض غیر احمدی دوست بھی شامل تھے.ان کا مشن ہاؤس میں استقبال کیا گیا.کچھ عرصہ سے ملائیشیا کے طول و عرض میں عیسائی مشنوں نے اپنی تبلیغی مہمات تیز کر دی تھیں قریباً دوسو ملائی مسلمان عیسائی ہو گئے تھے مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج مشن نے روزنامہ کو تو سن ملایو میں ایک مفصل مضمون شائع کیا جس میں عیسائیت اور اسلام کی تعلیم کا موازنہ کر کے اسلام کی برتری اور صداقت ثابت کی نیز حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ احمدیوں کو تبلیغی سہولتیں باہم پہنچائیں تا اس فتنہ کا سد باب کیا جائے.حکومت نے تو کوئی توجہ نہ کی تاہم احمدی مشن عیسائی پرو پیگنڈا کے مقابلہ کے لئے میدان عمل میں آ گیا.عیسائی پادری مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور یہ پالیسی اختیار کر لی کہ احمدی مبلغین یا ان سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں سے گفتگو ہی نہ کی جائے.ایک پادری سے عصمت انبیاء کے موضوع پر آپ کا کامیاب مناظرہ ہوا.پادری صاحب نے اپنی خفت اور شرمندگی کو مٹانے کے لئے وقتی طور پر نرمی کی تعلیم کا سہارا لے کر اپنی خلاصی کرالی.اگر چہ پبلک میں سے کئی لوگوں نے انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ آپ کی باتوں کا معقول جواب دیں مگر پادری صاحب اس قدر شرمندہ ہوئے کہ مولوی محمد صدیق صاحب کو وہیں چھوڑ کر آگے چل دیئے اور دوسرے روز گفتگو کرنے سے بالکل انکار ہی کر دیا.اس طرح بفضلہ تعالیٰ حاضرین اسلام کے حق میں بہت اچھا اثر لے کر گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 436 سال 1965ء کئی ایک نے سوالات بھی کئے جن کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے مولوی محمد صدیق صاحب کو گورنر سنگاپورا نچی یوسف بن اسحق صاحب سے مطبوعہ کتب کی ایک نمائش کے دوران ملاقات کا موقعہ ملا.بعض لوگوں نے اپنے لیکچروں اور پرائیویٹ مجالس میں احمدیوں کو کافر شمار کر کے بائیکاٹ کرنے کی تلقین کی.مولوی صاحب موصوف نے دوار دو ٹریکٹ شائع کر کے ان لوگوں کی غلط فہمیوں کا پردہ چاک کیا.انہیں دوستانہ طور پر تبادلہ خیال کی دعوت دی نیز اعلان کیا کہ اگر وہ لوگ قرآن کریم یا کسی حدیث سے احمدیوں کا ارتداد یا کفر ثابت کر دیں تو اسے پانچ سو ڈالر انعام دیا جائے گا مگر کسی کو یہ دعوت قبول کرنے کی توفیق نہ ہوئی.بلکہ خود ان کے ہم نواؤں نے انہیں ملامت کی اور بعض نے آپ کے معقول دلائل سے متاثر ہو کر ان سے بیزاری اور جماعت احمدیہ کے برحق ہونے کا اظہار کیا.اس کشمکش کے دوران ڈاکٹر مہر محمد کے مکان پر دو تین مرتبہ بعض مسلم اکابر سے تبلیغی ملاقاتیں ہوئیں جو کئی کئی گھنٹے جاری رہیں.راما کرشنا مشن کے زیر انتظام ایک مذہبی کا نفرنس منعقد ہوئی جس میں اسلام کی نمائندگی کا شرف مولوی صاحب موصوف کو حاصل ہوا.اس موقعہ پر آپ نے وزیر اعظم سنگا پور، یونیورسٹی کے چانسلر اور امریکن اور انڈین سفراء اور دیگر اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کی اور جماعت احمدیہ سے متعلق ضروری معلومات باہم پہنچائی.نیز راما کرشنا مشن کی لائبریری کے لئے انگریزی ترجمہ قرآن کریم اور دیگر ہیں (۲۰) اسلامی کتب پر مشتمل ایک سیٹ مشن کے انچارج پنڈت صاحب کو تحفہ پیش کیا جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کر کے اپنے مشن کی کتب بھی جماعت احمدیہ کی لائبریری کے لئے پیش کیں.اس سال مشن ہاؤس کی عمارت کی سفیدی اور پینٹ وغیرہ کرانے کے علاوہ زائرین کے لئے نیا فرنیچر اور ایک ریفریجریٹر خریدا گیا.مسجد میں پنکھے لگوانے اور لاؤڈ سپیکر نصب کرنے کا بھی انتظام کیا گیا.وہ سب کام فوری طور پر ہوئے اور سنگا پور کے مخلص احمدیوں نے نہایت بشاشت کے ساتھ سب مالی اخراجات برداشت کئے.مشن ہاؤس کے ماحول کی صفائی درستی اور مرمت کے لئے تین چار مرتبہ با قاعدہ وقار عمل بھی کیا گیا.جس میں سنگا پور کے احمدیوں نے نہایت خندہ پیشانی اور اخلاص سے حصہ لیا.وسط جولائی ۱۹۶۵ء میں حکومت آسٹریلیا کی طرف سے چھ سر کردہ ممبران پر مشتمل ایک پارلیمانی وفد ملیشیا ( اس کو ملائیشیا بھی لکھتے ہیں ) میں موجود سیاسی ہیجان کے اندرونی و بیرونی اسباب کو بذاتِ خود معلوم کرنے کی غرض سے چند دنوں کے لئے ملیشیا آیا.جس میں پارلیمنٹ کے حزب مخالف اور لیبر
تاریخ احمدیت.جلد 23 437 سال 1965ء پارٹیوں کے لیڈر بھی شامل تھے.ان کی آمد پر جہاں ملیشیا کی سیاسی اور لیبر پارٹیوں اور یونینوں کی طرف سے ان کی کئی ایک استقبالیہ دعوتیں اور پریس کا نفرنسیں وغیرہ منعقد ہوئیں وہاں جماعت احمدیہ ملیشیا کی طرف سے بھی انہیں مذہبی نقطہ نگاہ سے خوش آمدید کہہ کر استقبال کیا.یعنی آسٹریلین ہائی کمشنر مقیم سنگا پور سے مشورہ اور اجازت کے بعد وفد کو حضرت خاتم النبین سید الاولین والآخرین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر حلقہ بگوش اسلام ہونے کی انہیں دعوت دی گئی.چنانچہ سب ممبران کو انگریزی میں ایک استقبالیہ ایڈریس پیش کیا گیا.اور اس کے ساتھ ہی اسلام کی صحیح تعلیم اور حقائق قرآنی پر مشتمل دس انگریزی کتب کا سیٹ علیحدہ علیحدہ ہر ایک ممبر کو پیش کیا گیا.جسے سب نے جذبات شکر و امتنان کے ساتھ قبول کیا اور متعلقہ کتب کا مطالعہ کرنے کا وعدہ کیا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مزید اور تفصیلی معلومات کے لئے مشن کی طرف سے وفد کے ممبران کو نہایت مفید انگریزی کتب پیش کی گئیں.جنہیں انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا.سیرالیون امسال سیرالیون میں منعقد ہونے والی مجلس شوری میں مبلغ انچارج مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر نے تعلیم نسواں پر خاص زور دیا.غانا جماعت احمدیہ غانا کی چالیسویں سالانہ کا نفرنس ۷ ۸ ۹ جنوری ۱۹۶۵ءکو سالٹ پانڈ میں منعقد ہوئی.جس میں سات ہزار کے قریب احمدیوں نے شرکت کی اور مالی قربانی کا شاندار مظاہرہ کرتے ہوئے ۴۳۳۳ پونڈ کی رقم خدمت دین کے لئے پیش کی جو گذشتہ سال کی رقم سے ڈیڑھ گنا سے بھی زیادہ تھی یہ قربانی ایسے وقت میں دی گئی جبکہ چندہ ماہ پیشتر جماعتیں اپنی ریجنل کانفرنسوں اور کماسی کے مشن ہاؤس کی تعمیر پر ہزاروں پونڈ چندہ دے چکی تھیں.کا نفرنس کا افتتاح امیر جماعت غانا مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم کی تقریر سے ہوا.جلسے کے دیگر احمدی مقررین میں سے مولوی عبدالوہاب صاحب کی تقریر جو لوکل زبان میں تھی بہت مؤثر اور دلچسپ تھی.آپ نے اپنی تقریر میں حضرت مصلح موعود کے بلند مقام تعلق باللہ اور استجابت دعا اور جماعت کی کامیاب قیادت کے ایمان افروز واقعات بیان کیئے اور حضور کی عظیم الشان دینی خدمات اور کارناموں پر روشنی ڈالی.جو رہتی دنیا تک یادگار رہیں گے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 438 سال 1965ء جلسہ سے غانا کے وزیر دفاع مسٹر KOFI BAAKO نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ غانا کی ترقی وقوت میں جماعت احمدیہ کا زبردست ہاتھ ہے کیونکہ جماعت احمدیہ میں ایک بڑا طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو ہمیشہ ہی ملک کی خدمت کرتے ہیں اور نہایت دیانتداری اور محنت سے حکومت کا ہاتھ بٹاتے ہیں.آپ نے یقین دلایا حکومت ہمیشہ جماعت احمدیہ کے ساتھ فراخ دلی کا سلوک کرے گی اور ہر ممکن مد دو تعاون کرے گی اور مذہبی آزادی کو ہمیشہ بحال رکھے گی تا کہ لوگ آزادی سے اپنے مذہب پر چل سکیں آخر میں آپ نے پھر جماعت کی خدمات کا شکریہ ادا کیا.اور یہ خواہش ظاہر کی کہ جماعت پہلے کی طرح برابر اپنی کوششوں کو جاری رکھے گی اور ملک کی ترقی اور خدمت میں حصہ لیتی رہے گی.آپ نے بتایا کہ صدر غانا کو امے نکر و ماہر امن پسند جماعت کی عزت کرتے ہیں اور ان کو پوری مذہبی آزادی دینے کے حامی ہیں.وزیر موصوف کی تقریر میں فضا بار بار نعروں سے گونجتی رہی.اس کانفرنس کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں غیر ممالک کے دو احمدی بھی شریک ہوئے.ا.مسٹر عبداللہ صدر جماعت آئیوری کوسٹ.۲.جاپان کے احمدی نوجوان پی.ایچ.سیٹو.آپ نے غانا کی تمام بڑی بڑی جماعتوں کا دورہ کیا.اور ان کی تاریخ کا بڑے غور سے مطالعہ کیا.اس سال غانا میں سات نئے احمد یہ مدارس کا قیام عمل میں آیا جن میں سے پانچ کا قیام شمالی ریجن میں ہوا جہاں اس سے قبل جماعت کا کوئی سکول نہیں تھا.احمد یہ سیکنڈری سکول نے متعدد کالجز اور سیکنڈری سکولوں سے سخت مقابلہ کے بعد فٹ بال چیمپین شپ جیت کر صدر غانا ڈاکٹر کوامے نکروما 41 42- ٹرافی جیت لی.اس کامیابی سے پریس اور ریڈیو پر جماعت احمدیہ کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی.اشانٹی ریجن سے ملحقہ ریجن کے شہر کو فوریڈو میں مولوی نصیر احمد خاں صاحب نے جامع مسجد میں مناظرہ کیا جو چار گھنٹے تک جاری رہا.اس موقع پر مولوی عبدالحق صاحب ایم اے اور بعض دیگر احمدی احباب بھی موجود تھے.مولوی نصیر احمد خاں صاحب نے اپنے ریجن اشانٹی کی اٹھارہ جماعتوں کا دوبار دورہ کیا اور اس دورہ میں آپ نے جن شخصیات کو دینی لٹریچر پیش کیا ان میں ڈی سی سمپانگ، چیئر مین کونسل سمپانگ.حکومت کی واحد سیاسی پارٹی کے لوکل چیئر مین آؤنکریاں اور ایک سکاچ مشنری خاص طور پر قابل توجہ ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 439 سال 1965ء اس سال وسطی ریجن کے او بازی گاؤں کے مخلص احمدیوں نے تین چار ہزار پونڈ کی لاگت سے خدا کا ایک خوبصورت اور پختہ گھر تعمیر کیا جس کا افتتاح مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے کیا.غانا میں اکو ایم سٹیٹ کے مرکزی قصبہ اکرو پنگ میں ایک لوکل مبلغ احمد بیت کے ذریعہ نئے مشن کا قیام عمل میں آیا.ملائیشیا الفضل میں مطبوعہ رپورٹوں کے مطابق غانا میں اسی سال ۲۳۶ سعید روحیں داخل احمدیت ہوئیں.43 ۱۹ دسمبر ۱۹۶۵ء کو ملائیشیا ( شمالی بور نیو) میں احمد یہ سالانہ کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں حسب ذیل جماعتیں شامل ہوئیں تپاتن، سکاوی، رامایا، نیمپنگ ، تمالنگ،تیلیپلوک، انانم ،ساسا گا سا پنگ، کوالا بلایت، برونائی اسٹیٹ ،سنڈا گن.پروگرام کے مطابق کانفرنس کے تین اجلاس منعقد ہوئے.پہلے دو اجلاسوں میں مولوی بشارت احمد صاحب امروهی ، بوجنگ بن روؤف صاحب، محمد شریف تیوسو چنگ صاحب آف برونائی اور ڈینٹیل موار یوسف صاحب آف سنڈا گن نے خطاب فرمایا.تیسرا اجلاس شوری کی کارروائی پر مشتمل تھا.جس میں شادی بیاہ، بچوں کی دینی تعلیم ، چندوں کی ادائیگی وغیرہ امور زیر بحث رہے.ایک دینی درسگاہ کی تجویز بھی زیر غور آئی.نیز مالی جہاد کی طرف توجہ دلائی گئی.نائیجیریا وزیر اعلی شمالی نائیجیریا کا جماعت احمدیہ کی خدمت اسلام سے متعلق ایک خط الحاج سراحمد و بیلو، وزیر اعلی شمالی نائیجیریا (مغربی افریقہ) اپنے ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں: ”میں اس عظیم الشان کام سے جو احمد یہ مشن اس غرض کو پورا کرنے کے لیے (اسلام کو کناف عالم میں پھیلانے اور مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی غرض.ایڈیٹر ) نہ صرف نائیجیریا میں بلکہ ساری دنیا میں کر رہا ہے بخوبی واقف ہوں.اور میں اس یقین سے پر ہوں کہ آخر کار فتح ہماری ہی ہوگی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ہمت اور حوصلہ عطا کرے اور اسلام کی ترقی کے لیے کام کرنے کی خاطر ہمیں استقلال سے نوازے.آمین.
تاریخ احمدیت.جلد 23 440 سال 1965ء ہالینڈ کے کیتھولک چرچ کے زیر انتظام اکتوبر ۱۹۶۵ء کے آخری ہفتہ میں ایک بین المذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا.یہ کانفرنس ہالینڈ کے ایک مشہور شہر آرنیم (ARNHEM) میں ہوئی اور اس میں اسلام عیسائیت ، بدھ ازم، ہندومت، صوفی مودومنٹ ، ویجیر مین (VEGETARIAN) اور ہیومنسٹ (HUMANIST) (انسانی فطرت اور زندگی کا مطالعہ کر نیوالا ) خیالات کے نمائندوں نے حصہ لیا.ہر مکتبہ فکر کی طرف سے دو نمائندگان لئے گئے ان میں سے ایک کے ذمہ اپنے مذہب پر تقریر کرنا تھی اور دوسرے کو اس لیکچر پر پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دینا تھا.کا نفرنس میں اسلام کی نمائندگی حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج ہالینڈ مشن نے کی.اور خدا کے فضل سے اسلام کی شوکت و عظمت کی دھاک بٹھا دی.اس کا نفرنس کی تفصیل مولوی عبدالحکیم اکمل صاحب مبلغ ہالینڈ تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:.تقریر کے لئے وقت ایک گھنٹہ رکھا گیا تھا.چنانچہ اس وقت میں نہ صرف یہ کہ اسلام کے مثبت پہلوؤں پر اچھی طرح روشنی ڈالی گئی.بلکہ ہر طرح کے ان غلط خیالات کی بھی تردید کی گئی جو غیر مسلم علماء کی طرف سے اسلام کے متعلق ظاہر کئے جاتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے ان اعتراضات کا جواب بھی دیا گیا جو آپ کی ذات بابرکات پر بعض عاقبت نا اندیش غیر مسلموں نے کئے ہیں اور پھر قرآن پاک اور بائیبل کا مقابلہ کرتے ہوئے اس فرق کو واضح کیا گیا.جوان دونوں کتب میں پایا جاتا ہے یعنی قرآن کریم خدا تعالیٰ کا لفظی الہام ہے اور بائیبل نیک لوگوں کے خیالات اور بعض روایات کا مجموعہ ہے اور وہ بھی آئے دن تبدیل ہوتا رہتا ہے اس طرح قرآن پاک کا مقام امتیازی رنگ میں لوگوں کے سامنے آگیا اور یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر یقین کے ساتھ کسی کتاب پر مذہب کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے تو وہ صرف قرآن مجید ہی ہے.نیز قرآن کریم نے جملہ صداقتوں پر ایمان لانے کے لئے جس رواداری کا ہاتھ صدیوں پہلے سے بڑھایا ہوا ہے کہ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ (آل عمران: ۶۵) اسے تحدی کے ساتھ پیش کیا گیا جسے حاضرین نے گہری دلچسپی سے سنا.تقریر کے اختتام پر وقفہ سوالات تھا.صدر صاحب حاضرین کو سوالات کے لئے کہہ رہے تھے اور لوگ تھے کہ مبہوت ہوئے بیٹھے تھے کسی کو کوئی سوال کرنے کی ہمت نہ ہوئی تھی.ڈچ احمدی ( محمود نعیم
تاریخ احمدیت.جلد 23 441 سال 1965ء الاسلام.سونیا ز مرمان ) جو سٹیج پر بیٹھے تھے کہنا پڑا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تقریر اس قدر واضح اور مدلل تھی کہ کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا.اس پر چند ایک معمولی قسم کے سوالات کیے گئے جن کا جواب دیا گیا.منتظمین کا نفرنس نے نہایت ہوشیاری کے ساتھ اسلام کے لئے وقت سب سے پہلے رکھا تھا تا کہ بعد میں آنے والے مقررین اسلام کی بیان شدہ خوبیوں کے اثر کولوگوں کے اذہان اور قلوب سے اچھی طرح دھو ڈالیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ چراغ منہ کی پھونکوں سے کب سمجھنے والا تھا.چنانچہ لوگوں پر اس کا بالکل الٹا اثر ہوا.کیونکہ جب جلسہ کے شروع میں اسلام کی تعلیمات حسنہ سے لوگوں کو متعارف کرا دیا گیا تو اس کے بعد کوئی ایسی خوبی دوسرے خیالات میں باقی نہ رہی.جسے اسلام نے پیش نہ کیا ہو اور اس طرح بعد میں ہونے والی جملہ تقاریر کا رنگ نہایت پھیکا پڑ گیا.بعد میں آنے والے مقررین کم و بیش یکساں باتوں کو دہراتے رہے جس سے حاضرین پر اسلام کی خوبی اور اچھی طرح اجاگر ہوگئی اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ خدمت اسلام کا اچھی طرح سے تعارف ہوا.اسی بات کا اثر تھا کہ آخر پر عیسائی مقرر نے بجائے اپنے مذہب کی تعلیمات پر تقریر کرنے کے لطائف وغیرہ کے درمیان دو ایک باتیں کہہ کر اپنا وقت گزار دیا.پروگرام کے درمیان جب نصف وقت ہوا تو لوگ بک سٹال کی طرف آنے لگے اور ہماری چند ایک کتب جو تعارف کے لئے رکھی ہوئی تھیں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو گئیں اور بعض نے قیمت ادا کرتے ہوئے بذریعہ ڈاک کتب بھیجوانے کی درخواست کی.بعض نے جماعت ہالینڈ کے ترجمان رسالہ الاسلام" کی خریداری بھی قبول کی.اس دوران میں احمدی مبلغین کے گرد لوگ حلقہ بنا کر کھڑے ہو گئے عیسائی پادری کا روباری لوگ طلبہ ہر قسم کے لوگ اسلام کے متعلق دلچسپی سے گفتگو کرتے رہے.احمدی مبلغین اور دیگر ڈچ احمدی احباب نے اس وقت کو خوب تبلیغ میں صرف کیا اور ہر سوال کا مدلل جواب دیا.جس سے بفضلہ تعالیٰ اچھا اثر قائم ہوا.گفتگو کے دوران مسئلہ کشمیر کے متعلق بھی بہت سے سوالات کئے گئے جن کا بفضلہ تعالیٰ تفصیلی جواب دیا گیا اور لوگوں پر اس مسئلہ کی حقیقت کو واضح کیا گیا نیز ہندوستان کے پاکستان پر حملہ کے ہر پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی.گفتگو کے دوران بعض بہائی خیالات کے لوگوں سے بھی ملنے کا موقع ملا جو اپنالٹریچر بھی ساتھ رکھتے تھے انہوں نے بھی یہاں پر اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں.اس کانفرنس کے چند روز بعد ہی اللہ تعالیٰ نے وہاں کی ایک سعید روح کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کی توفیق بخشی فالحمد للہ علی ذالک
تاریخ احمدیت.جلد 23 آمد 442 مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی سال 1965ء اس سال مندرجہ ذیل مبلغین سلسلہ بیرونی ممالک میں کئی سال تک فریضہ اعلائے کلمۃ اللہ بجالانے کے بعد مرکز میں واپس تشریف لائے.ལ་ ལྟ་ ا.مکرم مولوی عبدالحمید صاحب (۱۸ فروری از غانا ) مکرم صوفی محمد اسحق صاحب (۶) مئی از کینیا ) مکرم جمیل الرحمن صاحب رفیق (۱۰ جون از تنزانیه ) مکرم سید مسعود احمد صاحب (۱۰ جون از ڈنمارک) مکرم مولوی صالح محمد صاحب (جون از غانا ) مکرم عبدالمالک صاحب طالبعلم ( ۵ ستمبر از غانا ) مکرم عبدالکریم صاحب شرما (۵ ستمبر از یوگنڈا ) مکرم قاضی نعیم الدین صاحب (۱۱/اکتوبر از کینیا ) مکرم سید محمد ہاشم صاحب بخاری (۲۴ نومبر از سیرالیون).ے._^ روانگی و.اس سال جو مبلغین احمدیت بغرض اعلائے کلمتہ اللہ بیرون پاکستان تشریف لے گئے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:.ا.۲.སྐ་ ے.مکرم مولوی محمد منور صاحب (۳ جنوری برائے ٹانگانیکا) مکرم چوہدری ناصر احمد صاحب ( ۴ مارچ برائے سیرالیون ) (۲۸ مارچ برائے ڈنمارک) مکرم کمال یوسف صاحب مکرم ملک احسان اللہ صاحب ( ۲۸ مارچ برائے تنزانیہ ) مکرم ڈاکٹر نذیر احمد صاحب (برائے سیرالیون) مکرم صوفی محمد الحق صاحب (۱۲ جولائی برائے کینیا ) مکرم عبدالرشید رازی صاحب (۱۲ را گست برائے تنزانیہ) 47
تاریخ احمدیت.جلد 23 443 سال 1965ء نئی مطبوعات ۱۹۶۵ء میں درج ذیل کتب شائع ہوئیں.۲..۴.مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تحریروں کی رو سے مرتبہ سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ ) در نشین (انگریزی) PRECIOUS PEARLS ( مترجم صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب) اس میں درمین کے ۳۵۰ - اشعار کا انگریزی نظم میں ترجمہ کیا گیا ہے.ورزش کے زینے (صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب) اصحاب احمد جلد دواز دہم سیرت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ملک صلاح الدین صاحب ایم.اے) ( حضرت سیدہ ام متین صاحبہ ) تحریک احمدیت اور اس کے نقاد (مولا نا دوست محمد شاہد صاحب) ۵.اسلام میں پردہ کی اہمیت.ے.سیرت حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم (مولانا ابوالعطاء صاحب) _^ و.ا.-11 زندہ مذہب خواجہ محمد اسمعیل صاحب کی نبوت کے خلاف اہم شہادات شان حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( قاضی محمد اسلم صاحب) (مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) ( مولانا قاضی محمد نذیر صاحب) عقائد احمدیت اور ان پر اعتراضات کے جوابات (مولانا شیخ مبارک احمد صاحب) صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ( مولانا جلال الدین صاحب شمس) ۱۳.حقیقی عید اور حقیقی قربانی ۱۴.بشارات ربانیہ ۱۵.اسلام میں نبوت کا تصور ( مولانا جلال الدین صاحب شمس) ( مولانا جلال الدین صاحب شمس) (صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب)
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۶.طفلِ امروز قائد فردا 444 سال 1965ء ( مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر ) ۱۷.اصحاب احمد جلد پنجم حصہ سوم.سیرۃ سرور ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) -IA مکتوبات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے) ۱۹.گورو نانک جی کا گورو! گیانی عباداللہ صاحب) ۲۰.نبیوں کا چاند (فضل الرحمان نعیم صاحب) ۲۱.OUR FOREIGN MISSIONS ۲۲.مبادیات زبان کیمیا ( ترجمه تقریر محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب) (سید امین احمد صاحب بی ایس سی)
تاریخ احمدیت.جلد 23 445 1 الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۵ء 2 ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۱ تا ۱۳۱ حوالہ جات (صفحہ 421 تا444) سال 1965ء 3 4 5 CO 6 7 8 9 الفضل ۲۵،۲۳ فروری ۱۹۶۵ء الفضل ۱۰، ۱۶ را کتوبر ۱۹۶۵ء الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۵ء صفحه ۶ الفضل ۲۸ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ الفضل ۴ فروری ۱۹۶۵ صفحه ا الفضل المارچ ۱۹۶۵ ، صفحہ ۸ 10 الفضل ۱۲ مئی ۱۹۶۵ء 11 الفضل ۱۲مئی ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 12 الفضل الدسمبر ۱۹۶۵ء صفحہ ۶ 13 الفضل ۱۴دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 14 الفضل ۱۶ دسمبر ۱۹۶۵ء صفحه ۸ 15 الفضل یکم جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۵ 16 بدر قادیان ۱۹۶۵ ء صفحه ا 17 الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۱ 18 الفضل سے فروری ۱۹۶۵ ، صفحہ ۶ 19 تذکرۃ الشہادتین“.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحہ ۶۷-۶۸ 20 بحوالہ بدر قادیان ۱۸ فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۹-۱۲ 21 الفضل 9 فروری ۱۹۶۵ء صفحه ۸ ۹ 22 پمفلٹ روئداد مناظرہ ڈاور مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ مرتبہ مہر محمد حیات یکے از بانیان مناظرہ اشاعت یکم جون ۱۹۶۶ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 23 الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۶۵ء را 446 24 الفضل ۷ ۱۲ اپریل ۱۹۶۵، صفحہ ۵ رپورٹ سید احمدعلی شاہ صاحب مربی سلسلہ احمد یہ سیالکوٹ 25 الفضل ۴ مئی ۱۹۶۵ ، صفحه ۵ 26 الفضل هم مئی ۱۹۶۵ صفحه ۸ 27 الفضل ربوه ۴ جولائی ۱۹۶۵ صفحه ۸ 28 کراچی تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۸۵۴٬۸۵۳ 29 الفضل ۱۴۰۱۲ را کتوبر ۱۹۶۵ء 30 الفضل ۲۱ ،۲۳ ۲۴ ستمبر ۱۹۶۵ء 31 الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۶ ، صفحریم 32 الفضل ۳۰ اپریل ۱۹۶۶ صفحه ۳ 33 الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۳ 34 چند خوشگوار یادیں از مولانا بشیر احمد رفیق صاحب صفحه ۱۷۳ 35 الفضل ۸/اگست ۱۹۶۵ء 36 الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۶ ء صفحه ۳-۴ 37 الفضل ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ ، صفحه ۵ 38 ماہنامہ تحریک جدید ر بوه مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۱۱،۱۰ 39 الفضل ۱۳:۱۲ جون ۱۹۶۵ء 40 الفضل و ستمبر ۱۹۶۵، صفحه ۵ 41 الفضل ۲۳:۲۰ فروری ۱۹۶۵ء 42 الفضل ۲۷، ۲۸ فروری ۱۹۶۵ء 43 الفضل ۲۷، ۲۸ فروری ۱۹۶۵ء.۴۲ مئی ۱۹۶۵ء 44 | فضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۶، صفحهیم 45 ماہنامہ تحریک جدیدر بوه نومبر ۱۹۶۵ صفحه ۴ 46 روزنامه الفضل ربوه ۱۳ جنوری ۱۹۶۶، صفحه ۵ 47 ریکارڈ وکالت تبشیر 48 الفضل ۱۵ جنوری ۱۹۶۵ صفحه ۷ سال 1965ء
تاریخ احمدیت.جلد23 447 سال 1966ء صلح تا فتح ۱۳۴۵هش/ جنوری تا دسمبر ۱۹۶۶ء ربوہ میں نماز استسقاء حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی منظوری سے مورخہ 4 جنوری ۱۹۶۶ء کور بوہ میں نماز استسقاء ادا کی گئی.یہ نماز دفاتر صدر انجمن احمدیہ سے ملحقہ کھلے میدان میں حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھائی جس میں ربوہ کے مقامی احباب ہزاروں کی تعداد میں شریک ہوئے.نماز سے قبل آپ نے سنت نبوی کے مطابق پہلے قبلہ رخ کھڑے ہو کر اجتماعی دعا کرائی اور دعا سے فارغ ہونے کے بعد دو نفل نماز با جماعت پڑھائی.کسر صلیب کا ایک اور ثبوت مصر اور سوڈان کی ملتی ہوئی سرحدوں سے دعاؤں کی ایک کتاب (HYMN BOOK) اور حضرت مسیح ناصری کی اپنے حواریوں سے گفتگو کا ایک ٹکڑا ملا جسے امریکہ کے رسالہ ”ٹائم“ نے اپنی سات جنوری ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں نقل کیا.پہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب سے زندہ اتارے گئے تھے اور ” قبر میں سے باہر نکل آنے کے بعد وہ اپنے حواریوں سے ملے اور انہوں نے صلیب سے متعلق گفتگو کی.لکھا ہے کہ حضرت مسیح سے ایک معمہ حل کرنے کے لئے کہا گیا.حضرت مسیح نے فرمایا اے مرے منتخب پطرس اور وہ جو مرے وارث ہونے والے ہو.میں نے آج تک تم سے کوئی بات چھپا کر نہیں رکھی.ہر بات جو تم نے پوچھی میں نے تمہیں بتادی.اب بھی میں تم سے کوئی بات چھپا کر نہ رکھوں گا.اس پر پطرس نے حضرت مسیح علیہ السلام سے عرض کی کہ آپ ہمیں صلیب کا معمہ سمجھائیں اور یہ کہ آپ قیامت کے روز صلیب کو اٹھاتے ہوئے کیوں آئیں گے.اس کے جواب میں مسیح نے فرمایا.اے میرے منتخب پطرس اور اے میرے بھائیو! آپ کو معلوم ہی ہے کہ جب میں صلیب پر تھا تو کیسے کیسے جھوٹ مجھ پر باندھے گئے اور مجھ پر تھوکا گیا.اور تحقیر آمیز با تیں مرے خلاف کی گئیں.یہی وجہ ہے کہ (قیامت کے روز میں صلیب ہوئے آؤں گا تاکہ میں ان کو شرمندہ کر سکوں اور ان کا گناہ ان کے سر تھوپوں“.
تاریخ احمدیت.جلد 23 448 سال 1966ء یہود کو شرمندہ کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری صلیب سے زندہ اتر آئے ہوں.ورنہ اگر حضرت مسیح صلیب پر وفات پاگئے تھے (بقول عیسائی حضرات ) تو اس صورت میں تو یہود اپنے عقیدہ میں حق بجانب ٹھہریں گے.الغرض یہ نئے کاغذات بھی جو دستیاب ہوئے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موقف کی تائید کرتے ہیں.زرعی کمیٹی کا قیام سیدنا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے عنان خلافت سنبھالنے کے بعد نگران بورڈ ختم کرتے ہوئے بعض کمیٹیاں بنانے کے امکان کا اظہار فرمایا تھا چنانچہ اس سلسلے میں حضور نے جنوری ۱۹۶۶ء میں حسب ذیل زرعی کمیٹی مقرر فرمائی.اور یہ ارشاد فرمایا کہ یہ کمیٹی زرعی ترقی کے ذرائع پر غور کرتی رہے گی اور ان پر عمل کرانے میں کوشاں رہے گی.ا.ناظر صاحب زراعت ۲.٣.۴..(صدر) وکیل الزراعت صاحب تحریک جدید (سیکرٹری).چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ ضلع شیخوپورہ (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب چوہدری عنایت اللہ صاحب سرگودھا چوہدری فضل الرحمن صاحب حافظ آباد چوہدری نذیر احمد صاحب مالتان حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا معلمین وقف جدید سے خطاب وقف جدید انجمن احمدیہ کی طرف سے مورخہ ۲۰ جنوری ۱۹۶۶ءکو معلمین کی پہلی با قاعدہ تربیتی کلاس کے اختتام پر ایک تقریب کا اپنے مرکزی دفتر میں انعقاد ہوا.جس میں حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے بھی شرکت فرمائی.سب سے پہلے حضور نے فارغ التحصیل طلباء کی جو رضا کاروں کی وردیوں میں ملبوس تھے ، سلامی لی.اس کے بعد کلاس کے آخری امتحان میں اول اور دوم آنے والے معلمین کو اپنے دست مبارک سے انعامات دئے.اس کے بعد حضور نے معلمین کو شہریت کے حقوق و فرائض کی طرف لوگوں کو توجہ دلانے کے متعلق فرمایا:
تاریخ احمدیت.جلد 23 449 سال 1966ء ایک انسان پر اس کی زندگی میں خدا تعالیٰ نے جو فرائض عائد کیے ہیں ان میں سے ایک اہم فرض ان حقوق کی ادائیگی بھی ہے.جو ایک انسان پر اس کے انسان ہونے کی حیثیت سے یا کسی ملک کے رہنے والوں اور اس کے باشندوں سے تعلق رکھنے کی وجہ سے عائد ہوتے ہیں.ہماری قوم ایک لمبے عرصہ تک غیروں کی غلامی میں رہی ہے.اس لئے دوسرے آزاد ممالک کی نسبت اسے اس بات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ ہم اسے شہریت کے حقوق اور فرائض کی طرف متوجہ کرتے رہیں.“ وطن کے لحاظ سے جو ذمہ داریاں ہر احمدی پر عائد ہوتی ہیں ان کے متعلق فرمایا : ”ایسے ممالک اور قو میں جو بیدار ہیں وہ ہنگامی صورت حالات پیش آنے پر اس کے مقابلہ کے لیے تیار ہو جاتی ہیں.لیکن ہمارے ملک میں اس قسم کی ذہنیت نہیں پائی جاتی.حالانکہ غیر مسلم ممالک کی نسبت ہمارے ملک میں یہ ذہنیت زیادہ پائی جانی چاہیے.کیونکہ اسلام نے اس کی نہ صرف ہمیں تعلیم دی ہے بلکہ اس نے اس پر خاص زور دیا ہے اور اس کی ہمیں یہاں تک ہدایت کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا حب الوطن من الايمان یعنی وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے.اور تمہارا مذہبی فرض ہے کہ تم ان حقوق کو نظر انداز نہ کرو جو وطن کی طرف سے تم پر عائد ہوتے ہیں.اپنے شہری، سیاسی اور تمدنی حقوق کے حصول کے متعلق فرمایا: اسلام نے اپنے متبعین کے دماغوں میں اپنی کامل تعلیم کے نتیجہ میں اتنی روشنی پیدا کر دی ہے کہ ہم اپنے شہری تمدنی اور سیاسی حقوق کو ہنگاموں فتنوں اور دنگا فساد کے بغیر حاصل کر سکتے ہیں.ہمیں ہمارے جائز حقوق بہر حال ملنے چاہئیں.لیکن ان کے حصول کا جو طریق اختیار کیا جائے وہ امن والا ہو فساد پیدا کرنے والا نہ ہو.ہمیں ان حقوق کے حصول کے سلسلہ میں ان طریقوں سے بہر حال اجتناب کرنا چاہئے.تعلیم القرآن پر زور دیتے ہوئے فرمایا: تربیت کے لحاظ سے پہلی چیز جو نہایت اہم ہے قرآن کریم کا ناظرہ طور پر
تاریخ احمدیت.جلد 23 450 سال 1966ء سیکھنا ہے اور پھر اس کا ترجمہ جاننا ہے.یہ بات ہماری جماعت کے لئے بنیاد کے طور پر ہے.قرآن کریم ہماری روح کی غذا ہے اس کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے.قرآن کریم ہمارا محبوب ہے ہمیں اس کتاب سے شدید محبت ہے کیونکہ یہ نہایت ہی خوبصورت حسین اور عمدہ تعلیم کی حامل ہے.“ نیز فرمایا: تربیت کے میدان میں آپ کے سپر داہم اور ضروری کام یہ ہے کہ آپ اپنے حلقہ کا جائزہ لیں اور جس حلقہ میں بھی جائیں وہاں معلوم کریں کہ جماعت کے کون کون سے اور پھر کتنے بچے قرآن کریم ناظرہ نہیں جانتے.پھر کوشش کریں کہ ان سب کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا انتظام ہو جائے.آپ میں سے بہتوں کے لئے تو یہ ممکن نہیں ہوگا کہ ان سب کو خود قرآن کریم ناظرہ پڑھائیں لیکن آپ میں سے ہر ایک کے لئے یہ یقینا ممکن ہے کہ جماعت کی ان عورتوں اور مردوں کی جو قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں یہ ڈیوٹی لگائیں کہ وہ کچھ بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھا دیں.“ آخر میں دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: پھر ہر کام میں برکت دعا کے نتیجہ میں پڑتی ہے.ہم احمدیوں کو تو اللہ تعالیٰ نے دعا پر زور دے دے کر اس کی اتنی عادت ڈال دی ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ کسی حقیقی احمدی کو اس وقت تک صبر نہیں آتا جب تک کہ اس کے ہر لقمہ اور ہر گھونٹ پانی کے ساتھ جو وہ بیٹے اس کے اندر دعائیہ کلمات نہ جائیں.دعا اس کے خون کا ایک حصہ بن چکی ہے.دعا اس کے معدہ میں اس کی غذا کا ایک حصہ بن چکی ہے.دعا اس کی ہڈیوں میں رچ چکی ہے.اور اس کے گوشت پوست کا ایک حصہ بن چکی ہے.فرض ہمارا جو کام بھی ہے اس میں دعا کا بڑا حصہ ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا درس قرآن اور اجتماعی دعا مسجد مبارک ربوہ میں یکم رمضان المبارک سے قرآن کریم کے درس کا ایک سلسلہ جاری ہوا تھا جو ۲۹ رمضان المبارک بمطابق ۲۲ جنوری ۱۹۶۶ء کی نماز مغرب سے قبل مکمل ہو گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 451 سال 1966ء مورخہ ۲۹ رمضان المبارک کو نماز عصر سے قبل محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کے حصہ درس کے مکمل ہونے کے بعد حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے چار بجے مسجد مبارک میں تشریف لا کر پہلے عصر کی نماز پڑھائی اور پھر قرآن کریم کی آخری تین سورتوں کا درس دیا.بعد ازاں حضور انور نے پُر سوز اجتماعی دعا کرائی جس میں حاضر الوقت ہزاروں احباب شریک ہوئے.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلبہ سے خطاب ۲۷ جنوری ۱۹۶۶ ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج بین الاقوامی عدالت (جوان دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے تھے ) نے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی ایک مجلس سوال وجواب سے خطاب فرمایا اور طلباء اور مہران سٹاف کو بیش قیمت نصائح کرتے ہوئے اُن رہنما اصولوں پر روشنی ڈالی.جنہیں سوال پوچھتے وقت ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے.چنانچہ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں.ان میں سے ایک بہت بڑی نعمت قوت فکر بھی ہے.یعنی مختلف امور اور پیش آنے والے واقعات کے بارہ میں سوچنا اور غور کر کے نتائج اخذ کرنا.سوال و جواب کے وقت بھی یہ قوت ہمہ وقت کارفرمارہ کر نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے.سوکسی امر کے متعلق سوال پوچھنے میں بھی قوت فکر سے کام لینا چاہیے.سوال ایسا ہونا چاہیئے جو بامعنی اور با مقصد ہو.اور اپنے اندر کوئی ابہام نہ رکھتا ہو.سوال اس طور پر اور ایسے الفاظ میں پوچھنا چاہئے کہ جواب دینے والے پر استفسار پورے طور پر واضح ہو جائے.اس امر کو ایک مثال سے واضح کرتے ہوئے محترم چوہدری صاحب نے فرمایا سوال پوچھنا بھی ایک رنگ میں مچھلی پکڑنا ہوتا ہے.ظاہر ہے ہر شخص اس وقت تک مچھلی نہیں پکڑ سکتا جب تک وہ مچھلی پکڑنے کے طریق اور اس کی احتیاطوں سے واقف نہ ہو.پس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سوال پوچھنے کے طریق اور اسکی احتیاطوں کو مد نظر رکھا جائے.آپ نے فرمایا محض سوال کرنے کی غرض سے سوال نہیں کرنا چاہئے بلکہ جب بھی ذہن میں کوئی سوال آئے قوت فکر سے کام لیتے ہوئے پہلے خود اس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور اگر اس غور و فکر کے نتیجہ میں خود جواب معلوم ہو جائے تو پھر خواہ مخواہ سوال نہیں پوچھنا چاہیئے.آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 452 سال 1966ء نے فرمایا کہ اگر آپ لوگ اس طرح غور و فکر کی عادت ڈالیں گے تو آپ کو بہت فائدہ پہنچے گا.اس سے آپ کے ذہن کو جلاء نصیب ہوگی اور نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ترقی کرے گی.یہ طریق نا مناسب ہوتا ہے کہ آدمی سوال کرنے کی نیت سے کمرے میں داخل ہو.اور جو سوال وہ سوچ کر آیا ہو.خواہ کسی اور سوال کے ضمن میں اس کے اپنے سوال کا جواب آ بھی پچکا ہو.پھر بھی وہ کھڑے ہو کر اپنا سوال دُہرانے سے باز نہ آئے پھر ایک ضروری بات یہ ہے کہ جواب کو پوری توجہ اور غور سے سننا چاہیے.بعض اوقات بات کو توجہ سے نہ سننے کے نتیجہ میں انسان یہی سمجھتا ہے کہ سوال کا جواب نہیں ملا.حالانکہ قصور اسکی اپنی عدم توجہی کا ہوتا ہے.پھر سوال کرنے والے اور جواب دینے والے دونوں کو اپنی عقل سمجھ او علم پر ناز نہیں کرنا چاہئے.دونوں ہی کو اپنے محدود علم کا احساس ہو تو پھر سوال و جواب کا سلسلہ صحیح خطوط پر چل کر نتیجہ خیز ہو سکتا ہے.جو بھی اپنی عقل کو آسمان پر چڑھانا شروع کر دیتا ہے وہ اپنی بے عقلی کا ثبوت مہیا کرتا ہے.ان اہم ارشادات کے بعد آپ نے حاضرین کو استفسار کرنے کی اجازت دی.چنانچہ طلباء اور ممبران سٹاف نے باری باری سوال پیش کئے اور آپ نے ان کے جواب دیئے.سوال و جواب کا یہ سلسلہ نصف گھنٹہ سے زائد عرصہ تک جاری رہا.سوالات زیادہ تر اعلان تاشقند اور اس کے مضمرات کے بارہ میں تھے.الرسالہ (جرمنی) میں جماعت احمدیہ کی خدمات کا تذکرہ حکومت مغربی جرمنی کے عربی ہفت روزہ الرسالہ نے اپنی ۴ فروری ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں الاسلام و المساجد في ألمانيا“ کے عنوان سے ایک مفصل مضمون شائع کیا.جس میں جماعت احمدیہ کے ذریعہ یورپ میں کامیاب تبلیغی جہاد کا تذکرہ شاندار الفاظ میں کیا گیا.چنانچہ لکھا: ترجمہ: اس موقعہ کی مناسبت سے یہاں پر ایک اہم اور حیرت انگیز حقیقت کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہوگا کہ جرمنی اور یورپ کی دیگر مغربی ریاستوں میں اسلام کی تبلیغ اور اسلامی امور کی سرانجام دہی کے لئے چُستی اور بیداری صرف اور صرف جماعت احمد یہ ہی تک محدود ہے صرف احمدی ہی ہیں جو اسلام کی دعوۃ وتبلیغ اور اسلام کی خاطر کام کرنے میں یگانہ ہیں.اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ عام تقلیدی اسلام کے سنی اور شیعہ فرقے یورپ میں تبلیغ کے میدان سے کوسوں دُور ہیں.اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہمارے لئے حیرت انگیز اور تعجب خیز ہے.اسی طرح دوسری جنگ
تاریخ احمدیت.جلد 23 453 سال 1966ء عظیم کے بعد جماعت احمدیہ ہی وہ پہلی جماعت ہے جس نے قرآن کریم کو بیک وقت عربی اور جرمنی زبان میں شائع کرنی کا بیڑا اٹھایا.اسکی چھپائی میں قرآن مجید کی اصل عربی عبارت بھی شامل ہے جسکے بالمقابل جرمن ترجمہ پایا جاتا ہے اس ترجمہ کی طباعت کے فرائض جمہوریہ جرمنی کے مشرقی کتب کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے نے سرانجام دیئے ہیں.“ اس کے بعد مغربی جرمنی میں جماعت احمدیہ کی مساجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے کہ: ہیمبرگ میں دونئی مساجد تعمیر کی گئیں جن میں سے ایک آج تک مغربی جرمنی کی موجودہ تمام مساجد میں سب سے بڑی مسجد شمار کی جاتی ہے.پھر اس کے بعد ایک اور مسجد شہر فرانکفرٹ میں تعمیر کی گئی جس کا افتتاح عالمی عدالت کے نائب صدر جناب سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے کیا.ممبران مجلس افتاء کی منظوری سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے 9 فروری ۱۹۶۶ء کو اپنے دور خلافت کی پہلی مجلس افتاء کے درج ذیل ممبران کی منظوری عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ:.آئندہ کے لئے تا فیصلہ ثانی مجلس افتاء کے مندرجہ ذیل اراکین ہوں گے.ا.قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ۳.مرزا مبارک احمد صاحب ۵.قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری ے.مولوی محمد احمد صاحب جلیل ۹.سید میر داؤ د احمد صاحب 11.مولوی تاج الدین صاحب ۱۳.مولوی محمد صدیق صاحب ۱۵.مولوی غلام باری صاحب سیف ۱۷.مولوی محمد احمد صاحب ثاقب ۱۹.شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ ۲.مولوی جلال الدین صاحب شمس ۴.مولوی ابوالعطاء صاحب ۶.ملک سیف الرحمن صاحب ۸.شیخ مبارک احمد صاحب ۱۰.مرزار فیع احمد صاحب ۱۲.مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب ۱۴.مولوی نذیر احمد صاحب مبشر ۱.مرزا طاہر احمد صاحب ۱۸.مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ ۲۰.شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ ۲۱.مولوی عبداللطیف صاحب بہاولپوری ۲۲.سید میر محمود احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 454 سال 1966ء -۲۶ - شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور ۲۳.صوفی بشارت الرحمن صاحب ایم.اے ۲۴.مولوی محمد صادق صاحب ۲۵.ملک مبارک احمد صاحب ۲۷.مولوی محمد یا ر صاحب عارف سرگودھا ۲۸.ڈاکٹر اعجاز الحق صاحب لاہور ان کے علاوہ مندرجہ ذیل اس مجلس کے اعزازی رکن ہوں گے.ا چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب - چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ ۲.ڈاکٹر عبدالسلام صاحب لندن اس مجلس کے صدر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے ، نائب صدر شیخ بشیر احمد صاحب اور مرزا عبدالحق صاحب اور سیکرٹری ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ ہوں گے.اس کے علاوہ مجلس کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ دوسرے ممالک کے صاحب علم احمدیوں کو مجلس کا اعزازی ممبر بنانے کیلئے میرے پاس سفارش کرے.مرز انا صراحمد خلیفة اصبح الثالث ۹/۲/۶۶ بیوگان کی شادی کی تحریک ۲۶ فروری ۱۹۲۶ء کوسید نا حضرت خلیفہ المسح الثالث نے مولا نا شیخ مبارک احمد صاحب فاضل سابق رئيس التبليغ مشرقی افریقہ کے نکاح ثانی کا اعلان کرتے ہوئے نظارت اصلاح وارشاد کو ہدایت فرمائی: اگر جماعت کی کوئی عورت بیوہ ہو جائے.چاہے اسکی عمر چھوٹی ہو یا وہ ادھیڑ عمر کی ہو.تو اسکی دوبارہ شادی کروانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی بڑی تاکید فرمائی ہے.کہ اسلام کے اس حکم کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم بیوہ کی شادی کی طرف متوجہ رہیں اور نہ صرف اس کا خیال ہی رکھیں.بلکہ اس کا انتظام بھی کریں.مسجد اقبال کا افتتاح 10 محلہ دار النصر ربوہ میں حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری کی مساعی اور ملک والا بیت خانصاحب کی نگرانی میں ایک شاندار مسجد ۱۹۶۶ء کے آغاز میں پایہ تکمیل تک پہنچی.حضرت خلیفہ اسیح
تاریخ احمدیت.جلد 23 455 سال 1966ء الثالث نے حضرت مولوی صاحب کے خواب کی بناء پر ( جس میں انہیں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا نام محمد اقبال بتایا گیا تھا ) خدا کے اس گھر کا نام مسجد اقبال رکھا.اس مسجد کی تعمیر ۱۹۶۲ء میں شروع ہوئی تھی.اس کے سنگ بنیاد کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں درخواست کی گئی لیکن حضور نے اپنی بیماری کی وجہ سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو سنگِ بنیا در کھنے کے لئے مقرر فرمایا تھا.اس مسجد کا کل رقبہ انداز اپندرہ مرلے سے زائد ہے اور اس کا ہال توسیع سے پہلے ۴۱ × ۱۲ فٹ کا تھا.لیکن توسیع کے بعد ۴ ۲۰x ہو گیا.اور برآمدہ ۴۱ × ۸ فٹ کا ہے.صحن تقریباً اڑھائی مرلے میں ہے.سنگ بنیاد کے موقع پر موجودہ ۷، ۱۸۰ افراد جن میں انصار، خدام اور اطفال شامل تھے.سب نے وقار عمل میں حصہ لیا.حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب نے مرکز کی اجازت سے سندھ ، کراچی اور کوئٹہ وغیرہ سے تقریباً دس ہزار روپے کا عطیہ جمع کیا.اس کے علاوہ اہل محلہ اور مخیر احباب جماعت نے حسب توفیق اس کارخیر میں حصہ لیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا ساہیوال میں ورود فروری ۱۹۶۶ء میں مکرم و محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج عالمی عدالت جماعت احمد یہ ساہیوال کی گذارش پر ساہیوال تشریف لائے.اس دورے کا حال بیان کرتے ہوئے مکرم ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب ساہیوال رقمطراز ہیں کہ محترم مکرم چوہدری صاحب ۴ فروری بروز جمعہ بذریعہ خیبر میل ٹرین ساہیوال آئے.چوہدری صاحب کی آمد کا چونکہ کافی چرچا ہو گیا تھا، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر محترم مصطفیٰ زیدی صاحب کو جب علم ہوا کہ محترم چوہدری صاحب بذریعہ ریل آرہے ہیں تو انہوں نے خاص طور پر ساہیوال کے ریلوے کے سٹیشن ماسٹر صاحب کو بذریعہ فون کہا کہ محترم چوہدری صاحب کو V.I.P گیٹ سے سٹیشن سے باہر لایا جاوے.اس پر سٹیشن ماسٹر صاحب نے جلدی میں ماشکیوں کو بھیجا کہ V.I.P گیٹ پر پانی کا چھڑکاؤ کر دیویں.وہاں پر پہلے ہی کافی مٹی وغیر تھی اور کیچڑ ہو گیا.جس کار پر محترم چوہدری صاحب نے سوار ہونا تھا اس کو پلیٹ فارم سے کچھ فاصلہ پر کھڑا ہونا تھا.محترم چوہدری صاحب سوار ہونے لگے تو لا محالہ ایک قدم اس کیچڑ والی مٹی پر رکھنا پڑا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 456 سال 1966ء چوہدری صاحب کار میں بیٹھ گئے تو خاکسار نے عرض کیا کہ یہ V.I.P ہونے کی وجہ سے ہے اور ساری تفصیل عرض کی محترم چوہدری صاحب نے اس V.I.P ہونے کی وجہ سے کیچڑ میں پاؤں رکھنے والے معاملہ کا بڑا لطف اٹھایا اور دیر تک مسکراتے رہے.سب سے پہلے محترم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب مکرم و محترم چوہدری محمد شریف صاحب کو (جوان دنوں بیمار تھے اور چھٹی پر تھے ) ملنے گئے.وہاں پر انہوں نے مشروبات وغیرہ سے تواضع فرمائی اور بعد میں چوہدری صاحب خاکسار کے مکان واقع B-928 فرید ٹاؤن ساہیوال تشریف لے آئے اور مکان کو رونق بخشی.ان کا قیام وہاں پر ہی رہا.اسی شام خاکسار کے مکان پر ان کا لیکچر تھا.موضوع تھا ”اسلام کا مستقبل محترم چوہدری صاحب نے فرمایا کہ یہ موضوع درست نہیں ہے.موضوع یہ ہونا چاہئے کہ ”ہمارا مستقبل“.اسلام کا مستقبل تو بڑا درخشاں ہے.محترم چوہدری صاحب نے ایک گھنٹہ میں منٹ تک تقریر فرمائی.حاضرین کی چائے کے ساتھ تواضع کی گئی.شروع میں ایک صد ا حباب کو دعوتی کارڈ چھپوا کر روانہ کئے گئے تھے.جوں جوں ساہیوال کے لوگوں کو علم ہوتا گیا کہ چوہدری صاحب تشریف لا رہے ہیں ، تو لوگ آ کر دعوت میں شامل ہونے کا تقاضا کرتے رہے.چنانچہ ہم سادہ کاغذوں پر ہی دعوت نامہ تحریر کر کے لوگوں کو دیتے رہے.چائے کا ٹھیکہ محترم صادق جوگی صاحب پروپراکٹر سٹیڈیم ہوٹل کو دیا گیا تھا.انہوں نے بعد میں بتایا کہ انہوں نے پورے تین صدا حباب کے لئے انتظام کیا تھا اور تقریباً اتنے ہی لوگ آگئے.مگر میں چارج صرف ۱۰۰ کا ہی کروں گا باقی اپنی گرہ سے دونگا.میں بھی چوہدری صاحب کا مداح ہوں.اسی شام محترم چوہدری صاحب نے روٹری کلب ساہیوال کی درخواست پر روٹری کلب میں تقریر فرمائی.اگلے روز ۹ بجے صبح Bar Council ساہیوال والوں کی درخواست پر ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں تقریر فرمائی.محترم ڈپٹی کمشنر صاحب نے بڑے عمدہ پیرائے میں محترم چوہدری صاحب کا تعارف کروایا.ان دنوں تاشقند کا معاملہ بڑا گرما گرم تھا.زیادہ تر سوال اسی کے متعلق کئے گئے.اسی روز گیارہ بجے کے قریب محترم چوہدری صاحب نے لجنہ اماءاللہ ساہیوال سے مسجد حمد اول ( اس سے مراد وہ مسجد ہے جو ۱۹۸۴ ء سے سیل چلی آرہی ہے) میں پردہ کے پیچھے سے خطاب فرمایا.واپسی اسی روز بذریعہ خیبر میل بعد دو پہر تھی.چونکہ چوہدری صاحب کی ساہیوال آمد کا بہت زیادہ چرچا ہو گیا تھا اس لئے چوہدری صاحب کو بذریعہ ٹرین بھیجنا مناسب نہ خیال کرتے ہوئے ان سے گذارش کی گئی کہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 457 سال 1966ء اگر واپسی کا سفر بذریعہ کا رسڑک سے بنالیا جائے تو کوئی اعتراض تو نہیں ہے.مکرم چوہدری صاحب نے فوری طور پر دریافت فرمایا کہ کار کو ڈرائیو کون کرے گا.کسی دوست نے خاکسار کا نام لیا تو فرمایا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے.ساہیوال میں بھی چونکہ ہر جگہ پر خاکسار ہی کار چلاتا رہا تھا اس لئے لاہور کے لئے بھی خاکسار نے ہی کار ڈرائیو کی.کچھ وقت اوکاڑہ کے وکلاء کی درخواست پر اوکاڑہ میں بھی ٹھہرے اور وکلاء سے تبادلہ خیال ہوتا رہا.رات 9 بجے کے قریب لاہور پہنچے.مکرم اکرام الحق جتالہ صاحب اور مکرم چوہدری عبدالوحید صاحب بھی ہمراہ تھے.سب کا خیال تھا کہ مکرم چوہدری صاحب کو گھر لاہور چھاؤنی پہنچا کر سب لوگ جلد واپس آجاویں گے مگر چوہدری صاحب نے کار سے اترتے ہی فرمایا کہ کھانا کھا کر جائیں اور اپنے باورچی کو حکم دیا کہ کھانا سب کے لئے لگانا ہے اور کچھ کھانا بڑی کوٹھی سے بھی لے آنا.مختلف قسم کی باتیں ہوتی رہیں حتی کے رات کے گیارہ بج گئے جب ہم لوگ فارغ ہوئے تو سیدھے کار میں بیٹھ کر ساہیوال روانہ ہو گئے اور اڑھائی بجے صبح کے قریب ساہیوال پہنچ گئے.ان دنوں سڑکوں پر زیادہ خطرات نہیں ہوتے تھے اور سفر محفوظ ہوتا تھا.سڑکوں پر ٹرانسپورٹ کا بھی اتنا زیادہ رش نہیں ہوتا تھا.اگر چہ سڑکیں اب کی نسبت کم چوڑی تھیں پھر بھی سفر سہولت سے ہوتا تھا.۵ فروری ۱۹۶۶ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے لجنہ اماء اللہ ساہیوال سے بھی ایک موقر خطاب فرمایا اس میں انہیں اپنی تربیتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ بچوں کی تربیت کی اصل ذمہ داری عورت پر ہے اور اس کا بہترین ذریعہ قرآن مجید ہے.اگر بچے گھروں سے مومن بن کے نکلیں گے تو خدا تعالیٰ اُن کو مومن ہی رکھے گا اگر آپ اُن کی تربیت نہیں کریں گی تو جانوروں میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں ہوگا اس سلسلہ میں آپ نے مزید فرمایا کہ: و مجھے اپنی آئندہ نسل کے متعلق بڑا خوف ہے بلکہ موجودہ نسل کے متعلق بھی.چاہئے کہ ہم پہلوں سے آگے بڑھیں کیونکہ تجربات سے فائدہ اٹھا کر آگے بڑھنا چاہیے یا کم از کم یہ کوشش کرنی چاہیے کہ آئیندہ نسل پہلی نسل کی طرح ہو جائے.مجھ پر میرے والدین کے بہت سے احسان تھے ایک خاص احسان یہ تھا کہ انہوں نے مجھے قرآن کریم پڑھایا ورنہ میں اجڑ رہ جاتا.میرے والد صاحب نے مجھے قرآن کریم پڑھانا شروع کیا تو مجھے آنکھوں کی بیماری ہوگئی.انٹرنس کے امتحان میں جب چھ ماہ رہتے تھے تو والد صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کتنا قرآن پڑھ چکے ہو میں نے کہا ساڑھے سات سپارے پڑھے ہیں والد صاحب نے کہا کہ میٹرک تک قرآن کریم کا ترجمہ ختم
تاریخ احمدیت.جلد 23 458 سال 1966ء کرلو.کیونکہ اس کے بعد وقت نہیں ملے گا اور میرا طریق یہ تھا کہ میں قرآن کریم سے ترجمہ دیکھ کر یاد کر لیا کرتا تھا اور والد صاحب کو سنا دیا کرتا تھا.اس سے مجھے یہ فائدہ ہوا کہ میں قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھنے کے قابل ہو گیا.پس بے شک ظاہری تعلیم حاصل کر ومگر یہ تعلیم ذرائع ہیں ان کو شرک مت بناؤ بلکہ اسلام کی تائید میں اس تعلیم کو لگا دو.مشرقی پاکستان کی احمد یہ جماعتوں کا کامیاب جلسہ سالانہ 13 جماعتہائے احمد یہ مشرقی پاکستان کا چھیالیسواں جلسہ سالانہ مورخہ ۱۳٬۱۲،۱۱ فروری ۱۹۶۶ء کو دار التبلیغ ڈھا کہ میں بفضل خدا بخیر و خوبی کامیابی کے ساتھ منعقد ہوا.صوبہ کے تمام اضلاع میں پھیلی ہوئی ستر سے زائد جماعتوں سے ایک ہزار سے زائد افراد جلسہ میں شامل ہوئے.بمنظوری حضرت خلیفہ اُسیح الثالث مرکز سے محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ، محترم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری اور محترم مولانا محمد صادق صاحب سماٹری نے جلسہ میں شرکت فرمائی.ان بزرگان سلسلہ کے علاوہ ایک درجن سے زائد مربیان سلسلہ و دیگر اہل علم احباب جماعت نے سہ روزہ اجلاسوں میں اہم موضوعات پر نہایت مدلل و بصیرت افروز تقاریر کیں.بہت سے غیر از جماعت دوست باہر سے آنے والے احمدیوں کے ہمراہ جلسہ میں شامل ہوئے.۲۰ / افراد بیعت کر کے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے.اس مبارک موقع پر مورخہ ۱۱ فروری ۱۹۲۶ء بروز جمعتہ المبارک دار التبلیغ ڈھا کہ میں نی مسجد کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا.اس مسجد کے لئے مکرم پراونشل امیر صاحب کی درخواست پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے سنگ بنیاد کے لئے ایک اینٹ دعا کر کے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کے ہاتھ بھجوائی تھی جسے محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے محترم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ کی پُر سوز دعا کے بعد مجوزہ جگہ پر اپنے دست مبارک سے رکھا.اس کے بعد دیگر چھ بزرگان سلسلہ نے بھی باری باری مسجد کی بنیاد میں اینٹیں رکھیں.مورخه ۱۴ فروری ۱۹۶۶ء کو مرکزی وفد بذریعہ کار جماعت احمد یہ چٹا گانگ کی درخواست پر ڈھاکہ سے چٹا گانگ آیا.کثیر تعداد میں احباب جماعت نے وفد کا استقبال کیا.محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اس موقع پر باوجود لمبے سفر کی تھکاوٹ کے احباب جماعت کو زریں نصائح
تاریخ احمدیت.جلد 23 459 سال 1966ء سے نوازا.جماعت چٹا گانگ نے مورخہ 4 فروری کو ان بزرگان کے اعزاز میں ایک پبلک میٹنگ دار التبلیغ میں منعقد کی.جس کا اعلان مقامی اخباروں، ہینڈبل اور خصوصی دعوت ناموں کے ذریعے کیا گیا تھا.احباب جماعت کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر از جماعت نے اس میٹنگ میں شرکت کی.سب سے پہلے محترم مولوی محمد صادق صاحب نے انڈونیشیا میں دعوت الی اللہ کے حالات سنائے.اس کے بعد محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے مخالفین کے اعتراضات کے جوابات پر مشتمل ایک نہایت مؤثر و مدلل تقریر کی جو بہت توجہ سے سنی اور پسند کی گئی.اس کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے خطاب فرمایا.اس موقع پر ایک صاحب نے احمدی ہونے کا اعلان کیا.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا مجلس خدام الاحمدیہ کی تقریب سے خطاب ۱۷ فروری ۱۹۶۶ ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ کی استقبالیہ تقریب میں ” بیرونی ممالک میں تبلیغ اسلام اور جماعت احمدیہ کے موضوع پر معرکہ آراء تقریر فرمائی.اس ضمن میں آپ نے اپنے ذاتی مشاہدہ اور تجربہ کی بناء پر افریقہ، یورپ ، امریکہ اور جزائر فجی میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی کے نتیجہ میں رونما ہونے والے عظیم الشان روحانی انقلاب کی بعض نہایت ہی ایمان افروز تفصیلات بیان فرمائیں.نیز بتایا کہ مغربی ممالک میں جہاں پہلے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بد نام کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جاتی تھی.جماعت احمدیہ کی زبر دست مساعی اور تبلیغی جہاد کے نتیجہ میں اب اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قدرومنزلت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.آپ نے واضح فرمایا کہ ایک غریب جماعت کی یہ تبلیغی مساعی اور ان کے عالمگیر اثرات و نتائج ایک عظیم الشان نشان صداقت کی حیثیت رکھتے ہیں.کیونکہ حضرت بانی احمدیہ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آج سے ستر سال پہلے اُس وقت جبکہ آپ کو کوئی جانتا تک نہ تھا اور آپ گمنامی اور بے سروسامانی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے.خبر دی تھی کہ لوگ تیرے پاس دُور دُور سے آئیں گے.اور یہ کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.آپ کی قائم کردہ جماعت کا ستر سال کے عرصہ میں ساری دنیا میں پھیل جانا اور اس کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ کا زمین
تاریخ احمدیت.جلد 23 460 سال 1966ء کے کناروں تک وسیع ہو جانا آپ کے من جانب اللہ ہونے کو روزِ روشن کی طرح عیاں کر رہا ہے.یہ استقبالیہ تقریب چوہدری عبدالعزیز صاحب ڈوگر مہتم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر انتظام دفاتر تحریک جدید کے احاطہ میں انعقاد پذیر ہوئی.اور اس میں جماعت احمدیہ کے ناظر ووکلاء صاحبان، بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کر کے واپس تشریف لانے والے مجاہدین احمدیت ، بعض امراء صاحبان اضلاع اور ربوہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلباء کے علاوہ اضلاع جھنگ ،سرگودھا اور فیصل آباد کے اعلیٰ حکام، ان کی بار ایسوسی ایشنوں کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ممبران، بنیادی جمہورتیوں کے ارکان اور ربوہ کے قرب وجوار کے معزز روسا اور زمیندار بھی بہت کثیر تعداد میں شریک ہوئے.ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام فضل عمر فاؤنڈیشن خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی پہلی مالی تحریک ہے.جس کا اعلان جلسہ سالانہ ۱۹۶۵ء پر ہوا.اور ایک باقاعدہ ادارے کی صورت میں اس کا قیام ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء کو عمل میں آیا.جبکہ اس کے اغراض و مقاصد اور کانسٹی ٹیوشن کو قانونی صورت میں تیار کر کے اسے ایکٹ ۱۸۶۰ء نمبر ۲۱ کے تحت رجسٹرڈ کروایا گیا.حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے نظام کی تشکیل فرمائی.اور ابتدا میں مندرجہ ذیل نو ڈائریکٹرز مقرر فرمائے.._^ و.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حج بین الاقوامی عدالت ہیگ.(صدر) محترم میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ.دی مال.لاہور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ گلی وکیلاں.لائلپور (فیصل آباد) محترم شیخ محمد حنیف صاحب ( شیخ کریم بخش اینڈ سنز ) کوئٹہ محترم چوہدری انور احمد صاحب کا ھلوں.۱۶ موتی جھیل روڈ ڈھا کہ ۲ محترم چوہدری احمد جان صاحب ۵۴-R سید پوری گیٹ راولپنڈی محترم کرنل محمد عطاء اللہ ریتگن روڈ لاہور.( نائب صدر ) محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.بیت العافیت.ربوہ محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمد یہ ربوہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 461 سال 1966ء حضور نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بورڈ آف ڈائریکٹرز کا چیئر مین ، کرنل محمد عطاء اللہ صاحب کو وائس چیئر مین اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ کو سیکرٹری مقرر فرمایا.۱۹۷۱ء کی آخری سہ ماہی میں آپ نے سیکرٹری حدیقۃ المبشرین کا چارج سنبھالا تو بریگیڈئیر (ریٹائرڈ) اقبال احمد صاحب شمیم اس عہدہ پر فائز ہوئے جو مئی ۱۹۹۰ء تک یہ خدمت اعزازی طور پر سرانجام دیتے رہے ان کے بعد مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ۱۹۹۰.۵.۱۷ تا ۱۹۹۲.۷.۱۷ اور ان کے بعد ۱۹۹۲.۷.۱۸ سے تا حال مکرم ناصر احمد شمس صاحب خدمت سر انجام دے رہے ہیں.) بورڈ آف ڈائریکٹرز نے مندرجہ ذیل چار مبروں پر مشتمل ایک انوسٹمنٹ کمیٹی بنائی.کرنل محمد عطاء اللہ صاحب، چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں (ڈھاکہ ) ، شیخ محمد حنیف صاحب (کوئٹہ)، چوہدری بشیر احمد صاحب (لاہور).اس کمیٹی کا مقصد یہ تھا کہ سرمایہ کاری کے سلسلے میں دوسرے احباب سے رابطہ قائم کر کے ادارہ کے سرمایہ سے آمد پیدا کرنے سے متعلق تمام ضروری تجاویز حاصل کرے اور اُن کا تفصیلی جائزہ لے کر آخری فیصلہ کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اپنی رپورٹ پیش کرے.ابتدا میں عطیہ دینے والے مخلص احباب کو کچی رسید میں جاری کی گئیں.لیکن فاؤنڈیشن کے با قاعدہ رجسٹرڈ ہونے کے بعد رسیدیں چھپوانے کا انتظام کر کے باقاعدہ رسید میں جاری ہونے لگیں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام بابت فضل عمر فاؤنڈیشن سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۸ مئی ۱۹۲۹ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کے سلسلے میں حسب ذیل پیغام دیا: ( یہ پیغام حضور نے جماعت لاہور کے بعض مخلصین کے گرانقدر وعدوں کی رپورٹ سن کر بھجوایا.اور اگر چہ یہ پیغام جماعت لاہور کے دوستوں کے نام تھا.لیکن اپنے مقصد کے اعتبار سے پوری جماعت سے تعلق رکھتا تھا.) احباب کرام السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک محبت و عقیدت کے اس چشمہ سے پھوٹی ہے.جو احباب کے دل میں اپنے پیارے آقا اصلح الموعود کے لئے ہمیشہ موجزن رہی اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 462 سال 1966ء موجزن رہے گی.امید ہے کہ آپ سب اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیں گے.جیسا کہ بعض احباب نے اس کا عملاً ثبوت بہم پہنچا دیا ہے.اور بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو احسن جزاء عطا کرے اور زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا کرے آمین.جزاکم الله وباللہ التوفیق مرزا ناصر احمد خلیفة اصبح الثالث ۱۸/۵/۶۶ 66 ۱۶ را گست ۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے احاطہ دفاتر صدرانجمن احمد یہ پاکستان میں اپنے دست مبارک سے فضل عمر فاؤنڈیشن کے دفتر کا سنگِ بنیا د رکھا.اس بابرکت تقریب میں اہلِ ربوہ نے نہایت ذوق و شوق کے عالم میں بہت کثیر تعداد میں شرکت کی.اس موقعہ پر سب سے پہلے مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے رپورٹ پیش کی کہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی بابرکت تحریک میں اب تک ساڑھے پانچ لاکھ روپے سے 19 زائد تک وصولی ہو چکی ہے اورمخلصین جماعت کے وعدے اٹھائیس لاکھ سے بھی بڑھ چکے ہیں.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اپنے روح پرور خطاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وہ حسن واحسان میں تیرا نظیر ہوگا.“ کی نہایت لطیف تشریح فرمائی اور پھر حضرت مصلح موعود کے حسن واحسان کے عظیم الشان مظاہروں اور آپ کے ساتھ جماعت کی والہانہ محبت پر روشنی ڈالنے کے بعد فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام حضرت مصلح موعود کی ایک بنیادی صفت کو ظاہر کرتا ہے چونکہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو حضرت مصلح موعود کی یاد میں اور حضور کو ثواب پہنچانے کے لئے ہی قائم کیا گیا ہے اس لئے اس فاؤنڈیشن کا ماٹو بھی یہی الہام ہونا چاہئے.اس پر معارف اور بصیرت افروز خطاب کے بعد حضور انور اُس طرف تشریف لے گئے جہاں دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کی عمارت کے لئے بنیادیں کھدی ہوئی تھیں.حضور انور نے دیر تک زیر لب دعائیں کرنے کے بعد اپنے دست مبارک سے تین اینٹیں بنیاد میں نصب فرمائیں.ان میں سے پہلی اینٹ محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب وائس چیئر مین فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کی خدمت میں پیش کی دوسری دواینٹیں علی الترتیب محترم سید داؤ د احمد صاحب ڈائریکٹر فاؤنڈیشن اور محترم شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فاؤنڈیشن نے حضور کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کی.بعدازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تین حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت ڈپٹی محمد
تاریخ احمدیت.جلد23 463 سال 1966ء شریف صاحب ریٹائر ڈ ای اے سی اور حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع لائل پور نے باری باری ایک ایک اینٹ بنیاد میں نصب فرمائی.آخر میں محترم کرنل محمد عطاء اللہ صاحب وائس چیئر مین فضل عمر فاؤنڈیشن نے ساتویں اور آخری اینٹ بنیاد میں رکھی.آخر میں حضور انور نے ایک پُر سوز لمبی اجتماعی دعا کرائی.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا مکتوب گرامی مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب چیئرمین فضل عمر فاؤنڈیشن کی خدمت میں رپورٹ بھجواتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ ۱۶ را گست ۱۹۶۶ء کو دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کے سنگ بنیاد کی تقریب منعقد ہورہی ہے.جس پر حضرت چوہدری صاحب نے حسب ذیل مکتوب گرامی اپنے مبارک قلم سے تحریر فرمایا: لنڈن ۷اراگست ۱۹۶۶ء بسم الله الرحمن الرحيم کریما صد کرم گن بر کسے کو ناصر دین است بلائے او بگرداں گر گہے آفت شود پیدا لحمد للہ کہ بفضلہ تعالی فضل عمر فاؤنڈیشن کی عمارت کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ اسیح کے مُبارک ہاتھوں سے نصب کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کو شرف قبولیت بخشے.اور اسے اعلائے کلمتہ اللہ اور احیاء واستحکام دین کا موثر ذریعہ بنائے آمین.جماعت کی طرف سے جس اخلاص اور مُستعدی کے ساتھ اس مبارک تحریک کا استقبال کیا گیا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کمال فضل و رحم سے اس تحریک کو قبول فرمائے گا.اور اسے ہر قسم کی ترقیات اور برکات کا منبع اور سر چشمہ بنائے گا.اور اسمیں حصہ لینے والوں اور اس کے کارکنوں اور معاونین کے اخلاص کو شرف قبولیت سے سرفراز فرمائے گا.اللهم ۶، ۷ را گست کو لنڈن میں جماعت برطانیہ کا تیسرا سالانہ جلسہ بفضلہ تعالی بخیر و خوبی اختتام پذیر ہوا.اس موقعہ پر فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کارکنان کے مشاورتی اجلاس اور جماعت کے جلسے میں زور سے پیش کی گئی.اور بحمد اللہ جماعت نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا.اس وقت تک قریباً تین ہزار پونڈ کے وعدے وصول ہو چکے ہیں.لیکن اکثر مقامات سے وعدوں کا ابھی انتظار ہے.جماعت امين
تاریخ احمدیت.جلد 23 464 سال 1966ء کے اخلاص اور قربانی کے جذبہ پر حسن ظن رکھتے ہوئے میں امید کرتا ہوں کہ جماعت برطانیہ حد استطاعت تک اس تحریک میں حصہ لے گی.اور اس کے وعدے اور ادائیگی پندرہ ہزار پونڈ سے کم نہیں رہیں گے.وباللہ التوفیق احباب سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ان دُور افتادہ بھائیوں اور بہنوں کے لئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے ہم سب کو مغربیت کے زہریلے اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے صراط مستقیم پر چلنے اور اپنی رضا کے حصول کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو اور بیش از بیش خدمت اور قربانی کی توفیق عطا فرما دے.اللهم امین بمفت ایں اجر نصرت را، دہندت اے اخی ورنہ قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا والسلام خاکسار ظفر اللہ خاں حضرت خلیفہ امسح الثالث کا اظہار خوشنوری اگست ۱۹۶۶ء میں چندہ فضل عمر فاؤنڈیشن کے وعدے پچیس لاکھ روپے سے بڑھ گئے جس پر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے ۱۹ اگست ۱۹۶۶ء کو خطبہ جمعہ میں پوری جماعت کو مبارک باد دی اور اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا.گذشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا.اُس وقت میں نے اپنے بھائیوں سے یہ خواہش کی تھی کہ اس فنڈ میں چھپیں لاکھ روپیہ وہ جمع کریں.سوائے محمد رسول اللہ کے فرزند جلیل مسیح محمدی کی جاں نثار اور خدائے بزرگ و برتر کی محبوب جماعت ! آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے خلوص نیت اور صمیم قلب کے ساتھ فاؤنڈیشن کے لئے جو وعدے کئے ہیں.اُن کی رقم پچیس لاکھ سے بڑھ گئی ہے.اور ابھی اور وعدے آرہے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کے اس اخلاص اور ایثار کو قبول فرمائے.اور اعلائے کلمہ اسلام کے لئے آپ کی قربانیوں میں برکت ڈالے اور آپ کو اس دنیا میں بھی اتنا دے اتنا دے کہ آپ سیر ہو جا ئیں.اور اخروی
تاریخ احمدیت.جلد 23 465 سال 1966ء زندگی میں بھی اپنی تمام نعمتوں سے آپ کو نوازے تا آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں آپ کے صحابہ کی معیت حاصل کر سکیں.اب جبکہ وعدے اپنی مقررہ حد سے آگے بڑھ چکے ہیں ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے اور یہ کوشش کرنی چاہیے کہ یہ وعدے جو تین سال میں وصول ہونے ہیں.ان کا کم از کم ۱/۳ سالِ رواں یعنی سال اول میں وصول ہو جائے“.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا خراج تحسین حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ۲۵ نومبر ۱۹۶۶ء کو فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے اجلاس کی صدارت کے لئے تشریف لائے.آپ نے مقامی اخبارات کے نمائندگان سے ملاقات کے دوران فرمایا کہ میں بطور چیئر مین بورڈ آف ڈائر یکٹر ز فضل عمر فاؤنڈیشن جماعت احمدیہ کے پریس کا نہایت ہی ممنون ہوں کہ اس نے فاؤنڈیشن کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے اور اسے جماعت کے ہر طبقہ تک پہنچانے اور اسے کامیاب کرنے کی کوشش کی ہے.مجھے امید ہے کہ جماعت کے جملہ اخبارات و جرائد آئندہ بھی اس سلسلہ میں اپنی کوشش جاری رکھیں گے.تا کہ جن بابرکت مقاصد کے لئے اس تحریک کی بنیاد رکھی گئی ہے.ان کی تکمیل میں اُن کا بھی حصہ ہو اور جماعت کا ہر طبقہ اس میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کر سکے.حضرت چوہدری صاحب نے اس امر پر نہایت اطمینان اور خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ذات گرامی کے ساتھ احباب جماعت کو جو غیر معمولی عقیدت ومحبت ہے.اس کی وجہ سے احباب نے نہایت اخلاص کے ساتھ فضل عمر فاؤنڈیشن میں حصہ لیا اور والہانہ رنگ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا مظاہرہ کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وعدہ جات کی مجموعی رقم ۳۳لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور سوا چھ لاکھ کے قریب روپیہ نفقد بھی وصول ہو چکا ہے.الحمد للہ علی ذلک حضرت چوہدری صاحب نے اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعت احمدیہ کے وعدہ جات کا بھی ذکر فرمایا.اور بتایا کہ وہاں کے بعض احباب نے اس تحریک کے سلسلہ میں مسابقت فی الخیرات کے نہایت قابل قدر نمونے دکھائے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.23
تاریخ احمدیت.جلد 23 466 سال 1966ء فضل عمر فاؤ ٹر یشن کے مقاصد کی تعیین مقاصد کی تعیین کے تعلق میں فاؤنڈیشن نے فوری قدم اُٹھایا چنانچہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب صدر فاؤنڈیشن کے دستخط سے جماعت کے چیدہ چیدہ چھتین احباب کور بوہ میں آنے کی دعوت دی گئی.۱۵ جنوری ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس مجلس مقاصد کا دعا سے افتتاح فرمایا اور ضروری ہدایات دیں.بعد ازاں حسب پروگرام حضرت چوہدری صاحب کی زیر صدارت بقیہ کارروائی سرانجام پائی.احباب کی پیش کردہ تجاویز کو مندرجہ ذیل پانچ عنوانوں کے ماتحت تقسیم کر کے الگ الگ فہرستیں مرتب کی گئیں.ا.علمی تحقیقاتی کام تبلیغی جد و جہد تعلیمی جد و جهد ۴.اقتصادی بهبود متفرق فاؤنڈیشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے دو اجلاسوں میں ان سب تجاویز پر غور کیا.اور منتخب شدہ تجاویز پر مزید غور وفکر کے لئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب، سید داؤ د احمد صاحب، کرنل محمد عطاء اللہ صاحب اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب پر مشتمل ایک انتظامیہ سب کمیٹی مقرر کی گئی.جس نے انتخاب کردہ تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کا کام تجویز کیا.جسے حضور نے منظور فر.فضل عمر فاؤنڈیشن کے عملی پروگرام کے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے قلیل المیعاد منصوبے: اس فاؤنڈیشن کے تحت بہت سے قلیل المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے بنائے گئے تھے جن کے فیوض و برکات سے ایک عالم نے متمتع ہونا تھا.چنانچہ فاؤنڈیشن کے قیام کے ساتھ ہی بعض منصوبوں پر نہایت سرعت سے عملدرآمد بھی شروع ہو گیا تھا.ان منصوبوں کی کسی قدر تفصیل پیش خدمت ہے.اول حضرت فضل عمر کے جملہ خطبات، تقاریر اور ملفوظات کی مکمل طور پر تدوین واشاعت کا انتظام کیا جائے.یہ کام صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز کی نگرانی میں ہو.
تاریخ احمدیت.جلد 23 467 سال 1966ء دوم حضرت مصلح موعود کی جامع سوانح حیات مرتب کی جائے.جس کے لئے پہلے مکرم ملک سیف الرحمن صاحب بعد ازاں صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بطور مؤلف تجویز کئے گئے.نیز فیصلہ ہوا کہ یہ کام ایک ایڈیٹوریل بورڈ کی نگرانی میں کیا جائے جس کے ارکان حسب ذیل مقرر ہوئے.۲..۴.حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب پروفیسرسید میرمحموداحمد ناصر صاحب حضرت سیدہ ام متین صاحبہ سوم سیدنا حضرت فضل عمر نے ربوہ کے پہلے مبارک اور تاریخی سالانہ جلسہ منعقدہ ۶،۱۵ اراپریل ۱۹۴۹ء) کے دوران اخلاق ، عقائد، مذہب، تاریخ اور دیگر دنیوی علوم پر عمدہ کتب اور تحقیقی رسائل شائع کرنے کی ایک مفصل سکیم پیش فرمائی تھی.24 فاؤنڈیشن نے اس جامع سکیم کی روشنی میں فیصلہ کیا کہ اچھی دینی اور علمی کتب اور رسائل لکھوائے جائیں.اس غرض کے لئے فاؤنڈیشن نے ایک اعلامیہ جاری کیا.اور اعلان کیا کہ پہلے سال کے لئے ایک ایک ہزار روپے کے پانچ انعام دیئے جائیں گے.طویل المیعاد پانچ سالہ منصوبہ حضرت فضل عمر نے مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء میں ایک جامع اور مکمل لائبریری کے قیام کی تحریک فرمائی تھی.فاؤنڈیشن نے حضرت مصلح موعود کے منشاء مبارک کی تکمیل میں فیصلہ کیا کہ ایک شاندار لائبریری کا انتظام کیا جائے.جس میں کم از کم پچاس ہزار کتب کی جگہ ہو.مناسب ریڈنگ روم ہو.دس سکالرز کے لئے ریسرچ کرنے کی جگہ ہو.اور لائبریری میں جدید آلات مثلاً مائیکر فلم وغیرہ موجود ہو.فاؤنڈیشن نے ابتداء ساڑھے تین لاکھ کی رقم لائبریری کی موزوں عمارت کے لئے صدر انجمن احمد یہ کو پیش کرنے کا منصوبہ بنایامگر عملاً اس عظیم منصوبہ پر سوا چار لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہوا.فاؤنڈیشن نے دوسری تجویز یہ منظور کی کہ جہاں جہاں تحریک جدید کے نزدیک نئے مشن کھولنے کا وقت آچکا ہے مگر تحریک کے فنڈ میں گنجائش نہیں.اور جماعت پر اس کا بوجھ ڈالنا بھی مناسب نہ ہو تو
تاریخ احمدیت.جلد 23 468 سال 1966ء مشن کے ابتدائی اخراجات فاؤنڈیشن اپنے ذمے لے.تیسری تجویز فاؤنڈیشن نے یہ منظور کی کہ قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمہ کی طباعت کے اخراجات کے لئے ضروری رقم تحریک جدید کو دی جائے.اور پھر بعد میں اس کی واپسی کے لئے مناسب تفصیلات تحریک سے طے کی جائیں.26 صدر انجمن احمدیہ نے خلافت لائبریری سے متعلق فاؤنڈیشن کی پیشکش شکریہ کے ساتھ قبول کر لی.جس کے بعد قاضی حبیب الدین صاحب انچارج لیاقت میموریل لائبریری کراچی ، انچارج مرکزی خلافت لائبریری اور پاکستانی اور غیر پاکستانی آرکیٹیکٹس سے اس بارے میں مشورہ کیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی منظوری سے لائبریری کی عمارت کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر کی مشرقی جانب واقع زمین کا ایک قطعہ معین کر دیا گیا.جو ۲۰X۱۰ امربع فٹ رقبہ پرمشتمل تھا.اس کا نقشہ تیار کرنے کا کام جماعت کے تین چار آرکیٹیکٹس کے سپر د کیا گیا.فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے خصوصی طور پر یہ ارشاد فرمایا تھا کہ اس فنڈ سے ذہین اور قابل طلباء کو اعلیٰ تعلیم کی غرض سے ضروری امداد بھی دی جائے گی.چنانچہ ۱۹۶۷ء میں فاؤنڈیشن نے ایک احمدی نوجوان کو ایک امریکن یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے لئے کرایہ کے اخراجات مہیا کر دیئے.جس پر حضور نے اظہار خوشنودی فرمایا.اس کے علاوہ حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب، حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور مولانا شیخ مبارک احمد صاحب اور خان بشیر احمد خان صاحب رفیق امام مسجد فضل لندن نے انگلستان میں فاؤنڈیشن کے وعدوں میں اضافہ اور اُن کی وصولی کے لئے زبردست جد و جہد فرمائی.جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا.اس کی کسی قدر تفصیل اگلے صفحات میں دی جارہی ہے.متفرق امور کی انجام دہی ابتدا ہی میں اندرونِ پاکستان فضل عمر فاؤنڈیشن کے حسابات کامرس بینک اور یونائیٹڈ بنک میں کھلوا دیئے گئے.پہلے سال انگلستان میں بھی اکاؤنٹ کھولا گیا.اور سٹیٹ بنک سے چودہ ملکوں میں حسابات کھلوانے کی منظوری حاصل کی گئی.اگر چہ حضور نے پچیس لاکھ کی تحریک فرمائی تھی.لیکن دوسال کے اندر اندر پاکستان اور بیرونی پاکستان کی مخلص جماعتوں کی طرف سے جو وعدے موصول ہوئے.ان کی مجموعی میزان چھتیں لاکھ ستر ہزار تین سو سینتالیس روپے تک پہنچ گئی.جو آئندہ دوسالوں میں مزید کئی لاکھ بڑھ چکی تھی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 469 سال 1966ء حضرت فضل عمر کی تصانیف کا ریکارڈ ادارہ نے ابتدا ہی سے یہ کوشش کی کہ حضرت فضل عمر کی جملہ تصانیف کتب و رسائل کو جمع کیا جائے.چنانچہ دوسال میں ہی اُس نے ۱۶۰ کتب ورسائل فراہم کر کے انہیں مجلد کر کے دفتر میں محفوظ کر لیا.اب فاؤنڈیشن کی طرف سے حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی تمام کتابوں، تقاریر اور مضامین کو انوار العلوم کے نام سے شائع کیا جارہا ہے اسی طرح آپ کے خطبات کو خطبات محمود کے نام سے طبع کیا جارہا ہے.بے مثال مالی قربانی.بے مثال جد و جہد سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ۲۵ لاکھ کی تحریک فرمائی تھی مگر مخلصین جماعت نے حضرت فضل عمر کی ذات سے والہانہ اور عاشقانہ عقیدت کا عملی ثبوت دیتے ہوئے تین سال کے اندر ۳۴لاکھ کے وعدے پیش کر دیئے.جس میں سے سال چہارم تک تینتیس لاکھ کے لگ بھگ وصول ہو چکے تھے.اور اس سے اگلے سال رپورٹس کے مطابق چونتیس لاکھ کے قریب رقوم اکٹھی ہو چکی تھیں.اس سلسلہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن اور احمدی جماعتوں نے کس طرح بے جگری سے عالمی سطح پر چندہ کی وصولی کی زبر دست مہم چلائی اور کس طرح مخلصین نے اسپر والہانہ لبیک کہی اس کا کسی قدر اندازہ فاؤنڈیشن کی رپورٹس کے مطالعہ سے بخوبی ہو سکتا ہے جو کہ شائع شدہ ہیں.ان رپورٹس میں سے بعض اعداد و شمار احباب کی دلچسپی کے لئے پیش ہیں.۱۹۲۹ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ہدایت فرمائی تھی کہ تمام نمائندگان اپنی اپنی جماعتوں کو اس بات سے آگاہ کر دیں کہ مقررہ میعاد یعنی ۳۰ جون تک وصولی کو مکمل کر لیا جائے اس موقع پر حضور نے یہ بھی اعلان فرمایا تھا کہ اس تحریک کے فنڈ کی وصولی اصولی لحاظ سے اس تاریخ کے بعد بند کر دی جائے گی.چنانچہ اندرونِ پاکستان ۱۹۶۹ء کی شوری تک کل وصولی مع منافع وغیرہ کے جو ۶۳۶ ،۶۶ ، ۲۱ روپے تھی.اور ۱۵ مارچ ۱۹۷۰ ء تک وعدوں کی وصولی اور منافع وغیرہ کی رقوم شامل کر کے ۲۹٬۹۵،۳۰۷ روپے تک پہنچ گئی تھی.ادارہ نے وصولی کی اس کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جائزہ تیار کیا ہے.کہ وعدہ کے
تاریخ احمدیت.جلد23 470 سال 1966ء بالمقابل وصولی کی نسبت کیا ہے اس کے لئے جماعتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.اوّل وہ جماعتیں جن کی وصولی سو فیصدی یا اس سے بھی زائد ہے.دوم: وہ جماعتیں جن کی وصولی ۷۰ فیصدی سے زائد اور سو فیصدی سے کم ہے.سوم وہ جماعتیں جن کی وصولی ۷۰ فیصدی سے کم مگر ۵۰ فیصدی سے زائد ہے.جن جماعتوں یا احباب نے وعدہ کی سو فیصدی یا اس سے بھی زائد ادائیگی کی تھی وہ حسب ذیل ہیں.ا.۴.حضرت خلیفة المسح الثالث خاندان حضرت مصلح موعود حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب.حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ ، حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ے.ا.جماعت ربوه.ضلع لائلپور _^ ضلع سیالکوٹ ضلع میانوالی ضلع پشاور علاقہ آزاد کشمیر کوئٹہ قلات ڈویژنز ۱۲.ضلع مظفر گڑھ جن جماعتوں نے ستر فیصدی سے زائد اور سو فیصدی سے کم اپنے وعدہ کی رقم ادا کر دی تھی وہ حسب ذیل ہیں.کراچی فیصد لد حیدر آباد ڈویژن ضلع ساہیوال ضلع سرگودہا ضلع بہاولنگر مشرقی پاکستان ضلع گجرات ضلع لاہور ۸۳ // ۸۲ ۸۴ ۸۰ ۸۸ > > " ۸۰ ZA
تاریخ احمدیت.جلد 23 و.ضلع جہلم 11- ضلع شیخو پوره ضلع گوجرانوالہ ۱۲.ضلع ملتان ۱۳.علاقہ بلوچستان 471 سال 1966ء فیصد ۷۵ // ۷۳ ۷۶ LL ۹۳ جن جماعتوں نے ۵۰ فیصد سے زائد اور ۷ فیصد سے کم ادائیگی کی تھی وہ حسب ذیل ہیں بہاول پور فیصد راولپنڈی ڈیرہ غازی خاں خیر پور ڈویژن رحیم یارخاں ۵۰ ۵۰ ۶۰ 34 // قربانی کے قابل رشک نمونے قربانی کی مقدار کو مد نظر رکھتے ہوئے اولین مقام حضرت مصلح موعود کے اہل خاندان کو حاصل ہوا.جنہوں نے شروع کی تحریک میں ہی مشترکہ طور پر ایک لاکھ روپیہ پیش فرمایا.بلکہ اہل خاندان میں سے بعض افراد نے مشترکہ وعدہ میں اپنے حصہ کو نا کافی خیال کرتے ہوئے اپنی طرف سے علیحدہ بھی عطیہ پیش کیا چنانچہ سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مشتر کہ وعدہ کے علاوہ دس ہزار روپیہ اپنی طرف سے علیحدہ بھی پیش فرمایا.حضرت سیدہ ام امتہ المتین صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود نے مشتر کہ وعدہ کے علاوہ اپنی طرف سے اڑھائی ہزار روپیہ ادا فرمایا.محترمہ صاحبزادی امتہ القیوم بیگم صاحبہ بنت حضرت مصلح موعود نے بھی مشترکہ وعدہ کے علاوہ اڑھائی ہزار روپیہ عطا فرمایا.حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ علاوہ مشتر کہ وعدہ کے ادا فرمایا.نیز صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے بھی مشترکہ عطیہ کے علاوہ ایک ہزار رو پیداخل فرمایا.جماعت کے مخلصین نے اس بابرکت تحریک میں اپنے اپنے رنگ میں قولی اور فعلی طور پر اپنے جذبات محبت کا مظاہرہ کیا.بعض مخلصین نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ مبارک تحریک تین سال کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 472 سال 1966ء بجائے دائمی قرار دی جائے بعض نے حضرت مصلح موعود کے دور خلافت کے سالوں کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ رائے دی کہ اس تحریک کی مالی حد پچیس لاکھ کی بجائے باون لاکھ مقرر کی جائے اور بعض احباب نے عملاً باون کے عدد کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی قربانی کو اس معیار کے مطابق بنانے کو موجب سعادت تصوّ رکیا.محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس تحریک میں اپنا وعدہ ابتداء ۲۵ ہزار کا پیش کیا.یہ وعدہ آپ نے تحریک کے پہلے سال کے اندر پورا کر کے پندرہ ہزار روپے کا اور وعدہ کیا جو دوسرے سال میں ادا کر دیا.آپ کی خواہش تھی کہ حضرت مصلح موعود کے باون سالہ دور خلافت کے پیش نظر ایک ہزار فی سال کے حساب سے باون ہزار روپیہ پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو.چنانچہ تیسرے سال کے لئے آپ نے بارہ ہزار روپیہ کا وعدہ فرما دیا اور آپ نے اس وعدہ کو بھی پورا فرما دیا اور اس طرح آپ نے باون ہزار روپیہ حضرت مصلح موعود کی اس یاد گار تحریک میں ادا فرمایا.ایک اور دوست دنیا پور ضلع ملتان کے مکرم شیخ محمد اسلم صاحب نے اپنے وعدہ کو بڑھا کر باون سو کر دیا.دہلی دروازہ لاہور کے ایک دوست مکرم ماسٹر محمد ابراہیم صاحب نے باون سال پر دس روپے فی سال کے حساب سے - ۵۲۰ روپے ادا کئے.ایسے ہی بہت سے کم استطاعت رکھنے والے دوستوں نے باون باون روپے پیش کئے.بہت سے مخلصین نے اپنے ابتدائی وعدہ کو نا کافی سمجھتے ہوئے اضافے کئے اور بعض نے تو گرانقدر اضافے کئے اور اس بارہ میں قابل رشک نمونہ دکھایا.ایسے احباب کی تعداد بہت زیادہ تھی جن میں سے چند احباب کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.محترم کیپٹن ڈاکٹر محمد رمضان صاحب دارالصدر غربی الف ربوہ ابتدائی وعده -/۱۵۰ بعد - ۳۰۰۰ روپے کا اضافہ کر دیا.حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر.صدر انجمن احمد یر بوہ نقد دو ہزار ادا کیا اور - ۷۵ ا.روپے ماہوار اپنے الاؤنس میں سے اور ۲ روپے ماہوار پنشن سے وضع کرواتے رہے.ڈاکٹر قاضی محمد منیر صاحب امرتسری لاہور نے پہلے سال میں دس ہزار روپے ادا فرمائے.پھر مزید دس ہزار روپے پیش کئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 473 سال 1966ء ۵..محترم ملک محمد شفیع صاحب نوشهر وی دار الرحمت وسطی ربوہ نے اپنا مکان واقع دارالرحمت وسطی ربوہ جو پندرہ سے بیس ہزار روپیہ تک مالیت کا ہے.ہبہ کے طور پر فضل عمر فاؤنڈیشن کے لیے پیش کیا ہے.آپ نقد بھی.۲۰۰ روپے پیش کر چکے تھے.مکرم اعجاز احمد صاحب دوالمیال ضلع جہلم ابتدائی وعدہ - ۱۰۰ روپے.ادا ئیگی.۲۷۰۰ ادائیگی روپے تک کر دی.مکرم نواب زادہ محمد امین خان صاحب بنوں ابتدائی وعدہ - ۱۰۰ روپے.ادائیگی /۳۰۰۰ روپے تک کی.بہت سے ایسے احباب تھے جنہوں نے ابتدا ہی میں گرانقدر وعدہ پیش فرما دیا تھا اور بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے ابتدائی تھوڑے وعدوں پر اضافہ کر کے انہیں ہزاروں تک پہنچا دیا.کئی ایسے مخلص غریب احمدی دوست ہیں جو ذریعہ آمد نہ ہونے کی وجہ سے اس مبارک تحریک میں حصہ لینے سے معذور تھے.جو نہی انہیں کوئی رقم ہاتھ لگی انہوں نے اس مبارک تحریک میں حصہ لینے کی سعادت حاصل کر لی.اس ضمن میں ایک ایمان افروز مثال کا ذکر احباب کے از دیا دایمان کا موجب ہوگا اور وہ یہ ہے کہ ربوہ کے ایک درویش صفت دوست محترم حافظ سلیم احمد صاحب اٹاوی نے بیان کیا کہ جس دن حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہجہانپوری کی وفات ہوئی اس سے پہلی رات انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے انہیں دس دس روپے کے تین نوٹ دیئے ہیں.یہ خواب اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کی بہشتی مقبرہ میں تدفین کے دوران سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے حافظ سلیم احمد صاحب کو یا فر مایا اور انہیں اپنے پاس بلوا کر دس دس روپے کے تین نوٹ ان کو عطا فرمائے.یہ خواب اور اس کا پورا ہونا بہت ہی ایمان افزا امر تھا.کیونکہ صفاتی لحاظ سے ظفر اللہ خاں نام کا اطلاق سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث پر ہوتا ہے.حافظ سلیم احمد صاحب یہ رقم حضور سے ملنے پر دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن میں تشریف لائے اور فرمایا کہ حضور نے جو تم مجھے عنایت فرمائی ہے اس میں سے پندرہ روپے فضل عمر فاؤنڈیشن میں پیش کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ انہوں نے پندرہ روپے دفتر میں ادا فرمادے.جَزَاهُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی خواتین نے فاؤنڈیشن کے وعدہ جات کی ادائیگی میں بہت اخلاص سے کام لیا.متعدد خواتین نے اپنا نام ظاہر کرنا بھی پسند نہیں کیا.اس موقع پر ایک نومسلمہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 474 سال 1966ء خاتون کا جو بیرونِ پاکستان سے تشریف لائیں.انہوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں تین انگوٹھیاں پیش کیں.ایک انگوٹھی فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے اور دو انگوٹھیاں دوسرے دو اداروں کے لئے.حضور نے ایک انگوٹھی ادارہ فاؤنڈیشن کو بھجوا دی.اگر چہ اس انگوٹھی کی قیمت چالیس پچاس روپے تھی لیکن اس پر لفظ اللہ نہایت خوبصورت طور پر کندہ تھا.مختلف زرگروں سے دریافت کیا گیا.سب چالیس پچاس روپے قیمت بتاتے رہے.حضور کی خدمت میں عرض کیا گیا.حضور نے فرمایا.چند دن اور انتظار کریں.ماہ ڈیڑھ ماہ کے بعد حضور نے فرمایا آکشن کر دیں اور بتادیں کہ ایک نومسلمہ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے یہ انگوٹھی بھجوائی ہے.چنانچہ اس کے بعد جب اسے آکشن کیا تو ایک دوست نے.۱۰۱ روپیہ میں اس انگوٹھی کو خرید کر قیمت فاؤنڈیشن کو ادا کر دی.اپنے وعدوں کی ادائیگی میں بھی خواتین نے بہت مستعدی دکھائی ہے.ایسے بھی کئی واقعات ہیں کہ مخلصین نے اپنے مرحوم بزرگوں اور عزیزوں کی طرف سے چندہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی مبارک تحریک میں پیش کیا.35 بیرون پاکستان وصولی کا جائزہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کے لئے وصولی کی تاریخ ۳۰ ستمبر ۱۹۶۹ء تک مقرر کی گئی تھی.جو نہی یہ تاریخ مقرر ہوئی بیرونی ممالک کے تمام مبلغین انچارج کو بذریعہ خطوط اطلاع بھجوائی گئی.علاوہ از میں بعض بڑی بڑی رقوم کے وعدے پیش کرنے والے احباب کو الگ بھی خطوط لکھے گئے.اخبارات کے ذریعہ بھی یاد دہانی کا سلسلہ جاری رہا.استثنائی طور پر بیرونی ممالک کے بعض احباب کو بھی مزید وقت کی مہلت بھی دی گئی.بھارت کی جماعتوں میں نظارت بیت المال قادیان اور اخبار بدر“ نے خصوصی طور پر خطوط اور مضامین اور فہرستیں شائع کر کے توجہ دلائی اور بفضل خدا معقول رقم وصول ہوئی ہے.ماریشس کی جماعت اور مبلغ انچارج مکرم مولوی محمد اسمعیل منیر صاحب نے اس غرض کے لئے خاص مہم چلائی اس جماعت نے وعدہ سے زائد رقم پیش کر دی.اسی طرح کویت کے احمدیوں نے بھی بڑی مستعدی دکھائی او راپنے وعدے کو سو فیصدی پورا کر دیا.نجی کی جماعت کی کوشش بھی قابلِ قدر تھیں.افریقن ممالک میں سے تنزانیہ اور کینیا کی وصولی امسال بہتر رہی.رنگون نے بھی اپنا وعدہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 475 سال 1966ء سو فیصدی پورا کر دیا ہے.ملائیشیا کے مبلغ جہاں باقاعدگی سے رپورٹ بھجواتے رہے وصولی کے لئے بھی کوشاں رہے.یورپین ممالک میں سے ہالینڈ ، ڈنمارک سوئٹزر لینڈ کے اگر چہ تھوڑے تھوڑے وعدے تھے مگر عرصہ مقررہ میں ان علاقوں کے احباب نے وعدہ کو پورا کر دیا.جرمنی کے وعدہ سے صرف ۳۳ فیصدی وصولی ہوئی اس پر علاقہ کے مبلغ کو اس طرف توجہ بھی دلائی گئی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اجازت سے فاؤنڈیشن کی طرف سے چند ہفتوں کے لئے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری فاؤنڈیشن کو انگلستان بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا.سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جماعت انگلستان کے لئے ایک تحریری پیغام مرحمت فرمایا.جس میں جماعت انگلستان کو توجہ دلائی کہ وعدوں اور وصولی میں وہ اضافہ کریں.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ ہر طرح استطاعت رکھتے ہیں اور شیخ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ کوشش کریں کہ ہر شخص سے مل کر فاؤنڈیشن کی تحریک کے اغراض و مقاصد سے اُسے واقف کریں چنانچہ پروگرام کے مطابق شیخ صاحب ۳۰ راگست کو قبل دو پہر لندن پہنچ گئے.پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ہیگ سے ۳ ستمبر کو ایک ہفتہ کے لئے لندن تشریف لے آئے.۴ ستمبر کو بعد نماز جمعہ محترم چوہدری صاحب محترم بشیر احمد خانصاحب رفیق امام مسجد فضل لندن اور شیخ صاحب بصورت وفد بیرون لندن کی جماعتوں کے دورہ پر روانہ ہوئے.مانچسٹر، ہڈرزفیلڈ، بریڈ فورڈ، لیڈز، گلاسکو، ایڈنبرا اور پریسٹن کی جماعتوں کا دورہ کیا.اس دورہ میں ہر جگہ کی جماعت کو اور متفرق طور پر احباب کو حضور کے پیغام سے آگاہ کیا.وصولی اور وعدہ کا جائزہ لیا.مزید وعدوں اور وصولی کے لئے تحریک کی.اس دورہ میں کسی جگہ ایک رات کسی جگہ دو دن اور کسی جگہ چند گھنٹے قیام کیا گیا اور مؤثر خطابات میں احباب جماعت کو فاؤنڈیشن کے لئے وعدے پیش کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی.ہر جگہ معقول وصولی موقع پر ہی ہو جاتی رہی اور نئے وعدے اور اُن کی ادائیگی کیلئے وقت مقرر کئے گئے.بڑی بڑی رقوم کی نئی وصولیاں بفضل خدا خاصی مقدار میں ہوئیں.ہر موقع پر محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے اور کبھی محترم امام صاحب نے احباب کو شیخ صاحب کے خصوصی مشن اور اس کی اہمیت پر پر زور توجہ دلائی یه دوره ۱۰ستمبر ۱۹۶۹ء کو ختم ہوا اور محترم چوہدری صاحب اپنے دیگر فرائض کے سلسلہ میں لندن سے واپس تشریف لے گئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 476 سال 1966ء بعد ازاں بر هم برمنگھم جلنھم ، ساؤتھ وڈ فورڈ ، ساؤتھ آل، کرائیڈن،آکسفورڈ، ایلنگ،لائٹن وغیرہ علاقوں کا شیخ مبارک احمد صاحب نے دورہ کیا.کبھی محترم امام بشیر احمد رفیق صاحب اور کبھی محترم لئیق احمد صاحب طاہر نائب امام ساتھ ہو کر ا حباب کو ملتے رہے.ان میں سے بعض جماعتوں میں چوہدری منیر احمد صاحب منگلی ، صدق المرسلین صاحب، بشیر احمد شیدا صاحب، عبداللطیف خاں صاحب کی معیت میں کئی کئی بار شیخ صاحب کو مختلف احباب سے ملنے کے لئے ان کے گھروں پر جانا پڑا.کرائیڈن میں خواج احمد صاحب اور محمد یعقوب صاحب نے خاصی امداد کی.اس جگہ سے وصولی بھی اچھی ہوئی.جلنگھم میں قاری محمد بین صاحب اور چوہدری لئیق احمد صاحب کھو کھر اور بابو فضل کریم صاحب لون نے احباب جماعت کے پاس لیجانے اور وصولی کے کام میں بہت امداد کی.یہاں شیخ صاحب کو دو دفعہ جانا پڑا اور چار پانچ دن رہنا پڑا.ہر بار خاصی رقوم وصول ہوتی رہیں.یہاں پر جماعت کے بچوں نے بھی دل کھول کر حصہ لیا اور حتی المقدور سب نے حصہ لیا.برمنگھم میں مطیع اللہ صاحب درد اور رشید احمد صاحب دو دن کے قیام میں سارا دن ساتھ رہے.بریڈ فورڈ کی جماعت کے صدر میر ضیاء اللہ صاحب تھے.یہاں با قاعدہ جماعت نے جلسہ کیا اور بذریعہ تقریرہ پر زور تحریک کی گئی وصولی بھی بہت اچھی ہوئی اور جماعت کے بچوں نے بہت اعلیٰ نمونہ دکھایا اور قریباً سب نے حصہ لیا.ساؤتھ وڈفورڈ اور ملحقہ علاقوں میں مکرم محمد اصغر صاحب لون اور میاں شیر محمد صاحب فرید نے بڑی کوشش کی کہ ان کے قرب وجوار میں رہنے والے ہر ایک احمدی دوست سے شیخ مبارک احمد صاحب کی ملاقات ہو سکے.رات کے ایک بجے تک اور کبھی اس کے بھی بعد تک وصولی کا کام کیا جاتا رہا.پریسٹن میں شیخ صالح محمد صاحب اور شیخ منظور احمد صاحب اور میاں کرم دین صاحب نے وصولی کے سلسلہ میں خاص امدا د فرمائی.گذشتہ ساڑھے تین سال میں شیخ صاحب کی انگلستان آمد تک انگلستان کے احباب کی طرف سے ۱۸۶، ۷ پونڈ یعنی ۷۳۰ ۴۳، اروپے کے قریب وصولی کی اطلاع تھی.شیخ مبارک احمد صاحب کے ان چند ہفتوں کے قیام کے عرصہ میں ۶۲۵۰ پونڈ یعنی ۰۰۰، ۲۵ ، روپے کے قریب مزید وصولی ہوئی اور شیخ صاحب کی روانگی کے وقت فوری ادائیگی کے وعدہ جات جن دوستوں نے کئے.اُن کی طرف سے مزید ۵۰۰ پونڈ یعنی دس ہزار روپیہ کی وصولی کی بھی اطلاع آ چکی تھی.لندن میں احمدی خواتین کی باقاعدہ تنظیم قائم تھی.جناب ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی بیگم صاحبہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 477 سال 1966ء ان کی صدر تھیں.انہوں نے جماعتوں کی خواتین کا خاص اجلاس منعقد کیا اور سب خواتین کو شامل ہونے کی دعوت دی.یہ اجلاس احمد یہ مسجد فضل لندن میں ہوا.شیخ صاحب نے اس میں خواتین اسلام دور اول اور احمدی خواتین کی قربانیوں پر تقریر کرتے ہوئے خواتین کو فاؤنڈیشن کی تحریک میں اپنے سابقہ وعدوں اور مزید رقوم پیش کرنے کی تحریک کی.متعدد مخلص خواتین نے اسی وقت نقد ایک سو پونڈ سے زائد دو ہزار روپے کے قریب رقم ادا کر دی.بعض بہنوں نے زیورات ، چوڑیاں، کانٹے اور انگوٹھیاں پیش کیں اور بہت بڑی رقم شیخ صاحب کی روانگی کے وقت تک لجنہ لندن کی ممبرات نے پیش کردی.لندن میں محترم امام بشیر احمد رفیق صاحب اور نائب امام مکرم لئیق احمد صاحب طاہر کے علاوہ دوستوں سے وصولی کے کام میں مکرم بشیر حیات صاحب اور مکرم اصغر صاحب، مکرم نذیر احمد صاحب ڈار اور مکرم محمد یا مین صاحب ندیم اور عزیز محمد اسلم صاحب جاوید امداد فرماتے رہے.لندن میں جماعت کے بچوں نے بھی بہت بشاشت سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہت اچھا نمونہ پیش کیا.شیخ صاحب کے قیام انگلستان کے دوران محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے بھی اپنے سابقہ عطیہ ۵۲ ہزار روپیر پر مزید آٹھ ہزار روپے کے اضافہ کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آٹھ ہزار روپیہ کی رقم حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے دور خلافت کے چار سال کامیابی سے گذرنے پر بطور شکریہ ادا کروں گا.جو انہوں نے جلد ادا کر دیا تھا.بیرون پاکستان کے تمام ممالک میں احمدی احباب کی طرف سے مجموعی وصولی ۱۵ مارچ ۱۹۷۰ء تک بیرون پاکستان کے وعدوں کی کل وصولی ۷۶۴ ۸،۹۰ روپے ہو چکی تھی.اور اس میں وصولی کے لحاظ سے درج ذیل ممالک نمایاں رہے.یورپ :.انگلستان بمع مکان ( یعنی آمد بصورت کرایہ مکان ، ہالینڈ ، ڈنمارک،سوئٹزرلینڈ ، جرمنی امریکہ:.ریاست ہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، برٹش گیانا مغربی افریقہ :.سیرالیون، غانا، نائیجیریا، آئیوری کوسٹ، گیمبیا مشرقی افریقہ:.کینیا ، یوگنڈا، تنزانیہ ماریشس مڈل ایسٹ : کویت فلسطین، عدن ، سائپرس جنوب مشرقی ایشیا.انڈونیشیا، ملائیشیا، رنگون ،سیلون، بھارت، نجی ،سنگا پور
تاریخ احمدیت.جلد 23 478 سال 1966ء یہ رپورٹ کسی قدر تفصیل کے ساتھ تحریر کر دی گئی ہے تا کہ قارئین کے سامنے افراد جماعت کا خلفائے کرام سے عشق و محبت اور اطاعت و وفاداری کا وہ عظیم نمونہ سامنے آئے جو یقیناً جماعت کی تاریخ کا ایک سنہری باب ہے اور عشق و وفا کے یہ نظارے ہر دور اور ہر زمانے میں نظر آرہے ہیں.الحمد لله على ذلک مفید اور بلند پایہ مقالے اور انعامات جماعت کے اہل قلم کی طرف سے ۱۹۶۷ء سے ۲۰۱۲ء تک جو مقالہ جات فاؤنڈیشن کو موصول ۲.ہوئے ان کی تفصیل درج ذیل کی جاتی ہے.سید ظہور احمد شاہ صاحب ربوہ حال مبلغ بنجی (مذاہب چین و جاپان) گیانی عباداللہ صاحب ربوہ (ہند میں اسلام) عبدالرزاق صاحب گونڈہ (بھارت ) ( معرفت اور محبت ) شیخ فضل کریم صاحب پر اچہ بھیرہ ( داغ غلامی اور ورثہ ابراہیمی ) چودھری عبد الرحمن صاحب شاکر ربوہ ( زوال برطانیہ )._^ و.+17 -11 ۱۲.قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ ( عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ) قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری مربی سلسلہ (مسیح الدجال اور یا جوج و ماجوج کا ظہور ) قریشی غلام حیدر صاحب ارشد خان پور ( وفات حضرت عیسی علیہ السلام) مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی.قادیان دارالامان (ضرورت نبوت ) مولوی صدرالدین صاحب مولوی فاضل احمد نگر متصل ربوه (فرقه ناجیه ) جمعدار فضل دین صاحب ربوہ (واقعات اسلامی کی حقیقی تاریخ) حکیم عبدالعزیز صاحب راہی امرت سری موڑ جلّو لا ہور ( صداقت اسلام میں ظہور وصدق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ).حاجی محمد ابراہیم صاحب خلیل ربوہ (اسلامی عبادات کا مقابلہ مذاہب عالم کے طریق عبادت سے )
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۱۵.479 شیخ عبدالقادر صاحب محقق لا ہور ( اسماء الانبیاء فی القرآن) سال 1966ء مولوی سمیع اللہ صاحب مبلغ سلسلہ عالیہ بمبئی (اُردو زبان کی تہذیب و ترقی اور اشاعت میں جماعت احمدیہ کا حصہ ) ۱۶.مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر ڈیرہ غازی خاں ( واقعات شہادت شیخ الجم حضرت سید عبداللطیف صاحب) لمصل ۱۷ اخوند فیاض احمد خاں صاحب لاہور ( پیشگوئی دربارہ اصلح الموعود کی اہمیت و عظمت) لاہور( گیانی واحد حسین صاحب ربوہ (مسلمان اور انگریز ) ۱۸.وا.۲۱.۲۲.پروفیسر محمد شریف صاحب ربوہ (Amphibia of Rabwah) مولوی صدرالدین صاحب مولوی فاضل احمد نگر متصل ربوہ (سیرت سروری مع روایات سروری) مولوی صدرالدین صاحب مولوی فاضل احمد نگر متصل ربوه (شمشیر دولیه ) قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد (ضرورت نبوت) ۲۳.ڈاکٹر محمد شاہ نواز خاں صاحب ربوہ (اسلام اور علوم جدیدہ.فلسفہ احکام اسلام ) مولوی عبدالمنان صاحب شاہد مربی سلسلہ عالیہ عقیدہ حیات مسیح سے بیزاری) چودھری علی محمد صاحب بی.اے.بی.ٹی ربوہ (مختصر تاریخ احمدیت برائے طلباء وطالبات) حکیم خواجہ محمد اسمعیل صاحب بمبئی والے راولپنڈی ( ہستی باری تعالی ) مرزا احمد بیگ صاحب ریٹائر ڈانکم ٹیکس آفیسر ساہیوال ( حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام ارفع و اعلیٰ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گواہی ) شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی لاہور ( اسلام کا نظریہ رواداری) ڈاکٹر محمد اشرف صاحب ہومیو پیتھ پنڈ عزیز ضلع گجرات ( طبی اصول کی فلاسفی اور اسلام) ۳۰.پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب ربوہ (سمندر اور اس کے عجائبات ) مستری محمد یار صاحب ہر نوئی ضلع میانوالی ( قانونِ قدرت اور قرآن پاک کے علمی احاطہ کا بیان)
تاریخ احمدیت.جلد 23 480 سال 1966ء مولوی محمد اجمل صاحب شاہد کراچی مربی سلسلہ عالیہ (اسلامی اخلاق) ۳۳.میجر ڈاکٹر شاہ نواز خاں صاحب ربوہ (حیات بعد الممات) ۳۴.صوفی عبدالغفور صاحب (Highlights of Muslim History) ۳۵ مولانا غلام باری سیف صاحب ( روشن ستارے) ۳۶.قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ ( ہستی باری تعالی ) ۳۷.قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ (انبیاء پاک و ہند ) ۳۸ منصور احمد عمر صاحب ربوہ (انبیائے قرآن) ۳۹.بابوعبد الرزاق صاحب گونڈہ (بھارت ) ( مقبول اور مردو داغراض ) حکیم عبدالعزیر صاحب را ہی امرتسری حال لا ہور ( صدق اسلام کا عظیم الشان نشان ) پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب ربوہ (اسلام کا وراثتی نظام) لده ۴۲ حاجی محمد ابراہیم صاحب خلیل ربوه ( صلوۃ الادیان) ۴۳.چوہدری محمد اسلم صاحب کراچی (اقتصادی نظام از روئے قرآن کریم) -۴۴ حافظ محمد اسحاق خلیل صاحب سوئٹزر لینڈ ( قانون تعزیرات پاک و ہند اور اس کے اطلاق کا جائزہ) ۴۵.مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی، قادیان ( آئینه حق ) حکیم عطاء اللہ الہی بخش صاحب کراچی ( ہستی باری تعالی ) ۴۷.مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری ( معبود حقیقی ) - حکیم عبد العزیز صاحب امرت سری.لاہور ( صدق اسلام کا عظیم الشان نشان حصہ ۵) قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ ( تاریخ احمدیت جموں و کشمیر ) ۵۰.حافظ محمد اسحاق صاحب خلیل (عرب اور مسلمان مصنفین کی علوم وفنون کی ترقیمیں ۵۱.نمایاں خدمات ) مولوی صدرالدین صاحب احمد نگر (سیرت سروری.حصہ اول ) مولوی صدرالدین صاحب احمد نگر (سیرت سروری.حصہ دوم ) ۵۳ عطاء المنان صاحب سرگودھا ( مقصد خلافت )
تاریخ احمدیت.جلد 23 481 سال 1966ء -۵۴ ملک محمد مستقیم صاحب ساہیوال ( ناصرہ کا مہاجر ) مولوی محمد اجمل شاہد صاحب مربی سلسلہ کراچی (مسیحی نفس) قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ (عیسائیوں پر اسلام کے اثرات واحسانات ) ۵۷ پروفیسر محمد طفیل صاحب منير ربوہ (الدروس الجديدة ) میاں فضل الرحمن صاحب بی اے بی ٹی بھیرہ.تاریخ احمدیت ) ۵۹.ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب (فرینکفورٹ ) Jela la flanko de la profeto.(At the side of the Prophet) را نا عبدالکریم صاحب لاہور ( دلچسپ مکالمہ ) چوہدری محمد امجد صاحب چک نمبر ۱۳۱ ج ب گوکھو وال ضلع لائل پور (فیصل آباد ) ہستی باری تعالی ) شیخ عبد القادر صاحب محقق لا ہور ( حضرت مریم بنت عمران ) قریشی محمد اسد اللہ کا شمیری صاحب مربی سلسلہ (ضرورت نبوت) ۶۴.سید حسنات احمد صاحب راولپنڈی (The glimpses of the Holy Prophet) -۲۵ گیانی عباداللہ صاحب مینجر الفضل ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور غلبہ اسلام ) نوید الحق صاحب کراچی (What Islam offers mankind) ۶۷.ملک صلاح الدین صاحب ایم اے (سوانح حضرت شاہزادہ عبدالمجید خان صاحب) ۶۸ قریشی محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری مربی سلسلہ (انبیاء پاک و ہند ) مولوی فضل الرحمن صاحب نعیم ایم اے ( اسلامی معاشرہ کی تشکیل ) ۷۰.مولوی مسعود احمد صاحب جہلمی Die Guade Allahs) (اللہ تعالیٰ کی رحمت ) شیخ عبد القادر صاحب محقق ( قرآن حکیم اور مستشرقین ) ۷۲.میجر ڈاکٹر محمد شاہ نواز خان صاحب ( علوم جدیدہ اور حرمت خنزیر ) ۷۳.پروفیسر قانتہ صادقہ خان صاحبہ سویڈن (Manniskosonen) ( سویڈش زبان میں بمعنی ابن آدم )
تاریخ احمدیت.جلد 23 482 ۷۴.رشید احمد صاحب ارشد (The concept of art in Islam) -۷۵ عبد السلام صاحب میڈسن (Ahmadiyyah Theology) ۷۶.مولانا ظفر محمد صاحب ظفر فاضل (معجزات القرآن) ۷۷.سید حسنات احمد صاحب اسلام آباد سال 1966ء (The battles of Islam fought by Hazrat Ahmad with pen and prayer.) ۷۸ قریشی عبدالرشید صاحب ایڈووکیٹ ( اسلام کا قانون شہادت ) -۹ گیانی عباداللہ صاحب مینجر الفضل ربوه ( راز حقیقت.بعد میں عنوان تبدیل ہوا.ہور بھی اٹھ سی گرو کا چیلا ) - مسز طیبہ یعقوب صاحبہ امریکہ ( Islam and Ahmadiyyat) سیدہ نسیم سعید صاحبہ ایم اے لا ہور ( قصص الانبیاء.حضرت آدم.حضرت نوح.حضرت ہوڈ.حضرت صالح ) مبشر احمد صاحب را جیکی ربوه ( فیضانِ نبوت ) گیانی عباداللہ صاحب ( انکشاف حقیقت) -۸۴ میاں عبدالحق صاحب ( در تمین فارسی کے محاسن ) ۸۵ سید حسنات احمد صاحب (Advent of Promised Messiah (An account of battles of Islam fought with pen and prayer by Hazrat Ahmad) Revision of the thesis no 40/1975) (An introduction to the treasure house of Islam) سید حسنات احمد صاحب ۸۷- داؤ د عبدالمالک صاحب (The discovery of the Solomons gold mines in the light of the Holy Quran) گیانی عباداللہ صاحب مینجر الفضل (ویدک دھرم اور اسلام.گورونانک جی کی نظر میں) ۸۹ مولانا بشیر احمد صاحب قمر مربی سلسلہ (اسماء المهدی علیه السلام)
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۹۱.483 گیانی عباداللہ صاحب مینجر الفضل (گورونانک جی کا حج کعبہ) سید سجاد احمد صاحب (حروف و اعداد کے اسرار) ۹۲ - چوہدری ہادی علی صاحب مربی سلسلہ (ابن مریم) سال 1966ء جمیل احمد صاحب بٹ ( حضرت بانی سلسلہ احمدیہ....ہندوستان اور انگریز) مولوی دین محمد صاحب شاہد واہ کینٹ ( زندہ خدا کا زندہ نشان) ۹۵ اخوند فیاض احمد خان صاحب لاہور ( صفات الہیہ العزیز الحکیم) ۹۶ فضل الرحمن صاحب بسمل دار الصدر شمالی ربوہ (اخلاق احمد) ۹۷ گیانی عباداللہ صاحب (ایک درویش صفت بادشاہ) ۹۸ شیخ عبدالقادر صاحب ( قرآن بائیبل اور تاریخ) خالده آفتاب احمد صاحبه (غانا میں احمدیت) خالده آفتاب احمد صا حبه (امر بالمعروف و نہی عن المنکر ) ۱۰۱.ڈاکٹر سید ظہوراحمد صاحب ( کائنات اور ہیئت سے لیکر انسانیات تک) ۱۰۲.مولوی دین محمد صاحب شاہد ( یہودیوں کو دعوت اسلام) ۱۰۳.خواجہ محمد اکرم صاحب ( مجد دسیز دہم حضرت سید احمد شہید ) ۱۰۴.R.Z Malik (Inheritance) ۱۰۵.مولانا غلام باری سیف صاحب (سیرت حضرت عمرؓ) ۱۰۶ مولانا سلطان احمد پیر کوئی صاحب (معارف الحدیث) ۱۰۷.حافظ مظفر احمد صاحب ( کلکتہ ہائی کورٹ میں قرآن مجید کی ضبطی کی رٹ کا جواب) ۱۰۸.دین محمد شاہد صاحب مربی سلسله ( دیگر تراجم و تفاسیر کے مقابلہ میں سیدنا حضرت اقدس مصلح موعود کے ترجمہ وتفسیر قرآن کی خوبیاں) ۱۰۹.دین محمد شاہد صاحب مربی سلسلہ ( خاتم الانبیاء آنحضرت ﷺ کا بے نظیر عالی مقام) سید شمس الحق صاحب مربی سلسله ( فتاوی حضرت مصلح موعود.حصہ اول ) سید شمس الحق صاحب مربی سلسلہ ( فتاوی حضرت مصلح موعود.حصہ دوم ) -11+ 1117 ۱۱۲.مولوی عبد الرحمن مبشر صاحب ( عالمگیر برکات مامور زمانه )
تاریخ احمدیت.جلد 23 484 ۱۱۳.حافظ مظفر احمد صاحب ربوہ (مباہلہ ) ۱۱۴.رخسانہ منان صاحبہ دارالرحمت وسطی نمبر 1 ربوہ (حضرت فضل عمر ) ۱۱۵ مبارکہ شمس صاحبہ دار العلوم وسطی ربوہ (حضرت فضل عمر اور وقف جدید ) سال 1966ء ۱۱۶.مولانا غلام باری سیف صاحب (ام المومنین حضرت عائشہؓ) ۱۱۷.یعقوب امجد صاحب وکالت تصنیف ربوہ ( ابتلاؤں کے سوسال ۱۸۸۹ تا ۱۹۸۹) ۱۱۸ مولانا عبد الباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ (دعائے مستجاب) 119.محمد اسماعیل منیر صاحب سیکرٹری حدیقہ المبشرین (احمدیت روس میں انقلابات) ۱۲۰.مولانا غلام باری سیف صاحب (سیدنا حضرت علیؓ ) ۱۲۱.صوفی محمد اسحاق صاحب ( فتح نمایاں جلد سوم ) انعام الرحمن صاحب ( خلافت اس کی اہمیت وضرورت و برکات ) ۱۲۳.نصر اللہ خاں ملہی صاحب مربی سلسله ( ازبکستان) ۱۲۴.عبدالحمید صاحب آصف ایم اے ( پنجابی عربی لسانی سانجھ ) ۱۲۵.مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج اور مخالفین کا رد عمل ) نصیر احمد صاحب چوہدری مربی سلسلہ (حضرت مصلح موعود کے قضائی فیصلہ جات) مولوی فضل الہی صاحب انوری حال جرمنی مربی سلسلہ ( کفر و اسلام کی آخری جنگ اور اسلام کی فتح.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں کی روشنی میں ) ۱۲۸ محمد نصیر اللہ صاحب مربی سلسلہ ) تحریک آزادی کشمیر میں جماعت احمدیہ کا کردار ) فاؤنڈیشن کی طرف سے مندرجہ ذیل مقالہ نویسوں کو انعام دیا جا چکا ہے.شیخ عبد القادر صاحب محقق عیسائیت لاہور ( اسماء الانبیاء فی القرآن) ا.۲.۴.حافظ محمد اسحاق صاحب سوئٹزرلینڈ ( مسلم سلاطین ہند کے متعلق جبری اشاعت اسلام کی روایات کا تنقیدی مطالعہ ) قریشی محمد اسد اللہ کاشمیری صاحب مربی سلسلہ (عیسائیوں اور مسلمانوں کی کشمکش کی تاریخ پروفیسر حبیب اللہ خاں صاحب ربوہ (سمندر اور اس کے عجائبات )
تاریخ احمدیت.جلد 23.485 پروفیسر عبدالرشید غنی صاحب ربوہ (اسلام کا وراثتی نظام ) سال 1966ء ڈاکٹر عبدالہادی کیوسی صاحب (اسپر نٹو زبان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدس کی نسبت مقالہ ) 36 ادارہ کے زیر انتظام تعمیر ہونے والی شاندار عمارات فضل عمر فاؤنڈیشن نے اپنے قیام کے دس سال کے اندر ربوہ میں خلافت لائبریری اور تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس جیسی جدید طرز کی شاندار عمارتیں بنوا دیں جو اپنی نوعیت کی مثالی مرکزی عمارتیں ہیں.خلافت لائبریری سید نا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے ۱۸ فروری ۱۹۷۰ء کو اس عمارت کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا.تکمیل اگست ۱۹۷۱ء کے آخر تک ہوئی اور افتتاح حضور نے ۳ اکتوبر۱۹۷۲ء کو فرمایا.ابتدائی منصوبہ کے مطابق اس عمارت کے تین حصے تھے:.۲.37 ایڈمنسٹریشن بلاک جس میں مندرجہ ذیل اغراض کے لئے کمرے تھے.لائبریرین.اسٹنٹ لائبریرین.سٹاف.جلد سازی.مائیکروفلم.مؤرخ احمدیت.زود نویسی.ہال جس میں ۵۰ ہزار کتب کی گنجائش رکھی گئی.ہال کے اندر مغربی جانب ریسرچ سکالرز کے لیے آٹھ کمرے تیار کرائے گئے.مطالعہ کا ہال لائبریری کی بنیاد میں اتنی گہری اور مضبوط بنائی گئیں کہ اسکے اوپر بھی عمارت تعمیر ہو سکے فاؤنڈیشن نے لائبریری کی پُرشکوہ عمارت کے علاوہ نفیس فرنیچر، ٹیلی فون ،سوئی گیس پنکھوں، مائیکرو فلم مشین ، ایگزیبیشن شوکیس اور جلد سازی کے جدید آلات کے سب اخراجات بھی فاؤنڈیشن نے مہیا کئے.39 چند سال بعد فاؤنڈیشن نے لائبریری کو مزید وسیع کرا دیا اور اس اضافی تعمیر پر چھ لاکھ سے زیادہ رقم خرچ ہوئی.40
تاریخ احمدیت.جلد 23 486 سال 1966ء فضل عمر گیسٹ ہاؤس تحریک جدید یہ گیسٹ ہاؤس بیرون پاکستان سے جلسہ سالانہ پر آنے والے وفود کے قیام کیلئے بنوایا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۲۰ فروری ۱۹۷۴ء کو یوم مصلح موعود کی تقریب پر اسکی بنیاد رکھی اور یہ وسط ۱۹۷۵ء میں مکمل ہوا اس کی نچلی منزل کا رقبہ سات ہزار مربع فٹ ہے.یہ گیسٹ ہاؤس دفاتر تحریک جدید کے عقب میں واقع ہے.نہایت خوبصورت، دلکش اور جدید قسم کی سہولتوں سے مزین اور ائیر کنڈیشننگ سٹم سے آراستہ.اس کی تعمیر سوا گیارہ لاکھ روپے کی مالیت سے ہوئی.جلسہ سالانہ پر تر جمانی اور صوتی نظام ۱۹۸۰ء کے جلسہ سالانہ پر فضل عمر فاؤنڈیشن نے غیر ملکی وفود کو تقاریر جلسہ کا ساتھ کے ساتھ ترجمہ سنانے کے نہایت کامیاب انتظام کی بنیاد رکھی جوانشاء اللہ مستقل طور پر قائم رہے گا.اس سلسلہ میں جب ملک کی معروف الیکٹرک کمپنیوں سے آلات کی خرید کے لئے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈھائی لاکھ کا تخمینہ دیا مگر احمدی انجینئروں یعنی منیر احمد صاحب فرخ ، ملک لال خاں صاحب محمود مجیب اصغر صاحب اور ایوب ظہیر صاحب نے یہ سب آلات ایک لاکھ سے کم لاگت میں خود تیار کرائے اور اس کے سارے اخراجات فضل عمر فاؤنڈیشن نے برداشت کئے.فاؤنڈیشن کا بلند پایہ لٹریچر 42 پر مشتمل جلدیں.جون ۲۰۱۳ ء تک اس کی انوار العلوم ( حضور کی کتب ، تقاریر اور مضامین پرمش ۲۳ جلدیں شائع ہو چکی ہیں ) خطبات محمود جلد اول.خطبات عید الفطر، خطبات محمود جلد دوم خطبات عید الاضحیہ، خطبات محمود جلد سوم خطبات النکاح، خطبات جمعہ.(اگست ۲۰۱۳ ء تک خطبات محمود کی ۲۵ جلد میں شائع ہو چکی ہیں.) مه رویاء و کشوف سید نا محمود.سوانح فضل عمر ( ۵ جلد میں شائع ہو چکی ہیں.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے قلم سے پہلی دو جلد میں اور باقی تین مکرم مولا نا عبدالباسط شاہد صاحب نے تالیف کیں.) اس کے علاوہ بعض تقاریر اور تصانیف الگ سے بھی شائع کی گئی ہیں.ہستی باری تعالی.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم.احمدیت یعنی حقیقی اسلام.سیر روحانی.نظام نو.
تاریخ احمدیت.جلد 23 487 سال 1966ء اسلام کا اقتصادی نظام.فضائل القرآن مجموعہ تقاریر.خلافت علی منہاج النبوۃ (۳ جلدیں) خطابات شوری (۳ جلدیں).تقاری محمود ( ملائکتہ اللہ.حقیقۃ الرؤیا.ذکر الہی) متفرق خدمات کینیا میں نئے سکول کیلئے چالیس ہزار شلنگ گرانٹ دی.سائنس کی غیر ملکوں میں اعلی تعلیم کے 43 لئے دو وظیفے دینے کا فیصلہ کیا.ایک جدید طرز کی فوٹواسٹیسٹ مشین فاؤنڈیشن کی طرف سے جامعہ احمد یہ ربوہ کو بطور عطیہ پیش کی.فاؤنڈیشن نے قرآن مجید کے فرانسیسی ترجمہ کے لئے ایک غیر معمولی رقم تحریک جدیدر بوہ کوادا کی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام خدام کے نام ۱۴ مارچ ۱۹۶۲ء کومجلس خدام الاحمد ی ربوہ کےزیر اہتمام حضرت خلیفتہ امسیح الا ول کی سیرت پر ایک جلسہ عام منعقد ہوا.جس کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا.”میرا پیغام یہ ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے جذبۂ فدائیت اور جاشاری کے مطابق آپ لوگ عمل کریں.44 مشرقی اور مغربی پاکستان کے باہمی تعلقات بڑھانے کی تلقین ۲۳ فروری ۱۹۶۶ء کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بعد نماز عصر مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری ( جو ایک ہی دن قبل مشرقی پاکستان سے واپس پہنچے تھے ) سے ارشاد فرمایا کہ پانچ مینٹ میں مشرقی پاکستان کے حالیہ سالانہ جلسہ کی روداد سنائیں.مولانا صاحب حضور کے ارشاد کی تعمیل میں جلسہ کے مختصر حالات بیان کر چکے تو حضور نے دونوں صوبوں کے باہمی تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر بہت زور دیا اور فرمایا کہ: دنیا میں یہ رواج پایا جاتا ہے کہ ایک ملک کے رہنے والے دوسرے ملکوں کے رہنے والوں کو پن فرینڈز (PEN FRIENDS) یعنی قلمی دوست بناتے ہیں.اُن کی ایک دوسرے سے جان پہچان بھی نہیں ہوتی.لیکن پھر بھی آپس میں خط وکتابت ہوتی رہتی ہے.میرے خیال میں ربوہ میں بھی درجنوں ایسے نوجوان
تاریخ احمدیت.جلد 23 488 سال 1966ء ہوں گے.جنہوں نے غیر ملکوں میں پن فرینڈ زیعنی قلمی دوست بنائے ہوئے ہوں گے اور پھر وہ ان سے خط وکتابت بھی کرتے ہوں گے.ہمارے تعلیم الاسلام کالج تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے لڑکوں اور اسی طرح نصرت گرلز ہائی سکول اور جامعہ نصرت کی لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ مشرقی پاکستان میں پن فرینڈز بنا ئیں.لڑکے لڑکوں کو پن فرینڈز ( قلمی دوست) بنائیں اور لڑکیاں لڑکیوں کو پن فرینڈز ( قلمی دوست) بنائیں اور اس طرح مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں اور سکولوں کے طلباء سے دوستانہ تعلق قائم کریں.اگر وہ ایسا کریں تو یہ کئی لحاظ سے مفید ہوسکتا ہے.45 166 تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد و انعامات سے خطاب تو ۱۳ مارچ ۱۹۶۶ء کو تعلیم الاسلام کالج کے جلسہ تقسیم اسناد و انعامات کی ایک یادگار تقریب عمل میں آئی.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کالج سے رُخصت ہونے والے ڈگری یافتہ طلباء سے بصیرت افروز خطاب فرمایا جس کے آغاز میں حضور نے اس عظیم ادارہ کی درج ذیل پانچ روایات کا خصوصی تذکرہ فرمایا: ا.لد اس درسگاہ کے اساتذہ اپنے طلبہ کے ساتھ بچوں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں.ہر وقت بے نفس خدمت میں لگے رہتے ہیں.طلبه غلط سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور سٹرائیک STRIKE اور دیگر ایسی بد عادات سے وہ اتنی دور ہیں جتنی کہ زمین آسمان سے..اس درسگاہ کا فکر و عمل مذہب و ملت کی تفریق و امتیاز سے بالا ہے.یہاں امیر وغریب میں کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا.کالج کے اساتذہ طلبہ کے لئے ہمیشہ دعاؤں میں مصروف رہتے ہیں.ان مقدس روایات کی نشان دہی کرنے کے بعد حضور نے طلبہ کو نہایت وجد آفریں انداز میں زریں نصائح فرمائیں اور بتایا کہ میدان علم کی وسعتیں نا پیدا کنار ہیں اس میں منزل بہ منزل آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ.علوم حاصل کرنے کی کنجی دعا ہے.پس تد بیر اور دعا دونوں کو کمال تک پہنچاؤ.قرآنِ کریم کو حرز جان بناؤ کہ تمام دینی و دنیوی برکتیں اسی سے وابستہ ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 489 سال 1966ء پروفیسر محمد اسلم صابر صاحب کا بیان ہے کہ: ۱۹۶۶ء کی کا نووکیشن میں بحیثیت مہمان خصوصی خطاب فرمایا.ایک فوٹو سٹاف کے ساتھ اور ایک گروپ فوٹو شعبہ عربی کے اساتذہ اور ایم.اے کی ڈگری حاصل کرنے والے طلباء کے ساتھ کھنچوایا.دونوں گروپ فوٹو خاکسار کے پاس محفوظ ہیں.ایم.اے کی یہ کلاس حضور کے زمانہ پرنسپل شپ میں کامیاب ہونے والی آخری کلاس تھی.تین طلباء نے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی تین پوزیشن حاصل کی تھیں اور جب نتیجہ کالج میں آیا تھا تو حضور نے اُسی وقت صدر شعبہ عربی استاذی المكترم صوفی بشارت الرحمن صاحب سے فرمایا کہ آئندہ تمہاری پوزیشن نہ آئے گی.چنانچہ اس کے بعد قریباً دس کلاسوں نے یو نیورسٹی کا امتحان دیا اور نتیجہ ۱۰ فیصد رہامگر پوزیشن کوئی نہیں آئی.وقف عارضی کی انقلاب انگیز تحریک سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد جماعتوں کی تربیت واصلاح کا مسئلہ پوری شدت سے دامنگیر رہتا تھا.اس ضمن میں حضور نے ۱۸ مارچ ۱۹۶۶ء کو وقفِ عارضی کی عظیم الشان تحریک کی بنیا د رکھی اور تحریک فرمائی کہ : ”وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھجوایا جائے وہاں وہ اپنے خرچ پر جائیں اور اُن کے وقف شدہ عرصے میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں اور جو کام اُن کے سُپر دکیا جائے انہیں بجالانے کی پوری کوشش کریں.“ یہ کام بڑا اہم اور ضروری ہے اور اسکی طرف جلد توجہ کی ضرورت ہے اور قرآن کریم کی تعلیم کا خاص اہتمام واقفین کے بنیادی فرائض میں شامل تھا.حضور کی منظوری سے وقفِ عارضی کا پہلا وفدر بوہ سے یکم مئی ۱۹۶۶ء کو روانہ ہوا.یہ وفد چوہدری محمد ابراہیم صاحب ایم.اے اور قریشی فضل حق صاحب ( دُکاندار گولبازار بوہ ) پر مشتمل تھا.ان کے بعد اسی ماہ جو احباب بطور واقف مختلف مقامات پر تشریف لے گئے اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 490 سال 1966ء ملک مظفر احمد صاحب ( مغلپورہ لاہور ) ، خواجہ محمد ظہور الدین صاحب (لاہور) ، مولوی سراج الدین صاحب ( جھنگ صدر ) ، خان محمد ایوب خان صاحب (ضلع شیخوپورہ)، خلیفہ طاہر احمد صاحب ایم.اے ( کوئٹہ )، چوہدری محمد حیات صاحب ( لورالائی) سردار فیض اللہ خان صاحب ڈیرہ غازیخاں، مولوی محمد تقی صاحب ( ربوه)، قریشی محمد احمد صاحب (ملتان)، چوہدری نور محمد صاحب (گرموله ورکاں گوجرانوالہ ، شیخ عنایت اللہ صاحب (ضلع سرگودھا)، کیپٹن ملک خادم حسین صاحب، مولوی سلطان محمود صاحب ( شاہ پور صدر ) - ان ابتدائی مجاہدین کے بعد جون سے اگست تک جو مخلصین جماعت تحریک وقف عارضی کے تحت نہایت تندہی سے مقررہ جماعتوں میں اپنے مفوضہ فرائض بجالاتے رہے ان کی فہرست درج ذیل کی جاتی ہے.مکرم ملک برکت اللہ صاحب ایڈووکیٹ منٹگمری، آصف جمیل صاحب فورٹ سنڈیمن ، بشیر احمد صاحب سکھری کوئٹہ ، میاں عبدالقیوم صاحب ایم.اے کوئٹہ حکیم محمد افضل فاروقی اوچ شریف، خواجہ محمد اکرم صاحب لاہور، محمد طفیل سعید صاحب گھٹیالیاں ، صوفی محمد دین صاحب بدوملہی ، مکرم محمود احمد صاحب بد و ماهی ، سلطان احمد صاحب بسرار بوه، سید محمد ہاشم صاحب بخاری جہلم، شیخ محمد منیر صاحب دنیا پور ،عبدالرحمن صاحب کوٹ احمدیاں، چوہدری عبدالحمید صاحب گوٹھ حمید نگر ، عبدالستار صاحب خادم ایبٹ آباد، حکیم محمد عبداللہ صاحب، جہلم، ملک رفیق احمد صاحب ربوہ، چوہدری خالد سیف اللہ خانصاحب لاہور ، چوہدری غلام جیلانی صاحب سرشمیر روڈ ، مولوی اسمعیل صاحب جھول، مکرم الحاج مسعود احمد صاحب خورشید کراچی، محترمہ اہلیہ صاحبه مسعود احمد صاحب خورشید، مکرم بابو محمود احمد صاحب حیدر آباد، مستری غلام دین صاحب منڈی بہاؤالدین، محمد شریف صاحب سندھی لائکپور ، منور احمد صاحب خالد کوٹ احمدیاں محمد بخش صاحب پنشنز ربوہ، حسن محمد صاحب ربوہ ، چوہدری محمد عصمت اللہ صاحب بہلولپور، ماسٹر محمد چراغ صاحب پیرو چک مولوی بشیر احمد صاحب قادیانی ربوه، اقبال محمد خاں صاحب گوجرانوالہ، چوہدری فضل الدین صاحب پیرو چک، محمد یوسف علی صاحب چٹا گانگ، فضل احمد خاں صاحب چٹاگانگ، ریاض احمد صاحب سرگودہا مکرم چوہدری محمد دین صاحب ڈھاباں سنگھ، مکرم رشید اختر صاحب چکلالہ مکرم چوہدری داؤ داحمد صاحب راولپنڈی، مکرم عبدالکریم صاحب رازی راولپنڈی، مکرم محمد لطیف صاحب لاہور، مکرم عبدالسلام صاحب طاہر ربوہ ، ملک مبارک
تاریخ احمدیت.جلد 23 491 سال 1966ء احمد صاحب ربوہ، پروفیسر حبیب اللہ خانصاحب ایم ایس سی ربوہ، عبدالحمید صاحب خلیق ربوہ، مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کراچی، مکرم کبیر الدین صاحب صدیقی کراچی، مکرم محمد عثمان صاحب صدیقی ایم اے گھٹیالیاں ، مکرم محمد اسلم صاحب باجوہ چک ۳۳ جنوبی سرگودہا، مکرم حاجی عبدالرحمن صاحب باندھی، مکرم عبد الغفار صاحب حیدر آباد، مکرم محمد دین صاحب ناز ربوہ، مکرم محمد امین صاحب ربوہ، مکرم محمد علی صاحب خالد ر بوه ، مکرم شیخ عبد الماجد صاحب ایم اے جیکب آباد، مکرم ملک محمد اشرف خان صاحب کراچی، مکرم چوہدری محمد شریف صاحب کراچی ،مکرم ملک مبشر احمد صاحب فرخ حیدر آباد، مکرم اخوند فیاض احمد خاں صاحب لاہور، مکرم امیر حیدر صاحب مڑھا نوالی، نذیر احمد صاحب بٹ ربوہ، مکرم عبدالرشید صاحب یحیی ربوہ، مکرم مولوی بشیر احمد صاحب زاہد گھٹیالیاں، مکرم محمد یعقوب احمد صاحب ربوہ مکرم سید سمیع اللہ شاہ صاحب بی.اے، بی.ٹی ربوہ ، مکرم اللہ بخش صاحب میر پور خاص، مکرم حمید احمد صاحب بٹ احمد آباد اسٹیٹ ، مکرم عبد الحلیم صاحب ایم.اے جہلم، مکرم محمد سلیم صاحب جہلم، مکرم پیر ظفر اقبال احمد صاحب لاہور مکرم صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب ربوہ مکرم حافظ پیرط مبین الحق صاحب شمس راولپنڈی، مکرم عبد الشکور صاحب ایم اے راولپنڈی، ہمکرم عبدالرحیم صاحب راٹھور پشاور مکرم ماسٹر عبدالمجید صاحب گھوئینگی ، مکرم عبد الغفور صاحب سرشمیر روڈ ، مکرم ملک محمد سلیم صاحب ربوہ، مکرم ماسٹر فقیر محمد صاحب چک نمبرگ ب / ۱۹۶ محترمہ رحمت بی بی صاحب اہلیہ ماسٹر فقیر محمد صاحب، مکرم ڈاکٹر عبدالکریم صاحب ملتان، کرم را نا منور احمد صاحب ربوہ مکرم سید خادم حسین صاحب گھٹیالیاں، مکرم عبد الخالق صاحب عادل کنری مکرم مقصود احمد صاحب جا سکے، مکرم محمد نواز صاحب مومن ربوہ مکرمہ اہلیہ صاحبہ محمد نواز صاحب مومن ربوہ مکرم بشیر احمد صاحب جا سکے، مکرم رشید احمد صاحب قمر ننکانہ صاحب، مکرم اقبال احمد صاحب ننکانہ صاحب، مکرم چوہدری رحمت علی صاحب ایم.اے سرگودھا، مکرم محمد اسلم صاحب شاد ایم اے ربوہ مکرم مرزا محمد فاضل صاحب کوئٹہ، مکرم عبدالرحمن خان صاحب کوئٹہ، مکرم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ڈار کوئٹہ، مکرم سید محمد سعید صاحب کراچی، مکرم ساجد نیم صاحب راولپنڈی ، مکرم راجہ منیر احمد صاحب گھوٹکی مکرم چوہدری غلام احمد صاحب بسرا چک نمبر ۹۹ شمالی ، مکرم چوہدری منصور احمد صاحب چک نمبر ۹۹ شمالی ،مکرم نصرت احمد ناصر چک نمبر ۱۶۶ مراد، مکرم محمود خاں صاحب چک نمبر ۱۶۸ امراد، مکرم عبدالستار صاحب چک پنیار نمبر ۹، مکرم عبدالجبار صاحب ربوہ ، مکرم چوہدری انور حسین صاحب ایم.اے ربوہ ، مکرم چوہدری عطاء اللہ صاحب ایم
تاریخ احمدیت.جلد 23 492 سال 1966ء سید اے ربوہ ، مکرم قاضی محمد بشیر صاحب ایم.اے گھٹیالیاں، مکرم شاہنواز صاحب بھابڑہ ، مکرم سید افتخار حسین شاہ صاحب ایم.اے گھٹیا لیاں، مکرم چوہدری عصمت اللہ صاحب نواں کوٹ ، مکرم یو.اے مخدوم صاحب اسلام آباد، مکرم چوہدری عبداللطیف صاحب شاہ کوٹ، مکرم شیخ محمد علی صاحب چوہڑ کا نہ منڈی، مکرم انور سعید صاحب لاہور، مکرم سردار رفیق احمد صاحب چوہڑ کا نہ منڈی، مکرم مبارک احمد صاحب طاہر ربوہ، مکرم عبدالستار صاحب ربوہ مکرم مولوی خلیل الرحمن صاحب پشاور مکرم نصیر احمد صاحب اعوان سرگودہا مکرم ملک مسعود احمد صاحب خالد سرگودھا، مکرم چوہدری ثناء اللہ صاحب بیداد پور، مکرم حکیم احمد دین صاحب سید والا ، مکرم ماسٹر فضل کریم صاحب کوٹ رحمت خاں، بیداد پور مکرم مولوی عبدالحق صاحب کا لیہ، مکرم محمد شفیع صاحب سلیم پوری واہ کینٹ ، مکرم منشی محمد دین صاحب چوڑ اسکھر ، کرم محمد یا مین صاحب ربوہ مکرم احمد خاں صاحب منگلا، مکرم صوفی محمد رفیع صاحب سکھر، مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب، سکھر ، مکرم غلام قادر صاحب ربوہ مکرم انیس احمد صاحب لاہور، چوہدری نذیر احمد صاحب چک نمبر ۷۵ جنوبی ، مکرم عبد الغفار خان صاحب پشاور، مکرم ملک جلال الدین صاحب بدین، مکرم میر غلام محمد صاحب بدین مکرم صدیق احمد صاحب منور ربوہ مکرم عبدالشکور صاحب جاوید ر بوه، مکرم چوہدری غلام سرور صاحب نواں کوٹ مکرم صوفی عبدالغنی صاحب چک نمبر ۶۶۵ لائکپور، مکرم چوہدری نواب الدین صاحب حیدر آباد، مکرم ملک محمد مالک صاحب جا سکے، مکرم خان خواص خاں صاحب پشاور، مکرم حکیم عبدالرحیم صاحب کو ہاٹ ، مکرم سید تبسم حسین صاحب بی.اے لاہور، مکرم مستری نور محمد صاحب ربوہ، مکرم ماسٹر صدیق احمد صاحب گھٹیالیاں، مکرم قریشی محمد عبداللہ صاحب ربوہ، مکرم محمد مالک صاحب گوجرانوالہ مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ، مکرم مرزا رشید انور صاحب لاہور ، مکرم سید محمد شفیق صاحب ربوہ محمود احمد خاں صاحب ربوہ ، مکرم بشیر الدین صاحب کمال بہاولپور، مکرم مبشر احمد صاحب کا ہلوں چک نمبر -۳۰/۱۱ منٹگمری مکرم مولوی صدرالدین صاحب کھوکھر کراچی ،مکرم ملک الطاف الرحمن صاحب کراچی، مکرم ابن السلام صاحب کو ٹلی میر پور مکرم احسان الحق صاحب کوٹلی میر پور، مکرم محمد حسین کوٹلی صاحب گوئی آزاد کشمیر، مکرم منصور احمد صاحب بشیر جامعہ احمد یہ ربوہ مکرم عبدالعزیز صاحب طاہر جامعہ احمد یہ ربوہ ، مکرم سیداکبر علی شاہ صاحب منڈی بہاؤالدین، مکرم سردار لطیف احمد صاحب حافظ آباد، مکرم مظفر احمد صاحب ظفر وال ، مکرم ،ارشاد علی خان صاحب لاہور ، مکرم حاجی محمد عیسی صاحب کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 493 سال 1966ء م ملک محمد موسیٰ صاحب کالیہ مکرم حبیب احمد صاحب آن به شیخو پورہ، مکرم مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا، مکرم حاجی قمر الدین صاحب قمر آباد نواب شاہ مکرم چوہدری عبدالمنان صاحب بوریوالہ، مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب ایم.ایس سی ملتان ، مکرم عبدالقادر صاحب بھٹی راولپنڈی، مکرم چوہدری محمد دین صاحب نورائی شریف، مکرم بشارت احمد صاحب نورائی شریف ، مکرم محمد احمد صاحب لائلپور، مکرم شیخ محمد صدیق صاحب قبوله، مکرم مولوی محمد ابراہیم صاحب بھا مبھردی ربوہ مکرم عطاء اللہ صاحب فاضل ربوه، مکرم مولوی مبارک احمد صاحب تر گڑی ،مکرم ملک محمد دین صاحب تر گڑی، مکرم خواجہ عبد الکریم صاحب ربوہ، مکرم ماسٹر غلام احمد صاحب ربوہ ، مکرم ماسٹر ظہور احمد صاحب ربوه، مکرم حکیم محمد موبیل صاحب نواب شاہ، مکرم محمد احسان الہی صاحب جنجوعہ چنیوٹ، مکرم عبد المغنی صاحب زاہد ر بوہ مکرم ماسٹر عبدالرب صاحب ربوہ، مکرم ماسٹر عبدالرشید صاحب ربوہ، چوہدری غلام رسول صاحب سیکنڈ ماسٹر ربوہ، محمد یونس خاں صاحب بی.اے ربوہ ، مکرم ماسٹر احمد علی صاحب ربوہ، مکرم مولوی محمد حسین صاحب، مکرم مستری ابراہیم صاحب وسن کے ، مکرم بشیر احمد صاحب لاہور، مکرم ماسٹر نذیر احمد صاحب ربوہ، مکرم عبدالوہاب صاحب جا سکے، ہمکرم عطاء المجیب راشد صاحب ایم اے ربوه، مکرم محمد شفقت صاحب سوہاوہ ڈھلواں، مکرم نذیر احمد صاحب مبشر ربوہ، مکرم محمد شریف صاحب ایم.اے مظفر گڑھ، مکرم مہتاب الدین صاحب شیخو پورہ، مکرم حبیب اللہ صاحب قبولہ.یہ مئی سے اگست ۱۹۶۶ء تک کے واقفین ہیں.جنہوں نے اپنے ایثار و قربانی اور خلوص کے ساتھ اس شجرہ طیبہ کی آبیاری کرنے کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.جہاں جہاں گئے اپنی دعاؤں اور پُر جوش جذبہ عمل سے افراد جماعت میں زندگی اور رُوحانیت کی نئی روح پیدا کر ڈالی.خدا تعالیٰ نے اپنے محبوب خلیفہ کی آواز میں ایسا اثر پیدا کیا کہ ان ابتدائی قافلوں کے بعد وقف عارضی کے تحت خدمات بجالانے والے مجاہدین کا گویا تانتا بندھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کمزور جماعتیں جو سوئے ہوئے شیر کی طرح بے حس و حرکت نظر آتی تھیں جاگ اُٹھیں.علمی تقاریر کا مبارک سلسله 50 49 ا مارچ ۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے مسجد مبارک میں نماز مغرب کے بعد علمی تقاریر کا ایک نہایت ہی مُبارک سلسلہ شروع فرمایا.سلسلۂ تقاریر کے پہلے اجلاس میں تلاوت و نظم کے بعد
تاریخ احمدیت.جلد 23 494 سال 1966ء مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے جلسہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں سلسلہ تقاریر کا افتتاح فرمانے کی درخواست کی.حضور نے فرمایا کہ: " جس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے معبوث فرمایا وہ زمانہ اسلام کے لئے بڑا نازک زمانہ تھا.دنیا چاروں طرف سے اسلام پر حملہ آور تھی.حضور علیہ السلام خدائی حکم کے ماتحت تن تنہا اسلام کے دفاع کے لئے کھڑے ہوئے اور حضور نے ہر معترض کو مُسکت جواب دیا اور اس طرح دلائل قاطعہ کے انبار لگادیئے.یہ دلائل حضور کی کتابوں میں محفوظ ہیں.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حضور کی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کریں اور ان دلائل سے آگاہ ہوں تا کہ ہم خدمت اسلام کا فریضہ احسن طور پر ادا کر سکیں.میں نے محسوس کیا ہے کہ اگر حضور کی بیان فرمودہ کسی دلیل کو ایک دفعہ کتاب میں پڑھا جائے اور پھر اسے دوسرے کی زبان سے سُنا جائے تو وہ اچھی طرح ذہن نشین ہوسکتی ہے.اس لئے علمی تقاریر کا ایک سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.جن میں حضور کے بیان فرمودہ دلائل عام فہم انداز میں بیان کئے جائیں گے تا کہ وہ احباب کو ذہن نشین ہوسکیں.احباب حضور کی کتابوں کا مطالعہ بھی کریں اور پھر ان جلسوں میں شریک ہوکر دلائل کو ذہن نشین 66 کرنے کی کوشش کریں.“ حضور نے فرمایا چونکہ اسلام پر سب سے بڑا حملہ عیسائیت کی طرف سے تھا.اس لئے تقاریر کے اس سلسلہ کا آغاز اُن دلائل سے کیا جا رہا ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوہیت مسیح کی تردید میں ” جنگِ مقدس میں بیان فرمائے ہیں.علماء اس وقت باری باری ایک ایک دلیل حضور کے اپنے الفاظ میں پیش کر کے اس کی تشریح بیان کریں گے.احباب کو چاہیئے کہ وہ ان دلائل کو توجہ سے سنیں اور انہیں ذہن نشین کرنے کی کوشش کریں تا کہ وہ عیسائیت کا مقابلہ کرنے میں اسلام کے ایک سپاہی ثابت ہو سکیں.حضور نے یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس قسم کے جلسے آئندہ بھی منعقد ہوتے رہیں گے.چنانچہ آئندہ ماہ پھر جلسہ منعقد ہوگا.حضور کے افتتاحی خطاب کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ، محترم سید محمود احمد صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 495 سال 1966ء ناصر، محترم سید داؤ د احمد صاحب، محترم غلام باری صاحب سیف ، محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائکپوری، محترم چوہدری محمد شریف صاحب محترم پروفیسر بشارت الرحمن صاحب ایم اے اور محترم چوہدری غلام بین صاحب نے باری باری الوہیت مسیح کی تردید میں جنگ مقدس میں حضور علیہ السلام کی بیان فرمودہ ایک ایک دلیل پیش کر کے اسکی وضاحت کی.آخر میں حضور نے تقاریر کے بارہ میں مقررین کو ضروری ہدایات سے نوازا.دوسرا اجلاس اراپریل ۱۹۶۶ء کو حضور کی زیر صدارت دوسرا اجلاس ہوا.جس میں (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب، مولانا ابوالعطاء صاحب اور مولا نا محمد صادق صاحب سماری نے تقاریر فرمائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب ” سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب میں عیسائیت کی تردید میں زبردست دلائل دیئے ہیں.ہر ایک مقرر نے ان میں سے ایک ایک دلیل پیش کر کے اسکی وضاحت کی.عیسائی دنیا کو چیلنج حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے تقاریر کے اختتام پر اعلان فرمایا.کہ اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائی دنیا کو یہ چیلنج دیا تھا کہ تو رات اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.یہ انعامی چیلنج آج بھی قائم ہے اور میں جماعت احمدیہ کے امام ہونے کی حیثیت سے انعامی رقم میں سو گنا اضافہ کرنے کا اعلان کرتا ہوں.عالمگیر جماعت احمدیہ کے روحانی پیشوا کے اس باطل شکن چیلنج کا کوئی جواب مسیحی دنیا کے عالمی لیڈروں میں سے کسی نے نہیں دیا اور اُن پر مہر سکوت لگی رہی البتہ گوجرانوالہ تھیولا جیکل سیمری کے ایک پرنسپل پادری کے ایل ناصر نے مسیحی رسالہ ” کلام حق کے جون تا اگست ۱۹۶۶ء کے پرچوں میں ایک لاتعلق طویل اور مضحکہ خیز مضمون لکھا جس میں خلیفہ راشد کے چیلنج کا اصل جواب دینے کی بجائے بائبل کے چند متفرق حوالوں کو جمع کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ سورۂ فاتحہ کی آیات کے الفاظ ہماری الہامی کتاب میں بھی بکھرے ہوئے موجود ہیں حالانکہ سورہ فاتحہ کے الفاظ جملہ عربی لغات میں اُن کے معانی سمیت موجود ہیں اصل سوال جس نے عالمی کلیسیا کو مبہوت اور ساکت و صامت کر دیا وہ تو یہ تھا کہ اگر بائبل میں سورۃ فاتحہ جیسی دعا موجود ہے تو دکھلاؤ
تاریخ احمدیت.جلد 23 تمہیں بھاری انعام دیا جائے گا.496 مسیحیت کے عالمی اور مرکزی راہنما آج تک جواب دینے سے قاصر رہے ہیں.طلبائے جامعہ احمدیہ کا امتحان سال 1966ء نیز حضور نے اس موقعے پر بڑی تفصیل سے بتایا کہ یہ بڑی عجیب کتاب ہے ( مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف لطیف سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب).اس میں بڑے وسیع مضامین پائے جاتے ہیں اور اس کے ایک ایک فقرہ کی تشریح میں ایک ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے.جامعہ احمدیہ کے طلباء اس کتاب کو بار بار پڑھیں اور اس میں سے زیادہ سے زیادہ مضامین اور مطالب نوٹ کریں.تین ہفتے بعد اس سے علیحدہ جلسہ اسی غرض سے منعقد کیا جائے.طلباء سے مضامین کتاب کے متعلق سوالات بھی ہوں گے.جن سے یہ بھی معلوم ہو جائے گا.کہ انہوں نے اس مختصر لیکن وسیع مطالب کی حامل کتاب کا کتنا گہرا مطالعہ کیا ہے.یہ جلسہ ان طلباء کی عزت افزائی اور انہیں فائدہ پہنچانے کے لئے علیحدہ منعقد ہوگا.حضور کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں ۵ امئی ۱۹۶۶ء کو یہ خصوصی جلسہ منعقد ہوا.حضور بنفس نفیس گرسی صدارت پر رونق افروز تھے.حضور کی زیر ہدایت متحن کے طور پر فرائض سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ محترم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب اور محترم مولوی غلام باری صاحب سیف نے ادا کئے.انہوں نے طلباء سے سوالات پوچھے اور طلبائے جامعہ احمدیہ نے جو پانچ علیحدہ علیحدہ گروپوں ( امانت گروپ، دیانت گروپ، شجاعت گروپ ،صداقت گروپ اور رفاقت گروپ ) میں تھے.باری باری ان سوالات کے جواب دیئے.اس طرح باری باری قریباً چوبیس طلباء نے تقاریر کیں.سوال وجواب کا یہ سلسلہ قریباً سوا گھنٹہ تک جاری رہا اور بہت دلچسپ ہونے کے علاوہ سامعین کے لئے ازدیاد علم کا موجب ثابت ہوا.حضور نے اس امتحان کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالعطاء صاحب کو مُنصف مقرر فرمایا تھا.چنانچہ اُن کے فیصلہ کے بموجب امانت گروپ اول قرار پایا.حضور نے اس گروپ کو تفسیر صغیر کے نئے ایڈیشن کا ایک نہایت دیدہ زیب نسخہ بطور انعام عطا فرما کر ہدایت فرمائی کہ اس نسخہ کی ابتداء میں سادہ صفحہ پر اس مقابلہ اور امانت گروپ کے اول آنے کا ذکر کر کے اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 497 سال 1966ء گروپ کے تمام طلباء کے نام درج کئے جائیں اور یہ گروپ اس نسخہ کو جامعہ کی لائبریری میں جمع کرا دے.مقابلہ کے اختتام پر حضور نے اپنے دست مبارک سے یہ خصوصی انعام امانت گروپ“ کو عطا فرمایا جوگروپ کے ایک طالب علم عطاء المجیب صاحب را شد ایم.اے(سابق مبلغ جاپان، حال مبلغ انچارج انگلستان مشن ) نے حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر حاصل کیا.مقابلہ کے اختتام پر پہلے محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے طلباء کو کتاب کا مطالعہ کرنے اور اس سے پورے طور پر استفادہ کرنے سے متعلق ضروری ہدایات دیں.آخر میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے بار بار اور بالاستیعاب مطالعہ کی اہمیت پر ایک بصیرت افروز تقریر ارشاد فرمائی.تیسرا اجلاس 57 تیسرا اجلاس ۱۴مئی ۱۹۶۶ء کو حضور ہی کی صدارت میں منعقد ہوا.محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس محترم ملک سیف الرحمان صاحب محترم صاحبزاده 59 مرزا منصور احمد صاحب، محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر اور محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے قرآن مجید کی ان تمیں آیات میں سے جن سے استدلال کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت مسیح علیہ السلام کا وفات یافتہ ہونا ثابت فرمایا ہے.ایک ایک آیت پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ استدلال کو عام فہم انداز میں پیش کیا اور اس طرح واضح فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام تمام دیگر انبیاء کرام کی طرح وفات پاچکے ہیں اور حیات مسیح کا عقیدہ از روئے قرآن مجید درست نہیں ہے.آخر میں حضور نے عقیدہ وفات مسیح کی اہمیت پر بہت ایمان افروز پیرائے میں روشنی ڈالی اور احباب کو تلقین فرمائی کہ وہ ان عظیم الشان دلائل کو جو وفات مسیح کے حق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتب میں پیش فرمائے ہیں.نئی نسلوں کے ذہن نشین کرائیں تا کہ کسر صلیب کی عظیم الشان مہم میں وہ بھی کما حقہ حصہ لے کر اس غرض کو پورا کرنے والی بن سکیں جس کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کو قائم فرمایا ہے.چوتھا اجلاس 60 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی زیر صدرات اس بابرکت سلسلے کا چوتھا اجلاس ۱ جون ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا.اس میں علی الترتیب درج ذیل حضرات نے غیر مبائعین کے ساتھ اختلافی مسائل پر تقاریر کیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 498 سال 1966ء مولانا ابوالعطاء صاحب ( نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں غیر مبائعین کے۱۹۱۴ ء تک کے حوالے ) ۲.مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ( خلافتِ احمدیہ وبیعت خلافت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے ارشادات ).سید محمود احمد صاحب ناصر (نبوت وخلافت کے متعلق ۱۹۱۴ء میں غیر مبایعین کا موقف اور ان سے انحراف) ۴.مولانا جلال الدین صاحب شمس ( نبوت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کا موقف ۱۹۱۴ء سے پہلے اور بعد ) یہ چاروں پُر مغز مقالے اسی سال ” نبوت و خلافت کے متعلق اہلِ پیغام اور جماعت احمدیہ کا موقف کے نام سے شائع کر دئے گئے تھے.) آخر میں حضور نے ارشاد فرمایا: " آپ دوستوں نے دیکھا ہوگا.کہ آج کے اجلاس میں تصاویر کی ایک البم دکھائی گئی ہے.ایک تصویر جو آپ کے سامنے رکھی گئی وہ غیر مبایعین کے اکابرین کے ۱۹۱۴ء تک کے حوالوں پر مشتمل تھی.آخری تصویر جو آپ کے سامنے رکھی گئی وہ نبوت اور خلافت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے موقف پر مشتمل تھی.ان دونوں تصویروں میں اتنی مشابہت ہے کہ یہ ایک ہی NEGATIVE کے دو پرنٹ نظر آتے ہیں.ان دونوں تصویروں کے درمیان ایک وہ تصویر ہے.جو ۱۹۱۴ء کے بعد مولوی محمد علی صاحب نے ہمارے سامنے رکھی.وہ ۱۹۱۴ء سے پہلے کی تصویر سے بالکل مختلف ہے.وہ کسی اور ہی NEGATIVE کا پرنٹ ہے.اس سے غیر مبایعین کا عقائد صحیحہ سے انحراف آئینہ کی طرح واضح ہو جاتا ہے.61 پانچواں اجلاس پانچواں اجلاس ۲۸ را گست ۱۹۲۶ء کوحضرت خلیفہ اصبح الثالث کی صدارت میں ہوا.جس میں مولانا ابوالعطاء صاحب، سید محمود احمد صاحب ناصر، مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی، میجر عارف زمان
تاریخ احمدیت.جلد 23 499 سال 1966ء صاحب، اور مولوی نورالدین صاحب منیر نے تقاریر فرمائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معركة الآراء تصنیف مسیح ہندوستان میں کے دیباچہ اور کتاب کے چاروں ابواب میں سے بالترتیب ایک ایک باب کا خلاصہ پیش کیا.بعد ازاں حضور نے ایک مختصر لیکن نہایت مؤثر خطاب کرتے ہوئے بیان فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی کہ ہم نے تجھے جو علوم اور حقائق و معارف عطا کئے ہیں اور جو قوت قدسی تجھے عطا کی گئی ہے اور تیری وجہ سے انتشار روحانیت اور حق و صداقت کی اشاعت کے لئے ملائکہ کا جو نزول ہوا ہے.اس کا اثر دنیا عنقریب دیکھنا شروع کر دے گی.چنانچہ آج دنیا اس کا اثر اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہے.جس کا ایک بین ثبوت یہ ہے کہ عیسائیت ہر طرف شکست پر شکست کھا رہی ہے اور اس کے بالمقابل اسلام ہر جگہ فتح یاب ہورہا ہے.اس کے ثبوت میں حضور نے مغربی افریقہ کے ایک عیسائی رسالہ کی حالیہ اشاعت کا ایک حوالہ پیش کیا جس میں صاف اور واضح الفاظ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ افریقہ میں عیسائیت اسلام کے بالمقابل سراسر نا کام رہی ہے اور یہ کہ اب افریقہ میں عیسائیت کو سہارا دینے کے لئے نئی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہیں.ان نئی تدابیر میں سے ایک نئی تدبیر اخبار مذکور نے دیکھی ہے کہ چرچ کو اہلِ افریقہ کو یہ اجازت دے دینی چاہئے کہ وہ مروجہ عیسائی عقائد میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی کر لیں.جب تک یہ تدبیر اختیار نہیں کی جائے گی.وہاں عیسائیت کا وجود برقرار رہنانا ممکن ہے.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے خود عیسائیوں سے اُن کی اپنی شکست کا اعتراف لکھوا کر اس امر کا ایک اور ثبوت بہم پہنچایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو باتیں لکھی تھیں وہی سچی تھیں.اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اترے ہوئے ہیں اور اپنے کام میں مصروف ہیں.وہ کبھی عیسائیوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں.کبھی اُن کی قلموں پر تصرف کر کے ان سے عیسائیت کی شکست کے اعتراف پر مبنی تحریرات لکھوا دیتے ہیں اور کبھی اُن کے دلوں میں تبدیلی پیدا کر کے انہیں حق کی طرف مائل کر دیتے ہیں.الغرض ہر طرف اسلام کی صداقت کے نشان اور اس کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 500 سال 1966ء موعودہ غلبہ کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.ان حالات میں ہمارے لئے اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان فرائض کو پورے جذ بہ وجوش کے ساتھ ادا کریں جو غلبہ اسلام کے ضمن میں ہم پر عاید ہوتے ہیں.اگر اس حال میں کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے اقوام عالم کے دلوں کو بدلنے میں مصروف ہیں.ہم اپنے فرائض کو کما حقہ ادا کر دکھائیں گے تو اسلام بہت جلد دنیا میں غالب آجائیگا.چھٹا اجلاس 166 63 اس مبارک سلسلے کا چھٹا اجلاس حضور کی زیر صدارت کے نومبر ۱۹۶۶ء کو منعقد ہوا.جس میں مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمدیہ سرگودھا، مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ مقیم لا ہور اور صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب نے بعثت مسیح موعود کی علامات پر بالترتیب قرآنِ مجید، احادیث نبوی اور بزرگان اُمت کے ارشادات کی روشنی میں تقاریر فرمائیں.64 رسالہ ”پیغام عمل اور جماعت احمدیہ شیعہ اصحاب کے ترجمان رسالہ ”پیغام عمل لاہور نے مارچ ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں جماعت احمدیہ کی دینی مساعی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.: خود ہمارے ملک میں عیسائی اور احمدی حضرات اپنے عقائد کی ترویج پر کروڑوں روپیہ صرف کر رہے ہیں.ان کا لٹریچر گھر گھر بلا طلب پہنچتا ہے وہ ریلوے اسٹیشنوں ، پبلک جلسوں ہے درسگاہوں میں اپنا لٹریچر مفت بھیجتے ہیں.یہ سب کچھ ان کے قومی ایثار کا نتیجہ ہے.ہالینڈ کے ایک کیتھولک رسالہ کی طرف سے احمدیت کا بھر پور دفاع 65 تعلیمی ہالینڈ کے ایک متعصب مستشرق پروفیسر ڈاکٹر HOUBEN نے ایک مضمون میں جماعت احمدیہ پر دو اعتراضات کئے.اوّل جماعت احمدیہ پر دوسرے مسلمانوں نے کفر کے فتوے لگائے ہیں.اس لئے اسے اسلام کا نمائندہ تصور کرنا غلط ہے اور اس کا تصور اسلام اسلامی نہیں.دوم احمدی درحقیقت مسیح ناصری پر ایمان نہیں رکھتے.ہالینڈ کی کیتھولک تنظیم کے ترجمان ۶۶ - M‘ نے اپنے مارچ ۱۹۶۶ء کے پرچے میں جماعت احمدیہ کا زبر دست دفاع کرتے ہوئے دونوں اعتراضات کا مسکت ، مدلل اور دندان شکن جواب
تاریخ احمدیت.جلد 23 501 سال 1966ء جماعت احمدیہ عیسائی علماء کے لئے باعث خوف و ہراس ہے“ کے عنوان سے دیا.چنانچہ لکھا: پروفیسر ڈاکٹر HOUBEN کا اسلام کے متعلق یہ لکھنا کہ وہ ایک جابر و قاہر اور خوفناک خدا کا تصور پیش کرتا ہے سراسر مغالطہ انگیز ہے اور یہ کہنا کہ اس میں تجدید و احیاء کی قوت کا بالکل فقدان ہے دوراز حقیقت بات ہے.کیونکہ خود جماعت احمد یہ تجدید واحیائے اسلام کا ایک زندہ ثبوت ہے اور شاید اسی لئے وہ عیسائی علماء کے لئے خوف وہراس کا باعث بنی ہوئی ہے.کچھ عرصہ ہوا کہ Prof.Dr.Camps نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور اس جماعت کی طرف سے ہوشیار رہنے کی طرف توجہ دلائی تھی.“ پھر لکھا: 66 ” جماعت احمدیہ کی طرف سے اسلام کی تجدید و احیاء کی کوشش اس کی بنیادی تعلیمات یعنی قرآن کریم کے عین مطابق ہے.وہ خدا تعالیٰ کا تصور اپنی مخلوقات سے پیار اور محبت کر نیوالا بتاتی ہے اور اس تعلیم کے نتیجہ میں بین الاقوامی اسلامی اخوت و برادری کی دعوے دار ہے.یہی وجہ ہے کہ اس جماعت نے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے والے (FATALISTIC) مسلمانوں میں سے نصف ملین کے قریب لوگوں کے قلوب میں تبلیغ واشاعت اسلام کی روح پھونک کر تبشیری مساعی کی حقیقی تڑپ پیدا کردی ہے اور اس جماعت نے عیسائیت یا مارکسیت سے یہ نظریات مستعار نہیں لئے بلکہ خالص اسلام کے پیغام کو لے کر ایک طرف پرانے خیالات کے (ORTHODOX)مسلمانوں کی اصلاح کی طرف قدم بڑھایا ہے تو دوسری طرف اس پیغام کے ذریعہ عیسائی دنیا اور دہریوں پر اتمام حجت کر رہی ہے.“ وو یہ درست ہے جماعت احمدیہ ۳۷۵ ملین (۵۵۰ ملین.ناقل ) مسلمانوں میں ایک چھوٹی سی جماعت ہے مگر پروفیسر موصوف کا ایک چھوٹے فرقہ کے مقابل پر کٹر مسلمانوں کی اکثریت کے حق میں فیصلہ دینا کسی طرح بھی درست نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ اسلام میں ان معنوں میں کٹر (ORTHODOX) اور متحدہ اکثریت موجود ہی نہیں جن معنوں میں کہ کیتھولک عیسائی یہ لفظ استعمال کرتے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلام میں تو کیتھولک مذہب کی طرح کے اندھے عقائد (DOGMAS)موجود ہی نہیں اور نہ ہی اسلام اپنی تعلیمات پر کسی اور کو حکم تسلیم کرتا ہے.اس کی تعلیم کا ایک ہی سر چشمہ ہے اور وہ قرآن کریم ہے.جس طرح کہ اصلاح یافتہ عیسائیوں (REFORMED) کے نزدیک ان کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 502 سال 1966ء کتاب بائیل ہے اور جس طرح بائیبل کی آیات کی مختلف تشریحات و توضیحات سے متعدد فرقے پیدا ہوئے ہیں جو سب کے سب عیسائی ہیں بعینہ اسی طرح قرآن کریم کی تشریح سے بھی مختلف اور متعدد فرقے وجود میں آئے ہیں لہذا کسی فرقہ کو اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا.دراصل تجدید و احیاء کی بنیاد پر چرچ اور فرقہ میں فرق اور امتیاز کرنا ہمیشہ سے ہی ایک نہایت مشکل اور نازک مسئلہ رہا ہے.اسلام نے اپنی ساری روایات میں کبھی بھی علماء کو حکم نہیں مانا ( یعنی جس طرح کیتھولک چرچ عقائد کے معاملہ میں اجارہ داری رکھتا ہے اور دینی معاملہ میں پوپ ہی اصل حکم ہے نہ کہ کتاب اور کسی کو اختلاف رائے کی آزادی نہیں دی جاتی اس طرح اسلام میں ہرگز نہیں.اسلام میں اصل حکم کتاب اللہ.سنت رسول اور حدیث ہیں.ناقل ) اور پھر دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن کریم جو ایک ہی وجود محمد ( صلے اللہ علیہ وسلم) کی لائی ہوئی کتاب ہے بائیبل کی نسبت لسان مبین میں کلام کرتی ہے اور بائیبل کا یہ حال ہے کہ اس میں مختلف لوگوں کی باتوں کو بعد میں جمع کیا گیا ہے.“ احمدیت اسلام کی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے مگر یہ اسلام کی ایک ایسی صورت (FORM) ہے جو اسلام کی نمائندگی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے.“ اس تحریک کو یقیناً مخالف خیالات رکھنے والے مسلمانوں کی شدید مخالفت و مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا ہے مگریہ مخالفت کرنے والے علمی رنگ میں بات کرنے سے تہی اور کیتھولک ذہنیت کے مظہر نظر آتے ہیں جو اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو کافر اور دائرہ مذہب سے خارج قرار دیتے ہیں.“ ” پروفیسر HOUBEN نے اپنے مضمون میں گیارہ نکات ایسے بیان کئے ہیں جہاں ان کے نزد یک جماعت احمد یہ عام مسلمانوں سے اختلاف رکھتی ہے لیکن انکی یہ بات بھی ایسی ہی ہے جیسے رومن کیتھولک مکتب فکر کی موجودہ مغالطہ انگیز شکل ہے (جہاں صرف رومن کیتھولک چرچ کے عقیدہ کو مذہب سمجھا جاتا ہے اور اس سے اختلاف کرنے والے کو دائرہ مذہب سے خارج کر دیا جاتا ہے.ناقل ) جماعت احمدیہ کو اسلام سے منحرف صرف اسی وقت کہا جا سکتا ہے جبکہ وہ قرآنی تعلیمات سے روگردانی اختیار کرتی مگر جماعت احمدیہ کا تو یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت (حتی کہ شعشہ تک ) بھی منسوخ نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوسکتی ہے.نیز یہ کہ اگر کہیں یہ محسوس ہو کہ ایک آیت دوسری کی مخالف ہے تو وہاں پر وہ تضاد اس غلط تشریح کی وجہ سے پیدا ہوا ہو گا جو ان آیات کی کی جارہی ہے.“ یہ الزام بھی جماعت احمد یہ پر دھرنا کسی صورت میں درست قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ ظاہر میں تو
تاریخ احمدیت.جلد 23 503 سال 1966ء مسیح ( ناصری علیہ السلام) پر ایمان رکھنے کا اقرار کرتی ہے مگر دل میں وہ ایمان نہیں رکھتی.یہاں یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ جماعت احمدیہ قرآنی تعلیم کے عین مطابق مسیح ( ناصری علیہ السلام ) کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور انہیں ایک ایسا نبی تسلیم کرتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا اور وہ عیسائیت کے عقیدہ الوہیت مسیح سے اسی طرح انکار کرتی ہے جس طرح پر کہ قرآن کریم اس کا انکار کرتا ہے.اسلام یہودی مذہب کی طرح خدا تعالیٰ کی توحید کا سختی سے پابند کرتا ہے اور دونوں مذہب قبائلی خداؤں کے قدیم عقیدہ کی بڑی شد ومد سے تردید کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کے نزدیک عیسائیوں کا عقیدہ تثلیث اور خدا کا انسان بنے کا خیال ازمنہ رفتہ کی اوہام پرستی کی طرف رجوع کے مترادف ہے.پس یہ جماعت مسیح کی الوہیت کے عقیدہ کو کسی طرح بھی تسلیم نہیں کر سکتی.پروفیسر مذکور کے اس خیال سے کہ اس جماعت کا موجودہ طرز عمل عیسائیت اور مغربی اقوام کی بے پناہ ترقی اور پسماندہ ممالک کی امداد کے پروگرام کے نتیجہ میں احساس کمتری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اسلام پر کبھی مثبت رنگ میں نظر نہیں ڈالی.تفسیر صغیر کسی کی اشاعت 66 ۱۹۶۶ء کا سال اپنے ساتھ بہت سی برکتیں لایا جن میں تفسیر صغیر عکسی کی اشاعت نہایت درجہ اہمیت رکھتی ہے.یہ بیش قیمت تفسیر ایک عرصہ سے نایاب تھی.اس کے پہلے ایڈیشن (مطبوعہ ۱۹۵۷ء) میں طباعت کی کچھ اغلاط رہ گئی تھیں.جس پر حضرت مصلح موعود نے (حضرت) صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب، مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی.مولانا شمس صاحب نے ساری تفسیر پر گہری نظر ڈال کر غلطیوں کی فہرست مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب کو دی.آپ نے صاحبزادہ صاحب کو سورہ نور کے چودھویں رکوع تک لفظاً لفظاً تفسیر صغیر کا ترجمہ اور تفسیری نوٹ پڑھکر سُنائے.جس کے لئے آپ کو بہت وقت دینا پڑا.کبھی رات کو نو بجے کے بعد کبھی دن کو ڈیڑھ بجے دوپہر کے بعد.آپ دن رات دوسرے دینی کاموں میں مصروف رہتے تھے اور تھکے ہوئے آتے تھے.لیکن نہایت بشاشت کے ساتھ تفسیر صغیر کا ترجمہ سُنتے جب سورہ نور کی آیت استخلاف کے اس ترجمے پر پہنچے کہ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفے بنائے گا تو اسی دن حضرت
تاریخ احمدیت.جلد 23 504 سال 1966ء مصلح موعود کا وصال ہو گیا.( روایت مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب) اور پھر خدا کی ازلی تقدیروں کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب خلیفہ لمسیح الثالث کے منصب پر فائز ہوئے اور آپ کے لئے خلافت کی بے شمار ذمہ داریوں کے باعث اس کام کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو گیا.اسپر حضور نے بقیہ کام مولوی ابوالمنیر صاحب کے سپر دفرمایا اور ہدایت فرمائی کہ جوا مر قابل استفسار ہو وہ حضور سے پوچھ لیا جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں مولوی صاحب موصوف نے دن رات ایک کر کے یہ کام مکمل کیا.یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ اب کوئی غلطی نہیں رہ گئی.حضور نے تفسیر صغیر کو بلاکوں کے ذریعہ بہترین رنگ میں چھپوانے کا انتظام فرمایا.چنانچہ مولوی ابوالمنیر صاحب کی کوشش سے تفسیر صغیر کا پہلا شاندار عکسی ایڈیشن ۲۵ مارچ ۱۹۶۶ء کو تیار ہو گیا.یہ نہایت دیدہ زیب ایڈیشن نقوش پریس لاہور سے خاص اہتمام سے چھپا.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے یہ عکسی ایڈیشن بہت پسند کیا اور مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب کو پانچصد روپیه نقد انعام عطا فرمایا.اس طرح آپ کے ساتھ کام کرنے والے کارکنان کو بھی انعامات سے نوازا.نیز اپنے قلم مبارک سے درج ذیل الفاظ میں اظہارِ خوشنودی فرمایا :.مگر می ابوالمنیر نور الحق صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! آپ نے جس محنت اور اخلاص سے تفسیر صغیر کا عکسی ایڈیشن چھپوانے کا انتظام کیا ہے میں اس کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی اس محنت کو قبول فرمائے اور قرآن مجید کی خدمت کے ساتھ جس قدر برکات وابستہ ہیں وہ آپ کو عطا کرے اور آپ کو اور آپ کی اولا د کو بہت برکت دے.(آمین) والسلام مرزا ناصراحم خلیفه امسیح الثالث ۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء 67 تغییر مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء کے آغاز سے قبل چھپ کر مرکز احمدیت میں پہنچ گئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 505 سال 1966ء خلافت ثالثہ کے عہد کی پہلی مجلس مشاورت خلافت ثالثہ کے مبارک عہد کی پہلی مجلس مشاورت ۲۵ تا ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء کوتعلیم الاسلام کالج ربوہ میں منعقد ہوئی.جس میں مغربی اور مشرقی پاکستان اور آزاد کشمیر سے پانچ سو اناسی نمائندگان نے شرکت فرمائی.(اس تاریخی شوری کی کارروائی مولوی محمد صادق صاحب انچارج صیغہ زودنویسی کی زیر ہدایت مولوی سلطان احمد صاحب فاضل پیر کوئی نے قلمبند کی.لاؤڈ سپیکر کے منتظم حسب معمول قاضی عزیز احمد صاحب اور ہال میں نشستوں کی ترتیب اور دیگر انتظامات چوہدری عبدالقدیر صاحب سپرنٹنڈنٹ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری نے دوسرے کارکنان کی مدد سے سرانجام دئے.رپورٹ مئی ۱۹۶۶ء میں مرتب ہوئی اور افروری ۱۹۶۷ء کو منظر عام پر آئی.رپورٹ کے کا تب محمد ارشد خوشنویس ربوہ تھے اور یہضیاءالاسلام پریس ربوہ میں چھپی تھی ).سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے افتتاحی تقریر میں سب سے پہلے احباب کو یہ خوشخبری دی که تفسیر صغیر بلاک اور نفیس آرٹ پیپر پر دو ہزار کی تعداد میں چھپ گئی ہے اور بقیہ تین ہزار چھپنے والی ہے اور اگر چہ اس پر خاصہ خرچ آیا ہے تاہم اس عکسی ایڈیشن کی قیمت صرف پچیس روپے رکھی گئی ہے دوستوں کو چاہیئے کہ حسب ضرورت زیادہ سے زیادہ تعداد میں اسے خریدیں.اس تفسیر کی مانگ غیروں میں بہت ہے.اگر احمدی بچے جن کی عیدی کم و بیش ہیں روپے ہو اپنی عیدی کی رقم سے یہ کتاب خریدیں تو ہر ایسے بچے کو میری طرف سے ایک روپیہ بطور عیدی دیا جائے گا.اس ضمن میں حضور نے فرمایا:.تفسیر صغیر کی نظر ثانی میں مکرم مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نے بڑا حصہ لیا ہے.مکرم شمس صاحب نے بھی کام کیا ہے.مکرم ابوالعطاء صاحب نے بھی ایک حد تک کام کیا ہے اور پروف ریڈنگ کے وقت مکرم میاں عبدالحق صاحب رامہ نے بھی کام کیا ہے.رامہ صاحب پروف اچھی طرح دیکھتے ہیں.چنانچہ ان کے سامنے جب بھی کوئی بھی چیز آئی.انہوں نے ہمیں اسکی طرف توجہ دلائی اور خاکسار بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے شروع سے آخر تک اس کام میں شریک رہا.اس کے علاوہ اللہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 506 سال 1966ء کی حکمت اور ارادہ سے ان دوستوں نے بھی جنہوں نے اس کے بلاک بنائے یا جنہوں نے اسے چھاپا.اتنی محنت اور پیار سے یہ کام کیا ہے کہ حیرت آتی ہے.اللہ 68 تعالیٰ انہیں بھی جزائے خیر عطا کرے.تفسیر صغیر کے عکسی ایڈیشن کی اشاعت کا تذکرہ کرنے کے بعد حضور نے متعد دا ہم امور کی طرف ممبران کو توجہ دلائی.مثلاً باہر کی تمام جماعتیں اپنی مفصل سالانہ رپورٹیں مرکز میں بھجوائیں.مجلس شوریٰ میں ہر جماعت کا نمائندہ آنا چاہیئے.مجلس شوری کی جب سب کمیٹیاں بنائی جائیں تو منصوبہ بندی کی بھی ایک کمیٹی بنائی جائے.فنانس سٹینڈنگ کمیٹی کو اپنے مشورے پورے غور و فکر اور فرض شناسی کے ساتھ دینے چاہئیں.69 نظارتوں کی رپورٹیں سُننے کے بعد حضور کے ارشاد پر سید داؤ د احمد صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ نے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء سے نظارت دعوت وتبلیغ کا ایک نہایت دلچسپ اور ایمان افروز اقتباس پڑھ کر سنایا.جو مبلغین احمدیت کے تبلیغی وفود سے متعلق تھا.حضور نے فرمایا کہ انتالیس سال کے عرصے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ترقی کرتے کرتے کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے.اس نسبت کے ساتھ ہم توقع رکھتے ہیں کہ کام بھی ہو اور اس کے مطابق رپورٹ بھی یہاں پڑھی جانی چاہیئے اور اس رنگ میں پڑھی جانی چاہیئے کہ دلوں میں ایک بشاشت ہو.شکر اور حمد پیدا کرنے والی ہو.دلوں میں جوش پیدا کرنے والی اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والی ہو.پھر حضور نے اصلاح وارشاد سے متعلق نہایت زور دار الفاظ میں تمام دنیا کے احمدیوں کو توجہ دلائی.کہ ہر احمدی مبلغ ہے.یہ وقت بیدار ہونے کا ہے.ورنہ آپ کا رب جب اس جہان سے آپ کو اپنے پاس بلائے گا تو آپ اسے کیا منہ دکھائیں گے.حضور نے ایجنڈا کی تجاویز پر غور اور مشورے کا مرحلہ شروع ہونے سے قبل جو نہایت بیش قیمت نصائح فرمائیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں وقار اور حمل پیدا کرنے کے لیے پیدا کیا ہے.ہم اس معاملہ میں دنیا کے معلم اور استاد ہیں.اس لیے ہماری شوری کی کارروائی میں وقار کا خیال رکھنا اور بے صبری کے مظاہرے سے بچنا نہایت ضروری ہے.تکرار سے اجتناب کریں اور بحث کا رنگ بالکل اختیار نہ کریں.اور شوریٰ میں تو بحث کا رنگ اصولاً بھی اختیار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 507 سال 1966ء احباب خلیفہ وقت کے سامنے اپنی رائے پیش کرتے ہیں ان کا مخاطب سوائے خلیفہ وقت کے اور کوئی دوسرا نہیں ہوتا.سب سے زیادہ ضروری امر ہے کہ رائے دیتے وقت دعا کریں اللہ تعالیٰ صحیح بات کے اظہار کے لیے صحیح رنگ میں تو فیق عطا کرے.اور اگر وہ بات خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی صحیح ہے تو ہماری زبان میں بھی اثر پیدا کرے.یہ مجلس ساری دنیا کے لیے نمونہ ہے.آج سے ہزاروں سال بعد کے لوگ بھی مجلس شوری کے مشوروں کا حوالہ دیا کریں گے.یہ بھی دعا کریں کہ ہم صحیح نتیجے پر پہنچیں اور جس نتیجے پر پہنچیں اس میں اللہ تعالیٰ عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اختتامی خطاب میں حضور نے یہ خوشخبری سنائی کہ تفسیر القرآن انگریزی جو ملک غلام فرید صاحب ایم.اے نے نہایت محنت، محبت اور شوق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر اور حضرت مصلح موعود کے فرمودہ درس کے نوٹوں سے تیار کی ہے، پانچ جلدوں میں چھپ گئی ہے انگریزی دان دوستوں کو خود بھی یہ تفسیر اپنے پاس رکھنی چاہئے اور غیر از جماعت دوستوں کے ہاتھ میں بھی پہنچادینی چاہیئے.حضور نے احباب کی اطلاع کے لیے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : مکرم و محترم چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ انتخاب خلافت کے قواعد پر اگر اس وقت نظر ثانی ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے.ایک تو کسی کی زندگی کا ویسے ہی اعتبار نہیں.دوسرے اس کے بعض حصوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے.مثلاً سارے صحابہ کرام اس کے ممبر تھے لیکن ۱۹۵۷ء سے ( کہ جب یہ قواعد بنے ) اس وقت تک بہت سے صحابہ وفات پاچکے ہیں.ان کی تعداد کم ہو رہی ہے.اس کے علاوہ اور بھی بعض باتیں ایسی ہو سکتی ہیں.جن پر نظر ثانی کی جانی چاہیئے.اس کے لئے میں نے فیصلہ کیا ہے.کہ حضرت مصلح موعود نے جو تین علماء کی سب کمیٹی بنائی تھی.اس سب کمیٹی میں کچھ اور ممبروں کا اضافہ کر کے یہ کام ان کے سپرد کر دوں.تا آئندہ سال کی مجلس مشاورت میں ان کی رپورٹ پیش کی جاسکے.“ خلافت ثالثہ کی اس پہلی مجلس شوری کے دوران جن خوش نصیب اصحاب کو کارروائی میں حضور کے ساتھ معاونت ورفاقت کی سعادت حاصل ہوئی.ان کے نام یہ ہیں.شیخ بشیر احمد صاحب سابق حج ہائی کورٹ لاہور، مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت احمد یہ سرگودھا،
تاریخ احمدیت.جلد 23 508 سال 1966ء شیخ محمداحمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور، میرمحمد بخش صاحب ایڈووکیٹ.اس مجلس مشاورت میں جن سفارشات کو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے شرف قبولیت بخشا.اُن میں سے بعض کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے.اول جماعت کے مستحق ذہین، ہونہار اور مخلص طلباء کو اعلی تعلیم دلائے جانے کے ضمن میں انتخاب کے لئے منصوبہ بندی کمیٹی غور کرے.دوم ضروری فقہی مسائل پر مشتمل ایک کتاب جماعت کی طرف سے جلد از جلد شائع ہونی چاہئیے.دارالافتاء علماء کی ایک کمیٹی کے مشورے سے یہ کتاب مرتب کرے.سوم ہر جماعت کو چاہئے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق ہر جگہ خدا کے گھر ضرور بنائیں.خواہ وہ کچے ہی کیوں نہ ہوں.چهارم اخبار الفضل کو ہر طریقہ سے نئی زندگی میں ڈھالا جائے تاکہ اس کا معیار دیگر اخبارات سے بڑھ جائے اور کافی خریدار پیدا ہو جائیں.نیز الفضل کا ”سنڈے ایڈیشن“ بھی نکلنا چاہیئے خواہ اس کے لئے عملہ اور بجٹ بڑھانا پڑے.پنجم: میزانیہ صدرا انجمن احمد یہ بابت سال ۶۷.۱۹۶۶ء جو شوری کے سامنے رکھا گیا.چھبیس لاکھ چونسٹھ ہزار آٹھ سو دس روپے کا تھا.تمام نمائندگان نے باتفاق رائے اس کے منظور کرنے کی سفارش کی.بشرطیکہ حضور جن افراد سے چاہیں نظر ثانی کرا کے اور خود میزانیہ پر نظر ڈال کر اسی صورت میں یا جس صورت میں حضور پسند فرمائیں اسکی منظوری عطا فرمائیں.حضور نے فرمایا منظور ہے ششم: تحریک جدید کا بجٹ آمد و خرچ بابت سال ۶۷.۱۹۶۶ء سب کمیٹی نے پیشکر دہ بجٹ میں کسی کمی و بیشی کی ضرورت نہیں سمجھی اور سفارش کی کہ اس بجٹ کو جس کی میزان ارتمیں لاکھ تیرہ ہزار تین سواسی روپے (۱۳،۳۸۰، ۳۸) ہے منظور کر لیا جائے.نمائندگان کی اکثریت نے اس سفارش کی تائید کی.حضور نے فرمایا ”میں کثرت رائے کے حق میں فیصلہ کرتا ہوں لیکن بعد میں کچھ دوستوں کو جن کو یہ مناسب سمجھوں گا بلا کر اس پر نظر ثانی کروالوں گا اور خود بھی اس پر نظر ڈال لوں گا.“
تاریخ احمدیت.جلد23 509 سال 1966ء ہفتم سب کمیٹی تحریک جدید و وقف جدید نے مجوزہ بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے (۱،۷۷،۰۰۰) کی منظوری کی سفارش کی نمائندگان کی اکثریت نے اس کی تائید کی.حضور نے فرمایا میں سب کمیٹی اور شوری کی سفارش کو منظور کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا احمدی ہو میو پیتھ ڈاکٹروں سے حقیقت افروز خطاب ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء کو احمدی ہومیو پیتھ ڈاکٹروں کا ایک اہم اجلاس ربوہ میں ہومیو پیتھک طریقِ علاج کو ترقی دینے کے سلسلے میں منعقد ہوا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس اجلاس سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے بتلایا کہ ہومیو پیتھی، ایلو پیتھی یا طب یونانی سب کے سب علوم ظنی ہیں.شفا اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے.مگر تد بیر کرنے کا حکم اس نے اپنے بندوں کو دیا ہے.قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ تمام امراض کا علاج جڑی بوٹیوں سے ہو سکتا ہے اور ان جڑی بوٹیوں سے بہترین طریق علاج یہ ہے کہ اُن کی ایک ایسی دوا بنائی جائے.جو ایلو پیتھی ادویہ کی نسبت ہو میو پیتھی ادویہ سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے اور وہ شہد کی مختلف قسمیں ہیں.اس طرح ہم ذوقی طور پر یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ قرآن کریم کی رُو سے ہو میو پیتھی طریق ، علاج کے دوسرے طریقوں کی نسبت زیادہ پسندیدہ ہے.ہومیو پیتھک علاج کی طرف عالمانہ اور محققانہ توجہ کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ بہت سستا علاج ہے.اس پر خرچ بہت کم آتا ہے.اس لئے یہ ہمارے ملک کے لئے بڑا ہی اچھا ہے اور خاص طور پر ہماری جماعت کے لئے تو نہایت ہی مفید ہے.کیونکہ جتنی رقم بھی ہم بچاسکیں گے اس کا ایک حصہ بہر حال خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کریں گے.لیکن دعا اور تدبیر دونوں کی ضرورت ہے.اس علم کا مطالعہ بھی اور مریض کا مطالعہ بھی پوری توجہ کے ساتھ ہونا چاہیئے لیکن اس کے ساتھ ہی نہ تو اپنے آپ کو خدا سمجھنا چاہیئے نہ کسی دوا کو خدا کا درجہ دینا چاہیئے.خُداخد ا ہی ہے اور وہی شافی ہے جب تک آسمان پر شفا کا ارادہ نہ ہو اس وقت تک زمین پر کسی انسان کو شفا حاصل نہیں ہوسکتی.حضرت اقدس نے اپنے خطاب میں خاص طور پر تاکید فرمائی کہ ہر ڈاکٹر اور معالج کو دوا کی نسبت دُعا پر زیادہ زور دینا چاہیئے اور اگر دعا کی جائے تو میرے نزدیک اس میدان میں بھی اللہ تعالیٰ کے معجزات نظر آتے ہیں.نیز فرمایا کہ میں تو پہلے ہی بہت کم علاج کرتا ہوں اور اب تو میرے پاس وقت بھی بہت کم ہے.لیکن میرے محترم بھائی مرزا طاہر احمد صاحب کو ہومیو پیتھی کا بہت شوق ہے وہ اس کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 510 سال 1966ء لئے وقت بھی زیادہ دیتے ہیں اور مریضوں کا علاج بھی زیادہ کرتے ہیں.اس لئے اس میدان میں معجزات کی زیادہ مثالیں اُن کے ذہن میں ہی ہوں گی.میں صرف ایک دو مثالیں بیان کرتا ہوں.اس موقع پر حضور نے طبی معجزات کی جو حیرت انگیز مثالیں بیان فرمائیں وہ حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہیں.پہلی مثال ” میں نے ایک دفعہ ایک معجزانہ نظارہ یہ دیکھا کہ ہمارے کالج کا ہال بن رہا تھا.جو مزدور وہاں کام کر رہے تھے اُن میں سے ایک مزدور کو جو بیمار تھا، ٹھیکیدار میرے پاس لایا.اس کا ایک گھٹنا فٹ بال کے برابر سو جا ہوا تھا.ٹھیکیدار نے مجھ سے کہا اس مزدور کو یہ تکلیف ہوگئی ہے.اس کو کوئی دوا دیں.میں نے ۱۲ ٹشو ریمیڈیز (TISSUE REMEDIES (12) کی بارہ دوائیوں میں سے دو دوائیں ملا کر چند پڑیاں بنائیں.اور اس مزدور کو دیدیں.چنانچہ وہ دوائی لے کر چلا گیا اور میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا.حتی کہ مجھے یہ بھی یاد نہ رہا کہ میں نے کوئی مریض دیکھا بھی تھا اور اس کو دوا بھی دی تھی.ٹھیک اڑتالیس گھنٹوں کے بعد میں کالج کے دفتر سے اپنے گھر جارہا تھا.میں نے دیکھا کہ وہی مریض سامنے سے آ رہا ہے میری نظر اُس پر پڑی.تو میں نے اُسے پہچان لیا اور بلا کر دریافت کیا کہ اب تمہارا حال کیسا ہے.اس نے کہا مجھے بالکل آرام آ گیا ہے.“ دوسری مثال ا بھی چند دن ہوئے ایک دوست لاسکپور سے مجھے ملنے کے لئے آئے.دفتر میں انہیں کچھ دیر انتظار کرنا پڑا اور اس انتظار کے وقفہ میں وہ دو دفعہ بیہوش ہوئے.جب وہ میرے پاس پہنچے تو اُن کا چہرہ بالکل زرد تھا اور آنکھوں میں وحشت پائی جاتی تھی.جب میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کو کیا ہوا ہے تو انہوں نے بتایا کہ میں بیمار ہوں اور علاج کی غرض سے یہاں آیا ہوں.ابھی ملاقات کے سلسلہ میں انتظار کے دوران مجھے بیہوشی کا دو دفعہ دورہ پڑا ہے.ان کی حالت دیکھ کر مجھے
تاریخ احمدیت.جلد 23 511 سال 1966ء بہت دُکھ ہوا اور میں نے کہا باتیں تو آپ سے میں بعد میں کروں گا.پہلے آپ کے لئے دوائی بنالاؤں.میں نے اُن کو ایک ڈوز کریٹی گس کی لا کر دی اور اپنے سامنے کھلائی.پھر اُن سے سارا قصہ سُنا ساتھ ہی اُن کی نبض دیکھی تو بڑا لو بلڈ پریشر (Low Blood Pressure) تھا.میں نے انہیں کنکانڈی کی دواؤں میں سے نمبر ۱۳ اور نمبر ۲۴ چند پڑیاں دیں اور کہا انہیں استعمال کر کے دیکھو شاید بیماری میں کوئی فرق پڑ جائے.ساتھ ہی میں دُعا کرنے لگ گیا.اگلے دن صبح ہی وہ میرے پاس آئے اور کہا میری یہ حالت تھی کہ قریباً ہر تین گھنٹہ میں مجھے ایک دفعہ دورہ پڑ جاتا تھا.لیکن کل سے مجھے کوئی دورہ نہیں پڑا.میں نے کہا اچھی بات ہے اب آپ دوشیشیاں لے آئیں میں ان دوشیشیوں میں آپ کو دوا ڈال دوں گا.لیکن انہوں نے غفلت کی اور عصر کی نماز تک شیشیاں لے کر نہ آئے.اس طرح دوائی کے استعمال میں ناغہ ہو گیا اور عصر کی نماز کے دوران وہ پھر بیہوش ہو گئے.انہیں دیکھ کر سارے لوگ پریشان ہو گئے.جب ہوش میں آئے تو میں نے انہیں پھر وہی دو دوائیں دیں.اس کے کچھ دن بعد جب وہ مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ اس دن سے مجھے دورہ نہیں پڑا.“ تیسری مثال چند دن ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ایک معجزہ دکھایا ہے.ہمارے مقامی اصلاح وارشاد کے ایک مربی ہیں.مولوی عبدالکریم صاحب کا ٹھگر بھی.انہیں سر درد کا دورہ شروع ہوا اور وہ دن بدن بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ ان کی نظر اور شنوائی پر بھی اثر پڑنے لگا.وہ اس درد کی وجہ سے ہر وقت تڑپتے رہتے تھے.یہاں فضل عمر ہسپتال لائے گئے تو ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نے انہیں دیکھا اور کہا کہ مجھے یہ بڑی خطر ناک بیماری معلوم ہوتی ہے.انہیں لا ہور لے جاؤ.میں نے انچارج صاحب مقامی اصلاح وارشاد سے کہا کہ ان کا بہترین علاج ہونا چاہیئے.روپیہ کی فکر نہ کرو.چنانچہ وہ انہیں لاہور لے گئے.وہاں ایک ملٹری کے ڈاکٹر ہیں ڈاکٹر قاضی.وہ بڑے ماہر برین سرجن ہیں.اور چوٹی کے ڈاکٹر ہیں.اسی طرح ایک اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 512 سال 1966ء مشہور ڈاکٹر ہیں.ان دونوں ڈاکٹروں نے مولوی صاحب کو دیکھا اور کہنے لگے.ان کے دماغ میں ٹیومر (رسولی) ہے.ان کا آپریشن ہونا چاہئے کیونکہ اس ٹیومر کا دماغ پر اثر پڑ رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی اُن کی شنوائی اور بینائی اور دوسرے حواس پر بھی اثر ہے.میں اُن کے علاج میں دلچسپی لے رہا تھا.میں چند دن کے لئے جابہ گیا ہوا تھا کہ وہاں مولوی احمد خان صاحب نسیم میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ مولوی صاحب کے دماغ کا آپریشن ہو.میں نے انہیں کہا اُن کا آپریشن ہرگز نہ کرائیں.کیونکہ جو علامات آپ بتارہے ہیں.وہ ٹیومر کی نہیں بلکہ کینسر کی علامات ہیں اور کینسر میں آپریشن بڑا مہلک ہوتا ہے.ہم آپریشن کروا کر اپنے ہاتھوں انہیں موت کے منہ میں دھکیلنے والے ہوں گے.چنانچہ مولوی احمد خان صاحب نسیم واپس لاہور گئے اور انہوں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ ہم نے ان کا آپریشن نہیں کروانا.اسکے بعد مولوی صاحب کی حالت اور بھی خراب ہوگئی.ڈاکٹر قاضی صاحب بڑی ہمدردی سے علاج کر رہے تھے.ایک دن انہوں نے مریض کے سر سے کچھ مادہ لیا.اور لیبارٹری میں جا کر خود ڈیڑھ گھنٹہ تک ٹیسٹ کیا اور بعد میں آکر کہنے لگے مریض کے دماغ میں ٹیومر نہیں بلکہ انہیں کینسر ہو گیا ہے.جواب سارے سر میں پھیل چکا ہے.ان کی زندگی بس دو چار دن کی ہے.آپ چاہیں تو انہیں ہسپتال میں رہنے دیں اور چاہیں تو انہیں گھر لے جائیں تا اُن کے گھر والوں کے درمیان ان کی وفات ہو.چند سال کی بات ہے ہمارے ایک احمدی دوست کو ایک بوٹی خواب میں بتائی گئی تھی.(جسے سچی بوٹی کہتے ہیں) کہ یہ کینسر کے لئے مفید ہے.ہم نے وہ بوٹی لاہور بھجوادی.لیکن مشکل یہ ہوتی ہے کہ جب تک ڈاکٹروں کو مریض کے بیچ جانے کی امید ہوتی ہے.وہ کسی دوائی کو ہسپتال کی حدود میں نہیں آنے دیتے جب وہ اسے لا علاج سمجھتے ہیں تو پھر وہ لکھ دیتے ہیں کہ جو چاہے اسے دو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.چونکہ مولوی عبد الکریم صاحب بھی لا علاج سمجھے جا رہے تھے اس لئے جب
تاریخ احمدیت.جلد 23 513 سال 1966ء ڈاکٹروں سے اس بُوٹی کے دئے جانے کے متعلق دریافت کیا گیا.تو انہوں نے اجازت دے دی اور کہا ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.اب نہ تو اس سچی بوٹی میں کوئی ذاتی خصوصیت تھی اور نہ ٹیکوں میں کوئی ذاتی خوبی تھی.صرف اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ دکھانا تھا.مریض چھ سات دن سے بیہوش چلا آرہا تھا.ڈاکٹر وین (VEIN) کے ذریعہ خوراک دے رہے تھے.تا انہیں کچھ طاقت پہنچے.لیکن چھ سات دن بے ہوش رہنے کے بعد انہوں نے آنکھیں کھول دیں.اُن کی نظر عود کر آئی اور ان کے کان بھی کام کرنے لگ گئے اور جو ہوش و حواس ایک سمجھدار آدمی کے ہونے چاہئیں وہ عود کر آئے صرف اُن کا جسم کمزور ہے.جب میں مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کے بچے کی شادی پر لاہور گیا تو انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا میرے امام یہاں لا ہور آئے ہوئے ہیں اور میں انہی کی دعاؤں سے تندرست ہوا ہوں.میں انہیں ملنا چاہتا ہوں اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں انہیں مل آؤں ڈاکٹر صاحب نے کہا بے شک جاؤ مجھے کوئی اعتراض نہیں.چنانچہ وہ موٹر پر بیٹھ کر پام ویو palm view آئے اور مجھ سے ملے.اب کجا یہ خیال تھا کہ شاید ہی وہ دو دن تک زندہ رہیں اور کجا یہ کہ اللہ تعالی نے ماہر ڈاکٹروں کے سارے اندازے غلط ثابت کر دئے اور ان کو معجزانہ طور پر شفا دے دی.“ (مولوی صاحب نے اس کے بعد لمبا عرصہ زندہ رہ کر مورخہ ۲۱ فروری ۱۹۸۲ء کو وفات پائی.) مشرقی افریقہ کے احمدیوں کی دینی خدمات کا اعتراف مشرقی افریقہ میں جس طرح احمدیت خدمت اسلام کا نہایت بابرکت فریضہ سرانجام دے رہی تھی اس کے بارے میں غیر بھی رطب اللسان تھے.چنانچہ جماعت اسلامی کے رہنما چوہدری غلام محمد صاحب نے اس کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر کیا:.قادیانی بہت منظم ہیں.کمپالا ، نیروبی، دار السلام، لیڈرا اور کئی چھوٹے چھوٹے مقامات پر ان کے مراکز ہیں.گذشتہ ۴۰ ۵۰ سال سے یہ لوگ کام کر رہے ہیں.ہر جگہ ایک ایک مسجد اور اس کے ساتھ مرکز ہے اور تقریباً سولہ سترہ ہمہ وقتی مبلغ اس علاقہ میں موجود ہیں...قادیانیوں نے ایک کام یہ کیا ہے کہ مقامی زبانوں یا بالخصوص سواحیلی میں قرآن کریم کے ترجمہ کی اشاعت کی ہے اور اس طرح
تاریخ احمدیت.جلد 23 514 سال 1966ء بعض دالوں میں اپنے لئے نرم گوشہ بھی پیدا کر لیا ہے.72 66 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام درباره سال وقف جدید حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے ۴ را پریل ۱۹۶۶ء کو خلصین جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا.جس میں تحریک فرمائی کہ وقف جدید کے نئے سال میں ایک نئے جوش اور مخلصانہ عزم کے ساتھ لمصل حصہ لیں.سید نا حضرت اصلح الموعود نے خدائی تحریک کے ماتحت ۲۷ دسمبر ۱۹۵۷ء کو وقف جدید کے آغاز کا اعلان فرمایا اور پھر ۳ جنوری کو خطبہ جمعہ میں وقف جدید کی ضرورت اور جماعت کی تربیت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر وہ ( یعنی جماعت) ترقی کرنا چاہتی ہے تو اس کو اس قسم کے وقف جاری کرنے پڑیں گے اور چاروں طرف رشد و اصلاح کا جال پھیلانا پڑے گا.یہاں تک کہ لمصلہ 73 پنجاب کا کوئی گوشہ اور کوئی مقام ایسا نہ رہے جہاں رشد و اصلاح کی کوئی شاخ نہ ہو.وقف جدیدا بھی ۸ سالہ بچہ ہی ہے مگر اس قلیل عرصہ میں بھی بہت بابرکت تحریک ثابت ہوئی ہے وقف جدید کے ماتحت جہاں جہاں بھی کام شروع کیا گیا ہے.بہت مفید نتائج نکلے ہیں لیکن بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جہاں کام کرنا ابھی باقی ہے جس کے لئے مخلصانہ دعاؤں سے بھر پور جدو جہد کی ضرورت ہے.ہیں اس اعلان کے ذریعہ مخلصین جماعت سے درخواست ہے کہ وہ سیدنا حضرت اصلح الموعود کی جاری کردہ اس مبارک تحریک پر اس نئے سال میں جو یکم جنوری سے شروع ہو چکا ہے ایک نئے جوش اور مخلصانہ عزم کے ساتھ لبیک کہیں.وقف جدید کے کام کو مغربی اور مشرقی پاکستان دونوں حصوں میں وسعت دینے کی ضرورت ہے جس کے لئے پہلے سے زیادہ آمد چاہئیے اور زیادہ تعداد میں مخلص واقفین چاہئیں.وقف جدید کے چندہ کے متعلق دوست یا درکھیں کہ چھ روپے سالا نہ اس چندہ کی انتہائی حد نہیں ہے.اس لئے دوست حسب توفیق وقف جدید کی امداد کریں.جس دوست کو ۱۲ روپے سالانہ دینے کی توفیق ہو وہ ۱۲ روپے سالا نہ دے
تاریخ احمدیت.جلد 23 515 سال 1966ء اور جس دوست کو خدا نے بارہ صد روپے دینے کی توفیق دی ہو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے بارہ صد روپیہ دے.خاکسار نے اپنے حالات کے مطابق چھ صد روپے کا اپنی طرف سے اور چار صد روپے کا حضرت المصلح الموعود کی طرف.کیا ہے اللہ تعالیٰ ادا ئیگی کی تو فیق عطا فرمائے.سے وعدہ میں اپنے خدا سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ احباب جماعت کو اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق عطا کرے گا اور جماعتی ضرورتوں کے مطابق ہم وقف جدید کے کام میں وسعت پیدا کرسکیں گے انشاء الله ما توفیقی الا باللہ.والسلام مرزا ناصراحمد (خلیفه امسیح )۴/۱/۲۶ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا جنوبی ہند کے احباب جماعت کے نام پیغام اس سال ۱۰۰۹ار اپریل ۱۹۶۶ء کو الانلور ( نزد کالی کٹ ) میں دسویں سالانہ آل کیرالہ احمد یہ کانفرنس کا انعقاد ہوا.جس میں صوبہ کیرالہ کی مندرجہ ذیل سولہ جماعتوں کے ساڑھے تین سو سے زائد نمائندے شامل ہوئے.منار گھاٹ، کرولائی ، پتا پریم، چیلہ کرا، ایرا پورم، کوڈے تور، پالگھاٹ، کرونا گا پلی، کالیکٹ ، کینانور، کوڈالی، پینگاڈی، مرکزہ ، منگلور، موگرال، کمبلہ.ان جماعتوں کے علاوہ حسب ذیل مقامات سے بھی احمدی احباب تشریف لائے.نلامبور، واستنام ،ای او تا گئی وہم ، پنول، یونانی، ریزوم.جلسہ سے مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی، مولوی حکیم محمد دین صاحب ( مبلغ انچارج میسور سٹیٹ ) مولوی محمد عمر صاحب ( سیکرٹری جنوبی ہند احمد یہ تبلیغی مشن ) اور مولوی محمد یوسف صاحب نے خطاب فرمایا.صوبہ کیرالہ کے اخبار ماتر و بومی ۱ اراپریل ۱۹۶۶ء) اور منور مانے کا نفرنس کی مفصل رپورٹ شائع کی.16 اس اہم کا نفرنس کے موقع پر حضرت خلیفہ اصبح الثالث نے حسب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 516 سال 1966ء " بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم عزیز محترم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته آپ کے خط مورخہ ۹/۳/۶۶ سے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ جنوبی ہند میں مختلف مقامات پر تبلیغی جلسوں کا پروگرام شروع کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ یہ اجتماعات مبارک کرے.علاقہ کے لوگوں کے دل کھول دے.انہیں احمدیت کی طرف مائل کر دے.اس طرح کہ اس علاقہ میں احمدیت سرعت سے ترقی کرتی چلی جائے.یہاں تک کہ سارا علاقہ احمدی ہو جائے.اللهم آمین.دوستوں کو میری طرف سے یہ پیغام دیں کہ اپنے اندر ایک نیک تغیر اور خدمت دین کے لئے دل میں ایک تڑپ پیدا کریں.“ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو.آمین.فقط والسلام مرزا ناصر احمد (خلیفہ اسیح الثالث) 76_44 حضرت خلیفہ المسح الثالث کے انعامی چیلنج کے بارہ میں پاور یوں کی بے بسی حضرت خلیفۃ المسح الثالث نے اراپریل ۱۹۶۶ء کوسورۃ فاتحہ کے حقائق ومعارف کے مقابلہ کے سلسلہ میں جوانعامی چیلنج دیا تھا.اُس پر باقی دنیائے عیسائیت تو خاموش رہی البتہ اس سے پاکستان کے پادری صاحبان میں کچھ حرکت پیدا ہوئی.چنانچہ ایک مسیحی رسالم نے ایک جوابی مضمون شائع کیا.دوسرے گوجرانوالہ سے پادری الیاس صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں ایک خط لکھا.جس میں مقابلے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا.حضور کی منظوری سے مولا نا ابوالعطاء صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد نے پادری صاحب کو بصیغۂ رجسٹری حسب ذیل جوابی مکتوب لکھا: بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم " مکرم جناب پادری الیاس الیس مل صاحب فیروز والہ ضلع گوجرانوالہ السلام علی من اتبع الهدی
تاریخ احمدیت.جلد 23 517 سال 1966ء آپ نے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پچاس ہزار روپے کا انعامی چیلنج منظور کرنے کا اپنے خط مورخہ ۶۶.۶.۱۵ میں ذکر کیا ہے.آپ نے ماہنامہ الفرقان ماہ مئی ۱۹۶۶ء کا حوالہ دیا ہے جس میں یہ چیلنج زیر عنوان عیسائی دنیا کے لئے پچاس ہزار روپے کا انعامی چیلنج ، شائع ہوا ہے.گویا آپ اس خط کے ذریعہ اس بات پر آمادگی ظاہر فرماتے ہیں کہ جو حقائق ومعارف سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئے ہیں اسی قسم کے حقائق و معارف آپ اپنی الہامی کتابوں میں سے پیش کریں گے.جناب عالی ! دنیا میں یہ طریق ہے کہ جب کسی قوم یا ملک کے نام کوئی چیلنج دیا جاتا ہے اور وہ قوم یا ملک اس چیلنج کو منظور کر لیتے ہیں تو وہ اپنے میں سے موزوں ترین نمائندہ کو منتخب کر کے اسے چیلنج دینے والے شخص کے مقابلہ پر پیش کرتے ہیں.مثلاً امریکہ کے مشہورترین باکسر (BOXER) محمد علی کلے کی چیمپیئن شپ کا معاملہ ہے، جو ملک یا قوم ان کا مقابلہ کرنا چاہے گی وہ لوگ اپنے بہترین باکسر کو اس کے مقابلہ میں پیش کریں گے.ایسا نہیں ہوتا کہ اس چیلنج کے قبول کرنے کے لئے کوئی سکول بوائے کھڑا ہو جائے.اب یہ چیلنج حضرت امام جماعت احمدیہ کی طرف سے عیسائی دنیا کے نام ہے اسلئے ضروری ہوگا کہ آپ عیسائیوں کے جس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں کم از کم اس کی مینجنگ باڈی اس چیلنج کی منظوری کا اعلان کرے اور شرائط طے کرے پھر انہیں اختیار ہو گا کہ وہ جسے یا جس جس کو چاہیں مقابلہ کے لئے اپنا نمائندہ مقرر کریں.ایسی صورت میں یہ مقابلہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور اسی سے فیصلہ پر پہنچنے کے لئے طے شدہ شرائط کے مطابق آسان راہ پیدا ہو جائے گی.ہمیں بہت خوشی ہے کہ عیسائی صاحبان حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس چیلنج کی طرف توجہ کر رہے ہیں.غالباً پانچ سوروپے کی بجائے پچاس ہزار ہو جانے کی وجہ سے یہ توجہ پیدا ہورہی ہے.یا در ہے کہ اصل مقصد اس چیلنج کا یہ ہے کہ بائیبل کے مقابلہ پر قرآن کریم کا مرتبہ اور شرف ظاہر ہواور لوگوں پر واضح ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کا پاک کلام قرآن مجید ان اعلیٰ خوبیوں اور حقائق و معارف پر مشتمل ہے جن کا مقابلہ عیسائی صاحبان بائیبل سے ہرگز نہیں کر سکتے.اس اعلیٰ روحانی مقصد کے لئے یہ چیلنج دیا گیا ہے اور اگر عیسائی دنیا اس چیلنج کو منظور کر کے اور شرائط کا تصفیہ کر کے میدان میں آجائے تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں.آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ رقم کسی بنک میں جمع کروادی
تاریخ احمدیت.جلد 23 518 سال 1966ء جائے.سو آپ مطمئن رہیں کہ صحیح طریق پر عیسائی صاحبان کے سامنے آنے کے ساتھ ہی رقم معین طور پر مقررہ بنگ میں جمع کروا دی جائیگی.آپ نے یہ بھی تحریر فرمایا ہے کہ اگر متعدد مسیحی اس چیلنج کو منظور کرنے والے ہوں اور اُنہوں نے کوئی چٹھی لکھی ہو تو اُسے بھی ظاہر فرمایا جائے تاکہ بعد وصولی انعام ہم دو چار مسیحیوں کا آپس میں جھگڑا پیدا نہ ہو.آپ مجھ سے اتفاق فرمائیں گے کہ آپ کی اس مشکل‘ کاحل بھی مندرجہ بالا سطور میں آچکا ہے.کیونکہ جب عیسائی دنیا کی طرف سے نمائندہ مقرر ہو جائے گا تو دو چار مسیحیوں کا آپس میں جھگڑا پیدا ہونے کا سوال باقی نہ رہے گا.ہاں نمائندہ کو اختیار ہوگا کہ جو رقم اُسے ملے وہ جتنے پادریوں میں چاہے تقسیم کر سکتا ہے.جناب پادری صاحب ! یہ معاملہ نہایت سنجیدگی سے طے کیا جانے والا ہے اور اس بارے میں جمله خط و کتابت نہایت ہی سنجیدگی سے ہونی چاہیئے.نوٹ :.اگر آپ نے اپنی چٹھی کے شائع کرانے کا کوئی انتظام کیا ہوتو مناسب ہوگا کہ اُس چٹھی کے ساتھ ہی اُس کا یہ جواب بھی شائع ہو جائے.خاکسار ابوالعطاء جالندھری نائب ناظر اصلاح وارشاد ۲۳ جون ۱۹۶۶ء پادری الیاس صاحب صرف ذاتی شہرت کے لئے میدان میں آئے تھے.اس لئے خود ان کے فرقہ نے بھی انہیں کوئی اہمیت نہ دی اور نہ نمائندہ مقررکرنے کی حامی بھری.اُن کا چیلنج بھی محض ایک طفلانہ بیان تھا.حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا چیلنج تو یہ تھا کہ جو مطالب و معانی سورہ فاتحہ میں پائے جاتے ہیں وہ کوئی عیسائی اپنی تمام الہامی کتب سے نکال کر دکھا دے مگر پادری صاحب نے اس کا جواب یہ دیا کہ حمد کا لفظ بائبل کی فلاں کتاب کے فلاں باب کی فلاں آیت میں پایا جاتا ہے.رب“ کا لفظ بائبل کی فلاں کتاب اور فلاں باب اور فلاں آیت میں موجود ہے اور تمام جہان کا فقرہ فلاں آیت میں لکھا ہے وغیرہ وغیرہ.اور کہا کہ پیسے نکالو کیونکہ ہم نے چیلنج منظور کر کے اس کا جواب دے دیا ہے.حالانکہ حضور کی طرف سے مطالب اور مضامین سورۃ فاتحہ میں مقابلہ کا چیلنج تھا.اس میں درج شدہ الفاظ دکھلانے کا چیلنج نہیں تھا.الفاظ تو عربی لغات میں موجود ہیں.پھر پادری
تاریخ احمدیت.جلد23 519 سال 1966ء صاحب نے سورۂ فاتحہ کے الفاظ اصلی بائبل کی بجائے بائبل کے اُردو ترجمے سے پیش کئے.جو اور بھی مضحکہ خیز بات تھی.کیونکہ عیسائی دنیا کو بھی مسلم ہے کہ بائبل کا ترجمہ پہلے انگریزی میں ہوا اور پھر اُردو میں.اور جب اُردو میں ترجمہ ہوا تو بہت سے مسلمان عیسائی ہو چکے تھے اور وہ قرآن کریم کی زبان اور اُس کے محاوروں سے متاثر تھے.اس لئے ترجمہ میں اُنہوں نے اُنہی قرآنی الفاظ کو نقل کرنا شروع کر دیا.اس نقل کے بعد پادری صاحب کا یہ کہنا کہ قرآن کا یہ لفظ بائبل میں یعنی بائبل کے اُردو تر جمعے میں پایا جاتا ہے.مغالطہ آفرینی کی بدترین مثال تھا.تغییر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تدوین و اشاعت کوئی پادری صاحب تو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کے انعامی چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ کر سکے.البتہ اس سے یہ عظیم الشان فائدہ ہوا کہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ جہاں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سورۂ فاتحہ یا اُس کی کسی آیت کی پر معارف تفسیر فرمائی ہے.وہ یکجا کر لی جائے.اس خیال کے آتے ہی حضور نے فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام بیان فرمودہ تفسیر حضور کی کتب، ملفوظات و مکتوبات سے جمع کر کے ترتیب وار شائع کر دی جائے چنانچہ مولوی سلطان احمد صاحب فاضل پیر کوئی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُردو، عربی اور فارسی تصانیف اور ملفوظات کا انتہائی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کر کے حضور کے تمام رُوح پرور قرآنی معارف اور تفسیری نکات جمع کئے اور قرآنی خزائن کا یہ مسودہ انہوں نے جنوری ۱۹۶۸ء میں حضور کی خدمت اقدس میں پیش کر دیا.حضور نے اس کی تدوین و ترتیب، عربی و فارسی عبارات کے اردو ترجمہ اور طباعت واشاعت کا کام مولوی ابوالمنیر صاحب نور الحق فاضل مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین کے سپر دفرمایا.آپ نے پہلی جلد سے آخری جلد تک انتہائی ذوق و شوق لگن اور محنت و جانکاہی کے ساتھ یہ کام سرانجام دیا.آپ کے ساتھ جناب مولوی محمد صدیق صاحب ایم.اے انچارج خلافت لائبریری، ملک مبارک احمد صاحب پروفیسر عربی ادب جامعہ احمدیہ ربوہ، چوہدری رشید الدین صاحب فاضل اور مولوی سلطان احمد صاحب شاہد نے معاونت فرمائی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 520 سال 1966ء 79 ان مراحل کے طے ہونے کے بعد جون ۱۹۶۹ء میں اس سلسلہ کی پہلی جلد جو تفسیر سورۂ فاتحہ کے نکات و معارف پر مشتمل تھی اور تین سوا کاسی صفحات پر محیط تھی، منظر عام پر آئی اور آخری اور آٹھویں جلد صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر ۱۹۸۹ء میں چھپی.اس طرح خدا تعالیٰ نے نہ صرف پادریوں پر بلکہ دُنیا بھر کے تمام مذاہب پر ہمیشہ کے لئے اتمام حجت کر دی اور قرآنی حقائق و معارف کا بے نظیر اور لازوال خزانہ قیامت تک محفوظ ہو گیا.مرکزی تبلیغی منصوبہ بندی کمیٹی کا قیام اور اس کی سفارشات ۱۹۶۶ء کے اوائل میں صدر ،صدر انجمن احمد یہ پاکستان نے مرکزی نظام میں انقلابی روح پیدا کرنے کے لئے ایک منصوبہ بندی کمیٹی قائم کی.جس نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں حسب ذیل سفارشات کیں :.ا..۴.مقاصد اور فرائض جس میں خصوصاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود اور حضرت خلیفہ اسیح الاول اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے متعلقہ ارشادات کو مدنظر رکھا جائے.اس امر کا تنقیدی جائزہ کہ اب تک اس شعبہ کو کس حد تک کامیابی ہوئی اور مشکلات اور مجبوریوں کی تفصیلی نشان دہی.اس جائزہ کو مد نظر رکھ کر آئندہ کام کا منصوبہ جو گذشتہ کامیابیوں کو تیز تر کرے.خامیوں کو دور کرنے اور مشکلات پر حتی المقدور قابو پانے کے لئے مؤثر ذرائع تجویز کرے.اس منصوبہ میں اگر کوئی ایک پہلو موجودہ بجٹ سے زیادہ مالی وسائل کا تقاضا کرے تو اس پہلو کا تفصیلی تخمینہ خرچ اور آمد کے ذرائع بھی ساتھ ہی تجویز کئے جائیں.مندرجہ بالا کے پیش نظر سال زیر نظر کے سمح نظر کی تعیین ہو مثلاً افسر خزانہ اس رنگ میں تعین کر سکتے ہیں کہ فلاں فلاں ذریعے سے اتنے روپے کی موجودہ امانت کو بڑھا کر اتنے روپے تک پہنچایا جائے گا یا نفع مند سرمایہ کاری کے فلاں فلاں ذرائع اختیار کرنے کے نتیجہ میں نفع کی شرح کو اتنے فی صد بڑھانے کی کوشش کی جائے گی وغیرہ وغیرہ یہ محض مثالاً لکھا جارہا ہے.ورنہ ہر شعبہ اپنے بجٹ حالات اور وسائل کے پیش نظر اپنا مطمح نظر مقرر کرے لیکن یہ بہر حال ضروری ہو کہ حتی المقدور اسے اعداد وشمار میں معین کیا جائے.
تاریخ احمدیت.جلد 23.521 سال 1966ء منصو بہ اس رنگ میں بنایا جائے کہ کچھ اس کے بنیادی نقوش ہوں جو مستقل پروگرام پر مشتمل ہوں اور کچھ ایسے امور ہوں جو سال زیر نظر کیلئے مخصوص ہوں بہتر ہوگا کہ آئندہ پانچ سالہ مستقبل پر نظر رکھ کر منصوبہ تیار ہو.آئندہ منصوبوں میں گذشتہ منصوبے کی کامیابی کا جائزہ بھی شامل ہو اور اگر خدانخواستہ منصوبہ سو فیصدی پورا نہیں ہوسکا تو اس کی وجوہات کی چھان بین ہو.تبلیغی منصوبہ بندی میں قابل توجہ امور منصوبہ بندی کو بہتر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ کوائف کا زیادہ سے زیادہ علم ہو مثال کے طور پر ذیل میں چند قابل توجہ امور درج کئے جاتے ہیں.اول اب تک علاقہ وار احمدیت کے پھیلاؤ کا جائزہ اور قبول احمدیت کے لحاظ سے با ہمی موازنہ.دوم مذہب اور فرقہ وار پھیلا ؤ اور موازنہ.سوم طبقہ وار پھیلا ؤ اور موازنہ مثلاً بڑے بڑے تاجروں، وکلاء، علماء اور سیاستدانوں میں سے سالانہ کتنے احمدی ہورہے ہیں.چہارم ملک کے اہم ترین موثر طبقات کا تفصیلی جائزہ اور ان میں سے ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ مطمح نظر مقرر کرنا.مثلاً یہ کہ اس سال ہم اتنے مشہور علماء اتنے تجار اتنے بڑے زمیندار ۲.وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کی توفیق اور نصرت کے ساتھ احمدی بنانے کا عزم کرتے ہیں.جوامور احمدیت کے پھیلاؤ کے مخالف کام کر رہے ہیں اور جو امور احمدیت کے پھیلاؤ کے حق میں کام کر رہے ہیں ان کا تجزیہ اور ایسے ذرائع تجویز کرنا کہ اول الذکر بے اثر ہو جائے اور موخر الذکر کو تقویت حاصل ہو.ہر بالغ عاقل احمدی کو اس بات کیلئے تیار کرنے کیلئے کہ وہ سالانہ کم از کم ایک احمدی بنانے کا وعدہ ہی نہ کرے بلکہ عملاً اس میں کامیاب جد و جہد شروع کر دے با قاعدہ سکیم تیار کی جائے اور محض نصیحت اور وعدہ ہی پر اس معاملہ کو نہ چھوڑا جائے بہترین طریق غالبا یہ ہوگا کہ مالی رجسٹروں کی طرح جماعتی بجٹ بنائے جائیں اور وصولیات اور بقایا جات کا با قاعدہ حساب رکھا جائے صرف یہی نہیں بلکہ عام معیار کو پیش نظر رکھ کر عوامی تربیت کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 522 سال 1966ء لیے بنیادی دلائل پر مشتمل مختصر رسالہ شائع کر کے تمام وعدہ کنندگان میں تقسیم کیا جائے جس میں دلائل کے علاوہ حکمت اور موعظہ حسنہ کے پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہولٹریچر کی اشاعت چار عنوانات کے تحت ہو.اول:.پیغام عام اس کے تحت لکھوکھا اشتہار چھاپ کر فردا فردا اور ڈاک کے ذریعہ تقسیم کرنے کے بارہ میں سکیم تیار ہو اور حضرت اقدس خلیفتہ امسیح الثالث کی ایک کروڑ دو ورقہ پمفلٹس شائع کرنے کے ارشاد کو اس میں ملحوظ رکھا جائے.دوم:.بنیادی لٹریچر اس کے تحت تبلیغی رسالہ جات کا ایک ایسا سلسلہ تجویز کیا جائے جو کم از کم خرچ پر ایک معقول عرصہ میں کسی کو احمدیت سے اچھی طرح روشناس کرا دے لیکن اس امر کی ضمانت ضروری ہو کہ جس شخص کو سلسلہ کی ایک کڑی پہنچے دوسری کڑیاں بھی ترتیب وار ضرور پہنچتی رہیں.سوئم :.خصوصی لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ کے دیگر بزرگان کی اہم کتب عام تقسیم نہ کی جائیں بلکہ دلچسپی لینے والوں اور مطالبہ کرنے والوں کو دی جائیں البتہ مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر محفوظ رکھی جائیں اور ان میں بھی تقدیم اور تاخیر کے لحاظ سے ترتیب مقرر ہو.چہارم:.اعتراضات کے جوابات مختلف اعتراضات کے جوابات کی طباعت الگ الگ دو ورقہ ، چھ ورقہ اور عند الضرورت چھوٹے چھوٹے رسائل کی صورت میں کی جائے لیکن ان کی اشاعت نہ کی جائے بلکہ بالترتیب کتب خانے میں پڑی رہیں.جس شخص کی طرف سے جو اعتراض موصول ہو صرف اسے اس اعتراض کا جواب دیا جائے یا پھر اگر کسی علاقہ کے متعلق معلوم ہو کہ وہاں کوئی خاص اعتراض پھیلایا جارہا ہے تو اس علاقہ میں بے شک وہ جواب شائع کر دیا جائے.مطمح نظر چونکہ بہت وسیع ہے اس لئے سکیم اس اقتضاء کو مدنظر رکھ کر بنائی جائے کہ جلد از جلد
تاریخ احمدیت.جلد 23 523 سال 1966ء زیر نظر ملک کے ہر طبقہ اور ہر علاقہ پر پیغام احمدیت کے لحاظ سے حجت تمام ہو جائے.اسی طرح نظارت اصلاح وارشاد نے بھی تبلیغی اور تربیتی سفارشات مرتب کی تھیں جن کا جائزہ لے کر معین سفارشات پیش کی گئیں جو کہ درج ذیل ہیں.لائبریریوں میں سلسلے کے اخبارات اور کتب بھجوانے کا جو طمح نظر مقرر کیا گیا ہے سخت ناکافی اور قلیل ہے.نظارت اس مطمح نظر کو اس امر کے ملحوظ رکھتے ہوئے معین کرے کہ آئندہ پانچ دس سال کے اندر ملک کی ہر لائبریری اور ریڈنگ روم میں سلسلہ کا لٹریچر اور اخبارات پہنچ رہے ہوں.: هر مربی اپنے اپنے دائرہ عمل میں اپنے سالانہ پروگرام کا منصوبہ نظارت کے منصوبے کی روشنی میں تیار کرے اور بیعتوں کے لحاظ سے اپنا مطمح نظر معین کر لے.ج ا.مربیوں کی تعداد کو جلد از جلد ضرورت کے مطابق بڑھانے کے متعلق بھی نظارت غور کرے اور مطمح نظر کی تعیین کے بعد اگر ضرورت ہو تو فوری طور پر نئے واقفین کو جامعہ میں داخل کروانے کیلئے جد و جہد شروع کر دے تا کہ آئندہ بڑھتی ہوئی ضرورت پوری ہو سکے.یہ امر قابل فکر ہے کہ امسال صرف تین نئے مربی نظارت کو ملیں گے.تربیتی منصوبہ سے متعلق راہنمائی علاقہ دار بی تربیتی جائزہ کہ کتنے فی صد احمدی دوست نماز ناظرہ اور باترجمہ جانتے ہیں.: قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ جانتے ہیں.ج نماز با جماعت کی اہلیت رکھتے ہیں.نماز با جماعت پڑھتے ہیں.تلاوت قرآن کریم کے عادی ہیں.س بنیادی فقہی مسائل سے واقفیت رکھتے ہیں.ش بنیادی عقائد سے واقفیت رکھتے ہیں.اسی جائزہ کو بنیاد بناتے ہوئے تربیتی سکیم تیار کی جائے.طبقہ وار اور علاقہ وار مذہبی اور اخلاقی برائیوں اور معاشرے کے رحجانات کی چھان بین.
تاریخ احمدیت.جلد 23 ۴..524 سال 1966ء بالخصوص انسدا درشوت اور پردہ کے استحکام کے سلسلہ میں ایسی سکیم کی تیاری جو کم از کم روپے اور وقت کے خرچ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچا سکے.اس سکیم کی تیاری میں موجودہ کیفیت کو جس حد تک ممکن ہو اعدادوشمار میں ڈھال کر پیش نظر رکھا جائے اور جہاں تک ممکن ہو مطمح نظر بھی اعدادوشمار کی صورت میں متعین ہو.غیر احمدی معاشرہ کی اس انتظار کے بغیر کہ وہ احمدی ہوتے ہیں تربیت شروع کر دی جائے.کوشش کی جائے کہ تمام شہری اور قصباتی جماعت میں سنڈے اسکولز (Sunday Schools) کی طرز کے ہفتہ وار دینی اسباق دینے کے لئے مدارس جاری کئے جائیں جو سب آنریری ہوں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ان سفارشات کی منظوری دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ منصوبہ بندی کمیٹی کی سفارشات کے مطابق منصوبہ بنایا جائے.اسپر صدر، صدرانجمن احمدیہ نے ۱/۱۸اپریل ۱۹۶۶ ء کو فیصلہ کیا: وم.ارشاد حضور بغرض تعمیل ریکارڈ کیا جاتا ہے.تمام نظارتیں ان اصولی ارشادات کو مدنظر رکھ کر اپنے پرانے منصوبے کی نظر ثانی کرلیں.صدر صاحب کے ذریعے حضور کا یہ ارشاد بھی ملا ہے کہ یہ کام ۲۰/۴/۶۶ تک ختم ہو جانا چاہیئے.آج مورخہ ۱۸/۴/۶۶ ہے.حضور سے درخواست کی جاتی ہے کہ اگر حضور پسند فرمائیں تو اس کام کی تکمیل کے لئے ایک ہفتہ کی مہلت عنایت فرماویں.تمام نظارتیں نظر ثانی کے بعد اپنی رپورٹیں ناظر صاحب اعلیٰ کو بھجوائیں جوان کو یک جا کر کے حضور کی خدمت میں پیش کر دیں.“ چنانچہ نظارتوں نے اس کی پوری پوری تعمیل کی بھر پور کوشش کی.تاریخ احمدیت جلد ششم پر ہفت روزہ انصاف کا تبصرہ راولپنڈی کے ہفت روزہ انصاف نے اپنی ۲۱ اپریل ۱۹۶۶ ء کی اشاعت میں تاریخ احمدیت جلد ششم پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ کتاب مسلمانان غیر منقسم ہند اور پھر اسلامیان جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے.اس تبصرے کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 525 سال 1966ء ”مرزا صاحب نے آڑے وقت میں مسلمانوں کی صحیح راہنمائی فرمائی.کتاب تاریخ احمدیت جلد ششم کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے.جماعت احمدیہ کے تیسرے سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد جو پچھلے سال وفات پاگئے مذہبی رہنما ہونے کے علاوہ عظیم سیاست دان بھی تھے.چنانچہ چوہدری غلام عباس خان سابق صدر جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے اپنی خود نوشتہ سوانح حیات کے ایک باب میں لکھا تھا کہ میں نے مذہب مولانا ابوالکلام آزاد سے سیکھا جن سے میرا سیاسی اختلاف ہے اور میں نے سیاست مرزا بشیر الدین محمود احمد سے سیکھی جن سے میرا مذ ہبی اختلاف ہے.تاریخ احمدیت جلد ششم کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب اس جماعت کی مذہبی سرگرمیوں کی تفصیل ہوگی لیکن اس کے اوراق الٹنے سے پتہ لگتا ہے کہ یہ مسلمانانِ غیر منقسم ہند اور پھر اسلامیانِ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا بہترین مرقع ہے.مرزا صاحب نے آڑے وقت میں جب کہ بہت سے مسلمان لیڈروں کی آنکھیں کانگرس کے خوشنما بہروپ سے چکا چوند ہوتی تھیں مسلمانانِ ہند کی صحیح رہنمائی اور ترجمانی کی.اور ان کو ہندوؤں کی نیت اور عزائم سے بروقت آگاہ کیا.اس کے بعد آپ نے تحریک آزادی کشمیر کی ۱۹۳۱ء سے قبل ہی داغ بیل ڈال دی.اس کتاب کا مطالعہ سیاسیات کشمیر کے ہر طالب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے.اس کے مطالعہ سے بہت ہی دلچسپ اور اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں.مثال کے طور پر ۱۹۳۵ء میں جب چوہدری عباس کو مسلم کا نفرنس کا صدر بنایا گیا اور ان کا فقید المثال دریائی جلوس نکالا گیا تو مجلس استقبالیہ کے صدر خواجہ غلام نبی گل کار حال انور تھے اور رضا کاروں کی وردیاں قادیان سے بن کر آئی تھیں.۱۹۳۲ء میں شیر کشمیر شیخ محمد عبد اللہ نے گڑھی حبیب اللہ حال پاکستان نے مرزا صاحب موصوف سے ملاقات کرنی تھی تو شیخ صاحب کو یار لوگوں نے کار میں لٹا کر اور اوپر کپڑے ڈال کر ریاست کی حدود سے باہر سمگل کیا.کتاب میں علامہ اقبال مرحوم، شیر کشمیر شیخ محمدعبداللہ، سردار گوہر رحمان، عبدالمجید قریشی اور چوہدری غلام عباس وغیرہ زعماء کے بعض تاریخی اور علمی اہمیت کے خطوط بھی شامل ہیں.بعض تاریخی فوٹو گراف بھی دیے گئے ہیں.غرضیکہ یہ کتاب کشمیر کی تحریک آزادی سے متعلق معلومات کا ایک بیش بہا خزینہ ہے اور ان معلومات کے بغیر کشمیر کی سیاسی تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اپنے علم کو مکمل نہیں قرار دے سکتا.قیام پاکستان کے فوراً بعد آزاد کشمیر حکومت کی ابتدائی تشکیل میں بھی مرزا صاحب کا ہاتھ تھا.جس کی تصدیق پروفیسر محمد اسحاق قریشی کے ایک بیان سے ہوتی ہے جو اس کتاب میں چھپا ہے.قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ میں نے چوہدری حمید اللہ خان مرحوم سابق صدر مسلم کانفرنس کی معیت میں معاملات کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء میں مرحوم لیاقت علی خان سے ملاقاتیں کیں تو انہوں نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 526 سال 1966ء ہمیں مرزا صاحب سے ملنے کا مشورہ دیا.فرقان بٹالین جس نے ۴۸.۱۹۴۷ء کی جنگ آزادی میں جو نمایاں کارنامے سرانجام دئے ان کا بھی ذکر ہے اور اس کی توصیف میں اس وقت کے پاکستان آرمی کے کمانڈرانچیف جنرل گریسی کا ایک توصیفی خط بھی شائع ہوا ہے.تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تحریک جدید جیسی عظیم الشان آسمانی تحریک کو مستحکم اور وسیع تر کرنے کے لیے اس سال یہ انقلابی قدم اٹھایا کہ حضور نے ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء کو چندہ تحریک جدید کے دفتر سوم کو جاری فرمایا.نیز اس غرض سے کہ دفتر سوم حضرت مصلح موعود کی خلافت کی طرف منسوب ہو، یہ بھی اعلان فرمایا کہ اس کا اجراء یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کیا جائے گا.نیز حکم دیا کہ دوران سال نومبر کے بعد جو نئے دوست تحریک جدید کے دفتر دوم میں شامل ہوئے ہوں ان سب کو دفتر سوم میں منتقل کر دیا جائے اور تمام جماعتیں ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نو جوانوں، نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لیے تیار کریں اور تحریک جدید فوراً اس طرف توجہ دے اور اس دفتر کو منظم کرنے کی کوشش کرے.81 حضرت خلیفہ امسیح الثالث کا وقف جدید کے متعلق پیغام الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۶۶ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا وقف جدید سے متعلق حسب ذیل پیغام شائع ہوا:.میں اس اعلان کے ذریعہ احباب جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی کی خواہش کے احترام میں اس سال وقف جدید کے وعدے کم از کم چھ لاکھ تک پہنچا دیں.جماعت کے اخلاص اور دین کی خاطر قربانی کے جذبہ کو دیکھتے ہوئے یہ امر مشکل نہیں ہے.پس ہر دوست جو وقف جدید کی تحریک میں حصہ لے رہا ہو.اپنا چندہ وقف جدید اس سال حتی الوسع دو گنا کر دے اور جو دوست اس تحریک میں ابھی شامل نہیں ہیں وہ اس سال اس تحریک میں شمولیت کی سعادت ضرور حاصل کریں تا وقف جدید کا بجٹ اس سال چھ لاکھ تک پہنچ جائے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 527 سال 1966ء اللہ تعالیٰ جملہ احباب کے اخلاص واموال اور جذبہ قربانی میں برکت دے اور انہیں اس تحریک میں بیش از پیش حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرزا ناصر احمد خلیفہ اصبح الثالث شاہ فیصل کو برقی پیغام اور اس کا جواب 82 اس سال فرمانروائے سعودی عرب جلالة الملک شاہ فیصل بن عبدالعزیز سرکاری دورہ پر پاکستان تشریف لائے.یہ دورہ جو پاک عرب دوستی کو مستحکم سے مستحکم تر بنانے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا ۱۸ / اپریل سے ۲۴ اپریل ۱۹۶۶ء تک جاری رہا.اس دوران آپ کراچی، راولپنڈی، لاہور اور پشاور تشریف لے گئے.ہر جگہ آپ کا والہانہ استقبال ہوا.جلالۃ الملک شاہ فیصل ابھی اپنے دورہ کے سلسلے میں پاکستان میں ہی تھے کہ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مدیر الفرقان“ نے اسلامی ہجری سال کے پہلے دن یعنی یکم محرم ۱۳۸۶ ھ (۱/۲۳اپریل ۱۹۶۶ء) کو آپ کی خدمت میں یہ برقی پیغام بھیجا:.كل عام وانتم بخیر (ترجمہ: آپ کے لئے یہ سارا سال خیر و برکت کا سال ہو.) اس کے جواب میں جلالتہ الملک نے پاکستان سے روانگی سے پیشتر حسب ذیل تارمولا نا صاحب موصوف کے نام ارسال فرمایا:.(ترجمه) کراچی ۲۴ را پریل آپ نے جن پاکیزہ جذبات اور اسلامی روح کا مظاہرہ کیا ہے اس پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں.فیصل.83 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے سفر ڈنمارک کے لیے اجتماعی دعا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ ڈنمارک کی پہلی مسجد نصرت جہاں کی بنیاد اے کے لیے ۲۵ را پریل ۱۹۶۶ء کو بعد نماز عصر ربوہ سے روانہ ہوئے اس موقعہ پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے قصر خلافت میں اجتماعی دعا کرائی اور اس سے قبل حسب ذیل مختصر خطاب فرمایا:.آج مرزا مبارک احمد صاحب کو پن ہیگن (ڈنمارک) میں مسجد کی بنیاد رکھنے اور بعض دیگر ضروری کاموں کے لیے روانہ ہور ہے ہیں.مسجد بنانے میں بہت سی روکیں تھیں جن میں سے بہت سی دور ہو چکی ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 528 سال 1966ء امید ہے کہ دوسری بھی دور ہو چکی ہوں گی.لیکن ابھی تک ان تمام روکوں کے دور ہونے کی اطلاع مجھے نہیں ملی.پھر یہ بھی یقینی نہیں کہ مسجد پہلی جگہ پر تعمیر ہو یا کسی دوسری جگہ پر.پس ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے نزدیک مسجد کا تعمیر ہونا بہتر ہو و ہیں تعمیر ہو.خوشی کی بات یہ ہے کہ اب وہاں کے پادریوں نے خفیہ طور پر مسجد کی تعمیر کی مخالفت شروع کر دی ہے اور سنت اللہ یہ ہے کہ جہاں مخالفت ہو وہاں ترقی بھی ہوتی ہے اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ وہاں اسلام اور احمد میت کو ترقی بخشے.پھر بیرونی ممالک میں بھی اور پاکستان میں بھی احمدیت کی تعلیم سننے کا رجحان دن بدن بڑھ رہا ہے.ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو غیر ممالک میں بھی ترقی اور نمایاں کامیابی عطا فرمائے اور پاکستان میں بھی اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یہ تعلیم انہیں سناسکیں اور ان لوگوں کو توفیق دے کہ وہ اسے سن سکیں.“ اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لمبی دعا کروائی اور صاحبزادہ صاحب موصوف روانہ ہو گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام جماعت گلاسگو ( انگلستان ) کے نام حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ۲۷ اپریل ۱۹۶۶ء کو گلاسگو (انگلستان) کے ایک احمدی دوست کی درخواست پر وہاں کی احمدی جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا:.محترم بہنوں، عزیز بچو اور پیارے بھائیو! اللہ تعالیٰ رزاق ہے اور اس کی صفتِ رزاق کے جلوے ہمیں دنیا کے ہر حصے میں نظر آتے ہیں.اگر وہ چاہتا تو آپ سب کے لیے اپنے ملک میں ہی رزق کے سامان پیدا کر دیتا لیکن اس کی مشیت اور منشاء کے مطابق آپ نے اپنی دنیا کمانے کے لیے انگلستان کو اور پھر انگلستان میں سے اس آپ کے شہر کو پسند کیا اور اللہ تعالیٰ نے وہاں آپ کی روزی کے سامان پیدا کر دئے جہاں تثلیث کا گڑھ ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 529 سال 1966ء پس یہ قابل غور بات ہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو وہاں اکٹھا کر دیا.اگر ہم یہ سوچیں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خدائے واحد و یگانہ آپ سے یہ چاہتا ہے کہ آپ تثلیث کے اس گڑھ میں اس کی توحید کو قائم کرنے والے ہوں اور اس کی عظمت ، جلال اور کبریائی کے نعرے لگانے والے ہوں.یوں تو اللہ اکبر وہاں آپ لاؤڈ سپیکر پر بلند آواز سے نہیں کہہ سکتے لیکن جس جس آدمی کو آپ ملیں اس کو تو آپ اپنی زبان سے اور اپنے عمل سے بھی اس طرف متوجہ کر سکتے ہیں کہ حقیقتاً ہمارا رب بڑی عظمت والا اور بڑے جلال والا ہے.اگر آپ خدا تعالیٰ کی توحید کو اس ملک میں قائم کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی آپ کو اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے گا اور آخرت میں اور آپ کے اموال اور نفوس میں بہت برکت ڈالے گا.خدا کرے کہ آپ الہی برکات کو جذب کرنے والے بنیں.آمین.“ حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا سفر مخلہ 86 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث یکم مئی ۱۹۶۶ء کو پانچ ایام کے لئے مخلہ تشریف لے گئے.اس دوران حضور نے محترم مولانا جلال الدین صاحب شمس کو امیر مقامی مقررفرمایا.وقف عارضی کا پہلا وفد حضرت خلیفتہ امیج الثالث کی ہدایت پر وقف عارضی کا پہلا وفد یکم مئی ۱۹۶۶ء کو تخت ہزارہ (ضلع سرگودھا) میں بھجوایا گیا.حضرت خلیفہ اُسیح الثالث نے ۱۸ مارچ ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں وقف عارضی کی بابرکت تحریک کا اعلان فرمایا تھا.حضور نے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو تحریک کا انچارج مقررفرمایا.اس تحریک کے تحت وقف عارضی کا پہلا وفد جو تشکیل پایا وہ دوافراد پر مشتمل تھا.مکرم محمد ابراہیم ایم اے ( دفتر انصار اللہ مرکزیہ ) ۲.مکرم قریشی فضل حق صاحب دکان دار گولبازار بوه حضور کے ارشاد کی تعمیل میں اس پہلے وفد کا عرصہ وقف یکم مئی ۱۹۶۶ء تا پندرہ مئی ۱۹۶۶ء پندرہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 530 سال 1966ء دن کا تھا.مولانا ابوالعطاء صاحب نے یکم مئی کو اس وفد کی ملاقات حضور سے کروائی.حضور نے وفد کو جو ہدایات ارشاد فرمائیں ان کا خلاصہ یہ تھا کہ تم نے ضلع سرگودھا کی ایک بڑی جماعت تخت ہزارہ میں جانا ہے یہ جماعت زمیندارہ ہے اور ان دنوں گندم کی کٹائی اور گہائی کا موسم ہے.زمینداران دنوں فارغ نہیں ہونگے اس لئے یہ امید نہیں رکھنی کہ لوگ تمہارے پاس آئیں بلکہ تم نے لوگوں کے پاس ان کے کھیتوں میں اور کھلیانوں میں جانا ہے.مکرم ابراہیم صاحب کو اشارہ کر کے حضور نے فرمایا کہ تم زمینداره خاندان سے تعلق رکھتے ہو اس لئے تم ان دنوں زمینداروں کی مصروفیت کو خوب سمجھتے ہو.تربیت اور دعوت الی اللہ کا کام ان لوگوں کے کام کا حرج کئے بغیر سرانجام دینا ہے.زمیندار جس وقت گندم کاٹتے کاٹتے ذرا ستانے اور حقہ کے لئے درختوں کے نیچے بیٹھتے ہیں اس وقت سے فائدہ اٹھانا ہے.تخت ہزارہ کی جماعت تربیت کی بڑی محتاج ہے اس لئے تمہیں خاصی محنت سے کام کرنا ہوگا.صبح اور عشاء کی باجماعت نماز میں حاضری کے لئے خاص جد و جہد کرنا ہو گی.مولانا ابو العطاء صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ان میں سے کسی کو امیر مقرر فرما دیں تو حضور نے مکرم محمد ابراہیم صاحب کو امیر مقرر فرمایا کہ اس وفد کا امیرابراہیم ہوگا.پھر حضور نے دعاؤں کے ساتھ اس وفد کو رخصت فرمایا.وفد یکم مئی کو ربوہ سے روانہ ہو کر اسی دن تخت ہزارہ پہنچا.دوستوں نے اڈہ پر استقبال کیا.جماعت نے اصرار کیا کہ کھانا جماعت کی طرف سے قبول کیا جائے.وفد نے بتایا کہ ہمیں حکم یہ ہے کہ اپنے خرچ پر کھانے کا انتظام کیا جائے مگر جماعت جماعتی مہمان نوازی پر اصرار کر رہی تھی.آخر انہوں نے کہا کہ ہم ابھی حضور کی خدمت میں آدمی بھجوا کر اس کی اجازت حاصل کر لیتے ہیں.آخر ان کا اصرار دیکھ کر وفد نے ان کی مہمانی قبول کر لی کیونکہ مولانا ابوالعطاء صاحب نے جہاں وفد کو اپنے کھانے کی ہدایت کی تھی وہاں یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر جماعت نے زیادہ اصرار کیا تو ان کی مہمانی قبول کر لی جائے.ان پندرہ دن کی کارکردگی مکرم محمد ابراہیم صاحب نے اپنی ڈائری میں درج کی ہے جو نہایت ایمان افروز اور تربیتی لحاظ سے مفید ہے اس کا ایک حصہ احباب جماعت کے لئے زیب قرطاس ہے.ہر دو احباب نے حسب ہدایت وقف عارضی اپنے خرچ پر کی تھی.وفد نے پہلے تین دن کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں بھجوا دی تھی پھر اس کے بعد مکرم محمد ابراہیم صاحب اپنی ڈائری میں تحریر کرتے ہیں کہ :
تاریخ احمدیت.جلد 23 531 سال 1966ء ۳ مئی ۱۹۶۶ء کو انصار اللہ کی مجلس عاملہ کی تشکیل کروائی ، حضور کی خدمت میں منظوری کے لئے خط تحریر کیا، نماز فجر ، ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد درس ، گھروں میں جا کر دوستوں کو نماز میں آنے کے لئے تحریک کی گئی ،سیکرٹری صاحب تحریک جدید کے گھر جا کر چندہ وصول کرنے کی تحریک کی گئی.م مئی ۱۹۶۶ء صبح آٹھ بجے سے لیکر ایک بجے تک چاہات مہر چند والا اور ڈوڈیاں والا کا دورہ کیا گیا.اکیلے اکیلے افراد کو بھی ملے ان سب کو درس قرآن مجید، نماز کی ادائیگی اور سچا احمدی بننے کی تلقین کی گئی.۱۲ دوستوں کو ملے.اطفال کو توجہ ، صل علی نبینا صلی علی محمد اللہ کا دور شروع کروایا گیا.تعلیم القرآن کی فہرستیں تیار کروائی گئیں.انصار سے خطاب کیا گیا ذمہ داریوں کی طرف توجہ، چندہ کی وصولی کی طرف خصوصی توجہ دلائی.جماعت کے نام ماہنامہ انصار اللہ ، الفرقان ، خالد جاری ہوئے.عارضی وقف کی تحریک کی گئی بفضلہ تعالیٰ شیخ عنایت اللہ صاحب نے پندرہ دن کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا.مرکز کے ساتھ گہری وابستگی اور خلیفہ وقت کے ساتھ ذاتی رابطہ پیدا کرنے کی تحریک کی گئی.وقتا فوقتا حضور کو دعا کے لیے خط لکھنے کی تحریک کی گئی.ہ مئی ۱۹۶۶ء.آج صبح آٹھ بجے موضع نصیر پور گئے وہاں احمدی دوستوں کو ملے ان کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی.راستہ میں ایک کنویں پر قریشی فضل حق صاحب نے ایک خاص انداز میں پیغام حق پہنچایا جس کا ان پر بے حد اثر ہوا.ان کو اڑھائی گھنٹے تبلیغ کی گئی.ان میں سے ایک نے تسلیم کیا کہ احمدیت واقعی ہی سچی ہے.مغرب کی نماز چاہ مادو والے ادا کی گئی اور درس دیا گیا.قرآن مجید پڑھنے کی تاکید کی گئی.عشاء کی نماز کے بعد چوہدری حضور احمد صاحب سابق ممبر یونین کونسل کو ملے اور نماز کے لیے تحریک کی گئی.ہ مئی ۱۹۷۶ء.گاؤں میں محکمہ زراعت کے فیلڈ اسسٹنٹ اور گاؤں کے نمبر دار کو چار گھنٹے تک پیغام حق پہنچایا گیا.ایک احمدی کو جس نے خلافت ثالثہ کی بیعت نہیں کی تھی ان کو سمجھانے کی کوشش کی گئی.قرآن کریم پڑھنے کے لیے تین فہرستیں مرتب کروائی گئیں اور مرکز کو بھجوائی گئیں.ے مئی ۱۹۶۶ء.آج خدا تعالیٰ نے موضع میانہ ہزارہ میں تبلیغ کے لیے جانے کی توفیق دی.گاؤں میں ہمارے وفد نے تین جگہوں پر تبلیغ کی.پہلے میاں محمد نذیر صاحب چیئر مین یونین کونسل کو انکے ڈیرہ میں دس بارہ آدمیوں کی موجودگی میں.چیئر مین اور دو ایک دوستوں کولٹریچر دیا گیا.دوسری جگہ مولوی ابوالا سد نورحسین صاحب امام الصلوۃ میانہ کو تیسری جگہ میاں برخوردار صاحب کو ان کی دکان پر آٹھ
تاریخ احمدیت.جلد 23 532 سال 1966ء دس آدمیوں کی موجودگی میں پیغام حق پہنچایا گیا اور ٹیچر بھی دیا گیا.واپسی پر راستہ میں دوز میندار گندم کی گہائی کر رہے تھے ان کا گاہ ایک احمدی دوست نے ہانکا اور ان دونوں کو پندرہ بیس منٹ کے لیے پیغام حق پہنچایا گیا.آج قرآن کریم با ترجمعہ کی کلاس شروع ہوئی.دستی ۱۹۶۶ء.پانچ چاہات کا دورہ کیا گیا احمدی دوستوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی گئی.آج ۸ مئی تک کی رپورٹ حضور انور کی خدمت میں بھجوائی گئی.ومئی ۱۹۶۶ء.آج صبح ۷:۳۰ بجے روانہ ہو کر ایک احمدیوں کے کنویں پر گئے ان کو نماز کی طرف توجہ دلائی پھر ایک راہی کو جو ملتان سے آیا تھا اور جلال پور کو جارہا تھا پیغام حق پہنچانے کی کوشش کی گئی مگر اس نے سننے سے انکار کر دیا ہم اس کے ہمراہ ہو گئے مگر اس نے کہا یا آگے ہو جاؤ یا پیچھے میں تمہاری بات نہیں سنوں گا.پھر ہم دریا پر گئے وہاں کچھ سیر کی واپسی پر ملاحوں کو تبلیغ کی گئی ان میں سے ایک نے وعدہ کیا کہ وہ واپس آکر بات کرے گا.پھر جنگل میں ہمیں دولوگ بنام جمعہ ونورمحمد معہ ایک لوکل دوست صالح محمد کے ساتھ بیٹھے مل گئے ان کو پیغام حق پہنچایا گیا ان پر خدا کے فضل سے بڑا اچھا اثر رہا.برج میں آٹھ نو لوگوں کو ان کے گھر جا کر تبلیغ کی گئی ان کی عورتوں نے بھی اس آواز کو سنا.سوا بارہ بجے واپس گھر پہنچے.مغرب کی نماز کے بعد گاؤں میں احمدی دوستوں کے گھروں میں جا کر نماز با جماعت کی تاکید کی گئی.۱۰مئی ۱۹۶۶ء.آج ساڑھے آٹھ بجے باہر روانہ ہوئے دو چاہات پر احمدی دوستوں کو ان کے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی.خدا کے فضل سے پانچ مختلف جگہوں پر غیر از جماعت لوگوں کو پیغام حق پہنچایا گیا.راستہ میں ایک کسان ہل چلا رہا تھا شیخ عنایت اللہ صاحب نے اس کا ہل چلانا شروع کر دیا اور ہم نے اس کو پیغام حق پہنچادیا.ایک مجلس میں شیعہ حضرات کو ہدایت کی طرف پکارا گیا.خدا کے فضل سے سب پر بہت اچھا اثر رہا ایک بجے گھر واپس پہنچ گئے.الحمد للہ احباب کے گھروں میں جانے کا پروگرام تھا مگر بارش کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے.امئی ۱۹۶۶ء.ہم صبح آٹھ بجے دو تین دوستوں کے ہمراہ تبلیغ کے لیے روانہ ہوئے یہاں کے ایک بہت بارسوخ آدمی مستمی رحمن و سیر کو تلاش کیا گیا اس کے ڈیرہ پر گئے کئی آدمی وہاں جمع ہو گئے.قریشی صاحب نے نہایت عمدہ پیرائے میں پیغام پہنچایا جس کا ان پر بے حد اثر ہوا.ان کا نواسہ پہلے احمدی ہو چکا ہے اور یہ ان کے سخت مخالف تھے الحمد للہ کہ ان کی سختیاں اور تیز یاں ختم ہوگئی ہیں بلکہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 533 سال 1966ء انہوں نے دو دفعہ اقرار بھی کیا کہ میں بھی احمدی ہی ہوں.اگر خدا تعالیٰ ان کو احمدی ہونے کی توفیق دے دے تو اس کے سارے خاندان کے احمدی ہو جانے کی امید ہے.ساڑھے بارہ بجے واپس آئے.آج بھی موسم کی خرابی کی وجہ سے دوستوں کے گھروں میں نہ جاسکے.۲ مئی ۱۹۶۶ء.آج صبح کی نماز کے بعد شیخ محمد رفیق صاحب کے گھر گئے وہاں محکمہ زراعت کے چھ ملازم موجود تھے ان کو وفات مسیح اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں دلائل دیئے گئے ڈیڑھ گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی خدا کے فضل سے انہوں نے اچھا اثر لیا.ناشتہ کے بعد صبح آٹھ بجے باہر روانہ ہوئے پہلے دو احمدیوں کے کنوؤں پر گئے ان کو نماز با جماعت کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی گئی.بعد ازاں موضع نصیر پور پہنچے.معلم وقف جدید مکرم مولوی عبدالقیوم صاحب بھی ساتھ تھے وہاں ساڑھے بارہ بجے تک غیر احمد یوں کو پیغام حق پہنچایا گیا ظہر کی نماز وہاں ادا کی گئی نصیر پور کے ایک دوست جو زمیندار ہیں اور رانجھا قوم سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے بیعت کرنے کا ارادہ ظاہر کیا.ان کو کل جمعہ کے روز تخت ہزارہ آنے کے لیے کہا گیا نصیر پور سے واپسی پر احمدیوں کے تین کنوؤں پر گئے ان کو یاد دہانی کروائی گئی.الحمد للہ ۱۳ مئی ۱۹۶۶ ء.آج جمعہ تھا اس لیے باہر نہیں جا سکے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سابقہ کوششوں کا نتیجہ اچھا نکل رہا ہے گزشتہ جمعہ میں حاضری ۳۰/۱۳۵ تھی لیکن اس دفعہ بفضلہ، ۸ تعداد صرف مردوں کی تھی ۳۰/ ۲۵ /امید ہے عورتیں بھی ہوں گی.عبدالرحیم صاحب ساقی امیر جماعت اور سابق ممبر یونین کونسل کے درمیان سابقہ تنازعات تھے دونوں کی باتیں سنی گئیں اور دونوں کو سمجھایا گیا الحمد للہ دونوں نے باہم صلح کرلی ہے اور دونوں نے بغلگیر ہوکر ایک دوسرے کو تعاون کا یقین دلا یا انشاء اللہ ان دونوں کی صلح سے جماعت کی ترقی پر خوشگوار اثر پڑے گا کیونکہ دونوں دوست اپنے اپنے دائرہ میں بارسوخ ہیں.۱۴مئی ۱۹۷۶ء.آج صبح سات بجے شیخ عنایت اللہ صاحب کو ساتھ لیکر ہم میاں عبدالسمیع نون ایڈووکیٹ سرگودھا کے گاؤں ہلال پور گئے.وہاں احمدی دوستوں سے ملاقات کی گئی اور غیر احمدیوں کو تبلیغ کی گئی.راستہ میں ایک کنواں پر تبلیغ کی گئی.پھر موضع نصیر پور گئے وہاں ایک دوست کو ملنا تھا مگر ان سے ملاقات نہ ہو سکی.پانچ میل کا سفر کر کے ہم واپس پونے ایک بجے تخت ہزارہ پہنچ گئے.ایک بجے ماسٹر عنایت اللہ صاحب کے گھر کھانا پر مدعو تھے مکرم ماسٹر صاحب نے کھانا پر سکول کے ہیڈ ماسٹر
تاریخ احمدیت.جلد 23 534 سال 1966ء اور محکمہ زراعت کے انسپکٹر اور دوسرے کارکن محکمہ زراعت کوئی نو دس کی تعداد میں بلائے ہوئے تھے مکرم قریشی فضل حق صاحب نے کھانے کے بعد احمدیت کے عقائد بیان کئے اور پھر ایک نہایت پرسکون ماحول میں پونے چار بجے تک مذہبی گفتگو کا موقعہ ملا.انہوں نے کافی سوالات کئے جن کا خدا کے فضل سے تسلی بخش جواب دیا گیا.۵ مئی ۱۹۶۶ء.آج صبح کی نماز میں حاضری کافی تھی آج ہماری واپسی کا پروگرام تھا.جماعت کے سارے دوستوں نے اپنی دلی دعاؤں کے ساتھ ہم کو رخصت کیا.ہم دس بجے صبح ربوہ پہنچے.سب سے پہلے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی رپورٹ دی.تخت ہزارہ کے دوستوں کے لیے دعا کی درخواست کی.اس کے بعد گھر پہنچے.ڈنمارک کی سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد مورخه ۶ مئی ۱۹۶۶ء بروز جمعتہ المبارک ڈنمارک میں تعمیر ہونے والی سب سے پہلی مسجد کا سنگ بنیاد اللہ تعالی کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے درمیان محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ و وکیل التبشیر تحریک جدید نے رکھا.اس تقریب میں ڈنمارک کے نو مسلم احمدی احباب کے علاوہ ڈنمارک کے بعض سر بر آوردہ حضرات ، متعدد اسلامی ملکوں کے سفارتی نمائندوں مثلاً ڈنمارک میں ایران کے سفیر کوپن ہیگن کے وائس میر ، پاکستان، ترکی، انڈونیشیا اور متعدد دیگر ممالک کے سفراء کے نمائندوں اور مختلف ممالک کے مسلمانوں اور علی الخصوص بین الاقوامی عدالت کے جج محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور پاکستان کے وزیر قانون جناب ایس ایم ظفر صاحب نے بھی شرکت فرمائی.اس کے علاوہ عالمی پریس، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے نمائندے بھی کثیر تعداد میں تشریف لائے ہوئے تھے.یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ لنڈن اور ہیگ کی عالیشان مساجد کی طرح ڈنمارک کے دار الحکومت کوپن ہیگن میں تعمیر ہونے والی یہ پہلی مسجد بھی جماعت احمدیہ کی ایثار پیشہ خواتین نے خالصہ اپنے چندوں سے بنانے کا عزم کیا ہے.مسجد پر خرچ ہونے والی تین لاکھ روپے کی رقم کا معتد بہ حصہ انہوں نے حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی خصوصی توجہ اور کوشش کے نتیجہ میں بحمد اللہ پہلے ہی فراہم کر دیا تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 535 سال 1966ء اس مسجد کو یہ امتیازی خصوصیت بھی حاصل ہے کہ احمدی خواتین نے اسے سید نا حضرت المصلح الموعود خلیفہ المسیح الثانی کے نہایت مقدس و بابرکت عہد خلافت پر ۱۹۶۴ء میں پچاس سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور میں اظہار تشکر کے طور پر یاد گار کے رنگ میں تعمیر کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے.دوسری امتیازی خصوصیت اس مسجد کو یہ حاصل ہے کہ اس کی تعمیر کا منصوبہ خود سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے عہد خلافت میں بنایا تھا اور لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی درخواست پر احمدی خواتین کو از راہ شفقت یہ اجازت مرحمت فرمائی تھی کہ وہ اپنے فراہم کردہ چندوں سے اسے تعمیر کریں.پھر مسجد کی تعمیر کا آغا ز سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی راہ نمائی اور ہدایات کے بموجب آپ کے عہد خلافت میں ہوا.اس طرح یہ خلافت ثانیہ اور خلافت ثالثہ کے دونوں مبارک دوروں کی طرف منسوب ہوتے ہوئے خلافت ثالثہ کے نئے مبارک دور میں یورپ میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے.نا مساعد ملکی حالات کے باوجود مالی قربانی ستمبر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں بہت سی احمدی جماعتیں جو ضلع سیالکوٹ اور لاہور وغیرہ میں تھیں بُری طرح متاثر ہوئیں اور اپنا سارا مال و متاع چھوڑ کر انہیں اپنے علاقہ سے ہجرت کرنا پڑی.جنگ کا خطرناک اثر بہت سے احمدی تاجروں پر بھی پڑا اور ان کی آمدنی کم ہوگئی اور اسی نسبت سے جماعت کے چندوں میں بھی کمی آگئی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اس تشویش ناک صورت حال کو دیکھ کر ایک طرف احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کیا اور دوسری طرف اپنے مولا کے حضور متضرعانہ دعائیں کیں.جو عرش پر قبول ہوئیں اور احمدی جماعتوں نے نہ صرف اپنے بجٹ کو پورا کیا بلکہ بجٹ سے بھی ۶۷ ہزار روپے زائد اپنے رب کی خوشنودی کے لیے پیش کردئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ۶ مئی ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں قبولیت دعا کے اس نشان پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.مبلغ ۱۹۷، ۶۷ (سڑسٹھ ہزار روپیہ بجٹ سے زیادہ آمد ہوئی اور امید ہے کہ ۶۰ یا ۷۰ ہزار روپیہ کی رقم جو اسی سال میں محسوب ہے جلد ہی وصول ہو جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح ۶۶ - ۶۵ء کے بجٹ کی نسبت قریباً ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ کی آمدنی زائد ہوگی.جب ہم ۶۶ - ۶۵ء کی آمد کا ۶۵ ۶۴ ء کی آمد سے مقابلہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 536 سال 1966ء کرتے ہیں تو پوزیشن یہ بنتی ہے.۶۶ - ۶۵ء کی آمد ۹۱،۴۷۷، ۲۵ روپیہ اور ۶۵ ۶۴ ء کی آمد ۶۴،۳۳۳ ۲۴ روپیہ ہوئی.اس طرح ۶۵ ۶۴ء کی آمد کی نسبت اس سال اس وقت تک کی آمد مبلغ ۱۴۴، ۲۷، اروپیہ زیادہ ہوئی ہے اور اگر متوقع آمد ۶۰،۰۰۰ کو اس میں شامل کر لیا جائے تو ۶۶ - ۶۵ء کی آمد قریباً ایک لاکھ نوے ہزار روپیہ زیادہ ہوتی ہے.اگر ہم ۶۶ - ۶۵ ء کی آمد کا ۶۵ ۶۴ ء کے بجٹ سے مقابلہ کریں تو یہ زیادتی قریباً اڑھائی لاکھ روپیہ (۴۶،۱۴۷ ۲۰) بنتی ہے.جب یہ اعداد و شمار میرے سامنے آئے تو میرا دل خدا کی حمد سے بھر گیا.اور میرے تمام احساسات اور جذبات کو اس نے اپنے گھیرے میں لے لیا.میرے پاس وہ الفاظ نہیں اور نہ میں کھتا ہوں کہ آپ میں س کس کے پاس وہ الفاظ ہونگے جن سے ہم کا حقدا نے رب کا شکر یہ ادا کر سکیں.میں نے یہ بھی سوچا کہ مجھے آپ کے مقابلہ میں کوئی بزرگی یا برتری حاصل نہیں.لیکن جس رب عظیم نے اس خاکسار نابکار کو خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اسی قادر و توانا نے آپ کے دلوں میں میرے لئے محبت پیدا کی.میری زبان آپ کے دلوں پر اثر کرتی ہے اور آپ میری آواز کوسن کر اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مجنونانہ طور پر اپنے دینی کاموں میں لگ جاتے ہیں.جیسا کہ باہر سے آنیوالی بہت سی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں کہ جب آپ کا خطبہ یہاں پہنچا تو تمام عہدیدار مجنونانہ طور پر اپنے کام میں لگ گئے اور کوشش کی کہ بجٹ کے پورا ہونے میں کوئی کمی نہ رہ جائے.اسی طرح بعض افراد نے جن کے ذمہ بڑی بڑی رقوم واجب الادا تھیں تنگی برداشت کر کے وہ رقوم ادا کر دیں.اس طرح انہوں نے جماعت سے تعاون کیا اور خدا تعالی کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی.66 89 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی مبلغین کو اہم نصائح مکرم ڈاکٹر لال دین صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کمپالہ (یوگنڈا) ربوہ تشریف لائے
تاریخ احمدیت.جلد 23 537 سال 1966ء ہوئے تھے انہوں نے سیدنا حضرت خلیفہ امسح الثالث کے ارشاد پر مورخہ ۸ مئی ۱۹۶۶ء کو بعد نماز مغرب مسجد مبارک ربوہ میں مشرقی افریقہ میں دعوت اسلام کے حالات سنائے.مکرم ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد حضور نے بھی بصیرت افروز خطاب فرمایا جس میں آپ نے احمدی نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرنے کی طرف توجہ دلائی.فرمایا جو مبلغ بھی افریقہ جائیں وہ علاقہ کی مقامی زبان سیکھنے کی طرف فوری توجہ دیں اور جلد اس میں ملکہ اور کمال حاصل کریں.نیز فرمایا ہمارے مبلغین زیادہ تر شہروں میں قیام کرتے ہیں.انہیں شہروں میں قیام کرنے کی بجائے افریقہ کے قبائل میں زندگی بسر کرنی چاہیے.انہیں خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر تکلیف برداشت کرتے ہوئے شہروں کی بجائے دیہات میں رہنا چاہیے.فرمایا احمدیت اور اسلام کو جس طرح کے ہنگامی حالات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر جہاں ہمیں لمبی تربیت کے بعد باقاعدہ مربی تیار کرتے رہنا چاہیے وہاں ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ شارٹ کورس کی بنیاد پر چھ ماہ سال یا ڈیڑھ سال تک پڑھے لکھے آدمی کو ایسے رنگ میں تربیت دیں کہ وہ ایک حد تک تبلیغی کام کو صحیح طور پر انجام دے سکے.آپ نے فرمایا کہ یہ بات نوٹ کر لینی چاہیے کہ ہمارے درمیان کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہیے.اگر ہو جائے تو اس اختلاف کو تحمل سے برداشت کرنا چاہیے.اگر اختلاف ذرہ بھر بھی بڑھ.جائے تو اسلام کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے.علامہ نیاز فتح پوری کی وفات اور احمد یہ پریس اردو زبان کے بلند پایہ ادیب و نقاد اور مشہور نثر نگار علامہ نیاز فتح پوری مدیر اعلیٰ رسالہ ” نگار جنہوں نے عمر کے آخری حصے میں احمدیت کی تائید میں زبر دست مضامین لکھ کر تہلکہ مچا دیا اور پھر ساری زندگی جماعت کے ساتھ مخلصانہ تعلقات رکھے.۲۴ مئی ۱۹۶۶ء کو کراچی میں انتقال کر گئے.91 اس المناک سانحہ نے تمام علمی وادبی حلقوں کو سوگوار کر دیا.احمد یہ پریس نے ان کی شخصیت کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا.چنانچہ اخبار الفضل (۲۶ مئی ۱۹۶۶ء) نے علامہ نیاز فتح پوری مرحوم کے زیر عنوان لکھا:.اردو کے مشہور ادیب علامہ نیاز فتح پوری ۲۴ مئی کی صبح کو کراچی میں انتقال کر گئے اناللہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 538 سال 1966ء وانا اليه راجعون.آپ کی عمر ۱ ۸ برس تھی.مرحوم طویل عرصہ سے سرطان کے مرض میں مبتلا تھے.گزشتہ چند ہفتوں سے آپ کی حالت خراب ہو گئی تھی.آپ کا پورا نام نیاز محمد خان تھا.فتح پور (یوپی) میں ۱۸۸۶ء میں پیدا ہوئے.والد کا نام محمد امیر خان تھا.جو فارسی کے مشہور شاعر اور نثر نگار ) تھے.امام بخش صہبائی کے ارشد تلامذہ میں شمار ہوتے تھے.انہوں نے فارسی کی متداول اور سیاست کے علاوہ نیاز مرحوم کو دوسرے اساتذہ ہند و عجم کا کلام نظم ونثر بھی پڑھایا.اسی درس تعلیم نے نیاز صاحب میں ادبی نکھار پیدا کیا.مکتب کی تعلیم سے فارغ ہوئے تو انگریزی پڑھنے کا شوق چرایا.ایک روایت ہے کہ ایف اے تک انگریزی پڑھی.ان کے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ سکول و کالج کے چکر میں نہ پڑے تھے.انگریزی خود پڑھی.ذہانت و درا کی کا یہ عالم تھا کہ کہ بہت جلد اس زبان پر عبور حاصل کر لیا اور انگریزی ادبیات سے استفادہ کرنے لگے.انگریزی کی طرح ترکی بھی انہوں نے خود پڑھی اور دو تین مہینوں میں اتنی استعداد پیدا کر لی کہ مشہور ترک ادیب نامن کمال کے فن سے اسی کی زبان میں لطف اندوز ہونے لگے.ایک پرشکوہ ادبی کارنامہ ” گیتان جلی کا ترجمہ ہے.یہ ترجمہ شائع ہوا تو ملک کے ادبی حلقوں نے پہلی مرتبہ محسوس کیا که مطلع ادب پر ایک درخشندہ ستارہ طلوع ہوا ہے.نیاز مرحوم نے انشائے لطیف اور ادب عالیہ میں گراں قدر اضافے کئے ، ان کے قلم سے بے شمار ادب پارے افسانے ،تنقیدی مضامین اور مستقل تصانیف نکلیں.ان کی تحریریں زور قلم اور نزاکت خیال کا مرقع ہیں آپ کی معرکۃ الآراء کتاب شہاب کی سرگزشت ہے جو ادبی شاہکار تسلیم کی جاتی ہے.نیاز مرحوم نے کچھ عرصہ ریاست بھوپال میں ملازمت بھی کی.پولیس کے دفتر میں ہیڈ کلر کی کرتے رہے.ریاست کے چیف سیکرٹری نواب حمید اللہ خان نے ڈاکٹر بجنوری مرحوم کی تحریک پر نیاز صاحب کے لیے ادبی خدمات کا وظیفہ مقرر کر دیا اور یوں نیاز صاحب کو دفتری جھنجھٹ سے نجات مل گئی.یہ ۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے.نیاز صاحب کے دوستوں نے اصرار کیا کہ وہ نواب سلطان جہاں بیگم صاحبہ ( والی بھوپال) کی سالگرہ کے موقعہ پر کوئی تصنیف پیش کریں.سالگرہ میں دو مہینے تھے.انہوں نے حامی بھر لی اور دو ماہ میں نہ صرف کتاب گہوارہ تمدن تصنیف کی بلکہ طبع کرا کے سالگرہ کے دن پیش کر دی.۱۹۲۳ء میں انہوں نے اپنا مشہور ادبی رسالہ نگار جاری کیا.جب تک نیاز صاحب بھارت میں رہے.یہ رسالہ لکھنو سے باقاعدگی سے نکلتا رہا.جب وہ پاکستان منتقل ہو آئے تو کراچی سے نگار کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 539 سال 1966ء اجراء ہوا.نگار نیاز فتح پوری کی تخلیقات اور نظریات ہی کی اشاعت کا وسیلہ نہ تھا.ادب اردو کی خدمت میں بھی اس نے اہم کردار ادا کیا.نیاز مرحوم نے نقد و نظر کا ایک نیا اسلوب اختیار کیا تھا.وہ اپنا اصول تنقید یہ بتاتے تھے کہ ناقد کا کام ہے کہ ہر تصنیف کو منصفانہ نگاہ سے دیکھے اور اس کے محاسن و معائب پر انصاف سے قلم اٹھائے اور سوائے اظہار حقیقت کے کوئی اور غرض اس کے پیش نظر نہ ہو.مرحوم جماعت احمدیہ کی عظیم الشان اسلامی خدمات کے دل سے معترف تھے.چنانچہ آپ نے بار ہا نگار میں جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات پر اسے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور حق گوئی کی ایک بہت اچھی مثال قائم کر دکھائی.اخبار بدر قادیان کے نائب ایڈیٹر چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی نے درج ذیل نوٹ سپر د قلم کیا: سحر نگار علامہ نیاز فتح پوری کی وفات“ 92 آخر پنجہ اجل نے اس نابغہ روزگار کو دبوچ لیا.جو متواتر نصف صدی سے زائد عرصہ تک برصغیر پاک و ہند کے افق ادب پر چھایا رہا.وہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز انسان علم وادب کے میدان میں شہرت کی بلندیوں تک پہنچا.نگار کے صفحات میں علامہ نیاز کے قلم سحر نگار نے وہ گلہائے رنگ کھلائے ہیں کہ عقل محو حیرت ہو جاتی ہے.کہ ایک اکیلا شخص علم وادب کے ہر میدان میں کس طرح عمر بھر سرپٹ دوڑ تا رہا.یوں کہ تعاقب کرنے والے تھک تھک کر واپس ہو جاتے رہے.ہندوستان بھر کے علماء کے بالمقابل وہ تن تنہا متواتر پچاس سال تک اپنے قلم کی تلوار لئے کھڑا رہا.اور ھل من مبارز کا نعرہ لگاتا رہا.وہ ایک نرالے حسن بیان کے ساتھ ایک انوکھے اسلوب تحریر کے ساتھ ایک حیرت انگیز طریق تخاطب کے ساتھ ” نگار کے صفحات پر چھپتا رہا.اس کی تحریر کی سج دھج میں وہ کشش تھی کہ علم دوست طبقہ اس کی طرف کھنچا چلا آیا.اس کے قلم میں وہ مقنا طیسیت تھی کہ ادب نواز حلقے اسے اردو ادب کا امام ماننے پر مجبور ہو گئے.پھر دل پر ہاتھ رکھ کر کہیئے ! کیا یہ حقیقت نہیں کہ نیاز کو کافر وملحد کہنے والے بھی ہر ماہ نگار کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے! یوں تو غائبانہ طور پر میں علامہ نیاز سے ایک لمبے عرصہ سے متعارف تھا ان کی ادبی رفعت و قابلیت کا معترف و معتقد تھا.لیکن مرحوم سے ذاتی تعارف کی ابتداء ستمبر ۱۹۵۹ء میں ہوئی.جب میں حضرت
تاریخ احمدیت.جلد 23 540 سال 1966ء صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب سلمہ کے ارشاد کی تعمیل میں لکھنو میں ان سے ملا.مرحوم نے وسط ۱۹۵۹ء میں اپنے مؤقر رسالہ "نگار" میں احمدیت کے حق میں ایک زور دار نوٹ لکھا تھا اور اسی سلسلہ میں مجھے ان سے گفتگو بھی کرنا تھی اور سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر بھی پہنچانا تھا.سلسلہ احمدیہ کا حق و صداقت پر مبنی لٹریچر پڑھنے کے بعد علامہ نیاز کے خیالات اتنے زیادہ متاثر ہوئے تھے کہ انہوں نے نگار کی متعدد اشاعتوں میں احمدیت کے حق میں نہایت مدلل اور زوردار نوٹ لکھے جس کے لئے مرحوم کو بے شمار اعتراضات کی بوچھاڑ کا مقابلہ بھی کرنا پڑا.مگر نیاز جیسا نا قابل شکست انسان بھلا ان اعتراضات کی کیا حقیقت سمجھتا تھا.جواب در جواب کا سلسلہ جاری رہا اور نیاز اپنے پر شوکت قلم سے احمدیت کے حق میں وہ کچھ لکھ گیا جو آج تک کسی غیر احمدی عالم نے نہیں لکھا تھا.گو کہ احمدیت کی حقیقت اور فعالیت کا اعتراف دل سے تو بے شمار علماء کو ہے مگر اعتراف کے اظہار کے لیے جس جرات رندانہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے وہ تو صرف نیاز ہی کا حصہ تھا.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب اور خاکسار راقم کیساتھ علامہ نیاز کی با قاعدہ خط وکتابت آخر تک جاری رہی اور ہمارے پیارے آقا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی شہرہ آفاق تصنیف تفسیر کبیر کے مطالعہ کے بعد تو علامہ نیاز کے اندر اتنا تغیر واقع ہوا تھا کہ انہوں نے صاحبزادہ صاحب موصوف کے نام اپنے خطوط میں نہایت نیاز مندانہ طور پر اس کا اظہار کیا اور اس تصنیف کو دنیا کا عظیم ترین علمی کارنامہ قرار دیتے ہوئے یہاں تک لکھا کہ اس تفسیر کے مطالعہ کے بعد تو میرے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کاش میری زندگی آج سے شروع ہوئی ہوتی.حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ علامہ کی خط و کتابت کا ایک حصہ جسے خاکسار نے مرتب کیا تھا نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے ۱۹۵۹ء میں سائیکلو سٹائل مشین پر چھاپ کر بعض جماعتوں کو بھجوایا بھی گیا تھا.لیکن کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو ابھی منظر عام پر نہیں لایا جاسکا.جولائی ۱۹۶۰ء میں علامہ نیاز صاحبزادہ صاحب موصوف کی دعوت پر قادیان بھی تشریف لائے تھے اور صدرانجمن احمدیہ کے ادارہ جات اور تنظیم کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے تھے اور جب انہوں نے تعلیم الاسلام کالج اور سکولوں اور جامعہ احمدیہ کی عمارات دیکھیں اور ربوہ کے تعلیمی اداروں اور ممالک بیرون کے مشنوں کے حالات سنے تو انہوں نے فرمایا کہ ایک چھوٹی سی جماعت کا ستر سال کی قلیل عمر میں اتنا بڑا کام کرنا واقعی محیر العقول ہے.اور خدائی تائید کے بغیر یہ کارنامہ انجام نہیں دیا جاسکتا.مرحوم
تاریخ احمدیت.جلد 23 541 سال 1966ء ان تعلیمی انتظامات سے اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ ان کے دو فرزندوں کو جماعت احمدیہ کے زیر نگرانی تعلیم دلائی جائے.مگر افسوس کہ بعد میں حالات نے انہیں لکھنو سے کراچی چلے جانے پر مجبور کر دیا اور اس تجویز پر عمل نہ ہوسکا.۱۹۴۷ء کے پُر آشوب زمانہ میں قادیان کے اندر درویشوں کے قیام سے بھی وہ بہت متاثر تھے وہ جب قادیان تشریف لائے تو میں ان کے استقبال کے لیے امرتسر گیا ہوا تھا.امرتسر سے ٹیکسی میں ہم قادیان آرہے تھے کہ علامہ نے یہ سوال کیا کہ تقسیم ملک کے وقت جبکہ واہگہ سے انبالہ اور سہارنپور تک کا علاقہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا تھا تو قادیان میں تھوڑی سی تعداد میں درویشوں کا ٹھہر جانا کیونکر ممکن ہوا؟ یہ سوال واقعی بڑا اہم تھا مگر مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف کر لینا چاہیئے کہ میں اس سوال کا جواب نہ دے سکا کیونکہ میں اس کا جواب نہیں جانتا تھا اور آج بھی نہیں جانتا چنا نچہ میں نے یہی کہا کہ یہ راز تو آج تک ہمیں خود معلوم نہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہوا اور خدائی تقدیروں کے رازوں کو کون جان سکتا ہے.علامہ نے فرمایا یہ درست ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ وفاداری کے سخت ترین کہ امتحان میں کامیاب رہے.حضرت مرزا وسیم احمد صاحب اور نا چیز راقم کے ساتھ علامہ کی خط و کتابت آخر تک جاری رہی اور دوستانہ مراسم قائم رہے.چنانچہ علامہ نے نگار کا جو نیاز نمبر دو فخیم جلدوں میں نکالا تھا.اس میں اپنے خاص دوستوں کی فہرست میں صاحبزادہ صاحب موصوف اور خاکسار کے نام بھی دئے تھے.بہر حال دنیائے علم وادب کی ایک حیرت انگیز اور عظیم شخصیت اس جہانِ فانی سے اُٹھ گئی مگر اپنے پیچھے منطق و استدلال کے بے شمار نقوش چھوڑ گئی.حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا امام ہمام کا پیغام جماعت احمد یہ منفی کے نام 66 سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے ۳۰ مئی ۱۹۲۶ء کو جماعت احمد یہ بنی کے نام حسب ذیل پیغام دیا جسے ایک فی جیئن احمدی عبد القدوس صاحب نے بذریعہ ٹیپ ریکارڈر محفوظ کر کے بھی کی مخلص جماعت تک پہنچایا.جزائری میں رہنے والی وہ سعید روحو! جنہیں اللہ تعالی نے محض اپنے فضل
تاریخ احمدیت.جلد 23 542 سال 1966ء سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچاننے کی توفیق عطا کی ہے.السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک انوکھے مقام نبوت کا دعوی کیا ہے.آپ سے پہلے اس قسم کا کوئی نبی پیدا نہیں ہوا اس لیے جماعت احمدیہ میں سے بھی بعض غلط فہمی کا شکار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی نئی شریعت لے کر مبعوث نہیں ہوئے.قرآن کریم یا اس کے کسی حکم کو آپ نے منسوخ نہیں کیا بلکہ قرآن کریم.تمام احکام قرآن کو دنیا میں قائم کرنا آپ کی بعثت کی غرض تھی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا "يحيى الدين ويقيم الشريعة یعنی بعثت کی غرض ہی احیائے دین اور قیام شریعت ہے.آپ نے جو کچھ بھی حاصل کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے حاصل کیا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے الہام بتایا ” آسمان سے دودھ اترا ہے، محفوظ رکھو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ایک خالص دودھ عطا کیا گیا تھا.یہ دودھ جو آسمان پر سے آپ کے لیے نازل ہوا تھا اس میں کسی قسم کے مضر صحت کیڑے نہیں پائے جاتے تھے لیکن بعد میں مسلمانوں میں سے بعض لوگ بد قسمتی کی وجہ سے قرآن کریم کو چھوڑ کر رسم و رواج یا اپنی عقل کے پھندے میں پھنس گئے اور انہوں نے اپنی طرف سے بہت کچھ شریعت اسلامیہ میں ملانا شروع کر دیا.اس کے نتیجہ میں وہ دودھ.خالص دودھ.جو آسمان سے نازل ہوا تھا اُس میں ملاوٹ پڑ جانے کی وجہ سے.بالکل وہ دودھ خراب ہو گیا اور روحانی صحت پر اُس کا بداثر پڑنا شروع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے پھر اُسی دودھ کو ایک خالص شکل میں بنی نوع انسان کے سامنے پیش کیا ہے.اور چونکہ آپ نے فنافی اللہ اور فنافی الرسول کا وہ مقام حاصل کیا جو امت محمدیہ میں سے کسی بزرگ نے آپ سے پہلے حاصل نہ کیا تھا اور جسے آئندہ بھی اُمت محمدیہ کا کوئی بزرگ حاصل نہ کر سکے گا اس لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو نبی
تاریخ احمدیت.جلد 23 543 سال 1966ء کا نام عطا کیا گیا اور رسول کا مقام عطا ہوا.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اپنی کتاب ”ایک غلطی کا ازالہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ تشریح فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ میری طرف نبوت کو اس معنی میں منسوب کرتے ہیں کہ گویا میں قرآن کریم کو یا اس کے بعض احکام کو منسوخ کرنے والا ہوں.یا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں کھڑا ہو کر نبوت کا دعوی کرتا ہوں وہ مجھ پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں.اس طرح وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں ، یا جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے الہامات میں مجھے نبی اور رسول کا نام نہیں دیا گیا وہ بھی غلطی خوردہ ہیں.میں کوئی نئی شریعت لے کر نہیں آیا.میں قرآن کے کسی حکم کو منسوخ نہیں کرتا لیکن امت محمدیہ میں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض حاصل چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے کیا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے مقام نبوت اور مقام رسالت مجھے عطا کیا اور مجھے وہ طاقتیں اور قوتیں اور استعداد میں اور علوم اور الہی نشانات عطا کئے جس کے نتیجہ میں میں اپنے اس مقصد میں اور اس مشن میں کامیاب ہوں گا کہ پھر سے اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کروں.ہمارے دوستوں کو چاہیئے کہ وہ اس کتاب کو ہمیشہ زیر مطالعہ رکھیں تا کہ اُن کو اپنی ذمہ داری کا احساس بھی ہمیشہ رہے.اللہ تعالیٰ نے آسمان پر یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ اسلام کو تمام دنیا میں غالب کرے گا.یہ خدا کا وعدہ ہے جو ضرور پورا ہوگا.لیکن اس نے ہم پر فضل فرماتے ہوئے ہم سے یہ چاہا ہے اور امید رکھی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اس منصو بہ اور سکیم میں خود بھی کوشش کرنے والے ہوں اور ہرفتم کی قربانیاں دینے والے ہوں اور خدا اور اس کے رسول کی خاطر دنیا کی تکالیف برداشت کرنے والے ہوں اور ایثار کا نمونہ پیش کرنے والے ہوں اور اسلام کو اپنی زندگیوں میں ظاہر کرنے والے ہوں، قرآن کریم سے پیار کرنے والے ہوں، تو حید پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں ، قرآن کریم کے ساتھ دل سے محبت کرنے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت اس طرح اپنے دلوں میں قائم کرنے والے ہوں کہ اُس نور کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ
تاریخ احمدیت.جلد 23 ہمارے ماحول کو بھی منور کر دے.544 سال 1966ء پس اے میرے عزیز بھائیو! آپ جو دُور دراز علاقوں ، جزائرنجی میں رہنے والے ہیں! آپ اپنی ذمہ داریوں کو کبھی نہ بھولیں.باہم پیار اور محبت سے رہیں اور اس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھیں جس مقصد کے لیے جماعت احمدیہ کا قیام ہوا ہے.السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ مکرم رستم خان صاحب آف مردان کی شہادت 95 ۱۱ فروری ۱۹۶۶ء کو ایک نہایت تکلیف دہ واقعہ پیش آیا کہ ایک نہایت مخلص اور باوفا احمدی مکرم رستم خان صاحب آف مردان کو شہید کر دیا گیا.آپ خلافت ثالثہ کے پہلے شہید تھے.مکرم رستم خان صاحب پشاور کے قریب ایک گاؤں جلوزئی کے رہنے والے تھے.خود احمدی ہوئے تھے اور اپنے گاؤں بلکہ آس پاس کے کئی گاؤں میں اکیلے احمدی تھے.احمدی ہونے پر سارا گاؤں ان کا مخالف ہو گیا اور انہیں گھر سے نکال دیا گیا، جائیداد سے عاق کیا گیا.ان پر مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالا گیا کہ قادیانیت سے توبہ کر لو ان کے بچوں میں پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.چا وغیرہ چاہتے تھے کہ ان کی نسل کو ہی ختم کر دیا جائے.بیٹیوں کو گاؤں لے جا کر بیچنے کی سازش کی گئی.بیٹے کرنل عبد الحمید حال راولپنڈی کو بارہا جان سے مارنے کی کوشش کی گئی.شہید اپنی سروس کے سلسلہ میں زیادہ تر باہر رہتے تھے.گاؤں کی مسجد کے مولوی نے فتوی دیا کہ جو کوئی رستم خان کی نسل کو ختم کرے گا وہ جنتی ہو گا.ان کی بیگم کو ایک دو دفعہ کسی مرگ پر گاؤں جانا ہوا تو کھانے پینے کے برتن الگ ہوتے تھے.سب اچھوتوں والا سلوک کرتے تھے.کھانے میں زہر ملانے کی بھی سازش کی گئی جو کہ ناکام ہوئی.۹ فروری ۱۹۶۶ء کو شہید کے والد کی وفات ہوگئی تو ان کی لاش لے کر بچے گاؤں گئے.گاؤں پہنچتے ہی تمام گاؤں میں مولوی نے اعلان کیا کہ ”لوگو! خوش ہو جاؤ ، آج رستم خان قادیانی آیا ہے.اس کو قتل کر دو اور اس کی اولا دکو علاقہ غیر میں بیچ دو یا پھر گاؤں میں بیاہ دو.اس کا ایک بیٹا ہے اس کو مارڈالو اور اب جو بھی ثواب کمانا چاہتا ہے، بہادر بنے اور سامنے آئے کیونکہ جنت کمانے کا ذریعہ سامنے آیا ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 545 سال 1966ء رات کو رستم شہید کے والد کی تدفین سے پہلے جب یہ اعلان ہوا تو انہوں نے اپنی بیگم کو بلا کر کہا کہ تم کسی طرح سے اپنے بھائیوں عبدالسلام اور عبدالقدوس کو اطلاع کرو کہ وہ تعزیت کے بہانے گاؤں آئیں اور بچوں کو ساتھ لے جائیں کیونکہ حالات ٹھیک نہیں ہیں اور مجھے بیٹیوں کا خطرہ ہے.دوسری طرف بیٹا عبد الحمید جو اُن دنوں کیڈٹ کالج حسن ابدال میں پڑھتا تھا اور اٹھارہ سال کا تھا، دادا کی وفات پر گاؤں آ رہا تھا.جونہی وہ گاؤں پہنچا.اس نے دیکھا کہ ایک شخص منہ پر ڈھانا باندھے گاؤں کے باہر جہاں ویگن رکتی ہے ایک جگہ چھپ کر بیٹھا ہوا تھا.عبدالحمید نے اس کو دیکھ لیا اور پیچھے سے جاکر پکڑ لیا.دیکھا تو وہ اس کا چچا تھا.اس نے کہا چا آپ.چا گھبرا کر بولا کہ ہاں میں تمہاری حفاظت کے لئے بیٹھا ہوں کیونکہ لوگ تمہیں قتل کرنا چاہتے ہیں.اس نے جب یہ واقعہ اپنی امی کوسنایا تو وہ اور بھی پریشان ہو گئیں اور انہیں اور دوسرے بچوں کو ماموں کے آنے پر وہاں سے نکلوا دیا.دوسرے روز ا ا فروری ۱۹۶۶ء کو رستم خان شہید صبح کی نماز کے لئے وضو کر نے کھیتوں کی طرف جا رہے تھے کہ فائر کی آواز آئی.ان کی بیگم یہ آواز سن کر باہر کی طرف بھا گیں.پیچھے سے رستم شہید کے بھائیوں نے پکڑ لیا لیکن وہ چونکہ پہلے سے چوکنا تھیں اس لئے ان کو دھکا دے کر باہر نکل گئیں.باہر جا کر دیکھا تو دشمن اپنا کام کر چکے تھے اور ان کے خاوند راہ مولیٰ میں شہید ہو چکے تھے.اب وہ بچوں کو ڈھونڈ نے لگے لیکن بچے تو وہاں سے پہلے ہی نکل چکے تھے.ان کی بیگم کو اللہ تعالیٰ نے صبر کی قوت دی.گاؤں کے مولوی نے آکر کہا کہ کس پر رپورٹ درج کرو گی.انہوں نے کہا یہ معاملہ خدا کے سپرد ہے.تم سب لوگ راستے سے ہٹ جاؤ.میں اپنے خاوند کی لاش کو پشاور لے کر جاؤں گی اور وہاں ہماری جماعت کے لوگ دفن کریں گے.ایک بیوہ عورت کی دلجوئی کی بجائے تمام گاؤں والے ان پر دباؤ ڈالنے لگے کہ اس کو یہیں دفنا دو اور بچوں کو ہمارے سپردکر دو تا کہ ہم انہیں پھر مسلمان بنالیں.اس وقت ان کی بیگم نے نعش کے سامنے ایک تقریر کی کہ آج تو میں اپنے خاوند کی لاش کو یہاں سے لے جا کر رہوں گی.یادرکھنا کہ جس سچائی کو رستم خان نے پایا تھا میں اور میری اولا داس سے مڑنے والے نہیں.انشاء اللہ رستم خان کی نسل پھیلے گی.تمام لوگوں نے کہا کہ یہ عورت پاگل ہوگئی ہے.بجائے بین کرنے کے بڑی بڑی باتیں کرتی ہے.اگلے دن ان کی بیگم شہید کی لاش لے کر پشاور آئیں اور وہاں تدفین ہوئی.دشمنوں کا انجام : ایک سال کے اندر اندر ان کے ایک بھائی جس نے ان کے بیٹے حمید کو بھی
تاریخ احمدیت.جلد 23 546 سال 1966ء مارنے کی کوشش کی تھی اس کا جواں سال اکلوتا بیٹا کنوئیں میں ڈوب کر مر گیا.دوسرے چچا کے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا.تیسرے چا کو نا گہانی موت آ گئی.کچھ پتا نہیں چلا کہ کیوں مرا اور ایک چا کا سارا گھر اچانک بارشوں سے گر گیا اور اس کے دو بچے موقع پر ہی مر گئے.رستم خان شہید کے پسماندگان: بیوہ کے علاوہ ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں.بیٹا کرنل عبدالحمید خشک راولپنڈی میں رہتے ہیں.بڑی بیٹی شمیم اختر صاحبہ کرنل نذیر احمد صاحب کی اہلیہ ہیں اور امریکہ میں قیام پذیر ہیں.دوسری بیٹی رقیہ بیگم صاحبزادہ جمیل لطیف صاحب کی اہلیہ ہیں.تیسری بیٹی یاسمین ڈاکٹر قاضی مسعود احمد صاحب امریکہ کی اہلیہ ہیں.چوتھی بیٹی نگہت ریحانہ بھی امریکہ میں ہیں اور ناصر احمد صاحب کی اہلیہ ہیں.پانچویں بیٹی ناہید سلطانہ صاحبہ کرنل اویس طارق صاحب کی اہلیہ ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں.قرآن مجید کے انوار و برکات کے متعلق خطبات حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۲۴ جون سے ۱۶ ستمبر ۱۹۶۶ء تک قرآن مجید کے انوار و برکات کے متعلق ۹ خطبات ارشاد فرمائے جسے نظارت اصلاح وارشاد نے ” قرآنی انوار کے نام سے شائع کیا.حضور نے یہ خطبات ربوہ اور مری میں ارشاد فرمائے.ذیل میں ان خطبات کے عنوان درج کئے جاتے ہیں.تا ان کی اہمیت کا اندازہ ہو سکے.اتباع قرآن کی برکات ،قرآن کریم اور قیام سلسلہ کی غرض ، قرآن کریم کو حرز جان بنانے کی اہمیت، قرآن کریم کی دس صفات حسنہ، قرآن کریم کی عدیم المثال آٹھ خوبیاں تعلیم القرآن کے متعلق الہی بشارت، تمام برکات روحانی کی جامع کتاب، شریعت حقہ اسلامیہ کا قیام اور جماعت احمدیہ کا فرض، قرآن کریم کی چار عظیم الشان خصوصیات.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا مرکزی تربیتی کلاس سے افتتاحی خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کی تیرہویں مرکزی تربیتی کلاس تین تا اٹھارہ جون ۱۹۶۶ء جاری رہی.جس میں اکتالیس (۴۱) مجالس کے ایک سو تیرہ (۱۱۳) خدام شامل ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ ایح الثالث نے اس کلاس کا افتتاح اپنے پر معارف خطاب سے فرمایا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 547 سال 1966ء حضور نے کلاس میں شامل طلبہ کو نصیحت فرمائی کہ وہ یہ ایام اس طرح گزارنے کی کوشش کریں کہ ان کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو.حضور نے فرمایا کہ قرآن مجید کا زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں اور حصول علم کے ساتھ ساتھ اس بات کے لیے بھی ساعی ہوں کہ جو علم آپ نے حاصل کیا ہے.اس سے آپ خود اور آپ سے تعلق رکھنے والے فائدہ اُٹھائیں.کسی نیک بات کا سُن لینا اور پھر اسے اپنی زندگیوں میں اثر انداز نہ ہونے دینا محض فضول ہے.کیونکہ عمل کے بغیر محض علم قطعا سودمند ثابت نہیں ہوسکتا.پس اس نیت سے قرآنی علوم سیکھیں کہ آپ کو بھی اور آپ کے ذریعہ دوسروں کو بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچتا رہے.حضور نے خدام الاحمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ اس امر کا خاص اہتمام کریں کہ ہر خادم کو وفات مسیح، مقام نبوت اور جملہ دیگر مسائل کے متعلق کم از کم ایک بنیادی دلیل پوری جامعیت کے ساتھ از بریاد ہو.اگر ہر مسئلہ سے متعلق ایک ایک دلیل ہر خادم کو جملہ تفاصیل کے ساتھ اس طرح یاد ہو جائے کہ وہ اس پر پوری طرح حاوی ہو.تو یہ امر جہاں ان کے لیے بلحاظ کیفیت از دیاد علم کا موجب ہوگا.وہاں انہیں اصلاح وارشاد کا فریضہ خوش اسلوبی سے ادا کرنے کے قابل بنادے گا.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک صدی قبل کی پیشگوئی کا پہلا شاندار ظہور ۱۸۶۸ء یا ۱۸۶۹ء میں جبکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہیں تھا اور آپ بالکل گوشئہ گمنامی میں تھے خداوند کریم نے آپ کو الہاما خبر دی کہ.وو وہ تجھے بہت برکت دے گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے اس عظیم الشان پیشگوئی کا اولین ظہور خلافت ثالثہ کے پہلے سال میں ہوا.جس کی تفصیل سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مبارک الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۶۸ء میں یہ اعلان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.اس وقت آپ کو بھی کوئی نہ جانتا تھا، قادیان کو بھی کوئی نہ جانتا تھا.جماعت احمدیہ کوبھی کوئی نہ جانتا تھا بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی نہ جانتے تھے.کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم سے جماعت کا قیام نہیں کیا گیا تھا اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 548 سال 1966ء بیعت بھی شروع نہ ہوئی تھی.اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کی.اور قریباً سو سال تک مخالف کو موقع دیا کہ جتنا چاہواستہزا کر لو.مذاق کر لو ٹھٹھا کرلو، طعنے دےلو.یہ کلام ہمارا ( عزیز خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو کر رہے گا.اس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وہ سامان پیدا کر دئے.( دو کم سوسال کے بعد ) جب اس عرصہ میں ایک نیا ملک بنایا گیا.پھرالہی تدبیر کے ماتحت اس ملک کو آزادی دلائی گئی پھر الہی منشاء کے مطابق جب اس ملک کی اپنی حکومت بنی تو اس کا سر براہ اور اس کا Acting گورنر جنرل اس شخص کو مقرر کیا گیا جو تقرر کے دن سے پہلے جماعت احمد یہ گیمبیا کا پریذیڈنٹ تھا.اس طرح جماعت احمدیہ کے پریذیڈنٹ کو گورنر جنرل بنا دیا.پھر اِن کو ہمارے مبلغ نے توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی ایک بشارت ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے تم خوش نصیب انسان ہو کہ دنیا کی تاریخ میں تمہیں پہلی دفعہ یہ موقع مل رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں سے تم برکت حاصل کر سکو گر یہ کوئی معمولی چیز نہیں.اس لیے قبل اس کے کہ تم اس کے متعلق خلیفہ وقت کو اپنی درخواست بھجواؤ چالیس دن تک چلہ کرو.یعنی خاص طور پر دعائیں کرو.اس قسم کا چلہ نہیں جو صوفیاء اور فقراء کیا کرتے ہیں.چالیس دن تک خاص طور پر تہجد میں دعا کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں اس بات کا اہل بنائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا تمہیں ملے.انہوں نے دعا شروع کی اور پھر مجھے خط لکھا کہ میں دعاؤں میں مشغول ہوں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑا رہا ہوں کہ میں ایک بڑی بھاری ذمہ داری لے رہا ہوں صرف عزت حاصل نہیں کر رہا.صرف تبرک حاصل نہیں کر رہا بلکہ بڑی بھاری ذمہ داری بھی لے رہا ہوں.ایک شخص جو ہزار ہا میل دور رہتا ہے نہ کبھی ربوہ آیا.نہ ہی تاریخ احمدیت سے پوری طرح واقف.اس کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرک کی اہمیت جب تک پوری طرح بٹھا نہ دی جاتی میرے نزدیک انہیں تبرک بھجوانا درست نہیں تھا.اس لیے میں نے انہیں ایک لمبا سا خط لکھا اور انہیں یہی نکتہ سمجھایا کہ تم
سال 1966ء 549 تاریخ احمدیت.جلد 23 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک مانگ رہے ہو.اس میں برکتیں بھی بڑی ہیں مگر یہ بھی نہ بھولو کہ اسکی قیمت اتنی ہے کہ ساری دنیا کے سونے اور ساری دنیا کی چاندی اور ساری دنیا کے ہیرے اور جواہرات بھی اگر اسکے مقابل رکھے جائیں تو ان کی وہ قیمت نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں میں سے ایک ٹکڑا کی قیمت ہے اس لیے تم ایک بڑی ذمہ داری لے رہے ہو.ذہنی طور پر ، روحانی طور پر اور اخلاقی طور پر اپنے آپ کو اس کا اہل بناؤ.یہ مضمون تھا اس خط کا جو میں نے انہیں لکھوایا اور ان سے انتظار کروایا.تا کہ جب انکی یہ روحانی پیاس اور بھڑ کے اور ان کے دل میں ذمہ داری کا پورا احساس بیدار ہو جائے اس وقت وہ تبرک ان کو بھیجا جائے.پندرہ بیس دن ہوئے وہ تبرک ان کو بھجوایا گیا اور مجھے ابھی گھوڑا گلی میں ان کی تاریلی ہے کہ وہ تبرک مجھے مل گیا ہے.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے کما حقہ فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشے.99 پس خدائے عزیز کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت کے ایسے مقام کو حاصل کرتے ہیں کہ دنیا کی کوئی طاقت ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی.مولوی عبد الرحمن صاحب انور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفہ اسیح کا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مستعمل کپڑے کا ایک ٹکڑا جو باریک سفید ململ کا معلوم ہوتا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے مجھے عطا فرمایا.اس پر حضور نے اپنے دستخط فرمائے اور خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ اس کے نیچے خلیفہ کی مہر لگائی جائے.اس پر خاکسار نے اپنے قلم سے تاریخ اور مہینہ درج کیا اور سن کا ہندسہ مکرم مولوی محمد شریف صاحب سابق مبلغ گیمبیا نے درج کیا اور تعارفی خط میرے دستخطوں سے لکھا گیا.( اور یہ کپڑا رجسٹر ڈ انشورڈ کر کے ان کو بھجوایا گیا ) اس کے جواب میں مسٹر سنگھاٹے صاحب نے جو خط میرے نام لکھا اسکی نقل درج ذیل ہے.Government House, BAT theriod Gambia.Dear Abdul Rahman Anwar, Assalamo Alikum wa Rahmatullahe wa Barakatohu.
تاریخ احمدیت.جلد 23 550 سال 1966ء Thank you for your letter dated the 27th June 1966.You must have read from Sayyadna Hazrat Amirul-Momneen Khalifatul Masih that the registered letter was reached with great joy.My family joins me in sending you their love together with the members of jamaat.yours sincerely 21.7.66 Gambian(seal) Alhaj F.M.Singhate G.G 1.8.66 اخبار حقیقت کا ایک حقیقت افروز شذرہ جناب انیس احمد صاحب عباسی کا کوروی نے اپنے اخبار ”حقیقت“ مورخہ ۴ جون ۱۹۶۶ء میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی خدمات کے زیر عنوان حسب ذیل شذرہ لکھا:.اختلاف عقائد اور فرقہ وارانہ تنگ نظری کی بناء پر کوئی کچھ کہہ دے مگر یہ تو واقعہ ہے کہ گزشتہ چالیس پچاس سال کے اندر جماعت احمدیہ نے اپنے عقائد کے بموجب اسلام کی جیسی وسیع پیمانے پر تبلیغ کی ہے.اس کی مثال ہندوستان کی کوئی دوسری اسلامی جماعت پیش نہیں کر سکتی.ایک ایسی مختصر جماعت جس کی تعداد ہندوستان اور پاکستان میں مجموعی طور پر دس بارہ لاکھ افراد سے زیادہ نہ ہوگی.وہ ہر سال لاکھوں روپیہ ممالک یورپ و امریکہ میں صرف تبلیغ پر صرف کر رہی ہے.آج کے پرچہ میں ایک احمدی نامہ نگار کا جو مراسلہ درج کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوگا کہ جماعت احمدیہ کا اس سال تبلیغی بجٹ ۳۴۱ ،۹۳، ۷۸ روپیہ ہے اور اس میں اب تک تقریباً ۳۰ ،۴۰ لاکھ روپے چندے کے وعدے بھی ہو چکے ہیں جو یقیناً جمع ہو جائیں گے اور بقیہ رقم بھی سال کے اندر ہی پوری ہو جائے گی.کوئی شک نہیں کہ جیسی مکمل تنظیم اور مستعدی و سرگرمی کے ساتھ جماعت احمد یہ تبلیغ کا کام کرتی ہے.اس کی مثال صرف مسیحی تبلیغی مشن کے کاموں میں ملے گی.مسلمان ہی نہیں بلکہ ہمارا خیال ہے کہ کسی دوسرے مذہب کے پیرووان میں بھی ایسی تبلیغی تنظیم موجود نہیں ہے.جماعت احمدیہ اور اس کے رہنما بہر حال اپنے اس مذہبی اور تبلیغی جوش و انہماک کے لیے قابل ستائش ہیں.کاش کہ دوسری اسلامی جماعتیں بھی احمدیوں سے سبق حاصل کریں.“ 101
تاریخ احمدیت.جلد 23 551 سال 1966ء حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے تعلیم القرآن کلاس سے بصیرت افروز خطابات اس سال مرکز میں تعلیم القرآن کلاس ۲ جولائی سے ۳۱ جولائی ۱۹۶۶ء تک منعقد ہوئی جس میں قریباً پورے قرآن کریم کا دور مکمل ہوا.کلاس میں ۶۵ طلبہ اور ۴۰ طالبات نے شرکت کی.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اس مرکزی کلاس سے دو بار خطاب فرمایا.افتتاحی خطاب میں قرآن مجید کی روشنی میں نہایت بصیرت افروز پیرائے میں دس علوم کی وضاحت فرمائی.جس کی واقفیت تعلّق باللہ کے لیے از بس ضروری ہے.اختتامی خطاب میں حضور نے نہایت دل نشین انداز میں روشنی ڈالی کہ حقیقی اور کامیاب زندگی یہ ہے.جو قرآن مجید کے نور میں گزاری جائے.قرآن مجید کو اپنا دستور العمل بنائے بغیر رضائے الہی کا حصول ممکن نہیں.102 حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کے بیرون ربوہ کے سفر حضرت خلیفۃ اسیح الثالث مورخہ ۶ جولائی ۱۹۶۶ء کو کوہ مری تشریف لے گئے اور ۲۷ جولائی ۱۹۶۶ء کو بخیر و عافیت واپس تشریف لے آئے.اسی طرح مورخه ۳۱ اگست ۱۹۶۶ء کو راولپنڈی تشریف لے گئے.پھر آپ راولپنڈی اور بُھوربن ( مری بلز ) میں دو ہفتہ قیام کے بعد مورخہ ۴ ستمبر ۱۹۶۶ء کو واپس ربوہ تشریف لے آئے.اس عرصہ میں حضور نے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو امیر مقامی مقرر فرمایا.اسی طرح مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۶۶ء کو چند دنوں کے لئے حضور لاہور تشریف لے گئے اور ۱/۲ کتوبر کو واپس 103 تشریف لائے.اس عرصہ میں حضور نے محترم مولانا جلال الدین شمس صاحب کو امیر مقامی مقررفرمایا.قواعد وضوابط صدر انجمن احمدیہ کی اشاعت 104 اس سال کا ایک اہم واقعہ صدرانجمن احمد یہ پاکستان کے قواعد وضوابط کی اشاعت ہے.صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا قیام ستمبر ۱۹۴۷ء میں ہوا اور مرکزی نظام کو چلانے کے لیے صدرانجمن احمد یہ قادیان کے قواعد وضوابط ہی کو اپنا لیا گیا.جن میں بدلے ہوئے حالات اور نقاضوں کے پیش نظر ترامیم ہوتی رہیں اور اُن کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا کہ ان ترمیم شدہ قواعد وضوابط کو از سرنو تر تیب دے
تاریخ احمدیت.جلد 23 552 سال 1966ء کر شائع کرنے کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہونے لگی.صدرانجمن احمد یہ پاکستان نے یہ ذمہ داری چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر کے سپرد کی.صدرانجمن احمد یہ قادیان کے قواعد وضوابط ۱۹۳۸ء میں طبع ہوئے تھے.اس کے بعد کی ۲۷ سالہ ترمیمات کو یکجا کرنا اور مجلس مشاورت کے متعلقہ فیصلہ جات کو تلاش کر کے قواعد میں شامل کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا.جسے خُدا کے فضل سے چوہدری صاحب موصوف نے کمال خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.سیدنا حضرت خلیفتہ امیج الثالث نے ان کے تیار کردہ مسودہ قواعد وضوابط کی چھان بین کے لیے حسب ذیل ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی.۲..._^ و.مکرم چوہدری فضل احمد صاحب ناظر تعلیم ربوه (صدر) مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ (سیکرٹری) مکرم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور عامه ( ممبر ) مکرم چوہدری اعظم علی صاحب ریٹائر ڈ سیشن جج لاہور (ممبر ) مکرم عبدالستار صاحب ریٹائر ڈ سیکشن آفیسر لاہور ( ممبر ) مکرم قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور ( ممبر ) چوہدری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ شیخو پورہ (ممبر ) رانا محمد خاں صاحب ایڈووکیٹ بہاول نگر (ممبر ) میاں عبدالسمیع صاحب ٹون ایڈووکیٹ سرگودھا ( ممبر ) اس کمیٹی نے ربوہ میں اپنے متعدد اجلاس کر کے اس مسودہ کو ترتیب دے کر سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے حضور پیش کر دیا.حضور نے گوناگوں مصروفیات کے باوجود اسے ملاحظہ فرمایا اور بیشتر مقامات پر اپنے دست مبارک سے ترمیمات بھی فرمائیں اور پھر اسے صدرانجمن احمدیہ میں بغرض رپورٹ بھجوا دیا.صدرانجمن نے بھی کئی اجلاس کر کے اس مرتبہ مسودہ میں کافی غور وفکر کے بعد کئی تجاویز اور مشورے حضور کی خدمت میں پیش کئے.اس مرتبہ بھی حضور کو نظر ثانی کرنے میں کافی وقت صرف کرنا پڑا اور کئی فیصلہ جات فرمائے.اب اس مسودہ نے اپنی آخری شکل اختیار کر لی اور حضور نے اسے منظور فرماتے ہوئے طبع کروانے کی اجازت عطا فرما دی.(مولوی عبد الرحمن صاحب انور کی ایک قلمی یاد داشت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے یہ مسودہ انہیں بھی بھجوایا انہوں نے حضور کی ہدایت
تاریخ احمدیت.جلد 23 553 سال 1966ء پر سارے مسودہ کو دیکھا اور بہت سے ضروری فیصلہ شدہ امور کا اس میں اضافہ کرنے کی رپورٹ کی ) قواعد وضوابط کی طباعت کا کام حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ارشاد گرامی کے تحت مکرم چوہدری ظہوراحمد صاحب کی زیر نگرانی ہوا.اس کام میں مکرم قریشی مختار احمد صاحب ہاشمی نے کا پہیوں اور پروف کے پڑھنے میں گرانقدر امداد کی اور مکرم چوہدری فضل احمد صاحب تو آخر وقت تک اس کام میں مدد فرماتے رہے.یہ قواعد ۳ جولائی ۱۹۶۶ء کو شائع ہوئے.یہ قواعد وضوابط صدرانجمن احمدیہ کے دستور اساسی (BY LAWS) مجلس مشاورت اور مختلف اداروں کے لائحہ عمل ، مقامی انجمنوں کے فرائض و اختیارات ،خلافت لائبریری اور بہشتی مقبرہ کے متفرق قواعد وضوابط پر مشتمل تھے.قواعد کی ابتدا میں ایک خاکہ بھی دیا گیا.جس میں یہ وضاحت کی گئی کہ کونسا صیغہ کس نظارت کے ماتحت ہے اس ایڈیشن میں قواعد کے نئے نمبر دیئے گئے اور حاشیے میں پرانے نمبر بھی دیئے گئے.قواعد وضوابط کی اس پہلی جلد کے تعارف کے پیش نظر اس کے مندرجات کا خلاصہ ذیل میں نظارت درج کیا جاتا ہے.قواعد اساسی (بائی لاز ) صدرانجمن احمد یہ پاکستان، خاکہ صیغہ جات صدر انجمن احمد یہ، قواعد و ضوابط صدرانجمن احمدیہ پاکستان ، قواعد درباره اجلاس و فیصلہ جات صد را انجمن احمد یہ مجلس مشاورت، کمیٹی محاسبه ومال، صدر صدر انجمن احمدیہ، نظارت علیا، نظارت اصلاح و ارشاد، نظارت تعلیم، رت بیت المال، نظارت وظائف و صدقه، نظارت تالیف و تصنیف، نظارت افتاء، نظارت امور خارجه، نظارت صحت ، نظارت بہشتی مقبرہ ، نظارت امور عامه، نظارت ضیافت، نظارت تعمیرات، نظارت جائیدا دو املاک ، نظارت تجارت وصنعت، نظارت زراعت، فرائض واختیارات ناظران، صیغہ پرائیویٹ سیکرٹری ، نظارت دیوان، مقامی انجمنیں ، متفرق قواعد صیغہ بہشتی مقبرہ، قواعد متعلقہ خلافت لائبریری صدر انجمن احمدیہ.ماہر القادری ایڈیٹر فاران کے ایک دوست کا دلچسپ خط ماہر القادری صاحب ایڈیٹر ماہنامہ فاران کراچی نے جولائی ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں نقش اول“ کے عنوان سے نہایت درجہ ناشائستہ زبان میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعت
تاریخ احمدیت.جلد 23 554 سال 1966ء احمدیہ پر انتہائی سوقیانہ اور دلآزار انداز میں اعتراضات کئے.جن کا نہایت شستہ ، مدلل اور بر جستہ جواب مولوی محمد اجمل صاحب شاہد ایم.اے مربی سلسلہ احمدیہ مقیم کراچی کے قلم سے ”الفرقان“ (ستمبر ۱۹۶۶ء) میں شائع ہوا.یہ ایسا مسکت جواب تھا کہ ماہر القادری سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں زبر دست ہلچل مچ گئی.چنانچہ یہ جواب پڑھکر گنوری ضلع بدایوں یو پی ( بھارت) سے جناب ماہر القادری صاحب کے ایک گہرے دوست ابرا حسنی گنوری نے ۱۳ اکتوبر کو مدیر الفرقان“ کے نام حسب ذیل مکتوب لکھا.مکرم و محترم السلام و علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته ماہنامہ الفرقان پرسوں زینت مطالعہ بنا اور آج بغور مطالعہ کے بعد آپکو خط لکھنے کی مسرت حاصل کر رہا ہوں.رسالہ میں جس قابلیت اور سلیقہ سے احمدی جماعت کے مقاصد کا ثبوت فراہم کیا گیا ہے.وہ دعوت غور وفکر دیتا ہے.مجھے معاف کیجئے میں اگر چہ آپ کا یا ماہر القادری وغیرہ کا ہم عقیدہ نہیں ہوں.مگر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ ماہر القادری ان مسکت جوابات کے سامنے بڑے ہلکے نظر آتے ہیں.ماہر کو نہ صرف میں بچپن سے جانتا ہوں بلکہ اب سے دو سال پہلے تک میں ان کے اور وہ میرے بہت قریب رہے ہیں.میں نے ماہر کو ایک مخلص ، سیدھا، خوش اخلاق ، وضعدار اور ذہین وطباع پایا ہے.مگر وہ بے حد جذباتی بھی واقع ہوئے ہیں اور تلون مزاج بھی.جس زمانے میں وہ ہر قلعی کی ہوئی قبر کو چار سجدے کر لینا اپنا دین وایمان جانتے تھے.اس وقت بھی اپنے مشرب میں سخت متعصب تھے.انہیں کون یہ سامنے کی بات بتائے کہ جب اسلام میں اتنے فرقے موجود ہیں اور ہر فرقہ انکی جماعت کو اور وہ ہر جماعت کو کا فرسمجھتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ سب فرقے ایک پلیٹ فارم پر آسکیں گے یا سب فرقوں کو سولی پر چڑھا کر مودودی جماعت برسر اقتدار آ کر اپنے عقیدے کے مطابق حکومت بنا سکے گی.یا تمام پاکستانی مسلمان مودودی ہو جائیں ے...آجکل علماء کا کاروبار صرف کفر کے فتووں پر چل رہا ہے.پہلے علماء کا فروں کو مسلمان بناتے تھے آج ہر عالم کے گھر میں کفر سازی کی ایک فیکٹری نصب ہے اور وہ دھڑا دھڑ کا فر بنا رہا ہے مسلمان بنانا آج انکے بس میں نہیں.ماہر اس نیک کام میں سبقت لے گئے ہیں اور وہ بے تکلف اپنے سوا سب کو کفر کا ایک عدد فتوی ہدیہ فرما دیتے ہیں.اسکی انہیں پروا نہیں کہ ان پر کتنے کفر کے فتوے نازل ہو چکے ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 555 سال 1966ء کاش وہ معاملہ کی حقیقت کو سمجھنے کے اہل ہوتے اور تنگدلی و تنگ نظری کا شکار نہ ہوتے تو بڑی خوبیوں کے انسان تھے.سماء کے معنی عربی میں بلندی کے ہیں نہ کہ ویسا آسمان جو عام لوگوں کے تصور میں ہے.سبع سموات پیہ سات بلندیاں ہیں جو سبع سیارے ہیں.آج کے روشن دور نے ثابت کر دیا ہے کہ آسمان کوئی چیز نہیں.جب آسمان ہی کوئی چیز نہیں تو حضرت عیسی کا چوتھے یا پانچویں آسمان پر ہونا چہ معنی دارد؟ پھر ان کا آسمان سے نازل ہونا اور اتنی لمبی مدت تک زندہ رہنا سنت اللہ کے خلاف ہے.رجعت کے معنی یہ ہیں کہ اسکی صفات و کمال کا کوئی شخص ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر ظاہر ہونہ کہ خلاف فطرت وخلاف سنت اللہ وہی شخص آسمانوں سے اترے.اسی خیال نے یہودیوں کو گمراہ کیا اور انہوں نے عیسی کو نہ مانا.اسی واہمہ میں مسلمان مبتلا ہیں.یہ لوگ رہتی دنیا تک رستہ دیکھا کریں نہ جابلقاو جابلصا معدوم مقام سے مہدی آئیں گے نہ آسمان سے عیسی اتریں گے.اس حقیقت سے انکار کرنا عصبیت ہے کہ احمدی جماعت نے جس خلوص اور لگن سے کام کیا اس کی مثال اسلام کے کسی فرقے میں نہیں ملتی اور جتنی جلد اس فرقہ نے ترقی کی اس کی مثال نابود ہے.ابراحسنی گنوری حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کا پیغام بر موقع جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ کیرنگ ۲۳ ۲۴ جولائی ۱۹۶۶ء کو جماعت احمدیہ کیرنگ ( اڑیسہ.بھارت ) کا جلسہ سالانہ منعقد ہوا جس میں صاحبزادہ مرز او سیم احمد صاحب اور علماء سلسلہ نے شرکت کی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے اس موقع پر جو روح پرور پیغام ارسال فرمایا.اس کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے:.”بسم الله الرحمن الرحيم 105 نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عزیز المکرم ایس ایم موسییٰ مبلغ سلسلہ عالیہ احمد یہ کیرنگ اڑیسہ بھارت السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کا خط محرره ۲۶/۳/۶۶ ملا.حالات سے آگاہی ہوئی.اللہ تعالیٰ آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 556 سال 1966ء کے اخلاص میں برکت دے.آپ کی مساعی کو بارآور کرے اور اس علاقہ میں احمدیت و اسلام کو جلد غالب کر دے.آمین.مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ کیرنگ میں جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.آمین.میری طرف سے دوستوں کی خدمت میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ پہنچا کر یہ پیغام عرض کریں کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں اسلام غالب آجائے اور ہم ناچیز بندوں نے احمدیت کو قبول کر کے اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اس مقصد کے حصول کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں.اللہ تعالیٰ آپ سب دوستوں کے اخلاص میں برکت دے اور اس عظیم عہد کو نباہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.مگر ہم میں سے ہر فرد کا یہ فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کیا کچھ کر رہا ہے.اگر ہمارے سب فکر دنیا کے لیے ہوں اور ہم بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح محض نام کے مسلمان ہوں اور ہمیں دین کی اتنی فکر نہ ہو جتنی دنیا کی اور اسلام کو دنیا بھر میں غالب کرنے کی تڑپ ہمیں دن رات بے چین نہ رکھتی ہو تو ہم نے اپنے مقصد کو فراموش کر دیا اور اپنے رب کو ناراض کرنے کا باعث بنے.لیکن اگر ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا مقصد ہمیشہ سامنے رکھا.ہمیں دن رات یہی فکر ہے کہ کسی طرح دنیا میں اسلام غالب آجائے اور ہمیں یہ فکر ہر دم بے چین رکھتی ہے.ہمارا یہ زبانی دعوی ہی نہیں بلکہ ہماری ہر حرکت و سکون اور ہمارے فکر و عمل سے یہ تڑپ ظاہر ہے اور ہم نہ صرف اپنے تئیں بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے گھروں میں اسلامی ماحول پیدا کر کے اسلام کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے گرد و پیش اسلامی ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اور اشاعت وتبلیغ اسلام کے لیے ہر ممکن قربانی پیش کرتے ہیں.تو ہماری یہ ناچیز کوششیں یقینا اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو کھینچنے کی باعث ہوں گی.اللہ تعالیٰ ہماری غفلتیں سستیاں اور کمزوریاں دور فرمائے ہمیں اپنی رضا کی راہوں پر چلائے.اسلام کے لیے ہر ممکن قربانی پیش کرنے کی توفیق دے اور اسلام کی فتح کا دن قریب
تاریخ احمدیت.جلد 23 557 سال 1966ء سے قریب تر لے آئے.آمین.اس سلسلہ میں اپنے عزیز دوستوں سے میں یہ بھی کہوں گا کہ سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب روحانی خزائن ہیں.ان میں سے اکثر کتب اردو میں ہیں.پس اردو زبان سیکھنے کی طرف توجہ دیجئے تا آپ بھی ان کتب کا مطالعہ کر کے ان روحانی خزائن سے مالا مال ہوسکیں ( جو قرآن مجید کی تفاسیر اور روحانی علوم کا نچوڑ ہیں ) اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آپ کو ہر قسم کی پریشانیوں سے بچائے اور دینی و دنیوی کامیابیوں سے نوازے اور خدمت دین کی توفیق دے.آمین.خدا حافظ 66 والسلام ( دستخط ) مرزا نا صراحه خلیفة المسیح الثالث 106 لندن میں یوم حسین اور حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تقریر رسالہ المبلغ سرگودھا نے اگست ۱۹۶۶ء میں خبر دیتے ہوئے تحریر کیا کہ ۳۰ مئی کو اسلامک کلچرل سنٹر ریجنٹ پارک میں ادارہ جعفریہ کے زیر اہتمام یوم حسین منایا گیا.صدارت کے فرائض بین الاقومی عدالت کے حج سر محمد ظفر اللہ خاں نے ادا کئے...سر ظفر اللہ نے اپنی صدارتی تقریر میں فرمایا کہ یزیدیت آج بھی کارفرما ہے.جس کے مقابلہ کے لئے حسینیت کی ضرورت ہے.مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حسینی پرچم تلے متحد ہو جائیں اور حسینی قیادت کے زیر اثر یزیدیت کا مقابلہ کریں.انہوں نے فرمایا واقعہ کر بلا دنیا کی تاریخ میں پہلا اور آخری واقعہ ہے.ایسے واقعہ کی مثال کسی مذہب کی تاریخ میں نہیں مل سکتی.سر ظفر اللہ خاں صاحب نے پر زور الفاظ میں کہا کہ اگر ہم اپنے دینی فرائض بھول جائیں اور احکام خدا اور رسول کی تعمیل نہ کریں تو ہم بھی یزیدی فوج کے ارکان شمار ہوں گے.جنہوں نے امام حسین کو شہید کیا.اس محفل میں ہر فکر وخیال کے مسلمان جمع تھے.غیر مسلم حضرات نے بھی شرکت کی.لوگوں کی تعداد تقریب دو ہزارتھی.107
تاریخ احمدیت.جلد 23 558 سال 1966ء کینیا کے ممتاز ماہر تعلیم کی ایک تقریر اس سال کینیا کے ایک مخلص احمدی اور ممتاز ماہر تعلیم جناب عثمان کا کوریا کو حکومت کینیا کے مندوب کی حیثیت سے آسٹریلیا میں ماہرین تعلیم کی ایک بین الاقومی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا.واپسی پر انہوں نے ۳۱ را گست ۱۹۶۶ء کو مرکز احمدیت کی زیارت اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی ملاقات کا شرف حاصل کیا.حضور ایک مختصر سفر کے لیے راولپنڈی تشریف لے جارہے تھے اس لیے حضور نے انہیں راولپنڈی آنے کی ہدایت فرمائی.یہاں یکم ستمبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثالث جماعت راولپنڈی کے درمیان نماز مغرب اور عشاء کے بعد رونق افروز ہوئے.اس مجلس میں حضور نے موصوف کے قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک احمدی دوست نے ایک افریقن عیسائی کو جماعت کی طرف سے شائع کردہ سواحیلی ترجمہ قرآن دیا.لیکن اس شخص نے اسلام کے عناد کے باعث قرآن مجید کو قبول نہ کرنے کے علاوہ نہایت گستاخانہ رویہ بھی اختیار کیا.مکرم عثمان کا کوریا بھی وہاں موجود تھے.انہوں نے یہ دیکھ کر کہا کہ اگر یہ نہیں لیتا تو قرآن مجید مجھے دے دیا جائے.چنانچہ اس طرح قرآن کریم اور دیگر لٹریچر کے مطالعہ سے اللہ تعالیٰ نے حق وصداقت کے قبول کرنے کے لیے ان کے دل کو کھول دیا اور وہ ۱۹۶۴ء میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آگئے.اس تعارف کے بعد حضور نے جناب گا کوریا کو کینیا کے بارے میں تقریر کرنے کا ارشاد فرمایا.جس پر موصوف نے چند منٹ تک انگریزی زبان میں نہایت ایمان افروز تقریر کی.آپ نے کینیا اور مشرقی افریقہ کے دوسرے ممالک میں جماعت احمدیہ کی مساعی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کے لیے احمدی مبلغین نے جو قابل قدر مساعی سرانجام دی ہیں وہ افریقہ میں اشاعت اسلام کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں.اسی مساعی کے باعث افریقہ میں اسلام کو دیگر مذاہب اور خصوصاً عیسائیت پر نمایاں برتری حاصل ہوئی ہے.رسوم و بدعات کے خلاف امام وقت کا اعلان جہاد 108 9 ستمبر ۱۹۶۶ء کو سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے رسوم و بدعات کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور جماعت کو انتباہ فرمایا کہ بد رسوم اور ایمان کامل اکٹھے نہیں ہو سکتے دین کی اشاعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور جلال کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے جس قسم کی قربانی اور جس حد تک
تاریخ احمدیت.جلد 23 559 سال 1966ء قربانی دینا ضروری ہے جو شخص رسوم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے.وہ اس حد تک قربانی نہیں دے سکتا.اس سلسلہ میں حضور نے خاص طور پر نظارت اصلاح وارشاد کو اس طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جتنی رسوم اور بدعات ہمارے ملک کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں ان کو اکٹھا کیا جائے اور اس کی نگرانی کی جائے کہ ہمارے احمدی بھائی ان تمام رسوم اور بدعات سے بچتے رہیں.جو شخص رسوم اور بدعات کو نہیں چھوڑ تا جس طرح اس کا ایمان پختہ نہیں اسی طرح وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور اسلام کی تقویت کے لیے وہ قربانیاں بھی نہیں دے سکتا جن قربانیوں کا اسلام اس سے مطالبہ کرتا ہے.نیز فرمایا کہ ہر احمدی تنظیم پر یہ فرض ہے کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو رسوم اور بدعتوں سے بچائے رکھے.محفوظ رکھے اور اس بات کی بھی نگرانی کرے کہ کوئی احمدی بھی رسوم ورواج کی پابندی کرنے والا نہ ہو اور بدعات میں پھنسا ہوا نہ ہو.100 ڈاکٹر مر تو نو آف انڈونیشیا کی مسجد نور راولپنڈی میں آمد ستمبر ۱۹۶۶ء کے دوسرے ہفتے میں ایک مخلص انڈونیشی احمدی جناب ڈاکٹر مرتو نو انڈونیشیا کے ایک ثقافتی واقتصادی وفد کے ہمراہ پاکستان آئے.اسلام آباد میں اپنے چار روزہ قیام کے دوران آپ نے ۲ ستمبر کو مسجد نور راولپنڈی کی ایک تقریب میں حاضرین سے خطاب کیا.جس میں انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان جزائر میں جماعت احمدیہ کی تعداد دس ہزار سے متجاوز ہے اور مغربی جاوا میں احمدیت کا اثر و نفوذ بہت زیادہ ہے.ملک کے ذہین طبقہ پر احمدیت کے لٹریچر کا بے حد اثر ہے اور انہیں اسلام کے متعلق جب معلومات حاصل کرنی ہوں تو وہ ہمارے لٹریچر کا ہی مطالعہ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات و کتب کے غیر معمولی جذب واثر کا ذکر کرتے ہوئے جناب ڈاکٹر مرتو نو نے اپنی مثال پیش کی اور کہا کہ میں ایک کھوئی ہوئی بھیڑ تھا اور اسلام سے کلیتہ دور جا چکا تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں اور خصوصاً اسلامی اصول کی فلاسفی کے مطالعہ نے میرے خوابیدہ ایمان کو بیدار کر دیا اور میں اسلام کی معرفت اور روحانیت کی چاشنی کو محسوس کرنے لگا.بعد ازاں جناب ڈاکٹر مر تو نو صاحب موصوف اپنے وطن واپس جانے کے لیے ۴ استمبر کو بمع ارکان وفد بذریعہ طیارہ کراچی روانہ ہو گئے.110-
تاریخ احمدیت.جلد 23 560 سال 1966ء وزیر تعلیم جمہوریہ صومالیہ کی تقریر ۴ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو صومالیہ کے وزیر تعلیم جناب ڈاکٹر احمد یوسف صاحب کے اعزاز میں جماعت احمد یہ راولپنڈی کی طرف سے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں ڈاکٹر صاحب نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ کی بے لوث کوششوں کے ذریعہ اسلام دنیا میں انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے.جماعت احمد یہ جو مقدس فریضہ سرانجام دے رہی ہے.وہ درحقیقت تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے.اگر روئے زمین پر بسنے والے تمام مسلمان پوری یکجہتی اور تنظیم کے ساتھ یہ فریضہ سرانجام دیتے تو یقینا اسلام آج اس سے کہیں وسیع تر علاقوں میں پھیل چکا ہوتا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام لجنہ اماءاللہ کے نام وقف عارضی کا ایک وفد جومحمد اسلم صاحب شاد اور ڈاکٹر عنایت اللہ صاحب پر مشتمل تھا، نوشہرہ گلے زئیاں ضلع سیالکوٹ میں بھجوایا گیا تھا.مقامی لجنہ نے اس وفد کے ذریعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور کوئی پیغام عنایت فرمائیں.اس پر حضور نے مندرجہ ذیل پیغام عنایت فرمایا جو تمام لجنات کے لئے مشعل راہ ہے :.لجنہ اماءاللہ پر اہم ترین ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی کوشش کریں کہ اُن کے خاندان کا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جو قرآن کریم با ترجمہ نہ جانتا ہو.اگر آپ اس میں کامیاب ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتوں کی وارث ہوں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرزا ناصر احمد وقف جدید دفتر اطفال کا آغاز خلیفة المسیح الثالث 112 شوری ۱۹۶۶ء کے موقع پر وقف جدید کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے منظور ہوا.لیکن اکتوبر ۱۹۲۲ ء تک اس مد میں صرف ایک لاکھ چالیس ہزار روپے کے وعدے موصول ہوئے حالانکہ جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسح الثالث نے اندازہ لگایا اس مبارک اٹھی تحریک کے عظیم اور نہایت ہی ضروری اور مفید کاموں کی سرانجام دہی کے لیے کم از کم دو سوا دولاکھ روپوں کی ضرورت تھی.اس صورتحال کو دیکھ
تاریخ احمدیت.جلد 23 561 سال 1966ء کرسید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مخلصین جماعت سے اپیل کی کہ وہ اپنے وعدوں میں اضافہ کریں اور جو دوست وقف جدید کے مالی جہاد میں شامل نہیں وہ اس میں حصہ لیں.اس کے علاوہ حضور نے ۷ اکتوبر ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ کے ذریعہ وقف جدید کے دفتر اطفال کا آغاز فرمایا.تا کہ احمدی بچے اس غفلت کی تلافی کرتے ہوئے وقف جدید کا زیادہ سے زیادہ بوجھ اُٹھالیں.چنانچہ حضور نے فرمایا.وو وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا نا صرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں.اگر وہ مہینہ میں ایک ٹھنی وقف جدید میں دیں.تو جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھوکے رہنے لگ جائیں.رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہولیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک ٹھنی ماہوار دے سکے.تو ان لوگوں کی خواہش کے مد نظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی.لیکن یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں.“ حضور نے احمدی بچوں کو خدا اور اس کے رسول کے بچے قرار دیتے ہوئے اپیل کی.اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اوران سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے.آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھتی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق وصفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.بعض مبلغین سلسلہ کا ذکر خیر 113 مولوی عبدالکریم صاحب شر ما مربی سلسلہ مشرقی افریقہ کچھ عرصہ تک مرکز احمدیت میں رہ کر
تاریخ احمدیت.جلد23 562 سال 1966ء دوبارہ یوگنڈا تشریف لے جا رہے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مورخہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء کونماز مغرب کے بعد انہیں مخاطب کر کے فرمایا:.میں تو جب مرکز کی گلیوں میں آپ کو دیکھتا ہوں تو مجھے خدا تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے.میں جب آپ کو دیکھتا ہوں یا حکیم محمد ابراہیم صاحب کو دیکھتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ یہ شخص جس رنگ اور جس شکل میں یہاں پھر رہا ہے.اس کی حیثیت اور ہے لیکن جب یہ تبلیغ کے لیے مرکز سے باہر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے اٹھا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے.چوہدری کرم الہی صاحب ظفر اسپین میں مبلغ ہیں وہاں دنیوی لحاظ سے ان کی کوئی حیثیت نہیں.وہ شہر کے ایک چورا ہے میں چھابڑی لگا کر عطر بیچ رہے ہوتے ہیں لیکن ایک حیثیت ان کی یہ ہے.وہ جنرل فرینکو کو بھی بے دھڑک مل لیتے ہیں اب دیکھو یہ قوت ان کے دل میں کس چیز نے پیدا کی.یہ قوت ان کے اندر اسی احساس نے پیدا کی.خدائے قادر وتوانا کے غلام در شاہانِ وقت کے بھی معلم و استاد ہوتے ہیں....مولوی عبدالکریم صاحب شرما بھی جو اس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب تبلیغ کے میدان میں جائیں گے تو ان کی حیثیت اور ہو جائے گی.اور وہ خدا تعالیٰ کے نمائندے ہوں گے، اسلام کے نمائندے ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نمائندے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نمائندے ہوں گے پس میں ان سے کہوں گا کہ آپ سے خدا تعالیٰ کے وعدے ہیں جو ضرور پورے ہو کر رہیں گے.آپ کے لیے کوئی چیز نا ممکن نہیں ہے خدا جانتا ہے کہ مشرقی افریقہ میں اسلام کے غلبہ کے کون سے ذرائع پیدا ہونگے.لیکن بظاہر جو ذرائع نظر آتے ہیں ان میں ایک سکول ہیں تبلیغ کے سلسلہ میں سکول بہت مفید ہو سکتے ہیں.اس لیے آپ کو اس کے لیے کوشش کرنی چاہئیے اور دعا بھی کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ آپ کی اس کوشش میں برکت ڈالے اور پھر یقین رکھنا چاہیے کہ آپ ضرور کامیاب ہوں گے.کیونکہ اگر آپ کی نیت نیک ہے تو آپ کو ضرور کامیابی حاصل ہوگی.انشاء اللہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 563 سال 1966ء استاذ جامعہ احمدیہ کا سفر بیروت اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی نصائح سلسلہ احمدیہ کے جید عالم اور استاد جامعہ احمدیہ مولوی غلام باری صاحب سیف بیروت میں عربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو ربوہ سے روانہ ہوئے.روانگی سے قبل حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے انہیں اپنے دست مبارک سے حسب ذیل قیمتی نصائح سپرد قلم فرما ئیں: ۱۹/۱۰/۶۶ علم قرآن سیکھنے کے لئے کسی کو ربوہ سے باہر جانے کی ضرورت نہیں.آپ وہاں عربی زبان کا علم تحریر.تقریر.بول چال سیکھنے جارہے ہیں.اتنا کچھ خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے ہی جانتے ہیں کہ ۱۰ ۱۲ ماہ میں اگر چاہیں اور کوشش کریں تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.انشاء اللہ.پس پوری توجہ اس طرف دیں اور یہ ایام زندگی خصوصاً معمور الاوقات گزار ہیں.ایک امانت آپ کے سپرد کی جارہی ہے دیانت داری سے اسے نبھائیں.لبنان سے باہر میری تحریری اجازت کے بغیر نہ جائیں.اگر ممکن ہو تو شام کے دوستوں سے تعلق قائم کرنیکی کوشش کریں.سب احباب کو میرا سلام پہنچائیں اور کہیں کہ انکی پریشانیوں سے میں بہت پریشان رہتا ہوں.دعائیں کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اطمینان کے دن جلد لوٹا کر لائے.آمین.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.مرزا ناصر احمد خلیفہ المسح الثالث ۲۶ - ۱۰.۱۹ مولوی غلام باری صاحب سیف تحریر فرماتے ہیں: ”خاکسار کو عربی زبان کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے جب بیروت بھجوایا گیا تو مجھے جامعہ بیروت العربیہ میں داخلہ ملا.ایک سال خاکسار نے یہاں عربی ادب کی تعلیم حاصل کی اُن دنوں کلیتہ الا داب کے پرنسپل دکتور محمد عبد السلام کفافی تھے.انہوں نے جامعہ احمدیہ کے استاد ہونے کی وجہ سے مجھ سے کوئی فیس نہ لی.اور جامعہ سے رخصت ہوتے وقت جو سند انہوں نے دی اس میں جہاں دینی علمی ترقی کا ذکر کیا وہاں یہ بھی کہا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 564 سال 1966ء وقد افاد السادة الاستاذة المختصون انّ الاستاذ غلام بارى كان مثال الجدو الاجتهاد.و قد حقق تقدما ملحوظاً في دراسة هذه المواد.كما اننا سعدنا بوجوده معنا خلال هذا العام الجامعي لما اتسم به من كريم الخلق.که استاد غلام باری مثالی محنتی تھے انہوں نے جہاں مندرجہ بالا مضامین میں نمایاں ترقی کی وہاں اس تعلیمی سال میں آپ کے وجود سے ہم بھی بہرہ مند ہوئے کہ آپ اعلیٰ اخلاق کے حامل استاد تھے.یو نیورسٹی میں اساتذہ کا سلوک خاکسار کے ساتھ بڑا مثالی تھا.وہ لائبریری میں مجھے اساتذہ کے کمروں میں مطالعہ کے لئے جگہ دیتے اور میرے استاد عبد العزیز عتیق نے ایک روز مجھے کہا کہ اساتذہ سٹاف روم میں تمہارے متعلق بہت اچھے خیالات کا اظہار کرتے ہیں.خاکساران سے فقہ اور تفسیر میں تبادلہ خیالات کرتا تو وہ کہتے یہ تو ہمیں پڑھا سکتا ہے یہاں تو یہ صرف زبان کی تعلیم کے لئے آیا ہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی اجازت سے جب ۱۹۶۷ء کے ماہ مارچ میں عید الاضحیہ کی چھٹیوں کی وجہ سے ہماری یو نیورسٹی بند ہوئی تو خاکسار شام اور اُردن گیا حمص بھی جانے کا موقعہ ملا.اس جگہ بفضلہ تعالیٰ بہت مخلص جماعتیں ہیں.دمشق سے جس دن خاکسار واپس بیروت آیا تو بعض احباب جماعت نے آنسوؤں سے الوداع کہا.واپسی پر خاکسار نے دیار عرب میں ایک سال کے عنوان سے سات آٹھ قسطوں میں لاہور میں مضامین لکھے جو دسمبر ۱۹۶۷ء سے اپریل ۱۹۶۸ء تک چھپتے رہے.رسالہ قومی زبان جو انجمن ترقی اُردو کراچی کی جانب سے شائع ہوتا ہے اس کے شمارہ مئی ۱۹۶۸ ء نے سیاحت میں میرے مضامین کو بہتر مضامین میں شمار کیا.بیروت سے اس وقت جو 15 مضمون میرے الفضل میں ” مکتوب بیروت اور تاریخ کے منتشر اوراق“ کے نام سے شائع ہوئے.وہ الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۶۶ء اور ۱۲ ۱۳.۲ امئی ۱۹۶۷ء میں چھپے.بیروت میں بھی ایک مضبوط جماعت تھی جوفلسطینیوں اور شامیوں پر مشتمل تھی جس کے صدر ابوتو فیق تھے جو حیفہ کے رہنے والے تھے.“ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کا وصال ولادت: ۱۹۰۱ء وفات: ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۶ء ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء کی شام کو علم وفضل کا آفتاب یعنی سلسلہ احمدیہ کے نامور مبلغ ومجاہد متجر عالم خالد احمد بیت حضرت مولانا جلال الدین شمس داعی اجل کو لبیک کہہ کر مولائے حقیقی سے جاملے.
تاریخ احمدیت.جلد23 565 سال 1966ء حضرت شمس صاحب کے مختصر سوانح کچھ اس طرح سے ہیں کہ آپ مئی ۱۹۰۱ء میں سیکھواں نامی گاؤں میں پیدا ہوئے.ذرا چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو اپنے والد ماجد کے ساتھ قادیان آنا شروع کیا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات اور مصافحہ یاد تھا.آپ نے ابتدائی تعلیم لوئر پرائمری تک اپنے گاؤں سیکھواں ہی میں حاصل کی.لیکن آپ کی اصل اور مستقل تعلیم کا آغاز ۱۹۱۰ء میں ہوا جب آپ با قاعدہ قادیان آکر مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے.جس وقت آپ داخل ہوئے.اس وقت تیسری جماعت کھل رہی تھی.آپ ایک نہایت ہو نہار محنتی اور سمجھدار طالب علم تھے.آپ ہر سال پاس ہوتے چلے گئے.تا آنکہ ۱۹۱۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کی سند حاصل کی.اور پھر تین سال کی خصوصی تعلیم و تربیت کے بعد آپ نے مربی کلاس کا امتحان پاس کیا.ایک طرف جہاں آپ کو حضرت اقدس کی نظروں کی برکت اور اپنے نہایت درجہ خلص باپ حضرت امام الدین صاحب سیکھوانی کی تربیت حاصل ہوئی وہاں دوران تعلیم قدرت ثانیہ کے مظہر اوّل حضرت خلیفہ المسیح الاول کا درس قرآن سنا اور قدرت ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت قاضی امیرحسین صاحب، حضرت مولوی سید سرورشاہ صاحب، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب جیسے آسمان احمدیت کے ستارے بطور استاد میسر آئے.آپ نے ۱۹۱۸ء سے اپنے طالب علمی کے زمانہ سے مضامین لکھنے شروع کئے اور مناظروں میں حصہ لینا شروع کر دیا.چنانچہ ۱۹۱۹ء میں آپ نے مشہور مناظرہ سار چور میں کیا.جس میں آپ کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی.اور ایک سکھ ڈاکٹر کی طرف سے آپ کو انعام ملا.اس مناظرے کی کارروائی شائع شدہ ہے.اس کے علاوہ آپ نے بیسیوں مباحثات اس زمانہ میں شیعوں سنیوں اور پادریوں سے کئے.جن میں مباحثہ بھونگاؤں ، مباحثہ جہلم اور مباحثہ میانی شائع شدہ ہیں.۱۹۲۳ء میں آپ کو مربی کلاس پاس کرنے کے بعد ملکانوں کے فتنہ ارتداد کے دُور کرنے کے لئے بھجوایا گیا.جہاں آپ نے ڈیڑھ سال تک جانفشانی سے کام کیا.۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سفر ولایت میں جب حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے ساتھ جانے کا فیصلہ ہوا.تو آپ کو ملکانہ سے واپس بلا کر ان کی جگہ الحکم کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا.آپ کی محنت علمی مشاغل اور زور بیان کو دیکھ کر حضور انور نے آپ کو عرب ممالک میں بطور مبلغ
تاریخ احمدیت.جلد 23 566 سال 1966ء احمدیت بھجوانے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ آپ ۱۹۲۵ء میں بلاد عر بیہ تشریف لے گئے.جہاں آپ کے ذریعہ دمشق، کبابی ، حیفا اور مصر میں جماعتیں قائم ہوئیں.آپ ہی کے ذریعہ سید منیر احصنی صاحب اور چند اور مخلص دوست سلسلہ میں داخل ہوئے جس سے سارے شام میں شور برپا ہو گیا.اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ نے عربی زبان میں ایک کتاب میزان الا قوال لکھی جس میں آپ نے تمام عرب علماء کو چیلنج کیا کہ تم میرے ساتھ دلائل میں مقابلہ نہیں کر سکتے اس لئے کہ میرے امام کے ساتھ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ آپ کے اتباع ہی غالب رہیں گے.اور ہوا بھی یہی.لیکن جب علماء آپ کے مقابلہ میں ٹھہر نہ سکے تو انہوں نے آپ کو جسمانی طور پر مٹانا چاہا اور ایک بے سمجھ انسان نے آپ پر خنجر سے حملہ کر دیا جس سے آپ کے شانہ اور کمر میں زخم آئے.اور اس طرح جسمانی طور پر بھی آپ نے اپنا خون اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیا.لیکن اس رحیم وکریم ہستی کو ابھی آپ کو اور نواز نا منظور تھا.لہذا اس نے اپنے فضل سے آپ کو صحت عطاء فرمائی.شرق الاوسط کے قیام کے دوران میں جو ۱۹۳۱ء تک رہا، متعدد مناظرے کئے اور عربی زبان میں چودہ کتب و رسائل جو بہائیوں اور عیسائیوں اور مولویوں کے خلاف تھے ، تصنیف کرنے کی توفیق پائی.پھر ۱۹۳۱ء میں آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۶ء تک آپ قادیان میں مختلف خدمات سرانجام دیتے رہے.جن میں مقدمہ بہاولپور اور کشمیر کمیٹی کا نام بہت نمایاں ہے.۱۹۳۶ء کے شروع میں آپ انگلستان کے لئے تشریف لے گئے جہاں آپ گیارہ برس تک مسجد فضل کے امام کی حیثیت سے کام کرتے رہے.یہاں آپ نے شاہ انگلستان ،شاہ یوگوسلاویہ اور شاہ زوغو والی البانیہ کو خطوط لکھے.ہائیڈ پارک میں آپ کے مناظرے بہت مشہور ہوئے.انگلستان میں گیارہ سال کا لمبا زمانہ اپنے اہل وعیال سے الگ نہایت صبر اور بہادری سے گزارا.اپنے انگلستان میں قیام کے دوران میں دو کتب تصنیف کیں.مؤخر الذکر کتاب پر بہت سے اخبارات نے ریویو لکھے.اس کتاب کا ترجمہ ملیالم اور ڈچ زبانوں میں شائع ہو چکا ہے.آپ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں واپس تشریف لائے.انگلستان سے مراجعت کے بعد آپ کو حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کے صدر اور وکیل التبشیر کے منصب تفویض فرمائے.10 116-
تاریخ احمدیت.جلد 23 567 سال 1966ء ۱۹۴۷ء کے پرفتن اور پر آشوب دور میں جبکہ قادیان کی مقدس بستی چاروں طرف سے محصور ہو چکی تھی.آپ نے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے بعد امیر مقامی کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیئے.قیام پاکستان کے بعد حضرت مصلح موعود نے آپ ہی کی تجویز پر جماعت احمدیہ کے دارالہجرت کا نام ربوہ منظور فرمایا تعمیر ربوہ کے ابتدائی ایام میں آپ کچھ عرصہ قائم مقام ناظر اعلیٰ رہے.اور ایک لمبے عرصے تک ربوہ کے جنرل پریذیڈنٹ رہے.تحقیقاتی عدالت کے زمانے میں آپ کے قلم سے نہایت بلند پایہ لٹریچر شائع ہوا.آپ الشرکۃ الاسلامیہ کے اولین مینیجنگ ڈائر یکٹر تھے.اور زندگی کے آخری سانس تک جماعتی لٹریچر کی اشاعت میں مجنونانہ وار سر گرم عمل رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جملہ معرکہ آراء کتب اور ملفوظات کو نہایت نفیس اور دیدہ زیب مجلد سیٹ کی صورت میں مع تفصیلی انڈیکس کے شائع کرنا آپ کا ایک عظیم کارنامہ ہے جو قیامت تک یادگار رہے گا.۱۹۵۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے آپ کو خالد کے خطاب سے نوازا.وفات کے وقت آپ قائد تعلیم مجلس انصاراللہ مرکزیہ، ناظر اصلاح وارشاد، مینیجنگ ڈائر یکٹر الشركة الاسلامیہ اور صدر مجلس کار پرداز مقبرہ بہشتی کے عہدوں پر فائز تھے.واقعہ وفات اور تدفین 117 آپ مورخه ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو صبح گیارہ بجے اپنے دانتوں کے علاج کی غرض سے سرگودھا تشریف لے گئے.جہاں آپ پر دل کا حملہ ہوا.علاج کے بعد طبیعت قدرے سنبھل گئی لیکن شام چھ بجے دوبارہ دل کا حملہ ہوا جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے اور شام ساڑھے 4 بجے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.۱۳ اکتوبر کو ہی رات سوا نو بجے آپ کا جنازہ سرگودھا سے ربوہ لایا گیا اور اسی رات دور و نزدیک کی جماعتوں کو بذریعہ ٹیلیفون اطلاع دی گئی.۱۴۲ اکتوبر بروز جمعہ نماز جمعہ سے قبل ہی بہت سے شہروں کے امرائے جماعت اور احباب کی کثیر تعدا در بوہ پہنچ گئی.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے نماز عصر کے بعد بہشتی مقبرہ کے وسیع میدان میں نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد قطعہ صحابہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کی خدمات دینیہ کے حوالہ سے فلسطین اور انگلستان کی خدمات ایک خاص شان کی حامل ہیں اس لئے ان کا کچھ تفصیلی تذکرہ بھی نذر قارئین کیا جاتا ہے.118-
تاریخ احمدیت.جلد 23 568 سال 1966ء فلسطین میں خدمات دینیہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مبلغ بلاد عربیہ جنہوں نے آپ سے فلسطین مشن کا چارج لیا، پوری عمر آپ کے ان کارناموں اور معرکوں سے متاثر رہے جو مولا نا شمس صاحب نے شام وفلسطین میں سرانجام دیئے تھے.چنانچہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر فرماتے ہیں:.بلاد عربیہ میں حضرت زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے شام و لبنان میں اور حضرت شیخ محمود احمد عرفانی نے مصر وغیرہ میں اپنے اپنے دائرہ میں احمدیت کا پیغام پہنچایا.لیکن احمدیت کی تبلیغ بطور مشن شمس صاحب کے زمانہ سے شروع ہوئی.مولانا شمس صاحب نے کم و بیش چھ برس بلاد عربیہ میں بسر کئے.شروع شروع میں آپ نے دمشق میں کام شروع کیا جس کے نیک نتائج نکلنے شروع ہو گئے.الاستاذ منیر الحصنی جو حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے پرانے شاگرد تھے.مولانا شمس صاحب کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہو گئے.مخالفت بڑھ گئی.علماء کی اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں ایک جاہل نوجوان نے شمس صاحب پر خنجر سے حملہ کیا.زخم سخت خطرناک تھا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچایا.شام میں فرانسیسی انتداب ( کسی علاقہ کو عارضی طور پر کسی ریاست کی تحویل اور حکومت میں دینا ) تھا.فرینچ گورنمنٹ نے شمس صاحب کو شام سے چلے جانے کا حکم دیا آپ نے بذریعہ تار حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے بغداد جانے کی اجازت طلب کی.حضور نے مولانا کو ہدایت فرمائی کہ آپ حیفا ( فلسطین) میں چلے جائیں.حیفا میں بھی علماء کی شورشیں بدستور تھیں.مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے علماء کے مقابلہ کی توفیق بخشی.آپ نے جرات کے ساتھ اُن سے مباحثات کئے.جس سے عوام پر اچھا اثر ہوا.مخالفت بھی بھڑ کی مگر احمد بیت کا چرچا بھی گھر گھر 119 ہونے لگا.ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے.حیفا کے قریب عکا ( فلسطین ) میں فرقہ شاذلیہ کے رئیس شیخ ابراہیم کو کافی عرصہ پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عربی خط موصول ہوا تھا.وہ صوفی مشرب انسان تھے.انہوں نے اپنے مریدوں کو کہا تھا کہ یہ خط محفوظ رکھو تمہیں حیفا سے امام مہدی کا پیغام ملے گا.مولا نائس صاحب کے حیفا آنے پر جب احمدیت کی آواز اُن لوگوں کے کانوں تک پہنچی
تاریخ احمدیت.جلد 23 569 سال 1966ء تو اُن میں سے بہت سے نیک دل لوگوں کو احمدیت کے قبول کرنے کی توفیق مل گئی.حیفا پہنچتے ہی اللہ تعالیٰ نے مولوی شمس صاحب کو اچھے ساتھی اور مخلص رفیق عطا فرما دیئے.اور احمد بیت کا پودا ان ممالک میں قائم ہو گیا.علماء کی طرف سے فتووں کے علاوہ گاہے گاہے مخالفانہ پمفلٹ بھی شائع ہوتے تھے جن کے جواب مولا نائمس صاحب لکھتے ، چھپواتے اور شائع کرتے تھے.عیسائیوں سے بھی مقابلے جاری رہتے تھے فلسطین کے علاوہ سال میں ایک آدھ مرتبہ مصر کا سفر بھی مولانا کو در پیش آتا تھا.وہاں بھی جماعت تھی.نئے احمدیوں کی پدرانہ شفقت کے ساتھ تربیت کرنا مبلغ کا اولین فرض ہے مولا نا یہ فرض بھی باسلوب احسن ادا فرماتے رہے.ان لوگوں کی تعلیم کا بھی خیال رکھنا ضروری تھا.میں نے دیکھا ہے کہ بلا دعر بیہ کے سب احمدی احباب مبلغ کو روحانی باپ اور خلیفتہ اسیح کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس سے نہایت محبت سے پیش آتے ہیں.مولا نا نہیں صاحب نے اگست ۱۹۳۱ ء تک بلاد عربیہ میں کام کیا ہے.اس وقت میں نے جا کر حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کے حکم سے آپ سے چارج لیا تھا.میں یہ شہادت ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں که مولا نائٹس صاحب نے اپنے زمانہ میں بلاد عربیہ میں نہایت عمدہ کام کیا ہے.نہایت جانفشانی سے احمدیت کا پیغام پہنچایا ہے اور پوری تندہی سے مخالفین اسلام کا رڈ کیا ہے.آپ نے عیسائی پادریوں کے رڈ میں پمفلٹ بھی لکھے، ان سے مناظرات بھی کئے.بہائیوں کی بھی تردید کی مخالف علماء کے اعتراضات کے بھی جواب دیئے.غرض آپ کا کام نہایت شاندار تھا.آپ نے بعد کے جانے والے مبلغین کے لئے نہایت عمدہ بنیاد قائم کر دی.آپ نے الکبابیر میں مسجد محمود کی بنیاد بھی رکھی تھی.آپ فلسطین سے واپسی کے وقت ایک مخلص اور فدائی جماعت چھوڑ کر آئے تھے.جزاه الله عنا احسن الجزاء.مجھے یاد ہے کہ میں نے ان کی واپسی سے پہلے جب ان سے مشورہ کیا کہ اپنا پریس قائم کر کے ماہوار عربی رسالہ جاری کر دیا جائے تو مولانا نے مالی دشواریوں کے باعث اسے مشکل قرار دیا تھا مگران کی تیار کردہ مخلص جماعت کا یہ حال تھا کہ جونہی ہم انہیں الوداع کہہ کر ریلوے سٹیشن سے دار التبلیغ میں جمع ہوئے اور میں نے احباب کے سامنے یہ تجویز رکھی تو سب نے فوراً لبیک کہا اور قربانی کے لئے تیار ہو گئے.چنانچہ پہلے سہ ماہی اور پھر ماہوار ” البشری جاری ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے پریس لگانے کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 570 سال 1966ء بھی توفیق دی اور باقاعدہ مدرسہ احمدیہ بھی قائم ہو گیا اور مسجد محمود بھی مکمل ہوگئی.میں علی وجہ البصیرت جانتا ہوں کہ میرے زمانہ میں تبلیغ تعلیم اور تربیت کا جو کام آگے بڑھا اس میں مولانا مرحوم کا بہت حصہ تھا.انہوں نے پودے لگائے اور ہم نے پھل کھائے.بلا دعر بیہ میں مولانا کے اچھے اخلاق کا تذکرہ یہودی اور عیسائی بھی کرتے تھے.جس مکان میں مولانا شمس صاحب ۳۱ - ۱۹۳۰ء میں حیفا میں رہتے تھے وہ ایک عیسائی کا تھا.اس کے رشتہ داروں میں ایک پادری بھی تھا.مولانا کے پاس رات دن تبلیغی چرچے رہتے تھے.احباب کی آمد ورفت رہتی تھی.نمازیں بھی اسی مکان میں ہوتی تھیں.اسی مکان میں مولانا کے پڑوس میں ایک یہودی خاندان رہتا تھا.یہ سب مولانا کے اعلیٰ اخلاق کے مداح تھے اور ان سب سے مولانا کا سلوک بہت اچھا تھا.آپ ان کو تبلیغ بھی کرتے رہتے تھے.جب میں فلسطین پہنچا ہوں تو پہلے ایک سال تک وہی مکان رہا پھر ہمیں ضرورت کے ماتحت دوسری جگہ ایک وسیع مکان کرایہ پر لینا پڑا.ہمارے مکان چھوڑنے پر پڑوسیوں نے اور مالک مکان عیسائی نے افسوس کا اظہار کیا.کتابوں اور ٹریکٹوں کی طباعت مولانا جن پریسوں میں کراتے تھے وہ سب بھی مولانا کے حسن معاملہ کے مداح تھے.کہا بیر میں بڑی جماعت تھی.مولانا کو بسا اوقات ان کی تربیت کے لئے جانا پڑتا تھا.دوستوں نے ایک بالا خانہ مولانا شمس کے لئے مخصوص کر رکھا تھا اور آپ گھر کی طرح احباب کے درمیان زندگی بسر کرتے تھے.کہا بیر کے بعض بڑے بوڑھے بھی مولانا سے مزاحیہ گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ خوش ہوتے تھے.الحاج عبد القادر عوده مرحوم جن کی عمر اس وقت نوے سال کے لگ بھگ تھی ، ہر نماز میں ضرور آتے اور مولانا سے ضرور کوئی دل لگی کی بات کرتے.مسجد محمود گاؤں سے ذرا باہر بنائی گئی.مولانا اس کی تعمیر کی خود نگرانی کرتے تھے.مسجد تکمیل کی آخری منزلوں میں تھی، کہ مولا نائٹس صاحب خاکسار کو چارج دے کر واپس تشریف لے آئے.مسجد محمود کے ساتھ میں نے چھوٹاسا دار التبلیغ بھی بنایا.وہاں پر باہر سے بھی دوست آتے اور اپنے احباب بھی بعد نماز و درس دار التبلیغ میں جمع ہو جاتے اور تعلیم وتربیت کی باتیں ہوتیں.عربی ممالک میں قرآن مجید کی صحیح تفسیر کے پیش کرنے کی بہت ضرورت ہے، پرانی تفسیروں کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 571 سال 1966ء قصوں سے نو تعلیم یافتہ لوگ بیزار ہیں.وہ اس بات کو باور کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں کہ قرآن مجید کے حقائق و معارف ختم ہو گئے ہیں.عقیدہ وہ قرآن مجید کو عالمگیر کتاب مانتے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن مجید کی صحیح تفسیر ان تک پہنچائی جائے.پادریوں کے اعتراضات کے جواب ان کو بتائے جائیں.مصر اور شام میں ہزاروں روحیں اس کی پیاسی ہیں.مولانا شمس صاحب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کا علم دیا تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تفسیری حقائق و معارف کو بیان کرنا آپ کا طریق کار تھا.ان معارف کو سن کر ان ممالک کے تعلیم یافتہ لوگ عش عش کر اُٹھتے ہیں.میں نے جب رسالہ البشریٰ جاری کیا اس کے تفسیری حصہ سے بہت سے غیر احمدی نوجوانوں نے بھی خاص دلچسپی کا اظہار کیا تھا.مولا نائنٹس کا درس قرآن اپنے اندر خاص رنگ رکھتا تھا.کہا بیر کے احمدی تو مبلغین سلسلہ سے روزانہ بعد نماز مغرب تغییر قرآن کریم سننے کے عاشق تھے اور یہ چاٹ ان لوگوں کو شروع میں مولانا شمس صاحب نے ہی لگائی تھی.فلسطین کے ابتدائی مبلغین کھانے وغیرہ کا انتظام خود کرتے تھے.سالن خود پکا لیتے تھے اور روٹی زار سے پکی پکائی مل جاتی تھی.مولانا شمس صاحب کا بھی یہی دستور تھا.مولانا کا طریق زندگی بہت سادہ تھا ، ہر قسم کے تکلف سے آپ دور تھے.جو میسر آتا تھا شکر سے تناول فرماتے تھے.مجھے فلسطین کے بعض دوستوں نے بتایا تھا کہ بعض اوقات کثرت کار کی وجہ سے مولا نا کھانا کھانا بھول جاتے تھے اور مسلسل کام کرتے رہتے تھے.کچھ عرصہ تنگی کے ایام بھی آئے تھے.فلسطین کے مخلصین مقدور بھر مولانا کی اور دوسرے مبلغین کی خدمت کرتے رہتے تھے.وہاں کا دستور ہے کہ گھر پر ہر آنے والے کو قہوہ ضرور پیش کیا جاتا ہے جو شروع میں مبلغین خود ہی تیار کرتے تھے.وہاں آنے والے دوستوں کا بھی یہی طریق ہوتا تھا کہ وہ ملاقات کے لئے آتے ہوئے کوئی پھل وغیرہ بطور تحفہ لاتے تھے جو سب حاضرین مل کر کھاتے تھے.اس طرح سے اخوت اور مودت بڑھتی تھی اور یہ چھوٹی سی پاکیزہ برادری ترقی کرتی رہتی تھی.کہا بیر کے احباب زمیندار ہیں.ان کے انجیروں کے درخت بہت مزہ دیتے تھے.مسجد محمود کے قریب پہاڑی پر یہ درخت اپنی شہد سے بھری ہوئی سفید انجیروں کے ساتھ بہت بھلے معلوم ہوتے تھے اور کھانے کا بہت لطف ہوتا تھا.چارج دینے سے پہلے مولانا میری موجودگی میں جتنے دن حیفاو کہا بیر میں رہے خوب بے تکلفی رہی اور دعوتوں کا سلسلہ جاری رہا.کبھی کبھی انجیروں کے پودوں تلے بھی دعوت ہوتی تھی.مولانا کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 572 سال 1966ء الوداعی پارٹی میں احباب جماعت کے علاوہ بعض مسیحی اور یہودی بھی شامل ہوئے تھے.انہوں نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا تھا.اور مولانا کو خراج تحسین ادا کیا تھا.خلاصہ یہ ہے کہ حضرت مولانا شمس نے بلاد عر بیہ میں نہایت مستحکم بنیاد اشاعت اسلام اور تبلیغ احمدیت کی قائم کی ہے.جزاہ اللہ احسن الجزاء ورفع درجته في الجنة العلياء انگلستان میں تبلیغ دین 66 یکم فروری ۱۹۳۶ء کو آپ انگلستان مشن کا چارج سنبھالنے کے لئے تشریف لے گئے جہاں آپ نے تقریبا گیارہ برس تک امام مسجد فضل لندن کی حیثیت سے انتہائی محنت اور جانفشانی سے کام کیا.آپ کے ذریعہ متعدد انگریز اور ایشیائی اصحاب احمدیت میں داخل ہوئے.آپ کی زبر دست تبلیغی جد و جہد پر حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد نے مندرجہ ذیل الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا:.میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہہ سکتا ہوں کہ جتنے کارکنوں کے ساتھ یہاں مجھے کام کرنے کا موقع ملا ہے.ان سب میں گو اپنے اپنے رنگ میں بہت سی خوبیاں ہیں لیکن جوش تبلیغ کے لحاظ سے مولانا شمس سب سے بڑھے ہوئے ہیں انہیں ہمیشہ یہی فکر ہے اور اس کام میں وہ مستغرق رہتے ہیں.نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کا بھی انہیں خاص اہتمام ہے.ابھی چند دن ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ملفوظات میں شائع ہوا کہ حضور کو یہ شوق تھا کہ گھر بہ گھر پھر کر لوگوں کو دعوت حق پہنچائی جائے چنانچہ مولانا شمس صاحب اور شیخ احمد اللہ صاحب ان الفاظ کو پڑھ کر ایک دن سارا وقت اس طرح پھر کر تبلیغ کرتے رہے.انگلستان جیسے ملک میں یہ آسان کام نہیں.دوسری جنگ عظیم کی ہولنا کیوں کی وجہ سے قیام انگلستان کا طویل عرصہ بہت مہیب اور خوفناک تھا جسے آپ نے انتہائی صبر اور بہادری سے گزارا اور قیامت خیز بمباری کے دوران مجاہدانہ شان کے ساتھ اسلام کی اشاعت میں مصروف رہے.مختلف بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھے، ہائیڈ پارک میں تقاریر اور مناظرے کئے ، شہزادہ امیر فیصل وائسرائے آف مکہ اور دیگر عرب ممالک کے نمائندوں کے اعزاز میں پارٹی دی اور مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ہدیہ پیش کیں.جس کا انگلستان پریس میں بھی چرچا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواہش کی تکمیل میں ایک لاکھ کی تعداد میں قبر مسیح کے متعلق اشتہار شائع کیا.122.121 766
تاریخ احمدیت.جلد 23 573 سال 1966ء بشپ آف گلاسٹر، شاہ جارج، کنگ پیٹر آف یوگوسلاویہ، لارڈنگٹن ، پروفیسر مارگولیتھ وغیرہ بہت سی اہم شخصیات تک پیغام حق پہنچایا.124 انگلستان کی مختلف سوسائٹیوں میں اثر ونفوذ پیدا کیا ،ورلڈ کانگریس آف فیتھر کے اجلاس کی صدارت کی نیز اس کے سالانہ اجلاس میں ایک مقالہ پڑھا جس پر کانگریس کے پریذیڈنٹ سرفرانس سینگ ہینڈ نے کونسل کی طرف سے شکریہ ادا کیا.آپ کا ایک لیکچر نیو کالج آکسفورڈ میں سیاسیات ہند پر بھی ہوا.مسٹرفلپس پریذیڈنٹ تھے.انہوں نے صدارتی ریمارکس میں کہا کہ یہ تقریر ان تمام تقریروں سے جو ہم سن چکے ہیں اچھی اور خوب مرتب ہے.اور ہندوستان کی اصل حالت اور اس کے حل کو پیش کرتی ہے.آپ کے زیر انتظام سات غیر ملکی زبانوں میں تراجم قرآن کا عظیم الشان کام بھی ہوا.آپ دس سال سے زائد عرصہ تک دیار مغرب میں کامیاب قلمی و لسانی جہاد کے بعد ۱۵ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو قادیان پہنچے.حضرت مصلح موعود نے فرمایا کہ آپ کے ذریعہ سے حدیث نبوى تطلع الشمس من مغربها کے ایک پہلو کا ظہور ہوا.حضور نے اس رائے کا اظہار ایک پارٹی کے دوران کیا.جو آپ کے اعزاز میں جامعہ احمدیہ قادیان کی طرف سے دی گئی تھی.125 جناب بشیر احمد خان صاحب رفیق سابق امام مسجد فضل لندن آپ کے سنہری دور انگلستان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.۱۹۵۹ء میں جب خاکسار انگلستان میں تبلیغ اسلام کے لئے منتخب ہوا تو حضرت مولانا نے متعد د نصائح فرما ئیں اور اپنے زمانہ تبلیغ کے چند واقعات بھی سنائے.بعد میں ان سے با قاعدہ خط و کتابت کا سلسلہ ان کی وفات تک جاری رہا.انگلستان آکر جتنے بھی پرانے دوستوں سے ملا ان سے یہ معلوم ہوا کہ انگلستان مشن کی تاریخ میں حضرت مولانا کا زمانہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے.آپ نے تقاریر، مباحثوں، مناظروں اور تصانیف و مضامین کے ذریعہ یہاں کے علمی حلقوں میں جماعت احمدیہ کی شہرت کی دھوم مچادی.اور یہ مبالغہ نہ ہوگا کہ جتنی تبلیغ آپ کے زمانہ امامت میں ہوئی اتنی کسی بھی اور امامت میں نہیں ہوئی.حضرت مولانا یکم فروری ۱۹۳۶ء کو قادیان دارالامان سے روانہ ہوئے اور ۲۸ مارچ ۱۹۳۶ء کو لندن پہنچ گئے.آپ کا قیام انگلستان میں ۱۰ را گست ۱۹۴۶ء تک رہا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 574 سال 1966ء اس دس سال کے دوران جو عظیم کام آپ نے کیا اس کو پوری طرح احاطہ تحریر میں لا نا تو مورخین کا کام ہے لیکن تبلیغ کے سلسلہ میں چند خاص باتیں درج ذیل ہیں:.ہائیڈ پارک میں سپیکر کا رنر دنیا بھر میں آزادی تقریر کے لئے مشہور ہے.اتوار کی شام کو ہزاروں کی تعداد میں لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور مقررین ہر موضوع پر بلا جھجک بولتے ہیں.کسی پر کوئی پابندی نہیں.آج کل ٹیلی ویژن اور سینما وغیرہ کی ایجادات نے سپیکرز کارنر کی شہرت کو کچھ ماند کر دیا ہے لیکن حضرت مولانا کے زمانہ میں جب کہ یہ علاوہ علمی تقریروں کے تفریحی طور پر بھی لوگوں کے جمع ہونے کی نہایت اچھی جگہ تھی.اس کا رنگ ہی اور ہوتا تھا، گورے، کالے، ہر مذہب وقوم کے مقررین اپنے ساتھ پلیٹ فارم اٹھائے آجاتے ہیں اور جس موضوع پر چاہیں تقریر شروع کر دیتے ہیں.سوالات جوابات بھی ہوتے رہتے ہیں.غرضیکہ ہائیڈ پارک کا یہ حصہ انگلستان کی معاشرت میں ایک ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے.ہائیڈ پارک کے ایک مشہور عیسائی سپیکر مسٹر گرین ہوا کرتے تھے.یہ صاحب پچھلے سال مجھے بھی ملے اور حضرت شمس صاحب کا دیر تک ذکر کرتے رہے اور بار بار کہتے تھے کہ بائیبل کے بھی سکالر تھے.یہ صاحب اپنی تقاریر میں اس عقیدہ کا اظہار کرتے تھے کہ ۱۹۵۰ء میں یسوع مسیح کا نزول ہوگا.انہوں نے ایک رسالہ The Kingdom News بھی جاری کر رکھا تھا.حضرت مولانا شمس صاحب نے ان کو مباحثہ کا چیلنج بھی دیا جو اس نے منظور کیا.چنانچہ حضرت مولا نائٹس صاحب کے پانچ مباحثے اس سے ہائیڈ پارک میں ہوئے طریق یہ تھا کہ دو پلیٹ فارم ساتھ ساتھ کھڑے کئے جاتے تھے ایک پر حضرت مولانا صاحب اور دوسرے پر مسٹر گرین کھڑے ہوتے تھے.نقار میر کا وقت مقرر تھا.پہلا مباحثہ ۲ جون ۱۹۴۴ء کو ہوا.موضوع یہ قرار پایا کہ مسٹر گرین دو گھنٹے میں قرآن مجید پر جتنے اعتراضات کرنا چاہیں ایک ایک کر کے پیش کریں.لیکن اس روز ایسا تصرف الہی ہوا کہ عام طور پر جو اعتراضات وہ پہلے مباحثات میں کرتے رہتے تھے وہ بھی پیش نہ کر سکے اور جو نوٹ لکھے ہوئے تھے وہ بھی غلط تھے.دوسرا مباحثہ ۶ جون ۱۹۴۴ء کو ہوا.اس روز حضرت مولانا نے انا جیل پر زبر دست اعتراض کئے جن کا مسٹر گرین کوئی جواب نہ دے سکے.بعض کے متعلق کہا کہ میں نے یہ پہلے کبھی نہیں سنا.اور اکثر کی نسبت یہ جواب دیا کہ میں تیاری کر کے جواب دوں گا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 575 سال 1966ء تیسرے مباحثہ میں مسٹر گرین نے قرآن مجید پر اعتراض کرتے ہوئے جنوں کے متعلق سوال کیا.مولا نائٹس نے جواب دیا کہ آیات قرآنی میں جن سے مرادالف لیلے والے جن نہیں بلکہ اس سے مراد بڑے لوگ اور لیڈر ہیں.مسٹر گرین نے کہا کہ جب تک آپ کسی انگریزی ترجمہ کو صحیح اور مستند نہیں مان لیتے میں مباحثہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.آپ نے فرمایا یہ ترجمے شخصی ہیں.میں ان کو صحیح مانتا ہوں لیکن اگر میں کسی جگہ سمجھوں کہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا اور عربی زبان کی رُو سے اس کی غلطی ثابت کر دوں تو مجھے ایسا کرنے کا حق حاصل ہے.انجیل کے موجودہ تراجم جو کہ سوسائٹیوں کی طرف سے شائع کئے گئے ہیں، ان کے بعض الفاظ کے ترجمہ کے متعلق آپ خود کہتے ہیں کہ اصل عبرانی الفاظ یوں ہیں.اگر آپ کو اصل کی طرف رجوع کا حق حاصل ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ چوتھا مباحثہ ۶ جولائی ۱۹۴۵ء حضرت مسیح کی صلیبی موت پر منعقد ہوا.پانچواں مباحثہ ۱۳ ر اور ۲۷ جولائی ۱۹۴۵ء کو ہوا.لیکن مسٹر گرین نے صحت کی خرابی کا بہانہ کر کے مباحثات کا سلسلہ بند کر دیا.برطانوی پریس میں ان مباحثات کا چر چاہد میں الفاظ ہوا :."The Imam of the London Mosque has come into arena of open debate in London recently and is very energetic in presenting his faith to Christian opponents." نیز لکھا:."The Imam is very skillful in presenting his case and quotes literally from the Bible." (Society for the Study of Religions) آپ نے انگلستان کے مختلف کلبوں میں سوسائٹیوں میں اور یو نیورسٹیوں میں سینکڑوں تقاریر فرما ئیں.آکسفورڈ یونیورسٹی میں آپ کے متعدد لیکچر ہوئے.فروری ۱۹۳۹ء میں شہزادہ امیر فیصل (بعد ازاں والئی سعودی عرب) مسجد فضل لندن تشریف لائے.حضرت مولانا نے وسیع پیمانے پر اُن کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا.آپ نے دوران قیام انگلستان ہی میں اپنی معرکۃ الآراء کتاب Where did Jesus die شائع کی.یہ گویا عیسائیت کے لئے ایک بم کی حیثیت رکھتی تھی.اخبارات نے اس پر ریویو شائع کئے اور کتاب کی تعریف کی.اس کے علاوہ آپ نے متعدد چھوٹے کتابچے تصنیف کر کے شائع کئے.مثلاً Islam وغیرہ.
تاریخ احمدیت.جلد 23 576 سال 1966ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش کے احترام میں مسیح علیہ السلام کی قبر کی تصویر کا اشتہار ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کر کے انگلستان کے طول و عرض میں تقسیم کیا.بی بی سی سے آپ کی متعدد عربی تقاریبرنشر ہوئیں.جنگ کے دنوں میں آپ کی تبلیغی سرگرمی کسی حد تک مدھم پڑ گئی.لیکن یہ دور تصانیف و تالیفات کا اعلیٰ موقع میسر کر گیا.انہیں دنوں آپ نے مشن ہاؤس سے ملحقہ مکان نمبر ۶۱ میلر وز روڈ خریدا.جنگ کے اختتام پر آپ نے یورپ کے لئے نو آمدہ مبلغین کی تعلیم وتربیت کا اہم کام سرانجام دیا.آپ کی تبلیغی جد وجہد کا یہ اثر ہے کہ آج بھی اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود روٹری کلب کے کئی دوستوں نے حضرت مولانا کے تبلیغی جنون کا مجھ سے بار بار تذکرہ کیا ہے.ان کی پرسنلٹی کا اثر آج بھی لوگوں پر ہے.ایں سعادت بزور بازو نیست آپ کے زمانہ میں متعد د سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہوئیں.جن میں سے ایک مسٹر ناصر احمد سکرونر آج تک جماعت سے وفاداری کا تعلق رکھے ہوئے ہیں.حضرت مولا نائٹس کی وفات کی اطلاع جب میں نے اُن کو دی تو اُن کی آواز بھتر اگئی اور زیادہ بات ہی نہ کر سکے.حضرت مولانا نے انگلستان میں دس سال بغیر اہل وعیال کے گزارے.یہ آپ کی جوانی کے دن تھے.لیکن جس تقویٰ اور طہارت سے آپ نے یہ دن گزارے اس پر یہ مصرعہ حرف بہ حرف صادق در جوانی تو به کردن شیوه پیغمبری است آتا ہے.127 خلفائے احمدیت کا اظہار خوشنودی فلسطین سے واپسی پر حضرت مصلح موعود نے آپ کی انتھک اور مسلسل خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.”خدا تعالیٰ کی یہ بہت بڑی عنایت ہے کہ ہمارے کام کرنے والے لوگ کام سے تھکتے نہیں.ایک شخص چھ سال کا لمبا عرصہ اپنے وطن سے دور اور سمندر پار رہا ہو.وہ امید کر سکتا ہے کہ واپسی پر اسے رشتہ داروں کے پاس رہنے اور آرام کا موقع دیا جائے.مگر یہ مردوں اور عورتوں کے لئے تعجب کی بات ہوگی کہ مولوی صاحب جب سے آئے ہیں کل صرف چند گھنٹوں کے لئے اپنے وطن گئے کیونکہ آتے ہی انہیں کام
تاریخ احمدیت.جلد 23 پر لگا دیا گیا.“ 577 سال 1966ء یہ کام جس کی طرف حضرت مصلح موعود نے اشارہ فرمایا تحریک آزادی کشمیر کی خدمت تھی.جو سیکرٹری آل انڈیا کشمیر کی حیثیت سے آپ کو سونپی گئی اور جسے آپ نے آخر دم تک نہایت کامیابی سے نبھایا.علاوہ ازیں آپ نے مشہور مقدمہ بہاولپور (اس مقدمہ کا ذکر تاریخ احمدیت جلدے میں موجود ہے ) میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ترجمانی کا حق ادا کر دیا.آپ جب لندن تشریف لے گئے تو اپنے پیچھے نو بیاہتا دلہن ( محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت خواجہ عبید اللہ امرتسری ) کو چھوڑ گئے.اور دس سال تک اپنی بیوی اور بچوں سے جدارہ کر قربانی کا ایک مثالی نمونہ اور معیار قائم کیا جو آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ کا کام دے گا.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے مولا نائٹس صاحب اور آپ کی بیگم کی اس عظیم قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.” ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ سال تک بیرون ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معا بعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین شمس صاحب ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لیے چلے گئے تھے.ان کے واقعات سن کر بھی انسانوں کو رقت آجاتی ہے.ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا ”اماں! ابا کسے کہتے ہیں؟ سکول میں سارے بچے ابا ابا کہتے ہیں ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا ابا کہاں گیا ہے؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین ، چار، چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے.اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے سترہ سترہ ، اٹھارہ اٹھارہ سال 166 کے ہو چکے تھے.جب شمس صاحب انگلستان سے واپس تشریف لائے تو حضرت مصلح موعود نے اس پیشگوئی کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا ، کا ایک بطن آپ کو بھی قرار دیا.چنانچہ آپ نے فرمایا :.رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی مغرب سے طلوع شمس کا ایک بطن اس وقت شمس صاحب کے ذریعہ پورا ہوا جبکہ وہ مغرب سے آئے.129 66
تاریخ احمدیت.جلد 23 578 سال 1966ء سید نا حضرت خلیفہ امسح الثالث نے آپ کے سانحہ ارتحال پر ایک نہایت لطیف اور بصیرت افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں حضرت مولانا شمس کی عظیم شخصیت اور آپ کی خدمات جلیلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:.” جب بعض بزرگ تر ہستیاں جماعت سے جدا ہو ئیں تو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے جماعت میں سے ایسے لوگوں کو کھڑا کر دیا کہ جنہیں گومر نے والوں کی زندگی میں وہ مقام وجاہت مرتبہ اور علم حاصل نہ تھا جو مر نے والوں کا تھا.لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے انہیں پہلوں کا سا مقام وجاہت مرتبہ اور علم دے دیا.پس الہی سلسلے اپنے بزرگوں کے وصال کے بعد ان سے جدا ہوکر صدمہ اور غم تو محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں (اگر کوئی نا سمجھ خیال کرے ) کہ کسی جانے والے کے بعد اس کی وجہ سے الہی سلسلے کے کام میں کوئی رخنہ پیدا ہوسکتا ہے یا رخنہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے قائم کردہ سلسلہ کو بقا اور زندگی عطا کرنا چاہتا ہے،اس وقت تک ایک شخص کے اعمال پر فنا وارد کرنے کے بعد وہ دوسرے افراد کھڑے کر دیتا ہے جو اسی قسم کے اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور اپنے لئے اور جماعت کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے ہوتے ہیں.ہمارے بزرگ ہمارے بھائی ہمارے دوست مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ہم سے جدا ہوئے.خدا کی رضا کی خاطر انہوں نے اپنی زندگی کو گزارا.اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی وفات کے بعد خدا تعالیٰ کی ابدی رضا کو حاصل کیا.ان کی وفات کے بعد خدا تعالیٰ خود اس سلسلہ میں ایسے آدمی کھڑے کرے گا جو اسی خلوص کیسا تھ اور جو اسی جذ بہ فدائیت کے ساتھ اور جو اسی نور علم کے ساتھ اور جو اسی روشنی فراست کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے والے ہوں گے جس کے ساتھ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس نے سلسلہ کی خدمت کی تھی.پس ہمارے دل اپنے ایک دوست کی جدائی کی وجہ سے بے شک دُکھی ہیں کیونکہ انسان کی فطرت ہی ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ جانے والے کے فراق کے نتیجہ میں دکھ محسوس کرتا ہے لیکن جہاں تک سلسلہ احمدیہ کا تعلق ہے ایک شمس غروب ہوا
تاریخ احمدیت.جلد 23 579 سال 1966ء تو اللہ تعالیٰ ہزاروں شمس اس پر چڑھائے گا.اور اللہ تعالیٰ کا فضل اس جماعت کو اس وقت تک حاصل ہوتا رہے گا جب تک یہ جماعت اور اس کے افراد اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی برکتوں اور اس کی رحمتوں کے حصول کے اہل بنائے رکھیں گے.وہ قربانیاں دیتے رہیں گے اور ایثار کا نمونہ دکھاتے رہیں گے جو صحابہ نے خدا تعالیٰ اور اس کے محبوب محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے دکھایا تھا.غرض ہم دکھی بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسہ رکھنے والے بھی ہیں کہ وہ سلسلہ کے کاموں میں کوئی رخنہ نہیں پڑنے دے گا جس کے نتیجہ میں یہ جماعت کمزور ہو.جیسا کہ سلسلہ کے پہلے جانے والے بزرگوں کے بعد اس نے شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کر دیئے.اسی طرح وہ شمس صاحب کے جانے کے بعد شمس صاحب جیسے آدمی کھڑے کردے گا.خدا تعالیٰ نے جماعت کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بہت سے نئے خالد پیدا کرنے ہیں ہمارے لئے سوچنے اور غور کرنے کا یہ مقام ہے اور ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہمیں اس گروہ میں شامل کرے.جو خالد بننے والے ہیں.جواس کی نگاہ میں خالد قراردئے جانے والے ہیں اور جو اس کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دینے والے ہیں.جن کی تقریروں اور تحریروں میں خدا تعالیٰ اپنے فضل سے برکت دینے والا ہے جن کی تقریروں اور تحریروں سے دنیا فیض حاصل کرنے والی ہے.دنیا سکون حاصل کرنے والی ہے دنیا ان راہوں کا عرفان حاصل کرنے والی ہے.جو راہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کی طرف لے جانے والی ہیں.پھر ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت میں ہزاروں مخلص نوجوان پیدا کرتا چلا جائے کہ جب وہ اس کے پاس پہنچیں تو ان کے ساتھ بھی وہی محبت پیار کا سلوک ہو.جو محبت اور پیار کا سلوک شمس صاحب کو ملا.جو محبت اور پیار کا سلوک میر محمد الحق صاحب کو ملا.جو محبت اور پیار کا سلوک حافظ روشن علی صاحب کو ملا اور جو محبت اور پیار کا سلوک مولوی عبد الکریم صاحب کو ملا.اللهم امين 130 قیام انگلستان کے دوران آپ کو اپنے والد محترم حضرت میاں امام الدین صاحب سیکھوانی کی دائمی مفارقت کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 تصانیف 580 سال 1966ء (اردو) میرے دھرم کا وعدہ.حقیقت جہاد.دیو بندی فتنہ کا ظہور پر فتور تنقید صحیح بر برهان صریح.منکرین خلافت کا انجام.تائید آسمانی.اہل حق کا پیغام جہلم والوں کے نام.مباحثہ سار چور بر مسئلہ حیات و ممات مسیح علیہ السلام.مقدمہ بہاولپور.ندائے عام.مباحثہ میانی.رسالتمآب خاتم النبین ﷺ.پاک محمد مصطفی ﷺ.آیت خاتم النبیین کی صحیح تفسیر.شان محمد ﷺ.پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق.اسلام کا عالمگیر غلبہ.قیام پاکستان اور جماعت احمد یہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک نظر.ضرورت علم القرآن.عقائد جماعت احمدیہ.امیر منکرین خلافت کی مغالطہ انگیزیوں کا جواب تبلیغی خط.اسلام اور مذہبی آزادی.ایک غلط بیانی کا ازالہ اور خداترس مسلمانوں سے ایک دردمندانہ اپیل.مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کا تحقیقاتی عدالت میں تحریری بیان اور اس پر صدرانجمن احمد یہ ربوہ کا تبصرہ.شرح القصیدہ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں.حقیقی عید اور حقیقی قربانی.بشارات ربانیہ.صداقت حضرت مسیح موعود.جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں کا ازالہ نمبرا، نمبر۲.کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں؟.جماعت احمدیہ کے اہم فرائض اور اس کی امتیازی خصوصیات.حضرت بانی جماعت احمدیہ کی طرف سے دعوت اور آپ کی صداقت پر ایک قرآنی دلیل.خلافت مصلح موعود الودود ،منکر خلافت محمد حسین چیمہ کے مضمون پر ایک نظر.مباحثہ جہلم.زریں نصائح.علمائے رحیم یارخان کا چیلنج منظور.علمائے رحیم یار خان کے لئے لمحہ فکریہ.عیسائیوں کی طرف سے دعوت مباھلہ کا جواب.گذشتہ وموجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں.مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر بارہ نشان.احمد یہ جماعت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین مانتی ہے پانچ سو روپیہ انعام.اسلام کا عالمگیر مذہب.البشارت.اہالیان چکوال سے خدا اور اس کے رسول کے نام پر دردمندانہ اپیل.پیشگوئیاں.تربیت.تشریح الزکوۃ یعنی زکوۃ کمیٹی کے انتالیس سوالات کے جوابات.جماعت احمدیہ کے عقائد.خدا اور اس کے رسول کے نام پر ایک دردمندانہ اپیل.رسالہ تائید نشان آسمانی - شرح القصیدہ.عقائد احمدی.عقیدہ ختم نبوت جماعت احمدیہ کا جزوایمان ہے.فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت کے دس سوالات کے جوابات مع تبصرہ.مسئلہ کشمیر چین اور بھارت کی چپقلش کلمۃ اللہ اور روح اللہ.عقائد احمدیت.
تاریخ احمدیت.جلد 23 عربی 581 سال 1966ء اعـجـب الاعاجيب في نفي الاناجيل لِمَوتِ المسيح على الصليب،البرهان الصريح في إبطال الوهيّة المسيح، الهدية السنية للفئة المبشرة المسيحية.،حكمة الصّيام، ميزانُ الاقوال، توضيح المرام في الرد على عُلماء حمص وطرابلس الشّام، دَليلُ المسلمين في الرد على فتاوى المفتين تحقيق الاديان النور المبين، تكميل التبليغ تنوير الالباب، كشف اللثام عن وجه من الف حجة الاسلام، جواهر الكلام في الرد على فصل الخصام البهائيه والاسلام، الساكت عن الحق شيطان اخرس انگریزی ISLAM WHERE DID JESUS DIE? WHY DID EARLY CHRISTIANS ACCEPT ISLAM? اولاد ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس، فلاح الدین صاحب شمس، منیر الدین صاحب شمس (حال ایڈیشنل وکیل التصنيف لندن)، بشیر الدین صاحب شمس، ریاض الدین صاحب شمس، جمیلہ شمس صاحبہ ، عقیلہ میں صاحبہ 121 دفاتر صدرانجمن احمدیہ کے نئے بلاک کا سنگ بنیاد ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے دفاتر صدرانجمن احمدیہ پاکستان کے نئے تعمیر ہونے والے بلاک کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیا درکھا.اس تقریب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جن بزرگ صحابہ نے بھی باری باری اینٹیں نصب کیں اُن کے نام یہ ہیں.حضرت مولوی محمد دین صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ، حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ ، حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی ، حضرت مولوی محمد جی صاحب، حضرت منشی تنظیم الرحمن صاحب، حضرت خواجہ عبید اللہ صاحب افسر تعمیرات.یہ نیا بلاک، جونو کمروں پر مشتمل تھا.ستر ، اسی ہزار روپے کی لاگت سے تیار ہوا ہے.132-
تاریخ احمدیت.جلد 23 582 سال 1966ء یہ نیا بلاک موجودہ عمارت ۲۰۱۲ء میں دفتر نظارت علیاء کے بعد شرقی جانب موجودہ نظارت امور عامہ کے دفاتر تک ہے.مدینہ یونیورسٹی کے ایک طالبعلم کے تاثرات اس سال مدینہ یونیورسٹی کے ایک پاکستانی طالبعلم ایک وفد کے رکن کی حیثیت سے نائیجیریا کے ایک سیمینار میں شامل ہوئے.واپسی پر انہوں نے نائیجیریا میں احمدیت کے اثر ونفوذ کے بارے میں لکھا:.’دینہ میں ایک پاکستانی ساتھی نے مشرقی پاکستان کے ایک قادیانی عالم کی یہ بات مجھے بتائی کہ اُن کے خیال میں نائیجیر یا عنقریب ایک قادیانی ریاست بن جائے گا.تمام نا یجیر یا تو نہیں کیونکہ شمالی حصہ میں مساحت کے لحاظ سے نائیجیریا کا سب سے بڑا حصہ ہے.خالص مسلمان علاقہ ہے.ہاں مغربی و مشرقی حصوں میں جہاں بھی عیسائیوں کی بہ نسبت مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے.تعلیم یافتہ طبقہ میں احمدیت کے وسیع اثرات کو محسوس کیا جاسکتا ہے.ہمارے علماء اور تبلیغی مشن کہاں ہیں؟ اگر پاکستان اسی تحریک کا فی الوقت منبع بن سکتا ہے.تو اسی ملک سے ہمارے علماء صحیح اسلامی دعوت لیکر گم گشتہ راہ قافلوں کے لئے ہدایت کا مینار نہیں بن سکتے ! خدا را آپس کے اختلافات کو چھوڑیے کہ اس سے آپ کے مراتب ومناصب تو ضرور مستحکم ہو سکتے ہیں.لیکن اسلام کا شیرازہ اور بھرتا جاتا ہے.166 یغام امام مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے نام حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے نام حسب ذیل پیغام دیا جومجلس کےسوونیئر ۱۹۶۶ء میں اشاعت پذیر ہوا:.خدام الاحمدیہ یہ نام حضرت مصلح موعود ہی کا رکھا ہوا ہے اور خود اس نام میں ایک زبر دست پیغام موجود ہے.میری خواہش ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ اللہ تعالیٰ کے وفادار خادم اور فرماں بردار بندے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی پیروی کرنے والے ہوں.مرزا ناصر احمد خلیفة اصبح الثالث
تاریخ احمدیت.جلد 23 583 سال 1966ء حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا ایک اہم مکتوب حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ مسیح الثالث کا انتخاب خدا تعالیٰ کی عظیم بشارات کے مطابق عمل میں آیا.چنانچہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے بیٹے مرزا مبارک احمد کی وفات کے بعد ایک نافلہ ( پوتا) کی بشارت دی گئی تھی جسے الہامات میں بیٹی اور بمنزلہ مبارک احمد بھی کہا گیا تھا.بعض قرائن کی روشنی میں یہ پیشگوئی حضرت خلیفتہ اسیح الثالث کی ذات بابرکات میں پوری ہوتی نظر آ رہی تھی.چنانچہ اس ضمن میں خلافت ثالثہ کے آغاز میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم نے ایک اہم مکتوب محترم مولانا جلال الدین شمس کے نام تحریر فرمایا.جسے اس مندرجہ بالا سونیئر میں شائع کیا گیا جو کہ درج ذیل ہے.برادرم مکرم سلمک اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ آپ کا خط ملا..یہ درست ہے کہ حضرت اماں جان ناصر احد کو بچپن میں اکثر یحیی کہا کرتیں اور فرماتی تھیں کہ یہ میرا مبارک ہے.بیٹی ہے جو مجھے بدلے میں مبارک کے ملا ہے.مبارک احمد کی وفات کے بعد کے الہامات بھی شاہد ہیں.ایک بار میرے سامنے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان سے بڑے زور سے اور بہت یقین دلانے والے الفاظ میں فرمایا تھا کہ تم کو مبارک احمد کا بدلہ بہت جلد ملے گا.بیٹے کی صورت میں یا نافلہ کی صورت میں.مجھے مبارک احمد کی وفات کے تین روز بعد ہی خواب آیا کہ مبارک احمد تیز تیز قدموں سے آ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں پر ایک بچہ اٹھائے ہوئے ہے اُس نے آکر میری گود میں وہ بچہ ڈال دیا اور وہ لڑکا ہے.اور کہا لو آپا یہ میرا بدلہ ہے.( یہ فقرہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا ) میں نے جب یہ خواب صبح حضرت اقدس کو سنایا تو آپ بہت خوش ہوئے.مجھے یاد ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک مسرت سے چمک رہا تھا اور فرمایا تھا کہ بہت مبارک خواب ہے.آپ کی بشارتوں اور آپکے کہنے کی وجہ تھی کہ ناصر سلمہ اللہ تعالیٰ کو اماں جان نے اپنا بیٹا بنالیا تھا.اماں جان کے ہی ہاتھوں میں ان کی پرورش ہوئی.شادی بیاہ بھی انہوں نے کیا.اور کوٹھی بھی بنا کر دی.(النصرة).تمام پاس رہنے والے جو زندہ ہونگے اب بھی شاہد ہوں گے کہ حضرت اماں جان ناصر کومبارک سمجھ کر اپنا بیٹا ظاہر کرتی تھیں.اور کہا کرتی تھیں یہ تو میرا مبارک ہے.عائشہ والدہ نذیر احمد جس کو حضرت اماں جان نے پرورش کیا اور آخر تک اُن کی خدمت میں رہیں یہی ذکر اکثر کیا کرتی ہے کہ اماں جان تو ناصر کو اپنا مبارک ہی کہا کرتی
تاریخ احمدیت.جلد23 584 سال 1966ء تھیں کہ یہ تو میرا مبارک مجھے ملا ہے.کئی سال ہوئے میں بہت بیمار ہوئی تو میں نے ایک کاپی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض باتیں جو یا تھیں لکھی تھیں.اُن میں یہ روایت اور اپنا خواب میں نے لکھا تھا وہ کا پی میرے پاس رکھی ہوئی ہے.لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا نواں سالانہ اجتماع والسلام مبارکہ 134 خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کا نواں سالانہ اجتماع مورخه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۶۶ء کو شروع ہوا اور تین دن جاری رہنے کے بعد بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوا.اجتماع کے پروگرام میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث کے خطاب، حضرت سیدہ ام متین صاحبہ اور حضرت سیدہ مہر آپا صاحبہ کی تقاریر ، درس قرآن کریم اور درس حدیث کے علاوہ متعدد دینی موضوعات پر تقریری مقابلہ جات قابل ذکر ہیں.گذشتہ سال ملکی حالات خراب ہونے کی وجہ سے اجتماع نہ ہو سکا تھا اس لئے امسال باہر کی لجنات سے ایک بڑی تعداد میں نمائندگان اور ممبرات نے شرکت کی.پاکستان اور بیرون پاکستان کی ۷۶ لجنات کی ۴۱۰ نمائندگان اور ۴۰۰۰ ممبرات نے اجتماع میں شرکت کی.قادیان سے محترمہ امتہ القدوس صاحبہ جنرل صدر لجنات بھارت کے علاوہ نیروبی، سیرالیون اور لندن کی لجنات کی نمائندگان بھی تشریف لائی ہوئی تھیں.جبکہ گذشتہ اجتماع میں ۵۲ لجنات کی تقریباً ۳۹۹ نمائندگان نے شرکت کی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اجتماع کے دوسرے دن مستورات سے خطاب فرمایا.آپ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اگر عورت چاہے تو اس طرح زندگی گزار سکتی ہے کہ اس کے پاؤں ہمیشہ جنت کی زمین پر رہیں.اس میں جہاں ایک طرف تربیت اولاد کے متعلق اشارہ ہے وہاں یہ بھی بتایا کہ اگر وہ اس طرح سے رہے گی اور اولاد کی صحیح تربیت کرے گی تو اس کی زندگی پر سکون اور امن والی ہوگی.اس کے علاوہ حضور نے مستورات کو توجہ دلائی کہ وہ بچیوں کو بچپن ہی سے مالی قربانی کرنے کے لئے تیار کریں.اپنے گھروں کا ماحول ایسا پیدا کریں کہ ان کی گود کے پلے ہوئے بچے بڑے ہو کر
تاریخ احمدیت.جلد 23 585 سال 1966ء اسلام اور احمدیت کے مجاہد نہیں.نیز فرمایا کہ میرے دل کی خواہش اور تڑپ ہے کہ آئندہ تین سال کے اندر اندر جماعت کے تمام افراد کو قرآن کریم پڑھا دیا جائے.اور اس کام کے لئے عورتوں کا تعاون از حد ضروری ہے.اس کے بعد آپ نے رسومات سے پر ہیز کرنے کی نصیحت فرمائی اور آخر میں آپ نے دعا کرائی.مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع اس سال کا اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ واطفال الاحمدیہ مرکزیه ( منعقده ۲۱ - ۲۳ /اکتوبر ۱۹۶۶ء) خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کا پہلا مرکزی اجتماع تھا.جس میں ۳۶ بیرونی مجالس کے ۶۰۴ نمائندہ اطفال اور ربوہ کے ۱۸ حلقہ جات کے ۱۰۵۷ر اطفال اور اسی طرح مجموعی طور پر ۱۷۶۳ خدام نے شرکت کی جن میں ربوہ کے خدام کی تعداد ۰۶۵اتھی.جس میں حضرت امام ہمام کے افتتاحی اور اختتامی خطاب کا لطیف خلاصہ حضور کے مبارک الفاظ میں یہ تھا کہ :.”باتیں کرنے کا وقت ختم ہوا.آؤ اب کچھ کام کریں.“ حضور نے اس اجمال کی تفصیل پر روشنی ڈالتے ہوئے نونہالانِ احمدیت کو پوری وضاحت سے بتایا کہ محض باتیں جن کے ساتھ ، جن کے پیچھے، جن کے متوازی عمل نہ ہو محض بے نتیجہ رہتی ہیں.اور ان کی حیثیت محض ایک گپ سے زیادہ نہیں ہوتی.محض باتیں جن کے ساتھ عمل نہ ہوں نہ تو کوئی کام دے سکتی ہیں.اور نہ تسلی کا موجب ہو سکتی ہیں.تاوقتیکہ ان پر عمل نہ کیا جائے.اور اس عمل کے ذریعہ سے انجام بخیر نہ ہو.پس اگر ہم اب تک باتیں کرتے رہے ہیں.تو باتیں کرنے کے دن ختم ہو گئے.اب کام کے دن ہیں.ہم نے بہت کچھ سنا ہے.اب ہمیں کام بھی کرنا چاہئے.اور کام بھی وہ کرنے چاہئیں جن کے کرنے کی خلفاء نے ہم کو بحیثیت خدام ہدایت کی ہے.اور ہمارے لئے انہوں نے جو لائحہ عمل بنایا ہے.ہمیں اس کو پورا کرنا چاہئیے.اگر ہم اس لائحہ عمل کو تو پورا نہ کریں اور اپنے لئے اور ہی پروگرام تجویز کریں تو یہ بے معنی بات ہوگی.تقویٰ کی رٹ لگانے سے تقویٰ حاصل نہیں ہوسکتا.عند اللہ تقویٰ اور نفس کا تزکیہ حاصل کرنے کے لئے ہمیں ان باریک راہوں پر چلنا ہوگا.جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان کی ہیں.اور جن کی تفصیل رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 586 سال 1966ء اور جن کا رسول اللہ ﷺ نے عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا.تقویٰ کوئی تعویذ نہیں کہ جس کو بار بار دہرانے سے انسان میں تبدیلی آجائے.بس اس کے لئے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کی بتائی ہوئی باریک راہوں پر چلنے کی ضرورت ہے.حضور نے واضح فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کے وہی کام عمل صالح ہو سکتے ہیں.جو خلیفہ وقت نے بتائے ہوں.اور پھر وہ خلیفہ وقت کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق کئے جائیں.اس لحاظ سے خدام کا لائحہ عمل وہی ہے.جو حضرت مصلح موعود نے ان کے لئے مقر فر مایا اور آپ کے بعد جو بھی خلیفہ ہو وہ مقرر کرے.حضور نے فرمایا میرا آج کا بلکہ ہمیشہ کا پیغام یہ ہے کہ اپنے نفسوں پر اس موت کو وارد کرو.جسے ہمارے بزرگوں نے اپنے نفسوں پر وارد کیا تھا.انہوں نے ہمہ نیستی اور تذلیل کا جامہ اسی طرح پہنا تھا کہ وہ اپنی بزرگی کو اخفا میں رکھتے تھے.وہ خودی و خود نمائی اور خود آرائی و خودروی سے کوسوں دور تھے.جب تک ہم نیستی اور تذلل اختیار کر کے اپنے نفسوں پر ہزاروں موتیں وارد نہیں کرتے اس وقت تک اسلام کے غلبہ اور اس کی فتح کا دن جسے دیکھنے کے ہم خواہش مند ہیں نہیں آسکتا.امسال کے اجتماعات کو یہ خاص اہمیت حاصل ہے کہ یہ خلافت ثالثہ کے نئے مبارک و مقدس دور میں منعقد ہونے والے پہلے اجتماع ہیں اور پھر ان کا انعقاد ایک سال کے وقفہ کے بعد عمل میں آیا ہے کیونکہ گزشتہ سال ملک میں ہنگامی حالات کی وجہ سے اجتماعات منعقد نہیں ہو سکے تھے.مزید برآں ان اجتماعات کو ایک اور خصوصیت بھی حاصل ہے اور وہ یہ کہ امسال خدام کا اجتماع چھ سال کے وقفہ کے بعد از سر نو قدیمی طریق کے مطابق کیمپ کی طرز پر خدام کے نصب کردہ اپنے خیموں میں منعقد کیا گیا ہے.قبل ازیں ۱۹۶۱ء سے ۱۹۶۴ ء تک سالانہ اجتماعات رہائشی خیموں کے بغیر ہی جلسہ گاہ کی طرز پر شامیانوں اور قناتوں سے تیار کردہ مقام اجتماع میں منعقد ہوتے رہے تھے.اسی طرح اطفال کے اجتماع کے انعقاد کا نظام امسال پہلی بار ایوان محمود خدام الاحمدی کے زیراتمیر بالا میں کیا گیاہے.137- حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا پیغام لجنہ اماءاللہ نوشہرہ کے زیاں کے نام نوشہرہ کے زیاں ضلع سیالکوٹ کی لجنہ اماءاللہ نے حضور سے اپنی مجلس کے لئے پیغام بھجوانے کی درخواست کی تھی.جس پر حضور نے از راہ شفقت جو پیغام دیا اس کا متن درج ذیل ہے.لجنہ اماءاللہ پر اہم ترین ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کی کوشش
تاریخ احمدیت.جلد 23 587 سال 1966ء کریں کہ ان کے خاندان کا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جو قرآن کریم با ترجمہ نہ جانتا ہو.اگر آپ اس میں کامیاب ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمتوں کی وارث ہوں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین مرزا ناصر احمد خلیفہ امسح الثالث 138 مسجد اقصیٰ ربوہ کی بنیاد حضرت مصلح موعود کی مبارک دعاؤں کے طفیل ربوہ کی آبادی میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا.اور ۲۷ مساجد تعمیر ہو چکی تھیں.مگر چند سالوں سے پوری شدت سے یہ محسوس کیا جارہا تھا کہ مسجد مُبارک مرکزی اور جماعتی تقریبات کے لئے ناکافی ہے.اس ضرورت کے پیش نظر ربوہ کی مقامی جماعت (ان دنوں ربوہ کی مقامی انجمن کے صدر عمومی مولوی محمد صدیق صاحب مرحوم سابق انچارج خلافت لائبریری تھے ) کی تجویز پر مجلس مشاورت ۱۹۶۴ ء نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں سفارش کی وو ر بوہ میں جامع مسجد کی تعمیر کی اجازت مرحمت فرمائی جائے.۶۵ ۱۹۶۴ء میں ایک لاکھ روپیہ مشروط بہ آمد رکھا جائے.“ حضور نے یہ سفارش منظور فرمائی جس پر صدرانجمن احمدیہ نے نظارت اصلاح وارشاد کے سپر د یہ خدمت فرمائی.جس کے ناظر ان دنوں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس تھے.نظارت کی طرف سے ۷ جولائی ۱۹۶۴ء کو الفضل میں پہلی بار چندہ کی اپیل شائع کی گئی تو کئی مخلصین جماعت نے حسب استطاعت اس مد میں رقوم بھی بھجوانا شروع کر دیں.۲۱ جولائی ۱۹۶۴ء کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدرصد رانجمن احمدیہ کی طرف سے بذریعہ فون یه پیغام دفتر نظارت اصلاح وارشاد کو ملا کہ اب چندہ کی اپیل چھپوانے کی ضرورت نہیں مطلوبہ رقم کا انتظام ہو گیا ہے.جو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کا ایک چمکتا ہوا نشان تھا.بات یہ ہوئی کہ سلسلہ کے ایک نہایت مخلص اور مخیر بزرگ حضرت میاں محمد صدیق صاحب بانی کے دل میں جناب الہی کی طرف سے یہ تحریک ہوئی کہ خدا کے اس گھر کی تعمیر کا تمام خرچ وہ خود برداشت کریں.چنانچہ اُنہوں نے صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے ذریعہ حضرت مصلح موعود کی خدمت میں درخواست کی کہ اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 588 سال 1966ء کارخیر میں اُن کی طرف سے ایک لاکھ قبول فرمایا جائے اور انہیں اجازت عطا فرمائی جائے کہ اس سے زائد بھی جو اخراجات ہوں اُسے بھی وہ خود ادا کریں.بارگاہ خلافت کی طرف سے یہ درخواست بھی منظور کر لی گئی.مگر اُن کی خواہش کے مطابق اُن کا نام مخفی رکھا گیا.یہ وسط اگست ۱۹۶۴ء کا واقعہ ہے.جس کے معا بعد تعمیر کے ابتدائی انتظامات شروع کر دیئے گئے چنانچہ صدرانجمن احمدیہ نے عمارت کے نقشہ اور اس کی تعمیر کے لئے مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر اصلاح وارشاد (کنونیر)، میاں عبدالحق صاحب را مه ناظر بیت المال ،آمد مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور عامہ، ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب پر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل کر دی.مولانا جلال الدین صاحب شمس ان دنوں دو ماہ کے لئے کوئٹہ تشریف لے گئے تھے.اس لئے اُن کی قائم مقامی میں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد (سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ ) نے ان کے قائم مقام کی حیثیت سے پورے ذوق وشوق اور جذبے سے کارروائی جاری رکھی اور کمیٹی کے اجلاس بلاتے رہے.چنانچہ مولانا شیخ مبارک احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس چونکہ ان دنوں دو ماہ کے لئے کو منہ تشریف لے گئے تھے.خاکسار ان کی قائم مقامی میں کمیٹی کے اجلاس بلاتا رہا.کام با قاعدہ شروع ہو جانے پر کمیٹی کی درخواست پر صدرانجمن احمدیہ نے خاکسار کو سیکرٹری مقرر کیا اور محترم میاں عبدالحق صاحب رامہ ناظر بیت المال آمد اور خاکسار کو مشترکہ طو پر جامع مسجد کی امانت OPERATE کرنے کا ارشاد فرمایا.جامع مسجد کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کمیٹی نے پندرہ اجلاس منعقد کئے.ان اجلاسوں میں کمیٹی کی خصوصی دعوت پر محترم قاضی محمد رفیق صاحب، محترم شیخ عبدالحق صاحب، محترم میاں عبدالغنی صاحب رشدی محترم سردار بشیر احمد صاحب محترم مرزا مقصود احمد صاحب اور محترم چوہدری عبد القادر صاحب وقتاً فوقتاً شامل ہوتے رہے.تعمیر کمیٹی نے ۲۲ جون ۱۹۶۵ءکو مختلف تجاویز اور نقشوں پر غور کرنے کے بعد صدرانجمن احمد یہ میں اپنی رپورٹ مع سفارشات و نقشہ پیش کی.جس پر محترم صدر صاحب صدر انجمن احمدیہ ( جو اس وقت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ( خلیفہ المسیح الثالث) تھے ) نے ۱۸ جولائی ۱۹۶۵ء کومزید مشورہ اور غور کے لئے انجینئرز کی میٹنگ بلائی.اخراجات کو کم کرنے اور افادیت کے نقطہ نگاہ سے بعض تبدیلیاں ضروری
تاریخ احمدیت.جلد 23 589 سال 1966ء سمجھی گئیں.ترمیم شدہ سفارشات صدر انجمن احمد یہ میں بھجوائی گئیں.صدرانجمن احمدیہ نے اپنے اجلاس منعقده ۲۴ را گست ۱۹۶۵ء میں کمیٹی کو اجازت مرحمت فرمائی کہ انجمن کی منظور شدہ تازہ ہدایات اور ترمیمات کے مطابق نقشہ منظور کروا کر کام شروع کیا جائے.کمیٹی نے محترم جناب عبدالغنی صاحب رشدی کو ضروری ہدایات اور تفصیلات سے اطلاع دی اور نقشہ بنانے کے لئے ان سے درخواست کی گئی.ستمبر ۱۹۶۵ء میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ گئی.جنگ ختم ہونے پر ایک عرصہ تک ملک ہنگامی حالات سے متاثر رہا.حالات کے سازگار ہونے پر قبل اس کے کہ تعمیر کا کام شروع کیا جا تا.نومبر ۱۹۶۵ء میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وفات المناک کا سانحہ جماعت کو پیش آیا.ان وجوہ اور حالات کی بناء پر جامع مسجد کی تعمیر کا کام التواء میں رہا.خلافت ثالثہ کے بابرکت دور کے آغاز پر جونہی حالات نے پلٹا کھایا اور فضا سازگار ہوئی تو اس کام کی طرف پھر توجہ دی گئی.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں کمیٹی کا اجلاس ہوا.اور ایک اجلاس حضور نے قصر خلافت میں بلایا اور فوری طور پر کام شروع کرنے کے لئے ہدایت فرمائی.اللہ تعالیٰ محترم رشدی صاحب کو جزائے خیر دے.وہ باوجود روز مرہ کی مصروفیات کے حضور کی تازہ ہدایات کے پیش نظر از سرنو نقشوں کے تیار کرنے میں مصروف ہو گئے.انہیں حضور کی ہدایت کے مطابق ٹھٹھہ کی مسجد دیکھنے کے لئے بھی بھجوایا گیا.کمیٹی نے اس سے قبل انجینئروں کی معیت میں واہ کی مسجد کو بھی دیکھا.لاہور کی شاہی مسجد اور دہلی کی جامع مسجد کے نقشوں کو بھی پیش نظر رکھا گیا.ایک عظیم اور وسیع مسجد کی تعمیر کے لئے ایک لاکھ روپے کا سابقہ اندازہ بہت کم سمجھا گیا.نئے اندازوں کے مطابق جامع مسجد کی تعمیر کے لئے چار لاکھ روپیہ کی ضرورت ہوگی.میاں محمد صدیق بانی صاحب کو جنہوں نے ایک لاکھ روپے کی ذمہ داری قبول کی تھی.اس صورت حال کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس ساری رقم کو بخوشی قبول کرتے ہوئے نئے اندازے کے مطابق ساری مطلو به رقم مہیا کر دی.140- میاں محمد صدیق بانی صاحب فرماتے ہیں کہ : ربوہ کا بطور مرکز سلسلہ بنائے جانے کے فیصلہ کے بعد حضرت مصلح موعود کی طرف سے الفضل میں اپیل کی گئی کہ ربوہ میں مسجد کی تعمیر کے لئے احباب وعدے کریں اور جلد ادا ئیگی کریں.اس پر میں نے فوراً ایک بڑی رقم کا چیک حضور کی خدمت میں بھیج دیا.اس پر حضور نے اس مسجد کی تعمیر کے دیگر
تاریخ احمدیت.جلد 23 590 سال 1966ء کوائف کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل فرمائی.کمیٹی کا جائزہ میری پیش کردہ رقم سے تین گنا تھا.حضور کی ہدایت پر مجھ سے دریافت کیا گیا آیا میں مزید مطلوبہ رقم فراہم کرسکتا ہوں.یا اس بارے میں احباب جماعت کو تحریک کی جائے.میں نے خط ملتے ہی فور أخط لکھا کہ مطلوبہ رقم فراہم کرنے کا میں وعدہ کرتا ہوں.لیکن کچھ عرصہ بعد الفضل میں اس رقم کے بارے میں تحریک دیکھ کر میں حیران ہوا کہ میں تو رقم مہیا کرنے کا وعدہ بھجوا چکا ہوں.پھر یہ تحریک کیوں اور کس طرح کی گئی ہے.اور میں نے حضرت اقدس کی خدمت میں لکھا کہ میں اس تحریک سے سمجھا ہوں کہ میرا خط حضور کی خدمت میں نہیں پہنچا، یا یہ بات ہے کہ اس کے علاوہ رقم کی ضرورت ہے.اس پر تلاش کروانے پر پرانی ڈاک میں سے میرا خط ان کھلا برآمد ہوا.حضور نے اس کی رسیدگی سے مجھے اطلاع بھجوائی.اور اظہار مسرت فرمایا کہ یہ رقم مسجد کی تعمیر کے لئے کافی ہوگی.تعمیر شروع ہونے پر میں نے ثواب کی خاطر حضور کی خدمت میں تحریر کیا کہ اس سلسلہ میں مزید رقم درکار ہو تو وہ بھی میری طرف سے مہیا ہوگی.کسی اور سے وصول نہ کی جائے.چنانچہ تعمیر کے ساتھ ساتھ میری طرف سے اخراجات مہیا کئے جاتے رہے.اس دوران اللہ تعالیٰ نے ایک بھاری مصیبت سے میرے ایک بھاری سرمایہ کو محفوظ رکھا.جبکہ دوسروں کے ایسے سرمائے ضائع چلے گئے.ضائع ہونے کا موقع پیدا ہونے سے پہلے میرے ایک عزیز کو خیال آیا اور اس نے وہ خطیر رقم حاصل کر لی.گویا اس مسجد کی تعمیر کی برکت سے وہ ضائع ہونے سے محض فضل خداوندی سے محفوظ رہی.میاں محمد صدیق بانی صاحب نے کمال انکساری سے بتایا کہ میں قلبی سکون سے کہہ سکتا ہوں کہ اس مسجد کی تعمیر پر جو کچھ اخراجات بھی مجھے کرنے پڑے ان کی وجہ سے مجھے کوئی کاوش نہیں ہوئی.یہ احسان باری تعالیٰ ہے کہ اُس نے میرے نام سے کام خود ہی کر دیا.141 66 ۲۸ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو صبح آٹھ بجے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ خُدا کے اس نئے گھر کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیا درکھا.اس مبارک تقریب میں، جو بروز جمعہ آٹھ بجے صبح عمل میں آئی.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد صحابہ مسیح موعود علیہ السلام، صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید انجمن احمدیہ کے ناظران اور وکلاء حضرات متعدد ڈویژنل امراء صاحبان، ربوہ کے تعلیمی اداروں کے سربراہان واساتذہ، جامعہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 591 سال 1966ء احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے والے غیر ملکی طلبہ، ربوہ کے مرکزی اداروں کے کارکنان اور دیگر اہل ربوہ کثیر تعداد میں شریک ہوئے.کم و بیش پانچ ہزار افراد نے اس بابرکت تقریب میں شمولیت کی سعادت حاصل کی.جلسہ سالانہ کے میدان میں بزرگوں کے لئے شامیانہ کے نیچے کرسیوں پر نشست کا انتظام تھا.حضور کے رونق افروز ہونے کے بعد صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب نے تلاوت کی.بعد ازاں سیکرٹری تعمیر کمیٹی نے ایک نہایت معلومات افزار پورٹ پڑھ کر سنائی جس میں منصوبہ تعمیر کے تمام ضروری مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا.ہوگا.ا.جامع مسجد کے نقشہ کے مطابق مسجد کا ہال ۲۲۰×۶۰ - ۱۳۲۰۰ مربع فٹ بغیر ستونوں کے ۲.ہال کے آگے ۲۰×۲۲۰ = ۴۴۰۰ مربع فٹ Interfloor برآمدہ اور ۱۵۰×۲۲۰=۳۳۰۰۰ مربع فٹ کا صحن ہوگا.ہال، برآمدہ اور صحن میں بالترتیب ۲۳۰۰، ۷۰۰ اور ۵۵۰۰ نمازیوں کے لئے گنجائش ہوگی اس طرح کل ۱۸۵۰۰ افراد اس مسجد میں نماز ادا کر سکیں گے.مسجد مبارک کے مستقف حصہ کا رقبہ ۱۲۰×۳۰=۳۶۰۰ ہے اور محن ۱۲۰×۱۰۰=۱۲۰۰۰ ہے..یہ مسجد فریم سٹرکچر یعنی صرف ستونوں پر کھڑی ہوگی بعد میں دیواریں تعمیر کی جائیں گی.۴.مشرقی جانب MAIN ENTRANCE کے سامنے ۶۰×۶۰ کا کشادہ چبوترہ ہوگا جو جلسہ کے ایام میں سٹیج کے طور پر کام آسکے گا.جلسہ گاہ بیضوی شکل کا رکھا گیا.مشرقی جانب گیلریز کے لئے بھی گنجائش رکھی گئی ہے.یہ میدان سپورٹس سٹیڈیم کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکے گا.۵.مسجد کا بڑا مینار جس کا بنانا فی الحال نقشہ میں شامل نہیں.صحن کے شمال مشرقی کو نہ پر ۱۵۰ فٹ اونچا ہو گا.یہ مینار لائنکپور سرگودھا روڈ سے آنے والی سڑک شارع روضہ کے عین وسط میں ہوگا اور جرنیلی سڑک سے بخوبی نظر آسکے گا.یہ مینار بعد میں کسی وقت تعمیر ہوگا.انشاء اللہ مسجد کی ELEVATION میں مغل فن تعمیر کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے.مگر ماڈرن آرکیٹکچر میں لو ہے اور کنکریٹ کی وجہ سے جو ترقی ہوئی ہے اس سے بھی پورا پورا فائدہ اٹھایا گیا ہے.جدید فن تعمیر میں شیشہ کو بھی خاص مقام حاصل ہو چکا ہے.چنانچہ مینار کا بالائی حصہ پورے کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 592 سال 1966ء پورا شیشہ کا ہوگا.اور ہشت پہلو ہرسہ گنبدوں میں بھی شیشہ کا استعمال تجویز کیا گیا ہے.اس مسجد کی تعمیر کے دوران نگرانی کا کام حضور کی اجازت سے مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب انجینئر کے سپرد کیا گیا.رپورٹ کے بعد حضور نے جذبات تشکر سے لبریز ہوکر پر معارف خطاب فرمایا:.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس موقع پر جبکہ ہم یہاں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اپنے پیارے مصلح موعود کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے مسجد اقصی ربوہ کی بنیاد رکھیں.دعا کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے ہوئے کہ اے ہمارے رب ! تو نے جس مکان کی توسیع کا حکم دیا تھا آج ہم پھر ایک بار اس مکان کی وسعت کے سامان پیدا کر رہے ہیں.اگر ہم سے کوئی ظاہری یا باطنی گناہ سرزد ہو.یا کوئی ایسی چیز ہمارے دلوں اور خیالات میں ہو جو تجھے نا پسندیدہ ہو تو ہمارے دلوں اور خیالات کو اس سے پاک کر دے تا کہ یہ گھر جو تیرے نام پر کھڑا کیا جا رہا ہے.صرف تیرے نام کو ہی بلند کرنے والا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا تھا.وَسْع مَكانَكَ ابھی جب میں دُعا میں مشغول تھا.میرا خیال اس طرف گیا کہ وہ کونسا مکان تھا.جس کی وسعت کے لئے اس الہام میں حکم پایا جاتا ہے تو میری توجہ اس طرف پھری کہ بعثت سے قبل جو گھر آپ نے اپنے لئے پسند کیا.اور چنا اور جس میں اپنے وقت کا اکثر حصہ گزارا وہ خدا کی مسجد ہی تھی.اسی لئے لوگ عام طور پر آپ کو وو مسیتل “ کہتے تھے.تو اس الہام میں ایک یہ بھی حکم ہے کہ تم مساجد کو بڑھاتے چلے جاؤ.نمازی میں پیدا کرتا چلا جاؤں گا.اپنے رب کے حضور ہمارے دلوں کی گہرائیوں اور روح کی وسعتوں سے یہ دعا ہے کہ اے خدا!! ہم تیرے حکم کے ماتحت ایک اور گھر تیرے نام پر بنارہے ہیں.تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ اس کی بنیا دوں سے لے کر اس کے مینار
تاریخ احمدیت.جلد 23 593 سال 1966ء کی بلندیوں تک یہ ساری کی ساری عمارت تقویٰ سے بنی ہوئی ہو.گارا یا مٹی یا اینٹ یا سیمنٹ یا لوہا جو اس میں لگا ہوا ہو.وہ تقویٰ میں اتنا سیچوریٹ (Saturate) ہو چکا ہوا ہو کہ وہ اینٹ اینٹ نہ رہے.وہ سیمنٹ سیمنٹ نہ رہے.وہ لوہا لوہا نہ رہے بلکہ جو محبت تیرے لئے ہمارے دلوں میں ہے.اور تجھ سے جو خوف ہم اپنی روحوں میں پاتے ہیں کہ کہیں تیری ناراضگی کو مول لینے والے نہ بن جائیں.ان دو جذبات میں ہر چیز ایسی لپٹی ہوئی ہو کہ یہی دو جذبات ظاہر و باہر اور اندر اور باطن میں ہوں.اور مادی نہیں بلکہ حقیقۂ روحانی اجزاء سے ہماری مساجد کی تعمیر ہو.اور تیرا نام ہمیشہ ان مقامات سے بلند ہوتا رہے.اور ہمیشہ وہ لوگ جو اُن کی طرف منسوب ہونے والے ہوں.اپنے نفسوں کو تیری راہ میں کلیڈ مٹا کر، تجھ پر کلیۂ شمار ہوکر تیرے نام کو ہمیشہ بلند کرنے والے ہوں اور تیری توحید خالص کی ان مکانوں اور ان مساجد سے ایسی مؤثر آواز اٹھتی رہے کہ جس کے کان میں وہ آواز پڑے اس کے دل کی گہرائیوں تک اُترتی چلی جائے.تا کہ دنیا تجھے پہچاننے لگے.تیری عظمت اور تیرا جلال دنیا میں قائم ہوتا کہ تیری عزت اور تیری توحید کی معرفت انسان حاصل کرے.اور ہمارا وجود اس سعی میں کلیہ مٹ جائے اور تا کہ جب تو اپنے پاک اور مطہر اور مقدس ہاتھ سے از سر نو ہماری تشکیل کرے تو وہ خالص روحانی اور تیری نگاہ میں ایک پیاری تشکیل ہو اور تاکہ ہمیشہ تیری رضا ہمیں حاصل رہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس وقت دل اور روح اپنے کام میں زیادہ مشغول ہیں.دعاؤں میں لگے ہوئے عاجزانہ جذ بہ نیستی موجزن ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ میرے یہ چند فقرے ہی اس وقت کافی ہیں.اب ہم نہایت عاجزی کے ساتھ اور اپنے جسم کے ذرہ ذرہ کی دعاؤں کے ساتھ اور اپنی روح کے ساتھ جو اس وقت کلیہ آستانہ الہی پر جھکی ہوئی ہے.دعائیں کرتے ہوئے اس مسجد کا سنگ بنیا درکھیں گے.اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سُنے اور ان دعاؤں اور الہامات کا ہمیں وارث بنائے.جو دعا ئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ تعالیٰ کے حضور کرتے
تاریخ احمدیت.جلد 23 594 سال 1966ء رہے.اور جن پیارے کلمات (الہامات) سے اللہ تعالیٰ آپ کی جماعت کے متعلق 145 آپ کو مخاطب فرما تا رہا.آمین اس پر اثر خطاب کے بعد حضور نے ممبران تعمیر کمیٹی اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلو میں دعائیں کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ قادیان کی ایک اینٹ بنیاد میں اپنے دست مبارک سے نصب فرمائی اس کے بعد چھ مزید ا ینٹیں نصب کیں.اس دوران حضور اور جملہ حاضرین دُعاؤں میں مصروف تھے.پہلی تین اینٹیں مولانا شیخ مبارک احمد صاحب نے اور باقی چار بالترتیب حسب ذیل اصحاب نے حضور کی خدمت میں پیش کیں.چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر زراعت، مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی ربوہ، چوہدری نذیر احمد صاحب انجینئر نگران تعمیر ، صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ایم اے.بعد ۂ حسب پروگرام حسب ذیل صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمبران تعمیر کمیٹی ، صدرانجمن اور تحریک جدید کے ناظر و وکلاء صاحبان ، علماء سلسله، بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے والے مبلغین، ڈویژینل امراء کرام تعلیمی اداروں کے سر براہ، جامعہ احمدیہ کے غیر ملکی طلبہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے دو منتخب اطفال نے بنیاد میں اینٹیں رکھیں جن کے اسماء درج ذیل ہیں:.(۱) حضرت مولوی محمد دین صاحب صحابی صدرصد را مجمن احمد یہ پاکستان (۲) حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب صحابی (۳) حضرت ڈپٹی میاں محمد شریف صاحب صحابی (۴) حضرت مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری صحابی (۵) حضرت پیر مظہر الحق صاحب صحابی (۶) حضرت بابا دین محمد صاحب مالی صحابی (۷) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب صحابی و ناظر اعلی صدرانجمن احمدیہ پاکستان (۸) محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلیٰ تحریک جدید (۹) محترم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ( آپ نے حضور انور کے ارشاد کی تعمیل میں دوا مینٹیں بنیاد میں رکھیں) (۱۰) محترم مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری قائم مقام ناظر اصلاح وارشاد (۱۱) محترم میاں عبدالحق صاحب رامه ناظر بیت المال ممبر تعمیر کمیٹی (۱۲) محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر امور عامہ ہمبر تعمیر کمیٹی (۱۳) محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ناظم وقف جدید ہمبر تعمیر کمیٹی (۱۴) محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ممبر تعمیر کمیٹی (۱۵) محترم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب سیکرٹری تعمیر کمیٹی (۱۶) محترم صوفی محمد رفیع صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ خیر پورڈویژن (۱۷) محترم خان شمس الدین خان صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ پشاور وڈیرہ اسمعیل خان ڈویژن (۱۸) محترم
تاریخ احمدیت.جلد 23 595 سال 1966ء مولوی محمد صاحب امیر جماعت ہائے احمد یہ مشرقی پاکستان (۱۹) محترم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل (۲۰) محترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ (۲۱) محترم صاحبزادہ مرزار فیع احمد صاحب صدر خدام الاحمدیہ مرکزیہ (۲۲) محترم پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج (۲۳) محترم سید داؤ د احمد صاحب پرنسپل جامعہ احمدیہ (۲۴) مکرم یوسف عثمان صاحب آف مشرقی افریقہ طالب علم جامعہ احمدیہ.(۲۵) مکرم حسن بصری صاحب آف انڈونیشیا طالب علم جامعہ احمدیہ (۲۶) محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر سابق مبلغ انچارج احمد یہ مشن گھانا (۲۷) محترم مولانا محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا، ملا یا وسنگا پور (۲۸) محترم حافظ عبدالسلام صاحب وکیل المال تحریک جدید (۲۹) محترم شیخ عبدالحق صاحب انجینئر مشیر تعمیر (۳۰) مکرم عبدالغنی صاحب رشدی راولپنڈی مشیر آرکیٹیکٹ (۳۱) حضرت مولوی محمد جی صاحب صحابی (۳۲) عزیز لئیق احمد عابد طفل ( حال وکیل صنعت و تجارت ) ابن مکرم چوہدری بدرالدین صاحب انسپکٹر تحریک جدید (۳۳) عزیز وحید احمد طفل ابن مکرم میاں عبدالحمید صاحب جنجوعہ پی ڈبلیو آئی.نمائندہ اصحاب کے بنیاد میں اینٹیں رکھنے کے بعد حضورانور نے دیگر جملہ حاضر صحابہ کرام واہم افراد سلسلہ کو بھی بنیاد میں اینٹیں رکھنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ جن مقامی اور بیرونجات کے صحابہ کرام اور دیگر احباب نے اس موقع پر بنیاد میں اینٹیں رکھیں ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں.(۱) محترم میاں محمد بوٹا صاحب سابق مؤذن مسجد اقصیٰ قادیان (۲) محترم چوہدری علی محمد صاحب بی.اے ، بی.ٹی (۳) محترم مولوی محب الرحمن صاحب (۴) محترم حاجی محمد فاضل صاحب ربوه (۵) محترم مرزانذیر علی صاحب ربوه (۲) محترم شیخ کظیم الرحمن صاحب ریٹائرڈ ہیڈ کلرک نظارت اصلاح وارشادر بوه (۷) محترم صوفی غلام محمد صاحب ناظر بیت المال (خرچ) (۸) محترم حکیم عبید اللہ صاحب رانجھا ر بوه (۹) محترم میاں نور محمد صاحب گنج مغلپورہ لا ہور (۱۰) محترم خدا بخش صاحب (۱۱) محترم چوہدری عطاء محمد صاحب جڑانوالہ (۱۲) محترم عبدالعزیز صاحب ٹھیکیدار.ربوہ (۱۳) محترم جناب شیخ عبدالعزیز صاحب لائل پور (۱۴) محترم منشی عبدالحق صاحب ربوه (۱۵) محترم ماسٹر عطاء محمد صاحب ربوه (۱۶) محترم قریشی نور حسین صاحب کوٹلی لوہاراں (۱۷) محترم ڈاکٹر بھائی محمود احمد صاحب سرگودھا (۱۸) محترم مرزا محمد حسین صاحب ربوه (۱۹) محترم شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی (۲۰) محترم ملک غلام نبی صاحب ڈسکہ (۲۱) محترم نور محمد صاحب ربوه (۲۲) محترم فقیر محمد
تاریخ احمدیت.جلد 23 596 سال 1966ء صاحب سیکھوانی ربوه (۲۳) محترم مولوی محمد حسین صاحب مربی سلسله (۲۴) محترم علی گوہر صاحب ربوه (۲۵) محترم حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی ربوه (۲۶) محترم مرزا برکت علی صاحب ربوه (۲۷) محترم خواجہ عبید اللہ صاحب ربوہ (۲۸) محترم میاں عبداللہ صاحب جلد ساز ربوه (۲۹) محترم حکیم عبد العزیز صاحب ربوه (۳۰) محترم علی احمد صاحب ٹھیکیدار بوه (۳۱) محترم مہر اللہ صاحب لائل پور (۳۲) محترم شیخ حمد بخش صاحب ربوه (۳۳) محترم شیخ فتح دین صاحب ربوه (۳۴) محترم مولوی فضل دین صاحب وکیل ربوه (۳۵) محترم چوہدری عبدالحمید خان صاحب کا ٹھگر بھی ربوہ (۳۶) محترم میاں روشن دین صاحب زرگر اوکاڑہ (۳۷) محترم فقیر اللہ صاحب لاہور (۳۸) محترم میاں اللہ بخش صاحب راولپنڈی (۳۹) محترم میاں اکبر علی صاحب لاہور (۴۰) محترم حکیم محمد صدیق صاحب آف میانی ضلع سرگودھا حال ربوه (۴۱) محترم مہر دین صاحب ٹھیکیدارر بوه (۴۲) محترم ملک نبی محمد صاحب گھوگھیاٹ (۴۳) محترم خدا بخش صاحب مومن جی (۴۴) محترم مرزا سلام اللہ صاحب چنیوٹ (۴۵) محترم رحیم بخش صاحب (۴۶) محترم محمد ظہور خان صاحب پٹیالوی احمد نگر (۴۷) محترم حافظ عبدالسمیع صاحب امروہوی (۴۸) محترم سید امجد علی صاحب سیالکوٹ (۴۹) محترم محمد عبد اللہ صاحب ٹھیکیدار ربوه (۵۰) محترم ماسٹر عبدالعزیز صاحب گوجرانوالہ (۵۱) محترم ڈپٹی فقیر اللہ صاحب ربوہ (۵۲) محترم حکیم رحمت اللہ صاحب ربوہ (۵۳) محترم میاں علم دین صاحب ربوہ (۵۴) محترم شیخ مسعود الرحمن صاحب نارنگ منڈی (۵۵) محترم میاں سعد محمد صاحب لاہور (۵۶) محترم ملک حبیب الرحمن صاحب ربوہ (۵۷) محترم کیپٹن محمد سعید صاحب ربوه (۵۸) محترم قاضی عبدالحمید صاحب ربوه (۵۹) محترم ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب ربوہ (۲۰) محترم محمد صادق صاحب فاروقی قصور (۶۱) محترم ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب سانگلہ ہل.اجتماعی دعا جب سب احباب بنیاد میں اینٹیں رکھ چکے تو حضور نے ایک پر سوز اجتماعی دعا کرائی.جس میں اس تقریب پر آئے ہوئے ہزاروں احباب شریک ہوئے.اس طرح مرکز سلسلہ میں تعمیر ہونے والی اس عظیم تاریخی جامع مسجد کا سنگ بنیادرکھنے کی تاریخی تقریب جو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے درمیان عمل میں آئی اُسی کے حضور دعاؤں پر نو بجے صبح خیر و خوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 597 سال 1966ء شیرینی کی تقسیم اور گروپ فوٹوز اجتماعی دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور اسٹیج پر تشریف لا کر صدر جگہ پر رونق افروز ہوئے.حضور نے اس وقت جامع مسجد کے تفصیلی نقشہ جات ملاحظہ فرمائے جو انجینئروں ، آرکیٹیکٹ اور سیکرٹری صاحب تعمیر کمیٹی نے حضور کی خدمت میں پیش کئے.سیکرٹری تعمیر کمیٹی کی طرف سے جملہ حاضرین کی خدمت میں شیرینی پیش کی گئی.جو پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند تھی.نقشہ جات ملا حظہ فرمانے اور ضروری ہدایات دینے کے بعد حضور نے تعمیر کمیٹی کی درخواست پر از راہ شفقت دوگروپ فوٹوز میں شرکت فرمائی.پہلا گروپ فوٹو حضور نے ان جملہ احباب کے ساتھ کھنچوایا جنہوں نے حضورانور کے بعد بنیاد میں اینٹیں رکھی تھیں.دوسرے گروپ فوٹو میں حضور کے ساتھ صرف تعمیر کمیٹی کے ممبران شریک ہوئے.اس کے بعد ساڑھے نو بجے کے قریب حضور بذریعہ موٹر کار قصر خلافت واپس تشریف لے گئے.تقریب کے دیگر کوائف اس تقریب کے سلسلہ میں دس بکرے بطور صدقہ ذبح کر کے ان کا گوشت غرباء میں تقسیم کیا گیا.علاوہ ازیں چار ہزار روپے مستحقین میں بطور امداد تقسیم کئے گئے.اس میں سے تمام مستحقین کو نقدی کی صورت میں امدادی رقوم دینے کے علاوہ پانچ صدرو پے نادار مریضوں کے علاج کے لئے فضل عمر ہسپتال میں دئے گئے.اسی طرح چار سو روپے دارالا قامتہ النصرت کو اور مستحق طلبہ کی امداد کے لئے چارسو روپے جامعہ احمدیہ کو دیئے گئے.سنگ بنیاد کی تقریب کے سلسلہ میں تعمیر کمیٹی کی طرف سے دو خوبصورت دوورقی ٹریکٹ شائع کئے گئے.ایک ٹریکٹ تقریب کے پروگرام پر مشتمل تھا اس کے آغاز میں قرآن مجید میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا پر مشتمل آیات درج کر کے ان کا اردو تر جمہ بھی ساتھ ہی شائع کیا گیا.دوسرا ٹریکٹ مسجد کی تعمیر اور اس کی بخیر و خوبی تکمیل اور مثمر الثمرات حسنہ ہونے کے لئے دعا کی خاص تحریک پر مشتمل تھا.یہ دونوں ٹریکٹ بہت وسیع پیمانہ پر احباب میں تقسیم کئے گئے.جناب مسعود احمد خان صاحب دہلوی نے اس مبارک اور تاریخی تقریب کی یہ مفصل اور مکمل رپورٹ الفضل ۸ دسمبر ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں محفوظ کر دی.جناب محبوب عالم صاحب خالد ایم.اے
تاریخ احمدیت.جلد 23 598 سال 1966ء ناظر بیت المال آمد مکتوب مورخہ ۲۰ جون ۱۹۷۳ء میں تحریر فرماتے ہیں ” جناب سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی نے مسجد اقصی کی تعمیر کے لئے ایک خطیر رقم عطا فرمائی تھی.جتنی رقم انہوں نے پیش کی تھی ۲ لاکھ ۷۳ ہزار ۱۶۴ روپے ۷۸ پیسے اس سے زائد خرچ ہو گئے تھے تعمیر مسجد اقصیٰ پر.اس پر کراچی کے ایک مخلص دوست مکرم شیخ عبدالمجید صاحب صدر جماعت احمد یہ حلقہ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی نے حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں یہ درخواست کی کہ بیٹی، بیگم بھائی ، مرحوم والدین اور اپنی طرف سے انہیں تعمیر مسجد اقصیٰ کے سلسلہ میں دو سال کے عرصہ میں ۲لاکھ سے ہزار ۶۴ اروپے ۸ے پیسے پیش کرنے کی 146 66 اجازت فرمائی جائے.حضور نے ان کی یہ پیشکش منظور فرمالی..چنانچہ مکرم شیخ عبد المجید صاحب “ نے حسب وعدہ یہ تمام رقم ادا کر دی تھی.مسجد کی تعمیر کے دوران نگرانی کا کام حضور انور کی اجازت سے مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب انجینئر کے سپرد کیا گیا ہے.“ مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کا بیان ہے کہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب مرحوم سابق نائب افسر جلسہ سالانہ بھی سرگودھا سے ربوہ نگرانی کے لئے آیا کرتے تھے.مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا گیارہواں سالانہ اجتماع احاطہ انصار اللہ میں ۲۸ تا ۳۰ راکتو بر ۱۹۶۶ء کو حسب سابق ذکر الہی اور انات الی اللہ کی مخصوص روایات کے ساتھ منعقد ہوا.اجتماع کے افتتاح اور اختتام کے موقع پر سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے نہایت اہم تقاریر فرما ئیں.علاوہ ازیں مجلس شوری کے اجلاس میں بھی کچھ وقت کے لئے رونق افروز ہوئے.اس طرح تینوں دن حضور نے اجتماع کو رونق اور برکت بخشی.حضور نے اپنے افتتاحی خطاب میں انصار اللہ کو ان کے بعض اہم فرائض کی طرف توجہ دلائی.اس ضمن میں تحریک جدید کی اہمیت اور اس کے نتیجہ میں رونما ہونے والے عظیم الشان روحانی انقلاب کا ذکر کرنے کے بعد اجتماع میں شامل ہونے والے احباب کو موقع مرحمت فرمایا کہ وہ انفرادی رنگ میں اور جماعتی طور پر تحریک جدید کے نئے سال کے لئے اپنے وعدے پیش کریں.چنانچہ احباب جماعت نے ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے بڑھ چڑھ کر اپنے وعدے پیش کرنے شروع کئے.اور دیکھتے ہی دیکھتے وعدوں کی مجموعی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 599 سال 1966ء پانچ لاکھ دس ہزار روپیہ تک جا پہنچی.وعدے پیش کرنے کا منظر نہایت روح پرور تھا.جماعتوں کے عہد یدار اور افراد والہانہ انداز میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے اپنے وعدے پیش کر رہے تھے.الحمد للہ علی ذالک بعد ازاں حضور نے قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کی اہمیت اور اس ضمن میں تحریک وقف عارضی کی ضرورت پر روشنی ڈالی.اور احباب کو ان کی اہم دینی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.حضور نے اپنے اختتامی خطاب میں جو علوم و معارف کا ایک خزینہ تھا.سورۃ حم السجدہ آیات ۳۱ تا۳۳ کی روح پرور تفسیر فرماتے ہوئے خلافت راشدہ کی اہمیت کو ایسے وجد آفریں انداز میں بیان فرمایا کہ پوری فضا خلافت احمدیت زندہ باد، حضرت خلیفہ اسیح الثالث زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں مغربی اور مشرقی پاکستان کی ۲۴۰ مجالس کے ۵۵۰ نمائندگان، ۱۲۰۰.ارکان اور ۱۰۰۰ کے قریب زائرین شامل ہوئے.(حضرت) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کا خدام کے نام پیغام سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے آئندہ دوسال کے لئے (حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا صدر نامزد فرمایا.جس سے خدام الاحمدیہ کی تاریخ میں ایک درخشاں اور زریں باب کا آغاز ہوا.اور نو جوانانِ احمدیت کا قافلہ آپ کی قیادت میں نہایت برق رفتاری کے ساتھ آگے ہی آگے بڑھنے لگا اور ہر شعبہ حیات میں خلافت سے عقیدت ومحبت کے روح پرور نقوش نئی شان سے جلوہ گر ہونے لگے.(حضرت ) صاحبزادہ صاحب نے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد خدام الاحمدیہ کے نام حسب ذیل پیغام دیا:.”میرے خدام بھائیو! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ مدیران خالد کو اصرار ہے کہ اپنی صدارت کے آغاز پر اپنے خدام بھائیوں کے نام کوئی پیغام دوں.میری طرح آپ سب بھی بخوبی جانتے ہیں کہ صدر مجلس
تاریخ احمدیت.جلد 23 600 سال 1966ء خدام الاحمدیہ کا کام نہ کبھی پہلے پالیسی وضع کرنا تھا نہ اب ہے نہ آئندہ کبھی ہوگا.پس ظاہر ہے کہ کسی صدر کے بدلنے سے پالیسی کے بدلنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پالیسی وہی ہوگی جو مجلس کے قیام کے دن سے چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی مجھے یقین ہے کہ اسی طرح چلے گی.یعنی کامل خلوص اور وفا اور جذ بہ طاعت کے ساتھ بانی مجلس خدام الاحمدیہ حضرت المصلح الموعود اور خلیفتہ اسیح کی بیان فرمودہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی پوری کوشش کرنا اور اُس لائحہ عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کوشاں رہنا جو قرآن ،سُنت اور حدیث نبوی کی روشنی میں خلفائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے لئے پہلے تیار فرما چکے ہیں یا آئندہ تیارفرمائیں.ی وہ پالیسی ہے جس پر مجھ سے قبل صدران مجلس چلتے رہے اور اس میں نیک بختی اور سعادت جانی اور یہی وہ پالیسی ہے جس پر چلنے کی توفیق میں اپنے رب سے مانگتا رہوں گا.اور آپ سے بھی استدعا ہے کہ آپ بھی میرے لئے اور اپنے لئے یہی دعا کرتے رہیں اور اسی نیک مقصد کے حصول کے لئے دل و جان سے کوشاں رہیں.ایک فرق باوجود اس کے کہ اغراض و مقاصد کی تعیین اور حصول مقاصد کے ذرائع کی اصولی حد بندی فرمانا جیسا کہ ابھی عرض کر چکا ہوں خلفائے سلسلہ عالیہ احمدیہ کا کام ہے تا ہم جہاں تک کوششوں کی تفصیل کا تعلق ہے اس سے انکار نہیں کہ ہر وہ شخص جس پر کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی ہے اپنی اپنی افتاد طبع ، زاویہ نگاہ اور فکری اور عملی طاقتوں کے لحاظ سے اپنے مخصوص رنگ میں اسے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس مقصد اور حصول مقصد کی راہ معتین ہی کیوں نہ ہو ، کارکنان کے بدلنے سے طریق کار میں کچھ جز کی تبدیلیاں ضرور واقع ہو جاتی ہیں جن سے مفر نہیں اور یہیں سے میرے لئے اور اُن سب خدام بھائیوں کے لئے خوف کا مقام شروع ہوتا ہے جو مجلس خدام الاحمدیہ کے نظام میں کسی نہ کسی خدمت پر مامور ہوں گے.پس اس پہلو سے بھی اپنے خدام بھائیوں سے دُعا کی درخواست کرتا ہوں کہ جس طرز عمل کو ہم احسن سمجھتے ہوئے اختیار کریں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی وہ احسن ٹھہرے اور ہم اُس خوش قسمت گروہ میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 601 سال 1966ء شمار ہوں جس کا قرآن کریم اھدی سبیلا“ کے الفاظ میں ذکر فرماتا ہے.تا شرط زندگی و توفیق ایز دی ہم سب خدام احمد بیت دوسال کے لئے ایک ایسے سفر میں شریک رہیں گے.جس کی قیادت کی ذمہ داری حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس عاجز کے کندھوں پر ڈالی ہے.اپنی بے بضاعتی اور نا اہلی پر جب نظر پڑتی ہے تو دل خوف کھاتا ہے تاہم اپنے غفور رحیم خدا کی رحمت بے پایاں اور غفاری سے بھاری اُمید ہے کہ میری روحانی اور جسمانی کمزوریوں سے درگز رفرماتے ہوئے اس اہم ذمہ داری کو کما حقہ ادا کرنے کی توفیق بخشے گا.اور آپ سب خدام بھائیوں کے حق میں بھی میری عاجزانہ دعا یہی ہے کہ خدمت کے جس مقام پر بھی آپ فائز ہوں، محض خادم ہوں یا زعیم یا قائد یا منتظم یا ناظم یا مہتم اللہ تعالیٰ کی نصرتیں اور رحمتیں دائم آپ کے شامل حال رہیں اور بے ریاء خالصہ اللہ خدمت دین کی توفیق آپ کو نصیب ہو.یادرکھیں کہ یہ مختلف عہدے تو محض انتظامی سہولتوں کی خاطر قائم کئے گئے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ کے حضور وہی افضل اور اعلیٰ اور عزت سے یاد کئے جانے کے لائق ہے جو اپنی تمام طاقتیں اخلاص کی طشتری میں سجا کر اپنے رب کے حضور پیش کر دیتا ہے.پھر خواہ اُسے اذنِ خدمت ملے یا نہ ملے وہ اپنے رب کی نگاہ میں حقیقی معنوں میں خادم کہلانے کا مستحق ٹھہرتا ہے.غرض یہ کہ جہاں تک روحانی مقام اور قرب الہی کا تعلق ہے کوئی نہیں جانتا کہ صدر بہتر ہے یا ایک بے عہدہ خادم جو محض خدمت کے انتظار میں کھڑا ہے.پس اپنے لئے بھی اور جملہ عہدیداران مجلس خدام الاحمدیہ کے لئے بھی میری یہ عاجزانہ بلکتی ہوئی دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان عہدوں“ کے( کہ جو دراصل خدمت ہی کے مختلف نام ہیں ) حقوق ادا کرنے کی توفیق بخشے اور اپنے فضل وکرم سے ایسے کام کرنے کی توفیق بخشے جو خود اُس کی نگاہ میں پسندیدہ ہوں.آخر پر اپنے جملہ خدام بھائیوں کو اپنے آقا و مولا حضرت رسول اکرم علی کا یہ زندگی بخش پیغام دے کر اس پیغام کوختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں ہوں اس بے مثل رسول پر کہ مختصر ، سادہ اور عام فہم الفاظ میں حکمت کے خزانے لگا دیئے:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 602 سال 1966ء عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ عَل له قَالَ إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ وَلَنْ يُشَادَّ الدِّيْنَ اَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ فَسَدِّدُوْاوَ قَارِبُوا وَأَبْشِرُوا وَاسْتَعِيْنُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةٍ وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ رَوَاهُ البُخَارِى.وفي رواية لَهُ سَدِّدُوا وَقَارِبُوا وَاغْدُوا وَرُوحُوا وَشَيْ ءٍ مِّنَ الدُّلْجَةِ الْقَصْدَ الْقَصْدَ تَبْلُغُوا یعنی حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت نبی اکرم علیہ سے روایت بیان کی کہ آپ نے فرمایا:.یقیناً دین آسان ہے اور جو بزور دین پر غالب آنے کی کوشش کرے گا.دین اس پر ضرور غالب آجائے گا.( یعنی کسی میں یہ طاقت نہیں کہ زور عمل سے دین کے تمام حقوق ادا کر دے) پس میانہ روی اختیار کرو اور حسب استطاعت عمل پیرا ر ہو اور اس خوشخبری سے) خوش ہو جاؤ اور (اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہو.کچھ صبح کے وقت، کچھ شام کو ، اور کچھ رات کے وقت ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو آنحضور ﷺ کے اسی پیارے ارشاد کے مطابق خدمت دین کا سفر طے کرنے کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کچھ صبح، کچھ شام کو، کچھ رات کے وقت حسب استطاعت میانہ روی کے ساتھ ! آمین.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ.یکم نومبر ۱۹۶۶ء 148 (حضرت) صاحبزادہ مرزا طا ہراحمد صاحب کا اطفال کے نام پیغام ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے خدام الاحمدیہ کے علاوہ اطفال الاحمدیہ کے نام بھی پیغام دیا.جس کے الفاظ یہ ہیں:."بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم
تاریخ احمدیت.جلد23 603 سال 1966ء میرے پیارے اطفال الاحمدیہ ! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ایک وقت تھا کہ جب شاید آپ کے دل میں بھی یہ تمنا پیدا ہوتی ہو کہ کاش حضرت خلیفہ ایچ اپنے اطفال الاحمدیہ کے سپر د بھی کوئی اہم خدمت فرما ئیں جیسے خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید کے دفتر دوم کی ذمہ داری سونپی یا کئی مرتبہ لجنہ اماءاللہ کے سپر د بیرونی ممالک میں مساجد بنانے کا مقدس فریضہ فرمایا.اب تو آپ کی یہ تمنا پوری ہو چکی ہے اور دیکھئے کسی محبت اور پیار سے حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثالث نے احمدی بچوں کو مخاطب فرماتے ہوئے وقف جدید کی مالی ذمہ داریاں اپنے ننھے منے کندھوں پر اٹھانے کا ارشاد فرمایا ہے.دنیا کی نظر میں شاید یہ کام عجیب ہولیکن یہ عجیب کام آپ نے دنیا کو کر کے دکھانا ہے.آپ نے دنیا کو دکھانا ہے کہ احمدی بچے اپنے امام کی آواز پر لبیک کہنا جانتے ہیں.آپ نے دنیا کو دکھانا ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے نازک کندھے دین محمد ﷺ کی خاطر بڑے بڑے عظیم الشان بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں.آپ نے دنیا کو دکھانا ہے کہ آپ کی عمریں چھوٹی لیکن شعور بالغ ہے.آپ خوب سمجھتے ہیں کہ خدمت دین کیا ہے اور جانی و مالی قربانی کس کو کہتے ہیں.دنیا کو چھوڑیے کہ آج کی دنیا قربانی، ایثار اور خدمت کے کوچوں سے نا آشنا ہے.دُنیا کو بھلا کیا معلوم کہ دین کی خاطر کیسے زندگی وقف کی جاتی ہے اور کس طرح اسلام کے قدموں پر مال نچھاور ہوتے ہیں.پس دنیا کو چھوڑیے کہ اسے آپ سے کوئی نسبت نہیں.اگر نیکی میں مقابلہ کرنا ہے تو اپنے خدام بھائیوں سے کیجئے.اگر نیکی میں آگے قدم بڑھانا ہے تو لجنہ اماء اللہ سے آگے بڑھ کر دکھائیے.حضرت (خلیفہ اسیح الثالث ) سب احمدی بچوں اور بچیوں سے یہ توقع فرماتے ہیں کہ یہ سال ختم ہونے سے پہلے پہلے وقف جدید کے لئے پچاس ہزار روپیہ اور آئندہ سال دولاکھ روپے پیش کر دیں گے.دیکھئے نیک کاموں میں دوڑ لگانے کے لئے آپ کے سامنے کیسا وسیع میدان کھلا ہے.آپ کو چاہئے کہ دل و جان سے یہ کوشش کریں کہ جو توقع حضرت خلیفہ مسیح سب احمدی بچوں سے رکھتے ہیں (خواہ وہ اطفال
تاریخ احمدیت.جلد 23 604 سال 1966ء الاحمدیہ میں شامل ہوں یا نہیں) وہ صرف آپ ہی بحیثیت اطفال الاحمد یہ پوری کر کے دکھاویں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے اور ایسا شاندار نمونہ پیش کرنے کی توفیق بخشے کہ رشک کے ساتھ نگا ہیں آپ پر پڑنے لگیں اور دشمن کی حسد کی آنکھ سے آپ ہمیشہ محفوظ رہیں.آمین آخر پر اُس احمدی بچی کا ذکر کر کے اس پیغام کو ختم کرتا ہوں جو دائم المرض اور چلنے پھرنے سے معذور ہے اس نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مل کر ایک کمیٹی ڈال رکھی تھی اور ہر مہینے اپنے حصے کے پیسے کمیٹی والوں کے پاس اس لئے جمع کرواتی تھی که قرعه اندازی میں اگر اس کا نام نکل آئے تو اکٹھے بہت سے پیسے مل جائیں.وقف جدید کے بارہ میں حضور ایدہ اللہ کا خطبہ سن کر یہ خود بھی دعائیں کرنے لگی اور دوسروں سے بھی کروانے لگی کہ اللہ کرے تو اس دفعہ اس کی کمیٹی نکل آئے.اللہ تعالیٰ نے اس کے نیچے دل کی دُعا قبول فرمائی اور جیسے وہ چاہتی تھی ویسے ہی اس کے نام کی کمیٹی نکل آئی جو مبلغ پچاس روپے تھی.اللہ تعالیٰ اس بچی کو جزائے خیر دے اور صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے.یہ فوراً وہ ساری رقم لے کر کسی کی گودی میں سوار ہو کر حضرت خلیفتہ امسیح کی خدمت میں پہنچی اور وقف جدید کے چندہ کے طور پر وہ ساری رقم پیش کردی.خدا تعالیٰ عزیزہ کی اس پیاری قربانی کو قبول فرمائے اور سب اطفال کو توفیق بخشے کہ اپنی اپنی توفیق کے مطابق قربانی کی شاندار مثالیں پیش کریں.وقت تھوڑا، بہت تھوڑا رہ گیا ہے.دسمبر کے اختتام سے پہلے پہلے پچاس ہزار روپے اکٹھا کرنے ہیں.اے تجھے منے اطفال احمدیت چیونٹیوں کی طرح کام کرو اور اپنے امام کی اس توقع کو توقع سے بڑھ کر پورا کرو.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین والسلام تین خوشخبریاں مرزا طاہر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ 149 یکم نومبر ۱۹۲۶، کوسید نا حضرت خلیفۃالمسیح الثالث نے مجلس عرفان کے دوران فرمایا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 605 سال 1966ء دو تین خوشخبریاں ہیں.ایک خوشخبری تو یہ ہے کہ ہندوستان میں جتنے غیر مبائع تھے ان کی اکثریت بیعت کر کے مبائعین میں شامل ہوگئی ہے.جو گھرانے باقی رہ گئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.دوسری خوشخبری یہ ہے کہ یوگنڈا ( مشرقی افریقہ ) میں ایک سکول مکرم مختار احمد صاحب ایاز نے کھولا ہوا تھا.وہ سکول دراصل جماعت کی کوششوں سے ہی جاری ہوا تھا.اب انہوں نے وہ سکول جماعت کے سپر دکر دیا ہے.اور اب وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ایک اور سکول کھولیں.وہاں سکول کھولنے میں بڑی رکاوٹ تھی.سکول کی عمارت کا نقشہ پاس نہیں ہوتا تھا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے نقشہ پاس ہو گیا ہے اور اس کا سنگ بنیاد بھی رکھ دیا گیا ہے جس دن سکول کا سنگ بنیا د رکھا جارہا تھا.اسی دن اللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کو ایک اور خوشی بھی دکھائی.ہمارے ایک مخلص احمدی تھے (جن کا نام ذکر یا کزیٹو ہے ) پچھلے دنوں جب وہاں کیا کا کے ساتھ حکومت کا جھگڑا ہوا.اور فساد بھی ہوا تو کہا کا کے ساتھ تعلق رکھنے کی وجہ سے حکومت نے مسٹر ز کر یا کز نیٹو کو بھی گرفتار کر لیا.ایک دفعہ انہیں آزاد کر دیا گیا.مگر پھر دوبارہ گرفتار کیا گیا.جس دن سکول کا سنگ بنیاد رکھا جار ہا تھا اس دن حکومت نے انہیں رہا کر دیا.اور رہائی کے بعد وہ سیدھے مسجد میں پہنچے.اور یہ وقت تھا جب مسجد کے ہی احاطہ میں سکول کا سنگ بنیاد رکھا جا رہا تھا.وہاں وہ بھی دعا میں شریک ہو گئے.اور اس طرح وہاں کی جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دو خوشیاں دکھا دیں.مسٹرز کر یا کز نیٹو بڑے مخلص دوست ہیں.گووہ زیادہ پڑھے ہوئے نہیں ہیں.لیکن پھر بھی وہ قرآن کریم کے ترجمہ لو گنڈی میں مدد دیتے رہے.اور اس کام میں روزانہ کئی کئی گھنٹے خرچ کرتے رہے.کہا کا کے وہ قریبی دوست تھے.ان کی نظر بندی کی وجہ سے ان کے گھر والوں کو بہت تکلیف تھی.مجھے بھی ان کی بیوی کے خطوط دعا کے لئے آتے رہے جب وہ رہا ہوئے تو وہ گھر نہیں گئے.بلکہ سب سے پہلے وہ مسجد میں ہی آئے اور یہ بھی اُن کے اخلاص کی ایک علامت ہے.ایک عجیب
تاریخ احمدیت.جلد 23 606 سال 1966ء اتفاق تھا کہ جس وقت وہ مسجد میں آئے اس وقت سکول کا سنگ بنیادرکھا جار ہا تھا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے وہاں کی جماعت کو دو خوشیاں دکھا دیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا سفر سندھ 150 سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد ۹ نومبر ۱۹۶۶ء کو سفر سندھ اختیار فرمایا.اس سفر کے دوران چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ بطور پرائیویٹ سیکرٹری ہمراہ تھے.حضور نے روانگی سے قبل مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کو امیر مقامی مقرر فرمایا.حضور ربوہ سے چناب ایکسپریس کے ذریعہ روانہ ہوئے تو ہزاروں احباب نے پُر جوش نعرے لگا کر اپنے پیارے اور مقدس امام کو پورے احترام اور دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کرنے کی سعادت حاصل کی.حضور انور حیدر آباد، بشیر آباد، ناصر آباد، حمد آباد اور دیگر سٹیٹس کا دورہ کرنے کے بعد ۱۹ نومبر کو کراچی تشریف لے گئے.جہاں ایک ہفتہ رونق افروز رہنے کے بعد ۲۷ نومبر کو بخیر و عافیت ربوہ پہنچے.جہاں ہزاروں مخلصین نے حضور کا والہانہ استقبال کیا.اس سفر میں ہر جگہ اخلاص وعقیدت کے نہایت رُوح پرور نظارے دیکھنے میں آئے.سفر کے دوران حضور نے تین خطبات جمعہ ارشاد فرمائے.بشیر آباد کے خطبہ جمعہ میں حضور نے بتایا کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے تین چیزیں حاصل ہوئیں.زندہ خدا، زندہ رسول اور زندہ کتاب.ایک خطبہ میں جو حضور نے احمد یہ ہال کراچی میں ارشاد فرمایا.آیت واعتصموا بحبل الله..الخ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حبل اللہ کے متعدد معنی بیان فرمائے ” اور بتایا کہ اس کا تعلق آیت استخلاف سے ہے.حضور نے اس تعلق کو واضح کرتے ہوئے جماعت کی ذیلی تنظیموں کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں مستعدی سے کام کریں اور با ہمی تعاون کو قائم رکھیں تا کہ جماعتی اتحاد مضبوط تر ہو جائے.مورخہ ۲۷ نومبر ۱۹۶۶ء کو حضور انور واپس ربوہ تشریف لائے.اس تاریخی سفر کی ایک تفصیلی روئدادند رقارئین ہے.حیدر آباد سے ناصر آباداسٹیٹ تک حضرت خلیفہ مسیح الثالث ، انومبر کو صبح 4 بجے چناب ایکسپریس کے ذریعہ حیدرآباد تشریف
تاریخ احمدیت.جلد 23 607 سال 1966ء لائے.حضور کے استقبال اور زیارت کے لئے مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ امیر ضلع حیدر آباد مکرم ماسٹر رحمت اللہ صاحب امیر مقامی اور حیدر آباد کی جماعت کے احباب ۴ بجے سے اسٹیشن پر پہنچ چکے تھے.اسی طرح چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمد یہ کراچی اپنے پانچ ساتھیوں کی معیت میں گذشتہ رات سے ہی حیدرآباد پہنچے ہوئے تھے.میر پور خاص، کنری، ٹنڈومحمد خان، کوٹ احمدیاں اور حیدرآباد کے احباب بھی اسٹیشن پر پہنچ گئے.گاڑی سے اترنے پر حضور انور نے جملہ احباب کو شرف مصافحہ بخشا اور پھر زیل پاک سیمنٹ فیکٹری کے ریسٹ ہاؤس میں تشریف لے گئے.جو حضور کے قیام کے لئے تجویز کیا گیا تھا.حضور نے اور آپ کے خدام اور مہمانوں نے ناشتہ تناول فرمایا اور دس بجے دن حضور معه محترمہ بیگم صاحبہ ورفقاء قافلہ موٹر کاروں پر بشیر آباد اسٹیٹ کے لئے روانہ ہوئے.راستہ میں ٹنڈوالہ یار کے مقام پر مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی امیر حیدر آباد ڈویژن حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے اسی طرح آگے جا کر راستہ میں نواں کوٹ احمدیاں کی جماعت کے دوست حضور کی تشریف آوری کا سن کر زیارت کے لئے کھڑے تھے.حضور نے کارروکی اور اتر کر احباب سے مصافحہ کیا اور ان کے حالات دریافت فرمائے اور پھر آگے روانہ ہوئے.۲ بجے کے قریب قافلہ بشیر آباد پہنچا.بشیر آباد کے احباب باہر راستہ پر دورویہ کھڑے تھے.انہوں نے حضور کی آمد پر نعرہ ہائے تکبیر ”امیر المؤمنین زندہ باد ” اسلام زندہ باد احمدیت زندہ باد کے نعرے بلند کئے.حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا.حضور نے ظہر وعصر کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.اور پھر احباب کو شرف مصافحہ بخشا.۵ بجے شام حضور معہ محترمہ بیگم صاحبہ و رفقاء قافلہ ظفر آبادلا بنی تشریف لے گئے.جہاں مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ امیر ضلع حیدرآباد نے دعوت عصرانہ کا انتظام کیا تھا.حضور وہاں احباب سے مختلف دینی اور زراعتی امور پر گفتگو فرماتے رہے اور اجتماعی دعا فرمائی.وہاں سے واپس آکر حضور نے مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے پڑھائیں.بشیر آبا داسٹیٹ نومبر کو صبح ۸ بجے کے بعد حضور بشیر آباد اسٹیٹ کے مختلف حلقوں میں تشریف لے گئے اور فصلوں کو دیکھا.یہ دن جمعہ کا مبارک دن تھا.ضلع حیدر آباد کی جماعتوں کے احباب مردوزن
تاریخ احمدیت.جلد 23 608 سال 1966ء دور ونزدیک سے حضور کی تشریف آوری کی خبر سن کر جمع ہو گئے.بشیر آباد کی وسیع و عریض مسجد مردوں سے کھچا کھچ بھر گئی.اور مستورات کے لئے ساتھ کے مکانوں میں انتظام کرنا پڑا.لاؤڈ سپیکر کا انتظام تھا اس لئے جملہ حاضرین تک خطبہ کی آواز بخوبی پہنچ گئی.حضور نے نماز جمعہ پڑھائی.خطبہ جمعہ میں حضور نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان کر ہمیں کیا فیوض حاصل ہوئے.حضور نے فرمایا کہ ہمیں تین چیزیں حاصل ہوئیں.زندہ خدا زندہ رسول اور زندہ کتاب یعنی قرآن کریم.حضور کا یہ خطبہ نہایت بلیغ ، موثر اور پُر معارف تھا.حضور نے نماز جمعہ اور نماز عصر جمع کر کے پڑھائیں اس کے بعد پانچ افراد سے بیعت لی.بیعت لینے کا نظارہ بہت مؤثر تھا.حضور بیعت کے الفاظ اونچی آواز سے ارشاد فرماتے اور جملہ حاضرین بلند آواز سے حضور کی اتباع میں الفاظ دہراتے تھے.اس طرح تمام حاضرین نے حضور کے ہاتھ پر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.اس کے بعد حضور نے احباب کو شرف مصافحہ بخشا.مصافحہ کے وقت حضور احباب سے ان کی خیریت اور دیگر حالات بھی دریافت فرماتے جاتے تھے.کوٹ احمدیاں ۱۲ نومبر کو صبح ۷ بجے حضور ناصر آباد اسٹیٹ کے لئے موٹر کاروں پر روانہ ہوئے.راستہ میں کوٹ احمدیاں واقع تھا.وہاں کے احباب نے حضور کی خدمت میں گذارش کی ہوئی تھی کہ وہاں سے گذرتے ہوئے حضور گاؤں میں تشریف لا کر دعا فرمائیں.چنانچہ حضور معہ محترمہ بیگم صاحبہ ورفقاء قافلہ کوٹ احمدیاں میں تشریف لے گئے.احباب جماعت نیز غیر از جماعت دوست بھی قطاروں میں حضور کی پیشوائی کے لئے کھڑے تھے.حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا چھوٹے چھوٹے بچے بھی حضور سے مصافحہ کے لئے کھڑے تھے.حضور نے از راہ شفقت ان سے بھی مصافحہ کیا.اور پھر چوہدری عبدالغفور صاحب کے بنگلہ پر تشریف لے گئے وہاں حضور نے معہ رفقاء ناشتہ تناول فرمایا.اس جگہ پر حضور کی آمد کا یادگاری کتبہ بھی لگایا گیا ہے.اس موقعہ پر جماعت احمد یہ کوٹ احمدیاں کی طرف سے ایک ہزار روپیہ نقد بطور چندہ فضل عمر فاؤنڈیشن حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا.جو حضور نے قبول فرمایا یہ چندہ اس وعدہ کے علاوہ ہے جو یہ جماعت اس سے قبل فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے کر چکی ہے.کوٹ احمدیاں میں ڈگری، ٹنڈو غلام علی، چک ۱۵۱ کے احباب بھی جمع تھے اس کے بعد حضور مسجد میں تشریف لے گئے جونئی تعمیر کی گئی ہے.وہاں حضور نے اجتماعی دعا فرمائی
تاریخ احمدیت.جلد 23 609 سال 1966ء اور پھر حضور کی معیت میں قافلہ آگے روانہ ہوا اور ۲ بجے کے قریب بخیریت ناصر آباد پہنچا.اس سفر میں بشیر آباد تک مکرم فضل الرحمان خان صاحب انجینئر زیل پاک سیمنٹ فیکٹری اور چوہدری نعمت اللہ صاحب انڈس بلیچنگ ملز اور چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ، چوہدری نذیر احمد صاحب باجوہ، چوہدری عبدالغفور صاحب ایس ڈی او، چوہدری منصور احمد صاحب اور مولانا غلام احمد فرخ صاحب کو بشیر آباد اور ناصر آباد تک حضور انور کی معیت کا شرف حاصل ہوا.حضور کی تشریف آوری پر حیدر آباد کے انگریزی روز نامہ انڈس ٹائمز نے حضور کی فوٹو اور تشریف آوری کی خبر نمایاں کر کے شائع کی.152 دیگر اسٹیٹس میں تشریف آوری ۱۳ نومبر بروز اتوار کی صبح حضرت خلیہ اسبح الثالث ناصر آباد اسٹیٹ کی اراضیات کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے اور فصلوں اور کاشت کا جائزہ لیا.گوٹھوں کے ہار یوں خصوصاً ہندو مذہب کے ہاریوں کو نصائح فرمائیں.دو پہر کی گاڑی سے مکرم ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب صدیقی معہ چند احباب میر پور خاص سے اور کنری سے مولوی عبدالباقی صاحب اور امیر صاحب کنری شرف ملاقات کے لئے آئے.نماز ظہر وعصر اور پھر مغرب عشاء کے بعد حضور نے مسجد میں مقامی احباب کو شرف ملاقات بخشا اور تبلیغ اسلام کے ذرائع پر روشنی ڈالی.۱۴ نومبر بروز پیر حضور انور موٹروں پر ناصر آباد سے محمود آباد اسٹیٹ تشریف لے گئے.چوہدری عبدالعزیز صاحب مینجر اور اہالیان گوٹھ نے حضور کا استقبال کیا.حضور نے سب کو شرف مصافحہ بخشا.اس کے بعد حضور اراضیات اور باغ کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.دوپہر کے کھانے کے بعد حضور نے نماز ظہر وعصر مسجد میں جمع کروائیں.بعدہ مسجد میں ہی مقامی احباب کو شرف ملاقات سے نوازا اور تبلیغ و تربیت کے متعلق ہدایات دیں.محمود آباد سے واپسی پر ۴ بجے حضور انور کنری تشریف لائے.فیکٹری کے گیٹ پر ڈویژنل امیر صاحب کے علاوہ امیر صاحب مقامی اور جماعت نے حضور کا استقبال کیا اور عصرانہ پیش کیا.بعدہ حضور نے جملہ احباب جماعت اور غیر از جماعت دوستوں سے مصافحہ فرمایا.مغرب کے قریب حضور واپس ناصر آباد تشریف لائے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 610 سال 1966ء ۱۵ نومبر کی صبح حضور انور د یہ صحابو ( جہاں نبی اکرم ﷺ کے ایک صحابی کی قبر بتائی جاتی ہے) محترمہ بیگم صاحبہ واحباب کی معیت میں دعا کے لئے تشریف لے گئے.قبر پر لبی دعافرمائی اور مقامی دوستوں سے قبر کے متعلق تفصیل دریافت فرمائی.دوستوں نے بتایا کہ حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی بھی یہاں دعا فرمایا کرتے تھے.ساڑھے بارہ بجے ریلوے اسٹیشن کـنـجـیـجـی تشریف لائے اور دو پہر کی گاڑی پر محمد آبا دا سٹیٹ کے لئے روانہ ہوئے.راستہ میں کنری اسٹیشن پر کنری و ملحقہ علاقہ کے احباب نبی سر روڈ اسٹیشن پر احمد آباد اسٹیٹ اور نبی سرشہر کی جماعت کے احباب تشریف لائے ہوئے تھے.حضور نے سب احباب کو مصافحہ کے شرف سے نوازا.ایک بجے گاڑی ٹابھی ریلوے اسٹیشن پر پہنچی.مکرم میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل الزراعت کی قیادت میں محمد آباد اور علاقہ کے دوستوں نے اھلا و سھلا مرحبا کے قطعات آویزاں کئے تھے.حضور نے اسٹیشن پر اور ہیڈ کوارٹر میں سب احباب سے مصافحہ فرمایا اور جماعت محمد آباد کی طرف سے دی گئی دعوت طعام میں شرکت فرمائی.نمازوں کے بعد حضور مسجد میں تشریف فرما ہوتے رہے.نصرت آباد اور نوکوٹ سے بھی احباب حضور کے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے.۱۶ نومبر بروز بدھ حضور نے لطیف نگر فارم کے علاوہ ہیڈ کوارٹر فارم اور باغ کا معائنہ فرمایا.نمازوں کے بعد مسجد محمد آباد میں حاضر احباب سے ملاقات فرمائی.۱۷ نومبر بروز جمعرات حضور علی اصبح پہلے کریم نگر فارم کے معائنہ کے لئے بمعیت میاں عبدالرحیم احمد صاحب وکیل الزراعت ، چوہدری ظہور احمد صاحب با جوه ناظر زراعت، ملک غلام احمد صاحب عطا ایم ایس سی اسٹیٹ ایجنٹ و مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب تشریف لے گئے.کریم نگر کے جملہ احباب سے حضور نے مصافحہ فرمایا.اس کے بعد باغ کا معائنہ کیا اور پھر فصلیں دیکھتے ہوئے احمد آباد اسٹیٹ تشریف لے گئے.احمد آبا دا سٹیٹ کی حد پر مینجر چوہدری محمود احمد صاحب نے حضور کا استقبال کیا.حضور اسٹیٹ کی مختلف گوٹھوں میں سے ہوتے ہوئے ہیڈ کوارٹر تشریف لے گئے جہاں اردگرد کے احمدی اور غیر از جماعت دوست بڑی تعداد میں موجود تھے.حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا.اس کے بعد حضور فصلیں دیکھنے باہر تشریف لے گئے.حضور کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ واٹر کورس نمبر ۱۸ کی گوٹھ کا نام تجویز فرما دیں.حضور نے کرشن آباد نام رکھا.آخر میں باغ دیکھ کر واپس ہیڈ کوارٹر تشریف لائے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 611 سال 1966ء دو پہر کا کھانا احمد آباد اسٹیٹ کی طرف سے حضور کی خدمت میں پیش کیا گیا.جس میں احمدیہ سنڈیکیٹ ، ایم این سنڈیکیٹ کے جملہ میجر صاحبان شریک ہوئے.نماز ظہر وعصر کے بعد مسجد احمد آباد میں تشریف فرمار ہے اور حالات دریافت فرما کر ہدایات سے نوازا.چار بجے حضور کی خدمت میں عصرانہ پیش کیا گیا اور پانچ بجے کے قریب حضور معہ قافلہ احمد آباد سے محمد آباد تشریف لائے محمد آباد میں مغرب وعشاء جمع کروا ئیں اور کافی دیر تک مسجد میں حاضرین کو اجتماعی ملاقات کا موقعہ عطا فرمایا.ساڑھے نو بجے سے ساڑھے گیارہ بجے رات تک اراضیات صدرانجمن احمدیہ اور اراضیات ایم این سنڈیکیٹ کے جملہ مینجر صاحبان کی میٹنگ بلائی.جس میں وکیل الزراعت، ناظر زراعت، اسٹیٹ ایجنٹ احمد یہ سنڈیکیٹ اور مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب شامل ہوئے.پیداوار اور آمد بڑھانے کے ذرائع اور اصلاح اراضی کا جائزہ لینے کے علاوہ اس علاقہ میں اسلام کی ترقی اور استحکام جماعت کے لئے کارکنوں کو ہدایات دیں.۱۸ نومبر بروز جمعہ علی الصبح حضور نے محمد آباد میں ٹریکٹر ورکشاپ کا معائنہ کیا اور پھر نورنگر فارم دیکھنے تشریف لے گئے.فارم کے مینجر چوہدری عبد القدوس صاحب اور گوٹھ میں رہنے والے لوگوں نے استقبال کیا.حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا.معائنہ کے بعد ۱۲ بجے حضور واپس تشریف لائے.نماز جمعہ پڑھائی اور روح پرور خطبہ دیا.نماز میں شمولیت کے لئے ناصر آباد، کنری ، ڈگری ، کا چھیلو سے بڑی تعداد میں دوست آئے.مسجد پر ہو کر باہر دونوں سڑکیں نمازیوں سے پر تھیں.محمد آبا دا سٹیٹ نے سب احباب کو دوپہر کا کھانا پیش کیا.نماز کے بعد حضور نے نومبائعین کی بیعت لی اور پھر جملہ دوستوں کو مصافحہ سے نوازا.محمد آباد سے میر پور خاص اور حیدر آباد تشریف آوری ۱۹ نومبر بروز ہفتہ نماز فجر کے بعد حضور مسجد سے محمد آباد کے مقامی قبرستان تشریف لے گئے اور مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب کی اہلیہ مرحومہ کی قبر پر دعا فرمائی.پونے نو بجے نالھی ریلوے اسٹیشن سے سوار ہوکر ایک بجے میر پور خاص تشریف لائے.ٹالھی اسٹیشن پر کثیر تعداد میں احباب اور بہنیں الوداع کہنے کو جمع تھے.راستہ کے اسٹیشن فضل بھمبر و، نوکوٹ ، ڈگری ، کا چیلو ،جمیس آباد پر علاقہ کے متعدد احمدی دوست اپنے امام سے ملاقات کے لئے جمع تھے.حضور نے سب کو مصافحہ سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 612 سال 1966ء نوازا اور حالات دریافت کئے.میر پور خاص پہنچنے پر ڈویژنل امیر صاحب اور چوہدری عزیز احمد صاحب امیر ضلع حیدر آباد اور حاجی عبدالرحمن صاحب امیر ضلع نواب شاہ کے علاوہ احباب بڑی بھاری تعداد میں استقبال کے لئے اسٹیشن پر موجود تھے.اسٹیشن سے حضور ریلوے کے ریسٹ ہاؤس تشریف لے گئے اور دعوت میں شرکت فرمائی اور نماز ظہر و عصر سے فراغت کے بعد تین بجے موٹروں پر حیدر آباد کے لئے روانہ ہوئے.ساڑھے چار بجے شام حیدر آباد تشریف لائے.مکرم کیپٹین ڈاکٹر عبدالسلام خان صاحب نے حضور سے درخواست کی تھی کہ از راہ نوازش حضور ان کے مکان واقعہ لطیف آباد میں قیام فرمائیں.حضور نے اس کو قبول فرمایا اور ڈاکٹر صاحب موصوف کے بنگلہ پر فروکش ہوئے.حضور نے نماز مغرب وعشاء احمد یہ ہال گاڑی کھاتہ میں جمع کر کے پڑھائیں.احمد یہ ہال کی بنیاد حضور نے اپنے دست مبارک سے رکھی تھی.(یہ ہال حضور کی توجہ اور دعا کے نتیجہ میں اسی سال تعمیر ہو کر مکمل ہوا تھا.) حضور نے نماز کے بعد احباب کو مصافحہ کا شرف بخشا اور اسی دوران حضور نے احباب کو نصیحت فرمائی کہ مظلوم ہونا اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرتا ہے.اس لئے انسان کو ظالم نہیں بننا چاہئے.اسی طرح حضور نے فرمایا کہ آپس میں اتحاد کو ہمیشہ قائم رکھنا چاہئے.اس کے بعد حضور قیام گاہ پر تشریف لے گئے.۲۰ نومبر کو نماز فجر حضور انور نے بنگلہ پر پڑھائی اسی روز صبح کے ناشتہ کا انتظام مکرم نواب زادہ چوہدری محمد سعید صاحب نے حضور انور اور دیگر ارکان قافلہ کے لئے فرمایا تھا.ناشتہ کے بعد حضور انور مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے مسجد احمدیہ کی بنیاد میں وہ اینٹ نصب فرمائی جس پر حضرت مصلح موعود نے دعا فرمائی ہوئی تھی.دوسری اینٹ حضور نے خود دعا فرما کر نصب فرمائی.اس کے بعد حضور کے ارشاد کے ماتحت صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ، تحریک جدید کی طرف سے مکرم چوہدری غلام احمد صاحب مینجر بشیر آباد اسٹیٹ ، ایم این سنڈیکیٹ کی طرف سے مکرم سید عبدالرزاق شاہ صاحب اور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیثیت سے مکرم صوفی محمد رفیع صاحب امیر خیر پور ڈویژن نے ، امیر ضلع حیدرآباد کی حیثیت سے مکرم چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ نے ، مقامی امیر کی حیثیت سے مکرم ماسٹر رحمت اللہ خان صاحب نے ، ارکان مسجد کمیٹی میں سے مکرم ڈاکٹر عبدالسلام خان صاحب، مکرم فضل الرحمن خان صاحب اور مکرم فضل محمد خان صاحب نے لجنہ اماء اللہ کی طرف سے مکرم چوہدری محمد سعید صاحب اور مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی حیثیت سے مولانا غلام احمد فرخ صاحب نے ایک ایک اینٹ بنیاد میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 613 سال 1966ء نصب کی.اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دعا فرمائی.پھر مٹھائی تقسیم کی گئی.اس کے بعد حضور انور مکرم چوہدری محمد سعید صاحب کی درخواست پر ان کے مکان پر تشریف لے گئے جو کہ زیر تعمیر ہے.حضور نے وہاں دعافرمائی اور پھر قیام گاہ پر تشریف لے گئے.پروگرام کے مطابق احمدی مستورات کثیر تعداد میں قیام گاہ پر پہنچ چکی تھی.حضور انور نے مستورات سے بیعت لی جن میں تین خواتین نئی بیعت کرنے والی تھیں.پونے گیارہ بجے کے قریب حضور کمرہ ملاقات میں تشریف لائے اور دو گھنٹے سے زیادہ حضور نے پہلے انفرادی اور پھر اجتماعی ملاقات کا احباب کو موقعہ عنایت فرمایا.متعدد غیر از جماعت معززین کو بھی حضور نے شرف ملاقات بخشا اور انہوں نے اپنے حالات اور مشکلات بیان کر کے حضور سے دعا کی درخواست کی.دو بجے حضور نے نماز ظہر وعصر جمع کر کے پڑھا ئیں.اس کے بعد بیعت ہوئی اور جملہ احباب جماعت نے بیعت کے الفاظ دہرا کر حضور کے دست مبارک پر بیعت کی.حیدر آباد سے کراچی تشریف آوری اور واپسی برائے ربوہ ۲۰ نومبر کو جناب چوہدری احمد مختار صاحب امیر جماعت احمدیہ کراچی اور مکرم مولوی عبدالمالک صاحب مربی سلسلہ کراچی مع چند دیگر احباب کے حضور کو لینے کے لئے کاریں لے کر حیدر آباد پہنچ چکے تھے چنانچہ حضور کا قافلہ کراچی کے لئے اڑھائی بجے روانہ ہوا.جماعت حیدرآباد کے نمائندگان بھی حضور کو الوداع کہنے کے لئے پندرہ بیس میل تک قافلہ کے ہمراہ آئے.ایک مقام پر پہنچ کر حضور نے ان نمائندگان کو شرف مصافحہ بخشا اور اجتماعی دعا کروا کر انہیں واپس جانے کی اجازت مرحمت فرمائی.کراچی جاتے ہوئے سہ پہر کو راستہ میں کلری جھیل کے کنارے حضور اور قافلہ نے چائے نوش فرمائی جس کا انتظام جماعت کراچی نے کیا تھا.ساڑھے چھ بجے شام حضور اپنی قیام گاہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں پہنچے.یہاں تمام احباب نے جو دیر سے اپنے پیارے امام کے دیدار کے لئے چشم براہ تھے والہانہ انداز میں حضور کا استقبال کیا اور وفور محبت سے نعرے بلند کئے.حضور نے سب کو شرف مصافحہ بخشا اور مغرب وعشاء کی نمازیں ادا فرمائیں.حضور کے کراچی میں ورود مسعود کی خبر قریباً تمام مقامی اخبارات میں شائع ہوئی اور فوٹو بھی شائع ہوئے.اسی رات چوہدری نبی احمد صاحب کے فرزند ز بیر احمد صاحب کی دعوت ولیمہ تھی.حضور نے از راہ شفقت اس میں شرکت فرما کر دعا فرمائی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 614 سال 1966ء حضور کے قیام کے دوران جماعت نمازیں حضور کی اقتداء میں ادا کرتی رہی.عموماً روزانہ صبح دس بجے سے ایک بجے تک انفرادی ملاقاتوں کا پروگرام رہتا.احمدی احباب اور غیر از جماعت احباب ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہے.۲۱ نومبر کی شام کو جماعت احمدیہ کراچی کی مجلس عاملہ نیز انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ کی مجالس عاملہ اور حلقہ جات کے پریذیڈنٹ صاحبان کا مشترکہ اجلاس حضور نے طلب فرمایا.مختلف شعبہ جات کے متعلقہ کارکنوں سے حضور نے بعض امور دریافت فرمائے.ازاں بعد حضور نے تعلیم قرآن اور بعض دیگر امور کے متعلق نصائح اور زریں ہدایات بیان فرمائیں.نماز مغرب وعشاء کے بعد حضور نے مجلس عرفان میں جماعت کے دوستوں کے سوالات کے جوابات دئے اور یہ سلسلہ روزانہ جاری رہا.۲۳ نومبر کی صبح کو بعد نماز فجر حلقہ دستگیر کالونی کی مسجد کا سنگ بنیا در کھنے کے لئے تشریف لے گئے.حضور نے ایک اینٹ اپنے دست مبارک میں لے کر دیر تک دعا فرمائی.پھر اس کو نصب فرمایا.اس کے بعد چھ مزید نئیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امیر صاحب و مربیان سلسلہ نے رکھیں.پھر اجتماعی دعا حضور نے کروائی.واپسی پر حضور نے از راہ شفقت سلسلہ کے پرانے خادم حضرت حکیم خلیل احمد صاحب مون گھیری کے مکان پر چائے نوش فرمائی اور دعا فرمائی.دس بجے سے ایک بجے تک انفرادی ملاقاتوں کا پروگرام جاری رہا.شام کو چار بجے احمدیہ ہال میں لجنہ اماءاللہ کو پونے دو گھنٹہ تک حضور نے خطاب فرمایا.آپ نے احمدی خواتین کو تربیت اولاد کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی نیز فرمایا کہ نیکیوں کے بجالاتے وقت ہماری خواتین کے دل میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ یا خوف پیدا نہ ہونے دینا چاہئیے کہ دنیا کیا کہے گی.انہیں یا درکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت دنیا میں نیکیوں کے قیام کے لئے قائم کی گئی ہے.نماز مغرب وعشاء کے بعد علم و عرفان کی مجلس ہوئی.حضور نے اس موقع پر آیت کریمہ اَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی.ساڑھے آٹھ بجے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کی صاحبزادی کے رخصتانہ کی تقریب میں حضور دعا کے لئے تشریف لے گئے.۲۴ نومبر کو ہاکس بے کے مقام پر جماعت نے ایک پکنک کا پروگرام بنایا تھا.ساڑھے دس بجے حضور وہاں تشریف لے گئے اور شام تک قیام فرمایا.اس موقع پر مکرم ثاقب زیروی صاحب، مکرم
تاریخ احمدیت.جلد 23 615 سال 1966ء آفتاب احمد صاحب بسمل اور جناب قیس مینائی صاحب نے اپنا کلام سنایا.بعد نماز مغرب و عشاء مجلس علم و عرفان میں تشریف فرما ہوئے اور مولا نا عبدالمالک صاحب مربی سلسلہ کو تاریخ الخلفاء کا ایک حوالہ پڑھنے کے لئے ارشاد فرمایا اور بتایا کہ حضرت علیؓ نے بیعت بدری صحابہ کے مشورہ کے بعد لی تھی.ازاں بعد حضور نے نو جوانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ دین کے لئے آگے بڑھیں.اسکے بعد حضور نے تین نکاحوں کا اعلان فرمایا.۲۵ نومبر بروز جمعہ صبح کے وقت انفرادی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا.نماز جمعہ کے لئے حضور احمدیہ ہال تشریف لے گئے.ہال کھچا کھیچ حاضرین سے بھرا ہوا تھا.ہال کے باہر بھی شامیانے لگا کر سڑکوں پر نماز کی ادائیگی کا انتظام کیا گیا.خواتین کی تینوں گیلریاں بھری ہوئی تھیں اور جن کو وہاں جگہ نہ مل سکی انہوں نے ہال کی چھت پر نماز ادا کی.کئی سالوں کے بعد کراچی میں جمعہ کے روز اتنا بڑا اجتماع دیکھنے میں آیا.خطبہ جمعہ میں حضور نے آیہ کریمہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے حبل اللہ کے متعدد معنے بیان فرمائے اور بتایا کہ اس کا تعلق آیت استخلاف سے ہے پھر اس تعلق کو حضور نے واضح فرمایا اور جماعت کی ذیلی تنظیموں کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں مستعدی سے کام کریں.اور باہمی تعاون کو قائم رکھیں تا کہ جماعتی اتحاد مضبوط تر ہو جائے.ساڑھے چار بجے شام حضور مکرم چوہدری شاہنواز صاحب کی کوٹھی پر بیگم صاحبہ کے ہمراہ تشریف لے گئے اور وہاں حضرت چوہدری محمد شریف صاحب ایڈووکیٹ مرحوم امیر جماعت احمد یہ ساہی وال ( منٹگمری) کی وفات پر تعزیت فرمائی.مرحوم بیگم شاہنواز صاحبہ کے بڑے بھائی اور سلسلہ کے دیرینہ مخلص خادم تھے.نماز مغرب وعشاء کے بعد ساری جماعت کی ملاقات کا پروگرام تھا.چنانچہ حضور نے تمام حلقہ جات کے احباب کو بالترتیب شرف مصافحہ بخشا.احباب اپنی باتیں حضور کی خدمت میں پیش کرتے.حضور نے نہایت توجہ سے ان کو سن کر ضروری ہدایات دیں اور دوستوں سے بعض ضروری امور دریافت فرمائے.دواڑھائی گھنٹے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور یہ سارا عرصہ حضور کھڑے رہے.ازاں بعد نئے بیعت کرنے والوں نے بیعت کی.آپ ان کے بھی حالات دریافت فرماتے رہے.اس موقع پر آپ نے انٹر کالج ایسوسی ایشن کے ممبروں کو بھی طلب فرمایا تھا اور انہیں بھی ضروری نصائح فرمائیں.۲۶ نومبر حضور کی واپسی کی تاریخ تھی.جماعت کے احباب اور غیر از جماعت دوستوں کی آمد کا
تاریخ احمدیت.جلد 23 616 سال 1966ء سلسلہ صبح ہی سے شروع ہو گیا.حضور نے صبح دس بجے سے ایک بجے تک ملاقات کا موقع عطا فرمایا.نیز حرم حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس دن صبح دس بجے احمد یہ ہال میں خواتین کے اجلاس عام میں شرکت فرمائی اور انہیں سادہ زندگی.اطاعت امام اور تربیت اولا داور تعلیم قرآن کی طرف دلنشین انداز میں توجہ دلائی.حضور کے قیام کے دوران خواتین قیام گاہ پر پہنچ کر محترمہ بیگم صاحبہ کی نصائح سے مستفید ہوتی رہیں.تین بجے حضور تیز گام سے لاہور جانے کے لئے اسٹیشن روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ کاروں کی ایک لمبی قطار تھی.جماعت کی بہت بڑی تعداد اسٹیشن پر اپنے پیارے امام کو الوداع کہنے کے لئے جمع تھی.حضور نے اپنی نشست گاہ اور سامان کا معائنہ فرمایا، پھر گاڑی سے باہر تشریف آئے.چونکہ وقت تھوڑا تھا اور ہجوم زیادہ اس لئے جماعت کی درخواست پر حضور نے اجتماعی دعا کرائی.دعا کے بعد حضور نے گاڑی کے دروازے پر کھڑے ہو کر جماعت کراچی کو محبت بھری نگاہ سے رخصت فرمایا اور گاڑی لاہور کے لئے روانہ ہوگئی.لاہور اور پھر ربوہ تشریف آوری حضور ۲۶ نومبر کو کراچی سے بذریعہ تیز گام روانہ ہو کر ۲۷ نومبر کو لاہور پہنچ گئے.اور اسی روز لاہور سے بذریعہ موٹر کار روانہ ہو کر ساڑھے چار بجے شام اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر وعافیت ربوہ تشریف لے آئے.یہ اطلاع ملنے پر کہ حضور آج ۴ بجے سہ پہر کے بعد ر بوہ تشریف لا رہے ہیں.اہل ربوہ جوق در جوق نماز عصر سے پہلے ہی مسجد مبارک میں آجمع ہوئے اور نماز ادا کرنے کے بعد لاریوں کے اڈہ سے قصر خلافت تک قطار در قطار حضور کی تشریف آوری کے انتظار میں ایستادہ ہو گئے.لوگ دیدہ و دل فرش راہ کئے حضور کی زیارت اور استقبال کی سعادت حاصل کرنے کے لئے چشم براہ تھے.جملہ انتظامات محترم امیر صاحب مقامی کی ہدایات کے تحت مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ نے کئے.چالیس کے قریب سائیکل سوار چنیوٹ سے ربوہ تک متعین کر دیئے گئے.جو نہی حضور کی کار دور سے آتی ہوئی نظر آئی تمام فضا اھلا و سھلا مرحبا.نعرہ تکبیر اللہ اکبر.حضرت امیر المؤمنین زندہ باد کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھی.موٹر کار کے رکتے ہی محترم مولانا ابوالعطاء صاحب اور مکرم مولوی محمد صدیق صاحب صدر عمومی نے آگے بڑھ کر حضور کا استقبال کیا اور مصافحہ کا شرف حاصل کیا.بعد ازاں حضور پیدل چل کے احباب کی قطاروں کی طرف تشریف لائے اور قطار در قطار کھڑے ہوئے ہزاروں احباب کو شرف
تاریخ احمدیت.جلد 23 617 سال 1966ء مصافحہ بخشا.حضور نے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جن میں حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب، حضرت حاجی محمد فاضل صاحب ، حضرت خدا بخش صاحب مومن جی اور حضرت محمد بوٹا صاحب موذن بھی شامل تھے.ان کی خیریت دریافت فرمائی.نصف گھنٹہ تک احباب کو شرف مصافحہ بخشنے کے بعد حضور انور قصر خلافت تشریف لے گئے.155 مکرم مولوی عبدالحق نور صاحب کی شہادت آپ مورخہ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۶ء کو کرونڈی ضلع خیر پور میں شہید کر دیئے گئے.آپ قادیان کے قریب ایک گاؤں ”بھٹیاں گوت“ کے رہنے والے تھے.آپ کے والد مکرم الہی بخش صاحب ایک معروف زمیندار تھے اور ہندو، سکھ اور مسلمان سب آپ سے اپنے معاملات کے فیصلے کرواتے تھے.آپ نے چار سال تک بطور ہیڈ ماسٹر ملازمت کر کے ملازمت کو خیر باد کہہ دیا.لمبی سوچ بچار اور دعاؤں کے بعد ۱۹۳۴ء کے جلسہ سالانہ پر بیعت کی.بیعت کرنے کے فوراً بعد ہی آپ کی مخالفت شروع ہوگئی.آپ نے مخالف مولوی کو دعوت مباہلہ دی جس کی تحریر لکھی گئی جس میں آپ نے تحریر کیا اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے ہیں تو سب سے پہلے مخالف مولوی کا بیٹا مرے گا اور اس کے بعد وہ خود بھی مرجائے گا“.- چنانچہ مولوی محمد اسماعیل جس کے ساتھ آپ نے مباہلہ کیا تھا مر گیا.یہ اطلاع آپ کے بھائی نے دی.آپ نے جوش میں آکر کہا کہ تحریر مباہلہ میں تو تھا اس کا بیٹا پہلے فوت ہوگا.جا کر پتہ کرو کہ اس کا بیٹا فوت ہوا کہ نہیں.چنانچہ پتہ کرنے سے معلوم ہوا کہ پہلے مولوی مذکور کا بیٹا فوت ہوا تھا اور پھر وہ مرا.اس واقعہ کو دیکھ کر آپ کے بھائی نے بھی بیعت کر لی.زمیندارہ کا وسیع تجربہ ہونے کی وجہ سے آپ کو تقسیم ہند کے بعد محمود آباد، ناصر آباد اور دوسری اسٹیٹس میں کام کی نگرانی پر مقرر کیا گیا ۱۹۴۲ء میں آپ کرونڈی منتقل ہو گئے اور زمینوں کے ٹھیکے وغیرہ لینے شروع کئے.آپ بہترین داعی الی اللہ تھے.آپ کی تبلیغ سے آپ کے رشتہ داروں میں سے پچاس کے قریب احمدی ہوئے.کرونڈی جماعت کی داغ بیل آپ نے ہی ڈالی.شہادت کے وقت تک کرونڈی جماعت کے صدر رہے.واقعہ شہادت: دسمبر ۱۹۶۶ء کی بات ہے کہ بعض متعصب اور شر پسند عناصر نے آپ کے خلاف
تاریخ احمدیت.جلد 23 618 سال 1966ء سکیم تیار کی اور آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا چنانچہ انہوں نے کرائے کے وہ قاتل اس غرض کے لئے بھیجے.جو آپ کے پاس اس انداز سے آئے گویا وہ بیعت کرنا چاہتے تھے.آپ حسب معمول ان کو تبلیغ کرتے ہوئے شام کے وقت اپنے گھر لے آئے.ان کی خاطر مدارت کی نمازیں باجماعت ادا کیں پھر فجر کی نماز پر آپ نے خود پانی گرم کر کے ان کو وضو کر وایا اور انہیں نماز پڑھائی اور نماز کے بعد انہیں باہر اپنے باغ میں لے آئے.وہاں کچھ دیر چار پائیوں پر بیٹھے رہے اور ان کو تبلیغ کی.پھر ان کو لے کر باغ کی سیر کروانے چلے گئے.آپ کے پوتے مقصود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا یعقوب صاحب نے ان سے کہا کہ پتہ تو کرو، کافی دیر ہوگئی ہے، آئے نہیں.وہ کہتے ہیں میں جب باغ میں گیا تو میں نے دیکھا ہمارا وہ مہمان جو مولوی عبدالحق صاحب کے ساتھ باغ میں گیا تھا بھاگ رہا ہے.مجھے شک پڑا تو میں نے اپنے چچا کو بھی آواز دی کہ ادھر آئیں.پھر ہم باغ میں اِدھر اُدھر دیکھنے لگے.دادا جان کو دیکھا تو وہ شہید کر دئیے گئے تھے.انا للہ وانا اليه راجعون.شہید مرحوم موصی تھے.ایک سال تک کر ونڈی میں امانتاً دفن رہے پھر ربوہ میں بہشتی مقبرہ میں تدفین عمل میں آئی.برطانوی سائنسدان ڈاکٹر کیون میکوئن ربوہ میں 156- ڈرہم یونیورسٹی انگلستان کے ڈاکٹر کیون میکوئن گذشتہ ایک سال سے انگلستان ، جاپان ، اور ہندوستان کے زیر انتظام ریسرچ کے ایک منصوبے پر کام کر رہے تھے.انہوں نے میسور میں سونے کی کانوں کے اندر دس ہزار فٹ کی گہرائی میں کا سمک ریز کے ایک ذرہ نیوٹر مینو (NEUTRINO) ر ایک سال تک تحقیق کی.ازاں بعد امریکہ کی لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی LOUISIANA) (STATE UNIVERSITY نے سائنسی تحقیق کے سلسلہ میں ان کی خدمات حاصل کر لیں.اور اب وہ امریکہ جاتے ہوئے پاکستان آئے تو جماعت احمدیہ کے عالمی مرکز ربوہ کی شہرت انہیں ۲۷ دسمبر ۱۹۶۶ء کی رات کور بودہ کھینچ لائی.یہاں آپ نے اگلے روز پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے( کینٹب ) پر نسل تعلیم الاسلام کالج محترم ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب صدر شعبہ طبیعات ،ڈاکٹر سلطان محمود صاحب شاہد صدر شعبہ کیمیا، پروفیسر سید حبیب الرحمن صاحب کی معیت میں تعلیم الاسلام کالج کی لیبارٹریز کا بھی معائنہ کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 619 سال 1966ء اور اس امر پر بہت اطمینان کا اظہار کیا کہ کالج کی تجربہ گاہیں ہر لحاظ سے مکمل اور تمام ضروری سامان سے پوری طرح آراستہ ہیں.آپ اعلیٰ سائنسی تعلیم کے مختلف شعبہ جات کی نئی زیر تعمیر عمارات کا معائنہ کرنے بھی تشریف لے گئے.وہاں کالج میں آپ نے اعلیٰ سائنسی تعلیم کے منصو بہ کا بھی تفصیلی جائزہ لیا.آپ نے اس منصوبے اور زیرتعمیر عظیم الشان عمارات پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا.اور فرمایا میں یہ دیکھ کر بہت متاثر ہوا ہوں کہ ربوہ جیسی دور افتادہ جگہ میں سائنسی علوم کی ترقی اور ان کی تعلیم و تدریس میں اتنے وسیع پیمانے پر دلچسپی لی جارہی ہے.ڈاکٹر میکوئن نے کالج سے کیمسٹری تھیٹر میں جدید علم کائنات MODERN) (COSMOLOGY پر ایک پڑ از معلومات لیکچر بھی دیا.آپ نے فلکی طبعیات کی بے پناہ وسعت اور اس کے بے شمار عقدہ ہائے دشوار کی طرف اشارہ کرنے کے بعد سلسلہ ہائے کہکشاں، بنیم نجمی اجسام، غیر مرئی فلکیات اور کائناتی شعاعوں کے متعلق مختلف سائنسدانوں کے نظریات پر روشنی ڈالی.اور تختہ سیاہ پر مختلف سائنسی شکلیں بنا کر واضح کیا کہ علم کائنات سے متعلق موجودہ زمانہ میں جو مزید کام ہوا ہے وہ امکان کی حد تک اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ کائنات سے متعلق بگ بینگ BIG) (BANG کا نظریہ بہت حد تک صداقت پر مبنی ہے.اس نظریہ کی رُو سے کائنات کے مختلف حصے ایک بہت عظیم دھماکے کے نتیجے میں ایک ہی مشترک ذریعہ یا ماخذ سے جدا ہو کر اپنی موجودہ شکل میں معرض وجود میں آئے ہیں.آپ کے لیکچر کے بعد کالج کے طلبہ نے متعدد سوالات دریافت کئے.جن کے ڈاکٹر میکیوئن نے جواب دیئے.بعد میں آپ نے علیحدہ طور پر اس امر پر خوشی کا اظہار کیا کہ خلاف توقع طلبہ نے بہت با موقع اور مناسب سوالات دریافت کئے.آپ نے فرمایا کہ ان کے سوالات سے ظاہر ہوتا تھا کہ سوالات کرنے والے طلبہ علم کائنات میں درک رکھتے ہیں اور انہوں نے لیکچر سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے.لیکچر سے فارغ ہوکر ڈاکٹر میکوئن نے پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پر نسل تعلیم الاسلام کالج اور پروفیسر نصیر احمد خان صاحب صدر شعبہ طبیعات کی معیت میں حضرت خلیفتہ امسیح الثالث سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.دوران ملاقات آپ نے ربوہ میں سائنسی علوم کی ترویج و ترقی کے لئے کی جانے
تاریخ احمدیت.جلد 23 620 سال 1966ء والی مساعی اور ان کے خوشکن نتائج پر بہت خوشی کا اظہار کیا.نیز تعلیم الاسلام کالج کے پوسٹ گریجویٹ شعبہ ہائے سائنس کی نئی زیر تعمیر عمارات کے پلان اور سائنسی علوم کی تعلیم و تدریس میں مزید توسیع کے پروگرام کو سراہا.ڈاکٹر میکوئن ربوہ میں دوروز قیام کرنے کے بعد ۲۹ دسمبر بعد دو پہر واپس تشریف لے گئے.15 اخبار قادیان خلافت ثالثہ کے مُبارک دور کے آغاز کے ساتھ ہی مرکز احمدیت قادیان میں ایک نئی قوت عمل پیدا ہوئی.اور درویشان قادیان کی سرگرمیوں اور بھارت سے مرکز احمدیت قادیان میں آنے والی شخصیات میں بھی اضافہ ہوا.چنانچہ فروری میں یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب پر احمد یہ سپورٹس کلب کا قیام عمل میں آیا.جس کے سر پرست اور پریذیڈنٹ صاحبزادہ مرزا و تیم احمد صاحب مقرر ہوئے.158 ۲۴ جون ۱۹۶۶ء کو حضرت مولوی عبد الرحمان صاحب جٹ امیر جماعت بھارت و ناظر اعلیٰ قادیان نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جدید پختہ عمارت کا سنگ بنیا درکھا.اس سال بھارت کی جن اہم شخصیات نے قادیان کی زیارت کی ان میں شری گورو گوبند سنگھ جی مہاراج کے یادگاری شستر، بھارتی وزیر خارجه آنریبل سردار سورن سنگھ ، اور گیانی گورمکھ سنگھ صاحب مسافروزیراعلیٰ پنجاب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.سردار سورن سنگھ صاحب ۲۵ / اپریل ۱۹۶۶ء کو قادیان آئے.احمد یہ محلہ میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا.اُن کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب ہوئی اور قرآن مجید کا انمول اور روحانی تحفہ انہیں پیش کیا گیا.اس موقعے پر ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور میجر جنرل راجندرسنگھ سپیرو ایم.وی سی کمانڈر فرسٹ آرمرڈ ڈویژن بھی موجود تھے.100 بھارت کے انگریزی اخبارات ٹریبیون" TRIBUNE(انبالہ) ”ٹائمز آف انڈیا TIMES OF INDIA ( دیلی) اور اخبار ” پیٹریاٹ PATRIOT (دہلی) نے ۲۶ اپریل کو اور انڈین ایکسپریس INDIAN EXPRESS (دہلی) نے ۲۵ را پریل کی اشاعت میں وزیر خارجہ کی قادیان آمد سے متعلق مفصل خبر شائع کی.161-
تاریخ احمدیت.جلد 23 621 سال 1966ء گیانی گورمکھ سنگھ صاحب مسافر وزیر اعلی پنجاب ۱۳ نومبر ۱۹۶۶ء کو مرکز احمدیت میں تشریف لائے.اس موقع پر نصرت جہاں پارک ( باغ حضرت مسیح موعود ) میں جلسے اور عصرانے کا دلکش انتظام تھا.وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ جماعت احمدیہ کے سرکردہ اراکین و حاضرین ! مجھے اس پاک استھان میں آکر خوشی ہوئی ہے.کسی کا بھی کوئی پوتر استھان ہو.سب کو ہی قابل تعظیم سمجھا جاتا ہے.اس استھان کی مٹی اس مقدس وجود کی یاد دلاتی ہے.جس کی وجہ سے یہ بھی باعث تقدیس سمجھی جاتی ہے.اور اس شعر کے ذریعہ اپنے جذبات کی ترجمانی کی.اور جمال ہم نشین در من اثر کرد وگرنه من ہماں خاکم کہ ہستم اس خوشی کا اظہار کرنے کے بعد بتلایا کہ میں اس جگہ اطمینان محسوس کرتا ہوں.مجھے اپنی عمر گذشتہ کے ایام یاد آتے ہیں.جہاں میں پیدا ہوا.پرورش پائی.جب ہم کانگریس کا پر چار کرتے تھے تو مسلمانوں کو بھی خطاب کرنے کے مواقع میسر آتے تھے.اس زمانہ میں قرآن مجید کی بہت سی پاک آیات بھی یاد تھیں.مگر اب بھول گئی ہیں.مجھے یہ معلوم کر کے اور خود بھی دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ قادیان میں بسنے والے تمام ہندوؤں، سکھوں، مسلمانوں میں پیار و محبت کی فضا قائم ہے.یہ پیارو محبت کا سلسلہ جاری رہے گا.ہر طرح ہم مسلمانوں احمدیوں کا خیال رکھیں گے.آپ نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا کہ جماعت احمدیہ سے میرے پرانے تعلقات ہیں.کبھی ذکر اذکار میں گیانی عباداللہ سے بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے.گیانی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ گورونانک ساڈا ہے.میں اس بحث کو یہ کہہ کر ختم کرتا تھا.کہ سکھ بھائیوں کو تو خوشی ہونی چاہیے کہ دوسرا بھی تمہارے گورو کو اپنا گورو کہتا ہے.اور اس طرح دراصل وہ تمہارے گورو کی عزت کرتا ہے.پس اس میں ناراضگی کی کونسی بات ہے.162 جلسہ سالانہ قادیان اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا روح پرور پیغا احمدیت کے ابدی مرکز میں جماعت احمدیہ کا پچھتر واں سالانہ جلسہ ۶،۵،۴ دسمبر ۱۹۶۶ء کو نہایت کامیابی سے منعقد ہوا جس میں ہندوستان کے علاوہ پاکستان کے سو خلص احمدیوں نے بھی شرکت کی اور اُن کی قیادت کے فرائض قریشی محمود احمد صاحب ایڈووکیٹ نے انجام دیئے.ممالک
تاریخ احمدیت.جلد23 622 بیرون سے شرکت کرنے والوں کی تعدا دا کیس تھی.163- سال 1966ء سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اس مقدس رُوحانی اجتماع کے لئے حسب ذیل رُوح پرور پیغام عنایت فرمایا.جو سید داؤ د احمد صاحب ناظر خدمت درویشاں نے افتتاحی اجلاس میں پڑھ کر سنایا." بسم الله الرحمن الرحيم " نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھوالناصر عزیز از جان قابلِ صدر شک و احترام بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبركاته آج آپ قادیان کی اس مقدس بستی میں اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ اپنے رب کے حضور جھکیں اور عاجزانہ دعائیں کریں کہ وہ غلبہ اسلام واحمدیت کے متعلق اپنے وعدوں کو جلد اور ہماری زندگیوں ہی میں پورا کر دے اور ہماری غفلتیں اور کوتاہیاں اس میں تاخیر کا باعث نہ بنیں.وہ خود ہی اپنے فضل سے ہمیں اس بات کی توفیق عطا کرے کہ ہم اپنی تمام طاقت اور پوری توجہ اور انتہائی فدائیت اور ایثار اور صدق وصفا کے ساتھ اس کی راہوں پر چلنے کے قابل ہو جائیں اور اس کی رضا کو حاصل کر لیں اور اس کی نگاہ میں اس بات کے مستحق ٹھہریں کہ ہمارا محبوب رب ہماری زندگیوں ہی میں وہ بشارتیں پوری کردے جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے اس کی برگزیدہ جماعت کو دیا گیا ہے.دوسری غرض آپ کے یہاں جمع ہونے کی یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول کی باتیں اس نیت کے ساتھ سنیں کہ اُسوہ رسول کو اپناتے ہوئے شریعت اسلامیہ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے.پس ان مبارک گھڑیوں کا کوئی لمحہ بھی ضائع نہ کریں.دُعاؤں.ذکر الہی.نیکی کی باتیں سننے سنانے سے اپنے اوقات کو معمور رکھیں تاہمارا پیارا رب ہماری جھولیوں کو اپنے فضل ، اپنی رحمت، اپنی رضا سے کچھ اس طرح بھر دے کہ ہماری روح سیر ہو جائے.نور السموات والارض اپنے نور میں ہمیں کچھ اس طرح لپیٹ لے کہ کوئی شیطانی
تاریخ احمدیت.جلد 23 623 سال 1966ء ظلمت ہمارے قریب بھی پھٹکنے نہ پائے.قرآن مجید.یہ عظیم کتاب اللہ تعالیٰ کے نور سے ہی بنی ہے اور اسی کے ذریعہ ہم اس کے نور کو حاصل کر سکتے ہیں.پس قرآنی ہدایات پر عمل پیرا ہو کر اس کے نور کو حاصل کریں.پہلے اپنے وجود مجسم نور بنا ئیں اور پھر شمع نورانی ہاتھ میں لے کر قریہ قریہ اور گھر گھر پہنچیں اور اس عظیم ٹور کے ذریعہ دنیا کے اندھیروں اور شیطانی ظلمات کو دور کریں تا ہماری یہ دنیا نور میں بسنے والی دُنیا ہو جائے اور سب انسان خدا کے حقیقی بندے بن جائیں.اسلام صلح کا.آشتی کا.سلامتی کا.امن کا.ہمدردی اور خیر خواہی کا باخع نفسک“ کی روحانی کیفیت کا مذہب ہے.پس ہر مذہب و ملت کے ساتھ حسن سلوک کریں.احسان کی راہوں کو اختیار کریں.کسی کو بھی زبان یا ہاتھ سے دُکھ اور تکلیف نہ پہنچا ئیں بلکہ ہر ایک کی تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کریں.ہر ایک سے ہمدردی کریں.ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کے ساتھ پیش آئیں.بلا امتیاز مذہب و ملت ہر ایک کی بے لوث خدمت کریں.قانون کے احترام کو اپنا شعار بنائیں.بڑوں کی خواہ وہ کسی مذہب سے ہی کیوں تعلق نہ رکھتے ہوں عزت واحترام کریں اور چھوٹوں پر رحم اور شفقت کی نگاہ رکھیں.غرضیکہ اسلام کا کامل نمونہ اور اسوہ حسنہ رسول (ﷺ) کا حقیقی عکس بن کر اپنی زندگیوں کے دن گزاریں تا آسمان کے فرشتوں کی دعائیں آپ کو حاصل ہوں اور زمین پر بسنے والی نگاہیں آپ کو عزت اور احترام سے دیکھیں اور ہر مذہب وملت کے کان آپ کی باتوں کو توجہ اور شوق سے سنیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اس کے فضل سے جنت کے سب دروازے آپ کے لئے کھولے جائیں.اس کی رحمت کا سایہ ہمیشہ آپ پر رہے.اس کی مغفرت اور اُس کے نور کی چادر ہمیشہ آپ کو ڈھانپے رکھے اس کی رضا کے عطر کی پیٹیں ہمیشہ آپ کے وجودوں میں سے نکلتی رہیں.خدا کرے کہ آپ اس چشمہ فیض سے ہمیشہ فیضیاب ہوتے رہیں اور دُنیا ہمیشہ آپ کے فیوض و برکات سے استفادہ کرتی رہے.آمین
تاریخ احمدیت.جلد 23 624 سال 1966ء اے میرے عزیز درویشو ! اے اس پاک اور مقدس بستی کے مکینو! رب عزیز نے اپنے بے پایاں فضل سے ان بیوت مرفوعة کو آباد رکھنے کی ایک ایسی خدمت تمہارے سپرد کی ہے کہ اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو کماحقہ نباہ لو اور بشاشت کے ساتھ ادا ئیگی فرض کی تلخیاں برداشت کر لو تو قیامت تک تمہارا نام رشک اور احترام سے لیا جائے گا اور آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی.آج ہمارا رب تم سے انتہائی ایثار کا مطالبہ کر رہا ہے تا وہ اپنے انتہائی فضلوں اور رحمتوں کا تمہیں وارث بنائے.آمین یا رب العالمین.یار (دستخط ) مرزا ناصراحم خلیفه لمسیح الثالث یکم دسمبر ۱۹۶۶ء 66 164 لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کی جدید پختہ عمارت کا ایک حصہ مکمل ہو چکا تھا.جس کا افتتاح سید میر داؤ د احمد صاحب نے فرمایا.اس تقریب پر ایک لمبی اور پُر سوز اجتماعی دُعا ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کرام اور قادیان کے بزرگان کے علاوہ سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی آف کلکتہ بھی موجود تھے.جلسہ سالانہ ربوہ کا ذکر ہالینڈ کے پریس میں ہالینڈ کے اخبار DE ROTTERDAMMER" ROTTERDAM" نے اپنی ۲۴ دسمبر ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا:.”ربوہ.مغربی پاکستان.مسلمانوں کے ترقی یافتہ گروہ جماعت احمدیہ کے لئے یہ مہینہ خاص اہمیت کا حامل ہے.یہ جماعت اپنے نئے امام (حضرت) مرزا ناصر احمد (صاحب) کی قیادت میں مجتمع ہورہی ہے.تاوہ ساری دنیا میں پھر سے ایک نئے عزم کے ساتھ اپنی تبلیغ کا آغاز کر سکے.اس سالانہ اجتماع پر ایک لاکھ سے زائد مسلمان اپنے امام کے خطاب کو سننے کے لئے جمع ہوتے ہیں.جن کا کہنا ہے کہ خدا ان سے کلام کرتا ہے......حضرت مرزا ناصر احمد (صاحب) گزشتہ سال اپنے والد کی جگہ امام مقرر ہوئے ہیں.مسلمانوں کے اس گروہ کے لئے خدا سے کلام کا دعوی کوئی نیا دعویٰ نہیں.اس جماعت کی بنیاد
تاریخ احمدیت.جلد 23 625 سال 1966ء موجودہ امام کے دادا نے رکھی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ خدا نے خود اُن سے کلام کیا ہے.وہ اپنے اس دعوئی کے بعد پوری طرح اپنے کام میں سرگرم عمل ہو گئے مگر اس کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں سے اُن کے اختلاف بڑھ گئے.عوام نے اُن کے دعوی نبوت کو ماننے سے انکار کر دیا.کیونکہ اُن کے نزدیک محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) آخری نبی تھے.مگر عوام کی مخالفت انہیں اپنے مشن کی تبلیغ سے باز نہ رکھ سکی.چنانچہ یہ جماعت اب بہت سے ممالک میں اپنے قدم مضبوطی سے جما چکی ہے.موجودہ خلیفہ کی عمر ۷ ۵ سال ہے اور وہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں.اگر چہ وہ بظاہر کوئی ایسے صوفی منش نظر نہیں آتے تاہم ان کا اکثر وقت دینی امور کی انجام دہی اور عبادت گزاری میں ہی گزرتا ہے.بہت ہی سادہ غذا پر بسر اوقات کرتے ہیں.غذا کا اہم جز وسویا بین ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق وہ چار بیویاں رکھ سکتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنی پہلی بیوی سے ہی وفاداری کا اظہار کئے ہوئے ہیں.انہیں الہام ہوا ہے کہ ان کی جماعت ( اپنی تعلیم سے ) ساری دنیا کو منو راور روشن کر دیگی.غانا کے ملک میں اس جماعت کو بہت کامیابی حاصل ہوئی ہے خصوصاً ان لوگوں میں جو مشرک ہیں.اور سیرالیون میں اس جماعت کی کوششوں کا ہی اثر ہے کہ وہ لوگ جو عیسائیت سے وابستہ ہوتے تھے اب اپنے مذہب سے برگشتہ ہورہے ہیں.انڈونیشیا اور نائیجیریا میں ان کی جماعت میں شامل ہونے والے وہاں کے عام مسلمانوں - ہی تعلق رکھتے ہیں.اس جماعت کے امام نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انہیں ( اُن کے مشن کو ) زیادہ کامیابی اُن جگہوں پر ہورہی ہے جو پہلے پروٹسٹنٹ حکومت کے ماتحت تھے کیونکہ وہاں زیادہ آزادی ہے بہ نسبت اُن علاقوں یا ممالک کے جہاں پہلے کیتھولک حکومت کا دور دورہ تھا.موجودہ دور میں جبکہ مسلمان اور عیسائی علماء آپس میں ایک دوسرے سے قرب کا تعلق رکھتے ہیں یا اس کے آرزو مند ہیں ) یہ جماعت جو ہالینڈ میں بھی سرگرم عمل ہے مسلمانوں اور عیسائیوں کی اس خلیج کو وسیع تر کر رہی ہے.سے اس جماعت کا خیال ہے کہ مسیح نہ صلیب پر مرے اور نہ ہی بعد میں زندہ اٹھائے گئے بلکہ انہیں فلسطین سے ہجرت کرنی پڑی اور بعد میں وہ پھر کشمیر میں دفن ہوئے.موجودہ امام کے دادا نے دعویٰ
تاریخ احمدیت.جلد 23 626 سال 1966ء کیا تھا کہ وہ صحیح ہیں.اب تک ایسا بھی کم ہی ہوا ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس جماعت کا کوئی فرد عیسائی ہوا ہو.التواء جلسہ سالانہ ربوہ 166 اس سال رمضان المبارک کی وجہ سے جلسہ سالانہ ربوہ کا انعقاد دسمبر کے آخری ہفتہ کی بجائے جنوری ۱۹۶۷ء کے آخری ہفتہ میں ہوا.اس لئے اس کا ذکر ۱۹۶۷ء کے سال میں ہی کیا جائے گا.
سال 1966ء 627 حوالہ جات (صفحہ 447 تا626) تاریخ احمدیت.جلد 23 الفضل ۸جنوری ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۶۶، صفحریم الفضل ۱۳ جنوری ۱۹۶۶، صفحیم الفضل ربوه ۶ مارچ ۱۹۶۶، صفحه ۲ تا ۴ الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ۸ الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۶ ، صفحه ۸ بحوالہ بدر قادیان ۱۴ جولائی ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۱۲ فروری ۱۹۶۶، صفحه ۳ بدر ۲۶ جولائی ۱۹۰۶ صفحہ۱۲.ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۴۷ الفضل ۱۸ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۳ الفضل ۳ فروری ۱۹۶۶ ، صفحیم : " ربوہ کی مساجد مقالہ جامعہ احمد یہ ربوہ شکر نعمت صفحہ ۱۱۹-۱۲۱ ڈاکٹر عطاءالرحمن صاحب صدر جماعت احمد یہ ساہیوال رسالہ مصباح ابریل ۱۹۶۶ ء صفحه ۱۹،۱۸ الفضل ربوه ۵ ، ۱۶مارچ ۱۹۶۶ء الفضل ۱۹ فروری ۱۹۶۶ صفحہ ۸.یہ معرکہ آراہ تقریر کتابی صورت میں شائع کر دی گئی تھی.رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال ششم (۷۲-۱۹۷۱ء) صفحه ۵ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶، صفحه ۱۶۵ تا ۱۶۸ الفضل یکم جون ۱۹۶۶ صفحه ا نومبر ۱۹۶۶ ء تک وعدہ جات کی مقدار ۳۲ لاکھ سے بڑھ گئی.ڈویژن وارتفصیلی رپورٹ کے لئے ملاحظہ ہو سیکرٹری فضل عمر فاؤنڈیشن کا نوٹ مطبوعہ الفضل ۱۱نومبر ۱۹۶۶ ، صفحہ ۸ الفضل ۹ ۱ اگست ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ ، حضور کی تقریر کے متن کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲ستمبر ۱۹۶۶ ءصفحہ ۴۳ الفضل ۲۷ اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۸،۱ الفضل ۸ستمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۴،۳ 1 2 3 4 5 6.8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 22 21 22 22
سال 1966ء 628 تاریخ احمدیت.جلد 23 الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۶ صفحه ا 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 الفضل ۲۱ جون ۱۹۶۱ صفحه ۲ تا ۴ ، تاریخ احمدیت جلد ۱۳ صفحه ۲۱۹ تا ۲۲۵ رپورٹ کارگزاری فضل عمر فاؤنڈیشن ۱۹۷۳ء صفحه ۳ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال اول (۶۷-۱۹۶۶ ء ) صفحه ۱۳ تا ۱۶ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال دوم (۶۸ - ۱۹۶۷ء) صفحه ۲۱ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال دوم (۶۸ - ۱۹۶۷ء) صفحه ۲۱ ۲۲ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال دوم (۶۸.۱۹۶۷ء ) صفحه ۱۳ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال اول (۶۷ - ۱۹۶۶ء) صفحہ ۱۶ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال دوم (۶۸ - ۱۹۶۷ء ) صفحہ ۹ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال دوم (۶۸.۱۹۶۷ء) صفحه ۲۳ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال چهارم (۱۹۷۰.۱۹۲۹ء ) صفحه ۶ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال (۶۹.۱۹۶۸ء) صفحہ ۱ تا۱۴، سال (۷۰.۱۹۶۹ء) صفحہ ۶ تا ۹ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال چہارم (۱۹۷۰.۱۹۶۹ء) صفحہ ۲۲۰،۲۰ ڈاکٹر عبدالہادی کیوی صاحب نے انعامی رقم نصرت جہاں ریز روفنڈ میں ادا کر دی.رپورٹ سال ششم (۷۲-۱۹۷۱ء) صفحہم رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال چہارم (۱۹۷۰.۱۹۶۹ء ) صفحہ ۲۰ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال ششم (۷۲-۱۹۷۱ء) صفحه ی۲ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن سال چہارم (۱۹۷۰.۱۹۲۹ء) صفحہ ۲۰ فاؤنڈیشن سے حاصل شدہ معلومات مقاله خالد بلال احمد صاحب بی کام.ایم اے اکنامکس فاؤنڈیشن سے حاصل شدہ معلومات مقالہ خالد بلال احمد صاحب بی کام.ایم اے اکنامکس مقاله خالد بلال احمد صاحب بی کام ایم اے اکنامکس رپورٹ سال چہارم (۱۹۷۰.۱۹۶۹ء) صفحه م الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۶۶ ، صفحه ا الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۳ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ،۸.الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۳ تا ۵.حضور کا یہ خطاب کالج کے رسالہ ”المنار‘ کے علاوہ ایک مستقل رسالہ کی صورت میں بھی شائع کر دیا گیا.زیر عنوان ”خطبہ صدارت از حضرت مرز انا صر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث تفخیذ الاذہان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء صفحه ۱۲۲،۱۲۱ 47 39 40 41 42 38 ☹ co co co co 36 37 43 44 نه له م من هو 45 46
تاریخ احمدیت.جلد 23 48 49 50 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 72 73 74 الفضل هم مئی ۱۹۶۶ ء ۳۰ جون ۱۹۶۶ء الفضل ۷ ۱ جولائی ، ۳۰ راگست ۱۹۶۶ء 629 مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو خطبہ حضرت خلیفة انسخ الثالث مطبوعه الفضل ۲ نومبر ۱۹۲۶ صفحه۲تا۵ الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۶۶ صفحه۱ ، ۸ مفصل مضمون کے لئے الفضل ۲۲ مئی ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ الفضل ۷ اراپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۱، ۸ الفضل ۱۷ار اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ،۸ رساله اساطیر الاولین تاریخ اشاعت مارچ ۱۹۶۴ء الفضل ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۴۳ الفضل ۷ امئی ۱۹۲۶ء صفحه ۸۰ تقرير الفضل ۳۰ جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ ۴۰ میں چھپی.تقریر کا متن الفضل ۵ جون ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ ہم میں شائع ہوا.الفضل ۱۵ مئی ۱۹۶۶ ، صفحه ۱ ، ۸ الفضل ۱۲ جون ۱۹۶۶ ء صفحہ ۸ آپ کا مضمون الفضل ۶ نومبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ ہم میں شائع ہوا.الفضل ۳۰ راگست ۱۹۶۶، صفحها،۸ الفضل ۸ نومبر ۱۹۶۶ ، صفحه ا سال 1966ء رسالہ ”پیغام عمل مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۶ بحوالہ الفرقان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۱ تلخیص الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۶۶ صفحه ۳ ۴۰ مضمون مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل مبلغ ہالینڈ خالد سید نا نا صر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳، ۱۲۹۴، ۱۲۸ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ ء صفحہ ۱۰،۹ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ صفحه ۴۸ تا ۵۲ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ ء پیش کننده مولوی عبدالرحمن صاحب انور سیکرٹری مجلس مشاورت، الفضل ۱/۲۹اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۳ تا ۵ الفضل ۳ را گست ۱۹۶۶ء صفحریم ایشیا اپریل ۱۹۶۶ صفحہ۱ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۵۸، صفحه ۲ الفضل ۶ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ا
تاریخ احمدیت.جلد 23 75 76 77 78 79 80 81 82 83 84 80 % %0 00 89 89 88 87 86 85 90 91 92 93 95 215 94 بدر ۲ مئی ۱۹۶۶ء صفحه ۱ ، ۸،۷ بدر ۲ مئی ۱۹۶۶ء صفحه ۲ الفرقان‘اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۵ الفرقان جنوری ۱۹۶۷ء صفحه ۴ تا ۶ 630 پیش لفظ تفسیر سوره طور تا والناس جلد ہشتم از جناب عبدالحئی شاہ صاحب ناظر اشاعت انصاف راولپنڈی ۲۱ را پریل ۱۹۶۶ء بحواله الفضل ۳۰ / اپریل ۱۹۶۶ ء صفحه ۵ الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۴۰۳ الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۲۷ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ا تفصیل تاریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحہ ۴۹۱،۴۹۰ میں آچکی ہے.96 97 98 99 100 الفضل ۶ مئی ۱۹۶۶ صفحه ۳ الفضل ۶ مئی ۱۹۶۶ء صفحہ ۳ ماہنامہ تحریذ الاذہان جون ۱۹۶۶ صفحه ۴۲ سال 1966ء الفضل ربوه ۰ امئی ۱۹۶۶صفحه ا،۸ الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۶، صفحه ۳ الفضل، امئی، ۸ جون ۱۹۶۶ء نیاز فتح پوری شخصیت اور فکر وفن ڈاکٹر فرمان علی فتح پوری ناشرار دواکیڈمی سندھ کراچی طبع اول ۱۹۸۸ء الفضل ۲۶ مئی ۱۹۶۶ صفحه ۸ بدر ۲ جون ۱۹۶۶ء صفحه ۱۲۸ تذکره صفحه ۵۲۴ الفضل ۲۷ / اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۴ شہدائے احمدیت صفحہ ۱۳۵ تا ۳۸ انا شر طاہر فاؤنڈیشن ربوہ الفضل ۲۱،۵ جون ۱۹۶۲ صفحه ۸ براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۲۱ حاشیه در حاشیه ۳ مطبوعه ۱۸۸۴ء مطبع ریاض ہند امرتسر الفضل ۷ امرا گست ۱۹۶۶ء صفحه ۳ ہم قلمی یادداشت - ریکار ڈشعبه تاریخ احمدیت ربوه 101 الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۸ 102 الفضل ۵ جولائی ۱۹۶۶ء صفحه ، الفضل ۲ / اگست ۱۹۶۶صفحها، الفضل ۵/اگست ۱۹۶۶صفحه ۵
تاریخ احمدیت.جلد 23 631 103 الفضل ربوہ ۲۹،۷ جولائی، یکم ، ۶ استمبر ۱۹۶۶ء 104 الفضل ربوہ یکم وم را کتوبر ۱۹۶۶ء 105 106 الفرقان ربوہ نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ بدر ۲۶ مئی ۱۹۶۶ء صفحه ا 107 لمبلغ سرگودھا اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۳۱ 108 109 الفضل ۶ استمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۸ الفضل ۲۸ ستمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۲ تا ۵ 110 الفضل ۲۵ ستمبر ۱۹۶۲ صفحریم.رپورٹ مسعود احمد صاحب جہلمی انچارج احمد یہ فارن مشن را ولپنڈی 111 الفضل ۱۳ /اکتوبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۸ 112 الفضل ۲۶/اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ 113 الفضل ۱۲ را کتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۵ سال 1966ء 114 الفضل ۲۳ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۳ 115 ملاحظہ ہو رسالہ قومی زبان مئی ۱۹۶۸، صفحہ ۹۹ بعنوان " نئے خزانے“.جولائی تا دسمبر۱۹۶۷ء کے رسائل کا موضوع اور اعشاریہ قسط سوم مرتبہ ابوسلمان شاہجہانپوری.ناشر انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی نمبرا 116 117 خالد نومبر ۱۹۶۶ء صفحه ۱۶ الفضل ۱۶.۱۸ /اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحہ۱.۸ 118 الفضل ۱۶ را کتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۱- ۸ 119 علمی ارد والغت صفحه ۱۳۶ الفرقان جنوری ۱۹۶۸ صفحه ۱۸ تا ۲۱ 120 121 122 سالانہ رپورٹ صدر انجمن قادیان بابت ۱۹۳۷.۱۹۳۸ صفحه ۲۰ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ قادیان ۱۹۳۸ء - ۱۹۳۹ صفحه ۶۰ 123 رپورٹ صدر انجمن احمد یہ ۱۹۳۹ - ۱۹۴۰ صفحه ۹۱ و الفضل ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ 124 رپورٹ سالانہ صدرانجمن احمد یہ ۴۱ - ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۷ 125 رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ ۴۲ - ۱۹۴۱ صفحه ۱۴ 126 127 الفضل ۷ ارا کتوبر ۱۹۴۶ء صفحه ا الفرقان جنوری ۱۹۶۸ء صفحه ۲۵ تا ۲۸ 128 مصباح جنوری ۱۹۵۷ء صفحہم بحوالہ الا ز ہارلذوات الحمار حصہ دوم طبع دوم صفحہ ۱۷۹،۱۷۸ مرتبه حضرت سیده ام متین مریم صدیقہ صاحبہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 632 سال 1966ء 129 130 الفضل ۷ ارا کتوبر ۱۹۴۶ء الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۲ تا ۵ 131 الفضل ۶ اسرا کتوبر ۱۹۶۶ء 132 الفضل ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۱ ا 133 و المنبر “ لائکپور ۲۱ - ۲۸ جمادی الثانی ۱۳۸۶ھ مطابق ۷ ۱۴/اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ۱۰۹ 134 سود نیئر مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ۱۹۶۶ء 35 الفضل ۳۰ اکتوبر، یکم نومبر ۱۹۶۶ء 136 137 الفضل ۲۵ اکتوبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ و رساله خالد نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۲۹ الفضل ۲۵،۲۳/اکتوبر ۱۹۶۶ء 138 الفضل ربوه ۲۶ /اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ 139 الفضل ۴ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحه ا، الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۵ 140 الفضل ۱۰ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۵ 141 تابعین اصحاب احمد جلد دہم صفحه ۱۸۲٬۱۸۱ مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے ناشر مکتبہ اصحاب احمد قادیان مطبوعہ رامہ آرٹ پر لیس امرتسر اگست ۱۹۸۲ء 142 الفضل ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۶ صفحه ا 143 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۳ 144 الفضل ادسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۳ ہم 145 ۴۳ الفضل ۷ دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحہ ۳ 146 خط بنام مورخ احمدیت.اصل مکتوب شعبہ تاریخ احمدیت کے ریکارڈ میں محفوظ ہے.147 الفضل ۳۰ اکتوبر، یکم ۲۳ نومبر ۱۹۶۶ء 148 149 150 151 152 ماہنامہ ” خالد نومبر ۱۹۶۶ ء صفحه ۶ تا ۸ تشخيذ الاذہان ربوہ دسمبر ۱۹۶۶، صفحه ۶،۵ الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۴ تانے بانے صفحہ ۳۰ تا ۷۳ مولفہ منور احمد خالد صاحب الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ 153 الفضل ۸ دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحہ ۵.تانے بانے صفحہ ۳۰ تا ۷۳ مؤلفہ منور احمد خالد صاحب.جرمنی 154 الفضل ربوه مورخه ۹ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۵ 155 الفضل ربو ۲۹۰ نومبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۱-۸
تاریخ احمدیت.جلد 23 633 خطبه جمعه فرموده ۱۸ جون ۱۹۹۹ ء.شہدائے احمدیت صفحہ ۱۳۸ - ۳۹ انا شر طاہر فاؤنڈیشن ربوه الفضل ۲۵ و ۳۱ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۸ 156 157 158 159 160 161 162 163 164 165 بدر ۲۴ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۱ ۳ مارچ ۱۹۶۶ ء صفحہ ۸ تا ۱۰ بدرے جولائی ۱۹۶۶، صفحہ ۱ بدر ۲۸ اپریل ۱۹۶۶، صفحه ۱، ۱۱- ۵ مئی ۱۹۶۶ صفحه ۱۲ بدر ۵ مئی ۱۹۶۶ ، صفحه ۱۲ بدرے انومبر ۱۹۶۶ء صفحہا،۷ بدر ۱۵ دسمبر ۱۹۶۶ء الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۶۶، صفحه ۳ بدر ۱۵ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۴ 166 رسالہ تحریک جدید مارچ ۱۹۶۷ء صفر ۱۴ سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 634 سال 1966ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابہ کرام کا انتقال حضرت میاں عبدالرزاق صاحب سیالکوٹی ولادت : ۱۸۷۶ء بیعت و زیارت : ۱۹۰۰ ء وفات :۱۳ جنوری ۱۹۶۶ء حضرت میاں صاحب کو کس طرح احمدیت کی نعمت میسر آئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فیض صحبت سے انہیں آسمانی نشانات مشاہدہ کرنے کی سعادت میتر آئی اس کی تفصیل انہیں کے قلم سے درج ذیل کی جاتی ہے.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ :.میں ۱۹۰۰ء میں کچھ بیمار ہو گیا تھا.آٹھ دن کے بعد میں چلنے پھرنے لگ گیا.اُن دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری چارپائی پر بیٹھے ہیں اور ساتھ ہی کوئی تحریک کرتا ہے یہ حضرت مرزا صاحب ہیں اس کے بعد میں تجارتی کاروبار کے لئے دہلی چلا گیا.ان دنوں میں بارش بہت ہوتی تھی مجھ کو کبھی کبھی بخار ہوتا تھا.آتی دفعہ میرے دل میں خیال آیا میں قادیان میں جا کر حضرت خلیفہ نورالدین صاحب کے آگے اپنی بیماری کی حالت بتا کر علاج کا بندوبست کروں.پھر میں قادیان سیدھا آگیا.صبح سے لے کر بارہ بجے تک مولوی صاحب بیماروں کو دیکھتے رہے.جب میری باری آئی تو خود میرے دل میں خیال آیا مجھے بیماری تو کوئی نہیں اس لئے اپنی بیماری کا ذکر ہی نہ کیا اتنے میں مسجد مُبارک میں اذان ہوئی میں نماز پڑھنے چلا گیا اور اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے آئے ، جب میں نے حضرت صاحب کو دیکھا.نماز پڑھتے میں نے سوچا یہ چہرہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہے.اس سے پہلے میں لوگوں کی بخشیں سنتا تھا تو اُس وقت یہ خیال آیا کہ لوگ جھوٹ ، بہتان لگاتے ہیں اُسی وقت فور ادل نے گواہی دی اسی وقت بیعت کر لو.اگر کوئی بات قرآن وحدیث کے خلاف ہوئی پھر بھی پتہ لگ جائے گا.اُسی وقت حضرت صاحب نماز کے بعد اندر تشریف لے گئے تو میں مولوی عبدالکریم صاحب کے پاس جا بیٹھا.میں تو عبدالکریم صاحب کو جانتا تھا مگر وہ مجھے نہ پہچان سکے.جب میں نے سیالکوٹ کا ذکر کیا اور اپنے والد صاحب کا نام لیا.تو بہت خوشی سے فرمانے لگے آپ تو میرے دوست کے لڑکے ہو.پھر میں نے عرض کیا میری بیعت کروا دی جاوے.اُنہوں نے کہا کچھ دن یہاں رہو.سوچ سمجھ کر بیعت کرو.میں نے اصرار کیا بہت دنوں سے گھر سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 635 سال 1966ء آیا ہوا ہوں میری آج بیعت کروا دو تو چلا جاؤں.اُنہوں نے کہا شام کے وقت آپ کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر دوں گا.شام کے وقت نماز کے بعد حضرت صاحب شاہ نشین پر بیٹھ گئے.اور مولوی عبد الکریم صاحب بھی ساتھ بیٹھ گئے اور میں حضرت صاحب کے پاؤں دبانے لگ گیا.جناب مولوی صاحب نے میرے لئے عرض کی یہ ہمارے ہمسائے اور میرے دوست کے لڑکے ہیں ان کی بیعت ہو جانی چاہئے.حضرت صاحب نے فرمایا.یہ کب آئے ہیں.مولوی صاحب نے فرمایا آج آئے ہیں.حضرت صاحب نے فرمایا کچھ دن ٹھہر میں پھر بیعت ہوگی.مولوی صاحب نے کہا میں نے آگے ہی کہا تھا مگر وہ کاروبار کی وجہ سے جلدی جانا چاہتے ہیں.حضرت صاحب نے مجھے مخاطب ہوکر فرمایا یہاں کچھ دن ٹھہرو.میں نے کہا کل کا دن انشاء اللہ ٹھہر جاؤں گا.پھر حضرت صاحب مولوی صاحب کو اپنی رؤیا سنانے لگ گئے کہ آج ہم نے ایک کھائی لمبی سی کھدی ہوئی دیکھی ہے.اور اُس کے اُوپر جانور لٹائے ہوئے دیکھے ہیں ہر جانور کے سر پر ایک ایک آدمی چھری لئے کھڑا ہے.میں نے پوچھا یہ کیا ہے اُنہوں نے کہا یہ گوہ کھانے والی بھیڑیں ہیں ساتھ ہی اُنہوں نے چھری پھیر دی پھر نظارہ بدل گیا.اس کے بعد دیکھا بہت سے پودے لگائے جاتے ہیں ان کے سیاہ بیج بوئے جاتے ہیں پھر نظارہ بدل گیا پھر میں نے دیکھا.بڑا وسیع میدان ہے اور اس میں ہاتھی ادھر اُدھر بھاگے پھرتا ہے اور خلقت کی چیخ و پکار کی آواز آرہی ہے.اور ہمارے پاس سے گذرتا ہے تو کان ڈھیلے کر کے گذرتا ہے.پھر حضرت صاحب نے تعبیر فرمائی کہ طاعون کثرت سے پڑے گی اور ہماری غلام ہی رہے گی.یہ جو پودے ہم نے دیکھے ہیں یہ طاعون کا بیج ہیں یہ بھیڑیں چھری پھیرنے سے معلوم ہوا کہ اس طرح کوئی رحم نہ کیا جاوے گا.طاعون کثرت سے ہوگی پھر حضرت صاحب اندر تشریف لے گئے.اس جگہ جو ہم اور پانچ ، چھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے.کھانا آ گیا ہم نے کھالیا.پھر دوسرے دن نماز ظہر کی پڑھی تو حضرت صاحب کے پاس کچھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے ساتھ ہی مولوی عبدالکریم صاحب بھی تھے.حضرت صاحب نے (اپنے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے ) فرمایا کچھ کاغذات ہیں میں نے دستخط کرانے کے لئے پیش کئے.قلم کو چھنکا گیا.سُرخ سیاہی تھی جب ہم اٹھے تو دیکھا ہمارے کپڑوں پر سرخ چھینٹیں پڑی ہوئی ہیں.آدمی دبانے والا تھا.وہ دیکھتا تھا کہ اوپر چھینٹیں آئیں.اور او پر جب دیکھتا کوئی چیز نہیں.یہ باتیں میں نے حضرت صاحب کی زبانی سنیں تھیں.یہ مجھ کو معلوم نہیں.اسی دن کا یہ کشف تھایا کہ پہلے کا.پھر شام کے بعد مولوی صاحب نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 636 سال 1966ء میری بیعت کے لئے عرض کیا اور بیعت ہو گئی.یہ واقعات جو دو دن قادیان میں رہا اس وقت کے ہیں.بیعت کے بعد میں ہر جلسہ پر آتا رہا.بلکہ عید بھی یہاں قادیان میں آکر پڑھا کرتا تھا.عید کے دن کا واقعہ ہے بڑی مسجد میں عید پڑھنے کے واسطے سیالکوٹ کے دوست میر حامد شاہ صاحب اور چوہدری مولا بخش صاحب ہم سب گئے.مسجد بھری ہوئی تھی.پکی قبر کے پاس کچھ دوستوں نے کپڑے بچھا دیئے اور میر حامد شاہ صاحب بیٹھ گئے.تھوڑی دیر بعد مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب آگئے.وہ بھی اسی جگہ بیٹھ گئے.ان کے بعد حضرت صاحب تشریف لائے ان کے ساتھ خواجہ کمال الدین صاحب اور بہت سارے دوست تھے.میر حامد شاہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب سب کھڑے ہو گئے.حضرت صاحب نے فرمایا.مولوی عبدالکریم صاحب کو آواز دے دو.عید پڑھا ویں آپ وہاں ہی کھڑے ہو گئے.کیونکہ پہلے ہی قبر کے پاس میر حامد شاہ صاحب لاہور کے دوست وہاں تھے.اور حضرت صاحب بھی وہاں ہی کھڑے ہو گئے.دوست چونکہ بہت زیادہ تھے عید پڑھنے کے وقت جگہ تنگ ہو گئی.ساتھ ہی ہندو کا کوٹھا ملتا تھا.خواجہ کمال الدین اور میں نے ہندو کے کوٹھے کے بنیرے (منڈیر ) پر نماز شروع کر دی.اگلی طرف خواجہ کمال الدین صاحب پچھلی طرف میں تھا.نماز شروع ہو گئی تو ایک بوڑھا سا ہندو میلے کپڑے ہاتھ میں سوئی لئے ہوئے کوٹھے کے ایک کونے پر آبیٹھا.اُس نے بولنا شروع کر دیا.ساڈے کو ٹھے گر جائیں گے.اس نے تو اپنے فائدہ کے لئے دکانداری شروع کی ہے.ایسے بُرے بُرے الفاظ بولنے شروع کر دئے.حضرت صاحب نزدیک تھے سب باتیں سن لیں.نماز ختم ہونے کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب کو کہدو یہاں تار لگ جائے.اس کے کوٹھے پر کوئی نہ جائے.حضرت صاحب نے آگے جا کر خطبہ شروع کر دیا.خطبہ کے آخیر میں جا کر یہ فرمایا.میں نے آج دیکھا ہے کہ میری جماعت نے اچھا صبر کا نمونہ دکھایا ہے ہم ان لوگوں کے واسطے ہر مصیبت پر دوائیاں بھی دیتے ہیں.اور دعا کے واسطے کہیں تو دُعا بھی کرتے ہیں.مگر یہ لوگ گالیاں دینے سے باز نہیں آتے.اس بات پر آکر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا.اور فرمانے لگے.ان لوگوں کو پتہ نہیں لگتا.طاعون آتی ہے.ان کو فنا کرتی جاتی ہے.ہمارے گھر کا چوہا بھی نہیں مرتا.جب تک یہ باز نہیں آئیں گے.عذاب بھی آتا رہے گا.اس وقت چند ہندو بھی کھڑے تھے.وہ معذرت کرنے لگ گئے.ہم تو صاحب آپ کے تابعدار ہیں.نامعلوم اس بیوقوف بڑھے کی عقل کو کیا ہو گیا ہے تقریر کے بعد فوراً
تاریخ احمدیت.جلد 23 637 سال 1966ء تا رلگ گئی.تھوڑے عرصہ کے بعد قادیان کے آریہ اور ہم کے عنوان پر ایک کتاب شائع ہوگئی.دوسرے سال آئے.تار کی جگہ دیوار بنی ہوئی دیکھی.بوڑھا اُس سال مر گیا.جو اس کا کوٹھا تھا وہ گر گیا.تھوڑے عرصہ بعد اس کے وارثوں نے انجمن کے آگے فروخت کر دیا.میں نے ایک دفعہ بہت بڑی تجارت کا کام شروع کر دیا.بارشوں کی وجہ سے مجھے بہت نقصان ہوا.جس کے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی.سالانہ جلسہ قریب تھا.میں نے میر حامد شاہ صاحب کو کہا کہ حضرت صاحب کے آگے ہماری حالت بیان کر کے دُعا کروائی جائے.جب ہم جلسہ پر آئے.تو میر حامد شاہ صاحب نے خاص کہا اور ہم دونوں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضرت صاحب مصلے پر مہندی لگائے بیٹھے ہوئے تھے.میر حامد شاہ صاحب نے میری تجارت کا سب واقعہ بیان کیا اور دعا کے واسطے عرض کیا.پھر حضرت صاحب نے میری طرف رحم و شفقت کی نظر اٹھا کر دیکھا ان کا اس وقت رحم سے جود یکھنا تھا وہ نئی زندگی عطا کر گیا.بلکہ میری اولاد کے لئے بھی ہر لحاظ سے برکت کا موجب ہوا.پھر لیکچر لاہور میں بمعہ اہل وعیال حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.لیکچر بہت کامیابی کے ساتھ ہوا.لیکچر کے بعد سیالکوٹ کی جماعت نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ ایسا جلسہ سیالکوٹ میں بھی ہو جانا چاہئے.حضرت صاحب نے منظور کر لیا.مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹ چلے گئے.اور جلسہ کی تاریخ مقرر ہوگئی.حضرت جب تک سیالکوٹ میں رہے.لنگر خانہ کا انتظام اور جلسہ گاہ کا بندو بست میرے سپرد تھا.جب حضرت صاحب کا جلسہ گاہ میں جانے کا وقت ہوتا تو راستہ میں جھنڈاں والا محلہ جو ہے اس جگہ کا امام مسجد جو تھا اس نے لڑکوں کی جھولیوں میں راکھ ڈلوا کر بازار کی دکانوں میں بٹھا رکھا تھا.حضرت صاحب کی جب تین فلنیں گزریں.پولیس کا انتظام بہت تھا.لڑکوں کو معلوم نہ ہوا کس فٹن پر بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت پر ہے صاحب وہاں سے گذر کر جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے.لیکچر بہت کامیابی اور اطمینان سے ہوا.جب حضرت صاحب واپس قادیان تشریف لے آئے.تو وہ حافظ امام مسجد جس نے لڑکوں کی جھولیوں میں راکھ ڈلوائی اس کو طاعون ہوگئی.اس کا بہت بھاری کنبہ تھا.وہ خود بھی طاعون سے مر گیا.اس کا سب خاندان طاعون سے تباہ ہو گیا.ان کی ایسی حالت ہوگئی کہ دو کو دفن کر کے آتے تو دومر کر اور تیار ہو جاتے.ان کے خاندان سے ایک جو بچاوہ بھی پاگل ہو گیا.تمام محلہ جھنڈاں والا تباہ ہو گیا.اس کے بعد جہلم والا واقعہ میں نے دیکھا.جب حضرت صاحب جہلم تشریف لے گئے.میں ایک دن پہلے
تاریخ احمدیت.جلد 23 638 سال 1966ء گیا تھا جب اسٹیشن پر گاڑی پہنچی تو وہاں بہت خلقت دیکھنے آئی ہوئی تھی.حضرت صاحب انتظام کے ساتھ جو کوٹھی دریا کے کنارے پر تھی.وہاں پہنچائے گئے.مولوی عبد اللطیف صاحب شہید مرحوم کا بل والے جو بعد میں شہید ہوئے.وہ بھی حضرت صاحب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.میں نے دیکھے.خلقت کو دیکھنے کا بہت شوق تھا.تھانیدار نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کو ٹھے کے اوپر کرسی پر چند منٹ بیٹھ جائیں تا کہ جو خلقت آپ کو دور دور سے دیکھنے آئی ہے وہ دیکھ لے اور ہجوم کم ہو.حضرت صاحب نے منظور فرمایا.اور خلقت نے اچھی طرح اطمینان سے دیکھ لیا.دوسرے دن کچہری میں پیشی تھی.حضرت صاحب کچہری میں تشریف لے گئے.تو مجسٹریٹ نے کہا ایک گھنٹہ بعد مقدمہ پیش ہوگا.حضرت صاحب باہر میدان میں کرسی پر بیٹھ گئے اور تقریر کی.بہت خلقت جمع تھی.سب نے اس تقریر کو سنا.تقریر ختم ہونے پر بے شمار لوگوں نے بیعت کی تقریباً ایک ہزار سے زیادہ لوگوں نے بیعت کی.یہ مقدمہ کیا تھا گویا خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان تھا.حضرت میاں صاحب قرآن شریف کے عاشق تھے.لمبی لمبی سورتیں زبانی یاد تھیں.صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.بچوں کی اصلاح کا خاص خیال رکھتے تھے.حضرت مصلح موعود اور مبلغین احمدیت کے لئے بہت دعائیں کرتے تھے.شب بیدار اور تہجد گزار تھے.اور صاحب کشف بھی تھے.اولاد کمانڈر عبداللطیف صاحب ایم.ایس سی، پی.ایچ.ڈی ڈائر یکٹر زرعی یونیورسٹی لاسکپور فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ خواجہ عبدالقیوم صاحب ( والدہ میجر منیر احمد صاحب شہید ) زینب بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر غلام علی صاحب ہاشمی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میجر محمد شاہ نواز خان صاحب حضرت میاں عبدالرحمن صاحب آف جموں ولادت: ۱۸۹۶ء (اندازاً) بیعت بسن کی تعیین نہیں ہوسکی.وفات :۲۲ جنوری ۱۹۶۶ء بعمر ۷۰ سال حضرت فیض احمد صاحب آف جموں کے فرزند اکبر اور میاں محمد ابراہیم (ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ ومجاہد امریکہ ) کے خسر تھے.اپنے بزرگ اور احمدیت پر شیدائی اور فدائی باپ کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 639 سال 1966ء تربیت یافتہ نیک اور متقی ، ریاء اور لغویات سے مبرا، عفت شعار اور حیاء کے پتلے ،اپنے کاروبار میں ماہر اور اس میں مگن لیکن دیندار اور پر ہیز گار.باپ بیٹے کی کوششوں کے نتیجے میں جموں اور سری نگر میں فرنیچر کا سب سے بڑا کارخانہ قائم ہوا.سلسلہ کے متعدد بزرگ اور مبلغ اوائل میں جموں اور بعد ازاں سری نگر میں اُن کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے.احمدی احباب اور مبلغین کی بے لوث خدمت کرنا اُن کا شعار رہا.تبلیغ سلسلہ اور اشاعت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں دین و دنیا کی نعمتوں سے مالا مال کر دیا.اولاد امتہ الحی صاحبہ ( بیگم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ومجاہد مر یکہ ) امتہ المجید صاحبہ ( بیگم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب بٹ آف کنڈیارو) امتہ الحمید صاحبہ ( بیگم غلام حسین صاحب قمر بلوچ) عبدالماجد صاحب عبدالرشید صاحب ( آپ ۱۹۴۷ء میں جموں کے ہنگامہ میں شہید ہو گئے ) عبدالمجید صاحب عبدالسلام صاحب عبد الحلیم صاحب (سرکاری ڈیوٹی کے دوران عراق میں ایک حادثہ کا شکار ہوئے ) عبدالشکور صاحب ) حضرت میاں فتح الدین صاحب آف پیرکوٹ ولادت: ۱۸۷۵ء | بیعت: جولائی ۱۹۰۳ء وفات: ۲۶ جنوری ۱۹۶۶ء جناب مولوی سلطان احمد صاحب فاضل پیر کوٹی کے پھوپھا تھے.قبول احمدیت کے بعد آپ کو زبر دست ابتلاء سے دو چار ہونا پڑا مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے صدق وصفا کا وہی مثالی نمونہ پیش کیا.جو خداوالوں کا شعار ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جب آپ بیعت کر نے قادیان تشریف لے گئے تو آپ کی عدم موجودگی میں آپ کا اکلوتا بیٹا ایک دن بیمار رہ کر اچانک اپنے خدا کو پیارا ہو گیا.آپ نے واپس آکر جب بیٹے کی وفات کی خبر سنی تو اُف تک نہ کی.وہ وقت آپ کے لئے بڑی آزمائش کا تھا.آپ رضائے الہی پر راضی ہو گئے رشتہ داروں اور گاؤں کے دیگر لوگوں
تاریخ احمدیت.جلد 23 640 سال 1966ء کا خیال تھا کہ شاید آپ اپنا سر پیٹ لیں گے.مگر ان کے صبر نے سب کو حیران کر دیا.رشتہ داروں اور گاؤں کے لوگوں نے اندر ہی اندر آپ کی مخالفت شروع کر دی.مگر آپ اتنے بارعب، نڈر اور بہادر تھے کہ کسی کو کھلے بندوں آپ کی مخالفت کی جرات نہ ہوئی.آپ نے آہستہ آہستہ لوگوں کو احمدیت کا پیغام دینا شروع کر دیا.آپ کی کوششوں سے گاؤں کا ایک زمیندار احمدی ہو گیا.اس کے رشتہ داروں نے کھل کر تو اس کی مخالفت نہ کی مگر ایک رات چپکے سے اسے قتل کر دیا.یہ واقعہ بھی نانا جان کے لئے بڑا اندوہناک تھا.ایک طرف دوست کی شہادت دوسری طرف اس کے بیوی بچوں کا بوجھ تیسرے لوگوں کی مخالفت.آپ نے بڑے صبر و استقلال اور خندہ پیشانی سے حالات پر قابو پایا اپنے دوست کی جائیداد اور گھر کا انتظام سنبھال لیا.اس کے کمسن بچے کی حفاظت کا ذمہ لے لیا.آخر وہ لڑکا جوان ہوا.تو آپ نے خود کسی احمدی گھرانے میں اس کی شادی کی.اور پھر جائیداد کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں دے دی.آپ ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرتے.حضور کے پاس بیٹھتے ، باتیں سنتے.کئی دفعہ آپ کو حضور کی محفل میں بیٹھ کر کھانا کھانے کا شرف بھی حاصل ہوا.موضع پیر کوٹ میں آپ کے سسرال کی رہائش تھی.وہ سب کے سب احمدیت قبول کر چکے تھے.اس لئے آپ اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر اپنے سسرالی گاؤں پیرکوٹ میں آباد ہو گئے تھے.آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ صحابہ میں ہوئی.اولاد آپ کی نرینہ اولاد نہیں تھی.صرف دو بیٹیاں تھیں.بڑی بیٹی زینب بی بی اہلیہ الحاج میاں پیر محمد صاحب آف مانگٹ اونچے.ان کے پانچ بیٹوں میں سے دو بیٹے واقف زندگی تھے.۱) حاجی محمد شریف صاحب سابق اکاؤنٹنٹ جامعہ احمد یہ ربوہ.ان کے ایک بیٹے مکرم وسیم احمد ظفر صاحب مربی سلسلہ برازیل ہیں.(۲) محمد صادق صاحب مرحوم ریٹائر ڈ اکاؤنٹسٹ وکالت تبشیر تحریک جدید ربوہ.ان کے ایک بیٹے محمدمحمود طاہر صاحب مربی سلسلہ نظارت اشاعت ہیں.چھوٹی بیٹی حسین بی بی صاحبہ اہلیہ میاں امام الدین صاحب گوندل.ان کے ایک بیٹے نعمت اللہ شمس صاحب کا رکن صدر انجمن احمد یہ رہے ہیں.ایک پوتا مکرم محمد نصیر اللہ صاحب اور تین نوا سے مکرم فخر الاسلام صاحب، مکرم نیر الاسلام صاحب اور مکرم شاہد محمود بدر صاحب مربیان سلسلہ ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 641 سال 1966ء حضرت حکیم نور محمد صاحب ٹنڈ و غلام علی ضلع حیدرآباد ولادت : ۱۸۸۸ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات : ۳۰ جنوری ۱۹۶۶ء 12 آپ کا اصل وطن تلے ایک گاؤں ہے جو قادیان سے مغربی جانب دواڑھائی میل کے فاصلے پر ہے.۱۹۳۵ء میں جب جماعت کی طرف سے سندھ کے علاقے میں زرعی اراضی خریدی گئی تو آپ حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر احمد آباد اسٹیٹ آگئے.اور تقسیم کے بعد ٹنڈو غلام علی ضلع حیدر آباد سندھ میں مستقل رہائش اختیار کرلی.یہاں صرف آپ ہی کا گھر احمدی تھا.آپ بڑی شجاعت اور جرات کے مالک تھے.حق کی آواز پہنچاتے تھے.خدا کی راہ میں موت کی کوئی پرواہ نہ تھی.دل میں یہی تڑپ تھی کہ اس قصبے میں کسی کو ہدایت نصیب ہو.وفات سے ایک سال قبل ایک نوجوان نے بیعت کی تو بہت خوش ہوئے کہ احمدیت کا ایک پودا تو لگا.۱۹۶۱ء میں ایک مخالف نے آپ پر قاتلانہ حملہ کر دیا.جان سے تو بچ گئے مگر جسم پر مختلف جگہ چوٹیں آئیں.اور ر ان کی ہڈی ٹوٹ گئی.کئی ماہ تک سول ہسپتال حیدر آباد میں زیر علاج رہے.مگر ہڈی ٹوٹنے کی وجہ سے بمشکل عصا کے سہارے چلتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں ہڈی ٹوٹی تو کیا ہوا میرے وجود کا تو ذرہ ذرہ اُسکی راہ میں قربان ہونے کے لئے تیار ہے.آپ کے دل میں دیرینہ خواہش تھی کہ اس قصبے میں احمدیہ مسجد بن جائے.اس کے لئے آپ نے مرکز سے اجازت لے کر جماعتوں میں دورہ کیا.اور حسن اتفاق سے اپنے مکان کے عین سامنے ایک موزوں ٹکڑا آپ کو قیمتاً مل گیا.جس پر خدا کے گھر کی تعمیر شروع کر دی.جس کی تکمیل آپ کی وفات کے بعد ہوئی.آپ نے دوشادیاں کی تھیں جن سے درج ذیل اولا دہوئی.اولا داز اہلیہ اول : محمد شریف احمد صاحب، زینب بیگم صاحبہ (مرحومہ) اولاد از اہلیہ دوم محمد شفیع صاحب، زینب بیگم صاحبہ، محمد رفیق صاحب، حمیدہ بیگم صاحبہ (مرحومہ) ، محمد جمیل صاحب امیر جماعت بدین (ان کے بیٹے مبارک احمد صاحب آج کل صدر جماعت ٹنڈ و غلام علی ضلع حیدر آباد ہیں.) جمیدہ بیگم صاحبہ، رشیدہ بیگم صاحبہ، حمید احمد صاحب حضرت چوہدری محمد شفیع صاحب او جلوی او در سیئٹر ولادت : ۱۸۹۰ء بیعت : ۱۹۰۰ء وفات : ۳۱ جنوری ۱۹۶۶ء 4
تاریخ احمدیت.جلد 23 642 سال 1966ء آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیمی صحابی حضرت منشی عبدالعزیز صاحب او جلوی کے فرزند اور چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان کے ماموں زاد بھائی تھے.اہلیہ اول: رشیدہ بیگم اولاد: خورشید بیگم سلیم احمد.لطیف احمد.مبارکہ نسرین - محمد رفیع.اہلیہ ثانی : صغری بیگم اولاد ناصرہ بیگم.رفیق احمد.طاہرہ.اظہر مسعود.شگفتہ بیگم حضرت سکینہ بی بی صاحبہ مراڑہ ضلع سیالکوٹ 15 وفات ۹ فروری ۱۹۶۶ء.مرحومہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بیعت کی تھی.آپ کی عمر ۸۰ برس سے زائد تھی.آپ بڑی بلند اخلاق اور دلیر خاتون تھیں.آپ بڑی مہمان نواز اور غرباء اور یتامی کی پرورش کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب بڑے ذوق وشوق سے سنتی تھیں.نیز صوم وصلوٰۃ کی بھی پابند تھیں.آپ حضرت چوہدری ولی داد صاحب کی اہلیہ محترمہ تھیں.حضرت حاجی شیخ نصیر الحق خان صاحب ولادت : ۱۸۹۷ء بیعت : ۱۹۰۳ء وفات : ۱۵-۱۶ فروری ۱۹۶۶ء 18 حضرت منشی شاہ دین صاحب ساکن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور کے فرزند تھے.بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے.حضرت مصلح موعود اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ والہانہ عقیدت تھی.سلسلہ کے لئے بڑے غیور تھے اور خدمت سلسلہ کے لئے ہر آن مستعد رہتے تھے.اور ہر ایک کے دلی ہمدرد تھے.بسلسلہ ملازمت عرصہ دراز تک شملہ، دہلی اور پھر راولپنڈی میں مقیم رہے.اور سلسلہ کے ان کاموں میں جن کا تعلق گورنمنٹ سے ہوتا ہمیشہ سرگرم حصہ لیا.۱۹۵۴ء میں جی.ایچ.کیو ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور سمن آباد لاہور میں مستقل سکونت اختیار کر لی.آپ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.آپ نے اگر چہ حج نہیں کیا ہوا تھا لیکن چونکہ عنفوان شباب سے ہی نیکی اور تقوی میں مشہور تھے اس لئے لوگ انہیں حاجی صاحب کہہ کر بلاتے اور پھر آپ اسی نام سے معروف ہو گئے.اولاد انورسلطانہ صاحبہ.سرور سلطانہ صاحبہ.بشیر الحق صاحب.منور سلطانہ صاحبہ.اکبر سلطانہ صاحبہ امتہ السلام صاحبہ - فرحت نسیم صاحبہ - عشرت نسیم صاحبہ.منیر الحق صاحب.امین الحق صاحب.
تاریخ احمدیت.جلد 23 643 سال 1966ء رفعت نسیم صاحبہ.مبین الحق صاحب نزہت نسیم صاحبہ.نگہت نسیم صاحبہ حضرت شیخ مبارک اسمعیل صاحب بی اے بی ٹی 19 ولادت : ۱۷ار اپریل ۱۸۹۰ء وفات : ۲۷ فروری ۱۹۶۶ء آپ کے والد بزرگوار حضرت شیخ مولا بخش صاحب ( کلرک ایگزامینر آف اکا ؤنٹنٹ شمال مغربی ریلوے لاہور ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب تراب ثم عرفانی مدیر و موسس اخبار الحکم قادیان کے چازاد بھائی تھے دونوں نے لے فروری ۱۸۹۲ء کو حضرت مسیح الزمان کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا پہلے حضرت مولا بخش صاحب نے بعد ازاں حضرت عرفانی صاحب نے جو اُن دنوں مڈل سکول لاہور کے متعلم تھے.رجسٹر بیعت اولیٰ میں زیر نمبر ۲۲۹ آپ کے اسم گرامی من ولدیت کے بعد لکھا ہے ” سکنہ حاشنہ کلاں ضلع جالندھر تحصیل نو اشہر تھا نہ راہوں، ضمیمہ انجام آتھم کی فہرست ۳۱۳ صحابہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا نام نمبر ۲۱۶ میں رقم فرمایا ہے.آپ کا وصال ۱۴فروری ۱۹۲۸ء کو ہوا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں:.ہم عرب ہیں اور قبیلہ بنو اسد کے نام لیوا ہیں حضرت خدیجتہ الکبری رضی اللہ تعالى عنها أم المومنين بھی اسی قبیلہ سے تھیں ہمارے خاندان میں کوئی نہ کوئی بزرگ پیدا ہوتا رہا ہے ہمارا دادا ارج جس کا نام بابا قلندر علی تھا اور لوگ قلندر بابا کہتے تھے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں اور جو زبان سے نکل جاتا پورا ہو جاتا.حضرت شیخ مبارک اسمعیل صاحب اپنے والد ماجد کی نسبت تحریر فرماتے ہیں:.”میرے والد ماجد کا اسم گرامی شیخ مولا بخش تھا.آپ کے والد کا نام شیخ سلطان بخش تھا.عام طور پر صوفی کے نام سے مشہور تھے.جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ اعلیٰ درجہ کے عابد وزاہد تھے.ابتدائے زندگی سے ہی متقی پر ہیز گار تھے.آپ کی ابتدائی تعلیم لدھیانہ کے مشن سکول میں ہوئی.طالب علمی کے زمانہ سے ہی جیسا کہ حضرت پیر افتخار احمد صاحب مرحوم و حضرت منظور احمد صاحب مرحوم ( مراد پیر منظور محمد صاحب) کے بیان سے معلوم ہوا.آپ صوفی منش آدمی تھے.پابندی صوم وصلوۃ ،نماز اشراق و تہجد بڑے اہتمام اور پابندی سے ادا کیا کرتے تھے.ماہ رمضان میں نوافل کثرت سے ادا کرتے تھے.تنہائی پسند و خاموش طبیعت تھے.غالباً آپ ماسٹر قا در بخش مرحوم والد بزرگوار حضرت عبدالرحیم صاحب درد
تاریخ احمدیت.جلد 23 644 سال 1966ء ایم اے مرحوم لدھیانہ کے سکول میں ہم جماعت تھے.آپ نے ۱۸۸۴ء میں مشن سکول لدھیانہ سے مڈل کا امتحان پاس کیا.پھر ۱۸۸۶ء میں پنجاب یو نیورسٹی سے انٹرنس پاس کیا.اور بعد میں اللہ آباد یو نیورسٹی سے بھی انٹرنس اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا.پھر شکار پور سندھ کے مشن سکول میں کچھ عرصہ بطور ٹیچر کے کام کرتے رہے.اس وقت انٹرنس پاس کو بڑی وقعت دی جاتی تھی بعد ازاں لاہور ریلوے ایگزامینر کے دفتر میں پندرہ روپے ماہوار پر ملازم ہوئے.پندرہ روپیہ اُس زمانہ میں غنیمت سمجھے جاتے تھے.دوران ملازمت ایسی خوش اسلوبی سے کام کرتے تھے کہ آپ کے آفیسر آپ کی بہت عزت کرتے تھے.اور آپ پر بہت مہربان تھے.اُنہوں نے آپ کو سب ہیڈ کی آسامی عطا کی آپ کے ماتحت ہندو، مسلمان اور سکھ سب آپ سے محبت کرتے تھے.اور اپنا بزرگ سمجھتے تھے.آپ اللہ کے دیئے پر ہمیشہ شاکر رہتے.اور حلال کے رزق پر ہی قناعت کیا.جہاں تک مجھے یاد ہے کہ آپ نے نے فروری ۱۸۹۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی.( آپ ۳۱۳ صحابہ کی احباب کی لسٹ میں ۲۱۶ نمبر پر ہیں.) قبل از میں لدھیانہ کے مشن سکول میں کئی سال تک تعلیم حاصل کی تھی.اور کرسچن مشنریوں کے زیر اثر انجیل کے مطالعہ میں بڑی دلچسپی لی تھی.عیسائی مشنریوں کے لیکچرز کی وجہ سے جو ہمیشہ حضرت مسیح کی رسول خدا ﷺ پر فوقیت ثابت کرتے تھے.اور علمائے کرام اسلام کی تقریروں کی وجہ سے جس میں وہ عیسائی و آریہ سماجیوں کے اُن اعتراضات کا جو اسلام اور بانی اسلام کے متعلق کیا کرتے تھے.سُن کر بہت برگشتہ ہو گئے تھے.اور ان کے عقیدت کے پاؤں بری طرح ڈگمگا رہے تھے.انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا علم ہوا.اور اُن کے لیکچرز جن میں وہ حضرت رسول خدا کا افضل الانبیاء ہونا، اسلام کی دیگر مذاہب پر فوقیت اور قرآن کریم کو زندہ کتاب ثابت کیا کرتے تھے ، سننے کا موقعہ ملا اور آپ کے تخیلات میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا اور جس پر انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی اور آپ کا اسم گرامی ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں شمار ہوا.اور لاہور کے سابقین صحابہ میں شامل ہو گئے.جماعت میں صوفی محمد علی صاحب مرحوم سے سب سے زیادہ محبت تھی.تمام دینی و دنیاوی کاموں میں ان کے ساتھ رہتے تھے قادیان جب جایا کرتے تھے تو اکٹھے جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود
تاریخ احمدیت.جلد 23 645 سال 1966ء علیہ السلام بھی اُن سے خاص محبت رکھتے تھے جب یہ دونوں حضور کی ملاقات کے لئے جاتے اور دروازے پر دستک دیتے تو یہ معلوم کر کے کہ آپ کو شیخ مولا بخش لاہوری ملنے کے لئے آئے ہیں تو آپ فوراً دروازے پر آجاتے.حضرت صوفی محمد علی صاحب بھی ریلوے ایگزامینر آفس میں تھے.جس طرح یہ دونوں عمر میں ایک دوسرے کے ساتھ کندھا بہ کندھا ہو کر رہتے تھے اسی طرح ان کے صاحبزادے ریٹائرڈ ڈی.ایس.پی مجھ سے بہت محبت رکھتے تھے.ہم دونوں جماعت اوّل سے لے کر میٹرک تک اکٹھے پڑھتے رہے.یہ دونوں بزرگ ہماری تربیت کے لئے ہر مقام پر ہمیں اپنے ساتھ رکھتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ماہ دسمبر میں سالانہ جلسہ قادیان کے موقعہ پر ہم سہ پہر کی گاڑی لاہور سے روانہ ہوئے اور رات کے بارہ بجے بٹالہ پہنچے.ہماری روانگی لا ہوری قافلہ کی صورت میں تھی.رات کے وقت چونکہ یکوں کا ملنا مشکل تھا.اس لئے فیصلہ یہ ہوا کہ کارواں جو ۳۰،۲۵ افراد پر مشتمل تھا.بٹالہ سے قادیان تک پیدل سفر کرے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کا زمانہ تھا اور مخالفت ہر طرف سے زوروں پر تھی.اس لئے ہر احمدی کو اپنے اپنے حلقے میں بعض علماء کی شرانگیزی کی بناء پر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا.اس لئے قافلہ کے سرکردہ لوگ اپنے اپنے تجربات و مشاہدات باری باری بیان کرتے چلے جاتے تھے.اس قافلے کے ساتھ غالبا خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم تھے.اپنے اپنے خیالات سنانے سے ایک تو قافلہ کی دلچسپی بڑھی تھی دوسرا رات کے وقت سفر کٹ جاتا تھا.میں اور صوفی محمد رفیع صاحب کمسن تھے.اس لئے بار بار تھک جاتے تھے.اور یہ دونوں بزرگ ہمیں باری باری کندھوں پر اُٹھا لیتے تھے.دوسرے دن صبح نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کرنی ہوتی تھی.ہم دونوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ مسیح موعود علیہ السلام کا تبرک کھائیں.چنانچہ ایک دومرتبہ ایسے موقعوں پر ڈبل روٹی اور دودھ کا تبرک ہمیں ملا.جو ہم نے بعد میں شوق سے کھایا.حضور کی صبح کی سیر کے وقت بھی ہم شامل ہوتے تھے.اگر چہ ہم کئی بار تھک جاتے تھے مگر تھوڑی دیر پیچھے رہ کر دو تین منٹ آرام کر کے پھر شامل ہو جایا کرتے تھے.حضرت شیخ مبارک اسماعیل صاحب نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ ہائی سکول شیرانوالہ گیٹ لاہور میں حاصل کی.احمدیت کے اس ابتدائی دور میں شدید مخالفت تھی اور احمدی طلبہ کو تبلیغ کا خوب موقعہ ملتا تھا.اس زمانہ میں احمدی طلبہ نے لاہور میں سینگ مین ایسوسی ایشن قائم کر رکھی تھی ، جس کے صدر سید 166
تاریخ احمدیت.جلد 23 646 سال 1966ء دلاور شاہ صاحب بخاری اور سیکرٹری آپ تھے.ہر ممبر پر احمدیت کی اشاعت کا ایک جنون تھا.انہی ایام میں آپ کے پرانے ہم جماعت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ایف اے کا پرائیویٹ امتحان دینے کے لئے لاہور آئے.اور آپ کے پاس ٹھہرے.اور باوجود امتحانی دباؤ کے خواب میں تبلیغی لیکچر شروع کر دیا.آپ نے سید عبد القادر صاحب ایم اے ( سابق پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ) کو جگایا.سید عبدالقادر اس حالت کا مشاہدہ کر کے حیران رہ گئے.اور بے اختیار ہو کر کہنے لگے کہ آپ کی جماعت اعلیٰ درجے کی پراپیگنڈہ کرنے والی ہے حتی کہ سوئے ہوئے بھی اشاعت کا کام نہیں چھوڑتی.سید ولی اللہ شاہ صاحب خواب میں یہ فرمارہے تھے کہ مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آؤ! کیونکہ دنیا پر سینکڑوں نشانات کے علاوہ آسمان پر سورج اور چاند بھی گواہی دے رہے ہیں.سید عبدالقادر صاحب کہا کرتے تھے کہ مولوی مبارک اسمعیل کو اشاعت احمدیت کا سودا (MANIA) ہے.حضرت شیخ صاحب بیان فرماتے ہیں:.”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شالا مار کے میلے پر جس میں بے شمار لوگ شامل ہوتے ہیں میرے چھوٹے بھائی شیخ محمد اسحاق ملے پر چلے گئے.والد مرحوم نے کہا کہ کہیں گم نہ ہو جائے.اسے ڈھونڈ کر لے آؤ.میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی روانہ ہونے پر والد صاحب سے کچھ رقم راستے کے خرچ کے لئے لینا بھول گیا.میری جیب میں صرف ایک ادھنی ( دو پیسے کا سکہ ) تھی جو بالکل ناکافی تھی.پریشانی حد سے زیادہ ہوگئی.خدا پر توکل کر کے سفر جاری رکھا.اور دعا کرتا چلا گیا.شمالا مار باغ کے پہلے طبقے میں میں نے دیکھا کہ تبلیغ عیسائیت کے لئے کیمپ لگا ہوا تھا.اور پادری ٹامس ہاول تقریر کر رہے تھے میں چند منٹ کے لئے وہاں ٹھہر گیا.اور وعظ سنتا رہا.کفارہ ، تثلیث پر وعظ کر رہے تھے.وعظ کے بعد انہوں نے سامعین کو کہا کہ جو صاحب اعتراض کرنا چاہتے ہیں.بڑی خوشی سے کریں.مجھے سخت پریشانی تھی.ایک تو چھوٹے بھائی کی تلاش کی فکر دوسری طرف رڈ عیسائیت کا جوش تھا.اُس وقت یہی فیصلہ کیا کہ اس دینی کام کو سرانجام دیا جائے.پادری صاحب نے مجھے کم عمر سمجھ کر اعتراضات کی اجازت دے دی.میں غالباً ایف اے کا طالب علم تھا.میں نے کلمہ شریف پڑھ کر اس لہجہ میں تقریر کی کہ اُس جگہ جمع ہونے والے مسلمان دوستوں نے اُسے بڑا پسند کیا.اور مجھے وہ جگہ چھوڑنے سے منع کیا.میں نے معذرت کی مجھے بھائی کی تلاش ہے.انہوں نے کہا کہ یہ اسلامی مورچہ ہے آپ تھوڑی دیر اور ٹھہریں.اسے چھوڑ نا مناسب نہیں.ہم تو پادری
تاریخ احمدیت.جلد 23 647 سال 1966ء صاحب کے وعظ سن کر سخت پریشان تھے کہ مسلمانوں میں سے جو اُس موقع پر حاضر تھے، کوئی مولوی موجود نہ تھا، جو عیسائیوں کے اعتراضات کا جواب دے.اللہ میاں نے اس موقع پر آپ کو بھیج دیا.ہم آپ کی خاطر ہر تکلیف گوارا کرنے کے لئے تیار ہیں.خدا تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا.ہم آپ کے بھائی کی تلاش میں مدد دیں گے.عصر کی نماز کا وقت تھا.میں نے مسلمان بھائیوں سے عرض کی کہ نماز اسی جگہ پڑھی جائے.امامت کا فرض میں نے خود ادا کیا.اس کے بعد میں نے مسلمان بھائیوں سے کہا کہ شام کا وقت قریب ہے.اور واپس ہوتا ہے.بھائی کی تلاش باقی ہے.مجھے اجازت دیں کہ میں روشنی کے وقت کے اندر جاؤں.خدا کی حکمت ہے کہ جب ہم یہ باتیں کر رہے تھے میرا چھوٹا بھائی شیخ محمد اسحاق وہاں آموجود ہوا ) میں نے اللہ کریم کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے اس معمولی سی دین کی خدمت کرنے کا موقع دیا.اور ہمیں بے سروسامانی کی حالت میں اپنی نعمت سے نوازا.اور ہماری مدد کے لئے ایسے آدمی ملائے جنہوں نے اس مورچے پر ہمیں کھانے کے لئے مٹھائی، پینے کے لئے سوڈا واٹر اور گھر تک پہنچانے کے باڈی گارڈ مقرر کئے جو ہمیں گھر تک پہنچا گئے.اس قسم کی مثالیں بہت سی ہیں جن میں تائید ایز دی ہمارے تبلیغ کرنے کی وجہ سے خدا کی طرف سے نازل ہوتی رہیں.اسکول اور کالج کی تعطیلات کے ایام میں ہم نے یہ عہد کیا ہوا تھا کہ قادیان کے سوا کسی اور جگہ نہ جائیں گے )‘.1914ء میں بی ٹی کلاس پاس کر کے گوجرہ ہائی سکول میں سیکنڈ ماسٹر مقرر ہو گئے.تقریباً ایک سال کام کرنے کے بعد حضرت مولوی محمد دین صاحب کے ارشاد پر آپ قادیان آگئے جہاں تقریباً چار سال تک تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سینئر انگلش ٹیچر کے فرائض بجالاتے رہے.بعد ازاں اپنے والد حضرت صوفی شیخ مولا بخش صاحب کے مشورے پر سرکاری ملازمت اختیار کر لی.اور اوکاڑہ ، ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ، ملتان، ٹوبہ ٹیک سنگھ ، موروی پور، گوجرہ ، سمندری، چک جھمرہ کے مدارس میں نہایت کامیابی سے تعلیمی فرائض سرانجام دیئے.اور چک جھمرہ سے ریٹائر ڈ ہوئے.بورڈ سروس سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد ضلع گجرات میں دھور یہ اور سہگل آباد کے ہائی سکولوں کی بنیادیں رکھیں.بعدازں بریگیڈئیر گلزار احمد صاحب کی ہدایت پر کٹاس کے مقام پر سرسید اسکول جاری کیا.۱۹۴۷ء کے انقلاب میں مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے بہت سے مسلمان لائکپور میں پناہ گزین ہوئے.جن کے لئے شہر میں تین کیمپ قائم کئے گئے.جنہوں نے آپ کے ماتحت اپنے مظلوم مہاجر 24
تاریخ احمدیت.جلد 23 648 سال 1966ء 25 بھائیوں کی دن رات ایک کر کے مثالی خدمت کی.کیمپ کمانڈنٹ کی حیثیت سے آپ روزانہ افسران بالا کے پاس کار کردگی کی رپورٹ بھجواتے تھے.آپ کو اکثر دواڑھائی بجے رات تک کام کرنا پڑا.جس سے آپ کی صحت پر بہت ناگوار اثر پڑا.لائکپور کے ڈپٹی کمشنر آغا عبدالحمید صاحب نے آپ کی خدمات کو خراج تحسین ادا کیا.اور اس سلسلے میں خوشنودی کی ایک چٹھی بھی بھجوائی.حضرت شیخ محمد مبارک اسمعیل صاحب نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ( یہ سوانح غیر مطبوعہ ہے جوان کے بیٹے شیخ خالد پرویز صاحب مقیم شہزاد سٹریٹ بھمبر روڈ گجرات کے پاس تھی جواب ”شعبہ تاریخ احمدیت ربوہ میں محفوظ ہے.) میں اپنے زمانہ تعلیم کے دوران قیام قادیان کے بعض واقعات قلمبند کئے ہیں.تحریر فرماتے ہیں:.اس زمانہ میں قادیان میں برادرانہ اخوت کا زور تھا استاد طلبہ سے محبت کا سلوک کرتے.چھوٹا بھائی سمجھتے تھے.احمدی ایک دوسرے کو بھائی کے لفظ سے پکارتے.سکول میں طلباء اساتذہ کو بھی بھائی جی کے لقب سے یاد کرتے.نماز روزہ کی سخت پابندی تھی.جبر نہیں بلکہ شوق پیدا ہو گیا تھا.حضرت مسیح موعود سیر کو جایا کرتے تھے.کبھی کھارے کی طرف کبھی کسی اور طرف یہ برکت کا زمانہ تھا.حضرت ہر روز صبح گھر سے چلتے.چند خدام ساتھ ہوتے.راستہ میں مسئلہ مسائل اسلام کا تذکرہ ہوتا.مولویوں کی مخالفت کا چرچا تھا.بعض عقیدتمند باہر سے تشریف لاتے تو اس سیر میں حضرت اقدس سے ملتے تو اپنا ماجرا سناتے.یا اگر کوئی مخالف مولوی یا سیاح آتا تو وہ اس وقت گفتگو کرتا.نئے نئے سوالات پیش ہوتے.حضرت منہ کے سامنے رومال رکھتے اور جواب دیتے جاتے.راستہ میں خدام کی تعداد بڑھ جاتی تھی.حضرت خلیفہ اول گھر سے نکلتے مگر (کبھی) تھک کر راستہ میں بیٹھ جاتے اور واپسی پر پھر ملتے مگر پیچھے ہی رہ جاتے.حضرت کی گفتگو کا وہ لطف آتا تھا کہ اب اس عمر میں لکھتے وقت بھی محسوس ہو رہا ہے.راستہ میں کئی بار کسی کا پاؤں حضرت اقدس کے عصا پر پڑتا اور گر جاتا آپ پیچھے مڑ کر کبھی نہ دیکھتے بلکہ ایک سیکنڈ کے لئے کھڑے ہو جاتے اور عصا پھر آپ کے ہاتھ میں دے دیا جاتا.واپسی پر راستہ میں کبھی میاں مبارک احمد مرحوم مٹی سے بھرے ہوئے ملتے دونوں ہاتھ اوپر اٹھاتے حضرت انہیں پیار کرتے اور ساتھ لے جاتے.ایک دفعہ میاں مبارک کا قصہ حضرت نے سیر کے وقت سنایا کہ مبارک احمد نے اپنی ٹھیکریاں کھیلنے والی میرے کوٹ میں ڈال دیں جب کوٹ پہنا تو بوجھ معلوم ہوا.ہاتھ ڈالا تو روڑے نکلے.جو میاں مبارک نے ڈالے تھے.66
تاریخ احمدیت.جلد 23 649 سال 1966ء حضرت شیخ صاحب کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے قدیم اساتذہ میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا آپ نے اس مرکزی ادارہ میں چار سال نہایت محنت، دیانت اور خلوص کے ساتھ تعلیمی فرائض ادا کئے اور خراج تحسین وصول کیا چنانچہ حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول نے آپ کے سکول سے منتقل ہونے پر اپنے قلم سے ۳۰ اکتو بر ۱۹۲۱ء کوتعریفی سرٹیفیکیٹ دیا.حضرت شیخ محمد مبارک اسمعیل صاحب کی شرافت و بزرگی کے اپنے ہی نہیں غیر مسلم شرفاء بھی معترف تھے اس کا کسی قدر اندازہ اخبار " الفضل قادیان ۶ نومبر ۱۹۳۵ء صفحہ ۵ کی خبر سے بخوبی لگ سکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جب آپ کا گوجرہ سے تبادلہ ہوا تو سنگھ سبھا ، ہندو اولڈ بوائز، مسٹر پی.ڈی بھلہ ایجنٹ امپیریل بنک، لوکل جنتری ٹینس کلب اور لالہ دلیراج بی اے ایل ایل بی میونسپل کمشنر صاحبان وغیرہ نے ٹی پارٹیاں دیں.ازواج واولاد محمودہ بیگم ( مرحومہ ) بنت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ( پہلی بیوی) زینب بی بی (مرحومه ) (دوسری بیوی) امته الرسول بنت خان بہادر غلام محمد صاحب کلکتی مرحوم ( تیسری بیوی) ان کے بطن سے مندرجہ ذیل اولا د ہوئی:.ا محمد یحیی ۲.سعید بیگم زوجہ ۳.مبارکہ بیگم زوجہ نورالہدی جامی (مرحوم) میاں نذیر الحق ( مرحوم ) ۴.ناصرہ بیگم ۵.ناصرہ بیگم زوجه شیخ حمید احمد رشید حال مقیم کراچی ۶.جمیلہ بیگم زوجہ غلام حسین سرور ( مرحوم ) ۷.خالد پرویز شیخ حال مقیم گجرات.بشیر احمد ناصر حال مقیم ربوہ حضرت چوہدری محمد علی صاحب باجوہ آف چونڈہ ولادت: ۱۸۸۹ء بیعت: ۱۹۰۴ء27 وفات فروری ۱۹۶۶ء 2
تاریخ احمدیت.جلد 23 650 سال 1966ء آپ کا تعلق چونڈہ ضلع سیالکوٹ کے ایک معزز زمیندار باجوہ خاندان سے تھا.آپ کے والد صاحب کا نام چوہدری جھنڈے خاں صاحب تھا.آپ کو احمدیت کا پیغام حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی آف چونڈہ (جن کا نام منارۃ اسیح قادیان کی تختی پر لکھا ہے ) کے ذریعہ پہنچا.ان کی تحریک پر آپ اپنی برادری کے ایک دوست کو ساتھ لے کر قادیان دارالامان پہنچے اور حضور کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی.اس وقت آپ کی عمر ۱۸ سال تھی.۱۹۱۶ء میں آپ نظام وصیت سے وابستہ ہوئے.۱۹۲۷ء میں آپ نے بطور پٹواری ملازمت اختیار کی.نہایت دیانتداری کے ساتھ اس محکمہ میں کام کیا.جس سے آپ کی نیک شہرت میں اضافہ ہوا.دوران ملا زمت عوام کی بے لوث خدمت کرتے رہے.اور رشوت کا کبھی تصور بھی نہ کیا.لوگ آپ کو فرشتہ سیرت انسان کہا کرتے تھے.آپ غرباء پرور اور بہت مہمان نواز تھے.مرکز سلسلہ سے آنے والے اکثر مہمان آپ کے ہاں ٹھہرتے تھے.اور چونڈہ میں آپ کی بیٹھک مہمان نوازی کے لئے مشہور تھی.نہایت عبادت گزار، دعا گو اور احمدیت کی تعلیم پر عمل کرنے والے وجود تھے.انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی مطبوعہ فہرست میں چونڈہ کے حوالے سے صفحہ ۲۰۲ پر آپ کا نام سرفہرست ہے.تاریخ احمدیت جلد ۱۹ کے صفحہ ۱۸۷ پر بطور ممبر مجلس انتخاب خلافت میں آپ کا نام ایک صحابی کی حیثیت سے درج ہے.آپ کو جماعتی خدمات کی بھی توفیق ملی.آپ جماعت احمد یہ چونڈہ کے صدر اور امیر حلقہ بھی رہے.آپ کی طرف سے چونڈہ میں منعقدہ ایک اجلاس کی مرسلہ رپورٹ مطبوعہ روز نامہ الفضل ربوہ مورخه ۱ راگست ۱۹۵۸ء صفحہ ۶ ہے.اس رپورٹ کے آخر پر بریکٹ میں آپ کا نام محمد علی باجوہ امیر جماعت احمد یہ سرکل چونڈہ لکھا ہے.خلافت ثانیہ کے دور میں آپ کو مجلس مشاورت پاکستان میں بطور نمائندہ شرکت کی سعادت بھی حاصل رہی.آپ کی شادی چک چهور ۱۱۸ مسلم نزد سانگلہ ہل کے کاہلوں خاندان میں ہوئی.آپ کے سسرال والے غیر از جماعت تھے.لیکن اس رشتہ کے ناطے وہ لوگ ہمیشہ عزت اور احترام سے پیش آتے رہے.آپ کی اولاد میں اگر چہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی لیکن آپ نے اپنی زندگی میں اپنی نسل
تاریخ احمدیت.جلد 23 651 سال 1966ء میں کثرت نفوس کا نشان اس طرح دیکھا کہ آپ کے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے چھ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا.آپ کے ایک پوتے مکرم مظفر احمد باجوہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم کو بھی عرصہ دراز تک جماعت احمد یہ چونڈہ کی بطور صدر جماعت اور امیر حلقہ خدمت کی توفیق ملی.ستمبر ۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران آپ اپنی فیملی کے ساتھ فیروز والا ضلع گوجرانوالہ میں آگئے.اسی دوران فروری ۱۹۶۶ء میں آپ کا انتقال ہوا.فیروز والا میں ایک مشتر کہ قبرستان بڑی شہاباں پیڑی ) میں آپ کی تدفین ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی یاد گار نصب ہے.محترم ریاض محمود صاحب با جوه مربی سلسله دفتر شعبہ تاریخ احمدیت آپ کے پوتے ہیں.سرگودھا اولاد اہلیہ محترمہ عالم بی بی صاحبہ بیٹا مکرم چوہدری شہباز خاں صاحب باجوہ بیٹی محترمہ ارشاد بیگم صاحبہ زوجہ مکرم چوہدری محمد انور صاحب گورایہ چک نمبر ۴۰ جنوبی ضلع 29 حضرت ملک علی حیدر صاحب آف دوالمیال ولادت: ۱۸۸۹ءB0 بیعت : ۱۹۰۴ء B1 وفات : ۱۹ مارچ ۱۹۶۶ء مرحوم کا جنازہ ۲۰ مارچ کو راولپنڈی سے ربوہ لایا گیا.اسی روز بعد نماز عصر سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے نماز جنازہ پڑھائی جس میں مقامی احباب کثیر تعداد میں شریک ہوئے.بعد ازاں جنازہ بہشتی مقبرہ لے جا کر مرحوم کی نعش کو قطعہ صحابہ میں دفن کیا گیا.قبر پر محترم میاں عبدالرحیم صاحب نے دعا کرائی.محترم ملک صاحب بہت نیک متقی اور پرہیز گار بزرگ تھے.حضرت چوہدری غلام قادر صاحب نمبر دار ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۸۹۷ء وفات: یکم اپریل ۱۹۶۶ء 34 آپ حضرت مولوی ابومحمدعبد اللہ صاحب آف کھیوا باجوہ ضلع سیالکوٹ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادے تھے اور خود بھی صحابی تھے.آپ کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا.نہایت
تاریخ احمدیت.جلد 23 652 سال 1966ء ہر دلعزیز تھے.نیک متقی ، مالی قربانی میں پیش پیش ، مہمان نواز اور دعاؤں میں بڑا شغف رکھنے والے بزرگ تھے.ضلع بھر میں دیانتداری ، وفاداری اور فرض شناسی اور دلیری میں ایک نمایاں مقام حاصل تھا.ایک لمبا عرصہ امیر جماعت اوکاڑہ کی حیثیت سے خدمت کرنے کی توفیق پائی.جماعت کی تربیت کا بہت خیال رکھتے.احباب جماعت میں سلسلہ کی محبت اور اسلام کا درد اور دعاؤں سے شغف پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کرتے رہے.نماز با جماعت اور چندوں کی خاص طور پر نگرانی کرتے.بڑے خوش اخلاق تھے.اپنے ملنے جلنے والوں سے بڑی شفقت اور محبت سے ملتے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے سچے عاشق تھے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بے حد محبت رکھتے تھے.آپ کی اہلیہ رضیہ بیگم صاحبہ بنت چوہدری کالے خاں ورک صاحب آف متراں تحصیل ظفر وال ضلع نارووال تھیں جو کہ معروف قانون دان چوہدری سر شہاب الدین صاحب کی ہمشیرہ تھیں.اولاد بیٹے مکرم چوہدری محمود احمد صاحب باجوہ، مکرم چوہدری مسعود احمد صاحب باجوہ بیٹیاں: محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری عبدالمالک چدھڑ صاحب ( مکرم چوہدری صاحب ۲۸ مئی ۲۰۱۰ء کے سانحہ لاہور میں مسجد نور میں شہید ہوئے تھے.) ، محترمہ نذیراں بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری نذیر احمد باجوہ صاحب ، محترمہ مسعودہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری شریف احمد صاحب با جوه محترمه حبیبہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری منظور حسین بسراء صاحب ریٹائر ڈ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ( معروف ہومیو پیتھک ڈاکٹر مکرم و قار منظور بسرا ء صاحب واقف زندگی ان کے بیٹے ہیں.) حضرت چوہدری عبد القادر صاحب آف سجووال ولادت: ۱۸۸۵ء بیعت : ۱۸۹۸ء وفات ۲۸ را پریل ۱۹۶۶ء آپ نے عین جوانی میں اپنے والد چوہدری مکھن صاحب کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ سجو وال ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.بیعت کے بعد شدید مخالفت ہوئی.ماریں بھی کھائیں.لیکن ہر آزمائش میں ثابت قدم رہے.آپ کو ابتدا ہی سے پیغام حق پہنچانے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا.پہلی جنگ عظیم کے دوران ایران اور عراق میں فوجی خدمات سرانجام دیں.اور ساتھ ہی اُردو، انگریزی، فارسی اور عربی لٹریچر خاص اہتمام سے تقسیم کرتے رہے.ان ممالک کے علماء اور بعض مقامات کے گدی نشینوں کو بھی سلسلے کا لٹریچر دیا.جنگ کے بعد کوئی ملازمت اختیار نہ کی.کچھ عرصہ کھیتی باڑی کا کام کیا.لیکن جلد اسے چھوڑ کر اپنے علاقے میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 653 سال 1966ء پیغام حق پہنچانے کو ہی اپنا نصب العین بنالیا اور جالندھر ، ہوشیار پور، انبالہ اور لدھیانہ کے اضلاع میں پیدل دورے کئے اور مرکز سے علماء کی خدمات حاصل کر کے جلسے کروائے.بہت سے دوستوں کو آپ کے ذریعے احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ ہر وقت دعوت وارشاد کا لٹریچر الفضل اور مرکزی رسائل کے تازہ پرچے ساتھ رکھتے اور غیر از جماعت معززین کو مطالعہ کے لئے دیتے رہتے تھے.اور بڑھاپے کے باجود مطالعہ میں مصروف رہتے تھے.علاقے کی سماجی خدمات میں بھی آپ نے نمایاں کردار ادا کیا.بیسیوں چھوٹے بڑے افسروں نے مختلف مواقع پر حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹ دیئے.بہت دعا گو اور تہجد گزار بزرگ تھے.سلسلہ کے مالی جہاد میں بھی باقاعدگی سے شامل رہے.کئی غیر از جماعت دوستوں نے بھی سالہا سال تک ان کے ذریعہ تحریک جدید میں حصہ لینے کی سعادت پائی.مرحوم ہر لحاظ سے احمدیت کی ایک چلتی پھرتی تصویر تھے.ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد ماہنی سیال ضلع ملتان میں آباد ہو گئے.اور موضع جنگل امام شاہ تحصیل ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انتقال کیا.آپ کے اکلوتے فرزند کا نام چوہدری محمد سلیمان صاحب ہے.جناب میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ (سابق امیر جماعت احمدیہ ضلع سیالکوٹ) نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا :.حضرت چوہدری عبد القادر صاحب سلسلے کے ان فدائی بزرگوں میں سے تھے جو قادیان اور کر یام اکثر جاتے رہتے.جب سے اس عاجز سے ملاقات ہوئی.ہر دن تعلقات بڑھتے گئے.میرے ہاں کئی کئی دن قیام فرما لیتے.مرحوم نہایت با قاعدگی اور پابندی سے اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے تہجد میں دعائیں کرتے.رات کا بڑا حصہ عبادت میں گزارتے...۱۹۲۹ء سے ۱۹۳۷ء کے درمیانی عرصہ میں ان کے دینی جوش کو دیکھنے کے چند خاص مواقع ملے.ایک مناظرہ جو بڑا معرکۃ الآراء تھا.روپڑ میں ہوا.جس میں فریق مخالف کی طرف سے مولوی عبداللہ روپڑی اور مولوی ابراہیم سیالکوٹی کا نام مجھے خصوصیت سے یاد ہے.مولوی عبداللہ سلسلہ کے مشہور معاند اور ایک عظیم نشان کے مورد سعد اللہ لدھیانوی کا داماد تھا.اور جہاں تک مجھے معلوم ہے وہ بے اولا د تھا.اسی طرح نہ لڑکے کی طرف سے اولا د چلی نہ لڑکیوں کی طرف سے.ہماری طرف سے حضرت ملک عبدالرحمن صاحب خادم مناظر تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 654 سال 1966ء حضرت ملک صاحب مرحوم نے مخالفوں کو ترکی بہ ترکی جواب دیئے.مجھے بھی اسی مناظرہ میں حاضری کی توفیق ملی تھی.چوہدری عبد القادر صاحب مرحوم اس مناظرہ کے انتظامات میں اس طرح مصروف تھے کہ سر پیر کا ہوش نہ تھا.کھانے کے انتظامات کی نگرانی میں ساری رات جاگتے رہے.مناظرہ دو دن سے زیادہ رہا تھا.ایک اور موقعہ پر بھی چوہدری صاحب مرحوم کی مصروفیت میرے دل پر گہرا نقش چھوڑ گئی.اور وہ ۱۹۳۶ء کے اسمبلی کے انتخابات تھے.مشہور احراری لیڈر چوہدری افضل حق کا اپنے حلقہ پر ایسا اثر تھا کہ ان کے وہم وگمان میں نہ آتا تھا کہ انہیں کوئی شکست دے سکتا ہے.نصر اللہ خان ناصر امیدوار مقابلے کے لئے کھڑے ہوئے.یہ مقابلہ ایسا تھا کہ ایک طرف میدان سیاست کا پرانا کھلاڑی تھا.اور دوسری طرف ایک ناتجربہ کار نوجوان مفکر احرار بر ملا کہتے کہ میرا مقابلہ یہاں کوئی نہیں کر سکتا.میرے ووٹر پیدل چل کر اور گھروں سے اپنا کھانا لے کر آئیں گے.اور ووٹ دیں گے.ایک طرف یہ زعم اور استکبار تھا اور دوسری طرف ایک محبوب خدا کی دعا ہائے نیم شمی تھیں.محترم چوہدری عبدالقادر صاحب چونکہ ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.جب ان کے علاقہ میں ووٹوں کا وقت آیا.تو بے غرضی اور اخلاص کا عجیب رنگ دکھایا.مجھے ان دنوں اس علاقہ میں جانے کا موقعہ ملا.تو میں نے دیکھا کہ چوہدری صاحب مرحوم اس انہماک اور جوش سے کام کر رہے تھے.کہ ان کا اخلاص ان کی زبان پر ایک لفظ لائے بغیر ظاہر ہو رہا تھا.آخر کبر و غرور کا سرٹوٹا.اور وہ سیاست کی ساری چالیں چلنے والا نا کام ہوا.اور ان کے مقابلہ میں ایک نا تجربہ کار نوجوان فتح یاب و با مراد نکلا.چوہدری صاحب مرحوم جب بھی نواں شہر آتے ایک تھیلہ ان کے کندھے پر لٹکا ہوا ہوتا.جس میں سلسلے کا لٹریچر بھرا ہوا ہوتا.اور مرحوم تقسیم کا کوئی موقع ضائع نہ کرتے.مرحوم سنایا کرتے تھے کہ ان کے والد محترم ۱۸۹۸ء میں بیعت سے مشرف ہوئے تھے.چوہدری صاحب دوسال قادیان دارالامان میں رہے.اور الحکم کے دفتر میں کام کرتے رہے.قادیان دارالامان میں رہنے والے نوجوان نے روحانیت اور پاکبازی کے جو نقوش اپنی لوح قلب پر لئے ہوں گے.انہیں بیان نہیں کیا جاسکتا.صرف اندازہ ہی کیا جاسکتا ہے.اس پاکبازی اور اخلاص کی جھلکیاں مختلف مواقع پر دیکھنے والوں نے دیکھیں.آپ کا قد درمیانہ تھا.بلکہ ذرا اس سے بھی چھوٹا.رنگ ہمارے ملک کے لحاظ سے بڑا صاف
تاریخ احمدیت.جلد 23 655 سال 1966ء تھا.داڑھی لمبی رکھتے تھے.آنکھیں روشن تھیں.چہرے پر ہر وقت تبسم کھیلتارہتا.نقش خوبصورت تھے.اور احمدیت کا عشق پھوٹ پھوٹ کر باہر نکلتا.میرے بچوں کے لئے دل میں اسی طرح کا درد اور محبت رکھتے جیسا ایک بزرگ خاندان بچوں سے رکھتا ہے.غرض شمع ہدایت کا ایک اور پروانہ جل بجھا.خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را حضرت مولوی عبد المغنی صاحب ولادت: ۱۸۹۰ء پیدائشی احمدی وفات : اا جون ۱۹۶۶ء 88 آپ حضرت مولوی برھان الدین صاحب جہلمی کے بیٹے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ضمیمہ انجام آتھم کے صفحہ ۴۳ پر تین سو تیرہ صحابہ کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۱۹۰ نمبر پر درج فرمایا ہے.۱۹۶۶ء کے وسط اول تک اس مقدس گروہ کی صرف دو یادگاریں رہ گئی تھیں.ایک حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب اور دوسرے آپ.حضرت مولوی صاحب مرحوم نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کی.بالآخر صو بے دار کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے.ریٹائر ہونے کے بعد سالہا سال تک جماعت احمدیہ جہلم کے امیر کے طور پر خدمات سلسلہ بجالانے کا موقع ملا.اس طرح آخر وقت تک سلسلہ کی گرانقدر خدمت سرانجام دینے کی توفیق پائی.بچپن سے ہی بہت پر ہیز گار تھے.اور تبلیغ میں شغف کمال کو پہنچا ہوا تھا.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دلی محبت وعقیدت کا خاص تعلق تھا.نظام سلسلہ کی اطاعت کا جذبہ اور عجز وانکسار کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.مرکزی نمائندگان کے ساتھ بڑی محبت ،سلوک اور احترام سے پیش آتے تھے.آپ کی مجلس میں ایک عجیب روحانی چاشنی محسوس ہوتی تھی.بالخصوص ذکر حبیب ﷺ کے موضوع پر تو آپ کی گفتگو سامعین پر وجد کی کیفیت طاری کر دیتی.وعظ ونصیحت کے انداز اور تلاوت قرآن مجید میں بڑا سوز تھا.آنحضرت ﷺ کی سیرت طیبہ پر آپ کے لیکچر غیر از جماعت دوستوں میں بھی بہت مقبول تھے.الغرض اپنے تقوی وطہارت ، نیکی و پارسائی علم دوستی اور فیض رسانی کے لحاظ سے بہت بزرگ شخصیت کے مالک تھے.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری آپ کے شمائل کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب کو جوانی سے لیکر آخر عمر تک احمدیت سے اعلیٰ وابستگی کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 656 سال 1966ء سعادت نصیب ہوئی.اور انہوں نے عرصہ ملازمت میں بھی مقدور بھر دینی خدمات سرانجام دیں.اور ریٹائر ڈ ہونے کے بعد تو وہ کلیۂ خدمت احمدیت کے لئے وقف ہو گئے.اور سالہا سال تک جماعت احمدیہ میں بطورا میر خدمت سلسلہ بجالاتے رہے.آپ احمد یہ مسجد نیا محلہ جہلم میں امامت کے فرائض بھی ادا کرتے رہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت خوش الحانی عطا فرمائی اور آپ بہت اچھے طریق پر قرآن مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے.جماعتی فرائض کی ادائیگی میں بیماری کے باوجود پورے انہماک سے حصہ لیتے رہے.حتی کہ اپنی وفات کے دن ا ا جون ۱۹۶۶ء تک یہ سلسلہ برابر جاری رہا.گویا آپ کے حق میں بھی حضرت مسیح موعود کی یہ دعا حرف بحرف پوری ہوئی کہ:.اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.“ اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں بھی آپ کے درجات بلند فرمائے اور اپنے خاص قرب میں انہیں جگہ دے.آمین یہ بیان تو اس پہلو سے تھا کہ حضرت مولوی عبد المغنی صاحب کا وجود گویا صداقت مسیح موعود علیہ السلام کی دلیلوں میں سے ایک دلیل تھا.اور آپ کا ثبات اور استقلال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا نتیجہ.ذاتی طور پر بھی حضرت مولوی صاحب موصوف کے حالات نہایت ایمان افروز ہیں.آپ کی طبیعت میں بہت تواضع اور فروتنی پائی جاتی تھی.اختلاف رائے ہوسکتا ہے.مگر آپ کا انداز ہمیشہ منکسرانہ رہتا تھا.تکبر اور غرور کا رنگ نہ ہوتا تھا.آپ ہمیشہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھتے تھے.اور اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے رہتے تھے.مجھے آپ کو خاص طور پر قریب سے دیکھنے کا اتفاق ۱۹۴۷ء کے شروع سے ہوا ہے.جبکہ میرے چھوٹے بھائی حافظ عبدالغفور صاحب سابق مبلغ جاپان کی شادی مولوی صاحب کی بیٹی عزیزہ امتہ الحئی سے ہوئی.حضرت مولوی صاحب نے اس سارے عرصہ میں ایسا اعلیٰ نمونہ اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہونے کا دکھایا ہے کہ ہم سب کے لئے قابل رشک ہے.حضرت مولوی صاحب موصوف صلہ رحمی اور اپنے رشتہ داروں سے حسن سلوک کے لحاظ سے بھی ایک نمونہ تھے.اپنی تینوں بچیوں اور اپنے تینوں دامادوں کے ساتھ اور اپنے لڑکے عزیزم عبدالحئی صاحب آف کویت سے نہایت اچھا سلوک کرتے رہے اور ہر رنگ میں ان کی بہبودی میں کوشاں رہے.جماعتی تربیت کا آپ کو ہمیشہ خیال رہا.اور مقدور بھر شہر جہلم اور ضلع جہلم کی جماعتوں کا خاص خیال رکھتے.آپ سے ہر ملنے والا آپ کی محبت اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 657 سال 1966ء ہمدردی کو نمایاں طور پر محسوس کرتا تھا.میں لکھ چکا ہوں کہ حضرت مولوی صاحب بہت دعا گو تھے.جب وہ زیادہ چلنے پھرنے سے بوجہ بیماری معذور ہو گئے تھے.تب بھی بکثرت دعائیں کرتے اور خطوط کے ذریعہ اپنے احباب اور رشتہ داروں کی دُعاؤں سے امداد فرماتے اور ان کی ہر خوشی اور مسرت میں ممکن حد تک شرکت فرماتے...حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں خلوص اور وفا کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.اور نظام جماعت کی پابندی اور خلیفہ وقت کی دلی محبت اور پوری اطاعت کو آپ جزوایمان سمجھتے تھے.ان حالات میں آپ کی وفات ایک عظیم قومی صدمہ ہے.آپ کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۳۱۳ صحابہ میں سے آخری دو شمعوں میں سے ایک شمع بجھ گئی ہے.آپ کی وفات سے ایسا وجود آنکھوں سے اوجھل ہو گیا جو اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کا ایک نشان تھا.اولاد 40 محترمہ حمیدہ بیگم صاحبہ محترم عبد السلام صاحب محترمہ زبیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ کرامت الله صاحب.(راجہ برہان احمد صاحب مربی سلسلہ یو.کے آپ کے نواسے ہیں.محترم عبدالحئی صاحب، محترمہ امتہ الکئی صاحبہ بیگم حافظ عبدالغفور صاحب سابق مبلغ جاپان حضرت چوہدری محمد الہ داد صاحب ولادت : ۱۸۸۲ء A بیعت : ۱۹۰۱ء وفات : 9 جولائی ۱۹۶۶ء : :۹ 43 آپ نے مولوی شیخ عبداللہ صاحب ولد محترم شیخ عبدالحق صاحب مرحوم ساکن وڈالہ بانگر تحصیل گورداسپور کے ذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکے.۱۹۰۷ء میں جلسہ سالانہ کے موقع پر حاضر ہوئے.ان کی حضور کی خدمت میں یہ حاضری ایک خواب کی بناء پر تھی.آپ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی.بہت نیک مخلص اور دعا گو بزرگ تھے.تبلیغ کا بے پناہ جوش رکھتے تھے.اکثر وقت فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں گذرتا تھا.غرباء پروری کا جذبہ خاص طور پر نمایاں تھا.نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے.ان کی زندگی کے آخری ایام کا یہ قابل تقلید واقعہ ہے کہ وفات سے تقریباً ڈیڑھ سال پیشتر انہوں نے حقہ نوشی چھوڑ دی.یہ عادت انہیں بچپن سے تھی.جوانی کی عمر میں کوشش کے باوجود اسے
تاریخ احمدیت.جلد 23 658 سال 1966ء ترک نہ کر سکے.لیکن تقریباً بیاسی سال عمر میں انہوں نے یہ عادت چھوڑ دی.اور دوبارہ اس کا نام تک نہ لیا.44 حضرت میاں رحم دین صاحب ولادت: قریباً ۱۸۸۵ء بیعت وزیارت: ۱۹۰۲ ء یا ۱۹۰۳ء وفات: ۱۵،۱۴ جولائی ۱۹۶۶ء آپ نے ۱۲ فروری ۱۹۳۸ء کو یہ تحریری بیان دیا:.میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس و جا گیر دار مالیر کوٹلہ کے ذریعہ قادیان میں آیا.اور حضرت نواب صاحب کے ہاں باورچی کا کام کرتا تھا.جہاں احمد نور کا بلی کی دکان تھی.وہاں حضرت نواب صاحب کا باورچی خانہ تھا.اور میں وہاں ہی کام کرتا تھا.اور نمازیں وغیرہ مسجد مبارک میں ہی پڑھا کرتا تھا.اس وقت ابھی مسجد مبارک کی توسیع ہوئی تھی.مجھے مولوی محمد اکرم صاحب، جو ایک پرانے احمدی تھے.اور حضرت نواب صاحب موصوف کے بچوں (کے) اتالیق تھے تبلیغ کیا کرتے تھے.لیکن میں نے فقط تبلیغ پر ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت نہیں کی بلکہ حضور کے بہت سے نشانات دیکھ کر اور خوابوں اور رؤیا کی بناء پر حضور علیہ السلام کے دست مبارک پر حضور کی بیعت کی.میاں صفدر علی صاحب مرحوم ملازم حضرت نواب صاحب موصوف ( والد صالح علی صاحب) نے ایک دفعہ میرے ساتھ مشورہ کیا کہ میں حضرت اقدس سے عرض کرتا ہوں کہ مجھ کو رہائش کے واسطے کوئی مکان یا زمین یا کوئی امداد عطا فرمائیں.جب حضور علیہ السلام کے سامنے میاں صفدر علی صاحب مرحوم نے یہ درخواست کی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا.کہ میاں صفدر علی اس وقت ہمارے پاس کوئی زمین یا مکان نہیں ہے تم تھوڑی دیر صبر کرو.یہ سب ارد گرد کی زمینیں احمدیوں کے ہاتھ میں آنے والی ہیں.چنانچہ یہ حضور کی بات ہمارے سامنے پوری ہو چکی ہے.خلافت ثانیہ کے وقت میں نے رویا میں دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کرسی پر بیٹھے ہیں.اور میاں صاحب (خلیفتہ اسیح الثانی) پاس کھڑے ہیں.تب میرے دیکھتے دیکھتے مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ اور جسم چھوٹا ہونا شروع ہوا.اور بالکل چھوٹا ہو گیا.جیسے بچے کا جسم ہوتا ہے.اور حضرت میاں صاحب کا جسم بڑھتے بڑھتے بہت لمبا ( یعنی آپ کے قد سے بھی زیادہ قد وغیرہ ہو گیا ) اور بڑے رعب و جلال والا ہو گیا.تب میں بہت متعجب ہوا.اور جس وقت صبح ہوئی.تو تمام شکوک و
تاریخ احمدیت.جلد 23 659 سال 1966ء شبہات دل سے نکل گئے.اور میں نے آپ کی بیعت کر لی.فالحمد للہ علی ذالک اس جگہ اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے.کہ جب ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی یورپ میں کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے تو مجھے بطور باور چی حضور اپنے ساتھ لے گئے.فالحمد للہ اس کے علاوہ ۱۹۵۵ء میں بھی آپ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہمراہ یورپ جانے کا شرف حاصل ہوا.اولاد بیٹے مکرم عبدالحمید صاحب، مکرم عبدالکریم صاحب، مکرم عبدالمجید صاحب بیٹیاں: محترمہ حمیدہ بیگم ( ان کی ایک نواسی مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب آف سیالکوٹ شہر کی اہلیہ ہیں )، محترمہ علمی بیگم صاحبہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ ( یہ پارٹیشن کے وقت پٹیالہ سے آتے ہوئے شہید ہوگئیں.) حضرت بیگم صاحبہ عرف بیگاں آف سرگودھا ولادت ۱۸۹۲ء.بیعت ۱۹۰۷ء.وفات ۲۷ /اگست ۱۹۶۶ء.آپ محترم عمر الدین بنگوی صاحب کی اہلیہ اور مکرم شیخ محمد عمر انور صاحب بنگوی کلاتھ مرچنٹ سرگودھا کی والدہ محترمہ تھیں.آپ کے خاوند کا انتقال ۱۹۲۷ء میں ہو گیا تھا.آپ کے تین لڑکے اور دولڑکیاں تھیں.آپ نے بڑے صبر، استقامت اور حوصلہ سے اپنے ایمان کی حفاظت اور بچوں کی پرورش کی.خاوند کی وفات کے وقت تمام بچے نابالغ تھے.غیر احمدی رشتہ داروں نے آپ پر دباؤ ڈالا کہ احمدیت چھوڑ دو ہم آپ کے بچوں کے رشتے اپنے گھرانوں میں کر لیں گے.مگر آپ نے ان کو یہ جواب دیا کہ میرا خدا خود میرے بچوں کا نگران ہوگا.یہ احمدیت کی وجہ سے شادی سے محروم نہیں رہیں گے.میں آپ کی امداد کی محتاج نہیں اور نہ ہی امداد قبول کروں گی.بالآخر اس نیک خاتون کی شب و روز کی دعاؤں کا ثمرہ یہ نکلا کہ اس کے پانچوں بچوں کی اولاد آج کم و بیش چالیس افراد پر مشتمل ہے اور یہ سارا خاندان سلسلہ احمدیہ کا مخلص خادم ہے.سلسلہ کے مالی جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا ہے اور اپنے غیر از جماعت رشتہ داروں سے ہر لحاظ سے ممتاز ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 660 سال 1966ء حضرت منشی محمد عبد اللہ صاحب سیالکوٹی ولادت: ۱۸۸۷ء بیعت : ۱۹۰۲ء وفات: ۳۱ را گست ۱۹۶۶ء 49 حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کے شاگرد تھے.تبلیغ کا خاص ملکہ اور شوق رکھتے تھے.بہت مخلص اور دعا گو بزرگ تھے.آپ نے دو فرزند ، ایک بیٹی اور متعدد پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں اپنی یادگار چھوڑے.آپ کا جنازہ سیالکوٹ شہر سے ربوہ لایا گیا اور یکم ستمبر کو آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ قطعہ صحابہ میں ہوئی.اولاد ا.خواجہ عبد الحئی صاحب.۲.خواجہ عبدالرحمن صاحب حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحب ولادت : ۲۵ مارچ ۱۸۸۱ء بیعت: ۱۸۹۷ء وفات : ۲۷ ستمبر ۱۹۶۶ء آپ کے فرزند جناب عبد الرحمن جنید ہاشمی صاحب تحریر فرماتے ہیں:.ابی المکرم ۲۵ مارچ ۱۸۸۱ء کو پنجاب کی مردم خیز سرزمین میں دریائے چناب کے کنارے ضلع گجرات کے ایک گاؤں گولیکی میں پیدا ہوئے.آپ کے جدامجد ( مولا نا محمد بدرالدین ) اور والد ماجد مولانا ابوالا کمل محمد امام الدین ) دونوں علوم عقلیہ و نقلیہ کے متبحر عالم تھے.اگر چہ آپ نے دنیوی تعلیم مشن ہائی سکول گجرات میں میٹرک تک حاصل کی.لیکن عربی وفارسی ،فقہ وحدیث اور علوم قرآنی پر ( دستور کے مطابق ) مسجد اور خانقاہوں میں عبور پایا.آپ کو اردو علم وادب اور صحافت سے بچپن.ہی لگاؤ تھا چنانچہ سترہ برس کی عمر ہی میں آپ کے مضامین نظم و نثر برصغیر کے تمام قابل ذکر اخبارات ورسائل میں شائع ہونے لگ گئے تھے.۱۹۰۴ ء تک آپ اپنی عمر سے دگنی تعداد میں رسائل و کتب چھپوا چکے تھے.جس میں ایک دیوان ”سبحۃ المرجان شامل ہے.اس کے علاوہ نقص القرآن منظوم ( پانچ ہزار اشعار ) ، سورہ یسین، چاروں قل، ادعیۃ القرآن اور منتخب احادیث (منظوم) بھی اسی زمانہ میں منظر اشاعت پر آئیں.۱۹۰۰ ء کے بعد 9 برس تک آپ تپ لازم اور دیگر امراض کا شکار ہوکر صاحب فراش رہے.تاہم اسی حالت میں اسلامی معاشرہ کی اصلاح وارشاد کے بارے میں ملک بھر کے اخبارات کو اپنے مضامین بھجواتے رہے.چنانچہ صرف ایک سال (۱۹۰۴ء ) میں آپ کے پچاسی
تاریخ احمدیت.جلد 23 661 سال 1966ء مضامین اٹھارہ مختلف اخبارات میں شائع ہوئے.جن میں سے چودھویں صدی ،لاہور پہنچ ، صدائے ہند ، زمیندار، وکٹوریہ پیپر، سیالکوٹ پیپر گزار ہند، پنجاب آرگن ، پنجاب سماچار، پٹیالہ اخبار سر فہرست ہیں.آپ چونکہ ۱۸۹۷ء میں ہی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے.اس لئے دسمبر ۱۹۰۶ء میں گھر بار چھوڑ کر اپنے آقا و مقتدا کے حضور اس نیت کے ساتھ حاضر ہو گئے کہ ہم قادیان کو چھوڑ کے ہرگز نہ جائیں گے کوچے میں اپنے یار کے دھونی رمائیں گے دو پہر کی نماز کے بعد حضرت اقدس کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہوا تو فی البدیہ وہ نظم پڑھی جس کے دوا شعار یہ ہیں.آتش فرقت محبوب نے جب گرمایا جذبہ شوق زیارت مجھے پھر لے آیا کیا کہوں ہجر کی گھڑیاں ہیں گزاریں کیوں کر دل شیدا کو تری یاد نے کیا تڑپایا اس کے ساتھ ہی آپ نے روایتی شاعری ، زلف و گیسو اور گل و بلبل کی حکایتوں کو خیر آباد کہا اور اسلامی معاشرہ اور مذہبی احکام و حقائق کی اشاعت و تبلیغ کے لئے اپنے ذہن و عمل کو وقف کر دیا.۱۹۱۱ء تک آپ نے اخبار بدر میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کیا.(جنوری ۱۹۰۷ء تا اکتو برا۱۹۱ء) اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو رسالہ تشحیذ الا ذہان (ستمبر ۱۹۱۱ء تا مارچ ۱۹۲۲ء) کا ایڈیٹر مقرر کر دیا.۱۹۲۰ء میں ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کے علاوہ آپ نے ناظم طبع و اشاعت مہتم کا عہدہ سنبھالا.جس کے تحت قادیان سے شائع ہونے والے سلسلہ کے تمام اخبار و رسائل، الفضل، مصباح ، سن رائیز اور احمد یہ گزٹ وغیرہ کی ایڈیٹری و مینجری آپ خود کرتے رہے.۱۹۳۸ء میں ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد خانہ نشین رہے.تاہم مشق سخن برابر جاری رہی پاکستان کے قیام پرا ارا کتوبر ۱۹۴۷ء کے بعد لاہور میں فروکش رہے اور ے استمبر ۱۹۵۶ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے بلانے پر دارالصدر شرقی کے ایک کوارٹر میں رہائش اختیار کر لی جہاں ۲۷ ستمبر ۱۹۶۶ء کو صبح چھ بجے
تاریخ احمدیت.جلد 23 662 سال 1966ء 66 52 حرکت قلب بند ہونے سے وفات پائی.آپ کا مزار بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے بعد صحافت اور زود نویسی میں آپ نے بہت نام پیدا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روح پرور ملفوظات ، حضرت خلیفہ اول کے درس قرآن اور حضرت مصلح موعود کے متعدد خطبات اور تقاریر کو قلمبند کر کے آئندہ نسلوں کے لئے ایک عظیم خزانہ محفوظ کر دیا.آپ کو تحریک جدید کی پانچ ہزاری فوج میں شامل ہونے کا شرف حاصل تھا.بلکہ آپ ہی وہ خوش نصیب بزرگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف کو جن میں آپ کو پانچ ہزار سپاہی دئے جانے کا وعدہ دیا گیا.تحریک جدید کے مجاہدین پر چسپاں کیا اور سید نا حضرت مصلح موعود نے خطبہ جمعہ میں اس تعبیر کی توثیق فرمائی.53 54 حضرت قاضی صاحب کی رحلت پر خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے لکھا:.سلسلہ احمدیہ کے پرانے بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیرینہ صحابی صحافت احمدیت کے ایک بنیادی ستون حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کا انتقال ہو گیا..اناللہ وانا اليه راجعون حضرت قاضی صاحب کو سلسلہ کے معترضین کے اعتراضوں کے جواب دینے کا بہت ملکہ تھا.نظم ونثر میں یدطولیٰ رکھتے تھے.ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ جماعت کے نونہالوں کی صحافتی تربیت اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے میں بے مثال فرد تھے.خود بھی تہائی صدی تک قلم کے ذریعہ خدمت کرتے رہے اور بہت سے نئے لکھنے والے پیدا کر گئے.اس ضمن میں حضرت مولانا شمس صاحب اور خاکسار کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ حضرت قاضی صاحب نے مضمون نویسی میں ہماری بہت حوصلہ افزائی فرمائی تھی جس کا احساس تا زندگی قائم رہے گا.اور حضرت قاضی صاحب کے لئے ہم دعا گو رہیں گے اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ ملکہ بھی عطا فر مایا تھا کہ موقعہ کے مناسب فورا نظم کہہ سکتے تھے.مصرع تاریخ نکالنے میں بھی آپ کو ممتاز مقام حاصل تھا.“ تصانیف 56 ظهور امسح ( فیض الامام ضمیمہ ملبور است ) طلق محمدی بالاستخلاف ان کتب کی نسبت سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ” آپ کی تینوں کتابیں آپ
تاریخ احمدیت.جلد 23 663 سال 1966ء کی طرف سے تحفہ مجھے ملا.جزاکم اللہ خیراً تھوڑا تھوڑا میں نے تینوں کو دیکھ لیا ہے.عمدہ اور مدلل بیان ہے.خدا تعالیٰ جزائے خیر دے.آمین.آپ کو اس کی بر موقع مناسب اشاعت کرنی چاہئے تا دو ہرا ثواب ہو.ظهور المهدی سنة احمد یہ حضرت خلیفہ مسیح الا ول کی مبارک رائے یہ ہے ” میں نے اس کتاب کو پڑھا.166 کتاب ہر ایک پہلو میں مجھے پسند ہے.جزی اللہ المصنف آمین نورالدین علم الفرائض علم العروض.پند اکمل - شرح کافیہ مختصر معانی _ قصص القرآن ترجمان الادب.سخن خوب (اردو منظوم) - فطرت (ناول) - احمدی طریقہ ( پنجابی منظوم).کتاب الصیام.قرآن کریم کی دعائیں (اردو منظوم ).عقائد احمد یہ اس رسالہ کی نسبت حضرت خلیفہ مسیح الاول کی قیمتی رائے یہ ہے ”میں نے اس کتاب کو پڑھا کتاب ہر پہلو سے مجھے پسند ہے جزی اللہ المصنف آمین.نورالدین) | مقدس نبی کے مقدس حالات (ترجمه لباب الخيار) ہدایات دربارہ معاملات.حاتم طائی کی حکایت.ادعیۃ الاحادیث ( منظوم اردو ).مرزا احمد بیگ والی پیشگوئی.روحانی طبیب.ہدایات نبوی.ترجمان الادب.قبولیت دعا کے چھیاسی گر.الواح الهدی ( ترجمه ریاض الصالحين للنووی) سید نا حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۶ء کے موقع پر اس کتاب کی خریداری کی خصوصی تحریک فرمائی.کشف الغطاء قصص القرآن (اردو منظوم) - کرامات المہدی.احمدی طریقہ - احسن القصص (ترجمه سوره یوسف اردو) وو روحانی طبیب - دلفگار (ناول) انقلاب (ناول) انجام عیاشی (ناول) احمدیہ جنتری ۱۹۱۳ء تفسیر سورۃ یسین (منظوم ترجمه ) قصیده بهشتی (منظوم پنجابی) معیار الصادقین یعنی راستبازوں کی پہچان سورہ الرحمن کی تفسیر مسمی بہ فیض الرحمان ( منظوم پنجابی پنج گنج (منظوم پنجابی) قصه سلیمان و بلقیس نماز اردو خط و کتابت حکایات اخلاقی ( گلاب سنگھ کے مطبع عام لاہور سے چھپی ) ( النجم الثاقب حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل
تاریخ احمدیت.جلد 23 664 سال 1966ء (غیر مطبوعہ مقالہ احمد حسین صاحب شاہد ) ۱۹۶۹ ء.۱۹۷۰ء.یہ مقالہ جامعہ احمد یہ ربوہ کی لائبریری میں موجود ہے.) نغمہ اکمل (مرتبہ عبدالرحمن جنید ہاشمی ناشر مکتبہ یادگار اکمل دارالصدر شرقی ربوه ستمبر ۱۹۶۷ء ) ( مجموعه کلام ۱۹۰۷ ء تا ۱۹۶۵ء) مسئلہ ختم نبوت اور احمدیت (ٹریکٹ) اولاد مکرم خورشید عاقل صاحب، مکرم جمشید احسن صاحب، مکرم عبدالمنان مبشر صاحب، مکرم عبدالرحمن جنید ہاشمی صاحب ( آفس سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ و نائب ناظر بیت المال.وفات ۲۲ جولائی ۱۹۷۳ء)، مکرم عبد الرحیم شبلی صاحب (بی کام) ایڈیٹر زمیندار، ملت، نائب ایڈیٹر اخبار پاکستان ٹائمنز لاہور 62 حضرت ڈاکٹر گو ہر دین صاحب کوٹ فتح خاں ولادت: ۱۸۸۹ء بیعت : ۱۸۹۹ء وفات: ۴ نومبر ۱۹۶۶ء 3 حضرت ڈاکٹر گوہر دین صاحب کا تعلق موضع نکو در تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک سے تھا.ان کے بڑے بھائی وہاں مسجد میں امام تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام وہاں بھی کسی طرح پہنچا، آپ ایمان لے آئے.اور اعلان کر دیا کہ میں نے حق کو قبول کر لیا ہے.دونوں بھائیوں پر تشدد کر کے گاؤں سے نکال دیا گیا.دونوں بھائی ہجرت کر کے قادیان پہنچ گئے.ملک سلطان رشید صاحب سابق امیر ضلع اٹک کے بیان کے مطابق ان کی والدہ مرحومہ (عائشہ صدیقہ بنت حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب) بیان کرتی تھیں کہ میں نے چار پائیاں بنتے خود انہیں دیکھا ہے.اس کا تھوڑا بہت کچھ معاوضہ مل جاتا تھا.چھوٹے بھائی نے تعلیم حاصل کی.لاہور میڈیکل سکول میں داخل ہوئے.وہاں پڑھ رہے تھے کہ ٹی بی ہوگئی.جو ان دنوں لاعلاج مرض تھا.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ پڑھائی چھوڑ کر گھر چلے جاؤ.تمہارا زیادہ وقت ابھی باقی نہیں رہا.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا.جو خط جواب میں حضور کی طرف سے آیا اس کو دیکھنے کی سعادت اس عاجز ( ملک سلطان رشید ) کو نصیب ہوئی.چونکہ اس بات پر تقریباً چالیس سال گزر چکے ہیں.الفاظ ٹھیک یاد نہیں رہے لیکن جو کچھ یاد ہے وہ اس سے کچھ ملتا جلتا تھا کہ ”پڑھائی نہیں چھوڑنی ، میں نے دعا کی ہے تم لمبی عمر پاؤ گے.جب میں نے وہ خط دیکھا اس
تاریخ احمدیت.جلد 23 665 سال 1966ء وقت ان کی عمر یقین ۸۰ برس سے تجاوز کر چکی تھی.ان کی پہلی شادی اپنے خاندان میں ہوئی.ان سے ایک بیٹے کرنل نورالدین صاحب مرحوم تھے.سروس کے دوران مختلف شہروں میں تعینات رہے.ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی اپنا پرائیویٹ کلینک کھول لیا.ان کی وفات راولپنڈی میں ہوئی اور اسلام آباد کے قبرستان میں دفن ہوئے.حضرت گوہر دین صاحب کی پہلی شادی اپنے خاندان میں ہوئی جبکہ دوسری شادی میری والدہ مرحومہ کی خالہ محترمہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے ہوئی جو کہ حضرت خلیفہ اسیح الاول کی نواسی تھیں.ان سے تین بیٹے ہوئے.محترم صلاح الدین صاحب مرحوم محترم ظہیر الدین صاحب اور جلال الدین اکبر صاحب مرحوم.حضرت ڈاکٹر گوہر دین صاحب سروس کے دوران کافی عرصہ برما میں قیام پذیر رہے کیونکہ اس وقت وہ بھی انگریزوں کے زیر تسلط تھا.ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ ثمن ضلع چکوال کی سرکاری ڈسپنسری کے انچارج رہے جو ان دنوں اٹک میں ہی شامل تھا.اس کے بعد یونین کونسل کوٹ فتح خان ضلع اٹک کی ڈسپنسری کے انچارج رہے.میرے والد صاحب مرحوم ( محترم کرنل ملک سلطان محمد خان صاحب سابق صدر کوٹ فتح خان و امیر ضلع اٹک.ناقل ) کی وفات جو کہ ۱۹۶۳ء میں ہوئی کے بعد تین سال تک جماعت کوٹ فتح خان کے صدر رہے.حضرت ڈاکٹر گو ہردین صاحب کی وفات نومبر ۱۹۶۶ء میں ہوئی.جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے پڑھایا.بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں.عام لوگوں کے ساتھ بہت شفقت کا سلوک تھا.اکثر علاج بلا معاوضہ ہی کرتے تھے.میرے علم میں ہے کہ آخری عمر میں بچوں کا اصرار تھا کہ آپ اب آرام کریں اور ہمیں خدمت کا موقعہ دیں لیکن انہوں نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ جب تک میں خود کام کر سکتا ہوں اس وقت تک معمول یہی رہے گا.ہم پر بے حد شفقت فرماتے تھے جس میں میرے والد صاحب کی وفات کے بعد اور بھی اضافہ ہو گیا.ہر وقت مسکراتے رہنا ان کی ایک خاص عادت تھی.جس رات وفات ہوئی جو دوست تیمار داری کے لئے پاس تھے انہوں نے جسم دبانے کے لئے ہاتھ رکھا تو اپنے ہاتھ سے انکا ہا تھ پرے کرتے ہوئے فرمایا بس اب رہنے دیں، جانے کا وقت آگیا ہے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا بیان ہے:.64 حضرت ڈاکٹر صاحب اور یہ عاجز ۱۹۰۹ء سے ۱۹۱۲ ء تک میڈیکل بورڈنگ کے ایک ہی کمرہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 666 سال 1966ء میں رہائش پذیر رہے تھے.اور اکٹھے نماز با جماعت ادا کرتے تھے.766 آپ ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد بر ما تشریف لے گئے اور ۱۹۴۵ء تک بر ما میں طبی خدمات بجا لاتے رہے.اولاد بابر،جلال کرنل ڈاکٹر نورالدین صاحب، صلاح الدین صاحب فاتح ظہیر الدین صاحب بابر، جلال الدین اکبر صاحب 66 حضرت چوہدری محمد شریف باجوہ صاحب ولادت: ۱۸۹۵ء بیعت: ۱۹۰۷ء وفات: ۷ نومبر ۱۹۶۶ء حضرت نواب محمد الدین صاحب کے بڑے صاحبزادے تھے.آپ کو اپنے والد بزرگوار سے پہلے احمدیت کی نعمت میسر آئی اور آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.آپ ایک مثالی احمدی وکیل تھے.اور اپنی قانونی قابلیتوں سے ایک لمبے عرصے تک بنی نوع انسان اور خصوصاً جماعت احمدیہ کی شاندار خدمات بجالاتے رہے.آپ نے چالیس سال تک جماعت مگیری کی امارت کے فرائض نہایت اخلاص اور قابلیت سے سرانجام دیئے.آپ حضرت اصلح الموعود کے پہلے سفر یورپ میں شریک ہونے والے بارہ (۱۲) حواریوں میں سے ایک تھے.آپ منٹگمری (ساہیوال) کے امیر جماعت تھے.جماعت احمد یہ ساہیوال کی ترقی میں ان کا خاص دخل تھا.اور اس جماعت کی پیدا کردہ اکثر جائیداد انہی کے رہین منت تھی.آپ سچ یچ ولی تھے.اخلاق حسنہ کا نمونہ ، خوش اطوار و خوش خصال، تقویٰ کی باریک راہوں کا خیال رکھنے والے، بے نمود و بے ریاء، انکسار، فروتنی اور تسلیم ورضا کے خوگر ، مرضیات الہی کے عاشق ، بـلـی من أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ کی عملی تصویر غریبوں کے غمگسار اور دوسروں کے جذبات واحساسات کا حد سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے.آپ خدا تعالی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے عاشق تھے.خلفاء احمدیت سے آپ کی محبت وعقیدت کا رنگ بالکل نرالا ہوتا تھا.آپ کو نہایت قریب سے دیکھنے والوں کی یہ شہادت ہے کہ آپ بہترین دوست شفیق ترین باپ، بلا کے ذہین و فہیم، پرلے درجے کے متقی اور پرہیز گار اور صحیح معنوں میں مردمومن تھے.تمام شعائرِ.
تاریخ احمدیت.جلد 23 667 سال 1966ء 68 اسلام کی پابندی ان کی طبیعت میں اسطرح رچی ہوئی تھی کہ خلاف اسلام کوئی کام کرنا ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہا تھا.یہ صفات ان کے چہرے سے ہی عیاں تھیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے ایک موقعہ پر آپ کو ہمارے ایک بے نفس اور سلسلہ احمدیہ کے فدائی کے خطاب سے یاد فرمایا.تحریک جدید کے پانچیزاری مجاہدین میں شمولیت کا اعزاز آپ کو حاصل تھا.آپ کو رویائے صالحہ اور سچی خوا ہیں کثرت سے آتی تھیں.آپ کا گھر بہشت کا نمونہ تھا.احمدیت سے بہت محبت تھی اور حضرت مصلح موعود کے تو والہ وشیدا تھے.سلسلہ کے مربی یا کارکن تشریف لاتے تو اُن کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہتے تھے.غض بصر میں اپنی مثال آپ تھے.غریب بیمار اور مسافر آپ کو پیدل چلتے دکھائی دیتے تو آپ اُنہیں اپنی موٹر کار میں بٹھا لیتے اور انہیں منزل مقصود تک پہنچا دیتے تھے.ایک اعلیٰ درجہ کے وکیل ہونے کے باعث آپ کی خدمت میں ہر طبقے کے لوگ حاضر ہوتے.ہر ایک کو صحیح اور نیک مشورہ دیتے.اور امیر وغریب میں کوئی فرق نہ کرتے تھے بلکہ غریب کا تو زیادہ ہی خیال رکھتے.اپنے ملازموں اور مزار عین اور اپنے گاؤں کے لوگوں اور دیگر زمینداروں پر خاص دستِ شفقت رکھتے تھے اور اُن کے دُکھ سکھ میں شریک ہوتے.۱۹۴۷ء میں آپ نے اپنے غیر مسلم مزارعوں کو باحفاظت سرحد تک پہنچایا اور وہ اپنے بال بچوں سمیت خوشی سے سرحد عبور کر گئے.آپ نے اپنے وصیت نامہ میں لکھوایا کہ:.اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے محمد رسول اللہ ﷺ اس کے سچے رسول ہیں.حضرت مسیح موعود بچے مسیح موعود ہیں.اور حضرت محمود ان کے سچے جانشین ہیں.سوان سے محبت اور عزت کا تعلق قائم رکھنا اور بڑھانا ضروری ہے.حضرت اقدس کی جانشینی کا سلسلہ آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں چلے گا.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے دامن سے اپنے آپ کو وابستہ رکھیں.دوسرے معاملات میں تمہیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ تم سب ایک باپ اور ماں کی اولاد ہو.ایسے ماں باپ جن کے دل میں تم سب کے لئے بے انداز محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے.اس لئے تمہارے اندر بھی باہمی ایک دوسرے کے لئے اتنی زیادہ محبت اور قوت کا ایسا جذبہ ہو کہ دیکھنے والے حیران رہ جائیں.اللہ تعالیٰ کا حکم ہے بوڑھے والدین سے بہت زیادہ محبت اور عزت کا سلوک کیا کر و حتی کہ اُن کو
تاریخ احمدیت.جلد 23 668 سال 1966ء اُف تک بھی نہیں کہا جاسکتا.چھوٹے سے چھوٹا کلمہ بھی جو اُن کی طبیعت پر گراں ہو، ان کو نہیں کہا جاسکتا.اس لئے جب تک میں اور تمہاری امی اس دُنیا میں موجود ہیں تمہارا فرض ہے کہ ہم دونوں کے ساتھ بہت زیادہ محبت اور عزت کا سلوک کرو.اگر کوئی ایک بہن بھائیوں میں سے اس معاملہ میں کوتاہی کرے تو تم سب کا فرض ہے باہم مل کر اسکی اصلاح کرو، کیونکہ یہی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے.مثلاً پریذیڈنٹ یا گورنر تمہارے گھر آئے تو اس کو میرے پاس بٹھانا چاہیئے کیونکہ تمہارے گھر میں سب سے عزت کا مقام وہی ہے.جہاں میں بیٹھا ہوا ہوں.اسی طرح اگر پریذیڈنٹ یا گورنر کی بیوی تمہارے گھر آوے تو اس کو اپنی والدہ کے پاس بٹھانا چاہیئے کہ تمہارے گھر میں سب سے عزت کا مقام وہی ہے جہاں تمہاری امی بیٹھی ہیں.اگر تم اس طرح عمل کرو گے تو کئی اور خاندان بھی متاثر ہوں گے.ان کی نیکیوں میں سے بھی تمہارے حق میں نیکیاں لکھی جائیں گی.مومن اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کبھی مایوس نہیں ہوتا اور میرے ساتھ تو اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک چلا آرہا ہے کہ میری مقد رعمر تین دفعہ بڑھائی گئی ہے.بچپن میں میں اس قدر کمزور بچہ تھا کہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اس کو ضرور ٹی.بی ہو جائے گی لیکن اللہ تعالی نے ٹی بی سے محفوظ رکھا.پھر ۱۹۳۰ء میں میں اس قدر بیمار ہو گیا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ میری عمر صرف دو دن باقی رہ گئی ہے.لیکن مجھے رات خواب میں بتایا گیا کہ تم عمر پاؤ گے.پھر ۱۹۵۱ء کا واقعہ ہے.ربوہ سے منٹگمری جاتے ہوئے میرے دل میں زور سے یہ آیت آئی وَمَائِدُ رِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيباً یعنی تم کو علم نہیں کہ شاید تمہاری گھڑی قریب آگئی ہو.اس کے بعد میں سخت بیمار ہو گیا تھا اور تقریباً دو سال بیمار رہا لیکن حضرت فضل عمر اور دوسرے بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے آج تک اس واقعہ کو چودہ سال گذر چکے ہیں.پچھلے سال کچھ مُنذر اشارے تھے.بلکہ ایک دن تو آواز آئی تھی کہ وقت پورا ہو گیا ہے.لیکن دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ وقت ٹال دیا.اس کے بعد بھی دو تین دفعہ اشارے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ دعاؤں کی وجہ سے ٹلاتا چلا آ رہا ہے.“ حضرت مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ امیر صوبائی نے آپ کی وفات پر لکھا: محترم چوہدری محمد شریف صاحب کو صحابی ہونے کا شرف حاصل تھا.آپ کی عمر بارہ سال کی تھی جب آپ نے اپنے چا ( حضرت محمد حسین صاحب) کی معیت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 669 سال 1966ء محترم چوہدری صاحب کے ساتھ اس عاجز کے بہت دیرینہ تعلقات تھے.آپ ہمیشہ نہایت محبت کے ساتھ ملتے اور اس ملنے کا اثر دیر تک رہتا.حضرت مصلح موعود نے کئی کام ہم دونوں کے سپرد فرمائے.غالباً ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے کہ ہم دونوں کو قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کے ساتھ ایک اہم معاملہ میں گفتگو کرنے کے لئے شملہ بھیجا.کئی ایک کمشنوں اور دسیوں سب کمیٹیوں میں اکٹھا کام کرنے کا موقعہ ملا.قادیان میں ایک بہت اہم معاملہ کی تحقیق کے لئے حضرت مصلح موعود نے ہم دونوں کو مقرر فرمایا.علاقائی امارت کے فرائض کی سرانجام دہی میں بھی اس عاجز کا محترم چوہدری صاحب کے ساتھ ایک لمبا عرصہ واسطہ پڑتا رہا غرضیکہ جوانی کے ایام سے ہی اس عاجز کو محترم چوہدری صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا.محترم چوہدری صاحب ایک نہایت خدا ترس، صالح اور بے نفس بزرگ تھے.نمازوں میں آپ کو خاص شغف تھا.تہجد کے پورے پابند تھے.سفر میں بھی ناغہ نہ کرتے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ ذکر الہی میں آپ کو خاص لذت حاصل ہے.آپ خدا کے فضل سے ایک باحیثیت خاندان سے تھے اور آپ کے والد حضرت نواب محمد دین صاحب ایک معزز عہدیدار تھے اس لئے آپ کو شروع سے بہت سی آسائشیں حاصل تھیں لیکن آپ کی طبیعت درویشانہ تھی اور آپ کی کسی بات یا کسی کام میں کبھی خود نمائی یا فخر کا اظہار نہ ہوتا تھا.بلکہ سرتا پا عجز وانکسار تھے.آپ میں یہ خصوصیت اس درجہ تھی کہ بہت کم انسانوں میں پائی جاتی ہے.اور یہی در حقیقت خداشناسی کی بڑی علامت ہے.اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی شناخت ہی انسان میں خود نمائی اور کبر کو چلاتی ہے.اور اس میں حقیقی بجز اور تذلل پیدا کرتی ہے تبھی انسانوں کو اپنا سب کچھ اس مقابلہ میں حقیر اور ذلیل نظر آتا ہے.اور وہ ہر دم اپنی خطاؤں اور کوتاہیوں پر نادم ہوتا ہے.اور استغفار کو اپنا پیشہ بناتا ہے نمود و کبر ومباہات اس کے گوشے گوشے سے نکل جاتا ہے اور عظمت الہی کے سامنے ہر وقت دبا رہتا ہے.محترم چوہدری صاحب کی کچھ ایسی ہی کیفیت نظر آتی تھی.آپ سلسلہ کے نیچے خادموں میں سے تھے.نظام کی پوری پابندی کرتے تھے مختلف پہلوؤں سے خدمات بجالاتے تھے.چالیس سال کے قریب ضلع ساہیوال ( منٹگمری) کی جماعتوں کے امیر رہے اور ان کی ہر طور سے خدمت اور نگرانی کرتے رہے.مرکز میں بھی آپ کے سپر د کام ہوتے اور.آپ انہیں ہمیشہ محنت اور خوش دلی سے سرانجام دیتے.اس عاجز کے ساتھ ہمیشہ تعاون فرماتے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 670 سال 1966ء علاقائی نظام کے تحت جو کام بھی لکھتا نہایت مستعدی سے کرتے.حضرت مصلح موعود کے ساتھ آپ کو خاص محبت تھی.تمیں پینتیس سال کی بات ہے ایک مرتبہ اخبارات میں حضور کی وفات کی جھوٹی خبر شائع کر دی گئی.مجھے تو اسکے جھوٹا ہونے کا اسی وقت علم ہو گیا لیکن بعض دُور کے دوستوں کے لئے وہ بے حد گھبراہٹ اور مصیبت کا موجب بنی.محترم چوہدری صاحب نے وہ خبر پڑھی تو ایسے غمزدہ ہوئے کہ منٹگمری میں کسی سے بات کئے بغیر گاڑی پر سوار ہو کر اگلے دن صبح قادیان پہنچ گئے.راستے میں کئی ایک احمدی ملے.ان سے بھی کوئی بات نہ کی.قادیان گاڑی سے اتر کر سیدھے میرے پاس تشریف لائے.میں ان دنوں حضرت میر محمد الحق صاحب کے انتظام کے تحت محترم سید محمد اشرف صاحب کے چوبارے میں ٹھہرتا تھا.اس مکان کے نچلے حصے میں مہمان خانہ کا سامان ہوتا تھا.محترم چوہدری صاحب مجھے ملے اور معانقہ کیا تو رو پڑے میں نے خیال کیا کہ محبت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے.تھوڑی دیر بعد میں نے کہا کہ اب حضرت خلیفتہ المسیح کی ملاقات کے لئے جانا ہے.اس پر آپ سخت حیرت زدہ ہوئے اور پوچھنے لگے کیا حضور زندہ ہیں.آپ کی حالت اس وقت دیکھنے والی تھی.تب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹے طور پر اخبارات میں شائع ہوئی تھی.پھر آپ نے اپنے غم واندوہ کی کیفیت بتائی جو آپ پر اس عرصہ میں گزری.آپ اگر چہ وکالت کا کام کرتے تھے لیکن آپ کی زیادہ توجہ دینی کاموں کی طرف رہتی تھی.حکام میں آپ کا اثر ورسوخ تھا.اسے آپ خدمت دین کے لئے ہی استعمال کرتے.آپ کا نمونہ لوگوں پر بہت اثر انداز تھا.عام لوگوں سے بھی بہت حسنِ سلوک فرماتے.غرباء کی ہمیشہ مدد کرتے.کسی کے ساتھ سختی سے پیش نہ آتے.میں نے آپ کو کبھی غصہ میں نہ دیکھا.طبیعت بہت حلیم اور بُردبار تھی.غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے آپ میں بہت خوبیاں رکھی تھیں.محترم جناب ڈاکٹر عطاء الرحمن صاحب امیر جماعت احمد یہ ساہیوال حضرت چوہدری محمد شریف صاحب کی گرانقدر خدمات دینیہ کا جامع تذکرہ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.69 166 خاکسارا پریل ۱۹۴۸ء میں ساہیوال آیا.اس وقت حضرت چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع ساہیوال تھے ( جو کہ اسوقت منٹگمری کہلا تا تھا اور ضلع اوکاڑہ اور ضلع پاکپتن بھی اس میں شامل تھے.محترم چوہدری صاحب ڈسٹرکٹ بورڈ کے بھی ممبر تھے اور علاقہ کے بڑے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے.چک GD/66 ان کے خاندان کی ملکیت تھا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 671 سال 1966ء محترم چوہدری محمد شریف صاحب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے اور انتہائی نیک ، پارسا اور دعا گو بزرگ تھے.ہر کسی کے ساتھ بہت محبت کا سلوک کرتے تھے.اگر چہ وکالت کے پیشہ بستہ تھے مگر وکالت کو ذریعہ معاش کبھی نہیں بنایا.بہت زیرک اور لائق انسان تھے ان کے ساتھی وکلاء عام طور پر ہائر کورٹس کے لئے اپیلوں وغیرہ کے ڈرافٹ جناب چوہدری صاحب سے تحریر کروایا کرتے تھے.خاکسار کے ساتھ محبت اور عزت کے ساتھ پیش آتے تھے.اور ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد فرمالیا کرتے تھے.خاکسار کے ساتھ بہت حسنِ ظن رکھتے تھے اور بہت اعتماد کرتے تھے.شروع شروع میں عام طور پر نماز عید وغیرہ ان کی وسیع کوٹھی پر ہی ادا کی جاتی تھی.مکرم چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کو اپنی امارت کے دنوں میں ایک عرصہ تک خواہش رہی کہ خاکساران کے ساتھ نائب امیر ضلع و شہر بننا منظور کر لے.مگر خاکسار اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے ہمیشہ ہی عذر کرتا رہا.کچھ عرصہ بعد مکرم و محترم محمد نقی صاحب بارایٹ لا ( محترم چوہدری محمد شریف صاحب کے چھوٹے بھائی) کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے تقریباً ۲ سال تک تھوڑے تھوڑے وقفہ کے لئے سیدنا حضرت خلیفہ مسیح سے چھٹیاں لیتے رہے.بعد میں اپنی بیماری کیوجہ سے چھٹی لینی پڑی.اس دوران خاکسار کا نام بطور قائم مقام امیر کے تحریر کر دیا کرتے تھے.ان کے تینوں بیٹے مکرم محمد خالد صاحب، مکرم محمد نعیم صاحب، مکرم میجر محمد بشیر صاحب اور چاروں بیٹیاں بہت نیک فرمانبردار اور پارسا ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو ترقیات دیوے اور لمبی عمروں سے نوازے ( آمین ) محترم چوہدری صاحب کی بیگم صاحبہ بہت نیک بزرگ اور پارسا تھیں.ایک لمبا عرصہ تک وہ لجنہ اماءاللہ ساہیوال ضلع کی صدرر ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اپنے فضل سے محترم چوہدری صاحب اور انکی بیگم صاحبہ کی مغفرت فرمائے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے ( آمین ) اولاد ۲.چوہدری محمد خالد باجوہ صاحب ڈائریکٹر شاہ نواز لمٹیڈ کراچی چوہدری محمد نعیم باجوہ صاحب ڈائر یکٹر شاہ نواز لمٹیڈ کراچی میجر محمد بشیر باجوہ صاحب زمیندار ساہیوال 70 ۴.محترمہ امتہ احکیم صاحبہ بیگم چوہدری حفیظ احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور
تاریخ احمدیت.جلد 23 ڈی سی.بنگلہ دیش.گوجرانوالہ 672 سال 1966ء محترمہ قانتہ بشری صاحبہ بیگم محترم محمد صالح صاحب مرحوم سابق انجینئر پی.آئی.محترمہ خالدہ بشری صاحبہ بیگم ڈاکٹر آفتاب احمد صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر محکمہ صحت ے.محترمہ مبارکہ بیگم صاحبہ بیگم چو ہدری فضل الہی صاحب ڈائر یکٹر مکمہ ٹیلیفون لا ہور حضرت میاں محمد یوسف خان صاحب ولادت: ۶ اپریل ۱۸۸۸ء بیعت: جولائی ۱۹۰۱ ء وفات: ۱۰ دسمبر ۱۹۶۶ء.8 آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت میاں ہدایت اللہ صاحب (وفات ۲۳ فروری ۱۹۳۵ء) سینئر ٹیچر گورنمنٹ ہائی سکول گجرات کے صاحبزادے تھے.گجرات میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم جہلم میں پائی.آپ کی سرکاری ملازمت محکمہ بندوبست سے شروع ہوئی.بعد ازاں لائلپور میں ڈپٹی ڈائر یکٹر زراعت کے دفتر میں خزانچی کا کام آپ کے سپر دہوا جہاں باوجود حسن کارکردگی کے آپ کو بہت تنگ کیا گیا.آپ نے نمازوں میں نہایت گریہ وزاری سے دعائیں کیں کہ خداوند تو عزیز اور حکیم ہے.مجھے بھی غلبہ اور حکمت عطا فرما.آپ کی یہ دعائیں غیر معمولی طور پر قبول ہوئیں اور آپ کو شملہ میں ایک نہایت معقول ملازمت مل گئی.اور آپ ایک ایسی آسامی پر لگائے گئے جہاں پہلے ایک انگریز افسر متعین تھا.آپ حکومت پنجاب کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ میں سالہا سال تک سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز رہے اور پھر سول سپلائیز آفیسر مقرر ہوئے اور اسی عہدہ سے ریٹائر ڈ ہوئے.آپ اُن خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں جہلم میں حضور کی زیارت کرنے اور حضور کی زبانِ مبارک سے مقدس کلمات سنے کی توفیق ملی.آپ کو مقدمات گورداسپور کے دوران بھی حضور کی زیارت کا شرف حاصل ہوا.آپ ۱۹۱۵ء میں لائل پور (فیصل آباد) کی انجمن احمدیہ کے جنرل سیکرٹری مقرر ہوئے.وہیں آپ نے وصیت کی.آپ حضرت میر ناصر نواب صاحب کی انجمن احباب کے ممبر بھی تھے.آپ کئی سال تک حضرت مصلح موعود کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے.ازاں بعد جماعت احمدیہ لاہور کے نائب امیر کی حیثیت سے خدمات بجالاتے رہے.۱۹۵۲ء میں آپ کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی.نہایت مخلص اور فدائی بزرگ تھے تواضع و انکسار آپ کے رگ وریشہ میں رچی ہوئی تھی.ہر ایک کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 673 سال 1966ء ساتھ نہایت محبت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے.نہایت پارسا، مخلص اور فدائی احمدی تھے.ہر ایک کے ساتھ بہت محبت و احترام کے ساتھ پیش آتے تھے.اولاد محمد داؤ د میاں صاحب محمد بیٹی میاں صاحب محمد احمد میاں صاحب، محمد سلیمان میاں صاحب مرحوم، محمد سعید میاں صاحب محمد اور لیس میاں صاحب، محمد یونس میاں صاحب، محمد شعیب میاں صاحب، محمودہ بیگم صاحبہ، مسعودہ بیگم صاحبہ امینہ بیگم صاحبہ مرحومه، تنویر بیگم صاحبہ - حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب کڑیانوالہ ضلع گجرات 75 ولادت : اندازاً۱۸۷۰ء بیعت : ۱۹۰۱ ء وفات ۱۳ دسمبر ۱۹۶۶ء 76 ڈاکٹر محمد شفیع صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ پنڈی بھٹیاں کے خسر اور احمدیت کے شیدائی تھے.بیعت کے وقت آپ کی عمر ۳۰ ۳۳ سال تھی.سادہ طبیعت کے مالک تھے.حافظ قرآن تھے.درود شریف کے عاشق ،عوام کے غمخوار، بیواؤں اور یتیموں کے سر پرست اور کمزوروں اور محتاجوں کا سہارا تھے.صاحب کشوف تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معروف نظم اک نہ اک دن پیش ہوگا تو خدا کے سامنے حضرت محمد اسماعیل صاحب کے بھائی حضرت شیخ محمد بخش صاحب رئیس کڑیا نوالہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر عطا فرمائی تھی.جس کے طفیل ان کی تکالیف دور ہوئیں.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل ہونے کا شرف بھی رکھتے تھے.آپ نے اپنے پیچھے پانچ لڑکے اور چار لڑکیاں یادگار چھوڑ ہیں.اولاد 78 بیٹے: انشاء اللہ خاں صاحب، ثناء اللہ خاں صاحب، بشیر احمد صاحب، نصیر احمد صاحب، غلام مسیح رشید احمد صاحب بیٹیاں احمد بی بی صاحبہ اہلیہ ڈاکٹرمحمد شفیع صاحب، بشیر بیگم صاحبہ اہلیہ عنایت اللہ صاحب تھانیدار، رشید بیگم صاحبہ اہلیہ عبداللطیف صاحب تھانیدار، فہمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ حاجی عطاء اللہ صاحب
تاریخ احمدیت.جلد 23 674 سال 1966ء ۱۹۶۶ ء میں وفات پانے والے مخلصین جماعت مولوی عبدالستار صاحب (ایم اے ) کنکی وفات ۲۷ جنوری ۱۹۶۶ء حضرت مولانا عبدالماجد صاحب بھاگلپوری کے ذریعہ ۱۹۲۴ء یا ۱۹۲۵ء میں داخل احمدیت ہوئے.آپ نے کٹک میں احمدیہ بینگ مین ایسوسی ایشن ( AHMADIYYA YOUNG MAN ASSOCIATION) کی بنیاد ڈالی.نومبر ۱۹۲۷ء میں آپ کے بڑے صاحبزادے عبد السلام کی تدفین پر مسلمانانِ کٹک نے مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا اور اس کی نعش چوبیس گھنٹے کے بعد پولیس کی نگرانی میں سپردخاک کی گئی.اس موقع پر آپ نے جس ایمانی قوت ، صبر، استقلال اور رضا بالقضا کا ثبوت دیا وہ قابلِ صد تحسین ہے.آپ صو بہ اُڑیسہ کے کئی بار امیر منتخب ہوئے اور امارت کے فرائض حسن و خوبی اور جوش و خروش سے سرانجام دیتے رہے.جماعتوں کے دورے بھی کرتے.مرکزی مبلغین کو منگوا کے جلسے کرواتے.آپ نے اپنی اولاد کوحتی المقدور قادیان میں ہی تعلیم دلوائی.79- حاجی جعفر صاحب بن حاجی وانتارا صاحب سنگاپور وفات جنوری ۱۹۶۶ء بعمر ۷۰ سال سنگا پور میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ میں داخل ہونے والے مخلص اور جری بزرگ تھے.حضرت مولانا غلام حسین صاحب ایاز کے ساتھ سلسلہ کی خاطر آپ نے بھی بہت تکالیف اُٹھائیں.ایک مرتبہ بعض مخالف لوگوں کی انگیخت پر دو اڑھائی سو سلح افراد نے آپ کے مکان کا محاصرہ کر لیا.اور اپنے ایک عالم کو ساتھ لا کر حاجی صاحب مرحوم سے اسی وقت احمدیت سے منحرف ہونے کا مطالبہ کیا.اور بصورت دیگر ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کی دھمکی دی.حاجی صاحب مرحوم نے اُسی وقت اونچی آواز سے تشہد پڑھ کر اعلان کیا کہ کس بات سے تو بہ کروں.میں تو پہلے ہی خدا کے فضل سے ایک سچا مسلمان ہوں.اور اگر میں نے کسی گناہ سے تو بہ کرنی بھی ہو تو بندوں کے سامنے نہیں بلکہ میں اللہ کے سامنے اپنے سب گناہوں کی معافی مانگتا ہوا اس سے لیتی ہوں کہ وہ مجھے معاف کر دے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 675 سال 1966ء جب اس کے باوجود مجمع مشتعل رہا اور مکان میں گھس کر جانی نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیتا رہا تو مرحوم مومنانہ جرأت اور ہمت سے ایک چھر رہا تھ میں لیکر اپنے مکان کی حدود میں اپنا دروازہ روک کر کھڑے ہو گئے اور بانگِ دہل یہ اعلان کر دیا کہ مرنا تو ہر ایک نے ایک ہی مرتبہ ہے کیوں نہ سچائی کی خاطر جان کی بازی لگادی جائے.اب اگر تم میں کسی باپ کے بیٹے میں جرات ہے کہ بُری نیت سے میرے مکان میں گھسنے کی کوشش کرے تو آگے بڑھ کر دیکھ لے کہ اس کا کیا حشر ہوگا.مکان کی دوسری سمت سے حاجی صاحب مرحوم کی بہادر لڑ کی باہر نکل آئی اور ہاتھوں میں ایک مضبوط ملائی تلوار نہایت جرات سے گھماتے ہوئے اس نے بھی سارے مجمع کو یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا کہ میرے والد جب سے احمدی ہوئے ہیں.میں نے ان میں کوئی خلاف شرع یا غیر اسلامی بات نہیں دیکھی.بلکہ ایمان اور عملی ہر لحاظ سے وہ پہلے سے زیادہ پکے مسلمان اور اسلام کے شیدائی معلوم ہوتے ہیں.اس لئے تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ احمدیت نے انہیں اسلام سے مُر مذ کر دیا ہے.پس اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے میرے باپ پر حملہ کرنے کی جرات کی یا نا جائز طور پر ہمارے گھر میں گھنے کی کوشش کی تو وہ جان لے کہ اس کی خیر نہیں.اگر چہ میں عورت ہوں تا ہم تم یا درکھو کہ تمہارے حملے کی صورت میں اس تلوار سے تین چار کو مار گرانے سے پہلے نہیں مروں گی.اب جس کا جی چاہے آگے بڑھ کر اپنی قسمت آزما لے.اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس مشتعل مجمع پر ایسا رعب طاری کیا کہ باوجود اس کے کہ لوکل ملائی پولیس کے بعض افراد وہاں کھڑے قیام امن کے بہانے مخالفین احمدیت کی کھلی تائید کر رہے تھے.پھر بھی مجمع میں سے کسی فرد کو بھی مکرم حاجی صاحب کے گھر میں گھنے یا حملہ کرنے کی جرات نہ ہوئی.آخر جب کافی وقت گئے تک وہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حاجی صاحب مرحوم نے اُن کو مخاطب کر کے کہا کہ میں خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی مسلمان تھا اور قبول احمدیت کے بعد تو زیادہ پکے طور پر مسلمان ہو گیا ہوں.کیونکہ احمدیت اسلام ہی کا دوسرا نام ہے.اس پر مخالفین شرمندہ ہو کر آہستہ آہستہ منتشر ہو گئے.حاجی صاحب مرحوم کو تبلیغ کا بہت شوق تھا اور آپ نہایت صاف گو، نڈر، ملنسار مخلص اور باعمل احمدی تھے.الحاج محمد عبد اللہ صاحب سابق ناظر بیت المال وفات ۲۹ ۳۰ جنوری ۱۹۶۶ء ۱۹۱۴ء میں حضرت مصلح موعود کے دست مبارک پر بیعت کی.۱۹۴۹ء میں سرکاری ملازمت
تاریخ احمدیت.جلد 23 676 سال 1966ء سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد خدمت سلسلہ کے لئے زندگی وقف کی اور نظارت بیت المال میں ۱۹۵۶ء تک نائب ناظر اور ناظر کی حیثیت سے اہم خدمات انجام دیں.چوہدری محمد اعظم صاحب واقف زندگی محمد اع وفات: یکم فروری ۱۹۶۶ء ابتداء تعلیم الاسلام سکول گھٹیالیاں اور بعد ازاں تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دیتے رہے اور تاوفات اس مرکزی ادارے سے منسلک رہے.سائنس اور ریاضی کے بہترین اساتذہ میں سے تھے.تمہیں پینتیس سال کی عمر میں ہی تجربہ کار، مدبر اور کہنہ مشق اساتذہ کے زُمرے میں شامل ہو گئے.کچھ عرصہ کے لئے احمد یہ ہوٹل لاہور کے سپر نٹنڈنٹ بھی رہے.مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ میں ایثار اور اخلاص کا نہایت اعلیٰ اور قابلِ رشک نمونہ دکھایا اور مہتم تحر یک جدید اور وقف جدید اور مہتم اشاعت کے عہدے پر فائز رہے.بہت ہی مخلص محنتی اور بے نفس انسان تھے.خدمت دین اور مالی قربانی کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے.وقف جدید کے آغاز پر آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حسب ذیل خط لکھا: تحریک وقف جدید میں حضور نے ایک لاکھ چندہ دینے والوں کا مطالبہ کیا ہے.آج خطبہ جمعہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے میرے دل میں یہ تحریک کی کہ میں ہر چندہ دینے والے احمدی کی طرف سے ضرور کچھ نہ کچھ ادا کروں.شاید اسی طرح اللہ تعالیٰ خاکسار کو اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے.سو میں ایک پائی ہر احمدی کی طرف سے ادا کرتا ہوں.یعنی کل ایک لاکھ پائی.مبلغ ۵۲۰/۱۳/۴ مبلغ پانچ سو بیس روپے تیرہ آنے چار پائی کا چیک امانت تحریک جدید ارسال ہے.66 حضور قبول فرماویں.اس سے قبل اپنا اور اپنی اہلیہ کی طرف سے بھی چندہ ادا کر چکا ہوں.“ آپ کا یہ خط مورخہ ۲۲ جنوری ۱۹۵۹ء کے الفضل میں انچارج صاحب دفتر وقف جدید کی طرف سے بعنوان ” سید نا حضرت مصلح موعود کی خدمت میں ایک مثالی خط شائع ہوا.ڈاکٹر محمد عبداللہ خان صاحب امیر جماعت کوئٹہ وفات: ۱۰فروری ۱۹۶۶ء 82 آپ نہایت شریف، نیک دل، پیکرِ اخلاص، عالم با عمل احمدی تھے.مسائل احمدیت سے خوب
تاریخ احمدیت.جلد 23 677 سال 1966ء واقف تھے.تبلیغ کا جوش رکھتے تھے.بڑے باہمت انسان تھے.باوجود بڑھاپے کے مسجد میں آکر نمازیں باجماعت ادا کرتے تھے.وہ احمدیوں اور غیر از جماعت دوستوں کے لئے ایک نیک نمونہ تھے.۱۹۱۳ء میں کوئٹہ کی نواحی بستی میں بطور ڈاکٹر متعین ہوئے.۱۹۱۴ء میں فوج میں ڈاکٹر کی حیثیت سے فرانس تشریف لے گئے.پھر ۱۹۱۹ء میں کوئٹہ کے سول ہسپتال میں بطور ڈاکٹر متعین ہوئے اور ۱۹۳۴ء میں پنشن لے کر ہجرت کر کے قادیان تشریف لے گئے.۱۹۴۷ء کے مُفسدہ میں مع بچوں کے کوئٹہ تشریف لے آئے.اور اسی جگہ وفات پائی.آپ کی عمر بوقت وفات انداز اکیاسی برس کی تھی.آپ وہ خوش قسمت انسان تھے ، جنہیں ابتدائے خلافت ثانیہ میں (جب نظام امارت قائم ہوا) جماعت احمدیہ کوئٹہ کی بحیثیت امیر خدمت سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی.اور ریٹائر منٹ تک آپ متواتر امیر رہے.اس کے بعد آپ کے فرزند رشید میاں بشیر احمد صاحب بھی امیر جماعت رہے.66 سید فضل الرحمن صاحب فیضی آف منصوری وفات: ۱۵ فروری ۱۹۶۶ء خلافت ثانیہ کے مُبارک دور میں داخلِ احمدیت ہوئے اور اخلاص میں بہت ترقی کی.نہایت مخلص علم دوست اور احمدیت کے فدائی تھے.بچپن کی عمر میں اپنے والد سید عبدالوحید صاحب کے ہمراہ تین سال تک مکہ معظمہ رہے.آپ کے والد کو آپ کی بیعت کے بعد بیعت کی سعادت نصیب ہوئی.قیام پاکستان سے قبل کئی سال تک جماعت احمدیہ منصوری کے جنرل سیکرٹری رہے.دینی غیرت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.ابتلاؤں میں ثابت قدم رہ کر اپنے عاشق احمدیت ہونے 84 کا عملی ثبوت بہم پہنچایا.قاضی محمد رشید صاحب وکیل المال وفات: ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء نہایت مخلص، احمدیت کے فدائی اور قرآن مجید سے خاص شغف رکھنے والے دُعا گو بزرگ تھے.سرکاری ملازمت کے دوران راولپنڈی، نوشہرہ، کوئٹہ اور پونا میں نائب امیر اور امیر جماعت کی حیثیت سے جہاں بھی رہے قرآنِ مجید کا درس دیتے رہے.آپ نے دسمبر ۱۹۵۴ء میں خدمت دین
تاریخ احمدیت.جلد23 678 سال 1966ء کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.آپ ۱۹۵۲ء میں آرمی آرڈینینس کور میں سویلین گزیلڈ آفیسر کے عہدے سے رٹائر ڈ ہوئے اور چار سال تک تحریک جدید میں پہلے ایڈیشنل وکیل المال اور پھر وکیل المال ثالث کے عہدے پر فائز رہے.آپ نے ۳/ احصّہ کی وصیت کی ہوئی تھی.تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین میں بھی شامل تھے.اپنی ستر سالہ زندگی میں خاموشی کے ساتھ دینی خدمات اور بنی نوع کے فائدہ کے بہت سے اعمال صالحہ بجالانے کی سعادت ملی.پوری عمر مومنانہ شان اور دعوت الی اللہ کے ذوق وشوق اور ولولہ خدمت میں بسر کی.تربیت اولا دان کا شعار تھا.خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کے ہم زلف تھے.85 اہلیہ: محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ سابق صدر لجنہ دار الرحمت وسطی ربوہ بنت حضرت مولوی محمد عبد اللہ صاحب بوتالوی سابق صدر جماعت احمد یہ سرگودھا.اولاد: کل ۴ بیٹے اور بیٹیاں، جن میں سے چاروں بیٹے واقف زندگی ہیں اور تین بیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہی ہوئی ہیں.اولاد کی تفصیل درج ذیل ہے.مکرمہ صفیہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب (واقف زندگی) مرحوم سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ.۲.مکرم پروفیسر مبارک احمد انصاری صاحب (واقف زندگی ) سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ و جامعہ احمدیہ کینیڈا وسابق صدر قضاء بورڈ کینیڈا.مکرمہ رضیہ عفیفہ صاحبہ مرحومہ اہلیہ مکرم خالد ہدایت بھٹی صاحب لاہور.-۴ مکرم پروفیسر رفیق احمد ثاقب صاحب (واقف زندگی ) سابق پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ ، پرنسپل احمدیہ کالج کانو نائیجیریا، نائب ناظر مال آمد ر بوه و سابق نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ.مکرمہ حلیمہ نزہت صاحبہ اہلیہ مکرم لطف الرحمن شاکر صاحب مرحوم (واقف زندگی ) سابق کارکن فضل عمر ہسپتال ربوہ.
تاریخ احمدیت.جلد 23 679 سال 1966ء ۶ مکرمہ صالحہ قامتہ صاحبہ اہلیہ مکرم رشید احمد بھٹی صاحب فلاڈلفیا امریکہ.مکرمہ قاریہ شاہدہ صاحبہ ایم اے (واقف زندگی ) سابق لیکچرار جامعہ نصرت ربوہ سابق صدر لجنہ اماءاللہ یو کے.اہلیہ مکرم عطاء المجیب راشد صاحب (واقف زندگی ) امام مسجد فضل لندن.یو کے.مکرم منیر احمد منیب صاحب (واقف زندگی ) سابق پرنسپل احمد یہ سیکنڈری سکول کمپالہ یوگنڈا حال پروفیسر جامعہ احمدیہ سینیئر.ربوہ.- مکرم ڈاکٹر لئیق احمد انصاری صاحب ( واقف زندگی ) سابق انچارج احمد یہ ہسپتال گیمبیا و کینیا.حال سینیئر میڈیکل آفیسر فضل عمر ہسپتال.ربوہ.سردار بیگم صاحب آف کراچی وفات : ۱۳ مارچ ۱۹۶۶ء آپ محترم شیخ رفیع الدین احمد صاحب ریٹائرڈ ڈی ایس پی و مرکزی سیکرٹری وصایا کراچی کی اہلیہ اور حضرت شیخ عبد الغنی صاحب کی بیٹی تھیں.آپ پیدائشی احمد نی تھیں.آپ کی اماننا تد فین کراچی میں ہوئی.پھر ۴ نومبر ۱۹۶۶ء بروز جمعہ المبارک ان کے خاوندان کا تابوت ربوہ لے کر آئے.جہاں بعد نماز جمعہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں 86- آپ کی تدفین ہوئی.چوہدری فضل الرحمان صاحب مینجر نور نگر فارم وفات: یکم مئی ۱۹۶۶ء بهمر ۵۳ سال سلسلہ عالیہ احمدیہ کے فدائی اور بہت محنتی کارکن تھے.آپ نے سندھ کی اراضی پر تمیں (۳۰) سال تک سلسلہ کی خدمت سر انجام دی.87- فلائٹ لیفٹیننٹ محمد سلیمان مبشر صاحب چوہدری محمد ابراہیم آف محله دار الفضل قادیان و سابق صدر حلقہ راجگڑ ھ لاہور کے نہایت لائق فرزند تھے.آپ ۲ جون ۱۹۶۶ء کو ایک فضائی حادثہ میں شہید ہو گئے.مرحوم پابند نماز تہجد گزار اور جماعت کے ساتھ انتہائی درجہ محبت و اخلاص رکھنے والے نوجوان تھے.مرحوم پاکستان فضائیہ کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 680 سال 1966ء مشاق ہوا باز تھے.آپ نے جنگ ستمبر ۱۹۶۵ء کے موقع پر پاکستان کا کامیابی سے دفاع کیا اور جرأت و بہادری کے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.ڈاکٹر قاضی محمد لطیف صاحب جے پوری وفات: ۷ جون ۱۹۶۶ء.مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی حضرت ڈاکٹر قاضی محبوب عالم صاحب کے فرزند تھے جو اپنے چھوٹے بھائی کی معیت میں تقسیم ملک کے بعد بھی جے پور میں ہی آبادر ہے.اپنے والد ماجد کی مقدس روایت کے مطابق آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان خصوصاً حضرت مصلح موعود سے ذاتی تعلق قائم رکھا.وہ جے پور سے نیا لبادہ بنوا کر سالانہ جلسہ کی تقریب پر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کرتے اور پرانا لبادہ حضور سے تبرک کے طور پر لے جاتے.بہت سی خوبیوں کے مالک تھے.سلسلہ سے عجیب قسم کا خاموش اخلاص اور سلسلہ کی شخصیتوں سے گہرا لگاؤ اور محبت رکھنے والے اور سلسلہ کے مہمانوں کی خاطر مدارات کرنے والے تھے.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب ایم.اے کے الفاظ میں آپ اندھیرے میں ایک شمع تھے.اپنی مصروفیات کے باوجو د سلسلہ کی کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کیا اور دینی علوم میں خوب درک حاصل کیا.تقریر اور خطابت بھی سیکھ لی.اپنے علم کی وجہ سے نہایت درجہ ہر دل عزیز تھے.تبلیغ کا بہت شوق تھا.فرمایا کرتے تھے کہ ہماری پانچویں پشت اب احمدیت میں چل رہی ہے.خان بہادر چوہدری نعمت خاں صاحب وفات: ۱۵،۱۴ جولائی ۱۹۶۶ء 89 حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ تحریر فرماتے ہیں:.چوہدری صاحب مرحوم موضع بیگم پور ضلع ہوشیار پور کے رہنے والے تھے.اے.بی کورس حساب کا مضمون لے کر آپ نے بی.اے پاس کیا.اس کے کچھ عرصہ بعد ۱۹۰۴ء میں آپ سب حج مقرر ہوئے اور ترقی کرتے کرتے دہلی سے بطور ڈسٹرکٹ حج ۱۹۳۶ء میں پنشن پا کر ریٹائر ہوئے.گویا آپ نے ۳۲ سال ملازمت کی اور اس کے بعد ۳۰ سال تک پنشن پائی.ملازمت کے دوران میں ہی قرآن مجید حفظ کیا.اور ہمیشہ قرآن شریف کا دور جاری رکھا اور آخری بیماری تک قرآن شریف کا دور کرنا آپ کا معمول تھا.قرآنی حقائق و معارف سے آپ کو خاص دلبستگی اور
تاریخ احمدیت.جلد23 681 سال 1966ء شغف تھا اور اسلامی فلسفہ قرآن شریف سے نکالتے تھے جو بہت ہی لطیف نکات پر مبنی ہوتا تھا.جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہے آپ ۳۲ سال تک بج رہے اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں تعینات رہے.بطور حج دو باتیں آپ کے اندر نہایت معروف اور ممتاز تھیں.آپ کی دیانت اور امانت اور بے لاگ انصاف کا شہرہ دور ونزدیک تھا.اس کے علاوہ معاملہ نہی اور قانون دانی میں آپ کو بینظیر مہارت تھی اور جوڈیشنل افسر اور بڑے بڑے قابل وکلاء آپ کی قانونی قابلیت کا لوہا مانتے تھے.کسی کی شخصیت سے انصاف کے معاملہ میں آپ متاثر نہ ہوتے تھے اور آپ کا قاعدہ تھا کہ ہر مقدمہ کا فیصلہ دوٹوک اور کانٹے کی تول کرتے.جتنا عرصہ آپ ملازم رہے خدا ترسی سے آپ نے اپنے فرائض منصبی ادا کئے.اور پنجاب بھر میں بہت کم ایسے جوڈیشنل حکام ہوں گے جو چوہدری صاحب مرحوم کے مرتبے تک پہنچ سکیں.جو شخص حجی کی حالت میں قرآن شریف حفظ کرے اور قرآن شریف کا ورداس کا معمول ہو ضروری ہے کہ اس کے فیصلے خدا ترسی اور بے لاگ انصاف پر مبنی ہوں.گویا آپ کی ملا زمت بھی خلق اللہ کی خدمت اور ایک قسم کی عبادت تھی.آپ کے احمدی ہونے کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے.آپ کو غیر مبائعین کا لٹریچر دستیاب ہوا.اس کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ نے تحقیق حق کرنی چاہی اور مبائعین کا لٹریچر بھی بغور مطالعہ کیا.بطور حج کے آپ کو حق و باطل کو پر رکھنے میں ید طولیٰ حاصل تھا.دونوں طرف کے دلائل کا موازنہ کرنے کے بعد آپ نے بڑے انشراح صدر سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کی.چونکہ آپ بڑے معاملہ فہم اور تجربہ کار شخص تھے اس لئے جماعتی کاموں میں آپ کو مشورہ دینے کا موقع ملتا رہا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی مقررکردہ کمیٹیوں میں بہت دفعہ آپ کو شامل کیا گیا.اسی طرح جلسہ سالانہ کے موقعہ پر اکثر مرتبہ آپ کو ایک نہ ایک اجلاس کی صدارت کرنے کا موقع ملا نیز حضرت خلیفتہ امسیح الثانی آپ کو بجٹ کمیٹی کا صدر بھی مقرر فرمایا کرتے تھے.اپنے تقویٰ اور اخلاص کی وجہ سے آپ جماعت کے کاموں میں آگے بڑھتے چلے گئے اگر چہ آپ بعد میں آئے تھے.الحاج خان بہادر ملک صاحب خان نون صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر 766 وفات : ۱۷ جولائی ۱۹۶۶ء آپ فتح آبادنون متصل بھلوال ضلع سرگودھا کے رہنے والے تھے.سلسلہ احمدیہ کے ایک نہایت مخلص اور مخیر بزرگ جن کی مالی خدمات اور فیاضیوں کا دامن ۱۹۱۱ء سے تادم زیست پوری شان اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 682 سال 1966ء جذبہ ایمان سے جاری رہا.آپ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے عہد مبارک کے چوتھے سال قدرت ثانیہ کے مظہر اول کے دست مبارک پر بیعت کر کے داخل احمدیت ہوئے تھے چنانچہ آپ نے ۲۷ نومبر ۱۹۵۶ء کو جبکہ آپ سول لائن سرگودھا میں قیام فرما تھے حسب ذیل تحریر سپرد قلم فرمائی:.جو کچھ میں تحریر کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر تحریر کرتا ہوں.مولوی صاحبان کے خیال کے مطابق کہ جب عیسی اور مہدی آئے گا تو ساری دنیا کو فتح کر کے اسلام پھیلا دیگا میری خواہش تھی کہ وہ زمانہ اور فتوحات دیکھ لوں.میں بچپن سے تہجد پڑھا کرتا تھا.متواتر نماز تہجد میں دعائیں کیا کرتا کہ وہ زمانہ آوے.آخر اللہ تعالیٰ نے میری دُعا قبول فرمالی.اور ۱۹۱۱ء میں جب میں سیالکوٹ تھا.ایک دن تہجد کے بعد جو سویا تو خواب میں دیکھا کہ ایک بہت بڑا در بار ہے اور معلوم ہوا کہ حبیب اللہ آ رہا ہے ایک گورا فوج (رسالہ) بھاری تعداد میں موجود ہے.میں دل میں کہتا ہوں کہ پہلے بھی حبیب اللہ آیا اور میں نے نہ دیکھا.اب ضرور دیکھوں گا.چنانچہ میں ایک طرف کو گیا ہوں وہاں لوگوں کا کافی ہجوم ہے.ایک ریلوے اسٹیشن ہے لوہے کا جنگلا لگا ہوا ہے تا کہ لوگ پیچھے رہیں.مگر میں آگے کسی طرح پلیٹ فارم پر چلا گیا ہوں.سامنے ایک عظیم الشان انجن ہے جس پر دربار ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ لگائے رُو بہ شرق بیٹھے ہیں اور ایک شخص کوئی تین قدم فاصلے پر شاندار لباس میں کھڑا کانوں میں انگلیاں ڈال کر اللہ اکبر، اللہ اکبرزور زور سے کہہ رہا ہے.پاؤں میں پتلون ہے کوٹ زیادہ لمبا نہیں سر پر دستار مبارک ہے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب چار بزرگ بیٹھے ہیں.اُنکے پیچھے بہت بڑی تعداد بزرگان کی ہے، گورا رسالہ کا لباس سفید اور ہاتھ میں ننگی تلواریں تھیں.اس سر بفلک انجن کے جانب غرب ایک انجن گول چکر لگا رہا ہے اور اس سے ایک نہایت سُریلی آواز نکل رہی ہے.میں دل میں کہتا ہوں کہ پہلے بھی حبیب اللہ آیا اور میں نے نہ دیکھا.اب جی بھر کر دیکھ لوں.دیکھتا ہوں.سُریلی آواز نے مجھے بے ہوش کر دیا.لڑکھڑایا اور سنبھلا.جب میں جا گا تو وہی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی.میں نے سمجھا کہ جو بزرگ تکیہ لگائے بیٹھے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بائیں چار بزرگ خلفاء راشدین.مگر اذان کہنے والے بزرگ کے متعلق دریافت کرنے کے لیے میں علی اصبح ہی شہر جا کر حضرت سید حامد شاہ صاحب مرحوم و مغفور سے ملا.وہاں جاکر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فوٹو دیکھا تو پہچان لیا کہ وہ یہی بزرگ تھے.میں نے اُسی وقت بیعت کا خط لکھدیا اور احمدیت قبول کر لی.پہلے میں احمدیت کا سخت مخالف تھا اور
تاریخ احمدیت.جلد 23 683 سال 1966ء اُمید نہ تھی کہ کوئی تبلیغ مجھ پر اثر کرتی اور مجھے راہ راست پر لاتی مگر اللہ تعالیٰ جو رحیم کریم ہے جس پر چاہے اپنا فضل کرے اُس نے ہی میری رہبری فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک محترم چوہدری عبدالرحمن صاحب شاکر ربوہ (ابن حضرت چوہدری نعمت اللہ صاحب گوہر بی.اے صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کو ستمبر ۱۹۳۴ء سے بحیثیت سٹینو ایک عرصہ تک آپ کی خدمت میں حاضر رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے اپنے چشم دید تا ثرات ” خان بہادر ملک صاحب خاں نون“ کے زیر عنوان تحریر فرمائے تھے جو رسالہ مصباح اکتوبر ۱۹۷۴ء صفحہ ۲۰ تا ۲۶ میں اشاعت پذیر ہوئے.اس اہم مضمون کے ضروری حصے درج ذیل کئے جاتے ہیں.مکرم عبد الرحمن شاکر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ پنجاب کے چار اضلاع پاکستان کے بازوئے تیغ زن کہلاتے ہیں یعنی سرگودھا، جہلم، راولپنڈی اور کیمبل پور.ضلع سرگودھا اس سے قبل ضلع شاہ پور کہلاتا تھا.مگر ۱۹۰۱ء میں جب نیا بندوبست ہوا تو اس وقت کے افسر آباد کاری مسٹرولیم میلکم ہیلی (جو بعد میں پنجاب اور یوپی کے گورنر ہوئے ) نے اس کا نام سرگودھا رکھا.اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جس جگہ آج کل یہ شہر سرگودھا آباد ہے وہاں پر ایک بڑا سا جو ہر ہوا کرتا تھا جس کے ارد گرد گودھا نامی ایک شخص اپنی بھینسیں چرایا کرتا تھا اور جو ہڑ کو ہندی میں ”سر“ کہتے ہیں.جیسے امرت سر.اسی کے وزن پر سرگودھا یعنی گودے کا تالاب کے نام سے یہ جگہ سرگودھا مشہور ہو گئی.اس ضلع میں نون، ٹوانے ، قریشی ( حضرت خلیفہ مسیح الاول نے لکھا ہے کہ حضرت عکرمہ بن ابو جہل کی اولا د ضلع شاہ پور میں آباد ہے.یہ لوگ صابو والی تحصیل شاہ پور کے مشہور قریشی خاندان کے افراد ہیں ) ، گوندل ، نگیا نے ، رانجھے (حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر صحابی حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی رانجھا تھے ) ککارے، کلیار اور اعوان وغیرہ قومیں آباد ہیں.اور معزز شمار کی جاتی ہیں.ان میں سے بعض قو میں اپنی شجاعت، دلیری اور فوجی سپرٹ کے لحاظ سے تمام برصغیر میں مشہور ہیں.نواب سر محمد حیات خان نون اور ان کے بیٹے ملک سر فیروز خان نون (سابق وزیر اعظم پاکستان) معروف ہستیاں تھیں اور ٹوانوں میں سے جنرل نواب سر عمر حیات ٹوانہ اور ان کے فرزند ملک خضر حیات خاں ٹوانہ بہت مشہور تھے.نواب سر محمد حیات خاں نون کے ایک بھائی ملک حاکم خاں نون کے فرزند ارجمند خاں بہادر
تاریخ احمدیت.جلد 23 684 سال 1966ء ملک صاحب خاں نون ڈپٹی کمشنر تھے.ملک صاحب خاں نون نے اس وقت کے رواج کے مطابق میٹرک چیفس کا لج ( جسے آج کل ایچی سن کالج کہتے ہیں) سے پاس کیا اور اپنی خاندانی وجاہت کے پیش نظر ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر بھرتی ہوئے.سب سے پہلی تقرری گورداسپور میں ہوئی.ٹرینگ کے سلسلہ میں ایک دن قادیان کا دورہ تھا.حضرت (خلیفہ ایسح الاول ) مولانا نور دین صاحب سریر آرائے خلافت تھے.حضرت کے اور نون خاندان کے بوجہ ہم وطنی قدیم اور گہرے مراسم تھے.سعادت از لی ملک صاحب کو کشاں کشاں حضرت کے مطب میں لے گئی.سلام عرض کیا اور ایک طرف بیٹھ گئے.حضرت جب اور مریضوں سے فارغ ہوئے تو ملک صاحب نے اپنا تعارف کرایا.حضور بہت خوش ہوئے.حضرت مولانا نے بہت دعائیں دیں جو ملک صاحب کی کامیابیوں کی ضامن ہوئیں.میرے دریافت کرنے پر ملک صاحب نے مجھے بتایا کہ ہماری باتیں پنجابی میں ہوئی تھیں اور وہ بھی ضلع سرگودھا کی بولی میں.عبدالرحمن شاکر صاحب مزید تحریر کرتے ہیں کہ تمبر ۱۹۳۴ء میں راقم الحروف رسالہ ” پیشوا دہلی میں حافظ سید عزیز حسن بقائی کے پاس ملازم تھا کہ یکا یک ایک دن مجھے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا خط ملا کہ فور ملازمت چھوڑ کر میرے پاس گوجرانوالہ آجاؤ.میں نے تمہاری ملازمت کا بند و بست ایک احمدی مجسٹریٹ کے پاس کر دیا ہے.حضرت میر صاحب مجھے اپنے ہمراہ لے کر ملک صاحب خاں صاحب نون کے ہاں آئے اور فرمایا کہ ملک صاحب یہ میرا آدمی ہے ملک صاحب نے میرے شارٹ ہینڈ اور ٹائپ کا امتحان لیا اور اظہار اطمینان فرمایا.آپ کا تبادلہ چکوال ہو چکا تھا.جب ہم روانہ ہونے لگے تو حضرت ڈاکٹر صاحب الوداعی ملاقات کے لیے تشریف لائے.ملک صاحب سے اجازت لے کر مجھے ایک طرف لے گئے اور فرمایا کہ جس جگہ تم جار ہے ہو وہاں لوگ تم کو بہت رشوت پیش کیا کریں گے.تم مجھ سے وعدہ کرو کہ ایک پیسہ بھی قبول نہ کرو گے.میں نے اپنے الفاظ میں اقرار کیا مگر حضرت میر صاحب فرمانے لگے کہ میری تسلی نہیں ہوئی.میں نے عرض کیا کہ آپ کی تسلی آخر کس طرح ہوگی ؟ فرمانے لگے کہ میرے ہاتھ پر عہد کرو کہ تم کبھی بھی کسی حالت میں رشوت نہیں لو گے.میں نے حضرت میر صاحب کا ہاتھ اپنے
تاریخ احمدیت.جلد 23 685 سال 1966ء دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور نہایت صدق دل سے وہ الفاظ دہرا تا رہا.عہد کے بعد آپ نے فرمایا کہ مجھے خط لکھتے رہنا.چکوال پہنچ کر میاں محمد شریف صاحب ( جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے ) سے ملک صاحب نے ڈویژن کا چارج لیا اور چند فیصلے مجھے لکھوائے.اگلی صبح سردار مکھن سنگھ صاحب کورٹ انسپکٹر مجھے ملنے کے لیے آئے اور آتے ہی بڑی صفائی سے ۵۰ روپے کے نوٹ میرے ہاتھ میں تھما دیئے اور کہا کہ صرف یہ بتا دو کہ فلاں مقدمہ میں کتنی سزا ہوئی ہے؟ میں نے حیرانگی سے نوٹوں کو دیکھا.حضرت میر صاحب میرے سامنے آگئے اور گھور نے لگے.میں نے بڑی جرات سے کہا کہ سردار صاحب! پہلے ایس.ڈی.اومیاں محمد شریف صاحب بھی احمدی تھے.ملک صاحب بھی احمدی ہیں اور میں بھی احمدی ہوں.ہم لوگ نہ ایسا کام کرتے ہیں نہ کریں گے.اپنے نوٹ واپس لیں.وہ بڑی لجاجت سے کہنے لگے کہ تم نے طلب تو نہیں کئے میں خوشی سے دے رہا ہوں.میں نے کہا مجھ سے کسی ایسی بات کی توقع نہ رکھیں اور وہ مایوس ہو کر چلے گئے.قریباً پانچ دن تک ایسا ہی ہوتا رہا کہ کوئی نہ کوئی وکیل رشوت دیکر مجھ سے دریافت کرنے آجاتا کہ صرف دو گھنٹے ہی قبل از وقت بتا دو کہ فلاں مقدمہ میں کیا فیصلہ ہوا ہے مگر سب مجھ سے مایوس ہی واپس لوٹتے.اس تسلسل سے مجھے کچھ حیرت ہوئی اور میں نے محترم ملک صاحب کی خدمت میں حضرت میر صاحب سے اپنی بیعت کا واقعہ اور رشوت کا حال عرض کر دیا.اس پر ملک صاحب نے اپنی کوٹھی پر پولیس کا پہرہ لگوا دیا تا کہ کوئی اندر ہی نہ آسکے.دوسرے مجھے ہدایت کر دی کہ فیصلہ شدہ مقدمات کی امثلہ لے کر کچہری جانے سے 10 منٹ قبل ان کے کمرے میں آجایا کروں وہاں سے ہم دونوں اکٹھے نکلا کرتے تھے اور کمرہ عدالت میں جاتے ہی وہ فیصلے سنادیتے.ملک صاحب موصوف بہت وجیہہ انسان تھے.لحیم شحیم اور ضلع سرگودھا کے مردانہ حسن کا اعلیٰ نمونہ تھے.کچہری کے وقت انگریزی لباس پہنتے اور وہاں سے واپس آکر ضلع سرگودھا کے رواج کے مطابق کھلے گلے کا کرتا اور لا چا پہن لیتے.جمعہ اور عیدین کے موقوں پر اچکن پگڑی شلوار پہنتے.ملک صاحب موصوف نہایت ستھری عادات کے مالک تھے.صفائی کا بے حد خیال رکھتے تھے.سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ سفر ہو یا حضر نماز عین وقت پر نہایت خشوع و خضوع سے ادا کیا کرتے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 686 سال 1966ء تیج ، درود شریف اور دیگر مسنون ادعیہ پر بہت زور دیتے تھے سردیوں میں نماز عشاء کے بعد تیز گرم پانی کا آفتابہ نمدے سے ڈھانپ کر ایک طرف رکھ دیا جاتا تھا تا کہ نماز تہجد کے وقت پانی نیم گرم مل سکے.تہجد کی نماز بڑی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے اور اس کے بعد نماز فجر تک مصلے پر بیٹھے رہتے تھے.میں نے کبھی نماز بے وقت پڑھتے ہوئے انہیں نہیں دیکھا.صدقہ خیرات کثرت سے دیتے تھے.جب دورہ پر ہوتے تو مساجد میں تیل ڈلوایا کرتے تھے مگر جب علم ہوا کہ ارد لی رقم ہضم کر جاتا ہے تو یہ ڈیوٹی میرے ذمہ لگی کہ خود جا کر تیل ڈالا کروں.جماعتی چندے بڑی باقاعدگی اور شوق سے ادا کیا کرتے تھے اس زمانے میں ہر ماہ کا میزان ۲۲۰ روپے ہوتا تھا.میں منی آرڈر کی رسید دکھاتا تب اطمینان ہوتا تھا.ایک دن میں ڈاک خانے جا رہا تھا.ایک ہند و وکیل میرے ہمراہ چل رہا تھا.وہ پوچھنے لگا کہ یہ رقم ملک صاحب اپنے گھر بیوی کو بھجوا رہے ہیں؟ میں نے کہا نہیں یہ جماعتی چندوں کی رقم ہے.وہ نہایت خوفزدہ سا ہو کر کہنے لگا تو پھر یہ بچاتے کیا ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ خدا کے بنک میں بھی تو BALANCE ہونا چاہئے جس پر وہ بہت خوش ہوا مگر ساتھ ہی کہنے لگا کہ ”مہاراج کوئی ہندو کا بیٹا یہ کام نہیں کرسکتا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی سے والہانہ محبت تھی اور بڑا ادب کیا کرتے تھے.جب ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز ہوا اور انہیں (۱۹) مطالبات کا اخبار میں اعلان ہوا تو پہلے ان کا خلاصہ تیار کیا.پھر مجھ سے تیار کرایا اور مقابلہ کر کے جب دیکھ لیا کہ دونوں تقریباً برابر ہیں تو ایک نقل خوش خط لکھوا کر گھر بھجوائی کہ اسے ہر وقت پیش نظر رکھو اور اس پر سختی سے عمل کرو.حضرت خلیفہ ثانی کی ذات سے والہانہ عشق کا ایک واقعہ تحریر کرتے ہیں کہ احرار نے جب جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۳۵ء میں طوفان اٹھایا انہی دنوں ملک صاحب پنجاب گورنمنٹ کے چیف سیکرٹری سی سی گاربٹ کی کوٹھی پر کھانا کھا رہے تھے.دوران گفتگو گار بٹ صاحب کے منہ سے حضرت صاحب کی شان میں کچھ بے ادبی کے الفاظ نکل گئے.ملک صاحب کو بڑا طیش آیا.جھٹ ایک پلیٹ اٹھا کر صاحب کے سر پر دے ماری اور اسے ڈانٹ کر کہا کہ تم کو معلوم ہونا چاہئے میں ان کا ادنی سا خادم ہوں.انگریزوں میں صفت بہت خوب تھی کہ ایسے موقعوں پر جھٹ سنبھل جایا کرتے اور معافی مانگنے لگ جاتے تھے.گاربٹ نے بھی جھٹ ملک صاحب سے معذرت کی اور افسوس ظاہر کیا کہ بالکل
تاریخ احمدیت.جلد 23 687 سال 1966ء نادانستہ طور پر اس کے منہ سے ایسے الفاظ نکل گئے اور کہا کہ آپ مجھے معاف کر دیں.جب ملک صاحب رخصت ہونے لگے.تو باوجودیکہ وہ خود چیف سیکرٹری تھے.اور ملک صاحب اس کے ماتحت ایک مجسٹریٹ تھے.خود دروازے تک ساتھ آیا اور دوبارہ معذرت پیش کی.دینی غیرت کا ایک اور واقعہ بھی تحریر کیا جس میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک دن ملک صاحب میرے کمرے میں تشریف لائے اور ایک خط مجھے دیا کہ یہ فیروزے کا خط ہے اس کا جواب لکھ دو میں حیران کہ یہ ” فیروزہ کون ہوا؟ ملک صاحب کا ایک اردلی بڑا اکھڑ مزاج فیروز خاں نامی تھا.میرا ذہن اُس طرف گیا میں نے سمجھا کہ کوئی گستاخی کا خط لکھا ہے.کھولنے پر معلوم ہو کہ ملک صاحب کے تایا زاد بھائی ملک سر فیروز خان نون ( سابق وزیر اعظم پاکستان ) کا خط ہے.اس کا جواب مجھے زبانی بتا دیا اور چلے گئے.میں فوراً جواب لکھ کر دستخط کے لیے ان کے کمرے میں گیا تو پڑھ کر کہنے لگے ” میں نے تو اس پر دستخط نہیں کرنے تم اپنے دستخط سے بھجوا دو میں نے وہی خط اپنی طرف سے لکھ کر ملک فیروز خاں صاحب کو پوسٹ کر دیا.چند روز بعد ملک فیروز خاں صاحب نے میرا لکھا ہوا خط یہ لکھ کر واپس کر دیا ” بھائی جان ہمیں اپنے کلرک سے تو ذلیل نہ کرائیں“.اس کا جواب بھی ملک صاحب نے مجھ سے ہی لکھوا کر بھجوایا.بعد میں خاکسار نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ آپ نے خود جواب نہ دیا تو فرمایا کہ تم کو نہیں معلوم.قادیان میں احرار کا جو جلسہ آریہ سکول کے احاطہ میں ہوا تھا اس میں فیروزے کا بہت حصہ تھا.اس دن سے مجھے اس سے نفرت ہوگئی ہے.ملک صاحب کی تین بڑی خواہشات تھیں.ان کے حصول کے لئے وہ بزرگانِ سلسلہ سے دعا ئیں کراتے رہتے تھے.آپ مولانا راجیکی صاحب، شیخ غلام احمد صاحب نو مسلم وغیرہ کو خاص طور پر دعائیہ خطوط لکھتے رہتے اور ان کی خدمت میں معقول نذرانے بھی بھجوایا کرتے.پہلی خواہش یہ تھی کہ ان کو خان بہادر کا خطاب مل جائے.دوسری یہ کہ وہ ڈپٹی کمشنر سے ریٹائر ہوں اور تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو اولاد نرینہ عطاء فرمائے.خدا تعالیٰ نے تینوں خواہشات پوری کر دیں.لڑکے کا نام احمد خاں رکھا گیا.اس خوشی کے موقعہ پر ملک صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کا لیکچر کمپنی باغ سرگودھا میں کرایا جو بہت کامیاب رہا.یہ عاجز معہ اپنی اہلیہ کے بھی شریک ہوا.پہلے ہم ملک صاحب کی کوٹھی پر گئے.مبارک بادعرض کی.مجھ سے دریافت کیا کہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 688 سال 1966ء تمہاری شادی کہاں ہوئی ہے؟ میں نے کہا بس آپ سے چند قدم پیچھے رہا ہوں.کہنے لگے کیا مطلب؟ میں نے کہا آپ کی اہلیہ اول ہڈالی کی ہیں اور میری بیوی خوشاب کی.( دونوں قصبوں کے درمیان ۹ میل کا فاصلہ ہے ) اس پر بہت ہنسے..ملک صاحب سخاوت کے دریا تھے.مرکز سے کبھی کوئی مالی تحریک نہ آئی جس میں حصہ نہ لیا ہو.۱۹۲۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے گرد کچی چاردیواری گرا کر آپ نے پختہ بنوائی.ربوہ میں کوارٹر تحریک جدید کے سامنے ایک خوبصورت مسجد بنوائی جو مسجد محمود کہلاتی ہے.محلہ دارالیمن کے وسط میں بھی ایک پختہ مسجد بنوائی.ملک صاحب خفیہ طور پر روپیہ دیا کرتے تھے.آپ سے بہت لوگ فیض یاب ہوئے.اطاعت امام مکرم عبدالسمیع نون صاحب آپ کی اطاعت امام کے حوالہ سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:.حضرت فضل عمر رتن باغ لاہور میں قیام فرما تھے کہ ملک صاحب کے چھوٹے بھائی میجر ملک سردار خان صاحب نون اور جناب ملک سر فیروز خان صاحب نون کے ساتھ ملک صاحب خان صاحب کا کوئی خاندانی تنازعہ پیدا ہو گیا.ایسی شکر رنجی تک نوبت پہنچی کہ خاندان میں کوئی شادی کی تقریب جو ہوئی تو ملک صاحب ناراضگی کی وجہ سے شامل نہیں ہوئے تھے.جیسا کہ اوپر ذکر کر چکا ہوں ملک صاحب نون قبیلہ کے سردار مانے جاتے تھے.تقریب شادی میں ان کی عدم موجودگی کو سب نے بہت ہی محسوس کیا اور تو نون صاحبان کی کوئی پیش نہ گئی البتہ دونوں صاحبان یعنی سابق وزیر اعظم ملک سر فیروز خان صاحب اور میجر ملک سردار خان صاحب نون حضرت فضل عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بڑی افسردگی اور پریشانی سے ذکر کیا کہ بڑے ملک صاحب ناراض ہیں اور ہمیں تو ان سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ایک آپ کی ذات ہے جو خاندان کی اس پراگندگی اور انتشار کو دور کر سکتی ہے.حضرت صاحب کے ان دونوں نون صاحبان کے ساتھ دیرہ بینہ مراسم تھے حضور نے فرمایا کہ میں کوشش کروں گا.ملک صاحب خان صاحب نے مجھے خود یہ واقعہ سنایا کہ حضرت فضل عمر نے مجھے رتن باغ طلب فرمایا اور حکم دیا کہ دونوں ملک صاحبان یعنی سر محمد فیروز خان صاحب اور میجر سردار خان صاحب سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 689 سال 1966ء جا کر معافی مانگیں اور پھر مجھے آکر رپورٹ دیں.ملک صاحب فرماتے تھے کہ مجھے حضور کے اس حکم سے وقتی طور پر صدمہ پہنچا کہ حضور نے مجھ سے تو کوئی وضاحت طلب ہی نہیں فرمائی نہ کوئی بات سنی اور نون صاحبان سے معافی کا حکم دے دیا ہے.لیکن فرماتے تھے کہ بلا چون و چرا اسی وقت اول سر فیروز خان کی کوٹھی گیا.ملک صاحب نے جب مجھے اپنی کوٹھی میں داخل ہوتے دیکھا تو بھاگ کر آئے اور میری موٹر کا دروازہ کھول کر میرے ساتھ لپٹ کر زار و قطار رونے لگے اور کہتے جاتے تھے کہ ”میں قربان جاؤں اس مرزا صاحب پر جس نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے“ ملک سر فیروز خان صاحب نون روتے جاتے تھے اور ملک صاحب خان صاحب سے معافی مانگ رہے تھے.ادھر ملک صاحب نے کہا کہ مجھے حضور نے معافی قبول کرنے کے لیے نہیں بلکہ معافی مانگنے بھیجا ہے.خدا کے لیے مجھے معاف کر دو.ان حالات میں بھلا کدورت کہاں باقی رہ سکتی تھی.چند منٹ کے بعد ملک صاحب خان صاحب نے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا اور اجازت چاہی کہ میں نے ابھی چھوٹے بھائی ملک میجر سردار خان صاحب کے پاس جا کر ان سے بھی معافی مانگنی ہے اور پھر حضور کور پورٹ کرنی ہے.چنانچہ میجر سردار خان صاحب کی کوٹھی واقعہ گلبرگ تشریف لے گئے.وہ تو چھوٹے بھائی تھے.یہی صورت حال وہاں پر ہوئی.دونوں بھائی ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر رور ہے تھے اور میجر صاحب حضرت فضل عمر کے احسان عظیم کا ذکر کرتے تھکتے نہیں تھے.دل صاف ہو گئے غلط فہمی دور ہوگئی.ملک صاحب خان صاحب اسی روز حضرت فضل عمر کی خدمت اقدس میں پیش ہوئے اور یہ ساری رپورٹ سنائی.اور حضور نے اپنے بظاہر یکطرفہ حکم صادر فرمانے کی مصلحت اور حکمت بیان فرمائی.فرمایا ملک صاحب آپ کو میرا حکم عجیب تو لگا ہوگا کہ آپ کی بات سنے بغیر عمر میں چھوٹے عزیزوں سے معافی مانگنے کا حکم دے دیا.حضور نے دو وجوہات بیان فرمائیں.ایک تو یہ کہ میں حکم اپنے ارادتمند کو ہی دے سکتا تھا.جس کے لیے میرے حکم کی پابندی واجب تھی.دوسرے یہ کہ حضرت خاتم الانبیاء ﷺ فدا نفسی کی بشارت کے مطابق دو روٹھے ہوئے بھائیوں میں سے جو پہل کرے اور صلح کا قدم پہلے اٹھائے وہ پانچ سو سال پہلے جنت میں جائے گا.اس لیے حضور نے فرمایا کہ ملک صاحب آپ ہر طرح سے فائدے میں رہے.جناب ملک صاحب فرماتے تھے مجھے حضور کی گفتگو اس قدر دل کو بھائی کہ میں نے حضرت صاحب کا دلی شکریہ ادا کیا.حضور نے واپسی پر معالقہ سے سرفراز فرمایا اور اس طرح ایک بہت بڑا خاندان حضرت فضل عمر کی دعا اور برکت سے انتشار اور افتراق سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 محفوظ ہو گیا.690 حضرت علیہ اسح الثالث کی طرف سے نمائندہ تعزیتی وفد سال 1966ء محترم ملک صاحب ۱۷ جولائی کو ۸۴ سالہ متقیانہ زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے.آپ کی وفات کی خبر موصول ہونے پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی زیر ہدایت حضور کے خاص نمائندہ کی حیثیت سے محترم مولانا ابوالعطاء صاحب ربوہ سے تعزیت کے لیے فتح آبادنون تشریف لے گئے.محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی آپ کے ہمراہ تھے.علاوہ ازیں محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر سابق صوبہ پنجاب و بہاولپور نے سرگودھا سے بعض دیگر احباب کے ہمراہ وہاں تشریف لے جا کر تعزیت کی.بھلوال اور بھیرہ کے بہت سے احباب بھی نمازہ جنازہ میں شرکت کے لیے وہاں پہنچ گئے تھے.جولائی کو ساڑھے چار بجے سہ پہر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے نمازہ جنازہ پڑھائی جس میں دور و نزدیک سے آئے ہوئے احباب جماعت شریک ہوئے.نماز جنازہ کی ادا ئیگی کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ربوہ واپس ادائیگی تشریف لے آئے.بعد ازاں محترم ملک صاحب مرحوم کی نعش کو اسی رات ان کے آبائی قبرستان واقع فتح آباد میں سپردخاک کر دیا گیا.95 با با جلال الدین صاحب درویش قادیان وفات: ۱۹ جولائی ۱۹۶۶ء مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری مجاہد افریقہ و امریکہ کے بہنوئی تھے.بہت ملنسار، صابر و شاکر، سادہ مزاج اور دعا گو بزرگ تھے.انہوں نے درویشی کا زمانہ بہت خوش دلی اور اخلاص و وفاداری کے ساتھ گزارا.96- سارجنٹ علی حسن صاحب وفات: ۲۳ جولائی ۱۹۶۶ء آپ ۲۳ جولائی ۱۹۶۶ء کو ایک حادثے میں جاں بحق ہوئے.احمدیت کے شیدائی اور فدائی تھے.سلسلہ کی تحریکات میں نہ صرف خود بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتے.رسالپور اور شاہدرہ میں سیکرٹری مال کے فرائض سرانجام دیتے رہے.19
تاریخ احمدیت.جلد 23 691 سال 1966ء فلائٹ لیفٹیننٹ محمد احمد خاں آف لاہور وفات: ۱۶/اگست ۱۹۶۶ء آپ انشاء اللہ خاں صاحب آف لاہور کے صاحبزادے تھے.ایک فضائی حادثے میں آپ کی شہادت ہوئی.۱۹۶۱ء میں آپ کو فضائی فوج میں کمیشن ملا تھا.اپنی غیر معمولی لیاقت اور حسن کارکردگی کی وجہ سے اپنے افسروں اور ماتحتوں میں بہت مقبول اور ہر دلعزیز تھے.مورخہ ۱۹ راگست کو ان کا جنازہ ربوہ لایا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے نماز فجر کے بعد آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.بعد ازاں قطعہ شہداء میں آپ کی تدفین ہوئی.مکرم حیدر الدین ٹیپو (مالک ٹربو پلاسٹک کمپنی ) ان کے چھوٹے بھائی ہیں.مسٹر بلال نٹل صاحب (Bilal Nuttal) وفات: ۲۲ ستمبر ۱۹۶۶ء بعمر ۷۲سال جماعت احمد یہ انگلستان کے قدیم اور مخلص خادمِ دین نومسلم تھے.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذریعے حلقہ بگوش اسلام ہوئے.آپ کو حضرت مصلح موعود سے عاشقانہ محبت تھی.حضور بھی ان سے بہت پیار کرتے تھے.چنانچہ ۱۹۵۵ء کا واقعہ ہے کہ جماعت لندن نے حضرت مصلح موعود کے اعزاز میں ایک ہوٹل میں دعوتِ طعام دی.اس موقعہ پر مرحوم بلال بھی مدعو تھے.حضور کے اردگرد معزز شخصیات کا حلقہ تھا اور بلال دور بیٹھے تھے.مگر جو نہی حضور کی نظر ان پر پڑی اشارے سے اپنے قریب بلالیا.ان کے ہاتھ پر اپنا دست مبارک رکھا اور انہیں برکت بخشی اور آخر تک انہیں اپنے ساتھ بٹھائے رکھا.اس واقعہ نے مرحوم کے دل و دماغ پر نہایت گہرا اور دائمی اثر چھوڑا.مسٹر بلال نے حضرت مصلح موعود کی وفات پر لکھا:.”میرے لیے آپ کی ذاتِ والا صفات کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں.یہ خوشگوار یادیں رہ رہ کر میرے قلب و ذہن پر ابھر رہی ہیں اور مجھے بے چین کیے دے رہی ہیں.مجھے آپ سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا شرف حاصل ہے.آپ کی نہایت ہی میٹھی گفتگو کے محبت بھرے الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہے ہیں.میں خوش قسمت ہوں کہ آپ نے مجھے معانقہ کا شرف بھی عطا فرمایا.آپ کے الفاظ کا مجھ پر جادو کا سا اثر ہوتا تھا.آپ قرآنی آیات کی جولطیف تفسیر بیان فرماتے
تاریخ احمدیت.جلد 23 692 سال 1966ء تھے اسے سن کر تو میری حیرت کی کوئی حد نہ رہتی تھی.آپ نے مجھ کو اپنی شخصیت سے بے حد متاثر کیا.آپ کے خطبات بہت فکر انگیز اور بصیرت افروز ہوتے تھے.انگلستان میں مشن کے قیام اور مسجد لندن کی تکمیل کے اوائل زمانہ میں مسجد لندن کے امام آپ کے موصول ہونے والے خطبات کا انگریزی میں ترجمہ کر کے مجھے سنایا کرتے تھے.میں بہت لطف اندوز ہوتا تھا.وہ ایام جب میں آپ کے خطبات کے تراجم سنا کرتا تھا میری زندگی کے انتہائی پر مسرت ایام تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ ابتداء میں امام مسجد فضل لندن مولا نا عبدالرحیم صاحب در دمرحوم اور جناب ملک غلام فرید صاحب نے مجھے عربی میں نماز پڑھنی سکھائی.بعد ازاں مولا نا درد نے اصرار کیا کہ میں اذان کے الفاظ بھی یاد کروں اور اسلامی اذان سیکھوں.چنانچہ میں نے اس پر دسترس حاصل کی اور اذان دینی شروع کر دی.اس پر حضرت صاحب کی طرف سے گرامی نامہ موصول ہوا جو میرے متعلق اس ارشاد پر مشتمل تھا کہ آئندہ سے مجھے بلال کہہ کر پکارا جائے کیونکہ میں انگلستان کا اور مسجد فضل لندن کا پہلا انگریز مؤذن ہوں.یہ میرے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا.اس وقت سے میں یہ محسوس کرنے لگا کہ میں ایک بہت بڑی تنظیم سے منسلک ہونے کے باعث ایک بڑی مشین کے کارآمد پرزہ کی حیثیت رکھتا ہوں.احمد بیت قبول کرنے کے بعد سے میں زندگی بھر اسلام سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا رہا ہوں.اس کوشش میں میں کس حد تک کامیاب یا نا کام ہوں ؟ اس کا علم خدا ہی کو ہے.تا ہم مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں اپنے عظیم المرتبت امام کا انتہائی طور پر ممنون احسان ہوں.اس لیے کہ آپ نے مجھے اور ہم سب کو قرآنی صداقتوں سے بہرہ ور کرنے والی بصیرت عطا فرمائی.گزشتہ نصف صدی میں آپ نے جو عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے انہیں شمار کرنا کار دارد ہے.جو کچھ آپ نے کر دکھایا موجودہ زمانہ میں اس کا اور اس کی اہمیت کا صحیح ادراک ممکن نہیں.مستقبل بعید میں جب آپ کے کارناموں کے نتائج پوری طرح منظر عام پر آئیں گے تب ہمیں کما حقہ احساس ہوگا کہ عالم انسانیت کی آپ نے کیسی عظیم المرتبت خدمت سرانجام دی.جناب بشیر احمد صاحب رفیق سابق امام مسجد فضل لندن کا بیان ہے کہ جب حضرت مصلح موعود کی وفات کی خبر موصول ہوئی تو ہم نے مسجد میں فوراً ایک تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا.بلال بھی آئے ہوئے تھے.خاکسار نے ان کو بھی کچھ کہنے کی دعوت دی.آپ آگے آئے اور حضور کا نام لے کر زار و قطار رونے 99
تاریخ احمدیت.جلد 23 693 سال 1966ء لگے.چند منٹ اسی حالت میں کھڑے رہے اور پھر بیٹھ گئے اور اشارہ سے مجھ سے معذرت کی کہ وہ هدت جذبات سے تقریر نہ کرسکیں گے.پھر حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی ایک پرانی تصویر مجھے دی اور کہنے لگے کہ میں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے قیام لندن میں ان میں تقویٰ اور پاکیزگی کا مشاہدہ کیا اور ان سے بہت کچھ سیکھا.اور بار بار کہنے لگے کہ مجھے ان کے خلیفہ منتخب ہونے کی بے حد خوشی ہے.مسٹر بلال محل مسجد فضل کے ہر امام اور مبلغ سے محبت رکھتے تھے اور ہر موقع پر خدمت دین کے لئے حاضر رہتے تھے.ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب رانجھا وفات ۶.نومبر ۱۹۶۶ء آپ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے فرزند اکبر تھے.چھوٹی عمر میں آپ کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا گیا حضور نے آپ کے سر پر دستِ مبارک پھیر کر برکت بخشی.ظاہری اور باطنی اعتبار سے اپنے والد ماجد کا نمونہ اور فرشتہ سیرت وجود تھے.بہت دیندار، رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے اور ابتلاؤں میں کو ہ استقلال تھے.وفات پر بہت سا روپیہ وصیت کے حساب میں زائد پایا گیا.101 مولانا شیخ عبد القادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ (سابق سود اگر مل ) وفات : ۱۸نومبر ۱۹۶۶ء شروع ۱۹۲۵ء میں حضرت میاں محمد مراد صاحب آف پنڈی بھٹیاں کی تحریک اور تبلیغ.ہندومت چھوڑ کر احمدیت قبول کی اور حضرت مصلح موعود کے دستِ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ اپنی بیعت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اللہ اللہ ! وہ نظارہ بھی کیا عجیب تھا.حضور نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا.آپ بیعت کے الفاظ ارشاد فرماتے اور میں ان الفاظ کو دہراتا جاتا تھا.گناہوں سے تو بہ کرنے کا احساس دل میں تھا.سردی کے موسم میں جسم پسینہ سے شرابور ہورہا تھا تو روح کسی عالم بالا میں پرواز کر رہی تھی.ایک نئی زمین ہے جس پر میں قدم رکھ رہا ہوں اور ایک نیا آسمان ہے جو میرے لیے سایہ لگن ہے.غرضیکہ ایک عجیب کیفیت تھی جو مجھ پر طاری تھی اور ایک ایسا سماں تھا جس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا“
تاریخ احمدیت.جلد 23 694 سال 1966ء ۱۹۳۱ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.۱۹۳۴ء میں لائل پور میں تین چار ماہ تک حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سے براہ راست فیض تلمذ پایا تبلیغی میدان میں عملی تربیت حاصل کی.ازاں بعد عرصہ تک کراچی مشن کے انچارج رہے اور پھر لائکپور (فیصل آباد)، شیخوپورہ ، سرگودھا اور لاہور میں شاندار تبلیغی خدمات سرانجام دیں.آپ دور حاضر کے کامیاب مناظر تھے.صحابہ حضرت مسیح موعود کی روایات جمع کرنے اور تذکرہ کی تالیف میں آپ نے نمایاں کردار ادا کیا.ربوہ میں نشر و اشاعت کے انچارج کی حیثیت سے نہایت بیش قیمت ٹریکٹ شائع کئے.تصانیف سیرت سید الانبیاء.(خلاصہ سیرت خاتم النبین مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب) صحیح بلا د شرقیہ میں ( تقریر جلسہ سالانہ ) حیات طیبہ (سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام).حیات نور.حیات بشیر.لاہور تاریخ احمدیت آپ کی وفات پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے امیر مقامی مولانا ابوالعطاء صاحب کو ہدایت بھجوائی کہ بہشتی مقبرہ میں موصی مربیان کا الگ قطعہ بنا کر اس میں ان کی تدفین ہو چنانچہ اس کی تعمیل ہوئی اور موصی مربیان کے قطعہ خاص کا آغاز آپ کے مزار مبارک سے ہوا.خالد احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب نے رسالہ ” الفرقان دسمبر ۱۹۶۶ء میں تحریر فرمایا کہ:.در شیخ عبدالقادر صاحب کے اسلام لانے کے بعد سے ان کی وفات تک میرے اور ان کے دینی اور ذاتی تعلقات نہایت گہرے رہے ہیں.ان کی دوستی لوجہ اللہ تھی اور نہایت قابلِ قدر.ہمارے اکثر امور باہمی مشورے سے طے ہوتے تھے اور ہمیشہ ہم ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرتے تھے.جوانی گزار کر بڑھاپے کو پہنچے مگر یہی محسوس ہوتا تھا کہ ہماری محبت شباب پر ہے.عزیزم شیخ صاحب کی طبیعت میں حلم اور بردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.میں نے کئی دفعہ انہیں کہا تھا کہ میں تو یہ نظارہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی سے لڑ رہے ہوں مگر مجھے آخری دن تک ایسا دیکھنے کا موقعہ نہ ملا.شیخ صاحب موصوف معاملات میں بہت صاف تھے اور لوگوں سے بھی یہی توقع رکھتے تھے کہ وہ ایسے ہی ہوں.لین دین کا با قاعدہ حساب رکھتے تھے.ان کے تمام کاروبار تقویٰ اللہ پر مبنی تھے.خدمت دین کو سعادت اور نعمت سمجھتے تھے اور پوری محنت سے سلسلہ کا کام کرتے تھے.انہیں جس جگہ بھی اور جس کام پر بھی متعین کیا گیا انہوں نے پورے خلوص سے اپنے فرائض کو انجام دیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 695 سال 1966ء ارحم الراحمین خدا انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرمائے.آمین شیخ عبدالقادر صاحب سلسلہ احمدیہ کے ہمہ وقت خادم تھے اور انہوں نے سچی خدمت بجالانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.اللہ تعالیٰ نے انہیں تقریر کے علاوہ تحریر کا بھی عمدہ ملکہ عطا فرمایا تھا.انہوں نے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک مفید مجموعہ مرتب کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سوانح پر ایک مبسوط کتاب لکھی حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے حالات پر جامع تالیف شائع کی.حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق ایک کتاب مدوّن کی.ابھی آخری دنوں لاہور کی تاریخ احمدیت پر ایک مستند کتاب شائع کی.شیخ صاحب کو کام کی دھن تھی.جب کہا جاتا کہ آپ کو اتنی جلدی کیا ہے تو کہتے جو کام ہو جائے وہی بہتر ہے.شیخ عبدالقادر عالم باعمل تھے.صاحب رؤیا تھے.اپنی وفات کے متعلق بھی انہوں نے تازہ رویا دیکھی تھی جسے لاہور میں کئی احباب کو سنا چکے تھے جو حرف بحرف پوری ہوگئی.میرے ساتھ قلبی انس کا نتیجہ تھا کہ وہ اپنی کئی خوابوں میں اپنے آپ کو میرے ساتھ دیکھتے تھے.میرے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے جس طرح مخلص شاگرد پیش آتے ہیں اور کہا بھی کرتے تھے کہ میں آپ کا شاگرد ہوں.بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے، ایسے مخلص بھائی اور وفادار عزیز دوست بہت ہی کم ملتے ہیں.ان کی وفات ایک جماعتی صدمہ ہے.مشرق اور مغرب کی تمام احمدی جماعتیں ان کی یاد میں افسردہ اور دعا گو ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ عزیز بھائی شیخ عبد القادر کو جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات ہمیشہ بلند فرماتا رہے.آمین مکرم شیخ عبد الماجد صاحب اقبال اور احمدیت وغیرہ کتب کے مصنف آپ کے بیٹے تھے.نیک محمد خان صاحب غزنوی وفات: ۱۸ نومبر ۱۹۶۶ء افغانستان کے ایک نہایت معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے.اسال کی عمر میں قبول احمدیت سے مشرف ہوئے اور ۱۹۰۶ ء میں بذریعہ خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی سعادت حاصل کی.آپ کے والد مکرم امیر احمد خاں صاحب ایک صوبہ ( غزنی) کے گورنر تھے.حق کی خاطر آپ نے ۱۹۰۹ء میں اپنے وطن سے ہجرت کر کے مستقل طور پر قادیان میں بود و باش اختیار کر لی.آپ کو حضرت اماں جان ، حضرت مصلح موعود اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کرنے
تاریخ احمدیت.جلد 23 696 سال 1966ء کا طویل عرصے تک خصوصی شرف حاصل ہوا.حضرت مصلح موعود کے بہت محبوب اور فدائی اور جاشار محافظ خاص تھے.ایاز کی طرح سیدنامحمود المصلح الموعود کے ہر حکم کی تعمیل کرنا اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے تھے.اس سلسلہ میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے ان کے اخلاص اور فدائیت کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل جب گھوڑے سے گرے تو آپ کی صحت کو سخت دھکا لگا اور آپ بے ہوش ہو گئے.لوگوں کو پتا لگا تو وہ آپ کی خبر لینے آجاتے اور پھر سوال بھی کرتے.بے ہوشی میں اس قسم کے سوال کرنے مضر ہوتے ہیں اس لیے ڈاکٹروں نے منع کیا ہوا تھا کہ آپ کے کمرہ میں کوئی نہ جائے.چنانچہ میں نے آپ کے کمرہ کے دروازے بند کر دیئے اور نیک محمد خان صاحب افغان کو مقر ر کیا کہ وہ کسی کو اندر نہ جانے دیں.نیک محمد خان احمدیت میں نئے نئے آئے تھے اور افغانستان کے اچھے شریف خاندان میں سے تھے.اُن کا باپ ایک صوبہ کا گورنر تھا.جب احمدیت قبول کر لینے کی وجہ سے اُن کی مخالفت شدت اختیار کرگئی تو وہ قادیان آگئے.اُس وقت ان کی عمر ۱۶، ۷ اسال کی تھی.اس کے بعد وہ قادیان میں ہی رہے.نیک محمد خان صاحب بہت پست اور ہوشیار تھے.اس لیے میں نے انہیں پہرہ پر مقرر کیا اور ہدایت کی کہ وہ کسی شخص کو اندر نہ جانے دیں اور انہیں خاص طور پر بتایا کہ دیکھو بعض دفعہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے کوئی بڑا آدمی آ جاتا ہے تو خیال آتا ہے کہ شاید وہ حکم اس کے لیے نہ ہو.اس لیے یاد رکھو کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سوائے ڈاکٹروں اور ہم لوگوں کے جو خدمت پر مامور ہیں تم کسی شخص کو اندر نہ جانے دو.وہ کہنے لگے بہت اچھا.شام کے وقت میں آیا تو دیکھا کہ بعض لوگ چہ مگوئیاں کر رہے ہیں.نیک محمد خان نوجوان تھے.سولہ سترہ سال کی عمر میں قادیان آئے تھے اور ایک شریف خاندان سے تھے ان کا باپ ایک معزز آدمی تھا اس وجہ سے ان کے پٹھان ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا.لیکن ایک اور قسم کے پٹھان بھی ہمارے ملک میں ہوتے ہیں.جن کے باپ دادے چار پانچ سوسال ہوئے ،اس ملک میں آئے ، وہ بھی اپنے آپ کو پٹھان کہتے ہیں.لیکن چونکہ ایک لمبا عرصہ گزر جاتا ہے اس لیے یہ پتہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 697 سال 1966ء لگانا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ وہ درحقیقت کون ہیں.ممکن ہے وہ پٹھان ہوں یا ممکن ہے کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور پٹھانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے پٹھان کہلانے لگ گئے ہوں لیکن کہتے وہ یہی ہیں کہ وہ پٹھان ہیں.ہماری جماعت کے ایک دوست اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی ہوا کرتے تھے ان کی قوم بھی پٹھان کہلاتی تھی.ان کے باپ دادے کئی سو سال ہوئے ہندوستان میں آئے تھے.لیکن انہیں پٹھان ہونے پر بہت فخر تھا.وہ بھی حضرت خلیفتر امسیح الاوّل کی تیمارداری کے لیے آئے.معلوم نہیں ان کے دل میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی کتنی محبت تھی.لیکن ظاہر وہ یہی کیا کرتے تھے کہ انہیں آپ سے بڑی عقیدت ہے.جب انہوں نے سنا کہ حضور گھوڑے سے گر پڑے ہیں اور بے ہوش ہو گئے ہیں تو وہ گھبرا کر آئے اور انہوں نے اندر جانا چاہا.دروازہ پر نیک محمد خان صاحب کھڑے تھے انہوں نے اندر جانے سے روکا.بعض لوگوں کو اپنی قومیت پر حد سے زیادہ غرور ہوتا ہے اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو بھی اپنی قومیت پر فخر تھا.حالانکہ ان کے باپ دادے کئی سو سال ہوئے ہندوستان آئے تھے.انہوں نے کہا مطلب؟ نیک محمد خان صاحب نے کہا کہ اندر جانا منع ہے.انہوں نے کہا میں نہیں جانتا، کس نے اندر جانا منع کیا ہے.میں ضرور جاؤں گا.چنانچہ وہ پھر آگے بڑھے.اس پر نیک محمد خان صاحب نے انہیں دھکا دے دیا.اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ میں پٹھان ہوں.گویا وہ چار پانچ سو سال کی پٹھانی کا رعب ایک نئے آنے والے پٹھان پر ڈالنے لگے.نیک محمد خان صاحب نئے نئے احمدیت میں آئے تھے اور احمدیت کی وجہ سے انہوں نے دکھ اور تکالیف برداشت کی تھیں.اس لیے ان کا جوش تازہ تھا.جس وقت اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی نے کہا کہ تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں؟ میں پٹھان ہوں تو نیک محمد خان صاحب نے کہا تمہیں پتہ نہیں میں کون ہوں؟ میں احمدی ہوں.اب دیکھ لو جس کی پٹھا نیت مشتبہ تھی وہ تو یہ کہتا ہے کہ میں پٹھان ہوں.لیکن
تاریخ احمدیت.جلد 23 698 سال 1966ء جس کی پٹھانی میں کوئی شبہ نہیں تھا وہ کہتا ہے میں احمدی ہوں.حالانکہ ممکن ہے کہ اکبر شاہ خان صاحب کسی اور قوم سے ہوں لیکن پٹھانوں میں رہنے کی وجہ سے پٹھان کہلانے لگ گئے ہوں.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں:.نیک محمد خان صاحب غزنوی حضرت خلیفہ ثانی کے عاشق صادق خادم تھے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفہ ثانی کو انعام کے رنگ میں عطا ہوئے تھے.صفاتی لحاظ سے نیک محمد خان صاحب کا شمار طیور میں ہوتا ہے جس طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کے لشکر کے لیے تین اقسام کے وجود عطا ہوئے جیسا قرآن کریم فرماتا ہے: وَحُشِرَ لِسُلَيْمَن جُنُودُهُ مِنَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ فَهُمْ يُوزَعُونَ (النمل: ۱۸) یعنی ( کسی وقت کسی ملک پر چڑھائی وغیرہ کے وقت ) حضرت سلیمان کے لیے جن وانس اور طیر قسم کے لشکر جمع کئے گئے تھے.اسی طرح کی عطا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی تھی.یعنی آپ کو ذی وجاہت احباب بھی عطا ہوئے.حضور کو اس قسم کے احباب بھی ملے جو عالم دین تھے.انہوں نے حضور کی معیت اور تائید میں انتھک علمی خدمت انجام دی.جیسے حضرت قاضی اکمل صاحب، حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب، حضرت مولوی شمس صاحب اور محترم شیخ عبدالقادر صاحب.تیسری قسم عطا طیور کا ملنا تھی.یہ وجود بھی حضور کو عطا ہوئے.ان میں حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور نیک محمد خان صاحب غزنوی مرحوم شامل ہیں تم مکرم نیک محمد خان صاب نے سالہا سال تک حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی والہانہ طور پر خدمت انجام دی.چونکہ اس عاجز کو بھی ۱۹۱۸ء سے شرف خادمیت محمود حاصل ہو گیا تھا.بدیں وجہ مجھے نیک محمد خان صاحب مرحوم کی خدمت کے کارنامے دیکھنے کا اکثر موقعہ ملتا رہا.جیسا کہ میں نے آپ کو طیور کے گروہ میں شمار کیا ہے.سو آپ ہمیشہ طیور کی سی سُبک رفتاری کے ساتھ کام انجام دیتے تھے.میلوں میل دوڑ کر حضور کی ڈاک مطلوبہ جگہ پر پہنچانا آپ کے بائیں ہاتھ کا کام تھا.۱۹۲۱ء میں حضور نے کشمیر کا سفر کیا تھا.حضور کی معیت میں علاوہ اہل بیت کے جملہ صاحبزادے اور صاحبزادیاں بھی تھیں.نیز حضرت اماں جان اور حضرت اماں جی (اہل بیت حضرت خلیفہ اوّل) مع تین بچوں کے بھی شامل تھے.حضور نے سفر کے آخری حصہ میں احمدیوں کے ڈار خاندان ناسنور
تاریخ احمدیت.جلد 23 699 سال 1966ء میں قریباً ایک ماہ قیام فرمایا تھا.جہاں سے چھیل کوثر ناگ وغیرہ کی سیر بھی کی تھی.ان ایام میں حضرت ام ناصر احمد سخت بیمار ہوگئیں.لگا تار تیز بخار کی وجہ سے ٹائیفائیڈ کا شبہ ہو گیا.جس کے لیے ہمیں کلورین مکسچر کی ضرورت پیش آگئی.اس مکسچر کے اجزاء ہمیں شہر سرینگر سے جو وہاں سے ساٹھ میل کے فاصلہ پر تھا مل سکتے تھے.جس کیلئے حضور نے نیک محمد خان صاحب مرحوم کو بھیجا جانا تجویز کیا.چنانچہ مرحوم نے گھوڑے کی پیٹھ پر سفر کرتے ہوئے ۲۴ گھنٹہ کے اندر سرینگر سے ادویہ حاضر کیں.مکسچر خدا تعالیٰ کے فضل سے مفید ثابت ہوا اور حضرت ام ناصر کا بخار ٹوٹ گیا.اس مثال سے نیک محمد خان صاحب مرحوم کی خدمات محمود کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت کرے اور انہیں جنت میں بلند مقام نصیب کرے.حاجی فضل محمد صاحب درویش کپور تھلوی وفات: ۲۶ نومبر ۱۹۶۶ء بڑے دعا گو بزرگ تھے.تبلیغ حق کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا.پنجابی شلوک از بر تھے.دعوت الی اللہ کے کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو سلسلہ کا لٹریچر اور مرکزی اخبارات اپنے خرچ پر وقتا فوقتاً بھجواتے رہتے تھے.حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کے قلم سے حاجی صاحب کے حالات زندگی درج ذیل کئے 106 جاتے ہیں :.”حاجی صاحب مرحوم موضع بجولہ ریاست کپورتھلہ کے رہنے والے تھے.ملازمت سے سبکدوش ہو کر جب کپورتھلہ آئے تو خاکسار کے والد مرحوم سے ان کا تعلق پیدا ہو گیا.غالبا یہ ۱۹۲۰ء کے قریب کی بات ہے.والد صاحب کی تبلیغ سے حاجی صاحب جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے روز بروز اخلاص اور قربانی میں ترقی کی.اپنے گاؤں سے پیدل چل کر کپورتھلہ میں جمعہ پڑھنے کے لیے آیا کرتے تھے اور والد صاحب مرحوم انہیں ہر جمعہ کے بعد ایک دو دن کے لیے اپنے پاس مہمان ٹھہرا لیتے تھے.اور سلسلہ کی روایات اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حالات زندگی حاجی صاحب کو سنایا کرتے تھے.اس طریق پر حاجی صاحب نے بڑے اخلاص کا رنگ اختیار کیا اور وہ بڑے شوق سے تبلیغ کیا کرتے تھے.گو ان کی تعلیم معمولی تھی لیکن بہت ذہین آدمی تھے.ایسی منطقی جرح کرتے اور مسائل کو ایسے طریق پر پیش کرتے کہ مخالف لا جواب ہو جاتا.حاجی
تاریخ احمدیت.جلد 23 700 سال 1966ء صاحب کی تبلیغ سے ان کے دوست حافظ محمد عبداللہ صاحب بھی بیعت میں داخل ہوئے.پاکستان بننے کے بعد یہاں سے جب حضرت صاحب نے ایک قافلہ درویشوں کا قادیان بھیجنا چاہا تو حاجی صاحب مرحوم نہایت شوق اور اخلاص سے اس میں شامل ہوئے اور اس عزم سے قادیان جا کر رہے کہ باقی زندگی وہیں گزارنی ہے اور ان کا مسکن اور مدفن آئندہ قادیان میں ہو.اس عزم پر جس پختگی اور بشاشت قلب سے وہ قائم رہے وہ ایک مثالی بات ہے.کبھی کبھی پاکستان آیا کرتے تھے لیکن ان کا دل قادیان میں ہی ہوتا تھا.بعض موقعے ایسے بھی پیش آئے کہ حاجی صاحب کو قادیان میں رہنے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کا موقعہ پیش آیا لیکن ان کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا.وہ خود کو قادیان کی درویشی میں بڑا خوش نصیب اور فضل الہی کا مور د یقین کرتے تھے.اسی حالت میں انہوں نے گزشتہ انیس (۱۹) سال قادیان کی درویشی میں گزارے.بڑے اطمینان اور خوشی سے یہ مرحلہ عبور کرنے کی اللہ تعالیٰ نے انہیں توفیق دی.تا آنکہ وہ اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے اور ان کی نیت اور مراد پوری ہوگئی.قادیان میں ہمارے جس قدر درویش آباد ہیں ان میں یہی رنگ اور خصوصیت پائی جاتی ہے.ان کا عزم واستقلال اور للہیت اور قادیان میں سکونت اختیار کرنا ایسی فدا کاری ہے جس کی نظیر بہت کم پائی جاتی ہے.107 766 سید سردار حسین شاہ صاحب وفات : ۱۶ دسمبر ۱۹۶۶ء محترم شاہ صاحب ۱۹۱۵ء میں بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.کافی عرصہ تک الیں.ڈی.او کے طور پر ملازمت کرتے رہے.۱۹۳۲ء میں ہجرت کر کے قادیان چلے گئے.اور وہاں پر لمبے عرصہ تک افسر تعمیر کے طور پر سلسلہ کی خدمت بجالاتے رہے.قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت اصلح الموعود کے ارشاد پر ہجرت کر کے ربوہ تشریف لے آئے.اور یہاں پر لمبے عرصہ تک افسر تعمیر کے طور پر سلسلہ کی خدمت بجالاتے رہے.مرحوم بہت نیک اور مخلص احمدی تھے.صوم وصلوۃ کے پابند اور تہجد گزار تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے عقیدت و محبت کا خاص تعلق تھا.حضور بھی ان سے بہت شفقت و محبت کا سلوک فرماتے تھے.108
تاریخ احمدیت.جلد 23 701 سال 1966ء شاہ صاحب کی بیٹی سیدۃ الزہراء صاحبہ ایم.اے تحریر فرماتی ہیں:.ابا جان مرحوم سلسلے کے ایک مخلص کارکن تھے.نماز کے پابند ،کم گوئی اور معاملات میں ایمانداری ان کے اخلاق کی نمایاں خصوصیات تھیں.ربوہ کے قیام پر قادیان کے روز و شب ہر وقت ان کو یاد آتے ایک دفعہ ان کو ربوہ آنے کا اتفاق ہوا تو حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب مرحوم اُن کو حضور کے پاس لے گئے کہ ان کی مجھے بڑی ضرورت ہے.حضور نے آپ کو یہاں آنے کا ارشاد فرمایا.اسی وقت اپنے تمام کام کو پس پشت ڈال کر حضور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ربوہ آیسے اور کافی عرصہ سیکرٹری تعمیر کی آسامی پر متعین ہو کر خلوص دل اور نیک نیتی سے سلسلہ کی خدمت کرتے رہے اور اس عرصہ میں ان کوئی آئی ہائی سکول ، ٹی آئی کالج اور جامعہ نصرت جیسی اہم عمارتوں کو بنوانے کی سعادت نصیب ہوئی.خلیفہ وقت سے حد درجہ عقیدت اور محبت تھی.حضور کی ذاتی کوٹھیاں بھی اپنی زیر نگرانی تعمیر کروا ئیں.اور اس سلسلے میں حضور نے بطور انعام انہیں کافی رقم دی.آپ نے اسی وقت حضور کی خدمت میں وہ ساری رقم بطور نذرانہ پیش کر دی.حضرت سیدہ مہر آپا نے آپ کو اتنی بڑی رقم پیش کرنے سے روکنے کی بڑی کوشش کی.کیونکہ ان دنوں ہماری مالی حالت اچھی نہیں تھی.مگر آپ وہ رقم گھر میں نہ لائے مبادا بچوں کی کسی ضرورت کے پیش نظر ان کے قدم نہ ڈگمگا جائیں.پنشن کے بعد بڑے بھائی مرحوم نے ہم سب کو عارف والا واپس لے جانے کی بہت کوشش کی مگر آپ کو ر بوہ کی مٹی کچھ اتنی عزیز تھی کہ اس کی جدائی گوارا ہی نہیں کر سکتے تھے اور آخری وقت میں وہ اسی مٹی میں گر کر حرکت قلب بند ہونے سے انتقال فرما گئے.اپنے معاملات میں اس حد تک صاف تھے کہ وفات کے دنوں میں بھی وہ کسی کا مکان بنوار ہے تھے.مگر اس کا حساب کتاب بالکل صاف تھا.اپنے ماتحتوں کو اجرت کے لئے بالکل پریشان نہ کرتے تھے.بلکہ اس حدیث پر پوری طرح عمل کرتے کہ " مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اسے اجرت دے دینی چاہیے.شاید یہی وجہ تھی کہ وہ دوسری عمارتیں بنواتے وقت اپنا ذاتی پیسہ بھی اس میں لگا دیا کرتے تا کہ مزدوروں کو پریشان نہ ہونا پڑے.لیکن خود اس کے لیے بعد میں بڑی پریشانی اٹھاتے.مرحوم موصی تھے اور اپنا تمام حساب وفات سے پہلے بیباق کر چکے تھے.
سال 1966ء 702 حوالہ جات (701634) تاریخ احمدیت.جلد 23 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۸۸ تا ۹۳ الفضل یکم ۳ فروری ۱۹۶۶ء مضمون خواجہ عبدالقیوم صاحب جمیل لاج ربوه الفضل یکم ۳۰ فروری ۱۹۶۶ء مضمون خواجہ عبد القیوم صاحب جمیل لاج ربوہ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۵.مضمون میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی ماخوذ از مراسلہ میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی ۸ / اپریل ۱۹۹۱ء ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ.الفضل ۲ فروری ۱۹۶۶ ء صفحه ۸ الحکم، جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶ ریکارڈ بہشتی مقبره ربوه، الفضل ۲ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۸ الفضل ۱۵ راپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۵ - مضمون محترمہ صادقہ قمر صاحبہ نواسی حضرت میاں فتح الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ آباد مطبوعه ۲۰۱۲ صفحه ۶۵ تا ۶۷ ریکارڈ بہشتی مقبرہ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۶ - مضمون مولوی غلام احمد صاحب فرخ مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ حالات کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول ص ۹۸،۹۷ مطبوعه ۱۹۵۱ء سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۱۳ ۱۱۴ الفضل ۴ فروری ۱۹۶۶ ء صفحه ۸ الفضل ۱۳ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۶ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۱۸ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۸ ، یکم مارچ ۱۹۶۶ء صفحہ ۶ ، لا ہور تاریخ احمدیت صفحه ۳۴۰-۳۴۱ از مولانا شیخ عبدالقادر صاحب ،تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحه ۳۷۰ غیر مطبوعه خود نوشت سوانح عمری.ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۶ ، صفحه ۸ مکتوب حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب کا عکس غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 22 21 22
تاریخ احمدیت.جلد 23 23 24 25 2 2 2 2 2 2 26 27 28 29 غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت 703 خودنوشت مختصر حالات زندگی مرتبہ سے جون ۱۹۶۵ء غیر مطبوعہ ریکارڈ شعبہ تاریخ احمدیت خود نوشت سوانح حیات حضرت شیخ مبارک اسمعیل صاحب غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات حضرت شیخ مبارک اسمعیل صاحب غیر مطبوعه صفحه ۴۳ تا ۴۵ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۲۴ مارچ ۲۰۰۴ء الفضل کے امارچ ۱۹۹۰ صفحه ۶ ۲۴ مارچ ۲۰۰۴، صفحه ۵ 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 46 47 48 49 50 50 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۳۱ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۸ ریکارڈ بہشتی مقبره ، الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ الفضل ۱۹ار ا پریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۶ الفضل ۲ مئی ۱۹۲۶ سفره مضمون چوہدری انورحسن صاحب ایم اس ای پیکر تعلیم الاسلام کالج ربوہ الفضل ۲۱ جون ۱۹۶۶ ، صفحریم ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۱۴ جون ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل ۲۸ جون ۱۹۶۶، صفحه ۴۲۳ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ الفضل ۱۲ جولائی، ۱۵ نومبر ۱۹۶۶ء رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ صفحه ۳۲ تا ۳۴ ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ خلاصه نوٹ مکرم حکیم رحمت اللہ گوریجہ صاحب انسپکٹر تحریک جدیدر بوه ریکارڈ بہشتی مقبره ریکارڈ بہشتی مقبرہ ریکارڈ بہشتی مقبرہ سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 الفضل ۳ ستمبر ۱۹۶۶ء 704 نغمه اکمل صفحہ الف تاج.مطبوعہ تمبر ۱۹۶۷ء ازالہ اوہام صفحه ۹۶-۹۷ حاشیہ.تذکر طبع چہارم صفحہ ۱۷۸ الفضل ۱۶نومبر ۱۹۳۸ء صفحه ۶،۵ خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۳۸ء الفضل ۲۴ نومبر ۱۹۳۸ ، صفحه ۱۲-۱۳ الفرقان اکتوبر ۱۹۶۶ء سرورق ب.مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۸.۱۱.۱۲ نومبر ۱۹۶۶ء 51 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 71 رسالہ انصار اللہ فروری ۱۹۶۲ء سیه احمد به صفحه ۸۴ رسالہ عقائد احمد یه صفحه ۸۴ الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۲۶ صفحه ۸ 72 73 له له له له 74 75 سال 1966ء رساله واذا الصحف نشرت از میاں عبد العظیم صاحب درویش پر و پر انٹر احمد یہ بک ڈپو قادیان دارالامان النجم الثاقب صفحه ۲۶۶ تا ۲۶۹ غیر مطبوعہ مقالہ احمد حسین شاہد صاحب ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۱۴ اکتوبر ۲۰۰۲-۲۹ اگست ۲۰۰۳ ضلع راولپنڈی تاریخ احمدیت صفحه ۱۰۶،۱۰۵ الفضل، انومبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ مضمون کیپٹن ملک عبد اللہ خان صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ بر ما 76 ریکارڈ بہشتی مقبرہ ربوہ الفضل ۱۳ را گست ۱۹۶۶ ، صفحه ۳ الفضل ۶ دسمبر ۱۹۶۶ صفحیم شکر نعمت صفحه ۷۹،۷۸ الفضل ۱۱،۱۰، ۲۶، ۲۷ نومبر ۱۹۶۶ء ، الفضل ۱۸،۶ دسمبر ۱۹۶۶ء 'باجوہ خاندان از چوہدری غلام اللہ خاں صفحه ۱۵۸ تا ۱۷۸ مطبوعہ جنوری ۱۹۸۶، گلبرگ لاہور عالمگیر برکات مامور زمانه صفحه ۳۵ از مولانا عبد الرحمن صاحب مبشر الحکم ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۵ الفضل ۱۳دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۸ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۳ / دسمبر ۱۹۶۶ء ' لاہور تاریخ احمدیت صفحه ۲۹۸، ۲۹۹ الفضل ۱۲، ۱۸، ۱۹ اگست ۱۹۶۷ء، عالمگیر برکات مامور زمانہ حصہ دوم صفحه ۳۵ تا ۵۶ الحکم، اراپریل ۱۹۰۱ صفحه ۱۴
تاریخ احمدیت.جلد 23 77 78 79 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 الفضل ۴ فروری ۱۹۶۷ صفحه ۶ تحریک جدید کے پانچیز اری مجاہدین صفحه ۳۴۶ بدر ۲ فروری ۱۹۶۷ ، صفحه ۹ ۱۰ 705 الفضل ۱۳ فروری ۱۹۶۶ ، صفحیم الفضل ۲ فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۵،۸/اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۵ الفضل ۲ ،۳، ۱۱ فروری ، یکم ، ۶، ۸ مارچ ۱۹۶۶، رساله خالد فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۰ فروری ۱۹۶۶، صفحه ۵، ۱۸ جون ۱۹۶۶، صفحه ۵ الفضل ۷ افروری ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل ۲۷،۲۶ فروری ، ۱۶، ۱۹ر اپریل، الفرقان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۶ الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل هم مئی ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل ۱۴:۱۲ جون ۱۹۶۶ء سال 1966ء الفضل ا جون ، ۲۹ جولائی ۱۹۶۶ء، بدر ۲۳ جون ۱۹۶۶ صفحہ ۷ الفضل ۲۴ جولائی ۱۹ راگست ۳۰ را گست ۱۹۶۶ء الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۶ صفحہ۸ بشارات رحمانیہ جلد دوم صفحه ۱۵۹ ۱۶۰ مولفہ مولانا ابوظفر عبد الرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل مطبوعہ لاہور آرٹ پریس انار کلی لاہور طبع اول دسمبر ۱۹۵۶ء ماہنامہ ” مصباح اکتوبر ۱۹۷۴ ء صفحه ۲۰ تا ۲۶ الفضل ۲۵ رابریل ۱۹۸۹ ، صفحه ۴ تا ۶ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۸ بدر ۲۱ جولائی ۱۹۶۶ء صفحرم ، الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۶۶ ء صفحہ ۸ الفضل و راگست ۱۹۶۶ ، صفحه ۶ الفضل ربو ۲۴ /اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۸ ترجمه از انگریزی دی مسلم ہیرالڈ لندن جنوری ۱۹۶۶ء بحوالہ ماہنامہ انصار اللہ فروری ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۲ ۲۳ الفضل ۱۶نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل ۹ ۱۳۱۰ نومبر ۱۹۶۶ء مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوتا بعین اصحاب احمد جلد اوّل صفحہ ۲۷ تا صفحہ ۷۹ ، حیات طیبہ طبع اوّل صفحه ۴۸۷ تا صفحه ۴۹۳ ، الفضل ۲۲۲۰ نومبر ۲۳ دسمبر ۱۹۶۶ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 706 103 104 105 106 107 108 الفضل ۱۹_۲۲ نومبر ۱۹۶۶ء الازهار لذوات الخمار صفحه ۱۴۱،۱۴۰ الفضل ۲۳ نومبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۵ بدر ا.۸ دسمبر ۱۹۶۶، صفحہ ۱۶، ۸ جون ۱۹۶۷ء صفحه ۹ ، الفضل ۲۰ دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحہ ۱ الفضل ۱۹ جنوری ۱۹۶۷ ، صفحه ۵ الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحیم 109 الفضل و مئی ۱۹۶۷ ، صفحہ ۷ سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 707 سال 1966ء ۱۹۶۶ء کے متفرق اہم واقعات خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں خوشی کی تقاریب خدائے عز و جل نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ فرمایا تھا.” تیری نسل بہت ہوگی اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.یہ نشان برکت اس سال بھی ظاہر ہوا.جبکہ اس با برکت خاندان میں سات وجودوں کا اضافہ ہوا اور شادی کی دو تقاریب منعقد ہوئیں.ولادت ا.امتہ الود و د نصرت جہاں صاحبہ بنت بریگیڈئیر ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب (۷ جنوری ۱۹۶۶ء) -۲- سید محمود احمد صاحب ابن سید داؤ د مظفر شاہ صاحب (۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء).مرزا فہیم احمد صاحب ابن مرزا نعیم احمد صاحب (۲۴ فروری ۱۹۶۶ء) عتیق احمد خان صاحب ابن نوابزادہ حامد احمد خان صاحب (۶ امئی ۱۹۶۶ء) ۵.سید مشہود احمد صاحب ابن سید مسعود احمد صاحب (۶ جولائی ۱۹۶۶ء) ۶.عارف احمد صاحب ابن مرزا اسلیم احمد صاحب (۱۳ جولائی ۱۹۶۶ء) ے.فرحانہ فوزیہ صاحبہ بنت سید سید احمد ناصر صاحب (۲ستمبر ۱۹۶۶ء) شادی ا.محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ایم.اے ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ہمراہ محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس صاحبہ ایم.اے بنت حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب (۷ اپریل ۱۹۶۶ء) ۲- محترم مصطفی احمد خان صاحب ابن حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب ہمراہ محترمہ صاحبزادی امتہ المجیب صاحبہ بنت محترم صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب (۳۰ نومبر ۱۹۶۶ء) احمدیوں کی نمایاں کامیابیاں اور اعزازات ا.صدر پاکستان نے سکواڈرن لیڈر خلیفہ منیر الدین احمد شہید ابن حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین
تاریخ احمدیت.جلد 23 708 سال 1966ء 11 صاحب کو اُن کی شہادت کے بعد ستارہ جرات کا اعزاز دیا.۲.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب (چیئر مین ٹاؤن کمیٹی ) ڈسٹرکٹ کونسل کے رکن منتخب ہوئے.12 ۳.سید اکرم شاہ صاحب (سی.آئی.ایس ) انفارمیشن آفیسر محکمہ اطلاعات حکومت پاکستان کو صدر مملکت پاکستان کی طرف سے تمغہ خدمت عطا ہوا.۴.چوہدری عصمت اللہ خان صاحب بہلول پوری ضلع لائلپور کی طرف سے سرگودھا ڈویژن کے بلا مقابلہ ڈویژنل کو نسلر منتخب ہوئے.15 ۵.ملک طاہر احمد صاحب نے انجنیئر نگ یونیورسٹی لاہور کے سول انجنیئر نگ کے فائنل امتحان میں اول پوزیشن حاصل کی اور یونیورسٹی کی طرف سے دو طلائی تمغے بھی حاصل کئے.اسی طرح امتہ احکیم شہناز صاحبہ میٹرک کے امتحان میں ضلع ملتان میں اور امتہ الباسط صاحبہ ایم.اے جغرافیہ میں پنجاب یونیورسٹی کی طالبات میں دوم رہیں.اسلامیہ کالج چنیوٹ کے کل پاکستان اردو مباحثہ میں تعلیم الاسلام کا لج ربوہ نے ٹرافی جیت لی.ے تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال میں چیمپیئن شپ جیت کر ضلع جھنگ میں اول پوزیشن حاصل کی.18 نیز باسکٹ بال ٹیم نے سرگودھا ڈویژن کی چیمپئن شپ جیت لی..اس سال تعلیم الاسلام کالج نے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے نہ صرف باسکٹ بال زونل ٹورنامنٹ میں چیمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا بلکہ بورڈ کے باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں انٹر زونل چیمپیئن شپ بھی جیت لی.19 دار الرحمت غربی اور وسطی ربوہ کی مساجد کے نام المسیح (i) دارالرحمت غربی ( غلہ منڈی) ربوہ کی مسجد کا نام اہل محلہ کی خواہش پر حضرت خلیفتہ اُتر الثالث نے مسجد ناصر رکھا.۱۹۵۴ء میں آپ نے ہی اس مسجد کا سنگ بنیا درکھا تھا.(ii) دار الرحمت وسطی کی مسجد کا نام اہل محلہ کی درخواست پر اس سال حضور انور نے مسجد نصرت‘ رکھا.مورخہ 9 نومبر ۱۹۶۳ ء کو آپ نے ہی اس مسجد کا سنگ بنیا د رکھا تھا.20
تاریخ احمدیت.جلد 23 709 سال 1966ء آٹھواں کل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ تعلیم الاسلام کا لج باسکٹ بال کلب ربوہ کے زیر اہتمام یہ ٹورنامنٹ ۱۰ تا ۱۳ فروری ۱۹۶۶ء منعقد ہوا.کلب سیکشن میں ویسٹ پاکستان ریلوے نے چیمپئن شپ کا اعزاز برقرار رکھا.کالج اور سکول سیکشنز میں دیال سنگھ کالج لاہور اور پی اے ایف پبلک سکول سرگودھا چیمپئن قرار پائے.مورخه ۱۳ فروری ۱۹۶۶ء کو کلب سیکشن کا فائنل مقابلہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے تشریف لا کر دونوں ٹیموں کے نامورکھلاڑیوں کوشرف ملاقات بخش اور کھیل بھی ملاحظہ فرمایا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا لاہور میں ورود مسعود حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد آخر فروری ۱۹۶۶ میں دو ایام کے لئے لاہور تشریف لا کر کوٹھی پام ویو ( ڈیوس روڈ نزد ہوٹل ایمبیسیڈ ر) میں قیام فرمایا.ان دنوں حضور انور نے پام ویو میں ہی نمازیں پڑھائیں.دوران قیام سینکڑوں احباب جماعت سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا.حضور یکم مارچ ۱۹۶۶ کولاہور سے ربوہ تشریف لے آئے.اس کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۳۰ ستمبر ۱۹۶۶ کو دار الذکر لاہور میں تشریف لا کر لاہور میں پہلا خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.اس موقع پر حضور انور نے مکرم ملک طاہر احمد صاحب (حال امیر جماعت ضلع لاہور) کے انجینئر نگ یو نیورسٹی لاہور میں اول آنے اور دیگر میڈل حاصل کرنے پر بطور انعام ان کے نکاح کا اعلان بھی فرمایا اور خطبہ نکاح میں خاص طور پر ذکر فرمایا کہ اس موقع پر حضور بطور انعام ان کا نکاح پڑھا رہے ہیں.حضور تین روز تک قیام فرمانے کے بعد ۲ اکتوبر ۱۹۶۶ کو سوا دو بجے دو پہر بذریعہ موٹر کار ربوہ واپس تشریف لے گئے.کل پاکستان بین الکلیاتی مباحثات تعلیم الاسلام کالج اسٹوڈنٹس یونین کے زیر اہتمام ۲،۵ مارچ ۱۹۶۶ء کو بارہویں کل پاکستان بین الکلیاتی اردو و انگریزی مباحثات منعقد ہوئے.اردو مباحثہ میں پاکستان بھر کے ۲۸ اور انگریزی مباحثہ میں ۲۲ کالجوں کے طلباء نے حصہ لیا.اردو مباحثہ میں ٹرافی ڈاؤ میڈیکل کراچی اور انگریزی مباحثہ میں گورنمنٹ کالج لاہور نے ٹرافی جیتی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 710 سال 1966ء مسعوداحمد خان صاحب دہلوی کے مکان کا سنگ بنیاد ۱۴ مارچ ۱۹۶۶ء کو بعد نماز عصر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسعود احمد خان صاحب دہلوی مدیر رسالہ انصار الله و نائب مدیر الفضل ربوہ کے مکان کی بنیا دا اپنے دست مبارک سے رکھی.اس موقع پر ( حضرت ) صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بارایٹ لاء صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا القمان احمد صاحب، حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب اور دیگر سینکڑوں مخلصین جماعت موجود تھے.جناب دہلوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ حضور کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد ربوہ کے محلہ جات میں تعمیر ہونے والا غالبا یہ پہلا رہائشی مکان (واقع دارالرحمت غربی ربوہ ) تھا جس کی بنیاد حضور نے بنفس نفیس تشریف لا کر اپنے دستِ مبارک سے خود رکھی تھی.کوئٹہ میں سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کی نمائش شیخ محمد حنیف صاحب امیر کوئٹہ ڈویژن نے مجلس شوری مارچ ۱۹۶۶ء کے دوران بیان فرمایا کہ کوئٹہ انفرمیشن سنٹر نے مختلف لائبریری والوں کو اس سال مدعو کیا تھا کہ وہ اپنالٹر پچر پیش کریں تا ایک چھوٹی سی نمائش ہو جائے.مجھے بھی اطلاع دی گئی.اگر چہ شارٹ نوٹس تھا.لیکن پھر بھی میں نے کوشش کر کے تحریک جدید اور حضرت مصلح موعود کے طفیل قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں جو تراجم ہوئے ہیں وہ اور کچھ اور کتب اور رسائل نمائش میں اپنا ایک سٹال بنا کر اس پر رکھ دیئے.کوئٹہ ڈویژن کے کمشنر اس نمائش کی افتتاحی رسم کے لئے تشریف لائے.آپ نے ساری نمائش کا چکر لگایا اور ہر سٹال پر چند سیکنڈ کے لئے ٹھہرے بھی.میں ان کی وجہ سے خود سٹال پر کھڑا ہو گیا.جب وہ ہمارے سٹال کے قریب تشریف لائے تو میں نے کہا کہ یہ ہماری جماعت کا سٹال ہے اور جب میں نے قرآن کریم کے تراجم کا ذکر کیا.تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ انہیں میری بات کا اعتبار نہیں آیا.چنانچہ انہوں نے ایک ایک ترجمہ اُٹھایا اور اسے کھول کر دیکھا اور پھر سٹال پر کھڑے ہو کر تمام موجود لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا یہ جماعت فی الواقع بڑا ٹھوس کام کر رہی ہے.اس کے بعد میں نے انہیں دوسری کتب کے متعلق بھی معلومات بہم پہنچائیں.25
تاریخ احمدیت.جلد 23 711 سال 1966ء جامعہ احمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلہ جات ۲۲ تا ۲۴ مارچ ۱۹۶۶ء کو عربی، اردو اور انگریزی زبانوں میں جامعہ احمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلہ جات منعقد ہوئے.ان مقابلہ جات میں کل ۵۴ مقررین نے حصہ لیا.منصفین حضرات نے طلبائے جامعہ احمدیہ کی تقاریر کی تعریف کی.مقابلہ جات کے آخری روز سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے از راہ شفقت جامعہ احمدیہ میں تشریف لا کر امتیاز حاصل کرنے والے طلباء میں انعامات تقسیم فرمائے.26 آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنا منٹ مورخہ ۲۲ اپریل ۱۹۶۶ء کو ربوہ میں دوسرا آل پاکستان طاہر کبڈی ٹورنامنٹ منعقد ہوا.ٹورنامنٹ کا افتتاح مکرم ہمایوں فیض رسول صاحب ڈپٹی کمشنر جھنگ نے فرمایا.محترم صاحبزادہ (حضرت) مرزا طاہر احمد صاحب مہتم صحت جسمانی وصدر ٹورنامنٹ کمیٹی نے محترم ڈپٹی کمشنر صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے ربوہ تشریف لا کر کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کی.یہ ٹورنامنٹ تین روز جاری رہنے کے بعد مورخہ ۲۴ را پریل ۱۹۶۶ء کو اختتام پذیر ہوا.ربوہ کی مقامی ٹیموں کے علاوہ گوجرانوالہ، سیالکوٹ، سرگودھا، واپڈا اور ریلوے کی مشہور ٹیموں نے ٹورنامنٹ میں شرکت کی.ربوہ کی اے ٹیم نے ریلوے کی ٹیم کو شکست دے کر چیمپیئن شپ کا اعزاز حاصل کیا.ٹورنامنٹ کمیٹی کی درخواست پر حضرت خلیفتہ امسیح الثالث نے کامیاب ٹیموں اور کھلاڑیوں میں اپنے دست مبارک سے انعامات تقسیم فرمائے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث سے زرعی یونیورسٹی کے وفد کی ملاقات مورخه ۲۴ اپریل ۱۹۲۶ء بروز اتوار زرعی یو نیورٹی لائل پورکے ایڈ وائز رو دیگر پروفیسر جو سب امریکن تھے شیخ حشمت اللہ صاحب احمدی صراف لائل پور کی تحریک پر ربوہ میں حضرت خلیفتہ اسیح الثالث سے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.حضور انور نے ان سے ایک گھنٹہ تک مختلف موضوعات پر گفتگو فرمائی.بعد ازاں وفد کور بوہ کی سیر کرائی گئی.وفد میں درج ذیل افراد شامل تھے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 712 سال 1966ء (i) ڈاکٹر ای سی ایرکسن مع فیملی ایڈوائزر زرعی یونیورسٹی لائل پور (ii) ڈاکٹر سی بی ہارسٹن مع لڑکا (iii) این اوسینپ پروفیسر (iv) ڈاکٹرلوئیس مینس مع فیملی غیر مبائعین کی طرف سے اپنی ناکامی کا کھلا اعتراف ۱۹۱۴ء میں خلافت ثانیہ کے شروع میں غیر مبایعین کو یہ ٹھوکر لگی کہ ہم جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام نبوت کو پیش کرتے آئے ہیں اس سے غیر احمدی کچھ بدکتے ہیں ہمیں ان کے قریب ہونا چاہیئے تا کہ وہ جوق در جوق ہمارے ساتھ شامل ہوں.اس قربت کے خیال سے انہوں نے اپنے بعض عقائد میں بھی تبدیلی کی اور عمل میں بھی فرق کر لیا.احمد یہ خلافت کی مضبوط اور بابرکت مرکزیت کو بھی خیر باد کہہ دیا.انہوں نے اپنے مشنوں“ اور ” ترویج علوم فرقانیہ کی بناء پر توقع رکھی کہ لوگ ہمارے گرد پروانوں کی طرح جمع ہو جائیں گے.انہوں نے خلاف ارشاد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی لڑکیوں کے رشتے غیروں میں کر دئیے.حالانکہ ان کو معلوم ہونا چاہیئے تھا کہ الہی جماعتوں کی ترقی کا راز مامور وقت علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق پر گامزن ہونے میں ہوتا ہے نہ اپنی سکیموں پر عمل پیرا ہونے میں.نصف صدی گزرنے کے بعد ان غیر مبالع بھائیوں کی آنکھیں گھل گئیں اور وہ بر ملا اپنی غلطی کا اعتراف کرنے لگے چنانچہ لکھا:.(۱) واقعات و تجربہ نے ہمارے سامنے یہ تلخ حقیقت واضح کر دی ہے کہ اشاعت اسلام کے میدان میں ہماری ساری کامیابی کا راز ہماری جماعتی ترقی و توسیع سے وابستہ ہے.ہم نے عام طور پر اپنی مسلمان قوم سے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں کہ ہمارے مشنوں اور ترویج علوم فرقانیہ کے کارناموں کو دیکھ کر ہمارے دینی مقاصد میں لوگ از خود شمولیت و شرکت اختیار کریں گے وہ تمام حرف غلط 28 کی طرح ثابت ہوئی ہیں“.(۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے استحکام اور احباب سلسلہ کے باہمی تعلقات کو استوار کرنے کے لئے یہ تجویز فرمایا تھا کہ ہماری اولادوں کے رشتے ناطے جماعت کے اندر ہونے چاہئیں اور انجمن نے حتی الوسع باہمی رشتے ناطوں کے لئے کوشش بھی کی ہے لیکن افسوس ہے کہ اس سلسلہ میں خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی.عام طور پر لڑکوں کے رشتے باہر کر لئے جاتے ہیں اور جماعت میں لڑکیوں کے رشتے تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.یہ ایک ناخوشگوار
تاریخ احمدیت.جلد 23 713 سال 1966ء 29 حقیقت ہے جس سے اجتناب ضروری ہے.امام وقت کے ارشاد کی تعمیل میں ضروری ہے کہ ہم جماعت میں رشتے ناطے کریں خواہ ہمیں اس میں کوئی نقصان یا تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے.ربوہ میں خواتین کا ایک عظیم الشان جلسہ مورخہ 4 مئی ۱۹۶۶ء کور بوہ کی احمدی خواتین نے ٹرنمارک میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی خوشی میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کیا.یہ مسجد حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے عہد خلافت پر ۱۹۶۵ء میں نصف صدی پوری ہونے کی خوشی میں حضرت سیدہ اُتم متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کی تحریک پر احمدی مستورات کے چندہ سے تعمیر کی جارہی تھی.۶ مئی ۱۹۶۶ء اس مسجد کا سنگ بنیادر کھے جانے کا دن تھا.یہ جلسہ لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کے ہال میں زیر صدارت محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ منعقد ہوا.تلاوت قرآن کریم سے جلسہ کا آغاز ہوا.جس کے بعد حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے ایک نہایت ایمان افروز تقریر فرمائی.جلسہ کے اختتام پر اجتماعی پر سوز دعا کی گئی.30 راولپنڈی میں فارن مشن کا قیام اس سال تحریک جدید کے زیر انتظام فارن مشن کی ایک شاخ راولپنڈی میں کھولی گئی.جس میں مرکزی نمائندہ مسعود احمد صاحب جہلمی نے انچارج فارن مشن کی حیثیت سے اپنے فرائض عمدگی سے انجام دیئے.بیرونی ممالک کے مہمانوں، معززین، اعلیٰ افسروں اور ملکی نمائندوں سے رابطہ قائم کر کے ان کو سلسلہ سے متعارف کرایا اور جماعتی لٹریچر خاصی تعداد میں ھدیہ پیش کیا.سلسلہ کے تین بزرگوں کا ذکر......سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث نے یکم جولائی ۱۹۶۶ء میں ایک خطبہ نکاح میں سلسلہ کے دو بزرگوں راجہ علی محمد صاحب اور خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.محترم راجہ علی محمد صاحب سابق ناظر بیت المال نے جماعت کی بہت خدمت کی ہے.....محترم خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم گورنمنٹ کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمبے عرصے تک جماعت کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق پانے والے بزرگ ہیں اور عملاً انہوں نے سلسلہ کی خدمت کرتے ہوئے ہی اپنی جان دی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 714 سال 1966ء ا را گست ۱۹۶۶ء کو حضور نے خطبہ نکاح کے دوران فرمایا:.محترم بھائی محمود احمد صاحب (سرگودھا) سلسلہ کے پرانے بزرگ ہیں اور عزیزم مکرم و دود احمد صاحب کے بڑے بھائی مکرم ڈاکٹر حافظ مسعود احمد صاحب کو بھی اللہ تعالیٰ نے خدمت سلسلہ کی بہت توفیق عطا فرمائی ہے.33 66 جناب محمد علی کلے مسجد احمد یہ فرینکفورٹ میں ستمبر ۱۹۶۶ء میں باکسنگ کے عالمی ہیوی ویٹ چیمپیئن جناب محمد علی کلے ، جب مشہور جرمن با کسه کارل ملڈن برگر سے مقابلے کے لئے فرینکفورٹ پہنچے تو آپ مسجد احمدیہ فرینکفورٹ بھی تشریف لے گئے.اس موقعے کا ایک یادگار فوٹو اخبار پاکستان ٹائمنر“ PAKISTAN TIMES (لاہور ) ااستمبر ۱۹۶۶ ء کے صفحہ ۱۲ پر شائع ہوا.جس میں جناب محمد علی کلے کو باجماعت نماز ادا کرتے ہوئے دکھایا گیا.فوٹو میں مسجد احمد یہ فرینکفورٹ کے امام مولوی فضل الہی صاحب انوری اور مسجد احمد یہ ہمبرگ کے امام اور مغربی جرمنی میں احمدیہ مشن کے مبلغ انچارج چوہدری عبداللطیف صاحب بھی قعدہ کی حالت میں نظر آرہے تھے.فوٹو کے نیچے یہ عبارت درج تھی.امریکہ کے ہیوی ویٹ عالمی چیمپیئن باکسر محمد علی جو تصویر میں بائیں جانب سے دوسرے نمبر پر ہیں فرینکفورٹ شہر کی واحد مسجد میں نماز ادا کر رہے ہیں یہ امر قابل ذکر ہے کہ باکسنگ کے اس مقابلے میں جناب کلے صاحب نے اپنے مد مقابل کو شکست فاش دے کر ان عالمی چیمپین کا خصوصی اعزاز برقرار رکھا.جماعت احمد یہ صومالیہ کے وزیر تعلیم کی نظر میں راولپنڈی کی مقامی جماعت کی طرف سے صومالیہ کے وزیر تعلیم مکرم احمد یوسف صاحب کے اعزاز میں مورخہ ۴ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا.جس میں وزیر موصوف نے اشاعت اسلام کے بارہ میں جماعت احمدیہ کی کامیاب مساعی کو ایک عظیم کارنامہ قرار دیا اور کہا کہ احمدیہ جماعت کی مساعی سے اسلام سرعت کے ساتھ دنیا میں پھیل رہا ہے.آپ نے کہا کہ جماعت احمد یہ اشاعت اسلام کا جو فریضہ سرانجام دے رہی ہے درحقیقت یہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے.وزیر موصوف نے عالم اسلام کی اشاعت اسلام کے سلسلہ میں بے اعتنائی پر افسوس کا اظہار کیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 715 سال 1966ء نیز صومالیہ کے حالات اور اندرونی مسائل کا ذکر کر کے اپنے ملک کی خوشحالی اور استحکام کے لئے دعا کی درخواست کی.ایک یورپین دوست کی بیعت رسالانہ اجتماع مجلس انصارالله مرکز یہ ربوہ منعقدہ ۲۸ تا ۳۰ اکتوبر ۱۹۶۶ء کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے اسکاٹ لینڈ کے رہنے والے نو مسلم دوست عبدالجبار ہیل صاحب کی بیعت قبول فرمائی.یہ صاحب ۲۰ سال قبل برصغیر آئے تھے.یہیں مسلمان ہوئے اور یہیں شادی کی.آپ کراچی کے بعض احمدی احباب کے زیر تبلیغ تھے.گوردوارہ میں سکھوں کو تبلیغ ۲۸ نومبر ۱۹۶۶ء کوسید غلام مہدی صاحب ناصر مبلغ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے گوردوارہ موسیٰ بنی مائنز میں حضرت گورونانک کی سوانح ، آپ کے مسلمانوں سے تعلقات اور تعلق باللہ پر روشنی ڈالی.اس سلسلہ میں انہوں نے نہایت زور دار الفاظ میں حضرت گور و بابا نانک علیہ الرحمۃ کی درج ذیل پیشگوئی کا تذکرہ کیا:.تاں مردانے پچھیا گورو جی! کبیر بھگت جیہا کوئی ہور بھی ہوئیا ہے.سری گورونانک جی آکھیا.مردانیاں ! اک جھیٹا ہوسی.پر اساں توں پیچھے سو برس توں بعد ہوسی.پھر مردانے نے پچھیا کیہڑے تھا ئیں اتے ملک وچ ہوسی.تاں گورو کیہا مردانیاں ! وٹالے دے پر گنے وچ ہوسی.سن مردانیاں ! 3 نر نکار دے بھگت سب اگو رُوپ ہندے ہن.پر اوہ کبیر بھگت نالوں وڈا ہوسی.یعنی مردانے نے پوچھا کہ گورو صاحب! کوئی کبیر بھگت سے بڑا اور بھی گورو ہوگا.اگر ہوگا تو کہاں اور کب ہوگا.تو گور و صاحب نے فرمایا کہ آنے والا گور و ہم سے سو برس کے بعد آئے گا اور وہ جٹ یعنی زمیندار ہوگا اور وٹالے کے پر گنے میں، یعنی تحصیل بٹالہ میں آئے گا.جوصو بہ پنجاب ضلع گورداسپور کی ایک تحصیل ہے.اور یہ کہ وہ کبیر بھگت سے بڑا ہوگا.اس پیشگوئی کے مطابق سکھوں کی دسویں بادشاہی کے سوسال بعد قادیان تحصیل بٹالہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو مبعوث فرما کر گوروجی کے خدا تعالیٰ سے بچے تعلق کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیا.اس تقریر کے بعد صو بیدار کرتار سنگھ صاحب منتظم گور پرپ کپور تھلوی نے اپنی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 716 سال 1966ء اور گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کی طرف سے شکریہ ادا کیا اور اس پیشگوئی کو دھرایا.بعض معتمر سکھ اصحاب بعد ازاں مبلغ سلسلہ سے ملے اور خوشی کا اظہار کیا.مرز اعبدالحق صاحب کی خدمات کا ذکر 38 ۳۰ اکتو بر۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے مرزا عبدالحق صاحب (سابق امیر جماعت ہائے احمد یہ صوبہ پنجاب) کی صاحبزادی محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان کیا اور خطبہ نکاح میں آپ کی دینی خدمات کا خصوصی تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:.در جسم تو تھکا ہوا بھی ہے اور ٹوٹا ہوا بھی لیکن روح بڑی خوشی محسوس کر رہی ہے کیونکہ اس وقت ایک ایسی عزیزہ کے نکاح کے اعلان کے لئے کھڑا ہوں جس کے والد نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود کے ساتھ مل کر خدمت اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی تو فیق حاصل کی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خود اپنی مغفرت اور رحمت کے نتیجہ میں ہر رنگ میں بہتر سے بہتر جزا محترمی و مخدومی مرزا عبدالحق صاحب کو اپنی طرف سے دے.نیز اس رنگ میں بھی جزا دے کہ ان کی اولاد میں بھی وہ جذبہ خدمت اور وہ جذبہ فدائیت جوان بچوں کے والد مخدومی مرزا عبدالحق صاحب سے مختلف وقتوں میں اسلام اور احمدیت کے لئے ظاہر ہوتا رہا ہے، موجزن رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے فدائی اور رسول حملہ کے عاشق اور سلسلہ احمدیہ کے خادم اور بے نفسی سے خدمت کرنے والے وجود پیدا کرتا رہے اور ہمیشہ ہی اس خاندان پر اپنے فضل اس رنگ میں فرما تار ہے کہ وہ دنیا میں بھی ایک نمونہ بنیں اور اخروی زندگی میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے خوشیوں کے دن دیکھیں کہ وہاں کی خوشیاں ہی حقیقی خوشیاں ہیں.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی کوٹھی کا سنگ بنیاد 39 حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے نےنومبر ۱۹۶۶ء کو اپنے فرزند اکبر صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کی کوٹھی کا سنگ بنیاد رکھا.اس تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد صحابہ کرام اور افرادِ
تاریخ احمدیت.جلد 23 717 خاندان نے بھی بنیادی اینٹیں رکھنے میں حصہ لیا.جس کے بعد حضور نے اجتماعی دعا کرائی.بزم اردو تعلیم الاسلام کالج کی افتتاحی تقریب سال 1966ء 40 ۱۴ نومبر ۱۹۶۶ء کو بزم اردو تعلیم الاسلام کالج کی سال نو کی افتتاحی تقریب ہوئی.مہمان خصوصی جناب شیخ محمد حسین صاحب کی.کیو.اے.ہی.ایس.پی کمشنر سرگودھا ڈویژن تھے.بزم اردو کے نگران پروفیسر ناصر احمد صاحب پروازی نے ایڈریس پیش کرتے ہوئے تعلیم الاسلام کالج کی مختصر تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد کالج کو کن مشکلات اور نا مساعد حالات سے دوچار ہونا پڑا.ایڈریس کے بعد کمشنر صاحب سرگودھا ڈویژن نے اپنی تقریر میں کالج کی مثالی ترقی اور شاندار علمی وادبی خدمات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا :.قدم قدم پر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود یہ درسگاہ جس طریق پر علمی وادبی خدمات سرانجام دے رہی ہے.اس کے لئے اس ادارہ کے جملہ اراکین و اساتذہ قابل مبارکباد ہیں.کالج کے شاندار نتائج اور کھیلوں کے اعلیٰ معیار پر بھی میں آپ سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.مجھے یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی ہے کہ یہ ادارہ غریب اور نادار طلبہ کا خاص خیال رکھتا ہے اور غریب والدین کے بچوں کو نہایت کم پیسوں پر تعلیمی اور اقامتی سہولتیں بہم پہنچارہا ہے.قلیل معاوضہ پر طلباء کی خوراک کا بندوبست بھی ہے.جس کے لئے کالج کی انتظامیہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے.اس کالج کی ادبی سرگرمیاں بھی قابل ستائش ہیں.کالج کی بزم اردو بڑی تندہی سے اردو ادب کی خدمت کر رہی ہے مجھے قوی امید 66 ہے کہ بزم اردو کا وجودار دو زبان کی ترقی اور ترویج میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوگا.“ کمشنر صاحب کے خطاب کے بعد بزم اردو کے نئے صدر جناب انور احمد صاحب باہری کی صدارت میں تقریب کی بقیہ کا روائی اختتام پذیر ہوئی.بھارت کے گئو پوجکوں کو چیلنج بھارت کے کٹر ہندو جماعتوں سے متاثر ہو کر بھارتی حکومت نے ہر صوبے کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ گائے کی قربانی پر پابندی لگا سکتی ہے.اس پر ہفتہ وار لا ہور (۲۱ نومبر ۱۹۶۶ء) میں جماعت احمدیہ کے فاضل مربی جناب مہاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل و فاضل سنسکرت سابق یوگندر پال شرما وڈ یار تھی گورو کل کانگڑی ہر دوار کی طرف سے حسب ذیل چیلنج دیا گیا:.
تاریخ احمدیت.جلد 23 718 سال 1966ء ان دنوں بھارت میں جن سنگھ ، آریہ سماج، ہندو مہا سبھا، سناتن دھرم اور دیگر ہندو فرقے بھیا نک اندولن کر رہے ہیں.ان کا کہنا ہے کہ ہندو دھرم میں گائے کو ایک پوتر اور پوجیہ جانور مانا گیا ہے اور وہ دھرم گرنتھوں میں گئو کا مارنا اور اس کا ماس کھانا مہا پاپ مانا گیا ہے.میرے نزدیک یہ خالصۂ ایک سیاسی مسئلہ ہے، جسے دھرم کا روپ دیا گیا ہے.شاید اسی باعث بھارت کی سیکولر حکومت نے بھی اعلان کر دیا ہے.کہ بے شک ہندو گر تھوں میں گائے کی تقدیس پائی جاتی ہے.اس سے مرکز کو انکار نہیں.اسی لئے اُس نے ہر صوبہ کو اختیار دیا ہے کہ اگر وہ اپنے صوبہ میں ایسی کوئی پابندی لگانا چاہے تو وہ اس کا مجاز ہے.لیکن دراصل ایسا کر کے مرکز نے ایک تیر سے دونشانے لگانے کی کوشش کی ہے.ہندؤوں کو گٹو کی تقدیس کے اعتراف سے چپ کرا دیا اور مسلمانوں کا منہ اس طرح بند کر دیا کہ مرکز نہیں صوبے ایسی پابندیاں لگارہے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی ایسی ہی دوغلی پالیسیوں نے آج اُسے دنیا بھر میں بدنام کر رکھا ہے.میں کانگریس کے ان کٹر ہند ولیڈروں کو اور ہندومہاسبھائیوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنی پستکوں سے ایک حوالہ بھی ایسا نکال کر دکھا ئیں.جس میں گائے کا مارنا پاپ اور اس کا ماس کھانا مہا پاپ لکھا ہو.میرا یہ چیلنج آریہ سماجی لیڈروں، پنڈتوں ، ہندو یونیورسٹی بنارس اور دیگر تمام ہندو نیتاؤں کو ہے.جو اس مفروضہ پر ایمان رکھتے ہیں.وہ میرے پھیلنج کا جواب اپنے اخبارات میں شائع کریں.تاکہ بیرونی دنیا کو یہ معلوم ہو کہ اس خطر ناک مطالبہ کی بنیاد کس پر ہے.اور بیرونی دنیا یہ تسلیم کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ سارا ڈھونگ صرف اور صرف بھارت کے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے رچایا گیا ہے.ور نہ میں ثابت کر دکھاؤں گا کہ ہند و پستکوں اور گرنتھوں کی رو سے گائے کا کھانا پاپ نہیں ثواب ہے بلکہ جو اسے نہیں کھا تا وہ پاپی ہے! خادمِ اسلام.مہاشہ محمد عمر سابق یوگندر پال معرفت ہفتہ وار لاہور بیڈن روڈ لاہور مسجد نصرت دستگیر کراچی کا سنگ بنیاد حضرت خلیفة المسیح الثالث نے مورخہ ۲۳ نومبر ۱۹۶ء کو بعد نماز فجر مسجد نصرت دستگیر کراچی کا سنگ بنیا درکھا.حضور نے ایک اینٹ لے کر دیر تک دعا کی پھر اس کو نصب فرمایا.اس کے بعد 4 مزید اینٹیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور امیر صاحب جماعت احمد یہ کراچی و مربیان سلسلہ نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 رکھیں.پھر حضور نے اجتماعی دعا کروائی.719 جماعت ہائے احمدیہ آزاد کشمیر کا دوسرا سہ روزہ جلسہ سالانہ سال 1966ء جماعت ہائے احمدیہ کوٹلی آزاد کشمیر کا دوسرا سہ روزہ سالانہ تربیتی اجتماع مورخه ۲۴ تا ۶ ۲ نومبر ۱۹۶۶ء منعقد ہوا.اس جلسہ کی نہایت ایمان افروز کا رروائی بیان کرتے ہوئے مکرم محمد اسد اللہ کاشمیری صاحب مربی سلسلہ احمد یہ رقمطراز ہیں کہ سینکڑوں غیر از جماعت احباب نے بھی جلسہ میں شامل ہوکر استفادہ کیا.متعدد لاؤڈ سپیکر کا انتظام تھا.اجتماع میں جہلم، میر پور، راولپنڈی اور آزادکشمیر کے اطراف واکناف سے احباب شامل ہوئے.جمعیت اہلحدیث کو ٹلی نے بھی انتظامی امور میں جماعت سے تعاون کیا.ربوہ سے بھی علمائے کرام تشریف لائے ہوئے تھے.مستورات نے بھی جلسہ سُنا.جلسہ گاہ اور سٹیج رنگ برنگ جھنڈیوں، قرآنی آیات تبلیغی عبارات اور دینی اشعار پر مشتمل درجنوں قطعات اور خوشنما بورڈوں سے مزین کیا گیا تھا.تقاریر کوریکارڈ کرنے کے لئے ریکارڈنگ مشین بھی لگائی گئی تھی.تصاویر لینے کے لئے فوٹوگرافروں کا بھی انتظام تھا.رضا کار اور خدام جلسہ گاہ کے ارد گرد مختلف ڈیوٹیوں پر متعین تھے.جلسہ گاہ کا گیٹ خوشنما قطعات سے آراستہ بار وفق اور مزین تھا.ربوہ کے نمونہ پر سٹیج لکڑیوں کے شہتیروں اور تختوں سے بنایا گیا تھا.سٹیج کے اوپر خیمہ تانا گیا تھا.گیٹ پر بک سٹال بھی لگایا گیا تھا.ہنگامی حادثات فوری علاج معالجہ اور طبی ضروریات کے پیش نظر ظفر احمد صاحب کلیم نامی ڈاکٹر بھی مقرر کیا گیا تھا غرضیکہ ہر ضرورت کا خیال رکھا گیا تھا.تین دن تک مسلسل چھ اجلاس ہوئے جن میں مکرم صاحبزادہ مرزار فیع احمد سلمہ اللہ مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب ، مکرم مولانا محمد شفیع صاحب اشرف اور خاکسار راقم الحروف نے سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ، صداقت بانی سلسلہ احمدیہ، وفات حضرت عیسی علیہ السلام کے عنوانات پر تقاریر کیں.باہمی مسلم فرقوں کے اتحاد کی ضرورت واہمیت بھی بیان کی گئی اور مختلف سوالات کے جوابات بھی دیئے گئے.جلسہ کے دوررس اثرات ظاہر ہوئے متعدد بیعتیں ہوئیں.لوگوں کی مزید تسکین کی خاطر جلسہ کے معابعد خاکسار نے لوگوں کےسوالات کے جوابات میں ایک کتابچہ جماعت احمدیہ سے متعلق بعض سوالات کے جوابات کے نام سے لکھا جسے جماعتہائے احمدیہ آزاد کشمیر نے کوٹلی سے شائع کیا اور سارے آزاد کشمیر میں تقسیم کیا جس سے متعصب طبقہ کی پھیلائی ہوئی مزید غلط فہمیاں دور ہو گئیں.کوٹلی کے متعصب طبقہ نے جبکہ بنیادی جمہوریتوں کے انتخابات قریب آرہے تھے اور انہیں یقین تھا کہ احمدی امیدوار محمد منظور احمد (ایڈووکیٹ ) سے مقابلہ
تاریخ احمدیت.جلد23 720 سال 1966ء ہوگا تو اس نے چنیوٹ (پنجاب) سے مولوی منظور احمد چنیوٹی کو سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا جلسہ رکھ کر بلایا.جس نے احمدیوں کے خلاف سخت بدزبانی اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے جلسہ میں یہ فتویٰ سنایا کہ احمدیوں کو ووٹ دینا حرام ہے.چنیوٹی نے جلسہ میں بار بار مقامی جماعت کو بلکہ مقامی مربی سلسلہ خاکسار راقم الحروف کا نام لے کر مباحث و مباہلہ کا چیلنج دیا.مقامی جماعت کے نمائندوں نے محمد منظور احمد صاحب (ایڈووکیٹ) کی سرکردگی میں فوراً جلسہ کے دوران ہی انہیں یہ تحریر حاضر ہو کر پہنچا دی کہ ہم مباحثہ ومباہلہ دونوں کے لئے تیار ہیں.اس کے لئے وقت اور تاریخ اور دیگر شرائط ہم سے طے کی جائیں.اب مولوی منظور احمد چنیوٹی نے ذرا سنبھل کر مباحثہ اور مباہلہ دونوں سے یہ کہہ کر گریز کیا میں مباحثہ نہیں مباہلہ کروں گا اور مباہلہ بھی مقامی جماعت سے نہیں جماعت احمدیہ کے مرکزی خلیفہ ربوہ سے کروں گا.حالانکہ وہ مقامی جماعت کو بار بار مباہلہ ومباحثہ کا چیلنج دے چکے تھے کہ میں اُن کے کسی بھی نمائندے سے مباہلہ و مباحثہ کرنے کے لئے تیار ہوں جو بھی سامنے آجائے.اگر چہ ہم جانتے تھے کہ یہ سب انتخابی سٹنٹ ہے.تاہم اتمام حجت کے لئے خاکسار نے مولوی منظور احمد چنیوٹی کو چنیوٹ کے پتہ پر جبکہ وہ کوٹلی سے جلدی جاچکے تھے ، ایک رجسٹری خط بھیجا جس میں لکھا گیا تھا کہ اگر وہ بچے ہیں اور مقامی سیاسی کھلاڑیوں کے آلہ کار بن کر محض فرقہ وارانہ نفرت پھیلانا نہیں چاہتے تو قرآنی شرائط اور سنت نبوی کے مطابق اس مباہلہ کی دعوت کو قبول کرلیں جو سب سے پہلے بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب انجام آتھم میں تمام علماء ہند اور گدی نشینوں کو دی تھی اور آج بھی شائع شدہ موجود ہے کیونکہ تاحال کسی عالم نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا.خط میں یہ بھی درج کیا گیا کہ ایک ماہ کے اندراس خط کا جواب دے دیں.اگر انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو اُن کا مباحثہ ومباہلہ دونوں سے فرار سمجھا جائے گا.عذرات کو توڑنے کے لئے اس خط کی نقول رجسٹری کر کے کوٹلی کے ان معززین کو بھی بھیجی گئیں جنہوں نے مولوی چنیوٹی کو بلا کر جلسہ کرایا تھا.مگر نہ ایک ماہ کے اندر نہ ایک ماہ کے بعد مولوی چنیوٹی نے کوئی جواب دیا نہ اس کے مقامی بلانے والوں نے کسی کی طرف سے جواب نہ ملنے پر خاکسار نے ایک اور پمفلٹ ” مولوی منظور احمد چنیوٹی کا مباحثہ و مباہلہ سے فرار کے نام سے کوٹلی سے شائع کیا اور لوگوں میں تقسیم کیا.ایک پمفلٹ مولوی منظور احمد چنیوٹی کو بھی بذریعہ ڈاک بھیجا گیا.مگر کسی طرف سے صدائے برنخو است.اس مکمل خاموشی اختیار کر لینے سے صاف ظاہر ہو گیا کہ یہ جلسے محض انتخابی سٹنٹ ہی تھے.صرف مذہب کے نام سے سادہ لوح عوام کے جذبات انگیخت کئے جارہے تھے جن کو
تاریخ احمدیت.جلد 23 721 سال 1966ء 43 عوام نے بعد میں احمدی امیدوار منظور احمد صاحب ایڈووکیٹ ابن حاجی امیر عالم صاحب کو کامیاب بنا کر نا کام کر دیا.کچھ عرصہ کے بعد مولوی منظور احمد چنیوٹی نے حسب عادت پاکستان میں حافظ آباد (گوجرانوالہ) کے ایک جلسہ میں جا کر احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی اور بیان کیا کہ انہوں نے امام جماعت احمدیہ کو مباہلہ کا چیلنج دیا مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور پھر مقامی جماعت کو چیلنج دیئے.جس پر حافظ آباد کی مقامی جماعت احمدیہ نے جلسہ میں حاضر ہو کر آزاد کشمیر کوٹلی کا شائع کردہ مذکورہ پمفلٹ بنام ”مولوی منظور احمد چنیوٹی کا مباہلہ و مباحثہ سے فرار پیش کیا اس پر مولوی صاحب بہت سٹپٹائے مگر کوئی معقول جواب نہ بن پڑا اور شرمندگی سے پسینہ پونچھتے ہوئے واپس چنیوٹ آکر دم لیا.سائنس کانفرنس میں احمدی سائنس دانوں کے گرانقدر مقالے ۴ تا ۶ دسمبر ۱۹۶۶ء کو مغربی پاکستان زرعی یونیورسٹی لائلپور ( فیصل آباد) میں سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان کی آٹھویں سالانہ کا نفرنس منعقد ہوئی.جس میں پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب صدر شعبہ طبیعات تعلیم الاسلام کالج، پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب اور سید حبیب الرحمان صاحب صدر شعبہ حیاتیات نے اہم سائنسی موضوعات پر گرانقدر مقالے پڑھے.اس کانفرنس میں ملک کے نامور سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے شرکت کی.کانفرنس کا سب پروگرام اردو ہی میں ہوا اور اس میں اردو ہی میں سائنسی علوم پڑھانے پر زور دیا گیا.پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب پر نسپل گورنمنٹ تعلیم الاسلام کالج کی دعوت پر کانفرنس کے مندرجہ ذیل مقتدرمند و بین اور ممتاز سائنسدان چھ دسمبر کو ایک روز کے لئے ربوہ تشریف لائے.(۱) پروفیسر ڈاکٹر محمد افضال حسین صاحب قادری سابق صدر سائنٹفک سوسائٹی آف پاکستان وڈین سائنس فیکلٹی کراچی یونیورسٹی.(۲) ڈاکٹر منظور احمد صاحب کراچی یونیورسٹی.(۳) ڈاکٹر سید امتیاز احمد صاحب شعبہ حیاتیات کراچی یونیورسٹی.ان ممتاز شخصیات کے ہمراہ ملک کے بعض دوسرے سائنس دان بھی تھے.مندوبین نے تعلیم الاسلام کالج کی آنرز اور فزکس کی تجربہ گاہ، حیاتیات کے میوزیم اور نئے کالج کی زیر تعمیر عمارات کا معائنہ کیا.ڈاکٹر محمد افضال حسین صاحب قادری نے سائنسی علوم کی تعلیم کے مجوزہ انتظامات کے بارے میں بعض مفید تجاویز پیش کیں اور اس امر پر اظہار مسرت کیا کہ زیر تعمیر کالج
تاریخ احمدیت.جلد 23 722 سال 1966ء کے احاطہ میں سبزہ اور درختوں کا خاص اہتمام کیا گیا ہے.اور تعلیم و تدریس اور ریسرچ کی مناسبت سے ماحول کو پر سکون اور خوشگوار بنانے کی کوشش کی گئی ہے.مندوبین نے کالج کی اس روایت کو خاص طور پر سراہا کہ اس میں گذشتہ اٹھارہ ، انیس سال سے جلسہ ہائے تقسیم اسناد کی کارروائی زبان اردو میں انجام پارہی ہے.اس اعتبار سے اسے پاکستان بھر میں اولیت حاصل ہے.صوبیدار عبدالمنان صاحب دہلوی کا ذکر خیر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو سید نا حضرت خلیفۃ امسح الثالث نے مکرم صو بیدار عبدالمنان صاحب افسر حفاظت کی دختر نیک اختر امۃ الرحیم صاحبہ کے نکاح کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا: مکرم صو بیدار صاحب جو اس وقت میرے دائیں طرف ہیں.ان کے جماعت پر بہت حقوق ہیں.انہوں نے احمدیت اور مسلمانوں کی طویل عرصہ تک خدمت کی ہے.۱۹۴۷ء کے فسادات کے موقع پر جب قادیان کے قریب واقع گاؤں سٹھیالی پر سکھوں نے حملہ کیا تو اس گاؤں کے مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جو احمدی بھیجے گئے ان میں صوبیدار صاحب بھی شامل تھے.سکھوں کے ساتھ لڑتے ہوئے ان کے سینہ کے دائیں جانب گولی لگی.مگر اللہ تعالیٰ کو ان کی زندگی عزیز بھی اس لئے اس نے انہیں بچالیا.جس وقت یہ سٹھیالی سے قادیان آئے تو ان کے سارے کپڑے خون سے سرخ ہوئے ہوئے تھے.اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک حضرت مصلح موعود کی خدمت کرتے رہے اور اب تک خدمت میں مصروف ہیں.دوست دعا فرما دیں کہ خدا تعالیٰ اس رشتہ کو بابرکت بنائے اور فریقین کو خوشحال اور پرسکون زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.45 بھارتی احمدیوں کی جماعتی مساعی خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی برکت سے ۱۹۶۶ء کا سال بھارتی احمدیوں کے لئے نشاۃ ثانیہ کا سال ثابت ہوا اور ان کی دینی ، قومی اور ملی مہمات گذشتہ سالوں کی نسبت بڑھ گئیں.اور ان کا حلقہ ملک کے اعلیٰ سیاسی علمی اور تحقیقاتی اداروں تک وسیع ہو گیا.اس سال لٹریچر کی اشاعت بھی پہلے سے زیادہ ہوئی اور صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے شمالی ہند کا وسیع سفر کیا اسی طرح مبلغین سلسلہ نے تبلیغی اور بعض مرکزی زعماء نے بھی مالی نقطہ نگاہ سے جنوبی ہند کے دورے کئے.اب اس اجمال کی تفصیل دی جاتی ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 723 سال 1966ء ا.آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا لے اواں اجلاس ۱۰ تا ۱۲ فروری ۱۹۶۶ء کو جے پور شہر میں منعقد ہوا.مولوی بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی نے ڈاکٹر محمد لطیف صاحب (جے پور ) کے مشورے سے تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک موثر پروگرام اور لائحہ عمل تجویز کیا.اور اس کے مطابق اجلاس کانگریس میں شامل اہم شخصیات تک دینی لٹریچر پہنچایا.نیز خدام نے عوام میں بھی جماعت لڑ پر تقسیم کیا.محکم تعلیم جے پور کے زیر انتظام نمائش میں انگریزی و ہندی لیکچروں کا انتظام تھا.پروگرام کے اختتام پر مولوی بشیر احمد صاحب نے مختلف احباب کو جماعت احمدیہ سے متعارف کروایا اور انہیں انگریزی و ہندی لٹریچر دیا اور خاصی دیر تک اس تبلیغی ملاقات کا سلسلہ جاری رہا.مولوی بشیر احمد صاحب تینوں روز کانگریس کے اجلاس میں موجود رہے اور پنڈال کے اندر جا کر بھارتی وزیر دفاع اور دوسرے نامور نمائندگان کو آنحضرت ﷺ کی سیرت لائف آف محمد LIFE OF MUHAMMAD انگریزی و ہندی پیش کی.اسی طرح ڈاکٹرمحمد لطیف صاحب نے مقامی معز زا حباب تک انگریزی لٹریچر پہنچایا.۷ فروری ۱۹۶۶ء کوٹانڈہ ( قادیان سے قریباً ۲۲ میل دور جانب مشرق ضلع ہوشیار پور میں واقع ایک قصبہ کالج میں مولوی محمد کریم الدین صاحب شاہد، چوہدری مبارک علی صاحب اور صاحبزادہ مرزا و تیم احمد صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ نے اسلام پر اثر انگیز تقاریر کیں اور غیر مسلموں کی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا.صاحبزادہ صاحب نے تقریر کے بعد کالج لائبریری کے لئے انگریزی ترجمہ قرآن مع دیگر کتب کے تحفہ دیا.46- ۱۹۶۶ء کے آخر میں عیسائیوں کے ایک ادارہ ”ہنری مارٹن انسٹیٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز ¿HENRY MARTIN INSTITUTE OF ISLAMIC STUDIES ہندوستان بھر میں اپنی سرگرمیاں تیز کر دیں.بمبئی میں انہوں نے اپنے ماہانہ اجلاسوں میں مسلمان علماء کو بلانا شروع کیا.علماء اُن کی تقریریں سنتے اور عیسائی مقرر ان کو اپنی باتیں سناتے تھے.اس سلسلے میں دو جلسوں میں مولوی سمیع اللہ صاحب انچارج احمد یہ مسلم مشن بمبئی کو دو تقاریر کا موقع ملا.جس میں آپ نے نئے عہد نامے کے جدید یونانی نسخے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے چھپے ہوئے ریوائزڈ ورشن REVISED VERSION سے نئے عہد نامے میں تحریف کا بدیہی ثبوت پیش کر کے ہلچل مچادی اور ڈاکٹر ”لیوک LUKE صاحب کے سوالوں کے جواب حضرت مصلح موعود کی تفسیر کبیر کی روشنی میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 724 سال 1966ء دے کر سبھی کو حیرت زدہ کر دیا اور ڈاکٹر لیوک ایک لفظ نہ بول سکے.آخری مقرر مسٹر تھوما اور صدر جلسہ نے اپنے ریمارکس میں یہ اعتراف کیا کہ آج کی مجلس پر 166 اسلامی خیالات ہی کا غلبہ رہا.۱۶ را پریل ۱۹۶۶ء کو تھیو سافیکل سوسائٹی کلکتہ کے ۴۷ ویں اجلاس منعقدہ ہرندر میموریل ہال میں مولوی شریف احمد صاحب امینی مبلغ کلکتہ نے اسلام میں عالمگیر اخوت“ BROTHERHOOD IN ISLAM کے موضوع پر ایک کامیاب تقریر فرمائی.یہ تقریر نہایت توجہ اور ذوق و شوق سے سنی گئی اور ہال تالیوں سے گونج اُٹھا.صدر جلسہ پروفیسر نرائن داس باسو ( شعبہ فزکس کلکتہ یونیورسٹی) نے آپ کی تقریر پر بہت ہی شاندار ریویو REVIEW دیا.اور مسز شری مہتہ اپنی انگریزی تقریر میں بار بار کہتی رہیں کہ مولانا امینی صاحب کی تقریر کے بعد میرے لئے بولنے کی گنجائش نہیں کیونکہ تھیو سا فیکل جس قسم کا بھائی چارہ پیدا کرنا چاہتی ہے اور اس کے لئے جو اصول پیش کرتی ہے وہ سب اس میں موجود ہیں.بہتیرے لوگوں نے مکرم امینی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اقرار کیا کہ اس قسم کی تقریر اُن کی 49 زندگی کا پہلا موقع ہے.۲.گورداسپور کے ایک ہفت روزہ "پر بودھ جگت کے ایڈیٹر شری ستیہ پال نندہ نے اپنے اخبار کی ۱۶ را گست ۱۹۶۶ ء کی اشاعت میں مسلمان بادشاہوں کے حالات زندگی کی آڑ میں اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف قابل نفرت و حقارت پراپیگنڈہ شروع کر کے مسلمانانِ ہند کے جذبات کو مجروح کیا.اس ہتک آمیز اور زہر آلود مہم کے خلاف اخبار بدر قادیان نے ۸ ستمبر ۱۹۶۶ء کو پُر زور آواز میں احتجاج بلند کیا اور حکومت کو توجہ دلائی کہ وہ اس دل آزار تحریر کے خلاف موثر اقدام کرے نیز لکھا اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا بھر کی سب قوموں اور ملکوں کے مذہبی رہنماؤں اور بزرگوں کو عزت سے یاد کرو.ہم بحیثیت ایک سچے مسلمان ہر مذہب کو بنیادی طور پر سچا مانتے ہیں اور سب رسولوں ، رشیوں اور او تاروں کو بزرگ تسلیم کرتے ہیں.پٹنہ میں ”بہار ریسرچ سوسائٹی کے سالانہ اجتماع عام میں رامچندر جی کے کردار پر مسٹر جسٹس ستیش چندر مشرا SATISH CHANDAR MISHRA کی زیر صدارت ایک مباحثہ ہوا.جس میں حضرت رامچندر جی کی شخصیت پر نہایت نامناسب تنقید کی گئی.مباحثہ کی روداد ۱۳ جون ۱۹۶۶ء کو اخبار انڈین نیشن INDIAN NATION میں شائع ہوئی تو سید فضل احمد صاحب نے 50
تاریخ احمدیت.جلد 23 725 سال 1966ء آنربیل چیف جسٹس پٹنہ ہائی کورٹ کے نام پر ایک کھلا خط لکھا جس میں بتایا کہ قرآن مجید نے یہ عالمگیر اصول پیش کیا ہے کہ خدا نے ہر ملک اور قوم کے لئے پیغمبر اور صلح بھیجے ہیں.جو معصومیت کی ایک مکمل مثال تھے.ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا..اس سال حیدرآباد، سونگھڑہ، لکھنو اور کالا پتھر اڑیسہ ) وغیرہ میں کامیاب جلسے ہوئے.51 54 ۴.اس سال تقسیم لٹریچر کی طرف مبلغین سلسلہ اور مخلصین جماعت نے خاص توجہ دی.جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے جناب محب اللہ صاحب آئی.اے.ایس (ریٹائرڈ)، سیکرٹری پنجاب وقف بورڈ ۲۵ فروری ۱۹۶۶ء کو قادیان تشریف لائے تو حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب جٹ نے انہیں ترجمہ قرآن مجید انگریزی اور جماعت کا تبلیغی لٹریچر پیش کیا.۲۴ مئی ۱۹۶۶ء کو یاد گیر میں مرکزی وزیر صنعت و حرفت جناب ڈی.سنجیو یا صاحب سے جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے مولوی محمد اسماعیل صاحب غوری امیر جماعت کی قیادت میں ملاقات کی اور کتاب اللہ کے انگریزی ترجمہ کا نسخہ بطور تحفہ پیش کیا.۷ راگست ۱۹۶۶ء کو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب روٹری کلب بٹالہ کے ممبر کی حیثیت سے رادها سوامی ست سنگ بیاس (ڈیرہ بابا جیمل سنگھ ) ایک میلہ میں شرکت فرمائی.رادھا سوامی تحریک کے گورو سردار چرن سنگھ جی مہاراج نے عبادت گاہ کے ہال میں آتما اور پر ماتما کے تعلق اور بھگتی پر اپنے نقطہ نظر سے روشنی ڈالی.بعد ازاں روٹری کلب کے مدعو مہمانوں کو ست سنگ کے عالیشان مہمان خانہ میں پہنچادیا گیا.جہاں گورو صاحب کی آمد پر ایک مجلس منعقد ہوئی.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے گور وصاحب کو قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ اور بعض دوسری کتب کا روحانی تحفہ پیش کیا.جسے انہوں نے احترام کے ساتھ قبول فرمایا اور پھر خاصی دیر تک صاحبزادہ صاحب سے گفتگو کرتے رہے.ازاں بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا.جس پر چوہدری مبارک علی صاحب ( آپ ان دنوں ایڈیشنل ناظر امور عامہ کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ) درویش قادیان نے تخلیق روح اور آواگون یعنی نظریۂ تناسخ کی وضاحت چاہی.اور دریافت کیا کہ اگر پر میشر نے روحوں کو اپنی خوشی کی خاطر پیدا کیا ہے.تو پھر انہیں جونوں کے لامتناہی چکر میں کیوں ڈال دیا؟ ماں اپنے بچے کے قصور معاف کر دیتی ہے.لیکن کیا پر میشر میں ماں جتنا بھی پیار نہیں کہ کوئی اس کے آستانے پر گر کر خواہ کتنا ہی گڑ گڑائے.پر میشر ہرگز اس کے گناہ معاف نہیں کرتا.اور انسان کو اپنے کرموں کا پھل ضرور بھگتنا پڑتا ہے ہمیں
تاریخ احمدیت.جلد23 726 سال 1966ء تو ایسے پر میٹر کا پتہ لگنا چاہیئے جو اپنے قصور وار بندوں کے گناہوں کو بخش دے اور مہربان ماں کی طرح اپنے سینے سے لگالے گورو صاحب نے اس کے جواب میں اپنے مخصوص نظریات کے اعادہ پر ہی اکتفاء کیا اور سامعین تسلی بخش جواب کے منتظر ہی رہے کہ مجلس ختم ہوگئی.۵ تقسیم ملک کے بعد قادیان کی زیارت اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس افراد سے شرف ملاقات بھارت کے دور دراز علاقوں میں پھیلے ہوئے احمدیوں کے لئے ایک مسئلہ بن چکا تھا اور غریب اور نادار بھارتی احمدی جو اس مقدس خاندان کے والہ وشیدا تھے، بے بس ہو کر رہ گئے تھے.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے انہی مجبور اور نا چار احمدیوں کے جذبہ عقیدت کے پیش نظر اس سال مع اہل و عیال شمالی ہند کا وسیع اور لمبا سفر اختیار فرمایا.آپ ۳ را پریل ۱۹۶۶ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.اور ے جون ۱۹۶۶ء کو بخیریت قادیان دارالامان میں تشریف لائے.اس کامیاب تبلیغی تنظیمی و تربیتی دورہ کے دوران آپ نے جماعت احمدیہ کیرنگ اور سونگھڑہ کے سالانہ جلسوں سے بھی خطاب فرمایا.صوبہ اُڑیسہ کی جماعتوں کے دورہ کے بعد آپ نے کلکتہ میں مختصر سا قیام فرمایا جہاں میاں محمد عمر صاحب سہگل اور میاں محمد صدیق صاحب بانی کے خاندان کو آپ کی خدمت اور تواضع کا خوب موقع ملا.اس سفر میں آپ جہاں جہاں تشریف لے گئے.اظہار محبت وعقیدت کے بہت ایمان افروز مناظر دیکھنے میں آئے.بوقت رخصت ہر احمدی مرد، عورت اور بچہ کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں.اس سفر میں چوہدری مبارک علی صاحب بھی آپ کے ہمرکاب تھے اور انہوں نے اس کامیاب دورہ کی تفصیلی روداد کئی قسطوں میں مرتب کی جو بدر میں چھپ گئی.۶.صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے علاوہ مبلغین سلسلہ عالیہ احمد یہ مولوی بشیر احمد صاحب، مولوی سمیع اللہ صاحب، حکیم محمد دین صاحب اور مولوی محمد عمر صاحب نے جنوبی ہند کا تبلیغی اور تربیتی دورہ کیا.امیر وفد الحاج سیٹھ محمد دین صاحب امیر جماعت احمدیہ حیدر آبا دو سکندر آباد تھے.اسی طرح چوہدری سعید احمد صاحب بی.اے آنرز نے تحریک جدید کے سلسلے میں صوبہ بہار اور 57- 59 اڑیسہ کا اور چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی اور شیخ عبدالحمید صاحب عاجز نے جنوبی ہند کا دورہ کیا.ے.بھرت پور ضلع مرشد آباد میں مولوی شریف احمد صاحب امینی انچارج احمد یہ مشن کلکتہ کی تحریک پر مسجد کی تعمیر ہوئی اور اس کے لئے زمین شیخ یعقوب حسین صاحب صدر جماعت نے پیش کی اور اس کے اخراجات کلکتہ کے ایک مخیر احمدی دوست نے برداشت کئے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 727 سال 1966ء امریکہ بیرونی ممالک میں جماعتی مساعی امریکہ مشن کے سارے حلقے اپنے مبلغین کی قیادت میں نہایت محنت ، انہاک اور خلوص سے تبلیغی مہمات میں مصروف رہے اور عوام تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے جملہ ذرائع بروئے کار لاتے رہے.حلقہ پٹسبرگ میں مشن کے مبلغ انچارج نے بیتھنی کالج میں احمدیہ موومنٹ پر کامیاب لیکچر دیا.سیوکلی (SEWICKLEY) شہر میں عورتوں کی ایک ایسوسی ایشن میں اسلام اور احمدیت کے بارے میں معلومات افروز تقریر کی جسے بہت پسند کیا گیا.دوران گفتگو اسلام اور کمیونزم اور امریکہ میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی نظام وغیرہ امور زیر بحث آئے.اسی طرح آپ نے بین الاقوامی ترقیات برائے نیگروز ایسوسی ایشن کے خصوصی اجلاس کو بھی خطاب کیا اور جماعت احمدیہ کی خدمات پر روشنی ڈالی جسے پریذیڈنٹ اور سامعین نے بہت سراہا.میجر عبدالحمید صاحب کی جدو جہد سے گذشتہ سال جماعت احمد یہ ڈیٹین کے افراد نے غیر معمولی قربانی کر کے ایک شاندار مسجد تعمیر کی.جس کے بعد تحقیق حق کے لئے استفسارات کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا.اس سلسلے میں اس سال ہزاروں کی تعداد میں تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے گئے.اور ان کے سرورق پر خدا کے اس گھر کی تصویر شائع کی گئی.جنہیں افراد جماعت نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ تقسیم کیا.میجر عبدالحمید صاحب پلنگٹن کالج کے ڈین آف فیکلٹی کی دعوت پر ان کے کالج میں تشریف لے گئے.انہیں لٹریچر دیا اور پریذیڈنٹ اور اسٹاف سے بھی ملاقات کی.ایک رومن کیتھولک اخبار میں ان کا انٹرویو اور ڈین ایکسپریس میں آنحضرت ﷺ کے بارے میں بائبل کی پیشگوئیوں سے متعلق آپ کا مضمون شائع ہوا.چوہدری شکر الہی صاحب نے شکاگو کی ایک مشہور کیتھولک یو نیورسٹی میں اسلام پر لیکچر دیا.بعد میں طلباء کے سوالوں کے جوابات دیئے.یونیورسٹی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا.جبکہ مسلم مبلغ کو لیکچر کے لئے مدعو کیا گیا.اس حلقہ میں بائیس ہزار کی تعداد میں تبلیغی اشتہارات شائع کئے گئے.جن کی تقسیم میں پاکستانی احمدی طلبہ نے بھاری مدد کی.
تاریخ احمدیت.جلد 23 728 سال 1966ء قہ واشنگٹن میں سید جوادعلی صاحب سرگرم عمل رہے.اور تحریر، تقریر و ملاقاتوں کے ذریعہ سے پیغام حق پہنچانے کا ہرممکن ذریعہ اختیار کیا.ٹمپل یو نیورسٹی فلاڈلفیا کے ایک مذہبیات کے پروفیسر کا خط آیا وہ افریقہ میں اسلام کی ترقی پر ایک مضمون لکھ رہے ہیں.جس میں جماعت احمدیہ کے کام کو خاص طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں اس لئے لٹریچر بھجوایا جائے.چنانچہ انہوں نے پروفیسر صاحب کو لٹریچر بھجوایا اور مغربی افریقہ کے تمام مشنوں کے پتہ جات بھی تا کہ وہ ان سے براہِ راست رابطہ کر کے مطبوعہ لٹریچر منگواسکیں.واشنگٹن کی نواحی بستی آرلنگٹن میں ایک میتھوڈسٹ چرچ میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور جماعت احمدیہ کی خدمات پر لیکچر دیا.اسی طرح ایک یونیٹیرین چرچ کی طرف سے آپ کو تقریر کی دعوت ملی.آپ نے سٹڈی گروپ کے سامنے تقریر کی اور سوالوں کے جواب بھی دیئے.مشن ہاؤس میں مہمانوں کی خاصی تعداد نے آپ سے اسلام پر معلومات بھی حاصل کیں اور لٹریچر بھی.امریکہ مشن کی مندرجہ بالا خدمات کی یہ صرف ادنی سی جھلک ہے.جومشن کی جنوری تا مارچ ۱۹۶۶ء کے صرف تین مہینوں سے تعلق رکھتی ہے.جس سے پورے سال کی خدمات کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے.امسال چوہدری عبدالرحمن بنگالی نے ایک میڈیکل ایسوسی ایشن کو ان کی طرف سے شائع شدہ کتاب کے باعث ایک زبر دست احتجاجی خط لکھا.اس کتاب میں مصنف نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض ناروا باتیں لکھی تھیں.انڈونیشیا 61 62 انڈونیشیا کی احمدی جماعتوں کی نہایت کامیاب کانفرنس ۲۵ تا ۲۸ را گست ۱۹۶۶ء کو منعقد ہوئی.جس کے استقبالیہ جلسے میں دو ہزار سے زائد غیر از جماعت احباب نے شرکت کی.پریذیڈنٹ سوکارنو نے اس موقعے پر جماعت احمدیہ کے نام جو ولولہ انگیز پیغام دیا اس کا ترجمہ یہ ہے:.” برادران جماعت احمد یہ انڈونیشیا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ سب سے پہلے میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کو اس کی لے اویں سالانہ کا نفرنس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی جناب میں دعا کرتا ہوں کہ وہ دوستوں کی کانفرنس کو اپنی رحمت اور رضا سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 729 سال 1966ء نوازے جیسا کہ احباب کو علم ہے.ہمیں اس وقت مختلف قسم کی مشکلات درپیش ہیں.اور ہمیں ایسے CHALLENGES کا سامنا کرنا پڑا ہے جو کہ ہمارے انقلاب کی بنیاد یعنی PANGHA SILA ( پانچ ارکانِ انقلاب انڈونیشیا) کو ہی سرے سے مٹادینا چاہتے ہیں.لیکن آپ لوگوں کی دعاؤں اور ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک کی رعایا کے ساتھ مل کر کوششوں کے نتیجہ میں ہمیں یقین ہے کہ PANGHA SILA کی اساس پر قائم کردہ انقلاب اور زیادہ ترقی کرے گا.اور زمانہ کی تمام روکوں کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگا.لیکن اس مقصد کے حصول کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم سب کو قومی اتحاد اور قومی یگانگت کو استوار کرنا چاہیئے اور جیسا کہ اس سے پہلے بھی میں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ قومی اتحاد اور یگانگت کے لئے یا دوسرے الفاظ میں تعمیر ملک اور تعمیر کریکٹر کے لئے مذہب کا عصر ایک غالب عصر کی حیثیت رکھتا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو میرا پیغام یہ ہے کہ آپ اسلامی آگ کی چنگاری کو متواتر فروزاں کریں.اور اسلامی سپرٹ اور روح کو مسلسل زندہ رکھیں.تا کہ ہم حقیقی طور پر دنیوی اور دینی لحاظ سے ایک مضبوط قوم بن جائیں.میرا یقین ہے کہ جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی یہ کانفرنس ہمارے انقلاب اور ہمارے ملک اور ہماری رعایا کے مفاد کی خاطر زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرے گی.پریذیڈنٹ ری پبلک انڈونیشیا سوکارنو جا کرتا ۲۶ اگست ۱۹۶۶ء اس کا نفرنس میں ربوہ کے سالانہ جلسہ کا رنگ پہلے جلسوں کی نسبت بہت زیادہ نمایاں تھا.اس میں فضل عمر فاؤنڈیشن فنڈ میں حصہ لینے کے لئے احباب نے والہانہ اخلاص کا ثبوت دیا.تبلیغی جلسہ اور استقبالیہ جلسہ میں سابقہ جلسوں کی نسبت کہیں زیادہ حاضری تھی.جلسہ کی افتتاحی اور اختتامی دعائیں مولوی امام الدین صاحب رئیس التبلیغ نے کرائیں.انڈو نیشیا پریس اور جا کرتا اور بانڈ ونگ ریڈیو نے کانفرنس کی خبریں نشر کر کے انہیں پورے ملک تک پہنچا دیا.انگلستان 63 امسال مسجد فضل لنڈن میں رمضان المبارک سے بھر پور فائدہ اٹھانے کا مناسب انتظام کیا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 730 سال 1966ء سحری و افطاری کے چارٹس شائع کیے گئے.ہر اتوار مسجد فضل لنڈن میں درس القرآن کا اہتمام کیا گیا جس سے انگریز نو مسلم بہن بھائیوں نے بھی استفادہ کیا.64.اس سال عید الفطر مسجد فضل میں جگہ کی کمی کے باعث پہلی مرتبہ وانڈ زورتھ ٹاؤن ہال میں پڑھی گئی جس میں ۱۰۰۰ مردوں اور ۳۰۰ خواتین نے شرکت کی.اس سال بھی حسب سابق ۶ ۷ راگست ۱۹۶۶ء کو انگلستان کی احمدی جماعتوں کا نہایت کامیاب سالانہ جلسہ ہوا.جس میں لنڈن کے علاوہ گلاسگو، سکاٹ لینڈ، مانچسٹر، برمنگھم، ہڈرز فیلڈ، بریڈ فورڈ اور ساؤتھ آل کی جماعتوں کے احباب بھی کثیر تعداد میں تشریف لائے.علاوہ ازیں غیر از جماعت مسلمانوں اور مقامی باشندوں نے بھی شمولیت کی.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث نے اس مبارک تقریب پر حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا:."بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو النـ عزیز مکرم بشیر احمد رفیق! ــاصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ نے سالانہ جلسہ کے لئے دوستوں کے نام پیغام کی خواہش کی ہے اس سلسلہ میں تحریر ہے کہ:.اسلام کی جنگ جلد تر جیتنے کے لئے اتحاد واتفاق کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ساری جماعت متحد ومتفق ہو کر یکسوئی کے ساتھ دعوت اسلام کے اہم فریضہ میں مشغول ہو سکے اور اپنا سب کچھ اسی راہ میں قربان کرنے کے لئے مستعد رہے.مگر جماعتی اتحاد و اتفاق کو دو چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں.(۱) بدظنی.اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فرمایا:.یہ تمام بدظنی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس میں مبتلا ہو کر انسان کہیں سے کہیں نکل
تاریخ احمدیت.جلد 23 731 سال 1966ء جاتا ہے مجھے اس کا بڑا تجربہ ہے میں روز دیکھتا ہوں کہ یہ خطرناک مرض ہے.حضرت صاحب نے اس سے بچنے کا زور دیا ہے.حضرت خلیفہ اسی الاول کی تو ثلث زندگی اسی پر وعظ کرتے گزری.میں بھی تمہیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ بدظنی سے بچو احمدی اور مسلم کیا اور بدظنی کیا.ان کا آپس میں تعلق ہی کیا ہے.“ 65 66 (۲) دوسری چیز جو اتحاد کو توڑنے والی ہے وہ عضو کی صفت کا فقدان ہے.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی نے اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا :.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو تین دن غصہ کی وجہ سے نہیں بولتا اس کا ہم سے تعلق نہیں.معمولی سی بات ہوتی ہے اس پر بولنا چھوڑ دیتے ہیں اور مدتوں آپس میں نہیں بولتے عفو اور درگذر کا نہ ہونا بھی خرابیاں پیدا کرتا ہے...اس کا نتیجہ شقاق اور افتراق ہے.“ پس احباب جماعت کو یہ دو چیزیں مدنظر رکھنی چاہیئں.(۱) بدظنی نہ کرو (۲) در گذر سے کام لو.اللہ تعالیٰ آپ سب کے اخلاص میں برکت دے.اپنی رضا کی راہ پر چلائے اور باحسن طریق پر خدمت دین کی توفیق دے.آمین و السلام کے مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث 66 کانفرنس کی پہلی تقریر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی تھی جس کا عنوان " THE NEED OF RELIGION IN THE NUCLEAR AGE" یعنی ایٹمی دور میں ضرورتِ مذہب.حضرت چوہدری صاحب نے سائنس اور مذہب کے معانی اور مقاصد بیان کیے اور پھر بتایا کہ سائنس اور مذہب میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے اور مغربی اقوام جو یہ جھتی ہیں کہ سائنس اور مذہب علیحدہ علیحدہ میدان ہیں.یہ خیال بہت غلط فہمی پر مبنی ہے.آپ نے یہ ثابت فرمایا کہ سائنس اور مذہب کسی طرح بھی ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہو سکتے.اس کے بعد حضرت چوہدری صاحب نے موجودہ دور کی بعض خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان تمام خرابیوں کا علاج نہ تو سائنسی ترقی میں ہے نہ ہی معاشرتی اور معاشی ترقی میں ہے.اور نہ ہی سیاسی اور قانونی نظام کی بہتری میں ہے.دراصل ان تمام خرابیوں اور خامیوں کا علاج ( جونسل انسانی کے
تاریخ احمدیت.جلد 23 732 سال 1966ء اخلاق اور اطوار کو دیمک کی طرح کھا کر کھو کھلا کرتی چلی جارہی ہیں.صرف ایک ایسے دین اور ایک ایسے مذہب میں ہے جو انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ صحیح اور سچا تعلق پیدا کر دے.حاضرین حضرت چوہدری صاحب کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے صاحب صدر مسٹر ہیکٹر ہیوز ممبر پارلیمنٹ نے خاص طور پر اس تقریر کی تعریف کی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ اگر یہ تقریر شائع کر کے ملک میں تقسیم کی جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا.اسی روز حضرت چوہدری صاحب کی زیر صدارت ایک مجلس مشاورت ہوئی.جس میں جماعت کے تبلیغی ، تربیتی اور مالی نظام کو بہتر بنانے کے لئے متعدد فیصلے کئے گئے.حضرت چوہدری صاحب نے اس موقع پر فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک میں حصہ لینے کی طرف نہایت مؤثر انداز میں توجہ دلائی اور بعض اہم تجاویز بھی پیش کیں.دوسرے روز خان بشیر احمد خان صاحب رفیق نے حضرت خلیفۃ امسیح الثالث اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے پیغامات پڑھ کر سنائے.بعد ازاں احمدیہ مشن لنڈن اور برطانیہ کی احمدی جماعتوں کی سرگرمیوں کا مختصر سا خاکہ پیش کیا.آپ کی تقریر کے بعد بالترتیب مولوی فضل الہی صاحب انوری انچارج فرینکفورٹ مشن، شیخ نذیر احمد صاحب بشیر،مولوی محموداحمد صاحب مختار آف گلاسگو، جناب بشیر آرچرڈ صاحب اور جناب عبدالسلام صاحب میڈسن مبلغ ڈنمارک نے تقاریر فرمائیں.کانفرنس کی آخری تقریر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے فرمائی.آپ نے فرمایا کہ وہ مذہب جو اس زمانہ میں دنیا کی تشویشناک حالت کو امن اور سکون سے بدل سکتا ہے، وہ صرف اسلام ہی ہے حضرت چوہدری صاحب موصوف نے احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ وہ تبلیغ اسلام میں خاص طور پر سرگرم عمل ہو جائیں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے ، اپنے آپ کو خالص اسلامی رنگ میں رنگین کر لیں.تا کہ دیکھنے والے اسلام کی تعلیم کی صحیح تصویر ہر احمدی میں دیکھ سکیں.آپ نے ظاہری شکل وصورت میں بھی نوجوانوں کو حضرت محمد رسول ﷺ کی تقلید کرنے کی تلقین فرمائی اور احمدی نوجوانوں کو داڑھی رکھنے کا ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا کہ گو اعمالِ صالحہ سب سے ضروری حصہ ہیں.لیکن انسان کو اپنی وضع قطع بھی صالحین کی سی بنالینی چاہیئے.آپ نے اسراف سے بچنے کی بھی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اگر احباب خرچ کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے اموال میں بے اندازہ برکت دے گا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 733 سال 1966ء حضرت چوہدری صاحب موصوف نے احباب جماعت کے سامنے یورپین نو مسلم دوستوں کا نمونہ پیش کیا اور فرمایا کہ ہم سب کو اپنے اعمال کا محاسبہ کر کے نیکی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیئے.جو لوگ ابھی تک اسلام قبول نہیں کر سکے ہیں.ان کے لئے راہ نجات موجود ہے.لیکن وہ لوگ جو نیکی کے راستے پر چل کر اسے چھوڑ بیٹھیں وہ اگر تو بہ نہ کریں اور نیکی کی راہ اختیار نہ کریں.تو ان کی نجات کی کوئی سبیل نہیں ہے.آخر میں حضرت چوہدری صاحب موصوف نے قرآن کریم کی بعض آیات کریمہ کی تشریح فرمائی اور تربیت اولاد کی طرف خاص طور پر احباب جماعت کو توجہ دلائی.مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۶۶ء کو احمد یہ مسجد لندن کے زیر اہتمام سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کا میاب 67 جلسہ منعقد ہوا.جس کی صدارت Sir Peregrine H H Baronet نے کی.سب سے پہلے مکرم بشیر احمد رفیق صاحب امام مسجد نے صدر مجلس کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ صد رموصوف کا۲۳ سال تک عرب ممالک سے حکومتی فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں تعلق رہا اور عرب ممالک کے متعدد سربراہان مملکت سے آپ کا تعلق رہا ہے.اس کے بعد آپ نے تلاوت قرآن کریم کی.تلاوت کے بعد حضرت سر چو ہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر نہایت جامع روشنی ڈالی.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے وہ تمام پہلو پیش فرمائے جو انتظامی امور اور معاشرہ کے لئے شعبہ عدالت و انصاف سے متعلق تھے.آپ کی تقریر کے بعد جناب صدر جلسہ سر پیری گرین نے حاضرین سے خطاب کیا.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو خراج تحسین پیش کیا اور آخر میں مکرم امام صاحب نے سر پیری گرین اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا.یہ جلسہ مسجد سے ملحق سرسبز وسیع وعریض میدان میں منعقد ہوا.احباب جماعت کے علاوہ بہت سے معزز اور تعلیم یافتہ انگر یز وغیر مسلم دوست اس جلسہ میں شامل ہوئے.تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ تک جلسہ کی کارروائی جاری رہی.68 برٹش گیانا ( جنوبی امریکہ ) ی مشن بشیر احمد آرچرڈ صاحب کے ذریعے قائم ہوا.آپ نے جون ۱۹۶۶ ء تک پوری توجہ اور لگن سے یہاں احمدیت کی منادی کی.آپ کے عہد میں مشن کی طرف سے رسالہ MUSLIM TORCH LIGHT جاری ہوا.
تاریخ احمدیت.جلد 23 734 سال 1966ء اس سال میر غلام احمد صاحب نسیم ایم.اے ماہ جون میں گی آنا پہنچے اور آرچرڈ صاحب کے ساتھ ایک ماہ تک کام کرنے کے بعد مشن کا چارج سنبھالا.آپ کی پہلی رپورٹ کے مطابق ابتدائی چند مہینوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساٹھ افراد داخل احمدیت ہوئے.آٹھ مرتبہ اسلام کی حقانیت پر ریڈیو سے خطاب کیا.ایک دفعہ آپ کا انٹرویو بھی نشر ہوا.نیوا کیمسٹرڈم میں ایک احمدیہ وفد نے گورنر جنرل سے ملاقات کی.اور ایک تبلیغی خط کے علاوہ دینی لٹریچر بطور تحفہ پیش کیا.گورنر جنرل نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسلام کے دنیا پر احسانات کا خاص طور پر ذکر کیا.نیز کہا کہ اس ملک کی ترقی میں اسلام اور مسلمانوں کا بہت بڑا دخل ہے.یہ بھی کہا کہ احمد یہ جماعت سے جو اسلام کو صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے مل کر خوشی ہوئی.آخر میں انہوں نے مشن کی ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا.جماعت احمد یہ گی آنا کی سالانہ کانفرنس ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء کو منعقد ہوئی.پریس اور ریڈیو نے اس کی خبریں دیں.حاضری توقع سے زیادہ رہی.تنزانیہ ۱۰ مارچ ۱۹۶۶ء کی تاریخ تنزانیہ مشن میں ہمیشہ یادگار رہے گی کیونکہ اس روز تنزانیہ کے شہر ٹانگا میں مسجد احسان کا افتتاح عمل میں آیا.خدا کے اس گھر کی تعمیل بہت غیر معمولی حالات میں ہوئی.اس کا نام حضرت مصلح موعود نے رکھا تھا.مشرقی افریقہ میں مستقل مشنوں کے قیام کے بعد یہ پہلی مسجد تھی.جو مشرقی افریقہ کے ایک اہم شہر میں تعمیر ہوئی.ایک مخلص افریقن احمدی جمعہ ائے عبداللہ نے اس کے لئے دو ہزار شلنگ کا عطیہ دیا اور کئی اور احباب نے اپنی ایک ایک ماہ کی تنخواہ اس کے لئے پیش کردی.افتتاحی تقریب مولانا محمد منور صاحب امیر مشنری انچارج کی زیر صدارت ہوئی جس میں نور الحق خان صاحب بی ایس سی نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے مندرجہ ذیل روح پرور پیغام کا سواحیلی زبان میں ترجمہ پڑھ کر سُنایا.اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تاریخ احمدیت.جلد 23 735 سال 1966ء مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی کہ ٹانگا کی مسجد احمد یہ جسے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مسجد احسان“ کے نام سے موسوم کیا تھا.پایہ تکمیل کو پہنچ چکی ہے اور آج اس مسجد کا افتتاح ہورہا ہے اور اس مبارک تقریب پر مجھ سے ایک پیغام کی خواہش کی گئی ہے.اس غرض کے لئے سطور ذیل تحریر ہیں:.گذشتہ دنوں ماہ نومبر میں ہم پر ایک قیامت گزری جو ہمارے پیارے آقا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہم سے جدا ہوکر محبوب حقیقی سے جاملے.اناللہ وانا الیہ راجعون مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے خود ہمارے زخمی دلوں پر بھایا رکھا.ہم سب کو پھر ایک ہاتھ پر جمع کر دیا.اور جماعت کی وحدت وسالمیت کو برقرار رکھا.قافلہ رواں ہے اور خدا کے فضل سے تیزی کے ساتھ منزلِ مقصود کی طرف بڑھ رہا ہے.الـحـمـد لله و ذالک فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو الفضل العظيم اس موقعہ پر ہمیں یہ امر مدنظر رکھنا چاہیئے کہ ممالک مشرق و غرب میں اسلام کا پیغام پہنچانا.خلق خدا کو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا گرویدہ بنانا اور دنیا بھر میں مساجد قائم کرنا حضور کو بے حد محبوب تھا.تا دنیا کے کونے کونے سے خدا کا نام بلند ہو.اور ہر مقام سے حضرت رسول کریم ﷺ پر کثرت سے درود بھیجا جائے.ٹانگا کی مسجد بھی اس سلسلہ کی ایک کڑی ہے پس اس مبارک تقریب پر (TANZANIA) تنزانیہ کے سب دوستوں سے کہونگا کہ وہ حضور ہی کے مقاصد کو اپنائیں اور اللہ کا نام بلند کرنے اور دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا پیغام پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں اور اس مقصد کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں یہاں تک کہ سب دنیا میں اسلام غالب آجائے اور ہر انسان کی زبان پر درود جاری ہو جائے.آمین اسی سلسلہ میں ہمیں اپنی کوششیں تیز تر کرنا ہوں گی.ہمیں یہ امر بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہا اسلام کی تبلیغ واشاعت کی کوشش تبھی مفید نتائج پیدا کرسکتی ہے جب ہماری اپنی زندگیاں اسلام کے رنگ میں رنگین ہوں اور ہم اسلام کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کر
تاریخ احمدیت.جلد 23 736 سال 1966ء دنیا کے سامنے اسلامی تعلیمات کا عملی نمونہ پیش کریں.پس اسلام کے ہر حکم پر عمل پیرا ہوں.اور کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی نظر انداز نہ ہونے دیں.نہ صرف خود بلکہ اپنے اہل وعیال کو بھی اسی رنگ میں رنگین کریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.ہماری مُستیاں اور غفلتیں دور فرمائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دے.آمین بالآخر سب احباب جماعت کی خدمت میں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہمیشہ اپنی رحمتوں سے نوازتا رہے.خاکسار مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث مولا نا محمد منور صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں احمدی احباب کی معاونت کا تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور پر چوہدری محمد علی صاحب نگران تعمیرات اور ٹانگا کے سابق مبلغ چوہدری رشید احمد صاحب سرور کی خدمات کو سراہا.نیز مسٹر اندر سنگھ گل کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے لکڑی مہیا کی.بالآخر یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی عیسائی دنیا کے لئے اس درجہ موجب تشویش بن چکی تھیں کہ اس سال نو مبر ۱۹۶۶ء میں مشرقی افریقہ ( کینیا، یوگنڈا، ٹانگا نیکا) کے تمام سکولوں کے سینئر کیمبرج کے سالانہ امتحان میں ہسٹری کے پرچہ میں ایک سوال یہ بھی تھا (یہ پر چہ انگلینڈ سے مرتب ہو کر آیا تھا ) کہ DESCRIBE THE WORK AND INFLUENCE IN EAST.AFRICA OF THE AHMADIYYA MISSION یعنی مشرقی افریقہ میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں اور ان کے نفوذ کا ذکر کریں.جرمنی (مغربی) دوسرے ممالک کی طرح اس ملک کا احمدیہ مرکز بھی اشاعت حق میں دن رات مصروف عمل رہا اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کے ازالہ کی مہم اُس نے زورشور سے جاری رکھی.۱۶جنوری ۱۹۶۶ ء کو مولوی فضل الہی صاحب انوری مبلغ ہمبرگ نے فرانکفورٹ کے ایک کیتھولک گرجا میں
تاریخ احمدیت.جلد 23 737 سال 1966ء اسلام پر ایک نہایت کامیاب لیکچر دیا.جس کے بعد سوال و جواب کا دلچسپ سلسلہ شروع ہوا.آخری سوال یہ تھا کہ ہم اسلام کو کیوں قبول کریں.آپ نے جواب دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے بعد ایک موعود شخصیت کی متعدد بار خوشخبری دی اور اسے سچائی کی روح اور دنیا کا شہزادہ قرار دیا.یہ موعود نبی آنحضرت ﷺے ہیں اور آپ کو ماننا خود حضرت مسیح علیہ السلام کو ماننا ہے اور آپ کا انکار حضرت مسیح علیہ السلام کا انکار ہے.اس اعتبار سے صرف ہم مسلمان ہی حضرت مسیح علیہ السلام کے بچے پیرو ہیں.اس جواب کو تمام حاضرین نے بہت پسند کیا.صاحب صدر نے کہا کہ ہم اسلام کو ایک تشدد پسند مذہب سمجھے ہوئے تھے.آج یہ غلط فہمی دور ہو گئی ہے.آج کی تقریر نے کم از کم عورتوں کو آدھا مسلمان کر لیا ہے.اس سال عیدالفطر (۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء) کی تقریب مغربی جرمنی کے احمدیہ مشن کی قبولیت کا پیغام بن کر آئی.چنانچہ ٹیلی ویژن والوں نے مسجد فضل عمر ( ہمبرگ ) کے مناظر عید کی فلم بندی کی اور اسے ۱۸ فروری کے ہفت روزہ اہم پروگرام میں نشر کیا گیا.نامہ نگار نے خدا کے اس گھر کی عمارت دکھاتے ہوئے کہا کہ اب اسلام ہمبرگ میں اپنے قدم جما چکا ہے اور جماعت احمدیہ کی فضل عمر مسجد اسلام کی اشاعت کا کامیاب مرکز ہے.اس کے بعد نماز کی فلم دکھائی گئی.بعد ازاں چوہدری عبداللطیف صاحب امام مسجد فضل عمر کے خطبہ کے بعض حصے نشر کئے گئے بالخصوص اسلامی مساوات کے بارہ میں جس کو یورپ نے آج تک صحیح طور پر نہیں سمجھا.آخر میں چوہدری صاحب کا معلومات افروز انٹرویوسوال وجواب کی شکل میں پیش کیا گیا.آپ نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام صلح اور امن کا علمبردار ہے اور اسی کی تعلیمات سے امن عالم وابستہ ہے.اور یہی جماعت احمدیہ کے قیام اور اس کے مشنوں کا مقصد ہے.چوہدری عبد اللطیف صاحب نے دس مارچ کو نیومنسٹر (NEUMUNSTER) شہر کے ایک علمی ادارے میں اور ۱۵ مارچ کو ہمبرگ کے ایک چرچ میں لیکچر دیئے.ایک لیکچر میں آپ نے اسلامی تعلیمات کی خصوصیات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور سوالوں کے جوابات دیئے.ایک مقامی روز نامہ نے اس تقریر کا یہ خلاصہ شائع کیا کہ مسٹر لطیف نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام صلح و امن کا مذہب ہے اور کبھی تلوار کے زور سے نہیں پھیلا.اسلام میں عورت کا درجہ بہت بلند ہے.دوسری تقریر اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اختلافات پر تھی.صدر مجلس نے برملا اقرار کیا کہ اسلامی تعلیمات معقول اور ٹھوس
تاریخ احمدیت.جلد 23 738 سال 1966ء ہیں اسی لئے اسلام ترقی پذیر ہے.عیسائیت کے عقائد تثلیث اور حضرت مسیح علیہ السلام کے دعوئی خدائی کو ثابت کرنا آسان نہیں.انہیں ایام میں جرمن فوج کے ستر افسر مسجد فضل عمر دیکھنے کے لئے آئے.چوہدری صاحب موصوف نے اسلامی تعلیمات کے بارے میں تقریر کی.ان کے سوالوں کے جواب دیئے اور لٹریچر تقسیم کیا.واپسی پر انہوں نے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج پہلی مرتبہ ہمیں علم ہوا ہے کہ اسلام امن اور صلح کا مذہب ہے، اور تمام انبیاء پر ایمان لانے کو ضروری قرار دیتا ہے.نیز اعتراف کیا کہ اسلام کے خلاف پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ نہایت عمدگی سے کیا گیا ہے.جماعت احمد یہ جرمنی نے یکم اپریل ۱۹۶۶ ء کو ہمبرگ اور فرینکفورٹ میں عیدالاضحیہ کی مبارک تقریب پورے تزک واحتشام کے ساتھ منائی.ہمبرگ کے ایک مشہور ہفت روزہ WELT AM SONNTAG نے ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء کے شمارہ میں چوہدری عبد اللطیف صاحب کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا جس کا ملخص یہ تھا کہ مسٹر لطیف نے اس بات پر زور دیا کہ اسلام (PRIESTHOOD) کا حامل نہیں.اور ان کی پوزیشن PRIEST کی نہیں.اسلام کی تبلیغ ہر مسلمان کا مذہبی فرض ہے.اور اسلامی مسجد میں ہر مسلمان امام کے فرائض سرانجام دے سکتا ہے.جمعہ کے روز ہمبرگ میں مقیم تمام اسلامی ممالک کے دوست نماز کی ادائیگی کے لئے حاضر ہوں گے.اور یہ تمام اسلامی ممالک کے احباب کا یہ اجتماع اسلامی روح کو بروئے کارلانے کا زندہ ثبوت ہوگا.ہماری اس مسجد میں جو تمام مسلمان اپنی عبادت کے ذریعہ اسلامی مساوات اور یگانگت کو عملی نمونہ سے ثابت کریں گے.کیونکہ مسجد میں تمام مسلمان کندھے سے کندھا ملا کر قطاروں میں نماز ادا کرتے ہیں.اور مسجد میں قومیت، رنگ اور امیر وغریب کی کوئی تفریق نہیں.مسٹر لطیف نے مزید بتایا کہ عید سے ایک روز قبل مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں لاکھوں مسلمانوں کا اجتماع ہوتا ہے.اور حج میں شامل ہونے والے تمام احباب کا مقام بھی ایک ہوتا ہے.مساوات کی اس روح کو قائم کرنے کے لئے ہم بھی جمعہ کے روز اپنی اس مسجد میں خدا تعالیٰ کے حضور سر بسجو دہوں گے.امسال ۲۳ ستمبر کو جب مولوی بشیر احمد صاحب شمس ہیمبرگ تشریف لائے تو ریلوے اسٹیشن پر جماعت کی دعوت پر ایک اہم پریس ایجنسی OCONTI PRESS کا نمائندہ بھی انٹرویو لینے آیا جسے ضروری معلومات دی گئیں نیز ہیمبرگ کے کثیر الاشاعت روزنامہ MORGENPOST نے
تاریخ احمدیت.جلد 23 739 سال 1966ء آمد کا ذکر اور تصویر کو بھی چھاپا.۲۸ ستمبر کو پبلک ریلیشن ہیمبرگ کے دفتر کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر انٹرویو کے لیے احمد یہ مسجد تشریف لائے جنہیں تمام دنیا میں مشنز کے ذریعہ تبلیغی مساعی کے بارہ آگاہ کیا گیا.ڈنمارک اس سال کا اہم ترین واقعہ مسجد نصرت جہاں کا سنگِ بنیاد ہے جو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل اعلی تحریک جدید نے ۶ مئی ۱۹۶۶ ء کو رکھا.اس تقریب پر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا.۱۰۰ کے قریب اخبارات نے سنگ بنیاد رکھے جانے کی تقریب کو خبروں میں نمایاں جگہ دی.ڈنمارک کے مشہور روز نامہ پولیکن (POLITIKEN) نے لکھا:.ہائیوڈور (HVIDOVRE) نے قبل ازیں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جیسی معزز عالم اور روحانی شخصیت کی تقریر نہیں سنی تھی.نہ صرف اس ملک میں بلکہ جملہ دیگر ممالک اور مذاہب میں بھی ایسی شخصیتیں بہت ہی شاذ ہیں.ہمارا خیال ہے کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جیسی خدا نما ہستی کو مدتوں کے بعد ہی ہمیں دیکھنا نصیب ہوگا.اسلام کے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچانے کے لیے ڈنمارک کے پبلک سکولوں کے نویں اور 66 دسویں جماعتوں کی درسی کتب میں مضامین شامل کرنے کے لیے بھجوائے گئے.سپین مولوی کرم الہی صاحب ظفر اس سال بھی نہایت پُر جوش انداز میں تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہے.اس سلسلہ میں انہوں نے جن شخصیات تک سلسلہ کے لٹر پچر کا تحفہ پیش کیا اُن میں خاص طور پر قابل ذکر اصحاب کے نام یہ ہیں.ہز ایکسی لینسی SR.RENESHICK پریذیڈنٹ آف NICARAGUA( نکاراگوا) ملٹری اٹیچی چیف آف پروٹوکول آف پریذیڈنٹ مذکورہ بالا، ہر میجسٹی جلاوطن بادشاہ سپین D.GUAN DE BOSTION جلاوطن بادشاہ سپین کے صاحبزادہ شہزادہ D.CARLOS، سپین کے مشہور ڈاکٹر D.CARLOS JIMENEZ ، وزیر اقتصادیات D.PEDRO CUALL
تاریخ احمدیت.جلد 23 740 سال 1966ء CULTURE HISPANI، VILLALBE کے ڈائریکٹر، آنر بیل پرائم منسٹر پرتگال.D SR.JULIS PALACIOS، ANTONIO OLIVIERA SALAZAR ،سیکرٹری پرنس ایسوسی ایشن ، ایڈیٹر اخبار MADRID ، پریذیڈنٹ رائل اکیڈمی فزیکل سائنس میڈرڈ یو نیورسٹی.مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے مراکش اور لبنان کے بعض اصحاب تک بھی پیغام احمد بیت پہنچایا اور لٹریچر بھی مطالعہ کے لئے دیا.سپین کے ویجیٹرین سنٹر کے پانچ اصحاب بھی اُن کے زیر تبلیغ رہے.آپ حسب معمول ہر اتوار کو ریسٹر وسنڈے مارکیٹ جاتے تبلیغ کرتے ، لٹریچر دیتے اور ملاقاتی کارڈ کے ذریعہ مشن ہاؤس آنے کی دعوت دیتے اور پھر شام کو آنے والے اصحاب کے لئے خصوصی اجلاس منعقد کرتے اور اسلام اور احمدیت کی تعلیم پر لیکچر دے کر حاضرین کے سوالوں کے جواب دیتے رہے.ملک کے اہم علمی اور سیاسی طبقہ کے سر بر آوردہ اصحاب کو رسالہ ریویو آف ریلیجنز (ربوہ)، لی مسیج LE MESSAGE ماریشس ) اور ڈیر اسلام DER ISLAM با قاعدہ بھجواتے رہے.اس کے علاوہ متعدد مواقع اس سال انفرادی تبلیغ کے آپ کو میسر آئے.سنگا پور 81 مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری انچارج احمد یہ مشن سنگاپور کی رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے مہینہ میں ڈیوک اور ڈچز آف گلاسٹر (انگلینڈ) سنگاپور کے فوجی مراکز کے معائنہ کے لئے آئے اور ایک ہفتہ کے لئے سنگا پور گورنمنٹ کے مہمان رہے.جماعت احمد یہ سنگا پور نے بھی ان کا استقبال کیا اور قرآن کریم انگریزی اور دیگر اسلامی لٹریچر پیش کر کے ان کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی.انہوں نے بھی ان روحانی تحائف کو قبول کر کے ہمارا شکر یہ ادا کیا.مولوی محمد عثمان صاحب چینی ماہ اپریل ۱۹۶۶ء میں ربوہ سے سنگا پور پہنچے.سنگا پور کے تین اہم اخبارات میں پہلے چینی مبلغ اسلام کی حیثیت سے اُن کے ذاتی حالات وکوائف مع اُن کی تصویر کے شائع ہوئے.اُن کی آمد پر چینیوں میں منظم طور پر تبلیغ کا آغاز ہوا.چنانچہ مولوی صاحب نے چینی مسلمانوں اور غیر مسلموں سے بہت جلد رابطہ پیدا کر کے انہیں حقیقی تعلیم سے آگاہ کیا.اور چینی لٹریچر پیش کیا.آپ چینی چیمبرز آف کامرس کی ایک خاص دعوت میں ، جس میں وزیر اعظم اور دیگر وزراء بھی
تاریخ احمدیت.جلد 23 741 سال 1966ء مدعو تھے ،شامل ہوئے.اور بعض صحافیوں اور افسران سے تعارف پیدا کر کے انہیں جماعتی حالات سے آگاہ کیا.انہی دنوں چینی مسلمانوں کے لیڈرا براہیم ماء صاحب سنگا پور آئے تو آپ نے اُن سے ملاقات کی.بعد میں وہ خود اپنی صاحبزادی اور داماد کے ساتھ احمد یہ مشن میں تشریف لائے.اُنہیں احمدیت کے متعلق معلومات بہم پہنچانے کے علاوہ انگریزی اور چینی زبان میں لٹریچر بھی پیش کیا گیا.وہ دورانِ قیام سنگا پور بعض مقامی علماء سے احمدی مبلغ کی گفتگو کرانا چاہتے تھے مگر متعلقہ عالم اس کے لئے آمادہ نہ ہوئے.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے وزیر اعظم آسٹریلیا، گورنر جنرل نیوزی لینڈ اور آسٹریلین پارلیمینٹری وفد کو دینی لٹریچر پیش کیا.نیز جاپانی سفارتخانہ کے ذریعہ شہنشاہ جاپان کو مکمل انگریزی تفسیر القرآن بھیجی اور ساتھ ہی ایک تبلیغی میمورنڈم بھی ارسال کیا.جامعہ ازھر کے تعلیم یافتہ ایک ملائی عالم استاذ محمد فوزی نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک کتاب شائع کی جس میں نہایت بے بنیاد الزامات لگائے.مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری نے ملائی اور انگریزی زبان میں ایک مطبوعہ پمفلٹ کے ذریعہ انہیں چیلنج کیا کہ اگر وہ سنگا پور آکر پندرہ ہیں احمدی اور غیر احمدی سرکردہ احباب کے سامنے یہ ناپاک الزامات اور دعاوی ثابت کر دیں تو انہیں ایک ہزارڈالر نقد انعام پیش کریں گے.اور اپنی شکست تسلیم کرلیں گے.مع پانچ مددگار علماء کے اُن کی رہائش اور آمد و رفت کا خرچ بھی ہمارے ذمہ ہوگا.حوالوں کے لئے احمدی لٹریچر ہم مہیا کریں گے اور انہیں باعزت طور پر اپنے ہاں مہمان رکھیں گے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے تنہا آپ ہی نمائندگی کریں گے.مگر استاذ فوزی صاحب کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہو سکی.جس سے ملک کی سنجیدہ اور انصاف پسند پبلک پر واضح ہو گیا کہ استاذ فوزی کے الزامات محض کذب وافتراء ہیں اور ان میں ذرا بھر بھی صداقت نہیں ہے.چنانچہ بعض معز ز غیر احمدی اصحاب نے بذریعہ خطوط اور زبانی اس چینج پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا اور استاذ فوزی صاحب کی زیادتی کا اعتراف کرتے ہوئے اُن سے اظہار نفرت کیا.مشن کی طرف سے تقریباً ڈیڑھ ہزار پمفلٹ مفت تقسیم کیا گیا اور سنگا پور، ملایا، فارموسا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی بعض اہم شخصیات کو چینی اور انگریزی زبان میں دینی لٹریچر بذریعہ ڈاک بھجوایا گیا.
تاریخ احمدیت.جلد23 742 سال 1966ء سنگا پور میں مسلم لاء بل کی ترمیم کے سلسلہ میں احمدیہ مشن کی طرف سے مناسب اور ٹھوس تجاویز اور ترمیمات پیش کی گئیں.جس پر حکومت کی مقرر کردہ سلیکٹ کمیٹی مسلم لاء بل سے جس کے چیئر مین پارلمینٹ کے سپیکر اور ممبران بعض وزراء تھے، انٹر ویو ہوا.اور بالآخر احمد یہ مشن کی پیش کردہ ترمیمات سے بعض قبول کر کے بل میں تبدیلی کی گئی.سینیٹر ایڈورڈ ایم کینیڈی ان ہی دنوں میں امریکن سینیٹ کے سینیٹر اور سابق پریذیڈنٹ جان ایف کینیڈی کے بھائی ایڈورڈ ایم کینیڈی ایک دو روز کے لئے سنگا پور تشریف لائے.احمد یہ مشن سنگا پور کے انچارج نے ان سے ملاقات کی کوشش کی لیکن مسٹر کینیڈی کے وہاں مختصر قیام کے باعث ملاقات نہ ہو سکی.تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں اسلام اور احمدیت کے متعلق بعض کتب تحفتہ پیش کر کے ایک چٹھی کے ذریعہ انہیں دعوت اسلام دی گئی.چنانچہ کتب اور چٹھی وصول کرنے کے بعد اپنی واپسی پر واشنگٹن سے انہوں نے بذریعہ ڈاک احمدیہ مشن کا شکریہ ادا کیا.سوئٹزرلینڈ 84 ۲۳ جنوری ۱۹۶۶ء کو مسجد محمود میں عید الفطر کی مبارک تقریب ہوئی جس میں مختلف ممالک کے مسلمانوں کا ایمان افروز اجتماع ہوا.زیورک کے کثیر الاشاعت روزنامہ TAGES ANZEIGER نے ۲۴ جنوری ۱۹۶۶ء کی اشاعت میں لکھا:.مسجد محمود میں تقریب عید عالم اسلام کے بڑے تہواروں میں سے ماہ صیام ( رمضان ) کے اختتام پر تقریب عید ہے.گذشتہ اتوار کو مسجد محمود میں، جو فورج سڑک پر واقع ہے.مسلمانوں کے ایک بڑے اجتماع نے اس تقریب کو منایا.نہ صرف شہر اور اس کے نواح ہی سے مسلمان آئے بلکہ ملک کے مختلف حصوں سے سفر کر کے شامل ہوئے اور چند مسلمان جنوبی جرمنی سے بھی آئے.ان سب کے لئے وہاں جگہ کافی نہ تھی.معزز مہمانوں میں سے ہالینڈ کے کونسل جنرل اور سفارت ہندوستان کے سیکرٹری برکات احمد قابل ذکر ہیں.
تاریخ احمدیت.جلد 23 743 سال 1966ء.T........جب مشتاق احمد باجوہ امام مسجد محمود اور احمد یہ مشن کے سربراہ حاضرین سے خطاب کے لئے کھڑے ہوئے تو ماحول پر سنجیدگی چھا گئی آپ نے محبت الہی کے موضوع پر خطاب کیا اور رمضان کی غایت بیان کی کہ وہ انسانوں کو اللہ تعالیٰ کے قریب لے جاتا ہے اور اسے خدا کی خاطر اور نوع انسانی کی بھلائی کے لئے قربانیوں کے لئے تیار کرتا ہے.امام نے دعاؤں میں قبرص، فلسطین، کشمیر اور نائیجیریا کے برادران اسلام کو بلکہ ساری دنیا کو شامل کرنے کی تحریک کی.یہ مسجد جماعت احمدیہ نے ، جس کا مرکز ربوہ پاکستان ہے، تعمیر کی ہے.اور جو اسلام کے ہراول دستہ کے طور پر خدمت کے لئے وقف ہے.اور ساری دنیا میں تعمیری کاموں میں مصروف.جماعت اسلام کے متعلق کتب و رسائل شائع کرتی ، مساجد اور دارالتبلیغ تعمیر کرتی اور دین محمد نے کی ہر رنگ میں ترقی کے لئے کوشاں ہے.گذشتہ نصف صدی اس جماعت کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب تھے.جو گذشتہ نومبر میں وفات پاگئے.حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب جو کہ عظیم عالم دینیات ہیں اور اپنے منصب کے لئے ضروری تجربہ رکھتے ہیں، خلیفہ منتخب کئے گئے ہیں.85 166 یہ پُر اثر تقریب عربی دعا کے ساتھ انجام پذیر ہوئی.۲۴ مئی کو سوئٹزرلینڈ کی ایک مجلس مباحثہ میں اس قرارداد پر مباحثہ ہوا کہ مسیح ابن اللہ ہیں.ہر دو جانب سے تین تین مقررین تھے.قرارداد کی مخالفت کرنے والوں کی قیادت مکرم چوہدری مشتاق احمد باجوہ صاحب نے کی اور عقل و نقل سے یہ بات ثابت کر کے دکھائی کہ مسیح کسی صورت میں بھی ابن اللہ نہ ہو سکتے تھے.قرارداد کی حمایت کرنے والوں نے بھی پورا پورا زور لگایا کہ ایک انسان کو خدا پیش کرنے میں کامیابی حاصل کر لیں لیکن ایسا نہ ممکن تھا اور نہ ممکن ہوا.امسال ۱۷ستمبر کو مسجد محمود زیورک میں ترکی میں زلزلہ کی آفت میں جانی و مالی نقصان اٹھانے والوں کے لیے اظہار ہمدردی کی غرض سے جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت محترم مسٹرسلیم ایچ نے کی.اجتماع نے ہمدردی کی قرار داد بھی پاس کی جسے سفارت ترکیه برن بھیج دیا گیا نیز ایک ہزار فرینک فوراً جمع ہوئے جسے سفارت ترکیہ کو بھجوا دیا گیا.سیرالیون مشن کی پُر جوش اور متحدہ سرگرمیوں کا آغاز ۴ ۵ ۶ فروری ۱۹۶۶ء کو ہوا جبکہ سیرالیون کی احمدی
تاریخ احمدیت.جلد 23 744 سال 1966ء جماعتوں کی کامیاب سالانہ کانفرنس بو میں منعقد ہوئی.جس میں ہزاروں کی تعداد میں احباب جماعت نے شرکت کی.سر البرٹ مارگائی وزیر اعظم سیرالیون ، آنریبل جناب احمد دوری وزیر داخله اور مسٹر صالح یوسف وزیر تعلیم نے پیغامات بھیجوائے.ایک معزز غیر از جماعت دوست الفا آدم نے خطاب کرتے ہوئے بتایا:.ابھی تک مجھے وہ دن خوب یاد ہے کہ جب سب سے پہلے احمدی مبلغین اس ملک میں تشریف لائے.اب ان دنوں کو گزرے قریباً چوالیس برس ہوچکے ہیں.ان کی دو تقاریر بھی مجھے ابھی تک یاد ہیں جن میں بائیبل کے حوالہ جات انہوں نے اس طرح پیش کئے کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے بائبل کے حافظ ہیں.انہوں نے بہت تکالیف برداشت کر کے اپنے کام کو جاری رکھا.جس کے نتیجہ میں آج احمدیت کو تمام ملک میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے.ہمیں خوب معلوم ہے کہ احمدی مبلغین محض اسلام کو قائم کرنے کی خاطر دنیا میں نکلے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ اُن کے ساتھ تعاون کر کے ان کا ہاتھ بٹائیں تا کہ اسلام جلد ترقی کرے اور جلد اسے غلبہ نصیب ہو.جس کام کا بیڑا احمدی مبلغین نے اُٹھایا ہے ہم اُن کی محنت اور سعی پر بجاطور پر فخر کر سکتے ہیں.“ لیسٹر میں اس سال ایک عظیم الشان مسجد کی تعمیر پایہ تکمیل کو پہنچی.۲۷ اپریل کو یوم آزادی کی تقریب پر جماعت احمدیہ سیرالیون کی مسجد سے ایک خطبہ دیا گیا جو سیرالیون براڈ کاسٹنگ سروس سے نشر کیا گیا.اس خطبہ کی بہت شہرت ہوئی.وزیر اعظم سیرالیون اور دوسرے عمائدین نے اس پر اظہارِ مسرت کیا.مبلغ انچارج سیرالیون مولوی بشارت احمد صاحب بشیر کو متعدد بار ٹیلی ویژن پر مذہبی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا.جس میں آپ نے اسلام کی تعلیم کی برتری عیسائیت کے مقابل ثابت کی.مدینہ ثانیہ، گنی کی سرحد پر واقع ایک قصبہ ہے جو خالص مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل ہے.یہاں عیسائی مشنری اپنا سکول کھولنا چاہتے تھے.مگر وہاں کے عوام اور خود پیراماؤنٹ چیف کو یہ بات گوارا نہ تھی.چنانچہ انہوں نے جماعت احمدیہ سے اس بارہ میں امداد طلب کی.اُن کی اس درخواست پر مولوی عبد الشکور صاحب اور ٹیچر ابراہیم صاحب سیکرٹری تعلیم احمد یہ سکولز اس جگہ تشریف لے گئے.حالات کا جائزہ لے کر سکول کے افتتاح کے لئے کے ارا پریل ۱۹۶۶ء کی تاریخ مقرر کی گئی.سکول کی تقریب افتتاح بڑی کامیابی سے منعقد ہوئی.پانچ صد سے زائد احباب، جن میں کثیر تعدادری پبلک
تاریخ احمدیت.جلد 23 745 سال 1966ء آف گنی کی تھی، نے اس میں شرکت کی.اس موقع پر عوام کے علاوہ پانچ قریبی پیراماؤنٹ چیفس، ڈائریکٹر آف ایجو کیشن گنی ، سپروائزر آف سکولز بمبالی ڈسٹرکٹ ، انسپکٹر آف پولیس اور متعدد حاجیوں اور اماموں نے شرکت کی.اس افتتاحی تقریب کا ملکی اخباروں میں بھی ذکر ہوا.ریڈیو سیرالیون پر کئی بار یہ خبر نشر ہوئی کہ عربی اور اسلامیات کے ماہر مسٹر ونسنٹ مونٹیل (VINCENT MONTEIL) مورخہ ۳ جون کو فوراے کالج ( یونیورسٹی کالج آف سیرالیون ) میں اسلام افریقہ میں“ کے موضوع پر تقریر کریں گے.شہر کے مسلمانوں کو بھی اس لیکچر میں شمولیت کی خاطر ایک خاص ٹرانسپورٹ بھی مہیا کی گئی.مولوی بشارت احمد صاحب بشیر جو عیسائیت کے تعاقب میں کسی موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے، اس لیکچر میں شامل ہوئے.”ماہر اسلامیات نے اپنے موضوع سے ہٹ کر اسلامی تعلیمات کو اعتراضات کا نشانہ بنایا.جس پر آپ نے تقریر کے بعد وقفہ سوالات کے دوران اوّل لیکچرار کی عربی دانی کی قلعی کھولی.بعد ازاں اسلامی تعلیم کی حکمت پر روشنی ڈالی.اسلام کے اس شاندار دفاع پر مسلمانوں نے بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا.بوا جیبو کو جماعتی اعتبار سے بہت اہمیت حاصل رہی ہے.بہت ابتدائی دنوں سے پاکستانی مبلغ یہیں مقیم تھے.گذشتہ سال ڈاکٹر نذیر احمد صاحب نے یہاں احمد یہ ہسپتال کا آغاز کیا.اس قصبے میں رومن کیتھولک مشن نے سیکنڈری سکول کھولنے کے لئے سر توڑ کوشش کی.یہ معاملہ تین بار ملکی کا بینہ میں پیش ہوا.بالآخر فیصلہ جماعت کے حق میں ہوا.اور ایک نئے سیکنڈری سکول کھولنے کی اجازت مل گئی.اس خوشکن خبر نے پوری جماعت میں ایک برقی رو دوڑا دی تعمیر اور فرنیچر کی فراہمی ایک مشکل مرحلہ تھا.مگر جماعت نے صرف ڈیڑھ ماہ کے اندر تمام انتظامات مکمل کر کے یہ نیا سکول جاری کر دیا.اس نئے اور تیسرے سکول کے اجراء پر طلباء ٹوٹ پڑے.چار سو سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں.مگر داخلہ ایک سو میں طلباء کو دیا گیا.۱۱ ۱۲ ۱۳ نومبر کوفری ٹاؤن میں جماعتہائے احمد یہ سیرالیون کی سترھویں مجلس شوری احمد یہ ہال فری ٹاؤن میں منعقد ہوئی.جس میں ملک بھر سے قریباً ایک سو نمائندگان شریک ہوئے.مولوی بشارت احمد صاحب بشیرا میر سیرالیون کی درخواست پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک ولولہ انگیز پیغام ارسال فرمایا.جس میں نمائندگان کو اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ تمام نوع انسانیت ایک روحانی انقلاب پیدا کرے.اس انقلاب کے لئے ضروری ہے
تاریخ احمدیت.جلد 23 746 سال 1966ء کہ ہم سب عملی طور پر اسلام کی حقیقی تصویر اور نمونہ بنیں.ہمیں اسلام کا صحیح علم ہونا چاہیئے.جس کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن کریم ہے.پس کوئی ایک احمدی بھی ایسا نہ ہو جسے قرآن کریم با تر جمہ نہ آتا ہو.آنحضرت علیہ کے اقوال وافعال کا مطالعہ بھی ہم سب کے لئے اشد ضروری ہے.علاوہ ازیں اس موجودہ دور کے مصلح ربانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ بھی ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہونا چاہیئے.کیونکہ اس زمانے کی پیش آمدہ مشکلات اور سوالات کا حل ان میں موجود ہے.خلافت کے ساتھ آپ سب کا نہایت مضبوط اور حقیقی تعلق ہونا چاہئیے تا کہ ہم سب کی متحد اور یکجا کوششوں کے نتیجہ میں اسلام جلد از جلد تمام لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے.اس شوری میں متعدد اہم تعلیمی، تبلیغی اور تربیتی تجاویز پاس کی گئیں.پہلے روز کی مکمل کارروائی ریڈیو سیرالیون سے نشر ہوئی.جس میں حضور کے رُوح پرور پیغام کو نمایاں حیثیت دی گئی.علاوہ ازیں سیرالیون کے کثیر الاشاعت روزنامہ ”ڈیلی میل “ نے شوری کی خبر نمایاں طور پر شائع کی.امسال وزیر تعلیم حکومت سیرالیون نے مزید دو سال کے لیے مکرم مولوی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ انچارج احمد یہ مشن سیرالیون کو بورڈ آف ٹیچرز ٹریننگ کے طور پر مقرر کیا اور آپ کی تقرری کا با قاعدہ اعلان حکومت کے گزٹ میں بھی ہوا.غانا جماعتہائے احمد یہ غانا کی اکتالیسویں سالانہ کانفرنس چھ تا آٹھ جنوری ۱۹۶۶ء سالٹ پانڈ میں منعقد ہوئی.جس میں ملک کے طول و عرض سے پانچ ہزار سے زائد افریقن احمدیوں نے شرکت کی اور مالی قربانی کی تحریک پر ساڑھے بیالیس ہزار روپیہ پیش کر دیا.کانفرنس کے جملہ انتظامات مولا نا عطاء اللہ صاحب کلیم مبلغ انچارج نا ناور میں اتبلیغ مغربی افریقہ کے زیر انتظامات کامیابی سے سرانجام پائے.مہمانوں کے آرام اور رہائش کے لئے باقاعدہ تنظیم کے ساتھ ریجن وار اور سرکٹ وار جگہ مقرر کی گئی تھی.اور اس غرض کے لئے احمد یہ مشن ہاؤس تعلیم الاسلام مدل و پرائمری سکول اور نو تعمیر شدہ مجوزہ احمد یہ مشنری کالج کی عمارات کام میں لائی گئیں.اس مبارک تقریب پر مقدس امام حضر خلیفہ اس اثالث نے جب ذیل روح پرور پیغام ارسال فرمایا.جسے رئیس التبلیغ صاحب نے بلند آواز سے پڑھ کرسنایا اور فضا نعرہ ہائے تکبیر اور خلافت احمد یہ زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی.پیغام حسب ذیل ہے.89
تاریخ احمدیت.جلد 23 پیغام امام 747 سال 1966ء اعوذ بالله من الشيطن الرجيم بسم الله الرحمن الرحيم نحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ برادران عزیز! هو النـ اصر السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ خدا تعالیٰ کی آپ پر آپ کی نسلوں پر بے شمار رحمتیں نازل ہوں اور وہ آپ سب کو اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق دے اور ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو.آمین مجھے یہ معلوم کر کے بے حد مسرت ہوئی ہے کہ آپ آج یہاں پر اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سننے اور اسلام کی فتح اور غلبہ کے لئے دعائیں کرنے اور تدابیر سوچنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو غانا کے سب احباب کے لئے بابرکت ثابت کرے انہیں اپنے خاص فضلوں سے نوازے اور بے انتہا رحمتوں سے مالا مال کرے آمین.نیز اس کا نفرنس کے نتیجہ میں نہ صرف آپ کے ایمان تازہ ہوں اور آپ محاسبہ نفس کر کے اپنے نفوس میں نیک تبدیلی کے عزم کے ساتھ یہاں سے جائیں بلکہ خدا کرے کہ اس کا نفرنس کے ذریعہ سارے مغربی افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کے نئے دروازے کھل جائیں تا مغربی افریقہ کی جملہ اقوام خدائے واحد کو پہچانے لگیں اور اس کی معرفت حاصل کریں اور حلقہ بگوش اسلام ہو کر اس کے فیوض و برکات سے متمتع ہوسکیں.اُسی طرح جس طرح آپ محض خدا کے فضل.ان سے متمتع ہور ہے ہیں.آمین غانا کی جماعت خدا کے فضل سے ایک مخلص جماعت ہے.جس کی تعداد پاکستان کے بعد دنیا بھر کی تمام احمدی جماعتوں سے غالباً زیادہ ہے.جو اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانی کر رہی ہے جس کا تعلیمی اور تبلیغی بجٹ معتد بہ ہے جو خدا کے فضل سے اس وقت تک کئی ایک پرائمری، مڈل اور سیکنڈری سکول قائم کر چکی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی قربانیوں کو قبول فرمائے اور اس کے اخلاص میں برکت ڈالے.آمین.ނ
تاریخ احمدیت.جلد 23 748 سال 1966ء مگر ذرا سوچئے تو اور وہ کیفیت ذہن میں لائیے جبکہ آج سے ۸۶ سال قبل ہندوستان کے ایک گمنام اور چھوٹے سے قادیان نامی گاؤں میں جو دور افتادہ اور ریلوے سٹیشن سے گیارہ میل دور واقع تھا ایک شخص جو تن تنہا تھا جو گمنامی کے عالم میں تھا دنیوی وسائل سے محروم جسے دیکھ کر اس کے بزرگ اس پر ترس کھاتے ہوئے کہتے یہ زندہ کیسے رہے گا اس کا پُرسانِ حال کون ہو گا اسے اللہ نے اپنایا اور دنیا کی اصلاح کے لئے چنا اور اس سے کہا:.وو دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.عنقریب اسے ایک ملک عظیم دیا جائے گا اور خزائن اس پر کھولے جائیں گے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری 90 آنکھوں میں عجیب.ہم عنقریب تم میں ہی اور تمہارے اردگر دنشان دکھلاویں گے.ان الہامات میں کتنا بڑا دعویٰ ہے اتنا بڑا کہ خود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام اسے سن کر حیران ہوئے بغیر نہ رہے ہوں گے جیسا کہ اس الہام الہی میں ” یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور تمہاری آنکھوں میں عجیب.‘“ کے الفاظ سے ظاہر ہے اور حیرانی کی بات تو تھی ہی.ایک بے بس و بے کس انسان، کمزور اور نا تواں انسان جسے کوئی نہیں جانتا.اس کے پاس مال نہیں ، اسباب نہیں ،اسے دیگر وسائل میسر نہیں اسے عظیم ملک اور بے بہا خزانوں کے وعدے دیئے جارہے ہیں.زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرنے کا قول دیا جارہا ہے.اسے فتح عظیم کا پیغام دیا جارہا ہے اور اسے خدا کے حضور سے قبولیت کی سند عطا کی جارہی ہے اور پھر اس کی تائید میں نشانات کے وعدے دیئے جارہے ہیں.کجا وہ دن اور کجا آج کا دن کہ خدائی وعدوں کے عین مطابق حضرت احمد علیہ السلام کا مشن اکناف واطراف عالم میں کامیاب و کامران نظر آرہا ہے اور سعید روحیں ایک بڑی تعداد میں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں یا مغرب سے، شمال سے تعلق رکھتی ہوں یا جنوب سے.ایشیا سے تعلق رکھتی ہوں یا افریقہ سے.امریکہ سے وابستہ ہوں یا یورپ سے اس کی طرف کھنچی چلی آرہی ہیں اور بکثرت فیض یاب ہوتی چلی جارہی ہیں زندہ خدا کی
تاریخ احمدیت.جلد 23 749 سال 1966ء قدرتوں کا یہ ایک زندہ اور زبردست نشان ہے اور آپ میں سے ہر ایک شخص اس کی صداقت کا ایک زندہ گواہ ہے جو اس امر کا شاہد ہے کہ خدا کی بات پوری ہوئی اور خدا نے اپنے وعدہ کے مطابق بڑے زور آور حملوں سے اسلام کی سچائی کو ظاہر کر دیا اور اس کی صداقت کے لئے زبردست نشان دکھائے فالحمد للہ علی ذالک.یقیناً یہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے کہ اکناف واطراف عالم میں قوموں کی قو میں ایک دوسری کے بعد داخل ہوتی چلی جارہی ہیں.قدرت وجبروت والے خدا کا جلال ظاہر ہورہا ہے اور وہ جسے دنیا نے قبول نہیں کیا تھا خدا کے زور آور حملوں کے نتیجہ میں غالب نظر آ رہا ہے.پس اے میرے عزیز اور پیارے بھائیو! آپ میں سے ہر ایک زندہ خدا کا ایک زندہ نشان ہے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور اسلام کی حقانیت کا.اللہ تعالیٰ کا آپ پر بے حد احسان ہے جو اس نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لائی ہوئی صداقت کو پہچانے اور آپ کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کی توفیق دی.اس پر اللہ تعالیٰ کا جس قدر بھی شکر ادا کریں کم ہے اور شکر ادا کرنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ آپ اسلام کے رنگ میں اپنے آپ کو مکمل طور پر رنگین کریں.اس کے بعد سب احکام پر عمل کریں اور اسلامی تعلیم کا ایک عمدہ عملی نمونہ بنیں تا آپ کے نمونہ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں.آپ اسلام کی خدمت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے ہر پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں اور خدمتِ اسلام کے لئے اپنا سب کچھ صرف کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق دے.آمین اس موقعہ پر میں آپ کو یہ بھی تاکید کرنا چاہتا ہوں کہ مرکز سلسلہ سے گہری وابستگی قائم رکھیئے اور مرکز کی آواز پر جو آپ کو مقامی مبلغین کے ذریعہ پہنچے ہمیشہ لبیک کہیئے کیونکہ وہیں سے وہ نور آپ کو ملا جس سے خدا کے فضل سے آپ کے دل منور ہیں.اسی طرح مقامی عہدیداران اور مبلغین سے ہر نیک کام میں تعاون کرتے ہوئے دل و جان سے اس کی اطاعت کا اعلیٰ نمونہ پیش کیجئے کیونکہ سیدنا حضرت محمد
تاریخ احمدیت.جلد 23 750 سال 1966ء صلى الله رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:.من اطاع امیری فقد اطاعنى ومن عضی امیری فقد عصانی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت رسول اکرمہ کے نائب اور ان کے خلفاء حضور کے نائب ہیں پس ان کے مقرر کردہ امیروں اور عہدیداروں کی مکمل اطاعت کیجئے.اور یہی امر سلسلہ احمدیہ کا طرہ امتیاز ہے اور اس سلسلہ کے نظام کی اطاعت ہی میں ساری برکتیں ہیں.خدا کرے کہ میری یہ باتیں آپ کے دل میں گھر کر جائیں اور آپ سب خدا تعالیٰ سے ان پر پوری طرح عمل پیرا ہونے کی توفیق پائیں.آمین خاکسار:.مرزا ناصر احمد.(خلیفة امسح الثالث ) ۲۱ مارچ ۱۹۶۶ء کا دن ایک تاریخی دن تھا جبکہ احمدیہ مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پانڈ غانا کا افتتاح ہوا.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد گورداسپوری اس کے پہلے پرنسپل مقرر ہوئے.ابتدا میں پندرہ طلبہ نے داخلہ لیا.جونا کیجیریا، لائبیریا اور غانا سے تعلق رکھتے تھے.کالج کے لئے تین سال کا کورس مقرر کیا گیا اور فیصلہ ہوا کہ جو طلباء قابل ثابت ہوں اُن کو مرکز کی منظوری سے اعلی تعلیم کے لئے ربوہ بھجوا دیا جائے اور باقی کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ارشاد کے مطابق افریقہ کے مختلف علاقوں میں متعین کر دیا جائے.اس سال مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعت احمدیہ غانا کے زیر انتظام پندرہ تا سترہ جولائی کولیگوس میں مبلغین کا نفرنس کا انعقاد عمل میں آیا.جس میں مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم ، محمد صدیق صاحب شاہد پرنسپل مشنری ٹریننگ کالج سالٹ پانڈ، مولانا غلام احمد صاحب بدوملہی مبلغ انچارج گیمبیا، مولوی بشارت احمد صاحب بشیر امیر ومبلغ انچارج سیرالیون ، مولوی مبارک احمد صاحب ساقی مبلغ انچارج لائبیریا، مولوی محمد افضل صاحب قریشی مبلغ انچارج آئیوری کوسٹ، الحاج شیخ نصیرالدین احمد صاحب امیر مبلغ انچارج نائیجیریا، مولوی محمد بشیر صاحب شاد مبلغ نایجیریا، مولوی منیر احمد صاحب عارف مبلغ نائیجیریا نے شرکت فرمائی.۱۵ جولائی کی شام کو مجاہدین احمدیت نے ٹیلیویژن پر نہایت عمدگی اور احسن رنگ میں اپنے اپنے ممالک میں اسلام کی خاطر فرزندان احمدیت کی مساعی پر روشنی ڈالی اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے نائیجیریا کے طول و عرض میں ہزاروں لاکھوں افراد جماعت
تاریخ احمدیت.جلد 23 751 سال 1966ء احمدیہ کی خدمات سے روشناس ہوئے.۱۷ جولائی کو EXHIBITION CENTRE میں ایک استقبالیہ تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت نائیجیریا کے اخبار ڈیلی ٹائمنر کے پبلیکیشن گروپ کے ڈائریکٹر اور جماعت کے عقیدت مند الحاج بابا ٹونڈ اجوز نے کی جس میں مبلغین سلسلہ نے جماعتی مساعی کو تفصیل سے بیان فرمایا اور غیر از جماعت معززین جو خاصی تعداد میں جمع تھے بہت متاثر ہوئے.اس کا نفرنس میں اشاعت لٹریچر، تراجم کتب، سیرالیون میں ٹریننگ کالج کے اجراء توسیع تبلیغ ، احمد یہ سکولوں میں اطفال الاحمدیہ کے قیام، طلبہ میں تبلیغ مشتری ٹریننگ کالج سالٹ پانڈ کی کامیابی کے ذرائع کے بارے میں اہم تجاویز پاس کی گئیں.اس سال ماہ مئی میں مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا.جس میں مختلف ریجنوں اور سر کٹوں سے ایک سو نمائندگان شامل ہوئے.صدارت کے فرائض مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم نے انجام دیئے.سالانہ میزانیہ جوقریبا تین لاکھ اٹھارہ ہزارنوسواٹھتر روپے پرمشتمل تھا مع دیگر اہم اور ضروری جماعتی امور کے احمدية منظور کیا گیا.مولوی عبدالوهاب بن آدم صاحب ٹیچیمان سکنڈری سکول اور دیگر کا لجوں اور سکولوں میں اور سید داؤ داحمد صاحب انور ( انچارج ٹمالے اور اشانٹی ریجن ) کے سکولز میں با قاعدہ ہر ہفتہ اسلام پر لیکچر دیتے رہے جو علمی حلقوں میں احمدیت کے مزید اثر ونفوذ کا موجب بنے.غا نامشن کی تبلیغی مساعی میں اس سال زبر دست اضافہ ہوا کیونکہ شمالی ریجن میں دو سال قبل ایک بھی احمد یہ سکول نہیں تھا.مگر سید داؤ د احمد صاحب انور کی کوشش سے گذشتہ سال ۱۹۶۵ء میں پانچ اور اس سال چار مزید سکول جاری ہو گئے.جس کی نگرانی اور سارے انتظامات سید داؤ د احمد صاحب کے سپرد تھے.ان دنوں احمدیہ تعلیمی یونٹ کے ماتحت ۷ پرائمری اور مڈل سکول اور ایک سیکنڈری سکول چل رہے تھے.ہر ریجن کا مبلغ اس ریجن کے سکولز کا مینجر متصور ہوتا تھا.لہذا تمام مبلغین علاوہ تبلیغی اور تربیتی امور کے تعلیمی معاملات میں بھی خاصہ وقت دیتے تھے.بالخصوص مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم جوان تمام سکولز کے جنرل مینجر اور نگران اعلیٰ تھے.شمالی ریجن میں چنگلی کے مقام پر ایک نئی مسجد کی تعمیر ہوئی جس کا افتتاح سید داؤ داحمد صاحب انور نے کیا.92 مشن کی طرف سے ۱۹۶۶ء میں مسلم نماز (فینٹی ) نیز حضرت مصلح موعود کی کتاب THE
تاریخ احمدیت.جلد23 752 سال 1966ء LIFE AND TEACHING OF THE HOLY PROPHET کا فینٹی ترجمہ شائع کیا گیا یہ دونوں کتابیں وزارت تعلیم نے سکولوں کے نصاب دینیات میں منظور کر لیں اور احمد یہ مشن سے خرید کر طلباء کو مہیا کر دیں.قرآن کریم کا فینیٹی زبان میں ترجمہ مکمل ہوا.جس کے بعد مولوی عبدالوہاب بن آدم صاحب نے نظر ثانی کا آغاز کیا.آپ نے ٹوی زبان میں ایک سوا حادیث نیز بیعت فارم کا ترجمہ بھی کیا.کینیا 93 صوفی محمد الحق صاحب جب سے کینیا مشن کے انچارج اور امیر مقرر ہوئے آپ نے پریس اور ریڈیو کی طرف خصوصی توجہ دے رکھی تھی.اور اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص طور پر کامیابی عطا فرمائی.آپ نے اخبار ”ممباسہ ٹائمنز میں ایک فرائیڈے مسلم کالم کا افتتاح کیا اور ایک عرصہ تک اس میں سرگرم حصہ لیا.لیکن پھر اپنی دیگر دینی و تبلیغی مصروفیات کے باعث اسے کبیر احمد صاحب بھٹی کے سپر د کر دیا.جو اس کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے رہے.ممباسہ ٹائمنز “ ایک سال قبل افریقہ کے کثیر الاشاعت اخبار ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ میں مدغم کر دیا گیا تھا.اور صوفی صاحب کے مضامین اس اخبار میں باقاعدگی سے سپر داشاعت ہونے لگے.علاوہ ازیں مشرقی افریقہ کے مشہور ہفت روزہ برازا (BRAZA) کے ادارہ نے آپ سے وعدہ کیا کہ آئندہ اسلام کے متعلق جن سوالات کا جواب دینا ہو گا وہ آپ ہی کے قلم سے چھپیں گے.اس سال نیا اخبار مباسہ ایڈورٹائزر منظرِ عام پر آیا.اس اخبار کے ادارے نے آپ سے اور کبیر احمد صاحب بھٹی سے درخواست کی کہ باری باری ان کے لئے اسلامی کالم لکھا کریں اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیا کے تین وقیع اخباروں میں اسلام کی نمائندگی احمد یہ مشن کے ہاتھ منتقل ہونے کے سامان پیدا ہو گئے.جہاں تک ریڈیو کا تعلق ہے صوفی صاحب کو اس کے ذریعہ حق کو بلند کرنے کا ایک زریں موقع یہ آیا کہ اس عرصے میں ریڈیو پر ایک مباحثہ ہوا.جس کا عنوان تھا.ے مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا مباحثہ میں مذہب کی طرف سے پہلی اور آخری تقریر صوفی صاحب نے کی.اس مباحثے کے آرگنائزر ایک ہندو تھے جنہیں بتایا گیا تھا کہ اسلام کے متعلق صحیح معلومات چاہئیں تو اسے صرف احمد یہ مشن کی طرف رجوع کرنا چاہئے.عید الفطر کے موقعے پر احمدی بچوں کا ایک پروگرام 'وائس
تاریخ احمدیت.جلد 23 753 سال 1966ء آف کینیا کی سروس سے براڈ کاسٹ کیا گیا.اور اس میں صوفی صاحب کی روزوں سے متعلق لکھی ہوئی ایک تقریر نشر کی گئی.صوفی صاحب نے جب سے مشن کا چارج لیا آپ ہر ماہ اخبار احمد یہ مرتب کر کے شائع کر رہے تھے.جس کی کتابت حمید احمد صاحب بھٹی اور طباعت افتخار احمد صاحب بٹ کرتے تھے.گذشته سال جماعت نیروبی نے چندہ جمع کر کے دس ہزار شلنگ کی لاگت سے احمد یہ قبرستان نیروبی کی چار دیواری پختہ شکل میں تعمیر کر دی.اور اب یہ قبرستان خوشنما نظر آنے کے علاوہ محفوظ ہو گیا.اس کارِ خیر میں کینیا کی ملک فیملی کے علاوہ قریشی عبدالرحمان صاحب،عبدالعزیز بٹ صاحب، سید محمد اقبال شاہ صاحب اور بعض دوسرے احباب نے بھی حسب توفیق دل کھول کر حصہ لیا.کینیا مشن نے اس سال حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب کی کتاب لائف آف محمد انگریزی میں (LIFE OF MUHAMMAD)، کتاب الصلوۃ اور کتاب الصوم مناسب اضافوں اور ترمیموں کے بعد سواحیلی میں شائع کیں.اسی طرح حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک کتاب کفاره مسیح (KAFARA YA YESU) پہلی بار سواحیلی میں شائع کی گئی.اس کتاب کا ترجمہ عثمان کا کور یا صاحب کی کاوش و محنت کا رہین منت تھا جنہوں نے نہ صرف اس کتاب کا ترجمہ کیا بلکہ اس کی اشاعت کے لئے ایک ہزار شلنگ کا عطیہ بھی دیا.جناب صوفی محمد الحق صاحب نے اپنی ایک مطبوعہ رپورٹ میں تحریر فرمایا:.اس مشن کی طرف سے ہر ماہ اخبار ایسٹ افریقن ٹائمنر مکرم عبدالسلام صاحب بھٹی کی ادارت میں تین ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے.اور چونکہ کینیا مشن سارے ایسٹ افریقہ کے احمد یہ مشنوں کی سواحیلی لٹریچر کی ضروریات کو بھی پورا کرتا ہے.اسی لئے ہماری نگرانی میں ہی ہمارا سواحیلی اخبار ما پینزی یا منگو بھی ہر ماہ تین ہزار کی تعداد میں شائع ہوتا ہے.اس اخبار کو مرتب مولانا محمد منور صاحب مبلغ انچارج ٹانگانیکا مشن کرتے ہیں.اور اسکی طباعت کے اخراجات بھی وہی مشن دیتا ہے البتہ اس کی طباعت کی نگرانی اور ترسیل ہمارے ذقے ہے.۱۹۶۶ء میں مشن کی طرف سے تقریباً اسی ہزار اشتہارات سواحیلی اور انگریزی زبانوں میں شائع کئے گئے.سال کے شروع میں مولوی محمد عیسی صاحب اور مئی کے شروع میں مولوی منیر الدین احمد صاحب کینیا تشریف لائے.جس پر تبلیغی اور تربیتی سرگرمیاں تیز تر ہو گئیں.مولوی محمد عیسی صاحب 94 66
تاریخ احمدیت.جلد 23 754 سال 1966ء نے کسٹموں میں ایک حرکت پیدا کر دی.اور متعدد شہروں اور دیہات کا بار بار دورہ کیا.اور پھر ٹاوٹیا مشن کے انچارج کی حیثیت سے نہایت پر جوش انداز میں تعلیم و تربیت کے فرائض سرانجام دینے لگے.اور تھوڑے ہی عرصے میں سواحیلی زبان پر بھی عبور حاصل کر لیا.تین ماہ بعد مولوی منیر الدین صاحب نے ان سے کسموں کا چارج لینے کے بعد کم وبیش ایک ہزار میل کا تبلیغی سفر کیا.کینیا میں آریہ سماج نے اپنا سالانہ جلسہ کیا اور اس میں اسلام کی نمائندگی کے لئے صوفی محمد اسحق صاحب کو لیکچر دینے کے دعوت دی.لیکچر کا عنوان تھا ”سائنس کا اثر مذہب پر صوفی صاحب نے متعدد تاریخی واقعات اور مغربی دانشوروں کے حوالہ جات سے ثابت کیا کہ بچے مذہب کو سائنس سے ڈرنے کی قطعاً ضرورت نہیں.نیز بتلایا گیا سائنس کے زمانے میں خلاف فطرت و خلاف عقل تعلیم دینے والے مذاہب کے پھیلنے کا امکان اب ختم ہو گیا ہے.اس کامیاب تقریر کی ہندوؤں نے بھی تعریف کی.گیمبیا 95- مکرم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی انچارج گیمبیا مرکز کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بذریعہ لٹریچر، زبانی گفتگو اور خط و کتابت گیمبیا، مالی اور سینیگال سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد تک پیغام حق پہنچایا جس کے نتیجہ میں مالی سے تعلق رکھنے والے ایک دوست عبدالرحمان صاحب جو کہ عربی اور فرانسیسی خوب جانتے ہیں نے احمدیت میں شمولیت اختیار کی.اسی طرح سینیگال سے تعلق رکھنے والے ایک اہل علم دوست محمد الا مین لوح صاحب کے علاوہ عربی مدرسہ کے دو طالب علم اور ڈکار سے چند میل دور ایک گاؤں امبور نامی کے سید عبدالرحمان صاحب نے بھی احمدیت قبول کی.اسی طرح سینیگال کے شہر بن کلنگ سے تعلق رکھنے والے ایک معلم الصبیان صاحب نے بیعت کی.گیمبیا کے ایک اور شہر جورج ٹاؤن میں ۴۰ / افراد کی نئی جماعت قائم ہوئی.وہاں کے چیف صاحب نے بھی احمدیت قبول کی ہے.چیف صاحب نے جورج ٹاؤن میں اسکینڈری سکول کے لئے زمین دینے کا بھی وعدہ کیا.اسی شہر میں مقیم ایک لبنانی گھرانے کے تین افراد نے بھی بیعت کر لی.گیمبیا کے ایک گاؤں مرفینی میں سے دسمبر ۱۹۶۵ء کو ایک مسجد کی بنیاد رکھی گئی.یہ گیمبیا میں جماعت احمدیہ کی دوسری مسجد ہے.
تاریخ احمدیت.جلد 23 755 سال 1966ء سالے کینیا گاؤں میں بھی نئی جماعت قائم ہوئی تھی.پہلے وہاں دو نو جوان احمدی ہوئے پھر مئی ۱۹۶۵ء میں ایک نوجوان نو حاٹورے احمدی ہوئے.ان کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق ہے.ان کی اور لوکل مشنری کی پانچ ماہ کی دعوت الی اللہ سے اب اس جماعت کی تعداد ایک سو افراد سے زائد ہو چکی ہے.عید الفطر کے موقعہ پر ریڈیو والوں نے پیغام عید ریکارڈ کرنے کی دعوت دی.عربی اور انگریزی میں پیغام ریکارڈ کرائے گئے.جن کو عید کے دن ساڑھے آٹھ بجے رات اور اس کے بعد بھی کئی دفعہ براڈ کاسٹ کیا گیا.لوکل مبلغ مولوی ابراہیم عبد القادر کو ساتھ لے کر وزیر اعظم صاحب کے مکان پر ان سے ملاقات کی.قرآن کریم مترجم کے علاوہ سات کتب ان کی خدمت میں پیش کی گئیں.الحاج ایف ایم سنگھائے صاحب کی بار بار کی تحریک پر وزیر اعظم صاحب نے ے مئی ۱۹۶۵ء کو اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تھا.اس کے بعد برابر ان کولٹریچر دیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان کا شرح صدر کر دے.آمین لائبیریا 96 مکرم مبارک احمد ساقی صاحب انچارج احمد یہ مشن لائبیریا کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے منرو یا شہر سے باہر ۲۵ دیہات میں تقاریر اور لٹریچر کے ذریعہ تبلیغی مساعی جاری رکھی.ایک گاؤں (Boima Town) کے چیف کی دعوت پر ایک چرچ میں آدھ گھنٹہ تقریر کی جس میں بائیبل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بشارات پڑھ کر سنائیں اور مسیح علیہ السلام کی بعثت ثانیہ کا ذکر کیا.اس گاؤں کے دس عیسائیوں نے اسلام قبول کر لیا.یونیورسٹی آف لائبیریا میں ٹیچر ٹریننگ کلاس میں بھی ایک تقریر کی جس کا خلاصہ وہاں کے ایک روز نامہ اخبار میں شائع ہوا.عیدالاضحیہ کے موقع پر ایک احمدی دوست حاجی سانکو با یو صاحب نے ایک عشائیہ کا انتظام کیا.تیں احباب مدعو تھے.جن میں مسلمان گورنر ، مسلم کانگرس آف لائبیریا کے پریذیڈنٹ، سیرالیون ایسوسی ایشن کے سیکرٹری اور روز نامہ Listener کے ایڈیٹر خاص طور پر قابل ذکر ہیں.کھانے کے بعد مکرم مبارک احمد ساقی صاحب نے جماعت احمدیہ کے قیام کی غرض و غایت بیان کی.اس کے بعد مسلم کانگرس آف لائبیریا کے پریذیڈنٹ نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم نے جماعت احمدیہ کے مبلغین کی مساعی کا بغور جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ احمدی حقیقی مسلمان ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام
تاریخ احمدیت.جلد 23 756 سال 1966ء کی خدمت کا بے پناہ جذبہ موجود ہے.اخبارات میں مضامین کی اشاعت اور ریڈیو پروگرام میں حصہ لیا جا تا رہا.عیدالاضحیہ کے موقع پر لائبیرین براڈ کاسٹنگ نے آپ کا ایک انٹرویو نشر کیا جس میں قربانی کا فلسفہ اور عید الاضحیہ کی اہمیت بیان کی گئی تھی.روزنامہ الفضل ربوہ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے پریذیڈنٹ کی پریس کانفرنس میں شمولیت کا موقعہ مل جاتا ہے.اور یہاں کی پریس یونین کی ممبر شپ بھی حاصل ہے.لائبیریا کے سب سے کثیر الاشاعت اخبار STAR کے مینیجر صاحب (جو کہ انگریز ہیں ) کولٹر پچر پیش کیا گیا.عرصہ زیر رپورٹ میں ۲۱.احباب نے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کی.ماریشس مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر مرکز سے ۱۸ را پریل ۱۹۲۶ء کو ماریشس پہنچے اور مجنونانہ انداز میں تبلیغی جہاد میں مصروف عمل ہو گئے.جس کا اندازہ اُن کی پہلی رپورٹ ۱۸ را پریل تا ۱۸ جولائی ۱۹۶۶ء سے بخوبی ہوتا ہے.اس رپورٹ کے مطابق انہوں نے ملک بھر میں مختلف مقامات میں قرآن مجید اور اسلامی تعلیم کے بارے میں چھتیں لیکچر دیئے.لیکچروں کے بعد بسا اوقات سلسله سوال و جواب نصف شب تک جاری رہتا تھا.ایک لیکچر کی صدارت ماریشس کے وزیر زراعت نے اور ایک کی پرنسپل صاحب ٹیچرز ٹریننگ کالج نے کی.اس سہ ماہی میں ٹیلی ویژن پر آپ کا انٹرویو نشر ہوا اور ریڈیو پر مندرجہ ذیل عنوان سے آپ کی چار تقاریر ہوئیں.اسلامی رواداری، ہمارے پیارے نبی محمد ﷺے ، اسلام اور صحت جسمانی ، پاکستان کی ترقی.آپ نے ملک کی جن اہم شخصیتوں کو اسلامی لٹریچر پیش کیا.اُن میں مندرجہ ذیل خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں.ڈاکٹر رام غلام وزیر اعظم ماریشس، مسٹر بلیل وزیر زراعت ،مسٹر عبدالرزاق وزیر مکانات ، مسٹر بشن دیال وزیر امداد باہمی ، مسٹر ہیرالڈ والٹر وزیر صحت، مسٹر ترنگدن وزیر مال (ترقیات) ، مسٹر جگناتھ وزیر مال (اخراجات ) ، مسٹر جان سٹون ڈپٹی سیکرٹری فارسٹیٹ، وزیر اعظم ماریشس اور ڈپٹی سیکرٹری فارسٹیٹ سے ملاقات کی خبر ریڈیو اور ٹیلی ویژن نے بھی نشر کی.آپ نے رواداری کے عنوان سے ایک تبلیغی پمفلٹ بھی شائع کیا.جسے پورے ماریشس
تاریخ احمدیت.جلد 23 757 سال 1966ء میں تقسیم کیا گیا.روزنامہ CITOYEN نے ۶ جولائی ۱۹۶۶ ء کی اشاعت میں اس پمفلٹ کے بارے میں ایک معز ز مسلمان اہل قلم نے درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا :.” میرے سامنے ایک پمفلٹ ہے جس میں رواداری اور باہمی مفاہمت کے لئے اپیل کی گئی ہے.میں نے اس کو خوب پڑھا اور میں اس سے یہی سمجھا ہوں کہ ہم مسلمان اور دوسرے اچھے لوگ قرآنی اصولوں پر عمل کر کے امن اور محبت سے رہ سکتے ہیں.نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم ان لوگوں کو جنہوں نے ہمیں دکھ دیا ہے معاف کر دیں گے.ہم غریبوں اور اقلیتوں سے نفرت نہیں کریں گے.اور یہی کام ہیں جو ہمیں آپس میں دوستی محبت اور موافقت پیدا کرنے کے لئے کرنے چاہئیں.یہی رواداری ہے جس کی ہمیں اس چھوٹے سے جزیرے میں اشد ضرورت ہے کیونکہ اس جزیرہ کے حصے بخرے سیاسی اور نسلی بنیادوں پر ہو چکے ہیں.....مجھے اس پمفلٹ کو دیکھ کر خوشی ہوئی.یہ بہت عمدہ اور نفیس طبع ہوا ہے.اور اس میں امن، انصاف اور اتحاد کے لئے شاندار اپیل ہے.میں نے اسے بار بار پڑھا اور پڑھتے جانے کو ہی دل چاہتا ہے.میں نے اس پر خوب غور و خوض کیا.اور ہمیں چاہیئے کہ ہم قرآن، بائبل اور ہندو کتب پر غور کریں کیونکہ ہر ایک کتاب نے یہی سکھایا ہے کہ ایک دوسرے سے محبت کرو سیدنا حضرت خلیفتہ امسح الثالث نے مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر کو اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:." آپ کا خط محرره ۴۶۶.۲۰ موصول ہوا.الحمد للہ آپ خیریت سے پہنچ گئے مجھے خواب میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے پہنچنے کے بعد ماریشس میں کچھ انقلابات آئیں گے.اللہ تعالیٰ انشاء اللہ بہتری کے سامان پیدا کرے گا.اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیں.والسلام ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث “ مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر نے مذکورہ رپورٹ میں حضور کے ان مبارک الفاظ کو قلمبند کرنے کے بعد لکھا:.اس خط کے بعد کئی انقلابات کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.امید ہے کہ ابھی اس رؤیا کی تصدیق کے لئے بہت سے انقلابات آنے والے ہیں تا کہ اس ملک میں احمدیت کی شاندار ترقی جلد تر ہو.166
تاریخ احمدیت.جلد 23 758 سال 1966ء پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس کی واپسی مکرم عبدالستار صاحب سوکیہ پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس ربوہ میں تین ماہ قیام کرنے کے بعد اپنے وطن واپس جانے کی غرض سے ۵ مارچ کو چناب ایکسپریس سے کراچی روانہ ہوئے.اہل ربوہ نے سٹیشن پر پہنچ کر آپ کو دلی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.آپ ماریشس جانے سے قبل فریضہ حج ادا کرنے کی خاطر مکہ معظمہ جائیں گے.ملائیشیا 99 اس سال مولوی بشارت احمد صاحب امروہی مبلغ ملائیشیا کی مساعی سے ۲۳/افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے جن میں سے تیرہ افراد کا تعلق سنڈا کن سے تھا.نئے مبایعین میں سے ایک صاحب شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور صحافی تھے.سیلیم سیپا تک آئی لینڈ تو اؤ اور سمورنا جیسے مقامات میں پہلی دفعہ احمدیت کا بیج بویا گیا اور ہر جگہ ایک ایک دوست داخل احمدیت ہوئے.مولوی صاحب موصوف نے کئی بار دشوار گذار راستوں کو طے کر کے تبلیغی دورے کئے اور اسلامی لٹریچر اور ملاقاتوں کے ذریعے پیغام حق پہنچایا.جن تعلیم یافتہ اصحاب سے آپ نے ملاقاتیں کر کے احمدیت سے متعارف کرایا اُن میں سے بعض قابل ذکر نام یہ ہیں.مسٹر پیٹر چنگ ہیلتھ انسپکٹر، مسٹر اسٹیفن چونک ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (اکاؤنٹس برانچ)، مسٹر غنی گیلان (ایک سیاسی پارٹی کے لیڈر ) ، سر ہنڈرسن ڈسٹرکٹ آفیسر، مسٹر دیوج امریکن (امریکن 100- سکول ٹیچر ) جماعت احمدیہ ملائیشیا کی دوسری سالانہ کانفرنس ۱۲،۱۱ دسمبر ۱۹۶۶ء کو سب میں منعقد ہوئی.جس میں سنڈا کن، لا بوان، رانا ؤ لنلفن ، ساسا گا سائپنگ اسٹیٹ، کنگاؤ، رامامیہ، تمالانگ ( تیلیوک ) اور کوالا بلائیت (اسٹیٹ آف برونائی) نے بحیثیت جماعت حصہ لیا.اور بعض جماعتوں سے افراد شریک کانفرنس ہوئے.اجلاسوں کی صدارت جناب ڈینیئل مورا یوسف صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سنڈا کن اور جناب امرین بہالی پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ کنگا ؤ نے اور شوری کی صدارت مولوی بشارت احمد صاحب امروہی نے کی.101-
تاریخ احمدیت.جلد 23 759 سال 1966ء نائیجیریا ۱۰۹ را پریل ۱۹۶۶ء کو جماعت احمدیہ کا نہایت کامیاب سالانہ جلسہ منعقد ہوا.حضرت خلیفة أسبح الثالث نے حاضرین جلسہ کے نام روح پرور پیغام میں نصیحت فرمائی کہ وہ اسلام کے جھنڈے کو ہمیشہ بلند رکھیں ہر احمدی اپنی زندگی کو اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تا کہ وہ اپنے وجود میں اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ پیش کرنے کے قابل ہو سکے.ہراجلاس میں جملہ احباب نے کھڑے ہو کر نظام خلافت کے ساتھ وابستگی اور اس کی حفاظت کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا عہد بلند آواز سے دہرایا.جلسہ گاہ پُر جوش نعروں سے گونجتی رہی.نائیجیر یا مسلم کونسل کے سیکرٹری جناب الحاج لا گوڈا، انڈو نیشین سفیر مقیم لیگوس، ایڈوانسڈ ٹیچر ٹریننگ کالج کے پرنسپل اور دیگر احباب نے اپنی تقاریر میں نائیجیر یا احمد یہ مشن کو اس کی عظیم الشان دینی خدمات پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین ادا کیا.نائیجیریا کے ذرائع ابلاغ (اخبار، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ) نے جلسہ کی خبریں شائع اور نشر کیں اور جلسہ کے مناظر خصوصاً سوال و جواب کا پروگرام خاص اہتمام کے ساتھ دکھلایا گیا.احمد یہ جماعت کو نائیجیریا میں ریڈیو اور ٹیلیویژن کی بہت سی آسانیاں میسر ہونے کے باعث ٹیلی ویژن پر احمدیت سے لوگوں کو متعارف کرانے کے لیے سوال و جواب کا ایک پروگرام منعقد کیا گیا جس میں احمدیت کے مخصوص عقائد اور عملی حصہ کی تشریح کی گئی.مذاکرہ کی صدارت ایک احمدی دوست نے کی جبکہ مبلغ انچارج الحاج مولوی نصیر الدین احمد صاحب اور ان کے تین ساتھیوں نے سوالوں کے جواب دیے.105 ہالینڈ 102 حافظ قدرت اللہ صاحب انچارج ہالینڈ مشن کو اس سال ملک کے متعد دحلقوں ،سکول، کالج اور یو نیورسٹیوں نے اپنے ہاں تقریر کے لئے مدعو کیا.آپ نے اپنی تقاریر میں اسلام کی کامیاب نمائندگی کی اور سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اس کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی.آپ کی بعض تقاریر کی خبریں مقامی پریس میں بھی شائع ہوئیں.سال کے ابتدائی چار ماہ میں آپ کی بارہ حلقوں میں تقاریر ہوئیں.جن میں سے بعض کا نام یہ ہے.سر بینام (سابق ڈچ گیا نا) کی ہالینڈ کلب (ہی)، پبلک لائبریری (بسم )، چرچ سوسائٹی بسم
تاریخ احمدیت.جلد 23 760 سال 1966ء (JONGE KERK) ، فری یونیورسٹی (زتفن ) ، سوشل سنٹر (رورمند)، کلچر سنٹر (ایمسٹر ڈم)، سوشل سنٹر ( نین روڈ NYENRODE) کیتھولک مرکز (الکمار ALKMAAR)،سالویشن سنٹر کی تنظیم ( دور در یخت)DORDRECHT، ریفارم چرچ سنٹر ( آلر ڈنک ) ALERDINK ہیگ کے کیتھولک سکول اور سکاؤٹ گروپ اور روٹرڈیم کی یونیورسٹی اور دیگر مقامات سے متعدد وفود مشن ہاؤس میں پہنچے اور حافظ صاحب اور مولوی عبد الحکیم صاحب اکمل نے انہیں اسلام واحمدیت کے بارے میں ضروری معلومات بہم پہنچائیں.زائرین کا سلسلہ بھی جاری رہا جن میں ڈچ کے علاوہ ترکی، ایران ، پاکستان، مصر، سعودی عرب، کویت، اردن، انڈونیشیا، سرینام اور لندن وغیرہ کے اصحاب شامل تھے.ملک کے مذہبی حلقوں میں اس سال کا یہ واقعہ خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ ڈاکٹر کے.برنا (DR.K.BERNA) کی کتاب مسیح صلیب پر نہیں مرے، اشاعت پذیر ہوئی.کفنِ مسیح کے بارہ میں اس وقت تک جو سائنسی تحقیقات ہوئی اس سلسلہ میں یہ ایک دستاویز تھی ڈچ پبلشر نے احمد یہ مشن سے حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کی اسی موضوع پر مشہور تالیف’ WHERE DID ?JESUS DIE “ بھی خاصی تعداد میں منگوائی نیز اپنی کتاب میں اس کا عمدہ رنگ میں ذکر کر کے لکھا کہ ہماری یہ کتاب ایک سائنسی تحقیقات کے نتائج پر مشتمل ہے جس نے تاریخی اور مذہبی بنیادوں پر اس موضوع کا مطالعہ کرنا ہو وہ مذکورہ کتاب پڑھے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدید علم کلام کی عظمت دوبالا ہوئی اور اس کی ملک گیر شہرت کا سامان دوسروں کے ہاتھوں ہوا اسی لئے حافظ 66 صاحب نے اپنی ایک ڈائری میں لکھا کہ اس کی اشاعت سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے.یوگنڈا 166 ۲ مارچ ۱۹۶۶ء کو علاقہ ٹورو کے نئے بادشاہ جناب پیرلوک کابو کی رسم تاجپوشی کے موقعے پر یوگنڈا مشن کی طرف سے ایڈریس دیا گیا اور ساتھ ہی قرآن مجید کا تحفہ بھی.اس سلسلے میں مرزا محمد ادریس صاحب مبلغ یوگنڈا، مولوی مقبول احمد ذبیح اور چوہدری مختار احمد صاحب ایاز پر مشتمل ایک خصوصی وفد ٹورو کے صدر مقام فورٹ پورٹل گیا.اس اہم واقعہ کی خبر ریڈیو یوگنڈا نے نشر کی اور اخبار میں وفد کی تصویر کے ساتھ خبر شائع ہوئی.اسی طرح ملک کی آزادی کی تقریب پر مشن کی طرف سے
تاریخ احمدیت.جلد 23 761 سال 1966ء پریذیڈنٹ ڈاکٹر ملٹن ابو ٹے (OBOTE) کو قرآن مجید کا ترجمہ انگریزی وسواحیلی اور مسلمان وزیر صحت شعبانی انکوٹو کو کتاب INVITATION TO AHMADIYYAT(دعوة الامیر ) کا تحفہ پیش کیا گیا.۲۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء کو کمپالا میں سینئر سیکنڈری سکول کا سنگِ بنیاد رکھا گیا.جس کی خبر یوگنڈا کے 66 کثیر الاشاعت انگریزی اخبار یوگنڈا آرگس نے نمایاں جگہ پر مع فوٹو کے شائع کی.قبل ازیں کمپالا اور ججہ میں شاندار اور خوبصورت مساجد موجود تھے.اس سال مسا کا شہر اور کسامبیرا میں دونئی مساجد کی تعمیر مکمل ہوئی.اول الذکر کی تعمیر کی نگرانی ڈاکٹر احمد دین صاحب اور ثانی الذکر کی مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح نے کی.مسجد کسامبیرا کی تعمیل ۲۵ستمبر کو ہوئی.جس کی خوشی میں ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا اور اس کا اعلان ریڈیو یوگنڈا پر بھی ہوا.جلسہ میں مساکا، کمپالہ، ججہ اور امبالے کے احمدی مخلصین کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں غیر از جماعت معز زمسلمانوں اور عیسائیوں نے بھی شرکت کی.جلسہ کے دو اجلاس ہوئے.کسامیرا کے عیسائی چیف نے مشن کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پہلے ہمیں اسلام سے بے حد نفرت تھی.جب سے احمد یہ مشن نے ہمارے علاقے میں تبلیغ اسلام شروع کی ہے.اسلام کے متعلق ہماری غلط فہمیاں دور ہو رہی ہیں.پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ کسا میرا میسی مانگے نے کسا میرا کی تاریخ احمدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایمان افروز واقعات بیان کئے.الحاج ابراہیم سیفو مانے بتایا کہ پہلے ہم صرف نام کے مسلمان تھے لیکن احمدیت کے آنے سے ہمیں قرآن وسنت کا علم ہوا اور ہم اندھیرے سے نکل کر ٹو رہدایت میں آئے.اور کئی بدعات سے ہمیں چھٹکارا ملا.اس سال یوگنڈا کے چار احمد یوں کو حج بیت اللہ کی توفیق ملی.مرزا محمد ادریس صاحب، ڈاکٹر لعل دین احمد صاحب مع بیگم صاحبہ محمد امین صاحب جنجوعہ مارچ تا اکتوبر ۱۹۶۶ء کے دوران ۲۶/افراد داخل احمدیت ہوئے.10
تاریخ احمدیت.جلد 23 762 سال 1966ء مبلغین سلسلہ کی آمد اور روانگی ۱۹۶۶ء میں جو مجاہدینِ احمدیت بیرونی ممالک میں اعلائے کلمتہ اللہ کے فریضہ کی ادائیگی کے بعد واپس تشریف لائے یا مرکز احمدیت سے روانہ ہوئے اُن کے نام یہ ہیں.آن روانگی ا.چوہدری عنایت اللہ صاحب (۱۰ جنوری از مشرقی افریقہ) ۲.مکرم رشید احمد سرور صاحب (۵) جنوری از تنزانیه ) ۳.مولوی محمود احمد صاحب چیمہ (۲۱ / اپریل از مغربی جرمنی ) ۴.مولوی جلال الدین صاحب قمر ے مئی از فلسطین) 109 110 ۵ - مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری (۸) تمبر از سنگا پور ) ۶ - قریشی محمد افضل صاحب (۱۵ نومبر از آئیوری کوسٹ ) ے.مولوی کرم الہی صاحب ظفر (۲۴ دسمبر از بین ) 2 ا.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد (۱۵ جنوری.برائے گھانا ) ۲.مولوی محمد عیسی صاحب 108 (۲۶ جنوری.برائے کینیا مشرقی افریقہ ).مولوی داؤ داحمد حنیف صاحب (۲۷ مارچ.برائے سیرالیون ).مولوی منیر الدین احمد صاحب ایم.اے ( ۳۰ مارچ.برائے کینیا ) ۵.حافظ محمد سلیمان صاحب ۶ اپریل.برائے مشرقی افریقہ ) 118 ۶ - مولوی محمد عثمان صاحب چینی (۸/اپریل.برائے سنگا پور ) ۷.شیخ نذیر احمد صاحب بشیر حیدر آبادی (1 ار ا پریل.برائے انگلستان) مولوی محمد اسماعیل صاحب منیر (۱۵ را پریل.برائے ماریشس ) ۹ - مولوی غلام احمد صاحب نسیم (۲۵ مئی.برائے برٹش گی آنا ) 120 121
تاریخ احمدیت.جلد 23 763 سال 1966ء ۱۰.احمد شمشیر سوکیہ صاحب ۲۸ جولائی.برائے ماریشس ) ۱۱.مولوی بشیر احمد شمس صاحب (۱۲ ستمبر.برائے مغربی جرمنی) ۱۲.مولوی عبدالکریم صاحب شرما ۱۳ /اکتوبر.برائے یوگنڈا ) 2 122 ۱۳.مولوی غلام باری صاحب سیف (۱/۲۰ اکتوبر.برائے اعلی عربی تعلیم بیروت لبنان) 125
تاریخ احمدیت.جلد 23 764 سال 1966ء نئی مطبوعات اس سال مندرجہ ذیل کتب شائع ہوئیں.جن سے سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں گرانقدراضافہ ہوا.تفسیر القرآن انگریزی ( پانچ جلدوں میں ) مرتبہ حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم.اے احادیث الاخلاق شان مسیح موعود علیہ السلام غلبه حق مولوی غلام باری صاحب سیف استاذ جامعہ احمدیہ ) مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) مباحثہ میانوالی مابین مولانا قاضی محمد نذیر صاحب و مولوی لال حسین صاحب اختر ) نبوت وخلافت کے متعلق اہلِ پیغام اور جماعت احمدیہ کا مؤقف (مولانا جلال الدین صاحب شمس، مولانا ابوالعطاء ، مولانا شیخ مبارک احمد صاحب ، سیدمحمود احمد صاحب ناصر ) ( مولانا شیخ عبدالقادر صاحب فاضل ) لا ہور تاریخ احمدیت اسلام کا عالمگیر غلبہ تین مسئلے ( مولانا جلال الدین صاحب شمس) ( مولاناحافظ عزیز الرحمن صاحب فاضل منگلا ) جماعت احمدیہ سے متعلق بعض سوالات کے جوابات ( مولوی محمد اسد اللہ قریشی صاحب) اُمید کا پیغام سکھ گور وصاحبان اور مسلمان گورو گرنتھ اور اردو بشارات رحمانیہ (جلد دوم) سود نیئر نمبر۲ ( فاروق) ( حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب) گیانی عباداللہ صاحب) گیانی عباداللہ صاحب ) ناشر مرکزی اردو بورڈ لاہور مولوی عبد الرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل) ( ناشر مجلس خدام الاحمدیہ لاہور ) کفاره مسیح کا سواحیلی ترجمه (KAFARA YA YESU) مصنف حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مترجم بزبان سواحیلی مکرم عثمان کا کو ریا صاحب) (۶۶ - ۱۹۶۵ء میں صیغہ نشر و اشاعت ربوہ کی طرف سے چھپنے والے لٹریچر کی تفصیل کے لئے دیکھئے رپورٹ صدرانجمن احمد یہ پاکستان ۶۶ - ۱۹۶۵ء)
تاریخ احمدیت.جلد 23 1 2 3 4 5 CO 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء الفضل ۹ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۹ فروری ۱۹۶۶ء صفحها الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۱۹ مئی ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل 9 جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ا الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۶۶ ء صفحہ ا 765 حوالہ جات (صفحه 707 تا 764) الفضل ۸ ستمبر ۱۹۶۶ء صفحہ ، ایک مبارک نسل کی ماں صفحہ ۱۲۰ مؤلفہ سید سجاداحمد صاحب الفضل ۹ر اپریل ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۶ء صفحہ ا الفضل ۳۰ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل یکم مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۳ را گست ۱۹۶۶ صفحه ۸ الفضل ممئی ۱۹۶۶ء صفحہ ا الفضل ۲۸ / اگست ۱۹۶۶ء صفحه ۵ الفضل ۲۹ را پریل ۱۹۶۶ءصفحہ ۸ الفضل ۳۰ نومبر ۱۹۶۶، صفحه ۱ الفضل یکم دسمبر ۱۹۶۶ء صفحها الفضل ۲۶/اکتوبر و۲ دسمبر ۱۹۶۶ء الفضل ۶ و ۱۲ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۱۵ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۸ بحوالہ مجلہ امام الزماں اور خلفائے احمدیت لاہور میں از لجنہ اماءاللہ لا ہور صفحہ ۲۲۲ ماہنامہ تخحید الاذہان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۶ سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 ماہنامہ خالد سید نا ناصر.اپریل مئی ۱۹۸۳ صفحه ۱۱۲ 766 سال 1966ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ ، صفحہ ۲۲۱ ماہنامہ تشخید الا ذبان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۸ الفضل ربوہ ۲۶،۲۴ اپریل ۱۹۶۶ء احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی ۵۲ ویں سالانہ رپورٹ صفحہ ۵ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی ۵۲ ویں سالانہ رپورٹ صفحہ ۶ بحوالہ الفرقان اپریل ۱۹۶۶ صفحہ ۲۰:۱۹ الفضل ربوه ۸ مئی ۱۹۶۶ صفحه ا سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمد یہ پاکستان ۶۷ - ۱۹۲۶ صفحه ۴۸، ۴۹ 41 ه چه نه له م ت ه ش 42 43 44 45 46 47 48 49 49 50 الفضل ۹ جولائی ۱۹۶۶ ء صفحه ۳ الفضل ۱۳ را گست ۱۹۲۶ ء صفحه ا الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۸ 51 الفضل ربوه ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۶، صفحه ۸ شخص از رپورٹ مکرم مسعوداحمد قبلی صاحب انچارج احمد یہ فارن مشن.راولپنڈی کراچی تاریخ احمدیت حصہ اول صفحہ ۴۰۶ جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی صفحہ ۲۵۱ مطبوعہ مفید عام پریس لاہور ہفت روزہ بدر قادیان ۲۶ جون ۱۹۶۷ صفحه ۱۰ الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۶۶ ، صفحہ ۳ الفضل ۹ نومبر ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ الفضل ۹ دسمبر ۱۹۶۶، صفحه ۵ " تاریخ احمدیت جموں و کشمیر ، صفحہ ۱۴۶ تا ۱۴۸ الفضل ۱۰دسمبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۸ الفضل ۲۳ فروری ۱۹۶۶ ، صفحه ۵ بدر ۱۰ / مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۶،۱ بدری ۱ تا ۲۴ مارچ صفحه ۱۱،۱۰ بدر یکم و ۸ دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۲۰،۱۹ بدر قادیان همئی ۱۹۶۶ صفحه ۱ ۱۰۰ بدر ۸ ستمبر ۱۹۶۶، صفحه ۱ ۲ مضمون ایڈیشنل ناظر صاحب امور عامه بدره انومبر ۱۹۶۶ء صفحه ۹
تاریخ احمدیت.جلد 23 52 53 54 55 56 57 58 59 60 61 62 63 64 65 66 67 68 69 70 لا له 71 72 73 74 75 76 77 78 79 767 بدر ۹ جون ۱۹۶۶ ، صفحه ۹ ، ۱۶ جون ۱۹۶۶، صفحہ ۱ ۴ ۱ جولائی ۱۹۶۶ء صفحه ۷، ۱۸ / اگست ۱۹۶۶ ، صفحه ۲ بدر یکم دسمبر ۱۹۶۶، صفحه ۲۴ فہرست لٹریچر بدر ۳ مارچ ۱۹۶۶ صفحه ۱۲ بدر ۲ جون ۱۹۶۶ ، صفحیم بد را ارا گست ۱۹۶۶ء دورہ کی تفصیلی روداد کے لئے ملاحظہ ہو اخبار بدر ۱۴ اپریل تا ۲۱ جون ۱۹۶۶ء بدر ۷ ۱۴ / اپریل، مئی ، ۲۶ مئی ۱۹۶۶ء بدر ۲ جون ، ۲۱ جولائی، ۲۸ جولائی، ۱۸ اگست ۱۷ نومبر ۱۹۶۶ء بدر ۲۱ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۱۲ الفضل ۱۸، ۱۹ اگست ۱۹۶۶ء ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ جولائی ۱۹۶۶ء صفحه ۱۲ الفضل ۲۶ جنوری ۱۹۶۷ء صفحہ ۲۵ تا ۲۸.رپورٹ مرتبہ میاں عبدائی صاحب مبلغ انڈونیشیا تحریک جدید مارچ ۱۹۶۶ ء صفحهیم ، ۵ خطبہ جمعہ فرموده ۲۵ جون ۱۹۲۰ء ماہنامہ تحریک جدید اکتوبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۶،۵ الفضل ۲۳ستمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۳ الفضل ۲۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحیم مشخص از رپورٹ مکرم شیخ نذیر احمد صاحب نائب امام مسجد فضل لندن الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۶۷ء بدر ۱۹ مئی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۷، ۸.رپورٹ ملک احسان اللہ صاحب مقیم دار السلام مشرقی افریقہ الفضل ۳ مارچ ۱۹۶۷ صفحه ۱۰ انجیل یوحنا باب ۱۴ آیت ۲۶، باب ۱۶ آیات ۷ تا ۱۴ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۶۶ ، صفحه ۵ الفضل ۲۰،۱۷ فروری، ۱۷ مارچ ۱۹۶۶ء صفحه ۴ ماہنامہ تحریک جدید مئی ۱۹۶۶ صفحه ۱۲ ۱۳ الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۵ ماہنامہ تحریک جدیدر بوه نومبر ۱۹۶۶ صفحه ۱۲ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تا ریخ احمدیت جلد ۱۸ صفحه ۴۹۱،۴۹۰ الفضل ۲۲ ستمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۳ سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 80 81 82 83 84 85 86 87 88 89 90 91 92 93 94 95 96 97 98 99 100 101 102 103 104 105 106 107 768 ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ جولائی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۱۳، دسمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ۱۵ ماہنامہ تحریک جدید جولائی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۷ تا ۹ الفضل ۸ فروری ۱۹۶۶ صفحه ۴۰۳ الفضل ۳، ۲۵ / اگست ۱۹۶۶ء ماہنامہ تشخیز الاذہان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۴.ماہنامہ تحریک جدید ر بوه مارچ ۱۹۶۶ء صفحه۱۱،۱۰ الفضل ۲۵ فروری ۱۹۶۶ ، صفحی۴ ، ۵ ماہنامہ تحریک جدید جولائی ۱۹۶۶ء صفحہ ا او نومبر ۱۹۶۶ء صفحہ ۹ الفضل ۳ مارچ ، ۸ مئی ۲ جولائی ، ۲۹ نومبر، ۱۸ دسمبر ۱۹۶۶ء ماہنامہ تحریک جدید جوان ۱۹۶۶، صفحه ۱ الفضل ۷ افروری ۱۹۶۶ صفحه ۳ ہم ازالہ اوہام صفحه ۶۳۳ ماہنامہ تحریک جدید فروری ۱۹۶۶ء صفحه ۸ الفضل ۱۲ تا ۱۵ اپریل ۱۹۶۷ء الفضل ۱۲ تا ۱۵ اپریل ۱۹۶۷ء الفضل ۹۰۸ مارچ ۱۹۶۶ء الفضل ۱،۱۰ استمبر ۱۹۶۶ء الفضل ربوه ۲۱ اپریل ۱۹۶۶، صفحه ۴ ، ۵ الفضل ربوه ۳ ستمبر ۱۹۶۶، صفحه ۳-۴ الفضل ۲۴ ۲۵ ستمبر ۱۹۶۲ء ماہنامہ تشحیذ الاذہان اپریل ۱۹۶۶ء صفحہ ۲۶ الفضل ۱۲ فروری، ۱۶ جولائی ،۵ نومبر ۱۹۶۶ء ۴ فروری ۱۹۶۷ء الفضل یکم جنوری ۱۹۶۷، صفحہ ۳ الفضل ۲۶ اپریل ۱۹۶۶ء صفحه ۳ ۴۰ ماہنامہ تحریک جدیدر بوہ جولائی ۱۹۶۶ ، صفحہ ۱۲ الفضل ۲۰ - ۲۱ مئی ۱۹۶۶ ء.رسالہ تحریک جدید جون ۱۹۶۶ صفحه ۴ - ۶ الفضل ۲۲ نومبر ۱۹۶۶، صفحه ۳ ۴۰ الفضل ۱۲ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ا ریکارڈ وکالت تبشیر سال 1966ء
تاریخ احمدیت.جلد 23 108 109 110 111 112 113 114 115 116 117 118 119 120 121 122 123 124 125 126 الفضل ۲۳ اپریل ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل الامئی ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل استمبر ۱۹۶۶ ، صفحه ا الفضل ۷ انومبر ۱۹۶۶ ، صفحہ 1 الفضل ۳۰ دسمبر ۱۹۶۶ء صفحه ۸ الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۲۰ را پریل ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۶۶ء صفحها الفضل ۱۶ رابریل ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۱۰ راپریل ۱۹۶۶ء صفحها الفضل ۱۳ ر ا پریل ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۷ اسراپریل ۱۹۶۶ء صفحریم الفضل ۲۵ مئی ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۲۸ جولائی ۱۹۶۶ صفحه ا الفضل ۴ استمبر ۱۹۶۶ صفحها الفضل ۱۲ اکتوبر ۱۹۶۶ء صفحه ا الفضل ۱۹ / اکتوبر ۱۹۶۶ ، صفحه ا الفضل ۱۳ دسمبر ۱۹۶۶ صفحه ۵ 769 سال 1966ء
اشاریہ مرتبه: مکرم فراست احمد راشد صاحب معاونین مکرم و قاص عمر صاحب، مکرم اولیس احمد نوید صاحب، مکرم بلال احمد قمر صاحب ۳۸ ۵۲ اسماء....مقامات کتابیات
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 3 اشاریہ اسماء آ الف ابراہیم، شیخ اسماء آر کے گوئل ، شری آر برو ناز ، ڈاکٹر آصف جمیل ۱۲۷ ۴۹۰ آفتاب احمد نسل ۶۹،۶۸ ، ۶۱۵ ابراہیم ظفر ۵۶۸ ابو توفیق ۳۷۰ ابو جهل ابراہیم عبد القادر ، مولوی ۷۵۵ ابو سلمان شاہجہانپوری ابراہیم علیہ السلام، حضرت ابوظفر نازش رضوی ۵۹۷،۳۸،۳۶ ۵۶۴ ۶۸۳ ۶۳۱ ۱۹۹ ،۱۹۸ ،۱۹۷ ، ۱۹۲ ابراہیم ماء ۶۷۲ آمنہ طیبہ آؤ نکریاں آئزن ہاور ابر احسنی گنوری آفتاب احمد، ڈاکٹر آمنہ بی بی بنت سر بلند خان ۳۷۶ ابراهیم، مستری ۴۹۳ | اچاریہ ونو د بھاوے آمنہ بی بی بنت مولوی الف دین ابن السلام ۳۷۰ ۴۹۲ احسان الحق ۲۶۴ ۴۹۲ ابن سعود، شاہ عبد العزیز بن عبد احسان اللہ ، ملک ۴۴۲، ۷۶۷ آمنہ بیگم اہلیہ چوہدری مجید احد کاہلوں الرحمن بن فیصل ) ۱۰۷۷، ۵۲۷ احمد اللہ حافظ ۳۷۲ ۳۸۲ ۴۳۸ ۲۶۵ ابن سینا ، ۵۸ احمد الله شیخ ابوالعطاء جالندھری ، مولانا ۶۲ احمد بی بی ۱۳۱، ۲۷۷، ۳۵۹، ۴۱۵، ۴۲۳، احمد بیگ، مرزا ۲۳۴ ۵۷۲ ۶۷۳ ۶۶۳ ،۴۷۹ ۴۴۳، ۴۵۸، ۴۵۹ ، ۷ ۴۸ ۴۹۴۰ تا احمد جان ربیب مولوی محمد افضل ۴۹۶، ۴۹۸ ، ۵۰۵ ، ۵۱۶، ۵۱۸، | اوجلوی ۳۹۲ ۷۴۱ ابو ہریرہ رض ۶۰۲ ابرار حسین، میجر جنرل ۵۶۸،۵۵۱،۵۲۹،۵۲۷، ۵۹۵، احمد جان، چوہدری ۴۶۰ ۶۰۶، ۶۷۸، ۶۹۰، ۷۱۰، ۷۶۴ | احمد حسین شاہد ۹۲،۸۹ ،۸۷ ابراہیم ( ابن حضرت محمد ) و ابوالمنیر نورالحق، مولوی احمد خان نسیم ، مولوی ابراہیم برہم ،حکیم سید ۴۵۳،۳۵۶، احمد خاں ۲۱۵ ابراہیم ( ٹیچر ) ۵۰۴،۵۰۳، ۵۰۵، ۵۱۹، ۶۷۸ | احمد دوری ۷۰۴۶۶۴ ۵۱۲ ۶۸۷ ،۴۹۲ ۷۴۴ ۷۴۴ ابراہیم سیالکوٹی ،مولوی ۶۵۳ ابوالکلام آزاد، مولانا ۵۲۵،۹ احمد دین، حکیم ۴۹۲ ابرا ہیم سیفو ما الحاج 241 ابوبکر ایوب سماٹری ، مولانا ۲۹۱ احمد دین، ڈاکٹر
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 احمد شمشیر سوکیه ۷۶۳،۳۵۸ 4 اسمعیل غزنوی ، مولوی ۱۰ اکبر سلطانہ احمد علی شاہ، سید ۴۴۶ اسمعیل ، مولوی اسمعیل،مولوی ۴۹۳ | اصغر ۴۹۰ اکبر شاہ خاں نجیب آبادی اشاریہ.اسماء ۶۴۲ ۶۹۸،۶۹۷ ۴۹۲ ۵۹۶ ۴۱۳ ۴۵۷ ،۶۲ 2+1 ۷۴۴ ۵۸ ام ۲۶۶،۲۵۶ ۴۹۲ ۳۶۹ ۷۴۴ ٣٣ ۴۹۱ احمد علی ، ماسٹر احمد علی ، مولوی ۴۰۲ احمد علی، میر ۴۱۲ احمد مختار، چوہدری اصغر خان ۱۰۴ اکبر علی شاہ ،سید اظہر مسعود اعجاز احمد احمد نور کابلی ۶۱۳،۶۰۷ ،۶۹،۶۸ ۶۵۸ احمد و بیلو،سر ۴۳۹ احمد یوسف ۷۱۴ احمد یوسف ، ڈاکٹر اختر احمد اور نیوی سید ۵۶۰ ۲۵۳ ۶۴۲ اکبر علی، میاں ۴۷۳ اکبر یار جنگ، نواب اعجاز احمد، چوہدری ۴۷ اکرام الحق جماله اعجاز الحق ، ڈاکٹر ۴۵۴ اکرم شاہ ، سید اعظم خان، گورنر جنرل ۴۰۸ | البرٹ مارگائی ، سر اعظم علی، چوہدری ۵۵۲ | البیرونی افتخار احمد بٹ ۷۵۳ الحسن عطاء الحاج افتخار احمد، پیر ۶۴۳ الزبتھ ، شہزادی اختر حسین ملک، میجر جنرل افتخار حسین ،سید ۷۰ الطاف الرحمن ، ملک ۷۳ تا ۹۳٬۹۲،۸۷،۸۵ افتخار حسین شاہ ۴۹۲ | الف دین، مولوی ارجمند خان، مولوی افتخار خان جنجوعہ، بریگیڈئیر الفا آدم ارجن سنگھ ، ائیر مارشل 22 ۹۲،۷۲ الفریڈ گلیم ارشاد بیگم ارشاد علی خان ۶۵۱ ۴۹۲ افضل حق، چوہدری ۶۵۴ اللہ بخش.میر پور خاص اقبال احمد ۴۹۱ اللہ بخش ، میاں.راولپنڈی ۵۹۶ اقبال احمد شمیم، بریگیڈئیر ۴۶۱ الہی بخش احمد ۶۱۷ اقبال بیگم بنت منشی سر بلند خاں اللہ دتہ ابن مولوی احمد علی ۴۰۴ ۴۰۲ اللہ دتہ گنائی ۳۵۴ اقبال محمد خاں ۴۹۰ الیاس الیس مل، پادری ۵۱۸،۵۱۶ اکبر احمد عدنی ۳۸۲ الیاس برنی، پروفیسر ۴۲۰ ۲۴۷ ۷۵۸ ۳۷۲ ارون وائسرائے لارڈ اسٹیفن چونک ،مسٹر اسحاق منصور، چوہدری اسد اللہ خاں غالب، مرزا ۱۸۸ اسد اللہ خاں، چوہدری ۴۲۷ ۳۶۳۸۷ اسلم ملک
5 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 الیگزینڈر ڈوئی ۴۳۲ امیر محمد ، شکور امام الدین سیکھوانی ، میاں ۴۱۲ امتہ الحی ، سیده اشاریہ.اسماء ۲۴۲ امین احمد ،سید ۴۲۱ ۴۴۴ امتة الرحیم ۵۷۹،۵۶۵،۴۰۰،۳۹۸ | امین الحق امام الدین داماد حضرت میاں فتح امینہ بیگم دین آف پیرکوٹ ۶۴۰ امة الباسط امام الدین، چوہدری ۹۴ امتة الحسيب ۶۴۲ | امة الرسول ۶۷۳ 2.1 ۷۲۲ ۶۴۹ امتۃ الرشید بیگم بنت ڈاکٹر عبدالرحیم ۴۲۱ امۃ السلام ۳۹۱ ۶۴۲ امام الدین ، مولوی ۷۲۹ امتہ الحفیظ بنت حافظ عبید اللہ ۴۰۷ امتہ السمیع بنت صاحبزادہ مرزا حنیف امام حسین ۲۴۲ ۷۲۱ احمد ۴۲۱ امتہ الحفیظ بیگم بنت ڈاکٹر عبدالرحیم امتہ العزیز بیگم بنت ڈاکٹر عبدالرحیم امتہ الحفیظ بیگم،صاحبزادی سیده ۳۹۱ امہ الحکیم اہلیہ چوہدری حفیظ احمد امام بخش صہبائی ۵۳۸ امته الحفیظ بیگم امان اللہ خان ،امیر امتیاز احمد سید، ڈاکٹر امجد علی خان چوہدری ، بر یگیڈ ئیر امجد علی، سید امری عبیدی، شیخ ام طاہر ، سیدہ ۵۹۶ ۳۴۴،۲۵۰ ۲۵۴،۲۴۰ ایڈووکیٹ امہ الحکیم شہناز امة الحمید ام متین ،سیده عبد الله ۸۷ ۶۷۱ ۳۹۱ امة القدوس بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد امة القدوس ، سیده امۃ القیوم،صاحبزادی ۵۸۴ ،۴۶۷ ،۴۴۳ ،۱۳۷ 2.1 ۶۳۹ امة الحمید بیگم بنت حضرت مولوی محمد ۶۷۸ امتہ الحی بنت ڈاکٹر عبدالرحیم ۳۹۱ ۴۷۱، ۵۳۴، ۵۸۴، ۱۳۱ ، ۷۱۳ امته الحئی بنت عبد المغنی امیر احمد خاں ۶۹۵ امتہ اللطیف بیگم بنت ڈاکٹر عبدالرحیم امۃ اللہ بشیر ۳۹۱ ۴۱۳ امۃ اللہ بنت حاجی محمد الدین تهالوی ۳۸۲ ۶۵۶، ۶۵۷ امتہ اللہ (عُرف عنایت ) ۳۸۲ ۶۳۹ امتہ المجید امیرحسین، قاضی ۵۶۵ امتد الحئی بنت میاں عبدالرحمن امة المجيب امیر حیدر ۴۹۱ 4.2 ۶۳۹ امیر عالم ، حاجی ۷۲۱ امتہ الحئی بیگم بنت میاں محمد یوسف امتہ الواحد بنت گیانی واحد حسین ۴۲۲ ۱۶۳،۱۶۲ امیر محمد خاں، ملک
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 6 امة الودود نصرت جہاں ۷۰۷ اولیس طارق، کرنل ۵۴۶ بجنوری ، ڈاکٹر اشاریہ.اسماء ۵۳۸ انچی یوسف بن الحق ۴۳۶ ایڈورڈ ایم کینیڈی ، سینیٹر بختاور بنت میاں معراج الدین اندر سنگھ گل ، مسٹر ۷۳۶ ۷۴۲،۴۳۵ ۳۷۴ اندرا گاندھی ۱۲۷ ایڈورڈ ہشتم ( شہزادہ ویلز) ۲۴۰ بخش، پیر انڈریا سا، مسٹر ۲۴۶ امیرین بہالی انس احمد ، صاحبزادہ مرزا ایس ایم ظفر ایس ایم موسی ،۴۲۱ ،۳۵۶ ،۱۳۷ ۷۱۶ ،۷۱۰ ،۵۹۴ ،۵۰۰ ،۴۹۵ الیس.اے.ملک انشاء اللہ خاں انعام الرحمن انگرسول، پروفیسر انوراحمد باہری انور احمد کاہلوں ، چوہدری ای سی امیرکسن ، ڈاکٹر ۶۹۱،۶۷۳ ۴۸۴ ایف ایم.سنگھائے ، الحاج ۷۵۵،۵۴۹ ،۳۴۶ ۶۲ 212 املین سپریگٹ ایم ایل مسرا، شری ۳۶،۳۵،۳۴ ۷۵۸ بدرالدین، چوہدری ۵۳۴ بدر دین ، ماسٹر ۵۵۵ برخوردار، میاں ۷۱۲ برکات احمد ۵۹۵ ۳۹۴ ۵۳۱ ۷۴۲ برکت اللہ ایڈووکیٹ ، ملک ۴۹۰ برکت النساء بنت ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ برکت بیگم بنت قریشی مولوی عبید اللہ ایم سی چھا گلا، شری ۴۶۱،۴۶۰ ایم.آر.کیانی ، جسٹس ۳۱۸ ۲۶۵ انور احمد ، مرزا انور حسن، چوہدری ۷۰۳ انور حسین، چوہدری.ربوہ ۴۹۱ انور سعید انور سلطانہ ۴۹۲ ۶۴۲ این اوسینپ ، پروفیسر ایوب احمد خاں ایوب ظہیر 2+1 برکت علی انعام، مولوی برکت علی خان، چوہدری اینا آسلان، پروفیسر ڈاکٹر ۲۲ اے.ایف.ماشاء الحاج ۷۱۲ ۴۸ ۴۸۶ ۴۱ انورشاہ، ڈاکٹرسید ۳۹۸،۳۹۷ برکت علی، مرزا برہان احمد طالع ، راجہ برہان الدین جہلمی ، مولوی ۶۵۵ بشارت احمد ۴۹۳ بشارت احمد ایڈووکیٹ ، مولوی سید ۱۲۸ ۴۱۹ ۵۹۶ انیس احمد ۴۹۲ انیس احمد عباسی کا کوروی باب جانسن ،مسٹر ۵۵۰،۱۸۳ بابائو نڈا جوز، الحاج اوپن ہیمر ، پروفیسر بار طولینی، پروفیسر ۵۱ بشارت احمد بشیر ، مولوی ۴۱۱،۴۰۵ ،۴۳۳،۲۲۶ ۷۵۱ ۷۵۰ ،۷۴۶ ،۷۴۵ ،۷۴۴ ۴۳۷ ۲۶۴
اشاریہ.اسماء 7 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 بشارت احمد نسیم امروہی ، مولوی بشیر احمد ، چوہدری سرگودہا ۵۹۸ بشیر احمد، میجر قاضی ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۱۵ ۶۴۹ ۶۴۲ ۳۸۷ ۵۸۱ ۴۹۲ ۶۷۳ ۲۲۶، ۴۳۹، ۷۵۸ بشیر احمد، چوہدری.لاہور ۴۶۱ بشیر احمد ناصر بشارت الرحمن، پروفیسر بشیر احمد خاں، چوہدری ۱۹۴ بشیر الحق ۶۲ ،۴،۳۵۶ ۴۹۵،۴۸۹،۴۵ بشیر احمد خان رفیق ۴۴ ، ۴۷ ، بشیر الدین دہلوی ۶۷، ۲۲۵، ۴۳۲، ۴۳۳، ۴۴۶ ، بشیر الدین شمس بشپ آف گلاسٹر ۵۷۳ بشری بیگم، سیدہ (مہر آیا ) ۴۶۸، ۴۷۵، ۴۷۶، ۴۷۷، بشیر الدین کمال ۷۳۳،۷۳۲،۷۳۰ ،۶۹۲،۵۷۳ بشیر احمد ، خواجہ بشیر احمد دہلوی ، مولوی ۶۲ بشیر حیات بشیر عبد اللہ (مسٹر کونگ ) ۴۳۳ بشیر احمد زاہد، مولوی ۴۹۱ بشیر احمد ،سردار ۵۸۸ بشیر احمد سکھری ۷۲۳،۵۱۵،۱۲۶ | بلال نٹل ، مسٹر بلی گراہم ، ڈاکٹر بلیل ، مسٹر ۴۹۰ بو جنگ بن روؤف ۶۹۳ ،۶۹۱ ۲۶۵ ۷۵۶ ۴۳۹ بشیر احمد شاہ، سید ۴۲۱ بہادر یار جنگ، نواب ۲۵۲ ،۲۸۳،۲۵۴،۱۳۷ ۷۰۱ ،۵۸۴ ،۴۷۱ ، ۳۱۵ ،۳۱۴ ۳۸۲ ۷۵۶ بشری صادقہ بشن دیال، مسٹر بشیر احمد آرچرڈ ۷۳۳،۷۳۲،۳۹۰،۲۲۶ بشیر احمد ابن حاجی محمد الدین تہالوی ۳۸۲ بشیر احمد ابن ڈاکٹر محمد اسماعیل ۶۷۳ بشیر احمد ایڈووکیٹ، شیخ ،۱۹۰ ۵۱۳،۵۰۷ ،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۲۷ بشیر احمد شمس ۷۶۳،۷۳۸ بہاؤالدین خاں، مولوی بشیر احمد شیدا بشیر احمد صراف بشیر احمد فاضل ،مولوی ۴۱۲ ۴۷۶،۴۷ بیگم صاحبہ ( عرف بیگاں) ۶۵۹ ۱۲۹ بی.اے، ریٹائرڈ بریگیڈئیر ۸۹ ۷۱۵ ۲۶۵ ۴۴۷ ۸۹ ۴۳۸ ۶۴۹ ۱۲۷ بھگت کبیر بشیر احمد ایم.اے، صاحبزادہ مرزا بشیر احمد قادیانی، مولوی ۴۹۰ ،۲۶۵،۱۱۵ ،۳۸ ۳۵۵ ،۳۰۳،۲۷۱ ،۲۶۷ ،۲۶۶ ۶۹۵ ،۶۹۴ ،۴۴۴ ،۳۸۳ ،۳۸۰ ۶۳۹ بشیر احمد بٹ ، ڈاکٹر بشیر احمد.جاسکے بشیر احمد قمر، مولانا ۴۸۲ | پٹڑک لومبا بشیر احمد.لاہور بشیر احمد ، مولوی ۴۹۳ | پطرس ۷۲۶ پورس بشیر احمد ، میاں ابن ڈاکٹر محمد عبد اللہ پی.ایچ.سیٹو ۴۹۱ خان ۶۷۷ پی ڈی بُھلہ
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 پیٹر آف یوگوسلاویہ، کنگ ۵۷۳ ثمینه پیٹر چنگ ،مسٹر پیر لوک کا بو پیری گرین ، سر 8 اشاریہ.اسماء ۱۱۵ جلال الدین قمر، مولوی ۲۲۶، ۷۶۲ ۷۵۸ ثناء اللہ خاں ۹۷۳ | جلال الدین، ملک ۷۶۰ ثناء اللہ، چوہدری ۴۹۲ | جلال الدین، مولوی ج جمال الدین ۴۹۲ ۱۲۷ ،۱۲۵ ۴۰۰ ۶۶۴ ۵۳۲ ۷۳۴ ۴۸۳ ۴۴۲ ۵۴۶،۴۲۲ ۶۴۹ ۵۸۱ جمشید احسن جمعه جمعہ ائے عبد اللہ جمیل احمد بٹ جمیل، خواجہ جمیل الرحمن رفیق جمیل لطیف،صاحبزاده جمیلہ بیگم جمیلہ شمس ۵۷۳ ۷۴۲ ۲۶۳ ۲۵۱ جارج شاه جان ایف کینیڈی جان پال، پوپ جان ڈگلس سینگ ،سر جان سٹون ، مسٹر ۷۵۶ جان کلارک آرچر، پروفیسر ۲۵۰ ۴۰۶ جان محمد در ولیش، بابا جبرائیل علیہ السلام، حضرت ۹۸ ۶۷۴،۲۵۰ ۷۵۶ جعفر ،حاجی جگناتھ ، مسٹر جلال الدین اکبر ۶۶۶،۶۶۵ جلال دین، بابا جواد علی ، سید ۴۳۲،۴۳۱ ، ۷۲۸ ۶۹۰ جوزف بار کلے ۳۶۶ ۳۴۴ جولیس نیر میرے مسٹر جلال الدین شمس ، مولانا ۳۷۴ ۴۲۰ Sir Peregrine H.H) ۷۳۳ ۳۹۵ (Baronet پیری، ڈاکٹر پی.ہارڈی (ایم.اے کینٹب ، پی ۴۲۷ ۴۵۳ ۴۹۲ ۷۵۶ ۶۷۳ ۴۲۱ +1'11 ۳۷۵ ۷۲۴ ۱۴۸ ،۱۴۴ ،۱۲۵ ،۱۲۱ ،۲۰ ،۲ جہان خاں، چوہدری ۶۴۶ ۱۵۰، ۲۴۳، ۲۴۵، ۲۴۷، ۲۵۲، جہانگیر علی، سید ایچ ڈی) تاج الدین، مولوی تبسم حسین، سید ترنگدن، مسٹر تنویر بیگم توصیف احمد ، مرزا توفیق شریف تیمور، شیخ تھوما، مسٹر ٹامس ہاول، پادری ٹکا خان ، جنرل ۸۹ تا ۹۳ ۳۵۵، ۳۵۸، ۳۵۹، ۳۷۱، ۴۰۵ ، جے سکھ لال ،شری ٹہلی، مولوی ثاقب زیروی ۳۷۳ ۴۴۳ ، ۴۵۳،۴۴۷، ۴۹۶ ، ۴۹۷، جے.جی.بورن، ڈاکٹر ۱۲۷ ۳۴ (Dr.J.G.Bourn) | ،۵۶۴،۵۵۱ ،۵۲۹ ،۵۰۳ ،۴۹۸ ۵۶۷، ۵۷۷، ۵۷۸، ۵۸۳، جیمز رابرٹس، سر ۲۶۴ جھنڈے خاں، چوہدری ۷۶۴ ،۷۶۰ ،۵۸۸ ،۵۸۷ ۶۱۴،۳۵۳،۳۵۲۲۰۵
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 چ چاون (وزیر دفاع) چرن سنگھ جی مہاراج، سردار ۷۲۵ چواین لائی こ حاتم علی، چوہدری حاکم خاں نون ، ملک حامد احمد خان ، نوابزاده ۲۲۰ ۹۵ ۶۸۳ 9 نور حرمت بی بی (تائی صاحبہ ) ۲۳۸ حمید احمد ابن حکیم نور محمد حسن آرا منیر ۱۰۸ حمید احمد بٹ حسنات احمد سید ۴۸۲،۴۸۱ | حمید احمد بھٹی حسن ،الحاج سیٹھ ۴۱۰ حمید احمد رشید ، شیخ حسن بصری ۳۵۸ حمید احمد، صاحبزادہ مرزا حسن بصری.انڈونیشیا ۵۹۵ | حمید احمد ، صو بیدار حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام ۱۳۵ حمید احمد کلیم، میجر اللہ حسن علی، حاجی ۴۰۷ حمید الدین، خلیفہ حسن محمد ۴۹۰ حمید اللہ، پروفیسر اشاریہ.اسماء ۶۴۱ ۴۹۱ ۷۵۳ ۶۴۹ 2.2 ۴۰۹ ۴۱۳،۱۱۷ حامد شاہ، میر ۷۰۷ ،۴۲۱ حبیب احمد.آنبہ حبیب الدین، قاضی ۶۸۲،۶۳۷،۶۳۶،۳۹۵،۲۳۷ ۴۹۳ ۴۶۸ حبیب الرحمن، سید حبیب الرحمن، پروفیسر حبیب الرحمن، ملک حبیب اللہ قبولہ حبیب اللہ خان، پروفیسر ۷۲۱ ۶۱۸ ۵۹۶ ۳۵۶ ۵۲۵ ۵۳۸ حسن نظامی ، خواجه ۱۹۴ ۲۱۳ حمید اللہ خان، چوہدری حسین ، امام حسین بی بی ۵۵۷ | حمید اللہ خان ، نواب حمیدہ بیگم بنت قریشی مولوی عبید اللہ ۳۷۷ حمیدہ بیگم بنت میاں رحم دین ۶۵۹ ۶۴۰ حسین بی بی اہلیہ حاجی محمد الدین تهالوی حسین ،شاہ ۳۸۲ ۲۶۵ حمیدہ بیگم بنت حکیم نور محمد ۶۴۱ حشمت اللہ خان، ڈاکٹر حمیدہ بیگم بنت عبدالمغنی ۶۵۷ ۶۹۸،۶۶۵،۳۹۱،۱۵۹،۱۴۸ حنیف احمد ، صاحبزادہ مرزا ۴۲۱ 211 حیدر الدین ٹیپو ۴۹۳ حشمت الله شیخ ۷۲۱،۴۹۱،۴۸۴ ،۴۷۹،۳۵۶ حبیب اللہ خاں، ملک حبیب کمال الدین حبیب بیگم ۴۱۹ ۲۱۵ ۴۲۲ ۶۵۲ حضور احمد ، چوہدری ۵۳۱ حفیظ احمد ایڈووکیٹ، چوہدری خادم حسین ، سید خ ۶۷۱ خادم حسین ، کیپٹن ملک ۶۹۱ ۴۹۱ ۴۹۰ حفیظ جالندھری ۲۴۶ خالد اسحق (قانون دان ۴۲۹ حلیمہ لطیف ۳۸۲ | خالد بلال احمد حلیمہ نزہت ۶۷۸ خالد پرویز ، شیخ ۶۲۸ ۶۴۹ ،۶۴۸
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 خالد سیف اللہ، چوہدری 10 ۴۹۰ خورشید بیگم اہلیہ محمد اسحاق ساقی دین محمد ، بابا اشاریہ.اسماء ۵۹۴ خالد محمود خالد ہدایت بھٹی خالده آفتاب احمد خالدہ بشری ۳۶۳،۱۰۲،۷۲ ۶۷۸ ۴۸۳ ۶۷۲ دین محمد شاہد، مولانا ۴۸۳ خورشید بیگم بنت چوہدری محمد شفیع دیوان چند شرما، پروفیسر ۱۲۷ ۶۴۲ دیوان سنگھ مفتون ، سردار ۲۶۵ خورشید عاقل ۶۶۴ دیوج امریکن، مسٹر ۷۵۸ خان زمان مرزا، پروفیسر ۷۸ خیر الدین، ماسٹر خان شمس الدین، خان خیر النساء بنت ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ ۵۹۴ ڈسمنڈشا ڈز ۲۶۲ خان ملک ، مولوی ۴۰۲ ۵۹۵ | دامن ابا سینی خدا بخش , ڈوگر مل، لالہ ۱۸۶ ڈونلڈ گلینز، ریورنڈ ۴۰۰،۳۹۹ ۳۶ خدا بخش بھیروی ۳۸۶ داؤد احمد انور، سید ۷۵۱ ڈینئیل مورا یوسف ۷۵۸،۴۳۹ خدا بخش عبد زیروی ، صوفی ۴۲۲ داؤ د احمد حنیف، مولوی ۷۶۲ ڈی.سنجیو یا ۷۲۵ خدا بخش کانپوری، ماسٹر ۴۱۱ داؤد احمد، چوہدری ۴۹۰ ڈی سی.شرما، شری ۱۲۶، ۱۲۷ ۲۴، ذکی الحسن، ڈاکٹر ۲۱ ۲۲، ۱۳۶، ۱۳۷ خدا بخش مومن جی ۶۱۷،۵۹۶ داؤد احمد ، سید میر خدا بخش، مرزا ( عسل مصفی ) ۳۷۰ ۱۳۸، ۲۹۰، ۳۵۵، ۴۴۳، ۴۵۳ ، ذوالفقار علی بھٹو ۹۰۸۳٬۸۱،۷۶ خدیجہ الکبری خضر حیات خاں، ٹوانہ ۶۴۳ ۶۸۳ ۴۶۲،۴۶۰، ۴۶۶ ، ۴۹۵، ۴۹۶ ، زونغو، کنگ ( زوغو) ۵۶۶،۲۵۴ خلیل احمد مون گھیری ۶۱۴ | داؤد عبد المالک خلیل احمد ناصر ، چوہدری ۴۱۰ داؤد مظفر شاہ، سید خلیل الرحمن ، مولوی ۴۹۲ درانی، مسٹر خواج احمد خواص خاں، خان ۴۹۲۱۱۵ دلاور شاہ بخاری، سید ۶۲۴ ،۶۲۲ ،۵۹۵ ،۵۰۶ ،۴۹۷ ۴۸۲ رابعہ بی بی اہلیہ محمد عبد اللہ ۳۷۲ 2.2 ۴۲۳ راجندر سنگھ، میجر ۶۲۰ ۴۷۶ در بارا سنگھ، سردار را ڈلف شیرف ۲۶۵ ۱۲۶ را شده مبارکہ بنت نواب محمد احمد خاں ۶۴۶ خورشید احمد انور ، مولوی ۴۲۱ ۴۲۳ دوست محمد شاہد، مولانا ۲۰۰، ۲۱۷ خورشید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۳۵۶ راغب مراد آبادی ۱۹۲،۱۹۱ ۷۱۹،۴۹۷ ،۴۹۳ ،۴۴۳ ،۲۶۰ خورشید انور ۸۲ دیانند، رشی ۴۲۵ سر رام غلام ، سر ڈاکٹر ۷۵۶،۴۳۳
رامچند رجی رحم دین، میاں ۶۵۸ | تهالوی تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 11 ۷۲۴ رشید احمد راشد ابن حاجی محمد الدین رضا جعفری اشاریہ اسماء 45 ۳۸۲ رضاء الله ابن ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ رحمت الله ۱۲۷ رشید احمد، چوہدری ۴۲۹ رضوی، میجر رحمت اللہ ، حکیم ۵۹۶ رشید احمد سرور، چوہدری رضیہ بیگم ۹۱ ۶۵۲ رحمت اللہ خان، ماسٹر ۶۱۲۶۰۷ ۷۶۲،۷۳۶ رضیہ عفیفہ ۶۷۸ رحمت اللہ ، سردار ۹۹ رشید احمد قمر ۴۹۱ رفعت نیم ۶۴۳ رحمت اللہ، شیخ ۶۱۴، ۶۳۶ رشید احمد کپور تھلوی، شیخ رفیع احمد ، صاحبزادہ مرزا رحمت اللہ ، قریشی رحمت اللہ گوریجہ، حکیم ۷۰۳ رحمت بی بی اہلیہ ماسٹر فقیر محمد ۴۹۱ رحمت بی بی بنت مولوی الف دین رحمت علی، چوہدری رحمت علی ، مولانا رحمن وسیر رحیم بخش رحیم بخش، چوہدری ۳۷۰ ۴۹۱ ۲۴۶ ۵۳۲ ۵۹۶ ۳۷۲ ۴۸۴ رشید احمد ، مرزا رشید اختر رشیدالدین، ڈاکٹر خلیفہ ۴۱۶ ،۴۴۳ ،۳۵۹ ،۱۵۰ ،۳۸ ۴۲۱ ۷۱۹ ،۵۹۵ ،۵۹۱ ،۴۹۶ ،۴۵۳ ۴۹۰ ۶۷۹ ۸۳ ۷۰۷،۲۳۴،۱۰۶۹۹ ،۹۷ رشیدالدین، چوہدری رشید الرحمن خاں ، رانا رشید انور، مرزا ۵۱۹ ۳۷۵ ۴۹۲ رفیع الدین احمد ، شیخ رفیع الدین، کرنل رفیق احمد ابن چوہدری محمد شفیع ۶۴۲ رفیق احمد ثاقب، پروفیسر ۶۷۸ رفیق احمد ، سردار ۴۹۲ رشید بیگم اہلیہ عبداللطیف ۶۷۳ رشید رضا مصری ، سید رفیق احمد ، صاحبزادہ مرزا رفیق احمد طارق رشیده بیگم بنت قریشی مولوی عبید الله رفیق احمد، ملک ۴۲۱،۳۶۶،۲۲۰ ۳۸۲ ۴۹۰ رخسانہ منان رستم خان خٹک (شہید) ۳۷۷ رشیدہ بیگم بنت حکیم نور محمد ۶۴۱ ۵۴۴ تا ۵۴۶ رستم نبی ،ڈاکٹر رشیده بیگم اہلیہ چوہدری محمد شفیع ۱۳۶ رشید احمد ۶۴۲ رفیقہ بیگم بنت منشی سر بلند خاں رقیه بیگم روشن دین تنویر، شیخ ۵۴۶ ۱۹۷ ۴۰۲ رشید احمد ارشد رشید احمد بھٹی ۴۸۲ ۶۷۹ رشیدہ بیگم بنت مستری غلام قادر روشن دین، مولوی ۴۲۲ ۳۷۱ روشن دین، میاں ۵۹۶
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ۵۷۹،۵۶۵،۲۹۲،۲۴۶،۱۱۲ روشن علی ، حافظ ریاض احمد 12 اشاریہ - اسماء زینب بی بی اہلیہ الحاج میاں پیر محمد سردار بیگم اہلیہ مولوی محمد افضل او جلوی ۶۴۰ ۴۹۰ زینب بیگم اہلیہ ڈاکٹر غلام علی ۶۳۸ سردار حسین شاہ، سید ریاض احمد فیض آبادی، مولانا زینب بیگم بنت حکیم نور محمد ۶۴۱ | سردار خان نون، میجر ملک ریاض الدین شمس ۵۸۱ زینب 11+ ریاض محمود باجوہ.چونڈہ ۶۵۱ زینت بی بی اہلیہ بابا جان محمد درویش سردار محمد خان، چوہدری ۲۵۸ ۱۰۴ ۴۰۶ سردار بیگم زینت حسن، ڈاکٹر ۱۳۶ سرفراز خاں ، میجر جنرل س سرور سلطانه ۳۹۲ ۶۸۹،۶۸۸ ۳۷۴ ۶۷۹ ۸۰ ۶۴۲ ۱۰۳ ساجد احمد خان ، نواب ۴۲۱ | سروری بیگم اہلیہ رانا عبدالغفور خاں ١١٥،١٠٦،٩٩،٩٨ ۴۹۱ ۳۷۵ ۳۸ سعادت علی، میر ( عرف سید علی احمد ) ز زاہد حسین، گورنر ڈاکٹر زاہد ملک زاہد یعقوب عامر زاہدہ بنت منیر الدین احمد ، خلیفہ ساجد نسیم ساره زبیدہ بیگم ۶۵۷ ساره بیگم، سیده ۲۴۸ سانکو مایو زبیر احمد ۶۱۳ ۷۵۵ سعد اللہ لدھیانوی ۴۱۳،۴۱۲ ۶۵۳ زبیر ( سابق Kamaour) سپلیٹ ، مسٹر ۲۱۲ | سعد محمد ، میاں ۵۹۶ (مستشرق) ۲۶۲ ستیہ پال ننده، شری ۷۲۴ سعید، میجر ۱۱۸ زکریا گزیٹو ستیش چندر مشرا، جسٹس ۷۲۴ سعید احمد ابن لیفٹیننٹ ڈاکٹر محمد زویمر (مستشرق) ۲۴۲ سجاد احمد ، سید ۷۶۵،۴۸۳ الدین ۳۷۷ زینب بی بی اہلیہ شیخ مبارک اسماعیل سر بلند خان ۳۷۶ سعید احمد، چوہدری ۶۴۹ سر بلند خاں منشی ۷۲۶ ۳۹۸ سعید الدین، ڈاکٹر قاضی ۴۲۲ زینب بی بی بنت مولوی الف دین سراج الدین خاں ، نواب ۴۱۳ سعید بیگم سراج الدین ، حکیم ۳۷۲ سعید داؤد احمد ۶۴۹ ۴۲۳ زینب بی بی بنت مستری غلام قادر سراج الدین، مولوی ۴۹۰ سعیدہ بیگم بنت خواجہ عبید اللہ امرتسری سردار بیگم ۳۷۱ سردار ۴۱۲ ۵۷۷
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 13 اشاریہ - اسماء سعیدہ بیگم بنت منشی سر بلند خاں سلطان بخش، شیخ ۶۴۳ سوکارنو ، پریذیڈنٹ ۷۲۹،۷۲۸ ۴۰۲ سلطان جہاں ، نواب ۲۳۷، ۵۳۸ سی بی ہارسٹن، ڈاکٹر ۷۱۲ سعیدہ بیگم بنت میاں رحم دین سفنی ظفر سلطان رشید، ملک ۶۶۴ سیداحمد بریلوی شهید ۶۵۹ سلطان محمد خان، کرنل ۴۸۳ ۷۰۷ ۳۵۸ سلطان محمود انور، مولوی ۳۵۶ سيدة الزهراء بنت سید سردار حسین ۶۶۵ | سید احمد ناصر ،سید سکینہ بی بی.مراڑہ ۶۴۲ سلطان محمود شاہد، ڈاکٹر ۶۱۸ سکینہ بی بی بنت مولوی الف دین سلطان محمود، مولوی سکینہ بیگم اہلیہ چوہدری عبدالمالک چدھڑ ۶۵۲ ۴۹۰ سلمی بیگم بنت میاں رحم دین ۶۵۹ سلیمان ، حضرت سلیم احمد اٹاوی، حافظ ۶۹۸،۶۶۳ سکینہ بیگم بنت حاجی محمد اسماعیل سلیم احمد ابن چوہدری محمد شفیع شاه سیف الدین سیف سیف الرحمن خاں، رانا سیف الرحمن، ملک 2+1 ۳۷۵ ،۳۵۶ ،۲۵۰،۱۳۱ ۴۷۳ ۵۹۵،۴۹۷ ، ۴۶۷ ،۴۵۴،۴۵۳ ۶۴۲ ۳۷۱ سلیم احمد ، مرزا ۷۰۷ سکینہ عثمان بنت حاجی محمد الدین تهالوی ش شامی شہید، بر یگیڈ ئیر ۹۶ سلیم ایچ ہسٹر ۷۴۳ ۳۸۲ سلیمہ بنت مرزا محمد اسماعیل ۳۷۰ سلام اللہ ، مرزا سلطان احمد بسراء ۵۹۶ ۴۹۰ شانتی سروپ بھٹناگر ، ڈاکٹر سر ۲۵۵ شاہ دین بنشی ۶۴۲ سلطان احمد پیر کوٹی ،مولانا ۶۳۹،۵۱۹،۵۰۵،۴۸۳،۴۱۷ سلیمہ بنت میاں معراج الدین سلیمہ بیگم بنت حاجی محمد الدین تہالوی شاہدہ بیگم ۳۷۴ شاہ محمد، سید شاہد محمود بدر ۲۲۶ ۳۸۲ سلطان احمد شاہد، مولوی ۵۱۹ شاہنواز ، بھابڑہ ۶۴۰ 1+4 ۴۹۲ سلطان حامد ملتانی، حافظ سلیمہ مبارک ۲۷۰ ۳۸۲ شاہنواز خان، جنرل ۱۲۶ سمیع اللہ شاہ، سید ۴۹۱ سلطان احمد وجودی، میاں ۲۱۴ شاہنواز ، چوہدری ۶۱۵ ،۳۴۶ سلطان احمد ، میجر سمیع اللہ ، مولوی ۳۸۲ شبلی نعمانی، مولانا ۲۳۶ ۷۲۶،۷۲۳ ،۴۷۹ سلطان احمد، چوہدری ۳۷۴ شبیر احمد ، چوہدری ۱۵۰،۶۲ سلطان احمد، صاحبزادہ مرزا ۲۴۶ سورن سنگھ ، سردار ۶۲۰ شردھانند ۴۲۶
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 14 اشاریہ.اسماء شریف احمد امینی ، مولوی شمیم احمد ، مرزا ۴۲۱ صالحه قانته ۷۲۶،۷۲۴۶ شمیم احمد ، میجر ۷۰ صائمہ مریم شریف احمد ایم اے ابن لیفٹیننٹ شمیم اختر ڈاکٹر محمد الدین ۳۷۷ شورش کاشمیری ۶۷۹ ۳۸۱ ۵۴۶ صدر الدین کھوکھر، مولوی ۴۹۲ ۷۳ صدرالدین، مولوی.احمد نگر شریف احمد باجوہ ۶۵۲ شوکت علی ۲۴۶ ۴۸۰،۴۷۸ شریف احمد ،صاحبزادہ مرزا شہاب الدین ، چوہدری سر ۶۵۲ صدق المرسلین ۲۴۹، ۲۶۰، شہاب الدین، خواجہ ۵۹ صدیق احمد منور ۲۶۵، ۲۷۱، ۲۷۵، ۳۵۵، ۳۸۳ شہباز خان باجوہ، چوہدری ۶۵۱ صدیق احمد، ماسٹر شریف بی بی بنت مولوی احمد علی شیر علی ، مولوی صدیق چن لبو یشور ، مولوی شریف عون شریف فاروق شعبانی انکوٹو ۴۰۴ ۲۵۲، ۶۹۳۶۸۳۲۵۶ صدیق حسن خاں، نواب ۱۱ شیر محمد فرید، میاں ۴۷ صغری بیگم اہلیہ چوہدری محمد شفیع ۸۶،۷۵ شیر ولی، کیپٹن ۴۲۶ ص صغری بیگم،سیده ۴۹۲ ۴۹۲ Λ ۶۴۲ ۲۶۲ شعیب (وزیر خزانه ) ۹۲ صاحب خاں نون ، الحاج ملک صفدر علی ، میاں شفیق احمد نجیب آبادی، حافظ ۳۹۱ شکر الہی ، چوہدری ۷۲۷ | صادق، کرنل شکیلہ بیگم ۶ صادق جوگی ۶۸۴۶۸۳۶۸۱ صفیہ بیگم بنت حاجی محمد الدین | ۸۱ تهالوی ۴۵۶ | صفیہ صدیقہ ۳۸۲ YZA شگفتہ بیگم بنت چوہدری محمد شفیع صادق حسن، ڈاکٹر ۱۳۶،۱۳۵ | صلاح الدین ابن مرزا محمد اسماعیل ۶۴۲ صادقہ قمر ایم.اے ۷۰۲،۴۱۷ شمٹ (Schmidt)، مسٹر صالح علی ۶۵۸ | صلاح الدین احمد، خلیفہ (فرید احمد ) ۴۳۳ صالح محمد.سرگودھا ۵۳۲ | صلاح الدین ایم.اے، ملک ۹۹ شمس الحق قاضی، بریگیڈئیر ۸۱ صالح محمد ، شیخ.پریسٹن ۶۳۲،۴۸۱،۴۴۴ ۴۴۳ شمس الحق ، سید ۴۸۳ صالح محمد ، مولوی ۴۴۲ | صلاح الدین خاں شمس الدین ، بابو ۹۸ صالح یوسف ،مسٹر ۷۴۴ صلاح الدین شمس، ڈاکٹر ۵۸۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 صلاح الدین فاتح طاہرہ بیگم 15 ۳۷۱ ظہور شاہ ، خواجہ صلاح الدین، قریشی ۴۷ طاہرہ چوہدری ۶۷ ظہیر الدین بابر صوفیہ احمد ض ضیاء الحسن ،کرنل ۴۲۱ طاہرہ ابن چوہدری محمد شفیع ۶۸ طیبہ یعقو ظ ۴۸۲ ع عارف احمد عارف زمان، میجر ضیاءالدین احمد برنی ۲۰۴ | ظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ۱۰ عالم بی بی ضیاء الدین، ڈاکٹر ۴۱ ظفر احمد کپور تھلوی منشی ۲۵۳، ۴۱۶ عائشہ ، حضرت ضیاء اللہ، میر ۴۷۶ ظفر احمد کلیم طارق بن زیاد b اشاریہ اسماء ۴۰۵ ۶۶۶،۶۶۵ ۴۹۸ ۶۵۱ ۴۸۴ ۱۹ عائشہ بی بی اہلیہ حاجی محمد الدین ظفر اقبال احمد، پیر ۴۹۱ تهالوی ۳۸۲ ۱۱۷ ظفر الاسلام ، مولوی ۳۶۹ عائشہ صدیقہ بنت چوہدری فتح طاہر احمد ،حضرت صاحبزادہ مرزا ظفر الحسن، چوہدری ۴۰۷ محمد سیال (خلیفة المسح الرابع ) ظفر علی خاں، مولانا ۲۱۳ عائشہ والدہ نذیر احمد ۱۳۶، ۱۵۰، ۲۴۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ظفر علی ہاشمی ، ڈاکٹر ۱۲ عباداللہ ، گیانی ۶۶۴ ۵۸۳ ، ۴۷۸ ، ۴۴۴ ۷۶۴ ،۶۲۱ ،۴۸۳ ،۴۸۲ ،۴۸۱ ۴۸۲ ۴۱۰، ۴۲۳، ۴۴۳ ، ۴۴۸، ۴۵۳، ظفر محمد ظفر فاضل، مولانا ظہور احمد، چوہدری ،۴۹۵ ،۴۸۶ ،۴۶۷ ، ۴۵۹ ،۴۵۸ ،۵۹۹،۵۹۴،۵۸۸،۵۸۷ ،۵۰۹ ۷۶۴۷۱۱،۷۱۰۶۹۰،۶۰۴ ،۶۰۲ طاہر احمد، خلیفہ ۴۹۰ ۶۴۲،۵۹۴،۵۵۳،۵۵۲،۵۳ عباس عبد الله عوده ، الشیخ ۴۰۹ عبدالباری فرنگی محل ، مولوی ۲۳۹ ظہور احمد باجوہ، چوہدری عبدالباسط شاہد ۳۵۵، ۴۹۵، ۶۰۶، ۶۱۲،۶۱۰ | عبدالباسط، کیپٹن طاہر احمد، ملک ۷۰۹،۷۰۸ ظہور احمد ، ڈاکٹر ۴۸۳ | عبدالباقی ، مولوی طاہر سیف الدین ۱۸۰ ظہور احمد شاہ، سید ( مبلغ ۴۷۸ عبدالجبار ۴۸۴ ۱۱۸ ۶۰۹ ۴۹۱ طاہر عبداللہ حسین طاہرہ اختر النساء ۴۰ ۳۸۶ ظہور الحسن، مولوی ظہور احمد ، ماسٹر ۴۹۳ عبدالجبار ہیل ۱۹۰ عبدا عبدالجلیل عشرت طاہرہ بنت مرزا محمد اسماعیل ۳۷۰ ظہور دین ۷۱۵ ۱۹۹ ۳۷۴ عبد الحفیظ ابن مولوی محمد حسن ۳۷۷
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 عبد الحق ایڈووکیٹ ، مرزا ۲، عبدالحمید، رانا ۴،۴۵۳،۳۵۸ ۴۵ ، ۴۹۳،۴۵۸، عبدالحمید، قاضی ۵۰۰، ۶۶۸،۵۰۷، ۶۹۰ ، ۷۱۶ عبد الحمید عاجز 16 ۶۰ ۵۹۶ ۷۲۶ اشاریہ.اسماء عبدالرحمن جٹ ، مولانا ۷۲۵،۳۲۳،۳۱۸،۲۵۶،۱۶۱ عبدالرحمن جنید ہاشمی عبد الحق نور ، مولوی ۶۱۷، ۶۱۸ عبدالحمید، میجر عبد الحق قریشی عبد الحق ایم.اے، مولوی ۴۳۸ عبدالحمید کا ٹھگڑھی ۵۹۶ ۶۶۴،۶۶۰،۴۲۳ عبد الحق رامه ۵۹۴،۵۸۸،۵۰۵ عبد الحمید ابن میاں رحم دین ۶۵۹ عبدالرحمن ، حاجی ۶۱۲،۴۹۱،۶۹ عبد الحق، شیخ ۵۹۵،۵۸۸ | عبد الحمید ، کرنل ۵۴۵،۵۴۴، ۵۴۶ عبد الرحمن خادم، ملک ۶۵۳،۲۶۴ عبدالحمید، | عبدالحق کا ٹھگڑھی، چوہدری ۳۷۵ عبدالحمید، مولوی ۴۴۲٬۵۲۵۱ عبدالرحمن خان بنگالی | ۷۲۷ ، ۴۸ ۳۷۷ عبد الحئی ابن عبد المغنی ۶۵۷،۶۵۶ عبدالرحمن دہلوی | ۷۲۸،۴۳۲۲۲۶ ۳۹۰ عبد الحق ،منشی عبد الحق، مولوی عبدالحق، میاں ۵۹۵،۳۹۲ ۴۹۲ ۴۸۲ عبدالحئی ، خواجہ ۶۶۰ عبدالرحمن رانجھا، ڈاکٹر ۶۹۳ عبدالحئی شاہ ۶۳۰ | عبدالرحمن شاکر، چوہدری عبد الحئی ، میاں 272 ۶۸۳،۴۷۸ عبدالحکیم الکمل ، مولوی عبد الخالق عادل ۴۹۱ عبدالرحمن صدیقی ، ڈاکٹر عبدالحکیم بسمل ، شیخ عبد الحليم ۳۹۶ ۴۹۱ عبدالرب ابن ڈاکٹر عبدالرحیم ۳۹۱ ۶۰۹،۶۰۷ ،۶۹ عبدالحلیم ابن میاں عبدالرحمن ۶۳۹ عبدالرب، ماسٹر ۴۹۳ عبدالرحمن قادیانی ، بھائی عبدالرحمان، سید ۷۵۴ ۶۹۸،۲۶۵ عبدالحمید آصف عبدالحمید، آغا ۴۸۴ ۶۴۸ عبدالرحمن ابن ڈاکٹر عبدالرحیم عبدالرحمن قریشی ۴۹۲،۴۷ عبد الحمید، چوہدری ۳۸۸، ۳۹۱،۳۸۹ عبدالرحمن.کوٹ احمد یہ ۴۹۰ ۳۶۱ عبدالحمید جنجوعہ، میاں عبدالرحمن ابن منشی محمد عبداللہ ۶۶۰ عبدالرحمن ، کوئٹہ ۴۹۱ عبد الحمید خلیق ۵۹۵ ۴۹۱ عبدالرحمن انور، مولانا ۱۳۹،۶۶، عبدالرحمن، ماسٹر ۶۹ ۱۵۴، ۳۶۱، ۴۱۹، ۵۴۹، ۵۵۲ | عبدالرحمن مبشر ، مولوی عبدالحمید ، چوہدری.گوٹھ حمید نگر عبدالحمید ،حاجی ۴۹۰ ۳۵۴ عبدالرحمن ایڈووکیٹ، چوہدری ،۴۱۸ ۷۶۴ ،۷۰۵ ،۷۰۴ ،۴۸۳ ،۴۷۹ ۴۹۲ | عبدالرحمن، مصری ۲۵۰
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 17 اشاریہ.اسماء عبد الرحمن ، میاں.جموں ۶۳۸ عبدالرشید، ایڈووکیٹ قریشی ۴۸۲ عبد السلام اختر عبد الرحیم احمد ،میاں ۶۱۰،۳۵۶ عبدالرشید تقسیم، چوہدری ۱۹۵ عبد السلام بھٹی عبدالرحیم بکری، مجسٹریٹ ۴۰ عبدالرشید رازی عبدالرحیم بیگ، مرزا ۶۸ ۶۹ عبدالرشید غنی، پروفیسر ۴۸۰، ۴۸۵ عبد الرحیم درد، مولانا عبدالرشید فوگل، مسٹر ۱۹۵، ۲۶۲، ۴۰۸، ۵۷۲، ۶۴۳، ۶۹۲ | عبد الرشید یحیی عبدالرحیم ( معالج چشم ) ، ڈاکٹر عبدالرشید، ماسٹر ۳۸۶، ۳۸۹،۳۸۸،۳۸۷ | عبد الرؤف عبد الرحیم راٹھور ۴۴۲ عبدالسلام، پروفیسر ڈاکٹر ۴۲۳ ۷۵۳ ۴۷۶،۴۵۴،۵۹،۵۸،۳،۲ ۵۹۵ ۴۰ عبد السلام، حافظ ۴۹۱ ۴۹۳ ۳۵۸ عبدالسلام خان، ڈاکٹر عبد السلام طاہر عبد السلام عمر، صاحبزادہ عبد السلام میڈسن ۱۳۶ ۶۱۲ ۴۹۰ ۲۶۲ ۴۹۱ عبد الرؤف، ڈاکٹر عبدالرحیم ساقی ۵۳۳ عبد الستار - ۹ چک پنیار عبد الرحیم شبلی ۶۶۴ عبدالستار ربوه عبدالرحیم.کوہاٹ ۴۹۲ عبدالستار.لاہور ۴۹۱ ۴۹۲ ۵۵۲ ۷۳۲۴۸۲،۳۲۰،۳۱۹،۶۷ عبد السلام ابن عبدالمغنی ۶۵۷ عبدا سمیع ، حافظ عبدا سمیع خان عبدالرحیم ملکانه حکیم مولوی ۴۱۶ عبدالستارا بن ڈاکٹر عبدالرحیم ۳۹۱ عبدالسمیع نون ایڈووکیٹ عبدالرحیم نیر، الحاج ۱۰ عبد الستار خادم ۴۹۰ ۵۹۶ ۳۶۶ ۶۸۸،۵۵۲،۵۳۳ عبد الرزاق ۳۵۶ عبدالستار سوکیه عبدالرزاق سیالکوٹی، میاں ۶۳۴ عبد الرزاق شاہ ، سید عبدالستار کنگی، مولوی ۷۵۸،۳۵۹،۳۵۸ ،۳۵۴ ۶۷۴ ۶۱۲۶۱۱،۶۱۰،۱۴۸ | عبد السلام عبد الشكور عبدالشکوراہیم.اے عبد الشکور جاوید ۵۴۵ عبد الشکور ، مولوی عبدالرزاق - گونڈہ ۴۸۰،۴۷۸ عبد السلام ابن ڈاکٹر عبدالرحیم ۳۹۱ عبد العزیز او جلوی منشی عبد الرزاق، مسٹر ۷۵۶ عبد السلام ابن مولوی عبدالستار کنکی عبدالعزیز، بٹ | عبدالرشید ابن ڈاکٹر عبدالرحیم ۳۹۱ ۶۳۹ ۴۹۱ ۴۹۲ ۷۴۴ ۶۴۲ ۷۵۳ عبد العزیز بن عبد الرحمن بن فيصل، عبدالرشید ابن میاں عبدالرحمن عبدالسلام ابن میاں عبدالرحمن آف شاہ ( سلطان ابن سعود ) ۶۳۹ جموں ۶۳۹ ۵۲۷ ،۱۰ ،۷
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 18 اشاریہ اسماء عبدالعزيز، ٹھیکیدار ۵۹۵ | عبدالغفار خان.پیشاور ۴۹۲ عبد القادر، شیخ (محقق) عبدالعزیز ، چوہدری ۶۰۹ عبدالغفور خاں، رانا ۳۷۵ ۴۸۴،۴۸۳،۴۸۱،۴۷۹،۲۵ عبدالعزیز، حکیم ۵۹۶ عبد الغفور دھرمپال، مولوی ( غازی عبد القادر عوده ، الحاج عبدالعزیز دہلوی ،منشی ۳۸۷| محمود) عبد العزیز دین ۴۷ عبدالغفور سرشمیر روڈ عبدالعزیز ڈوگر ، چوہدری عبدالغفور، صوفی ۴۱۲ عبدالقادر، مولوی لدھیانوی ۴۹۱ ۴۸۰ | عبدالقدوس، چوہدری ۴۶۰،۳۵۳،۳۱۶ عبد الغنی رشدی ، میاں عبد القدير عبدالعزیز راہی ، حکیم ۴۸۰،۴۷۸ عبد العزيز ، شیخ ۵۹۵ عبدالغنی ، شیخ ۵۹۵،۵۸۹،۵۸۸ | عبدالقدیر، چوہدری ۶۷۹ عبدالقدیر نیاز، صوفی عبد العزیز طاہر ۴۹۲ عبد الغنی ، صوفی ۴۹۲ عبد القیوم ، بابو عبدالعزیز عتیق ۵۶۴ عبد الغنی کریم عبدالعزیز، ماسٹر ۵۹۶ عبد القادر ابن ڈاکٹر عبدالرحیم عبدالقیوم، مولوی ۵۷۰ ۳۸۸،۳۷۰ ۵۴۱ ۴۹ ۴۴۳ ۳۸۶ ۳۵۷ عبد القیوم، خواجہ ۱۰۷، ۷۰۲،۶۳۸ عبدالعزیز، مستری ۴۲۶ ۳۹۱،۳۹۰،۳۸۹ | عبدالقیوم، میاں عبدالعزیز مغل، میاں ۳۷۳ عبد القادر ، بابو ۳۸۶ عبد الکریم ۵۵ ۵۳۳ ۴۹۰ عبد العظیم درویش، میاں عبد القادر بھٹی ۴۹۳ عبدالکریم ابن میاں رحم دین ۶۵۹ عبدالعلی ملک، بریگیڈئیر ۷۰۴۴۲۰ عبد القادر، چوہدری.جو وال عبد الکریم، خواجہ ۶۵۴۶۵۳،۶۵۲٬۵۸۸ | عبدالکریم ، ڈاکٹر ۸۶،۸۵،۷۹، ۸۷، عبد القادر دانش، مولوی ۳۹۱ عبدالکریم رازی ۸۸، ۹۰،۸۹، ۹۲، ۹۳، ۱۱۸،۱۱۷ | عبدالقادر ، سرسید عبد الغفار، بابو ۴۱۱ عبد الکریم ، رانا ۲۴۳،۲۱۳، ۶۴۶ عبدالکریم، سیالکوٹی عبد الغفور، چوہدری ۶۰۸، ۲۰۹ | عبدالقادر، شیخ (سابق سوداگرمل) ۴۹۳ ۴۹۱ ۴۹۰ ۴۸۱ ،۵۷۹ ،۳۸۳ ،۳۷۳ ،۱۳۴ عبدالغفور، حافظ عبد الغفار حیدر آباد ۶۶۰،۶۳۷ ،۶۳۶ ،۶۳۵ ،۶۳۴ ،۶۹۳،۵۰۰،۴۵۴ ،۴۱۹ ،۴۱۷ ، ۲۴۳ ۳۹۱ ۶۹۴، ۶۹۵، ۶۹۸، ۷۶۴،۷۰۲ عبدالکریم شاد ۴۹۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 عبدالکریم شرما ،مولوی 19 عبداللہ روپڑی ، مولوی ۶۵۳ | عبدالمجید خان، شہزادہ اشاریہ اسماء ۴۸۱ ۷۶۳٬۵۶۲،۵۶۱ عبد اللہ سنوری منشی ۲۴۵ عبدالمجید سالک، مولانا ۱۹۵، ۱۹۶ عبد الکریم غنی ۳۵۸ عبد اللہ ، شاہ.والٹی اردن ۲۵۷ عبدالمجید، شیخ | عبد الکریم کا ٹھگر بھی ۵۱۲،۵۱۱ عبد الله ، شیخ مولوی عبداللطيف عبداللطیف بہاولپوری، مولوی عبد اللطیف تھانیدار عبد اللطیف، چوہدری ۳۸۸ | عبد اللہ، مسٹر ۴۵۳ عبداللہ، میاں ۶۵۷ عبدالمجید قریشی ۴۳۸ عبدالمجید ، ماسٹر ۶۳۹ ۵۹۶ عبد المجید، منشی عبدالمجید، میاں ۵۹۸ ۵۲۵ ۴۹۱ ۳۹۲ ۶ ۶۷۳ ۷۳۸،۷۳۷،۷۱۴۷ عبداللطیف خاں عبداللطیف.شاہ کوٹ عبد اللطیف شهید، صاحبزاده ۴۹۲ ۶۳۸ ،۴۷۹،۴۲۲،۳۷۸ ۶۳۸ عبداللطیف، کمانڈر عبد اللہ ابن ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ عبد الماجد عبدالمساجد بھا گلپوری عبد الماجد دریا آبادی ۶۷۴ ۱۸۲،۱۵۹،۷،۵ عبد الماجد ، شیخ.جیکب آباد ۴۹۱ عبدالماجد ، شیخ لاہور ۶۹۵،۱۹۹ عبد المالک خان، مولانا ۶۱۵،۶۱۳،۱۴۸،۶۹،۶۸ عبدالمالک چدھڑ عبدالمالک، چوہدری ۶۵۲ ۴۱۳ عبدالمجید ولد میاں رحم دین ۶۵۹ عبدالمجید ووہرا عبد المغنی زاہد ۱۲۶ ۴۹۳ عبد المغنی ، مولوی ۶۵۶،۶۵۵ عبدالمقتدر صدیقی عبدالمنان، چوہدری ۴۱۲ ۴۹۳ ۷۲۲۴۱۸ ،۳۹۱،۳۸۹،۳۸۸ عبدالمنان دہلوی ، صوبیدار عبد المنان شاہد، مولوی عبد اللہ الشبوطی ۲۲۶ عبد اللہ الہ دین ، سیٹھ عبد اللہ باجوہ ، ابو محمد ۲۶۶،۲۵۳،۲۳۷ ۶۵۱ عبد اللہ بن باهید عبداللہ خان، چوہدری عبداللہ خان، ملک 1.۴۲۹ ۷۰۴ عبداللہ خان، نواب ۷۰۷ عبدالمنان مبشر عبدالمالک.گھانا ۴۴۲٬۳۵۸ عبد الواحد ۶۶۴ ۳۵۸ عبدالمجید ابن میاں عبدالرحمن جموں عبدالوحید ابن مولوی محمد حسن ۳۷۷ ۶۳۹ عبدالوحید، چوہدری عبد المجید ابن مولوی محمد حسن ۳۷۷ عبد الوحید خان سنوری ۴۱۳ عبدالمجید اسمعیل ،مسٹر ۲۰۵ عبدالوحید ، سید ۶۷۷ عبدالمجید بھٹی ۷۰،۴۱ عبدالوحید ، میر ۳۹۹ عبدالمجید، چوہدری ۴۲۸ عبدالوہاب.جاسکے ۴۹۳
اشاریہ.اسماء ۳۸۶ 20 20 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 عبدالوہاب بن آدم ، مولوی عزیز حسن بقائی ،سید الشـ ۶۸۴ عطاء اللہ سیم ۷۵۲۷۵۱،۷۴۲،۴۳۷ عزیزہ بیگم، سیده (ام وسیم) ۲۶۷ عطاء المجیب راشد عبدالوہاب عسکری ۲۵۹ عشرت نیم عبدالہادی کیوسی ،ڈاکٹر عشرت، ڈاکٹر ۶۴۲ ۶۷۹،۴۹۷ ، ۴۹۳،۱۳۱ ۴۸۰ ١٣٦ عطاء المنان ۴۸۵،۴۸۱ عصمت اللہ خان بہلولپوری ۷۰۸ عطاء محمد جہلمی عبید اللہ بسمل ، مولانا ۲۵۱ عصمت اللہ ، چوہدری عبید اللہ ، خواجہ ۴۰۳ ۴۹۲ عطاء محمد، چوہدری.جڑانوالہ ۵۹۵ عطاء الرحمن ایس.ڈی.او، ملک عطاء محمد ، ماسٹر.ربوہ ۵۹۵ ۵۸۱ ۶۸۳ ۵۹۶،۵۸۱،۵۷۷ ، ۴۰۵،۳۵۶ ۴۲۶ عقیله شمس عبید اللہ ، حافظ عبید اللہ رانجھا، حکیم عبید اللہ ، قریشی مولوی عتیق احمد خان ۵۰۷ عطاء الرحمن ، ڈاکٹر عکرمہ بن ابوجہل ۵۹۵ ۳۷۷ ۶۷۰،۶۲۷ ،۴۵۵،۳۶۲،۶۰ علم الدین ،منشی علم دین ، میاں عطاء الرحمن ، پروفیسر میاں عثمان، شیخ 2.2 ۲۵۳ علی ، حضرت عطاء الكريم علی احمد ٹھیکیدار ۴۲۳ عثمان کا کوریا ۷۶۴،۷۵۳٬۵۵۸ عطاء اللہ ابن ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ علی حسن ، سارجنٹ عزیز احمد باجوہ ۶۱۲،۶۰۹،۶۰۷ عطاء اللہ الہی بخش، حکیم علی حیدر، ملک ۴۸۰ عزیز احمد ، ڈاکٹر ا بن لیفٹینٹ ڈاکٹر محمد الدین ۳۷۷ عطاء اللہ ایڈووکیٹ ، میاں ۶۵۳ عطاء اللہ، چوہدری ۴۹۱ علی گوہر علی گوہر، منشی عزیز احمد ، صاحبزادہ مرزا ۲۱۸ ۵۹۶ ۵۹۶ ۵۹۶ ۶۹۰ ۶۵۱ ۵۹۶ ۳۹۸ علی محمد بی ٹی ۴۷۹،۱۳۱، ۵۹۵ علی محمد ، راجہ ۷۱۳ علی ہجویری داتا گنج بخش ۳۷۳ عمادالدین، پرنس ۴۴ ۶۵۹ ۴۸۳۹ ۵۳ عمر الدین بنگوی عمر، حضرت عمر حیات، ملک ۳۷۳ ۴۹۳ ،۲۲۶ عطاء اللہ ، حاجی عطاء اللہ، شیخ عطاء اللہ فاضل عطاء اللہ کلیم، مولوی ،۳۵۶،۱۵۵،۱۴۹ ، ۱۴۸ ۷۰۷ ،۵۹۴،۵۸۱،۵۶۷ ،۳۸۳ ۵۰۵ ،۱۳ ۳۷۵ عزیز احمد ، قاضی عزیز الرحمن خاں ، رانا عزیز الرحمن منگلا ، حافظ ۷۶۴ عزیز اللہ شاہ، سید ۷۵۱،۷۵۰ ،۷۴۶۹ ،۴۳۹ ،۴۳۷ ۴۲۱ عطاء اللہ.مبلغ فرانس ۳۷۲
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 عمر حیات ٹوانہ عمر ھافر، مسٹر عنایت اللہ تھانیدار ۶۸۳ غلام احمد ، شیخ 21 اشاریہ اسماء ۶۸۷ غلام م حسین ، صوبیدار ۴۰۴، ۴۱۹ ۲۲۶ غلام احمد، صاحبزادہ مرزا غلام حسین قمر بلوچ ۶۷۳ ۱۴۸، ۴۶۱، ۴۶۶ ، ۵۹۸ ، ۷۰۷ | غلام حسین ، مهر عنایت اللہ، چوہدری.سرگودھا غلام احمد عطا، ملک ۶۱۰ غلام حیدر ارشد ، قریشی ۴۴۸ غلام احمد فرخ ، مولانا عنایت اللہ، چوہدری - مبلغ ۷۶۲ غلام دستگیر، لیفٹیننٹ کرنل ۶۸ ۶۹، ۷۰۲،۶۱۲،۶۰۹ غلام دین، مستری عنایت اللہ ، ڈاکٹر ۵۶۰ غلام احمد قادیانی علیہ السلام، حضرت غلام رسول ، چوہدری ۶۳۹ ۳۶۹ ۴۷۸ Al ۴۹۰ ۴۹۳ عنایت اللہ ، شیخ.ماسٹر ۵۳۳،۵۳۲،۵۳۱،۴۹۰ مرزا ۹۰۸،۷،۶، غلام رسول را جیکی ،مولوی ۱۷۰ ۱۷۲، ۱۷۳، ۱۶، ۱۷۷ء ۶۹۴۶۸۷،۳۲۲۲۶ عیسی علیہ السلام، حضرت ۱۷۸، ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۶، ۱۸۹، غلام رسول ، صو بیدار ،۵۷ ،۵۶،۳۴ ،۹ ،۸ ۴۴۷ ، ۴۴۸ ، ۷ ۴۹ ، ۵۷۶،۵۵۵، غلام احمد ، ماسٹر ۶۸۲، ۷۳۷، ۷۳۸ ، ۷۵۵ غلام احمد نسیم، میر ۷۶۲،۷۳۴ پولیس) غ احمد ۴۲۶ ۱۹۹ ۳۴۴، ۴۳۴،۳۹۴،۳۸۸ ، ۷۴۸ غلام رسول مہر ، مولانا ۴۹۳ غلام رسول، میاں (ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ۷۰۴ غلام رسول وزیر آبادی، حافظ ۴۰۷ ۳۶۲،۵۳ غلام سرور، چوہدری غلام اللہ خاں غریب النساء بیگم عرف حاجی بیگم غلام اللہ، ڈاکٹر غفار مهدی، کرنل ۴۱۲ غلام باری سیف ،مولوی غلام سرور خان درانی، خان ۴۹۵،۴۸۴،۴۸۳۴۸۰،۴۵۳، غلام شبیر شاه ، سید ۴۹۲ ۴۰۸ ۲۱۸ ۷۶۴۷۶۳،۵۶۴،۵۶۳،۴۹۶ غلام عباس خان، چوہدری ۵۲۵ غلام احمد ایم.اے، چوہدری ۴۱۱ غلام جیلانی ، چوہدری غلام احمد.بدوملہی ۴۹۰ غلام علی ہاشمی ، ڈاکٹر ۶۳۸ ۷۵۴۷۵۰،۲۲۶ غلام جیلانی ساماں، شیخ ۴۰۹ غلام فاطمہ بنت حاجی محمد الدین غلام احمد بسراء، چوہدری ۴۹۱ غلام حسن خان پشاوری، مولانا تبالوی غلام احمد ، چوہدری.بشیر آبا دا سٹیٹ ۳۸۴٬۳۸۲،۲۵۲،۲۳۷ | غلام فرید، ملک ۶۱۲ غلام حسین ایاز ،مولانا ۳۷۵ غلام حسین سرور غلام احمد، چوہدری ۶۷۴ ۳۸۲ ۷۶۴۶۹۲۵۰۷ ،۳۱۲،۲۴۱ ۶۴۹ غلام قا قادر ۴۹۲
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 22 22 اشاریہ.اسماء فضل احمد ، چوہدری غلام قادر ، مرزا غلام قادر ، مستری ۲۳۸ ف ۳۷۱ فاطمہ بی بی بنت حاجی محمد اسماعیل غلام قادر نمبردار، چوہدری ۶۵۱ ۳۷۶ فضل احمد خاں غلام مجتبی ، چوہدری ۱۰۳ فاطمہ بیگم اہلیہ خواجہ عبد القیوم ۶۳۸ فضل احمد ، سید ۵۵۳،۵۵۲،۴۱۱ ۴۹۰ ۷۲۴ غلام محمد ابن مولوی احمد علی ۴۰۴ فائزه احمد بنت صاحبزادہ مرزا مجید ۴۰۴ فائزه احمد بنت صاحبزادہ مرزا مجید فضل الدین، چوہدری غلام محمد ابن مستری غلام قادر ۳۷۱ احمد غلام محمد، چوہدری (جماعت اسلامی) فتح الدین، منشی ۵۱۳ فتح الدین ، میاں غلام محمد خان، چوہدری ۳۶۲ فتح دین، شیخ ۴۲۱ ۱۳ ۷۰۲،۶۳۹ ۵۹۶ غلام محمد سدھو ، چوہدری ۳۹۸ فتح محمد سیال، چوہدری ۶۶۴،۲۲۱ غلام محمد ، صوفی فخر الاسلام ۱۴۸، ۵۹۵،۲۵۶،۲۳۷ | فخر الحق مشمس ۶۴۰ ۴۱۶ ۴۹۰ ۴۸۳ فضل الرحمٰن بسمل فضل الرحمن بی اے بی ٹی ، میاں فضل الرحمن ، چوہدری فضل الرحمن، حکیم ۴۸۱ ۴۴۸ ۷۵۳ فضل الرحمن خان فضل الرحمن، ڈاکٹر غلام محمد گلگلتی ، خان بہادر ۶۴۹ | فرانس سینگ ہینڈ سر ۵۷۳ فضل الرحمن غازی غلام محمد ، گورنر جنرل ۲۶۰ فرحانه فوزیه غلام محمد، میر ۴۹۲ | فرحت اللہ بیگ، مرزا ۷۰۷ ۲۵۱ فضل الرحمن فیضی ،سید فضل الرحمن نعيم ۶۱۲ ۶۹ ۳۷۱ 722 ۴۸۱،۴۴۴ غلام محی الدین ۳۷۰ فرحت نسیم ۶۴۲ فضل الرحمن، مولوی غلام مسیح رشید احمد ۶۷۳ فرزند علی ، مولوی ۷۱۳ فضل الہی انوری ، مولانا ۴۰۷ ۷۳۶،۷۳۲،۷۱۴ ۴۳۴۲۲۶ ۶۳۰ غلام مصطفی، ڈاکٹر ۵۹۶ | فرمان علی فتح پوری غلام مهدی ناصر، سید ۷۱۵ فرید احمد (مسٹر شمٹ ) ۴۳۳ | فضل الہی بشیر، مولوی غلام نبی ، چوہدری ۳۷۵ فریڈریک جیمز ،سر ۲۵۳ | فضل الہی ، چوہدری غلام نبی گلکارانور ۵۲۵،۲۵۶ | فرینکو، جنرل ۵۶۲ | فضل حق غازی غلام نبی ، ملک ۵۹۵ | فشر ، ڈاکٹر غلام میبین غنی گیلان، مسٹر ۴۹۵ ۷۵۸ فضل احمد بٹالوی ، شیخ ۲۵۹ فضل حق ، قریشی ۵۹۵،۵۸۱ ۲۲۵ ۶۷۲ ۵۳۴،۵۳۱،۵۲۹،۴۸۹ فضل دین، جمعدار
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 23 اشاریہ اسماء فضل دین ، مولوی ۵۹۶ فیروزه فائزه فضل علی ، میر (عرف فضل احمد ) فیصل ، شاه فضل کریم ۴۱۳،۴۱۲ ۴۲۳ قهرمان تو نه بوجو قیس مینائی ۵۲۷ ،۲۵۱،۲۴۹ ،۱۰ ،۷،۶ ۱۲۶ فیض احمد ، جموں ۶۳۸ کارل ملڈن برگر ۴۰ ۶۱۵ ۷۱۴ فضل کریم پراچہ ، شیخ ۴۷۸ فیض احمد گجراتی ۶۶، ۳۷۹ ، ۴۰۶، کالے خاں ورک، چوہدری ۶۵۲ فضل کریم لون، بابو ۷۲۶،۵۳۹ ۳۶۹ کیا کا فضل کریم، ماسٹر ۴۹۲ فیض الدین ، مولوی کبیر احمد بھٹی فضل محمد درویش، حاجی ۶۹۹ فیض الرحمن فقیر اللہ.لاہور ۵۹۶ فیض اللہ خان، سردار اللہ فقیر اللہ، ڈپٹی.ربوہ ۵۹۶ فیض عالم ، چوہدری فقیر اللہ، ماسٹر فقیر محمد سیکھوانی ۳۸۵،۳۸۲ ۵۹۵ فیض قادر ، شیخ ق ۳۹۲ ۴۹۰ ۴۱۱ 19 کبیر الدین صدیقی ۷۵۲ ۴۹۱ کرامت الله داماد عبد المغنی ۶۵۷ کرتار سنگھ ، صو بیدار کرم الہی ظفر ،مولوی ۷۱۵ فقیر محمد، ماسٹر ۴۹۱ قادر بخش، ماسٹر ۵۸۱ ،۲۲۶ ،۴۴ ۷۶۲،۷۴۰ ،۷۳۹ ،۵۶۲،۴۳۴ ۶۴۳ ٢٠٣،٢٠٢ ۴۲۷ گرم چند، لاله قاسم الدین، بابو فلاح الدین شمس فلپس، مسٹر ۵۷۳ قامته بشری فواد الفیصل، شہزادہ ۶۷۲ کرم دین بھیں ۶۷۹،۴۲۲ کرم دین، میاں ۲۶۴ قانتہ شاہدہ فوزیہ بیگم بنت نواب محمد عبد اللہ خاں قامتہ صادقہ خان ، پروفیسر ۴۸۱ کریم اللہ فهمیده بیگم فہیم احمد ، مرزا فیاض احمد خاں، اخوند ۳۹۲ ۳۸ ،۳۷ ،۳۶ کریم اللہ زیروی ، صوفی ۴۲۱ قدرت اللہ سنوری ، مولوی ۶۷۳ ۴،۱۱۱،۶۹،۶۸ ۴۵ ، ۵۹۴،۴۵۵ کریم آغا خاں ۷۰۷ قدرت اللہ حافظ كظيم الرحمن، شیخ ۷۵۹،۴۴۰،۲۲۶،۶۷ کظیم الرحمن منشی ۴۹۱،۴۸۳،۴۷۹ قلندر علی، بابا (ارح) فیروز خان نون ، ملک سر قمر الدین ، حاجی ۶۴۳ ۴۹۳ کلیم اختر کلیم نشتر ۶۸۷، ۶۸۹،۶۸۸ قمر النساء بنت ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ کمال الدین امینی ۴۲۲ ۱۸۰ ۵۹۵ ،۴۱۶ ۵۸۱ ۱۹۱ ،۱۸۸ ۸۶ ۴۷
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 24 اشاریہ اسماء کمال الدین خواجه ۲۳۷، ۲۴۶، گلزاری لال ننده ، شری ۱۲۷ لقمان احمد، صاحبزادہ مرزا ۷۱۰ ۳۷۵، ۴۰۱، ۴۰۳، ۶۳۶ ، ۶۴۵ گوبند سنگھ جی مہاراج ، شری گورد للت نرائن مسرا ، شری کمال یار جنگ کمال یوسف مبلغ کوامے نکروما ۲۵۲ ۴۴۲،۲۲۶ (Kwame Nkrumah) گودھا ۱۲۷ ۶۲۰ لیق احمد ابن لیفٹیننٹ ڈاکٹر محمد ۶۸۳ الدین گورمکھ سنگھ مسافر، گیانی ۶۲۰ ، ۶۲۱ لئیق احمد انصاری گوہر دین ، ڈاکٹر ۶۶۵،۶۶۴ لئیق احمد، چوہدری ۳۷۷ ۶۷۹ گوہر رحمان، سردار ۴۳۸،۲۶۱،۶۶،۴۱ کونگ (Konig)، مسٹر ل (بشیر عبداللہ ) ۴۳۳ لاگوڈا، الحاج کیون میکوئن، ڈاکٹر کے.ایل ناصر، یادری ۴۹۵ کے.برنا ، ڈاکٹر ۵۲۵ لیق احمد طاہر لئیق احمد عابد ۷۵۹ لوئیس مینس، ڈاکٹر لال بہادر شاستری ۷۶ ۱۲۶،۷۷ لیاقت علی خان ۶۲۰،۶۱۹۰۶۱۸ لال حسین اختر ، سائیں لیکھرام، پنڈت (Dr.K.Berna) لال خاں، ملک ۵۹۵ ۷۱۲ ۵۲۵ ۴۲۶،۳۷۲ ۷۶۴،۴۲۶ لیوک، ڈاکٹر ( Luke) ۷۲۳ ۴۸۶ م ۷۶۰ لال دین ،ڈاکٹر ۷۶۱،۵۳۶ مارگولیتھ ، پروفیسر ۵۷۳،۲۳۸ گ گار بٹ ہی ہی گریسی، جنرل ۶۸۶ گرین، مسٹر ۵۲۶ ۵۷۵ ،۵۷۴ گل حسن خاں ، لیفٹیننٹ جنرل گل محمد ، مرزا گلاب سنگھ گلزار احمد ، بریگیڈئیر ۳۶۳ ،۹۳ ۹۹ ۶۶۳ ۶۴۷ لاله دلیراج لطف الرحمن شاکر ۶۴۹ ۶۷۸ ماؤزے تنگ ۲۲۱ ۲۲۶ ماہر القادری ۵۵۴،۵۵۳ لطف الرحمن ، مرزا مبلغ مبارک احمد ابن محمد جمیل ۶۴۱ لطیف احمد ابن چوہدری محمد شفیع لطیف احمد ، سردار ۶۴۲ ۴۹۲ ۴۱۸ ،۳۸۲ ۶۷۸ ۲۰۹ مبارک احمد اعجاز مبارک احمد انصاری مبارک احمد ایمن آبادی لطیف، ڈاکٹر.سرگودھا ۲۲۰ مبارک احمد ساقی لطیف احمد طاہر بی.اے ۴۱۰،۴۰۹ ۷۵۵،۷۵۰،۲۲۶،۱۶۳ لطیف احمد عارف ۳۸۲ مبارک احمد ، شیخ لعل خاں، چوہدری ،۳۹۶ ،۳۵۹ ،۲۶۵ ،۶۹ ،۶۲ ٣٧٩
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 25 اشاریہ - اسماء ،۴۶۲ ،۴۶۱ ،۴۵۴ ،۴۵۳ ،۴۴۳ ،۴۷۵ ،۴۶۸ ،۴۶۶ ،۴۶۳ مبار کہ بیگم اہلیہ چوہدری فضل الہی مجیدہ بیگم اہلیہ چوہدری شاہنواز ۶۷۲ ۴۷۶، ۴۹۸، ۷۶۴،۵۹۴،۵۸۸ مبار که بیگم بنت مولوی الف دین محب الرحمن ، مولوی مبارک احمد، صاحبزادہ مرزا ۳۴۶ ۵۹۵ ۳۷۰ محب اللہ آئی.اے.ایس ۷۲۵ ۴۲،۳ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ، مبارکه بیگم، سیده نواب ۱۲۴ مبارکہ بیگم، سیده نواب ۱۲۴، محبوب عالم خالد ، شیخ ۵۹۷،۶۲ ،۴۴۳ ،۳۵۹ ، ۲۷۳ ،۶۶ ،۶۵ م ۴۴ ، ۴۵۳ ، ۴۶۰، ۴۶۶، ۵۲۷، ۷۳۹ ،۷۳۲ ،۵۹۴ ،۵۳۴ ،۲۷۲ ،۲۷۱ ،۲۶۹ ،۱۴۶ ،۱۴۴ ،۳۴۷ ،۳۴۶،۳۱۸ ،۳۱۶ ،۲۹۶ ۵۸۴،۵۸۳،۴۷۰ ،۳۷۰ ،۳۴۸ ۴۸۴ مبارک احمد مرحوم ، صاحبزادہ مرزا مبارکه شمس ۲۶۹، ۵۸۳،۲۷۷، ۶۴۸ مبارکه نسرین بنت چوہدری محمد شفیع مبارک احمد طاہر ۴۹۲ ۶۴۲ مبارک احمد ، لیفٹیننٹ کرنل ۳۷۷ مبشر ابن قاضی بشیر احمد شہید ۱۱۵ مبارک احمد ، ملک ۵۱۹،۴۵۴ مبشر احمد ، بریگیڈئیر ڈاکٹر مرزا مبارک احمد ، ملک.ربوہ ۴۹۰ مبارک احمد ، مولوی.ترگڑی مبشر احمد خالد ۴۹۳ مبشر احمد راجیکی مبارک اسماعیل، شیخ ۶۴۳ تا ۶۴۹ مبشر احمد فرخ، ملک مبارک علی ، چوہدری مبشر احمد کاہلوں ۴۸۴ ۴۸۲ ۴۹۱ ۴۹۲ ۷۲۵،۷۲۳، ۷۲۶ مبین الحق ابن حاجی نصیر الحق ۶۴۳ مبارک محمود پانی پتی، شیخ ۱۲۲ ۳۹۱ مبین الحق شمس، حافظ ۴۹۱،۴۲۰ مبارکه احسن بنت مولوی محمد حسن مجید احمد ، صاحبزادہ مرزا ۴۲۱ ۳۷۷ مجید احمد کاہلوں، چوہدری ۳۷۲ مبار کہ بیگم اہلیہ نذیر الحق ۶۴۹ مجیدہ بیگم بنت خواص خاں ۱۱۵ ۶۸۰ محبوب عالم، ڈاکٹر قاضی محمد ، مولوی (امیر جماعت مشرقی پاکستان) محمد ابراہیم ایم.اے ۵۹۵ ۵۳۰،۵۲۹،۴۸۹ محمد ابراہیم بقا پوری ، مولوی ۱۱۰ محمد ابراہیم بھانبڑی ،مولوی ۴۹۳ محمد ابراہیم جمونی ، میاں ۷۰۲۶۳۹،۶۳۸ محمد ابراہیم، چوہدری.لاہور محمد ابراہیم، حکیم ۶۷۹ ۵۶۲ محمد ابراہیم خلیل، حاجی ۴۸۰،۴۷۸ خلیل،حاجی محمد ابراہیم قادیانی ، مولوی ۴۸۰،۴۷۸ محمد ابراہیم ناصر، پروفیسر ۳۵۶ محمد ابراہیم، ماسٹر ۴۷۲ محمد ابراہیم ، میاں.سماعیلہ گجرات ۴۰۸
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 محمد اجمل شاہد،مولوی 26 محمد ارشد، چوہدری ۴۰۲ اشاریہ.اسماء محمد اسلم صابر، پروفیسر ۳۵۶، ۴۸۹ ۵۵۴۴۸۱،۴۸۰،۲۰۲ محمد ارشد خوشنویس، کاتب ۵۰۵ محمد اسلم ، قاضی محمد احسان الہی جنجوعہ ۴۹۳ | محمد اسحاق، حافظ محمد احمد ابن مرزا محمد اسماعیل ۳۷۰ محمد اسحاق خلیل ، حافظ ۴۸۴ ۴۸۰ ۴۸۰ ،۳۵۹،۳۰۳ ،۴۶۷ ،۴۵۴،۴۵۳،۴۴۳،۴۲۷ ۷۲۱ ، ۶۸۰ ،۶۱۹ ،۶۱۸ ،۵۹۵ محمد احمد انور حیدر آبادی ۳۵۶،۶۲ محمد اسحق ڈپٹی کمشنر کراچی) ۴۲۹ محمد اسلم لودھی محمد احمد ثاقب ، مولوی ۴۵۳ | محمد اسحاق ساقی ۳۷۲ محمد اسلم ، میاں محمد احمد جلیل ، مولوی ۴۵۳۱۴۸ محمد اسحاق ، شیخ ۶۴۶، ۶۴۷ محمد اسماعیل پانی پتی ، مولوی محمد احمد خاں ، فلائٹ لیفٹیننٹ ۶۹۱ محمد اسحاق ، صوفی ۳۹۳، ۴۱۸، محمد احمد خاں، نواب ۴۲۱ ۴۴۲، ۷۵۴،۷۵۳،۷۵۲،۴۸۴ محمد اسماعیل ، حاجی ♡+1 ٣٨٦ ۴۷۹،۲۰۱،۲۰۰ محمد احمد عدنی ، ڈاکٹر ۳۸۲/۳۷۹ محمد اسحاق قریشی، پروفیسر ۵۲۵ محمد اسماعیل، حاجی.لاہور ۳۷۱ محمد احمد قریشی محمد احمد.لائلپور ۴۹۰ | محمد اسحاق ، میر محمد اسماعیل، حکیم خواجہ ۴۹۳ ۲۵۴، ۴۱۵، ۵۶۵، ۶۷۰،۵۷۹ | محمد اسماعیل، خواجہ ۴۴۳ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ ، شیخ محمد اسد اللہ کاشمیری، قریشی ،۴۷۸ محمد اسماعیل، ڈاکٹر گجرات ۶۷۳ ،۲۴،۲۳،۱۳ ،۴۶۰ ، ۴۵۳ ،۴۱۶ ،۳۵۸ ۲۵ ۴۸۰، ۴۸۱، ۴۸۴، ۷۱۹، ۷۶۴ محمد اسمعیل، ڈاکٹر میر ۶۸۴،۴۲۱،۲۵۶ ۴۶۳، ۴۶۷، ۵۰۸، ۶۸۰، ۶۹۹ محمد اسلم.احمد نگر ۳۵۴ محمد اسمعیل سدھو، چوہدری ۳۹۸ محمد احمد ، میاں ۶۷۳ محمد اسلم باجوہ ا.۴۹۱ محمد اسماعیل سورتی ، مولوی محمد ادریس چغتائی ۴۷ محمد اسلم جاوید ۴۷۷ محمد اسماعیل غوری، مولوی ۷۲۵ محمد ادریس، مرزا ۷۶۱۷۷۶۰ محمد اسلم، چوہدری ابن منشی سر بلند محمد اسمعیل فاضل حلال پوری، محمد ادریس، میاں ابن میاں محمد خاں یوسف ۴۰۲ مولانا ۶۷۳ محمد اسلم ، چوہدری.کراچی ۴۸۰ محمد اسماعیل، مرزا محمد ادریس، میاں.کلکتہ محمد اسلم شاد ۴۹۱، ۵۶۰ محمد اسماعیل منیر ، مولوی محمد ارشاد خان محمد ارشد ایم ایس سی ۲۱۹ محمد اسلم شہید ۳۵۶ محمد اسلم ، شیخ ۳۷۴ ۲۵۲ ٣٧٠ ،۴۴۴،۳۵۶،۳۲۶ ۷۶۲،۷۵۷ ،۷۵۶ ،۴۸۴ ،۴۷۴ ۴۷۲
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 27 محمد اسماعیل، مولوی (صحابی ) ۶۹۸ محمد اقبال ، علامہ ڈاکٹر اشماریہ.اسماء محمد ایوب خان خان ۴۹۰ محمد اسماعیل، مولوی (غیر احمدی) ۹، ۵۹، ۱۸۰، ۱۸۹، ۲۴۷، ۵۲۵ محمد ایوب خان ، فیلڈ مارشل ۶۱۷ محمد اکبر خان بھٹی، چوہدری ۲۰۱ محمد اسماعیل یادگیری ،مولانا محمدا کرم، چوہدری ابن منشی سر بلند ۴۱۰،۴۰۵ خاں ،۷۴،۵۸ ،۱ ،۱۶۲ ،۱۵۲ ،۱۲۰ ، ۱۱۹ ، ۱۰۴ ،۸۴ ۴۰۸ ،۲۲۰ ، ۱۹۲ ،۱۷۳ ،۱۷۲،۱۶۶ ۴۰۲ محمد اشرف خان ، ملک محمد شریف ، ڈاکٹر محمد اشرف ،سید ۴۹۱ ۶۷۰ محمد اکرم ، خواجہ محمد اکرم ، مولوی محمد الامین لوح محمد اصغر خان ، ائیر مارشل ۱۰۴،۱۰۳ محمد الدین تهالوی ، حاجی ۴۹۰،۴۸۳ محمد باقرخان قزلباش ، آغا ۳۹۴ محمد بخش ایڈووکیٹ ، میر ۷۵۴ محمد بخش پنشنرز ۵۰۸،۴۶۰ ۴۹۰ ۵۹۶ محمد اصغرلون محمد اعظم ، چوہدری محمد اعظم ،میاں ۶۷۶ ۳۸۶ محمد الدین ناز محمد الدین ، نواب محمد افضال حسین قادری، پروفیسر ڈاکٹر ۳۸۰،۳۷۷ ۴۹۱ ۶۶۶،۲۵۸ ۲۱ محمد الدین، لیفٹیننٹ ڈاکٹر ۳۷۵ محمد افضل او جلوی ، مولوی ۳۹۱ محمد اله داد، چوہدری محمد افضل ، چوہدری ابن جہان خاں محمد امام الدین، مولانا ابوالا مکمل ۶۶۰ ۳۷۴ محمد امجد، چوہدری محمد افضل ، چوہدری ابن منشی سر محمد امیر خان ۴۸۱ ۵۳۸ محمد بخش، شیخ.ربوہ محمد بخش، شیخ.کڑیانوالہ ۶۷۳ محمد بدرالدین ، مولانا ۶۶۰ محمد بشیر احمد سہگل ، میاں ۱۲۵،۶ محمد بشیر احمد شاد محمد بشیر الجزائری محمد بشیر باجوہ، میجر محمد بشیر ، قاضی محمد بقاء اللہ انصاری ۷۵۰ ۲۵۹ ۶۷۱ ۴۹۲ بلند خاں محمد افضل فاروقی ۴۰۲ ۴۹۰ محمد افضل ، قریشی محمد افضل نسیم ۷۶۲۷۵۰،۲۲۶،۴۳ ٣٧٠ محمد اقبال شاہ ، سید ۷۵۳،۳۹۸،۳۹۳ محمد امین محمد امین جنجوعہ محمد امین خان ، نوابزاده محمد انور حسین، چوہدری محمد انور شمیم محمد انور گورایہ، چوہدری ۴۹۱ ۷۶۱ ۴۷۳ ۴۴۸ 1+1 ۶۵۱ محمد بوٹا، میاں ۶۱۷،۵۹۵،۴۲۶ محمد تقی ، مولوی ۴۹۰ محمد ثناء اللہ انصاری، ڈاکٹر محمد جمیل ابن حضرت حکیم نورمحمد محمد جی ، مولوی ۶۴۱ ۵۹۵،۵۸۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 28 محمد چراغ ، ماسٹر ۴۹۰ محمد خان، چوہدری اشاریہ.اسماء ۳۷۴ محمد رفیق ، شیخ ۵۳۳ محمد حسن ، مولوی ۳۷۷ محمد خاں ایڈووکیٹ ، رانا ۵۵۲ محمد رفیق، قاضی محمد حسین.آزاد کشمیر ۴۹۲ محمد داؤ دمیاں ۲۷۳ محمد رفیق ، ملک محمد حسین باجوہ، چوہدری ۹۴ محمد دین، چوہدری.ڈھاباں سنگھ محمد رمضان، کیپٹین ڈاکٹر محمد حسین باجوہ (صحابی) ۶۶۸ ۴۹۰ | محمد زہدی ، مولوی ۵۸۸ ۴۲۶ ۴۷۲ ۲۲۶ محمد حسین، چوہدری.ربوہ ۴۲۶ محمد دین، چوہدری نوارائی شریف محمد سرور شاہ، مولاناسید ۲۷۰، ۲۷۱ ۴۹۳ محمد سعید، چوہدری ۶۱۳،۶۱۲ ۴۲۸، ۴۲۹ محمد دین ، حکیم ۷۲۶،۵۱۵ محمد سعید حیدر آباد دکن ، مولوی میر محمد حسین، چوہدری کراچی محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر سید محمد دین ،سیٹھ ۳۹۶،۳۹۵ | محمد دین ،صوفی ۴۹۰ محمد سعید، سید ۴۱۲،۲۴۰ ۴۹۱ ۵۹۶ ۶۷۳ محمد حسین ، شیخ ۷۱۷ محمد دین، کیپٹن ڈاکٹر ۴۰۵ محمد سعید، کیپٹن محمد حسین مبارک علی ۴۲۲ | محمد دین، ملک محمد حسین ، مرزا ۵۹۵ محمد دین ، منشی محمد حسین ، مولوی ۴۹۳ | محمد دین، نواب ۴۹۳ ۴۹۲ ۶۶۹ محمد سعید میاں محمد سلیم.جہلم محمد سلیم سہگل محمد حسین ، مولوی (صحابی) ۵۹۶ محمد دین ، مولوی (صدر - صدرانجمن) محمد سلیم فاضل مولوی محمد حسین ، میاں ۶ ۶۴۷،۵۹۴،۵۸۱،۴۷۲ محمد حفیظ بقاپوری ، مولوی ۴۸۰ محمد دین ، مولوی ( مبلغ البانیہ ) محمد حنیف، شیخ ۷۱۰،۴۶۱،۴۶۰ محمد رشید، قاضی محمد حیات، چوہدری ۴۹۰ | محمد رضوی ، مولوی سید ۲۵۰ ۶۷۷ ،۴۲۲ ۴۱۳ محمد سلیم ، ملک محمد سلیمان، چوہدری ۴۹۱ ۱۲۷ ،۱۲۶ ۶ ۴۹۱ ۶۵۳ محمد سلیمان، حافظ ۷۶۲ محمد سلیمان مبشر ، فلائٹ لیفٹیننٹ محمد حیات خان نون سر ۶۸۳ محمد رفیع ابن چوہدری محمد شفیع ۶۴۲ ۶۷۹ محمد حیات ملتانی ۴۰۵ محمد رفیع ، صوفی محمد سلیمان میاں محمد حیات، مہر ۴۴۵ ۶۴۵،۶۱۲،۵۹۴۴۹۲ محمد خالد باجوہ ۶۷۱ محمد رفیق ابن حضرت حکیم نور محمد محمد شاہ نواز خان، ڈاکٹر میجر محمد خان جونیجو ۶۹ ۶۳۸ ،۴۸۱،۴۸۰ ، ۴۷۹،۴۷ ۶۴۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 29 اشاریہ.اسماء محمد شریف احمد ابن حضرت حکیم نور محمد محمد شفیع اشرف ، مولانا محمد شریف باجوہ، چوہدری محمد شفیع خان، خان 19 محمد صدیق بانی ہیٹھ ۶۴۱ محمد شفیع او جلوی ، چوہدری ۶۴۱ ،۵۸۷،۱۲۶،۶ ۷۲۶ ،۶۲۴ ،۵۹۸ ،۵۹۰ ، ۵۸۹ ۶۹،۶۸ ۶۶۶ محمد شفیع ، ڈاکٹر محمد شریف، پروفیسر ۴۷۹ محمد شفیع سلیم پوری محمد شریف تیوسوچنگ ۴۳۹ محمد شفیع ( کالم نویس) ۶۷۳ | محمد صدیق، چوہدری (صدر عمومی) ،۴۲۶ ۴۹۲ ۶۱۶ ،۵۹۴،۵۸۷ ،۵۱۹ ،۴۵۳ ۱۷۴ ۵۹۶ محمد شفیع نوشہروی ، ملک محمد شریف، چوہدری.ساہیوال ،۴۵۶ ،۶۰ ۶۷۱ ، ۶۷۰ ،۶۶۸ ،۶۱۵ ،۴۹۵ محمد شفیق قیصر محمد شفیق ، سید ۴۷۳ محمد صدیق ، حکیم ۱۳۱ محمد صدیق شاہد گورداسپوری ۴۹۲ ۷۶۲،۷۵۰،۶۹۰ محمد شریف، چوہدری.کراچی ۴۹۱ محمد شکور جمعدار، امیر ۴۱۲ محمد صدیق ، شیخ محمد صادق (اکاؤنٹنٹ وکالت تبشیر) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ۴۹۳ ۶۴۰ محمد شریف ، حاجی ۶۴۰ محمد صادق سماٹری ، مولوی ،۶۴،۶۲،۲۳ ۲۸۴ ،۲۴۵ ۲۴۴ ،۲۴۳ ،۱۴۳ محمد شریف خالد، چوہدری ۴۲۶ محمد شریف ، ڈپٹی محمد شریف سندھی محمد صادق فاروقی محمد شریف گجراتی ، ملک محمد صادق مفتی ۲۶۳،۲۳۸، محمد طفیل سعید محمد شریف.مظفر گڑھ محمد شریف ،مولوی محمد صادق، مولانا ،۵۸۵ ،۵۷۹ ،۵۷۷ ،۳۸۷ ، ۴۵۴ ،۴۲۷ ،۲۹۱ ۵۹۴،۴۶۲ ،۶۶۷ ،۶۴۴ ،۶۲۵ ، ۶۱۰ ، ۵۸۶ ۵۹۵ ،۵۰۵،۴۹۵ ،۴۵۹ ،۴۵۸ ۴۹۰ ۷۳۷ ،۷۳۵،۷۳۲،۷۲۷ ،۷۲۴ ۵۹۶ ۲۵۰ ۴۹۰ ۴۹۳ ۴۸۱ ۷۶۴ ،۷۵۳ ،۶۶۲ ،۶۶۱ ،۴۱۵ ۵۴۹ ،۴۰۹ ۴۹۱ محمد طفیل منیر، پروفیسر ۱۳ | محمد طیب، سید محمد شریف ، میاں ۶۸۵ محمد شعیب میاں ۶۷۳ ۴۹۳ محمد صادق، میاں ۳۸۶ محمد طیب، کیپٹن محمد صادق ،میاں.خان بہادر ۳۸۴ محمد ظفر اللہ خان، چوہدری سر محمد صالح ۶۷۲ محمد شفیع ابن حضرت حکیم نور محمد محمد صدیق امرتسری ، مولوی ۲۲۶ ،۴۷ ، ۴۶ ،۴۴ ،۲۶۱ ،۲۴۲،۲۱۲ ،۱۹۴ ،۱۸۴ ،۶۷ ۱۰۸ ۶۴۱ ،۴۵۳،۴۵۱ ،۳۵۹ ،۳۵۴ ،۳۴۵ ۷۶۲ ،۷۴۱ ،۷۴۰ ، ۴۳۶ ،۴۳۵
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 30 ۴۵۴، ۴۵۵، ۴۵۶، ۴۵۹،۴۵۷، محمد عبداللہ خاں ، ڈاکٹر.کوئٹہ محمد علی جوہر، مولانا ۶۷۶ محمد علی، چوہدری ،۴۶۶ ،۴۶۵ ،۴۶۳،۴۶۱ ،۴۶۰ اشاریہ.اسماء ۲۴۵،۲۱۵ ۴۶۷، ۴۷۳،۴۷۲،۴۷۰،۴۶۸ ، محمد عبد الله داماد چوہدری رحیم بخش محمد علی ، چوہدری (وزیر اعظم ) ۵۵۷ ،۵۳۴ ،۴۷۷ ،۴۷۵ ۳۷۲ محمد علی خالد ۷۳۶ 190 ۴۹۱ محمد ظہور الدین اکمل ، قاضی محمد عبداللہ، ڈاکٹر ا بن ڈاکٹر عبدالرحیم ۷۳۳،۷۳۲،۷۳۱، ۷۶۴،۷۳۹ محمد عبد اللہ ڈار، چوہدری ۴۹۱ محمد علی خان ، نواب ۶۹۸،۶۶۳،۶۶۲،۶۶۰،۳۷۰ ۳۹۱ محمد علی ، شیخ محمد ظہور الدین، خواجہ محمد ظہور خان ۶۵۸ ،۳۸۳،۲۷۱،۲۵۵ ۴۹۲ ۶۴۵،۶۴۴ ۷۱۴ ،۷۱۳،۵۱۷ ۴۹۰ محمد عبد اللہ ، ڈاکٹر.سانگلہ ہل ۵۹۶ محمد علی صوفی ۵۹۶ محمد عبد اللہ ، شیخ ۵۲۵،۱۸۰ | محمد علی کلے محمد عاشق ، حافظ قاری ۳۵۴ محمد عبداللہ ، قاضی محمد عبدالسلام کفافی ۵۶۳ ۶۵۵،۶۴۹،۶۱۷،۵۹۴،۴۶۲ محمد علی، مولوی ۶۵۸ ،۶۳۶ ،۴۹۸ ،۴۱۵ ،۳۸۴ محمد عبدالشکورا بن ڈاکٹر عبدالرحیم محمد عبداللہ قریشی ابن قریشی مولوی محمد عمر انور بنگوی ، شیخ ۳۹۱ عبید اللہ ۳۷۷ محمد عمر، حکیم محمد عبداللہ ابن حاجی محمد الدین تبالوی محمد عبد اللہ قریشی.ربوہ ۴۹۲ محمد عمر سہگل ، میاں ۶۵۹ ۳۸۸ ۳۸۲ محمد عبد اللہ، الحاج محمد عبداللہ منشی محمد عثمان چینی ، مولوی ۶۶۰ ۷۲۶،۱۲۸،۱۲۶،۶ محمد عمر لدھیانوی، حکیم ٣٧٠ ۶۷۵ محمد عبد اللہ بوتالوی ، مولوی ۶۷۸ ۷۶۲۷۴۰،۳۵۸ | محمد عمر ، مولوی مہاشہ محمد عبد اللہ بھٹی، قاضی محمد عثمان صدیقی ۴۹۱ ۳۵۵ ۵۹۶ محمد عزالدین حسن، ڈاکٹر ۴۰ محمد عوده ، السید ۷۲۶،۷۱ ،۷۱۷،۵۱۵ ۲۶۴ محمد عبد اللہ ٹھیکیدار محمد عبداللہ ، حافظ محمد عبداللہ حکیم محمد عبداللہ خان، نواب ۴۹۰ ۴۴۳،۴۲۱،۲۶۶ محمد عصمت اللہ ، چوہدری ۴۹۰ محمد عیسی ، حاجی محمد عطاء اللہ، کرنل محمد عیسی ، مولوی ۴۶۶،۴۶۳،۴۶۲،۴۶۱،۴۶۰ | محمد فاضل ، حاجی محمد علی باجوہ، چوہدری ۶۴۹، ۶۵۰ محمد فاضل ، مرزا محمد علی جناح، قائد اعظم ۲۴۸، ۶۶۹ محمد فوزی ، استاذ ۴۹۲ ۷۶۲،۷۵۳ ۶۱۷،۵۹۵ ۴۹۱ ۷۴۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 31 محمد فیروز خان ،سر ۶۸۸ محمد نذیر لائکیوری، قاضی محمد قاسم محمد یعقوب امجد اشاریہ اسماء ۴۸۴ ۳۵۸، ۴۲۶ ، ۴۲۷ ، محمد یمین خان ( پیام شاہجہانپوری) ۵۹۴ ،۴۹۵ ،۴۷۹ ،۴۵۳،۴۴۳ ۵۲ محمد کریم الدین شاہد ، مولوی ۷۲۳ محمد لطیف ۴۹۰ محمد نذیر ، میاں محمد لطیف جے پوری، ڈاکٹر ۷۲۳ محمد نصر اللہ قریشی محمد لطیف، ڈاکٹر قاضی ۲۸۰ محمد نصیر الله محمد لکھو گے، حافظ محمد مالک محمد مالک ، ملک ۴۰۳،۳۹۹ ۴۹۲ ۴۹۲ ۳۹۱ ۶ ۴۰۷ ۵۳۱ محمد یوسف بانی ، میاں ۳۷۷ محمد یوسف ، ڈاکٹر ۶۴۰ محمد یوسف سید محمد نعیم باجوہ ۲۷۱ محمد یوسف ، قاضی ۱۱۳، ۱۱۵، ۴۱۸ محمد نقی ۶۷۱ محمد یوسف علی محمد نواز مومن ۴۹۱ محمد یوسف ، مولوی ۳۵۴ محمد یوسف خان، میاں ۴۹۰ ۵۱۵ ۶۷۲ محمد واسوا کر بیٹو محمد محبوب دیو درگ، شیخ ۴۱۴ ۶۴۰ محمد باشم بخاری ، سید ۴۴۲ ۴۹۰ محمد یوسف ، میاں.مردان محمد محمود طاہر محمد یار عارف مولوی ۴۵۴ محمد مراد، میاں ۶۹۳ محمد مستقیم ، ملک محمد یار، مستری ۴۸۱ محمد یونس خاں محمد یونس میاں ۴۹۳ ۶۷۳ محمد یاسین محمد منظور احمد ایڈووکیٹ ۷۲۱،۷۱۹ محمد یامین ۴۱۴ ۴۹۲ محمد منظور نعمانی ، مولوی ۶ محمود احمد ابن عبدالجلیل عشرت ۱۹۹ محمود احمد ایڈووکیٹ ، قریشی محمد یا مین ( تاجر کتب ) محمد منور ، مولوی ،۲۲۶ ۴۲۰ ، ۴۱۴ ،۴۰۵ محمود احمد، با بو ۷۵۳،۷۳۶،۷۳۴ ،۴۴۲ ،۴۰۵ محمد یا مین ندیم محمد منیر امرتسری، ڈاکٹر قاضی ۴۷۲ ۴۷۷ محمود احمد باجوہ، چوہدری محمد یحیی ابن شیخ مبارک اسماعیل محمود احمد.بدو ملی ۶۲۱،۵۵۲ ۴۹۰ ۶۵۲ ۴۹۰ محمد منیر، شیخ محمد موسیٰ ، جنرل محمد موسیٰ ، ملک محمد موسی ، مولوی سید محمد موبیل ، حکیم ۴۹۰ ۶۴۹ ۸۲،۸۱،۷۹ محمد یکی میاں ۶۷۳ محمود احمد، بھائی ۷۱۴،۵۹۵،۹۵ محمود احمد، چوہدری ۶۱۰ ۴۹۳ محمد یسین، قاری محمود احمد چیمہ ، مولوی ۱۸۴ ۴۹۳ محمد یعقوب ۷۶۲۴۳۴۴۳۳،۲۲۶ محمد یعقوب احمد ۴۹۱ محمود احمد خاں ۴۹۲
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 32 محمود احمد، سید ابن سید داؤد مظفر شاہ محمودہ بیگم بنت میاں محمد یوسف مسعود احمد خان دہلوی ۶۷۳ اشاریہ.اسماء ۷۱۰،۵۹۷ ،۱۳۱،۶۲ محمود احمد عرفانی ، شیخ ۵۶۸،۲۴۰ | محمودہ بیگم، سیده (ام ناصر ) مسعود احمد خورشید، الحاج محمود احمد ناصر ، سید میر ۶۹۹،۲۷۱،۲۶۹،۲۶۴،۲۳۴ | مسعود احمد ، ڈاکٹر ۴۵۳ ، ۴۶۷ ۴۹۴۰ ، ۷۶۴۴۹۸ مختار احمد ایاز ، چوہدری ۴۹۰ ۷۱۴ مسعوداحمد، ڈاکٹر حافظ محمود احمد ، مرزا ابن مرزا نسیم احمد ۷۶۰،۶۰۵،۳۵۴ مسعود احمد ، ڈاکٹر قاضی ۴۲۱ مختار احمد شاہجہانپوری، حافظ سید ۵۴۶ ،۱۳۶ محمود احمد مختار ، مولوی مسعود احمد، سید ۴۷ ، ۷۳۲٬۴۸ مختار احمد ہاشمی ، قریشی محمود احمد، میاں ۴۰۲ مرتونو ، ڈاکٹر محمود احمد، میجر ڈاکٹر ۲۵۷ | مردانه محمود اسمعیل ، مسٹر ۴۷۳،۳۵۸،۱۱۱ ۵۵۳ ۵۵۹ ۷۱۵ ۷۰۷ ، ۴۴۲،۳۵۶،۴۳،۴۲،۳۹ مسعودالرحمن ، شیخ مسعود (فلائنگ آفیسر ) ۵۹۶ 1+1 ۴۳۴ مریم بیگم اہلیہ ڈاکٹر میجرمحمد شاہ نواز - مسعودہ بیگم بنت میاں محمد یوسف محمود الحسن ، جنرل ١١٦ خان محمود الرحمن ، ڈاکٹر ۳۶۳ مریم بیگم اہلیہ حافظ روشن علی بیگم ۷۰۱ مریم بیگم بنت میاں محمد یوسف محمود اللہ شاہ، سید محمود خاں ۴۹۱ محمود شلتوت، علامه ۲۵۳ مریم صدیقہ محمود مجیب اصغر ۶۳۸ ۱۱۲ ۳۷۱ ۴۸۱،۳۷ ۶۷۳ مسعودہ بیگم اہلیہ چوہدری شریف احمد باجوہ مسولینی، وزیر اعظم مشتاق احمد باجوہ، چوہدری ۶۵۲ ۲۴۲ ۷۴۳،۴۵۴،۲۲۶،۶۷ ، ۴۰،۲۲ ۲۸۶ مریم صدیقہ ، سیده ( ام متین) مشتاق احمد، چوہدری محمود نعیم الاسلام (سونیا ز مرمان) ۱۲۱، ۲۴۹ ۵۳۴،۲۶۳، ۷۱۲،۶۳۱ مشتاق احمد خاں ، رانا ۴۴۰ | مسعود احمد باجوہ محمودہ بیگم بنت شیخ یعقوب علی مسعود احمد جہلمی ،مولوی عرفانی ۶۴۹ ۶۵۲ ۷۶۶۷۱۳۶۳۱،۴۸۱ محمودہ بنت مرزا محمد اسماعیل ۳۷۰ مسعود احمد خالد، ملک مشتاق احمد قریشی مشتاق احمد ، میر مشہو داحمد ،سید ۴۹۲ مصطفی احمد خان ۳۷۵ ۲۱۹،۲۱۸ ۱۲۷ ،۱۲۶
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 مصطفے زیدی، ڈپٹی کمشنر ۴۵۵ 33 مکھن سنگھ ،سردار ۴۰۸ مکھن ، چوہدری مصلح الدین سعدی ۶۸۵ ۶۵۲ منور احمد خالد منور احمد، رانا اشاریہ اسماء ۶۳۲،۴۹۰ ۴۹۱ مطیع اللہ درد ۴۷۶ ملا علی قاری، امام مظفر احمد ۴۹۲ ملٹن ابوٹے ، ڈاکٹر (Obote) و منور احمد، صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا ،۳۵۶،۲۲۰،۱۳۷ ، ۱۳۶ ،۱۳۵ ،۲۱ مظفر احمد باجوہ ایڈووکیٹ ۶۵۱ ملک محمد پٹیالوی ، حافظ مظفر احمد ، حافظ مظفر احمد ، خواجہ ۴۸۴،۴۸۳ ۶۵۹ منصور احمد بشیر منصور احمد چوہدری مظفر احمد، صاحبزادہ مرزا ( ایم ایم منور سلطانه منور شمیم خالد، پروفیسر ۶۰۹ منیر احمد بانی ۵۹۴ ،۵۸۸ ،۵۱۱ ،۴۷۱ ،۳۹۱ 271 ۶۴۲ ۵۹۶ ۱۰۳ ۴۹۲ منصور احمد ، چوہدری.بریڈ فورڈ منیر احمد ، راجہ گھوٹکی ۴۹۱ احمد ) مظفر احمد ، ملک ۱۰۴ ۴۹۰ ۴۷ منصور احمد ، چو ہدری.چک ۹۹ مظفر علی قریشی ۲۱۷ ۴۹۱ مظہر احمد بانی ۱۲۶ منصور احمد ، صاحبزادہ مرزا منیر احمد شہید، میجر ۶۳۸ ، ۱۰۸ ۱۰۷ ۱۰۶ منیر احمد عارف مولوی ۷۵۰ مظہر الحق، پیر ۵۹۴ ۷۰۷ ،۵۹۴،۵۸۸ ،۵۵۲،۴۹۷ مظہر علی اظہر ۳۶۶ منصور احمد عمر مظہر، میجر ۱۱۹ معراج الدین پہلوان ، میاں مقصوداحمد.جاسکے ۴۹۱ منظور حسین بسراء مقصود احمد، مرزا ۵۸۸ منوچهر آرین مقبول احمد ذبیح ، مولوی ۳۵۵،۱۲۲، | منیر احمد فرخ منصورہ بیگم بنت مرزا عبد الحق بیگم،سیده ۳۷۲ منصوره بیگم سیده منظور احمد ۷۶۱،۷۶۰ منظور احمد چنیوٹی، مولوی مقبول احمد قریشی ۴۲۳،۳۵۶ منظور احمد ، ڈاکٹر مقبول الہی ۳۶۱ منظور احمد، رانا مقصوداحمد پوتا عبدالحق نور ۲۱۸ منظور احمد شیخ منیر احمد منیب ۴۸۰ | منیر احمد منگلی 217 ۲۷۱ ۶۴۳ منیر احمد ، صاحبزادہ مرزا منیر احمد، مرزا منير الحصنى السيد ۵۶۸،۵۶۶،۲۴۵ ،۲۲۶ ۷۲۰ منير الحق ۷۲۱ ۲۵ منیر الدین احمد ، مولوی ۶۷۲،۷۵۴۷۵۳ منیر الدین احمد شہید، خلیفہ ۹۷ تا ۱۰۶، ۷۰۷ ۴۸۶ ۶۷۹ ۴۲۱ ۴۲۲ ۶۴۲ ۶۵۲ ۲۵۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 34 اشاریہ اسماء منیر الدین شمس ۵۸۱ ناصر محمد سیال، چوہدری ۴۲۱ نذیر احمد ( انجینئر ) ، چوہدری ۵۸۰٬۵۵۴ | ناصر نواب میر مودودی موسیٰ علیہ السلام، حضرت ۲۸۴ ۲۴۲، ۶۷۲،۴۱۳،۳۸۴،۳۷۷ | نذیر احمد باجوہ مولا بخش بھٹی ، چوہدری ناصرہ بیگم اہلیہ شیخ حمید احمد رشید نذیر احمد بٹ ۶۳۶ مولا بخش، چوہدری مولا بخش، شیخ ۶۴۳، ۶۴۵، ۶۴۷ ناصرہ بیگم بنت چوہدری محمد شفیع ۵۹۸،۵۹۴،۵۹۲ ۶۵۲،۶۰۹ ۴۹۱ ۶۴۹ نذیر احمد بشیر ، شیخ مولا بخش ، قریشی ۳۸۷ ۶۴۲ نذیر احمد بلال، ڈاکٹر مولا بخش ، میاں ۳۷۳۳۷۲ ناصرہ بیگم بنت مریم بیگم ۳۷۱ ۷۴۵ ، ۴۴۲،۲۴۹ مه رخ پروین ۴۲۱ ناصرہ بیگم، سیده مہتاب الدین ۴۹۳ نانک ، گورو ۷۱۵ ،۶۲۱ میته ، مسز شری ۷۲۴ | ناہید سلطانہ ۲۳۶ نذیر احمد ، چوہدری.چک ۷۵ جنوبی ۵۴۶ نذیر احمد، چوہدری.ملتان ۴۹۲ مہدی، ریٹائرڈ کرنل ۹۲۹۱ نبی احمد، چوہدری ۶۱۳ ۴۹۳،۴۴۸ مہر اللہ ۵۹۶ | نبی محمد ، ملک مہر دین ٹھیکیدار ۵۹۶ نذیر احمد ، خواجہ ۵۹۶ | نتھا نئیل کوار ملے ( Nathaniel | نذیر احمد ڈار ۱۷۵ مہر محمد ، ڈاکٹر (Quarmiley | ۴۳۶ ۵۲ نذیر احمد شہید، کیپٹن ۹۶٬۹۵،۹۴ میلا رام ، رائے ۳۹۶| نتھو خاں، چوہدری ۹۴ نذیر احمد ، کرنل نادرشاه ناصر احمد نقورام، منشی ۲۴۸ نثار احمد ، مرزا ۴۰۰ نذیر احمد ، ماسٹر ۴۱۹ نذیر احمد مبشر ربوہ ۵۴۶ نجم الدین ۴۰۳ نذیر احمد مبشر ، مولوی ناصر احمد باجوہ ۳۶۳٬۹۴ ندیم احمد ایڈووکیٹ، چوہدری ناصر احمد پروازی، پروفیسر ۷۱۷ ۴۰۷ نذیر الحق ، میاں ۵۴۶ ۴۹۳ ۴۹۳ ۵۹۵،۴۹۷ ،۴۵۳ ۶۴۹ ناصر احمد ، چوہدری ۴۴۲ نذر حسین ۱۸۷ نذیراں بیگم اہلیہ چوہدری نذیر احمد ناصر احمد سکرونر ، مسٹر ۵۷۶ نذر محمد خان ایڈووکیٹ ، خان ۲۱۷ باجوہ ناصر احمد شمس ۴۶۱ نذیر احمد ۵۸۳ نذیر علی ، مرزا ۶۵۲ ۵۹۵
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 35 اشاریہ.اسماء نرائن داس باسو، پروفیسر ۷۲۴ نصیر احمد خاں ، مولوی ۴۳۸ نکسن ، صدر ۶۴۳ نصیر احمد شاد نزہت نسیم نسیم احمد سیفی ۱۱۳ نگہت ریحانه ۴۲۲ | نصیر احمد ، صاحبزادہ مرزا ابن نگہت نسیم نسیم احمد شاہ، سید ۴۲۱ حضرت مصلح موعود نسیم احمد ، مرزا | ۲۳۵ نواب الدین، چوہدری ۴۲۱ نصیر احمد ، مرزا.پشاور ۴۲۲ نواس بن سمعان نسیم سعید ، سیده ۴۸۲ نصیر الحق ، حاجی شیخ ۶۴۲ | نو جاٹورے نسیم سیفی ( نور محمد ) ، مولوی نصیر الدین احمد ، شیخ ۴۹۸،۴۲۷ ،۱۳۱ ۶۶۰۶۴،۶۲ ۷۵۹،۷۵۰،۲۲۵ ۲۲۰ ۵۴۶ ۶۴۳ ۴۹۲ ۷۵۵ ۴۰۲ نور احمد ، مولوی نور الحق انور، الحاج مولوی ۲۲۶ نیم ظفر اہلیہ چو ہدری ظفر الحسن نصیرہ بیگم بنت حاجی محمد اسماعیل نور الحق خان ۴۰۷ نیم کاشمیری ۸۶،۷۴ نصیر بیگم سیده ، نصر اللہ خان ناصر ۶۵۴ نعمت اللہ خان ، مولانا نصر اللہ خاں ملہی ۴۸۴ نعمت الله شمس نصرت احمد ناصر ۷۱۳،۳۴۶ ۲۴۲ ۶۴۰ ۴۹۱ نعمت اللہ گوہر ، چوہدری ۶۸۳ نصرت جہاں بیگم ، حضرت سیدہ نعمت اللہ، چوہدری ۱۳۴، ۲۶۹،۲۵۹ نعمت اللہ ، لیفٹیننٹ نصرت جہاں سلیم ، بریگیڈئیر نعمت خاں، خان بہادر چوہدری نصرت مس ۶۷ نصیر احمد ابن ڈاکٹر محمد اسماعیل نعیم احمد شاہ،سید ۶۷۳ نعیم احمد ، مرزا نصیر احمد اعوان ۴۹۲ نعیم احمد وسیم ۳۸۶ ۶۸۰ ۴۷ 2.2 ۳۸۲ ۷۳۴ نورالدین ابن مولوی الف دین نورالدین حکیم مولوی (خلیفہ مسیح الاول) ،۳۷۰ ،۲۳۴ ،۱۷۳ ،۱۷۲ ۱۷۰ ۶۸۴،۶۶۳ ،۶۳۴ ،۴۱۲ ،۳۸۳ ۶۶۶،۶۶۵ ۴۹۹ نورالدین، کرنل نورالدین منیر ، مولوی نورالنساء بنت ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ نورالهدی جامی نورحسین ، قریشی ۶۴۹ ۵۹۵ نصیر احمد چوہدری ۴۸۴ نعیم الدین ، قاضی ۴۴۲ نکرومہ، وزیر اعظم ( نکروما) نصیر احمد خان، پروفیسر خان ۷۲۱،۶۱۹ ،۶۱۸ ،۳۵۶،۱۹۵ ۴۳۸،۲۶۱،۶۶،۴۱ نورحسین ، مولوی ابوالاسد ۵۳۱ نور محمد ۵۳۲ نور محمد ، بابا
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 نور محمد ، چوہدری نور محمد، حکیم نور محمد.ربوہ نور محمد گنج ، میاں ۴۹۰ ود و داحمد 36 ۶۴۱ وراثت علی منشی سید اشاریہ اسماء ۱۴ ویریندر جی ، شری ۴۰۷ ۴۲۴ ۵۹۵ وسیم احمد ابن حاجی محمد الدین نہالوی ہاٹ موٹ ہنزے، مسٹر (حفیظ احمد ) ۵۹۵ نور محمد مانگٹ ،مولوی ۳۷۷ وسیم احمد ، صاحبزادہ مرزا نور محمد ، مستری نور محمد منٹگمری ، چوہدری نور محمد ،میاں ۴۹۲ ۴۱۴ ۳۸۲ ،۳۱۸ ،۱۸۶،۱۶۰،۵ ہاجرہ حضرت ہادی علی ، چو ہدری ۴۳۳ ۳۸،۳۷،۳۶ ۴۸۳ ۳۸۰ ، ۵۴۰، ۵۴۱، ۵۹۴،۵۵۵ ، | ہارڈل ایف آرائیں، ڈاکٹر ۲۵۶ ۷۲۲،۶۲۰، ۷۲۳، ۷۲۵، ۷۲۶ ہاورڈ فلورے سر نوید الحق نوید نذیر نہرو، پنڈت نیاز فتحپوری ( نیاز محمد خان) ۳۸۲ ۴۸۱ ۹۶ ،۹۵ ۱۲۷ ۶۳۰،۵۴۰،۵۳۹،۵۳۸،۵۳۷ نیر الاسلام نیک محمد خان غزنوی ۶۴۰ ۶۹۹،۶۹۸،۶۹۷،۶۹۶۰۶۹۵ و وسیم احمد ظفر وقار انبالوی ۶۰ ہدایت اللہ ابن ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ ۲۱۶ ہدایت اللہ ، میاں ۶۷۲ وقار منظور بسراء ۶۵۲ ہدایت حسین ، خان بہادر حافظ ولایت خان ، ملک ۴۵۴،۲۱۷ ولایت شاہ، ڈاکٹر سید ۳۹۳ ہمایوں فیض رسول ولنگٹن ، لارڈ ۵۷۳ | ہمایوں نذیر ولی اللہ ابن ماسٹر فقیر اللہ ۳۸۶ | ہمر شولڈ ولی اللہ شاہ ، سید زین العابدین) ہنڈرسن ، سر ۲۴۳ ۲۴۴، ۶۴۶،۵۶۸ | هورد ، سری جی ۶۴۲ ہیرالڈ والٹر مسٹر واحد حسین، گیانی ۴۲۲، ۴۷۹ ولی کریم ۴۸، ۵۰،۴۹ ہیکٹر ہیوز ،مسٹر ۱۸۳ ۹۶،۹۵ ۷۵۸ ۲۵۳ ۷۵۶ ۷۳۲ ولی داد، چوہدری والٹر ،مسٹر ۲۳۷ ولیم میلکم ہیلی ہمسٹر وانتارا، حاجی ۶۷۴ ولیم وی ایس ٹب مین وحید احمد ۵۹۵ | ونسنٹ مونٹیل ،مسٹر( Vincent وحيده لطیف بنت مولوی محمد حسن (Monteil ۳۷۷ ویراذ امریکی ۳۸ ۶۸۳ ۱۶۳ ی یاسمین اہلیہ ڈاکٹر قاضی مسعوداحمد ۵۴۶ ۷۴۵ یحیی خان ، جنرل ۹۲،۸۴،۸۲،۸۰ ۷۸ ،۷۵
اشاریہ.اسماء 37 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 Castejon ۴۳۴ Villabe ۷۳۹ Sir Fernando Frade D.Guan De Bostion ۶۱۸ ۴۴ ۷۳۹ یعقوب ابن مولوی عبدالحق نور یعقوب بیگ، ڈاکٹر مرزا Dr.Antonio larcon ۶۳۶،۳۹۶ ۴۴ ۷۲۶ Dr.Benneth یعقوب حسین شیخ یعقوب علی عرفانی ، شیخ برطانوی سائنسدان Dr.Leonid Sedov روسی سائنسدان ۲۶۴ ،۵۶۵،۳۶۱،۲۶۳،۱۰ ۷۰۲ ،۶۹۱ ، ۶۶۲ ،۶۴۹ ،۶۴۳ ۲۶۴ ۲۳۶ پروفیسر ڈاکٹر Houben ۴۹۲ ۵۰۲۵۰۱،۵۰۰ Herder ۲۵ Jesperson ۲۵ 112 Kofi Baako ۴۳۸ Kurt Frischler ۵۹۵ جرمن مستشرق ۲۶۶ ۳۵۸ Maxmuller ۲۹،۲۶،۲۵ ینگسن ، پادری یو.اے مخدوم یوسف علیہ السلام، حضرت ۲۷۳ یوسف حسن، حکیم ۱۹۷، ۱۹۸، ۱۹۹ یوسف سهیل شوق ، سید یوسف صراف، جسٹس ۳۶۲،۷۸ یوسف عثمان یوسف یاسن English Prof.Dr.Camps 0.1 Alfred Guillaume M R.Z.Malik ۴۸۳ SR.Julis alacios شہزادی Beatrix ۲۶۴ الد D.Antonio Oliviera Salazar SR.Reneshick D.Carlos ۷۳۹ D.Pedro Cuall Sir D.Rafael ۷۴۰ ۷۳۹
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 آبیجان آ الف لنگٹن آرینیم آزاد کشمیر 38 اشاریہ.مقامات لد له ولدا اٹلی مقامات ۷۵۳،۷۵۲،۷۳۶،۷۳۴،۵۶۲ ۲۴۲، ۲۵۰، ۲۵۵، ۳۴۳، ۳۹۰ افریقہ (مغربی) ۷۲۸ احمد آباد اسٹیٹ لدلده ،۴۲،۴۱ ،۳۹ ،۳۴۱ ،۲۵۸ ،۱۶۳ ،۶۴ ،۴۵ ،۴۴ ۶۴۱،۶۱۱،۶۱۰،۴۹۱ ۷۴۷ ،۷۲۸ ، ۴۹۹ ،۳۵۸ ،۳۴۶ ،۲۴۴،۲۴۳ ،۲۴۲ احمد نگر ۲۱۷، ۲۱۸، ۲۵۷ افغانستان ۶۹۶ ،۶۹۵ ،۳۷۳ ،۲۴۸ ،۲۴۵ ۳۴۳ ،۲۵۰ ۷۳، ۷۶، ۸۲،۷۷، ۱۲۸، ۲۱۸ ، ارجنٹائن ۲۵۶ ، ۴۷۰ ، ۵۰۵، ۵۲۵، ۷۱۹ اردن ۷۶۰،۵۶۴،۳۴۳،۲۶۵،۲۵۷ ،۱۸۴ ۴۳۶،۴۳۵،۲۴۶،۲۳۸، ۷۴۱ اڑیسہ ۷۲۶،۷۲۵ ،۶۷۴،۵۵۵ ،۲۵۲ ۴۷۶ ،۲۷۳،۴۸ ،۷۶ ،۴ اسلام آباد ۴۱۶ ،۳۸۷ ۶۶۵ ،۵۵۹ ،۴۹۲،۴۸۲ ،۳۶۳ 24.آسٹریلیا آکسفورڈ آگرہ آلرڈ تک ۷۵۱،۴۳۸ ۷۳ اعوان شریف ۲۲۵، ۴۹۳ اشانی (ریجن ) آن به شیخو پوره آئیوری کوسٹ ۳۹، ۴۱، ۴۲ ، ۴۵، ۲۲۶، ۲۶۵، افریقہ ۷۶۲،۷۵۰،۴۷۷ ،۴۳۸ ،۳۴۳ اپر باری دوآب اتھامی اٹک ( کیمبل پور ) اکرا اکروپنگ اکو ایم سٹیٹ اکھنور ۲۶۵ لدهم لدا ۹۲،۸۲،۸۱،۷۸ ،۷۶،۷۵ ،۷۳ البانيه ۵۶۶،۴۳۱،۲۵۴،۲۵۰ الكمار الہ آباد امبالے امرتسر 24.۶۴۴ ،۲۳۹ 147 ،۱۶۷،۶۵،۵۲ ،۱۸۲،۱۷۴ ، ۱۷۲،۱۷۱ ، ۱۶۹ ، ۱۶۸ ،۱۰۴ ،۱۰۳ ،۱۰۲ ، ۱۰۱ ،۹۸ ،۸۰ ،۲۴۵ ،۲۳۹ ۱۲۸ ۱۰۶ ،۱۰۵ ۳۹۹ ،۷۲۸ ،۴۹۹ ،۲۶۵ ،۲۰۶ ،۱۸۴ ۲۲۵ ۵۴۱ ، ۴۰۵ ، ۴۰۰ ،۳۹۹ ،۲۵۳ ۷۵۲ ،۷۵۰ ،۷۴۸ ،۷۴۵ ،۳۸۲،۲۲۵ ،۸۷ ۲۲۸، ۲۵۵ | امریکہ افریقہ (جنوبی) افریقہ (مشرقی) دلدله ،۱۶۸ ،۱۶۷ ،۷۶ ، ۵۷ ، ۵۲،۵۱ ۲۲۷ ۲۲۷ ،۲۱۰،۱۷۴ ۱۷۲ ۱۷۱ ، ۱۹ ،۵۳۷ ،۵۱۳،۳۹۷ ،۳۵۸ ،۳۴۱ ۶۸۳،۶۶۵ ،۶۶۴ ،۴۰۹ ،۳۸۶
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ۲۳۳، ۲۴۲ ، ۲۴۷ ، ۳۳۷، ۳۴۲، اوهایو ۴۳۲،۴۳۱، ۴۵۹ ، ۴۷۷ ، ۵۱۷، ایبٹ آباد ۷۴۸ ،۷۲۸ ،۷۲۷ ،۷۱۴ ،۵۵۰ امریکہ (جنوبی) امریکہ (شمالی) انانم انبالہ ایسے سینیا ۷۳۳ ایڈنبرا ۳۴ لدا 6 ۶۵۳،۶۲۰،۵۴۱،۳۶۵،۱۸۳ ،۱۸۴،۵۷ ،۵۲ انڈونیشیا ،۲۶۲ ،۲۳۲ ،۲۲۷ ،۲۲۶،۲۱۰ ، ۴۷۷ ، ۴۵۹ ،۳۴۳،۳۴۲،۲۶۳ ۷۶۰ ،۷۲۹ ،۷۲۸ ،۶۲۵ ،۵۳۴ انڈیانا انگلستان (برطانیہ) ،۴۴،۳۹ ،۳۵ ۳۴ ، ۲۲۰ ،۲۱۰ ،۷ ،۶۷،۵۷، ۴۶ ،۳۴۲ ،۲۵۲ ،۲۳۸ ،۲۲۷ ۲۲۵ امیرا پورم ایران 39 3 لدها.۲۳۲ بدین بد وملهی برازیل ۲۶۷، ۴۷۵ برٹش گی آنا اشاریہ.مقامات ۶۴۱،۱۸۶ ۴۹۰ ،۲۲۵ له لده ۵۱۵ ۷۶۰،۶۵۲،۵۳۴،۳۴۳،۲۴۲ ایراوتا ایشیا ایشیا (جنوب مشرقی) ۵۱۵ ۷۴۸ ،۵۷ ۷۳۳،۴۷۷ ،۳۴۳۲۶۴ 1+7 برج بر کی سیکٹر برلن بر ما :: له لدا ،۶۲ ،۲۶۲ ،۲۶۰ ،۲۵۹ ،۲۴۹ ،۲۲۷ ۵۲ ایلنگ ایمسٹرڈم برمنگھم ۷۰۴،۶۶۶ ،۶۶۵ ،۳۴۳،۳۴۲ ۴۷۷ ،۳۵۷ ۷۳۰ ، ۴۷۶ ،۴۸ 27.برن ۷۴۳ برونائی اسٹیٹ ۷۵۸ ،۴۳۹ باره مولا باغسر ۸۲ ۳۷۴ برہان پور ۴۱۲ بریڈ فورڈ بالا دیپ ۷۳۰،۴۷۶،۴۷۵ ، ۴۸ ، ۴۷ بالٹی مور ۴۲ بشیر آباد بانڈ ونگ 617 ۶۱۲،۶۰۹،۶۰۸ ،۶۰ ،۶۰۶ بٹالہ ،۳۹۹ ۳۹۱ ۷۲۵ ،۷۱۵ ،۶۴۵ ، ۴۲۵ ، ۴۰۳ ۴۹۰ ۶۹۹ ۲۴۲ بجوله بخارا ،۶۰ بلوچستان بمبالی بمبئی ۴۷۱ ،۳۹۵ ،۲۲۵ ۷۴۵ ۷۲۳ ،۴۷۹ ،۴۲۵ ،۲۲۲ ،۱۰ ،۷ ،۵۷۴،۵۲۸ ،۴۶۴،۴۶۳،۴۳۲ ۷۶۲ ،۷۲۹،۶۹۲ ،۶۱۸ ،۵۷۶ ۴۳۹ او بازی او جله اوچ شریف اوکاڑہ ۶۷۰،۶۵۲،۶۴۷ ،۴۵۷ ،۲۲۵
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 بنارس بندرا بن ZIA ۳۸۹ ۲۴۷، ۲۴۹، ۲۵۵، ۳۱۸، ۷۱۷ پیشبرگ 40 ۲۳۷، ۲۳۹، ۲۴۰ ، ۲۴۳، ۲۴۴ ، پتا پریم اشاریہ مقامات ۵۱۵ ۷۲۷ ،۴۳۲،۵۷ بنگلہ دیش ۶۷۲ بھٹیاں گوت ۶۱۷ پٹنہ ۷۲۴ ،۲۵۳ بنوں ۴۷۳ بھرت پور ۷۲۶ پٹھانکوٹ بوا جیبو ۷۴۵ بھڑتا نوالہ ۲۲۵ پٹیالہ ۴۲۵ ۶۶۱،۶۵۹ ،۲۵۳ بوڈ ایسٹ بھلوال ۲۵۰ ۶۸۱ ، ۶۹۰ | پرتگال ۷۴۰ بھمبر ۴۰۵،۷۹،۷۵،۷۴،۷۳ بورنیو ۲۲۶، ۲۲۷، ۳۴۳،۲۵۸ پریسٹن ۴۷۶ ،۴۷۵ بور نیو(شمالی) ۴۳۹،۳۴۳،۲۶۷ بھوپال ۵۳۸ ،۲۳۷ پریم کوٹ ۳۹۸ بوریوالہ بھوربن ۵۵۱ پسرور ۹۱ ۴۹۳ بھونگاؤں ۵۶۵ پشاور ،۴۲۲،۳۸۲،۲۲۵ بون بہاول پور بہار ۴۳۴ ،۴۳۳ ۴۱۳ ۷۲۶ ،۲۴۸ بھیرہ بہاولپور بھیں ۴۰۳،۴۰۲،۳۹۰،۲۵۹، ۶۹۰ پکا نسوانه ۳۹۲ پنجاب ۵۹۴،۵۴۵ ،۵۴۴ ،۵۲۷ ، ۴۷۰ ۲۲۵ ،۱۲۶،۷۲،۳ ۶۹۰،۵۶۶،۴۹۲،۴۷۱،۲۲۵ ۲۴۱ ،۲۳۸ ،۲۲۴ ،۱۸۶ ،۱۲۷ ،۵۸۰ ،۵۱۴ ،۳۹۴ ،۲۶۱ ،۲۵۴ بہاولنگر ۴۷۰ ،۲۲۵ ،۲۲۴ بیداد پور پاکپتن ۴۹۲،۲۲۵ | پاکستان بیروت ۷۶۳،۵۶۴،۵۶۳،۵۷ بیری ننگل بیگم پور پاکستان (مشرقی) ۶۷۰ ،۴۱۴ ،۶۰ ۶۹۰ ،۶۸۳ ،۶۸۱ ، ۶۷۲ ،۶۶۰ پنجاب (مشرقی) ، ۴۴ ۴۳ ۴۰،۱۲،۴،۲ ۲۵۷ ،۲۵۶ ۲۵۵ ،۲۳۳ ،۱۷۹ ،۴۲۵،۴۲۴ ،۲۵۶،۱۷۳ بھابڑہ بھارت (انڈیا) ،۲۳۶ ،۲۳۱ ،۲۲۲،۲۱۱ ، ۶۰ ، ۵۷ پاکستان (مغربی) ۷۱۶ ،۷۱۵ ،۶۸۶ ،۶۴۷ ،۴۲۶ ۷۴۷ ،۷۴۳ ،۶۲۱ ،۵۳۴ ،۵۱۶ ۴۰۰ ،۹۳ ۶۸۰ ۵۹۹ ،۴۸۷ ،۴۵۸ ،۲۶۶ ،۲۲۵ ۲۴۰ ۴۹۲ پنڈ عزیز ضلع گجرات پنڈی بھٹیاں ۸۴، پنول ے، ۸۸، ۱۰۵، ۲۶۷، ۴۸۷، ۵۱۴ | پولینڈ پالگھاٹ ۵۱۵ پونا ۵۱۵ ۲۵۰ 722
اشاریہ.مقامات ،۲۴۹ 2 جاپان ،۴۷۸ ،۴۳۸ ،۳۴۳،۲۶۱ ،۲۵۵ ۷۴۱ ، ۶۵۷ ،۶۵۶ ،۶۱۸ ،۴۹۷ جالندھر 171 ۲۵۹ ۲۶۶ ۲۲۵ ،۲۲۴ ۶۱۱ ، ۶۱۰ ۶۵۳،۶۴۳ ،۴۲۴ ،۳۲۳ ،۲۵۳ ۷۲۳ ۴۹۲ ،۴۹۱ ۵۵۹،۲۹۱،۲۴۶،۲۴۳ ۲۶۱ جاسکے جاوا جڑ ونگ جرمنی ۴۲، ۴۶،۴۵، ۱۸۴،۶۷، ،۲۶۳،۲۶۲،۲۴۱،۲۲۶،۲۲۰،۲۱۰ 7 77 دل 97 ولد الله الله الله الدامه ، ۲۲۷ ،۴۴ جرمنی (مغربی) ۷۶۳،۷۶۲،۷۳۷ ،۷۳۶،۷۱۴ ۵۹۵،۳۷۷ جڑانوالہ جزائر منجی ۵۴۱،۴۵۹،۳۵۷،۲۶۷ ۹۳ ،۸۹ ۵۳۲ ۴۷۶ ،۴۸ ۵۴۴ ،۷۸،۷۳ جسٹر جلال پور جلنگھم جلوز کی جموں ۵۲۴ ،۱۸۹ ،۱۷۹ ، ۱۲۸ ،۸۸ 41 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 یونانی ۵۱۵ هیچگاؤں پونچھ ۲۵۰، ۴۰۵ | تیونس پہیلاں ۴۰۷ تھائی لینڈ پیرکوٹ ( پیرکوٹ ثانی) تھر یار کر ۷۰۲۶۴۰،۶۳۹ پیرو چک لدم.پینگا ڈی ۵۱۵ پھالیہ ۴۰۷ ٹانڈہ تانگانیکا ( ٹانگا) بچھا ہے والی ۲۲۵ ،۳۴۴ ،۳۴۳ ،۲۶۷ ،۲۵۳ ،۲۲۶ ۷۵۳،۷۳۶،۷۳۵ ،۷۳۴،۴۴۲ ۲۵۵ ۲۵۹ ،۲۲۶ ،۵۷ 107 7.h ۶۴۱،۶۰۸ 7.h ۶۵۳،۶۴۷ 24.۴۳۵ ۳۴۳،۲۲۶ ۷۳ 107 ۵۸۹،۶۹ ،۶۸ ٹیورا ٹرینیڈاڈ ٹمالے شمن ٹنڈوالہ یار ٹنڈ وغلام علی ٹنڈو محمد خان ٹو بہ ٹیک سنگھ ٹورو ٹوکیو ۴۵۶ ،۴۵۲ ۲۶۴ لدلم ۶۴۱ تاشقند ثبت تپاتن تلے تخت ہزارہ تراڑکھل ترکی ۵۳۴،۵۳۳،۵۳۰،۵۲۹ ۴۰۵ ۷۶۰ ،۷۴۳ ،۵۳۴ ،۲۵۲ ،۲۳۹ ۴۹۳ تر گڑی تمالانگ ( تمالنگ) ۴۳۹، ۷۵۸ ٹو گولینڈ ٹیٹوال هیچمان ولد له له له له له له له تنزانیہ ۷۶۲،۷۳۵ ،۷۳۴ ،۴۷۷ ، ۴۷۴ ۳۸۰،۳۷۹ تهال
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 جمیس آباد جنجه جنگل امام شاه 42 ۶۱۱ چک چھور۱۷امغلیاں اشاریہ.مقامات ۳۷۲ چک 543EB (ملتان) ۱۳۰ ۲۶۴،۲۶۳، ۷۶۱ چک چهور ۱۱۸ ( سانگلہ ہل ۶۵۰ | چکوال ۶۸۵،۶۸۴۶۶۵،۲۲۵ ۶۵۳ چکلاله جوڑیاں ۷۷،۷۶،۷۳،۷۱، ۷۸، چک منگلا ۱۳۲ ،۱۳۱ ،۱۰۶ ،۸۴ ،۸۲ ،۸۰ جہانیاں جہلم ۳۷۲ ۴۹۰ ۲۲۵ چگلی چک نمبر ۱۹۶- گ ب (فیصل آباد ) چنیوٹ ۳۷۸، چک نمبر ۴۰ جنوبی (سرگودھا) ،۶۳۷ ،۵۸۰،۵۶۵ ، ۴۰۳ ،۴۰۲ ۷۱۹ ،۶۸۳،۶۷۲،۶۵۶ ،۶۵۵ ۷۲۳،۶۸۰ ۴۹۱ ۶۵۱ ۷۵۱ ۲۲۵ ،۴۲۷ ۷۲۰ ،۷۰۸ ،۶۱۶ ، ۵۹۶ ،۴۹۳ چورا شریف چوڑا سگھر چک نمبر ۸۲ جنوبی (سرگودھا) ۹۴ چونڈہ چک نمبر ۶۶۵ (لائلپور ) ۴۹۲ ۳۸۲ ۴۹۲ ا۷، ۷۲، ۸۵، ۸۶، ۸۷، ۸۸، ، ۱۱۹ ، ۱۱۸ ،۱۱۷ ،۱۰۲،۹۳ ،۹۱،۸۹ ۶۵۱،۶۵۰،۶۴۹ ،۲۲۵ ،۱۳۲،۱۳۱ ۴۹۲ ۵۱۵ ۵۸۰،۵۵۶،۳۵۸ چوہڑ کا نہ منڈی چیلہ کرا چین ،۸۰ ،۷۹ ،۷۸ ،۷۷ ،۷۶ ،۷۵ ۱۳۲،۱۳۱ ،۱۰۶،۱۰۲،۹۲،۸۴،۸۲ ۴۰۰ ۶۴۳ چھینہ ۴۹۲ ۴۹۱ چک نمبر ۷۵ جنوبی (سرگودھا) چک نمبر ۱۶۶ مراد( بہاولنگر ) ۴۹۱ ۸۷ ۴۹۰ چک نمبر ۱۶۸ مراد ( بہاولنگر ) ۴۹۱ چک نمبر ۹۹ شمالی (سرگودھا) ۴۹۱ چک نمبر ۳۰/۱۱۷ (ساہیوال) ۴۰۸ چک نمبر ج ۳۳۱ (سرگودھا) ۸۹۷۸۷ ۹۰ ۹۱ | چک ۳۳ جنوبی (سرگودھا) ۴۹۲ ۲۲۵،۱۳۰ چک ۲۷ ارب ( فیصل آباد ) حاشہ کلاں ۴۱۳ حافظ آباد ۷۲۱،۴۹۲،۴۴۸ ،۳۷۴ ۲۶۵ ،۲۴۹ ۵۳۱ ۵۳۱ ۴۹۰ ۴۹۱ چک GD/66 (ساہیوال) ۶۷۰ ۶۴۷ | چک TDA-2 (خوشاب) ۳۷ | حبشه جے پور جیکب آباد جھانسی جھنگ جھنگ سایل جھول چ چارسده چارواه چاہ ڈوڈیاں والا چاه مهر چند والا چٹا گانگ چک پنیار نمبر ۹ چک جھمره
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 حجاز حسن ابدال حلال پور ۵۳۳ دوبئی ۲۵۹ | دیلی ۲۴۰۷ ،۶ دنیا پور 43 ۴۷۲ ، ۴۹۰ | ڈہری سیداں ۴۰۲، ۴۷۳، ۶۵۱ | ڈیٹن ۵۴۵ | دوالمیال اشاریہ مقامات ۴۰۲ ،۴۸ ۷۲۷ ،۴۳۲ ،۲۴۷ ،۵۳،۵۲،۵۱ ۳۴۳ ۱۲۶،۸۴ ، ۱۲۷، ۱۲۸ ، ڈیرہ اسماعیل خان ۲۲۵ حلقه رام سوامی کراچی ۴۰۷ ۱۹۵، ۲۱۲، ۲۵۳، ۲۵۴، ۳۸۷ | ڈیرہ بابا جیمل سنگھ ۷۲۵ حمص ۵۶۴ دیناج پور حیدرآباد(پاکستان) دیوا ۷۳ ڈیری سیداں ،۲۲۴،۱۸۶،۶۸ دیوانی وال ۴۰۳ ۲۲۵ ڈیرہ غازیخان ۶۷۴،۴۰۱،۲۲۴ ۴۱۹ ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی ۵۹۸ ۲۲۵، ۲۸۵ ، ۴۱۱ ، ۴۹۰، ۴۹۱، ۶۴۱ | دیوبند ۸،۷ ڈھاکہ الكاء دیودرگ ۴۶۱ ،۴۶۰ ،۴۵۸ ،۴۱۰ ،۲۲۵ ۴۱۴ حیدر آباد دکن ( بھارت) ۳۷۱،۲۵۱،۲۲۲، دیہہ صحابو ۴۱۰، ۴۱۱، ۴۱۲، ۴۱۳ ، ۴۲۰، ۴۲۳ دھار یوال خ ۵۶۴ دھر مکوٹ بگہ دهور خان پور خانقاہ ڈوگراں خوشاب رپور دار السلام دمشق , ۴۷۸ ،۲۲۵ 1+4 ۶۸۸ ،۳۷۵ ۶۱۷ ،۶۱۲،۴۷ ۷۶۷،۵۱۳،۲۶۳،۴۵ ۵۷ ۵۶۸ ،۵۶۶ ،۵۶۴ ،۲۴۳ ،۲۴۲ ۶۱۰ ڈھڈیال ۴۰۰ ۳۹۹ ۶۴۷ ڈ ڈاور ڈاہرانوالی ڈچ گی آنا ڈسکہ ربوه ڈسل ڈورف ڈکار ڈگری (سندھ) ۴۴۵ ،۴۲۷ ،۴۲۶ ۲۱۹،۲۱۸ ۲۲۵ ،۵۲۴،۸۳ ۳۴۳،۵۷ ۷۱۴ ،۷۱۳ ،۵۶۰ ، ۵۵۸ ،۵۵۱ ، ۴۵ ،۴۴،۳۸ ،۲ ۵۹۵ ،۲۲۵ ،۱۳۱ ،۱۲۹ ، ۲۱۶ ،۱۷۵ ،۱۵۸ ، ۱۲۴ ، ۱۲۰ ، ۱۰۸ ۴۳۴ ۳۴۶ ،۳۱۱ ،۲۵۸ ،۲۵۷ ،۲۲۰ ۷۵۴ ،۵۶۷،۵۴۸ ، ۴۴۷ ، ۴۲۸ ،۳۵۵ ۶۱۱،۶۰۸ راجگڑھ رامایا راناؤ راولاکوٹ راولپنڈی ۶۷۹ ۴۳۹ ۷۵۸ ڈنمارک ۷۱۰۷۰ ،۶۱۹ ،۵۸۹ ،۵۸۷ ،۳۱۹،۶۷ ،۳۹ ۳۲۰ ، ۷۱۳،۵۳۴،۵۲۷، ۷۳۹ | رجاده ۲۴۸
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 44 ، سرندیپ رحمن آباد باندهی ۴۹۱۷۶۹،۶۸ سالٹ پانڈ (غانا) ۲۴۰ ، ۲۴۴ ، رحیم یار خان رسالپور رن کچھ رنگون ۴۷۱ ،۲۲۵ اشاریہ مقامات ۲۰۳ ۳۵ ۶۹۹،۶۳۹ ،۲۵۲،۲۴۸ ،۲۲۲،۸۲ ۲۶۱، ۴۳۷، ۷۴۶، ۷۵۰، ۷۵۱ سری نگر ۹۷، ۶۹۰ سالے کینیا سانگلہ ہل ۹۲،۸۲،۸۱،۷۲ ،۹۶، ۱۱۱،۱۰۷ | سانگھڑ ۵۷، ساؤتھ وڈ فورڈ ۲۲۵ ۲۴۲ ،۱۷۸ ۴۰۱ روپر رودگروں ۴۷۷ ، ۴۷۴ ،۳۲۴ ،۳۲۳ ،۲۶۵ ۶۵۳ ۳۸۷ روه روس ریتی چھلہ ریزوم ز زائن زتفن زنجبار ۵۱۵ ۷۵۵ ۶۵۰،۲۲۵ ۶۹ ۷۶۰ ،۷۵۹ ۲۵۵ سر بینام سسلی سعودی عرب ۷۶۰،۲۶۴،۲۵۷ ، ۲۵۱،۱۰ ساؤتھ ہال (ساؤتھ آل) سائپرس سکاٹ لینڈ ۴۸ ، ۴۴ سکاوی ۷۳۰ ،۷۱۵،۴۸ ۴۳۹ سکندرآباد ساہیوال ( منٹگمری) ،۲۲۴ ،۱۳۱ ، ۶۲،۶۱،۶۰ ،۳ سکھر سکھیکی ۴۱۴ ، ۴۵۵، ۴۵۶، ۴۷۰،۴۵۷ ، سکینڈے نیویا ۹۴ ۲۲۶،۳۹ ۴۹۰، ۴۹۲ ، ۶۱۵، ۶۶۶ تا ۶۷۱ سماٹرا سپین ۳۹، ۴۴ ، ۲۵۰،۱۸۴،۶۷، ۴۳۲ ۷۴۰ ، ۷۳۹ ،۴۳۴ ،۲۶۲ ،۲۵۵ 2Y.۵۷ ۲۵۲ زیورچ (زیورخ- زیورک ) ،۵۶،۴۲ ۷۴۳ ،۷۴۲ ،۲۶۶،۶۷ ،۵۷ سٹاک ہالم سٹھیالی سجو وال سرشمیر روڈ سرحد سرگودھا ۷۲۲ ۶۵۲ ۴۹۱،۴۹۰ ۲۲۵ ،۱۱۵ ،۱۱۳،۲ ،۱۱۰،۱۰۵ ،۱۰۳ ۷۲۶،۲۳۷ ۲۲۵ ۵۹۵ ،۴۲۷ ،۲۹۱ ،۲۴۶ ،۲۴۳ سماعیلہ سمبڑیال سمندری سمبورنا سنتوکھ داس سندھ ۴۰۸ ۳۹۳ ۶۴۷ ،۲۵۹ ،۲۲۵ ۷۵۸ ، ۲۴۹ ،۲۲۴،۷۲،۶۹ ،۶۷ ،۶۱،۱۸ ۶۷۹ ،۶۴۴ ،۶۴۱ ، ۶۰۶ ،۴۵۵ ساسا گا سا پنگ اسٹیٹ ۷۵۸،۴۳۹ ۱۴۰، ۲۲۰ ، ۲۵۸، ۴۲۲، ۴۷۰ ، سنڈا کن ۵۳۰، ۶۸۱ تا ۷ ۶۸، ۷۰۸، ۷۱۱ سنگاپور ۷۵۸ ،۲۵۰،۲۴۹ ،۱۸۶،۵۷
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ۴۳۵ ، ۶۷۴،۴۷۷، ۷۴۰ تا ۷۴۲ سوات سوڈان سورا با یا چری بون سونگڑہ سوئٹزرلینڈ سیکھواں ΔΙ سیلم ۴۴۷ سیلون 45 ۴۰۰، ۵۶۵ | شیموگه اشاریہ.مقامات ۲۲۲ ۷۵۸ ،۲۳۷ ،۲۲۸ ،۲۲۷ ۴۷۷ ،۳۴۳ ، ۲۶۲ ،۲۵۹ ،۲۳۸ ۲۶۴ ۷۵۴ ،۴۲ ۲۲۲ سینیگال ،۲۲ سیوکلی ش شالا مار ۴۹۳ شام ،۱۸۴ ،۶۷ ،۵۶ ،۴۶ ،۴۰ ،۳۹ ۷۴۳ ،۷۴۲ ،۳۴۲ ،۲۶۲ ،۲۵۶ سوہاوہ ڈھلواں سویڈن سہارنپور سهگل آباد سی پی سیالکوٹ له الدالله 7 ۵۴۱ 7Jh ۲۵۲ ۷۶، ۸۴ تا ۱۰۲،۹۲، ۱۰۷ ، ، ۴۲۷ ،۲۴۱ ،۱۲۸ ،۱۱۷ ، ۱۱۰ ، ۱۰۸ 717 ۶۴۶ ،۲۴۵،۲۴۳، ۲۴۲ ،۲۲۶ ۵۶۸،۵۶۶،۵۶۴،۵۶۳،۲۶۳ شاہ پور صدر شاہ کوٹ شاہدرہ شجاع آباد شرق الاوسط شکار پور ۵۳۵، ۶۳۷، ۶۵۳ ، ۶۶۱ ، ۷۱۱ شکاگو سیبا تک آئی لینڈ سید والا سیرا لیون ۶۸۳،۴۹۰ ۴۹۲ ۶۹۰،۹۲ ۳۹۹ ،۲۱۷ ۵۶۶ ۶۴۴ ،۲۲۵ دلدله صابو والی صالح نگر ۶۸۳ صومالیہ ظفر آبا د لا بینی ظفر وال عارف والا ظ ع غ ۷۱۴،۲۶۵ 7+h ۶۵۲،۳۷۵ 1+7 عدن ۳۴۳٬۲۲۶، ۳۷۹، ۴۷۷ عراق م۲۴، ۲۵۳، ۲۵۹، ۶۳۹، ۶۵۲ عكا غانا (گھانا) ۵۶۸ ،۳۹ ۴۱، ۴۴ ، ۵۷ ، ۶۶، ۲۲۶ تا ۲۲۸، ،۳۴۳ ،۳۴۲ ،۲۶۵ ،۲۵۸ ،۲۴۰ ۷۲۷ ،۲۴۸ ۲۴۱ ،۲۴۰ ،۵۷ ۷۵۸ ۳۵۸، ۴۳۷ تا ۴۳۹، ۴۴۲ ۳۹۸ ۷۶۲،۷۴۶ ،۶۲۵ ،۵۹۵ ، ۴۷۷ ، ۱۹۵ شکر گڑھ شملہ ۴۹۲ ،۳۹ ۴۳ تا ۴۵ ، ۲۴۰،۲۲۸ ، ۲۴۴ ،۲۵۰ ، ۲۱۱، ۴۰۵ ، ۶۴۲،۴۲۵، ۶۷۲،۶۶۹ ۲۵۵، ۲۵۹، ۲۶۱، ۲۶۳ تا ۲۶۸، شیخو پوره ،۲۲۵،۲۲۴ ولد له ولد الله الله له له له لدله الله الله الله ۶۹۴ ،۵۵۲ ،۴۷۱ ،۴۴۸ ،۳۷۲ ۷۴۳ تا ۷۴۶، ۷۵۱، ۷۵۵ شیر پور ۴۰۰ غزنی ف فارموسا فتح آبادنون ۶۹۵ لدا ۶۹۰،۶۸۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 46 اشاریہ.مقامات فتح جنگ ۴۹۰ کا چیلو ( کا چھیلو ) ضلع تھر پارکر ۶۶۴ فورٹ سنڈیمن فتح پور ۵۳۸ | فیروز پور فیصل آباد (لائل پور ) ۶۲،۶۱،۱۳، ۲۳۵،۱۰۳،۱۰۲ ۶۱۱ فرانس ،۴۵۹،۳۵۸ ،۳۵۷ ،۳۴۳،۲۶۷ ،۴۶۰ ، ۴۱۳ ،۳۷۷ ،۳۶۱ ،۲۵۹ ۵۴۴،۵۴۱ ،۴۷۸ ، ۴۷۷ ، ۴۷۴ ۷۲۰ ،۶۹۴ ،۶۷۲ ،۴۸۱ ،۴۷۰ ،۲۲۰،۶۷ کالا پتھر ۶۴،۶۳، ۲۲۴،۱۱۷، ۲۲۵، ۲۴۸ | کالی دھار کالی کٹ (کالیکٹ ) ۵۱۵،۲۲۲ ۷۲۵ ۷۵ کالی منتن ۲۶۲ ۶۴۲ کالیہ ۴۹۳ ،۴۹۲ ۲۵۵، ۲۵۷، ۳۷۲،۳۴۳، ۶۷۷ فیض اللہ چک فرانکفرٹ (فرانکفورٹ، فرنکفورٹ ، فرینکفورٹ) قادیان ق کانپور کانجر کوٹ کانو ، ۱۱۴ ،۹۷ ،۲۳۳ ،۲۳۰ ،۲۲۲ ،۱۸۴ ،۱۲۵ کیا بیر ۲۳۶ تا ۲۳۹، ۲۴۱، ۲۴۳، ۲۴۵، ۵۴۷ ،۳۱۱ ،۳۰۷ ،۲۴۷ ۲۴۶ ،۲۲۶ ،۵۷ ،۴۶ ،۴۵ ، ۴۲ ،۴۵۳،۴۳۴،۴۳۳،۲۶۴،۲۶۳ ۷۳۸ ،۷۳۶،۷۳۲ ،۷۱۴ ،۴۸۱ فری ٹاؤن ۳۴۳،۲۵۸، ۷۴۵ قاہرہ ۴۵۶ | قبرص فرید ٹاؤن ساہیوال ۶۷۹، ۷۲۸ قبوله فلاڈلفیا فلپائن ۲۶۲ ۲۶۳ ،۳۴۳ قرط رطبه فلسطین قصور لدا.۷۴۳ لدالد لد له له ۴۱۱ ،۱۸۳ ۷۲ v7h ۲۴۷، ۵۶۹،۵۶۶،۴۰۹ تا ۵۷۱ کبیر والا کپورتھلہ کتھو والی کٹاس کٹک ۳۹۸ ۶۹۹ ،۲۳۵ ۲۲۵ ۶۴۷ ۶۷۴ ،۱۸۴ ۵۱۵ ،۵۸،۲۱ کئی وٹم کراچی ۶۱، ۶۷ تا ۴۱۰،۲۶۷،۷۰، ۴۴۶، ۲۳۵،۹۶،۹۴،۸۴ ۴۰۰ ۴۷۰،۲۲۵ ۴۹۳ ،۵۹۸،۵۸۲،۵۳۷ ، ۵۲۷ ، ۴۷۰ قلعہ لال سنگھ ۲۲۶، ۲۴۵ ۲۴۷ تا ۲۴۹، ۲۵۱ ۳۴۳،۳۴۲، ۴۰۹، ۴۷۷ ، ۵۶۷ قلات تا ۵۷۱ ، ۷۶۲،۷۴۳،۶۲۵،۵۷۶ قمر آباد ( نواب شاہ) فلوریڈا ۴۳۱ ک فن لینڈ ۳۲۰ کابل فورٹ پورٹل ۷۶۰ کا ٹھ گڑھ ۶۱۳ تا ۶۷۹،۶۱۶، ۷۱۸، ۷۶۶ ۲۴۲، ۶۳۸ کرائیڈن ۳۷۵ کرشن آباد ۶۱۰
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 کر گل 47 اشاریہ.مقامات کرولائی ۷۳ کنڈیارو ۵۱۵ کنری ۲۵۷ ،۲۵۳ ،۲۴۹ ،۲۲۵ ۲۲۰ ۶۳۹ کرونا گا پلی ۵۱۵ ۴۹۱،۲۲۵، ۶۰۹،۶۰۷ تا ۶۱۱ ، ۴۹۰ ، ۴۷۰ ، ۴۶۱ ،۴۶۰ ، ۴۵۵ ۷۱۰،۶۷۷ ،۶۷۶ ، ۵۸۸ ،۴۹۱ کرونڈی ۶۱۷، ۶۱۸ کنگاو ۷۵۸ کوہاٹ لد حاله الله اااله کریام ۶۵۳ کو فوریڈوا ۴۳۸ کویت ۴۷۴ ، ۷۶۰،۶۵۶،۴۷۷ کریم نگر فارم کیپ ٹاؤن ۶۱۰ کوالا بلائیت (کوالا بلایت) VAA کڑیانوالہ ۷۵۸،۴۳۹ کیرالہ ۵۱۵ ،۲۲۲ کسا میرا ۷۶۱ کوالانگور ۵۱۵ کیرنگ کوپن ہیگن کسموں(کستوں) ۷۵۴،۳۹۶ کشتیا ۵۳۴،۵۲۷ ،۲۲۸ ۲۲۵ کوٹ احمدیاں ۴۹۰ ، ۶۰۷، ۶۰۸ ۵۷،۳۵، کوٹ رحمت خاں ۷۲۶،۵۵۶،۵۵۵،۲۵۲،۲۲۲ کیمبرج ۴۹۲ کیمبل پور (اٹک) ۴،۳ ۱۳۲، ۱۶۳، ۱۶۷، ۱۶۸، ۱۶۹، کوٹ سلطان ۲۲۵ ،۳۸۲،۲۲۵ ،۸۷ ۲۳۵ ،۲۳۰ ،۲۰۷ ،۱۸۰ ،۱۷۹ کوٹ فتح خاں ۶۸۳ ،۶۶۵ ،۶۶۴ ،۴۰۹ ،۳۸۶ ۲۴۵، ۲۵۷، ۲۵۸، ۲۷۵، ۳۱۹، کوٹار ۳۳۹، ۵۲۵، ۶۲۵، ۷۴۳ کوٹلہ افغاناں ۲۲۲ کینانور ۳۹۸ کینٹکی کلکتہ ،۶،۵ ،۲۴۳ ،۲۲۲ ،۱۲۸ ، ۱۲۶ ، ۱۲۵ ،۷ کوٹلی لوہاراں ۵۹۵ | کینیا کوٹلی ( آزاد کشمیر ) ۵۱۵ ۵۲ ،۴۷۴ ،۳۹۶ ،۳۹۳ ۷۵۴،۷۵۳،۷۵۲،۵۵۸ ،۴۸۷ ۷۲۶ ،۷۲۴ ،۶۲۴ ،۴۸۳ ،۲۶۶ ۲۲۵، ۷۲۰۷۱۹،۴۰۵ کینیڈا کماسی ۴۳۷ کو ڈالی ۶۷۸،۵۴۶،۴۷۷ ،۳۶۲،۳۴ ۵۱۵ کمبله کمپالا ( کمپالہ) ۵۱۵ کوڑے تور کولمبو ۷۶۱،۶۷۹،۵۳۶،۵۱۳،۲۶۳ کولون ۳۹۹ ومیله ۵۱۵ | کھاریاں ۵۷، ۲۳۸ | کھارے کھولد الله له ۲۲۵ کھیم کرن كنجيـ ۶۱۰ کوئٹہ ۱۱۱، کھیوا با جوہ ۶۴۸ ۳۸۶ ۱۰۲،۹۶،۹۴،۸۰ ۶۵۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ليمبيا 48 ،۴۵ ،۳۹ ۷۵۴،۴۷۷ ،۳۴۶ ،۳۴۳ ،۲۲۶ گاڑی کھاتہ ۶۱۲ گھانا ( غانا.گولڈ کوسٹ ) گجرات ۷۳، ۶۷۲،۶۶۰،۶۴۷ ۲۲۶ تا ۲۲۸، ۲۴۰، ۲۵۸، ۴۳۷ تا گدر وسیکٹر ۱۰۲ گرمولا ورکاں ۴۹۰ گھٹیالیاں ۷۵۱،۷۴۷ ،۷۴۶ ،۶۲۵ ،۴۳۹ ،۲۳۹ ،۴۰۶ ،۲۶۷ ،۲۶۵ ،۲۵۸ ،۲۴۴ گریناڈا ۵۷ گڑھی حبیب اللہ گلار چی گلاسٹر ۱۸۶ گھوٹکی ۷۴۰،۵۷۳ گھوڑا گلی ۶۷۶ ،۴۹۲ ،۴۹۱ ،۴۹۰ ،۴۲۳ ۵۲۵ ۴۹۱ گا اسگو ۴۸ ، گھوگھیاٹ ۵۴۹ ۵۹۶ ،۲۲۵ ۲۵۷، ۲۵۸، ۵۲۸ ، ۷۳۰، ۷۳۲ گھوئینگی گلبرگ ۷۰۴،۶۸۹ کتوری ( ضلع بدایوں یو پی ) ۵۵۴ لا بوان گوجرانوالہ ۷۴۵ ،۷۴۴ 711’ ۶۸۴ ،۶۵۱ ،۵۱۶ ،۴۹۵ ، ۴۲۷ گوجرخان گوجره گورداسپور لاس اینجلس لالیاں لائبیریا لائٹن ۴۹۱ ۷۵۸ 7♡ اشاریہ.مقامات لبنان ۷۴۰،۵۶۸،۵۶۳،۲۶۱،۲۵۷ لدھیانہ ۶۵۳۶۴۳،۴۲۵ ،۲۵۴،۲۵۱ ۶۱۲ لطیف آباد لگا دیپ ۲۰۳ لکھنو ۲۵۳، ۵۳۸، ۵۴۰، ۷۲۵ لندن (لندن) ،۲۰۴ ،۴۶ ۲۴۸ ۲۴۷ ۲۴۲ ،۲۳۶ ،۲۲۱ لنكفن لورالائی لیڈرا لیڈز 7VI لیسٹر لیگوس ۷۳۳،۲۴۹ ۷۵۸ ۴۹۰ ۵۱۳ ۴۷۵ دلدا دلده لدلد ۷۵۶،۷۵۵،۲۳۸ ۷۵۹ ،۷۵۰ ، ۲۵۳ ،۲۴۸ ۲۴۰ ۲۲۵، ۱۴۷ ، ۶۴۹ لائل پور (فیصل آباد ) ۱۳، ۶۱ ۶۲ ، ۲۴۸ ،۲۲۵ ،۲۲۴ ،۱۱۷ ،۶۴ ،۶۳ ،۱۰۲ مارٹن روڈ ۴۳۰،۴۲۹،۴۲۸،۷۰ ماریشس ۲۲۸ ،۲۲۷ ۷۵۷ ،۷۵۶ ،۷۴۰ ،۲۶۶ ،۲۳۷ ،۴۶۰ ، ۴۱۳،۳۷۷ ،۳۶۱ ،۲۵۹ ۷۲۴ ،۷۱۵ ،۶۸۴ ،۳۷۳ ،۲۵۶ گوکھو وال گولیکی گونڈو ۷۲۱ ،۶۹۴ ،۶۷۲ ،۴۸۱ ،۴۷۰ IVJ ،۸۴ ،۷۶ ۶۶۰ لاہور ۲۷۵ ،۲۶۰ ،۲۵۶ ،۲۳۵ ،۸۵ ۴۸۰ ، ۴۷۸ ماڑی مالٹا لد الد ۲۶۲
اشاریہ.مقامات 49 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 مالو کے بھگت مالی ۴۱۱ ۷۵۴ مسا کا مسقط ، ۴۷۰ ، ۴۵۷ ،۴۵۶ ،۴۵۵ ، ۴۱۴ ۷۶۱ ،۳۴۳ ۴۹۰، ۴۹۲، ۶۱۵، ۶۶۶ تا ۶۷۱ ۴۲۲،۳۴۳،۲۵۷ ، ۵۷ ۵۷، ۳۵۷ | منڈی بہاؤالدین مالیر کوٹلہ ۲۷۱ ۶۵۸،۴۲۲،۲۷۲ | مشرق وسطی ۴۹۲،۴۹۰ ۷۵۵ ۶۷۷ ۵۱۵ ۵۱۵ ۴۲۵ مانچسٹر ۷۳۰،۴۷۵ ،۴۷ مصر مانگٹ اونچا ( مانگٹ اونچے ) مظفر پور ۵۷۱ ،۵۶۹ ،۵۶۸ ، ۴۴۷ ،۲۷۳ ۶۴۰،۳۷۴ ماہنی سیال ۶۵۳ مظفر گڑھ ۲۴۰، ۲۵۳، منرویا منصوری ۲۲۲ منگلور موگرال متراں مچا کوس محمد آباد محمود آباد مدراس ۶۵۲ ۳۹۶ ۶۱۱،۶۱۰،۶۰۶ ۶۱۷ ،۶۰۹ ۳۶۱،۱۲۶،۳۸،۳۶ معراجکے ۲۲۴،۱۳۱،۱۸، ۴۹۳،۴۷۰ | موگه ۸۷ میانوالی ۷۶، ۸۲٬۸۱،۷۸ میانہ ہزارہ مقبوضہ کشمیر مدینہ ۷۳۸،۵۸۲،۳۷۹،۲۴۳،۶ مکه ۶، ۱۱،۱۰، میڈرڈ ۶۴، ۲۷۲ ، ۵۷۲، ۷۳۸، ۷۵۸ | میرپور ملائیشیا ( ملیشیا) میر پورخاص ۲۲۶، ۴۳۵، ۴۳۶ ، ۴۳۷ ، میسور سٹیٹ ۵۳۱ ۷۴۰ ،۲۵۰ ، ۵۷ ۴۹۲،۴۰۵ ،۲۱۸،۷۷ ۶۱۱،۴۹۱،۶۹ ۶۱۸،۵۱۵ مدینہ ثانیہ مراره مراکش مردان ملایا ملتان ملکانه ۷۴۴ ۷۵۸ ،۴۷۷ ،۴۷۵ ،۴۳۹ ۶۴۲ ۷۴۱،۵۹۵،۲۲۷ ،۲۲۶ ۷۴۰،۲۵۹،۲۵۶ ۲۳۵ ،۱۳۱ ۵۶۵،۴۱۶،۲۴۱ ،۲۰۶ نارنگ منڈی نارووال ۵۹۶ ۶۵۲،۹۰،۸۹ ۵۴۴،۳۷۱،۲۲۵،۱۱۵،۱۱۳ ملکوال ۴۰۳ مرشد آباد مرکزه مری مڑھا نوالی مرفینی ممباسه نار ناسنور ۳۹۶| ناصر آباد ۲۱۸ ۶۹۸ ۶۱۱،۶۰۸ ،۶۰۶ ۵۱۵ ۵۵۱،۲۲۰،۱۱۵،۸۲۷۶ ۴۹۱ ۷۵۴ منار گھاٹ ۵۱۵ نائیجیریا ، ۲۴۰ ، ۴۵ ، ۴۰ منتگمری (ساہیوال) ۷۵۹ ،۵۸۲،۴۳۹ ،۳۴۲ ،۲۶۶ ۳، ۶۰ ۶۱ ۶۲ ، ۱۳۱، ۲۲۴ ، | نبی سر روڈ ۶۱۰
اشاریہ.مقامات ۳۸۶ ،۲۶۱،۲۵۶ ہارون آباد ہالینڈ ۴۳۹ ۷۶۰ ۷۵۹ ،۶۲۴ ،۵۰۰ ، ۴۴۱ ،۴۴۰ ۳۴۳،۲۴۹ ہانگ کانگ ۷۳۴ نخله تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ۵۲۹ نیری 50 50 ۳۹۷ ،۳۹۶ نختال ۸۷ نیله گنبد ۳۹۱ نرائن گنج ۱۷۱ نیمپنگ نصرت آباد ۶۱۰ نین روڈ نصیر پور نکارا گوا ۵۳۱، ۵۳۳ نیوا ئیمسٹرڈم (برٹش گیانا ) ۷۳۹ نکو در تحصیل فتح جنگ نگورو تلامبور ۶۶۴ ۳۹۶ ۵۱۵ نیومنسٹر نیورمبرگ نیوزی لینڈ نیویارک ۲۳۹،۵۷ ،۴۲،۳۷ ۷۳۷ ۴۶ ہائیڈ پارک ۵۷۴،۵۷۲،۵۶۶ ہائیوڈور ۴۳۵، ۴۷۱ | ہبلی ۷۳۹ v ۶۸۸ ۴۷ R ۴۰۹ ۴۰۰ ۴۲۵ 212 ۴۱۴ ہڈالی ہڈرزفیلڈ ہڈیارہ ہرسیاں ہر نوئی ( ضلع میانوالی) ہریانہ ہردوار ہزارہ ہمبرگ ( ہیمبرگ) و نمک میانی ۵۹۶،۵۶۵،۳۹۰ ۴۹۱،۱۳۰ ،۵۲،۵۱،۴۲ شنگٹن ۷۴۲ ،۷۲۸ ،۴۳۱ ،۲۵۸ ۵۷ ۸۰ : ۶۴۳ ۴۸ ۷۳۰ ۳۷۷ والٹو ہا والسال وانڈ زور تھ ۶۱۲،۴۹۳،۲۲۵،۶۹،۶۸ ۶۵۴ ۴۹۲ ننکانہ صاحب نواب شاہ نواشهر نواں شہر نواں کوٹ نواں کوٹ احمد یاں ۲۰۷ واہ فیکٹری ۴۹۳ ۶۷۹،۶۱۱ ۶۷۷،۷۵ واہ کینٹ واہگہ ۵۴۱،۸۴،۸۰۰۷۶،۷۴ هنٹنگٹن ،۴۴ ۴۹۲،۴۸۳ ۷۳۹ ،۷۳۸ ،۷۳۷ ،۴۵۳،۴۵ ۴۳۲ واينلم ۵۱۵ ہندوستان (ہند) وڈالہ بانگر ،۲۳۶،۲۳۱ ،۲۲۲،۲۱۱ ، ۶۰ ،۵۷ وزیر آباد وسن کے ۹۲،۹۱ ،۸۴ ،۲۴۴ ،۲۴۳ ،۲۴۰ ،۲۳۹ ،۲۳۷ ۴۹۳ ۷۱۷ ،۳۱۸ ،۲۵۵ ،۲۴۹ ،۲۴۷ نورائی شریف نور نگر نوشهره نوشہرہ ککے زئیاں ۵۸۶،۵۶۰ ۶۱۱،۶۱۰ ،۳۵۴،۲۶۵،۴۵ نوکوٹ نیروبی ۷۵۳،۵۸۴،۳۹۷ ،۳۹۶،۳۹۳
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ہند (جنوبی) ۷۲۶،۷۲۲،۵۱۶،۵۱۵ ،۴۱۰ ،۷ ۳۴۳،۲۵۰ ہنگری ہوتی (دیوان) ہوشیار پور ١١٣ ،۳۷۵ ،۲۹۶ ،۲۵۴ ،۲۵۳ ۷۲۳،۶۸۰،۶۵۴،۶۵۳،۶۵۲ ۷۶۰،۲۶۲ ی یادگیر یمپنگ یوپی (یو.پی ) ۷۲۵ ، ۴۱۱ ،۴۱۰ ۴۳۹ ۲۴۱،۲۱۰،۱۸۳،۱۷۱ ،۱۶۹ ،۱۶۸ ،۲۴۲،۲۰۶،۴۶،۳۹ یورپ ۵۳۵ ،۴۵۲ ،۳۴۵ ،۳۳۷ ،۲۶۱ یوگنڈا ۲۶۳، ۷۶۰،۶۰۵، ۷۶۱ یوگوسلاویہ 51 اشاریہ.مقامات
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 52 59 اشاریہ.کتابیات کتابیات آ الف احمدیہ جماعت آنحضرت ﷺ کو اسلام کا عالمگیر مذہب آپریشن جبرالٹر.حالات و واقعات خاتم النبیین مانتی ہے ۵۸۰ اسلام کا نظام نو کی روشنی میں ۸۱ احمدیہ جنتری ۱۹۱۳ء آخری کمانڈر انچیف ۳۶۳ احمد یہ گزٹ ۶۶۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز ۶۶۱،۲۴۳ ۵۸۰ ۱۸۵ ۲۳۹،۲۱۴ آزاد نوجوان ، رساله ۳۶، ۳۶۱ احوال الآخرت ۴۰۳ اسلام میں پردہ کی اہمیت ۴۴۳ ۷۵۳ اسلام میں نبوت کا تصور ۴۴۳ آل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر | اخبار احمد یہ آئینه صداقت آئینہ کمالات اسلام ۲۴۳ ۳۸۷ ادعیۃ الاحادیث ۲۴۰ ادعية الرسل ادعية الفرقان ادعیۃ القرآن ادعیه امسیح الموعود آیت خاتم النبیین کی صحیح تفسیر ۵۸۰ احادیث الاخلاق ۷۶۴ ۶۶۳ ۴۱۵ ۴۱۵ ۴۱۵ اسلامی اصول کی فلاسفی اصحاب احمد ۵۵۹،۴۳۴،۳۴۲ ۷۰۲،۴۴۴۴۴۳،۴۱۸ اصلاح ( سرینگر) ، سه روزه ۲۴۸ اطلاعات، رساله ۳۶۱،۲ احسن القصص (ترجمہ اردو سورۃ یوسف) ۶۶۳ احمدی بچه احمدی جنتری ۴۱۸ اردو انسائیکلو پیڈیا آف اسلام ۳۳ اردو خط و کتابت ۶۶۳ ازالہ اوہام ۷۶۸،۷۰۴،۳۸۳ اعجب الاعاجيب في نفي ۴۲۰ ، ۴۱۵ احمدی طریقہ ( پنجابی منظوم ) ۶۶۳ احمدی، رساله (کلکتہ) احمدیت کا پیغام احمدیت یعنی حقیقی اسلام ۲۴۳ ۲۵۷ ۴۸۶،۳۴۲،۲۴۲ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی با ونویں سالانہ رپورٹ اساطیر الاولین، رساله اسلام اور کمیونزم اسلام اور مذہبی آزادی اسلام اور ملکیت زمین اسلام کا اقتصادی نظام ۶۲۹ ۲۵۸ ۵۸۰ ۲۵۸ ۴۸۷،۲۵۵،۱۸۵ الاناجيل لـمـوت المسيح ـلى الصليب ۵۸۱ افریقن کریسنٹ (سیرالیون)، اخبار ۲۶۱ اقبال اور احمدیت الا زہار لذوات الخمار ۶۹۵ ۶۳۱ الاستخلاف ۶۶۲ الاسلام (انگلستان ) ، رساله ۲۷۳ اسلام کا عالمگیر غلبہ ۷۶۴۵۸۰ الاسلام (ہالینڈ)، رسالہ ۲۶۱، ۴۴۱
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 53 البرهان الصريح في ابطال المصلح (کراچی)، اخبار ۲۶۰ انڈین نیشن الوهية المسيح ۵۸۱ | المنار، رساله ۶۲۸ انصار اللہ، ماہنامہ اشاریہ.کتابیات ۷۲۴ البشارت البشرى ( عربی جریدہ) ۵۸۰ ۵۷۱،۵۶۹،۲۶۴ ،۲۵۲ المنبر (لائل پور ) الموعود النجم الثاقب ،۳۶۲ ،۳۶۱ ،۲۷۶ ،۲۲۴ ۶۳۲،۳۶۱ ۷۱۰ ،۷۰۵ ،۷۰۴،۵۳۱ ،۳۶۵ ۴۱۸،۳۶۸ ۶۳۰،۵۲۴،۱۷۹ ۶۶۳ انصاف (راولپنڈی) ، اخبار انقلاب (ناول) ۷۰۴،۶۶۳ ۵۸۱ البشرى ( قادیان) ، اخبار ۲۴۱ | النور المبين البهائيه والاسلام ۵۸۱ الواح الهدی ۳۶۶ ( ترجمه ریاض الصالحین) ۶۶۳ ۳۹۸، ۳۹۹، ۴۰۳، ۴۱۹، ۵۶۵ ، الوصیت، رساله ۶۲ انقلابی خیالات انوار العلوم ۳۶۸، ۴۸۶،۴۶۹ اہالیان چکوال سے خدا اور اس کے ۶۴۳، ۶۵۴، ۷۰۲، ۷۰۴ | الهدية السنية لفئة المبشرة رسول کے نام پر دردمندانہ اپیل الرسالہ، جرمنی (ہفت روزه) ۴۵۲ المسيحية ۵۸۱ ۵۸۰ الساكت عن الحق شيطان امام الزماں اور خلفائے احمدیت | اہل حق کا پیغام جہلم والوں کے نام اخرس ۵۸۱ | لاہور میں (مجلہ) ۵۸۰ الفرقان (لکھنو) ۷ ۳۶۱ امروز (لاہور) ، اخبار ۸۲،۷۹ ، ایام ۱ ایام الصلح ۴۰۳ الفرقان، ماہنامہ ۳۶۴،۳۶۳،۱۶۶،۱۲۳ ،۹۵،۹۳ ایسٹ افریقن ٹائمنر ( مشرقی افریقہ ) ۱۳۱، ۲۲۴، ۲۵۴ ، ۲۹۷ ، امیر منکرین خلافت کی مغالطہ ، ۵۱۷ ،۴۲۰ ، ۴۱۹ ،۳۶۷ ،۳۶۴ انگیزیوں کا جواب انجام آتھم ، ضمیمہ ایسٹ افریقن سٹینڈرڈ ۵۸۰ ۷۵۳،۲۶۳۲۲۸ ۷۵۲ ۶۲۹ ،۶۳۰ ،۶۲۹ ،۵۵۴،۵۳۱ ،۵۲۷ ،۳۷۷ ۷۲۰ ،۶۵۵ ،۶۴۳ ،۴۱۷ ،۳۸۷ ۶۶۳ ۷۶۶ ،۷۰۵ ،۷۰۴ ،۶۹۴ ،۶۳۱ الفضل،اخبار انجام عیاشی (ناول) ۲۰، ۲۲۴، ۲۳۶، ۲۴۷، ۲۵۶، انجام (کراچی)، اخبار ۱۷۱، ۱۷۹ ۲۶۰، ۲۶۱، ۵۰۸، ۶۶۱، ۷۵۶ | انجیل ،۳۱۷ ،۳۶ ایشیا ایک خوفناک سازش ایک غلط بیانی کا ازالہ اور خدا ترس مسلمانوں سے ایک دردمندانہ اپیل ایک غلطی کا ازالہ القول الفصل ۲۳۷ ۳۳۵، ۳۹۵، ۴۹۵، ۶۴۴،۵۷۵ ایک مبارک نسل کی ماں ۵۸۰ ۵۴۳ المبلغ ، رساله ۵۵۷ انڈین ایکسپریس (دہلی) ۶۲۰
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 باجوہ خاندان بائیل ۷۰۴ 54 اشاریہ.کتابیات پاکستان میدان جنگ میں تاریخ احمدیت ضلع راولپنڈی ۷۰۴ ۴۹۵، پٹیالہ اخبار ۳۶۳۳۶۲۷۵ تاریخ احمدیت جلد ۶ ۶۶۱ ۵۲۵ ،۵۲۴،۲۰۰ ۵۱۸، ۵۱۹، ۷۲۷، ۷۴۴، ۷۵۷ پر بودھ جگت، ہفت روزہ پر بودھ جگت ، ہفت روزه ۷۲۴ | تاریخ احمدیت جلد۱۱ ۸۴ ، ۴۲۴ | تاریخ احمدیت جلد ۱۸ بدر، اخبار پرتاپ، اخبار ۳۶۵،۳۶۲،۳۶۱ ،۶۶۱،۴۰۰ پنج گنج ( منظوم پنجابی ) ۶۶۳ تاریخ احمدیت جلد ۲۱ براہین احمدیہ حصہ چہارم ( روحانی پنجاب آرگن (اخبار) ۶۶۱ تاریخ الخلفاء خزائن جلدا) ۳۷۱ 272 ۲۶۵ ۶۱۵ ۶۳۰ پنجاب سما چار (اخبار) ۶۶۱ تاریخ پاک بھارت جنگ ۳۶۲ برازا BRAZA)، ہفت روزہ پنداکمل برکات خلافت ۶۶۳ تاریخ لجنہ جلد ۳ ۷۵۲ پیٹریاٹ (دہلی)PATRIOT | تالمود ( طالمود) ۲۳۷ بشارات ربانیہ ۵۸۰،۴۴۳ پیسہ (لاہور)، اخبار ۶۲۰ ۳۶۶،۲۷۶،۱۷۷ ،۱۷ ۳۷۶ تائید الاسلام، رساله بشارات رحمانیه ۴۱۸، ۷۶۴،۷۰۵ پیشگوئی مصلح موعود کا حقیقی مصداق تائید آسمانی ۵۸۰ بشارت احمد بوستان ۴۱۳ ۴۰۲ پیشگوئیاں ۵۸۰ تائید نشان آسمانی ۵۸۰ تبلیغی خط ۵۸۰ ۵۸۰ بہائی ازم کی تاریخ و عقائد ۲۴۲ پیشوا، رساله ۶۸۴ تتمہ حقیقۃ الوحی پیغام صلح، اخبار ۳۸۴ | تحریک احمدیت اور اس کے نقاد پارس ، ہفتہ وار ۲۰۲ پیغام عمل، رساله پاک فضائیہ تاریخ کے آئینہ میں ۶۲۹،۵۰۰ ۳۶۴۱۰۵ تابعین اصحاب احمد ۷۰۵،۶۳۲ پاک محمد مصطفی علی الله ۵۸۰ | تاثرات قادیان ۴۱۸ ۴۴۳ تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہد دین ،۲۶۴ ۷۰۵ ،۷۰۲ ،۶۵۰ ، ۴۱۹ ،۴۱۸ پاکستان ٹائمنر (اخبار) تاریخ احمدیت جموں و کشمیر تحریک جدید، رساله ۶۴ تا ۶۶ ، ،۱۶۸،۵۸،۲۵،۲۴ ۳۱۹، ۳۶۱، ۳۶۲، ۶۶۴، ۷۱۴ تاریخ احمد یہ سرحد ،۳۶۷ ،۳۶۲،۳۶۱،۲۶۸ ،۲۲۴ ۷۶۶،۴۸۰ ۷۶۸ ،۷۶۷ ،۶۳۳ ،۴۴۶ ۴۱۸
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 تحفه شهزاده ویلز 55 ۲۴۰ | تعمیر ( راولپنڈی)، اخبار ۱۷۴ اشاریہ.کتابیات تحفہ لارڈارون ۲۴۷ تفسیر القرآن انگریزی ٹائمنر آف انڈیا (دہلی) تحفة الملوک تحقيق الاديان ۲۳۹ ،۲۳۷ ۳۴۱، ۷۶۴۷۴۱،۵۰۷ ٹائم ، رساله ۵۸۱ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹریبیون، اخبار (انبالہ) تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پر ایک جلد اول نظر تربیت ۵۲۰ ۶۲۰ ۴۴۷ ،۳۶ ۶۲۰،۳۶۵،۲۴۶،۱۸۳ ۵۸۰ تفسیر سورۃ یسین ( منظوم ترجمه ) ٹورانٹو ڈیلی سٹار، اخبار ۵۸۰ تذکرہ مجموعہ الہامات رؤیا و کشوف تفسیر صغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام (Toronto Daily Star) 17 ،۲۶۳،۲۱۳،۱۵ ۵۰۶ ،۵۰۵ ،۵۰۴ ،۵۰۳،۴۹۶ ۳۶۴،۳۶۲،۲۴۹، تفسیر کبیر ۷۰۴،۶۳۰،۳۶۸ ،۳۶۶ ،۳۶۵ تذكرة الشهادتين ۴۴۵ | تفسیر محمدی ۷۲۳،۵۴۰،۳۶۴،۳۳۹،۳۳۳ ۳۹۹ ۲۷۷ ترجمان الادب ۶۶۳ | تفہیمات ربانیہ ترک اسلام ۴۱۲ نقار بر محمود ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض تقریر دلپذیر ٢٣٩ | تكميل التبلغ ترک موالات و احکام اسلام ۲۴۰ تنستر ، اخبار ۴۸۷ ۳۶۶ ۵۸۱ ۱۸۴ ۳۶۱،۳۴ ج - چ جماعت احمدیہ سے متعلق بعض سوالات کے جوابات ۷۶۴۷۱۹ جماعت احمدیہ سے متعلق تاریخی معلومات جماعت احمدیہ کے اہم فرائض اور اس کی امتیازی خصوصیات ۵۸۰ جماعت احمدیہ کے عقائد ۵۸۰ جماعت احمدیہ کے متعلق غلط فہمیوں ۵۸۰ ۴۹۵،۴۹۴ کا ازالہ نمبرا، نمبر ۲ جنگ مقدس ۵۸۰ ۵۸۱ تنقید صحیح بر بر بان صریح تنوير الالباب ،۲۲۴ تشخیذ الا ذہان ،۶۳۰ ،۶۲۸ ،۳۹۲ ،۲۶۳ ،۲۳۵ ۶۳۲ ، ۶۶۱ ، ۷۶۵، ۷۶۶، ۷۶۸ | تورات (توریت) ۴۹۵،۳۳۵ جنگ اخبار ۱۰۴،۱۰۳،۷۸،۷۶، تشریح الزکوۃ یعنی زکوۃ کمیٹی کے توضیح المرام فی الرد علی ۳۶۴ ،۳۶۳ ،۳۶۲ ،۱۷۰ ، ۱۶۹ انتالیس سوالات کے جوابات علماء حمص و طرابلس جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی ۵۸۰ | الشام ۵۸۱ ۷۶۴ تصدیق احمدیت ۴۱۳ تین مسئلے
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 56 اشاریہ.کتابیات جواهر الكلام في الرد علی حقیقی عید اور حقیقی قربانی خطبات جمعہ ( از الحاج مولوی محمد ۵۸۰،۴۴۳ | اسماعیل صاحب) فصل الخصام ۵۸۱ چٹان (لاہور)، رسالہ ۷۳ حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے خطبات محمود ۴۱۰ ۴۸۶،۴۶۹ چند خوشگوار یادیں ۴۴۶ طریق چودھویں صدی (اخبار) ۶۶۱ حقيقة النبوة حکایات اخلاقی حاتم طائی کی حکایت ٦٦٣ | حكمة الصيام نج الکرامہ فی آثار القیامہ حیات قدسی حرمت، ہفت روزه ۱۰۴ ، ۳۶۴ | حیات ناصر حریت (کراچی) اخبار ۱۷۰ حیات بشیر حضرت بانی جماعت احمدیہ کی حیات طیبہ طرف سے دعوت اور آپ کی حیات نور ۲۴۰ | خلافت حقہ اسلامیہ ۲۳۷ | خلافت راشده خلافت مصلح موعود الودود ۶۶۳ خلق محمدی ۵۸۱ ۴۱۷ خواجہ محم ۳۶۶ ۶۹۴ ۶۹۴ ۶۹۴ ۳۶۷ ۳۶۸ ۵۸۰ ۶۶۲ جہ محمد اسمعیل صاحب کی نبوت کے خلاف اہم شہادات ۴۴۳ خود نوشت سوانح حیات حضرت مبارک اسماعیل د.ڈ درنشین ۷۰۳ صداقت پر ایک قرآنی دلیل ۵۸۰ حیدرآباد دکن کی تاریخ احمدیت ۴۲۰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حیرت کی حیرانی پیشگوئیاں ۵۸۰ خ ۳۸۷ درنشین (انگریزی) دعوة الامير دلفگار (ناول) ۴۱۵ ۴۴۳ ۷۶۱ ،۲۴۲ ۶۶۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاتم النبین ﷺ کی شان کا اظہار دليل المسلمين في الرد على رفقاء کرام پیر کوٹ ثانی ضلع حافظ ۴۱۷ خاتمہ بشارت احمد ۲۴۰ ۴۱۳ ۵۸۱ فتاوى المفتين دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہو گا ۲۴۰ آباد حق الیقین ۲۴۴ خالد، ماہنامه ۲۲۴، ۲۷۴،۲۵۹، دیباچہ تفسیر القرآن ۲۲۰، ۲۵۷ حق کے پرستار ۳۶۳،۳۶۲ | ۳۶۴،۳۶۱، ۳۶۶،۳۶۵ ، ۵۳۱ ، دی لائٹ (لاہور) حقیقت جهاد حقیقت، روزنامه ۵۸۰ ۱۸۱ ۶۲۹، ۶۳۱، ۶۳۲ ، ۷۰۵، ۷۶۶ دی لیڈر (کراچی) ، اخبار ۱۶۴ خطبات جمعہ ( حضرت مصلح موعود ) دی نیشن، اخبار ۴۸۶ ۸۳ دیوبندی فتنہ کا ظہور پر فتور ۵۸۰
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ڈان، اخبار ڈیٹن ایکسپریس ڈیٹن ڈیلی نیوز، اخبار 57 ۱۶۴ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۱۳ سخن خوب ۷۲۷ اشاریہ.کتابیات ۶۶۳ ۳۷۷، ۴۱۸، ۴۱۹ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں ۵۱،۴۸ رسالتمآب خاتم النبین ۵۸۰ | کے جواب ڈیر اسلام (DER ISLAM) رفتار زمانه ، ماهنامه ۷۴۰ رن کچھ سے چونڈہ تک ڈیلی میل، روزنامه رز ۷۴۶ ۲۰۹ | سفر نامه ناصر سفینه، روزنامه ۴۹۶،۴۹۵،۲۶۶ ۴۱۳ ۲۱۶ ۳۶۴،۳۶۳،۳۶۲،۱۰۲،۷۲ سفینہ، ماہنامہ ۳۶۶،۳۶۵،۱۹۲ رنگیلا رسول ربوہ کی مساجد (مقاله) ۶۲۷ رواداری ( پمفلٹ) رپورٹ کارگزاری فضل عمر فاؤنڈیشن | روحانی طبیب ١٩٧٣ء رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء ۲۴۴ ،۲۱۵ ۷۵۶ ۶۶۳ ۲۲۸ | روشنی ( سرینگر )، اخبار ۱۸۴، ۱۸۵ ۶۲۷،۵۰۶ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۵ء ۳۶۶،۳۶۱ روئیداد مناظرہ ڈاور ( پمفلٹ ) ۴۴۵ سکھ گور وصاحبان اور مسلمان۷۶۴ سماج (کٹک)،اخبار سنہ احمدیہ سنڈے ٹائمنر ، اخبار سن رائز (امریکہ) سن رائز ( قادیان) رو یا کشوف سید نا محمود ۳۶۴، ۴۸۶ ریاست، اخبار رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء ریویو آف ریلیجنز رجسٹر بیعت اولیٰ ۷۶۶،۶۲۹،۶۲۷ ۲۶۵ ۳۸۳ ،۲۲۴ ،۲۵ ۷۴۰ ،۶۶۱ ،۴۶۶ ،۴۰۰ ۶۴۳ ۳۶۵،۱۸۴ ۷۰۴۶۶۳ ۳۴ ۲۴۰ ۲۴۴ سوانح حیات حضرت چوہدری غلام محمد خاں اور ان کی اولاد سوانح فضل عمر جلد پنجم ۳۶۲ ۴۸۶،۳۶۵ سورۃ الرحمن کی تفسیر مسٹمی یہ فیض رجسٹر روایات صحابہ.نمبرا زریں نصائح ۴۱۸،۴۱۷ ۵۸۰ الرحمن ( منظوم پنجابی ) ۶۶۳ زمیندار (اخبار) ۶۶۴،۶۶۱،۲۱۳ سول اینڈ ملٹری گزٹ، اخبار ۱۷۵ رجسٹر روایات صحابہ.نمبر ۳ زندہ مذہب ( حضرت مصلح موعود ) ۴۱۹ ،۴۱۷ ۳۶۸ سود نئیر مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ۶۳۲،۵۸۲ رجسٹر روایات صحابہ نمبر ۶ زندہ مذہب ( قاضی محمد اسلم ) ۴۴۳ سیارہ ڈائجسٹ (لاہور) ، رسالہ ۷۵ ۲۱۵ ۷۰۳۷۰۲ رجسٹر روایات صحابہ نمبر۷ ۴۱۷ سبحة المرجان ۶۶۰ | سیاست، روزنامه
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 58 اشاریہ.کتابیات سیالکوٹ پیپر ( اخبار ) ۲۶۱ صداقتِ اسلام و ذرائع ترقی اسلام عقائد احمدیه ۷۰۴،۶۶۳،۴۱۳ سیالکوٹ تو زندہ رہے گا ۳۶۳ ۲۳۹ | عقائد جماعت احمدیہ ۵۸۰ سیرت المہدی حصہ سوم ۷۰۲ | صدائے ہند (اخبار) ۶۶۱ عقیدہ ختم نبوت جماعت احمدیہ کا | سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۴۸۶ صدق جدید، اخبار سیرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم ۶۹۴ ۳۶۵،۱۸۲،۱۵۹۰۷،۵ ۴۰۳ جزوایمان ہے ۵۸۰ ۶۶۳ علم العروض علم الفرائض ۶۶۳ علمائے رحیم یارخان کا چیلنج منظور سیرت سید الانبیاء سیر روحانی ۶۹۴ ۴۸۶،۲۵۱ شان مسیح موعود علیہ السلام ۷۶۴ شان محمد ۵۸۰ شدھی سماچار، رساله ۲۴۵ شرح القصيده ۵۸۰ شرح کافیہ شکر نعمت ۶۶۳ شہاب کی سرگزشت شہدائے احمدیت ۷۰۴،۶۲۷ ،۳۶۲ ۵۳۸ ۶۳۳،۶۳۰ ص ض ضرورت الامام ضرورت علم القرآن ضرورت مذہب ۵۸۰ ۲۴۰ b-b ۵۸۰ علمائے رحیم یار خان کے لئے لمحہ طارق ( قادیان)، رساله ۲۵۵ فکریه طفل امروز قائد فردا ۴۴۴۷۳۲۶ ۵۸۰ ۶۳۱ ۴۴۴،۳۲۶ علمی ارد واخت ظہور اسح ۶۶۲ عیسائیوں کی طرف سے دعوت ظهور المهدی ۶۶۳ مباہلہ کا جواب ۵۸۰ ف عادل (دہلی) ، اخبار ۳۶۶ فاران، ماہنامه عالمگیر برکات مامورزمانه فاروق سووینئر ۵۵۳ ۷۶۴،۱۹۹ ۷۰۴،۴۸۳،۴۱۸ | فاروق ( قادیان) ہفت روزہ عائشہ عبد السلام ۲۶۶ ۳۶۱ فتح اسلام ۲۳۷ ۳۴۹ صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا عسل مصفی صحیح مسلم ۲۳۵ ۲۳۸۸ ۳۷۰ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت عقائد احمدیت اور ان پر اعتراضات کے دس سوالات کے جوابات مع کے جوابات صداقت حضرت مسیح موعود علیہ عقائد احمدیت السلام ۵۸۰،۴۴۳ ۵۸۰ ۴۴۳ تبصره ۵۸۰ فضائل القرآن ۲۵۰، ۳۶۸، ۴۸۷ عقائد احمدی ۵۸۰ فضل عمر کے زریں کارنامے ۳۶۹
اشاریہ.کتابیات تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 59 فطرت (ناول) ۶۶۳ قرآن مجید ترجمہ ڈچ قرآن مجید ترجمہ ہندی فلاسفی آف ایزُ افْ ۳۴۱،۲۶۱،۲۵۹،۱۶۹،۱۶۸،۴۲ قرآنی انوار Philisophy of as if) | قرآن مجید ترجمہ ڈیمینش ۲۵۱ ۵۴۶ فیض الامام ضمیمہ ظہور المسح ق قادیان کے آریہ اور ہم قادیان گائیڈ قادیانی مذہب ۵۵ ۶۶۲ ۶۳۷ ۴۱۵ ۴۲۰ قبولیت دعا کے چھیاسی گر ۶۶۳ قرآن کریم ترجمه فرانسیسی قصص القرآن ۶۶۳۶۶۰ ۳۴۱،۲۶۵ قصه سلیمان و بلقیس ۶۶۳ قرآن مجید ترجمه روسی قصیده بهشتی ( منظوم پنجابی ) ۶۶۳ ۴۲، ۳۴۱،۵۸ قواعد و ضوابط صدر انجمن احمدیه قرآن مجید ترجمه سواحیلی پاکستان ۵۵۱،۳۶۶ ۴۲، ۱۶۷، ۱۶۸، ۲۵۴،۱۶۹، ۲۶۰ ، قومی زبان، رساله ۶۳۱،۵۶۴ ۳۴۱، ۳۹۷، ۵۱۳، ۷۶۱٬۵۵۸ قیام پاکستان اور جماعت احمدیہ قرآن مجید ترجمه فرانسیسی ۴۸۷، ۴۶۸،۳۴۱ ۵۸۰ ۴۸۷، ۴۶۸،۳۴۱ قرآن مجید ترجمه فینٹی ۷۵۲،۲۶۴ کتاب الحج ۳۶۱ قرآن کریم کی دعائیں قرآن مجید تر جمه اتالین قرآن مجید ترجمہ انڈونیشین ۶۶۳ ۳۴۱ ۳۴۱،۲۶۴،۱۶۹،۱۶۸،۱۶۷ قرآن مجید ترجمه للمبا ۳۴۱ کتاب الصلوة ( سواحیلی ترجمه ) قرآن مجید ترجمه ککویو ۳۴۱ ۷۵۳ قرآن مجید تر جمه کیکمه ۲۶۵ کتاب الصوم ( سواحیلی ترجمه ) قرآن مجید تر جمہ گورمکھی ۲۵۱ ۷۵۳ ۶۶۳ قرآن مجید ترجمہ انگریزی قرآن مجید ترجمہ لوگنڈی کتاب الصيام ،۵۷ ،۴۲ ،۴۳۶ ،۳۴۱ ،۳۱۸ ،۲۵۹ ،۲۳۸ ۷۶۱ ،۷۴۰ ، ۷۲۵ ،۷۲۴ ،۷۲۳ قرآن مجید ترجمه پرتگیزی ۳۴۱ قرآن مجید ترجمه جرمن ،۱۶۷ ، ۵۷ ،۴۲ ۴۵۳ ،۳۴۱ ،۲۶۴ ،۲۶۱ ،۲۶۰ قرآن مجید ترجمه لوئین ۳۴۱، ۶۰۵ کتابی دنیا، ماہنامه ۲۰۴ ۲۶۵ کچھ باتیں کچھ یادیں اور ریگ قرآن مجید ترجمہ مینڈے ( مینڈی) رواں ۳۶۷ ،۳۶۴ ۳۴۱،۲۶۷ کراچی تاریخ احمدیت حصہ اول قرآن مجید ترجمه ولندیزی ۲۶۰،۱۹۷ کراچی تاریخ احمدیت حصہ دوم قرآن مجید ترجمه هسپانوی ۳۴۱ ۴۴۶
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 کرامات المهدی ۶۶۳ کشتی نوح ترجمه سواحیلی ۳۹۷ لائف آف محمد كشف الغطاء 60 60 ۷۵۳،۷۲۳ اشاریہ.کتابیات مسلم ٹارچ لاٹرے ( برٹش گیا نا ) ۶۶۳ لاہور تاریخ احمدیت ۴۱۷، ۴۱۸، مسلم نماز (فینٹی ) ۲۶۴ ۷۵۱ كشف الــلـــام عن وجه من ،۴۱۹، ۶۹۴، ۷۰۲، ۷۰۴، ۷۶۴ مسئلہ ختم نبوت اور احمدیت ( ٹریکٹ) الف حجة الاسلام ۵۸۱ کفاره مسیح KAFARA YA YESU) کلام حق ، رساله ۷۶۴،۷۵۳ ۴۹۵ ۴۱۵ ،۲۴۷ ،۱۹۷ کلام محمود کلمۃ اللہ اور روح الله کلنگ، اخبار کو توسن ملایو ( سنگاپور ) ، اخبار ۵۸۰ ۱۸۴ ۴۳۵ 6 لاہور، رسالہ ۶۶۴ ۹۸، ۳۶۳، ۳۶۵، ۷۱۷، ۷۱۸ مسئلہ کشمیر چین اور بھارت کی چپقلش ما پینزی یا منگو ۷۵۳٬۲۲۸ مسیح بلا د شرقیہ میں ۵۸۰ ۶۹۴ ماتر و بھومی ، اخبار ۵۱۵،۱۸۴ مسیح موعود کی صداقت پر بارہ نشان مارننگ نیوز (کراچی) ، اخبار مباحثہ جہلم ۱۶۵ مسیح ہندوستان میں کون ہے جو خدا کے کام روک سکے مباحثہ سار چور برمسئلہ حیات و ۲۳۶ ۵۸۰ ۴۹۹ مشرق ، اخبار ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۶۷، ۳۶۶،۳۶۵ ،۳۶۴،۱۷۶ ،۱۷۳ ممات مسیح علیہ السلام ۵۸۰،۵۶۵ مشعل راه جلد اول کیا موجودہ اناجیل الہامی ہیں؟ مباحثہ میانوالی ۵۸۰ مباحثه میانی مبادیات زبان کیمیا گذشته و موجودہ جنگ کے متعلق مختصر معانی پیشگوئیاں گلزار ہند (اخبار) گلستان گورونانک جی کا گورو گورو گرنتھ اور اردو گیتان جلی ۷۶۴ ۵۸۰،۵۶۵ مصباح، ماہنامہ ۳۱۱ ،۳۶۷ ،۲۴۴ ،۲۲۴ ۴۴۴ ۷۰۵ ،۶۸۳ ،۶۶۱ ، ۶۳۱ ، ۶۲۷ ۶۶۳ ۵۸۰ | مرزا احمد بیگ والی پیشگوئی ۶۶۳ ۲۶۱ مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ و ۴۰۲ ۴۴۴ رو سے السلام اپنی تحریروں کی رو ۴۴۳ معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ روپ ۲۳۹ معیار الصادقین یعنی راستبازوں کی پہچان ۶۶۳ مقدس نبی کے مقدس حالات ۷۶۴ مستقبل میں امن کا قیام اسلام سے ۵۳۸ | وابستہ ہے ۲۳۹ ( ترجمه لباب الخيار ) ۶۶۳
تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 مقدمہ بہاولپور 61 مولوی منظور احمد چنیوٹی کا مباحثہ , اشاریہ.کتابیات ۵۸۰،۵۷۷،۵۶۶ | ومباہلہ سے فرار ۷۲۰ | و اذا الصحف نشرت ۷۰۴ مکتوبات حضرت صاحبزادہ مرزا میرے دھرم کا وعدہ ۵۸۰ واقعات دارالحکومت دہلی ۳۸۷ بشیر احمد صاحب ۴۴۴ | میزان الاقوال ۵۶۶ | ورتمان، رساله ملاپ (بھارت)، اخبار میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں ۲۵۲ ورزش کے زینے وطن کے پاسبان ملائشیا ملیالی ( سنگاپور ) ، اخبار Malaysia Malayali نبوت و خلافت کے متعلق اہل پیغام وکٹوریہ پیپر (اخبار) Malayali) | ملت کا فدائی ۱۸۶ اور جماعت احمدیہ کا موقف وہ پھول جومرجھاگئے ۳۶۶ ملفوظات ۱۷، ۴۰۲،۴۶، ۴۶۶ ، نبیوں کا چاند ۵۶۷،۵۱۹، ۵۷۲، ۶۲۷، ۶۶۲ ندائے عام ۷۵۲ نظام نو ممباسہ ایڈورٹائزر ممباسہ ٹائمنر ۷۵۲ | نغمه اکمل منصب خلافت ۳۶۶،۲۳۶ نگار، رساله ۷۶۴۴۹۸ ۴۴۴ ۵۸۰ ۲۴۴ ،۲۱۵ ۴۴۳ ۳۶۳ ۶۶۱ ۴۲۰ ،۴۱۹ ،۴۰۶ ۳۳۵ هی ۴۸۶ ہدایات درباره معاملات ۶۶۳ ۶۶۴ ۵۴۱،۵۴۰،۵۳۹،۵۳۸ ۶۶۳ ہدایات نبوی ہستی باری تعالیٰ ہمارے غازی ہمارے شہید ۶۶۳ ۴۸۶ منکر خلافت محمد حسین چیمہ کے مضمون پر ایک نظر نماز منکرین خلافت کا انجام نوائے وقت ، اخبار منن الرحمن منورما ، اخبار ۵۸۰ ۵۸۰ ۳۶۳،۱۷۴،۱۶۷ ،۹۱،۸۹ ،۷۹ ۳۳،۳۲ ۴۱۲ ۵۱۵ موضوعات کبیر نورالدین نئی روشنی (کراچی) ، اخبار ۹ ۳۶۴،۱۰۶،۷۴ ۲۱۵ ہمدرد، اخبار یوگنڈا آرگس (انگریزی اخبار ) ۷۶۱ English ۱۸۰،۱۷۲ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی صاحب نیاز فتح پوری شخصیت اور فکروفن اخبار Abendecho کا تحقیقاتی عدالت میں تحریری بیان اور اس پر صدر انجمن احمد یہ ربوہ کا نیرنگ خیال (لاہور) تبصره ۵۸۰ ۴۴ ۶۳۰ (ہمبرگ) Ahmadiyya Gazette ۲۲۷ ۱۹۹،۱۹۸ ،۱۹۷ (امریکہ)
اشاریہ.کتابیات 62 تاریخ احمدیت.جلد نمبر 23 ۲۹ | Aktive Islam (کتاب) The African Crescent | Islam ۲۲۸ Kashmiris fight for (سیرالیون) freedom | (غانا)The Guidance ( کوپن ہیگن ) ۲۲۸ ۲۲۸ ( ہیگ، ہالینڈ ) Al Islam | ۳۶۲ Al-Asr ۲۲۸ ( کیپ ٹاؤن ، جنوبی افریقہ) ۲۲۸، ۲۶۵، ۷۴۰ ( ماریشس) Le Message ۲۲۸ روزنامه )Listener The Kingdom News (انگلستان ) (رساله) ۵۷۴ (لائبیریا) (سیلون)The Message Arabic the source of ۷۵۵ | all the languages ۲۵،۲۴ ۷۴۰ | Berner Tagblatt ۵۶ اخبار Madrid | ۲۳۸،۲۲۸ (سپین) (سوئٹزر لینڈ ) اخبار Muslim Torch Light The Muslim Herald رساله ( گلاسگو) ۲۵۸ برٹش گیانا ) The Muslim Herald (روزنامه) Citoyen | ۷۳۳ ( ماریشس) (روزنامه )Morgenpost ۷۰۵،۲۲۸ (لندن) The Muslim Sunrise (امریکہ) ( نائیجیریا) The Truth ۲۲۷ ۷۵۷ ( ہیمبرگ) ZMA De Rotterdammer (ہالینڈ) | Our Foreign Missions ۶۲۴ ۲۲۷ (جرمنی)Der Islam ۴۴۴۴۴۳ (روز نامه ) اخبار Folkeskolen ۷۳۹ ۳۲۰،۳۱۹ Fraternite Matin (ڈنمارک) ۲۲۸ Politiken Voice of Islam ( مشرقی افریقہ ) (ڈنمارک) ۲۲۸ Precious Pearls w Welt Am Sonntag (جرمنی) ( ہفت روزه) ۷۳۸ Where did Jesus die ۵۸۱،۵۷۵ Why did early ( آئیوری کوسٹ ) اخبار (انڈونیشیا) Sinar Islam ۲۲۷ Tages Anzeiger Hymn Book Invitation to ۴۲ ۴۴۷ دعوۃ الا میر ) Ahmadiyyat ۷۴۲ ( روزنامہ) (سوئٹزرلینڈ) Christians accept Islam The Life And OA Teaching of the Holy Prophet ۷۵۲ (کتابچہ )Islam ۵۸۱